Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
$ 1940 1 1 خطبات محمود رسول کریم صلی لی ایم کی ایک اہم وصیت جس کی اشاعت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے فرمودہ 5 جنوری 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: 66 میں چونکہ گزشتہ ایام میں انفلوئنزا کی تکلیف سے بیمار رہا ہوں بلکہ ابھی تک گلے میں بہت سی خراش باقی ہے اس وجہ سے نہ تو میں اونچا بول سکتا ہوں اور نہ ہی زیادہ دیر تک بول سکتا ہوں.لیکن چونکہ اب ایک نئے سال کا شروع ہے اور نیا سال اپنے ساتھ نئی امنگیں اور نئے ارادے لے کر آیا کرتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ باوجو د تکلیف اور بیماری کے خطبہ میں ہی پڑھاؤں تا کہ آئندہ سال کے متعلق جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلا سکوں.اس سال جلسہ سالانہ پر ایک چھوٹا سا اشتہار میری طرف سے شائع ہوا ہے جس میں رسول کریم صلی علی ایم کی ایک وصیت درج ہے جو آپ صلی ا ہم نے اپنی وفات کی خبر ملنے پر مسلمانوں کو کی.وہ وصیت یہ ہے کہ اِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَغْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا - 1 یعنی مكه مكرمه میں حج کے ایام میں جو عزت خدا نے حج کے دن کو دی ہے وہی عزت تم آپس میں ایک الله
1940 2 خطبات محمود دوسرے کی جانوں، ایک دوسرے کے مالوں اور ایک دوسرے کی عزتوں کو دو.یعنی کسی کی عزت پر حملہ نہ کرو.اس پر اتہام نہ لگاؤ، اسے بد نام نہ کرو، اسے ذلیل نہ کرو، اسے بُرا بھلانہ کہو.اسی طرح کسی کے مال پر حملہ نہ کرو یعنی امانتوں میں خیانت نہ کرو، کسی کا حق غصب نہ کرو، کسی کے مال اور جائداد میں ناجائز تصرف نہ کرو.اسی طرح کسی کی جان پر حملہ نہ کرو.یعنی کسی کو مارو نہیں، کسی کو پیٹو نہیں، کسی کو قتل نہ کرو اور کسی سے لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد نہ کرو.یہ رسول کریم ملی ایم کی وصیت ہے اور آپ نے اس وصیت کے بیان کرنے کے بعد دود فعہ فرمایا کہ میں نے یہ وصیت تمہیں کی ہے جس شخص کے کان میں میری یہ بات پڑے اسے چاہئے کہ وہ آگے دوسرے لوگوں کے کان تک میری اس وصیت کو پہنچا دے اور انہیں چاہئے کہ وہ اور آگے بیان کریں.گویا ہر شخص جو یہ حدیث سنے اسے رسول کریم صلی یم کا یہ حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائیوں تک اسے پہنچا دے.میں نے اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے دوستوں کو نصیحت کی کہ وہ بھی رسول کریم صلی الی یوم کی اس وصیت کے ماتحت اس حدیث کو دوسروں تک پہنچاتے چلے جائیں.یہاں تک کہ بہ حدیث چکر کھا کر پھر اُن تک پہنچے اور پھر دوبارہ وہ شاہد بن جائیں اور دوبارہ ان پر یہ فرض عائد ہو جائے کہ وہ اسے غائب تک پہنچا دیں کیونکہ رسول کریم صلی ایم کے الفاظ یہ ہیں کہ فَلْيُبَلِّغ الشَّاهِدُ الْغَائِب شاہد غائب تک اسے پہنچا دے.یعنی جس کے کان میں یہ حدیث پہنچے وہ اسے اس شخص کے کان تک پہنچا دے جو اس مجلس میں موجود نہیں تھا.رسول کریم صلی ا ہم نے یہ نہیں فرمایا کہ فَلْيُبَلِّغُ الْعَالِمُ الْجَاهِل کہ جس شخص کو اس حدیث کا علم ہو وہ اسے اس ا شخص تک پہنچا دے جسے اس حدیث کا علم نہ ہو.اگر آپ یہ فرماتے تو اس کے معنے اور ہو جاتے اور رسول کریم صلی ال نیم کے اس ارشاد کا صرف یہ مطلب ہو تا کہ جن لوگوں کو اس حدیث کا علم ہوا نہیں تو یہ نہ پہنچائی جائے.البتہ جو اس حدیث سے ناواقف ہوں ان تک اس حدیث کو پہنچایا جائے.اس صورت میں جب کوئی شخص اس حدیث کو سن لیتا تو وہ سمجھ لیتا کہ اب کسی اور کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ پھر دوبارہ مجھے وہ یہ حدیث پہنچائے اور نہ مجھ پر یہ فرض ہے کہ میں ہر شخص کے آگے اسے بیان کروں بلکہ جو اس حدیث سے ناواقف ہو گا صرف اسے رسول کریم صلی یکم ها الله سة
1940 3 خطبات محمود کی یہ حدیث بتاؤں گا اور اگر کوئی اسے یہ حدیث پہنچاتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ مجھے تو پہلے سے ہی یہ حدیث معلوم ہے اور رسول کریم صلی علیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ فَلْيُبَغِ الْعَالِمُ الْجَاهِلَ.میں عالم ہوں اس حدیث سے ناواقف نہیں.پس تم میرے سامنے یہ حدیث کیوں بیان کرتے ہو ؟ مگر رسول کریم صلی ا ہم نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ فَلْيُبَلِّغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ کہ جب کسی مجلس میں یہ حدیث بیان کی جائے تو جو اس حدیث کو سن رہا ہو، یہ نہیں کہ وہ اس حدیث کو جانتا نہ ہو چاہے وہ پہلے سے جانتا ہو، بہر حال جب وہ کسی مجلس میں ایک شاہد کی حیثیت میں اس حدیث کو سنے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے الغائب یعنی اس شخص کے کانوں تک پہنچا دے جو مجلس میں موجود نہیں تھا.یہاں بھی یہ نہیں کہا کہ اس شخص کو حدیث پہنچاؤ جو اس حدیث کو جانتا نہ ہو بلکہ غائب کا لفظ رکھ کر بتا دیا کہ چاہے وہ اس حدیث کو جانتا ہی کیوں نہ ہو جب وہ اس مجلس میں موجود نہ ہو جس مجلس میں اس حدیث کو بیان کیا جارہا ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پہنچاؤ کیونکہ اصل غرض اس حدیث کے پہنچانے سے یہ نہیں کہ لوگوں کو اس تعلیم کا علم ہو جائے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ یہ تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آکر ان کے ذہن نشین ہو جائے اور ان کے دل اور دماغ پر اس کا نقش ہو جائے.دنیا میں کئی باتیں انسان کے علم میں ہوتی ہیں مگر بسا اوقات وہ دل اور دماغ پر نقش نہیں ہو تیں اس وجہ سے باوجو د علم کے ان پر عمل کرنے میں کو تاہی ہو جاتی ہے مگر جب کوئی بات بار بار دہرائی جائے تو وہ دل اور دماغ پر نقش ہو جاتی ہے اور عمل کا ایک جزو بن جاتی ہے.پس کسی تعلیم کا صرف پڑھ لینا کافی نہیں ہو تا بلکہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور عمل کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ بار بار تعلیم دہرائی جائے.اسی حکمت کے ماتحت رسول کریم صلی الی تم نے یہ حدیث آگے اور پھر آگے بیان کرنے کی وصیت کی.ورنہ یہ تو نہیں کہ اس حدیث اور اس مفہوم کو مسلمان پہلے جانتے نہ تھے.مسلمان پہلے بھی اس بات کو جانتے تھے کیونکہ رسول کریم صلی الیم نے ساری عمر یہی تعلیم دی کہ تم بلاوجہ کسی کامال نہ لو ، بلاوجہ کسی کی جان پر حملہ نہ کرو، بلاوجہ کسی کو دکھ اور اذیت نہ پہنچاؤ.اسی طرح رسول کریم صلی الی یم نے ہمیشہ یہ تعلیم دی کہ جھوٹے اتہامات مت لگاؤ، کسی کو ذلیل اور رسوا نہ کرو، کسی سے
1940 4 خطبات محمود الله تکبر کے ساتھ پیش نہ آؤ، کسی کی عیب چینی نہ کرو، تجسس اور غیبت نہ کرو، اور یہی اس حدیث کا خلاصہ ہے.پس اس حدیث میں جو کچھ کہا گیا وہ کوئی نئی بات نہیں.رسول کریم صلی ایم کی تعلیم میں پہلے سے یہ تمام باتیں موجود تھیں.قرآن کریم میں بھی ہر بات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے.البتہ اس وصیت میں اس تعلیم کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہے ورنہ مضمون وہی ہے صرف اس وقت کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر رسول کریم صلی الیم نے یہ وصیت کی.آپ نے سوچا کہ جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو مسلمانوں کو یہ اہم سبق یاد دلانے والے بہت کم رہ جائیں گے بلکہ بعض صورتوں میں تو ممکن ہے کہ کوئی بھی یہ سبق یاد دلانے والا نہ رہے.پس کیوں نہ میں ہر مسلمان کو دوسروں کا ناصح بنادوں تا یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی خلیفہ ان تک یہ بات پہنچائے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی معلم ان تک بات پہنچائے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی واعظ ان تک بات پہنچائے ، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی بڑا بزرگ اسے بیان کرے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی باپ اسے بیان کرے یاماں بیان کرے یا کسی کا کوئی دوست اور عزیز بیان کرے بلکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے سامنے اس حدیث کو بیان کرے اور بیان کرتا چلا جائے اور یقینا نصیحت کو پھیلانے کا اس سے بڑھ کر لطیف گر اور کوئی نہیں ہو سکتا.پس رسول کریم صلی الم نے یہ فرما کر کہ اِن دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا.یہ نہیں فرمایا کہ فَلْيُبَلِّغَ الْعَالِمُ الْجَاهِلَ.اگر آپ یہ فقرہ آخر میں دہر ا دیتے تو ممکن ہے اس کا مطلب یہ لے لیا جاتا کہ یہ حدیث امت محمدیہ کے ایسے ہی افراد تک پہنچانا ہمارا فرض ہے جن تک یہ حدیث پہلے نہ پہنچی ہو بلکہ ممکن ہے مسلمان یہی مفہوم سمجھتے اور وہ کہتے کہ رسول کریم صلی ا ہم نے صرف یہ حکم دیا ہے کہ اے مسلمانو! تم ان لوگوں تک اس حدیث کو پہنچاؤ جو اس سے ناواقف ہیں.اگر کوئی اس حدیث کو پہلے جانتا ہو تو اسے پہنچانے کی ضرورت نہیں مگر رسول کریم صلی علیکم نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا فَلْيُبَلّغ الشَّاهِدُ الْغَائِب اور شاہد کے معنی عالم کے نہیں بلکہ شاہد کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص جو اس مجلس میں بیٹھا ہوا ہو جس میں یہ حدیث بیان کی جارہی
1940 5 خطبات محمود ہو.اور غائب کے معنی جاہل کے نہیں بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس مجلس میں موجود نہ ہوں جس میں یہ حدیث بیان کی گئی ہو.مثلاً اس وقت خطبہ جمعہ میں جو لوگ شامل ہیں وہ سب شاہد ہیں اور جو احمدی یہاں نہیں بیٹھا چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو ، چاہے وہ اس حدیث کو سند کے ذریعہ رسول کریم صلی این نام تک روایت کرتا ہو وہ غائب ہے کیونکہ وہ اس ہم مجلس میں نہیں.پس اس حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ ایک تعلیم ہے جو ناوا قفوں تک پہنچاؤ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک تعلیم ہے جو واقفوں اور ناواقفوں تک پہنچاؤ اور وہ اگلے واقفوں یاناواقفوں تک پہنچائیں اور وہ اس سے اگلے واقفوں یا ناواقفوں تک پہنچائیں اور پھر پہنچاتے چلے جائیں.بظاہر یہ ایک چھوٹا سا تغیر ہے کہ عالم کی جگہ شاہد اور جاہل کی جگہ غائب کا لفظ رکھ دیا گیا ہے مگر یہ چھوٹا سا تغیر ایک حکیم ہستی کا تغیر ہے جو یہ مجھتی تھی کہ ان دو چھوٹے سے تغیرات کے ساتھ میں اپنی امت میں اس تعلیم کے متواتر پھیلائے جانے کی بنیاد قائم کر رہا ہوں.پس اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ عالموں کو چاہیے کہ ناواقفوں تک اسے پہنچادیں بلکہ اس حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر اس دوسرے مسلمان تک جو اس مجلس میں شامل نہیں یہ حدیث پہنچا دے اور پھر آگے اس کا فرض ہے کہ وہ اسی طرح اور لوگوں تک اس حدیث کو پہنچاتا چلا جائے اور جبکہ اس حدیث میں یہ شرط عائد کر دی گئی ہے کہ جس مجلس میں یہ حدیث بیان کی جائے اس میں بیٹھنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان لوگوں تک اس حدیث کو پہنچائیں جو اس مجلس میں موجود نہ ہوں تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ قیامت تک یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچائی جائے گی کیونکہ کوئی ایسی مجلس نہیں ہو سکتی جس میں دنیا کے تمام مسلمان بیٹھے ہوں اور سب کے سامنے ایک وقت میں یہ حدیث بیان کی جاسکے.لازماً ہر مجلس میں کچھ مسلمان ہوں گے اور کچھ نہیں ہوں گے.پس اس شرط کے ماتحت ہمیشہ ان لوگوں کا جو کسی مجلس میں اس حدیث کو سنیں گے یہ فرض رہے گا کہ وہ دوسروں تک اسے پہنچائیں اور اس طرح قیامت تک سلسلہ چلتا چلا جائے گا اور بفرض محال کوئی ایسی مجلس قائم بھی ہو سکے جس میں روئے زمین کے تمام مسلمان اکٹھے ہو جائیں اور سب کے سامنے ایک وقت میں اس حدیث کو بیان کر دیا
1940 6 خطبات محمود سة جائے اور ان میں سے کوئی غائب نہ ہو تو بھی اس حدیث کا دوسروں تک پہنچانا صرف عارضی طور پر ختم ہو گا کیونکہ جب نئے بچے پیدا ہوں گے تو ان کے متعلق پھر اس بات کی ضرورت پیش آئے گی کہ انہیں اس حدیث کے مفہوم سے آگاہ کیا جائے.فرض کرو رُوئے زمین کے تمام مسلمان ہیں کروڑ ہیں یا چالیس کروڑ ہیں یا ایک ارب ہیں اور اتفاقاوہ ایک مجلس میں جمع ہو جاتے ہیں اور سب کو یہ حدیث پہنچا دی جاتی ہے تو بھی اس حدیث کو آگے پہنچانے کا سلسلہ عارضی طور پر ہی بند ہو گا دائمی طور پر نہیں کیونکہ دس پندرہ سال کے بعد ان کے جو بچے پیدا ہو کر بڑے ہو چکے ہوں گے ان کو اس حدیث کا علم نہیں ہو گا اور اس وقت رسول کریم صلی نیم کا یہ حکم پھر تازہ ہو جائے گا کہ فَلْيُبَلّغ الشَّاهِدُ الْغَائِب.پس یہ ایک ایسا گر رسول کریم صلی الایم نے ایجاد کیا ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی مسلمان اس حدیث سے ناواقف نہیں رہ سکتے اور کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے کان میں کم سے کم سال میں تین چار بار یہ حدیث نہ پڑے.اگر اس حدیث کا محض پڑھ لینا یا اس کا ایک دو دفعہ سن لینا کافی ہو تا تو انسان بخاری میں اس حدیث کو پڑھ سکتا تھا اور جو دینی مدارس کے اساتذہ ہیں وہ اپنے شاگردوں کو یہ حدیث پڑھاتے ہی ہیں بلکہ شائد دس دس دفعہ ان کے پڑھانے میں یہ حدیث آجاتی ہو گی لیکن میں کہتا ہوں کہ پڑھنے اور دوسروں کو پہنچانے میں بہت بڑا فرق ہے.اگر رسول کریم صلی ا ظلم یہ نہ فرماتے کہ فَلْيُبَلّغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ تو پڑھانے والے کے دل پر وہ اثر نہ ہو سکتا جو اب ہوتا ہے.اس صورت میں پڑھانے والا اسے محض ایک حدیث سمجھتا مگر اب جب وہ رسول کریم صلی للی نی کے اس ارشاد کو ساتھ ہی دیکھتا ہے تو وہ اسے صرف حدیث نہیں سمجھتابلکہ وہ اس حدیث کو ایک ذمہ داری اور امانت سمجھتا ہے اور وہ اس حدیث کو پڑھنا یا پڑھانا کافی خیال نہیں کرتا بلکہ اس امانت کی ادائیگی کو بھی ضروری سمجھتا ہے.پس اس حدیث نے پڑھانے والے کے ذہن میں بھی بیداری پیدا کر دی اور پڑھنے والے کے ذہن میں بھی بیداری پیدا کر دی.پس یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جسے رسول کریم صلی علیم نے ہمارے فائدہ کے لئے بتایا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرف توجہ دلا دی کہ رسول کریم صلی ایم کا ان الفاظ سے یہ منشاء نہیں تھا.اُس وقت آپ کی مجلس میں جو لوگ موجود تھے وہ ان لوگوں تک اسے پہنچا دیں جو
1940 7 خطبات محمود اُس وقت موجود نہیں تھے کیونکہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”اس مجلس کا شاہد“ بلکہ آپ نے شاہد کا لفظ بغیر اضافت کے فرمایا.اگر آپ یہ فرماتے کہ فَلْيُبَلِّغْ شَاهِدُ مَجْلِسِنَا هَذَا کم اس مجلس میں جو لوگ موجود ہیں وہ دوسروں تک میری یہ بات پہنچا دیں تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ اس حدیث کا دوسروں تک پہنچانا صرف اُنہی کا فرض تھا ہمارا فرض نہیں.مگر آپ نے صرف فَلْيُ الشَّاهِدُ الْغَائِب فرمایا اور غائب کے لئے بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا لَه الْغَائِبُ عَنْ مَجْلِسِنَا هَذَا بلکہ الْغَائِبَ کا لفظ استعمال کیا.گو یار سول کریم صلی لل نظم نے شاہد کا لفظ بھی بغیر اضافت اور قید کے استعمال کیا اور غائب کا لفظ بھی بغیر اضافت اور قید کے استعمال کیا.پس جب آپ نے شاہد کا لفظ فرمایا تو اس سے مراد وہ مسلمان نہیں تھے جو اُس مجلس میں موجود تھے اور جب آپ نے غائب کا لفظ استعمال فرمایا تو اس سے مراد بھی وہ مسلمان نہیں تھے جو اُس وقت مجلس میں موجود نہیں تھے بلکہ شاھد سے مراد وہ شخص ہے جس کے سامنے یہ حدیث بیان کی جائے اور غائب سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کے سامنے اس وقت حدیث بیان نہ ہوئی ہو.چاہے اس حدیث کا اسے علم ہی کیوں نہ ہو.پس جلسہ سالانہ پر ایک تو میں نے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اس حدیث کے مضمون کو پھیلانے کی طرف توجہ کریں اور رسول کریم صلی ا لم کی اس وصیت کو دہراتے رہیں یہاں تک کہ یہ امر ان کی عادت میں داخل ہو جائے اور ان کے دل میں اتنا راسخ ہو جائے کہ ان کا ہاتھ کسی مسلمان کے خلاف نہ اٹھے ، ان کی زبان کسی مسلمان کے خلاف نہ کھلے اور ان کی آنکھ کسی مسلمان کے مال کی طرف نہ اٹھے.گویا دوسرے کی جان، مال اور آبرو پر حملے کا خیال بھی ان کے دل میں نہ آئے.اور ان کی دیانت وامانت ایسے اعلیٰ پایہ کی ہو کہ کسی مسلمان کے مال کی طرف ہاتھ اٹھنا تو الگ رہا ان کی نگاہ بھی نہ اٹھے اور دنیا اس یقین پر قائم ہو جائے کہ ایک مسلمان کے لئے کسی دوسرے مسلمان کا مال اٹھانا یا اس کی عزت اور جان پر حملہ کرنا بالکل ناممکن ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر مسلموں کے مال، جان اور آبرو پر حملہ کرنا جائز ہے.وہ بھی ویسا ہی ناجائز ہے جیسے کسی مسلمان کے مال، جان اور عزت پر حملہ کرنا.البتہ اس حدیث میں زیادہ زور اسی بات پر دیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی
1940 8 خطبات محمود عزت پر حملہ نہ کرے، اس کے مال پر حملہ نہ کرے، اس کی جان پر حملہ نہ کرے.غیر مسلموں کا اس لئے ذکر نہیں کیا گیا کہ جب مسلمانوں کو یہ عادت ہو جائے گی اور اپنے بھائیوں کے خلاف نہ ان کا ہاتھ اٹھے گا، نہ ان کی آنکھ اٹھے گی اور نہ ان کی زبان حرکت کرے گی تو وہ غیر اقوام کے لوگوں کو بھی دکھ دینے سے خود بخود اجتناب کریں گے اور چونکہ وہ دوسری آیات اور احادیث سے یہ جانتے ہیں کہ اسلام نے غیر مسلموں پر بھی حملہ کرنانا پسندیدہ امر قرار دیا ہے اور ان کو حملہ نہ کرنے کی پختہ عادت ہو چکی ہو گی وہ کسی غیر مسلم کو بھی نہیں پیٹیں گے، وہ کسی غیر مسلم کا بھی مال نہیں کھائیں گے اور وہ کسی غیر مسلم کی عزت پر بھی حملہ نہیں کریں گے ، جس طرح مسلمانوں کی جان، مال اور آبر و پر وہ حملہ نہیں کریں گے.دوسری بات جلسہ سالانہ پر میں نے یہ بیان کی تھی کہ گزشتہ سال میں نے دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ ہر احمدی کم سے کم ایک نیا احمدی سال میں ضرور بنائے مگر میری یہ نصیحت اتنی کامیاب نہیں ہوئی جتنی کامیابی کی توقع تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سال پہلے کی نسبت بیعت زیادہ ہوئی ہے مگر یہ زیادتی دس پندرہ فیصدی ہے اور دس پندرہ فیصدی کی زیادتی کوئی زیادتی نہیں ہوتی.اس لئے میں آج کے خطبہ میں پھر قادیان کے دوستوں کو اور باہر کے دوستوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس سال پھر ہر احمدی کم سے کم ایک نیا احمدی بنانے کی کوشش کرے اور چونکہ اگر انسان نے وعدہ کیا ہو ا ہو تو اسے اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے اس لئے ہر احمدی تحریر امجھے اطلاع دے کہ وہ اس سال کتنے نئے احمدی بنانے کا وعدہ کرتا ہے تا کہ اول اسے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا خیال رہے اور اگر بفرض محال وہ اپنے وعدہ کو پورا نہ کر سکے تو اس کے نفس میں شرمندگی پید اہو اور وہ آئندہ اپنی گزشتہ کمی کو زیادہ جد وجہد سے پورا کرنے کی کوشش کرے.بہر حال یہ ایک مفید چیز ہو گی سلسلہ کی ترقی کے لحاظ سے بھی کیونکہ جب وہ تحریری طور پر وعدہ کریں گے تو وہ توجہ سے اس وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے.اور ان کے اپنے نفس کے لئے بھی کیونکہ اگر وہ وعدہ پورا نہ کر سکے تو ان کے نفس میں غیرت پیدا ہو گی اور آئندہ وہ اس کو تاہی کا ازالہ کرنے کے لئے زیادہ جد وجہد سے کام لیں گے.غرض وعدہ کرنا ان کے لئے بھی مفید ہے اور سلسلہ کے لئے بھی مفید ہے.
1940 9 خطبات محمود پس جو دوست نئے احمدی بنانے کی نیت کریں وہ مجھے بھی اپنی نیت سے آگاہ کر دیں اور بتا دیں کہ اس سال کتنے نئے احمدی بنانے کی وہ کوشش کریں گے ؟ اگر وہ اپنے لئے کوئی خاص علاقہ یا تبلیغ کے لئے کسی خاص قوم کو مخصوص کرنا چاہتے ہوں تو اس کی بھی مجھے اطلاع دے دیں کہ فلاں علاقہ یا فلاں قوم میں چونکہ احمدیت نہیں اس لئے ہم اس علاقہ یا اس قوم کی ہدایت کے لئے تبلیغی جد وجہد کریں گے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت اگر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کی طرف پورے طور پر توجہ کرے تو جماعت کی ساری مشکلات چند دنوں میں دور ہو سکتی ہیں بلکہ جماعت کیا ساری دنیا کی مشکلات دور ہو سکتی ہیں کیونکہ احمدیت ہی ہے جو دنیا کی مشکلات کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے.اگر احمدیت آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہوتی تو جرمنی اور برطانیہ اور روس اور فن لینڈ کے جھگڑے ہی کیوں ہوتے؟ یہ سب جھگڑے اِسی لئے ہیں کہ احمدیت کی تعلیم ابھی تک دنیا میں نہیں پھیلی.پس آج دنیا کے تمام جھگڑے انتظار کر رہے ہیں احمدیت کے انتشار اور اس کی اشاعت کا ، اور دنیا کے تمام جھگڑے انتظار کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم ہونے کا اور اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک احمدیت پھیل نہیں جاتی.پس اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور وفاداری بھی یہی چاہتی ہے کہ احمدیت کو ہم دنیا میں جلد سے جلد پھیلائیں اور بنی نوع انسان کی محبت اور ان کی خیر خواہی بھی یہی چاہتی ہے کہ احمدیت کو ہم دنیا میں جلد سے جلد پھیلائیں تاکہ جھگڑے اور فساد دور ہوں اور دنیا میں امن قائم ہو جائے.میں یہ نہیں کہتا کہ احمدیت کی اشاعت کے بعد کامل امن ہو جائے گا اور لڑائی جھگڑے گلية مفقود ہو جائیں گے.انفرادی جھگڑے رہتے ہی ہیں جیسے احمدیوں میں بھی بعض دفعہ جھگڑے ہو جاتے ہیں مگر وہ ایک حد کے اندر محدود رہتے ہیں اور ان لڑائیوں اور جھگڑوں کے دور کرنے کا ذریعہ وہی حدیث ہے جو میں نے بتائی ہے.اگر اس حدیث کو اپنا دستور العمل بنالیا جائے تو اس قسم کے جھگڑے بھی پیدا نہیں ہو سکتے لیکن بہر حال احمدیوں کے جھگڑے محدود ہیں، ان کے اثرات محدود ہیں اور ان جھگڑوں کو روکنے کے سامان موجود ہیں.اگر بعض احمدیوں میں لڑائی ہو جائے تو ایک نظام موجود ہے جو ان کے فتنہ کو روک دیتا ہے،
$1940 10 خطبات محمود ایک ہاتھ موجود ہے جو اس ہاتھ کو پکڑ لیتا ہے جو کسی دوسرے کو مارنے کے لئے اٹھتا ہے اور ایک آواز موجود ہے جس کے سامنے اور تمام آوازیں دب جاتی ہیں.پس اس وجہ سے دوسروں کی نسبت ہماری جماعت لڑائی جھگڑوں اور ان کے خطرناک نتائج سے بہت حد تک محفوظ رہتی ہے اور وہ جو فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں نے ضرور لڑنا ہے اُس کا پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ہم سے جدا ہو جاتا ہے اور جب وہ ہمارے نظام سے آزاد ہو جاتا ہے تو پھر جو جی چاہے کرنے لگ جاتا ہے لیکن اس قسم کے لوگ بھی جماعت سے الگ ہو کر فتنہ پیدا کرنے کی اُسی وقت جرآت کر سکتے ہیں جب تک ہماری جماعت زیادہ پھیلی ہوئی نہ ہو.ورنہ جب جماعت دنیا میں کثیر تعداد میں پھیل جائے گی تو اُس وقت اس قسم کے مفسد اور فتنہ پر داز بھی سمجھ جائیں گے کہ اب ہمارا باہر نکلنا بھی مفید نہیں کیونکہ ہر طرف احمدی ہی احمدی ہیں.پس لازم وہ اندر رہیں گے اور جب اندر رہیں گے تو خواہ ان کی پوری اصلاح نہ ہو بہر حال ان کا فتنہ ایک نظام کی وجہ سے دبار ہے گا اور وہ دنیا کے لئے زیادہ مضر ثابت نہیں ہوں گے.پس میں دوستوں کو ان کے اس فرض کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں.“ الفضل 19 جنوری (1940 1 بخاری کتاب المغازى باب حجة الوداع
$ 1940 11 2 خطبات محمود خلافت جوبلی کی تقریب سے پیدا شدہ نئی ذمہ داریاں جوش اور توجہ سے ادا کرو تشهد (فرمودہ 12 جنوری 1940ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج ایک اہم امر کے متعلق خطبہ پڑھنا چاہتا تھا اور میں اس بات کی ضرورت سمجھتا تھا کہ اس مضمون کو زیادہ بسط کے ساتھ بیان کیا جائے لیکن جلسہ کے بعد جو انفلوئنزا کا حملہ مجھ پر ہوا پیچھے اس میں بہت حد تک کمی آجانے کے بعد پرسوں سے پھر دوبارہ میرے سینہ پر نزلہ گرنا شروع ہو گیا ہے اور اس کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا اور نہ ہی اونچا بول سکتا ہوں مگر مضمون کی اہمیت اور اس کا موقع یہ چاہتا ہے کہ میں اسے پیچھے نہ ڈالوں اور جلد سے جلد اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار جماعت کے سامنے کر دوں.اس لئے باوجو د طبیعت کی پرمز خرابی کے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں آج خطبہ میں اسی مضمون کو بیان کروں.ہماری جماعت نے اس جلسہ کو جو ابھی گزرا ہے ایک خوشی اور شکریہ کا جلسہ قرار دیا ہے.کیا بلحاظ اس کے کہ باوجود دنیا بھر کی مخالفتوں کے وہ نبوت کا پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں لائے تھے اور جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری بڑی مشکلات میں سے ایک نبوت کا مسئلہ بھی رہا ہے کیونکہ لوگ اس
1940 12 خطبات محمود مسئلہ کے سمجھنے کی قابلیت کم رکھتے تھے اور غلط خیالات اور غلط عقائد نے لوگوں کے دماغوں پر ایسا قبضہ جمالیا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں کسی اصلاح کے لئے تیار نہ تھے.باوجو د دنیا کی مخالفت کے پچاس سالہ عرصہ میں برابر دنیا میں پھیلتا چلا گیا ہے اور جس عقیدہ کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ کسی صورت میں تسلیم کئے جانے کے قابل نہیں وہ دنیا کے ہر گوشہ میں تسلیم کیا جانے لگا ہے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تمام بر اعظموں میں اس عقیدہ کے ماننے والے لوگ موجود ہیں.اور دوسرے اس وجہ سے اس جلسہ کو ایک خوشی کا جلسہ قرار دیا گیا کہ وہ خلافت جو تابع نبوت ہوتی ہے اس کے متعلق بھی لوگوں میں ایسے ہی خیالات موجود تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ خلافت کا خیال دنیا میں قائم نہیں رہ سکتا اور اس آزادی اور نام نہاد ڈیماکرسی کی موجودگی میں خلافت دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ خیال زیادہ تر دوسری خلافت کے شروع میں پیش کیا گیا اور اس پر بہت کچھ زور دیا گیا.مگر باوجود اس کے گزشتہ پچیس سال میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کی عظمت قائم کی اور اس کے دامن سے جو لوگ وابستہ تھے انہیں ہر میدان میں فتح دی اور ان کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ پچیس سال میں جماعت کہیں کی کہیں پہنچ گئی.ہماری جماعت کی ترقی اور اس کی رفتار کی تیزی اس امر سے ہی سمجھی جاسکتی ہے کہ آج ہم ایک معمولی جمعہ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں جس میں کوئی خاص خصوصیت نہیں.صرف قادیان اور چند ارد گرد کے دیہات کے لوگ شامل ہیں مگر باوجود اس کے اس مسجد میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی مسجد سے چار گنے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے تمام لوگ بھرے ہوئے ہیں اور ابھی مستورات کے لئے علیحدہ انتظام ہے.وہ حصہ اس سے قریباً تہائی ہو گا.اور وہ بھی تمام کا تمام بھر ا ہو ا ہوتا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال میں جو جلسہ سالانہ ہوا اُس میں جو احمدی شامل ہوئے وہ اس مسجد کے چوتھے حصہ میں سما گئے تھے.ہمارے دادا کی جو قبر ہے یہ انتہائی اور آخری حد تھی اور میرے بائیں طرف دو تین گز چھوڑ کر جو ستون ہے وہ اس کی ابتدائی حد تھی.میرے دائیں طرف مسجد کا گل حصہ ، اسی طرح بائیں طرف کا برآمدہ اور قبر سے لے کر مشرق کی طرف کا
$1940 13 خطبات محمود سب حصہ ، یہ سب زائد ہیں.اس نسبت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ حلقہ اُس وقت کے اجتماع سے چار گنے سے بھی زیادہ ہو گا.یہ اس وقت کے جلسہ کے لوگوں کی کل تعداد تھی اور اس تعداد کو اتنا اہم سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ میں متواتر فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام دنیا میں ختم ہو چکا ہے.مگر آج ہمارے ایک معمولی جمعہ میں اس سے چار گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی موجود ہیں.تو یہ دونوں باتیں چونکہ ہماری جماعت کے لئے خوشی کا موجب تھیں اس لئے انہوں نے اس سالانہ جلسہ کو دو خوشیوں کا موجب قرار دیا.ایک خوشی تو یہ کہ پیغام نبوت پچاس سالہ کامیابی کے ساتھ باوجو د دشمنوں کی مخالفت کے ایسی شان و شوکت پیدا کر چکا ہے کہ دنیا اس کی اہمیت تسلیم کرنے پر مجبور ہے.دوسری خوشی یہ کہ پیغام خلافت پچیس سالہ مخالفت بلکہ شروع خلافت کے وقت کے جماعت کے عمائدین کی مخالفت کے باوجود ترقی کرتا چلا گیا.یہاں تک کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دنیا کے تمام حصوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے.دنیا میں جب کسی شخص کو کوئی خوشی پہنچتی ہے یا جب کوئی شخص ایسی بات دیکھتا ہے جو اس کے لئے راحت کا موجب ہوتی ہے تو اگر وہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے تو وہ ایسے موقع پر یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ہے کہ ہم کو یہ بات حاصل ہوئی اور جب کسی مسلمان کو ایسی خوشی پہنچتی ہے تو وہ اس مفہوم کو عربی زبان میں ادا کرتا اور کہتا ہے الْحَمْدُ للہ.تو اس جلسہ پر ہماری جماعت نے جو خوشی منائی اس کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہی بنے گا کہ پیغام نبوت اور پیغام خلافت کی کامیابی پر ہماری جماعت نے اس سال الْحَمْدُ لِلہ کہا.مگر باقی دنیا اور اسلام کی تعلیم میں ایک فرق ہے.باقی دنیا الحمد للہ کو اپنی آخری آواز سمجھتی ہے مگر اسلام الحَمدُ لِله کو نہ صرف آخری آواز قرار دیتا ہے بلکہ اس کو ایک نئی آواز بھی قرار دیتا ہے.اسلامی تعلیم کے مطابق الْحَمدُ للہ کائنات کے آدم اول کی بھی آواز تھی جیسا کہ وہ کائنات کے آدم آخر کی آواز ہے.اور اس طرح اسلام الْحَمدُ للہ کے ساتھ اگر ایک سلسلہ اور ایک کڑی کو ختم کرتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے سلسلہ اور دوسری کڑی کو شروع کر دیتا ہے.چنانچہ سورہ فاتحہ میں ہم کو یہی بتایا گیا ہے.وہ الحمد للہ سے شروع ہوتی ہے جس کے معنی
$1940 14 خطبات محمود یہ ہیں کہ کامیابی اور خوشی دیکھ کر ایک مسلم کہتا ہے الْحَمْدُ لِله.مگر الْحَمْدُ لله سورة فاتحہ ، کی آخری آیت نہیں بلکہ سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت ہے اور جب ہم اسے پڑھتے چلے جاتے ہیں تو اس کے درمیان ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.1 یعنی اے ہمارے رب الحمد کے نتیجہ میں ایک اور پروگرام ہمارے سامنے آگیا ہے اور ایک نئے کام کی بنیاد ہم نے ڈال دی ہے.ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پورے طور پر اس کام کو چلانے کی کوشش کریں گے اور ہم تجھ سے چاہتے ہیں کہ تو اس راہ میں ضروری سامان ہمیں مہیا کر اور ہماری نصرت اور تائید فرما.پس الحَمدُ لله کو پہلے رکھ کر اور إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو بعد میں رکھ کر اسلام نے یہ بتایا ہے کہ کوئی حمد اُس وقت تک حقیقی حمد نہیں کہلا سکتی جب تک اس کے ساتھ ایک نئے کام کی بنیاد نہ ڈالی جائے.ہر حمد جو حمد پر ختم ہو جاتی ہے وہ در حقیقت حمد نہیں بلکہ ناشکری ہے.لفظ چاہے حمد کے ہوں مگر حقیقت اس میں ناشکری کی پائی جاتی ہے.رسول کریم صل ان کی زندگی میں اس کی ایک مثال پائی جاتی ہے.آپ رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے اور بعض دفعہ اتنی لمبی دیر نماز میں کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے.جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے اور آپ میں اتنی طاقت نہ رہی کہ آپ اس مجاہدہ کو آسانی سے برداشت کر سکیں تو ایک دفعہ آپ کی ایک بیوی نے کہا کہ آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ کیا آپ کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں نے تیرے اگلے پچھلے ذنوب معاف فرما دیئے ہیں ؟ اور کیا آپ کے ساتھ اس کی بخشش کے وعدے نہیں ؟ جب ہیں تو آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ رسول کریم صلی للی نیلم نے جواب میں فرمایا کہ اے عائشہ ( حضرت عائشہ کی طرف سے ہی یہ سوال تھا ) أَفَلَا اكُونَ عَبْدَ اشَكُورًا-2 کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ جب خدا نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور اس کا یہ احسان تقاضا کرتا ہے کہ میں آگے سے بھی زیادہ اس کی عبادت کروں اور آگے سے بھی زیادہ خد اتعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگ جاؤں.رسول کریم صلی اللہ نیلم نے اس میں یہی بتایا ہے کہ انعام کے نتیجہ میں الحمد مومن کا آخری قول نہیں ہو تا بلکہ وہ آخری قول بھی ہوتا ہے اور نئے کام کی بنیاد بھی ہوتا ہے.بہت لوگ جو اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں ان پر جب کوئی احسان ہوتا ہے تو
1940 15 خطبات محمود وہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بڑا کام کر لیا اور یہ کہ اب ان کا کام ختم ہو گیا مگر اسلام ایسا نہیں کہتا.محمد رسول اللہ صلی اللی یکم ایسا نہیں کہتے بلکہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی ا ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان ہوتا ہے تو اس کے بعد بندوں پر نئی ذمہ داریاں رکھی جاتی ہیں.اگر وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار ہوں تب وہ مستحق ہوتے ہیں الْحَمْدُ لِلہ کہنے کے اور تبھی ان کی الحمد سچی الحمد کہلا سکتی ہے.لیکن اگر ہم کام ختم کر دیتے ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہماری حمد جھوٹی تھی کیونکہ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ کام جس پر ہم نے الْحَمْدُ للہ کہا ایسا اچھانہ تھا.اگر اچھا ہو تا تو اسے جاری رکھتے بلکہ اسے بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرتے.احسان ہے.پس یہ جو خوشی کا جلسہ ہوا اس نے در حقیقت ہماری ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیا ہے.ممکن ہے اگر یہ جلسہ نہ ہوتا تو لوگ کہہ دیتے کہ ہم نہیں سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ کا ہم پر اتنا بڑا.مگر اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے.اب ہر شخص نے اس امر کا اقرار کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا اور جب خدا نے احسان کیا ہے تو اس کو اب بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے یا ختم کرنے کی؟ پس میرے نزدیک اس جلسہ نے ہماری جماعت پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے.یوں تو ہر روز خدا تعالیٰ کی جماعت کو خوشیاں پہنچتی ہی رہتی ہیں مگر ہر روز جشن نہیں منائے جاتے.ایک خاص جلسے کے منانے کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایک منزل پر پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے کام میں ایک درجہ کو حاصل کر لیا ہے.پس اس کے بعد ایک نئی ولادت کی ضرورت ہے.گویا پہلا سلسلہ ختم ہوا اور اب ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا.جیسے ایک دانہ بویا جاتا ہے تو اس سے مثلاً ستریا سو دانے نکل آتے ہیں.اب ستر اور سو دانوں کا نکل آنا اپنی ذات میں ایک بڑی کامیابی ہے مگر وہ پہلے پیج کا ایک تسلسل ہوتا ہے اور زمیندار اسے کوئی نیا کام نہیں سمجھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے میرے پہلے کام کا ہی سلسلہ جاری ہے.لیکن جب زمیندار ان نئے دانوں کو پھر زمین میں ڈال دیتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اب میرے کام کا نیا دور شروع ہوا.کام تو وہی ہے مگر اب وہ کام کے دور میں فرق کرنے لگ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرا پہلا کام ختم ہوا اور اب
* 1940 16 خطبات محمود ایک نیا کام شروع ہے.اسی طرح جب ہماری جماعت نے اس جلسہ کو خوشی کا جلسہ قرار دیا تو بالفاظ دیگر انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمار اپہلا پیج جو بویا ہوا تھا اس کی فصل پک گئی اب ہم نیا بیج بو رہے ہیں اور نئی فصل تیار کرنے میں مصروف ہو رہے ہیں.یہ اقرار بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن اگر جماعت کی حالت کو دیکھا جائے تو اس اقرار کی اہمیت بہت بڑھ جاتی اور اس پر ایسی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اگر اس کے افراد رات دن کو شش نہ کریں تو اس ذمہ داری سے کبھی عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے.اس پچاس سالہ دور کے متعلق ہم نے جو خوشی منائی ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس دور کی پہلی فصل کس طرح شروع ہوئی تھی ؟ جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس پہلی فصل کا بیج صرف ایک انسان تھا.رات کو دنیا سوئی.ساری دنیا اس بات سے ناواقف تھی کہ خدا اس کے لئے کل کیا کرنے والا ہے.کوئی نہیں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کل کیا ظاہر کرنے والی ہے؟ یہ آج سے پچاس سال پہلے کی بات ہے.ایک فرد بھی دنیا کا نہیں تھا جس کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے.یکدم بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انتباہ ہو ، بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انذار ہو، بغیر اس کے کہ پہلے کوئی اعلان ہو، ایک شخص جس کو خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے ؟ خدا نے اس کو جگایا اور کہا کہ ہم دنیا میں ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانا چاہتے ہیں اور تم کو اس زمین اور آسمان کے بنانے کے لئے معمار مقرر کرتے ہیں.اس کے لئے یہ کتنی حیرت کی بات ہو گی؟ اس وسیع دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں قائم تھیں ، بڑے بڑے نظام قائم تھے.پھر اس وسیع دنیا میں باوجو د مسلمانوں کے سابقہ شوکت کھو چکنے کے آج سے پچاس سال پہلے ان کی حکومتیں موجود تھیں، ٹرکی ابھی ایک بڑی طاقت سمجھتی جاتی تھی، مصر بھی آزاد تھا، ایران اور افغانستان آزاد تھے اور یہ اسلامی حکومتیں اسلام کی ترقی اور اس کی تہذیب کا گہوارہ کہلاتی تھیں مگر یہاں وہ آواز پیدا نہیں ہوئی.خدا نے ترکوں کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی.خدا نے مصر کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی.خدا نے ایران کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی.خدا نے افغانستان کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی.
$1940 خطبات محمود 17 خدا نے ترکی اور مصر وغیرہ کے جو شیخ الا سلام کہلاتے یا علماء کے رئیس کہلاتے تھے ان سے یہ نہیں کہا بلکہ ہندوستان کے ایک شخص سے خدا نے یہ بات کہی اور ہندوستان میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلکتہ یا بمبئی کے کسی بڑے رئیس یا عالم سے یہ بات نہیں کہی، لاہور یا امر تسر کے کسی بڑے رئیس یا عالم سے یہ بات نہیں کہی، کسی ظاہری مرکز یا علمی اور سیاسی مرکز میں رہنے والے سے یہ بات نہیں کہی بلکہ خدا نے ریل سے دور، تمدن سے دور ، تعلیمی مرکزوں سے دور قادیان میں ، ایک ایسی بستی میں جو کور دیہہ کہلانے کی مستحق تھی اور جس کے رہنے والے بالکل جاہل تھے اور تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھے.ایک ایسے شخص سے جو نہ عالم سمجھا جاتا تھا، نہ فاضل سمجھتا جاتا تھا، نہ مالدار تھا، اس کے گھر میں اور اسکے کان میں یہ بات کہی.ہم کسی صورت میں بھی اندازہ نہیں کر سکتے اس کیفیت کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اُس وقت پیدا ہوئی ہو گی.جس لڑائی کی آپ کو خبر دی گئی تھی وہ یقینا اس جنگ سے بہت اہم تھی اور ہے جو آجکل جر منی اور برطانیہ و فرانس میں جاری ہے.تم میں سے آج اگر کسی بچہ کو خواب میں یہ کہا جائے کہ تمہارا فرض ہے کہ جاؤ اور جرمنی کو فتح کرو تو وہ نہایت حیران ہو کر صبح اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے کہے گا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے اور جب وہ بیان کرے گا تو لوگ ہنستے ہوئے کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے رات تم زیادہ کھا گئے ہو گے جس کی وجہ سے تمہیں بد ہضمی ہو گئی اور ایسا خواب آگیا.وہ خواب کی طرف کبھی توجہ نہیں کرے گا.ہاں کبھی کبھی ہنس کر اپنے دوستوں سے کہہ دے گا کہ میں نے ایک دفعہ ایک عجیب بے ہودہ ساخواب دیکھا تھا.مگر اسی قسم کی کیفیت میں قادیان میں ایک شخص کو الہام ہو تا ہے اور اسے جس جنگ کی خبر دی جاتی ہے وہ اس جنگ سے بہت زیادہ اہم ہے.پس اس کے قلب کی جو کیفیت ہوئی ہو گی اس کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے.اگر تو وہ اس الہام کو اُس رنگ میں لے لیتا جیسے میں نے بچہ کی مثال دی ہے اور وہ سمجھتا کہ مجھے بد ہضمی ہو گئی ہے یا میں نے زیادہ کھا لیا تھا جس کے نتیجہ میں اس قسم کا خواب آیا یا بخار کی کیفیت تھی یا نزلہ اس کا باعث تھا تب بھی سمجھ آ سکتا ہے کہ اس نے اس عظیم الشان خبر کو سن کر اسے برداشت کر لیا ہو گا.تبھی تو اس نے ہہ کرلی کہ یہ محض وہم ہے، دماغی خیال یا کسی بیماری کا نتیجہ ہے.مگر اس نے یہ نہیں سمجھا توجیہہ
1940 18 خطبات محمود کہ یہ الہام کسی دماغی خرابی کا نتیجہ ہے، اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ کسی بیماری کا نتیجہ ہے، اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ کسی بد ہضمی کا نتیجہ ہے.اس نے اسے خدا ہی کی آواز قرار دیا.جیسا کہ وہ فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ اتفاقی آواز ہے جو میرے کان میں پڑ گئی ہے بلکہ وہ فوراً اس آواز کا جواب دینے کے لئے تیار ہو گیا اور اس نے کہا اے میرے رب ! میں تیری طرف سے لڑائی کے لئے حاضر ہوں.اگر وہ اس آواز کے جواب میں اپنے نفس کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ یہ میرا وہم ہے یا کسی اندرونی نقص اور بیماری کا نتیجہ ہے تو بے شک اس کے دل کو صبر آسکتا تھا اور ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کی طبیعت میں اضطراب تو پیدا ہوا ہو گا مگر حد درجہ کا نہیں.مگر اس نے جس رنگ میں اس کلام کو لیا اور اسکی اہمیت کو سمجھا وہ بتلاتا ہے کہ اس نے اسے کھیل نہیں سمجھا، اس نے اسے بیماری نہیں سمجھا، اس نے اسے بد ہضمی نہیں سمجھا، اس نے اسے دماغی خرابی نہیں سمجھا بلکہ اس نے نہایت یقین اور وثوق کے ساتھ یہ سمجھا کہ خدا نے واقع میں یہ کام میرے سپرد کیا ہے.پس وہ تاریک گھڑیاں اور اس کی بقیہ رات اس پر کیسی گزری ہوگی ؟ اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے.ابھی تمہیں وہ مقام حاصل نہیں کہ تم بڑے لوگوں کی مجلسوں میں جاسکو.تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ فرانس کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے.تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ انگلستان کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے.تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ جرمنی کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے مگر باوجود اس کے کہ وہ بہت چھوٹی سی جنگ کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، باوجود اس کے کہ ان کے پاس سامان موجود ہیں، باوجود اس کے کہ ان کے پاس فوجیں موجود ہیں، باوجود اس کے کہ ان کا تمام ملک ان کی مدد کے لئے کھڑا ہے پھر بھی ان کی راتیں اور دن جس کرب سے گزرتے ہیں اور جس بھاگ دوڑ سے وہ کام لے رہے ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کو کبھی تھوڑی دیر کے لئے ان کے پاس جانے اور رہنے کا موقع ملا ہو.مگر یہ شخص جس پر رات آئی اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج انگلستان کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں، اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج فرانس کے کمانڈر انچیف کو
1940 19 خطبات محمود حاصل ہیں، اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج جرمنی کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں.پھر ان لوگوں کے پاس صرف سامان ہی نہیں بلکہ ملک کی متحدہ طاقت ان کے ساتھ ہے.انگلستان کا کمانڈر انچیف جاتا ہے کہ اگر میرے پاس گولہ بارود ختم ہو گیا تو بھی پرواہ نہیں انگلستان کی تمام طاقت میرے ساتھ ہے اور اس کا بچہ بچہ میرے حکم پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہے.فرانس کا کمانڈر انچیف صرف ان سامانوں کو نہیں دیکھتا جو اس کے پاس ہیں بلکہ وہ جانتا ہے کہ ملک کی تمام آبادی میرے حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہے اور جب میں کہوں گا کہ گولہ بارود لاؤ تو وہ گولہ بارود اکٹھا کر دیں گے.جب کہوں گا کہ جانی قربانی کرو تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے سر کٹانے کے لئے آگے آجائیں گے اور اگر اور سامانوں کا مطالبہ کروں گا تو وہ حاضر کر دیں گے.پھر ان کے سامنے اپنی کامیابیوں کی ایک تاریخ موجود ہے، لمبی اور مسلسل تاریخ.فرانس کے کمانڈرانچیف کے سامنے فرانس کی کامیابیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اور انگلستان کے کمانڈر انچیف کے سامنے انگلستان کی کامیابیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے.وہ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح بڑی اور بحری جنگوں میں گودے اور ہر میدان میں وہ فاتح اور کامیاب رہے.یہ ساری چیزیں ان کے سامنے موجود ہیں مگر باوجود اس کے وہ گھبراتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس جنگ کا کیا نتیجہ ہو گا؟ حالانکہ یہ جنگ صرف تلوار کی جنگ ہے دلوں کو فتح کرنے کی جنگ نہیں جو تلوار کی جنگ سے بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ کٹھن ہوتی ہے.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ آواز جو اس کے کان میں پڑی اس نے اس کے دل میں کیا تغیر پیدا کیا ہو گا.مگر اس نے اس آواز کو ہنسی میں نہیں ڈالا، اس نے اسے پاگلانہ خیال نہیں سمجھا، اس نے اسے بیماری کا نتیجہ قرار نہیں دیا بلکہ اس نے اسے خدا ہی کی آواز قرار دیا اور کہا اے خدا! میں حاضر ہوں.اس جواب کے بعد اس نے اپنی باقی رات کس طرح گزاری ہو گی اس کا اندازہ دنیا کا کوئی شخص نہیں لگا سکتا.ایک بلبلہ جس طرح سمندر کی سطح پر نمودار ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ دنیا کے سامنے ظاہر ہوا بلکہ بلبلہ اور سمندر کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ بھی اس کے مقابلہ میں بیج ہے.ایک چھوٹا سابیچ تھا جو بہت بڑے جنگل میں ڈال دیا گیا جہاں خشکی ہی خشکی تھی اور پانی کا ایک قطرہ نہ تھا.جہاں ریت ہی ریت تھی اور مٹی کا ایک ذرہ نہ تھا.بلکہ وہ بیچ جو بیابان میں ڈال دیا جائے
$1940 20 خطبات محمود ایسے ریگستان میں ڈال دیا جائے جہاں پانی نہیں اور جہاں مٹی کا ایک ذرہ نہیں اس کے لئے بھی بڑھنے کا کچھ نہ کچھ موقع ہو سکتا ہے.اس بلبلے کو بھی کچھ دیر زندہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے جسے سمندر کی ہوائیں ادھر اُدھر لے جاتی ہیں.مگر اس کے لئے تو اتنی بھی امید نہ تھی جتنی بلبلے کے متعلق سمندر کی لہروں میں امید کی جاتی ہے اور اس کے لئے اتنی بھی امید نہ تھی جتنی اس بیج کے متعلق کی جاسکتی ہے جو ایک وسیع ریگستان میں ڈال دیا جائے.پھر کوئی شخص نہ تھا جس سے وہ مشورہ کر سکتا.اور وہ مشورہ کرتا تو کس سے کرتا؟ یہ انسانی آواز نہ تھی کہ اس کے متعلق کسی انسان سے مشورہ لیا جاتا.اگر انسانی آواز ہوتی تو کسی دوسرے سے مشورہ لیا جا سکتا تھا اور کہا جاسکتا تھا کہ ایک انسان نے مجھے یہ بات کہی ہے.تمہارے بھی جذبات چونکہ ایسے ہی ہیں جیسے اس کے.اس لئے مجھے مشورہ دو کہ میں کیا کروں اور کس طرح دنیا کا مقابلہ کروں ؟ مگر یہ آواز خدا کی آواز تھی اس لئے وہ کسی بندے سے مشورہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ کوئی بندہ ایسا تھا جو اسے مشورہ دے سکتا.آنحضرت صلی لی ایم کو بھی جب پہلی دفعہ یہ آواز آئی تو اس وقت آپ کی جو قلبی کیفیت ہوئی اس کا پتہ حدیثوں سے لگتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ اس آواز کے بعد آپ گھر تشریف لائے.آپ بہت گھبرائے ہوئے تھے.جسم کانپ رہا تھا، کندھوں کا گوشت شدت ہیبت سے ہل رہا تھا اور رنگ اڑا ہو ا تھا.آپ کی وفادار بیوی حضرت خدیجہ نے جب آپ کو اس حال میں دیکھا تو انہوں نے گھبرا کر کہا کہ میں آپ کو کس حال میں دیکھتی ہوں ؟ آپ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ رسول کریم صلی الی یکم نے فرمایا خدیجہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیا ہو گیا؟ مجھے یہ آواز آئی ہے اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ - 3 آسمان کے خدا نے مجھے بلایا ہے تا کہ میں اس کے نام کولوں اور اسے دنیا میں پھیلاؤں.میں حیران ہوں کہ میں اس کام کو کس طرح کروں گا؟ خدائی آواز چونکہ اپنے ساتھ یقین کے انوار رکھتی ہے اس لئے رسول کریم صلی ا ل م نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ مجھے بیماری ہو گئی ہے.آپ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کوئی دماغی عارضہ ہے یا بد ہضمی کا نتیجہ ہے بلکہ آپ نے فرمایا کہ یہ ہے تو آسمان کی آواز مگر جو کام میرے سپر د کیا گیا ہے میں حیران ہوں کہ اسے کس طرح کروں گا؟ حضرت خدیجہ آخر
1940 21 خطبات محمود آپ کی صحبت میں ہی رہنے والی تھیں انہوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے اس کا بہت ہی لطیف جواب دیا.وہ ہے تو عورتوں والا جواب مگر بہت ہی ایمان افزا ہے.عورتیں عموماً سامانوں کو نہیں دیکھیں بلکہ ان کا ایمان ایمان العجائز ہوتا ہے.وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ سامان بھی میسر ہیں یا نہیں بلکہ وہ کہتی ہیں کہ کام ہو جائے گا.کس طرح ہو گا اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہو تا.خدیجہ کا جواب بھی ویسا ہی جواب ہے.انہوں نے فرمایا لا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ ابد 41 آپ کیوں گھبراتے ہیں.مجھے خدا کی قسم ہے کہ خدا آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.جب اس نے آپ کے سپر د ایک کام کیا ہے تو وہ خود آپ کی مدد کرے گا اور آپ کی کامیابی کے لئے سامان مہیا کرے گا.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ فقرہ تاریخ میں محفوظ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ یہی نہیں کہ تاریخ میں محفوظ ہے بلکہ ان فقروں میں سے ہے جن کو تاریخ بھی مٹا نہیں سکتی.كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ آبَدًا.وہی ایمان العجائز ہے ، وہی یقین اور وہی وثوق ہے.بغیر اس کے کہ وہ عواقب کو دیکھتیں، بغیر اس کے کہ وہ سامانوں پر نظر دوڑا تھیں.پس اس واقعہ سے رسول کریم صلی ال نیم کی قلبی کیفیت کا کسی قدر اندازہ ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی الہامات نازل ہوئے کہ اٹھو اور دنیا کو میری طرف بلاؤ اور دنیا میں پھر میرے دین کو قائم کرو.ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہی کیفیت آپ کی بھی ہوئی ہو گی.آپ بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ کہاں میں اور کہاں یہ کام.قادیان جیسی جگہ میں ، میرے جیسے انسان کو آج خدا یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا، مہذب دنیا، طاقتور دنیا، سامانوں والی دنیا مجھ سے دور پڑی ہوئی ہے، اتنی دور کہ دنیا اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی.جاؤ اور ان گناہ کے قلعوں کو پاش پاش کر دو جو اسلام کے مقابلہ میں بنائے گئے ہیں.اور جاؤ اور ان شیطانی حکومتوں کو مٹا دو جو میری حکومت کے مقابلہ میں قائم کی گئی ہیں اور ان تمام بے دینی کے قلعوں اور شیطانی حکومتوں کی جگہ میری حکومت اور دین کی بادشاہت قائم کرو.اگر کوئی شخص دور بین نگاہ رکھتا ہے ، اگر کوئی شخص حقیقت کو سمجھ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا جیسے کسی کو چاند دکھایا جائے اور کہا جائے کہ جاؤ اور اس چاند کو جاکر
$1940 22 خطبات محمود توڑ ڈالو.وہ تو وہاں جا بھی نہیں سکتا پھر اس سے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کو توڑ ڈالے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تو وہاں پہنچ بھی نہ تھی جہاں خدا آپ کو پہنچانا چاہتا تھا.بھلا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ امر تسر کے لوگوں تک ہی اپنی آواز پہنچا سکتے یالا ہور، بمبئی اور کلکتہ کے لوگوں تک یہ الہی پیغام پہنچاسکتے.یا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ عرب کے لوگوں کو بیدار کر سکتے.یا آپ انگلستان اور امریکہ تک اپنی اواز پہنچا سکتے ؟ ہزاروں آوازیں دنیا میں گونج رہی تھیں، ہزاروں قومیں دنیا میں موجو د تھیں، بیسیوں حکومتیں دنیا میں پائی جاتی تھیں جن کی نگاہ میں حضرت مسیح موعود به الصلوۃ والسلام کی اتنی بھی تو عزت نہ تھی جتنی دنیاوی حکومت کے سیکر ٹریٹ کے چپڑاسی کی ہوتی ہے مگر خدا نے کہا اُٹھ اور دنیا کو میر اپیغام پہنچا دے اور اس نے کہا اے میرے رب ! میں حاضر ہوں.اس نے یہ بھی تو نہیں سوچا کہ یہ کام کیونکر ہو گا؟ اس کا جسم کانپا ہو گا، یقیناً اس کے دل پر رعشہ طاری ہوا ہو گا.یقیناًوہ حیران ہوا ہو گا، یقیناً.مگر اس نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کام کیونکر اور کس طرح ہو گا.اس کے دل کے تقویٰ اور محبت الہی نے اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس کے جذبۂ فدائیت نے یہ پوچھنے ہی نہیں دیا کہ اے میرے رب ! یہ کس طرح ہو گا؟ اس نے پہلے کہا ہاں اے میرے رب! میں حاضر ہوں اور پھر اس نے سوچا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں یہ کام کس طرح ہو گا؟ یہی وہ حقیقی اطاعت کا جوش ہے جو لبیک پہلے کہلوا دیتا ہے اور فکر پیچھے پید اہوتا ہے.صحابہ کی مجلس کا ہی ایک واقعہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں سچی محبت ہوتی ہے وہاں تعمیل پہلے ہوتی اور فکر بعد میں پیدا ہوتا ہے.اہل عرب شراب کے سخت عادی تھے.ایسے عادی کہ بہت کم لوگ ان کی طرح شراب کے عادی ہوتے ہیں.ان کا تمام لٹریچر ، شعر ، نثر اور خطبے شراب کے ذکر سے بھرے ہوئے ہوتے تھے.مسلمان بھی چونکہ انہی میں سے آئے تھے اس لئے ان میں بھی وہی عادتیں تھیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت شروع میں شراب حرام نہیں کی.مکہ کا سارا زمانہ گزر گیا اور شراب حلال رہی.مدینہ میں بھی چند سال اسی طرح گزر گئے اور شراب کی حرمت نہ ہوئی.یہاں تک کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے
$1940 23 خطبات محمود ها الله رسول کریم صلی الم سے فرمایا کہ اب شراب حرام کی جاتی ہے.آپ مسجد میں آئے اور جو لوگ اُس وقت موجود تھے ان سے کہا کہ اب خدا نے شراب حرام کر دی ہے اور ایک شخص سے کہا کہ جاؤ مدینہ کی گلیوں میں شراب کی حرمت کا اعلان کر دو.اُس وقت مدینہ میں ایک خوشی کی مجلس منعقد ہو رہی تھی اور حسب دستور اس مجلس میں شراب کے مٹکے رکھے ہوئے تھے.لوگ باتیں کرتے ، گاتے بجاتے اور شر اہیں پیتے جاتے تھے.ایک بہت بڑا مٹکا وہ ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے شراب کے ابھی باقی تھے.تم سمجھ سکتے ہو کہ جہاں شراب کا ایک مٹکا ختم ہو چکا ہو وہاں دماغوں کی کیا کیفیت ہو گی ؟ اُس وقت وہ لوگ نشہ میں آئے ہوئے تھے اور ان کے ہوش و حواس بہت کچھ زائل ہو چکے تھے کہ بازار میں سے اس شخص کی یہ آواز آئی کہ محمد صلی نی نی نے شراب حرام کر دی ہے.انہی شراب سے مدہوش لوگوں میں سے ایک شخص گھبرا کر اٹھا اور کہنے لگا میرے کان میں ایک آواز آئی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علیم نے شراب حرام کر دی ہے.میں باہر نکل کر دیکھوں تو سہی یہ آواز کیسی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر اتنے پر ہی بس ہو جاتی تو یہ رسول کریم صلی علیم کی اس محبت کا جو صحابہ کے دلوں میں تھی معجزانہ نمونہ ہو تا.شراب کے نشہ میں بھلا کون دیکھتا ہے کہ کیسی آواز آرہی ہے !عام حالات میں تو وہ ہنتے اور کہتے کہ شراب کو کون حرام کر سکتا ہے؟ پس اگر بات یہیں تک رہتی تب بھی یہ رسول کریم صلی ال نیم کی محبت کا ایک معجز نما ثبوت ہوتی مگر اسی پر بس نہیں.جب اس نے یہ کہا کہ میں دیکھوں تو سہی یہ آواز کیسی آرہی ہے تو ایک اور آدمی جو شراب کے نشہ میں مست بیٹھا ہوا تھا اور شراب پی پی کر اس کے دماغ میں نشہ غالب آرہا تھا یکدم اس حالت سے بیدار ہوا اور بولا کیا کہا تم نے ؟ ہمارے کان میں آواز پڑتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علیم نے شراب حرام کر دی اور تم کہتے ہو تحقیق کرو اس کی بات کہاں تک سچ ہے.خدا کی قسم ! میں ایسا نہیں کروں گا میں پہلے شراب کا مٹکہ توڑوں گا بعد میں پوچھوں گا.یہ کہہ کر اس نے سونٹا پکڑ کر زور سے مٹکوں کو مارا اور انہیں توڑ دیا اور شراب صحن میں پانی کی طرح بہنے لگی.اس کے بعد اس نے دروازہ کھول کر اعلان کرنے والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ مجھے رسول کریم صلی الم نے حکم دیا ہے کہ اعلان کر دوں کہ شراب حرام کر دی گئی ہے.اس نے کہا ہم تو پہلے ہی شراب کے مٹکے توڑ چکے الله سة
خطبات محمود ہیں.5 24 $ 1940 خدا کی رحمتیں ہوں اس شخص پر اس نے عشق کا ایک ایسا نمونہ قائم کیا کہ قیس اور مجنوں کا عشق اگر اس میں کوئی حقیقت تھی بھی اس کے عشق کے مقابل پر مرجھا کر رہ جاتا ہے.اس حقیقی محبت کے مظاہرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دلیلیں نہیں پوچھی جاتیں.وہاں انسان پہلے اطاعت کا اعلان کرتا ہے پھر یہ سوچتا ہے کہ میں اس حکم پر کس طرح عمل کروں.یہی کیفیات انبیاء کی ہوتی ہیں.جب اللہ تعالیٰ کا پہلا کلام اترتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں اتنی ہوتی ہے اتنی ہوتی ہے کہ وہ دلیل بازی نہیں کرتے اور جب خدا کی آواز ان کے کانوں میں پہنچتی ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ اے ہمارے رب! کیا تو ہم سے ہنسی کر رہا ہے ؟ کہاں ہم اور کہاں یہ کام.بلکہ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! بہت اچھا اور یہ کہہ کر کام کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سوچتے ہیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے.یہی آنحضرت صلی ا م نے کیا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رات کیا.خدا نے کہا اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو اور وہ فوراً کھڑے ہو گئے اور پھر سوچنے لگے کہ اب میں یہ کام کس طرح کروں گا؟ پس آج سے پچاس سال پہلے کی وہ تاریخی رات جو دنیا کے آئندہ انقلابات کے لئے زبر دست حربہ ثابت ہونے والی ہے، جو آئندہ بننے والی نئی دنیا کے لئے ابتدائی رات اور ابتدائی دن قرار دی جانے والی ہے اگر ہم اس رات کا نظارہ سوچیں تو یقینا ہمارے دل اس خوشی کو بالکل اور نگاہ سے دیکھیں.ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ خوشی انہیں کس گھڑی کے نتیجہ میں ملی، یہ مسرت انہیں کس پل کے نتیجہ میں حاصل ہوئی اور کس رات کے بعد ان پر کامیابی و کامرانی کا یہ دن چڑھا.یہ خوشی اور یہ مسرت اور یہ کامیابی و کامرانی کا دن ان کو اس گھڑی اور اس رات کے نتیجہ میں ملا جس میں ایک تن تنہا بندہ جو دنیا کی نظروں میں حقیر اور تمام دنیوی سامانوں سے محروم تھا اسے خدا نے کہا کہ اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو.اور اس نے کہا اے میرے رب! میں کھڑا ہو گیا.یہ وہ وفاداری تھی ، یہ وہ محبت کا صحیح مظاہرہ تھا جسے خدا نے قبول کیا اور اس نے اپنے فضل اور رحم سے اس کو نوازا.رونا اور ہنسنا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی
$1940 25 خطبات محمود شان سے بعید ہیں لیکن محبت کی گفتگو میں اور محبت کے کلاموں میں یہ باتیں آہی جاتی ہیں.پس میں کہتا ہوں اگر خدا کے لئے بھی رونا ممکن ہو تا، اگر خدا کے لئے بھی ہنسنا ممکن ہو تا تو جس وقت خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ میں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کر تاہوں اور آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے یہ سوچاتک نہیں کہ یہ کام مجھ سے ہو گا کیونکر؟ اگر اس وقت خدا کے لئے رونا ممکن ہو تا تو میں یقینا جانتا ہوں کہ خدارو پڑتا اور اگر خدا کے لئے ہنسنا ممکن ہوتا تو وہ یقینا ہنس پڑتا.وہ ہنستا بظاہر اس بے وقوفی کے دعوے پر جو تمام دنیا کے مقابلہ میں ایک نحیف و ناتواں وجو د نے کیا اور وہ رو پڑتا اس جذبۂ محبت پر جو اس تن تنہا روح نے خدا کے لئے ظاہر کیا.یہی سچی دوستی تھی جو خدا کو منظور ہوئی اور اسی رنگ کی سچی دوستی ہی ہوتی ہے جو دنیا میں کام آیا کرتی ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہی یہ واقعہ سنا ہوا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ یہ نصیحت کیا کرتا تھا کہ تم جلدی لوگوں کو دوست بنالیتے ہو یہ کوئی اچھی بات نہیں.سچے دوست کا ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ کہتا کہ آپ کو غلطی لگی ہوئی ہے میرے دوست سب بچے ہیں اور خواہ مجھ پر کیسی ہی مصیبت کا وقت آئے یہ میری مدد سے گریز نہیں کریں گے.اس نے بہتیرا سمجھایا مگر بیٹے پر کوئی اثر نہ ہوا.باپ نے کہا کہ میں ساٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ گیا مگر مجھے تو اب تک صرف ایک ہی دوست ملا ہے اور وہ بھی فلاں غریب شخص جسے اس کا بیٹا حقارت سے دیکھا کرتا تھا اور اپنے باپ سے کہا کرتا کہ آپ اتنے بڑے ہو کر اس سپاہی سے کیوں محبت رکھتے ہو ؟ اور باپ ہمیشہ یہی کہتا کہ مجھے تمام عمر میں اگر کوئی سچا دوست ملا ہے تو یہی ہے.آخر ایک دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم میری بات نہیں مانتے تو تجربہ کر لو اور اپنے دوستوں سے جا کر کہو کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے.میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں، میرے لئے رہائش اور خوراک کا انتظام کر دو.اس نے کہا بہت اچھا.چنانچہ وہ ایک ایک کے پاس گیا.مگر جس دوست کے پاس بھی جاتا وہ پہلے تو کہتا کہ آپ نے بڑی عزت افزائی فرمائی سنائیے آپ کا کیسے آنا ہوا؟ اور جب یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے اب میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ میری رہائش وغیرہ کا انتظام کر دیں تو
* 1940 26 خطبات محمود وہ یہ سنتے ہی کوئی بہانہ بنا کر اندر چلا جاتا.غرض اسی طرح اس نے سارے دوستوں کا چکر لگالیا اور آخر باپ کے پاس آکر کہا کہ آپ کی بات ٹھیک نکلی.میرے دوستوں میں سے ایک بھی تو نہیں جس نے مجھے منہ لگایا ہو.باپ نے کہا اچھا تم نے اپنے دوستوں کا تو تجربہ کر لیا اب آج کی رات میرے دوست کا بھی تجربہ کر لینا.چونکہ وہ امیر آدمی تھا اس لئے وہ اپنے دوست کے مکان پر نہیں جایا کرتا تھا اکثر وہی اس کے مکان پر آجاتا مگر اس رات وہ اچانک بیٹے کو ساتھ لے کر اپنے دوست کے مکان پر گیا اور دروازہ پر دستک دی.آدھی رات کا وقت تھا اس نے پوچھا کون؟ اس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں.وہ کہنے لگا بہت اچھا ذرا ٹھہریئے میں آتا ہوں.یہ باہر انتظار کرنے لگ گئے مگر کافی وقت گزر گیا اور وہ اندر سے نہ نکلا.یہ دیکھ کر بیٹا کہنے لگا جناب ! آپ کا دوست بھی آخر ویسا ہی نکلا.باپ کہنے لگا ذرا ٹھہر وہ مایوس نہ ہو دیر لگانے کی کوئی وجہ ہو گی.آخر کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہ دوست باہر نکلا.اس کی حالت یہ تھی کہ اس نے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور کہنے لگا معاف کیجئے مجھے دیر ہو گئی.اصل بات یہ ہے کہ جب مجھے آپ کی آواز آئی تو میں نے سمجھا کہ ضرور کوئی بڑا کام ہے جس کے لئے آپ رات کو میرے پاس آئے ہیں.میں نے سوچا کہ آخر آپ کو مجھ سے اس وقت کیا کام ہو سکتا ہے؟ اور میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں مصیبتیں آتی رہتی ہیں اور بعض دفعہ بڑے بڑے امیر آدمی بھی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں.پس میں نے سمجھا کہ شاید کوئی بیمار ہے جس کی خدمت کے لئے مجھے بلایا ہے اس لئے میں نے فوراً اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ میرے ساتھ چل ممکن ہے کسی خدمت کی ضرورت ہو.پھر میں نے سوچا ممکن ہے کسی دشمن سے مقابلہ ہو جس میں میری جان کی ضرورت ہو سو اس خیال کے آنے پر میں نے تلوار نکال کر گلے میں لٹکالی کہ اگر جانی قربانی کی ضرورت ہو تو میں اس کے لئے بھی حاضر ہوں.پھر میں نے سوچا کہ آپ امیر تو ہیں ہی مگر بعض دفعہ امراء پر بھی ایسے اوقات آجاتے ہیں کہ وہ روپوں کے محتاج ہو جاتے ہیں.پس میں نے سوچا کہ شاید اس وقت آپ کو روپوں کی ضرورت ہو میں نے ساری عمر تھوڑا تھوڑا جمع کر کے کچھ روپیہ حفاظت سے رکھا ہوا تھا اور اسے زمین میں ایک طرف دبا دیا تھا اس خیال کے
1940 27 خطبات محمود آنے پر میں نے زمین کو کھود کر اس میں سے تھیلی نکالی اور اب یہ تینوں چیزیں حاضر ہیں.فرمائیے آپ کا کیا ارشاد ہے ؟ دنیا کی زبان میں یہ دوستی کی نہایت ہی شاندار مثال ہے اور انسان ایسے جذبات کو دیکھ کر بغیر اس کے کہ وہ اپنے دل میں شدید ہیجان محسوس کرے نہیں رہ سکتا.مگر اس دوستی کا اظہار اس دوستی کے مقابلہ میں کچھ بھی تو نہیں جو نبی اپنے خدا کے لئے ظاہر کرتے ہیں.وہاں قدم قدم پر مشکلات ہوتی ہیں.وہاں قدم قدم پر قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں اور وہاں قدم قدم پر مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے.پس نبیوں کا جواب اپنے خدا کو ویسا ہی ہو تا ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر جیسے اس غریب آدمی نے امیر آدمی کو دیا.بیشک اگر ہم معقولات کی نظر سے اس کو دیکھیں اور منطقی نقطہ نگاہ سے اس پر غور کریں تو اس غریب آدمی کی یہ حرکت ہنسی کے قابل نظر آتی ہے کیونکہ اس امیر کے ہزاروں نوکر چاکر تھے.ان کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی نے کیا زائد خدمت کر لینی تھی؟ اسی طرح وہ لاکھوں کا مالک تھا اس کو سو ڈیڑھ سو روپیہ کی تحصیلی کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی؟ اور خود اس کے کئی پہرہ دار اور محافظ تھے اس کو اس دوست کی تلوار کیا نفع پہنچا سکتی تھی ؟ مگر محبت کے جوش میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ میری تلوار کیا کام دے گی، میرا تھوڑا سا روپیہ کیا فائدہ دے گا اور میری بیوی کیا خدمت سر انجام دے سکے گی؟ اس نے اتنا ہی سوچا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ مجھے حاضر کر دینا چاہئے.ایسے ہی بے وقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے.کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں.مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنے زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک رات ہم سب صحن میں سو رہے تھے گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گر جنے لگا.اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے.ہمارے مدرسہ میں ہی ایک واقعہ ہوا جس کو یاد کر کے لڑکے مدتوں ہنستے رہے اور وہ یہ کہ فخر دین ملتانی جو
$1940 28 خطبات محمود بعد میں مرتد ہو گیا وہ اس وقت طالب علم تھا اور بورڈنگ ہاؤس میں رہا کر تا تھا.جب بجلی کی زور سے کڑک ہوئی تو اس نے اپنے متعلق سمجھا کہ بجلی شاید اس پر گری ہے اور وہ ڈر کے مارے چار پائی کے نیچے چھپ گیا اور زور زور سے آواز دینے لگا کہ بلی بلی.بجلی کا لفظ اس کے منہ - نکلتا ہی نہیں تھا.ڈر کے مارے بلی بلی کہنے لگ گیا.پہلے تو سارے ہی لڑکے بھاگ کر کمروں میں چلے گئے مگر پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے تو اسے چار پائی کے نیچے چھپا ہوا پایا اور دیکھا کہ وہ بلی بلی کر رہا ہے.آخر پوچھا تو اس کے ہوش ٹھکانے آئے اور کہنے لگا مجھ پر بجلی گر پڑی ہے.تو وہ اتنی زور کی کڑک تھی کہ ہر شخص نے یہ سمجھا کہ اس کے قریب بجلی گری ہے.اس کڑک کی وجہ سے اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے.جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اس وقت ہم بھی جو صحن میں سورہے تھے اٹھ کر اندر چلے گئے.مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے ان پر نہ گرے.بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے.میں سمجھتا ہوں میری وہ حرکت ایک مجنون کی حرکت سے کم نہیں تھی مگر مجھے ہمیشہ خوشی ہوا کرتی ہے کہ اس واقعہ نے مجھ پر بھی اس محبت کو ظاہر کر دیا جو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھی.بسا اوقات انسان خود بھی نہیں جانتا کہ مجھے دوسرے سے کتنی محبت ہے.جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہو تو اسے بھی اپنی محبت کی وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے.تو جس وقت محبت کا انتہائی جوش اٹھتا ہے عقل اس وقت کام نہیں کرتی.محبت پرے پھینک دیتی ہے عقل کو، اور محبت پرے پھینک دیتی ہے فکر کو اور وہ آپ سامنے آجاتی ہے.جس طرح چیل جب مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے تو مرغی بچوں کو جمع کر کے اپنے پروں کے نیچے چھپالیتی ہے اور بعض دفعہ تو محبت ایسی ایسی حرکات کرا دیتی ہے کہ دنیا اسے پاگل پنے کی حرکات قرار دیتی ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جنون دنیا کی ساری عقلوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور دنیا کی ساری عقلیں اس ایک مجنونانہ حرکت پر قربان کی جاسکتی ہیں کیونکہ اصل عقل وہی ہے جو محبت سے پیدا ہوتی ہے.نبی کو بھی جب آواز آتی ہے کہ خدا
1940 29 خطبات محمود زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا، خدا عزت و شوکت کو پیدا کرنے والا خدا، بادشاہوں کو گرا اور گداؤں کو بادشاہ بنانے والا خدا، حکومتوں کو قائم کرنے اور حکومتوں کو مٹانے والا خدا، دولتوں کے دینے اور دولتوں کو لے لینے والا خدا، رزق کے دینے اور رزق کو چھیننے والا خدا، زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ اور کائنات کا مالک خدا آواز دیتا ہے ایک کمزور ناتوان اور نحیف انسان کو کہ میں مد د کا محتاج ہوں میری مدد کرو.تو وہ کمزور اور ناتوان اور نحیف بندہ عقل سے کام نہیں لیتا وہ یہ نہیں کہتا کہ حضور کیا فرمارہے ہیں ؟ کیا حضور مدد کے محتاج ہیں؟ حضور تو زمین و آسمان کے بادشاہ ہیں.میں کنگال، غریب اور کمزور آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ وہ یہ نہیں کہتا بلکہ وہ نحیف و نزار اور کمزور جسم کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں.کون ہے جو ان جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کر سکتا ہے ؟ سوائے اس کے جسے محبت کی چاشنی سے تھوڑا بہت حصہ ملا ہو.آج سے پچاس سال پہلے اسی خدا نے پھر یہ آواز بلند کی اور قادیان کے گوشئہ تنہائی میں پڑے ہوئے ایک انسان سے کہا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے.مجھے دنیا میں ذلیل کر دیا گیا ہے، میری دنیا میں کوئی عزت نہیں، میرا دنیا میں کوئی نام لیوا نہیں، میں بے یار ومدد گار ہوں اے میرے بندے میری مدد کر.اس نے یہ نہیں سوچا کہ کہنے والا کون ہے اور جس سے خطاب کیا جاتا ہے وہ کون ہے.اس کی عقل نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بلانے والے کے پاس تمام طاقتیں ہیں میں بھلا اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ اس کی محبت نے اس کے دل میں ایک آگ لگا دی اور وہ دیوانہ وار جوش میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میرے رب ! میں حاضر ہوں.میرے رب میں حاضر ہوں، میرے رب میں بچاؤں گا، میرے رب ! میں بچاؤں گا.یہی تو وہ ساعت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شهر - 6 اس رات پر ہزاروں راتیں قربان ہیں اور چونکہ بار بار ایسی راتیں آجاتی ہیں اس لئے خدا نے خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرِ کہا.ورنہ اگر ایک ہی رات ہوتی تو دنیا کی ساری راتیں اس ایک رات، اس ایک گھنٹے ، اس ایک منٹ اور اس ایک سیکنڈ پر قربان کی جاسکتی ہیں.جب ایک کمزور بندہ اپنی محبت کے جوش میں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر عواقب پر غور کئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا
1940 30 خطبات محمود اور خدا کے ارد گرد پہرہ دینے لگ جاتا ہے.وہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوتا ہے جب قادر و قدیر خدا جب زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا ایک نحیف و نزار جسم کے ساتھ چار پائی پر لیٹا ہوا ہوتا ہے اور ایک نحیف و نزار انسان جو اپنی کمر بھی سیدھی نہیں کر سکتا وہ تلوار لے کر اس کے ارد گرد پہرہ دے رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے میں اسے بچاؤں گا میں اسے بچاؤں گا.اس سے زیادہ محبت کا شاندار نظارہ کبھی نظر نہیں آسکتا اور کبھی نظر نہیں آسکتا.یہی رات ہمارے زمانہ میں بھی آئی اور خدائے قادر نے آواز دی کہ کوئی بندہ ہے جو مجھے بچائے.تب زمین کے گوشوں میں سے ایک کمزور شخص آگے بڑھا اور اس نے کہا اے میرے رب! میں حاضر ہوں.عظمند انسان چاہے اسے بے وقوفی قرار دیں اور فلاسفر چاہے اسے نادانی قرار دیں مگر جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ہزاروں عقلیں اس بیوقوفی پر قربان کی جاسکتی ہیں اور ہزاروں فلسفے کے خیالات اس بظاہر نادانی کے خیال پر قربان کئے جاسکتے ہیں.پھر اس کا وہ اعلان محض وقتی اعلان نہ تھا.اس کا اظہار محبت ایک وقتی جوش نہ تھا.وہ کھڑا ہو گیا اور کھڑا ہی رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے مقصود کو حاصل کر لیا.کیا تم نے کبھی گھروں میں نہیں دیکھا کہ وہاں بعض دفعہ کیا تماشہ ہوا کرتا ہے ؟ میں نے تو اس قسم کا تماشہ کئی دفعہ دیکھا اور میں سمجھتا ہوں ہر گھر میں کبھی نہ کبھی ایسا ہو جاتا ہو گا کہ کبھی کبھی مائیں ہنسی کے طور پر کپڑا منہ میں ڈال کر رونے لگ جاتی ہیں اور اوں اوں کرتے ہوئے اپنے کسی بڑے بھائی یا خاوند یا کسی دوسرے عزیز رشتہ دار کا نام لے کر بچے سے کہتی ہیں کہ وہ مجھے مارتے ہیں.یہ دیکھ کر وہ ڈیڑھ سال کا بچہ گود کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا ہاتھ اٹھالیتا ہے.گویاوہ اس شخص کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جس کے متعلق اس کی ماں کہتی ہے کہ وہ مجھے مارتا ہے.حالانکہ ماں کو بچانا تو الگ رہا بعض دفعہ وہ اپنا ہاتھ بھی اچھی طرح نہیں اٹھا سکتا مگر جانتے ہو یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ بچہ یہ نہیں دیکھتا میں کمزور اور ناتواں ہوں بلکہ ماں جب اسے آواز دیتی ہے تو وہ اپنی کمزور حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.یہی حالت اس رات، اس گھڑی، اس سیکنڈ اور اس پل میں نبیوں کی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے اے میرے بندے ! مجھے دنیا نے دھتکار دیا اور مجھے اپنے گھر سے نکال دیا کوئی ہے جو مجھے بچائے
1940 31 خطبات محمود اور وہ ناتواں اور نحیف بندہ چھوٹے سے نادان بچے کی طرح مٹھیاں بھینچ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں بچاؤں گا، میں بچاؤں گا.پھر وہ صرف کہتا ہی نہیں بلکہ اس کو بچانے میں لگ جاتا ہے.اس بچہ کا تو عشق کامل نہیں ہو تا.اگر واقع میں جو شخص ہنسی کر رہا ہوتا ہے وہ اس بچے کو تھپڑ مارے تو اس نے ماں کو تو کیا بچانا ہے وہ خود ماں سے لپٹ جائے گا اور دوڑ کر اس کی گود میں چلا جائے گا.مگر یہ شخص ایسا ہوتا ہے کہ دنیا اسے مارتی ہے ، ہاتھوں سے بھی اور لاتوں سے بھی اور دانتوں سے بھی اور چاروں طرف سے اس پر لعنت اور پھٹکار ڈالی جاتی ہے مگر وہ اپنے جسم کو ہلا تا نہیں ، وہ چیختا نہیں، وہ چلاتا نہیں بلکہ برابر مقابلہ کئے جاتا ہے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہونے لگتی ہیں اور ایک ایک کر کے ، ایک ایک کر کے بندوں کو وہ خدا تعالیٰ کے دربار میں لانا شروع کر دیتا ہے.وہ کمزور باز و طاقت پکڑنے لگ جاتے ہیں ، وہ لڑکھڑانے والی زبان مضبوط ہونے لگ جاتی ہے ، وہ دبی ہوئی آواز طاقت و قوت پکڑتی جاتی ہے اور وہ نہایت ہی ذلیل نظر آنے والا وجو د اپنے اندر ایسی ہیبت پیدا کر لیتا ہے کہ لوگ اس سے کانپنے اور اس کے سامنے کھڑ ا ہونے سے لرزتے ہیں.اور وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے، کرتا چلا جاتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ایک جماعت کو لا ڈالتا ہے اور زمین و آسمان کا خدا جسے لوگوں نے اپنے گھروں میں سے نکال دیا تھا اس کے لئے نئے نئے محلات بننے لگ جاتے ہیں.کوئی یہاں، کوئی وہاں، کوئی ادھر ، کوئی اُدھر اور وہ خدا جو مسیح کی طرح اپنے نبی کو یہ آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندے ! لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر میرے لئے تو سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں.اس کے لئے وہ سب سے پہلے اپنے دل کا دروازہ کھول دیتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب ! یہ گھر حاضر ہے.پھر وہ اور گھروں کے تالے کھولتا ہے اور دیوانہ وار اور مجنونانہ وار کھولتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک گھر کی بجائے خدا کے کئی گھر ہو جاتے ہیں اور خدا کی حکومت زمین پر اسی طرح قائم ہو جاتی ہے جس طرح وہ آسمان پر قائم ہے.پھر یہ سلسلہ بڑھتا جاتا ہے، بڑھتا جاتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب خدا اپنے بندے سے کہتا ہے کہ میرے بندے تو نے بہت خدمت کر لی اور میں سمجھتا ہوں تو نے اپنی خدمت کا حق ادا کر دیا.پس جس طرح تو نے اپنے دل کو میرے لئے
1940 32 خطبات محمود کھولا تھا اور اپنے دل کو میر ا گھر بنایا تھا اسی طرح آج میں تجھ کو اپنے گھر میں بلاتا ہوں آ اور ا میرے پاس بیٹھ.پس خدا اس کو اپنے پاس بلالیتا اور وہ دنیا کی تکلیفوں اور شورشوں سے آزاد ہو جاتا ہے.اس نبی کے بلائے جانے کے بعد دنیا میں جو بیج بوئے ہوئے ہوتے ہیں وہ پھر نئی جد وجہد شروع کر دیتے ہیں.نبوت خلافت کا جامہ پہن لیتی ہے اور خلافت کے ذریعہ پھر خدا کے لئے نئے قلوب کی فتح شروع ہو جاتی ہے.یہی اس زمانہ میں ہوا اور جب ہم نے ایک جشن منایا، ایک خوشی کی تقریب سرانجام دی تو کسان کی زبان میں ہم نے یہ کہا کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی مگر کیا جانتے ہو کہ دوسرے لفظوں میں ہم نے کیا کہا؟ دوسرے لفظوں میں ہم نے یہ کہا کہ آج سے پچاس سال پہلے جو ایک بیج بویا گیا تھا اس بیچ کی فصل ہم نے کاٹ لی.اب ہم ان بیجوں سے جو پہلی فصل سے تیار ہوئے تھے ایک نئی فصل بونے لگے ہیں.اس عظیم الشان کام کے آغاز کے بعد تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پر کتنی عظیم الشان ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں.تم نے اب اپنے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ جس طرح ایک بیج بڑھ کر اتنی بڑی فصل ہو گیا اسی طرح اب تم ان بیجوں کو بڑھاؤ گے جو اس فصل پر تم نے بوئے ہیں اور اسی رنگ میں بڑھاؤ گے جس رنگ میں پہلی فصل بڑھی.پس ہم نے جشن مسرت منا کر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جس طرح ایک بیج سے لاکھوں نئے بیج پیدا ہو گئے تھے اسی طرح اب ہم ان لاکھوں بیجوں کو از سر نو زمین میں ہوتے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ پچھلے پچیس یا پچاس سال میں جس طرح سلسلہ نے ترقی کی ہے اسی طرح اتنے ہی گھنے اگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم آج کی جماعت کو بڑھا دیں گے.یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں جو تم نے اپنے اوپر عائد کی.گزشتہ پچاس سال میں ایک بیج سے لاکھوں بیج بنے تھے.اب جب تک اگلے پچاس سال میں ان لاکھوں سے کروڑوں نہیں بنیں گے اس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں سمجھے جائیں گے.اگر ہم جشن نہ مناتے ، اگر ہم یہ نہ کہتے کہ الْحَمْدُ لِلہ کہنے کا زمانہ آگیا تو ہم إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کا زمانہ بھی پیچھے ڈال سکتے تھے مگر جب ہم نے جشن منالیا اور پہلی فصل کاٹ لی تو بالفاظ دیگر ہم نے دوسری فصل کو بو دیا اور ہمارا کام از سر نو شروع ہو گیا اور جبکہ ایک بیج سے اتنے
خطبات محمود 33 $1940 دانے نکلے تھے تو کیا اب ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان بیجوں کو اتنے گنے بڑھائیں جتنے گئے وہ ایک بیج بڑھا اور پھولا اور پھلا.پس یقینا اس جشن کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے کیونکہ کیا بلحاظ جانی قربانیوں کے ، کیا بلحاظ مالی قربانیوں کے ، کیا بلحاظ علمی ترقیات کے ، کیا بلحاظ تبلیغ کے ، کیا بلحاظ تعلیم و تربیت کے اور کیا بلحاظ کثرت تعداد اور زیادتِ نفوس کے ، غرض ہر رنگ میں ہم نے پہلی فصل کے کاٹنے اور دوسری فصل کے بونے کا اعلان کیا ہے مگر پہلی فصل صرف ایک بیج سے شروع ہوئی تھی اور اس دوسری فصل کی ابتد الا کھوں بیجوں سے ہوتی ہے.اس لئے جب تک ہم یہ ارادہ نہ کر لیں کہ ان لاکھوں بیجوں کو اتنی ہی تعداد سے ضرب دیں گے جتنی تعداد سے اس ایک بیج نے ضرب کھائی تھی اُس وقت تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا ہے.مالی لحاظ سے وہ فصل خالی خزانے سے شروع ہوئی تھی اور لاکھوں تک پہنچ گئی.مگر یہ فصل اب لاکھوں سے شروع ہوئی ہے.اسی طرح وہ فصل ایک کلمہ سے شروع ہوئی تھی اور سینکڑوں کتابوں تک پہنچ گئی اور یہ فصل سینکڑوں کتابوں سے شروع ہوئی ہے.پس جب تک اب لاکھوں روپیہ سے کروڑوں روپیہ اور سینکڑوں کتابوں سے ہزاروں اور لاکھوں کتا ہیں نہ بن جائیں اُس وقت تک ہمارا کام ختم نہیں ہو سکتا.غرض اس جشن کے منانے سے ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی اور نئے سرے سے اس سے حاصل شدہ بیجوں کو زمین میں ڈال دیا.میر ا تو جسم کا ذرہ ذرہ کانپ جاتا ہے جب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کتنی اہم ذمہ داری ہے جو جماعت نے اپنے اوپر عائد کی.اگر ہم پہلی فصل نہ کاٹتے تو ہماری ذمہ داریاں کم رہتیں مگر جب ہم نے اس فصل کو کاٹ کر الْحَمْدُ للہ کہا تو ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سامان بھی ہمیں مہیا کرنا پڑا.پس میں جماعت کے دوستوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس جلسہ کے نتیجہ میں ہم نے لاکھوں نئے بیج زمین میں بو دیئے ہیں.اب ہمارا فرض ہے کہ اگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم جماعت میں حیرت انگیز طور پر تغیر پیدا کریں.کیا بلحاظ آدمیوں کی تعداد کے اور کیا بلحاظ مالی قربانی کے اور کیا بلحاظ تبلیغ کے اور کیا بلحاظ تربیت کے اور کیا بلحاظ تعلیم کے.آج سے مثلاً پچیس یا پچاس سال کے بعد اگر ہم نئی فصل کے ویسے ہی شاندار نتائج
* 1940 34 خطبات محمود نہ دکھائیں جیسے پہلی پچاس سالہ فصل کے نتائج نکلے تو ہماری الْحَمْد بے معنی اور ہماری إِيَّاكَ فن نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن جھوٹی ہو جاتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس جلسہ کے بعد ان کو اپنی نئی ذمہ داریاں بہت جوش اور توجہ کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں.اب ہماری پہلی فصل کے جو نتائج رونما ہوئے ہیں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم سے کم اتنے ہی گئے نتائج نئی فصل کے ضرور رو نما کر دیں اور اگر پہلے ایک سے لاکھوں ہوئے تو آج سے پچاس سال کے بعد وہ کروڑوں ضرور ہو جائیں.اگر آج سے پچیس سال پہلے جماعت دس بارہ گنے بڑھی تھی تو اگلے پچیس سال میں کم سے کم دس بارہ گنے ضرور بڑھ جانی چاہئے مگر یہ کیونکر ہو سکتا ہے جب تک ہر احمدی کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا اور کیا کمزور اور کیا مضبوط اپنے ذمہ یہ فرض عائد نہ کرلے کہ میں احمدیت کی ترقی کے لئے اپنے اوقات صرف کروں گا اور اپنی زندگی کا اولین مقصد اشاعت دین اور اشاعت احمدیت سمجھوں گا.اسی طرح علمی طور پر کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد دین سیکھنے اور دینی باتیں سننے اور پڑھنے کی طرف توجہ نہ کرے.اسی طرح مالی قربانی میں کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت نہ صرف قربانیوں میں بیش از بیش ترقی کر لے بلکہ اپنے اخراجات میں بھی دیانتداری سے کام لے.مال ہمیشہ دونوں طرح سے بڑھتا ہے.زیادہ قربانیوں سے بھی بڑھتا ہے اور زیادہ دیانتداری سے خرچ کرنے سے بھی بڑھتا ہے.رسول کریم ملی ایم نے ایک دفعہ ایک شخص کو ایک دینار دیا اور فرمایا جا کر قربانی کے لئے کوئی عمدہ سابکر الا دو.اس نے کہا بہت اچھا.تھوڑی دیر کے بعد وہ حاضر ہوا اور کہنے لگا یار سول اللہ ! یہ بکر اموجود ہے اور ساتھ ہی اس نے دینار بھی رسول کریم صلی ال نیم کو واپس کر دیا.رسول کریم صلیالی میں حیران ہوئے اور فرمایا یہ کس طرح؟ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ ! مدینہ میں شہر کی وجہ سے چیزیں گراں ملتی ہیں.میں دس بارہ میل باہر نکل گیا.وہاں آدھی قیمت پر بکرے فروخت ہو رہے تھے.میں نے ایک دینار میں دو بکرے لے لئے اور واپس چل پڑا.جب میں آرہا تھا تو راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اسے بکرے پسند آئے اور کہنے لگا اگر فروخت کرنا چاہو تو ایک بکرا مجھے دے دو.میں نے ایک بکرا
1940 35 خطبات محمود ایک دینار میں اسے دے دیا.پس اب بکر ابھی حاضر ہے اور دینار بھی.رسول کریم صلی اللی کم اس سے بہت ہی خوش ہوئے اور آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی کہ خدا تجھے برکت دے.صحابہ کہتے ہیں اس دعا کے نتیجہ میں اسے ایسی برکت ملی کہ اگر وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا بن جاتی اور لوگ بڑے اصرار سے اپنے روپے اسے دیتے اور کہتے کہ یہ روپیہ کہیں تجارت پر لگا دو.7 غرض کروڑوں کروڑ روپیہ اسے آیا.تو اچھی طرح خرچ کرنے سے بھی مال بڑھتا ہے.مال بڑھنے کی صرف یہی صورت نہیں ہوتی کہ ایک کے دو بن جائیں بلکہ اگر تم ایک روپیہ کا کام اٹھنٹی میں کرتے ہو تو بھی تمہارے دو بن جاتے ہیں.بلکہ اگر تم روپیہ کا کام اٹھنی میں کرتے ہو اور ایک روپیہ زائد بھی کمالیتے ہو تو تمہارے دو نہیں بلکہ چار بن جائیں گے.پس صرف یہی کوشش نہیں ہونی چاہئے کہ مالی قربانیوں میں زیادتی ہو بلکہ اخراجات میں کفایت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور میں کارکنوں کو بالخصوص اس طرف توجہ دلا تا ہوں کہ وہ ایک روپیہ کا کام اٹھنٹی میں کرنے کی کوشش کیا کریں.غرض اب جو ہمارے پاس جماعت موجود ہے، اب جو ہمارے پاس روپیہ ہے ، اب جو ہمارے پاس تبلیغی سامان ہیں ، اب جو ہمارے دنیا میں مشن قائم ہیں، اب جو ہماری تعلیم اور اب جو ہماری تربیت ہے ان سب کو نیا بیچ متصور کر کے آئندہ پچاس سال میں ہمیں جماعت کی ترقی کے لئے سر گرم جد و جہد کرنی چاہئے تا کہ آئندہ پچاس سال میں موجودہ حالت سے ہماری تعداد بھی بڑھ جائے ، ہمارا مال بھی بڑھ جائے، ہمار اعلم بھی بڑھ جائے، ہماری تبلیغ بھی بڑھ جائے اور اُسی نسبت سے بڑھے جس نسبت سے وہ پہلے پچاس سال میں بڑھا.اگر ہم اس رنگ میں کوشش نہیں کریں گے تو اُس وقت تک ہماری نئی فصل کبھی کامیاب نہیں کہلا سکتی.مگر یہ کام ویسا ہی ناممکن ہے جیسے آج سے پچاس سال پہلے نظر آتا تھا.پھر اُس وقت خدا کا ایک نبی کھڑا تھا، بیشک اُس وقت کوئی احمدی نہ تھا مگر خدا کا نبی دنیا میں موجود تھا جو اس پیغام کو لے کر دنیا میں کھڑا تھا مگر آج وہ نبی ہم میں موجود نہیں اور اس وجہ سے ہماری آواز میں وہ شوکت نہیں جو اُس کی آواز میں شوکت تھی.پس آج ہمیں اُس سے زیادہ آواز بلند کرنی پڑے گی اور ہمیں اُس سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گے.اس کے لئے دعائیں بھی کر و اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ کو کھٹکھٹاؤ
$1940 36 خطبات محمود اور یادر کھو کہ جب تک جماعت دعاؤں پر یقین رکھے گی، جب تک تم ہر بات میں اللہ تعالیٰ سے امداد کے طالب رہو گے اس وقت تک تمہارے کاموں میں برکت رہے گی.مگر جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ کام تم نے کیا، جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ نتائج تمہاری محنت سے نکلے اور جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ ترقی تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے اس دن تمہارے کاموں سے برکتیں بھی جاتی رہیں گی.کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج دنیا میں تم سے بہت زیادہ طاقتور قومیں موجود ہیں مگر ان سے کوئی نہیں ڈرتا اور تم سے سب لوگ ڈرتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمہاری مثال اس تار کی سی ہے جس کے پیچھے بجلی کی طاقت ہوتی ہے.اب اگر تار یہ خیال کرے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں تو یہ اس کی حماقت ہو گی کیونکہ لوگ تار سے نہیں بلکہ اس بجلی سے ڈرتے ہیں جو اس تار کے پیچھے ہوتی ہے.جب تک اس میں بجلی رہتی ہے ایک طاقتور آدمی بھی اگر تار پر ہاتھ رکھے تو وہ اس کے ہاتھ کو جلا دے گی لیکن اگر بجلی نہ رہے تو ایک کمزور انسان بھی اس تار کو توڑ پھوڑ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھو اور اس بجلی کو اپنے اندر سے نکلنے نہ دوبلکہ اسے بڑھاؤ اور ترقی دو.تبھی اور تبھی تم کامیابی کو دیکھ سکتے اور نئی فصل زیادہ شان اور زیادہ عمدگی کے ساتھ پیدا کر سکتے ہو لیکن اگر یہ بجلی نکل گئی تو پھر تم کچھ بھی نہیں رہو گے.ہاں اگر یہ بجلی رہی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور اس صورت میں تمہارا یہ عزم کہ تم اگلے پچاس سال میں تمام دنیا پر چھا جاؤ نا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ کام خدا نے کرنا ہے اور خدا کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں.“ (الفضل 25 جنوری 1940ء) 1 الفاتحة: 5.صلى بخاری کتاب التهجد باب قيام النبي عليه وسلم الليل حتى ورم قدماه 3 العلق: 3،2 4 بخارى كتاب التعبير باب اول ما بدئ به 5 بخاری کتاب المظالم باب صب الخمر في الطريق 6 القدر: 4 صلى بخاری کتاب المناقب باب سؤال المشركين ان يربهم النبي عليه وسلم آية فأراهم
$ 1940 37 3 خطبات محمود خدام الاحمدیہ مؤذنوں کو درست اذان سکھائے یوم الحج سے کس طرح فائدہ اٹھانا چاہئے فرمودہ 19 جنوری 1940ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے غالباً ایک سال کا عرصہ ہو ا خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ قادیان میں جو لوگ اذانیں دیتے ہیں ان کی اذانوں کی اصلاح کر دیں.اب تو ان میں بہت سے مولوی فاضل بھی شامل ہو چکے ہیں.خود ان کے صدر مولوی فاضل اور حافظ ہیں اس لئے یہ کام ان کے لئے بہت آسان ہے مگر اب یہ مرض بجائے کم ہونے کے زیادہ شاندار ہو رہا ہے.ابھی جو اذان کہی گئی ہے یوں معلوم ہوتا تھا کہ مؤذن کے حلق میں آلو پھنسا ہوا ہے.وہ ہر لفظ کو آؤں کہہ کر ادا کرتا ہے پہلے تو میں نے توجہ دلائی تھی کہ حق کو حایتا کہا جاتا ہے مگر آج صرف حی کہا گیا ہے یعنی دوسری یا ء اُڑ گئی ہے.اذان کا درست طور پر یاد کر لینا معمولی سی بات ہے اور اس کے خوبصورت یا بد صورت ہونے کا طبائع پر اثر پڑتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک مسجد کے پاس ایک سکھ رئیس رہا کرتا تھا اس نے ایک دفعہ اس مسجد میں اذان دینے والے کو کچھ تحفہ دیا.پگڑی اور دس بارہ روپے اسے دیئے اور کہا کہ یہ نذر ہے اس لئے کہ آپ آئندہ اذان
1940 38 خطبات محمود کہنی چھوڑ دیں.اس نے پوچھا کہ کیوں؟ تو وہ کہنے لگا کہ آپ کی آواز ایسی اچھی ہے کہ میری بیٹی کہتی ہے کہ مجھے مسلمانوں کا مذہب اچھا لگتا ہے اس لئے یہ نذر لے لو، اور بھی میں پیش کرتا رہوں گا اور اذان کہنا چھوڑ دو.وہ بے چارا معمولی حیثیت کا آدمی تھالا لچ میں آگیا اور اذان کہنی چھوڑ دی.دوسر ا جو اس کی جگہ مقرر ہوا اس کی آواز نہایت مکروہ تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز کے بعد اس سکھ رئیس کی لڑکی نے کہا کہ ابا جی معلوم ہوتا ہے میری رائے غلط تھی مسلمانوں کا مذہب کوئی ایسا اچھا معلوم نہیں ہو تا.تو ظاہری باتوں کا بھی طبائع پر بہت اثر ہوتا ہے.ہندوستانی ل سے پہلے ایک آؤ کی آواز نکالتے ہیں اور اس طرح پورا زور لگا کر اس آؤ کو نکالتے ہیں جس طرح مزدور کہا کرتے ہیں کہ لادے زور مگر عربی طریق یہ نہیں.وہ ال کہیں گے جیسے بر تن میں کوئی چیز ڈالی جائے تو اس سے جھنکار پیدا ہوتی ہے.یہ عربی زبان کی ایک خوبی ہے کہ اس میں ایک موسیقی پائی جاتی ہے اور کسی زبان میں یہ بات نہیں اور عربی کی اس خوبی کا بہترین نمونہ قرآن کریم نے پیش کیا ہے.دنیا کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکے جس طرح کہ قرآن کریم پڑھا جا سکتا ہے.اردو، انگریزی یا کسی اور زبان کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی عبارت اس طرح پڑھی جاسکے جس طرح ہم ترتیل کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 پڑھتے ہیں.اس کی بجائے اگر انگریزی کی یہ عبارت ہم ترتیل کے ساتھ پڑھیں I will go there تو وہ اس قدر مضحکہ خیز ہو جائے گی کہ ہر سننے والا ہنس پڑے گا مگر عربی کے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کا اُتار چڑھاؤ بالکل نظم کا سا ہوتا ہے.اس کی حرکات اپنے اند ر خصوصیات رکھتی ہیں اور جب تک ان کی اتباع نہ کریں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا منہ چڑا رہے ہیں.آکسمنٹ (ACCENT) پر جتنا زور عربی نے دیا ہے اور کسی زبان نے نہیں دیا.ہر لفظ کی اس کے اتار چڑھاؤ سے اچھی یا بری شکل بن جاتی ہے اور ان کی کمی بیشی سے معنی بھی بدل جاتے ہیں.مثلاًل کے معنی ضرور کے ہیں.لیکن اگر ذراسا لمبا کر دیں اور لا کہیں تو اس کے معنی “ نہیں ”ہوں گے.تو حرکت کے ذرا چھوٹا بڑا کر دینے سے معنی بالکل بدل جاتے ہیں.قرآن کریم میں يَتَّقُونَ اور يَتَّقُونِ
* 1940 39 خطبات محمود کے الفاظ آتے ہیں.يَتَّقُونَ کے معنی ہیں وہ ڈرتے ہیں اور يَتَّقُونِ کے معنی ہو جائیں گے وہ مجھ سے ڈرتے ہیں.تو زبر اور زیر کے فرق سے معنوں میں بہت سا فرق پڑ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک مرتبہ ایک پادری آیا اس نے کہا کہ عربی زبان کوئی ایسی زبان نہیں کہ جس میں خدا کا کلام نازل ہو.یہ تو بدؤوں کی زبان ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں خدا تعالیٰ کا کلام بیان کرنے کی جو استعداد عربی زبان میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں مگر اس پادری کا دعویٰ تھا کہ انگریزی کا مقابلہ عربی زبان ہر گز نہیں کر سکتی.آپ نے اسے کہا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو بیان کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ زبان ایسی ہو جو بڑے سے بڑا مضمون چھوٹے سے چھوٹے الفاظ میں ادا کر سکے.اس نے کہا ہاں انگریزی میں ہی یہ خصوصیت ہے.آپ نے فرمایا اچھا اگر “ میر اپانی ” کہنا ہو تو انگریزی میں کیا کہیں گے ؟ اس نے کہا مائی واٹر.آپ نے فرمایا عربی میں صرف مائی کہہ دینا کافی ہو گا.گویا انگریزی میں واٹر زائد ہے.آپ کا یہ فرمانا بالکل خدائی تصرف کے ماتحت تھا ورنہ آپ تو انگریزی جانتے ہی نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کے منہ سے ایسا فقرہ کہلوا دیا جس سے عربی کا اختصار انگریزی کے مقابلہ میں واضح ہو گیا.حالانکہ شاذ کے طور پر کوئی ایسا فقرہ بھی ہو سکتا ہے جس کا انگریزی ترجمہ عربی سے مختصر ہو مگر آپ کے منہ سے اسی فقرہ کا نکلنا تصرف الہی کے ماتحت تھا.پھر یہ بھی تصرف ہی کے ماتحت تھا کہ ایسا فقرہ آپ کے منہ سے نکلا کہ جس کا آدھا حصہ ہی عربی میں انگریزی کے پورے فقرے کے معنی دیتا ہے.تو عربی زبان میں کئی خصوصیات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے اور زبانوں میں یہ بات نہیں.ان کو اگر اس رنگ میں پڑھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ منہ چڑایا جارہا ہے.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ تمام مساجد کے مؤذنوں کو درست اذان سکھائیں اور ان کو الفاظ پر بلاوجہ زور دینے اور گولائی دینے سے روکیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج کا دن حج کا دن ہے.آج سب حاجی عرفات کے میدان میں جمع ہیں تا خدا کے حضور دعائیں کریں اور اپنے اخلاص کا ہدیہ پیش کریں.اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ لوگ منی سے
$1940 40 خطبات محمود چلے جارہے ہیں اور لَبَّيْكَ اللهُمَّ لَكَ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ کہتے ہوئے جا رہے ہیں.کیا ہی عجیب نظارہ ہے ! یہ الفاظ رسول کریم صلی ال ولیم نے اس موقع کے لئے ایسے رکھے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ سامنے ہے اور اپنے بندوں کو بلا رہا ہے اور اس کے بندے اے میرے رب ! میں حاضر ہوں کہتے ہوئے اس کی طرف چلے جارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں صرف تو ہی اس امر کا مستحق ہے کہ بندوں کو آواز دے اور تیرے بلانے پر ہم تیرے حضور حاضر ہیں.یہ الفاظ نہایت سادہ ہیں مگر نہایت شاندار مفہوم ادا کر رہے ہیں اور یہ الفاظ منہ سے کہتے ہوئے لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا جلوہ دکھانے کا وعدہ کیا ہوا ہے.مگر جو لوگ وہاں جاتے ہیں کیا وہ سب اس جلوہ کو دیکھتے ہیں ؟ کیا ان سب حاجیوں کو جو وہاں پہنچتے ہیں یہ جلوہ دکھائی دیتا ہے ؟ بالکل نہیں.کیونکہ وہ اخلاص کے ساتھ نہیں جاتے.اگر اخلاص اور تقویٰ سے وہاں جائیں تو ان میں سے کوئی بھی خالی نہ کوئے.حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں میں سے شاید ہی کوئی یہ جھلک دیکھ کر کوٹتا ہے اور باقی خالی ہاتھ جاتے ہیں اور خالی ہاتھ آ جاتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بھری ہوئی جیبوں کے ساتھ جاتے اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں.جب وہ حج کے لئے جاتے ہیں تو ان کی مالی حالت اچھی ہوتی ہے مگر جب وہ حج پر روپیہ خرچ کرنے کے بعد آتے ہیں تو ان کے پاس نہ دین ہو تا ہے نہ دنیا.دنیا کا روپیہ وہ خرچ کر آتے ہیں اور دین ملتا نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج کو جانے والوں میں سے بہت سے خالی ہاتھ واپس آتے ہیں.گو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خالی ہاتھ واپس نہیں آتے.نیک زمانہ میں تو ہزاروں جاتے اور ہزاروں ہی بھرے ہوئے دامن کے ساتھ واپس آتے ہیں.مگر بد زمانہ میں ہزاروں جاتے اور ان میں سے بہت تھوڑے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو کر آتے ہیں.بہر حال آج کا دن وہ دن ہے جب خدا تعالیٰ خود دینے پر آتا ہے اور اس سے بہتر موقع لینے کا اور کوئی نہیں ہوتا جب دینے والا خود دینے پر آئے.بعض اوقات ایک شخص کے پاس کروڑوں روپیہ ہوتا ہے اور کوئی اس سے ایک پیسہ مانگتا ہے تو وہ دینے کے لئے تیار نہیں ہو تا.مگر کوئی وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس نے لاکھوں کمائے ہوتے ہیں اور کروڑوں کی امید ہوتی ہے.
$1940 41 خطبات محمود اُس وقت اگر کوئی مانگے تو وہ ہیں، پچاس، سو بلکہ ہزار بھی دے دیتا ہے.تو دینے کے لئے صرف روپیہ یا چیز کی موجودگی کا ہی سوال نہیں بلکہ حالات کا بھی دخل ہوتا ہے.ایک وقت دینے والا خوشی میں بیٹھا ہوتا ہے تو مانگنے والے کو مل جاتا ہے.لیکن دوسرے وقت وہ ناراض ہوتا ہے اور اس وقت کچھ بھی نہیں مل سکتا.اسی طرح بعض دنوں میں اللہ تعالیٰ زیادہ دینے کے لئے تیار ہوتا ہے ان دنوں میں سے ایک یہ دن ہے.اس دن کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی ال لیلی کے ذریعہ جو دعا سکھلائی اس کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آج خدا تعالیٰ اپنا جلوہ دکھانے کے لئے تیار ہے.الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ بندے کو بلا رہا ہے اور بندہ آواز دیتا ہوا اس کی طرف جا رہا ہے.اس لئے یہ موقع مانگنے کے لئے نہایت موزوں ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ؟ لیکن میں ان کو بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلیا کی ایک مرتبہ جہاد کے لئے تشریف لے گئے.کچھ لوگ آپ کے ساتھ تھے آپ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے کئی بھائی ایسے ہیں جو مدینہ میں بیٹھے ہیں مگر کوئی ثواب ایسا نہیں جو تم کو ملتا اور وہ اس سے محروم رہتے ہوں.تم جو نیک کام بھی کرتے ہو اس کا ثواب ان کو بھی پہنچتا ہے.صحابہ نے کہا یار سول اللہ ! یہ کیا بات ہے.تکالیف ہم اٹھائیں اور وہ گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہمارے برابر ثواب حاصل کر لیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ان کو ثواب کا مستحق وہ ولولہ اور شوق بناتا ہے جو ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے اور اگر مجبوریاں نہ ہو تیں تو وہ ضرور یہاں ہوتے.2 پس ہر وہ شخص جس کے دل میں جوش اور خواہش ہے کہ حج کو جائے اگر آج یہاں بیٹھا ہے تو رسول کریم صلیالی نیلم کے فرمائے ہوئے اس اصول کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کے حضور ان لوگوں میں ہی شامل سمجھا جائے گا جو آج میدان عرفات میں جمع ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی کونہ میں ہوں.خدا تعالیٰ کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ہے.انسان عمل میں منافقت کر سکتا ہے مگر دلی خیالات میں نہیں.تم چاہو تو ایک منٹ میں کہہ سکتے ہو کہ میں نے اپنی ساری جائداد فلاں شخص کو دے دی مگر اس سے ہزارواں حصہ نفرت یا محبت کسی کو نہیں دے سکتے.محبت یا نفرت پیدا کرنے کے لئے خاص سامانوں اور محرکات کی ضرورت ہوتی
خطبات محمود ނ 42 * 1940 ہے جس کے بعد وہ آپ ہی آپ پیدا ہوتی ہے.وہ تمہارے اختیار کی بات نہیں.اپنی لاکھوں کی جائداد یا مال کا دے دینا تمہارے اختیار میں ہے مگر محبت یا نفرت تمہارے اختیار میں نہیں.تم دل کے ساتھ منافقت نہیں کر سکتے اعمال میں کر سکتے ہو.ممکن ہے اس سے کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ پھر عمل تو کوئی چیز نہ ہوا مگر نہیں.حقیقی نیت خود بخود عمل پیدا کر لیتی ہے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ نیت کے مقابلہ میں عمل کمزور چیز ہے تو میرا مطلب اس سے عمل کی حیثیت کو گرانا نہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا ہے کہ خالص ارادوں اور اچھی نیتوں ، عمل علیحدہ رہ نہیں سکتا.خالص نیت ایک مقناطیس ہے اور عمل لوہا ہے.جہاں مقناطیس ہو اگر لوہا موجود ہو تو وہ خود بخود اس کی طرف کھنچا چلا جائے گا.اور اگر عمل کی طاقت ہے ہی نہیں تو پھر کوئی اعتراض کی بات ہی نہیں.زکوۃ فرض ہے مگر جس کے پاس مال نہ ہو اس پر نہیں، روزہ فرض ہے مگر بیمار کے لئے نہیں، نماز ضروری فرض ہے مگر بے ہوش کے لئے نہیں.پس اگر نیت خالص ہے اور عمل کی طاقت ہے تو عمل خود بخود کھنچے چلے جائیں گے.لیکن اگر عمل کی طاقت ہی نہ ہو تو پھر عمل کے نہ ہونے پر کوئی اعتراض ہی نہیں.پس ہر وہ شخص جو دل میں حج کی نیت رکھتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے اس کی توفیق نہیں مل سکی اسے یا درکھنا چاہیئے کہ اس حدیث کے ماتحت یقینا آج اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا شمار انہی لوگوں میں ہے جو عرفات میں جمع ہیں.خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو.اور آج لوگ جہاں بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں گے وہ اُس برکت سے حصہ پائیں گے جو عرفات والوں کے لئے مقدر ہے.اور رسول کریم صلی اللی نیلم کے ارشاد کے مطابق خدا تعالیٰ ان کو انہی لوگوں میں شامل کرے گا.پس آج کے دن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ لوگ خوب دعائیں کریں.اسلام کی ترقی کے لئے، سلسلہ کی ترقی کے لئے، سلسلہ کی ہر قسم کی مشکلات کے لئے، افراد اور جماعت کی علمی ، تمدنی، اخلاقی، تہذ یہی اور روحانی ترقی کے لئے اور افراد اور جماعت کی ہر قسم کی مشکلات کے دور ہونے کے لئے.پھر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہمارے ہاتھوں وہ مقصد پوار ہو جو وہ حج سے قائم کرنا چاہتا ہے.یعنی
خطبات محمود 43 * 1940 دنیا کی مختلف اقوام کو ایک جگہ جمع کرنا.پس وہ اس مقصد کو عملی رنگ میں پورا کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہم دنیا کو ایک جگہ جمع کرنے میں کامیاب ہو سکیں.“ الفضل 3 فروری 1940ء) 1 الفاتحة:2 2 بخاری کتاب الجهاد والسير باب من حبسه العذر
$ 1940 44 4 خطبات محمود بیت الذکر کی آبادی اور صفائی ( بیت احمد یہ ناصر آباد سندھ میں پہلا خطبہ جمعہ اور نماز.فرمودہ یکم مارچ 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”استاد کا شاگرد پر اور شاگرد کا استاد پر ، والدین کا بچہ پر اور بچہ کا والدین پر حق ہوتا ہے.اگر کوئی شخص جنگل میں مکان بناتا ہے تو دوسروں پر اس کا یہ حق ہے کہ اسے ٹوٹیں نہیں.اسی طرح مساجد کا حق ہے کہ انہیں آباد اور صاف رکھا جائے.اس میں بد بوردار چیز کے ساتھ نہیں آنا چاہیے.اگر اس بات پر عمل کیا جائے تو ہمارے دیہات میں صفائی پیدا ہو سکتی ہے.دیہاتی لوگ اس وقت تک بدن سے کپڑا نہیں اتارتے جب تک پھٹ نہ جائے حالانکہ ان کو دھو کر صاف کرتے رہنا چاہیے.عرب کے لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب، کپڑے صاف رکھتے ہیں.اب جبکہ مسجد بن گئی ہے اس کا حق ادا کرنا چاہئے.آنحضرت صلی اللی علم سے ایک نابینا شخص نے اجازت چاہی کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیا کرے مسجد آتے وقت ٹھوکریں لگتی ہیں.حضور نے فرمایا کہ اگر اذان سنائی دیتی ہے تو خواہ گھٹنوں کے بل آنا پڑے مسجد میں آیا کرو.1 1 چونکہ زمینداروں نے باہر جا کر کام کرنا ہوتا ہے اس لئے وقت مقرر کر چاہیئے تا ان کے کام میں بھی حرج نہ ہو اور وہ نماز باجماعت بھی اد اکر سکیں.“ (الفضل 6 مارچ 1940ء) 66 صحيح مسلم کتاب المساجد باب يجب اتيان المسجد على من سمع
45 $ 1940 خطبات محمود
46 $ 1940 5 خطبات محمود دینی اور دنیاوی کاموں میں ہمیشہ سچ اختیار کرو (فرمودہ 15 مارچ 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انبیاء کی جماعتوں کی علامتوں میں سے ہمیشہ ایک علامت راست بازی ہوتی ہے اور یہ علامت ایسی ہے جو اپنی ذات میں بہت ہی اہمیت رکھتی ہے.اگر ایک طرف اس کے ذریعہ جماعت کی عزت بڑھتی ہے دوسری طرف اس سے تبلیغ کے لئے بھی رستے کھلتے ہیں.مگر بہت لوگ ہیں جو راست بازی کی قدر کو نہیں سمجھتے.خصوصاً عورتوں میں یہ مرض بہت زیادہ ہے.مردوں میں بھی ہے مگر عورتوں میں بالخصوص زیادہ ہے.وہ بات کرتی ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور چھپا لیتی ہیں یا اگر بات منہ سے نکل جائے تو تحقیقات کے وقت اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں.مردوں میں بھی اس زمانہ میں یہ مرض کافی مقدار میں ہے کیونکہ یہ زمانہ مداہنت اور نفاق کا زمانہ ہے.تہذیب کے معنے آجکل یہ سمجھے جاتے ہیں کہ بات کرنے والا دوسرے کے خیالات کا اس حد تک خیال رکھے کہ سچائی بھی چھپانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے.ایک دوست کے متعلق جو انگلستان میں تبلیغ کرنے کے بعد واپس آئے ہیں کسی نے سنایا کہ وہ کہتے تھے وہاں ایک گلی سے دوسری گلی میں جانے تک سات بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے.وہاں رواج ہے کہ جب کسی سے ملتے ہیں تو موسم کا حال ضرور دریافت کرتے ہیں.پہلا سوال عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ
1940 47 خطبات محمود موسم کیسا ہے؟ حالانکہ سارے اسی جگہ رہتے ہیں مگر پھر بھی ملیں گے تو موسم کا حال ضرور پوچھیں گے.اسی رواج کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک ہندوستان میں بھی یہ حالت تھی کہ جب علاقہ کے زمیندار کبھی ڈپٹی کمشنر سے ملتے تو وہ ہر ایک سے موسم کا حال ضرور دریافت کرتا اور پوچھتا بارش ہوئی ہے یا نہیں ؟ موسم کیسا ہے ؟ اور اس طرح ملاقات کا قریباً آدھا وقت اسی میں گزار دیتا.ملنے والا حیران ہو تا کہ دو منٹ کی تو ملاقات تھی جس میں سے ایک منٹ موسم کا حال دریافت کرنے میں گزار دیا.ادھر افسر یہ سمجھتا کہ اگر میں یہ دریافت نہ کروں تو بد تہذیب سمجھا جاؤں گا.وہ چاہتا کہ میں اپنا دُکھڑ ا سناؤں.اور یہ بارش اور موسم کے متعلق دریافت کرنے میں ہی وقت گزار دیتا.ڈپٹی کمشنر تو اپنی طرف سے اس کی خاطر داری کرتا اور زمیندار کے دل میں اس طرح وقت کے ضائع ہونے پر شکوہ پید اہو رہا ہو تا.یہ انگلستان کے رواج کے مطابق بات تھی.وہاں ملتے وقت موسم کا حال ضرور دریافت کیا جاتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں موسم بڑی جلدی جلدی بدلتارہتا ہے.جس طرح سندھیوں اور بلوچیوں میں یہ طریق ہے کہ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے حال دے اور وہ سنانا شروع کرتا ہے کہ فلاں کا یہ حال ہے فلاں کا یہ حال ہے اور اس طرح سب تفاصیل بیان کرنے کے بعد اسے کہتا ہے کہ تُو حال دے اور پھر وہ اپنی کہانی سناتا ہے اور جب سب کچھ اگل دیتا ہے تو دوسرے سے کہتا ہے حال دے اور اس طرح اس کا پیٹ خالی کراتا ہے.اسی طرح ایک دوسرے سے پوچھتے جاتے ہیں ختم نہیں کرتے اور یہ عادت اس قدر عام ہے کہ مجھے ایک پولیس کے افسر نے بتایا کہ یہاں یہ حال ہے کہ ادھر چور کو پکڑنے کے لئے نکلو اور اُدھر اسے خبر پہنچ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اگر ایک بھی سندھی کو پتہ لگ جائے تو دوسرے سے ملنے پر جب وہ حال دریافت کرتا ہے تو سب باتیں بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی کہہ دے گا کہ فلاں تھانیدار فلاں چور کو پکڑنے جارہا ہے اور راستہ میں اسے جو جو ملے گا اور حال دریافت کرے گاوہ ہر ایک کو یہ بات بھی بتائے گا اور پھر ان میں سے جسے بھی دوسرے کو حال بتانے کا موقع آئے وہ یہ بات بھی اسے ضرور سنائے گا.نتیجہ یہ ہو گا کہ تھانیدار تو بعد میں پہنچے گا مگر یہ خبر پہلے ہی سارے ضلع میں پہنچ جائے گی اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں چور بھلا کیوں بیٹھا رہے گا؟ اس پولیس افسر نے بتایا کہ
خطبات محمود 48 * 1940 یہاں یہ بڑی سخت دقت ہے ہمیں چھپ چھپ کر جانا پڑتا ہے.انگلستان میں اس حال دے کے بجائے موسم کا حال پوچھنے کا رواج ہے.تم اگر گھر سے نکلو اور راستہ میں تمہیں ایک ایسا شخص ملے جسے دردوں کا عارضہ ہے یا گنٹھیا کی شکایت ہے اور سردی کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہے گا کیسا بر اموسم ہے اور تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے خود اُس وقت لطف ہی آرہا ہو مگر تم کہو یہی کہ بہت ہی براموسم ہے.آگے گئے تو ایک اور شخص ملا جو ہٹا کٹا تندرست مشٹنڈا ہے.اس پر سر دی بُرا اثر نہیں کرتی اور وہ کہتا ہے کہ اوہ ! کیسا نفیس موسم ہے.اُس وقت تمہارا فرض ہے کہ کہو کہ ہاں بہت ہی اچھا موسم ہے.آگے جاکر ایک نے کہا کہ آج بارش ضرور ہو گی تو تم کو کہنا پڑے گاہاں ضرور ہو گی.لیکن اور آگے جاکر کوئی اور ملا اور اس نے کہا کہ آج تو بارش کے کوئی آثار نہیں.تو تم چند قدم پیچھے جو یہ کہہ چکے ہو کہ ضرور بارش ہو گی اب یہ کہنے پر مجبور ہو کہ نہیں ہر گز نہیں ہو گی.آج تو بارش کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.تو یہ بات دراصل تہذیب سمجھی جاتی ہے کہ جس کے ساتھ بات کی جائے اس کا دل خوش کرنے کا اتنا خیال رکھا جائے کہ خواہ اس کے لئے صداقت چھوڑنی پڑے اس میں تامل نہ ہو.یہاں ہندوستان میں بھی اب یہ بات بہت پیدا ہو رہی ہے.بعض احمدی کسی تعلیم یافتہ آدمی کو کئی کئی سال تبلیغ کرتے رہتے ہیں اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ وہ بہت ہی قریب آچکا ہے لیکن جب کوئی موقع پیدا ہو وہ شدید دشمن ثابت ہوتا ہے.بات یہ ہے کہ یورپین تہذیب کے مطابق وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ جب اسے کہا جائے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں تو وہ بھی یہی بات کہے اور جب کہا جائے کہ حضرت مرزا صاحب نے فلاں فلاں معجزات دکھائے، وہ خدا تعالیٰ کے محبوب اور مُحب تھے تو تہذیب کے خلاف سمجھتا ہے کہ اس بات کی تردید کی جائے لیکن جب مقابلہ کا وقت آتا ہے تو اس کا اندرونہ ظاہر ہو جاتا ہے.لیکن یورپ میں جہاں یہ نقص ہے وہاں بعض خوبیاں بھی ہیں.وہاں بعض اصول مقرر ہیں اور وہ لوگ اس طرح ان کی پابندی کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.بسا اوقات وہ اصول متضاد بھی ہوتے ہیں مثلاً جہاں یہ دستور ہے کہ موسم کے معاملہ میں کوئی جو کچھ کہے اس کی تائید کر دی جائے وہاں یہ بات بھی ہے کہ عام حالات میں وہ لوگ سچ بولنے کے عادی ہیں.
خطبات محمود 49 $1940 موسم کا حال بیان کرنے میں تو ایک انگریز بے شک غلط بیانی کرے گا مگر گواہی کے معاملہ میں نسبتا سچ بولے گا اور عدالت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی.ہمارے ملک میں یہ بات نہیں.یہاں عدالتوں میں بھی بہت دعا اور فریب ہوتا ہے.سچا بھی عدالت میں جا کر جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹا بھی، پولیس بھی جھوٹ بولتی ہے اور گواہ بھی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مجسٹریٹوں کو بھی بعض اوقات جھوٹ بولنا پڑتا ہے.ہر طرف جھوٹ کا ایک طوفان بپا ہوتا ہے.سچائی کو سچ ثابت کرنے کے لئے بھی ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے.کوئی شخص کسی سرکاری عدالت میں سچ کے ساتھ مقدمہ نہیں جیت سکتا خواہ اس کا کیس بالکل ہی سچا کیوں نہ ہو.اس کی وجہ یہ ہے جھوٹ کی بنیاد ایسے اصول سے قائم کی گئی ہے کہ جھوٹ مجبوراً بولنا پڑتا ہے.اگر کسی نص کے خلاف دس بارہ جھوٹے گواہ پیش ہو جائیں جو کہیں اس نے فلاں شخص کو مارا ہے تو گو اس نے نہ مارا ہو جب تک وہ بھی ایسے گواہ پیش نہ کرے جو کہیں اس نے نہیں مارا وہ سزا سے نہیں بچ سکتا.اور ضروری نہیں کہ بچے کے پاس گواہ موجو د ہوں اس لئے اسے ضرور جھوٹے گواہ بنانے پڑتے ہیں.اگر تو مارنے والا خود ہی سچا بیان دے دے کہ اس نے گالی دی اور میں نے مارا تو عدالت کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے.اسے صرف یہ دیکھنا باقی رہ جاتا ہے کہ اشتعال کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ کافی ہے یا نہیں؟ اگر تو وہ سمجھے کہ اشتعال ایسا تھا کہ اس کے مقابلہ میں اتنامار نازیادہ نہیں تو وہ سزا میں کمی کر سکتا ہے اور اگر اس کے نزدیک اشتعال کافی نہ ہو تو سز اسخت دے سکتا ہے.اور یورپ میں عام طریق یہی ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر دو آدمی اکیلے لڑ پڑیں تو فوراً ایک کے دس بارہ دوست جھوٹی گواہی دینے پر تیار ہو جائیں گے کہ ہم وہاں موجود تھے اور فلاں شخص نے ہمارے سامنے فلاں کو مارا تھا.اب اگر سچ بولنے والا اکیلا ہی ان کے مقابلہ میں کہتا جائے کہ میں نے نہیں مارا تو مجسٹریٹ اس کی ہر گز نہیں سنے گا.اس لئے ضروری ہے کہ اس کے سچ کی تائید کے لئے بھی اتنے ہی گواہ ہوں.یہاں فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ جھوٹی شہادت مہیا کر سکے.اگر تو جس نے مارا ہے وہ زیادہ معززین کو جھوٹا بنا سکے تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اگر نہ مارنے والا زیادہ معززین کو جھوٹا بنا سکے گا تو وہ جیت جائے گا.جیت کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ کون شخص زیادہ تعداد میں اور
$1940 50 خطبات محمود معزز آدمیوں کو جھوٹا بنا سکا ہے.مجسٹریٹ بھی آخر انسان ہوتا ہے اور قانون یہ ہے کہ شہادت کے مطابق فیصلہ کرے.اس لئے بسا اوقات وہ سمجھتا بھی ہے کہ کیس جھوٹا ہے مگر وہ مجبور ہے کہ سچے کے خلاف فیصلہ کرے.بعض ممالک مثلاً فرانس وغیرہ میں یہ قاعدہ ہے کہ مجسٹریٹ خود بھی تحقیقات کرے.اسلام کا قانون بھی یہی ہے اور فرانس چونکہ اسلامی حکومت کے قریب تھا اس لئے شاید اس نے وہاں سے یہ طریق لیا ہو لیکن انگریزی قانون یہ ہے کہ شہادت کے مطابق فیصلہ کیا جائے مجسٹریٹ کوئی دخل نہ دے بلکہ اگر وہ دخل دے تو اسے متعصب سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے بعض اوقات مجسٹریٹ یہ جاننے کے باوجود کہ بات جھوٹ ہے سزا دے دیتا ہے کیونکہ قانون یہی ہے.میں نے کئی پولیس والوں سے سنا ہے کہ ہم نے کبھی جھوٹا مقدمہ نہیں بنایا.پہلے اطمینان کر لیتے ہیں کہ مقدمہ سچا ہے اور پھر اس کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹے گواہ بناتے ہیں.اگر کوئی چور خود ہی مال پولیس کے حوالے کر دے تو عدالت اسے چھوڑ دے گی.اس لئے پولیس کو مجبوراًیہ کہانی بنانی پڑتی ہے کہ یہ مال فلاں جگہ دفن تھا جو فلاں فلاں ذیلدار ، نمبر دار یاز میندار کے روبرو ملزم نے نکال کر دیا اور ظاہر ہے کہ جب ملک کے عام حالات یہ ہوں تو سیچ کو قائم رکھنا بہت ہی مشکل ہے.دنیا میں آج تک جتنے انبیاء گزرے ہیں میں سمجھتا ہوں ان سب کی امتوں سے زیادہ اس زمانہ میں سچائی کے ساتھ وابستگی کو قائم رکھنا مشکل ہے.صحابہ کرام کی حالت اور تھی.عرب میں پہلے بھی سچ کی عادت تھی.گو عرب لوگ چوری، ڈاکہ ، زنا، شراب خوری، جوابازی وغیرہ جرائم میں انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے مگر سچائی کے پابند تھے.بہت سی بُری عادات کے ساتھ ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ سچ کے پابند تھے اور پھر مہمان نواز بھی تھے ، چور بھی تھے ، ڈاکو بھی، شرابی اور زانی اور جواری بھی مگر ساتھ مہمان نواز اور سچ بولنے والے بھی تھے.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے خود اُن سے بیان کیا کہ حج کو جاتے ہوئے رستہ میں میں قافلہ سے الگ ہو گیا.میر اسامان قافلہ کے ساتھ چلا گیا اور میرے پاس کچھ نہ تھا.کئی روز کے فاقہ کے بعد مجھے ایک بدوی ملا.ریگستانی علاقوں میں دس دس ہیں میں میل پر چھوٹے چھوٹے سر سبز قطعات بھی ہوتے ہیں اور بد وو ہیں اپنی رہائش رکھ لیتے ہیں.
1940 51 خطبات محمود کنال دو کنال کا ٹکڑا ہوتا ہے جہاں زمین کے اندر پانی کی دھاریاں اس طرح چلتی ہیں کہ وہ علاقہ سر سبز رہتا ہے، بدوی وہاں رہائش رکھتے ہیں.اس شخص نے بیان کیا کہ جب وہاں پہنچا تو ایک بدوی بیٹھا تھا.اس نے تربوز بوئے ہوئے تھے.ایسی جگہوں میں بدو لوگ ایسی چیزیں ہی ہوتے ہیں جو دور شہر میں لے جاکر فروخت کی جاسکیں اور جلدی گل سڑ نہ جائیں.یہ شخص وہاں پہنچتے ہی گر گیا اور اشارہ سے کہا کہ مجھے کچھ کھانے کو دو.بدوی کے پاس اور کچھ کھانے کو تو تھا نہیں بکریوں کا دودھ تھا جو اس نے اسے پلایا.اس کے بعد اس خیال سے کہ یہ دودھ سیال چیز ہے کوئی ٹھوس چیز بھی اسے کھلانی چاہیئے وہ تربوزوں میں داخل ہوا اور کئی تربوز توڑ توڑ کر پھینکتا گیا کیونکہ وہ ابھی پکے نہ تھے.آخر ایک پکا ہوا تربوز تلاش کر کے اسے کھلایا اور اس کے بعد تلوار نکال کر کھڑا ہو گیا.یہ شخص بہت حیران ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے.بدونے کہا کپڑے اتارو اور کرتہ وغیرہ اتروا کر اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ پاس کوئی چیز ہے تو نہیں اور پھر کہنے لگا کہ یہ تربوز جو میں نے تمہاری خاطر توڑ کر پھینک دیئے ہیں میرے بیوی بچوں کی سال بھر کی غذا تھی.دراصل وہ لوگ گزارہ تو دودھ وغیرہ پر ہی کر لیتے ہیں اور یہ تربوز وغیرہ شہر میں لے جا کر فروخت کر کے کچھ پیسے بالائی ضروریات کے لئے حاصل کر لیتے ہیں.بدوی نے اس سے کہا کہ جب تم میرے پاس آگئے تو یہ بات میری مہمان نوازی کی شان کے خلاف تھی کہ میں پہلے تم سے کچھ پوچھتا.لیکن اب اگر معلوم ہو جاتا کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے اور تمہارے پاس مال ہے تو میں تمہیں ضرور مار ڈالتا.میں نے اپنے تمام تر بوز تمہاری خاطر اُجاڑ دیئے ہیں اور بظاہر اب میرے بیوی بچوں کے لئے موت ہے.تو گو وہ لوگ قاتل تھے، شرابی اور زانی تھے مگر سچائی اور مہمان نوازی ان میں عام تھی.دیکھور سول کریم صلی ال نیم کے متعلق قیصر کے سامنے ابوسفیان نے کس طرح سچی شہادت دے دی.باوجودیکہ وہ اُس وقت کا فر تھے.گو وہ کہتے ہیں کہ اگر میرا بس چلتا تو میں جھوٹ بھی بول دیتا مگر پیچھے قوم کے دوسرے لوگ کھڑے تھے اور میں سمجھتا تھا اگر میں نے جھوٹ بولا تو یہ لوگ فوراً میری تردید کر دیں گے مگر اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم وہ لوگ سچے تھے.wwwwwwwww
خطبات محمود 52 * 1940 اب کیا حالت ہے کہ اگر ایک غیر احمدی مولوی جھوٹ بولتا ہے تو سب اس کی تائید الله سة شروع کر دیتے ہیں.مگر ابوسفیان سمجھتا تھا کہ اگر میں نے جھوٹ بولا تو میرے ساتھی اسے برداشت نہیں کریں گے اس لئے صاف طور پر اقرار کیا کہ محمد (صلی ا ) بڑے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں.قیصر نے دریافت کیا کہ کیا اس نے کبھی کوئی معاہدہ کر کے اسے خود ہی توڑ بھی دیا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کبھی نہیں.پھر اس نے پوچھا کیا اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا بڑھ رہے ہیں.پھر قیصر نے دریافت کیا کہ اس کا تعلق کیسے خاندان سے ہے ؟ ابو سفیان نے کہا بڑے اعلیٰ خاندان سے.قیصر نے دریافت کیا کہ اس کے ساتھ شامل ہونے والا کوئی شخص اس وجہ سے بھی الگ ہوا ہے کہ اسے اسلام کے اصول پسند نہیں آئے ؟ کسی شکوہ شکایت لڑائی جھگڑے کی وجہ سے علیحدگی اور بات ہے.اس کا مطلب یہ تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص بھی علیحدہ ہوا ہے جسے اسلام کے عقائد پسند نہ آئے ہوں؟ ابوسفیان نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا.1 تو اس زمانہ میں سچائی عام تھی مگر آج جھوٹ عام ہے.مجھے ہمیشہ اس واقعہ سے حیرت ہوتی ہے رسول کریم صلی لا نام ایک مرتبہ وحی لکھ رہے تھے.کاتب وحی لکھ رہا تھا.ایک مقام پر پہنچ کر کاتب کے منہ سے فوراً یہ فقرہ بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ - اتفاقا اگلی آیت یہی تھی.اس لئے رسول کریم لی ایم نے فرمایا کہ بس یہی الہام ہے لکھ لو.اس بات پر اسے ٹھوکر لگ گئی.اس نے سمجھا کہ میر افقرہ پسند آ گیا تو اسے ہی الہام میں داخل کر لیا اور وہ مرتد ہو کر مخالفوں میں جا ملا.مخالف ہونے کے بعد وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ اور بھی ایسے فقرے مجھ سے آپ قرآن کریم میں لکھوا لیتے رہے ہیں.2 مگر نہیں وہ صرف یہی ایک واقعہ بیان کرتا تھا.تو عرب بحیثیت قوم جھوٹے نہ تھے مگر آج حالات بالکل مختلف ہیں.آج اگر کوئی شخص مرتد ہو تو وہ فوراً کچھ کی کچھ بات بنادے گا.الله سة لکھوا ایک دفعہ یہاں ایک شخص طالب علم کی حیثیت سے حیدرآباد سے آیا.آج وہ لیڈر بنا ہوا ہے.کچھ عرصہ کے بعد یہاں کسی سے اس کا جھگڑا ہو گیا اور وہ لاہور جا پہنچا.جھگڑا اس کا غالباً ہوسٹل والوں سے ہوا تھا مگر لاہور جا کر اس نے اعلان کیا کہ میں قادیان گیا تھا.
خطبات محمود 53 1940 شروع شروع میں تو مجھ سے اصل بات پردہ میں رکھی گئی مگر کچھ عرصہ کے بعد جب خلیفہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ میں مخلص احمدی بن گیا ہوں تو مجھے بیت الفکر کے ایک کو نہ میں بٹھا کر کہنے لگے کہ آج میں تم پر مخلص احمدی کا راز منکشف کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ ہمارا اصل عقیدہ یہی ہے کہ مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ کریم سے افضل ہیں.حالانکہ جب وہ یہاں سے گیا تو دیانتداری سے اصل بات بھی بتا سکتا تھا کہ میرا ان لوگوں سے اتفاق نہیں ہو سکا.اس لئے ان میں نہیں رہ سکا.لیکن اسے چھپا کر اس نے اتنا بڑا فتراء کیا جو زبان سے نکالتے ہوئے ایک شیطان خصلت انسان کا دل بھی کانپ جاتا ہے.یہ ہندوستانی ذہنیت ہے کہ جھوٹ بولنے میں دریغ نہیں کیا جاتا.باقی مرتدین کو بھی دیکھ لو.ادھر مرتد ہوئے اور اُدھر سینکڑوں قصے گھڑ لیتے ہیں.حالانکہ سوال قرضہ یا مقدمہ یا نوکری یا کسی بچے کی نوکری یا شادی بیاہ کا ہوتا ہے مگر ہزاروں باتیں پاس سے ہی بنا کر ایسا گورکھ دھندا پیش کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.تو آجکل جھوٹ بہت عام ہے اور سچ کے قیام کے لئے بہت سی مشکلات در پیش ہیں لیکن اگر قوم سچ کے لئے تیار ہو جائے تو اس کا اثر بھی بہت بڑا ہو گا.اگر یہ مشکل کام ہماری جماعت کرلے تو اس کے نتائج نہایت شاندار ہوں گے.اگر ہر فرد جماعت سیچ کی پابندی اختیار کرے، عور تیں بچوں کو سچ بولنا سکھائیں، بہنیں بھائیوں کو بھائی بہنوں کو اور باپ بیٹوں کو اور چاہے کسی عزیز ترین رشتہ دار کے متعلق سچی گواہی دینی پڑے اس میں دریغ نہ کریں تو اس کے نتائج نہایت شاندار ہوں گے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ بعید ترین واقف کے لئے بھی جھوٹ بولنے میں تامل نہیں کرتے.میرا تجربہ یہی ہے کہ ہماری جماعت میں دوسروں کی نسبت سچائی بہت زیادہ ہے اور فیصلوں میں بالعموم وہ دقتیں پیش نہیں آتیں جو دوسرے لوگوں کے معاملات میں آتی ہیں مگر پھر بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں.لیکن ایک نقص ہماری جماعت میں بہت عام ہے اور وہ بد ظنی ہے.میں نے دیکھا ہے ہر شخص یہی کہتا ہے کہ جی قاضی نے عمد أغلط فیصلہ کیا حالا نکہ میں نے سو فیصدی اس بات کو غلط پایا ہے کہ جان بوجھ کر کسی قاضی نے بد دیانتی کی ہو.مگر مجھے کوئی فیصلہ کرانے والا شاید ہی ایسا ملا ہو جس نے یہ نہ کہا ہو کہ قاضی نے بد دیانتی کی ہے
$1940 54 خطبات محمود یار عایت کی ہے یا توجہ نہیں کی.یہ سب الفاظ قریباً ہم معنی ہیں مگر میرے تجربہ میں یہی آیا ہے کہ یہ بات غلط ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے قاضیوں کے فیصلے غلط بھی ہوئے ہیں، بعض نے گواہی پوری نہیں لی ہوتی یا ایسی جرح ہونے دی ہے جو نہیں چاہیئے تھی مگر یہ سب باتیں عام حالات کے ماتحت تھیں.یہ میں نے نہیں دیکھا کہ جان بوجھ کر کسی نے کوئی بد دیانتی کی ہو.میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کبھی کسی قاضی نے کوئی حرکت بد دیانتی سے نہیں کی ہو گی.ممکن ہے کی ہو مگر وہ ایسی ہی ہو گی جو مجھے نظر نہیں آئی.انسان کمزور ہے کمزوریاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی مگر وہ ایسی باریک کہ ان کا پکڑنا مشکل ہے.تو بیشتر حصہ جماعت کا سچ ہی بولنے والا ہے مگر کئی لوگ ایسے بھی میں نے دیکھے ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں اور سچی بات ان کے منہ سے اسی طرح نکالنی پڑتی ہے جس طرح شیر کے منہ میں سے گوشت کا لوتھڑا.جس میں ہاتھ بھی زخمی ہو جائیں.وہ چبا چبا کر بات کریں گے اور پھر جرح پر کوئی بات بتائیں تو بتائیں گے اور پھر جب دریافت کیا جائے کہ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہیں گے کہ جی خیال نہیں کیا تھا.دھیان نہیں تھا.ان کے مُنہ سے سچی بات کہلوانا ایسا ہی مشکل ہوتا ہے جیسا شیر کے منہ سے گوشت کا لوتھڑا نکالنا مگر بیشتر حصہ سچ بولنے والا ہے.گو وہ بھی سچائی کے اس معیار پر نہیں جو قرآن کریم قائم کرنا چاہتا ہے مگر نسبتاً دوسروں سے اچھے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ جب تک وہ سچائی کا کامل معیار اختیار نہیں کرتے دوسروں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.سچائی کے قیام کے لئے پہلے خود مثال قائم کرنی چاہیے.جو ماں بچہ کے سامنے خود جھوٹ بولتی ہے اس کی نصیحت کا بچہ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا.بعض مائیں بچوں کو ایسی تعلیم دیتی ہیں جو جھوٹ ہو مثلاً کہہ دیا کہو اماں گھر نہیں ہیں یا ہاتھ سے روپوؤں کی پوٹلی باندھتی جاتی ہے اور بچہ سے کہتی جاتی ہے کہ کہہ دو ہمارے ہاں روپیہ نہیں ہے.اس کا بچہ سچ بولنا کبھی نہیں سیکھ سکتا.پس سچائی کی تعلیم دینے کے لئے خود بھی سیچ اختیار کرناضروری ہے.مذہبی مسائل میں بھی یہی طریق اختیار کرنا چاہیئے.مجھے آج یہ بات بیان کرنے کا خیال “الفضل ” میں مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کا مضمون پڑھ کر ہؤا.میں نے دیکھا ہے ان کے مضمون میں ایک بے ساختہ پن ہے وہ صاف کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک غلطی
1940 55 خطبات محمود ہوئی مگر جب مجھے پتہ لگ گیا میں نے اصلاح کر لی لیکن ان کے مقابل پر مولوی محمد علی صاحب بھی مضامین لکھتے ہیں اور کہتے ہیں نہیں آپ کو غلطی نہیں لگی تھی حالانکہ مولوی غلام حسن خان صاحب کی پوزیشن بالکل مضبوط ہے.انہوں نے ایک وقت بیعت نہیں کی تھی اور دوسرے وقت کر لی.اور جو شخص یہ مان لے کہ پہلے میں غلطی پر تھا اس پر اعتراض کیا ہو سکتا ہے ؟ مگر مولوی محمد علی صاحب برابر اعتراض کرتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنی جلدی تبدیلی آپ کے اندر کیونکر پیدا ہو گئی ؟ وہ اس بیعت پر بد ظنی کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں شاید ان کا کوئی فائدہ ہے حالانکہ اگر بیعت کر لینے میں کوئی فائدہ نظر آتا تو وہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت کیوں نہ کر لیتے ؟ پہلے میرا خیال تھا کہ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بیعت کی ہوئی تھی.سندھ کے سفر میں بھی کسی دوست نے پوچھا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میر اخیال ہے کی ہوئی تھی مگر آج ان کے مضمون سے پتہ لگا ہے کہ نہیں کی تھی.مولوی غلام حسن خان صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو جواب دیا ہے کہ آپ کو علم ہے میں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی نہیں کی تھی.اگر میرے دل میں کوئی بد دیانتی ہوتی تو میں اُسی وقت کیوں نہ بیعت کر لیتا مگر میں نے اس وقت بھی دلیری سے کام لیا اور نہ کی.لیکن اب کہ میں نے سمجھا بیعت ضروری ہے میں نے کر لی اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ پہلے میں غلطی پر تھا.اب اس میں اعتراض کی بات ہی کون سی ہے ؟ یا تو مولوی محمد علی صاحب یہ فیصلہ کر دیں کہ انسان کبھی غلطی کر ہی نہیں سکتا اور اگر کر سکتا ہے تو اس کی اصلاح کو نسا جرم ہے؟ اور ان کے مقابلہ میں خود مولوی محمد علی صاحب کی کیا پوزیشن ہے ؟ انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی بیعت کی اور ان کے احباب نے یہ اشتہار دیا کہ یہ بیعت مطابق الوصیت ہے.مگر آج وہ خلافت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ الوصیت کسی ایک فرد کی خلافت کے خلاف ہے.لیکن یہ کہنے کی جرات نہیں کرتے کہ ہم نے اس وقت الوصیت کے مطابق خلافت سمجھی تھی مگر اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ عقیدہ غلط تھا.اسی طرح وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو آپ کو نبی اور رسول لکھتے رہے ، عدالت میں حلفیہ بیان دیا اور کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نبی ہیں مگر اب کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگ تو شروع سے ہی ا
$1940 56 خطبات محمود آپ کو نبی نہیں مانتے تھے.حالانکہ اگر وہ سچائی سے کام لیتے تو ان کی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہوتی.وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم پہلے ایسا سمجھتے تھے اس لئے اس کا اظہار بھی کرتے تھے مگر اب پتہ لگ گیا ہے کہ وہ ہماری غلطی تھی مگر وہ ایک واقعہ کا جو ہو چکا ہے انکار کرتے ہیں جس سے ان کی پوزیشن کس قدر خراب ہو جاتی ہے.ہم یہ معاملہ کسی ثالث کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں.مذہبی مسائل میں تو ہم ثالثوں کے قائل نہیں مگر یہ کوئی مذہبی سوال نہیں بلکہ بعض عبارتوں کے مفہوم کا سوال ہے اور اردو ادب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے تیار ہیں کہ ادیبوں سے اس بات کا فیصلہ کر لیا جائے.ہم ان کی پہلی تحریریں ان کے پیش کر دیں گے کہ ان کا پہلا عقیدہ یہ تھا اور وہ کہہ دیں کہ میں پہلے بھی نبی نہیں مانتا تھا.اس کے بالمقابل وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے نبی نہیں مانتا تھا اب ماننے لگا ہوں.اس کے متعلق وہ بھی جو تحریر میں چاہیں پیش کر دیں اور میں ان کا جواب لکھ دوں گا اور پھر فیصلہ کر الیا جائے کہ ان سب تحریروں کے مفہوم وہ صحیح ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں یا جو وہ کہتے ہیں.اگر ثالث یہ فیصلہ کر دیں کہ مولوی صاحب کا عقیدہ پہلے بھی وہی تھا جو اب ہے تو ہم مان لیں گے کہ وہ صحیح کہتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کبھی اس فیصلہ کی طرف نہیں آئیں گے.ان کی غرض ایسی باتوں سے صرف یہ ہے کہ ان کے پہلے عقائد اور خیالات پر پر وہ پڑ جائے جیسے ملزم جب پکڑا جاتا ہے تو وہ اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دشمنوں نے خواہ مخواہ مجھ پر الزام لگا دیا ہے.ان کی تحریریں موجود ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نبی آخر الزمان ہیں، مجد دین اور ان میں یہ فرق ہے.مگر آج کہتے ہیں کہ میں نے کبھی یہ بات کہی ہی نہیں.مگر سوال یہ ہے کہ اگر پہلے بھی آپ نبی نہ کہتے تھے اور آپ کی تحریروں سے نبوت کا ثبوت نہیں ملتا تو ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں اور یہ کیوں کہتے ہیں کہ کسی کی تحریر یا قول کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں.انہیں تو چاہیے کہ خود تحریک کر کے دوسروں کو ان کی طرف متوجہ کریں.وہ چونکہ جانتے ہیں کہ لوگ ان تحریروں کو پڑھ کر ضرور متاثر ہوں گے اس لئے کہتے جاتے ہیں کہ زید یا بکر کے قول کا کوئی اعتبار نہیں اور وہ حجت نہیں ہو سکتا.جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی کمزوری کو چھپاتے ہیں.مولوی غلام حسن خان صاحب کے مضمون کو دیکھ کر صاف پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے
* 1940 57 خطبات محمود سچائی کے ساتھ واقعہ بیان کر دیا ہے جو اس قابل ہے کہ اس پر اعتبار کیا جائے.لیکن مولوی محمد علی صاحب جو مضامین لکھتے ہیں اور جس رنگ میں نبی ماننے یا نہ ماننے کا سوال پیش کرتے ہیں اس میں ایک اخفاء کا پہلو نظر آتا ہے.وہ کہتے ہیں اس سوال کو جانے دو کہ میں یا کوئی اور اس زمانہ میں کیا خیال کرتا تھا.حالانکہ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے درجہ کے متعلق لوگوں کا کیا خیال تھا.ایک شخص تو غلطی کر سکتا ہے ، دو کر سکتے ہیں، چار کر سکتے ہیں مگر جو مجموعی عقیدہ اس زمانہ میں پھیلا ہوا تھا اور جس کی اخبارات ، اشتہارات اور رسالوں میں اشاعت ہوتی رہتی تھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تردید نہیں کرتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اس عقیدہ کو درست سمجھتے تھے ورنہ کیوں اس کی تردید نہ فرماتے.یا اُس وقت جماعت میں جو لوگ بڑے تھے انہوں نے اس کار ڈکیوں نہ کیا؟ یہ باتیں مولوی محمد علی صاحب کی پوزیشن کو کمزور کرنے والی ہیں.سچائی ہی ہے جو ہر میدان میں انسان کو کامیاب کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے لکھا تھا کہ مسیح ناصری زندہ ہے مگر بعد میں وفات پیش کی اور جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے صاف طور پر فرمایا دیا کہ وہ میری غلطی تھی.جب تک مجھے علم نہ تھا میں وہی کہتا رہا جو جمہور مسلمانوں کا عقیدہ تھا مگر جب اللہ تعالیٰ نے مجھے حقیقت سے آگاہ کر دیا تو میں نے اسے بیان کر دیا.اسی طرح پہلے آپ لکھتے رہے کہ میں نبی نہیں ہوں مگر بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا.لوگوں نے اعتراض کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ میرا تو پہلے بھی یہی مطلب تھا کہ میں نبی ہوں.نہیں کا لفظ کاتب نے غلطی سے لکھ دیا بلکہ سادگی سے اقرار کر لیا کہ مسلمانوں کے پرانے عقیدہ کے مطابق میں اپنے آپ کو نبی نہیں سمجھتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح وحی نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہیں رہنے دیا.اسی طرح اگر مولوی محمد علی صاحب بھی یہی پوزیشن اختیار کرتے تو ان پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو سکتا مگر وہ تو کہتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت مرزا صاحب کو نبی نہیں سمجھا.ایک طرف تو یہ لوگ ہم پر شرک کا الزام لگاتے ہیں دوسری طرف ان کا یہ حال ہے کہ نبیوں اور ماموروں کی طرف غلطی کا منسوب کرنا تو جائز سمجھتے ہیں مگر اپنی مریح غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں.حالانکہ صریح لکھے ہوئے حوالے موجو د ہیں.ایسی واضح
$1940 58 خطبات محمود تحریروں سے انکار دراصل ان پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہے ورنہ اگر یہ کہتے کہ ہاں ہم نے نبی لکھا ہے اور ضرور لکھا ہے مگر وہ غلطی تھی اب بات ہماری سمجھ میں آگئی ہے تو ان کی بات معقول سمجھی جاتی مگر ان کی موجودہ پوزیشن کو دیکھ کر تو ہر شخص یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ سچائی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں.پس دینی اور دنیاوی ہر قسم کے معاملات میں سچائی کو مقدم رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ بات ہر میدان میں انسان کو فائدہ پہنچاتی ہے.ماں باپ اور استادوں کو چاہیے کہ بچوں میں سچائی کی عادت پیدا کریں.اکثر بچے جھوٹ ماں باپ یا استاد سے ہی سیکھتے ہیں.دس فیصدی دوسروں سے اور نوے فیصدی ماں باپ یا استادوں سے سیکھتے ہیں.ہمسایہ لڑکوں سے بھی سیکھتے ہیں مگر چونکہ ان کے لئے ان کے دلوں میں ادب اور احترام نہیں ہو تا اس لئے ان کا اثر اتنا گہرا نہیں ہو تا جتناماں باپ اور استادوں کا ہوتا ہے.صرف دس فیصدی مثالیں ایسی ملیں گی کہ بچوں نے ہمسایہ بچوں سے جھوٹ سیکھایا نوکروں سے سیکھ لیا ورنہ نوے فیصدی ماں باپ اور استادوں سے سیکھتے ہیں.جو ماں باپ ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ نقصان کے باوجو د سچ بولتے ہیں ان کے شریف الطبع بچے اکثر بچے ہوتے ہیں.اسی طرح استاد کا اثر بھی بہت ہوتا ہے کیونکہ بچے کے دل میں ان تینوں کا احترام ہوتا ہے.غور کر کے دیکھ لو ہر انسان جو حرکتیں کرتا ہے ان میں سے اکثر اس کے ماں باپ یا استاد میں ہوں گی اور اس نے ان کی نقل میں وہ حرکت اختیار کی ہو گی.بعض لوگ ایک خاص طرح کندھا ہلاتے ہیں یا سر ہلاتے ہیں یا ایسی ہی اور حرکات کے عادی ہوتے ہیں اور اگر تحقیق کی جائے تو یہ ثابت ہو گا کہ یہ حرکات اکثر انہوں نے ماں باپ یا استاد کی نقل میں اختیار کی ہوں گی.بچہ بوجہ احترام ہمیشہ ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے.وہ سمجھتا ہے یہ بڑے ہیں میں بھی ان کی نقل کر کے بڑا بن جاؤں گا.تو اگر ماں باپ اور استاد سچائی پر قائم ہو جائیں تو نوے فیصدی سچ دنیا میں قائم ہو سکتا ہے.باقی صرف دس فیصدی جھوٹ رہ جائے گا جو دوسرے ذرائع سے قائم ہوتا ہے اور اس کا علاج بہت آسان ہے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی اخلاقی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی وشش کریں.جب محکمہ قضاء کے سامنے جواب دہی یا گواہی کے لئے کوئی پیش ہو تو سچ سچ بات
* 1940 59 خطبات محمود کہہ دے.مذہبی معاملات میں بھی یہی طریق اختیار کرنا چاہیے.اگر کسی بات کا جواب ایک وقت نہیں آتا تو بناوٹی جواب دینے کی کوشش نہ کرو میں تو اسی طرح کرتا ہوں.ایک شخص نے ایک خط میرے سامنے پیش کیا جو غیر احمدی کے جنازہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لکھا ہوا تھا.میں نے اسے دیکھ کر کہہ دیا کہ اس وقت اس کا کوئی جواب میرے ذہن میں نہیں.آپ کے باقی حوالوں سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا منع ہے مگر اس خط کا میں ابھی کوئی جواب نہیں دے سکتا.کئی دفعہ مجھے چیلنج بھی دیا گیا کہ اس کا جواب دو مگر میں نے کبھی بناوٹی جواب دینے کی کوشش نہیں کی.میں نہیں سمجھتا کہ اس میں ہتک کی کوئی بات ہے.ممکن ہے یہ خط بعض مخصوص حالات میں لکھا گیا ہو جو مجھے معلوم نہیں مگر بہر حال دوسرے حوالے ایسے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر احمدی کا جنازہ آپ جائز نہیں سمجھتے تھے.اس خط کو دیکھ کر میں نے یہی کہا کہ اس کا کوئی جواب میں نہیں دے سکتا اور اس میں حرج ہی کیا ہے کہ انسان سچی بات صاف صاف کہہ دے.ایک دفعہ لاہور میں دو شخص مجھ سے ملنے آئے.ایک نے دریافت کیا کہ آپ نے کس مدرسہ میں تعلیم پائی ہے ؟ اس کا مطلب دیو بند و غیر ہ علمی مدارس سے تھا.میں نے کہا کسی مدرسہ میں نہیں.اس نے کہا کسی سے کوئی سند حاصل کی ہے ؟ میں نے کہا نہیں.پھر اس نے کہا کہ کون کون سے علوم پڑھے ہیں؟ میں نے کہا کوئی نہیں.اس کی غرض ان سوالات سے صرف یہ تھی کہ ظاہر کرے کہ یہ تو جاہل آدمی ہے اس سے ہم کیا گفتگو کریں.میں اسے یہ جواب بھی دے سکتا تھا کہ تمہیں ان سوالات کا کیا حق ہے مگر وہ پوچھتا گیا اور میں جواب دیتا گیا.دوست بیٹھے تھے اور وہ ایسے سوالات کرنے سے اسے روکنا بھی چاہتے تھے مگر میں نے کہا نہیں پوچھنے دو.اس نے اپنے ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تو خودمانتے ہیں کہ جاہل ہیں پھر ان سے کیا سوال کریں.میں نے کہا کہ ایک سوال آپ نے نہیں کیا؟ وہ بات میں خود بتا دیتا ہوں.وہ کہنے لگے کیا؟ میں نے کہا میں انگریزی مدرسہ میں پڑھتا تھا اور پرائمری میں بھی فیل ہوا اور مڈل میں بھی اور انٹرنس میں بھی مگر ان سب باتوں کے باوجو د میں ایک چیز پڑھا ہوا ہوں.
$1940 60 خطبات محمود الله میں نے وہ پڑھا ہے جو محمد (صلی علیہ) نے پڑھا تھا اور میں نے قرآن کریم پڑھا ہے.گو محمد رسول اللہ صلی علیکم کا مقام اعلیٰ تھا اور میرا ادنی.بے شک میں نے دنیا کا کوئی علم نہیں پڑھا مگر نہ پڑھنے کے باوجو د میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی علم نہیں کہ جس کے رو سے قرآن کریم یا اسلام پر اس کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب نہ دے سکوں.یہ بات سن کر اس شخص کے ساتھی نے کہا کہ میں نے تم کو اشارہ نہ کیا تھا کہ ان کے جواب میں کوئی اور بات ہے اور میں نے تمہیں پہلے منع کیا تھا کہ یہ سوالات نہ کرو.بعض پیغامی بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی ہیں.یہ کیا ہیں ؟ مجھے اقرار ہے کہ میرے پاس کوئی سند نہیں مگر پھر بھی میرا یہ دعویٰ ہے کہ مجھے قرآن کریم آتا ہے جو چاہے میرے اس دعویٰ کو پرکھ لے.میں نے کبھی کسی سے یہ نہیں کہا کہ مجھے فلسفہ خوب آتا ہے مجھ سے پڑھ لو یا حساب بہت آتا ہے وہ پڑھ لو.ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ قرآن کریم مجھ سے ہی پڑھ سکتے ہو اور میر ا کسی اور علم کا ماہر نہ ہونا کوئی ہتک کی بات نہیں.ایک نجار اگر لوہار کا کام نہیں جانتا تو اس میں اس کی کوئی ہتک نہیں یا اگر ایک جولا بانائی کا کام نہیں جانتا تو اسے جاہل نہیں کہا جا سکتا.جو شخص جس فن کو جانتا ہے اس کے علم کا امتحان اسی فن میں کیا جا سکتا ہے اس سے باہر نہیں.پس میرے قرآن کریم کے سوا کسی علم میں ماہر نہ ہونے کو کوئی اگر جہالت قرار دیتا ہے تو بڑے شوق سے دے میرے لئے اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں.لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعوی کرائیں کہ میں مصلح موعود ہوں.مگر میں نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی.مخالف کہتے ہیں آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں مگر آپ خود دعوی نہیں کرتے.مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے دعوی کی ضرورت کیا ہے؟ اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعویٰ نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آسکتا.جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں ہو تا تو پھر دعویٰ کی مجھے کیا ضرورت ہے.رسول کریم صلی الیم نے ریل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی.کیا ضروری ہے کہ ریل دعویٰ کرے؟ دجال کی پیشگوئی موجود ہے مگر کیا دجال کا دعویٰ کرنا ضروری ہے ؟ ہاں مامور کی پیشگوئی میں دعویٰ کی ضرورت ہوتی ہے.
$1940 61 خطبات محمود باقی غیر مامور کو تو خواہ پتہ بھی نہ ہو کہ وہ پیشگوئی اس کی ذات میں پوری ہو گئی کوئی حرج کی بات نہیں.امت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہو ؟ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اور نگ زیب بھی اپنے زمانہ کا مجد د نظر آتا ہے.مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا ؟ عمر بن عبد العزیز کو مجدد کہا جاتا ہے کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے ؟ پس غیر مامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں.دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے.غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے.اگر کام پورا ہو تا نظر آجائے تو پھر اس کے دعوی کی کیا ضرورت ہے؟ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے.اگر عمر بن عبد العزیز مجد د ہونے سے انکار بھی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانہ کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں.دعویٰ صرف ان مسجد دین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں.ہاں جو غیر مامور اپنے زمانہ میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کرے، دشمن کے حملوں کو توڑ دے اسے چاہے پتہ بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے.ہاں مامور مجد دوہی ہو سکتا ہے جو دعویٰ کرے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا.پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے گھبراہٹ کی بھی ضرورت نہیں.اس میں کوئی ہتک کی بات نہیں.اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے رستہ پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا.اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے کر اپنے غلط دعویٰ کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالا کی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کر لے تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کر سکتا.اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے حاصل نہیں کیا اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہو کر رہے گا.پس دینی و دنیوی کاموں میں ہمیشہ سچ کو اختیار کرو.جو شخص سچ کے لئے نقصان اٹھاتا
خطبات محمود 62 $1940 ہے وہ دراصل فائدہ میں رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب آتھم کی پیشگوئی پر مخالفوں نے شور مچایا کہ وہ پوری نہیں ہوئی تو ایک دن نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی جو اغلباً موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے اس موضوع پر باتیں ہونے لگیں اور تمسخر اُڑایا جانے لگا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.نواب صاحب کے پیر حضرت غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی تشریف فرما تھا وہ خاموش بیٹھے رہے مگر کچھ عرصہ بعد نواب صاحب بھی اس گفتگو میں دخل دینے لگے تو وہ جوش میں آگئے اور فرمانے لگے کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ ایک عیسائی کی تائید اور مسلمان کے خلاف باتیں کرتے ہو.تم لوگ کہتے ہو کہ آتھم زندہ ہے یہ بالکل غلط ہے وہ مر چکا ہے اور مجھے تو وہ مردہ ہی نظر آتا ہے.3 پس جب کوئی شخص سچ کے لئے کھڑا ہو تو ہر شریف انسان اس کی عزت کرے گا.اگر کمینے اس کی عزت کو نہ پہچانیں تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں.پس کبھی کسی دشمن کے اعتراض سے ڈر کر حق نہ چھپاؤ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو تم اپنی عزت قائم کرنا چاہو گے اور خدا تعالیٰ اور رسول کی بے عزتی کرنے والے بنو گے اور اس صورت میں تم ان کی دعاؤں کے مستحق نہیں بنو گے بلکہ ان کی ناراضگی کے مورد ہو گے.پس سچ کو قائم کرو کیونکہ جس دن تم اسے قائم کر لو گے احمدیت کی شان اور اس کا مر تبہ بہت ہی بلند و بالا ہو جائے گا.“ (الفضل 23 مارچ 1940ء) صلى الله 1 بخاری کتاب الجہاد والسير باب دعاء النبي عليه الا الله الى الاسلام 2 تفسير القرطبي جلد 12 صفحه 110 زیر آیت فتبارك الله الخالقين تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 340
$ 1940 63 6 خطبات محمود کوشش کرو کہ جتنا ہم زمین میں پھیلیں اس سے زیادہ آسمان میں پھیلیں تشهد فرمودہ 22 مارچ 1940ء) ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں جتنی بڑائیاں ہیں وہ سب کی سب نہایت چھوٹے بیجوں سے پیدا ہوئی ہیں.آم کے کتنے بڑے بڑے درخت کتنی چھوٹی چھوٹی گٹھلیوں سے پیدا ہوتے ہیں، بیری کے درخت کتنی چھوٹی گٹھلیوں سے پیدا ہوتے ہیں، یوکلپٹس کے درخت کتنے چھوٹے پودوں سے ، پیدا ہوتے ہیں، بڑ کے درخت کے بیج کا دانہ کتنا چھوٹا ہوتا ہے، یہی حالت انسانوں میں بھی ہے مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بڑے ہو کر چھوٹے ہونے کی حالت کو بھول جاتے ہیں.عام طور پر بڑے آدمی چھوٹوں کو دیکھ کر نہایت حقارت سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں مگر ان کو یاد نہیں رہتا کہ وہ خود کبھی ان جیسے ہی بلکہ ان سے بھی زیادہ نادان تھے.ایک ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا ہوا انسان اپنے ماتحت کو جو ترقی کے لئے قربانی کر رہا ہوتا ہے اور ترقی کے ابتدائی زمینوں پر قدم مار رہا ہو تا ہے کیسی حقارت سے کہہ دیتا ہے کہ وہ کتنا چھوٹا آدمی ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ کبھی وہ اس سے بھی نیچے تھا اور اسے کیا معلوم ہے کہ اس کا وہ ماتحت ترقی کرتے کرتے اس سے بھی آگے نہیں نکل جائے گا.
خطبات محمود 64 1940 جب محمد رسول اللہ صلی العلیکم دنیا کے پاس صداقت کا پیغام لے کر آئے، جب عرب کے ایک شریف خاندان مگر دنیوی حیثیت کے لحاظ سے نہایت ہی غریب خاندان کے ایک نوجوان نے جس کے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہو گئے اور جس نے اپنے چچا کے گھر میں پرورش پائی تھی یہ اعلان کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا ہے اور نبی بھی وہ جو سب نبیوں کا سردار ہے تو یہود نے اس وقت اسے کتنی حقارت کی نظر سے دیکھا اور کہا کہ بھلا یہ موسیٰ کی خوبیوں تک پہنچ سکتا ہے ؟ عیسائیوں نے بھی اسے حقارت سے دیکھا اور کہا کہ یہ عیسی کا سر دار کس طرح ہو سکتا ہے ؟ یہی حال دوسری قوموں کا بھی تھا.انہوں نے بھی اسے حقارت کی نظر سے دیکھا اور یہی خیال کیا کہ یہ ابراہیم ، اسماعیل، موسیٰ اور عیسی (علیہم السلام) کا سر دار کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ایک طرف ان نبیوں کے اس زمانہ کے بلند مرتبہ کو دیکھتے اور دوسری طرف رسول کریم صلی الل علم کی کسمپرسی کو.لیکن یہ خیال نہ کرتے تھے کہ موسیٰ موسیٰ بننے سے قبل کیا حیثیت رکھتا تھا؟ کیا موسیٰ ابتداء میں اپنی قوم کے مظالم سے تنگ آکر بھاگا نہ تھا؟ کیا اسے ابتدائی ایام میں فرعون کی روٹیوں پر بسر نہ کرنی پڑی تھی ؟ کیا عیسی ایک بڑھئی کا بیٹا نہ تھا جسے شاید بچپن میں لوگوں کی پیڑھیاں اور چار پائیاں ٹھونکنی پڑی ہوں ؟ پھر کیا ابراہیم ایک ایسے تاجر کا بیٹا نہ تھا جو بت بیچا کرتا تھا؟ وہ ان سب نبیوں کی ابتدائی حالت کو بھول جاتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علم کی اس گھڑی کو دیکھتے تھے جب وہ ایک یتیم کی حیثیت میں اپنے چچا کے گھر میں پلتے تھے.وہ عیسی کی تو دعوی سے پانچ سو سال بعد کی حالت کو دیکھتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی ا ظلم کی پیدائش کے سال کو وہ موسیٰ اور ابراہیم کی پیدائش کے زمانہ کو بھول کر ان کی جوانی کو دیکھتے تھے مگر آنحضرت صلی اللی علم کی پیدائش کو.اور وہ یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ بچپن اور جوانی میں کتنا فرق ہے.ایک بچہ خواہ وہ رستم دیار ہی کیوں نہ ہونے والا ہو، ایک جوان کوڑھی سے بہر حال کمزور ہوتا ہے کیونکہ ابھی وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کی طاقت کا زمانہ ابھی شروع نہیں ہوا ہو تا.تو مکہ کے لوگ آنحضرت صلی اللہ نام کی ابتدائی حالت سے اُس وقت اندازہ کر رہے تھے اس لئے اُن کو آپ کمزور نظر آتے تھے لیکن آج اگر مکہ کے ان لوگوں کو واپس دنیا میں آنے کا موقع ملے اور ان یہودیوں کو دنیا میں لایا جائے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ محمد رسول اللہ صلی لی ہم کو
$1940 65 خطبات محمود اتنی قبولیت حاصل کس طرح ہو گئی ؟ ابتدائی حالت میں مسلمانوں کی طاقت ہی کیا تھی؟ اُس وقت صرف اڑھائی مسلمان ہی تھے.یعنی ابو بکر، خدیجہ اور علی جو صرف گیارہ سال عمر کے تھے.حضرت خدیجہ ایک عورت تھیں اور عورت نصف مرد کے برابر سمجھی جاتی ہے.اس طرح گل اڑھائی ہوئے.اس وقت جب آنحضرت صلی ال نیم کہتے ہوں گے کہ ہم مسلمانوں کی جماعت دنیا پر غالب آجائے گی تو ان کی مراد انہی اڑھائی مسلمانوں سے تھی یعنی حضرت ابو بکر ایک جوان آدمی، حضرت علی گیارہ سال کا بچہ اور خدیجہ ایک عورت.اور ان اڑھائی مومنوں کی اس بات کو سن کر یہودی جو اس وقت تمام دنیا کی تجارت پر قابض تھے ، دمشق میں بھی ان کی تجارت تھی، مصر، فلسطین اور ایران کی تجارت پر بھی وہی قابض تھے ، تمام بادشاہوں کے دربار میں ان کو عزت حاصل تھی.جوہری بھی یہودی تھے اور کپڑے کے تاجر بھی وہی تھے.ہندوستان تک ان کی تجارت اور شہرت پھیلی ہوئی تھی.اس وقت ان کا ذلیل سے ذلیل آدمی بھی مسلمانوں کا یہ فقرہ سن کر مسکرا دیتا ہو گا اور سمجھتا ہو گا کہ ان کا دماغ خراب ہو چکا ہے کہ یہ اپنے غلبہ کے خواب دیکھ رہے ہیں اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے وہ ایسا خیال کرنے میں بالکل حق بجانب تھے کیونکہ کُجا اڑھائی کروڑ کے قریب وہ لوگ جن کے قبضہ میں ساری دنیا کی تجارت تھی اور کجا یہ اڑھائی مسلمان.اور جب رسول کریم صلی ا ہم کہتے ہوں گے کہ “ہم مسلمانوں کی جماعت تو جس حقارت سے ایک عیسائی یا ایک یہودی اس پر مسکراتا ہو گا اس کا اندازہ ہم ہی کر سکتے ہیں، دوسرے نہیں کر سکتے.اسی طرح قریش کے لوگ بھی ان مسلمانوں سے رتبہ میں بہت بڑے تھے.مسلمانوں کی اس وقت حیثیت ہی کیا تھی؟ حضرت علی بچہ تھے اور رسول کریم صلی الی یوم کے گھر میں رہتے تھے.آپ نے چونکہ پہلے ان کے گھر میں پرورش پائی تھی اس لئے حضرت علی کو اپنے ہاں رکھ لیا تھا کہ یہ میرے ہاں کھایا پیا کرے گا.حضرت ابو بکر بے شک تاجر تھے مگر ایسے تاجر کہ کپڑے کی گٹھڑیاں پیٹھ پر اٹھا کر دیہات میں جا کر بیچا کرتے تھے.گویا پھیری کرنے والے تاجر تھے.آپ کے پاس چند ہزار روپیہ ضرور تھا مگر کوئی بڑے امیر نہ تھے.آپ کی ایک پھیری والے اچھے تاجر کی حیثیت تھی اور بعض پھیری کرنے والے بھی متمول ہوتے ہیں.آپ خود کپڑا اٹھا کر بیچنے جایا کرتے تھے یا ایک دو غلام رکھے ہوتے تھے
1940 66 خطبات محمود انہیں اٹھوا کر لے جاتے تھے.اور ایسا تاجر اگر دس بارہ روپیہ بھی روز کمالے تو زیادہ سے زیادہ تین چار سو روپیہ ماہوار کی آمد تھی اور اس حیثیت میں وہ عرب کے رؤساء کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.پس جب رسول کریم صلی الیکم کہتے ہوں گے کہ “ہم مسلمان ” تو یہ لوگ کس حقارت سے کہتے ہوں گے کہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو ہم کہتے ہیں.لیکن آج اگر قریش کے ان سر داروں بلکہ بادشاہوں کو بھی کوئی لا کر کھڑا کر دے کہ وہی اڑھائی مسلمان آج دنیا میں چالیس کروڑ ہو گئے ہیں تو وہ کبھی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گے.ابو جہل اگر آج زندہ ہو جائے اور خانہ کعبہ میں قسم اٹھا کر بھی اسے بتایا جائے کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی ال نیم کے ماننے والے ہیں اور دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں مسلمان آباد نہ ہوں.ہندوستان میں بھی ہیں، ایران میں بھی اور مغربی افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ بھی پھیلے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں تو وہ یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گا.سة مسلمان آج گو کتنے خراب کیوں نہ ہوں اس میں کیا شک ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی للی نیم سے محبت ضرور کرتے ہیں اور آپ کے عشق کا دعویٰ رکھتے ہیں.ان لوگوں کو لا کر آج ہر جگہ پھراتے جاؤ تو وہ اسے خواب سمجھیں گے یا جنون.اور کبھی یہ نہیں مانیں گے کہ یہ اسی محمد صلی الل نظم کے غلام ہیں جو ایسی کمزور حالت میں تھے اور اگر ان کو عقبہ ، شیبہ ، ابو جہل اور قریش کے بڑے بڑے کفار کے خاندانوں میں لے جایا جائے اور وہ دیکھیں کہ کس طرح آج ان کی اولا دیں اسلام پر کار بند ہیں تو ان کا دماغ پریشان ہو جائے کہ یہ کیا دیکھ رہے ہیں ؟ ان لوگوں نے کس طرح اسلام کی مخالفت میں اپنی عمریں گنوا دیں.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج ان کی اولا دیں نہ صرف محمد ملا لی کہ بلکہ آپ کے غلاموں کی خدمت پر فخر کرتی ہیں.پھر دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھو کہ ایک زمانہ میں جب عیسائی خدا تعالیٰ سے سچی محبت کرتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی سچے دل سے اطاعت کرتے تھے اور دین کی خدمت میں تکالیف برداشت کرتے تھے اُس وقت آسمان پر ان کی کتنی عزت تھی مگر آج گو ان کی حکومت تو بڑی وسیع ہے مگر آسمان پر ان کے لئے سوائے ملامت کے اور کچھ نہیں.اسی طرح یہود نے جو حضرت موسیٰ کی امت ہیں دنیوی لحاظ سے بہت ترقی کی، کروڑوں روپیہ کمایا اور
1940 67 خطبات محمود اقتصادی دنیا میں بے حد اہمیت حاصل کر لی حتی کہ دنیا میں کوئی جنگ یا صلح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک حضرت موسیٰ کے نام لیواؤں کی انگلی بھی اس پر نہ رکھی ہوئی ہو.مگر آسمان پر ان کے لئے کوئی جگہ نہیں بلکہ فرشتے اُس جگہ کو صاف کرتے ہیں جہاں موسائیوں کی ہوا بھی پہنچ جائے.اور اس میدان میں ان کی ترقی کو دیکھ کر جب ان کے تنزیل پر نگاہ ڈالی جائے تو دل کانپ اٹھتا ہے.یہی حال مسلمانوں کا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے آج اگر ابو جہل اور کفارِ مکہ کے دوسرے سرداروں کو لا کر مسلمانوں کی ترقی دکھائی جائے تو وہ حیرت زدہ ہو جائیں.اسی طرح اگر محمد رسول اللہ صلی ا ہم یہ دیکھیں کہ یہ میری امت ہے تو آپ کبھی یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوں کیونکہ نقشہ ہی بدل چکا ہے.ان میں نہ وہ اخلاق ہیں اور نہ روحانیت جو آپ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے.ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت بالکل مفقود ہے.وہ تقدس نہیں، علم نہیں، دیانت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی علی کم پیدا کرنا چاہتے تھے.اسی طرح آج ہماری جماعت بھی بہت ادنیٰ حالت سے ترقی کر رہی ہے.دنیا آج ہماری طرف دیکھ کر حقارت سے مسکراتی ہے اور کہتی ہے کہ ان لوگوں کی بساط ہی کیا ہے جو ہمارا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں.میں نے اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو اقلیت سمجھتے ہیں.بھلا یہ بھی کوئی اقلیت ہیں.مگر یہ کہنے والوں کی مثال وہی ہے جو مکہ والوں کی تھی اور عیسائیوں اور یہودیوں کی تھی.وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی جوانی سے آنحضرت صلی علی ایم کے بچپن کا مقابلہ کرتے تھے.ان کی یہ بات سن کر مجھے اپنے ایک چھوٹے بچہ کی مثال یاد آجاتی ہے.اس کا رنگ کچھ سیاہ ہے اور اس کے چھوٹے بھائی کا گورا.اور جب اسے کہا جائے کہ اس کا بھائی گورا اور وہ کالا ہے تو وہ اپنا ہاتھ اور اپنے بھائی کے بال دکھا کر کہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا گورا ہوں اور وہ سیاہ ہے.ہر شخص اس بچے کی بات پر ہنس دے گا مگر کیا وہ لوگ ہنسی کے قابل نہیں ہیں جو محمد صلی للی علم کے بچپن کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جوانی سے مقابلہ کرتے ہیں؟ یہی حال ہمارے مخالفوں کا ہے جو ہماری کمزوری پر ہنستے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری مثال ابھی چھوٹے بچہ کی ہے اور ہم نے ترقی کرنی ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ضرور ترقی کریں گے اور جب جوانی کو پہنچیں گے تو ہمارے اس بچپن کو دیکھنے والوں کو
$1940 68 خطبات محمود یہ یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ وہی جماعت ہے.مگر ہماری جماعت کو یہ سبق کبھی نہیں بھلانا چاہئیے کہ قو میں جب تعداد میں بڑھتی ہیں تو اخلاق میں گرنے لگتی ہیں.وہ جب زمین میں پھیلتی ہیں تو آسمان پر سکڑنے لگتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ بد نصیب کوئی نہیں ہو سکتا جو زمین میں پھیلتا مگر آسمان میں سکڑتا ہے.آج ہم شوری کے لئے جمع ہوئے ہیں پس ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم جتناز مین میں پھیلیں اس سے زیادہ آسمان میں پھیلتے جائیں اور ہمارا خدا ہم سے خوش ہو.“ (الفضل 29 مارچ 1940ء)
$ 1940 69 7 خطبات محمود غیر مبائعین کو تبلیغ کرنے کے متعلق خاص ہدایت (فرمودہ 29 مارچ 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بوجہ انفلوئنزا کے دورہ کے میں اونچا نہیں بول سکتا اور گو آج حرارت میں مجھے نسبتاً کل سے افاقہ ہے لیکن گلے اور سر میں درد ابھی تک باقی ہے مگر لاؤڈ سپیکر کی وساطت سے میں امید کرتا ہوں کہ باوجود آہستہ بولنے کے میری آواز تمام جماعت تک پہنچ جائے گی.میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس وقت تک یہ وعدہ نہایت صفائی سے پورا ہو تا چلا آیا ہے کہ وہ ہم لوگوں کو جیسے بیرونی دشمنوں پر فتح اور نصرت عطا فرمائے گا اسی طرح جو اندرونی باغی ہیں ان پر بھی وہ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں غلبہ عطا فرما تارہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے ابھی نہ کوئی خلافت کا سوال تھا نہ اس قسم کا نظام جماعت کے سامنے تھا کہ مجھے الہام ہوا.اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُ وا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی زندہ ہی تھے جب مجھے یہ الہام ہوا.اور جب میں نے آپ کو یہ الہام سنایا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے الہاموں کی کاپی میں یادداشت کے طور پر اسے درج فرمالیا.یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں یقینا ان کو جو تیرے متبع ہوں گے ان لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے ہمیشہ غالب رکھوں گا اور
1940 70 خطبات محمود یہ غلبہ قیامت تک رہے گا.چنانچہ اس وقت تک ہم اس الہام کے پورا ہونے کا نظارہ کئی دفعہ دیکھ چکے ہیں.پیغامی کس زور سے اٹھے، کس شان سے اٹھے، کن زبر دست ارادوں سے اٹھے، کیا کیا تدبیریں تھیں جو انہوں نے ہمیں زیر کرنے کے لئے اختیار نہ کیں اور کیا کیا منصوبے تھے جو انہوں نے ہمیں ذلیل کرنے کے لئے نہ باند ھے.جو شوکت اور جور تبہ اس وقت ان لوگوں کو جماعت میں حاصل تھا آج جو بعد میں آنے والے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ شاید یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ہی غالب رہے ہیں اور وہ ہمیشہ ہی مغلوب رہے ہیں.حالا نکہ ان ایام میں ان کو اتنار تبہ اور زور حاصل تھا کہ بہت سے لوگوں کے دل ڈرتے تھے کہ نہ معلوم کیا ہو جائے گا اور بعض تو یہ خیال کرتے تھے کہ شاید وہ ہمیں قادیان سے ہی نکال دیں گے.دنیوی سامان جس قدر ہوا کرتے ہیں وہ سب ان کے ساتھ تھے.صدر انجمن احمد یہ کا نظام ان کے قبضہ میں تھا، خزانہ ان کے قبضہ میں تھا، رسالے اور اخبار ان کے قبضہ میں تھے یعنی وہ جو انجمن کے ماتحت تھے بیرونی دنیا میں انہی کا نام روشن تھا.جماعت پر ان کو اقتدار حاصل تھا اور بہت سے لوگ اس دیدہ اور شک میں پڑے ہوئے تھے کہ کیا اتنے بڑے لوگ بھی غلطی کر سکتے ہیں ؟ پھر وہ ایک عرصہ سے اپنے متعلق جماعت میں پرو پیگینڈا کر رہے تھے اور “پیغام صلح اسی غرض کے لئے انہوں نے جاری کیا ہوا تھا.غرض جماعت میں ایک ہیجان پیدا تھا اور وہ خود دنیوی سامانوں کی کثرت کی وجہ سے اس قدر مغرور تھے کہ انہوں نے ایک دفعہ لکھا کہ ابھی تک تو جماعت کے بیسویں حصہ نے بھی بیعت نہیں کی.گویا خود ان کے اقرار کے مطابق جماعت کے انیس حصے اُن کے ساتھ تھے اور صرف ایک حصہ ہمارے ساتھ تھا لیکن جبکہ جماعت کے انیس حصے ان کے ساتھ تھے اور صرف ایک حصہ ہمارے ساتھ تھا.لیکن جبکہ جماعت کی تمام اہم چیزیں انہی کے قبضہ میں تھیں جبکہ جماعت کے تمام اہم ادارے انہی کے پاس تھے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم کے ساتھ مجھ پر الہام نازل کیا اور فرمایا کہ ”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے“.اور میں نے یہ الہام اسی وقت اشتہارات کے ذریعہ شائع کر دیا جو آج تک دوستوں کے پاس موجود
$1940 71 خطبات محمود ہوں گے.اسی طرح اس نے مجھے الہاما فرمایا کہ لَيْمَةٌ قَنَّهُمْ کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا، انہیں پراگندہ کر دے گا اور ان میں اختلاف پیدا کر کے ان کی طاقت کو توڑ دے گا.مجھے اس وقت صحیح طور پر یاد نہیں کہ الہام لَیمَزِ قَنَّهُمْ تھا الَنُمَةٍ قَنَّهُمْ تھا.یعنی الہام میں یا غائب کی ضمیر استعمال کی گئی تھی یا متکلم کی مگر بہر حال اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ خدا ان کی طاقت کو توڑ دے گا اور ان میں اختلاف پیدا کر کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.اُس وقت ان لوگوں کے زور کی یہ حالت تھی کہ انہی لوگوں میں سے ایک صاحب نے مدرسہ ہائی کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا تھا کہ یہ عمارتیں ہم نے بنائی تھیں اور ہم ہی ان کی حفاظت کر رہے تھے مگر اب جماعت نے غلطی کی جو اس نے ایک بچہ کو خلیفہ بنالیا.اب ہم تو یہاں سے جاتے ہیں مگر ابھی دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب چھبیس سال گزر چکے ہیں اور ہمارا ان عمارتوں پر پہلے سے بھی زیادہ قبضہ ہے.عمارتیں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں اور سوائے ایسی عمارتوں کے جو خدا تعالیٰ کے خاص نشانوں میں سے ہوں جیسے خانہ کعبہ وغیرہ باقی عمارتیں ایسی نہیں ہو تیں کہ ان کا کسی وقت کسی جماعت کے قبضہ سے نکل جانا کوئی قابلِ اعتراض بات ہو.سوال جماعتی ترقی کا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی ہمیں حاصل رہی ہے.پس گو خود ان عمارتوں کا ہمارے پاس رہنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو کیا سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح عیسائیوں کو غلبہ دینے کی بجائے ہمیں غلبہ دیا اور اسلام کی خدمت کی توفیق دی.لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمیں اطمینان دلاتا ہے کہ ہم غالب رہیں گے وہاں ایک اور بات کی طرف بھی ہمیں توجہ دلاتا ہے جو فکر والی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قیامت تک میرے ماننے والے منکرین خلافت پر غالب رہیں گے ، بتاتا ہے کہ مخالفین خلافت اور اندرونی مخالفین سلسله قیامت تک کسی نہ کسی صورت میں باقی رہیں گے.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ضرور پیغامیوں کی شکل میں رہیں گے، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ضرور مصریوں کی شکل میں رہیں گے ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ خواہ وہ پیغامیوں کی شکل میں رہیں یا مصریوں کی شکل میں ، خارجیوں کی
خطبات محمود 72 $1940 شکل میں رہیں یا شیعوں کی شکل میں یا خارجیوں اور شیعوں اور پیغامیوں اور مصریوں سب کی صورت میں.بہر حال کسی نہ کسی رنگ میں رہیں گے اور یہ بات یقینا فکر والی ہے.کیونکہ اگر دشمن نے کسی نہ کسی رنگ میں رہنا ہے اور اگر مخالف نے کسی نہ کسی رنگ میں ہمیشہ ہمارے رستہ میں روڑے اٹکاتے رہنا ہے تو ہمارے لئے بھی ہمیشہ ہی اس کے مقابلہ کا انتظام کرتے رہنا ضروری ہو گا کیونکہ انسانی جسم میں اگر کوئی مرض رہے تو بہر حال اس کا علاج کرناضروری ہوتا ہے.ایک شخص کو نزلہ ہو تا ہے اور چند دنوں کے بعد وہ اچھا ہو جاتا ہے تو وہ اتنے ہی دن دوائی کھاتا ہے جتنے دن بیمار رہتا ہے.ایک اور شخص کو بخار ہوتا ہے اور وہ اچھا ہو جاتا ہے تو وہ بھی صرف اتنے ہی دن دوائی کھاتا ہے جتنے دن بیمار رہتا ہے.لیکن اگر کوئی مرض ایسا ہو جو خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو مگر ہمیشہ ساتھ رہے تو اس کے متعلق انسان ہمیشہ دوائی استعمال کرتارہتا ہے تا کہ مرض دبا رہے اور وہ جسم پر غلبہ نہ پالے.پس صرف اس بات پر خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ ہم غالب رہیں گے کیونکہ اگر کوئی فتنہ ایسا ہے جس نے ہمیشہ دین کے راستہ میں روک بننا ہے تو چاہے وہ صرف ایک شخص کو ہی ہدایت سے روکنے کا موجب بن سکے بہر حال وہ فتنہ ایسا نہیں کہ ہم اس کی طرف سے غافل ہو سکیں.رسول کریم صلی الہی میں نے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے علی تیرے ہاتھ سے ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تجھے ایک بہت بڑی وادی جانوروں سے بھری ہوئی مل جائے.1 اور جب ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس قدر بہتر ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کا کسی فتنہ سے گمراہ ہونا بھی اتنی ہی خطر ناک بات ہے.پس یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ تھوڑے ہیں اور ہم زیادہ بلکہ دیکھنا یہ چاہیئے کہ اگر ان کے ذریعہ ایک شخص بھی گمراہ ہو تا ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے کیونکہ اگر ہم بہت ہو کر بھی کسی کو ان کی طرف جانے دیتے ہیں تو یہ امر ہماری بے توجہی پر دلالت کرتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ مصری فتنہ سے طاقت پاکر گزشتہ ایام سے غیر مبائعین پھر سر اٹھا رہے ہیں اور وہ اپنے دل میں یہ امیدیں قائم کر رہے ہیں کہ وہ جماعت میں پھر کوئی فتنہ پیدا کر سکیں گے.چنانچہ انہوں نے ایک علیحدہ اخبار “ینگ اسلام ” اسی غرض سے جاری کیا ہوا ہے اور
1940 73 خطبات محمود ان کے بعض آدمی بھی وقتا فوقتا قادیان میں آتے اور بعض منافقین سے ملتے رہتے ہیں اور وہ اپنے دل میں پھر یہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ اس رنگ میں وہ کامیاب ہو جائیں گے.مگر میں یہ جانتا ہوں کہ وہ یقین ناکام رہیں گے.پس چاہے وہ کتنا زور لگائیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ناکام کرے گا اور یہ ہو کیونکر سکتا ہے کہ یہ لوگ کامیاب ہو جائیں جبکہ ان لوگوں کے کامیاب ہونے کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہے اس میں آپ کی کھلی کھلی ہتک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جتنی خصوصیات اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے غیر مبائعین ان سب کو مٹا دینا چاہتے ہیں.چنانچہ غیروں کے پیچھے نماز پڑھناوہ جائز قرار دیتے ہیں گو پڑھتے خود بھی نہیں کیونکہ ان کے دل میں چور ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ نے ہم سے پوچھا تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم نے کبھی غیروں کے پیچھے نماز نہیں پڑھی لیکن دوسروں کے ایمان پر ضرور ڈاکہ ڈالیں گے اور انہیں کہیں گے کہ غیروں کے پیچھے نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں.اسی طرح غیر احمدی کو لڑکیاں دینے کا معاملہ ہے.گو ان میں جتنے بڑے آدمی ہیں انہوں نے آج تک کسی غیر احمدی کو اپنی لڑکی نہیں دی مگر یوں کہتے رہتے ہیں کہ غیر احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز ہے حالانکہ اگر جائز ہے تو دیتے کیوں نہیں ؟ وہ اسی لئے نہیں دیتے کہ جانتے ہیں ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے والے لوگ زندہ ہیں اور اگر ہم نے غیر احمدیوں کو اپنی لڑکیاں دینی شروع کر دیں تو ایک طبقہ بغاوت اختیار کرے گا.بہر حال وہ کرتے وہی ہیں جو ہم کرتے ہیں مگر زبان سے یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ غیر احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز ہے.مگر یہ عجیب جائز ہے کہ ہے تو جائز مگر جماعت کے اکابر میں سے کوئی بھی اس پر عمل نہیں کرتا.ہم نے سجل المُمْتَنِع تو سنا ہوا تھا مگر یہ حَلَالُ الْمُمْتَنِع اب سنا کہ ایک بات حلال بھی ہے مگر اسے عمل میں بھی نہیں لایا جاتا.غرض ان معاملات میں انہوں نے اپنی طرف سے ایسی بیچ لگا دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو پرانے صحابی ہیں وہ بھی اعتراض نہ کر سکیں اور جو غیر احمدی ہیں وہ بھی خوش ہو جائیں.لیکن
$1940 74 خطبات محمود حملہ معمولی حملہ نہیں بلکہ جب بھی ان کی جماعت سے ان لوگوں کا اثر دور ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت اٹھائی ہوئی ہے وہ اپنی ساری جماعت کو غیروں کے قدموں میں ڈال دیں گے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس قدر کوششیں اپنی جماعت کے قیام کے لئے کیں غیر مبائعین ان تمام کو تباہ کرنے والے ہیں.پھر امت محمدیہ پر روحانیت کا دروازہ بھی انہوں نے بند کر دیا ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ آج امت محمدیہ میں کوئی ایسا انسان نہیں ہو سکتا جو وہ مقام حاصل کر سکے جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا.بظاہر وہ اس طرح ہم پر حملہ کرتے ہیں لیکن دراصل وہ امت محمدیہ کی ہتک کرتے ہیں اور امت محمدیہ کی ہی نہیں رسول کریم صلی ال نیم کی بھی ہتک کرتے ہیں کیونکہ امت محمدیہ کے لوگوں کے دلوں سے امید کا نکال دینا اسے قتل کر دینے کے مترادف ہے انسان کی تمام زندگی امید پر ہوتی ہے تم کسی انسان کے دل سے امید نکال دو اس کی تمام ترقی یکدم رک جائے مدت ہوئی میں نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ فرانس کے کسی ہوٹل کا ایک باورچی تھا جو دو تین ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ لیتا اور اپنے فن میں اس قدر مہارت رکھتا کہ دور دور سے لوگ اس ہوٹل میں آتے اور اس کا پکا ہوا کھانا کھا کر محظوظ ہوتے.ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور روز بروز کمزور ہو تا چلا گیا حتی کہ وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ چار پائی سے اٹھ بھی نہ سکتا.ڈاکٹروں نے اسے دیکھا تو کہا کہ اب آہستہ آہستہ یہ اس رنگ میں کمزور ہوتا جارہا ہے کہ اس کا نتیجہ سوائے موت کے اور کچھ نہیں ہو سکتا.مگر وہ اس کی بیماری کی تشخیص نہ کر سکے.صرف یہی کہتے تھے کہ روز بروز کمزور ہو رہا ہے اور یہ کمزوری چونکہ بڑھتی چلی جارہی تھی اس لئے زندگی کی اب زیادہ امید نہیں ہو سکتی.ایک دن اس ہوٹل کے منیجر نے ڈاکٹر سے بات کی اور کہا کہ کیا کوئی صورت اس کی زندگی کی نہیں ہو سکتی؟ ڈاکٹر نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کے دل میں مایوسی پید اہو چکی ہے.کسی طرح تم اس کی مایوسی کو دور کر دو تو اس کے اندر طاقت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.منیجر نے کہا تمہیں یہ کس طرح معلوم ہوا؟ وہ کہنے لگا میں نے اس سے باتیں کی ہیں اور میں نے یہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ آخر اسے کیا صدمہ ہے جس کی وجہ سے یہ روز بروز
1940 75 خطبات محمود کمزور ہو تا جا رہا ہے.بہت غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ باورچی کا جو فن تھا اسے میں نے کمال تک پہنچا دیا ہے اور اب چونکہ اس میں ترقی نہیں ہو سکتی اس لئے میرا دنیا میں کوئی کام نہیں رہا.اگر اس کے دل پر کسی طرح یہ اثر ڈال دیا جائے کہ ابھی تمہارا کام ختم نہیں ہوا اور تم اس فن میں اور زیادہ ترقی کر سکتے ہو تو ممکن ہے اس کی یہ حالت بدل جائے.وہ منیجر ذہین آدمی تھا اس نے یہ سنتے ہی فوراً اسسٹنٹ باورچی کو بلایا اور کہا کہ فلاں جیلی جو یہ باور چی بنایا کرتا تھا اور دوسرے اس کے خاص نسخوں کے مطابق پکنے والے کھانے اس کے لئے فوراً تیار کرو اور یہ حکم دے کر وہ باورچی کے پاس گیا اور کہنے لگا ہم نے یہ تجویز کیا ہے کہ آخری دفعہ ہوٹل کی طرف سے تمہاری ایک شاندار دعوت کر دی جائے.تم کہا کرتے ہو کہ میں نے اپنے شاگرد کو تمام علم سکھا دیا ہے اور کوئی کھانا ایسا نہیں رہا جس کی تیاری کی ترکیب اسے نہ بتا دی ہو.اس رنگ میں نہ صرف تمہارے اس شاگرد کا امتحان ہو جائے گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس نے تمہارا فن کہاں تک سیکھا بلکہ ہوٹل کی طرف سے تمہاری دعوت بھی ہو جائے گی.پھر اس نے کہا وہ جو تم جیلی تیار کیا کرتے تھے اور جو پینتالیس ذائقوں والی ہوا کرتی تھی میں نے وہ بھی تمہارے شاگر د کو تیار کرنے کا حکم دیا ہے.اسی طرح اور کھانے بھی تیار کر کے تمہارے سامنے لائے جائیں گے تاکہ تم اندازہ لگا سکو کہ اس نے یہ فن کہاں تک سیکھا ہے.اس نے کہا یہ بڑی اچھی بات ہے اس طرح مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ میر اما تحت جیلی اور دوسرے کھانے کیسے پکاتا ہے.یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا آیا اور جب اس نے دیکھا کہ اسسٹنٹ باورچی خیلی تیار کر رہا ہے تو اس کی نظر بچا کر اس نے ایک تیز خوشبو اس جیلی میں ڈال دی تاکہ وہ بد مزہ ہو جائے اور جب باورچی اسے کھائے تو اسے یقین ہو جائے کہ یہ کھانا پکانا پوری طرح سمجھا نہیں اور میرے لئے دنیا میں ابھی کچھ کام باقی ہے چنانچہ جب جیلی اور دوسرے کھانے تیار کر کے اس کے سامنے لائے گئے تو اس نے پہلے جیلی اٹھائی اور جب اسے کھانے لگا تو چونکہ ایک تیز خوشبو کی وجہ سے وہ بد مزہ ہو چکی تھی اس لئے اسے چکھتے ہی فوراً اٹھ بیٹھا اور بے تحاشا اس اسسٹنٹ باورچی کو گالیاں دینے لگ گیا کہ نالائق تو نے میری ساری عمر کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا.میں ہمیشہ تجھے کھانا پکانے کے طریق
$1940 76 خطبات محمود سمجھا تا رہا اور میر اخیال تھا کہ تو اس فن کو پوری طرح سیکھ گیا ہو گا مگر آج مجھے معلوم ہوا کہ تُو جیلی پکانا جانتا ہی نہیں تو نے میری ساری عمر کی محنت برباد کر دی ہے اور تو بڑا ہی نالائق اور نکما ہے.یہ کہتے ہوئے وہ یک دم چار پائی سے گودا اور کہنے لگا میں سمجھ گیا، سمجھ گیا، میرے ذہن میں اب چھیالیس ذائقوں والی جیلی بنانے کی ترکیب آگئی ہے اور یہ کہہ کر وہ باورچی خانہ کی طرف دوڑ پڑا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور اسے یہ خیال تک نہ رہا کہ وہ کمزور یا بیمار تھا.یہ ہے تو کہانی مگر دنیا میں اس قسم کے بیسیوں واقعات ملتے ہیں.تم کسی کو مایوس کر دو فوراً اس کے حالات بدل جائیں گے اور اگر کسی کے دل میں امید پیدا کر دو تو اسی وقت اس کی اور حالت ہو جائے گی.روٹی وہی ہو گی جو انسان روزانہ کھاتا ہے، پانی وہی ہو گا جو انسان روزانہ پیتا ہے ، ہو اوہی ہو گی جو انسان روزانہ استعمال کرتا ہے ، لباس وہی ہو گا جو انسان روزانہ پہنتا ہے لیکن اگر کسی اچھے بھلے انسان کو تم کہہ دو کہ آج شام تک تم مر جاؤ گے تو باوجو د اس کے کہ کھانا وہی ہو گا، پینا وہی ہو گا، ہوا وہی ہو گی، لباس وہی ہو گا اس کی حالت غیر ہو جائے گی اور وہ شام سے پہلے ہی مرنے لگ جائے گا.اسی طرح ایک انسان مایوس بیٹھا ہو ، اس کی طاقت زائل ہو چکی ہو اور وہ سخت فکر میں مبتلا ہو.فرض کرو وہ کوئی مقروض ہے اور قرض کی وجہ سے اس کا دیوالہ نکل رہا ہے اور اس بات کا فکر اسے کھائے جارہا ہے تو اس وقت اگر تم اسے جھوٹ موٹ بھی کہ دو کہ فلاں شخص تمہارے لئے روپیہ لا رہا ہے تو اس کے چہرہ پر خون دوڑنے لگ جائے گا اور اس کا کمزور اور پژمردہ جسم طاقت پکڑنے لگ جائے گا.تو دنیا میں تمام کام امید سے ہوتے ہیں.اگر ایک جماعت کو تم یہ کہہ دو کہ تم ہو تو تمام جماعتوں کی سردار مگر تمہارے لئے وہ درجات مقدر نہیں جو پہلوں کو مل چکے بلکہ تم ہمیشہ پھڑی رہو گے تو یہ اس جماعت کو قتل کر دینے کے مترادف ہو گا کیونکہ تم اس کی امید کے پہلو کو کچل دیتے ہو.لیکن اگر تم ان کو یہ کہو کہ ہمارا ر سول سب رسولوں سے افضل ہے اور تم جو اس رسول کی بہترین امت ہو اپنے رسول کی پیروی سے اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی انعامات حاصل کر سکتے ہو بلکہ تم ان انعامات کو بھی حاصل کر سکتے ہو جو پہلے نبیوں کو ملے تو ان کی ترقی کی رفتار میں
$1940 77 خطبات محمود غیر معمولی تیزی پیدا ہو جائے گی.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:.تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے کہ اے رسول ! بے شک میں نے ایسا دعویٰ کیا ہے جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا اور بے شک وہ حیرت سے مجھے کہتے ہیں کہ ایک امتی ایسا اعلیٰ مقام کیونکر حاصل کر سکتا ہے ؟ مگر اے محمد رسول اللہ ! یہ تعجب کی کوئی بات نہیں تو جب تمام نبیوں سے آگے رہنے والا رسول ہے تو تیرے پیچھے چلنے والا سپاہی بھی تو دوسروں سے آگے ہی رہے گا.تو یہ امید کو کچلنے اور امنگ کو مٹا دینے والی قوم ہے.آج بے شک وہ شکست خوردہ مسلمانوں سے اپنی تعریف کروالیں، آج بے شک وہ مایوس مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کر لیں لیکن جب ترقی کے میدان میں بڑھنے والی اور اپنے دلوں میں امنگیں اور ولولے رکھنے والی قو میں آئیں گی تو وہ ان لوگوں کو سخت ملامت کریں گی اور کہیں گی کہ انہوں نے لوگوں کی ترقی کے راستے روک دیئے.حالانکہ رسول کریم صلی ال ل ل لم لوگوں کو ترقی دینے کے لئے آئے تھے نہ کہ ان کی ترقی کو روکنے کے لئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درجہ انہوں نے کس قدر گرا دیا.خلافت کے زمانہ کے شروع میں جب آپس میں بحثا بحثی ہوئی تو ان کے ایک مضمون نگار نے لکھا کہ بھلا یہ بھی کوئی جھگڑے کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا درجہ ہے ؟ آؤ ہم بتائیں کہ آپ کا کیا درجہ ہے.بات یہ ہے کہ خلفائے اربعہ کے بعد سب سے افضل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.گویا ابو بکر بھی بڑے، عمر بھی بڑے، عثمان بھی بڑے، علی بھی بڑے.ہاں حضرت علی کے بعد آپ کا مقام ہے.پھر اس نے لکھا جیسے کسی نے کہا ہے: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر اسی طرح ہم آپ کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ : بعد از علی بزرگ توئی قصہ مختصر رض کہ قصہ مختصر یہ ہے کہ علی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درجہ ہے لیکن اگر یہ کسی ایسے ملک میں چلے جائیں جس پر سید عبد القادر صاحب جیلانی کے ماننے والوں کا
$1940 78 خطبات محمود غلبہ ہو یا حضرت امام مالک کے ماننے والوں کا غلبہ ہو یا حضرت امام ابو حنیفہ کو ماننے والوں کو حکومت حاصل ہو تو یہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہہ دیں گے کہ : بعد از سید عبد القادر بزرگ توئی قصہ مختصر یا یا بعد از امام مالک بزرگ توئی قصہ مختصر بعد از امام ابوحنیفه بزرگ توئی قصہ مختصر یہ تو کثرت اور طاقتور لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جیسے لوگ دیکھے ویسی بات کہہ دی.گویا نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ڈیوڑھی ہیں کہ جو گھر ہوا اس کے آگے اسے کھڑا کر دیا.غرض ان کا اصل مقام مقام تنقیص ہے.محمد صلی الم کی انہوں نے تنقیص کر دی کیونکہ یہ کہہ دیا کہ ان کی قوت قدسیہ سے کوئی اعلیٰ شاگر د پیدا نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تنقیص انہوں نے کر دی کیونکہ آپ کے متعلق کہہ دیا کہ: بعد از علی بزرگ توئی قصہ مختصر امت محمدیہ کی تنقیص انہوں نے کر دی کیونکہ کہہ دیا کہ اس امت میں سے کسی کو کوئی بلند روحانی مقام حاصل نہیں ہو سکتا.غرض ان کا کام تباہی اور بربادی ہے اور تعریف اپنی یہ کرتے ہیں کہ ہم غلو کرنے والے نہیں حالانکہ جس طرح غلو کرنے والا گنہگار ہو تا ہے اسی طرح تنقیص کرنے والا بھی گنہگار ہوتا ہے.اگر کوئی محمدصلی ا یمن کو خدا کہہ دے تو وہ بھی ویسا ہی گنہگار ہو گا جیسے خدا کے متعلق کوئی کہہ دے کہ وہ بندہ ہے.پس غلو اور تنقیص دونوں ہی گناہ ہوتے ہیں اور جیسے محمد صلی الی یکم کو خدا کہنا گناہ ہے اسی طرح خدا کو بندہ کہنا بھی گناہ ہے.غرض ان کا فتنہ جب بھی سر اٹھائے گا امت محمدیہ کے لئے تباہی کا موجب بنے گا کیونکہ یہ اپنے عمل سے غیر احمدیوں کو ہدایت سے محروم رکھتے ہیں اور جب انہیں کہتے ہیں کہ تم بھی اچھے اور نیک ہو تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سست ہو جاتے ہیں اور ان کے دل میں جو جوش پید ا ہونا چاہیئے
خطبات محمود 79 کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جلدی قبول کریں وہ پیدا نہیں ہو تا.$ 1940 پس یہ فتنہ معمولی نہیں اور چونکہ آجکل پھر ان لوگوں میں ایک جوش نظر آتا ہے اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت کو ہر جگہ غیر مبائعین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اس کے متعلق سب سے پہلے میں تمام جماعتوں کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ ہر جماعت میں ایک سیکرٹری اصلاح مابین کے کام کے لئے مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ ان لوگوں سے ملے مجلے ، انہیں تبلیغ کرے، پر انا لٹریچر مہیا کرے اور جماعت کو اس لٹریچر سے آگاہ کرے.مجھے حیرت آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ بعض نئے لوگ جو سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں وہ اس لٹریچر کا مطالعہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی سوالات جو بیسیوں دفعہ حل ہو چکے ہیں وہ پھر پیش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا جواب دیجئے.حالانکہ ان سوالات کے متواتر جواب دیئے جاچکے ہیں اور وہ ان جوابات کے بعد خاموش ہو چکے ہیں.لیکن اب اٹھارہ بیس سال کے بعد ان میں پھر جوش پیدا ہوا ہے اور وہ وہی سوالات دہرانے لگ گئے ہیں جن کے بیسیوں مرتبہ نہایت مسکت جوابات دیئے جاچکے ہیں.پس ایک تو ہر جگہ ایک سیکرٹری مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ ان لوگوں سے ملے جلے، انہیں تبلیغ کرے، لٹریچر مہیا کرے اور اس لٹریچر کو نہ صرف خود پڑھے بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے کی تاکید کرے اور ایسے آدمی تیار کرے جو ان لوگوں کا مقابلہ کر سکیں اور جنہیں تمام ضروری حوالے اچھی طرح یاد ہوں.دوسرے میں جماعتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں جہاں غیر مبائعین موجود ہیں وہ ان کی لسٹیں مجھے بھجوا دیں تاکہ براہ راست ان کو مرکز سے بھی تبلیغی لٹریچر بھجوایا جاسکے.یہ کام بہت جلد ہو جانا چاہیے اور اس میں کسی قسم کے تساہل اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیئے.میں امید کرتا ہوں کہ جو جماعتیں کام کرنے کی روح اپنے اندر رکھتی ہیں وہ اس قسم کی لسٹوں کے بھجوانے میں دیر نہیں لگائیں گی اور فوراً اپنے اپنے مقام کے پیغامیوں کے ناموں اور ان کے مکمل پتوں سے بھی مجھے اطلاع دیں گی.اگر انہیں صرف اتنا معلوم ہو کہ فلاں شہر یا گاؤں میں چند پیغامی رہتے ہیں تو وہ اتنا ہی لکھ دیں کہ فلاں شہر یا فلاں گاؤں میں بعض پیغامی رہتے ہیں.ہم
خطبات محمود 80.* 1940 خود کسی آدمی کو بھیج کر ان کے ناموں اور پتوں کی اطلاع حاصل کر لیں گے.بہر حال تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پر غیر مبائعین کا اچھی طرح پتہ لگائیں اور جہاں بھی انہیں کسی غیر مبائع کا علم حاصل ہو اس کے نام اور پتہ سے مجھے اطلاع دیں اور اس قسم کی لسٹیں جلد سے جلد تیار کر کے مجھے بھجوائی جائیں.خصوصیت سے میں لاہور کی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً ایک جلسہ منعقد کریں اور اپنے آدمیوں میں سے پچاس، ساٹھ ، ستر یا سو ایسے آدمی تیار کریں جو غیر مبائعین میں سے ایک ایک دو دو کو اپنے سامنے رکھ کر انہیں تبلیغ کرنی شروع کر دیں.لاہور کی جماعت سرحد پر ہے اور اس لحاظ سے تمام جماعتوں میں سے پہلا فرض اس کا ہے کہ وہ غیر مبائعین کو تبلیغ کرنے میں حصہ لے.لاہور کی جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ موجود ہیں جو غیر مبائعین کے متعلق بکثرت حوالے جانتے ہیں.ایک ہمارے دوست میاں محمد سعید صاحب سعدی مرحوم ہوا کرتے تھے.وہ تو غیر مبائعین کے متعلق حوالہ جات جمع کرنے اور نکالنے کے فن میں اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے اس فن کو کمال تک پہنچایا ہوا تھا.سید دلاور شاہ صاحب کو بیمار ہیں مگر ان کو بھی بہت سے حوالے یاد ہیں.اسی طرح عبد العزیز صاحب مغل جو سعدی مرحوم کے بڑے بھائی اور میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے بیٹے ہیں انہیں بھی بہت سے حوالے یاد ہیں.اسی طرح لاہور کے اور نوجوانوں کو اگر منظم کیا جائے تو ان میں سے پچاس ساٹھ بلکہ سو ایسے نوجوان مل سکتے ہیں جو غیر مبائعین میں بخوبی تبلیغ کر سکتے ہیں اور میرا یہ ہمیشہ سے تجربہ ہے کہ جب بھی ہم نے غیر مبائعین کی طرف توجہ کی ہے ان میں سے کئی لوگوں کو ہدایت حاصل ہوئی ہے اور وہ غیر مبائعین میں سے نکل کر ہم میں شامل ہو گئے ہیں.چنانچہ لاہور میں ہی گزشتہ چند سال کے عرصہ میں ملک غلام محمد صاحب اور ڈاکٹر غلام حید ر صاحب انہی لوگوں میں سے نکل کر میری بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور یہ لوگ دنیوی لحاظ سے بھی اور سمجھ کے لحاظ سے بھی اور ایمانی جوش کے لحاظ سے بھی اچھے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہ لوگ غیر مبائعین میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں تو اور لوگ اگر ہم ان کی طرف توجہ کریں تو ہمارے ساتھ شامل نہ ہوں.پس
$1940 81 خطبات محمود میں لاہور کی جماعت کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو منظم کر کے اس قسم کی لسٹیں مجھے جلد بھجوائیں جن میں یہ صراحت ہو کہ انہوں نے اس غرض کے لئے فلاں فلاں آدمی مقرر کر دیئے ہیں.اسی طرح جو مفید اور کارآمد حوالے ہوں وہ سب لوگوں کو لکھا دینے چاہئیں تا کہ وقت پر وہ ان کے کام آسکیں.اس کے ساتھ ہی میں مرکز میں نظارت دعوۃ و تبلیغ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس قسم کے علماء اور انگریزی خوانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو غیر مبائعین کے متعلق مفید مضامین لکھ سکتے ہوں اور پھر انہیں اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھنے کی تحریک کرے.مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ خواہ غیر مبائعین کے متعلق مضامین لکھے جائیں، خواہ انہیں زبانی تبلیغ کی جائے دوستوں کو محبت اور پیار سے کام لینا چاہیئے اور کبھی بھی سختی نہیں کرنی چاہیئے.یادر کھو سختی سے تم دوسرے کو چپ کر اسکتے ہو ، سختی سے تم دوسرے کو شر مندہ کر سکتے ہو ، سختی سے تم دوسرے کو ذلیل کر سکتے ہو مگر سختی سے تم دوسرے کے دل کو فتح نہیں کر سکتے.اگر تم دل فتح کرنا چاہتے ہو تو تمہارے اپنے دل میں یہ اخلاص اور درد ہونا چاہیئے کہ میرا ایک بھائی گمراہ ہو رہا ہے اسے کسی طرح میں ہدایت پر لاؤں.جب تک یہ احساس اور یہ جذبہ تمہارے اندر نہ ہو گا کہ جو شخص گمراہ ہو رہا ہے وہ تمہارا پیارا ہے ، تمہارا بھائی اور تمہارا عزیز ہے اور یہ کہ اس کا دکھ تمہارا دکھ اور اس کی تکلیف تمہاری تکلیف ہے اس وقت تک تمہاری تبلیغ مؤثر نہیں ہو سکتی.چاہے بظاہر تمہیں وہ شاندار معلوم ہو اور چاہے بظاہر جب تم مضمون لکھو تو لوگ کہیں کہ خوب مضمون لکھا.کیونکہ کامیابی یہ نہیں کہ لوگ تمہاری تعریف کریں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ دوسروں کی ہدایت کا موجب بنو.پس جو مضمون لکھنے والے ہیں انہیں بھی میں کہتا ہوں کہ سنجید گی اور محبت سے مضامین لکھو اور جو زبانی تبلیغ کرنے والے ہوں انہیں بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے تبلیغ کرو.اسی طرح جو سیکرٹری مقرر ہوں ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ جب انہیں مرکز سے ٹریکٹ وغیرہ بھجوائے جائیں تو وہ محنت سے انہیں غیر مبائعین کے گھروں تک پہنچائیں تاان میں سے جو سعید لوگ ہیں وہ سلسلہ کی طرف توجہ کریں.در حقیقت اب جو اُن میں بیداری پید اہوئی ہے یہ ہماری بے توجہی پر اللہ تعالیٰ کی
$1940 82 خطبات محمود طرف سے ایک تنبیہہ ہے.خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں ہمیں سمجھایا ہے کہ تم ان لوگوں کو تھوڑے سمجھ کر اپنے فرض سے غافل ہو رہے تھے.اب دیکھ لو پھر ان میں بیداری پید اہو رہی ہے اور پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ تم اپنی غفلت کو دور کرو اور ان لوگوں کی طرف محبت اور پیار سے توجہ کرو.پس جماعت کو درد اور اخلاص کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اور میں جماعت کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت اس طرف توجہ کرے گی تو اسے یقیناً کامیابی حاصل ہو گی.میں نے متواتر رویا میں دیکھا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب میرے پاس آئے ہیں اور وہ نہایت محبت اور اخلاص سے مجھے ملے ہیں.اس خواب کے مطابق ظاہری رنگ میں مولوی محمد علی صاحب آئیں یا نہ آئیں اس کی یہ تعبیر تو ظاہر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہمراہیوں یا ان کے خاندان کے لوگوں میں سے بعض کو کھینچ کر ہماری طرف لائے گا اور وہ خواہ کتنا ہی شور مچائیں فتح ہماری ہی ہو گی.پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ جب بھی اٹھے فتح آپ کی ہی ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقدر یہی ہے اور خدا جب کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بندے خواہ کتنی ہی دولت و ثروت رکھنے والے ہوں، کتنے ہی اچھے بولنے والے ہوں، کتنا ہی اثر اور اقتدار رکھنے والے ہوں، ہو تا وہی ہے جو خدا کا منشاء ہوتا ہے.اور وہ لوگ جو مقابلہ پر ہوتے ہیں اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جس طرح ہنڈیا کا جوش ابلنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے.پس خواہ وہ قادیان پر حملہ کریں، خواہ وہ ہمارے مرکز میں آئیں، خواہ وہ ہمارے خلاف ٹریکٹ اور کتابیں شائع کریں اور خواہ ہمارے خلاف وہ اخبارات شائع کریں جس وقت ہماری طرف سے جواب شروع ہو گا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کا یہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم انہیں کھینچ کر لے آئیں گے اور وہ مُنہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے.انشَاءَ اللهُ تَعَالَى - وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِبَعِيدٍ وَآخِرُ دَعَوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.“ (الفضل 5 اپریل 1940ء) 1 بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبي الله الله الى الاسلام والنبوة
$ 1940 83 8 خطبات محمود تحریک جدید کے ماتحت ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہیں (فرمودہ 5 اپریل 1940 ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں آج کے خطبہ میں جماعت کو تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں.میں کئی بار اچھی طرح یہ امر واضح کر چکا ہوں کہ یہ چندے صرف وقتی تبلیغ پر ہی خرچ نہیں ہوتے بلکہ وہ تبلیغ کے لئے ایک مستقل بنیاد قائم کرنے پر بھی خرچ ہو رہے ہیں.واقفین زندگی کی ایک جماعت جس میں بہت سے نوجوان علماء میں سے لئے گئے ہیں اور کچھ انگریزی خوان نوجوانوں میں سے تبلیغ اسلام کے کام کے لئے تیار کی جارہی ہے.علماء کو تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے ساتھ مذہبی علوم میں بھی زیادہ وسعت پیدا کریں اور انگریزی خوان نوجوانوں کے متعلق یہ کوشش کی جاتی ہے کہ انہوں نے جہاں علوم جدیدہ پڑھے ہیں وہاں وہ دینیات سے بھی اچھی طرح واقف ہو جائیں.اس کام کے علاوہ جو تحریک جدید کے چندوں سے تبلیغ کا دوسرے ذرائع سے ہو رہا ہے یہ حصہ ایسا ہے جو جماعت کو نظر نہیں آتا اور ابھی نظر آ نہیں سکتا کیونکہ یہ حصہ ابھی تیاری میں ہے.شاید ایک دو سال کے اند ر جب وہ نوجوان تیار ہوں اور ان ضرورتوں کو پورا کریں جو دیر سے محسوس تو
$1940 84 خطبات محمود ہو رہی تھیں مگر سامان نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ ہو سکتی تھیں اور بہت اہمیت رکھتی ہیں تو جماعت کو اس کام کا احساس ہو سکے گا.اس وقت تک جو مبلغ تیار کئے گئے ان میں اس امر کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بہت سے کارآمد اور مخلص وجو د نکلے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے جامعہ احمد یہ ایسے طالب علم تیار نہیں کر سکا جو علاوہ مذہبی علوم کے ایسی زبانیں بھی جانتے ہوں جو دنیا میں تبلیغ کے لئے مفید ہو سکیں اور جن کے بغیر ساری دنیا میں تبلیغ نہیں کی جاسکتی.اس وقت تک جو مبلغ جامعہ تیار کرتا ہے وہ یا تو عرب میں کام کر سکتے ہیں یا پھر پنجاب اور یوپی میں.کیونکہ یہی صوبے ہیں جن میں اردو اچھی طرح بولی اور سمجھی جاتی ہے.ان کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں بھی مثلاً مدراس بنگال، بمبئی اور آسام وغیرہ میں وہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کے لوگ اردو بہت کم جانتے ہیں.اس لئے وہاں ان مبلغوں کا حلقہ عمل بہت محدود ہوتا ہے.اتنی اردو تو وہ لوگ جانتے ہیں کہ چھوٹی موٹی بات سمجھ سکیں مگر اتنی نہیں کہ تقریریں سمجھ سکیں.سمندر کے سفر میں میں نے دیکھا ہے کہ بندر گاہوں پر آباد ہندو اور مقامی لوگ بھی ٹوٹی پھوٹی اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں مگر اتنی نہیں جانتے کہ اردو میں تقریریں سمجھ لیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدراس، بنگال، بمبئی ، مالا بار اور بمبئی کے دوسرے علاقوں کے لوگ جب لیکچرار مانگتے ہیں تو ساتھ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ انگریزی خوان مبلغ بھیجے جائیں.مگر ہم ایسے مبلغ نہیں دے سکتے اس وجہ سے ان علاقوں میں ہماری تبلیغ بہت محدود رہ گئی ہے اور صرف پنجاب اور اس کے ارد گرد کے علاقہ پر ہی زور ہے.حالانکہ جس طرح پنجاب میں ایسی روحیں ہیں جو صداقت کے لئے اپنے دل میں تڑپ رکھتی ہیں اسی طرح دوسرے ملکوں اور علاقوں میں بھی ضرور ہیں لیکن ان علاقوں میں جب ہمارے مبلغ جاتے بھی ہیں تو تبلیغ کا دائرہ بہت محدود ہو تا ہے.ابھی ایک مبلغ برما میں بھیجا گیا ہے جو جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل ہے اور وہ مفید کام بھی کر رہا ہے.مگر متواتر اپیل پر اپیل آرہی ہے کہ کوئی انگریزی دان مبلغ یہاں بھیجا جائے تو بہت اچھا ہو کیونکہ یہاں ایک بہت بڑا طبقہ انگریزی دانوں کا ہے جن تک موجودہ مبلغ نہیں پہنچ سکتا.
$1940 85 خطبات محمود تو تحریک جدید کے ماتحت یہ ضروری کام بھی کیا جا رہا ہے کہ ایسے مبلغ تیار کیے جاتے ہیں جو ساری دنیا میں تبلیغ کا کام کر سکیں.بعض علماء ہیں جن کو انگریزی پڑھانے کے علاوہ دینی علوم میں بھی وسعت پیدا کی جارہی ہے اور بعض انگریزی خواں ہیں جن کو عربی پڑھائی جاتی اور دینی علوم سکھائے جاتے ہیں تا وہ دونوں باہم سموئے جائیں اور ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکیں.اس میں شک نہیں کہ انگریزی کے علاوہ اور بھی بہت سی زبانیں ہیں جن کا سیکھنا تبلیغ کے لئے ضروری ہے اور میری سکیم یہی ہے کہ مختلف زبانیں نوجوانوں کو سکھائی جائیں مگر سر دست انگریزی ہی سکھائی جاتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں اسی کے ذریعہ ہمارے لئے تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا اور ایک نیا طبقہ تبلیغ کے لئے ہمارے قریب ہو جائے گا.فی الحال اس سکیم کے ماتحت 5 ، 6 گریجوایٹ اور 10، 12 مولوی فاضل تیار کیے جارہے ہیں.مولوی فاضلوں کو فی الحال انٹرنس کا امتحان دلوایا گیا ہے اور انگریزی میں اس سے زیادہ قابلیت ان کے اندر پیدا کرنے کے سامان بھی کئے جا رہے ہیں.ان واقفین میں سے ایک کو لنڈن بھیج کر میں نے انگریزی کی تعلیم دلوائی تھی اور اب اسے افریقہ کے ایک علاقہ میں کام کرنے کے لئے لگایا گیا ہے.بظاہر دیکھنے والوں کو تو یہی نظر آرہا ہے کہ پچھلے دو تین سالوں میں نئے مشن نہیں کھولے گئے مگر حقیقت یہی ہے کہ تبلیغ کے لئے ایسے نوجوانوں کا تیار کیا جانا اشد ضروری ہے.ابتداء میں ہم نے عارضی طور پر ایسے آدمی لگا لئے تھے جن کو دینی علوم کی واقفیت گہری نہ تھی اور اس میں شک نہیں کہ انہوں نے اپنے اخلاص کی وجہ سے اور سلسلہ کے اردو لٹریچر کی مدد سے جتنی تبلیغ وہ کر سکتے تھے اتنی کی اور بعض جگہ اس کے عملی نتائج بھی ظاہر ہوئے مگر ان سے غلطیاں بھی ہوئی تھیں.مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بتایا کہ ایک ایسے ہی مبلغ نے کسی مسئلہ میں قیاس کر کے جواب دے دیا جو در حقیقت غلط تھا.ان لوگوں سے عارضی کام لیا گیا مگر مستقل طور پر ایسے لوگوں سے کام نہیں لیا جا سکتا تھا.ورنہ مختلف مقامات پر ایسا دین پیدا ہو جاتا جو احمدیت سے بالکل مختلف ہو تا.ان لوگوں سے صرف آواز پہنچانے کا کام لے لیا گیا لیکن یہ ہمارا ضروری فرض ہے کہ ایسی جماعت تیار کریں جو دین سے واقف ہو اور باہر جا کر ایسی تعلیم پھیلائے جو احمدیت اور اسلام کی حقیقی تعلیم ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی جماعت تیار کرنے کے لئے
$1940 86 خطبات محمود وقت کی ضرورت ہے.عام لوگ گھبراتے ہیں کہ کام نہیں ہو رہا.بعض لوگ جلدی بازی کے عادی ہوتے ہیں مگر انہیں یا د رکھنا چاہیئے کہ بعض کاموں میں جلد بازی انہیں رحمانی کی بجائے شیطانی بنا دیا کرتی ہے.اسی جنگ میں دیکھ لو انگلستان دو سال سے والنٹیر تیار کر رہا تھا مگر اب تک وہ دو دو چار چار ہزار کر کے ہی میدان میں بھیجے جاتے ہیں اور اچھے افسروں کی ٹریننگ کے لئے تین تین چار چار بلکہ پانچ پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے.پس اگر ہم بھی تین چار یا پانچ سال لگا کر ایسے علماء کی ایک جماعت تیار کر سکیں جو تین چار یا پانچ سال میں عربی، دینی اور انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کر سکیں، دین کے ماہر ہوں اور دین کی تفاصیل سے آگاہ ہوں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ بیس پچیس سال کے لئے جماعت کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور مبلغین کی ٹرینگ کے لئے ایک ایسی لائن تیار ہو سکے گی کہ جس پر چل کر نئے مبلغ تیار کرنے آسان ہو جائیں گے.دوسرا حصہ تحریک جدید کے چندوں کا جیسا کہ میں کئی بار بیان کر چکا ہوں مستقل جائداد پیدا کرنے پر خرچ کیا گیا ہے.ایسی زمینیں خریدی گئی ہیں جن کی قیمت قسط وار ادا کی جا رہی ہے اور قسط ہمیں قریباً ستر ہزار روپیہ سالانہ دینی پڑتی ہے.ان جائدادوں کے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ تحریک کے عارضی چندہ کو ہم مستقل نہیں کر سکتے اور نہ یہ مستقل طور پر ادا کیا جاسکتا ہے.بے شک مستقل کر دینے کی صورت میں بھی بعض مخلصین اسے ادا کرتے رہیں گے لیکن ساری جماعت نہیں کر سکتی.اگر ساری جماعت انہیں ادا کرے تو صدر انجمن احمدیہ کے چندوں پر برا اثر پڑے گا.گو محاسب صاحب اور ناظر صاحب بیت المال تو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ انجمن کے چندوں پر اثر پڑ رہا ہے مگر میں ان کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انجمن کا چندہ اسی طرح بڑھ رہا ہے جس طرح کہ پہلے بڑھتا تھا.لیکن اس میں شک نہیں کہ اگر ان عارضی چندوں کو مستقل کر دیا گیا تو اس کے نتیجہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد انجمن کے چندوں میں ترقی رُک جائے گی اور ادھر یہ کام ایسا ہے کہ اسے ہم چھوڑ بھی نہیں سکتے.تبلیغ کو کسی وقت بھی بند نہیں کیا جاسکتا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ کوئی ایسا انتظام کر دیا جائے کہ جس سے معمولی اخراجات پورے ہو سکیں اور بجٹ پورا ہو تار ہے.
$1940 87 خطبات محمود اس کے علاوہ اگر کوئی خاص ضرورت پیش آئی تو چندہ لے لیا ورنہ نہیں.کارکنوں کے گزاروں اور دفتری اخراجات کے لئے مستقل آمد سے کام ہو تا رہے.میرا اندازہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو اس سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہوتی رہے گی اور اس طرح دفتری اخراجات اور کارکنوں کے گزارہ کے لئے جماعت سے چندہ لینے کی ضرورت پیش نہ آئے گی.اس زمین کی اقساط میں سال میں ادا ہوں گی لیکن مجھے امید ہے کہ اگر حالات ایسے ہو جائیں کہ زمینداروں کی پیدا کردہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں تو اس تحریک کے عرصہ کے اندر اندر ہی ادا ہو سکتی ہیں.بہر حال یہ ایسی مستقل بنیادیں ہیں کہ جن سے تبلیغ کا دروازہ بہت وسیع ہو سکتا ہے اور یہ ایسا مستقل فنڈ ہے کہ جو تبلیغ کے کام کو بڑھانے کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے مگر ہم اس کام کو آرام اور فراغت کے ساتھ اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ جماعت کے دوست اپنے وعدوں کو پورا نہ کریں اور وعدے پیش کرنے میں دلیری اور جرآت سے کام نہ لیں.میں نے مجلس شوریٰ میں یہ بات بیان کی تھی کہ اس سال کے وعدے گزشتہ سال سے کچھ کم ہیں گو وہ 1938ء کی نسبت تو زیادہ ہیں مگر 1939ء کی نسبت سے کم ہیں.بے شک ابھی بیرون ہند کی جماعتوں کے سب وعدے نہیں آئے جو کئی ہزار کے ہوتے ہیں مگر ان ہزاروں کو شامل کر کے بھی تین چار ہزار کی کمی رہ جائے گی اور یہ بہت نقص کی بات ہے.مومنوں کی جماعت کا ہر قدم آگے ہونا چاہیئے پیچھے نہیں.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ مجلس شوری کے موقع پر میرے اس بیان کے بعد بعض دوست توجہ کر رہے ہیں.چنانچہ عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب نے جو میرے بھتیجے اور داماد بھی ہیں خط لکھا ہے کہ آپ جب یہ ذکر کر رہے تھے کہ اس سال وعدوں میں کچھ کمی ہے تو میرے دل پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے اُسی وقت فیصلہ کیا کہ میں اپنے وعدہ میں اضافہ کروں گا چنانچہ میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا چندہ دو سو کی جگہ اڑھائی سو کر تا ہوں.اس کے علاوہ وعدوں کی ادائیگی میں بھی کسی قدر ستی پائی جاتی ہے.ہر سال کچھ نہ کچھ وعدے ادا ہونے سے رہ جاتے ہیں.حالانکہ یہ چندہ طوعی ہے وعدہ کے بعد اس کے ادا نہ ہونے
$1940 88 خطبات محمود کے کوئی معنی ہی نہیں سوائے اس کے کہ کسی شخص کے حالات ایسے بدل جائیں کہ وہ ادا کرنے کے قابل نہ رہے.ایسا شخص تو معذور ہے اور نادہند نہیں.ایسا شخص اگر اطلاع دے دے تو اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.پھر میں نے یہ بھی بارہا کہا ہے کہ جو شخص نہ دے سکتا ہو وہ معافی لے لے تا نادہندگی کے گناہ سے بچ جائے مگر باوجود اس کے جو نہ تو معافی لیتا ہے اور نہ ادا کرتا ہے وہ خواہ مخواہ گنہگار بنتا ہے.دفتر تحریک جدید والے اب ہر ایک کے نام رجسٹری خطوط بھیج رہے ہیں گو میرے خطبہ کی تعمیل انہوں نے بہت دیر سے کی مگر اب یہ خطوط بھیجے جارہے ہیں تاہر ایک پر حجت قائم ہو جائے اور بعد میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے اطلاع نہ تھی.اب بھی ان لوگوں کے لئے موقع ہے کہ جو ادا نہ کر سکتے ہوں وہ معافی لے لیں اس طرح ان کا نام رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.لیکن جو نہ تو معافی لے اور نہ ادا کرے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ خدا تعالیٰ اور سلسلہ سے کھیل اور تمسخر کرنا چاہتا ہے.وہ جھوٹی بڑائی کا خواہشمند ہے، اس کے اندر غرور اور تکبر پایا جاتا ہے اور وہ محض جھوٹی عزت کے لئے اپنا نام لکھوا دیتا ہے.ورنہ شروع دن سے ہی اس کا ارادہ ادا کرنے کا نہ تھا.ان کے سوا بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو ادائیگی میں سستی کرتے ہیں.وہ خیال کر لیتے ہیں کہ آخری دن ادا کر دیں گے حالانکہ مومن کو چاہئے کہ پہلے ہی دن ادا کرے یا پھر ہر ماہ کرتا جائے.کیا پتہ ہے کہ وہ آخری دن تک زندہ بھی رہے یا نہ رہے.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں اگست میں ادا کر دوں گا اسے کیا علم کہ وہ اگست تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں؟ لیکن جس نے نومبر میں وعدہ لکھوایا اور پھر کچھ دسمبر میں ادا کیا، کچھ جنوری میں، کچھ فروری میں اور بعد میں فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ادا کرنے والوں میں شمار ہو گانا ہندوں میں نہیں کیونکہ جب تک وہ زندہ رہابر ابر ادا کر تار ہا لیکن جو شخص ایک بھی قسط ادا نہیں کرتا وہ اگر فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور دریافت کرے گا کہ تم نے ادا ئیگی کے لئے کیا تیاری کی تھی؟ پس دوست تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں عجلت سے کام لیں اور جو یکمشت ادا نہیں کر سکتے وہ آہستہ آہستہ ادا کرتے جائیں.سارے ہی اگر آخری دن ادا کرنے پر رہیں تو ہم زمین کی قسط کہاں سے ادا کر سکتے ہیں ؟ یہ قسط مئی میں اد کرنی پڑتی ہے اور
$1940 89 خطبات محمود اگر دوست اپنے وعدے ادا نہ کریں تو یہ کہاں سے ادا ہو سکتی ہے ؟ اگر وقت پر یہ قسط ادا نہ ہو تو دس روپیہ سینکڑہ جرمانہ ہو جاتا ہے جو گویا بر وقت چندہ ادانہ کرنے والے کی سستی سے ہوا اور اس صورت میں اس کا سو روپیہ چندہ خدا تعالیٰ کے ہاں نوے روپیہ سمجھا جائے گا کیونکہ دس روپیہ جرمانہ اس کی سستی سے ہوا ہے.پس دوست توجہ کریں اور اپنے وعدے جلد پورے کریں اور جو نہیں دے سکتے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے اب بھی ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ معافی لے لیں اور جو طاقت رکھتے ہیں مگر ادا نہیں کر سکے وہ اپنی اس غلطی کا ازالہ کریں بلکہ کفارہ کے طور پر کچھ زیادہ دیں.جو دینے کا وعدہ کر چکے ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ ساتھ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ادا کرتے جائیں تا سلسلہ کے کام میں نقص نہ واقع ہو.میں جانتا ہوں کہ احمدیوں پر بوجھ زیادہ ہیں، ان کی قربانیاں دوسروں سے بڑھی ہوئی ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ان کے لئے جو انعامات مقدر ہیں وہ بھی دوسروں کے لئے نہیں.بعض نادان کہتے ہیں کہ قربانیاں تو ہم کرتے ہیں مگر دنیوی انعام اور آرام و آسائش دوسروں کو حاصل ہیں.مگر وہ نہیں جانتے کہ ان قربانیوں کے بدلہ میں ان کو تو خد املتا ہے اور دوسروں کو بھیٹر بکریاں.رسول کریم صلی ا ہم نے جب مکہ کو فتح کیا تو بہت سے نئے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے اور اس کے بعد جو جنگ ہوئی اس میں کچھ اموال آئے تو آپ نے وہ مکہ کے نو مسلموں میں تقسیم کر دیئے.مدینہ کا ایک نوجوان انصاری اپنی نا سمجھی کی وجہ سے صبر نہ کر سکا اور اس نے کہہ دیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور فتح ہماری وجہ سے ہوئی ہے مگر اموال رسول کریم صلی علیکم نے مکہ والوں میں تقسیم کر دیئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ ملک کو بھی خبر پہنچی تو آپ نے انصار کو جمع کیا.ان کو بھی علم ہو چکا تھا کہ ایسی رپورٹ آپ کو پہنچ چکی ہے.وہ بہت گھبر ائے ہوئے تھے انہوں نے کہایا رَسُولَ اللہ ! ہمیں علم ہے کہ آپ نے ہمیں کیوں بلوایا ہے مگر ہم سب اس نوجوان کی اس بات کو سخت نا پسند کرتے ہیں.لیکن آنحضرت صلی الم نے فرمایا انصار ! جو ہونا تھا وہ ہو چکا.انصار ! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب محمد کو اس کی قوم نے وطن سے نکال دیا، جب اپنے شہر میں اس پر زندگی تلخ کر دی اس وقت ہم نے اس کے لئے اپنے شہر کے دروازے کھول
* 1940 90 خطبات محمود دیئے اور اسے یہاں لے آئے.پھر ہم اس کے دشمنوں کے ساتھ لڑے اور قربانیاں کرتے رہے حتی کہ فتح حاصل کر لی مگر جب فتح حاصل ہو گئی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے.آپ نے فرمایا اے انصار ! بیشک تم یہ کہہ سکتے ہو.یہ بات سن کر انصار جو اخلاص و قربانی کا ایک ہی نمونہ تھے بلکہ بعض رنگ میں ان جیسی قربانی کرنے والی کوئی اور قوم ملتی ہی نہیں.بے شک مہاجرین نے بھی بڑی قربانیاں کی ہیں مگر وہ قربانی جس کا بدلہ دنیا میں نہیں ملا وہ انصار ہی کی ہے.رسول کریم صلی الم کی یہ بات سن کر ان کے دلوں کی کیفیت کیا ہو گی یہ ظاہر ہے.وہ بے اختیار رونے لگے اور عرض کیا یارسول اللہ ! ایک نوجوان کی غلطی ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں.یہ بات تم کہہ سکتے ہو مگر تم ایک اور بات بھی کہہ سکتے ہو اور وہ یہ کہ محمد صلی اللی کم مکہ میں پیدا ہوا اور اس کی پیدائش سے اللہ تعالیٰ نے مکہ کو عظمت عطا کی مگر مکہ والوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اس کی ناشکری کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے مکہ سے مدینہ لے گیا اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش کی اور وہ اور اس کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے بڑھنے لگے حتٰی کہ انہوں نے مکہ کو فتح کر لیا.پھر مکہ والوں نے یہ امید کی کہ شاید اب ہمارا محمد صلی ال کی ہمیں دوبارہ مل جائے گا مگر ہوا کیا؟ فتح کے بعد مکہ والے تو بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہانک کر لے گئے اور انصار خدا تعالیٰ کے رسول کر اپنے ساتھ لے گئے.1 سة پس میں بھی وہی کہتا ہوں جو میرے آقا محمد مصطفے صلی الم نے فرمایا تھا کہ دوسرے لوگوں کو تو مال و دولت مل جاتا ہے مگر تم جو قربانیاں کرتے ہو ان کے نتیجہ میں تمہارا خدا تمہیں ملتا ہے اور یہ انعام کوئی معمولی انعام نہیں ہے.اپنا اپنا نقطہ نگاہ ہے جو نادان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کے عوض ان کو دنیوی عزت اور مال و دولت حاصل ہو ان کا کوئی علاج میرے پاس نہیں.جس کی روحانی نظر تیز ہے اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور پھر اگر دیکھا جائے تو ظاہری لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر زیادہ ہو رہے ہیں.پہلے سے بہت زیادہ مالدار لوگ اب ہم میں موجود ہیں.پہلے سے بہت بڑے عہدیدار ہم میں شامل ہیں اور پہلے سے بہت زیادہ عزت والے لوگ آج ہم میں موجود ہیں.
* 1940 91 خطبات محمود پھر غریبوں اور مسکینوں کے لئے جو انتظام یہاں ہیں وہ دنیا میں اور کسی جگہ نہیں.اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ محض حسد کی وجہ سے ہے.ایک شخص سمجھتا ہے مجھے دس روپے ملنے چاہئیں مگر ملتے صرف دو ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اگر وہ کسی اور جگہ ہو تا تو یہ دو بھی نہ مل سکتے حسد کی وجہ سے شکایت کرنے لگتا ہے.میں کہتا ہوں دنیا کا کوئی اور ایسا شہر تو بتاؤ جہاں اس طرح لوگوں کے کھانے اور کپڑے کا انتظام ہوتا ہو جیسا یہاں ہو تا ہے.کوئی مال دار سے مال دار قوم ایسی نہیں جو غریبوں کی اس طرح پرورش کرتی ہو جیسی ہم کرتے ہیں.بے شک ہمارے ذرائع محدود ہیں اس لئے ہم محدود امداد ہی کر سکتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ اسلامی حکومت میں ہر شخص کے لئے کھانے پہنے اور مکان کا انتظام حکومت کے ذمہ ہو تا ہے اوراگر خد اتعالیٰ ہمیں فراخی عطا کرے تو ہم بھی ایسا کریں گے مگر بہر حال دوسری قوموں کی نسبت ہماری موجودہ حالت اچھی ہے.بعض لوگ نسبت نہیں دیکھتے بلکہ شان کا مقابلہ شان سے کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جس شخص کو دس روپیہ میں آٹھ روپیہ کا مال ملے وہ اچھا ہے یا جسے ایک پیسہ میں دو پیسہ کا مال مل جائے.اس کے دس روپیہ میں ایسی نحوست ہے کہ اسے اس میں آٹھ روپیہ کا مال ملتا ہے اور ہمارے ایک پیسہ میں اتنی برکت ہے کہ اس میں دو پیسہ کا مال ملتا ہے.بے شک اس کے پاس روپے زیادہ ہیں مگر برکت تو ہمارے مال میں زیادہ ہے.جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ہر جہت سے ترقی کر رہے ہیں.ہمارے نظام میں بھی بہتری پیدا ہو رہی ہے.اگر ہم قربانی اور ایثار میں ترقی کریں اور تبلیغ کو وسیع کریں تو وہ دن بھی دور نہیں جب حکومت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری ہو گی.کیونکہ حاکم لوگ بھی تو آخر ہدایت کے محتاج اور خواہشمند ہیں لیکن اگر اس وقت ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت نہ ہوئی تو وہ دن برکت والے نہ ہوں گے اور ایک مومن تو اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ مر جائے بہ نسبت اس کے کہ اس کے دل سے خدا تعالیٰ کی محبت کم ہو جائے.حضرت ابو ذر غفاری رسول کریم صلی ال نیم کے ایک صحابی تھے ان کو دنیوی مال و دولت سے اس قدر نفرت تھی کہ جب مسلمانوں کو مال بکثرت ملنے لگے تو وہ ہر ایک سے لڑتے تھے کہ تم مال کیوں رکھتے ہو ؟ آخر حضرت عثمان نے اُن سے کہا کہ آپ کسی گاؤں میں جا بیٹھیں تا
1940 92 خطبات محمود نہ یہ چیزیں دیکھیں اور نہ لوگوں سے لڑیں.تو اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ظاہری شان سے نفرت ہوتی ہے اور وہ صبر و قناعت میں ہی خوش رہتے ہیں.مگر کامل مومن کا اصل مقام یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جس حال میں رکھے اُس میں خوش رہے.اگر خداتعالی لاکھوں روپے دے دے تو اس میں خوش رہے اور اگر بھوکا رکھے تو اس حالت میں بھی خوش رہے.پس جماعت پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل نازل ہو رہے ہیں اور جس مقام پر اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے ہم سے جو کام لے رہا ہے اور جو لے گا اس کے پیش نظر کسی بھی قربانی کو بڑا نہ سمجھو.ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہیں.پس جو دوست اب تک سستی کرتے رہے ہیں وہ اب چست ہو جائیں اور جو چست ہیں وہ اپنے اندر اور چستی پیدا کریں.ضمناً میں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے اپنی طاقت اور حیثیت سے کم وعدے کئے ہیں چونکہ چندوں میں کمی ہے اس لئے وہ اگر بڑھا دیں تو زیادہ ثواب پائیں گے.عہدیداروں اور دوسرے کام کرنے والوں کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی چستی سے کام کریں.ممکن ہے یہ کمی ان کی سستی کی وجہ سے ہو.میں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتاہوں کہ چونکہ پچھلے دنوں ڈاک دفتر میں جاتی تھی اور میرے پاس خلاصے آتے تھے اس لئے ممکن ہے بعض وعدے نظر انداز ہو گئے ہوں بلکہ میر اغالب گمان یہ ہے کہ بعض وعدے نظر انداز ہو گئے ہیں اس لئے جن دوستوں کو ان کے وعدے پہنچ جانے کی اطلاع نہ ملی ہو وہ پھر بھیج دیں اور اس طرح ممکن ہے جو کمی ہے وہ ان وعدوں کے مل جانے پر پوری ہو جائے.“ 1 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف (الفضل 11 اپریل 1940ء) wwwwwww
$ 1940 93 9 خطبات محمود مسئلہ خلافت اور انگریزی ترجمہ قرآن کے متعلق اہم سوالات (فرمودہ 12 اپریل1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.” میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ غیر مبائعین جہاں بھی ہوں ان کے ناموں اور پتوں سے مرکز سلسلہ کو اطلاع دی جائے اور خود بھی ہر جگہ ایسے سیکرٹری مقرر کئے جائیں جن کا کام غیر مبائعین میں تبلیغ اور ان کے خیالات کی اصلاح کرنا ہو.میری اس تحریک پر بعض جماعتوں نے اس امر کی طرف توجہ کی ہے اور انہوں نے غیر مبالعین کے پتے بھجوانے شروع کر دیئے ہیں لیکن بعض جماعتوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی یا ممکن ہے ان کی رپورٹیں میرے سامنے پیش نہ ہوئی ہوں کیونکہ کچھ رپورٹس براہ راست شاید دعوت و تبلیغ کو بھی جارہی ہیں.بہر حال یہ کام شروع ہو گیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس کام کو اس عمدگی کے ساتھ انجام تک پہنچائے گی کہ ہمارے مخالفین کو یہ محسوس ہو جائے گا کہ حق کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی اور جس طرح گزشتہ ایام میں جب کبھی ان لوگوں نے ہماری جماعت کا مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ہی فتح حاصل ہوئی اور ہم ہی ان کے آدمیوں
1940 94 خطبات محمود کو کھینچ کر لائے.اسی طرح اب بھی یہ سبق دوبارہ ان کے لئے تازہ ہو جائے گا.مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے بعض دوست پرانے لٹریچر کو نہیں پڑھتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض باتوں کا جواب اگر چہ بارہا دیا جا چکا ہے مگر وہ اس شبہ میں رہتے ہیں کہ شاید ان باتوں کا جواب ابھی تک ہماری طرف سے نہیں دیا گیا.حالانکہ سب باتوں کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ ہماری طرف سے دیا جا چکا ہے.آج اسی سلسلہ میں میں جماعت کے دوستوں کی راہنمائی کے لئے انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ در حقیقت یہ اختلاف مذہبی بعد میں بنا ہے پہلے یہ صرف دنیوی اختلاف تھا.یعنی صدرانجمن احمدیہ کے بعض ممبروں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت غاصبانہ ہے اور ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ خلافت کے عہدہ پر متمکن ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ ا والسلام کی صحیح جانشین اور قائمقام صدر انجمن احمد یہ ہے.الصلوة چنانچہ وہ لوگ جو اس زمانہ کے ہیں اُن کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جو پہلا جلسہ سالانہ ہوا اس میں متواتر صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں کی تقریروں میں اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صدر انجمن احمد یہ ہے اور بار بار اپنے لیکچروں میں اس کا ذکر کیا جاتا.غرض 1908ء میں دسمبر کے ایام میں جو جلسہ سالانہ ہوا اور جس کا انتظام مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کیا گیا تھا اس وقت کے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس جلسہ کی تقریروں میں بڑے زور سے اس بات کو دہرایا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین صدر انجمن احمد یہ ہے ، خدا تعالیٰ کے مامور کی قائم مقام صدر انجمن احمد یہ ہے، خد اتعالیٰ کے مامور کی خلیفہ صدر انجمن احمد یہ ہے اور اس کی اطاعت تمام جماعت کے لئے ضروری ہے.حضرت مولوی صاحب ہمارے پیر ہیں لیکن خلیفہ صدر انجمن احمد یہ ہے جس کے وہ صدر ہیں لیکن ان کی یہ تقریریں اب ان کے لئے فائدہ بخش نہیں ہو سکتی تھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد سب سے پہلے انہی لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ آپ خلافت کے بوجھ کو اٹھائیں اور پھر انہی لوگوں نے یہ اعلان کیا جو اُس وقت کے
خطبات محمود اخبارات میں بھی شائع ہوا کہ :.66 95 مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتنی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چه خوش بو دے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر ایک پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب $ 1940 موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا."1 اس اعلان کے بعد وہ جماعت جو صداقت کی شیدا تھی جس نے بڑی بڑی قربانیوں اور اپنے رشتہ داروں کو خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑنے کے بعد ایمان کی دولت حاصل کی تھی کب ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو سکتی تھی؟ چنانچہ جتنا زیادہ یہ لوگ اس بات کو دہراتے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ خلیفہ اور جانشین صدر انجمن احمد یہ ہے اتنا ہی زیادہ جماعت میں جوش پیدا ہو تا چلا جاتا کیونکہ وہ حیران تھی کہ پہلے انہی لوگوں نے یہ کہا تھا کہ خلافت کا انتخاب الوصیت کے مطابق ہے اور اب یہی کہہ رہے ہیں کہ اصل جانشین اور خلیفہ صدر انجمن احمد یہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے ہاتھ پہلے ہی کاٹ کر رکھ دیئے تھے.ممکن ہے اگر انہوں نے یہ اعلان نہ کیا ہوا ہو تا تو جماعت کو ان کی تقریروں کی وجہ سے ٹھوکر لگ جاتی مگر چونکہ یہ لوگ خود ایک اعلان شائع کر چکے تھے اس لئے اب جو اس کے
* 1940 96 خطبات محمود خلاف انہوں نے تقریریں کیں تو لوگوں میں جوش پیدا ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کی اصل غرض حضرت خلیفہ اول کو خلافت سے جواب دینا ہے اور ان کی نیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تعلیم کو جماعت میں قائم کرنا نہیں بلکہ فتنہ وفساد اور تفرقہ پیدا کرنا ہے.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء جب وفات پاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے بعد نشان کے طور پر خلافت کو قائم کیا کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس نے نبی کی شخصی زندگی کو الہام سے شروع کیا اسی طرح وہ اس کی قومی زندگی کو بھی الہام سے شروع کرے.یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نبی فوت ہو تا ہے تو خدا تعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس زندگی کی تفصیلات کی طرف متوجہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد بھی ان لوگوں کے دل اس قدر مرعوب اور خائف ہو گئے تھے کہ اس وقت یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ اب کسی خلیفہ کے بغیر جماعت کا اتحاد اور اس کی ترقی ناممکن ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کا انتخاب عمل میں آیا.یوں منہ سے ان لوگوں کا اپنے آپ کو یا صد را مجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلیفہ اور جانشین کہنا اور بات ہے.سوال تو یہ ہے کہ انجمن کے یہ ممبر جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلیفہ اور جانشین قرار دیتے تھے وہ دل گردہ کہاں سے لاتے جو خداوند تعالیٰ کے خلیفہ کے لئے ضروری ہے.منہ سے تو ہر شخص جو جی چاہے دعوی کر سکتا ہے خواہ حقیقت اس کے اندر کوئی ہو یا نہ ہو.کہتے ہیں کوئی شخص تھا جسے بہادری کا بہت بڑا دعویٰ تھا.ایک دفعہ اس نے اپنی بہادری کے نشان کے طور پر اپنے بازو پر شیر گودانا چاہا.وہ گو دنے والے کے پاس گیا اور کہنے لگا میرے بازو پر شیر گودو.اس نے کہا بہت اچھا اور یہ کہہ کر اس نے سوئی جو ماری تو اسے درد ہوا اور کہنے لگا یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ اس نے کہا شیر گودنے لگا ہوں.وہ کہنے لگا شیر کا کون ساحصہ ؟ اس نے بتایا کہ دایاں کان.اس نے کہا اگر دایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ وہ کہنے لگارہتا کیوں نہیں.اس نے کہا اچھا تو پھر اس دائیں کان کو چھوڑو اور آگے گو دو.اس نے پھر دوسرا کان بنانے کے لئے سوئی ماری تو اسے پھر درد ہوا اور یہ پھر چلا کر کہنے لگا اسے چھوڑو اور آگے چلو.اس نے اسے بھی چھوڑا.اس کے بعد جس عضو کے بنانے کے لئے وہ سوئی مار تاتو یہ شخص چلا کر
1940 97 خطبات محمود اسے منع کر دیتا.آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور جب اس نے پوچھا کہ کام کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا کہ میں کان گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو.سر گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو، منہ گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑ دو، پیٹھ گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو، ٹانگیں گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو.جب تمام چیزیں میں نے چھوڑتے ہی چلے جانا ہے تو شیر کا باقی کیارہ گیا.تو منہ سے دعویٰ کرنا اور بات ہے اور اللہ تعالیٰ سے طاقت اور قوت کا ملنا بالکل اور بات.جو شخص خدا تعالیٰ کا سچا خلیفہ تھا وہ تو دلیر اور بہادر تھا اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ قدم قدم پر ان لوگوں کے دل ڈرتے تھے.ایک طرف انہیں یہ ڈر تھا کہ جماعت میں ہمارے خلاف کوئی جوش پیدا نہ ہو جائے دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ کہیں حضرت خلیفہ اول ان سے ناراض نہ ہو جائیں تیسری طرف وہ اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں اس کے نتیجہ میں یہ تو نہیں ہو گا کہ نہ ہم ادھر کے رہیں نہ اُدھر کے اور نہ احمدی رہیں نہ غیر احمدی.غرض بات بات پر ان کا دل ڈرتا تھا کیونکہ ان کے دل میں خدا نہیں بول رہا تھا بلکہ نفسانی خواہشات جوش مار رہی تھیں اور نفسانی خواہشات حوصلے بڑھایا نہیں کرتیں بلکہ حوصلوں کو پست کیا کرتی ہیں.گویا ان لوگوں کی جرات اور پھر خلافت کے دعوی کی مثال ایسی ہی تھی جیسے بنیا جب کسی سے لڑتا ہے تو پنیری اٹھا کر کہتا ہے میں یہ مار کر تیر اسر پھوڑ دوں گا مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی بجائے اس کے کہ وہ دو قدم آگے بڑھے دو قدم پیچھے گود کر چلا جاتا ہے جس سے صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ جب اس نے یہ کہا کہ میں پنیری مار کر تیر اسر پھوڑ دوں گا تو اس وقت اس کا دل نہیں بول رہا تھا بلکہ صرف زبان بول رہی تھی.ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو کوئی یہ کہے کہ میں مار کر تیرا سر پھوڑ دوں گا اور دوسری طرف وہ بجائے آگے بڑھنے کے گود کر دو قدم پیچھے چلا جائے.اسی طرح یہ لوگ بھی ایک طرف تو یہ کہتے تھے کہ ہم خلیفہ ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صدر انجمن احمدیہ کو ہی اپنا جانشین قرار دیا ہے اور دوسری طرف ڈرتے تھے کہ خبر نہیں کہیں جماعت ناراض نہ ہو جائے، کہیں حضرت مولوی صاحب ہم پر ناراضگی کا
$1940 98 خطبات محمود اظہار نہ کر دیں، کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی کوئی ایسے سامان نہ ہو جائیں جو ہمیں اپنی کوششوں میں ناکام و نامراد کر دیں.غرض قدم قدم پر ان لوگوں کو خوف و ہر اس نے گھیر رکھا تھا مگر بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان لوگوں نے اخبارات سلسلہ میں ایک اعلان شائع کرایا جس میں لکھا کہ ہم نے الوصیت کی ہدایات کے مطابق خلافت کا انتخاب لیا ہے.حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کے سامنے مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب خلافت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے.میں نے کہا آپ کا اس سوال سے کیا منشاء ہے ؟ کہنے لگے یہی کہ خلیفہ کے کیا اختیارات ہیں ؟ میں نے کہا خواجہ صاحب وہ دن گئے.اب اختیارات کے فیصلہ کا کوئی وقت نہیں.اختیارات کے فیصلے کا وقت وہ تھا جب ہم نے حضرت خلیفہ اول کی ابھی بیعت نہیں کی تھی.مگر جب ہم نے آپ کی بیعت کر لی تو اب بیعت کرنے کے بعد ہمارا کیا حق بنتا ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات پر بحث کریں.جب خلافت کا انتخاب عمل میں آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ کون شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جانشین بننے کا اہل ہے تو اس کے بعد ہمارا یہی کام ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں.یہ کام نہیں کہ ہم آپ کے اختیارات پر بحث کریں.میرے اس جواب پر انہوں نے فوراً اپنی بات کا رخ بدل لیا اور کہا کہ بات تو ٹھیک ہے.میں نے تو یو نہی علمی طور پر یہ بات دریافت کی تھی.اور ترکوں کی خلافت کا حوالہ دے کر کہا کہ چونکہ آجکل لوگوں میں اس کے متعلق بحث شروع ہے اس لئے میں نے بھی آپ سے اس کا ذکر کر دیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آپ کی کیا رائے ہے اور اس پر ہماری گفتگو ختم ہو گئی.لیکن بہر حال اس سے مجھ پر ان کا عندیہ ظاہر ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفہ اول کا کوئی ادب اور احترام نہیں.اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹا دیں جو ہمارے سلسلہ میں جاری ہوا پس اصل اختلاف یہاں سے شروع ہوا مگر جب انہوں نے محسوس کیا کہ جماعت نے چونکہ ہے.
1940 خطبات محمود 99 حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی ہوئی ہے اور اس وجہ سے اسے بیعت سے منحرف کرنا آسان کام نہیں تو انہوں نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ لوگوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت خلیفہ اول تو بڑے بزرگ انسان ہیں ان سے جماعت کو کوئی خطرہ نہیں ہاں اگر کل کو کوئی بچہ خلیفہ ہو گیا تو حصـ پھر کیا ہو گا؟ اور اس بچہ سے مراد میں تھا مگر مجھے اس وقت اس بات کا کوئی علم نہیں تھا.جماعت میں جب یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ کچھ لوگ تو یہ کہنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہے اور کچھ اس پر اعتراض کرنے لگے تو میر محمد اسحاق صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بعض سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں خلافت کے مسئلہ پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی مگر مجھے ان سوالات کا کوئی علم نہیں تھا.اسی دوران میں میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے اور اس کے دو حصے ہیں.ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسر انا مکمل ہے.نا مکمل حصے پر چھت پڑ رہی ہے ، بالے رکھے ہوئے ہیں مگر ابھی اینٹیں یا تختیاں رکھ کر مٹی ڈالنی باقی ہے.رویا میں میں نے دیکھا کہ چھت کے ننگے پر ہم چار پانچ آدمی کھڑے ہیں اور عمارت دیکھ رہے ہیں انہیں میں ایک میر محمد اسحاق صاحب بھی ہیں اور وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر عمارت دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کڑیوں پر ہمیں کچھ بھوسہ پڑا ہوا دکھائی دیا.میر محمد اسحاق صاحب کے ہاتھ میں ایک دیا سلائی کی ڈبیہ تھی.انہوں نے اس میں سے ایک دیا سلائی نکال کر کہا میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس بھس کو جلا دوں.میں نے انہیں کہا یہ بھوسہ جلایا تو جائے گا ہی مگر ابھی وقت نہیں آیا.آپ اس بھوسے کو مت جلائیں، کڑیاں ابھی ننگی ہیں ایسا نہ ہو کہ بھس کے ساتھ ہی بعض کڑیوں کو بھی آگ لگ جائے مگر وہ پھر کہتے ہیں میر ا دل چاہتا ہے کہ میں اس بھس کو جلا دوں.میں پھر انہیں روکتا ہوں اور کہتا ہوں ایسانہ کرنا اس پر وہ پھر کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ اس بُھس کو ضرور آگ لگا دوں مگر میں نے پھر انہیں روکا اور یہ سمجھ کر کہ اب میر صاحب اس بھس کو آگ نہیں لگائیں گے دوسری طرف متوجہ ہو گیا لیکن چند ہی لحظہ کے بعد مجھے کچھ شور سا معلوم ہوا میں مُنہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحاق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں مگر وہ جلتی نہیں.ایک کے بعد دوسری تیلی نکال کر اسے
1940 100 خطبات محمود جلانے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اس پھونس کو آگ لگادیں.میں یہ دیکھ کر ان کی طرف دوڑا مگر میرے پہنچنے سے پہلے پہلے انہوں نے بھوسے کو آگ لگادی میں یہ دیکھ کر آگ میں کود پڑا اور جلدی سے اسے بجھا دیا مگر اس عرصہ میں چند کڑیوں کے سرے جل گئے.میں نے جب یہ رویا دیکھا تو حیران ہوا کہ نہ معلوم اس کی کیا تعبیر ہے.ان دنوں میں حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا اور مسجد مبارک کو گلی میں سے جو سیڑھیاں چڑھتی ہیں ان کے پاس ہی آپ دروازہ کے پاس مسجد میں بیٹھا کرتے تھے.میں نے ایک خط لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش کیا جس میں لکھا کہ رات میں نے یہ عجیب خواب دیکھا ہے جو جماعت کے متعلق معلوم ہوتا ہے مگر ہے مندر.مجھے معلوم نہیں اس کی کیا تعبیر ہے؟ حضرت خلیفہ اول نے اس خواب کو پڑھتے ہی میری طرف دیکھ کر فرمایا خواب تو پوری ہو گئی.میں حیران ہوا کہ خواب کس طرح پوری ہو گئی.چنانچہ میں نے عرض کیا کہ کس طرح؟ آپ فرمانے لگے میاں تمہیں معلوم نہیں.اور یہ کہہ کر کاغذ کی ایک سلپ پر آپ نے لکھا.میر محمد اسحاق نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں.وہ سوال میں نے باہر جماعتوں کو بھجوادیے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس سے خوب آگ لگے گی.مجھے اس پر بھی کچھ معلوم نہ ہوا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے کیا سوالات کئے ہیں لیکن میں نے ادب کی وجہ سے دوبارہ آپ سے دریافت نہ کیا.البتہ بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب اور بعض اور دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے ان سوالات کا مفہوم بتایا.بعد میں جب جماعتوں کی طرف سے ان کے جوابات آگئے اور بعض میں نے دیکھے تو اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ سوالات خلافت کے متعلق تھے اور ان میں اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی درخواست کی گئی تھی.میر صاحب کے ان سوالات کی وجہ سے جو گویا ٹھس میں آگ لگانے کے مترادف تھے جماعت میں ایک شور پیدا ہو گیا اور چاروں طرف سے ان کے جوابات آنے شروع ہو گئے.جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں یہ تو معلوم ہی ہو گیا تھا کہ جماعت کو بیعت کرنے کے بعد خلافت سے پھر انا سخت مشکل ہے اس لئے اب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہی خیالات (نعوذ بالله ) حضرت خلیفہ
$1940 خطبات محمود 101 اول کے ہیں اور کہتے کہ الحمد للہ فتنہ ابھی ظاہر ہو گیا اور سب کو معلوم ہو گیا کہ ایک بچہ کو خلیفہ بناکر بعض لوگ جماعت کو تباہ کرنا چاہے ہیں.خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہوا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ وہ میری ویسی ہی اطاعت کرتا ہے جیسے نبض حرکت قلب کی کرتی ہے.2 ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں اس سوال کا پیدا ہو جانا بڑی بابرکت بات ہے.ان کے بعد ہو تا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوتا.گویا جماعت کو یہ یقین دلایا جانے لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے اور یہ کہ ان خیالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی ان سے متفق ہیں.لاہور میں تو خصوصیت سے خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر ایک جلسہ کیا جس میں تمام جماعت لاہور کو بلایا گیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ پر یہ ایک ایسا نازک وقت ہے کہ اگر دوراندیشی سے کام نہ لیا گیا تو سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت (نعوذ باللہ ) تباہ ہو جائے گی اور سب لوگوں سے اس بات پر دستخط لئے گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق انجمن ہی آپ کی جانشین ہے اور لاہور کی جماعت نے انہی تاثرات کی وجہ سے کہ حضرت خلیفہ اول کے بھی یہی خیالات ہیں اس پر دستخط کر دیئے.صرف (اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے) حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم نے ان کی اس بات کو بالکل رڈ کر دیا اور کہا کہ ہم تمہارے کہنے سے اس پر دستخط نہیں کر سکتے.یہ تمہارے خیالات ہیں حضرت خلیفہ اول شخص کے خیالات نہیں اور ہم ایسے محضر نامہ پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں.ہم جب ایک کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیت اللہ رکھنے والا ہے تو جو کچھ وہ کہے گا وہی ہم کریں گے تمہارے خیالات کی ہم تصدیق نہیں کریں گے.چنانچہ ان کی دیکھا دیکھی ایک دو اور دوست بھی رک گئے مگر بہر حال لاہور کی اکثر جماعت نے دستخط کر دیئے.آخر حضرت خلیفہ اول نے ایک تاریخ مقرر کی جس میں بیرونی جماعتوں کے نمائندگان کو بھی بلایا اور ہدایت فرمائی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے قائمقام قادیان میں جمع ہو جائیں تاسب سے اس کے متعلق مشورہ لے لیا جائے.چنانچہ لوگ جمع ہوئے.اس دن صبح
1940 102 خطبات محمود کی نماز کے وقت میں بیت الفکر کے پاس کے دالان میں نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا.مسجد بھری ہوئی تھی اور حضرت خلیفہ اول کی آمد کا انتظار کیا جارہا تھا کہ میرے کان میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے ہیں ہم کسی بچہ کی بیعت کس طرح کر لیں.ایک بچہ کے لئے جماعت میں فتنہ پیدا کیا جارہا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اسے خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کر دیں.میں اس وقت ان حالات سے اتنانا واقف تھا کہ میں ان کا یہ فقرہ سن کر سخت حیران ہوا اور میں سوچنے لگا کہ یہ بچے کا ذکر کیا شروع ہو گیا ہے اور وہ کون سابچہ ہے جسے لوگ خلیفہ بنانا چاہتے ہیں.اس کے متعلق بھی مجھے بعد میں حضرت خلیفہ اول سے ہی معلوم ہوا کہ بچہ سے ان کی کیا مراد ہے اور وہ اس طرح کہ اس روز صبح کی نماز کے بعد میں بھی بعض باتیں لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے پاس لے گیا اور گفتگو کے دوران میں میں نے ذکر کیا کہ خبر نہیں آج مسجد میں کیا باتیں ہو رہی تھیں کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے ایک بچہ کی ہم بیعت کس طرح کر لیں ؟ ایک بچہ کی وجہ سے جماعت میں یہ تمام فتنہ ڈالا جا رہا ہے نہ معلوم یہ بچہ کون ہے.حضرت خلیفہ اول میری اس بات کو سن کر مسکرائے اور فرمانے لگے تمہیں معلوم نہیں وہ بچہ کون ہے ؟ وہ تمہیں تو ہو.خیر اس کے بعد میٹنگ ہوئی.اس میٹنگ کے متعلق بھی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا جو حضرت خلیفہ اول کو میں نے سنا دیا تھا اور دراصل یہی رؤیا بیان کرنے کے لئے میں صبح کے وقت حضرت خلیفہ اول کے پاس گیا تھا.میں نے رویا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اول تقریر فرما رہے ہیں مگر آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوایا تھا.اس حصہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا.آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے ہیں اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں.آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقت آگئی اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے بھی تقریر کی جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پر ان لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت دکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی سچے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار
* 1940 103 خطبات محمود رہیں گے.پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا وہ واقعہ یاد آگیا جب ان میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یارسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.3 اسی رنگ میں میں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہم پر حملہ کر کے پہلے ہمیں ہلاک نہ کرلے.قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو رویا میں میں نے اپنی تقریر میں بیان کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول تقریر کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن سے یہ رویا بالکل نکل گیا اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اول نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا میرے دائیں طرف آ بیٹھو.پھر خود ہی فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے ؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی تم نے خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا.اس وقت تک ان لوگوں نے جماعت پر مسلسل یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امر کا فیصلہ کیا ہوا ہے کہ میرے بعد انجمن جانشین ہو گی اور یہ کہ حضرت خلیفہ اول بھی اس سے متفق ہیں.چنانچہ ان میں سے بعض لوگ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہوا کہ انجمن کی جانشینی کا سوال ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں اٹھا.آج مولوی صاحب فوراً یہ فیصلہ کر دیں گے کہ اصل خلیفہ انجمن ہی ہے.بعد میں اٹھتا تو نہ معلوم کیا مشکلات پیش آتیں اور اس قسم کے پروپیگینڈا سے ان کی غرض لوگوں کو یہ بتانا تھی کہ حضرت خلیفہ اول ان کے خیالات سے متفق ہیں.بہر حال حضرت خلیفہ اول تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتناد کھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ میں اپنے پیر کی مسجد میں
خطبات محمود کھڑا ہوا ہوں.104 $ 1940 لوگوں نے جب حضرت خلیفہ اول کے جب یہ خیالات معلوم کئے تو گو جماعت کے بہت سے دوست ان کے ہم خیال بن کر آئے ہوئے تھے مگر ان پر اپنی غلطی واضح ہو گئی اور انہوں نے رونا شروع کر دیا.چنانچہ جو لوگ اس جلسہ کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ مجلس اس وقت ایسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسے شیعوں کے مرثیہ کی مجالس ہوتی ہیں.اس وقت لوگ اتنے کرب اور اتنے درد سے رو رہے تھے کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ مسجد ماتم کدہ بنی ہوئی ہے اور بعض تو زمین پر لیٹ کر تڑپنے لگ گئے.پھر آپ نے فرمایا کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے یہ کام تو ایک ملا بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.آپ کی اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے دل صاف ہو گئے اور ان پر واضح ہو گیا کہ خلافت کی کیا اہمیت ہے.تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ وہ دوبارہ بیعت کریں.اسی طرح آپ نے فرمایا میں ان لوگوں کے طریق کو بھی پسند نہیں کرتا جنہوں نے خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کیا ہے اور فرمایا جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے.ہم نے ان کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا پھر جبکہ مجھے خود خدا تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس فتنہ کو مٹا سکوں تو انہوں نے یہ کام خود بخود کیوں کیا.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب سے جو اس جلسہ کے بانی تھے انہیں بھی آپ نے فرمایا کہ آپ دوبارہ بیعت کریں.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب سے دوبارہ بیعت لی گئی.میں نے اس وقت یہ سمجھ کر کہ یہ عام بیعت ہے اپنا ہاتھ بھی بیعت کے لئے بڑھا دیا مگر حضرت خلیفہ اول نے میرے ہاتھ کو پرے کر دیا اور فرمایا یہ بات تمہارے متعلق نہیں.اس موقع پر دو چار سو آدمی جمع تھے اور تمام لوگوں نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر ان لوگوں کی دیانت اور ایمانداری کا یہ حال ہے کہ خواجہ صاحب نے بعد میں لوگوں سے
* 1940 105 خطبات محمود بیان کیا کہ ہم سے جو دوبارہ بیعت لی گئی تھی یہ بیعت ارشاد تھی جو پیر اس وقت لیتا ہے جب وہ اپنے مرید کے اندر اعلیٰ درجہ کے روحانی کمالات دیکھتا ہے.گویا حضرت خلیفہ اول نے بیہ بیعت ان کی روحانی ترقی کی بناء پر خاص طور پر ان سے لی اور یہ بیعت “بیعت ارشاد ” تھی.اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے بیعت ارشاد لی گئی مگر جب میاں نے بھی بیعت کرنی چاہی تو ان کو ہٹا دیا.یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی انگریز کا کوئی باورچی تھا جو کھانا بہت خراب پکایا کرتا تھا مگر وہ جہاں کہیں بیٹھتا بڑیں ہانکنی شروع کر دیتا اور کہتا کہ میں اتنا لذیذ کھانا پکاتا ہوں کہ بس یہی جی چاہتا ہے کہ انسان کھاتے چلا جائے.ایک دفعہ اس نے اپنے آقا کے لئے کھانا جو پکا یا تو وہ اسے سخت بد مزہ معلوم ہوا اور اس نے باورچی کو کمرہ کے اندر بلا کر خوب چپتیں لگائیں.باورچی نے سمجھا کہ اب میں باہر نکلوں گا تو میری بڑی ذلت ہو گی اس لئے کوئی ایسا طریق سوچنا چاہیے جس سے لوگوں کا ذہن کسی اور طرف منتقل ہو جائے چنانچہ وہ باہر نکلا اور اس نے بڑے زور سے قہقہے لگانے شروع کر دیئے ساتھ ہی وہ ہاتھ پر ہاتھ مارتا چلا جائے.لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا کہ آج تو کھانا اتنا لذیذ تھا کہ صاحب ہاتھ پر ہاتھ مارتا تھا اور کہتا تھا اتنا مزیدار کھانا میں نے آج تک کبھی نہیں کھایا.گویا انگریز نے تو اسے چھپتیں لگائیں اور اس نے یہ فسانہ بنالیا کہ انگریز ہاتھ پر ہاتھ مارتا تھا اور کہتا تھا آج خوب کھانا پکا یا.یہی حال ان لوگوں کا ہے.یہ بھی جب یہاں سے نکلے تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے تو بیعت ارشاد لی گئی تھی جو پیر اپنے مرید سے اس وقت لیتا ہے جب وہ اعلیٰ درجہ کی منازل روحانی طے کر لیتا ہے اور یہ بیعت ہمیں نصیب ہوئی میاں کو نصیب نہیں ہوئی.حالانکہ اول تو یہ بات ہی غلط ہے اور ہر شخص جو واقعات کو جانتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ بیعت ارشاد ر تھی یا نہیں لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ بیعت ارشاد تھی تو پھر یہ بیعت ارشاد تو شیخ یعقوب علی صاحب سے بھی لی گئی تھی ان پر یہ لوگ کیوں ٹوٹے پڑتے تھے ؟ بہر حال جب جلسہ ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مگر یہ لوگ جو حضرت خلیفہ اول کی دوبارہ بیعت کر چکے تھے اپنے دلوں میں اور زیادہ منصوبے سوچنے لگے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا
$1940 106 خطبات محمود کہ ہماری اس قدر ہتک کی گئی ہے کہ اب ہم قادیان میں نہیں ٹھہر سکتے.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت ان لوگوں سے خاص تعلق رکھتے تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو وہ جماعت کا ایک بہت بڑا ستون سمجھتے تھے.ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس طرح گھبرائے ہوئے آئے کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے اور آتے ہی سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ بڑی خطر ناک بات ہو گئی ہے.آپ جلدی کوئی فکر کریں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے اور میں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا.آپ جلدی سے کسی طرح ان کو منوالیں.ایسا نہ ہو کہ وہ قادیان سے چلے جائیں.حضرت خلیفہ اول نے فرما یا ڈاکٹر صاحب میری طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو جا کر کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جانا ہے تو آج ہی قادیان سے تشریف لے جائیں.ڈاکٹر صاحب جو سمجھتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کے جانے سے نہ معلوم کیا ہو جائے گا.آسمان ہل جائے گا یا زمین لرز جائے گی.انہوں نے جب یہ جواب سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے کہا میرے نزدیک تو پھر بڑافتنہ ہو گا.حضرت خلیفہ اول نے فرما یاڈاکٹر صاحب میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اگر فتنہ ہو گا تو میرے لئے ہو گا آپ کیوں گھبراتے ہیں.آپ انہیں کہہ دیں کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جائیں.غرض اسی طرح یہ فتنہ بڑھتا چلا گیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح ہماری دال نہیں گلتی تو انہوں نے غیروں میں تبلیغ کرنی شروع کر دی اور سمجھا کہ عزت اور شہرت کے حاصل کرنے کا یہ ذریعہ زیادہ بہتر ہو گا.اس تبلیغ کے سلسلہ میں کہیں انہوں نے نبوت کے مسائل میں ایسا رنگ اختیار کرناشروع کر دیا جس سے غیر احمدی خوش ہو جائیں، کہیں کفر و اسلام کے مسئلہ میں انہوں نے مداہنت سے کام لینا شروع کر دیا.چنانچہ یہ نبوت اور کفر و اسلام وغیرہ مسائل 1910ء کے شروع میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ان مسائل نے اصل زور 1910ء و1911ء میں پکڑا ہے.اس سے پہلے 1908ء اور 1909ء میں صرف خلافت کا جھگڑا تھا.کفر و اسلام اور نبوت وغیرہ کے مسائل کے باعث اختلاف نہیں تھے.اس وقت ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ
1940 107 خطبات محمود ایک شخص کو خلیفہ مان کر اور اس کی اطاعت کا اقرار کر کے ہم سے غلطی ہوئی ہے اب کسی طرح اس غلطی کو مٹانا چاہیئے تا جماعت دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرے.اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوصیت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے وقت انہوں نے کیا.اس اعلان میں ان لوگوں نے صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ:.مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتفھی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجو د کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے ، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مهدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.“ پس جماعت کے دوستوں کو ان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہیے اور پوچھا چاہیئے کہ تم ہمیں “الوصیت " کا وہ حکم دکھاؤ جس کے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی تھی اس کے جواب میں یا تو وہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اور یا کہیں گے کہ الوصیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں ان کے لئے کھلی شکست ہیں.یعنی یا تو وہ یہ کہیں گے کہ
1940 108 خطبات محمود ایسا حکم الوصیت میں موجود ہے ایسی صورت میں ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ جب الوصیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نظام خلافت کی تائید کی ہے تو تم اس نظام کے کیوں مخالف ہو اور یا پھر یہ کہیں گے کہ ہم نے اس وقت گھبر اکر اور دشمنوں کے حملہ سے ڈر کر حضرت خلیفہ اول کی بیعت کر لی تھی.ہمیں معلوم تو یہی تھا کہ صدر انجمن خلیفہ ہے اور ہمیں یقین اسی بات کا تھا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہی ہے مگر ہم نے سمجھا دشمن اس وقت زور میں ہے اور وہ احمدیت پر تیر چلا رہا ہے بہتر یہی ہے کہ ان تیروں کے آگے حضرت مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا جائے چنانچہ وہ کھڑے ہو گئے اور جب ہم نے دیکھا کہ امن قائم ہو گیا ہے تو ہم اپنا حصہ لینے کے لئے آگئے جیسے قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ جب انہیں جہاد میں شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہو جاتی ہے اور وہ مال غنیمت لے کر میدان جنگ سے واپس لوٹتے ہیں تو وہ بھی دوڑ کر ان کے ساتھ آملتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بھی تمہارے ساتھی ہیں.ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہئے.بہر حال کوئی صورت ہو تو ہر حال میں ان کو شکست ہی شکست ہے.اگر الوصیت میں خلافت کے متعلق کوئی حکم پایا جاتا ہے اور جیسا کہ ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے اعلان کیا کہ پایا جاتا ہے تو پھر اس حکم سے ان کا انحراف ان پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہے اور اگر کوئی حکم نہ پائے جانے کے باوجود انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو آگے کر دیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب حملے کا وقت تھا اس وقت تو یہ پیچھے بیٹھے رہے مگر جب حملے کا وقت گزر گیا اور امن قائم ہو گیا تو اس وقت یہ لوگ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہیئے حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی کو عزت دیتا ہے جو قربانیوں کے میدان میں بھی آگے سے آگے قدم بڑھاتا ہے مگر ان لوگوں نے قربانیوں میں تو کوئی حصہ نہ لیا اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عزت کے حصے بخرے کرنے میں مشغول ہو گئے.یہ سوال ہے جو بار بار ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ بتائیں الوصیت میں وہ کون سے الفاظ ہیں جن کے مطابق حضرت خلیفہ اول کو خلیفہ منتخب کر کے ان کی بیعت کی گئی تھی اور جس کے ماتحت حضرت خلیفہ اول کی اطاعت ویسی ہی ضروری تھی جیسے.
1940 109 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت ضروری تھی کیونکہ اس اعلان میں یہ بھی درج ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا فرمان ہمارے لئے آئندہ ایسا ہی ہو گا جیسے حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کا فرمان ہوا کرتا تھا.پس ان سے پوچھنا چاہیئے کہ “ الوصیت ” کے ہمیں وہ الفاظ دکھلائیں اور پھر ان سے یہ پوچھنا چاہیئے کہ اب ہمیں “الوصیت ” سے وہ دوسرے احکام علیہا دکھاؤ جن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد پہلا حکم منسوخ ہو جائے گا.دوسری بات جو ان کے سامنے پیش کرنی چاہیئے اور جس کے متعلق ان کا دعویٰ بھی سب سے زیادہ ہے وہ قرآن شریف کا ترجمہ ہے اور ان لوگوں کو ہمارے مقابلہ میں سب سے زیادہ اگر کسی بات کا دعویٰ ہے تو وہ یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا ہے حالانکہ قرآن کا یہ ترجمہ انجمن کے روپیہ اور ان تنخواہوں کو وصول کر کے کیا گیا ہے جو سلسلہ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو دی جاتی تھی پھر سلسلہ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو صرف تنخواہ ہی نہیں ملتی تھی بلکہ پہاڑ پر جانے کے اخراجات بھی انہیں ملتے تھے اور پھر تنخواہ اور پہاڑ پر جانے کے اخراجات ہی مولوی محمد علی صاحب کو نہیں دیئے جاتے تھے بلکہ ہزاروں روپیہ کی کتب بھی سلسلہ کی طرف سے ان کو منگا کر دی گئیں تاکہ وہ ان کی مدد سے ترجمہ تیار کر سکیں اور جیسا کہ اس وقت کے اخبارات سے معلوم ہوتا ہے ترجمہ اور قرآن کریم کے نوٹس قریباً مکمل ہو چکے تھے کیونکہ اس کی اشاعت کے لئے چندہ کی تحریک شروع کر دی گئی تھی.پس قریباً تمام کا تمام ترجمہ اور تفسیر وہی ہے جو صدر انجمن احمدیہ سے کئی سال تک تنخواہیں وصول کرنے اور ہزاروں روپیہ کتب پر صرف کرانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے کیا.بعد میں سوائے اس کے کہ انہوں نے کچھ پالش کر دی ہو اور کچھ نہیں کیا.ترجمہ اور تفسیر کا کام در حقیقت حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ختم ہو چکا تھا.بعد میں صرف چند مہینے انہوں نے کام کیا ہے.شاید دو یا چار مہینے ورنہ اصل کام جس قدر تھا وہ اس سے پہلے ختم ہو چکا تھا اور چار سال تک مولوی محمد علی صاحب کو اس کے عوض صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے تنخواہ ملتی رہی تھی پس یہ ترجمہ صدرا انجمن احمد یہ کا تھا اور صدر انجمن احمد یہ ہی اس کی مالک تھی مگر اب یہ ترجمہ مولوی محمد علی صاحب کی ذاتی ملکیت بن چکا ہے اور اس کی آمد میں سے
$1940 110 خطبات محمود نہ صرف ان کو حصہ ملتا ہے بلکہ شاید انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی اس کی وصیت کر دی ہے.پس سوال یہ ہے کہ سلسلہ کے ایک مال پر تصرف کرنے کا مولوی محمد علی صاحب کو کہاں سے حق حاصل ہو گیا؟ اور یہ کہاں کا تقویٰ ہے کہ ایک ترجمہ وہ صدر انجمن احمدیہ سے سالہا سال تک تنخواہ وصول کر کے کریں اور پھر وہ ان کی ذاتی ملکیت بن جائے.وہ ہم پر ہزاروں قسم کے اعتراضات کرتے ہیں وہ ہماری مخفی زندگی کے عیوب بھی تلاش کر کر کے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں جو بات ہم پیش کر رہے ہیں وہ تو بالکل کھلی اور واضح ہے وہ کسی مخفی زندگی کے متعلق نہیں بلکہ ایک ایسی بات ہے جو رجسٹروں میں آچکی ہے، جو پبلک کے سامنے پیش ہو چکی ہے.پس وہ بتائیں کہ سلسلہ احمدیہ نے ترجمۂ قرآن پر اپنا جو روپیہ خرچ کیا تھا اس کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کو یہ کہاں سے حق حاصل تھا کہ وہ اس کو اپنی ذاتی جائداد تصور کر لیتے ؟ بعض پیغامی اس کا یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ اس روپیہ میں جو مولوی محمد علی صاحب کو بطور تنخواہ ملا کرتا تھا ہمارا چندہ بھی شامل تھا اور اس وجہ سے ہم نے علیحدگی پر ضروری سمجھا کہ اپنے چندہ کے معاوضہ کے طور پر ترجمہ قرآن کو بھی ساتھ لیتے آئیں کیونکہ جو روپیہ اس پر خرچ ہوا اس میں ہمارا بھی حصہ تھا حالانکہ اول تو اصولاً یہ بات ہی غلط ہے کہ جس کے ہاتھ کوئی چیز لگے وہ اس بہانہ کی آڑ لے کر اسے ہتھیا لے کہ چونکہ میں بھی چندہ دیا کرتا تھا اس لئے میرے لئے جائز ہے کہ میں یہ چیز اپنے گھر لے جاؤ لیکن اگر یہ اصول درست ہے تو کیا وہ پسند کریں گے کہ جو لوگ ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور جو اس زمانہ میں جبکہ وہ ان کے ساتھ شامل تھے انہیں سینکڑوں روپے بطور چندہ دیتے رہے ہیں وہ اب ان کی انجمن کی چیزیں اٹھا کر لے آئیں اور دلیل یہ دیں کہ چونکہ ہم غیر مبائعین کو ایک زمانہ میں کافی چندہ دیتے رہے ہیں اور ان چیزوں پر ہمارا چندہ بھی خرچ ہوا ہے اس لئے ہمیں حق حاصل ہے کہ ان میں سے ہمیں جو چیز پسند آئے وہ اٹھالے جائیں.مثلاً لاہور میں ہی پندرہ میں احمدی غیر مبائعین میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں.میں نے ایک پچھلے خطبہ میں ہی ان میں سے بعض کے نام بھی لئے تھے جیسے ملک غلام محمد صاحب ہیں.اسی طرح ملک غلام محمد صاحب کے تین جوان لڑکے ان کے ساتھ شامل رہے ہیں.پھر ڈاکٹر غلام حیدر صاحب بھی
$1940 111 خطبات محمود انہی لوگوں میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو غیر مبائعین کو کافی چندہ دیتے رہے ہیں.پس کیا یہ جائز ہو گا کہ یہ لوگ غیر مبائعین کی انجمن کے دفتر میں سے چیزیں اٹھا کر لے آئیں.اگر وہ اسے جائز تسلیم نہیں کریں گے تو ان کی یہ دلیل کیونکر معقول سمجھی جاسکتی ہے کہ چونکہ اس ترجمہ قرآن میں ہمارے چندہ کا روپیہ بھی شامل تھا اس لئے اگر ترجمہ ہم اپنے ساتھ لے آئے تو کیا برا ہوا.مجھے یاد ہے مولوی محمد علی صاحب جس وقت ترجمۂ قرآن اور کئی ہزاروں روپیہ کا سامان کتب وغیرہ کی شکل میں ساتھ لے کر قادیان سے گئے تو اس وقت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم تو اس قدر جوش کی حالت میں تھے کہ وہ بار بار پنجابی میں کہتے تھے ” نیک بختو ایہہ سلسلہ داماں کے چلیا ہے میں سچ کہنداں ہاں اس نے پھر مڑ کے نہیں آناں“.اور میں انہیں جواب دیتا تھا کہ قاضی صاحب اگر یہ لے جاتے ہیں تو لے جانے دیں آپ کو اس موقع پر صبر سے کام لینا چاہیئے اور انہیں یہ ترجمہ اور سامان وغیرہ اپنے ساتھ لے جانے سے نہیں روکنا چاہیئے کیونکہ اگر ہم نے کہا کہ ترجمہ اور کتابیں وغیرہ اپنے ساتھ نہ لے جائیں تو یہ ساری دنیا میں شور مچاتے پھریں گے کہ انہوں نے قرآن کریم کے ترجمہ میں روک ڈالی.پس کتابوں اور ترجمہ وغیرہ کا کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ چیزیں پھر دے دے گا لیکن اس وقت اگر ہم نے ان کو روکا تو یہ سارے جہاں میں ہمیں یہ کہہ کر بد نام کرتے رہیں گے کہ انہوں نے قرآن کے ترجمہ میں روک ڈالی.پھر میں نے انہیں وہ مثال دی جو حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک بیوہ عورت تھی مگر تھی بڑی محنتی.ہمیشہ چرخہ کا تی اور چرخہ کات کات کر گزارہ کرتی.ایک دفعہ اس نے کئی سال تک محنت مزدوری کرنے اور تھوڑا تھوڑا روپیہ پیسہ جمع کرنے کے بعد سونے کے کنگن بنوائے اور اپنے ہاتھوں میں پہن لئے.کچھ دنوں کے بعد اس کے مکان میں رات کے وقت کوئی چور آگیا اور اس نے اس عورت کو مار پیٹ کر اور ڈرا دھمکا کر اس کے کنگن اتار لیے اور چھین کر چلا گیا.وہ کنگن چونکہ اس عورت نے کئی سال کی محنت مزدوری کے بعد پیسہ پیسہ جمع کر کے بنوائے تھے اس لئے وہ چور اسے بھولتا نہیں تھا اور ہر وقت آنکھوں کے سامنے
$1940 112 خطبات محمود اس کی شکل پھرتی رہتی تھی.اس کے بعد پانچ سات سال کا عرصہ اور گذر گیا اور اس عورت نے پھر تھوڑا بہت جمع کر کر کے سونے کے کنگن بنوا لئے.ایک دن وہ اسی طرح چرخہ کات رہی تھی کہ اس نے پھر اسی چور کو کہیں پاس سے گذرتے دیکھا اس نے ایک لنگوٹی باندھی ہوئی تھی اور کسی کام کے لئے جارہا تھا.عورت نے جو نہی اسے دیکھا آواز دے کر اسے کہنے لگی بھائی ذرا بات سن جانا.اس نے خیال کیا کہ کہیں یہ مجھے پولیس کے سپر دنہ کرا دے اس لئے اس نے تیز تیز قدم اٹھا کر وہاں سے غائب ہو جانا چاہا.اس پر اس عورت نے پھر اسے آواز دی اور کہا بھائی میں کسی سے نہیں کہتی تم میری ایک بات سن جاؤ.چنانچہ وہ شخص آ گیا عورت اپنا ہاتھ نکال کر اسے کہنے لگی دیکھ لو ان ہاتھوں میں تو پھر سونے کے کنگن پڑ گئے ہیں اور تمہارے جسم پر کنگن چرا کر بھی لنگوٹی کی لنگوٹی ہی رہی.تو میں نے کہا قاضی صاحب آپ گھبر ائیں نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے اور بہت کچھ دے گا لیکن آپ سمجھ لیں کہ ہم کتنے خطرناک الزام کے نیچے آسکتے ہیں.اگر ہم انہیں یہ سامان لے جانے سے روک دیں کل کو لوگوں میں یہ کہتے پھریں گے کہ صرف دو مہینے کے لئے ترجمہ قرآن کرنے کی خاطر میں یہ کتابیں اور سامان اپنے ساتھ لے چلا تھا مگر ان لوگوں نے دو مہینہ کے لئے بھی یہ چیزیں نہ دیں اور اس طرح ترجمہ قرآن میں انہوں نے روک ڈالی.پس اگر ہم یہ سامان لے جانے سے انہیں روکیں گے تو ساری عمر کے لئے ہماری پیشانی پر داغ لگ جائے گا.اور اگر مولوی صاحب ان چیزوں کو واپس نہیں کریں گے تو وہ الزام کے نیچے آجائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اور سامان دے دے گا.تو قاضی صاحب کو اس موقع پر بڑا طیش آیا مگر میں نے انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا لیکن بات ان کی ٹھیک نکلی کہ وہ کئی ہزار روپیہ کا سامان ترجمہ قرآن کے نام سے اپنے ساتھ لے گئے.پس اگر یہ اصول درست ہے کہ چونکہ چندہ میں ان کا بھی حصہ تھا اس لئے انہیں اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ ترجمہ قرآن اور دوسر ا سامان اپنے ساتھ لے جاتے تو پھر وہ اس بات کی ہمیں بھی اجازت دے دیں تا ہماری جماعت کے وہ دوست جو ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور جو انہیں ایک لمبے عرصہ تک چندے دیتے رہے ہیں وہ ان کی انجمن کی چیزیں اٹھا اٹھا کر
خطبات محمود 113 $1940 لے آئیں.چونکہ ان چیزوں کی تیاری میں ان کے چندہ کا بھی دخل ہے اور اگر وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے تو دنیا جان لے گی کہ انہوں نے جو جواب دیا ہے وہ غلط ہے اور انہیں اس بات کا قطعا کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ انجمن کی کسی چیز کو اس طرح لے جاتے اور اگر وہ اس بات کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کا اعلان کر دیں.میں ان لوگوں کی ایک لسٹ پیش کر دوں گا جو ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور کافی رقوم انہیں چندے میں دیتے رہے ہیں.میں ان تمام کو ایک وفد کی صورت میں ان کے پاس بھیجنے کے لئے تیار ہوں.وہ اپنی انجمن کے دروازے ان کے لئے کھول دیں تاکہ وہ جس چیز کو اپنے لئے ضروری سمجھیں اٹھا لیں کیونکہ ان کے چندہ میں وہ بھی حصہ دار رہ چکے ہیں لیکن اگر وہ اس بات کے لئے تیار نہیں تو پھر ان کا یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ چونکہ ہمارے چندے بھی قادیان میں آتے تھے اس لئے ہم اپنے چندہ کے عوض ترجمہ قرآن اور دوسر اسامان لے آئے.پھر میں کہتا ہوں ایک منٹ کے لئے اگر اس بات کو فرض بھی کر لیا جائے کہ اس سے سلسلہ کا ایک مال اپنے قبضہ میں کر لینا ان کے لئے جائز تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ مال تو سلسلہ کا تھا مولوی محمد علی صاحب کو اس بات کی کس نے اجازت دی کہ وہ اس مال کو اپنی ذاتی جائیداد قرار دے لیں.مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو شیخ رحمت اللہ صاحب دیا کرتے تھے مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب دیا کرتے تھے مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب دیا کرتے تھے.ہم نے ان تمام باتوں کو تسلیم کر لیا مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کا وہ کون سا قانون ہے جس کے مطابق قوم کے چندہ اور قوم کے روپیہ سے تیار ہونے والی چیز مولوی محمد علی صاحب کی ذاتی ملکیت بن جائے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص باغ سے انگور کا ٹوکرا اٹھا کر گھر کو لئے جارہا تھا کہ باغ کے مالک کی اس پر نظر پڑ گئی اور اس نے پوچھا کہ تم میرے باغ سے انگور توڑ کر اور ٹوکرے میں بھر کر کس کی اجازت سے
1940 114 خطبات محمود اپنے گھر لئے جارہے ہو ؟ وہ کہنے لگا پہلے میری بات سن لیجئے اور اگر کوئی الزام مجھ پر عائد ہو سکتا ہو تو بے شک مجھ پر عائد کیجئے.مالک آدمی تھا شریف اس نے کہا بہت اچھا پہلے اپنی بات سناؤ ؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میں راستہ پر چلا جارہا تھا کہ ایک بگولا آیا اور اس نے اڑا کر مجھے آپ کے باغ میں لا ڈالا.اب بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ مالک بہت رحم دل تھا اس نے کہا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں بلکہ مجھے تم سے ہمدردی ہے.وہ کہنے لگا آگے سنئیے اتفاق ایسا ہوا کہ جہاں میں گر اوہاں جابجا انگوروں کی بیلیں لگی ہوئی تھیں.ایسے وقت میں آپ جانتے ہیں کہ انسان اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارا کرتا ہے میں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے اور انگوروں نے گرنا شروع کر دیا.بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ وہ کہنے لگا قصور کیسا اگر تمہاری جان بچانے کے لئے میر اسارا باغ بھی اجڑ جاتا تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی.پھر وہ کہنے لگا کہ جب انگور گرنے لگے تو نیچے ایک ٹوکر اپڑا تھا انگور ایک ایک کر کے اس ٹوکرے میں اکٹھے ہو گئے.فرمائیے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مالک نے کہا یہ تم عجیب بات کہتے ہو میں نے مانا کہ بگولا تمہیں اڑا کر میرے باغ میں لے گیا، میں نے مانا کہ تم ایسی جگہ گرے جہاں انگور کی بیلیں تھیں، میں نے مانا کہ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تو انگور گرنے لگے، میں نے مانا کہ اس وقت وہاں کوئی ٹوکرا پڑا تھا جس میں انگور اکٹھے ہوتے چلے گئے مگر تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ ٹوکر اسر پر اٹھا کر اپنے گھر کی طرف لے جاؤ.وہ کہنے لگا بس یہی بات میں بھی سوچتا آرہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا.تو میں نے مان لیا کہ یہ لوگ چندے دیا کرتے تھے ، میں نے مان لیا کہ ان چندوں کی وجہ سے ان لوگوں کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ انجمن کی ایک چیز کو غاصبانہ طور پر اپنے ساتھ لے جائیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ میں وہ ترجمہ دے کر انہیں یہ کس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر لے جائیں ؟ اگر ترجمہ قرآن کی تمام آمد انجمن اشاعت اسلام لاہور کے کاموں پر خرچ ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کو اس سے ایک جبہ بھی نہ ملتا تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ انجمن کی چیز تھی اور انجمن کے پاس ہی رہی مگر وہ ترجمہ قرآن جس کے حقوق ملکیت یا تو ہمیں حاصل تھے یا بطریق تنزل انجمن اشاعت اسلام لاہور کو.اس کے حقوق مولوی محمد علی صاحب کو کیونکر
خطبات محمود 115 * 1940 مل گئے اور ان کے لئے یہ کیونکر جائز ہو گیا کہ وہ اس کی آمد کو اپنے آپ پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں؟ یہ سوال ہے جو غیر مبائعین کے سامنے پیش کرنا چاہیے کہ دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے تم اپنے گھر کا تو جائزہ لو اور بتاؤ کہ مولوی محمد علی صاحب کو کس طرح یہ حق حاصل تھا کہ وہ ترجمہ قرآن اٹھا کر اپنے گھر لے جاتے اور پھر ساتھ ہی ان سے یہ بھی پوچھ لو کہ آیا ہمیں بھی اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ جو لوگ ہماری جماعت میں تم میں سے نکل کر شامل ہوئے ہیں اور تمہیں سینکڑوں روپے بطور چندہ دیتے رہے ہیں وہ تمہارا مال اٹھالیں اور کیا تم اس پر برا تو نہیں مناؤ گے ؟ اور کیا اسی قانون کے مطابق انہیں غیر مبائعین کی چیز میں ہتھیا لینے کا حق حاصل ہے یا نہیں ؟ اسی طرح ان کے جو نئے دوست مصری صاحب پیدا ہوئے ہیں ان کے متعلق بھی جماعت کو بعض ضروری باتیں یاد رکھنی چاہئیں.مصری صاحب اب دراصل انہی کی پارٹی میں ہیں گو ظاہر وہ یہ کرتے ہیں کہ ان کا غیر مبائعین کے عقائد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پیغامی لوگ بھی ان کی باتیں اپنے اخبارات کے ذریعہ خوب پھیلاتے رہتے ہیں.ان کے متعلق “ فاروق ” میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جو بہت ہی لطیف ہے.سید احمد علی صاحب مولوی فاضل اس مضمون کے لکھنے والے ہیں.اس میں انہوں نے دو حوالے ایسے جمع کر دیئے ہیں جو بہت ہی کارآمد ہیں اور جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان حوالوں کو یاد رکھیں.ان میں سے ایک حوالہ میں انہوں نے غیر مبائعین کو غلطی پر قرار دیا ہے اور دوسرے حوالہ میں انہوں دیا ہے.اب جبکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم بھی غلطی پر ہوئے اور غیر مبائعین بھی غلطی پر ہوئے تو سوال یہ ہے کہ پھر سچائی پر کون قائم ہے اور وہ کون سی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحیح تعلیم کی حامل ہے ؟ اس صورت میں تو گویا نہ ہماری جماعت اس تعلیم پر قائم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی اور نہ غیر مبائعین اس تعلیم پر قائم ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.صرف مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہی باقی رہ جاتے ہیں اور غالباً ان کے نزدیک وہی ہیں جو سچائی پر قائم ہیں.نے ہمیں کی ہے.
خطبات محمود 116 * 1940 پس یہ سوال بھی نہایت اہم ہے اور اس قابل ہے کہ ان سے دریافت کیا جائے کہ آخر وہ کون سی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قائم کر گئے تھے اور جو آپ کے بتائے ہوئے صحیح راستہ پر چل رہی ہے.جب ایک طرف وہ ہمیں غلطی پر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف غیر مبائعین کو غلطی پر قرار دے چکے ہیں تو وہ کون سی جماعت رہ گئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے اور جس کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سچائی پر قائم ہے.یا تو وہ یہ کہیں کہ اب دلائل سے انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ غیر مبائعین ہی حق پر ہیں اور نبوت وغیرہ مسائل کے متعلق جو عقائد وہ پہلے رکھتے تھے وہ درست نہیں تھے اس صورت میں بے شک وہ سوال قائم نہیں رہے گا جو موجودہ حالت میں ان پر عائد ہو سکتا ہے لیکن اس صورت میں مومنوں کی طرح دلیری سے کام لیتے ہوئے انہیں کہہ دینا چاہیئے کہ پہلے میں غلطی پر تھا اب مجھے پتہ لگ گیا کہ غیر مبالعین ہی حق پر ہیں.ہمارے متعلق تو وہ بار بار کہتے ہیں کہ میں مومنانہ جرات کی وجہ سے ان باتوں کو چھپا نہیں سکتا جو میرے علم میں آئیں پھر کیوں یہی مومنانہ جرات غیر مبائعین کے متعلق ان سے ظاہر نہیں ہوتی؟ پس اگر وہ سمجھتے ہیں کہ غیر مبائعین کے عقائد درست ہیں اور وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحیح تعلیم کے حامل ہیں تو وہ جرآت سے کام لیتے ہوئے ایسا اعلان کر دیں مگر جب تک وہ ایسا اعلان نہیں کرتے یہ سوال بدستور قائم رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ کون سی جماعت ہے جو صحیح رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو پورا کر رہی ہے؟ کوئی اس بات کو اچھا کہے یا بر ایہ ایک حقیقت ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پیغامی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں.بعض علاقوں میں انہوں نے اپنے مبلغ بھی بھیجے ہوئے ہیں لٹریچر اور کتابیں بھی شائع کرتے رہتے ہیں اور تبلیغ اسلام کے لئے بھی کوشش کرتے رہتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہم ہیں ہم پر بھی کوئی لاکھ اعتراض کرے ہمارے کام کو اچھا کہے یا برا یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بھی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں.ہم نے اپنے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوائے ہوئے ہیں.کوئی چین میں تبلیغ کر رہا ہے ، کوئی جاپان میں تبلیغ کر رہا ہے، کوئی یورپ میں تبلیغ کر رہا ہے ، کوئی امریکہ میں تبلیغ کر رہا ہے.اسی طرح ہم اپنالٹریچر اور کتا بیں شائع کرتے رہتے
1940 117 خطبات محمود ہیں.یہ کام اچھا ہے یا بُرا اس سے قطع نظر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس وقت دو جماعتیں ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ کام کر رہی ہیں مگر یہ دونوں مصری صاحب کے نزدیک غلط راہ پر ہیں.چنانچہ غیر مبائعین کے متعلق وہ آج سے اٹھارہ سال قبل کہہ چکے ہیں کہ وہ خوارج کے گروہ کی طرح ہیں اور ہمارے متعلق انہوں نے اب کہا ہے کہ یہ بھی خوارج کے نقش قدم پر چل رہے ہیں.پس جب دونوں جماعتیں ہی صحیح راستہ سے منحرف ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ پھر دنیا میں صرف ایک ہی جماعت رہ گئی جو صداقت پر قائم ہے اور وہ مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہیں.پس ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے کیا کیا.مصری صاحب جب سے علیحدہ ہوئے ہیں ان کا سارا زور ہمارے خلاف صرف ہو رہا ہے.نہ وہ آریوں کے خلاف لکھتے ہیں ، نہ وہ عیسائیوں کے خلاف لکھتے ہیں، نہ وہ ہندوؤں کے خلاف لکھتے ہیں، نہ وہ پیغامیوں کے خلاف لکھتے ہیں.گویا آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ( نَعُوذُ بِاللہ ) کوئی نام لیوا دنیا میں باقی نہیں اور جو مصریوں کی شکل میں باقی ہیں وہ بھی اسلام کی خدمت کا کوئی کام سر انجام نہیں دے رہے.مصری صاحب کہہ سکتے ہیں کہ میرا یہ بھی کام ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مومن کو اپنی نگاہ ہر طرف رکھنی چاہیئے.پس اگر انہیں ہم میں نقائص دکھائی دیتے ہیں تو وہ بے شک ہم پر اعتراض کریں کیونکہ میرے نزدیک اگر ہم انہیں یہ کہیں کہ ہم پر اعتراض نہ کرو، احرار پر کر دیا ہم پر اعتراض نہ کرو عیسائیوں پر کر دیا ہم پر اعتراض نہ کرو آریوں پر کرو.تو یہ کسی صورت میں درست نہیں ہو گا.مومن کا کام ہے کہ وہ ہر طرف توجہ رکھے.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم پر اعتراض نہ کریں بلکہ اگر وہ ہمیں غلطی پر سمجھتے ہیں تو یقینا ان کا حق ہے کہ وہ ہمارے خلاف جدوجہد کریں لیکن ایک سوال ہے جس کو وہ کبھی حل نہیں کر سکتے کہ کیا یہ فتنہ جو مصری صاحب کے نزدیک بڑا فتنہ ہے یہ تو اس بات کا حق رکھتا ہے کہ مصری صاحب اپنی تمام کوششیں اس کو مٹانے کے لئے وقف کر دیں مگر وہ فتنے جنہیں خدا اور اس کے رسول نے بڑا قرار دیا ہے ان کو مٹانے کے لئے مصری صاحب کے لئے کسی قسم کی جدوجہد کرنا جائز نہیں.کیا مصری صاحب کو کبھی آریوں کے خلاف کچھ لکھنے کی بھی توفیق ملی یا عیسائیوں کے
1940 118 خطبات محمود خلاف بھی انہوں نے کچھ لکھایا احرار کے متعلق ہی کبھی انہوں نے دو چار مضمون لکھے ؟ انہوں نے کبھی آریوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا، انہوں نے کبھی عیسائیوں اور احرار وغیرہ کے خلاف کچھ نہیں لکھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کے خلاف لکھا تو ان کی جتھہ بندی ٹوٹ جائے گی اور وہ مدد جو انہیں احرار اور پیغامیوں سے مل رہی ہے وہ جاتی رہے گی مگر کیا خدا اور رسول کا یہ حق نہیں کہ جن فتنوں کو انہوں نے بڑافتنہ قرار دیا ہے انہیں بڑا سمجھا جائے اور کیا یہ مصری صاحب کو ہی حق حاصل ہے کہ جس فتنہ کو وہ بڑا سمجھیں وہ بڑا بن جائے؟ قرآن کریم نے دجالی فتنہ کو بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے حتی کہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ قریب ہے اس فتنہ سے آسمان پھٹ جائے، زمین تہہ وبالا ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.4- رسول کریم صلی ا یکم فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے دجالی فتنہ سے بڑا فتنہ کوئی نہیں ہوا.5 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آریوں کے فتنہ کو بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے لیکن وہ کبھی آریوں کے خلاف نہیں لکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے آریوں کے خلاف کچھ لکھا قادیان کے آریوں سے جو مد د مل رہی ہے وہ بند ہو جائے گی.اسی طرح وہ کبھی عیسائیوں، ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نہیں لکھتے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس غرض کے لئے دنیا میں مبعوث فرمائے گئے تھے وہ آج کہیں پوری نہیں ہو رہی کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم بھی گمر اہ اور مصری صاحب کے نزدیک غیر مبائعین بھی گمراہ اور پھر خود مصری صاحب بھی گمراہ کیونکہ ان کی توجہ اس کام کی طرف ہے ہی نہیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث فرمائے گئے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ مصری صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی وفات کے بعد جو کچھ چھوڑا وہ گھر ہی ہی گمراہی تھی جو قادیان میں بھی ظاہر ہوئی ، جو لاہور میں بھی ظاہر ہوئی اور جو مصری صاحب کے گھر میں بھی ظاہر ہوئی.کیا کوئی بھی معقول انسان تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی نوح نے خبر دی، خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی ابراہیم نے خبر دی، خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی موسی نے خبر دی خدا تعالیٰ کا وہ مسیح جس کی عیسی نے خبر دی، خدا تعالیٰ کا وہ مسیحی جس کی رسول کریم صلی ا ہم نے
$1940 119 خطبات محمود خبر دی، جس کی یاد میں ہزاروں نہیں لاکھوں ائمہ دین اور صلحاء و اولیاء دعائیں کرتے ہوئے اس جہان سے گذر گئے.وہ اس جہان میں آیا اور چلا گیا اور سوائے گمراہی اور ضلالت کے دنیا میں کچھ چھوڑ نہیں گیا.پس یا تو غیر مبائعین مصری صاحب سے یہ اعلان کروا دیں کہ انہوں نے پیغامیوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا وہ صحیح نہیں تھا اور یہ کہ اب انہیں غور کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ پیغامی ہی حق پر ہیں.اس صورت میں بے شک ان کا پہلو مضبوط ہو سکتا ہے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس جماعت کو سچائی پر قائم کیا اور جو صحیح معنوں میں آپ کی جماعت کہلا سکتی ہے وہ غیر مبائعین کی ہے لیکن جب تک وہ یہ اعلان نہیں کرتے کہ پیغامی حق پر ہیں اس وقت تک گویا ان کے نزدیک اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت بھی ایسی نہیں جو صداقت اور راستی پر قائم ہو کیونکہ غیر مبائعین کی گمراہی کے متعلق ان کا پہلا عقیدہ اب تک قائم ہے اور ہماری گمراہی کے متعلق ان کے موجودہ اعلانات موجود ہیں اور ان کی اپنی گمراہی اس طرح ظاہر ہے کہ وہ اپنا سارا زور اس فتنہ کے مٹانے کے لئے صرف کر رہے ہیں جو اُن کے نزدیک بڑا ہے مگر جنہیں خدا اور اس کے رسول نے بڑا فتنہ قرار دیا ہے ان کے استیصال اور اسلام کی اشاعت کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے مبعوث نہیں فرمایا تھا کہ آپ کے ذریعہ پہلے ایک جماعت قائم کرے اور پھر آپ کی وفات کے ساتھ ہی اس میں بگاڑ پیدا کر دے اور کچھ عرصہ کے بعد اس کی اصلاح کے لئے کسی کو کھڑا کر دے.کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہوا کرتا ہے جو مکان بنائے اور پھر توڑ ڈالے اور توڑنے کے بعد پھر اسے بنانا شروع کر دے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض صرف یہ تھی کہ آپ دنیا کی اصلاح کریں اور یہی کام ہے جو آپ کی جماعت کے سپرد ہے.پس جب ہم بھی گمراہ ہیں ، جب غیر مبائعین بھی گمراہ ہیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحیح تعلیم پر صرف مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہی قائم ہیں تو کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ وہ اس تین سالہ عرصہ میں عیسائیوں کے خلاف لکھتے ، آریوں کے خلاف لکھتے، مذاہب باطلہ کا رڈ کرتے اور اسلام کی
1940 120 خطبات محمود شوکت اور عظمت ان پر ظاہر کرتے.مگر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس تین سال کے عرصہ میں انہوں نے کیا اصلاح کی اور کتنے آریوں اور عیسائیوں پر اتمام حجت کی یا کیا وہ اب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ آریوں اور احرار وغیرہ کے خلاف لکھیں گے ؟ یقینا وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے اس فتنہ کی بنیاد ہی آریوں اور احرار کی مدد پر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ انہی کی مدد پر جی رہے ہیں.اگر وہ ان کے خلاف لکھیں تو ان کا خدا ہی مر جائے.پس ان کے خلاف لکھنے کی وہ کبھی جرات نہیں کر سکتے.نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کے ماتحت کوئی جماعت بھی کام نہیں کر رہی.ہم نہیں کر رہے کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم گمراہ ہیں، غیر مبائعین نہیں کر رہے کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک وہ بھی گمراہ ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ خود مصری صاحب بھی یہ کام نہیں کر رہے.پس وہ بھی گمراہ ہوئے اور جب تمام کے تمام لوگ گمراہی پر قائم ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ جماعت کون سی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کی تھی اور جسے آپ کی بتائی ہوئی تعلیم کے ماتحت دنیا میں کام کرنا چاہیئے تھا؟ غرض یہ وہ باتیں ہیں جو جماعت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئیں اور وقتا فوقتا ان لوگوں کے سامنے انہیں پیش کرتے رہنا چاہیئے.پھر اس امر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ مخالف کے سوالات کا جواب دینے سے پہلے دلائل پر پوری طرح غور کر لیا جائے اور سوچ کر اور سمجھ کر اور فکر سے کام لے کر سوالات کا جواب دیا جائے.بعض دفعہ غور سے کام نہیں لیا جاتا اور یو نہی جواب دے دیا جاتا ہے یہ درست طریق نہیں.مثلاً آجکل ذریت مبشرہ کے متعلق بحث ہو رہی ہے میرے نزدیک سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ لعنت کے لحاظ سے اس پر بحث کی جاتی.اگر ہماری جماعت کے دوست لغت کے لحاظ سے اس پر بحث کرتے تو اس بحث کا خاتمہ ہی ہو جاتا.اسی طرح بعض اور سوالات کا جواب دیتے وقت بھی میرے نزدیک پرانے لٹریچر کو نہیں پڑھا گیا.اسی طرح ایک اور بحث بھی ہے مگر میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا تا کہ مخالف ہوشیار نہ ہو جائے مگر اس کے متعلق بھی ایسے رنگ میں بحث کی جاسکتی تھی کہ مخالف اپنے منہ سے آپ ہی مجرم بن جاتا ہے.
خطبات محمود 121 $1940 پھر یہ بات بھی یاد رکھو کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ظاہر گناہ ہوتے ہیں اور ایک مخفی گناہ.جو گناہ کسی کے باطن سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق شریعت نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ ہم ان کے بارہ میں جستجو نہ کیا کریں لیکن جو ظاہر گناہ ہوتے وہ چونکہ ہر ایک کو دکھائی دیتے ہیں اس لئے ان کے بارہ میں تجس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.اب دیکھو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ نئی پارٹی جو ہمارے خلاف نکلی ہے.اسی طرح جو پیغامی ہمارے خلاف مضامین لکھتے رہے ہیں ان میں سے اکثر ڈاڑھی منڈے ہوتے ہیں.اب بتاؤ کیا اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کا جوش انہی لوگوں میں زیادہ ہوا کرتا ہے جو شریعت کی اس طرح کھلے طور پر ہتک کرنے والے ہوں.وہ اصلاح کا دعویٰ کرتے ہوئے اٹھے ہیں مگر ان کے اپنے بیٹے اور رشتہ دار اور دوسرے قریبی سب ڈاڑھیاں منڈواتے ہیں.وہ ہمارے خلاف جب لکھنے پر اترتے ہیں تو وہ ہمارے ان گناہوں کے متعلق بھی لکھ جاتے ہیں جو مخفی ہوتے ہیں اور جن کے متعلق شریعت انہیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ان کا ذکر کریں مگر کیا انہوں نے اپنا منہ کبھی شیشہ میں نہیں دیکھا اور کیا مصلح ایسے ہی ہوا کرتے ہیں؟ ممکن ہے وہ کہہ دیں کہ ہم نے کبھی شیشہ استعمال نہیں کیا مگر خدا نے ان کو آنکھیں تو دی ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں اور دوسرے رشتہ داروں کی کیا صورت ہے اور کیا ایسی صورتیں ہی لوگوں کی ر اصلاح کیا کرتی ہیں ؟ پھر ان لوگوں کے اخلاق کی حالت یہ ہے کہ میں ابھی سندھ میں ہی تھا کہ وہاں مجھے ایک رسالہ ملا جس میں لکھنے والے نے یہ ذکر کیا تھا کہ میں نے ایک دفعہ رجسٹر ڈ خط آپ کو بھجوایا تھا جس میں فلاں بات میں نے بیان کی تھی مگر اس کا کوئی مجھے جواب نہیں ملا حقیقت یہ ہے کہ وہ خط دفتر نے میرے سامنے پیش ہی نہیں کیا تھا کیونکہ جیسا کہ انہوں نے مجھے بتایا انہوں نے اس کے پیش کرنے کی ضرورت نہ سمجھی اور دفتر متعلقہ میں بھجوا دیا.بہر حال وہ رساله شیخ غلام محمد صاحب کا تھا جو انہی پیغامیوں میں سے الگ ہو کر آجکل مصلح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں.میں ان دنوں چونکہ کسی قدر فارغ تھا اس لئے میں نے اس رسالہ کو کھولا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا.اس رسالہ میں لکھا ہوا تھا کہ ایک پیغامی ڈاکٹر یہ بیان کرتا ہے کہ میں
خطبات محمود 122 1940 مرزا محمود احمد صاحب سے قادیان ملنے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے.جب انہیں پتہ لگا کہ میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو وہ ڈرے کہ نشہ چڑھا ہوا ہے ایسا نہ ہو کہ اسے پتہ لگ جائے.چنانچہ انہوں نے ملاقات میں دو تین گھنٹے دیر لگا دی اور کہہ دیا کہ میں ابھی نہیں مل سکتا.دو تین گھنٹے کے انتظار کے بعد انہوں نے مجھے بلوایا اور میں نے جاتے ہی فوراً پہچان لیا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی کیونکہ ان کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی مگر انہوں نے اس بات کو چھپانے کے لئے عطر مل رکھا تھا.شیخ غلام محمد صاحب نے اس رسالہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں نے اس مضمون کا رجسٹری خط امام جماعت احمدیہ کو بھجوایا تھا مگر مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا.اب میں انہیں اس رسالہ کے ذریعہ توجہ دلا تا ہوں اور بتاتا ہوں کہ پیغامیوں کے حلقہ میں آپ کے متعلق یہ بات زور سے پھیلی ہوئی ہے.میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایت دی کہ آپ اس پیغامی ڈاکٹر کو ایک رجسٹر ڈ خط لکھیں جس میں ان سے دریافت کریں کہ یہ بات جو شائع ہوئی ہے کہاں تک درست ہے.ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم خود بخود یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ نے واقع میں یہ کہا ہو گا لیکن چونکہ یہ بات شائع ہو چکی ہے اس لئے آپ ہمیں بتائیں کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط.میری غرض یہ تھی کہ اگر انہوں نے جواب دیا تو اصل بات خود ان کی زبان سے معلوم ہو جائے گی اور اگر جواب نہ دیا تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ انہوں نے واقع میں یہ بات کہی ہے.ایک مہینہ گذرنے کے بعد میں نے پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب سے دریافت کیا کہ کیا ان کا کوئی جواب آیا تو انہوں نے بتایا کہ کوئی جواب نہیں آیا.اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کی اخلاقی حالت کس قدر گری ہوئی ہے.حالانکہ واقعہ صرف یہ تھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب کو اپنے ہمراہ لے کر وہ میری ملاقات کے لئے آئے.پرائیویٹ سکرٹری نے کہا کہ آجکل ملاقاتیں تو بند ہیں مگر چونکہ آپ خاص طور پر ملاقات کے لئے ہی آئے ہیں اس لئے میں اطلاع کرا دیتا ہوں.انہوں نے مجھے اطلاع کی اس وقت میری بیوی ایک خادمہ کے ساتھ مل کر کمروں کی صفائی کر رہی تھی اور گر دو غبار اڑ رہا تھا.میں نے خیال کیا کہ اگر بر آمدہ میں بھی ہم بیٹھے تو مٹی اور گرد کی وجہ سے انہیں تکلیف ہو گی اس لئے بہتر یہی ہے کہ پہلے کمروں کی صفائی کر لی جائے.چنانچہ میں نے
1940 123 خطبات محمود انہیں کہا کہ کمروں کی صفائی ہو رہی ہے اور اس وقت گردو غبار اڑ رہا ہے صفائی ہو لے تو میں ان کو بلوالوں گا.انہیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جا کر یہ بات کہی تو وہ کہنے لگے کہ اچھا اس دوران میں ہم مقبرہ بہشتی و غیرہ دیکھ آتے ہیں.چنانچہ وہ چلے گئے اور میں نے ساتھ مل کر جلدی جلدی مکان کو صاف کیا اور پھر گھنٹی بجائی.پرائیویٹ سکرٹری آئے تو میں نے انہیں کہا کہ اب انہیں ملاقات کے لئے لے آئیے.وہ کہنے لگے ابھی تو وہ آئے نہیں جب آئیں گے تو میں اطلاع کر دوں گا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ آگئے اور میں نے انہیں ملاقات کے لئے بلا لیا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک ان سے باتیں کرتا رہا.مگر باوجود اس کے کہ میں نے ان سے ان دنوں میں ملاقات کی جبکہ سب دوستوں سے ملاقاتیں بند ہیں اور باوجود اس کے کہ میں نے ان کے لئے اپنے وقت میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قربان کیا اور باوجود اس کے کہ میں نے انہی کی خاطر جلدی جلدی مکان کو صاف کرایا اور خود بھی اس صفائی میں شریک ہو گیا اور گردو غبار میں میں نے انہیں اس لئے نہ بلایا کہ انہیں تکلیف ہو گی انہوں نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ چونکہ ملاقات کرنے میں انہوں نے دیر لگائی تھی اس لئے معلوم ہوا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی.اگر یہ اصول درست ہے تو اس کے بعد ہمارا بھی حق ہو گا کہ مولوی محمد علی صاحب سے اگر کوئی مبائع ملنے کے لئے جائے اور وہ نہ ملیں یا ملنے میں دیر لگا دیں تو ہم کہہ دیں کہ مولوی محمد علی صاحب نے شراب پی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے دیر لگادی.اور اگر رسول کریم صل ال نام کی اس سنت پر کہ آپ عطر ملا کرتے تھے اور عطر کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ مجھے بہت ہی محبوب ہے عمل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عطر لگانے والے نے شراب پی ہوئی ہے تو پھر ہمارا بھی حق ہو گا کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو جب عطر لگائے ہوئے دیکھیں کہہ دیں کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی جس کی بو کو دور کرنے کے لئے انہوں نے عطر لگالیا.حالانکہ عطر وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ مجھے دنیا میں جو چیزیں محبوب ہیں ان میں ایک عطر بھی ہے 6 مجھے بھی عطر بڑا محبوب ہے اور میں ہمیشہ کثرت کے ساتھ عطر لگایا کرتاہوں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں بخاری ہاتھ میں لئے حضرت خلیفہ اول سے پڑھنے کے لئے جا رہا تھا کہ
* 1940 124 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جارہے ہو ؟ میں نے عرض کیا حضرت مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں.فرمانے لگے مولوی صاحب کو میری طرف سے کہنا کہ ایک حدیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ رسول کریم صلی الیکم جمعہ کے دن نئے کپڑے بدلتے اور عطر لگایا کرتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول اپنی سادگی میں بعض دفعہ بغیر کپڑے بدلے جمعہ کے لئے تشریف لے آیا کرتے تھے.میں نے جاکر اسی رنگ میں ذکر کر دیا.حضرت مولوی صاحب یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے حدیث تو ہے مگر یونہی کچھ غفلت ہو جاتی ہے.تو عطر لگانا رسول کریم صلی ایم کی سنت ہے مگر ان کے نزدیک جو شخص عطر ملتا ہے وہ اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے کہ گویا اس نے شراب پی ہوئی تھی جس کی بو کو زائل کرنے کے لئے اس نے عطر لگالیا.ایسے لوگوں کو ملاقات کا موقع دینا میرے نزدیک ظلم ہے کیونکہ عقلمند لوگ کہا کرتے ہیں کہ جو لوگ اہل نہ ہوں ان پر احسان بھی نہیں کرنا چاہیئے.پس یہ لوگ اس قسم کے اخلاق کے مالک ہیں کہ ان کے ساتھ شرافت اور خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا بھی اپنا نقصان آپ کرنا ہے.ذرا غور کرو کہ ملاقاتیں بند تھیں میں اپنی جماعت کے دوستوں سے بھی نہیں ملتا تھا، گھر میں صفائی ہو رہی تھی، گرد اڑ رہی تھی، سامان ادھر اُدھر بکھرا ہوا تھا اور میں محض اس لئے کہ ایک پیغامی دوست ملنے کے لئے آئے ہیں جلدی جلدی صفائی کروانے لگا خود بھی اس صفائی میں شریک ہوا اور جب ان صاحب کو ملاقات کا موقع دیا تو وہ گھر جا کر کہنے لگ گئے کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی تبھی ملنے میں دیر لگائی.یہ لوگ اگر دنیا کی اصلاح کرنے والے ہیں تو پھر اصلاح ہو چکی.مگر اس قسم کے صرف چند لوگ ہی ہیں میں نہیں سمجھتا کہ سارے غیر مبائعین ایسے ہی ہوں.آخر ان میں شریف اور نیک لوگ بھی ہیں تبھی بعض شریف الطبع لوگ ان سے علیحدہ ہو کر ہم میں شامل ہوتے رہتے ہیں.پس اس قسم کی عداوت رکھنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو بڑے بڑے معاندین کو بھی ہدایت نصیب ہو جاتی ہے.ابھی سیالکوٹ میں ایک دوست احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.شیخ روشن الدین صاحب تنویر
1940 125 خطبات محمود ان کا نام ہے اور وکیل ہیں.جب مجھے ان کی بیعت کا خط آیا تو میں نے سمجھا کہ کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے کوئی نوجوان ہوں گے مگر اب جو وہ ملنے کے لئے آئے اور شوری کے موقع پر میں نے انہیں دیکھا تو ان کی ڈاڑھی میں سفید بال تھے.میں نے چوہدری اسد اللہ خان صاحب سے ذکر کیا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان ہیں اور ابھی کالج میں سے نکلے ہیں مگر ان کی تو ڈاڑھی میں سفید بال آئے ہوئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ یہ تو دس بارہ سال کے وکیل ہیں پہلے احمدیت کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے مگر احمدی ہو کر تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا ہی پلٹ دی ہے.اسی طرح قادیان کا ہی ایک واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب نے سنایا.وہ فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں مدرسہ احمدیہ کی طرف سے آرہا تھا کہ میں نے دیکھا ایک چھوٹی سی ٹولی جس میں چار پانچ آدمی ہیں مہمان خانہ کی طرف سے آ رہی ہے اور دوسری طرف ایک بڑی ٹولی جس میں چالیس پچاس آدمی ہیں باہر کی طرف سے آرہی ہے.وہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھہر گئیں اور پھر انہوں نے آگے بڑھ کر آپس میں لپٹ کر رونا شروع کر دیاوہ کہتے کہ مجھے پر اس نظارے کا عجیب اثر ہوا اور میں نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ تم روتے کیوں ہو ؟ اس پر وہ جو زیادہ تھے انہوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آپ کو تھوڑے نظر آرہے ہیں یہ ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے احمدی ہوئے.ہم لوگوں کو ان کا احمدیت میں داخل ہونا اتنا برا معلوم ہوا، اتنابُر ا معلوم ہوا کہ ہم نے ان پر ظلم کرنے شروع کر دیئے اور یہاں تک ظلم کئے کہ یہ اپنی جائیدادیں اور مکان وغیرہ چھوڑ کر دور کسی اور شہر میں جاہیے.کچھ عرصہ کے بعد ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے ہدایت دی اور ہم بھی احمدیت میں داخل ہو گئے لیکن نہ ہمیں ان کی خبر تھی کہ یہ کہاں ہیں اور نہ انہوں نے پھر ہمارے متعلق کوئی خبر حاصل کی.آج جلسہ سالانہ پر ہم آئے ہوئے تھے کہ ادھر سے ہم آ نکلے اور اُدھر سے یہ آنکلے اور ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا.ہمیں ان کو دیکھ کر وہ وقت یاد آگیا جب ہم ان پر ظلم و ستم کیا کرتے تھے اور جب خدا کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے ہم نے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا اور انہیں بھی وہ زمانہ یاد آگیا جب ہم نے انہیں دکھ دیئے تھے
1940 126 خطبات محمود اور ہم دونوں بے تاب ہو کر رونے لگ گئے.تو بڑے بڑے دشمن ہدایت پا جاتے ہیں اور بڑے بڑے مخالف راہ راست پر آ جاتے ہیں.پس تم یہ مت سمجھو کہ چونکہ غیر مبائعین تمہارے دشمن ہیں اس لئے انہیں ہدایت نہیں مل سکتی.ہدایت خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل جب نازل ہو تو تمام کدورتیں دل سے دُھل جاتی ہیں.ہاں بے شک انہوں نے جماعت میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو انہوں نے اپنے اوپر ناراض کیا ہے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش وسیع ہے اور اس کی رحمتوں کا کوئی شمار نہیں.پس تم نا امید مت ہو اور تبلیغ میں لگے رہو اور صداقت ان کے سامنے متواتر پیش کرتے رہو تا ان میں سے جو سعید روحیں ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کھینچ کر ہماری طرف لے آئے اور اس فتنہ کو جس کے متعلق یہ مقدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی صورت میں ضرور قائم رہے گا جس حد تک کم ہو سکتا ہو کم کر دے تاہدایت کو قبول کرنے کے راستہ میں جو روکیں حائل ہیں وہ زیادہ سے زیادہ دور ہو جائیں اور ہدایت کی تائید میں جو سامان ہیں وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کر جائیں.“ (الفضل 20 اپریل 1940ء) 1 بدر 2 جون 1908ء صفحہ 6 2 آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 586 بخاری کتاب المغازی باب قصة غزوة بدر 4 تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَذَا (مریم:91) 161 5 مسلم کتاب الفتن باب بقية من احاديث الدجال مستدرک حاکم کتاب النکاح جلد 2 صفحہ 174 بیروت 1990ء
$ 1940 127 10 خطبات محمود غیر مبائعین میں تبلیغ محبت اور نرمی سے کی جائے (فرموده 19 اپریل 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک تو مجھے آج نزلہ کی شکایت ہے، گلا خراب ہے دوسرے لاؤڈ سپیکر کا آلہ بھی خراب ہو گیا ہے لیکن میں جہاں تک ہو سکا اپنے گلے پر زور ڈال کر کوشش کروں گا کہ آواز دوستوں تک پہنچ جائے.میں نے گزشتہ دو خطبات میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ غیر مبائعین میں تبلیغ کے متعلق نئے سرے سے جد وجہد کریں اور کوشش کریں کہ ان میں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت مقدر کی ہو اُن کو ہدایت دے کر اس فتنہ کے زور کو توڑے اور جو رو میں صحیح رستہ سے دور ہو کر بھٹک رہی ہیں ان کو قبولِ حق کی توفیق ملے.میری اس تحریک کے مطابق بعض دوستوں نے مضامین لکھنے شروع کئے ہیں یا ممکن ہے وہ پہلے کے ہی لکھے ہوئے ہوں جو اب شائع ہوئے ہوں.بہر حال میں دیکھتا ہوں کہ دوستوں میں اب زیادہ توجہ نظر آتی ہے اور جن کو لکھنے کی توفیق اللہ تعالٰی نے دی ہے وہ مضامین لکھ رہے ہیں اور غورو فکر کر رہے ہیں لیکن ایک بات جس کی طرف میں جماعت کو پہلے بھی بارہاتو جہ دلا چکاہوں اب پھر کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ محض فتح مومن کے لئے خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ وہ فتح خوشی کا موجب ہوتی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو.
1940 128 خطبات محمود پس اگر ہم ان طریقوں کو استعمال میں لائیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہو اور ان کے نتیجہ میں فتح حاصل ہو تو یہ فتح بے شک خوشی کا موجب ہو گی بلکہ ان طریقوں کو استعمال میں لاتے ہوئے اگر شکست بھی ہو جائے تو وہ بھی خوشی کا ہی موجب ہو گی.بعض دفعہ ایسی شکست عظیم الشان کامیابیوں کا موجب ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ کا ایک ایسا واقعہ ہے جسے خد اتعالیٰ نے قبول فرمایا بلکہ وہ سلسلہ کی بنیاد کا محرک ہو گیا.آپ ایک مرتبہ جوانی کے ایام میں بٹالہ تشریف لے گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں آپ کے منقر بن گئے نئے نئے حدیث کا علم پڑھ کر بٹالہ آئے تھے اور نیا نیا جوش تھاوہ ہر مجلس میں حنفیوں کو برابھلا کہتے تھے اور حنفیوں میں بھی ان کے مقابلہ کا بہت جوش تھا مگر ان کا کوئی مولوی ان کے سامنے ٹھہرتا نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اتفاق سے بٹالہ تشریف لے گئے تو ایک شخص نے ان سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کے لئے آپ کو مجبور کیا اور کہا کہ وہ کفر کی باتیں کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف عقائد رکھتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اچھا چلو دیکھتے ہیں.چنانچہ آپ تشریف لے گئے ، لوگ بہت جمع تھے اور بڑا ہجوم ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی محمد حسین صاحب آمنے سامنے بیٹھ گئے.آپ نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا کیا دعویٰ ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ سب سے مقدم قرآن کریم ہے اور اس کے بعد آنحضرت صلی للی ارم کا قول اور اس کے مقابل پر ہم کسی اور انسان کے قول کو نہیں لے سکتے.آپ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ آپ کی یہ بات تو معقول ہے.اس پر لوگوں نے شور مچا دیا کہ ہار گئے ، ہار گئے.جو لوگ آپ کو ساتھ لے گئے تھے وہ بڑے غصہ میں آئے کہ آپ نے ہم کو ذلیل کر دیا مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور فرمایا کہ کیا میں یہ کہوں کہ امت کے کسی فرد کا قول محمد مصطفے صلی ال نیم کے قول پر مقدم ہے.اور اس طرح خاص اللہ تعالیٰ کے لئے بحث کو ترک کر دیا.رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ “ تیر اخدا تیرے اس سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت
$ 1940 129 خطبات محمود ڈھونڈیں گے.” 1 پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.2 چونکہ آپ نے خالصہ خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا اس لئے اس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ آپ کے اس فعل کو بغیر اجر کے چھوڑے.تو بعض اوقات شکست زیادہ بہتر ہوتی ہے اس فتح سے جس میں خد اتعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو.یہ بات میں نے پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب پھر اسے دہرا دیتا ہوں کہ غیر مبائعین کے مقابلہ پر ایسے ذرائع اختیار کرو جو خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی الم کی خوشنودی کا موجب ہوں.میں نے بار بار سخت کلامی سے روکا ہے.مجھے سخت کلامی کبھی پسند نہیں خواہ وہ میرے شدید سے شدید مخالف کے متعلق ہی کیوں نہ ہو.بے شک بعض حقائق کے بیان کرنے میں بعض سخت الفاظ کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو دوسرے کے لئے ناگوار ہوتے ہیں مگر ان کے بیان میں بھی جہاں تک ممکن ہو سخت الفاظ سے بچنا چاہیے اور ایسے رنگ میں بات کو بیان نہ کیا جائے کہ دوسر ا سمجھے کہ اس کے دل میں غصہ اور بغض ہے جو یہ نکال رہا ہے.ایک ہی بات کو سخت الفاظ میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے اور اسی کو نرم الفاظ میں بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.لاہور میں ایک خاندان فقیروں کا مشہور ہے.ہمارے خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات پرانے چلے آتے ہیں.ہمارے بڑے بھائی خان بہادر مر زا سلطان احمد صاحب مرحوم اور اس خاندان کے آخری رئیس بھائی بھائی بنے ہوئے تھے.ان کے دادا مہاراجہ رنجیب سنگھ کے وزیر تھے اور وہ بہت بلند پایہ طبیب تھے اور اس وجہ سے بہت اثر رکھتے تھے.گو اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی مگر انہیں طب کی وجہ سے اور ذاتی قابلیت کے باعث بہت رسوخ حاصل تھا.مسلمانوں کو اُس زمانہ میں چونکہ مصائب کا شکار ہونا پڑتا تھا اس لئے جس کسی کو کوئی مصیبت پیش آتی ان کے پاس امداد کے لئے پہنچ جاتا تھا اور آپ ہر ایک کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتے اور جو تھوڑی بہت رقم ممکن ہوتی دے دیتے.اُس زمانہ میں پیسہ کی بہت قیمت تھی.روپیہ کا دس دس من غلبہ ملتا تھا.ایک دفعہ ان کے پاس کوئی محتاج آیا وہ بیٹھے کام کر رہے تھے اور اپنے نوکر سے کہہ دیا کہ
1940 130 خطبات محمود میاں اسے آٹھ آنہ کے پیسے دے دو.نوکر نے دیئے تو اس نے شور مچا دیا کہ اتنے بڑے آدمی ہو کر آپ مجھے صرف آٹھ آنے دیئے ہیں.حالانکہ اُس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ بھی کافی تھے.روپیہ مہنگا تھا اور میر اخیال ہے کہ وزیر کی تنخواہ بھی اس وقت دو تین سو روپیہ ہی ہوتی ہو گی مگر باوجود اس کے وہ مخیر آدمی تھے اور جو حاجت مند آتا جو کچھ ممکن ہو تا اسے دے دیتے مگر اس محتاج نے شور مچا دیا اور کام کرنا مشکل کر دیا.آپ نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا اور کام میں حرج کرنے لگا آخر مجبور ہو کر آپ نے نوکر سے کہا کہ اسے پولے پولے (نرم نرم) دھکے مار کر باہر نکال دو.گو وہ مجبور ہو گئے کہ دھکے مار کر اسے نکالیں مگر شرافت کی وجہ سے پولے پولے دھکے مارنے کی ہدایت بھی ساتھ ہی کر دی.تو اگر انسان نرمی اور محبت کو اپنا شعار بنالے تو لڑائی میں بھی ایسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں کہ جو سخت نہ ہوں.جس طرح فقیر صاحب کی مثال میں نے دی ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ سخت کلامی اخلاص پر دلالت نہیں کرتی.اس کی ایک تازہ مثال آپ لوگوں کے سامنے ہے یعنی میاں فخر الدین ملتانی کی.ان کی ٹھوکر کا موجب ہی ان کی یہ سخت کلامی ہوئی.وہ ہمیشہ پیغامیوں کے خلاف سخت مضامین لکھا کرتے تھے.میں نے ڈانٹا کہ یہ طریق مجھے پسند نہیں کہ مضامین میں گالیاں دی جائیں خواہ وہ میرے شدید مخالفوں کو ہی کیوں نہ ہوں.یہ بات ان کو بُری لگی کہ میں تو ان کے لئے قربانی کرتاہوں، ان کے مخالفوں کا مقابلہ کرتا ہوں اور یہ ناراض ہوتے ہیں.انہوں نے پھر ویسا ہی مضمون لکھا اور میں نے پھر ڈانٹا اور ان کو پھر بُر الگا.دو تین بار ایسا ہی ہوا آخر میں نے ان کو کہا کہ اگر پھر ایسا مضمون لکھا تو سزا دوں گا.اس پر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہاں کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں ان کے نزدیک قدر کے یہی معنے تھے کہ میں خدا، رسول، اسلام اور اخلاق کی کوئی پرواہ نہ کرتا اور اس پر خوش ہو جاتا کہ یہ شخص میری مدد کرتا ہے.حالانکہ اصل چیز تو خدا تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور میں تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں.اگر وہی ناراض ہو کہ میں نے گالیاں دلوائیں تو میں فخر دین صاحب کی امداد کو کیا کرتا.اس بات سے ان کو ٹھو کر لگ گئی اور یہی سخت کلامی ابتلاء کا موجب ہو گئی.چنانچہ بعد میں جب ان کے بیان لئے گئے تو یہی معلوم ہوا کہ
$1940 131 خطبات محمود اصل ٹھوکر کا موجب یہی بات ہوئی ہے.انہوں نے بیان کیا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ناراض ہیں تو میں نے دو تین بار یہ دریافت کرایا کہ ناراضگی کا باعث کیا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ میرے جو مضامین فاروق میں شائع ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ناراض ہیں.اور بھی کئی شخص میں نے دیکھے ہیں کہ جن کو اسی بات سے ٹھو کر لگی کہ وہ سمجھتے ہم تائید کر رہے ہیں اور میں اسے ناپسند کرتا.ایسی تائید جو غلط طریق سے ہو وہ مجھے کبھی پسند نہیں آئی اور میں کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس رنگ میں میری مدد کی جائے اور کوئی انسان مدد کر بھی کیا سکتا ہے اگر خد اتعالیٰ ناراض ہو جائے.اصل جواب دہی تو خدا تعالیٰ کے سامنے کرنی ہوتی ہے.اگر اسلام، احمدیت اور اخلاق جاتے رہیں تو خواہ کروڑوں مضامین لکھے جائیں ان کی قیمت اتنی بھی نہیں جتنی ان کاغذوں کی جن پر وہ لکھے جاتے ہیں.پس میں دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جو مضمون بھی لکھیں نرمی اور محبت سے لکھیں.یہ صحیح ہے کہ جہاں کوئی تلخ مضمون آئے گا اس کی کچھ نہ کچھ تلخی تو باقی رہے گی لیکن جہاں تک ہو سکے الفاظ نرم استعمال کرنے چاہئیں.مثلاً کسی نے چوری کی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے فلاں چیز بلا اجازت اٹھالی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وہ چور ہے تو اس بات میں تلخی ضرور پیدا ہو جائے گی اس لئے ایسی بات کو بھی نرم الفاظ میں ادا کرنا چاہیئے.میں مانتا ہوں کہ پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ سختی کی جاتی ہے اس لئے بعض دوست جواب میں سختی سے کام لیتے ہیں مگر مجھے یہ طریق سخت نا پسند ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے متعلق بھی سخت کلامی مجھے پسند نہیں.میرے نزدیک مولوی ثناء اللہ صاحب ہمارے اشد ترین دشمن ہیں مگر میں نے کئی بار دل میں غور کیا ہے ان کے متعلق بھی اپنے دل میں کبھی بغض نہیں پایا اور میں سمجھتا ہوں اگر کسی دشمن کے متعلق دل میں بغض رکھا جائے تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ میرا دل کالا ہو.ہر شخص کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے.اگر کسی کو سزا دینی ہے تو اس نے اور اگر کسی کو بخشا ہے تو اس نے.میں کیوں اپنے دل میں بغض رکھ کر اسے سیاہ کروں.پس دل میں بغض اور کینہ رکھ کر کام نہ کرو بلکہ محبت و اخلاص رکھ کر کرو.جوش اور اخلاص کے ساتھ ضروری نہیں کہ کینہ شامل ہو.
* 1940 132 خطبات محمود خدا تعالیٰ سے زیادہ صداقت کے لئے کس کو جوش ہو سکتا ہے ؟ محمد رسول اللہ صلی املی کام سے زیادہ جوش کسے ہو سکتا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے ؟ مگر دیکھ لو انہوں نے سختی سے کام نہیں لیا.وہ سوائے اس کے کہ جہاں مجبور ہیں کہ صداقت کو بیان کریں کبھی سختی سے کام نہیں لیتے.بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ دے دیتے ہیں کہ آپ نے فلاں جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ آپ کی ایک پوزیشن مجسٹریٹ کی ہے.مجسٹریٹ کو مجبوراً اپنے فیصلہ میں بعض الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں.مثلاً جب اس کے سامنے کسی چور کا مقدمہ پیش ہو تو اسے سزا دیتے وقت اسے لکھنا پڑتا ہے کہ تم نے چوری کی ہے اس لئے میں تمہیں چھ ماہ قید کی سزا دیتا ہوں.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ تم نے دور کعت نماز ادا کی ہے اس لئے چھ ماہ قید کی سزا دیتا ہوں اسے مجبوراً چور کا لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے.اگر وہ مجسٹریٹ نہ ہو تاتو ممکن ہے وہ چور کا لفظ استعمال نہ کرتا مگر چونکہ سرکاری قانون چوری کی سزا مقرر کرتا ہے اس لئے اسے یہ لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھے اس لئے بعض دفعہ آپ نے بعض موقعوں پر بعض لوگوں کی حقیقت بیان کرنے کے لئے مجبوراً بعض الفاظ استعمال کئے ہیں مگر وہ مجسٹریٹ کی حیثیت سے کئے ہیں اور چونکہ ہماری یہ پوزیشن نہیں اس لئے ہمیں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں.ہمارے لئے ان الفاظ کا استعمال اسوہ نہیں ہے.ہمارے لئے اسوہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے.آپ نے ذاتی حیثیت سے جو جواب دیئے ہیں وہ ایسے نرم ہیں کہ پڑھنے والے کے دل پر اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے.اسی طرح قرآن مجید کے بعض الفاظ کو سخت کلامی کی تائید میں پیش کرنا درست نہیں کیونکہ وہ بھی حقیقت کے بیان کے طور پر ہیں اور پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض الفاظ دوسرے کلام سے مل کر نرم ہو جاتے ہیں اور اگر دوسرے کلام سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو سخت معلوم ہوتے ہیں.مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم ابراہیم کے فرزند نہیں ہو بلکہ تمہارا باپ ابلیس ہے.اب یہ سخت لفظ ہے لیکن اس کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے متعلق یہود نے بعض ایسے الفاظ استعمال کئے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مقبول بندے نہیں اور کہا تھا کہ تُو
خطبات محمود 133 $1940 سامری ہے اور تجھ میں بد روح ہے.آپ نے ان کو جواب دینا تھا اور بتانا تھا کہ میں جو تعلیم لایا ہوں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے شیطان کی طرف سے نہیں.آپ نے ان کے جواب میں اس مثال کو دہرانا تھا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ”اگر خدا تمہارا باپ ہو تا تو تم مجھ سے محبت رکھتے.اس لئے کہ میں خدا سے نکلا اور آیا ہوں کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا.تم میری باتیں کیوں نہیں سمجھتے ؟ اس لئے کہ میرا کلام سن نہیں سکتے تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو.3 اب اگر اس سارے واقعہ کو علیحدہ کر کے صرف اسی کو لے لیا جائے کہ تم اپنے باپ ابلیس سے ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے گالی دی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں.تو بعض دفعہ کوئی لفظ اگر الگ کر کے دیکھا جائے تو وہ سخت معلوم ہوتا ہے مگر اپنی جگہ پر وہ سخت نہیں ہو تا.پس دوستوں کو چاہیئے کہ ہمیشہ نرم الفاظ استعمال کیا کریں.بے شک ان کی سخت کلامی کو دیکھ کر طبیعت میں غصہ آجاتا ہے مگر اس غصہ کے نکالنے کی میں ایک اور ترکیب بتا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بجائے ان کو گالیاں دینے کے ان کی دی ہوئی گالیوں کو جمع کر دیا جائے اور پھر ان کو شائع کر دیا جائے.یہ بہت مؤثر طریق ہے.یہ لوگ ہمیشہ سخت کلامی کرتے ہیں اور پھر یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ مبائعین سختی کرتے ہیں اس لئے جس دوست کے دل میں ان کی سخت کلامی کی وجہ سے غصہ پید اہو وہ بجائے جواب میں سختی کرنے کے ان کی گالیوں کو جمع کر دے.ان کے مضامین اور کتابوں میں کافی گالیاں ہمیں دی گئی ہیں.ایک دفعہ میں ڈلہوزی میں تھا کہ مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری، دلاور خان صاحب جو صوبہ سرحد میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور سید عبد الجبار شاہ صاحب جو پہلے سوات کے بادشاہ تھے مگر اب معزول ہیں تینوں یا ان میں سے کوئی دو وہاں میرے پاس پہنچے.یہ تینوں اُس زمانہ میں پیغامی تھے اور اب ان میں سے دو تو بیعت کر چکے ہیں اور تیسرے یعنی عبد الجبار شاہ صاحب کسی کی طرف بھی نہیں.گو پیغامی ان کو اپنی طرف ظاہر کرتے ہیں بہر حال وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں.یہ لوگ میرے پاس آئے اور بیان کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صلح ہو جائے.میں نے کہا صلح سے بہتر کیا چیز ہے مجھے منظور ہے.آپ صلح کی تجاویز پیش کریں.
$1940 134 خطبات محمود انہوں نے غور و فکر کے بعد کہا کہ فی الحال اور صلح تو ممکن نہیں یہ ممکن ہے کہ ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہا جائے.میں نے کہا بہت اچھا.یہ لوگ مولوی محمد علی صاحب کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے مولوی صاحب بھی ڈلہوزی میں ہی تھے.آخر فیصلہ ہوا کہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہ کہنے کے متعلق سمجھوتہ ہو جائے.چنانچہ سمجھوتہ ہوا اور لکھا گیا.اسکے بعد میں نے مولوی محمد علی صاحب کی دعوت کی اور مولوی صاحب نے میری کی اور فیصلہ ہو گیا کہ اخباروں کو روک دیا جائے کہ ایک دوسرے کو برابھلا نہ کہیں.مگر کچھ عرصہ کے بعد پیغام صلح میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا ایک مضمون نکلا جو بہت سخت تھا.اس پر میں نے ان صلح کرانے والوں کو توجہ دلائی اور مجھے سید عبد الجبار صاحب کا خط آیا کہ میں نے مولوی غلام حسن خان صاحب سے بات چیت کی ہے اور ہم دونوں کی یہی رائے ہے کہ پیغام صلح نے زیادتی کی ہے اور معاہدہ کو توڑا ہے.دلاور خان صاحب تو جلدی ہی بعد میں بیعت میں شامل ہو گئے اور مولوی غلام حسن خان صاحب نے اب بیعت کر لی ہے.سید عبد الجبار شاہ صاحب نے دو کشتیوں میں پیر رکھے ہیں.یہ میری رائے ظاہر ی لحاظ سے ہے دل کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اسی ضمن میں مجھے ایک لطیفہ بھی یاد آگیا.دلاور خان صاحب سر عبد القیوم صاحب کے جو صوبہ سرحد میں پہلے وزیر اعظم تھے اب فوت ہو چکے ہیں داماد ہیں.دراصل وہ ان کی بہن کے داماد ہیں مگر چونکہ بہن کی اولاد کو سر موصوف نے ہی اپنے طور پر پالا تھا اس لئے سر موصوف دلاور خان صاحب کو اپنی اولاد ہی کی طرح چاہتے تھے.وہ وائسرائے کی کونسل کے ممبر تھے اور اس سلسلہ میں شملہ آئے ہوئے تھے کہ میری ان سے ملاقات ہوئی.ان کے ایک چچازاد بھائی بھی احمدی ہیں.بھائی سے تو ان کو کچھ رقابت تھی مگر خان صاحب سے محبت تھی.میں اسمبلی دیکھنے گیا تو وہ وہاں مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میرا بھائی آپ کا غالی مرید ہے.بات کرتے وقت اتنا جوش میں آجاتا ہے کہ اسے سمجھ نہیں رہتی دلیل کیا ہوتی ہے.دلاور خان سے اس کی بحث ہوئی.دلاور خان تو ٹھنڈی باتیں کرتے رہے مگر اسے طیش آ گیا.دراصل اپنے بھائی کے متعلق ان کا جو خیال پہلے سے تھا اس رائے میں بھی وہ غالب تھا.اُس وقت اسمبلی کے بعض اور ممبر بھی کھڑے تھے اور وہ اس رنگ میں بات کر رہے تھے کہ گویا آپ کے مرید کو
1940 135 خطبات محمود شکست ہوئی مگر مجھے خدا تعالیٰ نے شرمندگی سے بچانا تھا میرے پاس ایک ہی دن پہلے دلاور خان صاحب کا بیعت کا خط آپ کا تھا.میں نے کہا سر عبد القیوم صاحب! بے شک آپ کے خیال میں ہمارے آدمی کو شکست ہوئی مگر دیکھا تو نتائج کو چاہیئے.دلاور خان صاحب کا بیعت کا خط کل مجھے مل چکا ہے.یہ بات سن کر وہ کہنے لگے کہ اچھا! اب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا ہے میں پھر آپ سے بات کروں گا.تو فتح کے سامان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.ڈلہوزی میں جو صلح ہوئی تھی میں نے اس کی پابندی کی اور نرمی سے کام لیا مگر پیغامیوں نے اس کی پر واہ نہ کرتے ہوئے پھر سخت کلامی شروع کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ صلح کرانے والوں میں سے دو آدمی اس وقت تک بیعت میں شامل ہو چکے ہیں.سید عبد الجبار صاحب پر بھی حجت تو پوری ہو چکی ہے مگر ابھی تک انہوں نے بیعت نہیں کی.ان کو اپنی بہن پر بڑا اعتقاد ہے اور ان کی بہن کو اپنی خوابوں پر بڑا اعتقاد ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان کے پاس جن آتے ہیں اور باتیں وغیرہ کرتے ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ جو جن آتے ہیں وہ میری ہی بیعت کرتے ہیں اور سید صاحب ہنس کر کہا کرتے ہیں کہ جن تو آپ کی بیعت ہی کرتے ہیں.وہ جن ہیں یا فرشتے؟ جو بھی ہیں بہر حال ان کا میری بیعت کرنا ان کے لئے حجت ہے مگر انہوں نے ابھی تک بیعت نہیں کی.پس ہمیشہ نرمی سے کام لو اور محبت دکھاؤ.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ دیو دعاؤں اور روزوں سے نکلا کرتے ہیں.دیو سے مراد تعصب ہے اور روزہ بھی دراصل دعا کا ہی حصہ ہے کیونکہ روزہ سے دعا میں طاقت پید اہوتی ہے اور روزہ دعا کو زبر دست کر دیتا ہے.قرآن کریم نے بھی بتایا ہے کہ روزہ کے ایام میں جو دعائیں کی جائیں وہ قبول ہوتی ہیں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس کام کو اختیار کرتے وقت تقویٰ اور خشیت الہی سے کام لیں.فتح وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو.جس فتح میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو اُس سے شکست بہتر ہے جو اس کی رضا کے ماتحت ہو.
خطبات محمود 136 1940 حضرت خلیفہ اول مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا جو امر تسر کے غزنوی خاندان کے مورث تھے ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.وہ اہلحدیث تھے.حنفیوں کے بھی ایک بڑے مولوی امر تسر میں تھے.لوگ ان کو مولوی عبد اللہ صاحب کے پاس بحث کرنے کے لئے لے گئے اور جا کر کہا کہ یہ آپ سے سوال کریں گے آپ جواب دیں.مولوی عبد اللہ صاحب نے کہا کہ اگر نیت بخیر باشد - حنفی مولوی بھی نیک آدمی تھے مولویانہ رنگ میں لوگوں کے ساتھ چلے گئے تھے.یہ فقرہ سن کر ان پر اتنا اثر ہوا کہ کہنے لگے میں ان سے بحث نہیں کرتا.بحث نیت خیر کہاں رہنے دیتی ہے.تو ان کے اس نیک نیتی کے فقرہ کا ایسا اثر ہوا کہ دوسرے نے بحث سے ہی انکار کر دیا.پس آپ لوگ بھی تقویٰ سے کام لیں اور کوشش کریں کہ جو فتح حاصل ہو وہ ہماری نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی فتح قرار دے.ایسی فتح جسے خدا تعالیٰ پھینک دے اور کہے کہ یہ میری فتح نہیں بلکہ شیطان کی ہے کسی کام کی نہیں.پس ایسے ذرائع استعمال کرو کہ ان کے نتیجہ میں جو فتح ہو وہ خدا تعالی کی ہو اور اس کی خوشنودی کا موجب ہو.اگر کبھی سختی بھی کرنی پڑے اور کوئی ایسا مسئلہ در پیش ہو کہ اس میں حقیقت کا اظہار مخالف کو ناگوار ہونا لازمی ہو تو بھی الفاظ ایسے استعمال کرو جو کم سے کم برے لگیں.بعض مسائل ایسے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے میں نے بھی جب کبھی ان کو بیان کیا پیغامیوں نے شور مچایا ہے کہ ہمیں گالیاں دی گئی ہیں.ایک بات وہی ہے جو میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کی تھی کہ مولوی محمد علی صاحب صدرا انجمن سے تنخواہ لے کر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے رہے، انجمن کے خرچ پر پہاڑ پر جاتے رہے مگر یہاں سے جاتے ہوئے اس ترجمہ کو ساتھ لے گئے اور اب اس کی فروخت پر حق ملکیت بھی لے رہے ہیں.بلکہ میں نے سنا ہے کہ اپنے بعد اس حق کی وصیت اپنی بیوی بچوں کے نام کر دی ہے.یہ ایسی بات ہے کہ اسے کتنے ہی نرم الفاظ میں بیان کیا جائے بہر حال ان کو بُری لگے گی.مگر ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نرم الفاظ میں اسے بیان کریں.ابھی ایک غیر مبائع دوست کی طرف سے مجھے شکایت آئی ہے کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے ہم پر بہت سختی کی ہے.ابھی مجھے یہ تو پتہ نہیں لگا کہ کیا سختی کی ہے.انہوں نے
* 1940 137 خطبات محمود تین چار باتیں لکھی ہیں جو مولوی صاحب نے ان سے کیں اور میں نے دریافت کرایا ہے کہ ان میں سے کون سی بات کرنے میں مولوی صاحب نے سختی سے کام لیا.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض باتیں ہی ایسی ہیں کہ ان کو بیان کیا جائے تو سختی معلوم ہوتی ہے.مثلاً یہی کہ یہ لوگ کہتے ہیں غیر احمدیوں کو لڑکیاں دینی جائز ہیں.اس پر اگر سوال کیا جائے کہ آپ میں سے کس کس نے لڑکیاں غیر احمدیوں کو دی ہیں.تو یہ ان کو بری لگتی ہے مگر ہم یہ اس لئے کہتے ہیں کہ ان کا نہ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ عقیدہ ہم سے متفق ہیں.صرف مصلحتنا یہ بات کہتے ہیں ور نہ کیا وجہ ہے کہ اگر وہ دل میں بھی اس کو جائز سمجھتے ہیں تو اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ بات یہ ہے کہ جیسے لڑکے احمدیوں میں ان کو مل سکتے ہیں ویسے ہی بلکہ ان سے اچھے دنیوی لحاظ سے غیر احمدیوں میں بھی مل سکتے ہیں.اگر تو کسی امیر سے کہا جائے کہ اپنی لڑکی کا رشتہ کسی فقیر کو دے دو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میری لڑکی کو جیسی عادتیں ہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی فقیر کے ہاں اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا.یا کسی تعلیم یافتہ لڑکی کا گزارہ جاہل خاندان میں مشکل ہے.مگر یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان کے لحاظ سے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فرق نہیں.اگر ایک احمدی سید ہے تو غیر احمدی بھی ہے.اگر ایک احمدی سید امیر ہے تو غیر احمدی سید بھی امیر ہے.اگر ایک احمدی سید، امیر، تعلیم یافتہ ہے تو غیر احمدی بھی سید ، امیر اور تعلیم یافتہ مل سکتا ہے.اگر کوئی احمدی سید ، امیر ، تعلیم یافتہ ، اچھے اخلاق اور عمدہ آداب والا ہے تو غیر احمدی بھی ایسا ہی مل سکتا ہے.وہاں کفو کا کوئی سوال نہیں جس پر اعتراض ہو سکے.اب سوال یہ ہے کہ جب اچھے سے اچھا سید غیر احمدیوں میں بھی مل سکتا ہے تو جو لوگ ان کو لڑکی دینا جائز سمجھتے ہیں وہ دیتے کیوں نہیں؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے دل یہی مانتے ہیں کہ جائز نہیں.صرف غیر احمدیوں کو خوش کرنے اور ان سے چندے لینے کے لئے یہ کہتے ہیں.یہ بات ایسی ہے کہ اگر کہی جائے تو وہ ضرور چڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں.حالانکہ جب یہ بات ان کے نزدیک جائز ہے تو گالی کیسے ہو گئی ؟ اس غیر مبائع نے لکھا ہے کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے گالیاں دیں اور کہا کہ تم غیر مبائعین یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ غیر مبائعین کو لڑکیاں دینی جائز ہیں.ممکن ہے انہیں تم کا لفظ بر الگا ہو.یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ عقیدہ نہ رکھتے ہوں
1940 138 خطبات محمود اس لئے یہ بات بُری لگی ہو اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مولوی صاحب نے کہا ہو تم دیتے کیوں نہیں؟ اور یہ بات بُری لگی ہو.بہر حال میں نے دریافت کر لیا ہے کہ مولوی صاحب نے کون سی گالی دی.بہر حال بعض باتیں ایسی ہیں کہ جو بیان کی جائیں تو ان کو بُری لگتی ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ اس قسم کے ازدواج کو جائز سمجھتے ہیں تو پھر لڑکیاں دیتے کیوں نہیں جبکہ غیر احمدیوں میں بھی قوم، تعلیم اور اخلاق کے لحاظ سے ایسے لڑکے مل سکتے ہیں جیسے احمدیوں میں.اور ان کا ایسا نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو وہ دل میں اسے جائز نہیں سمجھتے اور یا ان کے دماغ تو اس کو جائز سمجھتے ہیں مگر دل ڈرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا اور یہ ایسی بات ہے کہ جب بھی کی جائے ان کو بُری لگے گی.مگر مسئلہ کو سمجھانے کے لئے ہم بھی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.تاہم میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسی بات کرنی بھی پڑے تو نرم الفاظ میں کی جائے.پس میں جہاں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ غیر مبائعین کا مقابلہ پورے زور سے کیا جائے وہاں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہو اور اسے ناراض کرنے والا نہ ہو.اور یہ بات کہہ کر میں خدا تعالیٰ کے حضور سبکدوش ہو تا ہوں.یہی طریق ہے جس میں دین کی فتح ہو سکتی ہے اور جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے.ورنہ جس فتح میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو اس کی طرف تو مومن کو نگاہ 3 اٹھا کر بھی کبھی نہ دیکھنا چاہیے.“ (الفضل یکم مئی 1940ء) 21 تذکرہ صفحہ 10 ایڈیشن چہارم یوحنا باب 8 آیت 42 تا 44
$ 1940 139 (11) خطبات محمود اس وقت تبلیغ کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے (فرمودہ 26 اپریل 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میں بیماری کی وجہ سے نہ تو زیادہ دیر کھڑا ہو سکتا ہوں اور نہ ہی اونچا بول سکتا ہوں اس کے علاوہ آج لاؤڈ سپیکر بھی نہیں ہے اور ابھی تک وہ درست ہو کر نہیں آسکا کیونکہ اس کے بعض پرزے نہیں مل سکے اس لئے دوستوں کو جس حد تک میری آواز پہنچ سکے اُسی حد تک انہیں اکتفا کرنا پڑے گا.میں نے جماعت کو تحریک جدید کے ماتحت ایک یہ بھی تحریک کی تھی کہ دوست اپنی زندگیاں تبلیغ اسلام کے لئے وقف کریں خواہ یہ وقف چند ہفتوں کے لئے ہو یا چند مہینوں کیلئے اور ساری کی ساری جماعت ایک قانون اور نظام کے ماتحت تبلیغ احمدیت میں مصروف ہو جائے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت تک جماعت نے اس ہدایت پر پورے طور پر عمل نہیں کیا اور شاید ابھی سو میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے اس کے مطابق عمل کیا ہو.حالانکہ انسان کے ایمان کی آزمائش سب سے زیادہ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ دو طرح ہوتا ہے کبھی تلوار کے ذریعہ سے اور کبھی تبلیغ اسلام اور اعلائے کلمتہ اللہ کے ذریعہ سے.موجودہ زمانہ میں چونکہ وہ حالات موجود نہیں جن میں تلوار کا جہاد ضروری ہوتا ہے اس لئے اب تلوار کے
* 1940 140 خطبات محمود جہاد کا وقت نہیں بلکہ تبلیغ اسلام کے جہاد کا وقت ہے.مگر ہماری جماعت نے ایک طرف تو یہ کہہ دیا اور اس نے اپنے پاس سے نہیں کہا بلکہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت کہا کہ وہ جہاد جو تلوار کا تھا اس زمانہ میں منسوخ ہو چکا ہے.گویا اس جہاد سے ہم اس طرح سبکدوش ہو گئے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول نے اس زمانہ میں یہ جہاد منسوخ کر دیا ہے کیونکہ اس زمانہ میں وہ حالات موجود نہیں جن حالات کے ماتحت تلوار کا جہاد مومنوں پر فرض ہوا کرتا ہے.جب دوبارہ وہ حالات پیدا ہو گئے تو پھر نئے سرے سے یہ جہاد مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کیونکہ وہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے جسے عارضی طور پر ملتوی تو کیا جا سکتا ہے اور ایک زمانہ کے لئے وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے تحت منسوخ تو ہو سکتا ہے مگر کلی طور پر نہیں مٹ سکتا.کیونکہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو ہمیشہ کے لئے متروک اور نا قابلِ عمل قرار دی جاسکے.قرآن کریم نے ہمیں جس قدیر تعلیمیں دی ہیں وہ دو قسم کی ہیں.بعض تعلیمیں تو ایسی ہیں جو ہر زمانہ میں قائم رہتی ہیں اور بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو وقتا فوقتا جاری ہوتی ہیں.یہ تعلیم بھی جو تلوار کے جہاد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے انہی تعلیموں میں سے ہے جو وقتا فوقتا جاری ہوتی ہیں اور اس کی ہماری شریعت میں اور بھی کئی ایک مثالیں موجود ہیں.بعض نادان یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جہاد کے متعلق حرام کا لفظ کیوں استعمال فرمایا؟ چنانچہ حال ہی میں ایک شخص کا میں نے یہ اعتراض دیکھا ہے کہ جب یہ جہاد حالات کے بدلنے پر جائز ہے تو پھر موجودہ زمانہ میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حرام کیوں قرار دیا؟ حرام تو وہی چیز ہوا کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے حرام ہو.مگر یہ بالکل بیہودہ اور لغو بات ہے.نماز حرام ہے جب سورج نکل رہا ہو ، نماز حرام ہے جب سورج سر پر ہو، نماز حرام ہے جب سورج ڈوب رہا ہو مگر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ نماز بالکل حرام ہے اور ہمیشہ کے لئے اس کا پڑھنانا جائز ہے ؟ اسی طرح روزہ حرام ہے عید کے دن.مگر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ روزہ ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور کیا دوسرے وقتوں میں اگر کوئی روزہ رکھے تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ جب عید کے دن روزہ حرام تھا تو بعد میں
* 1940 141 خطبات محمود تم نے کیوں رکھا ؟ تو ہماری شریعت میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات بعض باتیں جائز ہوتی ہیں مگر وہی باتیں دوسرے وقت میں ناجائز ہوتی ہیں مگر وہی باتیں دوسرے وقت میں جائز بلکہ بعض دفعہ فرض ہو جاتی ہیں.جیسے روزہ حرام ہے عید کے دن، روزہ جائز ہے گیارہ مہینے اور روزہ فرض ہے رمضان میں.اسی طرح نماز حرام ہے جب سورج نکل رہا ہو ، نماز حرام ہے جب سورج سر پر ہو ، نماز حرام ہے جب سورج ڈوب رہا ہو.مگر نماز جائز ہے اشراق سے لے کر اس وقت تک کہ سورج نصف النہار تک پہنچنے والا ہو ، نماز جائز ہے ظہر اور عصر کے درمیان، نماز جائز ہے مغرب اور عشاء کے درمیان، نماز جائز ہے عشاء اور فجر کے درمیان اور نماز جائز ہے صبح صادق سے لے کر نماز صبح تک.لیکن یہی نماز فرض ہے صبح کے وقت، نماز فرض ہے ظہر کے وقت ، نماز فرض ہے عصر کے وقت، نماز فرض ہے مغرب کے وقت اور نماز فرض ہے عشاء کے وقت.ان دونوں مثالوں میں دیکھ لو بعض صورتوں میں ایک چیز جائز ہے، بعض صورتوں میں فرض ہے اور بعض صورتوں میں بالکل حرام ہے.اسی طرح تلوار کا جہاد حرام ہے جب اس کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں اور یقینا ایسی صورت میں ہم اس کے متعلق حرام کا لفظ ہی استعمال کریں گے مگر جب پھر کسی زمانہ میں وہ شرائط پائی جائیں تو وہی حرام چیز نہ صرف حلال بلکہ فرض ہو جائے گی.تو تلوار کے جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اِس زمانہ کے حالات کے ماتحت شرعی احکام کے مطابق حرام قرار دیا ہے.پس یہ جہاد تو یوں حرام ہو گیا.اب رہ گیا دوسرا جہاد جو تبلیغ اسلام کا ہے سو وہ یقینا ایسا جہاد ہے جو ہماری جماعت کے ہر فرد پر فرض ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ تبلیغی جہاد جس میں ہماری جماعت کے ہر فرد کا حصہ لینا ضروری ہے اس کو ہماری جماعت کس طرح سر انجام دے رہی ہے.تم کہہ سکتے ہو کہ ہم چندہ دیتے ہیں، چندے سے کتابیں چھپتی ہیں اور کتابوں سے تبلیغ ہوتی ہے مگر اس طرح تو صحابہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم روپیہ دیتے ہیں، روپیہ سے سپاہی تیار ہوتے ہیں اور سپاہی ہم سب کی طرف سے جہاد کرتے ہیں مگر کیا ان میں سے ایک صحابی نے بھی کبھی ایسا کہا؟ اور کیا اس جواب کے بعد وہ مومن سمجھا جاسکتا تھا؟ بے شک بعض حالات میں یہ جائز ہوتا ہے کہ انسان اپنی طرف سے دوسرے کو جہاد کے لئے بھیج دے
1940 142 خطبات محمود مگر یہ اُسی وقت جائز ہوتا ہے جب شریعت اس کی اجازت دیتی ہو.یا کسی کی معذوری ایسی واضح ہو جس کے علاج کی کوئی صورت نہ ہو.جیسے روپے دے کر اپنی طرف سے کسی کو تبلیغ کے لئے مقرر کر دینا صرف اس کے لئے جائز ہو گا جو گونگا ہو اور جس کے منہ میں زبان نہ ہو.اس کے لئے یہ بے شک جائز ہو گا کہ وہ اپنی طرف سے کسی اور کو تبلیغ کے لئے مقرر کر دے اور اس کے اخراجات کو خود برداشت کرے.یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر کوئی شخص اپنی کسی معذوری کی وجہ سے حج کے لئے نہیں جاسکتا تو وہ اپنی طرف سے کسی اور کو روپیہ دے کر حج کر اسکتا ہے مگر جو شخص حج کے لئے جا سکتا ہو اور اس کے لئے کسی قسم کی روک نہ ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو اپنی طرف سے حج کے لئے بھیج دے اور اگر وہ کسی کو روپیہ دے کر اپنی طرف سے حج کرواتا ہے تو اس کا حج ہر گز قبول نہیں ہو گا.پس جبکہ تبلیغ ایک جہاد ہے اور یہ جہاد ہر شخص پر فرض ہے تو جو شخص اتنے اہم فریضے کو ترک کرتا ہے اس کے گنہگار ہونے میں کیا شبہ رہ سکتا ہے.اگر اس تبلیغ کی حیثیت محض نوافل کی سی ہوتی تب بھی اس میں شمولیت حصول ثواب کے لئے ضروری تھی مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ جہاد ہے اور جہاد فرض ہو ا کرتا ہے نفل نہیں ہو تا.پس ہر احمدی جو اپنی زبان سے دوسروں کو تبلیغ کرنے کی طاقت رکھتا ہے مگر وہ اپنے اوقات میں سے تبلیغ کے لئے کوئی وقت نہیں دیتا وہ یقینا ایک فریضہ کو ادانہ کرنے کی وجہ سے ایسا ہی گنہگار ہے جیسے نماز کا تارک گنہگار ہے ، ایسا ہی گنہگار ہے جیسے روزہ کا تارک گنہگار ہے، ایسا ہی گنہگار ہے جیسے حج کا تارک گنہگار ہے اور ایسا ہی گنہگار ہے جیسے زکوۃ کا تارک گنہگار ہے.پس اس مسئلہ کی اہمیت جماعت کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اور یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ اس وقت تلوار کے جہاد کی بجائے تبلیغ اسلام کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے اور اگر یہ بات غلط ہے کہ تلوار کا جہاد اس وقت حرام ہے تو ایسی صورت میں تمہارا فرض ہے کہ تلوار لو اور کفار کو مار ناشروع کر دو.لیکن اگر تلوار کا جہاد اس وقت حرام ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایسے وقت میں تبلیغ اسلام کا جہاد شروع ہو جاتا ہے.اور یہ امر ظاہر ہے کہ جہاد میں اپنا قائمقام دینے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی بلکہ ذاتی طور پر ہر شخص کا فرض ہوتا ہے
خطبات محمود 143 1940 کہ وہ اس جہاد میں شامل ہو.ہم نے تو جماعت کے دوستوں کے لئے اتنی سہولت پیدا کر دی ہے کہ ان پر یہ پابندی ہی نہیں رکھی کہ وہ ضرور دو دو یا تین تین مہینے تبلیغ کے لئے وقف کریں بلکہ اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص پندرہ دن تبلیغ کے لئے دے سکتا ہو تو پندرہ دن ہی دے دے، تین ہفتے دے سکتا ہو تو تین ہفتے دے مہینہ دے سکتا ہو تو مہینہ دے، دو مہینے دے سکتا ہو تو دو مہینے دے.بہر حال ہم نے اپنی جماعت کے دوستوں کی سہولت کے لئے اس حکم کو بہت نرم کر دیا ہے بلکہ اب میں کہتا ہوں کہ جو دو ہفتے دینے سے معذور ہوں محکمہ ان کی طرف سے ایک ہفتہ ہی منظور کر لے.پس چاہیے کہ ہر شخص اس سے فائدہ اٹھائے اور تبلیغ کے لئے سال میں سے پندرہ دن یا مہینہ یا دو مہینے وقف کرے.ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر ص جو اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک فریضہ کا تارک ہے اور اس کا گناہ ویسا ہی ہے جیسے نماز کے ترک کرنے کا، جیسے روزہ کے ترک کرنے کا، جیسے حج اور زکوۃ کے ترک کرنے کا.پس میں جماعت کو آج پھر اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.آج میں نے اس مسئلہ کو زیادہ واضح کر دیا ہے تاکہ کسی کو اس کے سمجھنے میں دقت نہ ہو.تم خود ہی غور کرو کہ اگر یہ جہاد ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا یہ جہاد ہے تو پھر جہاد میں قائمقام دینا جائز نہیں ہو تا.بلکہ ہر شخص کا ذاتی طور پر فرض ہو تا ہے کہ وہ اس میں حصہ لے.اس لئے اگر کوئی شخص اس تبلیغ کے فریضہ کو ادا نہیں کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا.پس ہر جگہ کی جماعت کو اس کے متعلق فوری طور پر انتظام کرنا چاہیے.جو جماعت اس کے متعلق کوئی انتظام نہیں کرے گی وہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر سمجھی جائے گی.خصوصاً قادیان کے دوستوں کو میں اس اہم امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہ قادیان میں ہجرت کر کے آئے ہوئے ہیں اور ہجرت کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اپنا پورا وقت خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے دینے کا عہد کیا ہوا ہے.پس مہاجر ہونے کے لحاظ سے ان پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جو شخص کہتا ہے کہ میں ہجرت کر کے آیا ہوں اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں اپنا وقت خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے دینے کو تیار نہیں وہ مہاجر نہیں بلکہ تارک وطن ہے.جیسے انگریز بعض دفعہ اپنا وطن ترک کر کے
خطبات محمود 144 1940 امریکہ چلے جاتے ہیں یا آسٹریلیا چلے جاتے ہیں.اسی طرح وہ بھی مہاجر نہیں بلکہ تارک وطن ہیں جنہوں نے اپنے وطن کی رہائش ترک کر کے قادیان کی رہائش اختیار کی ہوئی ہے.پس ہر شخص جو ہجرت کے مفہوم کو سمجھنا اور صحیح معنوں میں مہاجر کہلانا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو ایسے طور پر خرچ کرے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ حصہ دین کی خدمت میں صرف ہو.یہی ہجرت کی غرض ہوتی ہے اور یہی غرض انہیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہیئے.پس قادیان کی جماعت کو میں خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ وقف کریں.میں نے بتایا ہے کہ ہم نے دوستوں کی سہولت کے لئے شرائط کو بہت سخت نہیں رکھا.بلکہ ہفتہ ہفتہ بھی اگر مجبوری ہو تو محکمہ قبول کر سکتا ہے.البتہ میرے نزدیک تبلیغ کو زیادہ نتیجہ خیز اور مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے کم از کم دو ہفتے ہر شخص سے وقت لیا جائے.پس میرے نزدیک دوستوں کو دو ہفتہ سے لے کر دو تین مہینہ تک وقت دینا چاہیئے اور یہ کوئی ایسا زیادہ وقت نہیں جس کا بارہ مہینوں میں سے نکالنا مشکل امر ہو.اگر کوئی شخص سال کے بارہ مہینوں میں سے کم از کم دو ہفتے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے صرف نہیں کر سکتا تو وہ جہاد جیسے فریضہ کو بُھلا دینے والا ہو گا.سوائے ان لوگوں کے جو مصنف ہیں یا مبلغ ہیں یا مقرر ، واعظ اور خطیب ہیں انہیں چونکہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی جہاد کا موقع ملتارہتا ہے اس لئے وہ اس فریضہ کے تارک نہیں سمجھے جائیں گے.مگر دوسرے لوگ جنہیں اس قسم کے مواقع نہیں ملتے وہ اگر تبلیغ میں حصہ نہیں لیتے تو وہ ایک اہم فریضہ کو ادانہ کرنے والوں میں شمار ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار ٹھہرتے ہیں.میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں پر اس قدر اتمام حجت ہو چکی ہے کہ اگر ایک نظام کے ماتحت ہماری تمام جماعت تبلیغ میں لگ جائے تو پانچ سات سال کے اندر ہی کئی اضلاع کی اکثریت احمدی ہو سکتی ہے.جو نئے علاقے ہیں ان میں بے شک احمدیت کی تبلیغ کرتے وقت مشکلات پیش آتی ہیں مگر جو علاقے احمدیت کی تعلیم سے واقف ہو چکے ہیں ان کے
$1940 145 خطبات محمود متعلق دیکھا گیا ہے کہ ذرا زور دینے سے ان میں سے سینکڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پس ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے دینا اور لوگوں کو اپنی پوری کوشش سے کلمہ حق نہ پہنچانا اسلام اور احمدیت پر بہت بڑا ظلم ہے.پس قادیان کی جماعت کو خصوصاً اور بیرونی جماعتوں کو عموماً میں اس امر کی طرف توجہ دلا تا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اس فریضہ کو پہچانتے ہوئے جماعت کے نظام کے ماتحت اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کریں تا اللہ تعالیٰ جلد سے جلد سلسلہ اور اسلام کی اشاعت کے سامان پیدا کرے اور اسلام ہماری آنکھوں کے سامنے جبکہ ہم میں صحابہ اور تابعین موجود ہیں ایسی صورت میں قائم ہو جائے کہ بعد میں اس میں کسی کو رخنہ اندازی کا موقع نہ ملے.“ (الفضل 3 مئی 1940ء)
$ 1940 146 12 خطبات محمود ملک میں قیام امن کے متعلق ضروری ہدایات صداقت احمدیت سے متعلق ایک تازہ عظیم الشان نشان فرموده 31 مئی 1940ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج جماعت کو ملک کے امن کے متعلق بعض ہدایات دینی چاہتا ہوں.یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بعض اولیاء کی خبروں میں آتا ہے کہ آپ سلطان القلم ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جیسا کام قلم سے نکلتا ہے یا زبان سے نکلتا ہے کہ وہ بھی ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ قلم کی طرح وسیع ہو گئی ہے ویساکام تلوار سے نہیں نکلتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مُنہ سے میں نے ایک واقعہ کئی دفعہ سنا ہے وہ ایک کہانی ہے لیکن اس زمانے میں اس کی تصدیق ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ اس کی بہترین مثالیں اس زمانے میں ملنے لگ گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ رستم مشہور پہلوان گزرا ہے ایک دفعہ اس کے گھر میں رات کے وقت چور آگیا اور اتفاقا.رستم کی آنکھ بھی کھل گئی اور اس نے چور کو پکڑ لیا اور دونوں میں کشتی شروع ہو گئی وہ چور رستم سے بھی زیادہ طاقتور تھا اس نے رستم کو گر الیا اور اس کی چھاتی پر چڑھ کر خنجر نکال لیا تا کہ اسے قتل کر دے.جب رستم
1940 147 خطبات محمود دو نے دیکھا کہ اس کی طاقت اور اس کا زور اس کے کسی کام نہیں آیا اور اس کی جان خطرے میں گھری ہوئی ہے تو اُس نے اُس وقت جب اس کی طاقت اسے جواب دے چکی تھی اپنے رعب سے کام لینا چاہا اور جو نہی چور نے خنجر نکال کر اسے مارنا چاہا.اس نے کہا “ آگیار ستم ”، “آگیا رستم ” وہ چور جس نے رستم کو گرایا ہوا تھا آگیا ر ستم ” کے الفاظ سن کر اسے چھوڑ کر دوڑ پڑا کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ جس شخص کو اس نے نیچے گرایا ہوا ہے وہ رستم کا کوئی نوکر ہے ورنہ اگر اسے ابتداء میں ہی معلوم ہو تا کہ میر امد مقابل رستم ہے تو شاید وہ اس کا مقابلہ ہی نہ کرتا.گویا رستم کا نام رستم سے زیادہ پر رعب تھا.تور عب انسانوں کو ناکارہ کر دیتا ہے اور مایوسی سے زیادہ کسی قوم کو تباہ کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ہوتی.یہی وجہ ہے میں نے اپنی خلافت کے ایام میں ہمیشہ جماعت کو بُری خبریں پھیلانے اور قوم کے اندر مایوسی اور بد دلی پیدا کرنے والی باتوں سے روکا ہے اور میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایسی باتیں قوم کو تباہ کرنے والی ہوتی ہیں اور میرے مخالف لوگ میرے خلاف جو الزامات لگاتے رہے ہیں ان میں سے ایک الزام مجھ پر یہ بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ میں لوگوں کی محریت ضمیر کو سلب کرتا ہوں.کچھ سادہ لوح بے شک ان کی باتوں میں آئے ہوں گے اور انہوں نے سمجھا ہو گا کہ واقع میں یہ حریت ضمیر کو سلب کرتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں ان کے یہ الزمات اللہ تعالیٰ کے حضور میرے نیک کاموں میں شمار ہوں گے کیونکہ جو کام میں نے کیا وہ جماعت کی ترقی اور اس کی بہبودی کے لئے ضروری تھا.اگر ایسانہ کیا جاتا تو لوگوں کا جماعت کو تباہ کر دینا بالکل آسان ہوتا.چھوٹی جماعتوں کا تو کیا بڑی بڑی جماعتیں ان غلطیوں سے برباد ہو جاتی ہیں.اسی لئے رسول کریم صلی ا ہم نے فرمایا کہ مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ - 1 كم جو شخص یہ کہے کہ قوم ہلاک ہو گئی وہ خود اس قوم کو ہلاک کرنے والا ہو تا ہے.کیونکہ جب بھی کسی جماعت کے متعلق کہا جائے کہ وہ مرگئی مر گئی تو وہ مرنے لگ جاتی ہے اور جب کسی قوم کو بہادر بنانا ضروری ہو اور اسے کہا جائے کہ وہ خوب ترقی کر رہی ہے اور گو اس قوم کے بعض افراد پہلے سست ہی ہوں اس کے نتیجہ میں اس کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھانا شروع کر دیتے ہیں.
خطبات محمود 148 $1940 ترقی کی اور بھی تدبیریں ہیں جیسے اخلاق فاضلہ ہیں یا ایمان کامل کا حصول ہے.چیزیں بھی قوم کی ہمت کو بڑھاتی ہیں مگر جب کوئی قوم پھیلتی ہے تو اس کے سارے افراد ایک جیسا ایمان نہیں رکھتے.کچھ زیادہ ایمان والے ہوتے ہیں جو ہر وقت ایمان کی چار دیواری میں محفوظ ہوتے ہیں ان کو خواہ کوئی کتنا ہی کہے کہ جماعت ہلاک ہو گئی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ان کے حوصلوں میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے مگر ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں وہ جب سنتے ہیں کہ جماعت مر گئی تو وہ خود بھی مرنے لگ جاتے ہیں.اور بعض حالات میں اس کے مخالف نظریہ بھی درست ہوتا ہے.ایک دفعہ قادیان میں مولوی عبد اللہ صاحب تیما پوری مدعی نبوت آئے اور انہوں نے مسجد میں ہی ڈیرہ لگا دیا اور زور شور سے لوگوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.ہمارے ایک دوست جوش میں آگئے اور انہوں نے پہلے تو ان سے بحث کی مگر آخر کہا کہ آؤ مجھ سے مباہلہ کر لو.چنانچہ انہوں نے مباہلہ کر لیا مگر وہ دوست دل کے کمزور تھے ادھر انہوں نے مباہلہ کیا اور اُدھر ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ خبر نہیں اب کیا ہو جائے گا.میں خود تو اس وقت موجود نہیں تھا مگر حضرت خلیفہ اول نے مجھے سنایا کہ فلاں شخص میرے پاس آیا اور وہ بڑا گھبرایا ہوا تھا.میں نے اسے کہا کہ تم ضرور مر جاؤ گے.جب تم مباہلہ کے بعد اتنے ڈر رہے ہو تو تمہاری تو اس ڈر سے ہی موت واقع ہو جائے گی تمہیں مباہلہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مباہلہ تو اس شخص کو کرنا چاہئیے جس کا قلب مضبوط ہو.تو بسا اوقات انسان اپنے خیال ہی کے اثر سے تباہ ہو جاتا ہے.ہمارے پر انے اطباء لکھتے ہیں کسی شخص کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ نمک کا بن گیا ہے.ایک دفعہ وہ پانی میں داخل ہوا تو پگھل گیا.کسی انسان کا پانی میں داخل ہو کر پگھل جانا تو ایک خلاف عقل بات ہے مگر معلوم ہوتا ہے انہوں نے تمثیلی زبان میں واقعہ بیان کیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس خیال سے کہ وہ پگھلا جا رہا ہے اس کی جان نکل گئی.یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ جسے یہ وہم ہو جائے کہ وہ نمک کا بن گیا ہے وہ اگر پانی میں داخل ہو گا تو اس کا دل بیٹھ جائے گا اور وہ زندہ نہیں رہ سکے گا.موجودہ جنگ میں اسی پر و پیگینڈا یا قوت واہمہ کو انگیخت کرنے سے کام لیا جارہا ہے اور
1940 149 خطبات محمود جر من اس ہتھیار کو خاص طور پر استعمال کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ان کو ایسا موقع بھی میسر آگیا ہے کہ ان کی باتیں دلوں پر زیادہ اثر کرنے لگ گئی ہیں.پہلے انہوں نے پولینڈ پر حملہ کیا جہاں انگریز پہنچ نہیں سکتے تھے اور اس ملک کو انہوں نے تہہ تیغ کر کے فتح کر لیا.پھر انہوں نے ڈنمارک پر حملہ کیا اور اسے راتوں رات لے گئے.کہتے ہیں کیا پڑی اور کیا پدی کا شوربہ.ڈنمارک کی فوج صرف چند ہزار تھی اور جرمنی کی اتنی لاکھ ہے.چنانچہ ڈنمارک کے بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ چپ کر کے گھر میں بیٹھ رہو اور جرمنوں کا مقابلہ نہ کرو.چنانچہ ڈنمارک بھی گیا.اس کے بعد انہوں نے ناروے پر حملہ کیا اور وہاں بھی انہیں بہت حد تک کامیابی ہوئی.پھر ہالینڈ پر حملہ کیا اور اسے بھی جیت لیا.پھر جرمنی نے بیلجیئم پر حملہ کر دیا اور یہاں اللہ تعالی کی حکمت کے ماتحت اتحادیوں سے ایک ایسی غلطی ہو گئی جس کا وہ اب تک خمیازہ بھگت رہے ہیں مگر بہر حال بیلجیئم کو بھی جرمنی نے فتح کر لیا.وہ غلطی جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان سے اپنی طاقت کے خیال کی وجہ سے ہوئی.فرانسیسی کمان یہ یقین رکھتی تھی کہ اس کے پاس اتنے سامان ہیں کہ وہ جب بھی چاہے گی ان سامانوں کو استعمال کر کے جر منوں کو آگے بڑھنے سے روک دے گی.مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی کیونکہ جہاں ان کے پاس سامان زیادہ تھا وہاں انہوں نے اس سامان کو پورے طور پر استعمال نہیں کیا تھا اور جرمنی کے پاس گو سامان کم تھا مگر جو کچھ بھی تھا وہ سب کا سب اپنے استعمال میں لا رہا تھا.مثلاً جر منی کے پاس لوہا کم تھا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے جرمنی میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہر جر من کا یہ فرض ہے کہ وہ ہٹلر کو سالگرہ کا تحفہ پیش کرے اور تحفہ یہ ہو کہ اس کے گھر میں جو لوہے کی چیز ہو وہ قوم کے لئے دے دے.اگر کسی کے گھر ز نجیر پڑی ہو تو وہ زنجیر لے آئے، لوہے کا کوئی کنڈ ا بے کار پڑا ہو تو وہی لے آئے ، بر تن ہیں تو وہی لے آئے ، انگیٹھیاں ہیں تو وہ پیش کر دے.غرض لوہے کی جو چیز بھی کسی کے پاس موجود ہو وہ ہٹلر کو ہدیہ پیش کر دے.اب اتنے بڑے ملک میں جس کی آٹھ کروڑ کی آبادی ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ لوگوں کے گھروں میں کتنا لوہا ہو گا.بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ ان ملکوں میں لوہے کا استعمال نسبتاً زیادہ کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے دروازے توڑ دیئے، جنگلے توڑ دیئے ، چھتیں توڑ دیں اور لوہے کے ڈھیر لگا دیئے.حکومت
$1940 150 خطبات محمود نے اس تمام لوہے کو لیا اور اس سے ٹینک اور جہاز وغیرہ بنالئے.اتحادیوں کے پاس لوہا زیادہ تھا مگر اس کی زیادتی ان کے کس کام آسکتی تھی جب تک وہ ٹینکوں اور ہوئی جہازوں وغیرہ میں تبدیل نہ ہو جاتا.اس غلطی کی وجہ سے انہیں یہ خیال رہا کہ ہم جرمنی کو آگے بڑھنے نہیں دیں گے مگر ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا.اب اتحادی بیلجیئم اور ہالینڈ وغیرہ پر الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے ہٹلر پر کیوں اعتبار کیا اور کیوں یہ سمجھ لیا کہ وہ ان کی غیر جانبداری کا احترام کرے گا.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خود اتحادی بھی یہی خیال کرتے تھے کہ جر منی بیلجیئم اور ہالینڈ کے راستہ سے حملہ آور نہیں ہو گا ورنہ انہیں چاہیئے تھا کہ ان کے سامنے بھی ميجينو لائن بناتے مگر فرانس نے بیلجیئم کی حد تک میجینو لائن بناکر اسے چھوڑ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ ایک دفعہ تو جر منی بیلجیئم کی راہ سے حملہ آور ہو چکا ہے مگر آئندہ اس راہ سے نہیں آئے گا.پس یہ خود بھی یہی سمجھتے تھے کہ جر منی اس راستہ سے حملہ آور نہیں ہو گاور نہ وہ علاقہ کیوں بالکل ننگا پڑا ہوا تھا اور اگر ان کے دل میں ذرہ بھر بھی شبہ ہو تا تو وہ ضرور اس کا کوئی نہ کوئی انتظام کرتے.جب جرمنی نے عملی طور پر اس راستہ سے حملہ کر دیا تو گو یہ اس حملہ کو روکنے کے لئے تیار نہ تھے ان کے پاس ابھی سامان بھی مکمل نہیں تھا لیکن تمام دنیا میں چونکہ یہ شور پڑا ہوا تھا کہ برطانیہ اور فرانس چھوٹی چھوٹی قوموں کو لڑائی کے لئے ابھار تو دیتے ہیں مگر خود ان کی کوئی مدد نہیں کرتے انہوں نے سمجھا اس وقت ہمیں فوری طور پر ہالینڈ اور بیجیئم کی مدد کرنی چاہیئے اور اس اعتراض کو دور کرنا چاہیئے جو تمام دنیا میں ہم پر کیا جاتا ہے کہ ہم مدد کا وعدہ تو کر دیتے ہیں مگر عملی رنگ میں کوئی مدد نہیں کرتے حالانکہ اگر کبھی بد نامی سے بے پرواہ ہونے کا کوئی وقت ہو سکتا تھا تو یہی وقت تھا اور برطانیہ اور فرانس کا فرض تھا کہ وہ اس اعتراض کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کرتے اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلتے جب تک تیار نہ ہو جاتے مگر وہ اس وقت ایک رو میں بہہ گئے اور انہوں نے کہا لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے سینیا پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، البانیہ پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مددنہ کی، آسٹریا پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، فن لینڈ پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، چیکوسلواکیا پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، پولینڈ پر حملہ ہوا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، ڈنمارک پر حملہ ہوا مگر تم نے
$1940 151 خطبات محمود کوئی مددنہ کی.گویا ایسے سینیا، البانیہ آسٹریا، فن لینڈ ، چیکوسلواکیا، پولینڈ اور ڈنمارک کی سات مثالیں ان کے سامنے موجود تھیں اور لوگوں کے یہ اعتراضات بھی ان کے سامنے تھے کہ ان تمام ممالک پر حملے ہوئے مگر اتحادیوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ جب ناروے، ہالینڈ اور جیئم پر حملہ ہوا تو انہوں نے سمجھا اگر اب بھی ہماری فوجیں ان کی مدد کو نہ پہنچیں تو یہ اعتراض اور بھی پختہ ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے اس اعتراض سے گھبرا کر اپنی فوجیں آگے کی طرف دھکیل دیں جس کے نتیجہ میں ان کے شمالی مورچے بالکل خالی ہو گئے.اس کے ساتھ ہی جس جرنیل کو انہوں نے بھیجیئم کی سرحد پر بھیجا اس سے ایک خطرناک نادانی یہ ہوئی کہ اس نے دریا کے پل نہ اڑائے.حالانکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب فوج کے ڈیفنس کا پہلو اختیار کرنا ہو تو وہ دریاؤں کے پل فوراً اڑا دیتی ہے تاکہ دشمن ان پلوں کے ذریعہ سے ملک کی حدود میں داخل نہ ہو جائے مگر اس جرنیل نے پلوں کو نہ اڑایا.نتیجہ یہ ہوا کہ چونکہ جرمنوں کی تو پوں سے ان کی تو ہیں اور ان کے ٹینکوں سے ان کے ٹینک کم تھے.ابتدائی بمبار ڈمنٹ کے بعد ہی اتحادیوں کی فوجوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور جرمن فوج بغیر کسی روک کے فلنڈرز (Flinders) میں گھس آئی.دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے فوج کے پیچھے دوسری ڈیفنس لائن نہیں بنائی تھی.حالانکہ جو فوج ڈیفنس کر رہی ہو اس کے لئے ایک دوسری ڈیفنس لائن ضروری ہوتی ہے تا اگر دشمن کسی جگہ سے پہلے مورچوں کو توڑ دے تو اسے آگے بڑھنے سے روکا جاسکے.مگر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے ڈیفنس کی ایک ہی لائن پر اکتفا کی اور جب دشمن نے پہلی صفوں کو توڑ دیا تو اب مقابلہ کے لئے کوئی اور فوج اس کے سامنے نہیں تھی اور سارا فرانس اس کے سامنے کھلا پڑا تھا.غرض اس جنگ میں ایسے اتفاقات جمع ہو گئے کہ جن کے نتیجہ میں جرمنی کا رعب آپ ہی آپ قائم ہو تا چلا گیا اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ جہاں بھی ہاتھ مارتا ہے جیت جاتا ہے.اس کا جنگی فنون سے ر یہ ہے کہ عام طور پر ناواقفیت کی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنوں کی خبریں زیادہ صحیح ہوتی ہیں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبریں غلط ہوتی ہیں.حالانکہ میرا تجربہ اس کے بالکل الٹ ہے میں جرمنی کی خبریں بھی سنتا ہوں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبریں بھی سنتا ہوں.مگر مجھ پر یہی
1940 152 خطبات محمود اثر ہے کہ ان کی خبریں زیادہ صحیح ہوتی ہیں اور جرمن کی خبروں میں نسبتا زیادہ جھوٹ ہوتا ہے اور میں تو سمجھتا ہوں اگر کوئی عقلمند انسان صرف ان خبروں کو لے لے جو جرمنی سے ریڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے متعلق نشر کی جاتی ہیں تو وہ ان کو سن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان کی خبروں میں کس حد تک صداقت پائی جاتی ہے.چند مہینے کی بات ہے کہ جرمنی سے ریڈیو کے ذریعہ یہ خبر سنائی گئی کہ پنجاب میں سخت بغاوت پھوٹ پڑی ہے جگہ جگہ ڈا کے پڑرہے ہیں اور انگریزوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ رہے ہیں.حالانکہ ان دنوں چند وزیریوں نے سرحد افغانستان پر کوئی ڈاکہ ڈالا تھا جو ایک معمولی بات تھی مگر اسے پنجاب اور تمام صوبۂ سرحد پر پھیلا کر اس رنگ میں بیان کیا گیا کہ گویا پنجاب اور سرحد میں طوائف الملوکی کی حالت ہو گئی ہے.تو لوگ عام طور پر جرمنی کی خبروں کو زیادہ وقعت دے دیتے ہیں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبروں کو اپنی نادانی سے غلط سمجھتے ہیں اور پھر ان خبروں کو بھی ایسے مبالغہ آمیز رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ بات کچھ کی کچھ بن جاتی ہے اور یہ ہمارے ملک میں عام دستور ہے کہ لوگ بات کو بڑھا کر کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں.مثلاً فرض کرو ایک شخص نے کسی بات پر غصہ میں آکر دوسرے کو چپیڑ مار دی اب کوئی دوسرا شخص جو اس کے رشتہ دار کو خبر دینے جائے گا تو وہ یہ خبر نہیں دے گا کہ فلاں نے اسے چپیڑ ماری بلکہ وہ جاتے ہی کہے گا کہ اس نے مار مار کے اس کا بھر کس نکال دیا ہے اور اگر اتفاق سے وہ کوئی دور کارشتہ دار ہوا اور بھائی یا کسی اور قریبی رشتہ دار کو یہ خبر اس نے پہنچائی ہے تو وہ وہاں جا کر یہ نہیں کہے گا کہ فلاں نے اسے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا ہے بلکہ وہ کہے گا کہ وہ تمہارا رشتہ دار کوئی دم کا مہمان ہے اور اگر ابھی ماں یا باپ رہتے ہوں اور انہیں یہ خبر نہ پہنچی ہو تو یہ نیا خبر رساں انہیں جا کر یہ نہیں کہے گا کہ وہ مضروب کوئی دم کا مہمان ہے بلکہ یہ روتا ہوا جائے گا اور کہے گا کہ تمہارے لڑکے کو فلاں شخص نے مار دیا ہے.غرض یہاں معمولی خبر بڑھتے بڑھتے کچھ کی کچھ بن جاتی ہے.ذرا خبر بنی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اسے کچھ کا کچھ بنادیا.یہاں تک کہ پتہ ہی نہیں چلتا اصل بات کیا ہوئی.میں نے تم کو کئی دفعہ اپنے سامنے کا ایک واقعہ سنایا ہے.ایک دفعہ جماعت سے
$1940 153 خطبات محمود یہاں کے ہندوؤں کا بعض باتوں میں اختلاف ہو گیا اور بعض ہندوؤں نے فساد کی نیت سے اپنی چھابڑیاں اٹھا کر پھینک دیں اور یہ مشتہر کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں لوٹ لیا ہے.اس پر افسر آئے اور انہوں نے تحقیقات کی جس پر یہ بات غلط ثابت ہوئی مگر ابھی یہ بد مزگی جاری تھی کہ ایک دن جبکہ میں اپنے کوٹھے پر بیٹھا ہوا تھا مجھے گلی میں سے شور کی آواز آئی جیسے زور سے لوگوں کے دوڑنے کی آواز آتی ہے.میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہوا گلی کی طرف جھانکا تو میں نے دیکھا کہ دو تین نوجوان بھاگے جارہے ہیں اور سب سے آگے مولوی رحمت علی صاحب ہیں جو آب مبلغ سماٹرا اور جاوا ہیں اور آجکل قادیان آئے ہوئے ہیں.ان دنوں یہ طالب علم تھے.میں نے زور سے کہا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے خبر آئی ہے کہ نیر صاحب کو ہندوؤں نے بازار میں قتل کر دیا ہے اور بعض اور احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں.نیر صاحب ان دنوں غالباً بورڈنگ کے سپر نٹنڈنٹ تھے یا سکول میں مدرس.میں بھی آخر قادیان کا ہی رہنے والا تھا اور میں یہاں کے ہندوؤں کو جانتا تھا.میں سمجھتا تھا کہ چاہے انہیں ہمارے خلاف کتنا ہی جوش کیوں نہ ہو اب تک وہ اس حد تک نہیں پہنچے کہ ہم میں سے کسی کو قتل کر دیں.چنانچہ میں نے انہیں کہا ٹھہر و یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے.وہ کہنے لگے نہیں ابھی خبر آئی ہے کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں اور کئی احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں.میں نے کہا میں اس کی تحقیقات کراؤں گا.تم اس طرف مت جاؤ.اتنے میں میں نے دیکھا قاضی عبد اللہ صاحب وہاں سے گزر رہے ہیں.میں نے کہا قاضی صاحب آپ ذرا بازار میں تشریف لے جائیں اور مجھے رپورٹ کریں کہ وہاں کوئی فساد ہوا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ اس طرح انہیں اطمینان دلا کر میں کمرہ میں ٹہلنے لگ گیا کہ اتنے میں پھر مجھے زور سے قدموں کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ مولوی رحمت علی صاحب اور دوسرے نوجوان پھر بے تحاشا بازار کی طرف دوڑ پڑے ہیں.میں نے کہا مولوی رحمت علی ٹھہر و.مگر انہوں نے میری آواز کو نہ سنا.میں نے انہیں پھر آواز دی اور کہا ٹھہرو مگر وہ پھر بھی نہ رکے یہاں تک کہ وہ اس موڑ تک پہنچ گئے جو مسجد اقصیٰ کی طرف لوٹتا ہے.میں نے اس وقت سمجھا کہ اب اگر ذرا بھی اور دیر ہوئی اور یہ موڑ سے دوسری طرف ہو گئے تو میری نگاہ سے اوجھل ہو جائیں گے اور پھر میرا ان پر کوئی اختیار نہیں رہے گا اور انہوں نے
$1940 154 خطبات محمود جاکر یہ تحقیقات تو نہیں کرنی کہ کوئی فساد ہوا ہے یا نہیں بلکہ جوش کی حالت میں جو ہندو یا سکھ ان کے سامنے آیا اس کے سر میں انہوں نے سونا مار دینا ہے.چنانچہ ایسی حالت میں میں نے اسی ہتھیار سے کام لیا جو ہمارا روحانی ہتھیار ہے اور میں نے کہا مولوی رحمت علی اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں تمہیں اپنی جماعت سے خارج کر دوں گا.ان کی اس وقت کی حالت آج تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.سر سے لے کر پیر تک ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا اور نہ معلوم طالب علم ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں اس وقت کیا کچھ خیالات اٹھے ہوں گے کہ یہ اچھا خلیفہ ہے احمدیوں کے مارے جانے پر ہمیں تو جوش آ رہا ہے اور اسے کچھ احساس ہی نہیں.مگر بہر حال وہ ٹھہر گئے اور انہوں نے لجاجت سے مجھے کہنا شروع کر دیا کہ حضور ابھی آدمی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ نیر صاحب مارے گئے اور کئی احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں.میں نے کہا اس کے تم ذمہ دار نہیں میں ذمہ دار ہوں.اتنے میں قاضی عبد اللہ صاحب بھی آگئے اور انہوں نے بتایا نہ کوئی مارا گیا، نہ کوئی زخمی ہوا اور نہ کوئی تڑپ رہا ہے.سب لوگ آرام سے اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر خدا تعالیٰ مجھے اس دن وہاں نہ لے آتا تو یقیناً دو چار ہندوؤں یا سکھوں کا خون ہو جاتا کیونکہ جس طرح ایک صحابی نے یہ کہا تھا کہ میں شراب کا مٹکا پہلے توڑوں گا اور یہ دریافت بعد میں کروں گا کہ ڈھنڈورہ دینے والے نے کیا کہا اسی طرح مولوی رحمت علی صاحب نے دو چار ہندوؤں یا سکھوں کو پہلے مار نا تھا اور نیر صاحب کی لاش اور زخمی احمدیوں کو بعد میں تلاش کرنا تھا.جس شخص نے لوگوں میں یہ خبر پھیلائی مجھے اس کا بھی علم ہے.اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے وہ ہمارا رشتہ دار تھا اور بعد میں احمدی بھی ہو گیا.میں نے اسے خود دیکھا کہ وہ سر نکال نکال کر احمدیوں سے کہہ رہا تھا کہ تم یہاں کھڑے ہو اور وہاں کئی احمدی مارے گئے ہیں.گویا غیر احمدی ہو کر اسے احمدیوں کے متعلق زیادہ جوش تھا.تو دنیا میں اس قسم کی کئی خبریں نکلتی رہتی ہیں جو بالکل بے پر کی ہوتی ہیں.میرا اپنا قادیان کا تجربہ تمہارے سامنے ہے کہ پہلے یہ خبر آئی کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں.پھر یہ خبر آئی کہ بہت سے اور احمدی بھی زخمی ہو چکے ہیں اور وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے ہیں.مگر واقعہ یہ تھا کہ نہ کوئی مارا گیا اور نہ کوئی زخمی ہوا.
خطبات محمود 155 $1940 اسی طرح یہاں ایک دفعہ ایک میلہ ہوا ایک شخص جو نام کے لحاظ سے تو احمدی تھا مگر دراصل وہ منافق تھا.مغرب کی نماز کے وقت میرے پاس آیا اور کہنے لگا الگ ہو کر مجھ سے ایک بات سن لیجئے.میں نے کہا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا ابھی ایک معتبر آدمی کے ذریعہ یہ خبر پہنچی ہے کہ بہشتی مقبرہ سے پرے پانچ سو آدمی بندوقیں اور لاٹھیاں لئے کھڑے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ قادیان پر حملہ کر دیں.وہ جیسا احمدی تھا اسے میں اچھی طرح جانتا تھا.اس لئے میں نے کہا ٹھہرو میں تحقیقات کراتا ہوں.چنانچہ میں نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا کہ فلاں جگہ جاؤ اور دیکھو کہ وہاں کوئی اجتماع ہے؟ وہ گیا اور آکر کہنے لگا کہ پانچ سو چھوڑ وہاں پانچ آدمی بھی نہیں ہیں.حالانکہ خبر سنانے والے نے کہا تھا کہ ایک معتبر آدمی نے اسے یہ بات بتائی ہے مگر میں ذاتی طور پر جانتا تھا کہ مجھ تک بات پہنچانے والا منافق ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ جماعت فوری اشتعال کے نتیجہ میں کسی پر حملہ کر دے اور اس طرح فساد ہو جائے اس لئے اس کے دھو کے میں نہ آیا.تو اس قسم کی خبریں ہمیشہ نکلا کرتی ہیں اور لوگوں میں پھیل بھی جاتی ہیں جس سے نادان متائثر ہو جاتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کوئی بری خبر سنو تو اسے فوری طور پر لوگوں میں پھیلانا شروع نہ کر دو بلکہ اولی الامر تک پہنچاؤ جو استنباط کرنے اور بات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتے ہیں.عوام الناس تک بات پہنچانے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ان کو بر انگیختہ کر دیا جائے اور لوگوں میں فساد ڈلوایا جائے.جنگ کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر خبریں آتی اور لوگوں میں پھیلتی رہتی ہیں اور طبعی طور پر بوجہ اس کے کہ انگریزوں سے ہندوستانیوں کو منافرت ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ انگریز بلا وجہ ان کے ملک پر حکومت کر رہے ہیں ان کے خلاف جو بات بھی ہو اُسے وحی جبرائیل کی طرح ہر قسم کے جھوٹ، دھوکا اور فریب سے پاک سمجھتے ہیں بلکہ آجکل کے مسلمان تو قرآن کریم پر یہ اعتراض کر دیں گے کہ اس کی فلاں بات درست نہیں.مگر جر من براڈ کاسٹ میں اگر وہ کوئی خبر سن لیں تو اس کی صداقت میں انہیں کسی قسم کا شک نہیں رہتا.حالانکہ ان خبروں میں اول تو بہت کچھ جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے پھر ان خبروں کا
1940 156 خطبات محمود ایک حصہ درست ہو کر بھی ایسا ہوتا ہے جسے ہندوستانی سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے.ابھی چند دن ہوئے میرا ایک عزیز جو وقف کنندہ بھی ہے گھر پر آیا اور کہنے لگا کہ کیلے بھی فتح ہو گیا.میں نے کہا گیلے تو اب تک فتح نہیں ہوا.کہنے لگا جر من براڈ کاسٹ میں خبر آگئی ہے کہ گیلے کو جرمنوں نے فتح کر لیا ہے.میں نے کہا جر من براڈ کاسٹ میں بے شک یہ خبر آچکی ہے مگر ابھی تک بر طانیہ اور فرانس نے اس کی تصدیق نہیں کی.وہ کہنے لگا ان کا کیا ہے یہ تو اپنی شکست کا کبھی اعتراف ہی نہیں کرتے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ گیلے آج تک بھی فتح نہیں ہوا.یہ محض اس کی جہالت تھی جسے اس نے دوسرے کی طرف منسوب کر دیا.اصل بات یہ ہے کہ جنگی اطلاعات دینے میں یہ قاعدہ ہوا کرتا ہے کہ حملہ آور قوم جب کسی شہر کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے تو وہ اعلان کر دیتی ہے کہ اس نے وہ شہر فتح کر لیا مگر دوسری قوم جو لڑ رہی ہوتی ہے وہ اپنی شکست کا اعتراف نہیں کرتی کیونکہ وہ ابھی لڑ رہی ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ آج اگر دشمن اس شہر کی حدود میں داخل ہو گیا ہے تو ممکن ہے کل ہم اسے مار کر باہر نکال دیں.پس جنگی اطلاعات کے قواعد کے رو سے دونوں باتیں صحیح ہوتی ہیں.حملہ آور قوم جب کہتی ہے کہ اس نے فلاں شہر فتح کر لیا تو وہ بھی درست کہتی ہے کیونکہ جب کوئی قوم مضافات پر قابض ہو جاتی ہے تو اس کا اس شہر پر ایک حد تک قبضہ ہو چکا ہو تا ہے.مگر وہ قوم جو مقابلہ کر رہی ہوتی ہے اس کے نقطۂ نگاہ سے ابھی وہ شہر اس کے اپنے قبضہ میں ہے کیونکہ کئی دفعہ مضافات لے کر بھی حملہ آور پسپا ہو جاتا ہے.تو گیلے کو جر منی اب تک پوری طرح فتح نہیں کر سکا.اسی طرح ڈنکرک 2 (DUNKIRK) کے مضافات پر پہلے جرمنی نے قبضہ کیا حتی کہ برطانیہ و فرانس نے بھی اس کو تسلیم کر لیا مگر پھر انہیں آگے بڑھنے کا موقع مل گیا اور ان کی فوجیں ڈنکرک پر قابض ہو گئیں اور اب وہ اس بند گارہ کے ذریعہ سے اپنی افواج واپس لا رہے ہیں.تو قاعدہ یہ ہے کہ حملہ آور قوم جب مضافات لے لیتی ہے تو وہ شہر کی فتح کا اعلان کر دیتی ہے مگر جو فوج اس شہر کی گلیوں میں لڑ رہی ہوتی ہے وہ کہتی ہے کہ ابھی یہ شہر کہاں فتح ہوا.ممکن ہے کل ہی کوئی چانس مل جائے اور ہم پھر ان کے قبضہ کو توڑ دیں.اس لئے گو حملہ آور
$1940 157 خطبات محمود قوم کسی شہر کی فتح کا اعلان کر دے جب تک دوسری قوم اس کے مقابلہ میں لڑ رہی ہو اس وقت تک وہ اس کی فتح کو تسلیم نہیں کرتی مگر ہندوستانی ان باتوں کو تو جانتا نہیں اور وہ آپ ہی آپ جس سے منافرت ہو اس کے خلاف خبر کو لے دوڑتا اور اسے لوگوں میں پھیلانا شروع کر دیتا ہے.نتیجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں کے پھیلنے کی وجہ سے آج ملک میں بغاوت کے آثار نظر آرہے ہیں.چنانچہ میں نے ”رسول“ میں پڑھا ہے کہ سکھوں نے اعلان کیا ہے کہ بارہ ڈویژن کی قومی فوج بھرتی کی جائے.مطلب یہ کہ سکھ ڈیڑھ لاکھ کی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں سے خاکسار بھرتی ہو رہے ہیں اور وہ اپنی ایک الگ فوج بنارہے ہیں.گویا ہمارے ملک کے لوگوں کی وہی مثال ہو رہی ہے کہ.آب نه دیده موزه از پا کشیده پانی کے آثار ابھی نظر نہیں آئے اور جرابیں ابھی سے اتارنی شروع کر دی گئی ہیں.آپ ہی آپ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ برطانیہ و فرانس کو جرمنوں کے مقابلہ میں شکست ہو گئی ہے.انہوں نے گیلے کو بھی فتح کر لیا، انہوں نے ڈنکرک کو بھی فتح کر لیا، انہوں نے فلنڈرز کو بھی جیت لیا، انہوں نے انگلستان کے دارالحکومت پر بھی قابو پالیا، انہوں نے پیرس بھی لے لیا اور اب انگریز جرمنوں کے مقابلہ میں بھاگتے چلے جارہے ہیں.اسی طرح یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ ہندوستان میں ان کی کوئی طاقت نہیں رہی اور حکومت بالکل بے دست و پا ہو گئی ہے.اس لئے آؤ اب ہم لوٹ مار شروع کر دیں.اس قسم کے خیالات کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلا کرتا.اور ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ ان حالات کو درست کرنے کی کوشش کرے اور ملک میں امن قائم رکھنے کی خاطر اس قسم کی باتوں سے احتراز کرے.ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ انگریز انشاء الله نہیں ہاریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے لیکن اگر ہم سے ان باتوں کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو بھی وہ وقت بہت دُور ہے بلکہ جنگ میں برطانیہ و فرانس کو اب پہلے سے بہت زیادہ مضبوط پوزیشن حاصل ہو چکی ہے.اس مہینہ کی چودہ تاریخ کو کس طرح سمجھا جاتا تھا کہ شاید ایک یا دودن میں انگریز اور فرانسیسی ہتھیار ڈال دیں گے اور کس طرح عام طور پر یہ احساس تھا کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کے لئے
1940 158 خطبات محمود اب ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں.خود فرانسیسی وزیر اعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو اب معجزہ کے سوا کوئی چیز نہیں بچا سکتی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خود فرانسیسیوں کے دلوں میں یہ خیال پید اہو گیا تھا کہ فرانس اب کہاں بچ سکتا ہے.صفیں ٹوٹ گئیں ہیں اور فوجیں پسپا ہو رہی ہیں مگر جہاں برطانیہ وفرانس کی صفیں ٹوٹیں وہاں جرمن فوجیں جو اپنے مورچوں سے سینکڑوں میل آگے نکل چکی تھیں ان کو سامان رسد پہنچنا بھی کوئی آسان نہ تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر برطانیہ و فرانس کی فوجیں پسپا ہوئیں اور ادھر جرمنوں نے اپنے اندر کمزوری محسوس کی اور انہوں نے سمجھا کہ سامان کی کمی کی وجہ سے اگر ہم اس وقت آگے بڑھے تو مارے جائیں گے.چنانچہ ادھر جرمن فوجیں ٹھہریں اور اُدھر برطانیہ و فرانس نے اس التواء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فور آنے مورچے بنانے شروع کر دیئے.نتیجہ یہ ہوا کہ چودہ پندرہ تاریخ کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی جو حالت تھی اس سے آج ۳۱ تاریخ کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی حالت بہت زیادہ بہتر ہے.اس دن خود انگریزوں اور فرانسیسیوں میں بے چینی پیدا ہو چکی تھی مگر آج وہ اطمینان کا سانس لے رہے ہیں اور اب پھر انہوں نے فتح کے نعرے لگانے شروع کر دیئے ہیں اور گو یہ پسندیدہ بات نہیں مگر قومی رواج کے ماتحت وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں.انگریزی وزیر اشاعت نے تو ایک تقریر کرتے ہوئے کھلے طور پر کہہ دیا ہے کہ ہٹلر کے لئے پہلے صلح کی مجلس میں ہم نے ایک کرسی رکھی ہوئی تھی مگر اب اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کرسی اٹھا دی گئی ہے.اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس قوم میں سامانوں کے جمع ہو جانے اور بیداری و ہو شیاری کی وجہ سے اس بات کا احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اب وہ شکست نہیں کھا سکتے.اس کے مقابلہ میں جرمنی کو بھی اس بات کا احساس ہو تا چلا جارہا ہے کہ جتنی جلدی فتح کی امیدیں اس نے ابتداء میں لگائی تھیں وہ درست نہیں تھیں.چنانچہ آج سے پندرہ بیس دن پہلے جر من براڈ کاسٹ میں میں نے یہ خبر سنی کہ فرانسیسی فوج ہماری فوج کے مقابلہ میں بھاگ رہی ہے اور اب جلد ہی اس لڑائی کا فیصلہ ہونے والا ہے.ایک جرمن وزیر نے تو کچھ عرصہ پہلے تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شمالی فرانس کی پہاڑیوں پر جو لوگ اس دفعہ گرمیاں گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں یا ان پہاڑوں کی سیر کا
1940 159 خطبات محمود انہیں شوق ہوا نہیں چاہیے کہ اپنے نام لکھا دیں مگر اب جرمنی کے براڈ کاسٹنگ میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہماری قوم کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے.یہ ایک بڑی بھاری لڑائی ہے جو لڑی جارہی ہے.ہمیں بے شک کامیابی کی امید رکھنی چاہیئے لیکن بہت جلد کامیابی حاصل کر لینے کا خیال درست نہیں.حالانکہ آپ ہی تقریر کی تھی جو میں نے خود سنی کہ جو لوگ فرانسیسی الپس پر گرمیاں گزارنا چاہیں یا سیر کا شوق رکھتے ہوں وہ اپنے نام لکھا دیں.غرض اب جر من بھی یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ لڑائی اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں جتنی جلد ختم ہونے کی انہوں نے امید کی ہوئی تھی.بہر حال تمام گھبراہٹ اضطراب اور تشویش کا موجب ملک کے وہ نادان لوگ ہیں جن کو حالات کا صحیح علم نہیں ہوتا اور جو جنگی فنون سے ناواقفیت کی وجہ سے خبروں کو کچھ کا کچھ بنا کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں.مجھے خوب یاد ہے کہ میں بچپن میں بھی ایسے بیوقوفوں کے قابو کبھی نہیں آیا اور میں نے ہمیشہ ان کے خیالات کو رڈ کیا ہے.چنانچہ ہندوستانی سپاہیوں سے میں نے بار ہا سنا وہ جب سر حد وغیرہ پر لڑنے کے لئے جاتے تو واپس آکر کہا کرتے کہ انگریز سپاہی تو وہاں صابن پی پی کر بیمار ہو جاتے ہیں مگر ہم دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور مجھے آج تک اپنا یہ جواب بھی خوب یاد ہے کہ اگر انگریز سپاہی ایسے بزدل اور کمزور ہیں تو یہ ہندوستان میں کس طرح آگئے اور اُس وقت تم نے ان کا کیوں مقابلہ نہ کیا؟ غرض یہ بہت ہی بُرا طریق ہے کہ بغیر سوچے سمجھے انگریزوں پر اعتراض کیا جائے اور ان کی کمزوری کی غلط خبریں لوگوں میں پھیلائی جائیں.انگریزی فوج جس دلیری سے اس جنگ میں لڑ رہی ہے اس کا اعتراف تو خو د جرمنی کو بھی ہے.چنانچہ جر من براڈ کاسٹنگ سے کہا گیا ہے کہ انگریزی فوج کے متعلق جو امید کی جاتی تھی اس سے بہت زیادہ شاندار طور پر وہ لڑ رہی ہے.یہ ایک ایسے دشمن کا اعتراف ہے جو خود بھی بہادر ہے اور جس کے اندراگر جرآت نہیں تو تہور ضرور ہے.پس یہ نہایت ہی غلط طریق ہے کہ قیاسات سے کام لے کر ملک میں بدامنی پیدا کی جائے اور سول وار کے سامان پیدا کئے جائیں.یہ انگریزوں سے نہیں ہندوستان سے دشمنی ہو گی.لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ان حالات کی اصلاح کی کوشش کی جائے وہاں ان
1940 160 خطبات محمود خرابیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو اس قسم کی غلط خبروں کی اشاعت سے پیدا ہو گئی ہیں.اگر بعض لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ انگریزی طاقت کمزور ہو چکی ہے اور اگر ملک میں اندر ہی اندر ملکی امن برباد کرنے کے لئے سازشیں ہو رہی ہیں تو وہ قوم سخت بے وقوف ہو گی جو اس کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہو.ان کو ذہنی طور اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ اگر کسی وقت کوئی ایسا خطرہ رو نما ہو تو وہ اس کا پورے زور سے مقابلہ کریں گے.پچھلی جنگ میں بھی ایسا ہوا تھا.چنانچہ جھنگ کے ایک آدمی نے جب دیکھا کہ فرانس لڑائی میں مُردہ ہو رہا ہے اور انگریز جرمن کے مقابلہ میں پسپا ہو رہے ہیں تو اس نے اعلان کر دیا کہ میں اپنے علاقہ کا بادشاہ ہوں اور ضلع میں فساد پیدا کر دیا.اس جنگ میں بھی اس قسم کے واقعات پید اہو سکتے ہیں اور ایسے موقع پر ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسے فسادیوں کا مقابلہ کرے.ہماری جماعت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ مومن بز دل نہیں ہوتا.مومن کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ادنیٰ سے ادنی مومن دو کا مقابلہ کرتا ہے اور اگر کوئی زیادہ پختہ مومن ہو تو وہ اکیلا دس کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اسلامی تاریخ تو بتاتی ہے کہ ایک مسلمان بعض بعض دفعہ دو دو سو کے مقابلہ میں بھی کھڑا ہوا ہے.انگریزی حکومت بھی کہتی ہے کہ وہ ہر خطرہ کے موقع پر ہندوستان کی مدد کرے گی اور ہم حکومت کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ احمدیت کا مرکز ہندوستان میں ہے اور ہماری زیادہ تر جماعت یہیں پائی جاتی ہے میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ اس ملک کو طوائف الملو کی میں مبتلا نہیں کرے گا.تاہم حالات کو چونکہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اس لئے اگر کسی وقت ہندوستان میں کوئی فساد ہو جائے تو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ ان پر حملہ آور ہوں ان کے مقابلہ کے لئے وہ ان سے نصف آدمی کھڑے کریں اس سے زیادہ نہیں.ممکن ہے جیسے پچھلی جنگ کے موقع پر جھنگ کے ایک شخص نے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اسی طرح اور ضلعوں میں بھی ایسے بادشاہ کھڑے ہو جائیں.ایسی صورت میں جن لوگوں پر حملہ کیا جائے اگر وہ احمدی ہوں تو میں انہیں نصیحت کروں گا کہ وہ کبھی بھی سو کے مقابلہ میں اپنے میں سے ساٹھ آدمی نہ بھیجیں بلکہ سو کے مقابلہ میں پچاس آدمی جائیں اور اگر سو کے مقابلہ
$1940 161 خطبات محمود میں دس آدمی کھڑے ہوں تو یہ اور بھی اچھی بات ہے.جاہل اور منافق اور ایمان سے ناواقف انسان کہے گا کہ میں جماعت کو کیسی بے عقلی کی تعلیم دے رہا ہوں مگر قرآن کریم کی تعلیم یہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر علم النفس کے ماتحت اس قدر حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ اگر کوئی قوم اس کے مطابق عمل کرے تو اس کی کایا پلٹ جائے اور وہ اتنی طاقت حاصل کرلے کہ جس کا مقابلہ کرنا لوگوں کے لئے بہت مشکل ہو.فوجی نقطۂ نگاہ سے بھی یہ بدترین پالیسی ہوتی ہے کہ تمام لوگ لڑنے لگ جائیں اور اس سے زیادہ حماقت کی اور کوئی بات نہیں ہوتی کہ توقع یہ رکھی جائے کہ کوئی آدمی بھی ایسا نہ رہے جو میدانِ جنگ سے باہر ہو.جیسے ہمارے ملک کے احمق نوجوان جب آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ادھر فرانسیسیوں نے جر من حملہ کو روکا ہوا ہے ادھر جنرل دیگان چپ کر کے بیٹھا ہوا ہے.وہ کیوں جرمنوں پر جوابی حملہ نہیں کر دیتا؟ حالا نکہ یہ کمال حماقت کی بات ہے اور محض جنگی فنون کی ناواقفیت کی وجہ سے اس قسم کے اعتراضات دل میں پیدا ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقفہ کو خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھ رہے ہیں کیونکہ صاف بات ہے جب فرانسیسی اور انگریزی فوجیں اپنے مورچوں سے ہٹ گئیں اور جرمن فوجوں کے مقابلہ میں انہوں نے پسپا ہوناشروع کر دیا تو پسپاشدہ فوج کبھی ایک جگہ ٹک نہیں سکتی.اس کے لئے خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہی ہوتی ہے کہ چند دن کی اسے مہلت مل جائے تاکہ وہ اپنے مورچوں کو اس دوران میں مضبوط کر لے.چنانچہ جرمنی نے جب شمالی فرانس پر حملہ کر دیا اور چاہا کہ وہ انگلش چینل تک پہنچ جائے تو اتحادیوں نے اپنی فوج کا ایک حصہ اس کے مقابلہ کے لئے رہنے دیا اور باقی فوج کو اپنے مورچے مضبوط کرنے کے لئے پیچھے ہٹالیا اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو فتح ہوتی ہے اور کس کو شکست مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معقول بات ہے کہ بجائے اس کے کہ ساری فوج شمالی حصہ کی جنگ میں شامل ہوتی انہوں نے شمالی فوج کو جنگ کا زور برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دیا اور جنوبی فوجوں کو نئے مورچوں کی مضبوطی کے کام پر لگا دیا تا کہ جب شمال سے فارغ ہو کر دشمن جنوب پر حملہ کرے تو وہ اپنے سامنے ایک سد سکندری کھڑی پائے مگر نادانی کی وجہ سے ہمارے نو جو ان بعض دفعہ اس بات پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.گویاوہ جرنیلوں سے بھی زیادہ
1940 162 خطبات محمود سمجھدار واقع ہوئے ہیں.حالانکہ اگر انہیں فوج میں لگایا جائے تو وہ سپاہی کا کام بھی نہ کر سکیں.غرض جنوبی فوجوں کو بالمقابل حملہ سے باز رکھنے کی حکمت جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی ہے کہ اتحادی اپنے مورچوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں.اور اگر وہ تمام فوج کو اس لڑائی میں دھکیل دیتے تو انہیں جنوب میں نئے مورچے بنانے اور مضبوط کرنے کی فرصت نہیں مل سکتی تھی اور چونکہ جرمن پہلے حملہ میں کامیاب ہو چکا تھا اتحادیوں کی فوج کو کسی جگہ ٹک کر لڑنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا.پس انہوں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے فوج کے ایک بڑے حصہ کو تو جنوب میں جمع کرنے اور مضبوط مورچوں میں بٹھانے کو جھوٹی بڑائی پر مقدم سمجھا.نتیجہ یہ ہوا کہ گوبظاہر فرانسیسی کمان پر یہ اعتراض ہے کہ اس نے شمالی فوج کو اس کے حال پر چھوڑ کر جرمن فوج کے لئے زیادہ خطرہ پیدا کر دیا کیونکہ بوجہ بالکل گھر جانے کے اس فوج نے جرمن فوج کا نہایت سختی سے مقابلہ کیا اور ان کا بہت نقصان کر دیا.ایسا حملہ وہی سپاہی کر سکتے ہیں جو موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھتے ہیں.اس کے ساتھ فرانسیسی کمان نے جنوبی فوج کے لئے سانس لینے کا وقت نکال لیا اور انہیں مورچے مضبوط کرنے کا موقع دے دیا.شمالی فوج کو جس بے بسی میں چھوڑا گیا اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اس فوج کا ہر سپاہی جر من حملوں کا مقابلہ کر رہا ہے کیونکہ ایک جرمن کے سامنے صرف فتح کا خیال ہے مگر ایک اتحادی کے سامنے صرف فتح کا ہی سوال نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی سوال ہے، بلکہ اس کی عزت ، اس کی قوم اور اس کے ملک کے خطرات بھی اس کے سامنے ہیں مگر اس کے علاوہ ہر سپاہی سمجھتا ہے کہ اگر ایک دفعہ بھی اس کی آنکھ جھپک گئی تو وہ زندہ نہیں رہے گا.اس وجہ سے ایک ایک اتحادی چار چار پانچ پانچ جر من سپاہیوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور جنوبی فوجوں پر جرمن حملے کا جو زور تھا وہ رک گیا ہے.اس کے ساتھ ہی فرانسیسی اور انگریز نے مورچے بنارہے ہیں اور انہیں مضبوط سے مضبوط تر بناتے جارہے ہیں.غرض ان باتوں میں دخل دینا جن سے انسان کلیپ ناواقف ہو سخت احمقانہ فعل ہوا کرتا ہے.یوں تو جنگی فنون کے لحاظ سے میں بھی ویسا ہی ناواقف ہوں جیسے تم مگر خدا تعالیٰ نے مجھے ان علوم کو سمجھنے کا ملکہ دیا ہے اور گو میں سپاہی نہیں مگر سپاہیوں کے فوجی علم کے مطالعہ کا
$1940 163 خطبات محمود ہمیشہ شوق رکھتا ہوں اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ ہمارا فوجی خاندان ہے مجھے ان باتوں سے دلچسپی ہے کیونکہ فوجی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ روح میرے اندر پائی جاتی ہے جو فوجیوں کے اندر ہوا کرتی ہے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ بُری خبروں کو لے کر دوڑنا، انہیں لوگوں میں پھیلانا اور اُن پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا بہت بڑے گناہ کی بات ہے اور انہی باتوں کے نتیجہ میں ملک کا امن برباد ہوا کرتا ہے.اگر کسی وقت ملک میں فساد ہو گیا اور لوگوں نے جتھے بنا بنا کر ایک دوسرے پر حملہ کرنا اور دوسروں کو لوٹنا شروع کر دیا تو اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے لوگوں میں اس قسم کی بری خبریں پھیلائیں.اور اگر کسی جگہ ایک احمدی بھی ان فسادات کے نتیجہ میں مارا گیا تو اس کا تمام گناہ ان گندی فطرت کے احمدیوں پر عائد ہو گا جو اس قسم کی خبروں پر خوشی مناتے اور لوگوں کو ہنس ہنس کر سناتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کے حضور سخت گنہگار اور مجرم ہوں گے اور وہ غیر احمدیوں سے زیادہ قصور وار ہوں گے کیونکہ ان خبیث الفطرت لوگوں کو سمجھایا بھی گیا مگر وہ پھر بھی نہ سمجھے.ان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور دعاؤں میں لگے رہیں.ایسے اوقات میں ہنسی اور مذاق اور مخول اور عدم سنجیدگی سے کام لینا سخت کمپینگی کی بات ہوتی ہے.اس وقت دنیا کی عزت کا سوال ہے.اس وقت دنیا کے امن چین راحت اور زندگی کا سوال ہے.پس کیسا ہی بے شرم اور بے حیاوہ شخص ہے جو گھر میں بیٹھ کر خبریں سنتا اور کبھی اس پر تمسخر اڑا دیتا ہے اور کبھی اس پر اور یہ نہیں دیکھتا کہ اس وقت پندرہ میں لاکھ آدمی چاہے وہ جرمنی کے ہوں کہ آخر وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ برطانیہ کے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ فرانس کے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ پولش ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں اور چاہے وہ کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں.بہر حال پندرہ بیس لاکھ انسان رات اور دن بغیر دم لئے لڑرہے اور ٹینکوں اور موٹر گاڑیوں کے نیچے کٹتے چلے جارہے ہیں.تمہاری مائیں اور بہنیں اگر تم دس میل کے سفر پر بھی جاتے ہو تو آنسوؤں سے تمہیں رخصت کرتی ہیں مگر تمہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ لاکھوں گھر اس وقت ایسے ہیں جن میں مائیں اور بہنیں اور بیٹیاں اور بیویاں اس انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں کہ کب تار
1940 164 خطبات محمود آتا ہے جس میں یہ لکھا ہو گا کہ آج تمہارا بیٹا مارا گیا، آج تمہارا خاوند مارا گیا، آج تمہارا باپ یا تمہارا بھائی مارا گیا.کیا یہ واقعات ہنسی مذاق کی اجازت دے سکتے ہیں ؟ اور کیا یہ خبریں ہنسی اور مذاق سے سننے کے قابل ہیں ؟ یا کیا ان خبروں کو سننے کے بعد تمہارے لئے جائز ہو سکتا ہے کہ تم گپیں ہانکنے لگ جاؤ اور کہو کہ فلاں نے یہ کیا اور فلاں نے وہ جس شخص کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو، جس شخص کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی شرافت ہو، جس شخص کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی انسانیت کا جذبہ ہو وہ کبھی ان باتوں کو ہنسی مذاق میں نہیں اڑ سکتا.ہاں اگر کوئی کمینہ فطرت اور خبیث الطبع انسان ہو تو اس کا ایسے موقع پر بھی دل نہیں کا نپتا.آخر جیسے تمہاری ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کے دل ہیں ویسے ہی اُن کی ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کے دل ہیں اور ایک ایک قدم پر ان کے بیٹے ، اُن کے بھائی اور ان کے باپ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں حتی کہ ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا جس سیکنڈ میں پندرہ بیس آدمی وہاں نہیں مرتے.جتنی دیر مجھے اس وقت خطبہ پڑھتے ہوئی ہے اتنی دیر میں وہاں ہر ایک سپاہی پچاس ساٹھ آدمیوں کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے کچھ اپنی فوج میں سے اور کچھ دشمنوں کی فوج میں سے اور پھر موت بھی کیسی کہ جس پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں.بھائی کے سامنے بھائی مرتا ہے مگر اسے اتنی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اس کی لاش کو اٹھائے بلکہ ادھر مرنے والے مرتے ہیں اور ادھر فوج کو حکم ملتا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹو.پھر اور آدمی مرتے ہیں تو پھر حکم ملتا ہے کہ ایک قدم اور پیچھے ہٹو.اسی طرح وہ لاشوں کے انبار کو چھوڑتے ہوئے پیچھے کو ہٹتے چلے جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے دشمن کے ٹینک آتے ہیں اور وہ ان مردوں کی ہڈیوں کو مسل دیتے ہیں، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے عزیزوں کا بھیجا نکل رہا ہوتا ہے، پیٹ پھٹ رہا ہو تا ہے ، ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں اور وہ بے گور و کفن وہاں پڑے ہوتے ہیں.مگر ان میں کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ ایک آنسو بھی بہائے یا ایک قدم بھی رک جائے.کیا یہ باتیں اس قسم کی ہیں کہ انسان ان کا ذکر سن کر ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائے یا اس قسم کی ہیں کہ انسان کا دل ان کا ذکر سن کر خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کے خوف سے بھر جائے؟ اگر ایسے موقع پر بھی کسی انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور اگر ایسے موقع پر بھی
$1940 165 خطبات محمود کوئی شخص ہنسی مذاق سے باز نہیں آتا تو وہ ہر گز انسان کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وہ مجسم شیطان ہے جو دنیا میں چل پھر رہا ہے.دوسری بات جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہی مسجد ہے جس میں خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک بہت بڑا نشان دکھایا.آج سے پانچ دن پہلے اتوار کے روز اسی مسجد میں کھڑے ہو کر میں نے تمہیں اپنا یہ الہام سنایا تھا کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایک بادشاہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزارا گیا اور پھر مجھے الہام ہوا کہ ایبڈی کینڈ (Abdicated) اور میں نے بتایا تھا کہ اس کی تعبیر میرے ذہن میں یہ آتی ہے کہ کوئی بادشاہ اس جنگ میں معزول کیا جائے گا یا کسی معزول بادشاہ کے ذریعہ سے کوئی تغیر واقع ہو گا.چنانچہ اس الہام پر ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے بیلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ کو نا گہانی طور پر معزول کروا دیا.انگلستان کا امیر البحر کہتا ہے کہ میں رات کو اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ صبح ہوتے ہیں اس نے یہ فیصلہ کر دینا ہے.ایڈی کیٹڈ کے لغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو اپنے اختیارات کو چھوڑ دے.By Announcement ( کسی اعلان کے ذریعہ سے) or default یا عملاً اپنے فرائض منصبی کو ادانہ کر سکنے کے ذریعہ سے گویا یا تو وہ خود کہہ دے کہ میں بادشاہ نہیں رہایا ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ بادشاہت کے فرائض ادا نہ کر سکے.بعینہ یہی الفاظ بیلجیئم گورنمنٹ نے استعمال کئے ہیں اور اس نے کہا ہے کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ میں ہے اور وہ اب اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا.پس اب بیلجیئم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ لیوپولڈ.پس " کے لوگوں کو جہاں کہیں ہوں لیوپولڈ کی بات نہیں ماننی چاہیے بلکہ ہماری بات ماننی چاہیئے.تم غور کرو یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دکھایا.جمعہ اور ہفتہ کی درمیابی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی اور منگل کی رات کو بغیر اس کے کہ کسی اور کو خبر ہو بیلجیئم کے بادشاہ نے اپنے آپ کو جرمنوں کے سپر د کر دیا.کیا کوئی انسان ہے جو اس قسم کا غیب معلوم کر سکتا ہے؟ وہ لوگ جو اُس کے پہلو بہ پہلو ر ہے وہ جرنیل جو اس کے دائیں بائیں رہے اور وہ وزراء جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے وہ کہتے ہیں
* 1940 166 خطبات محمود کہ آخری وقت تک ہمیں اس بات کا علم نہیں ہوا کہ لیوپولڈ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے.ممکن ہے اگر بعد میں زیادہ تحقیقات کی جائے تو لیوپولڈ کے اس فیصلہ کی وہی تاریخ ثابت ہو جس تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس واقعہ کی اطلاع دی.گویا ہفتہ اور اتوار کی رات کو ادھر بیلجیئم کے بادشاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو جرمن قوم کے حوالے کر دے اور ادھر جبکہ اس فیصلہ سے اس کے وزراء تک ناواقف تھے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں میل کے فاصلہ پر کراچی میل میں آتے آتے مجھ پر اس راز کا انکشاف کر دیا اور بتا دیا کہ لو ہم تمہیں خبر دیتے ہیں کہ جنگ سے تعلق رکھنے والا ایک بادشاہ معزول کیا گیا ہے.کتنی زبر دست طاقتوں کا مالک ہمار اخدا ہے اور کس قدر وہ علیم اور خبیر ہے کہ جس بات سے تو میں ناواقف ہیں ، جس بات سے حکومت کے وزراء ناواقف ہیں، جس بات سے ایک بادشاہ کے پہلو بہ پہلو ر ہنے والے بے خبر ہیں اس کے متعلق خد اتعالیٰ قبل از وقت مجھے اطلاع دے دیتا ہے اور تین دن کے اندر اندر وہ بات پوری ہو جاتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے علم غیب کا ایک زبر دست ثبوت ہے اور ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ ہمیں علم غیب کی خبریں دیتا رہتا ہے جو احمدیت کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہیں مگر پھر بھی بہت سے نادان احمدی دنیا کی طرف اپنی نگاہیں رکھتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف ان کی نگاہ کبھی نہیں اٹھتی.وہ نام کے لحاظ سے تو بے شک ہمارے ساتھ شامل ہیں مگر حقیقتاہم میں شامل نہیں کیونکہ ان کا خدا پر ایمان نہیں.جب گزشتہ جنگ ہوئی اور بیلجیئم پر حملہ ہوا تو مجھے یاد ہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بعض غیب کی خبروں کا انکشاف کیا تھا.مثلاً میں نے دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمن.اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے.جرمن فٹبال کو لاتے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے مگر گول ہو نہیں سکا.اتنے میں پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرف دھکیل دیا.جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی فٹ بال کو لے کر دوڑنے لگے مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول سی چیزیں بنالیں جس کے اندر وہ بیٹھ گئے اور باہر یہ بیٹھ گئے.
$1940 167 خطبات محمود بعینہ اسی طرح جر من لشکر نے جب حملہ کیا تو وہ پیرس تک پہنچ گیا مگر پھر اسے واپس لوٹنا پڑا اور جب سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اس نے ٹرنچز (Trenches) بنالیں اور اس کے اندر بیٹھ گئے اور اس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی.تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جب چاہتا ہے غیب کی خبریں دیتا ہے.اس جنگ کے متعلق تو اتنی کثرت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر امور غیبیہ کا اظہار کیا ہے کہ پچھلی جنگ میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھا.اور میں دیکھ رہا ہوں کہ واقعات ویساہی رنگ اختیار کر رہے ہیں.ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس الہام کو کسی اور رنگ میں بھی پورا کر دے کیونکہ بعض دفعہ الہام کئی کئی رنگوں میں پورا ہو جاتا ہے.مگر بہر حال اس وقت تک جو واقعات ظاہر ہوئے ہیں ان سے یہی سلی معلوم ہوتا ہے کہ ایبڈی کیٹڈ سے مراد جیم کے بادشاہ کا عملاً معزول کیا جانا تھا جو بعد میں ممکن ہے اعلان کے ذریعہ سے بھی معزول کر دیا جائے.ابتداء میں جب مجھے یہ الہام ہوا تو میں حیران ہوا کہ نہ معلوم اس سے کون سا بادشاہ مراد ہے.پہلے خیال آیا کہ کہیں اس سے ہمارے بادشاہ ہی مراد نہ ہوں.پھر خیال آیا کہ ممکن ہے سابق کنگ ایڈورڈ ہشتم مراد ہوں.ایک اور بادشاہ کی طرف بھی بعض دوستوں کا ذہن منتقل ہوا مگر واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ الہام یجیئم کے بادشاہ کے متعلق تھا.چنانچہ اس نے جرمن فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس کی قوم نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ اس کا ایک ذاتی فعل ہے جس کے ہم ذمہ دار نہیں وہ عملی طور پر اب بادشاہت سے الگ ہے اور اس کے حکم کو ماننا ہم پر واجب نہیں.تو مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نگاہ رکھنی چاہیئے اور بجائے اس کے کہ انسان یہ معلوم کرنے کا شائق رہے کہ جرمن براڈ کاسٹ کیا کہتا ہے.اسے خدا تعالیٰ کا ریڈیو سننے کی کوشش کرنی چاہیئے.1914ء میں اسی مسجد میں میں نے الہام کی تھیوری بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا الہام ہر وقت نازل ہوتا رہتا ہے اور انسانی دماغ میں ایسی کلیں موجود ہیں کہ جن سے اگر کام لیا جائے تو انسان اللہ تعالیٰ کی آواز کو سن سکتا ہے.اس وقت ریڈیو کا نام ونشان بھی نہ تھا اور میں نے سادہ زبان میں مفہوم بیان کر دیا تھا کہ انسان کے دماغ میں ایسی کل موجود ہے کہ جسے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف پھر ایا جائے تو اللہ تعالیٰ کے الہام کو وہ سن سکتا ہے.پس انسان کیوں نہ
$1940 168 خطبات محمود اپنے دماغ کو ایسا صاف رکھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خبروں کو سن سکے.انسانی خبروں میں تو جھوٹ سچ ملا ہوا ہوتا ہے پھر بندے آج کچھ کہتے ہیں اور کل کچھ مگر خدا تعالیٰ کے کلام کے ساتھ ایک طاقت اور قوت ہوتی ہے اور جو بات اس کی طرف سے ظاہر ہو وہ کبھی بدل نہیں سکتی.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے علم حاصل کرنے کی کوشش کیا کریں اور اس مقصد کے لئے قرآن کریم، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو پڑھا کریں.میرے نزدیک تو وہ نہایت ہی بے شرم انسان ہے جو ازالہ اوہام میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر پڑھتا ہے کہ :.”ہر یک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہئیے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں.سخت جاہل اور سخت نادان اور سخت نالائق وہ مسلمان ہے جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے.اگر ہم ان کا شکر نہ کریں تو پھر ہم خدا تعالیٰ کے بھی نا شکر گزار ہیں.” 3 اور پھر اس تحریر کو پڑھنے کے بعد وہ باہر نکلتا ہے اور خبریں سن کر کہتا ہے کہ آہاہا انگریزوں کو فلاں مقام پر شکست ہوئی.اس سے زیادہ بے ایمان اور کون شخص ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا مسیح تو کہتا ہے کہ ہر ایک مسلمان کو انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرنی چاہیے اور یہ کہتا ہے کہ دعا کی کیا ضرورت ہے؟ انگریزوں کو شکست ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے.میں تو ایسے احمدی کو لعنتی سمجھتا ہوں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا بہر حال قبول ہو گی اور اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء کسی اور بڑی حکمت کے ماتحت اس دعا کو قبول کرنے کا نہ بھی ہوا تو بھی اس شخص پر ضرور لعنت پڑ جائے گی کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس صف میں کھڑا کیا جو خدا تعالیٰ کے مسیح کے دشمنوں کی ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر ہمار اذرہ ذرہ اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں رنگین کرنا چاہتے تھے تو پھر ایمان کس چیز کا نام ہے اور اگر ہم ایسے امور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اختلاف رکھنا جائز قرار دیں تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کہتے ہیں
* 1940 169 خطبات محمود کہ کسی پٹھان کے سامنے کسی نے سینہ پر ہاتھ باندھنے یا آمین بالجہر کہنے کا مسئلہ بیان کیا تو وہ کہنے لگا میں ان باتوں کو نہیں مانتا.اس پر اس نے کہا کہ تم تو سید عبد القادر جیلانی کو مانتے ہو ریہ عقیدہ ان کا بھی تھا.وہ کہنے لگا ہمارے پیر کا مذ ہب اور ہمارا مذ ہب اور.تو ایک مسائل کا اختلاف ہوتا ہے اور ایک مقصود اور مدعا میں اختلاف ہوتا ہے.مسائل میں بعض جگہ جبکہ شریعت اجازت دیتی ہو ایک حد تک پیر سے اختلاف جائز ہوتا ہے مگر مقصود اور مدعا میں اختلاف جائز نہیں ہو تا.بعض نادان کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نواب محمد علی خان صاحب کو اجازت دی تھی کہ وہ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ حضرت علی حضرت ابو بکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے افضل تھے آپ کی بیعت کر سکتے ہیں اور اس سے استنباط کرتے ہیں کہ عقائد میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ یہ عقیدہ ایسا نہیں تھا جس کا موجودہ زمانہ سے کوئی تعلق ہو.حضرت علی بھی فوت ہو چکے ہیں حضرت ابو بکر بھی فوت ہو چکے ہیں اور حضرت عمرؓ بھی فوت ہو چکے ہیں اور حضرت عثمان بھی فوت ہو چکے ہیں اور اب اس بحث کا کوئی فائدہ ہی نہیں کہ کون افضل ہے اور کون نہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ عقیدہ رکھنے کے باوجو د نواب صاحب کو بیعت کی اجازت دے دی مگر مقصود اور مدعا میں اختلاف کبھی جائز نہیں ہو سکتا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اصل مقصد اسلام کی فتح تھی اب اگر کوئی کہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرید تو ہوں مگر میرا مقصد اسلام کی فتح نہیں بلکہ عیسائیت کی فتح ہے تو اسے ہم الو ہی سمجھیں گے.تو مقصود میں اختلاف کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو تا.مسائل کا اختلاف بالکل اور چیز ہے اور اس کے متعلق بھی حد بندیاں ہیں کہ کس وقت وہ اختلاف جائز ہوتا ہے اور کس حد تک جائز ہوتا ہے مگر اب وقت نہیں کہ میں ان حد بندیوں کو بیان کر سکوں.پس مسائل میں اختلاف اور بات ہے اور مقصود اور مدعا میں اختلاف بالکل اور بات ہے.اور اگر کوئی شخص مقصود اور مدعا میں اختلاف رکھتا ہو تو وہ ہر گز مرید کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو یہ امر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ
1940 170 خطبات محمود حکومت برطانیہ کے متعلق اگر وہ غیر ذمہ دارانہ رنگ میں باتیں کرتے رہیں گے تو وہ دین کو نقصان پہنچانے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہونے والے سمجھے جائیں گے.اگر انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہو تو ان کی مرضی ہمیں تو یہ بات اچھی معلوم نہیں ہوتی.“ (الفضل 5 جون 1940ء) 2 1 مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب النهي عن قول هلك الناس ڈنکرک:( DUNKIRK) ڈنکرک کی جنگ، جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی اور اتحادیوں کے مابین لڑی گئی.ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 373
$ 1940 171 13 خطبات محمود (1) تحديث بالنعمت (2) تحریک جدید کے سالانہ جلسے (3) فتنے کس طرح مٹ سکتے ہیں (فرموده 7 جون 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”سب سے پہلے تو میں تحدیث بالنعمت کے طور پر اپنے گزشتہ خطبہ کے ایک فقرہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.میں نے بیان کیا تھا کہ گو شاہ بیلجیئم نے پیر اور منگل کی درمیانی رات کو ظاہر میں ہتھیار رکھے ہیں مگر کیا تعجب ہے کہ 24 اور 25 تاریخ کی درمیانی رات کو جب مجھے یہ الہام ہوا در حقیقت یہ فیصلہ اسی وقت کا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ وہ یہ سمجھوتہ کر رہا ہو مجھے بتا دیا ہو کہ یہ واقعہ ہو رہا ہے.اس سلسلہ میں کل یا پرسوں کا تار ہے کہ بیلجیئم گور نمنٹ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جب بادشاہ نے ہتھیار رکھے ہیں اس سے دور روز قبل اس نے یہ سمجھوتہ کر لیا تھا کیونکہ 25 کو اس نے تار دیا تھا کہ میرے بیٹے جو فرانس میں ہیں انہیں سپین بھیج دیا جائے.اس کے معنے یہی ہیں کہ 24 اور 25 کی درمیانی رات کو اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا اور یہی وہ رات ہے جب مجھے یہ الہام ہوا.اس تار سے میرے خیال کی تصدیق ہو جاتی ہے.
$1940 172 خطبات محمود 25 کی صبح کو اس کا یہ تار دینا بتاتا ہے کہ اس سے پہلی رات وہ ایسا فیصلہ کر چکا تھا جو اسے فرانس کا مخالف بنا دینے والا تھا.اس لئے وہ نہ چاہتا تھا کہ اس کے بچے فرانس میں رہیں.میرا یہ الہام رات کے قریباً ایک دو بجے کے درمیان کا ہے اور یورپ کے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ وہاں نو بجے رات کا وقت تھا.معلوم ہوتا ہے اس نے اسی وقت یہ فیصلہ کیا تھا اور اس کے ماتحت اس نے 25 کو یہ تار دیا کہ میرے بچے فرانس سے سپین بھیج دیئے جائیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے چندے اور دوسرے مطالبات جو ہیں ان کے متعلق میں ہر سال ایک جلسہ کرایا کرتا ہوں جس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک تو اس سے پہلے پہلے جماعتیں اپنے تمام چندے یا ان کا اکثر حصہ ادا کر دیں اور دوسرے ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق تقریریں کی جاتی ہیں تا جماعت میں جو لوگ نئے جوان ہوئے ہیں وہ آگاہ ہو سکیں.اس میں شبہ نہیں کہ یہ باتیں کئی سال سے دُہرائی جاتی ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ جو باتیں انسان پر بوجھ ہوتی ہیں وہ متواتر یاد دلانے سے ہی یا درہ سکتی ہیں ورنہ اگر دس سال کے بعد بھی یاد نہ دلایا جائے تو بھول جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کا حکم بار بار دیا ہے.لا إلهَ إِلَّا الله اور اللہ اکبر کے کلمات دن میں کئی بار دہرانے کا حکم دیا ہے جو ہمارے عقیدہ کا اعلان ہیں اور ان کو دن میں کئی کئی بار دہرایا جاتا ہے تا دنیا کو پتہ لگتا ر ہے اور علم ہو تا رہے کہ اب بھی ہماری دینی حالت وہی ہے جو صبح تھی.انسانی حالت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے.رسول کریم صلی الیم نے اس زمانہ کے متعلق خصوصیت سے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اٹھے گا اور رات کو کافر سوئے گا اور صبح مومن اٹھے گا.1 پس اس زمانہ میں جبکہ ایسے ایسے جلد تغیرات کی پیشگوئی آنحضرت صلی ا ہم نے فرمائی ہے بار بار یاد دہانی کی ضرورت واضح ہے.بعض لوگ کہتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ مصری صاحب پہلے تو ایسے اچھے تھے اب انہیں کیا ہو گیا؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جو شخص پوشیدہ چالیں چلتا ہو اس کے حالات کا علم تو ایک عرصہ کے بعد ہی ہوا کرتا ہے.دوسرے انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ تو پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.اگر ایسے تغیرات نہ ہوں تو پیشگوئی کیسے پوری ہو
$1940 173 خطبات محمود یہ پیشگوئی بھی تو ہمارے ہی ذریعہ پوری ہونی تھی.اگر ہم میں ایسے لوگ نہ ہوتے تو کیا یہ پیشگوئی عیسائیوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا یہودیوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا سکھوں اور ہندوؤں کے ذریعہ پوری ہوتی یا زرتشتیوں اور بدھوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا یہ ان مسلمانوں کے ذریعہ پوری ہوتی جو پہلے ہی ایک مامور کا انکار کر کے اپنے آپ کو اسلام کی صحیح تعریف سے خارج کر چکے ہیں.اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زمانہ اس قدر منافقت کا ہو گا اور شیطان کا ایسا غلبہ ہو گا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کا فراٹھے گا مگر اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا بھی ایسا جوش اس زمانہ کے لئے رکھا ہے کہ رات کو ایک شخص کا فر سوئے گا اور صبح کو مومن اٹھے گا.گویا ایک طرف سے اگر پانی نکلے گا تو دوسری طرف سے ذخیرہ پورا بھی ہوتا رہے گا اور جب خصوصیت سے اس زمانہ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے تو اس امر کی کتنی ضرورت ہے کہ ہم ہر وقت یہ اعلان کریں کہ ہم کون ہیں تاکسی کو ہمارے متعلق شبہ نہ رہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی ال نیلم نے خدا تعالیٰ کے حکم سے دن میں پانچ بار اذان کا حکم دیا.( یادر ہے کہ اذان الہامی ہے بلکہ بعض صحابہ کو بھی رویا میں اس کے الفاظ سکھائے گئے تھے ) اور اس کے ذریعہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اپنے عقائد کا اعلان کرتے ہیں.مؤذن ہر مر تبہ دنیا کو بتا تا ہے کہ اس رات سے اٹھنے کے بعد بھی میں مومن ہوں اور اب بھی میر اعقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی ا کر اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد وہ اپنے کام کاج میں لگ جاتا ہے اور قسم قسم کے ابتلا اس کے سامنے آتے ہیں.کئی لوگ اسے فریب دینا چاہتے ہیں اور غیر مذاہب کے لوگ بھی آ آکر طرح طرح کی باتیں اس سے کرتے ہیں اور اسے اپنے عقائد سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب ظہر کا وقت ہو تا ہے تو وہ پھر کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ بے شک میرے سامنے کئی لالچ آئے، لوگوں نے مجھے ورغلانا چاہا مگر پھر بھی میرا عقیدہ وہی ہے جو صبح تھا.پھر عصر کا وقت آتا ہے جب وہ کام کاج سے تھک جاتا ہے اور تکان سے چور ہو جاتا ہے ، کاروبار کے گھاٹے اس کے سامنے آتے ہیں، کئی قسم کی مایوسیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس وقت مسلمان کھڑا ہو کر پھر وہی فقرے دہراتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ گویا عصر کا وقت آگیا مگر میرے ایمان میں کوئی کمی نہیں ہوئی.اس کے بعد اندھیرا ہو جاتا ہے اور
* 1940 174 خطبات محمود دنیا میں ایک تغیر ہوتا ہے یعنی دن کے بعد رات شروع ہو جاتی ہے مگر وہ پھر اعلان کرتا ہے کہ گورات آگئی اور دنیا میں اندھیرا ہو گیا مگر اب بھی میر اوہی عقیدہ ہے جو صبح تھا.میرے ایمان اور عقائد میں کوئی تغیر نہیں آیا.پھر عشاء ہوتی ہے لوگ سونے لگتے ہیں، نئی نئی امیدیں باندھتے ہیں کہ آج کاروبار میں گو گھاٹا ہوا مگر صبح یوں کام کریں گے.اس کے ساتھ چور ڈاکو اور قاتل اپنے دلوں میں بڑے منصوبے سوچنے میں مشغول ہوتے ہیں مگر اس وقت بھی مسلمان اعلان کرتا ہے کہ اللہ اکبر الله اکبر.میں اب بھی اللہ تعالیٰ کو بڑا سمجھتا ہوں اور محمد لی لی یمن کو اللہ تعالی کار سول سمجھتا ہوں.اگر کوئی چوری، ڈاکہ یا قتل کی نیت کرتا ہے تو میں اس سے بری ہوں.میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سونے لگا ہوں.غرض یہ اعلان مسلمانوں سے دن میں پانچ مرتبہ کرایا گیا ہے اس لئے کہ انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی.پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اعلان کرے کہ میں اب بھی ویسا ہی ہوں جیسا صبح تھا.اسلام کوئی خفیہ مذہب نہیں وہ عَلى الاعلان اپنے ماننے والے سے اس کے عقائد کا اعلان کراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ مسجدوں میں کھڑے ہو کر شور کرو کہ ہم مسلمان ہیں.پس جب رسول کریم صلی علیم کے زمانہ میں یہ اعلان ضروری تھا تو آج جس کے متعلق یہ بتایا گیا کہ اس زمانہ میں ایک شخص رات کو مومن سوئے گا اور صبح کا فر اٹھے گا اور رات کو کافر سوئے گا اور صبح مومن اٹھے گا.اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارے عقائد کیا ہیں.اسی لئے میں ہر سال تحریک جدید کے متعلق یہ جلسے کرایا کرتاہوں تاہم دنیا کو بتا سکیں کہ ہم آج بھی ان باتوں پر قائم ہیں اور تا ہمارے اپنے نفس بھی ان باتوں کو یاد کر لیں.پھر جو نئے بچے اس عرصہ میں جوان ہوئے ہیں وہ بھی ان باتوں کو ذہن نشین کر لیں.اس تحریک پر آج چھ سال گزر چکے ہیں.کئی بچے جو اس وقت دس سال کے تھے اور اس وجہ سے ان باتوں کو نہ سمجھتے تھے آج سولہ سال کے جوان ہیں اور ان باتوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں.کئی بچے ذہین ہوتے ہیں اور دس سال کی عمر میں بات سمجھ سکتے ہیں.وہ اس وقت چار سال کے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے مگر آج سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں.اس لئے ان کو آگاہ کرناضروری ہے.
1940 175 خطبات محمود پھر بعض بچے غیر معمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں اور چھ سال کی عمر میں ہی بات سمجھ لیتے ہیں.جب یہ تحریک شروع ہوئی وہ اس کے قریب میں ہی پیدا ہوئے تھے یا چند ماہ کے تھے.اب وہ چھ سال کے ہو گئے ہیں وہ ان تقریروں کو سنیں گے تو یہ باتیں ان کے ذہن نشین ہو جائیں گی.پس میں اس سال کے ان جلسوں کے لئے گیارہ اگست کی تاریخ مقرر کر تا ہوں.اس روز جلسے کر کے تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق تقریریں کی جائیں اور ان کی ضرورتیں اور فوائد بیان کئے جائیں.جنگ نے ان ضرورتوں کو آج بالکل واضح کر دیا ہے.میں امید کرتاہوں کہ احباب بالخصوص عہدہ داران ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے اور سلسلہ کے اخبارات بھی اس کی اہمیت کو متفرق پیرایوں میں جماعت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے.میں یہ بھی ہدایت کرتا ہوں کہ اس جلسہ سے قبل جماعت کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے علیحدہ علیحدہ جلسے کر کے بار بار یہ باتیں ان کے سامنے پیش کی جائیں.سیکر ٹریان تحریک جدید ہفتہ وار رپورٹیں بھجواتے رہیں کہ اس کے لئے انہوں نے کس طرح چھوٹے چھوٹے جلسے منظم کئے ہیں.اس کے ساتھ ہی یہ بھی کوشش کی جائے کہ اس وقت تک چندے بھی پورے کے پورے ادا ہو جائیں یا ان کا اکثر حصہ ادا ہو جائے اور جماعت کا اکثر حصہ ادا کر چکا ہو.اعداد کے لحاظ سے چونکہ یہ چھٹا سال ہے یہ سستی کے سال بھی ہوتے ہیں اور چپستی کے بھی.بعض لوگ تھک جاتے ہیں اور ان کا قدم سُست پڑنے لگتا ہے مگر کئی سمجھتے ہیں کہ اب کام ختم ہونے لگا ہے.تحریک اختتام کو پہنچنے والی ہے اس لئے زیادہ جوش سے حصہ لینا چاہیئے.اس کے بعد میں دوستوں سے بعض آدمیوں کے فتنہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.سندھ جانے سے پہلے میں نے ان کے متعلق ایک خطبہ میں بیان کیا تھا اور آج پھر بعض باتیں ان کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.بعض دوست ان کی تقریریں نوٹ کر کے مجھے بھیج دیتے ہیں.چند روز ہوئے ان کی تقریروں کا خلاصہ مجھے پہنچا جسے پڑھ کر مجھے بے حد حیرت ہوئی.ایک نے ان میں سے اپنی تقریر میں کہا کہ کتنا ظلم ہے کہ خلیفہ المسیح نے اپنے ایک خطبہ میں خطبہ میں میں نے 28 جولائی کا اعلان کیا تھا مگر دفتر تحریک کی سفارش پر کہ وقت تھوڑا ہے بیرون ہند کے لوگ تیاری نہ کر سکیں گے میں گیارہ اگست کا اتوار اس دن کے لئے مقرر کرتا ہوں.
خطبات محمود 176 1940 جہاد کا اعلان کر دیا ہے.اگر نوٹ کرنے والے نے اس کا مفہوم صحیح سمجھا ہے تو جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے ایک دفعہ پھر یہ حقیقت ثابت ہو گئی کہ جو شخص سلسلہ کو چھوڑتا ہے وہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے.بعض دفعہ کوئی شخص کوئی پوشیدہ بات کہتا ہے اور اس کے متعلق کسی کو دھوکا لگ جاتا ہے.ایک دفعہ یہاں حیدر آباد سے ایک طالب علم آیا.میں نے مبلغین کلاس یہاں جاری کرار کبھی تھی وہ اس میں پڑھنے لگا.وہاں بعض لوگوں سے اس کی لڑائی ہو گئی اور اس کا قصور ثابت ہو گیا.اسے ڈر تھا کہ اب مجھے سزا ملے گی اس لئے وہ جھٹ یہاں سے چلا گیا اور لاہور جا پہنچا اور پیغامیوں نے جیسا کہ ان کا قاعدہ ہے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا.اس نے ایک مضمون لکھا کہ میں قادیان سے اس لئے آگیا ہوں کہ پہلے تو وہاں مجھے عام اسلامی باتیں ہی بتائی جاتی تھیں مگر جب دیکھا کہ ایمان پکا ہو گیا ہے اور خلیفہ نے یہ محسوس کر لیا کہ اب یہ کہیں جا نہیں سکتا تو ایک روز مجھے بیت الفکر میں جو مسجد کے پاس ایک کمرہ ہے بلایا اور کہا کہ اب تمہارے متعلق اطمینان ہو گیا ہے اس لئے اب تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں حقیقت بتادی جائے.اصل میں ہمارا عقیدہ یہ ہے خاتم النبیین محمد مصطفی صلی الی کم نہیں بلکہ مرزا صاحب ہیں.اس کا بیان تھا کہ یہ بات میں نے اسے بیت الفکر میں علیحدہ لے جاکر کہی تھی.اس سے ناواقف لوگوں کو دھوکا لگنے کا امکان تھا لیکن جو لوگ ہمیں جانتے ہیں، دن رات ہماری تقریریں سنتے اور پڑھتے ہیں وہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ یہ بات جھوٹ ہے.باقی لوگوں کو سمجھانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کیونکہ اس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ بات اس سے بیت الفکر میں کہی گئی.یہ بھی خطر ناک جھوٹ تھا مگر یہ جھوٹ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ خطبہ تو ہزاروں آدمیوں کے سامنے دیا جاتا ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی تقریر میں دلائل بھی دینے شروع کر دیئے کہ میرا یہ حکم نا جائز ہے 2 اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد نا جائز ہے اور خلیفہ نے حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو بھی چھوڑ دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے یہ سب کچھ ہمارے قتل کے لئے ہو رہا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ جو شخص جماعت سے خارج ہوتا ہے وہ اپنی پوزیشن ایسی سمجھ لیتا ہے کہ گویا ساری جماعت
خطبات محمود 177 1940 چھوٹے سے لے کر بڑے تک اس سے کانپ رہی ہے اور سب چاہتے ہیں کہ اسے مٹادیں.یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جو میں نے اندھے اور سو جاکھے کی کئی دفعہ سنائی ہے.ایک اندھا اور ایک سو جا کھا کھانا کھانے بیٹھے.اندھے نے خیال کیا کہ سو جا کھا ضرور جلدی جلدی کھاتا ہو گا میں تو دیکھ نہیں سکتا اس لئے جس قدر جلدی چاہے کھا رہا ہو گا.یہ سوچ کر اُس نے بھی جلدی جلدی کھانا شروع کر دیا.پھر اس نے خیال کیا کہ اس نے مجھے جلدی جلدی کھاتے دیکھ لیا ہے اس لئے پہلے سے بھی زیادہ جلدی سے کھانے لگا ہو گا اس لئے وہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگا.پھر اس نے خیال کیا کہ اس طرح جلدی کھاتے بھی اس نے دیکھ لیا ہے اس لئے اب اور کوئی تدبیر اس نے نکالی ہو گی اور وہ غالباً یہ ہو گی کہ یہ دونوں ہاتھوں سے کھانے لگ گیا ہو گا اور یہ سوچ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر اس نے خیال کیا کہ اس بینا نے اب کوئی اور ترکیب سوچ لی ہو گی جس کے ذریعہ سے کھانے میں سے مجھ سے زیادہ حصہ لے سکے اور خیال کیا کہ وہ ترکیب یہی ہو سکتی ہے کہ ایک ہاتھ سے کھاتا جاتا ہو گا اور دوسرے ہاتھ سے کھانا جھولی میں ڈالتا جاتا ہو گا.چنانچہ اس نے بھی اسی طرح کرناشروع کر دیا مگر پھر بھی اس کے دل کا وسوسہ نہ گیا.مگر اور کوئی بات اس کے ذہن میں نہ آئی جس کے ذریعہ سے وہ اس آنکھوں والے کے ساتھ نپٹ سکے.آخر گھبر اکر اس نے پلاؤ کا طبق اٹھالیا اور بولا کہ بس بھئی اب میرا ہی حصہ رہ گیا ہے.لیکن اس سارے عرصہ میں آنکھوں والا اس کی حرکات کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہا تھا اور اس نے کھانا بالکل چھوڑ رکھا تھا.یہی حالت ان لوگوں کی ہے.کوئی بات ہو یہ سمجھتے ہیں ہمیں قتل کرنے کے لئے کی جارہی ہے.کسی کو سائیکل پر جاتے دیکھا تو کہا یہ ہمیں مارنے کو آیا ہے، کسی کے ہاتھ میں سوٹی دیکھی تو کہہ دیا یہ ہمارے مارنے کے لئے ہے، کوئی مسکرا رہا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ہمیں مارنا چاہتا ہے.گویا رات دن جو بات بھی ہوتی ہے وہ ان کو مارنے کے لئے ہوتی ہے.ابھی یہ جماعت سے نکالے نہیں گئے تھے کہ میں نے ایک خواب دیکھا.پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ اس کا مطلب کچھ اور ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں شاید یہ ان کے اور ان کے قماش کے دوسرے لوگوں کے متعلق ہو.میں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے جس پر میں بیٹھا ہوں.
1940 178 خطبات محمود سامنے ایک بڑھیا عورت جو بہت ہی گريه المنظر ہے کھڑی ہے.اس نے دو سانپ چھوڑے ہیں جو مجھے ڈسنا چاہتے ہیں.وہ چار پائی کے نیچے ہیں اور سامنے نہیں آتے تاجب میں نیچے اتروں تو پیچھے سے کود کر ڈس لیں.میرا احساس یہ ہے کہ ان میں سے ایک چارپائی کے ایک سرے پر ہے اور دوسرا دوسرے سرے پر.تامیں جدھر سے جاؤں حملہ کر سکیں.میں کھڑ ا ہو گیا ہوں اور جلدی جلدی کبھی پائنتی کی طرف جاتا ہوں اور کبھی سرہانے کی طرف.میں خیال کرتا ہوں کہ جب میں پائنتی کی طرف جاؤں گا تو سرہانے کی طرف کا سانپ اس طرف دوڑے گا اور جب سرہانہ کی طرف آؤں گا تو پائنتی والا اس طرف آئے گا اور اس طرح میں ان کو جھانسہ دے کر نکل جاؤں گا.پانچ سات مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب دونوں سانپ ایک ہی طرف ہیں اور میں دوسری طرف سے کود پڑا.جب نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ واقعی وہ دونوں دوسری طرف تھے.میں فوراً ان کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا ان میں سے ایک نے مجھ پر حملہ کیا اور میں نے اسے مار دیا.پھر دوسرے نے حملہ کیا اور میں نے اسے مارا مگر میں سمجھتا ہوں ابھی وہ کچھ زندہ ساہی ہے.اسی جگہ کے پہلو میں ایک علیحدہ جگہ ہے میں ہٹ کر اس کی طرف چلا گیا ہوں.وہاں ایک نہایت خوبصورت نوجوان ہے جو میں سمجھتا ہوں فرشتہ ہے اور گویا میری مدد کے لئے آیا ہے.وہ عورت چاہتی ہے کہ اس سانپ کو پکڑ کر مجھے پر پھینکے مگر وہ نوجوان میرے آگے آگیا اور میری حفاظت کرنے لگا.عورت نے نشانہ تاک کر اس پر مارا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی فوق العادت طاقت کا ہے.اس نے اسے سر سے پکڑ لیا اور چاقو نکال کر اس کی گردن کاٹ دی.اس عورت نے پھر اسی کٹی ہوئی گر دن کو اٹھایا اور ہماری طرف پھینکنا چاہتی ہے کبھی اس کی طرف نشانہ باندھتی ہے اور کبھی میری طرف مگر اس فرشتہ نے مجھے پیچھے کر دیا اور خود آگے ہو گیا اور اسے پھینکنے کا موقع نہیں دیتا.آخر ایک دفعہ اس عورت نے پھینکا مگر فرشتہ آگے سے ایک طرف ہو گیا سامنے کچی دیوار تھی وہ اس دیوار میں لگا اور اس میں سوراخ ہو گیا اور وہ اس سوراخ کے اندر ہی گھس گیا.میری پیٹھ اس طرف ہے وہ فرشتہ ایک کمرہ کی طرف جو پہلو میں ہے اشارہ کر کے مجھ سے کہتا ہے کہ تم ادھر ہو جاؤ اس سوراخ میں سے یہ سانپ پھر نکلیں گے.(گویا ان کی موت مجازی تھی
1940 179 خطبات محمود اور جسمانی موت نہ تھی اور ابھی وہ حقیقتا زندہ تھے) میں نے دیکھا کہ کبھی وہ اس سوراخ میں سے سر نکالتا ہے اور کبھی زبان ہلاتا ہے ، کبھی ادھر اور کبھی اُدھر رخ کرتا ہے.گویا چاہتا ہے کہ ہم ذرا غافل ہوں تو حملہ کر دے.جو نہی وہ سر نکالتا ہے فرشتہ اس کو ڈراتا ہے اور وہ جھٹ اندر چلا جاتا ہے.اتنے میں یکدم یوں معلوم ہوا کہ ایک کی بجائے دو سانپ ہیں اور گویا دوسرا سانپ جسے میں نے مردہ سمجھا تھاوہ بھی در حقیقت زندہ تھا.چنانچہ پہلے تو ایک ہی سوراخ تھا مگر یکدم ایک اور نمودار ہو گیا اور دونوں سانپ ان سوراخوں میں سے گودے اور زمین پر گرتے ہی آدمی بن گئے جو بڑے قوی الجثہ ہیں.اس پر فرشتہ نے کسی عجیب سی زبان میں کوئی بات کی جسے میں نہیں سمجھ سکا.ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس نے کسی زبان میں جسے میں نہیں جانتا دعائیہ الفاظ کہے ہیں اور وہ الفاظ ہاکی پاکی ” کے الفاظ سے مشابہہ ہیں مگر چونکہ وہ غیر زبان ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہی الفاظ ہیں یا ان سے ملتے جلتے کوئی اور الفاظ.اس کے دعائیہ الفاظ کا اس کی زبان سے جاری ہونا تھا کہ میں نے دیکھا دونوں حملہ آور قید ہو گئے اور ان میں سے جو میرے قریب تھا میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھے اور ان میں ہتھکڑیاں پڑ گئیں.مگر اس طرح کہ ایک کلائی دوسری کے اوپر ہے اور دایاں ہاتھ بائیں طرف کر دیا گیا ہے اور بایاں دائیں طرف کر دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ایک کمان دونوں ہاتھوں پر رکھی گئی ہے.اس کے ایک سرے سے ایک ہاتھ کی انگلیاں اور دوسرے سرے سے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں باندھ دی گئی ہیں.دوسرے آدمی کو کس طرح قید کیا گیا ہے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا.پھر فرشتہ نے مجھے اشارہ کیا کہ باہر آجاؤ.یہ خواب جب میں نے دیکھا یہ لوگ ابھی پوشیدہ تھے اور اندر ہی اندر اتحاد عالمین کے نام سے اپنی گدی بنانے کی سکیمیں بنا رہے تھے.ان کے اندر خود پسندی اور خودستائی تھی اور اپنی ولایت بگھارتے پھرتے تھے.لوگوں سے کہتے تھے ہم سے دعائیں کر اؤ حالا نکہ خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گدیوں والی ولایت کے کوئی معنے ہی نہیں.جیسے گوریلا وار کبھی جنگ کے زمانہ میں نہیں ہوا کرتی ، چھاپے اسی وقت مارے جاتے ہیں جب با قاعدہ جنگ کا زمانہ نہ ہو.خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوئے.نہ صرف حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہوا نہ حضرت عمر یا حضرت عثمان یا حضرت علیؓ کے ض
$1940 180 خطبات محمود زمانہ میں.ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے ولی کھڑے کئے کہ جو لوگ ان کے جھنڈے تلے جمع ہو سکیں انہیں کر لیں تا قوم بالکل ہی تتر بتر نہ ہو جائے.لیکن جب خلافت قائم ہو اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے جب منظم فوج موجود ہو تو گوریلا جنگ نہیں کی جاتی.پس خلافت کی موجودگی میں ایسی ولایت کا وسوسہ دراصل کبر اور بڑائی ہے.اس خواب میں جو سانپ میں نے دیکھے ہیں میں سمجھتا ہوں ان میں سے ایک سے مراد اندرونی فتنہ ہے اور ایک سے بیرونی.اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں قسم کے فتنے اس وقت مل کر حملہ کر رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دونوں کو دور کر دے گا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کے ہاتھ بند کر دے گا.انسانی ہتھکڑیاں کوئی چیز نہیں اصل وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگائی جائیں.حکومتیں کسی کو نظر بند کرتی ہیں تو اس کے ساتھی موجو د رہتے ہیں جو اس کی آواز کو پہنچاتے رہتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کسی کو ہتھکڑی لگائے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیابی نہیں ہو سکتی.ایسے فتنے دراصل جماعت کی بیداری کے لئے ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو احمدیت میں داخلہ کے بعد روحانی ترقی کی طرف بہت کم توجہ کرتا ہے وہ اس طرح دنیا کے کاموں میں لگے رہتے ہیں جس طرح احمدیت میں داخلہ سے پہلے تھے.اسلام دنیا کے کاموں سے روکتا نہیں بلکہ اجازت دیتا ہے.انبیاء بھی یہ کام کرتے رہے ہیں.حضرت داؤد علیہ السلام کے کام ثابت ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کام ثابت ہیں وہ زراعت بھی کرتے تھے.اولیاء اور صحابہ کا کام کرنا بھی ثابت ہے اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اسی کام کا ہو جائے.بعض لوگ قادیان میں ہجرت کر کے آتے ہیں مگر یہاں آکر دنیا کے کاموں میں ہی لگ جاتے ہیں اور دین کا کام بالکل نہیں کرتے.میں نے خطبہ پڑھا کہ ہر احمدی تبلیغ کے لئے وقت دے.مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ بعض دکانداروں نے کہا ہے کہ ہم تبلیغ کے لئے چلے جائیں تو پندرہ روز میں تو ہماری دکان ہی بند ہو جائے گی.یہ بات کہتے وقت وہ اس بات کو بالکل بھول جاتے ہیں کہ ان کی دکان تو چلی ہی احمدیت کے طفیل ہے.اگر وہ سال میں 350 دن احمدیت کے طفیل روٹی کھاتے ہیں تو اگر پندرہ دن اس کے لئے بھی قربان کر دیں تو کون سی بڑی بات ہے ؟
خطبات محمود 181 1940 حضرت لقمان کا ایک واقعہ مجھے یاد آگیا.آپ ابھی بچے تھے کہ قید ہو گئے.ڈا کو اٹھا کر کہیں لے گئے اور کسی امیر کے پاس بیچ دیا.کہتے ہیں ان کے آقا نے ان کو نوکروں کے ساتھ باغ میں انگور توڑنے کے لئے بھیجا.وہ توڑ کر لائے تو بہت ہی کم تھے.آقا نے وجہ دریافت کی کہ اس قدر کم انگور کیوں اترے ہیں ؟ وہ سب بڑی عمر کے لوگ تھے اور حضرت لقمان کی عمر صرف اس وقت آٹھ دس سال کی تھی.انہوں نے کہا آپ نے اس لڑکے کو ساتھ بھیج دیا تھا یہ بڑا بد معاش ہے.ہم جو انگور توڑتے یہ کھا جاتا تھا.حضرت لقمان گو بچے تھے مگر تھے ذہین.آپ نے کہا کہ سب کو قے کرائی جائے تا معلوم ہو سکے کہ کس نے کھائے ہیں.آقا نے ایسا ہی کیا تو ان سب کے معدوں سے انگور نکلے مگر حضرت لقمان کا معدہ بالکل خالی تھا.اس وجہ سے آپ اپنے آقا کو بہت پیارے لگنے لگے اور وہ اپنے بیٹوں کی طرح آپ سے محبت کرنے لگا.ایک دفعہ اس کے کسی گماشتے نے کہیں دور دراز سے اسے بے موسم کا خربوزہ بھیجا.سر دے کا قاعدہ ہے کہ اگر وہ خراب ہو جائے تو شدید کڑوا ہوتا ہے.آقا نے اس سر دے سے ایک کاش کائی اور حضرت لقمان کو محبت سے دی.آپ نے اسے بڑے مزے سے کھایا.آقا نے سمجھا بہت لذیذ ہے اور ایک اور دی.آپ نے وہ بھی بڑے مزے لے لے کر کھائی اور اس نے ایک اور دی.وہ بھی آپ نے اسی طرح کھائی.اس پر آقا نے خیال کیا کہ ایسی اچھی چیز میں خود بھی کھاؤں.اس نے اسے چکھا تو وہ سخت کڑوی تھی.اس نے آپ سے کہا کہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ہے کہ یہ اس قدر کڑوی چیز ہے.آپ نے کہا کہ اس سے زیادہ بے حیائی اور کیا ہو سکتی تھی کہ جس ہاتھ سے میں نے اتنی میٹھی کا شیں کھائی ہیں اس سے اگر دو تین کڑوئی کھانی پڑیں تو چلا اٹھتا.پس اگر غیرتِ اسلامی نہ ہو ، دین کی محبت نہ ہو، تب بھی شریف آدمی کی حیثیت سے قادیان کے تاجروں کا یہ فرض تھا کہ جس کی طفیل وہ سال کے 350 دن کماتے ہیں اس کی خاطر پندرہ روز کی قربانی کا مطالبہ ہو تو پس و پیش نہ کریں.قادیان کا کوئی ایک بھی تاجر ایسا نہیں جو گھر سے کھاتا پیتا آیا ہو.سب کے سب ایسے ہیں جنہوں نے یہیں آکر کمائیاں کی ہیں.بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ جب یہاں آئے تو ان کی حیثیت پانچ سات روپیہ کی بھی نہ تھی.بے شک
خطبات محمود 182 * 1940 بعض ہزار دو ہزار کی حیثیت کے تھے مگر اب ان کی حیثیت اس سے بہت زیادہ ہے اور اگر ان کے اندر غیرت دینی نہ بھی ہو اور احمدیت و اسلام کی محبت بالکل نہ ہو تو بھی حضرت لقمان کی بات کے پیش نظر ان کو چاہیے تھا کہ جس کے طفیل 350 دن روٹی کھاتے ہیں اس کے لئے پندرہ دن قربانی کرنے سے دریغ نہ کریں.یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی ایک ہندو اور عیسائی سے بھی امید کی جاتی ہے.انگلستان اس وقت لڑائی میں شامل ہے وہاں کسی کی نہ تجارت باقی ہے نہ جائداد.سب پر حکومت کا قبضہ ہو چکا ہے اور پھر ان لوگوں کی قربانیوں کے واقعات چھپتے ہیں تو پڑھ کر حیرت ہو جاتی ہے.ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی نیوی سے ریٹائر ہو چکا تھا حکومت کی طرف سے سے جب اعلان کیا گیا کہ ڈنکرک سے فوجوں کو نکالنے کے لئے ہر قسم کے جہازوں اور ملاحوں کی ضرورت ہے تو چھ گھنٹہ کے اندر اندر ہزاروں لوگ اپنی اپنی کشتیاں لے کر حاضر ہو گئے کہ ہمیں بھیج دیا جائے اور ان میں سے ایک کشتی کا مالک وہ بڑھا تھا.ان سب کو بھیج دیا گیا اور وہ دن رات کام کرتے رہے.یہ بوڑھا بھی بار بار سپاہیوں کو اپنی کشتی میں بٹھا کر لایا اور دن رات ایسی سخت محنت کی کہ اس کے پاؤں پر فالج گرا مگر پھر بھی اس نے اپنا کمپاس نہ چھوڑا اور اس فالج کی حالت میں بھی آخری پھیر الا یا.یہ وہ لوگ ہیں جو محض دنیا کے لئے کام کرتے ہیں روحانیت سے ان کو واسطہ نہیں مگر ہم میں سے بعض احمدیت کے لئے معمولی سی قربانی میں بھی تامل کرتے ہیں حالانکہ احمدیت کے طفیل دنیوی لحاظ سے بھی ان کو کافی فائدہ پہنچا ہوا ہے.ہم میں سے کون ہے جسے احمدیت سے روحانی، جسمانی اور مالی فوائد حاصل نہ ہوئے ہوں.ہمیں خود فائدہ پہنچا ہے، ہم زمیندار ہیں مگر ہماری زمینوں کی قیمت پہلے اتنی نہ تھی جتنی اب ہے.ہم کہتے تو ہیں کہ ہم سلسلہ کے اموال میں سے کچھ نہیں لیتے مگر اس طرح دیکھا جائے تو بہر حال ہمیں سلسلہ کے طفیل فائدہ پہنچا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ نواب محمد علی خان صاحب سے فرمایا کہ یہاں کے چوہڑوں کی طرف سے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے.والد صاحب کے زمانہ میں ان کو صرف آٹھ آنہ ماہوار اور روٹی ملتی تھی اور وہ سارا سارا دن کام کرتے تھے مگر
* 1940 183 خطبات محمود دو روپے اور روٹی ملتی ہے مگر وہ کام نہیں کرتے.لیکن احمدیت کی وجہ سے آج یہ حالت پہنچ گئی ہے کہ اب بارہ چودہ روپیہ اور روٹی دینی پڑتی ہے.یہ کتنا بڑا فرق ہے.یہی حال دھوبیوں کا ہے.ان کو سوائے اس کے کہ فصل کے موقع پر مالکوں کی طرف سے غلہ وغیرہ دے دیا جاتا تھا یا سوائے اس کے کہ کسی کی کوئی خدمت وغیرہ کر کے کچھ حاصل کر لیں کوئی آمد نہ تھی مگر اب وہ یہاں 25، 30 بلکہ چالیس چالیس روپیہ ماہوار کماتے ہیں.یہی حال تر کھانوں اور لوہاروں وغیرہ کا ہے.پہلے یہاں ان کی مزدوری چھ سات آنہ روزانہ تھی مگر اب ڈیڑھ دو روپیہ ہے.تو خواہ قادیان کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے تاجر ہوں یا مز دور یا کوئی اور کام کرنے والے، سب پر احمدیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ہیں.پھر جو لوگ پنشن لے کر یہاں آ جاتے ہیں ان کو بھی دنیوی لحاظ سے اور دینی لحاظ سے بھی کافی فائدے پہنچتے ہیں.یہاں تعلیم کا جیسا انتظام ہے باہر ویسا ان کے لئے نہیں ہو سکتا.پھر یہاں ان کے بیوی بچے بے فکری سے رہتے ہیں کئی لوگ بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ کر خود باہر چلے جاتے ہیں بلکہ ہندوستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کے بعد ان کے بیوی بچے بڑے آرام اور چین سے زندگی بسر کرتے ہیں.میں مانتا ہوں کہ سو میں سے کسی ایک کو کوئی تکلیف بھی پہنچتی ہو گی مگر عام طور پر بہت آرام پہنچتا ہے.لاہور میں ایک سکھ پروفیسر نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ جب ملک میں عام خطرہ ہو تو احمدیوں میں جائے پناہ مل سکتی ہے.پس ان فضلوں کے باوجو د جو احمدیت کی وجہ سے دینی دنیوی، روحانی اور علمی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے ہیں، کئی ہیں جو ان فضلوں کے مقابلہ میں احمدیت کے لئے بہت ہی کم جد و جہد کرتے ہیں اور ان کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے فتنے پیدا کرتا رہتا ہے.جب کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو ایسے کمزور لوگوں میں بھی جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان مخالفوں کا خوب مقابلہ کرنا چاہیئے.خوب تقریریں ہوں اور رسالے لکھے جائیں حالانکہ اگر وہ پہلے ہی تقریروں اور رسالوں کا انتظام کرتے تو وہ فتنہ پید اہی نہ ہوتا اور اب بھی اگر وہ اپنی اصلاح کر لیں اور اپنے اندر بیداری پیدا کر لیں تو اللہ تعالیٰ فتنوں کے سلسلہ کو روک سکتا ہے.یہ فتنے تو محض جگانے کے لئے ہوتے ہیں جب کوئی شخص نیند سے بیدار نہ ہو تو ہم اسے بلاتے ہیں، پھر بھی ہوش میں نہ آئے تو پانی کا
خطبات محمود 184 1940 چھینٹا دیتے ہیں اور پھر بھی نہ جاگے تو چار پائی الٹا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح کرتا ہے.پس جماعت کو چاہیئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرے.تبلیغ میں لگ جائے ، نمازوں کی پابند ہو اور ہر لحاظ سے اپنی اصلاح کرے.پھر یہ لوگ آپ ہی آپ خاموش ہو جائیں گے.ان کی نہ تو علم کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو کوئی تائید یا نصرت حاصل ہے.وہ جانتے بھی نہیں کہ تقویٰ کیا ہے ان کو صرف بڑائی کا خیال ہے.جماعت کو چاہیے کہ ان کی باتوں کی طرف کوئی دھیان ہی نہ دے.وہ آپ ہی آپ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے.اپنی اصلاح میں لگ جائے، دین سیکھنے اور سکھانے کی طرف متوجہ ہو ، زبان کو پاک رکھا جائے ، گالی گلوچ نہ کی جائے، نمازوں کی پابندی کی جائے کیونکہ ان باتوں کے بغیر خدا تعالیٰ کا فضل حاصل نہیں ہو سکتا.اگر جماعت اپنی اصلاح کرے اور تبلیغ میں لگ جائے تو ان لوگوں کے فتنے خود بخود مٹ جائیں گے کیونکہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا.“ (الفضل 16 جون 1940ء) 1 صحیح مسلم کتاب الايمان باب الحث على المبادرة بالاعمال....2 الله ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 77
$ 1940 185 (14) خطبات محمود جمعہ کی نماز میں اور جمعرات کو روزہ رکھنے کے بعد دعا کی جائے کہ خدا دنیا کو ہلاکت اور تباہی سے بچا کر صراطِ مستقیم دکھائے فرمودہ 14 جون 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں پیچش کی شکایت کی وجہ سے آتو نہیں سکتا تھا لیکن حالات اس قسم کے ہیں کہ ان کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ مرض بعد میں زیادہ ہی کیوں نہ ہو جائے خطبہ مجھے خود پڑھانا چاہیے.وہ احباب جو اخبارات پڑھا کرتے ہیں انہیں معلوم ہو گا کہ جنگ کے حالات زیادہ سے زیادہ خطر ناک ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ قریب ہے ہندوستان بھی اس کی لپیٹ میں آجائے.1938ء کی مجلس شوری کے موقع پر میں نے ذکر کیا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جو سمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے اس کے ایک طرف اٹلی کی مملکت ہے اور دوسری طرف انگریزوں کی.اٹلی کی مملکت شمال مغربی طرف معلوم ہوتی ہے
1940 186 خطبات محمود اور انگریزی علاقہ مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف ہٹ کر.یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشتی اُس جانب سے آرہی ہے جس طرف اٹلی کی حکومت ہے اور اُس طرف جا رہی ہے جس طرف انگریزوں کی حکومت ہے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکدم شور اٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ گویا ایک گولے اور دوسرے گولے کے چلنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں شور ہو رہا ہے.میں نے دیکھا کہ گولے متواتر پڑ رہے تھے اور اتنی کثرت سے پڑ رہے تھے کہ یوں معلوم ہو تا تھا ان گولوں سے جو بھرا ہوا ہے.یہ ایک لمباردیا ہے جو شائع شدہ ہے.1 اس سے اور بعض اور خوابوں سے جو میں نے دیکھی ہوئی ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا پر ایک خطرناک مصیبت کا وقت آگیا ہے مگر ان خوابوں کا عام ذکر میں مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ البہی علم قبل از وقت ہوتا ہے اور لوگ ان باتوں کو سن کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے متعلق تخویف سے کام لیا جا رہا ہے اور بلا وجہ ڈرایا اور خوفزدہ کیا جارہا ہے.اسی لئے جس رویا یا الہام کے متعلق اللہ تعالیٰ خود نہ فرمائے کہ اسے ضرور شائع کر و غیر مامور کے لئے ضروری نہیں ہو تا کہ وہ اس رو یا یا الہام کو بیان کرے.مامور کا الہام تو ایسا ہو تا ہے کہ اگر اسے حکم دیا جائے کہ اسے شائع نہ کر دیا اجازت دی جائے کہ اگر چاہو تو شائع کر دو اور اگر چاہو تو نہ شائع کرو تو ان دوصورتوں میں وہ اسے شائع نہ کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی اشاعت کی ممانعت نہ ہو یا الہام کے ساتھ یہ اجازت نہ ہو کہ اگر چاہو تو اسے شائع کر دو اور اگر چاہو تو نہ شائع کرو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس الہام کو شائع کرے لیکن غیر مامور کو کسی الہام اور رؤیا کے متعلق اگر خدا یہ حکم دے کہ اسے شائع کر دیا جائے تب تو وہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اسے شائع کرے ورنہ وہ اس کی اشاعت یا عدم اشاعت کے متعلق کلی اختیار رکھتا ہے.اس کے ساتھ ہی غیر مامور کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ جب وہ کسی رؤیا یا الہام کو شائع کرے تو یہ بھی دیکھ لے کہ وہ کسی مامور کے الہام یا حکم کے خلاف تو نہیں کیونکہ مامورین کی وحی کے خلاف غیر مامور کا کوئی رؤیا یا الہام درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا.بہر حال اگر غیر مامور کو کسی خواب یا الہام کے متعلق یہ حکم نہ دیا جائے کہ اسے ضرور شائع کر دو تو اسے
خطبات محمود 187 * 1940 اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے شائع کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے.موجودہ جنگ کے متعلق گزشتہ نو ماہ میں اللہ تعالیٰ نے متواتر اور کثرت کے ساتھ مجھ رغیب کی خبروں کا اظہار کیا ہے مگر میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کی عام اشاعت کروں.گو قریباً قریباً تمام رویا اور کشوف میں بعض دوستوں کو بتا چکا ہوں مگر ان کا عام اظہار میں اس لئے مناسب نہیں سمجھتا کہ اس سے ملک میں بے چینی پیدا ہو گی اور لوگ اسے تخویف اور انذار سمجھ کر یہ خیال کرلیں گے کہ انہیں خواہ مخواہ مرعوب اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اس کے ساتھ ہی ان کی عام اشاعت سے ممکن ہے حکومت کو بھی شکوہ پیدا ہو اس لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کو کھلے طور پر بیان کروں.جن دوستوں کو میں نے وہ رؤیا و کشوف بتائے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت جبکہ اتحادی ابھی بالکل امن میں تھے اور جبکہ انہیں اپنی طاقتوں پر کامل اطمینان اور بھروسہ تھا مجھے بڑی بڑی تباہیوں ، بڑی بڑی ہلاکتوں اور بڑے بڑے تغیرات کی خبر دی گئی تھی اور ان رؤیا و کشوف اور الہامات کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مصائب کا دروازہ اور زیادہ وسیع ہو گا لیکن جس حد تک مصائب میں وسعت ظاہر ہو چکی ہے وہ بھی ایسی ہے کہ ہر عقل و سمجھ رکھنے والے اور خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف اپنے دل میں محسوس کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور دعاؤں میں مشغول ہو جائے.ہمارے قیاسات اور ہماری عقلیں بہت ہی محدود رنگ رکھتی ہیں.ایک خیال کرلیتا ہے کہ اس وقت جرمنی کا ترقی کرنا بہتر ہے، دوسرا قیاس کر لیتا ہے کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی ترقی دنیا کے لئے مفید ہے.کوئی کسی کی فتح کو مفید سمجھتا ہے اور کوئی کسی کی شکست کو دنیا کے لئے ضروری سمجھتا ہے ؟ مگر سوال یہ ہے کہ خواہ کسی کا جتنا بہتر تصور کیا جائے انگریزوں اور فرانسیسیوں کا یا جرمنی اور اطالیہ کا.دنیا کی تباہی اور بربادی میں تو کوئی شبہ نہیں.وہ بہتری جس کی لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں وہ تو شاید سینکڑوں سال میں ظاہر ہو مگر آج کی جنگ میں جس طرح لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، جس طرح تباہی اور بربادی چاروں طرف محیط ہو رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہی تو دنیا میں سو میں سے شاید دس پندرہ آدمی ہی زندہ رہیں گے
$ 1940 188 خطبات محمود باقی سب فنا ہو جائیں گے.احادیث سے بھی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی اس قسم کی پیشگوئیاں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا یہ آخری فتنہ نہایت ہی ہیبت ناک ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اس قدر تباہی ہو گی کہ ایک ایک مرد کے مقابلہ میں چار چار عورتیں رہ جائیں گی اور دس دس آدمیوں میں سے سات سات مر جائیں گے اور دنیا میں اتنی لاشیں کھلی پڑی ہوں گی کہ ان کے تعفن کی وجہ سے وبائیں پھوٹ پڑیں گی کیونکہ مردوں کو اٹھانے اور ان کو دفن کرنے والے کوئی نہیں رہیں گے.2 رسول کریم صلی اللہ ہم نے یہ باتیں جو بیان فرمائی ہیں ان کے پورا ہونے کے آثار اب ظاہر ہو رہے ہیں اور سخت قابلِ رحم حالت ہے ان ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی جو روزانہ میدانِ جنگ میں زخمی ہوتے اور تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں.پھر تعجب یہ کہ اس لڑائی کی وجہ کوئی اعلیٰ درجہ کے روحانی اصول نہیں جن کی خاطر اس قسم کی لڑائی کو جائز قرار دیا جا سکے.وہ اس لئے نہیں لڑ رہے کہ خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کریں، وہ اس لئے نہیں لڑ رہے کہ شرک اور کفر کو مٹادیں اور ایمان لوگوں کے دلوں میں قائم کر دیں، وہ اس لئے نہیں لڑرہے کہ دنیا کی روحانی یا اخلاقی ترقی میں جو روکیں حائل ہیں ان کو دور کر دیا جائے بلکہ محض دنیا کے لئے، کچھ تجارتی میدانوں کے لئے ، کچھ زمینوں اور کچھ ملکوں کے لئے یہ تمام لڑائی ہو رہی ہے.اور اس آگ کے ارد گرد ایک بگولہ چکر لگا رہا ہے جو چاروں طرف کے لوگوں کو اپنے ساتھ لپیٹ کر اس آگ میں گرا رہا ہے اور حالات اس قسم کے ہیں کہ اس بگولے سے بچنا عقلی طور پر بالکل ناممکن ہے.دونوں طرف سے ایسے رنگ میں باتیں پیش کی جاتی ہیں کہ ہر انسان اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جس خیال کی تائید میں پائے اس کی حمایت کے لئے کھڑا ہو جائے.ایسے حالات میں یہ لڑائی جتنی بڑھے گی اتنی ہی زیادہ دنیا میں تباہی اور بربادی پھیلے گی.پس اس تباہی و بربادی سے بچنے اور بنی نوع انسان پر رحم کرنے کے لئے ایک مومن کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گرے اور اسی کے سامنے اپنے دکھ کی فریاد کرے.
خطبات محمود 189 $1940 ہماری جماعت کے لوگوں میں یہ وہم ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں ہماری جماعت ہمیشہ پھولوں کی سیج پر ترقی کرتی چلی جائے گی.جو لوگ منافق طبع ہیں وہ تو کچھ بھی خیال نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں ان کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ روٹی کمائی کھائی اور زندگی کے دن پورے کر لئے مگر جو لوگ مخلص ہیں وہ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ ہماری جماعت مشکلات میں سے گزرے بغیر اس ترقی کو حاصل کر لے گی جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے حاصل کی.میں اس ناواقفیت اور تجاہل کے متعلق کیا کہوں؟ مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اس غلط فہمی میں کیوں مبتلا ہیں؟ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے صاف ظاہر ہے کہ جماعت احمد یہ بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے گزرے گی.وہ ابتلاء سیاسی بھی ہوں گے ، وہ ابتلاء اقتصادی بھی ہوں گے ، وہ ابتلاء مالی بھی ہوں گے ، وہ ابتلاء علمی بھی ہوں گے ، وہ ابتلاء قومی بھی ہوں گے.غرض ہر قسم کے ابتلاؤں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں ہے.حکومتوں کی طرف سے تشدد اور جھگڑوں کا بھی ان الہامات میں ذکر ہے، اقوام کی طرف سے تشدد اور سختیوں کا بھی ان میں ذکر ہے.بعض سیاسی ابتلاؤں کا بھی الہامات میں ذکر ہے، بعض ہجرتوں کا بھی ذکر ہے، اسی طرح قتلوں اور طرح طرح کے دکھوں سے جماعت احمدیہ کے ستائے جانے کا بھی ذکر ہے.لیکن باوجود اس کے کہ میں نے بار بار کہا ہماری جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو پڑھنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور جو پڑھتے ہیں ان میں یہ مرض ہے کہ وہ سارے الہامات گزرے ہوئے واقعات پر چسپاں کر دیتے ہیں اور یہ ایک نہایت ہی خطر ناک نقص ہے.میں نے ایک دفعہ ایک دوست کو ایک زلزلہ کے متعلق مضمون لکھنے کے لئے کہا تو انہوں نے زلزلوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام الہامات اس ایک زلزلہ پر ہی چسپاں کر دیئے.میں نے انہیں کہا کہ اس کے تو یہ معنے ہوئے کہ آئندہ کسی زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی الہام نہیں رہا.غرض بہت سے الہامات آئندہ رونما ہونے والے واقعات کے متعلق ہوتے ہیں مگر ہم غلطی سے ان الہامات کو کسی گزرے ہوئے واقعہ پر چسپاں کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں.
خطبات محمود 190 $1940 دراصل انسان کی یہ عادت ہے کہ خوشی چاہے چھوٹی ہی ہو وہ اسے وسیع طور پر منانے کی کوشش کرتا ہے.اس عادت کے مطابق ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی جب کسی الہام کے پورا ہونے سے خوشی ہوتی ہے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ سارے الہامات گھسیٹ کر اسی ایک واقعہ پر چسپاں کر دیں.حالانکہ بسا اوقات وہ الہامات اتنے عظیم الشان ہوتے ہیں کہ جن واقعات پر ہماری جماعت کے دوست ان کو چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی الہامات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی.پس بڑے بڑے ابتلاء آنے والے ہیں کیونکہ ہماری جماعت کے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا کام کیا گیا ہے.ان حالات میں ہماری جماعت کے دوستوں کو محض اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہیئے کہ ہمارے لئے پھولوں کی سیج بچھی ہوئی ہے اور ہم اسی پر چلتے جائیں گے تکالیف ہمارے سامنے کبھی نہیں آئیں گی کیونکہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے.مومن ہمیشہ مشکلات کو دیکھا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سینکڑوں الہامات اس بارے میں موجود ہیں.میں نے بھی بیسیوں رویا و کشوف دیکھے ہیں جن میں جماعت پر کئی قسم کے ابتلاؤں کے آنے کا ذکر ہے.اسی طرح جماعت کے اور بہت سے دوستوں نے خوابیں دیکھی ہوئی ہیں اور یہ ساری باتیں بے معنی نہیں بلکہ اپنے وقت پر پوری ہونے والی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے لئے ترقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جیسے پہلی جماعتوں پر ابتلاء آئے اسی طرح ہماری جماعت پر بھی آئیں گے اور اسے بھی ان ابتلاؤں کی آگ میں سے گزرنا پڑے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا اَنْ تَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - 3 کہ کیا کوئی مذہبی جماعت ہے جو یہ خیال کرتی ہو کہ وہ ہمیشہ امن میں رہے گی وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ اور اللہ تعالیٰ اسے فتنوں اور عذابوں میں نہیں ڈالے گا؟ فرماتا ہے یہ بات غلط ہے نہ پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ آئندہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے.پھر یہ صرف قرآن نے ایک قاعدہ کلیہ کے رنگ میں ہی بات بیان نہیں کی بلکہ حضرت موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا ہے.4
خطبات محمود 191 $1940 بہر حال قرآن کریم نے ایک قاعدہ کے رنگ میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ انبیاء کی جماعتوں پر ہمیشہ ابتلاء آیا کرتے ہیں.وہ فرماتا ہے آحَسِبَ النَّاسُ یہ نہیں فرمایا آتَحْسَبُونَ تاکہ اسے صحابہ کے لئے مخصوص نہ سمجھ لیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کے متعلق بھی یہ قرآنی آیت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے رکھے ہیں جو قاعدے پر دلالت کرتے ہیں.چنانچہ فرمایا حَسِبَ النَّاسُ کیا انسان یہ گمان کرتا ہے ؟ آتَحْسَبُونَ نہیں فرمایا.اسی طرح أَفَحَسِبْتُم نہیں فرمایا بلکہ آحَسِبَ النَّاسُ فرمایا یعنی کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صرف ایمان کا دعویٰ کر دینا ان کے لئے کافی ہے اور وہ کبھی ابتلاؤں میں سے نہیں گزریں گے ؟ غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جتنے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ سب اس کے قاعدہ کلیہ ہونے کے شاہد ہیں.پس یہ ایک اصول ہے جو ہر نبی کی جماعت پر چسپاں ہو تا ہے اور یہ ایک قاعدہ ہے جس کا ہر زمانہ میں پورا ہونا ضروری ہے.لیکن اگر یہ قاعدہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں ابتلاؤں میں سے ضرور گزرتی ہیں تو یہ بھی قاعدہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ یا تو آنیوالے ابتلاؤں کو ٹال دیتا ہے یا ان کی شدت کو کم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دکھ سے خوش نہیں ہو تا بلکہ ان ابتلاؤں کے ذریعہ وہ بندوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے.جس طرح ماں کا دل چاہتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس کا بچہ اس کی طرف آئے اور اگر وہ زیادہ دیر تک اس کے پاس نہ آئے تو کبھی وہ اس کو سرزنش بھی کرتی ہے جیسے بچہ اگر کھیل میں مشغول ہو اور ماں چاہتی ہو کہ وہ اس کے پاس آئے تو وہ بچے کو مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ میں تجھے مٹھائی نہیں دوں گی اور اس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کا بچہ کھیل کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جائے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کبھی کبھی اپنے بندوں کو انعامات سے محروم کر دیا کرتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف توجہ کریں کیونکہ اس کی محبت ماں کی محبت سے بہت زیادہ ہے.اگر بندے اپنے اوپر یہ امر لازم کر لیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے رہیں اور اس کے حضور عاجزی اور گریہ وزاری سے کام لیں تو اللہ تعالی آنے والے ابتلاؤں کو یا تو ٹال دیتا ہے یا ان کی شدت کو کم کر دیتا ہے اور یا انہیں کلیۂ مٹا دیتا ہے.گویا دعاؤں کے نتیجہ میں کبھی تو اللہ تعالیٰ ابتلاؤں کو پیچھے ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ انسان کے اندر قوتِ برداشت پیدا ہو جاتی
* 1940 192 خطبات محمود ہے کبھی ان کو بالکل مٹا دیتا ہے اور کبھی ان کے زور کو کم کر دیتا ہے.یا تو اس رنگ میں کہ عذاب کی شدت کم ہو جاتی ہے یا اس رنگ میں کہ اس کو برداشت کرنے کی ہمت انسان کے اندر بڑھ جاتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا تا ہوں کہ اس نازک وقت میں وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خاص طور پر دعاؤں میں مشغول ہو جائیں.اس کے لئے میں جماعت کے تمام مخلص دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جولائی کے آخر تک ہر نماز جمعہ کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد امام کے ساتھ مل کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان فتنہ کی بربادیوں سے اپنے غریب بندوں کو بچائے.خصوصاً جماعت احمدیہ کو محفوظ رکھے اور اس فتنہ کا نتیجہ سچ اور راستی کے لئے اچھا ہو اور جھوٹ اور مکر کے لئے بُرا ہو.اسی طرح میں اپنے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ جولائی کے آخر تک ہر جمعرات کو روزہ رکھیں اور روزہ کے خاتمہ پر جن کو توفیق ہو وہ اپنے اپنے مقام پر جمع ہو کر اسی رنگ میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حق اور راستی کو فتح دے اور دنیا سے ظلم، فریب اور دغا کو مٹا کر اپنے کمزور بندوں کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھے اور بجائے اس کے کہ عذاب میں مبتلا ہو کر وہ تباہ ہو جائیں خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور انہیں ہدایت کی طرف متوجہ کرے کیونکہ آخر جو تباہ ہو رہے ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں، جو مظلوم ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور جو ظالم ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور رسول کریم صلی علیکم کا ارشاد ہے کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم.جب رسول کریم صلی علی کریم نے یہ بات بیان کی تو احادیث میں لکھا ہے بعض صحابہ نے کہا یار سول اللہ ! مظلوم کی مدد تو ہماری سمجھ میں آسکتی ہے مگر ظالم کی مدد کرنے کا ارشاد سمجھ نہیں آیا.آپ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد یہ ہے کہ تو اسے ظلم سے روک دے.5 پس اگر ہم یہ دعا کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ سچائی کو فتح دے، ظلم کو دنیا سے مٹادے اور لوگوں کو بجائے عذاب سے تباہ کرنے کے ظالموں کی ہدایت کے سامان کرے اور مظلوموں کو ظلم سے محفوظ رکھے تو ہم ظالم کی بھی مدد کرتے ہیں اور مظلوم کی بھی.اور ہم اپنے رب سے وہ چیز طلب کرتے ہیں جس کا نتیجہ خیر ہی خیر ہے اور جس میں شر“ کا کوئی پہلو الله
خطبات محمود 193 $ 1940 پس دعائیں کرو اور کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو طاقت دے، اس کی کمر کو قوت بخشے ، اس کے دماغ کو مضبوط بنائے اور اس کے اعضاء میں ایسی طاقت بھر دے کہ وہ ظالم کے ہاتھ کو بہادری سے روک سکے.ساتھ ہی تم ظالم کے لئے بھی دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ اسے ہدایت دے اور اسے ظلم، دھوکا، فریب اور دغا سے بچائے.پس ہر ایک کے لئے دعا کرو تاخد اتعالیٰ کا فضل دنیا کی ہر قوم پر نازل ہو کیونکہ ایمان کسی ایک قوم کا حصہ نہیں بلکہ انگریز اور فرانسیسی اور جرمنی اور اطالوی اور روسی اور جاپانی سب اس کے حصہ دار ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی قوم بھی اس سے محروم رہے مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی قوم ظالم بن کر دنیا کو تباہ کر دے.“ (الفضل 18 جون 1940ء) 1 الفضل 26 جولائی 1938ء 2 صحیح بخارى كتاب النكاح باب يقل الرجال ويكثر النساء 3 العنكبوت :3 4 تذکرہ صفحہ 240 طبع چہارم 5 بخاری کتاب الاكراه باب يمين الرجل لصاحبه انه اخوه (الخ)
$ 1940 194 15 خطبات محمود اب دعاؤں کے سوا کوئی چارہ نہیں ایک بہت بڑا نشان جو حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا فرمودہ 21 جون 1940ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت کو روزے رکھنے اور دعائیں کرنے کی تحریک کی تھی.خصوصاً جمعہ کی نماز میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد اور اس طرح روزوں کے اختتام پر بھی.کل دوستوں نے روزہ رکھا مگر ایک حادثہ کی وجہ سے دعا کے لئے جمع نہ ہو سکے اور میں تو بیماری کی وجہ سے روزہ بھی نہ رکھ سکا بہر حال آئندہ روزوں میں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ مساجد میں جمع ہو کر روزہ کھولیں اور وہیں اکٹھے ہو کر دعائیں کریں.اسی طرح جمعہ کی نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد بھی دعائیں کرنی چاہئیں.روزہ میں دعا کی قبولیت زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے.1 اسی طرح رسول کریم صلی اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ جمعہ میں ایک ساعت ایسی آتی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی دعائیں سنتا ہے.2 پس ان وقتوں میں خصوصیت سے دعائیں کی جائیں.اس دوران میں جنگ کی حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے.حکومت فرانس نے ہتھیار رکھ دیئے ہیں اور گو ابھی کوئی ایسی خبر نہیں آئی مگر جس رنگ میں کارروائی ہو رہی ہے شبہ ہے کہ جرمنی کوشش کرے گا کہ فرانس کا
* 1940 195 خطبات محمود بحری بیڑہ اسے مل جائے اور اگر ایسا ہو جائے جیسا کہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لئے کوشش کی جائے گی تو اطالوی اور فرانسیسی بیٹا مل کر برطانوی بیڑے سے زیادہ طاقتور ہو جائے گا اور برطانیہ کے لئے اپنے جزائر کی حفاظت مشکل ہو جائے گی.اس وقت تک تو برطانوی بیڑے کی طاقت اطالوی بیڑے سے بہت زیادہ ہے حتی کہ وزیر اعظم برطانیہ نے اطالوی بیڑے کو چیلنج دیا ہے کہ آکر مقابلہ کرے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ہم اسے رستہ دے دیتے ہیں وہ حملہ کر کے دیکھ لے.لیکن اگر اس کے ساتھ فرانسیسی بیڑا بھی مل جائے تو اس کی طاقت بہت بڑھ جائے گی.میر اشروع سے یہی خیال ہے کہ جرمنی کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ فرانسیسی بیڑالے اور اب یہ شبہ اور بھی قوی ہوتا جا رہا ہے.جرمنی نے فرانس کے نمائندوں کو صلح کی شرائط بتادی ہیں مگر کہا یہ ہے کہ انہیں ابھی شائع نہ کیا جائے.اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں شرائط کی اشاعت سے اسے اسی نقصان کا خطرہ ہے کہ ایسا نہ ہو فرانسیسی بحری بیڑے یا ہوائی بیڑے کے افسر اپنے ملک سے وفاداری کے لحاظ سے جہازوں کو تباہ کر دیں یا بر طانوی بیڑ اسے جا ملیں.فرانس کے بہت سے فوجی افسر ابھی مقابلہ کی طرف متوجہ ہیں اور غیر ممالک میں فرانسیسیوں کی نو آبادیوں کے رہنے والے بھی جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور انہوں نے فرانسیسی گورنمنٹ کو تاریں دی ہیں کہ ہم اپنی ساری جائدادیں بیچ کر دے دینے کو تیار ہیں جنگ کو بند نہ کیا جائے اور ان حالات میں اگر یہ خبریں قبل از وقت نکل جائیں تو اس بات کا امکان ہے کہ فرانسیسی بحری افسر یا تو اپنے بیڑے کو تباہ کر دیں گے یا پھر انگریزوں سے جاملیں گے.جرمنی کی اس کوشش کی کہ شرائط صلح کو مخفی رکھا جائے یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ فرانسیسی افسر جو صلح کے خلاف ہیں وہ اور انگریز کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں.وہ خود فرانسیسی بحری اور ہوائی بیڑا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر یہ خبر شائع ہو جائے تو ایک طرف تو انگریز فرانسیسی افسروں کو اکسائیں گے کہ اس طرح تمہارا ملک ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جائے گا اور دوسری طرف کئی باغیرت فرانسیسی افسر یہ کوشش کریں گے کہ اپنے جہاز لے کر برطانوی بیڑے سے جاملیں یا پھر اپنے جہازوں کو تباہ کر دیں.پس حالات ایسے ہیں کہ جرمنی کوشش کر رہا ہے کہ فرانس سے برطانیہ کے خلاف مدد حاصل کرے اور بظاہر اسے دو ہی فائدوں کی توقع
1940 196 خطبات محمود ہو سکتی ہے.ایک یہ کہ اس کے بحری اور ہوائی بیڑا سے فائدہ اٹھائے اور یا پھر یہ کہ برطانوی نو آبادیوں کے ساتھ جو فرانسیسی نو آبادیاں ہیں ان پر قبضہ کرلے.مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شام میں جرمن فوجیں چوری چوری پہنچا دی جائیں اور پھر فرانسیسی ان لوگوں کو جرمنوں کے حوالہ کر کے خود اس ملک پر قبضہ چھوڑ دیں لیکن کوئی بھی صورت ہو انگریزوں کے لئے بہت خطر ناک ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ ان حالات میں اور بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اب حالات ایسی صورت اختیار کر گئے ہیں کہ یہ اب اللہ تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں ہے کہ اس طوفان کو بند کرے کسی انسان کی طاقت میں اب یہ امر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سیل سے حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے 3 عین ممکن ہے کہ یہ اسی جنگ کی طرف اشارہ ہو.اس وقت یہ حالت ہے کہ سب حیلے جاتے رہے ہیں اور اب ایک تو اب بادشاہ ہی کی بارگاہ ہے جو اس مصیبت سے نجات دلا ہے.جن لوگوں پر اصل مصیبت ہے وہ تو ابھی غافل ہیں اور ابھی عیسائیت ہی کے نعرے بلند کر رہے ہیں.توحید کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں مگر چونکہ ان کی بلائیں ہم پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں بھی ان سے حصہ پہنچتا ہے اس لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور اگر ہم حضرتِ تو اب کی بارگاہ میں جھکیں تو ممکن ہے ہماری دعا سے ہی اللہ تعالیٰ ان بلاؤں کو ٹال دے.اب دعاؤں کے سوا کوئی چارہ نہیں.ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل ہو اور جو فکر صحیح کا مادہ رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کے موجودہ دور میں ایسا نازک اور اس قدر تکلیف دہ وقت کبھی نہیں آیا.اس سے سو سال پہلے بھی نہیں آیا اور سو سال بعد بھی آنے کی امید نہیں.دنیا تباہی کے سرے پر کھڑی ہے اور غلامی دنیا کو اپنا شکار بنانے کے لئے جھانک رہی ہے.آزادی کے خواب جو انسان دیکھ رہا تھا وہ بالکل باطل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور آثار ایسے ہیں کہ پہلے سے زیادہ سخت قسم کی غلامی دنیا کو اپنا شکار بنانے والی ہے.پہلی غلامی تو صرف جسمانی غلامی تھی مگر اب جو حالات ہیں ان سے معلوم ہو تا ہے کہ جسمانی کے ساتھ روحانی غلامی
$1940 197 خطبات محمود بھی ہو گی اور اغلباً مذ ہبی امور میں بھی دست اندازی کی جائے گی اور ایسے خطرات کے وقت میں مومن کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور جھک جائے اور کہے کہ اے خدا دنیا پر شدید مصائب کا وقت آگیا ہے.میرے پاس کوئی سامان نہیں اور دشمن نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے.ہمیں آئندہ کی باتوں کا کوئی علم نہیں تو ہی غیب کا جاننے والا ہے.ظاہر حالات میں تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ دن بہت بُرے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو ہم بے بسوں اور بے کسوں کی طرف سے تو ہی کافی ہو جا اور ان بلاؤں کو دور کر دے.لیکن اگر تیرے علم میں یہ حالات اچھے ہیں اور ان خرابیوں کا نتیجہ اچھا نکلنے والا ہے تو تو ہمیں ڈبدا اور شک میں نہ رکھ اور اپنے الہام اور وحی سے ہمیں بتا دے تاہماری گھبر اہٹ دور ہو.پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو.گھبراہٹ میں کئی لوگ دفاعی انجمنیں بنارہے ہیں.مجھے معلوم ہے کہ اس علاقہ کے بعض لوگوں نے بھی کوئی ایسی انجمن بنائی ہے اور بعض نے شکایت کی ہے کہ دیکھو احمدی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوتے.اصل بات یہ ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ خود ایسی انجمنیں بنائے گی اور ہم اس کے منتظر ہیں.پس یہ درست نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ احمدی ہمارا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ وہ اس بات پر مغرور ہیں کہ ان کی تعداد زیادہ ہے مگر یہ بات بالکل غلط ہے.کسی ایک قصبہ کی تعداد کی زیادتی کس طرح غرور کا موجب ہو سکتی ہے.ہمارے ارد گرد تمام سکھوں کے گاؤں ہیں.ایک سو نوے دیہات سکھوں کے ہیں جو امر تسر اور سیالکوٹ کے اضلاع تک پھیلے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ اتنے وسیع دیہات میں ایک بستی والے خواہ وہ وہاں زیادہ تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں اپنے آپ کو زیادہ نہیں سمجھ سکتے.پس اگر ہم کسی انجمن میں اب تک شامل نہیں ہوئے تو یہ کسی غرور کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سب باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور گور نمنٹ کو موقع دیا جائے کہ ایسی انجمنیں بنائے.حملہ کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ایک بیرونی حملہ اور دوسری ملکی بدامنی.اگر کوئی بیرونی دشمن حملہ آور ہو تو ظاہر ہے کہ ہندو، سکھ ، مسلمان احمدی، غیر احمدی سب ملک کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.بھلا تو پوں، مشین گنوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلہ میں ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے کیا بنتا ہے ؟ ایسی صورت میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل
$1940 198 خطبات محمود ہی بچا سکتا ہے ایسی کمیٹیاں نہیں بچا سکتیں لیکن اگر ملکی فسادات کا خیال ہو تو حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وہ اس کے متعلق انتظامات کر رہی ہے اور ہمیں اس کو موقع دینا چاہیئے کہ وہ اپنی نگرانی میں یہ کام کرے تا ملک میں فساد بڑھے نہیں لیکن اگر حکومت سستی کرے اور سوال بیرونی حملہ کا نہ ہو بلکہ اندرونی بدامنی، ڈاکے اور لوٹ مار کا ہو تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے باہمی جھگڑے اور اختلافات ایسے معاملات میں روک نہیں بن سکتے.اگر فسادات، ڈاکے اور طوائف الملوکی کا وقت آئے تو ہم ہندوؤں، سکھوں، احرار بلکہ مصری جیسے لوگوں کی بھی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی.اپنی حفاظت کے لئے جو انتظامات کریں گے ویسے ہی ان کے لئے بھی کریں گے.اس وقت ہمارے سامنے آریہ سکھ ، احراری یا مصری کا سوال نہیں ہو گا بلکہ انسانیت کا سوال ہو گا.ہم ان کی اور ان کے بیوی بچوں کی حفاظت بھی اسی طرح کریں گے جس طرح اپنوں کی.یہ تو آگے اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے کہ ہم ایسا کر بھی سکیں گے یا نہیں لیکن ہماری طرف سے کوشش یہی ہوگی کہ ہر ایک کی حفاظت کریں.گھبرانے کی کوئی بات نہیں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ کوشش کر رہی ہے اس لئے پہلے اسے موقع دینا چاہیئے.ہاں اگر وہ شستی کرے تو پھر خود مل کر انتظام کرنا چاہئیے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصل حفاظت اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.کوئی خواہ ہندو ہو یا سکھ یا غیر احمدی سب کو یہی سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسے مصائب میں اللہ تعالیٰ ہی مدد گار ہو سکتا ہے.اس لئے سب کو اسی کی طرف جھکنا چاہیے.ہر شخص کو انفرادی طور پر پہلے اس کے حضور جھکنا چاہیے اور پھر متفقہ طور پر اور قومی رنگ میں کوئی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اگر دل خدا تعالیٰ کی طرف نہ جھکیں تو ہاتھ کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن اگر دل خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائیں تو ہاتھ اگر کمزور بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو طاقت دے دے گا.یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسے مصائب جو عالمگیر عذاب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں انفرادی کوششوں سے دور نہیں ہوا کرتے.انفرادی تکلیفوں میں انفرادی کو ششوں سے لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس میں کافر اور مومن کا بھی سوال نہیں ہوتا.کوششوں سے کافر بھی جیت جاتے ہیں اور فاسق و فاجر بھی مگر جو مصائب خدا تعالیٰ کی طرف سے
* 1940 199 خطبات محمود عذاب کے طور پر آتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری اور جھکنے کے بغیر دور نہیں ہوا کرتے.پس اس وقت دنیا پر جو مشکل اور نازک وقت آیا ہوا ہے اس کے حل کا یہی طریق ہے کہ سب لوگ خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائیں اور بہت دعائیں کریں.اس موقع پر میں ایک اور نشان کا ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی ہفتہ ظاہر ہوا ہے اور جس کی طرف میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں اشارہ کیا تھا.وہ رؤیا میں نے مفضل طور پر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب اور عزیز مکرم میاں مظفر احمد صاحب کو بھی سنایا تھا اور چند روز ہوئے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ میں نے انہیں بھی سنایا تھا.یہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور منہ مشرق کی طرف ہے.میرے سامنے حکومت برطانیہ کی خفیہ خط و کتابت پیش کی جارہی ہے.یہ چٹھیاں انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کے نام ہیں.ایک چٹھی میرے سامنے آئی جس میں حکومت برطانیہ نے فرانسیسی حکومت کو لکھا ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں پڑ گیا ہے جرمنی اس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اسے مغلوب کرے.اس لئے ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ انگریزی حکومت اور فرانسیسی حکومت کا الحاق کر دیا جائے.یہ چٹھی پڑھ کر میں بہت گھبرایا اور قریب تھا کہ میری آنکھ کھل جاتی کہ یکدم آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے.یہ بات واضح ہے کہ ظاہری حالات میں ایسی درخواست وہی ملک کر سکتا ہے جو بہت کمزور ہو جائے.اس رؤیا کی بناء پر میں خیال کرتا تھا کہ جر منی فرانس کے شمالی حصہ کو لے کر انگلستان پر حملہ کر دے گا اور اس حملہ کی وجہ سے انگلستان جب سخت خطرہ میں گھر جائے گا تو وہ فرانس سے درخواست کرے گا کہ ہماری حکومت اور اپنی حکومت کو ملا دو.میں اس کی یہی تعبیر سمجھتا تھا کیونکہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جو ملک مغلوب ہونے لگتا ہے وہ دوسرے سے امداد کی درخواست کرتا ہے.آج تک جب سے دنیا شروع ہوئی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ایسے ملک سے جو شکست کھا چکا ہو اس سے طاقتور کسی ملک نے مدد کی درخواست کی ہو خطبہ کے بعد بعض اور دوستوں نے بھی اطلاع دی ہے جنہیں یہ رویا سنایا گیا تھا.
$1940 200 خطبات محمود مگر اللہ تعالیٰ نے میرے اس رویا کو ایسے عجیب رنگ میں پورا کیا ہے کہ آج تک جب سے آدم پیدا ہوا کبھی ایسا نہیں ہوا.جب فرانس گرنے لگا تو برطانیہ نے خیال کیا کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو کچھ نہ کچھ مزاحمت اس کی طرف سے ہوتی رہے گی اس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے، نو آبادیاں بھی جنگ کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھیں گی لیکن اگر وہ صلح کرے تو اس کے جہاز بھی جرمنی کو مل جائیں گے ، نو آبادیاں بھی مل جائیں گی اور اس صورت میں جرمنی کے حملہ کا سارا زور ہم پر پڑے گا اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر آج تک جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی کوئی نہیں ملتی یعنی اس نے فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق کر دیا جاۓ.حکومت ایک ہو، پارلیمنٹیں بھی ملا دی جائیں، خوراک کے ذخائر اور خزانہ بھی ایک ہی سمجھا جائے اور یہ وہ تحریک ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی.گو میں نے غلطی.اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ فرانس کی حکومت طاقتور رہے گی.پہلے حملہ برطانیہ پر ہو گا اور پھر برطانیہ فرانس سے مدد کی درخواست کرے گا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بالکل عجیب رنگ میں پورا کیا.پہلے فرانس پر حملہ ہوا اور وہ بالکل گر گیا.انگلستان نے سمجھا کہ گو وہ طاقتور ہے مگر اس کی طاقت اسی صورت میں اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے کہ فرانس سے اس کو تھوڑی بہت مدد ملتی رہے اور اس لئے اس نے فرانس سے یہ درخواست کی کہ دونوں حکومتوں کو ایک کر دیا جائے.یہی وہ بات تھی جس کا ذکر میں نے گزشتہ خطبہ میں مختصراً کیا تھا کہ برطانیہ خطرہ کی حالت میں دوسرے ملکوں سے امداد کی اپیل کرے گا.جہاں تک مجھے یاد ہے دھرم سالہ میں میں نے اس کا ذکر پہلے عزیز مکرم میاں مظفر احمد صاحب سے کیا.پھر باہر آیا تو اس جگہ جہاں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب دوائیاں دیتے تھے ان سے اس کا ذکر کیا.پھر جہاں تک یاد پڑتا ہے چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کو بھی یہ رویا سنائی پھر اس سفر کراچی میں بعض دوستوں کو یہ رؤیا سنائی.دو دن ہوئے خان صاحب فرزند علی صاحب نے بتایا کہ ان کو بھی یہ خواب میں نے سنائی تھی اور بھی بعض لوگوں کو سنائی تھی.اور یہ بہت بڑا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں چنانچہ خطبہ کے بعد بعض دوستوں کی طرف سے اس کی اطلاع مجھے ملی ہے.
خطبات محمود 201 * 1940 دکھایا ہے اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ اس رنگ میں پورا ہوا ہے کہ جس کی نظیر جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی کوئی نہیں ملتی ہیں تو ایمان اور بھی بڑھ جاتا ہے.پھر یہ رؤیا اس وقت کا ہے جب ابھی لڑائی شروع بھی نہ ہوئی تھی اور اتحادی اپنی طاقت کے بہت دعوے کرتے تھے.یہ رویا دھرم سالہ میں جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں میں نے دیکھا تھا اور جنگ ستمبر میں شروع ہوئی.اس وقت یہ خیال بھی نہ ہو سکتا تھا کہ برطانیہ اتنا کمزور ہو سکتا ہے اور جب فرانس شکست کھانے لگا تو میں نے خیال کیا کہ اس خواب کی تعبیر کوئی اور ہو گی کیونکہ کسی گرے ہوئے ملک کو کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ مگر برطانیہ نے جب دیکھا کہ فرانس جتنا مقابلہ کر سکتا تھا کر چکا اور اب اگر اس نے صلح کرلی تو ہمارے لئے بہت خطرناک ثابت ہو گا تو اس نے اسے تحریک کی کہ آؤ دونوں ملکوں کا الحاق کر دیں.جنگ کے دوران میں یہی حالت رہے اور جب فتح ہو جائے گی تو پھر دیکھا جائے گا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے رؤیا کو ایسے رنگ میں پورا کیا کہ دنیا کی ہزاروں سال کی تاریخ میں اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی اور جس بات کی دنیا میں کوئی ایک مثال بھی نہ ہو اُسے دماغ خود نہیں بناسکتا.ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دیکھے کہ میں نے پگڑی باندھی ہوئی ہے یا میں گھوڑے پر سوار ہوں کیونکہ لوگ روزانہ پگڑی باندھتے ہیں اور گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں.ایسی مثالیں روزانہ دیکھنے میں آتی ہیں مگر یہ تو ایسی بات تھی جس کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ عالم میں نہیں ملتی اور پھر یہ ایسے حالات میں دکھائی گئی کہ جب اتحادی کہتے تھے کہ ہم پانچ سال تک جنگ کو جاری رکھیں گے اور ان کے مقابلہ پر ہٹلر کہتا تھا کہ میں نے سات سال تک جنگ جاری رکھنے کی تیاری کی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ایسی غلطیاں ہوئیں کہ منٹوں میں کچھ کا کچھ ہو تا چلا گیا اور لشکر تباہ ہوتے گئے.بعض ایسی ایسی غلطیاں ہوئی ہیں کہ ہم بھی انہیں پڑھ کر حیران ہوتے ہیں کہ جرنیلوں نے کس طرح ایسی غلطیاں کر دیں.ان غلطیوں کے نتیجہ میں ایسے حالات پید اہوتے گئے کہ برطانیہ کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر فرانس نے جرمنی سے صلح کر لی تو ہمارے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی.یہ جو فرمایا کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے اس کے گو بُرے معنی بھی چنانچہ خطبہ کے بعد ریڈیو پر یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اس پیشکش کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی.
1940 202 خطبات محمود ہو سکتے ہیں مگر اس کے اچھے معنی بھی ہیں اور جب تک تعبیر ظاہر نہ ہو تعبیر کا عام قاعدہ یہی ہے کہ اچھے معنی لئے جائیں اور اس لئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اب مصیبت ٹل گئی ہے اور چونکہ برطانیہ نے دونوں حکومتوں کے الحاق کی پیشکش 15 جون کو کی تھی اس لئے ہو سکتا ہے کہ 15 دسمبر تک ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ برطانیہ کے لئے اتنا خطرہ نہ رہے.اس کی بُری تعبیر بھی ہو سکتی ہے مگر وہ معنی بہت باریک ہیں اور پھر قاعدہ بھی یہ ہے کہ جب تک تعبیر ظاہر نہ ہو اچھے معنی ہی لئے جاتے ہیں اور اس لئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ فقرہ اچھے رنگ میں کہا گیا ہے.ہاں جیسا کہ میں نے کہا ہے اس کے بُرے معنی بھی ہو سکتے ہیں.مثلاً یہ کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے اس کے بعد خطرہ وقوعہ کی صورت میں بدل چکا اور جب ایک چیز ہو چکی پھر اس سے ڈرنے کا کیا فائدہ؟ بہر حال یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جو ظاہر ہوا.آخر میں میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان حالات میں ایسے تغیر کر دے کہ وہ احمدیت کے لئے کمزوری کا موجب نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جماعت کو کسی ایسے ابتلاء میں نہ ڈالے جو اس کی طاقت سے بالا ہو.پس دعائیں کرو کہ اے اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو اور جو قربانیاں تیری منشاء کے مطابق ہوں ہمیں وہ خوشی سے پیش کرنے کی توفیق عطا فرما اور اپنے فضل سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا کر.“ (الفضل 28 جون 1940ء) 1 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّي قَرِيب- البقرة : 187 2 صحیح بخاری كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة در ثمین اردو صفحہ 68
$ 1940 203 16 خطبات محمود جماعت احمدیہ کی کامیابی کا صحیح راستہ (فرمودہ 28 جون 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”ہر ایک شخص اور ہر ایک کام کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک رستہ مقرر کیا ہوا ہے اور چونکہ دنیا میں مختلف نوعیت کے کام اور مختلف لوگ ہیں اس لئے مختلف کاموں اور مختلف مقامات میں رہنے والے انسانوں کے لئے مختلف رستے ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص کسی مکان کی طرف جانا چاہتا ہے اور وہ اس مکان کے شمال کی طرف رہتا ہے تو اس مکان تک پہنچنے کے لئے اس کا رستہ جنوب کی طرف ہو گا اور ایک شخص جو اس مکان کے جنوب کی طرف رہتا ہے اور وہ اس مکان کی طرف آنا چاہے تو اس کا رستہ شمال کی طرف ہو گا.اسی طرح مشرق میں رہنے والا اگر اس مکان کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس کا رستہ مغرب کی طرف ہو گا اور مغرب میں رہنے والا اس مکان کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس کا رستہ مشرق کی طرف ہو گا.مکان ایک ہے لیکن مختلف آدمیوں کے لئے اس تک پہنچنے کے رستے مختلف ہیں.شمال کے ساکن کے لئے جنوب کی طرف جانا ضروری ہے اور جنوب کے ساکن کے لئے شمال کی طرف جانا ضروری ہے.اسی طرح مشرق کے ساکن کے لئے مغرب کی طرف جانا ضروری ہے اور مغرب کے ساکن کے لئے مشرق کی طرف جانا ضروری ہے.کسی اور غیر معلوم مکان کے ذکر کی کیا ضرورت ہے ؟ اپنی نمازوں کو ہی دیکھ لو ہندوستان کے عام آدمی بوجہ اپنی جہالت اور ناواقفیت کے
$1940 204 خطبات محمود خیال کرتے ہیں کہ ساری دنیا مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتی ہے.حالانکہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے لئے کچھ حصہ دنیا کا مغرب کی طرف منہ کرتا ہے اور کچھ حصہ دنیا کا مشرق کی طرف منہ کرتا ہے.اسی طرح کچھ حصہ دنیا کا ایسا ہے جو جنوب کی طرف منہ کرتا ہے اور کچھ حصہ دنیا کا ایسا ہے جو شمال کی طرف منہ کرتا ہے.یمن کے رہنے والے اور عدن میں بسنے والے جب نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ مغرب کی طرف منہ نہیں کرتے بلکہ خانہ کعبہ اور بیت اللہ سے اپنا تعلق رکھنے کے لئے شمال کی طرف منہ کرتے ہیں کیونکہ وہ جنوب میں رہتے ہیں.اسی طرح شام، دمشق اور فلسطین کے لوگ جب نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ ہماری طرح مغرب کی طرف منہ نہیں کرتے اور اگر کریں تو ان کا منہ قبلہ کی طرف نہیں ہو گا.اسی طرح وہ یمنیوں اور عدنیوں کی طرح شمال کی طرف منہ کر کے بھی نماز نہیں پڑھتے بلکہ وہ چونکہ مکہ سے شمال کی طرف رہتے ہیں اس لئے وہ جنوب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ایسے سینیا اور ایسٹ افریقہ کے لوگ جہاں ہمارے احمدی دوست بھی اکثر جاتے اور ملازمتیں یا تجارتیں وغیرہ کرتے ہیں ہماری طرح مغرب کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھتے.وہ یمنیوں اور عدنیوں کی طرح شمال کی طرف بھی اپنا منہ نہیں کرتے.وہ شامیوں، دمشقیوں اور فلسطینیوں کی طرح جنوب کی طرف منہ کر کے بھی نماز نہیں پڑھتے بلکہ وہ مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں.اس لئے کہ وہ مکہ سے مغرب کی طرف رہتے ہیں.پس ہم چار ملکوں کے لوگ چار مختلف جہات کی طرف منہ کرتے ہیں مگر ہم سب اس ایک بات میں متحد ہیں کہ ہمارا منہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے.جب ہم مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ہمارا منہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے.جب یمنی اور عدنی شمال کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا منہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے.جب شامی ، دمشقی اور فلسطینی جنوب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا منہ قبلہ کی طرف ہو تا ہے اور جب ایسے سینیا، ایسٹ افریقہ اور نیروبی کے لوگ مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا منہ بھی قبلہ کی طرف ہوتا ہے.غرض مختلف ملکوں میں رہنے والے مختلف آدمیوں کے لئے خانہ کعبہ.تعلق پیدا کرنے کے لئے مختلف رستے ہیں.ہم اگر تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ہمارا رستہ مغرب کی www.
$1940 205 خطبات محمود طرف ہے.یمنی اور عدنی خانہ کعبہ سے تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ان کا رستہ شمال کی طرف ہے.دمشق، شام اور فلسطین کے لوگ خانہ کعبہ سے اپنا تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ان کا رستہ جنوب کی طرف ہے اور اگر ایسے سینیا، نیروبی اور ممباسہ وغیرہ کے لوگ خانہ کعبہ سے اپنا تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ان کا رستہ مشرق کی طرف ہے.غرض دنیا میں مختلف آدمی ہیں اور ہر ایک کے لئے الگ الگ رستہ مقرر ہے.اگر ایک ہندوستانی یہ کہے کہ جب میں نیروبی میں تھا تو مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتا تھا اب ہندوستان میں آکر میں مغرب کی طرف کیوں منہ کروں تو وہ خدا تعالیٰ کی حکم عدولی کرنے والا ہو گا.اسی طرح اگر ہندوستان کے رہنے والے نیروبی اور ممباسہ میں جائیں اور کہیں کہ ہم مغرب کی طرف منہ کر کے ہی نماز پڑھیں گے مشرق کی طرف منہ نہیں کریں گے تو ان کی نماز نہیں ہو گی کیونکہ اس وقت ان کا رستہ مشرق کی طرف ہے نہ کہ مغرب کی طرف.یہی حال باقی جہات کا ہے.پھر جہات کے علاوہ کونے ہیں.کوئی شمال مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور کوئی جنوب مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے، کوئی شمال مغرب کی طرف اپنامُمنہ کرتا ہے اور کوئی جنوب مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے.پھر کونے در کونے ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان سے جہات بہت کچھ بدل جاتی ہیں.ہندوستان میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جن کا قبلہ کچھ جنوب کی طرف ہے مگر ہندوستان میں بالعموم مغرب کی طرف مساجد کا محراب بنادیا جاتا ہے اور یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ قبلہ کا صحیح رخ کون سا ہے حالانکہ اگر پنجاب سے ایک سیدھی لکیر کھینچی جائے تو اس کے عین مغرب میں دمشق آئے گا خانہ کعبہ نہیں آئے گا.خانہ کعبہ پنجاب سے کچھ جنوب کی طرف ہے اور اگر پندرہ ڈگری کے قریب جنوب کی طرف جھکا جائے تب خانہ کعبہ صحیح سمت میں آتا ہے ورنہ نہیں.بہر حال چونکہ جہت کا پورا اندازہ عام حالات میں ناممکن ہوتا ہے اس لئے علماء نے اندازہ کی خفیف غلطی پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر ملک کے اندر کئی کئی ٹکڑے ہوتے ہیں.ہندوستان کے ہی بعض ٹکڑے ایسے ہیں جہاں کے رہنے والوں کا منہ اگر نماز کے وقت عین مغرب کی طرف ہو تو صحیح طور پر قبلہ کی طرف ہو گا لیکن
* 1940 206 خطبات محمود کچھ حصے ایسے ہیں جن کا قبلہ جنوب کی طرف کچھ جھکتا ہوا ہے اور کچھ حصے ایسے ہیں جن کا قبلہ اور زیادہ جنوب کی طرف جھکتا ہوا ہوتا ہے.غرض مختلف انسانوں اور مختلف کاموں کے لئے مختلف رستے مقرر ہیں.مثلاً اگر کسی نے عام مکان میں داخل ہونا ہو تو اس کی صورت یہی ہے کہ دروازہ میں سے داخل ہو لیکن اگر کسی نے مثلاً اہم سرکاری دفتر میں داخل ہونا ہو تو اس کے لئے صرف اتنا کافی نہیں ہو گا کہ دروازہ میں سے داخل ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ داخل ہونے سے پہلے پر مٹ اور اجازت حاصل کرے.غرض مختلف لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف رستے مقرر کئے ہوئے ہیں مگر بعض لوگ نادانی سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ فلاں رستہ چونکہ فلاں نے اختیار کیا تھا اور اس پر چل کر وہ کامیاب ہو گیا اس لئے ہمارے لئے بھی اسی رستہ پر چلنا مفید ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑی مصیبت یہی ہے.دنیا میں ترقی کرنے والی قومیں اپنی ترقی کے لئے مختلف تدابیر عمل میں لاتی ہیں.وہ تعلیم میں بڑھتی ہیں، وہ سائنس میں ترقی کرتی ہیں، وہ اپنے جتھا کو مضبوط بناتی ہیں، وہ دوسری قوموں سے سمجھوتے کرتی ہیں، وہ خوشامدیں کرتی ہیں، وہ مداہنت سے کام لیتی ہیں، وہ دھوکا اور فریب سے اپنے مقصود کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور مسلمان خیال کر لیتے ہیں کہ شاید ان کی کامیابی کا رستہ بھی یہی ہے کہ کچھ دین میں مداہنت کر لی، کچھ عقائد میں تبدیلی کرلی، کچھ فریب کاری اور ملمع سازی اختیار کرلی تاکہ یورپین اقوام اور حاکم ان سے خوش رہیں.اگر ہندوستان میں اس بات کا زور ہوا کہ مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیئے تو مسلمان علماء بھی یہی کہنے لگ گئے کہ جہاد ضرور ہونا چاہیے اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ اس وقت جہاد ضروری نہیں تو جن لوگوں سے ہمیں روٹیاں ملتی ہیں ان سے روٹیاں ملنی بند ہو جائیں گی لیکن اگر گاندھی جی کا زور ہوا اور لوگوں نے کہا کہ “ اہنسا 1 کامیابی کا ذریعہ ہے تو وہی مسلمان یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ جہاد کسی صورت میں جائز نہیں حالانکہ گاندھی جی جس اہنسا کے قائل ہیں وہ سارے زمانوں کے لئے ہے.وہ اسلام کی طرح یہ نہیں کہتے کہ بعض اوقات تلوار اٹھاناضروری ہوتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ تلوار کو کسی حالت اور کسی زمانہ میں
1940 207 خطبات محمود بھی نہیں اٹھانا چاہیئے مگر مسلمان مولویوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ گاندھی جی کی تعلیم اسلام کے خلاف ہے یا اس کے مطابق بلکہ انہوں نے جب دیکھا کہ ہندوستان میں “ اہنسا اہنسا کا شور مچ رہا ہے تو انہوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ جہاد کسی صورت میں جائز نہیں.حالانکہ ایک وقت وہ تھا جب یہی علماء یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہو تاجب جہاد لوگوں پر واجب نہ ہو مگر دوسر اوقت انہی علماء پر ایسا آیا کہ انہوں نے کہہ دیا جہاد کسی وقت بھی جائز نہیں ہو تا.حالانکہ یہ دونوں ایسی خطرناک باتیں ہیں کہ جن کے ماتحت مسلمان کہلانے والوں نے رسول کریم صلی ایم کی آدھی زندگی بالکل کچل کر رکھ دی ہے.اگر جہاد ہر وقت فرض ہو تا ہے تو محمدصلی للی نیم کی مکی زندگی قابل اعتراض ٹھہرتی ہے اور اگر جہاد کسی وقت بھی علوم فرض نہیں ہو تا تو محمد صلی علیم کی مدنی زندگی پر اعتراض وارد ہوتا ہے.غرض جس طرح بعض لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ انہوں نے الہی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے.2.اسی طرح انہوں نے محمد صلی للی نیم پر حملہ کر کے آپ کی پاک اور مطہر زندگی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے.کبھی کہہ دیا کہ جہاد ہر وقت فرض ہوتا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ جہاد بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے اور کوئی وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب جہاد کرنا جائز نہ ہو وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے.گویا ان کے نزدیک محمد صلی اللی علم کی مکی زندگی قابل اعتراض تھی اور وہ نَعُوذُ باللہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف گزری.اور کبھی گاندھی جی کے اثر کے ماتحت کہہ دیا کہ “انسا ” اور عدم تشد دہی اصل چیز ہے.گو یار سول کریم صلی ا لم کی مدنی زندگی نَعُوذُ باللہ گناہوں سے ملوث تھی.غرض ان لوگوں نے رسول کریم صلی کم کی روحانی زندگی کے دو ٹکڑے کر دیئے اور کبھی ایک کو قبول کر لیا اور دوسرے کو پھینک دیا اور کبھی دوسرے کو قبول کر لیا اور پہلے کو پھینک دیا.حالانکہ وسطی طریق وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا کہ یہ جہاد بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے جب وہ شرائط پائی جائیں تو اس وقت جہاد کرنا ضروری ہوتا ہے اور جو جہاد نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گنہگار ہوتا ہے لیکن بعض زمانوں میں جب وہ شرائط مفقود ہوں یہ جہاد نا جائز ہوتا ہے اور اس وقت جو شخص جہاد کرتا ہے
$1940 208 خطبات محمود وہ گنہگار ہوتا ہے.یہ وہ طریق ہے جس نے محمد صلی اللی علم کی مکی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا اور محمد صلی یکم کی مدنی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا.اگر کوئی کہے کہ بعض زمانوں میں جہاد کرنا انصاف کے خلاف ہوتا ہے تو ہم کہیں گے بے شک یہ درست بات ہے.ہمارے محمد صلی الم نے بھی مکی زندگی میں جہاد نہیں کیا اور اگر کوئی کہے کہ کبھی انصاف کے قیام اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے تلوار اٹھانا بھی ضروری ہوتا ہے تو ہم کہیں گے یہ بالکل درست ہے.ہمارے محمد صلی علیم نے بھی انصاف کے قیام اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے مدینہ میں تلوار اٹھائی.گویا ہمارے سامنے جو تعلیم بھی پیش کی جائے اس کے متعلق رسول کریم صلی نیم کا کوئی نہ کوئی اسوہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گا.اگر محبت اور پیار سے کام لینے اور صبر کے ساتھ دوسروں کے مظالم برداشت کرنے کا سوال ہو تو لوگوں کے سامنے محمد صلی ا لم کی مکی زندگی پیش کر سکتے ہیں کہ کس طرح متواتر تیرہ سال تک آپ نے کفار کے مظالم اور ان کی تکالیف کو برداشت کیا اور اگر کوئی شخص ہمارے سامنے یہ بات پیش کرے کہ بعض ایسے گندے اور بد فطرت لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو بغیر اس کے کہ ان کا منہ توڑا جائے اپنے ناپاک عزائم سے باز نہیں آتے اور وہ نیکی اور تقویٰ کو دنیا سے مٹانا چاہتے ہیں.ایسے لوگوں کا علاج مقابلہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا.تو ہم کہیں گے محمد صلی الی ایم کی ذات میں یہ اسوہ بھی موجود ہے.آج کانگرس کو دیکھ لو اس نے کس طرح مجبور ہو کر اسی اصل کو اختیار کیا ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور کس طرح اسی نے گاندھی جی کے “اہنسا” کے اصول کو کلیۂ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.یا تو یہ حالت تھی کہ گاندھی جی کو تمام کا نگر سیوں نے اپنا لیڈر بنایا ہوا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اہنسا ” ایک کامیاب ہتھیار ہے اور یا آج یہ حالت ہے کہ اسی ہفتہ میں کانگرس نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے جس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ کانگرس اہنسا کو اس حد تک تسلیم نہیں کر سکتی جس حد تک گاندھی جی اسے منوانا چاہتے ہیں اور چونکہ گاندھی جی ملک پر بیرونی حملہ کے وقت میں بھی اہنسا ” سے ہی کام لینا ضروری خیال کرتے ہیں اور کانگرس کو اس سے اتفاق نہیں اس لئے کانگرس گاندھی جی کو لیڈری سے سبکدوش کرتی.
1940 209 خطبات محمود اور کانگرس کا کام ورکنگ کمیٹی اپنے ہاتھ میں لیتی ہے.میں تو سمجھتا ہوں یہ سب کچھ گاندھی جی کے مشورہ سے ہی ہوا ہو گا انہوں نے کہا ہو گا کہ تم مجھے بڑھاپے میں لوگوں کے سامنے کیوں شر مندہ کرتے ہو میں ساری عمر لوگوں کو “ اہنسا” کا سبق دیتا چلا آیا ہوں اب اگر میں نے ہی اس کے خلاف کہا تو لوگ مجھے کیا کہیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم مجھے لیڈری سے سبکدوش کر دو اور خود جو چاہو پروگرام بنالو.وہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے تو لڑنا ہی نہیں.لڑنا تو ملک کے دوسرے لوگوں نے ہے.پس ان کی علیحد گی سے کام کا نقصان تو کوئی ہو گا نہیں.چنانچہ انہوں نے کہہ دیا کہ بجائے اس کے کہ تم میرے منہ سے یہ کہلواؤ کہ اب اہنسا ” سے کام لینے کا وقت نہیں رہا تم مجھے اہنسا اہنسا کرنے دو اور خود ملکی دفاع کے لئے تلوار میں جمع کرتے رہو.لوگ کہتے ہیں کہ گاندھی جی کامیاب لیڈر ہیں مگر یہ کون سی کامیابی ہے کہ ایک شخص ساری عمر اہنسا اہنسا ” کا شور مچاتارہتا ہے مگر جب اس کی عمر میں ہندوستان پر ایک ہی نازک وقت آتا ہے تو اس وقت سارے ہندوستان کے لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اب “ اہنسا ” سے کام نہیں چل سکتا اور وہ اس بات پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اہنسا کے خلاف آواز اٹھائیں اور ایک شخص بھی ایسا نہیں رہتا جو گاندھی جی کا ساتھ دے.فارورڈ بلاک والے پہلے ہی الگ تھے اب کانگرس کا دوسرا حصہ بھی گاندھی جی سے الگ ہو گیا اور اس نے بھی علی الاعلان کہہ دیا کہ ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ہر حالت اور ہر زمانہ میں اہنسا سے کام لیا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو جب بیرونی حملے کا خطرہ ہو تو اس وقت اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ تلوار کا تلوار سے مقابلہ کیا جائے اور چونکہ اس اصول میں ہمیں گاندھی جی سے اختلاف ہے اس لئے ہم انہیں لیڈری سے سبکدوش کرتے ہیں اور تمام کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں.گویا وہی تعلیم آگئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لوگوں کے سامنے پیش فرمائی.اب وہی مولوی جو یہ کہا کرتے تھے کہ اہنسا ہی اصل چیز ہے یہ کہنے لگ جائیں گے کہ اہنسا ہر حالت میں قابل عمل نہیں.بعض دفعہ سختی سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے مگر کون شخص ہے جو اس عرصہ میں اپنی جگہ.ہلا ؟ وہ کون شخص ہے جس کی تعلیم پچاس سال تک ایک انچ بھی ادھر ادھر نہ ہوئی؟ وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں.کبھی آپ کی قوم کو یہ کہنے کی ضرورت پیش
1940 210 خطبات محمود نہیں آئی کہ یہ تعلیم ہمارے کام نہیں آسکتی اس میں تبدیلی ہونی چاہیے جیسے گاندھی جی کی قوم نے ان سے کہہ دیا.بھلا اس سے زیادہ ناکامی کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ساری عمر کی محنت، ساری عمر کی کوشش، ساری عمر کی جد وجہد اور ساری عمر کی تلقین اور تعلیم کے بعد اس کے اپنے اتباع، اس کے نائب اور اس کی قوم کے افراد اسے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم آپ کے اصول کو ہر حالت میں ماننے کے لئے تیار نہیں.چاہے یہ مخالفت کتنے ہی نرم الفاظ میں کی جائے، چاہے کتنے ہی ریشمی کپڑوں میں لپیٹ کر کی جائے بہر حال یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے گاندھی جی سے کہہ دیا کہ ہم آپ کی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس وجہ سے ہم آپ کو لیڈری سے سبکدوش کر کے خود اپنے ہاتھ میں تمام کام لیتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ صلی لی ایم کی تعلیم کے جو معنے کئے تم بتاؤ کہ اسے کب منسوخ کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ وہ نہ آج سے دس سال پہلے منسوخ ہوئی نہ آج منسوخ ہے اور نہ آئندہ کبھی منسوخ ہو سکتی ہے.کتنی صاف سیدھی واضح اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ جب تم پر کوئی ظلم کرے تو اسے برداشت کرو اور برداشت کرتے چلے جاؤ مگر جب وہ تمہارے مذہب میں دست اندازی کرے اور جبر آ تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چاہے اور ان اعمال میں دخل دے جو افراد کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتے ہیں تو اس وقت تمہارا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے اور سختی کا مقابلہ سختی سے کرو.مگر اسلام ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی روح کبھی پاک نہیں ہو سکتی جب تک وہ قربانی اور صبر سے کام نہ لے.بے شک تلوار کا چلانا انسان کو بہادر بنا سکتا ہے، بے شک تلوار کا چلانا دوسروں کو مرعوب کر سکتا ہے، بے شک تلوار کا چلانا انسان کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا سکتا ہے جیسے ہٹلر اور مسولینی کا نام آج بچے بچے کی زبان پر ہے مگر تلوار کا چلانا انسانی روح کو پاک نہیں بنا سکتا.اگر کسی کو روح کی پاکیزگی کی خواہش ہو تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اپنے اندر صبر اور استقلال اور قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرے اور لوگوں کے مظالم کو خوشی سے برداشت کرے.پس اگر خالی تلوار چلانا ہی رکھا جاتا تو روح کی پاکیزگی کا سامان بہت کمزور ہو جاتا.بے شک نماز بھی انسانی روح کو پاک کرتی ہے، بے شک روزہ بھی انسانی روح کو
خطبات محمود 211 * 1940 پاک کرتا ہے، بیشک حج بھی انسانی روح کو پاک کرتا ہے ، بے شک زکوۃ بھی انسانی روح کو پاک کرتی ہے مگر روح کو مکمل پاک کرنے کے لئے نماز اور روزہ اور حج اور زکوۃ کے ساتھ صبر اور بر داشت کے مادہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک یہ نہ ہو انسانی روح پورے طور پر پاک نہیں ہو سکتی.پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ انسانوں کو پاک کرنے کے یہ دونوں طریق رکھ دیئے.چنانچہ ابتدائے اسلام میں ایک زمانہ تو وہ گزرا ہے جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اعلیٰ درجہ کی روحانی تکمیل کے لئے حکم دے دیا کہ ماریں کھاؤ اور صبر کرو، گالیاں سنو اور برداشت کرو مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ تلوار کا تلوار سے مقابلہ کیا جائے.تاکہ جرآت اور بہادری کے اخلاق بھی ان میں پیدا ہوں.یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ کمال کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتا تھا اور اس نے ان امتحانوں میں سے گزار کر انہیں بہت بڑے روحانی مقامات عطا فرمائے.اگر کہو کہ جب اسلام غالب آ گیا اور اس کی حکومت قائم ہو گئی تو پھر صبر کا نمونہ دکھانے کا کون سا موقع ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو غلبہ کی صورت میں بھی خود اپنے لوگوں کے ساتھ معاملات میں صبر کے مواقع نکلتے رہتے ہیں لیکن اس کے علاوہ اسلام نے غلبہ کے وقت میں بھی لڑائیوں پر حد بندیاں لگاکر صبر اور برداشت کی طاقت پیدا کرنے کے سامان کر دیئے ہیں.وہ مسلم کو حکم دیتا ہے کہ جب کوئی دشمن صلح کے لئے ہاتھ بڑھائے تو انکار نہ کرو.4 اسی طرح لڑائی کے متعلق ایسے قواعد مقرر کیے ہیں جو انسان کو نفسانی غصہ نکالنے سے باز رکھتے ہیں.اس کے بر خلاف اب جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ بالکل اور اصول پر لڑی جاتی ہیں.مثلاً اب لڑائی میں جب کوئی فریق ہتھیار رکھ دیتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ جب تک تم بالکل ہمارے تابع نہ ہو جاؤ اس وقت تک لڑائی ہم تم سے بند نہیں کر سکتے.جیسے جرمنی اور فرانس کے مقابلہ میں جب فرانس والوں نے کہا کہ ہم ہتھیار رکھتے ہیں ہم سے صلح کر لی جائے تو جرمنی نے کہا کہ ہر گز نہیں جب تک تم اپنے تمام ہتھیار اور سامان حرب ہمارے قبضہ میں نہ دے دو ہم تم سے لڑائی بند کرنے کے لئے تیار نہیں.لیکن قرآن
خطبات محمود 212 $1940 یہ کہتا ہے کہ جنگ کی حالت میں جب دشمن تمہیں صلح کا پیغام دے تو فوراً اس کو قبول کر لو اور اسی وقت لڑائی بند کر دو.اور یہ امر انسانی نفس پر جس قدر گراں گزرتا ہے وہ محتاج بیان نہیں.ایک فاتح جرنیل جب اپنی فوج لئے دشمن کے علاقہ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور دشمن شکست پر شکست کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے مقابلہ کو جاری رکھا تو میں اسے کلی طور پر ذلیل اور رسوا کر دوں گا اس وقت اگر دشمن صلح کی درخواست کرے تو اسلام کہتا ہے اس کے بعد تمہارے لئے لڑائی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں اور خواہ تمہارے دلوں میں کتنا ہی جوش پیدا ہو تمہارا فرض ہے کہ لڑائی بند کر دو اور اگر جاری رکھو گے تو گنہگار ٹھہرو گے.ایسے مواقع پر طبائع میں جس قدر جوش پیدا ہوتا ہے اس کا پتہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگ سکتا ہے.رسول کریم صلی علیم ایک دفعہ صحابہ سمیت مدینہ سے مکہ کو عمرہ کے لئے تشریف لے گئے.اہل مکہ اس وقت بالکل بے بس تھے.ان کا لشکر تھوڑا تھا اور ان کے مددگار دور دور تھے.اس کے علاوہ آپ کے پاس ایک ایسی حجت تھی کہ اگر اس وقت لڑائی ہو جاتی تو ساری دنیا اہل مکہ پر لعنت کرتی اور وہ یہ کہ آپ لڑائی کے لئے نہیں بلکہ عمرہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے.غرض مکہ والے مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے اور آپ مکہ کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک مقام پر آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی.صحابہ نے اس کو اٹھانا چاہا تو آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا جس خدا نے اصحاب الفیل کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اسی خدا نے میری اس اونٹنی کو روکا ہے.5 مطلب یہ کہ خدا نہیں چاہتا کہ دشمن سے لڑائی ہو.ہمیں اس وقت بغیر عمرہ اور طواف کئے واپس چلے جانا چاہیئے.صحابہ نے اس وقت بہت جوش دکھایا اور ان کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا اُن کی روحیں متزلزل ہو گئی ہیں.حضرت عمر جیسا ایماندار انسان یہ دیکھ کر بے تاب ہو گیا اور انہوں نے رسول کریم صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کیا آپ کو یہ رویا نہیں ہوا تھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور ہم نے عمرہ کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ ہم نے فرمایا عمر خدا نے یہ کب کہا تھا کہ اسی سال یہ رویا پورا ہو گا.جب وقت آئے گا خد اتعالیٰ ہمیں عمرے کا موقع دے دے گا مگر اب انہوں نے
* 1940 213 خطبات محمود صلح کی درخواست کی ہے جسے ہم رد نہیں کر سکتے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم واپس چلے جائیں.اسی طرح وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی جواب دیا.6 غرض اسلام صبر کی دونوں حالتوں میں تلقین کرتا ہے.اس وقت بھی جب دشمن کی طرف سے ظلم ہو رہا ہو اور اس وقت بھی جب انسان لڑائی کرتے ہوئے دشمن پر غالب آرہا ہو مگر وہ صلح کی درخواست کر دے.ایسی حالت میں بھی اسلام یہی نصیحت کرتا ہے کہ صبر اور بر داشت سے کام لیتے ہوئے لڑائی کو فوراً بند کر دیا جائے اور دشمن سے انتقام لینے کے لئے اسے ذلیل اور رسوا نہ کیا جائے.جہاد کے متعلق یہ اسلامی ہدایات اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں پر جہاد فرض ہوتا ہے مگر بعض زمانے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سالہا سال تک لڑائی جھگڑوں سے مجتنب رہنے کا حکم دے دیا جاتا ہے.چنانچہ صحیحی صفت انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں.ان کے زمانہ میں کلی طور پر نسلوں کی نسلوں اور قوموں کی قوموں کو خاموشی سے دن گزارنے پڑتے ہیں جیسے حضرت مسیح ناصری کی امت نے سینکڑوں سال اسی حالت میں گزارے.یہی حال اب ہمارا ہے.چنانچہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور جنہیں آپ کی صحابیت کا شرف حاصل ہوا ان کا کثیر حصہ فوت ہو چکا ہے اور اب بہت ہی کم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ رہ گئے ہیں.زیادہ تر ان لوگوں کی ہی تعداد ہے جو بعد میں پیدا ہوئے مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثیر صحابہ فوت ہو چکے ہیں اور باوجود اس کے کہ اب کثرت اس نسل کی ہے جو بعد میں پیدا ہوئی ابھی ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ صبر کر و استقلال دکھاؤ اور گریہ وزاری اور دعاؤں سے کام لو کیونکہ ہماری کامیابی کا یہی رستہ ہے کہ ہم دعاؤں سے کام لیں، تلواروں کے ذریعہ ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی مگر ہماری جماعت کے سب لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور نہ سب اپنی کامیابی کے اس طریق پر یقین رکھتے ہیں.میں تو دیکھتا ہوں جماعت کے بعض دوستوں کے دلوں میں یہ وسوسے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ حکومتیں نہیں آئیں، وہ طاقتیں نہیں آئیں
* 1940 214 خطبات محمود جن حکومتوں اور جن طاقتوں کے ملنے کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا.اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی تمام قوت اور ان کی تمام طاقت خدا تعالیٰ نے دعاؤں میں ہی رکھی ہے نہ کہ حکومتوں اور سطلنتوں میں.تمہاری مثال در حقیقت اس بچہ کی سی ہے جو ابھی دودھ پی رہا ہو تا ہے اور ماں اسے اپنی چھاتی سے چمٹائے پھرتی ہے.اور وہ لوگ جو دشمن سے لڑائی کیا کرتے ہیں ان کی مثال اس جو ان کی سی ہوتی ہے جو اپنی ماں کے پہلو میں کھڑا ہو کر اس کی حفاظت کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شخص کی حالت رشک کے قابل ہوتی ہے جو اپنی ماں کی حفاظت کے لئے لڑ رہا ہو مگر کبھی اس کے دل میں بھی اس بات پر رشک پیدا ہوتا ہے کہ جیسے چھوٹے بچے کو ماں نے اپنی چھاتی سے لگارکھا ہے اسی طرح وہ بھی اپنی ماں کی گود میں ہو تا.پس تم کیوں سمجھتے ہو کہ وہ حالت قابلِ رشک ہے اور یہ نہیں.جیسے وہ حالت قابل رشک ہے اسی طرح یہ حالت بھی قابلِ رشک ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے تمام کام اپنے ذمہ لئے ہوئے ہیں.بے شک چھوٹا بچہ بعض دفعہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں خود چلنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی دوسروں کی طرح اکٹروں اور دوسروں کی طرح چل پھر کر کام کاج کروں مگر جب وہ اکثر تا یا تھوڑی دیر کے لئے ہی چلتا پھرتا ہے تو گر پڑتا ہے کیونکہ ابھی وہ اسی قابل ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں بیٹھا ر ہے اور اس کی چھاتی سے دودھ پئے.مسیحی صفت انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں بھی خدا تعالیٰ اپنی جماعت کو اپنی گود میں بٹھاتا اور اسے رحمت اور عرفان کا دودھ پلاتا رہتا ہے.یہاں تک کہ وہ وقت آ جاتا ہے جب دنیوی برکات سے بھی اسے متمتع کر دیا جاتا ہے مگر روحانی برکات کے مقابلہ میں دنیوی برکات کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.پس ہماری جماعت کو اپنا مقام سمجھتے ہوئے دعاؤں اور نمازوں کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیئے.اس غرض کے لئے ہر محلہ میں اس بات کی نگرانی ہونی چاہیئے کہ لوگ مساجد میں نماز باجماعت کے لئے آتے ہیں یا نہیں؟ اور جو لوگ مسجدوں میں آنے میں سست ہوں انہیں نصیحت کرنی چاہیے کہ وہ باجماعت نماز پڑھا کریں.مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ
$1940 215 خطبات محمود جماعت کے اندر بہت سی اصلاح ہوئی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ مساجد میں پہلے سے زیادہ لوگ نمازیں پڑھنے آتے ہیں مگر پھر بھی ابھی بہت کچھ توجہ کی ضرورت ہے.بُری صحبت نوجوانوں کو بہت خراب کر دیا کرتی ہے اس لئے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ جو بچے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں انہیں بدصحبتوں سے بچا کر مساجد سے ان کا تعلق بڑھایا جائے.ذکر الہی کی عادت ڈالی جائے اور بجائے اس کے کہ وہ گئیں ہانک کر اپنے وقت کو ضائع کیا کریں انہیں تسبیح و تحمید اور رسول کریم صلی ای دلم پر درود بھیجنے کی تلقین کی جائے.جس دن ہماری جماعت میں یہ باتیں پیدا ہو جائیں گی اسی دن ان کی دعاؤں میں بھی برکت پیدا ہو جائے گی.اب کئی لوگ دعائیں تو کرتے ہیں مگر بعد میں شکایت کرتے ہیں کہ نتیجہ کچھ نہیں نکلتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ مساجد سے ان کا تعلق نہیں ہوتا اور نہ ذکر الہی کی طرف ان کی توجہ ہوتی ہے.اگر وہ مسجدوں میں باقاعدہ آیا کریں تو ان کی دعاؤں میں بھی تاثیر پیدا ہو جائے کیونکہ خدا تعالیٰ سے کچھ مانگنے کا اصل مقام خد اتعالیٰ کا گھر ہے اور خدا تعالیٰ کا گھر مسجدیں ہیں.اگر تم اپنے کسی دوست سے کوئی چیز مانگو اور فرض کرو کہ اس کا نام جلال الدین ہو تو تمہارے لئے ضروری ہو گا کہ تم اس کے گھر پر پہنچ کر اسے آواز دو اور اپنی حاجت اس کے سامنے پیش کرو لیکن اگر تم اپنے گھر میں بیٹھ کر ہی کہتے رہو کہ میاں جلال دین مجھے روٹی دینا، میاں جلال دین مجھے پانی دینا تو تمہیں روٹی اور پانی نہیں مل سکے گا.ہاں اگر تم اس کے گھر پر جا کر دستک دو اور روٹی اور پانی کا مطالبہ کرو تو وہ تمہیں فوراً دے دے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر مومن کی دعا کو سن لیتا ہے مگر جب اسی نے یہ شرط لگا دی ہے کہ اگر تم میرے گھر میں دعائیں مانگو گے تو میں انہیں زیادہ قبول کروں گا، تو تمہارے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے گھر جاؤ اور اس سے مانگو تا کہ وہ تم پر زیادہ سے زیادہ رحم کرے.پس مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں ان کو ہمیشہ نمازوں اور دعاؤں اور ذکر الہی سے آباد رکھو اور بالخصوص اپنی اولاد کو مساجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا پابند بناؤ.اگر تم خود دن رات عبادت میں مشغول رہتے ہو مگر تمہاری اولادیں اس طرف متوجہ نہیں اور نہ تمہیں ان کا کوئی خیال ہے تو در حقیقت تم نے اپنی اولاد پر بہت بڑا ظلم کیا ہے اور تم سے بڑھ
$1940 216 خطبات محمود کر اُن کا اور کوئی دشمن نہیں.اسی طرح وہ عورتیں بھی اپنی اولاد کی دشمن ہیں جن کے بچوں کو اگر بخار یا سر درد ہو جاتا ہے تو انہیں علاج کا فکر ہو جاتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ کی عبادت کا سوال آتا ہے تو وہ اپنے بچہ کے متعلق کہہ دیتی ہیں کہ اسے کیا کہنا ہے یہ تو ابھی “نیانا” ہے.اس طرح بچہ اور “نیانا” کہہ کر وہ اس کی عمر کو برباد کر دیتیں اور اسے ساری عمر نیک کاموں سے محروم رہنے والا بنا دیتی ہیں.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ رستہ اختیار کریں جو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی کامیابی کے لئے مقرر کیا ہوا ہے.جب تک وہ صحیح رستہ اختیار نہیں کریں گے ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہو گی جیسے ہندوستان میں بیٹھ کر نماز پڑھتے وقت کوئی شخص مشرق کی طرف ممنہ کر لے یا یمن اور عدن میں رہنے والا جنوب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے یا شام ، دمشق اور فلسطین میں رہنے والا شمال کی طرف منہ کر لے یا ایسے سینیا اور ایسٹ افریقہ میں رہنے والا مغرب کی طرف منہ کرلے.جس طرح ان لوگوں کی نماز قبول نہیں ہو گی اسی طرح اگر کوئی شخص اس راستہ کو اختیار نہیں کرتا جو اس کی کامیابی کے لئے خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہوا ہے تو اسے بھی کامیابی حاصل نہیں ہو گی.اور میں نے بتایا ہے کہ ہمارے لئے کامیابی کا رستہ یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑ کر اس کے پاس بیٹھ جائیں اور اسے کہیں کہ ہم نے جو کچھ لینا ہے تجھی سے لینا ہے.اگر ہم یہ طریق اختیار کر لیں تو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا.دنیا میں خواہ کوئی تغیر آئے، خواہ کتنے بڑے مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اگر ہم اس راستہ پر چلتے چلے جائیں گے تو ہماری کامیابی قطعی اور یقینی ہو گی لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کا رستہ چھوڑ دیں اور دوسری قوموں کی طرف دیکھ کر یہ خیال کریں کہ جس رنگ میں انہوں نے ترقی کی ہے اسی رنگ میں ہم بھی ترقی کر سکتے ہیں تو ہماری تمام کوششیں اول تو ہیں ہی حقیر اور بے حقیقت لیکن اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی ہمارے ساتھ مل جائیں اور ہم ان تمام طاقتوں کو استعمال میں بھی لے آئیں تب بھی ہماری ناکامی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہی راستہ رکھا ہے کہ ہم اس کا دامن پکڑیں اور اس سے دعائیں کرتے چلے جائیں.پس اس راہ کو اختیار کرو جو خدا نے تمہارے لئے
خطبات محمود 217 $1940 تجویز کیا ہوا ہے.اگر تم اس کو چھوڑ دو گے تو کبھی کامیاب نہیں ہو گے اور اگر اسے اختیار کرو گے تو سب روکوں کے باوجود کامیاب اور بامراد ہو گے.انشاء اللہ.“ 66 (الفضل 5 جولائی 1940ء) 1 انسان ایک ہمہ گیر اخلاقی کلیہ جو تمام جانداروں پر لاگو ہوتا ہے.اس کے مطابق انسان کو سادہ زندگی گزارنی چاہیئے، کسی جاندار کو تکلیف نہیں دینی چاہیئے، تمام انسانوں کو بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیئے اور ہر قسم کے تشدد، ظلم اور جنگ و جدل سے گریز کرنا چاہیئے.(اردو انسائیکلو پیڈیا) 2 الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِيْنَ.(الحجر:92) أذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَاِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرِ (الحج: 40) 4 فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَالْقَوْا اِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا ( النساء:91) ، وَإِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الانفال:62) 5 صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد و المصالحة مع اهل الحرب 6 صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد و المصالحة مع اهل الحرب
$ 1940 218 17 خطبات محمود صرف اعتراض کرنا کافی نہیں غیر مبائعین مقابلہ میں قبولیت دعا کا نشان دکھائیں (فرمودہ 5 جولائی 1940 ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: 26 مئی 1940ء کو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں ایک تقریر کرتے ہوئے میں نے بیان کیا تھا کہ :.” مجھے تو یقین کامل ہے کہ اگر انگریز سچے طور پر توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا.” 1 جو لوگ روحانی امور سے ناواقف ہیں اور ان باتوں سے بالکل جاہل ہیں ان کا ایسی باتوں پر تمسخر اور ہنسی کرنا کوئی بعید امر نہیں اور اس سے قبل میں یہ بھی کہہ چکاہوں کہ :.ا بھی ان کے دماغ اس مقام پر نہیں آئے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں بلکہ اس وقت اگر کسی انگریز کے سامنے میری اس تقریر کا یہ حصہ رکھ دیا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ کوئی پاگل ہے جو پاگل خانے سے چھوٹ کر آیا ہے.کیا ہماری حفاظت کے لئے ہمارے پاس توپ خانے اور بحری بیڑے
* 1940 219 خطبات محمود اور ہوائی جہاز اور بڑے بڑے اسلحہ موجود نہیں اور اگر ان ہتھیاروں کے باوجود ہمیں فتح حاصل نہ ہو تو اس کی دعا سے کس طرح ہو سکتی ہے.” 2 لیکن اس کے متعلق انگریزی قوم کے کسی فرد کی طرف سے تو کچھ نہیں کہا گیا اور شاید وہ کچھ نہ کہیں کیونکہ ان تک ہماری آواز اچھی طرح پہنچی بھی نہ ہو گی.ہاں ایک ذمہ دار افسر کے متعلق مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی کہ مجھے دعا کے لئے لکھا جائے تو برطانیہ کو اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو اس کے بعض مشیروں نے کہا کہ شاید اس طرح ہندوستان کی باقی اقوام میں بدمزگی پیدا ہو کہ ان کو کیوں لکھا گیا ہے اور بعض انگریز افسروں کی طرف سے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ اگر جماعت کی طرف سے کوئی ایسی تحریک کی جائے تو پھر حکومت کی طرف سے بھی لکھا جاسکتا ہے مگر ہمارا اپنا کوئی ایسی بات لکھنا تو بیو قوفی کی بات ہے.ایسی بات عام رنگ میں تو کہی جاسکتی ہے مگر معین صورت میں یہ کہنا کہ ہمیں دعا کے لئے لکھا جائے اس کی غرض کو باطل کر دیتا ہے.لیکن پھر بھی مجھے اتنا علم ہے کہ انگریز قوم نے اس پر بنی نہیں اڑائی بلکہ نہایت ذمہ دار افسروں کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی تو انہوں نے اس پر نیم آمادگی کا اظہار کیا اور صرف اس بات سے ڈرے کہ دوسری قومیں یہ نہ کہیں کہ صرف احمدیوں کو دعا کی درخواست کے لئے کیوں چنا گیا ہے مگر باوجود اس بعد کے جو اس قوم کو روحانی امور سے ہے اور باوجود اس بُعد کے جو اس قوم کی شان و شوکت کو ہماری بے کسی اور بے سر و سامانی سے ہے ان کا دعا کی طرف اتنار جحان بھی ممکن ہے اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے اور وہ اسی وجہ سے ان پر رحم کر دے.بہر حال انہوں نے اس بات کی ہنسی نہیں اڑائی.ہاں بعض ہندوستانیوں نے بھی جو سچائی سے ویسے ہی دور ہیں جیسے یہ لوگ اس پر ہنسی اڑائی ہے مگر وہ چونکہ ناواقف اور جاہل ہیں اس لئے مجھے ان پر تعجب نہیں لیکن ”الفضل“ میں یہ پڑھ کر مجھے تعجب ہوا کہ ہمارے پیغامی بھائی صاحبان نے بھی اس خیال کی ہنسی اڑائی ہے کہ کسی کی دعا قبول ہو سکتی ہے.تعجب ہے کہ وہ قوم جس نے رات دن معجزات دیکھے ، وہ قوم جو رات دن دعا کی قبولیت کے نشان دیکھتی رہی، وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی علیم کی باتوں کو پڑھتے اور ان کی تفسیریں اور تشریحیں لکھتے ہیں، وہ جنہوں نے آپ کا وہ فقرہ کئی بار پڑھا ہو گا کہ بعض لوگ
$1940 220 خطبات محمود ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جسم پر مٹی پڑی ہوتی ہے ، ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں مگر جب وہ خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہو گا تو اللہ تعالیٰ ویسا ہی کر دیتا ہے اور ان کی بات کو پورا کر کے چھوڑتا ہے.3 اس قسم کا تمسخر کرتی ہے.یہ بات کسی نبی، رسول یا مامور کے متعلق نہیں بلکہ عام مومن کے متعلق ہے.مگر یہ وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کا کلام پڑھتے ہیں، اس کی تفسیریں شائع کرتے ہیں اور پھر ان کو بیچ کر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی روٹی کماتے ہیں.جو اس میں پڑھتے ہیں کہ أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ 4 اور اُدْعُوْنِي اسْتَجِبْ لَكُمْ 5 مگر پھر بھی بے پرواہ ہو کر اس پر سے گزر جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے کلام کے ساتھ ان کو صرف اتنا ہی واسطہ ہے کہ اسے بیچ کر اس سے روٹی کمالیں اور پیٹ بھر لیں اور اس میں خدا تعالیٰ کے جو وعدے مومنوں سے ہیں اور جس رنگ میں اس کی قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں ان کو وہ نظر انداز کر دیتے اور بھول جاتے ہیں.ان کی نگاہ ہماری ظاہری حالت پر پڑتی ہے جو ہندوستان میں ادنیٰ سے ادنی اقوام کے برابر بھی نہیں.ہر بجنوں کے ریزولیوشن حکومت کے نزدیک زیادہ وقیع ہوتے ہیں مگر ہمارے نہیں حالانکہ ہر بجن وہی لوگ ہیں جنہیں چو ہڑے اور چمار کہا جاتا ہے.حکومت صرف تعداد کو دیکھتی ہے وہ ہندوستان میں سات کروڑ ہیں اور اگر حکومت کو ضرورت پیش آئے تو اسے سات لاکھ والنٹیر مہیا کر سکتے ہیں اور حکومت کی نظر میں دل کے اخلاص اور تقویٰ سے یہ چیز زیادہ قیمتی ہے.اس لئے وہ احمدیوں سے زیادہ ہر بیجنوں کی قدر کرتی ہے.1917ء میں ایک جگہ احمدی سپاہیوں کو تکلیف تھی.میں شملہ میں تھا اور میں نے ذوالفقار علی خان صاحب یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ایڈجوٹنٹ جنرل (ADJUTANT GENRAL) کے پاس بھیجا کہ ان کے سامنے احمدیوں کی یہ تکالیف پیش کر کے ازالہ کرائیں اور ان کو بتائیں کہ یہ لوگ حکومت کے وفادار ہیں، انہوں نے ساری عمریں فوجی سروس میں گزار دی ہیں اور اب بعض افسر دوسرے لوگوں کے شور مچانے پر ان کو نکالنا چاہتے ہیں.وہ ملے اور یہ باتیں پیش کیں.ایڈجوٹنٹ جنرل نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے لوگوں پر ظلم ہوتے ہیں اور کہ وہ مدد کے مستحق ہیں لیکن ہمیں ہندوستان میں تین لاکھ فوج چاہیئے.اگر ہم آپ لوگوں کی
* 1940 221 خطبات محمود پر واہ کریں تو دوسرے ناراض ہو جاتے ہیں.ہم آپ کو خوش کر دیتے ہیں مگر کیا آپ لوگ ہمیں تین لاکھ سپاہی مہیا کر دیں گے.اس بات کا جواب وہ کیا دے سکتے تھے.تو گور نمنٹ پر جن باتوں کا اثر ہو سکتا ہے وہ چونکہ ہمارے پاس نہیں اس لئے اس کے نزدیک ہریجن بھی ہم سے زیادہ وقیع ہیں اور اس لحاظ سے ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ ہماری کمزوری اور ناتوانی سب قوموں سے زیادہ ہے.ہندو ملک میں کافی طاقتور ہیں مگر مسلمانوں کی تعداد بھی سات آٹھ کروڑ ہے.اس لئے ان کی آواز بھی بے اثر نہیں.بعض صوبوں میں مسلمانوں کی طاقت زیادہ ہے.پنجاب میں سکھوں کی آواز بھی بے اثر نہیں کیونکہ ان کی تعداد تیس چالیس لاکھ ہے.ادنیٰ اقوام کہلانے والے غریب ہیں مگر ان کی آواز بھی بے اثر نہیں کیونکہ ان کی تعداد سات کروڑ ہے.حکومتوں کو ہر وقت روپیہ ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات آدمیوں کی بھی ہوتی ہے.روپیہ کے لئے جہاں اسے سرمایہ داروں ساہوکاروں اور کار خانہ داروں کی ضرورت پڑتی ہے وہاں فوجی بھرتی کے وقت اسے مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور مزدوری نیز کئی اور فوجی کاموں کے لئے ہر بیجنوں کی ضرورت ہوتی ہے.مگر اس کی کون سی ضرورت ایسی ہے جسے احمدی جماعت پورا کر سکتی ہے.ہم حکومت کو روپیہ نہیں دے سکتے، فوجی سپاہی نہیں دے سکتے ، مزدور نہیں دے سکتے.پھر وہ ہماری کیسے مدد کر سکتی ہے؟ کیونکہ جن چیزوں کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ان میں سے کوئی بھی ہم مہیا نہیں کر سکتے.قومی لیڈروں کو بھی ان چیزوں کی ہی ضرورتیں پیش آتی ہیں.ان کو روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ روپیہ والوں سے صلح پر مجبور ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی اپنے چرخہ 6 کے باوجود مسٹر برلا کے ہی مہمان ٹھہرتے ہیں اور کچھ عرصہ ہوا جب ایکسچینج مارکیٹ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر میں ان تاجروں کی مخالفت کروں تو گاندھی نہیں رہ سکتا.وہ ہر بجنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ بھی ان کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہیں مگر کون سی چیز ہمارے پاس ایسی ہے جس کے لئے سیاسی لیڈر ہماری طرف توجہ کر سکتے ہیں.ہمارے پاس نہ روپیہ ہے اور نہ آدمی اور نہ ہی ہماری آواز کوئی اثر رکھتی ہے.پھر ظاہری مذہبی لیڈر ہوتے ہیں ان کے لئے بھی اسی قسم کی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ
$1940 222 خطبات محمود کوئی فتویٰ دیں تو ہزاروں لاکھوں لوگ لٹھ لے کر ان کی تائید میں کھڑے ہو جائیں لیکن اگر وہ احمدیوں سے صلح رکھیں تو لوگ ان سے دور بھاگ جائیں.پھر وہ کس طرح ہماری طرف توجہ کر سکتے ہیں؟ پھر علمی لیڈروں کی نگاہ میں بھی احمدی محض بے کار ہیں.وہ لوگ جس فلسفہ اور علم النفس کو دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں ، جن اخلاق کی پابندی کرانا چاہتے ہیں، جو حریت و آزادی دماغوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان میں سے ہر ایک چیز کی احمدیت دشمن ہے.پھر اگر وہ اس کی قدر کریں تو کیونکر؟ اس لئے وہ بھی اسے بے کار سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ایسا سمجھنے میں کچھ معذور بھی ہیں کیونکہ ان کا نقطہ نگاہ بالکل مختلف ہے.مگر جو شخص احمدی کہلا تا ہے اسے اس بات کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہیے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں اس لئے مبعوث ہوئے ہیں کہ بنی نوع انسان کا تعلق خدا تعالیٰ سے دوبارہ قائم کر دیں اور دوبارہ دنیا کو دعا کی قبولیت کا قائل کریں.اس لئے اس کا یہ تو حق تھا کہ کہتا تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف چلنے والے ہو اس لئے خدا تعالیٰ تمہاری دعا کبھی نہیں سن سکتا.اگر اہل برطانیہ جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے مولوی محمد علی صاحب سے دعا کرائیں کیونکہ ہر احمدی کا یہ ایمان ہونا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی نمونہ تو چھوڑا ہے اسے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس غرض کے لئے مبعوث ہوئے تھے اس میں ناکام رہے اور یا پھر یہ ماننا ہو گا کہ کوئی نہ کوئی فریق ایسا ہے جس کی دعائیں اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے.خواہ وہ میں اور میرے ساتھی ہوں یا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء.پس جب میں نے یہ بات کہی تھی تو ان کا یہ حق تھا کہ کہتے تم نے احمدیت کو بگاڑ دیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو چھوڑ دیا ہے.اس لئے تمہاری دعا اللہ تعالیٰ نہیں سنے گا اور مضمون نگار صاحب یا خود مولوی محمد علی صاحب اعلان کر دیتے کہ میری دعا اللہ تعالیٰ سنے گا مگر افسوس کہ انہوں نے اس چیز کی تردید کی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.اب بھی یہ مضمون نگار بڑی خوشی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری دعا نہیں سنے گا بلکہ میری سنے گا یا ان کا کوئی لیڈر اعلان کر دے کہ
1940 223 خطبات محمود میری سنے گا اور پھر معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کس کی سنتا ہے.خدا تعالیٰ کے سننے کے آثار بھی ظاہر ہو جاتے ہیں.مجھے اس جنگ کے متعلق اس نے بیسیوں ایسی باتیں قبل از وقت بتائیں جن کے سینکڑوں لوگ گواہ ہیں اور وہ باتیں اب پوری ہو رہی ہیں.ان کے اعلان کے بعد اگر اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ اخبار غیبیہ سے آگاہ کرے تو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچے اتباع وہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ جس سے کام لینا چاہتا ہے اس کو پیش آنے والے حالات سے آگاہ بھی کرتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ ایک بادشاہ رویا میں مجھے دکھایا گیا اور الہام ہوا:.Abdicated اس کے بعد ایک اور بادشاہ کے متعلق مجھے خبر دی گئی کہ اس کی فلاں بیماری ایک دوسری بیماری کے نتیجہ میں ہے اور اس کی خبر اسے دے دی گئی ہے.اسی طرح انگلستان کا فرانس کو اتحاد کا پیغام سخت خطرہ کی حالت میں دینا بھی مجھے قبل از وقت بتایا گیا جو غیر معمولی رنگ میں پورا ہوا.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کے آثار بھی ظاہر ہو جایا کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس کی دعائیں سنتا ہے.اور پیغامی یہ طریق اختیار کر سکتے تھے کہ میرے مقابل پر اپنی دعاؤں کی قبولیت کا اعلان کر دیتے.یہ طریق ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت بھی قائم ہوتی اور ان کی صداقت بھی ظاہر ہو جاتی مگر افسوس کہ تلوار ہم پر نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر چلاتے ہیں.جس طرح ابن زبیر نے کہا تھا کہ اُقْتُلُونِئ وَمَالِكاً 7 یعنی مجھے اور مالک کو اکٹھے مار دو.اس نے تو نیک کام کے لئے کہا تھا مگر یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مارنا چاہتے ہیں.جب بھی یہ کوئی حملہ کرتے ہیں ایسے رنگ میں کرتے ہیں کہ ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر بھی پانی پھر جائے.رسول کریم صلی اللی نام اور صحابہ کو شعائر اللہ کا کتنا خیال رہتا تھا اس کا اندازہ اس سے
خطبات محمود 224 1940 ہو سکتا ہے کہ مکہ کے شعراء جب ایسی نظمیں جن میں آنحضرت صلیم اور آپ کے خاندان کی سخت ہتک ہوتی تھی لکھنے میں حد سے بڑھ گئے تو ایک روز حضرت حسان نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ ! اب تو یہ تو بین حد سے بڑھ گئی اور نا قابل برداشت ہو گئی ہے.اس لئے مجھے اجازت دیجئے کہ میں بھی جواب دوں.اہل عرب اچھی زبان پر مرتے تھے اور اچھا شعر خواہ کسی کا ہو سارے ملک میں پھیل جاتا تھا.آپ نے فرمایا حستان میں جواب کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں؟ میرے اور ان لوگوں کے باپ دادا ایک تھے.ان کے باپ دادا کے لئے جو لفظ استعمال کیا جائے گا وہ میرے باپ دادا کو بھی لگے گا.حضرت حسان نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں مگر میں حضور اور حضور کے خاندان سے ان لوگوں کو اس طرح باہر رکھوں گا جس طرح مکھن سے بال علیحدہ کر لیا جاتا ہے.مگر ان لوگوں کا طریق یہ ہے کہ جب بھی کوئی حملہ کرتے ہیں وہ صرف مجھ پر ہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی ہوتا ہے.آپ کا مرتبہ نبی اور رسول نہ سہی مجد د اور مامور ہی سہی.مگر کیا مجد د اور مامور دنیا میں نیکی کا کوئی نشان چھوڑتے ہیں یا ان کے بعد تاریکی ہی تاریکی باقی رہ جاتی ہے.یہاں نبوت اور رسالت کا سوال نہیں، کسی بڑے عہدے کا سوال نہیں لیکن اس سے وہ انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان حدیثوں کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے جن میں تمام انبیاء نے ایک مامور کی خبر دی ہے.مگر میں کہتا ہوں تم آپ کو نبی اور رسول نہ کہو، مجد د اور مامور بھی نہ کہو.ایسا مسلمان ہی کہہ لو جس کی آمد کی سب نبیوں نے خبر دی ہے اور پھر بتاؤ کہ کیا ایسا مسلمان اپنے پیچھے کوئی نیکی بھی چھوڑے گا یا تاریکی ہی تاریکی.تم اس نیکی کے مقام کو پیش کر دو اور کہو کہ یہ مقام ہمیں حاصل ہے.ہمارے متعلق کہہ دو کہ تم تاریکی میں پڑے ہوئے اور پھر وہ تائیدات اور نصر تیں پیش کرو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی تھیں.یہ تائیدات ایسی نہ سہی جیسی آپ کو حاصل تھیں ، ان سے بہت کم سہی.ہم مانتے ہیں کہ کسی مامور کے اتباع کا درجہ وہی نہیں ہو سکتا جو اس کو حاصل ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعاؤں کی قبولیت کا نشان جو آپ نے نیچریوں اور دہریوں کے مقابل پر پیش کیا وہ کچھ نہ کچھ تو دنیا کے سامنے پیش کرو.اگر یہ نشان آپ کی ذات
$1940 225 خطبات محمود پر ہی ختم ہو چکا تو آنحضرت صلی علی یم کی دعاؤں کی قبولیت کے بعد آپ کی کوئی ضرورت نہ تھی.اگر قصوں پر ہی مدار تھا تو پھر وہ پہلے قصے ہی کافی تھے لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ عرفان کو قائم رکھنے کے لئے ایسے نشانات ہر وقت ضروری ہوتے ہیں جو کامل مومن اور صالح مومن بھی اپنے بعد چھوڑ جاتے ہیں.ایسے مومن کا بھی کچھ نہ کچھ نشان قائم رہنا چاہیئے.مولوی محمد علی صاحب نے جو تفسیر قرآن لکھی ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کاسہ لیسی میں کئی جگہ یہ بات دیگر مذاہب کے بالمقابل پیش کی ہے کہ کیا خد اتعالیٰ سو گیا ہے کہ اب بندے ہی سب کام کریں گے ، اس نے کوئی نہیں کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار یہ بات اپنی کتابوں میں پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ دوسرے مذاہب سب بندوں کے کام ہی پیش کرتے ہیں خدا تعالیٰ کا کوئی فعل پیش نہیں کرتے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ 8 ہے.ایک مومن اور منتقی انسان جب اپنے خدا کو پکارتا ہے تو وہ بھی اسے جواب دیتا ہے یہ ایک اسلام کا امتیازی نشان آپ نے پیش کیا ہے اور مولوی محمد علی صاحب نے اپنی تفسیر میں بیسیوں آیات کی تشریح میں یہ بات پیش کی ہے.اگر ان کے نزدیک تفسیر ہی سب سے بڑا کام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی تو کیا اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے بھی ان کی طرف ہاتھ بڑھانا تھا یا نہیں.کیا اس کے لئے کوئی کام ضروری تھا یا نہیں؟ ہمیں تو کوئی ضد نہیں ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تردید نہ کرو.آپ کی تائیدات اور نصرتوں کا حامل بے شک مولوی محمد علی صاحب یا اپنے کسی اور لیڈر کو ثابت کرو اور اسے پیش کر دو کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنتا ہے.صرف مجھ پر اعتراضات کر دینا کافی نہیں میری تو طبیعت ایسی ہے کہ ذرا سا زیادہ لقمہ کھانے سے بھی خراب ہو جاتی ہے.کام کرتے ہوئے ذرا سا فاقہ کرنا پڑے تو خراب ہو جاتی ہے کیونکہ بچپن سے ہی میری صحت کمزور چلی آتی ہے.لوگ مجھ پر اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ خود کیوں بیمار ہوتے ہیں.کوئی بچہ یا اور عزیز بیمار ہو گیا یا کوئی فوت ہو گیا تو اعتراض کر دیا حالانکہ میری دعائیں کتنی ہی کیوں نہ مقبول ہوں آنحضرت صلی کم سے زیادہ تو نہیں ہو سکتیں اور گو آپ کی صحت غیر معمولی طور پر اچھی تھی مگر پھر بھی آپ بیمار ہوتے تھے
1940 226 خطبات محمود اور آپ کے رشتہ دار بھی اور آپ کے کئی بچے فوت ہوئے.پس یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اگر تمہاری دعا اس قدر مقبول ہے تو خود کیوں بیمار رہتے ہو یا رشتہ دار کیوں بیمار ہوتے یا فوت ہوتے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ اس معترض نے میرے اس اعلان پر تمسخر اڑاتے ہوئے یہ خیال نہ کیا کہ دعاؤں کے متعلق قرآن کریم میں وسیع قانون بیان ہیں.بعض دعائیں یقینی طور پر قبول ہو جاتی ہیں، بعض یقینی طور پر رڈ ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو قبول کرلے اور چاہے تو ر ڈ کر دے.پھر جو قبول ہوتی ہیں ان کے متعلق بھی بعض شرائط ہیں.اللہ تعالیٰ کی بعض سنتیں اور بعض قدر تیں ہوتی ہیں.جو دعائیں یقینی طور پر قبول ہو جاتی ہیں وہ وہی ہوتی ہیں جو سنت اللہ یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مطابق ہوں اور جو رڈ ہوتی ہیں وہ ان کے خلاف ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلى 9 مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے مگر کیا اس کے لئے دعانا واجب ہے ؟ کیا آنحضرت صلی اللہ اور اپنی فتح کے لئے دعائیں نہیں کرتے تھے ؟ کیا آپ یہ دعانہ کرتے تھے رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الفتحِينَ - 10 پھر کیا یہ دعا لغو تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون موجود تھا کہ لَأَغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلی.پس ان چیزوں کی تائید میں بھی دعائیں ہوتی ہیں اور وہ جزئیات کے لحاظ سے مفید بھی ہوتی ہیں.مثلاً اگر وہ فتح دس سال میں ہونی ہے تو اس دعا کے ذریعہ نو سال یا آٹھ سال میں ہو جائے گی اور اس وجہ سے یہ دعائیں بھی بے اثر نہیں ہو تیں.بہر حال جو دعائیں خدا تعالیٰ کی قدرت اور سنت کے مطابق ہوں وہ ضرور قبول ہو جاتی ہیں اور جو خلاف ہوں وہ ضرور رڈ ہو جاتی ہیں.مثلاً کوئی شخص خواہ کتنا نیک کیوں نہ ہو اپنی جہالت کی وجہ سے اگر مُردے کے پاس بیٹھ کر دعائیں کرے کہ وہ زندہ ہو جائے تو یہ کبھی نہ ہو گا خواہ وہ ناک رگڑ رگڑ کر مر جائے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت اور اس کی قدرت کے خلاف ہے.تو بعض دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، بعض ضرور رڈ ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں جو کبھی قبول ہو جاتی ہیں اور کبھی رڈ.بعض دفعہ تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ یہ دعائیں بھی ضرور قبول ہونے والی ہو جاتی ہیں اور
$1940 227 خطبات محمود بعض دفعہ ایسے حالات ہوتے ہیں کہ وہ ضرور رڈ ہونے والی ہو جاتی ہیں.مثلاً وہ دعائیں جو پیشگوئیوں کے مطابق ہوں وہ قبول ہو جاتی ہیں.جیسے زید یا بکر کا اپنے دشمنوں پر فتح پانا یا کسی کے ہاں لڑکا ہو جانا یا مہلک مرض سے شفا پانا کوئی قانون الہی نہیں لیکن اگر کسی ایسی بات کے متعلق کوئی پیشگوئی ہو تو اس کے متعلق دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے.گویا جب خدا تعالیٰ کی تقدیر سے دعامل جائے تو وہ قبول ہو جاتی ہے.مثلاً کسی شخص کے ہاں شادی کے بعد گیارھویں برس لڑکا ہونا ہوتا ہے تو اس کے دل میں دسویں سال دعا کی تحریک ہوتی ہے اور اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کی عزت قائم ہو اور اس کے ذریعہ اس کا فضل ظاہر ہو.یہ کوئی قانون نہیں کہ گیارھویں سال بیٹا ہو بلکہ مختلف میعادوں کے بعد ہوتے ہیں.ابھی ایک دوست کے ہاں اٹھارہ سال کے بعد اولاد ہوئی.پس جو وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کام کے متعلق ہوتا ہے اس کے ساتھ اگر دعا مطابقت کھا جائے تو وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے آملی.اس کی یہی خوبی ہے کہ وہ ایسے وقت کے ساتھ شامل ہو گئی ہے جب خدا تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج 11 یہ خدا تعالیٰ کی رحمت کی نسیم تھی اور اس نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم دعائیں قبول کریں گے اور اس نے اپنے مسیح کو بھی اس سے آگاہ کر دیا کہ یہ تقدیر ہے اس سے فائدہ اٹھالو.اب میں نے جو یہ کہا کہ اگر انگریز قوم سچے دل سے توحید پر قائم ہو کر مجھ سے دعا کی درخواست کرے تو اسے فتح حاصل ہو گی.یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں ، اس کے کلام اور میری رؤیاؤں کے عین مطابق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قوم کے لئے بہت دعائیں کی ہیں مگر ان قوموں نے خدا تعالیٰ کے تخت پر ایک بندے کو بٹھایا ہوا ہے اس لئے خدا تعالیٰ ان کو ابتلاؤں میں ڈال رہا ہے.پیغامی انکار کریں تو بے شک کریں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق جو جو دعائیں کی ہیں ان کے قبول ہونے میں روک ان کا شرک ہی ہے.اگر
$1940 228 خطبات محمود یہ روک جز و یا گلا دور ہو جائے تو یہ دعائیں فوراً قبولیت کا جامہ پہن لیں گی.میں نے کئی رؤیا ایسے دیکھے ہیں کہ میری دعاؤں سے ان کی مصیبتیں ٹل سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جو دعا کرتا ہوں وہ ضرور قبول ہوتی ہے.اگر میرے اختیار میں یہ بات ہوتی تو میں ان تکلیفوں کو ހނ ہی کیوں نہ ٹال دیتا جو خود ہمیں آتی ہیں.قرآن کریم میں ہے کہ کفار آنحضرت صلی لی لی.کہتے تھے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے اتنے ہی محبوب ہو تو کیوں تمہارا فلاں کام نہیں ہو جاتا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! ان سے کہہ دے کہ اگر میرے اختیار کی بات ہوتی تو میں سب بھلائیاں اپنے ہی لئے نہ جمع کر لیتا؟ 12 الله پس اگر آنحضرت صلی علیم کے لئے یہ قانون نہ تھا تو میرے لئے کیونکر ہو سکتا ہے؟ جب آنحضرت صلی ال یک ملک کے لئے بھی یہی قانون تھا کہ جب خدا تعالیٰ دعا قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور کسی نشان کے ذریعہ آپ کی عزت قائم کرنا چاہے تو وہ ضرور قبول کر لیتا.تو میرے لئے یا کسی اور کے لئے اس کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے ؟ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انگریزوں کی طاقت میں ہے کہ چاہیں تو ہمیں پھانسی دے دیں یا قید کر دیں.حالانکہ اس وقت وہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور نظر آتے ہیں مگر باوجود اس کے میرا دعویٰ ہے کہ میری دعا سے ان کی مشکلات دور ہو سکتی ہیں کیونکہ انگریزوں کا ہماری جانوں پر تصرف اور قانون کے ماتحت ہے اور اس بارہ میں دعا کی قبولیت ایک اور قانون کے ماتحت ہے.آنحضرت صلی ا یکم کو پکڑنے کے لئے ایران کے بادشاہ نے ارادہ کیا تھا مگر ابھی پکڑنے والے نہ آئے تھے صرف پیغام لے کر یمن کے گورنر کے آدمی پہنچے تھے مگر آپ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اپنے آقا سے کہہ دو کہ ہم نہیں آتے ، تمہارے خدا کو ہمارے خدا نے مار دیا.اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کے لڑکے کو تحریک کی اور اس نے اپنے باپ کو مار دیا.13 مگر اُحد کی جنگ میں دشمن نے آپ پر حملہ کیا پتھر مارے، آپ کے دانت ٹوٹ گئے ، سر زخمی ہو گیا اور خود کی کیلیں سر میں گھب گئیں آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور آپ کے اوپر بعض اور زخمی صحابہ گرے14 اور صحابہ نے خیال کر لیا کہ آپ شہید ہو گئے.15 اب کوئی کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی اتنی عزت منظور تھی کہ آپ کی خاطر ایران
خطبات محمود 229 * 1940 کے بادشاہ کو اتنی دور مروا دیا تو اس نے اُحد کے میدان میں کافروں کو آپ کو اس طرح پتھر کیوں مارنے دیئے ؟ تو یہ اعتراضات درست نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں.یہ راز ہیں.بعض مواقع پر وہ تھوڑی سی بات پر پکڑ لیتا ہے ، بعض دفعہ کسی مصلحت کے ماتحت ڈھیل دیتا ہے تا انسان کی بے بسی اور بے سروسامانی ظاہر ہو.پس میں اگر کوئی دعویٰ کرتا ہوں تو اسی جگہ جب خدا تعالیٰ کہے ورنہ نہیں.میں تو کمزور انسان ہوں یہ کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ وہ میرے لئے ایسی قدرت دکھائے جو اس کی طرح وسیع ہو بلکہ ایسی وسیع قدرتیں تو خدا تعالیٰ خود اپنے لئے بھی نہیں دکھاتا.کیا دنیا میں خد اتعالیٰ کی توہین اور تحقیر کرنے والے نہیں؟ بعض لوگوں کو یونہی فالج ہو جاتا ہے مگر روس میں ایسے ڈرامے کئے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ایک مجسمہ بنا کر بٹھایا جاتا ہے اور ایک شخص لینن بن کر اس کے متعلق فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے اور لوگ خدا تعالیٰ کے متعلق اس کے سامنے یہ باتیں پیش کرتے ہیں کہ یہ بڑی ظالم ہستی ہے اس نے دنیا پر کئی قسم کے عذاب نازل کئے ہیں، یہ قحط نازل کرتا ہے ، وبائیں بھیجتا ہے اور لینن فیصلہ کرتا ہے کہ اسے پھانسی دے دیا جائے اور پھر اس مجسمہ کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے خدا تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوتا لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے منہ سے کوئی چھوٹا سا جملہ بھی نکل جاتا ہے تو وہ تباہ ہو جاتے ہیں.یہ مضمون بڑا وسیع ہے جس کا یہ خطبہ متحمل نہیں ہو سکتا.قرآن کریم نے اسے کھول کر بیان کیا ہے.پس میں اس نادان معترض سے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ نہ کرو.آپ اسی قسم کے نشان دکھانے آئے تھے اور ایسے بندے پیدا کرنا آپ کا ایک مقصد تھا جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات پیدا کر دے.آپ نے فرمایا ہے کہ :.چوپیش او بروی کار یک دعا باشد 16 مگر ان پر اس کا مطلب یہی ہے کہ جو کام ساری دنیا نہیں کر سکتی وہ ایک دعا سے ہو جاتا ہے مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو ضرور قبول کر لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوئے.آپ نے دعائیں بھی کیں مگر وہ فوت ہو گئے اور یہ بھی آپ کا ایک نشان ہے کیونکہ مرزا مبارک احمد صاحب
$1940 230 خطبات محمود کے متعلق آپ نے قبل از وقت بتا دیا تھا اور جب کوئی بات قبل از وقت کہہ دی جاتی ہے تو وہ نشان بن جاتی ہے.پس نہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہر دعا قبول ہو جاتی ہے اور نہ ہر رڈ ہوتی ہے.ہاں جو دعاوہ قبول کرنے کا فیصلہ کرے وہ ضرور قبول ہوتی ہے اسے کوئی رڈ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 17 بہر حال اللہ تعالیٰ کے جو فضل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئے ان کا جاری رہنا ضروری ہے.پیغامیوں کا یہ حق تو ہے کہ کہہ دیں یہ تمہارے ذریعہ جاری نہیں ہو سکتے مگر یہ ضروری ہے کہ وہ میرے مقابلہ پر اپنے امام یا لیڈر کو پیش کریں اور کہیں کہ اس کے ذریعہ ان فضلوں کا اظہار ہوتا ہے.اور اگر واقعی خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ آئندہ کے امور کے متعلق خبریں ظاہر کرے اور اس کی دعاؤں کو غیر معمولی طور پر سنے تو ہم مان لیں گے کہ ہم گو غلطی پر تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہے مگر یہ لوگ تو دروازہ ہی بند کرتے ہیں.کیا عجیب بات ہے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق آنحضرت صلی الی یم آئے تو نبوت بند ہو گئی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تو دعا کی قبولیت کا دروازہ بند ہو گیا اور اب کوئی تیسر امامور آیا تو شاید ایمان بھی بند ہو جائے گا اور دنیا میں صرف کفر ہی کفررہ جائے گا.خدا تعالیٰ کی مہر تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام سے ثابت ہے رحمت کے دروازے کھول دیتی ہے مگر مولوی محمد علی صاحب نے ایک ایسی مہر ایجاد کی ہے کہ ہر بھلائی اور خیر کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے.“ (الفضل 12 جولائی 1940ء) 1 الفضل 4 جون 1940ء 2 الفضل 6 اکتوبر 1939ء 3 سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالك 4 النمل: 63 م الله سة
خطبات محمود 5 المؤمن :61 چرخه: کمزوری، ضعف $ 1940 231 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 250-251 مطبوعہ بیروت 1965ء 8 البقرة:3 و المجادلة:22 10 الاعراف:90 11 نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 603 12 وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ـ (الاعراف :189) 13 تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ 247 تا 249 مطبوعہ بیروت 1987ء 14 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 84-85 مطبوعہ مصر 1936ء 15 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبوعہ مصر 1936ء 16 در ثمین فارسی صفحه 190 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 17 در ثمین اردو صفحه 158
$ 1940 232 18 خطبات محمود قبولیت دعا کے خلاف ایک ٹریکٹ کا جواب (فرمودہ 12 جولائی 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”مجھے پر سوں ایک ٹریکٹ بھجوایا گیا ہے جس میں میری اس تقریر پر اعتراضات کئے گئے ہیں جو میں نے گزشتہ دنوں موجودہ جنگ کے متعلق کی تھی اور جس میں میں نے ذکر کیا تھا کہ اگر انگریز سچے دل سے توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان مصیبت کے ایام کو ان کے سروں پر سے ٹال دے گا اور ان کی فتح اور نصرت کے سامان پیدا کر دے گا.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پچھلے جمعہ کے خطبہ میں ہی ان اعتراضات کا اصولی جواب آچکا ہے تاہم میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آج بھی اسی سلسلہ میں بعض ایسے امور جو دعا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں بیان کر دوں.اس ٹریکٹ کا لکھنے والا ایک ایسا شخص ہے جو دین سے قطعاً ناواقف ہے اور اس کو خدائی احکام یا خدائی سنتوں سے کوئی آگاہی اور واقفیت نہیں.اس نے اپنے اس ٹریکٹ میں چند واقعات ایسے گنائے ہیں جن کے متعلق اس کا خیال ہے کہ ان کے بارے میں میری دعائیں قبول نہیں ہوئیں.مگر وہ واقعات اس قسم کے ہیں کہ ان کے بارے میں اس نے پہلے آپ ہی یہ فرض کر لیا ہے کہ ان کے متعلق میں نے دعائیں کیں اور پھر آپ ہی یہ فرض کر لیا ہے کہ میری وہ دعائیں قبول نہیں ہوئیں اور پھر آپ ہی یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ چونکہ ان امور کے متعلق
$1940 233 خطبات محمود میری دعائیں قبول نہیں ہوئیں اس لئے میرا یہ دعویٰ کرنا کہ اگر انگریز توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا بالکل غلط ہے.یہ تو الہی تقدیر ہے کہ ان اعتراضات کے شائع ہونے سے پہلے ہی اصولی رنگ میں میری طرف سے ان وساوس کا جواب دیا جا چکا ہے.چنانچہ میں یہ امر کھول کر بیان کر چکاہوں کہ کسی شخص کا یہ دعویٰ کرنا کہ اس کی فلاں دعا ضرور قبول ہو گی یہ معنے نہیں رکھتا کہ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی للی کم پر بھی یہی اعتراض ہوا کہ تم جو کہتے ہو کہ اگر میں دعا کروں تو اس طرح ہو جائے اگر اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہے تو تم پر فلاں مصیبت کیوں آئی؟ اور تمہارے فلاں رشتہ دار کو کیوں تکلیف پہنچی ؟ رسول کریم صلی الیم نے اس اعتراض کا یہی جواب دیا کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں.جب خدا تعالیٰ کی تقدیر مجھے معلوم ہوتی ہے تو میں کہہ دیتا ہوں کہ ایسا ہو جائے گا اور جب معلوم نہیں ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے.وہ اگر چاہے تو دعا قبول کر لے اور اگر چاہے تو ر ڈ کر دے.پس اگر یہی بات صحیح ہو کہ دعاؤں کی قبولیت کا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جس کی ہر دعا قبول ہو یا جس پر کبھی کوئی مصیبت اور بلاء نازل نہ ہو تو ایسا شخص انبیاء میں بھی کوئی نظر نہیں آسکتا.: اول تو ٹریکٹ لکھنے والے نے جو مثالیں دی ہیں ان میں سے سوائے ایک کے کوئی امر ایسا نہیں جس کے متعلق میں نے یہ بھی کہا ہو کہ میں نے اس کے متعلق دعا کی ہے.صرف اس نے قیاس کر لیا ہے کہ چونکہ جماعت پر فلاں وقت فلاں مصیبت آئی اس لئے تم نے ضرور اس کے متعلق دعا کی ہو گی.حالانکہ دعا بالکل اور چیز ہوتی ہے اور توجہ الی اللہ اور چیز ہے.بندہ جب بھی کوئی مشکل دیکھتا ہے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا اور اس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی مشکل کو دور فرمادے مگر اسے دعا نہیں کہتے بلکہ اسے انابت کہتے ہیں.دعا تو وہ ہوتی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ “جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جائے.یہ دعا ہر روز نہیں ہوتی اور نہ ہر بات کے متعلق ہوتی ہے مگر لوگوں نے اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے دعا کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ محض سجدے میں اپنا سر جھکا دینا اور کہنا کہ خدایا فلاں مصیبت ٹل جائے یا فلاں بیمار اچھا ہو جائے یہ دعا ہے حالانکہ یہ
1940 234 خطبات محمود دعا نہیں بلکہ یہ ایک انابت ہے ، یہ ایک عبادت ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.بندے کا فرض ہے کہ جب بھی وہ کوئی مصیبت دیکھے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اس کے آگے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے التجا کرے کہ وہ اس مصیبت کو دور کر دے مگر دعا کی کیفیت تو انسان پر ایسی حاوی ہوتی اور اس کے رگ وریشہ اور جسم اور روح کے ذرہ ذرہ پر ایسی طاری ہوتی ہے کہ کسی دوسری طرف انسان کو توجہ ہی نہیں ہوتی.اگر ہر امر کے متعلق انسان دعا مانگنے لگے تو پھر تو شاید سال بھر میں صرف ایک دن کی ضرورتوں کے متعلق ہی دعا کی جاسکے.امتِ محمدیہ کے تمام بزرگ کہتے چلے آئے ہیں کہ جو کچھ مانگنا ہو اپنے خدا سے مانگو.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بھی بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر تمہیں اپنی جوتی کے تسمہ کی بھی ضرورت ہو تو خدا سے طلب کرو.اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت غور کر کے دیکھ لو کہ دن رات میں کتنی ضرورتیں ہیں جو انسان کو پیش آتی ہیں اور کتنی دفعہ اسے خدا تعالیٰ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی ضرورتیں پوری ہو جائیں.ایک مکھی اگر انسان کے جسم پر بیٹھ جائے تب بھی اس اصول کے مطابق ہم خدا سے ہی کہیں گے کہ وہ اسے ہٹائے.اگر چیونٹیاں کسی کھانے کی چیز کو چھٹی ہوئی ہوں گی تو ہم خدا سے ہی کہیں گے کہ وہ ان چیونٹیوں کو دور کرے.اگر دھوپ کی شعاعیں ہمارے مکان کو نقصان پہنچار ہی ہوں گی تو ہم اس دھوپ کی ہر شعاع سے خدا کی ہی پناہ طلب کریں گے اور اگر بارش کثرت سے برسنے لگے اور وہ ہمارے لئے نقصان کا موجب بن جائے تو بارش کے ہر قطرے سے بھی ہم اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ طلب کریں گے.اسی طرح کھانے کے متعلق، پینے کے متعلق ، بیوی بچوں کے متعلق، پڑھائی کے متعلق، گھر کی صفائی کے متعلق، رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق، قرض داروں کے متعلق، غرض بیسیوں امور کے متعلق ہمیں روزانہ ضروریات پیش آتی رہتی ہیں اور سینکڑوں واقعات ایسے سامنے آجاتے ہیں کہ ہم اپنے ایمان کی بناء پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے بارہ میں خدا تعالیٰ سے استعانت طلب کریں.اب اگر ان امور میں سے ہر امر کے متعلق اسی قسم کی دعا کی جائے جو ضرور قبول ہو جاتی ہے تو صرف ایک دن کے کاموں کے لئے ہی بعض دفعہ
خطبات محمود سال بھر کی دعا کی ضرورت ہو گی.235 $ 1940 پس دعا اور چیز ہے اور انابت اور چیز.روزانہ اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے جب انسان خد اتعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو گو اس کے دل میں یہ یقین اور تو کل ہو تا ہے کہ کام سب خدا نے ہی کرنے ہیں لیکن وہ ان کو اتنا اہم نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ کے دامن کو پکڑلے اور کہے کہ میں اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک میرا مقصد پورا نہ ہو لے اور دعا دراصل یہی ہوتی ہے کہ جب کوئی امر انسان خدا تعالیٰ سے منوانا چاہے تو پھر اس وقت تک ہے نہیں جب تک خدا تعالیٰ اس کی مراد کو پورانہ کر دے.پس یہ ایک شدید غلطی ہے جو عام طور پر لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ دعا اور انابت میں فرق نہیں کرتے.قرآن کریم نے دعا اور انابت کو الگ الگ رکھا ہے چنانچہ ایک مقام پر تو فرماتا ہے کہ انيبُوا إلى رَبَّكُمْ - 1 اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے اُدعُو في أَسْتَجِبْ لَكُمْ - 2 انابت ہمارے دل میں ہر وقت ہوتی ہے اور ہم ہر وقت اس سے کام لے سکتے ہیں.مثلاً ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہم دل میں کہتے ہیں کہ اللہ میاں آپ ہی ہمیں پانی پلا سکتے ہیں حالانکہ نوکر بھی موجود ہوتا ہے اور پانی بھی گھڑوں میں موجود ہوتا ہے اور ہم نوکر کو پانی لانے کے لئے کہہ بھی دیتے ہیں.ہم کیوں دل میں کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہی پانی پلا سکتا ہے.اس لئے تو ہی مجھے پانی پلا.اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ نوکر بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے اور وہ اگر پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور اس کے منشاء کے ماتحت ہی پلائے گا یا اگر نو کر نہ ہو اور بیوی موجود ہو تو ہم اسی کو کہہ دیں گے کہ ہمیں پانی پلانا مگر اس کے ساتھ ہی ہمارے دل میں یہ یقین ہو گا کہ پانی پلانے والا خدا ہی ہے.اگر وہ نہ چاہے تو بیوی بچوں یا نوکروں کی کیا طاقت ہے کہ کسی کو پانی کا ایک گھونٹ بھی ے سکیں.پس ایسی حالت میں یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف ہم اپنے کسی نوکر یا بیوی بچے کو آواز دیتے ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر لیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ فضل نازل کرنے والا وہی ہے مگر ہم یہ نہیں کرتے کہ سجدے میں گر جائیں اور کہیں کہ ہم اس وقت تک اپنا سر نہیں اٹھائیں گے جب تک خدا ہمیں پانی نہیں پلائے گا.یہ انابت بعض دفعہ ایک سیکنڈ کی ہوتی ہے اور بعض دفعہ کچھ زیادہ وقت بھی لے لیتی ہے مگر بہر حال اس کا سلسلہ
$1940 236 خطبات محمود صبح سے شام تک ہمارے تمام کاموں میں چلتا ہے.لیکن دعا بہت بڑا وقت چاہتی ہے.بسا اوقات وہ سالوں چاہتی ہے، بسا اوقات مہینوں چاہتی ہے، بسا اوقات ہفتوں چاہتی ہے بسا اوقات دنوں چاہتی ہے اور بسا اوقات گھنٹوں چاہتی ہے اور کبھی جب وہ دعا اللہ تعالیٰ کے الہام کے ماتحت ہوتی ہے تو منٹوں میں بھی قبول ہو جاتی ہے.ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ میر ابندہ منہ سے ایک فقرہ کہہ دے میں فوراً اسے قبول کرلوں گا اور در حقیقت یہ بھی دعا نہیں ہوتی بلکہ ایک ناز ہوتا ہے.ایسا ہی ناز جیسے عاشق اور معشوق کے درمیان ہوتا ہے یا جیسے بچوں کے متعلق بعض دفعہ ماں باپ چاہتے ہیں کہ انہیں مٹھائی کی ڈلی یا کھانے کے لئے کوئی پھل دے دیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ بچہ اپنی زبان سے چیز مانگے.چنانچہ وہ مٹھائی کی ڈلی یا پھل اسے دکھا کر کہتے ہیں کہ کہو یہ ہمیں دے دو اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچہ ادھر مانگے اور اُدھر اسے دے دیا جائے.ایسی حالت میں بچہ بعض دفعہ ضد کر کے نہیں مانگتا تو ماں باپ اصرار کرتے چلے جاتے ہیں کہ نہیں ضرور ما نگو کیونکہ ان کا اپنا دل چاہتا ہے کہ بچہ مانگے اور وہ دیں.اسی طرح کبھی اللہ تعالیٰ کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس سے مانگے اور وہ کہتا ہے اے میرے بندے مجھ سے مانگ تا تجھے دوں.چنانچہ منہ سے نکالنے کی دیر ہوتی ہے کہ بندے کو اس کی مانگی ہوئی چیز مل جاتی ہے.پس ایک ہوتی ہے انابت، ایک ہو تا ہے ناز اور ایک ہوتی ہے دعا.انابت تو گل کا ایک حصہ ہے اور یہ ہر وقت مومن کے ساتھ رہتی ہے.حتی کہ اگر کسی کے دل میں انابت نہ ہو تو وہ مومن ہی نہیں ہو سکتا.اگر اسے پیاس لگتی ہے تو اس انابت کی وجہ سے اسے یقین ہو تا ہے کہ خدا ہی پانی پلائے گا، بھوک لگتی ہے تو اسے یقین ہو تا ہے کہ خدا ہی کھانا کھلائے گا، مکان کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ خدا ہی مکان مہیا کرے گا، کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ خدا ہی اسے کپڑے پہنائے گا.بے شک وہ کئی کاموں میں بیوی سے بھی مدد لیتا ہے، مثلاً وہ بیوی سے کھانا پکواتا ہے، کپڑے سلواتا ہے، پانی پینے کی ضرورت ہو تو اسے کہتا ہے کہ پانی لا دو اور اسی طرح بیوی کے بہت سے کام یہ کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ بیوی کی زندگی خدا کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں.
$1940 237 خطبات محمود اگر بیوی کو وہ وفات دے دے تو میں اسے کس طرح زندہ کر سکتا ہوں.یا فرض کرو بیوی کو مجھے سے شدید نفرت ہو جائے اور وہ قاضی کے پاس خلع کی درخواست کر دے تو میں کیا کر سکتا ہوں.ایسی حالت میں بالکل ممکن ہے کہ خاوند کہے کھانا تیار کرو اور بیوی کہے کہ کھانا کیسا؟ میں تو قاضی کے پاس خلع کی درخواست لے کر چلی ہوں.پس چونکہ تمام سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہی ہر کام کے لئے اسباب مہیا کرتا ہے اس لئے مومن ہر مشکل کے وقت خدا کی طرف جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دور ہونے کی التجا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ظاہری سامانوں سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے لیکن بہر حال یہ انابت ہوتی ہے دعا نہیں ہوتی.پس اول تو یہ نادان شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے سمجھتے ہی نہیں کہ دعا کیا چیز ہوتی ہے؟ پھر اسی ناواقفیت کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی ہر دعا ضرور قبول ہونی چاہیئے.حالانکہ اگر یہ اصول درست ہو کہ ہر مشکل کے وقت جب کوئی شخص دعا کرے تو اس کی دعا کو ضرور قبول ہو جانا چاہیئے تو ماننا پڑے گا کہ آج تک کوئی نبی بھی قبولیت کے مقام پر کھڑا نہیں ہوا.آخر سوچنا چاہیے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مشکلات پیش آئی تھیں یا نہیں ؟ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جنگل میں وفات پاگئے جس کے سامنے وہ موعود ملک تھا، جس کے متعلق خدا کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ وعدہ تھا کہ اس میں تو اور تیری قوم داخل ہو گی.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس ملک میں داخل ہونے کے متعلق دعائیں نہیں کی ہوں گی.یقینا کی ہوں گی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وہ دعائیں قبول نہ ہوئیں.اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے جب ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ ان کے بھائی ان کی مخالفت کریں گے تو کیا حضرت یعقوب علیہ السلام نے دعائیں نہیں کی ہوں گی کہ میرے بچے یوسف کی مخالفت نہ کریں اور خدا ان کو تقویٰ و طہارت اور پاکیزگی سے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.مگر کیا یہ دعا قبول ہوئی ؟ اور کیا انہی بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو شدید تکالیف نہیں پہنچائیں؟ پھر انجیل میں صاف لکھا ہے کہ صلیب دیے جانے سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام تمام رات اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہے کہ :
خطبات محمود 238 “اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے."3 * 1940 مگر یہ پیالہ ٹلا تو نہ اور حضرت عیسی علیہ السلام کو دشمنوں نے صلیب پر لٹکا ہی دیا.پھر خود رسول کریم ملی ایم کے گیارہ بچے فوت ہوئے.کیا اس قسم کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی الیم نے ان کے لئے دعائیں نہیں کی ہوں گی ؟ آپ کو اپنی اولاد سے جو محبت تھی اور آپ کے دل میں ان کے متعلق جس قسم کا درد پایا جاتا تھا اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ جب ابراہیم جو آپ کی نرینہ اولاد میں سے سب سے آخری بچہ تھا فوت ہوا تو آپ نے اس کی لاش کو اپنی گود میں اٹھالیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.4 پھر آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جا اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس.حضرت عثمان بن مظعون ایک صحابی تھے جو سترہ اٹھارہ سال بلکہ اس سے بھی کم عمر میں رسول کریم صلی لی لی پر ایمان لائے ان کے ماں باپ ان کے شدید مخالف ہو گئے.اتنے شدید کہ ان کی ماں ان کے ہاتھ سے پانی تک نہیں پیتی تھی مگر باوجود اس شدید محبت کے جو انہیں اپنی والدہ کے ساتھ تھی انہوں نے اسلام چھوڑنا گوارا نہ کیا.آخر ان کے ماں باپ نے انہیں اپنے گھر سے نکال دیا اور کہہ دیا کہ جب تک محمد (صلی لیلی) کو نہیں چھوڑو گے ہم تجھے اپنے گھر میں نہیں آنے دیں گے.انہوں نے خوشی سے اپنے گھر کو چھوڑ دیا اور کہہ دیا کہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.میر اباپ بھی محمد ہے اور میری ماں بھی محمد ہے (صلی للی ).اور ایک مجلس میں اسلامی تعلیم کی تائید میں بول کر ایسی مار کھائی کہ آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی.5 ان کی اس قربانی کی وجہ سے رسول کریم صلی ال نیم کو ان سے بہت محبت تھی اور آپ انہیں اپنے بچوں جیسا عزیز سمجھتے تھے.بعد میں وہ ایک جنگ میں شہید ہو گئے.جب رسول کریم صلی یکم کا بیٹا ابراہیمفوت ہوا تو آپ نے انہی عثمان بن مظعون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس.الله سة غرض بعض روایات کے مطابق رسول کریم صلی ال نیم کے گیارہ بچے فوت ہوئے اور لازماً ہر بچہ کے متعلق رسول کریم صلی ال کلیم نے دعائیں کی ہوں گی مگر آخر اللہ تعالیٰ کی مشیت غالب آئی اور وہی ہوا جو اس نے چاہا تھا.ایک دفعہ آپ قبرستان کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے ایک بڑھیا کو دیکھا
$1940 239 خطبات محمود کہ وہ ایک قبر پر بیٹھی بین ڈال رہی ہے.رسول کریم صلی یکم اس کے قریب گئے اور فرمایا بڑھیا کیا ہوا؟ اس نے کہا میر ابچہ فوت ہو گیا ہے.رسول کریم صلی الیم نے فرمایا بڑھیا صبر کرو خدا کی یہی مشیت تھی.بڑھیا نے شدت غم میں آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا کہ کون شخص اس سے باتیں کر رہا ہے.اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ ایسی حالت میں انسان کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنے سر کو جھکائے ہوئے ہوتا ہے اس نے رسول کریم صلی ظلم کو پہچانا نہیں تھا.کہنے لگی میاں دوسروں کے لئے نصیحت ہوتی ہے ورنہ جس کے دل کو لگتی ہے وہی جانتا ہے کہ یہ صدمہ کتنا سخت ہوتا ہے.رسول کریم صلی للی کم نے فرمایا مائی میرے گیارہ بچے فوت ہو چکے ہیں اور یہ کہہ کر آپ اپنے مکان کی طرف تشریف لے گئے.بعد میں کسی نے اسے بتایا کہ بد بخت وہ تو رسول کریم صلی ہی کم تھے.وہ یہ سنتے ہی دوڑتی ہوئی آپ کے پاس پہنچی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میں نے صبر کیا.آپ نے فرمایا الصَّبُرُ لِاَوَّلِ وَهُلَةٍ صبر تو وہی ہے جو شروع میں کیا جائے ورنہ رو دھو کر تو سب کو صبر آجاتا ہے.6 ایک دفعہ آپ کا ایک نواسہ فوت ہو گیا.رسول کریم صلی الی ایم نے جب اسے دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگ گئے.ایک صحابی کہنے لگا یار سول اللہ آپ تو دوسروں کو صبر کی تلقین کیا کرتے ہیں اور خو د روتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ کریم نے فرمایا میری آنکھیں روتی ہیں الله اور یہ رحمت کی علامت ہے.7 اگر تمہارا دل خدا تعالیٰ نے سخت بنادیا ہے تو میں کیا کروں ؟ غرض درد آپ کے دل میں تھا اور اس وجہ سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ رسول کریم ملا لیم نے اپنے بچوں کے لئے دعائیں نہیں کی ہوں گی مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی ا ہم نے ان بچوں کے لئے دعائیں کیں آپ کے گیارہ بچے فوت ہو گئے.(روایات میں اختلاف ہے بعض میں کم تعداد کا ذکر ہے.) اس ٹریکٹ کے لکھنے والے نے میری بھی گیارہ دعائیں ایسی شمار کی ہیں جو اس کے خیال میں قبول نہیں ہوئیں اور رسول کریم صلی علی ایم کے بھی گیارہ بچے ہی فوت ہوئے تھے.اب کیا یہ کہا جائے گا کہ آپ نے ان کے متعلق دعائیں نہیں کی تھیں یا یہ کہا جائے گا کہ رسول کریم صلی الی یم نے دعائیں تو کیں مگروہ قبول نہ ہوئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی
$1940 240 خطبات محمود بیماری میں ان کی صحت کے لئے کتنی دعائیں کیں.ہمارے سلسلہ کے اخبارات کے فائل اس پر گواہ ہیں مگر کیا مولوی عبد الکریم صاحب تندرست ہو گئے ؟ اور کیا اس کے باوجود آپ نے دنیا کو چیلنج دیا ہے یا نہیں کہ مجھے قبولیت دعا کا معجزہ دیا گیا ہے اور اس نشان میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اب کیا کوئی مخالف اگر یہی بات پیش کرے کہ جب مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق آپ کی دعا قبول نہ ہوئی تو آپ نے قبولیت دعا کے نشان میں مقابلہ کرنے کا چیلنج کس طرح دیا؟ تو کیا اس کی یہ بات معقول ہو گی ؟ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی صحت کے لئے بہت دعائیں کیں اور آپ کو ان سے اس قسم کا تعلق تھا کہ جب وہ فوت ہوئے تو گو آپ کی عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ ہمیشہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ جاتے اور عشاء تک مختلف دینی مسائل پر باتیں کرتے رہتے.(مولوی عبد الکریم ایسے موقع پر ہمیشہ آپ کے دائیں طرف بیٹھا کرتے تھے ) جب مولوی صاحب کی وفات ہو گئی تو آپ نے مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھنا بند کر دیا.ایک دفعہ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ حضور پہلے مغرب کے بعد مسجد میں تشریف رکھا کرتے تھے اور مختلف دینی مسائل بیان کیا کرتے تھے جس سے آنے والے مہمانوں اور دوسرے لوگوں کو بہت کچھ فائدہ ہو تا تھا مگر اب حضور نے بیٹھنا بند کر دیا ہے ہماری خواہش ہے کہ حضور پھر اس سلسلہ کو جاری فرما دیں کیونکہ لوگوں کو حضور کے نہ بیٹھنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اب مجھ سے بیٹھنا برداشت نہیں ہو سکتا کیونکہ جب میری نظر اس طرف جاتی ہے جہاں مولوی عبد الکریم صاحب بیٹھا کرتے تھے تو میرے دل کو سخت تکلیف ہوتی ہے.اسی طرح ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد جب بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس کے لئے کتنی ہی دعائیں کیں مگر ان دعاؤں کے باوجود وہ بھی فوت ہو گیا کیونکہ خدا کی مشیت یہی تھی.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے مولوی عبد الکریم صاحب کے لئے آپ نے دعائیں کیں مگر وہ قبول نہ ہوئیں اور مولوی صاحب فوت ہو گئے.پھر مبارک احمد کے لئے آپ نے دعائیں کیں مگر وہ بھی قبول نہ ہوئیں اور مبارک احمد فوت ہو گیا.ایسی حالت میں
$1940 241 خطبات محمود دنیا کو چیلنج دینے کے معنی کیا ہوئے ؟ اور کس طرح معلوم ہوا کہ آپ کی دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں ؟ بلکہ اس سے بھی پہلے بشیر اول فوت ہوا اور آپ نے اس کے لئے بہت دعائیں کیں.یہ تو آپ کو اس کی وفات پر معلوم ہوا کہ جس لڑکے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی ہے اس کا مصداق بشیر اول نہیں لیکن جب تک وہ زندہ رہا آپ کا یہی خیال تھا کہ وہی موعود لڑکا ہے اور آپ نے نہ صرف خود اس کے لئے دعائیں کیں بلکہ دوسروں سے بھی کروائیں مگر پھر بھی وہ فوت ہو گیا.پھر آتھم کے متعلق پیشگوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں.میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی تھی مگر مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب اور اضطراب سے دعائیں کی گئیں.میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور مولوی عبد الکریم صاحب اور سلسلہ کے بعض اور بزرگ مسجد میں جمع ہو کر دعا کر رہے تھے اور تیسری طرف بعض نوجوان ( جن کی اس حرکت پر بعد میں بُرا بھی منایا گیا جہاں حضرت خلیفہ اول مطب کیا کرتے تھے اور آجکل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھے ہیں وہاں اکٹھے ہو گئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دیئے.ان کی چھینیں سو سو گز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اللہ آنتظم مر جائے یا اللہ آ تم مر جائے.مگر اس کہرام اور آہ و زاری کے نتیجہ میں آتھم تو نہ مرا پھر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ جب ایسے معاملات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں قبول نہ ہوئیں تو آپ کا دنیا کو قبولیت دعا کے نشان میں مقابلہ کا چیلنج دینا نا جائز تھا؟ غرض اگر یہ صحیح ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کا دعویٰ اسی شخص کا صحیح سمجھا جا سکتا ہے جس کا کبھی کوئی نقصان نہ ہوا ہو اور نہ اسے کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو تو پھر تو کوئی نبی بھی ایسا نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہو کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں.سب سے بڑے نبی ہیں مگر میں بتا چکا ہوں کہ آپ کی اولاد بھی فوت ہوئی.اسی طرح آپ کی آنحضر
$1940 242 خطبات محمود ایک بیوی فوت ہوئی حالانکہ وہ آپ کو اتنی پیاری تھیں کہ اس کی مثال اور کسی بیوی میں نظر نہیں آتی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول کریم صلی ایم کو بڑی محبت تھی مگر ایک دفعہ حضرت عائشہ سے ہی کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی بیوی کے متعلق کبھی غیرت بھی آئی.اس پر انہوں نے کہا کہ زندہ بیویوں میں سے تو کسی کے متعلق مجھے کبھی غیرت نہیں آئی مگر ایک بیوی جو وفات پاچکی ہے اس کے متعلق مجھے ضرور غیرت آجاتی ہے کیونکہ کبھی کبھی رسول کریم صلی ا یا اس کی اتنی تعریف کرتے ، اتنی تعریف کرتے کہ میں کہتی یار سول اللہ کیا وہ بڑھیا آپ کو اس جو ان سے اچھی لگتی ہے؟ اور رسول کریم صلی ا یکم فرماتے کہ عائشہ ! تجھے کیا معلوم خدیجہ کیا تھی؟ اور یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور فرماتے اس نے میری اتنی خدمت کی ہے اور اس نے اس طرح اپنے آپ کو میرے لئے قربان کر دیا کہ میں اس کی خدمت اور اس کے درجہ کو کبھی نہیں بھول سکتا.8 ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے وعظ و نصیحت کر رہے تھے.عور تیں آپ کے ارد گرد بیٹھی تھیں اور ان عورتوں میں بڑے بڑے معزز خاندانوں کی مستورات شامل تھیں کہ اچانک ایک بڑھیا پھٹے پرانے کپڑوں میں آگئی.آپ اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنے نیچے جو کپڑا بچھا ہوا تھا وہ اٹھا کر اس کی خاطر بچھا دیا اور فرمایا آگئی میری خدیجہ کی سہیلی ، آگئی میری خدیجہ کی سہیلی 9 اس قسم کی محبت کی موجودگی میں تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ حضرت خدیجہ کی بیماری کے دنوں میں رسول کریم صلی الی ایم نے ان کے لئے کتنے درد اور کتنے سوز سے دعائیں کی ہوں گی مگر پھر وہ دعائیں قبول تو نہ ہوئیں اور رسول کریم صلی علیہ کی یہ ہی کو خدا کی مشیت پر صبر کرنا پڑا.اسی طرح ابو طالب کے متعلق آپ نے کس قدر دعائیں کیں کہ خدایا اسے ہدایت دے دے مگر ان دعاؤں کے باوجود ابو طالب کو ہدایت نہ ملی.غرض رسول کریم صلی ال نیم کی بیوی بھی فوت ہوئی، بچے بھی فوت ہوئے اور پھر چا، ایسا محبت کرنے والا چچا جس نے باوجود مذہبی اختلاف رکھنے کے اور باوجود اس کے کہ اپنی قوم کی دشمنی اس نے اپنے سر لے لی اور اپنی تمام عمر رسول کریم صلی نیم کی خدمت میں صرف کر دی.اس کی ہدایت کے لئے آپ نے کی
$1940 243 خطبات محمود دعائیں کیں مگر خدا تعالیٰ کی مشیت کے مطابق وہ قبول نہ ہوئیں اور آپ نے خدا تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھا.10 اسی طرح آپ کا ایک اور جو ان چچا جس نے اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے رشتہ داروں کو آپ کی خاطر چھوڑ دیا تھا وہ آپ کے سامنے اس طرح مارا گیا کہ دشمن نے اس کا کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبالیا.پھر آپ کا ایک اور چیرا بھائی دور میدانوں میں ، سینکڑوں میل دور مدینہ سے پرے، غربت کی حالت میں وطن سے الگ بلکہ دو وطنوں سے علیحدہ ہونے کی حالت میں کیونکہ وہ پہلے مکہ سے مدینہ آیا اور پھر مدینہ سے شام کے میدانوں میں گیا، جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا.مدینہ میں جب جنگ میں شہید ہونے والوں کے متعلق اطلاع پہنچی تو تمام لوگوں نے اپنے اپنے مر دوں پر رونا شروع کر دیا.آپ کو بھی اپنے چچیرے بھائی کی وفات کا جس کا نام جعفر تھا سخت صدمہ ہوا اور اسی صدمہ کی حالت میں آپ مدینہ کی گلیوں میں سے گزرے تو بعض گھروں میں سے رونے کی آواز آئی.مگر جب حضرت جعفر کے مکان کے پاس سے گزرے تو وہاں کوئی رونے والا نہیں تھا.رسول کریم صلی ال کی یہ تو نہیں کہ رونے کو پسند کرتے تھے یا صحابہ بلند آواز سے رویا کرتے تھے مگر ایسے موقع پر چونکہ آواز کو بعض دفعہ پوری طرح دبایا نہیں جاسکتا خصوصاً نوجوان لڑکیوں سے ، اس لئے بعض گھروں سے رونے کی آواز آرہی تھی لیکن جعفر" کے مکان کے پاس بالکل خاموشی تھی.جب آپ وہاں پہنچے تو آپ کے دل میں درد پیدا ہوا اور آپ نے فرمایا افسوس جعفر کو رونے والا بھی کوئی نہیں.انصار (اللہ تعالیٰ کی ان پر بڑی بڑی رحمتیں ہوں) رسول کریم صلی للی کم کا کوئی لفظ ضائع نہیں ہونے دیتے تھے.جو نہی انہوں نے رسول کریم صلی علیم کے یہ الفاظ سنے وہ بھاگ کر اپنے گھروں کو گئے اور انہوں نے اپنی عورتوں سے کہا کہ نیک بختو ! تم اپنے مردوں کو روتی ہو اور محمد علی ایم کے فوت شدہ عزیز کو نہیں روتیں فوراً جعفر کے گھر جاؤ اور وہاں رونا شروع کر دو.چنانچہ مدینہ کی تمام عور تیں حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے ایک گہرام مچا دیا.رسول کریم صلی یکی نے سنا تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے کہا یارسول اللہ صلی علیکم آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفر پر کوئی رونے والا نہیں ؟ ہم نے اپنی عورتوں کو جعفر کے گھر بھجوا دیا ہے اور وہ
$1940 244 خطبات محمود سب اس جگہ اکٹھی ہو کر رو رہی ہیں.آپ نے فرمایا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا میں نے تو محض اپنے غم کا اظہار کیا تھا.اس پر ایک صحابی دوڑتے ہوئے ان عورتوں کی طرف گئے اور کہا کہ مت رؤو، رسول کریم صلی اللی علی منع کرتے ہیں.وہ اس وقت جوش میں بھری ہوئی تھیں انہوں نے کہا ہم تو روئیں گی یہ سن کر وہ پھر رسول کریم صلی للی یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یار سول اللہ ! وہ تو باز نہیں آتیں.اس پر آپ نے فرمایا ڈالو ان کے منہ پر مٹی.یہ عرب کا ایک محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دو.اس وقت وہ جوش کی حالت میں ہیں تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی مگر وہ شخص ظاہری الفاظ کا زیادہ پابند تھا اس نے جھولی میں مٹی ڈالی اور جا کر ان عورتوں کے مونہوں پر ڈالنی شروع کر دی.حضرت عائشہ کو معلوم ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئیں اور فرما یار سول کریم صلی این نیم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ ان کے منہ پر مٹی ڈالنی شروع کر دو.آپ کا تو یہ مطلب تھا کہ اب زیادہ کچھ نہ کہو وہ خودہی خاموش ہو جائیں گے.11 غرض رسول کریم صلی علیم کے سامنے آپ کے بعض عزیز اور رشتہ دار شہید ہوئے اور بعض کی شہادت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو قبل از وقت اطلاع بھی دی گئی اور اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان کے لئے ضرور دعائیں کی ہوں گی.مگر خدا تعالیٰ کی جو مثیت تھی وہی ہوا.اب کیا کوئی بد بخت کہہ سکتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی ا یکم کی بعض دعائیں قبول نہیں ہوئیں اس لئے آپ کو قبولیت دعا کا منصب حاصل نہ تھا.اس بد بخت کو میں کہوں گا کہ اے جاہل اللہ تعالیٰ کا تعلق اپنے بندوں سے دوستوں کا سا ہوتا ہے کبھی وہ ان کی سنتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے.اے جاہل! تجھے وہ بیسیوں باتیں تو نظر آتی ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے اپنی منوائی مگر وہ لاکھوں کروڑوں امور نظر نہیں آتے جن میں محمد رسول اللہ صلی ال نیم کی دعاؤں کو سن کر خدا نے پورا کیا اور اس کی عبودیت پر اپنے عمل سے مہر لگائی.میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس ٹریکٹ میں جو مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے اکثر ایسی ہیں جن کے متعلق میں نے کبھی دعا نہیں کی.مثلاً لکھا.ہے:.
خطبات محمود 245 ” جب آپ نے احمد یہ سٹور قوم کے ہزاروں روپیہ کے سرمایہ ، سے جاری کیا تھا اور اس میں آپ نے اپنی ذمہ داری پر لوگوں سے روپیہ لیا تھا کیا اس کی کامیابی کے لئے دعائیں نہ کی تھیں ؟ اگر کی تھیں تو سٹور کیوں وو * 1940 تباہ و برباد ہوا." حالانکہ مجھے کیا مصیبت پڑی تھی کہ میں سٹور کے لئے دعا کرتا.پھر میں نے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے تھے انہیں مشورہ دیتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ قادیان میں بیس ہزار روپیہ سے زیادہ کی تجارت نہیں چل سکتی اور اگر چلائی جائے گی تو نقصان ہو گا.انہوں نے میری اس بات کو نہ مانا اور 80 ہزار روپیہ جمع کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتنار و پیہ چونکہ قادیان میں لگ نہیں سکتا تھا اس لئے انہیں نقصان ہو گیا.مگر بہر حال سٹور کوئی دینی چیز نہیں تھی جس کے لئے میں دعا کرتا اور نہ میں نے اس کے لئے کبھی دعا کی سوائے انابت کی قسم کی دعا کے.پھر لکھتا ہے:.“ کیا جناب کو یاد نہیں کہ جب آپ کے نہایت قیمتی گھوڑے چور لے گئے اور آپ نے ان کی واپسی کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا.گھوڑے تو واپس کیا آنے تھے الٹا آپ سے بھونگے کی رقم بھی لے کر کھا گئے.اس وقت آپ کی دعاؤں کو کیا ہوا؟“ یہ بات بھی ویسی ہی غلط ہے جیسی پہلی.کیونکہ خود بخود یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ چونکہ میرے گھوڑے چوری ہو گئے تھے اس لئے میں نے ان کی دستیابی کے لئے ضرور دعا کی ہوگی.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں ایک دوست غالباً چودھری فتح محمد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر یہ گھوڑے نہ ملے تو ہماری اس علاقہ میں بہت ذلت ہو گی.آپ دعا کریں کہ ہمیں گھوڑے مل جائیں.میں نے انہیں کہا کہ میں ایسے امر کے لئے دعا کرنے کے لئے تیار نہیں.میرے لئے اس سے بہت اہم امور دعا کے لئے موجود ہیں وہی میرے لئے بس ہیں.دعا نہایت مقدس چیز ہے اس کو ایسی ذلیل باتوں کے لئے استعمال کرنا مجھے سخت نا پسند ہے.ہاں
$1940 246 خطبات محمود بعض دفعہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک گھوڑے کے چوری ہونے پر بھی کسی کو دعا کی ضرورت محسوس ہو.مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی ساری پونجی گھوڑا ہی ہو ایسی حالت میں اگر وہ گھوڑے کے لئے دعا کرتا ہے تو جائز ہو گا.یا کوئی اور شخص ہے جس نے جہاد کے لئے گھوڑا رکھا ہوا ہے اور وہی گھوڑا چور چرا کر لے جاتے ہیں تو ایسی حالت میں اگر وہ دعا کرتا ہے کہ خدایا میرا گھوڑا مجھے مل جائے تو یہ بالکل جائز ہو گا کیونکہ اگر نہ ملے تو وہ جہاد سے محروم رہتا ہے.مگر میں نے وہ گھوڑے کون سے جہاد کے لئے رکھے ہوئے تھے کہ میں ان کے گم ہو جانے پر دعا کرتا کہ وہ مجھے مل جائیں.وہ میرے لئے قطعاً کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے بلکہ ایک تو سویا سوا سو روپیہ کا تھا جو میں نے خود خرید ا تھا اور دوسری گھوڑی تھی جو ایک دوست مجھے بطور تحفہ دے گئے تھے.بہر حال میرے لئے ان کا چوری چلے جانا کوئی زیادہ اہم نہ تھا.پھر یہ کہنا کہ الٹاوہ بھونگے کی رقم بھی لے کر کھا گئے یہ بھی درست نہیں.پولیس نے چوروں کو پکڑ لیا تھا پھر بھنگا دینے کے کیا معنی ؟ اور وہ ان کو گرفتار کر کے قادیان لے آئے تھے.دو تین دن بعد انہوں نے مجھ سے کہا یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ ان کو چھوڑ دیں تو یہ گھوڑے آپ کو واپس کر دیں گے.میں نے سمجھا کہ پولیس کو رشوت کی تو عادت ہوتی ہے انہوں نے کچھ کھالیا ہو گا اور یہ خود ایک سزا ہے جو ان چوروں کو مل گئی ہے اس لئے میں نے کہہ دیا کہ اچھا چھوڑ دو اور مجھ سے دراصل وہ اسی لئے کہلوانا چاہتے تھے کہ وہ ڈرتے تھے کہ بطور خود چھوڑا تو یہ افسروں سے شکایت کریں گے.اب ان کے لئے صرف یہی صورت تھی کہ میری زبان سے کوئی فقرہ نکلوا کر انہیں چھوڑ دیں.چنانچہ وہ چھوٹ کر چلے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دیے بغیر نہ چھوڑا.چنانچہ وہ لوگ جوان کے ناموں سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ وہی لوگ جنہوں نے میرے گھوڑے چرائے تھے ایک اور مجرم میں پکڑے گئے اور ان پر مقدمہ چلا.ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا اسے کسی نے بتا دیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مرزا صاحب کے گھوڑے چرائے تھے.اس نے فیصلہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں تمہیں صرف دو دو سال قید کی سزا دینا چاہتا تھا مگر چونکہ تم نے مرزا صاحب کے گھوڑے چرائے تھے اور پھر واپس نہیں کئے اس لئے میں تمہیں پانچ پانچ سال قید کی سزا دیتا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انہیں سزا ملی وہ الگ ہے.ان میں سے ایک کی بیوی
$1940 247 خطبات محمود نکل گئی.دوسرے کا بیٹامارا گیا اور پھر جلد ہی وہ خود بھی مر گیا.تیسرے شخص کے بارہ میں مجھے یاد نہیں کہ اسے کیا سزا ملی مگر جہاں تک مجھے یاد ہے وہ بھی سخت سزا میں مبتلا ہوا تھا اور اردگرد کے واقف لوگوں میں اس واقعہ کو ایک نشان سمجھا جاتا ہے.پچھلے دنوں جب میں سندھ گیا تو وہاں دوسندھیوں نے میری بیعت کی اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے بیعت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی چوری کسی کو ہضم نہیں ہوتی.چنانچہ وہ کہنے لگے یہاں سندھ میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ پنجابی پیر کی کوئی چوری نہیں کر سکتا.اور اگر کرے تو وہ اسے ہضم نہیں ہوتی.سندھیوں کے لئے اپنے پرانے پیروں کو چھوڑ نابڑا مشکل ہو تا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بعض ایسے نشانات دکھائے جن کے ماتحت وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اپنے پیروں کو چھوڑ کر میری بیعت کریں.چنانچہ بعض واقعات انہوں نے مجھے بھی سنائے جو واقع میں حیرت انگیز تھے.مثلاً ایک نے بتایا کہ ایک شخص آپ کا کچھ غلہ کچرا کر لے گیا.کھوج اس کے ڈیرہ تک پہنچا مگر اس نے تسلیم نہ کیا.اس کے خسر نے اسے کہا کہ ان کی چوری بچا نہیں کرتی تم اپنے جرم کا اقرار کر لو مگر اس نے نہ مانا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ ادھر جواب دینے کے لئے پنچایت کے پاس آیا اور ادھر اس کے ہمسایہ کے ساتھ اس کی بیوی بھاگ گئی.اس قسم کے اور کئی واقعات ہوئے جس کی وجہ سے عام طور پر لوگوں پر ایک ہیبت ہے.غرض یہ دنیوی چیزیں ہیں جن کے متعلق عام حالات میں میں دعا کرنا پسند نہیں کرتا.دعا تو ایک بہت ہی اعلیٰ اور ارفع چیز ہے.اس سے تو ہم دین کی مشکلات کے دور ہونے اور جماعت کو بحیثیت مجموعی ترقی کے لئے کام لیتے ہیں نہ یہ کہ گھوڑے چوری ہوں تو ہم دعا کرنے لگ جائیں مگر معلوم ہوتا ہے اس نے اپنے اوپر قیاس کر لیا چونکہ اس کی اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کی حالت ایسی ہی ہے.نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں." اس لئے اس نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے خیال کر لیا کہ ہماری بھی یہی حالت ہے.گویا وہی اندھے اور سو جاکھے والی بات آگئی جو میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں.میں نے بتایا ہے کہ جو واقعات اس ٹریکٹ میں پیش کئے گئے ہیں ان میں.
* 1940 248 خطبات محمود بعض امور ایسے ہیں کہ ان کے متعلق میں نے دعا کی ہی نہیں بلکہ گیارہ میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے متعلق میں نے کبھی دعا نہیں کی.صرف ایک واقعہ ایسا ہے جس کے متعلق میں نے دعا کی تھی مگر جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ہی بیان کیا تھا اگر ایک چھوڑ میری سود عائیں بھی ایسی نکل آئیں جو قبول نہ ہوئی ہوں تو اس سے مجھ پر کوئی الزام عائد نہیں ہو تا کیونکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ انسان کی ہر دعا قبول نہیں ہوتی اور نہ بتایا جائے کہ کیارسول کریم صلی ال نیم کے گیارہ بچے فوت نہیں ہوئے اور کیا آپ نے ان میں سے ہر ایک کے متعلق دعا نہیں کی تھی.اسی طرح آپ کی بیوی فوت ہوئی، آپ کے کئی رشتہ دار فوت ہوئے، آپ کے کئی صحابہ فوت ہوئے اور آپ نے لازماً ان میں سے ہر ایک کے متعلق دعا کی ہو گی مگر خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ مرنے والے مرتے جائیں گے اور جن کا نقصان مقدر ہے ان کا نقصان ہو تا چلا جائے گا.یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ مومن کا نقصان نہیں ہوتا یا مومن پر کبھی کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی بلکہ بحیثیت مجموعی مومن ترقی کرتا ہے اور بحیثیت مجموعی وہ مصائب اور مشکلات سے محفوظ رہتا ہے.گویا مومن کے نقصان کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے کئی سال مزدوری کر کے سونے کے کڑے بنوائے.ایک دن کوئی چور آیا اور اس کے کڑے اتار کرلے گیا.سال دو سال کے بعد ایک دن وہ عورت اپنے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ اس نے دیکھا وہی چور جس نے اس کے کڑے اتارے تھے پاس سے گزر رہا ہے.اس نے اسے آواز دی اور کہا بھائی ذرا میری بات سن جانا.اس نے جب دیکھا کہ وہی عورت اسے آواز دے رہی ہے جس کے کڑے وہ اتار کر لے گیا تھا تو اس نے جلدی جلدی وہاں سے بھاگنا چاہا تا کہ وہ اسے پکڑوا نہ دے مگر اس نے پھر آواز دی اور کہا بھائی گھبرانے کی ضرورت نہیں.میں کسی کو کچھ کہوں گی نہیں تو میرے پاس آکر میری ایک بات سن جا.چنانچہ وہ آیا تو وہ عورت اسے کہنے لگی دیکھ میرے ہاتھوں میں پھر سونے کے کڑے پڑے ہوئے ہیں مگر تیری وہی لنگوٹی ہی رہی.تو مومن اور کافر میں یہی فرق ہے.یہ نہیں کہ مومن کا نقصان نہیں ہوتا اور کافر کا ہوتا ہے بلکہ نقصان دونوں کا ہو تا ہے.چنانچہ قرآن میں
1940 249 خطبات محمود صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ کبھی تم ان کا نقصان کر دیتے ہو اور کبھی وہ تمہارا نقصان کر دیتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ تمہارے لئے کامیابی مقدر ہے مگر کفار کے لئے کامیابی مقدر نہیں.تم نقصان کے باوجو د بڑھتے چلے جاؤ گے اور ان کا نہ صرف نقصان ہو گا بلکہ وہ اور زیادہ گھٹتے چلے جائیں گے.12 پھر میں نے بتایا ہے کہ اگر اسی اصول کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ قبولیتِ دعا کا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جس کی کوئی دعا بھی قبول ہونے سے نہ رہے تو اس کی زد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی پڑتی ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ کو قبولیت دعا کا نشان بخشا گیا ہے آپ کی چار دعائیں قبول نہ ہوئیں.مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی، بشیر اول کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی، آتھم کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی، مبارک احمد کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چالیس اور ایسی دعائیں بتاتا ہوں جو گو ہمارے نزدیک قبول ہوئیں اور انشاء اللہ قبول ہوں گی مگر اس ٹریکٹ کے لکھنے والے اور اس کے استاد مصری اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک قبول نہیں ہوئیں.اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کا دعویٰ یہ ہے کہ میں ( نَعُوذُ بالله ) دھوکے باز ہوں، میں جھوٹ بولتا ہوں، میں فریب کرتا ہوں اور میں ہدایت سے محروم ہوں.چنانچہ وہ اپنے ٹریکٹ کے آخر میں مجھے مباہلہ کا چیلنج دیتا ہے اور مباہلہ کا چیلنج اسی کو دیا جاتا ہے جو ہدایت سے محروم ہو.پس اگر یہ صحیح ہے کہ میں ہدایت سے محروم اور ضلالت میں گرفتار ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چالیس دعائیں اس کے اپنے دعویٰ کے مطابق ( نَعُوذُ بِالله ) خدا تعالیٰ نے رڈ کر دیں اور وہ قبولیت کا شرف نہیں پاسکیں.یہ دعائیں دونوں آمینوں میں درج ہیں.(1) پہلی دعا جو بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رڈ ہوئی وہ یہ ہے “ دے ان کو دین و دولت ”.دولت کو تم جانے دو کیونکہ اصل چیز دین ہے لیکن دین ہی وہ چیز ہے جو اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کے قول کے مطابق ہمیں نہیں ملا بلکہ ہم اس قابل ہیں کہ ہم سے مباہلہ
$1940 250 خطبات محمود کیا جائے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے متعلق جو دعا کی تھی کہ الہی ان کو دین و دنیا دے وہ رڈ ہو گئی.(2) دوسری دعا اس کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ کر ان کی خود حفاظت.” آپ فرماتے ہیں کہ خدا خود ان کی حفاظت کرے.اب بھلا جو شخص مباہلہ سے ہلاک ہو سکتا ہے اس کی خدا کس طرح حفاظت کرے گا؟ (3) تیسری دعابزعم ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی “ ہو ان پہ تیری رحمت ” کیونکہ جو بے دین ہو ، جو لوگوں کو دھوکا و فریب دیتا رہتا ہو اور جو ٹریکٹ لکھنے والے کی تحریر کے مطابق حسن بن صباح کی چالیں چلتا رہتا ہو اس پر خدا تعالیٰ کی رحمت کس طرح ہو سکتی ہے؟ (4) چوتھی دعا بقول مصریوں کے اور پیغامیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ دے رُشد ”کیونکہ اس کے قول کے مطابق رُشد کی بجائے گمراہی اور ضلالت ہمارے حصہ میں آئی ہے.(5) پانچویں دعا بقول مصریوں اور پیغامیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رڑ ہوئی کہ 66 “ دے ہدایت.“ (6) چھٹی دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رڈ ہوئی کہ “ دے عزت ” کیونکہ وہ میرے متعلق اسی ٹریکٹ میں لکھتا ہے کہ :.جس پر اس قسم کے الزامات لگ جائیں اس کی تو اپنی پوزیشن خاک میں مل جاتی ہے جب تک وہ الزامات سے بریت ثابت نہ کرے.66 گویا ان الزامات کی وجہ سے میری عزت خاک میں مل گئی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا ( نَعُوذُ بِالله ) رڈ ہو گئی کہ خدایا ان کو عزت دے.(7) ساتویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو.” (8) آٹھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ وو
خطبات محمود 66 251 وو جاں پر ز نور رکھیو.” (9) نویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ دو “ میری دعائیں ساری کریو قبول باری.” $ 1940 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ دعا کی تھی کہ خدایا میری ساری دعائیں قبول کرنا مگر ان کے خیال کے مطابق خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بارہ میں ساری دعائیں رد کر دیں.(10) دسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ وو “ کر دور ہر اند ھیرا.” (11) گیارہویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا.وو (12) بارھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر.“ (13) تیرھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے.“ (14) چودھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ ، چنگے رہیں ہمیشہ کر یو نہ ان کو مندے.“ (15) پندرھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے.“ (16) سولہویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ یہ فضل کر کہ ہو ویں نیکو گہر یہ سارے.“ 66 (17) سترھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ دے بخت جاودانی.“ (18) اٹھارھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ
$ 1940 خطبات محمود 252 “ اور فیض آسمانی.“ (19) انیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری.“ (20) بیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ اپنی پسنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری.“ (21) اکیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ تیرے سپر د تینوں دیں کے قمر بنانا.“ (22) بائیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ یہ تینوں تیرے چاکر ہو دیں جہاں کے رہبر.“ (23) تئیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ یہ ہادی جہاں ہوں.“ (24) چو بیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ یہ ہوویں نور یکسر.“ 66 (25) پچیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ یہ ہوویں مہر انور.“ (26) چھبیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ اہل و قار ہو دیں.“ 66 (27) ستائیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ فخر دیار ہو دیں.“ (28) اٹھائیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ حق پر شار ہو دیں.“ (29) انتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “مولی کے یار ہو دیں.“
$ 1940 253 خطبات محمود (30) تیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ بنا ان کو نکو کار.“ (31) اکتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رڈ ہوئی کہ کرم سے ان پر کر راہ بدی بند.“ 66 (32) بتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ر ہوئی کہ ہدایت کر انہیں میرے خداوند.“ 66 (33) تینتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے.“ 66 (34) چونتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے.“ (35) پینتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ نجات ان کو عطا کر گندگی سے.“ (36) چھتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ براءت ان کو عطا کر بند گی سے.“ (37) سینتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ بچانا اے خدابد زندگی سے.“ (38) اڑتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رڈ ہوئی کہ 66 66 وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی.“ (39) انتالیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رد ہوئی کہ “ نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دجال.“ (40) چالیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رڈ ہوئی کہ نہ چھوڑیں وہ ترا یہ آستانہ مرے مولیٰ انہیں ہر دم بچانا“
خطبات محمود 254 $1940 اب بقول مصری صاحب کے ان چیلوں اور پیغامیوں کے اگر ان چالیس دعاؤں کے رڈ ہونے کے بعد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قبولیت دعا کے مدعی رہ سکتے ہیں تو میری اگر گیارہ دعائیں رڈ ہو گئیں تو کون سی بڑی بات ہوئی مگر حق یہ ہے کہ دعا کے صحیح مفہوم کے ماتحت نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعائیں یا دوسری دعائیں رڈ ہوئیں اور نہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری ہی دعائیں رڈ ہو ئیں اور یہ معترض جھوٹے اور حاسد ہیں.یہ شور مچاتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ سلسلہ کو ترقی دیتا چلا جائے گا اور اس کے کام ان کے شور مچانے سے نہیں رکیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.“ الفضل 20 جولائی 1940ء) 1 الزمر: 55 2 المومن: 61 3 متی باب 26 آیت 39 4 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي عليه اللهم انا بك لمحزونون 5 اسد الغابة حالات عثمان بن مظعون جلد اول صفحه 493 تا495 الطبعة الاولى 1998ء 6 بخاری کتاب الجنائز باب زيارة القبور 7 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي عليه هو الله يعذب الميت ببعض بكاء اهلها صلى بخاری کتاب المناقب باب تزويج النبي عليه وسلم خديجة 9 شعب الایمان للبيهقى كتاب في رد الاسلام باب فصل في المكافأة بالضائع 10 اسد الغابة جلد اول صفحہ 606 الطبعة الاولى 1998 ء مطبع دار الفکر بیروت لبنان 11 بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصيبة يعرف فيه الحزن
$1940 254 (19 خطبات محمود عقائد کا فیصلہ کسی بورڈ سے نہیں کرایا جاسکتا (فرمودہ 19 جولائی 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: , میرے سامنے اخبار پیغام صلح کے ایک مضمون کا ایک خلاصہ پیش کیا گیا ہے جس میں مولوی محمد علی صاحب نے اس بات پر زور دیا ہے کہ میں تین ماہ سے فیصلہ کا ایک آسان طریق پیش کر رہا ہوں مگر اسے قبول نہیں کیا جاتا اور وہ طریق یہ ہے کہ اختلافی مسائل کا تصفیہ دونوں جماعتوں کے امام آپس میں کر لیں اور فیصلہ کے لئے ایک بورڈ مقرر کر لیا جائے جس میں دس ممبر ہوں.پانچ میں ان کی جماعت میں سے چن لوں اور پانچ وہ ہماری جماعت میں سے چن لیں اور پھر یہ بورڈ فیصلہ کر دے کہ کس کے عقائد صحیح ہیں.مولوی صاحب کا خیال یہ ہے کہ وہ یہ طریق تین ماہ سے پیش کر رہے ہیں مگر جہاں تک مجھے یاد ہے وہ غالباً 1915 ء سے یہ طریق پیش کر رہے ہیں اور اس طرح تین ماہ نہیں بلکہ 23 سال ان کی اس تجویز پر گزر چکے ہیں.اور میں نے اس 23 سال کے عرصہ میں اسے قبول نہیں کیا بلکہ کئی دفعہ اس کا جواب بھی دے چکا ہوں.اس تجویز پر اول تو مجھے یہ اعتراض ہے کہ مذہبی عقائد کا فیصلہ کوئی دوسرا شخص کرے وہ پانچ آدمی تو الگ رہے جو وہ ہماری جماعت سے منتخب کریں گے اور وہ بھی الگ رہے جو میں ان کی جماعت سے کروں گا میں تو مذہبی عقائد کے بارہ میں اپنی بیوی، بیٹوں اور بھائیوں کا فیصلہ بھی منظور کرنے کو تیار نہیں.مجھے شریعت میں
$1940 255 خطبات محمود کوئی ایسی چیز نہیں ملتی کہ خدا تعالیٰ کے سامنے میرے عقائد کے متعلق کوئی دوسرا شخص جوابدہ ہو سکے گا.خدا تعالیٰ کے سامنے میرے عقائد کے متعلق نہ کوئی بھائی جوابدہ ہو سکتا ہے نہ بیٹا اور نہ بیوی اور نہ کوئی اور عزیز.اس کے لئے میں خود ہی جوابدہ ہو سکتا ہوں.میرے عقیدہ کا سوال میرے ہی لئے ہے اور میں اس میں کسی دوسرے کا فیصلہ کیوں قبول کروں اور اس سے یہ معلوم کروں کہ میر اعقیدہ غلط ہے یا صحیح ؟ جو اسے غلط سمجھتا ہے وہ تو پہلے ہی اسے غلط کہتا ہے اور جو صحیح سمجھتا ہے وہ پہلے ہی صحیح سمجھتا ہے.پھر فیصلہ کرنے کے وقت کون سی کوئی ایسی نئی بات مولوی صاحب پیش کریں گے کہ وہ اپنا خیال تبدیل کر لے گا.آخر ایسے پہنچ انہی لوگوں میں سے مقرر کئے جاسکتے ہیں جو عالم ہوں اور جو عالم ہیں انہوں نے پہلے ہی کافی غور کر لیا ہوا ہے.وہ اپنے خیال کو تبدیل کیونکر کر سکیں گے.یا تو مولوی صاحب اعلان کریں کہ انہوں نے کوئی ایسے نئے حوالے دریافت کئے ہیں جو پہلے پیش نہیں ہوئے اور اگر یہ بات نہیں تو پھر پہلے ہی حوالوں سے وہ لوگ اپنے عقیدہ کو کس طرح تبدیل کر لیں گے جو ان پر سالہا سال تک غور کر چکے ہیں اور عَلَى وَجْهِ الْبَصِيرَت اپنے ایمان پر قائم ہیں اور جو لوگ ایسے نہ ا ہوں وہ میرے نمائندے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ یا کیا پھر مولوی صاحب ایسے لوگ چنیں گے جن کو پہلے ان حوالوں کا بھی پتہ نہیں جو آئے دن پیش ہوتے رہتے ہیں.اگر یہی بات ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ گویا دو عالموں پر چند جاہل فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کئے جائیں گے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کیا فیصلہ کر سکیں گے.پھر کسی انسان کے فیصلہ کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا.عقیدہ کے معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کہا ہے اور ہماری جماعت میں سے ان کے بچنے ہوئے پانچ آدمی تو در کنار اگر سو فیصدی جماعت بھی اس کے خلاف فیصلہ کرے تو میں کبھی نہیں مانوں گا بلکہ صاف کہہ دوں گا کہ تم لوگ جدھر مرضی ہے جاؤ میر ا عقیدہ یہی رہے گا.پس میں کسی کا یہ حق نہیں سمجھتا خواہ اسے مولوی محمد علی صاحب نے ہماری جماعت سے بچنا ہو یا میں نے ان کے گروہ سے کہ میرے عقائد کے متعلق فیصلہ کرے کہ صحیح ہیں یا غلط اور جب میں اسے جائز ہی نہیں سمجھتا تو اس طریق کو اختیار کیسے کر سکتا ہوں اور جس فیصلہ کی
$1940 256 خطبات محمود میرے نزدیک قیمت ہی کوئی نہیں میں دوسروں کے سامنے اسے پیش کر کے کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ اس کی قدر کرو.انتظامی اور دنیوی امور میں تو جوں کی ضرورت ہوتی ہے اور لوگ ان کے فیصلوں کو مانتے بھی ہیں مگر دینی امور میں نہیں.دنیوی امور میں عقیدہ کا کوئی سوال نہیں ہو تا.وہاں صرف حقوق کا سوال ہوتا ہے.اس میں حج غلطی بھی کر سکتا ہے مگر چونکہ شخصی حقوق پر قومی امن مقدم ہوتا ہے باوجود جوں سے غلطی کے امکان کے ان کے فیصلوں کو مانا جاتا ہے اور منوایا جاتا ہے.اس لئے نہیں کہ وہ فیصلے ضرور درست ہیں بلکہ اس لئے کہ خواہ وہ غلط ہوں ان پر عمل کرنے سے ہی ملکی امن قائم رہتا ہے.رسول کریم صلی ہم بھی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی شخص اپنے دعوئی میں جھوٹا ہو مگر اپنی چرب زبانی سے اپنے حق میں فیصلہ کرالے.اسے یاد رکھنا چاہیے کہ میرا اس کے حق میں فیصلہ کر دینا اسے خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا.اگر دیدہ دانستہ وہ دوسرے کا حق لے گا تو قیامت کے دن وہ ضرور اس کی سزا پائے گا.1 پس جبکہ آنحضرت صلی اللہ علم بھی قضاء کے فیصلوں کی نسبت فرماتے ہیں کہ دھوکا دے کر مجھ سے بھی غلط فیصلہ کرایا جا سکتا ہے تو اور کون سا حج ہو سکتا ہے جس سے غلطی نہ ہو سکے مگر باوجود اس کے افراد سے یہ امید کی جاتی ہے کہ خواہ وہ فیصلہ ان کے نزدیک درست ہو یا غلط اس کو تسلیم کر لیں اور یہ ایک قربانی ہے جو قومی امن کے قیام کی خاطر ان سے طلب کی جاتی ہے مگر دین کے معاملہ میں ایسا نہیں ہو سکتا.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے زمانہ میں ایک دفعہ شیخ یعقوب علی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں نے خواجہ صاحب سے کہا تھا کہ باہم اختلاف درست نہیں.چنانچہ میری نصیحت کا اثر ہوا ہے اور انہوں نے مجھے بھجوایا ہے کہ آؤ صلح کر لیں.میں نے انہیں جواب دیا کہ میر ا اور خواجہ صاحب کا اختلاف کیا ہے؟ کیا کسی دنیوی معاملہ پر اختلاف ہے ؟ اگر ایسا ہے تو صلح کا کوئی سوال نہیں وہ مجھ سے جو بھی مطالبہ کرتے ہیں میں اسے منظور کرتا ہوں.میری کوئی چیز اگر وہ لینا چاہیں تو بے شک لے لیں.مجھ سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر اختلاف دینی ہے تو پھر نہ میرا کوئی اختیار ہے کہ اس میں سے کوئی چیز چھوڑ دوں اور نہ ان کا.اگر چھوڑیں گے تو پہلے اگر ایک بے دین ہے تو پھر دونوں بے دین ہو جائیں گے.تو عقائد کے بارہ میں
$1940 257 خطبات محمود کسی کے فیصلہ کے کوئی معنی ہی نہیں.دینی امور میں فیصلہ ہر شخص اپنی ذات کے لئے خود کرتا ہے.ہم میں سے جو لوگ اس وقت جماعت میں شامل ہیں انہوں نے خود اپنے متعلق فیصلہ کیا تھا.کیا پہلے کوئی دس اشخاص کا بورڈ مقرر ہوا تھا جس نے فیصلہ کیا کہ مرزا صاحب اپنے دعاوی میں سچے ہیں اور پھر انہوں نے مانا تھا ہر گز نہیں.عقائد کے بارہ میں دس تو کیا سو آدمیوں کا بورڈ ہو تو بھی انسان کے دل کو تسلی نہیں ہو سکتی.اس لئے دینی امور میں فیصلہ کا طریق یہی ہے کہ انسان کے ضمیر کو تسلی ہو جائے اور دل مان لے.دوسروں کے فیصلہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا.کیا آج بھی کروڑوں لوگ ایسے نہیں جو یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب ( نَعُوذُ بِالله ) سچے نہیں ہیں مگر کیا ہم ان کے اس فیصلہ کو مان لیتے ہیں یار ڈی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں.اور جب دل آپ کی صداقت پر مطمئن ہو جاتا ہے تو تسلیم کر لیتے ہیں.ہم میں سے ہر ایک ایسا ہے جس نے کروڑوں انسانوں کے فیصلہ کو رڈ کیا اور صرف اپنی ضمیر اور دل کے فیصلہ کو درست مانتے ہوئے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا ہے.تو دینی امور میں دوسروں کے فیصلہ کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے.ہاں دنیوی معاملات میں ان کو مان لیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی نہ مانے تو سب اسے یہی کہتے ہیں کہ قوم کی اکثریت کے فیصلہ کو کیوں چھوڑتے ہو.دنیوی امور میں اُخروی زندگی پر اثر نہیں پڑتا.ان کا تعلق صرف اس عارضی زندگی سے ہوتا ہے اس لئے اگر اس میں غلطی بھی ہو جائے تو چنداں مضائقہ نہیں.مگر دین کا تعلق چونکہ اخروی زندگی سے ہے اس لئے دینی امور کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی قاضی یا حج مقرر نہیں کیا جاسکتا.پس اگر مولوی محمد علی صاحب چاہتے ہیں کہ اپنی جماعت میں سے ان کے منتخبہ پانچ اور ان کی جماعت میں سے اپنے منتخبہ پانچ اشخاص سے میں اپنے عقائد کا فیصلہ کر اؤں اور پھر اسے مان لوں یا اسے دنیا کے سامنے پیش کروں تو میں اس کے لئے ہر گز تیار نہیں.دینی عقائد کا فیصلہ ہمیشہ انسان کی کانشنس ہی کرتی ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے اسی کے فیصلہ کے مطابق انسان اپنے ایمان کا اقرار کرتا ہے.اگر تو وہ جھوٹ کہتا ہے تو اس کا ٹھکانا جہنم میں ہو گا لیکن اگر بچے طور پر داخل ہوتا ہے تو اگر اس کا فیصلہ غلط بھی ہو گا تو خدا تعالیٰ کی بخشش اسے ڈھانپ لے گی.دنیوی امور میں فیصلہ کا یہی طریق آدم سے لے کر اب تک چلا آتا ہے.اس کے سوا اور کوئی قاعدہ نہیں
$1940 258 خطبات محمود اور اس کے خلاف کوئی نیا قاعدہ تجویز کرنے کے نہ مولوی محمد علی صاحب مجاز ہیں اور نہ میں.یہی طریق پہلے تھا اور یہی طریق اب ہے.اس کے سوا کوئی طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا.ہاں اگر اس بورڈ سے مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ وہ انتظامی معاملات کا فیصلہ کرے.وقت کی تعیین، مجلس مناظرہ میں شرکت کے لئے موزوں اشخاص کو ٹکٹ دینا وغیرہ وغیرہ اور اس کی متعلقہ شرائط کی پابندی کرانا، تو یہ نہایت ضروری ہے اور ایسا بورڈ ضرور ہونا چاہیئے.دنیوی اور انتظامی امور میں ہم اس کی بات کو پوری طرح تسلیم کریں گے یا ایسے امور میں اس کا فیصلہ مان لیں گے جن کا ہمارے یا کسی اور کے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر عقائد کے بارہ میں اس کے فیصلہ کو نہیں مان سکتے.مولوی محمد علی صاحب نے اس بورڈ کا طریق انتخاب جو پیش کیا ہے اس کے متعلق میں نے ہمیشہ یہ جواب دیا ہے کہ یہ غیر طبعی ہے.ایسے لوگوں کا انتخاب اپنی اپنی طرف سے ہونا چاہیئے.یہ نہیں کہ ہماری جماعت میں سے وہ منتخب کریں اور ان کی جماعت میں سے ہم.بلکہ ہم اپنے آدمی منتخب کریں اور وہ اپنے.ان کی طرف سے یہ شرط ہیں سال سے زائد عرصہ سے پیش ہو رہی ہے اور اسے پیش کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ گویا بڑا تیر مارا ہے اور میں نے ہمیشہ اس کا جواب دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہم میں سے منافق چن لیں اس کا جواب وہ یہ دیا کرتے ہیں کہ جن کو ہم منافق کہہ دیں گے ان کو وہ چھوڑ دیں گے مگر میں اس طرح منافقوں کا اظہار کر کے ان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کیوں دوں.ہم میں جو منافق ہیں ان کو نکال کر وہ اب تک اپنے ساتھ تو شامل نہیں کر سکے مگر چاہتے ہیں کہ ہم اپنوں میں سے بعض کو منافق کہہ کر ان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیں مگر وہ یادرکھیں کہ ایسے لوگوں کے ذریعہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ایسے لوگ کسی کام نہیں آیا کرتے.اب تک جتنے لوگ ہم میں سے نکلے ہیں مثلاً مستری اور مصری پارٹی وغیرہ ان میں سے کتنوں نے ان کو فائدہ دیا ہے؟ یہ بات کہ ہم خود کہہ دیں کہ فلاں منافق ہے بالکل فضول ہے.یہ میں نہیں کر سکتا.اس معاملہ میں میں کتنا ہی دلیر کیوں نہ ہوں محمد رسول اللہ صلی علیم سے تو زیادہ دیر نہیں ہو سکتا.آپ نے مدینہ کے منافقوں کے نام حذیفہ بن الیمان کو مخفی طور پر بتائے تھے اور صحابہ ہمیشہ ان سے پوچھتے رہے مگر انہوں نے
$1940 259 خطبات محمود ہمیشہ ہی بتانے سے انکار کیا اور یہی کہتے رہے کہ یہ میرے محبوب کا راز ہے جو میں ظاہر نہیں کر سکتا.چنانچہ جب صحابہ نے یہ پتہ لگانا ہو تا کہ کون منافق ہے تا اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو وہ دیکھ لیتے کہ حذیفہ نے اس کا جنازہ موقع ملنے کے باوجود پڑھا ہے یا نہیں.جس کا جنازہ وہ نہ پڑھتے صحابہ بھی نہیں پڑھتے تھے.2 دراصل منافقوں کے نام کا اخفاء ان کے ایمان کی حفاظت کے پیش نظر ہوتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص آج منافق ہو مگر بعد میں اس کی حالت درست ہو جائے.انسان کے دل کی کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی.عین ممکن ہے کہ کوئی منافق بعد میں درست ہو جائے.اس لئے ان کے نام کا اظہار مناسب نہیں ہوتا.پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اکثر منافقوں کا علم غیر فریق کو ہوتا ہے اپنوں کو نہیں.منافق کے تو معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ ایک جماعت میں شامل رہتے ہوئے اس کے مخالفوں سے پوشیدہ تعلقات رکھے.اس لئے ہم میں جو منافق ہیں ان میں سے اکثر کا پتہ ہمارے دشمن کو ہی ہو سکتا ہے.ہمیں کیا پتہ ہو سکتا ہے ؟ پس اگر وہ منافقین کو چن لیں تو ہم کو ان کا کیا علم ہو سکتا ہے یہ تو ان کو ہی پتہ ہو سکتا ہے کیونکہ انہی سے مخفی تعلقات کا نام تو نفاق ہے.بے شک مجھے بعض کا علم ہے مگر شریعت مجھے اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ان کی ہدایت کے تمام ذرائع استعمال کئے بغیر ان کے نام کا اظہار کر دوں.کیونکہ کئی جو آج منافق ہیں ہو سکتا ہے کل درست ہو جائیں.اس لئے اگر مجھے علم ہو تو بھی مجھے ان کے ناموں کے اظہار کی اجازت نہیں، نہ آنحضرت صلی اللہ کریم نے ان کے نام ظاہر کئے ، نہ صحابہ نے اور نہ میں کر سکتا ہوں.جب تک کہ وہ خود جماعت کے مقابل پر کھڑے ہو کر ظاہر نہ ہو جائیں.میں خود ان کو ظاہر کر کے انہیں مخالفوں کی صف میں کیوں کھڑا کروں اور ان کی ہدایت کے امکانات کیوں ختم کر دوں ؟ حدیث میں آتا ہے کہ ایک روز آنحضرت صلی الی یوم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص کے متعلق ذکر کر رہے تھے کہ وہ ایسا بُرا ہے، اس نے یہ خرابی کی یہ کی.اتنے میں وہی شخص آگیا آپ نے اٹھ کر دروازہ کھولا، اسے بٹھایا اور اس سے باتیں کرنے لگے.حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ بھی ایسا کرتے ہیں ؟ ابھی تو
خطبات محمود 260 $1940 آپ اس کی مذمت کر رہے تھے اور ابھی اس کا اعزاز کرنے لگے.آپ نے فرمایا کہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ میں اس کے شر کو بے موقع ظاہر ہونے دوں.3 اور اس طرح آپ نے بتایا کہ جب تک کسی کے شر کے اظہار کا وقت نہ آئے اسے خود ظاہر کر کے دشمن بنالینا ضروری نہیں.ممکن ہے وہ ایمان ہی لے آوے.آنحضرت صلی للہ علم کا یہ فعل دو وجوہ سے ہی ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ آپ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ اس سے ڈرتے تھے کہ یہ مجھے نقصان پہنچائے گا مگر اس قسم کا خیال آپ کے متعلق نہیں کیا جاسکتا اور دوسرے اس وجہ سے کہ پیشتر اس کے کہ اس کا شر ظاہر ہو میں اسے دشمنوں کی صف میں کیوں کھڑا کر لوں اور اصل وجہ یہی ہے.یہ دراصل رحمت کی وجہ سے ہے اور آپ نے جو کچھ کیا اس کے یہی معنے تھے کہ اس کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا رہے.اور آپ کا یہی طریق مجھے بھی مجبور کرتا ہے کہ اگر مجھے علم ہو تو بھی میں کسی کا نام ظاہر نہ کروں.جب تک کہ یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم ہو جائے کہ اب اسے ہدایت نہیں ہو گی اور یا پھر وہ خود ظاہر نہ ہو جائے.پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ مجھے سب کا علم ہو.باقی رہا ان کا یہ اعتراض کہ اس سے معلوم ہوا ہماری جماعت میں منافق ہیں اور ان میں نہیں.سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ میں فطرتاً منافقوں کی تلاش سے معذور ہوں اور وہ فطرتاً منافقوں کی تلاش میں ماہر ہیں.ان میں تنجس اور ٹوہ لگانے کی عادت ہے جو مجھ میں نہیں.وہ ہمیشہ اس بات کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ ہم میں سے کمزوروں کا کھوج لگائیں مگر میری طبیعت ایسی ہے کہ میرے پاس ان کے قریب ترین عزیزوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم ان سے بیزار ہیں مگر میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ ایمان کو کھیل مت بناؤ.ابھی ٹھہر و اور صبر کرو اور خد اتعالیٰ سے دعائیں کرو.میری فطرت ہی ایسی نہیں کہ میں ایسے جوڑ توڑ کر تا رہوں کہ ان میں سے کون ان کا مخالف ہے اور کون کمزور ہے مگر وہ فطرتا مجبور ہیں کہ ایسے لوگوں کی ٹوہ میں رہیں اور ان کو اپنے گردو پیش جمع رکھیں.چنانچہ تجربہ اس بات پر گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کو جو ہماری جماعت سے نکلے اپنے گر داکٹھا کیا.انہوں نے مستریوں کو مدددی مصریوں کو دی.اس پر ان کی جماعت کے ریکارڈ گواہ ہیں گو وہ منہ سے اس کا انکار ہی کرتے ہیں
$1940 261 خطبات محمود مگر ہمارے پاس اس بات کی قطعی اور یقینی شہادتیں ہیں کہ وہ ان لوگوں کی امداد کرتے رہے.ان کی بغداد کی جماعت کے سیکرٹری نے خود بیان کیا کہ میرے پاس مرکز لاہور سے ان لوگوں کے اشتہار اور ٹریکٹ تقسیم کے لئے آتے رہے ہیں تو وہ ہمیشہ اشاعت کے ذریعہ سے بھی اور روپے سے بھی ان لوگوں کی مدد کرتے رہے ہیں مگر میر ا طریق یہ ہے کہ میں ان سے بیزار ہونے والوں کو ہمیشہ یہی نصیحت کرتا رہا ہوں کہ اپنے دین کی اصلاح کی طرف توجہ کرو.گالیاں دینے کو مذہب نہ بناؤ ورنہ تمہیں نہ وہاں ہدایت نصیب ہوئی ہے اور نہ یہاں ہو گی.پس یہ بات نہیں کہ منافق ہماری جماعت میں ہی ہیں ان میں نہیں.بات صرف یہ ہے کہ ان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ ہمارے کمزوروں کی جستجو کرتے رہتے ہیں مگر ہمارا یہ طریق نہیں اور میں فطرتاً ایسا نہیں کر سکتا.پس بورڈ کے انتخاب کا جو طریق وہ اختیار کرتے ہیں وہ بالکل غیر طبعی ہے اور کوئی معقول انسان اسے قبول نہیں کرے گا.وہ کہتے ہیں وہ تین ماہ سے یہ بات پیش کر رہے ہیں اور میں نے کہا ہے قریباً 23 سال سے وہ یہ کہہ رہے ہیں لیکن اگر سو سال بھی کہتے رہیں تو یہ نہیں مانی جاسکتی کہ ہم عقائد کا فیصلہ کسی بورڈ سے کرائیں.ہاں انتظامی امور کی نگرانی کے لئے بورڈ ہو سکتا ہے مگر ہمارے نمائندے وہ ہوں گے جن کو ہم منتخب کریں اور ان کے وہ جنہیں مولوی محمد علی صاحب یا اور کوئی جسے ان کی انجمن اختیار دے منتخب کریں.پس اگر وہ اس طریق پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو میں نے اس کا جواب دے دیا ہے.وہ چاہیں تو اس طرح کر سکتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں ان کا ہمیشہ سے یہی طریق ہے اور وہ ہمیشہ ایسی تدابیر کرتے رہتے ہیں جس سے دوسروں کو ہدایت سے محروم رکھ سکیں.مگر مجھے یقین ہے کہ صداقت آخر غالب آکر رہے گی اور ان کی ساری تدابیر هباء ہو کر اُڑ جائیں گی.اللہ تعالیٰ کی روشنی ان کی کمزوریوں کو خود ظاہر کر کے دوسروں کے لئے ہدایت کے سامان کر دے گی.اگر مولوی محمد علی صاحب کو سچائی کے اظہار کی ضرورت ہے تو اس سے بہتر ترکیب میں نے کئی بار ان کے سامنے پیش کی ہے.وہ اسے کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ میں نے کئی بار کہا ہے کہ صحیح عقائد وہی ہو سکتے ہیں جن کا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں علی الإعلان اظہار کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں وہ جن عقائد کا اظہار کیا کرتے تھے میں ان کی
$1940 262 خطبات محمود تحریروں سے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور وہ ان کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی میرا عقیدہ یہی ہے اور وہ میری اس زمانہ کی تحریروں سے میرے عقائد نکال دیں اور میں لکھ دوں گا کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں ہم دونوں ممنہ سے یہی کہتے ہیں کہ ہمارے عقائد آج بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھے.پس اس طرح اس زمانہ کی تحریرات سے ہم ایک دوسرے کے عقائد نکال کر پیش کر دیں اور دونوں اپنے اپنے عقائد کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں اور پھر دونوں کے عقائد کتاب کی صورت میں شائع کر دیئے جائیں اور ساتھ ہی دونوں کی یہ تحریریں بھی چھپ جائیں کہ ہمارے عقائد آج بھی یہی ہیں.یہ ایسا سادہ طریق ہے کہ نہ ہمیں ان کے آدمی تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ان کو ہمارے.صرف ایک دوسرے کی تحریرات کے اقتباس شائع کر دیئے جائیں.ہاں چونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی کی تحریر کا کوئی اقتباس ناقص ہو اس لئے ہر فریق کو حق ہو گا کہ وہ مطالبہ کرے کہ میری تحریر کا اقتباس ناقص ہے فلاں حصہ اس کے ساتھ شامل کیا جائے یا فلاں دوسری جگہ پر میرے اس کلام کی شرح موجود ہے اسے شامل کیا جائے ، اس کا یہ مطالبہ پورا کیا جائے.( ان تشریحی عبارتوں کے لئے بھی یہ شرط ہو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی شائع شدہ ہوں) اس طرح کسی پر ظلم نہ ہو گا.ان کو حق ہو گا کہ ان کی کسی تحریر کا حل اگر کسی دوسری جگہ موجود ہو تو اس کے ساتھ شامل کرنے کا وہ مطالبہ کریں اور اسی طرح میری کسی تحریر کا حل اگر دوسری جگہ ہو تو میر احق ہو گا کہ اس کے ساتھ شامل کرنے کا میں مطالبہ کروں اور یہ حل بھی ساتھ شامل کر لئے جائیں.یہ ایک آسان طریق ہے کہ نہ بورڈ مقرر کرنے کی ضرورت ہے اور نہ مناظروں کی.صرف دونوں فریق کی وہ تحریرات جو زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہیں اکٹھی شائع کر دی جائیں اور دونوں ان پر لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں.اس کے بعد دنیا خود فیصلہ کرلے گی کہ اس زمانہ میں میرے عقائد اور تھے یا مولوی محمد علی صاحب کے ؟ اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں نے اب اپنے عقائد بگاڑ لئے ہیں تو میرا اثر جاتا رہے گا اور اگر یہ ثابت ہو گا کہ ان کے عقائد اس زمانہ میں اور تھے تو ان کے ساتھیوں کے لئے یہ بات ہدایت کا موجب ہو جائے گی اور وہ یہ سمجھ
$1940 263 خطبات محمود جائیں گے کہ مولوی محمد علی صاحب کے زمانہ صحابیت کے عقائد اور تھے اور آج اور ہیں.یہ نہایت آسان طریق ہے اور بہترین طریق ہے.اگر وہ اس پر متفق ہوں تو فیصلہ نہایت آسان ہو جاتا ہے.یہ ایک ایسا مباحثہ ہو گا جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شہادت ساتھ رکھتا ہو گا.باقی رہا جزئیات یا تفاصیل کا سوال کہ اس وقت کسی حوالہ کا علم نہ تھا اور وہ اب ملا ہے یا کہ اس وقت کسی لفظ کے معنی محقق نہ تھے جو اب ہوئے ہیں یہ غیر ضروری چیزیں ہیں.اصل سوال عقیدہ کا ہے کہ اس وقت کیا تھا.میر اعقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں جس کے معنے ہیں کہ وہ نبی بھی ہیں اور ساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللی نیم کے امتی بھی.اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں ان معنوں میں کہ وہ امتی تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں.میں ان کی تحریروں میں سے یہ نکال دوں گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کیا عقیدہ رکھتے تھے اور وہ میری تحریروں سے نکال دیں کہ اس زمانہ میں میرا عقیدہ کیا تھا.اور اس طرح فیصلہ نہایت آسان ہو جائے گا.پچیس سال سے یہ جھگڑا چل رہا ہے لیکن اگر مولوی صاحب میری اس تجویز پر عمل کریں تو فیصلہ آسانی سے ہو سکتا ہے.اگر وہ اس آسان طریق کو ماننے کو بھی تیار نہ ہوں تو ان کی مرضی.زمانہ خود ہی صداقت پر سے پردہ اٹھاتا جائے گا.اس بارہ میں ایک لطیفہ بھی میں بیان کر دینا چاہتا ہوں.مولوی محمد علی صاحب کے ساتھیوں میں سے ایک معزز نوجوان اس مجلس شوری کے موقع پر یا شاید جلسہ سالانہ پر قادیان آئے تو چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ان کے سامنے چند حوالے پڑھنے شروع کئے کہ یہ ہمارے عقائد ہیں.اور وہ حوالے سنا کر انہوں نے بتایا کہ یہ مولوی محمد علی صاحب کی تحریروں کے اقتباس ہیں.تو وہ کہنے لگے ہمیں تو مولوی صاحب نے کبھی نہیں یہ بتایا کہ پہلے ان کے عقائد یہ تھے.پس فیصلہ کا آسان طریق یہی ہے کہ میں ان کی تحریروں کے وہ حوالے پیش کر دیتا ہوں جن سے ظاہر ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتے تھے اور وہ میرے ایسے حوالے پیش کر دیں جن سے ان کے نزدیک یہ نکلتا ہے کہ میں اس زمانہ میں آپ کو نبی نہیں سمجھتا تھا.اور پھر اگر اس زمانہ کی بعض تحریروں سے ان حوالہ جات پر کوئی ایسی روشنی
$1940 264 خطبات محمود پڑتی ہو جو مصنف کے نزدیک اس کے صحیح عقیدہ کو ظاہر کر رہی ہو تو اس کے مطالبہ پر اسے بھی ان اقتباسات کے ساتھ شامل کر دیا جائے.پھر دونوں کے حوالہ جات کو بصورت کتاب چھاپ دیا جائے.دنیا خود فیصلہ کرلے گی کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں.“ (الفضل 24 جولائی 1940ء) 1 بخاری کتاب المظالم باب اثم من خاصم في باطل 2 اسد الغابة جلد اول صفحہ 533،532 الطبعة الاولى 1998ء مطبع دار الفکر بيروت لبنان 3 ترمذی ابواب البر والصلة با ما جاء في المداراة
$1940 265 (20) خطبات محمود مجلس انصار اللہ کا قیام اور دیگر تنظیموں کے متعلق اہم نصائح (فرمودہ 26 جولائی 1940ء) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق ایک دعا کی تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور وہ دعا یہ تھی کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَ يعلمهم الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ 1 - اے میرے رب ! تو ان میں ایک نبی مبعوث فرما جس کا کام یہ ہو کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِكَ وہ تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ اور شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں سمجھائے ویرینھم اور انہیں پاک کرے یا یزکیھم کے دوسرے معنوں کے مطابق انہیں ادنیٰ حالتوں سے ترقی دیتے دیتے اعلیٰ مقامات تک پہنچا دے.یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے.اس کے بالمقابل انہوں نے اپنی اولا د کے متعلق ایک عام دعا بھی کی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کی انہوں نے فرمانبرداری کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خدمت کو قبول کیا اور فرمایا کہ ہم تم کو امام بناتے ہیں تو اني جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا 2 کی خبر سننے کے بعد انہوں نے فرما یاؤ مِنْ ذُريَّتِي 3
$1940 266 خطبات محمود.میری امامت تو میرے زمانہ کے لوگوں تک ختم ہو جائے گی لیکن دنیا تو اماموں کی ہمیشہ محتاج رہے گی اور جب دنیا ہمیشہ اماموں کی محتاج رہے گی تو اے خدا میری ذریت میں سے بھی امام مقرر کئے جائیں.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ کوئی نبی ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے لئے رہبر نہیں رہ سکتا بلکہ بار بار خد اتعالیٰ کی طرف سے امام آنے کی ضرورت ہوتی ہے.اب ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار امام آنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد میں سے متواتر امام بنانے کی درخواست کرتے ہیں اور دوسری طرف مکہ سے تعلق رکھنے والے سلسلہ کے متعلق یوں دعا فرماتے رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ کہ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں انہوں نے صرف ایک رسول مبعوث کئے جانے کی کیوں دعا کی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک رسول کافی نہیں ہو تا بلکہ دنیا ہمیشہ رسولوں کی محتاج رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ میری امامت کبھی اچھے نتیجے پیدا نہیں کر سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی امام نہ ہوں اور جب تک ہدایت کا وہ بیج جو میرے ہاتھوں سے بویا جائے اس کا بعد میں بھی نشو و نمانہ ہو تار ہے.میں تو امام ہو گیا لیکن اگر بعد میں دنیا گمراہ ہو گئی تو میری امامت کیا نتیجہ پیدا کرے گی؟ ج حضرت عیسی علیہ السلام جو آپ کی ذریت سے تعلق رکھنے والے اماموں میں سے ایک امام ہیں ان کے متعلق بھی قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ قیامت کے دن جب خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تیری قوم جس شرک میں مبتلا ہوئی کیا اس کی تُو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور کیا تُو نے یہ کہا تھا کہ میری اور والدہ کی پرستش کرو تو اس کے جواب میں وہ کہیں گے وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ 4 کہ جب تک میں ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا مگر جب مجھے وفات دے دی گئی تو حضور پھر میں کیا کر سکتا تھا؟ اور مجھے کیو نکر معلوم ہو سکتا تھا کہ میری قوم بگڑ گئی ہے ؟ گویا حضرت عیسی علیہ السلام بھی یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کا اثر ایک عرصہ تک ہی چلتا ہے اس کے بعد اگر قوم بگڑ جاتی ہے تو كُنتَ أنتَ الرَّقِيب عَلَيْهِم خدا تعالیٰ کو ان کی ہدایت کا کوئی اور سامان کرنا پڑتا ہے.یہ بھی
$1940 267 خطبات محمود تصدیق ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی کہ ومِن دُرینی یعنی میری ذریت میں سے بھی ایسے لوگ ہونے چاہئیں ورنہ دنیا کی ہدایت قائم نہیں رہ سکتی.تو حضرت عیسی علیہ السلام کا بیان ایک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دو.یہ اس بات کے شاہد ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی کہ دنیا میں ہدایت کے قیام کے لئے متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے.جب متواتر اماموں کا ہوناضروری ہے اور اس کے بغیر ہدایت قائم نہیں رہ سکتی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے یہی معنی ہوئے کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمُ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.پھر تو انہیں یہ دعا مانگنی چاہیے تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رُسُلًا مِّنْهُمْ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَتِكَ وَيُعَلِّمُونَهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكُونَهُمْ اے میرے رب ان میں بہت سے انبیاء بھیجیئو جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر انہیں سنائیں اور تیری شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں بتائیں اور انہیں اپنی قوت قدسیہ سے پاک کرتے رہیں.مگر وہ تو یہی دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِكَ وہ تیری آیتیں پڑھے نہ کہ پڑھیں وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وہ ان کو کتاب اور حکمت سکھائے نہ کہ سکھائیں.دیزیچہ اور وہ ان کو پاک کرے نہ کہ پاک کریں مگر خود ہی دوسرے موقع پر دعا کے ذریعہ اس امر کا اقرار کر چکے ہیں کہ میری نبوت کافی نہیں ہو سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی انبیاء نہ ہوں اور جب تک نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ دنیا میں قائم نہ ہو.اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کیوں دعا کی کہ ان میں ایک نبی مبعوث کیجیو.یہ ایک سوال ہے جس کو اگر ہم قرآن کریم سے ہی حل نہ کر سکیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر خطر ناک الزام آتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی دعا کی جس سے دنیا کو ہدایت کامل نہیں مل سکتی تھی اور دنیا کے لئے نور کا ایک رستہ کھولتے ہوئے انہوں نے اسے معا بند کر دیا.تو کہا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن آگے کی طرف گیا ہی نہیں.انہوں نے صرف یہ چاہا کہ میرے بعد ایک نبی آجائے اور آئندہ کے متعلق وہ خود دعا کرتا رہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعانے بتا دیا کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا اور انہوں نے اس کے متعلق دعا بھی کی
$1940 268 خطبات محمود چنانچہ فرمایا کہ وَمِنْ ذُريَّتي کہ میری اولاد میں سے بھی ائمہ ہوتے رہیں.تو یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بعد کے زمانہ کی ضروریات کی طرف ذہن ہی نہیں گیا بالکل غلط ہے کیونکہ ان کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ انہیں قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا خیال تھا اور جب انہیں اس امر کا خیال تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ائمہ کا ہمیشہ آتے رہنا ضروری ہے تو پھر اس دعا پر انہوں نے کیوں کفایت کی کہ خدایا ان میں ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے ، انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے.اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ 5 یہ وہی الفاظ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے استعمال کئے تھے.فرماتا ہے وہ خدا بڑی بلند شان والا ہے جس نے ابراہیمؑ کی دعا کو سن کر امیین میں اپنار سول مبعوث کیا.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے.وَيُزَكِّيهِمْ اور ان کو پاک کرتا ہے يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ اور ان کو آسمانی کتاب سمجھاتا اور شرائع کی باریک در بار یک حکمتیں بتاتا ہے.یہ بتا کر کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہو گئی اور اب اس اعتراض کا ازالہ کرتا ہے جو بعض طباع میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا نا مکمل ہے کیونکہ جہاں اپنی اولاد کے متعلق عام دعا انہوں نے یہ کی تھی کہ ان میں متواتر رسول آتے رہیں وہاں مکہ والوں کے متعلق انہوں نے صرف یہ دعا کی کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث ہو.چنانچہ فرماتا ہے وَ أَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ - ان دعاؤں میں بے شک ایک فرق ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیمی اولاد کے بعض حصوں میں ایسے نبی آنے تھے جنہوں نے اپنی ذات میں مستقل ہونا تھا مگر ابراہیمؑ نے مکہ والوں کے متعلق جو دعا کی وہ صرف ایسے رسول کے متعلق تھی جس نے ایک ہی رہنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ آئندہ دنیا میں ہمیشہ اس کے اظلال و اتباع پیدا ہوتے رہیں.پس چونکہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ اس رسول نے بار بار منبع اطلال کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتے
$1940 269 خطبات محمود رہنا ہے اس لئے بہ الفاظ دیگر اماموں کا سلسلہ بھی ہمیشہ قائم رہنا تھا اور رسول بھی ایک ہی رہنا تھا.کیونکہ ان کی امامت اور رسالت جدا گانہ نہیں ہوئی تھی بلکہ محمد صلی ال نیم کی نبوت ورسالت میں شامل ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں چونکہ ایک ایسار سول آنا مقدر تھا جس نے بار بار اپنے اظلال کے ذریعہ دنیا میں آنا تھا اس لئے رُسُلاً کہنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ رَسُولًا ہی کہنا چاہیے تھا.تو آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں اس اعتراض کا جواب دے دیا گیا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق عام دعا کی وہاں تو ان میں بار بار رسول اور امام بھیجنے کی التجا کی مگر جہاں مکہ والوں کے متعلق خاص طور پر دعا کی تو وہاں صرف ایک رسول بھیجنے کی دعا کر دی.اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ بے شک مکہ والوں کے متعلق انہوں نے بھی دعا کی تھی کہ ان میں ایک رسول ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ آئے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ رسول ایسا کامل تھا کہ اس پر اس قسم کی موت آہی نہیں سکتی تھی کہ اس کی تعلیم کا اثر لوگوں کی طبائع پر سے کلیۂ جاتارہے بلکہ مقدر یہ تھا کہ جب بھی طبعی طور پر یہ اثر جاتا رہے گا خدا اسی رسول کو دوبارہ مبعوث کر دے گا اور چونکہ اس رسول نے اپنے متبع اطلال کے ذریعہ بار بار دنیا میں آنا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت سے رسول مانگنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.غرض اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ تو اس رَسُولًا مِنْهُمْ سے مراد خاتم النبیین تھا اور چونکہ خاتم النبیین کی نبوت میں بعد میں آنے والے تمام نبیوں اور رسولوں کی نبوت شامل تھی اس لئے یہ ضرورت ہی نہ تھی کہ رَسُولاً مِنْهُمْ کی بجائے رُسُلًا مِّنْهُمْ کہا جاتا.پس ہمیں اس آیت سے یہ نکتہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی لیلی کیم کی بعثت اپنی ذات میں ہی بعد میں آنے والے رسولوں اور اماموں کی خبر دیتی تھی.آپ کے علاوہ دنیا میں اور کوئی ایسار سول نہیں جو اپنی ذات میں آنے والے انبیاء کی خبر دیتا ہو.موسیٰ کا نفس اپنی ذات میں منفر د تھا، داؤد کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا.اسی طرح اور انبیاء کے نفوس اپنی اپنی ذات میں منفر تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء آئے مگر وہ ان کے ظل نہیں تھے بلکہ تابع تھے.عیسی موسیٰ کے ظل ان معنوں میں نہیں تھے جن معنوں میں
$1940 270 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی علیم کے ظل ہیں.یوں تو ظل پہلوں کے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس ظلیت کے معنے صرف مشابہت کے ہوا کرتے تھے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام الیاس کے ظل تھے مگر ظل کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ الیاس کے ماتحت تھے.وہاں ایک تابع ہو سکتا تھا جو ظل نہ ہو اور ایک ظل ہو سکتا تھا جو تابع نہ ہو.عیسی ظل تھے الیاس کے مگر الیاس کے تابع نہ تھے بلکہ تابع وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے.تو ظلیت اور اتباع الگ الگ چیزیں ہوا کرتی تھیں.ظلیت کے معنے صرف “اس جیسا کے ہوا کرتے تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی کہ میرے بعد ایک میرے جیسار سول آئے گا.اب اس سے مر اور سول کریم صلی لی نام تھے مگر رسول کریم صلی الی یوم حضرت موسی کے تابع نہیں تھے.پس پہلے انبیاء میں یہ تو ہو سکتا تھا کہ ایک نبی کسی دوسرے نبی کا ظل تو ہو مگر تابع نہ ہو یا تابع تو ہو مگر ظل نہ ہو جیسے حضرت عیسی علیہ السلام تابع تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مگر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظل نہیں تھے.اسی طرح وہ ظل تھے الیاس کے مگر وہ ان کے تابع نہ تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھے.مگر یہاں جو خبر دی گئی ہے کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اس میں کام بھی وہی رکھا گیا ہے جو محمد صلی للی یکم نے کیا اور نام بھی وہی رکھا گیا ہے جو آپ کا تھا کیونکہ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.وہی رسول پھر آخرین میں مبعوث ہو گا اور “ وہی رسول ” کے معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ صفات بھی ویسی ہوں گی ، کام بھی وہی ہو گا اور نام بھی وہی ہو گا.گو یا صفات کے لحاظ سے وہ ظل ہو گا ر سول کریم صلی الی یوم کا اور کاموں کے لحاظ سے وہ تابع ہو گارسول کریم صلی ای کم کا.جس طرح وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے اسی طرح یہ نمازیں پڑھے گا، جس طرح وہ روزے رکھا کرتے تھے اسی طرح یہ روزے رکھے گا، جس طرح وہ زکوۃ دیا کرتے تھے اسی طرح یہ زکوۃ دے گا، جس طرح وہ احکام الہیہ پر چلتے تھے اسی طرح یہ احکام الہیہ پر چلے گا.یہ تابعیت ہے جو اسے رسول کریم صلی الی ایم کی حاصل ہو گی اور دوسری طرف جو آپ کی خصلتیں ہوں گی وہی اس کی خصلتیں ہوں گی اور جو آپ کے اخلاق ہوں گے وہی اس کے اخلاق ہوں گے اور یہ اس کے ظل ہونے کا ثبوت ہو گا.مگر حضرت عیسی علیہ السلام نے الیاس والے کام نہیں کئے.
$1940 271 خطبات محمود الیاس نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی.پس گو وہ ظل تھے الیاس کے مگر الیاس کے تابع نہیں تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے لیکن محمدصلی الی ایم کے متعلق فرما دیا کہ آپ کی نیابت میں جو لوگ کھڑے ہوں گے وہ آپ کے ظل بھی ہوں گے اور آپ کے تابع بھی ہوں گے.اور یہ دونوں باتیں ان میں پائی جاتی ہوں گی.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں امتی نبی ہوں یعنی محمدعلی ای کام کے نقطہ نگاہ سے میں امتی ہوں مگر تم لوگوں کے نقطۂ نگاہ سے میں نبی ہوں.جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے.جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اسی طرح مجھ پر ایمان لانا ضروری ہو گا جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے اسی طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہو گی مگر جب میں محمد صلی ال نیم کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں گا تو اس وقت میری حیثیت ایک امتی کی ہو گی اور محمد صلی العلم کا ہر فرمان میرے لئے واجب التعمیل ہو گا اور آپ کی رضا اور خوشنودی کا حصول میرے لئے ضروری ہو گا.گویا جس طرح ایک ہی وقت میں دادا اور باپ اور پوتا اکٹھے ہوں تو جو حالت ان کی ہوتی ہے وہی محمد علی یہ نام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.ایک باپ جب اپنے باپ کی طرف منہ کرتا ہے تو وہ باپ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بیٹے کی حیثیت کھتا ہے.لیکن وہی باپ جب اپنے بیٹے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت باپ کی ہو جاتی ہے اور بیٹے کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا ہر حکم مانے.بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تم اپنے باپ کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے تو اس وقت تمہاری حیثیت بیٹے کی تھی نہ کہ باپ کی تو اب تمہاری حیثیت باپ کی کس طرح ہو سکتی ہے کیونکہ اب اس کا منہ اپنے باپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی طرف ہو گا.یہی حیثیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا فرمائی ہے.وہ امتی بھی ہیں اور نبی بھی.وہ نبی ہیں ہم لوگوں کی نسبت سے اور وہ امتی ہیں محمد صلی ا کرم کی نسبت سے.عیسی نبی تھے موسیٰ کی طرف منہ کر کے بھی صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے ہی نبی نہیں تھے.اسی طرح داؤد نبی تھے موسیٰ کی طرف منہ کر کے بھی،
$1940 272 خطبات محمود صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے نبی نہیں تھے.اسی طرح سلیمان ، زکریا اور یحییٰ نبی تھے موسیٰ کی طرف منہ کر کے بھی.یہ نہیں کہ صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے نبی ہوں اور موسیٰ کی طرف منہ کر کے امتی.مگر رسول کریم صلی اللہ نام کے ذریعہ یہ عجیب قسم کی نبوت جاری ہوئی کہ ایک ہی نبی جب ہماری طرف مخاطب ہوتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے اور جب محمد صلی ا یکم سے مخاطب ہو تا ہے تو امتی بن جاتا ہے اور وہ کسی ایسے کام کا دعوے دار نہیں ہو سکتا جو محمد صلی ا یم نے نہیں کیا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ اسی کام کو چلائے جس کام کو محمدعلی یم نے چلایا کیونکہ فرماتا ہے کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اللہ تعالیٰ اسے آخرین میں بھی مبعوث کرے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے.گویا محمد صلی اینم کی دوبارہ بعثت ہو گی اور یہ ظاہر ہے کہ محمد صلی اینکم کے الله دو کام نہیں ہو سکتے.وہی کام جو آپ نے پہلے زمانہ میں کئے وہی آخری زمانہ میں کریں گے.اس جگہ یہ نکتہ بھی یادر کھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح ناصری کے بھی ظل یا مثیل تھے مگر آپ سے ان کو صرف ظلیت کا تعلق تھا تابعیت کا نہیں کیونکہ گو آپ کو نام مسیح کا دیا گیا تھا کام مسیح کا نہیں دیا گیا تھا.کام آپ کو محمد رسول اللہ صل اللہ نیم کا سپر د کیا گیا تھا جیسا کہ سورہ جمعہ سے ثابت ہے.پس حضرت مسیح موعود کو جو مشابہت آنحضرت صلی الیکم سے حاصل ہے وہ زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کے جو آپ کو مسیح ناصری سے حاصل ہے.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہو تا نام احمد جس پہ میرا سب مدار 8 پس ہماری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتی ہے اس کے افراد کو یہ امر اچھی طرح یا د رکھنا چاہیے کہ یا تو وہ یہ دعویٰ کریں کہ حضرت مرزا صاحب کو وہ کوئی ایسا نبی سمجھتے ہیں جنہوں نے رسول کریم صلیالی نیم کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام نبوت حاصل کیا ہے.اس صورت میں وہ بے شک کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا نبی آزاد ہے اس لئے ہم نئے قانون بنائیں گے.اور جو کام ہماری مرضی کے مطابق ہو گا وہی کریں گے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے.پس اگر ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارا نبی مستقل ہے اور وہ
$1940 273 خطبات محمود الله الله رسول کریم صلی املی کام کی غلامی اور آپ کے احکام کی اتباع سے آزاد ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی الی و کم یا صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت نہیں.جو باتیں ہمیں اچھی لگیں گی اور جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی صرف ان میں حصہ لیں گے باقی کسی میں حصہ نہیں لیں گے لیکن اگر ہمارا یہ دعویٰ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سورہ جمعہ کے مطابق امتی نبی ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ کم ہی وہ رسولا ہیں جن کی نبوت ورسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت شامل ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ محمد علی ایم نے جو کام کئے وہی کام مسیح موعود کے بھی سپر دہیں اور جو کام صحابہ نے کئے وہی کام جماعت احمدیہ کے ذمہ ہیں.مگر میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو ہماری جماعت کے دوست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللی کام کے کامل ظل اور امتی نبی ہیں اور وہی شریعت جو رسول کریم صلی علی کریم نے قائم فرمائی اسی کو دوبارہ قائم کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے اور دوسری طرف جماعت کا ایک حصہ صحابہ کے طریق عمل کی جگہ ایک نئی راہ پر چلنا چاہتا ہے اور اس راستہ کو اختیار ہی نہیں کر تاجور سول کریم صلی الم کے صحابہ نے اختیار کی.گویا ان کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہے کہ جہاں درجوں اور انعامات کا سوال آتا ہے وہاں تو کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلى اللعلم سے کوئی الگ وجود نہیں بلکہ آپ کی بعثت در حقیقت رسول کریم صلی الم کی ہی بعثت ثانیہ ہے.اس وجہ سے جو صحابہ کا مقام وہی ہمارا مقام.چنانچہ وہ اس قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں آتا ہے ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ 9 کہ جیسے اولین میں سے ایک بہت بڑی جماعت نے خدا کا قرب حاصل کیا اسی طرح آخرین خدا کی بہت بڑی رحمتوں کے مستحق ہوں گے.پس جیسے صحابہ کی جماعت تھی ویسی ہی ہماری جماعت ہے.جیسے وہ رسول کریم صلی الی یکم کی بعثت اولی سے مستفیض ہوئے اسی طرح ہم رسول کریم صلی ال نیم کی بعثت ثانیہ سے مستفیض ہوئے.پس ہم میں اور صحابہ میں کوئی فرق نہیں مگر جب قربانی کا سوال آتا ہے تو ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے.گویاوہ بالکل شتر مرغ کی طرح ہیں جو اپنی دونوں حالتوں سے فائدہ تو اٹھا لیتا ہے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.صا الله سة wwwwwwww
خطبات محمود 274 $1940 کہتے ہیں کسی شتر مرغ سے کسی نے کہا کہ آؤ تم پر اسباب لا دیں کیونکہ تم شتر ہو (شتر کے معنی اونٹ ہیں اور مرغ کے معنی ہیں پرندہ) وہ کہنے لگا کیا پرندوں پر بھی کسی نے اسباب لادا ہے ؟ اس نے کہا اچھا تو پھر اڑ کر دکھاؤ کہنے لگا کبھی اونٹ بھی اڑا کرتے ہیں ؟ پس جس طرح شتر مرغ اڑنے کے وقت اونٹ بن جاتا ہے اور اسباب لا دتے وقت پرندہ اسی طرح ہماری جماعت کا جو حصہ کمزور ہے کرتا ہے.یعنی جب قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ کہتا ہے ہمارا حال اور ہے اور صحابہ کا حال اور مگر جب درجوں اور انعامات اور جنت کی نعماء کا سوال آتا ہے تو کہتا ہے سُبْحَانَ اللہ حضرت صاحب تو رسول کریم صلی یہ روم کے خطل تھے.پس جو حال صحابہ کا وہی حال ہمارا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ کوئی پور بیا مر گیا تھا.پور جیسے عام طور پر دھوبی ہوتے ہیں.اس کی عورت نے باقی دھوبیوں کو اطلاع دی اور سب اکٹھے ہو گئے.رسم و رواج کے مطابق عورت نے ان سب کے سامنے رونا پیٹنا شروع کر دیا.ان میں طریق یہ ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو عورتیں اور لڑکیاں اکٹھی ہو کر پیٹتی ہیں اور مردا نہیں تسلی دیتے ہیں.اس پور بیے کی عورت نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا اور روتے روتے اس قسم کی باتیں شروع کیں کہ ارے اس نے فلاں جگہ سے اتنا روپیہ لینا تھا اسے اب کون وصول کرے گا.ایک پور بیا آگے بڑھ کر کہنے لگا اری ہم ری ہم.وہ کہنے لگی ارے اس نے ادھیارے پر گائے دی ہوئی تھی اب اسے کون لائے گا؟ وہی پور بیا پھر بولا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم.پھر وہ روئی اور کہنے لگی ارے اس کی تین ماہ کی تنخواہ مالک کے ذمہ تھی اب وہ کون وصول کرے گا؟ وہ پور بیا پھر آگے بڑھا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم.پھر وہ عورت رو کر کہنے لگی ارے اس نے فلاں کا دو سو روپیہ قرض دینا تھا اب وہ قرض کون دے گا؟ اس پر وہ پور بیا باقی قوم کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا ارے بھئی میں ہی بولتا جاؤں گا یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا.ان کمزور احمدیوں کی بھی یہی حالت ہے.جہاں جنت کی نعماء اور مدارج کا سوال آتا ہے وہاں تو کہتے ہیں ارے ہم رے ہم مگر جب یہ کہا جاتا ہے کہ صحابہ نے بھی قربانیاں کی تھیں تم بھی قربانیاں کرو تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ہی بولتے جائیں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا؟ یہ حالت بالکل غیر معقول ہے اور اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا.اگر حضرت مسیح موعود
$1940 275 خطبات محمود علیہ الصلوۃ والسلام مستقل نبی تھے تو بے شک کسی نئی شریعت، نئے نظام اور نئے قانون کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اگر وہ محمد صلی ال نیم کے تابع اور امتی نبی ہیں تو پھر جو محمد صلی الیم کا حال تھا وہی مسیح موعود کا حال ہے.اور جو ان کے صحابہ کا حال تھا وہی ہمارا حال ہے.مگر یہ کمزور لوگ جب اپنی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس وقت تو قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پڑھ پڑھ کر اپنے سر ہلاتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے یہ انعام بھی ہے اور ہمارے لئے وہ انعام بھی ہے مگر جب کام کا سوال آتا ہے تو کوئی یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اگر میں کام پر گیا تو میری دکان خراب ہو جائے گی اور کوئی یہ عذر کرنے لگ جاتا ہے کہ میں اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتا.حالانکہ صحابہ کی بھی دکانیں تھیں اور صحابہ کے بھی بیوی بچے تھے مگر انہوں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی.پھر اگر ہم بھی صحابہ کے نقش قدم پر ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلی ایم کے نقش قدم پر تو ان باتوں سے ڈرنے اور گھبرانے کے معنے کیا ہوئے ؟ ہمارا مذہب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صل ال روم کے خطل اور آپ کے تابع تھے.ان کی تمام عزت اور ان کا تمام رتبہ اسی میں تھا کہ خدا نے ان کو محمد صلی کمی کا عکس بنا دیا تھا اور وہ اسی کام کے لئے مبعوث کئے گئے تھے جس کام کے لئے محمد صلی ال ولیم آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مبعوث ہوئے.بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد صلی الیکم دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے اور یہ ایک بہت بڑی عزت کی بات ہے.مگر ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر محمد صلی یکم دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے ہیں تو صحابہ کو بھی تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آجانا چاہیئے.الله سة پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کام کئے ہیں جو رسول کریم صلی ا ہم نے کئے تھے تو ہمارے کام وہ ہیں جو صحابہ نے کئے.صحابہ کو ہر سال چار چار پانچ پانچ لڑائیاں لڑنی پڑتی تھیں اور بعض لڑائیوں میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ صرف ہو جاتا تھا.گویا بعض سالوں میں انہیں آٹھ آٹھ نو نو مہینے گھروں سے باہر رہنا پڑا ہے.پھر انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.دال ، روٹی اور نمک کے لئے بھی پیسہ تک نہیں ملتا تھا.بیوی کا کام تھا کہ وہ بعد میں اپنی روزی آپ کمائے
$1940 276 خطبات محمود اور جانے والوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے خرچ پر جائیں.حتی کہ لڑائی پر جانے والوں کو راشن تک نہیں ملتا تھا بلکہ ہر شخص کا فرض ہو تا تھا کہ وہ اپنی روٹی کا آپ انتظام کرے.اس کے مقابلہ میں میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ان باتوں کا احساس ہی نہیں.یہ تو میں نہیں کہتا کہ سب میں احساس نہیں مگر بہر حال جن کے دلوں میں یہ احساس ہے ان کے مقابلہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی احساس نہیں اور اس وجہ سے ہم محض اس بات سے تسلی نہیں پاسکتے کہ جماعت کے ایک حصہ میں ان باتوں کا احساس ہے.جب تک جماعت کا ایک حصہ ہمیں ایسا بھی نظر آتا ہے جو اس احساس سے بالکل خالی ہے اور دعوے یہ کرتا ہے کہ اسے صحابہ کی مماثلت حاصل ہے خواہ وہ کتنا بھی تھوڑا ہے جب تک اس کے اس غیر معقول رویہ کی اصلاح نہ کی جائے گی اس وقت تک ہم چین اور آرام سے نہیں بیٹھ سکتے.میں نے سب نوجوانوں کی اصلاح اور دوسروں کو مفید دینی کاموں میں لگانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی مگر ان کی رپورٹ ہے کہ بعض نوجوان ایسے ہیں کہ جب ہم کوئی کام ان کے سپر د کرتے ہیں تو پہلا قدم ان کا یہ ہو تا ہے کہ وہ اس کام کے کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے.لیکن اگر زور دیا جائے تو وہ مان تو لیتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا ہم یہ کام کریں گے مگر پھر دوسرا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کرتے نہیں.یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم کریں گے ، کریں گے مگر عملی رنگ میں کوئی کام نہیں کرتے.اس کے بعد جب ان کے لئے سزا مقرر کی جاتی ہے تو وہ اس سزا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ دے دیں گے مگر سزا برداشت نہیں کریں گے.اس قسم کے لوگوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ سچے احمدی نہیں.کیا منافقوں کے سوا مخلص صحابہ میں سے تم کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہو کہ ان میں سے کسی نے کام کرنے سے اس طرح انکار کر دیا ہو یا کیارسول کریم صلی ا یم نے کبھی اس بات کو بر داشت کیا؟ پھر اس جماعت میں سے ایسا نمونہ دکھانے والوں کو ہم صحابہ کا نمونہ کس طرح قرار دے سکتے ہیں ہم تو ان کو انہی میں شامل کریں گے جو صحابہ کے زمانہ میں ایسے کام کرتے رہے ہیں یعنی منافق لوگ.اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور آج تلوار کا
$1940 277 خطبات محمود جہاد نہیں لیکن ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہوتا ہے.رسول کریم صلی ال نیلم کے زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور ممکن ہے اس قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اگر کسی وقت تلوار کے جہاد کا موقع آیا تو وہ سب سے آگے آگے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کبھی تلوار کے جہاد کا موقع آیا تو ایسے لوگ سب سے پہلے بھاگنے والے ہوں گے.پس جب وہ کہتے ہیں کہ یہاں کون سا تلوار کا جہاد ہو رہا ہے اگر تلوار کا جہاد ہو تو وہ شامل ہو جائیں.تو یا تو وہ اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں تو وہ جھوٹ ہی بول رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مہینہ میں دو دن دکان بند کرنے کے لئے تو تیار نہ ہو اور وہ جہاد کے لئے سال میں سے آٹھ ماہ گھر سے باہر رہ سکتا ہو.یہ فیصلہ کرنا کہ اس زمانہ میں کس قسم کے جہاد کی ضرورت ہے خدا کا کام ہے اور یہ خدا کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو ہمارے ہاتھ میں تلوار دے دے، چاہے تو قلم دے دے اور چاہے تو تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد مقرر کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں تلوار کا جہاد نہیں رکھا بلکہ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہادر کھا ہے.اور یہی وہ جہاد ہے جس کا سورہ جمعہ کی ان آیات میں ذکر ہے جن میں رسول کریم صلی ای کم کی بعثت ثانیہ کی خبر دی گئی ہے.چنانچہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ میں ہر مومن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نشانات الہیہ کو بیان کرے یعنی انہیں تبلیغ کرے.یزیہم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انہیں پاک کرے یعنی دعاؤں کے ذریعہ تزکیہ نفوس کرے.یا یزیرہ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگوں کو بڑھائے.اگر وہ دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میدان میں ان کو آگے لے جائے ، تعداد میں کم ہوں تو تعداد میں بڑھائے، مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھائے.غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو انہیں بڑھاتا چلا جائے.گو یالوگوں کی مالی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے.يُعَلِّمُهُمُ الكِتب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان کو قرآن سکھائے.وَالْحِكْمَۃ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کے اسرار سے لوگوں کو آگاہ کرے.اس آیت کے اور بھی معنے ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی اس تقریر میں بیان کیا ہوا ہے جو خلافت کے آغاز میں میں نے کی تھی اور جو “ منصب خلافت ” کے نام سے
$1940 278 خطبات محمود چھپی ہوئی ہے.لیکن یہ پانچ موٹی موٹی باتیں ہیں.(1) تبلیغ کرنا (2) قرآن پڑھانا (3) شرائع کی حکمتیں بتانا (4) اچھی تربیت کرنا (5) قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں ترقی کے میدان میں بڑھانا.یہ پانچ ذمہ داریاں صحابہ پر تھیں اور یہی پانچوں ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں.ہمارے ذمہ ہے، تعلیم ہمارے ذمہ ہے اور احکام کی حکمتیں بتانا ہمارے ذمہ ہے اور جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کی درستی اور اس کی پستی کو دور کرنا ہمارے ذمہ ہے.اگر ہم یہ پانچ کام نہیں کرتے تو ہم جھوٹے اور کذاب ہیں.اگر ہم اپنے آپ کو صحابی کہتے ہیں انہی کاموں میں سے ایک کام کے متعلق میں نے کچھ عرصہ ہوا قادیان کی جماعت کو توجہ دلائی تھی اور میں نے کہا تھا کہ کم سے کم قادیان میں کوئی ان پڑھ نہیں رہنا چاہیئے مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے کہ جہاں باقی سب محلوں نے کام ختم کر لیا ہے وہاں مسجد فضل سے تعلق رکھنے والے تعاون نہیں کر رہے.(اس سے مراد دارالفضل والے نہیں بلکہ وہ محلہ ہے جسے محلہ آرائیاں بھی کہتے ہیں) اس محلہ کے لوگ نہ تو نمازوں کے لئے با قاعدہ جمع ہوتے ہیں نہ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور نہ ہی پڑھنے کے لئے آتے ہیں.اسی طرح مجھے میں لوگوں کی ایسی لسٹ دی گئی ہے جنہیں اس محلہ کے ان پڑھوں کو تعلیم دینے کے لئے مقرر کیا گیا مگر کسی نے کوئی عذر کر دیا اور کسی نے کوئی اور.جس نے مان بھی لیا وہ بھی پڑھانے کے لئے نہیں گیا.اور جب ان میں سے بعض کو کہا گیا کہ تمہیں اس جرم کی سزادی جائے گی تو ان میں سے دونے کہا ہم خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ دے دیں گے مگر انہیں یادرکھنا چاہیے وہ خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ نہیں دے سکتے بلکہ انہیں احمدیت سے استعفیٰ دینا پڑے گا.یہ پانچ کام ہیں جو محمد صلی للی یم نے کئے.یہی پانچ کام ہیں جو صحابہ نے کئے اور یہی پانچ کام ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے.ہر شخص جو یتلوا عَلَيْهِمْ الیہ کے مطابق تعلیم قرآن کا کام نہیں کرتا يَتْلُوا
$1940 279 خطبات محمود بلکہ تعلیم قرآن کے کام سے گریز کرتا ہے وہ اس سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو تبلیغ سے گریز کرتا ہے وہ تبلیغ سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو دوسروں کی تربیت سے گریز کرتا ہے وہ تربیت کرنے سے گریز نہیں کر تا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز کرتا ہے وہ شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ وہ احمدیت سے گریز کرتا ہے اور ہر شخص جو تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز کرتا ہے وہ تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ایسے شخص کی نہ احمدیت کو کوئی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی وجہ ہے کہ وہ احمدیت میں داخل رہے.وہ یہ کہہ کر کہ وہ احمدی ہے اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے یا اگر اپنے نفس کو دھوکا نہیں دیتا تو جھوٹا اور مکار ہے اور ہر گز اس قابل نہیں کہ وہ مومنوں کی جماعت میں شامل رہ سکے.یہ پانچ کام ضروری ہیں اور جماعت کے ہر فرد کو ان میں حصہ لینا پڑے گا اور جب تک وہ طوعا یا کر تھا ان کاموں میں حصہ نہیں لیں گے وہ کبھی صحیح معنوں میں صحابہ کے مثیل نہیں کہلا سکیں گے.آخر تمہیں غور کرنا چاہیئے کہ کیا صحابہ اپنی مرضی سے ہی تمام کام کیا کرتے تھے ؟ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے تھے بلکہ رسول کریم صلی الل علم کے احکام کی متابعت میں تمام کام کرتے تھے.رسول کریم صلی ا کرم فرماتے تھے جہاد کے الله لئے چلو اور سب چل پڑتے تھے اور جو نہ چلتا تھا اسے جبری طور پر لے جایا جاتا تھا.میں نے چاہا تھا کہ طوعی طور پر جماعت کو ان قربانیوں میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے مگر معلوم ہوتا ہے ساری جماعت طوعی طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ منافقوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ ہم اسے اپنی رہا جماعت میں سے خارج کر دیں یا اگر وہ منافق نہیں تو ایسے گودن لوگ ہیں جو ڈنڈے کے محتاج ہیں اور جیسے رسول کریم صلی اللہ کریم نے ان لوگوں کو سزا دی تھی جو جہاد کے لئے نہیں گئے تھے اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں سزادی جائے اور جبر ان سے احکام کی تعمیل کرائی جائے.ڈنڈے سے میری مراد سوٹا نہیں بلکہ جبر اور حکم مراد ہے.بہر حال ان لوگوں نے مجھے مجبور
$1940 280 خطبات محمود کر دیا ہے کہ میں جماعت کے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہو گا.ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے.اگر 15 سے 40 سال تک کی عمر کا کوئی احمدی 15 دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنانام نہیں لکھائے گا تو پہلے اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس سے بھی اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.اس کے لئے کسی کو تحریک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.خدام الاحمدیہ ہر گز کسی کے پاس نہ جائیں.ہاں ہر مسجد میں وہ اپنے بعض آدمی مقرر کر دیں اور ہر نماز کے بعد اعلان ہو تار ہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک ہمارا آدمی مسجد میں بیٹھے گا جس نے خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھانا ہو وہ اسے نام لکھا دے اور محلوں کے پریذیڈ نٹوں اور سیکر ٹریوں کا فرض ہے کہ اس کے متعلق خدام الاحمدیہ کی طرف سے جو بھی اعلانات آئیں ان کے سنانے کا فوری طور پر انتظام کریں.جو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اس میں غفلت سے کام لے گاوہ مجرم سمجھا جائے گا اور اسے سزادی جائے گی.غرض تمام مساجد میں خدام الاحمدیہ اعلان کرا دیں کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک اس مسجد میں ہمارا فلاں آدمی بیٹھے گا اسے نام لکھا دیا جائے بلکہ انہیں اپنے بعض آدمی قریب کے دیہات میں بھی مقرر کر دینے چاہئیں جیسے نواں پنڈ وغیرہ ہے.اس پندرہ دن کے عرصہ میں جو شخص خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا ہم پہلے اس پر کیس چلائیں گے اگر کوئی معذور ثابت ہو مثلاً ان دنوں وہ قادیان میں موجود نہ تھا یا چار پائی سے ہل نہیں سکتا تھا تو اس کو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کا دوبارہ موقع دیتے ہوئے باقی ہر ایک کو جس نے ان دنوں خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہو گا سزا دی جائے گی اور اگر وہ سزا بر داشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو گا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ہم سزا نہیں لیتے ، ہم خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہنا چاہتے ان کے متعلق خدام الاحمدیہ فوراً ایک کمیٹی بٹھا دیں جو تحقیق کرے کہ ان پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں.پھر جن کا
خطبات محمود 281 $1940 جرم ثابت ہو جائے انہیں تین تین دن کے مقاطعہ کی سزادی جائے.ان تین دنوں میں کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ ان سے بات چیت کرے.نہ باپ کو اجازت ہو گی، نہ ماں کو اجازت ہو گی، نہ بیوی کو اجازت ہو گی نہ بیٹے کو اجازت ہو گی اور نہ کسی اور قریبی رشتہ دار اور دوست کو اجازت ہو گی.اسی طرح ان دنوں میں انہیں قادیان سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی.مبادا وہ خیال کر لیں کہ ان دنوں وہ قادیان سے چلے جائیں گے اور اس طرح اپنی شرم کو چھپالیں گے بلکہ انہیں قادیان میں رہتے ہوئے یہ تین دن پورے کرنے پڑیں گے اور ان کی کسی قریب ترین ہستی کو بھی ان سے بولنے کی اجازت نہیں ہو گی.ہاں انہیں صبح شام روٹی پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اسی طرح جن لوگوں نے وعدہ کر کے کام نہیں کیا (سوائے دسویں جماعت کے طلباء کے جن کو مقرر کرنے میں خود خدام الاحمدیہ کے افسروں کی غلطی ہے) ان کے الزام کی بھی تحقیق کی جائے اور جب الزام ان پر ثابت ہو جائے تو ان کو ایک ایک دن کے مقاطعہ کی سزادی جائے.اس عرصہ میں ماں اور باپ اور بیوی اور بچوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کا فرض ہے کہ جس طرح ایک گندا چیتھڑا اپنے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیں.باپ بچے کو نکال دے.بھائی دوست وغیرہ سب اس دن کے لئے اس سے قطع تعلق کر لیں اور وہ گھر کو چھوڑ کر مسجد یا کسی اور مناسب مقام پر چلا جائے اور چوبیس گھنٹے تک لگا تار وہیں رہے.ہاں ان لوگوں کو بھی کھانا پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا مگر میں سمجھتا ہوں کام کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمر والوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے.اس لئے میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں اور اطفال احمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے.اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں.ان کے لئے بھی لازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں.اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے
$1940 282 خطبات محمود مہینہ میں تین دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لئے جا سکتے ہیں مگر بہر حال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہو جانالازمی ہے.مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکر ٹری کے فرائض سر انجام دینے کے لئے میں مولوی عبد الرحیم صاحب درد، چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں.تین سیکر ٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہیئے.یہ بھی دیکھ لینا چاہیئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے اور جو شخص جس کام کے لئے موزون ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے.یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جا سکتا ہے یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دو چار دن لے لئے جائیں.جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کر لیں اس دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں.سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہو جائیں.جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہو گی.میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہو گا جیسے مربی کا تعلق ہوتا ہے.اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہو گی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو.میرا اختیار ہو گا کہ جب بھی میں مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں.یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے.اس لئے ان کو میں پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا.سوائے اس کے کہ جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہو.ہر شخص کو حکما اس تنظیم میں شامل ہو نا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے
$1940 283 خطبات محمود جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو.سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے.گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں.ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے مگر سر دست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہو گا لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکر ٹری ہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں.کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو اور کوئی سیکرٹری نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.اگر اس کی عمر 15 سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصار اللہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا.اسی طرح سال ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونالازمی کر دیا جائے گا کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے.صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور کام کرو.مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقع دینا تھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے.اب 15 سے 40 سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونالازمی ہے اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا تھا.بے شک خدمت کا اب بھی ثواب ہو گا لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے.البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے
$1940 284 خطبات محمود قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اس میں جو بھی شامل ہو گا اسے وہی ثواب ہو گا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہو تا ہے.صا سة میں ایک دفعہ پھر جماعت کے کمزور حصہ کو اس امر کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں کہ دیکھو شتر مرغ کی طرح مت بنو جو کچھ بنو اس پر استقلال سے کاربند رہو.اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم رسول کریم صلی علیم کے صحابہ کے مثیل ہو تو تمہیں اپنے اندر صحابہ کی صفات بھی پیدا کرنی چاہئیں اور صحابہ کے متعلق یہی ثابت ہے کہ ان سے دین کا کام حکما لیا جاتا تھا.پس جب صحابہ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے متعلق کسی قسم کی چون و چرا کریں تو تمہیں یہ اختیار کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ یا تو یہ کہو کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے اور چونکہ وہ نبی نہیں تھے اس لئے ہم صحابی بھی نہیں اور نہ صحابہ سے ہماری مماثلت کے کوئی معنے ہیں مگر اس صورت میں تمہارا مقام قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہو گا کیونکہ وہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب رسول کریم صلی الم کے ظل کامل نہیں تھے جس کے لازمی معنے یہ بنتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو وہ صحابی بھی نہیں.مگر ان میں بھی شتر مرغ والی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب رسول کریم صلی الم کے ظل کامل یعنی نبی نہیں تھے مگر کہتے اپنے آپ کو صحابی ہی ہیں.حالانکہ اگر مرزا صاحب نبی نہیں تو وہ صحابی کس طرح ہو گئے؟ چنانچہ بار بار ہمارے مقابلہ میں غیر مبائعین نے اپنے اکابر کو صحابہ کے طور پر پیش کیا ہے.گویا مولوی محمد علی صاحب تو صحابی بن گئے مگر مرزا صاحب ان کے نزدیک مخصوص عالم ” ہی رہے.پس ایسے لوگوں کا مقام لاہو رہے قادیان نہیں.ہر چیز جہاں کی ہو وہیں سجتی ہے.ان کو بھی چاہیئے کہ قادیان سے اپنا تعلق توڑ کر لاہور سے اپنا تعلق قائم کر لیں.پھر ہم ان کاموں کے متعلق ان سے کچھ نہیں کہیں گے.مگر جب تک وہ ہم میں شامل رہیں گے ہم ان سے دین کی خدمت کا کام نظام کے ماتحت ضرور کرائیں گے اور اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے کمزور لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کر دیں.میں نے متواتر بتایا ہے کہ کوئی جماعت کثرت تعداد سے نہیں جیتی.
$1940 285 خطبات محمود قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ باذن الله 10 یعنی کئی دفعہ قلیل التعداد جماعتیں کثیر تعد ادرکھنے والی اقوام پر غالب آجایا کرتی ہیں.پس محض کثرت کچھ چیز نہیں اگر اس کثرت میں ایمان اور اخلاص نہیں.پھر میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہم میں شامل ہی رہیں تو کسی قوم کے مقابلہ میں بھلا ہمیں کون سی غیر معمولی فوقیت حاصل ہو سکتی ہے.ہندوستان میں سب سے کم تعداد سکھوں کی سمجھی جاتی ہے مگر وہ بھی تیس چالیس لاکھ ہیں اور ہم تو ان سکھوں کے مقابلہ میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے.آج سے چھ سال پہلے مئی 1934ء میں سردار کھڑک سنگھ صاحب جو سکھوں کے بے تاج بادشاہ کہلایا کرتے تھے یہاں آئے اور انہوں نے بسر اواں میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا قادیان میں احمدی سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں.اگر احمدی اس ظلم سے باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی بلکہ ان کے ایک ساتھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.مجھے جب یہ رپورٹ پہنچی تو میں نے ایک اشتہار لکھا جس میں میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کے مظالم کی داستان بالکل غلط ہے.اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں تو ان میں سے ننانوے فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں.چنانچہ میں نے اپنے حسن سلوک کے کئی واقعات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے پیش کئے.اسی ضمن میں مجھے یہ رپورٹ بھی ملی کہ ایک احراری نے ان کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گرو کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کرتے ہیں اور پھر بھی ان کو جوش نہیں آتا.میں نے ان کو سمجھایا کہ رسول کریم صلی ا یم الله سة کی بعثت کے بعد مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں دوہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر.اس احراری کے نزدیک باوا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی بہتک ہوتی ہے تو اس سے پوچھیں کہ وہ باوا صاحب کو کیا سمجھتا ہے؟ اگر تو وہ مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر باوا صاحب کو کوئی درجہ دے تو آپ سمجھ لیں کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اور اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ باوا صاحب چونکہ
$1940 286 خطبات محمود الله بانی اسلام صلی ظلم کے منکر تھے اس لئے کافر تھے تو آپ بتائیں کہ باوا صاحب کی ہتک کرنے والا وہ ہوا یا ہم.ہم تو انہیں مسلمان ولی اللہ کے معنوں میں کہتے ہیں اور مسلمان ولی اللہ سے اوپر مسلمانوں کے نزدیک صرف رسول اور پیغمبر ہی ہوتے ہیں.پس ہمارا ان کو مسلمان کہنا کسی تحقیر کی وجہ سے نہیں ہو تا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ان کو ویسا ہی قابل عزت سمجھتے ہیں جیسے ہمارے نزدیک مسلمان اولیاء قابل عزت ہوتے ہیں.ہمارا انہیں مسلمان کہنے سے یہ مقصد نہیں ہو تا کہ وہ نَعُوذُ باللہ ان ادنیٰ لوگوں کی طرح تھے جو سکھوں کے گاؤں میں بستے ہیں اور گو مسلمان کہلاتے ہیں مگر اسلام سے انہیں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہو تا کیونکہ ہم ان کی دنیوی حیثیت سے ان کو مسلمان نہیں کہتے بلکہ ان کو دینی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں اور دینی لحاظ سے مسلمان کے معنے ولی اللہ کے ہوا کرتے ہیں مگر عام طور پر چونکہ سکھوں کے گاؤں میں مسلمان کمیں ہوا کرتے ہیں اور دنیا داروں کی نگاہ میں تمیں حقیر خیال کئے جاتے ہیں اس لئے وہ خیال کر لیتے ہیں کہ جیسے ہمارے گاؤں کے کمیں مسلمان ہیں ویسا ہی مسلماں یہ ہمارے باوا صاحب کو سمجھتے ہیں.حالانکہ ہم اس نقطۂ نگاہ سے انہیں مسلمان نہیں کہتے بلکہ مسلمان کا لفظ ان کے ولی اللہ ہونے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.اگر آپ کو یہ لفظ بُرا محسوس ہوتا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ ہم انہیں کیا کہیں ؟ ہمارے نزدیک تو مسلمانوں کے سوا جتنے لوگ ہیں سب کافر ہیں اور دو ہی اصطلاحیں مسلمانوں میں رائج ہیں.یا کافر کی اصطلاح یا مسلمان کی اصطلاح.اگر باوا صاحب مسلمان بمعنے ولی اللہ نہیں تو دوسرے لفظوں میں وہ نَعُوذُ بِاللهِ کافر اور خدا سے دور تھے.اب آپ ہی سوچ لیں کہ باوا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے یا ان کو مسلمان نہ کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے.احرار کا تو اس اعتراض سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ احمدی باوا صاحب کی تعریف کیوں کرتے ہیں؟ مگر سکھ ناواقفیت کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ احرار ان کی تائید کر رہے ہیں اور احمدی انہیں گالی دے رہے ہیں.میں نے جب یہ اشتہار شائع کیا تو چونکہ وہ آدمی سمجھدار تھے اس لئے انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں
$1940 287 خطبات محمود لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں.میر انشاء اس مثال سے یہ ہے کہ باوجو د اس بات کے کہ سکھ تمام قوموں میں سے کم ہیں پھر بھی وہ اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقع پر ہمیں یہ نوٹس دے دیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.تو قومی لحاظ سے غیر اقوام کے مقابلہ میں ہم پہلے ہی تھوڑے ہیں.پھر اگر ان منافق طبع لوگوں کو اپنی جماعت سے نکال دینے پر بھی ہم تھوڑے ہی رہتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ نہیں ہو سکتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جب ان کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے مضر ثابت ہو رہا ہو انہیں جماعت سے خارج نہ کیا جائے لیکن اگر خدا کے رسولوں کی جماعتیں کثرت تعداد کی بناء پر نہیں بلکہ خدا کی نصرت اور اس کی مدد کے ساتھ جیتا کرتی ہیں تو اس صورت میں خواہ یہ لوگ نکل جائیں پھر بھی گو ہم موجودہ وقت سے تھوڑے ہو جائیں گے مگر شکست نہیں کھا سکتے.ممکن ہے پیغامی یہ کہنا شروع کر دیں کہ پہلے تو اپنے زیادہ ہونے کو صداقت کی دلیل قرار دیتے تھے اب کہتے ہیں کہ تھوڑے ہو کر بھی ہم حق ہی پر رہیں گے.ایک ہی وقت میں یہ تمہاری دونوں باتیں کس طرح درست ہو سکتی ہیں؟ سو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری دونوں باتیں درست ہیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہ کھائیں گے اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کرتا ہوں اور جب میں کہتا ہوں کہ ہم زیادہ ہیں اس لئے ہم حق پر ہیں تو اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کیا کرتاہوں.ہم تھوڑے ہیں غیر اقوام کے مقابلہ میں اور ہم زیادہ ہیں اس لحاظ سے کہ نبی کی جماعت کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے.پس جب میں نے یہ کہا کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہیں کھا سکتے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا زیادہ حصہ ہم سے الگ ہو جائے گا اور قلیل حصہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا کیونکہ جماعت کی اکثریت بہر حال ہمارے ساتھ رہے گی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کی جماعت کی اکثریت گمر اہ ہو جائے.اگر کسی وقت اکثریت کو غلطی لگے تو وہ غلطی پر قائم نہیں رہ سکتی بلکہ چند دنوں میں ہی اسے غلطی کی اصلاح کا
$1940 288 خطبات محمود موقع مل جاتا ہے.جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں حضرت علی کی خلافت کے عہد میں ہوا.پس میں نے اپنے آپ کو تھوڑا دنیا کی اور اقوام کے مقابلہ میں قرار دیا ہے اور میں نے یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت قلیل رہ جائے گی کیونکہ جب تک جماعت کے دلوں میں نور ایمان باقی ہے یہ ناممکن ہے کہ اس کی اکثریت بگڑ جائے.پھسلنے والے پھسلیں گے، گرنے والے گریں گے اور جدا ہونے والے جدا ہوں گے مگر اکثریت پھر بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی.پس پیغامی یا ان کے گماشتے مصری میرے ان الفاظ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی.اگر بعض منافق یا کمزور طبع لوگ اپنی ایمانی کمزوری کا ثبوت دیتے ہوئے ہم سے الگ ہو جائیں تو وہ پھر بھی اکثریت قرار نہیں پائیں گے بلکہ اکثریت ہمارے ساتھ رہے گی اور وہ ہمارے مقابلہ میں تھوڑے ہی رہیں گے کیونکہ نبیوں کی جماعتوں کے اندر شروع زمانہ میں منافق اور فتنہ و فساد پیدا کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں اور مومن زیادہ ہوتے ہیں.پس جب میں اپنے متعلق تھوڑے کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم احمدی کہلانے والوں کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں بلکہ غیر اقوام مراد ہوتی ہیں اور میر ا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہیں لیکن احمدی کہلانے والے غیر مبائعین کے مقابلہ میں ہم زیادہ ہیں اور زیادہ ہی رہیں گے.انشاء الله پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو پوزیشن ہم نے دیانتداری کے ساتھ تسلیم کی ہوئی ہے ہمیں اس کے مطابق اپنے اعمال میں بھی تغیر پیدا کرنا چاہیئے.اسی طرح صحابہ کی جو پوزیشن ہمارے نزدیک مسلّم ہے وہی پوزیشن ہمیں اختیار کرنی چاہیے.صحابہ کی پوزیشن یہ تھی کہ انہیں حکم دیا جاتا اور وہ فوراً اطاعت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور یہی پوزیشن ہماری ہونی چاہیے.جو شخص یہ پوزیشن اختیار نہیں کرتا ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امتی نبی مانتا ہے کیونکہ امتی نبی ماننے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جو کچھ صحابہ نے کیا وہی ہم کریں اور اگر کوئی شخص صحابہ کے سے کام نہیں کرتا تو اس کے متعلق یہی کہا
$1940 289 خطبات محمود جاسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آزاد نبی مانتا ہے.اس صورت میں اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم جسے مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں وہ رسول کریم صلی الیکم کا امتی ہے.ہم کسی ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں جو اپنے آپ کو مستقل نبی قرار دے اور رسول کریم صلی ایم کی غلامی سے آزاد ہو کر نبوت کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے کیونکہ آپ کو خدا نے بھی نبی قرار دیا ہے اور اس کے رسول نے بھی نبی قرار دیا ہے اور ہمارے نزدیک ایسا شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو کلیۂ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ خدا کو بھی جھوٹا کہتا ہے اور خدا کے رسول کو بھی جھوٹا کہتا ہے.اس لئے ان کا راستہ اور ہے اور ہمارا راستہ اور.پس میں قادیان کی جماعت کو آئندہ تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں.اول اطفال احمدیہ - 8 سے 15 سال تک دوم: خدام الاحمدیہ.15 سے 40 سال تک سوم: انصار اللہ.40 سے اوپر تک ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے.خدام الاحمدیہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے.مجالس اطفال احمد یہ بھی قائم ہیں.البتہ انصار اللہ کی مجلس اب قائم کی گئی ہے اور اس کے عارضی انتظام کے طور پر مولوی شیر علی صاحب کو پریذیڈنٹ اور مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب کو سیکرٹری بنایا گیا ہے.یہ اگر کام میں سہولت کے لئے مزید سیکرٹری یا اپنے نائب مقرر کرنا چاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے.ان کا فرض ہے کہ تین دن کے اندر اندر مناسب انتظام کر کے ہر محلہ کی مسجد میں ایسے لوگ مقرر کر دیں جو شامل ہونے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں اور پندرہ دن کے اندر اندر اس کام کو تعمیل تک پہنچایا جائے.اس کے لئے قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محلوں میں پھر کر لوگوں کو شامل ہونے کی تحریک کریں بلکہ وہ مسجد میں بیٹھ رہیں جس نے اپنا نام لکھانا ہو وہاں آجائے
$1940 290 خطبات محمود اور جس کی مرضی ہو ممبر بنے اور جس کی مرضی ہو نہ بنے.جو ہمارا ہے وہ آپ ہی ممبر بن جائے گا اور جو ہمارا نہیں اسے ہمارا اپنے اندر شامل رکھنا بے فائدہ ہے.پندرہ دن کے بعد مردم شماری کر کے یہ تحقیق کی جائے گی کہ کون کون شخص باہر رہا ہے.اگر تو کوئی شخص دیدہ دانستہ باہر رہا ہو گا تو اسے کہا جائے گا کہ چونکہ تم باہر رہے ہو اس لئے اب تم باہر ہی رہو مگر جو کسی معذوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ہو گا اسے ہم کہیں گے کہ گھر کے اندر تمہارے تمام بھائی بیٹھے ہیں آؤ اور تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ.اس طرح پندرہ دن کے اندر اندر قادیان کی تمام جماعت کو منظم کیا جائے گا اور ان سے وہی کام لیا جائے گا جو رسول کرم علی ایم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے لیا گیا.یعنی کچھ تو اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو قرآن اور حدیث پڑھائیں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ تعلیم و تربیت کا کام کریں اور کچھ یزکیھم کے دوسرے معنوں کے مطابق اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کی دنیوی ترقی کی تدابیر عمل میں لائیں.یہ پانچ کام ہیں جو لازماً ہماری جماعت کے ہر فرد کو کرنے پڑیں گے.اسی طرح جس طرح جماعت فیصلہ کرے اور جس طرح نظام ان سے کام کا مطالبہ کرے.جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا مثلاً وہ مفلوج ہے یا اندھا ہے یا ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا ایسے شخص سے بھی اگر عقل سے کام لیا جائے تو فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے الَّا مَا شَاء اللہ.مثلاً اسے کہہ دیا جائے کہ اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم دو نفل روزانہ پڑھ کر جماعت کی ترقی کے لئے دعا کر دیا کرو.پس ایسے لوگوں سے بھی اگر کچھ اور نہیں تو دعا کا کام لیا جا سکتا ہے.در حقیقت دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو کوئی نہ کوئی کام نہ کر سکے.قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی شخص زندہ رکھا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں کام کر کے دوسروں کے لئے اپنے وجود کو فائدہ بخش ثابت کر سکتا ہے اور ادنیٰ سے ادنی حرکت کا کام جس میں جسمانی محنت سب سے کم بر داشت کرنی پڑتی ہے دعا ہے.ہاں بعض کے کام بالواسطہ بھی ہوتے ہیں جیسے پاگل نہ دعا کر سکتے ہیں اور نہ کچھ اور کام کر سکتے ہیں.ایسے لوگ صرف عبرت کا کام دیتے اور لوگ انہیں دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں.مگر ایسا
خطبات محمود 291 $1940 معذور میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں.نیم فاتر العقل دو چار ضرور ہیں مگر پورا پاگل میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں.لیکن یہ لوگ بھی اتنا کام تو ضرور کر رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے عبرت کا موجب بنے ہوئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ ان میں سے کوئی بھی باغیوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو گا.اگر کوئی شخص ان مجالس میں سے کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہو گا تو وہ ہر گز جماعت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا.پس ان مجالس میں شامل ہونا در حقیقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عملی رنگ میں اقرار کرنا ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہیں اور خدا اور اس کے رسول نے جو احکام دیئے ہیں ان کے نفاذ اور اجراء میں حصہ لینا صرف میرا فرض نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے.آخر میں نے ( نَعُوذُ بالله ) محمد رسول اللہ صلی اللی کام کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تھا نہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ( نَعُوذُ باللهِ ) رسول کریم صلیم کا آخری مظہر بنا کر بھیجا، نہ صحابہ کو میں نے بنایا اور نہ تم کو میں نے بنایا.یہ خدا کا کام ہے جو اس نے کیا.میرا کام تو صرف ایک مزدور کا سا ہے اور میر افرض ہے کہ خدا نے جس فقرہ کو جہاں رکھا ہے وہاں اس کو رکھ دوں.پس میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا نے کہا.اگر کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کرتا تو اسے ثابت کرنا چاہیے کہ وہ بات خدا نے نہیں کہی ورنہ وہ میرا انکار نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کا انکار کرتا ہے.“ (الفضل یکیم گست 1940ء) 1 البقرة : 130 ها الله سة 2 البقرة:125 3 البقرة:125 4 المائدة: 118 5 الجمعة: 3،2
$1940 292 خطبات محمود 6 الجمعة : 4 7 استثناء باب 18 آیت 18 در ثمین اردو صفحہ 131 و الواقعة: 41،40 10 البقرة: 250
$1940 293 21 خطبات محمود تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی میں سستی اور غفلت کو ترک کر دیں (فرموده 2 اگست 1940ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والا وہی نیک کام ہوا کرتا ہے جو استقلال کے ساتھ کیا جائے اور جس کے کرنے سے کرنے والے کے ایمان میں زیادتی ہوتی جاتی ہے.یہ ممکن نہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی کام کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب نہ دیا جائے.معمولی غیرت والا کوئی شریف انسان بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ دوسرے انسان کے احسان کے نیچے رہے.پھر اللہ تعالیٰ یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ بندہ اس پر احسان کرتا جائے اور وہ خاموش بیٹھار ہے.وہ ضرور اس کا بدلہ دیتا ہے.ہاں اس کا بدلہ ہر شخص کے حال کے مطابق ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كُلًّا من هؤلاء وهؤلاء ا یعنی ہم امداد کرتے ہیں ، مدد دیتے ہیں، نصرت اور تائید کرتے ہیں ہر ایک کی.کافر کی مدد کرتے ہیں کافر کے رنگ میں اور مومن کی مومن کے رنگ میں.کا فر چونکہ جتنے کام کرتا ہے دنیا کی خاطر کرتا ہے اس لئے ہم اسے دنیا دیتے ہیں اور ایک سچا مومن چونکہ جو کام کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے کرتا ہے اس لئے ہم اس کے بدلہ میں www.
$1940 294 خطبات محمود اسے ایمان دیتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم مدد تو کرتے ہیں کافر کی بھی اور مومن کی بھی مگر دونوں کی مدد کے رنگ علیحدہ علیحدہ ہیں.بعض دفعہ کمزور اور جاہل مومن بھی یہ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ کافروں کو اتنامال کیوں ملتا ہے ؟ ان کو یہ پتہ نہیں کہ یہ مال ان کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہو تا ہے کہ تاوہ آزمائش میں اور امتحان میں کچے ثابت ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کا غضب ان پر بھڑک اٹھے.بعض نیکی کے کام جو مو من کرتے ہیں وہ کا فر بھی کرتے ہیں مثلا کافر بھی سچ بولتے ہیں ، کافر بھی خیرات کرتے ہیں ، دوسروں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں، غرباء کی تعلیم میں امداد کرتے ہیں، یتیموں اور بیواؤں کے کام آتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو دنیوی بدلہ ملے.اور اللہ تعالیٰ کا چونکہ وعدہ ہے کہ كُلا تحمد هؤلاء وهؤلاء یعنی ہم نے بہر حال کسی کے نیک کام کو ضائع نہیں کرنا اس لئے ہم ہر ایک کو اس کے رنگ میں بدلہ دیتے ہیں.کا فر چونکہ دنیا کے لئے کرتا ہے اس لئے اس کے عوض ہم اسے دنیا دیتے ہیں لیکن مومن چونکہ خدا تعالیٰ کے لئے کرتا ہے اس لئے اس کو ہم ایمان زیادہ کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں اس کے ایمان میں زیادتی ہو جاتی ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ مومن کو دنیا ملتی ہی نہیں.ملتی ہے مگر وہ زائد انعام کے طور پر ملتی ہے.وہ اس کے کام کا طبعی نتیجہ نہیں ہو تا.کا فراگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس لئے کہ اسے دنیوی طور پر ترقی ملے اور اس لئے یہ اسے حاصل ہو جاتی ہے.عیسائیوں کے متعلق تو مجھے زیادہ تجربہ نہیں مگر ہندوؤں میں سے بیبیوں کے ساتھ اس قسم کے تعلقات ہیں وہ دعا کے لئے کہتے رہتے ہیں مگر ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ دعا کریں ہماری فلاں تجارت میں ترقی ہو جائے، مال بڑھ جائے یا بعض ایسی دعائیں جن کا نتیجہ یہ ہو کہ مال بڑھ جائے.ایسے ہی لوگوں کو مد نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلا محمد هؤلاء وهؤلاء یعنی ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں اور اسی رنگ میں مدد کرتے ہیں جس رنگ میں وہ نیک کام کرتے ہیں مگر مومن کی حالت اس سے مختلف ہوتی ہے.وہ نیکی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا مال بڑھ جائے ، وہ نماز اس لئے نہیں پڑھتا ، روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ تجارت میں ترقی ہو ، زکوۃ اس لئے نہیں دیتا کہ اس کا کاروبار بڑھ جائے بلکہ جو نیکی بھی کرتا ہے اس لئے کہ
$1940 295 خطبات محمود خدا تعالیٰ اسے مل جائے اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اسے مل جاتا ہے.بے شک اسے دنیوی انعامات بھی ملتے ہیں مگر وہ زائد انعام کے طور پر ہوتے ہیں.صحابہ نے جو عبادتیں کیں، جو نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے یا جہاد کیا وہ اس لئے نہیں کیا تھا کہ دنیا کا مال وزر حاصل ہو جائے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا نام دنیا میں قائم ہو اور ان کا خدا ان سے راضی ہو اور یہ چیز اُن کو حاصل ہو گئی.دنیا بھی ان کو ملی مگر وہ ایک زائد انعام کے طور پر تھی ان کی نیکیوں کا بدلہ نہ تھا.تو مومن جو کام کرتا ہے وہ خدا کے لئے کرتا ہے لیکن کافر دنیا کے لئے کرتا ہے.پس مومن کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے جو نیکی کی ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ایمان بڑھتا ہے یا نہیں.اگر تو ایمان میں زیادتی ہو اور مزید نیکی کی توفیق ملے تو سمجھ لے کہ اس کی قربانی قبول ہو چکی ہے ورنہ نہیں اور اس کی قربانی صحیح معنوں میں قربانی نہیں تھی.اگر وہ دیکھے کہ کل جس بشاشت سے اس نے چندہ دیا تھا وہ آج نہیں ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ کل اس نے جو قربانی کی تھی وہ ناقص تھی اور اللہ تعالیٰ نے نور ایمان اس سے چھین لیا ہے.اگر اس کی آج کی نماز کل سے بہتر نہیں، آج کا روزہ کل سے بہتر نہیں، آج کی زکوۃ کل سے بہتر نہیں.تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی پہلی عبادت میں نقص تھا کیونکہ مومن جو نیکی کرتا ہے وہ خدا کے لئے کرتا ہے اور اس کے بدلہ میں اسے خدا ملنا چاہیئے اور خدا کے ملنے کے یہ معنے ہیں کہ اس کی عبادت میں ترقی ہو.وہ نیکی اور قربانی میں اور بڑھے.مومن جو کام خدا کے لئے کرتا ہے اس کے نتیجہ میں خدا اس کے ایمان کو بڑھاتا ہے اور زیادہ نیک اعمال کی توفیق اسے دیتا ہے.اگر اس کی آج کی عبادت اور نیکی مقبول ہوئی ہے تو لاز ماکل اسے پھر توفیق ملے گی اور اس کی کل کی نیکی اور عبادت آج سے اچھی ہو گی اور پر سوں کی کل سے بہتر ہو گی اور چوتھے دن کی تیسرے دن سے اچھی ہو گی اور اسی کا نام استقلال ہے.استقلال ایمان کا جزو ہے اور اس کا لازمی حصہ ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی مومن صحیح معنوں میں قربانی کرے اور پھر اسے مزید نیکی کی توفیق نہ ملے.دراصل استقلال نام ہے نیک عمل کے مقبول ہونے کا اور جسے استقلال حاصل نہیں ہوتا اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نیکی مقبول نہیں ہوئی ورنہ اسے زیادہ نیکی کی توفیق ضرور ملتی.پھر مومن کو نیک عمل میں لذت حاصل ہوتی ہے اور اس لئے وہ ایک نیک عمل
$1940 296 خطبات محمود کے بعد دوسرے کا موقع ملنے کا منتظر رہتا ہے اور تیار رہتا ہے کہ جب موقع آئے فوراً اسے ادا کرے.مثلاً آموں کا موسم آتا ہے تو غریب سے غریب انسان بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس سے لذت اندوز ہوتا ہے حتی کہ جن غریبوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ وہی اٹھا کر کھا لیتے ہیں جو دکاندار گلے سڑے ہونے کی وجہ سے گلیوں میں پھینک دیتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ غرباء کے بچے دوسروں کے چوسے ہوئے آموں کی گٹھلیاں اٹھا کر چوسنے لگتے ہیں.گویا موسم آتے ہی خود بخود آم کھانے کا شوق دل میں پیدا ہو جاتا ہے.ان کو کون کہنے جاتا ہے کہ موسم آگیا ہے آم خرید و اور کھاؤ بلکہ موسم شروع ہوتے ہی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ معلوم نہیں آم کب تک آئیں.ان کو کسی کی طرف سے تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ خود بخود تحریک پیدا ہوتی ہے.یہی حال خربوزوں کا ہے.پہلے ہی لوگ دریافت کرنے لگتے ہیں کہ خربوزے ابھی پچکے ہیں یا نہیں؟ بے موسم کے آم، خربوزے اور ترکاریاں ہمیشہ زیادہ قیمت پاتی ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ چونکہ خریدنے کے لئے اپنے اندر ایک تحریک پاتے ہیں اس لئے جن کی فصل کچھ پہلے تیار ہو جاتی ہے لوگ اسے خریدنے کے لئے دوڑتے ہیں اس لئے اس کی قیمت زیادہ دینی پڑتی ہے.پس جس چیز کی لذت سے انسان آشنا ہو اس کے لئے کسی دوسرے کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی.لوگ خود بخود اس کے انتظار میں رہتے ہیں کہ وقت آئے تو پہلا موقع جو ملے اس پر اسے حاصل کر لیں.یہی حال نیکی کا ہے اگر مومن اس کی لذت سے آشنا ہو تو وہ کسی بیرونی تحریک کے بغیر اسے حاصل کرنا چاہتا ہے.اصل ایمان وہی ہے کہ جس میں انسان کسی کی یاد دہانی کے بغیر نیکی کے کام کرتا ہے اور پھر اس نیکی کے مقبول ہونے کی علامت یہی ہے کہ اور نیکیوں کی توفیق اسے ملے اور نیکی کرنے میں اسے لذت حاصل ہو.یہ ایک ایسا معیار ہے جس کے مطابق ہر انسان اپنے ایمان کی آزمائش نہایت آسانی سے کر سکتا ہے.بیسیوں لوگ ہیں جو اپنے ایمان کی آزمائش سے غافل رہتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دن بے ایمان ہو جاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ کیا ہوا حالا نکہ اگر وہ روزانہ آزمائش کرتے رہتے تو ہلاکت سے بچ جاتے.اس طریق پر ہر شخص اپنے ایمان کی آزمائش روزانہ کر سکتا ہے اور پتہ لگا سکتا ہے کہ وہ ایمان میں ترقی کر رہا ہے یا نیچے گر رہا ہے.اگر
$1940 297 خطبات محمود وہ دیکھے کہ مستقل طور پر وہ ایمانی لذت اور نیکی کی بشاشت سے محروم ہو رہا ہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیئے.ایک عارضی کیفیت ہوتی ہے جو ہر مومن پر کسی نہ کسی وقت وارد ہوتی ہے.صحابہ نے ایک دفعہ آنحضرت صلی ای کم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ جب ہم آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں تو ہمارے ایمان تیز ہو جاتے ہیں مگر جب باہر جاتے ہیں تو یہ کیفیت نہیں رہتی.آپ نے فرمایا کہ ہر وقت دوزخ تمہاری نظروں کے سامنے رہے تو مر نہ جاؤ - 2 پس یہ عارضی غفلت اور ہے.کسی نہ کسی وقت آدمی کا دل آرام کرنے کو بھی چاہتا ہے.کسی وقت وہ چاہتا ہے کہ اپنے بیوی بچوں میں بیٹھ کر باتیں کرے.یہ اور بات ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے برسات کے موسم میں غریب سے غریب لوگ بھی کبھی نہ کبھی پکوڑے پکا لیتے ہیں مگر اسے کھانے میں عیاشی نہیں کہا جا سکتا.کوئی شخص ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بڑے عیاش ہیں.فلاں دن بارش ہو رہی تھی اور ان کے گھر میں پوڑے پک رہے تھے.یہ عیاشی نہیں عیاشی وہ ہے کہ انسان صبح اٹھتے ہی کھانے پینے میں لگ جائے اور شام تک اسی شوق میں لگار ہے.کسی نہ کسی غریب کا پکوڑے، پر اٹھے یا چاول وغیرہ پکا لینا عیاشی میں داخل نہیں.یہ تو غذا کا تنوع ہے جس سے صحت اچھی رہتی ہے.یہی بات دینیات اور روحانیات میں ہے.بالکل ہی غافل ہو جانا عیاشی ہے مگر کسی وقت اگر آدمی چاہے کہ آرام کرے یا بیوی بچوں میں بیٹھ کر باتیں کرے تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کبھی کوئی غریب آدمی پوڑے یا پراٹھے پکا لے.جس طرح وہ عیاشی نہیں اسی طرح یہ بھی غفلت نہیں کہلا سکتی.غفلت وہ ہے کہ دل پر ان چیزوں کی محبت غالب ہو جائے اور دین کی محبت اور لذت دل میں نہ رہے.جیسے کھانے میں عیاشی اس کا نام ہے کہ انسان ہر وقت کھانے پینے کے اہتمام میں لگا رہے اور اپنے آپ کو کھانے میں ہی مقروض کر لے.کبھی سال میں دو چار بار اچھی چیز پکا کر کھالینا یا عید کے موقع پر کوئی کپڑا بنالینا عیاشی نہیں کہلا سکتی.اسی طرح کبھی آرام کی طرف مائل ہو جانا دین میں سستی نہیں کہلا سکتی.قبض کی حالت بھی مومنوں پر آتی ہے اور یہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے مگر دینی کاموں میں بحیثیت مجموعی سستی اور غفلت کا پید اہو جانا ایسی بات ہے جس کا آسانی سے پتہ لگ سکتا ہے اور انسان معلوم کر سکتا ہے کہ اس کے ایمان کا درجہ کیا ہے.
خطبات محمود 298 $1940 یہ تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ تحریک جدید کے اس سال کے اعلان پر آٹھ ماہ گزر چکے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی اس سال کی نصف رقم وصول نہیں ہوئی.ابھی آتے وقت مجھے ایک فہرست دی گئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں جن کے احمدیوں کی مجموعی تعداد 6، 7 ہزار سے زیادہ نہ ہو گی ستر کے قریب ایسی ہیں کہ جن کی طرف سے ابھی کوئی پیسہ بھی وصول نہیں ہوا.یہ جماعتیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں.بعض میں چھ سات سے زیادہ احمدی نہیں اور بعض دور دراز گوشوں میں ہیں.ان کی طرف سے ابھی ایک پیسہ بھی وصول نہیں ہوا.پھر ایک خاصی تعداد ایسی ہے جن کی وصولی 33 فیصدی سے زیادہ نہیں یعنی ان میں سے کسی کی وصولی دس فیصدی ہے ، کسی کی بارہ فیصدی، کسی کی ہیں ، کسی کی تیں اور کسی کی 33 فیصدی.پھر بعض وہ ہیں جن کا 33 سے پچاس فیصدی کے درمیان چندہ وصول ہوا ہے اور کچھ وہ ہیں جن کا پچاس سے ستر فیصدی تک اور بہت تھوڑی جماعتیں ایسی ہیں جن کو قریباً سارا یا بہت سا حصہ وصول ہو چکا ہے.حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ ادا نہیں کر سکتے وہ اپنے نام نہ لکھوائیں.ایسے لوگ جماعت کی ترقی کا موجب نہیں ہوتے بلکہ نقصان کا موجب ہوتے ہیں.مومن کے وعدے پر اعتبار کر لیا جاتا ہے اور وعدوں کی مجموعی رقم کے مطابق پروگرام بنالیا جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے کچھ وعدے پورے نہ ہوں تو نقصان لازمی ہے.فرض کرو دس آدمی وعدہ کرتے ہیں اور ان کے وعدے کے مطابق پروگرام بنالیا جاتا ہے اب اگر ان میں سے چار اپنا وعدہ پورا نہ کریں تو اس کام کو جو نقصان پہنچے گا اس کا گناہ انہی لوگوں پر ہو گا جنہوں نے دھوکا دیا.اگر وہ نام نہ لکھواتے تو سلسلہ مقروض نہ ہوتا.سلسلہ نے ان کو ایماندار سمجھا اور ان کے وعدوں پر اعتبار کیا مگر دراصل وہ بے ایمان تھے اور دھوکا دینے والے تھے اس لئے سلسلہ کو مقروض ہونا پڑا.میں نے بار بار کہا ہے کہ ثواب اس سے نہیں کہ آدمی اپنا نام لکھوا دے بلکہ یہ تو عذاب حاصل کرنے کا طریق ہے.اس سے جتنا بوجھ سلسلہ پر پڑے گا اس کا عذاب انہی لوگوں پر ہو گا جو نام لکھوا دیتے ہیں مگر وعدہ پورا نہیں کرتے.اس میں شک نہیں کہ ان کے وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے بدنامی ساری جماعت کی ا
$1940 299 خطبات محمود ہوتی ہے مگر خد اتعالیٰ کے ہاں اس کا عذاب صرف ان لوگوں پر ہے جنہوں نے نام تو لکھوا لئے مگر وعدے پورے نہ کئے.انہوں نے لوگوں میں جھوٹی عزت تو حاصل کر لی مگر خدا تعالیٰ کی لعنت کے مورد ہو گئے.میں نے اس امر کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے مگر پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اس روش سے باز نہیں آتا.وہ نام تو لکھوا دیتے ہیں مگر وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور ادا کرنے میں غافل رہتے ہیں.ان کا یہ فعل ہر گز مستحسن نہیں بلکہ صریح خسر ان کا موجب ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی انسان اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹ دے.دشمن اگر کسی کی ناک کاٹ دے تو یہ بھی بری بات ہے اور جب وہ گزرے تو لوگ کہتے ہیں کہ نکٹا جا رہا ہے مگر یہ لوگ تو ایسے ہیں کہ جیسے کوئی اُستر الے کر اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹ دے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص بالکل دیوانہ یافاتر العقل ہی ہو سکتا ہے.اسی طرح جس چندہ میں پابندی کی کوئی شرط نہیں اس میں جو شخص اپنی مرضی سے پہلے نام لکھواتا ہے اور پھر عدم ادائیگی سے جماعت کو ذلیل کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی دیوانہ اور فاتر العقل ہے جیسے اُستر الے کر اپنی ناک خود کاٹنے والا.میں نے بارہا کہا ہے کہ اس چندہ میں وعدے صرف وہی لوگ لکھوائیں جو خدا تعالیٰ کے دربار میں سابقون میں شامل ہو نا چاہتے ہیں.لوگوں میں جھوٹی عزت حاصل کرنے کے شائق نام نہ لکھوائیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ پھر کئی لوگ یو نہی نام لکھوا دیتے ہیں.کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اسے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچے اور وہ خد اتعالیٰ کا مقرب بھی ہو جائے یہ ناممکن ہے.قربانی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو نا نا ممکن ہے.اس وقت جنگ ہو رہی ہے دیکھو ہزاروں لوگ جنگ میں قربانیاں کر رہے ہیں.آجکل جنگ کا وہ طریق نہیں رہا کہ تلوار ہاتھ میں لے کر ایک بہادر میدان میں نکل آتا تھا کہ آئے کون میرے مقابلہ پر آتا ہے.آج تو یہ حالت ہے کہ لوگ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوتے ہیں کسی کو علم بھی نہیں ہوتا اور اوپر سے ایک بم گرتا ہے اور کئی لوگ وہیں ہلاک ہو جاتے ہیں.نہ کسی کو مقابلے کا موقع ملتا ہے ، نہ کوئی روک پیدا کر سکتا ہے.دل کے ارمان اور حو صلے نکالنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی مگر باوجود ایسے خطرات کی حالت کے کئی ایسے لوگ ہیں
$1940 300 خطبات محمود جو ہمت و استقلال کے ساتھ کام کرتے ہیں اور جنگ میں ایسے ایسے کارنامے کرتے ہیں کہ پڑھ کر حیرت آتی ہے.پہلے بھی ایک واقعہ میں سنا چکا ہوں اب پھر اخباروں میں ایک واقعہ شائع ہوا ہے کہ ایک افسر سخت زخمی ہو گیا جہاں وہ پڑا تھا وہاں جرمن فوج کا قبضہ ہو چکا تھا.اس کا ایک ماتحت افسر تلاش میں نکلا کہ تاوہ ملے تو اسے لے آئے.اس نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں فون کیا کہ میں اس کی تلاش میں جانا چاہتا ہوں ایک لاری بھیج دی جائے.وہاں سے جواب آیا کہ ہم تمہیں ایسی خطرناک جگہ پر بھیج نہیں سکتے کیونکہ وہاں جانے میں نانوے فیصدی گمان مارے جانے یا کم سے کم قید ہونے کا تھا.اس لئے اسے جواب دیا گیا کہ ہم حکم نہیں دیتے اپنی مرضی سے جانا چاہو تو چلے جاؤ.اس نے کہا کہ میں اپنی مرضی سے جانا چاہتا ہوں تا اگر ممکن ہو تو اپنے افسر کو بچا کر لے آؤں.چنانچہ وہ لاری لے کر فوجی پہروں سے بچتا ہوا وہاں پہنچا اسے تلاش کر کے لاری پر ڈال لیا.اور بھی دو چار زخمی مل گئے ان کو بھی اس نے ساتھ لے لیا اور بچ کر نکل آیا.اس کا ایسے حالات میں اس جگہ جانا جہاں دشمن کا قبضہ ہو چکا تھا گویا یقینی طور پر موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا اور یہ محض اتفاق تھا کہ بیچ کر آگیا مگر اس شخص نے اس قربانی کے لئے خود اپنے آپ کو پیش کیا.تو جنگ میں لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر رہے ہیں اور ایسے ایسے خطرات میں اپنے آپ کو ڈالتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اور روزانہ بیسیوں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں.یہ مثالیں تو اپنوں کے لئے قربانی کی ہیں.غیروں کے لئے قربانی کی بھی شاندار مثالیں ملتی ہیں.حال ہی میں ایک واقعہ ہوا ہے.ایک برطانوی جہاز جر من قیدیوں کو لے کر جارہا تھا کہ جرمنوں نے بے وقوفی سے اسے خود ہی غرق کر دیا.تارپیڈو بوٹ نے اس پر حملہ کیا اور وہ غرق ہو گیا.جن لوگوں کو کشتیوں پر جگہ مل سکی وہ تو سوار ہو گئے.جہاز میں جو لوگ سوار ہوں ان کے پاس ایسی پیٹیاں بھی ہوتی ہیں جسے باندھ کر آدمی دو دو دن پانی پر تیر تا رہتا ہے اور اس اثناء میں ممکن ہوتا ہے کہ کوئی جہاز اسے آکر اٹھالے.جن لوگوں کو کشتیوں میں جگہ نہ ملے وہ یہ بیٹیاں پہن لیتے ہیں.اس جہاز کے ایک انگریز افسر نے دیکھا
$1940 301 خطبات محمود کہ ایک جرمن قیدی ایسا ہے کہ نہ اسے کشتی میں جگہ ملی ہے اور نہ اس کے پاس بیٹی ہے.اس افسر نے اپنی پیٹی اسے دے دی اور خود جا کر کپتان کے ساتھ کھڑا ہو گیا.جہاز غرق ہوا اور وہ بھی کپتان کے ساتھ غرق ہو گیا.گویا اس نے دشمن کی جان بچانے کے لئے اپنی جان دے دی.ہم ایسے واقعات کو آج اس لئے حیرت سے پڑھتے ہیں کہ اس زمانہ کے مسلمانوں میں ایمان کی وہ شان نہیں رہی جو پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی تھی.اس لئے ان میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں ورنہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں ایسی ایسی شاندار مثالیں ملتی ہیں کہ یہ واقعات ان کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے.حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمن کو شکست دی سخت گرمی کا موسم تھا.مقابلہ بڑے معرکہ کا تھا.ایک ایک مسلمان کو دو دو سو کا مقابلہ کرنا پڑا تھا.اس لئے بعض مسلمان چور ہو کر گر گئے تھے.ایک شخص وہاں پہنچا اس نے ایک صحابی کو دیکھا کہ زخمی پڑے تھے ان کے ہونٹ خشک ہیں اور اس سے پوچھا کہ کیا پانی ہے؟ اس کے پاس چھاگل تھی اس نے اس میں سے پانی لیا اور ان کو دیا وہ پینے لگے تو دیکھا کہ تھوڑے فاصلہ پر ایک اور مسلمان پڑا تھا.اس صحابی نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے اسے زیادہ پیاس ہے اس لئے پہلے اسے پلاؤ.وہ پانی لے کر اس کے پاس پہنچا تو اس نے ایک اور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ پیاسا معلوم ہو تا ہے اس لئے پہلے اسے پلا دو اور اس طرح یہ سلسلہ دس آدمیوں تک پہنچا لیکن جب پانی والا دسویں آدمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا.اس پر وہ لوٹا اور جس جس کے پاس پہنچا وہ فوت ہو چکا تھا.غور کرو یہ کتنی بڑی قربانی ہے.موت سامنے ہے، سانس رک رہا ہے اور شدید پیاس ہے مگر ہر ایک کی کوشش یہی ہے کہ پہلے میرا بھائی پانی پئے تو میں پھر پیوں.مگر آج مسلمانوں کی یہ حالت نہیں.ان کے پاس حکومت نہیں، نورِ ایمان نہیں، اس لئے ہمیں ایسی مثالیں کافروں میں سے دینی پڑتی ہیں اور یہ ہمارے لئے زیادہ غیرت کا موجب ہونی چاہئیں کہ جب کا فرایسی مثالیں پیش کرتے ہیں تو ہمارے نوجوانوں کو تو اس سے بہت زیادہ شاندار
$1940 302 خطبات محمود مثالیں پیش کرنی چاہئیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ تحریک جدید کے چندے طوعی ہیں اس لئے ان کو پورا کرنے کے لئے ان کو پوری کوشش کرنی چاہیئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ اگر انہیں اس قربانی کی توفیق نہیں ملتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کی پہلی قربانیوں کو بھی قبول نہیں کیا اور نہ آج ان سے سستی سر زدنہ ہوتی.سستی کے معنے ہی یہ ہیں کہ پہلے عمل ضائع ہو چکے.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست سستی اور غفلت کو ترک کر دیں کیونکہ اس سے ان کی پہلے سالوں کی قربانیاں بھی ضائع ہو جائیں گی.یہ تو زمانہ اس قسم کا ہے کہ انسان کے سامنے سے ایک منٹ کے لئے بھی موت او جھل نہیں ہونی چاہیئے.میں ابھی لاہور سے آرہا ہوں وہاں ہوائی جہازوں کے لئے لوگوں میں چندہ کی تحریک کرنے کے لئے ہوائی جہازوں نے اشتہار پھینکے جن میں لکھا تھا کہ ممکن تھا اس اشتہار کی جگہ جو تم اٹھا رہے ہو بم گرتا جو جرمن یا روسیوں کا ہوتا.غور کرو اگر ایسا ہو تا تو تمہاری کیا حالت ہوتی.اس لئے اس وقت کی اہمیت کو پہچانیں اور جلد چندہ دیں تا اس سے ہوائی جہاز شہر کی حفاظت کے لئے خریدے جائیں.اب دنیا میں فاصلہ کا سوال بالکل مٹ چکا ہے.ہوائی جہاز دو دو تین تین ہزار میل پر جاکر حملہ کرتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں اور دشمنوں کو ایسے مواقع حاصل ہیں کہ اگر چاہیں تو ہندوستان پر حملہ کر دیں.گو ابھی کیا نہیں مگر ہندوستان میں شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے.اُدھر چین میں اور جاپان میں جنگ شروع ہے.امریکہ الگ کھڑا رہا ہے اور یورپ میں تو جنگ ہو ہی رہی ہے.ہر طرف خطرات ہی خطرات ہیں اور خطرات بھی ایسے کہ بہادری سے ان کا مقابلہ کرنے کا کوئی موقع نہیں اور کوئی شخص سینہ تان کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئے کون میرے مقابلہ پر آتا ہے.ہوائی جہاز اوپر سے حملہ کرتے ہیں اور بعض اوقات نظر بھی نہیں آتے.وہ تیس تیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہوتے ہیں.چیل نظر آتی ہے مگر جہاز نہیں.صرف بم گرتے ہیں اور جب موت اس قدر قریب ہو تو مومن اگر اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے تو بہت افسوس کا مقام ہے.پس میں احباب جماعت کو توجہ دلا تا ہوں کہ
$1940 303 خطبات محمود وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور موقع کی نزاکت کے لحاظ سے قربانیوں میں تیز ہوں نہ کہ ست.جو لوگ ایسے نازک وقت میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے ایسے سنگدل لوگ گو بظاہر جماعت میں شامل ہوں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کا شمار مومنوں میں نہیں ہوتا اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا فضل بچائے.ایسے لوگ باوجود مومنوں کی جماعت میں شامل ہونے کے خدا تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے.جب ہلا کو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو بغداد میں ایک بزرگ رہتے تھے.لوگ ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ بغداد کو ہلاکت سے بچائے.اس بزرگ نے کہا کہ میں کیا دعا کروں ؟ میں جب بھی دعا کرنے لگتا ہوں مجھے فرشتوں کی یہ آوازیں آتی ہیں کہ يَا أَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّار.یعنی اے کا فرو! ان مسلمانوں کو جو بے دین ہو چکے اور دین سے بالکل غافل ہیں قتل کر دو.تو جب ایسے نازک اور خشیت کے موقع پر بھی کوئی شخص دین کی خدمت سے غافل رہتا ہے اور قربانی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے باوجود کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں مرنے کے بعد اسے جنت ملے گی اور خدا تعالیٰ کے انعام اس پر ہوں گے تو وہ کس منہ سے ایمان کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ جنگ میں جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں ان کو موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت یا کسی انعام کی امید نہیں.کوئی جرمنی کے لئے قربانی کرتا ہے، کوئی فرانس کے لئے اور کوئی انگلستان کے لئے.لیکن جو بد قسمت خود وعدہ کرنے کے باوجود اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے انعامات کے وعدہ کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کے لئے قربانی میں تامل کرتا ہے وہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اسے ڈھانپ لے گا؟ اللہ تعالیٰ بھی اسے کہے گا کہ تمہارے سامنے ایسے لوگ تھے جنہوں نے بغیر کسی انعام کے وعدہ کے محض دنیوی عزت اور چند روزه آرام کے لئے قربانیاں کیں اور جانیں تک دے دیں مگر تم نے دین کے لئے قربانی نہ کی.پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے ہو کہ میرے فضلوں کے وارث ہو ؟ ہٹلر کس لئے لڑ رہا ہے ؟ اس لئے کہ یورپ کو فتح کرے مگر یورپ دنیا کا کتنا حصہ ہے.وہ آبادی، پیداوار اور علاقہ ہر لحاظ سے ادنی ہے.تمام پیداوار میں یا تو ایشیاء میں پیدا ہوتی ہیں یا امریکہ اور افریقہ میں.مگر اس ادنی سے ملک پر
خطبات محمود 304 $1940 غلبہ کے لئے دیکھ لو جر من کتنی قربانیاں کر رہے ہیں.مگر رسول کریم صلی یم نے فرمایا ہے کہ مومن کی جنت سارے زمین و آسمان کے برابر ہو گی.4 اور آج تک دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں گزرا جس کی بڑی سے بڑی امنگ اور امید ادنی مومن کے ہزارویں حصہ کے بھی برابر ہو اور انعامات کے اس قدر فرق کے باوجود اگر کوئی شخص قربانی سے دریغ کرتا ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کا دل نور ایمان سے بالکل خالی ہے.“ (الفضل18 ستمبر 1940ء) 1 بنی اسرائیل: 21 2 مسلم کتاب التوبة باب دوام الذكر والفكر الاستيعاب في معرفة الصحابة جز 3 صفحہ 191 الطبعة الاولى 1995ء مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان 4 مسلم كتاب الامارة باب ثبوت الجنة للشهيد
$1940 305 (22) خطبات محمود اپنے عملی نمونہ کو اسلام کے مطابق بناؤ اور دین کی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے چلے جاؤ (فرمودہ 23 اگست 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” دوستوں کو معلوم ہے کہ میں نے جماعت کو تین حصوں میں منظم کرنے کی ہدایت تھی.ایک حصہ اطفالِ احمدیہ کا یعنی پندرہ سال تک کی عمر کے لڑکوں کا، ایک حصہ خدام الاحمدیہ کا یعنی سولہ سے چالیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا اور ایک حصہ انصار اللہ کا جو چالیس سال سے اوپر کے ہوں خواہ کسی عمر کے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نوجوان جو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوا اس نے ایک قومی مجرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصار اللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہوا تو اس نے بھی ایک قومی مجرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی بچہ اطفال احمد یہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا تھا اور اس کے ماں باپ نے اسے اطفالِ احمد یہ میں شامل نہیں کیا تو اس کے ماں باپ نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے.مگر مجھے امید رکھنی چاہیے کہ ایسے لوگ یا تو بالکل نہیں ہوں گے یا ایسے قلیل ہوں گے کہ ان قلیل کو کسی صورت میں بھی جماعت کے لئے کسی دھبہ یا بدنامی کا موجب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قلیل استثناء کسی جماعت
$1940 306 خطبات محمود کے لئے بدنامی کا موجب نہیں ہوا کرتے.آج ہم صحابہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور بسا اوقات کہتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایسے تھے.حالانکہ ان صحابہ کہلانے والوں میں سے بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کا نام قرآن کریم میں منافق رکھا گیا ہے.پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ سارے صحابی ایسے تھے اور کیوں ان کا نام زبان پر آتے ہی ان کے لئے ہم دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں؟ اسی لئے کہ منافق نہایت قلیل تھے اور قلیل التعداد ہونے کی وجہ سے وہ کسی شمار میں نہیں آسکتے تھے.ایک حسین انسان کسی خفیف سے جسمانی نقص کی وجہ سے مثلاً اگر اس کی انگلی پر متانکلا ہوا ہو یا فرض کرو اس کی کمر پر کوئی داغ ہو بد صورت نہیں کہلا سکتا اور نہ مٹے یا داغ کی وجہ سے اس کے حسن میں کوئی فرق آسکتا ہے.اگر ہم ایسے شخص کو حسین کہیں تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ تم نے اس بات کا استثنیٰ نہیں کیا کہ اس کی کمر پر داغ ہے یا اس بات کا استثنیٰ نہیں کیا کہ اس کی انگلی کی پشت پر متانکلا ہوا ہے.بے شک مشا ایک نقص ہے ، بے شک داغ ایک نقص ہے لیکن ایسے مقام پر مستے یا داغ کا ہونا جہاں نظر نہ پڑ سکے یا خاص طور پر وہ حسن کو بگاڑ کر نہ رکھ دے حسن کے خلاف نہیں ہوتا.ایک شخص جسے سال دو سال میں ایک دو دن کے لئے نزلہ ہو جاتا ہے یا چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں اسے لوگ بیمار نہیں کہتے بلکہ تندرست ہی کہتے ہیں.اسی طرح اگر کسی جماعت میں منافقوں کی قلیل تعداد موجود ہو تو اس قلیل تعداد کی بناء پر وہ خراب نہیں کہلاتی.غرض ہم صحابہ کو اس لئے اچھا کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ بعض ظاہر میں صحابہ کہلانے والے ایسے تھے جو منافق تھے پھر بھی منافقوں کی تعداد نہایت قلیل تھی ور نہ ظاہری طور پر جس طرح انصار اور مہاجر رسول کریم صلی للی کمر پر ایمان لائے تھی اسی طرح منافق ایمان لائے تھے.وہ اسی زمانہ میں ایمان لائے جس زمانہ میں صحابہ ایمان لائے.انہوں نے بیعت کے وقت وہی کلمات کہے جو صحابہ نے کہے اور انہوں نے بھی اسی رنگ میں اظہار عقیدت کیا جس رنگ میں صحابہ نے کیا مگر صحابہ تو کچھ عرصہ کے بعد اپنے اخلاص میں اور بھی ترقی کر گئے لیکن منافق اپنے اخلاص میں کم ہوتے چلے گئے.پس کوئی ایسا ظاہری فرق نہیں جس کی بناء پر ایک کو ہم صحابی کہیں اور دوسرے کو نہ کہیں.سوائے اس کے کہ ایک نے
$1940 307 خطبات محمود اپنی منافقت کے اظہار سے بتا دیا کہ وہ صحابی کہلانے کے مستحق نہیں اور دوسرے نے اپنے ایمان اور اخلاص کے اظہار سے بتا دیا کہ وہ صحابی کہلانے کا مستحق ہے.ورنہ ظاہری طور پر منافق بھی نمازوں میں شامل ہو جاتے تھے اور منافق بھی صحابہ کے ساتھ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے.چنانچہ صریح طور پر حدیثوں میں آتا ہے کہ بعض غزوات میں منافق بھی شامل ہوئے.غزوہ تبوک میں بھی بعض ایسے شقی القلب اور منافق لوگ تھے جو آگے بڑھ کر راستہ میں اس لئے چھپ کر بیٹھ گئے تھے کہ اگر رسول کریم صلی ال یکم اکیلے آتے ہوں تو آپ کو قتل کر دیں اور وہ غزوہ تبوک میں صحابہؓ کی صف میں شامل ہوئے مگر باوجود اس کے صحابہ کی تعریف میں کوئی کمی نہیں آئی.ان کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا اور ہر مسلمان کا دل صحابہ کی محبت اور ان کی تعریف سے لبریز ہوتا ہے کیونکہ منافقوں کی تعداد اتنی قلیل اور صحابہ کی تعداد اتنی کثیر تھی اور پھر صحابہ اپنے اخلاص اور اپنی محبت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ منافق پیٹھ کے پیچھے چھپے ہوئے ایک داغ یا انگلی کے ایک متاسے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے تھے.اور ایسا داغ یا متا کسی حسین کے حسن میں کوئی فرق نہیں لایا کرتا.پس میں امید کرتا ہوں کہ اس قسم کے لوگ تھوڑے ہوں گے کیونکہ خدا نے ہماری جماعت کو صحابہ کے نقش قدم پر بنایا ہے اور یقینا ہم میں منافقوں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ وہ جماعت کے لئے کسی صورت میں بدنامی کا موجب نہیں ہو سکتے.بے شک میں جماعت کو اور زیادہ پاک کرنے، اسے روحانی ترقی کے میدان میں پہلے سے اور زیادہ قدم آگے بڑھانے اور اسے اپنے جسم سے معمولی سے معمولی دھتے اور داغ دور کرنے کی ہمیشہ تلقین کیا کرتاہوں اور جماعت کو اپنے خطبات کے ذریعہ ہمیشہ نصیحت کرتا رہتا ہوں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جماعت کے معتد بہ حصہ میں نقص پائے جاتے ہیں یا جماعت ان کمزوروں کی وجہ سے بد نام سمجھی جاسکتی ہے معترضین کی نگاہ میں تو جماعت ہر وقت بد نام ہی ہوتی ہے اور جو شخص اعتراض کرنے پر ایک دفعہ تل جائے وہ بہانے بنا بنا کر اعتراض کیا کرتا ہے مگر ان کی نگاہ میں جماعت کی جو بد نامی ہوتی ہے وہ شرفاء کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتی.پس جب میں کہتا ہوں کہ جماعت ان لوگوں کی وجہ سے بدنام نہیں ہو سکتی تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ شرفاء کے
$1940 308 خطبات محمود طبقہ میں جماعت بد نام نہیں ہو سکتی اور نہ مخالف کی نگاہ میں تو ہم ہمیشہ بد نام ہی ہیں خواہ ہم میں بعض کمزور افراد ہوں یا نہ ہوں اور دراصل ایسے لوگوں کی نگاہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللی کم بھی بد نام ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بدنام ہیں اور اسی طرح اور تمام انبیاء اور مامورین بد نام ہیں بلکہ انبیاء تو کیا ان کی نگاہ میں خدا تعالیٰ بھی بدنام ہے.تم بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کی مجلسوں میں بیٹھ کر دیکھ لو وہ ہمیشہ اس قسم کے سوالات کرتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ خدا نے اس دکھ کی دنیا میں ہمیں کیوں پیدا کیا ؟ پھر وہ بر ملا کہتے ہیں کہ نَعُوذُ باللہ خدا قحط ڈالتا ہے، وہ بیماریاں پیدا کرتا ہے ، وہ زلزلے بھیجتا ہے ، وہ ظلم کرتا ہے، وہ امن بر باد کرتا ہے.غرض لوگ تو کہا کرتے ہیں “ پانچوں عیب شرعی ” مگر ان کے نزدیک سینکڑوں عیب خدا تعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اور جن کی نگاہ میں خدا تعالیٰ میں بھی عیب ہی عیب ہوں ان کے نزدیک اس کے انبیاء کب عیوب سے پاک سمجھے جاسکتے ہیں.پس میں ایسے شقی القلب لوگوں کا ذکر نہیں کرتا.وہ انسانیت سے دور چلے گئے اور انصاف کا دامن انہوں نے چھوڑ دیا.میں صرف شریف الطبع لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی نگاہ میں چند منافقوں کے پائے جانے کی وجہ سے ہماری جماعت بد نام نہیں ہو سکتی.چنانچہ دیکھ لو باوجود اس کے کہ ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو سست ہیں پھر بھی غیر احمدی شرفاء یہی کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والی اور کوئی جماعت نہیں.اسی طرح احمدیوں میں بعض بے نماز بھی ہوتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ احمدیوں میں سو میں سے ایک یا دو بے نماز ہیں بلکہ لوگوں کا سمجھدار اور شریف الطبع طبقہ یہی کہتا ہے کہ احمدی بڑے نمازی ہوتے ہیں.اسی طرح سارے احمدی تو با قاعدہ چندے نہیں دیتے.کچھ لوگ سست بھی ہیں مگر تم شریف الطبع لوگوں سے یہی سنو گے کہ احمدی بڑا چندہ دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جماعت کی اکثریت نیکی پر قائم ہے اور وہ بعض افراد کی کمزوری کو دیکھ کر ساری جماعت پر الزام عائد نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو اپنے اندر شرافت نہیں رکھتے وہ کسی ایک کمزور احمدی کو دیکھ کر ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدی بے نماز ہیں یا احمدی چندوں میں سست ہیں.بے شک ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کریں، ہمارا فرض ہے کہ ہم جماعت کی ایسی
$1940 309 خطبات محمود تربیت کریں کہ اس میں ایک شخص بھی ایسا دکھائی نہ دے جو چندہ نہ دیتا ہو.اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو نماز کا پابند بنائیں اور اس قدر کوشش کریں کہ ایک بھی بے نماز نہ رہے اور اس مقصد کے لئے میں اگر کوئی خطبہ پڑھوں اور جماعت کو بیدار کرنے اور اس کی قوتِ عملیہ میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کروں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے کیونکہ ایک خرابی بھی ہم میں کیوں موجود رہے ؟ لیکن اس نیکی کو سو فیصدی مکمل کرنے کے لئے ہم اپنی طرف سے جو کوشش کریں اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ ہماری جماعت میں نیکی ہی نہیں.نیکی تو موجود ہے اور جماعت کی اکثریت میں موجود ہے مگر اسے تمام پہلوؤں سے مکمل کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا بعض کمزور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے.غیر احمدیوں سے ہی پوچھ کر دیکھ لو جہاں جہاں احمدی موجود ہیں وہ ان کے متعلق یہی رائے دیں گے کہ احمدی بڑے سچے ہوتے ہیں، احمدی بڑے نیک ہوتے ہیں، احمدی بڑے نمازی اور خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں.حالانکہ ان احمدیوں میں کمزور بھی ہوتے ہیں لیکن شریف الطبع لوگوں کا یہی دستور ہے کہ وہ اکثریت کی نیکی کا ذکر کرتے ہیں اور بعض افراد کی کمزوری کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کا نمونہ ایسا ہی ہو گا اور جیسا کہ میرے پاس رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں سے غالب اکثریت نے اس تنظیم میں اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے.لیکن میں دوستوں سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ محض ظاہری شمولیت کافی نہیں جب تک وہ عملی رنگ میں بھی کوئی کام نہ کریں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے عملی نمونہ سے یہ ثابت کر دیں گے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی واحد جماعت آپ ہی ہیں اور یہ ثبوت اسی طرح دیا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کی قربانی کریں، اپنے مالوں کی قربانی کریں، اپنی جانوں کی قربانی کریں اور خد اتعالیٰ کے دین کی اشاعت اور احمدیت کی ترویج کے لئے دن رات کوشش کرتے رہیں.اگر ہم یہ نہیں کرتے اور محض اپنا نام لکھا دینا کافی سمجھتے ہیں تو ہم اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کی محبت کا کوئی ثبوت نہیں دیتے.پس صرف ان مجالس میں شامل ہونا کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال ان مجالس کے
$1940 خطبات محمود 310 اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالنے چاہئیں.خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمت احمدیت کو ثابت کر دیں.انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دین اسلام کی نصرت نمایاں طور پر کریں اور اطفال احمدیہ کا فرض ہے کہ ان کے اعمال اور ان کے اقوال تمام کے تمام احمدیت کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں.جس طرح بچہ اپنے باپ کے کمالات کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح وہ احمدیت کے کمالات کو ظاہر کرنے والے ہوں.یہی غرض اس نظام کو قائم کرنے کی ہے اور یہی غرض انبیاء کی جماعتوں کے قیام کی ہوا کرتی ہے.مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہماری اس تنظیم سے بعض لوگوں میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی ہے.چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے کسی اخبار کا ایک مضمون میرے ا سامنے پیش کیا گیا جس میں اس بات پر بڑے غصے کا اظہار کیا گیا تھا کہ انہوں نے کہا ہے جو سی و شخص خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے سے دور بھاگے گا وہ خدام الاحمدیہ سے دور نہیں بھاگے گا بلکہ احمدیت سے دور بھاگے گا.کہتے ہیں ”ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے“ بھلا ان کو احمدیوں سے کیا واسطہ.ایک جماعت کا امام ایک نظام کا حکم دیتا ہے اور جماعت والے اس نظام کو قبول کر لیتے ہیں وہ اپنی جماعت سے راضی اور جماعت اپنے امام سے راضی پھر ان کو بیٹھے بٹھائے کیوں پیچ و تاب اٹھنے لگتے ہیں؟ میں اگر کسی کو کہتا ہوں کہ اس نے فلاں بات پر عمل نہ کیا تو جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا تو وہ میری بات کو خوشی سے سنتا اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.اسی طرح میں بوجہ جماعت کا امام ہونے کے وہی بات کہہ ہوں جس میں لوگوں کا فائدہ ہو پھر جبکہ جماعت بھی اپنے فائدہ کو سمجھتی ہوئی ایک بات پر عمل کرتی ہے اور امام بھی وہی بات کہتا ہے جس میں جماعت کا فائدہ ہو تو کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ علاوہ ازیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ میں جس کے ساتھ جماعت کا تعلق ہے اگر جماعت کے بعض افراد کو ان کی کو تاہی کو دور کرنے کے لئے کوئی تنبیہ کرتاہوں اور کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ عمل نہ کیا تو وہ ہماری جماعت میں نہیں رہیں گے تو اس پر انہیں تو بجائے ناراض ہونے کے خوش ہونا چاہیئے کہ اب جماعت کم ہو جائے گی مگر ہوا یہ کہ وہ مخالفت میں اور بھی بڑھ گئے.سکتا
خطبات محمود 311 $1940 میں نے جیسا کہ ابھی کہا ہے جماعت کی اصلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ خدام الاحمدیہ یا دوسری مجالس میں شامل نہ ہوئے تو ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا اور انہیں جماعت سے الگ سمجھا جائے گا.یہ فقرہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں، جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں، جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں اور جو شخص اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں.اب اس کے یہ معنے نہیں کہ جو شخص بھی ایسا ہو گا اسے ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کا میرے ساتھ کوئی حقیقی تعلق نہیں ہو گا.پھر یہ عجیب بات ہے کہ کبھی تو ان کی طرف سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ عجیب پیری مریدی ہے کہ مرید کے عقیدے کچھ ہوں اور پیر کے عقیدے کچھ اور.اس کی بناء یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں میاں صاحب نے اس امر کی اجازت دے رکھی ہے کہ میرے خلاف عقیدہ رکھ کر بھی ایک شخص بیعت میں شامل ہو سکتا ہے اور کبھی یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی ایک بات بھی نہیں مانتا تو اسے جماعت سے نکال دیتے ہیں اور اس وقت حریت اور آزادی ضمیر کی کوئی پرواہ نہیں کرتے جو اسلام نے ہر مومن کو دے رکھی ہے.حالانکہ اگر یہ اعتراض درست ہے کہ ہماری جماعت میں حریت اور آزادی ضمیر کی کوئی پروا نہیں کی جاتی تو وہ اعتراض کیوں کیا تھا کہ اس جماعت میں پیر کے عقیدے کچھ ہیں اور مریدوں کے کچھ اور.اختلاف عقائد رکھنے کے باوجو د لو گوں کو بیعت میں شامل کر لیا جاتا ہے.اور اگر یہ درست ہے کہ بعض باتوں میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی ایک شخص ہمارے نظام میں شامل رہ سکتا ہے تو اس اعتراض کے کیا معنے ہوئے کہ حریت اور آزادی ضمیر کو کچل دیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ نظام کی درستی کے لئے اتحادِ خیالات کا ایک دائرہ ہو تا ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک اختلاف بڑا نظر آئے لیکن اگر وہ کسی فتنے کا موجب نہ ہو تو اس اختلاف رکھنے والے کو جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے لیکن ایک دوسرا شخص خواہ اس سے کم اختلاف رکھتا ہو لیکن اس کا اختلاف کسی فتنے کا موجب ہو تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے.
$1940 312 خطبات محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ ایک دوست نے پوچھا کہ میں ابھی شیعیت سے نکل کر آیا ہوں اور حضرت علی کو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے افضل سمجھتا ہوں.پس کیا اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے میں آپ کی بیعت کر سکتا ہوں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں لکھا کہ آپ بیعت کر سکتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ چند آدمیوں کو قادیان سے باہر چلے جانے کا حکم دے دیا اور ان کے بارہ میں اشتہار بھی شائع کیا مگر وجہ صرف یہ تھی کہ وہ پنجوقتہ نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا.اب بتاؤ حضرت علیؓ کو حضرت ابو بکر سے افضل سمجھنے اور حقہ پینے میں سے کون سی بات بڑی ہے؟ لازما ہر شخص یہی کہے گا کہ حضرت علی کو حضرت ابو بکر سے افضل سمجھنا بڑی بات ہے اور حقہ پینا چھوٹی بات ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بڑا اختلاف رکھنے کے باوجود ایک شخص کو اپنی بیعت کی اجازت دے دی اور حقہ پینے اور جنسی ٹھٹھا میں مشغول رہنے پر دوسروں کو مرکز سے چلے جانے کی ہدایت فرمائی حالانکہ ایک دعوت کے موقع پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا انتظام کیا تھا.چنانچہ ترکوں کا سفیر حسین کامی جب قادیان میں آیا اور اس کے لئے دعوت کا انتظام کیا گیا تو جماعت کے خرچ پر اس کے لئے سگار اور سگریٹ منگوائے گئے.میں اس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مجلس میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ذکر کیا کہ یہ لوگ سگریٹ کے عادی ہوتے ہیں اگر ہم نے کوئی انتظام نہ کیا تو اسے تکلیف ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کوئی حرج نہیں اس کے لئے سگریٹ منگو الئے جائیں کیونکہ یہ ایسی حرام چیزوں میں سے نہیں جیسے ، شراب وغیرہ ہوتی ہے.پس آپ نے وہ چیز جو اس قسم کی حرمت نہیں رکھتی جیسے شراب اپنے مت رکھتی ہے.استعمال کرنے پر تو ایک شخص کو جماعت سے خارج کر دیا اور وہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں حضرت ابو بکر سے حضرت علیؓ کو افضل سمجھتا ہوں.باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت ابو بکر حضرت علی سے افضل ہیں اسے بیعت کرنے کی اجازت دے دی.در حقیقت بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں
$1940 313 خطبات محمود حالانکہ وہ اصل میں چھوٹی ہوتی ہیں.اور بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں حالانکہ اصل میں بڑی ہوتی ہیں.پس وقتی فتنہ کے لحاظ سے کبھی بڑی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور چھوٹی بات پر ایکشن لے لیا جاتا ہے مگر ان لوگوں نے کبھی عقل سے کام نہیں لیا.ان کا مقصد صرف اعتراض کرنا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں اگر وہ ہماری اس تنظیم کو دیکھ کر برا مناتے ہیں تو تم انہیں برا منانے دو اور خود سلسلہ کے لئے ہر قسم کی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاؤ.خد اتعالیٰ تم سے یہ کبھی نہیں کہے گا کہ تم نے ان کا دل کیوں دُکھایا بلکہ وہ تم پر خوش ہو گا اور تمہیں ثواب دے گا.بے شک ہم چاہتے ہیں کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلیں بلکہ جس جنت کے ہم وارث ہیں اسی جنت کے وہ بھی وارث بن جائیں لیکن اگر انہیں اس جنت میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی تو گو ہم پھر بھی یہی دعا کریں گے کہ خدا انہیں ایمان نصیب کرے.لیکن اگر انہیں ایمان نصیب نہ ہو تو ہم ان کے لئے اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.“ (الفضل 13 ستمبر 1961ء)
$1940 314 23 خطبات محمود صرف دوسروں پر ہی اعتراض نہ کرو بلکہ اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دو (فرمودہ 6 ستمبر 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: نتظم مساجد کو چاہیے کہ لاؤڈ سپیکر کے متعلق ایسا انتظام کریں کہ یا تو یہ خطبہ سے پہلے لگا کرے اور یا پھر نہ لگا کرے.رسول کریم صلی الہ ہم نے خطبہ کے وقت تمام حرکات اور افعال کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن ہمارے یہاں دھڑتے سے کام ہو تا ہے اور ذرا پر واہ نہیں کی جاتی.پس یہ لاؤڈ سپیکر یا تو پہلے لگ جایا کرے اور یا بالکل نہ لگا کرے.یہ اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کی وجہ سے محمد مصطفے صلی اللہ نام کے احکام کو توڑ دیا جائے.اس کے بعد میں جماعت کی توجہ ایک ایسے واقعہ کی طرف پھر انا چاہتا ہوں جو آج ہی قادیان میں ہوا ہے.میں اپنے کمرہ ( دفتر ) میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے کچھ نعروں کی آواز سنائی دی.پہلے تو وہ نعرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور میرے متعلق زندہ باد کے تھے اس کے بعد کچھ اور الفاظ تھے جو میں صحیح طور پر نہیں سن سکا مگر اس قسم کے تھے کہ ایسے ناظر ہمیں نہیں چاہئیں.میں نے دفتر ڈاک کے ذریعہ ان لوگوں کے حالات معلوم کرائے ہیں جو بازار میں بیٹھتے ہیں یعنی دکانوں وغیرہ والے.ایسے لوگوں کی دس گیارہ شہادتیں میرے پاس آئی ہیں جن
$1940 315 خطبات محمود سے اصل واقعات پر روشنی پڑتی ہے.یوں تو مجھے کل شام سے ہی یہ پتہ تھا کہ اس قسم کا مظاہرہ ہونے والا ہے.میں نے اطلاع دہندہ کو منع کر دیا تھا کہ اس میں کوئی دخل نہ دیں اور واقعہ ہونے دیں لیکن مجھے جس رنگ میں اطلاع تھی اس سے کسی قدر فرق کے ساتھ یہ ہوا ہے.مجھے یہ اطلاع تھی کہ سید منظور علی شاہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ہمارے مکانات کے گرد چکر لگائیں گے اور نعرے بلند کریں گے.پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق زندہ باد کے نعرے لگائیں گے پھر میرے متعلق اور پھر یہ کہ ہمیں ایسے ناظر نہیں چاہئیں.مجھے جو اطلاع ملی اس میں یہ بات نہ تھی کہ مصری پارٹی اور احراری بھی اس میں شامل ہوں گے اور چونکہ یہ ایک شخص کا انفرادی فعل تھا اور جماعت کا اندرونی معاملہ تھا میں نے نہ چاہا کہ اسے روکا جائے اور میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص دیوانگی کی کوئی حرکت کرنا چاہتا ہے تو کرے مگر وقوعہ کسی اور رنگ میں ہوا ہے اور احراریوں نیز مصری صاحب کے ساتھیوں نے بھی اس میں حصہ لیا ہے اور میرے متعلق مُردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے ہیں اور ان گلیوں میں لگائے گئے ہیں جن میں احمدیوں کی کثرت ہے.ایسا ہی واقعہ اگر کسی دوسرے بازار میں جہاں غیر احمدیوں کی کثرت نہیں بلکہ معمولی تعداد بھی ہو اگر احمدیوں کی طرف سے کیا جاتا تو گورنمنٹ بے تاب ہو جاتی لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا ایکشن لیتی ہے اور اگر اس نے کوئی ایکشن نہ لیا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ایسی حرکات جائز ہیں اور اس لئے اگر احمدیوں نے کبھی ایسا کیا تو حکومت کو اعتراض کا حق نہ ہو گا اور اگر وہ ہم پر اعتراض کرے گی تو دنیا کی نظروں میں ظالم قرار پائے گی.اب میں اصل واقعہ کی طرف آتا ہوں یہ فعل کرنے والا احمدی کہلاتا ہے.اس کا باپ ایک مخلص احمدی تھا اور اس کی والدہ اس کے والد سے بھی زیادہ مخلص تھی اور انہی کے اخلاص کی وجہ سے میں نے اس معاملہ کے متعلق بھی فوری قدم نہیں اٹھایا.ورنہ مرکز سلسلہ میں نہیں اور سلسلہ کے نظام کے خلاف نہیں بلکہ علیگڑھ کالج کے منتظمین کے خلاف ایک مر تبہ لڑکوں نے مظاہرے کئے اور نعرے لگائے تو ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد صاحب بھی ان سے مل گئے وہ اس وقت نوجوان تھے اور طالب علمی کی زندگی تھی.لڑکوں کو شکایت تھی
$1940 316 خطبات محمود کہ روٹی اچھی نہیں ملتی اس لئے مظاہرے اور ہڑتال کرنے لگے اور مرزا عزیز احمد صاحب بھی ان میں شامل ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فعل کو اس قدر ناپسند کیا کہ مرزا عزیز احمد صاحب کو جماعت سے خارج کر دیا.اللہ تعالیٰ مرزا سلطان احمد صاحب کی مغفرت فرمائے وہ گو اُس وقت غیر احمدی تھے مگر جب سنا کہ مرزا عزیز احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت سے خارج کر دیا ہے تو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا کہ میں تم سے خوش ہو کر تب بولوں گا جب تم پھر بیعت کر کے آؤ گے.خیر وہ ایک بچپن کا ابتلاء تھا جو جاتا رہا.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سمجھ دی، فراست دی، اخلاص دیا اور انہوں نے اپنی بہت سی اصلاح کرلی.تو اس قسم کے افعال سلسلہ کی روایات اور تعلیم کے بالکل خلاف ہیں اور ایک ایسے ہی فعل کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پوتے کو جماعت سے خارج کر دیا تھا حالا نکہ اس کا وہ فعل نظام سلسلہ کے خلاف نہ تھا بلکہ علی گڑھ کالج کے چند افسروں کے خلاف تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس عمل کے مطابق اگر میں ان کو جماعت سے خارج بھی کر دیتا تو یہ بالکل جائز ہو تا لیکن ان کے باپ کے اخلاص کی وجہ سے کہ وہ مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے بھی پہلے کے دوست تھے اور ان کی والدہ کی وجہ سے کہ وہ مخلص، نیک اور متقی خاتون تھیں میں نے کوئی فوری اقدام نہیں کیا اور سب سے پہلے میں ان کو موقع دیتا ہوں کہ 24 گھنٹہ کے اندر اندر اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے تو بہ کریں ورنہ پھر مناسب رنگ میں جماعتی طریق پر عمل کیا جائے گا.اسی فعل کے سلسلہ میں میں مرزا عبد الحق صاحب پلیڈر کو کمیشن مقرر کرتا ہوں.وہ تحقیقات کریں کہ جو دوسرے احراری اور مصری صاحب کے ساتھی ان کے ساتھ شامل ہوئے وہ کیسے ہوئے.میں نے سنا ہے انہوں نے ان کو روکا اور کہا تھا کہ تم ہمارے ساتھ کیوں شامل ہوتے ہو.مرزا صاحب یہ تحقیقات کریں کہ آیا ان کا روکنا حقیقی رنگ میں تھا اور دوسروں کا شامل ہونا زبر دستی تھا اور اس فعل کی تفاصیل کس حد تک سلسلہ کے وقار اور عزت کے منافی یا موافق تھیں.جہاں تک اصول کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عام فتویٰ میں نے بیان کر دیا ہے.مجھے معلوم نہیں اصل واقعہ کیا ہے اور ان کی شکایات کیا ہیں.جہاں تک مجھے
$1940 317 خطبات محمود خبر پہنچی ہے ان کو چوہدری فتح محمد صاحب کے خلاف کوئی شکایت تھی اور شکایتیں دنیا میں ہوتی ہی رہتی ہیں.بھائیوں کو بھائیوں سے ، باپ کو بیٹے سے اور بیٹے کو باپ یا ماں سے ، بہنوں کو بھائیوں سے اور بھائیوں کو بہنوں سے بھی شکایتیں ہو جاتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے انسان عقل سے باہر نہیں ہو جاتا.احمدی جماعت کے لئے ایسے مواقع پر یہ رستہ کھلا ہے ہم نے قضاء کا محکمہ اسی واسطے بنایا ہوا ہے کہ جب کسی کو کسی کے خلاف کوئی شکایت ہو تو وہ قضاء میں جاسکتا ہے اور اگر شکایت اس قسم کی ہو کہ قضاء اس کا ازالہ نہ کر سکتی ہو تو وہ بہ اجازت سلسلہ عدالت میں جاسکتا ہے اور اگر مجرم قابل دست اندازی پولیس ہے تو وہ سلسلہ کو اطلاع دے کر پولیس میں جاسکتا ہے.یہ اطلاع اس لئے ضروری رکھی ہے کہ کوئی شخص یہ سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے کہ یہ فعل قابل دست اندازی پولیس ہے.ممکن ہے جو اسے قابلِ دست اندازی سمجھے لیکن حقیقتاً وہ نہ ہو.چونکہ انسان اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے اس لئے یہ اطلاع ضروری رکھی ہے کہ تا اگر سلسلہ مناسب سمجھے تو اپنی ذمہ داری پر اسے روک دے.اس صورت میں گورنمنٹ کے سامنے جوابدہ سلسلہ خود ہو گا وہ نہیں.یہ اصول مقرر ہیں اور جو انہیں تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے خود کوئی رستہ تجویز کرتا ہے وہ گویا اپنے فعل سے سلسلہ کا باغی اپنے آپ کو قرار دے لیتا ہے.یہ مسجد ہے اور اس میں داخل ہونے کے لئے دروازے ہیں لیکن جو شخص دروازہ سے اندر نہیں آتا بلکہ دیواریں کھودنے لگتا ہے اور کہتا یہ ہے کہ میں مسجد میں آنا چاہتا ہوں اس کے اس دعویٰ کو کوئی شخص سچ نہیں سمجھے گا بلکہ ہر کوئی یہی کہے گا کہ وہ فساد کرنا چاہتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ مقرر کردہ رستہ سے مسجد میں نہیں آتا.اسی طرح ہم نے قضاء کا محکمہ قائم کر رکھا ہے جسے کسی سے کوئی تکلیف پہنچے وہ قضاء میں دعویٰ دائر کر سکتا ہے لیکن جو ایسا نہیں کرتا بلکہ کوئی دوسرا طریق اختیار کرتا ہے وہ گویا اپنے فعل سے بغاوت کا اعلان کرتا ہے.ہو سکتا ہے کوئی کہے مجھے قضاء پر اعتبار نہیں تو مرافعہ کر سکتا ہے اور دو قاضی اس کا کیس سنتے ہیں پھر اگر ان پر بھی اسے اعتماد نہ ہو تو آخری اپیل خلیفہ خود یا اس کا مقرر کردہ بورڈ جو زیادہ ذمہ دار اور مخلص احمدیوں پر مشتمل ہوتا ہے سنتا ہے اور جو کہے کہ مجھے ان پر بھی اعتماد نہیں تو میں کہوں گا کہ تم جماعت میں شامل ہی کیوں ہو ؟ جب یہ ساری جماعت ہی برے لوگوں اور بد معاشوں کی ہے
$1940 318 خطبات محمود.اگر تم جماعت کو سچا سمجھتے ہو تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ سارے کے سارے غلطی کریں اور دیدہ دانستہ ظلم کریں اور اگر ایک دو سے ظلم کا اندیشہ ہو تو کہیں نہ کہیں پہنچ کر اس کی اصلاح کا یقین ہونا چاہیئے لیکن اگر ساری جماعت میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ جو قابل اعتبار ہو تو یہ بڑی بے شرمی کی بات ہے کہ انسان اس جماعت میں شامل ہو جس کے اوپر سے لے کر نیچے تک سب ظالم ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ 1 - اگر سارا نظام ہی خراب ہے اور سب ظالم ہیں تو اس میں شامل رہنا گویا دین و دنیا دونوں کو خراب کرنے کے مترادف ہے.جب سلسلہ کی طرف سے ایک طریق مقر ر ہے تو جو اسے اختیار نہیں کر تاوہ اگر ناواقف ہے تو اسے سمجھانا چاہیے اور اگر ناواقف نہیں تو به تکرار خود سزا کا مستحق ہے.چونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور بھی ایسے لوگ ہوں جن کو شبہات ہوں ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اگر کسی کو کسی سے کوئی شکایت ہے تو اس کے لئے قضاء کا دروازہ کھلا ہے.شکایت خواہ کسی ناظر کے خلاف ہو یا ناظر اعلیٰ کے ، اس میں کوئی استثنیٰ نہیں.جسے کوئی تکلیف کسی سے پہنچے وہ قضاء میں جاسکتا ہے اور اگر جرم قابل دست اندازی پولیس ہو تو اطلاع دے کر پولیس میں جاسکتا ہے لیکن اس قسم کے مظاہروں کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جا سکتی اور نہ ان کا کوئی فائدہ ہے.اگر کوئی شخص نعرے لگانا تو در کنار میرے دروازہ پر بیٹھ کر چیختا ر ہے تو خواہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختار ہے حتی کہ گلا بیٹھ جائے خواہ ساری عمر نعرے لگاتا رہے اگر میں اس سے متاثر ہو جاؤں تو ان اصول کے مطابق جن کو میں صحیح سمجھتا ہوں میں خلافت کا مستحق نہیں ہوں گا.نعرے لگانا تو الگ رہا اگر کوئی فاقہ کشی کرے حتی کہ مر بھی جائے تب بھی اسلامی اصول کے مطابق وہ توجہ کے قابل نہیں کیونکہ یہ نظام میں دخل اندازی ہے.یہ ایک قسم کا دباؤ ہے.جو اسے قبول کرتا ہے وہ بزدل ہے اور اللہ تعالیٰ کے اعتماد کا ہر گز اہل نہیں.میں تو حکومت کو بھی یہی مشورہ دیتا رہتا ہوں کہ اگر وہ کانگرس کے کسی مطالبہ کو درست سمجھتی ہے تو اسے پہلے ہی مان لے لیکن اگر وہ صحیح نہیں سمجھتی تو ایک گاندھی چھوڑ ہزار گاندھی بھی فاقے کریں اسے متاثر نہیں ہونا چاہیئے.سچائی کو ہر حال میں قبول کرنا حکومت کا
$1940 319 خطبات محمود فرض ہے.اسے کسی بڑے آدمی کے فاقہ کی وجہ سے قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ سچائی سمجھ کر قبول کرنا چاہیے.کانگرس جو بات کہتی ہے اگر وہ درست ہے تو گاندھی جی تو خیر لیڈر ہیں اگر کوئی چمار بھی کہے تو اسے مان لینی چاہیئے لیکن اگر وہ بات ناحق ہے تو اسے گاندھی جی کی فاقہ کشی سے ڈر کر نہیں ماننا چاہیئے.اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتی اور جب میں دنیوی گورنمنٹ کے لئے بھی اس بات کو جائز نہیں سمجھتا تو آسمانی کے لئے کس طرح سمجھ سکتا ہوں.اگر ایسی باتوں سے میں متاثر ہو جاؤں تو پھر ایسے سلسلہ کی ضرورت ہی کیا ہے جسے ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں.ایسے افعال شریعت کے خلاف ہیں.یہ خیال کرنا کہ ایسی باتوں سے مجھ تک آواز پہنچائی جاسکے گی یا میں متاثر ہو جاؤں گا بالکل غلط ہے.اگر میں خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں تو ایسی باتوں سے ہر گز متاثر نہیں ہو سکتا اور جو ایسی باتوں سے متاثر ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کا مقرر کر دہ خلیفہ وہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ پر توکل کرے، جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خود خدا تعالیٰ اس کا حافظ ہے.ہمارا کام خد اتعالیٰ کی عظمت کو قائم کرنا ہے نہ کہ اپنی نیک نامی.اگر ہمیں اپنی نیک نامی مطلوب ہو تو اس سلسلہ میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر آج ہم کانگرس میں شامل ہو جائیں تو ہماری کتنی نیک نامی ہو سکتی ہے ، اگر آج حکومت کے خلاف ہو جائیں تو آزاد طبقہ بوجہ اس کے کہ ہم ایک منظم جماعت ہیں ہماری کتنی قدر کرے گا؟ اگر وہی رسوم اور بدعات کی تائید کرنے لگیں جو غیر احمدیوں میں رائج ہیں تو کس طرح وہ خوش ہو کر ہماری تعریفیں کریں گے ؟ پس دنیا میں نیک نامی کے وہی ذرائع ہیں جو خد اتعالیٰ اور اس کے سول سے دور پھینکتے ہیں اور ان کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں.ہماری نیک نامی اسی میں ہے جس میں خدا تعالیٰ خوش ہو ، چاہے دنیا میں کتنی بدنامی ہو.محمد رسول اللہ صلی ا ہم کو لوگ عمر بھر پاگل کہتے رہے لیکن اگر وہ ان باتوں کو اختیار کر لیتے جن سے لوگ خوش ہوتے تو سب ان کی تعریفیں کرتے.حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کو لوگوں نے پاگل کہا مگر کیا وہ ان باتوں سے ڈر گئے ؟ پس مومن ان چیزوں سے کبھی نہیں ڈرتا اور جو مومن ہو وہ ان چیزوں سے ڈراتا بھی نہیں اور ایسے نعرے اور مظاہرے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈرایا جائے.
$1940 320 خطبات محمود لیکن جو شخص ایسا کرتا ہے وہ مجھے کس چیز سے ڈرانا چاہتا ہے ؟ کیا اس سے کہ جماعت مرتد ہو جائے گی ؟ لیکن اگر میں کسی وقت بھی جماعت کے علیحدہ ہو جانے سے ڈر جاؤں تو اسی وقت کافر ہو جاؤں.کیا اگر میں جماعت کی قدر اور عزت کرتا ہوں تو اس وجہ سے کہ یہ لا کھ دولاکھ لوگ ہیں.ہر گز نہیں.بلکہ اس وجہ سے کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بات کہتے ہیں لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی بات کہنا چھوڑ دیں تو وہ بھی ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے دوسرے غیر احمدی اور پھر میرے نزدیک ان کی کیا عزت ہو سکتی ہے؟ ایسے وقت میں انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رائے اپنے متعلق بدلنے کی کوشش کرے اور اس کے لئے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے حضور اپیل رات کی تاریکیوں میں اور اس کے آگے سجدوں میں گر گر کر رونے کی ہے صورت میں ہوتی ہے.اس کے بعد ایک اور معاملہ ہے جس کے متعلق بھی میں اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں اور وہ بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی کی تلاشی کا واقعہ ہے.مجھے افسوس ہے کہ اس معاملہ میں بھی امور عامہ سے کچھ بے احتیاطیاں ہوئی ہیں.اصل واقعات کے متعلق میں ابھی کوئی بات کرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ ابھی زیر تحقیق ہیں تاہم اس حد تک میں تحقیقات کر چکا ہوں کہ امور عامہ سے بعض غلطیاں ہوئی ہیں یا اگر محتاط الفاظ استعمال کروں تو بعض بے احتیاطیاں ہوئی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ ان پر متنبہ ہوتے ان میں ایک چڑسی پیدا ہو گئی ہے.اس کے متعلق بھی میں ایک کمیشن مقرر کرنے والا ہوں.امور عامہ سے میں جواب طلبی کر چکا ہوں اور کاغذات میرے پاس پہنچ چکے ہیں.ممکن ہے امور عامہ کے پاس کچھ اور دلائل بھی ہوں جو اس نے ابھی پیش نہ کئے ہوں اور کمیشن کے سامنے پیش کریں.بہر حال جو جواب امور عامہ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ بے احتیاطی سے کام لیا گیا ہے.ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور اس لئے ہم ان اصولوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو خد اتعالیٰ نے مذہبی جماعتوں کے لئے مقرر کئے ہیں.ہم کوئی مادر پدر آزاد جماعت نہیں ہیں کہ اپنے لئے خود کوئی قانون بناتے پھریں بلکہ ہمارے قانون اسلامی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.اور خدا تعالیٰ نے جو قانون انبیاء کی
$1940 321 خطبات محمود رض جماعتوں کے لئے مقرر کئے ہیں ان میں ان لوگوں کی خاص طور پر عزت قائم کی گئی ہے جو ابتداء میں ایمان لائے اور قربانیاں کرتے رہے اور یہ ایک ایسا حق ہے جسے ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے.دنیوی جماعتیں پرانے لوگوں کو نظر انداز کر سکتی ہیں اور کہہ سکتی ہیں کہ اب ہم میں زیادہ عظمند اور زیادہ صاحب حیثیت لوگ شامل ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ جماعتیں ایسا نہیں کر سکتیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ اور سابقون کا خاص درجہ قرار دیا ہے جس کی نظیر دنیوی جماعتوں میں نہیں مل سکتی.یہ حقوق صحابہ کو اتنے یاد کرائے جاتے تھے کہ وہ جوش کی حالت میں بھی ان کو نہ بھول سکتے تھے.جب باغی حضرت عثمان کو شہید کرنے کے لئے دیوار پھاند کر ان کے مکان کے اندر داخل ہوئے تو ان میں ایک غلطی خوردہ نوجوان حضرت ابو بکر کا لڑکا بھی تھا وہ آگے بڑھا اور اس نے حضرت عثمان کی داڑھی کو پکڑ لیا.حضرت عثمانؓ نے اسکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ ابو بکر اس جگہ پر یہ کام نہ کر سکتا.اور کسی سے آپ نے کچھ نہیں کہا لیکن اسے یہ بات کہی اور اس کا اس پر یہ اثر ہؤا کہ وہ فوراً وہاں سے لوٹ گیا.وہ حضرت عثمان کا شدید ترین مخالف تھا اور لوگوں کو آپ کے خلاف ابھار تا پھرتا تھا.وہ خود نیک تھا مگر دھوکا میں آچکا تھا اور سمجھتا تھا کہ اسلام کو آزاد کرارہا ہے اور اس کانٹے کو نکال رہا ہے جو اسلام کی بغل میں چبھا ہوا تھا لیکن عین اس وقت جبکہ وہ انتہائی جوش کی حالت میں تھا حضرت عثمان نے اسے یہ یاد دلایا کہ ابو بکر بھی یہ جرات نہ کر ا سکتا جو تم کرنے لگے ہو تو اس پر اتنا اثر ہوا کہ وہ پیچھے ہٹا اور فوراًلوٹ گیا.جہاں تک بھائی عبد الرحمن صاحب کے مکان کی تلاشی کا سوال ہے اس میں کسی کی ذمہ داری نہیں.تلاشی گورنمنٹ کا حق ہے اور اگر وہ قانون کے مطابق کسی کی تلاشی لیتی ہے تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں.تلاشی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی ہوئی تھی تو کیا بھائی عبد الرحمن صاحب آپ سے بھی بڑے ہیں.پس تلاشی لینے پر ناراضگی کا اظہار عبث ہے.گورنمنٹ کا حق ہے کہ کسی پر شبہ ہو تو اس کی تلاشی لے لے اور ہمار احق نہیں کہ اس کے اس حق میں دست اندازی کریں.ہاں اگر وہ تلاشی لینا نا جائز ہو تو بعد میں اس کے خلاف پروٹسٹ کیا جاسکتا ہے لیکن اس وقت یہی فرض ہے کہ قانون کی پابندی کرتے ہوئے افسروں کو اپنے فرائض بجالانے کا موقع دیں.
$1940 322 خطبات محمود اگر ہم جانتے ہیں کہ کوئی شخص قاتل نہیں تو ہم حکومت کو اسے پھانسی دینے سے ہر گز نہیں روکیں گے بلکہ اسے پھانسی چڑھنے دیں گے مگر بعد میں پروٹسٹ ضرور کریں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ یہ ظالمانہ فعل ہے.پس جہاں تک تلاشی کا سوال ہے اس میں ناراضگی کا کوئی پہلو نہیں.اس کی وجہ سے اگر کسی کی غیرت کو ٹھیس لگتی ہے تو اس کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آسکتی اور نہ اعتراض کا کوئی موقع ہے.اس کے علاوہ امور عامہ پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس نے صحابہ کے مقام کو نہیں سمجھا.اگر صحابہ کا جائز اعزاز قادیان میں نہ ہو اور سلسلہ کے محکمے نہ کریں تو یہ ہمارے لئے رونے کا مقام ہے.اس کے باوجود میں لوگوں کو متنبہ کروں گا کہ خود بخود کوئی نتائج نہ نکالیں.اس نے کس حد تک غلطی کی ہے اس کی میں تحقیقات کر رہا ہوں.ابھی میں اس کی کوئی غلطی بتاتا نہیں ہوں اس کا فیصلہ کمیشن کرے گا جو میں مقرر کرنے والا ہوں.اس وقت میں صرف احتیاط کے پہلو کو لیتا ہوں اور صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.بھائی عبد الرحمن قادیانی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے جب دنیا آپ کو کافر اور فاسق و فاجر کہہ رہی تھی اور خون کی پیاسی تھی.وہ ایسے تکلیف کے وقت میں آپ کے ساتھ رہے اور اگر آج ہمارے نوجوان ایسے لوگوں کا اعزاز نہ کریں تو میں یہ کہوں گا کہ ان میں غیرت ایمانی بہت کم ہے.ناظر امور عامہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے والد بھی جو بہت نیک اور مخلص انسان تھے اور میرے خسر تھے ابھی وہ بھی ایمان نہیں لائے تھے جب بھائی عبد الرحمان قادیانی خدمات بجالا رہے تھے.ہم ابھی بچے تھے اور پوری طرح ہوش بھی نہ سنبھالا تھا جب ہم نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمات بجالاتے اور آپ کے گرد پروانہ وار فدا ہوتے دیکھا.یہ آپ کی تکلیف کی گھڑیوں اور مصیبت کی ساعتوں میں ساتھ رہے اور اگر ایسے لوگوں کا اعزاز قائم نہ ہو تو میں مجبور ہوں گا کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لوں.ہمارے تمام محکمے سلسلہ کی عزت کے قیام کے لئے ہیں نہ کہ انصاف کے ایک غلط نام کی پیروی کے لئے.میں یہ نہیں کہتا کہ جو فعل ہوا ہے وہ نا جائز ہوا ہے.میں اس یقین کے وجوہ رکھتا ہوں کہ جو فعل ہوا اس کی تمام تر ذمہ داری ایک فریق پر نہیں لیکن یہ بہر حال دکھ کی بات ہے کہ قادیان میں وہ حزم اور
$1940 323 خطبات محمود احتیاط نہ برتی جائے جو صحابہ کے متعلق برتی جانی چاہیئے.میں تو وہ شخص ہوں کہ جن لوگوں نے اپنے فعل سے اپنے آپ کو صحابیت سے خارج کر لیا ان کے خلاف بھی میں نے کبھی کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا.مولوی محمد علی صاحب یہاں سے جاتے ہوئے قریباً تین ہزار کی کتابیں لے گئے.قاضی امیر حسین صاحب مرحوم میرے پاس آئے کہ ان کو روکنا چاہیے مگر میں نے کہا کہ میں ان کو روکنا نہیں چاہتا.پھر مجھے معلوم ہوا کہ بعض بچے آپس میں کہہ رہے تھے کہ آؤ ان پر کنکریاں پھینکیں اور میں نے ان کو سختی سے ڈانٹا اور مولوی صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ کوئی فکر نہ کریں میں ذمہ دار ہوں کہ کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکے گا اور اگر کوئی کچھ کہے تو میں ہر سزا کے لئے تیار ہوں.گو بعد میں اس واقعہ کو بہت رنگ آمیزی سے پیش کیا جاتا رہا اور کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہی ہے.تو جن لوگوں نے اپنے فعل سے اپنے آپ کو صحابیت سے خارج کر لیا میں آج تک ان کا بھی احترام کرتا ہوں.ان کی طرف سے مجھ پر گندے سے گندے الزامات لگائے گئے.ان کے اور ان کے ساتھیوں کے متعلق میرے پاس بھی ایسی روایات پہنچیں مگر میں نے ان کی اشاعت کو کبھی پسند نہیں کیا.پس اگر ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی عزت کو قائم کرنا ہمارا فرض ہے اور وہ کی جائے گی.دشمن ان باتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ یہاں کے ہندوؤں نے رات کے وقت ایک ہندو لڑکے کو بھائی جی کے لڑکے کے پاس بھجوایا کہ آپ لوگوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے.اگر آپ واقعات بتائیں تو ہم ہندو اخبارات میں چھپوا دیں گے.بھائی جی کا بیان یہ تھا کہ صبح ہی انہوں نے آکر مجھے کہا کہ رات ہمارے ہاں شیطان آیا تھا.ان کی یہ باتیں ایک اچھا نمونہ تھا مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کا سارا نمونہ اچھانہ تھا.اگر وہ اس ابتلاء سے بے داغ نکلتے تو مجھے بڑی خوشی ہوتی مگر افسوس ہے کہ وہ بے داغ نہ نکلے.مجھے متعدد رپورٹیں پہنچی ہیں کہ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں یہ شور کرتے پھرے کہ اے منارے والے ! ہم نے تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہے.ان کا یہ فعل بہت ہی ناجائز ہے.کیا ان کی یہ تلاشی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ وہ احمدی تھے پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ منارے والے کی خاطر کس طرح ہوا؟ کسی نے جھوٹ یا سچ یہ الزام لگایا کہ ان کے لڑکے
$1940 324 خطبات محمود نے چوری کی ہے.اگر یہ الزام سچ ہو تو بھائی جی کے یہ کہنے کے معنے گویا یہ ہوئے کہ منارے والا نَعُوذُ بالله چوریاں کرواتا تھا اور اگر یہ نہیں تو پھر اس کے لئے یہ بار کس طرح اٹھایا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاطر اس میں کیا بات تھی.یہ فرض کر لو کہ امور عامہ سے بے احتیاطی ہوئی مگر کیا اس نے یہ اس لئے کہا کہ بھائی جی صحابی تھے ؟ ہر گز نہیں.بھائی جی خود بھی یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اس بے احتیاطی کی وجہ یہ تھی کہ ناظر امور عامہ کٹر احراری تھے اور چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی بے عزتی ہو.اپنے انتہائی غصہ کے باوجو د بھائی جی یہ بات نہیں کہہ سکتے.پس یہ ان کی غلطی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ آج کے مظاہرہ کی ذمہ داری ان پر ہے.اگر وہ ایسے ذمہ داری کے مقام پر ہوتے ہوئے یہ شعر نہ پڑھتے پھرتے تو آج کا مظاہرہ نہ ہوتا.ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی نوجوانوں کے لئے نمونہ ہیں جس کی انہیں پیروی کرنی چاہیے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور میرا نام وضاحت سے گونہ لیا تھا مگر آج کا مظاہرہ کرنے والے نے لیا.پس جہاں مجھے افسوس ہے کہ ایسے صحابی کا جس نے بڑی خدمات کا موقع پایا اور جس کی ہتک کو میں اپنی ہتک سمجھتا ہوں مناسب عزت قائم نہ کی جاسکی.وہاں مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ بھائی جی اس ابتلاء سے بے داغ نہ نکل سکے.اگر ان کی تلاشی ہوئی تو کیا تھا؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تلاشی نہ ہوئی تھی؟ ان کو چاہیے تھا کہ ہنستے ہوئے اس واقعہ پر سے گزر جاتے.ان کو شکایت لے کر میرے پاس آنا بھی نہ چاہیئے تھا.وہ دوسرے دن میرے پاس آئے حالانکہ میں اس وقت تمام تحقیقات کر چکا تھا.انہوں نے آکر خود اپنی سبکی کرائی.جو بات میں ان کے آنے سے بھی پہلے کر چکا تھا اس کے لئے انہیں آنے کی کیا ضرورت تھی.اپنے مقام کے لحاظ سے انہیں اس بات کے لئے میرے پاس آنا بھی نہ چاہیئے تھا.اور خد اتعالیٰ پر توکل کرنا چاہیئے تھا.ان کی شان یہ تھی کہ دل میں بھی اس بات کا کوئی احساس نہ کرتے اور لب پر ذکر تک نہ لاتے.اگر ان کے بیٹے سے ایسا فعل ہو ا تو کیا اس سے ان کی عزت میں کوئی فرق آ سکتا ہے؟ اور اگر نہیں ہوا تو ان کی عزت اور بھی بڑھ جاتی.رسول کریم صلی ال نیم کے عشرہ مبشرہ میں سے ایک کا لڑکا امام حسین کا قاتل تھا.ان کے بیٹے
$1940 325 خطبات محمود کے افعال کی ذمہ داری ان پر نہیں آسکتی.اگر ان کا بیٹا مجرم ثابت نہ ہو تا تو ان کی عزت زیادہ ہو جاتی نہ کہ کم.چونکہ وہ ایسے مقام پر ہیں کہ ان کے فعل سے دوسرے بھی غلطی کر سکتے ہیں اس لئے مجھے یہ بات کہنی پڑی.میں آدھی رات کے وقت دفتر سے کام کر کے گھر آیا میری بیوی بیمار تھیں انہوں نے کہا کہ آپ نے کچھ سنا؟ میں نے کہا نہیں.وہ کہنے لگیں کہ بچے گھبر ائے ہوئے آئے تھے کہ بھائی عبد الرحمن صاحب کی تلاشی ہو رہی ہے.میں نے تکلیف کے ساتھ رات گذاری اور صبح اٹھتے ہی تحقیقات شروع کرادی اور ان کے آنے سے پہلے جس حد تک میر افرض تھا تحقیقات مکمل کر چکا تھا اور اپنے ذہن میں ایک نتیجہ پر پہنچ چکا تھا.پس ان کو تو میرے پاس آنے کی بھی ضرورت نہ تھی.شکایت لے کر تو وہ آتا ہے جسے اعتبار نہ ہو.جسے اعتبار ہو وہ شکایت کرتاہی نہیں.ایسے معاملہ کے متعلق شکایت کی ضرورت ہوتی ہے جو مخفی ہو یا پھر وہ شکایت کرتا ہے جس کے دل میں گھبراہٹ ہو لیکن یہاں تو میں ان کے آنے سے قبل اپنے ذہن میں اس فیصلہ پر پہنچ چکا تھا کہ کمیشن بٹھا کر اس معاملہ کی تحقیقات کراؤں گا.اس کے بعد میں پھر امور عامہ اور دوسرے محکموں کو یہ نصیحت کرتاہوں کہ وہ اس لئے بنائے گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور شعائر اللہ کی عزت قائم کریں.اس لئے نہیں کہ بے احتیاطی کے ساتھ ان چیزوں کے خلاف کوئی اقدام کریں.کسی شخص کا ناظر امور عامہ ہونا یا میر ارشتہ دار ہونا اسے کسی سر زنش یا سزا سے نہیں بچاسکتا.سلسلہ کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے ایسے لوگوں کو سزا دینا میرا فرض ہے.خواہ وہ کوئی ہو.میرا رشتہ دار حقیقی وہی ہے اور حقیقی کارکن بھی وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خدام اور سلسلہ کی عزت قائم کرے.جو سلسلہ کی عزت قائم نہیں کرتا، صحابہ کی عزت قائم نہیں کرتا اور کارکنوں کی عزت قائم نہیں کرتا وہ میر ا دوست یا رشتہ دار ہر گز نہیں.تمام محکموں کو چاہیے کہ ہر کام میں اس بات کو مد نظر رکھیں جس طرح قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم جدھر سے بھی جہاد کے لئے نکلو تمہارا منہ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے.2 اسی طرح ہمارے محکمے بھی جو کام کریں اس میں یہ بات مد نظر رکھیں کہ سلسلہ، سلسلہ کے کارکنوں اور خدام کی عزت قائم
$1940 326 خطبات محمود ہو اور صحابہ کے اعزاز کا خاص خیال رہے.باقی خالص تلاشی پر اگر کوئی ناراض ہو تا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے.یہ قانون ہے اور ہمارے مذہب کی یہی ہدایت ہے کہ حکومت کے قانون کا احترام کریں.ہاں اگر کوئی افسر قانون کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اسے سزا دلوائی جاسکتی ہے لیکن یہ حق نہیں کہ کوئی حاکم اگر اپنے حق کا استعمال کرتا ہے تو اس پر ناراض ہوں.گو یہ ہم ضرور دیکھیں گے کہ اس نے کس رنگ میں اس فرض کو ادا کیا ہے.میرے پاس یہ شکایت بھی پہنچی ہے کہ تلاشی لینے والوں نے سختی کی.ہم اس کی بھی تحقیقات کریں گے اور اگر یہ بات ثابت ہو گئی تو اس معاملہ میں بھی مناسب کارروائی کریں گے.بہر حال تلاشی لینا ایک جائز فعل ہے.گو مجھے یہ بھی خیال ہے کہ سلسلہ کے وقار کو صدمہ پہنچانے کے لئے پچھلے دنوں میں معمولی معمولی باتوں پر احمدیوں کی تلاشیاں کی جاتی رہی ہیں حالانکہ ویسے ہی واقعات غیر احمدیوں میں بھی ہوئے مگر کسی کی تلاشی نہیں ہوئی.میں اس بات کی بھی تحقیقات کر رہا ہوں اور اگر میں اس نتیجہ پر پہنچا جو اس وقت میرا خیال ہے تو میں اس کے خلاف بھی آواز اٹھاؤں گا مگر اس کے ساتھ میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اعمال میں ایسی تبدیلی کریں کہ ان میں سے کسی پر کوئی اعتراض ہو ہی نہ سکے.اپنے بڑوں کی اصلاح کرے.ہمارے پاس بھی بعض لوگوں کے متعلق شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں.ایسے لوگوں کی اصلاح ہر احمدی اپنا فرض سمجھے.اپنے محلہ کے لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے بیٹے اور بیٹیاں سمجھ کر ہر رنگ میں ان کی اصلاح کا خیال رکھا جائے اور کوشش کریں کہ ایسے لوگ جماعت میں پیدا ہی نہ ہوں جو قابلِ اعتراض افعال کے مر تکب ہوں.اگر کوئی ایسا فعل ہو ہی نہیں تو دشمن کو اعتراض کی جرآت ہی نہیں ہو سکتی.پس اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھو.صرف دوسروں پر ہی اعتراض نہ کرو بلکہ اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرو اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کرو کہ وہ ہمیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے.ہم بتیس دانتوں میں زبان کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح زبان کے ہر وقت کسی نہ کسی دانت کے نیچے آجانے کا خطرہ ہوتا ہے اسی طرح ہم بھی ہر وقت دشمنوں کی طرف سے خطرات سے گھرے ہوئے ہیں اور ان خطرات سے اللہ تعالیٰ ہی ہماری حفاظت کر سکتا ہے.پس دعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارا حافظ و ناصر ہو اور ایسے افعال سے بچائے جو دین و دنیا
خطبات محمود 327 $1940 میں ذلیل کرنے والے ہوں اور ایسے ایمان کی توفیق دے جو اس کی نیز دنیا کی نگاہوں میں بھی عزت قائم کرنے والے ہوں.” ( از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 1 هود: 114 (150 وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرة :
$1940 328 (24) خطبات محمود نظام جماعت سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ افراد اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح کریں خلیفہ وقت کے مقرر کردہ عہدیداروں کی اطاعت بھی ضروری ہے (فرمودہ 13 ستمبر 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”نظام جہاں اپنے اندر بہت سی برکات رکھتا ہے اور دینی و دنیوی ترقیات کے لئے ایک نہایت ضروری چیز ہے.وہاں اس میں بہت سی پیچید گیاں بھی ہوتی ہیں اور جتنا نظام بڑھتا چلا جاتا ہے اتنی ہی اس میں پیچیدگیاں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں.اس کے مقابلہ میں جتنی کوئی چیز منفرد اور اکیلی ہو اتنی ہی وہ سادہ ہوتی ہے.پس جہاں نظام کے ذریعہ قوموں اور مذہبوں کو فوائد پہنچتے ہیں وہاں اس کی وجہ سے بعض دفعہ غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں اور جو لوگ نظام سے سچا فائدہ اٹھانا چاہیں ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان غلطیوں کی اصلاح کریں اور اصلاح کرتے چلے جائیں.اگر ان غلطیوں کی وہ اصلاح نہ کریں تو آہستہ آہستہ وہی نظام جو نہایت مفید ہوتا ہے کسی وقت لوگوں کے لئے عذاب بن جاتا ہے.یہ جو آجکل ڈکٹیٹر شپ نازی ازم اور فیسی ازم رائج ہیں یہ بھی نظام کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.یہ جو کمیونزم اور بالشوزم کہلاتے ہیں یہ بھی نظام کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.ہیں وہ نظام ہی
$1940 329 خطبات محمود لیکن ان کی گل ٹیڑھی چل گئی اور گل کے بگڑ جانے کی وجہ سے ان میں ایسی خرابیاں پیدا ہو گئیں کہ وہ دنیا کے لئے مصیبت اور عذاب بن گئے.اسلام نے بھی ایک نظام قائم کیا ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ نظام ہے مگر جس طرح باقی نظام پیچیدہ ہیں ویسے ہی وہ بھی پیچیدہ ہے.چنانچہ مسلمہ میں سے ہی وہ ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اسے اٹھا کر دوسروں کے لئے ان کی اطاعت واجب کر دیتا ہے.بعض لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف خلیفہ ہی واجب الاطاعت ہوتا ہے.حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر ایسا نظام بتایا ہے جس میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ خلیفہ کے مقرر کردہ عہدیدار بھی واجب الاطاعت ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ - 1 اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ کئے گئے ہیں کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کے بعد اُولی الامر کی.مگر اس کے معنے یہ بھی ہیں بلکہ قریب ترین معنے یہی ہیں کہ تم اللہ کی اطاعت کرو، تم رسول کی اطاعت کرو اور تم اس زمانہ کے اُولی الامر کی بھی اطاعت کرو.گویا اللہ بھی موجود ہے، رسول بھی موجود ہے اور اولی الامر کی اطاعت بھی ضروری ہے.اور یہ وہ معنے ہیں جن کی قرآن کریم کی متعدد آیات سے تصدیق ہوتی ہے.مثلاً جہاں خبروں کے پھیلانے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کیوں تم ان لوگوں تک خبریں نہیں پہنچاتے جو بات کو سمجھنے کے اہل ہیں اور جن کے سپر د اس قسم کے امور کی نگرانی ہے.2 تو یا وہ ایک جماعت تھی جو رسول کریم صلی نیلم کے زمانہ میں موجود تھی اور لوگوں کو حکم تھا کہ صا الله بجائے پبلک میں غیر ذمہ دارانہ طور پر خبریں پھیلانے کے اسے پہنچائی جائیں.پس یہ آیت بتاتی ہے کہ خود رسول کریم صلی ال نیم کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو عام لوگوں سے ایک امتیاز رکھتے تھے اور لوگوں کو حکم تھا کہ وہ ضروری باتیں ان تک پہنچائیں.پھر ایک اور دلیل اس بات پر کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور رسول کی موجودگی میں ہی ضروری ہے یہ ہے کہ اللہ کے بعد رسول کی اطاعت نہیں ہوتی بلکہ اس کی موجودگی میں ہی رسول کی اطاعت ضروری ہوتی ہے.یہ معنے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نَعُوذُ بِاللهِ فوت
$1940 330 خطبات محمود ہو جائے تو تم رسول کی اطاعت کرو اور رسول فوت ہو جائے تو اولیسی الامر کی اطاعت کرو بلکہ اللہ کی موجودگی میں ہی اولی الامر کی اطاعت اور ان کی فرمانبرداری کا حکم ہے.ممکن ہے کوئی اعتراض کر دے کہ رسول کی اطاعت کا تو حکم ہوا مگر خلیفہ کی اطاعت کا کہاں حکم ہے؟ سو ایسے لوگوں کو یادرکھنا چاہیئے کہ خلیفہ رسول کا قائم مقام ہو تا ہے.چنانچہ خلیفہ کے معنے نائب کے ہیں مگر وہ نائب اور قائم مقام اولی الامر کا نہیں بلکہ رسول کا ہوتا ہے.پس قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور جب رسول فوت ہو جائے تو تم اس کے خلیفہ کی اطاعت کرو اور اس زمانہ میں اُولی الامر کی بھی اطاعت کرو کیونکہ کوئی نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک خلیفہ کے مقرر کردہ عہدیداروں کی اطاعت لوگ اپنے لئے ضروری خیال نہ کریں.اس لئے رسول کریم صلی الم نے فرمایا ہے کہ مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَا عَنِى وَ مَنْ عَلَى آمِيُرِی فَقَدْ عَصَانِی.3 یعنی جس نے میرے مقرر کردہ حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کر دہ حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی کیونکہ میں ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا.مجھے لازما کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اپنے نائب مقرر کرنے پڑیں گے اور لوگوں کے لئے ضروری ہو گا کہ ان کی اطاعت کریں.اگر وہ اطاعت نہیں کریں گے تو نظام ٹوٹ جائے گا.پس ان کی اطاعت در حقیقت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی.تو آطِیعُوا الله وَاطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ میں ایک ایسا مکمل نظام پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ایک ہی زمانہ میں اللہ کی اطاعت بھی ضروری ہے ، رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اگر رسول نہ ہو تو اس کے خلیفہ کی اطاعت ضروری ہے اور اس زمانہ میں اُولی الامر کی اطاعت بھی ضروری ہے.اللہ ایک ہے ، رسول ایک ہے، خلیفہ بھی ایک ہی ہو گا لیکن اُولیی الأضر کئی ہو سکتے ہیں اس لئے اُولی الامر میں جمع کا صیغہ رکھا گیا ہے کیونکہ یہ کئی ہوں گے اور گو خلیفہ ایک ہو گا مگر اس کے تابع بہت سے عہد یدار ہوں گے.یہ اسلامی نظام ہے جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے اور وہ امت محمدیہ کو حکم دیتا ہے کہ
$1940 331 خطبات محمود اولی الامر کی اطاعت کرو لیکن اس میں بعض دفعہ ایک بگاڑ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ غلطی سے اولی الامر یہ خیال نہیں کرتے کہ لوگوں پر ان کی جو اطاعت فرض ہے وہ اُولیسی الأمر ہونے میں ہے، زید اور بکر ہونے میں نہیں، زید اور بکر ہونے میں تو رسول کی اطاعت بھی نہیں.یوں تو رسول کا مقام ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہی حکم دیتا ہے کہ اس کی اطاعت کرو مگر خدا نے انہیں جو حق دیا ہے وہ ہر بات میں نہیں اور نہ ہر بات میں انہوں نے کبھی اپنے حق کا اظہار کیا ہے.مثلار سول کریم مالی کیم کو یہ حق نہیں تھا اور نہ آپ نے کبھی ایسا دعوی کیا کہ کسی کی بیٹی کا اپنی مرضی سے کسی دوسرے سے نکاح کر دیں.اسی طرح آپ نے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ اپنا مکان فلاں کو دے دو بلکہ آپ نے ان امور میں ان کے اختیارات کو بحال رکھا.چنانچہ رسول کریم صلی علیم کے زمانہ میں ایک لڑکی جو غلام تھی اور اس کا خاوند بھی غلام تھا کچھ عرصہ کے بعد آزاد ہوئی تو اسے شریعت کے ماتحت اس امر کا اختیار دیا گیا کہ چاہے تو وہ اپنے غلام خاوند کے نکاح میں رہے اور چاہے تو نہ رہے.اتفاق کی بات ہے بیوی کو اپنے خاوند سے شدید نفرت تھی اور ادھر خاوند کی یہ حالت تھی کہ اسے بیوی سے عشق تھا.جب وہ آزاد ہوئی اور غلام نہ رہی تو اس نے کہا کہ میں اب اس کے پاس نہیں رہ سکتی.خاوند کو چونکہ اس کے ساتھ شدید محبت تھی اس لئے جہاں وہ جاتی وہ پیچھے پیچھے چلا جاتا اور رونا شروع کر دیتا.رسول کریم صلى الم نے اسے اس حالت میں دیکھا تو آپ کو رحم آیا اور آپ نے اس لڑکی سے کہا کہ اگر تم اس کے پاس رہو تو تمہارا کیا حرج ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ آپ نے فرمایامشورہ ہے حکم نہیں.کیونکہ اب تم آزاد ہو چکی ہو اور شریعت کی طرف سے تمہیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ چاہو تو تم اپنے غلام خاوند کے پاس رہو اور چاہو تو نہ رہو.اس نے کہا يَا رَسُولُ اللہ ! اگر یہ آپ کا مشورہ ہے تو پھر میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں.مجھے اس سے نفرت ہے.4 تو ذاتی معاملات میں رسول کریم صلی ا تم کبھی دخل نہیں دیتے تھے.اسی طرح خلفاء نے بھی کبھی ذاتی معاملات میں دخل نہیں دیا.خود میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کا آپ جہاں چاہیں نکاح پڑھا دیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر باوجود اس کے کہ آج تک مجھے سینکڑوں لوگوں نے ایسا کہا ہو گا میں نے
$1940 332 خطبات محمود کسی ایک کی بات بھی نہیں مانی.میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مجھ پر کیا آگے ذمہ داریاں کم ہیں کہ اب میں اور ذمہ داریوں کو بھی اٹھالوں.ممکن ہے میں انتخاب میں کوئی غلطی کر جاؤں اور اس طرح قیامت کے روز خدا تعالیٰ کے حضور مجھے جوابدہ ہونا پڑے.پس میں کیوں اس بوجھ کو برداشت کروں.شاید ماں باپ یہ سمجھتے ہوں کہ لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی مگر میرے نزدیک والدین پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد اپنی لڑکیوں کا نکاح کیا کریں.اگر وہ بے احتیاطی سے کام لیں گے تو یقینا وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے.پس جبکہ نکاح کرانا ایک خاص ذمہ داری کا کام ہے تو بالکل ممکن ہے مجھ سے کسی کے معاملہ میں کوئی بے احتیاطی ہو جائے اور قیامت کے دن باپ تو آزاد ہو جائے اور میں اس کا جوابدہ ٹھہر جاؤں.پس باوجود اس کے کہ میرے زمانہ خلافت میں سینکڑوں لوگوں نے مجھے یہ کہا ہو گا کہ آپ جہاں چاہیں میری لڑکیوں کا نکاح کر دیں مجھے اس وقت ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں جس میں میں نے دخل دیا ہو اور اپنی مرضی سے ان کی لڑکیوں کا کہیں نکاح کر دیا ہو.میں ہمیشہ انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ جب مجھے کسی رشتہ کا علم ہوا تو آپ کو اطلاع دے دوں گا.آگے یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ غور کر لیں کہ وہ رشتہ ان کے لئے موزون ہے یا نہیں.ایسے موقع پر بعض لوگ اصرار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے اپنی لڑکیوں کا معاملہ آپ کے سپر د کر دیا ہے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ میں اس کے لئے تیار نہیں.ہاں جب بھی مجھے رشتوں کا علم ہو گا میں لڑکے آپ کے سامنے پیش کرتا چلا جاؤں گا.آپ کو پسند آئیں تو لیتے جائیں اور اگر پسند نہ آئیں تو ر ڈ کرتے جائیں.تو اللہ تعالیٰ نے اولی الامر کو جو حکومت دی ہے وہ ذاتی معاملات میں نہیں قومی معاملات میں ہے.رسول کو بھی اور خلیفہ کو بھی اور اولیی الامر کو بھی یہ قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی معاملات میں لوگوں پر رعب جتائیں.مثلاً مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ میں جماعت کے کسی آدمی سے یہ کہوں کہ میں چونکہ خلیفہ ہوں اس لئے تم میری نوکری کرو اور جو تنخواہ میں دوں وہ قبول کرو.یہ خلافت کا کام نہیں بلکہ ایک دنیوی کام ہے اور ے شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے.چاہے یہی کہے کہ
خطبات محمود 333 $1940 میں نوکر نہیں ہونا چاہتا اور چاہے یہ کہے کہ جو تنخواہ آپ دیتے ہیں وہ مجھے منظور نہیں.اسے کوئی گناہ نہیں ہو گا کیونکہ شریعت نے ان معاملات میں اسے آزادی بخشی ہے.یا فرض کرو میں اپنا مکان بنانے کے لئے کسی دوست سے کوئی زمین خریدنا چاہتا ہوں تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے مثلاً یہی کہہ دے کہ جو قیمت آپ دینا چاہتے ہیں اس پر میں زمین فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں یا یہ کہہ دے کہ میں زمین بیچنا ہی نہیں چاہتا.بہر حال یہ اس کا حق ہے جسے وہ استعمال کر سکتا ہے.یہی حال اولی الامر کا ہے.ہماری جماعت میں بھی کچھ ناظر ہیں اور کچھ ناظروں کے ماتحت عہدیدار مقرر ہیں.ان ناظر وں اور عہدہ داروں کو بھی وہی محدود اختیارات حاصل ہیں جو جماعتی نظام سے تعلق رکھتے ہیں.جہاں ایسے کاموں کا سوال آجائے گا جو نظام جماعت سے تعلق نہیں رکھتے وہاں اگر بعض لوگ ان کے کرنے سے انکار کر دیں تو یہ ان کا حق سمجھا جائے گا.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے پاس ایسی رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض آدمی ذاتی کام لیتے وقت اپنے عہدہ کے جتانے کے عادی ہیں اور وہ بات کرتے وقت دوسروں سے کہہ دیتے ہیں کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں.میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر تعلیم و تربیت ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں یا فلاں عہدے دار ہوں.اس قسم کے الفاظ کا دہر انا یقینا اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے خلاف ہے جس کا اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے.ہر شخص جسے خدا نے بعض معاملات میں آزادی دے رکھی ہے اس کے متعلق ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ اس کی آزادی کو سلب کریں.رسول کریم صلی علیم کی مثال موجو د ہے.آپ نے ذاتی معاملات میں کبھی دخل نہیں دیا.آپ نے بریرہ سے یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں.تم میری بات مان لو بلکہ فرمایا کہ یہ میرا ذاتی مشورہ ہے، اسے ماننا یا نہ ماننا تمہارے اختیار کی بات ہے.اسی طرح بعض سو دے ہوئے جن کے متعلق آپ نے صحابہ سے یہی فرمایا کہ لوگوں سے مشورہ کر لو اور جو کچھ صحیح سمجھو اس کے مطابق کام کرو.ها الله تو جماعت کے ذمہ دار کارکنوں کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے عہدے لوگوں کو ڈرانے کے لئے استعمال نہ کیا کریں.جو شخص کسی جھگڑے کے موقع پر یہ کہتا ہے کہ تم جانتے
$1940 334 خطبات محمود ہو میں کون ہوں ؟ میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر تعلیم و تربیت ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں وہ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نظارت کو دوسرے معاملات میں بالا سمجھتا ہے حالانکہ نظارت کا اپنا ایک محدود دائرہ ہے.اس دائرہ سے باہر اس کے اختیارات نہیں یا سلسلہ کا کوئی مربی اور کار کن ایسے مواقع پر اگر یہ کہتا ہے کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں.میں سلسلہ کا مربی ہوں یا سلسلہ کا کارکن ہوں تو وہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتا ہے.مثلاً دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے ہوں تو اگر ایک ایسا شخص جسے نظام نے لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر نہیں کیا وہاں جا کر کہتا ہے کہ میں سلسلہ کا مربی ہوں یا سلسلہ کا کارکن ہوں تو اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا عہدہ دوسروں پر رعب جتانے کے لئے استعمال کیا ہے کیونکہ مربی کا کام لوگوں کی تربیت و اصلاح کرنا ہے نہ کہ جھگڑوں کا فیصلہ کرنا.اس کا یہ ہر گز حق نہیں کہ وہ لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے یا اپنا فیصلہ لوگوں سے منوائے.ہاں اگر کوئی قاضی ہو تو وہ ایسا کہہ سکتا اور اپنا فیصلہ بھی اس جھگڑے کے متعلق دے سکتا ہے تو یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.پس میں جماعت کے تمام عہدیداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بارہ میں احتیاط ملحوظ رکھیں اور علی الاعلان خطبہ جمعہ میں میں نے اس کا اظہار اس لئے کیا ہے تادوسرے لوگ بھی نگران رہیں اور جب سلسلہ کے کارکنوں میں سے کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کی فوری طور پر میرے پاس رپورٹ کریں.میں اس بارہ میں اپنا ہی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں جس میں میرا نام ایک موقع پر ناجائز طور پر استعمال کیا گیا تھا مگر جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس افسر کو سختی سے ڈانٹا.وہ واقعہ یہ ہے جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہم قادیان کے ارد گرد دیہات میں اپنے لئے زمینیں خریدتے رہتے ہیں.اسی سلسلہ میں ہماری طرف سے ایک زمین کا سودا ہوا مگر ابھی یہ سودا ہو ہی رہا تھا کہ ننگل کے ایک شخص نے ہم سے زیادہ قیمت دے کر اس زمین کو خرید لینا چاہا.اس پر ہمارے مختار نے اسے کہا کہ تم خلیفہ المسیح الثانی کا مقابلہ کرتے ہو یہ تمہارے لئے اچھی بات نہیں.مجھے جب اس بات کا علم ہوا تو میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ اس میں خلیفہ المسیح کا کیا تعلق ہے.یہ
$1940 335 خطبات محمود سودا خلیفہ المسیح ” سے نہیں بلکہ مرزا محمود سے ہو رہا تھا اور دوسرا فریق اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اگر وہ چاہے تو سودے سے انکار کر کے کسی دوسرے سے سو داشروع کر دے.یہ زمیندارہ معاملہ ہے اور اس میں دوسرا شخص اختیار رکھتا ہے کہ وہ چاہے تو مان لے اور چاہے تو نہ مانے.اس میں خلافت یا خلیفہ المسیح کا کوئی سوال نہیں اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے نے خلیفہ المسیح کا مقابلہ کیا.گو اخلاقی طور پر میرے نزدیک دوسرے فریق کی ہی غلطی تھی کیونکہ جب کوئی شخص سودا کر رہا ہو تو دوسرے کو اس میں دخل نہیں دینا چاہئیے مگر شریعت میں چونکہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ جب تک کچھ پیشگی رقم نہ دے دی جائے اس وقت تک سودا مکمل نہیں ہو سکتا.اس لئے دوسرے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو سودے سے انکار کر دے اور کسی دوسرے شخص کو زیادہ قیمت پر دے دے.بہر حال ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر لوگوں کو اپنے عہدے جتانے کی عادت ہے جیسے تحصیلدار کہہ دیا کرتے ہیں کہ تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم تحصیلدار ہیں یا ڈپٹی کمشنر کہہ دیا کرتے ہیں تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم ڈپٹی کمشنر ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی دھمکی دے دی اور کہا کہ تم جانتے ہو یہ سود خلیفتہ المسیح کر رہے ہیں.پس تم کسی اور سے نہیں بلکہ خلیفتہ المسیح کا مقابلہ کر رہے ہو.حالانکہ یہ زمین خلیفتہ المسیح نہیں بلکہ مرزا محمود احمد خرید رہا تھا اور مرزا محمود احمد کے مقابلہ میں ایسے معاملات میں ہر شخص خواہ وہ احمدی ہو یا نہ ہو اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے.غرض اخلاقی طور پر گو اس سے غلطی ہوئی مگر میں نے پسند نہ کیا کہ میں واقف ہو کر اس کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھا لوں.تو لوگ بلا وجہ اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.اسی طرح جو عہد یدار ہیں ان کی عورتوں کے متعلق میرے پاس شکایات آتی رہتی ہیں کہ وہ بھی دوسروں پر رعب جمانا چاہتی ہیں.گویا جو احترام ناظر امور عامہ کو حاصل ہے وہی ناظر امور عامہ کی بیوی بھی حاصل کرنا چاہتی ہے.اور جس طرح ملکہ کو ایک حق حاصل ہوتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنا حق جتانا چاہتی ہے.حالانکہ ناظر امور عامہ کی بیوی کو کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں پر رعب جتائے.وہ جماعت میں محض ایک فرد کی حیثیت رکھتی ہے.اگر جماعت سے لوگ اس لحاظ سے کہ اس کا خاوند قوم کا ایک خادم ہے اس کی عزت کریں تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ وہ
$1940 336 خطبات محمود ناظر امور عامہ کی بیوی ہے یا ناظر امور خارجہ کی بیوی ہے یا ناظر ضیافت کی بیوی ہے یا ناظر بیت المال کی بیوی ہے یا ناظر تعلیم و تربیت کی بیوی ہے یا ناظر اعلیٰ کی بیوی ہے اس کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں پر رعب جتائے.وہ جماعت کا ایک ویسا ہی فرد ہے جیسے کوئی معمولی سے معمولی شخص کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بعض لوگوں کو حکومت اور رتبہ دیا ہے وہ کام کے لحاظ سے دیا ہے اور ان سے تعلق رکھنے والوں کو یہ قطعا حق حاصل نہیں کہ وہ ان کے رتبہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں پر اپنی حکومت جتانی شروع کر دیں.(الفضل 27 جولائی (*1960 میری جب وصیت شائع ہوئی تو بعض انگریزی اخبارات کے نمائندے مجھ سے ملنے کے لئے آئے.ان کے آنے کی بڑی غرض یہ تھی کہ وہ مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد یا تو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب خلیفہ ہوں گے یا میرا بیٹا ناصر احمد.وہ بار بار ادھر ادھر کی باتیں کر کے پھر یہی سوال میرے سامنے پیش کر دیتے اور کہتے کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو گا؟ کیا چوہدری ظفر اللہ خان ہوں گے یا ناصر احمد ؟ میں نے انہیں کہا کہ خلافت تو خدا تعالیٰ کی ایک دین ہے.اس میں چوہدری ظفر اللہ خان اور ناصر احمد کا ویسا ہی حق ہے جیسے ایک نو مسلم چوہڑے کا.میں نے انہیں کہا کہ مجھے کیا معلوم اللہ تعالیٰ میرے بعد یہ مرتبہ کس کو دے گا.کسی بڑے آدمی کو یا ایک معمولی اور حقیر نظر آنے والے انسان کو.مگر وہ دنیا داری کے لحاظ سے سمجھتے تھے کہ میرے بعد خلافت کے اہل یا تو چوہدری ظفر اللہ خان ہیں یا ناصر احمد.چنانچہ چکر کھا کر وہ پھر یہی سوال کر دیتے کہ اچھا تو پھر آپ کے بعد کیا صورت ہو گی ؟ مگر میں انہیں یہی کہتا رہا کہ مجھے کچھ علم نہیں اللہ تعالیٰ میرے بعد یہ نعمت کس کو عطا کرے گا.آخر انہیں میرے جوابوں سے اتنی مایوسی ہوئی کہ انہوں نے ملاقات کا ذکر شائع کرتے وقت اس سوال کو ہی اڑا دیا.ایک اخبار والے نے تو میرے ساتھ اس سوال پر بڑی بحث کی اور کہا کہ آخر کچھ تو کہیں.میں نے کہا میں اس بارہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا.پھر میں نے انہیں بتایا کہ حضرت خلیفہ اول جب فوت ہوئے اور جماعت میں خلافت کے متعلق جھگڑ اشروع ہوا تو بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید میں نے اپنی خلافت کے لئے یہ جھگڑا کھڑا کر رکھا.
$1940 337 خطبات محمود میں نے اُسی وقت اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا ، ان رشتہ داروں میں میرے بزرگ بھی تھے ، میرے برابر کے بھی تھے اور مجھ سے چھوٹے بھی تھے.نانا جان صاحب مرحوم بھی موجود تھے، میرے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب بھی موجود تھے ، اسی طرح میرے چھوٹے بھائی بھی تھے اور گھر کے دوسرے افراد بھی.میں نے ان سب کو جمع کر کے کہا کہ دیکھو یہ وقت ایسا نہیں کہ ہم ذاتیات کا سوال لے بیٹھیں اس وقت جو لوگ خلافت کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ چونکہ خلافت سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اس لئے ہم یہ جھگڑا پیدا کر رہے ہیں.یہ وہم خواہ کیسا ہی غلط اور بے بنیاد ہو ہمیں اپنے وجود سے سلسلہ میں تفریق پیدا نہیں کرنی چاہئیے اور اگر وہ اس بات پر متفق ہیں کہ کسی نہ کسی کو ضرور خلیفہ ہونا چاہیئے تو اول تو یہی مناسب ہے کہ اس کے متعلق لوگوں کی عام رائے لے لی جائے لیکن اگر انہیں اس سے اتفاق نہ ہو تو ایسے لوگوں کو چھوڑ کر جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یا مولوی محمد علی صاحب ہیں کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ اسے بھی نہ مانیں تو پھر ان لوگوں میں سے ہی کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے.میں نے اس پر اتنا زور دیا کہ میں نے اپنے رشتہ داروں سے کہا اگر آپ لوگ میری اس بات کو نہیں مانتے تو پھر میں باہر جاتا ہوں اور باہر جا کر عام لوگوں کے سامنے اپنی اس بات کو پیش کر دیتا ہوں.نتیجہ یہ ہوا کہ سب میری بات پر متفق ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اول تو یہی کوشش کرنی چاہیئے کہ دونوں فریق کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر اکٹھے ہوں جو واضح طور پر گزشتہ جھگڑوں میں شامل نہ ہوا ہو اور جو دونوں کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر اتحاد کے خیال سے انہی لوگوں میں سے کسی کو منتخب کر لیا جائے.تو میں نے اسے کہا کہ میں نے تو حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بھی خلیفہ کے انتخاب میں اسی حد تک دخل دیا تھا اور کسی کا نام بالتصریح نہیں لیا تھا پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ اب میں کسی کا نام لے لوں گا اور اس کے متعلق کہہ دوں گا کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا.پھر اس میں میری مرضی کا بھی سوال نہیں.ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جب خلیفہ بنانا خدا نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے تو میرا اس میں دخل دینا کیسی حماقت ہو گی.پھر اس نے کہا کہ کیا آپ کو یہ اختیار حاصل ہے یا نہیں کہ آپ اپنے بعد کسی کو
$1940 338 خطبات محمود خلیفہ مقرر کر جائیں؟ میں نے کہا اختیار تو ہے مگر میں اس اختیار کو استعمال نہیں کرنا چاہتا اور آئندہ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ حالات کیا صورت اختیار کریں.غرض ان کی ساری کوشش اسی امر پر مرکوز رہی کہ میں یا تو اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کے متعلق کہہ دوں کہ میرے بعد وہ خلیفہ ہو گا یا دنیوی لحاظ سے ان کی نگاہ چونکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر پڑ سکتی تھی اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اگر کوئی رشتہ دار خلیفہ نہ ہوا تو شاید وہ ہو جائیں مگر میں نے انہیں کہا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں انتخاب کرتا پھروں.یہ خدا کا کام ہے اور میں تو محض سلسلہ کے ایک خادم کے طور پر کام کر رہا ہوں.غرض ہم میں سے کوئی بھی نہیں جسے اس قسم کا اختیار حاصل ہو.ہمیں جو حکومت حاصل ہے وہ شریعت کے ماتحت اولی الامر ہونے کے لحاظ سے ہے.پس جتنا امر ہو گا اتنی ہی حکومت ہو گی اور جو شخص اس حکومت کے دائرہ کو وسیع کرے گاوہ نظام کا دشمن قرار پائے گا.پس عام دنیوی معاملات میں دوسروں سے یہ کہنا کہ میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں نظارت کے جامہ کی بہتک ہے.وہاں وہ ناظر نہیں بلکہ ایک فرد کی حیثیت رکھے گا اور اسے دوسروں پر کوئی تفوق حاصل نہیں ہو گا.اسلام میں اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خلفاء پر دیوانی ناشیں ہوئیں اور انہیں قضاء میں جواب کے لئے بلایا گیا.اب فرض کرو کہ کسی کو میرے خلاف کوئی شکایت ہو مثلاً وہ کہے کہ انہوں نے میرا اتنا روپیہ دینا ہے مگر دیتے نہیں یا اتنا دیا ہے اور اتنا نہیں دیا تو اسے اس بات کا پوراحق ہے کہ وہ اگر چاہے تو قضاء میں میرے خلاف دعوی دائر کر دے.وہاں مجھے اسی طرح جواب دینا پڑے گا جس طرح ایک عام شخص قضاء کے سامنے جوابدہ ہو تا ہے لیکن جہاں خدا نے مجھے کوئی حق دیا ہے وہاں وہ میر احق چھین نہیں سکتا.” (از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) پس جماعت کے دوستوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ نظام کی برکتیں اس کی پیچیدگیوں کو حل کرنے سے حاصل ہوتی ہیں ورنہ نظام کے لفظ کا اندھا دھند استعمال خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے.جیسے ہمارے مختار نے ایک زمین کے معاملہ میں دوسرے سے کہہ دیا کہ تمہارا مقابلہ خلیفہ المسیح سے ہے حالانکہ وہاں خلافت کا کوئی سوال نہ تھا بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں
$1940 339 خطبات محمود میری طرف سے ایک سودا ہو رہا تھا اور ایسی صورت میں دوسرے فریق کا حق تھا کہ وہ اگر چاہتا تو زمین زیادہ قیمت پر دوسرے کو دے دیتا.اگر میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا ہوں تو میری حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے، اگر میں جماعت کو کوئی حکم دیتا ہوں تو میری حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے لیکن اگر میں اپنے لئے یا اپنے خاندان کے لئے کوئی زمین خرید تا ہوں تو اس میں میری حیثیت خلیفہ کی نہیں ہوتی اور دوسرا اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ سودے سے انکار کر دے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے تر کاری بکنے لگے تو ایک طرف سے میرا آدمی ترکاری لینے کے لئے چلا جائے اور دوسری طرف سے جماعت کا کوئی اور آدمی.اب ایسے موقع پر اگر میرا آدمی دوسرے سے یہ کہے کہ تم تر کاری مت خرید و کیونکہ خلیفہ المسیح یہ تر کاری لینا چاہتے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہو گی کیونکہ جیسے میرا حق ہے کہ ترکاری لوں اسی طرح اس کا حق ہے کہ وہ ترکاری لے.اگر وہ پہلے پہنچ جاتا ہے تو یقینا اسی کو حق ہے.گو بعض دفعہ شریفانہ رنگ میں ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا جاسکتا ہے.اگر اس کی ضرورت زیادہ اہم ہو گی تو میرا آدمی اپنا حق چھوڑ سکتا ہے اور اگر میرے آدمی کی ضرورت زیادہ ہو گی تو دوسرا اپنا حق چھوڑ سکتا ہے.پس جماعت کے عہدیداروں کو میں نصیحت کرتاہوں کہ ہر چیز کو اس کی حد کے اندر رکھو.اگر تم اسے حد سے بڑھا دو گے تو وہ چیز خواہ کتنی ہی اعلیٰ ہو بُری بن جائے گی.ایک شاعر کا ایک شعر ہے جو مجھے یاد تو نہیں رہا مگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ تل بڑی خوبصورت چیز ہے لیکن جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو مشا بن جاتا ہے.پس ہر چیز کو اس کی حد کے اندر رکھو.نظام کو بھی اور انفرادی معاملات کو بھی.اور کبھی اپنے عہدوں کا نام لے کر ذاتی معاملات میں دوسروں پر وو رعب نہ ڈالو.” (الفضل 27 جولائی 1960ء) پس جماعت کے عہدیداروں کو میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ رعب کا کوئی جائز طریق نہیں.محض ناظر ہونا تمہیں یہ حق نہیں دے دیتا کہ تم درست معاملات میں بھی لوگوں پر اپنی نظارت کا رعب ڈالو.رعب ناظر ہونے میں نہیں بلکہ اولی الامر ہونے اور شریعت کے مطابق چلنے میں ہے.اگر میری اس نصیحت کے بعد بھی کسی کے متعلق میرے پاس یہ
$1940 340 خطبات محمود رپورٹ پہنچی کہ اس نے اپنے عہدہ کا ناجائز استعمال کیا ہے تو میں اسے سخت سزا دوں گا.اس کے بعد میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے ایک اخبار میرے سامنے پیش کیا ہے جس میں ایک شادی کے سلسلہ میں ایک احمدی عورت کے یہ الفاظ شائع ہوئے ہیں کہ اس کی مثال عائشہ جیسی ہے.میں نے وہ اخبار خود بھی پڑھا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ یہ غلطی ہے مگر میں نے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہ سمجھی.جب جماعت کے اور دوستوں کے نوٹس میں بھی یہ بات آئی اور انہوں نے اس کے متعلق مجھے بعض خطوط لکھے تو انہیں پڑھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ جیسے دو چار آدمیوں کے دلوں میں یہ شبہات پید اہوئے ہیں ممکن ہے ایسے ہی شبہات بعض اور لوگوں کے دلوں میں بھی پید اہوئے ہوں اس لئے ضروری ہے کہ میں اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں.اگر اخبار میں یہ بات نہ آتی تو اس کی حیثیت بالکل اور ہوتی اور ذاتی طور پر اس کی اصلاح کی جاسکتی تھی مگر اب چونکہ یہ بات اخبار میں آگئی ہے اور اخبار میں آجانے کی وجہ سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کی نظروں سے یہ بات گزری ہو گی اس لئے میں اس بارہ میں کھلے طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ویسا ہی غلو ہے جیسے ناظر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ ناظر ہیں اس لئے دنیوی معاملات میں بھی وہ لوگوں کے حکمران ہیں حالانکہ ان معاملات میں وہ ویسی ہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے جماعت کا کوئی اور فرد ، چاہے وہ کیسی ہی ادنیٰ حالت کیوں نہ رکھتا ہو.اسی طرح اس معاملہ میں بھی غلو سے کام لیا گیا ہے.میرے پاس سال ڈیڑھ سال ہوا یہ بات پہنچی کہ ہماری جماعت کے دو مبلغ جن میں سے ایک ریٹائر ڈ ہیں اور دوسرے ابھی کام کر رہے ہیں مگر وہ دونوں ہی بڑی عمر رکھتے ہیں شادی کرنا چاہتے ہیں.جب ان کی یہ بات لوگوں میں پھیلی تو قادیان میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو گیا اور میرے پاس رقعوں پر رقعے آنے لگ گئے کہ بھلا بڈھے آدمیوں کو شادی کی کیا ضرورت ہے ، انہیں اس بات سے روکا جائے.میں نے انہیں جواب دیا کہ بڑھے آدمی کو تو شادی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اسے کسی ایسے مونس و غمگسار ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی خدمت کرے.بیوی صرف شہوانی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی بلکہ اور بھی
خطبات محمود 341 $1940 بہت سے کام سر انجام دیتی ہے.اگر شادی صرف شہوانی ضروریات کے لئے ہی کی جاتی ہے تو کیا لوگ یہ پسند کریں گے کہ ان کی بیویاں رات کو صرف ایک گھنٹہ کے لئے ان کے پاس آجایا کریں اور پھر چلی جایا کریں.اگر شہوانی ضرورتوں کے لئے ہی شادی ہوتی ہے تو پھر بیوی کا مرد کے پاس رات کو صرف ایک گھنٹے کے لئے آجانا کافی ہے بلکہ وہ لوگ جن میں یہ قوت نسبتا کم ہوتی ہے ان کے لئے تو صرف اتنا ہی کافی ہو سکتا ہے کہ ہفتہ میں ایک دفعہ بیوی ان کے پاس ایک گھنٹہ کے لئے آجائے مگر کیا کوئی بھی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی بیوی ہفتہ میں صرف ایک گھنٹہ کے لئے اس کے پاس آئے اور باقی اوقات میں اس کے پاس نہ رہے.اگر نہیں تو معلوم ہوا کہ شادی صرف شہوانی ضروریات کے لئے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.ہمارے ملک میں بھی جب کوئی شخص شادی کا خواہشمند ہو تو یہ نہیں کہا کرتا کہ شہوانی ضرورت کے لئے میں شادی کرنا چاہتا ہوں بلکہ وہ یہی کہا کرتا ہے کہ روٹی ٹک ” کی بڑی تکلیف ہے، کہیں رشتہ ہو جائے تو بڑی اچھی بات ہے.شہوانی ضرورت کا وہ نام تک نہیں لیتا.پس جبکہ ہمارے ملک میں شادی کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ روٹی ٹنگ کی تکلیف نہ ہو تو کیا بڑھوں کو روٹی ٹک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم غور سے کام لیں تو بڑھے کو تو روٹی ٹک کی زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ وہ اس بات کا محتاج ہو تا ہے کہ اس کے لئے ایسے نرم نرم بھلکے پکیں جو آسانی سے حلق سے نیچے اتر جائیں.اسی طرح وہ کبھی حلوہ چاہتا ہے اور کبھی کھچڑی اور خُشکا اور اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ گھر میں کوئی روٹی پکانے والی ہو.پس یہ ایسی احمقانہ بات تھی کہ جب میرے پاس پہنچی تو میں نے اسے نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا.بے شک اگر کوئی بڑھا کسی لڑکی پر دباؤ ڈال کر جبراً اس سے شادی کرتا ہے تو یہ قابل اعتراض امر ہے لیکن اگر ایک عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ایک بڑھے آدمی کے ساتھ آسانی سے گزارہ کر سکے گی تو اس سے زیادہ کمینہ اور کون شخص ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ بڑھے کو شادی کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ عورت کا کام ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ ایک بڑھے کے ساتھ گزارہ کر سکتی ہے یا نہیں اور اگر وہ اس بات کا فیصلہ کر لیتی ہے کہ وہ بڑھے کے ساتھ گزارہ کر سکتی ہے تو اسے شادی سے رو کنانہ صرف حماقت ہو گی بلکہ لوگوں میں بد اخلاقی اور بے دینی پیدا کرنے
$1940 342 خطبات محمود والی بات ہو گی.اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ تمام بڑھے شہوانی قوتوں سے محروم ہوتے ہیں.میں بیسیوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اٹھارہ اٹھارہ انیس انیس سال کی عمر کے ہیں مگر ان میں قطعاً شہوانی قوت نہیں اور میں بیسیوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ستر ستر یا اسی اسی سال کے ہیں اور ان کے شہوانی قومی نوجوانوں جیسے ہیں یا اچھے خاصے ہیں.میں نے طب پڑھی ہوئی ہے اور چونکہ کئی دوست مجھ سے طبی مشورہ لیتے رہتے ہیں اس لئے ایسے حالات میرے سامنے آتے رہتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض آدمی بظاہر بڑے مضبوط نوجوان دکھائی دیتے ہیں مگر طاقت مردمی ان میں بالکل نہیں ہوتی.بعض دفعہ ایسے آدمی شکل وصورت سے بھی پہنچانے جاتے ہیں مگر بعض دفعہ خود ہم بھی ان کی صورت کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں اور جب وہ بتاتے ہیں کہ ان میں ایسی کمزوری پائی جاتی ہے تو حیرت آتی ہے.اس کے مقابلہ میں کئی ایسے بڑھے ہوتے ہیں جو لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں مگر ان کے شہوانی قوی خوب مضبوط ہوتے ہیں اور ان کے بچے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں.پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ شہوانی قوی بڑھوں میں نہیں ہوتے بلکہ دنیا میں بعض امراض ایسے ہیں جن کے نتیجہ کے طور پر بڑھاپے میں انسان کے اندر شہوت بڑھ جاتی ہے.ایسی صورت میں یہ فیصلہ کر دینا کہ بڑھوں کو شادی نہیں کرنی چاہیے انہیں بد اخلاقی اور گناہ کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے.جو شخص تقویٰ شعار ہے وہ تو گزارہ کر لے گا مگر جس کے اندر تقویٰ کم ہو گا وہ ناجائز رنگ میں اپنی شہوات کو پورا کرے گا اور اس طرح نہ صرف اس کو بلکہ تمام قوم کو نقصان پہنچے گا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خالی شہوانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہی شادی نہیں کی جاتی بلکہ اس لئے شادی کی جاتی ہے کہ ہر انسان کو ایک مونس و غمگسار کی ضرورت ہوتی ہے یا پنجابی محاورہ کے مطابق روٹی ٹک کے لئے انسان شادی کرتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کی احتیاج جوانی میں ہی نہیں بلکہ بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے.پس میں نے لوگوں کی ان باتوں کو نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور میں نے کہا کہ اگر ہماری جماعت میں ایسی عورتیں موجود ہیں جو بڑھوں کے ساتھ گزارہ کر سکتی ہیں تو ہمیں تو خدا تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہئے کہ ان کو جس چیز کی ضرورت تھی اس کو خدا نے خود اپنے فضل سے پورا کر دیا نہ یہ کہ الٹا ہم ناراض ہوں اور ان کے رستے میں روڑے
$1940 343 خطبات محمود ย اٹکائیں.پس جہاں ان کے راستہ میں لوگوں کی طرف سے رکاوٹیں ڈالی گئیں انہیں میں نے نہایت ہی نا پسند کیا.وہاں میں نے اس بات پر بھی نہایت بُرا منایا کہ کوئی نوجوان لڑکی کسی بڈھے سے شادی کر کے اپنے آپ کو عائشہ قرار دے لے کیونکہ عائشہ اس وجہ سے عائشہ نہیں م الله سة کہ انہوں نے محمد صلی الی یوم سے شادی کی بلکہ اس وجہ سے عائشہ نہیں کہ رسول کریم صلی ا ہم نے اپنی امت سے فرمایا کہ تم آدھا دین عائشہ سے سیکھو.5 ہم تو کسی کو عائشہ کہلانے سے نہیں روک سکتے.اگر کوئی عورت ہمیں عائشہ کی طرح آدھا دین سکھا دے تو ہم تو سار ادن اسے عائشہ ، عائشہ کہتے رہیں گے لیکن جب کسی کو دین کی واقفیت نہ ہو اور نہ یہ رتبہ اور مقام اسے حاصل ہو اور پھر وہ عائشہ سے اپنی نسبت قرار دے دے تو یہ عائشہ کی ہتک تو کیا ہو گی البتہ اس بات کا ایک ثبوت ہو گا کہ ایسے معاملات میں نہایت دیدہ دلیری سے بات کی جاتی ہے در حقیقت ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں جن سے دشمن کو بعض دفعہ سلسلہ پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے اور خود بھی انسانی قلب پر زنگ لگ جاتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دوست کی کسی دوسرے دوست سے کسی مسئلہ پر بحث ہوئی.باتوں باتوں میں وہ نہایت جوش سے کہنے لگے کہ میں نے اپنی تمام زندگی تمہارے اندر گزاری ہے کیا تم مجھ پر کوئی بھی الزام لگا سکتے ہو ؟ یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے.میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے انہیں کہا کہ یہ معیار و محمدعلی ایم کی صداقت کا خدا تعالیٰ نے پیش کیا ہے کیونکہ آپ کی تمام زندگی لوگوں کے سامنے گزری تھی اور انہیں معلوم تھا کہ آپ کیا کیا کرتے تھے مگر تمہاری زندگی کا کتنے لوگ مطالعہ کرتے رہے ہیں.تمہارے تو شاید ہمسائے بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ تم کیسی زندگی بسر کرتے ہو ؟ پس جبکہ تمہاری زندگی کا آج تک کسی نے مطالعہ ہی نہیں کیا تو تم لوگوں کو کس طرح چیلنج دے سکتے ہو کہ میں نے اپنی زندگی تم میں گزاری ہے کیا تم کوئی الزام مجھ پر لگا سکتے ہو ؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے بیٹھا ہوا انسان کہنا شروع کر دے کہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں کالا ہوں.اب ہمیں کیا معلوم کہ وہ کالا ہے یا گورا ہے.وہ پردہ سے نکلے تو اس کے متعلق کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے.اسی طرح جس شخص کی زندگی تاریکی کے پردوں میں چھپی ہوئی ہو وہ یہ دعوی کس طرح کر سکتا
$1940 344 خطبات محمود الله ہے کہ مجھ پر کوئی شخص الزام عائد نہیں کر سکتا.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی ایم کی زندگی پبلک زندگی تھی اور آپ اس بات کا حق رکھتے تھے کہ لوگوں کو چیلنج کریں کہ تم میں سے کوئی مجھ پر الزام عائد نہیں کر سکتا.تو یہ غلو ہے جس سے عزت نہیں بڑھتی بلکہ دشمن کو خواہ مخواہ ہنسی کا موقع ملتا ہے.اگر کوئی عائشہ بننا چاہتی ہے تو وہ عائشہ کی طرح ہمیں آدھا دین سکھا دے.جس دن ہماری جماعت میں کوئی ایسی عورت پیدا ہو جائے گی جو ہم کو اسی طرح پڑھانے کے لئے تیار ہو جائے گی جس طرح عائشہ نے ابو بکر کو پڑھایا، جس طرح عائشہ نے عمر کو پڑھایا، جس طرح عائشہ نے عثمان کو پڑھایا، جس طرح عائشہ نے علی کو پڑھایا اور جب کوئی ایسی عورت پیدا ہو جائے گی جو خود مجھے آکر دین سکھا سکے گی اس دن میں اس کے متعلق کہہ دوں گا کہ وہ عائشہ ہے.آخر جب قرآن کہتا ہے کہ اے لوگو ! تم محمد علی ایم کی نقل کرو یہاں تک کہ تم محمد صلی للی نام کا کامل نمونہ بن جاؤ تو ہمارے لئے اس میں کون سی حرج کی بات ہے کہ ہم اپنی عورتوں سے کہیں کہ تم عائشہ بنو اور جب کوئی عائشہ بن کر دکھا دے تو اسے کہہ دیں کہ وہ عائشہ کی طرح ہو گئی.لیکن دین کے متعلق تو کوئی واقفیت نہ ہو اور محض ایک بڑھے سے شادی کر کے اپنے آپ کو عائشہ قرار دے لیا جائے یہ دین سے تمسخر اور استہزاء ہے.پھر بڑھے سے کسی نوجوان لڑکی کا شادی کرنا کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کی دنیا میں مثال نہ ملتی ہو.موجودہ زمانہ میں ہی دنیا میں ہزاروں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اور گذشتہ تیرہ سو سال میں تو اس کی لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں.قریب کی مثالوں میں سے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی مثال ہے.ان کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ بڑھاپے تک شادیاں کرتے چلے گئے تھے یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ وفات سے تین چار دن پہلے انہوں نے اپنے بعض شاگردوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں تم میری کوئی اور شادی کرا دو تا کہ سنت نبوی پر عمل ہو جائے.ان کے پاس دنیا نہیں تھی صرف دین تھا اور لوگ اسی وجہ سے اپنی لڑکیاں ان سے شادی کے لئے پیش کر دیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی شادی بھی اسی قسم کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر پچاس سال سے زائد اور ہماری والدہ بہت چھوٹی عمر کی تھیں.دلّی والے تو شہروں میں بھی بڑی عمر کے
$1940 345 خطبات محمود مردوں سے اپنی لڑکیوں کو نہیں بیاہتے سوائے اس کے کہ وہ بہت مالدار ہوں اور گاؤں کے رہنے والوں سے تو شادی کرتے ہی نہیں مگر پھر بھی یہ شادی ہو گئی.اسی طرح اور بھی کئی مثالیں مل سکتی ہیں اور تیرہ سو سال میں تو یقینا ایسی لاکھوں مثالیں موجود ہوں گی مگر ان لاکھوں میں سے کوئی بھی عائشہ نہیں کہلا سکتی کیونکہ عائشہ ان قربانیوں کی وجہ سے عائشہ بنی تھی جو اس نے دین کے سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کے لئے کیں اور وہ عائشہ اس وجہ سے کہلائی کہ امت محمدیہ نے اس سے نصف دین سیکھا.کیا ہی وہ سمجھ دار عورت تھی اور کیسا شاندار اس کا بلند علمی مقام تھا کہ حضرت جعفر کی شہادت پر جب رسول کریم صلی اللہ ہم نے ایک درد کی حالت میں فرمایا کہ جعفر پر تو رونے والا بھی کوئی نہیں تو صحابہ اپنے اپنے گھروں کو گئے اور انہوں نے عورتوں سے کہا کہ اپنے مُردوں پر رونا چھوڑو اور جعفر کے گھر جا کر روڈ کیونکہ رسول کریم صلی ال نیم نے فرمایا ہے کہ جعفر" پر تو رونے والا بھی کوئی نہیں.اس پر مدینہ کی تمام عور تیں جعفر کے گھر اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دیے.رسول کریم صلی ا ہم نے سنا تو فرمایا کیا ہوا؟ صحابہ نے عرض کیا آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفر پر رونے والا بھی کوئی نہیں ہم نے اپنی عورتوں کو جعفر کے گھر بھیج دیا ہے اور سب مل کر رورہی ہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اور ان کو روکو میرا اس سے یہ منشاء نہیں تھا.ایک صحابی گیا اور اس نے ان عورتوں کو رونے سے منع کیا مگر وہ کب رکنے والی تھیں.انہوں نے کہا تم ہمیں کون منع کرنے والے آئے ہو ؟ رسول کریم سلام نے خود یہ فرمایا ہے کہ جعفر" پر تو رونے والا بھی کوئی نہیں.اس نے جب دیکھا کہ وہ کسی طرح خاموش ہونے میں نہیں آتیں تو وہ پھر رسول کریم صلی ال نیم کے پاس آیا اور کہنے لگا يَا رَسُولَ الله وہ تو خاموش نہیں ہوتیں.آپ نے فرما یا ڈالو ان کے مونہوں پر مٹی.مطلب یہ تھا کہ تم انہیں ان کے حال پر رہنے دو.وہ خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی مگر اس صحابی نے اپنی جھولی میں مٹی بھر لی اور جا کر ان عورتوں کے منہ پر ڈالنا شروع کر دی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے سختی سے روکا اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ان عورتوں کے منہ پر مٹی ڈال رہے ہو.اس نے کہا رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا ہے کہ ان کے منہ پر مٹی ڈالو.آپ نے فرمایا تم نے رسول کریم صلی علی ایم کا مطلب نہیں سمجھا.آپ کا تو یہ مطلب ہے
$1940 346 خطبات محمود کہ اس بات کو جانے دو.خود ہی خاموش ہو جائیں گی مگر تم نے مٹی ڈالنی شروع کر دی ہے.6 پھر عائشہ وہ تھی جس نے تیرہ سو سال کے علماء کو یہ کہہ کر شکست دی کہ قُولُوا إِنَّه خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ 7 بے شک تم رسول کریم صلی الم کو خاتم النبیین کہو مگر یہ مت کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا...1 النساء: 60 ط وو از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرُ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْوَنِ أَذَاعُوْا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُوْلِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَشْبِطُوْنَهُ مِنْهُمْ - (النساء:84) 3 بخاری کتاب الصيام باب يقاتل من وراء الامام ويتقی به 4 بخاری کتاب الطلاق باب شفاعة النبي ولا على زوج بريرة البداية والنهاية لابن کثیر جز 3 صفحه 129 الطبعة الاولى 1996 مطبع مكتبة المعارف بيروت لبنان 6 سنن ابن ماجه کتاب الجنائز باب ما جاء في البكاء على الميت در منثور جلد 5 صفحه 386 الطبعة الاولى 1990 مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان
$1940 347 (25) خطبات محمود اذان کے پر حکمت کلمات میں کامیابی کے دو عظیم الشان گر (فرمودہ 20 ستمبر 1940ء بمقام شملہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں قرآن کریم کے دوسرے محاسن بیان کئے ہیں وہاں یہ بھی فرمایا ہے قرانًا عَرَبِيًّا 1 کہ یہ عربی قرآن ہے.عربی کے معنی فصیح کے بھی ہیں اور عربی زبان کا نام بھی ہے.کسی زبان میں کسی کلام کا اترنا بجائے خود کوئی فضیلت نہیں رکھتا.ایک بات کو پیش کرنے والے اور اس قوم کی جس کے سامنے وہ بات پیش کی جارہی ہے اگر وہی زبان ہو تو اس زبان میں بولنا مجبوری ہے.مثلاً انگریز انگریزی دان طبقے کے سامنے انگریزی میں تقریر کرے تو یہ کوئی خوبی کی بات نہیں.اسی طرح قرانًا عَرَبِيًّا میں اگر عربی کے لفظ کو عربی زبان کی حد تک دیکھیں تو یہ لفظ کوئی خاص خوبی نہیں رکھتا.اس لئے یہ لفظ یہاں فصاحت کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے لیکن عربی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے دونوں معنے ہیں اور یہ بھی ایک خوبی ہے.عربی میں نام خصوصیتوں کے لحاظ سے ہوتے ہیں اور محض علامت نہیں بلکہ وصف پر دلالت کرتے ہیں.اسی طرح عربی کا نام ہے یہ صرف نام نہیں بلکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک فصیح زبان ہے.یہ صرف عربی کی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے مطالب خود
$1940 348 خطبات محمود بیان کر دیتی ہے.عربی میں نام اپنے طبعی فعل کے علاوہ اس کی خصوصیت بھی بیان کر دیتا ہے.میرے ذہن میں آج کوئی خاص مضمون خطبہ کے لئے نہ تھا لیکن اذان سنتے ہوئے عربی زبان کی ایک ایسی ہی خصوصیت میرے ذہن میں آئی اور آج کے خطبہ کے لئے ایک مضمون میرے ذہن میں آگیا اور وہ مضمون حَيَّ عَلَى الصَّلٰوۃ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے متعلق تھا.عربی زبان میں جہاں نام با معنی ہوتے ہیں وہاں الفاظ کے معانی میں مختلف صلوں سے بھی وسعت پیدا کر دی جاتی ہے اور لطیف اور جدید مضمون پیدا کر دیئے جاتے ہیں.چنانچہ جب مؤذن نے حَيَّ عَلَى الصَّلوة حَيَّ عَلَى الفَلَاح کہا تو مجھے خیال آیا کہ عربی میں فاصلے کے لئے ایک الی کا لفظ ہوتا ہے مگر یہاں علی آیا ہے.چنانچہ عربی میں جب کہنا ہو کہ میں لاہور گیا تو ذَهَبْتُ إلى لا هُورَ يَا سَا فَرْتُ اِلى لاھور کہیں گے اور اِلی کا صلہ استعمال کریں گے.یا کہنا ہو میں تیرے پاس آیا جِئْتُ اِلَیگ کہیں گے.پس مجھے خیال آیا کہ بظاہر حق کے بعد الی کا صلہ استعمال ہونا چاہیے لیکن ہو تا علی کا صلہ ہے.آخر عربوں نے یہ تغیر کیوں کیا اور آنے کے لئے جو اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کو چھوڑ کر اذان میں یہ لفظ کیوں رکھا گیا جس کا صلہ علی استعمال ہوتا ہے ؟ یہ سوال پیدا ہوتے ہی میرے دل میں اس کا یہ جواب آیا کہ علی الی سے زیادہ قرب پر دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پیدا کرتا ہے کہ گویا آنے والا اس چیز پر جا پڑا جس کے پاس وہ جانا چاہتا تھا.اور یہ حالت کہ انسان دوسری شے پر جاپڑے جلدی، شوق اور بے تابی کی وجہ سے ہوتی ہے.پس نماز چونکہ ایسی اعلیٰ درجہ کی شے ہے کہ صرف آنے کی طالب نہیں بلکہ یہ چاہتی ہے کہ جس طرح کوئی عاشق محبوب کے لئے بے قرار ہو کر دوڑ پڑتا ہے اسی طرح نماز کے لئے بے تاب ہو کر آؤ اور دوڑتے ہوئے آؤ جیسے کبھی ماں دیر سے اپنے پیارے بچے کو ملتی ہے یا باپ تو وہ صرف ملتے ہی نہیں بلکہ دوڑ کر دوسرے کے سینے پر جا پڑتے ہیں.وہ صرف گلے ملنا نہیں ہو تا بلکہ چمٹ جانا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو جذب کر لینے کی کوشش ہوتی ہے.وہی کیفیت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نماز کے متعلق بندہ کے دل میں پید اہو اور اس وجہ سے اذان میں اور الفاظ کی بجائے جو بلانے کے لئے آتے ہیں حی علی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ
$1940 349 خطبات محمود.اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان درمیانی روکوں کو نہ دیکھیں اور بے پرواہ ہو کر نماز کی طرف دوڑے چلے آئیں.یہ شوق ہے جو اذان سکھاتی ہے.مؤذن صرف نماز کے لئے نہیں بلا تا بلکہ بے تابی اور درمیانی روکوں سے بے پرواہ ہو کر دوڑ پڑنے کی تلقین کرتا ہے.یہ وہ ولولہ ہے جو اسلام مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے.اذان میں جس جوش کا حکم دیا ہے اگر اس طرح نہ کیا جائے تو وہ حقیقی نماز نہ ہو گی.چاہیئے کہ شوق سے (نہ کہ جسمانی طور پر دوڑ کر ، جسمانی طور پر دوڑ کر نماز کے لئے آنا منع ہے کیونکہ اس سے سانس پھول جاتا ہے اور انسان نماز کی طرف پوری توجہ نہیں کر سکتا.نیز جو دوڑ کر آتا ہے پہلے گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور عین وقت پر نماز کے لئے چلتا ہے اور یہ شوق کی زیادتی پر نہیں بلکہ شوق کی کمی پر دلالت کرتا ہے) گرتے پڑتے پہنچو اور نماز کو لے لو.اس وقت سب کچھ بھول جاؤ اور دماغ میں اور چیزوں کی طرف سے تعطل پیدا ہو جائے.پس عربی کی یہ خصوصیت ہے کہ الفاظ چھوٹے ہوتے ہیں مگر مطالب وسیع ہوتے ہیں اور یہی حال قرآن شریف کا ہے بلکہ قرآن کریم نے تو تمام اچھے الفاظ چن لئے ہیں.جس طرح تلوار شمشیر زن کے ہاتھ میں کام کرتی ہے اسی طرح عربی میں سے بھی جو الفاظ خدا تعالیٰ نے چن لئے وہ نہایت وسیع مطالب کے حامل ہیں.ایک مثال ہے کہ ایک شمشیر زن نے ایک ہی وار میں گھوڑے کے چاروں پاؤں اڑا دیئے.اس ملک کے شہزادے نے جو دیکھا تو سپاہی سے تلوار مانگی کہ مجھے یہ دے دو.سپاہی نے نہ دی.شہزادے نے بادشاہ سے شکایت کی.بادشاہ غصے ہوا اور سپاہی نے تلوار دے دی لیکن جب شہزادے نے اس تلوار کو استعمال کیا تو گھوڑے کے پاؤں پر اثر بھی نہ ہوا.یہی فرق دوسرے لوگوں کی عربی اور قرآن کریم کی عربی میں ہے.بے شک عربی زبان اپنی ذات میں اعلیٰ خصوصیات رکھتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں آکر وہ خصوصیات ایسی شاندار ہو گئی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس سے اتر کر ان الہامات کا درجہ ہے جو قرآن کریم کے علاوہ محمد رسول اللہ صلی اللی کم پر نازل ہوئے ہیں جیسے اذان ہے.حَيَّ عَلَى الصَّلوة کے بعد اذان میں حَيَّ عَلَى الْفَلَاح آتا ہے جس کے معنی ہیں کامیابی کی طرف جلدی آؤ، والہانہ آؤ، گرتے پڑتے آؤ.ان الفاظ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کامیابی کس طرح حاصل کر سکتے ہیں.بعض لوگ کام کو کل پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ مخالف
$1940 350 خطبات محمود جلدی کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو کل پر نہیں ڈالتا کیونکہ اسے ناکامی کا خوف ہو تا ہے.وہ یقینا اس کے رستے میں روکیں ڈالے گا.آجکل کس زور سے جنگ ہو رہی ہے.ہٹلر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارے بادشاہوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دیر سے تیاریاں کرتے رہتے تھے اور مخالف بھی ان تیاریوں کو دیکھ کر تیاری کر تا تھا.حالانکہ تیاری فوری ہونی چاہیئے اور حملہ اچانک ہونا چاہیئے.اسی خیال کے ماتحت اس نے اپنی قوم کو ترقی دی.چنانچہ 1934ء سے لے کر پانچ سال کے عرصہ میں اس قدر جلدی ترقی دی کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.اب وہ چاہے ناکام ہو جائے لیکن اس کی تیاری ایسی ہے اور حملہ ایسا اچانک ہے کہ آج الہی علم کے بغیر کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انگریز جیتیں گے.ایک معمولی انسان اٹھا اور کس طرح جلدی جلدی اس نے اپنی قوم کو تیاری کرادی.حَيَّ عَلَى الْفَلاح میں یہی بتایا گیا ہے کہ اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو جلدی کرو.آج کا کام کل پر نہ چھوڑو.بعض دفعہ شیطان وسوسہ ڈال دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے سے روک دیتا ہے اور اس طرح انسان کئی نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے.پس کامیابی کے حصول کا ایک گر یہ ہے کہ فوری طور پر نیکی کرو.جب خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے اس گر پر عمل کرناضروری ہے تو بندوں کے ساتھ سلوک میں اس سے بھی زیادہ احتیاط سے اس گر کے استعمال کی ضرورت ہے.چنانچہ مسلمان چاہتے تھے کہ مکہ پر فتح پائیں اور کفار بھی مسلمانوں کو گرانا چاہتے تھے اور وہ بھی تیاریاں کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا جدھر سے بھی تم نکلو اپنی توجہ ملکہ کی طرف رکھو 2 یعنی اگر فتح پانا چاہتے ہو تو اپنے خیالات کا مرکز فتح مکہ بنالو.تب جو جوش تمہارے اس ارادہ میں پید اہو گا تم کو فاتح بنادے گا.مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غالب آئے اپنی قربانیوں اور ایثار کی وجہ سے.انہیں مقصود کی محبت تھی وہ بے پرواہ ہو کر لڑے، بے تاب اور والہانہ جوش کے ساتھ لڑے اور غالب آئے.پس اسلام سکھاتا ہے کہ وقت ضائع نہ کرو اور جب کوشش کرو تو بے تابانہ کرو، والہانہ کرو اور بے پرواہ ہو کر کرو.اور اس بات کو مت بھولو کہ دشمن بھی تیاری کر رہا ہے.
$1940 351 خطبات محمود یہ صرف سیاسی مسئلے نہیں بلکہ مذہبی بھی ہیں.تبلیغ میں سست ہونے سے بعض دفعہ نتیجہ خراب ہو تا ہے اور ایک شخص احمدیت کے قریب پہنچ کر ذرا سی ستی سے دور جا پڑتا ہے اور بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ مخالف ہو جاتا ہے.نواب سیف اللہ خاں صاحب جو ڈیرہ اسماعیل خان کے رئیس تھے ، اب فوت ہو گئے ہیں ایک دفعہ جلسہ پر آئے مجھ سے بھی ملاقات ہوئی اور باتیں ہوتی رہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر صداقت کھل گئی.ایک دن ان کے میزبان میرے پاس آئے اور پوچھا کہ نواب صاحب نے بیعت کر لی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں.انہوں نے بتایا کہ وہ تو مجھے کہہ کر آئے تھے کہ میں بیعت کرنے جارہا ہوں.چنانچہ انہوں نے جب ان سے پوچھا تو نواب صاحب نے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا تسلیم کرتا ہوں اور ان کی ہر بات مانتا ہوں اور بیعت کرنے کے لئے گیا تھا لیکن فلاں شخص جو میرے ساتھ آیا ہے اس نے یاد دلایا کہ وہاں کے لوگوں نے چلتے ہوئے کہا تھا کہ قادیان میں جادو کیا جاتا ہے.اب اگر ہم نے بیعت کر لی تو لوگ اس عقیدہ میں پکے ہو جائیں گے.اس وجہ سے میں نے بیعت ملتوی کر دی ہے.واقعہ یہ تھا کہ نواب صاحب چونکہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھ رہے تھے مخالفوں نے اس سے ڈر کر کہ کہیں بیعت نہ کر لیں ساتھ ایک ٹھیکیدار کر دیا جو ہوشیار آدمی تھا.اس نے یہ بہانہ بنا کر ان کو بیعت سے روک دیا.چنانچہ وہ قادیان سے بغیر بیعت کئے چلے گئے اور آہستہ آہستہ ان کے دل پر زنگ لگ گیا اور وہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی نعمت سے محروم رہ گئے.اگر وہ حَيَّ عَلَی الْفَلَاح پر عمل کرتے یا کوئی ان کا دوست انہیں اس پر عمل نہ کرنے کے خطرات سے آگاہ کر دیتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا.عام تجربہ بھی بتاتا ہے کہ جن علاقوں میں تبلیغ شروع کی جاتی ہے پہلے پہلے لوگ جلدی جلدی احمدیت میں داخل ہوتے ہیں لیکن بعد میں مخالفین اپنی شرارتوں سے روکیں ڈال دیتے ہیں.پس حَيَّ عَلَى الفلاح پر عمل کرتے ہوئے چاہیئے کہ جلدی کی جائے اور دشمن سے پہلے ہی سارا کام کر لیا جائے اور وہ علاقہ فتح کر لیا جائے.علاقہ ملکانہ میں بھی ہماری کامیابی اسی میں تھی.اگر اُس وقت میں تین چار مولویوں کو بھیج دیتا تو کچھ کام نہ ہو سکتا.میں نے جماعت
$1940 352 خطبات محمود سے واقفین کا مطالبہ کیا اور سینکڑوں نے وقف کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ چھ ماہ میں آریہ ناکام ہو گئے اور صلح کی تجویزیں کرنے لگے.گاندھی جی نے برت رکھ لیا.ان کی زندگی کو بچانے کے لئے دہلی میں ایک کانفرنس بلائی گئی کہ آپس میں صلح ہو جانی چاہیئے.ہمارے کسی آدمی کو نہ بلایا گیا.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری جو آب سخت مخالف ہیں میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ جماعت کی سخت ہتک ہے.ہمارا کوئی آدمی انہوں نے نہیں بلایا ان کو توجہ دلانی چاہیئے.میں نے کہا کہ کبھی خود بھی عزت کروایا کرتے ہیں.وہ ہمارے بغیر صلح نہیں کر سکتے وہ آپ کو بھی بلائیں گے.چنانچہ اُسی دن یا دوسرے دن مولانا ابوالکلام صاحب آزاد ، حکیم اجمل خان صاحب اور ڈاکٹر انصاری صاحب کی تار آئی کہ اپنا نمائندہ بھجوائیں.مغربی لوگوں نے ایک طریق اصلاح ایجاد کیا ہے جسے STATUS CO کہتے ہیں.یعنے آئندہ لڑائی بند کر دی جائے اور جو کچھ ہو گیا ہے بس اس کو بڑھایا نہ جائے.مجھے معلوم تھا کہ یہ اسی قسم کی صلح کی درخواست پیش کریں گے کہ آئندہ کے لئے دونوں اقوام تبلیغ بند کر دیں.حالانکہ اس عرصہ میں آریوں نے ہمیں ہزار مسلمانوں کو ہندو بنا لیا تھا.میں نے اپنے نمائندوں کو بتایا کہ وہ یہ تجویز پیش کریں گے لیکن تم یہ کہنا کہ اس وقت تک ہندو ہیں ہزار مسلمانوں کو ہندو بنا چکے ہیں.پس سٹیٹس کو یہ نہیں کہ آج صلح کی جائے.STATUS CO یہ ہے کہ جو ہندو ہو چکے ہیں ان کو دوبارہ مسلمان کر دیا جائے.پھر بے شک صلح کر لیں.لیکن جب تک وہ آریہ ہیں ہم وہاں رہیں گے.چنانچہ اس کا نفرنس میں شردھانند جی نے یہی تجویز پیش کی.جمعیۃ العلماء کے ممبروں نے کہا کہ واہ واہ بالکل درست تجویز ہے مگر ہمارے آدمیوں نے وہی کہا جو میں نے سمجھایا تھا اور کہا کہ اس کا تو مطلب یہ ہے کہ جو چھاپہ مارے وہ فائدے میں رہے اور جو شرافت سے سلوک کرے وہ نقصان اٹھائے.اُس وقت شردھانند جی نے ایک فقرہ کہا جو ہماری جماعت کے لحاظ سے ایک تاریخی فقرہ ہے.جب مفتی کفایت اللہ صاحب نے کہا کہ احمدیوں کو جانے دو ان کی پرواہ نہ کرو ہمارے ساتھ صلح کر لو تو شردھانند جی نے جواب میں کہا کہ مجھے آپ کے ہزار مبلغ کا ڈر نہیں لیکن جب تک احمدیوں کا ایک بھی مبلغ وہاں ہے ہم صلح نہیں کر سکتے.چنانچہ ہماری ملکانے میں کوشش کے نتیجہ میں چار پانچ ہزار واپس آگئے.یہ ہمارے
خطبات محمود 353 $1940 فوری حملے کا نتیجہ تھا.چنانچہ ان کا پروگرام تھا کہ ملکانے سے پھر وہ پنجاب میں بھی آتے کیونکہ گوڑ گانواں وغیرہ میں بھی اس قسم کے لوگ آباد ہیں لیکن آئندہ ملکانے کی تحریک بھی بند ہو گئی اور ادھر کا رُخ بھی وہ نہ کر سکے.پس حَيَّ عَلَى الفَلاح میں بتایا گیا ہے کہ صرف تدابیر کافی نہیں بلکہ جلدی سے جلدی کام شروع کرنا چاہیئے اور زور کے ساتھ کرنا چاہیئے.یہ دو گر ہیں جن پر اگر مسلمان قائم ہو جائیں تو کامیاب ہو جائیں.الغرض خدا تعالیٰ نے بتایا کہ عبادت رغبت سے کرو، سستی نہ کرو اور جب دینی ترقیات کے لئے کوشش کرو تو بے تابی سے، جلدی سے اور والہانہ طور پر کرو.اس کو ایک لمبے عرصے پر نہ پھیلاؤ ہو سکتا ہے کہ شیطان تمہیں قابو کرلے اور تم نیکیوں سے محروم ہو جاؤ.یہ کامیابی کے دو عظیم الشان گر ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.“ (الفضل 15 اکتوبر 1940ء) 1 يوسف: 3 2 مِنْ حَيْثُ خَرَجُتَ فَوَلٍ وَجُهَكَ شَطْرَ المَش الْحَرَامِ.(البقرة:151)
$1940 354 (26) خطبات محمود غیر مبائعین اور منافقین (فرمودہ18اکتوبر 1940ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گو ابھی کمزوری کی وجہ سے میری لاتیں کانپ رہی ہیں اور میں سہولت کے ساتھ جمعہ کے لئے نہیں آسکتا تھا لیکن چونکہ یہ رمضان کے دن ہیں اس لئے اس مبارک مہینہ کے ایک اور جمعہ کو ضائع کرنا میری طبیعت نے پسند نہ کیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ جس طرح بھی ہو جمعہ خود جا کر پڑھاؤں.انسان کے ساتھ بیماری اور صحت کے دور لگے ہوئے ہیں.وہ بیمار بھی ہوتا ہے اور تندرست بھی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی اس سے خالی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اولیاء بھی اس سے خالی نہیں.اسی طرح صلحاء بھی اس سے خالی نہیں اور اشقیاء بھی اس سے خالی نہیں.لیکن یہی بیماریاں جب ایک مومن پر آتی ہیں تو اس کے اور اس کے دوستوں کے لئے فائدہ کا موجب بن جاتی ہیں اور یہی بیماریاں جب غیر مومن پر آتی ہیں تو اس کے اور اس کے دوستوں کے لئے ابتلاء اور ٹھو کر کا موجب بن جاتی ہیں.مجھے ان ایام میں کئی خطوط باہر سے بھی آئے ہیں اور یہاں سے بھی آئے ہیں.باہر سے جو خط آئے ہیں ان میں سے بعض میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ غیر مبائعین آجکل میرے متعلق یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ان کی عمر باون سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ اس عرصہ میں وہ ضرور فوت ہو جائیں گے.زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے
$1940 355 خطبات محمود قبضہ میں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر غیر مبائعین یہ کہتے ہیں تو بہتر ہے وہ اس کو تحریر میں لے آئیں.پھر اللہ تعالیٰ ان کو جھوٹا کر کے دکھلا دے گا.اسی طرح بعض منافقوں کی نسبت مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے میرے متعلق کہا کہ اس بیماری سے یہ اب نہیں اٹھیں گے.میں نے بتایا ہے کہ بیماری اور صحت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اسی کے مصالح کے ماتحت آتی ہے.دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو کبھی بیمار نہیں ہوا اور دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو موت سے محفوظ رہ سکتا ہو.لوگ بیمار بھی ہوتے چلے آئے ہیں اور مرتے بھی چلے آئے ہیں بلکہ دنیا میں صرف ایک ہی انسان ایسا تھا جسے زندہ سمجھا جاتا تھا مگر ہماری جماعت نے تو اس کی موت پر بھی زور ہی دیا ہے لیکن باوجود اس کے ان منافقین کو خدا نے یہ خوشی کا موقع نہ دیا اور ان کے دعوے یونہی چلے گئے.اس کے بعد میں آج کے خطبہ میں ان روزوں کے متعلق اعلان کرنا چاہتا ہوں جو ہر سال رمضان کے علاوہ ہماری جماعت کی طرف سے رکھے جاتے ہیں.میرے منہ سے جو بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ رہا کچھ زیب تو نہیں دیتا کہ میں روزوں کی تحریک کروں مگر جماعتی نظام کے لحاظ سے ایک قوم کے لیڈر کو بعض دفعہ ایسے موقع پر بھی حکم دینا پڑتا ہے جبکہ وہ خود معذور ہوتا ہے.پس میں اللہ تعالیٰ سے اپنی ان خطاؤں کے متلق عفو کی درخواست کرتے ہوئے جن کی وجہ سے مجھے یہ روزے چھوڑنے پڑے ہیں اعلان کرتا ہوں کہ اس دفعہ بھی اِنْشَاءَ الله تعالی رمضان کے بعد شوال کے مہینہ میں سات روزے رکھیں جائیں گے.( یہ روزے سابق کی طرح ہر پیر اور جمعرات کو رکھے جائیں گے اور عید کے بعد پہلے پیر سے شروع ہوں گے) ان روزوں میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کے دوستوں کو میں تاکید کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں کہ دنیا کی موجودہ فضا جو جنگ کی وجہ سے بگڑی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بد نتائج سے اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے.جو لوگ حقائق سے ناواقف ہیں وہ اس امر کو نہیں جانتے کہ حالات کیسارنگ اختیار کر چکے ہیں مگر جو حقائق سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں.بہ نسبت ان حالات کے جو سطح پر نظر آتے ہیں اور جیسا کہ میں
$1940 356 خطبات محمود نے گزشتہ سال ستمبر یا اکتوبر کے خطبہ میں بیان کیا تھا ظاہر میں نظر آنے والے اتحادوں سے بہت زیادہ اندرونی اتحاد ہیں اور پھر ان میں بھی تغیر ہوتارہتا ہے.کبھی ایک سے اتحاد ہوتا ہے ور کبھی دوسرے سے.اگر یہ تمام اندرونی سازشیں دنیا کے سامنے آجائیں تو لوگ حیران ہو اور جائیں اور وہ گھبر اکر کہہ اٹھیں کہ نہ معلوم اب کیا ہونے والا ہے..اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بارہ میں بہت سی غیب کی خبریں بتائی ہوئی ہیں.جن میں سے اکثر میں اپنے بعض دوستوں کے سامنے بیان کر چکا ہوں اور ان میں سے بعض باتیں پوری بھی ہو چکی ہیں مگر یہ موقع ان کے بیان کرنے کا نہیں.اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بہت سے خطرات پیدا ہو چکے ہیں اور ان خطرات سے ہندوستان بھی محفوظ نہیں بلکہ بہت زیادہ ان کی زد میں ہے.اس وقت قومیں گویا جوئے کی بازی لگارہی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر انہیں جان بچانے کے لئے بعض ممالک دوسروں کے حوالے کرنے پڑیں تو بھی اس میں انہیں دریغ نہیں ہونا چاہیئے.حکومتیں آپس میں ملکوں کی تقسیم کر رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس ملک کا فلاں حصہ تم لے لو اور ہماری مدد کرو، فلاں حصہ وہ لے لے اور وہ ہماری مدد کرے.گویا انسانوں کی جانیں اور ملک اس وقت ایسی ہی حیثیت رکھتے ہیں جیسی دونیوں اور چوٹیوں کی حیثیت ہوتی ہے بلکہ اس جرات اور دلیری سے تو کوئی شخص چوٹی بھی اپنے ہاتھ سے دوسرے کو نہیں دیتا جس جرات اور دلیری سے آج ملکوں، جانوں اور عزتوں کی قربانی پیش کی جارہی ہے.ایسے موقع پر ہندوستان جس کے پاس نہ تو کافی سامانِ جنگ ہے اور نہ اس میں مقابلہ کی طاقت اور ہمت ہے.اس کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے.جن ممالک کے پاس فوجیں ہیں، جن کے پاس ہوائی جہاز ہیں، جن کے پاس بحری جہاز ہیں، جن کے پاس خشکی اور تری کی فوجیں ہیں، جن کے پاس تو ہیں اور بڑے بڑے ٹینک ہیں وہ بھی آج تقسیم ہو رہے ہیں.پھر اس بنتے اور بے کس ملک کے متعلق کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ کر سکے گا.یہاں کے اکثر ہندو گائے کو پوجتے ہیں اور گائے کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے جو شخص بھی کان سے پکڑلے وہ اس کے ساتھ چل پڑتی ہے اور جس قیمت پر بھی وہ فروخت کرنا چاہے اس قیمت پر وہ فروخت کر دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں شاید اسی شرک کی اللہ تعالیٰ نے ہندوستانیوں کو یہ سزا دی ہے اور
$1940 357 خطبات محمود شاید اسی وجہ سے اسکی مثیت نے فیصلہ کیا کہ تم چونکہ گائے کو ہمارا شریک ٹھہراتے ہو اس لئے ہم تمہیں بھی گائے کی طرح بنا دیتے ہیں.جاؤ اور دنیا میں دوسروں کے ہاتھ بکتے پھرو.اگر ہندوستان اس شرک سے پاک ہوتا اور اگر یہاں کے رہنے والے عقل سے کام لیتے اور گائے کی پرستش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتے تو ممکن تھا اللہ تعالیٰ گائے کی بجائے انسانیت کا کوئی اچھا مر تبہ انہیں عطا کر دیتا مگر چونکہ انہوں نے شرک کیا اس لئے جس طرح گائے بکتی پھرتی ہے اسی طرح ہندوستانی بکتے رہتے ہیں.اور جس طرح گائے دوسروں کو تو دودھ دیتی ہے اور خود بھوسہ کھا کر گزارہ کرتی ہے اسی طرح ہندوستان سے دوسری قومیں تو فائدہ اٹھارہی ہیں اور ہندوستانیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.پس ہندوستان کے لئے بہت زیادہ خطرات ہیں اور اس کے پاس اپنی حفاظت کے پورے سامان بھی موجود نہیں.اس کا پتہ اس امر سے لگ سکتا ہے کہ وہ سامانِ جنگ جن کے متعلق ہندوستانی ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ ان کے تیار کرنے میں گورنمنٹ اسراف سے کام لے رہی ہے آج اتنے حقیر نظر آتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے گویا گورنمنٹ نے ا بھی ہندوستان کی حفاظت کے لئے کچھ بھی نہیں کیا.اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس سامانِ حرب کی اس قدر قلت ہے کہ اگر کوئی بڑی طاقت اس پر حملہ آور ہو تو دو دن بھی یہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ مہلت دے دے اور لڑائی لمبی ہو جائے اور وہ ہوائی جہاز جو امریکہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ حاصل ہو جائیں.اسی طرح ٹینک اور ہوائی پائلٹ وغیرہ تیار ہو جائیں تو اور بات ہے ورنہ موجودہ حالت تو ایسی ہے کہ ہندوستان صرف انگلستان کے رُعب کی وجہ سے بچا ہوا ہے ورنہ اگر اس ملک پر کوئی قوم حملہ آور ہو تو یہ اس کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتا.دعا کرو کہ اللہ تعالٰی انگریزوں کو موجودہ مصیبت سے نجات دے.پس نادان ہیں وہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ آج انگلستان سے الگ ہو کر ہندوستان کوئی طاقت حاصل کر سکتا ہے.آج ہندوستان اور انگلستان کی قسمت ایک ہی پلڑے میں ہے.ایک جھکا تو دوسرا بھی جھکے گا اور اگر ایک اونچا ہوا تو دوسرا بھی اونچا ہو گا.یہ سوال نہیں کہ ان حالات کی ذمہ داری کس پر.
$1940 358 خطبات محمود ذمہ داری کسی پر ہو موجودہ صورت حالات یہ ہے کہ ہندوستان کی حفاظت کی ذمہ داری انگلستان پر عائد ہے اور اس جنگ میں انگلستان کی کمزوری ہندوستان کے لئے سخت نقصان رساں اور مہلک ثابت ہو سکتی ہے.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ وہ سامان پیدا کرے جو اسلام کے لئے، احمدیت کے لئے اور خود ہمارے ملک کے لئے مفید ہوں.اسی طرح وہ اس بات کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان مصیبت کی گھڑیوں میں انگلستان کی مدد کرے کیونکہ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے میں یہ نہیں جانتا کہ تمہاری عقل بھی یہی کہتی ہے یا اس کے خلاف.اس لئے میں “ہماری عقل ” کی بجائے “میری عقل ” کے الفاظ استعمال کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے مجھے انگلستان مظلوم نظر آتا ہے اور جو اس کے مقابل میں ہیں وہ ظالم نظر آتے ہیں.ممکن ہے میری یہ بات غلط ہو.اصل حالات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میری عقل اس وقت تک یہی کہتی ہے کہ انگریز مظلوم ہیں.پس جن جن دوستوں کی عقل بھی یہی کہتی ہو کہ جرمنی ظالم ہے اور برطانیہ مظلوم ان سے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ وہ جہاں یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مذہب ہمارے سلسلہ اور ہمارے دین کی حفاظت کرے اور اس جنگ کو اس کی ترقی کا موجب بنائے وہاں وہ انگلستان کے لئے بھی جس سے ہندوستان کی قسمت وابستہ ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے اور موجودہ مشکلات سے اسے نجات بخشے.دعا کوئی ایسا امر نہیں جو حکما کر ایا جاسکے.دنیا میں سے کوئی شخص تمہارے دل سے یہ آواز نہیں نکلوا سکتا خواہ میں ہی ہوں یا کوئی اور بلکہ اللہ تعالیٰ بھی اس قسم کی آواز کسی کے دل سے نہیں نکلواتا جب تک انسان اس کے سامنے اپنے آپ کو گلی ڈال نہ دے.یہ بات صرف تمہارے دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور تم اس امر کا اختیار رکھتے ہو کہ چاہو تو دعا کرو اور چاہو تو نہ کرو.پس میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص دعا کرے.جو دعا اسلام اور احمدیت کے متعلق ہے اس کے متعلق تو میں یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی
$1940 359 خطبات محمود ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جو وہ دعا مانگنے کے لئے تیار نہ ہو کیونکہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ اسلام اگر تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے، احمدیت کے مٹنے کا اگر امکان ہے تو بے شک وہ مٹ جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں تو وہ احمدی ہی نہیں اور نہ ایسے شخص کا احمدی کہلانا اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہے.پس میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اسلام اور احمدیت کے لئے بھی دعا مانگنے کے لئے تیار نہ ہو.اسی طرح انسان کی خود غرضی کو دیکھتے ہوئے میں یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہندوستان اگر تباہ ہو تا ہے تو بے شک ہو جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں.پس ان معاملات کے متعلق میں یہ نہیں کہتا کہ اگر تم مجھ سے متفق ہو تو دعا کرو کیونکہ ان امور کے متعلق اس لئے نہیں کہ میں حکم دیتا ہوں اور تم میر ا حکم ماننے پر مجبور ہو بلکہ اس لئے کہ یہ دعا خود بخود تمہارے دل سے نکل رہی ہو گی.(اور اگر تم میں اتنی عقل و خرد بھی نہیں کہ تم اسلام اور احمدیت اور اپنے ملک کے مفاد کو سمجھ سکو تو پھر تم میرے مخاطب نہیں بلکہ ایسی حالت میں تم کسی کے بھی مخاطب نہیں ہو سکتے.نہ میرے ، نہ خدا اور اس کے رسول کے کیونکہ خدا بھی انسان کو اسی وقت مخاطب کرتا ہے جب اس کے اندر عقل موجود ہو) لیکن دوسرے حصہ کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اگر تم مجھ سے متفق ہو تو یہ دعا بھی کرو کہ اللہ تعالی انگریزی قوم کو موجودہ مصیبت سے نجات دے.ممکن ہے بعض سیاسی نقطۂ نگاہ سے یہ خیال کرتے ہوں کہ انگریزوں کی شکست اس وقت ہندوستان کے لئے مفید ہے اور گو میں انہیں غلطی پر ہی سمجھوں گا مگر میں ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ وہ برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کریں کیونکہ کسی کے منہ کی دعا خدا تک نہیں پہنچ سکتی جب تک دل کا درد اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور میں یہ تماشا نہیں کرانا چاہتا کہ کسی کا دل تو برطانیہ کی کامیابی کو نہ چاہے اور منہ سے وہ اسکی کامیابی کے لئے دعا کر رہا ہو.مگر جو اس بارہ میں مجھ سے متفق ہوں ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی اشاعت انگریزوں کی حکومت میں زیادہ عمدگی کے ساتھ ہو سکتی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کریں.اس قسم کی حکومتیں اور بھی ہیں یہ نہیں کہ انگریز ہم سے کوئی خاص
$1940 360 خطبات محمود رعایت کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہم سے الجھ جاتے ہیں لیکن باوجود اس کے ان کے ممالک میں تبلیغ زیادہ آسانی سے ہو سکتی ہے کیونکہ ان میں سے کچھ تو مذہب سے بیگانہ ہیں اور اس وجہ سے مذہبی معاملات میں زیادہ دخل نہیں دیتے اور کچھ لوگ واقع میں وسیع الحوصلہ ہیں اور روادار ہیں.پس ان کی مذہب سے یہ بے اعتنائی اور بعض کی رواداری ہمارے کام آجاتی ہے جیسا کہتے ہیں خدا شرے بر انگیز د کہ خیرے مادراں باشد ان کی مذہب سے بے اعتنائی بھی ان کی قوم کے لئے ایک شہر ہے مگر یہ بے اعتنائی ہمارے کام آجاتی ہے اور ہم سہولت کے ساتھ اپنے مذہب کی اشاعت کرتے چلے جاتے ہیں.پس جو دوست اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے ملکوں اور علاقوں میں احمدیت اچھی طرح پھیل سکتی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ان کی کامیابی کے لئے دعا بھی کریں.جو شخص یہ سمجھنے کے باوجود کہ ان کی مذہب سے بے اعتنائی یا تعصب سے خالی ہونا ہمارے کام آرہا ہے اور سلسلہ اور اسلام کو فائدہ پہنچارہا ہے پھر بھی ان کی کامیابی کے لئے دعا نہیں کرتا میں سمجھتا ہوں وہ اپنے عمل سے دین کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دین کا فائدہ ان کی کامیابی میں ہے مگر ان کی کامیابی کے لئے دعانہ کر کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے.ہاں جو شخص یہ نہیں سمجھتا گو میرے نزدیک وہ غلطی پر ہے مگر میں اسے دعا کے لئے نہیں کہتا کیونکہ جب وہ اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا کہ دین کا فائدہ ان کی کامیابی میں ہے تو اسے دعا کے لئے کس طرح کہا جاسکتا ہے؟ دوسری چیز جو ان دعاؤں میں یا در کھنی چاہیئے وہ تحریک جدید کے چندہ کے مطالبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.دوستوں کو معلوم ہے کہ میں یہ کوشش کر رہا ہوں (اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اس کوشش میں کامیاب ہو تا ہوں یا نہیں اور میری اس جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.ابھی تو اس میں بہت سی مشکلات اور روکیں حائل ہو رہی ہیں) کہ تحریک جدید کے چندہ سے ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے جس کے نتیجہ میں تبلیغ کا کام عام چندوں کے بڑھنے گھٹنے کے اثر سے آزاد ہو جائے.جو لوگ اس کام میں حصے لے رہے ہیں وہ اشاعت دین کی ایک مستقل بنیاد قائم کر رہے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میں کامیاب کر دیا تو وہ عملی طور پر
$1940 361 خطبات محمود اس بنیاد کو قائم کرنے والے ہوں گے اور اگر میری ان کو ششوں میں اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت کامیابی نہ ہوئی تب بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ایسے ہی سمجھے جائیں گے جیسے مستقل بنیا د رکھنے والے.پس ایسی قربانی کرنے والے دوست اس بات کے مستحق ہیں کہ جماعت کے تمام لوگ ان کے لئے دعا کریں.جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ طوعی تحریک ہے اور اس میں شمولیت انہوں نے ضروری نہیں سمجھی.ان کا کم سے کم فرض یہ ہے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے، ان کے قدم کو نیکیوں میں بڑھائے اور ان کا انجام بخیر کرے.در حقیقت صحیح معنوں میں نیک وہی ہے جس کا انجام نیک ہو اور بد وہی ہے جس کا انجام بُرا ہو.قرآن کریم نے اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ وصیت بیان فرمائی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹوں کو کی کہ لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ 1 اس کا یہ مطلب نہیں کہ درمیانی زندگی میں تم بے شک بد معاش رہنا صرف مرتے وقت خدا کی طرف متوجہ ہو جانا بلکہ حضرت یعقوب علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ میں تو تمہارے انجام کو دیکھنا چاہتا ہوں.مجھے تمہاری درمیانی نیکیوں سے کوئی غرض نہیں.اگر تم بالفرض زندگی میں نیکیاں بھی کرتے رہے لیکن تمہارا انجام لَا اِلهَ إِلَّا اللہ پر نہ ہوا تو پھر تم کسی اور طرف جاؤ گے اور میں کسی اور طرف جاؤں گا.دنیا میں کوئی باپ ایسا نہیں جو یہ خواہش نہ رکھتا ہو کہ اس کی اولا د اس کے پاس رہے.دنیا میں ہر انسان کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے اور اگلے جہان میں بھی یہ خواہش موجو د ہو گی بلکہ یہاں تو کئی قسم کی مجبوریوں کی وجہ سے اولاد اپنے ماں باپ سے جدا بھی رہتی ہے لیکن اگلے جہان میں ایسا نہیں ہو گا بلکہ وہاں اللہ تعالیٰ ماں باپ کی اس خواہش کا ایسا احترام کرے گا کہ اپنے عام قانون کو بھی بدل دے گا اور اولاد کو خواہ وہ ایمان کے کسی درجہ پر ہوں ان کے ماں باپ کے پاس رکھے گا.فرض کرو جنت کے ایک کروڑ درجے ہوں اور بچہ تو دسویں حصہ کا مستحق ہو اور باپ کروڑ ویں حصہ کا تو اللہ تعالیٰ اس خواہش کے احترام میں دس والے کو اٹھا کر کروڑ والے کے مقام تک پہنچا دے گا اور یہ برداشت نہیں کرے گا کہ باپ کو یہ صدمه رہے کہ اس کا بچہ اس سے جدا ہے.پس وہاں ماں باپ کی اس محبت کا انتہائی احترام کیا جائے
$1940 362 خطبات محمود گا اور بچوں کو اپنے ماں باپ کے پاس رکھا جائے گا.اور اگر کسی کے بچے جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوئے اور ماں باپ ادنیٰ مقام پر تو اللہ تعالیٰ ماں باپ کو بلند کر کے ان کے بچے کے پاس لے جائے گا.بہر حال جذبات پدری اور جذبات مادری کا احترام وہاں انتہاء تک پہنچا ہوا ہو گا.حضرت یعقوب علیہ السلام اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مسْلِمُونَ کہ اے میرے بیٹو! مرنے کے بعد ہم تو یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہوں گے کہ ابھی ہمارے بیٹے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم اکٹھے جنت میں رہیں گے لیکن اگر تمہارے اعمال اچھے نہ ہوئے تو ہماری یہ امیدیں دل ہی دل میں رہ جائیں گی اور تم تو کہیں جارہے ہو گے اور ہم کہیں جارہے ہوں گے.اس لئے اے میرے بیٹو! تم میری اس وصیت کو یاد رکھو کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو اس وقت تمہارا خاتمہ لا إلهَ إِلَّا اللہ پر ہی ہونا چاہیے تاکہ ہم اگلے جہان اکٹھے رہیں اور ہم میں کوئی جدائی واقع نہ ہو تو انجام پر ہی سارا انحصار ہوتا ہے.اسی لئے دوسرے کے لئے بہترین دعا یہ ہوتی ہے کہ خدا اس کا انجام بخیر کرے کیونکہ جس کی موت اچھی ہو گئی اس کی ساری زندگی اچھی ہو گئی اور جس کی موت خراب ہو گئی اس کی ساری زندگی خراب ہو گئی.پس جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے ان کا فرض ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ خدا ان کا انجام بخیر کرے اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو احسن طور پر پورا کرے.تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے مفید نتائج پیدا فرمائے.اسی طرح ان روکوں اور مشکلات کے دور ہونے کے لئے بھی دعائیں کی جائیں.جو تبلیغ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ قائم کرنے کی راہ میں حائل ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کی جائے کہ وہ ایسا مستقل فنڈ قائم کرنے میں ہماری مدد کرے جو دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پہنچانے میں ممد ہو اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا یا حصہ تو لیا مگر اپنی طاقت سے کم لیا ہے یا حصہ تو اپنی طاقت کے مطابق لیا ہے
$1940 363 خطبات محمود مگر ابھی تک انہوں نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا اللہ تعالیٰ ان کے قصوروں کو معاف کر کے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور انہیں ان لوگوں میں شامل نہ کرے جو چشمہ کے پاس پہنچ کر اپنی بد قسمتی سے پیاسے کوٹ جاتے ہیں.اس کے بعد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے جلسہ سالانہ پر قرآن کریم کی تفسیر کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا.پہلے میرا ارادہ تھا کہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام ابتداء سے شروع کروں.چنانچہ اس سلسلہ میں میں نے بہت سا کام کیا اور کئی سو صفحے نوٹوں کے تیار بھی ہو گئے مگر پھر مجھے خیال آیا کہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک حصہ کئی سال سے اڑھائی سو صفحہ تک چھپا ہوا موجود ہے کیوں نہ پہلے اسے ہی مکمل کر کے شائع کر دیا جائے.یہ تفسیر دس سے پندرہ پاروں تک چھاپنے کا ارادہ تھا اور اڑھائی سو صفحہ اس تفسیر کا چھپا ہوا موجود ہے.میں نے خیال کیا کہ اگر پہلے پارہ سے تفسیر شروع کی گئی تو یہ حصہ یو نہی پڑا رہے گا لیکن اگر اسے شائع کر دیا گیا تو کاغذ بھی ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور کام بھی جلد مکمل ہو جائے گا.چنانچہ تفسیر کے اس حصہ کو مکمل کر دیا گیا ہے.یہ حصہ اگر چہ سورہ یونس سے شروع ہوتا ہے مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ جہاں سے بھی پڑھا جائے اس میں نور اور ہدایت ہوتی ہے.جیسے رسول کریم ملی لی نے یہ فرمایا ہے کہ أَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِآتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ 2 کہ میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.تم ان میں سے جس کی بھی اتباع کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.یہی حال قرآن کریم کا ہے کہ اسے جہاں سے بھی پڑھا جائے اس میں سے انسان کی ہدایت کے خزانے نکلتے چلے آتے ہیں.میں نے اس کام کا بڑا حصہ خدا کے فضل سے مکمل کر لیا ہے اور دسمبر تک ایک جلد جو بڑے سائز کے سات آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہو گی شائع ہو جائے گی.اگر حقیقۃ الوحی کے سائز پر اسے پھیلایا جائے تو تیرہ چودہ سو صفحات کی کتاب بنتی ہے.جلسہ سالانہ تک انشاء اللہ یہ جلد شائع ہو جائے گی.اس کے متعلق ایک اعلان تو میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے اس کی قیمت پیشگی ادا کی ہوئی ہے اور ان کو اس حصہ کا ایک جزو برائے مطالعہ بھجوا دیا گیا تھا جو 456 صفحات پر مشتمل تھا اب وہ اس حصہ کو واپس کر دیں تاکہ بقیہ حصہ اس کے ساتھ شامل کر کے اور کتاب کو مجلد کرا کے جلسہ سالانہ پر انہیں دی جاسکے.اگر وہ تفسیر کا
$1940 364 خطبات محمود سابقہ حصہ ہمیں واپس نہیں کریں گے تو گو بقیہ حصہ پھر بھی ہم انہیں دے دیں گے لیکن بوجہ ناقص ہونے کے وہ مجلد نہیں ہو گا اور جلد انہیں خود کرانی پڑے گی.پس جن دوستوں نے تفسیر کا پہلا حصہ منگوالیا تھا وہ اب دفتر تحریک جدید کو واپس بھجوا دیں.جلسہ سالانہ پر بقیہ حصہ شامل کر کے سات آٹھ سو صفحات پر مشتمل ایک مکمل جلد إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی انہیں دے دی جائے گی.آجکل کاغذ سخت مہنگا ہو گیا ہے.پریس کے اخراجات بھی پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں مگر باوجود اس کے کہ اخراجات میں کئی لحاظ سے زیادتی ہو چکی ہے.میری تجویز ہے کہ اس تفسیر کی قیمت زیادہ نہ رکھی جائے.چنانچہ مجلد تفسیر کی قیمت میں نے پانچ روپے تجویز کی ہے سات آٹھ سو صفحات پر وہ مشتمل ہو گی.سائز بڑا ہو گا اور جلد بندی ہوئی ہو گی.میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ہر جگہ کی جماعتیں اپنی اپنی جگہ اس تفسیر کی خریداری کا انتظام کریں اور کوشش کریں کہ جلسہ سالانہ پر یہاں سے اکٹھی کئی کئی جلدیں خرید کر لے جائیں.اگر وہ بذریعہ ڈاک منگوائیں گے تو ایک جلد پر بارہ چودہ آنے ڈاک کا خرچ آجائے گا اور اس طرح انہیں زیادہ اخراجات کا متحمل ہونا پڑے گا لیکن اگر وہ اپنی اپنی جگہ تحریک کر کے جلسہ سالانہ پر کتابیں خرید کر لے جائیں گے تو خرچ ڈاک سے بچ جائیں گے.ہمارے دوستوں کی طرف سے بالعموم یہ شکوہ ہو تا رہا ہے کہ تفسیر قرآن کی اشاعت میں تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اب وہ اس شکوہ کے دور ہونے پر خریداری کی کثرت سے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے اور نہ صرف خود خریدار بنیں گے بلکہ دوسروں کو بھی تحریک کریں گے کہ وہ اس کے خریدار بنیں.اسی طرح وہ دوست جو اثر ورسوخ رکھنے والے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ غیر احمدیوں میں بھی اس کی خریداری کی تحریک کریں.قرآن کریم ایک ایسی چیز ہے جس کی اشاعت ہماری تبلیغ میں بہت ممد ہو سکتی ہے کیونکہ لوگ جہاں ہماری دوسری کتب کے بارہ میں تعصب رکھتے ہیں قرآن کریم کو شوق سے لے لیتے ہیں.اگر انہیں لوگوں کو سلسلہ کا لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا جائے تو گو اس میں بھی اسلام اور قرآن کی ہی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے سلسلہ کا لٹریچر خرید اتولوگ اعتراض کریں گے.لیکن قرآن کریم کے متعلق لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اس کا صحیح ترجمہ
$1940 365 خطبات محمود الله سة ور صحیح مفہوم انہیں نہیں مل رہا اور وہ بے تابی سے اس بات کے منتظر ہیں کہ اگر انہیں قرآن کریم کا کوئی صحیح ترجمہ اور اس کی اچھی تفسیر ملے تو اسے پڑھیں.پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام کیا ہے اس سے آسانی سے تمام مسلمانوں کو روشناس کرایا جاسکتا ہے اور لوگ بغیر کسی خوف کے ان خیالات کو پڑھ سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اپنے مطالب مضمون کے لحاظ سے بیان کرتا ہے اور اس میں اس طرح بحثیں نہیں ہو تیں جس طرح دوسری کتب میں ہوتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے مطالب پر ہی ہمارے سلسلہ کی بنیاد ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں جو کچھ ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے.نادان کہتے ہیں کہ ہم نے تو قرآن کریم کی تفسیر لکھ دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی تفسیر نہیں لکھی.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام کتابیں قرآن کریم کی تفسیر ہی ہیں.جیسے حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی ا و م کے متعلق فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقَهُ كُلَّهُ الْقُرْآنُ 3 یعنی آپ کے اخلاق اگر معلوم کرنے ہوں تو قرآن کریم پڑھ لو.جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہی آپ کے اخلاق سے ظاہر ہوتا ہے.اسی طرح ہم کامل سچائی کے ساتھ بغیر کسی قسم کے مبالغہ کے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں قرآن کریم کی تفسیر ہیں اور دراصل ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ بھی آپ کی بیان کر دہ باتوں سے ہی مستنبط ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض آیات کی تفسیر نہیں کی مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ان آیات کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسی نور کی برکت سے کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا.اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی لیمپ سے جنگل میں سے کوئی چیز تلاش کی جائے.اب بے شک وہ چیز اس لیمپ والے نے تلاش نہیں کی بلکہ خوداس نے کی ہوگی مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اگر اس کا لیمپ اس کے پاس نہ ہوتا تو یہ اس چیز کو تلاش نہ کر سکتا.اسی طرح انبیاء اپنے ماننے والوں میں ایک ایسا ملکہ پیدا کر جاتے ہیں جس سے کام لے کر وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تفسیریں کر سکتے ہیں اور یہ ملکہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے
$1940 366 خطبات محمود تفسیر سے کئی گنے بڑھ کر ہوتا ہے.انبیاء کا علم تو بہت وسیع ہوتا ہے میں نے تو اپنے متعلق دیکھا ہے کہ جب میں کسی آیت کی تفسیر لکھنے بیٹھتا ہوں تو اس کے بیسیوں مطالب مجھ پر کھلتے چلے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان تمام کو لکھ ڈالوں مگر پھر سوچتا ہوں کہ اگر ان تمام باتوں کو بیان کروں تو تفسیر کے محدود صفحات ان کے کہاں متحمل ہو سکتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند مطالب لکھ دئے جاتے ہیں اور باقی چھوڑ دئے جاتے ہیں اور یہ تو ایک وقت کا حال ہے.دوسرے وقت پھر اس آیت کے بیسیوں معانی منکشف ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی ایک تفسیر میں لکھ دینا بالکل ناممکن دکھائی دیتا ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ کسی ایک انسان کی تفسیر بھی اس کے علم کے لحاظ سے مکمل کہلا سکتی ہے صحیح نہیں.روزانہ ہمیں نئے نئے علوم ملتے رہتے ہیں اور یہ تو میری حالت ہے.انبیاء جو خاص طور پر مُؤَيَّد من اللہ ہوتے ہیں ان کے علوم تو بہت ہی غیر محدود ہوتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر قرآن کریم کی کوئی تفسیر لکھتے تو بھی ہزاروں باتیں رہ جاتیں ہزاروں مطالب تشنہ تکمیل رہتے اور ہزاروں باتیں ایسی ہو تیں جو آپ بیان نہ کر سکتے کیونکہ تفسیر محدود چیز ہے اور قرآنی علم غیر محدود ہے.اسی وجہ سے آپ نے قرآن کریم کی کوئی مستقل تفسیر نہیں لکھی.ہاں آپ نے ہمیں وہ ملکہ عطا کر دیا ہے جس سے ہم قرآن کریم کی تفسیر کر سکتے ہیں اور آپ نے ہمیں وہ گر بتادے ہیں جن سے قرآن کریم کی تفسیر ہمیں آگئی اور ایسی آئی کہ اب وہ مکمل طور پر اگر ہم لکھنا بھی چاہیں تو نہیں لکھ سکتے.غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں قرآن کریم کی سمجھ دی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی تفسیر مکمل نہیں کہلا سکتی.ایک میرے ہی دماغ کی باتیں جب تفسیر میں نہیں آسکتیں تو ہماری جماعت میں اور ہزاروں لاکھوں جو احمدی ہیں ان کے علوم کسی ایک کتاب میں کس طرح بیان ہو سکتے ہیں.اسی طرح آئندہ زمانوں میں ایسے لوگ پید اہوتے رہیں گے جن پر قرآن کریم کے نئے سے نئے علوم منکشف ہوتے رہیں گے ور یہ بالکل ناممکن ہو گا کہ ان سب کو کسی تفسیر میں یکجائی طور پر بیان کیا جاسکے.اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک جماعت احمدیہ کے افراد اس یقین پر قائم رہیں گے کہ اور
خطبات محمود 367 $1940 قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کے اندر غیر محدود علوم اور معارف پنہاں ہیں.اس یقین کی موجودگی میں قرآن کبھی بند کتاب کی طرح نہیں رہے گا بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اس میں سے نئے سے نئے علوم نکلتے آئیں گے مگر جس دن لوگوں نے قرآن کریم کے علوم کو محدود سمجھ لیا، جس دن انہوں نے خیال کر لیا کہ قرآن اتنے رکوعوں، اتنی سورتوں اور اتنے پاروں کی کتاب ہے اور اس کے متعلق فلاں نے یہ لکھا ہے اور فلاں نے وہ اور یہ کہ اس سے زیادہ اب کوئی معرفت کی بات قرآن کریم سے نہیں نکل سکتی اُس دن قرآن لوگوں کے لئے بند ہو جائے گا اور اس میں سے کوئی نور اور معرفت کا نیا نکتہ انہیں نہیں سوجھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اندر یہی ایمان پیدا فرمایا ہے کہ قرآن غیر محدود معارف کا حامل ہے اور جس طرح خد اتعالیٰ کی طاقتیں انسانی حد بست سے بالا ہیں اسی طرح قرآنی معارف کا بھی کوئی شخص احاطہ نہیں کر سکتا.یہ معارف قرآن میں سے نکلتے چلے آئے ہیں اور ضرورت زمانہ کے متعلق ہمیشہ نکلتے چلے جائیں گے.یہ دروازہ نہ پہلے کبھی بند ہوا اور نہ آئندہ کبھی بند ہو گا.قرآن کے متعلق یہی ایمان ہے جو اصل چیز ہے باقی سب تفاسیر اس کی جزئیات ہیں.جب تک تمہارے دلوں میں یہ ایمان رہے گا قرآن کے وسیع علوم تم پر کھلتے چلے جائیں گے مگر جس دن یہ ایمان تمہارے دلوں سے نکل گیا اس دن تم قرآن کو تو کھولو گے اور اسے پڑھو گے بھی مگر جس طرح گنے کو چوس کر اس کے چھلکے کو الگ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح تمہیں قرآن کے الفاظ اس چھلکے کی طرح دکھائی دیں گے جس کا رس چوس لیا گیا ہو مگر اس ایمان کی موجودگی میں جب تم قرآن کو پڑھو گے تو تمہاری حالت اس پیاسے کی سی ہو گی جو سخت پیاس کی حالت میں دریائے سندھ یا برہم پتر کو اپنا منہ لگا دے اور خیال کرے کہ وہ تمام در یا ایک ہی سانس میں پی جائے گا مگر ایک دو چلو پانی پینے کے بعد ہی اس کی پیاس بجھ جائے اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائے کہ دریا تو اسی شان سے بہتا چلا جارہا ہے اور اس کی پیاس دو چلو پانی سے ہی بجھ گئی ہے.میں اپنے جوش میں کہیں سے کہیں کا نکل گیا.میری غرض تو اس وقت یہ اعلان کرنا تھا کہ جن دوستوں نے اس تفسیر کا پہلا حصہ منگوا لیا تھا وہ اب دفتر تحریک جدید میں
خطبات محمود 368 $1940 واپس بھجوا دیں تاکہ بقیہ حصہ اس کے ساتھ شامل کر کے اور جلد بند ھوا کر جلسہ سالانہ پر انہیں مکمل کتاب دی جاسکے اور دوسرے دوستوں کو توجہ دلانا کہ وہ دسمبر سے پہلے پہلے ہر جگہ پر خریداری کی تحریک کر کے معقول تعداد خریداروں کی پیدا کر چھوڑیں.میں نے اس کے متعلق بعض دوستوں کو زبانی بھی یہ تحریک کی ہے کہ وہ لوگوں کو اس تفسیر کا خریدار بنانے کی کوشش کریں اور اب اس خطبہ کے ذریعہ عام اعلان کرتا ہوں کہ تمام دوست اپنے اپنے مقام پر اس کی خریداری کے متعلق پر زور تحریک کریں بلکہ ہر جگہ دوست اپنے آپ کو بطور والنٹیر پیش کریں اور وہ والنٹیر ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں پھر کر احمدیوں، غیر احمدیوں اور غیر مسلموں سب میں اس کی خریداری کی تحریک کریں.ان سے سر دست روپیہ لینے کی ضرورت نہیں.صرف خریداری کا وعدہ لے لیا جائے اور ان کے نام نوٹ کر لئے جائیں.جلسہ سالانہ پر ان کے لئے اکٹھی کتابیں یہاں سے خریدی جاسکتی ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس کے متعلق مستعدی سے کام لیں گے اور اس تفسیر کے زیادہ سے زیادہ خریدار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ اگر وہ روپیہ جو اس کی طبع و اشاعت پر خرچ آئے گا کتاب جلد فروخت ہو کر ہمیں واپس نہیں ملے گا تو انگلی جلد کی اشاعت میں خواہ مخواہ تاخیر واقع ہو گی." (الفضل24 اکتوبر 1940ء) 1 البقرة: 133 2 مشکوۃ باب مناقب الصحابة 23 مسند احمد بن حنبل جلد 4 مطبوعہ بیروت 1313ھ
$1940 369 27 خطبات محمود رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی عظیم الشان برکات اور نوجوانوں کی ایک غلط فہمی کا ازالہ فرمودہ 25 اکتوبر 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آجکل رمضان کا آخری عشرہ شروع ہے اور جیسا کہ احباب واقف اور آگاہ ہیں یہ دن خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کے ہیں اور ان ایام میں اللہ تعالیٰ مومنوں کی دعائیں زیادہ سنتا اور ان کی گریہ وزاری کو قبول فرماتا ہے.پس ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اپنی ہی خوش بختی کی دلیل اور علامت ہے.اللہ تعالیٰ کو تو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا بندہ اس سے کچھ مانگتا ہے یا نہیں.اس نے تو دینا ہے اور دینے والے کو کیا حاجت ہوا کرتی ہے.جس نے لینا ہے حاجت تو اسے ہوتی ہے مگر باوجود اس کے وہ دینے والا تو پکارتا ہے اور جس نے لینا ہے وہ سستی دکھاتا ہے.ہم کتنا ہنستے ہیں اس واقعہ کو سن کر جو ایک مثل کے طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ کوئی سر د ملک کا باشندہ گرمی کے موسم میں سخت تیز اور تپتی ہوئی دھوپ میں بیٹھا تھا، پسینہ ٹپک رہا تھا، منہ سرخ ہو رہا تھا، آنکھیں لال ہو رہی تھیں، سانس پھولا ہوا تھا اور پاس ہی اس کے ایک دیوار یا درخت کا سایہ تھا جہاں بیٹھ کر اس کی ساری تکلیفیں رفع ہو سکتی تھیں.کوئی شریف آدمی جو وہاں سے گزرا اور اس نے اس کی اس حالت کو دیکھا تو اس نے کہا
$1940 370 خطبات محمود میاں ! اس دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو ؟ کیوں نہیں اٹھ کر اس سائے کے نیچے بیٹھ جاتے جہاں سے تم کو آرام اور آسائش حاصل ہو سکتی ہے.یہ سن کر اس شخص نے اپنے ہاتھ بڑھا دیئے اور کہا کہ میں بیٹھ تو جاتا ہوں پر تم مجھے کیا دو گے ؟ ہم کتنا اس بات کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں مگر کس طرح ہم میں سے کئی یہی بات روز مرہ اپنے معاملات میں عملاً کر کے دکھاتے ہیں اور اس پر انہیں ذرا بھی تعجب نہیں آتا.رسول کریم صلی اللی علم فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان سے اترتا ہے اور اس کے فرشتے لوگوں کو آوازیں دیتے پھرتے ہیں کہ مانگو تمہیں دیا جائے گا، دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے لئے کھولا جائے گا 1 مگر کتنے ہیں جو اس آواز کو سن کر دوڑ پڑتے ہیں کہ یہ مانگنے کا وقت ہے ہم مانگیں گے ، یہ کھٹکھٹانے کا وقت ہے ہم کھٹکھٹائیں گے.کیا وہ اس سے زیادہ احمق نہیں جو دھوپ میں بیٹھا ہوا اس امید میں تھا کہ کوئی مجھے پیسے دے تو میں سائے میں بیٹھ جاؤں.اسی طرح تم میں سے بہت ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگر نماز پڑھی یا روزہ رکھا تو یہ ہم خدا پر احسان کرتے ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا خالق اور مالک ہے اور وہ اپنی محبت کے لئے ہم کو بلاتا اور احسان کرنے کے لئے ہمیں پکارتا ہے.پس بجائے اس کے کہ وہ اس کے احسان کی قدر کریں اور اس کے اس انعام کی شکر گزاری کریں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر خدا پر احسان کر دیا.میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے نماز چھوڑی ہوئی تھی اور جب میں نے اس بارہ میں بعض دوستوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا خیال ہے میں بڑی تہجد گزاری کر چکا ہوں اور نمازیں بھی خوب پڑھ چکا ہوں اب مجھے ضرورت نہیں کہ میں نمازیں پڑھوں یا روزے رکھوں.گویا ایک قرضہ تھا جو اس نے ادا کر دیا اور جب دو سویا تین سو یا چار سو یا پانچ سو نمازیں اس نے پڑھ لیں تو وہ قرض اتر گیا.اب کیا ضرورت رہی کہ وہ نمازیں پڑھے.اور میں نے دیکھا کہ وہ شخص قریباً بلاناغہ سینما جاتا اور سمجھتا تھا کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا.گویا جو اپنے نفس کا عیش تھا اس کے لئے تو اسے وقت مل جاتا تھا اور اس کے لئے جانا وہ کسی دوسرے پر احسان نہیں سمجھتا تھا مگر جو خدا کے حضور حاضر ہونے اور نماز پڑھنے کا معاملہ تھا
$1940 371 خطبات محمود اس میں وہ سمجھتا تھا کہ اس کے ذمہ ایک قرض تھا جو اس نے ادا کر دیا ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لئے رحمت اور برکت کے دروازے کھولتا ہے یہ رحمت اور برکت کے دروازے جن دنوں میں کھلتے ہیں ان سے فائدہ اٹھانا ایک عقلمند انسان کی علامت ہے اس میں ہر گز کسی ایمان کا دخل نہیں، کسی خاص صلاحیت کا دخل نہیں.اگر کسی شخص میں معمولی سے معمولی عقل بھی ہو تو وہ اس موقع کو غنیمت سمجھے گا اور کوئی پاگل ہی ہو گا جو ایسے موقع کو ضائع کر دے.مجھے روزوں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ میرے کسی سابق خطبے کی وجہ سے جو کئی سال ہوئے میں نے پڑھا تھا بعض نوجوان ہٹے کٹے اور مشٹنڈے اس بناء پر روزے نہیں رکھتے کہ روزہ رکھنے کے لئے میں نے 18 سال عمر کی شرط لگائی ہے اور چونکہ وہ ابھی اس عمر کو نہیں پہنچے اس لئے وہ روزہ بھی نہیں رکھ سکتے.یہ کہ میں نے روزہ رکھنے کے لئے 18 سال عمر کی شرط لگائی ہوئی ہے یہ درست نہیں.میں نے وہ خطبہ تو نہیں دیکھا مگر اس کا مضمون مجھے اچھی طرح یاد ہے جو کچھ میں نے اس خطبہ میں کہا تھا وہ یہ تھا کہ 18 سال کی عمر تک نشوو نما کا زمانہ ہوتا ہے اور اس وقت کا قانون 18 سال کے بعد کے قانون سے مختلف ہے.اس نشو و نما کے زمانہ میں اگر کوئی شخص روزہ نہیں رکھتا بوجہ اس کے کہ اس کی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا اس کو اپنے اندر کوئی ایسی کمزوری محسوس ہوتی ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ خیال کرتا ہے کہ روزہ رکھنا میری صحت کو اور زیادہ نقصان پہنچا دے گا تو میرے نزدیک اس نشو و نما کے زمانہ میں اگر وہ دیانتداری کے ساتھ اس یقین پر قائم ہے کہ روزہ رکھنا اس کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے یا اسے غیر معمولی طور پر کمزور کر دیتا ہے تو روزہ نہ رکھنا اس کے لئے جائز ہے مگر اس بات میں اور اس بات میں کہ 18 سال کی عمر تک روزہ رکھنا معاف ہے زمین اور آسمان کا فرق ہے.میرا منشاء صرف یہ تھا کہ 18 سال سے پہلے اور بعد کی عمر میں بلحاظ قانون فرق ہے.18 سال کی عمر کے بعد کسی کی طرف سے کمزوری کا عذر ہونا ہر گز کوئی عذر نہیں سمجھا جا سکتا.سوائے اس کمزوری کے جو بیماری کے مترادف ہو اور جس کے متعلق ڈاکٹر یہ کہے کہ یہ شخص ایسا کمزور ہے کہ اگر اس نے روزے رکھے تو اسے سل یا دق یا کوئی اور مرض ہو جائے گا.گویا 18 سال کے بعد
$1940 372 خطبات محمود کوئی شخص محض اس عذر کی بناء پر روزہ نہیں چھوڑ سکتا کہ روزہ رکھنے سے اسے ضعف ہوتا ہے کیونکہ رمضان اس لئے نہیں آتا کہ جس طرح گھوڑے کو خوید دی جاتی ہے اور وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح انسان موٹا تازہ ہو جائے بلکہ روزے رکھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان دُبلا ہو اور اسے مشقت برداشت کرنے کی عادت پڑے مگر 18 سال سے پہلے کی عمر میں جب روزے رکھنے سے ایسی کمزوری ہو جانے کا احتمال ہو جو نشو و نما میں روک بن جائے یا ایسی کمزوری پیدا ہونے کا خطرہ ہو خواہ سل یا دق وغیرہ کا خطرہ نہ ہو تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے.البتہ 18 سال کے بعد اگر کوئی رمضان کے تیس روزوں میں سے ایک روزہ بھی بیماری یا سفر کے سوا نہیں رکھتا تو وہ گنہ گار بنتا ہے.جیسے تم روز کی پانچ نمازوں میں سے ایک نماز بھی چھوڑ نہیں سکتے.تم ہفتہ کی پینتیس نمازوں میں سے ایک نماز بھی نہیں چھوڑ سکتے ، تم سال کی 1825 نمازوں میں سے ایک نماز بھی نہیں چھوڑ سکتے.اسی طرح تم رمضان کے تیس روزوں میں سے ایک روزہ بھی نہیں چھوڑ سکتے.بغیر اس کے کہ تم بیمار ہو ، بغیر اس کے کہ تم سفر پر ہو، بغیر اس کے کہ تم میں اس قسم کی کمزوری ہو جو بیماری کے قریب قریب ہوتی ہے جیسے شدید بڑھاپا ہے یا دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کا روزہ نہ رکھنا ہے.وہاں کوئی بیماری تو نہیں ہوتی مگر چونکہ ان ایام کی کمزوری ماں یا بچہ میں بیماری پیدا کرتی ہے اس لئے انہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے.تو روزہ رکھنے میں صرف وہی کمزوری روک بنتی ہے جو بیماری پیدا کرنے والی ہو مثلاً ایک شخص دُبلا پتلا ہے اس کا سینہ کمزور ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر اس نے روزے رکھے تو اسے سل ہو جائے گی ایسے انسان کے لئے روزے رکھنے جائز نہیں کیونکہ گو سر دست اسے صرف کمزوری کی شکایت ہے مگر ڈاکٹر کی رائے میں اگر وہ کمزور ہو ا تو اسے سل کی مرض لگ جائے گی.غرض جب انسان کی 18 سال کی عمر ہو جائے اور 18 سال کی بھی شرط نہیں جب انسان بلوغ کو پہنچ جائے خواہ کسی عمر میں پہنچے تو اس کے بعد اگر کوئی شخص محض اس وجہ سے روزہ نہیں رکھتا کہ روزہ رکھنے سے اسے کمزوری ہو جاتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار ہو گا سوائے اس کے کہ ڈاکٹر نے اسے یہ کہا ہو کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو بیمار ہو جاؤ گے یا بیماری سے اٹھا ہو ا مر یض ہو اور مرض کے دوبارہ ہو جانے کا ابھی خطرہ موجود ہو مثلاً ایک شخص کو بخار ہے
$1940 373 خطبات محمود تو اب جس روز اس کا بخار اترے گا اسی روز اس کے لئے روزہ رکھنا فرض نہیں ہو جائے گا بلکہ جب بخار سے پیدا شدہ کمزوری دور ہو جائے گی تو اس وقت اس کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہو گا لیکن جو بلوغت سے پہلے کا زمانہ ہوتا ہے اور جسے نیم بلوغت کا زمانہ کہا جاسکتا ہے اس میں انسان کبھی کبھی روزہ چھوڑ بھی سکتا ہے تا اس کی طاقتیں اس قدر نشو و نما حاصل کر لیں کہ بعد کی زندگی میں اسے کوئی تکلیف محسوس نہ ہو.اسی لئے میں نے اس خطبہ میں کہا تھا کہ بچوں کو گیارہ بارہ اور تیرہ سال کی عمر سے کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے شروع کر دینے چاہئیں کیونکہ اگر کوئی شخص 18 سال تک ایک روزہ بھی نہیں رکھے گا تو اس سے یہ امید نہیں کی جاسکے گی کہ وہ انیسویں سال رمضان کے سارے روزے رکھ لے.بھلا جس شخص نے اٹھارہ سال تک کوئی روزہ نہیں رکھا اس کے اندر انیسویں سال ایسی طاقت کہاں سے آ جائے گی کہ وہ سارے روزے رکھنے شروع کر دے گا.اس کی صورت یہی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بیس بائیس یا پچھیں، چھیں روزے رکھے اور انیسویں سال سارے روزے رکھ لے.ہاں اگر کوئی بہت زیادہ کمزور ہو جیسے خلقی طور پر بعض بچے اچھے قوی لے کر نہیں آتے وہ اگر انہیں سال سے پہلے پندرہ سولہ یا سترہ اٹھارہ روزے بھی رکھ لیتے ہیں اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ان کے لئے جائز ہو گالیکن عام طور پر ایسے کمزور بچے نہیں ہوتے.خلقی طور پر کمزور اور بیمار بچے بہت کم ہوتے ہیں اور بالعموم پندرہ سولہ سال کے بعد بچوں میں اچھی خاصی طاقت آجاتی ہے.تاہم اس عمر میں سب بچوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ لازمی طور پر تمام روزے رکھیں اور کسی ایک روزہ کو بھی ترک نہ کریں درست نہیں اور اسی بات سے میں نے دوستوں کو منع کیا تھا کیونکہ اس طرح اعضاء اور قوتوں کا نشو و نمارُک جائے گا.اور جب کسی کی طاقتیں کمزور ہو جائیں گی تو آئندہ عمر میں اسے سارے روزے چھوڑنے پڑیں گے.لیکن یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں.دنیا میں ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو گو چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں مگر ان کی طاقتیں اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ تمام روزے رکھ سکتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمر پندرہ سال کے تھے جب انہوں نے رسول کریم صلی لی لی.عرض کیا کہ يَا رَسُولَ الله ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں سارا سال روزے رکھتا چلا جاؤں.
$1940 خطبات محمود 374 رسول کریم صلی الم نے فرمایا سارا سال روزے رکھنے جائز نہیں ہیں.انہوں نے کہا اچھا تو پھر میں مہینہ میں سے دس دن چھوڑ دوں گا.آپؐ نے فرمایا یہ بھی جائز نہیں.آخر ان کے بڑے اصرار اور بار بار کہنے کے بعد رسول کریم صلی اللہ ہم نے انہیں صرف اتنی اجازت دی کہ ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور دوسرے دن نہ رکھا کرو.جب وہ بوڑھے ہو گئے تو وہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول کریم صلی اللی کالم کے حضور ایسی گستاخی کا ارتکاب نہ کرتا کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے عہد کو نباہتے ہوئے التزام کے ساتھ ہر دوسرے دن روزہ رکھنا پڑتا ہے مگر اب میری قوت اس بوجھ کو برداشت نہیں کرتی.2 تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پندرہ سال کی عمر میں ہی ایسے مضبوط قوی تھے کہ وہ سمجھتے تھے میں اگر سارا سال بھی روزے رکھتا چلا جاؤں تو رکھ سکتا ہوں.ایسی قوتیں رکھنے والا اگر آج بھی کوئی نوجوان موجود ہو اور وہ ابھی اٹھارہ سال کی عمر کو نہ پہنچا ہو تو اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی رمضان کے سارے روزے رکھ سکتا ہے.اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے فتویٰ دیا ہوا ہے کہ اٹھارہ سال سے پہلے کوئی نوجوان سارے روزے نہ رکھے سخت نادانی اور حماقت ہو گی.اگر تو روزہ ایک چپٹی ہو تو پھر تو اسے بے شک بہانوں سے ٹالا جا ہے لیکن اگر روزہ خدا تعالیٰ کا فضل، احسان اور انعام ہے تو پھر اس کو چھوڑنے میں اسی کا ستا ؟ نقصان ہے جو روزہ رکھنے سے گریز کرتا ہے.پس یا درکھو میر افتویٰ گناہ کے متعلق ہے.یعنی ایسا انسان جو ابھی بلوغت تامہ کو نہیں پہنچاوہ محض کمزوری کی وجہ سے اگر روزہ چھوڑتا ہے تو وہ گناہ گار نہیں لیکن بلوغت تامہ کے بعد صرف کمزوری کے خوف سے اگر کوئی ایک روزہ بھی چھوڑتا ہے تو وہ گنہگار ہے.وہ صرف اس کمزوری کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے جس کا لازمی نتیجہ بیماری ہو ورنہ اگر کسی کے قویٰ اچھے ہوں اور روزوں سے اسے کوئی تکلیف نہ ہوتی ہو تو چاہے وہ اٹھارہ سال کی عمر کو نہ پہنچا ہو اُسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک عورت نے اپنے ایک عزیز کے متعلق جو گیارہ بارہ سال کا ہے مجھ سے پوچھا کہ وہ روزے رکھتا ہے اور منع کرنے سے باز نہیں آتا اور یوں اس کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں تو کیا ہم اسے روزے رکھنے دیں؟ تو میں نے جواب دیا کہ جب صحت پر کوئی بھی ا.
$1940 375 خطبات محمود بُرا اثر نہیں تو روزے رکھنے دو.ہاں اگر کمزوری نظر آئے تو چھڑوا دینا.تو ایسے بچے اٹھارہ سال سے کم عمر میں بھی روزے رکھ سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی بچہ دوسروں کی نقالی میں روزے رکھتا ہے یا بچوں کے دکھاوے کے لئے روزے رکھتا ہے اور اس سے اس کی طاقتوں پر برا اثر پڑتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اسے روزے رکھنے سے روکیں کیونکہ ہمارا کام جہاں یہ ہے کہ ہم بچوں کو روزے رکھوائیں وہاں یہ بھی ہمارا ہی کام ہے کہ اگر ہمارا بچہ کمزور یا بیمار ہو تو اسے روزے نہ رکھنے دیں.بچوں میں عام طور پر یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں نوں کتنے روزے رکھے.” اور وہ جواب دیتا ہے کہ دس.اس پر دوسرا پوچھتا ہے کہ ہوں کتنے روزے رکھے اور جب یہ جواب دیتا ہے کہ آٹھ تو شر مندہ ہو جاتا ہے اور دوسرے کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ میں نے زیادہ روزے رکھے.تو بچوں میں ایک قسم کی رقابت ہوتی ہے.اگر محض رقابت کی وجہ سے کوئی بچہ روزے رکھتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اسے روکیں کیونکہ اگر ہم اس عمر میں اسے روزے رکھنے سے نہیں روکیں گے تو بلوغت کے بعد جو اسے تیں یا چالیس یا پچاس سال عمر ملے گی اس میں وہ اپنی طاقت کی کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے گا اور اسی طرح دین کے دوسرے کاموں میں بھی عمدگی سے حصہ نہیں لے سکے گا.پس اس وجہ سے کہ وہ بعد کی عمر میں دین کی خدمت زیادہ عمدگی سے کر سکے اس عمر میں جو نشوو نما کی عمر ہوتی ہے کمزور بچوں کو مسلسل روزے رکھنے سے روکنا ہمارا فرض ہے اور یہ امر دین کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے عین مطابق ہے.الله ایک دفعہ رسول کریم صلی نیلم جہاد کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے اعلان فرمایا کہ آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑھ گئے.در حقیقت اس سفر میں بعض صحابہ نے نفلی روزہ رکھا ہوا تھایا ابھی سفر میں روزہ رکھنے کی ممانعت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا.مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ جب منزل پر پہنچے اور افطاری کا وقت ہو گیا تو جو روزہ دار تھے وہ تو روزے کھول کر لیٹ گئے اور جو بے روزہ تھے انہوں نے خیمے لگائے، خندقیں کھو دیں اور لشکر کے لئے لکڑی پانی وغیرہ کا انتظام کیا.رسول کریم صلی ا ندیم نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ آج روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے.3 یعنی جس کام کے لئے ہم نکلے تھے اس کا موقع ان کو ملا جو بے روز تھے ان
خطبات محمود 376 $1940 کونہ ملا جو روزہ دار تھے.اسی طرح اگر کوئی شخص میدان جہاد میں روزہ رکھ لیتا اور افطاری کے وقت پانی پی پی کر پیٹ بھر لیتا ہے اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ روزہ رکھ کر اس نے نیکی کی بلکہ ہم کہیں گے کہ اس نے بدی کی کیونکہ ہر کام کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اور اگر ایک نیکی کسی دوسری نیکی میں روک بن جاتی ہے تو وہ نیکی یا تو بدی بن جاتی ہے یا ادنی درجہ کی نیکی کہلاتی ہے.وہاں چونکہ ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی اس لئے رسول کریم صلی الیم نے صرف اتنا فرمایا کہ روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے لیکن فرض کرو اگر اس وقت جہاد ہو رہا ہوتا اور مسلمانوں کو جاتے ہی کفار سے لڑائی کرنی پڑتی اور روزہ دار بوجہ روزہ رکھنے کے لڑائی میں شامل نہ ہو سکتے تو ان کا روزہ ان کے لئے گناہ بن جاتا.تو موقع اور محل ہو تا ہے جس کے ماتحت کوئی نیکی بڑھ جاتی ہے اور کوئی کم ہو جاتی ہے.اسی لئے رسول کریم صلی لیلی الله الله سة سے جب کوئی پوچھتا کہ میں نیکی کا کون سا کام کروں تو آپ ہمیشہ اس کے مناسب حال نیکی کا کام بتایا کرتے تھے.مثلا ایک نے پوچھا کہ سب سے بڑی نیکی کون سی ہے ؟ تو آپ نے فرمایاماں کی خدمت.ایک اور نے پوچھا کہ سب سے بڑی نیکی کون سی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا.4 پھر تیسرے نے پوچھا کہ سب سے بڑی نیکی کون سی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جہاد.5 گویا کسی کو کچھ جواب دے دیا اور کسی کو کچھ.اب ایک نادان تو یہ سمجھے گا کہ رسول کریم لى الم نے نَعُوذُ بِالله غلط جواب دیا.کسی کو کوئی بڑی نیکی بتا دی اور کسی کو کوئی.لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی الی نام موقع اور محل دیکھ کر نیکی کی تعلیم دیا کرتے تھے.وہ شخص جسے آپ نے یہ فرمایا کہ تیرے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ تو اپنی ماں کی خدمت کیا کر ، ممکن ہے اس کی ماں بڑھیا ہو اور اس کی طبیعت ایسی ہو کہ بیوی بچوں کی طرف اسے زیادہ رغبت ہو اور ماں کی خدمت کو وہ کوئی زیادہ اہمیت نہ دیتا ہو.رسول کریم صلی الکریم نے اس کے اس نقص کو دیکھ کر یہ فرما دیا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ تم اپنی ماں کی خدمت کیا کرو.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص تھا جو اپنی ماں سے تو محبت رکھتا تھا.آجکل بھی بعض لوگ اپنی ماؤں کے لئے جانیں دے دیتے ہیں ، لیکن وہ جہاد میں جانے سے ہچکچاتا تھا.رسول کریم لی لی ہم نے اسے فرما دیا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی جہاد ہے.اسی طرح جو نماز
$1940 377 خطبات محمود میں سست تھا اسے رسول کریم صلی علی کریم نے یہ فرما دیا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا ہے.اسی طرح کسی کے لئے سب سے بڑی نیکی زکوۃ ادا کرنا ہو گی.کسی کے لئے سب سے بڑی نیکی چندہ دینا ہو گی اور کسی کے لئے سب سے بڑی نیکی حج کرنا ہو گی.آجکل کے امراء کے لئے حج میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی نیکی ہے کیونکہ باوجو د مال و دولت کے وہ کبھی حج کے لئے نہیں جاتے اور جو لوگ حج پر جاتے ہیں ان میں سے سو میں سے نانوے ایسے ہوتے ہیں جن پر حج واجب نہیں ہوتا.میں جب حج کے لئے گیا تو ایک حاجی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کچھ مانگا.حضرت نانا جان صاحب مرحوم میرے ساتھ تھے.انہوں نے اسے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ تھا نہیں تو تم حج کے لئے آئے کیوں ؟ وہ کہنے لگا میرے پاس بہت روپے تھے مگر سب خرچ ہو گئے.حضرت نانا جان مرحوم نے پوچھا کہ کتنے روپے تھے.وہ کہنے لگے جب میں بمبئی پہنچا تھا تو میرے پاس پینتیس روپے تھے اور میں نے ضروری سمجھا کہ حج کر آؤں.تو وہ پینتیس روپوں کو ہی بہت سمجھتا تھا مگر مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پینتیس ہزار بلکہ پینتیس پینتیس لاکھ روپے رکھتے ہیں اور پھر وہ حج کے لئے نہیں جاتے.ہندوستان میں چھ سو سے اوپر ریاستیں ہیں.ان میں پینتیس چھتیس کے قریب مسلمانوں کی ریاستیں ہیں اور یہ تمام ریاستیں پچیس تیس ہزار سے بارہ کروڑ روپیہ تک کی آمدن کی ہیں مگر ان ریاستوں کے مالکوں میں سے شاید کسی کو بھی حج نصیب نہیں ہوا.پھر مسلمانوں میں بڑے بڑے تعلقہ دار ہیں اور وہ بھی آٹھ دس ہزار سے لے کر چالیس پچاس لاکھ روپیہ تک کی سالانہ آمد رکھتے ہیں مگر ان میں سے شاید سو میں سے ایک یا ہزار میں سے ایک حاجی ہو تا ہو.لیکن غرباء میں بہت حاجی نظر آتے ہیں.ایک شخص ساری عمر تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع کرتا رہتا ہے اور جب دو تین سو روپیہ اس کے پاس اکٹھا ہو جاتا ہے تو وہ تمام عمر کا اندوختہ لے کر حج کے لئے چل پڑتا ہے حالانکہ اسی روپیہ پر اس کے بیوی بچوں کی آئندہ زندگی کا مدار ہوتا ہے.وہ اگر اس روپیہ سے اچھے بیل خرید لے یا کچھ ایکڑ زمین لے لے تو اس کے بیوی بچوں کے لئے سہولت پید اہو سکتی ہے لیکن وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور روپیہ اٹھاتا اور حج کے لئے چل پڑتا ہے.تو امراء کے لئے سب سے بڑی نیکی حج ہے کیونکہ حج میں وہ سب سے زیادہ کو تاہی
$1940 378 خطبات محمود کرتے ہیں.اسی طرح امراء میں یہ نقص بھی ہوتا ہے کہ وہ نمازیں نہیں پڑھتے.سارا دن شطر نج کھیلیں گے ، ٹینس کھیلیں گے ، بیڈ منٹن کھیلیں گے ، برج وغیرہ انگریزی کھیلیں کھیلتے رہیں گے مگر نماز نہیں پڑھیں گے اور جب ان سے پوچھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ کیا کریں فرصت ہی نہیں ملتی.پھر کچھ امراء اس وہم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارا کپڑا پاک نہیں.ایک دفعہ حیدر آباد کے ایک بڑے نواب صاحب جو نظام حیدرآباد کے رشتہ داروں میں سے ہیں مجھے سے ملنے آئے.میں نے ان کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ آپ نمازیں پڑھا کریں.وہ کہنے لگے میں نماز تو پڑھتا ہوں ہاں سفر میں نماز رہ جاتی ہے کیونکہ سفر میں پوری صفائی نہیں ہوتی اور اس طرح نماز چھوڑ دینی پڑتی ہے.چنانچہ کہنے لگے دیکھئے سفر میں پوری صفائی کہاں ہو سکتی ہے ریل کے گدیلے پر بیٹھا جاتا ہے اور وہ کہاں صاف ہوتے ہیں.اسی طرح پاخانے صاف نہیں ہوتے اور نجاست کے چھینٹے کپڑوں پر آپڑتے ہیں.اس وجہ سے نمازیں پڑھنی مشکل ہو جاتی ہیں.میں نے کہا آپ کا یہ خیال غلط ہے آپ کو نماز بہر حال پڑھنی چاہیے.بے شک کپڑوں کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن اگر صفائی کسی وجہ سے نہ ہو سکے تو انہی کپڑوں سے نماز پڑھ لیں اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہو اور وہ پیشاب میں ڈوبا ہوا ہو اور اتنا وقت نہ ہو کہ آپ صفائی کر سکیں تو انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لینی چاہیئے.بے شک صفائی بھی ضروری چیز ہے لیکن جب تک صفائی کا وقت ہو اس وقت تک صفائی کریں اور جب نماز کا وقت آجائے تو اس وقت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں خواہ کپڑوں سے کتنی ہی غلاظت لگی ہوئی ہو کیونکہ نماز تمام چیزوں سے مقدم ہے اور اسے کسی صورت بھی ترک کرنا جائز نہیں.غرض میں نے نماز پڑھنے کے متعلق بہت ہی زور دیا اور اس کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اپنے نوکروں کو حکم دے دیا کہ صبح مجھے نماز کے لئے ضرور جگا دیا جائے اور اگر میں نہ اٹھوں تو بے شک مجھے چار پائی سے گرا دینا کیونکہ اس نصیحت کے بعد آج نماز نہ پڑھنا میں بہت بڑا گناہ سمجھتا ہوں.امراء عموماً جلدی سو جایا کرتے ہیں مگر اس روز وہ مجھ سے کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اس لئے انہیں کافی رات گئے سونا پڑا.جب صبح کا وقت ہوا تو نوکروں نے انہیں اٹھا یاوہ بڑی مشکل سے اٹھ تو بیٹھے مگر پھر
$1940 379 خطبات محمود لیٹ گئے.انہوں نے پھر اٹھایا تو وہ پھر لیٹ گئے.آخر پکڑ پکڑا کر وہ انہیں نماز کے لئے چھوٹی مسجد میں لائے.مسجد میں بیٹھ کر بھی وہ اونگھتے ہی رہے اور اونگھتے اونگھتے ہی انہوں نے نماز پڑھی.لطیفہ یہ ہوا کہ جب نماز کے بعد وہ جانے لگے تو نیند کی حالت میں کسی کی پرانی سٹری ہوئی جوتی پہن کر چل پڑے.رستہ میں نوکر نے جو ان کو کسی کی بھٹی پر انی جوتی پہنے دیکھا تو کہا حضور آپ نے یہ کیا پہنا ہوا ہے؟ اس آواز پر وہ کچھ بیدار ہوئے اور اپنے پاؤں کی طرف دیکھ کر حیران ہو گئے.آخر اپنے نوکر سے کہنے لگے کہ جلدی سے یہ جوتی وہاں جا کر رکھ آؤ کسی نے دیکھ لیا تو وہ یہ نہ کہے کہ میں مسجد سے جوتی پھر الا یا ہوں حالانکہ ان کا اپنا جو تا پچیس تیس روپے کا ہو گا اور وہ جوتی پھٹی پرانی تھی.کوئی کہہ ہی کس طرح سکتا تھا کہ انہوں نے پچھیں تھیں روپے جوتے کے بدلہ میں ایک پھٹی پرانی جوتی پھر الی مگر انہوں نے نوکر سے کہا جلدی جانا ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھے یہ کہہ دے کہ میں اس کی جوتی پھر الا یا ہوں.آخر نوکر مسجد میں آیا اور وہاں سے جو تا بدل کرلے گیا.تو بعض لوگ اس وہم کی وجہ سے نماز نہیں پڑھا کرتے کہ شاید ان کے کپڑے صاف نہیں.حالانکہ یہ کوئی معقول عذر نہیں.پھر امراء کا میں کیا کیا عیب گنواؤں ان کے لئے تو روزہ رکھنا بھی بڑی مشکل چیز ہے.کہتے ہیں کوئی امیر آدمی تھا اس نے ایک دن کسی مولوی کے وعظ سے متاثر ہو کر روزہ رکھ لیا مگر ابھی ظہر ہی ہوئی تھی کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگا.بھلا ایک دن میں جنہیں ہیں بیس مرتبہ کھانے کی عادت ہو وہ کس طرح صبر کر سکتے ہیں.آخر تنگ آکر اس نے نوکر کو آواز دی اور کہا کہ دیکھو شام کی اذان ہوئی ہے یا نہیں.اس نے کہا حضور ا بھی شام کہاں ابھی تو سورج نصف النہار پر کھڑا ہے.کہنے لگا پھر تو میری موت آگئی.تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر نوکر کو آواز دی اور کہا دیکھنا مغرب کی اذان تو نہیں ہوئی.اس نے کہا ابھی تو مغرب میں بہت دیر ہے.کہنے لگا اچھا ملا کو بلاؤ.ملا آیا تو کہنے لگا روزہ کس وقت کھولا جاتا ہے.اس نے کہا شام کے وقت.وہ کہنے لگا پھر میرا کیا بنے گا میں تو اس وقت تک مر جاؤں گا.مُلّا نے کہا پھر میں کیا کر سکتا ہوں.اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ اگر میں روزہ توڑ دوں تو میرے لئے کیا سزا ہے.اس نے کہا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا.وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا اس مُلا کو انعام دو
$1940 380 خطبات محمود اور ساٹھ مسکینوں کے کھانے کا ابھی انتظام کر دو.میں روزہ توڑ دیتا ہوں.یہ کہہ کر اس نے روزہ توڑ دیا اور کہنے لگا الْحَمدُ لِلهِ اسلام بھی کیسا با برکت مذہب ہے کہ اس نے انسان کو ہر قسم کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور کسی موقع پر بھی کوئی تکلیف پیش نہیں آتی.اس نے اپنی طرف سے سمجھا کہ روزانہ گھر میں کئی کئی کھانے تو پہلے ہی پکتے ہیں آج اگر ساٹھ مسکینوں کو میں نے کھانا کھلا دیا تو کون سی بڑی بات ہو گی حالانکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی سزا اس کے لئے ہے جو جذبات نفسانی کے جوش کے ماتحت غلطی سے روزہ توڑ دیتا ہے.اس کے لئے نہیں جو دیدہ دانستہ روزہ توڑلے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر سمجھ لے کہ چھٹی ہو گئی.اب اس کا کوئی جرم نہیں رہا.جو شخص دیدہ دانستہ روزہ چھوڑتا ہے وہ خد اتعالیٰ کا مجرم ہے اور کوئی ظاہری سزا اس کا کفارہ نہیں ہو سکتی.تو امراء کے لئے میں کون کون سی چیز گناؤں.ان کے لئے تو ساری عبادتیں ہی بڑی نیکیاں ہیں مگر پھر بھی چونکہ دنیا میں مُخْتَلِفُ الْأَنْوَاع لوگ رہتے ہیں اس لئے کسی کے لئے حج بڑی نیکی ہے، کسی کے لئے زکوۃ بڑی نیکی ہے، کسی کے لئے روزہ بڑی نیکی ہے، کسی کے لئے نماز بڑی نیکی ہے.اس اصل کے ماتحت جو لوگ روزہ رکھنے میں سستی کرتے ہوں ان کے لئے روزہ رکھنا سب سے بڑی عبادت ہے.اگر وہ اپنے نفس میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سے روزہ رکھنے میں سستی ہو جاتی ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کے لئے بڑی عبادت روزہ ہے.اگر وہ روزے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ جلدی حاصل کر لیں گے یہ نہیں کہ ان کے لئے دوسری عبادتیں معاف ہو جائیں گی.معاف تو کوئی عبادت بھی نہیں ہو سکتی البتہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول زیادہ تر روزوں پر ہی مبنی ہو گا اور اس نیکی کا انہیں اور نیکیوں کے مقابلہ میں زیادہ ثواب ملے گا.پس نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی کا ترک کرنا بھی گناہ ہے لیکن نیکیوں میں سے اس نیکی کو اختیار کرنے میں زیادہ ثواب ہے جس کے بجالانے میں انسان سے سستی ہو جایا کرتی ہو.پس وہ لوگ جو روزہ رکھنا اپنے لئے ایک قسم کا بوجھ سمجھتے ہیں انہیں روزہ رکھنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اس بہانہ سے اس حکم کو ٹالنا نہیں چاہیئے کہ روزہ رکھنے سے انہیں کمزوری ہو جاتی ہے.خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ میں نے پہلے کہا اور جو کچھ میں آج بھی کہتا ہوں وہ صرف
$1940 381 خطبات محمود یہ ہے کہ 18 سال سے پہلے صرف کمزوری کی بناء پر کبھی کبھی روزہ رکھنا جائز ہے مگر کمزوری سے میر امر اد معمولی ضعف نہیں جو عام طور پر روزوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہی کرتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ایسا محسوس ہو کہ وہ روزہ بر داشت نہیں کر سکے گا.پس جب تک بلوغت تامہ نہ ہو اس وقت تک محض اس وجہ سے کسی نہ کسی دن روزہ چھوڑ دینا جائز ہے اور وہ لوگ جو پابندی کے ساتھ اپنے بچوں سے جو ابھی بلوغت تامہ کو نہیں پہنچے رمضان کے تمام روزے رکھواتے ہیں ان کے متعلق میں آج بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ وہ گنہگار ہیں کیونکہ آج تو وہ دباؤ ڈال کر اپنے بچوں سے روزے رکھوالیں گے مگر اس کے نتیجہ میں وہ ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ بقیہ ساری عمر روزے رکھنے سے محروم رہیں گے.پس کمزور بچوں کو محض کمزوری کی وجہ سے روزوں میں ناغے کر لینے جائز ہیں لیکن بلوغت کے بعد محض کمزوری کی بناء پر روزوں میں ایک ناغہ کرنا بھی جائز نہیں.اس وقت صرف ایسی ہی کمزوری کی وجہ سے روزہ چھوڑا جا سکتا ہے جس کے متعلق ڈاکٹر کی یہ رائے ہو کہ اگر اس حالت میں روزہ رکھا گیا تو یہ بیمار ہو جائے گا.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں نے خود کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو روزہ نہیں رکھتے اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں نہیں رکھا تو جواب دیتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ہمیں بڑا ضعف ہو جاتا ہے حالانکہ روزہ تو شریعت نے مقرر ہی اس لئے کیا ہے کہ انسان کچھ کمزور ہو.اس لئے تو مقرر نہیں کیا کہ روزہ رکھنے والا پہلے سے زیادہ موٹا ہو جائے.مگر ہمارے ملک کے مسلمان امراء کی یہ حالت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ان کے روزے ان کے لئے خوید کا کام دیتے ہیں یعنی جس طرح گھوڑے کو خو ید دی جائے تو وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح رمضان کے ایام میں انہیں دن رات کھانے کا فکر رہتا ہے.شام ہوتی ہے تو سحری کے لئے تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور صبح ہوتی ہے تو انہیں افطاری کا فکر ہو جاتا ہے.چنانچہ نوکروں میں سے کوئی تو پکوڑے تل رہا ہو تا ہے، کوئی سویاں پکا رہا ہوتا ہے، کوئی بادام اور پستہ تیار کر رہا ہوتا ہے، کوئی فرنی بنارہا ہوتا ہے، کوئی یخنی بنانے میں مشغول ہوتا ہے اور کوئی یا قوتی تیار کرنے میں مصروف ہوتا ہے.غرض سارا دن گھر میں ایک آفت بپا رہتی ہے اور جب خدا خدا کر کے روزہ افطار ہوتا ہے تو اسی وقت سے سحری کا فکر ہو جاتا ہے اور
$1940 382 خطبات محمود وہ نوکروں کو ہدایات دینی شروع کر دیتے ہیں کہ صبح مرغا تیار ہو ، ساتھ پر اٹھے پکائے جائیں اور مکھن وغیرہ کا بھی انتظام ہو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزے رکھانے سے شریعت کی تو یہ غرض ہوتی ہے کہ انسان کچھ ریاضت کا عادی ہو جائے اور غرباء کی حالت کا اسے علم حاصل ہو جائے مگر وہ ان روزوں کے بعد پہلے سے دوگنے موٹے ہو جاتے ہیں.پس روزوں کی یہ غرض نہیں بلکہ روزوں کی غرض یہ ہے کہ انسان کے اندر بھوک اور پیاس کی تکلیف کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہو اور امراء کو اپنے غریب بھائیوں کی امداد کا احساس ہو.جو شخص کبھی بھوکا نہ رہے اسے غرباء کی امداد کا کہاں خیال آسکتا ہے لیکن جو شخص خود روزہ رکھے گا اور بھوک کی تکلیف کو محسوس کرے گا اسے غریب بندوں کی تکلیف کا بھی احساس ہو گا.پس امراء پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.وہ شریعت کے ان احکام کو اُس قدرو منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جس قدرو منزلت کی نگاہ کے ساتھ انہیں ان احکام کو دیکھنا چاہیے بلکہ بعض امراء تو دین کی حقیقت سے اتنے ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ افطاری اور سحری تو ضروری سمجھتے ہیں مگر روزہ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے.تو یہ چیز ایسی ہے جس سے بچنا چاہیئے.ایسے کمزور بچوں کو جن کی طاقتوں اور قوتوں نے ابھی پورے طور پر نشو و نما حاصل نہ کیا ہو روزوں میں وقفہ دے دینا شریعت کے خلاف نہیں بلکہ اگر کوئی اس پر اعتراض کرتا ہے تو وہ میرے نزدیک کچھ حجت ملا ہے کیونکہ وہ چند روزوں کی خاطر اس کی تمام عمر بر باد کرتا ہے.اس کے مقابلہ میں وہ نوجوان جس میں کافی طاقت پائی جاتی ہے اور پھر بھی وہ روزہ نہیں رکھتا محض اس وجہ سے کہ اس کی عمر ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی وہ بھی بے دین ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے جو سہولت دی تھی اس سے وہ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے.پس یہ دونوں ہی غلط راستہ پر ہیں.وہ جو کسی کمزور بچے سے زبر دستی روزے رکھواتا ہے اور اس سے یہ امید کرتا ہے کہ وہ ایک روزہ کا بھی ناغہ نہ کرے وہ بھی ظالم اور کچھ حجت ملا ہے اور وہ جو طاقت کے باوجود محض اس بہانہ کی آڑ میں روزہ نہیں رکھتا کہ ابھی اس کی عمر کم ہے وہ بھی دین سے تمسخر کرتا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی بجائے اس کی دشمنی مول لیتا ہے.ہاں یہ یاد رکھو کہ روزوں میں عادت کا بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے.بیشک 18 سال
$1940 383 خطبات محمود سے قبل ہم ہر بچہ سے توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ تمام روزے رکھے گا مگر ماں باپ کا یہ فرض ضرور ہے کہ وہ اس عمر میں انہیں روزے رکھنے کی عادت ڈالیں کیونکہ اگر ان رخصت کے ایام میں انہیں روزے رکھنے کی عادت نہیں ہو گی تو انیسویں سال وہ کبھی سارے رمضان کے روزے نہیں رکھ سکیں گے.انیسویں سال وہی شخص رمضان کے تمام روزے رکھ سکتا ہے جس نے گیارہ بارہ سال سے روزے رکھنے کی مشق شروع کر دی ہو اور اٹھارویں سال تک قریباً تمام روزے رکھنے کا عادی ہو گیا ہو ورنہ اگر وہ اس رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو شاید ساری عمر ہی بہانے بنا تار ہے گا اور کبھی بھی سارے روزے نہیں رکھ سکے گا.میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ قادیان میں ایسے کئی نوجوان موجود ہیں جو معمولی معمولی بہانوں کی آڑ میں روزہ چھوڑ دیتے ہیں مثلاً کوئی کہہ دیتا ہے کہ روزہ رکھنے سے مجھے پیچش ہو جاتی ہے، کوئی کہتا ہے مجھے کمزوری اور ضعف ہو جاتا ہے اور یہ صرف بہانہ ہو تا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اچھے تندرست لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی سب لوگوں کو ابتدائی روزوں میں کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور ہو جاتی ہے.خود میری یہ حالت ہے کہ شروع سے ایک دو روزوں میں مجھے شام کے وقت سر درد کا دورہ ہو جایا کرتا ہے.میرے معدے میں ترشی زیادہ ہے اور فاقہ کی وجہ سے اس ترشی کا زور دماغ کی طرف ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سر درد شروع ہو جاتا ہے مگر ایک دو دن کے بعد وہ ترشی ماری جاتی ہے اور پھر سر درد نہیں ہوتا.اب اگر اس قسم کے سر درد کو میں بیماری قرار دے دوں تو شاید ایک دو روزوں کے سوا کبھی کوئی روزہ نہ رکھ سکوں.تو اس قسم کے بہانوں کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں.مگر بلا وجہ سختی کر کے یونہی خیال کر کے کہ فلاں بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں ہی بالغ ہو گیا ہے اس سے تمام روزے رکھوانا بھی جائز نہیں.بلکہ بارہ تیرہ سال کی بھی شرط نہیں میں تو یہ بھی مان سکتا ہوں کہ کوئی شخص آٹھ سال کی عمر میں ہی بالغ ہو جائے مگر یہ کوئی قانون نہیں ہو گا.طبی طور پر جو ایک مسلمہ قانون ہے وہ یہی ہے کہ 18 سال کی عمر بلوغت تامہ کا زمانہ ہے.بعض کی بلوغت تامہ بائیس سال کی عمر میں بھی ہوتی ہے مگر ایسے لوگ بہت قلیل ہوتے ہیں.زیادہ تر جن بچوں نے اپنا قد نکالنا ہوتا ہے وہ اٹھارہ سال تک
$1940 384 خطبات محمود نکال لیتے ہیں اور ان کی قوتیں بھی نشو و نما حاصل کر لیتی ہیں.بعد میں بھی گو ایک خاص عمر تک ان قوتوں میں نشو و نما ہوتا رہتا ہے مگر وہ بہت کم ہوتا ہے.اس نشو و نما کے زمانہ میں بچے پر یہ زور دینا کہ وہ ضرور تمیں روزے رکھے اس کی صحت کو خراب کرنا اور اسے آئندہ کے لئے کام کے نا قابل بنانا ہے.مگر جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اس عمر کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس کو ضائع کر دیا گیا تو اس کا بھی بچے کو نقصان پہنچے گا بلکہ جیسے مدرسہ کی پڑھائی میں تدریجاً اضافہ کیا جاتا ہے اسی طرح ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اس زمانہ میں اپنے بچوں کو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھواتے چلے جائیں.کچھ روزے بارہ سال کی عمر میں رکھوائیں.پھر کچھ روزے بڑھا کر تیرہ سال کی عمر میں رکھوائیں.اسی طرح چودھویں، پندرھویں، سولہویں اور سترھویں سال اس کے روزوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اٹھارویں سال اگر وہ طاقتور ہے تو اسے تمام روزے رکھوائے جائیں اور اگر کمزور ہے تو دو چار چھڑا دیئے جائیں تا کہ جب وہ اپنی عمر کے انیسویں سال میں داخل ہو تو ایک روزہ بھی نہ چھوڑے.اگر اس طرح اسے پہلے سے روزوں کی عادت نہیں ہو گی تو انیسویں سال وہ کبھی سارے روزے نہیں رکھ سکے گا بلکہ کچھ روزے رکھے گا اور کچھ چھوڑ دے گا.اسی طرح بیسویں سال کچھ روزے رکھے گا اور کچھ چھوڑ دے گا اور کئی سال کے بعد وہ اس حالت پر آئے گا کہ رمضان کے تمام روزے رکھے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس عرصہ میں اس کے دل پر زنگ لگ جائے اور جو روزے وہ چھوڑ دے انہیں دوبارہ نہ رکھے.تم غور کر کے دیکھ لو اپنے دوستوں اور ہمسائیوں پر بھی نظر دوڑا کر معلوم کر لو کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن سے اگر کوئی روزہ رہ جاتا ہے تو وہ بعد میں رکھ لیتے ہیں.نماز کے متعلق تو ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جب کسی سے کوئی نماز رہ جاتی ہے تو وہ دوسری نماز کے وقت اسے ادا کر لیتا ہے لیکن رمضان کے روزوں کے متعلق ہمیں یہ تعہد نظر نہیں آتا.جو لوگ تقویٰ شعار ہوتے ہیں وہ تو بعد میں روزے رکھ لیتے ہیں مگر عام طور پر اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی یا زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کر لیتے ہیں کہ شوال میں ان سے جتنے روزے رکھے جاسکتے ہیں رکھ لیتے ہیں اور باقی روزے چھوڑ دیتے ہیں.یہ نتیجہ اسی بات کا ہے کہ نوجوانوں کو آغاز جوانی سے روزے رکھنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصتوں سے
$1940 385 خطبات محمود ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کے تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سہولتیں رکھی ہوئی ہیں ان کا ادب کرو، اس کی رخصتوں کا احترام کرو اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو.رسول کریم صل الی یکم فرماتے ہیں کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے جس میں کسی کو اپنے جانور چرانے کی اجازت نہیں ہوتی.اسی طرح خدا کی بھی ایک رکھ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رکھ اس کے محارم ہیں.جو شخص ان محارم کے قریب اپنے نفس کو چراتا ہے وہ ایک نہ ایک دن خدا تعالیٰ کی رکھ میں گھس جائے گا اور اس کی ناراضگی اور غضب کا مورد بن جائے گا.6 پس تم اللہ تعالیٰ کی رخصتوں سے ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان رخصتوں کو تقویٰ کی ترقی کا ذریعہ بنایا ہے نہ کہ تقویٰ کی تباہی کا.“ (الفضل6 نومبر 1940ء) 1 بخاری کتاب التهجد باب الدعا و الصلوة من أخر الليل (الخ) 2 بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم 3 بخاری کتاب الجهاد والسير باب فضل الخدمة في الغزو 4 بخاری کتاب التوحيد باب وسمى النبي والعالم الصلوة عملا 5 سنن النسائی کتاب الایمان باب ذکر افضل الاعمال 6 بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر ألدينه
$1940 386 (28) خطبات محمود ہر قوم اور ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق سے دنیا میں پھیلائے اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل و شواہد پر اپنے معتقدات کی بنیادر کھے تشهد (فرموده یکم نومبر 1940ء) تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج دوست معمول سے زیادہ تعداد میں جمع ہیں اور مستورات بھی پہلے سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ان کی طرف سے اس قدر شور و ہنگامہ کی آوازیں آرہی ہیں کہ غالباً دائیں طرف کے ایک حصہ کے لئے خطبہ کا سنا بالکل ناممکن ہو جائے گا.یہ اجتماع ہمارے عام محاورہ کے مطابق رمضان کو وداع کرنے کے لئے ہے.چنانچہ آپ لوگوں میں سے کئی تو وہ ہیں جنہوں نے رمضان کا استقبال کیا اور پھر رمضان کی صحبت میں مہینہ بھر رہے اور اس کی برکتوں کو انہوں نے حاصل کیا.وہ آج اس شوق سے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ جس مہینہ نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے آؤ ہم اس کو رخصت بھی کریں تا وہ ہماری محبت کے جذبہ کو دیکھ کر
$1940 387 خطبات محمود ہمیں اپنی برکتوں سے پھر بھی حصہ دے اور اپنی روحانی نعمتوں سے ہمیں پھر بھی مالا مال کرے مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے رمضان کا استقبال نہیں کیا تھا اور نہ انہوں نے اس کی برکات سے کوئی فائدہ اٹھایا.وہ بھی آج اس مہینہ کو رخصت کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں مگر ان کا آنا بالفاظ دیگر اس لئے ہے کہ وہ رمضان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا جو تم جا رہے ہو.تمہارے آنے کی وجہ سے ہم ایک مصیبت میں پھنس گئے تھے اور ہمیں خواہ مخواہ لوگوں کی شرمندگی سے بچنے کے لئے بھو کا اور پیاسا رہنا پڑتا تھا اب اچھا ہوا جو تم جارہے ہو اور ہمیں اس بلا سے نجات ملی.دونوں قسم کے لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق پھل کھالیں گے.وہ جس نے رمضان کو پایا اور اس کی برکات سے اس نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اس کا وداع برکت والا وداع ہے اور وہ ایسا ہی وداع ہے جیسے ایک دوسرے دوست کو الوداع کہتا ہے اس کا وداع اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دوست سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس لئے اسے وداع کرنے جاتا ہے تا اس کا دوست اس پر پھر بھی مہربان رہے اور وہ پھر بھی اس کے پاس آتا رہے.مگر وہ جنہوں نے رمضان سے تو کوئی فائدہ نہیں اٹھایا مگر آج اسے وداع کرنے کے لئے آگئے ہیں ان کے وداع کے معنے یہ ہیں کہ اچھا ہوا جو تجھ سے چھٹکارا حاصل ہوا.ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ان کی نیتوں کے مطابق بدلہ ملے گا.وہ جو پہلا گر وہ ہے جس نے رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور جو محبت اور اخلاص کے جذبات کے ساتھ اسے وداع کرنے کے لئے آیا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے دعا کریں گے اور کہیں گے خدا تجھے اور بھی کئی رمضان نصیب کرے اور تجھے توفیق دے کہ تو اس کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرے مگر وہ جو آج رمضان کو اس نیت سے الوداع کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ انہیں ایک مصیبت سے نجات ملی ان کو آج کی نماز کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ رمضان کی عزت کرنے نہیں بلکہ اس کی ہتک کرنے آئے ہیں.اس کے بعد میں ایک اور امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ کہ چند دن ہوئے ہماری جماعت کے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ مجھے ایک مخالف شخص نے کچھ ٹریکٹ دینے چاہے جن کے اور وہ یہ
$1940 388 خطبات محمود لینے سے میں نے انکار کر دیا لیکن اس نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہماری باتوں کو سنیں اور ٹریکٹ لینے سے انکار نہ کریں.اس دوست نے لکھا ہے کہ مجھے ایک عام اعلان کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو ایسے لوگوں کا لٹریچر پڑھنے سے روک دینا چاہیئے کیونکہ اس طرح جماعت کا کمزور طبقہ متاثر ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.میں اس بارہ میں پہلے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ میرے نزدیک پبلک جگہوں میں یا ایسے مقامات جہاں کسی خاص قوم کو کوئی امتیازی حق حاصل نہ ہو وہاں اس کا کوئی جتھا نہ ہو اور بظاہر امن میں خلل واقع ہونے کا کوئی اندیشہ نہ ہو ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پھیلانے کا حق رکھتا ہے اور اگر ہم اسے روک دیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بیرونی مقامات میں جب ہمارا کوئی احمدی ٹریکٹ وغیرہ تقسیم کرنے لگے اور دوسرے لوگ اسے روک دیں یا ٹریکٹ لینے اور پڑھنے سے انکار کر دیں تو وہ بھی اپنے رویہ میں حق بجانب سمجھے جائیں.حالانکہ اگر کسی جگہ ہمارا کوئی احمدی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتا ہے اور لینے والا نہیں لیتا تو یہ امر اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے مگر بہر حال ہم غیروں کو اپنے ٹریکٹ دیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو جو حق ہمیں حاصل ہے وہی حق دوسروں کو بھی حاصل ہونا چاہیئے.مذہب دنیا میں امن پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آتے اور اگر ہم ایک سچے مذہب پر قائم ہیں تو لازماً ہمیں دنیا کو وہ حریت اور آزادی دینی ہو گی جس کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کر سکتی.یہ تو لینے والے کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے.مثلاً فرض کرو کسی کے ہاتھ میں پہلے ہی بہت سی کتابیں ہوں یا اور کوئی سامان اس نے اٹھایا ہوا ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں اس وقت نہیں لے سکتا.یا ممکن ہے وہ ٹریکٹ اس نے پڑھا ہوا ہو تو اس صورت میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس ٹریکٹ کی ضرورت نہیں.اسی طرح اگر اسے پڑھنے کی فرصت ہی نہیں تو اس عذر کی بناء پر بھی وہ کوئی ٹریکٹ لینے سے انکار کر سکتا ہے لیکن اگر دینے والا دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دوسرا شخص غلطی پر ہے اور میر افرض ہے کہ میں اس کی اصلاح کروں تو اگر دیانتداری کے ساتھ اس کی نیت اسی حد تک ہے اور وہ دوسرے کی خیر خواہی و اصلاح کے جذبہ کے ماتحت اپنا کوئی ٹریکٹ دوسرے کو پڑھنے کے لئے دیتا ہے
$1940 389 خطبات محمود الله سة تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے تقسیم کرنے یا اپنی جماعت کے دوستوں کو ان کے لینے اور پڑھنے سے منع کریں.جس چیز کو اسلام ناجائز قرار دیتا ہے اور جسے ہم ناپسند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اشتہار بازی یا ٹریکٹوں کی تقسیم وغیرہ سے کوئی فتنہ اٹھایا جائے اور یا پھر ہم اس امر کو نا پسند کرتے ہیں کہ کوئی شخص رات کو اٹھ کر کسی کے خلاف کارٹون لگا دے.اگر اس میں جرآت اور دلیری ہے تو وہ کیوں اپنی پنچایت، اپنی مجلس، اپنی جماعت اور اپنی قوم کے بزرگوں کے سامنے اس معاملہ کو نہیں رکھتا اور انہیں کیوں نہیں بتاتا کہ فلاں خرابی کو دور کرنا چاہیئے اس کے معنی تو یہ ہیں کہ اس نے ایک بے دلیل بات بیان کر دی مگر جو جواب دینے والا ہے وہ حیران ہے کہ وسوسہ ڈال کر وہ بھاگ کہاں گیا.تو یہ چیزیں ہیں جنہیں ہم نا پسند کرتے ہیں لیکن علی الاعلان کسی کو اشتہار یا ٹریکٹ دینا ہر گز کوئی ناپسندیدہ طریق نہیں.بشر طیکہ اس میں گالیاں نہ ہوں اور بشر طیکہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو.اگر اس طریق کو روک دیا جائے تو مذہب دنیا میں کبھی پھیل ہی نہیں سکتا.آخر رسول کریم صلی الی یوم کے جو مخالف تھے انہیں آپ کی باتیں سنا نا گوار ہی گزرتا تھا مگر کیا اس وجہ سے انہیں حق تھا کہ وہ رسول کریم صلی للی نام کو اپنی باتوں کے پھیلانے سے روک دیتے یا اس زمانہ میں تو پریس نہیں تھا مگر کیا موجودہ زمانہ میں غیر احمدیوں کو حق حاصل تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہتے کہ آپ ہم میں اپنے اشتہار یاٹریکٹ کیوں تقسیم کراتے ہیں.پس اس قسم کی باتوں کو روکنا حماقت کی بات ہے.ہر قوم کا حق ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق پر دنیا میں پھیلائے اور چاہے تو اشتہار تقسیم کرے اور چاہے تو ٹریکٹ دے.یہ لینے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے.مگر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کو اپنے لٹریچر کی تقسیم سے روک دے.یہ تو اشاعت لٹریچر کے متعلق میں نے ایک اصول بیان کیا ہے لیکن میں اسی حد تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھتا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی قوم کو بُھورے میں بٹھا دینا اس سے انتہاء درجہ کی دشمنی اور اس کی ترقی کی جڑ پر اپنے ہاتھوں سے تبر رکھنا ہے.جو قوم بھورے میں بند کر کے بٹھا دی جائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی اور نہ کبھی عزت اور عروج کو حاصل کر سکتی ہے.ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو گھروں میں سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں
$1940 390 خطبات محمود اور انہیں تاکید کرتے رہتے ہیں کہ دیکھنا باہر نہ جانا، دیکھنا فلاں فلاں سے نہ ملنا وہ اپنے ماں باپ کی موجودگی میں تو الگ تھلک رہتے ہیں لیکن جب ان کے سروں سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو وہ اول درجہ کے آوارہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نہ معلوم فلاں فلاں لڑکے میں کیا بات ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں ان سے ملنے نہیں دیتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ماں باپ سر پر نہیں رہتے تو چونکہ ان کے دل میں مدتوں سے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں وہ ان سے ایسے شوق اور ایسی محبت سے ملتے ہیں کہ بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں لیکن دوسرا لڑکا جس کی گو جائز نگرانی کی جاتی ہو مگر اسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بھی منع نہ کیا جاتا ہو وہ جب آوارہ لڑکوں کو دیکھتا اور ان کے انجام پر نظر دوڑاتا ہے تو کبھی غلطی نہیں کرتا اور بالعموم اس کا ایسا مضبوط کیریکٹر رہتا ہے کہ لوگ اس پر ڈورے نہیں ڈال سکتے.مسلمانوں کے تنزل کا بھی زیادہ تر یہی سبب ہوا کہ وہ غیر مذاہب کی کتب کے پڑھنے سے غافل ہو گئے.چنانچہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان کسی عیسائی کی کتاب نہیں پڑھیں گے ، کسی ہندو کی کتاب نہیں پڑھیں گے ، کسی اور مذہب والے کی کتاب نہیں پڑھیں گے.صرف اپنے ہی مذہب کی کتاب پڑھتے رہیں گے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ عیسائی کیا کہتے ہیں، ہند و کیا باتیں پیش کرتے ہیں.اس لئے جب ہند و یا عیسائی ان سے کسی مذہبی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ آسانی سے ان کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن عیسائی دوسرے مذاہب کی کتب کو خوب غور سے پڑھتے ہیں اور خواہ ان کے سامنے کتنی ہی زبر دست دلیلیں پیش کی جائیں ان پر کوئی اثر نہیں ہو تا.پس بجائے اس کے کہ میں اس قسم کے لٹریچر کی اشاعت کو ناپسند کروں اور جماعت کو اس کے پڑھنے سے روک دوں.میں تحریک کرتا ہوں کہ جماعت کو اپنی فرصت کے اوقات میں اس قسم کا لٹریچر ضرور پڑھنا چاہیئے اگر تمہیں معلوم ہی نہیں کہ مخالف کیا کہتا ہے تو تم اس کا جواب کیا دو گے ؟ اور اگر ہماری جماعت کے بعض لوگ اتنے ہی کمزور ہیں کہ وہ مخالف کی ایک کتاب پڑھ کر اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو ایسے لوگوں کو سنبھالنے سے کیا فائدہ؟ ایک شاعر نے طنزاً کہا ہے کہ www
خطبات محمود 391 کیا ڈیڑھ چلو پانی سے ایمان بہہ گیا $1940 اس نے تو ایک ناجائز چیز کا ذکر کر کے کہا ہے کہ کیا میں اس کا ڈیڑھ چلو پی کر ہی کا فر ہو گیا مگر جو جائز باتیں ہیں ان کے متعلق ہم یہ کہاں فرض کر لیں کہ ہماری جماعت میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا ایمان مخالفوں کا ایک اشتہار یا صرف ایک ٹریکٹ یا ایک کتاب پڑھنے سے ہی ضائع ہو جائے گا اور وہ ایسا متاثر ہو گا کہ احمدیت کو چھوڑ دے گا اور اگر کوئی متاثر ہو گا تو اسی وجہ سے کہ ہم نے اسے احمدیت کی حقانیت کے دلائل پوری طرح نہیں سمجھائے ہوں گے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس ذمہ داری کو جو قوم کے تمام افراد کو صحیح تعلیم دینے سے تعلق رکھتی ہے ادا کرنے میں سست ہو جاتی ہے.اس قوم کے افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم نے دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے اپنی تمام قوم کو منع کر دیا ہے تو وہ غیر کے اثرات سے متاثر ہی کب ہو گی گویا وہ اصلاح کا ایک شارٹ کٹ تجویز کرتے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ خطر ناک اور تباہ کن راستہ اور کوئی نہیں.جب ہم اپنی جماعت کے افراد کو یہ آزادی دیں گے کہ وہ دوسرے کے لٹریچر کو بھی پڑھیں تو لازماً ہمیں یہ فکر رہے گا کہ ہم دوسروں کے پیدا کردہ شبہات کا بھی ازالہ کریں اور اس کے تردیدی دلائل ان کے ذہن نشین کریں.لیکن اگر ہم انہیں دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے ہی منع کر دیں گے تو لازما ہم تعلیمی پہلو میں ست ہو جائیں گے اور ہمیں یہ احساس نہیں رہے گا کہ دوسروں کے دلائل کا جواب بھی اپنے افراد کو سکھانا چاہیئے.چنانچہ فرض کرو اگر ہم کہہ دیں کہ جماعت کا کوئی شخص دوسروں کا لٹریچر نہ پڑھے تو چونکہ حیات مسیح کے دلائل جو وہ پیش کرتے ہیں انہی کی کتب میں سے مل سکتے ہیں اس لئے یہ دلائل ہماری جماعت کی نظروں سے مخفی رہیں گے اور ان کا کوئی جواب ہمارے افراد کو نہیں آئے گا.اسی طرح ہم وفات مسیح کے دلائل بھی زیادہ توجہ سے اپنے افراد کو نہیں سکھا سکیں گے کیونکہ وفات مسیح کے دلائل کی ضرورت بھی حیات مسیح کے دعویٰ کے مقابلہ میں ہی پیش آیا کرتی لیکن اگر دوسرا شخص حیات مسیح کے دلائل پیش کرے اور وہ دلائل ہماری جماعت کے سے
$1940 392 خطبات محمود افراد کے سامنے آتے رہیں تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ انہیں وفات مسیح کے دلائل بھی سمجھائیں.اسی طرح اگر ہم کہہ دیں کہ مسئلہ نبوت کے بارہ میں کسی مخالف کی کوئی کتاب نہ پڑھی جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی جماعت کو اپنے عقیدہ کے دلائل بتانے میں بھی ہم ست ہو جائیں گے اور جو لوگ وفات مسیح یا مسئلہ نبوت کو ہم میں ماننے والے ہوں گے وہ بھی عَلَى وَجْهِ الْبَصِيرَت ان مسائل پر قائم نہیں ہوں گے بلکہ تقلیدی رنگ میں ہوں گے حالانکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل اور شواہد کی بناء پر اپنے تمام اعتقادات رکھے.چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم صلی الی یکم کا یہی دعوی بیان ہوا ہے کہ میں اور میرے متبع دلائل سے اسلام کو مانتے ہیں مگر تم اپنی باتوں پر بے دلیل قائم ہو اور جو قوم کسی بات کو بے دلیل مان لیتی ہے وہ کبھی برکت حاصل نہیں کر سکتی.برکت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بادلیل مانے ، چاہے وہ سچے مذہب میں ہی کیوں شامل نہ ہو.اگر ایک مسلمان اس لئے خدا کو ایک سمجھتا ہے کہ اس کے ماں باپ خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے.اگر ایک مسلمان اس لئے نمازیں پڑھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ نمازیں پڑھتے دیکھا.اگر ایک مسلمان اس لئے روزے رکھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ اور اپنی قوم کے افراد کو روزے رکھتے دیکھا.اگر ایک مسلمان اس لئے زکوۃ دیتا ہے کہ اس کی قوم زکوۃ دیتی ہے اور اگر ایک مسلمان اس لئے حج کرتا ہے کہ اور لوگوں کو بھی وہ حج کرتے دیکھتا ہے تو قیامت کے دن اس کی توحید ، اس کی نمازیں، اس کے روزے، اس کی زکوۃ اور اس کا حج اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے.بلکہ خدا کہے گا کہ بے شک تم نے توحید کے عقیدہ پر ایمان رکھا مگر میں اس کا ثواب تمہارے ماں باپ کو دوں گا جنہوں نے دلائل سے میری وحدانیت پر ایمان رکھا تھا.اسی طرح بے شک تم نے نمازیں بھی پڑھیں ، تم نے روزے بھی رکھے، تم نے زکوۃ بھی دی، تم نے حج بھی کیا مگر چونکہ یہ تمام اعمال تم نے دوسروں کو دیکھ کر کئے اور خود ان اعمال کی حقیقت اور حکمت کو نہ سمجھا اس لئے جو لوگ نمازیں سمجھ کر پڑھا کرتے تھے ، روزے سمجھ کر رکھا کرتے تھے ، زکوہ سمجھ کر دیا کرتے تھے اور حج سمجھ کر کیا کرتے تھے.میں ان تمام نیکیوں کا ثواب ان کو دوں گا نہ کہ تمہیں.اس طرح ہر نیکی کا ثواب مارا جائے گا اور وہ ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے
خطبات محمود سوچ سمجھ کر نیکیاں کی ہوں گی.393 $1940 پس یہ طریق بڑا خطرناک ہے جو قوموں کو تباہ و برباد کرنے والا ہے.اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کو جلد سے جلد دور کرنا چاہیئے.بے شک ایسی باتیں جن سے فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہو اُن سے روکنا ہمارے لئے ضروری ہوتا ہے مگر لٹریچر ایسی چیز نہیں کہ اس کے پڑھنے سے کسی کو روکا جاسکے.بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہماری جماعت کے افراد میں سے جن کو بھی فرصت ہو وہ مخالفین کے لٹریچر کو ضرور پڑھیں.ہاں ہمارا یہ مطالبہ ہر وقت رہے گا کہ وہ صرف مخالفانہ لٹریچر کو ہی نہ پڑھیں بلکہ اپنے لٹریچر کو بھی بار بار پڑھیں.پس میں تمہیں دوسروں کے اشتہارات یا پمفلٹ یا کتب پڑھنے سے منع نہیں کرتا بلکہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم عیسائیوں کی کتابیں بھی پڑھو، تم یہودیوں کی کتابیں بھی پڑھو ، تم آریوں کی کتابیں بھی پڑھو اور جتنی جتنی تمہیں فرصت ہو اس کے مطابق ان کے لٹریچر کا مطالعہ جاری رکھو.یہ مطالعہ تمہارے لئے مضر نہیں بلکہ مفید ہے اور جتنا زیادہ یہ مطالعہ بڑھے گا اتنا ہی تمہارا کیریکٹر مضبوط ہو گا اور دوسروں کے حملوں سے تم محفوظ رہو گے.کیونکہ تم جانتے ہو گے کہ تمہارا مخالف کیا کہتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اب اگر میرے سامنے کوئی عیسائی آئے اور کہے کہ مسیح ابن اللہ تھے تو مجھ پر اس کی اس بات کا کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مسیح کو کن معنوں میں ابن اللہ کہا گیا ہے.میں جانتا ہوں کہ مسیح ایک بشر تھا.میں جانتا ہوں کہ اس کے ابن اللہ ہونے کے کیا دلائل ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جن قرآنی آیات سے وہ مسیح کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کا کیا مفہوم ہے ؟ میں نے ان کے اعتراضوں کو پڑھا ان کے جوابات کو سمجھا اور مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ جن آیات سے وہ حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کے معنے وہ نہیں جو وہ کرتے ہیں بلکہ اور ہیں.مثلاً اگر کوئی عیسائی کہے کہ قرآن میں حضرت مسیح کے متعلق روح منه 1 کے الفاظ آتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ روح اللہ تھے.تو میں اس سے قطعا نہیں گھبراؤں گا کیونکہ مجھے اس اعتراض کا جواب آتا ہے اور جب آتا ہے تو میرے لئے گھبرانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ تو غیروں کی باتوں کا پڑھنا بشر طیکہ جس مذہب میں انسان داخل ہو اس کی اسے پوری
$1940 394 خطبات محمود واقفیت حاصل ہو نہ صرف جائز ہے بلکہ نہایت ضروری اور مفید ہے بلکہ اگر کبھی فرصت ہو تو اس قسم کے ٹریکٹوں کو مساجد میں پڑھ کر سنا دینا چاہیئے اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہیئے کہ دوسروں نے یہ یہ اعتراض کیا ہے اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں.مگر اس قسم کے ٹریکٹوں کا سنانا باقی تمام ضروریات پر مقدم نہیں کر لینا چاہیے یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ قرآن کا درس چھوڑ دیا جائے، حدیث کا درس چھوڑ دیا جائے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس چھوڑ دیا جائے.اسی طرح اور وعظ و نصیحت کی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور مخالف ٹریکٹوں کو سنانا شروع کر دیا جائے یہ سخت بد دیانتی ہے کہ انسان جس مذہب میں شامل ہو اس کے متعلق تو ابھی اسے پوری واقفیت حاصل نہ ہو اور دوسروں کے لٹریچر کو پڑھنے میں ، وہ مشغول ہو جائے.تم پہلے اپنی جماعت کے لٹریچر کو پڑھو اور جب احمدیت کے عقائد ، احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کے دلائل سے تم پوری طرح آگاہ ہو جاؤ تو پھر تمہارا حق ہے کہ دوسروں کی کتابوں کو بھی پڑھو.اور اگر تمہیں اپنے مذہب کی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ تمہارا مذہب سچا نہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم سچائی کی کسی اور مذہب میں تلاش کرو تا کہ اگر تم سچ پر قائم نہیں تو کم از کم تم خدا سے یہ کہہ سکو کہ تم نے سچ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی.میں اس بارہ میں جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ہر سال ایک ہفتہ ایسا منایا کریں جس میں وہ جماعت کے افراد کے سامنے مختلف تقاریر کے ذریعہ نہ صرف اپنی جماعت کے عقائد بیان کیا کریں بلکہ یہ بھی بیان کیا کریں کہ دوسروں کے کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا جوابات ہیں؟ ہر مسجد میں اس قسم کی تقریریں ہونی چاہئیں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہیے کہ لوگ یہ یہ اعتراضات کرتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ جوابات ہیں.فرض کر و خلافت کا مسئلہ جس رنگ میں ہماری جماعت کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ غلط ہے تو کیوں کسی کا حق نہیں کہ وہ ہمیں سمجھائے.یا فرض کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں تو جو شخص ہمیں سمجھاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں وہ ہمارا محسن ہے نہ کہ دشمن بشر طیکہ وہ شرارت
$1940 395 خطبات محمود یا بد دیانتی نہ کر رہا ہو مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض مخالف سنجید گی اور شرافت کے ساتھ بات نہیں کرتے اور پھر جو حوالے پیش کرتے ہیں ان میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ لکھا ہوتا ہے اور وہ کسی اور رنگ میں اسے پیش کر رہے ہوتے ہیں.اگر وہ شرافت کے ساتھ اپنے عقائد کو پیش کریں تو ہم ان کی باتیں خوشی کے ساتھ سننے کو تیار ہیں.قادیان میں ایک دفعہ آریوں کے جلسہ پر دیانند کالج کے ایک پروفیسر صاحب آئے.ان دنوں میں اسی مسجد اقصیٰ میں درس دیا کرتا تھا.جلسہ سے فارغ ہو کر مجھے ملنے کے لئے اسی مسجد میں آگئے.میں نے ان سے کہا کہ قادیان ایسا مقام ہے جس میں ہماری تعداد دوسروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.پس یہاں آپ کا آنا اسی صورت میں فائدہ بخش ہو سکتا تھا جب آپ اپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کرتے ورنہ آپ کے اپنے آدمی تو جانتے ہی ہیں کہ آپ کے کیا عقائد ہیں اور ان عقائد کے کیا دلائل ہیں.اگر یہاں آکر بھی آپ نے اپنے آدمیوں کے سامنے ہی ایک تقریر کر دی تو اس کا کیا فائدہ ہوا.فائدہ تو تب ہو تاجب آپ ہمیں بتاتے کہ آپ کے مذاہب کی کیا تعلیم ہے؟ وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے مگر میں نے سمجھا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ہماری باتیں سننے کے لئے کب اکٹھا کر سکتے ہیں ؟ میں نے ان سے کہا یہ غلط ہے.مسجد ہمارا سب سے مقدس مقام ہوتا ہے اور پھر یہ مسجد تو وہ ہے جسے ہم مسجد اقصیٰ قرار دیتے ہیں.آپ آئیں اور اس مسجد میں تقریر کریں.میں اپنی جماعت کے دوستوں سے کہوں گا کہ وہ آپ کی تقریر کو سنیں.چنانچہ اس مسجد میں دیا نند کالج کے پروفیسر صاحب نے تقریر کی اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ان سے تبادلۂ خیالات کیا تو خیالات کا تبادلہ بڑی بابرکت چیز ہے.اگر ہماری جماعت التزام کے ساتھ دوسروں کے خیالات کو سنے، ان کے لٹریچر کو پڑھے اور ان کے دلائل کو معلوم کر کے ان کے جوابات کو جماعت کے ہر فرد کے ذہن میں اچھی طرح راسخ کر دے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ہر فرد ایمانی لحاظ سے اتنا مضبوط ہو جائے کہ کوئی شخص اسے ورغلانہ سکے.اگر خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اسے کوئی دھوکا دینا چاہے گا تو وہ فوراً ہوشیار ہو جائے گا اور کہے گا مجھے خوب معلوم ہے کہ تم
$1940 396 خطبات محمود اعتراض کرنا چاہتے ہو تم بے شک اعتراض کرو مگر مجھے ان کے جوابات بھی معلوم ہیں اور ان جوابات کے مقابلہ میں تمہارے اعتراضات کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی صفات کے متعلق اگر کوئی اعتراض کرے گا تو وہ گھبر ائے گا نہیں بلکہ ان کا جواب دینے کے لئے فوراً تیار ہو جائے گا.اسی طرح رسول کریم صلی اللی کنیم کی رسالت ، اسلام کی صداقت، حضرت مسیح موعود کی نبوت اور جماعت احمدیہ کی حقانیت کے متعلق جب بھی کوئی اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ عمدگی کے ساتھ اس کے وساوس کا ازالہ کر دے گا اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہو گا.یہ وہ مقام ہے جس پر اگر ہم اپنی جماعت کو کھڑا کر دیں تو ہم اس سے حقیقی نیکی کرنے والے ہوں گے.یہ کوئی نیکی نہیں کہ ہم پچاس یا ساٹھ یا سو آدمیوں کو دوسروں سے چھپا کر خدا تعالیٰ کے پاس لے جائیں کیونکہ خدا چوروں کی طرح دوسروں کی نظر سے چُھپ چھپ کر آنے والوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ ان کو پسند کرتا ہے جو دھڑلے سے سب کے سامنے آئیں اور عَلَى الْإِعْلان آئیں.اگر تم خدا کے پاس ایک بھی ایسا شخص لے کر حاضر ہوتے ہو جسے دنیا کا کوئی آدمی گمراہ نہیں کر سکتا تو خدا بہت زیادہ خوش ہو گا بہ نسبت اس کے کہ تم سویا ہزار ایسے آدمی اس کے سامنے پیش کرو جنہیں دوسروں کے عقائد سے بے خبر رکھا گیا ہو اور جنہیں چوری چھپے اپنے مذہب میں شامل کر لیا گیا ہو.خدا تعالیٰ تعداد کی زیادتی کو دیکھ کر خوش نہیں ہو گا بلکہ وہ کہے گا کہ میں ان سویا ہزار کو کیا کروں......ان میں سے تو ہر شخص آسانی سے دوسروں کا شکار ہو سکتا اور گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر سکتا ہے.پس یاد رکھو خدا کے حضور وہی مقبول ہوتے ہیں جن کا ایمان عَلَى وَجْهِ البَصِيرَت ہو اور جو دوسرے کے ہر اعتراض کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں.چنانچہ قرآن کریم میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی ا م سے فرماتا ہے.قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي 2 کہ اے محمد رسول الله صلى اليوم تولوگوں سے کہہ دے کہ میری سچائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تم جو باتیں کہتے ہو اس کی تمہارے اپنے آدمی کوئی دلیل نہیں جانتے.اس کے مقابلہ میں میں اور میرے پیر و ہر بات کی
$1940 397 خطبات محمود دلیل رکھتے ہیں اس لئے ہم سچے ہیں اور تم سچے نہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کا ایمان بصیرت پر قائم کریں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہے اور ذمہ داری سے بچنا نیکی نہیں ہوتی بلکہ ذمہ داری کو ادا کرنا نیکی ہوتی ہے.پس ہمارے ذمہ یہ فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دینی مسائل سے آگاہ کریں اور انہیں ان مسائل میں ایسا پختہ کریں کہ انہیں کوئی گمراہ نہ کر سکے.اگر ہم افراد کی اس رنگ میں تربیت نہیں کریں گے اور پھر یہ امید رکھیں گے کہ کسی مخالف کی باتوں سے وہ متاثر بھی نہ ہوں تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ “آپے میں رتی بجی.آپے میرے بچے جیون ” یعنی خود بخود گھر میں بیٹھے فرض کر لیا کہ ہمارا ہر فرد دینی مسائل سے آگاہ ہے اور پھر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا کہ اب انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا حالانکہ جب تک انہیں دوسرے کے لٹریچر کا علم نہیں ہو گا اور انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے اعتراضات کے کیا جوابات ہیں اس وقت تک بالکل ممکن ہے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں اور اس کی فتنہ انگیز باتوں سے متاثر ہو جائیں.پس ہماری جماعت کے افراد کو شکاری پرندے بنا چاہیئے.انہیں وہ باز بننا چاہیئے جو روحانی لحاظ سے اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا اور اسے اپنے قبضہ و تصرف میں لے آتا ہے.چوہوں کی طرح اپنی بلوں میں سر چھپانے والی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی بلکہ کامیاب وہی قوم ہوا کرتی ہے جو بازوں اور شکروں کی طرح ہوتی ہے.مجھے حضرت خلیفہ اول کے عہد میں جب کبھی باہر تقریر کے لئے جانا پڑتا تو مجھے یہ بات بیان کرتے وقت ہمیشہ مزا آ جاتا کہ لوگ یہ شور مچاتے ہیں کہ انہوں نے مرزا صاحب کو شکست دے دی حالانکہ جب آپ نے دعوی کیا اس وقت آپ اکیلے تھے مگر جس طرح شیر بھیڑوں کے گلے پر حملہ کرتا اور ان میں سے کئی بھیڑیں اٹھا کر لے جاتا ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے ہزاروں نہیں لاکھوں کو اپنے ساتھ ملا لیا.اب فرض کرو بھیڑیں ایک کروڑ ہوں اور شیر صرف ایک ہو لیکن وہ ان کروڑ بھیڑوں میں سے سو کو اٹھا کر لے جائے تو بہر حال فاتح شیر ہی کہلائے گا نہ کہ بھیڑیں.اسی طرح بے شک مخالف زیادہ ہیں اور احمدی کم.مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا جس کثرت کے ساتھ
$1940 398 خطبات محمود غیر احمدیوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آدمی کھینچے اس کا سینکڑواں حصہ بھی کوئی مخالف ہم میں سے لوگوں کو لے گیا.اگر نہیں تو کامیاب وہ کس طرح ہو گئے ؟ کامیاب تو وہی ہوا جو اکیلا اٹھا اور لاکھوں کو اس نے اپنے ساتھ ملالیا.پھر اگر کوئی برگشتہ بھی ہوا تو خدا نے اس کی جگہ ہمیں کئی مخلصین دے دیئے.قرآن کریم خود سچے سلسلہ کی صداقت کا معیار یہ بیان فرماتا ہے کہ اگر اس میں سے ایک شخص بھی مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہم ایک قوم کو لے آتے ہیں 3 اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے.پس یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.کیونکہ ہم تھوڑے ہو کر جیتتے چلے جاتے ہیں اور وہ زیادہ ہو کر ہارتے چلے جاتے ہیں.آخری زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امر تسر تشریف لے گئے تو بڑی سخت مخالفت ہوئی اور لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے.ان دنوں امر تسر میں ہماری جماعت کے ایک دوست تھے جو کچھ پڑھے لکھے تو نہیں تھے مگر یوں سمجھدار آدمی تھے.پرانے زمانہ میں ایک دستور تھا جسے شاید آجکل کے احمدی نہ جانتے ہوں اور وہ یہ کہ جب لڑکے والے لڑکی لینے جاتے تھے تو جو مستورات لڑکی والوں کے گھر میں اکٹھی ہوتی تھیں وہ لڑکے والوں کو خوب گالیاں دیا کرتی تھیں.ان گالیوں کو پنجابی میں سٹھنیاں کہا کرتے تھے.وہ خیال کرتی تھیں کہ ان سٹھنیوں سے نکاح بابرکت ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب امر تسر تشریف لے گئے تو وہاں کے ایک رئیس محمد شریف صاحب کے ہاں ٹھہرے جو کشمیری خاندان میں سے تھے.لوگوں کو جب آپ کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو خوب گالیاں دیں، سیاپے کئے اور جہاں آپ ٹھہرے ہوئے تھے وہاں بھی آ آکر گالیاں دیتے رہے.جب آپ وہاں سے تشریف لے آئے تو کسی مخالف نے اس احمدی سے کہا کہ دیکھا تمہارے مرزا کو کیسی گالیاں ملیں.وہ کہنے لگا گالیوں کا کیا ہے آخر تم میں سے ہی اتنے آدمیوں نے بیعت بھی تو کی ہے؟ رہا گالیاں سو ان کا کیا ہے.سٹھنیاں تو تم نے دینی ہی تھیں کیونکہ مرزا صاحب تمہارے آدمی جو لے گئے.تو جو قوم خدا تعالیٰ کی برکت کے نیچے ہوتی ہے وہ لوگوں کو کھینچے چلی جاتی ہے.ہم دوسروں کے مقابلہ میں مال و دولت اور تعداد کے لحاظ سے بہت ہی کمزور ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اسلام کے میدان میں ہمارا اس قدر رُعب ہے
$1940 399 خطبات محمود کہ چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک کمیٹی اس غرض کے لئے بٹھائی گئی تھی کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے ؟ اس کمیٹی نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں سات مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی اب لوگوں کو عیسائی نہیں ہونے دیتے بلکہ جو عیسائی ہو چکے ہیں ان کو بھی ہم سے چھین کر لے جاتے ہیں.چرچ آف انگلینڈ کی سالانہ آمد ساٹھ کروڑ روپیہ تک ہے مگر ہمیں ہزاروں روپے بھی بمشکل میسر آتے ہیں اور پھر ہمیں ان ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں سینکڑوں سال سے عیسائی اپنی تبلیغ کرتے چلے آرہے ہیں مگر باوجود اس کے سات جگہ انہوں نے تسلیم کیا کہ احمدیوں نے ان کی ترقی بند کر دی ہے.تو کثرت سے اس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں عیسائیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ احمدیت نے عیسائیت کو بڑھنے سے روک دیا ہے.حالانکہ عیسائی چالیس کروڑ کے قریب ہیں.پھر انہیں حکومت حاصل ہے ، ان کے پاس روپیہ اور طاقت ہے مگر پھر بھی ہر جگہ انہیں شکست ہوتی چلی جاتی ہے.ابھی سیرالیون میں میں نے اپنا ایک مبلغ بھجوایا تھا جس کی رپورٹیں الفضل میں شائع ہوتی رہتی ہیں.ان رپورٹوں میں بھی یہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں عیسائی رئیس مسلمان ہو گیا اور فلاں معزز عیسائی نے اسلام کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا.پادریوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ کمشنر کے پاس پہنچے اور پہلے تو یہ کہا کہ یہ باغی ہیں اور پھر یہ شور مچایا کہ ان کی تقریروں سے ملک میں فتنہ پیدا ہوتا ہے انہیں روکا جائے.اس پر ہمارے مبلغوں نے جب اصل حقیقت بتائی تو کمشنر نے کہا کہ میں اب اس علاقہ کا دورہ کروں گا اور پادریوں کو ڈانٹوں گا کہ وہ آپ لوگوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیوں کرتے ہیں.اگر انہیں مقابلہ کا شوق ہے تو مذہبی رنگ میں مقابلہ کر لیں.یہی حال یہاں ہے.چنانچہ کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں چار پانچ ہزار کے قریب آدمی ان میں سے نکل کر ہم میں شامل نہ ہو جاتے ہوں لیکن ہم میں سے شاذو نادر کے طور پر ہی کوئی ادھر جاتا ہے اور اگر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور کوئی آدمی بھجوا دیتا ہے.یہ فوقیت اور برتری جو ہماری جماعت کو حاصل ہے در حقیقت اس علم کی وجہ سے ہے جو جماعت کو دیا جاتا ہے اور جس کے بعد کوئی شخص دوسروں کے فریب میں نہیں آتا.
خطبات محمود 400 $1940 پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں اور ہر فرد کے یہ ذہن نشیں کریں کہ دوسرا کیا کہتا ہے اور اس کے اعتراضات کا کیا جواب ہے اور میں اس غرض کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ سال میں ایک ایسا ہفتہ مقرر کریں جس میں ان کی طرف سے یہ کوشش ہو کہ وہ جماعت کے ہر فرد کو نہ صرف اپنی جماعت کے مسائل سے آگاہ کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کے کیا کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا کیا جوابات ہیں.یہ تعلیم کا سلسلہ زبانی ہونا چاہیے اور پھر زبانی ہی ان کا امتحان بھی لینا چاہیے.تا جماعت میں بیداری پید اہو اور وہ دوسروں کے ہر حملہ سے اپنے آپ کو پوری ہوشیاری سے بچا سکے مگر یہ نہ ہو کہ تم اپنی کتابیں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ.پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو ، ان کو یاد کرو، ان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور جب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو اور سب کے سامنے پڑھو بلکہ عَلَى الإِعْلان پڑھو اور پھر مخالف دلائل کا پوری مضبوطی سے رڈ کرو اور دوسروں کے مقابلہ میں ایک شیر کی طرح کھڑے ہو جاؤ تا تمہارے متعلق کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ دوسرا تمہیں ور غلا سکے گا بلکہ جب وہ تمہیں چھیڑے تو ہر شخص کا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہو کہ اب تم ضرور کوئی نہ کوئی شکار پکڑ کر لے آؤ گے.پس تم اپنے آدمیوں کو شیر کی طرح دلیر بناؤ انہیں ہلوں میں چھپنے والے چوہے نہ بناؤ.تم تجربہ کے بعد خود بخود دیکھ لو گے کہ اس کے بعد جماعت روحانی لحاظ سے کتنی مضبوطی حاصل کر لیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس سچائی ہے تو ہمیں مخالف کی کسی بات کا کیا خوف ہو سکتا ہے.وہ لاکھ اعتراض کرے خدا اس کے تمام اعتراضات کو باطل کر دے گا.میرا اپنا تجربہ ہے کہ مخالف خواہ کیسا ہی اعتراض کرے خدا تعالیٰ اس کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور سمجھا دیتا ہے.0 تھوڑا ہی عرصہ ہوا چھوٹی مسجد میں ایک شخص آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے آپ سے ایک سوال کرنا ہے.میں نے کہا کرو.وہ کہنے لگا میں چاہتا ہوں کہ آپ مرزا صاحب کی صداقت قرآن کریم سے ثابت کریں.میں نے کہا سارا قرآن مرزا صاحب کی
خطبات محمود 401 $1940 صداقت سے بھرا پڑا ہے.میں کس کس آیت کو پڑھوں.وہ کہنے لگا آخر کوئی آیت تو پڑھیں.میں نے کہا جب ہم نے کہہ دیا ہے کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت سے بھرا ہوا ہے تو کسی ایک آیت کا سوال ہی کیا ہے.تم خود کوئی آیت پڑھ دو میں اسی سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں.قرآن کی بعض آیتیں لمبے چکر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت بنتی ہیں اور بعض آیتوں سے سیدھے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے مگر مجھے یقین تھا کہ خدا اس کی زبان پر کوئی ایسی آیت ہی لائے گا جس سے وہ فوراً پکڑا جائے گا.چنانچہ اس نے جھٹ یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ أَمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ 4 اور کہا کہ اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کیجئے.میں نے کہا اس آیت میں کن لوگوں کا ذکر ہے.کہنے لگا مسلمانوں کا.میں نے کہا جب رسول کریم صلی للی نیلم کے زمانہ میں مسلمان بگڑ سکتے تھے تو اب کیوں نہیں بگڑ سکتے اور جب آج بھی مسلمان بگڑ سکتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کسی کو آنا چاہیے یا نہیں ؟ تمہاری دلیل یہی ہے کہ محمد صلی علیم کے بعد کسی مصلح اور مامور کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ محمد صلی یام کے بعد تو کیا محمد صلى الم کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے اور جب آپ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے تو آپ کے بعد تو بدرجہ اولیٰ مسلمان گمراہ ہو سکتے ہیں اور جب گمراہ ہو سکتے ہیں تو لازماً خدا کی طرف سے مصلح بھی آسکتا ہے پس یا تو یہ مانو کہ امت محمدیہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کہو تو یہ قرآن کے منشا کے خلاف ہو گا کیونکہ جو آیت تم نے پڑھی ہے اس میں یہی ذکر ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں اور جب امت محمدیہ گمراہ ہو سکتی ہے تو اس کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور بھی آسکتا ہے.یہ بات جو میں نے اس کے سامنے کہی یو نہی مشغلہ کے طور پر نہیں کہہ دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح تو رات کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارار سول کریم ملی ایم کی صداقت کا ثبوت ہے، جس طرح انجیل کا جتنا سچا حصہ ہے
$1940 402 خطبات محمود وہ سارے کا سارا رسول کریم صلی نیلم کی صداقت کا ثبوت ہے اسی طرح قرآن سارے کا سارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے.قرآن سارے کا سارا حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے.قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت الله سة ہے جس طرح قرآن سارے کا سارا رسول کریم صلی علیم کی صداقت کا ثبوت ہے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقُهُ القُرآنُ _5 یعنی قرآن اور محمد صلی ال یول میں کوئی فرق نہیں بلکہ قرآن کی ہر آیت محمد صلی للی نیم کی صداقت ثابت کرتی ہے.پس جماعت میں بیداری پیدا کرو، انہیں دینی اور مذہبی مسائل سکھاؤ، انہیں دوسروں کے خیالات کو پڑھنے دو اور اگر وہ خود نہیں پڑھتے تو خو دا نہیں پڑھ کر سناؤ اور پھر ان کے ہر اعتراض کا انہیں جواب بتاؤ، مگر بالعموم ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اپنے جواب کو تو مضبوط رنگ میں بیان کیا جاتا ہے اور دوسروں کے اعتراض کو بو دا کر کے پیش کیا جاتا ہے.نتیجہ ہوتا ہے کہ جب لوگ اصل اعتراض کو دیکھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے لوگ بھی جھوٹ بولتے ہیں.یہ طریق بالکل غلط ہے تمہیں چاہیے کہ مخالف کی دلیل کو پوری مضبوطی سے بیان کرو اور اس کا کوئی پہلو بھی ترک نہ کرو تا اپنے اور بیگانے یہ نہ کہہ سکیں کہ اعتراض کے ایک حصہ کو تو لے لیا گیا ہے اور دوسرے حصوں کو چھوڑ دیا گیا ہے.میں ایک دفعہ لاہور گیا اور وہاں مذہب کی ضرورت ” پر میں نے ایک تقریر کی.ابتدائی تقریر میں میں نے بیان کیا کہ مذہب پر آجکل کیا کیا حملے کئے جارہے ہیں اور کون کون سے اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کی رو سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ دنیا کو مذہب کی ضرورت نہیں.اس کے بعد میں نے ان تمام اعتراضات کے جواب دیے.اسی دن شام کو یا دوسرے دن ایک ایم اے کا غیر احمدی سٹوڈنٹ مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا میں نے کل آپ کی تقریر سنی ہے آپ نے جو اعتراضات بیان کئے تھے وہ تو اتنے زبر دست تھے کہ میں نے سمجھا کہ جتنے اعتراض مذہب پر کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب بیان کر دیے گئے ہیں مگر آپ کے بعض جوابات سے میری تشفی نہیں ہوئی.میں نے اسے کہا کہ اپنی تشقی کو
$1940 خطبات محمود پر 403 سر دست رہنے دو مگر یہ بتاؤ کہ کوئی اعتراض میں نے چھپایا تو نہیں.کہنے لگا ہم نے تو جس قدر اعتراضات مذہب کے متعلق سنے ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ نے بیان کر دیئے ہیں.میں نے کہا تو خیر جواب کسی اور وقت سمجھ آجائیں گے.تو مخالف کے دلائل کو پورے طور پر کھول کر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلاً کفارے کا مسئلہ ہے.اسے جس رنگ میں ہمارے علماء کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل اور ہے.آجکل عیسائی کفارہ کو اس طریق پر پیش نہیں کرتے بلکہ انہوں نے آہستہ آہستہ اسے فلسفیانہ مضمون بنا دیا ہے.اسی طرح تناسخ کا مسئلہ بیان کرتے وقت عام طور پر سنی سنائی باتیں بیان کر دی جاتی ہیں حالانکہ جس رنگ میں آجکل تناسخ کا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل اور ہے.اسی طرح شرک کے مسئلہ کو فلسفیانہ رنگ دے دیا گیا ہے مثلاً فلسفی دماغ والے بت پرست آجکل یہ نہیں کہتے کہ ہم ان کو سجدہ کرتے ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ قائم رکھنے کے لئے بت کی طرف اپنا منہ کرتے ہیں.اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ یہ بت خدا کی بعض صفات کے قائمقام ہیں.اب اگر شرک کے مسئلہ کو صرف اسی رنگ میں بیان کر دیا جائے کہ بعض لوگ خدا کی بجائے بتوں کی پرستش کرتے ہیں تو اس سے بت پرستوں کی پوری تسلی نہیں ہو سکتی.پس مخالفین کے اعتراضات کو کھول کھول کر بیان کرنا چاہیے اور ان کے اعتراض کی کسی شق کو چھپانا نہیں چاہیے.اس اعتراض کے لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو ہر سال ایک ہفتہ ایسا منانا چاہیئے جس میں خدا تعالیٰ کی ہستی ، رسول کریم صلی للی کی کی نبوت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت، خلافت اور دیگر مسائل اسلامی کے متعلق احمدیت کے عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا جائے اور پھر بتایا جائے کہ ان اعتقادات پر مخالفین کی طرف سے یہ یہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں.اس کے بعد لوگوں کا زبانی امتحان لیا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ انہوں نے ان باتوں کو کہاں تک یاد رکھا ہے.چونکہ صرف ایک ہفتہ میں ان تمام مسائل کے متعلق جماعت کے دوستوں کو پوری واقفیت حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے ہر سال یہ طریق جاری رہنا چاہیے اور کبھی کوئی مسائل بیان کر دیئے جائیں اور کبھی کوئی.یہاں تک کہ
خطبات محمود 404 $1940 ہماری جماعت کا ہر فرد اتنا ہوشیار ہو جائے کہ اگر اسے کسی وقت مخالفین کی لائبریری میں بھی بٹھا دیا جائے تب بھی وہ وہاں سے فاتح ہو کر نکلے مفتوح اور مغلوب ہو کر نہ نکلے.“ (الفضل 17 اگست 1960ء) 1 النساء: 172 2 يوسف: 109 3 من يرتد منكم عن دينه فسوف يأتى الله بقوم (المائدة:55) 4 البقرة: 9 5 مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 91 مطبوعه 1313هـ
$1940 405 (29) خطبات محمود چندہ جلسہ سالانہ اور تحریک جدید کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں (فرموده 8 نومبر 1940ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: غالباً آج ہی کے “ الفضل ” میں میں نے ایک اعلان ناظروں کی طرف سے پڑھا ہے جس میں انہوں نے جلسہ سالانہ کے چندہ کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی ہے.میں متواتر کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے اخراجات اس کی آمد سے بڑھ جاتے ہیں اور سال بھر کوشش کرتے کرتے تھوڑا بہت قرض جو انجمن اتارتی ہے وہ جلسہ سالانہ کے قریب پھر اپنی جگہ آجاتا بلکہ پہلے سے کچھ بڑھ ہی جاتا ہے.پچھلے سال بھی غالباً دس ہزار کے قریب خرچ آمد سے زیادہ رہا اور اس دفعہ بھی جیسا کہ اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے قریباً چار ہزار روپیہ اس وقت تک آیا ہے حالانکہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کا اندازہ بوجہ اس کے کہ اجناس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں 25 ہزار روپیہ ہے اور یہ اندازہ بھی گزشتہ سے پیوستہ سال کے خرچ کے مطابق ہے، گزشتہ سال کے اخراجات کے اندازہ پر مبنی نہیں.اگر گزشتہ سال کے اخراجات پر ہی اندازہ لگایا جاتا تو چالیس ہزار روپیہ تک خرچ کا اندازہ ہوتا.گزشتہ سال چونکہ جوبلی کا جلسہ تھا اور لوگ کثرت سے قادیان آئے تھے اس لئے انہوں نے اس سال کے
$1940 406 خطبات محمود اخراجات کی بنیاد گزشتہ جلسہ جو بلی سے پہلے سال کے اخراجات پر رکھی ہے لیکن پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ پہلے سے زیادہ جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور ہر سال لوگوں کا زیادہ آنا بتاتا ہے کہ خد اتعالیٰ کے فضل سے جماعت ہر سال بڑھ رہی ہے.اسی طرح جو بیعتوں کی فہرستیں چھپتی رہتی ہیں ان کا اندازہ لگا کر اور جو نسل بڑھ رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے بھی یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہماری جماعت میں آٹھ دس ہزار آدمی سالانہ بڑھ جاتے ہیں.یہ زیادتی جو ہر سال ہو رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ چاہیئے تو یہ تھا کہ آمد بھی بڑھتی جاتی مگر بجائے اس کے کہ آمد بڑھتی وہ قریباً ہر سال ایک جگہ پر ہی قائم رہتی ہے یعنی آمد پندرہ سولہ سترہ یا اٹھارہ ہزار روپیہ ہوتی ہے اور اخراجات ہمیشہ ہیں پچیس ہزار روپے ہوتے ہیں.گزشتہ سال تو یہ اخراجات بہت زیادہ ہوئے تھے.اس طرح ہر سال پانچ چھ ہزار روپیہ سے لے کر آٹھ دس ہزار روپیہ تک سلسلہ پر بار پڑ جاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے دلوں میں جہاں جلسہ سالانہ میں شمولیت کی اہمیت ہے وہاں جلسہ سالانہ کے اخراجات برداشت کرنے کی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں حالانکہ اگر اخراجات اسی طرح بڑھتے چلے جائیں تو آئندہ جلسہ سالانہ کے انتظام میں بہت سے خطرات پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے.بعض دوستوں نے انہی مشکلات کو دیکھ کر متواتر یہ مشورہ دیا ہے کہ جلسہ سالانہ پر کھانے کا انتظام جماعت کی طرف سے نہ ہو بلکہ لوگ اپنے اپنے کھانے کا انتظام خود کیا کریں.بادی النظر میں یہ تجویز گو اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر اس طرح کیا جائے تو گو انجمن ہر سال آٹھ دس ہزار کے بار سے بچ جائے گی مگر جماعت چالیس پچاس ہزار کے مزید بار کے نیچے دب جائے گی.کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ بازار سے خرید کر کھانا کھائیں گے انہیں نسبتا زیادہ خرچ کرنا پڑے گا اور اس طرح جماعت ایک مزید بار کے نیچے آجائے گی.جو لوگ چندہ دیتے ہیں وہ تو سمجھ لیں گے کہ جو کچھ انہوں نے چندہ دینا تھا وہ کھانے میں سے منہا ہو گیا لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں جن کا چندہ اخراجات جلسہ کے برابر ہو.میر اخیال ہے کہ جلسہ سالانہ پر جتنے لوگ آتے ہیں ان میں سے دو تین سو سے زیادہ لوگ ایسے نہیں ہوتے جن کا چندہ
$1940 407 خطبات محمود ان کے اخراجات جلسہ سے زیادہ ہو اور صرف چند آدمی ایسے ہوتے ہیں جو غیر معمولی طور پر زیادہ چندہ دے دیتے ہیں.ان کے علاوہ بالعموم جماعتیں اس چندہ کی طرف توجہ نہیں کرتیں اور افراد بھی اس میں بہت کم حصہ لیتے ہیں.پس آج میں تمام جماعتوں کو بالخصوص قادیان والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا تا ہوں کہ ان کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے.ہم لوگ میزبان ہیں اور باہر سے آنے والے مہمان ہیں.پس ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.کئی موقعوں پر لوگوں کے گھروں میں مہمان آجاتے ہیں اس وقت وہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے مہمانوں کے لئے کتنے بوجھ اٹھانے پڑتے ہیں.اسی طرح شادیوں کے موقع پر یا جب کوئی بچہ پید اہو یا کسی کی وفات ہو جائے تو دس دس، پندرہ پندرہ، بیس بیس مہمان آجاتے ہیں اور لوگ خوشی سے اس بوجھ کو برداشت کرتے ہیں.اگر ایک بڑھیا فاقوں مر رہی ہو اور اس کے پھٹے پرانے کپڑے ہوں اور اتفاقاً اس کا داماد آجائے تو وہ یہ نہیں کہتی کہ اب میں اپنے داماد کو کہاں سے کھلاؤں بلکہ چاہے وہ قرضہ اٹھائے، چاہے اپنی کوئی چیز فروخت کرے یا گروی رکھے اخراجات ضرور برداشت کرتی ہے.تو اگر ذمہ داری کا وہ احساس جو ہر غریب کو بھی ہوتا ہے اس سے نصف احساس بھی ہماری جماعت کے دلوں میں پیدا ہو جائے تو وہ کئی گنے زیادہ اس چندہ میں حصہ لے سکتی ہے.قادیان کے لوگوں کے متعلق عام طور پر یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ وہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اپنے کھانے کا بوجھ بھی سلسلہ پر ڈال دیتے ہیں اور اگر جلسہ سالانہ کے مہمانوں پر ہیں پچیس ہزار کے قریب روپیہ خرچ آتا ہے تو اس میں سے چار پانچ ہزار کے قریب قادیان والوں پر خرچ ہو جاتا ہے.اگر قادیان کے تمام لوگ اپنے کھانے کا گھروں میں انتظام کریں تو جلسہ سالانہ کے اخراجات سولہ سترہ ہزار میں پورے ہو سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بات درست ہے مگر اس میں بہت سی دقتیں اور مشکلات حائل ہیں.ان دنوں سارے آدمی کام پر لگے ہوئے ہوتے ہیں.مرد بھی اور عور تیں بھی اور اس وجہ سے گھروں میں کھانے کا انتظام نہیں ہو سکتا.ہم نے کئی دفعہ چاہا ہے کہ اس بات کی سختی سے پابندی کی جائے کہ قادیان کے رہنے والے اپنے کھانے کا اپنے گھروں میں خود انتظام کریں مگر جب
$1940 408 خطبات محمود ہم نے غور کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ اگر ایسا کیا جائے تو مہمان نوازی نہیں ہو سکے گی کیونکہ لازماً کھانے کی تیاری وغیرہ کے لئے عورتوں کو اپنے گھروں میں رہنا پڑے گا اور جب وہ اپنے گھروں میں رہیں گی تو جلسہ سالانہ پر آنے والی عورتوں کو کھانا کون کھلائے گا، ان کی نگرانی کون کرے گا اور جلسے کا انتظام کون کرے گا.اسی طرح اگر مرد گھر کے کاموں سے پوری طرح فارغ نہ ہوں تو وہ بھی جلسہ سالانہ کے کاموں میں حصہ نہیں لے سکتے.صرف ایسے ہی لوگ اس بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں جن کے گھروں میں ملازم ہوتے ہیں مثلاً ہمارے گھروں میں ناشتہ وغیرہ گھر سے ہی مہمانوں کو دے دیا جاتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ ہماری عور تیں زیادہ کام کرتی ہیں بلکہ وہ گھر کا کام نوکروں کے سپر د کر کے خود جلسہ سالانہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور اس طرح ہمارے گھروں میں ان دنوں میں بھی کھانا تیار ہوتا ہے مگر وہ ہزاروں لوگ جن کے گھروں میں کوئی نوکر نہیں ہوتے اگر ان کی عورتیں گھر کا کام کریں گی تو جلسہ سالانہ کا کام نہیں کر سکیں گی اور اگر جلسہ سالانہ کا کام کریں گی تو گھر کا کام نہیں کر سکیں گی.غرض عورتیں چونکہ ان دنوں اپنے گھر کا کام نہیں کر سکتیں اس لئے ان کے بچے، خاوند اور دیگر رشتہ دار اپنا کھانا نگر سے منگواتے ہیں اور خود جلسہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں.اور گو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے مگر ایسے کمزوروں یا منافقوں کا وجو د ہر جماعت میں پایا جاتا ہے.ور نہ جس طرح مخلص مرد ان دنوں کام میں مشغول ہوتے ہیں اسی طرح مخلص عور تیں کام میں مشغول ہوتی ہیں اگر انہیں کام سے فارغ کر دیا جائے تو جلسہ سالانہ کا انتظام نہیں ہو سکتا اور اگر انہیں کام پر رکھا جائے تو سلسلہ پر ان کے کھانے کا بوجھ پڑنا یقینی بات ہے.لیکن ایک چیز ایسی ہے جسے اگر قادیان کے رہنے والے اختیار کر لیں تو باوجو د سلسلہ پر ان کے کھانے کا بار ہونے کے وہ بوجھ زیادہ تکلیف دہ صورت اختیار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ جتنا بوجھ ان کی وجہ سے سلسلہ پر پڑتا ہے اُتنا ہی بوجھ وہ جلسہ سالانہ کے چندہ میں حصہ لے کر اٹھا لیں تب یقیناوہ روک جو آمد کی کمی کی وجہ سے پید اہو جاتی ہے دور ہو جائے.پس سب سے پہلے میں قادیان کی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ میں زیادہ حصہ لے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت پر پہلے ہی کئی قسم کے بار ہیں مگر یہ بار بھی
$1940 409 خطبات محمود انہی باروں میں سے ہے جن کو جماعت نے اٹھانا ہے اور یہ اسی طرح دور ہو سکتا ہے کہ یا تو اس کام کو بند کر دیا جائے اور یا پھر چندہ میں فراخ دلی سے حصہ لیا جائے.یہ تو ظاہر ہے کہ جلسہ سالانہ کو کسی صورت میں بھی بند نہیں کیا جاسکتا.پس جب اسے بند نہیں کیا جاسکتا تو یہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم اس بوجھ کو اپنی طاقت کے مطابق اٹھا لیں.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ کی طرف خاص طور پر توجہ کریں.جس طرح تحریک جدید کے چندہ کے متعلق بار بار تحریکات ہوتی رہتی ہیں اسی طرح اگر صد را انجمن احمدیہ کی طرف سے متواتر ہفتہ میں دو تین دفعہ ایسے اعلانات ہوتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت نے جلسہ سالانہ کا چندہ دے دیا ہے اور فلاں فلاں جماعت نے نہیں دیا یا بہت کم دیا ہے ، اسی طرح چندہ میں نمایاں طور پر حصہ لینے والی جماعتوں کے نام شائع ہوتے رہیں تو میں سمجھتا ہوں جو جماعتیں سست ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں اور جو جماعتیں چست تو ہیں مگر ان کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ست ہیں ان کے سیکر ٹری اور پریذیڈنٹ ہوشیار ہو جائیں.آخر وجہ کیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کے لئے ایک آدھ اعلان کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے متعلق بار بار تحریکات نہیں کی جاتیں.ہیں پچیس ہزار کا بار معمولی نہیں ہوتا.جماعت کو خاص طور پر قربانیاں کر کے یہ بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور مزید بر آں انہیں اپنے کرایہ کے لئے بھی کچھ روپیہ بچانا پڑتا ہے.اس لئے جماعتوں کو صرف ایک چٹھی لکھ دینا کافی نہیں ہو سکتا اس کے لئے تو اس طرح شور ڈال دینا چاہیئے کہ جماعت کے ہر فرد کو یہ احساس ہو جائے کہ مجھے اپنے فرض کی ادائیگی کا فکر کرنا چاہیے.میں نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ صدر انجمن احمدیہ نے اس طرح چندہ جلسہ سالانہ کے حصول کے لئے جد وجہد کی ہو.بالعموم صرف ایک دو چٹھیاں لکھنے پر کفایت کرلی جاتی ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ آپ ہی آپ چندہ آجائے گا حالانکہ یہ سال کے آخری دن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں ایک طرف لوگوں نے جلسہ سالانہ کے لئے قادیان آنا ہو تا ہے اور اس کے لئے انہیں اخراجات کی فکر ہوتی ہے.دوسری طرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے انہیں یہ فکر ہو تا ہے کہ اب سردی آگئی ہے ان کے لئے گرم کپڑوں کا انتظام کرنا چاہیئے.تیسری طرف ان کے سامنے چندہ جلسہ سالانہ کی تحریک ہوتی ہے.چوتھی طرف ماہوار چندوں میں با قاعدگی
$1940 410 خطبات محمود کی بھی ان سے امید کی جاتی ہے.غرض ان ایام میں ان سے زبر دست قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور قربانی ہی ہے جو جماعت کی ترقی کا موجب بنتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آتی ہے کہ وہ کہتا ہے جو جماعت یہ قربانی کر رہی ہے میں اسے ضرور ترقی دوں گا.اگر ہر ترقی کے ساتھ جماعت اپنی قربانی میں بھی اضافہ کرتی چلی جائے تو جماعت کی ترقی کی رفتار بہت زیادہ تیز ہو جائے.تم ایک طرف اگر صدر انجمن احمدیہ کی تحریکات کو رکھو اور دوسری طرف تحریک جدید کے متعلق جو مختلف اوقات میں نوٹ مضامین اور اعلانات وغیرہ شائع ہوتے رہتے ہیں وہ رکھو تو تمہیں صدر انجمن احمدیہ کی تحریکات دسواں حصہ بھی نظر نہیں آئیں گی.پس انہیں چاہیے کہ وہ اس نقص کا ازالہ کریں اور متواتر اخبار میں یہ اعلان کراتے رہا کریں کہ فلاں فلاں جماعت کی طرف سے چندہ آیا ہے اور فلاں فلاں جماعت کی طرف سے چندہ نہیں آیا.اسی طرح جنہوں نے زیادہ اخلاص سے کام لیا ہو اُن کا نمایاں طور پر ذکر کیا جائے تا کہ اگر جماعت سست ہے تو اس کے کارکن اسے ہوشیار کر دیں اور اگر کارکن سست ہیں تو جماعت ان کو بیدار کر دے.اگر اس طرح تمام جماعتوں میں زندگی اور بیداری پیدا کی جائے تو کوئی تعجب نہیں کہ چندہ کی نہ صرف تمام رقم پوری ہو جائے بلکہ مطلوبہ رقم سے زیادہ چندہ اکٹھا ہو جائے.لیکن اگر مطالبہ تو 25 ہزار کا ہو اور وصول 16،15 ہزار ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چندہ کی وصولی میں چالیس فیصدی کمی ہے اور یہ کمی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں ہو سکتی.یہ مان لیا کہ دو یا تین فیصدی ہماری جماعت میں کمزور لوگ بھی ہیں مگر 25 ہزار کا مطالبہ کیا جائے اور آئے 16،15 ہزار.یہ بتاتا ہے کہ اس چندہ کے لئے کبھی پورے طور پر زور نہیں دیا گیا.پس میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس امر کی طرف خاص طور پر متوجہ کرتا ہوں کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ ان پر بوجھ پڑا ہوا ہے.انہوں نے ہی بوجھ اٹھانا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ کسی تحریک میں بھی سست نہ ہوں.ماہوار چندوں کی ادائیگی کی بھی پوری پوری کوشش کریں.چندہ جلسہ سالانہ میں بھی حصہ لیں، چندہ تحریک جدید میں بھی حصہ لیں اور اسی طرح جلسہ سالانہ پر نہ صرف خود آئیں بلکہ اپنے دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی لائیں کیونکہ خالی روپیہ کا انتظام کافی نہیں جب تک کثرت سے لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے نہ آئیں.پس دوستوں کو
$1940 411 خطبات محمود اس چندہ کی وصولی کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور یہ بھی کوشش کرنی چاہئیے کہ جلسہ سالانہ پر وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں.اس کے بعد میں تحریک جدید کے چندہ کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس مہینہ میں اور اس سے پچھلے ڈیڑھ مہینہ میں جماعت نے اس چندہ کی طرف خاص توجہ کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس سال نہ صرف گزشتہ سال کے برابر وصولی ہو گئی ہے بلکہ آمد میں خفیف سا اضافہ ہو گیا ہے.اڑھائی مہینے پہلے تو وصولی میں پچاس فیصدی تک کمی تھی مگر ان اڑھائی ماہ میں توجہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ چندہ تحریک جدید کی آمد خد اتعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے دو چار سو روپیہ بڑھ گئی ہے مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ چونکہ 31 اکتوبر کی تاریخ گزر چکی ہے اس لئے اب جماعت کو اس کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لینی چاہیئے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کے متعلق پہلے کافی زور دیا جا چکا ہے اس لئے اب مزید زور دینا مناسب نہیں.مگر جہاں تک میں نے سوچا ہے یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ جنہوں نے چندہ دے دیا ہے ان سے ہم نے دوبارہ چندہ نہیں لینا بلکہ جنہوں نے ابھی تک چندہ نہیں دیا صرف ان سے چندہ وصول کرنا ہے.بے شک گزشتہ اڑھائی مہینہ میں جماعت نے بہت قربانی سے کام لیا ہے مگر یہ قربانیاں جنہوں نے کیں انہوں نے ہی کی ہیں سب نے نہیں کیں.اور ہمارا فرض ہے کہ جنہوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا ان کو بھی حصہ لینے کی تحریک کریں.ممکن ہے بعض کارکن یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم نے اڑھائی مہینہ تو خوب محنت سے کام کیا ہے اب مہینہ دو مہینے ہمیں آرام کرنا چاہیئے مگر میں امید کرتا ہوں کہ وہ خالص ایمان جو مومن کی ہمت کو بڑھاتا ہے اس سے کام لیتے ہوئے وہ اُس وقت تک چین اور آرام نہیں کریں گے جب تک تمام لوگوں سے تحریک جدید کا چندہ وصول نہ کر لیں.ابھی تک تحریک جدید کے چندہ میں 32 ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے اور ہیں بائیس ہزار گزشتہ سالوں کے چندہ میں سے رہتا ہے.اس تمام روپیہ کی وصولی کے لئے ان لوگوں پر زور دینا چاہیے جنہوں نے تاحال اپنے وعدہ کو پورا نہیں کیا.وہ مخلصین جنہوں نے گزشتہ اس خطبہ کے بعد کے ایام میں پھر کچھ کمی آگئی ہے.منہ 1999000
$1940 412 خطبات محمود اڑھائی ماہ میں اس چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ کی اور جنہوں نے اپنے وعدوں کو پورا کر دیا ان کے لئے تو بے شک وقفہ ہو سکتا ہے مگر اب جو تحریک جماعت کے کارکن کریں گے اس کا بوجھ ان لوگوں پر پڑے گا جنہوں نے گیارہ مہینے غفلت سے گزار دیئے اور انہوں نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا کوئی خیال نہ کیا.پس گیارہ مہینے دوسروں سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے وہ کسی آرام کے مستحق نہیں بلکہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بیدار کیا جائے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک جدید کے چندہ میں قادیان کی جماعت کی وصولی نہ صرف پچھلے سال سے کم ہے بلکہ باہر کی کئی جماعتوں سے بھی کم ہے ہے اور یہ پہلا سال ہے جس میں قادیان کی جماعت بعض دوسری جماعتوں سے پیچھے رہی.اس میں بہت سا دخل میری ایک بیوی کی بیماری کا بھی ہے جو لجنہ اماء اللہ کی سیکر ٹری ہیں اور جو بیمار رہنے کی وجہ سے ہی چندہ کی وصولی کا اہتمام نہیں کر سکیں.مگر میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی زندہ جماعت ایسی بھی ہو سکتی ہے جس کے کسی کام کا انحصار صرف ایک آدمی پر ہو اور اگر وہ بیمار ہو جائے یا خدانخواستہ فوت ہو جائے تو کام بند ہو جائے.اس وقت ہمیں جو کار کن میسر ہیں کیا ان کے متعلق کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ؟ اور جب وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے تو کیا ان کی وفات کے بعد سلسلہ کا کام بند ہو جائے گا؟ زندہ سلسلہ کی علامت یہی ہوا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں کام کرنے والے آدمی پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اس سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا.یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ انبیاء کی وفات کے بعد ان کے سلسلہ کو زیادہ ترقی دیتا ہے تا دنیا کو یہ بتائے کہ میرے سلسلہ کا انحصار انبیاء کے وجود پر بھی نہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے سب سے زیادہ قربانی کرنے والے انبیاء ہی ہوتے ہیں مگر خد اتعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ اس کے دین کی ترقی کا انحصار کسی شخص واحد کی ذات پر نہیں انبیاء کی وفات کے بعد ان کے قائم کردہ سلسلہ کو اور زیادہ ترقیات دینی شروع کر دیتا ہے.رسول کریم صلی کام کو اپنے زمانہ میں بڑی کامیابی ہوئی مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اس سے بھی زیادہ کامیابی ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اس سے زیادہ.اس کے یہ معنی نہیں کہ ابو بکر اور عمر نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم صل اليوم
$1940 413 خطبات محمود زیادہ اللہ تعالیٰ کے مقرب تھے.ان کا قرب رسول کریم صلی این وام کے قرب کے مقابلہ میں بالکل کم ہے اور ان کی قربانیاں رسول کریم صلی علیم کی قربانیوں کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ یہ دین میرا ہے کسی انسان کا قائم کردہ نہیں ان حقیر کوششوں میں برکت زیادہ ڈال دی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اب سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور دشمن خوش تھا کہ چندہ آنا اب بند ہو جائے گا اور جماعت کی ترقی رُک جائے گی مگر جب لوگوں نے ایک دو سال کے بعد دیکھا کہ جماعت افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے ، قربانی کے لحاظ سے بڑھ گئی ہے اور اشاعت دین کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے تو انہوں نے یہ نئی بات بنائی کہ اصل میں مولوی نور الدین صاحب جماعت میں ایک بہت بڑے عالم ہیں اور سلسلہ کی تمام ترقی کا انحصار انہی پر ہے.مرزا صاحب کی زندگی میں تمام کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے.گو ظاہر میں مرزا صاحب کا نام رہتا تھا.چنانچہ کئی مولوی طرز کے لوگ جو ظاہری علوم کی قدر زیادہ کیا کرتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی کہا کرتے تھے کہ اس سلسلہ کو مولوی نور الدین صاحب چلا رہے ہیں.انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد دیکھا کہ مولوی صاحب کے زمانہ میں سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر رہا ہے تو انہوں نے خوش ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ ہم نہ کہتے تھے تمام کام مولوی نور الدین صاحب کا ہے.غرض حضرت خلیفہ اول کے وقت سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گیا اور مخالفوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینی شروع کر دی کہ یہ تمام کارروائی نور الدین کی ہے اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا.حضرت خلیفۂ اول جب وفات پاگئے تو ان کے بعد اگر جماعت کے وہ مشہور لوگ جو اثر اور رسوخ رکھتے تھے جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یا ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب خلیفہ منتخب ہو جاتے تو انگریزی دان طبقہ یہ خیال کرتا کہ اب جماعت کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی انگریزی میں دسترس رکھنے والا خلیفہ ہو گیا ہے کیونکہ یہ مغربی علوم کے غلبہ کا ہی زمانہ ہے مولویوں اور ملانوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا.جیسے حضرت خلیفہ اول بعض دفعہ
$1940 414 خطبات محمود فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ ہمیں غصہ سے قُلْ اَعُوذ سے ملا کہہ دیا کرتے ہیں تو اگر ان میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو انگریزی دان طبقہ پھر بھی یہ خیال کر سکتا تھا کہ ممکن ہے جماعت کی ترقی انہی کی وجہ سے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس الزام کو دور کرنے کے لئے کہ یہ سلسلہ انسانوں پر چل رہا ہے اس انسان کو خلافت کے لئے چنا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ نالائق ہے ، ناتجربہ کار ہے، کم علم ہے اور وہ جماعت کو تباہ کر دے گا تا دنیا پر یہ ظاہر کرے کہ یہ خدا کا سلسلہ ہے کسی انسان کا قائم کر دہ سلسلہ نہیں.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے مقرب تھے مگر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ سلسلہ ان کا بھی نہیں بلکہ میرا تھا اور بے شک حضرت مولوی نور الدین صاحب ایک بہت بڑے عالم تھے مگر ان کا علم بھی میرے فضل کا نتیجہ تھا اور سلسلہ ان کا نہیں بلکہ میرا تھا اور اس کے بعد خدا نے اس انسان کو خلافت کے لئے بچنا جس کے متعلق دنیا یہ حقارت سے کہتی تھی کہ وہ نہ ظاہری علوم سے آگاہ ہے نہ باطنی علوم جانتا ہے ، نہ اس کی صحت اچھی ہے نہ اسے کوئی رعب اور دبدبہ حاصل ہے اور نہ ہی کسی اور رنگ میں وہ لوگوں میں مشہور ہے اور اس طرح خدا نے ظاہر کر دیا کہ اس سلسلہ کو ترقی دینا میرا کام ہے اور میں اگر چاہوں تو مٹی سے بھی بڑے بڑے کام لے سکتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلے خدائی مدد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ سے نہیں چلتے اور اگر ہماری جماعت کسی وقت یہ سمجھ لے کہ فلاں شخص کے بیمار ہونے یا چلے جانے یا وفات پا جانے سے سلسلہ کے کام میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے تو کل کو چھوڑ دیا.جب تک ہماری جماعت میں یہ تو کل رہے گا ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے سے نئے آدمی کام کرنے والے پیدا نہ کرے.آخر ہماری جماعت میں لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں مگر کیا کبھی بھی ہمارے کاموں میں رخنہ پڑا؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ جب بھی ایسا ہو تا ہے اللہ تعالیٰ فوراً ایسے آدمی کھڑے کر دیتا ہے جو ان کے کام کو سنبھال لیتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کو علمی لحاظ سے دنیا میں خاص شہرت حاصل تھی.اسی طرح مولوی سید محمد احسن صاحب بھی بہت مشہور تھے.مولوی سید سرور شاہ صاحب اور قاضی سید امیر حسین صاحب بھی بڑے پایہ کے عالم تھے گو باہر ان کی علمی شہرت نہیں تھی مگر
$1940 415 خطبات محمود حضرت خلیفہ اول کی وفات کی وجہ سے ایک عالم تو اس طرح ختم ہو گیا اور دوسرا عالم سلسلہ خلافت سے مر تد ہو گیا.تب وہی لوگ جو دس دن پہلے گمنام زندگی بسر کر رہے تھے یکدم آگے آگئے.چنانچہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نمایاں ہونے شروع ہو گئے.ان میں سے ایک کتابوں کے حوالے یادرکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اُس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی.میر محمد اسحاق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب گو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آجاتا ہے مگر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی انہیں خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رُعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہو سکتا.پھر کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو نظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور اُدھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں.غرض کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری جماعت کے کسی آدمی کے بٹنے یا اس کے مر جانے کی وجہ سے سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ پڑا ہو بلکہ جب بھی بعض لوگ ہے ، بغیر ہماری کوشش اور سعی کے اللہ تعالی گمناموں میں سے بعض آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر آگے لاتا رہا.اسی طرح میں سمجھتا ہوں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی ے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم ا میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ،
$1940 416 خطبات محمود دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی.تقریر کے بعد ایک ہندو اُن کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہو گی.تو اللہ تعالیٰ نے کب ہمارا ساتھ چھوڑا ہے جو اب ہم اس کے متعلق بدگمانی کریں اور یہ خیال کریں کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو جاۓ یا وفات پا جائے تو سلسلہ کا کام رک جائے گا.پس لجنہ اماءاللہ کو چاہیئے تھا کہ جب سیکر ٹری بیمار ہوئی تھی تو فور کسی اور کو سیکر ٹری بنا لیا جاتا اور محلہ وار چندہ کی وصولی پر زیادہ زور دیا جاتا.عورتوں کے اندر سلسلہ کے متعلق جو اخلاص پایا جاتا ہے اس کے لحاظ سے کوئی بعید بات نہیں تھی کہ اگر وہ تند ہی سے کام شروع کر دیتیں تو تحریک جدید کے چندہ کی وصولی میں مردوں سے بڑھ کر نہ رہتیں.مگر انہوں نے تو کل سے کام نہ لیا اور سمجھ لیا کہ چونکہ ان کی سیکرٹری بیمار ہے اس لئے انہیں اس کام میں بھی التواء ڈال دینا چاہیے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نیک نامی جو بر ابر پانچ سال سے ان کو حاصل ہو رہی تھی اس سال اس نیک نامی کے حصول سے وہ محروم رہیں.اسی طرح قادیان کے مردوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی چندہ تحریک جدید کی ادائیگی میں سستی بھی زیادہ تر کمی تو کل کی وجہ سے ہے.اس دفعہ لڑائی شروع تھی اس لئے لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہمیں اکٹھی کھانے پینے کی چیزیں خرید لینی چاہئیں تا کہ غلہ مہنگا نہ ہو جائے مگر واقعات نے بتا دیا کہ ان کے خیالات غلط ثابت ہوئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک ہماری جماعت کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اُس وقت تک ہمیں یقین ہے کہ وہ ان خطرات کو دور رکھے گا اور کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گاجو جماعت کو تباہ و برباد کرنے والے ہوں.اور اگر بالفرض کسی وقت ایسے خطرات پیدا ہو جائیں تو اس وقت ہمارے جمع کئے ہوئے غلے ہمارے کس کام آسکتے ہیں.وہ تو بہر حال دشمن کے ہی کام آئیں گے کیونکہ دشمن صرف روپیہ ہی نہیں بلکہ غلہ پر بھی قبضہ کیا کرتا ہے.جرمنی کے لوگ اس وقت
$1940 417 خطبات محمود بھوکے مر رہے ہیں.اگر وہ ہندوستان پر قبضہ کر لیں تو سب سے زیادہ حرص کے ساتھ وہ غلہ پر ہی قبضہ کریں گے.تو یہ امر بھی تو کل کے خلاف تھا.میں یہ نہیں کہتا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر جماعت نے ایسا کیا تھا تو اسے چندہ کی ادائیگی کی طرف بھی رکھنی چاہیے تھی اور اس میں کوئی کمی نہیں آنے دینی چاہیئے تھی.پس وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک چندہ تحریک جدید ادا نہیں کیا میں انہیں خاص طور پر اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اب تحریک جدید کے سال ششم میں قریباً ایک مہینہ باقی ہے.انہیں چاہیے کہ وہ اپنی مستی کا ازالہ کر کے چندہ کی کمی کو پورا کریں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں کہ وہ ان پر فضل کرے گا اور انہیں دشمن کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑے گا.اسی طرح میں باہر کی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں بالخصوص تحریک جدید کے کارکنوں اور امراء اور پریذیڈنٹوں کو کہ وہ تحریک جدید کے بقائے ادا کرنے اور وعدوں کے پورا کرنے کی طرف توجہ کریں.مجھے بعض بیرونی جماعتوں کے خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ بعض امراء اور پریذیڈنٹ اس میں تساہل سے کام لے رہے ہیں.انہیں اپنی اس غفلت کو دور کرنا چاہیئے اور پوری تندہی اور جانفشانی سے اس میں حصہ لینا چاہیے.اب تحریک جدید کے چھ سال گزرنے والے ہیں اور صرف چار سال باقی رہتے ہیں.گویا ہماری منزل نصف سے زیادہ طے ہو چکی ہے.اس لئے اب ہماری کوششوں کی رفتار پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو جانی چاہیئے تا کہ اگر پہلے سالوں میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمارے اچھے انجام کو دیکھ کر اسے دور کر دے.دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت آپ نے یہ بھی کی کہ لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ 1 کے تم پر موت ایسی حالت میں آنی چاہئیے جبکہ تم خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار ہو.کیونکہ موت ہی انسان کی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے اور کام کے انجام ہی اصل چیز ہوتے ہیں.کسی نے کہا ہے الْأُمُورُ بِخَوَاتِيْمِهَا کہ کام اپنے انجام کے لحاظ سے ہوتے ہیں یعنی کاموں کا اچھایا برا ہونا انجام پر منحصر ہوتا ہے.
خطبات محمود 418 $1940 پس اب تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی میں زیادہ جوش، زیادہ اخلاص اور زیادہ مستعدی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جو شخص ان آخری سالوں میں زیادہ اخلاص دکھلائے گا اگر بالفرض اس سے پہلے سالوں میں کوئی سستی بھی ہوئی ہو گی تو خدا تعالیٰ کہے گا کہ جیسے موت کے وقت کے اخلاص کی میں قدر کیا کرتا ہوں اسی طرح میں اس اخلاص کی قدر کروں گا اور اس کی پچھلی تمام کو تاہیوں کو معاف کر دوں گا.قرآن کریم سے معلوم ہو تا ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے بدلہ دیا جائے گا.2 یعنی جب اسے نمازوں کا ثواب دیا جائے گا تو یوں نہیں ہو گا کہ اللہ تعالی کمزور نمازوں کا الگ ثواب دے اور اس نماز کا جو اس نے اخلاص سے پڑھی ہے الگ ثواب دے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر نماز پڑھی ہو گی اللہ تعالیٰ اس نماز کے مطابق اسے تمام نمازوں کا بدلہ دے گا.اسی طرح یہ نہیں ہو گا کہ روزوں کے اجر کی بنیاد اس کے کمزور روزوں پر رکھی جائے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر روزہ رکھا ہو گا خدا تعالیٰ اس پر اس کے روزہ کے اجر کی بنیاد رکھتے ہوئے تمام روزوں کا ثواب اسی کے مطابق دے گا.اسی طرح اگر اس نے ایک سے زیادہ حج کئے ہیں اور بعض ان میں سے کمزور ہیں تو خد اتعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ فلاں کمزور حج کا اسے اتنا ثواب دو اور فلاں اچھے حج کا اسے اتنا ثواب دو بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر حج کیا ہو گا خد اتعالیٰ حج کا سارا انعام اسی کے مطابق دے گا.غرض زندگی کے احسن اعمال پر اجر کی بنیاد رکھی جائے گی اور کمزور اعمال کا اجر بھی اچھے اعمال کے مطابق دیا جائے گا.تو آخری ایام میں کام کو زیادہ احسن رنگ میں سر انجام دینا پہلی تمام کمزوریوں کو مٹاکر انسانی زندگی کے تمام اعمال کو احسن بنا دیتا ہے.پس میں جماعت کو ان دونوں امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں.چندہ جلسہ سالانہ کی طرف بھی اور چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کی طرف بھی.اور سب دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان چندوں کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں تا تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان سے پہلے پہلے تمام رقمیں پوری ہو جائیں.بالخصوص قادیان والوں کو اس امر کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے اور ان کی قربانیاں دوسروں سے نمایاں ہونی چاہئیں.ساتھ ہی ضمنی طور
$1940 419 خطبات محمود پر میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ ان چندوں میں زیادہ جوش سے حصہ لینے کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیئے کہ جلسہ سالانہ پر آنے میں لوگ سستی سے کام لیں.ہماری جماعت کا ہر قدم خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے اور جتنی جماعت بڑھتی چلی جاتی ہے اتنی ہی قادیان میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے.بے شک یہ ایک بوجھ ہے مگر آخر ہم نے ہی اس بوجھ کو اٹھانا ہے اور یہی وہ بوجھ ہیں جن کے اٹھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل ہوا کرتی ہیں.دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ہم کسی کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں تو وہ ہم پر خوش ہوتا ہے اسی طرح جب ہم خدا تعالیٰ کے دین کا بوجھ اٹھائیں گے تو خدا اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ہمارے تمام بوجھ اٹھالے گا.جب دنیا میں تمہارا کوئی بوجھ اٹھاتا ہے تو تم اسے مزدوری دیتے ہو ، پھر تم کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ تم خدا کے لئے اس کے دین کا بوجھ اٹھاؤ اور وہ تمہیں کوئی مزدوری نہ دے.خدا تعالیٰ اس بوجھ کے اٹھانے کی ہمیشہ اپنی جماعتوں کو مزدوری دیتا چلا آیا.اور دیتا چلا جائے گا اور اس کی مزدوری یہی ہے کہ جب ہم اس جہان میں اس کے دین کے بوجھ کو اٹھاتے ہیں تو وہ اگلے جہان میں ہمارے بوجھ اٹھا لیتا ہے.جہاں دائمی اور ابدی زندگی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے.یہ کتنا سستا سودا ہے کہ ہم اپنی عمر کے تیس یا چالیس یا پچاس یا ساٹھ سال اس کا بوجھ اٹھائیں اور وہ لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں ارب سال کی زندگی میں ہمارے تمام بوجھ خود اٹھالے.اگر اتنے سستے سودے کی طرف بھی کسی کو توجہ نہیں ہوتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکا ہے اور اب اس کے لئے دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں اور خدا ہی ہے جو اس کے اس زنگ کو دور کرے.پس اگر کوئی شخص دین کے اس کام کے لئے بھی اپنے دل میں بشاشت نہیں پاتا تو اسے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ وہ وضو کرے اور نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے خدا! دین کے کاموں کے متعلق میرے دل میں بشاشت پیدا نہیں ہوتی اور نہ دین کا بوجھ اٹھانے کی مجھے توفیق ملتی ہے تو اپنے فضل سے میرے دل میں دین کے کاموں کے لئے رغبت پیدا کر اور مجھے ان بوجھوں کے اٹھانے کی توفیق عطا فرما تا کہ قیامت کے دن تو خود میرے تمام
$1940 420 خطبات محمود بوجھ اٹھالے.“ (الفضل 19 نومبر 1940ء) 1 البقرة:133 2 لِيَجْزِيَهُمُ اللهُ اَحْسَنَ مَا كَانُو يَعْمَلُونَ (التوبة:121)
$1940 421 (30 خطبات محمود جو اپنے بزرگوں کی عزت کرانا چاہتے ہیں ان کو چاہیئے کہ دوسروں کے بزرگوں کی بھی عزت کریں تشهد فرمودہ 22 نومبر 1940ء) (غیر مطبوعه) ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس ہفتہ میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے ہماری جماعت کے بعض احباب کے دلوں میں بعض حکام یا دوسری اقوام کی نسبت شکوہ پیدا ہوا ہے.اس لئے میں آج ان امور کے متعلق اپنے خطبہ میں بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.گزشتہ اتوار کو سکھوں کا ایک جلسہ قادیان کے پاس کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہوا تھا اور اس جلسہ کے موقع پر ان کی طرف سے ایک جلوس نکالا گیا تھا جو کہ اپنا رستہ چھوڑ کر سٹیشن سے پہلے قادیان میں داخل ہوا پھر جو بڑاہند و بازار کہلاتا ہے اور جس میں اب بہت سی دکانیں احمدیوں کی بھی ہیں میں سے ہوتا ہوا اس بازار سے جو چھوٹا بازار کہلاتا ہے گزرا اور پھر قصبہ کے اوپر سے ہوتا ہوا اس گلی میں سے جو عام طور پر شیخ یعقوب علی صاحب والی گلی کہلاتی ہے گزرا اور پھر دارالا نوار سے ہوتا ہوا جلسہ گاہ کو گیا.جب اس جلوس کی تجویز جماعت کو معلوم ہوئی تو جماعت کے ذمہ دار افسروں نے حکام کو توجہ دلائی کہ جن بازاروں میں سے جلوس کو گزارنے کی تجویز ہے وہ اصل رستہ نہیں.
خطبات محمود 422 $1940 اصل رستہ باہر سے جاتا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اسے شہر کی گلیوں میں سے گزارا جائے اور پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان گلیوں سے اسے گزرنے کی اجازت دی جائے جن میں کثرت آبادی احمدیوں کی ہے.حکام نے اس اعتراض کو قبول نہ کیا کہ کوئی وجہ نہیں اسے شہر کی گلیوں میں سے گزارا جائے اور کہا کہ شہروں کی گلیاں چلنے پھرنے کے لئے ہوتی ہیں اور اس لئے ہم لوگوں کو ان میں چلنے سے کیسے روک سکتے ہیں.البتہ اسے ان علاقوں سے نہیں گزرنے دیا جائے گا جن میں کثرت آبادی احمدیوں کی ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جلوس مغرب سے ہوتا ہوا شمال کی طرف چلا جائے گا اور پھر باہر ہی باہر مشرق کی طرف جلسہ گاہ میں پہنچ جائے گا.مگر جب وہ مغربی رستہ کو طے کر کے شمال کی طرف پہنچا تو حکام کے تجویز کردہ رستہ کو اختیار کرنے کی بجائے پولیس کی صفوں کو توڑ کر احمدی محلوں کی طرف ہو گیا.یہ بات حکام کے وعدہ کے سراسر خلاف تھی اور اس وجہ سے بعض دوستوں کو شکوہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے اظہارِ رنج کیا ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری نسبت حکام کے لئے زیادہ اظہار رنج کا موجب ہے جنہوں نے پہلے ایک بات کہی اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے اسے توڑ دیا گیا.پہلے تو پولیس لائن بنا کر ان کے سامنے کھڑی ہوئی اور پھر معا ان کے آگے آگے چل پڑی.یہ قانون شکنی کا ایسا مظاہرہ ہے جس سے حکام اور حکومت دونوں کی عزت قائم نہیں رہ سکتی.اس کے معنے یہ ہیں کہ جو ڈنڈا دکھائے حکومت اس کے آگے جھک جاتی ہے.ایسی حکومت جو اپنے احکام کی پابندی نہیں کر سکتی اسے قانون اور انتظام کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا کوئی حق نہیں.قانون اور انتظام کو ہاتھ میں رکھنے کا دعویداروہی ہو سکتا ہے جو اپنے احکام کا نفاذ بھی کرا سکے.حکام اور اہل جلوس کی یہ جنگ ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کہ کسی جگہ کوئی پٹھان تھا جس کی مونچھیں بہت بڑی بڑی تھیں اور اس کا دعویٰ تھا کہ اس جگہ مونچھیں رکھنے کا حق صرف مجھ کو ہی ہے.اور وہ شہر میں سب کو ڈراتا تھا کہ خبر دار اگر کسی نے مونچھیں اونچی کیں.انسانی فطرت ہے کہ جس بات سے اسے روکا جائے اس کی طرف وہ ضرور مائل ہو تا ہے اور مقابلہ کرتا ہے.اور جب تک طبائع خود مائل نہ ہوں اس بات کو قبول نہیں کیا جاتا.اس لئے کئی لوگوں نے مونچھیں اونچی رکھنی شروع کیں مگر اس نے ہر ایک کو دو دو تین تین تھپڑ لگائے.
$1940 423 خطبات محمود اس لئے سب نے ڈر کر یہ خیال چھوڑ دیا.وہاں ایک جو لا با زیرک اور ہوشیار آدمی تھا.اس نے کئی دنوں تک مونچھوں کو اونچار کھنے کی مشق کی اور پھر ایک روز تلوار ہاتھ میں لے کر بازار میں ٹہلنے لگا.کسی نے اس پٹھان کو بھی جا بتایا کہ آج ایک اور شخص بھی مونچھیں اونچی کئے پھر رہا ہے.یہ سن کر وہ آیا جو نہی اسے دیکھا آگے بڑھ کر کہا کہ اپنی مونچھیں نیچی کرو.یہاں میرے سوا کوئی شخص مونچھیں اونچی نہیں رکھ سکتا.جولا ہے نے جواب دیا کہ اب تو یہاں میری مونچھیں ہی اونچی رہیں گی اور کسی کی نہیں.پٹھان نے کہا کہ اچھا آؤ پھر تلوار سے فیصلہ کر لیں کہ کسے اونچی رکھنے کا حق ہے.جو لا ہے نے کہا کہ اس طرح ٹھیک نہیں.مقابلے میں دونوں میں سے ایک ضرور مارا جائے گا اور مصیبت اس کے بیوی بچوں پر پڑے گی اور وہ بھوکے مریں گے جو ظلم ہے.پٹھان نے پوچھا کہ پھر اس کی تدبیر کیا ہے ؟ جولا ہے نے جواب دیا کہ پہلے ایسا کریں کہ تم اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ اور میں اپنوں کو مار آتا ہوں پھر فیصلہ کریں گے.پٹھان فوراً جوش کی حالت میں چلا گیا اور جا کر سب کو قتل کر دیا لیکن جولاہا وہیں کسی دکان پر بیٹھ کر اس کا منتظر رہا.جب وہ واپس آیا تو اس سے دریافت کیا کہ کیا تم سب کو مار آئے ہو ؟ پٹھان نے کہا کہ ہاں میں تو مار آیا ہوں.تم بھی مار آئے ہو ؟ تو اس نے کہا کہ نہیں.تمہارے جانے کے بعد میری رائے تو بدل گئی تھی اور لو میں مونچھیں نیچی کر لیتا ہوں.یہی حال یہاں حکام کا ہوا ہے.حکومت کے دبدبہ کو قائم رکھنے کے لئے حکام کا فرض یہ ہے کہ یا تو وہ کوئی حکم دیں نہیں اور اگر دیں تو پھر اس کی تعمیل کرائیں.ایسانہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا جاتا ہے کہ حکومت ڈراوے کو مانتی ہے اور اس لئے جو دوسری قومیں ہوں ان میں بھی یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی ذرا حکومت کو ڈرائیں.چنانچہ پچھلے سالوں میں جب حکومت کے ساتھ ہمارے اختلافات تھے ہماری جماعت کے بعض لوگ مجھے بار بار لکھتے تھے کہ آپ ہمیں کچھ کرنے کی اجازت دیں کیونکہ یہ حکومت دھمکی کے بغیر مانا نہیں کرتی.مگر میں مشکل سے ان کو روکتا تھا اور اس اشتعال کا باعث دراصل حکام کے بعض ایسے ہی احکام تھے جن کی وہ تعمیل نہیں کراسکتے تھے.اس موقع پر بھی اگر سکھوں کے بجائے کوئی اور قوم ہوتی تو حکام اسے ضرور مجبور کرتے کہ ہمارا حکم مانو مگر سکھوں سے وہ دب گئے.
$1940 424 خطبات محمود یہ واقعہ ان ہزاروں لوگوں کے سامنے ہو ا جو جلوس میں شامل تھے اور ان سینکڑوں لوگوں نے دیکھا جو تماش بین کی حیثیت سے موجود تھے اور انہوں نے اس بات کو دیکھا کہ حکام اپنے فیصلہ کو منوا نہیں سکے بلکہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے رہے.ان کے احکام کو توڑا جارہا تھا اور ان کو توفیق نہ ہوئی کہ ان کو روک سکیں.یہ واقعہ ان ہزاروں لوگوں کے دلوں میں لازماًیہ احساس کرانے کا موجب ہوا ہو گا کہ حکام بالکل بے بس ہیں اور ان میں اپنے احکام کی تعمیل کرانے کی طاقت نہیں اور ایسے احساسات سے ملک کے آئندہ امن پر جو اثر پڑ سکتا ہے وہ ظاہر ہے.حکومت ملک میں ہونے والے فسادات پر ہمیشہ شکوہ کرتی ہے اور ہم بھی کرتے ہیں.بلکہ ہر شریف ہندو، سکھ ، مسلمان اور احمدی کو ان پر افسوس ہے اور حکومت ان کو روکنا بھی چاہتی ہے اور اس کے لئے کوشش بھی کرتی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ جب تک اس کے احکام کے پیچھے وہ روح نہ ہو جس کی وجہ سے نظام کا ادب لوگوں کے دلوں میں قائم ہوتا ہے امن کا قیام ممکن بھی ہے؟ اگر حکام ایسے ہی حکم دیتے رہیں جنہیں وہ منوانہ سکیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی بدنامی ہو جائے گی.اور اس کے لئے ملک میں امن قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا.پچھلے دنوں جب کانگرس نے انفرادی سول نافرمانی کا اعلان کیا تو میں نے ایک سرکاری آفیشل سے یہ بیان کیا کہ حکومت کو یہ مشورہ دینا چاہئے کہ شروع میں ہی وہ طریق عمل اختیار کرے جس پر بعد میں قائم رہ سکے.اور اگر اس نے بعد میں اپنی بات پر قائم نہیں رہنا تو اسے چاہئے کہ کانگرس کی بات ابھی مان لے.اس سے اس کی عزت رہ جائے گی.لیکن اگر وہ مقابلہ کے لئے کھڑی ہو گئی اور گاندھی جی نے برت رکھ لیا اور تاریں آنے لگیں کہ ان کی جان جارہی ہے ، ان کی بات فورا مانی جائے.اور اس لئے اسے مان لیا تو پہلے ہی اس کی کافی بے رعبی ہو رہی ہے اس سے اور بھی ہو جائے گی.اس لئے اسے چاہیے کہ پہلے ہی سوچ لے کہ وہ مقابلہ کر سکتی ہے یا نہیں.اگر سول نافرمانی شروع ہوئی تو گاندھی جی روزہ تو ضرور رکھیں گے اور اگر اس نے پھر اپنی بات کو چھوڑ دینا ہے تو یہی بہتر ہے کہ پہلے ہی مقابلہ شروع نہ کرے اور یا پھر یہ فیصلہ کرے کہ گاندھی جی خواہ زندہ رہیں اور خواہ مریں وہ اپنی بات پر قائم رہے گی.اگر سول نافرمانی شروع ہوئی تو عدم تعاون کرنے والے حکومت کا مقابلہ کریں گے اور حکومت
$1940 425 خطبات محمود ان کا کرے گی.اور یہ تو پتہ ہی ہے کہ اس صورت میں گاندھی جی روزہ ضرور رکھیں گے اور اگر پھر اس نے ان کی بات کو مان لینا ہے تو اس لڑائی کے شروع کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں.میں تو ہمیشہ سے حکومت کو یہی مشورہ دیتا رہا ہوں کہ وہ حکام کے اچھی طرح ذہن نشین کر دے کہ وہ وہی حکم دیں جسے پورا کر سکیں.سوائے اس کے کہ ان پر واضح ہو جائے کہ ان کا حکم ناواجب تھا.ایسی صورت میں ضرور ان کو یہ تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ان کی غلطی تھی اور اپنے حکم کو واپس لے لینا چاہیئے.مگر یہ امر کہ حکم کو توڑا جائے اور وہ خاموش رہیں اس کی بے رُعبی کا موجب ہے اور ملک میں فسادات کو بڑھانے والی بات ہے.اور اس کے نتیجہ میں جو فسادات ہوں گے ان کی ذمہ داری حکومت پر بھی ہو گی.جس زمانہ میں سرمائیکل اڈوائر گورنر تھے اس وقت سے میں یہ بات پیش کر رہا ہوں کہ ایجی ٹیشن سے دبنا ملک میں فسادات کا موجب ہے.بعض لوگ حکومت کے پاس ایک معقول شکایت لے کر جاتے ہیں مگر وہ جواب دیتی ہے کہ اس کے متعلق تو کوئی ایجی ٹیشن نہیں.اس صورت میں ان لوگوں کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ پہلے جا کر ایجی ٹیشن کرائیں.حالانکہ اگر بات معقول ہو تو حکومت کو چاہیے کہ اسے پہلے ہی مان لے اور اس کے متعلق ایجی ٹیشن کا انتظار نہ کرے.ہمارے پاس یہ قیاس کرنے کے وجوہ ہیں کہ یہاں جو انتظام ہوا وہ لوکل حکام کی طرف سے نہ تھا بلکہ بالا افسران کے مشورہ سے ہوا.ممکن ہے یہ خیال غلط ہو مگر ہمارے پاس اس کے وجوہ ہیں.اس صورت میں حکومت کو یہاں اتنی کافی پولیس بھی بھیجنی چاہیے تھی جو انتظام کر سکتی اور اس کے حکام کے احکام کی تعمیل کر اسکتی.جلوس میں ہزاروں لوگ ٹکوے، تلواریں اور لاٹھیاں ہوا میں لہرا رہے تھے جس کے معنے یہ تھے کہ ہم چیلنج کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں 25 یا 50 پولیس مین ان کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے.یا پھر یہ چاہئے تھا کہ ام حکم ہی وہ دیتے جو منوا سکتے.احکام دے کر ان کی تعمیل نہ کر اسکنے کے یہ معنے ہیں کہ کچھ لوگ تو یہ سمجھیں کہ حکومت کمزور ہے اور وہ اپنی بات کو منوا نہیں سکتی اور کچھ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ اگر حکومت سے کوئی بات منوانی ہو تو اسے لٹھ دکھانا چاہیئے.اور ایسے خیالات حکومت اور ملک دونوں کے لئے مضر ہیں بلکہ حکومت کی نسبت یہ خیالات ملک کے لئے زیادہ حکام wwwwwww
$1940 426 خطبات محمود مضر ہیں.حکومت کرنے والے انگریز تو یہاں باہر سے آئے ہوئے ہیں.اگر حالات بدل جائیں تو وہ تو بوریا بستر اٹھا کر یہاں سے چلے جائیں گے اور ملک میں جو طوائف الملو کی اور فسادات پھیلیں گے ان کا اثر زیادہ تر ہندوستان پر ہو گا.بہر حال یہ شکوہ ہمارے دلوں میں پیدا ہونے کے بجائے حکام کے دلوں میں زیادہ پیدا ہونا چاہیئے اور میں حکومت کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ہمیشہ وہی بات کہے جسے منوا سکے ورنہ نہ کہے.اس طرح گو احکام کم دیئے جا سکیں گے مگر حکومت کی عزت ضرور قائم ہو جائے گی.اس موقع پر بھی مثلاً حکام اگر ہم سے کہہ دیتے کہ ہم بے بس ہیں، سکھوں کا زور ہے تو اغلب ہے کہ ہم کہہ لیتے اچھا ان کو گزرنے دیا جائے اور اس طرح لوگوں پر برا اثر بھی نہ ہوتا اور حکومت کی عزت بھی رہ جاتی.پھر حکام نے یہ جو دلیل دی کہ لوگ گلیوں سے گزرتے ہی ہیں اور اس سے کسی کو کیسے روکا جاسکتا ہے درست نہیں.جلوس سارے ملک میں نکلتے ہیں اور ہر جگہ اس کے لئے رستے مقرر ہیں.انفرادی طور پر لوگوں کا گزرنا اور بات ہے لیکن جلوسوں کا گزرنا اور ہے.اور ہر جگہ جلوسوں کے لئے رستے مقرر ہوتے ہیں.پھر یہ کیا بات ہے کہ سارے ملک میں تو جلوسوں کے متعلق اور قانون ہو اور قادیان میں اور.ہم برابر دیکھ رہے ہیں کہ جب کوئی ایسا موقع ہوتا ہے تو حکام کہہ دیتے ہیں کہ باہر جو قانون استعمال ہوتا ہے وہ غلط ہے لیکن باہر والے کہتے ہیں کہ یہاں جو ہو تا ہے وہ غلط ہے.اب کون سی عدالت ہے جس سے اس امر کا فیصلہ کرایا جا سکے کہ جس قانون پر باہر عمل ہوتا ہے وہ صحیح ہے یا جس پر یہاں ہوتا ہے.یا تو ہر جگہ اور ہر قوم کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ جس شہر میں اور جس رستہ سے چاہے اپنا جلوس گزار سکے اور یا پھر قادیان میں بھی رستہ مقرر ہونا چاہیئے.کیا جلوس صرف قادیان میں ہی نکلتے ہیں؟ ہر شہر میں جلوس نکلتے ہیں.امر تسر لاہور، دہلی، لکھنو، میرٹھ، الہ آباد، ہر جگہ نکلتے ہیں اور بیسیوں واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں کہ کسی شہر میں ہندوؤں نے کسی رستہ سے جلوس گزارنا چاہا لیکن مسلمانوں نے نہ گزرنے دیا یا مسلمانوں نے گزرنا چاہا تو ہندوؤں نے نہ گزرنے دیا.تو ہر جگہ جلوسوں کے رستے مقرر ہیں لیکن قادیان میں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ گلیاں لوگوں کے گزرنے کے لئے ہی ہوتی ہیں اور ہم کسی کو کس طرح گزرنے سے روک سکتے ہیں.انصاف کا تقاضا ہے کہ سب جگہ کے لئے ایک ہی
خطبات محمود 427 $1940 قانون ہو.یا تو ہر جگہ ہر قوم کے جلوس کو سب رستوں سے گزرنے کی اجازت ہونی چاہیئے اور یا پھر قادیان میں بھی رستے مقرر ہونے چاہئیں.اگر امن عامہ کے پیش نظر باہر جلوسوں کے رستوں کو مقرر کرتے وقت وہ بعض اصول مد نظر رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ قادیان میں ان اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے.سب جگہ کے لئے ایک ہی قاعدہ ہو اور سب کو اطلاع دے دی جائے کہ یہ دستور ہے.ہم اقلیت میں ہیں.وہ جو بھی قاعدہ مقرر کرے اس پر اعتراض کا ہمیں کوئی حق نہیں اور ہمیں منظور ہو گا.خواہ وہ یہ کر دے کہ ہر جگہ ہر قوم کے جلوس کو ہر بازار سے گزرنے کا حق ہے.اور یا پھر یہ کہ بعض شرائط کے ماتحت رستے مقرر ہو سکتے ہیں.ہماری طرف سے اس کے متعلق کوئی مطالبہ نہیں لیکن یہ ضرور ہونا چاہیے کہ ہر جگہ ایک ہی قانون ہو.یہ درست نہیں کہ لکھنو ، کلکتہ، میرٹھ ، لاہور یا امر تسر کے لئے تو قانون دوسرا ہو اور قادیان کے لئے دوسرا.دوسری بات جو اس ضمن میں میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس کا نفرنس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا اس میں ہم پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ہم قادیان کے نواحی علاقہ میں دس دس میل تک اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے حکومت کو تین کروڑ روپیہ دیا جائے گا.بعض نے احتیاط کی تو یہ کہا ہے کہ ایک کروڑ دیا جائے گا.ہماری مالی حالت ظاہر ہے.ہمارا بجٹ مجلس شوریٰ میں پیش ہوتا ہے اور اس پر بحث کی جاتی ہے.وہ کوئی مخفی چیز نہیں.اور اسے دیکھ کر ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ اس وقت بھی جماعت پر دولاکھ سے زیادہ روپیہ کا بار ہے.اور اس کی وجہ سے ہم کارکنوں کا قلیل معاوضہ بھی جو گزارہ کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے بعض اوقات تین تین یا چار چار ماہ تک ادا نہیں کر سکتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو قرض لے کر.اور اگر قرض نہ لیا جائے تو شاید ایک سال کی تنخواہیں بقایا میں رہیں.ان حالات میں کوئی عظمند کہہ سکتا ہے کہ ہم تین کروڑ یا ایک کروڑ ہی حکومت کو دے سکتے ہیں.پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت اس طرح کروڑوں روپے لے کر علاقے دیا کرتی ہے.کیا اس کی کوئی ایک مثال بھی پائی جاتی ہے ؟ جب تک تو انگریزی حکومت با قاعدہ قائم نہیں ہوئی تھی اس وقت تو بعض ایسے سودے ہوئے ہیں مثلاً کشمیر کا صوبہ ایک کروڑ روپیہ میں دے دیا گیا تھا.سکھوں پر پر
$1940 428 خطبات محمود تاوان لگایا گیا اور اسے موجودہ مہاراجہ کے دادا کے ذمہ لگا کر یہ علاقہ دے دیا گیا.اور پھر تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ روپیہ ادا بھی ہوا.ممکن ہے کچھ ہوا ہو اور جب کشمیر جیسابڑا علاقہ ایک کروڑ میں بکا تو قادیان کے ارد گرد دس میل کا علاقہ جسے آج جبکہ موٹر کاریں اور گاڑیاں ایجاد ہو چکی ہیں انسان پھونک مار کر پار کر جاتا ہے تین کروڑ میں لے کر کوئی کیا کرے گا.دس میل کے علاقہ کی آبادی میرے نزدیک 30-35 ہزار ہو گی.زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار سہی.اس سارے ضلع کی آبادی دس لاکھ ہے.اس میں سے احمدیوں کی آبادی تو بہت ہی تھوڑی ہے.اس دس میل کے علاقہ میں احمدی میرے نزدیک بارہ تیرہ ہزار یا زیادہ سے زیادہ چودہ ہزار ہوں گے جو ساری آبادی کا چوتھا یا تیسر ا حصہ ہو گا.اور ظاہر ہے کہ اتنی اقلیت ایسی کثرت پر حکومت کیونکر آسانی کے ساتھ کر سکتی ہے.اس زمانہ میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو ملک تباہ ہوئے ہیں انہیں غیر ملکی اقلیتوں نے ہی تباہ کیا ہے اور ایسی اقلیتیں جو ان کی تباہی کا باعث بنیں ہیں فیصدی سے زیادہ نہ تھیں.مگر انہوں نے حکومت کا قافیہ ایسا تنگ کیا کہ وہ ٹوٹ گئی.ان حالات میں احمدی کیونکر یہ امید کر سکتے ہیں کہ اتنی بڑی اکثریت پر کامیابی سے حکومت کر سکیں گے.ہم پر الزام لگانے والے ذرا خود سوچیں کہ وہ کیا چیز پیش کر رہے ہیں.کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سے انکار کیوں نہیں کیا.مگر میں کہتا ہوں کہ ہمیں ایسی بات کی تردید کی ضرورت کیا ہے جو ہو ہی نہ سکتی ہو.اگر کل کو کوئی کہہ دے کہ میں نے ہٹلر کو گھر میں چھپارکھا ہے تو کیا میر افرض ہے کہ اس کی بھی تردید کروں.ایسی باتیں ملک میں بدامنی کا موجب ہوتی ہیں.اور قیام امن کا ذمہ دار میں نہیں حکومت ہے.اور اس کا جواب دینا اس کا فرض تھا اور تردید بھی اسے کرنی چاہیئے تھی.ہم اگر کہیں کہ ہم ریاست نہیں لیتے تو افسر کہہ سکتے ہیں کہ بیو قوفو تمہیں دیتا کون ہے.پس نہ تو ہم مانگتے ہیں اور نہ کوئی دیتا ہے.اس لئے ہم انکار کیوں کریں.ہاں حکومت کا فرض تھا کہ اعلان کرتی کہ یہ بات غلط ہے.مجھے تعجب ہے کہ سکھوں میں کئی ایسے لوگ ہیں جو موجودہ کانسٹی ٹیوشن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ انگریزوں کو یہ حق ہی نہیں کہ کسی کو کوئی علاقہ دے دیں.صرف وزراء کی مرضی سے ہی ایسا ہو سکتا ہے.آخر یہ کوئی مذ ہی بات تو ہے نہیں بلکہ قانون کا سوال ہے.اور ان کے ہاں بھی
خطبات محمود 429 $1940 قانون کے ماہر موجود ہیں.چاہیے تھا کہ ان سے پوچھتے کہ انگریزوں کو اس کا حق بھی ہے یا نہیں.بلکہ وزراء بھی نہیں دے سکتے.پہلے کوئی ایسی بات اسمبلی میں پیش ہو گی.اوپر ہی اوپر یہ بات ممکن ہی نہیں.کہا جاتا ہے کہ سر ظفر اللہ خان صاحب نے وائسرائے سے اوپر ہی اوپر یہ بات منوالی ہے.مگر ان کو معلوم نہیں کہ وائسرائے کو پنجاب کے معاملات میں دخل کا کوئی حق ہی نہیں.اب ہر صوبہ آزاد ہے.پنجاب گورنمنٹ چاہے تو دے سکتی ہے.مگر وہ بھی خود نہیں بلکہ پہلے اس بات کو اسمبلی میں بطور مسودہ پیش کرے گی اور پھر اس کی منظوری سے کوئی ایسی بات کر سکتی ہے.یہ بات تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ موضع بُٹر کا فلاں لالہ ریاست پٹیالہ فلاں ساہو کار کو دے رہا ہے.بھلا اسے ریاست پٹیالہ پر دخل ہی کیا ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ خوش گفت است سعدی در زمینی آلا يَا أَيُّهَا السَّاقِي أَدْرِكَأْسًا وَنَا وِلُهَا دوسرا مصرعہ حافظ کے ایک شعر کا ہے جو فارسی کا مشہور شاعر تھا اور زلیخا ” جامی کی تصنیف ہے.مگر اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ سعدی نے زلیخا میں کیا خوب لکھا ہے کہ ساقی پیالہ ادھر لا اور اسے گردش دے.حالانکہ سعدی نے زلیخا لکھی ہی نہیں.پس پنجاب کا کوئی علاقہ کسی کو دینے کا اختیار حکومت ہند کو ہے ہی نہیں بلکہ پنجاب گورنمنٹ کو بھی نہیں.اسمبلی کو ہے.اس میں بھی ایسا مسودہ پیش کرنے کے لئے پہلے غالباً حکومت ہند سے منظوری لینی ضروری ہے.پس نہ حکومت کو دینے کا اختیار ہے نہ لینے والوں کے ذہن میں کوئی ایسی بات ہے.یہ تو محض پروپیگنڈا ہے جو بعض احراری ملانوں نے سکھوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے کیا ہے اور سکھ ان کے دھوکا میں آگئے.چاہئیے تو یہ تھا کہ جب انہوں نے یہ بات ان کے سامنے پیش کی تھی تو وہ ان سے کہتے کہ کیا تم ہم کو بیوقوف سمجھتے ہو.ماسٹر تارا سنگھ صاحب سکھوں کے بڑے لیڈروں میں سے ہیں ہمارے آدمی ان سے ملنے گئے اور جب ان کو یہ بات بتائی تو وہ ہنس پڑے اور کہا کہ ریاست تو بادشاہ بھی نہیں دے سکتا.تو سکھوں نے اسے پیش کر کے عقلمندوں کو اپنے اوپر جنسی کا موقع دیا ہے.باقی رہاتر دید کاسوال سو وہ حکومت کو کرنی چاہیے تھی،
$1940 430 خطبات محمود ضلع کے افسروں کو کرنی چاہیے تھی کیونکہ جس بات سے امن میں خلل کا احتمال ہو حکومت کا فرض ہے کہ اس کی تردید کرے.جب لاہور میں مسجد شہید گنج گرائی گئی تو یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ چودھری افضل حق صاحب نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر شہید گنج کو مسجد سے گوردوارہ میں تبدیل کر دیا جائے تو مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہ ہو گا.اس وقت حکومت نے اس خبر کی تردید کی تھی.اور جب چودھری افضل حق صاحب کی عزت کی حفاظت حکومت نے ضروری سمجھی تو کیا ضلع کے امن کے پیش نظر اس کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ اس افواہ کی تردید کرتی.پھر اس جلسہ میں سلسلہ کے متعلق بھی بہت کچھ کہا گیا.سخت اشتعال انگیز نظمیں پڑھی گئیں اور تقریریں کی گئیں.اور اگر سکھ ایسی باتوں کو اس وجہ سے جائز سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مقابلہ میں زیادہ ہیں تو ان کو مسلمانوں پر اعتراض کا کیا حق ہے؟ اور وہ پاکستان کی مخالفت کس اصول کے ماتحت کرتے ہیں ؟ اگر وہ محض اس وجہ سے کہ وہ ہم سے زیادہ ہیں ہم کو گالیاں دے سکتے ہیں تو مسلمان اگر ان سے یہی سلوک کریں تو ان کو اعتراض کا کوئی حق نہیں.تمام شرفاء ہندو، سکھ ، مسلمان ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اگر امن قائم رکھنا ہے تو وہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ سب کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور اس بات کی بنیاد عقل پر ہے.کسی کو دوسرے پر زیادتی کا حق محض اس وجہ سے نہیں دیا جا سکتا کہ اس کی تعداد دوسرے کی نسبت کچھ زیادہ ہے.تھپڑ مار نا صرف بچے کے لئے ہی نا جائز نہیں بلکہ پہلو ان کے لئے بھی ناجائز ہے.یہ جبر ہے کہ پہلوان تو تھپڑ مار سکتا ہے مگر بچہ نہیں مار سکتا.ایک شخص نے اپنی تقریر میں کہا کہ مرزا صاحب گیدڑ تھے (نعوذ باللہ ) کیا یہ انصاف کی بات ہے ؟ ان کے گروؤں کے متعلق اگر کوئی شخص یہی بات کہے تو کیا وہ بر داشت کر سکتے ہیں ؟ کیا وہ ایسی باتیں کہنے میں اپنے آپ کو اس وجہ سے حق بجانب سمجھتے ہیں کہ ان کے اس علاقہ میں نوے گاؤں ہیں یا پنجاب میں ان کی تعداد تیس لاکھ ہے اور احمدی تھوڑے ہیں.یہ بات بالکل غیر موزوں ہے اور میں سمجھتا ہوں خود ان کی قوم کے شرفاء بھی اسے قابلِ اعتراض قرار دیں گے.اگر ہم سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہمارے بزرگوں کے متعلق ایسے الفاظ
خطبات محمود 431 $1940 کا حق ہے تو ان سے زیادہ تعداد والوں کو ان کے بزرگوں کے متعلق بھی ایسے الفاظ استعمال کرنے کا حق ہونا چاہیے.کیا وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گیدڑ کہنے سے ان کے گروؤں کی عزت بڑھ جاتی ہے ؟ ایسی باتوں کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اگر ہم بھی دوسروں کی طرح ہوں تو فساد ہو جائے.اسی طرح بعض اور بھی گندے الفاظ استعمال کئے گئے.ایسے گندے کہ جن کو انسان برداشت نہیں کر سکتا.اور اس کی وجہ جواز اُن کے لئے سوائے اس کے اور کیا ہے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں لیکن اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس.لیکن یہ بات انصاف کے سراسر خلاف ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے کچھ نہیں ہو تا.شیر کو گیدڑ کہنے سے وہ گیدڑ بن نہیں جاتا.جس طرح کہ سورج کو رات کہنے کا کوئی اثر نہیں وہ برابر طلوع کرتا رہتا ہے.جسے خدا تعالیٰ نے شیر بنایا ہے کسی کے گیدڑ کہنے سے اس کی شیری میں فرق نہیں آسکتا.گیدڑ وہی احراری ہیں جو سکھوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس وقت احمدی ہیں حضرت مرزا صاحب انہی میں سے چھین کر لائے ہیں.وہ اکیلے تھے جب انہوں نے دعویٰ کیا اور پھر اکیلے نے سارے ہندوستان پر غلبہ پایا.روحانیت سے حملہ کر کے کسی دنیوی حملہ سے نہیں اور لاکھوں کو ان مولویوں کے پنجہ سے چھین کر لے آئے.ان سے پوچھا جائے کہ کیا گیدڑ ایسے ہی ہوتے ہیں ؟ آپ کے شیر ہونے کی علامت روزانہ الفضل میں شائع ہوتی ہے کہ آج اتنے احمد کی ہوئے ، آج اتنے ہوئے.دنیا میں کوئی ایسا شیر نہیں جو تین چار سو سے زیادہ شکار سال میں کر سکتا ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر سال چار پانچ سو آدمیوں کو ان لوگوں سے چھین لیتے ہیں اور ایسے وقت میں لاتے ہیں جب آپ فوت ہو چکے ہیں.ہم تو ان باتوں کی پر واہ نہیں کرتے اور ہمیں یقین ہے کہ خود ان میں سے شریف طبقہ بھی اس کی تردید کرے گا.انہیں خود سوچنا چاہیے کہ اگر ان گالیوں کا دسواں حصہ بھی ان کے گروؤں کے متعلق استعمال کیا جائے تو ان کی کیا حالت ہو گی ؟ ان کو غصہ آئے گا یا نہیں ؟ اگر وہ اپنے بزرگوں کی عزت کرانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ دوسروں کے بزرگوں کی بھی عزت کریں.بعض تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ہمارا خاندان اس علاقہ کا قاضی تھا اور
خطبات محمود 432 $1940 مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے دادا کو جائداد دی تھی.ممکن ہے یہ کہنے والا باہر سے آیا ہو مگر اس علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے دریافت کرو کہ ہمارا خاندان قاضی تھا یا حاکم.اگر ہمارے بزرگ ملانے تھے تو کیا سکھوں کی چار مسلیں اکٹھی ہو کر ملانوں سے مقابلہ کے لئے آئی تھیں.سکھوں کی کل مسلیں پندرہ سولہ تھیں جن میں سے چار نے مل کر قادیان پر حملہ کیا تھا اور اب بھی بسر اواں میں قلعوں وغیرہ کے نشانات ہیں جن پر تو ہیں وغیرہ نصب کی گئی تھیں.کیا یہ چار پانچ مسلیں مل کر کسی مسجد کے امام یا ئلا سے مقابلہ کے لئے آئی تھیں.ہمارا خاندان خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے اس علاقہ کا حاکم تھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کا زمانہ تو بعد کا ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی ہتک کی ہے.مگر یہ بات بھی بالکل غلط ہے.میں نے سکھ تاریخ پوری طرح نہیں پڑھی مگر میرے دل میں مہاراجہ صاحب کی عزت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی تعریف سنی ہے.جن سکھوں کے خلاف آپ نے لکھا ہے وہ طوائف الملوکی کے زمانہ کے تھے اور ایسے زمانہ کو ہر قوم بُرا کہتی ہے.اور خود سکھ بھی بُرا سمجھتے ہیں.مگر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ایک منظم حکومت قائم کر لی تو اس زمانہ کی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعریف ہی سنی ہے اور اس وجہ سے میرے دل میں ان کی عزت ہے.انہوں نے ایک معمولی زمیندار کا فرزند ہو کر ایسی عقلمندی دکھائی کہ پنجاب میں ایک منظم حکومت قائم کر دی.پس یہ بالکل غلط ہے کہ ہم ان کی بہتک کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مہاراجہ صاحب نے ہی یہ گاؤں واپس کیا.پس جن کو بُرا کہا گیا ہے وہ طوائف الملوکی کے زمانہ کے سکھ ہیں.بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی.جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کی جاگیریں موجود ہیں.یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ سکھوں کا ایک گاؤں بھا گو وال ہے وہاں سکھ سردار ہیں مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے.
$1940 433 خطبات محمود تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور مہاراجہ کے خاندان سے غداری کی مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کر سکتا.کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی.اس غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا.تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گاؤں واپس کئے تھے.پھر وہ کہاں گئے ؟ وہ اس وجہ سے انگریزوں نے ضبط کر لیے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان سے غداری نہیں کر سکتے.بھاگووال کے ایک اتنی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لو خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مرواؤ مگر ہمارے دادا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائداد ضبط کر لی.بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا مگر کیا ملا قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی.باقی بھینی، ننگل اور کھارا کا مالکان اعلیٰ قرار دے دیا گیا.مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی.ہاں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تو پھر ان سے وفاداری کی ہے.پس یہ تعریف کے قابل بات تھی.سکھ لیکچر اروں کو کہنا چاہیے تھا کہ ہمارے دادا صاحب نے مسلمان ہونے کے باوجو د سکھوں سے غداری نہیں کی مگر کہا یہ گیا کہ وہ گھاس منہ میں لے کر مہاراجہ صاحب کے پاس پہنچے کہ کچھ دیا جائے.یہ کہنے والے کو معلوم نہیں کہ ہمارے پاس آج تک وہ تحریر موجود ہے جو شاہ فرخ سیر نے ہمارے پر دادا صاحب کو لکھی ہے اور اس میں ان کو عضد الدولہ کا خطاب اور سات ہزار فوج رکھنے کا حق دیا گیا ہے.اگر ہماری جاگیر مہاراجہ صاحب کی دی ہوئی ہے تو ان سے بہت پہلے یہ مناصب کیونکر حاصل ہو گئے.فرخ سیر تو اور نگ زیب سے قریبی زمانہ
$1940 434 خطبات محمود میں گزرے ہیں.پس ایسی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا.سینکڑوں لوگ ابھی تک اس علاقہ میں ایسے موجود ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادوں سے سنا ہو گا کہ ہمارا خاندان یہاں مُلاں تھایا حاکم.تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا اور اسی وقت سے ٹوانوں اور نون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں.پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائداد ضبط کر لی.ورنہ سری گوبندرپور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجو د ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی.اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سے پہلے کی بات ہے.آج اگر گالیاں دی جائیں تو اس سے کچھ نہیں بنتا.تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اس علاقہ کے حاکم تھے اور سکھوں کا قادیان پر حملہ کرنا ہی بتاتا ہے کہ یہاں حکومت تھی.ہمارے دادا صاحب کپور تھلہ کی ریاست میں چلے گئے تو مہاراجہ کپور تھلہ نے ان کو دو گاؤں پیش کئے.گو انہوں نے لئے نہیں مگر کیا ایسے تحفے ملانوں کو پیش کئے جاتے ہیں؟ اسی احراری ملاں سے پوچھو کہ آج بھی وہاں کسی علانے کو دو گاؤں پیش کئے جاسکتے ہیں.عنایت اللہ صاحب خودملاں ہیں اور قاضی بھی کہلاتے ہیں.پھر ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا سارے علاقہ پر رعب ہے.وہ خود وہاں چلے جائیں اور دیکھ لیں کہ مہاراجہ کپور تھلہ ان کو دو گاؤں پیش کرتے ہیں.اگر وہ اس طرح ملانوں کو دو دو گاؤں دینے لگیں تو دو سال میں ان کی ریاست ختم ہو جائے.زیادہ سے زیادہ 3 ،4 سو گاؤں اس ریاست میں ہوں گے اور اگر وہ دو دو گاؤں تقسیم کرنے لگیں تو دو سو روز میں ان کی ریاست ختم ہو جائے.پس ایسی باتوں سے جو تاریخ اور عقل دونوں کے خلاف ہوں کچھ فائدہ نہیں.بات وہ کرنی چاہئیے جو تاریخ اور عقل کے مطابق ہو اور جس سے امن پیدا ہو تا ہو.ہم ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہیں اس لئے ہمارے درمیان فساد والی باتیں نہیں ہونی چاہئیں.کسی کا یہ خیال کرنا کہ احمدی تھوڑے ہیں اور کوئی قوم ان کو مار سکتی ہے اور ان کے مکان اور جائدادیں تباہ کر سکتی ہے بالکل غلط خیال ہے.ایک بچہ کو بھی اگر زبر دست پہلوان کنویں میں پھینکنا چاہے تو
$1940 435 خطبات محمود وہ بھی مقابلہ کرتا اور اسے دق کر دیتا ہے.پھر ہمارا تو کسی طاقت پر بھروسہ نہیں.ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حافظ ہے.تلواروں، ٹکوؤں اور لاٹھیوں کا رُعب ہمیں دبا نہیں سکتا.اور نہ ہم کسی کو دبانا چاہتے ہیں.گو یہ لوگ ہمارے شدید دشمن ہیں مگر ہم پھر بھی ان سے اور ان کی اولادوں سے محبت کرتے ہیں.ہم نے ان پر غلبہ ضرور حاصل کرنا ہے مگر تلوار یا بندوق سے نہیں بلکہ دلائل اور پیار سے.تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ہم ظلم کرتے ہیں مگر میں کہتا ہوں جا کر علاقہ میں سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں سے پوچھو کہ ہم ان پر کیا ظلم کرتے ہیں.علاقہ کے سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ ہمارا لین دین ہے.ہم ان سے برابر چیزیں خریدتے ہیں.قادیان میں حالات مختلف ہیں.اگر ان کو اس وجہ سے غصہ ہے کہ ہم یہاں کے بعض ہندو اور سکھ دکانداروں سے بعض چیزیں نہیں خریدتے تو ان کو ہندوؤں پر غصہ کیوں نہیں آتا جنہوں نے ایک لاکھ سال سے دوسری قوموں سے سودا و غیرہ خرید نابند کر رکھا ہے.پہلے ان کو چاہیے کہ اس ظلم کو دور کریں.بہادر قوم ہمیشہ بڑا کام کیا کرتی ہے.سکھ بھی اپنے آپ کو بہادر کہتے ہیں اس لئے ان کو چاہیے کہ پہلے ہندوؤں کے اس ظلم کو دور کریں اور اس نا انصافی کا خاتمہ کریں جو وہ اتنے لمبے عرصے سے کر رہے ہیں.ہم کسی جگہ کوئی دکان کھولتے ہیں ہم پر اعتراض کرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو لائیں کہ وہاں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدیں.ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں یہ بات موجود ہے کہ ہندو اور سکھ مسلمانوں سے کھانے پینے کی چیزیں نہیں خریدتے اور جب سارے ملک میں یہ بات موجود ہے تو ان کا سارا غصہ قادیان پر ہی کیوں ہے.اگر اس وجہ سے وہ قادیان کے مکانات گرانے پر آمادہ ہوتے ہیں تو ان کا اولین فرض ہے کہ پہلے بنارس کی دکانیں اور مکانات گرائیں، کاشی کے گرائیں، بمبئی میں گرائیں جہاں ہند و محلوں میں مسلمانوں کو کرایہ پر بھی مکانات نہیں دیئے جاتے.میں ایک دفعہ بمبئی گیا تو وہاں رہنے کے لئے کرایہ پر مکان ملنا مشکل ہو گیا مہاراجہ اندور 1 کے پرائم منسٹر وہاں آئے ہوئے تھے.ان کا مکان جو ساحل سمندر کے پاس تھا.حضرت اماں جان میرے ساتھ تھیں اور وہ بیمار تھیں.ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ ساحل کے قریب کسی
$1940 436 خطبات محمود مکان میں رہیں.میں اندور کے پرائم منسٹر صاحب کے پاس گیا اور پوچھا کہ آپ کب تک یہاں رہیں گے.انہوں نے کہا کہ میں نے رہنا تو ابھی پندرہ روز اور تھا مگر آپ کو ضرورت ہے اور آپ ہمارے علاقہ کے رئیس ہیں (وہ پنجاب کے رہنے والے تھے ) اس لئے میں آپ کی خاطر پہلے ہی مکان خالی کر دیتا ہوں.مگر جب ہمارے آدمی سامان وغیر ہ رکھنے کے لئے گئے تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ محلہ کے سارے ہند و جمع ہو کر میرے پاس آئے ہیں کہ آپ ایک مسلمان کو مکان دینے لگے ہیں.پس جن لوگوں کو ہم پر غصہ آتا ہے اور اس وجہ سے ہمارے مکان ڈھانا چاہتے ہیں انہیں چاہتے کہ پہلے بمبئی جا کر وہاں کے ہندوؤں کے مکانات ڈھائیں.پھر قادیان پر ان کا حملہ اچھا لگے گا.ہم نے قادیان میں جو بعض پابندیاں لگارکھی ہیں وہ بعض مخصوص حالات کی وجہ سے ہیں اور ان کا مقصد صرف امن قائم رکھنا ہے.ہم نے یہ محض اس شرارت کی وجہ سے لگارکھی ہیں جو یہاں کے ہندو اور سکھ دکانداروں نے ایک مرتبہ کی تھی کہ اپنی دکانوں کا سامان باہر پھینک کر مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے ہماری دکانیں لوٹ لی ہیں.ورنہ سکھ دیہات میں جا کر پوچھو کہ ہم سکھوں سے چیزیں لیتے ہیں یا نہیں.قادیان میں خاص معاملہ ہے جس کی وجہ انہیں دریافت کرنی چاہیے تھی.اور اگر یہ ظلم ہے تو یہ ظلم سارے ہندوستان میں ہندو اور سکھ کر رہے ہیں.ان کو چھوڑ کر صرف ہم پر حملہ کرنے کی وجہ کیا صرف یہ ہے کہ ہم تھوڑے ہیں.میں سمجھتا ہوں علاقہ کے ہندوؤں اور سکھوں کے اخلاق اور انصاف کا تقاضا تھا کہ وہ خود بخود ان باتوں کی تردید کرتے اور اب بھی انصاف اور اخلاق ان سے ان باتوں کی تردید کا تقاضا کرتے ہیں.کیا گاؤں کے سکھ سیکھ نہیں ہیں ؟ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ قادیان کے سکھوں کی نسبت وہ زیادہ پکے سکھ ہیں.وہ زیادہ قربانیاں کرتے ہیں.قادیان کے سکھ ہمیشہ ان سے امداد حاصل کرتے ہیں.پھر ان کے زیادہ پکے سکھ ہونے کے باوجود ہم ان کے ساتھ کیوں معاملات کرتے ہیں.پس قادیان کے سکھوں اور ہندوؤں سے اگر ہم چیزیں نہیں لیتے تو یہ اور بات ہے اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے ہے.ورنہ ہم سکھوں اور ہندوؤں سے برابر لین دین کرتے ہیں اور ہمیں خواہ مخواہ بدنام کیا جاتا ہے.بعض ایسے دیہات میں جہاں احمدیوں کی کثرت ہے سکھ رہتے ہیں.ضلع سیالکوٹ میں بعض ایسے گاؤں ہیں اور بعض سکھ جلسہ سالانہ
$1940 437 خطبات محمود کے موقع پر یہاں آتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ احمدیوں کے گاؤں میں ہمارے لئے بڑا امن ہے.اگر ہم سکھوں کے دشمن ہوتے تو ان دیہات میں ان سے بُر اسلوک کیوں نہ کرتے ؟ پس ہر شریف سکھ اور ہندو کا فرض ہے کہ ان باتوں کی تردید کرے.وہ اس امر کے عینی شاہد ہیں کہ ہم کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتے.صا الله سة اس موقع پر میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اشتعال میں ہر گز نہ آئے.سکھوں کو ایک یہ رعایت حاصل ہے کہ ہم ان کے گروؤں کو بزرگ سمجھتے ہیں اور اس لئے ان کو بُرا نہیں کہہ سکتے.ہمارے بزرگوں کو وہ جو گالیاں دیتے ہیں ان کا غصہ اتارنے کا یہی طریق ہو سکتا تھا کہ ہم بھی ان کے بزرگوں کو انہی الفاظ سے یاد کرتے مگر ہم تو حضرت بابا نانک کو مسلمان سمجھتے ہیں.ہم ان کو گالی کس طرح دے سکتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہے کہ دو بھائی آپس میں لڑیں.ایک ماں کی گالی دے تو دوسرا اس کا جواب نہیں دے سکتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری گالی میری ماں کو لگے گی.پس ہمیں یہ مجبوری ہے.یہ بہت بیوقوفی ہو گی کہ ایک طرف تو ہم اپنے بزرگوں کو سکھوں سے گالیاں دلوائیں اور پھر خود اپنے بزرگوں کو گالیاں دیں.پس ان حالات میں ہمارے لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں کیونکہ بدلہ کا جو طریق ہے اسے ہم اختیار نہیں کر سکتے.ہم رام اور کرشن کو اپنا بزرگ سمجھتے ہیں.ہندو ر سول کریم صلی لیکم کو گالیاں دیتے ہیں مگر ہم ان کے بزرگوں کو گالی نہیں دے سکتے کیونکہ وہ ہمارے بھی بزرگ ہیں.پس ہمارے لئے صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں.جب ہم اپنے کسی بزرگ کو گالی سنتے ہیں اور غصہ کے باوجود ان کے کسی بزرگ کو گالی اس لئے نہیں دیتے کہ خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ کی اس طرح ہتک ہوتی ہے.تو ہمارا خدا ہمیں ضرور اس کا اجر دے گا.پس ہمارے لئے افسردگی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہم نے غصہ کے باوجود خدا تعالیٰ کے لئے اپنی زبان کو روکا اور اس وقت گالی نہ دی جب ہم دے سکتے تھے.محض اس وجہ سے کہ اس سے خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ کی تو ہین ہوتی ہے اور اس صبر کا اجر ہمیں اللہ تعالیٰ ضرور دے گا.پس صبر کرو اور دوسروں سے پہلے سے بھی زیادہ محبت کا مظاہرہ کر و.ممکن ہے تم میں سے کسی نے پہلے کسی ہندو یا سکھ سے بُرا سلوک کیا ہو.اگر ایسا ہے تو آئندہ بہت احتیاط کرو.قادیان کے حالات جیسا کہ میں نے
$1940 438 خطبات محمود بتایا ہے مختلف ہیں.لیکن بعض دکانوں سے سودا خریدنے کی ممانعت کے باوجود یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں سے بھی محبت کا سلوک کرو.کوئی ہندو، سکھ یا غیر احمدی بھوکا ہو تو اس کے لئے بھی کھانے کا اسی طرح فکر کرو جیسا اپنے احمدی بھائی کے لئے کرتے ہو.کوئی ننگا ہو تو اس طرح اس کے لئے بھی کپڑے کا خیال رکھو.میرا اپنا معاملہ تو یہ ہے کہ میں نے سکھوں کو تعلیمی وظائف بھی دیئے ہیں.انہیں گھر کے اخراجات کے لئے بھی امداد دی ہے.بعض اوقات کفن دفن کے اخراجات بھی دیئے ہیں.پس ہندوؤں سے بھی میں ویسا سلوک کرتارہا ہوں.گو کسی کے نام کا اظہار مناسب نہیں کہ اس طرح ہتک ہوتی ہے.پس آپ لوگوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے.یہاں کے ڈاکٹروں اور طبیبوں کو ہندو اور سکھ مریضوں کا اسی طرح علاج کرنا چاہیئے جس طرح احمدیوں کا کرتے ہیں.قادیان میں بھی اور باہر بھی ان سے اچھا ہی سلوک کرنا چاہیئے.ان سے لین دین میں کوئی روک نہیں اور گو اس طرح ہمارا پیسہ ان کے گھروں میں جاتا ہے مگر اس کی کوئی پرواہ نہ کرو کہ وہ بھی ہمارے ویسے ہی بھائی ہیں جیسے احمدی یا دوسرے مسلمان.“ از ریکار ڈ خلافت لائبریری ربوہ) 1 اندور: ہندو مہاراجوں کی سابق ہندوستانی ریاست جو ہندوستان کے تقریباً وسط میں واقع تھی.1948ء میں مدھیہ پردیش میں ضم ہو گئی.اندور شہر میں بہت سے کالج اور ایک خوبصورت محل ہے.یہ محل مہاراجہ کے استعمال میں تھا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ 140 مطبوعہ لاہور 1987ء
$1940 439 (31) خطبات محمود تحریک جدید کے ساتویں سال کا آغاز فرمودہ 29 نومبر 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میری طبیعت پیچپش کی وجہ سے خراب ہے ساتھ ہی کچھ حرارت کی شکایت بھی ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا لیکن چونکہ نومبر کا آخر آگیا ہے اور یہ وہی ایام ہیں جبکہ تحریک جدید کے نئے سال کے متعلق اعلان کیا جاتا ہے اس لئے میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب وہ ساتویں سال کی تحریک کے لئے اپنے وعدے لکھوانے شروع کر دیں.میں سمجھتا ہوں اس تحریک کے متعلق اتنی بار اور اتنے رنگ میں اور اتنے تواتر سے تحریک ہو چکی اور اس کی تفصیلات بیان کی جاچکی ہیں کہ در حقیقت اب کسی لمبے خطبے اور واضح بیان کی ضرورت نہیں ہے.جو لوگ اس قابل ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں یا جو لوگ اس قابل ہیں کہ اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں وہ تو اس میں شامل ہو چکے ہیں اور میں سمجھتا ہوں اس وعدہ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دس سال تک اس تحریک میں انشاء اللہ شامل رہیں گے.اور جو لوگ اس قابل نہیں کہ اس تحریک میں شامل ہو سکیں یا قابل تو ہیں مگر اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت سمجھنے کے قابل نہیں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی گناہ اور شامت اعمال کی وجہ سے اس میں حصہ لینے سے محروم کر رکھا ہے.
$1940 440 خطبات محمود ایسے لوگوں کو میری کوئی تقریر یا خطبہ یا کسی اور کی کوئی تقریر اور خطبہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے.رسول کریم صلی ال یو ں نے جس وقت دعویٰ کیا اس وقت مکہ کے لوگ تو اس بات میں مشغول ہو گئے تھے کہ یہ ہمارے دین اور نظام میں رخنہ پیدا کر رہا ہے.آؤ ا سے تباہ کر دیں.وہ نہ خود آپ کی باتیں سنتے اور نہ دوسروں کو سننے دیتے.بلکہ اگر کسی مجلس میں آپ اپنی باتیں سنانے جاتے تو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ایک دوسرے سے کہتے کہ سب مل کر شور مچا دو تا اس کی باتیں کوئی شخص سنے نہ پائے.1 چنانچہ وہ شور مچاتے ، تالیاں پیٹتے، گالیاں دیتے اور بُرا بھلا کہتے اور اس طرح جو لوگ آپ کی باتیں سننا چاہتے تھے وہ بھی شور کی وجہ سے کچھ نہ سن سکتے تھے.مگر جب مکہ کے لوگ رسول کریم ملی ایم سے یہ سلوک کر رہے تھے اس وقت دور، میلوں میل دور، منزلوں دور غفار قبیلے کا ایک شخص ابوذر کسی سے سنتا ہے کہ مکہ میں ایک ایسا دیوانہ پیدا ہوا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.انہیں خود ایک ضروری کام تھا.اس لئے انہوں نے اپنے بھائی کو بلایا اور کہا کہ اونٹ لو اور مکہ جاؤ.وہ کہنے لگا کہ ایسا کون ساضر وری کام پیش آگیا ہے جس کی وجہ سے میرا ابھی مکے جاناضروری ہے ؟ انہوں نے کہا کہتے ہیں وہاں ایک دیوانہ پیدا ہوا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.اے میرے بھائی جو کوئی ایسی بات کہتا ہے وہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور سچا بھی ہو سکتا ہے.اگر تو وہ جھوٹا ہے تو تمہارا اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا.تم مکہ سے پھر آؤ گے اور اگر وہ سچا ہے اور ہم اپنی جگہ بیٹھے رہے تو ہم ثواب کے اس عظیم الشان موقع سے محروم رہیں گے اس لئے تم فور امکہ جاؤ اور اس بات کا پتہ لگاؤ.چنانچہ ان کا بھائی مکہ کو چل پڑا.حسب دستور مکہ کے دروازوں پر قریش کے بڑے بڑے سردار اسے ملے اور کہنے لگے کہ کچھ تم نے سنا ہمارا ایک رشتہ دار پاگل ہو گیا ہے.کسی نے کہا پاگل تو نہیں بلکہ اس نے اپنی ایک دکان کھول لی ہے.وہ کہنے لگاسنا تو میں نے بھی ہے.پھر انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ وہ ہمارا اپنا عزیز اور رشتہ دار ہے.ہمیں اس سے کوئی دشمنی نہیں مگر چونکہ اب وہ پاگل ہو گیا ہے اس لئے ہم دوسروں کو یہی نصیحت کیا کرتے ہیں کہ وہ اس پاگل کے قریب نہ پھٹکیں.کسی نے کہہ دیا کہ پاگل نہیں محض شرارت کر رہا ہے اور لوگوں میں فتنہ برپا کر رہا ہے.آخر انہوں نے روئی کی اور اس کے کانوں میں ٹھونس دی اور کہا
$1940 441 خطبات محمود کہ اول تو تمہارا یہی فرض ہے کہ اس سے ملنے کے لئے نہ جاؤ لیکن چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ خود تم سے باتیں کرنے لگ جائے اس لئے ہم نے تمہارے کانوں میں روئی ڈال دی ہے کہ تمہارے کانوں میں اس کی باتیں نہ پڑیں.ورنہ تمہارا دین خراب ہو جائے گا اور تم بھی اسی کی طرح گمراہ ہو جاؤ گے.بھائی کے دل میں چونکہ وہ نور نہیں تھا جو ابوذر کے دل میں تھا اس لئے وہ مکہ میں آیا اور پھر پھر ا کر واپس چلا گیا.ابوذر نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس مدعی نبوت سے ملے تھے.وہ کہنے لگا بھئی وہ تو پاگل ہے اس کا کیا پوچھتے ہو.اسی طرح کوئی اسے شرارتی کہتا ہے اور کوئی دکاندار.ابوذر کہنے لگے کہ کیا تم خود اس کے پاس گئے تھے.وہ کہنے لگا میں تو گیا ہی نہیں.جاتے ہی مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ وہ پاگل ہے.انہوں نے کہا کہ لوگوں کی یہ باتیں تو ہمیں یہاں بھی پہنچ گئی تھیں.تمہیں خود جانا چاہئے تھا اور اپنے کانوں سے اس کی باتیں سننی چاہئے تھیں مگر خیر میں اب خود جاتا ہوں.چنانچہ وہ تیار ہوئے اور مکہ میں پہنچ گئے.جس قریش مکہ کو ان کی آمد کا علم ہوا تو وہ جمگھٹا کر کے ان کے پاس پہنچے اور رسول کریم صلی ال نیم کے خلاف انہوں نے آپ کے کان بھرنے شروع کر دیئے.کسی نے کہا پاگل ہے، کسی نے کہا دکاندار ہے، کسی نے کہا ہمارے معبودوں کی طرف سے اس پر لعنت پڑ گئی ہے.غرض کئی قسم کی باتیں لوگ کرتے رہے.آخر ان کے کانوں میں بھی انہوں نے روئی ڈال دی اور کہا کہ اس کی باتیں نہ سننا.انہوں نے روئی ڈلوالی اور خیال کیا کہ مجھے خواہ مخواہ اس بات پر ان سے جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے مگر جب وہ چلے گئے تو انہوں نے روٹی نکال کر پھینک دی اور فیصلہ کیا کہ وہ خود تمام حالات معلوم کریں گے مگر اس سے انہیں اتنی بات ضرور معلوم ہو گئی کہ سارامکہ اس شخص کا دشمن ہے.اگر میں نے کسی سے کوئی بات پوچھی تو ممکن ہے وہ غلط جواب دے.اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں پوچھوں گا کسی سے نہیں بلکہ آپ ہی تمام حال دریافت کروں گا.چنانچہ وہ سارا دن چکر لگاتے رہے.کبھی پھرتے پھراتے ایک طرف نکل جاتے اور کبھی دوسری طرف اور انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ ہر انسان ڈرتا ہے آپ کا ذکر کرنے سے.اور ہر انسان گھبراتا ہے آپ کا نام زبان پر لانے سے.خانہ کعبہ میں آنا تو آپ کے صد ملی علوم لئے ممنوع تھا ہی.اس لئے یہ صورت بھی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ خانہ کعبہ میں رسول کریم ملا ل ل ل ل لم
$1940 442 خطبات محمود کو کبھی دیکھ لیں.حضرت علی جو ابھی چھوٹے بچے ہی تھے اور جن کی تیرہ سال کی عمر تھی انہوں نے جو بار بار آپ کو ادھر اُدھر پھرتے دیکھا تو انہیں تعجب سا ہوا کہ اسے کوئی کام نہیں جو یو نہی بازار میں پھر رہا ہے.چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں پھر رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں مکہ میں ایک کام کے لئے آیا ہوں.عربوں میں مہمان نوازی کا وصف خاص طور پر پایا جاتا ہے.حضرت علی یہ سنتے ہی انہیں اپنے گھر لے گئے.یوں وہ خود تو رسول کریم صلی ا ظلم کے پاس رہتے تھے مگر یا اس وقت وہ انہیں اپنے گھر لے گئے یا یہ کہ رسول کریم صلی نیلم کے گھر ان کی رہائش بعد میں شروع ہوئی ہے.بہر حال بعض روایات میں ہے کہ وہ انہیں گھر لئے گئے، کھانا کھلایا.دوسرے دن انہوں نے پھر چکر کاٹنے شروع کر دیئے.حضرت علی نے پھر ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے.آپ یہاں کس طرح پھر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا ابھی کام ہو انہیں اس لئے ادھر ادھر پھر رہا ہوں.خیر حضرت علی پھر شام کو انہیں اپنے ہمراہ لے گئے اور کھانا کھلایا.تیسرے دن انہوں نے پھر دیکھا کہ وہ بدستور ادھر ادھر پھر رہے ہیں.آخر حضرت علی نے ان سے کہا کہ میں آپ کا میزبان رہا ہوں اور میزبان کا بھی مہمان پر کسی قدر حق ہو تا ہے.آپ بتائیں کہ آپ کو یہاں کیا کام ہے اور آپ کیوں ادھر ادھر پھر رہے ہیں.انہوں نے کہا بات تو مخفی ہے مگر آپ پر اعتبار کر کے بتا دیتا ہوں کہ میں نے سنا ہے یہاں کوئی شخص ہے جس نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے لوگ اسے پاگل کہتے ہیں.میرے دل میں یہ بات سنتے ہی خیال آیا کہ جب تک اس بات کی تصدیق نہ کر لی جائے کہ وہ پاگل ہے یا نہیں ہے اس وقت تک اسے جھوٹا کہنا جائز نہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میری اس سے ملاقات ہو جائے.حضرت علیؓ نے کہا کہ تم نے پہلے دن ہی یہ کیوں نہ بتا دیا.میں تو انہی کے ساتھیوں میں سے ہوں.اب چلو میں تمہیں وہاں لے چلتا ہوں.مگر ان دنوں مکہ میں اس قدر شدید مخالفت تھی کہ حضرت علیؓ نے سمجھا اگر لوگوں نے اسے میرے ساتھ دیکھ لیا تو انہیں ضرور شبہ گزرے گا اور وہ اسے تکلیف پہنچائیں گے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ میں آگے آگے چلتا ہوں تم کچھ فاصلہ پر میرے پیچھے پیچھے رہنا.اگر راستہ میں مجھے کوئی شدید مخالف نظر آیا تو میں کسی اور کام میں مشغول ہو جاؤں گا اور تم کسی اور کام میں مشغول ہو جانا تا اسے یہ خیال ہی نہ آئے کہ میں تمہیں رسول کریم صل الا لیلی علیدوم
$1940 443 خطبات محمود الله سة کی طرف لے جارہا ہوں.آخر وہ اس گھر میں پہنچے جہاں رسول کریم صلی للی مقیم تھے اور جو تبلیغ اسلام کا ان دنوں مرکز تھا.ابوذر نے اپنے آنے کا سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ آپ اپنا دعویٰ بتائیں.رسول کریم صلی اللہ ہم نے مختصراً اپنا دعوی بیان کیا اور قرآن کریم کی چند آیات سنائیں.انہوں نے کہا یا رسول اللہ میری تسلی ہو گئی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ مسلمان ہو گئے.پھر انہوں نے عرض کیا کہ میرے علاقہ میں کوئی بھی مسلمان نہیں.یہاں تو پھر بھی دس ہیں مسلمان ہیں مگر وہ تو بالکل بدوی ہیں.انہیں جب یہ معلوم ہو گا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ ضرور شور مچائیں گے.اس لئے اگر اجازت ہو تو کچھ عرصہ کے لئے میں اپنے اسلام کو چھپا لوں.رسول کریم صلی علیم نے فرمایا اچھا اجازت ہے.بیعت کرنے اور اسلام کو چھپانے کی اجازت لے کر وہ باہر آئے اور خانہ کعبہ کے طواف کے لئے گئے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ صحن کعبہ میں رؤسائے قریش کی ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور رسول کریم صلی الی کمک کو بڑے بڑے تبرے اور گالیاں دی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ بڑا عظمند پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ ہمارے معبود جھوٹے ہیں.گویا ہمارے باپ دادے سب جھوٹے تھے اور یہ یه شخص سچا ہے.جب ان کے کان میں یہ آوازیں پڑیں تو باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی للی کم سے وہ یہ اجازت لے کر آئے تھے کہ میں اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کروں گا بلکہ اس بات کو چھپائے رکھوں گا تاکہ لوگ مخالفت نہ کریں.جب انہوں نے اسلام اور رسول کریم صلی ال نیم کی توہین ہوتی دیکھی تو ان کی برداشت کی طاقت جاتی رہی اور انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ آشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه کفار یہ سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسی خطرناک گستاخی ہے کہ عین اس وقت جب ہم تردید کر رہے ہیں یہ باہر کارہنے والا ہمارے خلاف کھڑ اہو گیا اور اس نے ہمارے شہر میں فساد پیدا کرنا چاہا ہے.اس پر کچھ نوجوان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے انہیں پکڑ کر خوب مارا.وہ ابھی مار ہی رہے تھے کہ حضرت عباس آگئے.حضرت عباس ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور ان کی عمر ابھی چھوٹی ہی تھی.گورسول کریم صلی ان میں سے ایک سال بڑے تھے یعنی رسول کریم صلی ایم کی عمر اس وقت 42 سال تھی اور آپ کی 43 سال مگر ان کی عقل کا سکہ لوگوں کے قلوب پر بیٹھا ہوا تھا اور مکہ کے
$1940 444 خطبات محمود بڑے بڑے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ ان کی بات معقول ہوتی ہے.انہوں نے سمجھایا کہ تمہیں پتہ نہیں مکہ میں جتنا غلہ آتا ہے سب اس کے علاقہ میں سے گزر کر آتا ہے.اگر اس کے قبیلے والوں کو معلوم ہوا کہ مکہ کے آدمیوں نے اسے مارا ہے تو وہ اس ذلت کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور غلے کو روک لیں گے.پھر تم کھاؤ گے کہاں سے؟ اس پر انہوں نے ابوذر کو چھوڑ دیا مگر دوسرے دن انہوں نے پھر قریش مکہ کو اسلام اور رسول کریم صلی نیلم کے خلاف باتیں کرتے دیکھا تو پھر بلند آواز سے کلمہ توحید پڑھ دیا اور پھر نوجوان انہیں مارنے کے لئے کھڑے ہو گئے.اس پر پھر حضرت عباس نے ہی ان کو چھڑایا.غرض اسی طرح مسلسل تین دن ہو تا رہا.اس کے بعد اسلام کو چھپانے کا کوئی سوال ہی نہ رہا.ابو ذر اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار بن گیا اور پھر یہ تلوار موت تک میان میں نہیں گئی.ان کی طبیعت بعد میں بھی ایسی جو شیلی رہی کہ ذراسی بات بھی اگر وہ نا پسند دیکھتے تو فورا شور مچادیا کرتے تھے.2 اب دیکھو ایک تو وہ شخص تھا جس نے منزلوں دور یہ اُڑتی ہوئی خبر سنی کہ ایک پاگل ہے جس نے مکہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے اور وہ یہ سنتے ہی گھر سے نکل کھڑ ا ہوا اور اس نے سمجھا کہ خدا کی طرف اپنے دعوے کو منسوب کرنے والے کی بات ضرور سنی چاہیے.مگر خود مکہ میں رہنے والے محروم رہے.بہت تھے جو دو دو سال نہیں، چار چار سال نہیں، آٹھ آٹھ سال نہیں، بارہ بارہ سال نہیں، ہیں ہیں، اکیس اکیس سال تک مخالف رہے اور پھر یا تو تباہ ہو گئے یا بہت بعد اسلام میں داخل ہوئے.تو متواتر ربع صدی یا خمس صدی کے قریب انہوں نے مخالفتیں کیں اور ان کو رسول کریم صلی الیم کے قرب کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی تھی اور جن کے دلوں پر مہر لگ جائے خدا انہیں اپنی برکات سے حصہ نہیں دیتا.یہ مہر علی قدرِ مراتب لگتی ہے.یہ نہیں کہ کفر کی وجہ سے لگے بلکہ جس طرح کفر کی شدت کی وجہ سے انسانی قلب پر مُہر لگتی ہے اسی طرح کبھی ایمان کی قلت کی وجہ سے انسانی قلب پر مہر لگ جاتی ہے اور یہ مہر انسان کو اعلی نیکی سے محروم کر دیتی ہے.تو جن لوگوں کو اس تحریک میں اب تک حصہ لینے کا موقع نہیں ملا خواہ کسی گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میں حصہ لینے سے محروم رکھا ہے اور خواہ سستی اور غفلت کی
$1940 445 خطبات محمود وجہ سے باوجو د توفیق کے انہوں نے اس میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھا.انہیں اس کے متعلق اب کچھ کہنا فضول ہے.اور جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ہی نہیں وہ معذور ہیں.اور انہیں بھی کچھ کہنا لا حاصل ہے.اگر وہ اس تحریک میں شامل ہونے کی سچی خواہش اور تڑپ رکھتے ہیں مگر غربت اور مالی تنگی کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکتے تو خدا تعالیٰ کے حضور بھی اور اس کے سمجھ دار بندوں کے نزدیک بھی وہ انہی لوگوں میں شامل ہیں جو باقاعدہ چندہ دیتے ہیں کیونکہ گو انہیں توفیق نہیں کہ وہ اس میں حصہ لے سکیں مگر ان کے دل اپنی اس محرومی پر دُکھتے ہیں.اور وہ چاہتے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہو تا اور وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوتے.پس چونکہ خدا جانتا ہے کہ وہ بہانہ نہیں بنارہے بلکہ محض غربت کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکے اور ان کے دل اپنی اس محرومی پر دکھ رہے ہیں.اس لئے خدا انہیں انہی لوگوں میں شامل کرے گا جنہوں نے اس میں حصہ لیا.وہ ایسا نہیں کہ محض اس وجہ سے کہ کسی شخص نے عملاً حصہ نہیں لیا اسے ثواب سے محروم کر دے.خد اتعالیٰ کی طرف سے ثواب قلب کی حالت پر آتا ہے ظاہری فعل پر نہیں آتا.ظاہری فعل تو محض ایک دلیل ہوتا ہے جیسے آگ جب جل رہی ہو تو اس میں سے دھواں نکلتا ہے.یہ دھواں اس بات کی دلیل ہو تا ہے کہ آگ جل رہی ہے.اگر دھویں کے بغیر بھی آگ ہو سکتی تو ہم دھوئیں کو نہ دیکھتے بلکہ محض آگ کو دیکھتے.اسی طرح عمل بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا.ایمان کا دھواں عمل ہے اور ب یہ دھواں اٹھ رہا ہو تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایمان کی آگ فلاں شخص کے دل میں موجود ہے اور جب یہ دھواں نہیں اٹھتا تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایمان کی آگ فلاں شخص کے قلب میں نہیں.اسی کی طرف شاید قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَ العَمَلُ الصَّالِحَ يَرْفَعُهُ 3 کہ عمل صالح ایمان کو بلند کرتا ہے اور عمل صالح سے ہی کسی کے ایمان کا پتہ لگتا ہے.جس طرح دھوئیں سے آگ کا پتہ لگتا ہے.تو ایسے لوگ جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق نہیں مگر ان کے دل میں بار بار درد اٹھتا ہے اور انہیں اس بات پر افسوس آتا ہے کہ دوسرے لوگ تو حصہ لے رہے ہیں مگر وہ
$1940 446 خطبات محمود اپنی غربت کی وجہ سے اس ثواب میں شریک نہیں ہو سکے اور کم از کم وہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے خدا! گو تُو نے ہمیں اس میں شامل ہونے کی توفیق نہیں بخشی مگر ہمارے دل اس درد سے حصہ بھرے ہوئے ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ تو اس تحریک میں برکت ڈال اور اس میں حصہ لینے والوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب کر.تو ایسے لوگوں کو خدا علیحدہ نہیں رکھ سکتا بلکہ انہی لوگوں میں ان کو شامل کرے گا جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا.اور ہر شخص اپنے اپنے ا درد اور کرب کے درجہ کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرے گا.مثلاً ایک شخص نے اس تحریک میں پانچ روپے دیئے ہیں، دوسرے نے دس، تیسرے نے ہیں اور چوتھے نے سو.پھر کسی نے دو سو روپے دیئے ہیں اور کسی نے پانچ سو.اور فرض کرو کہ سب کی مالی حالت یکساں تھی تو ان سب کو ان کے چندہ کی نسبت سے ثواب ملے گا.یعنی جس نے پانچ روپے دیئے ہیں اسے جو ثواب ملے گا اس سے دو گنا ثواب دس روپے دینے والے کو ملے گا اور دس روپے دینے والے کو جو ثواب ملے گا اس سے دو گنا ثواب ہیں روپے دینے والے کو ملے گا.اور ہیں روپے دینے والے سے بہت زیادہ ثواب سویا دو سویا پانچ سو روپے دینے والے کو ملے گا.مگر وہ جو ظاہری طور پر چندہ میں حصہ نہ لینے کے باوجود اس لسٹ میں آجائیں گے جو چندہ میں.لینے والوں کی خدا تعالیٰ کے حضور تیار ہو گی انہیں ان کا ثواب ان کے دکھ اور ان کے کرب کے مطابق ملے گا.جسے دکھ کم ہو گا اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مثلاً پانچ روپے دینے والے کو ملے گا اور جس کے دل میں اس سے زیادہ درد ہوا اسے وہ ثواب ملے گا جو مثلاً دس روپے دینے والے کو ملے گا اور جس کے دل میں اس سے بھی زیادہ درد ہوا اور اسے اس غم نے نڈھال کر دیا کہ کیوں وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکا اسے مثلاً پچاس یا سو یا دو سو روپے چندہ دینے والے کے برابر ثواب مل جائے گا.اسی طرح بڑھتے بڑھتے جو انسان اپنے قلب میں بہت زیادہ سوزش اور جلن محسوس کرے گا اور اللہ تعالیٰ سے اس تحریک کی کامیابی کے متعلق متواتر دعائیں کرتا رہے گا خدا تعالیٰ اسے ان لوگوں میں شامل کرے گا جنہوں نے اس کے دین کے لئے اعلیٰ درجہ کی قربانیاں کیں.تو بندوں کی لسٹ اور ہے اور خد اتعالیٰ کی لسٹ اور.خد اتعالیٰ کی لسٹ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے عملاً اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیا مگر ان کے
$1940 447 خطبات محمود دل اس درد سے بھرے ہوئے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور کاش وہ بھی کچھ مالی قربانی کر سکتے.پس ایسے لوگوں کو بھی تحریک کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نہ انہیں توفیق ہے کہ وہ اس میں حصہ لیں اور نہ ہی وہ عذر کر رہے ہیں.تیسر اگر وہ وہ ہے جو چھ سال سے با قاعدہ چندے دے رہا ہے.اس گروہ میں شامل ہونے والوں کو بھی در حقیقت کسی خاص تحریک کی ضرورت نہیں کیونکہ چھ سال گزر چکے اور ساتواں سال شروع ہو گیا ہے.ایسی صورت میں کوئی نادان ہی ہو گا جو کمند کو اس وقت توڑ دے جب دو چار ہاتھ لب بام رہ جائے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنَكَاثًا 4 کہ تم اس عورت کی طرح مت بنو جو سوت کو کات کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتی تھی.اس کا مطلب یہی ہے کہ تم ایسانہ کرو کہ ایک نیک کام شروع کرو مگر پیشتر اس کے کہ وہ ختم ہو اُسے چھوڑ دو.پس ایسے لوگوں کو بھی میرے نزدیک چنداں تحریک کی ضرورت نہیں.وہ پہلے اس میں شامل ہو چکے ہیں اور میرے کہنے سے زیادہ ان کے گزشتہ چھ سال انہیں دھکے دے کر اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے کافی ہیں.اور جس کے دل میں کسی قسم کی قبض ہو گی اسے بھی اس کے پچھلے چھ سال تحریک کرنے کے لئے کافی ہوں گے.اور وہ کہیں گے کہ کیا اگلے چار سالوں کی خاطر تم ہمیں بھی بر باد کرنے لگے ہو.وہ چھ سال اسے کہیں گے کہ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا پہلا سال.تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا دوسر اسال.تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا تیسر اسال.تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا چوتھا سال.تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا پانچواں سال مگر جب تم پانچویں سال میں آئے تو تم نے نصف منزل میں اپنا قدم رکھ دیا اور جب چھٹے میں شامل ہوئے تو تم اس منزل کے دوسرے نصف میں داخل ہو گئے.اب تمہارے لئے رکنے کا کون سا موقع ہے اور اگر ڑ کو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم اگلے چار سال کی خاطر ہمیں بھی برباد کرنا چاہتے ہو.تو مجھ سے زیادہ ان کے پچھلے سال انہیں تحریک کرنے کے لئے کافی ہیں.اس لئے وہ بھی اس بات کے زیادہ محتاج نہیں کہ انہیں اس کی تحریک کی جائے.البتہ ایک گروہ ایسا ہے جو تحریک کا محتاج ہے اور اس گروہ میں وہ بچے شامل ہیں جو ، ا
$1940 448 خطبات محمود پہلے نابالغ تھے مگر اب بلوغت کو پہنچ گئے ہیں.یا وہ طالب علم شامل ہیں جو پہلے بر سر کار نہیں تھے مگر اب تعلیم ختم کر کے کہیں ملازم ہو چکے یا کوئی اور کام شروع کر چکے ہیں.یا وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس پہلے مال نہیں تھا مگر اب خدا نے انہیں مال دے دیا ہے.یا وہ لوگ شامل ہیں جو پہلے مقروض ہونے کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے مگر اب قرض اُتار چکے اور اس قابل ہو چکے ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں.یا وہ لوگ ہیں جو پہلے احمدی نہ تھے مگر اب احمدی ہو گئے ہیں.غرض اس قسم کے لوگ جو پہلے معذور تھے مگر اب ان کی معذوری دور ہو چکی ہے یا پہلے بے سامان تھے مگر اب خدا تعالیٰ نے انہیں با سامان کر دیا ہے.صرف وہ کسی نئی تحریک کے محتاج ہیں اور میں آج انہی کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ وہ اب پچھلا سفر طے کر کے ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں.اگر اس وقت وہ شامل ہو جائیں تو گزشتہ چھ سال کا بقایا انہیں ادا کرنا پڑے گا لیکن اگر اب بھی وہ اس میں شامل نہ ہوئے تو ان کے لئے اس میں شمولیت اور بھی کٹھن ہو جائے گی.پس وہ آج ہی اس تحریک میں شامل ہو جائیں تا پچھلے سفر کو بھی وہ طے کر سکیں ورنہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ان کا بوجھ بڑھتا جائے گا.اور پھر مجاہدین کے اس سفر میں ان کا شامل ہونا مشکل ہو جائے گا.رسول کریم صلی ال نیلم نے جب تبوک کی طرف کوچ کیا تو بعض مسلمان اس خیال سے پیچھے رہ گئے تھے کہ بعد میں تیاری کر کے لشکر سے جاملیں گے.انہی لوگوں میں سے ابو خیثمہ نامی صحابی بھی تھے.یہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے.(بعض روایت میں ہے کہ مدینہ میں ہی تھے اور اس خیال میں تھے کہ بعد میں جا کر مل جاؤں گا) جب واپس گھر پہنچے تو داخل ہوتے ہی اپنی بیوی سے پوچھا کہ رسول کریم صلی املی کی چلے گئے ہیں یا ابھی نہیں گئے ؟ بعض دفعہ عورت کا دل مرد کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے اور اس کی محبت و موانست کے جذبات جوش میں ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ مرد اس کے پاس بیٹھے اور اس سے باتیں کرے.اس نے بھی نہا دھو کر بناؤ سنگھار کیا ہوا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ ابو خیثمہ اس سے باتیں کریں.چنانچہ جب انہوں نے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللی علم جہاد کے لئے تشریف لے گئے ہیں یا نہیں تو اس نے عورتوں والی چال چلنی شروع کر دی اور پاس بیٹھ کر محبت کا اظہار کرنے لگ گئی اور کہنے لگی پہلے کچھ باتیں
$1940 449 خطبات محمود تو کر لو.انہوں نے کہا باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی پہلے یہ بتاؤ کہ محمد صلی الی میں چلے تو نہیں گئے.وہ پھر باتوں میں مشغول کرنے لگی مگر انہوں نے اصرار کیا کہ پہلے رسول کریم صلی علیم کا حال بتاؤ.آخر اس نے بتایا کہ آپ کل لشکر سمیت چلے گئے ہیں.ابو خیثمہ نے جب یہ سنا تو کہا ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ خدا کا رسول تو دھوپ میں سفر کر رہا ہو اور میں اپنی بیوی کے پاس آرام سے بیٹھا باتیں کر رہا ہوں.یہ کہتے ہی انہوں نے گھوڑے پر زین ڈالی اور چل پڑے.رسول کریم صلی ا لی ایم کو بھی اپنے ساتھیوں کے اخلاص اور ان کی محبت کا پتہ تھا.آپ کے دل میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ ابو خیثمہ نہیں آیا.وہ بڑا مخلص آدمی ہے.معلوم نہیں اس کے آنے میں کیا روک حائل ہو گئی.صحابہ کہتے ہیں کہ آپ تھوڑی دور تک چلتے اور پھر مڑ کر دیکھتے اور فرماتے ابو خیثمہ نہیں آیا.پھر کچھ سفر طے کرتے تو پیچھے کی طرف منہ موڑ کر دیکھتے اور ذرا بھی گردو غبار اڑتی نظر آتی تو فرماتے ابو خیثمہ نہیں آیا.اس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ یکم اور آپ کے صحابہ کو قیصر جو عیسائی بادشاہ تھا اس کے مقابلہ میں جانا تھا.اور رسول کریم صلی علیکم جلد جلد منزلیں طے کرتے ہوئے جارہے تھے تا عیسائی لشکر کو تیاری کرنے کا موقع نہ مل جائے اور ابوخیثمہ چونکہ چوبیس گھنٹے پیچھے رہ گئے تھے اس لئے ان کا لشکر کے ساتھ جلد آملنا مشکل تھا.وہ اپنی سواری کو ایڑیاں مارتے ہوئے تیزی کے ساتھ سفر طے کر رہے تھے.آخر تیسرے دن اسلامی لشکر کو دور سے گر داڑتی دکھائی دی اور انہوں نے کہا کہ گرد اڑتی نظر آرہی ہے.معلوم ہوتا ہے کوئی سوار آ رہا ہے.رسول کریم صلی ال نیوی نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کسن آبَا خَيْثَمَة یعنی تو ابو خیثمہ ہو جا.یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ کسی انسان کی شکل بدل جائے اور وہ ہو تو کوئی اور مگر اس کی شکل کسی اور انسان کی طرح ہو جائے.بلکہ اس محاورہ کے معنے یہ تھے کہ کاش یہ آنے والا ابو خیثمہ ہو.اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ابو خیثمہ دوڑے چلے آتے ہیں.رسول کریم صلی یہ نیلم نے فرمایا ابو خیمہ آخر تم آہی ملے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں پیچھے رہ سکتا تھا؟ میں باہر گیا ہوا تھا.جب واپس آیا اور مجھے پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو میں اسی وقت سوار ہو کر چل پڑا اور منزلیں مارتا ہوا یہاں پہنچ گیا.اس زمانہ میں اکیلے سفر کرنا نہایت خطرناک ہوا کرتا تھا مگر انہوں نے اس بات کی کوئی
$1940 450 خطبات محمود پرواہ نہ کی اور اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی الم کی ذات سے تھا منزلیں طے کرتے ہوئے لشکر سے آملے.5 اسی طرح مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جو اس خیال میں رہے کہ آج نہیں تو کل چل پڑیں گے.کل خیال کر لیا کہ پرسوں روانہ ہو جائیں گے.آخر جب تین دن گزر گئے تو انہوں نے خیال کیا کہ اب اتنا لمبا سفر ہم سے کہاں طے ہو سکتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس جہاد میں شامل ہونے سے محروم رہ گئے.6 تو وقت کو ضائع کرنا بہت بڑی حماقت ہوتی ہے.ہمارے سامنے بھی اس وقت تحریک جدید کا ایک جہاد ہے جس کا سفر دس منزلوں پر مشتمل ہے.ان دس منزلوں میں سے چھ منزلیں طے ہو چکی ہیں اور صرف چار منزلیں باقی رہتی ہیں.جو لوگ اب تک اس میں شامل نہیں ہوئے ان کے لئے بے شک چھ منزلیں اکٹھی طے کرنا مشکل ہے مگر سات منزلیں اکٹھی طے کرنا ان کے لئے اور بھی مشکل ہو گا.اور آٹھ یانو یا دس منزلیں اکٹھی طے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہو گا.بے شک جنہوں نے یہ سفر پہلے طے نہیں کیا ان پر اب ان منزلوں کو یکدم طے کرنا گراں گزرے گا مگر انہیں سمجھ لینا اہیئے کہ اگر اس وقت انہوں نے اس بوجھ کو برداشت نہ کیا تو یہ گرانی سال بسال بڑھتی چلی جائے گی.پس میں ان نوجوانوں کو جو اس سال کے دوران میں بر سر کار ہوئے ہیں یا ان غرباء کو جنہیں خدا تعالیٰ نے اب وسعت دے دی ہے یا ان لڑکوں کو جو پہلے بالکل چھوٹے تھے مگر اب وہ بڑے ہو گئے ہیں اور انہیں اس تحریک کی اہمیت کا علم ہو گیا ہے یا انہیں اپنے ماں باپ کی جائداد میں سے کوئی حصہ مل گیا ہے یا ان لوگوں کو جو پہلے احمدی نہیں تھے مگر اس عرصہ میں وہ احمد کی ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کی توفیق بھی ہے توجہ دلا تا ہوں کہ منزل قریب آرہی ہے، سفر خاتمہ کے قریب پہنچ گیا ہے اور چوٹی پر پہنچ کر اب مجاہدین کا لشکر نیچے اتر رہا ہے.ایسانہ ہو کہ منزل ختم ہو جائے اور تمہارے لئے حسرت کے سوا کچھ باقی نہ رہے.میں اس امر کی طرف بھی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے ہر مومن اور مخلص کو چاہیے کہ وہ اپنی توفیق کے مطابق ہر سال
$1940 451 خطبات محمود پہلے سال سے زیادہ چندہ دے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ پہلے سال سے بڑھ کر چندہ دینے کے یہ معنے نہیں کہ انسان پانچ یا دس یا ہیں یا سو روپے زیادہ دے بلکہ زیادتی ہر شخص کی مالی حیثیت پر منحصر ہے.اگر کوئی شخص اپنے سابقہ چندے پر ایک پیسہ بھی بڑھاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اضافہ ہی ہے.اس لئے اپنے چندے بڑھانے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیئے کہ اس کا چندہ پہلے سالوں سے بڑھ کر رہے.خدا تعالیٰ کو اس سے غرض نہیں کہ کسی کا اضافہ تھوڑا ہے یا بہت.بلکہ جو بھی اپنے چندے پر اضافہ کرتا ہے خواہ وہ کیسا ہی قلیل کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ سابقون کے زمرہ میں لکھا جاتا ہے.اور جبکہ یہ امتیاز اور فخر ایک پیسہ یا دھیلہ کی زیادتی سے بھی تمہیں حاصل ہو سکتا ہے تو کیسا نادان وہ ہے جو اتنا اضافہ بھی نہ کرے اور اس طرح سابقون میں شامل ہونے سے محروم رہے.وہ شخص جو پانچ یا دس روپے چندہ دیتا ہے اس کے لئے ایک پیسہ کی زیادتی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے متعلق وہ یہ کہہ سکے کہ وہ یہ اضافہ نہیں کر سکتا.غرباء بھی اگر چاہیں تو ایک پیسہ دے کر سابقون میں شامل ہو سکتے ہیں.پس جماعت کے ہر دوست کو کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہر سال کا چندہ پہلے سال سے بڑھ کر ہو خواہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ اضافہ کیا جائے تاکہ ہماری جماعت میں کوئی بھی شخص ایسا نہ رہے جو سباق سے محروم ہو.وہ غرباء جو پانچ روپیہ چندہ دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ان کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اگر ان کا دل در دمند ہے اور وہ یہ تڑپ رکھتے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہو تا اور وہ اس میں شریک ہو سکتے تو وہ خد اتعالیٰ کے حضور چندہ دہندگان میں ہی شامل ہیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم سے ایک روپیہ لے لیا جائے اور ہمیں اس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے.میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر ان کے دل میں واقع میں یہ تڑپ موجود ہے تو خد اتعالیٰ کے نزدیک وہ پہلے ہی اس تحریک میں شامل ہیں.انہیں چاہیے کہ وہ یہ روپیہ کسی اور نیک کام پر صرف کر دیں اور اپنے متعلق اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھیں کہ وہ انہیں ایسا ہی ثواب دے گا جیسے ان لوگوں کو دے گا جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا.اگر بالفرض وہ ایک روپیہ دے کر اس تحریک میں شامل
$1940 452 خطبات محمود بھی ہو جائیں تو انہیں ثواب تو ایک روپیہ کا ہی ملے گا لیکن اگر وہ غربت کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہیں لیں گے مگر ان کے دل تڑپ رہے ہوں گے کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اس میں حصہ لیتے تو اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علی قدر مراتب انہیں ایسا ہی ثواب ملے گا جیسے تحریک جدید میں اور حصہ لینے والوں کو ملے گا.اور مزید بر آں وہ اس ایک روپیہ کو نیکی کے کسی اور کام میں صرف کر کے اللہ تعالیٰ سے اور زیادہ ثواب حاصل کر سکیں گے.پس انہیں اس تحریک سے اپنے آپ کو مستقلی سمجھنا چاہیئے.باقی ہر ایک دوست کو چاہئے کہ وہ اضافہ کے ساتھ اپنا چندہ لکھوائے.یہ ضروری نہیں کہ جس نے گزشتہ سال پانچ روپیہ کا وعدہ کیا تھا وہ اب چھ روپیہ کا وعدہ لکھوائے بلکہ وہ ایک پیسہ اور ایک کہ آنہ دے کر بھی سابقون میں شامل ہو سکتا ہے.اور جبکہ میں نے سابقون میں شامل ہونے کاراستہ ہر ایک کے لئے کھول دیا ہے اور میں نے اجازت دی ہوئی ہے کہ قلیل سے قلیل ایزادی سے بھی انسان سابقون کا ثواب حاصل کر سکتا ہے.تو اس اجازت کے بعد کوئی ایسا شخص ہی سابقون کے ثواب سے محروم رہ سکتا ہے جسے یا تو اس بات کا علم نہ ہو اور یا اس کے دل میں سابقون کے زمرہ میں شامل ہونے کی کوئی قدر نہ ہو.پس ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے پچھلے سال کے چندہ پر حسب توفیق دھیلہ ، پیسہ، دو پیسے، آنہ ، دو آنے یا اس سے زیادہ رقم بڑھا دے تاکہ وہ سابقون میں شامل ہو جائے اور اس کی ہر منزل پہلی منزل سے زیادہ بہتر ہو.پھر ایک اور ذریعہ بھی سابقون میں شامل ہونے کا ہے اور وہ یہ کہ اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی دو حصوں میں منقسم ہے.ایک حصہ تو انفرادی زندگی کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ جماعتی زندگی کہلاتا ہے.پس میرے نزدیک نہ صرف افراد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کا چندہ پہلے سال سے زیادہ ہو بلکہ جماعتوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے وعدوں کی لسٹیں افراد کے لحاظ سے بھی اور وعدوں کے لحاظ سے بھی پہلے سالوں سے بڑھ کر ہوں.در حقیقت قومی عزت بھی عزت ہی ہوتی ہے بلکہ اگر ہم غور کریں تو وہ بعض دفعہ ذاتی عزت سے بڑھ کر ہوتی ہے.مثلاً زید قادیان کا باشندہ اگر اپنے وعدہ کی تمام شرائط کو پورا
$1940 453 خطبات محمود کر دیتا اور سابقون کے زمرہ میں آجاتا ہے لیکن قادیان کی جماعت پھسڈی رہ جاتی ہے تو زید کو بھی اس داغ میں سے کچھ حصہ ملے گا.اسی طرح فرض کرو کہ بکر لاہور میں چندہ دینے میں خوب نچست ہے اور وہ ہمیشہ اضافہ کے ساتھ وعدہ کرتا اور وقت کے اندر اسے پورا کرتا ہے لیکن لاہور کی جماعت چندہ میں پیچھے رہ جاتی ہے تو لاہور کی جماعت کو جو داغ لگے گاوہ اس کو بھی لگے گا.باوجو د اس بات کے کہ ذاتی طور پر وہ چندہ میں سب سے آگے ہو گا.تو جماعتی لحاظ سے بھی سابقون میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے.اس کے لئے ضروری ہے کہ وعدہ کرنے والے افراد کی تعداد پہلے سال سے زیادہ ہو.اسی طرح ان کی موعودہ رقوم بھی گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ ہوں.چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بے شک یہ مشکل پیش آسکتی ہے کہ افراد کے لحاظ سے ان میں کوئی خاص زیادتی نہیں ہو سکتی.کسی جگہ اگر ایک سال پانچ سات احمدی ہیں تو دوسرے سال بھی پانچ سات احمدی ہی ہوں گے مگر بڑی بڑی جماعتوں میں مقابلہ کا راستہ کھلا ہے.اس سے ان کی عزت بہت بڑھ سکتی ہے اور اس مقابلہ سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سی جماعتیں پیچھے رہی ہیں.جب یہ فہرستیں کتابی صورت میں شائع ہو جائیں گی تو اس وقت ہر ایک کے لئے تمام فہرست کا پڑھنا سخت مشکل ہو گا.لیکن یہ بات آسانی سے دیکھی جاسکے گی کہ کون سی جماعت چندوں میں بڑھ کر رہی اور کون سی جماعت پیچھے رہی.اور چونکہ اس بات کا معلوم کرنا آسان ہو گا اس لئے جو جماعتیں چندہ میں بڑھ کر رہیں گی ان کے لئے سینکڑوں سال دعائیں ہوتی چلی جائیں گی اور خدا سے جو انہیں ثواب ملے گا وہ الگ ہو گا.گویا خدا کے ثواب کے بعد ایسی جماعتیں بندوں کی دعاؤں سے بھی سینکڑوں ہزاروں سال تک حصہ لیتی چلی جائیں گی.اس فہرست میں کم و بیش پانچ ہز ار نام ہوں گے اور پانچ ہزار نام پڑھنا آسان کام نہیں لیکن اتنی بات ہر کوئی پڑھ لے گا کہ فلاں فلاں جماعتیں اس چندہ میں اول رہی ہیں.پس جماعتی لحاظ سے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ افراد اور وعدوں کے لحاظ سے لٹیں گزشتہ سال سے بڑھ کر رہیں تا کہ اس حصہ ثواب میں وہ دوسروں سے بڑھ جائیں.میں اس موقع پر ایک دفعہ پھر ان لوگوں کو جنہوں نے ادا ئیگی چندہ کا اقرار کیا ہوا ہے توجہ دلا تا ہوں کہ وہ بغیر کسی کی تحریک کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی فکر رکھا کریں.
$1940 454 خطبات محمود مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سال کے آغاز میں پہلے تین چار ماہ تو دوستوں کی توجہ اس چندہ کی طرف رہی مگر پھر ان پر غفلت طاری ہو گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں 25 ہزار کے قریب چندہ میں کمی آگئی.اس کے بعد میں نے پھر توجہ دلائی تو دوستوں میں بیداری پیدا ہوئی مگر ستمبر کا مہینہ ختم ہونے پر دس پندرہ دن کے اندر اندر پانچ سات ہزار کی پھر کمی ہو گئی.اس کے بعد پھر توجہ دلائی گئی تو اب یہ حالت ہے کہ آمد قریب قریباً گزشتہ سال کے برابر ہے.صرف کسی دن کی وصولی پچھلے سال سے کم ہو جاتی ہے اور کسی دن کی وصولی پچھلے سال سے بڑھ جاتی ہے.یہ طریق بھی انسان کے لئے ثواب کی کمی کا موجب ہو تا ہے اور یوں بھی یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ بھی دے اور پھر ذرا سی غفلت سے اس کے ثواب میں کمی آجائے اور اس کی سستی سلسلہ کے لئے پریشانی کا موجب بن جائے.پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وعدہ کے بعد جلد سے جلد اپنے وعدے کو پورا کر دے.اسی طرح وہ لوگ جن کے ذمہ گزشتہ سالوں کا بقایار ہتا ہے انہیں بھی اپنے بقائے صاف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.میں نے بار بار کہا ہے کہ اگر وہ چندہ نہیں دے سکتے تو مجھ سے معافی لے لیں اور اگر دے سکتے ہیں تو جلد سے جلد دینے کا انتظام کریں.وہ شخص جو چندہ دینے کی طاقت تو نہیں رکھتا مگر معافی بھی نہیں مانگتاوہ متکبر ہے کیونکہ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس نے چندہ دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور وہ اسے ادا کر دے گا مگر حالت یہ ہے کہ وہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا یا ادا کرنا چاہتا نہیں اور پھر ریاء اس پر اس قدر غالب ہے کہ معافی بھی نہیں مانگتا.پس وہ متکبر ہے اور وہ جو توفیق کے باوجو د ادا نہیں کرتا نادہند ہے.اسے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ اس تحریک میں اپنا وعدہ لکھوائے.سوائے ایسی تحریک کے جیسے ایک مومن دوسرے مومن کو کرتا ہے.پس اس تحریک میں شامل ہونا اس کی خوشی پر منحصر تھا اور جبکہ اس نے طوعی طور پر چندہ لکھوایا تو یہ نہایت ہی قابل شرم بات ہے کہ ایک انسان و عدہ تو اپنی مرضی اور خوشی سے کرے مگر اسے پورا نہ کرے.پس میں ان تمام لوگوں کو جن کے ذمہ گزشتہ سالوں کے بقائے ہیں توجہ دلا تا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے بقائے پورے کریں تاکہ ثواب کی جگہ انہیں عذاب نہ ملے.اس وقت
$1940 455 خطبات محمود ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے بقائے ہیں.میر اخیال ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے بقائے تھیں ہزار کے قریب ہوں گے اور یہ وہ بقائے ہیں جن کی ادائیگی کا دوستوں نے وعدہ کیا ہوا ہے.پس اپنے وعدوں کو پورا کریں.اور بقائیوں کو جلد سے جلد صاف کریں.وعدہ بڑی قیمتی چیز ہوتا ہے اور پھر مومن کا وعدہ تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص مومن کہلا کر بھی اپنا وعدہ پورا نہ کرے تو اس کا ایمان اسے کیا فائدہ دے سکتا ہے.وعدہ تو ایسی چیز ہے کہ بسا اوقات کافر بھی اسے پورا کرنے کا فکر رکھتا ہے اور جبکہ کافر بھی وعدہ کو پورا کیا کرتا ہے تو مومن کو خیال رکھنا چاہیئے کہ اس کا قدم کم سے کم کافر سے نیچے تو نہ پڑے.عرب میں وعدوں کا بہت خیال رکھا جاتا تھا.اس زمانہ میں تو مسلمان کہلانے والے چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو دوسروں کا نقصان ہو.انہیں نہ اپنے وعدوں کا خیال ہوتا ہے نہ لین دین کا احساس ہوتا ہے.مگر اہل عرب میں وعدوں کو پورا کرنے کا اتنا احساس تھا کہ باوجو د کفر کے وہ اپنے وعدوں کو پورا کر کے دکھا دیتے تھے.چنانچہ مکہ میں ایک دفعہ خبر پہنچی کہ ایرانی فوجوں سے رومی فوج شکست کھا گئی ہے.مکہ والے چونکہ مشرک تھے اور ایران والے بھی مشرک تھے.اس لئے مکہ کے بت پرست اس سے بہت خوش ہوئے.مشرک تو عیسائی بھی تھے مگر وہ چونکہ مسلم اہل کتاب تھے اس لئے مکہ والوں نے شور مچا دیا کہ یہ محمد (صلی ) جو عیسی کو مانتا ہے اس کا تعلق عیسائیوں سے ہے اور ہمارا تعلق ایرانیوں سے ہے.اس جنگ میں چونکہ ایرانیوں کو فتح ہوئی ہے اور رومی شکست کھا گئے ہیں اس لئے یہ ہمارے لئے ایک نیک فال ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھی فتح پائیں گے اور مسلمان ہمارے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے.غرض مکہ میں ایک شور برپا ہو گیا کہ چونکہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو شکست دے دی.جب کوئی رو چلتی ہے تو چلتی چلی جاتی ہے اور طبائع خود بخود اس سے متاثر ہوتی جاتی ہیں.یہ رو بھی ایسی چلی کہ ہر جگہ اس کا تذکرہ رہنے لگا.مسلمانوں نے اس پر بخشیں کرنی شروع کر دیں.کوئی کہتا کہ فال کوئی چیز ہی نہیں ہوتی.کوئی کہتا کہ یہ محض وہم اور خیال ہے اور کوئی یہ کہتا کہ فال لینے کا یہ طریق غلط ہے.آخر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی ا لم پر وحی نازل کی کہ رومیوں کو گواب شکست ہو چکی ہے مگر بضع سنين 7 میں وہ
$1940 456 خطبات محمود پھر غالب آجائیں گے اور ایرانی ان کے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے.اور یہ خبر تم کو ایسے وقت میں پہنچے گی جب تم بھی ان دشمنوں کو ایک شکست دے چکے ہو گے.چنانچہ رومیوں کی فتح کی خبر مسلمانوں کو بدر کے موقع پر پہنچی.جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست فاش کھا چکا تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ابی بن خلف جو مکہ کا رئیس تھا اس کے پاس پہنچے اور فرمانے لگے کہ کچھ تم نے سنا.ہمارے آقا کو الہام ہوا ہے کہ بضع سنين میں رومی ایرانیوں پر پھر غالب آجائیں گے.اس نے کہا اگر یہ بات ہے تو آؤ اور کوئی شرط باندھ لو.حضرت ابو بکر نے کہا بہت اچھا.چنانچہ دس دس اونٹوں کی شرط ہو گئی.بضع سنین کے معنے تین سے دس سال تک کے ہوتے ہیں یعنی تین سال سے لے کر نویں سال کے اختتام تک.مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس کا خیال نہ رہا اور انہوں نے تین سال کی مدت مقرر کر دی اور کہا کہ اگر تین سال میں ایرانیوں نے رومیوں کے ہاتھوں شکست نہ کھائی تو میں تمہیں دس اونٹ دوں گا اور اگر وہ شکست کھا گئے تو تمہیں دس اونٹ الله سة دینے ضروری ہوں گے.اس کے بعد وہ رسول کریم صلی ال نیم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ میں تو آپ کی وحی پر شرائط باندھ آیا ہوں اور کہہ آیا ہوں کہ اگر ایرانیوں کو اب کی دفعہ شکست نہ ہوئی تو میں دس اونٹ دوں گا.رسول کریم صلی ال نیلم نے فرمایا کہ مدت کیا مقرر کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ تین سال.آپ نے فرما یا بضع سنين تو تین سے نو سال تک ہوتے ہیں.یہ آپ نے غلطی کی جو تین سال کی حد مقرر کر دی.پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب اس غلطی کی تلافی اس طرح کرو کہ اُبی بن خلف کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم شرط اور زمانہ دونوں بڑھا دیتے ہیں.شرط سو سو اونٹ رکھ لو اور مدت نو سال کے اختتام تک بڑھا دو.چنانچہ وہ پھر ابی بن خلف کے پاس گئے اور یہی بات اس کے سامنے پیش کر دی.اسے چونکہ یقین تھا کہ ایرانیوں کی طاقت بہت بڑی ہے اور ناممکن ہے کہ رومی انہیں شکست دے سکیں اس لئے اس نے فوراًخوشی سے اس بات کو قبول کر لیا اور کہا کہ بے شک زمانہ نو سال تک بڑھاؤ اور شرط سو سو اونٹوں کی رکھ لو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے حالات میں تبدیلی پیدا کرنی شروع کر دی اور نو سال کے اندر اندر ان میں ایک باہمت بادشاہ پیدا ہوا اور اس نے اپنے ملک
$1940 457 خطبات محمود کو متحد کر کے ایرانیوں پر ایسا شدید حملہ کیا کہ ان کے لئے بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا.ایرانی شکست کھا گئے اور رومیوں کو فتح حاصل ہو گئی.جب یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی اس وقت ہجرت ہو چکی تھی.اُبی بن خلف مر چکا تھا.اور کفار مکہ سے مسلمانوں کی لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں.حضرت ابو بکر نے اس کے وارثوں کو کہلا بھیجا کہ تمہیں وہ شرط یاد ہے جو اُبی بن خلف نے مجھ سے کی تھی.انہوں نے کہا یا د ہے اور اسی وقت سو اونٹ بھجوا دیئے.8 تو کافر بھی اپنے وعدے کا پاس کیا کرتا ہے.کجا یہ کہ مومن ایک وعدہ کرے اور اسے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا کوئی خیال نہ آئے.کیا ہو سکتا ہے کہ اُبی بن خلف جیسے شدید دشمن اسلام کی اولاد تو محمد صلی نیم کے اتباع کے متعلق اپنے وعدہ کو پورا کر دے اور ایک احمدی سلسلہ کے ساتھ کئے گئے وعدہ کو پورا نہ کرے.اگر ایسا ہو تو یہ ایک نہایت ہی افسوسناک بات ہو گی.اس وقت تحریک جدید کے چھٹے سال کے وعدوں میں سے بھی چھبیس ستائیس ہزار کی رقم رہتی ہے.* دوستوں کو چاہیے کہ دسمبر کے مہینہ میں ہی اسے ادا کرنے کی کوشش کریں.نئے سال کے وعدوں کے متعلق میں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ سات جنوری 1941ء تک وعدوں کی لسٹیں مرکز میں پہنچ جانی چاہئیں اور آج سے ہی تحریک جدید کے کارکنوں کو اس کام میں مشغول ہو جانا چاہیئے.ہو سکے تو جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے لٹیں مکمل کر کے پہنچادی جائیں.ممکن ہے بعد میں یہ وقت بڑھانا پڑے مگر میں سمجھتا ہوں لمباوقت اگر دے دیا جائے تو کارکنوں میں مستعدی پیدا نہیں ہو سکتی اور وہ خیال کر لیتے ہیں کہ ابھی کافی وقت پڑا ہے اس کام کو بعد میں کر لیا جائے گا.پس میں چاہتا ہوں کہ دسمبر میں ہی لسٹیں تیار ہو جائیں اور زیادہ سے زیادہ سات جنوری تک یہاں پہنچا دی جائیں.بعض لوگ جلسہ سالانہ پر آکر لسٹیں تیار کیا کرتے ہیں کیونکہ یہاں ان دنوں تمام آدمی اکٹھے ہوتے ہیں.ایسے دوستوں کو بھی چاہیئے کہ جلسہ سالانہ تک لسٹیں مکمل کر کے پہنچا دیں اور اگر پھر بھی بعض لوگ رہ جائیں تو ان کا وعدہ سات جنوری تک پہنچا دیا جائے.بہر حال سات جنوری تک کا وعدہ ہی قبول کیا جائے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ممکن ہے اس وقت میں بعد میں زیادتی بھی کرنی پڑے مگر اصل میعاد یہی ہے اور مخلصین اس وقت خطبہ کو دیکھتے وقت کوئی انیس بیس ہزار کی رقم باقی ہے
خطبات محمود 458 $1940 جو ثواب حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں اسی مدت میں کوشش کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں.پس میں قادیان کی جماعت کو بھی اور باہر کی جماعتوں کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں وہ اپنی لسٹیں مکمل کر کے دفتر میں پہنچا دیں.افراد کو چاہیے کہ وہ اس چندہ میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لیں اور جماعتوں کو بھی چاہیے کہ نہ صرف افراد کے لحاظ سے ان کی لسٹیں پہلے سالوں سے بڑھ کر ہوں بلکہ چندہ کے لحاظ سے بھی ان میں زیادتی ہو.آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اس کام میں برکت ڈالے اور ہمیں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ایک ایسی بنیاد قائم کرنے میں مدد دے جو اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کرنے والی ہو.اسی طرح احمدیت پر جو دشمن اعتراضات کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس تحریک کے ذریعہ ان اعتراضات کو پاش پاش کر دے تا اسلام اور احمدیت تمام قلوب پر چھا جائیں اور دنیا کی تمام قومیں دین کے جھنڈے کے نیچے ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں.) الفضل 7 دسمبر 1940ء) 66 ل وَ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوْا لِهَذَا الْقُرْآن وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ( حم السجدة: 27) 2 مسلم كتاب الفضائل باب من فضائل ابي ذر (الخ) 3 فاطر: 11 4 النحل :93 سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 163 ، 164 مطبوعہ مصر 6 مسلم كتاب التوبة باب حدیث کعب بن مالک وصاحبیہ $1936 غُلِبَتِ الرَّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ.(الروم: 3 تا 5) 8 ترمذى ابواب التفسير تفسير سورة الروم ، تفسير ابن كثير جلد 6 صفحہ30 زیر آیت وَعْدَ اللهِ لَا يُخْلِفُ اللهُ وَعْدَهـ مطبوعہ 1999ء
$1940 459 (32) خطبات محمود مخلص اور تعلیم یافتہ احمدی نوجوان اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کریں فرموده6 دسمبر 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: تحریک جدید کے مختلف شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ وقف زندگی کا بھی ہے.جب میں نے پہلے سال اعلان کیا تھا تو اس کے لئے کوئی شرط نہیں لگائی تھی کہ کس تعلیم اور لیاقت کے نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں.اس لئے اس وقت بہت سے نوجوانوں نے اپنے نام پیش کر دیئے تھے جن کی تعداد اڑھائی سو سے اوپر تھی.اس کے بعد جوں جوں وقتی ضرورتیں پوری ہوتی گئیں لازمی طور پر کام کی اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے شرائط بھی زیادہ سخت کی جاتی رہیں اور موجودہ وقت میں یہ شرط ہے کہ وقف کنندہ گریجوائیٹ ہو یا انٹرنس پاس مولوی فاضل ہو.اس کے علاوہ ایک اور حصہ بھی ہے جس کے لئے مولوی فاضل یا گریجوائیٹ کی شرط نہیں اور سائنس کے سٹوڈنٹ ہیں جنہوں نے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک پاس کیا ہو.ان کے وقف صرف انٹرنس پاس کرنے کے بعد بھی قبول کئے جاسکتے ہیں کیونکہ میں نے غور کر کے معلوم کیا ہے کہ مسلمانوں کی توجہ سائنس کی تعلیم کی طرف بہت کم ہے.حالانکہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کی طرف قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے.چنانچہ
$1940 460 خطبات محمود فرماتا ہے کہ زمینوں میں پھرو اور دیکھو.1 آسمانوں، چاند، ستاروں اور سورج کی بناوٹ پر غور کرو.زمین میں سے ظاہر ہونے والی اور اپنے ارد گرد کی چیزوں پر غور کرو اور یہی سائنس ہے مگر اس کی طرف مسلمانوں کی توجہ بہت کم ہے.خصوصاً اس کے عملی حصہ کی طرف مسلمانوں کی توجہ بہت ہی کم ہے.حالانکہ یورپ میں آج بھی مسلمانوں کی جو یاد گاریں ہیں وہ کیمسٹری اور ہند سے یعنی حساب ہی ہیں.اہل یورپ اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ حساب کے علم کی پختہ بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور الجبر اتو کلی طور پر مسلمانوں کی ایجاد ہے.اس کے علاوہ میتھمیٹکس کے بہت سے مسائل بھی مسلمانوں کے زمانہ کی ایجاد ہیں.جو آجکل کالجوں میں مختلف ناموں سے پڑھائے جاتے ہیں.مثلاً مساحت 2 ہے اسے ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر مسلمانوں نے کمال تک پہنچا دیا.اسی طرح اور علوم کو بھی انتہائی ترقی دی مگر آج مسلمان کے معنے یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جسے حساب نہ آتا ہو.گویا مسلمانوں نے حساب کے فن کو کمال تک پہنچا کر اسے دوسروں کے سپر د کر دیا.جس طرح یتیم کا مال جب وہ بڑا ہو جائے تو اس کے سپر د کر دیا جاتا ہے مسلمانوں نے بھی حساب کے علم کو یتیم کا مال سمجھا، اسے بڑھایا، ترقی دی اور پھر دوسری قوموں کے سپر د کر دیا کہ سنبھال لو.آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان کا دماغ حساب کے لئے موزوں ہی نہیں ہوتا.حالانکہ اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جب کوئی مسلمان اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس میں نمایاں اور ممتاز ترقی کرتا ہے.مثلاً ایک صاحب سر سلیمان ہیں جو فیڈرل کورٹ کے حج ہیں.پہلے وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جج تھے.پیشہ ان کا قانون ہے اور گزارہ ملازمت پر ہے لیکن وہ اپنے طور پر حساب کا شوق رکھتے ہیں اور اس شوق میں انہوں نے اس درجہ کمال پیدا کیا ہے کہ اس زمانہ کے مشہور فلسفی اور حساب کے ماہر آئن سٹائن کی بھی جس نے نظریہ اضافت کی دریافت کی ہے انہوں نے غلطیاں نکالی ہیں.آئن سٹائن اس زمانے کا بڑا فلسفی حساب دان مانگا گیا ہے مگر سر سلیمان نے اپنی تحقیقات سے اس کی غلطیاں ثابت کی ہیں.اگر ہندوؤں میں کوئی ایسا شخص ہو تا تو وہ اسے آسمان پر اٹھا لیتے.گزشتہ سورج گرہن کے متعلق انہوں نے قبل از وقت لکھا تھا کہ اگر آئن سٹائن کی تھیوری صحیح ہے تو گر ہن اس طرح لگنا چاہیے اور اگر میری تھیوری صحیح ہے تو اس طرح لگے گا اور جب گرہن لگا تو
$1940 461 خطبات محمود یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ سر سلیمان کی رائے صحیح تھی.آئن سٹائن اس وقت سائنس کے میدان میں حکومت کرتا ہے اور جب سے دنیا پید اہوئی ہے بہترین دماغوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے.یورپ والے آج تک نیوٹن کو سب سے بڑا حساب دان مانتے آئے ہیں مگر اب بعض کا خیال ہے کہ آئن سٹائن اس سے بڑھ گیا ہے.لیکن سر سلیمان نے جن کا پیشہ نجی ہے اس کے نظریوں کو غلط ثابت کر دیا ہے.اگر ایسا شخص ہندوؤں میں ہو تا تو معلوم نہیں وہ اس کو کتنی شہرت دیتے.مگر مسلمانوں نے اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی.مجھے ساری عمر کبھی بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ٹیگور کے شعروں میں کیا خوبی ہے لیکن ہندوؤں نے ان کا اس قدر پروپیگینڈا کیا کہ جہاں بیٹھے ان کا ذکر شروع کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ والے بھی ان کو بڑا سمجھنے لگے اور ان کی کتابوں کے تراجم اپنی زبانوں میں کئے اور یہ سب ہندوؤں کے پروپیگینڈا کا نتیجہ ہے.دنیا میں باتوں سے بھی مسمریزم ہو جاتا ہے.بچپن میں میرے گلے میں مخمل کا ایک فیتہ باندھا گیا تھا اور میرے بھائیوں کے گلوں میں بھی.خیال یہ تھا کہ اس کے باندھنے سے دانت بآسانی نکل آتے ہیں.اس زمانہ میں یہ فیتہ لاکھوں روپے کا بکا.ہمیں لاکھ روپے کی بکری چند سالوں میں ہو گئی.اور اس شخص نے اس سے دس پندرہ لاکھ روپیہ کمایا.مگر کچھ عرصہ کے بعد حکومت کو شک ہوا اور اس نے ایک کمیشن بٹھایا جس نے رپورٹ کی کہ یہ صرف ایک ٹین کی تارہے جس کے اوپر محتمل لپیٹی گئی ہے لیکن یہی چیز پہلے امریکہ میں مشہور ہوئی.وہاں سے یورپ اور یورپ سے ہندوستان آ پہنچی اور پھر یہاں کے دیہات تک میں پھیل گئی حتی کہ ڈاکٹر اپنے نسخوں میں اسے تجویز کرتے تھے اور چونکہ یہ عام خیال پیدا ہو گیا تھا کہ یہ مفید چیز ہے اس خیال کی وجہ سے بعض لوگوں کو فائدہ بھی ہو تا تھا لیکن دراصل یہ کوئی مفید چیز نہ تھی.آخر اس کے موجد پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے امریکہ کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا.اس قسم کے واقعات دنیا میں کثرت سے ہوتے ہیں کچھ لوگ ایک بات کی تائید کرتے ہیں اور اس سے متاثر ہو کر دوسرے بھی بغیر غور کرنے کے پیچھے لگ جاتے ہیں.مگر یہ ہندوؤں کا حال ہے.مسلمان تو اپنے لائق آدمیوں کی بھی قدر نہیں کرتے.گاندھی جی نے جب عدم تشدد کا فلسفہ پیش کیا تو میں واحد شخص تھا جس نے آج سے بیس سال قبل
$1940 462 خطبات محمود یہ آواز اٹھائی کہ یہ کس طرح کا عدم تشدد ہے جو یہ پیش کرتے ہیں.اس میں تو تشدد کا پہلو پایا جاتا ہے.حالانکہ اس وقت ہر ہندو اور مسلمان یہ کہہ رہا تھا کہ یہ ایک عجیب ایجاد ہے مگر آج کئی لوگ اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں جسے میں نے پیش کیا تھا.تو کسی خیال کی تائید میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کا لگ جانا دوسروں پر بھی یہ اثر پیدا کر تا ہے کہ یہ واقعی اچھی چیز ہے.پس اگر مسلمان بھی اپنے عالموں اور مختلف علوم سے واقف لوگوں کی عزت کریں تو دنیا میں ان کی شہرت قائم ہو سکتی ہے.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.اس سے میری غرض صرف یہ بیان کرنا ہے کہ آج بھی جو مسلمان حساب کی طرف توجہ کرے وہ انتہائی درجہ پر پہنچ جاتا ہے.اسی طرح علم کیمیا بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے.کیمیا سے مراد سونا بنانا نہیں بلکہ کیمسٹری ہے.اس میں شبہ نہیں کہ یہ علم پہلے بھی موجود تھا لیکن اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اس میں انہوں نے انتہائی ترقی کی اور بہت سے مرکبات جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں وہ اس زمانہ کے مسلمانوں کے ایجاد کردہ ہیں.تمام ٹینکچر الکحل میں بنتے ہیں اور الکحل مسلمانوں کی ایجاد ہے.وہ اسے روح کہتے تھے.بلکہ میر اخیال ہے کہ الکحل کا لفظ بھی ان میں مستعمل تھا.اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں جو دوائیوں یار نگوں میں کام آتی ہیں مسلمانوں کی ایجاد ہیں.رنگوں میں جتنی ترقی مسلمانوں کے زمانہ میں ہوئی کسی زمانہ میں نہیں ہوئی.اسی وجہ سے رنگوں والے تمام کپڑے عرب سے یورپ میں جاتے تھے حتی کہ آج تک انگریزی میں ان کے نام وہی ہیں.مثلاً تافتہ ہے اسے انگریزی میں ٹیفٹ کہتے ہیں.آج نوجوان اسے دیکھتے اور کہتے ہیں کیا اچھی ایجاد ہے مگر انہیں علم ہی نہیں کہ یہ پہلے عرب میں بنتا اور تافتہ کہلاتا تھا.ڈمکس(DAMASCUS) کا نام بھی دمشق کے نام پر ہے یعنی دمشق میں بننے والا.ململ بے شک ہندوستان کی بھی مشہور تھی مگر اعلیٰ درجہ کی ململ موصل میں تیار ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اسے مسولین کہا جاتا ہے اور یہ کپڑے گو آج انگلستان اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بننے لگے ہیں مگر ان کے نام وہی ہیں.اگر چہ لہجہ بدل گیا ہے.تجارت کی وجہ سے ساری دنیا مسلمانوں سے دیتی تھی کیونکہ ان کی تیار کردہ چیزوں کی وہ محتاج تھی.لیکن اس کے بعد مسلمانوں نے کیمسٹری کو چھوڑ دیا حتی کہ ان میں نام کو بھی کیمیا کا کوئی ماہر نہیں ملتا.سونا بنانے
$1940 خطبات محمود 463 والے کیمیا دان تو ملیں گے مگر کیمسٹری کا ماہر کوئی نہیں.یہاں بھی ایک دوست رہا کرتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.وہ جوانی میں اسی سونا بنانے کے خبط میں مبتلارہے تھے.آخری عمر میں کئی دفعہ ان کی مدد کی گئی لیکن ادھر ان کو کوئی روپیہ دیا جاتا سکتا؟ ادھر وہ بھٹی چڑھا دیتے کہ شاید اب کے سونا بن جائے.ان کے ایک بھائی بھی ان کی کرتے تھے مگر ان سے بھی جو کچھ ملتا وہ اس میں صرف کر دیتے تھے.جن لوگوں کو یہ ڈھن ہوتی ہے وہ ساری عمر اسی میں ضائع کر دیتے ہیں مگر سونا نہیں بنتا.مگر انگریزوں نے سونا چھوڑ ہیرے بنالئے ہیں.وہ بوٹ بناتے ہیں، چھریاں، چاقو اور ہزاروں دوسری چیز میں بناتے ہیں اور پھر ان سے ہزاروں روپیہ کماتے ہیں.کوئی شخص اگر کیمیا کے ذریعہ سونا بنا بھی لے تو کتنا بنا سکتا ہے مگر انگریزوں نے سونا چھوڑ ہیرے بنالئے ہیں.مسلمانوں نے ان علوم کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور میر ادل چاہتا ہے کہ وہ پھر اس طرف متوجہ ہوں اور اسلامی علوم کا دوبارہ احیاء کیا جائے اور چونکہ جو لوگ دنیاوی کاموں میں لگ جاتے ہیں ان کے لئے دین کی طرف آنا مشکل ہو جاتا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی ایک الگ جماعت تیار کی جائے.پس جن نوجوانوں نے سائنس لے کر میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول سے پاس کیا ہو اُن کو بھی لیا جا سکتا ہے.ایسے نوجوانوں کے والدین اور رشتہ دار اگر ان کی مزید تعلیم کا بوجھ برداشت کر سکیں تو وہ اپنی تعلیم مکمل کریں.جن کو پورا خرچ دینے والا کوئی نہ ہو ان کو ہم مدد دے کر تکمیل تعلیم کرائیں گے.اور جن کے لئے بالکل ہی خرچ کا انتظام نہ ہو سکے ان کو اپنے خرچ پر تعلیم دلوائیں گے.تا ایک جماعت ایسی پیدا ہو جو اپنی جماعت میں بھی اور دوسروں میں بھی اپنے علم اور صنعت و حرفت میں ترقی کی بناء پر اس طرف توجہ پیدا کر سکے.پس گریجوایٹ یا انٹرنس پاس مولوی فاضل کی شرط میں یہ استثنیٰ ہے اور ان شرائط کے ماتحت میں پھر اعلان کرتا ہوں کہ نوجوان اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں اور ثواب کے اس غیر معمولی موقع سے فائدہ اٹھائیں.یوں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ہمیشہ ہی کھلے رہتے ہیں مگر انبیاء کے زمانہ میں ایسے کھلتے ہیں کہ دوسرے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.انبیاء کے زمانہ میں غیر معمولی طور پر یہ دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اس زمانہ کی قربانیاں بہت قیمت رکھتی ہیں.
$1940 464 خطبات محمود مسلمانوں میں ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے بادشاہتیں ترک کر دیں اور فقیر ہو گئے مگر اکثر لوگ ان کے نام سے بھی آگاہ نہیں ہیں.لیکن حضرت ابو بکر اور عمر نے ہزار دو ہزار روپے کی جائدادیں دیں اور سب لوگ اس قربانی سے واقف ہیں.مالی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ان سے بہت زیادہ قربانیاں کرنے والے بھی موجود ہیں مگر ان کی وہ قدرو منزلت نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے.جب بعض باشاہوں نے بادشاہتیں چھوڑیں تو اس وقت مسلمان بادشاہ تھے اور بادشاہت چھوڑنے والے یہ جانتے تھے کہ ہماری اس قربانی سے ہماری قوم کو نقصان نہیں پہنچے گا.لیکن حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے جب قربانی کی تو جانتے تھے کہ بظاہر وہ اپنا اور اپنی اولاد کا خون کر رہے ہیں.اسی طرح آج جو نوجوان سلسلہ کے لئے زندگی وقف کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ایسا شخص جو تیر نانہ جانتا ہو سمندر میں کود پڑے.اس وقت چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور اس لئے دین کا کام کرنا بڑی بہادری کی بات ہے.بزدل تو سمجھے گا کہ میں مارا جاؤں گا مگر جس کے دل میں ایمان ہے اور جرآت ہے وہ سمجھتا ہے میں سمندر میں گر کر ہلاک نہیں ہورہا بلکہ حفاظت اسلام کی مضبوط عمارت کی بنیادی اینٹ بن رہا ہوں.اس لئے اس کی یہ قربانی اپنے ساتھ ایسی برکات رکھتی ہے جس کا مقابلہ کوئی دوسری قربانی نہیں کر سکتی.کون شخص ہے جو آج اسے عظمند کہے گا جو احمدیت کے لئے قربانی کرتا ہے.اس وقت تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ چند پاگل لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں دنیا کا مقابلہ کر لیں گے لیکن مومن سمجھتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی ہے جس کا میں جواب دے رہاہوں.یہ تو علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کامیابی کا وعدہ دیا گیا ہے لیکن اگر یہ وعدہ نہ بھی ہو تو بھی میر افرض ہے کہ اس آواز پر لبیک کہوں.دنیا میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کے لئے مر جاتی ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچہ بیمار ہوا.ماں اس کی تیمار داری کرتی رہی.بچہ تو صحت یاب ہو گیا مگر ماں مر گئی.کیا یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ماں کو اس خدمت کے صلہ کی امید ہوتی ہے.ہر گز نہیں.اور جب ایک ماں اپنے بچہ کے لئے بغیر کسی صلہ کے لالچ کے جان دے سکتی ہے تو کیا مومن ہی خدا تعالیٰ کے لئے کسی بدلہ کے خیال کے بغیر قربانی نہیں کر سکتا؟
خطبات محمود 465 $1940 پس یہ غلط ہے کہ مومن اس لئے قربانی کرتا ہے کہ اسے ترقیات کی امید ہوتی ہے.اگر ترقیات کے وعدے نہ ہوتے ، فرض کرو حیات بَعْدَ المَوت نہ ہو ، جنت دوزخ بھی نہ ہو تب بھی مومن خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے میں کبھی تامل نہ کرے گا.عام لوگ جو قوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں یا ملک کے لئے کرتے ہیں کیا ان کو یقین ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کا کوئی صلہ انہیں ملے گا.سو میں سے ایک بھی اس بات کا قائل نہ ہو گا مگر پھر بھی دیکھو لوگ کس طرح جانیں دیتے ہیں.پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ مومن کی قربانی صلہ کے لالچ کی وجہ سے ہوتی ہے.انبیاء کے ابتدائی زمانہ میں تو صلہ کی امید کا خیال بھی غلطی ہے.اس لئے یہ زمانہ قربانی کے لئے بہترین زمانہ ہوتا ہے.دوسروں کی قربانیاں ملک و قوم کے لئے ہوتی ہیں مگر ان کی قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم نے ملک کے لئے قربانیاں کیں اور تم جانتے تھے کہ تمہارا ملک شوکت و عظمت رکھتا ہے اس لئے اس کے لئے قربانی تمہارے لئے عزت کا موجب ہے.قوم کے لئے قربانی بھی عزت کا موجب ہے.جو لوگ قوم کے لئے مر جاتے ہیں ان کی کس قدر عزت ہوتی ہے.ایسی موت تو آدمی کو قومی لیڈر بنا دیتی ہے.ایسے لوگوں کی اولاد کے لئے بھی ترقی یافتہ قومیں انتظام کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کو یہ تو اطمینان ہو تا ہے کہ ہماری اولا د خراب نہ ہو گی.سینکڑوں واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ کسی سے کسی کی دشمنی ہوتی ہے مگر وہ کسی چوہڑے وغیرہ سے اپنے دشمن کو قتل کرا دیتا ہے.زمیندار کہتا ہے کہ فلاں آدمی کو مار ڈالو.اوّل تو میں تمہیں مقدمہ سے بچانے کی کوشش کروں گا لیکن اگر سزا پا جاؤ گے تو تمہارے بیوی بچوں کے گزارہ کا انتظام کر دوں گا.وہ سمجھتا ہے اول تو ضروری نہیں کہ میں پکڑاہی جاؤں یا اگر پکڑا جاؤں تو سزا بھی پا جاؤں.اور اگر سزا بھی ہو جائے تو کیا ہے بیوی بچے تو آرام سے گزارہ کریں گے.اس لئے اس لالچ میں آکر وہ یہ فعل کر لیتا ہے.پس لوگ ایسی قربانیاں کرتے ہیں.پڑھے لکھے لوگ ملک و قوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں مگر ان کو اپنی اس قربانی کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اس کا صلہ ان کو یا ان کے بیوی بچوں کو ملے گا اور ایسی قربانیاں مشکل نہیں لیکن دین کے لئے آج قربانی کرنا مشکل ہے کیونکہ موجودہ حالات میں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے.اس رستہ پر چلنا ایسا ہی ہے
$1940 466 خطبات محمود جیسے انسان دریا کے ایسے کنارے پر چلے جو اندر دھنستا جا رہا ہو اور گرتا جاتا ہو.ظاہر ہے کہ ایسے کنارے پر کوئی ظاہر بین کبھی عمارت نہیں بنایا کر تا کیونکہ دریا کا پانی وہاں غار بنارہا ہو تا ہے.ایسی جگہ عمارت بنانا کسی ہمت والے کا ہی کام ہے.پس یہی وقت قربانی کا ہے.جو نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں چاہیئے کہ ان کا اخلاق اور عملی نمونہ اچھا ہو اور وہ پختہ عزم کر کے آئیں.میری غرض ان واقفین سے یہ ہے کہ ان میں سے ہی قاضی تیار کروں.ان میں سے ہی مفتی تیار کروں اور ان میں سے ہی مدرس ہوں.ان میں سے ہی مرتی اور تعلیم و تربیت دینے والے ہوں.لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں وہ اخلاقی طور پر اپنے آپ کو مفید وجود بنائیں.جب ان میں سے کسی کو قاضی بنایا جائے تو وہ ایسا نمونہ دکھائے کہ لوگ تسلیم کریں کہ وہ انصاف سے کام کرتا ہے.جب کسی کو مفتی بنایا جائے تو لوگ محسوس کریں کہ اس نے جو فتویٰ دیا ہے صحیح ہے اور جب کوئی مرتی بنے تولوگ محسوس کریں کہ وہ جو بات بھی کرتا ہے خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کرتا ہے نہ کہ دشمن کو زیر کرنے کے لئے.یہ نہ ہو کہ وہ نفسانی رو میں بہہ جائے.دراصل تمسخر وہی کرتا ہے جو دلیل نہیں دے سکتا.یہ چیز اس کی علمی کمی کا ثبوت ہوتی ہے.بے شک لطیفہ گو اور تمسخر کرنے والا بعض اوقات مجلس پر چھا جاتا ہے لیکن اس مجلس سے نکلنے کے بعد اس کے اپنے دل پر بھی اور سامعین کے دل پر بھی زنگ لگا ہوا ہوتا ہے.بے شک اس وقت وہ مجلس کو خوش کر لیتا ہے مگر جب وہاں سے نکلتا ہے تو خدا تعالیٰ کو چھوڑ چکا ہوتا ہے اور شیطان اس کی گردن پر سوار ہو چکا ہو تا ہے.حقیقی مبلغ وہی ہے جس کے دل میں ہار جیت کا کوئی سوال نہ ہو.جس کو ہر وقت یہ خیال رہے کہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہو.کئی دفعہ پہلے بھی یہ واقعہ میں سنا چکا ہوں.جس زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب تعلیم حاصل کر کے بٹالہ آئے تو ان کے خلاف بہت شور تھا کہ پیروں فقیروں کے منکر ہیں.لوگ ان کی بہت مخالفت کرتے تھے.انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے گئے.بعض حنفیوں نے سوچا کہ ہمارے ایک حنفی عالم آگئے ہیں ان کو مولوی
$1940 467 خطبات محمود محمد حسین صاحب کے مقابلہ پر لے چلیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی کہا کرتے تھے.آپ سے لوگوں نے کہا تو آپ نے فرمایا اچھا چلتے ہیں اگر کوئی بات ہوئی تو کریں گے.لوگ مجلس میں اکٹھے ہوئے.آپ بھی تشریف لے گئے.آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو اہل حدیث کے متعلق زیادہ واقفیت اس زمانہ میں نہ تھی.اس لئے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کے عقائد کیا ہیں تاکہ بحث سے پہلے یہ تو معلوم ہو کہ آپ کہتے کیا ہیں.مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر بیان کیا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں، رسول کو مانتے ہیں، قرآن کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں، قرآن کریم کو حدیث پر مقدم کرتے ہیں اور حدیث کو خیالی آراء پر مقدم کرتے ہیں.غالی اہلحدیثوں کا عقیدہ تو اس سے سخت ہوتا ہے.پھر ممکن ہے مولوی محمد حسین صاحب نے مصلحت وقت کے تحت یہ بات کہہ دی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں سن کر فرمایا کہ یہ باتیں تو بالکل معقول ہیں.میں ان کا جواب کیا دوں.چونکہ اس جواب سے حنفیوں کو کچھ ذلت محسوس ہوئی اس لئے انہوں نے بہت برا بھلا کہنا شروع کیا اور طنزیں کرنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہم وہاں سے آگئے اور خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا.رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.” 3 پس میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے جو مربی تیار ہوں وہ بھی تقویٰ کے ماتحت کام کریں، سنجیدگی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور خد تعالیٰ کی خوشنودی کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.ان کا مقصد بحث کبھی نہ ہو بلکہ ایسا نمونہ پیش کریں کہ دوسروں میں جو خرابیاں ہیں وہ دور ہو سکیں اور وہ ایسی سد سکندری کا کام دیں جو یا جوج ماجوج کے حملوں کو روک دے.پس اس کام کے متعلق اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک میں جماعت کے نوجوانوں کو کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے گریجوایٹ کی شرط ہے لیکن اگر کوئی آخری سالوں میں تعلیم پارہا ہو تو وہ بھی اپنا نام پیش کر سکتا ہے.وہ اپنی تعلیم جاری رکھے.پاس ہونے کے بعد انتخاب کے لئے ہم اسے بلا لیں گے.انٹرنس پاس مولوی فاضل بھی اپنے نام دے سکتے ہیں اور اسی طرح
$1940 468 خطبات محمود یہاں کے سکول میں تعلیم پانے والے وہ میٹرک جنہوں نے سائنس کی ہوئی ہو.باہر میٹرک پاس کرنے والے کام نہیں دے سکتے کیونکہ یہاں پڑھنے والوں کو تھوڑا بہت قرآن کریم اور عربی آجاتی ہے باہر نہیں.پس ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں.طالب علم بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں جنہیں امتحان پاس کرنے کے بعد انتخاب کے لئے بلایا جائے گا.پس نوجوان اپنے آپ کو ان شرائط کے ماتحت وقف کریں تا اس جماعت کو اور آگے بڑھایا جاسکے.دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سادہ زندگی ہے.اب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں کہ جن لوگوں کی نقل کر کے ہمارے ملک کے لوگ عیش پرستی میں مبتلا ہوئے وہ جنگ کے مصائب میں مبتلا ہو کر مجبور سادگی اختیار کر رہے ہیں اور اب تو ان کی سادگی ہماری اختیار کردہ سادگی سے بھی بہت آگے بڑھ گئی ہے.ہم نے یہ تو کہا ہے کہ ایک سالن کھاؤ مگر یہ نہیں کہ چار بجھلکے ہی کھاؤ.مگر یورپ کے ممالک میں تو اب آٹے کا راشن ملتا ہے.ایک شخص مقررہ مقدار سے زیادہ نہیں لے سکتا.ہم نے سالن میں گھی ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی کوئی شخص جتنا ڈال سکے ڈال لے مگر وہاں تو ایک چھٹانک سارے ہفتہ کے لئے مل سکتا ہے.اس سے زیادہ نہیں.اور وہ گھی کی صورت میں نہیں بلکہ کچھ گھی کچھ تیل اور کچھ چربی ہوتی ہے.اند از دو تولہ چربی دو تولہ تیل اور ایک تولہ مکھن ملتا ہے.یہی حال لباس اور دوسری چیزوں کا ہے.جب ان لوگوں کی یہ حالت ہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہمیں کس قدر سادگی کی ضرورت ہے.پس دوستوں کو ہمیشہ ایک کھانے کا التزام رکھنا چاہیئے.ہاں جمعہ کے روز یا مہمان وغیرہ آنے پر دو ہو سکتے ہیں یا مہمان کی عادت کے مطابق اس کے لئے انتظام ہو سکتا ہے.غیر احمدی معززین آجائیں تو کئی کئی کھانوں کے بغیر ان کی تسلی نہیں ہوتی.ایسی صورت میں اجازت ہے ورنہ ایک پر ہی کفایت کرنی چاہیے.اور پھر اس میں بھی سادگی کا پہلو مد نظر رکھنا چاہیے تا غریب بھائیوں اور دوسروں میں یکسانیت پیدا ہو سکے.یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ایک ہی کھانا کھائے مگر روزانہ پلاؤ ہی کھاتا رہے مگر یہ بھی جائز نہیں.اور پھر اس سے صحت بھی خراب ہو جائے گی.انسان کی صحت کو بر قرار رکھنے کے لئے چاول گوشت پھل سبزی وغیرہ ہر چیز ضروری ہے اور ان
خطبات محمود 469 $1940 سب چیزوں کا استعمال ہونا چاہیے.یہ نہیں کہ روز ایک ہی چیز کھائی جائے.جو شخص کہے کہ میں روز ہی روغن جوش استعمال کروں گاوہ اسراف کے علاوہ بیمار بھی ہو جائے گا.ایک دوست کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ ان کی صحت بہت خراب رہتی تھی.کئی علاج کئے مگر آرام نہ ہوا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ان دنوں ابھی پٹیالہ میں تھے یہاں نہ آئے تھے وہ ان کے پاس گئے.وہاں سے انہوں نے لکھا کہ اب مجھے افاقہ ہے اور یقین ہو گیا ہے کہ اچھا ہو جاؤں گا.ڈاکٹر صاحب نے میری بیماری سمجھ لی ہے.اصل بات یہ تھی کہ ان کو متواتر کثرت کے ساتھ مرغن کھانے کھانے سے تکلیف تھی.تو اس قسم کی غذائیں صحت کو برباد کر دیتی ہیں.اگر کوئی شخص کہے کہ میں روزانہ گھی پیا کروں گا تا موٹا ہو جاؤں تو اس کا دماغ مارا جائے گا.پس ایک کھانے میں بھی سادگی ضروری ہے.سادگی قوم کو مستقل طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار کر دیتی ہے.اس سادگی میں لباس کی سادگی بھی شامل ہے، زیور کی بھی.میرے سامنے کئی مثالیں ہیں کہ بعض دوست پہلے سے بڑھ کر اب قربانیاں کرنے کے قابل ہو گئے ہیں.پہلے ان کے اخراجات زیادہ تھے مگر سادگی اختیار کرنے کی وجہ سے اخراجات کم ہو گئے اور وہ زیادہ قربانی کرنے کے قابل ہو گئے.پس سادہ زندگی اختیار کرنے سے دین کے لئے زیادہ قربانی کی توفیق حاصل ہو سکتی ہے.اور اس طرح سے عور تیں اور بچے بھی ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ غذا میں کمی کر کے بچوں کی صحت خراب کر دی جائے.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.قومی فرائض سے ایک اہم ترین فرض بچوں کی صحیح طریق پر پرورش کرنا بھی ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہوتا ہے.اگر وہ کمزور ہوں تو اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکیں گے.اس لئے ان کو خوراک پوری دینی ضروری ہے.ہاں اس میں سادگی کا خیال رکھنا چاہیے اور فضول خرچی کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے.ان کو دینی ارکان کا پابند بنایا جائے.بلوغت سے قبل کبھی کبھی روزہ بھی رکھوانا چاہیے اس سے ان کی صحت خراب نہیں ہوتی بلکہ یہ صحت کے لئے فائدہ بخش چیز ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بچوں کو نماز کے لئے نہیں جگاتے.وہ سمجھتے ہیں ابھی نیانا (بچہ) ہے.یہ درست نہیں ان کو نمازوں کی باقاعد گی کا عادی بنانا چاہیئے.پھر ورزش کی عادت بھی ڈالنی چاہیئے.کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ خدام
خطبات محمود 470 $1940 الاحمدیہ والے ورزش کراتے ہیں.یہ شکایت ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کو جو دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کسی نے کہا تھا کہ اٹھ کر سایہ میں ہو جاؤ تو اس نے کہا تھا کہ کیا دو گے.بچوں کے ورزش کرنے سے خدام الاحمدیہ والوں کو کیا ملتا ہے.اس سے تمہارا ہی فائدہ ہے کہ تمہارے بچوں کی صحت درست ہو جائے گی ، اخلاق درست ہوں گے اور چستی و چالا کی پیدا ہو گی.اگر وہ تندرست و توانا ہو کر زیادہ کمائیں گے تو کیا خدام الاحمدیہ والوں کو کچھ دے دیں گے.ہمارے ملک میں بچوں کو محنت کا عادی نہیں بنایا جاتا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر بھی نکے ثابت ہوتے ہیں.یورپ میں بچوں کو محنت کا عادی بنایا جاتا ہے جس سے بڑے ہو کر بھی وہ کام کے قابل ہوتے ہیں.پس دوست اس بات کا خیال رکھیں کہ جہاں بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے کہ ان کی صحت بگڑ جائے وہاں ان کی تربیت کا بھی خیال رکھا جائے.انہیں محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے.مشکلات کے برداشت کرنے کی مشق کرائی جائے اور انہیں اپنے اوقات کو ضائع کرنے سے روکا جائے کیونکہ جن نوجوانوں میں یہ عیوب ہوں وہ ملک، قوم بلکہ ساری دنیا کے لئے مصیبت کا موجب ہوتے ہیں اور جو شخص تمہارے بچہ کی ایسی تربیت کرنے میں مدد دیتا ہے جس سے وہ محنت اور مشقت کا عادی ہو وہ تمہارا دشمن نہیں بلکہ دلی دوست ہے اور اگر تم اسے چھوڑتے ہو تو پھر کوئی دوست تمہیں نہیں ملے گا.“ 1 سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا.(آل عمران: 138) (الفضل 6 جولائی 1960ء) 2 مساحت: زمین کی پیمائش.3 تذکرہ صفحہ 10 ایڈیشن چہارم
$1940 471 (33) خطبات محمود تفسیر القرآن کی تکمیل کے لئے تحریک دعا جلسہ سالانہ کے مہمانوں اور میز بانوں کو ہدایات فرمودہ 13 دسمبر 1940ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کے کام کا بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے اور جلسہ تک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں مگر ابھی کوئی ایک سو صفحہ کتاب کا یا چار سو کالم مضمون کا لکھنا باقی ہے اور آجکل اکثر ایام میں رات کے 4،3 بلکہ 5 بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں.اس لئے اس قسم کی جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر بوجھ طبیعت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی.چونکہ جلسہ تک دن تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ خیریت سے اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے.وہ لوگ جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں اور جن کا کام کتابت، کاپیوں کی تصحیح کرنا اور مضمون صاف کر کے لکھنا وغیرہ ہے وہ بھی بہت محنت سے کام کر رہے ہیں.اتنی دیر تک روزانہ کام کرنے کی انہیں عادت نہیں.پھر بھی 2، 3 بجے رات تک کام کرتے ہیں.ممکن ہے اس سے بھی زیادہ دیر تک کام کرتے ہوں مگر 2، 3 بجے تک تو کئی دفعہ بات پوچھنے کے لئے میرے پاس آتے رہتے ہیں.اسی طرح کا پیاں لکھنے والے کاتب ہیں.بے شک
$1940 472 خطبات محمود وہ اُجرت پر کام کرتے ہیں مگر جس قسم کی محنت انہیں کرنی پڑتی ہے اور وہ کر رہے ہیں وہ اخلاص کے بغیر نہیں ہو سکتی.روزانہ کام کیا جائے، معمول سے دُگنا کیا جائے اور اچھا کیا جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.کاتب کا کام آنکھوں کا تیل نکالنا ہو تا ہے کیونکہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی آنکھ اوپر نہیں اٹھا سکتا.آنکھ کاغذ پر اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھارہتا ہے اور بیٹھنا بھی ایک خاص طریق سے ہوتا ہے.میں تو اس کام کے متعلق سمجھتا ہوں کہ عمر قید کی سزا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ کاتب لوگ بہت جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں کیونکہ کتابت کے کام میں انہیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے.آنکھیں ہر وقت ایک ہی طرف لگی رہتی ہیں اس وجہ سے ان کی صحت ضائع ہو جاتی ہے.ہم لوگ جو تصنیف کا کام کرتے ہیں ان سے زیادہ وقت کام میں دیتے ہیں مگر اس حصہ میں ان کا کام زیادہ مشقت طلب ہوتا ہے.ہم تو کبھی پڑھ رہے ہوتے ہیں کبھی بیٹھ جاتے ہیں کبھی کوئی حوالہ تلاش کرنے لگتے ہیں کبھی لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جو کچھ لکھتے ہیں وہ مضمون ہمارے ذہن میں ہوتا ہے.اگر ہم آنکھیں بند بھی کر لیں تو لکھ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ سطریں ٹیڑھی ہو جائیں گی مگر کاتب بیچارے کو دو طرف نظر رکھنی پڑتی ہے.ادھر وہ ہمارے لکھے ہوئے کو دیکھتا ہے اور ادھر کاپی پر نظر جمائے رکھتا ہے.پھر ہم تو جو چاہیں لکھتے جائیں لیکن کاتب کو اجازت نہیں ہوتی کہ اپنی طرف سے کچھ کرے اور کاتبوں کو اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ مضمون میں دخل دے سکیں.یہ ایک کاتب کے متعلق مشہور ہے کہ اسے کسی نے قرآن مجید لکھنے کو دیا تو کہہ دیا کہ یہ خدا کا کلام ہے اس میں دخل نہ دینا.اس نے کہا نہیں ہر گز دخل نہیں دوں گا.جب وہ لکھ کرلایا تو لکھانے والے نے پوچھا کہیں دخل تو نہیں دیا.کاتب نے کہا میں نے کوئی دخل نہیں دیا مگر ایک آیت جو غلط لکھی تھی وہ درست کر دی ہے.اصل میں خَرِ عیسی ہے مگر آیت میں خَرِ مُوسی لکھا تھا.چونکہ یہ صریح غلطی ہے اس لئے میں نے اس کی اصلاح کر دی ہے.اس نے کہا آیت میں خَرَّ ہے خَرِ نہیں کہ خَرِ عیسی لکھا جائے.تو کاتب کی لیاقت بھی عموماً اتنی نہیں ہوتی کہ اگر مضمون لکھنے والے سے کوئی غلطی ہو جائے جلدی لکھتے وقت میں، سے ، کو، وغیرہ الفاظ چُھوٹ بھی جاتے ہیں اور ایسی غلطیاں مصنف سے ہو جاتی ہیں تو کاتب کو یہ اجازت نہیں کہ مصنف سے جو غلطی ہو جائے اسے
$1940 473 خطبات محمود درست کر دے کیونکہ اگر یہ اجازت ہو تو نہ معلوم کسی بات کو کیا سے کیا بنا دے.غرض کاتبوں کی حالت قابلِ رحم ہوتی ہے اور اس وقت جو کاتب کام کر رہے ہیں ان پر کام کا بڑا بار ہے.کاتب اگر اچھا لکھے تو 6 سے 8 صفحے روزانہ لکھ سکتا ہے.مگر اب کام کی زیادتی کی وجہ سے 12 سے 16 صفحے تک روزانہ ایک ایک کاتب سے لکھوایا جارہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو کام جلسہ تک ختم نہ ہو سکے گا.اس کے بعد اہم کام چھپوائی کا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اس کے لئے بہت کچھ سہولت عطا کر رکھی ہے.ایک وقت تو وہ تھا جب کہ دستی پر یس چلانا بھی مشکل تھا مگر اب دو پر یس کام کر رہے ہیں اور ایک میں دو مشینیں چل رہی ہیں.کجا تو یہ کہ دستی پر لیس بھی نہ تھا اور کجا یہ کہ مشینیں کام کر رہی ہیں اور بجلی سے دو دو پر لیں چل رہے ہیں.پر یس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ 48 صفحے روزانہ چھاپ کر دیتے رہیں گے.اس وقت تک ساڑھے سات سو صفح چھپ چکے ہیں اور پونے دو سو کے قریب چھپنے باقی ہیں.مگر ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہے.البتہ کا تبوں کا کام ایسا ہے کہ اگر ایک کی بھی صحت خراب ہو گئی تو کام رک جانے کا اندیشہ ہے.پھر جلد سازی کا مرحلہ طے ہونا باقی ہے.جلد ساز سے عہد لے لیا گیا ہے کہ تمام کاپیاں چھپ جانے کے بعد کم از کم 75 جلدیں روزانہ کے حساب سے دے گا اور اس لحاظ سے 30، 31 دسمبر تک 9،8 سوکتابیں مجدّد مل سکتی ہیں اور باقی بعد میں بھیجی جا سکتی ہیں.مگر جلد ساز ایسے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو بہانہ سازی میں بڑے مشاق ہوتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ نواب محمد علی خان صاحب سے میں نے ایک کتاب مانگی.انہوں نے کہا جلد ساز کے پاس گئی ہوئی ہے.کچھ عرصہ کے بعد پھر مانگی تو نواب صاحب نے وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا.پھر سال دو سال کے بعد مانگی تب بھی انہوں نے یہی کہا کہ جلد ساز کے پاس ہے.اس پر میں نے کہا کیا آپ نے وہ کتاب جلد ساز کے لئے خریدی تھی.اتنے عرصہ سے مانگ رہا ہوں اور آپ کہتے ہیں جلد ساز کے پاس ہے.نواب صاحب نے کہا کہ وہ تو 18 سال سے اس کے پاس پڑی ہے.کتب خانہ کی کچھ کتابوں کی جلدیں چوہے خراب کر گئے تھے.وہ جلد ساز کے حوالے کی گئی تھیں کہ جلدیں ٹھیک کر دے مگر ابھی تک
$1940 474 خطبات محمود اس نے واپس نہیں دیں.آخر ایک لمبے عرصے کے بعد جلد ساز نے وہ کتابیں لا کر واپس کر دیں کہ آپ اتنی جلدی کرتے ہیں تو اپنی کتابیں واپس لے لیں.میں اتنی جلدی کام نہیں کر سکتا.تو جلد سازوں سے یہ ڈر آتا ہے.احباب دعا کریں خداوند تعالیٰ اس مرحلہ کو بھی عمدگی سے طے کرا دے.غرض اس وقت کئی مرحلے ہمارے رستہ میں پڑے ہیں.دوست دعا کریں خدا تعالیٰ سب مراحل کو طے کرنے کی توفیق عطا کرے.ابھی سورہ کہف کی تفسیر لکھنے کا کام میرے ذمہ ہے.سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف کی کتابت کاتبوں کے ذمہ ہے.سورہ نحل، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف کی چھپائی پر لیس کے ذمہ ہے.کاپیوں اور پروفوں کا پڑھنا اور میرے مضمون کو صاف کر کے لکھنا میرے مددگاروں کے ذمہ ہے.اس کے بعد جلد ساز کے قبضہ میں جانے والے ہیں.وہ بھی ایک بڑا مرحلہ ہے.اس کے متعلق ضروری شرائط طے کر لی گئی ہیں اور پیشگی روپیہ بھی دے دیا ہے مگر انسانی تجاویز کا کیا ہے جب تک خدا تعالیٰ کی تائید حاصل نہ ہو.پس بہت ہی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس کام کی وجہ سے دوماہ سے انتہائی بوجھ مجھ پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہوا ہے.یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہوا ہے اور زیادہ دیر تک برداشت کرنا مشکل ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور نصرت نہ ہو.پس دوست دعا کریں کہ ا ہے.خد اتعالیٰ کا میابی عطا کرے.جلسہ سالانہ پھر میں دوستوں کی توجہ جلسہ سالانہ کی طرف دلاتا ہوں جو سر پر دوست دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں جلسہ میں شریک ہونے کی تحریک کرے اور جلسہ کے برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور قادیان کے دوستوں کو یہ دعا کرنی چاہیئے کہ مکانوں، روپے، وقت ، تقویٰ، اخلاص اور خیر خواہی کے لحاظ سے باہر سے آنے والوں کے خدمت گزار اور اچھے میزبان ثابت ہوں.اگر قادیان کے لوگ یہ دعا کرتے رہیں تو میرے وعظ اور نصیحت کے بغیر اپنے فرائض ان کے سامنے آتے رہیں گے.مثلاً جو یہ دعا کرے گا کہ جن کے پاس مکان ہیں انہیں مہمانوں کے لئے دینے کی توفیق حاصل ہو تو اس کا
$1940 475 خطبات محمود نفس اسے کہے گا تمہیں خود بھی ایسا ہی کرنا چاہئے.اسی طرح جب ایک شخص یہ دعا کرے گا کہ دوسروں کو مالی قربانیاں کرنے کی توفیق ملے تو اس کا نفس اسے کہے گا کہ دوسروں کے لئے جب دعا کرتے ہو تو تم بھی ایسا ہی کرو.پس جو دوست دوسروں کے لئے دعا کریں گے ان کے نفس میں تغیر پیدا ہو کر انہیں خود بھی نیکی کرنے کی توفیق حاصل ہو جائے گی.تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ دعائیں نفس کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دوسروں کے لئے کوئی دعا مانگتا ہے خود بھی چاہتا ہے کہ ایسا ہی بنوں اور یہی تحریک کسی نیکی کے حاصل کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے.اسی طرح باہر کے دوست جب دوسروں کے لئے یہ دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں قادیان جانے کی توفیق عطا کرے تو ان کا نفس انہیں کہے گا کہ جب دوسروں کے لئے جانے کی توفیق طلب کرتے ہو تو خود بھی اس پر عمل کرو.غرض دعا ایک طرف تو اپنے نفس کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا باعث.اور جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں تو کامیابی میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا.میں اس سے زیادہ اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس وقت میری یہ حالت ہے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے ، منہ کڑوا ہے، سردی لگ رہی ہے اور اتنا بولنا بھی دو بھر ہے.میں پھر ان دونوں باتوں کے لئے دعائیں کرنے کی تحریک کرتا ہوں یعنی خدا تعالیٰ جلسہ سالانہ تک مجھے تفسیر القرآن کے کام کو خیر و خوبی اور صحت کے ساتھ ختم کرنے کی توفیق دے اور جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں انہیں اپنے فضل اور رحم سے اپنے پاس سے اجر عطا فرمائے.اسی طرح مقامی احمدیوں کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق بخشے.باہر کے دوستوں کو قادیان آنے اور دوسروں کو ساتھ لانے کی توفیق دے تاکہ آنے والا جلسہ سابقہ جلسوں کی نسبت زیادہ کامیابی کے ساتھ منعقد ہو اور یہ ثابت ہو کہ خدا تعالیٰ کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.ان سے بندوں کو وافر سے وافر برکتیں اور نصیحتیں ملتی رہتی ہیں اور ملتی رہیں گی.“ (الفضل 17 دسمبر 1940ء)
$1940 476 (34) خطبات محمود تفسیر القرآن کا کام نہایت ہی اہم ہے (فرمودہ 20 دسمبر 1940ء) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”انسانی دماغ کی بھی عجیب بناوٹ ہے.بعض اوقات اس کے خیالات کا تسلسل آپ ہی آپ اس کی زبان کے ذریعہ سے جاری ہو جاتا ہے.میں جو اس وقت خطبہ کے لئے کھڑ ا ہوا تو میرا ارادہ تفسیر القرآن کے متعلق کچھ کہنے کا تھا.وہ مضمون دماغ میں آرہا تھا اور اس غلبہ کی وجہ سے تلاوت کرتے وقت اختتامی کلمات ذہن سے نکل گئے اور الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 زبان پر جاری ہو گیا.بہر حال یہ الحمد للہ کہنے کا ہی کام ہے.اگر یہ صحیح ہو اور اگر اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو ورنہ اگر انسان خدا تعالیٰ کے کلام کی غلط تشریح کرنے لگے تو اس کے لئے بہت خطرے کا مقام ہے.اس کے لئے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 2 آخر میں رکھا گیا ہے.جس کے بار بار پڑھنے سے انسان کے گناہوں کا ازالہ ہوتا ہے.تفسیر کا کام بہت بڑی ذمہ داری ہے.واقعہ یہ ہے کہ اگر اس میں دیر ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فطرتا میں اس سے بہت گھبراتا ہوں اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ٹڈا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کی کوشش کرے اور میں نے مجبوراً اور جماعت کے اندر اس کے لئے شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے اس میں ہاتھ ڈالنے کی جرات کی ہے.بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اس کے لئے مجبور ہوا ہوں ورنہ قرآن کریم کی تفسیر ایسا کام نہیں جسے مومن دلیری سے اختیار کر سکے.قرآن کریم تو
خطبات محمود 477 $1940 ایک سمندر ہے اور اس کی تفسیر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص پیالہ ہاتھ میں لے کر یہ خیال کرے کہ میں اس سے سمندر کا پانی کھینچ کر لے آؤں گا.ظاہر ہے کہ ایسا شخص بے وقوف اور احمق ہو گا.اسی طرح قرآن کریم ایک ایسا سمندر ہے کہ اس کے مضامین کو کوئی شخص باہر نکال ہی نہیں سکتا.جس طرح کوئی شخص کنویں سے پینے کے لئے پانی تو لے سکتا ہے مگر پانی کو باہر نہیں لا سکتا یا سمندر سے لوٹا بھر کر تو لا سکتا ہے مگر سمندر کو نہیں لا سکتا.سمندر کے پاس یا کنویں کے پاس اسے خود جانا پڑے گا.کنویں یا سمندر کو وہ اپنے پاس نہیں لا سکتا.اسی طرح قرآن کریم ایک روحانی سمندر ہے.ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص تمہیں کوئی بات اس میں سے بتا سکے اور کوئی تفسیر سنا دے مگر یہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم کے سارے علوم بیان ہو سکیں.اور اگر کوئی قرآنی علوم سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اسے خود ہی غوطہ لگانا پڑے گا.ہم جب لکھتے ہیں تو ایک سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا اور چوتھے سے پانچواں مضمون ذہن میں آتا جاتا ہے اور اگر اسی طرح لکھیں تو پڑھنے والا پاگل خیال کرے گا کہ کہاں سے کہاں چلا گیا.مگر اس کا ایسا خیال کرنا خود اس کے جنون کی علامت ہو گی نہ کہ ہمارے پاگل ہونے کی کیونکہ یہ سلسلہ تو اسی طرح چلتا ہے.پانی پینے کی چیز ہے مگر جب ایک سائنس دان اسے پھاڑتا ہے تو لازماً اس کا ذہن ان دو گیسوں کی طرف جائے گا جن سے پانی مرکب ہے.اور پھر گیسوں سے ان کی طرف جن سے وہ گیسیں بنتی ہیں اور پھر ان سے قدرتاً اس کا ذہن بجلی کی ان لہروں کی طرف منتقل ہو گا جن کی وجہ سے مختلف ذرات ایک دوسرے سے پیوست ہیں.پس خیالات کے اس سلسلہ کی وجہ سے سائنس کے محقق کو کوئی شخص پاگل نہیں کہے گا.یہی حال قرآن کریم کی تفسیر کا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِلى رَبِّكَ مُنْتَهى ها - 3 اس کا جو بھی ٹکڑا تم لے لو اس پر غور کرتے ہوئے جس چیز کی طرف بھی تمہارا ذہن منتقل ہو گا.ہوا، پانی، آسمان، زمین، چاند، سورج، ستارے، شیر ، ہا تھی، انسان غرضیکہ جس چیز پر بھی تم غور کرو گے آخر دیکھو گے کہ تم اپنے رب کے پاس کھڑے ہو.یہ سلسلہ وار مضامین سب اسی لئے ہیں کہ آخر انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاویں.قرآن کریم کا کوئی حصہ لے لو وہ خدا تعالیٰ تک
$1940 478 خطبات محمود پہنچا دے گا اور الى رَبِّكَ مُنتَھی بھا کی صداقت ظاہر ہو جائے گی.پر میں بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم کی پوری تفسیر کوئی انسان نہیں کر سکتا.کوئی انسان کا بچہ ایسا پیدا نہیں ہوا جو قرآن کریم کی تفسیر بیان کر سکے.جو کوئی کچھ بیان کرے گا وہ انسانوں کے لحاظ سے مکمل تفسیر ہو گی قرآن کریم کے لحاظ سے نہیں.پس یہ کام ایسا نہیں کہ آسانی سے اس میں انسان ہاتھ ڈال سکے.اور اگر ڈالے تو ذمہ داری کے بوجھ تلے دبتا نہ جائے.مفسر پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے.اس زمانہ کے بھی اور آئندہ زمانہ کے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس تفسیر نے علوم کو ختم کر دیا.غور کرو کہ ایسا خیال دین میں کتنے بڑے رخنہ کا موجب ہو سکتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ قرآنی علوم کی انتہا کو کون پہنچ سکتا ہے.اس کا پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے کسی نبی یا غیر نبی کو نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی بعض پیشگوئیوں کی حقیقت آنحضرت صلی للی نام پر بھی نہ کھلی ہو گی.بعض احادیث کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے یہ حدیث غلط ہو یا اگر حدیث صحیح ہو تو ممکن ہے رسول کریم صلی یی کم پر اس کی حقیقت کا انکشاف نہ ہوا ہو.4 اس پر مولویوں نے بہت شور مچایا کسی نے آپ کو کافر کہا کسی نے کچھ.مگر حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی یہ ظلم پر روحانی اور دینی لحاظ سے تو سارے معارف کھل گئے لیکن جو حصہ پیشگوئیوں کے متعلق ہے خصوصاًجو آئندہ زمانوں کے متعلق تھیں اغلب بلکہ یقینی ہے کہ ان میں سے بعض کی تاویل آپ پر ظاہر نہیں ہوئی تا وہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کے لئے امتحان ہوں جسے پاس کر کے وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کریں.اسی طرح قرآن کریم کے کئی مطالب ہیں جو آج نہیں کھلے لیکن آج سے دوسو، چار سو، پانچ سو برس بعد کھلیں گے.آج کے زمانہ کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ان کے ظاہر ہونے پر آج ہم پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں کہ جو بات ہماری سمجھ میں آئی ہے وہ پہلوں نے نہیں لکھی اور ہم آج اسے لکھتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ پہلوں کے لئے اس کے لکھنے کا موقع ہی کب آیا.مثلاً یا جوج ماجوج کے جو معنی آج ظاہر ہوئے ہیں وہ پہلے مفسر کس طرح بیان کر سکتے تھے.وہ معذور تھے.ان کے سامنے یہ چیز ہی نہ تھی.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں سمجھ دے دی مگر یہ ہماری پہلوں پر فضیلت نہیں.جو مطالب سمجھنے کا ان کے لئے www.
$1940 479 خطبات محمود موقع تھا ان کے لحاظ سے تو ان پر ہمیں بے شک فضیلت ہے.دینی تشریحات اور روحانی معارف اگر ان سے زیادہ ہوں تو یہ تو بے شک زائد چیز ہے اور فضل ہے لیکن اگر آج ہم پر ان پیشگوئیوں کے مطالب کھلتے ہیں جو اس زمانہ کے متعلق ہیں تو اس بارہ میں ان کو بے وقوف اور جاہل کہنا ہماری اپنی بے وقوفی اور جہالت ہے کیونکہ یہ ان کے زمانہ کی بات ہی نہ تھی.کیا رطب و یابس قصے ہیں جو پہلوں نے بیان کر دیئے ہیں کہ یاجوج ماجوج کے کان اتنے بڑے بڑے ہوں گے کہ ایک کو نیچے بطور بستر بچھالے گا اور دوسرے کو بطور لحاف اوپر لے لے گا.وہ دیواریں چاٹے گا اور مر دے کھائے گا.انہوں نے یہود کی ان روایات کو اس لئے مان لیا کہ ان کے پرکھنے کا ذریعہ ان کے پاس نہ تھا.آج ہم ان باتوں کو اس لئے حل کر لیتے ہیں کہ یہ امور ہمارے سامنے ہیں.ان میں سے جب کوئی کسی یہودی سے اس قسم کی باتیں سنتا ہو گا تو بڑا خوش ہوتا ہو گا اور خیال کرتا ہو گا کہ آج کوئی شاگرد حقیقت دریافت کرے تو اسے بتاؤں.اسی طرح ممکن ہے کہ بعض پیشگوئیاں جو آئندہ کے متعلق ہیں ہم ان کی کوئی تاویل کریں جو غلط ہو اور جب ان کے مطالب کھلیں تو آئندہ زمانہ کے مفسر ہمارے متعلق کہیں کہ کتنے بے وقوف لوگ تھے کہ ان کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے.پس خد اتعالیٰ کے کلام کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے اور اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں قرآن کریم کی مکمل تفسیر سمجھ گیا ہوں تو وہ غلط کہتا ہے.ہم جو تفسیر کرتے ہیں وہ کلام الہی کی نہیں بلکہ صرف ان پہلوؤں کی تفسیر ہے جو ہمارے زمانہ سے متعلق ہے.پس قرآن کریم کی تفسیر ایسی ذمہ داری کا کام ہے کہ میں ہمیشہ اس میں ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہوں اور ترجمہ سے تو بہت ہی ڈرتا ہوں.لکھتا ہوں، پھر کاٹتا ہوں.لکھتا ہوں، پھر کاتا ہوں.شائع ہونے والی جلد کا ترجمہ پہلے میں نے شروع کیا.پھر مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم کے سپر د کر کے خود نظر ثانی کی.ترجمہ سے تو بہت ہی ڈرتا ہوں کیونکہ اگر کسی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو عوام کہیں گے کہ یہ خلیفتہ المسیح الثانی کا لکھا ہوا ترجمہ ہے غلط نہیں ہو سکتا اور یہ خیال نہیں کریں گے کہ انسان سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں.عقلمند انسان تو سمجھ جاتا ہے کہ بعض اوقات کا تب سے غلطی ہو جاتی ہے.چھپنے میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے مگر عام لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.وہ تو کہتے ہیں کہ بس جی خلیفتہ المسیح الثانی
$1940 480 خطبات محمود نے یہی لکھا ہے اور ہم یہی مانیں گے.عوام کی ذہنیت بھی عجیب ہوتی ہے.ضلع گجرات میں ایک دفعہ مناظرہ ہوا.وہاں ایک احمدی تھا غیر احمدی اسے پکڑ کر لے گئے کہ چلو مولویوں کو چھوڑو ہم خود مناظرہ کرتے ہیں.مگر وہاں جا کر مولوی کو اس کے مقابل کر دیا.مولوی نے کہا اچھا قرآن کھولو.سب لوگ ان پڑھ تھے.مولوی نے سوچا کہ احمدی بھی ان پڑھ ہے اسے یو نہی قابو کرلوں گا.اس نے کہا کہ دیکھو قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ رافعک یہ حضرت مسیح کے متعلق ہے.اور رفع کے معنی اوپر اٹھانے کے ہیں.رفع یدین سب لوگ جانتے ہیں کہ ہاتھ اوپر اٹھانے کو کہتے ہیں.رافع کے معنی صاف ہیں کہ تینوں چکاں گا یعنی اوپر اٹھاؤں گا.سب لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں اور احمدی سے کہنے لگے کہ بس اب تو بہ کرو.وہ بھی سمجھ گیا کہ یہاں اب سیدھی طرح کوئی بات نہیں سنے گا.اس نے کہا مولوی صاحب رافِعُگ کی ف کے نیچے لکیر سی کیسی ہے.مولوی صاحب نے کہا یہ زیر ہے.پھر اس نے پوچھا کہ زیر کے کیا معنی ہوتے ہیں ؟ مولوی صاحب فرمانے لگے ہیٹھاں ” یعنی نیچے.اس پر وہ احمدی بولا کہ بس یہی بات ہے.رافعگ تو اوپر لے جاتا ہے مگر یہ زیر او پر نہیں جانے دیتی اور اس دلیل کو سن کر جو دوسرے زمیندار تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ بس معاملہ پھر شکی ہو گیا ہے.تو عام لوگ زیادہ بار یک باتوں کو نہیں دیکھتے.ان کو علم ہو تا نہیں وہ تو یہی کہتے ہیں کہ بس یہی لکھا ہے.یہی درست ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بعض اوقات کتابت کی غلطی ہو جاتی ہے.بعض اوقات مؤلف سے سہو ہو جاتا ہے.اس لئے یہ ایسی ذمہ داری ہے کہ اسے اٹھانا موت قبول کرنا ہے اور یہ موت دراصل ہر انسان آپ ہی قبول کرے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے.جیسے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ نجات وہی پائے گا جو اپنی صلیب آپ اٹھائے گا.5 اس کا مطلب یہی ہے کہ نجات وہی پائے گا جو خد اتعالیٰ کی راہ میں صلیب پائے گا.میری صلیب کو پوجنے سے نجات نہیں ہو سکتی.تو ہر انسان خود قرآن پڑھے، سوچے سمجھے تو صحیح علم حاصل کر سکتا ہے.باقی تفاسیر تو ایسی ہی ہیں جیسے کسی جگہ پہنچنے کے لئے کوئی سواری پر چڑھ جاتا ہے، کوئی ریل پر ، کوئی موٹر پر ، کوئی ہوائی جہاز پر ، کوئی گھوڑے پر، کوئی
$1940 481 خطبات محمود سائیکل پر ، کوئی ٹانگہ پر، کوئی گڑے پر.بعض علاقوں میں شتر مرغ بلکہ بکرے سے بھی سواری کا کام لے لیا جاتا ہے.تو یہ تفسیریں تو سواری کی طرح ہیں اور صرف تقریب کا ذریعہ ہیں.کامل تفسیر ان میں نہیں.کوئی سواری کسی قلعہ کے دروازہ تک تو پہنچا سکتی ہے مگر اس سے دروازہ نہیں کھل سکتا.اور جب تک دروازہ نہ کھلے دیواروں تک پہنچنے سے کیا فائدہ.فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مومن ان ذرائع کو تقریب سے زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ خود آگے بڑھے اور سوچے سمجھے.پس جہاں تک ان نو سورتوں کا تعلق ہے یعنی سورہ یونس سے شروع کر کے سورہ کہف تک پر سوں میں نے کام ختم کر دیا ہے اور پر سوں شام تک پر لیس والے ختم کر دیں گے.ہم نے 8،7 سو صفحات حجم کا اندازہ کیا تھا.پھر اندازہ لگانے والوں نے کہا کہ آٹھ ، نو سو کے در میان صفحات ہوں گے.پھر 10،9 سو صفحات کا اندازہ کیا گیا اور اب رپورٹ ملی ہے کہ 1006 صفحات ہو جائیں گے.جس محنت کے ساتھ کام کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آخری حصہ ایسا اچھا نہیں چھپ سکتا جیسا کہ ارادہ تھا.کاتبوں سے دن رات کام لیا گیا ہے.اسی طرح پر لیس والوں سے بھی.انسانی طاقت جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے اسے اٹھانے کا بہت اعلیٰ نمونہ کارکنوں نے دکھایا ہے مگر اس محنت کے باوجو د کتابت وغیرہ کی بعض غلطیاں ہوں گی.میں دوبارہ تو پروف دیکھ ہی نہیں سکا اور اس لئے مجھے خیال ہے کہ بعض جگہ ضرور غلطیاں رہ گئی ہوں گی.لکھتے ہوئے بعض اوقات میں نوٹ دے دیتا ہوں کہ حوالہ دے دیا جائے یا فلاں معنے لغت سے نکال کر لکھ دیئے جائیں.عین ممکن ہے ان میں سے کوئی حوالہ لکھنارہ جائے یا معنے نقل کرنے رہ جائیں.بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام کارکنوں نے بہت محنت اور اخلاص سے کام کیا ہے.لیکن اس کے باوجود بعض غلطیاں رہ گئی ہوں گی.ہم غلط نامہ کی اشاعت کی بھی کوشش کر رہے ہیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں آخری حصہ میں پہلے سے کم غلطیاں ہوں گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب عالم تو بہت تھے مگر ان کو کاپی اور پروف دیکھنے کی مشق نہ تھی اس لئے اس حصہ میں بہت غلطیاں رہ گئی ہیں.کوئی حصہ کہیں چھوٹ گیا ہے، کوئی غلط جوڑ دیا گیا ہے.ہم نے اس کی درستی بھی کی ہے.بعض جگہ علیحدہ پر چیاں
$1940 482 خطبات محمود چھپوا کر لگا دی گئی ہیں.غلط نامہ بھی چھپ جائے گا اور اس طرح صحت کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے.اب جماعت کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم کی تفسیر تو کوئی انسان نہیں لکھ سکتا اور اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآنی مطالب سارے یا آدھے یا سوواں حصہ بلکہ ہزاروں حصہ بھی بیان کر دیئے گئے ہیں کیونکہ قرآن غیر محدود خدا کا کلام ہے.اس لئے اس کے علوم بھی غیر محدود ہیں.اور اس نسبت سے ہم اس کے مطالب کا نہ کروڑواں اور نہ اربواں حصہ بیان کر سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری باتوں پر روشنی ڈال دی گئی ہے.مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے.ایسے خیال رکھنے والوں کو میں اسلام کا بدترین دشمن خیال کرتا ہوں اور احمق سمجھتا ہوں.گو وہ کتنے بڑے بڑے جسے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو میں اپنی تفسیر کی نسبت یہ کیونکر کہ سکتا ہوں.ہم یہ تو کوشش کر سکتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے علوم ایک حد تک بیان کر دیں مگریہ کہ قرآن کریم کے یا اپنے زمانہ کے بھی سارے علوم بیان کر دیں اس کا تو میں خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا.قرآن کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہتے ہیں.آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کر سکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آسکتے.اور پھر دو سو سال بعد غور کرنے والوں کو اور معارف ملیں گے.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کہنے سے لوگوں کی توجہ تفسیر کی طرف سے ہٹ جائے گی.اور بعض دفعہ بعض نادان یہ کہہ بھی دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے تو خود کہہ دیا ہے کہ یہ کچھ نہیں.مگر میں قرآن کریم کے متعلق سچائی کے بیان کو ہر چیز سے زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں.لاکھوں کا تفسیر نہ پڑھنا بہت کم نقصان دہ ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک بھی شخص ہو جو یہ خیال کرے کہ اس تفسیر میں سب کچھ آچکا ہے.اگر دس کروڑ آدمی بھی یہ خیال کرلیں کہ اس میں کچھ نہیں تو کوئی نقصان نہیں یہ نسبت اس کے کہ ایک بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آگیا ہے.جو یہ خیال کرے گا کہ اس میں کچھ نہیں وہ تو.
$1940 483 خطبات محمود میرے کلام سے محروم رہے گا لیکن یہ سمجھنے والا کہ اس میں سب کچھ آگیا ہے خدا تعالیٰ کے کلام سے محروم رہ جائے گا.پس مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ لوگ یہ خیال کریں کہ اس میں کچھ نہیں لیکن یہ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک شخص بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آگیا ہے.اس لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اس میں جو کچھ ہے وہ محض اس زمانہ کے متعلق بعض باتیں ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.قرآن کریم کے نئے نئے علوم ہمیشہ کھلتے رہیں گے جو آج ہمیں معلوم نہیں.اور پھر یہ بھی کہ اس زمانہ کے متعلق بھی بعض غلطیاں لگ سکتی ہیں مگر چونکہ یہ خدائی تائید سے لکھی گئی ہے اس لئے میں کہ سکتا ہوں کہ اس میں اس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی دینی اور روحانی باتیں جو لکھی گئی ہیں وہ صحیح ہیں.ہاں بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے متعلق یہ احتمال ضرور ہے کہ ہم ان کے اور معنے کریں اور جب وہ ظاہر ہوں تو صورت اور نکلے.پس جہاں تک علوم، اخلاق، روحانی اور دین کا تعلق ہے میں امید کرتاہوں کہ یہ بہتوں کے لئے ہدایت کا اور ان کو گمراہی سے بچانے کا موجب ہو گی.گو یہ عین ممکن ہے کہ آئندہ کے متعلق کسی بات کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئیاں تھیں مگر کسی کو خیال بھی نہ تھا.سورۂ نساء میں اور سورہ فاتحہ میں نبوت کا ثبوت موجود تھا مگر کسی کے ذہن میں نہیں آیا اور بھی بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جن کو پہلے لوگوں نے نہیں سمجھا.اسی طرح ہم بھی ممکن ہے آئندہ زمانوں کے متعلق بعض پیشنگوئیوں کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکیں اور غلطی کھا جائیں مگر جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی تائید سے لکھی گئی ہیں اور جو بات خدا تعالیٰ کی تائید سے لکھی جائے اس سے گمراہی پیدا نہیں ہو سکتی.، اس تمہید کے بعد میں جماعت کو اس کی خریداری کی طرف توجہ دلاتا ہوں.قادیان میں بھی اور باہر بھی جہاں تک ہو سکے دوستوں کو اس کی اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.اس وقت تک دفتر میں چھ سو احباب کی طرف سے اطلاعات آچکی ہیں.بعض براہ راست میرے پاس بھی آئی ہیں اور وہ ملا کر کل تعداد آٹھ سو تک ہو گی مگر تین ہزار تعداد چھپوائی گئی ہے.
$1940 484 خطبات محمود اور جماعت کی کثرت کے لحاظ سے اور ان دوستوں کی نسبت کے لحاظ سے جو عام طور پر کتابیں خریدتے ہیں میرا خیال ہے کہ اس کی اشاعت دس پندرہ ہزار ضروری ہونی چاہیئے.اس وقت تک اس کی اشاعت کے لئے جدوجہد بہت ہی کم ہوئی ہے.میرے علم میں سوائے چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.انہوں نے دوسو خریدار کی اس وقت تک اطلاع دی ہے.ان کے علاوہ کسی کی طرف سے کوئی جدوجہد میرے علم میں نہیں.یا ایک صاحب نے جن کی ترقی ہوئی گیارہ خریداروں کی قیمت مبلغ پچپن روپیہ ارسال کی ہے.بس اور کسی کا مجھے علم نہیں.مگر باوجود اس کے کہ میں اس کام کو بوجھ محسوس کرتا ہوں مجھ سے یہ کام کروا کے جماعت کا اس طرف سے غفلت برتنا بہت ہی افسوسناک بات ہے.یہ کوئی اخبار “ الفضل ” تو نہیں کہ کسی سے مانگ کر پڑھ لیا.یہ تو ایسی چیز ہے کہ گھر میں رکھ کر ہی اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.ایک دفعہ آدمی اسے سارا پڑھے اور پھر ضرورت کے مطابق حوالہ وغیرہ دیکھ لے.کتاب سے فائدہ اٹھانے کی یہی صورت ہو سکتی ہے.ایسا حوالہ جو ضرورت کے مطابق مل جائے شیخ کی طرح دل میں گڑ جاتا ہے.قادیان کی احمدی بالغوں کی آبادی 14،13 سو ہے اور اس لحاظ سے یہاں چار پانچ سو خریدار ہونے چاہئیں مگر ہوئے صرف چالیس پچاس ہیں.اسی طرح لاہور، سیالکوٹ، جہلم، راولپنڈی، فیروز پور، امر تسر اور پنجاب کے دوسرے اضلاع ہیں.پھر صوبہ سرحد کے اضلاع ہیں.یوپی اور اس سے آگے بنگال ہے اور ہر شہر میں پانچ دس ہیں پچاس سو دو سو خریدار پید اہو سکتے ہیں مگر جماعت نے اس کی طرف کوئی توجہ اب تک نہیں کی.اس لئے میں پھر ایک دفعہ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ جتنا کام میرے ذمہ تھا وہ ختم ہو چکا ہے.پریس کا کام بھی کل یا پرسوں تک ختم ہو جائے گا، جلد ساز بھی حسب وعدہ کام کرنے کا وعدہ کرتے ہیں.ابھی مجھے میر محمد اسحاق صاحب نے بتایا ہے کہ جلد ساز کہتے ہیں کہ ہم عام جلد سازوں کی طرح نہیں کریں گے بلکہ مقررہ تعداد سے بھی زیادہ تیار کر کے روزانہ دیا کریں گے.اور اگر خدا تعالیٰ ان کو توفیق دے تو 23 یا 24 کی شام تک ایک سو ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ جلدیں تیار ہو جائیں گی.میرا ارادہ ہے کہ قادیان کے لوگ بعد میں حاصل کریں.پہلے باہر والوں کو دے دی جائیں.پندرہ بیس دن تک سب کو مل جائیں گی.
خطبات محمود 485 $1940 اس لئے زیادہ گھبراہٹ کی ضرورت نہیں.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس سے گمراہی کا بیج نہ بوئے اور ہدایت والے حصوں کو زیادہ مفید بنائے تا اس سے خد اتعالیٰ کے کلام کی صداقت ظاہر ہو اور احمدیت کی مضبوطی ہو.“ 1 الفاتحة: 2 2 الفاتحة: 7 النازعات: 45 ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 307 5 متی باب 16 آیت 24 (الفضل 26 دسمبر 1940ء)