Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ہر احمدی نئے احمدی بنانے کا وعدہ کرے فرموده ۶ /جنوری ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- نزلہ اور کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے میں خود تو آواز نہیں پہنچا سکتا.ممکن ہے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ پہنچ جائے.مجھے آج "الفضل میں یہ دیکھ کر بہت تعجب بھی ہوا، حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا مسلمانوں کی حالت پر کہ وہ یہاں تک گر گئی ہے کہ اخبار اہلحدیث “ میں لکھا ہے کہ قادیانیوں کا خلیفہ خطبہ جمعہ میں ہمیشہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر لیکچر شروع کر دیتا ہے جس پر بہت زیادہ وقت لگتا ہے.اہلحدیث کو یا د رکھنا چاہئے کہ سورۂ فاتحہ تو ہماری جماعت کا خاص نشان ہے اللہ تعالیٰ نے پرانی کتب میں یہ ایک پیشگوئی رکھی ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں سات مہر وں والی ایک کتاب کے راز ظاہر کئے جائیں گے جس کا نام فتوحہ ہو گا.یعنی سات آیتوں کی سورۃ کی حقیقت کھولی جائے گی جس کا نام فاتحہ ہو گا لے پس اس لحاظ سے سورہ فاتحہ کے ساتھ ہمارا خاص تعلق ہے لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی سورہ فاتحہ ایک ایسی دُعا پر مشتمل ہے کہ اس کے بغیر ایک مومن کا کام تو چل سکتا ہی نہیں.اگر وقت کو بچانا ہو تو پھر تقریر کرنے کی ہی کیا ضرورت ہے خاموشی ہی کی کیوں نہ اختیار کی جائے.یا پھر اختصار ہی اگر ضروری ہو تو یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ تقریر کو چھوٹا کر لیا جائے بجائے اِس کے کہ اس دُعا سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور اسے چھوڑ دیا جائے جو ،
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ہمارے تو کل اور ایمان کی بنیاد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو وہ نامبارک اور نا کام مجلس ہے کے علاوہ ازیں جو شخص ہر وقت اللہ تعالیٰ کی سے ہدایت طلب نہیں کرتا اُس کے ہر وقت گڑھے میں گرنے کا امکان ہے اور ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ غلطی نہ کر جائے.اس میں طبہ نہیں کہ دُعامانگنے والا بھی غلطی کر سکتا ہے اور اس کا قدم بھی غلط رستہ پر اُٹھ سکتا ہے.مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ امکان کس کے لئے زیادہ ہے.دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دوائیاں کھانے والے بھی مرتے ہیں مگر کیا اس سے لوگ دوائیوں کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں؟ جس طرح کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دوائی اپنا اثر نہیں کرتی اُسی طرح بعض موقعوں پر دُعا بھی قبول نہیں ہوتی.لیکن بہر حال جس طرح صحت کی ضمانت اُسے حاصل ہوتی ہے جس نے دوائی کا استعمال کیا اُسی طرح کامیابی کی ضمانت اُسے حاصل ہو سکتی ہے جو دُعا کرتا ہے.ہم اس کی دُعا کے ساتھ اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب ایسا نہیں کرتے.ان کے نزدیک اس سے وقت ضائع ہوتا ہے.اب دونوں کے کاموں کے نتائج بھی ظاہر ہیں.ہم سورۂ فاتحہ پڑھ کر وقت ضائع کر دیتے ہیں اور مولوی صاحب اس وقت کو بچا لیتے ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ دونوں کے کاموں کے نتائج کیا ہیں ؟ ہم سورہ فاتحہ کی تلاوت کے ساتھ وقت ضائع کر کے بھی کامیاب ہو رہے ہیں اور مولوی صاحب وقت ضائع نہیں کرتے مگر نا کام ہو رہے ہیں.جس سے ظاہر ہے کہ یہ وقت کا ضیاع ہمیں مہنگا نہیں پڑتا بلکہ مفید ہے.پس اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس فضل الہی کو دیکھنے کے باوجود ہم ان باتوں کو چھوڑ کر اُن کے ساتھ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے اس سال کی جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک کی تھی ہر احمدی یہ ذمہ لے کہ سال بھر میں کم سے کم ایک دو نئے احمدی کی ضرور بنائے گا.یہ تحریک اس سے پہلے بھی میری طرف سے ہوتی رہی ہے لیکن چونکہ پہلے کبھی اسے معین صورت میں پیش نہیں کیا گیا اس لئے جماعت کے دوستوں نے بھی اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور اسے ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دیتے رہے ہیں.خصوصاً قادیان کے لوگوں نے تو اسے لطیفہ سے زیادہ وقعت کبھی نہیں دی.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء اب اسے منظم صورت دی جائے اور دوست بھی منتظم طور پر وعدے پیش کریں.ان وعدوں کا پورا ہونا یا نہ ہونا تو سال کے بعد دیکھا جائے گا لیکن آج ہمیں یہ تو معلوم ہو جانا چاہئے کہ جماعت کے دوستوں کی کیا نیتنیں اور کیا ارادے ہیں.جب کوئی شخص صحیح طور پر وعدہ کرتا اور پھر اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اِس وعدہ کو پورا کرنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے لیکن جب کوئی شخص کسی تحریک کو محض وعظ کے رنگ میں سنتا ہے تو پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا کیونکہ اس صورت میں وہ یا تو اسے کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھا رکھتا ہے یا پھر یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ تحریک دوسروں کے لئے ہے میرے لئے نہیں اور دونوں کی صورتوں میں ناکام رہتا ہے.اگر وہ اسے دوسروں کے لئے سمجھتا ہے تو بھی خود اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور اگر اسے کسی دوسرے وقت پر اُٹھا رکھتا ہے تو بھی ناکام رہتا ہے.اس لئے آج اس تحریک کو معتین صورت دینے کے لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ سب سے پہلے قادیان کی کے مختلف محلوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹریان ایک ہفتہ کے اندر اندر تمام بالغ مردوں یعنی کی پندرہ سال سے زیادہ عمر کے احمدیوں کی فہرستیں تیار کر دیں جن میں یہ درج ہو کہ وہ سال میں کتنے لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتے ہیں.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ تعداد معتین کرنے کی کیا ضرورت ہے.خواہ کوئی ہزار احمدی بنالے مگر ہم تو اقل ترین تعدا د معلوم کرنا ج چاہتے ہیں.کیونکہ اس طرح معین کرنے سے کام کرنے والے کا حوصلہ بھی قائم ہوتا ہے اور پھر اس سے ہر شخص کے اخلاص کی حقیقت بھی معلوم ہو سکتی ہے.اگر کوئی شخص یونہی بہت سی تعداد لکھوا دیتا ہے جس کے لئے دورانِ سال میں کوئی کوشش نہیں کرتا تو اُس کے متعلق لوگوں کو علم ہو جائے گا کہ وہ یونہی بڑ مارنے والا ہے، دین سے اُسے کوئی غرض نہیں.پس اس صورت میں ہم کو بھی لوگوں کے اخلاص کی حقیقت کا پتہ لگ سکے گا اور خود لوگوں کو بھی اپنے اخلاص کی حقیقت کا علم ہو سکے گا اور اس طرح تعداد معین کرنے سے کام کرنے والوں کو بھی یہ خیال رہے گا کہ اُنہوں نے کتنا کام کرنا ہے اور وہ یہ بھی سوچ سکیں گے کہ وہ اتنی تعداد پوری کرنے کے لئے کہاں کہاں تبلیغ کر سکتے ہیں.پس قادیان کے معہد یدار ایک ہفتہ کے اندر اندر ایسی فہرستیں تیار کر کے بھجوا دیں اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء باہر کی جماعتیں ۲۸ فروری یعنی فروری کے آخر تک ایسی لسٹیں بھجوا دیں کہ ہر احمدی اس اس تعداد میں نئے احمدی بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر سہ ماہی کے بعد یہ اطلاع بھی دیتے رہیں کہ یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہورہی ہیں.قادیان میں انتظام زیادہ ہے.یہ ایک ہی شہر ہے پھر یہاں کے لوگوں کے لئے اچھا نمونہ پیش کرنا بھی ضروری ہے.اس لئے وہ ایک ہفتہ تک ایسی لٹیں مکمل کریں.ہندوستان کی جماعتوں کے لئے میں نے قریباً دو ماہ کا وقت رکھا ہے اور ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے کی لئے قریباً تین ماہ رکھتا ہوں یعنی ۱/۱۰اپریل تک دو تین ہفتہ میں ان کو اطلاع پہنچ جائے گی.دو تین ہفتہ جواب آنے کے لئے اور ایک ماہ فہرستیں تیار کرنے کے لئے.دوستوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی اشاعت نہ صرف اس لئے ضروری ہے کہ خُدا کے دین کی اشاعت ہو بلکہ لوگوں کی اپنی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے.جب وہ تبلیغ کے لئے باہر نکلیں گے، دوسروں کے پاس جائیں گے تو ان پر اعتراض ہوں گے.لوگ احمدیوں کے عیوب بیان کریں گے اور ممکن ہے ان میں سے کوئی عیب خود اُن کے اپنے اندر پایا جا تا ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے ، اپنے علوم بڑھانے کی جد وجہد کریں گے اور سلسلہ کی تعلیم کو سیکھنے کی سعی کریں گے اور اس طرح یہ تحریک تبلیغ اور تربیت دونوں لحاظ سے مفید ثابت ہوگی.پس پندرہ سال سے اوپر عمر کے تمام نو جوانوں ، ادھیڑ عمر والوں اور بوڑھوں کی فہرستیں تیار کی جائیں اور بتایا جائے کہ اُنہوں نے کس کس قدر احمدی سال میں بنانے کی کوشش کرنے کا کی وعدہ کیا ہے؟ اور کس کس مقام کے لوگوں کو مد نظر رکھا ہے؟ اس سال میں اس تحریک کو صرف مردوں کے لئے ہی رکھتا ہوں.عورتیں بھی اگر چاہیں تو اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے کے لئے اپنے نام لکھوا سکتی ہیں مگر ان کے لئے یہ تحریک لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے.یا درکھنا چاہئے کہ جب انسان ہمت اور ارادہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے کامیابی عطا کرتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے عام رنگ میں یہ تحریک کی تھی اور اگر چہ یہ تحریک با قاعدہ نہ تھی مگر بعض لوگوں کی بیعت کے خطوط بعض دوست بھجوا ر ہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم نے چونکہ خطبہ دیر سے شائع ہو رہا ہے.اس مدت کو ۸ مارچ تک بڑھا دیتا ہوں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء وعدہ کیا تھا کہ ضرور نئے احمدی بنائیں گے.چنانچہ ان وعدوں کے مطابق یہ بیعت کے خطوط بھجوا رہے ہیں.اسی طرح اگر سب دوست توجہ کریں اور ہمت کریں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں مگر جب یہ خیال کر لیا جائے کہ یہ دوسرے کا فرض ہے ہمارا نہیں تو پھر کامیابی کی کوئی صورت نہیں.قادیان کے جولوگ اپنے نام لکھوائیں تو چونکہ یہاں دوسرے لوگ بہت تھوڑے ہیں اس لئے وہ ساتھ ہی یہ ضرور لکھوائیں کہ کس کس گاؤں میں سے وہ احمدی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں.اس سے ایک تو ہمیں یہ پتہ لگ جائے گا کہ کون کون سے گاؤں دوستوں کے مد نظر ہیں اور پھر پروگرام بناتے وقت ہم یہ بھی دیکھ سکیں گے کہ کسی جگہ ضرورت سے زیادہ لوگوں کا وقت ضائع نہ ہو اور کام کو تقسیم کرنے کا اندازہ بھی کیا جاسکے گا اور اس میں بہت سہولت رہے گی.اس لئے میں نے یہ رکھا ہے کہ دوست تعداد کے ساتھ جگہیں بھی بتا دیں.ہاں اگر کوئی خاص جگہ کسی کے ذہن میں نہ ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں عام طور پر کوشش کروں گا یا مثلاً تصنیف کا کام کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا حلقہ اثر زیادہ وسیع ہو گا.کیونکہ ہمیں براہِ راست لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کا موقع نہیں ملتا.مبلغین کے دورہ کے احمدی شمار نہیں کئے جائیں گے کیونکہ وہ ان کے نہیں بلکہ سلسلہ کے ہیں ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنی رخصت حاصل کر کے جس کا انہیں حق ہو تبلیغ کے لئے جائیں اور پھر اس عرصہ میں احمدی بنا کر اپنا وعدہ پورا کریں.اگر اُن کے دورہ کے احمدیوں کو اُن کے کی وعدہ میں شمار کر لیا جائے تو یہ بالکل بے معنے بات ہوگی.کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے کہ مختلف مقامات کے احمدی لوگوں کو تیار کرتے رہیں لیکن ہمارا ایک مبلغ وہاں جا کر ایک آخری تحریکی کے بعد ان سے بیعت کا خط لکھا دے اور کہہ دے کہ دیکھو! میں نے پچاس احمدی بنائے ہیں.ایسے احمدیوں پر اُن کا کوئی حق نہیں.بلکہ یہ اُن جماعتوں کا حق ہے جو اُن کو تیار کرتی ہیں.مبلغ تو کی ایسے موقع پر صرف پوسٹ آفس کے افسر کا کام کرتے ہیں کہ بیعت کے خطوط لے کر بھجوا دیتے ہیں.اس لئے ان کو اپنے حق کی رخصت لے کر اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں.میں امید کرتا ہوں کہ اگر صحیح طریق پر جماعت نے اس طرف توجہ کی تو عنقریب نیک نتائج پیدا ہوں گے.ہندوستان میں بھی اور ہندوستان سے باہر بھی اور اگر اِس طرح ہر سال با قاعدہ کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کوشش کی جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قریبی عرصہ میں ہی نمایاں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.اس وقت تک تو چونکہ معتین طور پر کام نہیں ہوا اس لئے دوستوں نے بھی بے تو جہی کی ہے مگر میں اُمید کرتا ہوں کہ اب یہ کام معتین صورت میں شروع کیا جا رہا ہے.قادیان کے دوست بھی اور باہر کے دوست بھی اس کی اہمیت کا احساس کریں گے اور جلد از جلد اپنے وعدے بھجوائیں گے.یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص اپنے وعدہ کو پورا کر سکے.بعض ایسے بھی ہوں گے جو اسے ٹھیک طرح پورا نہ کر سکیں گے مگر بعض ایسے بھی ہوں گے جو وعدہ سے زیادہ احمدی بناسکیں گے اور عین کی ہے کہ بعض ایسے دوست جنہوں نے ایک یا دو کا وعدہ کیا ہو اللہ تعالیٰ ان کو دس ہیں احمدی بنانے کی توفیق دے دے.یہ خدا تعالیٰ کی دین ہے.جیسی کسی کی نیت ہو ویسا ہی اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرتا ہے.اگر کوئی شخص زیادہ کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ اسے کامیابی بھی زیادہ عطا کرتا ہے.تبلیغ کے لئے نفسیات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے.بہت سے لوگ تبلیغ کرتے وقت دوسرے کے خیالات کا احساس نہیں رکھتے اور اندھا دھند باتیں کرتے جاتے ہیں.ان کی مثال اُس نابینا شخص کی ہوتی ہے جو لٹھ لے کر دشمن پر حملہ کرنے کے لئے سیدھا چلتا جاتا ہے.کمرہ کے اندر جو لوگ ہوتے ہیں وہ ایک کو نہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور نا بینا اپنے سامنے لٹھ گھماتا رہتا ہے.اسی طرح یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے تبلیغ کرتے رہتے ہیں.بعض اوقات وفات مسیح کا مسئلہ ہی رکتے جاتے ہیں.حالانکہ اگلا شخص اس کا پہلے ہی قائل ہوتا ہے اور کبھی یہ ختم نبوت کے دلائل دیتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ اگلا خدا تعالیٰ کی ہستی کا بھی قائل نہیں ہوتا یہ اس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی آ سکتا حالانکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نبی نہیں مانتا.پس ہمیشہ مخاطب کے دماغ کو پڑھ کر بات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مخاطب کے حالات کا مطالعہ کرنے اور اس کی بات کو سمجھنے کے بغیر تبلیغ کرنا لغو بات ہے.غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے باقی کوئی نبی ہو، خلیفہ ہو، ولی ہو یا کوئی مومن، متقی ہو ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے کے حالات پہلے معلوم کرے اور پھر تبلیغ کرے.بسا اوقات لوگ دلی عقا ئد ڈر کی جہ سے بیان ہی نہیں کرتے مثلاً مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے والا حتی الوسع کبھی یہ بات نہیں ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کہے گا کہ میں خُدا تعالیٰ کو نہیں مانتا.بظاہر وہ مسلمان نظر آئے گا.سُبْحَانَ اللہ اور اَلْحَمْدُ لله بھی کہے گا مگر دل میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بھی قائل نہ ہوگا.ایسے لوگوں کے ساتھ پہلے بات چیت کر کے ان کا اندرونہ معلوم کرنا چاہئے مثلاً ان کے ساتھ احمدیت کا ذکر شروع کیا اور کہا کہ یہ ہے تو صداقت مگر کئی لوگ اِس کو اِس واسطے نہیں مانتے کہ ان کا خُدا تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں ہوتا.پھر کئی اس واسطے نہیں مانتے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کی آمد کے قائل نہیں.کسی کو جماعت کے بعض کاموں پر اعتراض ہے ، اس لئے نہیں مانتا.پھر کئی سیاسی کی لحاظ سے اس جماعت کو مضر سمجھتے ہیں اس لئے صداقت کو قبول نہیں کرتے اور اس طرح باتیں کی کر کے پہلے اس کا اندرونہ معلوم کرنا چاہئے اور پھر اس کا مرض معلوم کر کے علاج کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس طرح صحیح طریق پر تبلیغ کرنی چاہئے.پھر جو لوگ ان پڑھ ہیں اور زیادہ علمی باتیں نہیں جانتے وہ جہاں تک خود بات چیت کر سکتے ہیں کریں اور پھر زیر تبلیغ اشخاص کو قادیان لے آئیں اور یہاں کسی عالم سے ملا ئیں.اس کے بعد ا گر وہ لوگ احمدی ہوں گے تو یہ انہی کا کام سمجھا جائے گا.اس عالم کا نہیں جس نے ان کی تسلی کی.علماء کا کام وہ سمجھا جائے گا جو وہ رخصت کے ایام میں خاص پروگرام کے ماتحت کریں گے اور جس میں ابتدا بھی ان کی طرف سے ہوگی.میں اُمید کرتا ہوں کہ قادیان کے عہدہ دار ایسی فہرستیں مکمل کر کے ایک ہفتہ کے اندراندر بھجوا دیں گے.ایک قسم کی فہرستیں میں پہلے بنوا چکا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال سے او پر عمر کے تینتیس سو احمدی مرد یہاں ہیں اور اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پندرہ سال سے بڑی عمر کے قریباً چھپیں سو مرد ہوں گے.پھر مدارس والے طالب علموں کو بھی شامل کر سکتے ہیں.ان کے علاوہ منگل ، بھینی ، کھارا ، بسر اوغیرہ دیہات ہیں جو اوپر کی فہرست میں شامل نہیں کی ان کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو چار پانچ ہزار بالغ احمدی مرد قادیان اور اس کے نواحی میں ہوں گے اور اگر یہ سب اپنا فرض ادا کریں تو ایک سال میں تمہیں چالیس ہزار نئے احمدی اسی علاقہ میں بن سکتے ہیں کیونکہ ہر احمدی دو نئے احمدی بنائے تو صرف قادیان کے گر دئو دس ہزار نیا احمدی ہو جاتا ہے.ان کے بیوی بچوں کو شامل کیا جائے تو تعداد میں چالیس ہزار تک جا پہنچتی ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ توجہ سے کام کیا جائے اور محبت و پیار اور سنجیدگی سے تبلیغ کی جائے ، تا محنت رائیگاں نہ جائے.تمسخر اور استہزا سے پر ہیز کرنا چاہئے.آج کل تمسخر اور استہزا کی عادت بہت ہو گئی ہے اور لوگ ہنسی مذاق میں بات کے اثر کو ضائع کر دیتے ہیں.ہنسی مذاق بھی ایک حد تک اچھا ہوتا ہے مگر یہ تو کھانے میں نمک کے طور پر ہوسکتا ہے.کھانے میں نمک تو اچھا ہوتا ہے مگر نمک کی روٹی پکا کر نہیں کھائی جاسکتی.زیادہ ہنسی مذاق روحانی کمزوری اور تبلیغ میں روک کا موجب ہوتا ہے.اس لئے تبلیغ سنجیدگی سے کرنی چاہئے.مجھے بعض غیر لوگوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ بعض احمدی تبلیغ کو جاتے ہیں تو راستہ میں شکار کرتے ہیں.اس میں طبہ نہیں کہ رستہ میں اگر شکار کر لیں تو یہ نا جائز نہیں مگر دیکھنے والوں پر اس کا یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ دراصل شکار کو آئے ہیں اور تبلیغ ایک بہانہ ہے.اگر وہ سنجیدگی سے تبلیغ کریں اور کوئی اور کام خواہ وہ کتنا ہی بے ضرر ہو نہ کریں تو بہت زیادہ اثر ہو سکتا ہے.بعض لوگ نہر پر چلے جاتے کی ہیں کہ وہاں سے جو لوگ گزریں گے ان کو تبلیغ کریں گے.وہاں وہ خود نہاتے اور کھاتے پیتے بھی ہیں اور گو ساتھ تبلیغ بھی کریں مگر دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ اُنہوں نے ٹرپ کیا ہے اور کی سنجیدگی چاہتی تھی کہ وہ کوئی اور کام جس کا تعلق ان کی خواہشات ولذت سے ہوتا نہ کرتے تو دیکھنے والوں پر ضرور زیادہ اثر پڑتا.میں اُمید کرتا ہوں کہ قادیان کے دوست خصوصاً اور باہر کے عموماً محنت، جانفشانی اور کی دُعاؤں کے ساتھ اس کام میں لگ جائیں گے اور معتین صورت میں کوشش کریں گے اور پھر معینہ میعاد کے اندر فہرستیں مکمل کر کے بھجوا دیں گے.“ (الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۹ء) 66 مکاشفہ باب ۱۰ آیت ۱ تا ۴.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء في القوم يجلسون و لا يذكرون الله ـ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ۱۹۳۹ ء ،۱۹۴۰ ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال اور عظیم الشان برکات کے موجب ہیں فرموده ۲۰ /جنوری ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے تا حال کھانسی کی شکایت ہے.گو آگے سے کسی قدر کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے میں خطبہ پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں لیکن ابھی اتنا آرام نہیں آیا کہ میں متواتر بول سکوں یا یہ کہ میری آواز بلند ہو سکے.میں پہلے تو تحریک جدید کے چندہ کے متعلق دوستوں کو توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ اب وعدوں کی میعاد ختم ہونے کے قریب آ رہی ہے لیکن بہت سی جماعتیں ابھی ایسی ہیں جنہوں نے ابھی تک جوابات نہیں دیئے.گوجن جماعتوں کے جواب آئے ہیں یا جن دوستوں نے اِس چندہ میں شمولیت اختیار کی ہے اُنہوں نے گزشتہ سالوں سے زیادہ حصہ لیا ہے لیکن پھر بھی ابھی تین سو کے قریب جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے جوابات موصول نہیں ہوئے.گو یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہ فہرستیں تیار کر رہی ہیں اور جلد ہی تیار ہونے کے بعد بھیج دیں گی.اسی طرح قادیان میں بھی محلہ جات کی فہرستیں ابھی مکمل نہیں ہوئیں.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں قادیان کے لوگوں کے لئے خصوصاً اور بیرونجات
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کے لوگوں کے لئے عموماً ۱۹۳۹ ء اور ۱۹۴۰ ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس میں اتنی چندہ کی تحریکیں ہوئی ہیں کہ شائد اس سے پہلے جماعت میں کبھی بھی اتنی کی تحریکیں نہیں ہوئیں.ماہانہ چندوں کی با قاعدہ ادائیگی بلکہ ان میں زیادتی کا اعلان مرکز سلسلہ کی طرف سے کیا جا چکا ہے اور بہت سے دوست اس میں زیادتی کی طرف مائل ہیں گو بہت سے مست بھی ہیں.اسی طرح تحریک جدید کا چندہ علاوہ ان ماہانہ چندوں کے ہے.پھر جماعت نے اپنی کی مرضی سے ایک خلافت فنڈ کھولا ہے جس کا زور بھی اسی سال پر پڑنا ہے.اس کے علاوہ کی اللہ تعالیٰ نے ایک امتحان کی یہ صورت بھی پیدا کر دی ہے کہ مہینوں مہینے گزر چکے ہیں مگر بارش نہیں ہوئی.ہماری جماعت کا اسی فیصدی حصہ زمینداروں کا ہے اور زمینداروں کے لئے یہ ایام بڑے ہی ابتلا کے ایام ہیں.اُن کی خریف کی آمدنیاں صفر کے برابر رہی ہیں.سوائے ان کے جن کی زمینیں نہری علاقوں میں ہیں.اسی طرح اُن کی فصلِ ربیع بھی تباہ ہوتی نظر آتی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا فضل بارش کی صورت میں نازل نہ ہو تو اس کی صورت بھی بہت خطر ناک ہے.میں چونکہ خود زمیندار ہوں اس لئے میں زمینداروں کی اس حالت کو خوب سمجھتا ہوں.شہری لوگ اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ زمینداروں کی پچھلی فصل کیسے گزری ہے اور آگے اُن کے لئے رکس قسم کے خطرات ہیں.میری اپنی ایک جگہ اڑتالیس ایکڑ زمین کاشت تھی اور دو کنویں بھی اس میں تھے مگر کل آمد اسی روپے ہوئی ہے اور اسی آمد میں سے ہی سرکاری لگان بھی ادا کرنا ہے جو سُنا گیا ہے کہ سو سے بھی زائد ہے.حالانکہ کنوئیں بھی اس زمین میں ہیں اور میں سمجھتا ہوں اگر اس زمین میں یہ دو کنوئیں نہ ہوتے تو کل آمد چار آنے یا دو آنے فی ایکٹر بنتی.تو بارانی زمینوں والے آج کل نہایت خطرناک حالت میں ہیں.گورداسپور ، سیالکوٹ اور گجرات کا علاقہ جہاں ہماری جماعتیں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں بارانی علاقہ ہے.اس کے مقابلہ میں لائل پور اور سرگودھا گو چندہ کے لحاظ سے ان ضلعوں سے بڑھ جائیں یا جلسہ سالانہ پر
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ان علاقوں کے لوگ زیادہ تعداد میں آجائیں کیونکہ نہری علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے زمینداروں کی مالی حالت عموماً اچھی ہے مگر اصل جماعت کا پھیلا ؤ گورداسپور، سیالکوٹ ، ہوشیار پور، جالندھر اور گجرات کے ضلعوں میں ہے.یہ گویا پانچ ضلعے ہیں جہاں جماعت اچھی خاصی تعداد میں پھیلی ہوئی ہے.باقی اضلاع جس قدر ہیں وہ ان سے اُتر کر ہیں.اس میں کوئی طلبہ نہیں کہ اور بھی ایسے اضلاع ہیں جہاں احمدی معقول تعداد میں پائے گی جاتے ہیں مثلاً شیخو پورہ اور گوجرانوالہ.یہاں اچھی جماعتیں ہیں مگر بہر حال یہ ان پانچ ضلعوں سے اتر کر ہی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے افراد کی کثرت جالندھر میں بھی نہیں.صرف کی جالندھر کے اتنے حصہ میں ہماری جماعت کے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں جو ہوشیار پور سے ملتا ہے.اس لحاظ سے جماعت کا اصل پھیلاؤ ہوشیار پور میں ہی ہے جالندھر میں نہیں.گویا گورداسپور ، ہوشیار پور، گجرات اور سیالکوٹ یہ چار ضلعے ایسے ہیں جہاں ہماری جماعتیں کثرت کی سے پائی جاتی ہیں اور یہ چاروں ضلعے ایسے ہیں جن کے زمینداروں کا تمام تر انحصار بارش پر ہے اور اب ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے مالی طور پر ان کی حالت اتنی خطرناک ہے کہ انسان یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ وہ روٹی کہاں سے کھا رہے ہیں.گویا جہاں اور کئی قسم کے ابتلا تھے وہاں ایک آسمانی ابتلا بھی آ گیا.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا بندہ کس قدر برداشت کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے.جب انسان اس ابتلا کو برداشت کر لیتا ہے اور دنیا پر ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کی محبت اپنے رب سے اور اس کا ایمان اپنے خدا پر اتنا مضبوط ہے کہ وہ کسی ابتلا سے نہیں ٹوٹ سکتا تو اللہ تعالیٰ کے فضل اس پر بارش کی طرح برسنے لگ جاتے ہیں.گویا ابتلا کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مائیں بعض دفعہ اپنے بچے کو ڈراتی ہیں اور جب وہ ڈر کر رونے لگتا ہے تو اسے گلے سے لپٹا کر آپ بھی رونے لگ جاتی ہیں.مؤمن کے ابتلا کی بھی ایسی ہی مثال ہے.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو ڈراتا ہے مگر جب وہ ابتلاؤں سے گھبراتا نہیں بلکہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی طرح اپنے گلے سے لپٹا لیتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کو گلے سے لپٹا لیتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۱۲ سال ۱۹۳۹ء کی محبت اپنے بندہ سے اتنی شدید اور اتنی عظیم الشان ہوتی ہے کہ انسانی محبتیں اس کے مقابلہ میں کوئی ہستی ہی نہیں رکھتیں بلکہ جس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو نہیں دیکھا صرف انسانی محبت کو ہی کی دیکھا ہے وہ اس کی محبت کا قیاس بھی نہیں کر سکتا.تو یہ ابتلا اپنے اندر ایک عظیم الشان برکت رکھتا ہے.بشرطیکہ جماعت اس امتحان میں پوری اُترے.میں نے بتایا ہے کہ اس سال کے ابتلا کا اثر صرف اس سال تک ہی محدود نہیں بلکہ اگلا سال بھی اس کے اندر شامل ہے.کیونکہ ایک سال کا اثر لا زما دوسرے سال پر پڑتا ہے.جو لوگ ایک سال بہت زیادہ قربانیاں کریں اُنہیں دوسرے سال بھی قربانی میں دشتیں محسوس ہوتی ہیں اور کہیں تیسرے سال جا کر اُن کا اثر کی دُور ہوتا ہے.تو علاوہ ان ابتلاؤں کے جو جماعتی نظام کے ماتحت ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق اختیار کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ نے بھی اپنا حصہ ابتلاؤں میں شامل کر دیا ہے.گویا یہ ابتلا کی چار گوشوں کا ابتلا ہے اور نہایت ہی مکمل اور لطیف ابتلا ہے.چندہ عام جو ہے یہ جماعت کی طرف سے چندہ ہے یعنی ایک جماعتی اور نظامی فیصلہ کے ماتحت لوگ چندہ دیتے ہیں اور یہ جماعت کے افراد کی ایک آزمائش ہے.جماعت کہتی ہے آؤ ہم اپنے اندر شامل ہونے والوں کی آزمائش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں تک قربانی کا کی مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں.تحریک جدید خود خلیفہ کی طرف سے ہے.گویا دوسری آزمائش خلیفہ کی طرف سے شروع کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ آؤ میں بھی اس سال جماعت کی آزمائش کروں.خلافت جو بلی کی کچ تحریک نہ جماعت کی طرف سے ہے اور نہ خلیفہ کی طرف سے.بعض دوستوں کے دل میں یہ کی خیال پیدا ہوا اور جماعت کے باقی دوستوں نے اس خیال کے ساتھ اتفاق کا اظہار کر دیا.پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جس میں ہر شخص اپنا آپ امتحان لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ کس قدر زبانی کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے.غرض ہماری جماعت کے تمام دوستوں نے اپنے آپ کو انفرادی طور پر اس امتحان کے لئے پیش کر دیا.اُنہوں نے کہا ہمارا امتحان نظام سلسلہ نے بھی لیا، ہمارا امتحان خلیفہ نے بھی لیا.آؤ ہم آپ بھی اپنا امتحان لیں.تب اللہ تعالیٰ نے عرش سے کہا ہم بھی اس امتحان میں اپنی طرف سے ایک سوال ڈال دیتے ہیں.پس یہ کیسا عظیم الشان
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ابتلا ہے جو اس سال ہماری جماعت پر آیا ہے.خُدا نے بھی ہماری جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، خلیفہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، نظام سلسلہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے اور ہر فرد نے بھی انفرادی طور پر اپنا اپنا امتحان لیا ہے.گویا چاروں گوشے جو تکمیل کے لئے ضروری ہیں وہ اس امتحان میں پائے جاتے ہیں.آخر انسان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے.اس کے چار ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں یا اس کا اپنے نفس کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا روحانی یا جسمانی حاکم سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور یا پھر خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے.اس سال یہ چاروں ہی ابتلا آ گئے.جماعتی امتحان بھی جاری ہے، خلیفہ کا امتحان بھی جاری ہے ، خود اپنے نفس کے امتحان کے لئے بھی جماعت کے ہر فرد نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے.صرف اللہ تعالیٰ کا ایک امتحان رہتا تھا سو یہ تینوں ا بتلا دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے کہا آؤ ہم بھی اُن کے سامنے ایک امتحانی پر چہ رکھ دیتے ہیں.پس اس نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا اور اس طرح ہمارے امتحان کے چار پرچے ہو گئے.اب وہ شخص جو ان چاروں پر چوں میں پاس ہو جائے اُس سے زیادہ خوش نصیب اور کون شخص ہوسکتا ہے؟ پس آج ہماری جماعت میں سے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعتی امتحان میں بھی کامیاب ہو، خلیفہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو، نفس کے محاسبہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو اور خُدا تعالیٰ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو.بے شک یہ امتحان سخت ہے.ایک نہیں چار امتحان ہیں لیکن پھر ان چاروں امتحانوں کے بعد کوئی قسم امتحان کی باقی نہیں رہ جاتی.الہی امتحان بھی اس سال ہو رہا ہے، ملتی امتحان بھی اس سال ہو رہا ہے، ذاتی امتحان بھی اس سال ہو رہا ہے اور خلیفہ کی طرف سے بھی امتحان اس سال ہو رہا ہے.پس جیسا کہ میں نے بتایا تھا یہ دو سال مالی لحاظ سے بہت سخت ہیں اور آثار بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور بھی زیادہ سخت کر دیا ہے مگر خُدا تعالیٰ کے امتحان کی شمولیت بڑی برکتیں رکھتی ہے.دُنیا میں بھی کی بعض لوگ جب کسی امتحان میں شامل ہو جائیں تو بعد میں اُن کی ترقی کے بڑے بڑے سامان پیدا ہو جاتے ہیں اور کئی خرابیاں برکتوں کا موجب بن جاتی ہیں.جب جنگِ عظیم ہوئی ہے
خطبات محمود ۱۴ سال ۱۹۳۹ء اُس وقت انگریزوں اور فرانسیسیوں کی فتح کے آثار جب جرمن حکومت نے دیکھے تو انہوں نے بے تحاشا امریکن جہازوں پر حملے کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر امریکہ بھی لڑائی میں کود پڑا.بعد میں لوگوں کو جرمن والوں کی اِس چالا کی کا علم ہوا کہ انہوں نے کیوں امریکن جہازوں پر حملے کئے تھے.وو اصل بات یہ ہے کہ جرمن والوں نے یہ سمجھا کہ فرانسیسیوں اور انگریزوں سے ہمارے پشتینی لے جھگڑے چلے آتے ہیں اور یہ بقول پنجابی زمینداروں کے ہمارے بنے کے شریک ہیں.اگر صرف یہی لڑائی میں شامل رہے تو یہ صلح کے وقت اتنی کڑی شرطیں رکھیں گے کہ ہمیں کی پیس ڈالیں گے لیکن اگر اس جنگ میں امریکہ بھی شامل ہو گیا تو امریکہ کو چونکہ ہم سے نہ کوئی کی شراکت ہے اور نہ کوئی پرانی دشمنی، اس کے علاوہ ایک کروڑ کے قریب وہاں جرمن بھی رہتے ہیں جن کا امریکہ والوں پر اثر ہے اس لئے اگر وہ جنگ میں شامل ہو گیا تو صلح میں بھی لازماً شامل ہوگا اور جب وہ صلح میں شامل ہوگا تو وہ صلح کے وقت اتنی کڑی شراکا نہیں رکھنے دے گا اور وہ ضرور کچھ نہ کچھ نرمی کرے گا.چنانچہ واقع میں ایسا ہی ہوا.اس جنگ میں امریکہ کی شمولیت کی وجہ سے صلح کے وقت بہت نرم شرطیں طے ہوئیں.ورنہ پہلے ان کے جو کچھ ارادے تھے اُس کا پتہ اس امر سے لگ سکتا ہے کہ مسٹر لائڈ جارج نے ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم کی سیب کو اتنا نچوڑیں گے کہ اس کے بیج بھی چیخ اُٹھیں گے.یعنی ہم جرمنی کو اتنا ذلیل کریں گے گی اور اس سے اتنا روپیہ وصول کریں گے کہ اس کی ہڈیاں کھوکھلی کر دیں گے.تو بندوں کے کی ابتلاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ابتلا کا شامل ہو جانا ایک بہت بڑی برکت کا پیش خیمہ ہے کیونکہ بندوں کو دوسرے بندوں پر رحم آئے یا نہ آئے.کیونکہ کسی انسان کو کیا پتہ کہ دوسرے کو کیا تکلیف ہے اور اس نے رکن مخالف حالات میں قربانی کی ہے.اللہ تعالیٰ کو ضرور رحم آ جاتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور وہ جب کوئی ابتلا اپنے بندوں پر وارد کرتا ہے تو ساتھ ساتھ عالم الغیب ہونے کی وجہ سے اُن کے حالات بھی دیکھتا جاتا ہے اور جب اُسے رحم آتا ہے تو وہ اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دیتا ہے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بادشاہ کو یہ خواب دکھایا گیا کہ سات سال قحط پڑے گا مگر جب سات سال
خطبات محمود ۱۵ سال ۱۹۳۹ء گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کو رحم آئے گا اور وہ پچھلے سارے نقصانات پورے کر دے گا ہے تو اگر صرف بندوں کے امتحان ہوتے تو وہ تم کو بدلہ نہیں دے سکتے تھے.مثلاً جماعت چندوں کے مقابلہ میں تمہیں کیا دے سکتی ہے؟ یا میں تحریک جدید کے بدلہ میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں؟ یا خلافت جو بلی فنڈ میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ لوگ تمہیں کیا بدلہ دے سکتے ہیں جنہوں نے یہ تحریک کی.انسانوں میں سے کوئی ان چیزوں کا بدلہ نہیں دے سکتا.پس جب کوئی انسان اس کا بدلہ نہیں دے سکتا تو اللہ تعالیٰ نے خوداپنا حصہ اس میں ڈال دیا اور خدا تعالیٰ جب لیا کرتا ہے تو وہ دیا بھی کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے کہا جماعت پر اس وقت تین کی ابتلا ہیں.آؤ میں بھی ان ابتلاؤں میں اپنی طرف سے ایک اور ا بتلا کا اضافہ کر کے شامل ہو جاؤں تا کہ ان کی قربانیاں بے بدلہ کے نہ رہیں اور میری طرف سے انہیں اتنا کثیر بدلہ مل جائے جو باقی کی تین قربانیوں کے بدلہ پر بھی حاوی ہو جائیں.پس گو بظا ہر قحط کے آثار نہایت خطرناک نظر آتے ہیں مگر روحانی نقطہ نگاہ سے اِس میں بہت بڑی برکات پوشیدہ ہیں اور اب جماعت کے ابتلا ایسے نہیں رہے جو بے بدلہ کے رہ جائیں.اب خدا خود اس امتحان میں شامل ہو گیا ہے اور جب خدا کسی امتحان میں شامل ہو جائے تو رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ " کے مطابق ابتلاؤں کا انجام رحمت ہی ہو ا کرتا ہے.چونکہ میرا گلا بیٹھتا چلا جا رہا ہے اس لئے میں کوئی اور بات نہیں کر سکتا اور نہ ایک دو باتیں اور بھی میں نے کہنی تھیں.اب میں اسی پر اپنے خطبہ کوختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں کسی ایسے ابتلا میں نہ ڈالے جو ہماری تباہی کا موجب ہو بلکہ ہمارے سارے ابتلا خواہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں یا خلیفہ کی طرف سے ، نظام کی طرف سے ہوں یا افراد کی طرف سے.جماعت کی بہتری اور اس کی ترقی کا موجب ہوں اور وہ نہ صرف ہمیں روحانی اور ایمانی برکات کا وارث بنانے والے ہوں بلکہ مالی اور جسمانی طور پر بھی ہر قسم کے فوائد سے ہمیں متمتع کرنے والے ہوں اور ہماری قر بانیاں اُس پیج کی طرح ہوں جو بہتر سے بہتر ہوتا ہے ، بہتر سے بہتر زمین میں ڈالا جاتا ہے اور بہتر سے بہتر کوشش اور محنت کے بعد صحیح موسم میں اچھے سے اچھا پانی لے کر پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کے بدلہ میں
خطبات محمود 17 سال ۱۹۳۹ء اگر ہمیں انعامات عطا فرمائے تو ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس کے احسانات کی شکر گزاری کرتے ہوئے ان نعمتوں کو بھی اس کے راستہ میں قربان کر دیں اور اپنے ایمان کا دنیا کو زیادہ سے زیادہ (الفضل ۸ فروری ۱۹۳۹ء) بہتر نمونہ دکھائیں.“ ا پیشینی: موروثی ، خاندانی ، قدیمی ل وَقَالَ المَلِكُ إلى آرى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعُ عِجَافٌ وسَبْعَ ستبلت خُضْرٍ وَ أَخَرَ يبست ، يَايُّهَا الْمَلَا افْتُونِي فِي رُ: يَايَ إِنْ كُنْتُمْ للرءيا تعبُرُونَ (يوسف: ۴۴) الاعراف: ۱۵۷
خطبات محمود ۱۷ سال ۱۹۳۹ء تبلیغ احمدیت کے متعلق اوقات وقف کرنے کا مطالبہ فرموده ۲۷ /جنوری ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ میں قادیان کی جماعت کو تبلیغ احمدیت کے لئے اپنے آپ کو بطور والنٹیر پیش کرنے کی تحریک کی تھی اور اس کے مطابق واقفین کی لسٹیں میرے پاس پہنچ گئی کچ ہیں.میں نے تحریک جدید اور نظارت دعوت وتبلیغ کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ پہلے ایسے علاقوں کی کے لئے جہاں تبلیغ کے لئے خاص طور پر ضرورت ہے آدمی چن لیں اور پھر بقیہ لوگوں کو ان کی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دیں جن کو وہ خود ترجیح دیتے ہیں.تبلیغ ایک ایسا ضروری فرض ہے کہ جو الہی جماعتوں کے ابتدائی زمانہ میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ پروگرام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہی جماعتوں کو دیا جاتا ہے اُس کو تفصیلی طور پر پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ بعض علاقوں یا ملکوں میں اس جماعت کی اکثریت ہو.خالی شہروں کی اکثریت کافی نہیں ہوتی.بلکہ وسیع علاقوں اور ملکوں میں ہی وہ احکام نافذ کئے جا سکتے ہیں جو سوسائٹی کے ساتھ بحیثیت جماعت تعلق رکھتے ہیں.پس اسلام کی وہ تشریح جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملی ہے اور اسلام کا وہ دور جودُ نیا میں آج سے تیرہ سو سال قبل گزرا ہے اس تشریح پر عمل اور اس دور کا قیام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جبکہ ہم وسیع علاقہ میں اپنی اکثریت پیدا کر لیں اور پھر باہمی اتحاد
خطبات محمود ۱۸ سال ۱۹۳۹ء اور فیصلہ کے ساتھ اس قانون اور شریعت کو رائج کریں جس کو اسلام نے ہم میں رائج کرنا چاہا ہے.افراد کی کثرت اگر وہ مختلف ممالک میں پھیلے ہوں گو مالی لحاظ سے اور سیاسی لحاظ سے مفید ہو سکتی ہے مگر اجرائے قانون کے لحاظ سے مفید نہیں ہو سکتی.اگر دس کروڑ افراد ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہوں تو وہ اجرائے قانون کے لحاظ سے اتنے مفید نہیں ہو سکتے جتنے ایک کروڑ اگر ایک جگہ جمع ہوں.پس قرآن کریم کی تعلیم کو عملی صورت میں کسی علاقے میں ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی وسیع علاقہ ایسا ہو جہاں جماعت احمد یہ کلی طور پر موجود ہو یا بہت بڑی اکثریت رکھتی ہو اور یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ منظم صورت میں تبلیغ نہ کی جائے.مختلف علاقے لے لئے جائیں اور ان میں منظم طور پر پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی جائے یہاں تک کہ وہ علاقہ ظاہر ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کے لئے مقدر فرمایا ہو.مجھے افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت نے اس ذمہ داری کو پورے طور پر نہیں سمجھا اور مجھے بہت ہی زیادہ افسوس ہے کہ اس بارہ میں سب سے زیادہ غفلت قادیان کے لوگوں کی ہے جہاں اور خدمات میں قادیان کی جماعت دوسروں سے بڑھی ہوئی ہے وہاں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں یہ سب سے پیچھے ہے.امن نے ان کے دماغوں میں غلط اطمینان پیدا کر دیا ہے.کی شائد کوئی کہے کہ یہاں امن کہاں ہے.روز احرار کی طرف سے فتنے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن کی فتنہ کا ہونا اور چیز ہے اور قلبی اطمینان اور ہے.جہاں ایک احمدی دس مخالفوں میں گھرا ہو وہاں فتنہ اس کے دل میں یہ خلش پیدا کر سکتا ہے کہ شاید میں تباہ نہ ہو جاؤں.مگر جہاں دس بھلے مانسوں میں ایک شرارت کرنے والا ہو وہاں نفس مطمئن ہوتا ہے اور گو تکلیف ہو مگر یہ گھبراہٹ نہیں ہوتی کہ میں تباہ ہو سکتا ہوں.یہی حال قادیان اور باہر کے فتنوں کا ہے.باہر کے فتنے خواہ کتنے تھوڑے ہوں چونکہ وہ اکثریت کی طرف سے ہوتے ہیں.جماعت کے لوگوں کی میں ایک قسم کی بے اطمینانی ہوتی ہے مگر قادیان کے فتنے خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں جماعت کے دلوں میں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم یہاں طاقت اور تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں.یہ اطمینان کی صورت ایسی ہے جو نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور مجھے افسوس ہے کہ اس نے قادیان کی
خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۹ء جماعت کے دماغوں میں امن کا غلط خیال پیدا کر دیا ہے اور جماعت کی مثال اُس کبوتر کی سی تی ہے جس پر جب بلی حملہ کرتی ہے تو وہ آنکھیں بند کر لیتا اور خیال کر لیتا ہے کہ اب بلی مجھے دیکھ نہیں سکتی اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک چھوٹے سے قصبہ میں ان کی اکثریت ہونے سے حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے احمدیت اپنے امن کے لئے اختیار کی ہے؟ جس کی جد و جہد اپنے نفس کے لئے امن پرختم ہو جاتی ہے اس نے احمدیت کو نفس کے لئے ہی اختیار کیا ہے اگر دین کے لئے اختیار کیا ہوتا تو اپنے نفس کے لئے آرام حاصل کی کرنے پر اس کی جدو جہد ختم نہ ہو جاتی.ہمارا امن تو دین کے لئے امن پر منحصر ہے.اگر دین کے لئے امن نہیں تو ہمارے امن کے کیا معنی؟ اگر دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے امن نہیں تو قادیان میں اگر ہم طاقتور بھی ہوں یہاں کوئی بھی فتنہ کرنے والا آدمی باقی نہ رہے، احراری فتنے بھی مٹ جائیں تو کیا فائدہ؟ اس کے معنی زیادہ سے زیادہ یہ ہوں گے کہ ہمیں نجات حاصل ہو گئی مگر یہ نجات تو غیر احمدی ہونے کی صورت میں ہمیں پہلے ہی حاصل تھی.کی یہ سب فتنے تو پیدا ہی اس لئے ہوئے تھے کہ ہم نے احمدیت کو قبول کیا تھا اور ہم نے تو احمدیت اس لئے قبول کی تھی کہ چاہے ہمارے لئے فتنہ پیدا ہومگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے امن حاصل ہو جائے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے امن قائم ہو جائے.کم سے کم شروع میں ایسا ایک علاقہ ہی ہو جہاں آپ کی تعلیم کو زندہ کر کے جاری کیا جا سکے.ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو آپ کے جھنڈے تلے لے آئیں اور اگر ہم کسی وقت اس لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ جس علاقہ میں ہم رہتے ہیں اس میں امن قائم ہو گیا ہے تو یہ ہمارے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے.جہاں دوسری اکثر کی اچھی باتوں میں قادیان کے لوگ اچھا نمونہ دکھانے کے عادی ہیں، یہاں کے احمدیوں کی کی اکثریت چنده با قاعدہ ادا کرتی ہے، دین سیکھنے کی طرف بھی وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں اور وعظ وغیرہ شوق سے سنتے ہیں اسی طرح اور کئی خوبیاں ان میں ہیں وہاں مجھے سخت افسوس ہے کہ تبلیغ کے معاملہ میں وہ دوسروں سے بہت پیچھے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چند کارکنوں کو چھوڑ کر اس نیکی کے خانوں میں باقی لوگوں کے لئے صفر لکھا ہوا ہے.اگر قادیان کے لوگ اپنی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ذمہ داری کو سمجھتے ، اُن میں حقیقی بیداری پیدا ہوتی اور وہ سمجھتے کہ احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے کیوں کی قائم کیا ہے تو آج تک لاکھوں آدمی قادیان اور اس کے ارد گر داحمدی ہو چکے ہوتے.ایک یا دولوگوں کو ہر سال احمدی بنا لینا کوئی مشکل کام نہیں اور اتنے بنا لئے جائیں تو آپ غور کر سکتے ہیں کہ دس سال میں ہی جماعت کتنی ترقی کر سکتی ہے.آپ لوگ اندازہ کر لیں کہ آج سے آٹھ سال قبل قادیان میں احمدیوں کی تعداد باون سو کے قریب تھی.اگر اس میں سے چالیس فیصدی کی مرد تبلیغ کرنے کے قابل سمجھ لئے جائیں تو وہ دو ہزار ہوتے ہیں اور اگر یہ دو ہزار احمدی اپنی کی ذمہ داری کو محسوس کرتے اور ایک ایک احمدی ہی اور بناتے تو ا ۱۹۳ ء میں یہ چار ہزار ہو جاتے اور اگر پھر وہ بھی ایک ایک اور بناتے تو ۱۹۳۲ ء میں آٹھ ہزار ہو جاتے اور اگر یہ بھی محنت کے ساتھ کام کرتے تو ۱۹۳۳ء میں یہ تعداد ۱۶ ہزار ہو جاتی اور اگر وہ اسی محنت کو قائم رکھتے تو ۱۹۳۴ ء میں بتیس ہزار اور ۱۹۳۵ء میں چونسٹھ ہزار ۱۹۳۷ء میں ۱۲۸۰۰۰ اور ۱۹۳۸ء میں ۶۰۰۰ ۲۵ ہو جاتے.پھر اگر ان کے بیوی بچوں کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو جماعت کئی لاکھ کی کی ہوسکتی تھی.کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ شیخ چلی والی باتیں ہیں اور یہ وہی بات ہے جسے خیالی پلاؤ پکانا کہتے ہیں مگر حقیقتاً یہ بات نہیں.جن لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہے اُنہوں نے عملاً ایسا کر کے دکھا دیا ہے.صحابہ کرام کی جدو جہد سے پچاس سال کے عرصہ میں تین کروڑ مسلمان بن چکے تھے اور سپین کے ساحلوں سے لے کر چین کی حدود تک بلکہ تمام معلومہ دُنیا میں اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا اور اُس وقت کی متمدن دُنیا کے اسی فیصدی علاقہ پر ان کی حکومت قائم ہو چکی تھی.پس یہ باتیں ناممکن نہیں ہیں.بشرطیکہ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جو شخص احمدی ہو جائے وہ سمجھ لے کہ میں کوئی نئی مخلوق ہو گیا ہوں.اگر وہ صرف یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے چند عقائد بدل لئے ہیں باقی میں ویسا کا ویسا ہی زمیندار ہوں، ویسا ہی لوہار یا ترکھان ہوں جیسا پہلے تھا تو وہ کیا تبدیلی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے.ہاں اگر وہ خیال کرتا ہے کہ میں کوئی نئی جنس ہو گیا ہوں ، نئی مخلوق بن گیا ہوں ، خدا تعالیٰ کی آواز بن گیا ہوں تو دیکھو اللہ تعالیٰ اسے کتنی ہمت، قوت اور حوصلہ عطا کر دیتا ہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ قادیان کے لوگ خصوصاً اپنی سستی کو دُور کر کے
خطبات محمود ۲۱ سال ۱۹۳۹ء عملی طور پر اپنے اخلاص اور ایمان کا ثبوت دیں گے.صرف نام لکھوا دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ نام لکھوانے کے پیچھے ایک مضبوط ارادہ، عزم اور ہمت ہو.پختہ عزم اور مضبوط ارادہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اس نیت کے ساتھ کہ خود بھی احمدی بننا ہے اور دوسروں کو بھی بنانا ہے.اس صورت میں تمہیں لازماً احمدیت کو سیکھنا پڑے گا ، اپنے اعمال درست کرنے پڑیں گے اور اس طرح ایک طرف تمہارا اپنا ایمان اور اخلاق ترقی کرے گا اور دوسری طرف کی جماعت ترقی کرے گی اور تم ایسے الہی فضل مشاہدہ کرو گے جو روحانیت کے ساتھ ہی تعلق کی رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والوں کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے کی دربار میں سب کے لئے گنجائش ہے.دنیوی حکومتیں تو کچھ آدمی ملازم رکھ کر کہہ دیتی ہیں کہ اور گنجائش نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی درباری خواہ ساری دُنیا ہو جائے اور اُسے ساری دنیا کو بھی معجزے دکھانا پڑیں اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آسکتی.پس چاہئے کہ ہم میں سے ہر فرد کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کے معجزوں کا مورد ہو.یہ نہ ہو کہ تم میں سے ایک غریب زمیندار کو بھی دیکھ کر لوگ انگلیاں اُٹھا ئیں اور کہیں کہ یہ بے گس ہے جو سلوک چا ہو اس کے ساتھ کرلو بلکہ یہ ہو کہ اگر کوئی احمدی کہیں اکیلا ہو تو لوگ اس کی طرف انگلیاں اُٹھا ئیں اور کہیں کہ یہ اکیلا ہے مگر اسے چھیڑنا نہیں کیونکہ اس کو تکلیف دینے سے خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں جتنے لوگ چاہیں یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں.وہاں ساری دُنیا کے لوگوں کے لئے گنجائش کی ہے بغیر اس کے کہ اس میں کوئی کمی ہو.پس اس ایمان پر تسلی نہ پا جاؤ جس پر تمہاری عقلیں تسلی پاتی ہیں بلکہ وہ اخلاق دکھاؤ کہ جس سے خدا تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ اور خوب یا درکھو کہ اِس کے لئے علم کی ضرورت نہیں ، روپے کی ضرورت نہیں، طاقت کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف نیت کی ضرورت ہے اور اس عزم کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت تمہارے دلوں پر ہو.دل کی پاکیزگی اور صفائی اور روح کے فرمانبردار ہونے کی ضرورت ہے.اس کے بعد میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد از جلد واقفین کی فہرستیں تیار کر کے بھجوا دیں تا ان کے علاقوں میں بھی تبلیغ کے نظام کو مکمل کیا جائے.شروع میں
خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۹ء کام کرنے والوں کے لئے بے شک دھنیں ہوں گی لیکن اگر ہمت اور ارادہ ہو تو مشکلا خود بخود دُور ہو جایا کرتی ہیں.۱۹۲۳ء میں جب ملکانوں کا فتنہ شروع ہوا اُس وقت جماعت کے اندر ایک جوش پیدا ہوا اور سینکڑوں احمدیوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.پھر انہوں نے وہاں جا کر تبلیغ کی اور ثواب بھی حاصل کئے مگر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے کاروبار بھی ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے ، نوکریاں بھی ویسی ہی رہیں اور اس موقع پر جن لوگوں نے جی چھرایا کئی دفعہ ان کو خیال آتا ہو گا کہ کاش ہم بھی ثواب حاصل کر لیتے.غور کرو یہ کتنا عظیم الشان کارنامہ تھا کہ ایک مٹھی بھر جماعت کا مقابلہ تمام ہندو قوم کے ساتھ تھا اور یہ کتنا شاندار نتیجہ تھا کہ جب اس جماعت کے کام کی وجہ سے ہندوؤں کے لئے مشکلات پیدا ہوئیں اور ادھر ہندو مسلم اختلاف وسیع ہونے لگا تو گاندھی جی نے برت رکھا اور کہا کہ جب تک ہندو مسلمانوں میں صلح نہ ہو میں برت نہیں کھولوں گا.پھر وہ کیا عجیب وقت تھا کہ دہلی میں ہندوستان کے بڑے بڑے ہندو مسلم لیڈر جمع ہوئے کہ صلح کی تجویز کریں مگر جن کو بلایا گیا ان میں جماعت احمدیہ کا نام ہی نہ تھا.یہی شیخ عبدالرحمن مصری جو اس وقت ہماری مخالفت میں حصہ لے رہے ہیں، یہ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمارا تو نام ہی نہیں.ان کو توجہ دلانی چاہئے.میں نے کہا کہ مجھے تو توجہ دلانے کی ضرورت نہیں.آپ دیکھیں گے کہ وہ خود توجہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور دوسرے ہی روز حکیم اجمل خان صاحب اور ڈاکٹر انصاری صاحب کا تار میرے نام آیا کہ اپنے نمائندے جلد بھیجے صلح کے کام میں تاخیر ہو رہی ہے.بات یہ ہوئی کہ جب ہند و مسلم لیڈر صلح کے لئے بیٹھے تو شردھانند صاحب نے کہا کہ لڑائی تو احمدیوں کے ساتھ جاری ہے کیونکہ تبلیغ وہی کر رہے ہیں.یہاں اُن کے نمائندے ہی نہیں ہیں تو صلح کی بات چیت کس سے کی جائے.کی آخر وہ لوگ جنہوں نے پہلے کبر اختیار کیا اور کہا تھا کہ احمدیوں کو بلانے کی کیا ضرورت ہے، مجبور ہو گئے کہ مجھ سے تار کے ذریعہ نمائندے بھجوانے کی درخواست کریں اور جب ہمارے نمائندے جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ وہاں جو گفتگو ہوگی وہ میں ابھی سے بتا دیتا ہوں.آریہ سماجی کہیں گے کہ چونکہ گاندھی جی نے برت رکھا ہوا ہے ہمیں چاہئے کہ ان کا برت
خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۹ء کھلوانے کے لئے باہم صلح کر لیں اور وہ اس طرح کہ ہم بھی وہاں اپنا کام بند کر دیتے ہیں اور آپ بھی کریں.بظاہر یہ خوشنما تجویز ہے اس سے مسلمان نمائندے اسے قبول کرنے کے لئے فوراً تیار ہو جائیں گے مگر تم کہنا کہ آپ لوگوں نے ہمارے گھر پر قبضہ کر لیا ہے اور اس وقت اب صلح کرنے میں آپ کو فائدہ ہے مگر ہمارا سراسر نقصان ہے.ملکا نے مسلمان تھے.ان میں سے آپ لوگ ہیں ہزار کو مرتد کر چکے ہیں اور اب صلح کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ان سب کو کلمہ پڑھوا دو.ورنہ اس وقت تک ہمیں تبلیغ کی اجازت ہونی چاہئے جب تک ان کو مسلمان نہ بنا لیں.اس کے بعد اگر باقی مسلمان کہیں گے تو ہم بھی وہاں کام بند کر دیں گے اور کہیں اور کام شروع کر دیں گے.جب ہمارے نمائندے وہاں پہنچے تو بعینہ ایسی ہی صورت وہاں پیش آئی.سوامی شردھانند صاحب نے کہا کہ گاندھی جی کو ممنون کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی وہاں کام بند کر دیں اور مسلمان بھی بند کر دیں.اس پر میرے نمائندوں نے کہا کہ آریہ میں ہزار مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا چکے ہیں اور ہم تو ان کے پیچھے محض اصلاح کے لئے گئے ہیں.صلح مساوی شرائط پر ہی ہو سکتی ہے.اس لئے یہ وہ ہیں ہزار آدمی واپس کر دیں اور یا پھر ہمیں اتنی دیر وہاں کام کرنے کی اجازت ہو جب تک کہ ہم اتنے آدمیوں کو مسلمان نہ بنالیں ورنہ مساوات نہیں قائم ہو سکتی.ہم في الحال وہاں کام کریں گے اور جب ان لوگوں کو اسلام میں داخل کر لیں گے جو مرتد ہو چکے ہیں تو چونکہ یہ لوگ احمدی نہیں ، عام سنی ہیں اس لئے اگر مسلمانوں نے چاہا ہم اس طریق کی تبلیغ کی وہاں بند کر دیں گے اور اپنے کام کے لئے دوسرا علاقہ چن لیں گے.اس جواب کو سُن کر مسلمانوں کے نمائندوں نے کہا کہ احمدی ہمیشہ فساد ہی کرتے رہے ہیں.ان کی نیت ہی یہ ہے کہ ملک میں امن نہ ہو.چلو ہم صلح کرتے ہیں.یہ مٹھی بھر جماعت کیا کر سکتی ہے، ان کو شور مچانے دو.مگر سوامی شردھانند صاحب نے کہا کہ تم لوگوں کا تو کوئی آدمی وہاں ہے ہی نہیں.تمہارے ساتھ میں صلح کیا کروں.جب تک احمدیوں کے ساتھ صلح نہ ہو صلح نہیں ہو سکتی اور اس طرح ان بے شرم علماء کو جو ملکانوں کے ارتداد پر اپنی رضا کی مُہر لگانے کو تیار ہو گئے تھے
خطبات محمود ۲۴ سال ۱۹۳۹ء منہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنی ذلت ورسوائی دیکھ کر خاموش ہو گئے.ہمارا مطالبہ تو آریہ منظور کر ہی کی نہیں سکتے تھے اور اس طرح یہ صلح بیچ ہی میں رہ گئی اور ہم نے کہا کہ ہم اس وقت تک اس میدان کو ج نہیں چھوڑیں گے جب تک اتنے لوگوں کو واپس نہیں لے آتے.آخر وہ جوش کے دن گزر گئے.ہمارے مبلغ بھی واپس آگئے مگر ایک دو آدمی ہم نے اب تک وہاں رکھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں وہاں کامیابی ہو رہی ہے.چنانچہ کچھ ہی عرصہ ہو ا فتح پور قصبہ جو ساندھن کے پاس ہے اور پہلے سارا کا سارا مرتد ہو چکا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغوں کی تبلیغ سے پندرہ سال بعد پھر اسلام میں داخل ہو گیا ہے اور آریہ لوگ اپنا بوریا بستر وہاں سے اُٹھا کر چل دیئے ہیں.دیکھو کتنی طاقتور قوم سے مقابلہ تھا.اُس وقت ہندو امراء کہہ رہے تھے کہ ہم کروڑوں روپیہ اِس کام پر لگا دیں گے اور یہاں تک کہتے تھے کہ ایک ایک آدمی کے بدلے ہزار ہزار روپیہ دیں گے.دولت اور طاقت کا سر نیچا ہوا اور مٹھی بھر جماعت کو فتح حاصل ہوئی اور یہ نتیجہ تھا اُس قربانی کا جو جماعت نے دکھائی.اس وقت ایک قربانی کی رو تھی جو جماعت میں چل رہی تھی.آج تک اس علاقہ میں بعض واقعات اس زمانہ کے مشہور ہیں بلکہ میرے گزشتہ سفر میں بھی بعض لوگ ملے جنہوں نے مندرجہ ذیل واقعہ کا ذکر کیا کہ وہاں ایک گاؤں سب کا سب آریہ ہو چکا تھا صرف ایک عورت مائی جمی تھی جو مرتد نہ ہوئی تھی.اس کے لڑکے بھی آریہ ہو گئے کی تھے.آریوں نے کہا کہ اس کا بائیکاٹ کیا جائے تو پھر یہ آریہ بنے گی.آخر اس کا بائیکاٹ ہؤا حتی کہ اس کے لڑکوں نے اس کے حصہ کی فصل کو بھی کاٹنے سے انکار کر دیا.اس وقت شاید چوہدری نصر اللہ خان صاحب یا خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب ریٹائر ڈسیشن جج علی گڑھ والے وہاں انچارج تھے.مائی جمیا ان کے پاس آئی اور کہا کہ میں نے مزدوروں سے اپنی فصل کٹوانے کی کوشش کی ہے مگر وہ بھی نہیں کاٹتے اور کہتے ہیں کہ شدھی کرواؤ تو کاٹیں گے نہیں تو کی جاؤ مولویوں سے کٹواؤ.ہمارے آدمی بوجہ تعلیم یافتہ ہونے کے وہاں مولوی کہلاتے تھے.اس لئے انہوں نے بطور طنز کہا کہ جاؤ مولویوں سے کٹواؤ.ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ اس کام میں اس کی کیا مددکرسکیں گے؟ مائی جمیا نے کہا کہ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ بے شک کھیت خراب
خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۹ء ہو جائے پر واہ نہیں مگر میں محمد ھ نہیں ہوں گی.جو دوست وہاں انچارج تھے اُنہوں نے مجھے اطلاع دی اور میں نے انہیں لکھا کہ بے شک آریوں نے جو کچھ کہا ہے ویسا ہی ہوگا اور مولوی ہی اس کے کھیت کو کاٹیں گے.آپ اپنے تعلیم یافتہ آدمیوں کو لے کر جائیں اور اس کا کھیت کی کائیں.چنانچہ کئی گریجوایٹ اور سرکاری ملازم ، سرکاری خطاب یافتہ لوگ وہاں گئے اور جا کر کھیت کاٹ دیا.ان کے ہاتھ لہولہان ہو گئے ، چھالے پڑ گئے مگر اس علاقہ کے لوگوں پر اس کی بات کا اتنا اثر ہوا کہ اسی دن سے آریوں نے سمجھ لیا کہ اس جماعت کا مقابلہ آسان نہیں.اس کی علاقہ کے رؤساء اب بھی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گو اس پر پندرہ سال گزر گئے مگر اس کا اثر دلوں سے محو نہیں ہوا.اور وہ آج بھی اقرار کرتے ہیں کہ یہ احمدیوں کا ہی کام تھا ، کی مسلمانوں میں سے کوئی اور جماعت ایسا نہیں کر سکتی.وہی روح اگر آج بھی پیدا ہو تو اس سے شاند را نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں کیونکہ آج جماعت اُس وقت سے کئی گنا زیادہ ہے.تین چار گنا سے بھی زیادہ ہے.صرف ضرورت ارادہ کی ہے اور اخلاص کی.پس میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ہر بالغ مرد ( عورتوں کو میں ابھی مجبور نہیں کرتا.گووہ اپنی خدمات پیش کریں تو شکریہ کے ساتھ قبول کی جائیں گی مگر ان کی یہ خدمت طوعی ہو گی ) لیکن ہر بالغ مرد احمدی سے میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ اپنا وقت اس کام کے لئے دے گا اور یہ ذمہ داری لے گا کہ خواہ کتنا وقت کیوں نہ دینا پڑے وہ ایک دو یا تین یا ان سے زیادہ احمدی سال میں ضرور بنائے گا.پس تمام جماعتیں ایسی فہرستیں تیار کر کے جلد بھجوا دیں تا ان کے لئے کام کی سکیم بنا دی جائے اور اگر اس سکیم کی اہمیت کو مد نظر رکھا جائے تو چند سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ سکتی ہے.احمدیوں میں زیادہ تر آن پڑھ لوگ ہیں.یعنی زمیندار طبقہ زیادہ ہے.یوں نسبتی لحاظ سے تو احمدیوں میں تعلیم زیادہ ہے مگر باہر کے جلسوں میں تعلیم یافتہ لوگ آتے ہیں اور ہمارے زمیندار آتے ہیں.ان کے عوام نہیں سنتے مگر ہمارے عوام دوسروں کی نسبت زیادہ سُنتے ہیں.گویا ہمارے مخاطبین میں زیادہ تر عوام ہوتے اور دوسروں کے جلسوں کی نسبت ہمارے جلسوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کم ہوتا ہے.اس لئے وہ سیاسی لحاظ سے بات کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا.حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر اسلام اس وقت نہایت نازک دور سے گزر.
خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۹ء رہا ہے.ایسے نازک دور سے کہ اگر اس وقت اس کی حفاظت کے لئے کوئی جماعت کھڑی نہ ہوتی گی تو اس کے مٹ جانے میں کوئی شبہ نہیں.یوں تو مسلمان بیشک دنیا میں رہیں گے مگر نام کے مسلمانوں سے اسلام کو کیا فائدہ؟ قرآن دُنیا میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ اسے جز دانوں میں بند کر کے رکھا جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا میں اس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ منہ سے آپ کو خدا کا رسول تسلیم کر لیں بلکہ اس لئے آئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کو دُنیا میں قائم کریں.اگر یہ نہیں تو مسلمانوں کا وجود تعداد میں خواہ کتنا کیوں نہ بڑھ جائے بے فائدہ ہے.سفید چیز کو کالا کر دینے سے وہ کالی نہیں ہو جاتی اور کالی کو سفید کہہ دینے سے وہ سفید نہیں ہو جاتی.اسی طرح جس کا دل کا فر ہو اُس کا نام مسلمان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں.اس نازک موقع پر ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے مقابلہ کے میدان میں آگے آئے گی اور جلد اسلام کے حقیقی پیروؤں کی اتنی تعداد پیدا کر لے گی کی کہ جو دنیا کا مقابلہ آسانی سے کر سکے.گو باہر سے بھی اطلاعات آنی شروع ہو گئی ہیں مگر اس کی کے لئے آخری تاریخ ۸/ مارچ مقرر ہے.* دعوۃ و تبلیغ کو چاہئے جس طرح تحریک جدید کا عملہ محنت کر کے سب جماعتوں سے وعدہ لکھوا چکا ہے وہ بھی خاص زور دے کر فہرستیں مکمل کریں اور سلسلہ کے اخبار اس کام میں ان کی پوری مدد کریں اور اس لحاظ سے وقت بہت کم ہے اس لئے کی میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سے بہت زیادہ جد و جہد کی ضرورت ہے جو وہ کر رہے ہی ہیں.قادیان سے فہرستیں آچکی ہیں اور ان کو بہت جلد تحریک جدید اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ان کے فرائض سے مطلع کر دیا جائے گا اور میں ہر ایک احمدی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ پوری محنت ، ہمت اور کوشش سے کام کرے گا اور اس سال کے آخر تک ہر وہ شخص جو کوتا ہی کرے گا میں مجبور ہوں گا یہ قرار دینے پر کہ اُس نے احمدیت کا اچھا نمونہ نہیں دکھایا اور کہ وہ محض نام کا احمدی ہے حقیقتاً ہمارے ساتھ شامل نہیں.اس کے بعد میں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی تحریک جدید کے مالی حصّہ یہ خطبہ دیر سے چھپ رہا ہے اس لئے میں ہندوستان کے لئے ۱٫۸ پریل کی تاریخ مقرر کر ☆ دیتا ہوں.
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۹ء کی طرف متوجہ کرتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد کوئی وعدے قبول نہیں کئے کی جائیں گے.میں نے کل دفتر سے لسٹ منگوائی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ قادیان میں بھی ابھی ت بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے توجہ نہیں کی وہ ایسے نہیں کہ ہم خیال کریں کہ مالی مشکلا.کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکے بلکہ ایسے ہیں کہ جو کسی نہ کسی صورت میں حصہ لے سکتے ہیں.باہر کی بعض بڑی جماعتوں کی فہرستیں بھی تاحال نہیں آئیں.جیسا کہ دفتر کی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے میں جانتا ہوں کہ وعدوں کا زور آخری دنوں میں بہت ہوتا ہے.جو مخلص ہیں وہ تو پہلے دنوں میں ہی توجہ کرتے ہیں پھر درمیان میں رو کم ہو جاتی ہے اور پھر جب آخری دن ہوتے ہیں تو پھر رو تیز ہو جاتی ہے کیونکہ دوستوں کو خیال ہوتا ہے کہ اب وقت ختم ہونے کو ہے مگر ان کو اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد یا باہر کے جس خط پر گیارہ فروری کے بعد کی مہر ہو گی ایسا کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا.جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جماعت خدمت کرنے والوں کی تیار کرنا چاہتا ہے اور کئی لوگوں کے خوابوں سے اس کی تائید ہوچکی ہے.سینکڑوں لوگوں کو اس کے متعلق الہامات ہو چکے ہیں تو پھر پیچھے رہنا کس قدر بدنصیبی ہے.پس ہر ایک شخص جو تھوڑا بہت بھی حصہ لے سکتا ہے مگر نہیں لیتا اس کی بدقسمتی میں کوئی شبہ نہیں.کئی لوگ محض اس لئے ہچکچاتے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ پہلے ہم نے زیادہ حصہ لیا تھا کی اب کم کس طرح لیں.حالانکہ شرائط کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے.اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص سابقون میں شامل نہ ہو سکے وہ دوسرے درجہ میں بھی نہ ہو.ایسا خیال کرنا نادانی اور ثواب کی ہتک ہے.ثواب خواہ کتنا ہی تھوڑا کیوں نہ ہوضرور حاصل کرنا چاہئے.اگر کسی نے پچھلے سال سو روپیہ دیا مگر اس سال وہ سمجھتا ہے کہ میں پانچ ہی دے سکتا ہوں اور اس کی لئے چندہ لکھوانے سے رُکتا ہے کہ اس سے میری ہتک ہو گی تو وہ عزت کو ثواب پر مقدم کرتا جی ہے.حالانکہ ثواب کو عزت پر مقدم کرنا چاہئے.اگر تو وہ واقعی معذور ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے پانچ بھی پانچ سو کے برابر ہیں اور اگر وہ معذور نہیں تو جو درجہ وہ ایمان کا اپنے لئے تجویز کرتا ہے اُسی کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر پائے گا.
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۹ء پس قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی میں پھر ایک دفعہ متوجہ کرتا ہوں کہ بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں.بعد میں بیسیوں لوگ خطوط لکھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی ، کی معاف کر دیں اور وعدہ قبول کر لیں.حالانکہ جب ہم نے ایک قانون بنا دیا تو معافی کے کیا معنے ؟ پس جنہوں نے بعد میں معافی مانگنی ہے وہ ابھی ہوشیار ہو جا ئیں.اس سال چونکہ اس سکیم کی پوری پوری وضاحت کر دی گئی ہے اس لئے آئندہ کوئی نیا وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا.سوائے اُن کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا بیکار تھے.مثلاً کوئی اب طالبعلم ہے اور اگلے سال کام پر لگے یا جن کو اس تحریک کا پہلے علم نہیں ہوا تھا.بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو اس سال لکھتے ہیں کہ پہلے ہم نے حصہ نہیں لیا تھا مگر اب اس سکیم کی اہمیت ہم پر واضح ہو گئی ہے اس لئے شامل ہونا چاہتے ہیں.اس سال تو میں نے ایسے لوگوں کو اجازت دے دی ہے مگر آئندہ سال نہیں دی جائے گی کیونکہ اب اس کی پوری کی وضاحت کر چکا ہوں.سوائے ان کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا پہلے کوئی آمد نہ رکھتے تھے یا ان کو اس تحریک کا علم ہی نہیں ہوا ، ایسے لوگوں کے سوا کسی احمدی کا وعدہ قبول نہ کیا جائے گا.خواہ وہ کتنی منتیں کیوں نہ کرے.جو اس سال شامل ہوگا وہی آئندہ شامل ہو سکے گا کیونکہ وہی اس قابل ہے کہ اُس کا نام تاریخ میں محفوظ رہے.پس یہ آخری اعلان ہے جس سے دوستوں کو پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے.ممکن ہے بعض جماعتوں کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سستی کر رہے ہوں اور دوست سمجھتے ہوں کہ ہمارے وعدے پہنچ چکے ہیں.دفتر کو چاہئے کہ ایسے مقامات پر کئی لوگوں کو اطلاع بھیج دے کہ ان کے وعدے تا حال نہیں پہنچے.اور جن کو وعدوں کی منظوری کی اطلاع دفتر سے نہیں پہنچی ان کو بھی چاہئے کہ اچھی طرح اطمینان کر لیں.ایسا نہ ہو کہ رہ جائیں.ابھی وقت ہے کہ وہ اصلاح کرا لیں.لیکن اگر انہوں نے نہ کرائی تو پھر یہ عذر نہیں سُنا جائے گا کہ ہم نے تو وعدہ بھیج دیا تھا سیکرٹری یا تج پریذیڈنٹ پر ذمہ داری ہے.یہ تحریک چونکہ طوعی ہے اس لئے ہر فرد براہ راست ذمہ دار ہے.پس ہر فرد کو یہ اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ صرف انہی کے وعدے قبول کئے جائیں گے جو وقت پر پہنچا دیں گے.اگر کسی جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سستی کرتے ہیں تو دوستوں کو کی
خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۹ء چاہئے کہ خود براہ راست وعدے بھیج دیں اور اگر اُنہوں نے خود بھی نہ بھیجے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ عہد یداران کی سستی میں وہ خود شامل ہیں ہے ( الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۹ء) ما خطبه تاریخ گزرنے کے بعد شائع ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین غیر معمولی اخلاص کا ثبوت دے چکے ہیں اور وعدے گزشتہ سال سے بڑھ گئے ہیں.اَلْحَمْدُ اللهِ عَلَى ذَالِکَ.میں اس خطبہ کی شرائط میں اس قدر اصلاح کرتا ہوں کہ جنہوں نے کی سیکرٹریوں سے وعدہ لکھنے کو کہا اور اُنہوں نے وعدہ نہ بھیجوایا اگر وہ بعد میں اس کا علم ہونے پر نام لکھوانا چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں.نیز یہ بھی یادر ہے کہ چونکہ اب دس سالہ میعاد مقرر ہے اور حقیقی طور پر الہی فوج کے سپاہی وہی کہلا سکتے ہیں جو دسوں سال حصہ لیتے رہے ہیں.اس لئے جن لوگوں نے سابق میں معافی لے لی تھی وہ اگر ان کامل سپاہیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں گزشتہ رقوم بھی ادا کرنی چاہئیں ورنہ وہ دس سالہ قربانی کرنے والوں میں شامل نہیں ہو سکتے.ہاں اپنی قربانی کے مطابق ثواب ضرور حاصل کر لیں گے.پس جنہوں نے کسی سابق سال کا چندہ نہیں دیا یا معافی لے لی تھی اور اب وہ دس سالہ سکیم میں شامل ہونے کی تڑپ رکھتے ہیں انہیں اب گزشتہ کی تلافی کر لینی چاہئے.ہاں ان کی سابقہ رقوم کی ادائیگی کے لئے محکمہ مناسب سہولت دے سکتا ہے جس کا فیصلہ وہ محکمہ سے بذریعہ خط و کتابت کر لیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ قائم کرنے کی غرض وغایت فرموده ۳ / فروری ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پہلے بھی متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی کامیابی کے لئے کسی ایک کی نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی.جو پروگرام بہت لمبے ہوتے ہیں وہ اُسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں.جتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہوا گر اتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہ ہو سکتے اور اگر وہ مکمل نہ ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پہلوں نے اس پروگرام کی تکمیل کے لئے جو محنتیں ، کوششیں اور قربانیاں کی ہیں وہ بھی سب رائیگاں گئیں.مثلاً ایک جھونپڑا ہے اُس کے بنانے کے لئے مہینہ کا وقت درکار ہے.اب اگر کوئی شخص پندرہ دن کام کر کے اُسے چھوڑ دیتا ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ جھونپڑا نا مکمل رہے گا اور رفتہ رفتہ بالکل خراب ہو جائے گا.اسی طرح اگر ایک مکان ہے جس کی تعمیر کے لئے تین مہینوں کی ضرورت ہے.اگر اس پر کوئی شخص مہینہ ڈیڑھ مہینہ خرچ کر کے چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھی کبھی مکمل نہیں ہوسکتا اور گو پہلے آدمی سے اس نے زیادہ وقت صرف کیا ہوگا.مگر جس کام کے لئے وہ کھڑا ہوا تھا وہ چونکہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء تین مہینے کا تھا اس لئے باوجود ڈیڑھ مہینہ خرچ کرنے کے وہ ناکام رہے گا.اس کے مقابلہ میں اگر ایک بہت بڑا محل ہے جو دو تین سال میں تیار ہو سکتا ہے تو اس پر اگر کوئی شخص سال بھی خرچ کی کر دیتا ہے تو نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا.وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ پہلے کا جب مہینہ میں کام ختم ہو سکتا تھا اور دوسرے کا تین مہینہ میں تو میں سال بھر کام کر کے بھی اپنے کام کو کیوں ختم نہیں کر سکتا.اس لئے کہ جو کام اس نے شروع کیا تھا وہ تین سال کی مدت چاہتا تھا.اگر یہ سال یا دو سال لگا تاج بھی ہے اور پھر کام کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے دو سال ضائع کر دیئے.پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو تکمیل کے لئے پندرہ ہیں بلکہ تمیں سال چاہتے ہیں.اگر میں تمیں سال میں تکمیل کو پہنچنے والا کام کوئی شخص پندرہ سال کرتا اور پھر اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ کام یقیناً خراب ہو جائے گا کیونکہ اس کام کے لئے ہیں یا تمیں سال کی ضرورت تھی.اسی طرح بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو سینکڑوں سال چاہتے ہیں.اگر ان سینکڑوں سال چاہنے والے کا موں کو کوئی شخص پچاس، ساٹھ یا سو سال کر کے چھوڑ دے تو لازماً وہ خراب ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نکتہ سکھانے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ بعض چیزوں کی تکمیل وقت کے ساتھ مقید ہوتی ہے اپنے کاموں کے لئے بھی مختلف اوقات مقرر کر دیئے ہیں.بعض نادان اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب خدا كن فيكون لے کہنے والا ہے تو اس کے لئے یہ کیا کی مشکل ہے کہ وہ ایک سیکنڈ میں تمام کام کرے.یہ درست ہے کہ خدا اگر چاہے تو ایک سیکنڈ میں ہی تمام کام کرے لیکن اگر خدا ایک سیکنڈ میں تمام کام کر دیتا تو انسان میں استقلال کا مادہ پیدا نہ ہوتا اور اس کے سامنے کوئی ایسی مثال نہ ہوتی جس سے وہ سمجھ سکتا کہ استقلال کیا چیز ہے.مگر اللہ تعالیٰ کو دیکھو کوئی کام ایسا ہے جو وہ ہمیں اکیس دن میں کرتا ہے.مثلاً مرغی کے بچے پیدا کرنے کے لئے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں.پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو وہ چھ مہینے میں کرتا کی ہے.جیسے بکری کا بچہ ہے اس کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ چھ مہینے لگا دیتا ہے.پھر کچھ کام ایسے ہیں جن کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے.جیسے انسان کا بچہ ہے اس کام کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے.پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو سال چاہتے ہیں.جیسے گھوڑی کا بچہ ہے کہ وہ سال میں پیدا ہوتا ہے.
خطبات محمود ۳۲ سال ۱۹۳۹ء.پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو پانچ دس بلکہ بعض ہیں سال میں مکمل ہوتے ہیں.جیسے پھلدار درخت ہیں کوئی ان میں سے تین چار سال میں پھل دیتا ہے کوئی سات سال میں پھل دیتا ہے، کوئی دس سال میں پھل دیتا ہے، کوئی پندرہ سال میں پھل دیتا ہے.گویا یہ کام خدا تعالیٰ کئی سالوں میں جا کر کرتا ہے.اسی طرح وہ اپنے اوقات کی لمبائی کو بڑھاتا چلا گیا ہے یہاں تک کہ بعض کام اللہ تعالیٰ لاکھوں سالوں میں کرتا ہے.جیسے پتھر کا کوئلہ ہے.پہلے عام طور پر لوگ پتھر کے کوئلہ سے واقف نہیں ہوتے تھے مگر اب تو دیہات میں بھی مشینیں لگ جانے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ بھی پتھر کے کوئلہ سے واقف ہو گئے ہیں اور چونکہ پتھر کے کوئلہ کے استعمال میں خرچ کی کفایت ہوتی ہے اس لئے کئی لوگ پتھر کا کوئلہ استعمال کرنے لگ گئے ہیں.اب یہ پتھر کا کوئلہ انہی درختوں سے بنا ہے جن کی لکڑیاں کاٹ کاٹ کر جلائی جاتی ہیں مگر یونہی نہیں بلکہ کئی لاکھ سال تک یہ درخت زمین میں دفن رہے اور کئی لاکھ سال تک زمین میں دفن رہنے کے بعد یہ درخت پتھر کے کوئلہ کی شکل میں بدل گئے.تو اللہ تعالیٰ نے پتھر کا کوئلہ بنانے کے لئے کئی لاکھ کی سال لگا دیئے.اس میں اللہ تعالیٰ نے در حقیقت یہی بتایا ہے کہ وقت کی لمبائی یا چھوٹائی بھی کی چیزوں کی خوبصورتی اور محمد گی کے لئے ضروری ہے.طب ہی کو دیکھو بعض اعلیٰ ادویہ ایسی ہیں کہ ان کے اجزاء بالعموم وہی ہیں جو ہمیشہ استعمال میں آتے رہتے ہیں لیکن ان کو کچھ عرصہ تک دفن کرنے کی وجہ سے ان ادویہ کی حالت ہی بدل جاتی ہے.مثلاً برشعشا ایک دوائی ہے جو نزلہ کے لئے نہایت مفید ہے.اب اگر برشعشا کے اجزاء کو ملا کر فوری طور پر استعمال کر لیا جائے تو وہ کی کوئی نفع نہیں دیں گے.برشعشا کا پورا نفع انسان کو اسی صورت میں حاصل ہو گا جبکہ اسے چالیس دن تک غلہ میں دفن رکھا جائے.اب دوائیں وہی ہوں گی جو چالیس دن پہلے ہوں گی مگر جو نفع چالیس دن غلہ میں دفن کرنے کے بعد حاصل ہو گا وہ پہلے حاصل نہیں ہو گا.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کیا حماقت ہے.جب دوائیں وہی ہیں تو مزید چالیس دن غلہ میں دبانے سے کیا کی فائدہ؟ سواصل بات یہ ہے وقت اپنی ذات میں بعض چیزوں کا ضروری جزو ہے.جب تک دواؤں کے ساتھ وقت کو نہ ملایا جائے دوا اچھی نہیں بنے گی.پس صرف دوائیں نہیں بلکہ دوا ئیں مع وقت اس کا جزو بنتی ہیں.پھر بعض دوائیں ایسی ہیں جنہیں چھ ماہ کے لئے دفن کرنا
خطبات محمود ۳۳ سال ۱۹۳۹ء پڑتا ہے اور اگر انہیں چھ ماہ بند کر کے نہ رکھا جائے تو کبھی فائدہ نہیں دیتیں.اسی طرح بعض کی دوائیں سال سال اور بعض دو دو سال کے بعد کھانے کے قابل بنتی ہیں.وہی اجزا اگر اسی کی وقت باہم ملا کر کھا لوتو ایسا فائدہ نہیں دیں گے لیکن اگر دو سال کے بعد کھاؤ تو تریاق بن جائیں گے.تو بعض دوائیں اکیلی فائدہ نہیں دیتیں بلکہ وقت بھی اُن کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے اور ایسی ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اشیاء ہیں جن کا وقت خود ایک اہم جزو ہوتا ہے.کوئی نئی چیز ان کی میں داخل نہیں کی جاتی.صرف وقت ان کے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں اور جب وقت شامل نہیں ہوتا تو وہ مفید نہیں ہوتیں.یہی حال اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کا ہے.اس کی بعض تعلیمیں بھی تبھی پختہ ہوتی ہیں اور تبھی اِن کا قوام محمد ہ اور اعلیٰ ہوتا ہے جب متواتر کئی نسلیں ان کو اختیار کرتی چلی جائیں.جب مسلسل کئی نسلیں ان تعلیموں پر عمل کرتی چلی جاتی ہیں تب وہ ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور دُنیا کے لئے حیرت انگیز طور پر مفید بن جاتی ہیں.خصوصاً جو جماعت اور جو نظام جمالی رنگ میں ہو یعنی عیسوی سلسلہ کے اصول کے مطابق وہ ایک لمبے کی عرصہ کے بعد پختہ ہوتا ہے.بلکہ بعض دفعہ دو دو تین تین سو سال کے بعد اسے پختگی حاصل ہوتی ہے.گویا اس کی مثال ان اعلیٰ درجہ کی معجونوں یا برشعشا کی قسم کی دواؤں کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے عرصہ کے بعد اپنی خوبی ظاہر کرتی ہیں.ہمارا سلسلہ بھی عیسوی سلسلہ ہے اور اس کی خوبیاں بھی تبھی ظاہر ہوسکتی ہیں جب ایک لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے.جس طرح بعض دواؤں کو ایک لمبے عرصہ تک دفن رکھ کر انہیں مفید بننے کا موقع دیا جاتا ہے اور اگر یہ موقع نہ دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم عمداً اس دوائی کو خراب کرتے ہیں.اسی طرح ضروری ہوتا ہے کہ جمالی تعلیموں کے نیک نتائج کا بھی لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے.مگر دواؤں میں سے تو کوئی دوائی زمین میں دفن کی جاتی ہے، کوئی کچ جو میں دفن کی جاتی ہے، کوئی گیہوں میں دفن کی جاتی ہے.مگر جمالی تعلیم ایک لمبے عرصہ تک اپنے دلوں میں دفن کی جاتی ہے.جب ایک لمبے عرصہ تک اس تعلیم کو اپنے دلوں میں جگہ دی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی معجون بن جاتی ہے.ایسی معجون جو تریاق ہوتی ہے اور جو مُردہ کو بھی زندہ کر دیتی ہے.پس قانونِ قدرت کا یہ نکتہ ہمیں بھلا نہیں دینا چاہئے.نادانی کی وجہ سے بعض لوگ سمجھتے ہیں
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۹ء کہ جب اجزاء وہی ہیں تو وقت کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قانونِ قدرت میں ایسی کئی مثالیں رکھ دی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے لئے وقت کی لمبائی بھی ایک مجد و ہوتی ہے.اسی لئے میں نے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیا د رکھی ہے.میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اُسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے.آج وہ ہمارے دلوں میں دفن کی ہے تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہوا اور پرسوں اُن کی اولاد کے دلوں میں.یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے اور ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کر لے جو دُنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.اگر ایک یا دو نسلوں تک ہی یہ تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر مجالس خدام الاحمدیہ کا جو اجتماع ہوا تھا اس میں میں نے خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور باقی جماعت کی کو عموماً اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس کام میں خدام الاحمدیہ کی مدد کی جائے.پھر کی جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ اس جماعت کی مالی امداد کرنا یہ بھی ایک ثواب کا کام ہے.اور جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہوئی ہے اُن کا فرض ہے کہ وہ تھوڑی بہت جس قدر بھی مدد کر سکتے ہوں ضرور کریں تا کہ خدام الاحمد یہ عمدگی اور سہولت کے ساتھ اپنا کام کر سکیں.کئی نادان ہیں جو اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں کے فلاں کام تو خوب چلتے کی ہیں مگر ہمارے کام اس طرح نہیں چلتے اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کے کام کے تسلسل کے پیچھے با قاعدہ دفتر ہوتے ہیں، باقاعدہ کام کرنے والے ہوتے ہیں، باقاعدہ خط و کتابت ، سفر اور اجتماعات وغیرہ کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور جب سب چیزیں انہیں میسر ہوں تو اُن کے کام کیوں نہ چلیں.مگر ہمارے ہاں نہ سرمایہ ہوتا ہے ، نہ پورے وقت کے ایسے کارکن ہوتے ہیں جو تجربہ کار ہوں اور نہ عام ضروریات کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور پھر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لوگ متواتر کام نہیں کرتے.جب نیشنل لیگ قائم ہوئی تو اُس وقت بھی میں نے انہیں یہ نصیحت کی تھی کہ اب تو تم جوش میں یہ خیال کر لو گے کہ ہم سارا کام خود ہی کر لیں گے مگر کاموں کو جب بڑھایا جائے تو ضروری
خطبات محمود ۳۵ سال ۱۹۳۹ء ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے مستقل عملہ ہو جو رات دن کام کرتا ر ہے تا کہ تسلسل قائم رہے.مگر انہوں نے میری بات کو اچھی طرح نہ سمجھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کام میں خرابی پیدا ہوگئی.قادیان میں اگر نیشنل لیگ کور کا کام کچھ لمبا چلا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں ایک مستقل آدمی مقرر ہے جس کا فرض یہی ہے کہ وہ نیشنل لیگ کو ر کا کام کرے اور چونکہ مستقل طور پر یہ کام اس کے سپرد ہے اس لئے لازماً اسے اپنی توجہ اُس کام کی طرف رکھنی پڑتی ہے.یہی وجہ ہے کہ یہاں نیشنل لیگ کور زیادہ کامیاب رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جگہ مستقل آدمی نہیں رکھے جاسکتے لیکن اگر بعض سرکل اور دائرے مقرر کر دیے جاتے اور ان میں نیشنل لیگ کے آدمی دورہ کرتے رہتے تو یقیناً ان کی کوششوں کے بہت زیادہ شاندار نتائج نکلتے مگر انہوں نے چونکہ اس پہلو کو نظر انداز کر دیا اور اپنی قربانی اور ایثار پر حد سے زیادہ انحصار کر لیا اِس لئے ان کے کام میں خرابی واقع ہوگئی.حالانکہ بعض چیزیں اخلاص سے نہیں بلکہ نظام سے تعلق رکھتی ہیں اور جب تک نظام کی پابندی نہ ہو اُس وقت تک کامیابی نہیں ہوتی.تو مذہبی تعلیموں کی اشاعت کے لئے خصوصاً عیسوی نقش پر آنے والی اور جمالی رنگ اپنے اندر رکھنے والی تعلیموں کے لئے ایک لمبے عرصہ تک مسلسل اور متواتر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تسلسل تبھی قائم رہ سکتا ہے جب آئندہ اولادوں کی اصلاح کی جائے.جس شخص کے دل میں اخلاص پیدا ہو جائے وہ تو اپنی موت تک اس راستہ کو نہیں چھوڑتا اور چاہے اُس کی کچ گردن پر تلوار رکھ دی جائے وہ اپنی اولاد کی اصلاح کے خیال سے غافل نہیں رہتا.ہاں جب مر جائے تو پھر وہ اپنی اولاد کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں.ذمہ داری صرف زندگی تک عائد ہوتی ہے.ورنہ جس دن کو ئی شخص مر جائے اسی دن وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے اور تو اور حضرت عیسی علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں اُن سے بھی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کا شریک ٹھہرایا کی جائے تو حضرت عیسی علیہ السلام یہی جواب دیں گے کہ حضور جب تک میں زندہ رہا لوگوں کا ذمہ دار رہا لیکن جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو پھر مجھے کیا پتہ کہ لوگ کیا کر رہے ہیں ہے اب دیکھو ! حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں مگر موت کے بعد
خطبات محمود ۳۶ سال ۱۹۳۹ء لوگوں میں کسی خرابی کے پیدا ہونے کی اُن پر بھی ذمہ داری نہیں لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کا کوئی مثیل کھڑا ہو جاتا جو لوگوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا یا حضرت عیسی علیہ السلام کا کام اُن کے حواریوں کی اولادوں کی طرف منتقل ہو جاتا تو یقیناً حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اس قدر خرابی رونما نہ ہوتی جس قدر کہ خرابی رونما ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اسلام میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں سے آپ کو ایسی اولادیں عطا کی تھیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کے کام کو سنبھال لیا اور وہ سلسلہ چلتا چلا گیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا اور یہی وعدہ ہے جو درحقیقت آپ کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكر ورنا له لحفظون سے کہ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اس کی حفاظت کریں گے اور تمہاری اولادوں میں سے ہی ایسے لوگ کھڑے کر دیں چی گے جو اسلام کے گرتے ہوئے جھنڈے کو سنبھال لیں گے اور اسلام کو ترقی اور عروج کی منزلوں تک لے جائیں گے.یہی وعدہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر عظمت اور بڑائی ثابت کرتا ہے.انبیاء سابقین کے کاموں کے تسلسل کے قیام کا کوئی ذریعہ نہیں تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ قریب کے زمانہ میں تیری جماعت دین کی خدمت کرے گی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر آئندہ بھی کوئی خرابی پیدا ہو گئی تو تیری روحانی اولاد میں سے ہم کسی شخص کو کھڑا کر دیں گے اور وہ پھر تیری عظمت کو دُنیا میں قائم کر دے گا.ہے چنانچہ اس زمانہ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے بالکل بھلا دیا ، جب تعلیم اسلام سے وہ کوسوں دور جا پڑے، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کہلانے کی والے اپنے آبائی مذہب کی تحقیر و تذلیل پر اتر آئے تو مسلمانوں میں سے ہی ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا قرار دے کر کھڑا کر دیا اور اُس نے پھر اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کر دیا.اب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حفاظت کا یہ سامان نہ ہوتا اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نہ ہوتی تو آج اسلام کی کونسی چیز باقی رہ گئی تھی ؟ مگر اس کامل تباہی میں سے زندگی کے آثار کس طرح پیدا ہوئے؟
خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۹ء اسی طرح پیدا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا اور اُسے وہ تمام قوتیں دیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی بیٹے میں موجود ہونی چاہئیں.وہ آیا اور اُس نے اسلام کو اس رنگ میں مذاہب عالم پر غالب اور برتر ثابت کیا کہ اب بجائے بڑھاپے کے اس میں جوانی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اور دنیا ان جوانی کے آثار کو محسوس کر رہی ہے.گجا تو وہ زمانہ تھا کہ لوگ کہتے تھے اب اسلام مٹا کہ مٹا اور گجا یہ زمانہ ہے کہ اب لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ اسلام حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ مذاہب عالم کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے.ہٹلر جو جرمنی کا ڈکٹیٹر ہے اُس نے کئی سال ہوئے جبکہ ابھی وہ برسر اقتدار نہیں آیا تھا ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے میری جد و جہد اس کتاب میں اُس نے اپنے اغراض اور اپنی کچ کوششوں کے مقاصد بیان کئے ہیں.یہ ایک نہایت عجیب اور لطیف کتاب ہے.میں مدت سے اس کی تلاش میں تھا مگر مجھے ملتی نہ تھی.اب تو دو تین سال سے یہ کتاب ہندوستان میں آئی ہوئی ہے مگر اتفاق یہ ہے کہ یہ کتاب مجھے نہ ملی.اب کے جو میں لا ہور گیا تو یہ کتاب مجھے مل گئی اور میں نے اسے پڑھا.مجھے اس کتاب کے ایک فقرہ سے گو وہ حقیقت کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا معلوم نہیں ہوتا ، مجھے بہت ہی مزہ آیا.کیونکہ اس میں احمدیت کی طاقت کا اقرار کیا گیا ہے.ہٹلر اس کتاب میں عیسائیوں کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ سخت غلط راستہ پر چل رہے ہیں اور وہ حکومتوں کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گر جاؤں کے معاملہ میں دخل دیں کیونکہ گر جا کے ارباب عقل سے کام نہیں لے رہے اور خواہ مخواہ حکومتوں کے معاملات میں دخل دے رہے ہیں.وہ لکھتا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مذہب کو سیاست کا ہتھیار کیوں بنایا گیا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مذہب کو مذہب کی حدود میں رکھتے اُنہوں نے اسے سیاسی قوت کے حصول کا ایک ذریعہ بنالیا ہے اور انہی اغراض کے ماتحت لاکھوں مشنری ایشیا اور افریقہ میں پھیلا رکھے ہیں تا کہ ان کو سیاسی اقتدار حاصل ہوا اور اس امر کا خیال نہیں کیا جاتا کہ کروڑوں عیسائی خود یورپ میں دہر یہ ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے انہیں بچے مذہب کی اشاعت کی فکر نہیں بلکہ سیاسی طاقت کے حصول کی فکر ہے.اگر انہیں یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کو بچے مذہب کا راستہ بتایا جائے تو انہیں چاہئے تھا کہ بجائے غیروں کے وہ اپنوں کی فکر کرتے.مگر وہ اپنوں کی تو فکر نہیں کرتے اور
خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۹ء دوسروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ان کے مد نظر نہیں.پھر اس کے ساتھ ہی وہ لکھتا ہے کہ گو یہ ایشیا اور افریقہ میں اپنا مذہب پھیلانے کی جد و جہد کر رہے ہیں مگر ایشیا اور افریقہ میں بھی ان کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں کیونکہ وہاں مسلمان مشنری لوگوں کو اسلام میں واپس لا رہے ہیں اور عیسائی مشنریوں سے زیادہ کامیاب ہیں.اب وہ مشنری جو اسلام کی صحیح خدمت کر رہے ہیں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر کے لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں سوائے احمدیوں کے اور کون ہیں؟ پس اس فقرہ میں گو احمد یہ جماعت اس کے ذہن میں نہیں پھر بھی اُس نے جماعت احمدیہ کی طاقت کا اقرار کیا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں جو لوگ اسلام کو پھیلا رہے اور لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں اُن کی جدو جہد کے مقابل پر مسیحی مشنری نا کام ہو رہے ہیں.تو حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد جو تسلسل اسلام میں اللہ تعالیٰ نے قائم کر دیا ہے اُس کا دنیا کے قلوب پر نہایت گہرا اثر ہے.یا تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام مٹا اور یا اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلام میں دوبارہ زندگی پیدا ہوگئی ہے اور وہ پھر دوسرے مذاہب کا مقابلہ کرنے لگ گیا ہے.اس عظیم الشان تغیر پر جہاں ہمارا حق ہے کہ ہم خوش ہوں کی وہاں ہمیں یہ امر بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ہم نے اس تسلسل کو قائم نہ رکھا تو یہ ہماری موت کی علامت ہوگی.پس ضروری ہے کہ ہم اس تسلسل کو قائم رکھیں.مصلح انبیاء ہمیشہ فاصلہ فاصلہ پر آیا کرتے ہیں اور یہ کام ان کی اُمتوں کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی اصلاح کی کریں اور ان کے دلوں میں انبیاء کی تعلیمات کو مضبوطی سے گاڑ دیں اور اس طرح مذہب کی طاقت کو بڑھاتے چلے جائیں.ایک لمبے عرصہ کے بعد جب عالمگیر تنزل ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح نبی مبعوث ہو ا کرتا ہے اس سے پہلے نہیں.ہمارا جو زمانہ ہے یہ بھی ایسا نہیں کہ اس میں جلدی ہی کوئی اور نبی مبعوث ہو.ہم اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو محدود نہیں کرتے.اس سے یہ کوئی بعید بات بھی نہیں کہ وہ کسی اور نبی کو بھیج دے لیکن بظاہر یہ ایسا زمانہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جماعت کو ایک نئے نبی کی قیادت میں کام کرنے کی بجائے خلفاء موعود و غیر موعود کی قیادت کے ماتحت کام کرنا ہوگا.
خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۹ء پس ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں تک اسلام کی تعلیم کو محفوظ رکھتا چلا جائے اور در حقیقت اسی غرض کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ کی انجمن قائم کی ہے تا جماعت کو یہ احساس ہو کہ اولاد کی تربیت ان کا اہم ترین فرض ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکتہ ایسے اعلیٰ طور پر بیان فرمایا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدم اصلاح لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ آئندہ نسل کی مائیں بننے والی ہوتی ہیں اور ان کا اثر اپنی اولاد پر بہت بھاری ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی اُس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہوتی اور جو قو م مردوں اور عورتوں دونوں کی اصلاح کی فکر کرتی ہے وہی خطرات سے بالکل محفوظ ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکتہ کو کیا ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے.آپ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے تھے ، صحابہ آپ کے گرد حلقہ باندھے تھے.آپ نے فرمایا جس مسلمان کے گھر تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تعلیم وتربیت کرے تو اُس مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے.اب بظاہر کوئی ایسا شخص جو قومی ترقی کے اصول سے ناواقف ہو کہہ سکتا ہے کہ یہ کونسی بات ہے.بھلا تین لڑکیوں کی اصلاح سے جنت مل سکتی ہے.وہ سمجھتا ہے کہ تین لڑکیوں کی تربیت کوئی ایسی اہم بات نہیں حالانکہ جو شخص تین لڑکیوں کی اچھی تربیت کرتا ہے وہ صرف تین کی ہی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں لاکھوں اسلام کے خادم پیدا کرتا ہے.کیونکہ وہ لڑکیاں اچھے لڑکے پیدا کرنے کا موجب بنیں گی اور وہ لڑکے اسلام کے لئے اچھے قربانی کرنے والے ثابت ہوں گے.آجکل لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ ایک کان سے بات سُنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.مگر صحابہ پر اللہ تعالیٰ بے انتہا کرم نازل فرمائے اُن میں یہ ایک ایسی خوبی تھی کہ اسے دیکھ کر دل عش عش کر اُٹھتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے سے چھوٹے فقرہ کی بھی بڑی کی قدر کرتے تھے.اب یہی روایت جو میں نے بیان کی ہے اس زمانہ کے لوگ اسے سنیں تو اکثر ایک کان سے سُن کر دوسرے سے باہر نکال دیں گے.گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی بلکہ ممکن.بعض یہ اعتراض شروع کر دیں کہ بھلا تین لڑکیوں کا جنت سے کیا تعلق؟ اور جو اس حدیث.ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء لذت بھی پائیں گے، وہ اس کی حقیقت پر غور نہیں کریں گے.مگر صحابہ جو اس بات کے مشتاق رہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی فائدہ اُٹھائیں کی اُنہوں نے جب یہ بات سنی تو وہ جن کی تین لڑکیاں تھیں وہ اس خوشی سے بیتاب ہو گئے کہ ان کی اچھی تربیت کر کے جنت کے حق دار بن جائیں گے.مگر وہ جن کی تین لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ دو تھیں اُن کے چہروں پر افسردگی چھا گئی اور اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوں.آپ نے فرمایا اگر کسی کی دولڑکیاں ہوں اور وہ اِن دونوں کی اچھی تربیت کی کرے تو اُس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے.جب آپ نے یہ بات فرمائی تو وہ لوگ جن کی صرف ایک لڑکی تھی وہ افسردہ اور مغموم ہو گئے اور اُنہوں نے کہا يَا رَسُول اللہ ! اگر کسی کی دولڑ کیاں نہ ہوں بلکہ صرف ایک لڑکی ہو تو وہ کیا کرے.آپ نے فرمایا اگر کسی کی ایک ہی لڑکی ہو اور وہ اُسے اچھی تعلیم دے اور اُس کی اچھی تربیت کرے تو اُس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے.کے گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نے اس حدیث کے ذریعہ یہ نکتہ ہم کو بتایا کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا انسان کو جنت کا کی مستحق بنا دیتا ہے.کیونکہ جو قومی تسلسل قائم رکھتا ہے وہ دُنیا میں ہی ایک جنت پیدا کرتا ہے اور یہی قرآن کریم نے بتلایا ہے کہ جسے اس دنیا میں جنت ملی اُسے ہی اگلے جہان میں جنت ملے گی.جو اس جہان میں اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا رہے گا.اور جو اس جہان میں آنکھوں والا ہے وہی اگلے جہان میں بھی بینا آنکھوں والا ہے.تو جو شخص اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کرتا ہے اُس میں دین کی محبت پیدا کرتا ہے اور اُسے خدا تعالیٰ کے احکام کا فرمانبرداری بناتا ہے وہ ایک لڑکی کی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں نیک اور پاک خاندان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس چونکہ وہ دُنیا میں نیکی کا ایک محل تیار کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ بھی فرما تاج ہے کہ چونکہ اس نے اسلام کے مکان کی حفاظت کا سامان مہیا کیا ہے اس لئے میں بھی قیامت کی کے دن اس کے لئے ایک عمد محل تیار کروں گا.تو اپنی اولادوں کی مسلسل تربیت کو جاری رکھنا ایک اہم سوال ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں میں سے لڑکیوں کی تربیت کا سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر چونکہ لڑکیوں نے نوکریاں نہیں کرنی ہوتیں اس لئے بالعموم لوگ اُن کی تعلیم و تربیت سے
خطبات محمود ۴۱ سال ۱۹۳۹ء غافل رہتے ہیں یا اگر توجہ بھی کرتے ہیں تو زیادہ توجہ نہیں کرتے حالانکہ انہی لڑکیوں نے آئندہ نسلوں کی ماں بننا ہوتا ہے اور چونکہ یہ کل کو مائیں بنے والی ہوتی ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف زیادہ توجہ کی جائے.اگر مائیں درست ہوں گی تو لڑ کے آپ ہی درست ہو جائیں گے اور اگر ماؤں کی اصلاح نہ ہوگی تو لڑکوں کی بھی اصلاح نہیں ہوگی.اسی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مدرسہ بنات کی تعلیم کے متعلق خاص طور پر زور دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اس کے نصاب کو بدل دینا چاہئے اور لڑکیوں کو ایسی تعلیم دینی چاہئے جس کے نتیجہ میں ان میں قومی روح پیدا ہو اور اسلام کی محبت ان کے قلوب میں موجزن ہو.شروع شروع میں تو کچھ لوگوں نے میری مخالفت کی یا ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ اُنہوں نے اسے پسند نہ کیا اور کئی سال تک مجلس شوری کے پروگرام سے یہ معاملہ پیچھے ہٹتا چلا گیا مگر آخر جب میں نے زیادہ زور دیا تو اس وقت جماعت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ مدرسہ بنات میں اصلاح ہونی چاہئے.چنانچہ وہ اصلاح کی گئی اور اس کا نہایت ہی خوشگوار نتیجہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب نظر آنے لگ گیا ہے اور لڑکیوں میں دینی تعلیم بہت حد تک ترقی کر گئی ہے بلکہ بعض دفعہ لڑکیوں کے مضامین دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت سے لڑکوں کے مضامین سے بھی اچھے ہوتے ہیں.اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور کارکنان نے میری اس سکیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول رکھی تو کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نہایت ہی خوشکن نتائج پیدا ہوں گے لیکن ابھی تک یہ تعلیم قادیان کی تک ہی محدود ہے اور بیر ونجات کی احمدی لڑکیاں اس سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ قادیان میں لڑکیوں کے لئے جلد سے جلد ایک بورڈنگ ہاؤس قائم کیا جائے جس میں بیرونجات کی لڑکیاں آکر ٹھہر سکیں اور وہ مدرسہ بنات سے دینی تعلیم حاصل کر سکیں.دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ اس مدرسہ کی بیرونجات میں شاخیں کھولی جائیں تا کہ اُن میں بھی انہی اصول پر تعلیم کا سلسلہ جاری ہو جن اصول پر قادیان میں جاری ہے تاکہ وہ اچھی مائیں بہنیں اور اچھی نسلیں پیدا کر کے ان کی احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے پرورش کر سکیں.اسی طرح لڑکوں کی تربیت کے لئے میں نے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی ہے.مجھے خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل.
خطبات محمود ۴۲ سال ۱۹۳۹ء یہ جماعت اچھا کام کر رہی ہے گو اتنا اچھا نہیں جتنا قومی وسعت کے لحاظ سے ضروری ہے بلکہ اس کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں.ابھی سینکڑوں ایسی جماعتیں ہیں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ قائم نہیں اور سینکڑوں کام ہیں جوا بھی اُنہوں نے کرنے ہیں ، ابھی تک صرف بیسیوں جماعتیں بنی ہیں اور وہ بھی پوری طرح کام نہیں کر رہیں اور جو کر رہی ہیں وہ اپنے کام کی اہمیت کو نہیں سمجھیں.درحقیقت اس وقت تک صرف دس پندرہ جماعتیں ہی ہیں جو اچھا کام کر رہی ہیں لیکن بہر حال اس کام کی بنیاد پڑگئی ہے اور جب کسی کام کی بنیاد پڑ جائے تو ضرورت پر اسے زیادہ وسیع بھی کیا جاسکتا ہے.میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر جماعتوں کے پریذیڈنٹوں ، سیکرٹریوں اور دوسرے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون کریں اور نو جوانوں کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں.اسی طرح ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس میں داخل کریں تا اُن کی اچھی تربیت ہو.جب تک ماں باپ اور جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اس طرف توجہ نہیں کریں گے ، جب تک وہ خدام الاحمدیہ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اور اپنے آپ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اس وقت تک پوری کامیابی نہیں ہو سکتی.پس ضروری ہے کہ ماں باپ بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور جماعتیں بھی اپنے فرض کو سمجھیں اور کی جو لوگ اس میں داخل نہیں انہیں مجبور کریں کہ وہ اس میں داخل ہوں اور جو داخل ہو چکے ہیں ان کی نگرانی کریں کہ آیا وہ پروگرام کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں ؟ عورتوں کی تربیت کے لحاظ سے میں نے اس کی دوسری شاخ لجنہ اماء اللہ کے نام سے قائم کی ہوئی ہے.یہ لجنہ صرف دو جگہ اچھا کام کر رہی ہے ایک قادیان میں دوسرے سیالکوٹ میں.قادیان میں لجنہ کا زیادہ تر کام جلسے کرانا سلسلہ کے کاموں سے عورتوں کو واقف رکھنا، صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کرنا اور انہیں کام پر لگانا ہے.یہ کام کو آہستہ آہستہ ہو رہا ہے لیکن اگر استقلال اور ہمت سے اس کام کو جاری رکھا گیا تو میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ بیواؤں اور یتامیٰ کا مسئلہ حل کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گی.لجنہ کے اس کام میں تاجروں کی امداد کی بھی ضرورت ہے.انہیں چاہئے کہ لجنہ جو چیزیں بنوائے وہ انہیں بیچ دیا کریں.
خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۳۹ء اس میں ان کا بھی فائدہ ہوگا کیونکہ آخر وہ نفع ہی پر بیچیں گے اور غرباء کا بھی فائدہ ہے کہ ان کے گزارہ کی صورت ہوتی رہے گی.میں چاہتا ہوں کہ اس کام کو اتنا وسیع کیا جائے کہ نہ صرف قادیان میں بلکہ بیرونی جماعتوں میں بھی کوئی بیوہ اور غریب عورت ایسی نہ رہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوکی رہتی ہو.ہمارے ملک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ وہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی اصلاح کی ہونی چاہئے اور یہ اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ مانگ کر نہیں کھائے گا بلکہ کما کر کھائے گا.اگر کوئی شخص کام کو عیب سمجھتا اور پھر بھوکا رہتا ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں لیکن اگر ایک شخص کام کے لئے تیار ہو لیکن بوجہ کام نہ ملنے کے وہ بھوکا رہتا ہو تو یہ جماعت اور قوم پر ایک خطر ناک الزام اور اس کی بہت بڑی ہتک اور سبکی ہے.پس کام مہیا کرنا جماعتوں کے ذمہ ہے لیکن جو لوگ کام نہ کریں اور سستی کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں ان کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ ان کے اپنے نفسوں پر ہے کہ اُنہوں نے با وجود کام ملنے کے محض نفس کے گسل کی وجہ سے کام کرنا پسند نہ کیا اور بھوکا رہنا گوارا کر لیا.میرا پروگرام یہ ہے کہ لجنہ کا کام جب یہاں کامیاب ہو جائے تو باہر بھی اسے جاری کیا کی جائے یہاں تک کہ کوئی بیوہ اور یتیم عورت ایسی نہ رہے جو خود کام کر کے اپنی روزی نہ کماتی ہو.اس جد و جہد میں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو پھر انہی لوگوں کا بار جماعت پر رہ جائے گا جو بالکل ناکارہ ہیں.جیسے اندھے ہوئے یا کو لے اور اپاہج ہوئے.گو ہر اندھا نا کارہ نہیں ہوتا بلکہ کئی اندھے بھی بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں.بہر حال جس حد تک اندھوں وغیرہ کے لئے بھی کام مہیا ہو سکتا ہو اس حد تک ہمیں ان کے لئے بھی کام مہیا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خود کام کر کے کھائیں مگر اس معاملہ میں محلوں کے پریذیڈنٹوں کے تعاون کی ضرورت ہے.اگر محلوں کے پریذیڈنٹ مختلف مقررین سے اپنے اپنے محلہ میں وقتاً فوقتاً ایسے لیکچر دلاتے رہا کریں کہ نکتا بیٹھ کر کھانا نہایت غلط طریق ہے.کام کر کے کھانا چاہئے اور کسی کام کو اپنے لئے عار نہیں سمجھنا چاہئے.تو امید ہے کہ لوگوں کی ذہنیت بہت کچھ تبدیل ہو جائے.میں نے دیکھا ہے قادیان میں بھی ایک اچھا خاصا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں جب کوئی کام دیا جا تا ہے
خطبات محمود ۴۴ سال ۱۹۳۹ء تو کہتے ہیں کہ اس کام کے کرنے میں ہماری ہتک ہے.حالانکہ ہتک کام کے کرنے میں نہیں بلکہ نکما بیٹھ کر کھانے میں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ لوگوں سے کی مانگ کر کھانا ایک لعنت ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا ( بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی غیر سے تھوڑا مانگتے ہیں.ہم تو سلسلہ سے مانگتے ہیں.اس کا جواب اسی واقعہ میں آجاتا ہے.جو میں بیان کرنے لگا ہوں کیونکہ اس نے بھی کسی غیر سے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگا تھا ) آپ نے اسے کچھ دے دیا.وہ لے کر کہنے لگا یا رَسُول اللہ ! کچھ اور دیجئے.آپ نے پھر اسے کچھ دے دیا.وہ پھر کہنے لگا.يَا رَسُول اللہ ! کچھ اور دیجئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا کیا میں تم کو کوئی ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہارے اس مانگنے سے بہت زیادہ بہتر ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں يَا رَسُول اللہ فرمائیے کیا بات ہے.آپ نے فرمایا سوال کرنا خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.تم کوشش کرو کہ تمہیں کوئی کام مل جائے اور کام کر کے کھاؤ.یہ دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی عادت چھوڑ دو.اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! میں نے آج سے یہ عادت چھوڑ دی ہے چنانچہ واقع میں پھر اس نے اس عادت کو بالکل چھوڑ دیا اور یہاں تک اس نے استقلال دکھایا کہ جب اسلامی فتوحات ہوئیں اور مسلمانوں کے پاس بہت سا مال آیا اور سب کے وظائف مقرر کئے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلوایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے تم اسے لے لو.وہ کہنے لگا میں نہیں لیتا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ اقرار کیا تھا کہ میں ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا.سو اس اقرار کی وجہ سے میں یہ مال نہیں لے سکتا کیونکہ میرے ہاتھ کی کمائی نہیں.حضرت ابو بکر نے کہا یہ تمہارا حصہ ہے، اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں.وہ کہنے لگا خواہ کچھ ہو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہوا ہے کہ میں بغیر محنت کئے کوئی مال نہیں لوں گا.میں اب اس اقرار کو مرتے دم تک پورا کرنا چاہتا ہوں اور یہ مال نہیں لے سکتا.دوسرے سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا کہ یہ تمہارا حصہ ہے اسے لے لو.مگر اس نے پھر کہا میں نہیں لوں گا.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہوا ہے کہ میں محنت کر کے مال کھاؤں گا.یونہی مُفت میں کسی جگہ سے مال کی
خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۹ء نہیں لوں گا.تیسرے سال انہوں نے پھر اُس کا حصہ دینا چاہا مگر اُس نے پھر انکار کر دیا.پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے.اُنہوں نے بھی ایک دفعہ اُسے بُلایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے لے لو.وہ کہنے لگا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ میں کبھی سوال نہیں کروں گا اور ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا یہ مال میرے ہاتھ کی کمائی نہیں اس لئے میں اسے نہیں لے سکتا اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی موت کی تک اس اقرار کو نباہتا چلا جاؤں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہت اصرار کیا مگر وہ انکار کرتا چلا گیا.آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا اے مسلما نو ! میں خدا کے حضور بری الذمہ ہوں.میں اس کا حصہ اسے دیتا ہوں مگر یہ خود نہیں لیتا.اسی صحابی کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ ایک جنگ میں یہ گھوڑے پر سوار تھے کہ اچانک اُن کا کی کوڑا اس کے ہاتھ سے گر گیا.ایک اور شخص جو پیادہ تھا اُس نے جلدی سے کوڑا اٹھا کر انہیں دینا چاہا تو انہوں نے کہا اے شخص! میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تو اس کوڑے کو ہاتھ نہ لگا ئیو کی کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اقرار کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے سوال نہیں کروں گا اور خود اپنا کام کروں گا.چنانچہ عین جنگ کی حالت میں وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور کوڑے کو اُٹھا کر پھر اس پر سوار ہو گئے.۱۲ تو لوگوں کو بتانا چاہئے کہ مانگ کر کھانا ایک بہت بڑا عیب ہے تا کہ اس نقص کی اصلاح ہو.بعض نادان اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غرباء کی مدد سے گریز کرتے ہیں حالانکہ یہاں گریز کا کوئی سوال ہی نہیں.ہمارے پاس حکومت تو ہے نہیں کہ جبراً لوگوں پر ٹیکس عائد کر کے اپنے خزانے بھر لیں اور پھر انہیں لوگوں میں تقسیم کر دیں.یہی وجہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خلفائے اوّل پر عائد تھیں وہ ہم پر نہیں.اُن کے پاس اموال قانونی طور پر آتے تھے مگر ہمارے پاس اس رنگ میں اموال نہیں آتے بلکہ ایسے اموال حکومتِ ہند کے خزانہ میں جاتے ہیں.پس ہم مجبور ہیں کہ مال کی تقسیم میں احتیاط سے کام لیں لیکن اگر بالفرض اس رنگ میں اموال آتے بھی ہوں تو سوال یہ ہے کہ کیا میں نے وہ مال کھا لینا ہے؟ اس مال نے تو بہر حال سلسلہ پر خرچ کی ہونا ہے تو مجھے اس بات کا کیا شوق ہے کہ میں زید کو دوں اور بکر کو نہ دوں یا مجھے اس سے کیا ہے
خطبات محمود ۴۶ سال ۱۹۳۹ء کہ وہ رو پیر یو یو آف ریلیجنز پر خرچ ہوتا ہے یا کسی غریب شخص پر خرچ ہوتا ہے.اگر اسلام کا فائدہ اس میں ہے کہ سلسلہ کا روپیہ ایک غریب کو مل جائے تو اس میں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ میری غرض تو اس قسم کی نصائح سے یہ ہے کہ ہماری جماعت کے اخلاق بلند ہو جائیں اور اس میں عزت نفس کا مادہ پیدا ہو جائے اور لوگ یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نفس کو بھی کوئی شرف بخشا ہوا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ اس کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے بلا وجہ اس کی تحقیر نہ کریں.یہ رُوح ہے جو میں جماعت میں پیدا کرنا چاہتا ہوں اور یہی وہ تعلیم ہے جو کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی.پس یہ روپیہ مجھے تو نہیں ملتا کہ مجھے یہ فکر ہو کہ فلاں کو نہ ملے اور فلاں کومل جائے.اگر یہ روپیہ مجھے ملتا تو کسی کو بدظنی کا موقع مل سکتا تھا اور وہ خیال کر سکتا تھا کہ شاید میں نے اپنے ذاتی فائدہ کے لئے دوسروں کو اس سے محروم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے.مگر جب یہ روپیہ میرے پاس نہیں آتا نہ میری ضروریات پر خرچ ہوتا ہے تو مجھے اس میں ذاتی دلچسپی کیا ہوسکتی ہے؟ پس مجھے ذاتی دلچسپی اس میں کوئی نہیں ہاں اتنی دلچپسی ضرور ہے کہ میں چاہتا ہوں جماعت کے اخلاق بہت بلند ہوں اور وہ دوسروں سے مانگنے کی عادت ترک کر دیں.پس پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ مسائل واضح کرتے رہا کریں.میں نے دیکھا ہے اسی نقص کی وجہ سے کہ لوگوں کو مسائل بتائے نہیں جاتے.قادیان میں مردوں اور عورتوں کو بلا وجہ سوال کرنے کی عادت ہے اور بجائے کام کرنے کے وہ مانگ کر کھا لینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ ہمیشہ کام کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہئے اور یہی عادت ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.ہاں جہاں کام نہ ملتا ہو وہاں کام مہیا کرنا پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا کام ہے لیکن جب کام مل جائے تو پھر اس کے کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے.پس کام مہیا کرنا ہمارا کام ہے.گو پھر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہم پوری طرح اس فرض کو سر انجام نہیں دے سکتے مگر پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ جس حد تک ہم کام مہیا کر سکتے ہوں اُس حد تک جماعت کے دوستوں کے لئے کام مہیا کریں.میں نے بتایا ہے کہ لجنہ اس سلسلہ میں کی
خطبات محمود ۴۷ سال ۱۹۳۹ء عورتوں کے متعلق مفید کام کر رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ مجلس خدام الاحمدیہ بھی تی یہ کام اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لے اور بے کار مردوں کے متعلق ان کا یہ فرض ہو کہ وہ ان کے لئے کام مہیا کریں.بظاہر یہ کام مشکل ہے لیکن اگر وہ سمجھ سے کام لیں گے اور غور کرنے کی کی عادت ڈالیں گے تو وہ کئی ایسی سکیمیں بنا سکیں گے جن کے ماتحت بریکاروں کو کام پر لگایا جا سکے گا.جب اس قسم کے بے کا ر لوگ کام پر لگ جائیں گے تو اس سے نہ صرف بے کاروں کو فائدہ کی پہنچے گا بلکہ سلسلہ کو بھی مالی لحاظ سے فائدہ پہنچے گا کیونکہ وہ چندے دیں گے اور اس طرح سلسلہ کو مضبوطی حاصل ہو گی.پس یہ اس شخص کا ہی نہیں بلکہ سلسلہ کا بھی فائدہ ہے.یہ ایک اہم کام ہے جس کی طرف جماعتوں کے پریذیڈنٹوں ، سیکرٹریوں اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو توجہ کرنی چاہئے.اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو چاہئے کہ وہ ایک پروگرام بنا کر اس کے ماتحت کام کیا کی کریں.یونہی بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اب کی بھی ہاتھ سے کام کرتے ہیں مگر وہ کام کسی پروگرام کے مطابق نہیں ہوتا.حالانکہ جس طرح بجٹ تیار کئے جاتے ہیں اسی طرح انہیں اپنے کام کے پروگرام وضع کرنے چاہئیں مثلاً ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اِس بارہ میں یونہی بغیر پروگرام کے اِدھر اُدھر کام کرتے پھرنے کی بجائے اگر وہ کسی ایک سڑک کو لے لیں اور اپنے پروگرام میں یہ بات شامل کر لیں کہ اُنہوں کی نے اس سڑک پر بھرتی ڈال کر اسے ہموار کرنا اور اس کے گڑھوں کو پر کرنا ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کام اپنے ذمہ لے لیں اور اسے وقت معین کے اندر مکمل کریں تو یہ بہت عمدہ نتیجہ پیدا کرے گا بہ نسبت اس کے کہ بغیر ایک معتین پروگرام کے وہ کام کرتے جائیں.مگر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ بھرتی کے کیا معنے ہیں.گزشتہ سال جلسہ سالانہ پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب آئے تو انہوں نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اراکین سے کہا کہ اب کی دفعہ جب کام کرو تو مجھے بھی بُلا لینا.چنانچہ انہوں نے انہیں بلا لیا اور وہ بھی ہاتھ سے کام کرتے رہے مگر چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کے کام میں ایک نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ سڑک پر جب وہ مٹی ڈال رہے تھے تو سڑک کے پاس ہی ایک گڑھا کھود کر وہاں سے
خطبات محمود ۴۸ سال ۱۹۳۹ء مٹی لے آتے تھے.میں نے انہیں کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ آج آپ سڑک کے گڑھے پر کریں اور کل آپ ان گڑھوں کو پُر کرنے لگ جائیں جو اس سڑک پر مٹی ڈالنے کے لئے آپ نے کھو د لئے ہیں.تو یہ ایک نقص ہے جو خدام الاحمدیہ کے کام میں ہے اور اسے دور کرنا چاہئے مگر اس کے علاوہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ ایک سڑک یا ایک گلی لے لیں اور اس کی صفائی اور مرمت اس حد تک کریں کہ اس سڑک یا گلی میں کوئی نقص نہ رہے.مثلاً وہ ایک سڑک کو درست کی کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ انجینئروں سے مشورہ لیں اور ان سے پوچھیں کہ یہ سڑک کس طرح درست ہو سکتی ہے.پھر جو طریق وہ بتا ئیں اور جو نقشہ انجینئر تجویز کریں اُس کے مطابق وہ اس سڑک کی درستی کریں اور چھ مہینے یا سال جتنا وقت بھی اس پر صرف ہو اتنا وقت اس پر صرف کیا جائے اور اس سڑک کو انجینئر کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق درست کیا جائے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ چند مٹی کی ٹوکریاں ایک گڑھے میں ڈال دی جاتی ہیں اور چند دوسرے گڑھے میں اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کوئی کام ہوا ہے.پس پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ایک کام شروع کیا جائے اور اُسے ایسا مکمل کیا جائے کہ کوئی انجینئر بھی اس میں نقص نہ نکال سکے.دوسری بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ دوسرے آدمیوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا حالانکہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ دوسروں کے لئے اس میں حصہ لینا ممنوع ہے.جو لوگ میرے خطبات سُنا کرتے ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ میں نے امور عامہ کو بار بار ہاتھ سے کام کرنے کے پروگرام کی طرف توجہ دلائی ہے.بلکہ بعض دفعہ میں نے اتنی سختی سے کام لیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ان میں ذرا بھی جس ہوتی تو وہ اس کام کی طرف ضروری توجہ کرتے.مگر سال گزر گیا اور ابھی تک وہ ایسی نیند سوئے پڑے ہیں کہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے.امور عامہ کی غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہم لوگ جن کا دل چاہتا ہے کہ رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لیں اس سے محروم رہتے ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے.پس چونکہ امور عامہ سو یا پڑا ہے اس لئے میں مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ صرف ممبران سے ہی کام نہ لیا کریں بلکہ بعض دنوں میں وہ عام اعلان کر کے باقی جماعت کے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا کریں بلکہ وہ کام کرنے کے لئے مجھے بھی بلا لیا کریں.آخر اگر ہاتھ سے کام کرنا ثواب ہے تو کیا وجہ ہے
خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۹ء کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ اس ثواب میں حصہ لیں مگر خود اس ثواب میں شامل نہ ہوں.یہ تو کی منافقت ہوگی کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ فلاں کام بڑا اچھا ہے مگر خود گھر میں بیٹھ رہیں.ہاں اگر اس کام سے زیادہ بہتر اور زیادہ ضروری کام ہم کوئی کر رہے ہوں تو اس صورت میں بے شک اس کام میں حصہ نہ لینا حرج کی بات نہیں لیکن اگر اور کوئی ایسا ضروری کام نہ ہو تو میرے نزدیک اس وقت ہر چھوٹے بڑے کو اِس کام میں حصہ لینا چاہئے اور میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنے کام میں ہمیں بھی شمولیت کا موقع دیں اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ امور عامہ سویا ہوا ہے اور اُسے اس طرف کوئی توجہ نہیں.میرے نزدیک مجلسی خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں جس میں ساری جماعت کو شمولیت کی دعوت دیں بلکہ میرے نزدیک شاید یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ بجائے ایک گھنٹہ کام کرنے کے سارا دن کام کے لئے رکھا جائے.ایک گھنٹہ کا تجربہ کوئی ایسا مفید ثابت نہیں ہوا.پس آئندہ کے لئے بجائے ایک گھنٹہ کے سارا دن رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن تمام لوگ اس کام میں شریک ہوں بلکہ میرے نز دیک لوگوں کی سہولت کو کی مد نظر رکھتے ہوئے یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ دو مہینہ میں ہی ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں تمام لوگ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے کام کریں.اس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں.اس کے لئے یا تو جمعہ کا دن رکھ لیا جائے کہ اس دن دفاتر میں چھٹی ہوتی ہے اور یا پھر آخری کی جمعرات کا دن رکھا جائے کہ اُس دن بھی مدرسوں اور دفتروں وغیرہ میں چھٹی ہوتی ہے.تاجروں کے لئے تو کوئی مشکل ہے ہی نہیں ، وہ ہر دن چھٹی کر سکتے ہیں.پس دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کیا جائے اور اُس میں سارا دن کام کیا جائے شاید سارا دن کام کرنا نتائج کے لحاظ سے زیادہ مفید ثابت ہو.اِس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں اور اگر ایک دن میں ایک ہزار آدمی بھی صبح سے لے کر شام تک کام کریں تو چھ ہزار مزدور کا کام بن جاتا ہے اور چھ ہزار مزدور کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہوتا بلکہ بہت اہم اور شاندار ہوتا ہے.بلکہ میرے نزدیک قادیان میں ہاتھ سے کام کرنے والے کم از کم چار ہزار افراد ہیں اور اگر چار ہزار کی نسبت رکھی جائے تو چوبیس ہزار مزدور بن جاتے ہیں اور چوبیس ہزار مزدوروں کا کام اگر ایک پروگرام کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ماتحت ہو تو بہت بڑا تغیر پیدا کر سکتا ہے.بے شک ہم لوگ جو کام کے عادی نہیں مزدوروں جتنا کام نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم مزدوروں کے کام کا دسواں حصہ بھی کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ سال میں اڑھائی ہزار مزدوروں نے کام کیا اور اڑھائی ہزار مزدوروں کا کام بھی کوئی معمولی کام نہیں ہوتا.اگر چھ آنے ہر مزدور کی یومیہ اجرت فرض کی جائے تو قریباً ایک ہزار روپے کا کام ہم سال میں صرف چھ دن دے کر کر سکتے ہیں.پس خدام الاحمدیہ کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا کام صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ بعض کام جن میں ساری جماعت کی شمولیت مُفید نتائج پیدا کرسکتی ہو ان میں ساری جماعت کو شمولیت کا موقع دینا چاہئے.پس قادیان کے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سال میں چھ دن ایسے مقرر کریں جن کی میں یہاں کی تمام جماعت کو کام کرنے کی دعوت دی جائے بلکہ مناسب یہی ہو گا کہ وہ ابتدا میں چھ دن ہی رکھیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں دو مہینہ میں ایک دن کام کر لینا کوئی بڑی بات کی نہیں.آخری جمعرات ہو تو اُس دن عام اعلان کر دیا جائے کہ آٹھ دس سال کے بچوں سے لے کر اُن بوڑھوں تک جو چل پھر سکتے اور کام کاج کر سکتے ہیں، فلاں جگہ جمع ہو جا ئیں ان سے فلاں کام لیا جائے گا.پھر پہلے سے پروگرام بنایا ہوا ہو کہ فلاں سڑک پر کام کرنا ہے، فلاں جگہ سے مٹی لینی ہے، اتنی بھرتی ڈالنی ہے، اِس اِس ہدایت کو مد نظر رکھنا ہے اور جماعت کے انجینئر اس تمام کام کے نگران ہوں اور ان کا منظور کردہ نقشہ لوگوں کے سامنے ہو اور اس کے مطابق سب کو کام کرنے کی ہدایت دی جائے.میں سمجھتا ہوں اگر پہلے سے ایک سکیم مرتب کر لی جائے تو آسانی سے بہت بڑا کام ہو سکتا ہے.غرض سکیم اور نقشے پہلے تیار کر لیں اور اُس دن جس طرح فوج پریڈ کرتی ہے اسی طرح ہر شخص حکم ملنے پر اپنے اپنے حلقہ کے ماتحت پریڈ پر آ جائے.دیکھو قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اور کافر اپنے اپنے لیڈروں کے پیچھے آئیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس دن ہر نبی اپنا اپنا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوگا اور ہر نبی کے ساتھ اُس کی اُمت ہوگی.یہ نہیں ہو گا کہ قیامت کے دن شور پڑا ہوا ہو اور کوئی کدھر جا رہا ہو اور کوئی کدھر بلکہ ہر شخص اپنے اپنے لیڈر کے جھنڈے کے نیچے ہو گا.
خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۳۹ء اس میں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ جب بہت بڑے اجتماع ہوں تو اس وقت حلقوں کی اور دائروں کا مقرر کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلاً ہر محلہ والے اپنے اپنے محلہ کے پریذیڈنٹ یا کسی اور افسر کی ہدایات کے ماتحت کام کریں یا لوگوں کے حلقوں کی کوئی اور تقسیم ہوسکتی ہو تو وہ کر لی جائے.بہر حال ہر شخص کسی نہ کسی حلقہ میں ہو اور کام شروع کرنے سے دو دن پہلے ہر شخص کو بتاتی دیا جائے کہ تم نے فلاں حلقہ میں فلاں کام کرنا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس طریق پر اگر کام کیا جائے تو ایک تو لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو جائے گی دوسرے اس مشتر کہ جد و جہد کے نتیجہ میں کوئی مفید کام بھی ہو جائے گا.اب دارالرحمت ، دار الفضل اور دوسرے محلوں کو دیکھ لو اُن کی گلیاں کس قدر گندی ہیں.پھر اُن محلوں میں کئی گڑھے ہیں ، اونچی نیچی جگہیں ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو ان گڑھوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف ملیر یا اور ٹائیفائڈ پھیلتا ہے بلکہ بعض دفعہ انسانی جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک خطرناک حادثہ یہاں ہوا اور وہ یہ کہ حافظ غلام رسول صاحب آبادی کی آخری بیوی کا اکلوتا لڑکا ایسے ہی ایک پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں گر کر ڈوب گیا.یہ ہماری غفلتوں کا ہی نتیجہ ہے اگر ہم غفلت نہ کرتے اور گڑھوں کو اب تک پُر کر دیتے تو یہ واقعہ کیوں ہوتا ؟ کہا جاتا ہے کہ جس زمین میں یہ واقعہ ہوا ہے اس میں ہندوؤں کا بھی دخل ہے لیکن اگر اس کے گرد دیوار ہی بنا دی جاتی تب بھی یہ واقعہ نہ ہوتا اور اس ایک کی واقعہ کے بعد اب یہ کب اطمینان ہو گیا ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ کوئی نہیں ہو گا مگر اس دن تو جس نے یہ واقعہ سُنا افسوس کر دیا لیکن دوسرے ہی دن اثر جاتا رہا اور یہ خیال بھی نہ رہا کہ ہمیں اس کی قسم کے گڑھوں کو پُر کرنے کا فکر کرنا چاہئے تا کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں.اسی طرح پانی کی گندگی کی وجہ سے ہر سال ملیر یا آتا ہے اور دس دس پندرہ پندرہ دن ایک شخص بیمار رہتا ہے.ملیریا کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ گڑھوں میں پانی جمع رہتا ہے اور اس کی سڑاند کی وجہ سے کی پیدا ہو جاتے ہیں جو انسانوں کو کاٹتے اور ملیریا میں مبتلا کر دیتے ہیں.اس بخار کی وجہ سے لوگ پندرہ پندرہ دن تک بیمار رہتے ہیں اور اگر دس دن بھی ایک شخص کے بیمار رہنے کی اوسط کی فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے پانچ افراد ہوں تو سال میں ان کے پچاس دن محض ملیریا کی
خطبات محمود ۵۲ سال ۱۹۳۹ء وجہ سے ضائع چلے جاتے ہیں.حالانکہ اگر وہ چھ دن بھی کوشش کرتے تو ملیریا کو جڑ سے نابود کر دیتے مگر لوگ دوائیوں پر پیسے الگ خرچ کرتے ہیں، تکلیف الگ اُٹھاتے ہیں ، طاقتیں کی الگ ضائع کرتے ہیں، عمریں الگ کم ہوتی ہیں، موتیں الگ ہوتی ہیں اور پھر سال میں پچاس دن بھی ان کے ضائع چلے جاتے ہیں.مگر تھوڑا سا وقت خرچ کر کے قبل از وقت ان باتوں کا علاج نہیں کرتے.وہ کام جو میں بتاتا ہوں اگر دوست کرنے لگ جائیں تو ان کی صحتیں بھی درست رہیں گی ، ان کے پیسے بھی بچیں گے ، ان کے محلوں کی شکل وصورت بھی اچھی ہو جائے کی گی ، ان کا نیک اثر بھی لوگ قبول کریں گے اور ان کے پچاس دن بھی بچ جائیں گے.گویا خدا بھی راضی ہو جائے گا ، لوگ بھی تعریف کریں گے اور خود بھی فائدہ اُٹھائیں گے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.وہ عدم صفائی کی وجہ سے جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو بھی تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اپنے روپیہ کو بھی برباد کرتے ہیں مگر اس آسان سادہ اور صحت بخش طریق کو اختیار کرنے کے لئے شوق سے تیار نہیں ہوتے.حالانکہ ملیر یا ایسا خطرناک اثر انسانی طبیعت پر چھوڑ جاتا ہے کہ وہ بچے جو ملیر یاز دہ ہوتے ہیں جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کے دل بالکل مُردہ ہوتے ہیں، ان کی اُمنگیں کو تاہ ہوتی ہیں اور ان کے خیالات نہایت پست ہوتے ہیں اور جوان ہونے سے پہلے ہی وہ بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں حالانکہ اس کا علاج ان کے بس میں ہوتا ہے اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے ملیریا کا قلع قمع کر سکتے ہیں.یہی حال صفائی کا ہے.ہمارے ملک کے لوگ گندگی اور غلاظت کو دور کرنے کا خیال تو نہیں کرتے مگر بیماری کے ذریعہ اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنی صحت کی بربادی قبول کر لیتے ہیں.ٹائیفائڈ ہمیشہ اُس گند اور پاخانہ کی وجہ سے پھیلتا ہے جو گلیوں میں جمع رہتا ہے اور جس میں ایسے مریضوں کے پاخانے بھی شامل ہوتے ہیں.وہ پاخانہ پہلے تو کی گلیوں میں ہوتا ہے پھر جب بارش ہوتی ہے تو زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کے پینے میں استعمال ہونے لگتا ہے اور اس طرح تمام شہر میں ٹائیفائڈ پھیل جاتا ہے.قادیان کی نئی آبادی نہایت کھلے مقامات میں ہے اور بڑے بڑے شہروں کی آبادی کے مقابلہ میں نہایت پر فضا اور صحت بخش ہے اور اگر ظاہری حالت کو دیکھا جائے تو یہاں کے کی
خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۹ء : لوگوں کی صحت بہت اعلیٰ ہونی چاہئے مگر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ٹائیفائڈ بڑی کثرت سے ہوتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پاخانہ اور گند جوگلیوں میں جمع ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں زمین کے اندر جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کو مرض میں مبتلا کر دیتا ہے.پس ہم لوگ بلا وجہ قربانی کرتے ہیں اور بلا وجہ بیماریوں پر روپیہ ضائع کرتے اور پھر پچاس دنوں کا ضیاع بھی کرتے ہیں مگر وہ طریق اختیار نہیں کرتے جس میں خدا تعالیٰ کی بھی خوشنودی کی ہے اور اپنا فائدہ بھی ہے.اگر خدام الاحمدیہ کے مہران یہ کام کریں اور پوری تندہی اور محنت کے ساتھ اس طرف توجہ کریں تو میں سمجھتا ہوں ایک سال کے اندر ہی وہ قادیان میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے لوگ حیران ہو جائیں اور وہ کہیں کہ یہ قادیان پہلا قادیان نہیں.اور پھر ایک سال کے بعد ہی وہ دیکھیں گے کہ بیماریاں بھی مٹ گئی ہیں، لوگوں کی صحتیں بھی درست ہو گئی ہیں اور ان کا روپیہ بھی بچ گیا ہے.یوں تو بیماریاں دُنیا میں رہتی ہی ہیں کیونکہ بعض کمز ور طبع لوگ ہوتے ہیں جو امراض کا جلد شکار ہو جاتے ہیں لیکن کم سے کم لوگ ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو وبائی صورت میں ایک مہلک رنگ اختیار کر لیتی ہیں.یہ میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ اصل مضمون میں یہ بیان کر رہا تھا کہ سلسلہ کے ہر محکمہ کو کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنا چاہئے تا ہر وقت وہ آنکھوں کے سامنے رہے اور اس کے پورا کرنے کا خیال رہے ورنہ دن بہت نازک آ رہے ہیں اور اگر اس وقت اپنی اصلاح کی طرف کی توجہ نہ کی گئی تو پھر اصلاح کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں اس مضمون کو اگلے جمعہ میں بیان کروں گا.سر دست میں اصولی طور پر بتا دیتا ہوں کہ دُنیا میں ایک سخت نازک زمانہ اور لڑائیوں اور فسادات کے خطرے ہر روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ اس سال کے اندر اندر ہی کوئی ایسی خطر ناک لڑائی چھڑ جائے جس سے دُنیا کی آبادی نصف سے بھی کم رہ جائے.ایسے ایسے تباہیوں کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ اِن کا ذکر سُن کر حیرت آتی ہے.تم ان تباہی کے سامانوں کا صرف اس امر سے ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ پہلے امریکہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی جنگ ہوئی تو ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ ہم بالکل الگ ہیں اور بہت بڑے فاصلہ پر ہیں.ہم پر اس جنگ کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟
خطبات محمود ۵۴ سال ۱۹۳۹ء امریکہ یورپ سے چار ہزار میل دور ہے.پس امریکہ والے سمجھتے تھے کہ ہمیں اس جنگ سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے مگر اب سامانِ حرب میں جو ترقی ہوئی ہے اور نئی نئی قسم کے ہوائی جہاز بنے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے پریذیڈنٹ نے بھی اعلان کر دیا ہے اور آج کے اخبارات میں ہی وہ اعلان چھپا ہے کہ آج محاذ جنگ اتنا بدل چکا ہے کہ امریکہ کو الگ سمجھنا بالکل بیوقوفی ہے.آج ہماری سرحد امریکہ پر نہیں بلکہ فرانس پر ہے اور ہم بھی اسی طرح جنگ کے خطرہ میں ہیں جس طرح یورپ کی دوسری طاقتیں.(اس کی مہم الفاظ میں تردید ہوئی ہے مگر وہ تردید قانونی ہے حقیقی نہیں.ایسے ایسے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں کہ بالکل ممکن ہے کہ صبح کے وقت جرمنی سے ایک ہوائی جہاز اُڑے اور شام کے وقت امریکہ پر لاکھوں بم برسا کر واپس آ جائے.ساڑھے چار سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑنے والے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں.ہندوستان جرمنی سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہے.اگر چار سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑنے والا ہوائی جہاز جرمنی سے چلے تو ایک ہزار میل وہ اڑھائی گھنٹے میں طے کر سکتا ہے.اس کے معنے یہ بنے کہ چودہ گھنٹے کے اندر اندر جرمنی سے ہوائی جہاز چل کر ہندوستان پر بمباری کرسکتا اور یہاں کے لوگوں کو تباہ کر سکتا ہے بلکہ اب تو جرمنی سے بھی چلنے کی ضرورت نہیں.اٹلی جرمنی کے ساتھ ہے اور ایسے سینیا اٹلی کے قبضہ میں ہے اور ایسے سینیا سے ہندوستان دو ہزار میل کے فاصلہ پر ہے.گویا ابی سینیا سے ایک ہوائی جہاز پانچ گھنٹے میں ہندوستان آ سکتا اور پانچ گھنٹے کی یہاں گولہ باری کر کے شام کا کھانا اس کے چلانے والے ایسے سینیا میں واپس جا کر کھا سکتے ہیں.غرض ایسے ایسے خطر ناک سامان جنگ تیار ہو چکے ہیں کہ انسان ان کا ذکر سُن کر دنگ رہ جاتا ہے.کئی لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ایسے خطر ناک سامان ایجاد ہو چکے ہوتے تو موجودہ جنگوں میں جو آجکل ہو رہی ہیں کیوں وہ ظاہر نہ ہو جاتے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سامان تو ایجاد ہو چکے ہیں مگر ان جنگوں میں انہوں نے ان سامانوں کو ظاہر نہیں کیا.وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ابھی سے اِن سامانوں کو ظاہر کر دیا تو لوگوں کو یہ پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے پاس کی.کیا کیا سامان ہیں اور وہ اِن کا علاج سوچ لیں گے.پس وہ اِن سامانوں کو ابھی چھپائے بیٹھے ہیں اور اندر ہی اندر اور زیادہ سامان تیار کئے جا رہے ہیں.بعض انجینئروں نے تو یہاں تک کہانی
خطبات محمود ۵۵ سال ۱۹۳۹ء ہے کہ اُنہوں نے ایسی ایجادیں کرلی ہیں کہ خاص قسم کی شعاعوں کے ذریعہ وہ ہزاروں میل سے شہروں کو دیکھ سکیں گے اور پھر ہزاروں میل کے فاصلہ سے ہی بجلی کی شعاعیں پھینک کر ان کو بر باد کردیں گے.معلوم نہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور لوگوں کو ڈرانے کے لئے ایسا کہتے ہیں یا اس میں کچھ سچائی بھی ہے مگر ان کا دعویٰ یہ ضرور ہے کہ اُنہوں نے ایسی شعاعیں ایجاد کر لی ہیں جن کی مدد سے وہ ہزاروں میل پر بیٹھے ہی شہروں کو برباد کر سکیں گے.ایسے نازک اوقات میں کی قوموں کا خاموشی سے بیٹھا رہنا بہت بڑی بیوقوفی ہوتی ہے.پس سب کو اس نازک وقت کے آنے سے قبل ہوشیار ہو جانا چاہئے.میں اس موقع پر یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سالوں میں گورنمنٹ پنجاب کے بعض افسروں سے ہمارا جو اختلاف ہوا تھا اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کی ہے کہ اگر جنگ ہو جائے تو اُس وقت ہماری جماعت کا کیا رویہ ہو گا اور آیا وہ حکومت برطانیہ کاکی ساتھ دے گی یا نہیں ؟ میں نے جو بات اُن دوستوں کو پرائیویٹ طور پر بتائی تھی اُس کا آج اعلان بھی کر دیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ہما را جھگڑا حکومت برطانیہ کے ساتھ نہیں تھا بلکہ حکومت کی پنجاب کے بعض نادان افسروں اور درحقیقت حکومت برطانیہ کے دشمن افسروں کے ساتھ تھا.پس اگر جنگ ہو جائے ( گو ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس خطر ناک جنگ سے دنیا کو بچالے ) تو کی اُس وقت ہماری کامل تائید حکومت برطانیہ کے ساتھ ہو گی کیونکہ ہمارا حکومت برطانیہ کے کی ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ تھا.پچھلے دنوں لارڈ ہیلی نے بھی جو پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں اور ہماری جماعت کے بھی دوست ہیں ایک تقریر میں کہا تھا کہ جماعت احمدیہ کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی لڑائی ہمارے ساتھ نہیں بلکہ اگر ہے تو حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ ہے اور میں بھی اِن کے اِس خیال سے متفق ہوں.حقیقت یہی ہے کہ حکومت انگریزی کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں بلکہ جب حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ ہمارا جھگڑا شروع ہوا تھا تو اُس وقت برطانوی حکومت نے ہماری تائید میں پنجاب گورنمنٹ پر زور دیا اور اسے لکھا کہ جماعت احمدیہ کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے.انگلستان میں جو ہمارے مبلغ ہیں وہ بھی نہایت خوش ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء تکلیف نہیں.پس ایسے معاملات میں جہاں برطانوی ایمپائر کا سوال آ جائے ہمارے مقامی جھگڑے قطعا کوئی روک نہیں بن سکتے اور اگر جنگ ہو گئی تو ہم پورے طور پر حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کریں گے بلکہ پہلے سے زیادہ تعاون کریں گے.پس اگر کسی کے دل میں یہ شبہ ہو کہ ایسے موقع پر ہماری جماعت کا کیا رویہ ہوگا تو اُسے یادرکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت کا یہی رویہ ہوگا کہ وہ حکومت برطانیہ کی تائید کرے گی.در حقیقت یہ سخت تھڑا دلی اور تنگ دلی ہوتی ہے کہ انسان مقامی جھگڑوں کو بڑھا کر وسیع کر دے.ہماری اگر حکومت پنجاب کے چند افسروں کے ساتھ لڑائی ہو تو اس کی وجہ سے ہم ان عظیم الشان فوائد کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو حکومت برطانیہ کی وجہ سے اس حکومت کے ماتحت رہنے والے لوگوں کو حاصل ہیں.میں سمجھتا ہوں کا نگرسی بھی اپنے دل میں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی وقت جنگ کا خطرہ ہوا اور اُنہوں نے دیکھا کہ حکومت کی رستی برطانیہ کے ہاتھ سے جا رہی ہے تو وہ بھی حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں کی گے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی حکومت کے ماتحت رہنے کا سوال ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انگریزوں کی حفاظت ہمارے ملک کے لئے بہت بڑی رحمت کا باعث ثابت ہوئی ہے.مگر یا درکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت ایک بین الاقوامی جماعت ہے.کچھ اٹلی کے ماتحت ہیں، کچھ جرمنی کے ماتحت ہیں کچھ امریکہ کے ماتحت ہیں، کچھ برطانیہ کے ماتحت ہیں.پس میں کی جو اعلان کر رہا ہوں یہ اپنی جماعت کے صرف اُسی حصہ کے متعلق اعلان ہے جو برطانوی حکومت کی کے ماتحت رہتا ہے.ہماری جماعت کا ایسا تمام حصہ حکومت برطانیہ کی مدد کرے گا اور ہم ہر گز اس لڑائی جھگڑے کی پرواہ نہیں کریں گے جو بعض مقامی افسروں کے ساتھ ہمارا چل رہا ہے کیونکہ یہ جنگ مقامی نہیں بلکہ نہایت وسیع اثرات رکھنے والی ہوگی اور وہ شخص سخت احمق ہوتا ہے جو ایک چھوٹی بات کی وجہ سے بڑی بات میں بھی حصہ نہ لے بلکہ میں تو سمجھتا ہوں اب ہمارے پاس حکومت برطانیہ کی مدد کے اِس سے بہت زیادہ سامان ہیں جتنے ۱۹۱۴ ء میں ہمارے پاس سامان تھے اور اگر جنگ چھڑ گئی تو میں جماعت کو بتادینا چاہتا ہوں کہ ہمارا فرض ہوگا کی ہم برطانوی حکومت کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں اور ہر قربانی کر کے اپنے آپ کو ایک اچھا شہری ثابت کریں تا کہ وہ برکت جو تبلیغ میں سہولت کی وجہ سے ہمیں حاصل ہے وہ جاتی تی
خطبات محمود ۵۷ سال ۱۹۳۹ء.نہ رہے.بیسیوں ممالک ایسے ہیں جن میں تبلیغ کے راستہ میں سخت مشکلات حائل ہیں صرف برطانوی حکومت ہی ایسی ہے جس کی طرف سے تبلیغ پر کوئی پابندی عائد نہیں.اس لئے نہیں کہ کی برطانوی حکومت دل میں مسلمان ہے بلکہ اس لئے کہ اُس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ مذہب کے معاملہ میں دخل دینا نہیں چاہتی.پس ہماری دوستی کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مقررہ اصول کی وجہ سے انگریزوں نے تبلیغ مذہب کے متعلق کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اور نہ کسی قسم کی پابندی وہ عائد کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو حکومتِ برطانیہ کی وجہ سے مختلف مذاہب کو حاصل ہے.ایک ہندو بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے، ایک عیسائی بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے، ایک سکھ بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے اور ایک مسلمان بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے.پس چونکہ حکومت برطانیہ کی وجہ سے تبلیغ کا دروازہ کھلا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو مذہبی جماعتوں کو حاصل ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم حتی المقدور مصیبت پر اس کی مدد کریں گی اور اپنے تمام ذرائع کو استعمال میں لاکر اس کے ساتھ تعاون کریں.بعض لوگ نادانی سے کہہ دیا کچ کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ حکومت برطانیہ خاص طور پر مراعات کیا کرتی ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے اور کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ ہمیں اُن فوائد سے زیادہ کوئی فائدہ حاصل ہوا ہو جو ہندوؤں ،سکھوں ، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں کو حکومتِ برطانیہ کے زیر سایہ حاصل ہے.فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے اندر خدا تعالیٰ نے شکر گزاری کا مادہ رکھا ہے اور اُن کا دل اس نے سیاہ کر دیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہماری ناک بیشک کٹ جائے مگر دشمن پر کسی طرح الزام آ جائے اور ہم کہتے ہیں کہ ہماری ناک بھی نہ کٹے اور حکومت کے احسانات کی ناشکر گزاری بھی نہ ہو.اس لئے وہ با وجود فائدہ اُٹھانے کے حکومت کی بغاوت کرتے ہیں مگر ہم جب فائدہ اُٹھاتے ہیں تو حکومت کی تعریف بھی کر دیتے ہیں.پس فرق صرف شکر گزاری اور می ناشکر گزاری کے جذبات کا ہے.ورنہ کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ انگریزی حکومت نے ہمیں کوئی ایسا فائدہ پہنچایا ہو جو ہندوؤں کو نہ پہنچا ہو یا سکھوں کو نہ پہنچا ہو یا یہودیوں کو نہ پہنچا ہو.جو سلوک حکومت برطانیہ دوسروں کے ساتھ کرتی ہے وہی ہم سے کرتی ہے بلکہ اُن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی سلوک کرتی ہے کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور ہم اقلیت ہیں اور طبعاً اکثریت کا
خطبات محمود ۵۸ سال ۱۹۳۹ء زیادہ خیال رکھا جاتا ہے.بہر حال چونکہ حکومت برطانیہ نے ہمیں تبلیغ کی عام اجازت دے رکھی ہے اور ایک مذہبی جماعت ہونے کی وجہ سے اس اجازت کا ہمیں بہت بڑا فائدہ ہے اس لئے ہم ہر قربانی کر کے بھی حکومت کا ساتھ دیں گے تا کہ ہماری اس تبلیغ کی آزادی میں کوئی روک واقع نہ ہو اور اگر یہ جنگ میری زندگی میں ہوئی تو یقیناً میں اپنا پورا زور اس بات پر صرف کروں گا کہ جس حد تک جماعت احمد یہ اس نظام کے قیام کے لئے قربانی کر سکتی ہے اُس حد تک قربانی کر کے دکھائے تا کہ وہ امن جو تبلیغ کے راستہ میں ہمیں حاصل ہے اس میں کوئی خلل کی نہ آئے.ہم بے شک اس الزام کو ر ڈ کرتے ہیں کہ جماعت احمد یہ انگریزوں کی ایجنٹ ہے.ہم انگریزوں کے ایجنٹ کس طرح ہو سکتے ہیں جب کہ ہم اٹلی میں بھی رہتے ہیں ، امریکہ میں بھی رہتے ہیں، چین میں بھی رہتے ہیں ، جاپان میں بھی رہتے ہیں اور مصر، شام اور فلسطین وغیرہ میں کی بھی رہتے ہیں اور ہر جگہ کے احمدی وہاں کی حکومتوں کے ساتھ کامل تعاون کرتے اور ان کے احکام کی اسی طرح اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں جس طرح ہم حکومتِ برطانیہ کی یہاں کی اطاعت کرتے ہیں.ہم یہ کبھی پسند نہیں کر سکتے کہ جرمنی کے ماتحت رہنے والے احمدی جرمنی کی غداری کریں یا اٹلی کے ماتحت رہنے والے احمدی اٹلی کی غذاری کریں یا امریکہ کے ماتحت رہنے والے احمدی امریکہ کی غداری کریں.ہم ہر جگہ کے احمدیوں کو یہی ہدایت کریں گے کہ وہ کی اپنی اپنی حکومتوں کے احکام کے تابع رہیں اور جب تک وہ دن نہیں آتا کہ ہر حکومت کے ماتحت رہنے والے احمدی اپنی اپنی حکومتوں کو اس بات پر مجبور کر سکیں کہ وہ لڑائی نہ کریں اور صلح کے ساتھ رہیں تو اُس وقت تک جس نظام کے ماتحت بھی ہماری جماعت کے افرادر ہتے ہوں اُن کا فرض ہے کہ اُس نظام کی اطاعت کریں اور اسی رنگ میں ہم حکومت برطانیہ کی ہر وقت اطاعت کرتے اور ہر وقت اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.پس ہم انگریزوں کے ایجنٹ نہیں بلکہ ہم اپنی مذہبی تعلیم کی وجہ سے اس بات پر مجبور ہیں کہ جس حکومت کے ماتحت رہتے ہوں اُس کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں.خواہ وہ حکومت انگریزوں کی ہوا اور خواہ اٹلی اور جرمنی والوں کی ہو.جب حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ جھگڑا شروع ہو ا تھا اُسی وقت میں.
خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۹ء یہ اعلان کر دیا تھا کہ جب مصیبت کا کوئی وقت آیا اُس وقت ہم دکھا دیں گے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کی جو ہماری پالیسی ہے یہ دکھاوے کی نہیں اور نہ کسی دُنیوی غرض کے ماتحت ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے ماتحت ہم حکومت کی اطاعت کرتے ہیں اور چونکہ اب خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ جلدی کوئی جنگ ہو جائے اس لئے ۱۹۳۴ء میں میں نے جو اعلان کیا تھا اُس کے مطابق میں آج پھر یہ بات واضح کر دینا کی چاہتا ہوں کہ اس جنگ کے موقع پر ہم جو برطانوی حکومت کے ماتحت رہتے ہیں ہمارا تعاون حکومت برطانیہ کے ساتھ ہوگا اور ہم اپنے عمل سے دُنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ ہمارا حکومت برطانیہ سے تعاون کسی خوشامد یالالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہبی تعلیم کی وجہ سے ہے کیونکہ اس وقت اس کے نمائندے پنجاب میں ہم سے نہایت کمینہ اور ذلیل سلوک کر رہے ہیں جس کی موجودگی میں اگر ہم اس حکومت سے دشمنی بھی کریں تو دُنیا کا کوئی اعتراض ہم پر نہیں ہو سکتا لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت بھی حکومت کی اطاعت کی جب اس کے شائستہ اور مہذب اور دیانتدار افسروں نے ہم کو لوگوں کے ظلم سے بچایا اور اُس وقت بھی اس کے ساتھ تعاون کیا جب کہ اس کے بعض افسروں نے ہمیں اپنے مذہبی مرکز میں دق کیا اور ہمارے دشمنوں کو چاروں طرف سے جمع کر کے ہم پر چڑھا لائے اور اُنہوں نے چاہا کہ اپنی طاقت اور اپنے جتھے کے زور سے ہم کو کچل دیں اور ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور انشاء اللہ ثابت کر دیں گے کہ ہمارا یہ معاملہ کسی دُنیوی غرض کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اور مذہبی اصول کی پابندی کی وجہ سے ہے.مگر اس کے یہ معنے نہ ہوں گے کہ ہم اپنے حقوق کو بھول جائیں.میں احمدیت کی عزت کی کی خاطر مقامی افسروں سے اگر وہ اپنے بُرے رویہ کو ترک نہ کریں گے برابرلڑ تا رہوں گا اور جب تک احمدیہ جماعت کی عزت کو قائم نہ کرلوں گا ان سے صلح نہ کروں گا کیونکہ میرے نزدیک احمد یہ جماعت کی عزت برطانیہ کی عزت سے بہت زیادہ ہے اور جو افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ڈرا لیں گے وہ ایک دن ذلیل ہو کر اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے.میں احسان کے ساتھ ان سے بدلہ لوں گا اور خود ان کی قوم سے
خطبات محمود ان کے خلاف ملامت کا اظہار کروا کے چھوڑوں گا إِنْشَاءَ اللہ تَعَالیٰ.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الَّذِى هُوَ مِرْفَقِي وَ مُؤَتِدِى وَ نَاصِرِى “ البقره: ۱۱۸ سال ۱۹۳۹ء الفضل کار فروری ۱۹۳۹ ء ) وَاذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوني وارقي الهَيْنِ مِن دُونِ الله وَانتَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدُ (المائدة: ۱۱۷ ، ۱۱۸) الحجر : ١٠ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قوله و اخرين منهم....الخ) ۵ ابو داؤد کتاب الادب باب فى فضل من عال يتامى ، ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في النفقة على البنات وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن (الرحمن : ۴۷) وَمَنْ كَانَ في هذة أعمى فَهُوَ فِي الأخرة اعلى (بنی اسرائیل: ۷۳) الا بخاری کتاب الزكواة باب الاستعفاف عن المسألة ١٢ ابن ماجه كتاب الزكوة باب كراهية المسئلة
خطبات محمود ۶۱ ۵ سال ۱۹۳۹ء جماعت میں قومی اور ملتی روح پیدا کریں تعلیم دین پھیلائیں اور جسمانی و دماغی آوارگی کو روکیں.(فرموده ۱۰ / فروری ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے پچھلے خطبہ میں اس امر کا ذکر کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ جیسی جماعت کا وجود ایک نہایت ہی ضروری اور اہم کام ہے اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور ان کا نیک کاموں میں تسلسل ایک ایسی بات ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.میں نے بتایا تھا کہ مستورات کی اصلاح کے لئے لجنہ اماءاللہ کا قیام اور مردوں کی اصلاح کے لئے خدام الاحمدیہ کا قیام گو یا دونوں ہی قومی تحریک کے دو بازو ہیں اور تربیت کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری امور میں سے ہیں.میں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ اُن کو اپنے کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنے چاہئیں.یہ نہیں کہ بغیر پروگرام کے کام کرتے رہیں کیونکہ اس طرح بغیر پروگرام کے کام کرنے سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کو اپنے قریب مستقبل میں اور بعید میں بھی بعض باتیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئیں.ممکن ہے ان کے سوا بعد میں بعض اور باتیں بھی شامل ہوتی جائیں لیکن مستقبل قریب میں انہیں مندرجہ ذیل باتوں پر خاص توجہ کرنی چاہئے.
خطبات محمود ۶۲ سال ۱۹۳۹ء ان میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی ان کے کام کے ساتھ وابستہ رہنی چاہئیں اور بعض ایسی ہیں جو مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں بدل سکتی ہیں.ان کے فرائض میں سے پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ اپنے ممبروں میں قومی رُوح پیدا کریں.قوم کا لفظ آجکل اتنا بد نام ہو چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الا اول اس سے چڑھ جایا کرتے تھے.جب کوئی شخص آپ کے سامنے کہتا کہ ہماری قوم " تو آپ فرماتے کہ ”ہماری قوم“ کیا ہوتی ہے؟ ہمارا مذہب کہنا چاہئے لیکن در حقیقت بات یہ ہے کہ جہاں یہ لفظ نسلی امتیاز پر دلالت کرتا ہے وہاں مذہبی امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے..چنانچہ خود قرآن کریم میں بھی اس کی کی مثال موجود ہے.جیسا کہ فرمایا اِن قومی اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ت ا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا اعتراض بوجہ اس غلط استعمال کے تھا جو آجکل اس لفظ کا ہو رہا ہے اور جب کسی لفظ کا اس طرح غلط استعمال عام ہو جائے تو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.جب قوم کا لفظ نسلی یا سیاسی جتھے کے معنوں میں استعمال ہونے لگے اور مذہب کا جتھہ اس سے نہ مُراد نہ ہو تو اس کا یہ استعمال قابلِ اعتراض ہے کیونکہ دُنیا میں اسلام کی غرض یہ ہے کہ تمام سیاسی ، نسلی اور اقتصادی جتھوں کو مٹادے اور بنی نوع انسان میں ایک عام اخوت کی تعلیم رائج کرے.پس اس لفظ کے غلط استعمال کی وجہ سے اگر کبھی اس لفظ کو استعمال سے خارج کر دیا جائے تو یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اپنے وسیع معنوں میں یہ لفظ بُر انہیں.غرض خدام الاحمدیہ کو یا درکھنا چاہئے کہ قومی اور ملی رُوح کا پیدا کرنا ان کے ابتدائی اصول میں سے ہے.اس سال جلسہ سالانہ پر میں نے جو تقریر کی تھی اس میں بتایا تھا کہ نبوت کی پہلی کی غرض ملتی رُوح کا پیدا کرنا تھا.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت اور شریعت کا مرکزی نقطہ ملتی روح کا پیدا کرنا ہی تھا.اُس وقت لوگ گناہ سے واقف نہ تھے اور نہ ہی ثواب کی زیادہ کی را ہیں ابھی تک کھلی تھیں.اُس وقت حضرت آدم کی نبوت کی غرض یہی تھی کہ تعاون کی روح جو ایک حد تک اُبھر چکی تھی اُسے مکمل کریں اور اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملی رُوح کا سبق وہ سبق ہے جو ہمارے پہلے روحانی باپ نے دیا اور سب سے پہلا الہام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا
خطبات محمود ۶۳ سال ۱۹۳۹ء وہ ملی روح کے لئے ہی تھا.یعنی يَادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ " اے آدم تو اور تیرے ساتھی جنت میں رہو یعنی اکٹھے مل کر تعاون کے ساتھ رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کرو.زوج کے معنی بیوی کے بھی ہوتے ہیں سکے مگر ساتھی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے کیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں جہاں یہ لفظ بیوی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہاں کئی الہام ایسے ہیں جن میں یہ جماعت کے معنوں میں آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں اور الفاظ قرآنی کے جو معنی اس زمانہ میں مخفی تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے الہامات میں ان کا استعمال کر کے وہ معانی ظاہر فرما دیئے ہیں اور اگر کوئی شخص آپ کے الہامات کا مطالعہ کرتا ہے تو قرآن کریم کی تفسیر میں اُس کا علم بہت وسیع ہو سکتا ہے اور آپ کے الہاموں میں زوج کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے.کہیں اس کے معنی بیوی کے ہیں اور کہیں مخلص جماعت کے اور زوج کے معنوں میں یہ امتیاز معلوم کرنے کے بعد جب اسے قرآن کریم کی اس آیت پر چسپاں کریں تو وسیع مطالب کھل جاتے ہیں.غرض يَا دَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ مَا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آدم اور اُس کی بیوی جنت میں رہیں.مگر اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آدم اور اُس کے مخلص صحابی ایک جگہ مل کر رہیں اور محبت سے رہیں.تعاون کا مفہوم جنت کی کے لفظ سے نکلتا ہے.جنت کی تشریح اسلام نے یہ کی ہے کہ دلوں سے کینہ و بغض نکال دیا جائے گا اور جب یہ حکم ہو کہ جنت میں رہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اپنی زندگی میں جنت کی کیفیات پیدا کرو اور باہم تعاون کے ساتھ رہو.ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا اور کی گالی گلوچ سے بچو ، جماعتی نظام کو نمایاں کرو اور شخصی وجود کو اس کے تابع رکھو اور دراصل اس کے بغیر حقیقی تعاون کبھی ہو ہی نہیں سکتا.حقیقی تعاون کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ انسان شخصی آزادی کو قربان کر دے.دو شخص اکٹھے چل رہے ہیں.ایک تیز چلنے والا ہے اور دوسرا کمزور.اب دونوں کے اکٹھا چلنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ تیز چلنے والا اپنی رفتار کو کم کر دے اور آہستہ چلنے لگے کیونکہ کمزور تو تیز نہیں چل سکتا.ایک بوڑھا جو لاٹھی ٹیک کر چلتا ہے اور ایک تیز چلنے والا نوجوان اکٹھے چلیں اور بوڑھا یہ اُمید رکھے کہ نو جوان آہستہ چلے اور نو جوان یہ کہ
خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۹ء بوڑھا تیز چلے تا دونوں اکٹھے چل سکیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ دونوں میں سے کس کی اُمید جائز سمجھی جائے گی.یقیناً بوڑھے کی کیونکہ بوڑھا اگر کوشش بھی کرے تو بھی تیز نہیں چل سکتا لیکن نوجوان آہستہ چل سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنی رفتار کو سست کر کے بوڑھے کو ساتھ لے جاسکتا ہے اور اس لئے دونوں میں سے وہی مطالبہ صحیح ہو سکتا ہے جو ممکن ہے.نوجوان اگر یہ مطالبہ کرے کہ بوڑھا تیز چل کر اس کے ساتھ ملے تو اس کا یہ مطالبہ بے وقوفی کا مطالبہ سمجھا جائے گا کیونکہ تیز چلنا بوڑھے کے لئے ممکن ہی نہیں.ہاں وہ خود تیز چلنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی آہستہ چل سکتا ہے لیکن جب یہ ایسا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنی آزادی پر قید لگا تا ہے.خدا تعالیٰ نے اسے طاقت دی ہے کہ چار پانچ میں ایک گھنٹہ میں طے کر جائے مگر چونکہ اس کا ساتھی بوڑھا ہے اور پون میل سے زیادہ نہیں چل سکتا اس لئے یہ بھی اپنی رفتار اتنی ہی کر لیتا ہے اور اتنا ہی چلتا ہے.اس کا اتنی کم رفتار سے چلنا اس کی اپنی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اپنے بوڑھے اور کمزور ساتھی کو بھی ساتھ لے جاسکے اور یہی حقیقی تعاون ہے کہ انسان کو اختیار اور طاقت حاصل ہو، رتبہ حاصل ہو ، روپیہ موجود ہو مگر وہ اُن کے متعلق اپنے اختیارات پر خود قیدیں لگا دے.روپیہ خرچ کرنے کے لئے موجود ہو مگر کم خرچ کرے یا اُسے دوسروں کے لئے خرچ کرنے لگے.موجود ہونے کے باوجود کم خرچ کرنے کی مثال روزہ ہے اور دوسروں کی خاطر خرچ کرنے کی مثال صدقہ ہے.روزہ میں کم خرچ کیا جاتا ہے.ایک امیر آدمی بھی سب کچھ موجود ہونے کے باوجود اپنی شکل غریبوں کی سی بناتا ہے.دراصل سحری کی غرض یہی ہے کہ انسان جو بھی کھاتا ہے چوری چھپے کھاتا ہے اور جب لوگوں کے سامنے آتا ہے تو ایسی حالت میں کہ اس کے چہرہ سے فاقہ کشی اور غربت کے آثار ہویدا ہوتے ہیں اور اس طرح وہ جسے کھانے کو ملتا ہے اور وہ بھی جسے نہیں ملتا سب یکساں نظر آتے ہیں.جو کچھ کھانا ہوتا ہے وہ سحری کے وقت ہی کھا لیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے سامنے آنے کے وقت سب کی شکلیں غربت ظاہر کر رہی ہوتی ہیں.حج کی بھی یہی صورت ہے سب کے لئے حکم ہے کہ ایک چادر لپیٹ لو اور اس طرح لباس میں سب تکلفات ، کوٹ، صدری، قمیص، بنیان وغیرہ اُڑ گئیں.پھر اس چادر کی سلائی کو بھی روک دیا کیونکہ سب فیشن دراصل سلائی سے ہی پیدا ہوتے ہیں.صرف ایک
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کپڑا پہننے کی اجازت ہے اور سب کے لئے یہی حکم ہے.اس طرح ہماری شریعت نے دونوں رنگ رکھے ہیں.کہیں تو کم خرچ کرنے کو کہا ہے اور کہیں دوسروں کے لئے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے.روپیہ موجود ہے مگر انسان اس کا استعمال نہیں کر سکتا اس لئے کہ اپنے غریب یا نادار بھائی کے مشابہہ نظر آ سکے.یا چیز موجود ہے مگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دوسرے کو دے دو اور اسی کا نام ملتی روح ہے.یعنی اپنی طاقتوں کو اور ذرائع کو مقید اور محدود کر دیا جائے اور اس ملی روح کے کمال کا نقطہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ بات پیدا ہو جائے کہ جہاں میری ذات کا مفاد میری قوم کے مفاد سے ٹکرائے وہاں قومی مفاد کو مقدم کروں گا اور اپنی ذات کو نظر انداز کر دوں گا اور جب کسی جماعت میں یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ کسی سے ہارتی نہیں.صحابہ کرام کی حالت ہمارے سامنے ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لئے صحابہ جو قر بانیاں کرتے تھے وہ بھی دراصل اسلام کے لئے ہی تھیں کیونکہ وہ آپ کو اسلام کا مکمل نمونہ خیال کی کرتے تھے اور اس لئے آپ کے مقابلہ میں اپنی شخصیتوں کو بالکل نظر انداز کر دیتے تھے.مذہبی جماعتوں میں تو رُوح بہت بڑی ہوتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی قوموں میں بھی جب یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ بہت ترقی کر جاتی ہیں.آج کل دیکھ لو انگلستان میں بھی اور ا ہندوستان میں بھی یہ موضوع زیر بحث آتا رہتا ہے کہ عورت کا کام کیا ہے؟ بڑے بڑے لوگ ہمیشہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں مگر کیا مجال جو کوئی یہ کہنے کی جرات کر سکے کہ عورت کا کام یہ ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں بیٹھے.اگر کوئی شخص ایسی بات کہہ دے تو ایک طرف عورتیں اس کے پیچھے پڑ جائیں گی کہ یہ ہماری آزادی کا دشمن ہے اور دوسری طرف اخبارات میں مردا سے غیر مہذب اور غیر متمدن کہیں گے لیکن جرمنی میں ہٹلر نے کہہ دیا کہ عورت کا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے اور سب نے اسے تسلیم کر لیا.جو بات یہاں ہندوستان میں جو ایک غلام ملک ہے کہنے کی کوئی حجرات نہیں کرتا وہ ایک آزاد ملک میں کہی گئی اور سب نے اسے ہلا چون و چرا تسلیم کر لیا.حالانکہ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ یورپ میں اس کا سمجھنا بالکل ناممکن کی ہے کہ عورت گھر میں کس طرح رہ سکتی ہے مگر ہٹلر نے جو حکم دیا اُسے سب نے تسلیم کیا اور عمل کیا.اگر چہ کوئی ایسا طبقہ ہو سکتا ہے جو دل سے اس خیال کے ساتھ متفق نہ ہو مگر یہ جرات کسی کو نہیں ہوئی
خطبات محمود ۶۶ سال ۱۹۳۹ء کہ مقابلہ پر آئے.یہاں بڑے بڑے شہروں مثلاً لا ہور ، دہلی شملہ میں آئے دن عورت مرد کی مساوات کا شور رہتا ہے.مساوات کے یوں تو سب ہی قائل ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ کی مساوات ہے کس معاملہ میں؟ حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جموں میں ایک حج اسی موضوع پر اُن سے بحث کرنے لگا کہ مرد عورت میں مساوات ہونی ضروری ہے.آپ نے فرمایا کہ پچھلی مرتبہ آپ کی بیوی کے لڑکا ہو ا تھا اب کے آپ کے ہونا چاہئے.یہ جواب سن کر وہ کہنے لگا کہ میں نے سُنا ہوا تھا مولوی بد تہذیب ہوتے ہیں مگر میں آپ کو ایسا نہ سمجھتا تھا لیکن ی اب معلوم ہوا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس میں بدتہذیبی کی کوئی بات نہیں.میں نے تو ایک مثال دی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ جب فطرت نے دونوں کو الگ الگ کاموں کے لئے پیدا کیا ہے تو اس مساوات کے شور سے کیا فائدہ؟ تھی تو یہ سچائی مگر ایسے ننگے طور پر پیش کی گئی کہ اُسے بُری لگی اور شائد اُس کے حالات کے لحاظ سے حضرت خلیفہ اول کے لئے اس کے ہوا چارہ نہ ہو.حقیقت یہ ہے کہ مساوات بے شک ہے مگر دونوں کے کام الگ الگ ہیں.اس بات کو پیش کرنے کی کسی کو حجرات نہیں ہوتی کیونکہ قومی روح موجود نہیں.ہر شخص اپنی ذات کو دیکھتا ہے.اگر عورتوں کے لئے یہ قر بانی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو مرد کے لئے بھی اس کے مقابلہ میں یہ بات ہے کہ میدانِ جنگ میں جا کر سر کٹوائے لیکن چونکہ قومی اور ملتی رُوح موجود نہیں اس لئے ان باتوں کو کوئی پیش کرنے کی جرات نہیں کرتا.پس خدام الاحمدیہ اس بات کو اپنے پروگرام میں خاص طور پر ملحوظ رکھیں کہ قومی اور کج ملتی روح کا پیدا کرنا نہایت ضروری ہے.اصولی طور پر ہر ایک سے یہ اقرار لیا جائے اور اسے بار بار ڈ ہرایا جائے.محض اقرار کافی نہیں ہوتا بلکہ بار بارڈ ہرا نا اشد ضروری ہوتا ہے.آج کی علم النفس کے ماہر اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ دوہرانے سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے لیکن ان کی یہ بات جب میں پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح آج کی سے چودہ سو سال قبل اسلام نے اسی بات کو پیش کیا ہے.اسلام ہی ہے جس نے نہایت مختصر الفاظ میں مذہب کا خلاصہ پیش کر دیا.لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کیا ہے؟ یہ اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہے اور جب میں علم النفس کا یہ مسئلہ پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ
خطبات محمود ۶۷ سال ۱۹۳۹ء آج تحقیقا تیں کر رہے ہیں.ہٹلر آج کہتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال کی قبل یہ نکتہ بتا دیا تھا.ہٹلر نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ میں نے قومی ترقی کے ذرائع پر بڑا غور کیا اور آخرمیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ قومی ترقی کے اسباب کو تھوڑے سے تھوڑے لفظوں میں بیان کرنا چاہئے جو بار بار لوگوں کے سامنے آتے رہیں اور وہ انہیں بار بار دہراتے رہیں.اس طرح وہ انسانی دماغ میں جذب ہو جائیں گے لیکن اسلام میں یہ بات پہلے ہی سے موجود ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کیا ہے؟ یہ اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہے.اسے نمازوں میں اذانوں میں ، اسلام لانے کے وقت غرضیکہ بار بارڈ ہرانے کا حکم ہے اور اس طرح بار بار جو چیز دُہرائی جائے وہ زیادہ سے زیادہ پختہ وہ جاتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کو بھی چاہئے کہ ان کو چھوٹے سے چھوٹے فقروں میں لائیں اور پھر ہر میٹنگ کے موقع پر بار بار ان کو دُہرایا جائے.مثلاً یہ فقرہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنی جان کی اسلامی کی اور ملتی فوائد کے مقابلہ میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا.جب کوئی مجلس ہو ہر شخص باری باری پہلے اِسے دُہرائے اور پھر کام شروع ہو.اسی طرح جب ختم ہو تو بھی اِسے دُہرایا جائے اور اِس طریق سے یہ بات دماغ میں جذب ہو سکتی ہے.بعض نادان خیال کر لیتے ہیں کہ قواعد میں کوئی بات رکھ دینا ہی کافی ہوتا ہے اور اس طرح وہ دل میں داخل ہو جاتی ہے.حالانکہ یہ بات فطرت انسانی کے بالکل خلاف ہے.اگر ایسا ہو سکتا تو اسلام کی تعلیم کے خلاصہ کے بار بار دُہرائے جانے کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ پس اس قسم کا کوئی فقرہ بنایا جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ بار بار دہرایا جا تا رہے مثلاً یہ کہ میں جماعتی اور ملتی ضرورتوں کے مقابلے میں اپنی جان و مال اور کسی چیز کی کوئی پروانہ کروں گا.اور پھر ایسا انتظام ہو کہ اسے بار بار دہرایا جائے.ایسے فقروں کو بار بار دہرانے کی سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ذہنیتوں میں ایسی تبدیلی ہو جائے گی کہ بعض اوقات مخلصوں میں بھی بغاوت کا جو مادہ پیدا ہو جاتا ہے اُس کا احتمال نہیں رہے گا.دیکھو اسلام نے لَا إِلهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کو بار بارڈ ہرانے کا جو حکم دیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کبھی کوئی مسلمان یہ نہیں کہے گا کہ میں خدا کو نہیں مانتا یا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتا.آپ کو
خطبات محمود ۶۸ سال ۱۹۳۹ء کئی ایسے مسلمان ملیں گے جو کہہ دیں گے کہ جاؤ میں روزہ نہیں رکھتا، میں نماز نہیں پڑھتا مگر ایسا کوئی تی جو اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھتا ہو نہیں ملے گا جو کہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا.اس لئے کہ نماز اور روزہ کی تعلیم بار بار اس کے سامنے دہرائی نہیں گئی مگر لَا إِلهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله بار بار دہرایا جاتا رہا ہے.پس خدام الاحمدیہ انفرادی رُوح کی ملی روح پر قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کریں اور اس کے لئے کوئی موزوں فقرہ بھی بنایا جائے جو کام شروع کرتے وقت بھی اور ختم کرتے وقت بھی دُہرایا جائے اور نعرے بھی لگائے جائیں لیکن ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ قومی روح توحید باری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی.اس لئے ایسے فقرہ میں توحید کا اقرار بھی ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا بھی اور پھر وہ چھوٹا بھی ہو اور ہر موقع پر اُسے بار بار دہرانے کا انتظام بھی کیا جائے.پھر جب بھی کوئی جماعتی تحریک ہو وہ اپنے نو جوانوں کا جائزہ لیتے رہیں کہ اس میں اُنہوں نے کیا حصہ لیا ہے.سب اپنے اپنے ہاں کام کریں مگر ان سب سے رپورٹ لی جائے کہ کیا کیا ہے؟ اس طرح بھی کام کرنے کی ایک رو پیدا ہوتی ہے اور پہلے جو غفلت کر رہے ہوتے ہیں اُن کو بھی توجہ پیدا ہو جاتی ہے.دوسری بات جو اُنہیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئے وہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا ہے.یہ ایک مذہبی انجمن ہے سیاسی نہیں اور اس لئے اصل پروگرام یہی ہے باقی چیزیں تو ہم حالات اور ضروریات کے مطابق لے لیتے یا ملتوی کر دیتے ہیں لیکن ہمارا اصل پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے.لجنہ اماءاللہ ہوں، مجلس انصار ہو، خدام الاحمد یہ ہو، نیشنل لیگ ہے غرض کہ ہماری کوئی انجمن ہو اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے اور جب ہر ایک احمدی یہی سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سب ہدایات دے دی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مُضر نہیں تو اس کی کے سوا اور کوئی پروگرام ہو ہی کیا سکتا ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ اصل پرگرام تو وہی ہے.اس میں سے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق بعض چیزوں پر زور دے دیا جاتا ہے لیکن جب روزے رکھے جا رہے ہوں تو اُس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حج منسوخ ہو گیا بلکہ چونکہ وہ دن روزوں کے ہوتے ہیں اس لئے روزے رکھے جاتے ہیں.جب ہم کوئی پروگرام تجویز کرتے ہیں
خطبات محمود ۶۹ سال ۱۹۳۹ء تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس وقت یہ امراض پیدا ہو گئے ہیں اور ان کے لئے یہ قرآنی نسخے ہم استعمال کرتے ہیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ سارا پروگرام سامنے ہواور اس میں سے حالات کے مطابق باتیں لے لی جائیں لیکن اگر سا را پروگرام سامنے نہ ہو تو اس کا ایک نقص یہ ہوگا کہ صرف چند باتوں کو دین سمجھ لیا جائے گا.پس خدام الاحمدیہ کا اہم فرض یہ ہے کہ اپنے ممبروں میں قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے اور ڑھانے کا انتظام کریں اور چونکہ وہ خدام الاحمدیہ ہیں صرف اپنی خدمت کے لئے ان کا وجود نہیں.اس لئے جماعت کے اندر قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنا ان کے پروگرام کا خاص حصہ ہونا چاہئے.تیسری بات جو ان کے پروگرام میں ہونی چاہئے وہ آوارگی کا مٹانا ہے.آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور یہ سب بیماریوں کی جڑ ہوتی ہے اس کی بڑی ذمہ داری والدین اور استادوں پر ہوتی ہے.وہ چونکہ احتیاط نہیں کرتے اس لئے بچے اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس کے مٹانے کے لئے کتنا انتظام کیا ہے کہ فرمایا بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان اور تکبیر کہی جائے ہے اور اس طرح عمل سے بتا دیا کہ بچہ کی تربیت چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہئے.آپ نے فرمایا ہے کہ بچوں کو مساجد اور عید گاہوں میں ساتھ لے جانا چاہئے.لے خود آپ کا اپنا طریق بھی یہی تھا.آجکل تو یہ حالت ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان بھی بیہودہ حرکت کریں تو والدین کہہ دیتے ہیں کہ ابھی نیا نا یعنی کم عمر ہے لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس حدیثیں سناتے ہیں جبکہ اُن کی عمر صرف تیرہ سال کی ہے.امام مالک کے درس میں امام شافعی شریک ہونے کے لئے گئے اُن کی کے درس میں بیٹھنے کے لئے یہ ضروری شرط تھی کہ طالبعلم قلم دوات لے کر بیٹھے اور جو کچھ وہ بتا ئیں نوٹ کرتا جائے.امام شافعی کی عمر اُس وقت صرف نو سال کی تھی.امام مالک نے انہیں بیٹھے دیکھا تو کہا بچے تم کیوں بیٹھے ہو؟ امام شافعی نے جواب دیا کہ درس میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں.آپ نے پوچھا کہ اب تک کیا پڑھا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ یہ پڑھ چکا ہوں.اس پر امام مالک نے کہا کہ تم بہت کچھ پڑھ چکے ہو مگر میرے درس میں بیٹھنے کا یہ طریق نہیں.یہاں تو قلم دوات لے کر بیٹھنا چاہئے.امام شافعی نے کہا کہ میں کل بھی بیٹھا تھا آپ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء دوسرے طلباء سے مقابلہ کرالیں.امام صاحب نے سوال کیا اور اُنہوں نے ٹھیک جواب دیا.امام صاحب کی عادت تھی کہ اگلے روز نوٹوں کو سنتے اور کوئی غلطی ہوتی تو اُس کی اصلاح کر دیتے تھے.اس دن جو اُنہوں نے گزشتہ نوٹ سُننے شروع کئے تو جب پڑھنے والا غلطی کرتا امام شافعی جھٹ اس کو ٹوک دیتے کہ امام صاحب نے یوں نہیں بلکہ یوں فرمایا تھا.چنانچہ امام مالک نے اُن کو بغیر قلم دوات کے اپنے درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی حالانکہ اور کسی کو اس کی اجازت نہ تھی.یہ بات کیوں تھی؟ اس لئے کہ ماں باپ نے شروع میں ہی ان کو علم کے حصول کی میں لگا دیا تھا مگر ہمارا دنیا نا پن یعنی بچپن اٹھارہ میں سال تک نہیں جاتا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عمر کے دو ہی حصے سمجھے جاتے ہیں.ایک وہ جب بچہ سمجھا جاتا ہے اور ایک وہ کی جب وہ بے کار بوڑھا ہوتا ہے اور اس طرح کام کا کوئی وقت آتا ہی نہیں.ایک دفعہ ایک عورت جس کی عمر کوئی پینسٹھ سال کی ہو گی مجھ سے کوئی بات کر رہی تھی اور بار بار کہتی تھی کہ ساڈے یتیماں تے رحم کرو یعنی ہم قیموں پر رحم کریں.یہ کوئی پانچ سات سال کی بات ہے اور اس وقت اس کی عمر ۶۵ سال کی ہو گی تو گویا ہمارے ہاں یا تو آدمی بچہ ہوتا ہے اور یا پیر فرتوت جسے پنجابی میں سترا بہترا کہتے ہیں.یہ بہت حماقت کی بات ہے کہ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر انہیں آوارہ ہونے دیا جائے.اگر بچوں سے صحیح طور پر کام لیا جائے تو وہ کبھی آوارہ ہو ہی نہیں سکتے.اگر انہیں گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرنے کی بجائے مجلسوں میں بٹھایا جائے تو بہت کی کچھ سیکھ سکتے ہیں.میری تعلیم کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں جا بیٹھتا تھا ، حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں چلا جاتا تھا ، کھیلا بھی کرتا تھا.مجھے شکار کا شوق تھا ، فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا لیکن گلیوں میں بیکا نہیں پھرتا تھا بلکہ اُس وقت مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والوں سے میرا علم خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ تھا.علم گدھوں کی طرح کتابیں لاد لینے سے نہیں آ جاتا.آوارگی کو دور کرنے سے علم بڑھتا ہے اور ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے.پس اسا تذہ، افسران تعلیم اور خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ بچوں سے آوارگی کو دُور کریں یہ آوارگی کا ہی اثر ہے کہ ادھر ہم نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اُدھر گلی میں بچے گالیاں بک رہے
خطبات محمود 21 سال ۱۹۳۹ء ہوتے ہیں.اگر تو وہ نماز ہی نہیں پڑھتے تو دُہرے مُجرم ہیں.نہیں تو یہی مجرم کا فی ہے، فحش گالیاں ماں بہن کی وہ بکتے ہیں اور کسی شریف آدمی کو خیال نہیں آتا کہ اُن کو روکے.مسجد مبارک کے سامنے کھیلنے والے بچے ۹۵،۹۰ فیصدی احمدیوں کے بچے ہی ہو سکتے ہیں.تھوڑے سے غیروں کے بھی ہوتے ہوں گے مگر میں نے اپنے کانوں سے سُنا ہے احمدیوں کے بچے گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور اُن کے ماں باپ اور اساتذہ کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اُن کی اصلاح کریں.پھر میں نے دیکھا ہے مدرسہ احمدیہ کے طلباء گلیوں میں سے گزرتے ہیں تو ی گاتے جاتے ہیں.حالانکہ یہ وقار کے سخت خلاف ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ شرم و حیا جو دین کی کا حصہ ہے بالکل جاتی رہی ہے.پھر میں نے دیکھا ہے نو جوان ایک دوسرے کی گردن میں با ہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جارہے ہیں.حالانکہ یہ سب باتیں وقار کے خلاف ہیں.مجھے یاد ہے میرا ایک دوست تھا بچپن میں ایک دفعہ ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ حضرت خلیفہ اول نے دیکھا.میری تو آپ بہت عزت کیا کرتے تھے اس لئے مجھے تو کچھ نہ کہا لیکن اُس کو اِس قدر ڈانٹا کہ مجھے بھی سبق حاصل ہو گیا.ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ دتی اے نی میں تینوں کہاں تو ایس نی توں گن رکھے.یعنی بات تو میں اپنی لڑکی سے کہتی ہوں مگر بہو اسے غور سے سُنے.اسی طرح حضرت خلیفہ اول نے اُسے ڈانٹا مگر مجھے بھی سبق ہو گیا کہ یہ کی بری بات ہے.میں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی.نو جوان بے تکلفانہ ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں حتی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا.کیونکہ اُن کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بُری بات ہے.ان کے ماں باپ اور اساتذہ نے ان کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی.حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار اُن کے لئے دل سے دُعا نکلتی ہے.ایک دفعہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر گہنی ٹھیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قا در بخش صاحب نے جو مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے والد تھے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بُری بات ہے.
خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۹ء اُس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے اُن کے لئے دل سے دُعا نکلتی ہے.اسی طرح ایک صو بیدا ر صاحب مُراد آباد کے رہنے والے تھے اُن کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے.ہماری والدہ چونکہ دتی کی ہیں اور دتی بلکہ لکھنو میں بھی ” تم “ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.بزرگوں کو بے شک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے ”آپ کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے.اس لئے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم ہی کہا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے.صوبیدار محمد ایوب خان صاحب مُراد آباد کے رہنے والے تھے.گورداسپور میں مقدمہ تھا اور میں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم کہہ دیا.وہ صوبیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں کی اور ہمارے لئے محلِ ادب ہیں لیکن یہ بات یا درکھیں کہ تم“ کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اس کا استعمال میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا.یہ پہلا سبق تھا جو اُنہوں نے اس بارہ میں مجھے دیا.پس بڑوں کا کی فرض ہے کہ چھوٹوں کو یہ آداب سکھائیں.اگر ایک ہی شخص کہے تو ان پر اثر نہیں ہوتا.بچے سمجھتے ہیں یہ ضدی سا آدمی ہے یونہی ایسی باتیں کرتا رہتا ہے.اگر باپ کہے اور ماں نہ کہے تو سمجھتے ہیں باپ ظالم ہے.اگر یہ اچھی بات ہوتی تو ماں کیوں نہ کہتی.اگر ماں باپ کہیں اور اُستاد نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو اُستاد کیوں نہ کہتا اور اگر اُستاد بھی کہے اور دوسرا کوئی نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو کوئی دوسرا شخص کیوں نہ کہتا لیکن اگر ماں باپ بھی کہیں ، اُستاد بھی کہیں اور دوسرے لوگ بھی کہتے رہیں تو وہ بات ضرور دل میں راسخ ہو جاتی ہے.ایک چھوٹا سا ادب خطبہ کو توجہ سے سنتا ہے اور میں کئی بار اس کی طرف توجہ بھی دِلا چکا ہوں کی مگر میں نے دیکھا ہے لوگ برابر باتیں اور اشارے کرتے رہتے ہیں اور اساتذہ یا دوسرے لوگ کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ڈالتے کہ جس سے اصلاح ہو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عادت ہمیشہ ہی چلتی چلی جاتی ہے.ایک دفعہ میں نے دیکھا میں خطبہ پڑھ رہا تھا.ایک شخص کو میں قریباً
خطبات محمود ۷۳ سال ۱۹۳۹ء - پندرہ منٹ تک دیکھتا رہا کہ وہ اپنے ایک بعد میں آنے والے دوست کو برا بر اشارے کرتا رہا کہ آگے آ جاؤ.اگر بچپن میں ماں باپ یا اُستاد یا دوسرے لوگ اُسے یہ بتاتے کہ یہ نا جائز ہے اور کہ جب تمہاری اپنی ہدایت کا سوال پیدا ہو جائے تو دوسرے کو گمراہی سے بچانے کا موقع نہیں ہوتا تو وہ اِس گناہ کا مرتکب نہ ہوتا.یہ اس جوش کی وجہ سے کہ دوست آگے آ جائے اور خطبہ سُن لے اُسے اشارے کرتا تھا لیکن وہ شرم کی وجہ سے آگے نہ بڑھتا تھا اور اگر یہ مسئلہ بچپن سے ہی اس کے ذہن نشین ہوتا تو کبھی دوسری طرف اس کی نظر ہی خطبہ کے دوران میں نہ اُٹھتی اور اس کی طرح کسی کو اشارے کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور یہ دوسرے کی ہدایت کے جوش میں خود گمراہی کا مرتکب نہ ہوتا.یہ تربیت سے تعلق رکھنے والے مسائل ہیں اور ان سے آوارگی دور ہوتی ہے.پھر بچہ کو بر وقت کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھنا چاہئے.میں کھیل کو بھی کام ہی سمجھتا ہوں یہ کوئی آوارگی نہیں.آوارگی میرے نزدیک فارغ اور بریکار بیٹھنے کا نام ہے یا اس چیز کا کہ بانہوں میں بانہیں ڈال لیں اور گلیوں میں پھرتے رہے.اس بات کا اچھی طرح خیال رکھنا چاہئے کی کہ بچے یا پڑھیں یا کھیلیں یا کھائیں اور یا سوئیں، کھیل آوارگی نہیں.اس لئے اگر وہ دس گھنٹے بھی کھیلتے ہیں تو کھیلنے دو.اس سے ان کا جسم مضبوط ہو گا اور آوارگی بھی پیدا نہ ہو گی.پس کھیلنا بھی ایک کام ہے جس طرح کھانا اور سونا بھی کام ہے مگر خالی بیٹھنا اور باتیں کرتے رہنا کی آوارگی ہے.اس لئے خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ جماعت کے بچوں میں یہ آوارگی کی پیدا نہ ہو.کسی کو یونہی پھرتے دیکھیں تو اس سے پوچھیں کہ کیوں پھر رہا ہے.اگر باز نہ آئے تو محلہ کے پریذیڈنٹ کو رپورٹ کریں اور ان سب باتوں کے لئے اصول وضع کریں جن کے ماتحت کام ہو.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ گھنٹوں دکانوں پر بیٹھے فضول باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ اگر اُسی وقت کو وہ تبلیغ میں صرف کریں تو کئی لوگوں کو احمدی بنا سکتے ہیں لیکن فضول وقت ضائع کر دیتے ہیں اور اگر کام کے لئے پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ فرصت نہیں.حالانکہ اگر فرصت نہیں ہوتی تو دکانوں پر کس طرح بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں؟ ایک اور ذریعہ اصلاح کا یہ بھی ہے کہ بیٹھ کر علمی اور دینی باتیں کی جائیں.اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے.ایسی مجلسوں میں علمی اور دینی باتیں ہوں لیکن بحث مباحثہ نہ ہو.اس چیز کو بھی میں آوارگی
خطبات محمود ۷۴ سال ۱۹۳۹ء سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک یہ بات سب سے زیادہ دل پر زنگ لگانے والی ہے.مباحثہ کرنے والوں کے مد نظر تقویٰ نہیں بلکہ مد مقابل کو چُپ کرنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کرے تو ابتدا میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اُنہوں نے کسی سوال پر پہلے پہل میرا جواب سُن کر یہ خیال کیا کہ شائد میں جواب نہیں دے سکتا اور دراصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑ جائے تو میں جواب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کر لیتا ہے.یاد رکھو سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی.میں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے روکا ہے.ڈیبیٹنگ کہیں بھی میرے کی نزدیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور میں اس سے ہمیشہ روکتا رہتا ہوں لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ برابر جاری ہے حالانکہ اس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے.ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں مگر اس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اس سے دل پر زنگ لگنالا زمی امر ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے.مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُنایا کہ مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مؤید اور میں مخالف تھا.مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے.آخر میں نے ان سے کہا کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں مگر آپ تو چونکہ مؤید ہیں ، آپ مخالفانہ نقطہ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالف ہوں اس لئے موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا.سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ میں جو مخالف تھا احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل ڈور چلے گئے.ان کی سمجھ میں بات آگئی اور ان کے دل سے ایمان جا تا رہا.تو علم النفس کے رو سے ڈیبیٹس کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.یہ ایسے بار یک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرس اہلیت نہیں رکھتا.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا یہاں ایک ڈیبیٹ ہوئی اور جس کی شکایت مجھ تک بھی پہنچی تھی اس میں اس امر پر بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہئے یا جدا گانہ؟ حالانکہ میں.
خطبات محمود ۷۵ سال ۱۹۳۹ء اس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں اور یہ سُو عِ ادبی ہے کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ میں ایک امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چُکا ہوں پھر اس کو زیر بحث لایا جائے.جن امور میں خدا تعالیٰ یا اُس کے رسول یا اُس کے خلفاء ا ظہار رائے کر چکے ہوں ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی میں داخل ہے.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے لیکن کیا کوئی کھیل کے طور پر اپنے باپ کے سر میں جوتیاں مارسکتا ہے.تو ڈیبیٹس سے زیادہ حماقت کی کوئی بات کی نہیں.ہر احمدی وفات مسیح کا قائل ہے مگر ڈیبیٹ کے لئے بعض حیات مسیح کے دلائل دینے لگتے کی ہیں.میں تو ایسے شخص سے یہی کہوں گا کہ بے حیا خدا تعالیٰ نے تجھے ایمان دیا تھا مگر تو کفر کی حج چادر اوڑھنا چاہتا ہے.پس یہ ڈیبیٹس بھی آوارگی میں داخل ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی ہے کہ حق بات کو تم نے مان لیا تو اُس کا شکریہ ادا کرو نہ کہ خواہ مخواہ اُس کی تردید کرو.بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس سے عقل بڑھتی ہے لیکن اِس عقل کے بڑھانے کو کیا کرنا کی ہے جس سے ایمان جاتا رہے.دونوں باتوں کا موازنہ کرنا چاہئے.اگر ساری دُنیا کی عقل مل جائے اور ایمان کے پہاڑ میں سے ایک ذرہ بھی کم ہو جائے تو اس عقل کو کیا کرنا ہے.یہ کوئی نفع نہیں بلکہ سراسر خسران اور تباہی ہے.پس یہ بھی آوارگی میں داخل ہے اور میں نے کئی دفعہ اس سے روکا ہے.مگر پھر بھی ڈیبیٹس ہوتی رہتی ہیں.جس طرح کوڑی کو خارش ہوتی ہے اور وہ رہ نہیں سکتا اسی طرح اِن لوگوں کو بھی کچھ ایسی خارش ہوتی ہے کہ جب تک ڈیبیٹ نہ کرا لیں چین کی نہیں آتا اور پھر دینی اور مذہبی مسائل کے متعلق بھی ڈیٹیں ہوتی رہتی ہیں.حالانکہ وہ تمام مسائل جن کی صداقتوں کے ہم قائل ہیں یا جن میں سلسلہ اظہار رائے کر چکا ہے ان پر بحث کرنا دماغی آوارگی ہے اور حقیقی ذہانت کے لئے سخت مضر ہے.میں نے سو دفعہ بتایا ہے کہ اگر اس کی کی بجائے یہ کیا جائے کہ دوست اپنی اپنی جگہ مطالعہ کر کے آئیں اور پھر ایک مجلس میں جمع ہو کر یہ بتائیں کہ فلاں مخالف نے یہ اعتراض کیا ہے.بجائے اس کے کہ یہ کہیں کہ میں یہ اعتراض کی فلاں مسئلہ پر کرتا ہوں.اگر مولوی ثناء اللہ صاحب یا مولوی ابراہیم صاحب یا کسی اور مخالف کے اعتراض پیش کئے جائیں اور پھر سب مل کر جواب دیں اور خود اعتراض پیش کرنے والا بھی جواب دے تو یہ طریق بہت مفید ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ ڈیبیٹیوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے
خطبات محمود ۷۶ سال ۱۹۳۹ء اور انگریزوں کی نقل کی جاتی ہے کہ ہاؤس “ یہ کہتا ہے.ہماری مجلس شوریٰ میں بھی یہ ہاؤس" کا لفظ داخل ہو گیا تھا مگر میں نے تنبیہہ کی اس پر وہاں سے تو نکل گیا ہے مگر مدرسوں میں رواج پکڑ رہا ہے.میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کہنے سے اس بات میں کون سائر خاب کا پر لگ جاتا ہے.کے سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ جماعت کی یہ رائے ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ دماغ کو کفر کی کاسہ لیسی میں لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے.پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اس قسم کی آوارگیوں کو خواہ وہ دماغی ہوں یا جسمانی روکیں اور دُور کریں.کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں.ایک دفعہ مجھے رویا میں بتایا گیا ایک شخص کی نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کر کے وقت ضائع کرتا ہے اور میں رویا میں ہی اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں.جب کوئی اپنے قومی کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات کی میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتا.اس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا کی خیال نہیں تھا تو ورزش بھی کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مونگر یاں اور مگدری پھیرا کرتے تھے.بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگر یاں تلاش کر و جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے.چنانچہ میں نے کسی سے لا کر دیں اور آپ کچھ دن انہیں پھیراتے رہے بلکہ مجھے بھی بتاتے تھے کہ اِس اِس رنگ میں اگر پھیری جائیں تو زیادہ مفید ہیں.پس ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے.ہاں گلیوں میں بے کار پھر نا، بے کار بیٹھے باتیں کرنا اور کی بحثیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے.اگر تم لوگ دُنیا کو وعظ کرتے پھر ولیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کوششیں رائیگاں جائیں گی.پس تمہارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو، دکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرو اور کوئی نہ مانے تو اُس کے ماں باپ ، اُستادوں کو اور محلہ کے افسروں کو رپورٹ کرو کہ فلاں شخص آوارہ پھرتا یا فارغ بیٹھ کر وقت ضائع کرتا ہے.پہلے پہل لوگ تمہیں گالیاں دیں گے، بُرا بھلا کہیں گے اور کہیں گے کہ آگئے ہیں خدائی فوجدار اور طنزیہ رنگ میں کہیں گے کہ بس پکے احمدی تو یہ ہیں ہم تو یونہی ہیں لیکن آخر وہ اپنی اصلاح پر مجبور ہوں گے اور پھر تمہیں دُعائیں دیں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جن لوگوں نے میری تربیت میں حصہ لیا اور کوئی اچھی بات بتائی جب بھی کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء وہ یاد آتی ہے میرے دل سے اُن کے لئے دُعا نکلتی ہے.پس آوارگی کو مٹانا بھی خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ہے.اب چونکہ دیر ہو گئی ہے اس لئے باقی باتیں پھر بیان کروں گا.“ ل الفرقان: ٣١ الفضل اار مارچ ۱۹۳۹ ء ) البقره: ۳۶ ، الاعراف: ۲۰ المنجد عربی اُردو صفحه ۴۴۶ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء المنجد عربی اُردو صفحه ۴۴۶ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء ابو داؤد کتاب الادب باب فى المولود يُؤذن في أذنه ( مفهوماً ) ابو داؤد كتاب الصلوة باب مَتى يُؤْمَرُ الْغُلامُ بالصلوۃ میں عید گاہوں کا ذکر نہیں.کے ایک آبی پرندہ جسے عربی میں نظام ، فارسی میں خر چال اور ہندی میں چکوا چکوی کہتے ہیں.رنگ سُرخ ہوتا ہے جو رات کو اپنی مادہ سے جُدا رہتا ہے.ایک دوسرے کو پکارتا ہے اور اس کی آواز کے پیچھے جاتا ہے مگر ملاقات سے محروم اور مضطرب رہتا ہے.”سرخاب کا پر لگ جانا‘ ایک محاورہ ہے جو دولت پر غرور اور متکبر ہونے یا شان و شوکت میں کسی کو برابر نہ سمجھنے پر بولا جاتا ہے.(فرہنگ آصفیہ)
خطبات محمود ۷۸ 1 سال ۱۹۳۹ء خذ ام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے اندر قومی تجارتی اور اخلاقی دیانت پیدا کریں (فرموده ۱۷ / فروری ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ”میرا آج کا خطبہ بھی گزشتہ دو خطبات کے سلسلہ میں ہی ہے.مگر پیشتر اس کے کہ میں اصل مضمون کو شروع کروں میں قادیان کے خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا کہ ہوں کہ وہ مختلف مساجد کے موذنوں کی اذانیں درست کرائیں.بعض جگہ پر بلا وجہ مؤذن عربی عبارت کا ایسا ستیا ناس کر دیتے ہیں کہ واقف آدمی کے کانوں پر وہ بہت ہی گراں گزرتا ہی ہے.میں نے کئی دفعہ اس طرف توجہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اس طرف توجہ ہوئی نہیں.جن حروف کا ادا کرنا ہمارے لئے مشکل ہے اُن کے متعلق ایک پنجابی سے یہ امید رکھنا کہ وہ اہلِ عرب کے لہجہ کو ادا کرے بالکل غلط ہے اور میں اس پر زور نہیں دیتا.میں صرف اس حصہ کی درستی کا مطالبہ کرتا ہوں جس حصہ کی درستی ہمارے اختیار میں ہے اور باوجود اختیار میں ہونے کے اُس کی درستی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.تو خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے میں سے پانچ سات نو جوانوں کو جوعربی تعلیم سے واقف ہوں اذان کے الفاظ اچھی طرح واقفیت کرا دیں، اس کے بعد مختلف مساجد میں ( اور کوشش کرنی چاہئے کہ
خطبات محمود ۷۹ سال ۱۹۳۹ء یہ لوگ ایسے ہی ہوں جن کا تعلق مختلف مساجد سے ہو ) ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جو باقاعدہ کی مؤذن ہیں ان کی اذانوں کی اصلاح کریں اور دوسرے لوگ بھی جو باقاعدہ مؤذن نہیں اگر کی اُن کی کوئی غلطی دیکھیں تو انہیں ٹوک دیا کریں تا کہ انہیں اپنی اصلاح کا خیال پیدا ہو.مثلاً ابھی جو اذان ہوئی ہے اس میں موذن نے حتی کے بعد اتنا لمبا الف استعمال کیا ہے جو نہ تو جائز ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے مگر عام پنجابی لہجہ یہی طریق اختیار کرتا ہے اور پنجابی مؤذن کی نہیں بلکہ حیا کہتا ہے.وہ سمجھتا ہے شائد اس طرح آخر میں الف زائد کر دینے اور اسے لمبا کر دینے سے آواز اونچی ہو جاتی ہے حالانکہ عرب لوگ بھی اذان دیتے ہیں اور وہ بغیر یا کہنے کے کام چلا لیتے ہیں.بایں ہمہ اُن کی آواز میں اتنی بلند ہوتی ہیں اور اُن کی اذان میں اپنی ذات میں ایسی مسرت انگیز آواز کی حامل ہوتی ہے کہ وہ ایک شیر میں راگ کی شکل کی اختیار کر لیتی ہے.مکہ مکرمہ میں چونکہ مؤذن مقرر کئے جاتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اذان کی دیتے وقت اُن کی آواز میں اتنی دلکش اور لطیف ہوتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان اس کی آواز کے ساتھ ہی زمین سے اُٹھ کر آسمان کی طرف جا رہا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کی خوبصورتی الف چھوڑ دینے میں ہے اس کے استعمال کرنے میں نہیں.اور جب الف اس لفظ میں ہے ہی نہیں تو اس کے استعمال کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے.پس اگر وہ آئندہ کے لئے حی کے بعد الف استعمال نہ کریں تو میں سمجھتا ہوں ان کی اذان پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو جائے.اسی طرح اور بھی بہت سے نقائص ہیں جو ہمارے پنجاب میں بوجہ عربی زبان کی ناواقفیت کے اصرار سے چلتے چلے جاتے ہیں اور میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہے ہوں کہ وہ اس نقص کی اصلاح کی کوشش کریں.اس کے بعد میں آج کے مضمون کو لیتا ہوں.گزشتہ خطبہ میں میں نے خدام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے تین ضروری مقاصد کو لیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کی طرف خصوصیت سے ان ایام میں انہیں توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ تھے.اوّل.انہیں اپنے ممبروں کے اندر اور دوسری جماعت کے اندر بھی قومی رُوح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جماعتی کاموں کے لئے فخر بانی کا مادہ پیدا کرنا چاہئے.یہ پہلا مقصد -
خطبات محمود ۸۰ سال ۱۹۳۹ء جو انہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.دوسری بات میں نے یہ کہی تھی کہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کی جائے.تیسری بات میں نے یہ کہی تھی کہ آوارگی اور بیکاری کا ازالہ کیا جائے.اب میں چوتھی بات بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.اچھے اخلاق میں سے میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ سچ اور دیانت ہیں.اور بھی بہت سے اخلاق ہیں مگر سچ کی اور دیانت نہایت اہمیت رکھنے والے اخلاق ہیں.جس قوم میں سچ پیدا ہو جائے اور جس قوم میں دیانت آ جائے وہ قوم نہ کبھی ذلیل ہو سکتی ہے اور نہ کبھی غلام بنائی جاسکتی ہے.سچائی اور دیانت دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو ذلیل بناتا اور اُن دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو غلام بنا تاج ہے.ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہندوستان کی غلامی کا ہمیشہ رونا روتا رہتا ہے لیکن اگر تم غور سے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہندوستان کی غلامی کا موجب انہی دو چیزوں کا فقدان ہے.تم ہندوستان کی تاریخ کو پڑھ جاؤ اتنے بڑے وسیع ملک کا انگریزوں کے ماتحت آ جانا محض بد دیانتی کی وجہ سے تھا.انگریزی فوجیں جو شروع زمانہ میں بعض دفعہ سینکڑوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں کی کبھی ہندوستان پر غالب نہیں آسکتی تھیں اگر ہندوستانیوں میں دیانت پائی جاتی.بعض دفعہ تو تاریخ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ساری بات ہی جھوٹی ہے اور عقل تسلیم نہیں کرتی کہ مدراس کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں اقامت پذیر چند سو انگریز ہندوستان کی بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کو زیر کرتے چلے جائیں.عقل اس کے باور کرنے سے انکار کرتی ہے کیونکہ انسانی فطرت اس حد تک اخلاق کی گراوٹ کو تسلیم کرنا برداشت نہیں کرتی جس قسم کی گراوٹ اس زمانہ میں ہندوستانیوں میں پائی جاتی تھی.کسی جگہ پر تو شہزادوں کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ اگر تم اپنے باپ یا بھائی سے بغاوت کرو تو ہم تم کو اس کی جگہ گری پر بٹھا دیں گے اور وہ بد دیانت اور ذلیل انسان اس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں.کسی جگہ وزراء کو یہ اُمید دلا دی جاتی ہے کہ ہم تمہاری ایک ریاست قائم کر دیں گے یا تم کو اُس ریاست کا قبضہ دے دیں گے یا اور کوئی بڑا عہدہ دے دیں گے اور وہ ننگ انسانیت
خطبات محمود ۸۱ سال ۱۹۳۹ء اس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں اور انہی چالبازیوں کے ساتھ اور انہی رشوتوں کے ذریعہ یور بین اقوام جو نہایت قلیل تعداد میں ہندوستان میں آئیں ، ہندوستان کے ایک گوشہ سے بھرے ہوئے بادل کی طرح بڑھنا شروع کر دیتی ہیں اور سارے مُلک پر چھا جاتی ہیں.مرہٹوں کی طاقت یا نظام حیدرآباد کی طاقت کے مقابلہ میں مدراس میں انگریزوں کی دسویں حصہ کے برابر بھی طاقت نہیں تھی.اسی طرح سراج الدولہ کی طاقت کے مقابلہ میں بنگال میں انگریزوں کی طاقت دسویں حصہ کے برابر بھی نہ تھی مگر باوجود اس کے مقابلہ میں وہ ہار جاتے ہیں اور انگریز جیت جاتے ہیں.اس تمام فتح اور شکست کی تہہ میں ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے بڑے وزراء اور افسر یا رشوت خور تھے یا وہ کسی اور لالچ میں آ جاتے تھے.اگر یہ بددیانتی نہ ہوتی تو کبھی ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم نہ ہو سکتی لیکن اس بد دیانتی کی موجودگی میں اگر انگریزی حکومت نہ ہوتی تو فرانسیسی حکومت ہوتی.اگر فرانسیسی حکومت نہ ہوتی کی تو پرتگیزی حکومت ہوتی ، اگر پرتگیزی حکومت نہ ہوتی تو کوئی اور حکومت ہوتی.بہر حال یہ ملک اس قابل نہ تھا کہ اپنا بوجھ آپ اُٹھا سکتا.بد دیانتی کے بوجھ نے ان لوگوں کی کمریں کم کر دی تھیں اور لالچ کے مارے ان لوگوں کو ایسا جھکا دیا تھا کہ وہ شریف لوگوں میں سیدھا چلنے کے قابل نہیں رہے تھے.وہ شکار تھے دُنیا کا.اگر انگریز نہ آتے تو کوئی اور آتا.بہر حال وہ خود اپنی حکومت سنبھالنے کے نا قابل تھے.اوپر سے لے کر نیچے تک سب جگہ بد دیانتی پائی جاتی تھی.پھر وسط ہند میں آ کر لکھنؤ اور اس کے بعد دہلی میں جو کچھ ہوا وہ بھی اسی بد دیانتی کا کرشمہ ہے.غدر کی بغاوت جب ہوئی تو اُس وقت ہندوستانیوں نے چاہا کہ اپنے آپ کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کر لیں اور ایسے کئی مواقع آئے جبکہ دہلی کی حکومت غالب آنے کے بالکل قریب تھی لیکن خود ملک کے اندرونی غذاروں اور بد دیانتوں نے ان مواقع کو ضائع کر دیا.یہ مشہور تاریخ واقعہ ہے کہ ایک موقع پر انگریزی فوج پر نہایت آسانی کے ساتھ گولہ باری کی جاسکتی تھی.میں نے خُود دہلی میں وہ موقع دیکھا ہے مگر زینت محل جو بادشاہ کی چہیتی ملکہ تھی اور اُسے کہا تھا کہ اگر تم ہمارا ساتھ دو گی تو تمہارے بیٹے کو تخت مل جائے گا.جب دہلی کے کی
خطبات محمود ۸۲ سال ۱۹۳۹ء فوجی افسروں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ قلعہ پر تو ہیں رکھ کر چلا دی جائیں اور بادشاہ نے بھی ان کے کی مشورہ کو قبول کر لیا تو انگریزی فوج کی طرف سے زینت محل کو پیغام پہنچا کہ اگر تم نے اس موقع پر تو ہیں چلنے دیں تو تمہاری تمام اُمید میں ہوا ہو جائیں گی.تر یا چر ترلے تو ہمارے ملک میں مشہور ہی ہے.جب بادشاہ نے تو ہیں چلانے کا حکم دیا تو بیگم کو بناوٹی طور پر غش پرخش آنے لگ گئے اور اُس نے بادشاہ سے کہا کہ توپ کی آواز سے میرا دل دہل جاتا ہے.اگر آپ نے تو پوں کا چلنا بند نہ کیا تو میں مرجاؤں گی.پس خدا کے لئے توپوں کا چلنا بند کرائیں اور اگر تو ہیں چلانا ضروری ہی ہیں تو اپنے ہاتھ سے پہلے مجھے قتل کر دیں تا کہ میں ان کی آواز نہ سُن سکوں.بادشاہ بھی دھو کے میں آگئے اور گولہ باری کا حکم منسوخ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ہی مقام جہاں سے کامیابی کے ساتھ انگریزی فوجوں پر حملہ ہو سکتا تھا اُس پر سے گولہ باری بند کر دی گئی اور انگریزی فوجیں غالب آ گئیں.خود بادشاہ کا وزیر اعظم اندر سے انگریزوں کے ساتھ ملا ہو ا تھا اور انگریزوں کو با قاعدہ اندرونی خبریں پہنچتی رہتی تھیں.اودھ کی حکومت بھی اسی طرح تباہ ہوئی وہاں کے لوگوں کا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بینک میں جمع تھا.جب انگریزوں نے اس علاقہ پر حملہ کیا تو اُنہوں نے لوگوں کو کہلا بھیجا کہ اگر تم نے ذرا بھی ہمارے خلاف آواز اُٹھائی یا مقابلہ کیا تو تمہارا تمام روپیہ ضبط کر لیا جائے گا.جب تک ان کے روپے جمع نہیں تھے اُس وقت تک تو انہیں یہ لالچ دیا گیا کہ اگر تم اپنے روپے ہمارے بنک میں جمع کرو گے تو تمہیں بہت کچھ سُو د ملے گا اور جب رو پیہ جمع ہو گیا اور اودھ پر اُنہوں نے حملہ کی تیاری کی تو سب کو نوٹس دے دیا کہ اگر تم نے ہمارا مقابلہ کیا تو سب روپیہ ضبط کر لیا جائے گا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب انگریزی فوج اندر داخل ہوئی تو ایک شخص بھی اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہوا.اب اس میں بھلا انگریزوں یا کسی اور قوم کا کیا قصور ہے؟ یہ خود اپنی قوم کا قصور ہے کہ لوگ اپنے اخلاق کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے.جب کبھی ہندوستان میں کانگرس کا شور بلند ہوا ہے میں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ تم اُس وقت تک حکومت نہیں کر سکتے جب تک لوگوں کے اندر بد دیانتی پائی جاتی ہے.ہاں اگر قومی طور پر تم دیانت کو لوگوں کے اندر قائم کر دو
خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۹ء تو پھر میں اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ انگریز آپ ہی آپ تم سے صلح کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے.اب بھی دیکھ لو کیا ہو رہا ہے.گو کئی صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہو چکی ہیں مگر انہی صوبوں میں خطرناک طور پر رشوتیں چل رہی ہیں اور اب تو گاندھی جی نے بھی اپنے اخبار میں لکھا ہے کہ بعض واقعات میرے سامنے ایسے آئے ہیں جن سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے.تو جب تک کسی قوم میں دیانت نہیں اُس وقت تک نہ اُس قوم میں حکومت رہ سکتی ہے نہ وہ کی حکومت لے سکتی ہے اور اگر بالفرض وہ کبھی اپنی کثرت تعداد کی بناء پر حکومت لے بھی لے تو وہ حکومت کو سنبھال نہیں سکتی مگر یہ چیز صرف حکومت سے تعلق نہیں رکھتی کہ یہ کہا جائے کہ آپ حکومتوں کی بات لے بیٹھے ہیں جماعت احمدیہ کی بات کیوں نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ طاقت اور جتھا حکومتوں سے ہی وابستہ نہیں ہوتا بلکہ قوموں سے بھی وابستہ ہوتا ہے اور بعض قو میں تو تلوار سے جیتی ہیں اور بعض نظام اور تبلیغ سے جیتی ہیں.ہماری جماعت تلوار سے جیتنے والی نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے اور نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی جماعتوں کو دیانت کی اُن جماعتوں سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ جن قوموں کے پاس تلوار ہو وہ تو بد دیانتوں کا تلوار سے سراُڑ سکتی ہیں مگر جن کے پاس تلوار نہ ہوا نہیں بددیانتی بہت زیادہ نقصان پہنچایا کرتی ہے کیونکہ اُن کے پاس بد دیانتوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا.انگریزوں میں یا فرانسیسیوں میں یا جرمنوں میں جب کو ئی شخص غداری کرتا ہے تو انگریز ، فرانسیسی اور جرمن اس پر مقدمہ کرتے اور مجرم ثابت ہونے پر اسے مار ڈالتے ہیں مگر جن کے پاس حکومت نہیں ہوتی اور جو تلوار سے کامیاب نہیں ہونا چاہتے بلکہ نظام اور تبلیغ سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں اُن میں جب کوئی غدار پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اُس کا سوائے اس کے اور کیا علاج کر سکتے ہیں کہ دلائل سے اُس کا مقابلہ کریں.مگر اس رنگ میں مقابلہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غذار شور مچاتا رہتا ہے اور اس کو دیکھ کر بعض اور لوگ بھی جن کی فطرت میں غداری کا مادہ ہوتا ہے یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس طاقت تو ہے نہیں چلو ہم بھی ذرا شور مچادیں.چنانچہ وہ بھی جماعت کو بد نام کرنے لگ جاتے ہیں.اس قسم کے مفاسد کو دور کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ
خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۹ء غداری کا قلع قمع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قوم میں ایسی رُوح پیدا نہ ہو کہ اس کا ہر فرد کی موت کو غذاری پر ترجیح دے اور وہ کہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر غداری نہیں کریں گے.یہ بد دیانتی کبھی انفرادی ہوتی ہے اور کبھی قومی.انفرادی بد دیانتی اقتصادیات کو بالکل تباہ کر دیتی ہے.میں جب کشمیر گیا تو مجھے معلوم ہوا کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی.اب ایک کروڑ روپیہ کی تجارت کے یہ معنی ہیں کہ ہیں پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہوتا تھا کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا ج کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک رہ گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں یہاں کے مال کا کوئی معیار نہیں کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی.کبھی تو نہایت اعلیٰ مال روانہ کریں گے اور کبھی اس میں کھوٹ ملا دیں گے.حالانکہ اگر وہ دیانتداری سے کام کرتے تو کی آج وہ ایک کروڑ کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک پہنچی ہوئی ہوتی.پہلے زمانہ میں تو تجارتیں بہت کم تھیں.تجارت میں زیادتی اسی زمانہ میں ہوئی ہے.پھر اگر اُس زمانہ میں جبکہ تجارت کا رواج بہت کم تھا ان کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت ہو سکتی تھی تو لازماً اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہو جاتی مگر بجائے اس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہوتا پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اُتر کر سولہ لاکھ روپیہ تک آ گئی.اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بد دیانتی کر کے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی مگر چونکہ اُنہوں نے بد دیانتی کی اس لئے تجارت میں نقصان ہو گیا تو انفرادی اعتبار بھی دیانت سے ہی قائم رہتا ہے.انگریزوں کو ہی دیکھ لو اُن کے کئی لوگ دشمن ہیں مگر وہ دشمن بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جاسکتا ہے.وہ اتنا اعتبار جرمنوں پر نہیں کریں گے ، وہ اتنا اعتبار جاپانیوں پر نہیں کی کریں گے جتنا اعتبار وہ انگریزوں پر کریں گے کیونکہ انگریزوں نے دیانتداری کے نتیجہ میں اعتماد پیدا کرلیا ہے.میں نے دیکھا ہے جاپانیوں پر بھی لوگ زیادہ اعتبار نہیں کرتے اور جاپان کی سے تجارت کرنے والوں کے ہمیشہ دیوالے نکلتے رہتے ہیں.میں نے ایک دفعہ کلکتہ کے چند تاجروں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جاپانی تجارت کرنے والے دیوالے کیوں نکالتے رہتے ہیں کی
خطبات محمود ۸۵ سال ۱۹۳۹ء تو اُنہوں نے بتایا کہ جاپانی تاجر عجیب قسم کی حرکت کرتے ہیں وہ پہلے اپنی ایک چیز کی ایک رقم معین کر کے اطلاع دے دیتے ہیں مثلاً وہ بوٹ بناتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اس کی قیمت ایک روپیہ فی جوڑا ہے.اب اتنا سستا بوٹ دیکھ کر بڑے بڑے تاجر اُنہیں آرڈر دے دیتے ہیں.کوئی ایک لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے، کوئی دو لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے، کوئی تین لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے اور کوئی چار لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے.ابھی وہ مال پہنچتا نہیں کہ اطلاع آ جاتی ہے اب اسی بوٹ کے بارہ آنے ہو گئے ہیں.یہ دیکھ کر وہ تاجر جنہوں نے پہلی دفعہ مال نہیں منگوایا تھا کئی لاکھ کا آرڈر دے دیتے ہیں مگر اُن کا مال بھی ابھی اُن تک نہیں پہنچتا کہ اطلاع کی آ جاتی ہے اس بوٹ کی قیمت آٹھ آنے ہو گئی ہے اس قدرستا بوٹ دیکھ کر پھر اور لوگ انہیں آرڈر دے دیتے ہیں.اب گو اس طرح ان کا مال زیادہ بک جاتا ہے مگر وہ پہلا تا جر جس نے پانچ لاکھ روپیہ کا مال منگوایا تھا اُس کو اڑھائی لاکھ کا نقصان ہو جاتا ہے اور اس طرح آئندہ کے لئے وہ جاپانی تاجروں سے مال منگوانے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے لگتا ہے.گو چیزوں کی کے زیادہ ستا ہونے اور اُن کی زیادہ بکری ہو جانے کی وجہ سے جاپانی تاجروں کو ابھی یہ محسوس کی نہیں ہو ا کہ وہ ایک غلط راستہ پر چل رہے ہیں مگر انجام کا رایسی عادت مُفید ثابت نہیں ہوتی اور وہ نقصان پہنچا کر رہتی ہے.گو جاپانی مال میں بد دیانتی نہیں کرتے مگر چونکہ وہ قیمتوں کو بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں اس لئے گوا بھی اپنی چیزوں کو زیادہ ستا فروخت کرنے کی وجہ سے انہیں کی نقصان نہیں پہنچا مگر جب بھی برابر کی قیمت کا سوال آ جاتا ہے اُس وقت واقف تاجر انگریزی مال کو جاپانی مال پر ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاپانی ٹھگی کر لیتے ہیں مگر انگریز ٹھگی نہیں کی کرتے.انگریزوں سے اُتر کر امریکہ اور جرمنی کے لوگ ہیں اور اُن سے اُتر کر اور ممالک کے لوگ.مگر ہندوستانی تجارت میں اتنا خطرناک طور پر بدنام ہے کہ کوئی قوم اس پر اعتبار نہیں کرتی.مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ حج کے لئے جانے والے ہندوستانی ہی ہوتے ہیں مگر جانتے ہو وہاں ہندوستانی کا کیا نام ہے؟ وہاں ہندوستانی کو بھال کہا جاتا ہے یعنی وہ سخت جھوٹا اور بد دیانت ہوتا ہے.جب بھی کسی ہندوستانی کا ذکر ان کے سامنے آ جائے گا وہ کہیں گے ”ہندی بطال، یعنی ہندوستانی سخت جھوٹا اور دھو کے باز اور چور ہوتا ہے.وہ جاوی پر اعتبار
خطبات محمود ۸۶ سال ۱۹۳۹ء کرلیں گے ، وہ چینی پر اعتبار کر لیں گے ، وہ افغان پر اعتبار کر لیں گے ، وہ مصری پر اعتبار کر لیں کی گے، وہ ایرانی پر اعتبار کر لیں گے ، وہ روسی پر اعتبار کر لیں گے مگر جس وقت کسی ہندوستانی کا سوال ان کے سامنے آئے گا وہ کہیں گے ہندی بطال ، ہندی بڑا جھوٹا اور چور ہوتا ہے.ہندوستانی ہی سب سے زیادہ مکہ مکرمہ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے.ہندوستانی ہی مقامات مقدسہ کی حفاظت میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے اور ہندوستانی ہی سب کے آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہاں کے لوگوں پر اس نے کیا اثر ڈالا ہے یہی کہ ہندی بھال.اگر ان کے اخلاق اچھے ہوتے تو جس طرح انہوں نے باہر کے لوگوں کے لئے قربانیاں کی تھیں اُسی طرح کی کوئی ان کے لئے بھی تو قربانی کرتا.مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ترکوں کی خلافت پر حملہ ہوتا ہے تو کی ہندوستانی مسلمان اس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھتے ہیں، مصر پر انگریزوں کے دانت تیز ہوتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمان اس کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں، افغانستان پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان مضطرب ہو جاتے ہیں ، ایران خطرہ میں ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان شیخ اُٹھتے ہیں.گویا دُنیا جہاں کا درد ہندوستان کے مسلمان کے سینہ میں ہے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے وہ اس کے اثر سے مضطرب اور بے چین ہو جاتا ہے مگر جب ہندوستان کے مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو مصر کے لیڈر بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں جب اُنہیں آزادی مل رہی ہے تو وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتے ، ترک بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں انہیں کی عظمندی کے ساتھ کام کرنا نہیں آتا ، ایرانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان بیوقوف ہیں اور افغانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان عقل و سمجھ سے عاری ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے کیریکٹر کا بُرا اثر ان لوگوں کے دلوں پر ہے اور اسی کیریکٹر کے بداثر کی وجہ سے وہ ان کی کی قربانی کی بھی قدر نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قربانی بھی ان کی کمزوری کی حالت ہے جس طرح ایک کمزور انسان بعض دفعہ جوش میں آجاتا ہے مگر اُس کا جوش کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح وہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قُربانی بھی کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزوری کی وجہ سے ہے.اگر یہاں کے
خطبات محمود ۸۷ سال ۱۹۳۹ء آٹھ کروڑ مسلمانوں کے اندر صحیح اخلاق ہوتے تو یہ آٹھ کروڑ مسلمان بھی ہندوستان کو بچا سکتا تھا.بلکہ آٹھ کروڑ کیا اگر چار کروڑ با اخلاق مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتا تو کوئی غیر حکومت اس ملک کی طرف اپنی آنکھ نہیں اُٹھا سکتی تھی.بھلا چار کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے تھے چند ہزار انگریز یا چند ہزار فرانسیسی یا پرتگیزی.پھر چار کروڑ ہی نہیں اگر دو کروڑ دیانت دار مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتے تب بھی یہ ملک دوسروں کا غلام نہیں ہوسکتا کی تھا.اگر اُس وقت مسلمانوں کی حکومت میں دو کروڑ ایسے مسلمان موجود ہوتے جو اپنی جانیں کی قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے تو کس کی طاقت تھی کہ وہ ہندوستان کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکتا.بلکہ میں کہتا ہوں اگر ایک کروڑ بھی دیانتدار مسلمان ہوتا ، ایک کروڑ نہیں پچاس لاکھ ہی کی ہوتے ، پچاس لاکھ نہیں پچیس لاکھ ہی ہوتے ، چھپیں لاکھ نہیں بارہ لاکھ ہی دیانتدار مسلمان موجود ہوتے تو بھی آج ہمارے ملک کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے.بارہ لاکھ دیانتدار مسلمانوں کی موجود کی کے معنے یہ تھے کہ ایک لاکھ جاں نثار سپاہی میتر آ سکتا تھا اور اگر ایک لاکھ جان نثار سپاہی اُس وقت موجود ہوتا تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی کی مجموعی طاقت بھی اُن کا مقابلہ نہ کر سکتی.کسی ملک کی آبادی کے آٹھ فیصدی حصہ کا سپاہی ہونا معمولی بات ہے.جو جنگی تو میں ہوتی ہیں اُن میں بعض دفعہ سولہ فیصدی تک سپاہی ہوتے ہیں اور جب انتہائی خطرہ کا وقت آتا ہے تو تمہیں بلکہ چالیس فیصدی آبادی بھی لڑائی کے لئے تیار ہو جاتی ہے.بہر حال کسی ملک کا جو ادنیٰ سے ادنیٰ فوجی معیار ہے اگر وہی ہمارے ملک میں قائم ہوتا تو بارہ لاکھ مسلمانوں میں سے ایک لاکھ سپاہی ضرور مل جاتا اور اعلیٰ معیار کے رُو سے پونے پانچ لاکھ مسلمان انگریزوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے.اب اگر اتنی بڑی تعداد ہندوستان میں موجود ہوتی تو کونسی قوم تھی جو ہندوستان کو فتح کر سکتی.یقیناً نہ انگریز ہندوستان کو فتح کر سکتے نہ فرانسیسی اِسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے اور نہ پر تگیزی اسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے.مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صرف چند ہزار یا چند سو ایسے لوگ تھے جو دیانتدار تھے اور جو ملک کے لئے قربانی کرنے کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے.باقی جس قدر تھے وہ ٹھگ تھے ، وہ فریبی تھے ، وہ دھو کے باز تھے ، وہ رشوت خور تھے ، وہ نمک حرامی کرتے تھے اور غیروں سے.
خطبات محمود ۸۸ سال ۱۹۳۹ء رشوتیں لے لے کر اپنے ملک کی حکومت کو آپ تباہ و برباد کر نے کے درپے ہورہے تھے.کیا ہی بد قسمت وہ ملک ہے جس میں ۳۳ کروڑ کی آبادی ہو مگر ملک کی خاطر چار پانچ ہزار آدمی بھی اس میں وفادار نہ ہو.اس سے زیادہ بدقسمتی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ پھر ملک کو جانے دو عقل کے ساتھ تو اُنہوں نے اپنے ساتھ بھی وفاداری نہیں کی.حکومت تو گئی ہی تھی ، تجارت کیوں گئی؟ مگر ان کے ہاتھ سے تجارت کا نکل جانا بھی بتاتا ہے کہ یہ اپنے نفس اور اپنی ذات کے بھی وفادار نہیں.اگر ان میں اپنے نفس کے ساتھ وفاداری کا ہی مادہ ہوتا تو ان کے ہاتھ سے تجارت کبھی نہ جاتی.تو بد دیانتی ایسی چیز ہے جو قوموں اور افراد دونوں کو تباہ کر دیتی نی میں قوم میں دیانت آجائے ہے مگر جس قوم میں دیانت آ جائے اُسے ہر جگہ عزت حاصل ہوتی ہے اور کوئی اُسے ذلیل نہیں کر سکتا.اسی طرح انفرادی دیانت جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اقتصادی طور پر بڑھتی چلی جاتی ہے مگر یہ انفرادی دیانت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تجارتی دیانت اور ایک اخلاقی دیانت.جن قوموں میں اخلاقی دیانت نہ ہو مگر تجارتی دیانت ہو وہ بھی نہیں گرتیں.چنانچہ ہندوؤں کو ہی دیکھ لو بنیے ہیں اخلاقی دیانت نہیں مگر تجارتی دیانت ہے اور اس وجہ سے وہ تجارت میں ترقی کرتا ج چلا جاتا ہے، یہودیوں میں بھی اخلاقی دیانت نہیں لیکن تجارتی دیانت ہے.یہی وجہ ہے کہ ان کی کی تجارت روز بروز بڑھ رہی ہے اسی طرح جس قوم میں اخلاقی دیانت پیدا ہو جائے اُس کا کی اخلاقی طور پر دوسروں کے قلوب پر سکہ بیٹھ جاتا ہے اور اس قوم کے افراد جہاں جاتے ہیں لوگ ان سے مشورہ لیتے اور ان کی باتوں پر اپنے کاموں کا انحصار رکھتے ہیں لیکن جس قوم میں قومی دیانت بھی ہو، تجارتی دیانت بھی ہو اور اخلاقی دیانت بھی ہو وہ قوم تو ایک پہاڑ ہوتی ہے.یہ ممکن ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کو اڑایا جا سکے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس قوم کو برباد کیا جا سکے.ایسی قوم نہ صرف خود محفوظ ہوتی ہے بلکہ اور لوگوں کی حفاظت کا بھی موجب ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ اور قومیں حوادث اور مصائب سے بچائی جاتی ہیں اور وہ دُنیا کے لئے ایک تعویذ ہو جاتی ہے.پس میں خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ یہ تینوں قسم کی دیانتیں تم لوگوں کے اندر پیدا کرو.جس کا ذریعہ تمہارے پاس موجود ہے کیونکہ نو جوانوں کی باگ تمہارے ہاتھ میں دی گئی ہے.کی.
خطبات محمود ۸۹ سال ۱۹۳۹ء تم نوجوانوں میں قومی دیانت بھی پیدا کرو ، تم نوجوانوں میں تجارتی دیانت بھی پیدا کرو اور تم کی نوجوانوں میں اخلاقی دیانت بھی پیدا کرو.تجارتی دیانت کے معنے صرف تجارت اور لین دین کی کے معاملات میں ہی دیانت دارانہ رویہ اختیار کرنے کے نہیں بلکہ نوکری بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ نوکر ا پنا وقت دوسرے کو دیتا ہے.پس جس طرح ہر تاجر کا فرض ہے کہ وہ تجارت میں دیانتداری سے کام لے اُسی طرح ہر ملا زم کا بھی فرض ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام کرے.دیانتدار نوکر کی ہر کوئی قدر کرتا اور کی اُسے بلا بلا کر رکھتا ہے لیکن اگر کسی کے متعلق ثابت ہو جائے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام نہیں کرتا تو اُس کی قدر دلوں سے اُٹھ جاتی ہے.پس قومی دیانت ، تجارتی دیانت اور اخلاقی دیانت اپنے اندر پیدا کرو.اخلاقی دیانت کے معنے یہ ہیں کہ باوجود اس کے کہ اپنے قول کی بیچ کرنے پر تم کو نقصان پہنچتا ہو.اپنے قول کی بیچ کرتے ہوئے نقصان اُٹھا کر بھی اپنے قول کو پورا کرو اور اُسے ضائع نہ ہونے دو.ایک قصہ مشہور ہے جو گو ہماری ہی قوم کا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری روائتیں بھی ہمارے ذریعہ محفوظ نہیں بلکہ انگریزوں کے ذریعہ محفوظ ہیں.جب ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے اُس وقت ریڈروں میں ایک یوسف ہسپانوی کا قصہ آتا تھا جو اخلاقی دیانت کی بہترین مثال ہے.یوسف سپین کا ایک مشہور تاجر اور رئیس تھا.ایک دفعہ کسی شخص نے اُس کے اکلوتے لڑکے کو قتل کر دیا.یوسف کو اُس کا علم نہیں تھا کہ اُس کا لڑکا مارا گیا ہے.پولیس اُس قاتل کے پیچھے بھاگی اور وہ قاتل آگے آگے بھاگا.دوڑتے دوڑتے وہ شخص اُسی مکان کے اندر آ گیا جہاں یوسف رہتا تھا اور اُس سے کہنے لگا کہ مجھے پناہ دو پولیس میرے تعاقب میں آ رہی ہے.اُسے معلوم نہ تھا کہ میں نے اسی شخص کے بیٹے کو قتل کیا ہے اور یوسف کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے.عربوں کا یہ ایک خاص قومی کیریکٹر ہے کہ جب اُن کے گھر میں کوئی شخص آکر اُن سے پناہ کا طلب گار ہو تو وہ انکار نہیں کر سکتے اور اُسے ضرور پناہ دے دیتے ہیں.یوسف نے بھی کہا کہ بہت اچھا تم میری پناہ میں ہو.تھوڑی دیر کے بعد پولیس والے آئے اور اُنہوں نے پوچھا کہ یہاں کوئی شخص دوڑتے دوڑتے آیا ہے؟ وہ ایک شخص کا قاتل ہے اور ہم اُسے گرفتار کرنا چاہتے ہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء یوسف نے کہا یہاں تو کوئی نہیں.دراصل یوسف نے اُسے اِدھر اُدھر کہیں کھسکا دیا تھا.اس طرح اُس نے اپنی بات بھی کچی کر لی اور واقعہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا.چنانچہ پولیس واپس چلی گئی تھوڑی دیر گزری تھی کہ نوکر اس کے لڑکے کی لاش اُٹھا کر پہنچ گئے اور اُنہوں نے کہا کہ اسے ابھی کسی شخص نے قتل کر دیا ہے.وہ اپنے لڑکے کی لاش دیکھتے ہی ساری حقیقت سمجھ گیا اور بھانپ گیا کہ جس شخص کو میں نے پناہ دی ہے وہی میرے لڑکے کا قاتل ہے مگر اُس کے اندر کوئی لغزش پیدا نہ ہوئی اور اُس نے پھر بھی پولیس کو یہ نہ بتایا کہ جس شخص نے میرے بیٹے کوقتل کیا کی ہے اُسے میں نے فلاں جگہ چھپا رکھا ہے.جب لوگ اِ دھر اُدھر ہو گئے تو وہ اُس شخص کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر چونکہ میں تمہیں پناہ دینے کا وعدہ کر چُکا ہوں اس لئے میں تجھے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں خود تجھے بھاگنے کا سامان دیتا ہوں.یہ میری اونٹنی لے اور یہ سامان اس پر لا داور یہاں سے کسی دوسری طرف کو نکل جا.چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہوا اور بھاگ کر کسی اور علاقہ کی طرف نکل گیا یہ اخلاقی دیانت ہے.اس میں اس کا اپنا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان تھا مگر چونکہ وہ قول دے چُکا تھا اور اس میں کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی بھی نہیں تھی اس لئے اس نے اپنا قول نہ چھوڑا اور گو دوسرے شخص نے اس کے اکلوتے بیٹے کو مار دیا تھا مگر پھر بھی اس کی جان کو بچا دیا.تو فردی دیانت بھی نہایت اہم ہوتی اور دلوں کو ہلا دیتی ہے.اسی طرح ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص قتل کے جرم میں پکڑا گیا.اُس نے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دیجئے کیونکہ میرے پاس بعض یتامیٰ کی امانتیں ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ گھر جا کر وہ امانتیں انہیں واپس کر دوں.وہ ایک بدوی تھا اور بدویوں کا پکڑ نا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ سینکڑوں میل کا صحرا ہوتا ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور آج اگر یہاں ہوتے ہیں تو کل وہاں ، کوئی ایک مقام اُن کا ہوتا نہیں کہ وہاں سے انہیں تلاش کیا جاسکے اور اگر ہاتھ سے نکل جائیں تو پھر اُن کا ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کوئی ضمانت دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں.بغیر ضمانت کے ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے.اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو ایک صحابی کی طرف جو ابو ذر یا ابو الدردار تھے، مجھے اس وقت صحیح نام یاد نہیں ،
خطبات محمود ۹۱ سال ۱۹۳۹ء اشارہ کر کے کہا یہ میرے ضامن ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ضمانت دیتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں میں اس کی ضمانت دیتا ہوں.اب ایک قاتل کی ضمانت دینے کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ مقررہ وقت پر نہ پہنچے تو مجھے مار ڈالنا.اُن کی ضمانت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ چلا گیا.جب وہ دن آیا جو اُس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگ اُس بدوی کا انتظار کرنے لگے کہ کب آتا ہے مگر وقت گزرتا جائے اور اُس کی آمد کا کوئی پتہ نہ لگے.آخر اس صحابی کے دوستوں کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے وچھا کہ آپ جانتے بھی ہیں وہ ہے کون؟ اُنہوں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں وہ کون تھا.وہ کہنے لگے تو پھر آپ نے ضمانت کیوں دی ؟ انہوں نے کہا اُس نے جو مجھ پر اعتبار کیا تھا تو میں اُس پر کیوں اعتبار نہ کرتا.خیر اُن کے دوستوں کے دلوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی کہ نہ معلوم اب کیا ہو گا.مگر جب عین وہ وقت پہنچا جو اُس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ دُور سے ایک غبار اڑتا چلا آ رہا ہے سب لوگوں کی آنکھیں اُس طرف لگ گئیں.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اُنہوں نے دیکھا ایک سوار نہایت تیزی سے گھوڑا دوڑا تا چلا آ رہا ہے.یہاں تک کہ گھوڑے کا پیٹ زمین سے لگ رہا ہے.جب وہ قریب پہنچا تو ادھر وہ گھوڑے سے اُترا اور اِدھر اس گھوڑے نے دم دے دیا اور مر گیا.یہ سوار وہی شخص تھا جس کی اس صحابی نے ضمانت دی تھی.وہ کہنے لگا میرے پاس امانتیں کچھ زیادہ تھیں اُن کو واپس کرنے میں مجھے دیر ہو گئی اور میں اپنے گھوڑے کو مارتا اور اُسے نہایت تیزی سے دوڑاتا ہوا یہاں پہنچا تا کہ میرے ضامن کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ہے تو دیانت ایسی چیز ہے کہ باوجود اس کے ان واقعات پر سینکڑوں سال گزر گئے آج بھی ہم ان واقعات کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس گناہ سے بھری ہوئی دُنیا میں نہیں کی بلکہ ایک ایسی جنت میں ہیں جو خوبیاں ہی خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہے.حالانکہ یہ انفرادی کی واقعات ہیں کروڑوں اور اربوں میں سے کسی ایک انسان کا واقعہ ہے مگر یہ ایک واقعہ بھی انسانیت کو اتنا خوبصورت کر کے دکھا دیتا ہے کہ دُنیا کے سارے گناہ نگاہوں سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں.اسی طرح تجارتی دیانت کی بھی ہمارے آباء میں مثالیں پائی جاتی ہیں چنانچہ
خطبات محمود ۹۲ سال ۱۹۳۹ء تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اور اُس نے کہا کہ اس کی پانچ سو درہم قیمت ہے.ایک صحابی نے اُس گھوڑے کو دیکھا اور اُسے پسند کیا اور کہا کہ میں یہ گھوڑا لیتا ہوں مگر اس کی قیمت میں پانچ سو نہیں بلکہ دو ہزار درہم دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو.اس پر گھوڑا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں پانچ سو درہم لوں گا اور گھوڑ ا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں دو ہزار درہم دوں گا.ایک کہتا کہ اے شخص تجھے گھوڑے کی پہچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ میں صدقہ لینا نہیں چاہتا.میں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں اس کی قیمت پانچ سو درہم ہی ہے.سے اس کے کتنا اُلٹ نظارہ آج دُنیا میں نظر آتا ہے.وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھاتا تھا اور چیز بیچنے والا قیمت گرا تا تھا اور یہاں یہ حال ہے کہ دودو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے.بمبئی میں میں نے اِن دوسفروں میں جو حال ہی میں میں نے کئے ہیں نہیں دیکھا لیکن آج سے ۱۵ ،۲۰ سال پہلے میں نے جو سفر کئے تھے اُن میں دو دفعہ خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا.بمبئی میں چونکہ عام طور پر ٹو وارد لوگ آتے رہتے ہیں اور وہ قلموں کی شناخت کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے بعض لوگوں نے وہاں یہ طریق اختیار کیا ہوا ہے کہ جب کسی اجنبی شخص کو دیکھیں گے اُسے آملیں گے اور کہیں گے کہ میں مسافر ہوں فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں مگر کرایہ کم ہو گیا ہے، میرے پاس یہ قلم ہے اس کی کی پندرہ روپے قیمت ہے مگر آپ دس روپے ہی دے دیں تو میرا کرایہ بن جائے گا.اب وہ قلم چھ سات پیسے کا ہوتا ہے مگر بعض دفعہ کوئی ایسا اناڑی بھی انہیں مل جاتا ہے جو اس ملمع کو دیکھ کر جو ٹین کے خول پر چڑھا ہوا ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ یہ سو دا بڑا سستا ہے اور وہ دس روپے پر اس سے قلم لے لیتا ہے حالانکہ وہ پانچ سات پیسے کا قلم ہوتا ہے.پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قیمت زیادہ ہے ذرا کم کرو.اس طرح وہ دس روپے سے نو روپے پر آتا ہے، پھر نو سے آٹھ پر ، آٹھ سے سات پر ،ساتھ سے چھ پر، چھ سے پانچ پر ، پانچ سے چار پرشی کہ بعض دفعہ وہی قلم جس کی قیمت وہ پہلے پندرہ روپے بتلاتے ہیں چھ سات آنے پر دے دیتے ہیں اور لینے والا سمجھتا ہے کہ میں نے خوب کو ٹا.حالانکہ پھر بھی وہی شخص انہیں
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۹ء کوٹ کر لے گیا ہوتا ہے کیونکہ وہ قلم چند پیسوں کا ہوتا ہے اور وہ کئی آنے بٹور لیتا ہے.خود میرے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہو ا مگر مجھے چونکہ بعض دوستوں نے یہ بات بتا دی تھی اس لئے کی میں نے فوراً کہہ دیا کہ مجھے ضرورت نہیں.مگر وہ کہنے لگا دس نہ سہی نو ہی دے دیں، نو نہ سہی آٹھ ہی دے دیں، آٹھ نہ سہی سات ہی دے دیں، سات نہ سہی کچھ ہی دے دیں، اچھا پانچ روپے ہی دے دیں.جب میں نے کہا میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تو کہنے لگا اچھا چار ہی دے دیجئے ، تین ہی دے دیجئے ، دوہی دے دیجئے ، چلئے ایک روپیہ ہی دے دیں.پھر وہ اُس سے بھی نیچے اُترا اور کہنے لگا آٹھ آنے ہی دے دیں ، سات آنے ہی دے دیں، چلو چھ آنے ہی دے دیں.مگر میں نے کہا جب میں نے کہہ دیا ہے کہ میں نے نہیں لینا تو میں چھ آنے بھی کیوں دوں؟ اسی طرح کشمیر میں میں نے دیکھا ہے وہاں لوگ مشک کا نافہ لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے اندر ایک تولہ مشک ہے اور اس کی اصل قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہے اس لئے ہم آپ کو چوبیس پچیس روپے میں نافہ دے سکتے ہیں.پھر وہی نافہ جس کی وہ پچیس روپے قیمت بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں اور جب تم آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دُنیا کے سب سے بڑے ماہر تاجر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مشک کا نافہ آٹھ آنے میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھو کا خورده ہوتے ہو کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہے تو اس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑا ٹھگ وہی تھا جو تمہیں ٹوٹ کی کر لے گیا.وہ نافہ کے باہر تھوڑی سی مُشک مل دیتے ہیں اور اندر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں.کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں سے بالکل مشک کی سی شکل ہو جاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑا ستا سودا کیا.میں نے آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ خرید لیا.حالانکہ اس ، میں صرف کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتی.پھر قومی دیانت کو لے لو.یا تو یہ حال ہے کہ کم سے کم آٹھ کروڑ مسلمان ہندوستان میں موجود ہیں اور چند سو انگریز اس ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یا یہ حال نظر آتا ہے کہ بدر کے میدان میں عرب کا ایک ہزار نہایت تجربہ کا رسپاہی ملکہ کی طرف سے لڑنے آتا ہے اُن کے
خطبات محمود ۹۴ سال ۱۹۳۹ء مقابلہ میں صرف ۳۱۳ آدمی ہیں.ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی تلوار چلائی ہی نہیں کی اور دو تو ان میں پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں اور سپاہی کہلانے کے مستحق صرف دوسو کے قریب آدمی ہیں اور یہ بھی کوئی بڑے پائے کے سپاہی نہ تھے سوائے چند کے مثلاً حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر.یہ ایسے خاندانوں میں سے تھے جن میں بچپن سے ہی فنونِ جنگ سکھائے جاتے تھے اور یہی چند آدمی تھے جو خاص طور پر ماہر فن سمجھے جاتے تھے باقی سب معمولی سپاہی تھے.مگر مکہ کی طرف سے آنے والے لشکر میں ایک ایک آدمی ایسا تھا جو ہزار ہزار پر بھاری سمجھا جاتا تھا اور وہ تمام کے تمام فنونِ جنگ میں نہایت ماہر تھے.جب مسلمانوں اور کفار کا لشکر آمنے سامنے ہو ا تو اُس وقت کسی نے سوال پیدا کر دیا کہ اس لڑائی کا فائدہ کیا ہے؟ وہ تھوڑے سے آدمی ہیں اور ہیں بھی قریباً سب مکہ کے.انصاری اس جنگ میں بہت ہی کم ہیں.پس یہ سب ہمارے بھائی بند ہیں اگر ہم مارے گئے تب بھی اور اگر یہ مارے گئے تب بھی دونوں صورتوں میں مکہ میں ماتم ہو جائے گا.اس کی بات کو تو کی لوگوں نے نہ سُنا مگر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو یہ پتہ لگانے کے لئے بھیجا کہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے ساز و سامان کا کیا حال ہے؟ معلوم ہوتا ہے وہ آدمی نہایت ہی ہوشیار تھا.جب وہ آیا تو اُس نے پہلے تو وہ جگہ دیکھی جہاں مسلمانوں کا کھانا تیار ہو رہا تھا.پھر اُس نے سواریوں کا اندازہ لگایا اور واپس جا کر کہا کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو سوا تین سو کے قریب ہیں.یہ کیسا صحیح اندازہ تھا جو اُس نے لگایا.مسلمان واقعہ میں ۳۱۳ ہی تھے مگر اُس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال چھوڑ دو.ابوجہل یہ سُن کر جوش میں آ گیا اور اُس نے کہا کیوں ڈر گئے ؟ وہ کہنے لگا میں ڈر گیا ہوں یا نہیں اس کا پتہ تو میدانِ جنگ میں لگ جائے گا مگر میں یہ مشورہ تمہیں اس لئے دے رہا ہوں کہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمیوں کو چڑھے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ میں نے موتیں دیکھی ہیں جو ان اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں.ان میں سے ہر شخص اس نیت اور اس ارادے کے ساتھ آیا ہوا ہے کہ میں مٹ جاؤں گا مگر نا کام و نامراد واپس نہیں جاؤں گا.ان میں سے ہر شخص کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ سب کے سب یا تو خود فنا ہو جائیں گے یا تم کو فنا کر دیں گے.پس یہ مت خیال کرو کہ یہ لڑائی ویسی ہی
خطبات محمود ۹۵ سال ۱۹۳۹ء ہو گی جیسے عام لڑائیاں ہوتی ہیں بلکہ ایک نہایت ہی اہم اور فیصلہ کن جنگ ہو گی اور یا تو وہ تی تمہیں فنا کر دیں گے اور اگر وہ تمہیں فنا نہ کر سکے تو وہ خود سب کے سب ڈھیر ہو جائیں گے مگر میدانِ جنگ سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے اور ایسی قوم کو دبانا ہی مشکل ہوتا ہے جس کا ہر فرد مرنے کے لئے تیار ہو کے یہ کیسا شاندار فقرہ ہے جو اُس کی زبان سے نکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر شخص اپنے گھر سے اسی نیت اور اسی ارادہ کے ساتھ نکلا ہے کہ میں فتح یا موت میں سے ایک چیز کو حاصل کئے بغیر واپس نہیں لوٹوں گا.کیا مختصر سے فقرہ میں اُس نے ان تمام قلبی جذبات کا اظہار کر دیا ہے جو مسلمانوں کے قلوب میں موجزن ہو رہے تھے.یہ فقرہ ان تاریخی فقرات میں سے ہے جو ہمیشہ یا در کھے جانے کے قابل ہیں کہ اے میرے بھائیو! میں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں.پھر دیکھ لو وہی ہوا جو اُس نے کہا تھا.وہ واقع میں موتیں بن کر ظاہر ہوئے یا تو وہ مر گئے یا تی اُنہوں نے کفار کو مار دیا جن کے لئے موت مقدر تھی وہ تو مر گئے اور جن کے لئے موت مقدر نہیں کی تھی اُنہوں نے مکہ والوں کا ایسا تہس نہیں کیا کہ مکہ کے ہر گلی کوچہ میں ماتم بر پا ہو گیا.ہزار آدمی کا ایک ایسے شہر میں سے نکل کر لڑائی کے لئے تیار ہو جانا جس میں دس پندرہ ہزار آدمی رہتے ہوں معمولی بات نہیں.ہر بارہ آدمی کے پیچھے ایک آدمی کا مارا جانا یا زخمی ہونا کوئی کم صد مے والی بات نہیں ہوتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو آدمی مارے گئے وہ چوٹی کے آدمی تھے تو ہم اور بھی زیادہ آسانی کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مکہ والوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی ؟ اِن مارے جانے والے لیڈروں میں سے ایک ایک آدمی ایسا تھا جس پر کی ہزاروں کا گزارہ تھا.ابو جہل عتبہ اور شیبہ یہ سب مکہ کے لیڈر تھے.بیسیوں ان کے نوکر تھے ، بیسیوں ان کے غلام تھے، بیسیوں ان کی تجارت پر کام کرتے تھے اور بیسیوں کی حفاظت کے یہ ذمہ دار تھے.پس ان میں سے ایک ایک آدمی تہائی یا چوتھائی شہر کا ذمہ دار تھا اور اس ایک آدمی کا مرنا صرف اس کے رشتہ داروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہزاروں اور لوگوں کے لئے بھی ماتم کا موجب تھا.اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد مکہ والوں کی ایسی دردناک کیفیت ہوگئی
خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۹ء کہ اُنہوں نے سمجھا اگر آج ماتم کیا گیا تو مکہ کی تمام عزت خاک میں مل جائے گی.پس عربی کے ان لیڈروں نے جو زندہ تھے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص بدر کے مقتولین کا ماتم نہ کرے اور اگر کوئی شخص ماتم کرے تو اُسے قوم سے نکال دیا جائے ، اُس کا بائیکاٹ کیا جائے اور اُس پر جرمانہ کیا جائے.عرب ایک قبائلی قوم ہے اور جو قبائلی قومیں ہیں اُن میں قومی روح انتہاء درجہ کی شدید ہوتی ہے.پس اس حکم کی خلاف ورزی ان کے لئے ناممکن تھی.مائیں اپنے کلیجوں پر سل رکھ کر ، باپ اپنے دلوں کو مسوس کر اور بچے اپنی زبانوں کو دانتوں تلے دبا کر بیٹھ گئے اور اُن کے لبوں سے آہ بھی نہیں نکلتی تھی کیونکہ ان کی قوم کا یہ فیصلہ تھا کہ آج رونا نہیں تا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے ساتھی خوش نہ ہوں اور وہ یہ نہ کہیں کہ دیکھا ہم نے مکہ والوں کو کیسی شکست دی.مگر دل تو جل رہے تھے ، سینوں میں سے تو شعلے نکل رہے تھے ، جگر تو ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے.وہ دروازے بند کر کے تاریک گوشوں میں بیٹھتے اور دبی ہوئی کی آواز کے ساتھ روتے تاکسی کو یہ پتہ نہ لگے کہ وہ رو رہا ہے مگر یہ رونا ان کی تسلی کا موجب نہیں تھا کی کیونکہ انسان غم کے وقت دوسرے سے تسلی چاہتا ہے.بیوی چاہتی ہے کہ خاوند مجھ سے دُکھ درد کرے اور خاوند چاہتا ہے کہ بیوی مجھ سے دُکھ درد کرے، باپ چاہتا ہے کہ بیٹا میرے غم میں حصہ لے اور بیٹا چاہتا ہے کہ باپ میرے غم میں حصہ لے.اسی طرح ہمسایہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ والے میرا غم بٹائیں اور اگر کوئی ایسا ماتم ہو جائے جس کا اثر سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر ہو تو کی اس وقت سب لوگ چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں اور اس طرح اپنے دُکھ درد کو کم کریں.پس تنہائی کے گوشوں میں ان کا بیٹھ کر رونا ان کی تسلی کا موجب نہیں تھا.مہینہ گزر گیا اور برابر یہ حکم نافذ رہا.اس عرصہ میں وہ آگ جو اُنہوں نے اپنے سینہ میں دبا رکھی تھی سلگتی رہی آخر مہینہ کے بعد ایک دن ایک مسافر وہاں سے گزرا اُس کی ایک اونٹنی تھی جو راہ میں ہی مرگئی.وہ اُس اونٹنی کے غم میں چینیں مار کر روتا جا رہا تھا اور کہتا جارہا تھا ہائے میری اونٹنی کی مرگئی ، ہائے میری اونٹنی مرگئی.تب مکہ کا ایک بوڑھا شخص جو اپنے مکان کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھا ہوا تھا اُس نے اپنے مکان کے دروازے کھول دیئے اور بازار میں آکر زور زور سے اُس نے پیٹنا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی تو اجازت ہے مگر
خطبات محمود ۹۷ سال ۱۹۳۹ء میرے تین جوان بیٹے مارے گئے اور مجھے رونے کی اجازت نہیں دی جاتی یہ ایک نعرہ تھا جو اُس کی نے لگایا جس نے مکہ میں ایک شعلہ کا کام دیا.اس کے بعد نہ کسی کو قانون کا خیال رہا، نہ قوم اور برادری سے اخراج کی دھمکی کا خیال رہا، معاملہ کے گھروں کے تمام دروازے کھل گئے اور کی چوکوں اور بازاروں میں عورتیں اور بچے پیٹنے لگ گئے.یہ وہ موتیں تھیں جو۳۱۳ جانباز صحابہ کی شکلوں میں ظاہر ہوئیں.جب ایک ملک الموت ساری دُنیا کی جان نکال لیتا ہے تو اگر انسان کی بھی ملک الموت کا نمائندہ بن جائے اور کہے کہ میں مرجاؤں گا مگر اپنے کام سے نہیں ہٹوں گا تو کی اُسے کون مار سکتا ہے.اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا، اسلام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا مگر اسلام اس معاملہ میں کوئی استثنیٰ نہیں کرتا کہ اگر کوئی مسلمان ڈر کر یا غداری سے کام لے کر میدانِ جنگ سے بھاگ آئے تو سوائے جہنم کے اُس کا کوئی ٹھکانہ نہیں.وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ پڑھنے والا ہو گا ، وہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کہنے والا ہو گا ، وہ نمازیں پڑھنے والا ہوگا اور زکوۃ دینے والا ہوگا ، وہ سارے ہی احکام اسلام کی پابندی کرنے والا ہو گا مگر خدا اُسے فرمائے گا کہ تمہارا ٹھکانا دوزخ کے سوا اور کہیں نہیں کیونکہ تم قومی غداری کے مجرم ہو.تو قومی غداری ایک نہایت ہی خطرناک جرم ہے.صحابہ کو ہی دیکھ لو انہوں نے قومی دیانت کا کیسا شاندارنمونہ دکھایا.ایسا اعلیٰ نمونہ کہ شدید ترین دشمن بھی ان کی اس خوبی کا اعتراف کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا پر غالب آئے اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم اپنے اندر پیدا کر کے دُنیا کی پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں.یقیناً یا درکھو جو قوم مرنے مارنے پر تلی ہوئی ہو اُ سے کوئی شکست نہیں دے سکتا.اگر اس پر کوئی حملہ بھی کرے تو مٹتی نہیں بلکہ اُبھرتی ہے اور گرتی نہیں بلکہ ترقی کرتی ہے.تو تمہارا ایک کام یہ ہے کہ تم نوجوانوں میں قومی دیانت پیدا کرو.اسی طرح ان میں تجارتی دیانت پیدا کر و یا زیادہ وسیع لفظ اگر استعمال کیا جائے تو اس کے لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم معاملاتی دیانت پیدا کرو اور اخلاقی دیانت کے پیدا کرنے سے بھی غافل نہ ہو.اگر تم بار بار نو جوانوں کو یہ سبق دو، اگر تم دیکھتے رہو کہ تم میں سے کسی میں دیانت کا فقدان تو نہیں ہورہا اور اگر تم اپنے دوستوں ، اپنے ہمسایوں ، اپنے رشتہ داروں ، اپنے اہلِ محلہ اور
خطبات محمود ۹۸ سال ۱۹۳۹ء اہلِ شہر میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرو تو یقینا تم ایک ایسا کام کرتے ہو جو احمدیت کو زندگی بخشنے والا ہے.باقی رہا سچ ، سو سچ بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے بغیر دُنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا.سارے فساد اور لڑائی جھگڑے محض جھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں.لوگوں کو اگر ایک دوسرے پر اعتبار نہیں آتا یا تعلقات میں کشیدگی ہوتی ہے تو محض اس لئے کہ وہ سچ نہیں بولتے مگر جس کی کی سچائی پر لوگوں کو یقین ہو اُس کے متعلق وہ ایسی باتیں بھی ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جن باتوں کو وہ کسی دوسری صورت میں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، وہ معلوم ہوتا ہے کوئی موٹی عقل کا آدمی تھا جس نے اسلام پر غور کیا مگر اسلام کی صداقت اُس پر کسی طرح منکشف نہ ہوئی مگر پھر اُس کے دل میں شبہ بھی پیدا ہو جاتا کہ اگر اسلام سچا ہی ہوا تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ صدوق مشہور تھے اور ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اس لئے اُس نے فیصلہ کیا کہ اس امر کا بھی آپ سے ہی فیصلہ کرائے اور اُسی شخص سے جو مدعی ہے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو شخص مدعی ہے اُسی سے وہ پوچھنے آتا ہے کہ کیا آپ واقع میں مدعی ہیں یا یونہی کہہ رہے ہیں؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی رسالت کا قائل نہیں تھا اس لئے اُس نے آتے ہی کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں تجھے سے ایک سوال کرتا ہوں تو خدا کی قسم کھا کر مجھے اُس کا جواب دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جو بات تم دریافت کرنا چاہتے ہو دریافت کرو.اُس نے کہا آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا ہے اور کیا واقع میں خدا نے آپ کو رسول بنایا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے ہی رسول بنا کر بھیجا ہے.اُس نے کہا اگر یہ بات ہے تو ہاتھ لائیے میں ابھی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.اب مُدعی وہی ہے اُس کے بیچ اور جھوٹ پر بحث ہے مگر چونکہ دنیوی زندگی میں وہ آپ کی سچائی کا قائل تھا اِس لئے اُس نے اپنی آخرت بھی آپ کے
خطبات محمود ۹۹ سال ۱۹۳۹ء سپرد کر دی اور فیصلہ کر لیا کہ جب یہ دنیوی معاملات میں جھوٹ نہیں بولتا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دینی معاملات میں جھوٹ بولے.تو سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کے رُعب کو قائم کر دیتی ہے.تم اگر سچ بولو اور نوجوانوں کو سچ بولنے کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو تو تمہارا ایک ایک فرد ہزاروں کے برابر سمجھا جائے گا.لوگ تبلیغ کرتے اور بعض دفعہ شکایت کرتے ہیں کہ اس تبلیغ کا اثر نہیں ہوتا لیکن اگر سچائی کامل طور پر ہماری جماعت میں پھیل جائے اور لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ اس جماعت کا کوئی فرد جھوٹ نہیں بولتا تو چاہے آج کے لوگ نہ مانیں مگر ان کی اولادیں اس بات پر مجبور ہوں گی کہ احمدیت کی صداقت کو تسلیم کریں کیونکہ جب ان کی اولادیں سنیں گی کہ فلاں شخص تھا تو بڑا سچا مگر ہمیشہ جھوٹ کی طرف لوگوں کو بلا تا رہا تو وہ حیران ہوں گی اور یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گی کہ جنہوں نے ان لوگوں کو غلط عقائد میں مبتلا سمجھا اُنہوں نے غلطی کی.تو نو جوانوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالو اور خدام احمدیہ کے ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ وہ بیچ کی بولے گا اگر وہ کسی وقت سچ نہ بولے تو تم خود اسے سزا دو.میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ یہ طوعی نظام ہے اور طوعی نظام والے کو سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے.پس اگر تم سزا دو تو تمہیں کوئی قانون اس سے نہیں روکتا.قانون تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم جبراً کسی کو سزا دو لیکن جو شخص آپ ایک نظام میں شامل ہوتا اور آپ کہتا ہے کہ مجھے بیشک سزا دے لو اسے سزا دینے میں کوئی قانونی روک نہیں.بیشک بعض قسم کی سزائیں ایسی ہیں جنہیں قانون نے روک دیا کی ہے.مثلا قتل ہے.اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے بھی کہے کہ مجھے قتل کر لو تو دوسرا شخص اُسے قتل نہیں کی کر سکتا.یہ صرف حکومت کا ہی کام ہے کہ وہ مجرم کو قتل کی سزا دے لیکن اس سے اتر کر جو معمولی سزائیں ہیں وہ طوعی نظام میں دی جاسکتی ہیں.مدرس روز لڑکوں کو پیٹتے ہیں مگر کوئی قانون کی انہیں اس سے نہیں روکتا.اس لئے کہ طالبعلم اپنی مرضی سے سکول میں جاتا اور وہ اپنی مرضی سے ایک نظام کا اپنے آپ کو پابند بناتا ہے.پس جب وہ اپنی خوشی اور مرضی سے ایک نظام کو قبول کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ سزا کو بھی برداشت کرے.پس تم اپنے اندر اسی شخص کو شامل کرو جو تمہارے نظام کی پابندی کرنے کے لئے تیار ہو اور جب کوئی شخص اس اقرار کے بعد
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء تمہارے نظام میں شریک ہوتا ہے اور پھر کسی عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو تمہارا اختیار ہے کہ تم اُسے سزا دو.پس اگر کوئی جھوٹ بولے تو تم خود اُسے سزا دو اور جس طرح مرغی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُسی طرح تم سچائی کی حفاظت کرو.مُرغی کس قدر کمز ور جانور ہے لیکن جب اُس کے بچوں پر کوئی بلی یا گستا حملہ کر دے تو وہ بلی اور گیتا کا بھی مقابلہ کر لیتی ہے.پس جس کی طرح وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُسی طرح تم سچ کی حفاظت کرو اور کوشش کرو کہ تمہارا ہر مبر سچا ہو اور سچائی میں تمہارا نام اس قدر روشن ہو جائے کہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ہی اس بات کی ضمانت ہو کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے اور جب بھی لوگ ایسے شخص کے منہ سے کوئی روایت سنیں وہ کہیں کہ یہ روایت غلط نہیں ہوسکتی.کیونکہ اس کا بیان کرنے والا خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے.جب تم اس مقام کو حاصل کر لو گے تو تمہاری تبلیغ کا اثر اتنا وسیع ہو جائے گا کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں اور تم ہزاروں عیوب قوم میں سے دُور کرنے کے قابل ہو جاؤ گے.پس دیانت اور سچائی کو خاص طور پر اخلاق فاضلہ میں سے چن لو اور بھی بہت سے ضروری اخلاق ہیں مگر اِن دو اخلاق کو میں نے خصوصیت کے ساتھ چنا ہے.ان کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھو اور ان کے علاوہ بھی جس قدر نیک اخلاق ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو.مثلاً اعلیٰ اخلاق میں سے ایک ظلم نہ کرنا ہے مگر چونکہ خدام الاحمدیہ کے اساسی اصول میں خدمتِ خلق بھی شامل ہے اس لئے میں نے علیحدہ اس کو بیان نہیں کیا کیونکہ وہ شخص جس کا فرض یہ ہو کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا.پس میں نے اس کو اسی لئے چھوڑ دیا ہے کہ یہ بات تمہارے نام اور تمہارے اساسی اصول کے اندر شامل ہے لیکن بہر حال اور جس قدر اچھے اخلاق ہیں وہ سب اپنے اندر پیدا کرو.انسان اگر تلاش کرے تو اُسے بیسیوں اخلاق معلوم ہو سکتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دوا ہم اخلاق ہیں جن کا اپنے اندر پیدا کرنا نہایت کی ضروری ہے.ایک دیانت اور دوسرا سچ.ان کے علاوہ ایک اور بھی اہم خلق ہے مگر اس کا ذکر انشاء اللہ پھر کروں گا.بہر حال اخلاق فاضلہ میں سے بیچ اور دیانت کو اپنے اندر پیدا کرنے کی خاص طور پر کوشش کرو اگر تم ان دواخلاق کو جماعت کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تم جماعت کی اتنی بڑی خدمت
خطبات محمود 1+1 سال ۱۹۳۹ء کرتے ہو کہ اس کی قیمت کوئی انسان نہیں لگا سکتا.صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جو عالم الغیب کی ہے اور جو وسیع سے وسیع گہرائیوں کو ناپ سکتی ہے تمہاری اس خدمت کا اندازہ لگا سکتی اور تمہیں بڑے سے بڑا بدلہ دے سکتی ہے.66 چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں اسی بات کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں.“ الفضل ۱۵ / مارچ ۱۹۳۹ء ) تر یا چرتر (چلتر ) عورتوں کے مکروفریب ارشيف ملتقى اهل الحديث جز اصفحه ۶۱۴۳ ، موسوعة خطب المنبر جز صفحه ۱۳۵ شامله C.D سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۴ ۲۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ه السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۰۱،۲۰۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ( مفهوماً)
خطبات محمود ۱۰۲ L سال ۱۹۳۹ء جماعت کے افراد میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے فرموده ۲۴ فروری ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- خدام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے چار کے متعلق میں اِس وقت تک توجہ دلا چُکا ہوں کی اور آج پانچویں امر کے متعلق توجہ دلاتا ہوں اور وہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے.یہ معاملہ بظاہر چھوٹا سا نظر آتا ہے لیکن دراصل یہ اپنے اندر اتنے فوائد اور اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا.دراصل دُنیا کی اقتصادی حالت اور اخلاقی حالت اور اس کے نتیجہ میں مذہبی حالت جو ہے اس پر علاوہ دینی مسائل کے جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں اُن میں سے یہ مسئلہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اقتصادی اور اخلاقی حالت کی تباہی بہت کچھ بینی ہے ان دو باتوں پر کہ دُنیا میں بعض لوگ کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کو کام ملتا نہیں اور بعض ایسے لوگ ہیں کہ انہیں کام کرنے کے مواقع میٹر ہیں مگر وہ کام کرتے نہیں.یہ تمام آجکل کی لڑائیاں ، یہ بالشوازم، یہ نفیسی ازم کی تحریکیں ، سوشلزم اور کیپٹلزم کے دُنیا پر حملے یہ سب در حقیقت اسی چھوٹے سے نقطہ کے ارد گر دگھوم رہے ہیں.لاکھوں کروڑوں انسان ہیں جو چاہتے ہیں کہ کام کریں مگر انہیں کام میتر نہیں آتا اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر
خطبات محمود ۱۰۳ سال ۱۹۳۹ء کرتے نہیں.جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر اُنہیں ملتا نہیں اس کی بنیاد بھی درحقیقت اسی مسئلہ پر ہے کہ کچھ لوگ دُنیا میں ایسے ہیں کہ جو کام کر سکتے ہیں انہیں مواقع میسر ہیں مگر وہ کرتے نہیں.یہ لوگ آگے پھر دو گروہوں میں تقسیم محمدہ ہیں.ایک وہ جن کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ باقی دنیا کو ہماری خدمت کرنی چاہئے اور ہم گویا ایک ایسا وجود ہیں جو دُنیا سے خدمت لینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.یہ گروہ فطرتی طور پر اس ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اِسے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینے کے قابل کر دے اور وہ دولت ہے.جب انسان یہ سمجھے کہ اس کی عزت اور امن و راحت کا انحصار دولت پر ہے تو وہ لازمی طور پر اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے.یہ ایک طبعی چیز ہے.ہم اس اصول کو غلط کہہ سکتے ہیں کہ دُنیا میں دولت سے عزت اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے وہ اُسے بڑھانے میں غلطی کرتا ہے.وہ اپنے نقطہ نگاہ سے بالکل صحیح کرتا ہے.مومن یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ساری عزت خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں ہے اور کیا ہم اسے روکیں گے کہ یہ تعلق نہ بڑھا، یا اگر وہ یہ کوشش کرے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیر طبعی فعل کرتا ہے.جب اس کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام عزتیں اور رحمتیں خدا تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ وابستہ ہیں تو وہ قدرتی طور پر کوشش کرے گا کہ اس تعلق کو بڑھائے.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ساری عزت اور راحت و امن دولت میں ہے تو ضرور ہے کہ وہ دولت کو بڑھانے کی کوشش کرے گا اور اس کی اس کوشش پر ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ یہ طبعی تقاضا ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا یہ خیال غلط ہے کہ ساری عزت اور راحت دولت سے وابستہ ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دولت میں اضافہ کی کوشش کرنا غیر طبعی فعل ہے.جس طرح ہم اس شخص کو جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عزت اور راحت تعلق باللہ میں ہے اس سے باز نہیں کی رکھ سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھائے.دُنیا میں ہزاروں لاکھوں انبیاء آئے ہیں جن کی زندگی کا دارو مدار اور انحصار ہی تعلق باللہ پر ہوتا ہے اور پھر ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا سی تعلیم پر یقین ہوتا ہے.لوگوں نے کس طرح کوششیں کیں کہ ان کو اس راستہ سے ہٹا دیں مگر کیا اُنہوں نے اس کو چھوڑا؟ اِن کو طرح طرح کے عذاب دیئے گئے ، دُکھ پہنچائے گئے.:
خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۹ء مگر اُنہوں نے اپنا راستہ نہ چھوڑا کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ تمام عزت اور راحت اسی سے ہے.اس طرح جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اُس کی ساری عزت و راحت دولت جمع کرنے میں ہے خواہ کتنی کوشش کی جائے وہ دولت جمع کرنا کبھی نہیں چھوڑے گا.دوسری طرف جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس میں دولت کمانے سے منع نہیں کیا گیا.قرآن کریم میں مومن اور خالص مومنوں کے لئے بعض احکام ہیں اور ان میں ڈھیروں ڈھیر مال کا ذکر ہے.چنانچہ حکم ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو ڈھیروں ڈھیر مال بھی دیا ہو تب بھی یہ جائز نہیں کہ طلاق دیتے وقت اُسے واپس لے لے اور ظاہر ہے کہ ڈھیروں ڈھیر مال کسی کے پاس ہوگا تو دے گا نہیں تو کہاں سے دے گا ؟ کنگال آدمی ڈھیروں ڈھیر مال کہاں سے دے سکتا ہے؟ اگر دولت کمانا منع ہوتا تو ایسی مثالیں بھی قرآن کریم میں نہ ہوتیں.پھر قرآن کریم میں زکوۃ کا حکم ہے جو مال پر ہی دی جاتی ہے.پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہے.اگر کی دولت کمانا جائز نہ ہوتا تو پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہی نہ ہوتا اور اسی طرح صدقہ خیرات کے حکم بھی قرآن کریم میں نہ ہوتے اگر یہ احکام یونہی تھے تو یہ کیوں نہ بتایا کہ اگر کسی کے گھر میں شراب کا مٹکا ہو تو اُسے یوں تقسیم کیا جائے یا یہ کہ کسی مسلمان کے گھر میں سور کا گوشت ہو تو اُسے یوں تقسیم کیا جائے.پس اگر دولت کمانا اسلام میں منع ہوتا تو ایسے احکام بھی نہ ہوتے.اسلام نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا بلکہ جس چیز کو منع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس دولت کو محفوظ کر کے ایسے رنگ میں رکھ لیتا ہے کہ دُنیا کو اس کے فائدہ سے محروم کرتا ہے.روپیہ کو بنکوں میں جمع رکھا جاتا ہے یا خزانوں میں دفن کر دیا جاتا ہے اور اس طرح خود تو اس سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر وہ دولت دوسروں کے کام نہیں آ سکتی.جس چیز سے اسلام روکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کی دولت کو محفوظ نہ کر لو کہ دوسرے اِس کے فائدہ سے محروم رہ جائیں اور یہ کہ سود نہ لو کیونکہ اس کی سے دولت چندلوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے اور باقی لوگ محروم رہ جاتے ہیں.جس دولت سے دُنیا کو فائدہ پہنچے اس سے اسلام نے نہیں روکا ، جس کا فائدہ صرف مالک کو ہو اُس سے روکتا ہے.جو لوگ سُود پر روپیہ لیتے ہیں لوگ اُن کو کروڑوں روپیہ دے دیتے ہیں کہ نفع ملے گا.اسی طرح وہ روپیہ سمیٹ لیتے ہیں اور روپیہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے.
خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۹ء پہلے تو لوگ ان کو اس لئے روپیہ دیتے ہیں کہ سُود ملے گا لیکن آخر کار ان کے دست نگر ہو جاتے ہیں اور اس طرح جو روپیہ جمع کرتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ روپیہ جمع کرتے چلے جائیں تا کی دوسروں سے غلامی کروا سکیں اور خدمت کر اسکیں.اس چیز سے قرآن کریم نے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں قیامت کے دن اسے جلا کر ان کے بدن کو داغ دیا جائے گا ہے اس سونا چاندی سے مُراد استعمال والا سونا چاندی نہیں جو جائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں زکوۃ کا حکم ہے اور حدیثوں میں یہ تفاصیل بیان کی گئی کی ہیں کہ اتنے سونے اور اتنی چاندی پر اتنی زکوۃ دینی چاہئے.اگر سونا چاندی پاس رکھنا ہی منع ہوتا تو اُس پر زکوۃ کے کوئی معنے ہی نہ تھے.کیا شراب پر بھی کوئی زکوة ہے؟ تو یہ درمیانی رستہ ہے جو اسلام نے بتایا ہے اور ایسی دولت سے منع کیا ہے جس کے فائدہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جائیں.جو لوگ اس طرح دولت جمع کرتے ہیں وہ آرام طلب ہو جاتے ہیں اور یہی وہ کی لوگ ہیں جو ہاتھ سے کام نہیں کرتے.ان کے مد نظر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس روپیہ ہو تو لوگوں سے کام لیں.خود چار پائی پر بیٹھے ہیں اور دوسرے کو حکم دیتے ہیں کہ پاخانہ میں لوٹا کی رکھ آؤ اور اس قدر سکتے ہو جاتے ہیں کہ پاخانہ سے واپس آتے ہوئے لوٹا وہیں چھوڑ آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ او کمبخت کہاں گیا جا لوٹا اُٹھا لا.ان کو کوئی کام کرنا نصیب ہی نہیں ہوتا اور چونکہ ان کو دوسروں سے کام لینے کی عادت ہو جاتی ہے اس لئے یہی لوگ ہیں جو دُنیا میں غلامی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کا وجود غلامی کا منبع ہوتا ہے اور دُنیا میں ان کے ذریعہ غلامی اس طرح پھیلتی ہے جس طرح طاعون کے کیڑوں سے طاعون پھیلتی ہے.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا کی کی حالت ایسی رہے کہ اس میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا رہے جو ان کی خدمت کرتے رہیں اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جس طرح حکومت کو گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ زمینداروں کو مربعے دیتی ہے کہ گھوڑے پالیں اسی طرح جو لوگ اس بات کی کے عادی ہوتے ہیں کہ ہاتھ سے کام نہ کریں یا بعض کاموں میں اپنی ہتک سمجھیں وہ لازماً کوشش کرتے ہیں کہ دُنیا کا کچھ حصہ غریب رہے اور ان کی خدمت کرتا رہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر دُنیا کی حالت اچھی ہو جائے تو وہ کام کس سے لیں گے.یہ بار یک باتیں شاید ہی
خطبات محمود 1+4 سال ۱۹۳۹ء زمینداروں کی سمجھ میں نہ آ سکیں اس لئے میں اسے ایک موٹی مثال سے واضح کر دیتا ہوں جس سے ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.ایک دفعہ مجھے اطلاع ملی کہ شکر گڑھ کی تحصیل میں کی بعض ادنی اقوم ہیں جن کو آریہ ہندو بنارہے ہیں اور مجھے اطلاع ملی کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان ہم کو اپنے ساتھ ملالیں تو ہم مسلمان ہو جائیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو ہو کر بھی ہماری حالت اچھی نہ ہوگی.کئی پیغام مجھے آئے اور میں نے ایک دو مبلغ وہاں بھیج دیئے کہ جا کر ان کی میں تبلیغ کریں اور پھر ہم ان کے لئے انتظام کرنے کی کوشش کریں گے.پہلے پہل تو مجھے رپورٹ ملتی رہی کہ وہاں بڑا اچھا کام ہو رہا ہے اور اُمید ہے کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے.مگر دس بارہ روز کے بعد یہ رپورٹیں آنی شروع ہوئیں کہ سخت مخالفت ہو رہی ہے اور ہمارے مبلغوں کو لوگ اپنے گاؤں میں ٹھہر نے تک نہیں دیتے.یہ رپورٹیں سُن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی کیونکہ وہ سارا علاقہ مسلمانوں کا ہے اور مجھے امید تھی کہ مسلمان ضروری مدد کریں گے لیکن مجھے بتایا گیا کہ اس علاقہ کے ذیلدار نے جو مسلمان ہے سب کام چھوڑ چھاڑ کی کر ہماری مخالفت شروع کر رکھی ہے اور بعض نمبر داروں کو ساتھ لے کر وہ ہمارے آدمیوں کے پیچھے پیچھے پھرتا اور ہر گاؤں میں پہنچ کر لوگوں سے کہتا ہے کہ ان کو یہاں ٹکنے نہ دو اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ اگر اُنہوں نے ان لوگوں کو مسلمان بنالیا تو پھر ہمارے جو جانور مر جایا کریں گے اُنہیں کون اُٹھا کر لے جایا کرے گا اور اُن کی کھالیں کون اُتارا کرے گا ؟ اگر ان لوگوں میں یہ عادت نہ ہوتی کہ ایک خاص قسم کے کام نہیں کرنے تو ان کو اس مخالفت کی ضرورت محسوس نہ ہوتی.تو بعض قسم کے کام کرنا امراء اپنی ہتک سمجھتے ہیں.زمینداروں میں بھی یہ عادت ہے کہ وہ بعض خاص قسم کے کام خود کرنا ہتک سمجھتے ہیں اور ان کو کمیوں کے کام سمجھتے ہیں.ان کمیوں کی کی اصلاح کا سوال جب بھی پیدا ہو گا زمیندار فوراً لڑائی پر آمادہ ہو جائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح ہمارے کام رُک جائیں گے.جب قادیان میں چوہڑوں کو اسلام میں داخل کرنے کا سوال پیدا ہوا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ بعض احمدیوں نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ لوگ مسلمان ہو گئے تو ہمارے گھروں کی کی صفائی کون کرے گا؟ یہ وقت ان کو صرف اس وجہ سے نظر آئی کہ ان کو ایک خاص قسم کا کام کرنے کی
خطبات محمود ۱۰۷ سال ۱۹۳۹ء عادت نہ تھی اور جسے بالکل ہی کام کرنے کی عادت نہ ہو اُسے غصہ آئے گا.جب وہ یہ محسوس کرے گا کہ اب اس کی خدمت کرنے والے نہیں رہیں گے.اگر زمینداروں کو یہ عادت ہوتی کہ اپنے مُردہ جانوروں کو خود ہی باہر پھینک دیں تو شکر گڑھ کی تحصیل کے زمیندار ہماری مخالفت نہ کرتے.تو میرا مطلب یہ ہے کہ ایک تو کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے اور دوسرے کسی کام کو ذلیل نہ سمجھا جائے.ہاں نو کر رکھ لینا اور بات ہے.اگر کسی کا کام زیادہ ہو جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو تو وہ کسی کو مددگار کے طور پر رکھ سکتا ہے.بعض بڑے زمیندار بھی اپنے ساتھ ہالی رکھ لیتے ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ہل نہیں چلاتے.وہ خود بھی چلاتے ہیں اس لئے ان کو یہ فکر نہیں ہوتا کہ اگر ہالی نہ رہے تو وہ کیا کریں گے.کیونکہ وہ خود بھی ہل چلانے میں عار نہیں سمجھتے لیکن جن کاموں کو لوگ اپنے لئے عار سمجھتے ہیں اُن کے کرنے والوں کی اصلاح کا اگر سوال پیدا ہو تو وہ ضرور ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد یہ ہتک والا کام ہمیں خود کرنا پڑے گا اور اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ ہاتھ سے کام کرنے کی کی عادت ڈالنی چاہئے تو اس میں دونوں باتیں شامل ہیں یعنی یہ بھی اس میں شامل ہے کہ کسی کی کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے.یوں تو سارے ہی لوگ ہاتھ سے کام کرتے ہیں میں جو لکھتا کی ہوں یہ بھی ہاتھ سے ہی کام ہے.کیا ہاتھ سے نہیں تو زبان سے لکھا جاتا ہے؟ پس ہاتھ سے کام کرنے کو جب میں کہتا ہوں تو اُس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دُنیا کی میں عام طور پر بُرا سمجھا جاتا ہے اُن کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے.مثلاً مٹی ڈھونا یا ٹوکری اُٹھانا ہے، کہی چلانا ہے.اوسط طبقہ اور امیر طبقہ کے لوگ یہ کام اگر کبھی کبھی کریں تو یہ ہاتھ سے کام کرنا ہوگا ورنہ یوں تو سب ہی ہاتھ سے کام کرتے ہیں.یہ کام ہمارے جیسے لوگوں کے لئے ہیں کیونکہ ہمیں ان کی عادت نہیں.اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ ہماری عادتیں ایسی خراب ہو جائیں یا اگر ہماری نہ ہوں تو ہماری اولادوں کی عادتیں ایسی خراب ہو جائیں کہ وہ اُن کو بُرا سمجھنے لگیں اور پھر کوشش کریں کہ دُنیا میں ایسے لوگ باقی رہیں جو ایسے کام کیا کریں اور اسی کا نام غلامی ہے.پس جائز کام کرنے کی عادت ہر شخص کو ہونی چاہئے تا کسی کام کے متعلق یہ خیال نہ ہو کہ یہ
خطبات محمود 1+A سال ۱۹۳۹ء بُرا ہے.ہمارے ملک کی ذہنیت ایسی بُری ہے کہ عام طور پر لوگ لو ہار ، ترکھان وغیرہ کو کمیں سمجھتے ہیں اور جس طرح یہ لوہار ، ترکھان اور چوہڑوں کو ذلیل سمجھتے ہیں اسی طرح دوسرے لوگ اِن کو ذلیل سمجھتے ہیں.اگر کسی شخص کا لڑکا پولیس یا فوج میں سپاہی ہو جائے اور سترہ روپیہ ماہوار تنخواہ پانے لگے تو اس پر بہت خوشی کی جاتی ہے لیکن اگر وہ پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کمانے والا ترکھان یا لوہار بن جائے تو تمام قوم روئے گی کہ اس نے ہماری ناک کاٹ ڈالی کیونکہ اسے کمیوں کا کام سمجھا جاتا ہے.تو میرا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے کاموں کی جماعت میں عادت ڈالی جائے.ایک طرف تو کام کرنے کی عادت ہو اور دوسری طرف ایسے کاموں کو عیب نہ سمجھنے کی.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کا کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا کہ جو کسی حالت میں بھی یہ کوشش کرے کہ دُنیا میں ضرور کوئی نہ کوئی حصہ غلام رہے اور اگر کبھی اس کی اصلاح کا سوال پیدا ہو تو اس میں روک بنے.جیسے جب یہاں چوہڑوں کو داخلِ اسلام کرنے کا سوال پیدا ہوا تو بعض کی لوگ گھبرانے لگے تھے.جماعت کے کچھ لوگ بڑھئی بنیں ، کچھ لوہار بنیں ، کچھ ملازمتیں کریں کی غرضیکہ کوئی خاص کام کسی سے منسوب نہ ہو ، تا وہ ذلیل نہ سمجھا جائے.اس تحریک سے دوضروری فوائد حاصل ہوں گے: ایک تو نکتا پن دور ہو گا اور دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی رُوح کبھی پیدا نہ ہو گی.یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ فلاں کام بُرا ہے اور فلاں اچھا ہے.بُرا کام کوئی نہ کرے اور اچھا چھوٹے بڑے سب کریں.بُرا کام مثلاً چوری ہے ، یہ کوئی بھی نہ کرے اور جو اچھے ہیں اُن میں سے کسی کو عار نہ سمجھا جائے تا اُس کے کرنے والے ذلیل نہ سمجھے جائیں اور جب دُنیا کی میں یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ کام کرنا ہے اور نکتا نہیں رہنا اور کسی کام کو ذلیل نہیں سمجھنا تو اس طرح کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا جو دُنیا میں غلامی چاہتا ہو.اسی لئے میں نے کوشش کی تھی کہ ملازموں کی تنخواہیں بڑھ جائیں تا لوگ ملا زم کم رکھیں اور اپنے کام خود کریں.اب تو یہ حالت ہے کہ نو کر دو چار روپے میں مل جاتے ہیں اس لئے ذرا کسی کے پاس ج پیسے ہوتے ہیں تو جھٹ وہ نو کر رکھ لیتا ہے اور اِس طرح اس میں سستی اور غفلت پیدا ہو جاتی کہ ہے.ہمارے ملک میں یہ سستی اور غفلت اس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ معمولی لوگ بھی اپنا اسباب اُٹھانا بہتک سمجھتے ہیں حالانکہ ولایت میں بڑے بڑے لکھ پتی خود اپنے اسباب کی
خطبات محمود 1+9 سال ۱۹۳۹ء اُٹھا لیتے ہیں.جب میں ولایت میں گیا تو میرے ساتھی باوجود یکہ غرباء کے طبقہ میں سے ہی تھے امراء تو ہم میں ہیں ہی نہیں سب غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنا اسباب اُٹھانے سے گھبراتے تھے.جب میں فرانس میں سے گزرا تو امریکہ کے کچھ لوگ میرے ہم سفر تھے وہ دس بارہ آدمی تھے جو یورپ کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے.ان کے تموّل کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے جہاں پندرہ بیس روپیہ روزانہ فی کس خرچ ہوتا ہے اور اس طرح میرا اندازہ ہے کہ اُن کا کھانے پینے کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ ماہوار ہو گا، کرائے الگ تھے.وہ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے اور اس طرح پندرہ بیس ہزار روپیہ ان کا کرایوں وغیرہ پر بھی خرچ ہوا ہو گا اور اس طرح میرا اندازہ ہے کہ ان کا کل خرچ ساٹھ ستر ہزار روپیہ ہوا ہوگا جس سے ان کے تمول کا حال معلوم ہو سکتا ہے لیکن جب وہ گاڑی سے اُترے تو میں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک دو دو تین تین گٹھڑیاں اور بکس اُٹھائے جا رہا ہے مگر ہمارے دوستوں کی یہ حالت تھی کہ مجھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ آپ چلئے ہم اسباب لاتے ہیں.میں ان کی باتوں میں آ گیا اور آگے چلا آیا مگر بہت دیر ہو گئی اور کوئی نہ آیا.جہاز کے افسر نے بھی مجھے کہا کہ آپ سوار ہوں جہا ز با لکل روانہ ہونے کے لئے تیار ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی تو ج میرے ساتھی اور اسباب نہیں آیا.آخر میں واپس آیا اور وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اسباب اُٹھانے کے لئے قلمی نہیں ملتے اور ہمارے دوست حیران تھے کہ کیا کریں؟ اس وقت اتفاقاً کچھ آدمیوں کا انتظام سٹیشن والوں نے کر دیا اور کچھ سامان ہمارے بعض دوستوں نے اُٹھایا اور اس طرح جہاز پر پہنچے.جب ہم لنڈن پہنچے تو دوسرے روز ہی مجھے معلوم ہوا کہ ہماری پارٹی میں اختلاف ہے.بعض چہروں سے بھی ناراضگی کے آثار دکھائی دیتے تھے.میں نے تحقیقات کی کہ اس کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہوا کہ جب گاڑی سے اترے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ سامان مکان کی چھت پر پہنچانے کے لئے قلیوں کی ضرورت ہے مگر قلی ملتے نہیں.چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب اُن دنوں وہاں تھے اور ہمارے ساتھ ہی ٹھہرے تھے اور مکان کے انتظام کے لئے پہلے سے مکان میں آگئے تھے.مجھے بتایا گیا کہ جب اُنہوں نے یہ حال دیکھا تو اپنے ایک جرمن معزز دوست کے ساتھ مل کر انہوں نے اسباب او پر پہنچانا شروع کیا جس پر بعض اور دوست
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء بھی شامل ہو گئے اور چونکہ چودہری صاحب نے ملامت کی کہ آپ لوگ خود کیوں اسباب نہیں اُٹھاتے ؟ بعض ساتھیوں نے اسے بُرا منایا اور رنجش پیدا ہوئی.جن صاحب کو یہ امرسب سے زیادہ بُرا لگا وہ ہماری جماعت کے تازہ باغیوں کے سردار صاحب تھے لیکن یورپ کے لوگ اس بات میں کوئی عار نہیں سمجھتے.وہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے کام لیتے ہیں کہ مگر سفر وغیرہ کے مواقع پر اسباب اُٹھانے میں وہ بھی تامل نہیں کرتے.غرض کام نہ کرنے کی کی عادت انسان کو بہت خراب کرتی ہے.کسی ملک میں جو مثالیں بنی ہوئی ہوتی ہیں وہ دراصل اس کی ملک کی حالت پر دلالت کرتی ہیں اور قوم کا کیریکٹر ان میں بیان ہوتا ہے.ہمارے ملک میں یہ مشہور ہے کہ کوئی سپاہی سفر پر جارہا تھا کہ اُسے آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ میاں سپاہی ! ذرا ادھر آنا اور جلدی آنا بڑا ضروری کام ہے.وہ ایک ضروری کام سے جا رہا تھا اور پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے اُسے یہ آواز آ رہی تھی مگر خیر وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اسے کہنے لگا کہ میاں سپاہی یہ میری چھاتی پر پیر پڑا ہے اُسے اُٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.یہ سُن کر اُسے بہت غصہ آیا اور اُس نے اسے گالیاں دیں اور کہا کہ تُو بڑا نالائق ہے میں ضروری سفر پر جا رہا تھا تم نے مجھے پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے بلا یا.تمہاری چھاتی پر بیر تھا جسے تم خود اٹھا کر کھا سکتے تھے تم کوئی لولے لنگڑے تو نہ تھے کہ مجھے اتنی دور سے بُلا یا.اس پر دوسرے شخص نے کہا کہ میاں سپاہی جانے دو کیوں اتنا غصہ کرتے ہو.یہ شخص تو ہے ہی ایسا.یہ کسی کام کا نہیں اور اس قابل نہیں کہ اس کی اصلاح ہو سکے.اس کی سستی کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات گتا میرا منہ چاہتا رہا اور اِس سے اتنا نہ ہو سکا کہ اسے ہشت ہی کر دے.اس مثال میں ہمارے ملک کی بے عملی کا نقشہ کھینچا گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ ہر ملک میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر یہاں بہت زیادہ ہیں یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی سست ہیں.میں نے کئی دفعہ سُنایا ہے کہ یہاں جو مزدور اینٹیں اُٹھاتے ہیں وہ اِس طرح کی ہاتھ لگاتے ہیں کہ گویا وہ انڈے ہیں آہستہ آہستہ اُٹھاتے ہیں اور پھر اُٹھاتے اور رکھتے وقت کمر سیدھی کرتے ہیں.پھر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے ہیں کہ لاؤ ذرا حقہ کے تو دوگش لگالیں لیکن ولائت میں میں نے دیکھا ہے کہ حالت ہی اور ہے.حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو میں نے
خطبات محمود 111 سال ۱۹۳۹ء ایک دفعہ توجہ دلائی اُنہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال اِسی طرف تھا.گویا ایک ہی وقت دونوں کو اس طرف توجہ ہوئی.حافظ صاحب نے کہا کہ اِن لوگوں کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کام کر رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور یہ اسے بجھا رہے ہیں کوئی سستی ان میں نظر نہیں آتی.ایک دفعہ ہم گھر میں بیٹھے تھے کھڑ کی کھلی ہوئی تھی کہ گلی میں چند عورتیں نظر آئیں جو لباس سے آسودہ حال معلوم ہوتی تھیں مگر نہایت جلدی جلدی چل رہی تھیں میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ حافظ صاحب ذہین آدمی تھے سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ میں نے یہاں کسی کو چلتے دیکھا ہی نہیں سب لوگ یہاں دوڑتے ہیں.غرض وہاں کے لوگ ہر کام ایسی مُستعدی سے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں جدھر دیکھو سخت غفلت اور سستی چھائی ہوئی ہے.کسی کو چلتے دیکھو تو سستی کی ایسی لعنت ہے کہ چاہتا ہے ہر قدم پر کیلے کی طرح گڑ جائے یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی گویا سکتے ہی ہیں اور جو کچ سست ہیں اور کام کرتے ہی نہیں ان سے تو اللہ کی پناہ.ان کی حالت تو وہی ہے کہ بیر اُٹھا کر کی منہ میں نہیں ڈال سکتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھی کی جس نے کہا تھا کہ ساری رات گیتا میرامنہ چاھتا رہا اور اس نے ہشت تک نہ کی.کمبخت تو نے آپ ہی کیوں نہ ہشت کہہ دیا ؟ حضرت خلیفہ اول ایک شخص کے متعلق سُنایا کرتے تھے.وہ ایک گاؤں کا رہنے والا اور اچھا مخلص احمدی تھا.زمین وغیرہ اچھی تھی اور باپ نے کچھ روپیہ بھی چھوڑا تھا.وہ یہاں آیا اور شہری لوگوں سے اُس کے تعلقات ہوئے تو دماغ بگڑ گیا اور لگا روپیہ اڑانے.جس کے نتیجہ میں روپیہ میں کمی آنے لگی.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اُسے کام کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اُس نے کہا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر لاہور جاؤں اور میرے پاس کوئی ٹرنک یا اسباب نہ ہو تو اپنا رو مال قلی کو پکڑا دیتا ہوں تا دیکھنے والے یہ تو سمجھیں کہ کوئی شریف آدمی جا رہا ہے.شریف بننا کوئی آسان کام تو نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اُس نے اپنی ساری دولت لگا دی اور آخرلڑکیوں کو ساتھ لے کر عیسائی ہو گیا.اس کی لڑکیاں بھی اب عیسائی ہیں.گویا ان میں سے کی بعض دل میں سمجھتی ہوں کہ عیسائیت سچا مذ ہب نہیں مگر بہر حال وہ عیسائی ہیں.تو کام کرنے کی عادت ڈالنا نہایت ہی اہم چیز ہے اور اسے جماعت کے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے
خطبات محمود ۱۱۲ سال ۱۹۳۹ء تا جولوگ سُست ہیں وہ بھی پست ہو جائیں اور ایسا تو کوئی بھی نہ رہے جو کام کرنے کو عیب سمجھتا ہو.جب تک ہم یہ احساس نہ مٹادیں کہ بعض کام ذلیل ہیں اور ان کو کرنا بہتک ہے یا یہ کہ ہاتھ سے کما کر کھانا ذلت ہے اُس وقت تک ہم دُنیا سے غلامی کو نہیں مٹا سکتے.لوہار، بڑھتی ، دھوبی ، نائی کی غرضیکہ کسی کا کام ذلیل نہیں.یہ سارے کام دراصل لوگ خود کرتے ہیں.ہر شخص تزئین کرتا ہے، اپنی داڑھی اور مونچھوں کی صفائی کرتا ہے.یہی حجام کا کام ہے.بچہ پیشاب کر دے تو امیر غریب ہر ایک اسے دھوتا ہے جو دھوبی کا کام ہے تو یہ سب کام انسان کسی نہ کسی رنگ میں خود کرتا ہے مگر اس طرح کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور خود بھی محسوس نہ کرے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایسے رنگ میں کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ گو یہ کام بُرا سمجھا جاتا ہے مگر دراصل بُرا نہیں اور اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں.ہر انسان اپنی طہارت کرتا ہے.یہ کیا ہے؟ یہی چوہڑوں والا کام ہے اور جب تک کوئی شخص یہ چوہڑوں والا کام نہ کرے لوگ اسے پاگل سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ غلیظ اور کوئی ہوتا نہیں تو جب تک ایسے تمام کام کرنے کی عادت نہ ہو ان کے کرنے والوں کی اصلاح بُری لگتی ہے.جیسے یہاں چوہڑوں کی اصلاح پر بعض لوگوں کو گھبراہٹ ہوئی تھی.حالانکہ مکہ اور مدینہ میں کوئی چوہڑے نہ ہوتے تھے.آخر وہاں گزارہ ہوتا ہی تھا اور اب تو ولایت میں بلکہ ہندوستان میں بمبئی اور کلکتہ وغیرہ میں بھی ایسے پاخانے بنادیئے گئے ہیں کہ چوہڑوں کی ضرورت ہی نہیں رہی.لاہور میں بھی اس کا انتظام زیر تجویز ہے.پاخانہ میں جاؤ تو نلکے لگے ہوئے ہیں، فارغ ہونے کے بعد نلکا کھول دو.زمین کے نیچے سرنگیں بنی ہوئی ہیں جن کی میں سے پاخانہ بہہ کر جنگل میں چلا جاتا ہے اور وہاں کھاد کے کام آتا ہے.بہر حال کسی جماعت کا یہ خیال کرنا کہ اس کے بعض افراد گندے ہیں اور بعض اچھے ہیں ایسا ذلیل خیال ہے کہ اس سے زیادہ ذلیل اور نہیں ہوسکتا.اگر واقعی کسی کے اندر گند ہے تو اس کی اصلاح کرنی چاہئے لیکن اگر وہ اچھے ہیں تو ان سے نفرت کرنا اپنے اوپر اور اپنی قوم کے اوپر ظلم ہے.چونکہ اپنے اپنے طور پر ہاتھ سے کام کرنے کی نگرانی نہیں ہو سکتی اس لئے میں نے تحریک کی تھی کہ قومی طور پر یہ کام کیا جائے اور سڑکیں بنائی اور نالیاں درست کی جائیں تانگرانی ہو سکے اور دوسروں کو بھی تحریک ہو.اس کے سوا بھی اس میں کئی فائدے ہیں مثلاً جس قوم میں یہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء عادت پیدا ہو جائے اُس کی اقتصادی حالت اچھی ہو جائے گی ، اس سے سوال کی عادت دُور ہوتی جائے گی ، اس کے افراد میں سستی نہیں پیدا ہوگی.پھر جن لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی ہوگی وہ چندے بھی زیادہ دے سکیں گے ، بچوں کو تعلیم دلا سکیں گے اور اس طرح ان کی اخلاقی حالت درست ہو گی تو اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.مگر سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس سے مذہب کو تقویت ہوتی ہے اور دُنیا سے غلامی مٹتی ہے.جب تک دُنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت نہیں وہ کوشش کریں گے کہ ایسے لوگ دُنیا میں موجود رہیں جو ان کی خدمت کرتے رہیں اور دُنیا ترقی نہ کرے.میری غرض یہ ہے کہ اس کام کو نہایت اہمیت دی جائے اور پورے اہتمام سے شروع کیا جائے.افسوس ہے کہ اس وقت تک کوئی مستعدی نہیں دکھائی گئی.یہاں بھی خدام الاحمدیہ کو یہ کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر دوسرے گاؤں اور شہروں میں بھی شروع ہونا چاہئے.گاؤں کے لوگوں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے.گاؤں میں بہت گند ہوتا ہے اور گاؤں کا تو کیا کہنا مجھے خود کئی لوگوں نے یہ طعنے دئے ہیں کہ سب سے زیادہ گند یہاں احمدیہ چوک میں ہوتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اپنے ساتھ بعض انگریز دوستوں کو یہاں لاتے رہے ہیں، وہ سب اس بات کی تو تعریف کرتے ہیں کہ محلے بہت کی اچھے ہیں ، سڑکیں چوڑی ہیں مگر صفائی نہ ہونے کی شکایت وہ بھی کرتے ہیں.رسول کریمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رستہ سے کانٹا ہٹا دینا بھی نیکی ہے سے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو رستہ پر پاخانہ پھرتا ہے اُس پر لعنت ہوتی ہے ہے مگر شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ راستہ پر پاخانہ کرنا ہی لعنت کا موجب ہے گھر میں سے خواہ دس آدمیوں کا پاخانہ اُٹھا کر گلی میں پھینک دو یہ کوئی بُری بات نہیں.میں پوچھتا ہوں کیا قادیان کی کوئی بھی گلی ہے جو صاف رہتی ہو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گلی میں پاخانہ بیٹھنے سے کیوں منع فرمایا ہے؟ اس لئے کہ اس سے گندگی پھیلتی ہے ، وبائیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں.آپ نے ایک کے پاخانہ کرنے کو منع کی فرمایا ہے مگر تم ہو کہ دس کا پاخانہ گلی میں پھینک دیتے ہوا اور پھر سمجھتے ہو کہ اس سے تم پر کوئی لعنت نہیں پڑتی.پھر میں نے دیکھا ہے جانور ذبح کر کے بال و پر ، اوجھڑیاں اور ان کا پاخانہ وغیرہ سب گلی میں پھینک دیا جاتا ہے.مرغیاں آکر ان کو نو چتی ہیں ، آنت تو ڑ کر الگ کر لیتی ہیں اور.
خطبات محمود ۱۱۴ سال ۱۹۳۹ء پاخانہ الگ ہو جاتا ہے اس پر پھر مکھیاں بیٹھ کر دوسری کھانے کی چیزوں پر آ کر بیٹھتی ہیں اور وہی پھر آٹے اور کھانے کی چیزوں پر بیٹھتی ہیں.پھر لوگ اسے کھا کر پاخانہ کرتے ہیں اور پھر اس پر لکھیاں بیٹھتی ہیں اور جس طرح بادل سمندر سے بنتے اور پھر پانی بن کر سمندر میں چلے جاتے ہیں اسی طرح اس گندگی کا بھی حال ہے.بعض لوگ تو ایسے احمق ہیں کہ وہ گندہ رہنے کو نیکی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صفائیاں کرنا انگریزوں کا کام ہے ہم مومن اور مخلص ہیں ہمیں ان باتوں سے کیا ؟ وہ مومن مخلص اسے سمجھتے ہیں جو زیادہ گندہ ہو.زمانہ کتنا بدل جاتا ہے.میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے حالات ایک تاریخ کی کتاب میں پڑھ رہا تھا گو اس زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار شروع ہو گئے تھے مگر پھر بھی میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب میں نے دیکھا کہ اس میں صفحوں کے صفحے اس موضوع پر لکھے ہوئے ہیں کہ ایک یور بین عیسائی اور شامی مسلمان میں کیا فرق ہے؟ اور فرق یہ بتائے گئے ہیں کہ مسلمان صاف ستھرا ہوتا ہے اس کا بدن اور اِس کے کپڑے اور مکان صاف ہوتا ہے لیکن یورپین گندہ ہوتا ہے اس کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے ہوتے ہیں، اس کا بدن اور لباس غلیظ ہوتا ہے.یہ اُس زمانہ کے مسلمانوں کی حالت تھی مگر آج کیا ہے؟ آج ایشیا کا مسلمان غلیظ اور یورپین عیسائی صاف ستھرا ہوتا ہے.پھر وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیوں کو سمجھاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں تصوف یہی ہے اور بعینہ آج یہ حالت مسلمانوں کی ہے.آج مسلمان ایسا ہی سمجھتے کی ہیں.وہی چیزیں جو عیسائیوں میں تھیں آج ان میں آگئی ہیں اور جو ان میں تھیں وہ عیسائیوں میں چلی گئی ہیں.بالکل الٹ معاملہ ہو گیا ہے.جس طرح بچے کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے.جو نیچے ہوتا ہے وہ کہتا ہے میرے کو ٹھے کون چڑھی؟ یعنی میرے مکان کی چھت پر کون چڑھا ہے.اوپر والا جواب دیتا ہے کا نٹو.نیچے والا کہتا ہے اُتر کانٹو میں چڑھاں.یعنے کا نٹو اُتر واب میری باری چڑھنے کی ہے.اس پر جو گھوڑا تھا وہ سوار ہو جاتا ہے.میں دیکھتا ہوں یوروپین عیسائیوں اور ایشیائی مسلمانوں میں بالکل ایسا ہی کھیل کھیلا گیا ہے.ایک وقت تھا کہ جب کہا جا تا تھا کون غلیظ ہے؟ تو جواب ملتا تھا عیسائی اور جب کہا جاتا تھا کون صاف ہے؟ تو جواب ملتا تھا مسلمان.مگر آج جب کہا جاتا ہے کون صاف ہے؟ تو جواب ملتا ہے عیسائی.
خطبات محمود ۱۱۵ سال ۱۹۳۹ء اور جب کہا جاتا ہے کون غلیظ ہے؟ تو جواب ملتا ہے مسلمان.مگر اس تجویز پر عمل کر کے ہر جگہ کے احمدی اس حالت کے برعکس نقشہ دکھا سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ ابھی یہاں بھی عمل شروع کی نہیں ہوا.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں اور دوسروں کو سمجھا ئیں اور کی عملاً کام کریں.میں نے جو اعلان عملی کام کے متعلق کیا تھا مجھے معلوم ہوا ہے کہ خدام الاحمدیہ اس سے غافل نہیں ہیں.جو کام ان کے سپر د کیا گیا تھا اُس کے لئے انجینئروں کے مشورے کی ضرورت ہے جو لیا جارہا ہے اور اس کے بعد کام شروع کر دیا جائے گا مگر ان کا صرف یہی کام نہیں بلکہ اور بھی کئی کام ہیں.جب تک یہ شروع نہیں ہوتا وہ یہ دیکھیں کہ لوگ گلیوں میں گند نہ کی پھینکیں اور اگر کوئی پھینکے تو سب مل کر اُسے اُٹھا ئیں.تھوڑی سی محنت سے صفائی کی حالت اچھی کی ہوسکتی ہے.گاؤں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی صفائی کی طرف خاص توجہ چاہئے.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے.میں نے دیکھا ہے بعض زمیندار عورتیں بیعت کے لئے آتی ہیں کسی کے بچہ نے فرش پر پاخانہ کر دیا تو اُس نے ہاتھ سے اُٹھا کر جھولی میں ڈال لیا اور سمجھ لیا کہ بس صفائی ہو گئی.ان کے جانے کے بعد ہم اسے دھوتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے سمجھ لیتی ہیں کہ بس صفائی ہو چکی.یہ حالت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ.اب غور تو کر و محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں کہ رستہ میں پاخانہ کرنے والے پر خدا کی لعنت ہوتی ہے.کیا وہ اس نظارہ کو برداشت کر سکتے تھے.پھر یہی نہیں میں نے بعض زمیندار عورتوں کو اپنے دوپٹہ سے بچہ کی طہارت کرتے دیکھا ہے.وہ یہ سمجھ لیتی ہیں کہ بس بچہ کی صفائی ہو گئی اور یہ خیال بھی نہیں کرتیں کہ بچہ کا پاخانہ اپنے سر پر رکھ رہی ہیں.ہمارے ملک میں گندگی کا مفہوم ہی بالکل بدل گیا ہے اور یہ ہاتھ سے کام نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے.یہ سب گسل اور سستی ہے کہ کون اٹھے اور کون دھوئے اور کون صفائی کرتا پھرے؟ میں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کام کو خاص طور پر شروع کریں اور اب بھی جب تک وہ سکیم نہ بنے ہر محلہ کے ممبر ذمہ دار سمجھے جائیں اس محلہ کی صفائی کے.پہلے لوگوں کو منع کرو اور سمجھاؤ کہ گلی میں گندگی نہ پھینکیں اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر خود جا کر اُٹھا ئیں.
خطبات محمود 117 سال ۱۹۳۹ء جب وہ خود اُٹھا ئیں گے تو پھینکنے والوں کو بھی شرم آئے گی اور جب عورتیں دیکھیں گی کہ وہ جو تی گند گلی میں پھینکتی ہیں وہ ان کے باپ یا بھائی یا بیٹے کو اٹھانی پڑتی ہے تو وہ سمجھیں گی یہ بُرا کام ہے اور وہ اس سے باز رہیں گی.لوگ ہزار یا پانچ سو یا کم و بیش روپیہ لگا کر مکان بنا لیتے ہیں مگر یہ نہیں کرتے کہ چند فٹ کا ایک چھوٹا سا گڑھا گلی میں بنوالیں اور اس گلی کے سب مکانوں والے اسی میں گندی چیزیں پھینکیں اور پھر صفائی کرنے والے آ کر وہیں سے لے جائیں.یورپ میں میں نے دیکھا ہے سب سڑکوں پر ایسے گڑھے ہوتے ہیں جن کے اوپر ڈھکنے پڑے رہتے ہیں.لوگ اس میں گندی چیزیں پھینک جاتے ہیں اور سرکاری آدمی آ کر اُٹھاتے جاتے ہیں.اگر یہ طریق یہاں بھی اختیار کر لیا جائے تو بہت مفید ہوگا.اگر ہر گلی والے صفائی کے خیال سے ایسا گڑھا بنوائیں تو اس پر زیادہ سے زیادہ چار پانچ روپیہ خرچ ہو گا اور میرے نزدیک پانچ چھ سال تک کام دے سکتا ہے.اس کے بعد بھی اگر مرمت کی ضرورت پیش آئے تو اس پر روپیہ دو روپیہ سے زیادہ خرچ نہ ہوگا اور اگر گلی میں دس گھر ہوں تو آٹھ آٹھ آ نہ ہر ایک کے حصہ میں آئیں گے اور پھر اس خرچ کو پانچ سال پر لے جایا جائے تو سات پیسے فی سال کا خرچ ہو گا.اگر اس خرچ سے صفائی کی حالت اچھی ہو جائے تو کتنا سستا ہے.اس سے انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت سے بھی بچ سکتا ہے.اس قسم کی صفائی اگر سب جگہ جاری کی جائے تو یہ ایک بڑی نیکی ہو گی.دیہات میں بھی اس کی طرف توجہ کی جانی چاہئے وہاں لوگ کی گندگی کوڑوڑی کے نام سے محفوظ رکھتے ہیں.حالانکہ گورنمنٹ کی طرف سے بار ہا اس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ اس طرح کھاد کا مفید حصہ ضائع ہو جاتا ہے.نوشادر وغیرہ کے جو اجزاء اس میں ہوتے ہیں وہ سب اُڑ جاتے ہیں.کھاد تبھی اچھی ہو سکتی ہے جب زمین میں دفن ہو نگی رہنے سے سورج کی شعاعوں کی وجہ سے اس کی طاقت کا مادہ اُڑ جاتا ہے.اس لئے اچھی کھاد وہ ہے جو زمین میں دفن رہے.تو جوڑ وڑیاں دیہات میں رکھی جاتی ہیں وہ گند ہوتا ہے کھاد نہیں.پھر اس میں روڑی کے علاوہ زمینداروں کے مد نظر ایک اور سوال اُپلوں کا ہوتا ہے جو وہ جلاتے ہیں حالانکہ یہ کتنی غلیظ بات ہے کہ پاخانہ سے روٹی پکائی جائے.مانا کہ وہ پاخانہ کی جانور کا ہے مگر کیا جانور کا پاخانہ کھانے کے لئے کوئی تیار ہو سکتا ہے؟ اس پر رکھ کر پھلکے سینکتے ہیں
خطبات محمود 112 سال ۱۹۳۹ء.اور پھر انہیں کھاتے ہیں.بائیبل میں یہود کی سزا کے متعلق آتا ہے تم انسان کے پاخانہ سے روٹی پکا کر کھاؤ گے.گو وہاں انسانی پاخانہ کا ذکر گندی شے ہے.خواہ نسبتا کم ہو اس سے روٹی پکانی بھی یقیناً ایک سزا ہے.مگر دیہات میں اس کی آگ جلائی جاتی ہے اور اس سے کھانا کی پکایا جاتا ہے حالانکہ اگر درخت لگانے کی عادت ڈالی جائے تو یہ کئی لحاظ سے مفید ہو.جلانے کے لئے لکڑی بھی مل جائے ، سایہ بھی ہو اور پھر ایسے درخت لگائے جا سکتے ہیں جن کا فائدہ بھی ہو.مثلاً شہتوت کے درخت ہیں ان پر اگر ریشم کے کیڑے چھوڑ دیئے جائیں تو ایک ایک درخت پر دس روپیہ کا ریشم تیار ہوسکتا ہے اور اگر دو چار درخت ہی اس کے لگا لئے جائیں تو گھر والوں کے کپڑے ہی اس کی آمد سے تیار ہو سکتے ہیں اور لکڑی بھی جلانے کے لئے کافی مل سکے گی.پھر جس جگہ درخت ہوں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جہاں درخت نہ ہوں وہاں بارش کم ہوتی ہے اور جب ہو تو مٹی بہہ بہہ کر وہ جگہ نشیب بن جاتی ہے.غرضیکہ بیسیوں فوائد ہیں مگر اُپلوں کے استعمال کی وجہ سے زمیندار ان سے محروم رہتے ہیں.اس کی وجہ سے درخت کی ضرورت بہت کم محسوس کی جاتی ہے.اس لئے لوگ لگاتے ہی نہیں صرف بل وغیرہ کے لئے لکڑی کی ضرورت اُن کو پیش آتی ہے.باقی کھانا وغیرہ گوبر سے پکا لیتے ہیں.ہاتھ سے کام میں جو صفائی کا حصہ ہوتا ہے اس کے ضمن میں میں نے یہ مثال دی ہے.اس تحریک کو عام کرنا چاہئے اور ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اسے اس طرح پھیلائیں کہ اس کا اثر نمایاں طور پر نظر آنے لگے.کوئی کام اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک قوم پر اس کا اثر نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دودھ پینے کے لئے دیا.اُس نے پیا تو آپ نے فرمایا اور پیو اس نے اور پیا تو آپ نے فرمایا اور پیو، اُس نے کہا یا رسول اللہ ! اب تو میرے مساموں میں سے دودھ بہنے لگا ہے." آپ کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ جو نعمت دے اُس کے آثار چہرہ پر ظاہر ہونے چاہئیں.پس ہمارے سب کام اس رنگ میں ہونے چاہئیں کہ ان کا اثر ظاہر ہو جائے.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس صفائی کا بھی قائل نہیں ہوں جیسی بعض انگریز کرتے ہیں کہ ذرا سا دھبہ کپڑا میں لگ گیا تو اُسے اُتار دیا یا جیسا کہ آجکل کے بعض نوجوان کی
خطبات محمود ۱۱۸ سال ۱۹۳۹ء کرتے ہیں کہ بالوں کو برش کرتے رہے.کئی کئی گھنٹے بالوں اور چہرہ کی صفائی میں لگا دیتے ہیں.میرا مطلب صرف اس صفائی سے ہے جو صحت پر اثر ڈالتی ہے.یہ کوئی صفائی نہیں کہ داڑھی اور مونچھوں کو مونڈھتے اور بالوں کو لکھی اور برش کرتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کی نئی نئی شادی ہوئی ہے.یہ صفائی نہیں بلکہ لغویت اور بے ہودگی ہے.ہاں جہاں گندگی اور غلاظت ہوا سے دور کرنا چاہئے.اگر اس سنگار کا نام صفائی ہے تو پھر تو لندن کے چند کروڑ پتی ہی صفائی رکھ سکیں گے.جو یو ڈی کولون پانی میں ڈال کر نہاتے ہیں.اگر کی ہمارے غریب زمیندار ایسی صفائی رکھنے لگیں تو ہر سال ایک گھماؤں زمین بیچ کر نہانے کا ہی کی انتظام کر سکتے ہیں مگر یہ کوئی صفائی نہیں بلکہ تعیش ہے.وہ صفائی جو اسلام چاہتا ہے یہ ہے کہ گند نظر نہ آئے اور صحت خراب نہ ہو.پھر بعض لوگ ایسے صفائی پسند ہوتے ہیں کہ مصافحہ بھی کسی سے نہیں کرتے کہ اس طرح کیڑے لگ جاتے ہیں.یہ بھی صفائی نہیں بلکہ جنون ہے.ایسی کی صفائی جو اخلاق کو تباہ کر دے جائز نہیں.بعض لوگ کسی کے ساتھ برتن میں کھانا نہیں کھاتے یہ کی بھی ان کے نزدیک صفائی ہے مگر ایسی صفائی سے اسلام منع کرتا ہے.جو صفائی اُخوت اور محبت میں روک ہو وہ بے دینی ہے.پس ہر کام کے وقت اُس کی خوبی اور بُرائی کا موازنہ کر کے دیکھنا چاہئے اور مصافحہ کرنے سے اگر فرض کرو کوئی بیمار بھی ہو جائے یا سال میں آٹھ دس آدمی اس کی طرح مر بھی جائیں تو اس محبت اور پیار کے مقابلہ میں جو اس سے پیدا ہوتا ہے اور ان دوستیوں کی کے مقابلہ میں جو اس سے قائم ہوتی ہیں اس کی حقیقت ہی کیا ہے؟ اگر محبت کے ذریعہ لاکھوں آدمی بچیں اور آٹھ دس مر بھی جائیں تو کیا ہے؟ دیکھنا تو یہ چاہئے کہ نقصان زیادہ ہے یا فائدہ؟ اور جو چیز زیادہ ہو اُس کا خیال رکھنا چاہئے.کیونکہ ہر بڑی چیز کے لئے چھوٹی فخر بانی ہوتی.ہے.پس ایسی صفائی جس سے تعیش اور وقت کا ضیاع ہو یا جو محبت میں روک ہوا سے مٹانا چاہئے.ہندوؤں میں یہ صفائی ہوتی ہے کہ بیوی ایک پتہ لے کر الگ بیٹھ جاتی ہے اور خاوند الگ اور برہمن ہر ایک کی طرف کتے کی طرح روٹی پھینکتا جاتا ہے.مجھے بھی ایک دفعہ ایک ایسی دعوت کھانے کا اتفاق ہوا جو آریہ پر تی ندھی سبھا کے مرکز میں تھی.سب کے آگے علیحدہ علیحدہ پتے اور ان پر کچوریاں وغیرہ رکھ دی گئیں.یہاں تک تو خیر تھی لیکن اس کے بعد کی ذلت کو کوئی مسلمان.
خطبات محمود 119 سال ۱۹۳۹ء برداشت نہیں کر سکتا.رسوئیا کے آکر دروازہ میں کھڑا ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ کس کو کتنی کچوریاں چاہئیں.دو چاہئیں ایک یا پونی یا آدھی یا پاؤ ؟ اتنی احتیاط تھی کہ جسے پاؤ کی ضرورت ہے اُسے آدھی نہ چلی جائے تا باقی پاؤ ضائع نہ ہو اور پھر وہ وہیں سے ہر ایک کے آگے جتنی وہ مانگتا پھینک دیتا تھا اور نشانہ اُس کا واقعی قابل تعریف تھا.میں نے تو کہہ دیا کہ مجھے تو کوئی ضرورت ہے نہیں.تو جس صفائی سے وقت ضائع ہو یا محبت میں فرق آئے یا انسانی تعلقات میں فرق آئے گی وہ جائز نہیں اور یہ پہلومیں نے اس لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی غلو میں اس طرف نہ نکل جائے جی اور تیل ، کنگھی ، چوٹی اور سرمہ کے استعمال کو ہی صفائی نہ سمجھ لیا جائے.یہ صفائی نہیں ہے.“ (الفضل ۱۷ / مارچ ۱۹۳۹ء ) وان اردتم استبدال زَوْمٍ مَّكَانَ زَوجِ ، وَ أَتَيْتُمْ اِحْدُ بِهُنَّ قِنْطَارًا فَلا تَأخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا، اَتَأخُذُونَهُ بُهْتَانًا واثمًا مُّبِينًا (النساء: ٢١) ۲ - وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا في سَبِيلِ اللهِ فَبَشِّرُهُمْ بِعَذَابِ اليْمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكُوى بهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ، هَذَا مَا كُنتُمْ لأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا ما كُنتُمْ تَكْذِرُونَ (التوبه : ۳۴، ۳۵) بخارى كتاب المظالم باب مَنْ أَخَذَ الْغُصْنَ (الخ) ۴- مسلم كتاب الطهارة باب النَّهى عَنِ التَّخَلِي فِي الطُّرُقِ (الخ) ۵- حزقی ایل باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۵.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء بخارى كتاب الرقاق باب كَيْفَ كَانَ عَيْشُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ رسوئیا: باور چی.کھانا پکانے والا.برہمن الا
خطبات محمود ٨ سال ۱۹۳۹ء خدام الاحمدیہ نو جوانوں میں ذہانت پیدا کرنے کی کوشش کریں (فرموده ۳ / مارچ ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میں خدام الاحمدیہ کو اُن کے بعض اور فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس وقت تک میں :- قومی روح کا اپنے اندر پیدا کرنا جماعتی کاموں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لے کر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا اور تنظیم کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا.۲ - اسلامی تعلیم سے واقفیت.۳- آوارگی اور بیکاری کا ازالہ.-۴- اچھے اخلاق خصوصاً سچ اور دیانت کا پیدا کرنا.۵- ہاتھ سے کام کرنا.ان پانچ امور کی طرف انہیں توجہ دلا چکا ہوں.آج میں اسی اور ضروری امر کی طرف انہیں توجہ دلاتا ہوں جو میرے نزدیک نہایت ہی اہم ہے مگر اس کی طرف توجہ بہت ہی کم کی جاتی ہے.مجھے ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد جن سے کام کرنے کا موقع ملا ہے
خطبات محمود ۱۲۱ سال ۱۹۳۹ء اور وہ جوان بھی ہیں اور بوڑھے بھی ، وہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور ان پڑھ بھی.ہندوستانیوں کی کے متعلق ایک نہایت ہی تلخ تجربہ ہوا ہے جو ہمیشہ میرے دل پر ایک پتھر کی طرح بوجھ ڈالے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد ہندوستانی عقل اور ذہانت کو بالکل کھو چکے ہیں.وہ جب بھی کوئی کام کریں گے اُس کے اندر حماقت اور بیوقوفی ضرور ہوگی.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.چند لوگ اگر مستثنیٰ ہوں تو اور بات ہے لیکن ایسے لوگ بھی ایک فیصدی سے کی زیادہ ہیں.اب سو میں سے ایک کی آبادی سو کا بوجھ کس طرح اُٹھا سکتی ہے.اگر سو میں سے کچ ساٹھ ستر آدمی فرض شناس اور ذہین ہوں تو وہ بقیہ تمیں چالیس کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں لیکن جس مُلک کے سو آدمیوں میں سے ننانوے ذہانت سے عاری ہوں اور سو میں سے صرف ایک شخص ذہین ہو تو اُس کے متعلق جس قدر بھی مایوسی ہو کم ہے.کوئی کام دے دیا جائے اُس میں ضرور کی کچھ نہ کچھ حماقت اور بیوقوفی دکھانا ہندوستانی شاید اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے اور جب وہ بیوقوفی کرتا ہے اور اُسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ ایسی بیوقوفی نہ کیا کرے تو وہ اس سے اُلٹا نتیجہ نکالتا ہے اور جو اُ سے تعلیم دی جائے اُسے وہ ہمیشہ اپنے لئے گالی اور ہتک سمجھتا ہے اور جس طرح بچھوی نیش لگاتا ہے اُسی طرح وہ اس نصیحت کے بدلے دوسرے کو نیش لگانے کی کوشش کرتا ہے.یہ ایک نہایت ہی تلخ بات ہے جو میرے تجربہ میں آئی ہے.ابھی کل ہی کی بات ہے ایک عزیز نوجوان نے مجھ سے ذکر کیا کہ فوج میں جہاں کہیں مخلص احمدی دیکھے گئے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سچا ایمان اور سچا اخلاص ذہانت ضرور پیدا کر دیتا ہے کیونکہ عدم ذہانت دراصل توجہ کی کمی کا نام ہے اور کامل توجہ کا نام ہی ذہانت ہے.جب انسان کسی امر کی طرف کامل توجہ کرتا ہے تو اُس کے چاروں کونے اُس کے سامنے آ جاتے ہیں مگر جب کبھی وہ پوری توجہ نہیں کرتا اُس کے کئی گوشے اُس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں.چار پانچ ہندوستانی اکٹھے سفر کر رہے ہوں اور اُن کے سامنے کوئی معاملہ پیش آ جائے تو وہ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگ جائیں گے.ایک کہے گا یوں کرنا چاہئے ، دوسرا کہے گا یوں نہیں دوں کرنا چاہئے.اب وقت گزر رہا ہے کام خراب ہو رہا ہے مگر وہ بیوقوفی کی بحثیں کرتے رہیں گے.کبھی ان کے دماغ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ
خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۹ء اس بحث سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں.تم اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کرو اور اس کے فیصلہ کو تسلیم کر لو مگر یہ حماقت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ جس شخص کے فیصلہ کو وہ تسلیم کرنے کا دعوی بھی کریں گے اُس کے فیصلوں پر بھی جھٹ اعتراض کر دیں گے اور اگر اعتراض نہیں کریں گے تو کم از کم اس کے معاملات میں دخل دینے کی ضرور کوشش کریں گے.میں خلیفہ ہوں اور کی جماعت میری اطاعت کا اقرار کئے ہوئے ہے مگر میرا قریباً نوے فیصدی تجربہ ہے کہ جب بھی میں کوئی کام کرنے لگوں ہر شخص مجھے مشورہ دینے لگ جاتا ہے.اب ساری سکیم سوچی ہوئی میرے ذہن میں موجود ہوتی ہے مگر وہ خواہ مخواہ دخل دے کر کام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ وہی احمقانہ عادت ہے جو تمام ہندوستانیوں کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی صحیح لیڈری کو تسلیم نہیں کریں گے.بھلا ایک شخص جو لڑائی کے لئے لوگوں کو جمع کر کے لے جا رہا ہو دشمن سر پر کھڑا ہو اور حالت ایسی ہو کہ ایک لمحہ کا ضیاع بھی سخت نقصان پہنچانے والا ہو اس وقت اگر تم راستہ روک کر کھڑے ہو جاؤ اور اسے مشورہ دینے لگ جاؤ تو اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ تم اپنے لوگوں کو تباہ کرانا چاہتے ہو.پس یہ مشورہ نہیں بلکہ اپنی حماقت اور نادانی کا مظاہرہ ہوتا ہے.کسی بیمار کے پاس دو ہندوستانی ڈاکٹر چلے جائیں وہ بجائے اس کے کہ متفقہ طور پر اس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے.وہ کہے گی گا یہ دوا دینی چاہئے ، یہ کہے گا وہ دوا دینی چاہئے.بیمار مر رہا ہوگا اور یہ آپس میں بحث کر رہے ہی ہوں گے.غرض کبھی بھی ضرورت اور محل کے موقع پر وہ اس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کی ہوں گے کہ اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کر دیں اور جو کچھ وہ کہے اس کے مطابق کام کریں.استثنائی طور پر اگر بعض دفعہ کوئی لطیف بات کسی کو سوجھ جائے تو اس کے بتانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر ہندوستانی ذہنیت یہ ہے کہ وہ ہر بات میں خواہ مخواہ دخل دیں گے اور بجائے کسی کی کی صحیح لیڈری پر اعتماد کرنے کے اپنی بات پر زور دیتے چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ یوں کرنا چاہئے.خواہ ان کی بات کس قدر ہی احمقانہ کیوں نہ ہو اور خواہ اس شخص کی سکیم سے وہ کتنے ہی نا واقف کیوں نہ ہوں.تو یہ مادہ ہندوستانیوں کے دلوں میں نہایت ہی گہرے طور پر راسخ ہو چکا ہے اور چونکہ اکثر احمدی ہندوستانی ہیں وہ بھی ایک حد تک اس مرض میں مبتلا ہیں.اللہ تعالیٰ کا کی
خطبات محمود ۱۲۳ سال ۱۹۳۹ء فضل ہے کہ میرے دل میں کبھی مایوسی پیدا نہیں ہوئی لیکن اگر کبھی میرے دل میں مایوسی کے مشابہ کوئی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو وہ اسی حالت پر ہوئی ہے جو ہندوستانیوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے اور جس سے احمدی بھی منتقلی نہیں کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی کبھی نظام کے مطالبہ کو پورا نہیں کر سکتے.میں نے ہمیشہ سفروں میں دیکھا ہے باوجود اس کے کہ عملہ کے ۷، ۸ آدمی ساتھ ہوتے ہیں اور معمولی سو پچاس کے لگ بھگ چیزیں ہوتی ہیں.وہ ضرور کچھ نہ کچھ سامان پھینک کر آ جاتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو ایک کہتا ہے میں نے سمجھا تھا اس کا دوسرے نے خیال رکھا ہو گا اور دوسرا کہتا ہے میں نے سمجھا تھا اس کا خیال فلاں نے رکھا ہوگا.یہ عجیب نادانی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتا ہے.جب تم اتنا کام بھی نہیں کر سکتے تو تم ساری دُنیا کو کہاں سنبھال سکو گے؟ مگر اس کی وجہ محض بے تو جہی ہے اور پھر میں نے دیکھا ہے جب انہیں نصیحت کی جائے تو وہ ایک دوسری نادانی کے مُرتکب ہو جاتے ہیں اور خیال کرنے لگتے ہیں کہ شاید اپنے نقصان کی وجہ سے انہیں غصہ چڑھا ہوا ہے حالانکہ مجھے غصہ ان کی ذہانت کے فقدان پر آ رہا ہوتا ہے.ہماری جماعت میں ایک شخص ہوا کرتا تھا اب تو وہ مر گیا ہے اور مرا بھی بُری حالت میں ہے.اس نے ایک دفعہ کچھ اور دوستوں سمیت میرے پہرے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.میں خود تو کسی کو پہرہ کے لئے نہیں کہتا لیکن جب کوئی پہرہ کے لئے اپنی خوشی سے آ جائے تو اُسے روکتا بھی نہیں.اس وقت ہم نہر پر گئے ہوئے تھے اور ہمارا خیمہ ایک طرف لگا ہوا تھا اُس نے کہا کہ ہم آپ کا پہرہ دیں گے.گرمیوں کے دن تھے مجھے تھکان محسوس ہوئی اور میں خیمہ میں جا کر سو گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب میں اُٹھا تو میں نے گھر والوں سے دریافت کیا کہ خیمہ میں جو میری چھتری لٹک رہی تھی وہ کہاں گئی ؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم لوگ تو باہر گئے ہوئے تھے اور کی ابھی واپس آئے ہیں.ہمیں معلوم نہیں کہ کون لے گیا.خادمہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگی کہ ایک آدمی خیمہ کے پاس آیا تھا اور اُس نے کہا تھا کہ حضرت صاحب کی چھتری دے دو چنانچہ میں نے چھتری اُٹھا کر اُسے دے دی.میں نے جب باہر جا کر دریافت کیا تو ہر ایک شخص نے
خطبات محمود ۱۲۴ سال ۱۹۳۹ء لاعلمی ظاہر کی کہ ہمیں نہیں معلوم کون خیمہ کے پاس گیا اور چھتری مانگ کر لے گیا.غرض کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا ؟ کوئی چور تھا یا کوئی دُشمن تھا جو صرف یہ بتانے کے لئے اندر آیا تھا کہ تمہارے پہروں کی کوئی حقیقت نہیں.کیونکہ ایسے شخص کو چھتری لینے سے کیا حاصل ہوسکتا تھا.اس کی غرض محض یہ بتانا ہو گی کہ تم اتنے غافل ہو کہ میں تمہارے گھر کے اندر داخل ہو کر ایک چیز اُٹھا سکتا ہوں.اگر کسی مصلحت یا اخلاق کی وجہ سے میں نے تم پر حملہ نہیں کیا تو اور بات ہے ورنہ میں اندر ضرور داخل ہو گیا ہوں اور تمہاری ایک چیز بھی اُٹھا کر لے آیا ہوں مگر تمہیں اس کی خبر تک نہیں ہوئی.بہر حال مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اس پر اظہار ناراضگی کیا اور کہا کہ ایسے پہرے کا فائدہ کیا ہے؟ اس پر وہی آدمی جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے وہ چھتری کہاں سے خریدی تھی تو میں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں.اب دیکھو یہ کتنی کمینہ اور ذلیل ذہنیت تھی اس شخص کی کہ اس نے میری ناراضگی کی حقیقت کو سمجھنے کی تو کوشش نہ کی اور یہ سمجھا کہ میری ناراضگی چھتری کے نقصان کی وجہ سے ہے.حالانکہ میری ناراضگی کی وجہ تو یہ تھی کہ جب تم ایک ذمہ داری کا کام لیتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کام کی کو پوری تندہی اور خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دو اور اگر تم وہ کام نہیں کر سکتے تو تمہارا اس کی کی بجا آوری کے لئے ذمہ داری قبول کرنا حماقت ہے مگر اس نے سمجھا کہ میری خفگی اس لئے ہے کہ میری چھتری گم ہوگئی ہے اور وہ کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے چھتری کہاں کی سے خریدی تھی تو میں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کو دے دوں.اب یہ اتنی کمینہ ذہنیت ہے کہ مجھے اس کا خیال کر کے اب بھی پسینہ آجاتا ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا اتنا ذلیل اور کمینہ انسان بھی کوئی ہو سکتا ہے.وہ احمدی تھا گو بعد میں عملاً مرتد ہو گیا مگر بہر حال وہ کہلاتا ہے احمدی تھا.تو ہندوستانیوں میں یہ ایک نہایت ہی احمقانہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی چاروں طرف نگاہ نہیں ڈالیں گے.میں اگر مثالیں دوں تو چونکہ بہت سے لوگوں پر زد پڑتی ہے اس لئے فوراً پتہ لگ جائے گا کہ یہ فلاں کی بات ہو رہی ہے اور یہ فلاں کی.پس میں مثالیں نہیں دیتا.
خطبات محمود ۱۲۵ سال ۱۹۳۹ء یہ جو مثال میں نے پیش کی ہے یہ بہت ہی پرانی ہے اور وہ آدمی خاص عملے کا بھی نہ تھا اور اب کی تو وہ مر چکا ہے.اس لئے میں نے یہ مثال دے دی ورنہ میں اس مہینہ کی دس ہیں ایسی مثالیں دے سکتا ہوں جو نہایت ہی احمقانہ ہیں اور جن کو میں اگر بیان کروں تو تم میں سے ہر شخص کی انہیں سُن کر ہنسے گا لیکن جب خود تمہارے سپر دو ہی کام کیا جائے گا تو تم بھی وہی حماقت کرو گے جو دوسروں نے کی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ذہانت کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی.ہمارے سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی ذہانت کی ترقی کے لئے قطعی طور پر کوئی کوشش نہیں کی جاتی.اُستاد اور پروفیسر محض کتابیں پڑھا دیتے ہیں اور طالب علموں کو الفاظ رٹا دیتے ہیں لیکن خالی لفظوں کو لے کر کسی نے کیا کرنا ہے.اگر ایک پڑھا لکھا شخص ہولیکن ذہین نہ ہو تو اس سے بہت زیادہ کام وہ شخص کرسکتا ہے جو گو پڑھا ہوا نہ ہومگر ذہین ہو.کیا ہٹلر جرمنی کا سب سے زیادہ پڑھا ہو اشخص ہے؟ کیا مسولینی اٹلی کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ انسان ہے؟ کیا اتا ترک لڑکی کا سب سے زیادہ عالم تھا ؟ کیا لینن رشیا کا سب سے زیادہ پڑھا ہو اشخص تھا ؟ یہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ معمولی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے.مسولینی کی تعلیم مڈل تک ہے، ہٹلر کی تعلیم انٹرنس جتنی ہے.اتا ترک گو ایک کالج میں پڑھا مگر وہ نہایت ہی چھوٹے درجہ کا کالج تھا اور اس کی تعلیم بھی انٹرنس جتنی ہے مگر کیا چیز ہے جس نے ہٹلر ، مسولینی ، اتا ترک اور لینن کو اپنے ملکوں کا لیڈر بنا دیا.وہ ذہانت ہے جس نے ان لوگوں کو اپنے ملک کا لیڈر بنایا علم نہیں.جب علم والے اپنی کتابوں پر نگاہ ڈالے بیٹھے تھے اس وقت یہ لوگ ساری دنیا پر نگاہ ڈالے ہوئے انسانی فطرت کی گہرائیوں کے مطالعہ میں مشغول تھے اور آخر وہاں سے وہ اپنی قوم کی مُراد کا وہ موتی لے آئے جس کے لئے وہ بے تابانہ جستجو کر رہے تھے.پس ذہانت بالکل اور چیز ہے اور علم اور چیز.علم بھی اچھی چیز ہے مگر ذہانت کے بغیر علم کسی کام کا نہیں ہوتا.میں نے بتایا ہے کہ میں اس کے متعلق مثالیں نہیں دے سکتا کیونکہ میں اگر مثالیں دوں تو وہ لوگ پا لکل ننگے ہو جائیں جن کے وہ واقعات ہیں اور سب کو ان کا پتہ لگ جائے.اس لئے میں بعض پرانے لوگوں کے قصے یا لطائف بیان کر دیتا ہوں جن سے ذہانت اور علم کا فرق
خطبات محمود ظاہر ہوسکتا ہے.۱۲۶ سال ۱۹۳۹ء کہتے ہیں کوئی بادشاہ تھا اُس نے اپنے ملک کے ایک مشہور جوتشی کو بلایا اور اپنا لڑ کا اُس کے سپر د کرتے ہوئے کہا کہ اسے علم جو تش سکھا دو.چنانچہ وہ اُسے لے گیا اور مدت تک سکھاتا رہا.جب اُس نے تمام علم اُسے سکھا دیا تو وہ بادشاہ کے پاس اسے لایا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت میں نے جوتش کا تمام علم اسے پڑھا دیا ہے اب آپ چاہیں تو اس کا امتحان لے لیں.بادشاہ کی نے اپنی انگوٹھی کا نگینہ اپنے ہاتھ میں چھپا کر لڑکے سے پوچھا کہ تم علم جوتش سے بتاؤ کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ لڑکے نے حساب لگایا اور کہا چکی کا پاٹ.بادشاہ نے اس جوتشی کی طرف دیکھا اور کہا تم نے اسے کیا پڑھایا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور ! چکی کا پاٹ بھی پتھر کا ہوتا ہے اور نگینہ بھی پتھر کا ہے.پس میرا علم تو صحیح ہے باقی اگر آپ کے لڑکے میں ذہانت نہ ہو اور وہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ چکی کا پاٹ ہاتھ میں نہیں آسکتا تو میں کیا کر سکتا ہوں ؟ میرا علم تو بالکل صحیح ہے.اسی طرح میں نے یہ لطیفہ کئی دفعہ سُنایا ہے جو دراصل حضرت خلیفہ اول سے میں نے سُنا ہوا ہے کہ کوئی لڑکا تھا اُسے گاؤں کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے کسی دوسرے علاقہ میں طب پڑھنے کے لئے بھیجا.کیونکہ ان کے ہاں کوئی طبیب نہیں تھا.اُنہوں نے خیال کیا کہ اگر یہ لڑکا طب پڑھ گیا تو ہماری ضرورت پوری ہو جائے گی اور آئے روز جو ہمیں طبیب کے نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف رہتی ہے یہ رفع ہو جائے گی.وہ لڑکا دوسرے علاقہ کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور کہنے لگا مجھے اپنے علاقہ کے رؤسا نے آپ کے پاس طب پڑھنے کے لئے بھیجا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کوئی طبیب نہیں.وہ کہنے لگا بڑی اچھی بات ہے اس سے زیادہ نیکی کا کام اور کیا ہوسکتا ہے ؟ طب سے خدمت خلق ہوتی ہے اور لوگوں کو نفع پہنچتا ہے.پس یہ بہت ہی کی ثواب کا کام ہے تم میرے پاس رہو میں تمہیں تمام طب سکھا دوں گا چنانچہ وہ اُن کے پاس رہنے لگ گیا.دوسرے ہی دن وہ کسی مریض کو دیکھنے کے لئے چلے گئے اور انہوں نے اس لڑکے کو اپنے ساتھ لے لیا.جب مریض کے پاس پہنچے تو وہ اُس کے پاس بیٹھ گئے نبض دیکھی، حالات پوچھے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ نے کل کہیں چنے تو نہیں کھائے ؟ وہ کہنے لگا
خطبات محمود ۱۲۷ سال ۱۹۳۹ء ہاں کچھ چنے کھائے تھے.وہ کہنے لگے آپ کا معدہ کمزور ہے ایسی ثقیل چیز آپ کو ہضم نہیں ہوسکتی پیٹ کا درد اسی وجہ سے ہے.آپ ایسی چیزیں نہ کھایا کریں.پھر ایک نسخہ لکھ کر اُسے دے دیا اور واپس آگئے.جب گھر پہ پہنچے تو لڑکا کہنے لگا کہ مجھے اجازت دیجئے میں اب واپس جانا چاہتا ہوں.وہ کہنے لگے ہیں! اتنی جلدی تم طب پڑھنے کے لئے آئے تھے.وہ کہنے لگا بس طب میں نے سیکھ لی ہے.ذہین آدمی کے لئے تو کوئی وقت ہی نہیں ہوتی.وہ کہنے لگے میں نے تو تمہیں ابھی ایک سبق بھی نہیں دیا.تم نے طب کہاں سے سیکھ لی ؟ وہ کہنے لگا ذہین شخص کو بھلا سبقوں کی کیا ضرورت ہے؟ میں خدا کے فضل سے ذہین ہوں میں نے تمام طب سیکھ لی ہے.اُنہوں نے بہتیر اسمجھایا کہ یہاں رہو اور مجھ سے باقاعدہ طب پڑھو مگر وہ نہ مانا اور واپس آ گیا.لوگ اُسے دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے اتنی جلدی آگئے ؟ وہ کہنے لگا ذہین آدمی کے لئے طب سیکھنا کوئی مشکل امر نہیں.میں تو جاتے ہی تمام طب سیکھ گیا.خیر اُنہی دنوں کی کوئی رئیس بیمار ہو گیا اور اُس نے اُس لڑکے کو علاج کے لئے بلایا یہ گیا نبض دیکھی ، حالات پوچھے اور پھر کہنے لگا آپ رئیس آدمی ہیں بھلا آپ کو ایسی چیزیں کہاں ہضم ہو سکتی ہیں.اچھا بتائیے کیا آپ نے کل گھوڑے کی زین تو نہیں کھائی ؟ وہ کہنے لگا کیسی نامعقول باتیں کرتے ہو گھوڑے کی زین بھی کوئی کھایا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا آپ مانیں یا نہ مانیں کھائی آپ نے گھوڑے کی زمین ہی ہے.نوکروں نے جو دیکھا کہ یہ ہمارے آقا کی ہتک کر رہا ہے تو اُنہوں نے اُسے خوب پیٹا.وہ مارکھاتا جائے اور کہتا جائے کہ تشخیص تو میں نے ٹھیک کی ہے.اب تم میری بات نہ مانو تو میں کیا کروں؟ آخر انہوں نے پوچھا تیرا اس سے مطلب کیا ہے؟ اس نے کی جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جس طبیب سے میں نے طب سیکھی ہے وہ ایک دن مجھے ساتھ لے کر ایک مریض دیکھنے کے لئے گئے میں ان کی حرکات کو خوب تاڑتا رہا.میں نے دیکھا کہ حکیم صاحب نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور چند چنے کے دانے جو چار پائی کے نیچے گرے ہوئے تھے وہ اُٹھالئے اور پہلے تو ان دانوں سے کھیلتے رہے پھر مریض سے کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے چنے کھائے ہیں اور اس نے اقرار کیا کہ واقع میں میں نے چنے کھائے ہیں.میں اس سے فوراً سمجھ گیا کہ جب کسی مریض کو دیکھنے کے لئے جانا پڑے تو جاتے ہی اس کی چار پائی کے نیچے
خطبات محمود ۱۲۸ سال ۱۹۳۹ء نظر ڈالنی چاہئے اور جو چیز اس کی چار پائی کے نیچے ہو اُس کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے کھانے سے مریض بیمار ہوا ہے.اب میں جو یہاں آیا تو آتے ہی میں نے ان کی چار پائی کے نیچے نظر ڈالی تو مجھے گھوڑے کی زین نظر آئی.پس میں سمجھ گیا کہ یہ گھوڑے کی زمین کھا کر ہی بیمار ہوئے ہیں.اب دیکھو جس چیز کا نام اس نے ذہانت رکھا ہوا تھا وہ ذہانت نہیں تھی بلکہ حماقت اور بیوقوفی تھی اور گو اس مثال پر تم سب ہنس پڑے ہو مگر اس قسم کی بیوقوفیاں تم بھی کرتے رہتے ہو إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.جیسے میں نے بتایا ہے سو میں سے ایک ممکن ہے ذہین ہولیکن سو میں سے ننانوے یقیناً ذہانت سے عاری ہوتے ہیں.ہندوستان کی ۳۳ کروڑ آبادی ہے اور سو میں سے ایک کے ذہین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اِس ملک میں صرف ۳۳ لاکھ آدمی ذہین ہیں.اب ۳۳ لاکھ بھلا ۳۳ کروڑ کا بوجھ کس طرح اُٹھا کی سکتا ہے؟ گومیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فیصدی کی نسبت بھی خاص ہوشیار جماعتوں میں پائی جاتی ہو گی.عام جماعتوں میں ایک فیصدی کی نسبت بھی نہیں اور اس کا احساس مجھے اسی وقت ہوا ہے.کیونکہ جب میں نے ۳۳ کروڑ کا سواں حصہ ۳۳لاکھ نکالا تو میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ اندازہ غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں ہر گز ۳۳ لاکھ ذہین آدمی نہیں ہیں.اگر اتنے ذہین آدمی ہوتے تو اس ملک کی کایا پلٹ جاتی.ممکن ہے ہماری جماعت میں جسے ہر وقت علمی باتیں سُنائی جاتی ہیں ایک فیصدی کی نسبت سے ذہین آدمیوں کا وجود پایا جاتا ہولیکن اور جماعتوں میں ایک فیصدی کی نسبت بھی نہیں.وہ کبھی بات کو چاروں گوشوں سے نہیں دیکھیں گے اور ہمیشہ غلط نتیجہ پر پہنچیں گے.ابھی پچھلے سفر میں جب میں کراچی گیا تو وہاں بغداد سے ہماری جماعت کے ایک دوست میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کھجوروں کا ایک بکس پیش کیا اور کہا کہ یہ کھجوریں بغداد کی جماعت نے بھجوائی ہیں.ہم کراچی میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس کے دو کمرے کرایہ پر ہم نے لئے ہوئے تھے.ایک مردا نہ تھا، ایک زنانہ.میں نے وہ کھجوروں کا بکس اسی جگہ رکھوا دیا جہاں باقی اسباب پڑا تھا اور پھر مجھے اس کا خیال بھی نہ رہا.جب ہم بمبئی پہنچے کی
خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۹ء تو میری ہمشیرہ نے کسی موقع پر کھانا کھانے کے بعد کہا کہ اس وقت کچھ میٹھے کو جی چاہتا ہے.میں کی چونکہ کھجوروں کا ان سے ذکر کر چکا تھا اِس لئے اُنہوں نے پوچھا کہ وہ کھجوریں کہاں گئیں.اس کی پر مجھے ان کا خیال آیا اور میں نے اپنے ہمراہیوں سے پوچھا کہ وہ کھجوروں کا بکس کہاں گیا ؟ ؟ جن صاحب سے پوچھا تھا اُنہوں نے جواب دیا کہ ایک بکس تو ہمارے کمرہ میں ضرور تھا مگر چونکہ ہم قادیان سے وہ بکس نہیں لے گئے تھے اس لئے میں نے اور میرے ہمرا ہی نے وہ بکس اسباب سے الگ کر کے رکھ دیا کہ شاید کسی اور کا ہو.میں نے انہیں بتایا کہ یہ بکس بغداد کی جماعت کی طرف سے بطور تحفہ آیا تھا اور میں نے اسباب میں رکھوا دیا تھا.جب کمرہ ہمارا تھا اور اسباب بھی ہمارا تھا تو آپ لوگوں کو یہ کیونکر خیال ہوا کہ اسے الگ نکال کر رکھ دیں کسی اور کاج ہوگا.آخر دوسرے کسی شخص کو یہ خیال کیونکر پیدا ہوسکتا تھا کہ وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ہمارے کمرہ میں آکر رکھ جائے.لوگ تو دوسروں کا اسباب اُٹھایا کرتے ہیں.اپنا اسباب دوسرے کے گھر میں تو کوئی آکر رکھ کر جاتا نہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے سمجھا کہ کسی احمدی کا بکس ہوگا.میں نے کہا اگر یہ خیال تھا تب بھی اُسے ساتھ رکھنا چاہئے تھا کیونکہ اس وقت ہم تو وہ کمرہ خالی کر رہے تھے اور احمدی ہماری وجہ سے ہی وہاں آتے تھے.وہاں اسے چھوڑ دینے کے یہ معنی تھے کہ اپنے بھائی کا اسباب ضائع ہونے دیا جائے کیونکہ کمرہ خالی کر دینے کے بعد کون اس کی حفاظت کر سکتا تھا ؟ اس صورت میں بھی آپ کا فرض تھا کہ بکس ساتھ رکھ لیتے اور جب ساحل سمندر پر دوست رخصت کرنے کے لئے آتے تو ان سے پوچھتے کہ اگر کسی دوست کا یہ سامان رہ گیا ہوتو وہ لے لیں مگر سب سے مقدم یہ امر تھا کہ مجھ سے پوچھتے کہ یہ زائد سامان کیسا ہے؟ کوئی چیز یہاں سے تو نہیں خریدی.اس کو سُن کر وہ دونوں دوست جن کے ذمہ سامان کی حفاظت تھی مسکرا پڑے کہ یہ خیال ہی نہیں آیا.اب یہ کتنی بڑی سادگی ہے.ایک کمرہ کرایہ پر لیا لی جاتا ہے.اس میں اپنا تمام اسباب رکھا جاتا ہے مگر روانگی کے وقت ایک بکس اسی جگہ چھوڑ دیا کی جاتا ہے اور سالار کارواں سے پوچھا تک نہیں جاتا کہ یہ صندوق بھی ہمارا ہی ہے یا کسی اور کا ؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ میں نے خود کوئی وہاں سے سو دا منگوایا ہو؟ اور اسے اس صندوق میں بند کر دیا گیا ہو مگر محض اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا کہ قادیان سے چلتے وقت ہم اس صندوق کو
خطبات محمود ۱۳۰ سال ۱۹۳۹ء اپنے ہمراہ نہیں لائے تھے اور یہ خیال ہی نہیں آیا کہ دریافت تو کر لیا جائے یہ صندوق ہے کس کا ؟ اگر وہ ذہانت سے کام لیتے تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اُس صندوق کو بھی اُٹھاتے اور مجھ سے پوچھتے کہ یہ کس کا ہے؟ جب وہ میرے کمرہ میں پڑا ہوا تھا تو بہر حال میرا ہی ہو سکتا تھا.اگر وہ مسافروں کا وہاں سامان ہوتا تب تو کبہ ہو سکتا تھا کہ یہ سامان شاید میرا ہے یا اس کا مگر جب ان کمروں میں ہم ہی ہم تھے تو کسی کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ہمارے کمرہ میں رکھ دے یا گھر سے ٹرنک لا کر ہمارے ٹرنکوں میں ملا دے.پھر وہ کہنے لگے ہم نے سمجھا شاید یہ جماعت والوں کا اسباب ہے.حالانکہ اول تو ہم ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور وہاں جماعت کا سامان کسی طرح نہیں آسکتا تھا لیکن اگر بالفرض ان کے نزدیک یہ کسی جماعت کے دوست کا ہی صندوق تھا تو بہر حال انہیں یہ تو سمجھنا چاہئے تھا کہ اب ہم نے دوبارہ اس ہوٹل کے کمرہ میں نہیں آنا.پس انہیں چاہئے تھا وہ اس صورت میں بھی اُس صندوق کو اُٹھاتے اور جہاز تک لا کر دریافت کرتے کہ یہ کس احمدی کا صندوق ہے؟ اس طرح بات بھی کھل جاتی اور چیز کی بھی ضائع نہ ہوتی کیونکہ اگر بالفرض وہ کسی احمدی بھائی کا سامان ہوتا تو بھی اُس کی حفاظت کی ہمارے ذمہ تھی کیونکہ وہ ہمارے کمرہ میں تھا اور انہیں چاہئے تھا کہ دونوں صورتوں میں وہ اسباب اُٹھاتے اور ساتھ لے جاتے مگر جب میں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو کہنے لگے خیال ہی کی نہیں آیا اور یہی جواب ہے جو ہر ہندوستانی غلطی کے موقع پر دیا کرتا ہے اور جب اس سے بھی زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو دوسرا قدم وہ یہ اُٹھا تا ہے کہ کہہ دیتا ہے غلطی ہوگئی معاف کردیجئے.میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اپنے کام میں اس امر کو بھی مد نظر رکھیں اور نو جوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں.ہم نے بچپن میں جو سب سے پہلی انجمن بنائی تھی اُس کا نام تفخیذ الاذہان تھا.یعنی ذہنوں کو تیز کرنے کی انجمن.اس کے نام کا تصور کر کے بھی میرا ایمان تازہ ہو جاتا اور میرا دل خوشی سے جاتا ہے کہ انبیاء کے ذہن کیسے تیز ہوتے ہیں اور کس طرح وہ معمولی باتوں میں بڑے بڑے اہم نقائص کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتے ہیں کہ آج ایک وسیع تجربہ کے بعد جو بات
خطبات محمود ۱۳۱ سال ۱۹۳۹ء مجھ پر ظاہر ہوئی ہے اُس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت سادگی کے ساتھ صرف دولفظوں میں توجہ دلا دی تھی کیونکہ جب ہم نے ایک انجمن بنانے کا ارادہ کیا تو تی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کا کوئی نام تجویز فرما ئیں تو آپ نے اس انجمن کا نام تخمیذ الاذہان تجویز فرمایا یعنی ذہنوں کو تیز کرنا.رسالہ تفخیذ الاذہان بعد میں اسی وجہ سے اس نام پر جاری ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کی والسلام نے انجمن کا نام ” تفخیذ الاذہان رکھا تھا اور چونکہ اسی انجمن نے یہ رسالہ جاری کیا اس کی لئے اس کا نام بھی تفخیذ الا ذہان“ رکھ دیا گیا.پس ہماری انجمن کا نام ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفخیذ الا ذہان“ رکھا تھا.یعنی وہ انجمن جس کے ممبران کا یہ فرض ہے کہ وہ ذہنوں کو تیز کریں اور در حقیقت بچپن میں ہی ذہن تیز ہو سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے بہت بڑی ذمہ داری اُستادوں پر کی عائد ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں کے بہت سے اوقات کتابوں میں ضائع کر دیتے ہیں اور وہ حقیقی فائدہ جس سے قوم ترقی کرتی ہے اس کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں.حالانکہ ہمارا فرض ہے کہ ہماری کھیلیں اس رنگ کی ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں ، ہماری تعلیم اس رنگ کی ہو جس سے ہمارے ذہن تیز ہوں ، ہماری انجمنوں کے کام اس رنگ کے ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں اور یہ چیز علم سے بھی مقدم ہونی چاہئے کیونکہ تھوڑے علم سے انسان کی نجات پاسکتا ہے لیکن ذہن کے گند ہونے کی وجہ سے خواہ انسان کے پاس کتنا بڑا علم ہونجات سے محروم رہ جاتا ہے.ہم یورپین قوموں کو دیکھتے ہیں ایک لمبے تجربہ کی وجہ سے اُن میں ذہانت کا نہایت بلند معیار قائم ہے حالانکہ وہ شراب نوش قو میں ہیں، وہ سُور کھاتی ہیں مگر باوجود شراب نوش اور مُردار خوار ہونے کے اُن کے ذہن نہایت تیز ہوتے ہیں کیونکہ ایک وسیع تجربہ نے اُن کے دماغوں میں نہایت صفائی پیدا کر دی ہے.پچھلے دنوں جب جنگ کا خطرہ پیدا ہوا تو انگریز مد برین نے ہر طرح کی کوشش کر کے اس جنگ کور و کا مگر جیسا کہ بعد میں معلوم ہو ا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لڑائی میں کودنا پسند نہیں کرتے تھے
خطبات محمود ۱۳۲ سال ۱۹۳۹ء یا بزدلی اس کی محرک تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے سارے ملک کے انتظام پر نگاہ ڈالی اور اُنہوں نے محسوس کیا کہ ابھی ہمارے اندر کئی قسم کی خامیاں ہیں اور اگر ہم اس وقت لڑ پڑے تو ہماری شکست کا خطرہ ہے.پس وہ بزدلی یا بے غیرتی کی وجہ سے پیچھے نہیں ہے جیسا کہ غلطی سے سمجھا جاتا ہے بلکہ اُنہوں نے جب اپنے انتظام پر نگاہ دوڑائی تو انہیں اپنے انتظام میں بعض نقائص اور خلل نظر آئے اور اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں.بے شک ان کے پاس جنگ کا سامان بھی کم تھا مگر جیسا کہ بعض مدبرین نے کہا ہے اگر جنگ میں وہ گو د پڑتے تو وقت پر تمام سامان مہیا کیا جا سکتا تھا مگر اُنہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے تمام سامان مہیا بھی کر لیا تب بھی ہمارا نظام ابھی ایسا مکمل نہیں کہ ہم اس سامان سے پورا فائدہ اُٹھا سکیں.پس اُنہوں نے دانائی سے کام لے کر جنگ کے خطرہ کو دُور کر دیا لیکن اگر کوئی ایشیائی ہوتا تو وہ ایسے موقع پر سوائے اس کے اور کچھ نہ کہتا کہ غیرت ، غیرت، کود پڑو اور مر جاؤ.حالانکہ قوم کا صرف مرجانا ہی کام نہیں ہوتا بلکہ فتح پانا بھی کام ہوتا ہے.تو ہمارے نوجوانوں کو ذہین بنا چاہئے اور اُن کی نظر وسیع ہونی چاہئے.وہ جب بھی کوئی تی کام کریں انہیں چاہئے کہ اس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے جس کی طرف اُنہوں نے توجہ نہ کی ہو.یہی نقص ہے جس کی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ روحانیات میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوتی حالانکہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ صرف نمازیں پڑھنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ اُس کا قر.انسان کو حاصل ہو سکتا ہے.حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو.تم خود ہی بتاؤ ، اگر کسی قلعہ کی تین دیوار میں تو ڑ دی جائیں اور صرف ایک دیوار باقی رہنے دی جائے تو کیا اُس دیوار کی وجہ سے اُس قلعہ کے اندر رہنے والا محفوظ رہ سکتا ہے یقیناً جب تک اُس کی چاروں دیوار میں مکمل کی نہیں ہوں گی اُس وقت تک اُس قلعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فخر - محض نمازوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اور جس قدرا حکام اسلام ہیں اُن سب پر عمل کرنے کے
خطبات محمود ۱۳۳ سال ۱۹۳۹ء بعد حاصل ہوتا ہے.اگر تم نمازیں تو پڑھتے ہو لیکن تم میں جھوٹ کی عادت ہے یا نماز یں تو کی پڑھتے ہومگر روزے نہیں رکھتے یا روزے تو رکھتے ہو مگر ز کوۃ نہیں دیتے یا ز کوۃ تو دیتے ہو مگر مالدار ہونے کے باوجود اور سفر کی سہولت ہونے کے باوجود حج نہیں کرتے یا تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو، حج بھی کرتے ہو مگر کسی غریب کا مال ظالمانہ طور پر کھا جاتے ہو تو تمہارا یہ اُمید کرنا کہ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے اور تمہارا حج تمہیں فائدہ دے نادانی ہے.کیونکہ تم اپنی روحانی عمارت کو چاروں گوشوں سے مکمل نہیں کرتے.تم اگر ایک طرف کی پچاس فٹ چوڑی دیوار بھی کھڑی کر دیتے ہو تو وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی لیکن اگر تم چارانچ کی دیوار چاروں طرف بنا کر اُس پر چھت ڈال لو تو وہ عمارت تمہیں سردی گرمی سے محفوظ رکھ سکتی اور خطرات سے بچا سکتی ہے بلکہ چار انچ موٹی دیوار کیا اگر تم سرکنڈے لے کر اُن کا ایک جھونپڑا بنالو یا بانس کی تیلیوں سے ایک جھونپڑی بنا لوتو گو وہ مضبوط انہیں ہو گی مگر تم اُس میں امن سے رہ سکو گے.تم سو فٹ چوڑی صرف ایک دیوار کھڑی کر کے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن اگر تم کی آدھ انچ کی سرکنڈے کی دیواریں چاروں طرف کھڑی کر دو جیسا کہ عام طور پر بیٹ کے علاقہ میں زمیندار لوگ بناتے ہیں تو تم اس سے وہ تمام فائدے اُٹھا لو گے جو ایک مکمل عمارت سے اُٹھائے جا سکتے ہیں کیونکہ تم اس جھونپڑی میں وہ تمام شرائط پوری کر دو گے جو ایک مکان کی تعمیر کے لئے ضروری ہیں.تم اس میں رات کو سو بھی سکو گے تم سردی سے بھی بچ سکو گے ، تم بارش سے بھی محفوظ رہو گے اور چوروں سے بھی بچ رہو گے کیونکہ چور آخران سرکنڈوں کو توڑ کر اندر داخل ہو گا اور جب وہ اندر داخل ہونے کے لئے سرکنڈے توڑے گا تو تمہاری آنکھ کھل سکتی اور تم اُس کا مقابلہ کر سکتے ہو.اسی طرح تم اس جھونپڑی میں بیٹھ کر پردہ قائم رکھ سکتے ہو اور اگر میاں بیوی اندر بیٹھے اختلاط کر رہے ہوں تو کوئی اُن پر نظر نہیں ڈال سکتا لیکن اس کی بجائے اگر تم سوفٹ چوڑی دیوار ایک طرف کھڑی کر دو اور باقی اطراف کو خالی رہنے دو تو تمہیں ان فوائد میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.اس طرح اگر تم نمازیں پڑھتے ہو اور اس قدر تعہد اور احتیاط کے ساتھ پڑھتے ہو کہ ایک نماز کا بھی ناغہ نہیں ہونے دیتے لیکن تم روزوں میں سُست ہو یا اگر روزوں میں تو اِس قدر پچست ہو کہ سال میں سے چھ مہینے روزے رکھتے ہو مگر زکوۃ کی
خطبات محمود ۱۳۴ سال ۱۹۳۹ء نہیں دیتے یا ز کوۃ میں تو چُست ہو مگر صدقہ خیرات دینے میں سست ہو یا صدقہ و خیرات دینے کی میں تو اس قدر چست ہو کہ اپنا سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں غریبوں اور مسکینوں کو دے دیتے ہو لیکن جھوٹ بول لیتے ہو تو تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جو صرف ایک طرف دیوار کھڑی کر کے اس سے پورے مکان کا فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر تم تھوڑا سا مال صدقہ و خیرات کر دیتے ہو اور زیادہ صدقہ نہیں کرتے ، نمازیں صرف پانچ وقت کی پڑھتے ہو، نوافل اور تہجد ادا نہیں کرتے ، رمضان کے صرف تمیں روزے رکھتے ہو لیکن نفلی روزوں کے کی رکھنے کا خیال نہیں کرتے ، صدقہ و خیرات میں بھی کچھ ایسے دلیر نہیں لیکن تھوڑا بہت دے دیتے ہو یا کم سے کم اگر زکوۃ تم پر فرض ہو تو تم اس کی ادائیگی میں تساہل سے کام نہیں لیتے تو تم یقیناً اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لو گے کیونکہ گوتم نے محل تیار نہیں کیا مگر تم نے سرکنڈوں کی دیوار میں بنا کر ایک چھت ڈال لی ہے اور اس وجہ سے تم اس بات کے مستحق ہو گئے ہو کہ تم مکان کا فائدہ حاصل کر لو.یہی وہ چیز ہے جس کو ذہانت کہتے ہیں یعنی اپنے علم کو ایسے طرز پر کام میں لانا اور اِس سے فائدہ اُٹھا نا کہ انسان کی چاروں طرف نگاہ رہے اور کوئی گوشہ اِس کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے اسی ذہانت کا یہ کرشمہ ہے کہ جب کسی ذہین آدمی سے بات کی جائے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ بات مجھ سے کیوں کہی جارہی ہے؟ کہنے والے کا مقصد کیا ہے؟ کن حالات میں یہ مجھے سے بات کر رہا ہے؟ اس میں کہنے والے کا کیا فائدہ ہے اور میرا اس میں کوئی فائدہ ہے یا تی نقصان؟ اور کیوں میرے ساتھ بات کی جارہی ہے؟ اس کا کیا مقصد اور کیا مدعا ہے؟ مگر دوسرا آدمی بیوقوفی کر کے کچھ کا کچھ نتیجہ نکال لیتا ہے.پس ذہین وہ شخص ہے جو چاروں گوشوں پر نگاہ رکھے مگر وہ جو صرف علم کی حد تک محدود رہتا ہے اور بات کی تہہ تک نہیں پہنچتا اسے ہم ذہین نہیں کہہ سکتے.جیسا کہ میں نے اپنے بعض سفروں کا حال بیان کیا ہے اب اگر میرے ساتھ سفر کرنے والے ذہین ہوتے تو وہ کہتے کہ ہمیں کوئی ایسا پہلو اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بعد میں کسی خفت اور بد نامی کا موجب ہو اور انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب سفروں میں چیزوں کے گم ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ ایسا طریق اختیار کریں جس سے کسی قسم کی غلطی نہ ہو.انگریزوں نے اسی ذہانت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ریکارڈ اور سٹیٹسٹکس کا طریق.
خطبات محمود ۱۳۵ سال ۱۹۳۹ء ایجاد کیا ہے.اگر ریکارڈ نہ ہو تو گزشتہ امور سے فائدہ اُٹھانے میں سخت دقت پیش آتی ہے.اب سب دُنیا میں دفتر موجود تھے، رجسٹر موجود تھے، خطوط موجود تھے ، کاغذات موجود تھے مگر ریکارڈ اور سٹیٹسٹکس ( STATISTICS) نہ رکھے جاتے تھے.انگریزوں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو اُنہوں نے ذہنی طور پر فیصلہ کیا کہ اپنے کاموں سے تجارت حاصل کرنے کے لئے کوئی طریق ایجاد کیا جائے.چنانچہ اُنہوں نے ریکارڈ رکھنے اور سٹیٹسٹکس کا طریق ایجاد کیا.گو یا علم موجود تھا مگر لوگ ذہانت سے کام نہ لینے کی وجہ سے اس کی حفاظت سے غافل تھے.انگریزوں نے اسی علم کو ذہانت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربوں سے فائدہ اُٹھانے کا ایک ذریعہ نکال لیا.اسی طرح روزانہ ہمارے مشاہدہ میں بات آتی ہے کہ دو شخص ہیں دونوں کے پاس کتا بیں ہیں مگر ایک نے ان کتابوں کا انڈیکس بنایا ہوا ہوتا ہے اور دوسرے نے انڈیکس نہیں بنایا ہوتا.اب وہ جس نے انڈیکس بنایا ہوا ہوتا ہے وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے مگر دوسرا عدم ذہانت کی وجہ سے باوجود اس کے کہ علم اُس کے پاس بھی موجود ہے اس طرح فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس طرح ذہین شخص اُٹھاتا ہے.تو نو جوانوں کو ذہین بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.ممکن ہے کوئی کہے کہ ہم انہیں ذہین کس طرح بنا سکتے ہیں؟ کئی ہیں جو سخت گند ذہن ہوتے ہیں اور انہیں ہزار بار بھی کوئی بات سمجھائی کی جائے تو وہ اُن کی سمجھ میں نہیں آتی ، پھر سب کو ہم کس طرح ذہین بنا سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گوانسانی طاقتیں محدود ہیں مگر جس قسم کی قوتیں اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں رکھی ہوئی تھ ہیں وہ ایسی ہیں کہ محنت اور دباؤ سے وہ تیز ہو جاتی ہیں اور عقل اور فطانت کی جنس تھوڑی بہت اللہ تعالیٰ نے ہر دماغ میں رکھی ہوئی ہے سوائے اس کے جو پاگل ہو.اور ایسا شخص ہزاروں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے.باقی جس قدر اوسط دماغ رکھنے والے انسان ہیں اُن کے اندر ہر قسم کا مادہ موجود ہوتا ہے ، وہ ذہانت بھی رکھتے ہیں ، وہ فطانت بھی رکھتے ہیں ، وہ عقل بھی رکھتے ہیں، وہ فکر بھی رکھتے ہیں، وہ علم بھی رکھتے ہیں ، وہ شعور بھی رکھتے ہیں، وہ احساس بھی رکھتے ہیں اور کی جب کوئی شخص اُن قوتوں کو ترقی دینا چاہے تو وہ ترقی دے سکتا ہے.یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ انتہا درجہ کا فطین نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا ذ کی نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا ذہین نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء حساس نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا باشعور نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا فقیہہ نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا مفکر نہ بنے مگر وہ ایک اوسط درجہ کا فطین ، ایک اوسط درجہ کا ذہین اور ایک اوسط درجہ کا مفکر اور فقیہہ بن سکتا ہے اگر کوشش کرے.پس خدام الاحمدیہ کا کام اس طرز پر ہونا چاہئے کہ نو جوانوں میں ذہانت پیدا ہو ممکن ہے وہ کہیں ہمیں یہ باتیں نہیں آتیں اور ہم سمجھ نہیں سکتے کہ کس طرح اس کام کو چلائیں.سو وہ میرے پاس آئیں اور مجھ سے مشورہ لیں مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تمام باتیں آتی ہیں.میں انہیں باتیں بتاؤں گا آگے عمل کرنا اُن کا کام ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ میری باتوں پر عمل کریں تو نو جوانوں میں بہت جلد ذہانت پیدا ہوسکتی ہے.ذہانت دراصل نتیجہ ہے کامل توجہ کا.اگر ہم کامل توجہ کی عادت ڈال لیں تو لازماً ہمارے اندر ذہانت پیدا ہو گی اور یہ ذہانت پھر ایک مقام پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ ترقی کرتی رہتی ہے.میں نے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے خدام الاحمدیہ کے کارکنان کو نصیحت کی ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی اپنے فرائض کی تی بجا آوری میں غفلت سے کام لیتا ہے تو اُسے سزا دو کیونکہ توجہ پیدا کرنے کے مختلف سامانوں میں سے ایک سامان ڈر بھی ہے.یعنی انسان کو یہ خیال ہو کہ اگر میں ناکام رہا تو مجھے سزا ملے گی.یورپین لوگوں میں ذہانت کی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے میں سخت سنگدل ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزدہوا اور اُسے سزا دی جائے تو وہ اپنے قصور کے ازالہ کے لئے صرف اتنا کافی سمجھتا ہے کہ پیسے کے دسویں حصہ کا کاغذ لیا اور پیسے کی بیسویں حصہ کی سیاہی اور لکھ دیا حضور میری تو بہ ! میرا قصور معاف فرمائیں.آپ سے زیادہ رحیم بھلا کون ہو سکتا ہے.آپ رحیم کریم اللہ کے نمائندے ہیں اور اگر چوبیس گھنٹے کے اندراندر اُ سے جواب نہ دیا جائے کہ اچھا تمہیں معاف کر دیا گیا ہے تو تمام معززین کی چٹھیوں پر کی چٹھیاں آنی شروع ہو جائیں گی کہ فلاں شخص بڑا پشیمان ہے ، وہ اب تو بہ کرتا ہے، اُسے معافی کیا جائے.تم اس قسم کا تمسخر کسی زندہ قوم میں نہیں دیکھ سکتے.تم چلے جاؤ انگلستان میں تم چلے جاؤ جرمنی میں ، تم چلے جاؤ امریکہ میں ، تم چلے جاؤ اٹلی میں ، تم چلے جاؤ فرانس میں تم کسی ایک جگہ بھی ایسا تمسخر ہوتے نہیں دیکھو گے.تم سو میں سے ایک احمق بھی ایسا نہیں دیکھو گے جو
خطبات محمود ۱۳۷ سال ۱۹۳۹ء قصور کے بعد کا غذ اور قلم دوات لے کے بیٹھ جائے اور معافی کی درخواست لکھنا شروع کر دے اور تم کوئی ایسا احمق نہیں دیکھو گے جو ایسے شخص کی سفارش کرے مگر ہمارے ہندوستان میں یہ عام بات ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس کے نتیجہ میں عجیب عجیب نظارے بعض دفعہ دیکھنے میں آئے ہیں.چنانچہ اس سلسلہ میں ایک امر کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے.جب تشخیز الا ذہان کی انجمن قائم ہوئی تو اس وقت ہم میں سے ایک شخص سے ایک غلطی ہوئی اُس نے بعد میں تو بہ بھی کی ، قربانی بھی کی اور نقصان بھی اُٹھایا مگر اُس وقت اُس سے غلطی ہو گئی ، اُس شخص کی کے اخلاص کا تم اس سے اندازہ کر لو کہ وہ ایک معقول تنخواہ چھوڑ کر یہاں صرف دس روپیہ ما ہوار پر ہماری انجمن میں ملازم ہو گیا تھا.یہ شخص ہماری انجمن کے ابتدائی ممبروں سے تھا.ضمناً میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جس وقت میں نے یہ انجمن قائم کی تھی اُس وقت ہم صرف سات لڑکوں نے اسے اپنے خرچ پر جاری کیا تھا.اس وقت تحریک جدید کے ایک سو چالیس لڑکے ہیں مگر وہ اُن کی سات جیسا کام کر کے بھی نہیں دکھا سکتے.ہم کل سات لڑکے تھے مگر ہم نے دس روپیہ ماہوار کا ایک نو کر بھی رکھا ہو ا تھا.ہماری مالی حالت اُس وقت جو کچھ تھی اُس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے تین روپیہ ماہوار وظیفہ ملا کرتا تھا جو قلم دوات کا غذ اور دوسری ضروریات پر میں خرچ کیا کرتا.مگر ان تین روپوں میں سے بھی کی میں ایک روپیہ ماہوار اس انجمن پر خرچ کرتا تھا.اسی طرح باقی لڑکوں کا حال تھا.اسی سرمایہ سے آہستہ آہستہ ہم نے رسالہ جاری کیا اور چونکہ رسالہ پر ہم خود محنت کیا کرتے تھے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اچھا سرمایہ جمع ہو گیا اور ہمارا کام عمدگی سے چلنے لگا اور ہم نے کام کی کی سہولت کے لئے دس روپیہ ماہوار پر ایک آدمی رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس دوست نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کر دیا.وہ آدمی بہت نیک تھا ، غریبوں کی مدد کیا کرتا ، رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لیتا اور نماز روزہ کا بھی پابند تھا مگر بعض دفعہ آدمی سے کوئی کوتا ہی ہو ہی جاتی ہے اس سے بھی ایک دفعہ یہ کوتاہی ہوئی کہ انجمن کا کچھ روپیہ اس نے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیا اور خیال کر لیا کہ اگلی تنخواہوں سے آہستہ آہستہ ادا کر دوں گا.اس امر کا جب ہمیں علم ہوا تو یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہوا.اُس وقت ہم میں سے کچھ کالج کے سٹوڈنٹس بھی تھے
خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۹ء کیونکہ ہم سات لڑکوں میں سے کچھ انٹرنس پاس کر کے جلدی ہی کالج میں داخل ہو گئے تھے.جب یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہوا تو جو کالج کے سٹوڈنٹ تھے اُنہوں نے اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس شخص کو سخت سزا دینی چاہئے کیونکہ اس نے بد دیانتی کی ہے اور اسے بد دیانتی کے جرم میں علیحدہ کر دینا چاہئے.میں نے اس کے مقابلہ میں کہا کہ اِس میں کوئی شبہ نہیں اس کی شخص سے قانونی بددیانتی ضرور ہوئی ہے لیکن فیصلہ کرتے وقت ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس شخص کا ماحول کیا ہے اور آیا اُس سے جو بد دیانتی سرزد ہوئی ہے یہ نا سمجھی کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے یا شرارت کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ بد دیانتی اس نے شرارت کے طور پر کی اور انجمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کی ہے تو اُسے واقع میں سخت سزا ملنی چاہئے لیکن اگر یہ ثابت ہو کہ اس نے شرارتاً ایسا نہیں کیا محض غفلت کی وجہ سے اس نے ایسا کیا ہے اور کی یہ خیال کر کے کچھ روپیہ خرچ کر لیا ہے کہ اگلی تنخواہ میں سے دے دوں گا تو گو بد دیانتی یہ بھی ہے مگر یہ شرارت والی بددیانتی سے مختلف ہے اور ہمیں سزا میں نرمی کرنی چاہئے.چنانچہ میں نے کہا اس شخص نے ہماری خاطر ایک اچھی نوکری چھوڑی اور یقیناً وہ نوکری جو ہماری ہے یہ اس کی پہلی نوکری کا قائمقام نہیں ہوسکتی.پس جب اس کی ہماری خاطر قر بانی ثابت ہے تو گو اس کا فعل بد دیانتی ہی قرار دیا جائے مگر یقیناً وہ اس حد تک نہیں جس حد تک شرارتی بد دیانتی ہوتی ہے.ہمارے ساتھیوں میں سے ایک دوست یہ تمام تقریریں سنتے رہے اور خاموشی سے بیٹھے کی رہے اور اُنہوں نے اس میں کوئی دخل نہ دیا مگر جب بحث لمبی ہوگئی تو وہ جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیا بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہیں؟ نہ کالج والوں کی کی بات میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ (میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ) اِن کی.یہ دونوں کی کہتے ہیں کہ اس شخص نے بددیانتی کی.فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق کہتا ہے اس نے شرارتی والی بد دیانتی کی اور دوسرا کہتا ہے یہ نادانی کی بددیانتی ہے ، ایک کہتا ہے سزا زیادہ دینی چاہئے اور دوسرا کہتا ہے سزا نرم دینی چاہئے.مگر دونوں اس کو بد دیانت قرار دیتے اور اس کے فعل کو قابل سزا قرار دیتے ہیں.حالانکہ بات دونوں کی غلط ہے اور خواہ مخواہ اس مجلس میں بُلا کر ہمارا وقت ضائع کیا گیا ہے.آپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ یہ جو مجلس تشخیز الاذہان کا روپیہ ہے.26
خطبات محمود ۱۳۹ سال ۱۹۳۹ء یہ آپ کا ہے یا خدا کا؟ ہم نے کہا خدا کا.وہ کہنے لگے جب خدا کا ہے تو اگر خدا کے بندے نے کچھ روپیہ لے لیا تو تم ہو کون جو اسے بد دیانت اور خائن قرار دو.ہم نے اس پر انہیں بہتیرا سمجھایا اور دلیلیں دیں کہ آپ کی یہ بات درست نہیں مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ مال بھی خدا کا اور بندہ بھی خدا کا میری سمجھ میں تو اور کوئی بات آتی ہی نہیں.ہم نے کہا اس کا تو یہ مطلب ہے کہ دینی خزانہ میں سے جو روپیہ کسی کے ہاتھ آئے وہ اُٹھا کر چلتا بنے.مثلاً صدرانجمن احمد یہ میں مال آتا ہے تو محاسب صاحب سیف اُٹھا کر گھر لے جائیں اور کہیں خدا کا مال اور خدا کا بندہ.جب مال خدا کا ہے تو میرا اسے اپنے نفس پر خرچ کرنا کہاں گناہ ہوا؟ اور جب ہم انہیں پکڑیں تو وہ کہیں اچھا بتاؤ تم نے خدا کی خاطر مال دیا تھا یا نہیں ؟ اور جب ہم کہیں کہ ہاں دیا تھا تو وہ کہیں کہ بس پھر میں بھی اُس کا بندہ ہوں اور خدا کا بندہ خدا کا مال لے جا رہا ہے.وہ کہنے لگے اگر کوئی لے جاتا ہے تو لے جائے ہمیں اس میں دخل نہیں دینا چاہئے.ہم نے انہیں بہت کی ہی سمجھایا مگر یہ مسئلہ کچھ اس طرح اُن کے دماغ میں مرکوز تھا کہ آخر تک ہماری بات اُن کی سمجھ میں نہ آئی کیونکہ وہ ایسے معاملات میں سزا کے قائل ہی نہ تھے.اس واقعہ سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے معاملات میں ہماری ذہنیتیں کس قسم کی ہو رہی ہیں؟ حالانکہ حق یہ ہے کہ سزا ذ ہن کو تیز کرتی ہے اور جس طرح دُنیوی انتظامات میں سزا دینا ضروری ہے اور اس سے قوم میں ایسا احساسی پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ غلطی سے حتی الوسع بیچنے لگ جاتے ہیں اور ذہن تیز ہو جاتے ہیں ہمارے ملک میں عام طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ سزا دینا ایک ظلم ہے اور جن لوگوں سے غلطی ہوتی ہے خصوصاً جبکہ وہ اعزازی کا رکن ہوں وہ اور اُن کے دوست خیال کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر صرف اظہار ندامت کافی ہونا چاہئے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کاموں میں اپنے دماغوں کو پوری طرح نہیں لڑاتے اور آہستہ آہستہ قوم کے ذہن گند ہوتے چلے جاتے ہیں.اگر وہ ان کی کاموں میں سزا کو ضروری قرار دیتے تو ضرور احتیاط سے کام کرنے کے عادی ہو جاتے اور ذہن تیز ہوتے جاتے.میں نے دیکھا ہے کہ جب کسی سے غلطی ہو اور اُسے سزا دینے کی تجویز ہو تو بڑے بڑے لوگ فوراً اس کی سفارشیں لے کر میرے پاس پہنچ جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ.
خطبات محمود ۱۴۰ سال ۱۹۳۹ء زیادہ کون رحیم ہے.مگر وہ بھی ایسے موقع پر سزا دیتا ہے.ذرا غور تو کروا گر یہ اصول درست ہو اور قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو تو قرآن کریم میں جو کچھ آخرت کے متعلق آیا ہے وہ کس طرح کی مضحکہ انگیز طور پر ایک تماشہ بن جائے مثلاً اگر فرعون کو سزا ملنے لگے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی کھڑے ہو کر کہیں کہ حضور اس سے غلطی ہو گئی ہے اب یہ معافی طلب کرتا ہے اسے اب معاف کر دیا جائے تو کیا خدا تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا ؟ اور کیا اس قسم کی معافی اُس روحانیت کی تکمیل کا موجب ہوگی جو اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے ؟ یا مثلاً جب ابو جہل کو سزا ملنے لگے تو رقعوں کا ڈھیر خدا تعالیٰ کے سامنے لگ جائے اور پندرہ ہیں محضر نامے پیش ہو جائیں جن پر لوگوں کی طرف سے یہ درخواست ہو کہ اسے معاف کیا جائے تو کیا خدا تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا ؟ اگر اس قسم کے رقعے آنے لگیں تو پھر تو خدا تعالیٰ کہے گا جب سب فیصلے تم نے خود ہی کرنے ہیں تو کی میں کس لئے یہاں بیٹھا ہوں؟ اُٹھاؤ دوزخ اور سب کو معاف کرو.پس اگر خدا تعالیٰ کا کسی کو سزا کی دینا ظلم نہیں اور کسی کا کوئی حق نہیں کہ اُس کے سامنے سفارش کرے تو کیا میں یا تم خدا تعالیٰ سے زیادہ رحم اپنے اندر کھتے ہیں کہ ہم سزا کو ایک بلا اور عذاب تصور کرتے ہیں.یہ یقیناً دماغ کی کی کمزوری اور ذہانت کی کمی کی علامت ہے اور یہ یقیناً اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ سزا کیوں مقرر کی گئی ہے؟ سزا ایک بہت بڑے فائدہ کی چیز ہے.سزا بنی نوع انسان کے لئے ایک رحمت کا خزانہ ہے.اگر یہ فائدہ کی چیز نہ ہوتی تو ہمارا خدا کبھی ميت يؤيد الدين نہ بنتا.ہمارا خدا کبھی قہار نہ بنتا، وہ صرف رحیم اور کریم ہی ہوتا.مگر وہ رحیم اور کریم ہی نہیں بلکہ شَدِيدُ الْعِقَاب اور شَدِيدُ الْبَطْش بھی ہے.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف میں منصف ہوں یا تم منصف ہو لیکن ہمارا خدا ظالم ہے.کیونکہ وہ بنی نوع انسان کو سزا بھی دیتا ہے.اس سے زیادہ بے حیائی کا عقیدہ اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ بے ہودہ بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ پس یقیناً مجرم کو سزا دینا ضروری ہے.یقیناً سزا کے بعد قوم ترقی کرتی ہے اور یقیناً سزا کے بغیر صحیح ذہانت پیدا نہیں ہوتی.جب کسی کو علم ہو کہ اگر میں نے فلاں کام خراب کیا تو مجھے سزا ملے گی تو وہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر ہوش سے کام کرے گا تا کہ اُسے سزا نہ ملے اور جب وہ ہوش سے کام لے گا تو وہ سزا سے بھی بچ جائے گا اور اُس کا ذہن بھی تیز ہو جائے گا.
خطبات محمود ۱۴۱ سال ۱۹۳۹ء اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ذہانت پیدا کرنے کا پہلا ذریعہ محبت ہے.چنا نچہ دیکھ لو ماں کس طرح ہر وقت اپنے بچہ کی فکر رکھتی ہے.اس کا یہ فکر ہی اس کی ذہانت کا موجب ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اس کی ذہانت محدود ہوتی ہے اور ذہین شخص کی ذہانت وسیع ہوتی ہے.ورنہ بیوقوف شخص بھی بعض دفعہ ایسے معاملہ میں آکر بڑا ذہین بن جاتا ہے جس میں اس کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ ذہین نہیں کہلا سکتا.کیونکہ اُس کی ذہانت محدود اور وقتی ہوتی ہے اسی طرح ماں کی بھی اپنے بچہ کے متعلق بڑی ذہانت سے کام لیتی ہے اور اُس کی ہر ضرورت کا فکر رکھتی ہے لیکن کی اس کی یہ ذہانت محدود ہوتی ہے.بہر حال ذہانت یا محبت سے پیدا ہوتی ہے یا خوف سے پیدا ہوتی ہے.خوف کے وقت بھی انسانی ذہن خوب تیز ہو جاتا ہے یا پھر تجربہ سے انسانی ذہن تیز ہو جاتا ہے.یہی چند امور ہیں جن کا ذہانت کے پیدا کرنے میں بہت بڑا دخل ہے مگر جو محدود ذہانت ہو اُس کا کسی خاص پہلو میں تو فائدہ ہو سکتا ہے مگر باقی امور میں نہیں.ایسا شخص کو اپنے فائدہ یا اپنے بچے کے فائدہ کے لئے بڑی ذہانت کا ثبوت دے گا مگر قوم کے لئے وہ مفید نہیں ہوگا کیونکہ اُس کی ذہانت محدود ہے.انہی محدود ذہینوں میں سے میں نے ماں کو پیش کیا ہے.وہ عام طور پر اپنے بچہ کے متعلق ایسی ایسی فکریں رکھتی ہے کہ دوسرے حالات میں ویسی فکر میں انسان کو نہیں سوجھ سکتیں.وہ بعض دفعہ اپنے بچہ کے متعلق اتنا سوچتی ہے کہ کہتی ہے میں دس سال کے بعد یہ کروں گی اور وہ کروں گی تو اس ذہانت کی محرک محبت ہے.اسی طرح کبھی خوف ذہانت کا محرک ہو جاتا ہے.میں اس وقت جس ذہانت کی طرف توجہ دلا رہا ہوں وہ عام ذہانت ہے.محبت بیشک پہلی چیز ہے جو ذہانت پیدا کرتی ہے مگر یہ محبت تو ایمان پہلے ہی پیدا کر رہا ہے اور خصوصاً جب قومی کاموں میں نو جو ان حصہ لیں گے اور قومی روح اپنے اندر پیدا کریں گے جس کا پیدا کرنا میں ان کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد قرار دے چُکا ہوں تو لازماً محبت بھی پیدا ہوگی اور محبت کے نتیجہ میں جو ذہانت پیدا ہوتی ہے وہ بھی ان میں رونما ہو گی مگر دوسراحصہ ذہانت کا سزا سے مکمل ہوتا ہے.اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا حج یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ہر نمبر سے یہ اقرار لیں کہ اگر اس نے اپنے مفوضہ فرض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتا ہی سے کام لیا تو وہ ہر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا اور خدام الاحمدیہ
خطبات محمود ۱۴۲ سال ۱۹۳۹ء کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لئے سزا تجویز کریں.اگر وہ سزا بھگتنے کے لئے تیار نہ ہوتی تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل رہنے کے قابل نہیں اور اگر وہ سزا بھگت لے گا تو یقینا وہ اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ اچھا کام کرے گا.اگر کوئی اس پر معترض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کیوں سزا دی جاتی ہے؟ تو اُسے کہنا چاہئے کہ کیوں اُس نے محبت کے جذبہ کے ماتحت پہلے ہی کام ٹھیک نہ کیا؟ اگر وہ محبت کامل سے کام لیتا تو اُس کے کام میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوتی اور اُسے کی سزا بھی نہ ملتی مگر جب محبت والا ذریعہ اُس نے چھوڑ دیا اور محبت کی کتاب سے اُس نے سبق نہیں کی لیا تو اب ضروری ہے کہ اُسے سزا کی کتاب سے سبق دیا جائے.بہر حال اگر وہ سبق قیمتی ہے جس کے سیکھنے کے لئے وہ اس مجلس میں شامل ہو ا تھا تو جو جائز ذریعہ بھی اُس کے لئے اختیار کیا جائے وہ اچھا ہے اور اگر سبق اچھا نہیں تو پھر اس کے لئے کسی قربانی کی ضرورت نہیں خواہ وہ کی رکس قدر معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو.تو خدام الاحمدیہ کو نو جوانوں کے اندر ذہانت پیدا کرنی چاہئے.میں ذہانت پیدا کرنے کے ذرائع بتانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں صرف ایک بات ہے جس کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ جب کسی سے کوئی قصور سر زد ہو تو وہ اس کی سزا برداشت کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہے کیونکہ اس کے بغیر کبھی ذہانت پیدا نہیں ہو سکتی.جب یہ ذہانت کسی انسان کے اندر پیدا ہو جائے تو پھر اس کا علم اور زیادہ ترقی کرتا ہے اور جب انسان بہت زیادہ ذہین ہو جاتا ہے تو اُس کا علم کرٹی بڑھنے لگتا ہے.کتابی علم صرف کتابیں پڑھنے سے بڑھتا ہے مگر لدنی علم ذہانت سے بڑھتا ہے.جس طرح ذہین آدمی اگلے شخص کی ہر بات سے صحیح نتیجہ نکالتا ہے اُسی طرح جس شخص کا ذہانت کے بعد علم لر ٹی بڑھنے لگتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اُس کے منشاء کو اِس کی صفات سے پہچان جاتا ہے.وہ زمین کو دیکھ کر ، وہ آسمان پر نظر دوڑا کر ، وہ پہاڑوں کی طرف نگاہ اُٹھا کر ، وہ ذرے ذرے اور بات بات کو کی دیکھ کر فوراً تاڑ جاتا ہے کہ الہی منشا کیا ہے اور رفتہ رفتہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کی دُعائیں بہت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور گو خدا تعالیٰ کے لئے تو اُس لفظ کا استعمال مناسب نہیں مگر انسانی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے جس طرح وہ شخص جو کسی دوسرے کا مزاج دان ہوتا ہے اس سے بہت جلد اپنی بات منوا لیتا ہے.
خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۹ء اسی طرح یہ بھی خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جانے کی وجہ سے اُس سے وہ باتیں منوا لیتا ہے جو دوسرے لوگ منو انہیں سکتے.دیکھو ! میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ دُعا کرتے وقت صفات الہیہ کو مد نظر رکھنا چاہئے اور جس قسم کی دُعا کی جائے اُس قسم کی صفات الہیہ کو جنبش میں لانے کی کوشش کی جائے مگر میں نے ایک شخص کو ایک دفعہ دیکھا وہ دُعا کر رہا تھا ، اِس قد رسوز اور اس قدر تضرع سے کہ اُس کے آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کا جسم کانپ رہا تھا مگر وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے رحیم و کریم تو میرے فلاں دشمن کو تباہ کر دے.اب بتاؤ رحیم و کریم کسی دشمن کو کیوں تباہ کرنے لگا وہ تو جب بھی یہ سُنے گا کی کہ اے رحیم و کریم فلاں دشمن کو ہلاک کر دے تو وہ کہے گا کہ میں تو رحیم و کریم ہوں میں اُسے معاف کرتا ہوں.تو اس قسم کی دُعا مانگنا اللہ تعالیٰ کی مزاج دانی کے خلاف ہے کہ خدا کی اس صفت کو حرکت میں لانا جو لوگوں پر رحم کرنے والی ہے اور کہنا یہ کہ وہ دوسرے کو عذاب دے.کیا تج جب کسی نے کسی دوسرے شخص کے بچہ کو باپ سے سزا دلوانی ہو تو وہ اُس سے جا کر یہ کہا کرتا ہے کہ آپ کے بچے نے فلاں قصور کیا ہے اُسے سزا دیں یا وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں وہ تو جب کہے گا کہ اے مہربان باپ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ ماردیں تو اُس کا باپ بجائے اُسے مارنے کے اُسے پیار کرنے لگ جائے گا کیونکہ اُس نے پیار کے جذبہ کو برانگیختہ کی کرنے والے الفاظ کا استعمال کیا ہے.تو ذہانت کی وجہ سے ہی انسان دُنیا میں ترقی کرتا ہے.ذہانت کی وجہ سے ہی انسان اس مقام پر پہنچتا ہے جب اُس کی دُعائیں دوسروں کی نسبت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور ذہانت کی وجہ سے ہی اگر ہم انسانی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے اور اس طرح وہ ہر روز اپنے علم اور اپنے عرفان کی میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.اس کے ساتھ ہی میں ایک اور بات کہہ دینا چاہتا ہوں مگر میں اسے لمبا نہیں کروں گا بلکہ مختصر الفاظ میں ہی اس کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ خدام الاحمدیہ کا سا تواں فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں.استقلال اس بات کو کہا جاتا ہے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے انسان برابر اپنے کام میں لگا رہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کی
خطبات محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۹ء کیوں ہمارے سپرد کیا گیا ہے؟ حالانکہ استقلال کے معنے ہی یہ ہیں کہ انسان جس کام پر مقرر کیا جائے خواہ اُس کام کی غرض اِس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اُسے کرتا چلا جائے.اس مادہ کو بھی خدام الاحمدیہ مختلف تجارب سے بڑھا سکتے ہیں مثلاً روزانہ یا ہفتہ وار خدام الاحمدیہ کی حاضری لیں اور جو نہ آئیں یا کبھی آجائیں اور کبھی نہ آئیں اُن کے نام نوٹ کریں اور سمجھ لیں کہ اُن میں استقلال کا مادہ نہیں.پھر ان غیر مستقل مزاج ممبروں کو توجہ دلاؤ کہ اپنے نقص کو رفع کریں اور اپنے اندر استقلال پیدا کریں اور جب دیکھیں کہ وہ پھر بھی توجہ نہیں کرتے تو اپنے افسروں کے پاس ان کی شکایت کریں.وہاں بھی اگر اصلاح نہ ہو تو پھر ان سے اعلیٰ افسروں کی کے پاس اور پھر اُن سے اعلیٰ افسروں کے پاس یہاں تک کہ ہوتے ہوتے خلیفہ وقت کے سامنے بھی ان کے ناموں کو رکھا جاسکتا ہے مگر ضروری ہے کہ پہلے خود ان کا علاج سوچا جائے اور ان سے عدم استقلال کا مرض دور کرنے کے لئے کوئی مناسب تجویز کی جائے مثلاً ایک علاج یہی ہوسکتا ہے کہ روزانہ کوئی کام انہیں کرنے کے لئے دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ کی با قاعدہ اس کام کو کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو سب کو نظر آتا ہو خواہ کتنا ہی حقیر نظر آنے والا کیوں نہ ہو.مثلاً یہ کام بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہہ دیا جائے کہ روزانہ دس بجے اپنے گھر سے باہر نکل کر پانچ منٹ اپنے مکان کا پہرہ دے.بظاہر یہ ایک بیوقوفی کی بات دکھائی دے گی مگر تمہیں تجربہ کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اس بظا ہر بیوقوفی والی بات پر عمل کرنے کی کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اس میں استقلال کی عادت پیدا ہو جائے گی اور در حقیقت کسی ایک کام کا بھی باقاعدگی کے ساتھ کرنا انسان کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کر دیتا ہے.ہم پانچ وقت جو روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں یہ بھی استقلال پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں.اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ جس نے ایک نماز بھی چھوڑی اُس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے سب نمازیں چھوڑ دیں مگر جو شخص پانچوں وقت کی نماز میں با قاعدہ پڑھنے کا عادی ہے اُس کی طبیعت میں ایک حد تک ضروری استقلال پایا جاتا ہے مگر جو شخص دس سال کے بعد بھی ایک نماز چھوڑ دیتا کہ ہے وہ عدم استقلال کا مریض ہے.پس اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کرو.چاہے کسی چھوٹی سی چھوٹی بات پر مداومت کے ذریعہ کیوں نہ ہو.تم کہہ سکتے ہو کہ جب کوئی شخص نماز
خطبات محمود ۱۴۵ سال ۱۹۳۹ء پڑھتا ہے تو ہمیں کوئی اور ایسا کام اس کے سپرد کرنے کی کیا ضرورت ہے جو استقلال پیدا کرنے والا ہو مگر یہ صیح نہیں کیونکہ تم اس کی نمازوں کی نگرانی نہیں کر سکتے لیکن جو کام تم اس کے سپر د کرو گے اُس کی نگرانی تم ضرور کرو گے.پھر ممکن ہے وہ نمازیں پڑھتا ہی نہ ہو یا پانچ میں سے تین نمازیں پڑھتا ہو اور دو چھوڑ دیتا ہو یا چار پڑھتا ہو اور ایک چھوڑ دیتا ہو یا مہینہ میں سے کوئی ایک نماز چھوڑ دیتا ہو تو اس بات کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ نمازوں میں باقاعدہ ہے یا نہیں کیونکہ وہ ذاتی عبادت ہے اور ذاتی عبادت کی دوسرا شخص مکمل نگرانی نہیں کر سکتا لیکن وہ حکم جو تم خود دوسرے کو دو گے اُس کی نگرانی بھی کرو گے اور اس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا ہوتا چلا جائے گا.میں اس کے لئے بھی مناسب قواعد تجویز کر کے خدام الاحمدیہ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام باتوں کو جو خطبات میں میں نے بیان کی ہیں بار بارلیکچروں کے ذریعہ خدام الاحمدیہ کے سامنے دہراتے رہیں.کبھی دیکھا کہ کوئی شخص استقلال اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کو استقلال پر لیکچر دینے کے لئے کہہ دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے نفس میں شرمندگی پیدا ہوگی اور وہ آئندہ کے لئے اس نقص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا یا دوسرے لوگ جن کی زبانوں میں اللہ تعالیٰ نے تاخیر رکھی ہے ان سے لیکچر دلائے جائیں.پس لیکچروں کے ذریعہ سے ، حاضری لگانے کے ذریعہ سے، اپنی سوسائٹی میں بار بار کی ایسے ریزولیوشنز پاس کرنے کے ذریعہ سے نگرانی کے ذریعہ اور ایسے کام دینے کے ذریعہ سے جن کو روزانہ با قاعدگی کے ساتھ کرنا پڑے نوجوانوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں.میں باوجود اس کے کہ کئی کی خطبات پڑھ چُکا ہوں ابھی تک وہ باتیں ختم نہیں ہوئیں جو خدام الاحمدیہ کے میں ذہن نشین کرنا کی چاہتا ہوں.اب تک میں سات فرائض کی طرف خدام الاحمدیہ کو توجہ دلا چکا ہوں اور دو باتیں ابھی رہتی ہیں انہیں اِنشَاءَ الله تَعَالیٰ اگلے جمعہ میں بیان کروں گا.اب میں خدام الاحمدیہ سے صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ باتیں تو بہت کچھ بیان ہو چکی ہیں اب انہیں کوئی عملی قدم بھی اُٹھانا چاہئے.میرا خیال تھا کہ میں جلدی ہی تمام باتیں بیان کرلوں گا مگر خطبے بہت لمبے ہو گئے ہیں.ان خطبوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ بعض دفعہ پچھلی باتیں انسان بھول جاتا ہے اور کی
خطبات محمود ۱۴۶ سال ۱۹۳۹ء جب ان کی طرف توجہ کرتا ہے تو پہلی باتیں ان کے ذہن سے اُتر جاتی ہیں.پس اب جس قدر جلدی ہو سکے کام کو عملی رنگ میں شروع کر دینا چاہئے کیونکہ تازہ بتازہ علم انسان جلد استعمال کر ہ لیتا ہے اور جس قدر پرانا ہو جائے اتنا ہی اس پر عمل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ ( الفضل ۳ / مارچ ۱۹۳۹ء) 66 لوگوں کا مددگار ہو.“ سٹیٹسٹکس (STATISTICS) فن اعداد و شمار ، شماریات
خطبات محمود ۱۴۷ ۹ سال ۱۹۳۹ء ورزش کے شعبہ کو مفید سے مفید تر بنایا جائے اور ہر چھوٹے بڑے احمدی کو لکھنا پڑھنا سکھایا جائے ( فرموده ۱۰ / مارچ ۱۹۳۹ ء ) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - آج میں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کے قریب کے پروگرام کے متعلق دو اور ضروری امور بیان کرتا ہوں.سات امر میں پہلے بیان کر چکا ہوں.آٹھواں امر یہ ہے کہ انسانی صحت دماغ پر خاص اثر کرتی ہے.ہزاروں کام دُنیا کے ایسے ہیں جو صحت جسمانی سے تعلق رکھتے ہیں گو وہ دین کا حصہ نہیں.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ خالص دماغی کام انسان چار پائی پر لیٹے ہوئے بھی کر سکتا ہے لیکن بعض قسم کی صحت کی خرابی دماغ کے اندر بھی خرابی پیدا کر دیتی ہے.ہر انسان ایسا نہیں ہوتا کہ بیماری کی حالت میں بھی اُس کا دماغ کام کر رہا ہو.یہ ایک بار یک مضمون ہے اور اس کے بیان کا یہاں موقع نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو حقیقی صحت ہوتی ہے وہ جسم کے اعضاء کی بیماریوں کے ساتھ اتنا تعلق نہیں رکھتی جس قدر کہ اُس کی اندرونی طاقتوں کے ساتھ.انسانی جسم کی طاقت دو قسم کی ہوتی ہے ایک اعضاء کی ظاہری بیماری اور ایک جسم کی قوت برداشت یا حقیقی صحت کبھی کبھی یہ قوت برداشت قدرتی طور پر اتنی زبر دست ہوتی ہے کہ ظاہری بیماریاں آکر بھی اسے توڑ نہیں سکتیں.ایسی صورت میں انسانی دماغ
خطبات محمود ۱۴۸ سال ۱۹۳۹ء ہر حالت میں کام کر سکتا ہے.مگر بعض حالات میں قوت برداشت بھی کمزور ہوتی ہے اور ظاہری کی عوارض بھی لگے ہوتے ہیں ایسا انسان بیماری کے ساتھ دماغی قابلیت بھی کھوتا چلا جاتا ہے.عام قانون یہی ہے کہ جو اوسط درجہ کی قوت برداشت کا انسان ہو اُس کی خرابی صحت کے ساتھ دماغ پر بُرا اثر ضرور پڑتا ہے.کم سے کم شستی کسل اور ہمت کی کمی ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور کسل سُستی اور ہمت کی کمی بھی ایسے امور ہیں کہ اگر کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو خطرناک نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں.یہ بات ظاہر ہی ہے کہ خواہ قوت برداشت کیسی ہو بیماری میں انسان بعض کام نہیں کر سکتا مثلاً اگر نظر کمزور ہو تو خواہ دماغی قابلیت کتنی ہی زبر دست کیوں نہ ہو ا نسان لڑائی کے قابل نہیں ہوتا اور وہ فوج میں بھرتی کے لئے موزوں نہیں سمجھا جاتا کیونکہ فوج کے لئے جس قسم کی قوت کی ضرورت ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا خصوصاً بچپن میں لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے.ورزشوں کی عادت جو ڈالی جاتی ہے وہ اسی لئے ہوتی ہے کہ انسان کے جسم میں چستی اور پھرتی پیدا ہو اور اُس کے اعضاء درست رہیں اور اس کی ہمت بڑھے.ورزش سے پسینہ آتا ہے جس سے بہت سے زہر دور ہوتے ہیں اور اس لئے ورزش کو نظر انداز کر کے کلی طور پر بچہ کو دماغی کام میں لگانا دماغ کو کمزور کرنے کا موجب ہوتا ہے.بچپن میں کھیل کود اور ورزش انسان کی فطرت میں اسی لئے رکھی گئی ہے تا کہ اُس کی جسمانی قوت برداشت بڑھ جائے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اَلصَّبِيُّ صَبِيٌّ وَ لَوْ كَانَ نَبِيًّا یعنی بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ آئندہ نبی ہونے والا ہو.بے شک و چند سالوں کے بعد نبی بن جائے گا مگر بچپن کی حالت میں اُس کی خواہشات ضرور ایسی ہی ہوں گی جو بچپن سے مناسبت رکھتی ہوں گی.وہ کھیلے گا بھی ، گو دے گا بھی اور اُن تمام حالات سے گزرے گا جن میں سے بچے عام طور پر گزرتے ہیں.بچپن کی حالت کے لئے جو لوازم مخصوص کی ہیں کوئی بچہ خواہ بڑا ہو کر نبی ہونے والا ہو وہ بھی اُن میں سے ضرور گزرے گا اور اُس کی یہی حالت بعد کی زندگی میں اُس کے لئے کسی اعتراض کا موجب نہیں ہوسکتی.پس اس عمر میں ورزش کے ذریعہ بچہ کی تربیت اشد ضروری ہوتی ہے اور اُسے کلی طور پر دماغی کام میں لگا دینا خطر ناک ہوتا ہے.اس زمانہ میں اُس کی صحیح تربیت کا طریق وہی ہے جو اُ سے کھیل کو دسکھائے.60
خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۹ء پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا ہو کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے.بڑے آدمی کے لئے تو خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں.یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سُنایا کرتے تھے کبھی حضرت یوسف کا قصہ بیان فرماتے ، کبھی حضرت نوع کا قصہ سُناتے اور کبھی حضرت موسیٰ کا واقعہ بیان فرماتے مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں گو وہ تھے سچے واقعات.ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلیٰ میں ہے وہ بھی سنا یا کرتے تھے.وہ سچا ہے یا جھوٹا بہر حال اس میں ایک مفید سبق ہے.اسی طرح ہم نے کئی ضرب الامثال جو کہانیوں کی سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے سنی ہیں.پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں گو بعض کہانیاں بے معنی اور بے ہودہ ہوتی ہیں مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی کی ہیں اور جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اُسے تعلیم دی جاتی ہے.پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیز کھیلیں ہیں.کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے لیکن کوئی عقلمند کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچوں کو کہانیاں سُنا نا کہانیاں بتانا کلی طور پر کسی جاہل کے سپرد کر دیا جائے یا بچوں ہی کے سپر د کر دیا جائے بلکہ اس کام پر ہر قوم کے بڑے بڑے ماہرین فن لگے رہتے ہیں.دُنیا کے بہترین مصنف جو لاکھوں روپے سالانہ کماتے ہیں وہ کہانیاں ہی لکھتے ہیں گواب بہت سی کہانیاں بڑے لوگوں کو مد نظر رکھ کر لکھی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں اگر بڑے لوگوں کے لئے ہوں تو وہ بھی بچپن ہی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ درحقیقت وہ انسان کی بچپن کی حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پر بڑی عمر میں بھی بچپن کے زمانہ کے دورے آتے رہتے ہیں اور اُسی وقت وہ کہانیوں کی کی طرف راغب ہوتا ہے یعنی اُس کا دماغ تھک کر سنجیدہ اور مشکل طریق پر دُنیا سے سبق حاصل کی کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اس وقت وہ چاہتا ہے کہ کہانیوں کے ذریعہ سے دُنیا کے تجارب اور علوم حاصل کرے.پس وہ بھی بچپن کے مشابہ ایک حالت ہے اور اس کام کے لئے قوموں کے بہترین دماغ کی
خطبات محمود ۱۵۰ سال ۱۹۳۹ء لگے رہتے ہیں اور یہ کافی نہیں سمجھا جاتا کہ کم علم اور جاہل لوگ اس کام کو کر میں لیکن تعجب ہے کہ ی کریں اس کے بعد کے زمانہ کی تعلیم کے انتظام کے لئے جو کھیل کا زمانہ ہے اور جس میں کھیل کے ذریعہ علم کا سکھانا ضروری ہوتا ہے اور اس عمر کے لئے جب بچہ علم کی سب سے مضبوط بنیا د قائم کر رہا ہوتا ہے ایسے جاہلوں پر بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے بچہ کے لئے جب وہ بہت چھوٹی عمر کا ہو اعلی درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے مگر جب وہ بڑا ہو کر سوسائٹی میں ملنے جلنے لگے تو اُس کی کے کپڑے کسی گاؤں کی درزن سے سلوائے حالانکہ چھوٹا بچہ تو جیسے بھی کپڑے پہن لے کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن بڑا ہو کر کپڑوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے.بعض پابندیاں بڑے آدمیوں کے لباس کے لئے قانون کی طرف سے ہوتی ہیں ، بعض اصولِ صحت کی طرف سے اور بعض سوسائٹی کی کی طرف سے اور وہ اُن کا خیال رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے مگر کس قدر عجیب بات ہوگی کہ اس کی زمانہ کا لباس تو کسی اناڑی کے سپر د کر دیا جائے مگر جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو تو اُس کے لئے اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے جائیں.بچپن کے زمانہ میں پہلا زمانہ وہ ہوتا ہے جب بچے کو کہانیوں کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جاتی اور تعلیم دی جاتی ہے.اس زمانہ کے متعلق دُنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی دماغی قابلیت رکھنے والوں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے اور اس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اس بات کو نہایت ضروری اور مناسب سمجھتے ہیں کہ کہانیوں کو ایسے رنگ میں بچہ کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے اُسے ایسی کہانیاں سُنائی جائیں جو اُس کے اخلاق کو بلند ، نظر کو وسیع اور اس کے اندر ہمت پیدا کرنے والی ہوں اور اُس کے اندر قومی ہمدردی کا مادہ پیدا کریں مگر اس کے بعد کا زمانہ جو زیادہ اہم ہوتا ہے اور جو کھیل کود کا زمانہ ہے.حیرت ہے کہ بنی نوع نے اس کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ بھی اسی طرح اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی نگرانی میں ہونا چاہئے.کہانیوں کی کے متعلق تو یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے دماغوں اور فاضل لوگوں کی تیار کردہ ہوں اور ایسے رنگ کی ہوں کہ جس سے بچوں کو فائدہ پہنچے مگر کھیل کے زمانہ کا کوئی خیال ہی نہیں رکھا جاتا اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کھیل کو د بچوں کا کام ہے بڑوں کا اس میں دلچسپی لینا
خطبات محمود ۱۵۱ سال ۱۹۳۹ء مناسب نہیں.حالانکہ اگر کھیل کو د بچوں کا کام ہے تو کہانیاں بھی تو بچوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں.پھر جب ابتدائی عمر کی کھیل یعنی کہانیوں کے متعلق احتیاط کی جاتی ہے تو کیوں بڑی عمر کی کھیل میں اس سے زیادہ احتیاط نہ برتی جائے اس زمانہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ تو کہانیوں کے زمانہ سے بہت زیادہ اہم ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کے کھیل کود کے زمانہ کو وہ زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی کی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ اِن سے فائدہ اُٹھا سکے.ان میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو جسم کو فائدہ پہنچے، دوسرے ذہن کی کو فائدہ پہنچے اور تیسرے وہ آئندہ زندگی میں ان کے کام آ سکیں.جس کھیل میں یہ تینوں باتیں ہوں گی وہ کھیل کھیل ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بھی ہوگی اور وہ طالب علم کے لئے ایسی ہی ضروری ہو گی جیسی کتابیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ کھیلیں ایسی ہوں جو ذہنی تربیت کے لئے مفید ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک فلسفہ بن جائے اور بچوں کو زبر دستی کھلانی پڑیں.ایسی کھیل ذہنی نشو ونما کا موجب نہیں ہوسکتی اور نہ ہی جسم اس سے پورا فائدہ اُٹھا سکتا ہے.میں نے بار ہا اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کام نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورزش کے شعبہ کو مفید بلکہ مفید ترین بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مفید ثابت ہونے والی ہوں نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ دینے والی ہوں.بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو، جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے.بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سُنائی جاتی ہیں اُن کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے لیکن اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں کی بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں کہانیاں سُنایا کرتے تھے.کہانیاں سُنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا.اگر اُس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سُناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کام نہ کر سکتے.پس یہ
خطبات محمود ۱۵۲ سال ۱۹۳۹ء ضروری ہوتا کہ ہمیں کہانیاں سنا کر چپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ بھی جب فارغ ہوں کہانیاں سنایا کرتے تھے.تاہم سو جائیں اور کی آپ کام کر سکیں.بچہ کو کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں.اُسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سو جاتے ہیں اور ماں باپ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں اور کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت اس کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچہ کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے.ماں باپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اس لئے وہ اُسے لٹا کر کہانیاں سناتے ہیں یا اُن میں سے ایک اسے سلاتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے یا پھر ایک سُناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے اگر اس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سنائی جائیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے مگر ہم اس پر خوش نہیں کی ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں اُسے سنائیں کہ اُس وقت بھی فائدہ ہو یعنی ہمارا وقت بیچ جائے اور پھر وہ آئندہ عمر میں بھی اُسے فائدہ پہنچائیں اور جب کہانیوں کے متعلق یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیل کے معاملہ میں بچوں کو یونہی چھوڑ دیں کہ جس طرح چاہیں کی کھیلیں.اگر یہ طریق کھیلوں کے متعلق درست ہے تو کہانیوں کے متعلق کیوں اسے اختیار نہیں کی کیا جا تا اور کیوں نہیں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ جیسی بھی کہانیاں ہوں سُن لیں.جب کہانیوں کے کی متعلق ہمارا یہ نظریہ ہے کہ وہ ایسی ہوں جو اُسے سُلا بھی دیں اور عمدہ باتیں بھی سکھا ئیں تو کھیلوں کے متعلق یہی نظریہ کیوں پیش نظر نہ رکھا جائے کیوں نہ بچوں کو ایسی کھیلیں کھلائی جائیں جن سے اُن کا جسم بھی مضبوط ہو، ذہن بھی ترقی کرے اور پھر وہ آئندہ زندگی کے لئے سبق آموز بھی ہوں.مثلاً میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی بتایا تھا کہ تیرنا ہے یہ کھیل کی کھیل.اس میں مقابلے کرائے جائیں تو بہت دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے، غوطہ زنی میں لوگ مقابلے کرتے ہیں اور ایسی دلچسپی پیدا ہوتی ہے کہ مقابلہ کرنے والے اس وقت یہی سمجھتے ہیں کہ گویا زندگی کا تج مقصد یہی ہے.بچوں کے لئے تیرنا بھی ایسی ہی دلچسپی کا موجب ہوسکتا ہے جیسا فٹ بال، کرکٹ یا ہا کی وغیرہ اور پھر یہ ان کے لئے آئندہ زندگی میں مفید بھی ہوسکتا ہے.کبھی کشتی میں ہے
خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۹ء آدمی سفر کر رہا ہو ، کشتی ڈوب جائے تو وہ اپنی جان بچا سکتا ہے یا کنارے پر بیٹھا کوئی کام کر رہائی ہو اور کوئی ڈوبنے لگے تو اُسے بچا سکتا ہے.تو تیر نا صرف اس زمانہ کے لئے کھیل ہی نہیں بلکہ آئندہ زندگی میں اسے فائدہ دینے والی چیز ہے.وہ بحری فوج میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے، جہاز رانی میں اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے.گویا یہ تمام عمر میں اسے فائدہ پہنچانے والا ہنر ہے اور اس لئے ایسی کھیل کی بجائے جو صرف بچپن میں کھیل کے ہی کام آئے یہ ایک ایسی کی کھیل ہے جو ساری عمر اس کے کام آ سکتی ہے.اسی طرح تیراندازی ہے، غلیل چلانا ہے اس سے ورزش بھی ہوتی ہے، بچے شکار کے لئے باہر جاتے ہیں اور دور نکل جاتے ہیں اور اس طرح کی تازہ ہوا بھی کھاتے ہیں.بدن بھی مضبوط ہوتا ہے، غلیل چلانے سے جسم میں طاقت آتی ہے.اس کے مقابلے کرائے جا سکتے ہیں کہ کون زیادہ دور تیر پھینکتا ہے یا غلیلہ پھینک سکتا ہے.غلیل جتنی زیادہ سخت ہو مگر لچکنے والی ہو اتنا ہی غلیلہ زیادہ دُور جاتا ہے.مگر اس لچکانے کے لئے طاقت ضروری ہوتی ہے جتنا کوئی زیادہ مضبوط ہو اُتنا ہی زیادہ دُور غلیلہ پھینک سکتا ہے کیونکہ وہ کی اتنا ہی غلیل کو زیادہ کھینچ کر لچکا سکتا ہے.یہ چیز ورزش کا بھی موجب ہے.شکار کے لئے زیادہ چلنا پڑتا ہے، تازہ ہوا کھانے کا بھی موقع ملتا ہے اور پھر یہ ساری عمر کام آتی ہے.غلیل چلانے والا بندوق کا نشانہ بندوق پکڑتے ہی سیکھ سکتا ہے.ہم بچپن میں غلیل چلایا کرتے تھے اور مجھے یاد نہیں کہ کسی نے کبھی مجھے بندوق کا نشانہ سکھایا ہو.پہلی دفعہ شیخ عبدالرحیم صاحب کہیں سے بندوق مانگ کر لائے.میں اُس وقت بہت چھوٹا تھا اور وہ پہلا نشانہ تھا اُنہوں نے پیچھے سے پکڑ رکھا اور میں نے بندوق چلائی.گومیں خود بھی گر پڑا مگر جس جانور کا نشا نہ کیا تھا وہ بھی گر گیا.اِدھر میں گرا اور اُدھر وہ.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جو سپاہیوں میں بھرتی ہوتے ہیں وہ مدتوں اس وجہ سے افسروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں کہ ٹھیک نشانہ نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بچپن میں کوئی ایسا کام نہیں کیا ہوتا کہ نشانہ کی مشق ہو سکے.اگر بچپن میں تیر یا غلیلہ چلانے کی مشق ہو تو جب بھی بندوق چلانے لگیں فوراً نشانہ درست ہوسکتا ہے اور پھر اس سے بچپن میں صحت بھی درست ہو سکتی ہے.اچھی ہوا سے تر و تازگی بھی حاصل کر سکتے ہیں، ذہنوں میں بھی روشنی پیدا ہو سکتی ہے اور پھر بڑے ہو کر یہی کھیل ان کے لئے ایک ہنر ثابت ہو سکتا ہے.
خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۹ء اسی طرح دوڑنا ہے جو اپنی ذات میں بہت دلچسپ کھیل ہے اس کے بھی مقابلے کرائے جاتے ہیں جن سے لاتوں کو بڑا فائدہ ہوتا ہے.لوگ ایسی ورزشیں کرتے ہیں کہ جن سے جسم کا ایک کی حصہ تو مضبوط ہوتا ہے مگر باقی کمزور ہو جاتے ہیں لیکن دوڑ نا لاتوں کے لئے بھی مفید ہے اور پیٹ کے لئے بھی.جولوگ دوڑنے کے عادی ہوں اُن کا پیٹ نہیں بڑھتا.یہ کھیل بھی ہے اور آئندہ زندگی میں بھی بڑے کام کی چیز ہے.اگر انسان سپاہی ہو تو دشمن کے تعاقب کے لئے یا اگر کسی وقت پیچھے ہٹنا پڑے تو اپنی جان بچانے کے کام آ سکتا ہے.آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ چور مال لے کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ اُن کو بھاگنے کی مشق ہوتی ہے مگر گاؤں والے ہانپتے ہوئے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ اُن کو مشق نہیں ہوتی.اگر بھاگنے کی مشق ہو تو چوروں کو پکڑ سکتے ہیں.اسی طرح بیسیوں مواقع زندگی میں ایسے آتے ہیں کہ اگر انسان کو کی بھاگنے کی مشق ہو تو کام سُدھر جاتے ہیں.اسی طرح اور بیسیوں ایسی کھیلیں ہیں جو مُفید ہوسکتی ہیں.دو تین روز ہوئے بورڈنگ ہائی سکول میں ایک جلسہ ہو ا تھا جس میں میں نے ایسی کھیلیں تفصیل سے بیان کی تھیں جن سے ذہنی ترقی کا کام لیا جا سکتا ہے اور وہ کھیلوں کا کام بھی دے سکتی ہیں اور پھر آئندہ زندگی میں بھی مفید ہو سکتی ہیں.اس وقت میں وہ ساری تو بیان نہیں کر سکتا صرف مثال کے طور پر چند ایک بیان کر دیتا ہوں مثلاً میں نے بتایا تھا کہ ہمارے ملک میں بعض کی ایسی کھیلیں ہیں جو ذہنی ترقی کے لئے مفید ہو سکتی ہیں مگر اُن سے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا.بچپن کی میں ایک کھیل یہ کھیلی جاتی ہے کہ ایک بچہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہے.لاتیں لمبی کر لیتا ہے، ایک اس کے پیچھے بیٹھ کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے پھر ایک ایک کر کے دوسرے لڑکے اُس کی ٹانگوں پر سے گزرتے ہیں اور پیچھے بیٹھنے والا پوچھتا ہے کہ کون گزرا ؟ اُسے اجازت نہیں ہوتی کہ گزرنے والے کے جسم کو ہاتھ لگائے.صرف لباس کی آواز سے وہ پہچانتا ہے کہ کون کی ނ گزرا؟ اگر وہ ٹھیک بتا دے تو کامیاب سمجھا جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے.اس کھیل شنوائی کی طاقت اور توجہ کا مادہ بڑھتا ہے.یہ کھیل چھوٹے بچوں کی ہے مگر اسے بنانے والے نے اس میں بہت حکمت رکھی ہے جس کے کان عادی ہو جا ئیں کہ کپڑے کی آواز سے آدمی کو پہچان لے یا خیال سے معلوم کرے کہ کون گزرا ہے تو وہ پولیس اور سکاؤٹ میں کتنا مفید ثابت
خطبات محمود ۱۵۵ سال ۱۹۳۹ء ہو سکتا ہے.ایسا شخص اگر پولیس میں جائے گا تو یقیناً بہت ترقی کرے گا.پھر ایک کھیل یہ ہوتا ہے ہے کہ پیچھے سے آ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا جس کی آنکھیں اِس طرح بند کر دی جائیں اُس کا حق ہوتا ہے کہ پہچانے اور ہاتھ کو ہاتھ لگا کر پہچانے.اس طرح ہاتھوں کے لمس سے پہچاننے کی مشق ہوتی ہے.یہ کھیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی بہت بدصورت اور کر یہ المنظر تھے ، قد چھوٹا تھا اور جسم پر بال بڑے بڑے کی تھے.ایک دفعہ وہ بازار میں مزدوری کر رہے تھے پسینہ بہہ رہا تھا اور گرمی کی وجہ سے سخت گھبرائے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی لڑ پڑیں گے.پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ کی علیہ وسلم آئے.آپ کو اُن کی حالت پر رحم آیا اور اُن کی دلجوئی کرنا چاہی اور اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے جس کے معنے یہ تھے کہ بتاؤ کون ہے؟ انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ پھیرا رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بہت نرم تھا اس لئے وہ پہچان گئے اور مذاق کے لئے آپ کے جسمِ مُبارک کے ساتھ اپنا پسینہ والا جسم ملنے لگے اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے پہچان لیا ہے لے یہ کھیل بھی درحقیقت اپنے اندر ایک عمدہ مشق رکھتی ہے.بشرطیکہ بچوں کو عمدگی.ނ کھلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ پورا پورا فائدہ حاصل ہو.یہ کھیلیں ایسی ہیں کہ ان سے اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ انسان بڑے بڑے کمالات ظاہر کر سکتا ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ج ہے کہ امریکہ کی ایک قوم ہے جسے ریڈ انڈین یعنی سُرخ ہند وستانی کہا جاتا ہے کیونکہ جب یورپ الے پہلے پہل امریکہ گئے تو اُن کا خیال تھا کہ ہندوستان یہی ہے بعد میں معلوم ہوا کہ ہندوستان اور ہے.ان لوگوں کا رنگ سُرخی مائل ہوتا ہے اس لئے ان کو ریڈ انڈین کہتے ہیں.اُنہوں نے کانوں کی مشق میں بہت کمال حاصل کیا ہوتا ہے.لوگ پہلے زمانہ میں ان کو مزدوری کی پر جنگلوں میں راہنمائی کے لئے لے جاتے تھے یا جب چور یا ڈا کولوٹ مار کر کے بھاگتے تھے تو ان میں سے کسی کو لالچ دے کر ساتھ لے جاتے تھے اور جنگل میں چھپ جاتے تھے.کہا جاتا ہے ہے کہ وہ لوگ زمین پر کان لگا کر دو تین میل کے فاصلہ پر سے بتا دیتے تھے کہ گھوڑے فلاں جہت سے دوڑے آ رہے ہیں اور یہ کوئی معجزہ نہیں نہ ہی وہ کوئی غیر معمولی انسان ہوتے ہیں بلکہ یہ صرف مشق کی بات ہے.اس قوم نے کانوں کی مشق سے ایسے اصول دریافت کر لئے ہیں
خطبات محمود ۱۵۶ سال ۱۹۳۹ء کہ ایسی باتیں معلوم کر لیتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہو سکتیں اور اس طرح چور یا ڈا کو ان کی اطلاع پر وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جا چھپتے.اگر آنکھوں سے دیکھ کر چھپنے کی کوشش کی جائے تو بچنا محال ہو جاتا ہے کیونکہ سوار پکڑ سکتے ہیں مگر جب وہ تین میل کے فاصلہ پر سے ہی اطلاع مل جائے تو اُن کے وہاں پہنچنے تک وہ آگے نکل کر جاسکتے ہیں.اس طرح زبان ، ناک، ہاتھ اور کان کی مشق بہت کام آنے والی چیزیں ہیں.ان سے ذہانت میں بھی ترقی ہوتی ہے.ذہانت حواس خمسہ کی تیزی کا نام ہے اور جو اس کی تیزی کے لئے ایسی کھیلیں ایجاد کی جاسکتی ہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں.جو کھیل کی کھیل ہیں اور آئندہ زندگی کے فوائد بھی اُن میں مخفی ہیں.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کو اس بات کو اپنی سکیم میں شامل کریں اور جماعت میں ان کو رائج کریں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی کہا تھا کہ جماعت ورزش جسمانی کی طرف خاص طور پر زور دے اور اب میں یہ کام بھی خدام الاحمدیہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ یہ نو جوانوں سے تعلق رکھتا ہے.پس خدام الاحمدیہ اسے قادیان میں بھی اور باہر بھی شروع کریں.مجھ سے مشورہ کر کے وہ ایسی سکیمیں تیار کر سکتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسی کھیلیں جماعت میں جاری کی جاسکیں جو آئندہ زندگی میں کام آنے والی ہوں.نویں بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں وہ علم کا عام کرنا ہے.میں پہلے ان کو توجہ دلا چکا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ علم سیکھیں لیکن یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ کسی شخص کا حاصل کرنا اُسے بچا نہیں سکتا جب تک اُس کے ارد گرد بھی نیکی نہ ہو.آپ اپنے بچے کو کتنا سچ بولنے کی عادت کیوں نہ ڈالیں وہ کبھی سچا نہیں ہو سکتا جب تک اُس کے محلہ میں دوسرے بچے کی جھوٹ بولتے ہیں.پس ان کا اپنا علم حاصل کر لینا کام نہیں آ سکتا جب تک کہ دوسروں میں تعلیم کی اشاعت نہ کریں.کچھ عرصہ سے میں نے ان کے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے کہ قادیان میں کوئی کی ان پڑھ نہ رہے اور جب یہاں یہ کام ہو جائے گا تو پھر باہر بھی اسے شروع کیا جائے گا.انہوں نے کچھ عرصہ سے اس کے متعلق کوئی رپورٹ مجھے نہیں بھیجی.اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہو رہا ہے یا نہیں.یہ کام اتنا اہم تھا کہ ان کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ اس کے متعلق ہفتہ واری رپورٹ
خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۳۹ء ضروری ہے مگر آج میں یہ کام پھر خصوصیت کے ساتھ ان کے سپر د کرتا ہوں اور ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسے پہلے یہاں شروع کریں اور پھر باہر.اور کوشش کریں کہ سال دو سال کے عرصہ میں کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو پڑھا ہوا نہ ہو.خواہ احمدی عورت ہو یا مرد ، بچہ ہو یا بوڑھا سب پڑھے ہوئے ہونے چاہئیں.اس کے لئے چھوٹے سے چھوٹا معیار مقرر کر لیا جائے اور پھر اس کے مطابق سب کو تعلیم دی جائے.یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک علم عام نہ ہو جماعت پورا فائدہ کی نہیں اُٹھا سکتی.اس زمانہ میں علم کتابی ہو گیا ہے مگر پہلے زمانہ میں زبانی ہوتا تھا.پہلے زمانہ میں علم کا نوں کے ذریعہ سکھایا جاتا تھا مگر اب کتابوں کے ذریعہ.اس لئے خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہر احمدی لکھنا پڑھنا سیکھ جائے.عربوں میں زبانی حفظ کرنے کا رواج تھا اور اس کا یہاں تک اثر ہے کہ صرف ونحو کی بعض کتابیں وہ ہر طالب علم کو حفظ کراتے ہیں.پرانے زمانہ میں علماء کے لئے قرآن کریم کو حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا ، حدیثوں کو یاد کرنا محد ثین کی کے لئے ضروری ہوتا، شاعروں میں شعر زبانی یاد کرنے کا رواج تھا، صرفی نحوی صرف ونحو کی کتا ہیں یاد کرتے تھے.فقہاء فقہی کتابیں حفظ کرتے تھے مگر آج کل تو قرآن کریم کا حفظ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا.کتابیں عام ہیں جب ضرورت ہوئی دیکھ لیا مگر اس زمانہ میں کتا بیں عام نہ تھیں اس لئے حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا.یہاں تک کہ اس زمانہ میں کتاب لکھنا یا پڑھنا موجب عار سمجھا جاتا تھا اور اس کے یہ معنی سمجھے جاتے تھے کہ حافظہ کمزور ہے.وہ شاعر، شاعر ہی نہیں سمجھا جاتا تھا جس کے شعر لکھے جائیں.اس کے یہ معنے ہوتے تھے کہ گویا اس کی قوم نے اس کی قدر نہیں کی.اگر قوم قدر کرتی تو اس کے شعر حفظ کرتی.اسی واسطے جو بڑے بڑے شُعراء ہوتے تھے ان کے ساتھ ایسے لوگ رہتے تھے جو اُن کے شعر حفظ کرتے.ان کو راویہ کہا جاتا تھا اور توجہ اور مشق سے حافظے اتنے تیز ہو جاتے تھے کہ بعض کو لاکھ لاکھ ، دو دو لاکھ اور تین تین لاکھ شعر زبانی یاد ہوتے تھے.ایران کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ تھا اُس زمانہ میں وہاں عربی کا زیادہ رواج تھا.اسلامی ممالک میں زیادہ تر یہی زبان رائج ہوتی تھی.بادشاہ کی کو سخاوت کی عادت تھی.شعراء آتے شعر سناتے اور بڑے بڑے انعام پاتے تھے.وزیر نے اس سے کہا کہ شعراء تو اس طرح کوٹ کر لے جائیں گے اور خزانہ میں کمی آجائے گی.اس لئے کی
خطبات محمود ۱۵۸ سال ۱۹۳۹ء آپ ہر ایک کو انعام نہ دیا کریں بلکہ قید لگا دیں کہ صرف اُسی شاعر کو انعام دوں گا جو کم سے کم ایک لاکھ شعر سنا سکتا ہو.بادشاہ نے یہ مان لیا اور اعلان ہو گیا کہ جب تک کسی شاعر کو کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد نہ ہو وہ دربار شاہی میں باریابی حاصل نہ کر سکے گا.اب لاکھ شعر کا یاد کرنا ہر ایک کے لئے تو مشکل ہے کسی کو پانچ ہزار، دس ہزار یاد ہوتے ، کسی کو بہیں ہزار، کسی کو تھیں یا چالیس ہزار اور اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام اُدباء اور شعراء کو موقع نہیں مل سکتا تھا اور وہ بھو کے مرنے لگے.ان کو خیال آیا کہ اس طرح تو ملک کے علم ادب کو نقصان پہنچے گا اس زمانہ میں وہاں ایک بہت بڑے اور مشہور ادیب تھے.سب اکٹھے ہو کر اُن کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس سے مُلک کے علم ادب کو بہت نقصان پہنچے گا اس لئے آپ بادشاہ سے ملیں اور اس بات پر آمادہ کریں کہ ایک لاکھ کی تعداد میں کمی کر دے.وہ بالکل الگ تھلگ رہتے تھے.بادشاہ نے کی ان کو بعض دفعہ بلوایا بھی تھا مگر اُنہوں نے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی ذات میں اپنے آپ کو ادب کا بادشاہ سمجھتے تھے مگر یہ چونکہ ایک ادبی خدمت تھی اس لئے وہ بادشاہ سے ملنے کے لئے تیار ہو گئے.چنانچہ وہ گئے اور اطلاع کرائی.دربانوں نے نام پوچھا مگر اُنہوں نے نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ایک شاعر ملنا چاہتا ہے.دربانوں نے کہا کہ شاعروں کے لئے یہ شرط ہے کہ انہیں کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد ہونا چاہئے پہلے درباری امتحان لیں گے اور اگر کوئی ایک کی لاکھ شعر سنا سکے تو اُسے باریابی کا موقع دیا جائے گا ورنہ نہیں.اُنہوں نے پیغامبر سے کہا کہ جا کر بادشاہ سے پوچھو کہ وہ کون سے ایک لاکھ شعر سننا چاہتا ہے؟ اسلام کے زمانہ کے یا زمانہ جاہلیت کے؟ مردوں کے یا عورتوں کے؟ میں ہر قسم کے ایک ایک لاکھ شعر سُنانے کو تیار ہوں.جب بادشاہ کو یہ اطلاع پہنچی تو وہ سمجھ گیا.انہی کا نام لیا اور کہا کہ وہی ہوں گے.ننگے پاؤں بھاگ آیا اور کہا کہ فرمائیے کیا خدمت ہے.انہوں نے کہا کہ آپ کے اس حکم سے مُلک پر یہ ظلم ہو رہا ہے کہ اس کے ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے.اس شرط کے ہوتے ہوئے کوئی خاص شاعر ہی باریاب ہو سکتا ہے اور جو اتنا بڑا ادیب ہوا سے آپ کی مدد کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے اور وہ دربار میں کیوں آئے گا؟ اِسے تو گھر بیٹھے ہی روزی ملے گی اس لئے اسے منسوخ کر دیں.بادشاہ نے کہا بہت اچھا میں اسے منسوخ کرتا ہوں اور جب یہ شرط لگا ئی تھی تو میرا ایک مقصد
خطبات محمود ۱۵۹ سال ۱۹۳۹ء یہ بھی تھا کہ شاید آپ اسے منسوخ کرانے کے لئے آئیں.تو حافظہ پر زور دینے کی وجہ سے پرانے زمانہ میں ایسے ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو لاکھوں شعر زبانی یا د رکھتے تھے.کہتے ہیں امام شافعی نے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا تھا.بوجہ حافظہ پر عام طور پر زور ینے کے اس زمانہ میں لوگوں کے حافظے بہت تیز ہوتے تھے.ایک دو دفعہ ہی بات سُن کر یاد کر لیتے تھے مگر اب کتابوں کے عام ہو جانے کی وجہ سے حافظہ کی تیزی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس لئے خدام الاحمدیہ کو منی طور پر اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ جب تک قوم کی عام رغبت اس طرف نہ ہوا ایک دو کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پہلے زمانہ میں حافظہ کے ذریعہ لوگ عالم ہوتے تھے مگر آجکل کتابیں پڑھنے سے ہوتے ہیں.اس لئے جماعت کے ہر فرد کو کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا آنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جو کفار قید ہوئے ان میں سے جو فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے آپ نے اُن کے لئے یہ شرط لگائی کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اور جب اُنہوں نے سکھا دیا تو اُن کو چھوڑ دیا ہے تو خدام الاحمدیہ کے تعلیم کے عام کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اگر وہ یہ کر لیں تو جماعت کے اخلاق بھی بلند ہو سکتے ہیں، پڑھنا آتا ہو تو وہ حضرت صاحب کی کتب بھی پڑھ سکیں گے ، دینی کتب کا مطالعہ کریں گے ، تصوف کی کوئی کتاب پڑھیں گے اور اُن کا وقت بھی ضائع نہ ہو گا.کتابیں پڑھنے سے ان کا ذہن صیقل ہوگا اور پھر اخلاق بلند ہوں گے.یہ نو چیزیں ہیں جو میں خدام الاحمدیہ کے لئے پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ ان کو خصوصیت سے سامنے رکھ کر وہ کام کریں گے اور ان کو اپنا قریبی مقصد قرار دیں گے اور پھر اس کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کریں گے.اس کے ساتھ کچھ اور مضامین بھی ہیں مگر اب چونکہ کافی وقت ہو گیا ہے اس لئے اسی پر بس کرتا ہوں.اسی ہفتہ میں خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے ایک درخواست آئی تھی کہ وہ تفصیلی ہدایات کے لئے مجھے ملنا چاہتے ہیں وہ مل کر مجھ سے ہدایات لے سکتے ہیں.عملی سکیم اور کام کرنے کا طریق یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جو صرف اُن سے ہی تعلق رکھتا ہے.
خطبات محمود 17.سال ۱۹۳۹ء اس لئے جب وہ ملیں گے تو اُن کے سامنے ہی اسے بیان کروں گا.میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ استقلال اور ہمت سے کام کریں گے اور ایسے رنگ میں کریں گے کہ ساری جماعت کو شامل کرسکیں اور میں نے اسی غرض سے یہ خطبات پڑھے ہیں.چند افراد کی حیثیت ایسی نہیں ہوتی کہ ان کے لئے اتنے خطبے پڑھے جائیں اس لئے ان کو ایسے رنگ میں کام کرنا چاہئے کہ وہ ساری جماعت پر حاوی ہوا اور مستقل حیثیت اختیار کر سکے.“ (الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۳۹ء) ا شمائل الترمذى باب ما جاء فِي صِفَةِ مزاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زرقانی جلد ۲ صفحه ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
خطبات محمود 171 1.سال ۱۹۳۹ء خدام الاحمدیہ کا قیام اُس فوج کی روحانی ٹریننگ ہے جس نے احمدیت کے مخالفین کا مقابلہ کرنا ہے فرموده ۱۷ / مارچ ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں نے خدام الاحمدیہ کو گزشتہ پانچ چھ خطبات میں ایسے امور کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی طرف توجہ کر کے وہ جماعت کے لوگوں میں بیداری اور دینداری پیدا کر سکتے ہیں اور نو جوانوں کا گروہ ہی ایک ایسا گروہ ہے جس کی زندگی پر قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے کیونکہ کسی اگلی پود کا درست ہونا قومی عمر کو نہایت لمبے عرصہ تک پھیلا دیتا ہے.مثلاً اگر انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال سمجھی جائے اور نوجوانوں کی جماعت درست ہو جائے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر نو جوانوں کو ہیں سال کا بھی فرض کر لیا جائے تو اس قوم کی عمر مزید چالیس سال تک لمبی ہو سکتی ہے.ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کی درستی صرف ایک یا دو سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی.ایک پچاس سالہ عمر والے انسان کی درستی اوسطاً دس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، ایک چالیس سالہ شخص کی درستی انداز انہیں سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور تمیں سالہ عمر والے کی درستی قوم کو انداز اتمیں سال تک فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن اگر میں سالہ نو جوانوں کی درستی کر دی جائے تو وہ چالیس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتے اور اس کی خصوصیات اور روایات کو قائم
خطبات محمود ۱۶۲ سال ۱۹۳۹ء رکھ سکتے ہیں اور چالیس سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسان کی تی اوسطاً عمر ساٹھ ستر سال کے درمیان ہے اور ادھر دس گیارہ سال کا لڑکا جوانی کے قریب پہنچ جاتا ہے.اس لئے در حقیقت اگر نو جوانوں کی درستی کر لی جائے تو وہ چالیس سال ہی نہیں بلکہ پچاس سے ساٹھ سال تک قوم کی حفاظت کا موجب بن جاتے ہیں اور پچاس ساٹھ سال تک کسی قوم کو نشو ونما کا موقع مل جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.اگر وہ قوم ہمت والی ہو، اگر وہ کی مشکلات اور مصائب سے گھبرانے والی نہ ہو، اگر خدا کے وعدے اور اُس کی نصرتیں اُس کے ساتھ ہوں اور اگر اُس قوم کے نوجوان اور بوڑھے درست ہوں اور اُن کا اخلاقی اور مذہبی معیار بہت بلند ہو تو وہ پچاس ساٹھ سال کے اندر اندر تمام دنیا پر چھا جانے کے قابل ہو جاتے ہیں.در حقیقت اُتار چڑھاؤ ہی ہے جو قوموں کو نقصان پہنچایا کرتا اور اُن کی ترقیات کو روک دیتا ؟ ہے یعنی ایک وقت تو وہ جوش میں آجاتی اور بڑے زور شور سے کام شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت گر جاتی ہیں.ایک وقت تو اُن کی ہمتیں نہایت بلند ہوتی ہیں اور وہ مردانہ وار مصائب کے مقابلہ کا تہیہ کر کے ترقی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت بالکل دب جاتی اور پستی کی طرف گرنا شروع کر دیتی ہیں.ایسی صورت میں اس قوم کی پستی کا زمانہ اس کے ان فوائد کو کمزور کر دیتا ہے جو اس نے اپنی ترقی کے ایام میں حاصل کئے ہوتے ہیں مگر جب تمام قوم کا قدم یکساں طور پر آگے کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہو تو پچاس ساٹھ سال دُنیا بھر میں تغیر پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں.پس نو جوانوں کو درست کرنے اور اُن کے اخلاق کو سدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ پہنچ سکتا ہے اور میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے کام کی عظمت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے.خدام الاحمد یہ دوسری انجمنوں کی طرح ایک انجمن ہے.وہ ہر گز اس قابل نہیں کہ انہیں اس میں شامل رکھا جائے.اسی طرح وہ ممبر جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک کمیٹی بنا کر سلسلہ کی خدمت کا جزوی طور پر کچھ کام کریں گے وہ بھی اپنے کام کی اہمیت اور اُس کی عظمت سے بالکل نا واقف ہیں.حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کے نوجوانوں کی درستی ہی اصل کام ہوا کرتا ہے اور یہی کام ہے جو قوموں کی ترقی کے راستہ میں محمد اور معاون ہوا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ابتدائے زمانہ میں
خطبات محمود ۱۶۳ سال ۱۹۳۹ء ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بوڑھے بوڑھے اس کے سلسلہ میں شامل ہوں اور چند روز خدمت کر کے وہ وفات پا جائیں اور سلسلہ کی تعلیم کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے کوئی نہ رہیں.پس وہ بوڑھوں کی بجائے زیادہ تر نو جوانوں کو اپنے سلسلہ میں شامل کرتا ہے اور نوجوانوں کی جماعت کو ہی نبی کی تربیت میں رکھ کر درست کرتا ہے تا کہ وہ نبی کی وفات کے بعد ایک لمبے عرصہ تک اس کے لائے ہوئے نور کو دُنیا میں پھیلا سکیں اور اس کی تعلیم کی اشاعت اور ترویج میں حصہ لے سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ کے مقرب ترین صحابہ قریباً سارے ہی ایسے تھے جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے.حضرت ابو بکر آپ سے اڑھائی سال عمر میں چھوٹے تھے ، حضرت عمر آپ سے ساڑھے آٹھ سال عمر میں چھوٹے تھے اور حضرت علیؓ آپ سے ۲۹ سال عمر میں چھوٹے تھے.اسی طرح حضرت عثمان ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ۲۰ سال سے لے کر ۲۵ سال تک آپ کی سے عمر میں چھوٹے تھے.یہ نوجوانوں کی جماعت تھی جو آپ پر ایمان لائی اور اس جوانی کے کی ایمان کی وجہ سے ہی مسلمانوں کی جماعت کو یہ فائدہ پہنچا کہ چونکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت میں رہے تھے اور پھر ان کی عمریں چھوٹی تھیں اس کی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ ایک عرصہ دراز تک لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوی نبوت کے بعد ۲۳ سال کے قریب زندہ رہے ہیں.اب اگر ساٹھ سالہ بوڑھے ہی آپ پر ایمان لاتے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل نہ ہوتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ اِن میں سے اکثر مکہ میں ہی وفات پا جاتے اور مدینہ کے لوگوں کے لئے نئی ٹریننگ شروع کرنی پڑتی کیونکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچتے تو پہلی تمام جماعت ختم ہو چکی ہوتی اور آپ کو ضرورت محسوس ہوتی کہ ایک اور جماعت تیار کریں جو اسلام کی باتوں کو سمجھے اور آپ کے نمونہ کو دیکھ کر وہی نمونہ دوسروں کو کی اختیار کرنے کی تلقین کرے.اگر ایسا ہوتا تو اسلام کے لئے کس قدر مشکلات ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں ہونے دیا.اس لئے ایسا انتظام فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بجائے کسی نئی جماعت کی ٹریننگ کے وہی نوجوان جو مکہ میں
خطبات محمود ۱۶۴ سال ۱۹۳۹ء آپ پر ایمان لائے تھے اس قابل ہو چکے تھے کہ فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لیں.چنانچہ گیارہ سال کا علی مدینہ پہنچتے وقت چوبیس سال کا جوان تھا اور ۱۷ سال کا زبیر مدینہ جاتے وقت تمہیں سال کا جوان تھا.یہی حال باقی نو جوان صحابہ کا بھی تھا.کوئی ان میں سے تمہیں سال کا تھا، کوئی چونتیس سال کا تھا اور کوئی پینتیس سال کا تھا.پس بجائے اِس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نئے سرے سے ایک جماعت بنانی پڑتی جب آپ مدینہ میں پہنچے اور کام وسیع ہو گیا تو آپ کو انہی نوجوانوں میں سے بہت سے مدرس مل گئے جنہوں نے مکہ میں آپ سے سبق حاصل کیا تھا اور پھر اور دس سال تک مدینہ میں بھی انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی شاگردی میں رہنے کا موقع مل گیا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اُس وقت چوبیس سال کا علی چونتیس سال کا جوان تھا اور ابھی ایک لمبا عرصہ کام کا اُن کے سامنے پڑا تھا.اسی طرح وہ زبیر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت ۱۷ سال کا تھا وہ اُس وقت چالیس سال کا جوان تھا تو یہ نو جوانوں کی ایک ایسی جماعت تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں باوجو د ۲۳ سال آپ کے ساتھ کام کرنے کے جب آپ فوت ہوئے تو ابھی اُن کے سامنے ان کی زندگی کے ہیں تمہیں سال کام کرنے کے لئے پڑے تھے اور پھر ہر ایک نے آپ کی وفات کی کے بعد اپنی اپنی عمر کے مطابق کام کیا.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اڑھائی سال کام کرنے کا موقع ملا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ساڑھے آٹھ سال کام کرنے کا موقع ملا اور کی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہمیں سال کام کرنے کا موقع ملا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد چھپیں سال کام کرنے کا موقع ملا.یہی حال طلحہ اور زبیر کا بھی ہوا.حتی کہ بعض صحابہ اس قسم کے بھی تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس پچاس سال تک زندہ رہے اور بعض ایسے بھی تھے گو اُن کی تعداد بہت کم ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ستر ، اسی سال زندہ رہے.یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ نو جوانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت ڈالی اور وہی نوجوان درست ہو کر ایک لمبی عمر تک خدمت اسلام کرتے رہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو اُس وقت حضرت انسؓ کی عمر کل دس سال کی کی تھی.دس سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور جب میں سال کے ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے مگر خود حضرت انسؓ کی وفات ایک سو دس سال میں جاکر ہوئی ہے گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے نوے سال بعد تک انہیں لوگوں کو اسلام کی تعلیم سکھانے کا موقع ملا.بوجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت بہت نو جوان ہونے اور بہت لمبی عمر پانے کے یہ سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی تھے.اب دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اِس سلسلہ کو کہاں تک ممتد کر دیا مگر بہر حال اس سلسلہ کا امتدادنو جوانوں کے ذریعہ ہی ہوا.اگر ستر اسی سال کے بوڑھے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے تو وہ کہاں کام کر سکتے تھے.اوّل تو اُن کی حالتوں کا سُدھرنا ہی مشکل تھا اور اگر وہ درست بھی ہو جاتے تو اُن میں سے اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو جاتے اور اگر چند لوگ زندہ بھی رہتے تو پانچ سات سال کے بعد وہ بھی ختم ہو جاتے اور جماعت میں کوئی ایسا شخص نہ رہتا جو اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف و آگاہ ہوتا.پس ابتدائی زمانہ میں نوجوانوں کا اسلام میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت تھی اور یہی وہ تدبیر تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کا مقابلہ کیا اور اُس نے نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس نے آپ کی شاگردی میں رہ کر آپ سے تعلیم حاصل کی حتی کہ بعض نے تو اپنا بچپن آپ کی نگرانی میں ہی گزارا.جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کہ وہ گیارہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کا تربیت یافتہ گروہ دُنیا میں موجود رہا اور اس نے اپنی تعلیم اور تربیت سے ایک اور نئی اور اعلی درجہ کی جماعت پیدا کر دی جوی ان کی وفات کے بعد اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رہی.پس خدام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں.یہ نہایت ہی اہمیت رکھنے والا کام ہے اور در حقیقت خدام الاحمدیہ میں داخل ہونا اور اس کے مقررہ قواعد کے ماتحت کام کرنا ایک اسلامی فوج تیار کرنا ہے.مگر ہماری فوج وہ نہیں جس کے ہاتھوں میں بندوقیں یا تلوار میں ہوں کی
خطبات محمود ۱۶۶ سال ۱۹۳۹ء بلکہ ہماری فوج وہ ہے جس نے دلائل سے دُنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے.ہماری تلوار میں اور ہماری بندوقیں وہ دلائل ہیں جو احمدیت کی صداقت کے متعلق ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں، ہماری بندوقیں اور ہماری تلوار میں وہ دعائیں ہیں جو ترقی احمدیت کے متعلق ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں اور ہماری بندوقیں اور ہماری تلوار میں وہ اخلاق فاضلہ ہیں جو ہم سے صادر ہوتے ہیں.پس دلائل، مذہبی دُعائیں اور اخلاق فاضلہ یہی ہماری تو ہیں اور یہی ہماری تلوار میں ہیں.انہی تو پوں اور انہی تلواروں سے ہم نے دُنیا کے تمام ادیان کو فتح کر کے اسلام کا پر چم لہرانا اور اُن پر غلبہ واقتدار حاصل کرنا ہے اور اگر نو جوانوں میں یہ مہم جاری رہی تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مسلح فوج تیار کر لیں گے جس کے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکے گا اور واقع میں اگر ہماری جماعت کے نوجوان مذہب کی تعلیم سے واقف ہو جائیں ، اگر وہ ان دلائل سے واقف ہو جائیں جو غیر مذاہب کے مقابلہ میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور اگر وہ دُعاؤں سے کام لیں تو دنیا کا کون سا انسان ہے جو ان کے مقابلہ میں ٹھہر سکتا ہو.بچپن سے میں نے مباحثات کے میدان میں قدم رکھا ہوا ہے.گو مجھے اس قسم کے مباحثات سے نفرت ہے جو مولوی کیا کرتے ہیں مگر دوسروں سے علمی تبادلۂ خیالات میں بچپن کی کے زمانہ سے کرتا چلا آ رہا ہوں.پس اس بارے میں میرا پینتیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ میں نے کی آج تک دُنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں دیکھا جو کوئی ایسی بات پیش کر سکے جو قر آنی اور کی احمدی تعلیم کے مقابلہ میں معقول بھی قرار دی جا سکے.ہر مذہب کے پیروؤں سے میں نے باتیں کیں اور ہر قسم کے علوم رکھنے والوں سے میری گفتگوئیں ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ایسا ہوا کہ یا تو ان کے اپنے ساتھیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے آدمی کو جواب نہیں آیا اور یا اُنہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی نے تعصب اختیار کر لیا ہے.ورنہ آپ کے مقابلہ میں جو بات پیش کی جارہی ہے یہ کوئی معقول نہیں.دُنیا کا کوئی اعتراض ایسا نہیں جو قرآن مجید پر پڑتا ہوا اور اس کا کافی اور شافی جواب ہمارے پاس موجود نہ ہو یا اللہ تعالیٰ خود ایسے موقعوں پر مجھے جواب سمجھا نہ دیتا ہو بلکہ میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسے سوالوں کے جواب بھی سمجھا دیتا
خطبات محمود ۱۶۷ سال ۱۹۳۹ء ہے جو درحقیقت خارج از ضرورت ہوتے ہیں اور جنہیں پیش کرنا کوئی معقولیت نہیں ہوتی.دُنیا کی میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جن کا دریافت کرنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا تا.اب اگر کوئی شخص ایسا کی سوال کرے اور اس کا جواب نہ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا.مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ ظہر کی چار رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور مغرب کی تین کیوں؟ اسی طرح عشاء کی چار رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں؟ تو اِس بات کا جواب دینا ہمارے لئے کوئی ضروری نہیں.اگر ہم نماز کی پڑھنے والے کا خدا تعالیٰ سے تعلق ثابت کر سکتے ہیں، اگر ہم نماز کے متعلق یہ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ روحانی ترقی کا صحیح ذریعہ ہے تو اس کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ مغرب کی تین رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں یا ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز کی چار چار رکعتیں کیوں ہیں ایک غیر ضروری سوال ہے.خدا تعالیٰ کی ان رکعتوں کے مقرر کرنے میں بار یک دربار یک حکمتیں ہیں جو ضروری نہیں کہ انسان کی سمجھ میں آسکیں اور اس کا ان حکمتوں کی دریافت کے پیچھے پڑنا نادانی ہے.اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب اس پر یہ بات کھل گئی ہے کہ نماز پڑھنا خدا تعالیٰ کا کی حکم ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تو وہ نماز پڑھے.اُسے اِس سے کیا کہ تین رکعتیں کیوں ہیں اور چار کیوں؟ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ ایک دفعہ میں باہر سفر میں تھا کہ میرے لئے ایک کی دوائی کی ضرورت محسوس ہوئی.قریب ہی ہسپتال تھا ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب وہاں دوا لینے گئے.سول سرجن صاحب جو اُس وقت ہسپتال میں موجود تھے اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ انہیں ہسپتال میں لے آئیں.میری مدت سے یہ خواہش ہے کہ انہیں دیکھوں.اس کی طرح میں اپنی خواہش کو بھی پورا کر سکوں گا اور انہیں دیکھ کر کوئی نسخہ بھی تجویز کر دوں گا.چنانچہ میں گیا اور اُس نے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک نسخہ لکھوایا.اس میں صرف تین دوائیں پڑتی تھیں.ایک ٹنکچر نکس وامیکا تھی ، دوسرا سوڈا بائی کا رب اور تیسری دوائی مجھے یاد نہیں رہی.کی اُس نے کہا یہ نسخہ ہے جو تیار کر کے انہیں استعمال کرایا جائے.پھر وہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے کہنے لگا میں نے فلاں دوائی کے اتنے قطرے لکھے ہیں اور فلاں دوائی کی مقدار اتنے گرین (GRAIN) لکھی ہے.میں بوڑھا ہونے کو آ گیا ہوں اور کی
خطبات محمود ۱۶۸ سال ۱۹۳۹ء چند مہینوں میں ریٹائر ہونے والا ہوں میں نہیں بتا سکتا کہ ایک دوا کے اتنے قطروں میں کیا تھ حکمت ہے اور دوسری دوا کے اتنے گرین (GRAIN) ہونے میں کیا حکمت ہے مگر یہ یا درکھیئے کہ اگر آپ میرے نسخہ سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو قطروں اور گرینوں میں کوئی فرق نہ کیجئے.یہ نسبت اگر قائم رہے گی تو نسخہ فائدہ دے گا اور اگر آپ نے نسبت قائم نہ رکھی تو پھر میں اس نسخہ کے مفید ہونے کا ذمہ دار نہیں.آپ اگر پوچھیں کہ ان دواؤں کی مختلف نسبتوں میں کیا حکمت ہے تو یہ میں بتا نہیں سکتا مگر میرا ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ یہی نسبت اگر اس نسخہ میں قائم رکھی جائے تو تی فائدہ ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا.اب اس نسخہ کی دواؤں کے اور ان کی نسبت میں کوئی حکمت ضرور کی تھی اور اُس ڈاکٹر کا وسیع تجربہ یہی بتا رہا تھا کہ اگر اس نسبت کو قائم رکھا جائے تو فائدہ ہوتا ہے اور اگر قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہوتا مگر وہ بتا نہیں سکتا تھا کہ اس میں کیا حکمت ہے اور اُس نے ڈاکٹر صاحب کو بار بار کہا کہ اس نسخہ کے اجزاء کے اوزان میں کمی بیشی نہ ہو کیونکہ اسی نسبت سے ہزاروں لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے اور اگر اس نسبت کو قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ کی نہیں ہوتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بعض باتوں کی حکمت انسانی سمجھ میں نہیں آتی مگر بہر حال جب ان باتوں کے فوائد ظاہر ہوں تو انسان حکمت معلوم کرنے کے جنون میں فائدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ تم مج نے کبھی کسی باپ کو نہیں دیکھا ہو گا جس کی اپنے بیٹے سے اس لئے محبت کم ہوگئی ہو کہ اُسے معلوم کی نہیں اس کی تیلی کہاں ہے اور اس کا معدہ کہاں ہے اور اس کا جگر کہاں ہے اور اس کے پھیپھڑے کہاں ہیں؟ ہزاروں لاکھوں زمیندار ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ انسان کا دل کہاں ہوتا ہے اور اُس کا گردہ ، جگر ، معدہ اور پھیپھڑے کہاں ہوتے ہیں؟ شاید تم میں سے کئی اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ دل کہاں ہوتا ہے اور جگر کہاں ہوتا ہے اور تلی کہاں ہوتی ہے اور معدہ کہاں ہوتا ہے؟ مگر میں تمہیں بتاؤں اگر تم کسی ڈاکٹر کے سامنے کہو کہ جگر یہاں ہوتا ہے اور معدہ یہاں تو وہ فوراً تمہیں بتا دے گا کہ تم غلط سمجھتے ہو.پھر اِن لوگوں کو جانے دو جو جانتے ہی نہیں کہ معدہ تلی ، جگر ، گردہ اور پھیپھڑے وغیرہ کہاں ہوتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں کا علم ہے میں نے دیکھا ہے ان میں سے دس میں سے
خطبات محمود ۱۶۹ سال ۱۹۳۹ء نو ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتے ہیں یعنی جو قولن کی بڑی انتڑی ہوتی ہے ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہمیشہ اُسی کو معدہ سمجھتا ہے اور دل میں یہ خیال کر کے خوش رہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ڈاکٹری میں بھی جانتا ہوں وہ ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتا ہے اور ہاتھ لگا کر کہتا ہے کہ میرے معدے میں در دہورہا ہے حالانکہ وہ درد معدہ میں نہیں بلکہ انتری میں ہوتا ہے.تو تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی صحیح طور پر ان اعضاء کا علم نہیں ہوتا.گجا یہ کہ غیر تعلیم یافتہ طبقہ کو ان باتوں کا علم ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ اس علم کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہہ دے کہ میں اس وقت تک اپنے بیٹے سے محبت نہیں کر سکتا جب تک اس کا پیٹ چاک کر کے یہ دیکھ نہ لوں کہ اس کا معدہ کہاں ہے اور جگر کہاں ہے اور تلی کہاں ہے اور پھیپھڑے کہاں ہیں؟ پھر جب اپنے بیٹے کے متعلق انسان ایسی بحثوں میں نہیں پڑتا تو خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق وہ کیوں اپریشن کرنا چاہتا ہے اور کیوں یہ خیال کرتا ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق میرا فلاں فلاں سوال حل نہ ہو جائے اُس وقت تک میرا دل اس سے محبت نہیں کر سکتا.اگر خدا تعالیٰ کے بے شمار احسانات انسانوں پر ثابت ہو جائیں ، اگر یہ واضح ہو جائے کہ انسان کو ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی رضا کی ضرورت ہے، اگر اس کے قرب کی راہیں انسان پر کھل جائیں ، اگر عرفان اور محبت الہی کی ضرورت انسان پر واضح ہو جائے اور اگر یہ بات کھل جائے کہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے تو پھر انسان کو اس سے کیا کہ خدا ازلی ابدی کیونکر ہو گیا؟ وہ غیر محدود کس طرح ہو گیا ؟ اُس نے نیست سے ہست کس طرح کر دیا ؟ تم ان باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کا محبت الہی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کسی انسان کی یہ طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بے انتہاء اندرونی اسرار کو معلوم کر سکے تو ہر بات کی حکمت سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ محبت کے لئے صرف اس قدر معرفت ضروری ہے کہ انسان کو وہ کی محاسن اور خوبیاں معلوم ہو جائیں جو اس کے محبوب کے اندر ہوں.اُسے اس بات کی ضرورت کی نہیں ہوتی کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ اس کے محبوب کا جگر کہاں ہے اور معدہ اور گردے اور پھیپھڑے کہاں ہیں؟ مگر پھر بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں کی حکمتیں سمجھا دیتا ہے جن کی حکمتیں معلوم کرنے کی محبت اور معرفت کے لئے ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ان حکمتوں کا
خطبات محمود ۱۷۰ سال ۱۹۳۹ء اس سے کوئی تعلق ہوتا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ مغرب کی فرض نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور ان رکعتوں کی تعداد تین مقرر کرنے میں کیا حکمت ہے؟ میں چونکہ بعض خطبات اور خطوط وغیرہ میں نماز کی رکعتوں کی حکمت کے متعلق وقتا فوقتا بعض باتیں بیان کر چکا ہوں اس لئے میں نے انہیں کہا کہ بعض دوستوں کے خطوں کے جوابات اور خطبوں کی وغیرہ میں ایسی باتیں چھپ چکی ہیں آپ اگر معلوم کرنا چاہیں تو انہیں تلاش کر کے دیکھ لیں.وہ ایک دعوت کا موقع تھا جب یہ سوال میرے سامنے پیش ہوا اور پھر اس کے بعد اور باتیں شروع ہو گئیں اور اس سوال کا خیال میرے ذہن سے بالکل جاتا رہا.اس کے بعد ایک دن گزرا، پھر دوسرا دن گزرا اور پھر تیسرا دن شروع ہو گیا.تیسرے دن مغرب کی نماز کے بعد سنتیں پڑھ کر میں تشہد میں بیٹھا تھا اور سلام پھیرنے کے قریب تھا کہ یکدم اللہ تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کرنے کی ایک جدید حکمت میرے دل میں ڈال دی اور عین سلام پھیرنے کے قریب جس طرح بجلی کی رو جسم میں سرایت کر جاتی ہے اُسی طرح وہ علم میرے دل کی پر نازل ہوا اور وہ یہ تھا کہ نماز میں اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی بنائی ہیں.کچھ فرض نمازوں کا تو وہ حصہ جو دن میں ادا کیا جاتا ہے اور کچھ فرض نمازوں کا وہ حصہ ہے جو رات کے وقت ادا کیا جاتا ہے.کیونکہ دن اور رات کی نمازوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلانا کی چاہتا ہے کہ انہیں خوشی کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے اور مصیبتوں کے وقت میں بھی اس کی عبادت میں مشغول رہنا چاہئے.ترقی کے زمانہ میں بھی اس کی طرف جھکنا چاہئے اور تنزل کے زمانہ میں بھی اِس کے دروازہ پر گرا رہنا چاہئے تو اس حکمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کو دو حصوں میں منقسم کر دیا اور ایک حصہ تو دن میں رکھا اور دوسرا حصہ رات میں.اس طرح پانچ نمازیں چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان کو نماز پڑھنی پڑتی ہے.دوسری طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نظر آتا ہے کہ وہ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے وہ خود بھی ایک ہے اور دوسری اشیاء کے متعلق بھی وہ یہی پسند کرتا ہے کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء وہ طاق ہوں ہے چنانچہ یہ حکمت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے مگر یہ ایک الگ اور وسیع مضمون ہے جس کو اس وقت بیان نہیں کیا جاسکتا.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قانونِ قدرت میں اللہ تعالیٰ نے طاق کو قائم رکھا ہے اور اس کے ہر قانون پر طاق حاوی ہے.قرآن کریم کے محاوروں اور سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاوروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات کے عدد کو تکمیل کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کو سات دن میں بنایا.اسی طرح انسان کی روحانی ترقیات کے سات زمانے ہیں.پھر آسمانوں کے لئے بھی قرآن کریم میں سبع سموات سے کے الفاظ آتے ہیں اور یہ طاق کا عدد ہے.تو طاق کا عدد اللہ تعالیٰ کے حضور خاص حکمت رکھتا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم تمام قانونِ قدرت میں دیکھتے ہیں.اب اس قانون کے مطابق اگر فرض نمازوں کی رکعات کو جمع کرو تو وہ طاق ہی بنتی ہیں.چنانچہ ظہر کی چار ، عصر کی چار، مغرب کی تین ، عشاء کی چار اور فجر کی دو گل ۱۷ رکعات ہوتی ہیں اور اس طرح فرض نماز کی رکعتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے طاق کی نسبت کو قائم رکھا ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں میں طاق مد نظر رکھا گیا ہے اس لئے پانچ نمازوں میں سے ایک فرض نماز کی رکعتیں تین کر دی گئیں تا کہ طلاق کے متعلق اللہ تعالیٰ کا جو قانون ہے وہ نمازوں میں بھی آجائے.اسی طرح وتروں کی نماز کو طاق اس لئے بنایا گیا ہے کہ نوافل بھی کی طاق ہو جائیں اور اسی وجہ سے وتروں کو معمولی سنتوں سے زیادہ وقعت دے دی گئی ہے تا کہ مسلمان انہیں ضرور ادا کرے اور اس کے نوافل طاق ہو جایا کریں اور یہی وجہ ہے کہ وتروں کے سوا اور کوئی نفل طاق نہیں ہوتا.تا دو طاق مل کر جفت نہ ہو جائیں اور یہی حکمت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کبھی عشاء کے وقت وتر پڑھ لیتے تو تہجد کے وقت ایک رکعت پڑھ کر انہیں جفت کر دیتے کے تا کہ تہجد کے آخر میں آپ وتر پڑھ سکیں اور ان کے کی پڑھنے سے نوافل جفت نہ ہو جا ئیں.اب اس پر سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مغرب کی نماز کی ہی تین رکعتیں کیوں مقرر کی گئی ہیں؟ کسی اور نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر نہیں کر دی گئیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سوال کا بھی
خطبات محمود ۱۷۲ سال ۱۹۳۹ء جواب سمجھایا اور وہ یہ کہ دن کی نمازوں کی رکعات ہیں آٹھ اور رات کی فرض نمازوں کی رکعات ہیں تو.چنانچہ دیکھ لو! مغرب کی تین ، عشاء کی چار اور فجر کی دو گل ۹ رکعت بنتی ہیں.چونکہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ دونوں نمازیں بھی دراصل رات کی ہی نمازیں ہیں اور ان نمازوں کی ایک رکعت زیادہ کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسان کو تکلیفوں اور مصیبتوں کے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئے تا کہ وہ اس کے فضلوں کو جذب کر سکے.اسی لئے دن کے وقت اللہ تعالیٰ نے آٹھ رکعات نماز کی رکھیں اور رات کے وقت کو.باقی رہا مقام کا سوال کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک رکعت کی زیادتی مغرب میں کیوں کی ہے؟ کسی اور نماز میں کیوں نہیں کر دی ؟ تو اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا اور وہ یہ کہ صبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے خاص طور پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کی تلاوت قرآن کی خبر دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان سو کر اُٹھتا ہے تو اُس وقت اُس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور نئے دور کے ابتداء کے وقت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر بلند ارادے پیدا کرے اور کہے کہ میں یوں کروں گا ، ہمیں ووں کروں گا اور یہ تمام باتیں چونکہ قرآن کریم میں موجود ہیں اس لئے جب سو کر اٹھنے کے بعد انسان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے اُسے اس کے روحانی پروگرام کی طرف توجہ دلانے کے لئے اسلام نے اس وقت قرآن کریم کی لمبی تلاوت کی مقرر کر دی اور حکم دیا کہ فجر کی نماز میں قرآن کریم کی لمبی تلاوت کی جائے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا معاملہ احکام میں ٹیسر کا ہے عسر کا نہیں اس لئے فجر کی نماز اس نے باقی تمام نمازوں سے چھوٹی کر دی تا کہ لمبی تلاوت کی جاسکے.پس فجر کی نماز کو تو اس نے چھوٹا کیا لیکن تلاوت قرآن کولمبا کر دیا.کیونکہ اس وقت اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے مضامین بار بار سامنے آئیں.پس فجر کی نماز کو چھوٹا کرنا ضروری تھا تا تلاوت کو لمبا کیا جا سکے.یہ نماز در حقیقت عصر کی نماز کے مقابل پر ہے اور ظاہر میں اس کے عدد کو عصر کے ساتھ اس طرح بھی کی مشابہت ہو جاتی ہے کہ عصر کے ساتھ کوئی سنت مؤکدہ نہیں ہیں اور صبح کے ساتھ دوسنتیں ایسی ہیں جو عام مؤکدہ ہیں.اس طرح صبح کی رکعتیں بھی چار ہو جاتی ہیں اور عصر کی بھی چار ہوتی ہیں.کی
خطبات محمود ۱۷۳ سال ۱۹۳۹ء اس کے مقابل پر عشاء کی نماز ظہر کے مقابل پر ہے اور اس میں دوسنتیں اور تین وتر لازمی کی ہیں.وتر کی رکعت نکال دی جائے تو چار نوافل ہو جاتے ہیں.یہ ظہر کی دو دو سنتیں فرض کر کے کی ظہر کی سنتوں کے برابر ہو جاتی ہیں لیکن اگر چھ یا آٹھ سنتیں قرار دی جائیں تو پھر یہ کم رہ جاتی ہیں لیکن جب دیکھا جائے کہ اس کے بعد تہجد پر زور دیا گیا ہے تو ظہر کے نوافل کی کمی کا ازالہ کی اس سے ہو جاتا ہے.علاوہ ازیں وتروں کے بعد بھی دو نفل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص تعہد سے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے.شے اس سے بھی ظہر اور عشاء کی رکعات برا بر ہو جاتی ہیں مگر یہ ایک وسیع مضمون ہے.میں نے اشارۃ اس کی طرف توجہ دلائی ہے.غرض عشاء کی نماز جو عصر کی نماز کے مقابلہ میں تھی اس میں کسی زیادتی کی گنجائش نہیں تھی.صرف مغرب کی نماز ہی رہتی تھی جسے طاق بنانے کے لئے اس میں ایک رکعت کی زیادتی کی جا سکتی تھی.اسی حکمت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کر دیں کیونکہ کسی نماز کا تین رکعت پر مشتمل ہونا نمازوں کے طاق بنانے کے لئے ضروری تھا اور ادھر ضروری تھا کہ یہ زیادتی رات کی نمازوں میں کی جائے.یہ جتانے کے لئے کہ مصیبت کے وقت انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر رات کی نمازوں میں سے فجر میں یہ زیادتی نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہاں لمبی تلاوت قرآن کا حکم دے دیا گیا تھا.عشاء کی نماز میں بھی یہ زیادتی نہیں ہو سکتی تھی صرف مغرب کی نماز رہتی تھی.سوخُدا نے مغرب کی نماز میں مسلمانوں کی کو تین رکعت پڑھنے کا حکم دے دیا.اب بظاہر اس حکمت کے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر آمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہنا چاہئے نہ یہ کہ تفصیلات میں پڑ کر انسان کی بار یک در بار یک حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش کرے اور اگر ایسی ہی باتوں میں انسان مصروف ہو جائے تو کہہ سکتا ہے کہ پہلے رکوع کیوں رکھا اور سجدہ بعد میں کیوں رکھا ؟ کیوں نہ سجدہ پہلے رکھ دیا اور رکوع بعد میں؟ اور گو اس میں بھی حکمتیں ہیں مگر تمہارا کام یہ نہیں کہ تم ان باتوں میں اپنا وقت ضائع کرو.تمہیں جب رکوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو تم رکوع کرو ، جب سجدہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو سجدہ کرو.تم پر جب نماز کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے تو تمہارا یہ کام ہے کہ جس طرح خدا نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے اسی طرح تم نمازیں پڑھو نہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی بات کی حکمت
خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۹ء دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاؤ.تو ضروری نہیں ہوتا کہ ان باتوں کی حکمتیں سمجھائی جائیں.مگر بعض دفعہ اللہ تعالیٰ سمجھا بھی دیتا ہے اور اس طرح قرآنی علوم کھولتا رہتا ہے.بہر حال مباحثات کے باب میں میرا وسیع تجربہ یہ ہے کہ قرآنی علوم ایسے ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی دشمن نہیں کر سکتا.اگر ہماری جماعت کے نوجوان ان قرآنی علوم کو سیکھ لیں تو جو دلائل اور براہین کی لڑائی ہے اس میں کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.دوسری چیز عمل ہے.اگر نوجوان اخلاق فاضلہ سیکھ لیں اور پھر عملی طور پر بھی ان کا قدم کی ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے تو دُنیا کیا بڑے بڑے دینوں پر بھی وہ غالب آ سکتے ہیں.تیسری چیز سامانوں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے.اِس کے لئے میں نے دُعا کا طریق بتایا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں اور ہمارے سامانوں کی کمی کو پورا کر دیں اور یقیناً اگر ہماری جماعت کے نوجوان نہ صرف دلائل سے کام لینے والے کی ہوں ، نہ صرف اخلاق فاضلہ کے مالک ہوں بلکہ دُعاؤں سے بھی کام لینے کے عادی ہوں تو ان کے مقابلہ میں کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی.میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے ایک پروگرام پیش کر دیا ہے اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان باتوں کو یا درکھیں جو میں نے بیان کی ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور ملکی خدمات کے لئے تیار رکھیں.دُنیا میں قریب ترین عرصہ میں عظیم الشان تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور در حقیقت تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اُس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ سکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی اُن دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا.پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرے سے بچاؤں مگر بعض کی اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اُس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا.جبکہ روح القدس میرے دل پر اُترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس نے مجھے
خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۹ء ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم، ایک دُنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل میں نازل کر دی اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی کی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.قرآنی سکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی کھلتے ہیں مگر پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہہ سکوں کہ اِس اِس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہوگی ، اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے؟ کتنی کھڑکیاں ہوں گی ، کتنے دروازے ہوں گے؟ کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی؟ اسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں.دُشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں.اس کی کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میرے آنکھوں کے سامنے موجود ہیں.تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو کی اُس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.پس پہلے میں صرف ان باتوں پر ایمان رکھتا تھا مگر اب میں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ میں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا؟ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے اُس فوج کی جس فوج نے احمدیت کے دُشمنوں سے مقابلہ میں جنگ کرنی ہے، جس نے احمدیت کے جھنڈے کو فتح اور کامیابی کے ساتھ دشمن کے مقام پر گاڑنا ہے.بے شک وہ لوگ جوان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو دیتا ہے.میں خود بھی اس وقت تک ان باتوں کو کی نہیں سمجھا تھا جب تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان امور کا انکشاف نہ کیا.پس تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور بیشک تم کہہ سکتے ہو کہ ہمیں تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن مجھے تمام باتیں نظر آ رہی ہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء آج نو جوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دُنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی.ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذ بہ اُن کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اُس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اُٹھالیا ہے اور صور اسرافیل اُن کے سامنے پھونکا جا رہا ہے.جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اُس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا کی تصرف ان پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں.جب وہ کہے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں ، جب کہے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں.جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اُس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا اور اُسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے اسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دُنیا میں اسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا.‘ ( الفضل ۷ ا پریل ۱۹۳۹ ء ) ل اسد الغابة جلد ا صفحه ۱۲۸ مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ھ بخارى كتاب الدعوات باب الله مائة اسم البقرة :٣٠ مصنف ابن ابي شيبة كتاب الصلوة باب فى الرجل يوتِرُ ثم يقوم بعد ذلک.کے مطابق روایات سے حضرت عثمانؓ ، حضرت عبداللہ بن عمررؓ اور حضرت سعد بن مالک کے متعلق ثابت ہے کہ وہ اسی طرح کیا کرتے تھے.ه السنن الكبرى بيهقى كتاب الصلوة باب في الركعتين بعد الوتر.
خطبات محمود 122 11 سال ۱۹۳۹ء مومن کو ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے بچنا چاہئے کہ یہ قوم کی تباہی کا موجب ہوتے ہیں ( فرموده ۱٫۷ پریل ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جسمانی نشو ونما اور روحانی نشو و نما میں ایک عجیب فرق نظر آتا ہے جس کی طرف بہت ہی کم لوگوں نے توجہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جسمانی نشو و نما کی ابتدا میں انسان کا ذہن زیادہ تر اپنی طاقت اور قوت کی طرف جاتا ہے اور جوں جوں انسانی جسم میں طاقت اور قوت پیدا ہوتی ہے اور وہ ہوش سنبھالتا ہے اُس کی نظر نہایت ہی محدود ہوتی چلی جاتی ہے یا محدود ہوتی ہے اور وہ اپنی طاقتوں اور قوتوں پر ایسا گھمنڈ رکھتا ہے کہ خیال کرتا ہے دُنیا کا ہر کام میری ہی مرضی اور منشاء کے ماتحت ہوتا ہے.پھر جب انسانی جسم کی نشو و نما کا وقت ختم ہونے کو ہوتا ہے.اضمحلال اور کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے اس کی نظر اپنے سوا دوسری چیزوں پر بھی پڑنے لگتی ہے.اس کے دماغ میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے جسے لوگ تجربہ کہتے ہیں اس تجربہ کے ماتحت آہستہ آہستہ اسے دوسری قوتوں اور طاقتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.وہ سمجھتا ہے دُنیا میں تغیرات صرف میرے یا میرے دوستوں کے ذریعہ ہی نہیں ہو ر ہے بلکہ اس کے اسباب اور بھی ہیں جو بعض دفعہ نظر بھی نہیں آتے مگر دُنیا کے تغیرات پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں اور آخر جب آہستہ آہستہ
خطبات محمود ۱۷۸ سال ۱۹۳۹ء انسان کی طاقتیں بالکل ہی کمزور ہو جاتی ہیں اور اُس کا جسم ڈھل جاتا ہے وہ کمزور ہو جاتا ہے، بے طاقت ہو جاتا ہے تو پھر اُس کی نگاہ دُنیوی اسباب سے ہٹ کر اُن بار یک اسباب کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو کہ اُس کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے والے ہوتے ہیں یا کم سے کم وہ خیال کرتا ہے کہ اُن تغیرات میں ان کا دخل ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس میں انسان کا کوئی دخل ہی نہیں بلکہ ایک بالا ہستی سب کچھ انسان سے کرا رہی ہے.اس کے مقابلہ میں روحانی نشوونما میں ایک عجیب فرق ہے.وہ قو میں جن کے اندر روحانیت ہوتی ہے اور جو دنیا کی روحانیت کا سبق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑی کی جاتی ہیں اُن کے اندر جوانی میں وہ چیز پیدا ہوتی ہے جو جسمانی نشوونما میں بڑھاپے میں ہوتی ہے.ان کے اندر انکسار بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اُن کی نگا ہیں ہمیشہ بالا ہستی کی طرف اُٹھتی ہیں اور اُن کو یقین ہوتا ہے کہ وہی اس کا رخانے کو چلانے والا ہے.جوانی کا جوش ان کے اندر خود رائی اور خود پسندی پیدا کرنے کے بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی طرف توجہ یدا کرتا ہے اور یہ ایسا نمایاں فرق ہے جو دُنیا میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میں ہمیں نظر آتا ہے.ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ جسمانی نشوونما میں جوانی میں انسان کی نگاہیں کس طرح اپنی جسمانی طاقتوں تک ہی محدود ہوتی ہیں اور پھر بڑھاپے کے ساتھ کس طرح دماغ میں وہ تجربہ پیدا ہوتا ہے جو بیرونی اثرات اور تاثیروں کی طرف اسے متوجہ کرتا ہے.یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ انسان کی طاقت کچھ بھی نہیں.تم روزانہ نوجوانوں اور بوڑھوں کو باتیں کرتے سنتے ہو.ایک کی فریق کہتا ہے کہ میں یوں ماروں گا، کوٹوں گا ، یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا مگر دوسرا کہتا ہے کہ ایسا نہیں کی کرنا چاہئے دُنیا میں مل کر رہنا چاہئے ، اتنا جوش نہیں دکھانا چاہئے.ہر جگہ ، ہر گھر ، ہر خاندان ، ہر حکومت اور ہر جتھے میں یہ باتیں نظر آتی ہیں.جوانوں کے دل میں یہ خیالات ہوتے ہیں کہ دُنیا کی میں کوئی ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.بسا اوقات مقابل کی طاقتوں کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ انہیں حقیقی طاقت حاصل نہیں ہوتی.مجرم کس لئے حکومتوں سے ٹکراتے ہیں؟ اسی لئے کہ ان کی نگاہیں اپنے سے اوپر جاتی ہی نہیں نہ وہ پولیس کی پرواہ کرتے ہیں ، نہ مجسٹریٹ کی اور نہ حکومت کے دوسرے اداروں اور اُس کی فوجوں کی.وہ جوش میں کھڑے ہو جاتے ہیں کی
خطبات محمود ۱۷۹ سال ۱۹۳۹ء اور کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ ایک جنون کی حالت اُن کے اندر پیدا ہوتی ہے.اُن کے اندر جب جوانی کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طاقت ساری دُنیا کو تباہ کر دے گی لیکن جب جوانی کی یہ حالت نہیں رہتی تو ہوش آتا ہے اور وہ پچھتاتے ہیں.لوگ آپس میں لڑتے ہیں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں.کوئی روکتا ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں چھوڑ دو ہم مریں گے یا مار دیں گے لیکن جب کوئی قتل ہو جاتا ہے اور مقدمات بنتے ہیں تو پھر وکیلوں کی کے آگے ناک رگڑتے ہیں ، جائداد میں فروخت کر کے مقدمات کی پیروی پر لگا دیتے ہیں.جس وقت کوئی ایسا شخص لڑنے کے لئے جا رہا ہوتا ہے اُس وقت اُس کی دماغی کیفیت اور ہوتی ہے مگر جب پکڑا جاتا ہے اُس وقت اور ہوتی ہے.لڑائی کے وقت تو وہ کہتا ہے کہ میں کسی کی پروا نہیں کرتا.وہ کس قدر غصہ کے ساتھ ہر نصیحت کو ٹھکرا دیتا ہے لیکن جب پکڑا جاتا اور حوالات میں بند ہوتا ہے تو پھر بے انتہا منت سماجت کرتا اور پوچھتا ہے کیوں وکیل صاحب میں بچ جاؤں گا ؟ وہ رشتہ داروں کی منتیں اور خوشامد میں کرتا ہے اور اُن سے کہتا ہے کہ جھوٹے گواہ بناؤ اور جس کی طرح بھی ہو سکے مجھے بچاؤ.دیکھو! ان دونوں کیفیات میں کتنا فرق ہے.تو جسمانی نشوونما میں بڑھاپے کے وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ روحانی نشو و نما میں جوانی کی حالت میں ہوتی ہے.روحانی جماعت پر جب جوانی کی حالت ہو اُس وقت اس میں زیادہ انکسار ہوتا ہے اور جب اس میں اضمحلال پیدا ہو اُس وقت اس کے اندر خود پسندی اور خود رائی پیدا ہوتی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیکھ لو، حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت کو دیکھ لو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو دیکھ لو، سب کی یہی حالت تھی.جب وہ اپنے انبیاء کی صحبت میں اپنے اندر وہ قو تیں پیدا کر رہے تھے جن سے وہ دنیا کو کھا جانے والے تھے اُس وقت ان میں غیظ و غضب کے بجائے انکسار اور فروتنی پائی جاتی تھی جو جسمانی نشو و نما کے وقت میں نہیں پائی جاتی.وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ نہ معلوم انجام کیا ہو نے والا ہے.انہیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر اعتبار تھا مگر یہ ان میں تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرتا ت تھا بلکہ اس کی وجہ سے اُن کی قربانیاں بڑھتی تھیں، اُن کی زبانیں زیادہ دعوے نہیں کرتی تھیں کی اور اُن کے دل نڈر نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے خوف سے بھرے ہوئے تھے اور یہی ثبوت تھا
خطبات محمود ۱۸۰ سال ۱۹۳۹ء اس بات کا کہ وہ خدا تعالیٰ کی جماعت تھے.جسمانی جوانی کے وقت انسان دوسری طاقتوں کو کی بھول جاتا ہے اور متکبر اور خود پسند ہو جاتا ہے لیکن روحانی طاقت جتنی بڑھتی ہے اُتنا ہی زیادہ انکسار بڑھتا ہے.روحانیت کی جوانی عرفان سے وابستہ ہوتی ہے اس لئے وہ انسان کے اندرا نکسار کو بڑھاتی ہے.اس کا تجربہ جوانی میں بڑھتا ہے مگر جسمانی نشو ونما کا تجربہ بڑھاپے میں بڑھتا ہے.روحانیت میں وہ کیفیتیں جوانی میں پیدا ہوتی ہیں جو جسمانیت میں بڑھاپے میں ہوتی ہیں.جسمانی طور پر جو شخص جو ان ہو اس کے اندر خود پسندی اور تکبر پیدا ہوتا ہے لیکن روحانی کی طور پر جو جماعت بوڑھی ہو جائے اُس کے اندر یہ کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں.جسمانی طور پر جو کمزور ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ دُنیا میں اور اثرات بھی ہیں جو دُنیا میں کام کر رہے ہیں.کوئی بالا طاقت ہے جو کام کر رہی ہے اور دُنیا میں جو نتائج پیدا ہو رہے ہیں وہ صرف میرے کاموں سے ہی نہیں اس میں میرے دوستوں بلکہ دشمنوں کا بھی دخل ہے.اس میں اتفاقات کا بھی خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط دخل ہے ،سورج اور چاند کے اثرات کا بھی دخل ہے، ماحول کا بھی اثر ہے، حکومت کا بھی اثر ای ہے لیکن جوان ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو میں چاہوں گا وہی ہو جائے گا مگر روحانی سلسلوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے.جوانی کے وقت میں ان کی نظریں وسیع ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ پر ان کا تو کل بڑھا ہوا ہوتا ہے، انہیں اپنی قوتوں کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے کچھ نہیں ہوسکتا.دُنیا میں جو تغیر پیدا وسکتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کی حالت ایسی انکساری کی تھی کہ اُن کے نفس بالکل مرے ہوئے تھے لیکن جب یزید کے وقت میں ان کے اندر اضمحلال کے اثرات پیدا ہوئے تو اُن کے مُنہ سے ایسے ایسے اقوال سُننے میں آئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.کبھی کبھی روحانی جماعتوں میں بھی ایسے دورے ہوتے ہیں مگر وہ عارضی ہوتے ہیں.مکہ کے لوگ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اس لئے اُن پر ابھی کی روحانی لحاظ سے جوانی نہ آئی تھی اور وہ اس سے کورے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنگ پیش آگئی اُنہوں نے کہا کہ ہم بھی اس میں شریک ہوں گے اور بتا ئیں گے کہ ہم کیسے بہادر ہیں لیکن جب جنگ شروع ہوئی اور دشمن نے دوطرف سے تیر برسانے شروع کئے تو وہ کی
خطبات محمود ۱۸۱ سال ۱۹۳۹ء سر پر پاؤں رکھ کر ایسے بھاگے کہ اُن کو پتہ ہی نہ رہا کہ کدھر جا رہے ہیں؟ اُن کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کے اونٹ اور گھوڑے بھی ڈر کر ایسے بھاگے کہ بے قابو ہو گئے اور اس لئے صحابہ بھی کی بغیر ارادہ کے بھاگنے لگے یا یہ نظارہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے دکھایا کہ تا بتائے کہ روحانی جوانی کی اور بڑھاپے میں کیا فرق ہے؟ نئے داخل ہونے والوں میں بڑ مارنے کی عادت تھی مگر صحابہ میں یہ بات نہ تھی.منہ کی بکو اس اُن لوگوں میں ہوتی ہے جن میں روحانی جوانی نہیں ہوتی.ایسے ہی لوگوں میں اپنی طاقت پر گھمنڈ اور غرور ہوتا ہے.پس ہماری جماعت میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اس معیار کے مطابق اپنی ایمانی حالت کا اندازہ کر سکتا ہے جو دیکھے کہ اس کے اندر غرور اور تکبر ہے، وہ سمجھ لے کہ اُس کی روحانیت کمزور ہے اور اُس پر بڑھاپے کی کیفیت ہے.بڑھاپے میں عقل خراب ہو جاتی ہے ، جسمانیت میں بعض اوقات ایسے بوڑھے لوگ بھی جن کے ہاتھ رعشہ سے کانپ رہے ہوتے ہیں ، طاقت بالکل جواب دے چکی ہوتی ہے مگر غصہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم بتا دیں گے، ہڈیاں چبالیں گے.حالانکہ ان سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا.یہ جنون کی حالت ہے جس کے اندر یہ حالت پیدا ہو وہ سمجھ لے کہ اُس کے اندر روحانی زندگی باقی نہیں.جس کے اندر زندگی موجود ہو وہ کام کیا کرتا ہے، زبانی دعوے نہیں کیا کرتا.اس کے اندر انکسار ہوتا ہے وہ اپنی طاقت اور اُس کی حدود کو سمجھتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے میرے اندر جو طاقت ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی طاقت کا انعکاس ہے.کیا پتہ ہے کہ اگر میں کام کرنے لگوں تو اللہ تعالیٰ اپنا منہ مجھ سے پھیر لے اور میں اُس کے مقابل نہ رہوں.اس لئے وہ کبھی گھمنڈ اور غرور نہیں کرتا کیونکہ گھمنڈا اپنی چیز پر ہوتا ہے لیکن جو سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ گھمنڈ کیسے کر سکتا ہے؟ پس مومن کو ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے بچنا چاہئے کہ یہ قوم کی تباہی کا موجب ہوتے ہیں.ان کی وجہ سے بسا اوقات قوم ایسا اقدام کر بیٹھتی ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے.ایسے لوگ ہمیشہ کام کو خراب کرنے والے ہوتے ہیں.میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر یا جب میں تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں تو بعض لوگ ایسے وعدے کر دیتے ہیں
خطبات محمود ۱۸۲ سال ۱۹۳۹ء اور ایسے ایسے دعوے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.ایک دفعہ مجلس شوریٰ میں ایک شخص نے تقریر کی کہ جماعت میں فلاں فلاں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ہمیں ان کا اس اس طرح مقابلہ کرنا چاہئے.ہمیں یہ کرنا چاہئے ، وہ کرنا چاہئے.اُس وقت اس جماعت کے جس کا وہ فرد تھا ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے اُس شخص کے بعض سوالات تھے جن کے متعلق میں نے اس بزرگ سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس شخص نے چھ سال سے کوئی چندہ نہیں دیا.تو ایسے دعوے ایمانی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں.حضرت خلیفہ اول طب کے متعلق ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک مشہور طبیب کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھا شخص آیا اور اُس نے کہا کہ مجھے کھانسی کی شکایت ہے.وہ شخص بہت بوڑھا تھا.ایسا بوڑھا جسے گور کے کنارے کہا جاتا ہے.طبیب نے اُسے کہا کہ آپ کی یہ کھانسی عمر کا تقاضا ہے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اب اُس کی کھانسی کے علاج کا وقت نہیں.اس پر اُس نے کہا کہ کچھ حرارت بھی رہتی ہے.طبیب نے کہا یہ بھی تقاضائے عمر ہے.اُس نے کہا کہ قبض بھی رہتی ہے.طبیب نے کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے.پھر اُس نے کہا کہ مجھے کھانا نہیں ہضم ہوتا اور اس پر بھی طبیب نے یہی کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے.اس نے کہا نیند نہیں آتی اور طبیب نے پھر یہی کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے.اس نے کی اسی طرح پانچ سات بیماریاں بتائیں اور طبیب نے ہر ایک کے متعلق یہی جواب دیا.اس پر بوڑھا بے تحاشا گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ بڑے طبیب بنے پھرتے ہو طبیب عقلمند تھا اُس نے اُن گالیوں پر بھی یہی جواب دیا کہ یہ بھی تقاضائے عمر ہے.تو اس قسم کی حالتیں انسانی کمزوری کی کی دلیل ہوتی ہیں.منہ کے دعوے اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتے.ایسے دعوؤں سے بسا اوقات لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بڑا مفید وجود ہے لیکن یہ صیح نہیں.حقیقتاً ایسے دعوے کمزوری کی علامت کی ہوتے ہیں طاقت کی علامت نہیں.اس بوڑھے کا حکیم کو گالیاں دینا اس کی کسی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ بڑھاپے کی کمزوری کی وجہ سے تھا.روحانی جماعتوں میں جو لوگ ایسے دعوے کرتے ہیں اُن میں بھی روحانی طور پر بڑھاپا ہوتا ہے یا پھر اُن پر جوانی آئی ہی نہیں ہوتی.وہ ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں.بعض لوگ ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں اور اُن پر جوانی آتی ہی نہیں
خطبات محمود ۱۸۳ سال ۱۹۳۹ء اور بعض بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ سے کی دُعا سکھائی کی ہے کہ یا اللہ روحانی جوانی آنے کے بعد پھر بڑھا پا نہ آئے.کیونکہ جو اچھے دن دیکھ چکا ہو گی اُس کے لئے خرابی کے دن بہت تکلیف کا موجب ہوتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ سے ایک دفعہ تعلق ہونے کے بعد اس سے دوری بہت زیادہ افسوس کا موجب ہوتی ہے.مجھے جماعت کے ایک آدمی کا علم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت اچھا مخلص تھا اور قربانی کا بھی اسے موقعہ ملا مگر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شامت مقدر تھی اور اس نے کی آخری زمانہ میں چندہ بلکہ نمازیں بھی چھوڑ دیں اور اگر کوئی نصیحت کرتا تو کہتا کہ ہم نے بڑی قر بانیاں کی ہیں اب کوئی ضرورت نہیں.تو یہ رُوحانی بڑھاپا ہوتا ہے اور زبانی دعوے کرنے والے دراصل اپنی روحانی کمزوری کا اظہار کرتے ہیں.مومن جو کچھ منہ سے کہتا ہے اُس سے زیادہ کر کے دکھاتا ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ مجلس شوری یا تحریک جدید میں بعض لوگ بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں مگر بعد میں ایسے خاموش ہو جاتے ہیں کہ کوئی وجہ بھی سمجھ میں نہیں کی آتی.بعض تو بے شک اخلاص سے جو قر بانی کرنی ہوتی ہے کر دیتے ہیں اور جو وعدہ کرتے ہیں اُس کے ایسے پابند ہوتے ہیں کہ یاد دہانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بعض زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن انہیں پورا نہیں کرتے.پس مومن کو چاہئے کہ اپنے نفس کا مطالعہ کرتا رہے اگر تو اُس کے زبانی دعوے زیادہ ہیں اور عمل سست ہے تو وہ سمجھ لے کہ روحانی بڑھاپا شروع ہو چکا ہے یا جوانی آئی ہی نہیں اور ایسے ہی لوگ یاد رکھیں کہ وہ جماعت کی طاقت کا موجب نہیں ہوتے بلکہ اُس کی کمزوری کا موجب ہوتے ہیں.ہر سال مجلس شوری اور تحریک جدید کے اعلان کے موقع پر میں نے تجربہ کیا ہے کہ کچھ لوگ زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عمل میں بہت کمزوری دکھاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دعووں کی وجہ سے بسا اوقات اندازے غلط ہو جاتے ہیں.مجلس شوری جب ختم ہوتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب تمام مالی مشکلات دُور ہو جائیں گی مگر اُن کے جانے کے بعد کچھ پتہ ہی نہیں رہتا کہ وہ وعدے کہاں گئے ؟ اور وعدے کرنے والے کہاں گئے ؟ اسی طرح تحریک جدید میں میں دیکھتا ہوں ایک بڑا حصہ تو بے شک اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ،
خطبات محمود ۱۸۴ سال ۱۹۳۹ء لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا اور وعدہ کرنے کے بعد ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا اُس نے کوئی وعدہ کیا ہی نہ تھا اور جب میں سیکرٹریوں سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ دس دس خط لکھے ہیں لیکن کسی کا جواب نہیں آیا.جب میں دوبارہ اعلان کرتا ہوں تو پھر ان کی پچٹھیاں آنے لگتی ہیں کہ ہمارا وعدہ قبول کر لیا جائے اور گزشتہ وعدوں کے متعلق بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے کسی نے مانگاہی نہیں یا بعض کہ دیتے ہیں کہ ہمیں کسی نے یاد نہیں کرایا، بعض کہتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ بڑی غلطی ہو گئی اب ہم پچھلا بھی پورا کریں گے اور اس سال کا بھی.حالانکہ جب میں کہتا ہوں کہ جو چاہے وعدہ کرے اور جو چاہے نہ کرے تو خواہ مخواہ گنہ گار بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر وہ وعدہ کرتے وقت تو کہتے ہیں کہ اگر یہ قبول نہ کیا گیا تو ہم صدمہ سے ہی مر جائیں گے اور اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ ہم بھی دھو کے میں آ جاتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ شاید ان کے اندر ندامت پیدا ہو چکی ہے مگر اگلے سال پھر وہی حالت ہوتی ہے.ایسے لوگ ساری زندگی وعدہ کرنے میں ہی سمجھتے ہیں ان کے پورا کرنے میں نہیں.تو میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ صرف وعدے کرنا اور جوش دکھا نا روحانی بڑھاپے کی علامت ہے یا اس امر کی کہ ان پر جوانی آئی ہی نہیں بلکہ بچپن ہی کا زمانہ لمبا ہو رہا ہے اور اس حالت پر ان کو خوش نہیں ہونا چاہئے.قربانی کے مطالبہ پر ان کے اندر ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور وعدے کر لیتے ہیں مگر پورا کرنے کے وقت کئی مشکلات اُن کے سامنے آجاتی ہیں.یہ خطر ناک علامت ہے اور اس کی بات کا ثبوت ہے کہ وہ بیمار ہیں انہیں چاہئے کہ اپنا علاج کریں ورنہ ایسے گڑھے میں گریں گے کہ جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور اگر چہ ان کی طبیعت میں جوش تو آتا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسی بات کہنی چاہئے جسے پورا کر سکیں اور پھر جب وعدہ کر لیتے ہیں تو خواہ کیسی مشکلات پیش آئیں اُسے پورا کر کے چھوڑتے ہیں.تو سمجھ لیں کہ ان کے اندر روحانیت موجود ہے جسے بڑھانے سے وہ اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے.اس سال میں جماعت کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں آج مجلس شوری کا آغاز ہوگا اور انہیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں یہ ایک دو سال جماعت پر
خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۹ء خاص بو جھ کے ہیں.اس لئے دوستوں کو خاص طور پر قربانی کرنی چاہئے اور اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں میں جلسے کئے جائیں اور اُن کو سلسلہ کی ضروریات اور مشکلات بتا کر اپنا ہم خیال بنایا جائے کیونکہ جب تک وہ ہم خیال نہ ہوں گے دوست اپنے وعدے پورے اور اپنے فرض ادا نہیں کر سکیں گے.مجھے سخت تعجب ہے کہ گوتحریک جدید کا یہ دور نہایت اہم تھا اور ایک ایسا دور تھا جس میں نئی زندگی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور اس مضمون کو میں نے اچھی طرح واضح کر دیا تھا مگر میرے تعجب کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وعدوں پر چار ماہ گزرنے کے باوجود اب تک صرف سولہ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ صرف چار ہزار روپیہ ماہوار آ رہا ہے حالانکہ وعدے ایک لاکھ چھبیس ہزار کے ہیں اور ابھی بیرونی ممالک کے وعدے آئے نہیں جنہیں ملا کر اُمید ہے کہ ایک لاکھ تمیں ہزار کے وعدے ہو جائیں گے مگر اس وقت تک وصول صرف سولہ ہزار ہوا ہے حالانکہ سال کا تیسرا حصہ گزرچکا ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ جماعتیں کہتی ہیں کہ اس وقت خلافت جو بلی فنڈ اور بجٹ پورا کرنے کی طرف متوجہ ہیں مگر جب میں نے بجٹ کے اعداد و شمار منگوا کر دیکھے تو معلوم ہوا کہ ۳۰ مارچ کوختم ہونے والے ہفتہ میں ساڑھے تین ہزار کی آمد ہوئی ہے جس میں گزشتہ سال کی نسبت کی تین ساڑھے تین ہزار کی کمی ہے اور جو بلی فنڈ میں گزشتہ ماہ میں صرف پانچ ہزار کی آمد ہوئی ہے اور اس میں سے اگر وہ تین ہزار نکال دیئے جائیں جو چندہ میں سے کم ہیں تو گویا جو بلی فنڈ کی کی وصولی دو ہزار کی رہ جاتی ہے اور اسے اگر تحریک جدید کی آمد میں کمی کے مقابلہ پر رکھا جائے تو ی اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جماعت نے آٹھ دس ہزار روپیہ کم دیا ہے اور کہہ یہ دیا کہ ہم وصولی کر رہے ہیں اور کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن کام یہ کیا ہے کہ ایک مد میں کمی کر کے دوسری میں دے دیا.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال دے.میں نے آج سے چار سال پہلے بھی یہ بتایا تھا کہ عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر یہ تھر بانی کچ نہیں کی جاسکتی.جب تک وہ کفایت شعاری اور سادہ زندگی کا وعدہ نہ کریں کبھی کامیابی نہیں تج ہوسکتی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اٹھتی میں سے روپیہ نکالنے کا تو کوئی گر نہیں بنایا.آٹھ آنہ میں سے آٹھ آ نہ خرچ کر کے بھی کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ دو آنہ کسی اور کو بھی دے دے تو وہ کبھی.
خطبات محمود ۱۸۶ سال ۱۹۳۹ء کامیاب نہیں ہوسکتا.کسی کو دو آنے دینے والا جب تک اپنے خرچ میں کمی کر کے اُسے چھ آ نہ پری نہیں لے آتا اپنے وعدہ کو پورا نہیں کر سکتا اور آٹھ آنہ میں سے آٹھ آنہ ہی خرچ کرنے کے بعد بھی جو کسی کو دو آنہ دینے کا وعدہ کرتا ہے وہ جھوٹا اور فریبی ہے مخلص نہیں.وہ خدا تعالیٰ کو بھی اور سلسلہ کو بھی دھوکا دیتا ہے.پس قُربانی کے لئے یہ امر اشد ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے.میں نے اس امر کی طرف کئی بار توجہ دلائی ہے مگر افسوس کہ اس طرف توجہ نہیں کی گئی بلکہ ان کو یہ تحریک پہنچائی ہی نہیں گئی.حتی کہ اس سال ایک اچھی بڑی اور کی مخلص جماعت کی عورتوں نے حلفیہ بیان کیا کہ پچھلے سالوں میں ہمارے مردوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں کہ ایسی تحریک جاری ہے.یہ اچھی بڑی جماعت ہے اور سو ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل ہے مگر اس کی عورتوں نے حلفاً بیان کیا ہے کہ انہیں اس تحریک سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا.تو جو لوگ ایسے سُست ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کامیابی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ عورتیں اور بچے ہمارے ہم خیال ہوں.جب تک ہمیں پیچھے کھینچنے والی کوئی چیز ہے ہم آگے کس طرح جا سکتے ہیں.ہم جب آگے قدم اُٹھا ئیں گے ہمارے بیوی بچے پیچھے سے کھینچیں گے کہ ادھر آؤ مگر افسوس ہے کہ میری اس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے دوست ایسی گھبراہٹ میں ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں.اگر وہ وعدے کریں تو مشکل ہے اور نہ کریں تو مشکل ہے.حالانکہ یہ سب باتیں میں نے شروع میں ہی بتا دی تھیں اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے بتائی تھیں کہ آئندہ ہمارے لئے قربانیوں کا وقت آنے والا ہے اور اسی لئے میں نے امانت کی بھی تحریک کی تھی اور جن لوگوں نے اس پر عمل کیا.وہ اپنے وعدے اچھی طرح پورے کر سکے ہیں.میں جانتا ہوں کہ ایک غریب دوست نے جن کی آمد بارہ چودہ روپیہ ماہوار سے زیادہ نہیں سو روپیہ چندہ دے دیا اور یہ اس طرح کہ وہ ہر ماہ تین روپیہ امانت فنڈ میں جمع کراتے گئے اور اس طرح چار سال میں سو سے اوپر روپیہ جمع کر لیا اور اب بھی کئی لوگ جو امانت فنڈ میں روپیہ جمع کراتے رہے چندے آسانی سے ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں جبکہ ان سے کئی گنا زیادہ تنخواہیں پانے اور آمد رکھنے والے ابھی ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں.کئی دوستوں نے مجھے لکھا ہے کہ ہم دس دس اور پندرہ پندرہ سال سے مکان بنانا چاہتے تھے مگر
خطبات محمود ۱۸۷ سال ۱۹۳۹ء نہ بنا سکے تھے لیکن اب اس تحریک کے ذریعہ مکان بنانے کے قابل ہو گئے ہیں.تو چندوں کی کی ادائیگی میں آسانیوں کے علاوہ اس کے اور بھی فوائد تھے لیکن دوستوں نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی اور خیال کر لیا کہ وقت پر کچھ نہ کچھ انتظام ہو ہی جائے گا اور خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرتے ہیں.جو تلعب کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کی مدد کبھی نہیں کرتا.پس میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ غلط وعدے نہ کیا کریں اور دوسرے آج کا کام کل پر کبھی نہ چھوڑا کریں.یہ نہایت ہی خطر ناک بات ہے.بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ کل کر دیں گے مگر وہ کل کبھی نہیں آتا اور چندہ کی ادا ہی نہیں ہوتا.ابھی پچھلے سال کے وعدوں میں سے بارہ ہزار کے قریب قابل ادا ہیں.حالانکہ مارچ ختم ہوچکا ہے اور اپریل شروع ہے اور یہ بقایا معافیوں کو نکال کر ہے.نیز ان وعدوں کو نکال کر جن کے کرنے والے فوت ہو چکے ہیں.ورنہ یہ رقم بہت بڑھ جاتی ہے.جس رفتار سے اب گزشتہ سال کے وعدے پورے ہو رہے ہیں اس سے تو دو تین سال میں بھی یہ بقایا پورا ہونا مشکل ہے.آجکل گزشتہ بقایا کی آمد دس پندرہ روپیہ روزانہ کی ہے اور کسی دن کچھ بھی نہیں ہوتی.اس حساب سے یہ وعدے دو تین سال میں بھی پورے ہونے مشکل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آخر میں ادا کر دیں گے حالانکہ بقایا ہمیشہ ان لوگوں کے ذمہ ہی کی رہتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آخر میں دے دیں گے.میں نے یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ پر جانے کا اعلان فرمایا تو ایک صحابی نے کی جو مالدار تھے خیال کیا کہ میں مالدار ہوں تیاری جب چاہوں گا کرلوں گا.آخر کوچ کا دن آ گیا اور اُنہوں نے دیکھا کہ سامان تیار نہیں تو پھر دل کو تسلی دے لی کہ میں کل تیاری کر کے جاملوں گا مگر دوسرے دن اور مشکل پیش آ گئی اور بات تیسرے دن پر جا پڑی.تیسرے دن تیار ہو ا تو ادھر آنے والے قافلوں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی منزلوں کا کوچ کی کرتے ہوئے دور تک نکل گئے ہیں اور اب آپ سے ملنا ناممکن ہے اور وہ سفر سے رہ گئے اور اس وجہ سے وہ اس سزا کے مستحق ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں غیر معمولی تھی.یعنی ان کا مقاطعہ ہوا.حتی کہ ان کی بیوی کو بھی ان سے کلام کرنے کی ممانعت کر دی گئی.
خطبات محمود ۱۸۸ سال ۱۹۳۹ء اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو جواب طلبی کے لئے کی اُن کو بُلا یا.وہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے نفس نے مجھے دھوکا دینا چاہا اور میں نے خیال کیا کہ کوئی بہانہ بنا دوں مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو اُن لوگوں سے جو پہلے سے وہاں موجود تھے دریافت کیا کہ مجھ سے پہلے کن کن لوگوں کی جواب طلبی ہو چکی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ فلاں فلاں کی.اُنہوں نے پوچھا کہ پھر اُن سے کیا سلوک ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن میں سے دو کو تو ٹھہرالیا اور فرمایا ہے کہ تمہارا فیصلہ بعد میں ہو گا اور باقیوں کے لئے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے.وہ صحابی کہتے ہیں کہ جن کو ٹھہرایا گیا تھا وہ مومن تھے اور جن سے فرمایا کہ جاؤ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے وہ منافق تھے.اس پر میں نے کہا کہ خواہ کوئی سزا ملے میں اپنے آپ کو منافقوں میں شامل نہیں کروں گا.اس لئے میں نے جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اقرار کر لیا کہ میرا قصور کی ہے اور مجھ سے سستی ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بھی فرمایا کہ ٹھہر و تمہارا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا.پھر آپ نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ کوئی شخص ان سے کلام نہ کرے.پھر کچھ دنوں کے بعد اس حکم کو اور بھی سخت کر دیا اور فرمایا کہ ان کی بیویاں بھی اِن سے کلام نہ کریں اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں مسلمان ہی مسلمان بستے تھے یہ سزا کتنی بڑی سزا تھی.مدینہ میں یہودی بھی تھے مگر اُن کی بستیاں مدینہ سے کچھ فاصلہ پر الگ تھیں.یہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ایک رشتہ دار کے پاس گیا جو میرا چیرا بھائی تھا اور ہماری کی باہمی محبت بہت زیادہ تھی حتی کہ کھانا بھی اکٹھا ہی کھایا کرتے تھے.میں اُن کے پاس گیا وہ باغ کی میں کام کر رہے تھے.میں وہاں گیا اور جا کر کہا کہ مجھے جو سزا ملی ہے وہ تو ملی ہی ہے مگر تم یہ تو می جانتے ہی ہو کہ میں منافق نہیں ہوں اور جو کچھ ہوا ہے غلطی سے ہؤا ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ مجھے کوئی جواب دیتا اُس نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتا ہے.یہ دیکھ کر مجھ پر ایک جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور میں وہاں سے چلا آیا.دروازہ کی طرف جانے کا بھی خیال نہ رہا اور دیوار سے گود کر ہی باہر آ گیا اور شہر کی طرف آیا.ابھی شہر میں داخل ہو رہا تھا کہ ایک شخص نے کسی اجنبی کو میری طرف اشارہ کر کے بتایا وہ اجنبی میرے پاس آیا اور کی
خطبات محمود ۱۸۹ سال ۱۹۳۹ء مجھے ایک خط دیا.میں نے کھولا تو وہ غسان قبیلہ کے بادشاہ کا تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ تم اپنی قوم کے بڑے معزز آدمی ہو اور میں نے سُنا ہے کہ تمہارے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کی تمہارے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے اور بے عزتی کی ہے.دراصل وہ شریفوں سے سلوک کرنا جانتے ہی نہیں تم میرے پاس آ جاؤ اور یہاں تمہاری شان کے مطابق تم سے سلوک کیا جائے کی گا.میں نے اپنے نفس سے کہا کہ یہ شیطان کی طرف سے آخری امتحان ہے.پاس ایک تنور جل رہا تھا میں نے وہ خط اُس میں ڈال دیا اور اُس سے کہا کہ جا کر اپنے آقا سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے.ان کی شاید یہی ادا اللہ تعالیٰ کو پسند آ گئی ، رات کو سوئے ، سویرے اُٹھے، نماز پڑھنے گئے اور پڑھ کر واپس آگئے.ان سے کوئی بولتا تو تھا نہیں اس لئے نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنے کی کوئی وجہ نہ تھی.رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کی سزا معاف کر دی.فجر کی نماز کے بعد آپ بیٹھ گئے اور ان تین سزا یافتوں کے متعلق کی دریافت فرمایا کہ کیا وہ موجود ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں ہے اور فلاں نہیں.آپ نے فرمایا کہ رات مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان تینوں کو اس نے معاف کر دیا.یہ سنتے ہی ایک شخص گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی طرف دوڑ پڑا کہ خوشخبری سنائے مگر ایک اور زیادہ ہوشیار نکلا.پاس ہی ایک ٹیلہ تھا اُس نے اُس پر چڑھ کر زور سے آواز دی کہ مالک تم کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا.سے ان کی غلطی منافقت کی وجہ سے نہ تھی اس لئے تو بہ بھی ایسی کی کہ کہا مجھ سے یہ غلطی مال کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے گا.میں اپنا سارا مال اس کی راہ میں دے دوں گا اور اس دیانت کے ساتھ اس وعدہ کو نباہا کہ جب معافی کی آواز آئی تو آپ نے کہا کہ میں یہ خوشخبری سنانے والے کو کپڑوں کا ایک جوڑا تحفہ کے طور پر دوں گا.جیسا کہ ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ منہ میٹھا کراؤں گا مگر بعد میں خیال آیا کہ میں نے تو سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے.اِس لئے اِسے کپڑوں کا جوڑا کسی دوست کی سے قرض لے کر دیا اور کہا کہ میں دوبارہ کما کر یہ قرض ادا کر دوں گا لیکن اپنے سابق مال میں سے نہ دیا کیونکہ وہ سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں دے چکے تھے.تو ان کو یہ سزا محض اس لئے برداشت کرنی پڑی کہ اُنہوں نے خیال کر لیا کہ میں کل چلا جاؤں گا.اگر وہ پہلے ہی دن چلے جاتے کی ہ
خطبات محمود ۱۹۰ سال ۱۹۳۹ء تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور ثواب حاصل کر سکتے تو بہت سے لوگ اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ کل کر لیں گے.حالانکہ کون کہہ سکتا ہے کہ کل موقع ملے یا نہ ملے.اس لئے جب بھی موقع ملے فوراً اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وعدے سوچ کر کیا کریں اور جب وعدہ کیا کریں تو اُس کے پورا کرنے میں دیر نہ کیا کریں.نماز کے بعد اب وہ شوری میں بیٹھیں گے پھر بجٹ پیش ہوگا اور پھر کئی کہیں گے کہ یہ کیا مشکل ہے؟ مگر اس کے بعد وہ چُپ چاپ گھروں کو چلے جائیں گے اور اس کے پورا کرنے کے لئے کوئی حقیقی جد و جہد نہ کریں گے.اس کے علاوہ تحریک جدید کے متعلق بھی میں پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سے سلسلہ کی ترقی اور اشاعت کی ایک عظیم الشان بنیا د رکھی جا رہی ہے اور جو اس میں حصہ لیں گے وہ ہمیشہ کے لئے عظیم الشان ثواب کے مستحق ہوں گے.اس لئے اس کے وعدوں کو بھی پورا کریں لیکن کی یہ یا درکھیں کہ جب تک عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ ملایا جائے گا قر بانی مشکل ہے.اس لئے کی ضرورت ہے کہ ان کو بھی واقف کیا جائے تا وہ تمہارا ہاتھ بٹا سکیں اور ہر فرد کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلد از جلد وعدہ پورا ہو.ایسا نہ ہو کہ کل پر ڈال دیا جائے اور اس طرح یہ کبھی بھی پورا نہ ہو سکے.نیت اور ارادہ کی ضرورت ہے.اگر یہ ہو تو پھر شوری بھی بابرکت ہو سکتی ہے اور تحریک جدید بھی مفید نتائج کا باعث بن سکتی ہے.مومن کی نیت خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا موجب ہوتی ہے.پس دل میں پختہ ارادہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ مومن کے ارادوں کے پورا ہونے کے سامان خود بخود کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک مقدمہ پیش ہوا.ایک عورت سے دوسری کا دانت ٹوٹ گیا تھا جس سے دانٹ ٹو ٹا وہ ایک مخلص اور قربانی کرنے والی عورت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سفارش کی اور دوسرے شخص سے جو اپنی پھوپھی کی طرف سے پیروی کر رہا تھا فرمایا کہ اسے معاف کر دو.مگر اس نے کہا کہ یا رَسُول اللہ ! ہماری پھوپھی کا دانت تو ڑا گیا ہے ہم صبر نہیں کر سکتے جب تک توڑنے والی کا دانت نہ تو ڑا جائے.ہاں اگر آپ حکم دیں تو علیحدہ بات ہے ہم مان لیں گے مگر آپ نے فرما یا کہ نہیں میں حکم نہیں دیتا.یہ بات سُن کر دوسری عورت کا بھتیجا جو اُس کی طرف سے
خطبات محمود ۱۹۱ سال ۱۹۳۹ء پیروی کر رہا تھا جوش میں آ گیا اور کہنے لگا خدا کی قسم میری پھوپھی کا دانت نہیں تو ڑا جائے گا.اس کے منہ سے یہ الفاظ ایسے جوش ، یقین اور توکل کے ساتھ نکلے کہ دوسرے فریق کے دل میں گھر کر گئے.وہ کانپ گئے اور کہا یا رَسُول اللہ ! ہم معاف کرتے ہیں.یہ الفاظ کہنے والا غریب آدمی تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، کپڑے پھٹے ہوتے ہیں، جسم گرد آلود ہوتا ہے مگر جب وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی بات کہہ دیں تو خدا تعالیٰ اسے ضرور پورا کر دیتا ہے کے تو دیکھو یہ کتنا بڑا تصرف ہے کہ جو بات وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے ماننے پر آمادہ نہ ہوئے وہ اُس کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے پر کہ خدا کی قسم میری پھوپھی کا دانت نہیں تو ڑا جائے گا مان گئے.نہ معلوم یہ الفاظ کس تو کل اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی بنا پر اور یقین کے ساتھ کہے گئے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت بھی جوش میں آگئی اور اُس نے کہا کہ جب میرے بندے نے میری قسم کھا کر کہا ہے کہ میری پھوپھی کا دانت نہیں تو ڑا جائے گا تو میں بھی یہی کہتا ہوں کہ نہیں تو ڑا جائے گا کی اور جب خدا تعالیٰ کوئی بات کہے تو کس کی طاقت ہے کہ انکار کرے.اس لئے دوسرے فریق نے بھی کہہ دیا کہ میں نے معاف کیا.تو مومن کی نیت بہت بڑی چیز ہے.پس اگر تم مومن ہو تو کی ایک پختہ عزم اور ارادہ اپنے اندر پیدا کرو پھر دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فضل نازل ہوگا کہ تمام مشکلات خود بخود دُور ہو جائیں گی.تمہارے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے یا تو وہ نئے سامان پیدا کر دے گا یا پھر تمہارے حوصلے بڑھا دے گا اور تمہارا مقصد دونوں طرح حل ہو جائے گا.ایک بھو کے شخص کی تکلیف دور کرنے کے دو ہی علاج ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اُس کی بھوک اُڑا دی جائے اور دوسرے یہ کہ اُسے کھانا دے دیا جائے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال تھا یا آپ کے بعد خلافت اولیٰ کا کوئی رمضان تھا.بہر حال موسم کی گرمی کے سبب یا اس لئے کہ میں سحری کے وقت پانی نہ پی سکا تھا مجھے ایک روزہ کی میں شدید پیاس محسوس ہوئی تھی کہ مجھے خوف ہوا کہ میں بے ہوش ہو جاؤں گا اور دن غروب ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا.میں نڈھال ہو کر ایک چار پائی پر گر پڑا اور میں نے کشف میں دیکھا کہ کسی نے میرے منہ میں پان ڈالا ہے.میں نے اُسے چوسا تو سب پیاس جاتی رہی.
خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۹ء چنانچہ جب وہ حالت جاتی رہی تو میں نے دیکھا کہ پیاس کا نام ونشان بھی نہ باقی رہا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اِس طریق سے میری پیاس بجھا دی اور جب پیاس بجھ جائے تو پانی پینے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی.غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ضرورت پوری کر دی جائے خواہ مناسب سامان مہیا کر کے ہو خواہ اس سے استغناء کی حالت پیدا کر کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک شخص نے لکھا کہ دُعا کریں فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ ہم دُعا کی کریں گے مگر نکاح کی کوئی شرط نہیں ، خواہ نکاح ہو جائے خواہ اُس سے نفرت پیدا ہو جائے.آپ نے دُعا کی اور چند روز بعد اُس نے لکھا کہ میرے دل میں اُس سے نفرت پیدا ہوگئی ہے.اسی طرح مجھے بھی ایک شخص نے ایسا لکھا تھا اور میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت میں اُسے یہی جواب دیا اور اُس نے مجھے بعد میں اطلاع دی کہ اُس کے دل سے اُس کا خیال جاتا رہا.پس اللہ تعالیٰ دونوں صورتوں میں مدد کر دیتا ہے.پس اپنے اندر ایک پختہ عزم پیدا کر لو اور جھوٹے وعدوں سے بچو کہ یہ یا تو روحانی بڑھاپے اور یا پھر بچپن کی علامت ہوتے ہیں.روحانی جوانی کے وقت انسان کے اندر انکسار، فروتنی ، تو کل اور معرفت پیدا ہوتی ہے اور وہ کبھی منہ سے ایسی بات نہیں نکالتا جسے پورا کرنے کا اُس کے دل میں عزم نہ ہو اور جب وہ کوئی بات کر دیتا ہے تو ایسی پختہ کرتا ہے کہ چاہے ہمالیہ پہاڑ اُڑ جائے مگر اُس کی بات نہیں بدلتی.“ (الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۳۹ء) ا سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۸۵،۸۴ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء الفاتحه : ۷ بخاری کتاب المغازى باب حدیث کعب بن مالک بخاری کتاب الصلح باب الصُّلْحُ فِي الدِّيَّةِ
خطبات محمود ۱۹۳ ۱۲ سال ۱۹۳۹ء قادیان میں کوئی مرد یا عورت آن پڑھ نہ رہے کتابی علم کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیشہ بھی سیکھنا چاہئے (فرموده ۲۱ را پریل ۱۹۳۹ء ) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے خدام الاحمدیہ کے متعلق جو خطبات پڑھے تھے اُن میں ایک بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ تعلیم کو عام کیا جائے.اس بارہ میں میں نے خدام الاحمدیہ کو کچھ عرصہ پہلے بعض ہدایات دی تھیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان کے دو محلوں میں کام شروع ہے مگر میں چاہتا کہ ہوں کہ یہ کام ساری قادیان میں شروع کر دیا جائے.دو محلوں میں دو ماہ تک کام کرنے سے خدام الاحمدیہ کو اس کا تجربہ ہو چکا ہوگا اور قادیان میں اتنے پڑھے ہوئے لوگ موجود ہیں کہ اگر یہاں کے تمام ان پڑھوں کی تعلیم کا ہم انتظام کریں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہو گا.مشکل وہاں ہوتی ہے جہاں پڑھانے والے کم اور پڑھنے والے زیادہ ہوں مگر یہاں پڑھنے والے پڑھانے والوں کا دسواں حصہ ہیں.میں نے یہاں کے ان پڑھوں کا جو اندازہ کرایا ہے اُس کی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایک ان پڑھ احمدی کو پڑھانے کے لئے نو نو آ دمی موجود ہیں اور اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ان میں سے ایک حصہ پڑھانے کے قابل نہیں کیونکہ اُن میں بچے بھی ہیں اور نو جوان بھی جن کو پڑھانے کا تجربہ نہیں ہوتا تب بھی اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ایک ایک ان پڑھ کو پڑھانے کے لئے ایک ایک آدمی بڑی آسانی سے میسر آسکتا ہے اور ایسی صورت میں کی
خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۹ء انتظار کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ جس محکمہ کے سپرد یہ کام کیا جائے اُسے تجربہ نہ ہو مگر میں سمجھتا ہوں خدام الاحمدیہ کے لئے دو تین ماہ کا تجربہ کافی ہوگا اور اس لئے اب کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کام میں تا خیر کریں.پس آج میں اعلان کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر میرے سامنے ایک سکیم پیش کرے کہ کس طرح قادیان کے سب محلوں میں ایک ہی وقت میں تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تعلیم سے میرا مقصد یہ ہے کہ قرآن ناظرہ پڑھنا آتا ہو اور لکھ پڑھ کی سکے اور دستخط کر سکے یعنی تھوڑا بہت لکھنا آجائے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں لیکن جہاں میں خدام الاحمدیہ کے سپر دمر دوں کی تعلیم کا کام کرتا ہوں وہاں میں لجنہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس سکیم کو عورتوں میں رائج کریں اور کوشش کریں کہ ہر عورت لکھنا پڑھنا سیکھ جائے اور اس کام میں انہیں جس قسم کی مدد کی بھی ضرورت ہو گی وہ ہم مہیا کریں گے جہاں عورتوں میں تعلیم اتنی عام ہے کہ ان پڑھ عورتوں کو پڑھانے کے لئے انہیں مردوں کی امداد کی ضرورت نہیں ہو گی.البتہ انتظامی لحاظ سے ان کو ضرورت ہو سکتی ہے جو ہم مہیا کر دیں گے لیکن اگر تعلیم کے لئے بھی ان کو ضرورت محسوس ہو تو ایسے معمر اور قابلِ اعتماد مردوں کا انتظام کیا جاسکتا ہے جو پس پردہ تعلیم دے سکیں مگر میں سمجھتا ہوں اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.پس میں خدام الاحمدیہ کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ وہ کسی ایسی سکیم پر غور کریں جس سے تین ماہ کے اندر اندر تمام مردوں کو تعلیم دینے کا مقصد پورا ہو سکے.* اپریل کے باقی دن اگر تیاری کے لئے بھی سمجھ لئے جائیں تو مئی، جون ، جولا ئی تین ماہ کام کے لئے ہو سکتے ہیں.وہ مجھے بتائیں کہ کوئی ایسی کوشش کی جاسکتی ہے یا نہیں کہ جس سے یکم اگست کو قادیان میں کوئی ایک مرد اور کوئی عورت بھی ان پڑھ نظر نہ آئے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں عورتوں کی ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ لجنہ پر ہے.ان کے ذمہ بعد غور اور مشورہ خدام الاحمدیہ چھ ماہ کا عرصہ مقرر کیا گیا ہے اور خدام الاحمدیہ نے یہ سکیم پیش کر دی ہے.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.اب یکم نومبر آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے.
خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۹ء مردوں اور دس سال سے زیادہ عمر کے بچوں کی تعلیم ہے اور وہ کوشش کریں کہ یکم اگست کو کوئی حج مر داور دس سال کی عمر کا بچہ آن پڑھ نہ رہے.یکم اگست کو ہم قادیان کا عام امتحان لیں گے اور میں خود اس کی نگرانی کروں گا.اگست کے پہلے ہفتہ میں باری باری سب کا امتحان ہوگا اور ان کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہاں کوئی ان پڑھ باقی نہیں.ممکن ہے بعض آدمی اس وقت میں پڑھنا نہ سیکھ سکیں اور ایسے لوگوں سے ہم درخواست کریں گے کہ وہ پندرہ ہیں روز یا مہینہ اپنا کام چھوڑ کر پڑھائی میں لگے رہیں اور پڑھائی کے مقابلہ میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں بلکہ بہت کی فائدہ بخش ہے.قربانی تو دراصل پڑھانے والے کرتے ہیں پڑھنے والوں کا اپنا فائدہ ہے.اس لئے جو لوگ سمجھیں کہ وہ اس عرصہ میں لکھنا پڑھنا نہ سیکھ سکیں گے اُن کو چاہئے کہ وہ کچھ وقت اس کے لئے وقف کر دیں اور اس عرصہ میں کوئی اور کام نہ کریں.مجھے اس وجہ سے جلدی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ قادیان سے فارغ ہو کر ہم گاؤں کی طرف توجہ کریں.وہاں کام زیادہ مشکل ہوگا کیونکہ وہاں پڑھنے والے زیادہ اور پڑھانے والے کم ہوں گے اور ضرورت ہوگی کہ ہم قادیان سے پڑھانے والے لے جا کر ارد گرد کے دیہات میں تعلیم عام کریں اور اگر ہم دوسال میں بھی اس امر میں کامیاب ہو جائیں کہ اس وقت تک جو لوگ احمدی ہو چکے ہوں اُن میں کوئی ان پڑھ نہ رہے.تو یہ ایک ایسا شاندار کام ہو گا کہ جس کی مثال ہندوستان میں نہ مل سکے گی.آجکل ہندوستان میں تعلیم عام کرنے کا چرچا ہورہا ہے اور کانگرس وغیرہ ادارے بھی اس کی طرف متوجہ ہیں.پہلے ہماری جماعت تعلیمی لحاظ سے سب سے آگے تھی لیکن اب چونکہ دوسرے لوگوں میں بھی تعلیم کو عام کرنے پر بہت زور دیا جا رہا ہے اس لئے خطرہ ہے کہ وہ آگے نہ نکل جائیں اور وہ مقام جو سالہا سال سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو عطا کر رکھا ہے وہ ہم سے چھینا نہ جائے.میں چاہتا ہوں کہ ہم اس معاملہ میں بھی دوسروں سے آگے ہی رہیں.کئی سال ہوئے میں نے تحقیقات کرائی تھی تو معلوم ہوا کہ قادیان میں پڑھنے کے قابل لڑکیاں سو فیصدی لکھ پڑھ سکتی ہیں.مگر اب جو تحقیقات کرائی تو چونکہ یہاں باہر سے آ کر لوگ آباد ہوتے رہتے ہیں اس لئے اب کئی لڑکیاں ان پڑھ موجود ہیں.پہلے مرد یہاں پچاسی فیصدی تعلیم یافتہ تھے 6 * یکم نومبر
خطبات محمود ۱۹۶ سال ۱۹۳۹ء مگر اب نوے فیصدی ہیں گویا مردوں کی تعلیم کے لحاظ سے ہم نے ترقی کی ہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تنزل ہے.پہلے یہاں کوئی ان پڑھ لڑکی نہ تھی مگر اب ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو ہم لڑکیوں کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں اور دوسری طرف مردوں کی تعلیم کی طرف.اور کوشش کریں کہ دونوں سو فیصدی تعلیم یافتہ ہو جائیں.پہلے ہندوستان میں دوسرے لوگوں میں صرف دس پندرہ یا بیس فیصدی لوگ تعلیم یافتہ تھے مگر ہمارے اسی نوے فیصدی تھے اب دوسروں کو تعلیم دینے کی طرف بہت توجہ کی جارہی ہے اور اگر وہ سو فیصدی تعلیم یافتہ ہو جا ئیں اور ہم میں جو کمی تھی وہ بدستور رہے تو یہ کتنے افسوس کی بات ہو گی.مومن کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو غیرت پیدا کی ہے وہ اس امر کی مقتضی ہے کہ ہم سو فیصدی تعلیم والی تحریک میں پہلے نمبر پر رہیں جس طرح پہلے تھے اور کوشش کریں کہ دوسری قومیں ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں لیکن اس تحریک میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک وہ لوگ ہماری مدد نہ کریں جو ان پڑھ کی ہیں.اگر وہ خود کوتا ہی کریں تو اِس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا اور میں نے خطبہ میں اس کے لئے اپیل کرنے کی ضرورت اسی لئے سمجھی ہے کہ تا سب دوستوں کو علم ہو جائے کہ ہمیں تعلیم عام کرنے کی نئی جدو جہد میں بھی اپنے پہلے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور چاہئے کہ سارے ہندوستان میں ہم لوگ ہی پہلے ہوں جن میں سو فیصدی تعلیم ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جما جماعت تبلیغی جماعت ہے.دوسری قوموں میں جب ایک دفعہ سو فیصدی تعلیم ہو جائے گی تو ان میں نئے ان پڑھ داخل نہیں ہوں گے.آئندہ انہیں صرف بچوں کی تعلیم کا کی انتظام کرنا ہو گا مگر ہمارے اندر ہر وقت نئے لوگ آتے رہیں گے.وہ اگر ایک دفعہ سو فیصدی تعلیم کر دیں تو ان کے لئے پھر اس میعاد کو قائم رکھنا بہت آسان ہو گا مگر ہمارے اندر دوسری قوموں میں سے جو ان پڑھ آتے رہیں گے اُن کے لئے ہمیشہ فکر رکھنی پڑے گی لیکن یہ چیز ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو جو قوت عملیہ حاصل ہے گو ہمیں اس پر تسلی نہیں لیکن وہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور اُس کی موجودگی میں یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں جو ہم اُٹھا نہ سکیں اس کام میں جماعت کے دوسرے تجربہ کارلوگوں سے مدد لی جاسکتی ہے.گو چونکہ اس کی ابتدا خدام الاحمدیہ نے کی.
خطبات محمود ۱۹۷ سال ۱۹۳۹ء اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اسے ختم کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہو مگر جماعت کے تجربہ کا رلوگوں کی کو چاہئے کہ ان کو مدد دیں اور مختلف علاقے مختلف لوگوں کے سپر د کر دیئے جائیں.مثلاً حلقہ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ وغیرہ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر میر محمد اسحاق صاحب کے سپرد کیا جا سکتا ہے وہ اس معاملہ میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور کئی مرتبہ مجھ سے اس کے متعلق گفتگو بھی کر چکے ہیں.اسی طرح بعض علاقے مولوی ابو العطاء صاحب کے سپرد کئے جا سکتے ہیں اور بھی تجربہ کار لوگوں کے سپر د مختلف حلقے کر کے ان کو کام کرنے کے لئے کارندے دے دیئے جائیں تو یہ کام سہولت سے ہوسکتا ہے.اس کے علاوہ ایک زائد بات بھی میرے خیال میں ہے میرے خیال میں خالی پڑھنا لکھنا کافی نہیں بلکہ کتابی تعلیم کی نسبت عملی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے تحریک جدید میں یہ بات بھی رکھی تھی کہ کوئی شخص بے ہنر نہ رہے.ہراحمدی کو کوئی نہ کوئی پیشہ آنا چاہئے اور اس لئے میں صرف لفظی تعلیم پر بس نہیں کروں گا بلکہ کوشش کروں گا کہ ہر فرد کوئی نہ کوئی پیشہ جانتا ہو، کوئی نجاری ، کوئی لوہار کا کام، کوئی موچی کا کام، کوئی کپڑ ائبنا اور کوئی معماری وغیرہ جانتا ہو.غرضیکہ ہر شخص کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن جانتا ہو.اسی طرح بعض اور باتیں جو عملی زندگی میں کام آنے والی ہیں وہ بھی سیکھنی چاہئیں.میں انہیں کھیلیں نہیں بلکہ کام ہی سمجھتا ہوں مثلاً گھوڑے کی سواری، تیرنا، کشتی چلا نا اور تیراندازی وغیرہ ہیں.ہر احمدی کوشش کرے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی کام سیکھے اور ہو سکے تو سب سیکھے.حضرت خلیفہ اول کئی بار یہ واقعہ سُنایا کرتے تھے اور اُن سے سُن کر میں نے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ حضرت اسماعیل شہید ایک دفعہ دہلی سے اپنے پیر حضرت سید احمد بریلوی صاحب سے جو افغانستان کی سرحد پر سکھوں کے ساتھ لڑنے کی تیاری کر رہے تھے ملنے کے لئے جارہے تھے.جب وہ اٹک پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک سکھ ایسا اچھا تیراک ہے کہ کوئی اُس کا حج مقابلہ نہیں کر سکتا.انہوں نے پوچھا کہ کیا کوئی مسلمان بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ؟ انہیں بتایا کہ گیا کہ نہیں.یہ سن کر باوجود یکہ وہ ایک نہایت اہم کام پر جارہے تھے وہیں ٹھہر گئے ، تیرنے کی مشق کی ، اس سکھ سے مقابلہ کیا اور پھر اُسے شکست دے کر آگے بڑھے.یہ ایمانی غیرت ہے.
خطبات محمود ۱۹۸ سال ۱۹۳۹ء پہلے مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص کسی فن میں بھی ان سے آگے بڑھ جائے لیکن کی اب تو یہ حالت ہے کہ جب مسلمان کسی کو اپنے سے آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ان میں کوئی غیرت پیدا ہو وہ کندھے ہلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ ہمیں کیا.مومن میں یہ غیرت ہونی چاہئے کہ کسی فن میں بھی کوئی اس سے آگے نہ بڑھنے پائے.پس ہر احمدی کو کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن ضرور سیکھنا چاہئے اور اس کے لئے جماعت کے پیشہ ور دوست اپنے نام لکھوائیں کہ وہ کس حد تک اپنا کام دوسروں کو سکھا سکتے ہیں اس سکیم کو عملی صورت دینے کے لئے میں بعد میں کمیٹیاں مقرر کر دوں گا.میرا مطلب یہ ہے کہ یہ پیشے کی اس حد تک ہر شخص کو آ جائیں کہ وہ اپنے گھر میں بطور شغل ان کو کر سکے اور پھر انہیں ترقی دے سکے.جب کوئی پیشہ معمولی طور پر آجائے تو پھر رغبت سے اسے بڑی ترقی دی جاسکتی ہے.پیشوں کے علاوہ بعض فنون بھی ایسے ہیں جو سیکھنے چاہئیں.جنگ عظیم کے زمانہ میں ولایت میں ایک شخص بارکر نامی تھا اس کے متعلق بہت شور پڑا کہ وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیتا ہے.وہاں یہ بات خلاف قانون ہے کہ کوئی شخص بغیر سرٹیفکیٹ حاصل کئے سرجری کا پیشہ اختیار کرے.اس لئے اس پر مقدمہ چلایا گیا مگرسینکڑوں فوجیوں نے شہادتیں دیں کہ اس شخص نے ہماری ایسی ہڈیاں جوڑ دی ہیں جن کو ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے.آخر گورنمنٹ کو اُسے سرٹیفکیٹ دینا پڑا.یہاں قادیان میں بھی بعض لوگ ایسے فن جانتے ہیں اور باہر بھی ہیں.بعض نائی یا اور لوگ ہیں کی جو ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیتے ہیں یا بڑے بڑے خراب زخم اچھے کر دیتے ہیں.مجھے خود یاد ہے بچپن میں میرے پاؤں میں ایک دفعہ سخت چوٹ لگی تھی اور وہاں کبھی کبھی شدید درد ہوتا تھا.یہاں ایک دوست کی بیوی کو یہ فن آتا تھا کہ ایسی چوٹوں کا علاج کر سکے.ایک دفعہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا اور بیوی میرے پاس شکایت لے کر آئی کہ میرا خاوند مجھے اس کام سے روکتا ہے اور کہتا ہے کہ غیر مردوں کی چوٹوں پر مالش وغیرہ نہیں کرنے دوں گا یہ نا جائز ہے.میں نے کہا تی کہ یہ بات تو صحیح نہیں.احادیث سے تو ثابت ہے کہ صحابہ میں عورتیں ہی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں لیے اس وقت تو مجھے خیال نہ آیا مگر بعد میں جب ایک دفعہ اس درد کا حملہ ہوا تو میں نے پتہ کرایا وہ عورت تو فوت ہو چکی تھی مگر مجھے بتایا گیا کہ اس نے اپنی لڑکی کو وہ فن سکھا یا ہوا ہے.
خطبات محمود ۱۹۹ سال ۱۹۳۹ء میں نے اُسے بلوا کر پاؤں پر مالش کرائی.اس نے کہہ دیا تھا کہ پہلے یہاں ورم ہو جائے گا چنا نچہ ایسا ہی ہوا.دو تین روز تو بہت ورم رہا پھر آرام آ گیا اور اب دس سال کے قریب ہو چکے ہیں وہاں درد نہیں ہوا حالانکہ پہلے میں ہمیشہ علاج کرتا رہتا تھا.کئی مرہمیں لگا چکا تھا اور آیوڈین وغیرہ بھی لگاتا رہتا تھا.تو یہ فن جسے ہڈی ٹھیک کرنا کہتے ہیں کئی لوگ جانتے ہیں.یہ مجھے معلوم نہیں کہ طبی اصطلاح میں اسے کیا کہا جاتا ہے مگر بعض ان پڑھ لوگ اس کے ایسے ماہر ہوتے ہیں کہ ڈاکٹروں سے بھی بڑھ جاتے ہیں.بعض نائیوں کے پاس ایسی مرہمیں ہیں کہ جن سے ڈاکٹروں کے لا علاج زخم اچھے ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ ایک شخص نے لکھا کہ میری لات پر ایک زخم ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لات کٹوانی پڑے گی.حضور نے اُسے لکھا کہ بعض جراح بھی اپنے فن میں بڑے ماہر ہوتے ہیں اور خطر ناک زخم اچھے کر دیتے ہیں.آپ کٹوانے سے پیشتر کسی جراح سے بھی علاج کرا کر دیکھ لیں.بعد میں اس دوست نے لکھا کہ میں نے ایک نائی کو دکھایا تھا جو اس علاقہ میں جراحی کے لئے مشہور تھا.اس نے علاج کیا اور اب میں اچھا ہوں اور ڈاکٹر بھی اس پر حیران ہیں تو ایسے فنون ابھی زندہ ہیں.سید احمد نور صاحب کا بلی کے ناک پر زخم تھا اُنہوں نے کئی علاج کرائے ، لاہور کے میوہسپتال میں گئے ، ایکسرے کرا کر علاج کرایا مگر زخم اور بھی خراب ہوتا گیا.آخر وہ پشاور گئے اور وہاں ایک نائی سے علاج کرایا.اس نے صرف تین روز دوائی استعمال کرائی اور زخم اچھا ہو گیا.تو اب بھی ایسے ماہرینِ فن موجود ہیں جن کو ایسے ایسے پیشے آتے ہیں کہ اگر انہیں زندہ رکھا جائے تو ان سے آگے کئی نئے پیشے جاری ہو سکتے ہیں لیکن ان کے جاننے والے چونکہ انہیں زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لئے وہ ترقی نہیں کر رہے.اگر ان کی طرف لوگوں کو توجہ ہو تو اُن سے آگے کئی فنون نکل سکتے ہیں.مثلاً یہی ہڈیوں کا ٹھیک کرنا ہے پہلوان اور نائی اسے جانتے ہیں کی اور اس سے پرانی دردوں اور ٹیڑھی ہڈیوں کو درست کیا جا سکتا ہے.اسے سیکھ کر پھیلانے کی کی کوشش کرنی چاہئے.پرانے زمانہ میں لوگ ان پیشوں کے اظہار میں بہت بخل سے کام لیتے تھے اور کوئی کسی کو بتا تا نہ تھا اس لئے وہ مٹ گئے.یورپ والے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے فن عام کر دیتے ہیں اس سے وہ روپیہ بھی زیادہ کما سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سُنایا
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے ایسی مرہم کا علم تھا جس سے بڑے بڑے خراب زخم اچھے ہوتی جاتے تھے.لوگ دُور دُور سے اُس کے پاس علاج کرانے کے لئے آتے تھے.اُس کا بیٹا اس کا نسخہ پوچھتا تو وہ جواب دیتا کہ اس کے جاننے والے دُنیا میں دو نہیں ہونے چاہئیں.آخر وہ بوڑھا ہو گیا سخت بیمار ہوا تو اُس کے بیٹے نے کہا کہ اب تو بتا دیں وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر تم سمجھتے ہو میں مرنے لگا ہوں تو بتا دیتا ہوں مگر پھر کہنے لگا کہ کیا پتہ میں اچھا ہی ہو جاؤں اور اس لئے پھر بتانے سے رُک گیا.چند گھنٹوں بعد اُس کی جان نکل گئی اور اُس کا بیٹا اس فن سے محروم رہ ج گیا.وہ آرام سے بیٹھا تھا اور مطمئن تھا کہ گھر میں فن موجود ہے لیکن وہ اس کے کسی کام نہ آسکا.تو بخل ترقی کا نہیں بلکہ ذلت و رسوائی کا موجب ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ خاندانوں کی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے تو ان پیشوں اور فنون کا سکھانا مضر نہیں بلکہ مفید ہے.اس سے علم ترقی کرتا ج ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ فنون خصوصاً مُردہ فنون کو ترقی دی جائے.بچپن میں ہم بعض باتیں کی بڑی بوڑھیوں سے سنتے تھے اور خود چونکہ انگریزی طرز کی تعلیم حاصل کرتے تھے اس لئے سمجھتے تھے کہ یہ غلط باتیں ہیں.مثلاً یہ کہ بنگال میں اتنی باریک ململ تیار ہوتی تھی کہ سارا تھان انگوٹھی کی میں سے گزر جاتا تھا.اسی طرح اور بھی نہایت اعلیٰ کپڑے تیار ہوتے تھے.ہم سمجھتے تھے کہ یہ باتیں ملکی غیرت کی وجہ سے ہیں مگر جب ادھور اعلم مکمل ہوا تو پتہ لگا کہ وہ سب باتیں صحیح تھیں.میں نے ایک انگریز کی کتاب پڑھی ہے جس میں اُس نے گورنروں اور سرکاری افسروں کی کی رپورٹوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ بنگال میں بہت سی ایسی صنعتیں تھیں جنہیں انگریزوں نے مٹا دیا یہاں کا تیار کردہ سامان ولایت کے تاجر لے جاتے تھے اور انگلستان کے امراء کے تعیش کا سامان یہاں سے جاتا تھا بلکہ جب میں نے زیادہ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ انگریزوں کے کپڑوں کے نام بھی ایشیائی ہیں مثلاً ململ کو انگریزی میں Muslin کہتے ہیں.یہ لفظ دراصل موصلین ہے.اصل بات یہ ہے کہ اُس زمانہ میں ہندوستان کی تمام تجارت عرب کے رستہ ہوتی تھی اور کی عربوں کے ہاتھ میں تھی جیسے آجکل انگلستان کے ہاتھ میں ہے.بعض چیزوں کے متعلق ہم پہلے سمجھتے تھے کہ وہ انگریز بناتے ہیں مگر جب جنگ شروع ہوئی اور وہ آنی بند ہوگئیں تو ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ کیوں نہیں آتیں حالانکہ وہ انگلستان میں تیار ہوتی ہیں مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ
خطبات محمود ۲۰۱ سال ۱۹۳۹ء - در اصل انگلستان میں نہیں بلکہ جرمنی اور پیجیئم میں بنتی تھیں.خصوصاً بعض دوائیاں ایسی تھیں جو جرمنی میں بنتی تھیں.ہندوستان میں چالیس ہزار تھان بڑا مشہور ہے یہ تعلیم میں بنتا ہے.انگریز تا جر وہاں سے لا کر ہندوستان میں بیچتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ انگلستان میں ہی بنتے ہیں.غرض جنگ کے دنوں میں جب ایسی اشیاء آنی بند ہوئیں یا کم ہوگئیں تو معلوم ہوا کہ یہ دوسرے ملکوں کی تھیں.اسی طرح پرانے زمانہ میں تجارت عربوں کے ہاتھ میں تھی.وہ ہندوستان سے خرید کر لے جاتے تھے اور پھر مختلف ممالک میں پہنچاتے تھے.اسی طرح ایک مشہور کپڑاڈ مسکس ہے.یہ دراصل دمشق سے جاتا تھا.ایک اور کپڑا ٹفٹ ہے یہ دراصل طافتہ ہے.گویا تمام مشہور کپڑوں کے نام یا تو عربی شہروں یا عربی الفاظ سے اخذ کردہ ہیں مگر آج ہمیں یہ خیال تک بھی نہیں آتا کہ یہ چیزیں ہماری ہیں اور یہاں سے جاتی تھیں.اس زمانہ میں تمام تجارت عربوں اور ایرانیوں کے ہاتھ میں تھی مگر ایشیائیوں کے بخل کی وجہ سے یہ یورپ کے ہاتھ میں چلی گئی.یورپ میں ایک آدمی کوئی چھوٹی سی چیز لیتا ہے اور اُسے ایسی طرح پھیلاتا ہے کہ ہر شخص اُسے کی خرید نے پر مجبور ہو جاتا ہے.حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ یہ بچوں اور بیماروں کے لئے جو غذا ئیں ولایت سے آتی ہیں جیسے بیلنس فوڈ وغیرہ یہ یہی جو اور جوار کا آٹا وغیرہ ہیں.کسی شخص کو علم ہو گیا اس نے خوبصورت ڈبوں میں بند کیا لیبل لگائے ، ساری دُنیا میں اشتہار دیا اور اس طرح فائدہ اُٹھایا لیکن ہمارے ملک میں اگر کسی کو علم ہوتا تو وہ اگر اس کی ذات تک نہیں تو اُس کی کے خاندان تک محدود رہتا یا زیادہ سے زیادہ اس گاؤں تک محدود رہتا مگر وہ لوگ اپنے علم کو عام کر دیتے ہیں.جرمنی میں تو یہ قانون ہے کہ ہر دوائی کے ساتھ نسخہ بھی لکھ دیا جائے.اُنہوں نے ایسا قانون بنایا ہوا ہے کہ کسی نئی دوا کا دریافت کرنے والا ہی چند سالوں تک اسے تیار کر سکتا ہے.اس عرصہ میں اگر کوئی اور تیار کرے تو اُسے سزا دی جاتی ہے.اس عرصہ کے بعد جس کا جی چاہے تیار کرے اور اس طرح دریافت کرنے والے کو بھی کافی فائدہ پہنچ جاتا ہے اور علم بھی محدود نہیں رہتا.وہ لوگ چھپاتے نہیں بلکہ عام کرتے ہیں اور یہی اُن کی کامیابی کا راز ہے.یہی مرہمیں جو یہاں کے نائیوں کے پاس ہیں اگر اُن لوگوں کے پاس ہوتیں تو وہ اس سے لاکھوں کروڑوں روپیہ کماتے اور اُن کی اشاعت بھی کر دیتے.وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے
خطبات محمود ۲۰۲ سال ۱۹۳۹ء لاکھوں روپوں کے کارخانے جاری کر لیتے ہیں.کونین ہی ہے یہ جزائر بحرالہند یا اُن کے قریب کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے.وہاں کے لوگ اِس کے درخت سے بیماریوں کا علاج تو کرتے تھے مگر کوئی تجارتی فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے.وہاں کوئی انگریز ڈاکٹر آیا اُسے علم ہوا تو اُس نے پہلے اس سے ٹنکچر سنکونا تیار کی اور پھر کسی اور نے کونین بنالی اور اس طرح اس صنعت نے اس حد تک ترقی کی کہ اب وہ لوگ جن کے پاس سے یہ جاتی ہے وہ بھی یورپ سے ہی خرید تے ہیں.اگر وہ خود اس کام کو جاری کرتے اور اُسے وسعت دینے کا خیال کرتے تو خود فائدہ اُٹھا سکتے تھے.تو جو قو میں پیشوں کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لیتیں وہ غالب ہو جاتی ہیں اور اُن میں سے ایسے ماہر پیدا ہو جاتے ہیں کہ گو لوگ جانتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے مگر وہ اُن سے ہی کراتے ہیں کیونکہ فائدہ خالی علم سے نہیں ہوتا بلکہ مہارت سے ہوتا ہے.پس میں صرف یہ نہیں کہتا کہ کتابی علم عام کئے جائیں بلکہ حرفہ اور فنون کی تعلیم کو بھی عام کیا ج جائے.یہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں بلکہ امراء کے لئے بھی مفید ہیں.پھر اس لحاظ سے بھی یہ کی مفید ہوتی ہیں کہ بعض اوقات بڑے بڑے لوگوں کی بھی نوکریاں چھوٹ جاتی ہیں.چار پانسو بلکہ ہزار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے RETRENCHMENT کی وجہ سے بے کار ہو جاتے ہیں یا اُن پر کوئی الزام لگتا ہے اور وہ برخاست ہو جاتے ہیں.ایسی صورت میں اگر کوئی فن آتا ہو تو وہ تجارت وغیرہ شروع کر کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن کتابی علم والا صرف کی نوکری ہی کر سکتا ہے اور اِس وجہ سے جب وہ چھوٹ جائے تو گھر میں بیٹھ کر تمام اندوختہ کھالیتا ہے اور پھر بچے بھی خراب ہوتے ہیں اور خود بھی آخری عمر میں تکلیف اُٹھاتا ہے.پس میری تجویز یہ ہے کہ پہلے تو تین ماہ کے عرصہ میں سب کو کتابی تعلیم دے دی جائے اس کے بعد حرفہ کی طرف توجہ کی جائے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ مجھے لکھیں کہ وہ کی کیا کیا پیشے جانتے ہیں اور کتنے لوگوں کو کتنے عرصہ میں سکھا سکتے ہیں اور کیا کیا انتظامات ضروری ؟ میں چاہتا ہوں کہ سب لوگ کوئی نہ کوئی پیشہ سیکھ جائیں.کوئی نجاری ، کوئی معماری اور کوئی لو ہار کا کام اور کوئی موچی کا کام.یہ کام اتنے اتنے سیکھ لئے جائیں کہ گھر میں بطور شغل اختیار چھ ماہ (منہ)
خطبات محمود ۲۰۳ سال ۱۹۳۹ء کئے جاسکیں اور اگر کوئی مہارت پیدا کرے تو وہ اختیار بھی کر سکے.اس سے قومی رنگ میں بھی کی کئی فوائد ہو سکتے ہیں مثلاً اگر موچی کا کام آتا ہو تو ایک دن مقرر کر کے غرباء کے لئے جوتے تیار کئے جاسکتے ہیں.چمڑا جماعت کی طرف سے دے دیا جائے اور سب بیٹھ کر جوتے تیار کر دیں یا معمار، نجار اور لوہار وغیرہ مل کر ایک دن کسی غریب کا مکان بنادیں.یہ خدمت ہوگی جس سے ثواب حاصل ہوگا اور غریب کا مکان بھی بغیر خرچ کے تیار ہو جائے گا.یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان پیشوں کو عام کر دیا جائے ورنہ اگر پیشہ ور ایسا کرنے لگیں تو وہ سارا سال مفت ہی کرتے رہیں گے جس طرح سب مل کر مٹی ڈالتے ہیں اسی طرح سب مل کر کسی غریب کا کی مکان بنادیں.ماہر اور کاریگر معمار اور نجار وغیرہ نگرانی کرتے رہیں اور دوسرے کام کریں.اس طرح قومی عمارتیں بھی تیار ہو سکتی ہیں.پس میں کتابی تعلیم سے زیادہ عملی تعلیم کی وسعت چاہتا ہوں.بے شک کتابی علم مفید ہے مگر اس سے بڑھ کر فنون اور پیشوں کا علم مفید ہے اور اس سے قوم کا اقتصادی معیار بلند ہوتا ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ خدام الاحمد یہ تین دن کے اندر اندر ایسی سکیم پیش کر دیں گے کہ جس سے تین ماہ کے اندر اندر قادیان میں کوئی شخص ان پڑھ نہ رہے اور ایک ہفتہ کے اندراندر وہ لوگ جو پیشے اور فنون جانتے ہیں مجھے اطلاع دے دیں گے کہ وہ کیا کیا پیشے جانتے او کتنے کتنے لوگوں کو سکھا سکتے ہیں؟ بعض فن ایسے ہیں جنہیں عام لوگ جانتے بھی نہیں.ہم تو یہ عام معمار، نجار، لوہار ، موچی وغیرہ کے پیشوں کو ہی جانتے ہیں.اس کے علاوہ بھی بہت سے پیشے ہیں جو ہم نہیں جانتے.میں نے ایک دفعہ پتہ کرایا تھا تو معلوم ہوا کہ ایک دوست کلاہ بنانا جانتے ہیں اور جو دوست ایسے پیشے اور فنون جانتے ہوں وہ بھی مجھے اطلاع دیں.اگر ان کو جاری کر دیا جائے تو کئی لوگوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے اور کئی ایک کی آمد میں ترقی ہو سکتی ہے.پس جسے کوئی پیشہ آتا ہو وہ مجھے اطلاع دے تا دوسروں کو سکھانے کا انتظام کیا جا سکے.میں تو چاہتا ہوں کہ مدرسوں میں بھی ایسے فنون سکھانے کا انتظام کیا جائے اور طالب علم چھ ماہ (منہ)
خطبات محمود ۲۰۴ سال ۱۹۳۹ء ہے.جب ہمارے مدرسہ سے انٹرنس پاس کر کے نکلے تو وہ صرف انٹرنس پاس نہ ہو بلکہ موچی ، معمار یا لوہار بھی ہو اور اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو جماعت کی اقتصادی حالت میں بہت اصلاح ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ ایسے نوجوانوں کے لئے بھی کام کا انتخاب کرتے وقت وسیع میدان ہوسکتا ہے.اب تو انٹرنس پاس کرنے والے نوجوان کے لئے دائرہ بہت محدود ہے وہ صرف کلر کی ہی کر سکتا ہے مگر کوئی پیشہ جاننے کی صورت میں یہ دائرہ بہت وسیع ہوگا.مثلاً لوہار کا کام جاننے والا انٹرنس پاس ریلوے میں آسانی کے ساتھ فورمین ہوسکتا ہے اور اڑھائی تین سور و پہیہ ماہوار تک تنخواہ پاسکتا ہے مگر کلرک پندرہ میں سال کی ملازمت کے بعد بمشکل پچھتر روپیہ تک پہنچتا تعلیم یافتہ پیشہ ور کے لئے ترقی کا بہت موقع ہوتا ہے سندھ میں مجھے ایک شخص نے جو وہاں اسٹنٹ انجینئر تھے سُنایا کہ میں لوہار ہوں.اُن میں یہ خوبی تھی کہ وہ اپنی گزشتہ حالت کو چھپاتے نہ تھے.بعض لوگ بہت چھپاتے ہیں.اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میں پہلے نہیں تھیں کامی مستری تھا لیکن جس وقت میں انہیں ملا ہوں وہ خان بہادر اور اسٹنٹ انجینئر تھے اور اُنہوں نے لوہار کے کام سے ہی ترقی کی تھی.محنتی آدمی تھے ، رات دن محنت کرنے والے اور خطرہ سے نہ ڈرنے والے تھے.اُنہوں نے سُنایا کہ ایک دفعہ دریائے سندھ کا پل ٹوٹنے لگا ، اس زور سے طغیانی آئی کہ سب لوگ بھاگ گئے.اس کے ایک حصہ کی نگرانی میرے سپرد تھی.میں نے سمجھا کہ میری ملازمت کا سارا ریکارڈ آج تباہ ہو جائے گا.میں نے سوچا کہ اگر میں خود پیچھے رہا تو کوئی آگے نہ بڑھے گا اس لئے میں خود پانی میں کود پڑا اور ساتھیوں سے کہا کہ کم بختو بھاگتے کہاں ہو؟ اور کچھ نہیں تو مٹی کے بورے بھر بھر کر ہی میرے آگے ڈالتے جاؤ.چنانچہ وہ ساری رات مٹی ڈالتے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ صبح کے وقت وہ شگاف بند ہو گیا اور اس طرح ملک بھی تباہی سے بچ گیا اور بیراج پر جو کروڑوں روپیہ خرچ ہو چکا تھا وہ بھی ضائع ہونے سے بچ گیا.ان کی کی اس خدمت کی گورنمنٹ نے بہت قدر کی.وائسرائے نے بھی خوشنودی کی چھٹھی بھجوائی.خان بہادر بنا دیا گیا اور عہدہ میں بھی ترقی ہوئی.تو محنت کرنے والا انسان ہمیشہ ترقی کر کے بڑھتا جاتا ہے.ولایت میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اسی طرح ترقی کی ہے.ایڈیسن جس نے فونوگراف ایجاد کیا ہے وہ پہلے ایک کارخانہ میں چٹھیاں پہنچانے پر ملازم تھا مگر اُسے محنت
خطبات محمود ۲۰۵ سال ۱۹۳۹ء کی عادت تھی.جب وہ ایک چٹھی پہنچا کر آتا تو دوسرا آرڈر ملنے تک بیٹھا سائنس کے تجربے کرتا رہتا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ جوانی کو پہنچا تو سائنس سے بخوبی واقف ہو چکا تھا اور مرنے تک اُس نے ایک ہزار ایک ایجادات کیں اور ہرکارہ سے کروڑ پتی ہو کر مرا.ایسے واقعات ہزار ہا ہیں کہ لوگ معمولی مزدور کی حیثیت سے ترقی کر کے بڑے آدمی بن گئے جس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا لیکن ہمارے ملک میں یہ ذہنیت ہے کہ لوہار ترکھان وغیرہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ اور تعلیم حاصل کرنے والے خیال کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی پیشہ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مُمد ہیں اور مفید ہیں لیکن یہاں جو شخص پڑھے وہ کہتا ہے میں لوہار یا بڑھتی کیوں بنوں اور جولو ہار یا بڑھتی ہو وہ کہتا ہے کہ میں پڑھوں کیوں؟ حالانکہ جو پیشہ ور تعلیم یافتہ ہو وہ رو پی ڈیڑھ روپیہ روزانہ کمانے کے بجائے چار پانچ روپے کما سکتا ہے اور تعلیم یافتہ آدمی اگر پیشہ جانتا ہو تو وہ بھی زیادہ ترقی کر سکتا ؟ ہے.پس طالب علموں کے لئے بھی میرا ارادہ ہے کہ ان کو پیشے سکھانے کا انتظام کیا جائے.گو اس کے متعلق ابھی کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں کہ جس سے تعلیم کو نقصان پہنچائے بغیر یہ کام سکھائے جاسکیں اور میں سمجھتا ہوں اگر جماعت اس میں کامیاب ہو جائے تو پہلا لڑکا جسے نوکری ملے وہ ہمارے سکول کا طالب علم ہو گا اور ملازم رکھنے والوں کی نظر انتخاب سب سے پہلے اسی سکول سے پڑھ کر نکلنے والوں پر پڑے گی.پس پیشہ ور احباب اپنے اپنے نام اور پیشے مجھے لکھیں کہ جو دوسروں کو سکھا سکتے ہیں اور خدام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر مجھے اطلاع دے کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے ان کی کیا سکیم ہے؟ اور اسی طرح لجنہ دو ہفتہ کے اندر ایسی سکیم پیش کرے کہ جس سے قادیان کی ہر عورت کو الفضل ۲۹ را پریل ۱۹۳۹ ء ) 66 تعلیم یافتہ بنایا جا سکے.“ ا ابو داؤد كتاب الجهاد باب فِي النساء يَغْزُونَ of :RESIRENCHMENT The Reduce the amount یعنی مہنگائی کی وجہ سے تنخواہ / آمد اتنی کم ہو جانا کہ گزارہ نہ ہو سکے.معاشی مشکلات کی وجہ سے کوئی ادارہ اپنے ملازمین کو تنخواہ نہ دے سکنے کی وجہ سے اُن کو فارغ کر دے اور اُن کی ضرورتیں پوری نہ ہو سکیں.
خطبات محمود ۲۰۶ سال ۱۹۳۹ء قادیان میں کسی احمدی کو ان پڑھ نہ رہنے دیا جائے ( فرموده ۲۸ را پریل ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ ہفتہ میں قادیان کی تعلیم کا کام خدام الاحمدیہ کے سپر د کیا تھا اور میں نے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اس کام کو اپنے سے باہر جو تجربہ کار لوگ ہیں اُن کی مدد سے شروع کریں اور تین دن کے اندر اندرلسٹ بنا کر میرے سامنے پیش کر دیں.چنانچہ اس کے مطابق خدام الاحمدیہ نے تین دن کے اندراندرلسٹ بنا کر میرے سامنے پیش کر دی جس کے دوسرے کی دن بُلا کرمیں نے اُن سے بھی اور میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب سے بھی مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کر دی.وہ سکیم یہ تجویز ہوئی ہے کہ ہر احمدی مرد جو دس سال سے اوپر ہے اُسے ایک تو قرآن پڑھنا آتا ہو، دوسرے نماز باترجمہ آتی ہو، تیسرے وہ اُردو پڑھ اور لکھ سکتا ہو اور چوتھے سو تک کے ہند سے اُسے آتے ہوں.غور کرنے کے بعد یہ بھی فیصلہ ہوا کہ تین مہینہ میں یہ کورس ختم نہیں ہوگا اس لئے تین ماہ کی بجائے چھ مہینے تجویز کئے گئے اور ساتھ ہی چار امتحان بھی تجویز کئے گئے ہیں.چنانچہ پہلا امتحان یکم جون کو ، دوسرا یکم جولائی کو، تیسرا یکم ستمبر کو اور چوتھا یکم نومبر کو ہو گا.پڑھانے والوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر محلہ میں کافی ہے سوائے دائر الصحت کے.اور دار الصحت ہی ایک ایسا محلہ ہے جو اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتا اور ہماری بہت زیادہ توجہ چاہتا ہے.یہ تو میں جو ہندو تہذیب و تمدن کے ماتحت کسی وقت
خطبات محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۹ء سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے اچھوت قرار دی گئی تھیں در حقیقت مُلک کی قدیم باشندہ ہیں اور آرین نسلوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں حکومت کرتی رہی ہیں.چنانچہ جغرافیہ والے ان کو ڈریویڈینز (DRAVADIANS) کہتے ہیں.یہ لوگ سیاسی کی طور پر کسی زمانہ میں مغلوب ہوئے پھر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے.پہلے حکومت گئی ، پھر تجارت گئی ، پھر صنعت و حرفت گئی ، پھر علم گیا ، پھر عزت گئی گویا وہ ساری چیزیں جو دنیا میں انسان کی عزت اور ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں ان سے یہ محروم ہو گئیں اور سینکڑوں کی نہیں ہزاروں سالوں سے محروم چلی آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے ، اور میں سمجھتا ہوں اس الہام میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قو میں جو ادنی کہلاتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ان کو ادنیٰ حالت سے نکال کر ترقی کی طرف لے جایا جائے گا.آج سیاسی طور پر دُنیا میں ایسے حالات پیدا ہیں کہ ہندو اور مسلمان دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو وہ اپنے اندر شامل کریں مگر ان کو شامل کرنا محض سیاسی ہے اور ان کی غرض صرف اتنی ہی ہے کہ یہ لوگ آئندہ ہندو یا مسلمان کہلا ئیں اور اپنے ووٹ ان کو دے دیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو قوم جس کے ساتھ شامل ہوگئی اپنے ووٹ بھی اسی کو دے گی مگر میرے نزدیک ان سے صرف اتنی ہی ہمدردی کرنا کہ ان کا نیا نام رکھ دیا جائے اور ان کے ووٹوں سے خود فائدہ اُٹھا لیا جائے نہایت کمینہ اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے.اگر ہم اِن قوموں کو حقیقی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان میں تعلیم پھیلائیں ، ان میں پیشوں کی ترویج کریں، انہیں صنعت و حرفت کے کام سکھائیں.یہاں تک کہ ان کا معیار زندگی بلند ہو جائے ، ان کا معیار عقل بلند ہو جائے ، ان کا معیار علم بلند ہو جائے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ سانسی ، چوڑھے اور بھیل قوم کے افراد جو ذلیل سمجھے جاتے ہیں یا بعض اور قو میں جو اس ملک میں ادنیٰ اور حقیر سمجھی جاتی ہیں اگر اُن میں تعلیم آ جائے ، اگر اُن میں سے بھی کی بی.اے اور ایم.اے بننا شروع ہو جائیں ، اگر وہ بھی مولوی فاضل کی ڈگریاں حاصل کر لیں ، اگر وہ بھی مساجد کے منبر پر کھڑے ہو کر وعظ کریں، اگر اُن کی زبان سے بھی ایسی باتیں نکلیں
خطبات محمود ۲۰۸ سال ۱۹۳۹ء جنہیں سُن کر پُرانی نسلوں کے مسلمان واہ واہ اور سبحان اللہ کہیں اگر وہ بھی مدرسوں کی کرسیوں کی پر بیٹھیں ، اگر وہ بھی کالج کے پروفیسر نہیں ، اگر وہ بھی اپنی قوم کے لڑکوں کو اعلی تعلیم دلائیں تو وہ کچ اس ذلت کے نام کو اپنے ساتھ رہنے دیں گے یقیناً یہ نام پیچھے رہ جائے گا اور وہ قوم ترقی کی منزلوں کی طرف بڑی سرعت سے قدم بڑھاتی ہوئی چلی جائے گی.پس ہماری جماعت کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اپنے لوگوں کو صرف نام کا مسلمان نہ بنائے کی بلکہ ان کے لئے علمی ، اخلاقی ، تمدنی اور اقتصادی ترقی کے سامان مہیا کرے کیونکہ سب سے زیادہ تعلیم کے یہی لوگ مستحق ہیں اور سب سے زیادہ مجبور بھی یہی ہیں.ان میں اتنے لکھے پڑھے لوگ نہیں کہ یہ دوسروں کی مدد کے بغیر اپنی قوم کے افراد کو پڑھاسکیں.پس ہمیں سب سے پہلے ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے.خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کے زیادہ قریب دار الرحمت والے ہیں اور وہ محلہ دارالرحمت کے رہنے والوں سے خواہش کر رہے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں اِن کی مدد کریں اور دارالصحت والوں کو پڑھائیں.میں بھی اس موقع پر دارالرحمت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں دار الرحمت کے لوگوں کی تخصیص کی اس میں ضرورت نہیں.یہ ایک ثواب کا کام ہے اور ثواب کے کام کے لئے دور سے بھی لوگ آ سکتے ہیں.پس دوسرے محلوں سے بھی جو دوست یہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہوں انہیں کی چاہئے کہ وہ اپنی خدمات پیش کر کے یہ عظیم الشان ثواب حاصل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے بن جائیں کہ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے یہ قو میں نام کے لحاظ سے بیشک آزاد ہیں مگر حقیقتاً غلام ہیں اور غلاموں کو آزاد کرا نا مومنوں کے عظیم الشان فرائض میں سے ایک فرض ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی کہ وہ اس محلہ کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ کریں مگر اس تعلیم کے علاوہ جو دوسری تعلیم ہے یعنی اعلیٰ مذہبی اور دنیوی تعلیم اس کی طرف بھی ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور میں اس کے لئے صدر انجمن احمد یہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بعض خاص وظیفے ایسے مقرر کرے جن سے اس قوم کے لڑکوں کو زیادہ اعلیٰ تعلیم دلائی جا سکے.خالی پڑھنا لکھنا سکھا دینا کافی نہیں بلکہ اس قوم کی مجموعی حالت کو درست کی
خطبات محمود ۲۰۹ سال ۱۹۳۹ء کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں اعلی تعلیم رائج کی جائے.جب ان لوگوں میں سے بعض کی نو جوان ایف اے اور بی اے ہو جائیں گے ، بعض مذہبی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گے اور کی وہ اپنے گھر کے افراد اور اپنی قوم کے افراد پر اثر ڈالیں گے تو لازماً ان کی حالت پہلے سے بہت سُدھر جائے گی ، وہ اپنے گھروں کو اچھا بنائیں گے ، وہ ان میں صفائی کا زیادہ خیال رکھیں گے، وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں گے اور اس طرح قوم کا علمی عقلی اور تمدنی معیار بہت بلند ہو جائے گا مگر یہ کام خدام الاحمدیہ کا نہیں.میں اس کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تی ان کے لئے بعض وظائف مقرر کرے اور اگر اس سال زیادہ وظائف مقرر نہ کئے جاسکیں تو کی کم از کم ایک وظیفہ اس سال دار الصحت کے کسی بچے کو تعلیم دلانے کے لئے ضرور جاری کر دینا چاہئے.چاہے اُس بچے کو بورڈنگ میں ہی رکھنا پڑے تا کہ اُس کا اخلاقی معیار بھی بلند ہو اور اُس کی ذہنی ترقی بھی ہو.پس وہ ایک سے تجربہ شروع کریں اور جوں جوں اس میں کامیابی ہوتی چلی جائے ان کی وظائف کو زیادہ کرتے چلے جائیں.اگر صد را انجمن احمد یہ یہ کام شروع کر دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی کمینگی ہوگی کہ ہم نام میں تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیں مگر ان خوبیوں میں شامل نہ کریں جو قومی طور پر خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں.پھر میں اُن تمام لوگوں سے خواہش کرتا ہوں جن کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ پڑھے ہوئے نہیں کہ وہ اس کام میں حصہ لیں اور ہماری مدد کریں.یہ محض ان کے فائدہ کی سکیم ہے جو جاری کی گئی ہے.اگر ان کے اوقات کا حرج بھی ہو تو وہ اس حرج کو گوارا کر کے اپنی تعلیم مکمل کر لیں.چھ مہینے انسان کی زندگی میں سے کوئی بڑا عرصہ نہیں.لوگ ہر سال دو دو تین تین مہینوں کے لئے تبدیلی آب و ہوا کے لئے باہر چلے جاتے ہیں اور اس عرصہ میں لازماً اُن کے کا موں کو نقصان پہنچتا ہے مگر وہ کوئی پروا نہیں کرتے.قادیان سے ہی ہر سال پانچ سات آدمی گرمی کے ایام میں کشمیر یا پالم پور چلے جاتے ہیں اور وہ اس عرصہ میں جب تک باہر رہتے ہیں کوئی خاص کام نہیں کرتے.اگر اُن کی یہاں تجارت ہوتی ہے تو تجارت چھوڑ جاتے ہیں،
خطبات محمود ۲۱۰ سال ۱۹۳۹ء ملازمت ہوتی ہے تو رخصت لے لیتے ہیں ، بہر حال وہ تفریح طبع کے لئے اوقات نکال لیتے ہیں کی اور یہاں تو روزانہ صرف ایک یا دو گھنٹے وقت صرف کرنا ہے جس میں کوئی مشکل بات نہیں.کی ہاں ممکن ہے کہ بعض کا ذہن ایسا تیز نہ ہو اور انہیں پندرہ بیس دن اس کام کے لئے کلیہ اپنے آپ کو فارغ کرنا پڑے.اس صورت میں انہیں پندرہ ہیں دنوں کے لئے اپنے آپ کو کی فارغ بھی کرنا پڑے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایسا ہو جو اپنی عمر میں سے پندرہ بیس دن اس کام کے لئے فارغ نہ کر سکے جس میں نہ صرف اس کا اپنا فائدہ ہے بلکہ اسلام اور احمدیت کا بھی فائدہ ہے.پس سب کو چاہئے کہ اِس کام کو اپنا کام سمجھ کر اور سلسلہ کا کام سمجھ کر کریں اور اگر اس کام کے لئے انہیں اپنے وقت کی قربانی کرنی پڑے تو شوق اور خوشی کے ساتھ یہ قربانی کریں جب ان میں تعلیم آجائے گی تو لازما وہ اپنے بچوں کو زیادہ تعلیم دلائیں گے اور پھر تعلیم کی قدر بھی کی انہیں معلوم ہو جائے گی.مثلاً نماز باترجمہ ہے.یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر عبادت میں کبھی لذت نہیں آسکتی.میں نے دیکھا ہے یورپ کے لوگ اکثر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اُس نماز کا فائدہ کیا جس میں محض الفاظ رٹے جاتے ہیں اور کہنے والے کو یہ پتہ تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ اعتراض ہے تو غلط مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نماز کا پورا فائدہ بغیر ترجمہ کے حاصل نہیں ہو سکتا اور اگر ہم اس سوال کا جواب دیں تو صرف دو طرح ہی دے سکتے ہیں.یا تو ہم یہ کہیں کہ باوجو دترجمہ نہ جاننے کے نماز سے ہم پورا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور یا یہ کہیں کہ یہ بالکل غلط بات ہے کہ مسلمان نماز کا ترجمہ نہیں جانتے.مسلمانوں میں سے ہر شخص نماز کا ترجمہ جانتا ہے اور اس وجہ سے وہ نماز سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں.انہی دو جوابوں سے ہم دشمن کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں جواب بالکل غلط ہیں.ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ترجمہ کا کوئی فائدہ نہیں اور بغیر اس کا علم رکھنے کے بھی نماز سے پورا فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور ہم یہ جواب بھی قطعا نہیں دے سکتے کہ ہر مسلمان نماز کا ترجمہ جانتا ہے کیونکہ یہ بھی قطعی طور پر غلط ہے.پس دشمن کے اعتراض سے بچنے کے لئے ہمارے لئے ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ
خطبات محمود ۲۱۱ سال ۱۹۳۹ء سب مسلمانوں کو نماز کا ترجمہ سکھا دیں.پھر دشمن کا اعتراض بھی باطل ہو جائے گا اور ہماری قوم کی مذہبی اور علمی حالت بھی ترقی کر جائے گی اور کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ ہم ایک ایسا کام کرتے ہیں جس کا فائدہ ہمیں اتنا بھی نہیں پہنچتا جتنا فائدہ وہ تو میں اُٹھا رہی ہیں جو اصل زبان کی بجائے اس کا ترجمہ نماز میں پڑھنے کی عادی ہیں.یورپین قوموں میں جس قدر دُعائیں اور عبادت کے کلمات رائج ہیں وہ اصل زبان میں نہیں بلکہ اُن کا ترجمہ ہے.اصل زبان عبرانی تھی مگر بعد میں اِس کا یونانی میں ترجمہ ہوا اور اس سے انگلستان والوں نے انگریزی میں ترجمہ کر لیا، جرمنی والوں نے جرمن میں ترجمہ کر لیا، فرانس والوں نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کر لیا اور روس والوں نے روسی زبان میں ترجمہ کر لیا.اس طرح گو اصل زبان اُن کے سامنے نہیں آتی مگر وہ اس کا مطلب اور مفہوم خوب سمجھتے ہیں مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ عربی زبان میں ہی نماز ہونی چاہئے پنجابی یا اُردو یا کسی اور زبان میں نماز جائز نہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر ایک پنجابی آدمی جو عربی نہیں جانتا نماز میں کھڑے ہو کر یوں نماز دُہراتا ہے کہ میں اس اللہ کا ناں لیکے نماز شروع کی کردا ہاں.جو بڑی مہربانیاں تے احسان کرن والا ہے.میں اس اللہ دی تعریف کردا ہاں جیہڑا رب ہے سارے جہاناں دا، جیہڑا بڑا مہربان نے رحیم ہے.تو فوراً اس کے دماغ میں ایک مضمون پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں جوش مارنے لگ جاتی ہی ہے لیکن اگر وہ کہتا ہے بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سے اور وہ نہیں جانتا کہ بسمہ اللہ الرَّحْمَنِ الرَّحِم کے کیا معنے ہیں تو اُس کا دماغ بالکل خالی رہتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بشیر اللہ نا معلوم کیا چیز ہے؟ رحمن اور رحیم نا معلوم کسے کہتے ہیں؟ پھر جب وہ کہتا ہے الحمد لله رب العلمین سے تو پھر حیران ہوتا ہے کہ حمد کیا ہوئی ؟ اور رب العلمین کے کیا معنے ہوئے ؟ اسی طرح جب وہ کہتا ہے اِيّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينن تا تو وہ یہ نہیں جانتا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِین کے کیا معنے ہیں؟ بے شک اُسے یہ تو خیال کی آئے گا کہ یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں میرے مذہب کی تعلیم ہے اور میں ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہوں مگر اس نماز کا جو علمی فائدہ ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہو گا لیکن اگر جیسا کہ بائیبل کی دُعاؤں کا ترجمہ عیسائی کر لیتے ہیں وہ ایساكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُن
خطبات محمود ۲۱۲ سال ۱۹۳۹ء کہنے کی بجائے یہ کہے کہ اے میرے رب میں تیری ہی عبادت کرداں ہاں اور تیرے کولوں ہی مردمنگدا ہاں ، تو اس وقت وہ ایک ربودگی کی حالت میں ہوگا اور جب وہ یہ کہہ رہا ہو گا کہ خدایا میں تیرے کولوں ہی مددمنگر اہاں تیرے سوا مینوں مدد دینے والا ہور کوئی نہیں ، تو خود ہی سوچ لو اس پر کتنی رقت طاری ہوگی ؟ اور کسی قدر اللہ تعالیٰ کی خشیت اس کے دل میں موجزن ہو گی لیکن اگر وہ عربی الفاظ کا مفہوم نہیں جانتا تو ایساكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اِس کے لئے ایسا ہی ہوگا جیسے پتھر اُٹھا کر کسی کو مار دیا.پس ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے نماز کا ترجمہ آتا ہو ورنہ ہم نماز سے وہ فائدہ ہر گز نہیں اُٹھا سکتے جو عیسائی وغیرہ اُٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ ترجمہ کی وجہ سے اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں مگر مسلمان عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نماز کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکتے.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے باوجود اتنی روحانیت نہیں ہوتی جتنی روحانیت بعض جھوٹے مذاہب کے پیروؤں میں دکھائی دیتی ہے اس لئے کہ وہ اپنی روزانہ عبادت کے کلمات ان زبانوں میں ادا کرتے ہیں جن کو وہ سمجھتے ہیں مثلاً سکھ ہیں ان کا گرنتھ ایسی زبان میں ہے جس کو وہ سمجھتے ہیں.اب ایک سکھ جب گرنتھ کا کوئی شعر پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کا دل جوش اور محبت سے بھرا ہوا ہوتا ہے لیکن ایک مسلمان جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتا وہ بعض دفعہ عبارتوں کی عبارتیں پڑھ جاتا ہے اور اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی منتر کر رہا ہے لیکن اگر وہ قرآن کے معنی سمجھنے لگ جائے تو اس کے اندر بھی ویسا ہی جوش پیدا ہو جائے جیسے س سکھوں اور عیسائیوں میں پایا جاتا ہے بلکہ چونکہ اس کی تعلیم زیادہ اعلیٰ ہے اس لئے اس کے اندر ان سے زیادہ جوش پیدا ہو گا ، اس کا علم ان سے زیادہ بڑھے گا اور اس کا عرفان ان کے عرفان سے بہت اعلیٰ ہوگا لیکن جب یہ معنی نہیں جانتا تو دوسرے سے اس کا علم اور عرفان کم نہیں ہوتا بلکہ ہوتا ہی نہیں.پس دو باتوں میں سے ایک بات ہمیں ضرور کرنی پڑے گی یا تو ہمارے لئے ضروری کی ہو گا کہ ہم اپنے میں سے ہر شخص کو نماز کا ترجمہ سکھا دیں تا کہ وہ نماز کی برکات سے مستفیض ہو یا ج ہمیں اسلام کی بتائی ہوئی عربی دُعائیں اور قرآن کریم کی عبارتیں چھوڑنی پڑیں گی اور ان کی بجائے اُردو یا پنجابی میں نمازیں ڈھالنی پڑیں گی اور ہمیں کہنا پڑے گا کہ بجائے عربی کے
خطبات محمود ۲۱۳ سال ۱۹۳۹ء پنجابی اور اُردو کے کلمات پڑھ لئے جائیں مگر یہ دوسری چیز بڑی خرابیاں پیدا کرنے والی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طریق سے افراد کو فائدہ ہوتا ہے مگر قو میں اس سے بالکل تباہ ہو جاتی ہیں اور ترجمے بدلتے بدلتے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں.آخر وہ ترجمے ہی تھے جن کی وجہ سے عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بجائے خدا تعالیٰ کا برگزیدہ رسول تسلیم کرنے کے خدا اور خدا کا بیٹا بنا دیا.حقیقت یہ ہے کہ ہر زبان میں بعض ایسے محاورے ہوتے ہیں جن کا دوسری زبان میں اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو مفہوم بالکل بدل جاتا ہے.اب یہ ایک عبرانی محاورہ ہے کہ جب کسی کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا جائے تو اس کے معنی خدا تعالیٰ کے پیارے کے ہوتے ہیں.جب تک عیسائی عبرانی سے تعلق رکھتے رہے جہاں اس قسم کا کوئی فقرہ آتا وہ فوراً سمجھ جاتے کہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کے پیارے کے ہیں مگر جب یونانی میں انجیل کا ترجمہ ہوا تو ترجمہ کرنے والوں نے اس محاورہ کا ترجمہ بجائے خدا کے پیارے کے خدا کے بیٹے کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت مسیح سچ سچ کی خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے.اس خرابی کو اس امر سے اور بھی مدد ملی کہ یونانی لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ حضرت مسیح ( سچ سچ اس کے بیٹے ) کا سابق مذہب ایسا تھا کہ اس میں بعض لوگوں کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا جاتا تھا.پس اُنہوں نے حضرت مسیح کے متعلق جب یہ لکھا ہوا دیکھا کہ وہ خدا کے بیٹے تھے تو انہوں نے کچھ اپنے پرانے عقائد کی بناء پر اور کچھ لفظی غلطی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انہیں حقیقی معنوں میں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا.اب اگر اصل کتاب عبرانی میں ہی رہتی تو چونکہ عبرانی محاورہ میں اس کے معنی پیارے کے ہیں اس لئے ان الفاظ سے کسی کو دھوکا نہ لگتا اور نہ شرک کا عقیدہ پھیلتا.اسی طرح ہندوؤں میں اوتار کا لفظ ہے یہ بھی ہندوؤں کا ایک محاورہ ہے لیکن اگر اس کا کی اُردو یا پنجابی میں ہم لفظی ترجمہ کریں تو اس کے معنی یقیناً نبی کے نہیں رہ سکتے بلکہ ایسے معنی بن جاتے ہیں جس میں خدا تعالیٰ کے نزول اور حلول کو بعض اجسام میں تسلیم کرنا پڑتا ہے.تو تراجم کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ زمانہ کے تغیرات کے ساتھ ساتھ مذاہب میں بھی تغیر آ جاتا ہے اور کی عقائد تک بدل جاتے ہیں اور اس کی وجہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ بعض محاورے
خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱۹۳۹ء ایک ملک میں ہوتے ہیں مگر دوسرے میں نہیں.اُردو میں ہی محاورہ ہے کہتے ہیں فلاں شخص کی آنکھ بیٹھ گئی.اب جب بھی کوئی شخص یہ محاورہ سنتا ہے وہ ہر گز یہ خیال نہیں کرتا کہ کسی شخص کی تی آنکھ کے پیر اور گھٹنے تھے اور وہ ان گھٹنوں کو تہہ کر کے زمین پر بیٹھ گئی بلکہ آنکھ بیٹھنے کے معنی ہر اُردو دان یہی سمجھتا ہے کہ آنکھ ضائع ہو گئی لیکن اگر اس محاورہ کا انگریزی میں ہم لفظی ترجمہ کریں تو یا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم پاگل ہو گئے یا یہ کہیں گے کہ یہ ان کا کوئی خاص عقیدہ ہوگا مثلاً اگر ہم اس کی آنکھ بیٹھ گئی کا ترجمہ انگریزی میں یہ کریں کہ ہر آئی سی His eye S) تو لوگ یا تو یہ سمجھیں گے کہ یہ ان کا عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں آدمی ہوتی ہیں اور وہ بیٹھ بھی جایا کرتی ہیں یا یہ کہیں گے کہ کہنے والے پاگل ہیں ان کے اندر اتنی بھی عقل نہیں کہ یہ سمجھ سکیں آنکھیں بیٹھا نہیں کرتیں مگر اُردو جاننے والا کوئی شخص اس غلطی میں مبتلا نہیں ہو گا وہ یہ فقرہ سُنتے ہی کہہ دے گا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ آنکھ جاتی رہی.تو ترجمے میں مفہوم چونکہ کچھ کا کچھ بدل جاتا ہے اس لئے اصل کو نظر انداز کر کے ترجمہ رائج کر دینا مذہب کو بگاڑ دینے کا موجب ہو جاتا ہے.پس خالی ترجمے پر ایسی صورت میں انحصار رکھنا جبکہ اصل الفاظ ساتھ نہ ہوں ایک نہایت خطر ناک بات ہے اور خالی اصل الفاظ کو رٹنا جب کہ اس کا ترجمہ انسان کو نہ آتا ہو یہ بھی کوئی کی مفید بات نہیں.مکمل فائدہ انسان کو اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ اُسے عربی بھی آتی ہوتی ر اس عربی کا ترجمہ بھی آتا ہو.جب وہ قرآن کو عربی میں پڑھے اور اپنی زبان میں اس کا مطلب سمجھے، نماز کو عربی میں ادا کرے اور ساتھ ہی نماز کا مفہوم بھی سمجھتا جائے اور ذکر الہی بھی کی عربی میں کرے مگر ذکر الہی کے ساتھ ساتھ اس کے مطالب سے بھی آگاہ ہوتا چلا جائے.اگر ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو دشمن کا اعتراض بھی جاتا رہتا ہے اور قوم کو فائدہ بھی حاصل ہو جاتا ہے.اس صورت میں ہم دشمن سے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا یہ اعتراض کہ مسلمان کی محض الفاظ کو رٹتے ہیں حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے درست نہیں.کیونکہ ہم میں سے ہر شخص نماز کا ترجمہ جانتا ہے اور جو کچھ وہ نماز میں کہ رہا ہوتا ہے اُس کے مفہوم کو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں صرف ترجمے سے تم کو دھو کا لگ سکتا ہے مگر ہمیں اس قسم کا کوئی دھوکا نہیں لگ سکتا
خطبات محمود ۲۱۵ سال ۱۹۳۹ء کیونکہ اصل زبان بھی قائم رہتی ہے اور اگر ترجمہ میں کوئی غلطی ہو تو اصل زبان کو دیکھ کر اس غلطی کو دُور کیا جاسکتا ہے.پس عربی زبان کا رواج خواہ نماز میں ہو، خواہ تلاوت قرآن میں مذہب کو اس کی اصل صورت میں قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اور نماز اور قرآن کے ترجمے کا رواج روحانیت کے قیام کے لئے ضروری ہے.اگر ہم خالی ترجمہ لے لیں تو علم بے شک بڑھتا رہے گا لیکن مذہب گھٹ جائے گا اور اگر خالی لفظ لے لیں تو مذہب بے شک محفوظ رہے گا مگر علم گھٹ جائے گا.کامل فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب مذہب بھی محفوظ ہو اور علم بھی قائم ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لفظ بھی قائم رہیں اور ان کا ترجمہ بھی انسان کو آتا ہو.جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہو جائیں تو مذہب اور اہل مذہب دونوں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ان لوگوں کی کا نہ تو وہ قو میں مقابلہ کر سکتی ہیں جو ترجمہ ہی ترجمہ جانتی ہیں اصل الفاظ کو بھلا بیٹھی ہیں اور نہ وہ قو میں مقابلہ کر سکتی ہیں جو اصل الفاظ کو تو رہتی رہتی ہیں مگر معانی اور مفہوم سے بے خبر ہوتی ہیں.غرض یہ ایک اہم سوال ہے جس کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس کی طرف خاص طور پر توجہ رکھیں گے.جب وہ یہ قدم اُٹھا لیں گے اور نماز باترجمہ سیکھ جائیں گے تو بہت سے مخلصین کو اللہ تعالیٰ سارا قرآن با ترجمہ پڑھنے کی توفیق دے دے گا کیونکہ انسان جب نیکی کے راستہ میں ایک قدم اُٹھاتا ہے تو ہمیشہ اُسے دوسرا قدم اُٹھانے کی بھی توفیق دی جاتی ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم پڑھ ہی نہیں سکتے.میں ایسے دوستوں سے کہتا ہوں کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے جو اُن کے دل میں پیدا ہوا ہے بے شک اس قسم کی بات کہنے والے پانچ دس سے زیادہ آدمی نہیں مگر میں کہتا ہوں زندہ قوموں میں ایک آدمی بھی ایسی غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دوسرا تو اپنے کام کا حرج کر کے پڑھانے آتا ہے مگر پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سرد ملک کا رہنے والا شخص جیٹھ ہاڑ کے دنوں میں سخت دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا اور پاس ہی مکانات تھے
خطبات محمود ۲۱۶ سال ۱۹۳۹ء قریب سے کوئی شخص گزرا تو اُس نے کہا میاں تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ سایہ میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے ؟ یہ سن کر اُس نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا میں بیٹھ تو جاتا ہوں مگر تم مجھے دو گے کیا ؟ یہ بھی ایسی ہی حماقت ہے.پڑھنے میں آخر تمہارا اور تمہاری نسلوں کا فائدہ ہے کسی اور کا اس میں کیا فائدہ ہے؟ جب تم پڑھ جاؤ گے تو تم اس بات پر تیار ہو جاؤ گے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو تعلیم دلاؤ اور اگر تم انہیں تعلیم نہ بھی دلاؤ گے تب بھی وہ کہیں گے کہ ہمارا باپ اتنا پڑھا ہوا تھا ہمیں بھی اس قد رضر ور تعلیم حاصل کرنی چاہئے اس طرح علم کا تسلسل قائم رہے گا اور جن نقائص کی طرف لوگ انہیں توجہ دلائیں گے اُن کو دُور کرنے کے لئے وہ تیار رہیں گے.ڑھنا پس میں اُمید کرتا ہوں کہ ہم میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہوگا جو یہ کہے کہ میں پڑھ نہیں چاہتا اور اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کا ذہن بالکل مُردہ ہے اور یہ حالت ہمارے اندر نہیں ہونی چاہئے.میں چونکہ لاہور سے ابھی آ رہا ہوں اور مسجد میں پونے تین بجے کے قریب پہنچا ہوں اس لئے میں اس سے زیادہ خطبہ نہیں پڑھ سکتا مگر میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اس قدر مضمون.فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس پر جوش سے عمل کرنے کی کوشش کریں گے.میں نے ایک تو یہ کہا ہے کہ دارالصحت والوں کو پڑھانے کے لئے دوستوں کی خدمات کی ضرورت ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.دوسرے میں نے تعلیم و تربیت والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اس سال کم سے کم ایک وظیفہ دارالصحت کے کسی بچہ کو تعلیم دلانے کے لئے جاری کر دیں اور جب تک اُسے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ ہو جائے اُس وقت تک یہ وظیفہ جاری رکھیں.پھر میں نے نماز کا ترجمہ اور قرآن ناظرہ پڑھانے کے متعلق اپنی سکیم کا ذکر کیا ہے اور میں کی نے توجہ دلائی ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو پڑھانے کے لئے پیش کیا ہے وہ ہمت اور استقلال سے پڑھا ئیں اور جنہوں نے پڑھنا ہے وہ بھی استقلال سے پڑھیں کیونکہ اسی پر اُن کی روحانیت کا دار و مدار ہے.اسی طرح میں نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ وہ نہیں پڑھ سکتے یا اپنی پڑھائی کے لئے وہ وقت نہیں نکال سکتے انہیں اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے اور
خطبات محمود ۲۱۷ سال ۱۹۳۹ء خدا تعالیٰ پر توکل کر کے اس کام کو شروع کر دینا چاہئے.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہے تو اپنی طرف سے وہ بہر حال کام شروع کر دیں خدا اُن کی مدد کرے گا اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اور بہت سے دُنیوی کام ہیں اور اگر وہ اس طرف توجہ کریں گے تو اُن کا موں کو نقصان پہنچے گا تو بھی انہیں چاہئے کہ وہ خدا پر توکل کریں اور اُس کی مدد پر بھروسہ رکھتے ہوئے یہ کام شروع کر دیں یہ ایک نیک کام ہے اس میں کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہئے.“ ا تذکرہ صفحہ ۳۵۹.ایڈیشن چہارم (الفضل ۴ رمئی ۱۹۳۹ء) الفاتحها الفاتحه:٢ الفاتحه: ۵
خطبات محمود ۲۱۸ ۱۴ سال ۱۹۳۹ء مساجد کی توسیع کے متعلق چندہ کا اعلان تحریک جدید کے وعدے جلد پورے کئے جائیں ( فرموده ۵ مئی ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میں صدر انجمن احمد یہ اور جماعت کو دوامور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ان میں سے ایک کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اس لئے میں نے اس کا نام لیا ہے.دوسرے کا تعلق جماعت سے ہے اور پہلے کا جماعت سے بھی ہے.پہلا امر جس کا تعلق دونوں سے ہے وہ ہماری مساجد کی توسیع کا سوال ہے.میں دیکھ رہا ہوں کہ جب سے گرمی تیز ہوئی ہے مسجد کا ایک گوشہ سائبان نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑا رہتا ہے.دُھوپ کی وجہ سے لوگ وہاں بیٹھ نہیں سکتے.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ اسلام جس قسم کی مشقت کی برداشت کی عادت پیدا کرنا چاہتا ہے اور صحابہ جن حالات سے گزرتے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس خالی جگہ میں نہ بیٹھ سکنا اسلام کے معیار کے مطابق نہیں.عرب کے شمالی حصہ میں گوسردی بھی پڑتی ہے مگر بالعموم وہاں شدید گرمی پڑتی ہے، ایسی شدید کہ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے مگر اس کے باوجود صحابہ مسجد نبوی کے کھلے صحن میں آ کر نمازیں پڑھتے تھے.ایسی کڑکتی دھوپ میں جو یہاں سے زیادہ تیز ہوتی تھی اور ایسی گرمی میں جو یہاں سے زیادہ شدید ہوتی تھی صحابہ آ کر بغیر کسی سائبان کے
خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۹ء کھلے صحن میں نماز پڑھتے تھے.سوائے ان چند ایک کے جن کو چھت کے نیچے جگہ مل جاتی تھی باقی سب کے سب کھلے میدان میں دھوپ میں کھڑے ہوتے تھے اور صحن میں اس قدر کنکر ہوتے کی تھے کہ صحابہ کا بیان ہے ہم چار پانچ بار ہاتھ مارتے تھے تب بھی سجدہ کے لئے جگہ صاف نہ ہوتی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ تین بار تک تم ہاتھ مار سکتے ہو اس سے زیادہ مرتبہ نہیں اور اس معیار کے مطابق تو صدر انجمن احمد یہ اور منتظمین کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تو دھوپ اور گرمی نہیں ہوتی اس لئے بغیر سائبان کے اگر بیٹھنا پڑے تو کیا حرج ہے لیکن کی ہر زمانہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور پھر جب باقی لوگ سائبان کے نیچے بیٹھے ہوں تو دوسروں کو بھی دھوپ میں بیٹھنے میں تامل ہوتا ہے.ہاں اگر سائبان بالکل ہی ہٹا دیں اور اسی قسم کے حالات سے گزریں جن میں سے صحابہ گزرتے تھے تو یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے لیکن جب کچھ لوگ تو آرام سے بیٹھے ہوں تو بعض سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دُھوپ میں ہی بیٹھ جائیں ٹھیک نہیں.اس میں شبہ نہیں کہ جن کو سائبان میں جگہ نہیں ملتی اُن کو یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ تمہیں کس نے کہا تھا تی کہ پہلے نہ آؤ ؟ اگر پہلے آ جاتے تو ضرور اچھی جگہ مل جاتی اور یہ جواب بھی معقول ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے اندر کمزوری ہو تو ایسے موقع پر اس کا نفس اسے یہ جواب نہیں دیتا کہ دھوپ میں بیٹھنے کی ذمہ داری مجھ پر ہی ہے.اگر پہلے آجاتا تو سایہ میں جگہ مل جاتی اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے لئے پہلے آتا اور امام کے کی انتظار میں بیٹھتا ہے اُسے ثواب ملتا ہے.لے ثواب بھی حاصل کر سکتا اور اس طرح ظاہری آرام کے ساتھ ثواب بھی حاصل ہوتا مگر ہر انسان کا نفس اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ اس کے دماغ کو صحیح مشورہ دے اور صحیح راہ پر چلائے.اس لئے بالعموم انسانی دماغ غلط راہ پر لگاتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ میں کیوں تکلیف اُٹھاؤں؟ اس لئے جہاں اتنے سائبان بنوائے گئے ہیں وہاں اس خالی جگہ کے لئے بھی بنوائے جا سکتے تھے بلکہ لاہور سے تو دو تین روز میں خریدے جاسکتے تھے اور اگر تیار نہ ملتے تو ہفتہ دو ہفتہ میں تیار کرائے جا سکتے تھے مگر مجھے افسوس ہے اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی.اس کے علاوہ ایک اور سوال بھی ہے اور وہ مسجد مبارک کا ہے اس کی توسیع کے لئے زمین
خطبات محمود ۲۲۰ سال ۱۹۳۹ء خریدی جا چکی ہے مگر باوجود اس کے کہ اس پر دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس کی توسیع کی کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی پھر مسجد اقصیٰ کی موجودہ وسعت کے باوجود اگر اس خالی جگہ میں سائبان بھی ہوں تو بھی میں سمجھتا ہوں یہ ابھی نا کافی ہے.سردیوں کے دنوں میں جب سب جگہ لوگ بیٹھے ہوتے تھے میں نے دیکھا ہے کہ پھر بھی بعض لوگ گلیوں میں کھڑے ہوتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ ابھی اس کی وسعت کی آواز بلند ہو رہی ہے.اس کے علاوہ عورتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں وہ جمعہ کے ثواب سے بالکل محروم رہتی ہیں.ایک عرصہ سے وہ جمعہ اور خطبہ.محروم رہتی ہیں اب لاؤڈ سپیکر لگ جانے کی وجہ سے وہ اُم طاہر کے صحن میں جمع ہو کر شامل ہو جاتی کی ہیں لیکن مسجد میں آ کر نماز پڑھنا جو ثواب رکھتا ہے وہ کسی کے گھر میں بیٹھ کر پڑھنے سے بہت زیادہ ہے.پس میرے نزدیک مسجد اقصیٰ میں توسیع کی بھی ابھی ضرورت ہے اور مسجد مبارک کی بھی.اسی لئے کچھ عرصہ ہوا میں نے تحریک کی تھی اگر صدرانجمن احمد یہ اور ذمہ دار افسر اس پر توجہ کرتے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو اب تک یہ کام ہو چکا ہوتا.میں نے جب اس کے متعلق کی خطبہ پڑھا تو باوجودیکہ میں نے کہہ دیا تھا کہ اس تحریک میں دس روپیہ سے زیادہ کسی سے نہیں لیا تی جائے گا پھر بھی ایک عورت نے اپنی دوسو روپیہ کے قریب مالیت کی چوڑیاں اس فنڈ میں داخل کرنے کے لئے مجھے بھیج دیں جو میں نے بہ زور واپس کیں اور کہا کہ آپ اس میں دس روپیہ تک ہی دے سکتی ہیں اس خطبہ کے بعد طبائع میں ایک جوش پیدا ہوا تھا باہر سے بھی اس کے کی متعلق مجھے کئی خطوط آئے تھے اور میں سمجھتا ہوں اگر صدر انجمن احمد یہ کام کرتی تو اس خطبہ کا کی افراد پر اس قدر اثر تھا کہ اب تک یہ کام ہو چکا ہوتا لیکن اس نے نہ تو اس آواز کو سب کے کانوں تک پہنچانے کی ضرورت سمجھی نہ اپنی کوئی ذمہ داری محسوس کی ، نہ اس کے متعلق کوئی ریز ولیوشن پاس کیا اور نہ بیت المال نے اس تحریک سے فائدہ اُٹھایا.اُنہوں نے بس خطبہ سنا اور مسکرا کر چل دیئے اور سمجھ لیا کہ تحریک ہو چکی.حالانکہ ہر تحریک کامیابی کے لئے پرو پیگنڈا چاہتی ہے.ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں تک اسے پہنچایا جائے اور وصولی کا انتظام کیا جائے.آواز کان میں پڑی اور سُن کر چلے گئے یہ علامت تو قرآن کریم نے منافقوں کی بتائی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو مومن اُسے سُن کر ذہن نشین کر لیتے تھے اور عمل پر
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء مستعد ہو جاتے تھے لیکن منافق باہر نکلتے ہی کہتے تھے کہ مَاذَا قَالَ أَيْفاً لے ابھی ابھی یہ کیا کہہ رہے تھے؟ ہماری جماعت اس بات کی دعویدار ہے کہ وہ خلافت کا احترام کرتی ہے اگر یہ صحیح ہے تو سب سے زیادہ احترام مرکزی انجمن کی طرف سے ظاہر ہونا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی سب سے زیادہ میری ہدایات کو نظر انداز کرتی ہے.اس کی مثال بالکل من چہ سرائم وطنبورہ من چہ مے سرائڈ والی ہے.طنبورہ کچھ اور کہتا ہے اور بجانے والا کچھ اور بجاتا ہے اور اس کے باوجود ناظر شکایت کرتے ہیں کہ آپ پبلک میں ہمارے خلاف ریمارکس کرتے ہیں اس سے پبلک میں ہماری عزت قائم نہیں ہوتی مگر میں کہتا ہوں کہ خالی عزت کس کام کی جس سے اسلام کو کچھ فائدہ نہ پہنچے.تم لوگ اپنے طریق کو بدلو پھر خود بخود تمہاری عزت قائم ہو جائے گی جب تک تم اُس ہستی سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کرتے جسے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور (امام) بنایا کی ہے میں کتنا ہی کیوں نہ کہوں لوگ تمہاری عزت نہیں کریں گے کیونکہ عزت اللہ تعالیٰ کی طرف کی سے آتی ہے اور خدا تعالیٰ اس شخص کی عزت کس طرح کر سکتا ہے جو اس کے مقرر کردہ خلیفہ کی عزت نہیں کرتا.جب تک آپ لوگ گوش بر آواز نہیں رہتے اور یہ خیال نہیں رکھتے کہ کیا آواز (امام) کی طرف سے آئی ہے اور پھر اس پر عمل کرنے کے لئے مستعدی سے دوڑ نہیں پڑتے اُس وقت تک آپ لاکھ سر پٹکیں اپنی عزت قائم نہیں کر سکتے.جس دن آپ لوگ اپنی ذمہ داری کی کو سمجھیں گے اسی دن لوگوں میں بھی آپ کی عزت قائم ہو جائے گی.اب که صدرانجمن احمد یہ اس کام میں ناکام ہو چکی ہے میں اسے جہاں تک قادیان اور اس کے گردونواح کے دیہات کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کے سپر د کرتا ہوں اور نیشنل لیگ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اس کام میں اس کی مدد کرے.گوایسی باتیں اس کے پروگرام میں شامل نہیں لیکن رفاہ عامہ کا کام کرنا اس کا فرض ہے.پس نیشنل لیگ والے بھی اپنی خدمات ان کے سپرد کر دیں اور وہ تین دن کے اندر اندر ساری قادیان ، بھینی ، کھارا، منگل ، احمد آباد اور قادر آباد سے وصولی کے لئے حلقے مقرر کر کے آنے والی جمعرات کے روز ہر احمدی گھر کے تمام مرد و عورت اور بچہ سے ایک آنہ فی کس کے حساب سے توسیع مساجد کے لئے چندہ وصول کریں.بچوں کی طرف سے ان کے ماں باپ ادا کریں.اس سے زیادہ جو دینا چاہے بیشک دے لیکن
خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۹ء دس روپیہ سے زیادہ کسی سے نہ لیا جائے.ایک آنہ سے کم کسی سے نہ لیا جائے اور دس روپیہ سے زیادہ.اور جو لوگ ایک آنہ بھی نہ دے سکیں ان کی طرف سے وہ لوگ ادا کریں جو دس روپے سے زیادہ دینا چاہتے ہیں.ہم تو کسی سے دس روپیہ سے زیادہ نہیں لیں گے لیکن جو زیادہ دینا چاہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے دیں یہ بھی ثواب حاصل کرنے کا ایک طریق ہے.اس طرح جو غریب نہیں دے سکتا اُسے بھی ثواب مل جائے گا اور ان کو خدا تعالیٰ کے بندہ کا دل رکھنے کا ثواب بھی مل جائے گا.پس جو لوگ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک آنہ دے سکیں وہ دے دیں مگر جو زیادہ دینا چاہیں وہ دس روپیہ تک دے سکتے ہیں اور جو اس سے بھی زیادہ دینا چاہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے دیں.جو لوگ ایک آنہ بھی نہ دے سکیں ان کی بھی ایک فہرست بنالی جائے اور پھر جو زیادہ دینا چاہیں وہ ایسے لوگوں کی طرف سے دے دیں.قادیان اور اس کے اردگرد کی احمدی آبادی دس بارہ ہزار ہے.ضروری نہیں کہ اُن میں سے ہر شخص ایک آنہ ہی دے بہت سے ایسے ہیں جو زیادہ دیں گے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے خطبہ کوسُن کر ایک عورت نے دوسور و پیہ کا زیور دے دیا تھا.بعض مردوں نے بھی اصرار کیا تھا کہ ان سے دس روپیہ سے زیادہ منظور کیا جائے اور باہر سے بھی بعض نے دس روپیہ سے زیادہ بھیج دئے تھے اور جب اُن کو لکھا گیا کہ اس تحریک میں دس روپیہ سے زیادہ نہیں لئے جاسکتے تو اُنہوں نے لکھا کہ ہمارے خاندان کے اتنے افراد ہیں ان کی طرف سے محسوب کر لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوش ہے ان مقامات مقدسہ کی وسعت میں حصہ لینے کا جنہیں اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے لئے دائمی برکات کا موجب بنایا ہے.جماعت ان کی قدر و منزلت کو بخوبی بجھتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس تحریک میں اپنے حوصلہ اور ہمت کے مطابق ضرور حصہ لے گی.پس قادیان اور ملحقہ جماعتوں سے آئندہ جمعرات کے روز چندہ اکٹھا کیا جائے اور باہر کی جماعتوں سے بھی ، خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ یا دوسرے لوگ کوشش کر یں پہلے اپنی اپنی جماعت کے تمام افراد کا اچھی طرح جائزہ لے لیں اور پھر ایک ہی دن سب جماعت نکل کھڑی ہو اور ہر ایک سے کم سے کم ایک آنہ وصول کرے حتی کہ بچوں سے بھی لیا جائے خواہ
خطبات محمود ۲۲۳ سال ۱۹۳۹ء کوئی بچہ ایک دن ، ایک گھنٹہ یا ایک سیکنڈ کا ہی کیوں نہ ہو اُس کے والدین اُس کی طرف سے بھی ادا کی کریں اور جو ایک آنہ بھی نہ دے سکتے ہوں اُن کی طرف سے دوسرے جو زیادہ دینا چاہتے ہوں دے دیں.جو آسودہ حال لوگ خواہش رکھتے ہوں کہ زیادہ دیں انہیں اس قانون سے تو مستی نہیں کیا جاسکتا ہاں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے سکتے ہیں.پس قادیان ،ننگل ، بھینی ، کھارا، احمد آباد، قادر آباد میں سے اگلی جمعرات کو چندہ وصول کیا جائے.اس کام کے لئے وفد مقرر کر دیئے جائیں.ایک وفد تو وصولی کے لئے ہوا اور دوسرا یہ دیکھنے کے لئے کہ وصولی صحیح طور پر ہوگئی ہے اور جو نہ دے سکے اُسے چھوڑیں نہیں بلکہ اُس کا نام بھی ضرور لکھ لیں اور ساتھ لکھ دیں کہ غربت کی وجہ سے نہیں دے سکا یا نہیں دینا چاہتا.تاہم اس کی طرف سے ادا کرا دیں اور اس طرح وہ لوگ بھی جو نہیں دے سکتے یا جنہوں نے نہیں دیا ثواب سے محروم نہ رہ جائیں.جس شخص کو توفیق ہے اور وہ نہیں دیتا وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اگر ہم اس کی طرف سے دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف کر کے آئندہ اسے نیکی کے کام میں شامل ہونے کی توفیق دے دے گا.پس جو نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا دونوں کے نام لکھ لئے جائیں اور ہم کوشش کریں گے کہ دوسروں کی طرف سے وہ کسر پوری ہو جائے اور ان کا خانہ خالی نہ رہے.یہ تو مساجد کے متعلق پہلی بات تھی دوسرا امر جو خالص جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ تحریک جدید کا چندہ ہے اس کے اعلان پر چھ ماہ گزر چکے ہیں نومبر ، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ ، اپریل.اس وقت تک ایک لاکھ چھبیس ہزار سے زیادہ کے وعدے آچکے ہیں اور ہندوستان سے باہر کی جماعتیں ابھی باقی ہیں.خیال ہے کہ گل وعدے ایک لاکھ انتیس ،تمہیں ہزار کے ہو جائیں گے اس چھ ماہ کے عرصہ میں اگر باہر کے چندے نکال بھی دیئے جائیں تو ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہندوستان کے وعدے ہوں گے جس میں سے نصف یعنی پچپن ہزار کے کی قریب اب تک وصول ہو جانا چاہئے تھا مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت تک صرف چوبیس ہزار کے قریب روپیہ آیا ہے.جو گویا وعدوں کا پانچواں حصہ ہے حالانکہ چھ ماہ گزر چکے ہیں اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جو بلی فنڈ میں چندے دینے کی وجہ سے یہ تاخیر ہو رہی ہے تو میں سمجھتا یہ
خطبات محمود ۲۲۴ سال ۱۹۳۹ء معمولی بات ہے کسی کا پہلے وصول ہو گیا اور کسی کا بعد میں مگر افسوس یہ ہے کہ جو بلی فنڈ کا چندہ بھی کی اس رفتار سے وصول نہیں ہو رہا کہ سمجھا جائے وہ تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کے رستہ میں ہے روک بن رہا ہے البتہ صدرانجمن احمدیہ کے چندہ میں گزشتہ دو ماہ میں خوشکن زیادتی ہوئی.جس میں شوری کے مقرر کردہ چندہ سے دو ہزار روپیہ زائد آیا ہے.چندہ عام اور حصہ آمد کی رقم دولاکھ میں ہزار تھی مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے دو لاکھ بتیس ہزار پانچ یا چھ سو وصول ہوا ہے.گویا جماعت نے چندہ عام اور وصایا کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور یہ بتاتا ہے کہ جوں جوں بچے جوان ہوتے اور بے کار کام حاصل کرتے ہیں اور آمد رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جماعت کا قدم ترقی کی طرف اُٹھ رہا ہے اور اگر یہی حالت رہی تو اسراف سے بچنے کے لئے جو میں نے ہدایات دی ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے مالی لحاظ سے جو دقتیں اس وقت در پیش ہیں وہ دُور ہو جائیں گی مگر صد را انجمن احمدیہ کے چندوں میں یہ اتنی ترقی نہیں جتنی کمی تحریک جدید کے چندوں میں ہے.یہ کمی دراصل اس وجہ سے ہوتی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کل دے دوں گا.یہ بھی نفس کا دھوکا ہوتا ہے.انسان سمجھتا ہے آج نہیں کل دے دیں گے اور کل کہہ دیتا ہے کہ پرسوں دے دیں گے.پھر بعض اوقات وہ سمجھتا ہے یہ بھی دینا ہے اور وہ بھی دینا ہے اور وہ گھبرا کر بجائے اس کے کہ کوشش کو زیادہ کرے ہمت ہار بیٹھتا ہے اور جب بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے تو وہ کی پھر بالکل ہی کوشش چھوڑ دیتا ہے.پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے جس کے صحیح معنی تو میں نہیں جانتا مگر مفہوم سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چڑھیا سو تے لتھا بھو.بھو کے لفظی معنی تو میں نہیں جانتا لیکن اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی انسان پر سو روپیہ قرض ہو جاتا ہے تو وہ بے باک ہو جا تا ہے اور قرضے کا خوف جاتا رہتا ہے.وہ سمجھتا ہے سو کون ادا کرے جب تک دس ہیں یا تمہیں چالیس قرض ہو وہ جد و جہد کرتا ہے کہ اتر جائے مگر جب سو ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ اُتر نا تو ہے نہیں جانے دو کیا کوشش کرنی ہے تو بعض کمزور طبع لوگ جب ان پر بوجھ ہو جائے تو بجائے اس کے کہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی زیادہ جد و جہد کریں چُپ بیٹھ جاتے ہیں.ایک بزدل انسان کے نقطہ نگاہ سے تو ممکن ہے یہ حالت تسلی بخش ہو لیکن یہ ایسی بات ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور سمجھتا ہے کہ اب میں چونکہ اسے دیکھ نہیں سکتا
خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۹ء اس لئے میرے واسطے کوئی خطرہ بھی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جد و جہد کرنے والے کے لئے اگر ایک فی صدی امکان بھی باقی ہو تو وہ اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے نناوے فیصدی امکانات تباہی کے ہوں اور ایک بچاؤ کا ہو تو بھی وہ ضرور کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ممکن ہے یہی ایک میرے لئے مقدر ہو اور میں بچ جاؤں.میں نے بتایا تھا کہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ذرائع کی طرف بھی توجہ کرنا ضروری ہے اور جب تک ہم عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ ملائیں کا میاب نہیں ہو سکتے.عورتیں اور بچے ہی ہیں جن کی محبت کی وجہ سے انسان اپنے اوپر بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.بچہ جب بلبلا کر ایک چیز کی خواہش کر رہا ہو تو انسان کا دل رنجیدہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ چاہے مجھ پر بوجھ ہی کیوں نہ ہو جائے اس کی خواہش پوری کر دوں یا اگر بیوی اصرار کے ساتھ کسی چیز کی خواہش کرے تو مرد کہتا ہے کہ چلو اِس کا دل کیا دکھانا ہے.یہ تعلق چونکہ محبت کے ہوتے ہیں اس لئے کی یہ مردوں پر زیادہ بوجھ کا باعث ہو جاتے ہیں.یورپ میں تو ایسا نہیں ہوتا وہاں تو بوجھ کلبوں اور شرابوں کی وجہ سے ہوتا ہے وہاں تو لوگ شادیاں کرتے ہی نہیں لیکن ہمارے ملک میں لوگ زیادہ تر بیوی بچوں کی وجہ سے زیر بار ہوتے ہیں.اس لئے جب تک وہ مدد نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.بعض اوقات ایک انسان نیک ہوتا ہے اور کچی خواہش رکھتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے لیکن اس کی بیوی اتنی سخت اور شَدِیدُ البطش ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے کی روپیہ اس کے کہنے کے مطابق خرچ نہ کیا تو وہ لڑائی دنگا کرے گی اور اس طرح میری بے عزتی بھی ہوگی.تو بچوں کی محبت اور عورتوں سے بعض ڈر اور بعض محبت کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے لیکن میں نے بتایا تھا کہ ہماری عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص میں اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ بہت ہی کم ایسی ہیں کہ اگر ان کے سامنے دین کی ضرورت کو رکھا جائے تو وہ تعاون کرنے اور ہاتھ بٹانے کے لئے تیار نہ ہوں.سینکڑوں عورتیں ایسی ہیں جو مردوں سے بھی زیادہ کی دین کا جوش رکھتی ہیں اور ایسی بھی ہیں جو مردوں کو مجبور کرتی ہیں کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں.دوسری قوموں میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں.کئی سال ہوئے میں نے تحریک کی تھی کہ عورتوں کو تحریک کی جائے کہ وہ چندوں کی وصولی میں مدد کریں.اس پر ایک جماعت نے لکھا کہ
خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۹ء ان کے ہاں ایک دوست تھے جو بہت سست تھے وہاں کے دوستوں نے جاکر ان کی بیوی سے کہا کہ اس دین کے کام میں آپ ہماری مدد کریں اِس دوست نے جب تنخواہ لاکر بیوی کو دی تو کی اُس نے پوچھا کہ آپ چندہ دے آئے ہیں اُس نے جواب دیا کہ نہیں چندہ تو نہیں دیا سیکرٹری ملا نہیں تھا پھر دے دوں گا مگر بیوی نے کہا کہ میں تو ایسے مال کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں ہوں جس میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا نہ کیا گیا ہو.میں تو نہ اس سے کھانا پکاؤں گی اور نہ کسی اور کی کام میں صرف کروں گی.مرد نے کہا کہ چندہ میں صبح دے دوں گا اس وقت دیر ہو چکی ہے رکھو مگر بیوی نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کر آؤ پھر میں ہاتھ لگاؤں گی اور اگر اس وقت جا کر ادا نہیں کر سکتے تو ابھی اپنے ہی پاس رکھو.اس پر وہ شخص اُسی وقت گیا اور جا کر سیکرٹری سے کہا کہ پتہ نہیں تم لوگوں نے کیا جادو کر دیا ہے کہ میری بیوی تو روپیہ کو ہاتھ نہیں لگاتی اور کہتی ہے کہ جب تک چندہ ادا نہ ہوئیں اسے خرچ ہی نہیں کروں گی.اُسی وقت چندہ ادا کیا اور کہا کہ آئندہ تنخواہ کی کے ملنے کے دن ہی مجھ سے چندہ لے لیا کرو تا گھر میں جھگڑا نہ ہو.تو وہ عورت تھی مگر مرد سے زیادہ ہمت اور جوش رکھتی تھی.یہ بھی ممکن ہے کہ اس مرد کے دل میں دینے کی خواہش تو ہومگر چونکہ خرچ بیوی کرتی تھی اس لئے وہ ڈرتا ہو کہ کہیں گھر میں جھگڑا نہ ہوا اور جب اسے معلوم ہو گیا کہ اس کی بیوی کی بھی یہی خواہش ہے تو اُس نے بھی آگے قدم بڑھا لیا ہو.تو ہماری عورتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا اخلاص اور جوش موجود ہے کہ اگر ان کو دین کی ضرورت سے آگاہ کر دیا جائے تو ساٹھ فیصدی ان میں سے تعاون کے لئے تیار ہو جائیں گی اور جب ان کو معلوم ہوگا کہ ان کے مرد اس لئے چندے ادا نہیں کر سکتے کہ گھر کے اخراجات زیادہ ہیں تو وہ ان کو کم کر کے مدد کریں گی.اس کے لئے میں نے ایک تجویز یہ کی ہے کہ میں عورتوں کے نام ایک پٹھی لکھوں گا جو ہر عورت کو بھیجی جائے گی اور اس میں ان کو تحریک کی جائے گی کہ وعدہ کریں کہ وہ کی ہماری مدد کریں گی اور اقتصادی کفایت کر کے اور اپنے خاوندوں کو یاد دلا کر انہیں ذمہ داریوں کی کے ادا کرنے کے قابل بنادیں گی اور جو عورتیں یہ وعدہ کریں وہ اپنے دستخط کر کے بھیج دیں ممکن ہے اس تحریک میں پہلے پہل زیادہ کامیابی نہ ہو لیکن اگر مسلسل جاری رکھا جائے تو عورتوں میں ایسی بیداری پیدا ہو جائے گی اور وہ ایسی ہوشیار ہو جائیں گی کہ پھر یاد دہانی کی بھی ضرورت
خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۹ء نہ رہے گی اور ایسی عورتوں کی گود میں پرورش پانے والی اولا د بھی ایسی مخلص اور دین دار ہوگی کہ جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر پوری طرح ادا کرے گی.اِس وقت تک ہماری طرف سے عورتوں میں بیداری پیدا کرنے کی پوری پوری جدو جہد نہیں ہوئی.ایک طرف تو یورپ نے ان کے اندر ایسی بیداری پیدا کر دی ہے کہ وہ سارا دن ادھر اُدھر پھرتی اور ناچتی ہیں اور رات کو جب مرد تھکا ہوا آتا ہے تو انہیں اس کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ بھی شراب پی کر سو جاتا ہے.انہوں نے کی عورتوں کو ایسا بیدار کیا ہے کہ ان کی نیند ہی اُڑ چکی ہے اور خود سو گئے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ان کی بیداری کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.حالانکہ اسلام نے عورتوں کو خاص احکام اور ذمہ داریاں دی ہیں اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کام لیا ہے.دُنیا اس وقت دوضد وں کی طرف جارہی ہے.یورپ نے تو ان کو ایسا بیدار کر دیا ہے کہ موت کے قریب پہنچا دیا ہے.کیونکہ جب نیند نہ آئے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور ہم نے ان کو ایسا سلایا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے شاید وہ مر چکی ہیں.ہم نے ان کی طاقتوں سے کام لینا بالکل ہی چھوڑ دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خَيْرُ الْأُمُورِ اَوْسَطُهَا ہے اور قرآن کریم میں بھی امت مسلمہ کو امت وسطی سے کہا گیا ہے.پس ہما را قدم بھی درمیانی رستہ پر ہونا چاہئے.نہ تو اتنی آزادی دے دیں کہ ہر قسم کی قیود کو چھوڑ دیں اور نہ ایسی پابندیاں عائد کر دیں کہ گردنوں میں طوق واغلال اور پاؤں میں زنجیر وسلاسل ڈال دیں بلکہ چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ قیود اور پابندیوں کا ان کو پابند بناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آزادی دیں تا مرد اور عورتیں دونوں اپنے اپنے حلقہ میں مفید کام کر سکیں کیونکہ جب تک عورتوں میں بیداری اور دینی جوش نہ ہو ہم خود بھی پورے طور پر بیدار ہو کر کام نہیں کر سکتے.مرد کا کام گھر سے باہر ہی سہی اور عورت کا گھر میں لیکن جب مردد یکھے کہ گھر میں اس کی بیوی بیمار اور بے ہوش پڑی ہے تو وہ باہر جا کیسے سکتا ؟ ہے مگر جب گھر میں بیوی تندرست اور ہوش میں ہو تو وہ آزادی کے ساتھ باہر جائے گا اور شوق سے ہر کام کرے گا.اسی طرح اگر مردوں کو یہ معلوم ہو کہ ہماری بیویاں ہوشیار ہیں تو وہ یہ نہیں کی سوچیں گے کہ ہم اگر کوئی کام کر کے گھر گئے تو بیوی لڑے گی بلکہ ہمارے ساتھ شریک ہوگی تو وہ خوش دلی سے کام کریں گے.صحابہ کی عورتیں اسی رنگ میں دینی امور میں تعاون کرتی تھیں.
خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۹ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مقرب صحابی تھے دینی خدمات کا اُن کو بہت شوق تھا اور ہمیشہ اس سلسلہ میں ادھر اُدھر بھیجے جاتے تھے.ایک موقع پر اُن کا بیٹا بیمار تھا لیکن انہیں کوئی دینی کام پیش آ گیا اور وہ اُسے بیمار ہی چھوڑ کر صبح گھر سے نکل گئے بعد میں لڑکا فوت ہو گیا.وہ شام کو گھر آئے.ہمارے زمانہ کی کوئی عورت ہوتی تو آتے ہی ایک دو ہتر خاوند کے رسید کرتی اور ایک اپنے آپ کو مارتی کہ کمبخت تجھے کچھ پتہ ہی نہیں بچہ کا کیا حال ہے اور یا پھر برقعہ اوڑھ کر نکل کھڑی ہوتی کہ میں ایسے منحوس گھر میں رہوں گی ہی نہیں مگر اس عورت کا خاوند جب گھر آیا تو جانتے ہو اُس نے کیا کیا ؟ اُس نے آگے بڑھ کر استقبال کیا، ہنسی خوشی کھانا کھلایا اور جب خاوند نے پوچھا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ تو کہا کہ پہلے سے اچھا ہے کیونکہ وہ فوت ہو چکا تھا اور تکلیف کی حالت سے نکل چکا تھا.جب مرد کھانا کھا چکا تو اُس نے چار پائیاں بچھائیں ، بستر کئے اور جب سونے لگے تو کہا کہ اگر محلہ کی کوئی عورت میرے پاس کوئی امانت چھوڑ جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد آ کر واپس مانگے تو مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ خاوند نے کہا کہ یہ کیا بے ہودہ سوال کی ہے؟ امانت امانت والے کے حوالہ کرنی چاہئے اور کیا کرنا چاہئے؟ تب اُس نے کہا کہ اچھا ہمارے پاس بھی اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اُس نے واپس لے لی ہے.اس کی بجائے اگر وہ روتی پیٹتی تو ممکن تھا اگلے روز خاوند کی توجہ ہی خدمت دین سے ہٹ جاتی اور وہ کہتا کہ خدمت تو کی مگر گھر میں چین نہیں اب کچھ توجہ گھر کی طرف بھی کرنی چاہئے مگر اُس نے ایسا نمونہ کی پیش کیا کہ اُس کا یہی خیال ہوا ہوگا کہ میں جتنی بھی خدمت کروں کوئی ڈر نہیں.گھر میں ایک کی محافظ موجود ہے.پس عورتیں اگر اندرونی ذمہ داریاں برداشت کریں تو مرد آزادی کے ساتھ باہر جاسکتا اور خدمت کر سکتا ہے اور عورتوں میں بیداری اور دینی روح کا پیدا کرنا اشد ضروری ہے.وہ مرد کبھی کامل نہیں ہو سکتا جس کی بیوی اُس کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہو لیکن ایک کمزور بھی زیادہ قربانی کر سکتا ہے اگر اُس کی بیوی اُس کا ہاتھ بٹانے والی اور دل بڑھانے والی ہو اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے میں نے تجویز کی ہے کہ عورتوں کے نام ایک خط لکھوں اور وہ وعدہ کریں کہ دینی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں وہ اپنے خاوندوں کے ساتھ تعاون کریں گی اور اس کے ساتھ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ لجنہ اماءاللہ یا جہاں لجنہ نہ ہو وہاں مرد جلسے کر کے
خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۹ء ان کو توجہ دلائیں اور بتائیں کہ اب وقت آچکا ہے کہ جماعت کے دونوں حصے مضبوط ہو کر دین کی خدمت میں لگ جائیں.میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں عورتوں کی بیداری کی اہم ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے جو اس کے اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہو اور ایک طرف تو ہماری عورتوں میں بیداری اور کام کی روح پیدا ہو اور دوسری طرف وہ مغربی آزادی بلکہ مادر پدر آزادی سے محفوظ رہیں اور ہمارے مرد اور ہماری عورتیں دونوں ہی اس کے منشاء کو پورا کرنے والے ہوں.“ ( الفضل ۱۳ رمئی ۱۹۳۹ء ) ا بخاری کتاب الاذان باب مَنْ جَلَسَ فِى الْمَسْجِدِ يَنتَظِرُ الصَّلوةَ (الخ) محمد: ۱۷ تذكرة الموضوعات الفتن صفحه ۱۸۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ ء میں الفاظ اَو سَاطُهَا " ہیں.جعلتكم أمّةً وَسَطًا ( البقرة : ۱۴۴) مسلم كتاب فضائل الصحابة باب فضائل ابو طلحة الأنصارى
خطبات محمود ۲۳۰ ۱۵ سال ۱۹۳۹ء نماز با جماعت کی ادائیگی کی اہمیت (فرموده ۱۲ رمئی ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- نیکیوں میں ترقی اور تنزل بتدریج ہوا کرتا ہے.جب کوئی شخص نیکی کے میدان میں ترقی کرتا ہے تو آہستہ آہستہ کرتا ہے اور جب تنزل کرنے لگتا ہے تو اُس وقت بھی آہستہ آہستہ کرتا ہے نہ یکدم ترقی کرتا ہے نہ یکدم تنزل میں گر جاتا ہے.چھوٹا چھوٹا فرق ہوتا ہے جو بتدریج بڑھتے بڑھتے بہت زیادہ ہو جاتا ہے.انسان بعض دفعہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور اُسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ترقی کر رہا ہے مگر ایک دن کیا دیکھتا ہے کہ وہ ترقی کے میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے.اسی طرح وہ بعض دفعہ بظاہر معمولی باتوں کو نظر انداز کر رہا ہوتا ہے کہ یکدم اسے معلوم ہوتا ہے وہ بہت نیچے گر گیا ہے.ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی شخص تھا اُس کو یہ خیال ہو گیا کہ وہ بہت بڑا پہلوان ہے آہستہ آہستہ یہ خیال اُس پر غالب آ گیا اور وہ سمجھنے لگ گیا کہ میں دُنیا کا سب سے بڑا بہادر اور طاقت ور انسان ہوں اور کوئی شخص بہادری اور جرأت میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس پر اُسے خیال آیا کہ کی اپنی بہادری کا کوئی نشان بھی قائم کرنا چاہئے.چنانچہ اُس نے خود بھی سوچا اور اپنے دوستوں سے بھی مشورہ لیا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کے ذریعہ بہادری کا نشان قائم کیا جاسکتا ہے.آخر اُس کو معلوم ہوا کہ جانوروں میں سے شیر ایک ایسا جانور ہے جس کو لوگ بہادری کی مثال میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء بیان کیا کرتے ہیں.پس اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے شیر کی شکل اپنے جسم پر گدوانی چاہئے.یہ فیصلہ کر کے وہ کسی کی گودنے والے کے پاس گیا اور اُسے شیر کی شکل گودنے کو کہا.گودنے والے نے جب رنگ بھرنے کے لئے سوئی ماری تو اُسے درد محسوس ہوا اور پوچھنے لگا میاں کیا کرنے لگے ہو؟ اُس نے کہا شیر گودنے لگا ہوں.اِس پر اُس نے دریافت کیا کہ شیر کا کونسا حصہ ؟ نائی نے کہا شیر کا دایاں کی کان گود نے لگا ہوں اُس نے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ نائی نے کہا رہتا تو شیر ہی ہے اس پر اُس نے کہا اچھا پھر دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو.جب نائی نے بایاں کان گودنے کے لئے سوئی ماری تو پھر اُس کو درد محسوس ہوا اور اُس نے پھر پوچھا میاں اب کیا گودنے لگے ہو؟ اُس نے کہا اب بایاں کان گود نے لگا ہوں.وہ کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ اگر شیر کا بایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ نائی نے جواب دیا کہ رہتا تو شیر ہی ہے اس پر اُس نے کہا اچھا اس کو بھی چھوڑو اور آگے چلو.اس کے بعد جب نائی نے دم بنانے کے لئے سوئی ماری تو پھر وہ کہنے لگا اب کیا بنانے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہا دُم.کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ اگر کسی شیر کی دم نہ ہوتو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ نائی نے کہا رہتا تو شیر ہی ہے.کہنے لگا اچھا پھر اس کو بھی چھوڑو اور آگے چلو.اس طرح اس نے چار پانچ مرتبہ جو کیا تو نائی سوئی رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ایک دو چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر رہ سکتا ہے لیکن سب چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر کا کچھ بھی نہیں رہتا.بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز مثال معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت یہ نہایت سبق آموز حکایت ہے اور یہ نصیحت اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے کہ تھوڑا تھوڑا چھوڑنے سے سب کچھ چھوٹ جاتا ہے اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا.اسلام کے نہایت ہی اہم اور مہتم بالشان اصول میں سے ایک اصل نماز با جماعت ادا کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا حکم ہے.ایک پہاڑ ہے نیکی کا جس طرح پہاڑ کی بلند چوٹیوں کے آنے سے قبل کئی چھوٹی چھوٹی چوٹیاں آتی ہیں پہلے چھوٹے چھوٹے ٹیلے آتے ہیں پھر اُن سے اونچے ٹیلے پھر اُن سے اونچے پھر جھاڑیوں والے ٹیلے آنے شروع ہو جاتے ہیں پھر پہاڑ آنے شروع
خطبات محمود ۲۳۲ سال ۱۹۳۹ء ہوتے ہیں اُس کے بعد چیڑ و دیار کے بلند و بالا درختوں والی اونچی پہاڑیاں آتی ہیں اور آخر کی میں برف سے ڈھکی ہوئی نہایت اونچی پہاڑیوں پر یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے.ان بلند چوٹیوں کے بعد پہاڑ پھر نیچا ہونا شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ سب سے اونچے پہاڑ کے بعد اس سے چھوٹا اور اس کے بعد اس سے چھوٹا پہاڑ آتا ہے پھر ٹیلے آتے ہیں پھر نا ہموار زمین آتی ہے اور اس کے بعد ہموار زمین آنی شروع ہو جاتی ہے.اسی طرح نماز کا بھی حال ہے یہ بھی ایک پہاڑ ہے جو انسان کو نیکی کی بلند ترین چوٹی تک پہنچاتا ہے.اب یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر انسان بغیر ابتدائی مراحل طے کئے پہنچ جائے ؟ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق بعض احکام دیئے.مثلاً سب سے پہلے اذان دیئے جانے کا حکم ہے اس کے بعد وضو کیا جاتا ہے اور پھر سنتیں پڑھی جاتی ہیں اس کے بعد فرض آتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹی کے مقابل پر ہیں.فرضوں کی کے بعد پھر سنتیں ادا کی جاتی ہیں اور تب انسان کو نماز سے فراغت حاصل ہوتی ہے.اس کے کی علاوہ ذکر الہی بھی ہے جو نماز سے پہلے اور نماز کے بعد کیا جاتا ہے اور جو بہت ہی ضروری چیز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذکر الہی انسان کے لئے بہت بڑی برکات کا موجب ہوتا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ ایسا ہی ہے گویا جہاد میں مشغول ہے لے لیکن آجکل کے احمق نام نہاد تعلیم یافتہ نو جوانوں کے نزدیک مسجد میں نماز کے انتظار کے لئے بیٹھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے حالانکہ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر انسان کی پیدائش کی غرض حصول دُنیا ہی تھی تو نماز کے لئے وقت خرچ کرنا بھی تو وقت ضائع کرنا مج ہے.وقت ضائع کرنے والی چیز خواہ کم ہو یا زیادہ ایک ہی بات ہے.اب یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو شخص مثلاً پچیس منٹ نماز کے انتظار میں بیٹھے وہ تو وقت ضائع کرنے والا ہو لیکن دوسر اشخص جو دس منٹ نماز میں خرچ کرے وہ وقت ضائع کرنے والا نہ ہو.کوئی عقلمند اور سمجھدار آدمی اس کیلے کو نہیں کھائے گا جو سڑا ہوا اور گندا ہو بلکہ وہ اُسے پھینک دے گا یہ نہیں ہوگا کہ وہ کچھ حصہ کھائے اور باقی کے متعلق کہہ دے کہ میں یہ نہیں کھاتا یا ایک خربوزہ جس میں کیڑے پڑے ہوئے ہوں اور جس میں سے بدبو آ رہی ہو اُس کے متعلق وہ یہ کبھی نہیں کرے گا کہ اُس کی پانچ چھ کیڑوں والی پھانکیں تو کھالے اور باقی پھینک دے اور کہے کہ میں گندا خربوزہ نہیں کھا سکتا.
خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۹ء وہ یقیناً چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی ایسے خربوزے کا کھانے کے لئے تیار نہیں ہو گا.کجا یہ کہ وہ زیادہ حصہ کھالے اور تھوڑا چھوڑ دے.پس یہ احمقانہ خیال ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ نقص بعض احمد یوں میں بھی پایا جاتا ہے.وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ذکر الہی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور نماز پڑھنے کے لئے وہ ایسی ہی مسجد کی تلاش کرتے ہیں جس میں نماز جلدی پڑھائی جاتی ہو اور پھر امام ایسا ڈھونڈتے ہیں جو دو تین ٹھونگیں مار کر نماز پڑھا دے اور مقتدیوں کو جلد فارغ کر دے اور ان کو زیادہ وقت نماز کے لئے صرف نہ کرنا پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اپنے اپنے محلہ کی مسجد میں ادا کرو کے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا اُس وقت یہ بے حکمت سا نظر آتا تھا لیکن انبیاء علیہم السلام کی فراست غیر معمولی طور پر تیز ہوتی ہے اور وہ انسانی نفس کی تمام کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے احکام دیتے ہیں.چنانچہ موجودہ زمانہ کے نقائص کو دیکھ کر کچ معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسری جگہ جاتے ہو تو دراصل آرام طلبی کے لئے جاتے ہو کیونکہ تمہیں خیال ہوتا ہے کہ وہاں نماز جلدی ہو جائے گی.تم جانتے ہو کہ وہاں امام کس قسم کی نماز پڑھاتا ہے اور تم اپنے محلہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتے کہ تم جانتے ہو وہاں تم کو انتظار کرنا پڑے گا اور نماز بھی ادا کرنی ہوگی.پس یہ ایک نہایت ہی پر حکمت حکم ہے جس کی حکمت اب نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے.پھر بعض لوگ ایسی مسجد میں جا کر نماز پڑھتے ہیں جہاں بچوں کو نماز پڑھائی جاتی ہے چونکہ اس جگہ نماز گھنٹی بجنے کے ساتھ ہوتی ہے اور بچوں کے لئے جلدی پڑھا دی جاتی ہے اس لئے وہ بھی اسی مسجد میں جا کر نماز پڑھتے ہیں لیکن محلہ کی مسجد میں چونکہ انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ کی محلہ کی مساجد میں نماز نہیں پڑھتے.حالانکہ امام کا انتظار اور ذکر الہی میں مشغول رہنا یہ بہت بڑی نیکیاں ہیں اور یہی نیکیاں انسان کو نیکیوں کے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچاتی ہیں.اگر اس پہاڑ کی تک پہنچنے کے لئے ابتدائی نیکیوں کی ضرورت نہ ہوتی جو ٹیلوں وغیرہ سے مشابہت رکھتی ہیں تو کی نماز کے لئے اذان کیوں دی جاتی ؟ پھر امام کے انتظار کا کیوں حکم دیا جاتا جس میں ذکر الہی کیا جاتا ہے اور پھر سنتیں پڑھنے کا حکم کیوں دیا جاتا ؟ اسی طرح نماز باجماعت کا حکم کس لئے
خطبات محمود ۲۳۴ سال ۱۹۳۹ء دیا جاتا ؟ یہ سب احکام اسی لئے ہیں کہ انسان ان پر عمل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نیکی کے بلند پہاڑ پر چڑھے مگر جو شخص بغیر ان بلندیوں کو عبور کرنے کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا چاہتا ہے وہ احمق اور نادان ہے وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے روحانی ترقی کے لئے کونسے اصول اور ذرائع مقرر کئے ہوئے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے ان تمام ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اس کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے حاصل کئے بغیر دین کی تکمیل قطعاً نہیں ہو سکتی.یہی مغربی تہذیب سے متاثر نو جوان جو ہر بات میں وجہ اور حکمت تلاش کرنے کے عادی ہیں اُن کو دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ ڈنر پر جانا ہوتا ہے تو کالے کوٹ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں کبھی کسی سے پوچھتے ہیں کبھی کسی سے اور اگر کالا کوٹ نہ ملے تو وہ اسے اپنے لئے سخت ذلت کا باعث سمجھتے ہیں.اب بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ کالے کوٹ کا ڈنر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا کالے کوٹ کے ساتھ روٹی کاٹنی ہوتی ہے یا پھل کاٹنے ہوتے ہیں یا ہڈی چبانے کا کام لینا ہوتا ہے؟ لیکن باوجود اس بات کے کالے کوٹ کے ساتھ ڈنر کا کوئی تعلق نہیں وہ کالا کوٹ پہنا ضروری سمجھتے ہیں مگر اسلام کے حکموں پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں حکم کیوں ہے فلاں کیوں ہے؟ وضو کر نے کی حکمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی ، نماز سے پہلے ذکر الہی کرنے کی حکمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن ڈنر کے لئے کالا کوٹ یا سوٹ کے ساتھ ٹائی پہنے یا بوٹ کے ساتھ جراب پہننے کی حکمت سمجھنے کی انہیں کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.وہ خیال رکھتے ہیں کہ پتلون میں کوئی کریز CREASE) نہ پڑے اور وہ بغیر اس کی حکمت سمجھنے کے اِس کو ضروری سمجھتے ہیں غرض شیطان کی پیدا کی ہوئی تمام پابندیوں کو اختیار کرتے اور اس کی پیدا کردہ یک جہتی کے لئے کوشاں رہتے ہیں مگر خدا کی مقرر کردہ پابندیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی یک جہتی کی تدبیروں کو لغو قرار دیتے ہیں.اسی طرح بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی دکانوں میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب تکبیر ہو تو نماز میں جا شامل ہوں.ایسی ہی ایک دکان فخر الدین ملتانی کی تھی جو اس قسم کے لوگوں کا اڈا تھا اس جگہ بڑے بڑے لوگ جو معزز سمجھے جاتے ہیں بیٹھے رہتے تھے اور اس انتظار میں رہتے تھے کہ کب تکبیر ہو تو مسجد میں جائیں.اب گو اس دکان کے نہ ہونے
خطبات محمود ۲۳۵ سال ۱۹۳۹ء کی وجہ سے اس میں ایک حد تک کمی آگئی ہے مگر پھر بھی بعض لوگ ابھی تک ایسا کرتے ہیں اور تکبیر پر ہی مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض افراد میں بھی یہ سستی آگئی ہے اور ہمارے گھر کے بعض بچے بھی اس مرض میں مبتلا ہیں.میں نے ان کے متعلق دیکھا ہے کہ جب میں مسجد میں آتا ہوں تو وہ شاذ ہی مجھے یہاں نظر آتے ہیں بلکہ گھر میں سنتیں پڑھ کر انتظار کرتے رہتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ میں گھر میں سے ہو کر مسجد میں چلا گیا ت ہوں تو اُس وقت وہ دوڑتے ہوئے نماز میں آشامل ہوتے ہیں.آج تو ان کو بیشک یہ سہولت کی میٹر ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ میں ہمیشہ رہنے والی ہستی نہیں ، ہمیشہ رہنے والی ہستی تو حی و قیوم خُدا ہی کی ہے.میرے بعد جو خلیفہ ہو گا کون کہ سکتا ہے کہ وہ کس گھر کا فرد ہو گا ؟ اُس وقت انہیں کیونکر علم ہو گا کہ امام مسجد میں نماز کے لئے آ گیا ہے.اُس وقت ان کو جو تمہیں تمہیں سال سے کی عادت پڑی ہوئی ہوگی وہ کیسے دُور ہوگی؟ اور وہ کیسے باجماعت نماز ادا کریں گے؟ اگر اس وقت انہوں نے اپنی حالت کی اصلاح نہ کی تو پہلے ان کی جماعت کی پہلی رکعت جاتی رہے گی پھر دوسری رکعت جاتی رہے گی پھر تیسری رکعت جاتی رہے گی اور آہستہ آہستہ وہ باجماعت نماز ادا کرنے سے ہی محروم ہو جائیں گے اور خیال کر لیں گے کہ چلو گھر پر ہی نماز پڑھ لیں اور بعد میں ممکن ہے وہ گھر میں بھی نماز پڑھنا چھوڑ دیں.میں ان کو اس حدیث کے مطابق کہ کسی کا نقص لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہئے.اشاروں میں توجہ دلا چکا ہوں لیکن جب ان پر میرے اشاروں کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے ضروری سمجھا کہ اب زیادہ وضاحت سے کام لے کر ان کو توجہ دلاؤں تا کہ وہ اپنی اس غفلت کی عادت کو ترک کر دیں.جو لوگ گھروں میں نماز پڑھنے کی کے عادی ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نماز پڑھنا با کل چھوڑ دیتے ہیں.چنانچہ میں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ گھر پر نماز پڑھنے والا کوئی شخص ہمیشہ نماز کا پابند رہا ہو وہ بالآ خر نماز کا تارک ہی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی نماز رسمی ہوتی ہے محبت اور ایمانی روح اس میں نہیں ہوتی وہ پہلے تو گھر میں نماز پڑھتا رہتا ہے مگر جس دن کسی عقلمند اور سمجھدار آدمی سے اس کی ملاقات ہو ( میں نے عقلمند کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک عقلمند وہی ہوتا ہے جو نماز کو بے فائدہ سمجھے اور اسلام کی عائد کردہ پابندیوں کو بُرا قرار دے) اور وہ کہے کہ میاں اس نماز کا تم کو کیا
خطبات محمود ۲۳۶ سال ۱۹۳۹ء فائدہ؟ تو اسی روز سے وہ نماز پڑھنا چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ واقع میں اس نماز کا کوئی فائدہ نہیں حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نماز جس کا اُسے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا وہ اس کی اپنی بنائی ہوئی نماز تھی.خدا کی نما ز تو وہ پڑھتا ہی نہیں تھا.اگر وہ خدا کی نماز پڑھتا اور ان شرائط کے ساتھ ادا کرتا جو اس کے لئے مقرر ہیں تو اس کا اُسے فائدہ بھی پہنچتا اس کے بغیر اس کی نماز محض ایک رسم تھی جس میں ایمان نہیں تھا اور نہ وہ رُوح اس کے اندر تھی جس رُوح کا نماز کے اندر پایا جانا ضروری ہے.نماز اپنی ان قیود اور پابندیوں کے ساتھ جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کی ہیں ایک حسین ترین چیز ہے لیکن اگر کسی حسین کی ناک کاٹ دی جائے آنکھ پھوڑ دی جائے گالوں پر نشان لگا دیئے جائیں اور کان کاٹ لئے جائیں تو کون شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی حسین ہے.یہی حال نماز کا ہے کہ نماز اپنی تمام قیود اور پابندیوں کے ساتھ ایک انتہا درجہ کی کی خوبصورت چیز ہے مگر جب ہم اپنی غفلت اور نادانی کی وجہ سے اس کو چھانٹتے چلے جائیں تو وہ کی بے فائدہ اور لغو چیز بن جاتی ہے اور ایسی نماز کبھی با برکت نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح مرغ ٹھونگے مار کر دانے چگتا ہے ایسی نماز یقیناً کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض دفعہ ایسی نما ز لعنت کا موجب بن جاتی ہے جیسے قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیدُ لِلْمُصَدِّين سے کہ نماز گرفت ہے مگر کن کے لئے ہے الَّذِینَ هُمْ عَن صَلاتِهِمْ ساھون کے ان کے لئے جن کی نماز قشر رہ جاتی ہے جس کے اندر مغز نہیں ہوتا جو اس کو کاٹ کر اور اس کی شکل کو بگاڑ کر ادا کرتے ہیں.انسان تبھی اس لعنت سے بچ سکتا ہے جب وہ نماز کو اس کی قیود اور پابندیوں کے ساتھ ادا کرے اور پھر اس سے فائدہ اُٹھائے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو بجائے ثواب کے ایک لعنت مول لیتا ہے اور اگر وہ ضد کی وجہ سے کہتا ہے کہ ہاں فائدہ ہے اور درحقیقت اُسے فائدہ کوئی نہیں ہوتا تو اس وقت وہ جھوٹا بھی ہوتا ہے اور لعنتی بھی کیونکہ وہ خدا اور رسول اور اپنے مذہب کو عملی طور پر جھوٹا کہتا ہے.ہاں اگر وہ نماز کو ان قیود اور پابندیوں کے ساتھ ادا کرتا ہے جو خدا اور رسول نے مقرر کی ہیں تو اس کو اس کا ضرور فائدہ ہوتا ہے اور اس کے دل پر خدا تعالیٰ کی محبت غلبہ کر لیتی ہے بلکہ نماز سے بھی پہلے جب یہ ذکر الہی کرتا اور نماز کے لئے انتظام کرتا اور سنتیں وغیرہ کی
خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۹ء پڑھتا ہے تو اس وقت اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دست در کار دل بایار.دیکھو نماز کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کی دعوت کی کرے اور کہے کہ کھانا اکٹھا نہیں کھایا جائے گا ہر شخص اپنا برتن بھجوا دے اس میں کھا نا ڈلوا دیا جائے گا ، اب جو شخص برتن لے کر جائے گا اُسے کھا نامل جائے گا مگر جو برتن لے کر نہیں جائے گا وہ محروم رہے گا.اسی طرح نماز کیا ہے؟ نماز ایک روحانی کھانے کی تقسیم کا وقت ہے جو شخص اس وقت برتن لے کر جائے گا وہ اُس میں کھانا ڈلوا لائے گا مگر جو خالی ہاتھ جائے گا اُس کو وہاں سے ہی خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑے گا کیونکہ وہ برتن لے کر ہی نہیں گیا.گو جانے میں وہ برتن لے جانے کی والوں کے برابر ہی رہا لیکن ان کو تو کھانا مل جائے گا جن کے پاس برتن ہوں گے مگر اُس کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اس کے پاس برتن نہیں تھا یا پھر فرض کرو یہ برتن تو لے جاتا ہے مگر پاخانہ سے بھرا ہوا ہے جیسے پاخانہ کا پاٹ اُٹھا کر کوئی لے جائے تو اُس میں جو کھانا ہی ڈالا جائے گا وہ کھانے کے قابل نہیں ہوگا بلکہ پھینک دینے کے قابل ہوگا.ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی لڑکا اپنے ملاً اُستاد کے لئے گھر سے کھیر لے کر گیا چونکہ اس کے گھر سے کھیر چھوڑ پہلے کبھی باسی روٹی بھی نہیں آئی تھی اس لئے اُستاد بہت ہی حیران ہوا اور اُس نے لڑکے سے دریافت کیا کہ بیٹا آج تیری ماں کو کھیر بھیجنے کا خیال کیسے آگیا ؟ اس نے جواب دیا کہ ملا جی بات دراصل یہ ہے کہ اماں نے کھیر پکائی تھی اس میں گنتا منہ ڈال گیا اس پر ماں مجھے کہنے لگی کہ جاملا جی کو دے آ.اُس کو یہ سُن کر سخت غصہ آیا اور اُس نے برتن زمین پر دے مارا جو گرتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگا کمبخت کیا گتے کا جھوٹا میرے لئے ہی رکھا تھا ؟ لڑکے نے جب دیکھا کہ برتن ٹوٹ گیا ہے تو وہ رونے لگ گیا اُس پر ملا نے کہا کہ تو روتا کیوں ہے؟ برتن میں گٹا منہ ڈال گیا تھا اور وہ کھانے کے لئے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہائی تھا.لڑکا کہنے لگا مجھے ڈر ہے کہ گھر جاؤں گا تو اماں خفا ہوگی کیونکہ یہ برتن جس میں میں کھیر ڈال کج کر لایا تھا اس میں میری ماں چھوٹے بھائی کو پیشاب کرایا کرتی تھی اب چونکہ یہ برتن ٹوٹ گیا ہے اس لئے وہ ناراض ہو گی.یہی حال بغیر قیود اور شرائط کے نماز ادا کرنے کا ہے.حقیقی نماز تو بندے اور خُدا میں تعلق قائم کرتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ نماز کو اُن تمام آداب کے ساتھ ادا کیا جائے جو
خطبات محمود ۲۳۸ سال ۱۹۳۹ء خدا اور اُس کے رسول نے اس کی ادائیگی کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں.اگر کوئی شخص ان شرائط کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھتا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کھانا لینے کے لئے گندا برتن لے جائے اور اگر وہ کسی امر کی بھی نگہداشت نہیں رکھتا جیسے بعض لوگ نہ ذکر الہی کرتے ہیں نہ سنتیں پڑھتے ہیں اور نماز کے لئے انتظار کرنے کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں.ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو کھانا لینے کے لئے تو جائے مگر برتن اس کے پاس نہ ہو دونوں صورتوں میں دعوت کا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا کیونکہ جو نماز بھی ان قیود کے بغیر پڑھی جائے گی وہ گندے برتن میں چیز ڈلوانے کے مترادف ہوگی اور اس قسم کی نماز پڑھنے والے کو نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.نماز کے وقت محبت الہی کی غذا تقسیم ہو رہی ہوتی ہے اور اس کو وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو نہ صرف برتن لے کر جائے بلکہ پاک اور صاف برتن لے کر اس کے حضور حاضر ہو.پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں خصوصاً اپنے خاندان کے بعض بچوں کو کی ( شاید ان میں سے بعض بچوں کو یہ بُرا لگے اور طبعاً بُر امحسوس بھی ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو کوئی نصیحت کرنی ہو تو علیحدگی میں کرو ہے مگر چونکہ میں ان لوگوں کو الگ بھی سمجھا چکا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے اِس سمجھانے کا کوئی خاطر خواہ کی اثر اُن پر نہیں ہوا اِس لئے میں نے چاہا کہ اب ان کا نام لے کر اس بات کو بیان کر دوں.) یہ بات یا درکھو کہ موجودہ تہذیب اور تعلیم ان چیزوں کو حقیر کر کے دکھاتی ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ اپنی چیزوں کو حقیر کر کے نہیں دکھاتی.چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر ان کے خلاف چلتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ ڈنر کے موقع پر ہر شخص کے لئے کالا کوٹ پہن کر جانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور وہ اس بات کو بڑی مصیبت اور ہتک سمجھتے ہیں کہ ان کی مجلس میں کوئی ایسا شخص شریک ہو جائے جس نے کالا کوٹ پہنا ہوا نہ ہو.ایک دعوت مجھے بھی اس وقت یاد آ گئی وہ بھی ڈنر تھا جس میں شمولیت کے لئے مجھے بلایا گیا.میں نے کہلا بھیجا کہ میں ڈنر کے موقع پر کالا کوٹ نہیں پہن سکتا اب وہ ایک طرف دعوت میں مجھے شریک بھی کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف ان کے لئے یہ بھی بڑی بھاری مصیبت تھی کہ میں ایسی حالت میں شامل ہوں جبکہ میں نے کالا کوٹ پہنا ہوا نہ ہو اور اس طرح ان کی کی
خطبات محمود ۲۳۹ سال ۱۹۳۹ء ذلت ورسوائی ہو.تنگ آ کر انہوں نے یہ فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص کالا کوٹ پہن کر نہ آئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بڑی ذلت کی بات ہوگی کہ اور لوگوں کے تو کالے کوٹ ہوں گے اور ان کا کالا کوٹ نہیں ہوگا تو انہوں نے سرے سے یہ قید ہی اُڑا دی محض اس لئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ قانون ٹوٹ گیا ہے اور اُنہوں نے کسی شرط کی خلاف ورزی کی ہے.پھر یورپین لوگوں نے خود اپنے اوپر کئی قسم کی قیود عائد کر رکھی ہیں چنانچہ امریکہ کے ایک رسالہ میں میں نے ایک دفعہ ایک مضمون پڑھا وہاں مر دعورت ناچتے ہیں اور اس میں کوئی شرم اور حیا محسوس نہیں کی جاتی.غیر عورت کا غیر مرد کے ساتھ ناچ یورپ میں بالکل جائز ہے مگر اُنہوں نے یہ شرط رکھی ہوئی ہے کہ اس ناچ میں تین اُنگلی کا مرد اور عورت کے درمیان فرق رہنا چاہئے.اب مرد اور عورت ناچتے چلے جائیں گے اور اُسے بالکل جائز اور درست سمجھیں گے لیکن ساتھ ہی یہ ضروری ہوگا کہ ان میں تین اُنگل کا فرق رہے.اگر تین انگل سے کم فرق ہو جائے گی تو وہ کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں.اس مضمون میں یورپین لوگوں کے اس طریق عمل پر مضمون نویس نے جو ہمارے نقطہ نگاہ میں تو سمجھدار تھا مگر اپنی قوم کے نزدیک بیوقوف اور احمق تھا بڑی ہنسی کی اُڑائی اور لکھا کہ یہ تین انگل کا کونسا فرق ہے جس میں زور دیا جاتا ہے اور وجہ کیا ہے کہ تین اُنگلی کا فرق ہو تو تہذیب قائم رہتی ہے اور اگر اڑھائی اُنگلی کا فرق ہو جائے تو تہذیب اُڑ جاتی ہے مگر ان میں یہ ایک قاعدہ ہے.وہ اس کی پابندی کرتے ہیں اور ہر شخص خیال کرتا ہے کہ یہ بڑا اہم معاملہ ہے.اسی طرح تیرہ کا عدد انگریزوں میں منحوس سمجھا جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح کے بارہ حواری تھے اور تیرھویں آپ خود تھے لیکن پھر انہی میں سے ایک نے حضرت مسیح کو چند روپوں کے بدلے گرفتار کرا دیا.بس اُس وقت سے تیرہ کا عدد انگریزوں میں منحوس سمجھا جاتا ہے.ان میں بڑے بڑے فلاسفر، بڑے بڑے پروفیسر ، بڑے بڑے مد بر، بڑے بڑے سائنسدان اور بڑے بڑے عقلمند اور دانا لوگ ہیں مگر جہاں تیرہ کا اجتماع دیکھیں گے ان کے چہرے زرد پڑ جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ کسی طرح اس دعوت سے بھاگ جائیں جس میں تیرہ آدمی جمع ہیں اور یا تو وہ تلاش کر کے کسی چودھویں آدمی کو اپنے اندر شامل کر لیں گے اور اگر کسی چودھویں کو شامل نہ کر سکیں تو ایک ان میں سے ضرور کھسک جائے گا تا کہ تیرہ کی نحوست اُن پر نہ آئے.
3) خطبات محمود ۲۴۰ سال ۱۹۳۹ء - ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ کسی دعوت میں تیرہ انگریز شریک ہو گئے.اب ان میں سے ہرایک نے چاہا کہ میں اس دعوت سے کسی طرح کھسک جاؤں تا کہ بارہ پیچھے رہ جائیں اور نحوست جاتی رہے.لیکن چونکہ وہ یہ بات کھلے طور پر کہ نہیں سکتے تھے اس لئے ہر ایک نے کی اپنے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس مجلس سے کھسک جاؤں گا.چنانچہ ایک ایک کر کے سب اس مجلس سے اُٹھ گئے اور صرف میزبان ہی پیچھے رہ گیا مہمان کوئی نہ رہا.تو یہ لوگ اوّل درجہ کی احمقانہ باتوں کے پیچھے چلتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی احکام نازل ہوں تو کی کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس میں یہ شرط ہے ، وہ قید ہے، فلاں پابندی ہے اور فلاں سختی ہے.حالانکہ وہ خود دُنیوی امور میں ان پابندیوں سے بہت زیادہ خطر ناک پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں.پس یا درکھو نماز با جماعت اسلام کے اہم اصول میں سے ایک اصل ہے جو شخص بغیر بیماری اور بغیر کسی ایسی تکلیف کے نماز چھوڑتا ہے جس میں اس کا نماز با جماعت سے محروم رہنا مجبوری قرار دی جا سکے وہ نماز کو عمداً ضائع کرتا ہے اور جو قوم نماز ضائع کر دیتی ہے وہ 66 اللہ تعالیٰ کے فضل کو کبھی حاصل نہیں کر سکتی.“ ا کنز العمال جلد 2 صفحہ ۳۲۳.مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء (الفضل ۲۰ رمئی ۱۹۳۹ء ) الماعون : ۵ الماعون : ٦
خطبات محمود ۲۴۱ ۱۶ سال ۱۹۳۹ء توسیع مساجد کے لئے چندہ کی تحریک اور قادیان سے ناخواندگی کو دور کرنے کی سکیم (فرموده ۱۹ مئی ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ سے گزشتہ خطبہ جمعہ میں مساجد احمدیہ کے لئے چندہ کا اعلان کیا تھا اور خدام الاحمدیہ کے یہ کام سپرد کیا تھا.قادیان میں اُنہوں نے چندہ جمع کرنے کی تو کوشش کی ہے کی مگر اتفاقا ان کی ایک لسٹ جو ہمارے گھر میں پہنچی اُسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ گو وہ تعلیم یافتہ نو جوان ہیں اور میرے خطبات کا مضمون بھی واضح تھا یہ چندہ ایسی نادانی سے جمع کیا گیا ہے کہ تحریک کو ہی ضائع کر دیا ہے.اتفاقاً ان کی ایک لسٹ میرے ہاتھ آگئی جو کسی آدمی نے ہمارے ہاں بھجوائی تھی اس میں ہر ایک کے نام کے آگے ایک ایک آنہ لکھا تھا حالانکہ میں نے یہ کہا تھا کہ ایک آنہ سے لے کر دس روپیہ تک اس میں دیا جا سکتا ہے مگر ان لوگوں نے غالباً نادانی اور نا تجربہ کاری سے یہ خیال کر لیا کہ خطبہ تو ہر ایک شخص کو یاد ہی ہوگا اور پھر جس کا ارادہ زیادہ دینے کا ہوگا وہ زیادہ دے دے گا.ان کی پہلی غلطی تو یہ تھی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ خطبہ سب کو یاد ہی ہوگا اور دوسری یہ کہ انہوں نے خیال کر لیا کہ جس نے زیادہ دینا ہو گا خود ہی دے دے گا.ان کا یہ خیال انسانی فطرت سے ناواقعی کی دلیل ہے.جب کسی سے ایک آنہ مانگا جائے تو
خطبات محمود ۲۴۲ سال ۱۹۳۹ء اُس سے یہ امید رکھنا کہ وہ خود بخود دس روپے دے دے گا انسانی فطرت سے ناواقفی ہے.شاید سو میں سے ایک آدمی ایسا ہوگا کہ جو ایک آنہ مانگنے پر بھی دس روپیہ دے دے مگر ننانوے ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ اچھالے لو ایک آنہ اور ان کی اس نادانی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سوائے دو چار آدمیوں کے باقی سب نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے.حالانکہ جس روز میں نے تحریک کی تھی قادیان میں ہی کئی لوگ ہیں ہیں اور تمھیں تھیں روپیہ دینے کے لئے تیار تھے بلکہ بعض تو سو سو دینے پر آمادہ تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا ایک عورت نے اپنی دوسو روپیہ کی چوڑیاں دے دی تھیں اور اصرار کے باوجود واپس نہیں لیتی تھیں مگر چندہ میں سب نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے.جب وہ فہرست ہمارے گھر پہنچی تو میں نے کہا کہ تمہارا وعدہ دس روپیہ کا تھا اس ایک ایک آنہ سے دھوکا نہ کھانا.دوسری غفلت انہوں نے یہ کی کہ بارہ ایک بجے تک مجھ سے کوئی چندہ لینے نہ آیا آخر میں نے خود ہی دفتر والوں کو بلا کر دس روپے بھجوائے اور ساتھ کہا کہ ان کو ملامت کی جائے کہ جب مجھ سے کوئی مانگنے کے لئے نہیں آیا تو میں کس طرح سمجھ سکتا ہوں کہ دوسروں سے مانگا گیا ہوگا.پس اس کام میں خدام الاحمدیہ کا طریق عمل نا پسندیدہ ہے گو انہوں نے چندہ تو کیا ہے مگر معلوم ہوتا ہے دل سے کام نہیں کیا.یہ ان کا پہلا کام ہے جو میرے سامنے آیا ہے اور افسوس ہے کی کہ یہی صحیح طور پر نہیں ہوا.اس لئے آئندہ مجھے ان کی بہت سی رپورٹوں پر ڈسکاؤنٹ لگانا پڑے گا.میں امید کرتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں اس غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گی.چاہئے کہ ہر گھر کے افراد کی فہرست تیار کر لی جائے اور پھر کہا جائے کہ آپ اتنے گس ہیں اور ایک آنہ سے لے کر دس روپیہ فی کس تک چندہ میں دے سکتے ہیں.اب آپ اپنے نام کے آگے لکھ دیں کہ کتنا دیں گے اس طرح تو لوگ زیادہ بھی دینے کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن جب مانگا ہی ایک آنہ جائے اور پہلے ہی سب کے آگے ایک آنہ لکھ کر بھیج دیا جائے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ جب سلسلہ کی طرف سے مانگا ہی ایک آنہ گیا ہے تو میں زیادہ کیوں دوں؟ میں نے تو دس روپیہ یعنی ایک سو ساٹھ آنہ تک کی تحریک کی تھی مگر انہوں نے ایک آنہ کر دیا اور اس طرح گویا میری نصیحت کا ایک سو انسٹھ حصہ تلف کر دیا اور صرف ایک حصہ پر عمل کیا.پس میں.
خطبات محمود ۲۴۳ سال ۱۹۳۹ء بیرونی جماعتوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ ایسی نادانی کا ارتکاب نہ کریں بلکہ چاہئے کہ ہر فرد جماعت کی سے دریافت کریں کہ وہ کتنا چندہ دے گا ؟ ایک آنہ سے لے کر ایک سو ساٹھ آ نہ تک کوئی جتنا چاہے دے سکتا ہے اسی طرح اس حد تک وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے بھی چندہ کی دے سکتا ہے پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف سے مثلاً دس روپے بیوی کی طرف سے پانچ اور بچوں کی طرف سے چار چار آنہ دے دے.غرض یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنا زیادہ اور بیوی بچوں کا کم چندہ دے دے.بہر حال جب ایک آنہ سے لے کر دس روپے تک کی تحریک تھی تو خدام الاحمدیہ کا فرض تھا کہ لوگوں کو موقع دیتے کہ کوئی جتنا چاہے لکھوا دے انہیں خود ہی ایک آنہ چندہ لکھ کر لوگوں کو نہیں بھجوانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے خود تو ہر ایک کے نام کے آگے ایک آنہ لکھ دیا اور پھر امید یہ رکھی کہ لوگ زیادہ دے دیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ عام طور پر لوگوں نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے.میں نے یہ چندہ کی لسٹ دیکھی ہے اس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ زیادہ دینے والے پانچ سات سے زیادہ نہیں ہیں.حالانکہ میری تجویز پر اگر عمل کیا تی جاتا تو کئی گنا زیادہ چندہ ہو سکتا تھا اور میرا اندازہ ہے کہ وہ پچاس ساٹھ آدمی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار مجھ پر کیا تھا ان سے ہی ایک ہزار تک وصول ہوسکتا تھا.گو ہم نے ان لوگوں سے زیادہ چندہ لیا نہیں تھا مگر پھر بھی لوگوں کے خیالات کا تو علم ہو سکتا ہے لیکن خدام الاحمدیہ نے سب کے نام کے آگے ایک ایک آنہ لکھ کر گویا اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی یا یوں کہو کہ خالی ہڈی رہنے دی مگر اس میں سے مغز نکال دیا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار توجہ دلائی ہے مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا نوجوان طبقہ عقل و ذہانت سے بہت کم کام لیتا ہے اور انسانی فطرت کا بہت کم مطالعہ کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں جب موقع ملے گئیں مارتے رہتے ہیں اور غور و فکر کی عادت نہیں ڈالتے اور زیادہ گئیں مارنے اور باتیں کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سوچ نہیں سکتے کیونکہ جب زبان بولتی ہے تو دماغ کام نہیں کرسکتا.اسلام نے ذکر الہی کا حکم اسی لئے دیا ہے کہ جب انسان خاموش ہو تو دماغ کام کرتا ہے.جس وقت انسان باتیں کی کر رہا ہو اُس وقت اس کے مد نظر یہ بات ہوتی ہے کہ سننے والوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا سامان ہو.اس لئے دماغ کو سوچنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی لیکن ذکر الہی کے وقت چونکہ
خطبات محمود ۲۴۴ سال ۱۹۳۹ء لوگوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی اس لئے دماغ کو سوچنے کی طرف توجہ ہوتی ہے اور ذہن ترقی کرتا جی ہے.تو زیادہ باتیں کرنا فکر کی عادت کو کم کرتا ہے اور ہمارے نو جوان چونکہ یا تو با تیں کرتے ہیں اور یا پھر سوتے اور کھاتے ہیں اس لئے دماغ کی طاقت کو بڑھانے کا ان کو بہت کم موقع ملتا ہے اور انسانی فطرت کا گہرا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی.وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کس طرح کسی کو نیکی کی تحریک کرنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے؟ کس طرح انسانی ذہن کو سلسلہ کی ضروریات کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ کیا جاسکتا ہے؟ کس طرح اصلاح کے لئے آسانی کی سے تیار کیا جاسکتا ہے؟ وہ صرف باتیں ہی کرنا جانتے ہیں اور باتیں کرنے سے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ کام ہو جائے گا.حالانکہ دنیا میں کام باتیں کرنے والے نہیں بلکہ سوچنے والوں نے کیا ہے.پس ذکر الہی کی عادت، مراقبہ اور فکر سے کام لینا انسانی دماغ کو طاقت دینے اور کام میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہے.سوچنے اور فکر کرنے سے کام میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے.دیکھو وہ بھی معمار ہی تھے جنہوں نے تاج محل کا روضہ تعمیر کیا اور وہ بھی معمار ہی ہیں جنہوں نے دارالصحت کے مکان بنائے ہیں انہوں نے بھی اینٹ پر اینٹ رکھی اور انہوں نے بھی مگر ایک نے فکر سے کام لے کر تحسین عمل پیدا کی اور تاج محل بنادیا اور دوسرے نے غور وفکر سے کام نہ لے کر اپنے کام کو خوبیوں سے عاری کر دیا.کام تو دونوں کا ایک ہی ہے مگر ایک نے فکر سے کام لے کر اس میں خوبصورتی پیدا کی اور دوسرے نے ایسا نہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کی کے کاموں میں اتنا ہی فرق ہو گیا جتنا دارالصحت کے مکانات اور تاج محل میں ہے.ایک نے کی ایسا مکان بنایا کہ اگر مفت بھی رہنے کو دیا جائے تو انسان پسند نہیں کرے گا کہ اِس میں رہے لیکن دوسرے نے اس میں ایسی خوبصورتی پیدا کی کہ اگر صرف دیکھنے کے لئے پانچ دس روپے ٹکٹ ہو تو لوگ شوق سے دیکھیں گے.بعض لوگ یورپ اور امریکہ سے اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں.وہاں وہ رہ نہیں سکتے صرف دس پندرہ منٹ پھرتے ہیں یا ایک دو فوٹو لے لیتے ہیں مگر صرف اس کے لئے وہ ہزار ہا روپیہ خرچ کرتے ہیں کہ تاج محل کو نگاہ بھر کر دیکھ سکیں.تو یہ حسن کار کا نتیجہ ہے.معمار نے فکر کر کے اس ترتیب سے اینٹیں رکھیں کہ دیکھنے والوں کو آنکھوں کی لذت اور دل کا سرور حاصل ہوتا ہے.یہ کام بھی معمار کا ہی ہے اور دوسرا بھی معمار کا ہی ہے.
خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۹ء جس کے پاس سے انسان چپ چاپ گزر جاتا ہے اور اسے خیال بھی نہیں ہوتا کہ اسے دیکھے.ہرفن کا یہی حال ہے.کاتب ہیں جو کتابت کرتے ہیں ان کی انگلیاں بھی ویسی ہی ہیں جیسی دوسرے لوگوں کی لیکن وہ اتنا خوبصورت لکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے مگر بعض دوسرے لوگ ایسا گندا لکھتے ہیں کہ ہزار کوشش کے باوجود نہیں پڑھا جاتا.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کا تب لکھتے وقت سوچتا ہے ہر لفظ اور ہر نقطہ کو دیکھتا ہے کہ یہ مجھے اچھا لگتا ہے یا نہیں.اگر میری آنکھوں کو اچھا نہیں لگتا تو پڑھنے والوں کو کیونکر اچھا لگے گا وہ ہر لفظ پر غور کر کے اس میں ایک حُسن پیدا کرتا ہے.دتی کے ایک کا تب میر پنجہ کش گزرے ہیں جن کا ہر حرف ایک روپیہ قیمت پاتا تھا وہ اگر کسی فقیر پر مہربان ہوتے تو اسے ایک حرف لکھ دیتے تھے کسی کوب کسی کو ت کسی کی کوج اور فقیر اسے لے جا کر جامع مسجد کے نیچے بیچ دیتے تھے.لوگ بڑے شوق سے ایک ایک کی حرف ایک ایک روپیہ میں خرید کر گھروں میں بطور زینت لگاتے تھے اور پھر ایسے بھی لکھنے والے دُنیا میں موجود ہیں کہ جن کا خط دیکھ کر ہی سر میں درد شروع ہو جاتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ یہ کسی آدمی نے لکھا ہے یا کوئی کیڑا سیا ہی میں سے گزر گیا ہے.لاکھ سر پٹکو وہ پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ در دسر سے بھی بڑھ کر زحمت اٹھانی پڑتی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض خطوط ایسے آتے ہیں کہ گھنٹوں لگے رہتے ہیں پھر بھی کچھ پتہ نہیں لگتا پہلے میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں پھر دفتر والوں سے کہتا ہوں کہ اِس کا مطلب نکالو اور پھر بعض اوقات سارے زور لگاتے ہیں مگر لفظی پڑھا نہیں جاتا.اگر چہ لکھنے والے نے اپنی طرف سے بڑی محنت سے لکھا ہوتا ہے.تو کوئی چیز دُنیا میں ایسی نہیں کہ جسے حسنِ تفکر سے تزئین حاصل نہ ہو اور خدام الاحمدیہ نے اس کام میں جو غلطی کی ہے وہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے حسن تفکر سے کام نہیں لیا اور میں اس بات کو پبلک میں بیان نہ کرتا اگر بیرونی جماعتوں سے بھی ایسی ہی غلطی کا ڈر نہ ہوتا اور اگر اس واقعہ سے نصیحت کا کام نہ لینا ہوتا.میں نے خدام الاحمدیہ کو پہلے بھی نصیحت کی تھی کہ ذہانت کی پیدا کریں اور پھر مرکزی مجلس کو تو سب سے زیادہ اس کا ثبوت دینا چاہئے لیکن اس کام میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی عہدیداروں نے دخل ہی نہیں دیا محلہ والوں پر ہی چھوڑ دیا ہے.اس موقع پر میں پھر ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ ذہانت اور عقل سے کام لینا انتہائی قومی
خطبات محمود ۲۴۶ سال ۱۹۳۹ء ضرورتوں میں سے ہے اس لئے ذہانت کو تیز کریں اور جب ذہانت پیدا ہو جائے اور عقل تیز ہو تو ہزار ہانئے رستے نکل سکتے ہیں.دُنیا میں کئی قومیں ہیں اور سب کے ایک ہی جیسے ہاتھ اور منہ اور آنکھیں وغیرہ ہیں مگر بعض ان میں سے حاکم ہیں اور بعض محکوم.حاکم وہی ہیں جو ذہانت سے کام لیتی ہیں.شدت ذہانت ایک ایسی طاقت ہے جو قوم کو غالب کر دیتی ہے اور جب اس کے ساتھ قوت عملیہ بھی شامل ہو جائے تو ایسی قوم کا دُنیا کی حاکم بن جانا یقینی ہو جاتا ہے.کی میں نے دیکھا ہے ہندوستانی ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ انگریز صرف چار کروڑ ہیں اور کی چھ ہزار میل سے آ کر ہمارے ملک پر حکومت کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ انگریزوں کو اس کی توفیق کیسے ملی؟ آخر کوئی چیز تو ان میں ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں یہ فضیلت حاصل ہوئی.یونہی تو اللہ تعالیٰ ایک قوم کی آزادی چھین کر دوسری کو اس کا حاکم نہیں بنا دیتا.آخر اس کی وجہ ہونی چاہئے.ہندوستانی سپاہی ہمیشہ برطانوی سپاہیوں کو بُرا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے ہیں اور تے ہیں کہ وہ بُزدل ہوتے ہیں.ہمارے برابر لڑائی نہیں لڑ سکتے.صوبوں کے گورنر اور دوسرے افسر بھی ہندوستانی سپاہیوں کی تعریف میں بڑی دھواں دھار تقریریں کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ بہت وفادار ہوتے ہیں ، بہادر ہوتے ہیں اور بے شک وہ تنخواہ لیتے اور لڑتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر گورا سپاہیوں کو گالیاں دیتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ جنگ کے موقع پر صابن پی لیتے ہیں تا بیمار ہو جائیں اور لڑائی میں شریک ہونے سے بچ جائیں مگر ہم دلیری کے ساتھ لڑتے ہیں.یہ باتیں ہمیشہ سے سننے میں آتی ہیں اور ہم بھی بچپن میں یہ سُنا کرتے تھے اور آج تک سُن رہے ہیں مگر میں نے جونہی ہوش سنبھالا یعنی دس گیارہ سال کی عمر سے ہی یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ اگر وہ ایسے ہی بُزدل ہیں تو کی تم پر حکومت کس طرح کرتے ہیں؟ ان کے اندر کونسی ایسی خاص بات ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے ملک پر قابض ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ بزدل ہوں یا کچھ ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے اندر ذہانت ضرور موجود ہے اور یہ بھی ایک قسم کی بہادری ہے.دُنیا میں مختلف قسم کی بہادر یاں ہیں اور مشکل وقت پڑنے پر نہ گھبرانا اور اس کے حل کا کوئی نہ کوئی رستہ تلاش کر لینا یہ بھی ایک قسم کی
خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۹ء بہادری ہے.پھر ہندوستانی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارا ملک اتنا وسیع ہے یہاں سب چیزیں بکثرت پیدا ہوتی ہیں.غلہ اور کپاس وغیرہ خام اشیاء انگریز یہیں سے لے جاتے ہیں اور پھر ان سے مختلف چیزیں تیار کر کے ہمیں کو ٹوٹتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کو اس طرح لوٹنے کی کی طاقت کیسے حاصل ہوئی ؟ یہ تو ہو ا نہیں کہ فرشتوں نے آ کر ہندوستانیوں کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں انگریزوں کے آگے پھینک دیا ہو یا اگر فرشتوں سے ایسی بات منسوب نہ کی جا سکے تو کی شیطانوں نے ہندوستان فتح کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا ہو.ہندوستان نہ فرشتوں نے حوالے کیا اور نہ شیطانوں نے بلکہ انگریزوں نے خود اسے حاصل کیا اور ہم یہ مان لیتے ہیں کہ انہوں نے لڑائی سے اسے فتح نہیں کیا مگر عقل سے تو کیا ہے.انہوں نے عقل سے ہی اپنی فوقیت اور برتری ثابت کر دی اور اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ گو ہمارے ہاتھ سے ان کا ہاتھ اچھا نہیں مگر ہمارے دماغ سے ان کا دماغ ضرور اچھا ہے.یہ بھی ایک زبر دست فضیلت ہے.ہندوستانی کہتے ہیں کہ انگریز چالاکی سے جیت جاتے ہیں مگر چالا کی کیا ہے؟ ذہن کی تیزی کا نام چالا کی ہے اور ہاتھ کی تیزی زیادہ اچھی ہے یا ذہن کی ؟ ایک شخص اچھا گورنر ہے ملک کو قابو رکھ سکتا ہے ، مقدمات کا اچھا فیصلہ کر سکتا ہے اور ایک شخص اچھا دبا سکتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے کس کی قیمت زیادہ ہوگی ؟ اچھے گورنر ، اچھے فلاسفر ، اچھے جج کی یا اچھے دبانے والے کی ؟ اگر تو دبانے والا زیادہ قیمتی وجود ہے تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگریز اچھی تلوار نہیں چلا سکتے اس لئے ہم ان سے افضل ہیں لیکن اگر دماغی قابلیت کی قیمت زیادہ ہے تو جب ہم کہتے ہیں کہ انگریز کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے اچھا نہیں اور پھر یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارے حاکم ہیں تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہم ان کی ایسی فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں جو وہ خود بھی بیان نہیں کرتے مگر تم یہ کہہ کر کہ انگریز بزدل ہیں بہت خوش ہوتے ہو کہ انگریزوں پر حملہ کر دیا.حالانکہ جب تم یہ کہتے ہو کہ فلاں قوم لڑائی میں اچھی ہے مگر ذہین نہیں تو یہ بہت کم تعریف ہے لیکن کی جب یہ کہتے ہو کہ لڑائی میں اچھی نہیں مگر ذہین بہت ہے تو اس کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہو.اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص کے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی تھے وہ ان کو لے کر میرے مکان پر آیا مجھے باندھ دیا اور مال اسباب لے کر چلا گیا تو اس میں گھر والے کی کوئی ذلت نہیں اور جس نے لوٹا
خطبات محمود ۲۴۸ سال ۱۹۳۹ء اُس کی کوئی عزت اور خوبی نہیں سوائے اِس کے کہ اس کے ساتھ ایک جتھا تھا لیکن اگر وہ اس کی طرح کہے کہ میرے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی تھے اور وہ اکیلا تھا مگر چالا کی کے ساتھ ہمیں شکست دے گیا تو اس میں حملہ آور کی عزت ہو گی ذلت نہیں.اسی طرح انگریزوں کا بہت تھوڑی تعداد کے باوجود ہندوستان کو فتح کر لینا ان کی ذہانت کا ثبوت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر معمولی ذہانت نے ہی انگریزوں کو غلبہ دلوایا ہے اور اب یہی جرمنی کو آگے بڑھا رہی ہے.اسی کی وجہ سے جاپان ترقی کر رہا ہے اور اسی کے طفیل ٹرکوں نے ترقی کی.ان میں ایک ذہین آدمی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا جس نے تمام قوم کو اوپر اُٹھا دیا تو ذہانت قومی ترقی کے لئے بہت ضروری چیز ہے.اس لئے ہر کام سوچ اور فکر سے کرنا چاہئے اور سوچ لینا چاہئے کہ کس طرح کسی کام سے زیادہ بہتر اور مفید نتائج پیدا ہو سکتے ہیں؟ دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے قادیان میں ناخواندگی کو دور کرنے کی تحریک کی تھی جو رپورٹیں اس کے متعلق مجھے پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا کی ہے کہ بعض لوگ پڑھنے سے گریز کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے پڑھ کر کیا نوکریاں کرنی ہیں؟ خدام الاحمدیہ کو ایسی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے دُنیا میں کبھی کوئی ایسی سکیم نہیں ہوئی جسے سب کے سب لوگ قبول کر لیں.کچھ نہ کچھ مخالف ضرور ہوتے ہیں اور اس تحریک میں تھوڑی سی مخالفت برکت کا موجب ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک نیک تحریک کی کچھ روز کے بعد آپ اس سے ملے تو دریافت کیا کہ کیا اس تحریک کو کامیابی ہو رہی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں کئی لوگوں کی طرف سے اس کی پسندیدگی کے خطوط آ رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی برکت والی تحریک نہیں.آپ نے پوچھا کہ کیوں؟ تو اُس نے کہا کہ کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی.حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بھی باتیں ہوتی ہیں ان کے پیش کرنے والوں کو لوگ گالیاں دیتے ہیں.تھوڑے دنوں کے بعد وہ شخص آپ کو پھر ملا اور کہنے لگا کہ اب میں اس تحریک کو بابرکت سمجھتا ہوں کیونکہ مغلظات سے بھرا ہوا ایک خط آیا ہے.تو کسی نیک تحریک میں مخالفت برکت کا موجب ہوتی ہے اور اس تحریک کی جو مخالفت ہوئی ہے یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ جماعت میں مرض پیدا ہو رہا ہے جس کے علاج کی
خطبات محمود ۲۴۹ سال ۱۹۳۹ء کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وقت پر مرض کا علم ہو جانا بھی برکت ہے.کیونکہ اس صورت میں علاج ممکن ہوتا ہے.بہت سی بیماریوں کا علاج اس لئے نہیں ہو سکتا کہ بروقت علم نہیں ہوتا اور اس مخالفت کا پیدا ہونا ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمیں زیادہ محنت اور کوشش سے کام کرنے کی ضرورت ہے.پس خدام الاحمدیہ بجائے اس مخالفت سے گھبرانے کے زیادہ شوق اور محنت سے کام کریں.ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں، پہلے محلوں کے ممبر سمجھا ئیں اگر اُن کا اثر نہ ہو تو عہدہ دار ایسے لوگوں کے پاس جائیں یہ بھی بے اثر ہوتو دوسرے بزرگوں کے وفد خدام الاحمدیہ والے لے جائیں جو ان لوگوں کو سمجھائیں اور ان کو چھوڑیں نہیں جب تک کہ قائل نہ کر لیں.اگر اپنے آدمیوں کو بھی ہم قائل نہیں کر سکتے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنی کمزوری کا خود اعتراف کرتے ہیں.کمزور لوگ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق لوگ موجود تھے.پھر بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی کو چھوڑ دینا چاہئے لیکن یہ بھی صحیح نہیں.کمزوروں کو دیکھ کر گھبراناغلطی ہے مگر اس بات پر مطمئن ہو کج جانا کہ ایسے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے اس سے بھی بڑی غلطی ہے اگر پہلے سلسلوں میں کمزور لوگ رہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی تو ہے کہ اس زمانہ کے بزرگوں نے کبھی ان کے وجود کو اطمینان کے ساتھ گوارا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کی اصلاح میں لگے رہتے تھے اسی طرح ہمیں بھی اس کوشش میں لگے رہنا چاہئے کہ وہ بچ جائیں.پس تعلیمی سکیم کی مخالفت سے خدام الاحمدیہ کو گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ مخالفوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنی چاہئے.پہلے خدام خود سمجھا ئیں اگر اس کا اثر نہ ہو تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری وغیرہ ان کے پاس جائیں اور سمجھا ئیں.اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو سلسلہ کے دوسرے بزرگ جائیں اور پھر بھی اگر نتیجہ خاطر خواہ نہ پیدا ہو تو مجھے لکھا جائے کیونکہ اتنی کوشش کے باوجود بھی جس کی اصلاح نہ ہو اس کی نسبت سمجھنا چاہئے کہ اس کی بیماری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ کی جماعت سے الگ کیا جانے کے قابل ہے.پس مخالفت کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ اس بات سے مطمئن ہونا چاہئے کہ کمزوروں کا وجو د لازمی ہے.بے شک ان کا وجود لازمی ہے مگران کی اصلاح کی کوشش اس سے بھی زیادہ ضروری اور لازمی ہے.“ (الفضل ۲۴ رمئی ۱۹۳۹ء) 66
خطبات محمود ۲۵۰ K سال ۱۹۳۹ء قادیان میں احرار کی تبلیغی کا نفرنس اور حکومت سورۂ فاتحہ سے ایک اور رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت فرموده ۹/جون ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے قادیان سے دورانِ سفر میں برابر اطلاعیں ملتی رہی ہیں کہ قریب ہی احرار قادیان میں ایک اور جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ کہ جماعت کے وہ افراد جن تک یہ خبریں پہنچ رہی ہیں کہ ان میں ایک بہیجان اور بے چینی پیدا ہے.احرار کے جلسہ کے کئی پہلو ہیں.ایک تو یہ ہے جو مجھے کی حیرت میں ڈال رہا ہے کہ چند سال پہلے یعنی قریباً چار ساڑھے چار سال قبل ۱۹۳۴ء میں بھی احرار کی طرف سے ایک جلسہ یہاں منعقد کیا گیا تھا وہ جلسہ جس رنگ میں ہوا اور اس کے جو نتائج پیدا ہوئے وہ گورنمنٹ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے اور پوشیدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ سارا معاملہ اسی کے ساتھ تعلق رکھتا تھا بلکہ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کا بہت سا دخل اس جلسہ کے انعقاد میں تھا اور اسی کے اثر کے ماتحت زمین وغیرہ حاصل کی گئی تھی.جس وقت اُس جلسہ کے انعقاد کا اعلان ہوا ہم نے گورنمنٹ پر یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ جلسہ تبلیغی نہیں ہے بلکہ محض جماعت احمدیہ کو مرعوب کرنے کی غرض سے ہے اور ایک سیاسی رنگ کی رکھتا ہے اور اس جماعت کے مرکز میں جو اس کے نزدیک بہت مقدس جگہ ہے باہر سے جتھوں کو لا کر ڈال دینا اور مظاہرے کرنا کسی صورت میں بھی اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتا مگر گورنمنٹ نے
خطبات محمود ۲۵۱ سال ۱۹۳۹ء یہی جواب دیا کہ یہ تبلیغی جلسہ ہے اس لئے ہم اسے نہیں روک سکتے لیکن جب وہ منعقد ہوا تو مقامی افسروں کے اپنے رویہ سے معلوم ہو گیا کہ وہ اسے تبلیغی جلسہ قرار نہیں دیتے تھے.اس لئے کہ سرکاری افسروں نے ہم سے اقرار لیا کہ احمدی اس جلسہ میں نہ جائیں اور یہ ظاہر ہے کہ قادیان میں اب قریباً نوے فیصدی جماعت احمدیہ کے افراد ہی آباد ہیں اور جس جگہ ایک جماعت کی کثرت ہو وہاں تبلیغ کی غرض صرف یہی ہو سکتی ہے کہ دوسرے کو اپنے خیالات پیش کر کے اپنا ہم خیال بنایا جائے لیکن جن لوگوں کو جلسہ کرنے والے تبلیغ کر سکتے تھے ان کو افسروں نے وہاں جانے سے روک دیا.پس اس جلسہ کو تبلیغی جلسہ قرار دینا محض عناد اور ضد تھا.اس معاملہ میں اتنا تعہد کیا گیا کہ ستکو ہا کا ایک احمدی جو راستہ پر سے گزر کر اپنے گاؤں کو جارہا تھا اُسے پولیس کے آدمی گرفتار کر کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس لے گئے کہ یہ احمدی اس رستہ سے گزر رہا تھا جس کے قریب احرار جلسہ کر رہے ہیں.حالانکہ رستوں پر گزرنا کوئی مجرم نہیں خصوصاً جن کا رستہ وہی ہو.پھر اس جلسہ کے دوران میں اس قدرسختی کی گئی کہ حکم دے دیا گیا کی کہ احمدی اپنا لٹریچر ان دنوں میں تقسیم نہ کریں اور اسے اس انتہا ء تک پہنچایا گیا کہ ایک تھانیدار نے خود پہرہ داروں کے داروغہ کو بھیج کر بعض ٹریکٹ منگوائے چونکہ کہا گیا تھا کہ پولیس مانگتی ہے اس نے دے دیئے جس پر وہ ٹریکٹ سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کئے گئے کہ دیکھئے یہ ٹریکٹ احمدی تقسیم کرتے ہیں اور جب ان کو اصل حقیقت بتائی گئی تو ا سے سُن کر بھی اُنہوں نے یہ کہا کہ خواہ پولیس والے مانگنے آئے تھے انہیں یہ ٹریکٹ نہیں دینے چاہئیں تھے.اس کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے مقدمہ چلایا گیا اور اس بارہ میں حکومت کو جو رویہ اختیار کرنا پڑا اس سے بھی ثابت ہو گیا کہ ان کے نزدیک یہ جلسہ تبلیغی نہیں تھا بلکہ محض فتنہ وفساد کی غرض سے تھا مگر اس کے انعقاد سے قبل گورنمنٹ کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا جاتا رہا کہ یہ تبلیغی جلسہ ہے ہم اسے کس طرح روک سکتے ہیں لیکن بعد میں سر ایمرسن گورنر پنجاب خود مان گئے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہیں تھا اور کہ آئندہ ایسا جلسہ نہیں ہوگا.گویا گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے سب سے بڑا افسر یعنی گورنر خود اقرار کر چُکا ہے کہ یہ جلسہ تبلیغی نہیں تھا اور کہ آئندہ ایسا جلسہ قادیان میں ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی.اب اگر باوجود اس اقرار کے ایسا جلسہ ہو تو اس سے سمجھا جائے گا کہ گورنمنٹ برطانیہ
خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۹ء کے کسی بڑے سے بڑے افسر کی زبان کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرنا چاہئے.کہا جاسکتا ہے کہ سرایمرسن آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ سوال تو ہر گورنر کے متعلق ہوسکتا ہے.موجودہ گورنر بھی آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے اور ان کے بعد آنے والا بھی اگر اس عذر کو درست تسلیم کیا جائے تو آئندہ کسی کو سرکاری حکام سے بات چیت کرتے وقت یقین نہیں ہوسکتا کہ وہ جو بات کر رہا ہے اُس کا کوئی مفید نتیجہ نکلے گا اور لوگ گورنر جیسے جلیل القدر عہدہ پر فائز حاکم کے متعلق بھی مجبور ہوں گے کہ ان کے وعدہ کو بھی تسلیم نہ کریں کیونکہ خوف ہوگا کہ دوسرا گورنر بلا حالات کی تبدیلی کے پہلے گورنر کی بات کو رڈ کر دے گا.پس اگر اس جلسہ کی اجازت دے دی گئی تو ہم جن کے ساتھ یہ گفتگوئیں ہوئیں مجبور ہوں گے یہ کہنے پر کہ پنجاب میں گورنمنٹ برطانیہ کے سب سے بڑے نما ئندہ نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا اُسے موجودہ گورنمنٹ نے توڑ دیا ہے.دوسرا نقطہ نگاہ جو ہے وہ تبلیغی ہے.سوال یہ ہے کہ کیا یہ جلسہ تبلیغ کے لئے کیا گیا جیسا کہ احراری اعلان کرتے ہیں.اگر یہ واقعی تبلیغی ہے تو پھر اس میں شمولیت سے ہمیں نہیں روکا جاسکتا.یہ عجیب دوغلی بات ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں احمدی یہاں نہ آئیں اور دوسری طرف یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم نے قادیان کو فتح کر لیا ہے جن کو مرعوب کرنے یا تبلیغ کرنے کے لئے یہاں جلسہ کیا جاتا ہے ان کو تو روک دیا جاتا ہے کہ وہاں نہ جائیں اور پھر ظاہر یہ کیا جاتا تج ہے کہ احمدی مقابلہ پر نہیں آئے.ایسی صورت میں یہ ہرگز جائز نہیں ہوگا کہ ہمیں شمولیت سے روکا جائے اور پھر اگر کوئی ہمیں چیلنج دے تو ہر گز کسی کا حق نہیں ہو گا کہ ہمیں اس کے قبول کرنے سے رو کے.اگر کوئی لیکچرار ہمیں کوئی چیلنج دے گا تو ہمارا حق ہو گا کہ کھڑے ہو کر اسے قبول کر لیں اور اس کا جواب دیں.اگر گورنمنٹ اِس میں دخل دے گی اور ہمیں روکے گی تو آج کی اپنی طاقت سے وہ بے شک ہمیں روک دے لیکن تاریخ ضرور اس بات کو محفوظ کرے گی کہ اس کی زمانہ کے افسر دیانت دار نہیں تھے اور حکومت کا نظام صحیح طور پر چلانے والے نہیں تھے.کمزور کو زور سے چُپ کرالینا اور بات ہے مگر انصاف اور ہے.اس کی ایک دلچسپ مثال ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ ایک بھیڑ یا کسی نالے پر پانی پی رہا تھا اور کچھ فاصلہ پر کوئی بکری بھی پانی پی رہی تھی.
خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۹ء بھیڑیے نے چاہا کہ اُسے کھا جائے اور اس کے لئے اس نے کوئی بہانہ تلاش کرنا چاہا وہ اوپر کی طرف تھا اور بکری نیچے کی طرف آخر اُ سے اور کوئی بہانہ نہ ملا تو اُس نے بکری سے ڈانٹ کر کہا کہ ہمارا پینے کا پانی کیوں گدلا کر رہی ہو بکری نے عاجزی سے جواب دیا کہ میں تو نیچے کی طرف ہوں آپ کے ذریعہ گدلا ہو کر پانی میری طرف آ رہا ہے نہ کہ میری طرف سے گدلا ہو کر آپ کی طرف جا رہا ہے.اس پر بھیڑیے کو اور تو کوئی بہانہ نہ سوجھا اِس نے کہا کہ گستاخ ، بے حیا سامنے بولتی ہے اور اسے چیر پھاڑ کر کھا گیا.اس میں شبہ نہیں کہ گورنمنٹ کے کی پاس فوج ہے، پولیس ہے، مجسٹریٹ ہیں ، جیل خانے ہیں ، وہ جسے چاہے پکڑ کر قید کرسکتی ہے مگر جس چیز پر اس کا قبضہ نہیں وہ بے انصافی کو انصاف قرار دینا ہے.بڑے بڑے بادشاہ دُنیا میں گزرے ہیں ہمارے وزراء اور افسروں سے بہت بڑے لیکن آج تاریخ ان کے کاموں پر سختی سے فیصلہ لکھ رہی ہے.سکولوں کے مدرس اور کالجوں کے پروفیسر کس طرح دیدہ دلیری سے آج اور نگزیب پر اعتراض کرتے ہیں.حالانکہ وہ اتنا بڑا بادشاہ تھا کہ ان مصنفوں کی حیثیت اس کے مقابلہ میں ایسی بھی نہیں جیسی کہ ایک نمبر دار کے مقابلہ میں چوہڑے کی ہوتی ہے مگر وہ کی زمانہ گزر گیا اور بعد میں آنے والوں میں سے بعض نے اس کے افعال کو ظالمانہ اور بعض نے منصفانہ کہا.اس پر بہت بحثیں ہوئیں اور آج ہند و مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اور نگزیب پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر غلط ہیں مگر بعض بادشاہوں کے متعلق تحقیقات صحیح تھی اور اس بات کو دُنیا نے آہستہ آہستہ تسلیم کر لیا اور آج روم کے بادشاہ نیرو اور ہلاکو خان کو ظالم قرار دیا جا رہا ہے.وہ ایک دو افراد تھے مگر ان کی وجہ سے ساری قوم بد نام ہوئی.پس انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر جلسہ ہو اور خالص تبلیغی ہو تو احمد یوں کو ایسے تبلیغی جلسہ میں جانے سے نہ روکا جائے اور اگر کوئی ہمیں چیلنج دے تو احمدی اسے قبول کر لیں اور حکومت کی طرف سے انہیں اسے قبول کرنے سے ہرگز نہ روکا جائے لیکن اگر روکا گیا جیسا کہ پچھلی مرتبہ کیا ؟ گیا تھا تو ایسا کرنے والے تاریخی طور پر ظالم قرار پائیں گے اور ان کا اس وقت کا زور اور طاقت ان کی قوم کو بدنامی سے نہ بچا سکے گی.اُس زمانہ میں جب پہلی دفعہ یہاں جلسہ ہوا جو ڈپٹی کمشنر تھا حکومت اس کی ہر بات کی تصدیق کرتی تھی اور ہر موقع پر یہی جواب دیتی تھی کہ
خطبات محمود ۲۵۴ سال ۱۹۳۹ء ہمارا مقامی افسریوں کہتا ہے مگر تھوڑے دنوں کے بعد اسے اقرار کرنا پڑا کہ وہ غلطی پر تھی.میں منالی میں تھا کہ مجھے گورنر کی چٹھی ملی کہ میں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں.میں میلا اور متواتر چار گھنٹہ گفتگو ہوئی مجھے انہوں نے کہا کہ آپ ناراض کیوں ہیں؟ اور کس سے آپ کو شکایت ہے ؟ میں نے کہا کہ پہلے تو آپ سے شکایت ہے.انہیں یہ امید نہ تھی کہ میں کہوں گا آپ سے شکایت ہے.اس کے بعد گفتگو ہوتی رہی اور جب ہوتے ہوتے میں نے ڈپٹی کمشنر کے متعلق واقعات پیش کئے تو کئی جگہ انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ اس نے غلطی کی ہے.میں نے کہا یہ کی عجیب بات ہے کہ پہلے تو آپ اس کی ہر بات تسلیم کرتے گئے اور اب مانتے ہیں کہ بعض دفعہ اسے غلط فہمی ہو گئی اور بعض دفعہ حکومت بالا نے اُسے مجبور کر دیا.اڑھائی سال کے بعد اس ضلع میں ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر انز آئے ان کی یہ خواہش تھی کہ میں گورنمنٹ سے جماعت احمدیہ کی کی صلح کراؤں.وہ قادیان میں آئے اور مجھ سے ملے.بڑی لمبی چوڑی گفتگو ہوئی اور بعض باتیں اُن سے طے ہوئیں مثلاً ایک یہ کہ وہ پرانا ریکارڈ نکال کر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ جماعت احمدیہ کی غلطی تھی یا حکام ضلع کی؟ انہوں نے پہلے تو کہا تھا کہ یہ اتنا بڑا طومار ہے کہ اس کا پڑھنا مشکل ہے مگر جب میں نے کہا کہ بہر حال آپ اسے دیکھیں اور ان واقعات کے متعلق اپنی رائے قائم کریں اس کے بغیر ہماری تسلی نہیں ہوسکتی تو اُنہوں نے وعدہ کیا کہ آہستہ آہستہ وہ ان مسلوں کو پڑھیں گے.بعض حالات کی وجہ سے ان کو جلد یہ ضلع چھوڑنا پڑا مگر ہمارے ایک ذمہ دار افسران کے جانے سے پہلے جب ان سے ملے تو انہوں نے ان سے کہا کہ میں نے اس وقت تک تین چار کیس پڑھے ہیں ان کے متعلق میری رائے یہی ہے کہ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی غلطی تھی اور آپ حق پر تھے.افسوس ہے کہ وہ زیادہ دیر اس ضلع میں نہ ٹھہر سکے ورنہ اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میں باقی کا غذات بھی پڑھ کر اپنی رائے دوں گا.تو سرکاری حکام نے ہی بعد میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی تردید کی مگر اُس زمانہ میں حکومت اُس کی ہر بات کو صحیح تسلیم کرتی تھی اس قسم کی غلطی کی ایک اور موٹی مثال ہے اُس وقت کی پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ احمدی فساد کرتے ہیں مگر جب گورنمنٹ برطانیہ کی طرف سے اس سے دریافت کیا گیا کہ احمدیوں پر یہ الزام کس بناء پر لگایا جاتا ہے؟ تو انہوں نے نہایت صفائی
خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۹ء کے ساتھ جواب دیا کہ نہیں ہم تو احمدیوں کو بڑا وفا دار سمجھتے ہیں اور وہ جو کہتے تھے کہ ہم احمدیوں کو کی فسادی سمجھتے ہیں اُنہوں نے ہی جب یہ کہا کہ ہم تو انہیں بہت اچھا سمجھتے ہیں تو ہم نے اپنے دل میں کہا کہ یہ بڑے جھوٹے آدمی ہیں.اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ اس قسم کا مخفی سرکلر جو جاری ہوا تھا اُس وقت کے گورنر سر ایمرسن صاحب نے مجھ سے بھی کہا اور دوسرے سلسلہ کے نمائندوں سے بھی کہا کہ اس کا انہیں کوئی علم نہیں اور میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کی بات کو غلط قرار دوں.اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ یہ سرکلر کسی ماتحت افسر کا تھا.ہمیں اس سرکلر کا علم اس طرح کی ہوا کہ ایک ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک دوست کو جو اس کا بھی دوست تھا اس کی اطلاع دے دی کہ ایسی چٹھی آئی ہے کہ جماعت احمد یہ اب خراب ہوگئی ہے.اس کا خیال رکھا جائے مگر جب ہم نے گورنمنٹ سے اس بارہ میں دریافت کیا تو اُس نے انکار کر دیا کہ ایسا کوئی سرکلر نہیں گیا مگر خدا تعالیٰ جب پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ کوئی جواب نہیں بن پڑتا.اس نے ہمارے لئے یہ سامان کر دیا کہ راولپنڈی کے ایک تھانہ کی پولیس کا ایک ہیڈ کانسٹیبل ایک احمد یہ جماعت کے ہاں گیا اور کہا کہ جن لوگوں نے قادیان جانا ہے ( یہ جلسہ کا موقع تھا) وہ اپنے نام لکھوائیں.حکومت کی طرف سے یہ ہدایت آئی ہے کہ جو لوگ قادیان جانا چاہیں اُن کی نگرانی کی جائے.گویا جس طرح چوہڑوں اور سانسیوں کی نگرانی کی جاتی ہے اس طرح قادیان آنے والے احمدیوں کی نگرانی کا فیصلہ کیا گیا تھا ) اس جماعت نے مجھے اس کی اطلاع دی اور ہم نے حکومت کولکھا کہ اب بتاؤ اس کا کیا جواب ہے؟ مگر اس کا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا وہ صرف یہ کہتے رہے کہ ہم نے کوئی ایسا آرڈر نہیں دیا اور آخر میں کہا کہ آپ اس معاملہ پر زیادہ زور نہ دیں اور بات ختم کر دیں.ہم نے اس بارہ میں ضلع میں بھی تحقیق کی اور معلوم ہوا کہ اس تھانہ میں خفیہ آرڈر آیا تھا.تھانیدار اتفاق سے چھٹی پر تھا اور حوالدار انچارج تھا وہ شراب کا عادی تھا اور نشہ کی حالت میں تھا، ہدایت پر کانفیڈنشل لکھا ہوا تھا لیکن اُس نے نشہ کی حالت میں اس کا خیال نہ کیا اور جھٹ پروانہ لے کر وہاں جا پہنچا آخر جب ہم نے بار بار اس کا جواب مانگا تو سیکرٹری نے کہا کہ بس اب اس بات کو چھوڑ دیں ، زیادہ تنگ نہ کریں اور اب اِس سوال کا جواب نہ مانگیں.تو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری ایسی مدد فرمائی کہ بار بار حکومت کو
خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۹ء اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی.خود گورنران کونسل کی چٹھی میرے پاس محفوظ ہے اور اگر یہ جلسہ ہوا تو ی شاید مجھے اسے شائع کرنا پڑے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ذمہ دار افسروں نے اس موقع پر صریح جھوٹ سے کام لیا تھا کہ ایک چٹھی میں تو لکھا ہے کہ آپ کی فلاں پیٹھی کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی تھی اور دس دن کے بعد ایک اور چٹھی آئی کہ اگر آپ کی فلاں چٹھی کا ہمیں پتہ ہوتا تو ایسا نہ کیا جاتا.تو یہ واقعات ایسے ہیں جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں گورنمنٹ کو دھوکا دیا گیا اور اسے بھی اس دھوکا کی وجہ سے اپنے افسروں پر اعتبار کر کے بعض ایسی باتیں کہنی پڑیں جو غلط تھیں اور جن کی وجہ سے بعد میں اسے ندامت اٹھانی پڑی.انہی دنوں میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس ٹچھٹی پر ولایت گئے ہوئے تھے.میں نے دردصاحب کو لکھا کہ آپ ان سے ملیں اور پوچھیں کہ یہ کیا باتیں آپ لوگ کر رہے ہیں؟ قادیان کا جلسہ اور اس موقع پر امام جماعت احمدیہ کو نوٹس آخر کس عقلمندی کا نتیجہ تھا ؟ درد صاحب ان سے ملے تو اُنہوں نے بتایا کہ اصل میں ہمیں دھوکا دیا گیا تھا.پہلے ڈپٹی کمشنر نے چیف سیکرٹری کو فون کیا کہ کی احمدی لوگوں کو باہر سے بلوار ہے ہیں اور ضرور فساد ہو جائے گا.اس پر گورنر نے سی.آئی.ڈی کی سے دریافت کیا اس کے پاس آپ کی وہ چٹھی پہنچ چکی تھی جس میں لکھا تھا کہ لوگوں کو باہر سے بلانے والی چٹھی منسوخ کر دی گئی ہے.آئی.جی نے درد صاحب سے بیان کیا کہ ہی.آئی.ڈی کی والوں نے وہ چٹھی مسل کے ساتھ شامل کر دی مگر جو افسر وہ مسل دینے کے لئے آیا وہ زبانی یہ کی کہہ گیا کہ احمدیوں نے آدمی بلوانے والی چٹھی کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا.حکومت نے اس مسل کو دیکھے بغیر اس افسر کی زبان پر اعتبار کر کے نوٹس جاری کر دیا بعد میں جب آپ نے احتجاج کیا اور اس پٹھی کو دیکھا گیا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ پہلی چٹھی منسوخ کر دی گئی ہے.اس زمانہ میں بعض افسروں نے ہمیں بھی اور حکومت کو بھی دھوکا دینا چاہا.ہمارے تو وہ مخالف تھے اس لئے دینا ہی تھا اور ہم ان کے دھوکا میں آئے بھی نہیں لیکن مشکل گورنمنٹ کے لئے تھی.ایک طرف تو وہ ان دھوکا دینے والے افسروں کی حفاظت کرنا چاہتی تھی اور دوسری طرف ان کے جھوٹوں کی وجہ سے اسے ندامت اُٹھانی پڑتی تھی اور وہ ایسی مصیبت میں مبتلا تھی کہ کوئی جواب نہ بن پڑتا تھا اور اب اگر جلسہ ہو تو معلوم نہیں حکومت اب کیا جواب دے سکے گی ؟
خطبات محمود ۲۵۷ سال ۱۹۳۹ء اس وقت کے لئے تو یہ جواب تھا کہ ایسے افسر تھے جو غلط رپورٹیں کرتے تھے اور اس لئے اس نے کہہ دیا کہ ہمیں دھوکا دیا گیا مگر اس دفعہ اگر جلسہ ہو تو ہم کیا سمجھیں گے جب ایک دفعہ اس جلسہ کا تجربہ ہو چکا اور اس کے فسادات ظاہر ہو چکے، نتائج کا علم ہو چکا اور گورنمنٹ کو اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرنا پڑا اور سب سے بڑے افسر نے خود یہ وعدہ کیا کہ آئندہ یہاں اس قسم کا جلسہ نہیں ہوگا تو اگر اب یہ ہو تو لازماً اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اب حکومت دیدہ دانستہ اس رائے پر چل رہی ہے جس پر چار سال قبل اس نے غلطی سے قدم مارا تھا.اُس وقت کی غلطی کو تو ماتحت افسروں کی دھوکا دہی کی طرف منسوب کر دیا گیا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس نے دیدہ دانستہ ایسا کیا لیکن اگر اب ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ وہ دیدہ دانستہ فساد چاہتی ہے.مجھے گورنمنٹ کی طرف سے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ آیا یہ جلسہ ہونے دے گی یا نہیں ؟ لیکن میں حیرت میں ہوں کہ جیسا کہ میں نے سُنا ہے بعض مقامی حکام نے کہا ہے کہ اسے روکنے کی کوئی وجہ نہیں.اگر یہ جلسہ ہو تو گورنمنٹ کیا جواب دے گی ہم کو اور دوسرے شرفاء کو؟ تیسرا نقطہ نگاہ اس کے متعلق ہماری جماعت کے لحاظ سے ہے اگر تو یہ تبلیغی جلسہ ہے تو ہمارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں اگر کوئی تبلیغ کے لئے آتا ہے تو بیشک آئے وہ ہمیں تبلیغ کی کرے ہم اُسے کریں گے اور اگر وہ تبلیغ کی حد تک محدو در ہیں تو یقیناً ان کا آنا آخر کار ہمارے لئے مفید ہوگا.ہمارے پاس سچائیاں ہیں اور موٹی سے موٹی دلیلیں ایسی ہیں جن سے ان کے اعتراضات ہوا میں اُڑ جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ثبوت اور براہین عطا کئے ہیں اور ایسے نشانات آپ کی تائید کے ظاہر فرمائے ہیں کہ ہم یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی دشمن ہمارے خیالات کو مشتبہ یا مشوش کر سکتا ہے.اگر کوئی شخص ان تقریروں کی سے مشوش ہوسکتا ہے تو ان کے معنے یہ ہیں کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اس خطبہ کے بعد اطلاع مل چکی ہے کہ حکومت نے اس جلسہ کو روک دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ ہمارے آدمیوں سے بعض مقامی افسروں نے کہا تھا وہ ان کا ذاتی خیال تھا حکومت کا خیال نہ تھا.بہر حال حکومت نے ایک منصفانہ اقدام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے شکریہ کی مستحق ہے.
خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۹ء درجہ کو سمجھا ہی نہیں.پس ان تقریروں سے کسی احمدی کو گھبرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور ان کی کی تردید نہایت معمولی دلائل سے ہو سکتی ہے.اگر کوئی شخص دن کو کہہ دے کہ رات ہے تو ہر شخص کی آسمان کو دیکھے گا اور کہہ دے گا کہ یہ غلط کہتا ہے.ہے تو یہ ایک لغو سا لطیفہ مگر نقشہ اس میں اچھا کھینچا گیا ہے.کہتے ہیں کسی کو گانجا کھانے یا پینے کی عادت تھی مجھے پتہ نہیں اسے کھاتے ہیں یا پیتے ہیں.ایک دن موسم اچھا تھا اور وہ اپنے دل میں سرور اور لذت محسوس کر رہا تھا.وہ اس دکاندار کے پاس گیا جس سے گانجا لیا کرتا تھا اور اُسے کہا کہ دیکھو میں دس بارہ سال سے تمہارا خریدار ہوں اور تم جانتے ہو تم گانجا اچھا دو یا بُرا میں نے کبھی شکایت نہیں کی لیکن آج میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ایسا اچھا گانجا دو کہ جس سے بہت ہی نشہ ہو.آج میرا دل سرور چاہتا ہے.دکاندار نے گانجا دیا جسے اُس نے استعمال کیا اُس کے بعد وہ حمام میں گیا اور وہاں غسل کیا اور اُسے بہت غصہ آیا کہ مجھے دکاندار نے میری تاکید کے باوجود ایسا گانجا دیا کہ جس کی سے کوئی نشہ نہیں ہوا.چنانچہ وہ دکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے تمہیں پرانا خریدار ہونے کا واسطہ دے کر سوال کیا تھا اور اتنی تاکید کی تھی مگر پھر بھی تم نے ایسا گانجا دیا کہ جس سے کوئی نشہ نہیں ہوا.دکاندار نے جواب دیا کہ میری زبان کا تو تمہیں اعتبار نہیں ہو گا اس لئے میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ذرا سر جھکا کر اپنے جسم کو دیکھونشہ ہوا ہے یا نہیں.اُس نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نشہ کی حالت میں وہ حمام سے نگا ہی نکل آیا ہے اور جب اُس نے نگاہ ڈالی تو شرمندہ ہو کر وہاں سے بھاگا.تو سچائی پر کون پردہ ڈال سکتا ہے؟ کوئی ہزار باتیں بنائے صداقت کو نہیں چھپا سکتا.اسی سفر سندھ میں ایک دن کسی بات پر مجھے سخت تکلیف اور رنج تھا اور سارا دن میری طبیعت پر اُس کا اثر رہا.شدید گھبراہٹ تھی ، رات کو میں نے بہت دُعا کی اور جب سویا تو ایک رؤیا دیکھا.میں نے دیکھا کہ جیسے میں کسی غیر ملک میں ہوں اور وہاں سے دوسرے ملک کو کی واپسی کا سفر اختیار کرنے والا ہوں.میرے ساتھ خاندان کی بعض مستورات بھی ہیں اور بعض مرد بھی.خواب میں میں سمجھتا ہوں جیسا کہ میں انگلستان میں ہوں اور فرانس سے ہو کر مشرق کی طرف آ رہا ہوں ہم ریل پر سوار ہونے کے لئے پیدل جا رہے ہیں.ریل کے سفر کے بعد
خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۹ء جہاز پر چڑھنے کا خیال ہے.چلتے ہوئے ہم ایک خوبصورت چوک میں پہنچے جہاں ایک عالیشان مکان ہے اور اُس کا مالک کوئی انگریز ہے.مجھے کسی نے آ کر کہا کہ اُس کا مالک اور اُس کی بیوی آپ سے چند منٹ بات کرنا چاہتے ہیں اگر آپ تھوڑی سی تکلیف فرما کر وہاں چلیں تو بہت اچھا میں نے اُس سے ملنا منظور کر لیا اور میں بھی اور میرے ساتھ کی مستورات بھی اُس مکان میں گئیں.عورتیں جا کر اُس کی بیوی کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں اور میں اُس آدمی کی کے ساتھ باتیں کرنے لگا.مختلف علمی باتیں ہوتی رہیں.گفتگو کوئی مذہبی نہیں تھی بلکہ علمی تھی.مثلاً یہ کہ مستشرقین یعنی عربی دان انگریز کون کون سے ہیں؟ نیز بعض تمدنی تحقیقاتوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.باتوں باتوں میں اُس نے عبدائمی عرب کا ذکر کیا اور کہا کہ اس نے فلاں انگریز کوعربی پڑھائی ہے.میں نے کہا کہ میں عبدائی کو جانتا ہوں وہ بوجہ عرب ہونے کے خراب شده عربی بول لیتے ہیں مگر عربی کے کوئی عالم نہیں ہیں.اس نے کہا کہ خیر کتاب پڑھانا کیا مشکل ہوتا ہے؟ لغت کی کتابیں دیکھ کر پڑھایا جا سکتا ہے جب وہاں سے چلنے لگے ہیں تو میں اپنے دل میں ڈرا ہوں کہ اُس کی بیوی اب مجھ سے مصافحہ کرے گی اور میں اُسے کہتا ہوں کہ آپ بُرا نہ منائیں ہمارا مذہبی حکم ہے کہ عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں.یہ سُن کر اُس کے چہرہ پر تو تغیر پیدا ہو' امگر اُس نے جواب دیا کہ اگر آپ کے مذہب کا یہ حکم ہے تو پھر بُرا منانے کی کیا بات ہے؟ اور پھر اس خیال سے کہ مجھے یہ خیال نہ ہو کہ اُس نے بُرا منایا ہے اُس نے ہنس کر کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس سفر کو کامیاب کرے.میں وہاں سے چلا اور مستورات کے ساتھ نیچے آیا ہوں تو بعض کی دوست نیچے کھڑے ہیں جن میں میر محمد اسمعیل صاحب اور درد صاحب بھی ہیں.میں ان سے بات چیت کرتا اور کہتا ہوں کہ اب ہمیں چلنا چاہئے مگر وہ کہتے ہیں کہ شاید آپ کو خیال نہیں رہا کہ بڑی دیر ہو گئی ہے.رات کے دس بج چکے ہیں اور اب تو گاڑی جا چکی ہو گی.پھر وہ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کھانا کھا لیا ؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں ابھی کھانا ہے.وہ کہتے ہیں کہ اہلِ خانہ نے بعض مہمانوں کو دو چار مرتبہ پیغام بھیجا تھا کہ آجاؤ تا کھانا کھا سکیں اس لئے ہمارا خیال تھا کہ آپ بھی کھا چکے ہیں.میں نے کہا ممکن ہے اس کا خیال ہو کہ وہ آ جائیں تو کھا لیں مگر نہ وہ مہمان آئے اور نہ کھانا کھلایا گیا.پھر میں کہتا ہوں کہ اب کیا کیا جائے؟ اور وہ کہتے ہیں کہ
خطبات محمود ۲۶۰ سال ۱۹۳۹ء ہوائی جہاز میں جا کر جہاز کو پکڑ سکتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اس میں خرچ بہت زیادہ ہو گا کل کیوں نہ چلے جائیں ؟ اُس وقت خواب میں میں محسوس کرتا ہوں کہ گویا ہم مصر میں ہیں اور حج کے لئے جار ہے ہیں.میری یہ بات سُن کر غالبا در دصاحب نے کہا کہ ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ کل چلے جائیں تو اچھا رہے گا.اس پر میں نے کہا کہ ہمیں ایک دن مل گیا ہے کیوں نہ قاہرہ کی مستورات کو دکھالیں؟ گویا اس وقت ہم کسی ساحل بحر کے شہر میں ہیں.انہوں نے میری اس رائے کی تصدیق کی ہے مگر معا مجھے خیال آیا کہ قاہرہ تو میں نے دیکھا ہوا ہے (اور واقعی دیکھا ہوا ہے ) اسکندر یہ نہیں دیکھا وہاں چلے چلیں.مستورات نے تو نہ قاہرہ دیکھا ہے اور نہ اسکندریہ اس لئے ان کے واسطے تو برابر ہے خواہ کہیں چلے جائیں.بہر حال اس وقت میں وہ ایک ہی شہر دیکھ سکتی ہیں مگر مجھے اسکندریہ دیکھنے کا موقع مل جائے گا اس پر مولوی ابوالعطاء صاحب جو اس وقت سامنے بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کہتے ہیں کہ مجھے بھی یہی خیال آ رہا تھا کہ آپ سے کہوں کہ آپ اسکندریہ ہو آئیں.اتنے میں ذوالفقار علی خان صاحب نظر آئے اور وہ کہتے ہیں کہ یہاں کی کے تجار کے بعض لیڈر جو گویا ان کی مجلس اعلیٰ کے ممبر ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، ایک دومنٹ ہی لیں گے.میں کہتا ہوں کہ وقت بہت ہو گیا ہے ابھی ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور صبح روانہ کی ہونا ہے مگر خیر آپ ان کو لے آئیں.چنانچہ وہ لے آئے اور ایک نیم دائرہ کی صورت میں کی کھڑے ہو گئے.ان میں بعض ترکی لباس میں ہیں اور بعض عربی میں ہیں ان سے مصافحہ کرتا ہی ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ باتیں کرنی ہیں.جہاں ہم ہیں وہاں سنگ مرمر کا اچھا فرش ہے اس پر کپڑے بچھا دیئے گئے اور ہم اس پر بیٹھ گئے.میں ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں ہندوستان میں عربی میں گفتگو کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے اگر میں آہستہ آہستہ بات کروں تو آپ گھبرائیں نہیں.آپ کا جواب بہر حال آجائے گا.اس پر ان میں سے ایک نے نہایت خطر ناک بگڑی ہوئی گنواری عربی زبان میں کوئی بات کی میں نے اُسے کہا کہ ہم تو قرآن کریم می کی زبان ہی جانتے ہیں آپ لوگوں کی بگڑی ہوئی زبان نہیں سمجھتے.بلکہ ہم میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی عربی عربی ہی نہیں اس پر ایک شخص ان میں سے کہتا ہے کہ ہاں ہماری زبان بہت خراب ہو گئی ہے اور قرآنی زبان سے بہت دُور جا چکی ہے.اس کے بعد ان میں سے
خطبات محمود ۲۶۱ سال ۱۹۳۹ء ایک شخص جس نے ترکی لباس پہنا ہوا ہے مجھے کہتا ہے کہ کیا میں انگریزی میں گفتگو کروں؟ اس کے بعد کوئی وجہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ کو چھوڑ کر تھوڑے فاصلہ پر ہی دوسری جگہ پر جا بیٹھے ہیں.اس جگہ کی تبدیلی کی کوئی وجہ مجھے معلوم نہیں.شاید اندھیرا تھا اور ہم روشنی میں آنا چاہتے تھے خیر اس جگہ ان لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی پر اعتراض کرنے شروع کئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ شخص ما مور کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ ان میں سے ایک شخص احمدیت سے متاثر ہو چکا ہے اور یہ لوگ اس لئے نہیں آئے کہ خود تحقیق کریں بلکہ اُن کی غرض یہ ہے کہ اُسے خراب کریں اور کی ان میں سے ایک ہنس کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب مُجتہ النور یا شاید کسی اور کتاب کا نام لیتا اور کہتا ہے کہ وہ کتاب ہو تو ہم اس میں سے حوالہ پڑھ کر بھی سنا سکتے ہیں.ان کی کے سوال کے جواب میں میں نے عربی زبان میں جواب دینا شروع کیا اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک اہلِ زبان قادر ہوتا ہے میں بے تکلفی سے عربی زبان میں باتیں کر رہائی ہوں اور کوئی حجاب معلوم نہیں ہوتا.میں نے ان سے کہا کہ اعتراض تو ہر بڑی سے بڑی سچائی پر بھی ہو سکتا ہے کوئی ایسی صداقت نہیں جس پر لوگوں نے اعتراض نہ کئے ہوں اور یہ سوال بے شک آپ کے نزدیک وقیع ہوں مگر میں تو اس وقت چند منٹ سے زیادہ آپ لوگوں کو نہیں دے سکتا.ہم نے ابھی کھانا بھی نہیں کھایا اور پھر صبح اسکندریہ جانا ہے اور وہاں سے واپس آکر حج کے لئے روانہ ہونا ہے.اگر دو چار منٹ میں میں آپ کے سوالات کا جواب دوں تو اول تو آپ کی تسلی نہیں ہو سکے گی اور اگر ہو بھی جائے تو آپ کہیں گے ابھی فلاں سوال رہ گیا اور اگر میں ان کا جواب نہ دوں گا تو آپ کہیں گے آتا نہیں تھا.پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر اور کی اعتراض پڑتے ہوں پھر ان کا جواب دینا ضروری ہوگا اور اتنا وقت میرے پاس نہیں.اس کا ی حل میں ایک آسان ترکیب سے کر دیتا ہوں ہر صداقت کے متعلق کچھ گر ہوتے ہیں جن سے اس کو پر کھا جاسکتا ہے.پس قرآن کریم نے جو گر بیان کئے ہیں اگر تو ان کے رو سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی سچا ہے تو پھر اعتراضات کا یہ مطلب ہوگا کہ ہمارے خیال کی غلطی ہے کیونکہ قرآن کریم غلط نہیں ہو سکتا اور اگر ان گروں کے رو سے آپ بچے ثابت
خطبات محمود ۲۶۲ سال ۱۹۳۹ء نہ ہوں تو خواہ ایک بھی اعتراض آپ پر نہ پڑے آپ جھوٹے ہوں گے.پھر میں ان سے کہتا ہے ہوں کہ میں آپ لوگوں کو قرآن کریم کا ایک گر بتا ہوں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہے اور یہ بیان کرنے سے پہلے میں نے جو فقرے کہے وہ مجھے ابھی تک یاد ہیں.میں نے کہا کہ وہ گر ایسی کی ނ سورۃ میں بیان کیا گیا ہے جو قرآن کریم کی ابتدا میں نازل ہونے والی سورتوں میں ایک ہے اور جسے نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور وہ سورہ فاتحہ ہے.اس کے بعد میں نے سورہ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہ بیان کئے ہیں انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ الْمَغْضُوبِ اور الضا تین اور بتایا ہے کہ دنیا میں یا تو وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے انعام نازل ہوئے یا جن پر اس کا غضب بھڑ کا اور یا ضَآلَ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ کو چھوڑ دیا اور بندوں کو خدا کی جگہ دے دی.غرض یہ تین گروہ ہی قرآن کریم نے بیان کئے ہیں منعم علیہ ، مغضوب اور ضال.اگر تو کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام منعم علیہ گروہ میں شامل ہیں تو خواہ ان پر کتنے اعتراض ہوں آپ جھوٹے نہیں ہو سکتے اور اگر مغضوب یا ضال میں سے ہیں تو پھر خواہ ایک بھی اعتراض نہ ہوتی آپ سچے نہیں ہو سکتے.یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے جس کے ماتحت ہم دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کسی گروہ میں ہیں.میں جس وقت یہ تقریر کر رہا ہوں تو میں نے دیکھا کہ مصریوں میں سے ایک شخص اس طرح سر ہلا رہا ہے کہ گویا اس سے متاثر ہے اس پر اُس کے ساتھی ڈرے ہیں اور اُنہوں نے خیال کیا کہ پہلے جو شخص متاثر تھا ہم تو اُسے بگاڑنے کے لئے آئے تھے مگر اب تو یہ ڈر ہے کہ اسے بگاڑنے کے بجائے اور بھی متاثر نہ ہو جائیں.اس لئے جو اشد مخالف ہیں وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ اجی ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ آپ اصل سوال کا جواب دیں.میں پھر کہتا کی ہوں کہ سوالات تو ہزاروں ہیں اگر میں آپ کے اس سوال کا جواب دوں تو اول تو اتنے تنگ وقت میں آپ کی تسلی ممکن نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو باقی سوال رہ جائیں گے اور آپ کو ہدایت کی کا موقع نہیں مل سکے گا اگر آپ کو اپنی ہدایت مقصود ہے تو آپ یہ طریق کیوں اختیار نہیں کرتے؟ یہ کہہ کر میں اس شخص کی طرف دیکھتا ہوں جس کے متعلق مجھے خیال ہے کہ اس کے دل میں ہدایت ہے اور جسے بگاڑنے کے لئے وہ لوگ گفتگو کرنے آئے ہیں اور اس کے چہرہ کو دیکھ کر
خطبات محمود ۲۶۳ سال ۱۹۳۹ء اندازہ کرتا ہوں کہ یہ شخص بھی کہیں یہ نتیجہ تو نہیں نکال رہا کہ میں بات ٹال رہا ہوں لیکن میں نے کی دیکھا کہ اس کے چہرہ پر یقین اور سرور کے آثار ہیں.جب اس کی نظر میری نظر سے ملی تو اس کی نے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ اچھا آپ سورہ فاتحہ پڑھ کر دعا کریں اور میں دُعا شروع کرتا ہوں.وہ لوگ بھی میرے ساتھ دُعا میں شریک ہوتے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں.میں نے جب دُعا ختم کی تو وہ شخص میرے سامنے آیا اور اپنا سرزمین پر اس طرح رکھ کر کہ ایک کلہ نیچے اور دوسرا اوپر کی طرف ہے زمین پر لیٹ گیا.وہ رو رہا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر پھیرتا ہے گویا برکت حاصل کر رہا ہے.اس پر میری آنکھ کھل گئی.مجھے یاد نہیں کہ سورہ فاتحہ کا یہ مضمون میں نے پہلے کبھی بیان کیا ہو.یہ ایک قرآنی نکتہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ ہم نے بنالیا ہے.ایسی موٹی دلیل ہے کہ کوئی شخص سچائی سے گریز نہیں کرسکتا.تین ہی گروہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں.کوئی مغضوب اور ضال اور منعم علیہ نہیں ہوسکتا ہ اور کوئی آیت قرآن کریم کی ایسی نہیں جو ثابت کرے کہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور افتراج کرنے والا مغضوب اور ضال نہیں ہوتا اور اس پر خدا تعالیٰ خوش ہوسکتا ہے.یہ ایساز بر دست نکتہ ہے کہ کہیں پیش کرو اس کا کوئی جواب کسی سے نہیں بن پڑے گا.اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے نکتے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اگر حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کہا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور قرآن کریم کو بھی جھوٹا کہنا پڑتا ہے اور سینکڑوں ایسے نکتے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو سچا سلیم کیا جاہے تو مجبوراً حضرت مرزا صاحب کو سچا ما نا پڑتا ہے.پس ایسے جلسوں سے ہمیں کیا گھبراہٹ ہو سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسے دلائل دیئے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں ایسا زندہ قرآن دیا ہے کہ ہمارے دلوں کی میں کوئی شبہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا.پھر ان سب باتوں کے علاوہ تازہ الہام اور رویا و کشوف ہیں جن کی جماعت میں اتنی کثرت ہے کہ کوئی شخص انکار کر ہی نہیں سکتا اور ان باتوں کی موجودگی میں کی احرار کا جلسہ ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہو سکتا.باقی رہ گیا سوال رُعب کا تو یاد رکھو کہ تم زندہ خُدا کی جماعت ہو.بے شک تم میں کمزور بھی ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں ، بعض ایسے بھی ہیں جو میں نے سُنا ہے کہ پولیس کے ایجنٹ ہیں، بعض ایسے بھی ہیں
خطبات محمود ۲۶۴ سال ۱۹۳۹ء جو چوریاں بھی کر لیتے ہیں مگر ایسے لوگ جماعت کا حصہ نہیں ہیں ان کا احمدی کہلا نا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بھیڑیا بھیڑ کی کھال پہن لے.ایسے خبیث الطبع لوگ احمدیت سے دور ہیں.احمدی وہی ہیں جو سچائی پر قائم ہیں جو اپنے اخلاص ، تقویٰ اور رضاء الہی کے لئے کوشاں رہتے ہیں.ایسی پاکبازوں کی جماعت کو دُنیا میں کوئی ڈرا نہیں سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر غار ثور میں موجود تھے کہ دشمن سر پر پہنچ گیا اور کھوج لگانے والے نے کہا کہ یا تو آپ اس غار میں ہیں اور یا آسمان پر چلے گئے ہیں اس سے آگے نہیں گئے.حضرت ابو بکر اس موقع پر گھبراتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ابوبکر ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ، پس ان بزدلوں، بد گہروں اور شریر النفسوں کو چھوڑ کر جو احمدیت کی ہتک کرنے والے اور اپنے بُرے نمونہ سے اسے بد نام کرنے والے ہیں.مخلصین سے میں کہتا ہوں کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.یہ احراری اور گورنمنٹ کے وہ عہد یدار جن کے دلوں میں ہمارا بغض ہے بلکہ اگر کسی وقت دُنیا کی ساری گورنمنٹیں بھی اکٹھی ہو کر آئیں تو کی احمدیت کا بال بیکا نہیں کر سکتیں وہ طاقتیں اور حکومتیں خود تباہ ہو جائیں گی مگر احمدیت کا میاب اور مظفر ومنصور ہوکر رہے گی.‘“ اس کے بعد حضور نے نماز پڑھائی اور سلام پھیر نے کے ساتھ ہی فرمایا کہ سہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اور فرمایا کہ:- ”نماز کے اختتام کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ خواب میں جو دلیل بیان کرنے لگا تھا اور جس کے بیان کرنے سے خواب والے معترضین نے مجھے روک دیا تھا وہ میں اب اختصار کے ساتھ بیان کر دوں.وہ دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورۃ فاتحہ بہت دفعہ سکھائی تو متواتر سکھانے پر ایک دفعہ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مغضُوبِ کون ہیں ؟ اور ضَآل کون؟ آپ نے فرمایا کہ مَغْضُوبِ سے مراد یہودی اور ضَآل سے مراد نصاری ہیں ہے اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تشریح فرما دی.یہودیت اپنی ذات میں کوئی بُری چیز نہیں.یہودی حضرت موسیٰ کی قوم ہیں اور آپ کے لائے ہوئے مذہب پر چلنے والے.
خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۹ء وہ مَغْضُوبِ ان خرابیوں کی وجہ سے قرار پائے جو بعد میں ان میں پیدا ہوئیں اور ان خرابیوں میں سے سب سے بڑی جو قرآن کریم نے بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کا انکار کیا اور ضآل کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اُنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا بنا دیا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کے مطابق یہ گروہ کون بنتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو کام تو بہت نمایاں ہیں ایک یہ کہ آپ نے دعوی کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسرا یہ کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور ان کی طرف جو ایسے معجزے منسوب کئے جاتے ہیں جو الوہیت کی شان رکھتے ہیں وہ غلط ہیں اور یہ دونوں کام آپ کو زمرہ مغضُوبِ وصال سے باہر ثابت کرتے ہیں.کیونکہ مَغْضُوبِ تو وہ ہیں جنہوں کی نے حضرت مسیح کا انکار کیا اور آپ نے تو خود مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور سب سے پہلے اس کی دعوئی پر ایمان لائے اور ضآل وہ ہیں جو حضرت عیسی کی طرف خُدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور آپ نے حضرت عیسی کی خدائی کی گویا ٹانگ تو ڑ دی ہے.کیپٹن ڈگلس ( جواب کر نیل ہیں ) جب اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تو چونکہ وہ متعصب عیسائی تھے انہوں نے یہاں آتے ہی کہا کہ یہ شخص ہمارے خدا کو مارتا ہے اسے کوئی کچھ نہیں کہتا.گو بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کی ہدایت دی اور اُنہوں نے حضرت مسیح موعود کے ایک مقدمہ میں جو ایک پادری کی طرف سے تھا اعلیٰ انصاف سے کام لیا اور اب تک اس نشان کا خود ذکر دوسروں سے کرتے رہتے ہیں.تو آپ نے الوہیت مسیح پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ خود عیسائی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں.اسی سال کا ایک لطیفہ ہے کہ ہماری لاہور کی جماعت نے انگریزی میں ایک ٹریکٹ شائع کیا جس میں حضرت مسیح کی قبر کا فوٹو اور حالات درج تھے.وہ ٹریکٹ ایک دوست انگریزوں میں تقسیم کر رہے تھے کہ ایک دس بارہ سال کی لڑکی آواز سُن کر ٹریکٹ لینے کے لئے اپنے گھر سے باہر آ گئی اور ٹریکٹ لے کر جب اُسے دیکھا تو زور سے چھلانگ لگائی اور زور سے چلا کر کہا.ابا اماں ہمارا خدا مر گیا یہ اس کی قبر ہے تو جس شخص نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت کر کے الوہیت مسیح کے عقیدہ کو باطل ثابت کر دیا ہے وہ ضال کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور جو کی.
خطبات محمود ۲۶۶ سال ۱۹۳۹ء خود مدعی مسیحیت ہو وہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں سے کس طرح ہو سکتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ دونوں کا رنا مے آپ کو قطعی طور پر مغضوب اور آل کے زمرہ سے باہر نکالتے ہیں.اب تیسری بات آنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی رہ گئی سو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ آپ نے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ سے یہ الہام پایا کہ دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی کو دُنیا پر ظاہر کر دے گا.‘ے ایک اکیلا شخص جو بالکل گمنام تھا یہ دعویٰ کرتا ہے اور آج اس کے نام کی برکت سے اس گاؤں کو جس کے متعلق خود حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ یہ ایک کورد یہ تھا.اتنی ترقی ہوئی ہے کہ آج یہاں جمعہ کی نماز میں اتنے لوگ ہیں کہ بہت کم شہروں میں ہوتے ہوں گے.ہندوستان میں ایک لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والے شہر پچاس سے زیادہ ہیں اور ہزاروں کی آبادی والے تو سینکڑوں ہیں مگر ان شہروں میں سے سوائے تین چار ایسے شہروں کے جن کی کی آبادی دو تین لاکھ سے زیادہ ہے کسی جگہ بھی اتنے آدمی جمعہ کے لئے ایک مسجد میں جمع نہیں ہوتے جتنے قادیان میں ہوتے ہیں اور پھر یہ سب کے سب باہر سے آئے ہوئے ہیں.إِلَّا مَا شَاءَ الله - کوئی صوبہ سندھ کا ہے، کوئی بمبئی کا اور کوئی سرحد کا.پھر پنجاب کے مختلف حصوں کے لوگ ہیں ، عرب ، سماٹری جاوی اور افریقی ہر قوم کے آدمی موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کر رہے ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ ” میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ حَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ ۵ یعنی اب وقت آ گیا ہے کہ خدا تیری مدد کرے اور تجھے لوگوں میں معروف کرے اور آج اس گاؤں کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ احراری سارے پنجاب کو چھوڑ کر یہاں جلسہ کے لئے آتے ہیں اور جیسا کہ اخبار الفضل میں ان کے ایک مولوی کی کی تقریر چھپی تھی اُس نے کہا کہ اگر مکہ پر بھی حملہ ہو تو بھی میں قادیان میں رہنا زیادہ ضروری سمجھوں گا.گویا ایک اکیلا شخص جس نے دعوی کیا تھا آج اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ بعض مولوی کہلانے والے مکہ کو خطرہ میں چھوڑ دینا آسان سمجھتے ہیں مگر بقول ان کے قادیان کے فتنہ کے مد نظر وہ اس حالت میں بھی قادیان کو چھوڑ نا پسند نہیں کرتے.یہ دشمن کی گھبراہٹ ہی
خطبات محمود ۲۶۷ سال ۱۹۳۹ء ثابت کر رہی ہے کہ آپ کو کس قد رقوت حاصل ہو چکی ہے.یہاں احرار کی طرف سے جلسہ کے انعقاد کی کوشش ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم انعمتَ عَلَيْهِمْ ہیں اور دُشمن مَغْضُوبِ اور صال کے زمرہ میں شامل ہے.مغضوب حضرت مسیح کے منکر ہیں اور یہ لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں.یہ کوئی بات نہیں کہ جھوٹا سمجھ کر انکار کرتے ہیں.یہودی بھی تو کی حضرت مسیح علیہ السلام کو جھوٹا سمجھ کر ہی انکار کرتے ہیں اور ضآل حضرت عیسی کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور یہ بھی آپ کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہیں.ان کا کی دعوی ہے کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کرتے تھے اور غیب کی خبریں بتا دیتے تھے اور اب تک آسمان پر بغیر کھانے پینے کے زندہ ہیں اور مردہ زندہ کیا کرتے تھے اور یہ سب خدائی صفات ہیں جو یہ آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں.باقی رہا یہ امر کہ یہ حضرت عیسی کو خدا کہتے نہیں یہ کوئی بات نہیں.یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جرمنی کا ایک بادشاہ ولیم تھا.اُس کا ایک سفید رنگ کا گھوڑا تھا کی جس سے اُسے بے حد رغبت تھی وہ ایک دفعہ بیمار ہو گیا.بادشاہ نے ڈاکٹروں اور درباریوں کو کی بلا یا اور حکم دیا کہ اس کا علاج کرو، اگر یہ مر گیا تو میں تم کو قتل کر دوں گا.انہوں نے بہت کوشش کی کی لیکن آخر گھوڑ ا مر گیا.اب سب حیران تھے کہ بادشاہ کو خبر کون دے؟ اس نے کہا ہؤا تھا کہ جس نے مجھے اس کی موت کی خبر سب سے پہلے دی اُسے فور اقتل کر دوں گا اور اگر نہ دی تو سب کی کو مروا دوں گا.سب مشورہ کرنے لگے کہ کس کو بھیجا جائے ؟ اس کا ایک چہیتا نو کر تھا سب نے کی اُسے تجویز کیا اور اُسے کہا کہ تم جاؤ اور کسی ایسے انداز میں بات کرو کہ جس سے سب کی جانیں بچ جائیں.وہ بہت زیرک آدمی تھا جب بادشاہ کے سامنے پہنچا تو اس نے پوچھا گھوڑے کا کیا حال ہے؟ نوکر نے جواب دیا کہ حضور بالکل آرام میں ہے.بادشاہ نے کہا کہ کیا حالت ہے؟ اُس نے کہا حضور آنکھیں بند ہیں ، آرام سے لیٹا ہے ، حتی کہ دم تک بھی نہیں ہلا تا کامل سکون کی کی حالت ہے نہ اُس کا پیٹ ہلتا ہے اور نہ سینہ.بادشاہ نے یہ سُن کر کہا کہ اس کے معنے ہیں کہ وہ مر گیا.اُس نے کہا حضور یہ الفاظ میں نے نہیں کہے حضور ہی نے کہے ہیں.تو یہی حال ان کی لوگوں کا ہے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کرتے تھے، اندھوں کو آنکھیں بخشتے تھے، مردے زندہ کیا کرتے تھے ، غیب کی باتیں جانتے تھے ، اُنیس سو سال سے
خطبات محمود ۲۶۸ سال ۱۹۳۹ء آسمان پر بغیر کھانے کے زندہ بیٹھے ہیں مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ خدا تھے یہ تو عیسائی کہتے ہیں.گویا جس امر کو اپنے عقیدہ سے ثابت کر رہے ہیں منہ سے اُس کا انکار کرتے ہیں.حالانکہ منہ کا کی انکاران کو مال ہونے سے نہیں بچا سکتا اور پھر ان کا عمل بتا تا ہے کہ وہ ایک مدعی مسیحیت کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اگر وہ سچا ہے تو یہ مَغْضُوبِ قرار پاتے ہیں.پھر ان کا قادیان پر اس قدر حملے کرتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب جیت گئے.پس ان امور سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ مغضوب اور مال کے گروہ میں ہیں اور ( الفضل ۱۶ / جون ۱۹۳۹ء) 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام منعم علیہ گروہ ہیں.“ ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۴۱ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء ترمذی ابواب تفسير القرآن تفسير سورة فاتحة الكتاب تذکرہ صفحہ ۱۰۴.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحه ۳۱۲.ایڈیشن چہارم ه تذکره صفحه ۶۶.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۲۶۹ Ι سال ۱۹۳۹ء ان پڑھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں اور پڑھے ہوئے دوسروں کو پڑھائیں فرموده ۲۳ / جون ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- 'مجھے کچھ عرصہ سے نقرس کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے میں پچھلا جمعہ نہیں پڑھا سکا تھا اور دل میں یہ خواہش تھی کہ یہ جمعہ خود پڑھاؤں.اسی لئے دو دن پہلے میں نے باہر نکلنا شروع کر دیا تھا کیونکہ بعض دفعہ جب نقرس کے دورے کا آخر ہوتا ہے تو آہستہ چلنے پھرنے سے فائدہ ہو جاتا ہے.چنانچہ دو سال ہوئے جب مجھے اس درد کا پہلا دورہ ہوا تو اُس وقت آخری حصّہ دورہ میں چلنے پھرنے سے مجھے آرام آ گیا تھا مگر اس دفعہ یا تو کوئی بد پرہیزی ہو گئی یا یہ دورے کا آخری حصہ نہیں تھا کہ دو دن باہر نکلنے کے سبب سے کل شام کو پھر مجھے نقرس کی تکلیف ہو گئی.ورم بھی ہو گیا اور بخار بھی شروع ہو گیا مگر چونکہ میں نے یہ تکلیف جمعہ کے لئے اُٹھائی تھی کی اس لئے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب مجھے اس کا بدلہ لے لینا چاہئے اور باوجود تکلیف کے جمعہ خود ہی پڑھانا چاہئے بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا.میں اس وجہ سے کہ ورم کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوسکتا اور اس وجہ سے بھی کہ درد کی وجہ سے میں اپنی توجہ پوری طرح قائم نہیں رکھ سکتا اختصار کے ساتھ ایک ایسے امر کی طرف
خطبات محمود ۲۷۰ سال ۱۹۳۹ء جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کے متعلق قادیان کی جماعت کوشش کر رہی ہے اور جس کے نمونہ کو دیکھتے ہوئے باہر کی جماعتوں نے ابھی کوشش کرنی ہے اور وہ تعلیم عامہ کا سوال ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم کو اتنا ضروری قرار دیا ہے کہ مکہ کے لوگ جن میں پڑھنا لکھنا عیب سمجھا جاتا تھا اُنہیں بھی آپ نے آہستہ آہستہ تعلیم کی طرف متوجہ کر دیا.مکہ کے لوگوں میں پڑھنا لکھنا اس قدر عیب سمجھا جاتا تھا کہ جب ان میں سے کسی شخص کو کوئی کہتا کہ تم پڑھے ہوئے ہو؟ تو وہ جواب میں کہتا کہ کیا تمہارے خیال میں میں شریف خاندان میں سے نہیں ہوں.گویا شرافت کا معیاران میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان پڑھا ہوا نہ ہو.ان میں سے وہی لوگ تعلیم کی طرف توجہ کیا کرتے تھے جنہیں سرکاری کام کے لئے لکھنا پڑھنا سیکھنا پڑتا تھا.چنانچہ ہر بڑے خاندان میں سے چند افراد کو چن لیا جاتا تھا اور انہیں لکھنا پڑھنا سکھا کر ان کے سپر د اس قسم کا کام کیا جاتا جس میں تحریر کی ضرورت ہوتی مثلاً رؤساء کی باہمی خط و کتابت ہوئی کی یا تجارتی معاہدات ہوئے یا لڑائیوں کے متعلق قانون اور ہدایتیں ہوئیں یا کعبہ کے متعلق کوئی کی بات تحریر میں لانی ہوئی یا شہر کے متعلق کسی قسم کے قانون کا نفاذ کرنا ضروی ہو ا تو جن خاندانوں کے سپرد یہ کام ہوا کرتا تھا وہ اپنے میں سے ایک ایک دو دو کو ان کاموں کے لئے معمولی تعلیم دلا دیتے تھے.اس قسم کے چند لوگوں کو مستی کرتے ہوئے باقی تمام لوگ فخریہ کہا کرتے تھے کہ چونکہ ہم پڑھے ہوئے نہیں اس لئے ہم شریف ہیں.ایسی قوم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے اور انہیں لوگوں کے درمیان آپ نے پرورش پائی جس کے نتیجہ کے طور پر ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کے نزدیک علم کی کوئی قدر نہیں ہونی چاہئے تھی مگر چونکہ آپ کے تمام کام اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت تھے اس لئے آپ نے اس بارہ میں بھی رائج الوقت خیالات کے خلاف قدم اُٹھایا اور صحابہ کو بار بار لکھنے پڑھنے کی تاکید کی.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیم کا اس قدر فکر تھا کہ بدر کے موقع پر جو کفار قید ہو کر آئے با وجو د اس بات کے کہ وہ اسلام کے شدید ترین دشمن تھے ، باوجود اس بات کے کہ وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف تمام عرب میں دشمنی کی آگ بھڑکائی اور باوجود یکہ اُس وقت کے تمدن کے لحاظ سے یہ بالکل جائز ہوتا اگر آپ ان تمام کفار کو قتل کر کے اُس شورش
خطبات محمود ۲۷۱ سال ۱۹۳۹ء کا خاتمہ کر دیتے جو اسلام کے خلاف جاری تھی.آپ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے مُجرم کے بدلہ میں جرمانہ ادا کر دو اور آزاد ہو جاؤ.کیونکہ خدا تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے کہ قیدیوں کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں.اما منا بَعْدُوا مَا فِدَاء لے یا تو تم انہیں احسان کرمی کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر رہا کر دوان دو باتوں میں سے تم کو اختیار ہے جسے چا ہوا ختیار کرلو.کوئی تیسرا طریق تمہارے لئے جائز نہیں.اس پر آپ نے ان قیدیوں سے فرمایا اگر تم چاہو تو تم فدیہ دے کر چھوٹ سکتے ہو مگر فرمایا ایک اور صورت بھی ہے جس کے نتیجہ میں تمہارا روپیہ بھی تمہارے گھر میں رہے گا اور تم اپنے فدیہ سے بھی سبکدوش سمجھے جاؤ گے اور وہ یہ کہ تم میں سے ہر پڑھا لکھا شخص مدینہ میں دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے کے یہ تعلیم پرائمری جتنی بھی نہیں تھی بلکہ معمولی نوشت خواند تھی.چنانچہ بہت سے کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کو مان لیا اور وہ مدینہ میں رہ کر بچوں اور بڑوں کو پڑھاتے رہے اور جب اُنہوں کی نے لکھنا پڑھنا سکھا دیا تو وہ رہا کر دیئے گئے.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا اس پر چھ مہینے سے لے کر ڈیڑھ دو سال کا عرصہ لگا.اس دوران میں ان کا کھانا اور کپڑا مسلمانوں کے ذمہ رہا.گویا انہیں تنخواہ بھی ملتی رہی، اُن کا روپیہ بھی گھر میں رہا اور اُن کی طرف سے فدیہ بھی ادا ہو گیا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کو اس قدر اہم قرار دیا ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو تعلیم دلانے کے لئے کافروں کو اپنے گھروں میں رکھ لیا.حالانکہ بالکل ممکن تھا مسلمانوں میں شامل رہنے کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کی بعض کمزوریوں کا علم ہو جاتا ، ان کے سامانِ حرب کی کمی کا انہیں پتہ چل جاتا ، ان کی تعداد کی قلت انہیں معلوم ہو جاتی اور اس طرح بعد میں وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا دیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی ج کوئی پرواہ نہیں کی.آپ نے ڈیڑھ دو سال تک کفار کو اپنے اندر رکھا اور چاہا کہ مسلمان لکھنا کی پڑھنا سیکھ لیں خواہ بعد میں کفار کی طرف سے بعض نقصانات ہی کیوں نہ پہنچ جائیں.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس چیز کی اتنی قیمت قرار دی ہے اگر ہم اس چیز کی کم قیمت قرار دیں تو دراصل ہم اس محبت کی کمی کا اقرار کرتے ہیں جو ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۳۹ء کی ذات سے ہونی چاہئے.صحابہ کو تو ہر بات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے کی کا اس قدر شوق تھا کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ پیشاب کرنے کی کے لئے بیٹھ گئے.چونکہ تھوڑے ہی فاصلہ پر پڑاؤ آنے والا تھا اس لئے کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ قافلے کو روکا اور وقت ضائع ہوا.جب تھوڑی ہی دیر میں پڑاؤ آنے والا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ وہاں پہنچ کر حوائج سے فارغ ہوتے.دوسرے اگر آپ نے قافلہ کو روکنا ہی تھا تو فلاں جگہ بھی تو اوٹ تھی آپ وہاں کیوں نہ بیٹھ گئے؟ اتنی دُور جا کر آپ کیوں بیٹھے؟ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جواب دیا خدا کی قسم مجھے پیشاب تو نہیں آیا تھا بات دراصل یہ ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دفعہ اسی جگہ پیشاب کے لئے بیٹھتے دیکھا تھا.پس میں نے چاہا کہ آپ کی سُنت میں میں بھی اس جگہ تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جاؤں سے تو اُن کی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر حرکت کی اقتداء میں خواہ وہ طبعی ہی کیوں نہ ہو وہ ایک لذت اور سرور محسوس کرتے تھے.گجا یہ کہ وہ احکام جو شرعی اور قومی حیثیت رکھتے ہیں ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء نہ کی جائے.ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ہر مسلمان پڑھا لکھا ہوا کرتا تھا اور عیسائی اپنے متعلق اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم ان پڑھ ہیں چنانچہ مسلمانوں کی پُرانی تاریخیں پڑھ کر حیرت آتی ہے کہ اب زمانہ میں کس قدر اُلٹ انقلاب پیدا ہو گیا ہے.اُن تاریخوں میں جہاں عیسائیوں کا ذکر آتا ہے وہاں لکھا ہوا ہے کہ عیسائی وہ ہوتا ہے جو ان پڑھ ہو، جس کے کپڑے نہایت غلیظ ہوں، جس کے جسم سے بدبو آتی ہو، جس نے نہ کبھی فسل کیا ہو نہ خوشبو لگائی ہو، اس کے بال بڑھے ہوئے ہوں ، ان میں جوئیں پڑی ہوئی ہوں اور ناخنوں میں بھی میل جمی ہوئی ہو اور مسلمان وہ ہوتا ہے جو پڑھا لکھا ہو ، صاف ستھرا ہو، غسل با قاعدہ کرتا ہو، بال کٹے ہوئے ہوں ، ناخن ترشوائے ہوئے ہوں ، کپڑے صاف اور ڈھلے ہوئے ہوں اور خوشبو لگی ہوئی ہو مگر آج اس کے بالکل الٹ نظارہ نظر آتا ہے.چنانچہ جتنی باتیں اُس وقت عیسائیوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور جتنی باتیں کہ مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں.میں نے اس کے متعلق جو کتاب پڑھی ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
خطبات محمود ۲۷۳ سال ۱۹۳۹ء سات سوسال بعد کی لکھی ہوئی ہے.اگر اُس وقت کا مصنف آج دنیا میں آجائے اور ہمارے ملک میں پھرے تو وہ دیکھتے ہی کہنے لگ جائے گا کہ یہ عیسائیوں کا ملک ہے اور اگر وہ عیسائیوں کی کے ملک میں پھرے تو ان کو دیکھتے ہی کہنے لگ جائے گا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے کیونکہ جو نقائص اُس وقت عیسائیوں میں پائے جاتے تھے وہ آج مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور جو خو بیاں اُس وقت مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں.تو میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ وہ ان پڑھوں کو پڑھائیں اور ان کی تعلیم کا انتظام کریں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض دوست اخلاص سے تعلیم میں حصہ لے رہے اور شوق اور تندہی سے ان پڑھوں کو پڑھا رہے ہیں اور پڑھنے والے بھی دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی معلوم ہوئے ہیں جو پڑھنے سے جی چراتے ہیں اور کی بعض وہ لوگ بھی معلوم ہوئے ہیں جو پڑھانے میں حصہ نہیں لے رہے.حتی کہ بعض محلوں کے پریذیڈنٹ بھی اس بارہ میں خدام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے.اُنہوں نے مجھے ریکارڈ بھجوایا ہے جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض محلوں کے پریذیڈنٹوں کو توجہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے پرواہ ہی نہیں کی اور بعضوں نے تو جواب تک دینے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ اگر وہ کام نہیں کر سکتے تو ان کا دیانتداری کے ساتھ یہ فرض ہے کہ وہ اپنا کام دوسروں کے سپردی کر دیں اور خود پریذیڈنٹی سے الگ ہو جائیں سلسلہ کے عہدے نام کے لئے نہیں بلکہ خدمت کے لئے ہوتے ہیں اور جتنا زیادہ کوئی شخص کام کرتا ہے اسی قدر زیادہ وہ عزت کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور جتنا کوئی شخص کم کام کرتا ہے اُسی قدر اس کی عزت دلوں میں سے کم ہو جاتی ہے.پس مجھے تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی کہ بعض محلوں کے پریذیڈنٹوں نے اپنی ذمہ داری کو قطعاً نہیں سمجھا اور باوجود اس بات کے کہ جس امر کی طرف انہیں خدام الاحمدیہ کی طرف سے توجہ دلائی کی گئی تھی وہ ان کے محلہ کے فائدہ کی تھی پھر بھی اُنہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی.اُن کی مثال کی بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ٹھنڈے ملک کا رہنے والا جیٹھ ہاڑ کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا تھا اور قریب ہی اس کے سایہ تھا.کسی راہ گزر نے اُسے کہا کہ میاں دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو سائے میں کیوں نہیں آ جاتے ؟ وہ کہنے لگا سائے میں بیٹھ تو جاؤں مگر مجھے دو گے کیا ؟
خطبات محمود ۲۷۴ سال ۱۹۳۹ء آخر وہ محلہ کے پریذیڈنٹ ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے محلہ والوں کی تکالیف کو دور کریں اور اُن کی ترقی کا کوئی سامان اگر اُن کے امکان میں ہو تو اُسے ان کے لئے مہیا کریں کیونکہ پریذیڈنٹ بننے کی غرض خدمت کرنا ہے نہ کہ ایک نام اور عہدے کو حاصل کر کے بیٹھ رہنا.پس جب خدام الاحمدیہ کے ممبر اُن کے پاس آئے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو ثواب کے لئے آپ کے محلہ کے لوگوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ ان کے ممنونِ احسان ہوتے اور سمجھتے کہ یہ ہمارا کام تھا جو خدام الاحمدیہ سرانجام دینے لگے ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کرتے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب خدام الاحمدیہ ہم پر حکومت جتانے لگ گئے ہیں.گویا ان کی مثال بالکل اس ٹھنڈے ملک والے آدمی کی سی ہے جسے کہا گیا کہ تو سائے میں آجا تو وہ کہنے لگا مجھے دو گے کیا ؟ خدام الاحمدیہ نے بھی کہا کہ آئیے ہم آپ کی خدمت کرتے ہیں اور محض اس لئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.ان پڑھوں کی تعلیم کا انتظام کر دیتے ہیں.ہم خود تعلیم دلائیں گے خود معلمین کی نگرانی کریں گے اور انہیں سکھا پڑھا کر آپ کے حوالے کر دیں گے مگر بعض پریذیڈنٹوں نے یہ کیا کہ انہیں جواب تک نہیں دیا.گویا اُنہوں نے اپنے عمل سے کہہ دیا کہ ہمارا اس بات سے کوئی تعلق نہیں.تو جہاں مخلصین نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے وہاں بعض نے غفلت اور سستی بھی دکھائی ہے.چنانچہ بعض کو جب لوگ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے پڑھ کے کیا لینا ہے؟ کیا پڑھنے کے بعد نوکری مل جائے گی ؟ یہ ویسا ہی جواب ہے جیسے نماز کے متعلق بعض نادان مسلمان دیا کرتے تھے.اب تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ نماز روزہ کی کی اہمیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں مگر آپ کی بعثت سے پہلے جب انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا جاتا تو وہ کی جواب میں کہا کرتے کہ نماز پڑھ کر ہم نے کیا لینا ہے؟ کیا نماز پڑھنے سے روٹی مل جائے گی ؟ یا کپڑا مل جائے گا یا روپیہ پیسہ مل جائے گا ؟ گویا نماز کا بدلہ وہ روٹی اور کپڑے کی شکل میں کی ڈھونڈا کر تے تھے.اسی قسم کا جواب اب بعض احمد یوں نے دے دیا ہے کہ ہم نے پڑھ کر کیا لینا ہے؟ کیا پڑھ کر نوکریاں مل جائیں گی ؟ حالانکہ صرف نوکری ہی انسان کے لئے قیمتی شے نہیں
خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۳۹ء بلکہ عقل اور فہم و فراست کی تیزی اس سے بھی زیادہ قیمتی ہیں.اگر کسی کو ذہنی ارتقاء حاصل ہو جائے ، اس کا علم بڑھ جائے ، اس کی عقل تیز ہو جائے اور اس کے فہم و فراست میں زیادتی ہو جائے تو کیا یہ کوئی کم فائدہ ہے ؟ روپیہ تو ایک ادنیٰ سے ادنی چیز ہے اور پھر روپیہ بھی وہی شخص کماتا ہے جو عالم و ذہین ہو.آخر وجہ کیا ہے کہ ایک شخص کروڑوں کروڑ روپیہ کما لیتا ہے اور دوسرا بھوکوں مرتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک میں علم وفہم کی زیادتی ہوتی ہے اور دوسرے میں علم و ہم نہیں ہوتا.پس علم بذات خود ایک نہایت قیمتی اور مفید چیز ہے.پھر جو شخص علم والا ہو گا وہ کی اگر فوج میں جائے گا تو اعلیٰ جرنیل بن جائے گا ، طب سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا طبیب حاذق بن جائے گا، قانون سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا بیرسٹر بن جائے گا.گویا علم اُسے ہر میدان میں ترقی بخش دے گا تو روپیہ سے کسی چیز کی قیمت لگانا نہایت ادنی اور گرا ہو اتخیل ہے.علم اپنی ذات میں ایک نہایت قیمتی چیز ہے خواہ اس کے بعد کسی کو روپیہ حاصل ہو یا نہ ہو.دُنیا میں جس قد راد نی اقوام ہیں یہ کی کیوں ادنی اقوام کہلاتی ہیں؟ اسی لئے کہ ان میں علم نہیں.اگر وہ بھی علوم سیکھ لیں تو اچھوت ، ہریجن اور چوہڑے چمار کے الفاظ ہی متروک ہو جائیں اور ان کے ماضی پر ایسا پردہ پڑ جائے کہ کسی کو معلوم تک نہ ہو کہ وہ بھی کبھی چوہڑے چمار رہ چکے ہیں.ہمیشہ سچ اقوام جب ترقی کرتی ہیں تو رفتہ رفتہ وہ دوسری قوموں میں ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ نئی قوموں کا حصہ بن کر ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں جو ان کی پہلی شکل کے مقابلہ میں بدرجہا بہتر ہوتی ہے جس طرح پانی دودھ میں مل جاتا ہے اور انسان یہ شناخت نہیں کر سکتا کہ دودھ میں پانی ملا ہوا ہے یا نہیں یا جس طرح پھل اور سبزیاں جب انسان کھاتا ہے تو وہ انسان کا جزو بن جاتی ہیں اسی طرح وہ قو میں دوسری قوموں میں مل کر ان کا ایک حصہ اور جزو بن جاتی ہیں.کہیں دوسری قوم کے لڑکوں سے ان کی لڑکیاں بیاہی جاتی ہیں، کہیں جب لوگ ان کو علم اور تقویٰ میں بڑھا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ اپنی لڑکیاں انہیں دے دیتے ہیں اور اس طرح جب آپس میں رشتے ناطے ہونے لگتے ہیں تو جیسے دودھ میں شکر مل جاتی ہے اسی طرح تو میں آپس میں مل جاتی ہیں اور ادنی کی اور اعلی کا امتیاز جا تا رہتا ہے مگر اس کا پہلا قدم تعلیم ہی ہے.جب تک تعلیم نہ ہو نہ عقل بڑھتی ہے نہ ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے ، نہ فہم و فراست میں زیادتی ہوتی ہے، نہ اُٹھنے بیٹھنے کے آداب
خطبات محمود ۲۷۶ سال ۱۹۳۹ء معلوم ہوتے ہیں ، نہ گفتگو کا طریق معلوم ہوتا ہے، نہ بڑوں سے ملنے کا سلیقہ آتا ہے، نہ چھوٹوں کی سے سلوک کرنا آتا ہے مگر جب انسان تعلیم حاصل کر لے تو ان تمام باتوں میں وہ ہوشیار ہو جاتا ہے اور گو بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر قلوب پر ان کا نہایت گہرا اثر پڑتا ہے.جب انسان حاصل کر لے تو تعلیم سے اسے گفتگو اور نشست برخاست کے وہ تمام آداب معلوم ہو جاتے ہیں جو شرفاء میں رائج ہیں.مرزا مظہر جان جاناں ایک بزرگ گزرے ہیں.ایک دفعہ ان سے ملنے کے لئے بادشاہ آیا کی اُس کے ساتھ اس کا وزیر بھی تھا.وزیر کو پیاس جو لگی تو اُس نے صراحی سے جو پاس ہی پڑی کی ہوئی تھی پانی لیا اور پی کر صراحی پر آبخورہ بجائے سیدھا رکھنے کے لا پرواہی سے ذرا ٹیڑھا رکھ دیا.وہ اتنی نازک طبیعت کے تھے کہ اسے برداشت نہ کر سکے اور بادشاہ کی طرف دیکھ کر کہنے کی لگے اسے کس بے وقوف نے وزیر بنایا ہے؟ اسے تو کوزہ بھی سیدھا رکھنا نہیں آتا.گویا با دشاہ پر کی بھی چوٹ کر گئے اور وزیر کو بھی انہوں نے ملامت کر دی.تو اُٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کے طریق طبائع پر بڑا اثر ڈالتے ہیں.ایک ہی کام ہوتا ہے جسے ایک تو خوب سلیقہ اور ہوشیاری کے ساتھ سرانجام دیتا ہے مگر دوسرا ایسے بھونڈے طریق سے کرتا ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.تو آداب اور طریق بات کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں اور یہ اصول صرف اہم باتوں سے مخصوص نہیں.چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی جب کوئی شخص عقلمندی سے کام لیتا ہے تو اس کا وہ کام نہایت خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن جب دوسرا اُسے تہذیب و تمدن کے اصول کے مطابق سرانجام نہیں دیتا تو وہ بدصورت نظر آتا ہے.مثال کے طور پر چائے کو دیکھ لو انگریز بھی چائے پیتے ہیں اور ہندوستانی بھی مگر انگریزوں میں یہ رواج ہے کہ وہ چائے پیتے وقت ہونٹوں کی کی آواز نہیں نکالتے لیکن ہندوستانی جہاں چائے پی رہے ہوں قریباً سب چائے پیتے وقت یہ آواز نکال رہے ہوں گے.اس فرق کی وجہ نہایت ہی معمولی ہے اور وہ یہ کہ ہندوستانی چائے پیتے وقت زیادہ گھونٹ لے لیتا ہے مگر انگریز چھوٹے چھوٹے گھونٹ پیتا ہے اور اس طرح آواز پیدا نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے کہ ایک معمولی بات ہے انگریزوں کی مجلس میں کوئی چائے پیتے وقت آواز نکالے تو سب سنکھیوں سے اُسے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وحشی کہاں سے آ گیا ؟ کی
خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۳۹ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس قسم کے کئی آداب سکھائے ہیں مثلاً آپ نے فرمایا تی کھانا اطمینان اور وقار سے کھاؤ کے دائیں ہاتھ سے کھاؤ ، شے بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ.اسی طرح کی اِدھر اُدھر سے کھانا نہ کھاؤ بلکہ ہمیشہ اپنے آگے سے کھانا شروع کرو اور کھانا اس طرح نہ کھاؤ گویا تمہیں اس کی شدید حرص ہے.اب دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے میں کیا فرق ہے؟ کوئی بہت زیادہ فرق نہیں.دائیں سے نہ کھایا بائیں سے کھا لیا یا اس میں کیا حرج ہے اگر کسی نے سامنے سے لقمہ لینے کی بجائے ادھر اُدھر سے کھانا کھانا شروع کر دیا کیا ان آداب کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو ہیضہ ہو جاتا ہے؟ یا کھانا زہر والا بن جاتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ہوتا.جس طرح ایک شخص کا پیٹ بھرتا ہے اسی طرح دوسرے کا پیٹ بھر جاتا ہے.تم کوئی ایسی دلیل نہیں دے سکتے جس سے تم یہ واضح کر سکو کہ اس میں یہ فائدہ ہے اور اس میں وہ.صرف یہ ایک تہذیب کی علامت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر فرمائی.بے شک ان میں فوائد بھی ہیں مگر وہ اتنے باریک ہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ نہیں سکتا لیکن ان پر عمل کرنے سے ایک تو کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا متبع بن جاتا ہے اور دوسرا جو عمل نہیں کرتا وہ نا فرمان بن جاتا ہے.اسی طرح یہ سوال کہ لقمہ دو انگلیوں سے لینا چاہئے یا تین یا چار سے اس میں بھی سنت کے حوالوں سے بڑی بھاری فرق نظر آتا ہے بلکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر ملک میں منہ میں لقمہ ڈالنے کا الگ الگ رواج ہے.کوئی سامنے سے منہ میں ڈالتا ہے اور کوئی پہلو سے.جولوگ سامنے سے لقمہ ڈالتے ہیں.وہ جب ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو پہلو سے لقمہ ڈال رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کیسے بد تہذیب ہیں انہیں منہ میں لقمہ ڈالنا بھی نہیں آتا اور جو لوگ پہلو سے لقمہ ڈالنے کے عادی ہیں وہ جب ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو سامنے سے لقمہ ڈالتے ہیں تو انہیں تہذیب و تمدن سے نا آشنا قرار دینے لگ جاتے ہیں.تو ان باتوں پر رسم و رواج کا بڑا اثر ہوتا ہے مگر جہاں شریعت کی پسندیدگی کا سوال بھی پیدا ہو جائے وہاں اس کی اہمیت کا انکار کرنا سخت بیوقوفی ہوتی ہے کیونکہ شریعت کی تمام باتوں میں حکمت ہوتی ہے چاہے وہ حکمت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو یہ سب باتیں تعلیم سے آتی ہیں اور تعلیم کے نتیجہ میں ہی صحیح تمدن پیدا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے کسی کو علم دے دے.
خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۹ء سوا گر کوئی شخص ایسا ہو تو پھر اسے کسی دُنیوی اُستاد سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں سیکھا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ لوگ کہنا شروع کر دیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھے ہوئے نہیں تھے تو ہم کیوں تعلیم حاصل کریں؟ اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح تم بھی یہ دعوی کرو کہ تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں خود پڑھائے گا تو ہم تمہیں کبھی لوگوں سے پڑھنے کے لئے نہ کہیں گے اور سمجھ لیں گے کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام علوم سکھا دیئے تھے اُسی طرح وہ تمہیں تمام علوم سکھا دے گا.اس صورت میں اگر تم خدام الاحمدیہ کو یہ جواب دو کہ ہم تمہارے مقرر کردہ اُستادوں سے نہیں پڑھتے.ہمارے ساتھ خُدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ کی آپ ہمیں پڑھائے گا تو ہم تمہارے اس غذر کو تسلیم کر لیں گے اور کہیں گے کہ واقع میں تمہیں کسی انسان سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تم کو جو اُستاد ملا ہے اُس سے بڑا اور کوئی اُستاد ہے ہی نہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کا تمہارے ساتھ کوئی وعدہ نہیں اور تم نقل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنا کی چاہتے ہو جن کو خدا نے تمام علوم سکھائے تو تمہاری مثال بالکل وہی بن جاتی ہے کہ کو اہنس کی چال چلا اور اپنی بھی بھول گیا.تم بھی اپنی چال چھوڑ دیتے ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات میں نقل کرتے ہو جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام کی بنی نوع انسان پر امتیاز بخشا ہے.پس تم دونوں طرف سے نا کام رہتے ہو نہ تم اپنی کوشش سے کسی علم کو حاصل کرتے ہو اور نہ خُدا تمہیں علم دیتا ہے کیونکہ اس کا تمہارے ساتھ کوئی وعدہ نہیں ہوتا.پس یاد رکھو ایسے معاملات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل کرنا نادانی اور حماقت ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پڑھ تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پڑھ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ آپ کو کوئی علم نہیں آتا تھا بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں پڑھا.ورنہ وہ کون سا علم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل نہیں تھا اور کونسی وہ نئی بات ہے جس کی مذہب و اخلاق کے لئے ضرورت ہو اور جسے آج تحقیق جدید نے پیش کیا ہو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم میں وہ
خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۹ء پہلے سے موجود نہ ہو.ہم بیسیوں صدی میں پیدا ہوئے ہیں اس زمانہ میں ہوئے ہیں جو علم کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے.وہ کتابیں ہمارے مطالعہ میں آتی ہیں جو علوم کے لحاظ سے چوٹی کی کتب سمجھی جاتی ہیں اور وہ لوگ ہمارے دائیں بائیں ہیں جن کا مشغلہ ہر وقت علم پڑھنا اور دوسروں کو پڑھانا ہی ہے مگر میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی ہو جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا قرآن کریم کی کسی غلطی کو ظاہر کر رہی ہو یا تج کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برابر ہی ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ علم بخشا ہے جس کے سامنے تمام علوم بیچ ہیں.چودھویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے اس میں بڑے بڑے علوم نکلے، بڑی بڑی ایجادیں ہوئیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوئے مگر یہ تمام علوم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے.تو ان امور میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل کرنا محض نادانی اور حماقت ہے.یہ خدا تعالیٰ کا آپ سے ایک امتیازی سلوک تھا اور اس امتیازی سلوک میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہوسکتا.اسی طرح اگر کسی دوسرے سے خدا تعالیٰ کسی اور امتیازی سلوک کا وعدہ کر دے تو اس سلوک میں بھی کوئی اور اس کا شریک نہیں ہوسکتا.کہتے ہیں ایک بزرگ تھے جو تو کل کر کے گھر میں بیٹھے رہتے تھے روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے جو کچھ خدا انہیں بھیج دیتا وہ کھا لیتے.جب لوگ انہیں کہتے کہ آپ سارا دن بے کا ر رہتے ہیں یہ ٹھیک بات نہیں آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی روزی کے لئے جد و جہد کریں تو وہ کہا کرتے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ خود روٹی کی پکائے.اللہ تعالیٰ مجھے روٹی بھیج دیتا ہے اور میں کھا لیتا ہوں.بعض لوگ جو ان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے وہ خیال کرتے کہ شاید ستی کی وجہ سے وہ کام نہیں کرتے.آخر لوگوں نے اُن کے ایک دوست کو جو خود بھی ولی اللہ تھے تحریک کی کہ آپ انہیں سمجھا ئیں کہ یہ اپنی زندگی برباد نہ کریں اور کچھ کما کر کھایا کریں سارا دن تو کل کر کے بیٹھ رہنا اور جدوجہد نہ کرنا یہ اچھی بات نہیں.
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۹ء چنانچہ انہوں نے اس بزرگ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنی زندگی کیوں رائیگاں کھورہے ہیں؟ بہتر ہے کہ آپ کو ئی شغل اختیار کریں اور روزانہ تھوڑا بہت کام کر لیا کریں.جو کمائیں اس سے اپنا گزارہ کیا کریں.اُنہوں نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور میرے لئے یہ بالکل ناجائز امر ہے کہ میں کوئی کام کروں.جب معمولی رئیس کے گھر میں بھی اگر کوئی مہمان ٹھہرے تو وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کا مہمان اپنا کھانا اپنے لئے خود تیار کرے تو میں بھی اگر کھانا پکانے لگوں تو میری اِس حرکت کو خدا کب پسند کرے گا ؟ وہ یقیناً ناراض ہوگا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی برداشت کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں.وہ بھی ذہین آدمی کی تھے اُنہوں نے جب یہ بات سنی تو کہلا بھیجا کہ آپ بیشک مہمان ہوں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مہمانی تین دن ہوتی ہے اس کے بعد کوئی مہمانی نہیں اور اگر کوئی مہمان بنا رہتا ہے تو وہ دراصل سوال کرتا ہے.کے پس آپ اگر مہمان بھی تھے تو آپ کی مہمانی کی کب کی ختم ہو چکی ہے اور اب تو آپ سائل ہیں.ان کو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ملکی چکا تھا کہ میں خود تیرا متکفل ہوں تجھے اپنے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے جب ان کے پاس یہ پیغام پہنچا تو انہوں نے پیغام پہنچانے والے سے کہا کہ میرے بھائی سے کہہ دینا کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سر آنکھوں پر مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں اُس کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے.پس پہلے مجھے تین ہزار سال تک مہمان بنے رہنے دو اس کے بعد اگر میری مہمانی کے ایام بڑھ گئے تو بیشک اعتراض کرنا.اب جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا اُس نے تو یہ دعویٰ کر دیا مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ سُن کر تم بھی کام کرنا چھوڑ دو اور کہہ دو کہ جب اُس بزرگ کو اللہ تعالیٰ بغیر کام کاج کئے روزی پہنچا دیتا تھا تو ہمیں کیوں نہیں پہنچائے گا ؟ اسی طرح بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں پڑھا اور آخر عمر تک نہیں پڑھا ( بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا مگر میری تحقیق یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر عمر تک لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ) مگر اس لئے کہ خُدا نے خود آپ کو تمام علوم سکھا دیئے تھے اور آپ کو اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ اور لوگوں کی شاگردی اختیار کریں لیکن کی
خطبات محمود ۲۸۱ سال ۱۹۳۹ء اور کسی شخص کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں.پس دوسروں کا اس امر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نقل کرنا بالکل بے معنی بات ہے.بیشک ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل فرمانبرداری کریں مگر اُنہی امور میں جو شرعی اور تمدنی ہیں لیکن وہ جو شرعی اور تمدنی امور نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ وہ امور مخصوص ہیں ان میں اگر کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل کرتا ہے تو وہ حد درجہ کی گستاخی اور بے ادبی کرتا ہے مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ نمازیں پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، زکوۃ دیتے تھے اور حج کرتے تھے.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم نمازیں بھی کچ پڑھیں ، ہم روزے بھی رکھیں، ہم زکوۃ بھی دیں اور اگر ہم میں استطاعت ہو تو ہم حج بھی کریں مگر ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم تو بیویاں کریں کیونکہ یہ امر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مخصوص تھا اور جو شخص اس مخصوص امتیاز میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل کرتا ہے وہ اوّل درجہ کا گستاخ ہے اور اپنے عمل سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ج گرفت اس پر نازل ہو.تو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ قسم کے احکام دیئے ہوئے ہیں جو نقل والے ہیں وہ اور ہیں اور جو نقل والے نہیں وہ اور ہیں.اور لوگوں سے علم نہ سیکھنا بھی انہی امور میں سے ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص تھا اور جس میں کوئی دوسرا آپ کی نقل نہیں کر سکتا.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو لوگ پڑھے ہوئے نہیں وہ علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں اور جن کو خدا تعالیٰ نے علم دیا ہوا ہے وہ دوسروں کو پڑھائیں.اس وقت علم حاصل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک نہایت ہی اعلیٰ موقع عطا کیا ہوا ہے.اگر کسی شخص نے اپنی غفلت سے اس موقع کو کھو دیا تو اُس کی بدقسمتی میں کوئی محبہ نہیں ہو گا.دوسری قوموں میں یہ بات بھلا کہاں پائی جاتی ہے کہ ان میں سے علم والے اپنے اوقات کی قربانی کر کے دوسروں کو پڑھا ئیں.علم سیکھنا اور علم سکھانا بڑی برکت کا موجب ہوتا ہے.اگر ہماری جماعت اس موقع کو کھو دے تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے بادشاہ کسی کو خلعت دے اور وہ اُسے پھاڑ کر پھینک دے.جو شخص خلعت کی قدر نہیں کرتا اُسے آئندہ کے لئے خلعت دینے سے گریز کیا جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ جب ثواب کے مواقع پیدا کرتا ہے تو جو لوگ ان مواقع کی
خطبات محمود ۲۸۲ سال ۱۹۳۹ء قدر نہیں کرتے وہ ثواب سے محروم رکھے جاتے ہیں.یہ دن بڑی برکتوں اور رحمتوں کے دن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہماری جماعت کو حاصل ہیں.دوسری قوموں کو یہ قر بانیوں اور ثواب کے موقعے حاصل نہیں.صرف ہماری جماعت ہی ہے جسے مالی ، جانی، وقتی ، ملی اور علمی قر بانیوں کے پے در پے مواقع ملتے چلے جاتے ہیں اور دراصل یہی وہ خزانے ہیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود خزانے لٹائے گا مگر لوگ قبول نہیں کریں گے.2 اس پیشگوئی سے مراد مسیح موعود کی جماعت نہیں بلکہ عام لوگ ہیں اور مطلب کی یہ ہے کہ وہ خزانے ایسے نہیں جن سے روٹی ملے بلکہ ایسے ہوں گے جو لوگوں کو روحانی برکات سے مالا مال کر دیں گے اور جو مالی اور جانی قربانی کا لوگوں سے مطالبہ کریں گے مگر لوگ انہیں قبول نہیں کریں گے.یہاں لوگوں سے مراد آپ کے مرید نہیں بلکہ غیر لوگ ہیں اور رسول کریمی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ ان کو رڈ کر دیں گے مگر وہ لوگ جو آپ کا حصہ اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کا جزو ہوں گے وہ قبول کریں گے اور ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لے کر روحانی خزانوں سے مالا مال ہو جائیں گے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت کے نزول کے ایام میں ان دنوں کی قدر کرو اور انہیں رائیگاں کھو کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خلعت کی بے حرمتی مت کرو.اگر آج ان ثواب کے موقعوں سے تم فائدہ نہیں اُٹھاؤ گے تو یا درکھو یہ زمانہ گزر جائے گا اور پھر نہ ثواب کے یہ مواقع پیدا ہوں گے اور نہ لوگوں کو قُر بانیوں کی ضرورت محسوس ہو گی.ہر قسم کے سامان حکومت کی طرف سے میسر ہوں گے، مدر سے جاری ہوں گے ، یو نیورسٹیاں قائم ہوں گی اور ہر ان پڑھ شخص کو تعلیم دلانے کا حکومت خودا انتظام کر رہی ہوگی.اُس وقت اگر تم کسی کو کہو گے کہ آؤ میں تمہیں پرائمری تک تعلیم دلا دوں تو وہ کہے گا تم بیوقوف ہوئے ہو جب سرکاری طور پر ایم اے کی کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام ہے تو مجھے تمہارا ممنونِ احسان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اب کی کیسا مبارک زمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف دستخط کرنا جانتا ہے تو و ہ دوسرے کو دستخط کرنا سکھا کر ہی ثواب حاصل کر سکتا ہے اور جسے اُردو کے دو حرف آتے ہیں وہ دوسرے کو دوحرف پڑھا کر ہی معلّم بن سکتا ہے اور معلم کوئی معمولی عہدہ نہیں بلکہ بہت بڑا عہدہ ہے لیکن آج یہ عہدہ صرف
خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۹ء دوحرف پڑھا کر مل سکتا ہے اور ہر شخص کی زبان سے وہ معلّم اور اُستاد کہلا سکتا ہے.پس اس نہایت ہی قیمتی اور ثواب کے موقع کو ہاتھ سے جانے دینا سخت نادانی کی بات ہے.“ ا محمد: ۵ (الفضل ۳۰/ جون ۱۹۳۹ء) السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۴۵۱ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء بخارى كتاب الاطعمة باب التّسْمِيَةُ على الطعام ه بخاری کتاب الاطعمة باب التّسْمِيَةُ على الطعام و الأكل باليمين بخارى كتاب الاطعمة باب الأكل ممايليه ک سنن ابو داؤد كتاب الاطعمة باب ما جاء في الضيافة صحيح بخارى كتاب البيوع باب قتل الخنزير
خطبات محمود ۲۸۴ ۱۹ سال ۱۹۳۹ء تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جلسے کئے جائیں فرموده ۳۰/جون ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے تحریک جدید کے متعلق گزشتہ سال بھی اس زمانہ میں ایک جلسہ مقرر کیا تھا اور اس سال پھر میں اس کے متعلق ایک جلسہ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لئے ۱۵ راگست ۱۹۳۹ء کی تاریخ مقرر کرتا ہوں اے جیسا کہ میں نے پہلی دفعہ بیان کیا تھا ایسے جلسوں کو کامیابی بنانے کے لئے پہلے مختلف محلوں میں اور مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے جلسے کرنے ضروری ہیں اور ایسے کم سے کم تین جلسے ہونے چاہئیں.ایک عورتوں کا ، ایک نو جوانوں کا اور ایک بڑی عمر کے آدمیوں کا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تینوں جلسے اس طرح ہوں کہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے جلسہ میں شریک ہونے کی اجازت نہ ہو بلکہ ہر جلسہ میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں.مثلاً نوجوانوں کے جلسہ میں یا بڑوں کے جلسہ میں علماء کی جو تقریریں ہوں اگر پس پردہ عورتیں بھی ان کو سُن سکیں تو یہ نا مناسب نہیں بلکہ پسندیدہ ہے لیکن چونکہ ہر طبقہ کے لئے اس کے حالات کی کو دیکھتے ہوئے بعض مخصوص خیالات کا سُنتا اور سُنو انا ضروری ہوتا ہے اس لئے علیحدہ علیحدہ جلسوں کی تجویز میں نے کی ہے اور ان جلسوں کے آخر میں ۱۵ راگست کو ایک بڑا جلسہ ہو جس میں سب مرد، عورتیں ، جوان، بچے ، بوڑھے شریک ہوں بلکہ شہر کے علاوہ علاقہ کے احمدی بھی شامل ہوں اور اس تحریک سے پوری طرح آگاہ ہوں.
خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۹ء میں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ بہت سے دوستوں کے وعدے تھے کہ وہ جون یا جولائی تک اپنے وعدے پورے کر دیں گے اس کے لئے سب جماعتیں تحریک کریں کہ سب وعدے ۱۵ / اگست تک ادا ہو جائیں تا وہ ثواب میں چھ ماہ آگے بڑھ جائیں.آخر جور قم دینی ہے وہ دینی ہی ہے اور جو وقت پر یا وقت سے پہلے ادا کر دے وہ ثواب کا زیادہ مستحق ہو جاتا ہے.میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آخری وقت کی پر وعدہ پورا کر دیں گے وہ کبھی اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ بالعموم نا کام رہتے ہیں اور ان کے کاموں میں سستی پیدا ہو جاتی ہے جس طرح وہ لوگ جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ آخری وقت پر نماز ادا کر لیں گے.بسا اوقات محروم رہ جاتے ہیں وہ انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور سورج چڑھ آتا ہے یا عصر کا وقت ہوتا ہے تو سورج غروب ہو جاتا ہے.پس کوشش کرنی چ چاہئے کہ نیکی کو وقت پر ادا کیا جائے اور نیکی کے معاملہ میں تجھیل سے کام لیا جائے.میں نے بار ہا وہ مثال دی ہے کہ جب ایک مخلص صحابی با وجود تیارکی جنگ کی طاقت رکھنے کے اس خیال سے تاخیر کرتے رہے کہ بعد میں تیاری کرلوں گا لیکن بعد میں ایسے مواقع پیش آگئے کہ نہ کر سکے.نتیجہ یہ ہوا کہ جہاد کے ثواب سے الگ محروم رہے اور خدا اور رسول کی ناراضگی کے مورد علیحدہ ہوئے حتی کہ ایسے تین صحابہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بائیکاٹ کیا گیا.ان کے عزیز ترین دوستوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ بعض کی بیویوں نے بھی بائیکاٹ کر دیا اور مسلمانوں کا ان سے بات چیت کرنا تو الگ رہا وہ ان کے متعلق کوئی اشارہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے.اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نیکی کرنے میں سُستی سے کام لیا ج حالانکہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس سامان موجود تھا مگر صرف سستی سے کام لیا اور کہا کہ میں تیاری کرلوں گا.سب سامان میرے پاس موجود ہے تو جب کوئی شخص نیکی میں تاخیر کرتا ہے تو اگر اس کے اندر کبر اور خود پسندی کا مادہ پیدا ہو جائے تو بعد میں اللہ تعالیٰ اسے ثواب سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی کم سے کم ثواب کے اتنے دن تو گئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرتے اور اُسے قرض دیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو بڑھا کر ہی واپس کرتا ہے.سے یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص
خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۹ء خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے اور اسے زیادہ نہ ملے جس طرح کھیت میں بیج ڈالا جاتا ہے تو کی اس کے ایک ایک دانے سے ستر ستر دانے نکلتے ہیں اسی طرح جو شخص دین کی راہ میں قربانی کرتا ہے اُسے ایک ایک کے ستر ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں گے مگر بعض نادان اس اُمید میں رہتے ہیں کہ انہیں ایک کے ستر اسی دُنیا میں مل جائیں حالانکہ اس دُنیا کی نعماء کی اُخروی نعمتوں کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت نہیں.اگر یہاں ایک کے ستر بلکہ سات سو بھی مل جائیں تو وہ اتنے مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا اثر محدود ہو گا.اگر انسان کی اوسط عمر ستر سال بھی کی فرض کر لی جائے جو اس زمانہ میں ناممکن ہے.ہندوستان میں اوسط عمر تھیں بلکہ ۲۷ سال سمجھی جاتی ہے لیکن اگر بفرض محال ستر سال بھی تسلیم کر لی جائے تو یہ عرصہ اس لمبے اور غیر محد و دعرصہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو موت کے بعد شروع ہوتا ہے.یہاں یہ نعمتیں کس کام آ سکتی ہیں اور اس محد و دعرصہ میں ان سے کیا فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص سے کہا جائے کہ تمہیں اس پڑاؤ پر آرام مل سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو تمہارے اور تمہارے بیوی بچوں کے لئے عمر بھر کے واسطے آرام کا انتظام ہو جائے.ان دونوں میں سے تمہیں کونسا آرام پسند ہے تو ہر معقول انسان منزل پر پہنچ کر عمر بھر کے آرام کو ترجیح دے گا اور جب انسان کو ایک ایسی زندگی کے دور سے گزرنا ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے خَالِداً اور ابداً کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو ایسی ابدی اور خلود کی زندگی کے آرام پر اس چند روزہ زندگی کے آرام کو ترجیح دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے مگر پھر بھی بعض نادان قر بانی کرنے کے بعد یہ اُمید رکھتے ہیں کہ انہیں اسی زندگی میں مالی صورت میں نفع ملے اور جب وہ اس سے محروم رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ثواب کے کاموں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیز کو بدلہ قرار دیتے ہیں جو دراصل بدلہ نہیں ہوتا.حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی عاقل کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ وہ اس چند روزہ زندگی کے بدلہ کو پسند کرتا ہے یا آخرت کے غیر محد ودانعامات کو تو وہ ضرور آخرت کے انعامات کو ترجیح دے گا.جولوگ اس دنیا کے بدلہ کو ترجیح دیتے ہیں اُن کی مثال عقل کے معاملہ میں اس میراثی کی ہے جو کسی واعظ کا وعظ سننے کے لئے چلا گیا.واعظ یہ کہہ رہا تھا کہ نماز پڑھنی چاہئے.اُس نے یہ بات سنی تو واعظ سے کہا کہ
خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۹ء آپ نے وعظ تو بڑا کیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اگر نماز پڑھیں تو کیا ملے گا ؟ واعظ کو جلدی میں اور تو کوئی جواب نہ سوجھا اُس نے کہہ دیا کہ نماز پڑھنے سے نور ملتا ہے.اس پر اس نے نماز شروع کر دی اور چار نمازیں پڑھیں.صبح کی نماز کے وقت سردی بہت تھی.اس نے سوچا کہ واعظ نے کوئی تیم کا مسئلہ بھی بیان کیا تھا سو اس وقت میں تیم کر کے ہی نماز پڑھ لیتا ہوں.اس نے تیم کے لئے ہاتھ مارا تو اتفاقاً اس کے ہاتھ توے پر پڑے اور اس نے وہی منہ اور ہاتھ پر پھیر لئے کی اور یہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد اس نے خیال کیا کہ اب مجھے نور مل گیا ہوگا.ذرا روشنی ہوئی کی تو اس نے اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ دیکھو کوئی نور آیا ہے یا نہیں ؟ بیوی نے اس کے چہرے کو دیکھا تو کہا یہ تو میں جانتی نہیں کہ نور کیا ہوتا ہے ہاں اگر وہ کوئی کالی کالی چیز ہوتی ہے تو پھر تو بہت ہے.میراثی نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور وہ چونکہ براہ راست توے پر پڑے تھے اس لئے وہ بہت زیادہ سیاہ تھے اس نے کہا کہ اگر تو نور کالا ہی ہوتا ہے تو پھر تو گھٹائیں باندھ کر آیا ہے.یہی مثال ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا کی راہ میں قربانی کر کے اسی دُنیا میں بدلہ کے منتظر رہتے ہیں.وہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد توقع رکھتے ہیں کہ ان کے چہرہ پر نور کے آثار ظاہر ہوں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس دُنیا میں تو کسی نہ کسی طرح گزارا ہو ہی جاتا ہے مگر وہ غیر محدود زندگی جہاں تمام رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں ماں کو بیٹے سے اور بیٹے کو ماں سے ، بیوی کو خاوند سے، خاوند کو بیوی سے، بھائی کو بھائی سے اور بہن کو بہن سے کسی مدد کی اُمید نہیں ہو سکتی.وہاں کی کس طرح کام چلے گا جب ہر انسان خوف سے لرز رہا ہوگا.وہ وقت ایسا ہو گا جب کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا.اس وقت انسان کہے گا کہ کاش! کوئی چیز میرے خزانہ میں ہوتی اور آج میرے کام آتی.جب انسان ترساں ولرزاں ہوگا، گھبرایا ہوا ہو گا ایسے وقت میں اگر خدا تعالیٰ کے فرشتے آ کر کسی سے کہیں کہ یہ زادِ راہ تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو یہ انعام یادہ ہے یا یہ کہ یہاں دین کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کے بدلہ میں ایک ایک کے ستر ستر مل جائیں.ہماری جماعت کے جو لوگ چندہ دیتے ہیں اس کی اوسط تین روپے فی کس بنتی ہے جسے ستر سے ضرب دی جائے تو دوسو دس روپیہ سال کے ہوتے ہیں اور سترہ روپیہ چند آنے ماہوار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑا مال نہیں.بمبئی اور کلکتہ میں ایسے ایسے ہندوستانی
خطبات محمود ۲۸۸ سال ۱۹۳۹ء موجود ہیں جو لاکھ لاکھ اور دو دو لاکھ روپیہ ماہوار کماتے ہیں حالانکہ ہندوستان ایک گرا ہو املک ہے.اس کے مقابلہ میں سترہ روپیہ کی حیثیت ہی کیا ہے لیکن اگر اس معمولی سی رقم کی بجائے وہ چیز مل جائے جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا اور ایسی تکلیف کے وقت میں ملے جب کہ ہر شخص ایک مصیبت میں مبتلا ہو گا اور کہے گا کہ کاش میری دولت کا چوتھا حصہ لے لیا جائے ، کاشکی نصف لے لیا جائے بلکہ ساری دولت میری لے لی جائے اور اس انعام میں سے مجھے کچھ حصہ مل جائے تو غور کرو یہ کتنا بڑا انعام ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے روز کافر کہیں گے کہ کاش ہماری ساری دولت لے لی جائے اور ہمیں کوئی ثواب بے شک نہ ملے مگر اس عذاب سے نجات مل جائے شے اور جن لوگوں کو ایک معمولی سی قربانی کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کا وعدہ ہے وہ اگر اس پر اس دُنیا کے معمولی نفع کو ترجیح دیں تو ان کی نادانی میں کیا شک ہے مگر کئی ایسے نادان ہیں جو معمولی سی قربانی کرنے کے بعد چاہتے ہیں کہ اسی دُنیا کی میں ان کو نفع پہنچے اور جب نہیں پہنچا تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا.ہم سے قربانی کرالی گئی مگر بدلہ کوئی نہیں ملا.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ استاد نے مجھ سے چار روپیہ فیس تو لے لی مگر اس کے عوض مجھے دیا کچھ نہیں اور یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے جو علم سکھایا ہے وہ کی چار کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے جو طالب علم فیس کے بدلہ میں اُمید رکھتا ہے کہ اسے استاد کی طرف سے روپیہ ملے گا وہ کبھی خوش نہیں ہو سکتا اور اطمینان حاصل نہیں کر سکتا لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ اس فیس کے بدلہ میں جو روپے ملتے ہیں وہ جیب میں نہیں بلکہ دل میں ڈالے جاتے ہیں.وہ شوق سے علم حاصل کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دُنیا میں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ اس نفع کے مقابلہ میں جو آخرت میں ملتا ہے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا.پھر دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بینک کو قبل از وقت ادائیگی کر دیتا ہے تو اسے ڈسکاؤنٹ ملتا ہے مثلاً اگر ۳۰ / جولائی کو رقم واجب الادا ہے اور وہ ۳۰/ جون کو ہی ادا کر دیتا ہے تو بینک اسے آٹھ آنے یا چار آنے سینکڑہ ڈسکاؤنٹ کے بھیج دے گا.گویا اسے قبل از وقت ادائیگی کا منافع دے گا.یہی حال اللہ تعالیٰ کا ہے جو شخص بر وقت اور جلدی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ڈسکاؤنٹ اس کو ضرور دیتا ہے.اگر بینک اپنے محدود مال کے ساتھ
خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۳۹ء ڈسکاؤنٹ ادا کرتا ہے تو یہ کیونکر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص وقت سے پہلے اپنا وعدہ پورا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ڈسکاؤنٹ نہیں دے گا.وہ دے گا اور ضرور دے گا مگر وہ چاندی یا سونے کے سکتے میں نہیں ہوگا بلکہ نو راور برکت کی صورت میں ہوگا.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس لوگ گئے اور کہا کہ روم کا بادشاہ ہم سے جزیہ مانگتا ہے.دیں یا نہ دیں؟ ان کا مقصد اس سوال سے فتنہ پیدا کرنا تھا.ان کا خیال تھا کہ اگر آپ کہیں گے کہ نہ دو تو ان کو شرارت کا موقع مل جائے گا اور کہہ سکیں گے کہ یہ حکومت کا باغی ہے اور کی اگر کہیں گے کہ دے دو تو پھر کہہ سکیں گے کہ تم جو کہتے ہو کہ میں خدا تعالیٰ کا نبی اور یہود کا بادشاہ ہوں یہ کیونکر صحیح ہے.اپنی طرف سے انہوں نے بڑی چالا کی کی اور سمجھا کہ اس طرح آپ کی پکڑے جائیں گے مگر آپ نے کہا کہ قیصر کیا مانگتا ہے؟ انہوں نے سکہ نکال کر دکھایا کہ یہ مانگتا ہے.معلوم ہوتا ہے اس وقت بھی سکہ پر بادشاہ وقت کا کوئی نشان ضرور ہوتا ہوگا.آپ نے اس سکہ پر قیصر کی تصویر یا نشان دیکھا تو فرمایا یہ قیصر کا ہے اس لئے اُسے دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دولت یعنی یہ روپیہ تو بنا ہوا ہی قیصر کا ہے یہ اسے دو اور اللہ تعالیٰ کا ٹیکس اطاعت کا ہے وہ اُسے دو.اللہ تعالیٰ کے سکے اور ہیں اور وہ انہی میں بدلہ ادا کرتا ہے.ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنے بندوں کی مشکلات کو دیکھ کر کبھی دنیوی نفع بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس دُنیا میں بھی فضل کر دیتا ہے.جیسا کہ ہزار ہا احمدیوں نے اس کا تجربہ کیا ہے.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مکہ میں تھا اور کچھ روپیہ کی ضرورت پیش آئی.اُس وقت آپ طالب علم تھے.طالب علموں کی ضروریات بھی محدود ہوتی ہیں چنانچہ اُس وقت آپ کو دس پندرہ روپیہ کی ہی ضرورت تھی آپ فرماتے تھے کہ میں نے دل میں کہا کہ کسی سے مانگوں گا نہیں اور مصلی بچھا کر نماز پڑھنے لگ گیا.نماز کے بعد جب مصلی اُٹھا کر چلنے لگا تو دیکھا کہ مصلی کے نیچے ایک پونڈ پڑا ہوا تھا.اب چاہے وہ پہلے ہی وہاں پڑا ہوا ہو، چاہے اس وقت کسی کی جیب سے اُچھل کر وہاں جا پڑا ہو اور چاہے فرشتوں نے رکھ دیا ہو.بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپ کی مشکلات کو دیکھ کر اس رنگ میں آپ کی مددفرما دی.میں نے اپنا ایک واقعہ بھی کئی دفعہ سُنایا ہے.ایک دفعہ میں سفر پر تھا اور کسی روحانی تحریک
خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۹ء کے ماتحت جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں میں نے خیال کیا کہ یہاں ایک روپیہ مجھے کی ملے.ہم لوگ چلے جارہے تھے اور بعض احمدی میرے ساتھ تھے.سامنے ایک گاؤں تھا اور کچھ لوگ کھڑے نظر آ رہے تھے.میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس گاؤں کا نمبر دار شدید مخالف ہے اور وہی اپنے ساتھیوں سمیت کھڑا ہے.یہ لوگ احمدیوں کو مارتے ہیں حتی کہ اپنے گاؤں میں سے کسی احمدی کو گزرنے بھی نہیں دیتے.میرے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ گاؤں کے باہر باہر چلنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ کوئی گالی گلوچ کریں.ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ گاؤں نزدیک آ گیا جب میں اس نمبردار کے مکان کے قریب پہنچا تو وہ دوڑ کر آگے آیا اور ایک روپیہ پیش کیا.پہلے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو سبق دلانے کے لئے ایک بات میرے دل میں پیدا کی اور اپنی محبت کا تجربہ کرانے کے لئے میرے منہ سے سوال کرا دیا کہ روپیہ ملے اور دوسری طرف جماعت کے دوستوں کو اس کا احساس کرایا کہ یہ دشمنوں کا گاؤں ہے اور پھر اس نشان کو اسی گاؤں کے سب سے بڑے مخالف کے ذریعہ پورا کرا دیا.یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور اس نے بتایا کہ ہم جب چاہیں اور جہاں سے چاہیں دلوا سکتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب آپ باغ میں فروکش تھے ایک دفعہ آپ نے جبکہ میں بھی پاس تھا کی والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ آجکل مالی تنگی بہت ہے لنگر خانہ کا خرچ بہت زیادہ ہو رہا ہے.میرا خیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لیا جائے.اسی روز جب آپ ظہر یا جمعہ کی نماز کے لئے باہر گئے اور پھر نماز کے بعد واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ ایک غریب آدمی جس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے اس نے میرے ہاتھ میں ایک پوٹلی دی تھی اس کے کپڑے اتنے پھٹے ہوئے اور بوسیدہ تھے کہ میں نے سمجھا اس پوٹلی میں چند پیسے ہوں گے لیکن دراصل اس میں سوا دو سو روپے تھے.آپ نے فرمایا کہ ابھی میرے دل میں قرضہ لینے کا خیال تھا مگر خدا تعالیٰ نے خود ہی ضرورت کو پورا کر دیا تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ دُنیا میں بھی بندوں کی ضرورتوں کے لئے روپیہ مہیا کر دیتا ہے.چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی.میں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض اور ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ
خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۹ء در کا رتھا.میں نے خیال کیا کہ جائداد کا کوئی حصہ بیچ دوں یا کسی سے قرض لوں.اتنے میں ایک کی دوست کی پیٹھی آئی کہ میں چھ ہزار وپیہ بھیجتا ہوں اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا.ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی.اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہو گیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو.مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے میں بھیج دوں.میں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہے.بعینہ اسی طرح ہوا ہے.گو یا ضرورت مجھے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے کہلوانے کی بجائے اس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے کہلوا دیا.نہ اسے علم تھا کہ مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں کی سے کسی نے چھ ہزار بھیج دیا اور اب صرف چار ہزار باقی ہے اور نہ مجھے علم تھا کہ اس کے پاس روپیہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے خود ہی تمام انتظام فرما دیا.تو بعض اوقات ایسے مواقع اللہ تعالیٰ خود ہی بہم پہنچا دیتا ہے.اس کے خاص بندوں کے لئے یہ صورت عام ہوتی ہے اور عام بندوں کے لئے شاذ کے طور پر لیکن سب ہی کے لئے حقیقی نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے جو روحانی طور پر آتی ہے.وہ اس دُنیا میں معرفت کے رنگ میں اور آخرت میں روحانی نصرت کی صورت میں آتی ہے.گو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں بھی بدلے ملتے ہیں مگر وہ اصل بدلہ کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہوتے ہیں.اکثر حصہ اگلے جہان میں ہی ملتا ہے اور اگلے جہان کے بدلہ کی قیمت وہی جانتا ہے جو اسے سمجھتا ہے دوسرا نہیں سمجھ سکتا.نادان کی نگاہ میں وہ حقیر چیز ہے مگر جو اس کی قیمت کو سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں ہوتی.یہی صحابہ جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ جنگ میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے ان میں سے ایک جنہیں مالی توفیق تو تھی مگر شامل نہ ہوئے تھے ان کے نزدیک رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے مقابلہ میں دولت کی کوئی قیمت باقی نہ رہ گئی تھی اور اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے تو میں اپنی ساری دولت خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دوں گا اور جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معافی کا اعلان فرمایا تو اُنہوں نے
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۹ء سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حتی کہ تن کے کپڑے بھی دے دیئے اور خود قرض لے کر اور کپڑے بنوا کر پہنے.کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے مقابلہ میں ان کے نزد یک ساری دولت کی کوئی حقیقت نہ تھی.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست کوشش کریں کہ وقت سے پہلے تحریک جدید کے وعدے پورے ہو جائیں.پھر اس کے دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ وہ بھی بہت اہم اور ضروری ہیں اور قومی کیرکٹر کو بنانے میں بہت مد ہیں.مثلاً ایک ہی کھانا کھانا سوائے دعوت کے موقع کے یا جمعہ یا عیدین کے موقع کے.تو جن حدود کے ساتھ اس کے دوسرے حصے مشروط ہیں ان کو بھی پورا کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلانی ضروری ہے.اس تحریک کے دوسرے حصوں کی میں ایک کھانا کھانا اتنا اہم حصہ ہے کہ اس پر عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے اندر کسی قدر وسیع فوائد رکھتا ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نہایت اہم اثر پیدا کرنے والی ہوتی ہیں.جب کانگرسیوں پر مقدمات دائر ہونے لگے اور گاندھی جی بھی گرفتار ہوئے تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنا کوئی ڈیفنس پیش نہیں کریں گے اور سب کا نگرسیوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے.عام لوگوں حتی کہ انگریزوں نے بھی سمجھا کہ وہ ضد کرتے ہیں حالانکہ یہ ضد نہ تھی بلکہ اتنی چھوٹی سی بات اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی تھی لیکن میرا خیال ہے بہت سے کانگرسیوں نے بھی اسے نہیں سمجھا ہو گا.بات یہ تھی کہ اگر دفاع کی اجازت ہوتی تو گاندھی جی کے لئے تو ملک کے بہترین وکلاء مثلاً سرسپرہ اور مسٹر جیکر وغیرہ سب جمع ہو جاتے لیکن جو غرباء کی گرفتار ہوتے ان کے دفاع کے لئے کوئی نہ جاتا.گاندھی جی نے خیال کیا کہ اس طرح بے چینی پیدا ہو گی اور غرباء خیال کریں گے کہ بڑے بڑے لوگوں کے لئے تو اس قد را نتظامات اور سامان مہیا ہو جاتے ہیں مگر غرباء کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر سب کے لئے بڑے بڑے وکلاء پیش ہونا بھی چاہتے تو نہ ہو سکتے.مقدمات تو سارے ملک میں چل رہے تھے وہ ہر جگہ کس طرح پیش کی ہو سکتے تھے اور اس طرح ان کی خواہش اور ارادہ کے باوجو د شکوہ کا موقع باقی رہتا.گو وہ شکوہ کی کتنا ہی غیر معقول اور خلاف عقل کیوں نہ ہوتا مگر لوگ یہی کہتے کہ غرباء کو کوئی نہیں پوچھتا اور کثیر اخراجات کے باوجود شکایت باقی رہتی.
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۹ء ہم نے یہاں اپنے مقدمات میں دفاع کی اجازت دی تھی اور گو ہم نے غلطی نہیں کی بلکہ کی مصلحتاً ایسا کیا تھا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس پر ہمارا کتنا روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے.کسی میں سو کسی میں دو سو اور کسی میں چار سو روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے.ہر مقدمہ میں کئی کئی گواہ پیش ہوتے ہیں کئی کئی پیشیاں ہوتی ہیں لیکن اگر ہم دفاع پیش نہ کرتے تو ایک بھی پیسہ خرچ نہ ہوتا.پیش ہوتے اور کہہ دیتے کہ جو کرنا ہے کر لو.گاندھی جی نے بھی یہی کیا اور اس سے سارے ملک میں شور مچ گیا.عام لوگوں نے خیال کیا کہ بائیکاٹ کے لئے ایسا کیا ہے حالانکہ ان کی غرض یہ تھی کہ چھوٹے بڑے اور امیر وغریب کا کوئی سوال نہ پیدا ہو اور روپیہ نہ خرچ ہو.ہزاروں لاکھوں مقدمات تھے اگر روپیہ خرچ کیا جاتا تو بے شمار خرچ ہو جاتا اور پھر ملک میں بیداری بھی پیدا نہ ہوتی.اسی طرح کھدر پوشی ہے.یہ بھی ایسی ہی باتوں میں سے ایک ہے.کوئی کہے کہ اگر کھڈر مفید ہے اور یہ بھی سادہ کپڑوں کی تحریک کا حصہ ہے تو تم اس تحریک پر کیوں عمل نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا قانون اور ہے اور ہماری شریعت اور ہے.گاندھی جی نے وہ تحریک کی جوان کے خیال کے مطابق ملک کے لئے مفید ہو سکتی تھی اور میں نے جو تحریک کی وہ اسلام اور کی سلسلہ کے فائدہ کو مد نظر رکھ کر کی ہے.اس لئے ہماری تجاویز میں فرق لازمی ہے.میرے مد نظر اسلام کی شوکت اور سلسلہ کی ترقی ہے اور گاندھی جی کے نزدیک ہندوستان کی ترقی ہے.دونوں کا علاج علیحدہ علیحدہ ہے.میں نے ایک کھانا کھانے ، سادہ کپڑے پہنے اور ہاتھ سے محنت کرنے کی جو تحریک کی ہے یہ کوئی چھوٹی باتیں نہیں ہیں.یہ اپنے اندر اس قدر فوائد رکھتی ہیں کہ ہر ایک پر اگر مفصل تقریر کی جائے تو سینکڑوں گھنٹے کی جاسکتی ہے اور اگر جماعت ان کو کی مد نظر رکھے تو قریب ترین عرصہ میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہوسکتا ہے اور جماعت اس پر جتنا عمل کرتی ہے اس کے اثرات بھی مشاہدہ کر رہی ہے.مجھے کئی رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اسے اختیار کر رہے ہیں ، کئی غیر احمدی امراء کے گھرانوں کی عورتیں ان تحریکات کو اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں اور اسے بہت پسند کرتی ہیں.پچھلے دنوں جب چیف جسٹس صاحب یہاں تشریف لائے تو انہوں نے اس تحریک کا ذکر
خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۳۹ء سُن کر بہت پسند کیا اور کہا کہ آپ کو چاہئے تھا میرے لئے بھی ایک کھانا تیار کراتے.میں نے کہا تھ مجھے آپ کی عادات کا علم نہ تھا.انہوں نے کہا کہ میں تو سادگی کو بہت پسند کرتا ہوں.تو یہ تعلیم اتنی مفید ہے کہ غیروں کو بھی اس کے فوائد نظر آ رہے ہیں اور ہندوؤں ،سکھوں ، عیسائیوں، ایشیائیوں اور غیر ایشیائیوں سب کی توجہ خود بخود اس طرف مبذول ہوتی جا رہی ہے مگر تجربہ سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ لوگ زیادہ کھانے چھوڑنے کے لئے تیار ہیں ، سادہ کپڑے بھی پہن کی سکتے ہیں مگر سینما چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں.میری ہمشیرہ شملہ گئیں تو اُنہوں نے سُنایا کہ بعض امراء کی عورتیں اس تحریک کو بہت پسند کرتی ہیں مگر صرف یہ کہتی ہیں کہ سینما چھوڑ نا مشکل ہے.تو عام طور پر لوگوں میں یہ تحریک شروع ہے.حتی کہ مختلف کمیٹیوں اور مجلسوں میں یہ سوال آنا شروع ہو گیا ہے لیکن افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی اسے سمجھنے اور اس پر پورے طور پر عمل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی.دراصل کامل فرمانبرداری کامل علم سے پیدا ہوتی ہے اس لئے ان جلسوں میں واعظ اچھی طرح لوگوں کو اس کے فوائد سے آگاہ کریں اور کھول کھول کر سمجھا ئیں اور کوشش کریں کہ ہر سال کی تقریروں میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے مسائل پیدا ہوں.میرا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی باتیں بیان نہ کی جائیں اور ان کو نظر انداز کر دیا جائے.ان باتوں کو چھوڑنا خودکشی کے مترادف ہے.ان کو بھی ضرور بیان کیا جائے اور ان کے علاوہ نئے مضامین پیدا کئے جائیں.نئے مضامین سے نئی روح پیدا ہوتی ہے اس لئے دونوں کو مد نظر رکھنا چاہئے.یعنی نئے مضامین بھی اور پرانے بھی بیان کئے جائیں.میں اُمید کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں خصوصاً قادیان کی جماعت کہ یہ جگہ سلسلہ کا مرکز اور خدا تعالیٰ کے رسول کی تخت گاہ ہے اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں.اپنے فرائض کو پوری طرح محسوس کریں گی.قادیان والوں کو دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے اور خود علم حاصل کرنا اور دوسروں کو سکھانا چاہئے اور پھر اس تحریک پر عمل کرنے میں بھی ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ باہر والے ان سے سبق حاصل کریں.نیک نمونہ کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے.آج ہی لاہور سے چلنے کے وقت ایک خاتون مجھ سے ملنے آئیں وہ پنجاب کے ایک سابق لیڈر کی والدہ ہیں.وہ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا ایک دو بار قادیان ہو آیا ہے اور واپس آ کر مجھ سے کہا کہ
خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۹ء قادیان کا آسمان بھی اور ہے اور زمین بھی اور، وہاں کے آدمی بھی اور ہیں.ایک دفعہ اُنہوں نے ی کسی سے یہ ذکر بھی کیا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنالوں.یہ شخص پہلے ایک بڑے عہدہ پر ملازم تھے.اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور مشہور لیڈر ہیں.تو نیک نمونہ کا اثر انسان پر کی ضرور ہوتا ہے.نیکی ، دیانتداری اور راستبازی کو دیکھ کر ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ انسان ہی اور ہیں اور جس نے یہ جماعت بنائی ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.پس میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت کی اہمیت کو سمجھو.جو فسادات دُنیا میں پیدا ہونے والے ہیں اور جو تباہیاں آنے والی ہیں پیشتر اس کے کہ وہ آئیں اپنے محل کو محفوظ اور دیواروں کو مکمل کر لو تا جب شیطان اس محل پر حملہ کرنا چاہے تو اس سے پہلے ہی اس کے دروازے لگ چکے ہوں اور دیوار میں مکمل ہو چکی ہوں.“ ( الفضل اار جولائی ۱۹۳۹ء) جمعہ میں اعلان ۳۰ جولائی کا کیا تھا مگر اس تاریخ کو دعوت و تبلیغ کا مقرر کردہ جلسہ تھا اس لئے تاریخ بدل دی گئی.66 بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک و قول الله عزوجل و على الثلاثة الذين خلفوا مَن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لمَ أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ (البقرة : ٢٤٦) تفسير الخازن زیر آیت مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (البقرة :٢٦٢) المائدة: ۳۷ لوقا باب ۲۰ آیت ۳۸ تا ۴۳ مطبوعه ۱۸۸۰ء ك بخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالک و قول الله عزوجل و على الثلاثة الذين خلفوا
خطبات محمود ۲۹۶ ۲۰ سال ۱۹۳۹ء جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کی برکات (فرمودہ ۷ جولائی ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں پہلے تو اس امر پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں کہ ابھی اس مسجد کے بعض کو نے سائبانوں کے بغیر نظر آرہے ہیں اور وہاں بیٹھنے والوں کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں.حالانکہ جب میں نے ادھر توجہ دلائی تھی اُس وقت سے لے کر اب تک کافی عرصہ گزر چکا ہے اور اگر منتظمین چاہتے تو وہ آسانی سے اس ضرورت کو درمیانی عرصہ میں پورا کر سکتے تھے.میرے پہلی بار توجہ دلانے پر چار پانچ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور دوسری دفعہ کی توجہ پر بھی دو ماہ بلکہ اس سے کچھ زائد ہی ہو گئے ہیں.اس وقت مجھے بظاہر دو نئے سائبان لگے ہوئے معلوم نتظمین ہوتے ہیں یا ایک ہی سائبان ہے جس کے دوحصے ہیں مگر بہر حال وہ کافی نہیں اور جب نت اس کا انتظام کرنے لگے تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ مسجد کو ناپ لیتے اور دیکھ لیتے کہ سائبان سے ساری جگہ ڈھک جائے گی یا نہیں.اس کے بعد میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت دُنیا میں ایک عملی تغیر پیدا ہو رہا ہے.پہلے انفرادی طور پر آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب قومی طور پر جماعتوں کی اصلاح کی طرف توجہ کی جاتی ہے.سب سے پہلے یہ آواز دُنیوی اقوام میں ۱۹۱۷ء میں لینن نے اُٹھائی ہے.اس کے بعد اس کی نقل ترکی میں مصطفی کمال پاشا نے کی.
خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۹ء پھر اٹلی میں انقلاب پیدا ہوا اور مسولینی نے اسی رنگ کا نظام اپنے ملک میں جاری کیا اور اس کی کے بعد جرمنی میں ہٹلر کے ذریعہ یہ نظام قائم ہوا.اس تغیر اور اس انقلاب میں ہمیں دو قسم کی متضاد تحریکیں نظر آتی ہیں اور گو طریق عمل ایک ہی ہے لیکن تحریکیں متضاد ہیں.روس کی تحریک بالکل اور رنگ کی ہے اور مسولینی اور ہٹلر کی تحریک بالکل اور رنگ کی ہے لیکن یہ قاعدہ دونوں کے اندر کام کرتا نظر آتا ہے کہ ایک بالا نظام جو کچھ فیصلہ کرے افراد کو اس فیصلہ کی پابندی کرنی چاہئے.اس طرز سے ان ملکوں میں جو تغیر پیدا ہوا اور ان کی طاقت اور قوت میں جو اضافہ ہوا وہ عیاں اور بالکل ظاہر ہے جسے ہر شخص دیکھ سکتا ہے.روس ایک ایسا ملک تھا جس میں تعلیم بالکل ہی نہیں تھی اور ایک مطلق العنان حکومت اس جگہ قائم تھی لیکن اس نظام کے ماتحت وہاں تعلیم اتنی عام ہو گئی ہے کہ اب قریباً قریباً نا خواندہ لوگ وہاں نظر آنے مُشکل ہو گئے ہیں اور وہی روس جو ایک زمانہ میں بلحاظ نظام نہایت کمزور اور بودہ سمجھا جاتا تھا آج اس کی قوت سے بڑی بڑی حکومتیں مرعوب ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روس پہلے بھی ایک بہت بڑی طاقت تھی.کیونکہ یہ ملک بہت بڑا ہے اس میں آبادی بہت زیادہ ہے اور اس میں بسنے والی جنگی قومیں ہیں.اسی وجہ سے ہر قوم کی یہ خواہش ہو ا کرتی تھی کہ وہ روس سے دوستانہ تعلقات پیدا کرے مگر ان میں نظام بالکل نہیں تھا.چنانچہ گزشتہ جنگ عظیم میں روسیوں کی دو دو تین تین لاکھ فوج کا بعض دفعہ جرمنی کے پچاس ساٹھ ہزار سپاہیوں نے مقابلہ کیا ہے اور اُنہوں نے اپنے کی تو پخانہ کی کثرت کی وجہ سے روسیوں کو بھاگ جانے پر مجبور کیا ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے جب جنگ عظیم شروع ہوئی اور انگلستان اور روس کی حکومتیں بھی فرانس کے ساتھ شامل ہو گئیں تو سول اینڈ ملٹری گزٹ اور دوسرے انگریزی اخبارات میں بڑے بڑے موٹے حروف میں لکھا ہوتا تھا کہ Russian Steam Roller Coming یعنی روس کا سڑکوں کو کوٹنے کی والا انجن آ رہا ہے.گویا انہیں روسیوں کی فوج کی کثرت اور سپاہیوں کی بہادری پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ سمجھتے تھے جس طرح سڑک کو کوٹنے والے انجن کے سامنے پتھر روڑ انہیں ٹھہرتا اور پس جاتا ہے اُسی طرح جرمن فوجوں کو روسی فوجیں دباتی چلی جائیں گی.یہ ہیڈ نگ برابر کئی دنوں تک اخبارات میں چھپتا رہا.یہاں تک کہ وہ سٹیم رولر جرمنی کی سرحد پر پہنچ گیا اور
خطبات محمود ۲۹۸ سال ۱۹۳۹ء وہاں دس پندرہ لاکھ روسی فوج کا اجتماع ہو گیا.اس کے بعد یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ روسی فوجیں جرمنی کی حدود میں داخل ہو گئی ہیں اور انہوں نے جرمن فوجوں کو بُری طرح پسپا کرنا شروع کر دیا ہے.چنانچہ اخبارات نے بھی اپنے عنوان میں تبدیلی کر دی اور اُنہوں نے بجائے یہ لکھنے کے کہ Russian Steam Roller Coming یہ لکھنا شروع کر دیا کہ Russian Steam Roller Advancing یعنی روس کا سڑک کو ٹنے والا انجن آگے بڑھ رہا ہے.چنانچہ روزانہ اس قسم کی خبریں آنی شروع ہو گئیں کہ آج روسی فوجیں اتنے میل آگے بڑھ گئی ہیں ، آج اتنے میل آگے بڑھ گئی ہیں اور آخر یہ خبریں شائع ہونے لگیں کہ اب وہ عنقریب برلن میں داخل ہو جائیں گی.اس وقت یہ حالات دیکھ کر لوگوں میں بحث شروع ہو گئی تھی کہ انگلستان اور فرانس کی فوجیں پہلے برلن میں داخل ہوں گی یا روس کی.اور قیاس یہ کیا جاتا تھا کہ روس کی فوجیں برلن میں پہلے داخل ہوں گی مگر ایک دن معاً خبر آئی کہ روس کی دس پندرہ لاکھ فوج جو آگے بڑھ رہی تھی اس میں سے لاکھوں زخمی ہو گئے ہیں.لاکھوں ہلاک ہو گئے ہیں اور باقی تمام تر بتر ہو کر ملک میں اِدھر اُدھر دوڑے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی جائے پناہ نظر نہیں کی آتی گویا روسیوں کی تمام فوج هَبَاءُ ہو کر رہ گئی اور ذرّات بن کر میدانِ جنگ سے اُڑ گئی.اس کی وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ جرمن والوں کا یہ ایک منصوبہ تھا جس سے کام لے کر اُنہوں نے روسیوں کو شکست دی.وہ جانتے تھے کہ ہمارے تو پخانہ کے مقابلہ میں روسی کچھ کر نہیں سکتے مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے مُلک میں جا کر اگر ہم لڑے تو ہماری لڑائی آدمیوں سے نہیں بلکہ قلعوں سے ہوگی کیونکہ جب ہم نے تو پخانہ کا منہ کھولا تو یہ دوڑ کر قلعوں میں پناہ گزین ہو جا ئیں گے اور قلعے چونکہ تو پوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس لئے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا.پس اُنہوں نے یہ ہوشیاری کی کہ وہ بظا ہر شکست کھاتے ہوئے واپس لوٹے اور روسیوں کو اس علاقہ میں لے آئے جس میں دلدلیں ہی دلدلیں تھیں.جب دلدلیں عبور کر کے وہ اپنے علاقہ میں پہنچ گئے اور روسی فوجیں بھی ان کے تعاقب میں آ گئیں تو انہوں نے اپنے تو پخانہ کا منہ کھول دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ روسیوں نے بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا اور کئی تو دلدلوں میں پھنس کر ہلاک ہو گئے ، کئی گولہ و بارود سے ہلاک ہوئے اور کئی سخت مجروح ہو کر نا کا رہ ہو گئے اور چونکہ انہیں درمیان میں
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۹ء کسی جگہ بھی اپنی فوج کی تنظیم کا موقع نہیں ملا تھا اس لئے فوج میں بدنظمی پیدا ہوگئی اور ابتری کی حالت میں نہ وہ جرمن والوں کا مقابلہ کر سکے اور نہ اپنی جانوں کو بچا سکے.اس دن مغربی حکومتوں کو پہلی دفعہ یہ معلوم ہوا کہ روس کا سٹیم رولر محض انسانوں کے گوشت کا ایک ٹھیکرالے تھا تی اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور نہ کوئی سامان اس کے پاس موجود تھا چنانچہ سب سے پہلے روس کو شکست ہوئی حالانکہ روس کا ملک اتنا وسیع ہے کہ مؤرخین لکھتے ہیں جو قوم روس کی پر حملہ کرتی ہے وہ ضرور تباہ ہو کر رہتی ہے.چنانچہ جب روس میں بالشوزم کی تحریک اٹھی.اُس وقت انگریزوں اور فرانسیسیوں اور یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ والوں نے وہاں بغاوتیں کرائیں، فوجیں بھیجیں ، روپیہ بھیجا، سامان بھیجا اور ہر لحاظ سے لوگوں کی مدد کی مگر روس کی اس گرمی ہوئی حالت کے باوجود وہ فوجیں سو سو دو دو سو میل بڑھ کر تھک کر واپس آ گئیں مگر کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ ایک دن بھی ملک میں حکومت کر سکے.نپولین جو فرانس کا بادشاہ تھا اس کی طاقت ٹوٹنے کی بھی یہی وجہ تھی کہ وہ روس کے اندر گھس گیا مگر یہ ملک اتنا وسیع تھا کہ وہ اپنی تمام طاقت اس میں ضائع کر بیٹھا.تو گزشتہ جنگ عظیم میں روس نہایت ادنیٰ حالت میں تھا نہ اس کی فوجیں اچھی تھیں نہ اس کے جرنیل اچھے تھے ، نہ اس کے پاس اچھا تو پخا نہ تھا اور نہ سامانِ جنگ با افراط اس کے پاس موجود تھا مگر اس تنظیم کے ماتحت جو لینن نے شروع کی ان میں ایسا تغیر پیدا ہوا کہ آج جنگی سامانوں میں سب سے زیادہ اہمیت ہوائی جہازوں کو دی جاتی ہے اور یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ سب سے زیادہ ہوائی جہاز آجکل روس کے پاس ہی موجود ہیں.اب یا تو وہ زمانہ تھا کہ روس کے پاس ہوائی جہاز تو کیا تو پیں بھی بہت کم تھیں اور جو تھیں وہ بہت رہی اور ناقص مگر آج روسیوں کے جنگی ہوائی جہاز تعداد میں دُنیا کی تمام حکومتوں کے ہوائی جہازوں سے زیادہ ہیں اور دوسرا سامان بھی اُن کے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک لسٹ دیکھی جس میں یہ ذکر تھا کہ مختلف ممالک کے پاس کیا کیا جنگی سامان ہے.اس لسٹ کے دیکھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ روس کے پاس اس وقت دس ہزار ہوائی جنگی جہاز ہیں، جرمنی کے پاس سات ہزار ہیں، انگلستان کے پاس چھ ہزار ہیں ، فرانس کے پاس ساڑھے پانچ ہزار ہیں اور اٹلی کے پاس پانچ ہزار.گو یا اٹلی سے روس کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء دوگنی طاقت ہے اور انگلستان سے ڈیوڑھے ہوائی جہاز اس کے پاس موجود ہیں حالانکہ ابھی اس کی نظام کو قائم ہوئے بہت قلیل عرصہ ہوا ہے مگر ان کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں ایک عام حکم جاری کیا جاتا ہے اور ساری قوم بلا چون و چرا اس کے پیچھے چل پڑتی ہے.لڑکی کی اصلاح بھی اسی وجہ سے ہوئی ہے بلکہ اس لحاظ سے کہ ٹر کی ایک چھوٹا سا ملک تھا جس کی اخلاقی حالت بھی سخت گری ہوئی تھی اور چاروں طرف سے دُشمنوں نے اسے رگید ا ہو ا تھا.ٹرکی کی ترقی روس سے بھی زیادہ عظیم الشان ہے.لڑکی ایک مُردہ قوم تھی جو محض اس کی نظام کی وجہ سے یکدم ترقی کر کے کہیں کی کہیں پہنچ گئی.چنانچہ گجا تو یہ حالت تھی کہ فرانس اور انگلستان والوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہماری فوجیں قسطنطنیہ میں رہیں گی اور ہماری اجازت کے بغیر تمہارا با دشاہ کوئی حکم نافذ نہیں کر سکے گا جو حکم بھی تم دینا چاہو گے تمہارے لئے ضروری ہوگا کہ تم پہلے اسے ہمارے سامنے پیش کرو اور ہماری منظوری کے بعد اسے نافذ کرو اور گجا یہ حالت ہے کہ آج فرانس اور انگلستان کے سفیر ٹرکی کی منتیں کرتے ہیں کہ تم ہمارے سمجھوتہ میں شامل ہو جاؤ اور ٹر کی کہتا ہے کہ ہم اس وقت تک اس معاہدہ میں شامل نہیں ہو سکتے جب تک ہمیں فلاں علاقہ واپس نہ دیا جائے جو غاصبانہ طور پر ہم سے لے لیا گیا تھا اور انگلستان والے فرانس پر زور دیتے ہیں کہ یہ علاقہ لڑکی کو ضرور واپس دے دو اور اسے اس معاہدہ میں شامل ہو نے دو کیونکہ لڑکی کے بغیر جرمنی اور اٹلی سے لڑائی کرنا ہمارے لئے سخت مشکل ہے اور فرانس اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اُسے وہ علاقہ واپس دے دے.گویا وہ ملک جس کے بادشاہ کو بھی کسی زمانہ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ فرانسیسی اور انگریز سفیروں سے مشورہ لئے اور ان کی منظوری حاصل کئے بغیر کوئی حکم دے سکے.آج وہ فرانس اور انگلستان کی برابری کا ہی دعوی نہیں کرتا بلکہ جب اسے سمجھوتہ میں شریک ہونے کے لئے کہا جاتا کی ہے تو وہ کہتا ہے پہلے ہمارا فلاں علاقہ واپس دے دو پھر کوئی اور بات ہوگی اور فرانس اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ علاقہ اسے واپس کرے مگر یہ اُسی نظام کا اثر ہے جو مصطفی کمال پاشا نے ان میں جاری کیا.اس کے بعد اٹلی کی باری آئی یہ بھی گرا ہو املک تھا اور روس کی طرح ہی اس کا حال تھا.پرانی شان و شوکت کے اثر کے ماتحت وہ ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا مگر.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء حقیقی طاقت اس میں مفقود تھی.نہ اس میں تعلیم تھی ، نہ اس میں نظام تھا، نہ اس کے پاس روپیہ تھا اور نہ کوئی تجارت اس کے پاس تھی مگر اب یہ ملک اتنا ترقی کر گیا ہے کہ کئی تجارتی منڈیاں اٹلی والوں کے قبضہ میں ہیں اور تجارت کے کئی میدانوں میں وہ انگریزوں کو شکست دے چکے ہیں.ان کے سمندری جہاز انگریزی جہازوں سے بدرجہا بہتر ہوتے ہیں.ان میں کھانا زیادہ اچھا ملتا ہے اور ان میں آرام و آسائش کا بھی زیادہ خیال رکھا جاتا ہے.حتی کہ کئی انگریز افسر جب سرکاری کرائے پر ادھر اُدھر جاتے ہیں تو اٹلی کے جہازوں میں جاتے ہیں.پارلیمنٹ میں اس کی کے متعلق کئی دفعہ سوال بھی ہوئے اور دریافت کیا گیا کہ ایسے افسروں کو روکا کیوں نہیں جاتا مگر حکومت کی طرف سے یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارا کام صرف کرایہ دینا ہے.ہم یہ پابندی عائد نہیں کر سکتے کہ وہ فلاں جہازوں میں سوار ہو ا کریں اور فلاں میں نہ ہو ا کریں اس کی وجہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہی ہے کہ ان جہازوں میں مسافروں کو آرام زیادہ ملتا ہے.اس کے بعد جرمن میں تغیر پیدا ہوا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جرمنی کے حالات مختلف تھے.روسی اور ترکی اور اطالوی کی مُردہ تو میں تھیں جو زندہ ہو ئیں مگر جرمن مُردہ نہیں تھا.جرمن زندہ تھا اس میں علم بھی تھا اس میں سائنس بھی تھی اور وہ قریب زمانہ میں دُنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں میں شامل رہ چکا تھا.صرف عارضی طور پر وہ دبا دیا گیا تھا.پس ہٹلر کا کام اتنا شاندار نہیں جتنا لیفن یا مسولینی یا مصطفیٰ کمال پاشا کی کالیکن بہر حال اس نے اپنے ملک کو غلامی سے نکالا اور اسے عزت ورفعت کے مینار پر کھڑا کر دیا.مگر جس نظام کے متعلق آج دنیا کہتی ہے کہ یہ نیا نظام ہے تم سوچو اور غور کرو کہ کیا یہ نیا نظام ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نیا نظام نہیں بلکہ یہ وہی نظام ہے جسے اسلام نے آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے خلافت کی شکل میں دُنیا میں قائم کیا تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج یورپ میں چونکہ یہ ایک نظام قائم ہو چکا ہے اور اس کے فوائد بھی ظاہر ہو چکے ہیں اس لئے اس کی کو دیکھ کر آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے مگر میں بتاتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں.تم ۱۹۱۴ ء کا میرا وہ لیکچر نکال کر دیکھ لو جو برکات خلافت کے نام سے چھپا ہو ا موجود ہے.اُس میں میں نے وہی نظام پیش کیا ہے جس کی آج یورپین حکومتیں تقلید کر رہی ہیں.۱۹۱۴ء میں تو نہ لیفن تھا ، نه مسولینی ، نہ مصطفی کمال پاشا تھا اور نہ ہٹلر.اس وقت میں نے یہ نظام لوگوں کے سامنے رکھا اور
خطبات محمود ٣٠٢ سال ۱۹۳۹ء انہیں بتایا کہ قومی ترقی انہی اصول پر ہو سکتی ہے.پیغامی ہمیشہ میری اس تقریر اور اسی قسم کی اور تقریروں پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں دیکھو یہ شخص خود درائی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے حالانکہ اسلام نے جو طریق بتایا ہے وہ اس ڈکٹیٹر شپ سے ہزاروں درجے بڑھ کر ہے جو یورپین ممالک میں قائم ہے.بے شک ان دونوں میں ایک مشابہت بھی ہے اور وہ یہ کہ جس طرح لوگ ڈکٹیٹروں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ خلفاء کی کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تلقین کرتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ ڈکٹیٹر خود قانون ساز ہوتا ہے مگر خلیفہ قانون ساز نہیں بلکہ ایک اور قانون کے تابع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے.ہٹلر قانون ساز ہے.مسولینی قانون ساز کی ہے، لینن قانون ساز ہے لیکن اسلامی خلیفہ نظام اور قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح کی جماعت کا ایک عام فرد.وہ قانون ساز نہیں بلکہ خدائی قانون کا تابع ہوتا ہے اور اسی قانون کو کی وہ لوگوں سے منواتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خلافت کی وجہ سے لوگوں پر وہ ظلم نہیں ہوتا جوان مملکوں میں ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں ایک مکمل قانون قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے جس پر عمل کرنا اور دوسروں سے عمل کرانا خلفاء کا کام ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی تک احکام خلافت کی پابندی کی وہ رُوح پیدا نہیں ہوئی کی جو اسلام لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور نہ اس نظام کی قدرو قیمت کو اس نے پوری کی طرح محسوس کیا ہے.مجھے حیرت ہوئی جب میں نے اپنی جماعت کے ایک اخبار میں غیر مبائعین کے ایک انگریزی اخبار کا ایک نوٹ پڑھا جس میں وہ ہٹلر کی کتاب ” میری جدو جہد کے بعض اقتباسات درج کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی توجہ اس نئے سوشل فلسفہ کی طرف مبذول کرنی چاہئے کیونکہ بظاہر یہ اُن خیالات کے خلاف معلوم ہوتا ہے جو اسلامی جمہوریت کے متعلق قبول کئے جاچکے ہیں لیکن اس تجربہ کے بعد جو جرمنی نے کیا اور اُس تجربہ کے بعد جو پ کے بعض اور ممالک میں کیا گیا یہ امر اس قابل ہو جاتا ہے کہ ہم دوبارہ تمام سوال پر غور کریں اور دیکھیں کہ اسلامی نقطہ نگاہ کیا ہے.گویا غیر مبائعین کے دلوں میں بھی اب یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ آج سے پچیس سال کی
خطبات محمود ٣٠٣ سال ۱۹۳۹ء پہلے جو تعلیم ہماری جماعت کی طرف سے پیش کی گئی تھی کہیں وہی تو درست نہیں اور کہیں ایسا تو کی نہیں کہ وہ غلطی پر ہوں اور اسلامی نظام کے سمجھنے میں اُنہوں نے ٹھو کر کھائی ہو.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب غیر مبائعین کے دل بھی اس نظام کی خوبی کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں اور اُن پر بھی یہ امر آشکار ہو گیا ہے کہ صحیح نظام وہی ہے جو خلافت کے ماتحت ہو مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں اور لوگ اس طریق کی عمدگی اور خوبی کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں وہاں اپنی جماعت کے بعض افراد اس کی قدر کو نہیں پہچانتے.اس وقت ہماری جماعت میں بہت سے لوگ ایسے داخل ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ صرف نام کی احمدیت ان کے لئے کافی ہو جانی چاہئے.ایسے آدمیوں سے خواہ ان کی تعداد کس قدر زیادہ کیوں نہ ہو جماعت کو ہر گز کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور میں سمجھتا ہوں جہاں ان لوگوں کے دماغ میں یہ غلط خیال سمایا ہوا ہے کہ وہ محض احمدی کہلا کر احمدیت کی تقویت کا موجب بن سکتے ہیں وہاں جماعت کے کارکنوں کو بھی یہ خیال اپنے کی دل سے نکال دینا چاہئے کہ ان لوگوں کو جماعت سے علیحدہ کر دینا جماعت کے لئے نقصان کا موجب ہوگا یقیناً ان لوگوں کا جماعت سے نکالنا جماعت کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ مفید ہے اور جماعت اسی وقت ترقی کر سکتی ہے جب اس قسم کے لوگ اس کے اندر موجود نہ ہوں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک فعال جماعت نہ ہو اس وقت تک دُنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا.اگر ایک طرف ایک ہزار کام کرنے والے لوگ ہوں اور دوسری طرف ایک لاکھ ایسے لوگ موجود ہوں جو سکتے اور ناکارہ ہوں تو یقیناً ان ایک لاکھ نکموں سے ایک ہزار کام کرنے والا زیادہ مفید ہوگا بلکہ ایک طرف اگر ایک ہزار ہوں اور دوسری طرف ننانوے ہزار سکتے اور ایک ہزار کام کرنے والے ہوں یا دو ہزار ایک طرف ہوں اور دوسری طرف بھی دو ہزار ہوں مگر ان کے ساتھ پانچ دس ہزار سکتے لوگ بھی ہوں تو باوجود اس کے کہ کثرت تعداد دوسری طرف ہوگی جیتیں گے وہی جو گو کم ہوں گے مگر سب کے سب کام کرنے والے ہوں گے کیونکہ گو وہ تھوڑے ہوں گے مگر ان کے گلے میں کوئی ایسے پتھر نہیں ہوں گے جو اُن کو بڑھنے سے روک لیں مگر کی دوسری طرف گو کام کرنے والوں کی تعداد اتنی ہی ہو گی مگر چونکہ ان کے گلے میں بعض ایسے پتھر بھی ہوں گے جو انہیں نیچے کی طرف جھکا رہے ہوں گے اس لئے با وجو د زیادہ ہونے کے
خطبات محمود ۳۰۴ سال ۱۹۳۹ء وہ شکست کھائیں گے اور بد عمل لوگوں کا بارانہیں کامیاب نہیں ہونے دے گا.پس جب تک جماعت اس نکتہ کو نہیں سمجھتی اور اس کے اندر یہ بیداری پیدا نہیں ہوتی کہ جو لوگ فعال نہیں ، جو کام کرنے والے نہیں ، جو قر بانی کرنے والے نہیں ، جو دین کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں وہ ہر گز اس قابل نہیں کہ جماعت میں رہیں.اس وقت تک وہ ہرگز ان عظیم الشان کا میابیوں کو نہیں دیکھ سکتی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہیں اور جول کر تو ر ہیں گی مگرممکن ہے ہماری غفلت کی وجہ سے کچھ سال پیچھے جا کر ملیں.بے شک اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر یہ وعدہ کی جماعت کے متعلق ہے.یہ نہیں کہا کہ میں بھی ترقی کروں گا یا تم بھی ترقی کرو گے.میں نے یہاں ”میں“ کے لفظ کا ذکر بطور مثال کیا ہے ورنہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ کے ذاتی وعدے بھی ہیں.پس میں نے جو ”میں“ کا لفظ استعمال کیا ہے یہ صرف مثال کے طور پر کیا ہے اور میرا کی منشاء اس سے یہ ہے کہ اس میں زید یا بکر کے متعلق کوئی وعدہ نہیں بلکہ اصل وعدہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ ترقی کرے گی.تم جانتے ہو کہ کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے سر نکالا اور جماعت میں اُنہوں نے بغاوت کی.پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ کس کس طرح تم ان فتنوں کو دیکھ کر کانپ اُٹھے تھے اور کس کس طرح کی رقعوں پر رقعے لکھ کر مجھے پریشان کرتے تھے کہ ان لوگوں سے نرمی اور رعایت کی جائے ورنہ فساد بڑھ جائے گا مگر بتاؤ پھر وہ لوگ کہاں گئے ؟ ابھی دو سال کا عرصہ نہیں ہو تم میں سے ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا اس وقت مصریوں کی شکل میں ایک بہت بڑی مصیبت تمہارے سامنے نہیں آئی تھی ؟ تم کس طرح اس مصیبت کو دیکھ کر گھبرا اٹھے تھے مگر آج با وجوداس بات کے کہ وہ تمہارے پہلو میں رہتے ہیں تمہیں کوئی پریشانی نہیں.تمہیں کوئی تکلیف اور بے چینی نہیں بلکہ آج تو تمہیں اُن کی اتنی بھی پرواہ نہیں جتنی سُوکھے ہوئے پتہ کی ہوتی ہے اور جو راہ کی چلتے ہوئے پاؤں کے نیچے آ جاتا ہے مگر مجھے تعجب ہے بعض لوگ آجکل بھی مجھے اس قسم کے خط لکھتے رہتے ہیں کہ مصری صاحب نے مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے اور جماعت کے لوگ اس کتاب کو پڑھتے ہیں.انہیں اس کتاب کے پڑھنے سے روکا جائے حالانکہ
خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۹ء یہ بیوقوفی کی بات ہے.مجھے مصری صاحب سے جو اختلاف تھا وہ یہ تھا کہ وہ گالیاں دیتے تھے.اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرتے تھے اور لڑائی جھگڑا پیدا کرنے کے ذرائع ڈھونڈتے تھے اور یہ بات ایسی ہے جسے کوئی شریف انسان برداشت نہیں کر سکتا لیکن اگر ان کا اختلاف اسی حد تک رہے کہ وہ اپنی باتیں سنائیں اور ان کے دلائل پیش کریں تو وہ دلائل اگر صحیح ہوں گے تو نہ صرف میں ان کو تسلیم کروں گا بلکہ میں جماعت کے دوستوں سے بھی کہوں گا کہ وہ ان کی باتوں کو مان لی لیں اور اگر وہ دلائل غلط ہیں تو ان کا سلسلہ پر اثر ہی کیا ہو سکتا ہے.بہر حال کسی کتاب کے پڑھنے سے دوسرے کو روکنا اتنی بڑی نادانی ہے کہ اس سے بڑی نادانی اور کوئی نہیں ہو سکتی.اگر مصری صاحب نے کوئی سچائی پیش کی ہے تو اس کو ماننا تمہارا بھی فرض ہے اور میرا بھی اور اگر وہ جھوٹ ہے تو اس کو رڈ کرنے کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ یا مجھے کیا پڑی ہے کہ میں اس کے پڑھنے سے لوگوں کو روکوں.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سچائی میرے پاس ہو اور دلائل دوسرے کے پاس ہوں اور اگر ایسا ہی ہو تو اللہ تعالیٰ پر یہ شدید ترین الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ سچائی کے لئے دلائل مہیا نہیں کرتا.پس اگر مصری صاحب نے جو باتیں پیش کی ہیں وہ سچی ہیں تو پھر اُن کے پڑھنے سے لوگوں کو روکنا بہت بڑا گناہ ہے اور اگر ہم روکیں تو قیامت کے دن یقیناً ہم ایسی حالت میں اُٹھائے جائیں گے کہ ہمارا منہ کالا ہو گا اور خدا کے حضور ہم لعنتی قرار پائیں گے لیکن اگر وہ جھوٹ ہے تو کی پھر مٹی کے شیر سے ڈرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے.بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی بزدل ہوسکتا ہے جس کے کمرہ میں مٹی کا شیر پڑا ہوا ہو اور وہ اُسے دیکھتے ہی باہر نکل جائے اور دوسروں کو بھی نکال دے اور کہے کہ جلدی چلو یہاں کمرے میں ایک شیر ہے کہیں وہ پھاڑ نہ ڈالے.پس جبکہ میرے نزدیک اس کی حیثیت ایک مٹی کے بے جان بُت سے زیادہ نہیں تو میں لوگوں کو اس سے روک کر بیوقوف کیوں بنوں.میرے نزدیک تو ان کے دلائل اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتے.محض ان کی بناوٹ اور کستانی ہے بلکہ میں تو اس کتاب کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ خود اس کا جواب دوں.بالخصوص اس لئے کہ یہ مضمون ایسا ہے جس کے متعلق میں اب تک خاموش رہا ہوں.ہاں جماعت کے بعض اور دوست جو اس معاملہ میں جوش رکھتے ہیں وہ اگر چاہیں تو جواب
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء دے سکتے ہیں.مجھے ضرورت نہیں کہ میں اس کا جواب دوں.باقی اس پیشگوئی کے متعلق میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی کسی مامور کے متعلق نہیں بلکہ غیر مامور کے متعلق ہے اور جب یہ پیشگوئی مامور کے متعلق نہیں تو ایک غیر مامور کو بولنے اور دعویٰ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ دعویٰ ہمیشہ وہاں کیا جاتا ہے جہاں پیشگوئی مامور کے متعلق ہو مگر جب غیر مامور کے متعلق ہو تو اس کے متعلق دعوی کرنا ضروری نہیں ہوتا.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریل کے متعلق پیشگوئی کی.اب کیا یہ ضروری ہے کہ ریل خود بول کر کہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کی مصداق ہوں؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس بارے میں ریل کا بولنا ضروری نہیں بلکہ ریل اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی میں آگئی تو اس پیشگوئی کی صداقت کے لئے ریل کا وجود ہی کافی دلیل ہے.کسی دعوے کی اس میں ضرورت نہیں.اسی طرح اور کئی ایسی کی پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو باوجود اس کے کہ واقعی طور پر بعض لوگوں پر چسپاں ہوتی ہیں مگر اس کی بارے میں ان کو دعوی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.بیشک کئی پیشگوئیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن میں دعویٰ کرنا ضروری ہوتا ہے مگر وہ پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں جن کے لئے کسی دعوئی کی ضرورت نہیں ہوتی اور میرے نزدیک مصلح موعود کی پیشگوئی چونکہ مامور کے متعلق نہیں بلکہ غیر مامور کے متعلق ہے.اس لئے وہ ان پیشگوئیوں میں داخل ہی نہیں جن میں کسی دعوی کی ضرورت ہو.میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ پیشگوئی مجھ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی پیشگوئی کسی مامور کے متعلق نہ ہو تو اس میں دعویٰ کی ضرورت نہیں ہوتی.ہر شخص علامات کو کی دیکھ کر خود بخود اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ پیشگوئی دوسرے پر چسپاں ہوتی ہے یا نہیں.مثلاً اگر مجھ پر تمام علامات چسپاں ہو رہی ہوں اور جس قدر نشانات مصلح موعود کے بتائے گئے ہیں وہ سب مجھ پر پورے ہو رہے ہوں تو مصری خواہ لاکھوں کروڑوں ہو جائیں اور یہ کہہ کر سر پیٹتے رہیں کہ مصلح موعود کی پیشگوئی مجھ پر چسپاں نہیں ہوتی تو ان کا کچھ نہیں بنے گا.ہر شخص جو واقعات کو دیکھے گا وہ خود بخود یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگا کہ جب تمام علامات ایک شخص کے وجود میں پوری ہو گئیں تو وہ کیوں مصلح موعود نہیں؟ اور اگر مصلح موعود کی جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ مجھ میں کی
خطبات محمود ۳۰۷ سال ۱۹۳۹ء نظر نہ آئیں تو خواہ جماعت مجھے مصلح موعود قرار دے دے میں مصلح موعود نہیں بن سکتا.لوگ کہیں گے جب علامات پوری نہیں ہوئیں تو مصلح موعود کس طرح ہو گئے.مثلا مصلح موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو علامات بتا ئیں ہیں اُن میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا ، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا“ اور ” قو میں اُس سے برکت پائیں گی.“ اب اگر یہ علامات میرے متعلق نہیں تو کسی کو کچھ لکھنے کی کیا ضرورت ہے.جب قو میں مجھ سے برکت نہیں پائیں گی ، جب میں اسیروں کی رستگاری کا موجب نہیں ہوں گا اور جب میں زمین کے کناروں تک شہرت نہیں پاؤں گا تو لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں کے کہ میں مصلح موعود نہیں.آخر برکت دینے والا خدا ہے نہ کہ میں یا مصری صاحب.پس جبکہ خدا میرے ذریعہ دُنیا کی اقوام کو برکت نہیں دے گا تو لوگوں کے لئے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا اور وہ سمجھ جائیں گے کہ میرے متعلق یہ کہنا کہ میں مصلح موعود ہوں درست نہیں لیکن اگر قوموں نے مجھ سے برکت پالی، اگر زمین کے کناروں تک میں شہرت پا گیا اور اگر میں اسیروں کی رستگاری کا موجب بن گیا تو اس کے بعد بھی اگر کوئی میرے متعلق اس پیشگوئی کی صداقت سے انکار کرے گا تو اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بزدل شخص کسی لڑائی میں شامل ہو گیا.اتفاقاً ایک تیر اُس کی پنڈلی میں آلگا اور خون بہنے لگ گیا.وہ یہ دیکھتے ہی میدانِ جنگ سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے ایک طرف تو اپنے زخم کا خون پونچھتا جاتا تھا اور دوسری طرف کہتا جا تا تھا کہ یا اللہ یہ خواب ہی ہو، یا اللہ یہ خواب ہی ہو.کیسی حماقت ہے ایک واقعہ موجود ہے، تیر لگا ہوا ہے، درد ہو رہا ہے، خون بہہ رہا ہے اور زبان سے کہتا جا رہا ہے کہ یا اللہ یہ خواب ہی ہو.اسی طرح اگر خدا نے میرے ذریعہ دُنیا کی مختلف اقوام کو برکت دے دی ، اگر خدا نے مجھے اسیروں کی کی رستگاری کا موجب بنا دیا اور اگر خدا نے مجھے اسلام اور احمدیت کی شوکت اور اس کی عظمت قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا تو کوئی لاکھ شور مچاتا رہے کہ یہ صلح موعود نہیں دُنیا اس کی بات کی پر قطعاً کان نہیں دھرے گی اور اگر مجھ میں یہ علامات نہ پائی گئیں تو خواہ میری بیعت میں داخل شد ہ لوگ سب کے سب مجھے مصلح موعود قرار دے دیں میں مصلح موعود نہیں ہوں گا.کیونکہ لوگ کہیں گے کہ تم یہ بتاؤ ہم واقعات کو کہاں چھپا ئیں.اگر علامات پوری نہیں ہوئیں تو ہم کسی کو
خطبات محمود ۳۰۸ سال ۱۹۳۹ء مصلح موعود کس طرح مان لیں؟ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر علامات پوری ہو گئیں اسلام می میرے ذریعہ ترقی کر گیا، غلام میرے ذریعہ آزاد ہو گئے اور احمدیت میرے ذریعہ پھیل گئی تو مصلح موعود کا جو کام تھا جب میں نے وہ کر دیا تو لوگ خواہ انکار کریں میں بہر حال مصلح موعود ہوں گا کیونکہ ہمیں کام سے غرض ہے نہ کہ نام سے تم کوئی نام رکھویا نہ رکھو مگر حقیقت یہی ہے کہ جس کے ذریعہ تو میں برکت پائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو دُنیا کے اکناف تک پھیلائے گا اور جو غلاموں کو آزاد کرے گا وہی مصلح موعود ہو گا.چاہے لوگ اُسے مصلح موعود کہیں یا نہ کہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجتہادی غلطیوں کو پیش کرنا نادانی ہے.میں کہتا ہوں دس ہزار اجتہادی غلطیاں بھی اگر تم نکال لو تو وہ اس نشان میں حارج نہیں ہوسکتیں کیونکہ اصل چیز نام نہیں بلکہ کام ہے اور اصل چیز احمدیت کی فتح اور اسلام کا غلبہ ہے.یہی کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اور یہی کام میرا ہے.اگر قومیں مجھ سے برکت پا جائیں، غلام آزاد ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام دُنیا کے کناروں تک پہنچ جائے تو پھر کسی اور بحث کا کرنا بالکل فضول اور لغو ہو گا.پس میرے نزدیک تو اس کتاب کی کوئی وقعت ہی نہیں لیکن چونکہ ہماری جماعت کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کتاب کے پڑھنے سے روکا جائے اس لئے میں کہتا ہوں کہ کیوں روکا جائے؟ میں نے تو عیسائیوں اور آریوں کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور ان سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ مجھ پر اسلام کی خوبیاں عیسائیوں اور آریوں کی کتابیں پڑھ کر ہی ثابت ہوئیں.میں نے جب غیر مذاہب کی کتابوں کو پڑھا اور میں نے اُن کے نقائص اور کمزوریوں کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کتابوں کے مصنف کس قدر تقویٰ سے دُور تھے اور کس طرح کی خلاف عقل باتیں وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے.اس کے مقابلہ میں جب میں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ اس کی ہر بات عقل کے مطابق ہے اور اس نے ہر مقام پر تقویٰ کی اور خشیت الہی پر زور دیا ہے.پس میرا ایمان اس فرق کو دیکھ کر جو اسلامی اور غیر اسلامی کتابوں کی میں پایا جاتا ہے گزوں نہیں ، قدموں نہیں بلکہ میلوں میل بڑھ گیا اور بڑی تیزی سے بڑھا.پس وہ شخص جس کے دل میں ایمان ہے اور جو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی طاقت رکھتا.ہے
خطبات محمود ۳۰۹ سال ۱۹۳۹ء وہ تو جب بھی مصری صاحب کی کتاب کو پڑھے گا اس کی خلاف تقوی باتیں دیکھ کر اس کا مجھ ایمان ترقی کر جائے گا اور اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کے دل میں ایمانی کمزوری پائی جاتی ہے تو ایسا شخص اگر گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی میرے اختیار سے باہر ہے.ایسے لوگوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا ہے اگر وہ قرآن کو پڑھیں گے تو قرآن پڑھ کر بھی گمراہ ہی ہوں گے.مصری صاحب کی کتاب کی تو حیثیت ہی کیا ہے.پس وہ شخص جس کے اندر مرض ہو اس کے متعلق قرآن کریم کی یہ شہادت ہے کہ اس کی بیماری کو قرآن کریم بھی بڑھا دیتا ہے، کم نہیں کرتا.اب اگر ایسے لوگ ہوں تو کیا میں انہیں کہہ سکتا ہوں کہ تم قرآن کریم نہ پڑھا کرو؟ اگر وہی بات درست ہے جو ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے تو انہیں چاہئے کہ جب قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ میرے پڑھنے سے بعض لوگ بجائے ہدایت پانے کے گمراہ ہو جاتے ہیں تو وہ لوگوں کو قرآن پڑھنے سے بھی روکا کریں.مگر کیا وہ روک سکتے ہیں ؟ یا میں کسی کو حکم دے کر کہہ سکتا ہوں کہ تم قرآن نہ پڑھا کرو؟ چاہے کوئی کتنا ہی ایمان سے کورا ہو میں تو اُسے یہی کہوں گا کہ تم قرآن پڑھو کیونکہ اگر آج نہیں تو شاید کل قرآن تمہاری ہدایت کا موجب ہو جائے.مگر قرآن بہر حال یہی کہتا ہے کہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا.قرآن پڑھنے سے بھی بجائے اس کے کہ بعض لوگوں کے ایمان تازہ ہوں ان کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اس کے مذہب سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.ایسے انسانوں کا کوئی علاج ہے ہی نہیں.کی وہ مصری صاحب کی کتاب کیا وہ تو قرآن بھی پڑھیں گے تو گمراہ ہوں گے.پس یہ خیال کر لینا کہ ہماری طرف سے لوگوں کو اس کتاب کے پڑھنے سے روکا جانا چاہئے بالکل غلط ہے.ہم لوگوں کو اس کتاب کے پڑھنے سے ہرگز روک نہیں سکتے بلکہ میرے نزدیک جہاں تک دینی تحقیق کا تعلق ہو لوگوں کو اپنے عقیدہ اور اپنے مذہب کے خلاف لکھی ہوئی کتابوں کے پڑھنے سے روکنا سخت ظالمانہ فعل ہے.ہر شخص کلی طور پر آزاد ہے اور وہ اس امر کا اختیار رکھتا ہے کہ دینی معاملات میں اس کی تحقیق اُسے جس نتیجہ پر پہنچاتی ہے اس پر پہنچ جائے.میں جس چیز پر ناراض ہوتا ہوں وہ یہ ہے کہ منافقت دکھائی جائے اور دل میں کوئی عقیدہ رکھا جائے اور ظاہر کچھ کیا جائے.ورنہ تحقیق تو میں اپنے لئے بھی ضروری سمجھتا ہوں اور دوسروں کے لئے بھی.
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء میرے بچے جو جوان ہو گئے ہیں میں ہمیشہ انہیں کہا کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے علاوہ ستیارتھ پر کاشی اور انجیل وغیرہ بھی پڑھا کرو.کیونکہ ان کتابوں کے بغیر تمہیں اسلام کی خوبیوں کا پتہ نہیں لگ سکتا.تو غیروں کا لٹریچر پڑھنا عیب کی بات نہیں بلکہ میں ان لوگوں کو بہت بیوقوف سمجھتا ہوں جو ایسی کتابیں چھپ چھپ کر پڑھتے ہیں کیونکہ جو شخص کسی دوسرے کو تحقیق سے روکتا ہے وہ اپنے جھوٹے ہونے کا آپ اقرار کرتا ہے.ہاں ہمارا یہ حق ہے کہ اگر کسی نے کوئی تحقیق کر لی ہے اور کی وہ تحقیق ہماری تحقیق اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے تو ہم اس سے یہ مطالبہ کریں کہ اب تم ہمارے اندر شامل نہ رہو بلکہ تم الگ ہو کر اعلان کر دو کہ مجھ پر فلاں مذہب یا فلاں عقیدہ کی صداقت کھل گئی ہے اور اب میں بجائے پہلے عقیدہ کے فلاں عقیدہ اختیار کرتا ہوں.اگر کوئی اس طرح کر دے تو بات ختم ہو جاتی ہے اور کوئی جھگڑا باقی نہیں رہتا مگر جب کوئی ہمارے اندر شامل رہ کر ہم میں فتنہ پیدا کرتا اور بظاہر تو وہ ہمارے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر اندرونی کی طور پر وہ کسی اور مذہب اور کسی اور عقیدے کا قائل ہوتا ہے تو چونکہ اس قسم کی باتیں نظام کو تہ و بالات کر دیا کرتی ہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کریں اور اس کی اصل شکل میں اسے بے نقاب کر دیں.بہر حال ہماری جماعت چونکہ خلافت کے نظام میں منسلک ہے اس لئے جب بھی کوئی فتنہ اُٹھا تو گو بظاہر اس کی شکل نہایت ہیبت ناک تھی مگر تھوڑے ہی کی عرصہ کے بعد اس کا نام و نشان مٹ گیا اور یہ سب اس نظام کی برکت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں قائم ہے مگر پھر بھی عملی طور پر ہماری جماعت میں ابھی کئی قسم کی کمزوریاں نی پائی جاتی ہیں.کئی کمزور لوگ ہیں جو قر بانیوں میں پورے طور پر حصہ نہیں لے رہے، کئی اُن مشکلات کو برداشت نہیں کر سکتے جو خدا تعالیٰ کے راستہ میں پیش آتی ہیں اور کئی عدم استقلال کی کچ وجہ سے چند دن نیکی کے کاموں کی طرف توجہ کرتے اور پھر ان کو بھلا کر بیٹھ رہتے ہیں اور یہی وہ کی باتیں ہیں جن کی ہماری جماعت کو فکر کرنی چاہئے.میں دیکھتا ہوں بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر ہماری جماعت کے بعض دوستوں کا قدم انہی باتوں میں آ کر پھسل جاتا ہے اور وہ استقلال کا مظاہرہ نہیں کر سکتے.نیشنل لیگ کا ہی قادیان میں پہلے چھ سو ممبر ہوا کرتا تھا مگر اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس کے ممبر صرف ۴۶ ہیں.اب گجا چھ سو اور گجا چھیالیس.کیا ان دونوں میں
خطبات محمود ۳۱۱ سال ۱۹۳۹ء کوئی بھی نسبت ہے؟ اور پھر یہ کتنی بے استقلالی کی بات ہے کہ ایک وقت تو نیشنل لیگ کے قادیان میں چھ سو ممبر ہوں اور دوسرے وقت صرف چھیالیس ممبر رہ جائیں.حالانکہ دوسری قوموں میں آجکل یہ تحریکیں بڑھ رہی اور زور پکڑ رہی ہیں.خاکسار آج سے چند سال پہلے صرف دو ہزار ہوا کرتے تھے مگر اب تمیں چالیس ہزار کے قریب ہیں مگر ہماری نیشنل لیگ کے ممبر چھ سو سے چھیالیس رہ گئے.یہ کتنی خطرناک بات ہے اور اس کی موجودگی میں ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ کہ ہم ایک زندہ جماعت ہیں.حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ اگر نیشنل لیگ کے پہلے چھ سو ممبر تھے تو اب اس کے ممبر چھ ہزار یا بارہ ہزار ہوتے.اس کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ قائم ہوئی.وہ اب تک اچھا کام کر رہی ہے مگر اس کی زندگی ابھی بہت تھوڑی ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل میں اس کا کیا حال ہوگا.میں نے دیکھا ہے لوگوں میں یہ ایک مرض پیدا ہو گیا ہے کہ جس کام پر خلیفہ کا حج ہاتھ رہتا ہے اس کام کی طرف وہ خوب توجہ کرتے رہتے ہیں مگر جو نہی خلیفہ اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا ہے لوگوں کا جوش بھی سرد پڑ جاتا ہے اور ان پر غفلت طاری ہو جاتی ہے حالانکہ خلافت کا وجو د تو خدا تعالیٰ نے بطور محور رکھا ہے.اب کون سا وہ خلیفہ ہوسکتا ہے جو ہر کام کرے.ابھی تو ہماری جماعت بہت قلیل ہے مگر جوں جوں ہماری جماعت ترقی کرے گی کاموں میں بھی زیادتی ہوتی چلی جائے گی.ابھی تو ہمارے پاس نہ حکومت ہے، نہ تجارت ہے، نہ یونیورسٹیاں ہیں، نہ علمی ادارے ہیں اور نہ کوئی اور چیز ہے مگر جب یہ تمام چیزیں آ گئیں تو اس وقت ہمارے کام کا دائرہ اتنا وسیع ہو جائے گا کہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے لائق آدمیوں کی ضرورت ہوگی جن کا یہ فرض ہو گا کہ وہ دن رات اپنے کاموں میں مشغول رہیں.اگر وہ خود کام نہیں کریں گے اور اپنا فرض صرف یہی سمجھیں گے کہ جس کام کی طرف خلیفہ توجہ دلاتا ر ہے اسے کرتے رہیں کی اور جس کام کی طرف وہ توجہ دلانا چھوڑ دے اسے ترک کر دیں تو جماعت کی ترقی کس طرح کی ہوگی ؟ پس ضروری ہے کہ جماعت میں ابھی سے بیداری پیدا ہو اور وہ یہ غور کرنے کی عادت ڈالے کہ جو کام وہ کر رہی ہے وہ اچھا ہے یا نہیں اور جب اسے معلوم ہو کہ وہ اچھا ہے اور خلیفہ نے بھی ایک آدھ دفعہ اس کی طرف توجہ دلا دی ہے تو پھر وہ اس کام کو چھوڑے نہیں بلکہ مستقل طور پر اسے اپنی زندگی کے پروگرام میں شامل کر لے کیونکہ اس کے بغیر ترقی ہونا ناممکن ہے.پس ج
خطبات محمود ۳۱۲ سال ۱۹۳۹ء ہماری جماعت کو یہ عادت ترک کرنی چاہئے کہ جب تک خلیفہ کسی کام میں ہاتھ نہیں ڈالے گا اُسے وہ نہیں کرے گی.خلیفہ کا کام صرف توجہ دلانا اور نگرانی کرنا ہے آگے جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے اور اس مضبوطی اور استقلال سے ان کو چلائے کہ پھر ان کو کی چھوڑے نہیں.پس جماعت کے دوستوں کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہئے اور اس دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے جب کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں وسعت برکات حاصل ہوگی اور ایک ایک کام کے لئے ہمیں ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہوگی جو دن رات ان کاموں پر لگے رہیں.تم آج ہی ان اہم ذمہ داریوں کے کاموں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو اور اس بات کا انتظار نہ کیا کرو کہ ہر کام کے کرنے کا تمہیں خلیفہ کی طرف سے حکم ملے.یہ محض نمائش ہے کہ جب تک تمہارا سردار جس کی تم نے بیعت کی ہوئی ہے تمہیں توجہ دلاتا رہتا ہے تم کام کرتے رہتے ہو اور جب اس کی توجہ کسی اور کام کی طرف مبذول ہو جاتی ہے تو تم کام سے غافل ہو جاتے ہو.یہ ایک خطر ناک مرض ہے جس کو دور کرنے کی طرف ہماری جماعت کو توجہ کرنی چاہئے اور اس زمانہ میں جو عظیم الشان تغیرات کا حامل ہے بجائے زبانی باتوں کے عملی کام کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.تم اس بات کی کبھی پرواہ نہ کیا کرو کہ اگر ہم میں سے چند لوگ نکل گئے تو کیا ہوگا؟ عملی جد و جہد کو تیز کرنے اور تنظیم کو برقرار رکھنے کے لئے ایک دو نہیں اگر ہزاروں کو بھی جماعت سے نکالنا پڑے تو تم کبھی مغموم نہ ہو بلکہ خوش ہو کہ خدا نے ایک گندے عضو کو کاٹ کر الگ کر دیا.تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی ڈاکٹر کسی کے پھوڑے کو چیرے اور اس میں سے پیپ نکالے اور مریض ناراض ہو.وہ ناراض نہیں بلکہ خوش ہوتا اور ڈاکٹر کو فیس دیتا اور ہمیشہ اس کا ممنونِ احسان رہتا ہے.پس استقلال اور ہمت سے کام کرو اور سستی اور غفلت سے بچو.دُنیا میں عظیم الشان تغیرات کے دن قریب آ رہے ہیں.پس اس دن کے آنے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کرو اور کوشش کرو کہ جس دن دُنیا اپنے حصے بانٹنے کی کوشش میں ہو گی تم اس دن سب سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لے کر لوٹو - اللهم امین ( الفضل ۲ اگست ۱۹۳۹ ء ) اٹیکرا: ڈھیر.انبار البقرة : ٢٧
خطبات محمود ۲۱ سال ۱۹۳۹ء انسان کی قلیل زندگی اور عظیم الشان ذمہ داری (فرموده ۱۴ / جولائی ۱۹۳۹ ء لوئر دھرم ساله) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ کے قانون میں ہمیں ہر جگہ ایک بیداری نظر آتی ہے صرف انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جس میں سستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور اس پر اگر ہوشیار بھی ہوتا ہے تو دورے آتے رہتے ہیں.اس کے خلاف ہم دیکھتے ہیں چاند ہے، سورج ہے،ستارے ہیں ، درخت ہیں، پودے ہیں، جھاڑیاں ہیں ان چیزوں کے کاموں میں یا اور ہزاروں اور لاکھوں چیزیں ہیں، ان کے کاموں میں کبھی غفلت نہیں آتی.انسان کی زندگی دنیا کے مقابلہ میں کتنی حقیر ہے دنیا کی کی پیدائش کا اندازہ اربوں سال کا لگایا گیا ہے.اربوں سال کے مقابل انسان کی ساٹھ ستر سال کی زندگی کیا حقیقت رکھتی ہے بلکہ ہمارے ملک میں تو ستائیس سال کی اوسط نکلتی ہے بعض ملکوں میں چالیس ہے اور بعض میں پینتالیس ہے.اربوں سال کے مقابلہ میں ساٹھ ستر کیا چیز ہے پھر کی بچپن کی عمر ایک چوتھائی کے قریب اس میں سے نکل جاتی ہے اور ایک تہائی حصہ عمر کا سونے میں گزر جاتا ہے پھر چھ سات سال کھانے پینے وغیرہ حوائج میں نکل گئے.گویا بڑی سے بڑی عمر پانے والوں کو تمیں سال کا عرصہ کام والا ملتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ پچپن سال پر پنشن ے دیتی ہے تو اس کے بعد کی عمر تو گنی نہیں چاہئے.گویا بچھپیں سال اور نکل گئے اور عمر کے کام کرنے والے حصہ سے بھی دس سال نکل کر کام کا عرصہ پندرہ بیس سال کا رہ گیا مگر اس میں
خطبات محمود ۳۱۴ سال ۱۹۳۹ء یہ کتنی دفعہ غلطیاں کرتا ہے ، فرائض چھوڑتا ہے، غفلت سے کام لیتا ہے اور دو چار سال گزرتے کی ہیں تو کہتا ہے میں کتنے عرصہ سے کام کر رہا ہوں اب مجھے آرام کرنا چاہئے حالانکہ دوسری چیزوں کے مقابل پر جن کو یہ خادم قرار دیتا ہے اس کا عمل کتنا حقیر ہوتا ہے.اگر انسانی عمل کو فوقیت دی جاتی ہے تو اس لحاظ سے کہ اس کا عقل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے مگر بیسیوں دفعہ یہ کام کوٹلا دیتا ہے.کبھی وقت پر حاضر نہیں ہوتا، کبھی اس وقت میں دوسرے کام کرنے لگ پڑتا ہے.اگر اس غفلت کے زمانہ کو نکال دیا جائے تو در حقیقت پانچ چھ سال کا زمانہ کام والا نکلتا ہے باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن یہ قدر نہیں کرتا.میں سمجھتا ہوں کہ انسان کو جو اتنی چھوٹی عمر دی گئی ہے تو یہ اس پر احسان کیا گیا ہے کہ اتنے لمبے عرصہ تک اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتا اور اس کی کمر اس بوجھ سے ٹوٹ جائے گی حالانکہ دوسرے جانوروں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں.امریکہ میں ایک کچھوا ہے جس کی عمر سینکڑوں سال سے زیادہ ہے اور اب تک وہ زندہ ہے.کہتے ہیں بعض کچھووں کی عمر عموماً ہزار ہزار سال ہوتی ہے اور بے جان چیزوں کی عمر کا کی تو ٹھکا نہ ہی نہیں.تو انسان کو اپنے اعمال میں ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کے ذمہ اہم کام ہیں پھر کھانے پینے سونے میں عمر کا بہت سا حصہ صرف ہو جاتا ہے، ایک حصہ بچپن کا ضائع ہو جاتا ہے اور ایک حصہ بڑھاپے کا.گو یا مثال کے مکئی کے پودے کی سی ہے کہ اس کا اوپر کا حصہ بھی رڈی ہوتا ہے اور نچلا حصہ بھی رڈی ہو جاتا ہے اور بیچ میں چند دانے ہوتے ہیں اور اسی طرح درمیان میں انسان کے لئے کام کا وقت آتا ہے اگر اس میں بھی وہ کام نہ کرے تو کتنے افسوس کی بات ہے جب کام کا وقت نکل گیا تو سوائے پچھتانے کے اور کیا ہو سکتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ اس عرصہ میں کام کرتا ہے تو بہت عظیم الشان کام کر لیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳ سال عمر پائی ہے لے جو کہ زیادہ نہیں.ہر زمانہ میں سو سوا سو سال کی عمر پانے والے سینکڑوں لوگ پائے جاتے ہیں اور میں نے احمدیوں میں بھی کئی ایسے دیکھے ہیں.اس لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نصف کے قریب بنتی ہے مگر آپ نے اس تھوڑے سے عرصہ میں وہ عظیم الشان کام کیا جس کی نظیر نہیں پائی جاتی آپ عظیم الشان اس لحاظ سے تھے کہ آپ نے سمجھا کہ میرے ذمہ عظیم الشان کام ہے
خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۹ء آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بلغ ما انزل الیک سے اور کسی کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ کھڑے ہو گئے دنیا کے بدترین ظلم جو ہو سکتے تھے آپ پر اور آپ کے صحابہ پر توڑے گئے قریب ترین احساسات ماں باپ کے ہوتے ہیں.ایک صحابی جن کی عمر پندرہ سولہ سال کی تھی کی اکلوتے بیٹے تھے جب ایمان لائے اور ان کی ماں کو پتہ چلا تو وہ روئی بیٹی اور برتن تو ڑ دیئے اور کی ان کے کھانے کے برتن الگ کر دیئے کہ تمہیں کھانا الگ ملا کرے گا اور کہا کہ میں تمہاری شکل سے بیزار ہوں تم نے ہماری ناک کاٹ دی ہے اور پھر بھی جب اثر نہ ہوا تو انہیں کہا کہ گھر نہ آیا کرو اس پر انہوں نے ماں سے کہا گو مجھے آپ سے محبت ہے لیکن حق کے مقابل پر اس کی کوئی حقیقت نہیں پھر کئی سال باہر رہنے کے بعد واپس آئے لیکن ماں نے پھر بھی یہی کہا کہ میں تب گھر آنے دوں گی جب تم اسلام چھوڑ دو گے اس پر پھر وہ چلے گئے اور پھر ماں کو دیکھنا نصیب نہیں ہوا سے لیکن اس زمانہ میں جو ہوتا ہے اس کو دیکھو.ہماری جماعت میں معمولی کام کو بڑا کام اور معمولی تکلیف کو بڑی تکلیف سمجھنے لگ پڑتے ہیں.ایک دفعہ قادیان میں کچھ فساد ہوا اور میں نے تحقیق کے لئے ایک دوست کو جو کمہار ہیں ایک بات دریافت کرنے کے لئے بلایا.اُنہوں نے سمجھا کہ میں گھبرا گیا ہوں اور مجھے تسلی دینے کے لئے کہا کہ یہ واقعہ کیا چیز ہے اس سے بہت بڑھ کر مصیبتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہم پر آئی ہیں.ایک دفعہ ہم تالاب کی سے مٹی اُٹھا رہے تھے کہ مرزا نظام الدین صاحب آئے اور کہا کہ کون ہماری اجازت کے بغیر مٹی اُٹھا رہا ہے؟ ان کو دیکھ کر سب لوگ بھاگ گئے اور صرف میں ہی اکیلا وہاں رہ گیا.میں کی نے دُعا کی یا اللہ یہ ایسا ہی وقت ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غار ثور میں آیا تھا.اس طرح وہ مجھے تسلی دے رہے تھے حالانکہ یہ ان کے نفس کی بزدلی تھی.میں حیران تھا کہ اس شخص نے کتنے معمولی سے واقعہ کو غار ثور جیسے عظیم الشان واقعہ سے تشبیہ دی ہے.غرض یہ حالت ہے اس زمانہ کے لوگوں کی کہ چھوٹی چھوٹی ذمہ داری کے کاموں سے گھبرا جاتے ہیں.ریلوں وغیرہ سے آرام کی وجہ سے بجائے شکریہ میں بڑھنے کے غفلت میں ترقی ہو رہی ہے اور کام میں بڑھنے کی بجائے اس کی مقدار اور اس کا معیار کم ہو رہا ہے اور کھانے پینے کی چیزوں میں زیادتی کے ساتھ غفلت میں بھی زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے اور انسان کو فاقہ رہنے کی مشق
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کم ہورہی ہے.ان کی زندگی وحوش کی سی ہے بلکہ وحوش کی زندگی ان سے اچھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن هُم اِلَّا الأَنْعَامِ بَلْ هُمُ آل انسان چوری کرتا ہے کسی کا مال اُٹھا کی کرلے جاتا ہے تو یہ فعل بُراسمجھا جاتا ہے لیکن ایک گتا اُٹھا کر لے جائے تو یہ فعل اس کے لئے بُرای نہیں کیونکہ وہ اس قانون کا پابند نہیں جس کا انسان پابند ہے.وحوش بھی کسی قانون کے ماتحت ہیں اور جو باتیں ان کی سرشت میں ودیعت کی گئی ہیں وہ ان کی پابندی کرتے ہوئے جان تک دے دیتے ہیں.ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ آبادی سے دُور جنگل میں رہتے تھے.ان کو کی اسی جنگل میں ہمیشہ کھانا پہنچ جایا کرتا تھا.ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے کچھ آزمائش کی اور ان کو تین کی دن تک کھانا نہ آیا.اس پر گھبرا کر وہ شہر کی طرف چل پڑے اور ایک دوست کے مکان پر پہنچے ؟ جس نے تین روٹیاں اور سالن دیا.وہ لے کر پھر جنگل کی طرف چل پڑے.شاید روزہ ہوگا اور روزہ کھول کر کھانا کھانا ہوگا.کھانا دینے والے کا کتا بھی ساتھ چل پڑا.اُنہوں نے دیکھا تو ایک روٹی اور تہائی سالن اُسے ڈال دیا کہ اس کا بھی حق ہے.وہ کھا کر پھر پیچھے چل پڑا.اُنہوں نے پھر بقیہ کا نصف اسے ڈال دیا.وہ پھر کھا کر پیچھے ہولیا.اس پر انہوں نے غصہ سے کہا کہ کیسا بے شرم ہے تین میں سے دو روٹیاں اس کے آگے ڈال چکا ہوں پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا.ان الفاظ کا ان کے منہ سے نکلنا تھا کہ معاً اُنہوں نے کشفی حالت میں گتے کو دیکھا کہ سامنے کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بے شرم میں ہوں کہ تم ہو؟ میں لمبے عرصہ سے اپنے مالک کے دروازہ پر پڑا ہوں اور بعض اوقات سات سات روز تک مجھے فاقے پر فاقے آتے ہیں مگر مجھے خیال تک نہیں آتا کہ اس کا دروازہ چھوڑ کر کسی اور کے دروازے پر چلا جاؤں.ایک تم ہو کہ تین دن کھانا نہیں ملا تو بھاگ کر شہر کی طرف آگئے.اس کشف سے وہ ایسے متاثر ہوئے کہ بقیہ کھانا بھی گننے کے آگے پھینک کر خالی ہاتھ جنگل کی طرف چل پڑے.یہ خدا تعالیٰ نے اس بزرگ کو سمجھانے کے لئے کیا اور وہ سمجھ گئے.واپس گئے تو جیسا اللہ تعالیٰ ان کے لئے پہلے کھانے کا سامان کر دیا کرتا تھا کسی کے دل میں ڈالا اور وہ کھانا لئے ان کا انتظار کر رہا تھا کہ نہ معلوم آج کدھر چلے گئے.سوان جانوروں کے لئے انسانی قانون نہیں مگر جو قانون ان کے لئے مقرر ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں.ان میں وفاداری ہوتی ہے ، جان بھی دے دیتے ہیں.
خطبات محمود ۳۱۷ سال ۱۹۳۹ء اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بل هم اضل فرمایا ہے کہ انسانی زندگی ان جانوروں سے بھی بدتری ہوتی ہے سوائے ان لوگوں کی زندگی کے جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلتے ہیں.انسان اپنی رنگ رلیوں میں لگا رہتا ہے.یہ نہیں سمجھتا کہ اس پر قوم کی کیا ذمہ داری ہے ، ملک کی کیا ذمہ داری ہے اور بحیثیت انسان کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور بحیثیت مخلوق کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ مومن کو سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور بُری عادات چھوڑنی چاہئیں.بیشک ایک دن میں انسان کامل نہیں ہو سکتا لیکن صحیح راستہ پر چل رہا ہو تو ایک نہ ایک دن وہ منزل تک پہنچ ہی جائے گا.پُرانے بزرگوں نے خرگوش اور کچھوے کی مثال بنائی ہے او اس میں ظاہر کیا ہے کہ خرگوش اپنی دوڑ پر ناز کرتے ہوئے منزل سے پہلے سو گیا اور کچھوا آہستہ آہستہ چلتا گیا اور منزلِ مقصود پر پہنچ گیا جس سے ظاہر ہے کہ جب انسان صحیح راستہ پر چل پڑتا ہے تو خواہ اس کی چال ست ہو ایک نہ ایک دن گوہر مقصود اس کو حاصل ہو ہی جاتا ہے لیکن جو شخص صحیح راستہ اختیار نہیں کرتا یا کچھ دیر چل کر غافل ہو جاتا ہے اس کے متعلق کس طرح توقع ہوسکتی ہے کہ وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا.ہرانسان نے مرنا ہے گو ہر انسان خیال یہی کرتا ہے کہ اس پر موت نہیں آئے گی.پیشتر اس کے کہ وہ اٹل گھڑی آ جائے ہمیں اصلاح کی طرف قدم اُٹھانا چاہئے اور اپنے فرائض کو سمجھنا چاہئے اور اُن کی ادائیگی کے لئے پوری طرح کوشاں رہنا چاہئے.“ 66 الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۹ ء ) ا بخارى كتاب المغازى باب وفاة النبي صلى الله عليه وسلم المائده : ۶۸ انساب الاشراف - الجزء التاسع بنو عبدالدار بن قصی (مصعب بن عمیر) صفحه ۴۰۵، ۴۰۶.دارالفکر بیروت لبنان.الطبعة الاولى ١٩٩٦ء الفرقان: ۴۵
خطبات محمود ۳۱۸ ۲۲ سال ۱۹۳۹ء عملی میدان میں فتح حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو کیا کرنا چاہئے (فرموده ۲۸ // جولائی ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- قریباً دو سال ہوئے کہ میں نے اسی موسم کے قریب قریب اس بات پر خطبات بیان کی کئے تھے کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ عقیدہ کے طور پر تو جماعت احمدیہ کو دوسرے مذاہب پر کھلی فضیلت کی حاصل ہو چکی ہے لیکن عملی لحاظ سے ہماری فتح مکمل نہیں ہوئی.میں نے بتایا تھا کہ قریباً قریباً وہ کی تمام عقائد جن کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتو ی لگایا گیا تھا اور جن کی بناء پر جماعت کی مخالفت کی جاتی تھی اب آہستہ آہستہ تعلیم یافتہ طبقہ بلکہ خود علماء کے طبقہ میں رائج ہو رہے ہیں اور وہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے اور لوگ کہتے تھے کہ یہ کفر اور الحاد ہے آج تعلیم یافتہ لوگ اور علماء انہیں ایسی سادگی سے بیان کرتے ہیں کہ گو یا ہمیشہ سے ہی یہ ان میں رائج تھیں.سب سے بڑا عقیدہ جو زیر بحث تھا وہ وفات مسیح کا عقیدہ ہے مگر اب یہ عقیدہ قریباً تمام تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ہے اور علماء سے بھی جب اس پر بحث کرنے کو کہا جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا مان لیا حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے.اسے چھوڑو اور آگے چلو.سیدھے سجاؤ تو ان کے لئے اس کا اقرار مشکل ہے اس لئے وہ ایسی باتوں سے اس کو ٹال دیتے ہیں.
خطبات محمود ۳۱۹ سال ۱۹۳۹ء وہ گھر میں تو آتے ہیں مگر اس دھوبی کی طرح جو روٹھ کر گھر سے گھاٹ پر چلا گیا اور کہہ گیا کہ میں واپس نہیں آؤں گا.شام تک تو وہ انتظار کرتا رہا کہ شائد کوئی منانے آئے گا مگر رشتہ دار بھی اس کے روز روز کے رُوٹھنے سے تنگ آچکے تھے.انہوں نے بھی کہا کہ اب اسے نہیں منائیں گے.شام کو جب سے بھوک لگی اور یہ بھی پریشانی لاحق ہوئی کہ رات کہاں بسر کروں گا ؟ تو اس نے بیل کو چھوڑ دیا اور خود اس کی دُم پکڑ لی.دھوبی کا بیل گھاٹ سے گھر ہی جانے کا کی عادی ہوتا ہے وہ گھر کو چل پڑا اور یہ پیچھے پیچھے اس کی دُم پکڑے ہوئے چلتا گیا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا رہا کہ یار چھوڑ بھی دے میں گھر نہیں جانا چاہتا.زبردستی کیوں لے جا رہا ہے؟ یہی حال ان علماء کا ہے یہ ادھر تو کفر کے فتوے لگا چکے ہوئے ہیں اس لئے اب یہ تو نہیں کہتے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں مگر اس طرح کہتے ہیں کہ اچھا مان لیا وہ فوت ہو گئے یہ کونسی بڑی بات ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر یہ کوئی بات نہ تھی تو کفر کے فتوے لگانے کی کیا ضرورت تھی.اسی طرح عصمت انبیاء کا مسئلہ ہے.اب تم مولویوں سے یہ نہیں سنو گے کہ وہ انبیاء کے گناہوں کی تفصیل بیان کرتے ہوں.یہ شہری علماء کا ذکر ہے کوئی اجڈ مولوی ایسی باتیں کرتا ہو تو یہ علیحدہ بات ہے.اسی طرح اور بہت سے مسائل ہیں مثلاً نسخ قرآن کا مسئلہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام آیات سے استدلال فرمایا ہے جن کو علماء منسوخ کھدہ کی قرار دیتے تھے.آپ نے اس طرح تو بحث نہیں کی کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ نسخ محمدہ ہے یا نہیں مگر آپ نے منسوخ قرار دی جانے والی آیات کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تفاسیر بیان فرما کر بتاتی دیا ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہیں.بلکہ آپ نے بعض دعاوی کی بنیاد انہی آیات پر رکھی ہے جن کو منسوخ قرار دیا جاتا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان اور مصنفین قرآن میں نسخ کا ذکر بھی نہیں کرتے.اسی طرح اور بہت سے مسائل ہیں جن میں مسلمان دوسروں کے مقابلہ میں پیچھے ہٹ رہے تھے اور میدان سے بھاگ رہے تھے مگر اب ان کے پابند ہو گئے ہیں.بعض بڑے عقائد میں سے جن پر مسلمانوں کے عملی اتحاد کی بنیاد سمجھی جاتی تھی خلافت کا مسئلہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ انسانوں کا بنایا ہوا خلیفہ بھی کیا ہے.آخر خود ترکوں نے
خطبات محمود ۳۲۰ سال ۱۹۳۹ء جو خلافت کے محافظ سمجھے جاتے تھے اس کو توڑ دیا.تو عقائد کے میدان میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامل فتح حاصل ہو چکی ہے مگر عملی میدان میں احمدیوں کا وہ رُعب نہیں ہے اور میں نے اس پر متواتر خطبات پڑھے ہیں کہ دوست غور کریں کہ بات کیا ہے؟ پھر جلسہ سالانہ کی تقریروں میں بھی میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور بتایا تھا کہ جب تک ہم عملی قر بانیوں کے ذریعہ شریعت اسلامیہ کو قائم نہیں کرتے اُس وقت تک عملی میدان میں ہمارا رعب قائم نہیں ہوسکتا.زبانی طور پر ہم اسلام کی کتنی خوبیاں بیان کیوں نہ کریں اگر ہم لڑکیوں کو ورثہ میں حصہ نہ دیں تو لوگوں پر کیا اثر ہوسکتا ہے؟ وہ یہی سمجھیں گے کہ یہ ان لوگوں کی زبانی با تیں ہیں.اسی طرح ہم کثرت ازدواج پر خواہ کتنی تقریریں کریں، قرآن و حدیث سے اسے ثابت کریں مگر جب لوگ دیکھیں کہ احمدی جب دوسری شادی کرتے ہیں تو دونوں بیویوں سے انصاف نہیں کرتے.ایک سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور دوسری کو کالمعلقہ چھوڑ دیتے ہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ کہیں گے کہ جب اس پر یہ خود عمل نہیں کرتے تو دوسروں کو کیوں اس کی تلقین کرتے ہیں.حقیقت یہی ہی ہے کہ عملی پہلو کی اہمیت کو جماعت نے ابھی سمجھا نہیں.اگر اسے سمجھتی تو جماعت یقیناً کئی گنا زیادہ ترقی کر جاتی کیونکہ جب عملی خوبیاں اسلام کی لوگوں کو نظر آتیں تو یقینا اس کی طرف ان کی رغبت بڑھ جاتی لیکن اب تو یہ حالت ہے کہ جماعت میں کسی اسلامی تحریک کا جاری کرنا آسان نہیں اور تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے.حتی کہ بعض لوگ تو اس قدر ڈر جاتے ہیں کہ وہ مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اسے جاری نہ کریں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اب تک جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کی نظر ظاہری شان و شوکت سے پُر ہے.ان کے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہے کہ جماعت میں ایک سو دس لوگ شامل ہوں.خواہ ان میں سے زیادہ کمزور ہی ہوں.بجائے اس کے کہ پچاس مخلص ہوں اس لئے وہ ہمیشہ ایسی باتوں سے گریز کرتے ہیں جن سے ان کے خیال میں جماعت میں بعض لوگوں کے کم ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں پچاس مخلص زیادہ قیمتی ہیں ان ایک سو دس کی نسبت جن میں سے ساٹھ غیر مخلص ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بہت اچھی مثال دی ہے.بعض لوگوں نے یہ بات آپ کے سامنے پیش کی کہ آپ اپنی جماعت کو دوسروں سے کیوں ملنے کی اجازت نہیں دیتے.نمازیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء علیحدہ کرنے کا آپ نے حکم دے دیا ہے، رشتے ممنوع کر دیئے ہیں اس طرح تفرقہ پیدا ہوتا ہے جس سے کمزوری واقع ہوتی ہے.جب احمدی دوسرے لوگوں سے میل جول رکھیں گے تو جماعت ترقی کرے گی.آپ نے جواب دیا کہ آپ لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے.اللہ تعالیٰ نے مجھے آسمان سے دودھ دے کر بھیجا ہے.دودھ میں تھوڑی سی بھی لسی ملا دی جائے تو دودھ پھٹ جاتا ہے اور آپ لوگ تو مجھے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ تھوڑے دودھ میں بہت سی کسی ملا دوں.مگر اس نکتہ کو بہت سے لوگ نہیں سمجھتے وہ خیال کرتے ہیں کہ پچاس مخلص تو موجود ہی ہیں اگر ساٹھ اور مل جائیں تو وہ خواہ غیر مخلص ہی ہوں بہر حال اس سے جماعت کا رُعب بڑھے گا اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ساٹھ غیر مخلصوں کے ملنے سے پچاس مخلصوں میں بھی کمزوری آجائے گی اور ان کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہو جائے گا کہ آئندہ نسلیں کمزور ہو جائیں گی.کئی لوگ اخلاص کے ایسے مقام پر ہوتے ہیں کہ ان کا کسی صورت میں گرنے کا اندیشہ نہیں ہوتا.انہیں بے شک کہیں پھینک دو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا وہ بالکل گناہ پروف ہوتے ہیں.جس طرح کپڑا واٹر پروف ہوتا ہے اور اس پر پانی اثر نہیں کرتا اسی طرح بعض مومن گناہ پروف ہوتے ہیں ان کو خواہ گناہ کے سمندر میں پھینک دیا جائے وہ صاف کے صاف نکل آتے ہیں مگر کئی مخلص ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو کی لمبے عرصہ تک غیر مخلصوں میں چھوڑ دیا جائے تو آہستہ آہستہ ان کا ایمان خراب ہو جاتا ہے.وہ جب غیروں سے ملتے ہیں تو ان کا نفس ہوشیار ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم غیروں سے مل رہے ہیں لیکن جب جماعت کا کوئی غیر مخلص ملتا ہے تو وہ ہوشیار نہیں ہوتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنا ہے.اس لئے دل کا دروازہ کھول دیتے ہیں.آدمی جب پانی میں غوطہ لگانے لگتا ہے تو اپنا سانس روک لیتا ہے لیکن جو یہ نہ سمجھتا ہو کہ اسے پانی میں پھینکا جانے لگا ہے مثلاً دشمن اسے پانی کی میں پھینکنے لگیں اور وہ سمجھے کہ مجھے ایک خالی گڑھے میں پھینک رہے ہیں تو اسے ضرور غوطہ آئے گا کیونکہ وہ مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوگا.اسی طرح بعض مخلص جب غیروں سے ملتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم گناہ کے سمندر میں غوطہ لگانے لگے ہیں اس لئے اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں مگر جب ان لوگوں میں ملتے ہیں جن کو وہ اپنا سمجھتے ہیں تو اپنا ناک بند نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو غوطہ آ جاتا ہے، گناہ کا پانی ناک میں پہنچ جاتا ہے اور پھیپھڑوں کو خراب کر دیتا ہے.
خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۳۹ء ترقیات کے دروازے ہمیشہ اللہ تعالی عمل کے ذریعہ کھولتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی فرماتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ لا یعنی جو لوگ متقی ہوتے ہیں اور احکام الہی کی بجا آوری پورے طور پر کرتے ہیں وہی ترقیات حاصل کر سکتے کی ہیں.عملی اچھا نمونہ بلکہ معمولی نمونہ بھی دوسروں پر بڑا رعب قائم کر دیتا ہے.کانگرس کی طرف کی لوگوں کی رغبت قر بانیوں سے ہی ہوئی ہے.لوگوں میں کانگرس کو جو مقبولیت حاصل ہے وہ ان وعظوں کی وجہ سے نہیں جو گاندھی اور بوس کرتے ہیں بلکہ ان قربانیوں کی وجہ سے ہے جو ان کے ماتحت ہزاروں لوگوں نے کیں.لوگ جب ان کی قر بانیوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ہندوستانی ہیں اور ہم بھی.یہ لوگ ملک کے لئے قید و بند کے مصائب جھیل رہے ہیں اس لئے ہمیں ان کی عزت کرنی چاہئے.جب انسان عملی قربانی کرتا ہے تو دوسروں کے لئے اعلیٰ درجہ کا سبق اس میں ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا کسی نے آپ سے کہا کہ انہوں نے گاڑی کا ٹکٹ نہیں لیا تھا.جب میں نے تحریک کی کہ ٹکٹ ضرور لینا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ سر کا ر کا مال کھانا جائز ہے.یہ جو کچھ ہے ہمارے ہی ٹیکسوں سے بنا ہے اور اس لحاظ سے ہمارا اپنا ہی ہے پھر ٹکٹ کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو نصیحت فرمائی کہ یہ درست نہیں اور ایک روپیہ دیا کہ واپس جائیں تو ٹکٹ لے کر جائیں مگر اب میرے پاس گزشتہ دنوں متواتر ایسی شکایات پہنچی ہیں کہ بعض احمدی بغیر ٹکٹ کے ریل میں سفر کرتے ہیں خصوصاً قادیان کے لوگ.ان میں سے بھی قادیان کے تاجر بالخصوص ایسا کرتے ہیں.وہ اپنا مال بغیر محصول کے لے آتے ہیں اور پھر اس میں سے تھوڑی سی کوئی چیز ریلوے کے ملازم کو دے کر بچ جاتے ہیں.مثلاً سبزی لے آئے اور اس میں سے تھوڑی سی با بوکو دے دی اور اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ ہم حلال کھا رہے ہیں.حالانکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ اپنے پیٹوں میں دوزخ کی آگ ڈالتے ہیں تے اگر ان کا یہ رویہ درست ہے تو پھر چور پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.یہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں گزارہ نہیں ہوتا.چور بھی تو یہی کہتا ہے کہ گزارہ نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کے گھروں میں اگر چوری ہو تو ان کی کے اصل کے مطابق وہ ضرور انصاف ہو گا کیونکہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ
خطبات محمود ۳۲۳ سال ۱۹۳۹ء دوسرے کا مال لوٹ لینا نا جائز نہیں.مجھے یاد ہے جب یہاں ریل جاری ہوئی تو جو سر کاری کی ملازم یہاں آتے تھے وہ ایک دو سال تک مجھے خاص طور پر ملنے آتے رہے.کیونکہ نیا نیا اثر تھا اور باوجود یکہ وہ سخت مخالف تھے.لاہور ، امرتسر وغیرہ مقامات پر جا کر وہ اس بات کی تعریف کرتے تھے کہ ہزار ہا لوگوں میں سے ایک بھی بے ٹکٹ نہیں ہوتا.ایک کے متعلق مجھے یاد ہے وہ کچ اب فوت ہو چکا ہے اس نے مجھے چٹھی لکھی کہ فلاں شخص غیر احمدیوں سے مل کر احمدیت پر کی اعتراضات کرتا ہے.اس نے لکھا کہ میں تو اسے جانتا نہیں تھا کہ احمدی ہے.میں نے بعض لوگوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ احمدی ہے.وہ شخص پہلے سلسلہ کا مخالف تھا مگر جلسہ کے کام پر مقرر ہونے کی وجہ سے اس پر ایسا اثر ہوا کہ ایک احمدی کے منہ سے اعتراض سُن کرا سے غیرت آگئی اور اس نے مجھے اطلاع دی کہ فلاں شخص جماعت کو بدنام کرتا ہے.کیونکہ وہ جماعت کی عملی خوبیوں سے متاثر ہو گیا تھا حالانکہ ٹکٹ لے کر سفر کرنا کوئی خاص نیکی نہیں صرف کی بدی سے بچنا ہے.یہ نیکی ایسی ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ کسی شخص کے ہاں کوئی مہمان آیا اس نے اس کی بہت خاطر تواضع کی کئی کھانے پکوائے اور خود اُٹھا اُٹھا کر لاتا اور اسے کھلاتا.نوکروں کو تاکید کی کہ اس کا خاص خیال رکھیں جب وہ اچھی طرح اس کی ج خدمت کر چکا تو جیسا کہ ہمارے ملک میں قاعدہ ہے کہ مہمان سے معذرت کرتے ہیں کہ اچھی طرح خدمت نہیں ہو سکی.کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو معاف کریں.بعض لوگ تو یہ بات تکلف سے کہتے ہیں مگر بعض واقعی اخلاص سے کہتے ہیں.اس نے بھی اپنے مہمان سے یہ بات کہی تو مہمان نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کھانا کھلا کر مجھ پر کوئی احسان کیا ہے؟ اس احسان کی حقیقت اس کی احسان کے مقابلہ میں کچھ نہیں جو میں نے آپ پر کیا ہے.میزبان شریف آدمی تھا اس نے کہا کہ میں تو پہلے ہی آپ سے شرمندہ ہوں لیکن اگر آپ بتا دیں کہ آپ کا کیا احسان ہے تو شکر گزاری کا احساس بڑھ جائے گا.مہمان نے کہا کہ آپ کا مکان اور ساز وسامان دس پندرہ ہزار کا ہو گا.جب آپ میرے لئے کھانا وغیرہ لانے کے لئے اندر جاتے تھے تو میں اگر اسے دیا سلائی لگا کر جلا دیتا تو آپ کیا کر سکتے تھے اور یہ میرا احسان ہے کہ میں نے آپ کا گھر بار جلا نہیں دیا.تو یہ ٹکٹ لے کر سفر کرنا کوئی نیکی نہیں.نیکی تو ایصالِ خیر کا نام ہے.شر سے بچنا تو کی
خطبات محمود ۳۲۴ سال ۱۹۳۹ء ادنی درجہ کی بات ہے مگر ریل کے افسر اس ادنی درجہ کی بات سے اس قدر متاثر تھے گو ان کی تعداد چار پانچ ہی تھی لیکن دوسرے لوگ بھی ان کی باتوں سے یہی اثر قبول کرتے ہوں گے کہ احمدی واقعی اچھے لوگ ہیں مگر اب بعض دکانداروں کے افعال کی وجہ سے یہ نیک نامی بھی جاتی رہے گی اور میں نے سُنا ہے کہ بعض لوگ ٹکٹ تک لے کر نہیں آتے.ایسی کارروائیاں جماعت کی بدنامی کی کا موجب ہیں اور میں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں جنہوں نے ایسے افعال کئے کہ آئندہ پر ہیز کی کریں اور گزشتہ کے لئے تو بہ کریں.تھوڑا سا حرام مال تمام حلال کو خراب کر دیتا ہے خواہ آپ لوگ سال میں دوسو دن تبلیغ کے لئے وقف کر دیں لیکن اگر ایسی باتوں سے پرہیز نہ کریں گے تو تمام کوششیں بے کار ہوں گی.قرآن کریم کا حکم ہے کہ كُلُوا مِنَ الطَّيبي واعملوا صالحا سے اگر رزق طیب نہ ہو تو عمل صالح کی بھی توفیق نہیں ملتی.یہ ذلیل باتیں ہیں ان سے رزق نہیں بڑھتا.ہاں یہ ایمان کو ضرور بگاڑ دیتی ہیں.یہ ذرائع مال کمانے کے نہیں کروڑ پتی اور کی ارب پتی لوگ اس طرح مال جمع نہیں کرتے اور اگر یہ مال بڑھانے کے ذرائع ہوں بھی کی اور کوئی کہے کہ یہ جائز ہیں تو پھر چوری بھی جائز ہے.اگر بعض لوگ یہ کریں کہ ایسے شخص کے گھر کی سے مال نکال لائیں تو اسے اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوگا اور اگر وہ قاضی کے سامنے مقدمہ لے جائے تو اسے یہی کہنا چاہئے کہ آپ نے دوسروں کا مال پھر ایا اور دوسروں نے آپ کا پُھر الیا.مومن کو ہر موقع پر اچھا نمونہ دکھانا چاہئے تا دوسروں پر اثر ہو.اللہ تعالیٰ بھی انہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو جائز ذرائع اختیار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اِنّ الله مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.تم لوگوں پر احسان کرنے والے بنو تو میں تم سے محبت کروں گا.چاہئے کہ لوگوں پر تمہارا احسان ہو.یہ کتنا ظلم ہوگا کہ ایک احمدی خدا تعالیٰ سے محبت کی تو اُمید رکھتا ہو اور ایسی جماعت میں داخل ہو جس میں داخل ہونے سے دُکھ اور تکالیف بڑھتی ہیں مگر عمل یہ ہو کہ اس رستی کو چھوڑ کر جس سے خدا ملتا ہے دوسری طرف لگ جائے.اس قسم کے اخلاق نہایت ادنیٰ ہوتے ہیں اور کفار میں بھی پائے جاتے ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئی بار سُنا ہے کہ ایک انگریز بیرسٹر راٹیکین نام تھا اسے اگر کسی مقدمہ کے دوران میں بحث کرتے کرتے بھی یہ ثابت ہو جاتا کہ جس کا کیس وہ ثابت کر رہا ہے
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۹ء وہ جھوٹا ہے تو اُسی وقت عدالت سے چلا آتا اور اپنے مؤکل سے کہتا کہ آ کر اپنی فیس لے جانا.یہ کوئی نیکی نہ تھی بلکہ انسانیت کا یہ تقاضا تھا جو ایک بندے کو خدا ماننے والے سے ظاہر ہوتا تھا مگر اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ زمانہ کے مامور پر ایمان لانے والوں کے اخلاق کتنے بلند ہونے چاہئیں.یہ کس قدر معیوب بات ہے کہ ایک شخص ایک من ترکاری بٹالہ سے لے آئے حالانکہ اس کی اجازت نہ ہو اور پھر بابو کو کچھ دے کر محصول کی ادائیگی سے بچ جائے.ایسا شخص تر کاری کی تو بے شک بٹالہ سے لے آیا اور محصول کے پیسے بھی بچالا یا مگر ایمان بٹالہ میں ہی چھوڑ آیا.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان باتوں کو چھوڑ دیا جائے.ایسا کرنے والے آخر اس طرح کتنا مال کما لیتے ہیں.اس طرح مال نہیں ملا کرتا اللہ تعالیٰ جب کسی کو مال دینا چاہتا ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا خواہ وہ دیانتداری کے معیار کتنے سخت کیوں نہ کر دے.خدا تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اسے دینے کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال ہی لیتا ہے اور جب وہ نہ دینا چاہے تو اس طرح کی کمایا ہو ا مال کسی نہ کسی طرح نکل جاتا ہے.ایسے لوگوں میں سے کئی جماعت سے بھی نکل جاتے کی ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے.حالانکہ ان کا بائیکاٹ کون کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے سزا ہوتی ہے.ان کے مرض کو کس نے ظاہر کیا.خدا تعالیٰ ہی ایسا کر سکتا ہے.ایسا کھایا ہو ا مال ہی ان کو جماعت سے نکلوا دیتا ہے.پھر کئی ایک کے چوریاں ہو جاتی ہیں، کئی ایک کا بیماریوں سے نقصان ہو جاتا ہے.دو چار بچے ٹائیفائڈ سے بیمار ہو جا ئیں تو سارا حرام ذرائع سے کمایا ہؤا روپیہ نکل جاتا ہے.ڈاکٹروں کی فیسیں ، دوائیوں کی قیمت کپڑے وغیرہ بنوانے اور صفائی کرنے کے اخراجات کرنے پڑتے ہیں.پس انسان کو سوچنا چاہئے کہ جہاں آمد کے ذرائع ہیں وہاں خدا تعالیٰ نے مال کے اخراج کے ذرائع بھی رکھے ہیں اگر کسی شخص کا مال حلال ہے تو اللہ تعالیٰ اسے خرچ بھی جائز ذرائع سے کراتا ہے مگر جو حرام مال کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خرچ بھی ایسے ذرائع سے کرا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اخراج کے بھی دوسوراخ رکھے ہیں.ایک جائز اخراجات کا اور دوسرا اس کے گناہ کے کفارہ کا.پھر میں کہتا ہوں اس طرح دولت بھی مل جاتی ہو.فرض کرو کوئی شخص اس طرح راک فیلر بن جائے کہ جو دنیا کا امیر ترین آدمی ہے، فورڈ موٹروں والا فورڈ بن جائے ، مارگن بن جائے مگر اللہ تعالیٰ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء اس پر ناراض ہو جائے تو اس دولت کا کیا فائدہ؟ جب وہ خدا کے سامنے پیش ہو اور خدا تعالیٰ فرشتوں سے کہے کہ اسے میرے سامنے سے لے جاؤ اس نظارہ کا تصور کرو اور پھر سوچو کہ اس طرح کی دولت کس کام آ سکتی ہے؟ اسی طرح مجھے ایسی شکائتیں بھی آتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ روپیہ لے کر دیتے نہیں.خصوصا دکانداروں میں یہ مرض ہے.بعض تجارت کے نام پر روپیہ لیتے ہیں اور پھر دیتے نہیں ، کھا جاتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں.میں نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے کہ قادیان کے تاجروں کو اپنی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جوان باتوں کی نگرانی کرے مگر افسوس ہے کہ نہ تو اس طرف تاجروں نے توجہ کی ہے اور نہ امور عامہ نے.اگر ہمارے تاجر اپنے اخلاق درست کر لیں ، سچائی اور دیانتداری سے کام کریں تو وہ کی بڑے بڑے مبلغوں سے زیادہ کام کر سکتے ہیں اور اس سے ان کی عقل بھی تیز ہو کر ان کی آمد زیادہ ہو سکتی ہے.ناجائز ذرائع اختیار کرنے والے کی عقل کبھی تیز نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ تو سمجھتا ہے کہ میں جھوٹ سے فائدہ حاصل کرلوں گا لیکن جس نے جھوٹ نہیں بولنا ہوتا وہ سوچتا ہے کہ کس طرح میں جائز ذرائع سے نفع حاصل کر سکتا ہوں اور اس طرح اس کی عقل تیز ہوتی ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہمارے ہاں کوئی تقریب تھی.غالباًلڑ کے کا نکاح تھا میں نے یہاں سے چھوہاروں کا پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ چھ سیر روپیہ کے لیں گے.میں نے دو تین واقفوں سے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ بٹالہ میں سولہ سیر ملتے ہیں.میں حیران تھا کہ اتنا فرق کس طرح ہو سکتا کی ہے؟ جس شخص نے خبر دی اُسے بلا کر دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ بارہ سے سولہ سیر تک ضرور مل جائیں گے اور یہاں کا ریٹ اس لئے گراں ہے کہ یہاں کے تاجر محنت نہیں کرتے.شہروں کی میں کشم کی حدود سے باہر بعض بڑی بڑی دکانیں ہیں جہاں سے چیزیں سستی مل جاتی ہیں مگر ہمارے دکاندار محنت نہیں کرتے.شہر سے ہی سودا لے آتے ہیں.میں نے اسی دوست کو بھجوا دیا کی اور وہ واقع میں گیارہ یا بارہ سیر چھوہارے ایک روپیہ میں لے آئے.تو جو تا جر جھوٹ کا عادی ہو جائے اُس کی عقل تیز نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ صرف چالا کی کے زور سے نفع کمانا چاہتا ہے.جائز ذرائع سوچنے اور تلاش کرنے کا اسے خیال بھی نہیں آتا ور نہ منڈیوں میں اتنے اتنے فرق کی ہوتے ہیں کہ جن کا حساب نہیں.ایک ملک کی بنی ہوئی چیز ستی ہوتی ہے اور وہی دوسرے کی کی
خطبات محمود ۳۲۷ سال ۱۹۳۹ء بنی ہوئی مہنگی ، ایک کی کمزور اور دوسرے کی مضبوط ہوتی ہے.جو لوگ بھیڑ چال کے عادی ہی ہوتے ہیں وہ محنت نہیں کرتے اور تلاش کر کے نہیں خریدتے بلکہ مہنگی لے آتے ہیں اور پھر مہنگی ہی فروخت کرتے ہیں.دکاندار بڑی بڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ یہ چیز اتنی ہی قیمت کی ہے اور وہ اس پر اعتبار کر کے خرید لاتے ہیں.میں نے سُنا ہوا تھا کہ بمبئی میں بعض ہوشیار لوگ معمولی قلم آٹھ آٹھ دس دس روپیہ کو فروخت کر دیتے ہیں اور ایک دفعہ مجھے بھی اس کا تجربہ ہو گیا.میں کی بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک شخص نے اسی طرح آنوں بہانوں سے میرے پاس ایک قلم بیچنا چاہا.اس نے بتایا کہ یہ دس روپیہ کا ہے.ضرورت کی وجہ سے فروخت کرتا ہوں.آپ پانچ روپیہ کی میں لے لیں.میں نے انکار کیا تو اُس نے کہا چار میں لے لیں اور پھر آٹھ آنہ تک پہنچ گیا تو کی بعض دوکاندار قسمیں کھا کر چیز مہنگی فروخت کر دیتے ہیں ہمارے تاجر اُن کی قسموں پر اعتبار کر کے لے آتے ہیں اور پھر حرام ذرائع سے اسے سستا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا مقابلہ کی کرسکیں.ٹکٹ کلکٹروں سے یارا نہ گانٹھ لیتے ہیں یا ان کو کچھ دے دیتے ہیں اور اس طرح مہنگی خریدی ہوئی چیز کی قیمت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہم جب ولایت سے واپس آنے لگے تو ایک دن اہل وعیال کے لئے بعض تحائف وغیرہ خریدنے کے لئے مقرر کیا.میں بھی بعض کی چیزیں تلاش کر کے خرید لایا.ایک چیز میں دو، چار روپے میں لایا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی میرے ساتھ تھے.واپسی پر دوستوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ کہاں سے خریدی ہیں.میں کی نے کہا کہ کہیں سے تلاش کر کے لایا ہوں.آپ بھی لے آئیں میں نے تو مذاقا یہ بات کہی تھی مگر دوستوں نے خیال کیا شاید یہ بتانا نہیں چاہتے اور بغیر علم حاصل کئے سودا خرید نے چلے گئے اور ی شام کو واپس آئے تو بتایا کہ وہ چیز کوئی دکاندار دس روپے سے کم میں نہیں دیتا.اس لئے وہ نہیں لائے.مجھے وہ چھ شلنگ میں ملی تھی مگر ان کو سولہ شلنگ میں ملتی تھی حالانکہ چیز ایک ہی تھی.در دصاحب نے وہاں رہنا تھا اس لئے ان کے کپڑوں کی ضرورت تھی.میں نے مختلف فرموں سے خط و کتابت کر کے ایک جگہ سے ان کو کپڑے بنوا دیئے.بعد میں ان کو وہ ایڈریس بھول گیا.اُنہوں نے مجھے لکھا کہ اتنا سستا کپڑا اور کہیں تیار نہیں ہوتا وہی ایڈریس آپ کو یاد ہو تو بتا ئیں.جو لوگ وہاں چار چار پانچ پانچ سال سے رہتے تھے انہوں نے بھی کہا کہ اتنی سستی چیزیں
خطبات محمود ۳۲۸ سال ۱۹۳۹ء کہیں سے نہیں ملتیں جتنی آپ خرید لاتے ہیں.ایک دوست نے ایک دفعہ مجھے سنایا کہ ہم سالہا سال سے تجارت کرتے تھے اور ولایت سے مال منگواتے تھے.ایک دفعہ میرا بمبئی جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ چیز بمبئی میں ولایت سے ستی بکتی تھی.تو ہمارے دکانداروں کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ ایک ہی دکان سے چیز خرید لا ئیں بلکہ محنت کر کے اور پھر کر خریدنی چاہئے.پھر انہیں حرام ذرائع کی سے اسے سستا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کبھی ایک ہی دکان پر انحصار نہیں کرنا چاہئے.ایک ہی دکان پر سب چیزیں ستی کبھی نہیں ہو سکتیں.اگر دس ستی ہوں گی تو ایک ضروری مہنگی ہوگی.اس لئے ہمیشہ پھر کر تحقیقات کرنی چاہئے.اس سے ذرائع حصول بڑھتے ہیں.یہ ذرائع حلال ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم کوئی کام کرنے لگو تو پہلے استخارہ کر لو گے حضرت خلیفہ اول سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک دوست کوئی سودا کرنے لگے تو آپ نے انہیں نصیحت کی کہ استخارہ کر لیں.وہ لاکھوں کا سودا تھا اُس دوست نے کہا کہ اس کی میں ہزاروں کا فائدہ ہونا یقینی ہے.آپ نے فرمایا کہ استخارہ کر لو مگر اُس نے کہا کہ کیا ضرورت ہے؟ اس میں فائدہ یقینی ہے مگر پھر آپ کے فرمانے پر استخارہ کیا.جب موقع پر پہنچے تو وہاں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور سودا نہ ہو سکا.بعد میں معلوم ہوا کہ اس چیز کا نرخ اتنا گر چکا تھا کہ ان کو کی ہزاروں کا نقصان ہوتا.تو نفع بھی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہی ہوسکتا ہے اور نفع خواہ زیادہ ہو یا کم ، ضروری چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ہے جو حلال مال میں ہی ہو سکتی ہے.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے تاجر اپنی کمیٹی بنائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ایسی خرابیاں پیدا نہ ہوں.میں نے سُنا ہے بعض لوگ اس طرح یہاں ترکاریاں لائے تو دوسروں نے کہا کہ ہم بھی اس طرح کریں اور وہ بھی یہی کرنے لگے.اسٹیشن والوں کو کیا ہے ان کا تو فائدہ ہی ہے.جس مال پر ریلوے کو دس روپے محصول ملنا ہے اس پر اگر ان کو کوئی چار آنے بھی دے دے تو ان کا کیا نقصان ہے؟ مگر اس سے جماعت کی بدنامی ہوتی ہے.تاجروں کی کمیٹی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.انہیں جلسے کر کے دکانداروں کو بتانا چاہئے کہ بد دیانتی کی بُری چیز ہے اور دوسرے دوستوں کو تحریک کرنی چاہئے کہ اگر کسی دکاندار میں کوئی کمزوری نظر آئے تو اس کمیٹی کو اطلاع دیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ ہم اس کمیٹی کو یہ اختیار دے دیں
خطبات محمود ۳۲۹ سال ۱۹۳۹ء کہ جود کا ندار اس کا ممبر نہ ہو اس سے سودا نہ لیا جائے مگر یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم دیکھیں کہ وہ دکانداروں کی ایمانی اور اخلاقی حفاظت کرتے ہیں اور خواہ مخواہ ظلم نہیں کرتے.اس صورت میں وہ کمیٹی ہمارا ہاتھ ہو گی اور اسے ہم اختیارات دے سکیں گے اور جن دکانداروں پر وہ مُجرم ثابت کریں گے ان سے قطع تعلق کریں گے.یورپ بالخصوص انگلستان میں ایسی کمیٹیوں کے بہت فوائد ہیں.میڈیکل رجسٹریشن کرنے والی کمیٹی کوئی سرکاری ادارہ نہیں مگر جب وہ دیکھے کہ کوئی ڈاکٹر بد دیانتی کرتا ہے تو وہ اس کا نام اپنے رجسٹر سے کاٹ دیتی ہے اور گورنمنٹ بھی ایسے شخص کو پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دیتی.ہم بھی اپنی کمیٹی کی جن کاموں میں اخلاق اور تجارتی ترقی کے لئے ضرورت ہو گی مدد سے دریغ نہیں کریں گے.اس کمیٹی کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ یہ پابندی جو اس وقت ہے کہ ہندوؤں سے سودا نہ خریدا جائے میں اسے دُور کرنے والا ہوں.جس وقت یہ لگائی گئی تھی چاہے، کسی وجہ سے لگائی تھی اس وقت خاص حالات تھے.ہم اپنے ہمسایوں سے ہمیشہ اس قسم کا سلوک روا نہیں رکھ سکتے اس لئے میں اب اسے زیادہ دیر تک قائم رکھنا نہیں چاہتا اور میں جانتا ہوں کہ جس وقت اسے دور کیا گیا یکدم احمد یوں کی تجارت گرے گی اور اُس وقت بھی اپنے تاجروں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اس کمیٹی کی ضرورت پیدا ہوگی.جس وقت یہ پابندی لگائی گئی تھی یہاں غالباً صرف ایک احمدی یعنی سید احمد نور صاحب کی دکان تھی یا شاید کرم الہی صاحب کھارے والے کی بھی دکان کھل چکی تھی.یہ بہر حال ایک یا دو دکانیں جو تھیں وہ بھی معمولی حیثیت کی تھیں مگر اب بیسیوں ہیں اور بعض ایسی کی تجارت کر رہے ہیں کہ ہندوؤں کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن جب یہ پابندی اُٹھائی گئی تو ضرور احمدیوں کی تجارت پر اس کا اثر پڑے گا کیونکہ تمام احمدی ایسے غیرت مند نہیں کہ اس وقت بھی احمدیوں سے سودا خرید نا ضروری سمجھیں.بعض تو ایسے ہیں کہ انہیں خواہ ایک دمری کا فائدہ ہو اور میل چل کر جانا پڑے تو ہندو سے ہی خریدیں گے اور پھر محلہ میں شور مچاتے پھریں گے کہ دیکھو احمدی کتنے گراں فروش ہیں.اس موقع پر احمدیوں کی چلتی ہوئی تجارتیں گریں گی اور ممکن ہے بعض کو سینکڑوں ہزاروں کا نقصان ہو مگر اس پابندی کا دیر تک جاری رکھنا مناسب نہیں اس لئے تاجروں کو بھی چاہئے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کا انتظام کریں.اپنے گاہکوں اور محلہ والوں کی
خطبات محمود ۳۳۰ سال ۱۹۳۹ء سے اچھے تعلقات رکھیں تا وہ خود بخود ان سے سودا خرید نا ضروری سمجھیں.ہند و مسلمانوں کے ہاتھ کا نہیں کھاتے مگر اس کی وجہ سے کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا لیکن ہمارے فیصلہ پر اعتراضات ہوتے ہیں کیونکہ ہمارا فیصلہ جماعتی رنگ رکھتا ہے.اگر یہی کام افراد اپنے طور پر کریں تو ان پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.بہر حال اب میں عنقریب اس پابندی کو دور کرنے والا ہوں اور اس وجہ سے بھی تاجروں کی ایک کمیٹی کا قیام ضروری ہے اور اگر وہ ان ہدایات پر عمل کی کریں جو میں نے بیان کی ہیں تو کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.دیانتداری سے ان کا کا روبار ترقی کرے گا.ان کی عقلیں تیز ہوں گی اور پھر خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے ساتھ ہو گی کی کیونکہ جو شخص دیانتدار ہو اللہ تعالیٰ اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا.(الفضل ۱۵ اگست ۱۹۳۹ء) 66 النحل : ١٢٩ ان الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا انْزَلَ اللهُ مِنَ الكِتَبِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أوليك ما يأكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلا يُعَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيمَة و لايُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذاب اليم (البقرة : ۷۵) المومنون : ۵۲ الصحيح البخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة
خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۹ء صحابہ کرام کی شاندار قر بانیاں تحریک جدید کی قر بانیوں میں حصہ لینا جنت کو واجب کر دیتا ہے ( فرموده ۴ /اگست ۱۹۳۹ ء ) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے گھر میں ایک رستہ لٹکا ہوا دیکھا آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسا رستہ ہے؟ کسی نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں بیوی جب رات کو نماز پڑھتی ہیں تو نماز پڑھتے پڑھتے جب انہیں اونگھ آتی ہے تو وہ کھڑے کھڑے اس سے ٹیک لگا لیتی ہیں.آپ نے فرمایا یہ کوئی نیکی نہیں.نیکی یہ ہے کہ انسان کی اس حد تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے جس حد تک اُس کے دل میں ملال پیدا نہ ہو اور پھر دائمی اور مستقل طور پر اس کو اختیار کرے یا اگر ایک شخص ایک نیکی کرتا ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اُسے چھوڑ دیتا ہے یا اس میں سستی پیدا ہو جاتی ہے یا اُسے جگانے اور بیدار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو درحقیقت وہ نیکی ظاہری طور پر زیادہ ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گر جاتی اور اس کا ثواب کم ہو جاتا ہے کیونکہ اصل چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے انسان اپنے آپ کو وقف کر دے اور جو اقرار کرے اُسے پورا کرے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ منهم من قضى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِر لے کہ صحابہ میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی غرض اور مقصد کو پورا کر لیا اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی اس بات کے انتظار میں
خطبات محمود ۳۳۲ سال ۱۹۳۹ء.ہیں.گویا کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے جام شہادت پی لیا اور دنیا کے سامنے اُنہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جو اقرار اُنہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا وہ اُنہوں نے پورا کر دیا مگر باقی اس قسم کے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گو ابھی تک وہ اپنے اقرار کو پورا نہیں کر سکے یعنی اللہ کی راہ میں موت ان پر نہیں آئی لیکن ان کی کیفیت قلبی ایسی ہے کہ وہ ہر وقت موت کے انتظار میں رہتے ہیں.حضرت خالد بن ولید جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سَيْفٌ مِّنْ سُيُوفِ اللَّهِ کے الفاظ فرمائے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری زمانہ میں ایمان لائے تھے.اُحد میں مسلمانوں کو جو نقصان پہنچا اُس کا موجب بھی یہی تھے.یہ دراصل ان نو جوانوں میں سے تھے جو قوم کی نظروں میں بڑھ رہے تھے کی اور ترقی کر رہے تھے.یہ اُحد میں کفار کے ایک دستہ کے کمانڈر تھے.جب دشمن بھاگا اور کا فروں کو شکست ہو گئی تو ان کی نظر اچانک اس درّے پر پڑی جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ کی وآلہ وسلم نے دس آدمی مقرر کئے ہوئے تھے مگر اُنہوں نے غلطی سے اُس درے کو چھوڑ دیا تھا وہ کی فوراً بھانپ گئے کہ یہ ایک ایسا موقع نکل آیا ہے جسے ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے چنانچہ اُنہوں نے عکرمہ کو کہ وہ بھی نوجوان تھے اس طرف توجہ دلائی اور ان دونوں نے مل کر ایک چھوٹے سے دستہ کے ساتھ مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا ہے پھر جو واقعات ہوئے وہ کئی دفعہ بیان ہو چکے ہیں.احادیث میں بھی مسلمان ان واقعات کو پڑھتے رہتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی ان کا جی ذکر آتا ہے بلکہ ایک جگہ تو تفصیلی ذکر ہے.تو ان واقعات کا موجب خالد ہی تھے اور اُحد کی جنگ تک یہ برا براسلام کے مقابلہ میں لڑتے رہے تھے.غزوہ احزاب کے بعد یہ مسلمان ہوئے اور پھر انہوں نے اسلام میں ترقی کرنی شروع کر دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُوربین نگاہ نے انہیں ایسا بھانپا کہ فتح مکہ کے وقت ایک طرف کے کمانڈ رخو د رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دوسری طرف کے کمانڈر خالد بن ولید تھے.کے پھر غزوہ موتہ کے وقت بھی ان کے ہاتھ لشکر کی کمان آئی.گورسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مقر ر نہیں کیا تھا اور اس وقت آپ کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ خالد سَيفٌ مِن سُيُوفِ اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے..یہ اسلام کی قربانی کے لئے اس قدر تیار رہتے تھے کہ بہت کم مثالیں کی
خطبات محمود ۳۳۳ سال ۱۹۳۹ء اس قسم کی جانی قربانی کی ملتی ہیں.اسلام لانے کے بعد آرام سے بیٹھنا انہوں نے اپنے لئے پسند ہی نہیں کیا.ہمیشہ جہاں جنگ ہوتی پہنچ جاتے.اگر ایک جگہ جنگ ختم ہو جاتی تو دوسری جگہ اپنے آپ کو والنٹیئر کر دیتے اور دوسری جگہ سے فارغ ہوتے تو تیسری جگہ اپنے آپ کو والنٹیئر کر دیتے.کوئی خطرے کا مقام ایسا نہیں تھا جہاں وہ نہ پہنچتے ہوں حتی کہ وہ فیصلہ کن آخری جنگ جس میں قیصر نے اپنے ایک جرنیل کو اس شرط پر جنگ کرنے کے لئے بھیجا تھا کہ اگر تم فتح کر کے آؤ گے تو میں اپنی بیٹی کی تم سے شادی کر دوں گا اور آدھے ملک کی سلطنت تمہیں دے دوں گا.اس میں بھی خالد کی تدبیر سے ہی مسلمانوں کو فتح ہوئی.تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک عظیم الشان سلطنت کا نصف حصہ مل جانا اور شاہی خاندان کا فرد بن جانا کوئی معمولی بات نہیں اور تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ اس کے لئے اُس جرنیل نے کس قدر سر توڑ کوششیں کی ہوں گی.اسلامی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ جرنیل مسلمانوں کے مقابلہ میں دس لاکھ فوج لا یا لیکن یورپین تاریخیں کی قیصر کی فوج کی تعداد دو سے تین لاکھ تک بتاتی ہیں.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی فوج اسلامی تاریخ کے مطابق ساٹھ ہزار اور عیسائی تاریخ کے مطابق ایک لاکھ تھی.بہر حال ادنیٰ سے ادنی کی اندازہ بھی اگر لگا لیا جائے تو کفار کے لشکر کی نسبت مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک اور تین کی تھی.یعنی مسلمان اگر ایک تھا تو کا فرتین تھے.پھر وہ تین لاکھ ایک منظم فوج کا حصہ تھے کیونکہ قیصر کی حکومت کوئی معمولی حکومت نہیں تھی.کفار کے لشکر کی کثرت دیکھ کر اسلامی کمانڈر انچیف کی نے تجویز کیا کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھنا چاہئے کہ ہماری مدد کے لئے اور فوج بھجوائی جائے.خالد بن ولید ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اس موقع پر کھڑے ہو کر کہا کہ میں ہرگز یہ مشورہ نہیں دیتا کہ اسلامی لشکر کو پیچھے ہٹنا چاہئے کیونکہ اگر ہم پیچھے ہے تو دشمن چونکہ آخری اور فیصلہ کن جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلا ہے اور وہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ کی یا تو وہ ہمیں مار دے گا یا خود مر جائے گا.اس لئے اگر ہم پیچھے ہے تو دشمن کا دل بڑھ جائے گا اور پھر ہمارے قدم مدینے تک نہیں ٹھہریں گے اور خالد بن ولید ہی تھے جنہوں نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں ساٹھ ہزار لشکر کم ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اسلام نے جو غیرت اور قربانی کا مادہ مسلمانوں کے اندر پیدا کیا ہوا ہے اس کے لحاظ سے مجھے اجازت دی جائے کہ میں صرف
خطبات محمود ۳۳۴ سال ۱۹۳۹ء ساٹھ مسلمان چن کر دشمن پر حملہ کر دوں.اسلامی کمانڈر نے اس سے انکار کیا لیکن بعض اور صحابہ نے خالد کی تائید کی اور اُنہوں نے بھی کہا کہ یہ درست ہے.خالد گوساٹھ آدمی اپنے ڈھب کے چن لینے دیئے جائیں.چنانچہ لشکر میں اعلان کیا گیا کہ جولوگ اس جنگ میں اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں.اس اعلان پر سینکڑوں مسلمانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا جن میں سے اُنہوں نے ساٹھ آدمی چچن لئے.ان میں سے ایک ان کا پُرانا دوستی عکرمہ، ابو جہل کا بیٹا بھی تھا.یہ ساٹھ آدمی تھے اور اُدھر قیصر کی فوج کا جو اگلا دستہ تھا اُس میں ساٹھ ہزا ر عرب عیسائی تھا.بعض عرب کے قبائل عیسائی بھی تھے اور وہ قدرتی طور پر قیصر سے مل گئے تھے اور قیصر بھی زیادہ تر انہی کو فوج کے آگے رکھتا کیونکہ وہ سمجھتا کہ عربوں سے عرب ہی جنگ کرنا جانتے ہیں اور یہ چونکہ گھوڑے کے خوب سوار ہیں اور لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ عربوں کو ہی آگے رکھا جائے.ادھر ان ساٹھ نے یہ اقرار کیا کہ وہ سب یکدم حملہ کر کے قلب لشکر میں پہنچ کر عیسائی کمانڈر کو قتل کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے گھوڑوں کی باگیں اُٹھا ئیں اور قلب لشکر پر حملہ کر دیا.تم سمجھ سکتے ہو کہ دس لاکھ کا کمانڈر جہاں کھڑا ہوگا وہاں اس کے پہرے اور حفاظت کا کتنا بڑا سامان ہو گا مگر جس طرح تیر کمان سے چھٹتا ہے یا جس طرح باز چڑیا پر جھپٹتا ہے اسی طرح وہ کی قلب لشکر کی طرف بڑھے.کچھ ان میں سے زخمی ہوئے ، کچھ شہید ہوئے اور کچھ قلب لشکر میں جا پہنچے اور عین وسط میں پہنچ کر انہوں نے عیسائی کمانڈر کو قتل کر دیا یا بھگا دیا.مجھے اس وقت پوری طرح یاد نہیں.اسلامی لشکر کھڑا ہوا اس حملہ کا نظارہ دیکھ رہا تھا لیکن جونہی وہ دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اندر گھسے بعض مسلمان افسروں نے سردار لشکر کو مشورہ دیا کہ اب ان کو کیلے لڑنے دینا مناسب نہیں بہتر ہے کہ ہم بھی ساتھ ہی حملہ کر دیں.چنانچہ انہوں نے بھی ساتھ ہی حملہ کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ شام تک وہ عیسائی لشکر جو اتنی بڑی شان و شوکت کے ساتھ آیا تھا تتر بتر ہو گیا.یہی وہ لوگ ہیں جن کا ایک مشہور قصہ تاریخوں میں آتا ہے جسے پڑھ کر ہر مسلمان کی رگوں میں خون تیزی سے چلنے لگ جاتا ہے اور اس کے دل میں غیرت اور قربانی کا شاندار جذ بہ پیدا ہو جاتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ انہی ساٹھ آدمیوں میں سے سات آدمی شدید زخمی ہوئے.
خطبات محمود ۳۳۵ سال ۱۹۳۹ء جب عیسائی لشکر کو شکست ہوگئی تو ایک مسلمان زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے میدانِ جنگ کا چکر کاٹ رہا تھا کہ اس نے ایک شخص کو نزع کی حالت میں دیکھا.قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ شدت پیاس کی وجہ سے اپنے ہونٹوں پر زبان مل رہا ہے اُس نے پوچھا تمہیں پیاس لگی ہوئی ہے؟ وہ کہنے لگا ہاں.اس نے اپنی چھا گل سے پانی نکالا اور اُسے پینے کے لئے دینا چاہا تو اُس کی نگاہ اپنے پاس پڑے ہوئے ایک اور زخمی کی طرف پھر گئی اور وہ کہنے لگا یہ شخص مجھے سے زیادہ پیاسا معلوم ہوتا ہے پہلے اسے پانی پلاؤ.وہ اُس کے پاس پانی لے کر گیا تو اس نے کی اپنے پاس پڑے ہوئے ایک اور زخمی کی طرف دیکھ کر کہا مجھے بھی پیاس ہے مگر اسے مجھ سے زیادہ پیاس معلوم ہوتی ہے پہلے اسے پانی پلاؤ.وہ اُسے چھوڑ کر تیسرے کی طرف متوجہ ہو ا تو اُس نے چوتھے کی طرف اشارہ کر دیا اور کہا کہ پہلے اُسے پانی پلایا جائے.اسے زیادہ پیاس معلوم ہوتی ہے.اسی طرح ہر شخص نے اُسے دوسرے کو پانی پلانے کی تاکید کی.یہاں تک کہ وہ ساتویں شخص تک پہنچ گیا جب اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے.پھر وہ واپس دوسرے کی طرف گیا تو جس جس کے پاس پہنچا اُس کی جان نکل چکی تھی.سے تو زخموں سے چور، پیاس سے بالکل لاچار اور جان کندنی کی حالت میں صحابہ نے اس قسم کے ایثار سے کام لیا کہ دُنیا کی تاریخ اس قسم کی کوئی اور مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اور ہر سچا مسلمان جو اس واقعہ کو پڑھتا ہے اُس کی کے دل میں بھی یہ خواہش اور آرزو پیدا ہوتی ہے کہ کاش اللہ تعالیٰ مجھے بھی اسلام کی خدمت کی ایسی ہی توفیق دے.غرض خالد ان صفات کا مالک تھا جو میں نے اوپر بیان کی ہیں.صحابہ میں سے جو چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے تھے ان کی اولا د خالد کی فدائیت ، اس کی بہادری اور جذبۂ جان شاری کی وجہ سے ہمیشہ اس کے اردگرد جمع رہتی تھی اور باوجود اس کے کہ وہ بعد میں ایمان لائے تھے جس طرح شمع کے گرد پروانے جمع رہتے ہیں اسی طرح خالد بن ولید کے گردا کا بر صحابہ کی اولا د جمع رہتی تھی.چنانچہ ان کے ارد گرد جمگھٹا رکھنے والوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی عزیز بھی تھے.مثلاً حضرت عباس کے لڑکے فضل اکثر آپ کے ساتھ رہتے.اسی طرح اس فدائی جمگھٹے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لڑکے بھی تھے.غرض باوجود بعد میں
خطبات محمود ۳۳۶ سال ۱۹۳۹ء ایمان لانے کے ان کی قربانی ، ایثار اور اخلاص کو دیکھ کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے افراد کیا اور دوسرے خاندانوں کے افراد کیا سب ان کے اردگر در ہتے اور سمجھتے کہ ان سے مل کر کام کرنا اسلام کی خدمت ہے.جب خالد فوت ہونے لگے تو ان کے ایک دوست اُن سے ملنے کے لئے آئے.ان کی حالت نازک ہو رہی تھی اور یہ نظر آ رہا تھا کہ وہ چند گھنٹوں کے اندر اندر دُنیا کو چھوڑ دینے والے ہیں.انہیں سخت گرب تھا اور اسی کرب کی حالت میں وہ بستر پر تڑپ رہے تھے.کبھی دائیں کروٹ بدلتے اور کبھی بائیں.اس دوست نے انہیں کہا خالد ! تم نے اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت سرانجام دی ہے کہ میں تمہیں جنت اور خدا کے فضل کی بشارت دیتا ہوں.تم کیوں فکر کرتے ہو؟ تمہیں تو فوراً خدا اپنے فضل کی چادر میں لپیٹ لے گا.خالد نے ان سے کہا کہ ذرا میرے قریب آؤ اور میری قمیص اُٹھاؤ.جب اُنہوں نے قمیص اُٹھائی تو خالد کہنے لگے دیکھو! میرے جسم پر کیا کوئی جگہ ہے جہاں تلوار کا نشان نہ ہو؟ اُنہوں نے دیکھا تو واقع میں ایک انچ بھی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں تلوار کے زخم کا نشان نہ ہو.پھر اُنہوں نے کہا کہ میرے تہہ بند کو رانوں تک اُٹھا دو.اُنہوں نے تہہ بند اٹھا کر دیکھا تو وہاں بھی رانوں تک اسی طرح زخموں کے نشانات سے جسم بھرا ہوا تھا.یہ نشانات دکھا کر وہ کہنے لگے.میں نے اپنے آپ کو ہر خطرے میں ڈالا.ایسی ایسی نازک جگہوں پر میں نے اپنے آپ کو پھینکا کہ میں سمجھتا تھا آج میرے لئے شہادت یقینی ہے لیکن افسوس با وجود اس کے کہ ہر میدان میں میں نے اپنے آپ کو شہادت کے لئے خطرے میں ڈالا آج میں بستر پر مر رہا ہوں کے یہ وہ لوگ تھے جو اپنی کمزوریوں کو سمجھتے تھے.یہ وہ لوگ تھے جو جانتے تھے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی وقت جو مخالفت کی ہے اُس کا کفارہ معمولی کفارہ نہیں ہوسکتا.ایمان کے ساتھ ان کے گناہ بخشے گئے ، ایمان کے ساتھ انہیں خدا اور اس کے رسول کا قرب حاصل ہوتی گیا اور ایمان کے ساتھ وہ اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات پر پہنچ گئے مگر باوجود اس کے ان کے دلوں کی یہ خلش نہیں مٹتی تھی کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی آواز کو کیوں نہیں مانا.خدا نے تو ان کو بیشک بخش دیا مگر اُنہوں نے اپنی جانوں کو نہیں بخشا.خدا نے تو ان کی جانوں پر رحم کر دیا مگر اُنہوں نے اپنی جانوں پر رحم نہیں کیا.جب خدا نے ان کو بخشا تو انہوں نے کہا
خطبات محمود ۳۳۷ سال ۱۹۳۹ء اگر ہمیں خدا نے بخش دیا ہے تو کیا ہم شکر گزاری کے طور پر پہلے سے بھی زیادہ قر بانیاں نہ کریں؟ پس باوجود اس بات کے کہ خدائی الہام ان کی تائید میں تھا جیسے میں نے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الہام کی بنا پر خالد کو سَيفٌ مِنْ سُيُوفِ اللہ قرار دیا مگر انہوں نے چین اور آرام سے بیٹھنا اپنے لئے جائز نہ سمجھا اور خالد نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ جب خدا نے مجھے اپنی تلوار کہا ہے تو اب اس تلوار کو نیام میں نہیں آنا چاہئے.تلوار تو میدان جنگ میں ہی اچھی لگتی ہے.چنانچہ وہ دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور کوئی موقع ایسا نہیں آیا جس میں وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں نہ کود گئے ہوں.یہ گویا اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی تی شکر گزاری کی انتہا تھی کہ اس نے ایک نبی پر ایمان لانے کی سعادت سے انہیں بہرہ اندوز فرمایا اور اس احسان کا حقیر شکرا نہ تھا جو خدا نے اس رنگ میں ان پر کیا کہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کی توفیق بخشی.غرض انسانی فطرت کا حسن و جمال ایسے نمایاں طور پر ان لوگوں میں ظاہر ہوا کہ ان کو دیکھ کر وہ تمام خیالات مٹ جاتے ہیں جو شیطان کے اس دعوے سے بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہوتے ہیں کہ آدم کے بیٹے دُنیا میں خون بہائیں گے اور فساد کریں کے.جب انسان قربانی اور اخلاص کے ان عظیم الشان نمونوں کو دیکھتا ہے تو وہ بے اختیار چلا اٹھتا ہے کہ عنتی تھا شیطان ، جھوٹا تھا شیطان اور سچا تھا وہ خدا جس نے آدم کو پیدا کیا جس کی نسل سے ایسے قیمتی وجود دنیا میں ظاہر ہوئے.یہ تو اس بے نظیر انسان کی مثال ہے جو گوا بتدائی زمانہ میں اسلام کے مقابلہ میں لڑتا رہا مگر بعد میں خدا تعالیٰ نے اسے تو بہ نصیب کی اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو کر اسلامی غزوات میں حصہ لیتا رہا.پھر معمولی آدمیوں کی طرح نہیں بلکہ اس رنگ میں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عزت کے مقام پر کھڑا کیا.نہ صرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بلکہ خدا نے بھی اسے ایک عزت کا خطاب دیا مگر اس کے علاوہ اور لوگ بھی تھے اور گو وہ درجہ میں کم تھے مگر احسان مندی اور شکر گزاری کی مثالیں ان میں بھی ایسی شاندار نظر آتی ہیں کہ دل ان کو دیکھ کر فرط لبریز ہو جاتا ہے اور وہ ایسی مثالیں ہیں جو ایمان کو تازہ کر دیتی ہیں.مکہ کے بعض بڑے بڑے لوگ جو کفار کے لیڈر تھے ان کی عظمت کو آج پوری طرح نہیں
خطبات محمود ۳۳۸ سال ۱۹۳۹ء سمجھا جاتا.ہم جو مسلمان ہیں اپنی تاریخوں میں چونکہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام پڑھتے اور انہی کا نام ہر وقت سنتے رہتے ہیں اس لئے عام طور پر مسلمانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہی مکہ کے بڑے لوگ تھے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مکہ کے بڑے آدمی نہیں تھے مگر آہستہ آہستہ جب قوموں میں مذہب پھیل جائے تو وہ اپنے آدمیوں کے متعلق ہی یہ خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ وہ سب سے بڑے تھے.یہی حال مسلمانوں کا ہے وہ اپنی شوکت اور عظمت کی وجہ سے اس بات کو بھول چکے ہیں کہ اُس وقت کے مسلمان دوسری قوموں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے تھے.مثلاً آج یہ سمجھنا مشکل ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے مکہ کے ایک بیکس نو جوان تھے بلکہ آج ہم میں سے ہر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدائشی طور پر ہی بادشاہ تھے.اسی طرح آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قربانیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کی جو عزت ہے اس کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شاید مکہ کے سب سے بڑے رئیس تھے.یہی حال حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کے متعلق مسلمانوں کے خیالات کا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گو یہ لوگ مکہ کے بڑے خاندانوں میں سے تھے مگر سردارانِ قوم میں سے نہیں تھے بلکہ سردارانِ قوم کے قریب درجہ بھی نہیں رکھتے تھے.آج ہم جب پڑھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر فلاں خاندان میں سے تھے جسے عرب میں بڑی عزت حاصل تھی تو خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ عزت حضرت ابو بکر کو حاصل تھی.اسی طرح جب پڑھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے خاندان کو مکہ میں یہ عظمت حاصل تھی تو خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ عظمت حضرت عمرؓ کو ہی حاصل تھی حالانکہ اس کے صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے رشتہ داروں میں سے کسی رشتہ دار کو یہ عزت اور عظمت حاصل تھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس وقت حضرت ابو بکر کو بھی یہ عظمت حاصل تھی یا حضرت عمرؓ کو بھی یہ عظمت حاصل تھی.مکہ کے اصل سردار بالکل اور کی تھے ان سرداروں میں سے ابوسفیان تھا، ابو جہل تھا جس کا اصل نام ابوالحکم تھا.اسی طرح عتبہ تھا، شیبہ تھا ، ولید تھا.اسی طرح بعض اور لوگ تھے.یہ وہ لوگ تھے جو مکہ کے سردار تھے اور ان میں سے کوئی شخص مسلمان نہیں تھا.مکہ والے جب بھی کوئی بات کرتے ہمیشہ ان سے پوچھ کر کیا کرتے
خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۹ء اور ان کو عظمت بھی اس قسم کی حاصل تھی کہ لوگ ان کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے اور ان کے مکہ والوں پر بہت بڑے احسان تھے.چنانچہ ان لوگوں کو جس قسم کی عظمت حاصل تھی اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ والوں نے جس شخص کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلح کی گفتکو کرنے کے لئے بھیجا اس نے باتیں کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیا اور جس طرح دوسرے کو سمجھاتے ہوئے بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اپنے باپ کی عزت کا خیال کرو اسی طرح اس نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھانا شروع کر دیا کہ میری عزت کا پاس کرو اور جس طرح ہماری پنجابی زبان میں مثل ہے کہ ون ون دی لکڑی.اسی طرح اس نے انصار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ متفرق لوگ ہیں ان پر تم اعتبار نہ کرو.یہ تو تم پر مصیبت کا کوئی وقت آیا تو فوراً چھوڑ کر چلے جائیں گے اور تمہارے کام آخر تمہارا خاندان ہی آئے گا.اس لئے تم ان کی بات کے پیچھے نہ جاؤ اور جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اس دفعہ بغیر عمرہ کئے واپس چلے جاؤ اس کو مان لو.یہ مضمون کی بیان کرتے ہوئے جب وہ یہاں پہنچا کہ اپنی قوم ہی اچھی ہوتی ہے اور مصیبت کے وقت وہی کام آیا کرتی ہے، یہ لوگ تو تجھے مشکل کے وقت بالکل چھوڑ دیں گے تو اس نے اپنی بات پر زیادہ زور دینے اور اُسے منوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگا دیا.اس پر ایک صحابی نے اپنی تلوار کا کندہ اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا ہٹالے اپنا نا پاک ہاتھ.تیری کیا حیثیت ہے کہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگائے.اُس نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا صحابہ چونکہ خود پہنے ہوئے تھے اور صرف آنکھیں اور ان کے حلقے ہی نظر آرہے تھے اس لئے وہ کچھ دیر غور سے اس صحابی کی طرف دیکھتا رہا اور آخر اس نے پہچان لیا اور کہا کیا تم فلاں ہو؟ اس نے کہا ہاں.وہ کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں میں نے فلاں موقع پر کی تمہارے باپ کو اس مصیبت سے بچایا اور فلاں موقع پر تمہارے فلاں رشتہ دار کو اس مشکل سے نجات دی.کیا تم میرے سامنے بولتے ہو؟ وہ صحابی بالکل خاموش ہو کر پیچھے ہٹ گیا.اس پر پھر اس نے بات شروع کی اور جوش میں آکر اس نے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی کی طرف ہاتھ بڑھایا.صحابہ کہتے ہیں ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس پر اس کا
خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۳۹ء کوئی نہ کوئی احسان نہ ہو.ہر شخص ہم میں سے اس کا ممنونِ احسان تھا اور ہم میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو اس کی طرف ہاتھ بڑھا سکے.اہلِ عرب میں احسان مندی کا جذ بہ نمایاں طور پر پایا جاتا تھا جسے اسلام نے اور بھی زیادہ بڑھا دیا.پس اس جذبۂ امتنان کی وجہ سے صحابہ میں سے کوئی شخص یہ جرات نہیں کرتا تھا کہ اُسے رو کے اور پھر اس سے وہی جواب سُنے جو اس نے پہلے شخص کو دیا تھا.تب ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے زور سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر مار کر کہا.خبردار! جو تو نے اپنا نا پاک کی ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھایا.اس نے پھر نظر اٹھائی اور تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اس نے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور کہا ابوبکر ! تم پر میرا کوئی احسان نہیں.پس ایک ابو بکر ہی تھا جس پر اُس کا کوئی احسان نہیں تھا باقی سب صحابہ ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک پر اس کا کوئی نہ کوئی احسان تھا.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ اُن سرداروں کی کیا حیثیت تھی.پس عمائد اور سردار جو اہل مکہ کے تھے ان کی شان بالکل اور تھی.حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ نوجوان تھے ، بالخصوص حضرت ابو بکر ایک بڑھنے اور ترقی کرنے والے نوجوان تھے اور بہت سے لوگوں کی اُن پر نظریں اُٹھتی تھیں اور وہ خیال کرتے تھے کہ کسی دن یہ قوم کا سردار ہو جائے گا کیونکہ ان کے احسانات بھی بہت لوگوں پر تھے.مگر بہر حال سردارانِ قوم کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ جب مکہ فتح ہو گیا تو ان لوگوں کی کیا حیثیتیں رہ گئی ہوں گی جو قوم کے سردار اور عمائد سمجھے جاتے تھے.فتح مکہ کے بعد پہلی حکومت بدل گئی وہ جو کبھی سردار سمجھے جاتے تھے ان کی سرداریاں جاتی رہیں اور وہ جنہیں ذلیل اور حقیر سمجھا جاتا تھا وہ اُن کے حاکم اور سردار بن گئے.اس طرح زمانہ گزرا اور گزرتا چلا گیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد آ گیا.پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد آ گیا.ایک دفعہ حضرت عمر حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے تو ان کی ملاقات کے لئے لوگ
خطبات محمود ۳۴۱ سال ۱۹۳۹ء جمع ہونے شروع ہوئے.انہی ملاقاتیوں میں مکہ کے رؤسا اور سردارانِ قریش کے بعض لڑکے بھی تھے جو ا کٹھے ہو کر حضرت عمرؓ کو ملنے کے لئے آئے کیونکہ اس وقت حضرت عمرؓ سے ملاقات ایسی ہی تھی جیسے کوئی شاہی دربار میں پہنچ جائے.اس وقت ساری بادشاہت حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو ہی حاصل تھی.پس انہوں نے بھی ایک دوسرے سے کہا کہ آؤ ہم حضرت عمرؓ سے مل آئیں.چنانچہ وہ اکٹھے ہو کر ان کے پاس آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ گئے.حضرت عمر نے ان سے باتیں شروع کر دیں اتنے میں کوئی غریب سا صحابی آ گیا.حضرت عمر نے ان نوجوانوں سے کہا ذرا ان کے لئے جگہ چھوڑ دیں چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئے اور وہ صحابی قریب ہو کر باتیں کرنے لگ گیا.اسی اثناء میں ایک اور صحابی آ گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر اُن سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جانا وہ اور زیادہ پیچھے ہٹ گئے اور اس جگہ وہ صحابی بیٹھ گئے.چونکہ حج کے ایام تھے اس لئے یکے بعد دیگرے کئی صحابہ آتے چلے گئے اور حضرت عمرؓ ہر صحابی کی آمد پر ان سے یہی کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جانا یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے.یہ صحابہ جو آئے ان میں سے بعض ان کے باپ دادا کے غلام تھے اور وہ ان پر دن رات ظلم و ستم ڈھاتے رہتے تھے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کئی غلاموں کو اپنے پاس سے روپیہ دے کر آزاد کروایا تھا وہ تاجر تھے مگر انہوں نے اپنی تجارت تباہ کر دی اور جس قدر روپیہ تھا وہ سب غلاموں کو آزاد کروانے پر صرف کر دیا.پھر ان میں سے بعض وہ لوگ کی تھے جو اُن کے برتن مانجا کرتے تھے.بعض وہ تھے جو اُن کے بستر جھاڑتے ، بعض وہ تھے جو اُن کے لئے جنگل سے لکڑیاں اور ایندھن لاتے اور بعض وہ تھے جو اُن کے اونٹوں کے لئے گھاس وغیرہ لاتے.اسی طرح ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے سروں پر وہ جوتیاں مارا کرتے تھے اور ان میں وہ لوگ بھی تھے جن کی ماؤں کو اسلام لانے پر ان کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہوں نے ہلاک کیا تھا.غرض یہ غلام جن کو ذلیل ترین وجود سمجھا جاتا تھا باری باری اندر آئے اور ہر شخص کے آنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان رؤساء سے کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو جگہ دو.اور وہ پیچھے ہتے چلے گئے.یہاں تک کہ جوتیوں میں جا کر بیٹھ گئے.جب مجلس ختم ہوئی تو باہر نکل کر انہوں.
خطبات محمود ۳۴۲ سال ۱۹۳۹ء ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا آج جو سلوک ہمارے ساتھ ہوا ہے اس سے زیادہ ذلت کا سلوک اور کوئی نہیں ہو سکتا.وہ شہر جس میں ہمارے باپ دادوں نے حکومت کی اسی شہر میں یہ لوگ جو ہمارے غلام تھے اور مکہ میں ذلیل ترین وجود سمجھے جاتے تھے آج ایک ایک کر کے ہمارے آگے بٹھائے گئے اور ہمیں پیچھے ہٹاتے چلے گئے.یہاں تک کہ ہم جوتیوں میں بیٹھے اس سے زیادہ ذلت اور رسوائی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی.یہ گفتگو سُن کر ان میں سے ایک جو زیادہ شریف تھا وہ بولا اور اس نے کہا کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ یہ بات سن کر سب کی شرمندہ ہو گئے.وہ کہنے لگا جب ہم نے اور ہمارے باپوں نے خدا کے رسول کا انکار کیا تھا اس وقت یہ لوگ ایمان لائے تھے.پس چونکہ یہ پہلے ایمان لائے اس لئے ان کو یقیناً ہم پر فضیلت حاصل ہے اور یہ ہمارا ہی قصور ہے کہ ہم وقت پر ایمان نہیں لائے.تب انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا کہ کیا اس ذلت کو مٹانے کا کوئی ذریعہ بھی ہے یا نہیں اور کیا اس گناہ کا کوئی کفارہ نہیں ؟ انہوں نے کئی تدبیریں سوچیں.کسی نے کہا ہم اپنی جائداد میں اسلام کی راہ میں دے دیں، کسی نے کہا ہمیں چاہئے کہ ہمارے پاس جس قد ر روپیہ ہے وہ سب قربان کر دیں، مگر کسی بات پر ان کا اطمینان نہ ہوا اور آخر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چلو حضرت عمر کے پاس ہی چلیں اور انہی سے دریافت کریں کہ اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت عمرؓ چونکہ اچھے خاندان میں سے تھے اور وہ شریف خاندانوں کی عزت و عظمت کو سمجھتے تھے اس لئے ان کا کی خیال تھا کہ حضرت عمر ہمیں کوئی ہمدردانہ مشورہ دیں گے.چنا نچہ اُنہوں نے اجازت طلب کی اور حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم ایک مشورہ لینے کے لئے آئے ہیں.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہو کیا بات ہے.انہوں نے کہا آج ہم آپ کی مجلس میں آئے اور ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے بعض اور لوگوں کے آنے پر ہمیں پیچھے ہٹانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہم جو نتیوں میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم میری مجبوری کو سمجھ سکتے ہو.یہ رسولِ کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ میں ان کو عزت و تکریم سے بٹھاتا.اُنہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر کے ایک بہت بڑی ذلت اپنے لئے مول لی مگر اب ہمیں
خطبات محمود ۳۴۳ سال ۱۹۳۹ء کوئی ایسا طریق نظر نہیں آتا جس سے یہ ذلت کا داغ ہم اپنی پیشانی سے دور کر سکیں اور ہم آپ سے یہی مشورہ لینے کے لئے آئے ہیں کہ کیا کوئی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت ہمارے ماتھے سے دور ہو سکے.عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہی تھے جس کے ذمہ عرب کے نسبوں کو یاد رکھنا ہوتا تھا اور وہ بتایا کرتے تھے کہ فلاں خاندان میں فلاں بڑا آدمی ہوا ہے اور فلاں خاندان میں فلاں بڑا آدمی ہوا ہے.پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ واقف ان کی خاندانی عزت کا اور کون ہوسکتا تھا.وہ جانتے تھے کہ ان کے باپ دادا کو کیسی عظمت حاصل تھی ، وہ جانتے تھے کہ انہیں کتنی بڑی حکومت حاصل تھی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اب ان کی کیا حالت ہے.یہ تمام حالات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایک کر کے آنے لگے اور ان واقعات کا تصور کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ! تم اس ذلت کا علاج پوچھتے ہو.یہ کہہ کر آپ پر رقت طاری ہو گئی اور مزید کوئی اور بات کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گیا.آپ نے غلبہ رقت میں اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں ان دنوں لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کیا اور کہا اس کا علاج ہے اُدھر ہے.گویا انہیں بتایا کہ اس ذلت کو دور کرنے کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جہاد میں شامل ہو کر جانیں دے دو.اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں.وہ لوگ بھی اخلاص سے اسلام میں داخل ہوئے تھے.ان کے دلوں میں بھی ایمان تھا اور ان کے قلوب بھی اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار تھے.اُنہوں نے جب یہ سنا تو اسی وقت وہ اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان میں سے کوئی شخص زندہ واپس نہیں آیا.اے سب اسلام کی خاطر جہاد میں شامل ہو کر شہید ہو گئے.یہ ان دشمنوں کے لڑکے تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت شروع دن سے کی مگر پھر بھی ان کے اخلاص اور ان کی قربانی کا یہ حال تھا تو کہ وہ ایک اشارہ پاتے ہی شام کی طرف روانہ ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں کی آیا.اس کے مقابلہ میں میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہارے اخلاص اور تمہاری قربانی اور تمہاری محبت اور تمہاری فدائیت کا بھی ثبوت یہی ہوسکتا تھا کہ تم ثابت کرتے کہ تم نے احمدیت کے لئے اسی قسم کی قربانیوں کا نمونہ دکھا دیا ہے جس قسم کی قربانیاں صحابہ نے کیں مگر کیا تو
خطبات محمود ۳۴۴ سال ۱۹۳۹ء.تم کہہ سکتے ہو کہ تم واقع میں اس قسم کی قربانیاں کر رہے ہو؟ کیا تم میں وہ رجل رشید نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کے شکر کے طور پر کہ اس نے تمہیں اپنے مسیح کو ماننے کی توفیق بخشی اپنا مال اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دیں.کیا تمہارے دل میں یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ کاش تمہیں بھی ایسی ہی قر بانیوں کا موقع ملے تا آنے والی نسلیں تمہارے نمونہ کو دیکھ کر تم پر درود بھیجیں اور آسمان پر فرشتے تمہاری قربانی اور ایثار کی تعریف کریں.نہایت چھوٹی چھوٹی قر بانیاں ہیں جو تمہارے سامنے پیش ہوتی ہیں مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد تم ان کو کی بالکل بھول جاتے ہو اور تمہاری حالت اس افیونی کی طرح ہو جاتی ہے جسے بار بار جگانا پڑتا ہے اور وہ بار بارسو جاتا ہے.مثلاً میں نے تحریک جدید شروع کی.میں سمجھتا ہوں اپنے دل میں اسلام کا در در رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا تھا جس کے سامنے یہ تحریک پیش کی جاتی کہ اس چندہ کے ذریعہ ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے گا جو دائمی طور پر اسلام کی تبلیغ کے کام آئے گا اور وہ یہ تحریک سُننے کے باوجود اس میں حصہ نہ لیتا بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک مرتے ہوئے با ایمان انسان کے کانوں میں بھی یہ تحریک پہنچ جاتی تو اس کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا اور وہ سمجھتا کہ میرے خدا نے میرے مرنے سے پہلے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرا کے اور مجھے اس میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرما کر میرے لئے اپنی جنت کو واجب کر دیا مگر تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے استقلال کے ساتھ اس میں حصہ لیا ؟ لاکھوں کی جماعت میں سے پانچ ہزار کی تعداد بھی تو ابھی پوری ہونے میں نہیں آئی.چنانچہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ”الفضل“ میں اُن لوگوں کی جو فہرست شائع ہو رہی ہے جنہوں نے شرائط کے مطابق تحریک جدید کے پانچوں سالوں کا چندہ اگست تک ادا کر دیا ہے ان کی تعداد بھی تین چار سو سے زائد نہیں ہوئی اور ابھی تو اس تحریک کا پانچواں سال ہے.نہ معلوم شامل ہونے والوں میں سے آخری سال تک کون گرتا اور کون رہتا ہے.اس زمانہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں اور وہ انعام بھی حاصل کر لیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے حاصل کئے حالانکہ یہ بالکل ناممکن ہے.وہ انعامات تو الگ رہے ایمان بھی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اُن تمام قر بانیوں میں حصہ نہ لیا جائے جو پہلے انبیاء کی
خطبات محمود ۳۴۵ سال ۱۹۳۹ء جماعتوں نے کیں.ایمان تو ایک موت ہے جب تک کوئی شخص اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک وہ ہرگز ہرگز ابدی زندگی حاصل نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو اپنی بارگاہ میں قبول کیا کرتا ہے جو ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ قوم ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلی اس ڈر کی اور خوف سے کہ وہ مر جائیں گے لے مگر کیا آج اسلام کی یہی حالت نہیں ؟ اور کیا اسلام اپنی موت کے قریب نہیں پہنچ گیا ؟ کیا تمہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ تم کن لوگوں کی اولاد ہو ؟ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہوں نے یورپ سے لے کر چین کی انتہائی سرحدوں تک حکومت کی تھی تم ان لوگوں کی اولاد میں سے ہو جن کے ماتحت کسی زمانہ میں وہ تمام یوروپین اقوام تھیں جو آج تم پر حکومت کر رہی ہیں.یہی اٹلی جو آج بڑا شور مچا رہا ہے اس کے کئی حصے تمہارے باپ دادوں کے ماتحت تھے.یہی جرمنی جس کا آج چاروں طرف شہرہ ہے اس کے کئی حصوں پر تمہارے باپ دادوں کی حکومت تھی.یہی پین جو آج ترقی کر رہا ہے تمہارے باپ دادوں کے ماتحت تھا.اسی طرح امریکہ کے جزائر ، فلپائن تک ، افریقہ سارے کا سارا اور ایشیا قریباً سارا ان کے ہاتھ میں تھا.تم میں سے کئی جو آج یہاں بیٹھے ہوئے ہیں بالکل ممکن ہے وہ بلا واسطہ ان بادشاہوں کی اولاد میں سے ہوں لیکن آج تمہاری کیا حیثیت ہے.آج تمہاری ہی نہیں آج سارے اسلام کی کیا حیثیت ہے.آج مسلمانوں کی کہیں عزت ہے نہ اسلام کے نام سے ڈرنے والا کوئی موجود ہے.چھوٹی چھوٹی تو میں جن کے پاس حکومت نہیں آج ان کی بھی آواز سنی جاتی ہے مگر اسلام اور مسلمانوں کی آواز کہیں سنی نہیں جاتی.گاندھی کی آواز بھی آج لوگوں پر اثر کرتی ہے.حالانکہ گاندھی ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جسے ہزار سال سے زیادہ حکومت کئے گزر چکا ہے لیکن آج مسلمان بادشاہوں کی آواز کی بھی کوئی قدر نہیں کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی مثال ایک گرتے ہوئے کھنڈر کی سی ہے اور گاندھی کی مثال گو ایک کی جھونپڑی کی سی ہے مگر وہ نئی بنی ہوئی ہے اور اس کے متعلق امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دس بیس سال کی تک ان کے کام آئے گی لیکن مسلمانوں کی حکومتیں گرتا ہو ا کھنڈر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آج ہے تو کل نہیں اور جو کل ہے تو پرسوں نہیں تو وہ جو یہود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حَذَرَ الْمَوْتِ کی
خطبات محمود ۳۴۶ سال ۱۹۳۹ء کے الفاظ بیان فرمائے ہیں اُس سے زیادہ موت کا خوف مسلمانوں کے ساتھ لگا ہوا ہے اور تمہارے ساتھ بھی لگا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اب اگر تم زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق ہم تمہیں بتا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ موتُوا تم مر جاؤ.فرما یا مردہ قوم کی زندگی کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آپ پر موت وار د کر لے.پہلی موت جو تم نے اپنے آپ پر وارد کی تھی وہ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں تھی بلکہ وہ موت شیطان کے لئے تھی.وہ موت اپنے نفس کے لئے تھی ، وہ موت اپنی ہستیوں اور کاہلیوں کے لئے تھی.یہی وجہ ہے کہ تم نے جو موت قبول کی تھی وہ دائی تھی مگر فرماتا ہے اب تم دوسری موت کا بھی تجربہ کر کے دیکھ لو اور اپنے نفس کے لئے نہیں شیطان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے مر جاؤ.پھر دیکھو ہم تمہیں زندہ کرتے ہیں یا نہیں.کتنا لطیف استعارہ ہے جو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نبی ہمیشہ اسی قوم میں آتا ہے جس قوم کے متعلق دنیا یہ فیصلہ کر دیتی ہے کہ وہ مر رہی ہے اور جو مر نے والا ہو اس کی جان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے.قیمت ہمیشہ اس چیز کی ہوتی ہے جس نے رہ جانا ہومگر جس نے ضائع ہی ہو جانا ہو اس کی کچھ بھی قیمت نہیں ہو سکتی تو یہاں ایسا لطیف تقابل کیا ہے کہ دل عش عش کر اُٹھتا ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کس بلندی تک مضمون کو پہنچا دیا گیا ہے.تو اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ ہم ہمیشہ ایسی ہی قوموں میں نبی بھیجا کرتے ہیں جن کی کے متعلق دنیا یہ فیصلہ کر چکی ہوتی ہے کہ وہ آج بھی کریں اور کل بھی کریں جیسے آج کل مسلمان کی ہیں کہ ان کے متعلق تمام دُنیا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ایک مُردہ قوم ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو تم مر گئے اور آج تمہاری موت اس قدر واضح اور کھلی ہے کہ ہر شخص تمہیں دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ تم زندہ نہیں ہو سکتے مگر یہ موت تم نے اپنے نفس کی خاطر قبول کی تھی.یہ موت تم نے اپنے عیش اور آرام کے لئے قبول کی تھی ، یہ موت تم نے اپنی عزت کی خاطر قبول کی تھی ، یہ موت تم نے اپنی ذاتی ترقی کے لئے قبول کی تھی مگر بجائے اس کے کہ تمہیں آرام حاصل ہوتا ، بجائے اس کے کہ تمہیں عزت ملتی ، بجائے اس کے کہ تمہیں ترقی حاصل ہوتی تم موت کے قریب پہنچ گئے ہو.نہیں نہیں تم مر ہی گئے ہو اور دُنیا متفقہ طور پر پکار اُٹھی کہ اب تم میں کوئی جان باقی نہیں رہی.اب بتاؤ تمہاری عزت اور تمہارے مال کی کیا قیمت ہے؟ یقینا کچھ بھی نہیں مگر فر ما تا ہے جس جسم ،
خطبات محمود ۳۴۷ سال ۱۹۳۹ء جس عزت اور جس مال میں زوال آچکا ہے، جس پر موت آ چکی ہے ، تم اس حقیر ذلیل اور بے حقیقت چیز کو ہماری خاطر بھی قربان کر دیکھو.پھر دیکھو اس موت کے بعد کیا ہوتا ہے.فرماتا ہے فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوْتُوا خدا نے ان کو کہا کہ مر جاؤ اور اپنے لئے ایک موت قبول کر لو.ثُمَّ أَحْيَاهُمُ.جب اُنہوں نے ہماری خاطر یہ موت قبول کر لی تو ہم نے ان کو زندہ کر دیا.گویا جو موت انہوں نے اپنے نفس، اپنے آرام، اپنی عزت اور اپنی ترقی کے لئے قبول کی تھی وہ تو قطعی اور یقینی موت بن گئی مگر وہ موت جو خدا تعالیٰ کے لئے انہوں نے اپنے آپ پر وارد کی تھی وہ ان کی زندگی کا موجب بن گئی.یہاں تک کہ فرعون کے گھروں کے پتھیر ے شام اور فلسطین کے بادشاہ ہوئے ، بابل اور ایران پر انہوں نے حکومتیں کیں اور پھر اُنہی پتھیر وا میں سے داؤد جیسا عظیم الشان بادشاہ پیدا ہوا جس کے جہاز ایشیا اور ایران اور یورپ تک جاتے تھے اور دنیا کے تمام خزانے اس کے پاس جمع تھے.یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ جب ان پر موت آ رہی تھی تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ آؤ میں تمہیں اپنا معجزہ دکھاؤں.دنیا میں تو کسی مُردہ کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے مگر وہ اپنی اس معجز نمائی کے لئے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے.دنیا میں مُردہ قوموں کو زندہ کیا کرتا ہے.جب کوئی قوم کر رہی ہو تو وہ اس کی مثال کو دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ تم اس بات پر ایمان نہیں لاتے کہ میں مردوں کو زندہ کر سکتا ہوں.آؤ اور اس قوم کو دیکھو.میں اسے زندہ کر کے دکھاتا ہوں یا نہیں.پھر وہ اس قوم کی طرف مخاطب ہوتا اور فرماتا ہے کہ تم اب ہماری کی خاطر مر جاؤ اور ہماری خاطر اپنی جانوں اور اپنے مالوں پر موت وارد کر لو پھر دیکھو میں تمہیں زندہ کرتا ہوں یا نہیں.چنانچہ جب وہ قوم اللہ تعالیٰ کے لئے موت کو قبول کر لیتی ہے تو خدا تعالیٰ اُسے زندہ کر دیتا ہے.سوائے عزیز و ا تم جس قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہو اس کی پہلی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے تم دنیا کے بدترین اور ذلیل وجود ہو.اپنے آباء کے لئے نگ، خاندانوں کی عزت برباد کرنے کی والے اور باپ دادوں کی شہرت کو خاک میں ملانے والے.خدا تعالیٰ نے تمہاری اس موت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو تمہاری طرف مبعوث فرمایا ہے اور وہ آج تم سے
خطبات محمود ۳۴۸ سال ۱۹۳۹ء یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ تم میری خاطر قر بانیوں سے اپنے او پر موت وارد کر لو.پھر دیکھو میں تمہیں کتنی بڑی عزت اور عظمت دیتا ہوں، کتنی چھوٹی چھوٹی قر بانیاں ہیں جو تم کرتے ہو مگر ان قر بانیوں کی وجہ سے آج بھی تمام دنیا میں تمہاری عزت ہے.جہاں چلے جاؤ یہی ذکر سُنو گے کہ اس جماعت میں بڑی طاقت ہے.تمہاری تنخواہیں تمہیں چار چار مہینے نہیں ملتیں لیکن اگر تم میری ڈاک دیکھو تو ہر مہینہ میں ایک دو ایسے خط ضرور آ جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن ہماری راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں.ہم پر اتنا قرض ہے اور اس قدر روپیہ کی شدید ضرورت کی ہے اگر آپ اتنے روپیہ کا انتظام کر دیں تو ہم مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں.لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں.وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس بڑا روپیہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر ہماری جماعت کا رُعب قائم کر دیا ہے.ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے بعض کی دفعہ اس رُعب کو مٹا بھی دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے احیاء کا سلسلہ برابر شروع ہے اور کی دُنیا کے کناروں تک احمدیت کی شہرت پھیلتی جاتی ہے.کوئی بڑی سے بڑی قوم ایسی نہیں جسے ہندوستان سے باہر لوگ جانتے ہوں مگر تمہیں ضرور جانتے ہیں اور آہستہ آہستہ دنیا کی تاریخ اور کی اس کے لٹریچر میں تمہارا نام آنا شروع ہو گیا ہے.چنانچہ کئی کتا بیں غیر ممالک میں ہماری جماعت کے متعلق لکھی جاچکی ہیں.جرمنی میں بھی اور فرانس میں بھی اور اٹلی میں بھی.ان میں سے بعض مستقل کتابیں ہیں اور بعض میں اور باتوں کے ضمن میں احمدیت کا ذکر آ گیا ہے مگر ہم جو کچھ ہیں وہ ہم جانتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک احیاء شروع ہے کی اور جون جوں جماعت قربانی کرتی چلی جاتی ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو زندہ کرتا چلا جاتا ہے لیکن اگر ہماری جماعت ساری موت قبول کرے تو ساری حیات بھی اُسے میسر آ جائے.یہ بالکل ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو اس قربانی کا دنیوی زندگی میں انعام نہ ملے مگر تم میں سے کون ہے جو اپنی اولاد کے لئے قربانی نہیں کرتا.اگر ہم اپنی زندگی میں اس فتح کو نہ دیکھیں مگر ہماری اولادیں دیکھ لیں تو کیا یہ ہمارے لئے کم خوشی کا موجب ہو سکتا ہے؟ تم اپنی اولا دکو پڑھاتے ہو مگر تمہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ تم اس کے پڑھنے اور پھر ملا زم ہونے تک زندہ بھی رہو گے یا نہیں.تم قربانی کرتے چلے جاتے ہو اور یہ سمجھ لیتے ہو کہ اگر ہماری اولا د کو کچھ ملا
خطبات محمود ۳۴۹ سال ۱۹۳۹ء تو ہمارے نزدیک وہ بھی ہمیں ہی ملا.پس یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سب کچھ ہمیں ہی حاصل ہو.ایک لطیفہ مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی بادشاہ کہیں سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک بڑھے کو جو ستر اسی سال عمر کا تھا دیکھا کہ وہ ایک ایسا درخت بو رہا ہے جس کا پھل پندرہ بیس سال کے بعد لگا کرتا ہے.اس نے حیرت سے بڑھے کی طرف دیکھا اور کہا میاں تم یہ درخت کیوں لگا رہے ہو؟ تم نے اس کا پھل تھوڑا کھانا ہے.تم تو پھل لگنے سے پہلے ہی مر جاؤ گے.بڑھے نے جواب دیا کی کہ بادشاہ سلامت آپ جیسا معقول آدمی اگر ایسی بات کرے تو تعجب ہی ہے.اگر ہمارے باپ دادا بھی اسی خیال سے درخت نہ لگاتے کہ ہم تو اب مر جائیں گے ، ہم درخت لگا کر کیا ج کریں تو آج ہم ان درختوں کا پھل کس طرح کھا سکتے.اُنہوں نے درخت لگائے اور ہم نے ان کا پھل کھایا.اب ہم لگائیں گے اور ہماری آئندہ نسل اس کا پھل کھائے گی.بادشاہ کو اس کی یہ بات بہت ہی پسند آئی اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا زه - گلے اور بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ جب میں کسی کی بات سے خوش ہو کر زہ کہوں تو اُسے تین ہزار درہم بطور انعام دے دیئے جایا کریں.چنانچہ اُدھر بادشاہ نے زہ کہا اور ادھر خزانچی نے تین ہزار درہم کی تھیلی بڑھے کے سامنے رکھ دی.بڑھا یہ دیکھ کر مسکرایا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت آپ تو کہہ رہے تھے کہ درخت لگانا بیوقوفی ہے تو اس کا پھل کھا ہی نہیں سکتا مگر دیکھئے لوگ تو درخت لگاتے اور کئی کئی سال کے بعد پھل کھاتے ہیں مگر میں نے اس درخت کو لگاتے لگاتے اس کا پھل کھا لیا.بادشاہ کی کو پھر یہ بات پسند آئی اور اس کی زبان سے نکلا زہ اور خزانچی نے جھٹ تین ہزار درہم کی دوسری تھیلی بھی اس کے سامنے رکھ دی.بڑھا دوسری تحصیلی کی طرف دیکھ کر ہنسا اور بولا بادشاہ سلامت لوگ سال میں درخت کا ایک دفعہ پھل کھاتے ہیں مگر میں نے ایک منٹ میں اس کی کا دو دفعہ پھل کھا لیا.بادشاہ نے پھر کہا زہ اور خزانچی نے تیسری تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.بادشاہ یہ دیکھ کر ہنس پڑا اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا یہاں سے چلو ورنہ بڑھا ہمیں کوٹ لے گا.ہے تو یہ لطیفہ لیکن اس میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ بہت ہی کمپینہ اور ذلیل انسان وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میری خدمت کا صلہ اگر مجھے نہ ملا تو کچھ نہ ملا.اول تو مومن کی خدا تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے دُنیا پر اُس کی نظر ہوتی ہی نہیں.لیکن اگر ہو بھی تو اُسے سمجھ لینا چاہئے کہ جب
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۱۹۳۹ء میری قوم کو ایک انعام ملا تو مجھے مل گیا.پس میں جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کیک ہر قسم کی قر بانیوں میں حصہ لیں اور جو وعدے اُنہوں نے کئے ہوئے ہیں انہیں پورا کریں اور کی سمجھ لیں کہ یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے.تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے سینما نہیں دیکھا ہم مر گئے ، تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہم ہمیشہ ایک کھانا کھاتے ہیں ہم تو مر گئے تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں تو ہمیشہ سادہ رہنا پڑتا ہے ہم تو مر گئے ، تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں رات دن چندے دینے پڑتے ہیں ہم تو مر گئے.میں کہتا ہوں ابھی تم زندہ ہو، میں تو تم سے حقیقی موت کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے تو پھر میں تمہیں زندہ کروں گا.پس یہ موت ہی ہے جس کا میں تم سے مطالبہ کرتا ہوں اور یہ کی موت ہی ہے جس کی طرف خدا اور اس کا رسول تمہیں بلاتا ہے اور یا درکھو کہ جب تم مر جاؤ گے تو اُس کے بعد خدا تمہیں زندہ کرے گا.پس تم مجھے یہ کہہ کر مت ڈراؤ کہ ان مطالبات پر عمل کرنا چ موت ہے.میں کہتا ہوں یہ موت کیا اس سے بڑھ کر تم پر موت آنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل احیاء تمہیں حاصل ہو.پس اگر یہ موت ہے تو خوشی کی موت ہے اگر یہ موت ہے تو رحمت کی موت ہے اور بہت ہی مبارک وہ شخص ہے جو موت کے اس دروازہ سے گزرتا ہے کیونکہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے زندہ کیا جائے گا.“ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۳۹ ء ) سنن ابن ماجه - ابواب اقامة الصلوة و السنة فيها - باب ماجاء في المصلّى اذا نَعَسَ الاحزاب :۲۴ صحیح بخاری کتاب المغازى ـ باب غزوة الموتة من أرض الشام تاريخ الطبرى الجز الثانی صفحہ۵۰۷.دار المعارف بمصر ١٩٦١ء زیر عنوان غزوة احد.۵ سیف الله خالد بن الوليد دراسه عسكريه تاريخيه عن معاركه و حياته الجزء الاول صفحه ۱۱۴ مطبوعہ مؤسسة الرساله بيروت - ۱۹۸۸ ء الطبعة السادسة صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة الموتة من ارض الشام
خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۹ء ك الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد ۳ صفحه ۱۹۱ باب عكرمه ـ مكتبه دار الكتب العلميه بيروت لبنان الطبعة الاولى ۱۹۹۵ء الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد ۲ صفحه ۴ اباب حرف الخاء مكتبه دار الكتب العلميه بيروت لبنان - الطبعة الاولى ۱۹۹۵ء السيرة النبويه لا بن هشام الجزء الثالث صفحه ۳۲۹ مطبع مصطفی البابی الحلبی واولاده مصر ۱۹۳۶ء.زیر عنوان امر الحديبية ا اسدالغابه جلد ۲ صفحه ۳۷۲.مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ المتر الى الذين خرجوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ ألُوفَ حَذَرَ المَوْتِ ، فَقَالَ لَهُمُ الله مؤثؤات ثُمَّ احْيَاهُمْ ، إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلِ عَلَى النَّاسِ وَلكِن اكثر الناس لا يَشْكُرُونَ (البقرة : ۲۴۴) زہ: حرف تحسین ( شاباش ، مرحبا، بہت خوب از فیروز اللغات اردو جامع نیا ایڈیشن فیروز سنز پرائیویٹ لمٹیڈ زیر حرف زہ.
خطبات محمود ۳۵۲ ۲۴ سال ۱۹۳۹ء جنگ میں اہل ہند کا انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے ( فرموده یکم ستمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں سمجھتا ہوں کہ یہ عورتوں کا حصہ مسجد کے ساتھ بنانے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ وہاں سے آواز میں اس بے تکلفی سے آ رہی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے عورتیں نماز کے لئے نہیں آئیں بلکہ کھیلنے کودنے کے لئے آئی ہیں ، بچے بھی موجود ہیں جو شور مچارہے ہیں اور عورتیں بھی باتیں کر رہی ہیں اور جب عورتوں کی تربیت ایسی ہو تو انہیں الگ وعظ کرنا چاہئے مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے.اس لئے منتظمین کو چاہئے کہ اگلے جمعہ سے یہ پردہ اُٹھا دیں اور عورتوں کے لئے پہلے باہر جو ا نتظام ہوتا تھا وہی رہنے دیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ایا م نہایت نازک معلوم ہوتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی خاص قدرت انسانوں کے آڑے نہ آ جائے اور اس کی رحیمیت اور کریمیت انسانوں کی خطاؤں کی پردہ پوشی نہ فرمائے تو دُنیا بالکل تباہی کے کنارے پر کھڑی نظر آتی ہے.وہ لوگ جن کی عمریں ۴۰،۳۵ ، ۴۵ یا ۵۰ سال کے درمیان کی ہیں انہیں یاد ہو گا کہ جنگ عظیم جس کی نسبت خیال کیا جا تا تھا کہ شاید اتنی بڑی جنگ کبھی نہیں ہوگی اور جسے عالمگیر
خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۳۹ء کہا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کی تباہی و بربادی شاید سینکڑوں سالوں تک دُنیا کو یادر ہے کی گی جب وہ ہوئی تو ہندوستان کے لوگوں کو محسوس بھی نہیں ہوا تھا کہ جنگ ہو رہی ہے سوائے اس کے کہ اخبارات میں اس کا ذکر پڑھتے تھے یا کبھی آٹا مہنگا ہو جاتا تھا اور ہندوستانی سمجھ لیتے تھے کہ جنگ ہو رہی ہے یا جو لوگ فوج میں بھرتی ہو گئے تھے.ان کے گھروں میں روپیہ آتا تھا یا جب کبھی ان میں سے کسی کے مرنے کی خبر آتی تھی تو سمجھا جاتا تھا کہ لڑائی ہو رہی ہے ورنہ جنگی لحاظ سے ہمارے ملک پر اس لڑائی کا کوئی اثر نہ تھا.چار سال کی متواتر اور طویل جنگ کے با وجود ہندوستانیوں کو اس کا احساس نہ تھا مگر آج ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی لیکن ہندوستان میں جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں اور صرف اس رنگ میں نہیں کہ رنگروٹ بھرتی کئے جارہے ہیں یا روپیہ سے برطانیہ کو امداد دینے کے انتظام ہو رہے ہیں بلکہ اس رنگ میں کہ گولہ باری سے ہندوستان کو کس طرح محفوظ رکھا جائے.آج کلکتہ، بمبئی ، کراچی میں اور سمندر کے قریب واقع دوسرے شہروں میں بھی بچاؤ کے انتظامات ہو رہے ہیں.رات کو اندھیرے کئے جاتے ہیں ، ہوائی حصوں سے بچاؤ کے لئے لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے اور یہ خطرہ لگ رہا ہے کہ دشمن کے جہاز ہندوستان کے شہروں پر گولہ باری کریں گے اور ان کو تباہ کر دیں گے.اب ایسے جہاز تیار ہو چکے ہیں کہ جو سو سوٹن یعنی قریباً تین ہزار من تک وزنی بم لے کر بمباری کرتے ہیں اور ایک ہی پرواز میں دو دو اور اڑھائی اڑھائی ہزار میل جا کر حملہ کر کے واپس آ جاتے ہیں اور ایسے سمندری جہاز تیار کئے گئے ہیں جو ہوائی جہازوں کو لاد کر دوسرے ملکوں کے قریب لے آتے ہیں.جہاں سے اُڑ کر وہ ان مملکوں پر آسانی سے حملے کر کے واپس ان سمندری جہازوں میں آ اُترتے ہیں.ہندوستان ان سامانوں کے ہوتے ہوئے ایبی سینیا کی زد میں ہے.روس کے کی علاقوں اور چین کے جاپانی علاقوں کی زد میں ہے روسی سرحد انگریزی سرحد سے پانچ چھ سو میل ہے.حبشہ کی دو ہزار میل کے قریب ہے اور بعض علاقوں میں تو ہندوستان کی سرحد برطانیہ کے مخالف ملکوں سے سو ڈیڑھ سو میل ہی ہے.گو اب تک روس، اٹلی اور جاپان نے جرمنی کے کی ساتھ جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا لیکن خطرہ ضرور ہے کہ کسی وقت وہ بھی جنگ میں شامل ہو جائیں.
خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۹ء ان حالات میں یہ امر بعید نہیں کہ معصوم ہندوستان پر بھی گولہ باری کی جائے اور اس کے نہتے افراد کو اس لئے تباہ کر دیا جائے کہ وہ انگریزوں کی حکومت میں کیوں ہیں.بمباری سے تباہی کا خطرہ انگلستان ، فرانس اور ان کے مقابلہ میں جرمنی اور اگر اٹلی اور روس لڑائی میں شامل ہو جائیں تو ان کو بھی ہے.پولینڈ ، ترکی اور مصر کو بھی ہے.اگر ان کے افراد یہ لذت بھی محسوس کرتے ہیں کہ اگر دشمن ہم کو ماریں گے تو ہم بھی ان کو ماریں گے لیکن ہندوستانی کیا کہہ سکتے ہیں؟ ان کی اپنی کوئی فوج ہے نہ سامان ان کے پاس ہے.سوائے اس کے کہ جو انگریز ان کے لئے مہیا کر دیں اور پھر وہ سامان بھی انگریز افسروں کے قبضہ میں ہوگا.ہندوستانیوں کا نہ جنگ کرنے میں کوئی دخل ہے نہ صلح کرنے میں.اس میں کوئی شک نہیں کہ فتح کی صورت میں ہندوستان کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر خدانخواستہ انگریزوں کو شکست ہو جائے تو نقصان میں ہندوستان کو ضرور حصہ دار بننا پڑے گا.گویا گو ہندوستانی فتح کے حصہ سے محروم ہیں مگر تکلیف میں شامل ہیں.لڑائی یا صلح نہ ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ اس میں ان کا کوئی دخل ہے.پھر فتح کے انعامات میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں لیکن شکست کے نقصان میں ضرور ہے.پچھلی جنگ میں کم سے کم چار پانچ لاکھ مسلمان شریک ہوئے ہوں گے ان میں سے پچاس ساٹھ ہزار مارے گئے ہوں گے اور قریب لا کھ ڈیڑھ لاکھ زخمی ہوئے ہوں گے لیکن بعد میں کیا ہوا اور مسلمانوں کو کیا صلہ ملا.یہ کہ ترکی کے حصے بخرے کر دیئے گئے اور جن مسلمانوں نے اپنے خون بہائے تھے وہ دیکھتے کے دیکھتے اور روتے کے روتے رہ گئے.اسی طرح عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے.تو فتوحات کی صورت میں تو ہندوستانیوں کو کوئی فائدہ نہیں لیکن شکست کی صورت میں نقصان ضرور ہے.ان کے اپنے بچاؤ کی کوئی صورت ان کے اختیار میں نہیں بلکہ انگریزی حکومت کے اختیار میں ہے.نہ صلح ان کے اختیار میں ہے اور نہ لڑائی مگر چونکہ انگریزوں کا بہت بڑا اقتدار ہندوستان کی وجہ سے ہی ہے اس لئے یہ بات واضح کی ہے کہ جہاں تک ان کا زور چلے گا انگریز ہندوستان کو تباہ ہونے یا دشمن کے قبضہ میں جانے سے بچائیں گے.میرا مطلب یہ ہے کہ کسی بات میں ہندوستان کی رائے کو دخل نہیں.وہ محض ایک کی ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے.ایک تیر ہے جسے جدھر چاہے چلا دیا جائے.وہ دماغ نہیں کہ خود
خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۹ء کچھ سوچ سکے اور مشورہ دے سکے.ان حالات میں اسے ذہنی لذت بھی کوئی حاصل نہیں ہوسکتی.فرانس اگر جرمنی پر بمباری کرے تو جرمنی بھی اس کا انتقام لے سکے گا اور کہے گا کہ ہم نے بھی کچ خوب خبر لی اور اگر پولینڈ پر جرمنی حملہ کرے تو وہ بھی آگے سے جواب دے کہ ذہنی طور پر ضرور لڈت اندوز ہو سکتے ہیں کہ ہم نے بھی ان کو خوب سزا دی ہے مگر ہندوستان پر اگر حملہ ہو تو وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ میں بھی بدلہ لیتا ہوں جب کہ اس کے پاس نہ کوئی ہم ہے نہ طیارہ ، نہ گولی اور نہ بارود.اس صورت میں ایک ہندوستانی تو یہی کہتا ہوا گاؤں سے بھاگے گا کہ ہائے میری قسمت کی اگر ہندوستان کی طرف سے بمباری کا جواب بھی دیا جائے تو بھی ہندوستانی فخر نہیں کر سکتے کہ ہم نے بھی خوب خبر لی کیونکہ وہ تو نوکر ہیں اپنی تنخواہ کے لئے یا زیادہ سے زیادہ جان بچانے کے لئے لڑتے ہیں ملک میں قوم کے وفادار اور افتخار کے لئے نہیں مگر اپنی اس بے بسی کے با وجود کوئی عقلمند ہندوستانی یہ نہیں کہہ سکتا کہ لڑائی انگریز کی ہے ہماری نہیں.اگر کوئی یہ کہے تو وہ احمق ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ دشمن سے کہتا ہے کہ آ مجھے مار.میں تو حیران ہوں کہ ہندوستان کے بعض عظمند اس وقت ایسی بیوقوفی کر رہے ہیں کہ ابھی سوچ رہے ہیں کہ ہم انگریزوں کا ساتھ دیں یا نہ دیں.اگر وہ اپنے آپ کو انگریزوں کا دشمن بھی خیال کرتے ہیں تب بھی ایسا خیال کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ دو شخص جو ایک دوسرے کے دشمن ہوں ایک چھت کے نیچے ہوں کوئی بیرونی دشمن چھت پر بمباری کر رہا ہو اور وہ سوچیں کہ ہم اس وقت ایک دوسرے کی مدد کریں یا نہ کریں ایسا سوچنا حماقت ہے کیونکہ اگر وہ چھت گری تو دونوں کریں گے.انگریزوں کے ساتھ ہندوستان کا تعلق ایسا گہرا ہے کہ خواہ کوئی ہندوستانی ان کا کتنا ہی دشمن کیوں نہ ہوا گر جنگ کے وقت یہ خیال کرتا ہے کہ میرے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ میں اس کی وقت انگریزوں کا ساتھ نہ دوں تو میرے نزدیک اس سے زیادہ احمق کوئی نہیں ہوسکتا.انگریزوں کے متعلق خواہ بعض ہندوستانیوں کے جذبات معاندانہ ہوں خواہ غیر جانبدارانہ اور خواہ ہمدردانہ اگر وہ عقلمندی سے کام لیں تو انہیں انگریزوں کا ساتھ دینا پڑے گا.غرض خواہ ہم ان کی کے دشمن ہوں خواہ ہمدرد اور خواہ غیر جانبدارا گر ہم عقلمند ہیں تو ہم مجبور ہیں کہ ان کا ساتھ دیں ورنہ زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ ہوگا کہ پہلے ہمارے حاکم انگریز ہیں اور پھر جرمن یا روسی ہو جائیں گے
خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۳۹ء اور ہر عقلمند انسان بلکہ کمزور عقل کا انسان بھی اگر سوچ سمجھ سے کام لے تو تسلیم کرے گا کہ ہر تازہ دم حکومت زیادہ ظلم کرتی ہے.انگریزوں کو خواہ کوئی کتنا بُرا کہے اگر چہ میرا خیال یہی ہے کہ گوان کے اندر ایمان والی دیانت تو نہیں مگر یورپ کی کوئی اور قوم ایسی نہیں جو ان کی طرح رعایا کا خیال رکھتی ہو.بیشک وہ بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اپنے فائدہ کے لئے یہاں حکومت کرتے ہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ انگریز یہاں اس لئے آئے ہیں کہ ہندوستان کی خدمت کریں وہ میرے نزدیک احمق ہے یا جھوٹا ہے مگر پھر بھی جو دوسرے غیر ملکوں میں اپنے فائدہ کے لئے کی گئے ہیں ان سب سے انگریز بہتر ہیں.دوسری قو میں محکوموں کی اگر کھال اُتارتی ہیں تو یہ کہتے ہی ہیں کہ کھال رہنے دو.وہ اگر لباس اُتروا لیتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ نگا نہ کرو.دوسری اگر روزی چھین لیتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ان کو بھی کھانے دو.اگر یورپ کا اقتدار ایک بلا ہے تو انگریز ادنی درجہ کی بلا ہیں.اگر دوسری قوموں میں سے انتخاب کرنا پڑے تو میں کہوں گا کہ اگر عقلمند ہو تو انگریزوں کو منتخب کرو.امریکہ کی نسبت تو میں کہہ نہیں سکتا کیونکہ وہ بہت دُور ہے اور ہمیں اس کا پورا تجربہ کرنے کا کی موقع نہیں ملا.اس کے سوا باقی سب ممالک یعنی فرانس ، پرتگال ، اٹلی وغیرہ سے انگریزوں کا سلوک محکوموں سے زیادہ اچھا ہے.وہ ایسا معاملہ کرتے ہیں کہ ممکن ہوتا ہے کہ کچھ مدت کے بعد ان کے محکوم آزادی کی طرف قدم اُٹھا سکیں لیکن اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ انگریز بُرے ہیں تب بھی کو ئی عقلمند یہ خواہش نہیں کر سکتا کہ ان کی حکومت بدل جائے جب کوئی حکومت لمبی ہو جاتی کی ہے تو طبعا اس میں کمزوری آجاتی ہے.ان کو ہندوستان پر حکومت کرتے ہوئے سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب ان کی حکومت کا وہ رنگ نہیں رہا جو پہلے تھا.وہ اب زیادہ عرصہ تک پرانے طریق پر حکومت نہیں کر سکتے اور مجبور ہیں کہ ۶۰،۵۰ سال کے بعد ہندوستان کو آزادی دے دیں.یہ ایک لمبی اور علمی بحث ہے اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کا یہ وقت نہیں لیکن کی تاریخ سے یہی پتہ لگتا ہے کہ جب کوئی قوم کسی ملک کو فتح کرتی ہے تو یا تو وہ اسی میں آباد ہو کر اس کا حصہ بن جاتی ہے یا پھر کچھ عرصہ بعد اپنی حکومت کھو بیٹھتی ہے یا اس ملک کو آزاد کر دیتی ہے.انگریز سو سال سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور اب ہندوستانیوں کو انہوں نے
خطبات محمود ۳۵۷ سال ۱۹۳۹ء بہت سے حقوق دے دیئے ہیں.ہندوستانی بھی حقوق طلبی کر رہے ہیں.اس وقت انارکسٹوں کی اور انگریزوں میں ایک دوڑ جاری ہے اگر تو اس وقت سے پہلے کہ ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کی طرف سے نفرت پیدا ہو جائے.ہندوستان کو آزادی مل گئی تو آزادی کے بعد بھی ہندوستان انگریزوں کا دوست رہے گا لیکن اگر یہ وقت آنے سے پہلے انارکسٹوں نے غلبہ حاصل کر لیا تو آزادی ملے گی تو پھر بھی مگر اس صورت میں دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے نہیں کی رہیں گے.بہر حال اب ہندوستان کا قدم آزادی کی طرف ہی اُٹھے گا.سو سال کی حکومت کی بڑی لمبی حکومت ہے اور یہ پرانے زمانہ کی ہزار سال کی حکومت کے برابر ہے.اب اگر ہندوستان کی حکومت میں کوئی تغیر ہو گا تو ہندوستان کی بہتری کے لئے ہی ہوگا اور اسے حقوق ملتے جائیں گے لیکن اگر یہ حکومت بدل جائے تو جونئی قوم آئے گی وہ پہلے تو کچھ عرصہ اس نشہ میں رہے گی کہ ہم نے یہ ملک فتح کیا ہے پھر کچھ عرصہ اس غصہ میں رہے گی کہ اس ملک نے ہم سے لڑائی کی تھی اور اس طرح پہلے تھیں چالیس سال تک وہ خوب جونک کی طرح خون چوسے گی اور کی کہے گی کہ اچھا اب تمہاری خبر خوب لیتے ہیں اور تمہیں بتاتے ہیں کہ انگریزوں سے مل کر ہمارے کی ساتھ لڑائی کرنے کا انجام کیا ہے اس کے جو مر دلڑائیوں میں مارے جائیں گے ان کی عورتیں اور دوسرے رشتہ داروں کے دلوں میں چونکہ غصہ ہوگا اس لئے وہ اپنی قوم کو خوب بھڑ کا ئیں گے کی کہ ہندوستانیوں کو پیس دو.اُنہوں نے کیوں ہم سے لڑائی کی اور وہ یہ خیال بھی نہیں کریں گی گے کہ یہ بے چارے تو ماتحت تھے ان کا کیا اختیار تھا بلکہ یہی کہیں گے کہ انہوں نے کیوں انگریزوں کا ساتھ دیا ؟ وہ ہندوستان کی مجبوریوں کا کوئی خیال نہیں رکھیں گے اور ان کے اس غصہ کی وجہ سے ہندوستان پر جو تباہی اور بربادی نازل ہو گی اس کا تصور کر کے بھی ایک عقلمند کانپ اُٹھتا ہے اور میں تو حیران ہوں کہ کانگرس کے لیڈر یہ کس طرح سوچ رہے ہیں کہ انگریزوں سے تعاون کریں یا نہ کریں.حالات تو ایسے ہیں کہ وہ خواہ انگریزوں کو اچھا سمجھیں اور خواہ بدترین خیال کریں دونوں صورتوں میں ان کے لئے تعاون کرنا ضروری ہے.اگر ہندوستان ان سے تعاون نہیں کرے گا تو خطر ناک مصائب میں گرفتار ہو جائے گا اور نسلوں تک اسے رونا پڑے گا.
خطبات محمود ۳۵۸ سال ۱۹۳۹ء تو اس وقت بہر حال ہندوستان بھی خطرہ کے مقام پر ہے.اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان صاحب اقتدار لوگوں کو سمجھ نہ دے جولڑائی کراسکتے یا اسے روک سکتے ہیں.ہمارے لئے سخت مشکلات در پیش ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑائی کی ذمہ داری کس پر ہے.ہٹلر پر ہے یا پولینڈ پر یا انگریزوں پر.ہم بہت دور بیٹھے ہیں اور اصل حالات ہم تک نہیں پہنچتے لیکن جہاں تک پہنچتے ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز اور ان کے حلیف حق پر ہیں.اصل حالات اور واقعات کی تاریخ بعد میں بیان کرے گی لیکن جب تک وہ ظاہر نہ ہوں ہر قوم کا یہ حق ہے کہ اس کے متعلق حسن ظنی سے کام لیا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہی ہدایت فرمائی ہے کہ حُسنِ ظنی سے کام لینا چاہئے.ایک شخص کے متعلق جب ایک صحابی نے بدظنی سے کام لیا تو آپ نے اُسے یہی فرمایا کہ هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ لے کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا ہے؟ تو ہر قوم کے متعلق پہلا حق یہی ہے کہ اس کے متعلق حسنِ ظنی سے کام لیا جائے لیکن جو کچھ تجربہ ہوا ہے اس نے جرمنی اور اٹلی کے متعلق حسن ظنی کا حق ہمارے دلوں سے اُڑا دیا ہے.اٹلی نے جو کچھ البانیہ کی کے ساتھ کیا یا جرمنی نے چیکوسلواکیہ سے کیا اُسے دیکھتے ہوئے ہم مجبور ہیں کہ انگریزوں کی بات کی پر ان کی نسبت زیادہ اعتبار کریں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جو قوم ایک بار غلطی کرے ضروری نہیں کہ وہ دوسری بار بھی غلطی کرے.اس لئے ہم کوئی قطعی رائے تا حال ظاہر نہیں کر سکتے مگر اب بھی یہی اُمید رکھتے ہیں کہ شائد اللہ تعالیٰ ان کے دل میں رحم پیدا کر دے اور وہ ایسا طریق اختیار کر لیں کہ امن قائم رہے اور یا انگریزوں کے دل میں ایسی کیفیت پیدا کر دے کہ وہ ایسا رویہ اختیار کریں جس سے انصاف بھی قائم رہے اور امن بھی لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی ہو کہ لڑائی ہو تو ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ اس کی مضرتوں سے بالخصوص ہمیں بچائے اور ان لوگوں کو بھی جن کا وجود دینی و دنیوی لحاظ سے مفید ہو.یہ تو خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ بم برسیں ، گولیاں چلیں اور نقصان بالکل نہ ہو اور کوئی آدمی بھی نہ کرے مگر نقصان بھی ایک نسبتی امر ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شدید بم باری کی وجہ سے بھی کم سے کم نقصان ہو یا زیادہ نقصان بدکاروں کا ہو.پس اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہماری اس دُعا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو کہ جنگ ٹل جائے تو یہ ضرور ہو کہ شدید نقصان شریروں کو زیادہ پہنچے.آجکل مادیات کا زور ہونے
خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۹ء کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے دُعاؤں پر ایمان جاتا رہا ہے بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض احمدیوں کی دُعائیں بھی رسمی ہوتی ہیں.دوسرے احمدی دُعا کرتے ہیں اس لئے وہ بھی شریک کی ہو جاتے ہیں مگر دُعا قبول وہی ہوتی ہے جس کے ساتھ یقین ہو اور یہ مقام عارف کو ہی حاصل ہوتا ہے.مومن کو تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے چلتے چلتے جب ان کا گھوڑا رکتا تو وہ سمجھ لیتے کہ میں نے کوئی گناہ کیا ہے.انسان کا نفس خدا تعالیٰ کی سواری کے لئے بمنزلہ گھوڑے کے کی ہے اور جب وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو میرا گھوڑا بھی میری نافرمانی کرتا ہے تو عارف ہر چیز میں خدا تعالیٰ کا نشان دیکھتا ہے.مگر نادان بڑے بڑے نشانات سے بھی یونہی گزر جاتا ہے لیکن حق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مقام ایسا ہے کہ اس میں وہ ہر کافر و مومن کی دُعائنا ہے اور اس میں کوئی امتیاز نہیں کرتا.قرآن کریم میں یہ دونوں مضمون علیحدہ علیحدہ بیان کئے گئے ہیں.ایک جگہ فرماتا ہے آمَن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ لے اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ أجيب دعوة الداع إذا دعان سے کئی نادان اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہے.ایک جگہ تو فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دُعا سنتا ہوں اور ایک جگہ یہ کہ میں ہر پکارنے والے کی دُعا سنتا ہوں لیکن یہ اعتراض محض عدم تدبر کی وجہ سے ہے.اجيب دعوة الداع إذا دعان سورۃ بقرہ میں ہے.وہاں رمضان کا ذکر ہے اور اس سے پہلے یہ سوال درج ہے کہ اِذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فاتي قريب یعنی جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں وہ بے قرار اور بے تاب ہو کر آئیں اور دریافت کریں کہ ہمارا خدا کہاں ہے تو ان سے کہہ دو کہ میں قریب ہوں اجیب دعوة الداع إذا دَعَانِ.میں اس پکارنے والے کی دُعا سنتا ہوں جو بے قرار اور بے تاب ہو کر پاگل کی طرح چیختا اور کی دریافت کرتا ہے کہ میرا خدا کہاں ہے؟ تو یہاں الدّاء سے مراد لقاء الہی کی دُعا کرنے والا ہے.قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے.چنانچہ فرمایا الذين جَاهَدُوا فينا لنهدينهم سُبُلَنَا ، یعنی جو لوگ ہمارے ملنے کے لئے کوشش کرتے ہیں ہمیں اپنی ذات کی قسم ہم انہیں کئی رستے اپنے ملنے کے دکھا دیتے ہیں.اگر دل میں جلن ،
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء سوزش، تڑپ اور بے تابی پیدا ہو جائے تو ایسا انسان اللہ تعالیٰ کو پانے سے کبھی محروم نہیں رہا سکتا.تو یہاں اس دُعا کا ذکر ہے یہ مومن کے لئے جو پاگلوں کی طرح بیتاب ہو کر اپنے خدا کو پکارتا ہے عشق کی کیفیت ہے جو محبوب کے لئے بیتاب کر دیتا ہے.مجھے یاد ہے یہاں ایک چوہڑے کو چوہڑی سے عشق تھا وہ رات دن چلاتا رہتا کہ اے میرے خدا تو مجھے اپنی فلاں کی محبوب سے ملا دے میں نے اُس کی آواز کو کئی بار تہجد کے وقت گاؤں کے دوسرے سرے سے سُنا ہے.تو عشق میں انسان بے تاب ہو جاتا ہے اور یہ عشق جب خدا تعالیٰ کے متعلق ہو اور انسان بیتاب ہو کر کہے کہ کہاں ہے میرا خدا ؟ تو جس وقت یہ ر بودگی کی حالت اور عشق کی غشی اس پر پیدا ہوا اور وہ بے تاب و بیقرار ہو کر تہذیب کے تمام دستور اور قواعد کو بھول کر پاگلوں کی طرح آواز دے کہ کہاں ہے میرا خدا؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ادھر سے میں بھی چلا نے لگتا ہوں کہ میں قریب ہوں.جیسے بچہ بعض اوقات سوتے ہوئے یہ خیال کر کے کہ شاید میری ماں مجھ سے جُدا ہو گئی ہے یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اماں اماں چلا اٹھتا ہے تو ماں جھٹ آواز دیتی ہے کہ میرے بچے! میں تیرے ساتھ لیٹی ہوں.اسی طرح جب بندہ بے تاب ہو کر خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ ہمارا خدا کہاں ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے انتظار اور شک میں نہیں چھوڑتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف سے گارنٹی دیتا اور کہتا ہے کہ تم میری طرف سے مختار ہو تم میری طرف سے فوراً کہہ دو کہ میں پاس ہی ہوں گھبراؤ نہیں.آگے فرماتا ہے.اُجیب کی عوة الداع اس قسم کے پکارنے والے کی آواز کو میں خود بھی سنتا ہوں اور صرف محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ہی جواب نہیں دیتا بلکہ خود بھی اس کا جواب دیتا ہوں.محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ فوری جواب اس لئے دیا کہ اس کی تڑپ بغیر جواب کے نہ رہے مگر میں جواب صرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ہی نہیں دیتا بلکہ خود بھی دیتا کی ہوں.یہ تو اس آیت کے معنی ہیں دوسری آیت آمن يُجِيبُ الْمُضْطَرِّ إذا دَعَاهُ سورہ نمل میں ہے.وہاں دیکھو پہلے بارشوں وغیرہ کا ذکر ہے اور عذاب الہی کا اور اس کا یہ مطلب ہے کہ ہندو، مسلمان ،سکھ ، عیسائی ، کافر ، مومن جو بھی مضطر ہو کر دُعا مانگے گا اور اس کا اضطرار کمال کو پہنچ جائے گا تو میں اس کی دعا کو بھی سنوں گا مگر یہاں قاعدہ نہیں.ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء أجيب دعوة الداع میں قاعدہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی دُعا ضرور سنی جاتی ہی ہے مگر آمن يُجِيبُ الْمُضْطَر کے یہ معنی ہیں کہ مضطر کی دُعا بھی سنی جاتی ہے.یہ نہیں کہ ہر مضطر کی ہر دُعا ضرور سنی جاتی ہے.یہ دنیوی امور کے متعلق ہے جو کبھی سنی جاتی ہے اور کبھی نہیں مگر یہ خیال صحیح نہیں کہ غیر مومن کی دُعا اللہ تعالیٰ سُنتا ہی نہیں.یہ بات قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے.اس مسئلہ پر میں نے اس لئے زور دیا ہے کہ پچھلے دنوں بارش کی قلت کے احساس پر قادیان میں دُعائیں کی گئیں.احمدیوں نے بھی نماز استسقاء پڑھی اور غیر احمدیوں کی نے بھی.ہندوؤں نے بھی اپنے رنگ میں کیں اور میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں بھی ایک قسم کا تقابل پیدا ہو گیا تھا.غیر احمدی اور ہندو چاہتے تھے کہ احمدیوں کی دُعا نہ سنی جائے اور احمدی چاہتے تھے کہ ان کی نہ سُنی جائے.میں حیران ہوں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو ٹکڑے ٹکڑے کیوں کی کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں ہر مضطر کی دُعا سنتا ہوں.ہوسکتا ہے ایک وقت غیر احمدی زیادہ مضطر ہوں ، ایک جگہ احمدی تاجر زیادہ ہوں وہ آکر دُعا کریں گے تو دل میں ممکن کی ہے ان کے یہ ہو کہ دس دن اگر اور بارش نہ ہو تو چار آنہ من نرخ اور بڑھ جائے گا اور احرار میں زمیندار زیادہ ہوں.ان کی فصلیں سوکھ رہی ہوں دُعا کے وقت ان کی تو چیخیں نکل رہی ہوں گی.غرض ہو سکتا ہے کہ احمدی تاجر تو سمجھتے ہوں کہ اگر دس دن اور بارش نہ ہو تو چار آنہ من کا کی منافع ہو گا لیکن زمیندار دیکھ رہے ہوں کہ اگر دس دن اور بارش نہ ہوئی تو چارمن کے بجائے ایک من فی ایکڑ فصل رہ جائے گی اور اس لئے ان میں اضطرار زیادہ ہو.اب اس قاعدہ کے مطابق ان کی دُعا زیادہ سُنی جائے گی.کیونکہ ان کے دل میں اضطرار اور تڑپ زیادہ ہے تو ایسا کی مقابلہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کو تقسیم کرنے والی بات ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے اور اس کی صفات غیر محدود طور پر ظاہر ہوتی ہیں.یہ مواقع خشیت اللہ پیدا کرنے کے ہوتے ہیں نہ مقابلہ کے.مقابلہ دینی معاملات میں ہوتا ہے.اگر کسی دینی معاملہ میں ہم بھی دُعا کریں اور کی احرار بھی تو اللہ تعالیٰ ان کی دُعاؤں کو ان کے منہ پر مار دے گا اور ہماری قبول کر لے گا کیونکہ ہم تو اس کے نام کی بلندی کے لئے کھڑے ہیں اور وہ شیطان کے نام کی بلندی کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولویوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ تم اگر میرے ہلاک ہونے کی
خطبات محمود ۳۶۲ سال ۱۹۳۹ء کے لئے سب مل کر دُعائیں کرو اور مقدس مقامات پر جا جا کر بیشک کرو لیکن یاد رکھو کہ خواہ تمہارے ناک بھی رگڑے جائیں اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہاری دُعائیں قبول نہ کرے گا.ہے اسی کی طرح آج بھی اگر احمدیت یا دین کا سوال ہو تو ہمارے سوا دوسری اقوام کی دُعائیں ہر گز نہ سُنی کی جائیں گی.اس کے مقابلہ میں اگر ہم دُعا کریں اور ہمارے آنسو بھی نہ ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری دُعائیں ضرور سُنے گا.اس لئے کہ ہم خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے کھڑے ہیں مگر وہ کی شیطان کے لئے لیکن جہاں کوئی دینی معاملہ نہ ہو بلکہ ایک عام عذاب دُنیا پر نازل ہو رہا ہو وہاں کی ہر مضطر کی دُعاسنی جائے گی.ہاں اگر اضطرار یکساں ہو تو جہاں اضطرار کے ساتھ ایمان بھی ملک جائے گا وہاں دُعا زیادہ قبول ہو گی.فرض کرو اضطرار کے سو نمبر ہیں اور تمہارے دشمنوں کو وہ سو ہی نمبر حاصل ہیں اور تمہارے پاس تو ہے مگر تمہارے پاس ایمان ہے اور ان کے پاس نہیں تو تمہارے ایمان کے سو ساتھ مل کر ایک سو نوے ہو جائیں گے اور ان کے سو ہی رہیں گے.اس لئے تمہاری زیادہ سُنی جائے گی لیکن فرض کرو کسی کے ایمان کے نمبر ستر تھے اور میں اضطرار کے تھے.کل نوے ہوئے.گویا اس کی کی کامیابی کے نوے وجوہات ہیں لیکن اس کے بالمقابل ایک ہندو اور غیر احمدی پچانوے وجوہ لے کر خدا تعالیٰ کے سامنے جاتا ہے تو چونکہ اس کی تباہی کے خطرات زیادہ ہیں اور اس میں شدید اضطرار پیدا ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کو زیادہ قبول کرے گا.پس ایسے معاملات میں خشیت اللہ کو غالب آنے دینا چاہئے.تقابل کا یہ موقع نہیں ہوتا.یہ کوئی کبڈی نہیں.ایسے عذاب کے موقع پر کسی کو کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دوسرے کی دُعا نہ سُنے.مقابلہ دین کے معاملہ میں ہوتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ غیر مومنوں کی دُعا کو نہیں سنتا.کیونکہ وہ دین کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ اے اللہ ! ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑ.اگر ان کی اولادیں زندہ رہیں تو وہ بھی تجھے گالیاں دینے والی ہوں گی.تو مقابلہ ایسی دُعاؤں میں ہوتا ہے مگر دنیوی حاجات میں اللہ تعالیٰ دونوں کی دُعاسُن لیتا ہے اور کی اضطرار کے ساتھ ایمان کے بھی نمبر دیتا ہے اور جس کے نمبر زیادہ ہو جا ئیں اُسے غلبہ دے دیتا ہے.
خطبات محمود ۳۶۳ سال ۱۹۳۹ء میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سُنا ہوا ہے کسی تفسیر کی روایت ہوگی.بچپن میں آپ ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے جن میں سے ایک یہ تھی کہ جب حضرت نوح کا طوفان آیا تو اس وقت ایک چڑیا گھونسلے کا رستہ بھول گئی.وہاں اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جن کو پیاس لگی ہوئی تھی وہ پانی پینے کے لئے منہ کھولتے تھے مگر پانی نیچا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ پانی اور اونچا کرو تا ان کے منہ میں پانی پہنچ جائے.ساری دُنیا کا فرتھی اور اللہ تعالیٰ نے سب کو تباہ کر دیا تا ان بچوں کو پانی مل سکے.یہ موازنہ ہے اس بات کا کہ جب دینی مقابلہ ہو تو خدا تعالیٰ ساری دُنیا کی بھی اتنی قیمت نہیں سمجھتا جتنی چڑیا کے بچوں کی مگر جب کی مضمون دنیوی معاملہ ہو تو وہ کہتا ہے کہ یہ بھی میرے بندے ہیں اور وہ بھی.قرآن کریم میں اس مع کو اور جگہ بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا كُلاً تمدُّ هَؤُلاء وَهَؤُلاء کے یعنی اے مسلما نو ! تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ہی مدد کریں گے بلکہ دنیوی معاملہ میں ان کی بھی کریں گے جو مومن نہیں ہیں کہ تو ایسے امور میں بہت خشیت اللہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مقابلہ کی نہیں.نماز استسقاء احمدیوں نے ادا کی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کچھ بارش ہو گئی.اس کے بعد دوسروں نے بھی ضد کی وجہ سے نماز پڑھنا چاہی مگر چونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ہم احمدیوں کے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں ان کی نہ سنی گئی.اگر وہ ایسا نہ کہتے تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کی دُعا بھی سُن لیتا.مجھے بعض احمدیوں کی طرف سے بھی ایسے خطوط ملے کہ غیر احمدیوں نے دُعا کی ہے اور ہندوؤں نے بھی کی جنگ وغیرہ کیا ہے دُعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کی دُعا نہ سنے.مجھے اس سے تکلیف ہوئی اور جب مجھے غیر احمدیوں اور ہندوؤں کی نسبت یہ معلوم ہوا کہ وہ کہتے ہیں کہ اب احمدی تو دُعا کر چکے اب ہم دُعا کریں گے اور ہماری دُعاؤں سے بارش ہوگی تو مجھے اس سے بھی تکلیف ہوئی اور میں نے دل میں کہا کہ افسوس! یہ لوگ خدا تعالیٰ کی دینی نعمت سے تو محروم تھے ہی مگر دُنیوی نعمتوں کا دروازہ کھلا تھا جسے انہوں نے اس طرح بند کر لیا.جب مجھے اس کی اطلاع ہوئی تو میں نے کہا کہ چونکہ انہوں نے مقابلہ کا رنگ اختیار کیا ہے اس لئے اب ان کی دُعا نہیں سنی جائے گی اور کی تین روز تک تو بارش نہیں ہو گی.جب میں واپس آیا تو رستہ میں مجھے مولوی ابو العطاء صاحب ملے میں نے دریافت کیا کہ احرار نے ۲۶ / تاریخ کو دُعا کی تھی اب تک بارش تو نہیں ہوئی
خطبات محمود ۳۶۴ سال ۱۹۳۹ء اُنہوں نے کہا نہیں ہوئی.میں نے کہا خیر اب تین دن گزر گئے ہیں.مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کا انتظار تھا اب ہو جائے گی.میں نے اسی وقت آسمان کی طرف نگاہ کر کے دُعا کی کہ الہی تیرا بارش کا قانون تو عام ہے.وہ خاص بندوں سے تعلق نہیں رکھتا مگر بعض اوقات دل میں اُمید پیدا ہو جاتی ہے جو اگر پوری نہ ہو تو بعض اوقات ابتلا پیدا ہوتا ہے اور اگر پوری ہو جائے تو تقویت ایمان کا موجب ہوتا ہے اور میں نے دُعا کی کہ ۲۴ گھنٹے کے اندراندر بارش ہو.رات کو میں نے انتظار کیا.صبح دس بجے کے قریب میں اندر بیٹھا تھا کہ روشندانوں پر چھینٹے پڑنے کی آواز آئی.بالکل معمولی ترشح ۵ تھا.میں نے دُعا کی کہ خدایا! ایسی بارش تو کافی نہیں.مخلوق کو تو ایسی بارش کی ضرورت ہے جس سے لوگ سیراب ہوں اس کے کچھ عرصہ بعد میں باہر نکلا کہ باہر جو دفتر کے آدمی صفائی کر رہے تھے انہیں دیکھوں کہ کام ختم کر چکے یا نہیں.میں نے دُور ایک چھوٹی سی بدلی دیکھی اور دُعا کی کہ خدایا ! اسے بڑھا دے اور پھیلا دے اور پندرہ منٹ کے بعد میں نے دیکھا کہ بارش شروع ہو گئی اور پانی بہنے لگا.تو یہ ایک نشان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر میں نے اس سے بڑھ کر بھی نشان مشاہدہ کئے ہیں.ایک دفعہ جب میں ابھی چھوٹا تھا اور پیچش کی شکایت تھی.بارش زور سے ہو رہی تھی اور مجھے اس قدر بھلی معلوم ہو رہی تھی کہ میں کھڑکی میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا.اس وقت مجھے سخت حاجت پاخانہ کی محسوس ہوئی.چونکہ اسی کی بارش سے لطف اُٹھا رہا تھا میں نے سمجھا کہ میں پاخانہ جاؤں گا تو چونکہ ایسی بارش تھوڑی دیر کی ہوتی ہے میرے آنے تک یہ بارش ہو جائے گی.میں نے اپنی عمر کے لحاظ سے دُعا کی کہ الہی اس وقت یہ بارش بند ہو جائے اور جب میں پاخانہ سے واپس آؤں تو پھر شروع ہو جائے.یہ دُعا کر کے میں پاخانہ گیا اور میں نے دیکھا کہ بارش ہلکی ہو گئی جب فارغ ہو کر واپس لوٹا اور ای آ کر اس کھڑکی میں کھڑا ہو گیا تو معاً بارش پہلے کی طرح تیزی سے برسنے لگی اور میں اس نظارہ سے دیر تک لطف اُٹھاتا رہا اور اب یہ لطف اور بھی زیادہ تھا کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دُعا کی قبولیت کا ایک ایمان بڑھانے والا نشان دیکھا تھا.بیشک ہمارے دشمن ان باتوں پر ہنتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ لوگ پاگل ہیں ایسی معمولی معمولی باتوں کو نشان قرار دیتے ہیں اور دھوکا خوردہ ہیں مگر ایک دو باتیں ایسی ہوں تو کوئی دھوکا کہہ سکتا ہے لیکن جب سینکڑوں ہوں کی
خطبات محمود ۳۶۵ سال ۱۹۳۹ء تو اسے کس طرح دھوکا کہا جا سکتا ہے مگر دنیوی معاملات میں مقابلہ کی ضرورت نہیں ہوتی.خشیت اللہ پیدا کرنا چاہیئے ہاں دینی امور ہوں تو دشمن خواہ کتنا مقابلہ کریں اور دُعائیں کریں ان کے ناک بھی رگڑے جائیں تو بھی ان کی نہیں سنی جائے گی.دُنیوی معاملات میں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور ہم بھی.اگر اضطرار ان میں زیادہ ہو تو اللہ تعالیٰ ان کی بھی سُن لے گا.میں نے جو واقعات بیان کئے ہیں یہ دُعا کا دوسرا مسئلہ ہے.یہ تو ایسا وقت ہوتا ہے جب اپنے رب سے ناز کرنے کو دل چاہتا ہے.جیسے بعض اوقات انسان دعوے سے کہتا ہے کہ میں نے اپنے محبوب سے بات منوانی ہے.مجھے کل کی دُعا میں اضطرار بھی تھا مگر اپنے محبوب سے ناز کرنے کا رنگ بھی تھا.ایسے وقت کی دُعا کے متعلق اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اسے ضائع کرنا محبت کی ہتک ہے.تو مومن کی زندگی میں ہر جگہ نشان ہوتے ہیں.اس سفر کا ایک اور نشان ہے.عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب منالی جا ر ہے تھے ہم بھی دھر مسالہ سے انہیں چھوڑنے کے لئے دوسرے موٹر میں گئے.جب پالم پور تک انہیں چھوڑ کر واپس آ رہے تھے راستہ میں موٹر خراب ہو گئی اور ڈرائیور نے بتایا کہ پٹرول پہنچانیوالی نلکی بیچ میں سے ٹوٹ گئی ہے.بارش تیز ہورہی تھی اور ساتھ مستورات تھیں.قریباً شام کا وقت تھا اور منزل سے قریباً ۲۲ میل دور تھے اور وہ بھی پہاڑی سفر کہ جو مر د بھی دو میل فی گھنٹہ مشکل سے چل سکے اور آدھ آدھ میل پر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں آبادی ہو.میں نے سامنے دیکھا تو ایک جھونپڑی سی نظر آئی جو بعد میں معلوم ہوا کہ دکان کی ہے.میں نے دل میں دُعا کی کہ وہاں تک ہی پہنچ جائیں.شاید وہاں سے کوئی صورت پیدا ہو سکے.میں نے دُعا کی کہ یا الہی یہ حالت ہے ہم تو چل بھی سکتے ہیں باہر بھی سو سکتے ہیں مگر ساتھ پردہ دار مستورات ہیں تو کوئی صورت پیدا کر دے اس سامنے کے مکان تک پہنچ جائیں.اتنے میں موٹر میں اصلاح ہو گئی اور وہ چل پڑی اور ہم دل میں بہت خوش ہوئے لیکن عین اس دکان کے سامنے جا کر وہ پھر کھڑی ہوگئی.جس تک پہنچنے کے لئے میں نے دُعا کی تھی.میں نے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے کس طرح عین اس جگہ لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں کے متعلق کی میں نے دل میں دُعا کی تھی.یہ عجیب بات ہے کہ ہماری موٹر جا کر ایسی جگہ ر کی کہ جو اس دکان کے دروازہ کے دونوں سروں کے عین درمیان تھی.نہ ایک فٹ اِدھر نہ ایک فٹ اُدھر.ساتھ ہی کی
خطبات محمود ۳۶۶ سال ۱۹۳۹ء اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بھی کر دیا کہ وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک لاری بھی کھڑی ہے حالانکہ وہ کی جنگل تھا ہم نے دریافت کیا تو لاری والے نے بتایا کہ ہم پر کوئی مقدمہ ہے اور جواب دہی کے لئے افسر کے پاس جارہے ہیں.مالک گاؤں میں گیا ہوا ہے اور وہ اس کا منتظر ہے.ہم نے اُسے کچھ امید دلائی اور کچھ لالچ دیا کہ اگر ہماری موٹر ٹھیک نہ ہو تو موٹر کو لاری کے ساتھ باندھ کر ہمیں گھر پہنچا دے یا کم سے کم کسی قصبہ تک جہاں موٹر ٹھیک ہو سکے اور اگر ٹھیک ہو جائے تو کی احتیاطاً ساتھ چلے کہ پھر موٹر کے دوبارہ خراب ہونے کی صورت میں ہماری مدد کرے.اول تو وہ نہ مانا لیکن قریباً ایک گھنٹہ تک مرمت کرنے کے بعد جب موٹر درست ہوئی تو وہ ڈرائیور بھی ساتھ چلنے پر رضا مند ہو گیا.وہ علاقہ کچھ میدانی تھا اور چڑھائی کم تھی لیکن جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں سے دھر مسالہ کی چڑھائی شروع ہوتی ہے اور تیرہ میل سفر باقی رہ گیا تو اس نے آگے جانے سے انکار کر دیا.ہم نے اسے بہت اُمید دلائی ، انعام کا لالچ دیا، مالک کی ناراضگی کی صورت میں اس کے پاس سفارش کرنے کو کہا مگر وہ آمادہ نہ ہوا.وہ کہنے لگا کہ آپ کی موٹر ٹھیک چل رہی ہے اب کیا حرج ہے.آپ اکیلے چلے جائیں.میں نے پھر دُعا کی کہ یا الہی پھر جنگل کا جنگل ہی رہا.رات کا وقت تھا اور اگر موٹر خراب ہوگئی تو دوسری سواری ملنے کی اُمید بھی نہیں کیونکہ وہاں رات کے وقت موٹروں اور لاریوں کا چلنا منع ہے.میں نے دُعا کی اور کی میرے یہی الفاظ تھے کہ اب انسانی حد تو ختم ہو گئی اب تو ہی اپنے فضل سے انتظام فرما.یہ دُعا کر کے میں نے موٹر کے چلانے کا اشارہ کیا قریب ترین جگہ وہاں سے لوئر دھر مسالہ تھی جو سات میل تھی.ہماری موٹر ٹھیک چلتی رہی.جب لوئر دھر مسالہ پہنچے تو میں نے عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ چلو دیکھیں شاید کوئی دوسری موٹر مل جائے تو اُسے ساتھ لے چلیں.وہاں موٹر وغیرہ نہیں ہوتے مگر جب گئے تو دیکھا کہ اتفاق سے وہاں ایک موٹر موجود ہے اور معلوم ہوا کہ صبح اس نے کوئی سواری لے جانی ہے.اس لئے پٹھان کوٹ سے آئی ہے.ہم نے اس سے پوچھا تو ڈرائیور نے کہا کہ بہت اچھا میں اپر دھر مسالہ تک چھوڑ آتا ہوں.اس وقت اس دوسری موٹر کے لینے کا خیال اس لئے ہوا کہ ہماری موٹر پر سواریاں زیادہ تھیں خیال تھا کہ سواریاں کم ہو جائیں گی تو ہماری موٹر کا خطرہ دور ہو جائے گا مگر جب سواریاں تقسیم کر کے
خطبات محمود ۳۶۷ سال ۱۹۳۹ء چلنے لگے تو معلوم ہوا کہ موٹر کا وہ پُرزہ جو تکلیف دے رہا تھا پھر ٹوٹ گیا ہے اور اب ہماری موٹر کے چلنے کی کوئی صورت نہیں.اس پر سب سواریاں کرایہ کی موٹر پر سوار ہوگئیں اور ہم آرام سے گھر پہنچ گئے.خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل تھا کہ عین اُس وقت آ کر موٹر خراب ہوئی جب دوسری سواری کے لئے میسر آگئی اور ایسی خراب ہوئی کہ دو تین دن میں جا کر درست ہوئی مگر ہم بخریت گھر پہنچ گئے.تو دیکھو اگر ایک بات ہو تو اسے اتفاق کہہ سکتے ہیں مگر اس کو کس طرح اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ پہلے عین اس جگہ پر پہنچا کر موٹر خراب ہوتی ہے جس کے لئے میں نے دُعا کی تھی اور وہاں جنگل میں ایک لاری بھی کھڑی ہوئی مل جاتی ہے جسے ساتھ لے کر ہم بقیہ سفر پورا کرنے کے لئے چل کھڑے ہوتے ہیں پھر جب وہ لاری والا ہمیں جواب دیتا ہے اور اصلی چڑھائی شروع ہوتی ہے.میں پھر دُعا کرتا ہوں اور نہایت سخت چڑھائی پر موٹر بالکل آرام سے چڑھ جاتی ہے لیکن جب راستہ میں ایک اور شہر آتا ہے تو وہاں غیر متوقع طور پر پھر ایک موٹر مل جاتی ہے اور اس موٹر کے مل جانے پر پھر ہماری موٹر بُری طرح خراب ہو جاتی ہے لیکن ہم تکلیف کی سے بچ جاتے ہیں اور دوسری موٹر میں سوار ہو کر گھر پہنچ جاتے ہیں.غرض مومن تو دعاؤں کی کی قبولیت کے نشان ہر روز دیکھتا ہے.اسی جنگ کو دیکھ لو جس کے آثار نظر آ رہے ہیں.اس میں بھی خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے نشانات ہیں.البانیہ میں ہمارا مبلغ گیا تھا مگر اُنہوں نے اسے نکال دیا.اللہ تعالیٰ نے اس ملک پر تباہی نازل کر دی اور اٹلی نے اسے فتح کر لیا گو ایک مسلمان حکومت کی تباہی کا ہمیں افسوس ہے مگر خدا تعالیٰ کے نشان میں اس سے کمی نہیں ہو سکتی.پھر ہمارا ایک اور مبلغ پولینڈ میں گیا اُنہوں نے بھی اسے وہاں سے نکال دیا.اب دیکھ لو وہ کس طرح کانٹوں پر لیٹ رہا ہے.وہاں سے وہ چیکوسلواکیہ گیا اُنہوں نے بھی اسے نکال دیا.اسے بھی اللہ تعالیٰ نے برباد کر دیا.اس طرح متواتر تین ممالک میں نشان ظاہر ہوئے.پہلے افغانستان کا کی حشر جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے ان سب کو اتفاق کس طرح کہا جا سکتا ہے اور جن لوگوں کو روزانہ کی ایسے نشانات نظر آئیں ان کا ایمان اگر دُعا پر نہ ہو تو ان سے زیادہ بے وقوف کون ہوسکتا ہے.پس دُعائیں کرو اور یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کی دُعائیں سنتا ہے مگر تمہاری زیادہ سنتا ہے.آج سے چار سال قبل میں نے اس ممبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ انگریزی حکومت کے بعض افسر ہمیں
خطبات محمود ۳۶۸ سال ۱۹۳۹ء خواہ مخواہ دُکھ دیتے ہیں اور ہمیں تباہ کرنا چاہتے ہیں.بے شک ان کے پاس تو ہیں ہیں اور فوجیں ہیں مگر ہمارا خدا ان سے بہت زیادہ طاقتور ہے اور وہ تو کیا اگر ان کے ساتھ جرمنی، روس، فرانس غرضیکہ سب طاقتیں مل جائیں تب بھی وہ ہمیں تباہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ ہم خدا تعالی کی جماعت ہیں.اس کے بعد دیکھ لو برطانوی حکومت کو کس طرح تکلیف پر تکلیف اُٹھانی پڑی.حبشہ کے معاملہ میں اسے زک ہوئی ، پھر سپین کے معاملہ میں ہوئی.اب یہ خطرہ در پیش ہے.اس میں طبہ نہیں کہ ہمارے خلاف شرارتیں بعض مقامی انگریزی افسروں نے کی تھیں مگر ذمہ داری اعلیٰ پر بھی آتی ہے بیشک وہ شرارتوں میں شامل نہ تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اسی نقطہ نگاہ سے دیکھا کہ اُنہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر کے ان کو سزائیں کیوں نہ دیں ورنہ انگریز جیسا کہ میں نے کہا ہے دوسری یوروپین قوموں سے بہت بہتر ہیں ابھی مجھے پچٹھی آئی ہے جو شاید ابھی چھپی نہیں کہ اٹلی کی حکومت نے بھی ہمارے مبلغ کو حکم دیا ہے کہ ۱۵ اگست تک اس ملک سے نکل جاؤ.مولوی جلال الدین صاحب شمس کو جب اس کا علم ہو ا تو انہوں نے برطانوی حکومت کے پاس پروٹسٹ کیا اور کہا کہ ہمارے مبلغ کا اگر کوئی قصور تھا تو ہمیں اس کی اطلاع ہونی چاہئے.لارڈز ٹلینڈ نے اس بارہ میں بہت ہمدردی سے کام کیا اور ان کے ایک نائب نے فوراً فون سے شمس صاحب کو مطلع کیا کہ ہم اپنے قونصل روم کو تار دے رہے ہیں اور دوسرے تیسرے دن ان کو اطلاع دی کہ اس کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ اس نے اطالوی حکومت کی کو توجہ دلائی ہے اور اس کی طرف سے جواب ملا ہے کہ فی الحال اس حکم کو اٹلی کی حکومت نے کی منسوخ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی مزید تحقیقات کریں گے تو انگریزی حکومت ہی ایسی ہے جس میں ہمیں تبلیغی سہولتیں حاصل ہیں.اس کے علاوہ اور کسی حکومت میں ہم نے امن نہیں دیکھا.سوائے ڈچ حکومت کے.انگریزی حکومت میں سب سے زیادہ امن ہے اور دوسرے نمبر پر ہالینڈ کی حکومت ہے اور کسی حکومت میں ایسا نہیں.جاپان کا فی الحال ہم نے تجربہ نہیں کیا مگر باقی حکومتوں میں کیا ہے وہ اسلامی مبلغ کو برداشت نہیں کر سکتیں.میں خود مسولینی سے ملا تھا اور اس نے مجھے خود کہا تھا کہ اپنا مبلغ بھیجیں اور اس وجہ سے خیال تھا کہ وہ ہمدردانہ رویہ رکھیں گے مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ہمدردی عمل میں نہیں آئی.تو انگریزوں کے بعض آدمیوں کی
خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۹ء.شرارتوں کے باوجود ہماری ہمدردی انگریزوں سے ہے کیونکہ وہ دوسری شہنشاہیت والی حکومتوں کی نسبت بہت اچھے ہیں.پس ہم جو ان کی حکومت میں بستے ہیں ہمارے لئے ان کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے مگر میں کہتا ہوں کہ جو میرے اس خیال سے متفق نہ ہوں وہ بھی کی تعاون پر مجبور ہیں.کیونکہ ہندوستان اور انگلستان کا تعلق ایسا نہیں کہ اس کی موجودگی میں کی ہندوستان الگ رہ سکے.اسی دعاؤں کے ہی ضمن میں ایک اور بات بھی میں کہنی چاہتا ہوں مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ احرار نے استقاء کی نماز عید گاہ میں پڑھنی چاہی.اس سے ہمارے آدمیوں کو اپنے حقوق کے اتلاف کا خیال ہوا اور اُنہوں نے اُن کو روکا.چنانچہ حکام نے ان کو وہاں کی نماز پڑھنے سے روک دیا.اس موقع پر مجھے خیال آیا کہ ان کے پاس نماز کے لئے جگہ موجود نہ کی تھی.پہلے بھی جب قبرستان کا جھگڑا ہوا ہے مجھے یہ خیال آیا تھا اور میں نے اس موقع پر کی مجسٹریٹ کو کہلا بھی بھیجا کہ اگر یہ لوگ اپنی مشکلات مجھے بتا ئیں تو میں حُسنِ سلوک سے انکار نہیں کی کروں گا مگر یہ لوگ ایسا طریق اختیار کرتے ہیں جولڑائی کا ہوتا ہے اور اس لئے ہمیں بھی مجبوراً جواب دینا پڑتا ہے.اس موقع پر پھر مجھے خیال آیا کہ یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ اگر کوئی چیز اس کی طرف منسوب نہ ہو تو اسے تکلیف ہوتی ہے جو بچے یتیم ہو جاتے ہیں ان کے رشتہ دار گواُن کے ماں باپ سے بھی اچھا سلوک ان کے ساتھ کریں ان کے دل میں یہ خلش ضرور رہتی ہے کہ ہمارے ماں باپ نہیں ہیں اسی طرح گو ان کو نماز کے لئے جگہ تو مل گئی مگر ان کے دل میں یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ یہ ہماری نہیں ہے اور اس میں نماز پڑھنا ہما را حق تو نہیں.یہ کسی زمیندار کا احسان ہے کہ اس نے پڑھنے کی اجازت دے دی.جس دن کوئی چاہے اجازت دے دے اور جس دن چاہے نکال دے اور گو میں پہلے بھی اس امر کے لئے تیار تھا کہ اگر وہ آ کر کہیں تو ان کے لئے علیحدہ انتظام کر دوں مگر اب مجھے خیال آیا کہ میں کیوں اس امر کو کی اس دن کے لئے اُٹھا رکھوں کہ جب وہ آ کر مجھ سے مدد مانگیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس جگہ زمین دے رکھی ہے.ہزاروں خاندان اس ملک میں ایسے ہیں کہ جن کے باپ دادا کی بادشاہت یہاں ہم سے زیادہ تھی مگر آج وہ جو تیاں صاف کر کے روزی کماتے ہیں اور گو آج ہمارے پاس دولت نہ ہو مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی زمین ضرور ہے کہ ہم مالک یا رئیسی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کہلاتے ہیں.میرے دل نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل انسان پر اس لئے ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے حسن سلوک کرے.گو بعض اخلاقی اور قانونی مصلحتیں میرے رستہ میں روک بن رہی تھیں مگر میں نے غور کر کے ایک رستہ نکال لیا ہے اور اب میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ ان کو نماز عید واستسقاء کے لئے زمین دے دوں.۶۰ × ۵ ۷ فٹ کا ایک کنال ہوتا ہے.۲ فٹ میں ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے.گویا ساٹھ فٹ میں تمہیں آدمی آ سکتے ہیں اور چارفٹ کی جگہ ایک صف کے لئے کافی ہوتی ہے.اس لئے ۷۵ فٹ میں اٹھارہ صفیں بن کی جاتی ہیں.گولوگ تین فٹ بھی کافی سمجھتے ہیں مگر میں چارفٹ رکھتا ہوں اور اس حساب سے ایک کنال میں ۵۴۰ آدمی آ جاتے ہیں.یہاں سارے غیر احمدی چھ سات سو ہیں مگر عیدین اور استقاء وغیرہ مواقع پر باہر سے بھی آجاتے ہیں اور عورتیں بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں.اس کی لئے دو کنال زمین قادیان کے غیر احمدیوں کی نماز عید واستسقاء کے لئے کافی ہے اور وضو کی جگہ کی اور جوتیوں وغیرہ کے لئے جگہ بلکہ ان کی آئندہ ضرورتوں کا بھی خیال کر کے میں سمجھتا ہوں کہ چار کنال زمین ان کی سب ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے اور میں اس قدر زمین انہیں ان اغراض کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں مگر شرط یہ ہوگی کہ وہ اسے ہمارے خلاف استعمال نہ کرسکیں گے.وہ اپنا ایک ٹرسٹ اور رجسٹر ڈ انجمن بنالیں اور میں وقف کی صورت میں یہ زمین انہیں دے دوں گا مگر شرط یہ ضروری ہوگی کہ اسے ہمارے خلاف استعمال نہ کیا جا سکے گا.اسی طرح یہ کی بھی کہ غیر احمدیوں کو وہاں نماز کا حق ہو گا مگر احمدی کہلانے والے ہمارے مخالفوں کو اس کے کی استعمال کا حق نہ ہو گا.یہاں بڑی بڑی قو میں کشمیری ، آرائیں اور کمہار ہیں.میرے نز دیک بہتر ہوگا کہ ان کا ایک ایک نمائندہ بچن لیا جا ہے اسی طرح ایک نمائندہ بقیہ اقوام سے ہو جو تھوڑی تھوڑی تعداد میں ہیں اور ایک نمائندہ پرانے امام خاندان سے ہو جو میاں شمس الدین صاحب کا خاندان ہے.وہ ہمارے استاد بھی تھے ان نمائندوں کے ٹرسٹ کے سپر د میں یہ زمین کر دوں گا.کی انشاء اللہ وہاں رہٹ والا کنواں بھی لگوا دوں گا بلکہ میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ اگر محبت سے یہ لوگ معاملہ طے کریں تو وہاں پھلدار درختوں کے لگانے کے لئے کچھ زائد زمین بھی دے دوں اور اس میں خود درخت لگوا دوں تا ضرورت کے وقت سایہ سے بھی یہ لوگ فائدہ اُٹھا ئیں اور پھلوں
خطبات محمود ۳۷۱ سال ۱۹۳۹ء کی آمد سے زمین کے محافظ کا خرچ بھی کسی قدر نکلتا رہے.ہاں جیسا کہ میں نے کہا ہے وہ لوگ اس میں نماز عید اور استسقاء پڑھ سکیں گے مگر احمدیت کے خلاف اسے استعمال کرنے کے مجاز نہ ہوں گے اور اس کی منتظمہ کمیٹی صرف یہاں کی پُرانی آبادی کے افراد پر مشتمل ہوگی.اس انتظام کی صورت میں ان لوگوں کے دل پر سے یہ بوجھ اُتر جائے گا کہ ان کے لئے عید وغیرہ کے لئے کوئی جگہ نہیں بلکہ میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر مجھ پر ثابت ہو جائے کہ قبرستان کے لئے ان لوگوں کے پاس کافی جگہ نہیں تو اس کے لئے بھی کچھ زمین وقف کر دوں.گو اس کی وقت تک مجھ پر یہی اثر ہے کہ اس معاملہ میں وہ محض ضد کی وجہ سے شور کر رہے ہیں ورنہ پرانا قبرستان اس غرض کے لئے کافی ہے لیکن اگر وہ کافی نہ ہو تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر احسان کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے جس طرح زندہ لوگوں کا مجھ پر حق ہے اسی طرح کی مُردوں کا بھی مجھ پر حق ہے.پس اگر مجھ پر ثابت ہو جائے کہ واقعی مُر دے دفنانے کے لئے ان لوگوں کو جگہ کی ضرورت ہے تو مجھے چاہئے کہ اس کے لئے بھی زمین کا انتظام کروں.اگر یہ ضرورت ثابت ہوئی تو میں اس کے لئے بھی حسب ضرورت زمین وقف کر دوں گا.انشاء اللہ.اسے بھی ایک مقامی ٹرسٹ کے سپر د کر دوں گا جو غیر احمدی افراد پر مشتمل ہوگا.فی الحال ایک ماہ کے لئے یہ پیشکش کرتا ہوں.ایک ماہ کی شرط میں اس لئے لگاتا ہوں کہ ان کو جلد توجہ ہو جائے ورنہ زیادہ عرصہ گزر جائے تو بات کھٹائی میں پڑ جاتی ہے نیز اس وقت ایک قطعہ میرے ذہن میں ہے جو ممکن ہے بعد میں فروخت ہو جائے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خواہ وہ کسی قوم کی ہو میں سمجھتا ہوں اگر وہ ضد کی وجہ سے نہ ہو تو اس میں تعاون ضروری ہے.خواہ عبادت کرنے والے دشمن ہی کیوں نہ ہوں جب کوئی خدا تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو ہمیں ضروری اس سے تعاون کرنا چاہئے.یہاں کے غیر احمدی پہلے نماز پڑھا ہی نہیں کرتے تھے مگر اب گو ہماری دشمنی کی وجہ سے ہی سہی کچھ نہ کچھ پڑھنے تو لگے ہیں.میں پہلے ہند و صاحبان سے بھی اسی کی قسم کا ایک معاملہ کر چکا ہوں اور دوسری اقوام سے بھی جائز ضرورتوں کے پورا کرنے میں تعاون کرنے کے لئے تیار ہوں.میں اُمید کرتا ہوں کہ جس محبت سے میں نے یہ پیشکش کی ہے وہ بھی اسی سپرٹ میں اس کو دیکھیں گے اور ان ایام میں جبکہ ایک خطر ناک جنگ کے آثار ظاہر
خطبات محمود ۳۷۲ سال ۱۹۳۹ء ہورہے ہیں اختلافات کو مٹا کر ایسی فضا پیدا کریں گے کہ ہم سب دُشمنانِ ملک کا مقابلہ کر سکیں کی اور حکومت کی پریشانی بھی دور ہو جائے.ان دو غرضوں کے سوا میری اور کوئی غرض نہیں.اوّل یہاں کے غیر احمدیوں کی حقیقی ضرورت کا پورا کرنا، دوسرے اس نازک وقت میں حکومت کی تشویش کو دور کرنا لیکن اگر باوجود اس نیک نیتی کے اور ایک معقول مالی بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہونے کے ان کو بعض لوگ اُکسائیں اور مشتعل کریں اور کہیں کہ وہ زبردستی ہم سے ہمارے قبرستان اور عید گاہیں چھینیں گے تو ہمیں کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے ہی غالب آنا ہے نہ صرف قادیان میں بلکہ ساری دُنیا میں بہر حال میں نے ان کی خیر خواہی کی ایک تجویز پیش کر دی ہے اگر وہ اسے قبول کریں تو ان کا فائدہ ہے اور اگر نہ کریں تو ہمارا کوئی نقصان نہیں.وَالله عَلِيمٌ بِمَا فِي صَدْرِى و عَلَيْهِ التَّكْلَانُ - ( الفضل و ر ستمبر ۱۹۳۹ ء ) سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب الكف عمن قال لا إله إِلَّا الله النمل : ٦٣ البقره : ۱۸۷ اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۷۲ العنكبوت :٧٠ وَقَالَ نُو رَبِ لا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارات ( نوح : ٢٧) کے بنی اسرائیل :٢١ ترفع: بوندا باندی تقاطر از فیروز اللغات اردو جامع نیا ایڈیشن فیروز سنز پرائیویٹ لمٹیڈ لاہور
خطبات محمود ۳۷۳ ۲۵ سال ۱۹۳۹ء جماعت احمد یہ جنگ کے موقع پر حکومت انگریزی سے تعاون کرے (فرموده ۸ ستمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- د میں گزشتہ خطبہ جمعہ میں جس وقت جنگ کے متعلق بعض خیالات کا اظہار کر رہا تھا عجیب بات ہے کہ اُس وقت اعلانِ جنگ ہو رہا تھا اور دُنیا پر جس آفت کے نازل ہونے کا ہمیں خوف تھا اُس وقت تک وہ آفت آچکی تھی.میں نے جماعت کو اس خطبہ میں اُن فرائض کی کی طرف توجہ دلا ئی تھی جو جنگ کی صورت میں اس پر عائد ہوتے ہیں.میں آج اسی سلسلہ میں بعض مزید باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے تو میں بعض اُن لوگوں کے خیالات کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں جو بعض برطانوی نمائندوں کے سابق سلوک کی وجہ سے اپنے دلوں میں شکایت محسوس کرتے ہیں اور انگریزوں سے تعاون کرنے میں وہ بشاشت محسوس نہیں کرتے جو پہلے کیا کرتے تھے.چنانچہ ان ایام میں مجھے کئی ایسے لوگوں کے متعلق اطلاع ملی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض اُن کے علم کی کمی ، اُن کے تجربہ کی کمی اور ان کی دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ پانچ سال سے انگریزوں کے لوکل نمائندوں نے بلکہ ایک زمانہ میں حکومت پنجاب کے
خطبات محمود ۳۷۴ سال ۱۹۳۹ء نمائندوں نے بھی جماعت سے جس قسم کا سلوک کیا وہ نہایت ہی ظالمانہ اور غیر منصفانہ تھا.بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی طرف سے انہوں نے جماعت کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی.کی اُنہوں نے اس کی عزت پر حملہ کیا، اس کے مال پر حملہ کیا، اس کی جائیدادوں پر حملہ کیا ، اس کے نظام پر حملہ کیا ، اسی طرح انہوں نے ہمارے نظام کو توڑنے کے لئے مختلف قسم کی سازشیں کیں.کہیں ہمارے اندر اُنہوں نے بغاوت پھیلانے کی کوشش کی ، کہیں ہمارے مقدس مقامات چھیننے کے لئے دشمن نے زور لگایا اور بعض حکام بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئے.کہیں ہمارے امن کو برباد کرنے کے لئے تدبیریں کی گئیں اور اس میں بعض مقامی حکام کا بھی دخل تھا.پھر قادیان جو ہمارا مقدس مقام ہے اس میں اس قسم کے ظلم روا ر کھے گئے کہ بار بار یہاں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا ، بچوں کی مجلسوں تک میں مجسٹریٹوں نے دخل دینے کی کوشش کی بلکہ جمعہ کے خطبے روکنے کی بھی کوشش کی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ یہ مظالم اس تو اتر اور تسلسل کے ساتھ ہم پر ہوتے رہے ہیں کہ اس وقت بھی کہ مجھے بعض اُن لوگوں کے خیالات کی تردید کرنے کے لئے جو موجودہ جنگ میں حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے میں بشاشت محسوس نہیں کرتے ضمناً ان واقعات کی طرف اشارہ کرنا پڑا ہے.میرا خون کھولنے لگا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر مخلص احمدی اس وقت تک اپنی جنگ مقامی حکومت کے ساتھ ختم نہ کرے گا جب تک ان حکام کو جو اِن شرارتوں کے بانی تھے سزا نہ ملے گی اور ان شرارتوں کا سد باب کر کے قادیان کو ہمارے مذہبی مرکز کی حیثیت میں حکومت تسلیم نہ کرے گی.آخر کونسا نظمند پنجاب کے ذمہ دار حکام کو دیانتدار سمجھ سکتا ہے اور اگر وہ پولینڈ کی مدد کے لئے تو پنجابیوں میں جوش پیدا کرنے کے لئے دھواں دھار تقریر کریں اور کمزوروں اور بے کسوں کی امداد کے نعرے لگائیں لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے برطانوی رعایا کے بہترین وفادار طبقہ پر ظلم ڈھایا جائے اور وہ خاموشی رہیں اور جب ان ظلموں کو ثابت کر دیا جائے تو وہ اپنے ماتحتوں کے افعال کے لئے ہزاروں کی غلط تاویلات تلاش کرنے میں لگ جائیں.یہ دونوں باتیں ایک وقت میں جمع نہیں ہوسکتیں اور می میں ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا کہ ایسے حکام بادشاہ معظم کے خیر خواہ ہیں.میرے نزدیک وہ بادشاہ معظم کے خیر خواہ نہیں بلکہ جاہ طلب حکام ہیں جن کی وفاداری کی کوششیں
خطبات محمود ۳۷۵ سال ۱۹۳۹ء صرف خطابات کے حصول یا محمہدوں کی زیادتی کی غرض سے ہیں.وہ ہم سے ہی بد دیانتی کا تی معاملہ نہیں کر رہے بلکہ ملک معظم اور برطانوی حکومت سے بھی ان کا معاملہ منافقانہ ہے اور خواہ کی وہ انگریز ہوں یا ہندوستانی وہ اپنی قوم ہی کے لئے نہیں انسانیت کے لئے بھی موجب عار اور ننگ ہیں اور برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے عصر کو جس قد رجلد ہو سکے ذلیل اور رسوا کر کے الگ کر دیا جائے.مگر ان سب جذبات کے باوجود میں اس تعلیم کے دینے پر مجبور ہوں جو میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کی تھی اور میں اس پر بھی مجبور ہوں کہ جو نو جوان اس سے اختلاف کا اظہار کریں انہیں غلطی پر قرار دوں اور سلسلہ کی تعلیم کو نظر انداز کرنے والا قرار دوں.میرے نزدیک ہر اہم قدم جو انسان اُٹھاتا ہے اس سے پہلے اسے اپنے مختلف مصالح اور اپنے مختلف جذبات کے درمیان ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے جو اسے مختلف فیصلوں کی طرف کھینچ رہی ہوتی ہے.عقلمند انسان ایسے مواقع پر اس مصلحت کے مطابق جو سب سے اہم ہو اور ان جذبات کے مطابق جو سب سے مقدس ہوں فیصلہ کر دیتا ہے اور دوسری مصلحتوں اور دوسرے جذبات کو نظر انداز کر دیتا ہے.کبھی دین اور دنیا کا مقابلہ ہو جاتا ہے تو وہ اگر دیندار ہو دینی مصالح کو دنیوی مصالح پر مقدم کر لیتا ہے، کبھی تمدن اور شخصی حقوق کا مقابلہ ہو جاتا ہے تو وہ تمدن کے مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے اپنے شخصی حقوق کو نظر انداز کر دیتا، کبھی تہذیب اور وحشت کا مقابلہ ہو جاتا ہے تو وہ تہذیب کے مطالبہ کو پورا کرنے ہوئے اپنے وحشیانہ جذبات کو قربان کر دیتا ہے.میں نے گزشتہ دو جلسوں کی پر تمدن کے متعلق اپنی تقریروں میں ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ تمدن کے معنی بعض جگہ اپنے حقوق کو نظر انداز کر دینے کے بھی ہوتے ہیں.ایک شخص کا گھر سینکڑوں سال سے چلا آتا ہے اس کے آباء واجداد کے تعلقات اس سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس مکان کے ایک ایک کو نہ سے اُسے محبت ہوتی ہے.کسی کو نہ کی طرف وہ آنکھ اُٹھاتا ہے تو کہتا ہے یہاں میرے دادا جان کی چار پائی ہوا کرتی تھی ، دوسرے کو نہ کی طرف دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہاں میری دادی جان کی چار پائی ہوا کرتی تھی ، تیسرے کو نہ کی طرف دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہاں میرے والد صاحب کی چار پائی ہوا کرتی تھی اور چوتھے کو نہ کی طرف دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہاں میری اماں جان کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء چار پائی ہوا کرتی تھی لیکن کبھی وہ مکان سڑک کے مقابل آجاتا ہے اور گورنمنٹ کو وہ مکان جبراً اُٹھا دینا پڑتا ہے.ایسے وقت میں شخصی جذبات کے ماتحت شائد اسے یہ خیال بھی آجائے کہ میں کی اس موقع پر قربان ہو جاؤں مگر اپنے باپ دادوں کی نشانی مٹنے نہ دوں لیکن ایک متمدن انسان ہونے کی حیثیت سے وہ کہے گا کہ بے شک یہ ایک تلخ گھونٹ ہے جو مجھے پینا پڑے گا لیکن اگر میرے شہر یا میرے ملک کا فائدہ اسی میں ہے کہ میں اپنے مکان کو قربان کر دوں تو بہر حال چونکہ جس چیز کو قربان کرنا ہے وہ چھوٹی ہے اور جس کے لئے قربانی کرنی ہے وہ بڑی ہے اس کی لئے آؤ میں اسے اپنے ملک یا اپنے شہر کے فائدہ کے لئے قربان کر دوں.بعض نوجوان جب عام جنگ کا اعلان سنتے ہیں تو اس سے ایک دو دن پہلے ہی وہ شادیاں کر کے بیویوں کو گھر پر لائے ہوتے ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی قوم کی خاطر جنگ پر چلے ہی جاتے ہیں.ان کے شخصی جذ بات انہیں بالکل اور طرف لے جا رہے ہوتے ہیں مگر ان کے ملی اور قومی جذبات انہیں اور طرف لے جارہے ہوتے ہیں.ان کے شخصی جذبات انہیں کہتے ہیں کہ ہم اپنا گھر کیوں برباد کریں مگر ان کے ملی جذبات انہیں کہتے ہیں کہ قوم کی ضرورت ہماری ضرورت سے بالا ہے اگر ہم جنگ پر جاتے ہیں تو شائد چند ایک عورتیں بیوہ ہو جائیں گی لیکن اگر ہم نہیں جاتے اور ہمیں دیکھتے ہوئے اور آدمی بھی اپنے گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں تو ایک نہیں سارے ملک کی عورتیں بیوہ ہوں گی.پس وہ شخصی مطالبات کو قربان کر دیتے ہیں اور قومی مطالبات کو پورا کر دیتے ہیں.اسی طرح بعض مواقع پر ایک طرف قومی جذبات ہوتے ہیں تو دوسری طرف اخلاقی فرض کی اور سچ کا مطالبہ اس حالت میں ہر متمدن انسان کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ بجائے قومی جذبات کی اقتداء کرنے کے سچ اور اخلاق کے مطالبات کو پورا کرے مثلاً اسلامی تعلیم کے ماتحت ہم کسی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اس سے بغاوت نہیں کر سکتے.اب خواہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہماری قوم پر ظلم ہو رہا ہے، جماعت پر ظلم ہورہا ہے لیکن قرآن یہی کہے گا کہ نہیں تم نے بغاوت نہیں کرنی.ہاں جب بات حد سے گزر جائے اور پانی سر سے گزر جانے والا معاملہ ہو جائے تو پھر تم اس ملک کو چھوڑ دو مگر بغاوت پھر بھی نہ کرو.اُس وقت یہ تو نہیں ہوتا کہ مومن ڈر کی وجہ سے خاموش ہوتا ہے.مومن کو اپنی جان کی پرواہ نہیں ہوتی.اگر خدا اُسے اجازت دے
خطبات محمود ۳۷۷ سال ۱۹۳۹ء تو وہ اکیلا تمام دنیا کے مقابلہ میں لڑ کر مر جانے کے لئے تیار ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو فرض اس پر عائد کیا گیا ہے وہ چونکہ اسے اپنے جذبات کے دبانے کا حکم دیتا ہے.وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے اور بغاوت یا فساد کے طریق کو اختیار نہیں کرتا اور یہ کام اس کا بزدلی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے.دُنیا نے آج تک معمولی ایمان والوں کو بھی کفار کے مقابلہ میں ڈرتے نہیں دیکھا.گجا یہ کہ وہ لوگ ڈریں جن کے ایمان مضبوط ہوں اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو اپنی آنکھوں کی سے آسمان سے اُترتے دیکھا ہو.صحابہ کی قربانیاں تو الگ رہیں تنزل کے زمانہ میں ان مسلمانوں کو جو قُر بانیاں کرنی پڑیں جن کے ایمان صحابہ کی طرح مضبوط نہیں تھے وہ بھی ایسی شاندار ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.سپین میں مسلمانوں کا جو حشر ہو اوہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک تاریک ترین لمحہ تھا.میں سمجھتا ہوں کوئی مسلمان جس کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو وہ سپین کے مسلمانوں کی اُس کی آخری جنگ کے حالات پڑھ کر جو انہیں عیسائیوں سے لڑنی پڑی بغیر اس کے نہیں رہ سکتا کہ اس کا دل خون ہو جائے اور اس کی آنکھیں پرنم.وہ کبھی ٹھنڈے دل سے ان واقعات کو نہیں پڑھ سکتا.وہ کبھی خشک آنکھوں سے ان واقعات کو نہیں پڑھ سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ کوئی درد رکھنے والا مسلمان ساکن جسم سے ان واقعات کو نہیں پڑھ سکتا.ایک ذرہ بھر ایمان رکھنے والا مسلمان بھی جب ان واقعات کو پڑھتا ہے اس کا دل دھڑ کنے لگ جاتا ہے.اس کے آنسورواں ہو جاتے ہیں اور اس کا جسم کانپنے لگ جاتا ہے.اسلام کی فوقیت کا جھنڈا لہرانے والا وہ ملک جس نے یورپ پر سینکڑوں سال تک حکومت کی اور جس نے اسلام کی برتری اور فوقیت کو نہایت کی مضبوطی سے قائم رکھا اس میں سے جب مسلمان نکلنے پر مجبور ہوئے تو انہیں حکم دے دیا گیا کہ وہ اپنا بوریا بستر باندھ لیں اور چند ہفتوں کے اندر اپنے ملک کو خیر باد کہہ دیں ورنہ ان سب کو قتل کر دیا جائے گا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ملک جس نے اسلام کی شان و شوکت کو اس طرح قائم رکھا کہ شاید بغداد کی اسلامی حکومت بھی اُس طرح اسلامی شان وشوکت کو قائم نہیں رکھ سکی.آج وہاں اسلام کا نام ونشان بھی نہیں.سوائے ان چند عمارتوں کے جو مسلمانوں نے عہدِ ماضی کی یادگار کی
خطبات محمود ۳۷۸ سال ۱۹۳۹ء کے طور پر اب تک وہاں موجود ہیں.غرض اُس آخری لمحہ میں جب ہسپانوی اسلامی حکومت کا صرف آخری شہر باقی تھا اور دشمن نے اس کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا ہوا تھا اور عیسائی بادشاہ نے مسلمان بادشاہ کو کی آخری نوٹس دے دیا تھا کہ یا تو ہم اس شہر کو فتح کر کے تم سب کو قتل کر دیں گے یا پھر آخری موقع ہم تمہیں یہ دیتے ہیں کہ تم اپنا بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلے جاؤ.ہم تمہیں جانے کی اجازت دے دیں گے اور تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے.چنانچہ اُنہوں نے دو تین جہاز بھی مقرر کر دیئے اور کہہ دیا کہ جتنا سامان ان جہازوں پر آسکے اتنا سامان لا دلیا جائے اور باقی سب شہر میں ہی رہنے دیا جائے.مسلمانوں کی مجلس اس الٹی میٹم پر غور کرنے کے لئے منعقد ہوئی اور مشورہ ہونے لگا کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے.بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اگر وہ ایمانی جرات سے کام لیتے اور عیسائی لشکر سے لڑائی کے لئے تیار ہو جاتے تو شائد وہ کامیاب ہی ہو جاتے.کیونکہ وہ اتنے کمزور نہیں تھے کہ عیسائی لشکر کا مقابلہ نہ کر سکتے مگر چونکہ سب کے دلوں پر یہ رعب تھا کہ اسلامی حکومت کے ہاتھ سے ایک ایک کر کے تمام شہر نکل گئے ہیں اور اب صرف یہی ایک شہر باقی رہ گیا ہے.اس لئے اُنہوں نے سمجھا کہ اب ہمارا مقابلہ کرنا فضول ہے.چنانچہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے رئیس کے سامنے یہ سوال پیش ہوا اور ہر ایک نے پرنم آنکھوں سے کہا کہ جواب تو ظاہر ہی ہے.ہم میں اب مقابلہ کی کوئی طاقت نہیں.جس وقت بڑے بڑے رؤساء اور لیڈر یہ جواب دے رہے تھے ایک نو جوان فوجی افسر کھڑا ہوا اور اس نے کہا میرے نزدیک اسلامی غیرت ہمیں یہ جواب دینے کی اجازت نہیں دیتی.میرے نزدیک ہمیں عیسائیوں کا اپنی پوری قوت سے مقابلہ کرنا چاہئے.اگر ہم مارے گئے تو کی شہید ہوں گے اور اگر جیت گئے تو دُنیا میں عزت کی زندگی بسر کر سکیں گے.اُس کے اس جواب کو تمام درباریوں نے تعجب کی نگاہ سے دیکھا اور کہا تم یہ کیا کہتے ہو ؟ کیا ہمارے دلوں میں جوش نہیں ؟ کیا ہمارے قلوب میں ایمان نہیں؟ جوش اور ایمان ہمارے دلوں میں بھی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم میں اب لڑنے کی طاقت نہیں.جب تمام درباریوں اور تمام چھوٹوں اور بڑوں نے یہ جواب دیا تو اُس اکیلے نوجوان نے جبکہ عیسائیوں کی ایک لاکھ فوج شہر کا محاصرہ کئے پڑی تھی کی
خطبات محمود ۳۷۹ سال ۱۹۳۹ء تلوار اپنی میان سے نکال لی اور یہ کہتے ہوئے مجلس سے نکل گیا کہ اگر آپ لوگ اس ذلت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں تو آپ کی مرضی ہے لیکن میری اسلامی غیرت تو اس کی اجازت نہیں دیتی اور وہ وہاں سے سیدھا عیسائی لشکر کی طرف گیا اور اکیلے ہی دشمن کے لشکر پر حملہ کر دیا اور لڑتے لڑتے مارا گیا مگر تم سمجھتے ہو کہ جو کچھ مارا گیا وہ اس کا جسم تھا اس کی روح نہیں ماری گئی.اس کی رُوح اب تک ہمارے دلوں اور ہمارے دماغوں میں زندہ ہے.آج بھی کوئی مسلمان جب تاریخ کے اندھیرے کونے سے اس واقعہ کو نکالے گا اس کے دل سے اس نوجوان کے لئے بے اختیار دُعا نکلے گی اور وہ کہے گا یہ آخری مسلمان تھا جو سپین میں موجود تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ نے اسلام کو حیات تازہ بخشی.اس نشاۃ ثانیہ میں ایسے لوگوں کی روحیں پھر ظاہر ہوں گی.پھر ہسپانیہ محمد رسول اللہ کے جھنڈے کے نیچے آئے گا اور اس دفعہ اس طرح آئے گا کہ پھر نہیں نکل سکے گا.غرض مومن ڈرپوک نہیں ہوا کرتا ، مومن بُزدل نہیں ہوا کرتا.ہم نے اگر پچھلے مظالم برداشت کئے تو اس لئے نہیں کہ ہمیں جانیں دینی نہیں آتی تھیں.اگر خدا کا قانون ہمیں کی اجازت دیتا تو ہم قادیان اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں خوشی سے دے دیتے اور کبھی ان غدار حکام کے مظالم برداشت نہ کرتے جو ہمارے ہی نہیں حکومت کے بھی مجرم تھے مگر خدا کا یہی حکم تھا کہ ہم خاموش رہیں.پس ہم خاموش رہے.اس نے ہمیں کہا تی کہ جو قانون میں نے تمہارے لئے بنایا ہوا ہے اس کی پابندی کرو اور ہم نے اس کی پابندی کی.پس ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب قومی غیرت بھی یہی کہتی ہے کہ قربان ہو جاؤ مگر خدا کہتا ہے نہیں تم خاموش رہو.کیا ہی عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ کی کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور کفار صلح کے لئے شرائط پیش کر رہے تھے.صحابہ اپنے دلوں میں ایک آگ لئے بیٹھے تھے اور ان کے سینے ان مظالم کی تپش سے جل رہے تھے جو کفار کی طرف سے بیس سال سے ان پر کئے جارہے تھے ان کی تلواریں میانوں سے باہر نکلی پڑتی تھیں اور اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح موقع آئے تو ان مظالم کا جو انہوں نے اسلام پر کئے ہیں بدلہ لیا جائے کی
خطبات محمود ۳۸۰ سال ۱۹۳۹ء مسل مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کی باتیں سنیں اور جب یہ تجویز ان کی طرف سے پیش ہوئی کہ آؤ ہم آپس میں صلح کر لیں تو آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم صلح کر لیتے ہیں.اُنہوں نے کہا کہ شرط یہ ہے کہ اس سال تم عمرہ نہیں کر سکتے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اس سال ہم عمرہ نہیں کریں گے.پھر اُنہوں نے کہا کہ دوسرے سال جب آپ عمرہ کے لئے آئیں تو یہ شرط ہو گی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہر ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا مجھے یہ شرط بھی منظور ہے.پھر اُنہوں نے کہا کہ آپ کو مسلح ہو کر مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی.آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم سلح ہو کر مکہ میں داخل نہیں ہوں گے.صلح کا معاہدہ طے ہو رہا تھا اور صحابہ کے دل اندر ہی اندر جوش سے اُبل رہے تھے.وہ غصہ سے تلملا رہے تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صلح نامہ لکھنے کے لئے مقرر کیا گیا.اُنہوں نے جب یہ معاہدہ لکھنا شروع کیا تو انہوں نے لکھا کی کہ یہ معاہدہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ہے اور دوسری طرف مکہ کے فلاں فلاں رئیس اور مکہ والوں کی طرف سے ہے.اس پر کفار بھڑک اُٹھے اور اُنہوں نے کہا ہم ان الفاظ کو برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو رسول اللہ نہیں مانتے.اگر مانتے تو ان سے لڑائی کس بات پر ہوتی.ہم تو ان سے محمد بن عبد اللہ کی حیثیت سے معاہدہ کر رہے ہیں محمد رسول اللہ کی حیثیت سے معاہدہ نہیں کر رہے.پس یہ الفاظ اس معاہدہ میں نہیں لکھے جائیں گے.اس وقت صحابہ کے جوش کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ غصہ سے کانپنے لگ گئے.اُنہوں نے سمجھا اب خدا نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات نہیں مانیں گے اور ہمیں ان سے لڑائی کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جائے گا مگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں معاہدہ میں سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دینا چاہئے.علی ! اس لفظ کو مٹا دو مگر حضرت علی ایسے انسان جو فرمانبرداری اور اطاعت کا نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھے ان کا دل بھی کی کانپنے لگ گیا.ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ لفظ مجھ سے نہیں مٹایا جاتا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا لاؤ مجھے کاغذ دو اور کاغذ لے کر جہاں
خطبات محمود ۳۸۱ سال ۱۹۳۹ء رسول اللہ کا لفظ لکھا تھا اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نظارہ صحابہ کے لئے کتنا صبر آزما تھا مگر اُنہوں نے اس تکلیف کو برداشت کیا.اُنہوں نے اپنے جذبات کو قربان کیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ ایک مسلمان کی زندگی ہر رنگ میں اپنے خدا کے لئے ہوتی ہے.ہم قرآن میں بار بار خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مکالمہ پڑھتے ہیں مگر غفلت کی حالت میں اس آیت پر سے گزر جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے اس سوال کو کتنی اہمیت دی ہے جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا اور جس کا ذکر قران کریم میں اس طرح کیا گیا ہے کہ اِخقَالَ لَهُ رَبَّةٌ ،اسلم ، قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی خدا نے ابراہیم سے کہا آسلیم اور اس نے کہا اسلمت لرب العلمین یہاں اسلم کے معنی مسلمان ہونے کے نہیں ورنہ اس کا مفہوم یہ بنے گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی پہلے ہوئے اور مسلمان بعد میں.حالانکہ عام حالات میں اسلام بہت معمولی چیز ہے اور اس کے آگے انسانی ترقی کے لئے بہت سے مدارج ہیں.پہلے انسان صالح بنتا ہے پھر شہید بنتا ہے پھر سدیق بنتا ہے پھر نبی بنتا ہے اور پھر ان صلحاء، شہداء اور صدیقین کے ہزاروں درجے ہیں.صالحین بھی ہزاروں درجے کے ہیں اور شہداء بھی ہزاروں درجے کے ہیں اور صدیق بھی ہزاروں درجے کے ہیں اور نبی بھی ہزاروں درجے کے ہیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف نبی نہیں بلکہ ابوالانبیاء ہو جاتے ہیں اور خدا انہیں کہتا ہے آسلیم اور ابراہیم کہتا ہے اسْلَمْتُ لِرّب العلمین پس اس جگہ اسلیم سے مراد مسلمان ہونا نہیں بلکہ آسلیم سے مراد کامل فرمانبردار ہونا ہے.گویا خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اے ابراہیم تو ہمارا کامل فرمانبردار ہو جا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا میں ہو گیا.یہ آسلیم والا مقام وہی ہے جب نفس کے اندر جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ خدا کے لئے قربان ہو جاتے ہیں اس کے اندر سے کوئی آواز نہیں اُٹھتی.سب آوازوں کا اُٹھنا بند ہو جاتا ہے اور انسان اپنے رب کا کامل فرمانبردار ہو جاتا ہے.یہ مقام کوئی معمولی مقام نہیں ہے یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کے اندر ایک شیطان ہوتا ہے اور میرے اندر بھی وہ شیطان ہے مگر میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے سے تو اسلمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ
خطبات محمود ۳۸۲ سال ۱۹۳۹ء کے معنی در حقیقت یہی ہیں کہ میرے اندر کا شیطان مسلمان ہو گیا ہے اور وہ روح بھی نکل گئی ہے جو کبھی تکلیف کے وقت میں کبھی مصائب کے وقت میں اور کبھی غیرت کے مواقع پر احتجاج کرنا کی چاہتی ہے اور خدائی احکام کے خلاف ایک مخفی احتجاج کرتی ہے.وہ احتجاج کی روح بھی مٹی گئی ہے اور اب وہ کامل مسلمان ہو گئی ہے.یہی وہ رُوح ہے جس کے متعلق ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم کو بہت حکم دیئے مگر میں نے تم سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابو بکر کے اندر میں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی.سے چنا نچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا انسان بھی گھبرا گیا اور وہ اسی گبھراہٹ کی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گئے اور کہا کہ کیا ہمارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ ہم عمرہ کریں گے.انہوں نے کہا ہاں خدا کی کا وعدہ تھا اُنہوں نے کہا کیا خدا کا ہمارے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا کہ وہ ہماری تائید اور نصرت کرے گا ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں تھا.اُنہوں نے کہا تو پھر کیا ہم نے عمرہ کیا ؟ حضرت ابو بکر نے کہا.عمر ! خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے؟ پھر اُنہوں نے کہا کیا ہم کو فتح و نصرت حاصل ہوئی ؟ حضرت ابو بکر نے کہا.خدا اور اُس کا رسُول فتح ونصرت کے معنے ہم سے بہتر جانتے ہیں مگر عمر کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا خدا کا ہم سے یہ وعدہ نہ تھا کہ ہم مکہ میں طواف کرتے ہوئے داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اُنہوں نے عرض کیا کیا ہم خدا کی جماعت نہیں ؟ اور کیا خدا کا ہمارے ساتھ فتح و نصرت کا وعدہ نہیں تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، تھا.حضرت عمر نے کہا تو یا رَسُول اللہ ! کیا ہم نے عمرہ کیا ؟ آپ نے فرمایا کی خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے.یہ تو میرا خیال تھا کہ اس سال عمرہ ہو گا.خدا نے تو کوئی تعیین نہیں کی تھی.اُنہوں نے کہا تو پھر فتح و نصرت کے وعدے کے کیا معنے ہوئے؟ آپ نے فرمایا نصرت خدا کی ضرور آئے گی اور جو وعدہ اُس نے کیا ہے وہ بہر حال پورا ہوگا.ھے گویا جو جواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا وہی جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا.
خطبات محمود ۳۸۳ سال ۱۹۳۹ء تو اگر صرف غیرت کا سوال ہو تو جس طرح اس معاملہ میں دوسروں کو غیرت ہے اسی طرح کی مجھ کو بھی غیرت ہے بلکہ مجھے چونکہ وہ تمام شرارتیں معلوم ہیں جو حکام ہمارے سلسلہ کے خلاف کیا کرتے تھے اس لئے میرے دل میں دوسروں کی نسبت زیادہ غیرت پیدا ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کا قانون ان ساری چیزوں سے بالا ہے اور خدا تعالیٰ کی مشیت ان ساری چیزوں سے بالا ہے.بسا اوقات ایک چیز بُری نظر آتی ہے مگر اپنے نتائج کے لحاظ سے اچھی ہوتی ہے اور بسا اوقات انسان قانون کی پابندی کو اپنے لئے تکلیف دہ سمجھتا ہے مگر کامیابی کے لئے اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم ہے کہ تم جس حکومت میں رہو اُس کی بغاوت نہ کرو اور نہ کبھی اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرو.بظاہر پچھلے کانگرس کے جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے اس اصل کی کمزوری ثابت ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک وقت خواہ اس اصل پر کار بند ہونا دو بھر معلوم ہوتا ہو دُنیا کو تاریخ پر مجموعی طور پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ یہی اصل دُنیا میں امن کے قیام کا ذریعہ ہے.پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص یا چند اشخاص سے کوئی کچ تکلیف پہنچتی ہے مگر خدا تعالیٰ نے اس قوم کے اندر جس کے بعض افراد کے ذریعہ تکلیف پہنچی ہوتی ہے کوئی بھلائی پوشیدہ رکھی ہوئی ہوتی ہے.اب ہمارا نفس تو یہ کہتا ہے کہ ہمیں ساری قوم سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہئے مگر خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ انجام کے لحاظ سے کونسی بات مفید ہو سکتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انگریزی حکومت میں پیدا کیا.مگر بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہ فعل بتاتا ہے کہ اسی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اور اس کے قوانین سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ترقی کرے گی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور موقع پر بیان فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ کی ایسا آنے والا ہے جب انگریزوں اور روسیوں کی جنگ ہو گی.آپ فرماتے ہیں یہ خطر ناک کی جنگ جو ہو نے والی ہے اس وقت نہ معلوم ہم زندہ ہوں یا نہ ہوں اس لئے ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس گورنمنٹ کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے
خطبات محمود ۳۸۴ سال ۱۹۳۹ء تا کہ اس حکومت نے جو مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے اس کا بدلہ ہو.بعید نہیں کہ اس پیشگوئی اور دُعا کا تعلق موجودہ جنگ سے ہی ہو کیونکہ اسی جنگ میں انگریزوں اور روسیوں کی لڑائی کا خطرہ ہے.پچھلی جنگ میں روسی شروع سے انگریزوں کے ساتھ تھے مگر اس جنگ میں ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ امکان ہے روس اور برطانیہ کی جنگ چھڑ جائے اور اگر ایسا ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دُعا کے ماتحت مجھے یقین ہے کہ فتح انگریزوں کو ہی ہو گی.آج مجھے اُن کی فتح کا اتنا یقین نہیں جتنا یقین مجھے اس وقت ہوگا.اگر اس جنگ میں روسی انگریزوں کے خلاف شامل ہو گئے کیونکہ اس صورت میں اس دُعا کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ غلبہ انگریزوں کو ہی ہو گا گوڈ نیوی لحاظ سے جب دشمن زیادہ ہو جاتے ہیں تو فتح کا امکان کم ہو جاتا ہے مگر جہاں اللہ تعالیٰ کا قانون شامل ہو جائے وہاں فیصلہ طاقت کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ خدا کے فیصلہ کے مطابق ہوتا ہے.پس اگر روسی اس جنگ میں جرمنی کے ساتھ شامل ہو جائیں تو مجھے اسی دن سے یہ یقین ہو جائے گا کہ بالآ خر انگریزوں کو ہی فتح ہوگی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کی فتح کے متعلق دُعا کر چکے ہیں.پس دوستوں کو ایک بات تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے مٹانے کے لئے بے شک حکومت کے بعض نمائندوں نے بہت کچھ زور لگایا بلکہ اب تک زور لگا رہے ہیں اور پنجاب گورنمنٹ بھی بعض مواقع پر درمیان میں کو دتی رہی ہے اور اس وقت بھی ہمارے لئے امن نہیں اور اب بھی ہمارے مقدس مذہبی مقامات چھینے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی جاتی ہیں مگر باوجود اس کے ہم وہ حکم نظر انداز نہیں کر سکتے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد کی ہوتا ہے اور نہ ہم وہ پیشگوئیاں نظر انداز کر سکتے ہیں جنہوں نے ہمیں آئندہ کا راستہ بتایا ہوا ہے.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ہمیں انگریزی قوم کے ایک حصہ سے لڑنا پڑے گا.مگر ہماری لڑائی مادی ہتھیاروں سے نہیں ہوگی بلکہ ویسی ہی ہو گی جیسے آجکل احرار سے ہماری جنگ ہے.کیونکہ اُس وقت انگریزی قوم کے ایک حصہ کو جب یہ محسوس ہوگا کہ انگریز احمدیت میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو وہ ہم سے فساد کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے
خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۳۹ء اور ہمارا فرض ہو گا کہ ہم ان کا مقابلہ کریں مگر وہ زمانہ ابھی دُور ہے.موجودہ زمانہ کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں اُن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا اور ان کے قوانین احمدیت کی ترقی کے لئے مدہوں گے اور جہاں جہاں ان کی حکومت ہوگی وہاں کی احمدیت کی تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے راستہ کھل جائے گا اور اس کا عملی ثبوت اس بات سے مل سکتا ہے کہ ہندوستان سے باہر جن ممالک میں انگریزوں کی حکومت نہیں وہاں ہم نے کی جب تبلیغ کی تو ہمارے راستہ میں روکیں حائل کرنے کی کوشش کی گئی.بیشک بعض اور ممالک بھی ہیں جہاں ہمیں تبلیغ میں آسانی ہے مگر وہ بہت کم ہیں.اکثر ایسے ہیں جہاں تبلیغ میں روکیں ڈالی جاتی ہیں ایسی صورت میں انگریزوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جہاں ہماری تبلیغ کے راستے کھلے ہیں وہاں بھی احمدیت کی ترقی رُک جائے.اب ایک طرف ہماری غیرتیں ہوں اور دوسری طرف یہ نتیجه تو کونسا احمدی یہ برداشت کرے گا کہ تبلیغ تو بیشک بند کر دی جائے مگر اس کی غیرت کو کوئی صدمہ نہ پہنچے.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تبلیغ اگر بند ہوتی ہے تو ہو جائے ، میری غیرت کا تقاضا پورا ہونا چاہئے.تو مجھے تو اس کے متعلق یہی طبہ پڑ جائے گا کہ وہ احمدی نہیں ہے بلکہ احمدیت کا دشمن ہے.بہر حال ہم اس وقت خون کا گھونٹ پئیں گے.اپنے نفسوں پر جبر کریں گے اور جس امر میں خدا کی بڑائی ہے اسے قبول کر لیں گے اور کہیں گے جہاں ہم نے اسلام اور احمدیت کے لئے اور قربانیاں کیں وہاں ہم نے اپنے جذبات غیرت کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کر دیا.یہ قربانی معمولی قربانی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی اہمیت رکھنے والی ہے.کیونکہ جذبات غیرت کو قربان کرنا معمولی بات نہیں ہوتی.پس میں جماعت کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو سمجھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو سمجھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل کو سمجھے جب تک لوکل حکام کا سوال تھا اس وقت تک معاملہ بالکل اور حیثیت رکھتا تھا مگر اب معاملہ بالکل اور حیثیت رکھتا ہے.جب تک لوکل حکام کے ساتھ ہمارا جھگڑا تھا اُس وقت تک ہمارے جھگڑے کی ایسی ہی نوعیت تھی جیسے زید یا بکر کے ساتھ جھگڑا ہو جائے.چنانچہ دیکھ لومیں خود بھی اس وقت کئی رنگ میں ان کا مقابلہ کرتا رہا کیونکہ.
خطبات محمود ۳۸۶ سال ۱۹۳۹ء زید یا بکر سے جھگڑا ہماری تبلیغ کے رستہ میں روک نہیں.اگر کوئی بے دین اور شریر افسر حکومت سے تنخواہ لے کر ایک وفادار جماعت کو دق کرنا شروع کر دے تو اگر ہم اس کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہم اپنی تبلیغ کے راستہ کو بند نہیں کرتے بلکہ ایک شریر کوسیدھا کرتے ہیں مگر اب معاملہ ایک دو شریر افسروں تک محدود نہیں بلکہ اس وقت حکومت برطانیہ اپنے سارے مجموعہ نظام سمیت خطرہ میں ہے اور بالکل ممکن ہے اگر اس طرف سے کمزوری دکھائی جائے تو حکومت انگریزی کو شکست کی ہو جائے اور اس کے علاقے کسی دوسری حکومت کے ماتحت چلے جائیں اور اس طرح کی مذہبی آزادی جاتی رہے اور ہماری تبلیغ رُک جائے.پس اس معاملہ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیئے اور وہ راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے جو نادانی اور ہلاکت کی ہے.کئی نادان نوجوان ہیں جو مجھے کہتے رہتے ہیں کہ آپ احرار کے فتنہ کے وقت تو یہ کہتے تھے اور اب یہ کہتے ہیں.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ اس وقت صرف مقامی حکام کا معاملہ تھا مگر اب تمام برٹش ایمپائر کا معاملہ ہے اور دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی چھوٹی چیز کے مقابلہ میں بڑی چیز آ جائے تو ہمیشہ چھوٹی چیز کو قربان کر دیا تھ جاتا ہے اور بڑی چیز کو بچالیا جاتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک بچہ شمع کو انگلی لگا رہا ہو تو ہم اسے ڈانٹیں گے اور کہیں گے انگلی جل جائے گی اس کی حفاظت کرو مگر کسی دوسرے موقع پر جب ہمارے کسی عزیز کو خدانخواستہ کینسر ہو جائے تو ہم کہنی تک اس کا ہاتھ کٹوا دیں گے.اب اگر کوئی کہے کہ اس وقت تو آپ شمع کو انگلی بھی نہیں لگانے دیتے تھے اور آج کہہ رہے ہیں کہ فلاں شخص کہنی تک اپنا ہا تھ کٹوادے.تو وہ احمق ہی ہوگا کیونکہ ہم نے پہلی بات اس وقت کہی تھی جب شمع کے مقابلہ میں انگلی تھی اور دوسری بات اس وقت کہی ہے جب ہاتھ کے مقابلہ میں جان ہے.پہلی حالت میں یہ ضروری تھا کہ انگلی کی حفاظت کی جاتی اور دوسری حالت میں یہی ضروری تھا کہ ہاتھ کو کہنی تک کٹوا دیا جاتا.اسی طرح اگر اس وقت جنگ جاتی رہے اور وہی امن کی صورت ہو جائے جو پہلے تھی اور پھر ہمیں بدمعاش اور شریر حکام دق کریں تو پھر میں وہی بات کہوں گا جو میں نے پہلے کہی تھی اور اگر پھر دوبارہ انگریزی حکومت خطرہ میں پڑ جائے تو میں پھر وہی بات کہوں گا جو اب کہ رہا ہوں کیونکہ اس صورت میں معاملہ کی نوعیت بالکل اور ہو جاتی ہے اور مومن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر کام کرے.حقیقت یہ ہے کہ مومن ہر کام کی
خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۹ء حکمت کے ماتحت کرتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام حکیم بھی آیا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی کی ہے اس میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ يُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة وہ نبی ان کو کتاب اور حکمت سکھائے گا اور چونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اس لئے حکمت کے ماتحت احکام بھی بدلتے رہیں گے.جب اسلام اور غیر اسلام کا مقابلہ ہو گا تو اس وقت ہم اسلام کو ترجیح دیں گے.جب کی ہمارے جذبات غیرت کا اسلامی احکام سے مقابلہ ہو گا تو اس وقت ہم اسلامی احکام کو ترجیح یں گے اور جب ہمارے جذبات اور دوسروں کے جذبات کا مقابلہ ہو گا تو اس وقت اگر ہمارے جذبات نیکی پر مبنی ہوں گے تو ہم ان کو ترجیح دیں گے اور اگر دوسروں کے جذبات نیکی پر مبنی دکھائی دیں گے تو دوسروں کے جذبات کو ترجیح دیں گے.غرض جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہوتی ہے مومن تو وہی امر اختیار کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مومن تو خدا کا بندہ ہوتا ہے اُسے کسی اور سے واسطہ ہی نہیں ہوتا.پھر آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب بندوں کے نوکر آقا کے سوا کسی اور کی بات نہیں مانتے تو مومن اپنے خدا کا بندہ ہو کر کسی اور کی بات کس طرح مان سکتا ہے.اسی ضمن میں آپ بطور مثال فرمایا کرتے تھے کہ ایک راجہ تھا جس نے ایک دن بینگن کا بھرتہ کھا لیا اور وہ کی اسے بہت ہی مزیدار معلوم ہوا.دربار میں وہ بیٹھا ہوا تھا کہ اور باتوں کے دوران میں وہ کہنے لگا بینگن کی طرف پہلے ہمارا کبھی خیال ہی نہیں گیا تھا وہ تو بڑی مزیدار چیز ہے.میں نے اس کا بھر نہ کھایا اور مجھے بہت ہی اچھا معلوم ہوا.جب راجہ نے یہ بات کہی تو ایک درباری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور بینگن کا کیا کہنا ہے فلاں طبیب نے اس کے یہ فوائد لکھے ہیں اور فلاں طبیب نے اس کے وہ فوائد لکھے ہیں.آخر ہر چیز کے کچھ فائدے ہوتے ہیں اور کچھ نقصان.بینگن کے کی بھی طبیبوں نے بہت سے فائدے لکھے ہیں اور بہت سے نقصان بھی لکھے ہیں.اسے چونکہ راجہ کے خیال کی تائید کرنا مقصود تھا اس لئے اس نے صرف خوبیاں گننی شروع کر دیں اور کہا کہ حضور اس میں یہ بھی خوبی ہے اور وہ بھی خوبی ہے.پھر کہنے لگا حضور اس کی ظاہری شکل بھی تو ملا حظہ فرمائیں بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی صوفی گوشتہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہو.
خطبات محمود ۳۸۸ سال ۱۹۳۹ء (صوفیا عموماً سبز عمامہ پہنا کرتے تھے اور جبہ ان کے جسم پر ہوتا تھا ) راجہ نے چند دن بینگن کی کھانے میں خوب افراط سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے بواسیر ہوگئی پھر ایک دن جو اس نے دربار کیا تو پھر بینگن کا ذکر چھیڑ دیا اور کہنے لگا کہ ہم نے سمجھا تھا بینگن کوئی اچھی چیز ہے مگر معلوم ہو ا کہ وہ بہت بُری چیز ہے.مجھے تو اس کے کھانے سے بواسیر ہوگئی ہے.یہ سنتے ہی وہی درباری اُٹھا اور کہنے لگا حضور بینگن واقع میں نہایت بُری چیز ہے فلاں طبیب نے اس کے یہ نقصانات لکھے ہیں اور فلاں طبیب نے اس کے وہ نقصانات لکھے ہیں.غرض اس نے وہ تمام نقصانات گن دیئے جو اطباء نے اس کے لکھے تھے اور آخر میں کہنے لگا حضور اس کی شکل بھی دیکھیں کیسی منحوس ہے.یہ بیل میں لٹکا ہوا بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کا ہاتھ منہ کالا کر کے پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہو.کسی نے اسے کہا کہ تھوڑے ہی دن ہوئے ہمارے سامنے تو نے اس کی خوب تعریف کی تھی اور آج تو ہی اس کی مذمت کر رہا ہے تو وہ کہنے لگا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں.تو انسانوں کی نوکری میں بھی بعض لوگ اطاعت کو درجہ کمال تک پہنچا ؟ دیتے ہیں.حالانکہ انسان بعض دفعہ جھوٹ بھی بول لیتا ہے ، بعض دفعہ مبالغہ بھی کر لیتا ہے.بعض کی دفعہ دوسرے کو گمراہ بھی کر دیتا ہے مگر وہ خدا جس کی اطاعت میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور جس نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو نقصان پہنچانے والا ہو اس کے احکام کی اطاعت کا انسان وہ اہتمام نہیں کرتا جو دُنیوی ملازمتوں میں کرتا ہے.حالانکہ اصل وجود جس کی اطاعت میں کسی کو دریغاتی نہیں ہونا چاہئے وہ خدا کا ہی وجود ہے.باقی بندے تو جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، فریب بھی کر سکتے ہیں ، گمراہ بھی کر سکتے ہیں اور صداقت سے بھی منحرف کر سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو نہ جھوٹ بولتی ہے، نہ گمراہ کرتی ہے ، نہ غلطی کھاتی ہے.اس لئے خدا کے معاملہ میں اگر کوئی شخص وہی رنگ رکھتا ہے جو اس نوکر نے اپنے آقا کے متعلق رکھا تو وہ ضرور ہدایت پا جاتا ہے.تم خود ہی سوچ لو جو شخص یہ کہہ دے کہ جو کچھ قرآن کہے گا وہی میں مانوں گا وہ کس طرح گمراہ ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص تھے وہ تھے تو ان پڑھ مگر اُنہوں نے دس بارہ حج کئے ہوئے تھے.اُس زمانہ میں حج کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ بعض علاقوں میں ریل گاڑی کی
خطبات محمود ۳۸۹ سال ۱۹۳۹ء نہیں تھی اور کئی جگہ پیدل جانا پڑتا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی دوست تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور اپنی مسیحیت کا بھی اعلان کیا تو تمام ہندوستان میں ایک شور مچ گیا.ان دنوں لاہور میں حضرت خلیفہ اول جموں سے رخصت لے کر آئے ہوئے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہاں جا پہنچے اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا اور کہا کہ صرف حدیثوں سے وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث ہونی چاہئے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ حدیث حاکم نہیں بلکہ قرآن حاکم ہے.پس ہمیں اس معاملہ میں قرآن کریم کی آیات سے فیصلہ کرنا چاہئے.اس پر کئی دن بحث ہوتی رہی اور ایک دوسرے کی طرف سے اشتہارات بھی نکلتے رہے.وہ چونکہ دونوں کے دوست تھے اس لئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اس جھگڑے کو نپٹا نا چاہئے.اُنہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ مرزا صاحب نیک آدمی ہیں اُنہوں نے کوئی ایسی کی بات کہی ہو گی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی سمجھے نہیں اور چونکہ ان کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے اس لئے وہ جوش میں آ کر مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہوں گے ورنہ یہ نہیں ہوسکتا کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہیں اور ان پر کفر کے فتویٰ لگانے کی ضرورت پیش آ جائے.یہ مخالفت ضرور کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کو دور کروں.چنانچہ وہ بڑے جوش سے قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے میں نے سُنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگے میں تو سمجھتا تھا آپ نے قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہی ہو گی اور مولوی محمد حسین بٹالوی یونہی کسی غلط فہمی کے ماتحت آپ کے دشمن ہو گئے ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ آپ نے واقع میں قرآن کے خلاف عقیدہ اختیار کر لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ قرآن کے خلاف عقیدہ نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے.وہ کہنے لگے اگر قرآن سے یہی ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ اپنا یہ عقیدہ ترک کر دیں گے.حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام نے فرمایا کیوں نہیں.اگر قرآن سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو میں انہیں زندہ ماننے لگ جاؤں گا.انہوں نے کہا میں پہلے ہی کہتا تھا کہ
خطبات محمود ۳۹۰ سال ۱۹۳۹ء مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں.وہ قرآن کے خلاف عمداً کوئی بات نہیں کہہ سکتے.انہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.اچھا آپ بتا ئیں اگر میں قرآن کریم سے سو ایسی آیتیں نکال کر لے آؤں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان لیں گے.وہ چونکہ مولویوں سے یہ سُنا کرتے تھے کہ سارا قرآن حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے ذکر سے بھرا ہوا ہے.اس لئے اُنہوں نے سمجھا کہ سو آیتیں تو ایسی ضرور ہوں گی جن سے ان کی زندگی ثابت ہوتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کو چھوڑ آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں تو میرے لئے وہی کافی ہے اور میں حضرت مسیح کی وفات کا عقیدہ ترک کر دوں گا.وہ کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس تو میں ضرور لے آؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ ایک آیت بھی کافی ہے سو پچاس کی شرط کی ضرورت ہی کیا کی ہے.وہ کہنے لگے اچھا تو دس آیتیں تو میں ضرور ہی لے آؤں گا.میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب قرآن کے عاشق ہیں وہ قرآن کے خلاف کوئی بات مان ہی نہیں سکتے.ضرور انہیں کوئی غلطی لگی ہے.اب یہاں آکر میرے اس خیال کی تصدیق ہوگئی ہے.اچھا اب میں جاتا ہوں اور دس آیتیں ایسی لکھوا کر آپ کے پاس لاتا ہوں جن سے حضرت مسیح ناصری کی حیات ثابت ہوتی ہے.چنانچہ وہ لاہور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے ملنے گئے.مولوی صاحب اُس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے بڑے زور شور سے لافیں مار رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو ایسی پٹھنیاں دیں.وہ حدیث کی طرف آتا ہی نہیں تھا مگر میں نے اسے اس قدر پٹخنیاں دیں کہ آخر وہ حدیث کی طرف آنے پر مجبور ہو گیا.دراصل بات یہ ہوئی کہ لمبی بحث سے تنگ آ کر حضرت خلیفہ اول نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اچھا قرآن کے علاوہ بخاری سے بھی تائیدی رنگ میں حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں.بس اس پر وہ بے حد خوش تھے اور بار بار کہتے تھے کہ میں نے نورالدین کو کی خوب پکڑا.اتفاق یہ ہوا کہ ادھر وہ یہ باتیں کر رہے تھے اور ادھر یہ حاجی صاحب جا نکلے اور کہنے لگے بس اب اس بحث مباحثہ کو ایک طرف رکھیں اور میری بات سنیں.میں قادیان گیا تھا کی اور میں حضرت مرزا صاحب کو منوا آیا ہوں کہ اگر قرآن سے میں دس ایسی آیتیں نکال کر لے آؤں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو تو وہ اپنے پہلے عقیدہ کو ترک
خطبات محمود ۳۹۱ سال ۱۹۳۹ء کر دیں گے بلکہ میں ان سے یہ بھی منوا آیا ہوں کہ وہ لاہور کی شاہی مسجد میں آکر سب کے سامنے تو بہ کریں گے اور واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا بھی اقرار کر لیا تھا.ان کا منشا یہ تھا کہ تو بہ ایسی جگہ ہو کہ سب کو معلوم ہو جائے اور یہ فتنہ جواُ ٹھا ہوا ہے دب جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جہاں آپ کہیں گے وہیں میں تو بہ کرنے کے لئے تیار ہوں.آپ پہلے دس آیتیں تو لے آئیں.غرض انہوں نے جاتے ہی کہا کہ میں مرزا صاحب سے سب کچھ منوا کر آیا ہوں.آپ اس جھگڑے کو چھوڑئیے اور مجھے فوراً دس آیتیں لکھ کر دیجئے تا کہ میں مرزا صاحب کو تو بہ کرانے کے لئے یہاں لا سکوں.اس وقت چونکہ مولوی صاحب سخت جوش کی حالت میں اور بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو یوں پٹھنیاں دیں، میں نے اُسے گردن سے اس طرح پکڑا.اُنہوں نے جب یہ بات سنی تو ان کے تن بدن میں کی آگ لگ گئی اور غصہ سے کہنے لگے تجھ جاہل کو کس نے کہا تھا کہ تو مرزا صاحب کے پاس کی جائے.میں دو مہینے سے جھگڑ جھگڑ کر نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر بحث کو قرآن کی کی طرف لے گیا.وہ آدمی تھے نیک انہیں یہ فقرہ کھا ہی گیا.وہ سادگی سے یہ سمجھتے تھے کہ قرآن سے حیات مسیح ثابت ہے اور وہ اسی امید میں خیالی پلاؤ پکا رہے تھے اور خیال کرتے تھے کہ جہاں سارے ہندوستان کے مولوی ناکام رہے ہیں وہاں میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور کی مرزا صاحب سے تو بہ کراؤں گا.پس انہوں نے جو نہی یہ فقرہ سُنا کہ میں دو مہینے بحث کر کر کے نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا تو وہ تھوڑی دیر تو حیرت کی اور استعجاب سے خاموش بیٹھے رہے پھر اُٹھے اور مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ اچھا مولوی صاحب جدھر قرآن اُدھر ہی ہم اور یہ کہہ کے مجلس سے چلے گئے.اب انہوں نے نہ کوئی دلیل سنی ، نہ کوئی نشان دیکھا ، نہ کوئی مباحثہ سُنا.صرف انہوں نے یہ فقرہ سُنا اور سمجھ گئے کہ قرآن مرزا صاحب کی تائید میں ہے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ جدھر قرآن ہے اُدھر ہی مجھے ہونا چاہئے.چنانچہ اُنہوں نے قادیان آ کر حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.تو حق یہ ہے کہ جو شخص اس مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے جذبات غیرت کا پاس کرے وہ یہ فیصلہ کر لے کہ جدھر میرا خدا ہے اُدھر ہی میں کی
خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۹ء ہوں گا وہ کبھی نا کام نہیں ہوسکتا، وہ کبھی نامراد نہیں ہوسکتا ، وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا.یہی وہ مقام ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اور یہی وہ مقام ہے جس کے بعد ساری دُنیا کے شیطان مل کر بھی اگر انسان کو گمراہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے کیونکہ اس نے ایک ایسے عُروہ وشقی کو پکڑ لیا ہے جس کے لئے ٹوٹنا مقدر نہیں.وہ کھا ہوا اپنے خدا کی طرف چلا جائے گا.پس جس شخص کے دل میں یہ ایمان ہو کہ جدھر میرا خدا ہے اُدھر میں ہوں اسے شیطان نہ دوستوں کی محبت سے کی ور غلا سکتا ہے نہ رشتہ داروں کی محبت سے ورغلا سکتا ہے، نہ علم سے ورغلا سکتا ہے اور نہ کسی اور کی طریق سے ورغلا سکتا ہے کیونکہ شیطان اسے یہ تو کہہ سکتا ہے کہ یہ دوستوں کی محبت کا تقاضا ہے، یہ رشتہ داروں کی محبت کا تقاضا ہے، یہ قومی غیرت کا تقاضا ہے، یہ اسلامی محبت کا تقاضا ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ قرآن کا تقاضا ہے.وہ انسانی طبیعت کو سو طرح اُبھا سکتا ہے، وہ لالچ دے سکتا ہے، وہ ڈراوے دے سکتا ہے، وہ جذبات برانگیختہ کر سکتا ہے مگر وہ قرآن کی آیت کی اپنے پاس سے نہیں بنا سکتا کیونکہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور وہی اس کا حافظ و ناصر ہے.پس جب کوئی شیطان قرآن کی آیت اپنے پاس سے نہیں بنا سکتا تو وہ شخص جو یہ فیصلہ کر لے کہ میں اُدھر ہی ہوں گا جدھر قرآن ہے وہ گمراہ کس طرح ہوسکتا ہے.غرض جو شخص اس مقام پر کھڑا ہو جائے کہ جدھر خدا ہے اُدھر میں ہوں.جس کے دوسرے کی معنے یہ ہیں کہ جدھر قرآن ہے اُدھر میں ہوں وہ کبھی ٹھو کر نہیں کھا سکتا.کیونکہ انسانوں کے لئے خدا تعالیٰ کا کوئی حکم نہیں جو قرآن سے باہر ہو اور قرآن کا کوئی لفظ نہیں جو خدا تعالیٰ سے باہر ہو.پس جدھر خدا ہے اُدھر قرآن ہے اور جدھر قرآن ہے اُدھر خدا ہے اور وہ جس نے کہا کہ جدھر خدا ہے اُدھر میں ہوں اس نے یہی کہا کہ جدھر قرآن ہے اُدھر میں ہوں اور جس نے کہا کہ جدھر قرآن ہے اُدھر میں ہوں اس نے یہی کہا کہ جدھر خدا ہے اُدھر میں ہوں اور ایسے شخص پر شیطان کا کوئی حملہ کارگر نہیں ہو سکتا.وہ انسانی علم کی کمی کی وجہ سے عارضی طور پر دھوکا کھا سکتا ہے.وہ عارضی طور پر کسی بات کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہے مگر وہ فنا نہیں ہوسکتا، وہ گمراہ کی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نے خدا کو پکڑا ہوا ہے اور جس نے خدا کو پکڑا ہوا ہو وہ گمراہ نہیں ہوسکتا.اگر تمہارا ہاتھ تمہارے کسی دوست نے پکڑا ہوا ہو اور وہ تیز رفتار ہوا اور تم سُست رفتار تو تم.
خطبات محمود ۳۹۳ سال ۱۹۳۹ء جھٹکے کھا سکتے ہو، تمہاری ٹانگیں ادھر اُدھر ہوسکتی ہیں، تمہارا سر ادھر اُدھر لڑھک سکتا ہے مگر تم جاؤ گے وہیں جہاں تمہارا دوست جائے گا.اسی طرح وہ شخص جس نے اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دیا اس کو جھٹکے بے شک لگیں اس کا پیر بے شک پھسل جائے مگر وہ جائے گا اُدھر ہی جدھر خدا ہے کیونکہ جس نے خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا وہ کبھی گمراہ ہو کر غلط راستہ پر نہیں جاسکتا.پس یا درکھو ہماری جماعت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ وہ اسلام اور احمد بیت کو پھیلائے ، وہ نیکی اور تقویٰ اپنے اندر پیدا کرے اور اسلامی نظام کی ترقی کے لئے انہی راستوں کو اختیار کرے جو خدا نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں.پس تم میں سے خواہ کوئی عالم ہوں یا جاہل ، چھوٹے ہوں یا بڑے.اگر وہ جذبات کی رو میں بہہ جائیں گے ، اگر وہ اس رستہ کو ترک کر دیں گے جو ان کی ترقی کے لئے خدا نے مقرر کیا تو وہ احمدیت کے دوست نہیں بلکہ بدترین دشمن ہونگے مگر وہ جو اپنے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسی راستے کو اختیار کرتا ہے جو خدا نے اس کی ترقی کے لئے مقرر کیا وہ احمدیت کا خادم ہے اور ایسے خادم کبھی نا کام نہیں ہو ا کرتے.“ ( الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۳۹ء ) رح السيرة النبوية لابن اهشام - الجزء الثالث صفحه ۳۳۲ - زیر عنوان امر الهدنه - مطبع مصطفى البابي الحلبی و اولاده مصر ۱۹۳۶ء البقره :١٣٢ سنن الترمذى ـ كتاب الرضاع - باب ماجاء في كراهية الدخول على المغيبات ه السيرة النبوية لابن هشام الجزء الثالث - صفحه ۳۳۱- زیر عنوان امر الهدنه مطبع مصطفى البابی الحلبی و اولاد مصر ۱۹۳۶ء البقره : ١٣٠
خطبات محمود ۳۹۴ ۲۶ سال ۱۹۳۹ء موجودہ جنگ میں ہمیں اختلافات کو بھول کر حکومت برطانیہ کی مدد کرنی چاہئے (فرموده ۲۲ رستمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ نہایت ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ضروری نہیں ہوتا کی کہ جو چیز تم کو جلدی ملنے والی ہو وہ تمہارے لئے اچھی بھی ہو بلکہ بسا اوقات جو چیز بعد میں آنے والی یا دیر سے ملنے والی ہوتی ہے وہ زیادہ اچھی ہوتی ہے اور قریب میں رکھی ہوئی یا قریب میں کی ملنے والی چیز بُری ہوتی ہے.جس طرح قرآن کریم نے اس نظریہ کو پیش کر کے دُنیا کی ہمتوں کو بڑھانے اور اس کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے کہ بعض دفعہ چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں اسی طرح اُس نے اس نظریہ کو پیش کر کے انسان کی عقل اور اس کی ذہانت کو تیز کر دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کوئی چیز جو قریب الحصول ہو وہ زیادہ اچھی ہو اور جس چیز کے متعلق انسانی قلوب میں شکوک اور شبہات ہوں کہ معلوم نہیں وہ ملتی بھی ہے یا نہیں اور اگر ملتی ہے تو کب اور کس رنگ میں وہ بُری ہو.انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے کہ وہ قریب کی چیز کو جو مل رہی ہو بہتر سمجھتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتی ہے کہ نہ معلوم کوئی اور چیز ملتی بھی ہے یا نہیں.پھر کیوں نہ میں اس قریب.
خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۳۹ء ملنے والی چیز سے فائدہ اُٹھالوں.اس لالچ اور حرص کی وجہ سے وہ تمام پہلو جن پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے انسان انہیں بھول جاتا ہے کیونکہ جب کسی انسان کے دل میں لالچ پیدا ہو جا تا کج ہے تو اس کی عقل ماری جاتی ہے.بیسیوں انسانوں کو تم دیکھو گے کہ وہ اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھ کر یہ ذکر کر رہے ہوں گے کہ ہم نے فلاں کام کیا اور ہمارا خیال تھا کہ ہمیں اس میں فائدہ ہوگا مگر بجائے فائدہ کے ہمیں نقصان ہو گیا اور جب ان سے پوچھو کہ اس بارہ میں تم نے پہلے غور کیوں نہ کر لیا تو وہ کہیں گے کہ ہم کیا کریں ہماری تو عقل ماری گئی تھی یہ اسی نظریہ کی ترجمانی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ جب انسان کے دل میں لالچ پیدا ہوتا ہے تو اس کی نظر محدود ہو جاتی ہے اور نظر محدود ہو جانے کی وجہ سے وہ کھلے اور روشن دلائل جو دوسروں کو نظر آتے ہیں اُسے نظر نہیں آتے لیکن جب انسان کی نظر وسیع ہوتی ہے تو وہ تمام پہلوؤں پر غور کرتا اور اپنے نفع اور نقصان کا مقابلہ کرتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ قریب کی نفع مند چیز انجام کے لحاظ سے مضر ہے تو وہ اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ مجھے اپنے نفس کی خواہشات کا مقابلہ کرنا چاہئے.مجھے لالچ اور حرص کے ماتحت قریب کی فائدہ مند چیز کو نہیں لینا چاہئے بلکہ اس وقت تک مجھے انتظار کرنا چاہئے جب تک مجھے حقیقی طور پر اچھی چیز نہ مل جائے.میں دیکھتا ہوں دُنیا میں بہت سے لوگ اس قسم کے غلط اندازے کر کے بڑی بڑی ترقیات سے محروم ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ صحیح اندازے کر کے بہت بڑی ترقیات کو حاصل کر لیتے ہیں.ایک طالب علم جو کھیل کود کے مزے کو دیکھتا ہے جب اس مزے کو تعلیم پر مقدم کر لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک قریب کا نفع ہے جو مجھے حاصل ہو رہا ہے.پھر کیوں نہ میں اس نفع کو پوری طرح لے لوں.میرے ماں باپ مجھے کہتے ہیں کہ تم پڑھ لکھ لو گے تو بڑے آرام سے زندگی بسر کر سکو گے مگر مجھے تو بغیر پڑھے لکھے ہی آرام کی زندگی حاصل ہے.پھر میں کیوں پڑھوں اور کیوں محنت کروں؟ میرے لئے یہی آرام کافی ہے جو کھیل کود کی صورت میں مجھے مل رہا ہے.اس کی عقل اتنی ماری ہوئی ہوتی ہے اور اس کی نظر اتنی تنگ ہوتی ہے کہ وہ اس آرام کو جو اُ سے مل رہا ہوتا ہے مقدم کر لیتا ہے اور یہ بالکل محسوس نہیں کرتا کہ کھیل کود کے آرام میں اور
خطبات محمود ۳۹۶ سال ۱۹۳۹ء اُس آرام میں جو تعلیم مکمل کر لینے کے بعد طالب علم کو حاصل ہوتا ہے کیا فرق ہے؟ انبیاء دُنیا میں آتے ہیں اور وہ اپنی تعلیم پیش کر کے کہتے ہیں کہ اگر اس پر عمل کرو گے تو تمہیں جنت مل جائے گی مگر دوسرے لوگ جو شرابیں پیتے ہیں، جوئے کھیلتے ہیں، بدیوں کا ارتکاب کرتے ہیں ، گالی گلوچ بکتے رہتے ہیں ، لڑائی جھگڑے پر دوسرے کا سر بھی پھوڑ دیتے ہیں جب اس قسم کی باتوں کو سنتے ہیں تو کہتے ہیں جنت تو ہمیں حاصل ہے ہم جب اپنی مرضی کے مطابق کھاتے ، مرضی کے مطابق پیتے اور مرضی کے مطابق تمام کام کرتے ہیں تو اس جنت کے علاوہ اور کونسی جنت ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تم شراب چھوڑ دو، جو اترک کردو، بدیوں سے باز آ جاؤ، گالی گلوچ سے کام نہ لو اور نہ لڑائی جھگڑے پر کسی کا سر پھوڑ و تو وہ کہتے ہیں کہ ان باتوں پر عمل کرنا تو ایک دوزخ ہے ہم ان باتوں پر عمل کی نہیں کر سکتے.جس چیز کو جنت کہا جاتا ہے وہ تم ہمیں حاصل ہے.ہم اپنی مرضی کے مطابق تمام کام کرتے ہیں اور کسی کی حکومت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.یہ کتنی بڑی جنت ہے جو ہمیں حاصل ہے.گویا ان کے خیال میں اگر کوئی گالی دے تو اُس کے جواب میں اگر اُس کا کی سر نہ پھوڑ دیا جائے تو یہ ایک بے کیف زندگی ہوگی.اسی طرح ان کے خیال میں اگر انہیں نا جائز رنگ میں اپنا مال اور اپنے اوقات استعمال کرنے سے روکا جائے تو یہ ان کے لئے بہت بڑا جہنم اور عذاب ہو گا لیکن اگر وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے رہیں تو ان کی زندگی جنت کی زندگی ہوگی.یہ تفاوت بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اس آرام کو دیکھ کر جو انہیں ایک قریب عرصہ میں اور تھوڑے عرصہ کے لئے حاصل ہوتا ہے دھوکا کھا جاتے اور اپنی نظر کو محدود کر کے اس حقیقی جنت کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو انبیاء کی اطاعت میں انسانوں کو حاصل ہوتا ہے.تو جو چیز قریب ہوتی ہے وہ بعید کی چیزوں کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے اور قریب والی چیز خواہ کتنی چھوٹی ہو بڑی دکھائی دیتی ہے اور دُور کی چیز خواہ کتنی بڑی ہو چھوٹی نظر آتی ہے.جیسے پہاڑ سینکڑوں میل لمبے چلے جاتے ہیں اور اونچے بھی وہ کئی کئی ہزار فٹ ہوتے ہیں مگر دُور سے دیکھنے والوں کو وہ ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں جیسے کوئی چھوٹا سا ٹیلہ ہوتا ہے لیکن ایک پنسل جو آنکھ کے سامنے ہوتی ہے وہ خواہ کتنی ہی چھوٹی چیز ہے انسان کو بڑی دکھائی دیتی ہے.شیشے کا
خطبات محمود ۳۹۷ سال ۱۹۳۹ء ایک گولہ جس کا قطر ایک انچ یا ڈیڑھ انچ ہو وہ بعض دفعہ اس پہاڑ سے بڑا دکھائی دیتا ہے جو سینکڑوں کی میل لمبا ہوتا ہے کیونکہ پہاڑ دُور ہوتا ہے اور شیشہ نے آنکھ کا احاطہ کیا ہوا ہوتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان کے نوجوانوں کے دماغوں کی کیفیت اسی قسم کی ہو رہی ہے اور بالعموم ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اگر موجودہ جنگ میں انگریزوں کو ضعف پہنچ جائے یا یہ ہار جائیں اور شکست کھا جائیں تو یہ اچھی بات ہوگی.خواہ اس کے ساتھ ہمیں بھی نقصان پہنچ جائے کیونکہ انہوں نے ہماری آزادی چھینی تھی اور ایک غیر ملک سے آ کر ہم پر حکومت کی.اب موقع ہے کہ انہیں ان کے کئے کی سزا ملے اور جنگ میں ان کو ضعف پہنچے.ایسا احساس دشمنوں یا غیر قوموں کے خلاف بعض دفعہ جائز اور بعض دفعہ نا جائز ہوتا ہے.یہ جائز ہوتا ہے اس وقت جب دشمن کی تباہی یا جس سے اس کی مخالفت ہو اس کو ضعف پہنچنا کسی اچھے انجام کا موجب ہو.اس صورت میں وہ بے شک مارا جائے اس کی پرواہ نہیں کی جاتی مثلاً ایک شخص خدا کے رسول پر حملہ کر رہا ہے یا ایسے وجود پر حملہ کر رہا ہے جو نہایت ہی قیمتی ہے تو ایسے وقت میں اگر ہم اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس جنگ کے نتیجہ میں اگر اسے مارتے ہوئے ہم خود بھی مر جائیں تو یہ ایک مستحسن فعل ہوگا کیونکہ گو دشمن کو نقصان پہنچاتے ہوئے ہم خود بھی مر جائیں گے مگر ایک قیمتی وجود بچ جائے گا.لڑائیوں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے.سپاہی آفیسر ز کو بچانے کے لئے مارے جاتے ہیں اور آفیسرز اپنے سے بالا حکام کی حفاظت کے لئے جان دے دیتے ہیں.اس کی ایک نہایت ہی عمدہ مثال اسلام کے ابتدائی زمانہ میں نظر آتی ہے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جنگ صفین کے موقع پر جب ایک طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لشکر تھا اور دوسری طرف حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کا لشکر.اور قریب تھا کہ وہ آپس میں لڑ پڑتے کہ بعض صحابہ نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کرا دیا.جب یہ خبر ان لوگوں کو پہنچی جو اس فتنہ کے بانی تھے اور جن میں سے بعض حضرت علی کے لشکر میں شامل تھے اور بعض حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر کے لشکر میں تو انہیں سخت گھبراہٹ ہوئی اور انہوں نے اکٹھے ہو کر مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لئے سخت مضر ہو گی.کیونکہ ہم حضرت عثمان کے قتل کی سزا سے اُسی وقت تک بیچ
خطبات محمود ۳۹۸ سال ۱۹۳۹ء سکتے ہیں جب تک مسلمان آپس میں لڑتے رہیں.اگر صلح ہو گئی تو ہماری خیر نہیں.پس جس طرح بھی ہو سکے صلح نہیں ہونے دینی چاہئے.چنانچہ اُنہوں نے صلح کو روکنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر کے لشکر پر اور جو اُن کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شبخون مار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا اور غداری کا ارتکاب کیا ہے.چنانچہ دونوں طرف کا اسلامی لشکر جمع ہو گیا اور ان میں لڑائی کی شروع ہو گئی.یہ دیکھ کر حضرت علیؓ نے کہا کہ کوئی شخص حضرت عائشہ کو اطلاع دے شائد ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے.چنانچہ حضرت عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر آئیں مگر جب اُن کا اونٹ آگے کیا گیا تو نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا.یعنی مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر رائیگاں ہونے لگی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر برسانے شروع کر دیے.یہ دیکھ کر اسلامی لشکر سخت جوش میں آ گیا اور صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس اونٹ کے اِردگرد کی جمع ہو گئے.اُس وقت ان لوگوں میں ایک شخص ما لک نامی بھی تھا جس کی بعض مؤرخ گو بڑی تعریفیں کرتے ہیں مگر مجھے تو اس شخص سے ہمیشہ نفرت محسوس ہوتی ہے.یہی شخص تھا جس نے اپنے ساتھیوں سمیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر حملہ کیا اور صحابہ ایک ایک کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حفاظت کے لئے آگے آئے اور شہید ہوتے چلے گئے.میں یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتا مگر جہاں تک مجھے یاد ہے بعض تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس موقع پر ستر صحابہ شہید ہوئے.آخر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت زبیر کے چھوٹے لڑکے آگے آئے اور اُنہوں نے ان مفسدوں سے لڑائی شروع کر دی.اتفاقاً وہ لڑتے لڑتے مالک کے قریب پہنچ گئے اور فوراً اس سے چمٹ گئے.مالک چونکہ اپنے دستہ کا افسر تھا اس لئے اُنہوں نے سمجھا کہ اگر میں نے اسے مارلیا تو بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ باقی دستہ بھاگ جائے گا اور ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حفاظت کے ساتھ کسی دوسری جگہ پہنچا سکیں گے.چنانچہ جونہی وہ مالک کے قریب پہنچے انہوں نے اُسے پکڑ لیا اور اس سے کشتی لڑنی شروع کر دی اور آخر لڑتے لڑتے یہ دونوں زمین پر گر گئے مگر ایسی صورت میں گرے کہ حضرت زبیر کے لڑکے تو رض
خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۹ء نیچے آگئے اور مالک اوپر.یہ دیکھ کر تمام سپاہی ارد گرد تلوار میں کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور اس کی بات کا انتظار کرنے لگے کہ اگر موقع ملے تو مالک کو قتل کر دیا جائے مگر وہ مالک کو اُس وقت مار نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے مالک پر تلوار چلائی تو ساتھ ہی حضرت زبیر کے لڑکے بھی شہید ہو جائیں گے.اس وقت ان کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ یہ لوگ مالک کو اس لئے نہیں مارتے کہ اگر اسے مارا تو ساتھ ہی مجھ پر بھی حملہ ہونے کا خطرہ ہے اور میں بھی اس کے ساتھ ہی مارا جاؤں گا لیکن سات ہی انہیں خیال آیا کہ اگر مالک بچ گیا تو یہ پھر اپنے ساتھیوں سمیت حضرت عائشہ پر حملہ کر دے گا.پس انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر میں مرتا ہوں تو بے شک مر جاؤں اس وقت مالک کا زندہ رہنا مناسب نہیں.چنانچہ جب اُنہوں نے اپنے ساتھیوں کو اردگرد خاموش کھڑے دیکھا تو اُنہوں نے ان کو مخاطب ہو کر کہا: أُقْتُلُونِي وَمَالِكاً أُقْتُلُوا مَالِكاً مَّعِى کہ ارے تم انتظار کس بات کا کر رہے ہو! تم مجھے بھی مارڈالو اور مالک کو بھی.تم کیا سوچتے ہو تم ما لک کو بھی قتل کرو اور ساتھ ہی مجھے بھی.یہ سبق تھا جو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دیا کہ تم بجائے یہ دیکھنے کے کہ میں زندہ رہتا ہوں یا نہیں یہ دیکھو کہ اس شخص کے زندہ رہنے سے اسلام کو کتنا ضرر پہنچ سکتا ہے.پس تم اس بات کا انتظار نہ کرو کہ میں بچتا ہوں یا نہیں بلکہ تم مجھے بھی مار ڈالو اور مالک کو بھی تا کہ اس فتنہ کا سدِ باب ہوا اور یہ پھر اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنا سر نہ اُٹھا سکے.غرض کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ اپنے نقصان کا خیال نہیں کیا جا تا بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس شخص یا قوم سے اختلاف ہے وہ کسی طرح تباہ ہو جائے.ایسی حالت میں اگر ہم اپنے دشمن کو تباہ کرنے کی خاطر اپنے آپ کو بھی تباہ کر دیں تا جس چیز کی ہم حفاظت کرنا چاہتے ہوں کی وہ بچ جائے تو یہ بالکل درست اور مطابق عقل ہوتا ہے لیکن اگر یہ صورت حالات نہ ہو تو پھر ایسے حالات پر خوش ہونا کہ ہمیں جس سے اختلاف ہے وہ تباہ ہو جائے خواہ ساتھ ہم بھی تباہ ہو جائیں عقلمندی اور دوراندیشی سے بالکل بعید ہوتا ہے.
خطبات محمود ۴۰۰ سال ۱۹۳۹ء موجودہ جنگ کو ہی لے لو اگر اس وقت انگریزی حکومت کی تباہی کے نتیجہ میں ہندوستانیوں کی کوئی ایسی قیمتی چیز بچ جاتی جس کے بچ جانے کو لوگوں کی بربادی یا حکومت کی بربادی سے زیادہ قیمتی سمجھا جاسکتا تو بے شک عقلمند لوگ یہی کہتے کہ ہندوستانی بے شک تباہ ہو جائیں اگر ساتھ انگریز بھی تباہ ہوں تو یہ قر بانی مہنگی نہیں مگر واقعات پر اگر غور کیا جائے تو ایسی کوئی قیمتی چیز ہمیں نظر نہیں آتی جو انگریزوں اور ہندوستانیوں کے تباہ ہو جانے سے دُنیا کے لئے محفوظ کی جاسکتی ہو بلکہ ہمیں اگر نظر آتا ہے تو یہ کہ انگریزی قوم اگر تباہ ہو تو ہندوستان اس کے ساتھ ہی تباہ ہوتا ہے اور تباہ بھی کسی بڑی چیز کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ ایک بڑی چیز کو کھو کر تباہ ہوتا ہے.میں نے جیسا کہ ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا انگریزی قوم کا میلان اس وقت ہندوستانیوں کے متعلق اس قسم کا ہے کہ وہ آئندہ انہیں زیادہ سے زیادہ آزادی دیں گے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ انگریز آب ہندوستان کو پیچھے کی طرف لے جائیں.اب ہندوستانی آگے کی طرف ہی بڑھیں گے اور یقیناً اس جنگ کے بعد جو ہندوستان کو آزادی حاصل ہوگی وہ اس سے ی بہت زیادہ ہوگی جو اب ہندوستانیوں کو حاصل ہے لیکن اگر اس جنگ میں انگریز ہار جائیں اور ان کی جگہ کوئی اور قوم آجائے تو اس وقت ہندوستان کی وہی حالت ہو جائے گی جو غدر کے وقت تھی.بلکہ اس سے بھی بدتر حالت ہونے کا امکان ہے اور میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ انگریزی قوم اپنے ماتحتوں پر بالطبع اتنی سختی نہیں کرتی جتنی سختی دوسری قو میں کرتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ ان کی کی ایمپائر میں بہت بڑی وسعت ہوئی.کیونکہ کوئی بڑی شہنشاہیت دُنیا میں قائم نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے ماتحتوں سے حسنِ سلوک نہیں کرتی اور برطانوی ایمپائر کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ اپنے ماتحتوں سے سلوک کرنے میں ایک حد تک نرمی کرتی ہے.انگریزوں کی ایمپائر بہت بڑی ایمپائر کی ہے اور یہ اسی جذبہ کی وجہ سے اپنی ایمپائر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں.دوسری قو میں جو اپنی ایمپائر بنانے میں کامیاب نہیں ہوئیں وہ اسی لئے نہیں ہوئیں کہ وہ سختی کرتی ہیں اور یہ نرمی کرتے ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ انگریز روحانی آدمی ہیں اُنہوں نے محض اپنے سیاسی فوائد کے لئے یہ رنگ اختیار کیا ہوا ہے.مگر بہر حال یہ رنگ ہمارے لئے مفید ہے ورنہ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں اور ظلم برطانوی حکومت کے ذمہ دار حکام بھی کر لیا کرتے ہیں جیسے میں نے بتایا تھا کہ
خطبات محمود ۴۰۱ سال ۱۹۳۹ء ہماری جماعت بعض حکام کے مظالم کا تختہ مشق رہی گو اس کے اصل محرک ہندوستانی افسر تھے مگر بہر حال انگریز افسروں نے ان کے ساتھ تعاون کیا.ان کی پیٹھ ٹھونکی اور ان مظالم میں ان کا کی تائیدی پہلو اختیار کیا.پس یہ نہیں کہ میں انہیں مذہبی آدمی سمجھتا ہوں یا کامل دیانتدار اور ہر فتم کے ظلم سے مبرا یقین کرتا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ ان کی پالیسی اور حکومتوں کی پالیسی سے بدر جہا بہتر ہے.ان کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں پر اتنی سختی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ترقی کر رہے ہیں.انگریز پہلے حکمران نہیں جنہوں نے کی دُنیا پر حکومت کی ہو بلکہ انگریزوں سے ایک لمبا عرصہ پہلے پین نے اپنی حکومت کی توسیع شروع کی چنانچہ جاپان کے پاس تک کا علاقہ یعنی فلپائن ، سپین کے ماتحت تھا.امریکہ کا اکثر حصہ سپین کی کے ماتحت تھا، افریقہ کا کافی حصہ سپین کے ماتحت تھا اور یورپ کی تمام طاقتیں اس سے اسی طرح ڈرتی تھیں جس طرح آج حکومت انگریزی سے اور حکومتیں ڈرتی ہیں.اس کے بعد پرتگیز اُٹھے اور اُنہوں نے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں ترقی کی.پھر ہالینڈ والے نکلے اور اُنہوں نے ترقی کی ، پھر انگلستان اور فرانس والے نکلے اور اُنہوں نے دُنیا میں ترقی کی مگر باقی جس قد رقو میں تھیں وہ آئیں اور مٹ گئیں کیونکہ ان میں ایمپائر بنانے کی قابلیت موجود نہ تھی.وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ انہیں دوسروں پر غلبہ حاصل ہو جائے.یہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو فائدہ بھی پہنچا ئیں.گویا ان کی مثال بالکل اس عورت کی سی تھی جس کے متعلق کہانیوں میں لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ ایک سونے کا انڈا دیتی.اس نے خیال کیا کہ بجائے اس کے کہ روزانہ ایک ایک انڈا حاصل ہو کیوں نہ میں مرغی کو ذبح کر کے تمام انڈے اس کے اندر سے نکال لوں.چنانچہ اُس نے سونے کے انڈے نکالنے کے لئے اسے ذبح کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرغی بھی مر گئی اور اُسے انڈے بھی نہ مل سکے.وہ بھی جھٹ پٹ سارے انڈ نکالنے کی کوشش کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مرغی کر جاتی اور ان کی حرص بھی پوری نہ ہوتی مگر انگریز ذہین تھے اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کو اتنا نہیں چوسنا چاہئے کہ ان میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے بلکہ انہیں بھی کھلانا چاہئے اور خود بھی فائدہ اُٹھانا چاہئے جسے بھینس کا ہوشیار مالک بھینس کو عمدہ چارہ کھلاتا ، اچھا پانی پلاتا اور اُس کی خوب خبر گیری کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے
خطبات محمود ۴۰۲ سال ۱۹۳۹ء کہ میں اسے کھلاؤں گا اور یہ مجھے دودھ ، گھی دے گی.پس ہوشیار مالک اسے خوب کھلاتا پلاتا نی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں نے اُسے کچھ نہ کھلایا تو یہ دودھ، گھی بھی نہیں دے گی.اسی طرح اگر تم چاہو تو بے شک یہ کہہ لو کہ انگریز ہندوستانیوں کو خود غرضی کے طور پر بعض فوائد پہنچاتے ہیں مگر میں کہوں گا کہ یہ ویسی ہی خود غرضی ہے جیسے اچھا مالک بھینس کو محض اپنے فائدہ کے لئے کھلاتا پلاتا ہے.بے شک اس میں مالک کی بھی خود غرضی ہوتی ہے مگر بہر حال وہ اس کی مالک سے بہتر ہوتا ہے جو بھینس کو بھوکا رکھ رکھ کر مار ڈالتا ہے.وہ بیشک اسے کھلاتا ہے اپنے دودھ کے لئے ، وہ بیشک اُسے پلاتا ہے اپنے گھی کے لئے مگر بہر حال بھینس کو فائدہ پہنچ جاتا ت ہے.کہیں اسے نہلایا دھلایا جاتا ہے، کہیں اس کی مالش کرائی جاتی ہے، کہیں اسے عمدہ سے عمدہ چارہ کھلا یا جاتا ہے.وقت پر پانی پلایا جاتا ہے اور جانو راپنے مالک سے اس سے زیادہ کی اُمید بھی نہیں رکھتا.وہ جانور کی امیدیں پوری کر دیتا ہے اور جانور اُسے دودھ گھی دے دیتا ہے.ہے.پس انگریزوں کی مثال اس اچھے زمیندار کی سی ہے جو اپنی بھینس گھوڑے یا گائے وغیرہ کی کی خدمت بھی کرتا ہے اور اس سے کام بھی لیتا ہے مگر دوسری حکومتوں کی مثال ایک بوچڑ کی سی ہے جو چھری پھیرتا اور گائے یا بھینس کو ذبح کر دیتا ہے.وہ گوشت تو خود کھا لیتا ہے اور ہڈیاں وغیرہ اُٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے اور کہتا ہے کون اس کی نگرانی کرے، کون اسے کھلائے پلائے ، کون کی اس کی مالش کا بندوبست کرے، کون اسے نہلائے دھلائے.پس وہ چھری اُٹھاتا اور اُسے ذبح کی کر کے رکھ دیتا ہے.غرض انگریزی قوم بالطبع شریف واقع ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص جو انصاف پسند ہو اور بغض اور کینہ کا شکار نہ ہو وہ اگر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کرے تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ انگریز دوسروں سے بدرجہا بہتر ہیں.ایسی صورت میں اس بات پر خوش ہونا اور یہ امیدیں لگائے بیٹھنا کہ اب انگریزوں کو ان کے کئے کی سزا ملنے لگی ہے.میرے نزدیک نہایت بے وقوفی کی بات ہے.اگر یہ معمولی جنگ ہوتی اور اس میں انگریزوں کو خفیف کی زک پہنچنے کا اندیشہ ہوتا جیسے ایسے سینیا کے معاملہ میں انگریزوں کو زک ہوئی یا چیکوسلو یکیا کے معاملہ میں انہیں زک پہنچی اور انگریزی حکومت میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہوتا جیسے ایسے سینیا یا چیکوسلو یکیا
خطبات محمود ۴۰۳ سال ۱۹۳۹ء.کے معاملہ میں جب انگریزوں کو زک ہوئی تو ہندوستان، انگلستان ، افریقہ، آسٹریا اور کینیڈا وغیرہ کا انتظام اسی طرح بحال رہا اور اُسے کوئی ضعف نہ پہنچا صرف لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ انگریزوں کی کچھ ہیٹی ہوئی ہے تو ایک حد تک کہا جا سکتا تھا کہ انگریزوں کو یہ سزا ملی ہے لیکن اگر کی لوگ بھی خطرہ میں ہوں اور تمام برطانوی ایمپائر بھی خطرہ میں گھری ہوئی ہو جیسا کہ اس جنگ میں اس وقت تک کے آثار سے معلوم ہوتا ہے تو اس وقت میرے نزدیک اس قسم کی احمقانہ کی باتوں کی بجائے ہر شخص کو چاہئے کہ عقل سے کام لے اور بے عقلی یا غصہ سے پرائے شگون میں اپنا ناک کٹوانے کا مصداق نہ بن جائے.میرے نزدیک آج ہمیں اپنے تمام اختلافات کو بھول جانا چاہئے اور انگریزوں سے پورا پورا تعاون کرنا چاہئے تا کہ جنگ کی بلائل جائے اور کی ہندوستان کے لوگ بھی اور برطانوی ایمپائر بھی اس عظیم الشان مصیبت سے بچ جائے.جو کچھ پہلی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی یہی ہے کہ انگریزوں کا دور نسبتاً مُفید بابرکت اور اچھائی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ تحریر فرمایا اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء سے ایسی دُعائیں کبھی نہیں کروا تا جو اُس کے دین اور سلسلہ کے لئے مضر ہوں بلکہ حق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی ایسی دُعائیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت ہوتی ہیں.عام آدمی نادانی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جیسے ہم دُعا کیا کرتے ہیں اسی طرح نبی نے بھی دُعا مانگی ہو گی.حالانکہ عام آدمیوں کی دُعا اور نبیوں کی دُعا میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.نبیوں کی اکثر اہم دُعائیں ایسی ہی ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کرائی جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسی دُعائیں بھی خدا تعالیٰ کروا دیتا ہے جن کو بعد میں اُس نے رڈ کر دینا ہوتا ہے اور اس میں بھی کئی حکمتیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے اپنے بندوں کو بعض نئے علوم عطا فرماتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے کہتا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا تے پس خالی دُعا کا سوال نہیں بلکہ اس دُعا کا سوال ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شفاعت کے متعلق ذکر کرتے ہوئے حدیثوں میں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے کہے گا تو
خطبات محمود ۴۰۴ سال ۱۹۳۹ء مانگ میں تجھے دوں گا.اس پر میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا.سے تو انبیاء کی اور انبیاء کے رنگ میں رنگین لوگوں کی دُعائیں خاص حکمتوں کے ماتحت ہوتی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا اور موزوں ہے کہ وہ دُعائیں اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر کے ماتحت ہوتی ہیں اور خدا خودان کی زبان سے اس قسم کی دُعائیں نکلواتا ہے تا کہ ان کو قبول کرے.نادان انسان اپنی دُعاؤں پر قیاس کر کے کہتا ہے کہ میں نے بھی خدا سے دُعا مانگی تھی مگر وہ خدا نے قبول نہ کی.شائد اسی قسم کی کوئی دُعا اللہ تعالیٰ کے نبی نے بھی مانگی ہے جس کی قبولیت ضروری نہیں اور وہ یہ کی نہیں جانتا کہ انبیاء میں اور عام لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حکومت برطانیہ کی کامیابی کے لئے دُعا مانگنا بھی اسی بات کی علامت ہے.موجودہ جنگ کے متعلق اس وقت تک جو خبریں آ رہی ہیں ان کو سُن کر بعض ناواقف لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی زیادہ اہم بات نہیں حالانکہ ہوشیار آدمی الفاظ کے پیچھے سے خود بخود نتیجہ نکال لیتا ہے.اس وقت جولڑائی ہو رہی ہے اس کے پیچھے کئی حکومتیں ایسی ہیں جنہیں پتہ ہے کہ وہ کس طرف جائیں گی مگر ابھی وہ اس امر کا اظہار نہیں کرتیں.وہ کوشش کر رہی ہیں کہ ابھی ان کے ارادے ظاہر نہ ہوں لیکن جس وقت ان کے دلی خیالات کو چھپانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی اس وقت وہ ظاہر ہو جائیں گی اور اس سے بھی زیادہ خطرناک حالات پیدا ہو جائیں گے جتنے اس وقت پیدا ہیں اور جو تو میں اس وقت جنگ سے علیحدہ ہیں اور اپنے آپ کو غیر جانبدار کہہ رہی ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ اس پیٹ میں آجائیں گی جیسے بگولہ جب اُٹھتا ہے تو وہ اردگرد کے روڑے، پتھر اور تنکے بھی کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کر لیتا ہے.اسی طرح جب یہ جنگ کی ہیبت ناک صورت میں شروع ہوئی تو بگولے کی طرح اس میں چیزیں پڑنی شروع ہو جائیں گی اور کوئی تعجب نہیں کہ ہندوستان کے ملک میں بھی اس لڑائی کا اثر آ جائے.اللہ تعالیٰ کی یہ بھی کی ایک سنت ہے کہ وہ بعض دفعہ ایک رؤیا دکھلاتا اور پھر اُسے بھلا دیتا ہے مگر سالہا سال کے بعد جب ان کا ظہور شروع ہوتا ہے تو پھر وہ انہیں یاد دلا دیتا ہے اور اس طرح انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح سالہا سال پہلے خدا تعالیٰ ان واقعات کی خبر دے چکا تھا.
خطبات محمود ۴۰۵ سال ۱۹۳۹ء میں نے بھی بعض خوا ہمیں ۱۹۱۵ ء یا ۱۹۱۶ ء میں دیکھیں جن میں سے بعض مجھے بھول گئیں کی اور بعض کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ ان کی کوئی بار یک تعبیر ہے مگر پچھلے سال سے دُنیا میں جو واقعات رونما ہورہے ہیں ان سے مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ ان میں سے بعض رؤیا ظاہر پر مبنی تھیں اور میں صرف ان کو اس لئے باریک اشارے سمجھتا تھا کہ اس وقت تک حالات ظاہر نہ ہوئے تھے.اسی زمانہ کی رؤیا میں سے آج مجھے ایک رؤیا یاد آئی ہے جو ۱۹۱۵ ء یا ۱۹۱۶ ء میں میں نے کی دیکھی اور مجھے حیرت آتی ہے کہ وہ رویا کتنی واضح ہے جس کے پورا ہونے کے اب سامان ہوتے دکھائی دے رہے ہیں.وہ خواب ہے تو سخت خطر ناک اور اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ دُنیا میں بہت بڑی تباہی آنے والی ہے مگر اُمید کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے.پس چونکہ اس کا تعلق بظا ہر موجودہ جنگ کے ساتھ ہے اس لئے میں اُسے بیان کر دیتا ہوں.میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے جس میں میں کھڑا ہوں.اتنے میں میں کیا کی دیکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان بلا جو ایک بہت بڑے اثر دہا کی شکل میں ہے دُور سے چلی آ رہی ہے.وہ اثر دہا دس ہیں گز لمبا ہے اور ایسا موٹا ہے جیسے کوئی بہت بڑا درخت ہو.وہ اثر دہا بڑھتا چلا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دُنیا کے ایک کنارے سے چلا ہے اور درمیان میں جس قدر چیزیں تھیں ان سب کو کھاتا چلا آ رہا ہے.یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اثر دہا اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ہم ہیں اور میں نے دیکھا کہ باقی لوگوں کو کھاتے کھاتے وہ ایک احمدی کے پیچھے بھی دوڑ ا.اُس احمدی کا نام مجھے معلوم ہے مگر میں بتاتا نہیں وہ احمدی آگے آگے ہے اور اثر دہاتی پیچھے پیچھے.میں نے جب دیکھا کہ اثر رہا ایک احمدی کو کھانے کے لئے دوڑ پڑا ہے تو میں بھی ہاتھ میں سونٹا لے کر اس کے پیچھے بھا گا لیکن خواب میں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اتنی تیزی کی سے دوڑ نہیں سکتا جتنی تیزی سے سانپ دوڑتا ہے.چنانچہ وہ اتنی تیزی سے دوڑتا ہے کہ میں اگر ایک قدم چلتا ہوں تو سانپ دس قدم کے فاصلے پر پہنچ جاتا ہے لیکن بہر حال میں دوڑتا چلا گیا تی یہاں تک کہ میں نے دیکھا وہ احمدی ایک درخت کے قریب پہنچا اور تیزی سے اس درخت پر چڑھ گیا اس نے خیال کیا کہ اگر میں درخت پر چڑھ گیا تو میں اس اثر دہا کے حملہ سے بچ جاؤں گا مگرا بھی وہ اس درخت کے نصف میں ہی تھا کہ اثر رہا اس کے پاس پہنچ گیا اور سر اُٹھا کر اسے
خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۹ء ا نگل گیا.اس کے بعد وہ پھر واپس لوٹا اور اس غصہ میں کہ میں اس احمدی کو بچانے کے لئے کی کیوں اس کے پیچھے دوڑا تھا اُس نے مجھ پر حملہ کیا مگر جب وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی ایک چار پائی پڑی ہوئی ہے مگر وہ بنی ہوئی نہیں صرف باہیاں وغیرہ ہیں درمیان میں سوت سے اُسے بنا نہیں گیا.پس جس وقت اثر دہا میرے پاس پہنچا میں کود کر اُس چار پائی پر کھڑا ہو گیا اور میں نے ایک پیر ایک سرے پر اور دوسرا پیر دوسرے سرے پر رکھ لیا.جب اثر دہا چار پائی کے قریب پہنچا تو لوگ مجھے کہنے لگے کہ آپ اس اثر دہا کا کس طرح کی مقابلہ کر سکتے ہیں جبکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمَا ، اس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانپ کا حملہ دراصل یا جوج اور ماجوج کا حملہ ہے اور یہ حدیث ان کے بارہ میں ہے اور میں اس وقت یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ دجال بھی ہے.پس وہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں جبکہ رسولِ کریمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما چکے ہیں کہ دُنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.اتنے میں وہ اثر دہا میری چار پائی کے قریب پہنچ گیا اور میں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی شروع کر دی.اسی دوران میں میں ان احمدیوں سے جنہوں نے مجھے مقابلہ کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما چکے ہیں کہ یا جوج اور ماجوج کا مقابلہ دُنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکے گی تو آپ ان کا مقابلہ کس طرح کی کر سکتے ہیں کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ لَا يَدَانِ لاَحَدٍ بِقِتَالِهِمَا کہ کسی کے پاس کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہوگا جس سے وہ ان دونوں کا مقابلہ کر سکے مگر میں نے تو اپنے دونوں ہاتھ ان کی طرف نہیں اُٹھائے بلکہ میں اپنے ہاتھ خدا کی طرف کی اُٹھا رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی طرف ہاتھ اُٹھا کر فتح پانے کے امکان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رد نہیں فرمایا.غرض میں نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور میں نے دیکھا کہ دُعا کرنے کے نتیجہ میں اس اثر دھا کے جوش میں کمی آنی شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ اس کی تیزی کم ہوگئی کی چنانچہ وہ پہلے تو میری چارپائی کے نیچے گھسا پھر اس کے جوش میں کمی آنی شروع ہوئی، پھر وہ خاموشی سے لیٹ گیا اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی چیز بن گیا ہے جیسے جیلی ہوتی ہے.
خطبات محمود ۴۰۷ سال ۱۹۳۹ء اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ اثر ر ہا پانی ہو کر بہہ گیا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھا دُعا کا کیسا اثر ہو ا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیشک یہ فرمایا تھا کہ لَا يَدانِ لاَحَدٍ بِقِتَالِهِمَا ( مجھے اس وقت نہیں یاد کہ حدیث میں هِمُ يَا هِمَا ہے لیکن رویا میں میں نے هـمـا ہی کہا ہے اس لئے رؤیا کے الفاظ ہی لکھے گئے ہیں ) مگر آپ کا مفہوم یہ تھا کہ کوئی طاقت دُنیوی طاقتوں میں سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور اگر کوئی چاہے گا کہ اپنے ہاتھوں کے زور کی سے ان کو مٹادے تو یہ ناممکن ہو گا.آپ نے اس میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ دعا سے بھی یہ فتنہ فرونہیں ہو گا.چنانچہ دیکھو جب میں نے اپنے ہاتھ اس کے مقابلہ کی غرض سے اس کی طرف بڑھانے کے بجائے خدا تعالیٰ کی طرف بڑھائے تو یہ پانی ہو کر بہہ گیا.اس رؤیا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے یہ جنگ ہندوستان کے اندر بھی آ جائے.خوا ہیں چونکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں اس لئے یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی یہی تعبیر ہے لیکن ممکن ہے اس کی یہی تعبیر ہو اور کی اگر ایسا ہی ہوا تو یہ امر کوئی بعید نہیں کہ جنگ کے شعلے ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں.ہماری جگہ تک اس اثر دہا کے پہنچنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ جنگ ہندوستان میں آجائے یا اس کے اثرات ہندوستان کے لوگوں تک بھی پہنچیں.گویا دونوں طرح ہندوستان اس میں شریک ہوسکتا ہے.اس رنگ میں بھی کہ یہ جنگ ہندوستان میں آجائے اور اس رنگ میں بھی کہ اس جنگ کے اثرات اتنے وسیع ہو جائیں کہ ہندوستان کے بھی لاکھوں لوگ اس جنگ کی وجہ سے زخم خوردہ کی ہو جائیں اور وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہیں.پھر گزشتہ سال کی مجلس شوری کے موقعہ پر میں نے اپنا ایک رؤیا بیان کیا تھا کہ ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جو سمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے.ایک طرف برطانوی علاقہ ہے اور سمندر کے دوسری جہت میں ایک دُشمن کا علاقہ ہے.اتنے میں یکدم شور اُٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک گولے اور دوسرے گولے کے چلنے میں کوئی فرق نہیں.اسی اثنا میں میں نے محسوس کیا کہ ہم کے نیچے ہیں اور گویا طوفانِ نوح کی طرح دُنیا پانی میں غرق ہو گئی ہے لیکن آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم بچ گئے ہیں.یہ خواب تفصیل کے ساتھ مجلس شوری کی رپورٹ میں چھپ چکی ہے.
خطبات محمود ۴۰۸ سال ۱۹۳۹ء خلاصہ کلام یہ کہ لڑائی معمولی نہیں اور اس کے اثرات بہت وسیع پیدا ہوں گے.پس جماعت احمدیہ کو ان حالات میں یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام اور احمدیت اور ہندوستان کا کس امر میں فائدہ ہے اور دوسرے ہندوستانیوں کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ ہندوستان اور ہندوستان والوں کا کس امر میں فائدہ ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت میں بھی یقیناً انگریزوں کی فتح مفید ہے اور اگر ہم اسلام اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں اور ہم غور کریں کہ کس کے جیتنے میں احمدیت کا فائدہ ہے تو اس صورت میں بھی یقیناً یہی نظر آئے گا کہ انگریزوں کی فتح اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہے مگر نو جوانوں کی ذہنیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تھوڑے ہی دن ہوئے میں سیر کے لئے باہر نکلا تو ایک نو جوان میرے پاس دوڑتا ہوا آیا.اس کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور اس نے آتے ہی مجھے کہا حضور پولینڈ میں روس داخل ہو گیا ہے.میں نے اس وقت مسکرا کر کہا کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روس کے ساتھ آپ کی بھی پتی ہے.پتی پنجاب میں حصہ کو کہتے ہیں ) پھر تھوڑے سے وقفہ کے بعد میں نے انہیں سمجھایا اور کہا کہ میرے لئے یہ کیسے تعجب کی بات ہوگی اگر ہمارا کوئی شدید دشمن منارة المسیح کے نیچے کھڑا ہو اور ایک احمدی یہ کہے کہ کیا ہی اچھا ہواگر یہ منارہ گر جائے اور یہ دشمن اس کے نیچے دب کر مر جائے.میں نے کہا کیا آپ ایسے احمدی کی خواہش کو معقول کہیں گے؟ اگر نہیں تو پھر غور کریں اس وقت ایک طرف اسلام اور احمدیت کی اشاعت کا سوال ہے، ایک طرف اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف یہ بات ہے کہ حکومت کے بعض حکام نے ہمیں دُکھ دیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ انہیں سزا ملے.اب کیا ان دونوں باتوں کا موازنہ کرتے ہوئے کوئی شخص بھی یہ کہنے کے لئے تیار ہے کہ اسلام کی تبلیغ بے شک رُک جائے ، احمدیت کی اشاعت بے شک بند ہو جائے ، دین کو پھیلانے کی راہ میں جو آسائشیں ہیں وہ بیشک جاتی رہیں مگر کسی طرح میرے دل کا کینہ پورا ہو جائے.بیشک جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا.مقامی حکومت کے ساتھ ہر مخلص احمدی کی اس وقت تک جنگ جاری رہے گی جب تک ان حکام کو جو ان شرارتوں کے بانی تھے سزا نہ ملے گی اور قادیان کو ہمارے مذہبی مرکز گو زبانی میں نے نہیں کہا مگر خطبہ کی اصلاح کرتے وقت میں نے بڑھا دیا تھا.
خطبات محمود ۴۰۹ سال ۱۹۳۹ء کی حیثیت سے حکومت تسلیم نہ کرلے گی اور موجودہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ممکن ہے ہم اپنے کی اس حق کا پھر حکومت سے مطابلہ کرنا شروع کر دیں لیکن مقامی حکومت کے بعض افسروں سے ہماری وہ جنگ ایسی ہی تھی جیسے گھر میں دو آدمی آپس میں لڑ پڑیں.بھائی بھائی بھی بعض دفعہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں مگر جب کوئی غیر آ جائے تو پھر انہیں اپنی لڑائی بھول جاتی ہے اور وہ متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں.اس وقت بھی حکومت انگریزی کو ایک بہت بڑی مہم درپیش ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس معاملہ میں حکومت کی امداد کریں کیونکہ اس حکومت کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ وابستہ ہے اور اگر یہ حکومت جاتی رہی تو یہ تمام فوائد بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے.ہمارا یہ پچاس سالہ تجربہ ہے کہ دنیوی حکومتوں میں سے سب سے بہتر حکومت برطانیہ ہے.دوسرے نمبر پر ہالینڈ کی حکومت ہے کیونکہ ہم نے جاوا اور سماٹرا میں تبلیغ کی اور ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ ہماری راہ میں روک نہیں بنے بلکہ اُنہوں نے ہمارے مبلغوں کے ساتھ انصاف کی حد تک تعاون کیا اور ان دونوں سے اُتر کر بعض اور حکومتیں بھی ہیں.جن میں یونائیٹڈ سٹیٹس کی امریکہ بھی شامل ہے.گو حکومت امریکہ بعض دفعہ ہمارے مبلغوں کو اپنے مُلک میں داخل ہونے سے روکتی بھی رہی ہے.چنانچہ تحریک جدید کے ماتحت ہمارا ایک مبلغ یہاں سے امریکہ گیا تو اُنہوں نے اُسے اپنے ملک سے نکال دیا محض اس لئے کہ وہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتا ہے جس میں ایک وقت میں دو عورتوں سے شادیاں کرنا جائز ہے چنانچہ انہوں نے اس سے سوال کیا کہ تم یہاں دوسری شادی کی کسی کو اجازت دو گے یا نہیں؟ اُس نے کہا نہیں کیونکہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اُس کے احکام کی اطاعت کریں.جب یہاں کی حکومت دو شادیاں جائز نہیں سمجھتی تو میں بھی کسی کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دوں گا.اُنہوں نے کہا اچھا یہ بتاؤ تم اسے جائز سمجھتے ہو یا نہیں؟ وہ کہنے لگا ہماری تعلیم یہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کی پوری پوری اطاعت کرو.اس تعلیم کے ماتحت میں اس جگہ اسے جائز نہیں سمجھوں گا.وہ کہنے لگے یہاں کا سوال جانے دو.تم باہر کے کسی ملک میں دوشادیاں جائز سمجھتے ہو یا نہیں ؟ وہ کہنے لگا یہ تو میرے مذہب کی تعلیم ہے میں اسے ناجائز کس طرح سمجھ سکتا ہوں.اُنہوں نے کہا تو پھر تم یہاں نہیں آ سکتے.حالانکہ انہیں صرف اپنے ملک سے غرض تھی
خطبات محمود ۴۱۰ سال ۱۹۳۹ء نہ کہ دوسرے ملکوں سے.سیاست کا تعلق صرف اسی حد تک ہے کہ امریکہ والے کہیں کہ جو چی ہمارے ملک میں آتا ہے وہ نہ خود دوسری شادی کرے اور نہ اوروں کو دو شادیاں کرنے کی تلقین کرے مگر یہ انہیں کہاں سے اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ دوسرے ملکوں میں رہ کر بھی تم اسی قانون کے پابند ر ہو جو امریکہ میں جاری ہے.حتی کہ انہوں نے اس کے سامنے قرآن کھول کر رکھ دیا اور مشنى وَثُلَثَ ، والی آیت پر ہاتھ رکھ کر اس سے پوچھا کہ تم اس آیت کو مانتے ہو یا نہیں ؟ اُس نے کہا میں اسے مانتا ہوں.وہ کہنے لگے پھر تمہیں اس ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.یہ اس ملک کا حال ہے جو آزادی مذہب میں انگریزوں سے بھی زیادہ روادارانہ جذبات رکھنے کا مدعی ہے.اس کے بعد بیشک وہ یہ دعویٰ کرتے رہیں مگر ہم انہیں یہی کہیں گے کہ تم بے شک آزادی مذہب کے اصول کے قائل ہومگر انگریزوں سے کم اور ہم یہ رائے اس وقت تک رکھنے پر مجبور ہیں جب تک تم ان قواعد کو نہ بدلی دو جو اس قدر تنگ دلی اور تنگ نظری پیدا کرنے والے ہیں.ہم یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ والوں کے ممنون احسان بھی ہیں کہ اُنہوں نے ہمارے بعض پرانے مبلغوں کو اپنے مُلک میں رہنے کی اجازت دی ہوئی ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سرزمین امریکہ میں نہایت جوشیلے احمدی موجود ہیں ، وہ چندے بھی دیتے ہیں، وہ تبلیغ بھی کرتے ہیں اور سلسلہ کے کاموں میں بڑے اخلاص سے حصہ لیتے ہیں.غرض وہ اسلام کی نہایت خدمت کرنے والی مخلص اور جوشیلی جماعت ہے.پس یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کا دوسرے بہت سے ممالک سے اچھا نمونہ ہے مگر پھر بھی جب تک وہ اس قسم کی تنگدلی کو دور نہیں کرے گی ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ انہیں انگریزوں سے کم روادار قرار دیں.دوسرے نمبر پر ہالینڈ کی حکومت ہے.سماٹرا اور جاوا میں بیسیوں جگہ احمد یہ جماعتیں قائم ہیں اور حکومت کے افسران کے ساتھ تعاون کرتے ہیں بلکہ ان کے دوقو نصل مجھے ملنے کے لئے قادیان بھی آئے تھے اور اُنہوں نے مجھے کہا تھا کہ چونکہ آپ کی جماعت کے کئی لوگ ہمارے ملک میں آباد ہیں اس لئے ہم نے چاہا کہ جماعت کے مرکز کو بھی دیکھ لیا جائے.ان میں سے
خطبات محمود ۴۱۱ سال ۱۹۳۹ء ایک کو تو خصوصیت سے حکومت ہالینڈ نے یہاں بھیجا تھا تا کہ وہ مرکز کے متعلق براہ راست واقفیت حاصل کرے.غرض یہ دو حکومتیں تو صاف طور پر نظر آتی ہیں.باقی حکومتوں کا یہ حال ہے کہ ان کے ملک میں ہمارا مبلغ چار مہینے رہتا ہے تو وہ اسے پکڑ کر باہر نکال دیتی ہیں.پھر وہ اگلی حکومت کے علاقہ میں جاتا ہے اور وہاں سے دو چار ماہ کے بعد اسے نکلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے.پھر وہ اگلی حکومت میں جاتا ہے اور وہاں بھی اسے یہی کہا جاتا ہے کہ نکل جاؤ ہمارے ملک سے.کیا تم چاہتے ہو کہ دُنیا میں ان قوموں کی حکومت ہو جو احمدی مبلغین کو کان پکڑ پکڑ کر اپنے ملک سے باہر نکال دیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کا دروازہ بند ہو جائے.صرف اس لئے کہ بعض انگریزوں نے ظلم کئے اور تم چاہتے ہو کہ اس ظلم کی انہیں سزا ملے.میں جیسا کہ بتا چکا ہوں جب امن کا وقت ہوگا اور ایسے مقابلہ کی ضرورت پیش آئے گی میں یقیناً جماعت سے مطالبہ کروں گا کہ جو مظالم اس پر ہوتے رہتے ہیں ان کو یاد کرتے ہوئے وہ ان حکام کو سزا دلوائے جو ان شرارتوں کے بانی تھے مگر جب پھر کوئی خطرے کا وقت آیا تو میں کہوں گا کہ حکومت کی مدد کرو کیونکہ تبلیغ ذاتی جذبات مادی نقصانات اور زبانی ہتک سے بہت زیادہ قیمتی ہے.ایک شخص ہم سے آپ آپ کہہ کر گفتگو کرے مگر ہمیں تبلیغ کرنے کی اجازت نہ دے اور دوسرا ہمیں مارے پیٹے اور گالی گلوچ دے مگر تبلیغ کی اجازت دے تو میں تو یہی کہوں گا کہ جو شخص ہمیں مارتا ہے وہ زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اس کے جو ہمیں آپ آپ کہتا ہے مگر تبلیغ سے روکتا ہے.میرے قلبی جذبات اس بارے میں جو کچھ ہیں ان کا اظہار میں نے ایک شعر میں کیا ہوا ہے.جب یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں داخل ہونے سے پہلے مفتی محمد صادق صاحب کو روکا گیا تو اس وقت میں نے ایک نظم کہی جس کا ایک شعر یہ ہے کہ ؎ اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اے خدا جس میں کہ تیرا نام چھپانا پڑے ہمیں پس یہ مظالم تو حقیر چیز ہیں میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ اس زندگی سے موت بہتر ہے جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام چھپانا پڑے اور میں تو چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا نظام فائق ہونے والا ہو جس میں تبلیغ کے راستہ میں یقینی طور پر روکیں واقع ہو جاتی ہوں تو اُس دن کے آنے سے
خطبات محمود ۴۱۲ سال ۱۹۳۹ء پہلے پہلے ہر احمدی مر جائے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہہ سکے کہ اے میرے خدا جب تک میں زندہ کی رہا میں نے تیرے نام کو نہیں چھپایا میری موت کے بعد اگر کوئی ایسی روکیں تیرے نام کی بلندی میں حائل ہو گئی ہیں تو مجھے ان کا علم نہیں.پس یہ دن ایسے نہیں ہیں کہ ہم دوسری قسم کے جذبات کی رو میں اپنے آپ کو بہاتے چلے جائیں.میرے نزدیک ہر وہ احمدی جو آج حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے میں تنگی محسوس کرتا ہے یا تو اس کی عقل میں فتور ہے یا اس کے دین میں فتور ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم ان مظالم کو بھول جاؤ وہ چیزیں موجود ہیں اور جب جنگ ختم ہو گی تو پھر ان کے متعلق سوال اُٹھا دیا جائے گا لیکن جب اس سے بہت زیادہ اہم معاملہ اور ایک ہیبت ناک خطرہ ہمارے سامنے موجود ہے تو ہمیں یقیناً اپنے تمام سابقہ اختلافات کو بھول جانا چاہئے اور میرے نزدیک اگر کوئی احمدی ان باتوں کو دیکھنے کے باوجود پھر بھی اپنے دل میں قبض محسوس کرتا اور حکومت کی برطانیہ کی مدد سے گریز کرتا ہے تو اس کے متعلق میں یہی سمجھوں گا کہ یا تو اس کی عقل میں فتور ہے کی اور یا اس کے دین میں فتور ہے.دونوں میں سے ایک بات ضرور ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے متعدد بار متعد در ویا اور کشوف کے ذریعہ ان حالات کی خبر دی ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے بھی تمام باتیں ظاہر ہوتی ہیں.تم اس بات کو معمولی نہ سمجھو بلکہ یقیناً یا د رکھو کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار ہا بتایا دُنیا میں ایسی آفات آنے والی ہیں کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوں گی اور بسا اوقات ان آفات کو دیکھ کر انسان یہ خیال کرے گا کہ اب دُنیا میں شاید کوئی انسان بھی باقی نہیں رہے گا.ایسے نازک موقع پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور فقر بانیوں کو کمال تک پہنچانا نہایت ضروری ہوتا ہے.جب ہماری جماعت اپنی قربانی کو کمال تک پہنچا دے گی اور اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی مدد بھی اُس کے شامل حال ہو گی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذہنی اصلاح کرے جیسا کہ اس نے اپنی ظاہری اصلاح کی ہوئی ہے کیونکہ اگر کسی شخص کے دل میں اس قسم کے خیالات پیدا ہو جائیں تو ان کے
خطبات محمود ۴۱۳ سال ۱۹۳۹ء نتیجہ میں ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے کم از کم اس معاملہ میں ہماری جماعت کی مثال من چہ سرائم و طنبوره من چہ سرائڈ والی نہیں ہونی چاہئے کسی حنفی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کی قبر کی طرف منہ کر کے نماز تک پڑھنا جائز سمجھتا تھا.کسی نے اُسے کہا کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی تو حنفی نہیں تھے وہ تو خیلی تھے وہ کہنے لگا حضرت ان کا مذہب اور میرا مذ ہب اور.تو یہ مقام کوئی خوشکن مقام نہیں کہ تمہارا طریق اور ہو اور میرا طریق اور.باقی اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں بھی کرو کہ وہ اس عظیم الشان بلا سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ رویا میں لَا يَدَ انِ لِاَحَدٍ بِقِتَالِهِمَا کا نکتہ مجھ پر کھولا.حقیقت یہی ہے کہ ہمارے اندر یہ طاقت تو نہیں کہ ہم آمنے سامنے ہو کر ان کا مقابلہ کریں لیکن خدا کی طرف ہم اپنے ہاتھوں کو بلند کر سکتے ہیں اور یقیناً اگر ہم اس سے دعائیں کریں تو وہ ہماری سنے گا اور ہماری تائید کے لئے غیر معمولی کی سامان پیدا کر دے گا.پس یہ جو آفتیں آنے والی ہیں ان پر اصل غلبہ دعا کے ذریعہ ہی ہوگا اور کیا تعجب ہے کہ اس جنگ میں ایک وقت ایسا آ جائے جب کہ اتحادی ہم سے دُعا کی درخواست کریں اور جیسا کہ رویا بتاتی ہے اگر وہ اخلاص سے اس طرف توجہ کریں تو خدا تعالیٰ میری دُعا کی برکت سے یہ مصیبت ان سے دور کر دے گا لیکن ابھی ان کے دماغ اس مقام پر نہیں آئے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں بلکہ اس وقت اگر کسی انگریز کے سامنے میری اس تقریر کا یہ حصہ رکھ دیا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ کوئی پاگل ہے جو پاگل خانے سے چھوٹ کر آیا ہے.کیا ہماری حفاظت کے لئے ہمارے پاس توپ خانے اور بحری بیڑے اور ہوائی جہاز اور بڑے بڑے اسلحہ موجود نہیں اور اگر ان ہتھیاروں کے باوجود ہمیں فتح حاصل نہ ہو تو اس کی دُعا سے کس طرح فتح حاصل ہو سکتی ہی ہے؟ مگر جب مصائب آتے ہیں تو اس وقت ذہن خود بخودان باتوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.پس کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ اسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان اس طرح دکھا دے کہ جب ان کی مصیبتیں بڑھ جائیں اور انہیں ان کا کوئی علاج نظر نہ آئے تو وہ جماعت احمد یہ اور اس کے امام سے کہیں کہ آپ ہماری اس مصیبت کے دور ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں اور جب ہم اس درخواست کے بعد دُعا کریں گے تو میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وعدوں کے مطابق جو اس نے ذاتی طور پر مجھ سے کئے اور ان وعدوں کے مطابق
خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۳۹ء جو اس نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے متعلق کئے وہ میری دُعا کوسن لے گا اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کے لئے ایک زندہ نشان دکھا دے گا.إِنْشَاءَ اللَّهُ بِفَضْلِهِ وَرَحْمَتِهِ الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۳۹ ء ) ل المصنف ابن ابی شیبه کتاب الجمل باب سيرة عائشه و علی وزبیر جلد ۱۵ صفحه ۴ ۲۵ مطبع ادارۃ القرآن الاسلامیہ اشرف منزل کراچی ۱۹۸۶ ء.كنز العمال كتاب الزكوة من قسم الافعال باب في فضل الفقرو الفقراء فصل في فضلها مطبعه مؤسسة الرسالة الطبعة الخامسها ١٩٨ء تفسير ابن كثير الجزء الثالث صفحه ۲۶۵ مکتبہ اسلامیه ۲۰۰۹ء سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب فتنة الدجال و خروج عیسی ابن مریم النساء :۴
خطبات محمود ۴۱۵ ۲۷ سال ۱۹۳۹ء نبی کی موجودگی میں کونسا عذاب آ سکتا ہے اور کونسا نہیں؟ ( فرموده ۶ را کتوبر ۱۹۳۹ء بمقام ناصر آباد) تشہد ، تعوذ ، سورہ فاتحہ اور آیت مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ اے کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے ”الفضل میں اس آیت کے متعلق ایک مضمون دیکھا.میرا ارادہ تھا کہ اس مضمون کو پڑھوں لیکن مصروفیت کی وجہ سے پڑھ نہ سکا مگر میں نے مناسب سمجھا کہ اس آیت کے متعلق کچھ بیان کر دوں.عام طور پر اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک کوئی نبی کسی جگہ موجود ہو اس وقت تک کوئی عذاب اس جگہ نہیں آسکتا لیکن قرآن شریف کے بہت سے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انبیاء کے وقت میں ان کی موجودگی میں عذاب آتے رہے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ان کی قوم پر کئی بار عذاب آیا.ایک بار ان کی قوم نے ایک دوسری قوم کے ساتھ لڑائی کرنے سے احتراز کیا تھا اس پر وہ لوگ چالیس سال تک بھٹکتے پھرتے رہے ہے ایسا ہی جب انہوں نے ترکاریاں وغیرہ مانگی تھیں ان پر ذلت کا عذاب ڈالا گیا تھا.سے پھر جب ان کو ایک دروازہ میں داخل ہونے کے لئے کہا گیا تھا اور انہوں نے ہدایت کی خلاف ورزی کی تھی اُس وقت بھی ان پر عذاب نازل ہوا تھا.کے پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بھی عذاب نازل ہو ا تھا.
خطبات محمود ۴۱۶ سال ۱۹۳۹ء اسی طرح ہمارے زمانہ کے رسول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں اور آپ کی موجودگی میں عذاب نازل ہوئے.آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں جب طاعون کا عذاب آیا تو آپ کے اپنے قصبہ میں بھی یہ عذاب نمودار ہوا.پھر آپ کے زمانہ میں زلزلے آئے اور وہ زلزلہ بھی آیا جو کہ قادیان میں بھی محسوس کیا گیا.ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں کہ جہاں اور جس وقت نبی موجود ہو وہاں کی کوئی عذاب نہیں آتا.بات اصل میں یہ ہے کہ عذابوں کی کئی قسمیں ہیں.بعض وہ عذاب ہیں جو کہ نبی کے زمانہ میں ان کی قوم پر آتے ہیں اور اس وقت آتے ہیں جبکہ نبی ان میں موجود ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں طاعون کا عذاب آیا اور قادیان میں بھی زور کے ساتھ طاعون پڑی.نیز زلزلہ بھی آپ کے زمانہ میں اور قادیان میں بھی آیا.اس میں اس قدر شدت تھی کہ اس وقت میں نے دروازہ کی کنڈی کھولنے کی کوشش کی مگر جب میں ہاتھ ڈالتا تو زلزلے کے جھٹکے سے کنڈی میرے ہاتھ سے دُور چلی جاتی اور میں بڑی مشکل سے کنڈی کھول سکا.اس قسم کے عذاب اس وقت آیا کرتے ہیں جبکہ نبی موجود ہوتا ہے بلکہ رسول کی آمد کے ساتھ ہی ایسے عذاب آنے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ نبی کی صداقت کے نشان بنتے ہیں.اس قسم کے عذابوں سے یہ نہیں ہوا کرتا کہ کوئی ایک بستی یا ایک ملک سارے کا سارا تباہ ہو جائے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایسے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض بچا لئے جاتے ہیں اور اس طرح اس رسول کی صداقت کا نشان ظاہر کیا جاتا ہے.مثلاً جب طاعون قادیان میں آئی اور شدت کے ساتھ آئی اور اس محلہ میں آئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سکونتی مکان تھا اور آپ کے مکان کے اردگرد کے مکانوں میں بہت سی اموات ہوئیں تو آپ کے مکان میں ایک چوہا بھی نہ مرا.حالانکہ حفظانِ صحت کی رو سے بوجہ اس کے کہ بہت سے لوگ آپ کے گھر میں اپنی حفاظت کے خیال سے جمع ہو گئے تھے وہاں مرض کا آجانا زیادہ قرین قیاس تھا مگر خدا تعالیٰ نے آپ کے گھر کو بالکل محفوظ رکھا اور اس طرح آپ کی صداقت کا نشان ظاہر کیا.الغرض اس قسم کے عذاب رسول کے وقت میں بھی آتے ہیں اور اس کے گرد و پیش میں
خطبات محمود ۴۱۷ سال ۱۹۳۹ء آتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور نبی کی صداقت کو نمایاں فرما دیتا ہے.دوسری قسم عذابوں کی وہ ہے جو کسی مقام کے تمام کے تمام لوگوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں.ایسے عذاب اس مقام پر اس وقت تک نہیں آیا کرتے جب تک کہ نبی اور رسول اس مقام پر موجود ہو جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی بستی کو تہ و بالا کر دیا گیا اور کوئی فرد بشر زندہ نہ رہا.مگر یہ عذاب اُس وقت تک نہ آیا جب تک حضرت لوط علیہ السلام اس بستی میں موجود رہے.شے اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے وقت میں چونکہ ان کی تمام کی تمام بستی کو ہلاک کرنا تھا اس لئے طوفان کا عذاب اُس وقت تک نہ آیا جب تک اللہ تعالیٰ نے کشتی کے ذریعہ ان کی حفاظت کا انتظام نہ فرما دیا.اب میں اس آیت کا اصل مفہوم بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كان الله ليُعَذِّبَهُمْ وَانتَ فيهم کہ اللہ عذاب نہیں کرنے والا تھا ان پر درآنحالیکہ تو ان میں تھاوَ مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُون اور نہیں ہے اللہ عذاب کرنے والا ان پر درآنحالیکہ وہ استغفار کرنے والے ہوں.اس کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اہلِ مکہ پر ایک خاص قسم کا عذاب جس کا ذکر تو ریت وغیرہ میں بطور پیشگوئی آیا ہوا تھا نہیں آ سکتا تھا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں موجود تھے.توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قوم کے لوگ اپنے شہر سے نکال دیں گے.اُس وقت آپ ان پر چڑھائی بھی کریں گے اور ایک سال کے بعد ان پر عذاب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا.کے چنا نچہ بدر کی لڑائی ایک سال بعد ہوئی اور کچھ سال بعد مکہ فتح ہوا جبکہ آپ حسب پیشگوئی دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے.یہ عذاب اُس وقت تک نہیں آ سکتا تھا جب تک آپ اپنے شہر سے نکالے جا کر کسی دوسرے شہر میں (جہاں کہ حسب پیشگوئی آپ کا استقبال کیا جانا تھا ) نہ چلے جاتے.یہ عذاب اہل مکہ نے اپنے ہاتھوں اپنے اوپر نازل کیا.اگر یہ لوگ رسولِ کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شہر سے نہ نکالتے تو اس کا بہت کم امکان تھا کہ آپ کی چھوٹی سی جماعت مشرکین مکہ پر غالب آ سکتی مگر جب اُنہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دیا اور اہل مدینہ نے آپ کو پناہ دی اور آپ کے مددگار ہوئے تب آپ کو یہ قوت حاصل ہوئی کہ مکہ میں آپ
خطبات محمود ۴۱۸ سال ۱۹۳۹ء فاتحانہ صورت میں داخل ہوئے اور اہل مکہ کو ذلت نصیب ہوئی.یہ وہ خاص عذاب تھا جس کا ذکر تورات وغیرہ میں پایا جاتا ہے.ان معنوں کی تصدیق قرآن کے اس مقام کے سیاق وسباق سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ آتا ہے وَاذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا يُثْبِتُوكَ أوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ، ويمكرُونَ وَيَمْكُرُ الله، والله خَيْرُ الماكرين A یعنی جب کا فریہ تدبیر کر رہے تھے کہ بند کر دیں تجھ کو یا قتل کر دیں تجھے یا نکال دیں تجھے اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہتر تد بیر کرنے والا ہے.انہوں نے تو اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ فکر کیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس خاص عذاب کی اس طرح تدبیر کی جس کا ذکر توریت کی پیشگوئی میں پایا جاتا ہے یعنی ان مشرکین کی حکومت تباہ کر دی گئی اور ان کو ذلت کا عذاب چکھایا گیا.اس آیت میں اسی عذاب کا ذکر ہے اور یہ عذاب اس وقت تک اہلِ مکہ پر نہیں آ سکتا تھا جب تک آپ وہاں سے نکالے نہ جاتے اور حسب پیشگوئی مدینہ میں پناہ گزیں ہو کر قوت حاصل نہ کرتے.دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے جو لفظ فسٹی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے.کسی کی موجودگی علاوہ جسمانی طریق کے روحانی طور پر بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے و اشربوا في قُلُوبِهِمُ العجل 2 جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں بچھڑا پلایا گیا.بچھڑا تو سونے کا تھا وہ کس طرح پلایا جا سکتا تھا اور اگر پلایا بھی جاسکتا تو وہ تو معدے میں جاتا ، دل میں کس طرح پہنچ سکتا تھا.مفسرین نے اشربوا پر لغوی طور پر غور کرنے کے بعد یہ مطلب نکالا ہے کہ بچھڑے کی محبت دل میں قائم کی گئی.یہاں بھی آنت فيهم کے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ جب تک اے رسول تو ان کے دلوں میں محبوب رہے گا ان پر عذاب نہیں آئے گا.پس ایسے لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کامل محبت رکھتے ہوئے پوری اطاعت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے وہ عذاب سے محفوظ رہیں گے اور وہ لوگ بھی جو کہ محبت اور عمل کے لحاظ سے تو کامل نہ ہوں گے مگر ان کے دل میں محبت ہو گی اور عمل کے لئے کوشاں رہتے ہوں گے اور جب کبھی ان سے کوئی نافرمانی سرزد ہو یا اتباع کامل نہ ہو سکے
خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۹ء 66 تو ایسی حالت میں استغفار کرنے والے ہوں گے.وہ بھی عذاب سے بچائے جائیں گے.“ (الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۹ء ) ا الانفال :٣٤ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ اَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلَا تَسَ على القَوْمِ الفسقين (المائده : ٢٧) واذ قلتُميمُوسى لَن نَّصْبِرَ عَلى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجُ لَنَا مِمَّا تنبت الأَرْضُ مِنْ بَقَلِهَا وَقِثَّالِهَا وَ نُؤْمِهَا وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا ، قَالَ اتشتبدِلُونَ الَّذِي هُوَ ا د فى بِالَّذِي هُوَ خَيْرُ اهْبِطُوْا مِصْرًا فَانَ لَكُمْ مَّا سَأَلْتُمْ و ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الزِّلَةُ وَالْمَسْكَنَةُ ، وَبَاءُ وَ بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ ذلك بانَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِايْتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ، ذلك بمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ) (البقره :۶۲) وَاذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذه القَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِشْتُمْ رَغَدًا و ادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَ قُولُواحِظَةً تَغْفِرْ لَكُمْ خَطِيكُمْ وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (البقره : ۵۹) ه ناشر با هلِكَ بِقِطْعِ مِنَ الَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدُو امْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ (الحجر : ۷۴،۶۶) ففتحنا أبواب السَّمَاءِ بِمَاء مُنْهَمِن وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونَا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى آمر قد قدرة وَحَمَلَتُهُ عَلى ذَاتِ الْوَاحِ وَ دُسُرِك تَجْرِي بِأَعْيُنِنَاءِ جَزَاءً لِمَن كان كفر ( القمر : ۱۲ تا ۱۵ ) ك يسعياه باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷ الانفال : ٣١ البقره : ۹۴
خطبات محمود ۴۲۰ ۲۸ سال ۱۹۳۹ء موجودہ جنگ میں حکومت برطانیہ سے تعاون کرنے کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ فرموده ۱۳ /اکتوبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- دوستوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے ”الفضل میں میری طرف سے ایک اعلان ٹیریٹوریل فوج میں جماعت کے نوجوانوں کی بھرتی کے متعلق شائع ہو رہا ہے.مجھے بتایا گیا تھا کی کہ جماعت کے نوجوانوں میں فوجی کام کی طرف سے بددلی پائی جاتی ہے اور وہ اس کام میں حصہ لینے سے جی چراتے ہیں لیکن اس اعلان کے بعد جماعت میں جو اس کے جواب میں رو چلی ہے وہ یا تو اس خیال کی تردید کرتی ہے اور یا پھر اس اعلان کے اثر کے ماتحت جماعت میں یہ بیداری پیدا ہوئی ہے.بہر حال سینکڑوں نوجوانوں نے اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کی کر دیا ہے اور بہت سے نوجوان ابھی تک اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں.اس خدمت میں جو فوائد ہیں وہ عام طور پر ہماری جماعت کی نگاہوں سے مخفی ہیں.اس کی لئے کہ ہماری جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے اور فوجی قسم کے کام اس کے سامنے نہیں آتے لیکن کی ایک ایسی قوم جس کے متعلق یہ مقدر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک دن ساری دُنیا کی حکومتیں سونپ دینی ہیں وہ اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور جب تک اُسے ابھی سے ایک خاص رنگ
خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۳۹ء کی ٹرینگ نہ دی جائے وہ وقت پر کام کی اہل ثابت نہیں ہو سکتی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ گو ہمارے پاس حکومت نہیں اور نہ ہمارے پاس ایسے سامان ہیں جن سے کام لے کر ہم اپنے نو جوانوں کو فوجی تعلیم دلوا سکیں.پھر بھی اس نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ ہماری جماعت کے نوجوان آسانی سے فوجی کام سیکھ سکتے ہیں اور اس طرح جرات اور بہادری کی روح ان میں قائم رہ سکتی ہے.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس دن تمہیں حکومتیں ملیں گی اُس دن شام کو تو تم ایسی حالت میں سوؤ گے کہ تم مولوی ہو گے اور صبح اُٹھو گے تو کی تم جرنیل بنے ہوئے ہو گے.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے طریق کے بالکل خلاف ہے اگر تم شام کو کرنیل ہونے کی حیثیت میں سوؤ گے تو تمہارے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جب تم صبح اُٹھ تو تم جرنیل بنا دئیے جاؤ.یا ایک شخص شام کو سپاہی کی حیثیت میں سوئے اور صبح اُٹھے تو نائک بنا دیا جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ شام کو تو تم ایسی حالت میں سوؤ کہ تم فوجی کاموں میں بالکل کی بے تعلق ہو اور صبح تمہیں تمام علوم و فنون اور فوجی طور طریق آجائیں.پس ہمیں جو بھی جائز ذرائع فوجی تربیت اور فوجی کاموں سے دلچسپی کے میسر آ ئیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سے فائدہ اُٹھا ئیں تا کہ ہمارے اندر فوجی روح قائم رہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے بلکہ میں سمجھتا ہوں ایک زندہ قوم کو خواہ کوئی ذاتی دلچپسی نہ ہو پھر بھی اس کا فرض ہے کہ وہ فوجی کاموں میں مہارت حاصل کرے.میں نے دلائل سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ موجودہ جنگ سے ہمارا ذاتی تعلق بھی ہے اور ہم صرف انگریزوں کے مفاد کے لئے اپنا تعاون پیش نہیں کر رہے بلکہ اپنے مفاد کے لئے اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں.کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر موجودہ حالات میں تبدیلی ہوئی تو اسلام اور احمدیت کو اس سے ضعف پہنچے گا لیکن میں کہتا ہوں اگر ہمارا ذاتی مفاد کوئی بھی نہ ہو اور کہیں بھی جنگ ہو رہی ہو اور ہم اس میں شریک ہو کر فوجی تربیت حاصل کی کر سکتے ہوں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وہاں جائیں اور فوجی ٹریننگ حاصل کریں.دیکھو بیدار قوموں کی میں اس کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے.سپین میں جنگ ہوئی تو اٹلی اور جرمنی نے خوب والنٹیئر جمع کر کے وہاں بھیجے.اندازہ کیا جاتا ہے کہ سپین کی جنگ میں دس ہزار سے زیادہ جرمن مارا گیا کی
خطبات محمود ۴۲۲ سال ۱۹۳۹ء اور اندازہ کرنے والے کہتے ہیں کہ سپین کی جنگ میں اتنی ہزار کے قریب اٹلی والے مارے گئے لیکن انہوں نے اس بات کی کوئی پر وہ نہیں کی.حالانکہ وہ جنگ ان کی جنگ نہیں تھی بلکہ سپین کے دو طبقے آپس میں لڑ رہے تھے اور اس کی وجہ جیسا کہ بڑے بڑے مبصرین اور مدبرین نے بیان کیا ہے یہی ہے کہ نئے جرمنی کو جنگ کی عملی تربیت کا کوئی موقع نہیں ملا تھا.جرمن قیصروں کے زمانہ میں ہمیشہ لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں مگر بڑی جنگ کے بعد جب جرمن قوم کو ماتحت کر دیا گیا جنگی سامان اس سے لے لئے گئے اور اُس کی فوج کو محدود کر دیا گیا اُسے عملی رنگ میں کسی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا.پس اُنہوں نے ضروری سمجھا کہ سپین میں جو جنگ ہو رہی ہے اس میں ہم اپنے والنٹیئروں کو بھیج دیں تا کہ انہیں فوجی ٹریننگ حاصل ہو جائے.چنانچہ وہ اس میں شریک ہوئے اور لڑے مگر بہر حال سپین کی جنگ میں ان کی کوئی ذاتی غرض نہیں تھی.سپین میں وہ کسی مالی فائدہ کے لئے نہیں لڑے اُنہوں نے کوئی تجارتی فائدہ کی حاصل نہیں کیا اُنہوں نے ایک انچ زمین تک نہیں لی.اُدھر لڑائی ختم ہوئی اور ادھر وہ اپنے گھروں کو واپس آگئے.ان کی غرض صرف اتنی تھی کہ نوجوانوں کی عملی تربیت ہو جائے.چنانچہ اب وہ اس ٹریننگ سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور اس جنگ میں ان کے پرانے تجربہ کار جرنیل بہت کم ہیں مگر وہ نوجوان جنہوں نے سپین کی جنگ سے تجربہ حاصل کیا وہ زیادہ ہیں اور وہی کام کر رہے ہیں.پس گو بظا ہر اس وقت یہی نظر آتا تھا کہ حکومت جرمنی نے بلا وجہ اپنے ہزاروں آدمیوں کو مروا ڈالا مگر آج اسی کے نتیجہ میں ہزار ہاجر من عملی تربیت حاصل کر کے موجودہ جنگ میں کام کر رہا اور قوم کے لئے مفید ثابت ہو رہا ہے.تو بڑھنے والی قوموں کے لئے یہ لازمی اور ضروری ہوتا ہے کہ وہ فوجی کاموں میں حصہ لیں جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیا میں دائمی امن ہو سکتا ہے وہ بالکل جھوٹے ہیں.دنیا میں نہ کبھی دائمی امن پہلے ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے.اختلاف ہمیشہ رہے اور ہمیشہ رہیں گے اور قرآن کریم سے یہ امر واضح طور پر ثابت ہے.پس خواہ دُنیا کتنی ہی تدبیر کرے کامل امن اور ہمیشہ کا امن کبھی میتر نہیں آسکتا اور اگر کامل امن اور ہمیشہ کا امن دُنیا میں حاصل نہیں ہوسکتا.چیز اللہ تعالیٰ نے صرف اگلے جہان کے لئے ہی مخصوص کی ہوئی ہے تو یہ امر ضروری ہوا کہ
خطبات محمود ۴۲۳ سال ۱۹۳۹ء ہر قوم کے نوجوان جنگی تربیت حاصل کریں.اگر وہ جنگی تربیت حاصل نہیں کریں گے تو دوسری قوموں کے مقابلہ میں وہ کبھی ٹھہر نہیں سکیں گے.تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر اور کوئی فائدہ نہ بھی ہو تو بھی محض اس وجہ سے کہ اس طرح جنگی تربیت حاصل کرنے کا ایک موقع مل رہا ہے.ہمارے لئے اِس سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہماری جماعت کے سینکڑوں نوجوانوں نے شوق سے اس میں حصہ لیا اور اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کر دیا ہے لیکن اس بھرتی سے ہمیں ایک اور فائدہ بھی حاصل ہوا ہے اور وہ یہ کہ ہماری توجہ ایک اور اہم معاملہ کی طرف پھر گئی ہے.اگر یہ بھرتی کا موقع نہ آتا تو نہ معلوم وہ بات کب تک ہماری نظروں سے اوجھل رہتی.وہ بات یہ ہے کہ اس فوجی بھرتی کے نتیجہ میں یہ نہایت ہی افسوسناک امر ہمیں معلوم ہوا ہے کہ احمدی نو جوانوں کی صحتیں خطرناک طور پر گری ہوئی ہیں.اگر بھرتی کا یہ موقع نہ ملتا تو شاید کی ہمیں اس کا علم دیر تک نہ ہوتا.احمدی نوجوانوں کے وزن بالعموم اس وزن سے کم ہیں جتنا وزن اس عمر میں نو جوانوں کا ہوا کرتا ہے.احمدی نوجوانوں کی نظریں بالعموم ان نظروں سے کم ہیں جتنی نظریں اس عمر میں نوجوانوں کی ہوا کرتی ہیں اور احمدی نوجوانوں کی کمریں بالعموم اس کی معیار سے بہت کمزور ہیں جتنی اس عمر میں نو جوانوں کی کمروں میں طاقت ہوا کرتی ہے اور یہ امرایسا خطرناک ہے جس کی جتنی جلد اصلاح ممکن ہو اتنی ہی جلدی کرنی چاہئے.پس اگر اس کی فوجی تربیت میں شریک ہونے کے اعلان سے کوئی اور فائدہ نہ بھی ہو تب بھی اس ذریعہ سے ہمیں یہ جو فائدہ حاصل ہوا ہے یہ خود اپنی ذات میں بہت اہم ہے اور میں غور کر رہا ہوں کہ آئندہ نوجوانوں کے لئے ایسے قواعد تیار کئے جائیں جن کے نتیجہ میں ان کے تمام قومی کی حفاظت ہو اور جوا چھے بہادر اور تندرست نوجوان بنانے میں ہمارے مُحمد ہوں.میرے نزدیک تمام نوجوانوں کا سالانہ معائنہ ہوتے رہنا چاہئے تا کہ ان کی صحت میں اگر کوئی نقص واقع ہو تو اس کی فوری اصلاح کی جاسکے اور چاہے جنگی بھرتی ہو یا نہ ہو جن ذرائع سے بھی ان نقصوں کی کی اصلاح ہو سکتی ہو اُن ذرائع کو کام میں لانا چاہئے.غرض ایک تو ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ نسل میں یہ نقص پیدا ہی نہ ہو اور
خطبات محمود ۴۲۴ سال ۱۹۳۹ء دوسری طرف ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جن میں نقائص ہیں اُن سے نقائص کو دور کر دیا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قسم کے کرتبوں کی طرف جن سے صحت پیدا ہوتی ہے ہمیشہ توجہ رکھتے تھے مگر ہمارے ملک میں بھیڑ چال کی عادت ہے.میں نے پہلے بھی بارہا تو جہ دلائی ہے کہ ہمارا ملک ایسی کھیلوں میں لگا رہتا ہے جو نہ تو صحت کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ سارے نوجوان ان کھیلوں میں حصہ لے سکتے ہیں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک قادیان کے نوجوانوں نے بھی میری اس نصیحت سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور یورپ کی نقل ان کی میں بدستور قائم ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ یورپ میں چونکہ کرکٹ اور ہا کی کھیلی جاتی ہے اس لئے ہمیں بھی کرکٹ اور ہا کی ہی کھیلنی چاہئے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ یورپ میں صرف ہا کی اور کرکٹ ہی نہیں کھیلی جاتی بلکہ وہ کھیلیں بھی وہاں کھیلی جاتی ہیں جن کے ذریعہ نو جوانوں میں طاقت پیدا ہوتی اور ان کی صحت درست رہتی ہے.ہمارے نو جوان صرف کرکٹ اور ہاکی کھیلتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صحت کے لئے تمام ضروری کھیلیں انہوں نے کھیل لیں حالانکہ کرکٹ اور ہا کی صحت کے لئے مفید نہیں بلکہ خالی ان پر قناعت کی جائے تو مضر ہیں اور یورپ میں بھی صرف کرکٹ اور ہاکی ہی کھیل نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان میں اور بھی کئی کھیلوں کا رواج ہے.مثلاً ان کو باکسنگ سکھایا جاتا ہے اور باکسنگ اتنی خطرناک چیز ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں سے سو میں سے شاید ایک اسے برداشت کر سکے.دو نو جوانوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ بے دردی سے ایک دوسرے کو مگے ماریں.اب ذرا سکول میں یہ کھیل تو کرا کر دیکھو.دوسرے ہی دن لڑکوں کے والدین شور مچا دیں گے کہ ہم اپنے بچوں کو اس سکول سے نکالتے ہیں.ہم نے استاد سمجھ کر لڑکوں کو ان کے پاس بھیجا تھا نہ کہ قصاب سمجھ کر.مگر انگلستان میں اکثر تعلیم یافتہ نوجوان با کسنگ جانتے ہیں اور جسے باکسنگ آتا ہو وہ اکیلا اگر دس بیس کے نرغہ میں پھنس جائے تو وہ بغیر سوٹی کے بغیر تلوار کے، بغیر کسی ہتھیار کے محض ہاتھوں کے ذریعہ ان سب کو زخمی کر دے گا اور خود بچ جائے گا.باکسنگ دراصل پُرانے زمانہ کا ایک قسم کا گنکا ہے.اسی طرح اور کئی ورزشیں ہیں جن میں سے بعض ہمارے ہاں بھی سکولوں میں مقرر ہیں مگر ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.زیادہ تر انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ ہاکی کے میچ کھیلے جائیں اور
خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۳۹ء کپ جیتا جائے حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ گوہا کی جیت کر وہ کپ لا رہے ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی صحت کو بھی کھو رہے ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں پی ٹی ہے یہ ہمارے ہاں بھی ہے مگر یہ فزیکل ٹرینگ اتنی بے تو تجھی سے ہوتی ہے کہ اس کا جو فائدہ ہے وہ لڑکوں کو حاصل نہیں ہوسکتا.بالعموم سمجھا جاتا ہے کہ فزیکل ٹرینگ محض قانون کو پورا کرنے کے لئے ہے حالانکہ فزیکل ٹریننگ ہی صحت کو درست کرنے والی ہے.کرکٹ اور ہا کی صحت کو درست کرنے والی چیزیں نہیں.اسی طرح پرانے کی زمانہ میں ہوری زنکل بار پر مختلف قسم کی کھیلیں کھیلی جاتی تھیں اور وہ صحت کے لئے بے حد مفید ہوتی تھیں مگر اب ان کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں رہی.اسی طرح اونچی چھلانگیں لگانا ، لمبی چھلانگیں لگانا ، گولہ پھینکنا، تیرنا اور رسہ کشی وغیرہ نہایت مفید کھیلیں ہیں.مگر اب یہ تمام کھیلیں ایک ایک کر کے مفقود ہو رہی ہیں.یہاں کے نو جوانوں کی رسہ کشی میں نے خود بھی دیکھی ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا بالکل اناڑی ہیں.جب کوئی کی میچ مقرر ہوا تو پندرہ دن پہلے اندر سے رشتہ نکالا اُس کی میل جھاڑی اور چند دن لڑکوں کو رسہ کشی کی کی مشق کرا دی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ رسہ کشی کا صحیح طریق انہیں آتا نہیں اس لئے جب وہ رسہ کھینچا جاتا ہے تو ایک کی ٹانگ اُدھر جا رہی ہوتی ہے اور دوسرے کا سر ادھر جھکا ہوا ہوتا ہے.پھر جو دو فریق ہوتے ہیں ان میں سے ایک نے تو دس بارہ دن مشق کی ہوئی ہوتی ہے اور دوسرے نے پانچ سات دن.اس لئے دس بارہ دن مشق کرنے والا فریق جیت جاتا ہے اور واہ واہ کا شور مچ جاتا ہے حالانکہ رسہ کشی میں وہ بھی اناڑی ہوتا ہے.اب بھلا ایسے نوجوانوں کی صحت کس طرح درست رہ سکتی ہے جوفزیکل ٹریننگ میں تو حصہ نہ لیں اور ہا کی اور کرکٹ ہی کھیلتے رہیں.پس ہاکی اور کرکٹ کو صحت کے لئے کافی سمجھنا انتہائی غلطی ہے.ہا کی قطعی طور پر صحت پر اچھا اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ مضر اثر پیدا کرتی ہے.ہاکی میں ہاتھ جڑے رہتے ہیں اور سانس سینہ میں پھولتا نہیں اور اس طرح باوجود کھیلنے کے سینہ چوڑا نہیں ہوتا مگر پی ٹی سے جسم مضبوط ہوتا ہے کمر طاقتور ہوتی ہے، سینہ چوڑا ہوتا ہے اور سانس پیٹ میں اچھی طرح سمانے کی مشق ہوتی ہے جو صحت کی درستی کے لئے ضروری ہے.اسی طرح دوڑنا،
خطبات محمود ۴۲۶ سال ۱۹۳۹ء کو دنا، چھلانگیں لگانا، بوجھ اُٹھانا ، گولہ پھینکنا ایسی کھیلیں ہیں جو نہ صرف صحت کے لئے مفید ہیں بلکہ انسان کی عملی زندگی میں کام آنے والی ہیں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صحت کے لئے جو مفید ورزشیں ہیں ان کی طرف ہماری جماعت کے نوجوانوں کی توجہ بہت کم ہے اور جو کھیلیں صحت کے لئے مضر ہیں ان کی طرف بہت توجہ ہے.پھر پی ٹی میں ملک کے سارے نوجوان حصہ لے سکتے ہیں مگر کرکٹ میں غریب لڑکے حصہ نہیں لے سکتے.کرکٹ پر ماہواری ہر کھلاڑی کا ایک دو روپیہ خرچ آجاتا ہے اور اتنا خرچ تو غرباء اپنی تعلیم کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے کھیلوں کے لئے وہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں.ہمارے ملک کا ہزار ہا لڑکا سکول سے محض اس لئے اُٹھا لیا جاتا ہے کہ اُن کے والدین دو آنے یا چار آنے ما ہوا ر فیس دینے کی طاقت نہیں رکھتے.پس جبکہ وہ دو آنے یا چار آنے ماہوار فیس نہیں دے سکتے تو وہ روپیہ دو روپیہ تک کرکٹ کے لئے کس طرح خرچ کر سکتے ہیں.اگر کرکٹ کو صحیح طور پر کھیلا جائے تو بال روزانہ بدلنا پڑتا ہے پھر بیٹ نہایت قیمتی ہوتا ہے.اسی طرح کرکٹ کے لئے فیلڈ کی ضرورت ہوتی ہے اگر کرکٹ کھیلنے والوں کو کچھ ایڈ بھی مل جائے تو بھی چھپیں تھیں چالیس روپے انہیں اپنے پاس سے ماہوار خرچ کرنے پڑتے ہیں اور اس طرح ڈیڑھ دور و پیہ ماہوار ہر لڑکے کو اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے مگر پی ٹی میں کسی کا کیا خرچ آتا ہے.ہاتھ اونچا کرو ، ہاتھ نیچا کرو، کمر نیچی کچ کرو، کمر او پر کرو، پاؤں آگے کرو، پاؤں پیچھے کرو.بتاؤ کیا غریب سے غریب زمیندار بھی ایسا کی ہے جو اس میں حصہ نہ لے سکے.پس اگر ان ورزشوں کو جاری کیا جائے تو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اور غریب سے غریب آدمی جسے گر تہ بھی میسر نہیں ہے تہہ بند بھی میسر نہیں اور جو صرف ایک لنگوٹی پہنے پھرتا ہے وہ بھی ان میں شریک ہو سکتا اور اپنی صحت کو درست کر سکتا ہے مگر تمہاری کرکٹ اور تمہاری ہاکی میں وہ کس طرح شریک ہو سکتا ہے.یہ تو امیروں کی کھیلیں ہیں جو انہوں نے اس لئے جاری کی تھیں کہ غریب الگ رہیں اور وہ الگ.اگر وہ کھیل میں ہمارے ساتھ شامل ہو گئے تو اس سے ہماری عزت میں فرق پڑ جائے گا.اُنہوں نے ہی اس قسم کی کھیلوں کو رواج دیا.پس یہ ایسی کھیلیں نہیں جنہیں کھیلا جائے صرف فزیکل ٹرینگ ہی ایسی چیز ہے جو مفید ہے اور جس میں امیر و غریب دونوں حصہ لے سکتے ہیں.پرانے زمانوں میں مگدر ہوا کرتے تھے.
خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۳۹ء گاؤں میں کسی ایک مقام پر وہ پڑے رہتے اور جو آتا وہ مگد رپھیر کر اور چند منٹ ورزش کر کے چلا جا تا اور کسی کا اس میں کچھ بھی خرچ نہیں آتا تھا یا مثلاً بیٹھکیں نکالنا ہے.اب اس اُٹھک بیٹھک پر کسی کا کیا خرچ آتا ہے یا ڈنٹر نکالنے میں ان کا کیا خرچ ہوسکتا ہے؟ کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا اور پھر مزید فائدہ یہ ہے کہ ہر شخص ان میں حصہ لے سکتا ہے لیکن کرکٹ اور ہاکی میں سارا ملک نہیں ، آدھا ملک نہیں ، چوتھا حصہ مُلک کا نہیں بلکہ ملک کا دسواں حصہ بھی شامل نہیں ہوسکتا.چنانچہ ایک دفعہ حساب کر کے میں نے بتایا تھا کہ اگر کرکٹ ، ہاکی اور فٹ بال کے لئے تمام مُلک کی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیلڈز بنا دی جائیں تو زراعت کے لئے بہت ہی تھوڑی جگہ رہ ج جائے اور پھر لوگ کرکٹ کے بال اور وکٹیں کھایا کریں، روٹی اور غلہ انہیں نہ ملے تو چند محدود نوجوانوں میں ہی یہ کھیلیں جاری ہو سکتی ہیں سارے ملک میں نہیں اور پھر با وجود ایسی کھیلیں کھیلنے کے نتیجہ ظاہر ہے.کرکٹ اور ہاکی کھیلنے کے باوجود ہماری جماعت کے نوجوانوں کے جسم کی مضبوط نہیں ہو سکے اگر فزیکل ٹریننگ سے وہ اپنے اندر طاقت پیدا کرتے ، اگر رسہ کشی کرنا ، گولہ پھینکنا کودنا، تیرنا اور چھلانگیں لگا نا وہ اپنے لئے ضروری سمجھتے تو آج ان کی جسمانی حالت بالکل اور ہوتی کیونکہ انہی کھیلوں سے وہ طاقتیں پیدا ہوتی ہیں جو آئندہ زندگی میں کام آیا کرتی ہیں.چونکہ ہماری جماعت کے نو جوانوں نے اس امر کی طرف توجہ نہیں کی تھی اس لئے آج با وجود اس بات کے کہ ان میں جوش ہے، ان میں اخلاص ہے ان میں ولولہ اور ہمت ہے.جب وہ آگے آتے اور فوجی ٹرینگ کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تو ڈاکٹری معائنہ کے بعد انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تم فوجی خدمت کے قابل نہیں.صحت کا یہ معیار اس قدر گرا ہوا ہے کہ ہماری جماعت کے سونو جوان پیش ہوتے ہیں اور ان سو میں سے افسرانِ متعلقہ صرف دس کا انتخاب کرتے ہیں.اسی طرح کچھ عرصہ ہو ا کئی سو نو جوانوں میں سے افسروں نے بائیس نو جوانوں کو کی بچنا اور اُن بائیس میں سے بھی صرف پانچ منظور ہوئے.یہ حالات جو ظاہر ہوئے ہیں انہوں نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں اور ثابت کر دیا ہے کہ میں نے آج سے دو سال پہلے مغربی کھیلوں کی بجائے دیسی کھیلیں جاری کرنے کی جو تحریک شروع کی تھی وہ نہایت ہی با موقع اور برمحل تھی مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت نے اس کی طرف توجہ نہ کی جس کا خراب نتیجہ اب
خطبات محمود ۴۲۸ سال ۱۹۳۹ء نظر آ رہا ہے.یہ سوال جانے دو کہ آج انگریزی فوج میں بھرتی ہو رہی ہے.فرض کرو کل کی احمدی حکومت ہو اور اس کی حفاظت کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہو تو اس وقت کون سے نوجوان کام آئیں گے؟ آخر کو لے لنگڑے تو احمدی فوج میں بھرتی نہیں ہوں گے.بھرتی کے لئے تو صرف وہی لئے جائیں گے جو کام کے قابل ہوں گے مگر وہ نو جوان آئیں گے کہاں سے.جب ہماری صحتیں گری ہوئی ہوں گی اس وقت تو صرف دل میں کڑھنے والی بات رہ جائے گی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگ کے لئے جارہے تھے تو آپ نے صحابہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا تم لوگ کوئی تکلیف نہیں اُٹھا ر ہے مگر اس کا ثواب جس طرح تمہیں مل رہا ہے اسی طرح مدینہ کے بعض ان لوگوں کو بھی مل رہا ہے جو اس وقت اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! یہ کیا ہوا کہ تکلیف تو ہم اُٹھائیں اور ثواب میں وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو جائیں.آپ نے فرمایا یہ لوگ وہ نادار اور کمزور اور ضعیف اور ٹولے لنگڑے ہیں جو جنگ میں شامل ہونے کی طاقت نہیں رکھتے مگر اُن کے دل اس حسرت سے جل رہے ہیں کہ کاش ہمیں طاقت ہوتی اور ہم بھی اس جہاد میں شریک ہوتے لے پس اس قسم کا ثواب بے شک معذور احمدیوں کو بھی مل جائے گا مگر اس ثواب کے ساتھ عذاب بھی ہوتا ہے اور انسان کے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ افسوس وہ خدا تعالیٰ کے دین کے کام نہ آ سکا.گویا یہ ثواب اس عذاب کے نتیجہ میں ملتا ہے جو انسان کے دل کو ہوتا ہے اور گو اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ثواب کا مستحق ہو جائے مگر قوم اور ملک کے لئے وہ مفید ثابت نہیں ہوسکتا.پس اس قسم کے نو جوان اگر ہماری جماعت میں ہوئے تو بجائے ملکی اور مذہبی خدمات سرانجام دینے کے وقت آنے پر وہ دل میں کی گڑھیں گے اور کہیں گے کاش ہماری نظر اچھی ہوتی ، کاش ہمارے ہاتھوں میں طاقت ہوتی، کاش ہماری کمر مضبوط ہوتی اور ہم بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ملکی خدمات کی خاطر اپنے آپ کو پیش کر سکتے.مگر اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود ان کا ہوگا.کیونکہ انہوں نے ہی اس قسم کی طاقتیں پیدا کرنے سے بے اعتنائی کی ہو گی.میں نے خدام الاحمدیہ کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اس قسم کی کھیلیں نو جوانوں میں رائج کریں مگر انہوں نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں کی.حالانکہ ادھر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.
خطبات محمود ۴۲۹ سال ۱۹۳۹ء پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوانوں کا با قاعدہ معائنہ ہوتا رہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ نو جوانوں کی صحت کی ترقی کی کیا رفتار ہے اور کس حد تک ہمیں اپنی کوششوں میں کامیابی ہو رہی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ہم تھوڑی سی بھی توجہ کریں تو نو جوانوں کی صحت پہلے سے بہت زیادہ اچھی ہو سکتی ہے اور صحت کی درستی کے ساتھ اخلاق بھی درست ہوتے ہیں.جب کسی شخص کی صحت خراب ہو جاتی ہے تو اس کے اندر چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اور وہ سُست اور کا ہل رہنے لگ جاتا ہے.اسی سستی اور کاہلی کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ نمازوں میں سُست ہو جاتا ہے.پہلے اس کی ایک نماز با جماعت جاتی ہے، پھر دو نمازیں رہ جاتی ہیں، پھر تین نمازیں رہ جاتی ہیں، پھر چار اور پھر پانچوں نمازیں ہی باجماعت پڑھنے سے وہ رہ جاتا ہے اور گھر پر نماز پڑھنے کا عادی ہو جاتا ہے.رفتہ رفتہ گھر پر بھی نمازوں میں ناغہ ہونے لگتا ہے اور آخر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ نماز کو بالکل چھوڑ بیٹھتا ہے جو دراصل صحت کی خرابی کا نتیجہ ہوتا ہے مگر شروع صحت کی خرابی سے ہوتا ہے اور انجام بے ایمانی نکلتا ہے.دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ محض شستی کر رہا ہے بیمار نہیں حالانکہ وہ بیمار ہوتا ہے مگر چونکہ ہڈی یا جسم کو اوپر سے دیکھ کر کسی کی بیماری کا پتہ نہیں لگ سکتا اس لئے عام لوگ دوسروں کی بیماری کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ باتوں باتوں میں میں نے مولوی عبدالکریم صاحب کی سے کہا کہ ہمارے ملک میں خوبصورت آدمی کوئی نہیں ہوتا.مولوی عبد الکریم صاحب کہنے لگے یہ بالکل غلط بات ہے ہمارے ملک میں بڑے بڑے خوبصورت لوگ ہیں.آپ نے فرمایا اگر خوبصورتی کے یہ معنے ہیں کہ رنگ گورا ہو ، چہرہ خوب چمکتا ہو، آنکھ ناک کا نقشہ اچھا ہو تو اس قسم کے خوبصورت کئی لوگ مل جائیں گے مگر میں تو اسے خوبصورت سمجھتا ہوں جس کی تندرستی سلامت ہو وہ کہنے لگے اچھا تو آپ کے نزدیک کوئی تندرست ہے ہی نہیں.آپ نے فرمایا میرے نزدیک تو بہت کم ایسے لوگ ہیں.اگر آپ کے نزدیک کوئی ایسا شخص قادیان میں ہے تو بتائیے.اُنہوں نے قادیان میں سے دو آدمی چنے اور کہا دیکھئے یہ کیسے خوبصورت ہیں وہ دونوں ایسے تھے کہ بظاہر بڑے تندرست تھے، رنگ سفید تھا اور ان کا چہرہ خوب چمکتا تھا.اس وقت دوسرا شخص تو موجود نہیں تھا اتفاقاً ایک سامنے ہی تھا.حضرت خلیفہ اول نے اُسے بُلایا اور کہا
خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۳۹ء ذرا ادھر تو آؤ.وہ آیا تو آپ نے فرمایا ذرا اپنے سینہ سے گر تہ جو اُٹھاؤ اُس نے گر نہ جو اُٹھایا تو اُس کے سینہ کی تمام ہڈیاں ٹیڑھی نظر آئیں.اُسے رکٹس (RICKETS) کا مرض تھا جس کی وجہ سے اُس کے سینہ کی ہڈیاں ٹیڑھی تھیں مگر منہ پر اس کا چونکہ کوئی اثر نہیں ہوتا اس لئے منہ اس کا خوبصورت تھا.مولوی عبدالکریم صاحب بڑے نازک مزاج تھے اُنہوں نے جب اس کا سینہ دیکھا تو لا حول پڑھنے لگے اور فرمانے لگے یہ تو بڑا بدصورت شخص ہے.تو اس تحریک سے ہمیں یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہوا ہے کہ ہمیں اپنے نو جوانوں کی کمزوری صحت کا علم ہو گیا ہے اور ہم اگر چاہیں تو اس طرف توجہ کر کے اس نقص کا بہت حد تک ازالہ کر سکتے ہیں.اس کے بعد میں ایک اور مضمون کے متعلق کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں.میں نے پچھلے دنوں بعض خطبات پڑھے ہیں جن میں موجودہ جنگ کے متعلق اپنے کی خیالات کا اظہار کیا ہے.میں نے کہا تھا کہ باوجود اس بات کے کہ پنجاب کے بعض حکام سے ہمارا اختلاف رہا بلکہ اب بھی ہے اور باوجود اس کے کہ ہم اس اختلاف کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ ہم اسے بھول سکتے ہیں اس وقت ایک ایسا خطرہ درپیش ہے کہ اس کی موجودگی میں ہمیں فی الحال اس جھگڑے کو بند کر دینا چاہئے اور اس دشمن کا متحدہ طور پر مقابلہ کرنا چاہئے جو برطانیہ پر حملہ آور ہے کیونکہ اس کے کامیاب ہو جانے کی صورت میں اسلام اور احمدیت کے لئے سخت مشکلات پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے.میرے ان خطبات کے متعلق ایک خط قادیان سے ہوتا ہوا مجھے سندھ میں مل.وہ ایک احمدی نوجوان کا خط ہے اور لاہور سے آیا ہے.اِس خط میں اُس احمدی نوجوان نے لکھا ہے کہ آپ نے خطبات تو اس لئے پڑھے ہوں گے کہ انگریزی حکومت کی امداد کی جائے اور اس کی تائید اور حمایت کی جائے لیکن مجھ پر یہ اثر ہوا ہے کہ ان خطبات کے نتیجہ میں مجھے انگریزوں سے اور بھی زیادہ نفرت ہو گئی ہے اور اُن کی تباہی کی خواہش میرے دل میں پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے.وہ لکھتا ہے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ نے یہ کس طرح کہہ دیا کہ اگر انگریزی حکومت کی نہ رہے تو میں موت کو اپنے لئے زیادہ پسند کروں گا.اس سے تو انگریزوں کی دائمی غلامی کی
خطبات محمود ۴۳۱ سال ۱۹۳۹ء محبت کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ انگریز ہمیشہ حاکم رہیں اور ہم ہمیشہ ان کے غلام رہیں.میں نے وہ خطبات تو واقع میں اسی لئے پڑھے تھے کہ انگریزوں کی امداد ہولیکن اس کی نوجوان پر یہ اثر ہوا ہے کہ وہ لکھتا ہے مجھے انگریزوں سے اور بھی نفرت ہوگئی ہے کیونکہ ان کی خطبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزوں کی دائمی غلامی ہمیں نصیب ہو جائے گی.میں اس کی پیش کردہ باتوں کا جواب تو آگے چل کر دوں گا مگر جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا چلو میرے خطبوں نے دونوں قوموں کو خوش کر دیا.ایک طرف انگریز خوش ہو گئے کہ میں کی نے اس نازک موقع پر جماعت کو ان کی اعانت کی تحریک کی اور دوسری طرف کانگرس کے کی اکسٹریمسٹ (EXTREMIST) مسٹر بوس وغیرہ کو بھی میرا ممنون ہونا چاہئے کہ بعض لوگوں پر میرے ان خطبات کا یہ اثر ہوا ہے کہ ان کے دلوں میں انگریزوں کی نفرت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے.کہتے ہیں دو شکار ایک پتھر کے ساتھ.سو میرے ان دو خطبات نے دونوں کو شکار کر لیا.خیر یہ تو ایک لطیفہ تھا اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ افترا کرتے ہیں ، جھوٹ باندھتے ہیں ، غلط الزام لگاتے ہیں مگر وہ دشمن ہوتے ہیں لیکن یہ اتہام ایک دوست نے لگایا ہے.اُس دوست نے جو احمدی ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے کہ میں نے کبھی یہ کہا ہے کہ اگر انگریزی حکومت چلی جائے تو کی میں موت کو ترجیح دوں گا یا یہ کہ انگریزوں کی حکومت ہمیشہ ہمیش قائم رہے اور ان کی دائمی غلامی دُنیا کونصیب رہے.میرے خطبے چھپے ہوئے موجود ہیں اور اس دوست نے بھی چھپے ہوئے خطبے ہی پڑھے ہیں.چنانچہ وہ یہ نہیں کہتے کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کے خطبے چھپے ہوئے پڑھے.پس وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے کہا کچھ تھا پھر خطبہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اُسے بدل دیا.ان حالات میں میں حق رکھتا ہوں کہ اُن سے پوچھوں کہ وہ میرے الفاظ کیا ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کی دائمی غلامی مجھے محبوب ہے.یا یہ کہ اگر انگریزی حکومت نہ رہے تو میں موت کو پسند کروں گا.میں نے یہ ہر گز نہیں کہا کہ اگر انگریزی حکومت چلی جائے تو میں زندگی پر موت کو ترجیح دوں گا یہ بالکل جھوٹ ہے.میں تو کی
خطبات محمود ۴۳۲ سال ۱۹۳۹ء اس بات کا قائل ہوں کہ انگریزی حکومت چھوڑ دُنیا میں سوائے احمدیوں کے اور کسی کی حکومت نہیں رہے گی.پس جبکہ میں اس بات کا قائل ہوں بلکہ اس بات کا خواہشمند ہوں کہ دُنیا کی ساری حکومتیں مٹ جائیں اور اُن کی جگہ احمدی حکومتیں قائم ہو جائیں تو میرے متعلق یہ خیال کرنا می کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو انگریزوں کی دائمی غلامی کی تعلیم دیتا ہوں کہاں تک درست ہوسکتا ہے.پھر جس کی یہ خواہش ہو کہ دُنیا میں احمدی حکومت قائم ہو جائے اور احمدی حکومت کی کے سوا اور کوئی حکومت نہ رہے.کیا وہ کہ سکتا ہے کہ اگر انگریز چلے جائیں تو میں زندگی پر موت کو تر جیح دے دوں گا.پس یہ بالکل غلط بات ہے جو کہی گئی اور چونکہ یہ کہنے والا ایک احمدی ہے اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ اس نے افترا کیا ہے مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ بات جھوٹ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خطبہ میں ایسے الفاظ ہیں کہ فلاں بات نہ ہو تو میں موت کو ترجیح دوں گا مگر یہ الفاظ نہیں کہ اگر انگریزی حکومت جاتی رہے تو میں زندگی پر موت کو ترجیح دوں گا.میرے الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اگر ایسی حکومت جس میں تبلیغ کی آزادی ہے جاتی رہے اور اس کی بجائے کوئی ایسی حکومت آ جائے جو تبلیغ کو بند کر دے اور دہریت اور الحاد کی رو چلا دے تو میں چاہتا ہوں کہ اُس دن کے آنے سے پہلے پہلے ہر احمدی مر جائے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہہ سکے کہ جب تک میں زندہ رہا میں نے تیرے نام کو نہیں چھپایا.میری موت کے بعد اگر کوئی ایسے حالات پیدا ہو گئے تو مجھے ان کا علم نہیں اور ان الفاظ میں اور اُن الفاظ میں جو اس احمدی نے لکھے زمین و آسمان کا فرق ہے.میرے اس بیان پر جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تین قسم کے اعتراض ہو سکتے ہیں.اوّل.معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ بیشک یہ صورتِ حالات پیدا ہو جائے ہمیں اس کی پرواہ کی نہیں.آپ کہتے ہیں میں ایسی حالت سے موت بہتر سمجھتا ہوں.سو آپ بے شک موت بہتر سمجھیں ہم ان حالات میں موت کو ترجیح نہیں دے سکتے اور نہ ہم اس صورت حالات کی پرواہ کر سکتے ہیں.اس اعتراض کو دوسرے الفاظ میں یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں سے بے شک ایسی حکومتیں مٹ جائیں جو اپنی رعایا کو تبلیغ کی اجازت دیتی ہیں اور بیشک وہ حکومتیں
خطبات محمود ۴۳۳ سال ۱۹۳۹ء قائم ہو جا ئیں جو تبلیغ کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتیں مگر بتاؤ کیا کسی احمدی کے مُنہ کلمات نکل سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر اعتراض کیا ہوا؟ میں سمجھتا ہوں ہر احمدی بلکہ ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے ایک ساعت کے لئے بھی یہ کہنا تو الگ رہا یہ خیال کرنا بھی گناہ سمجھے گا کہ دُنیا سے وہ نظام تو مٹ جائے جس میں تبلیغ کی آسانیاں ہوں اور وہ نظام قائم ہو جائے جس میں تبلیغ پر پابندیاں ہوں اور یہ کہ اگر ایسا نظام قائم ہو جائے تو وہ اس کی کچھ پرواہ نہیں کریں گے.میرے نزدیک کسی مذہبی آدمی کے دل اور دماغ میں اس قسم کا خیال نہیں کی آسکتا.دوسری صورت اعتراض کی یہ بنتی ہے کہ کوئی شخص کہے اس قسم کی کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں یہ محض ایک وہم ہے.ایسی کوئی تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی.اس اعتراض کی آگے دو صورتیں ہیں یا تو کی وہ یہ کہے کہ انگریز ہار ہی نہیں سکتے انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی طاقت اور قوت حاصل ہے کہ یہ کسی دشمن سے شکست نہیں کھا سکتے.اس صورت میں اعتراض یہ ہوگا کہ جب اس قسم کا کوئی کی موقع آ ہی نہیں سکتا اور انگریزوں کا شکست کھانا بالکل ناممکنات میں سے ہے تو یہ کہنا کہ اگر یہ ہار جائیں اور ان کی جگہ کوئی اور ایسی حکومت آ جائے جو تبلیغ کی اجازت نہ دے تو میں زندگی پر موت کو ترجیح دوں گا بے فائدہ ہے.گویا اس صورت میں تبلیغ کی آزادی کی اہمیت تو تسلیم کی جائے گی مگر ساتھ ہی کہا جائے گا کہ جب انگریز ہار ہی نہیں سکتے تو اس قسم کے خدشات پیدا کی کرنے کا کیا مطلب؟ مگر یہ بھی بالکل غلط ہے کیونکہ کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس کے ماتحت یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہو کہ انگریزی حکومت ہار نہیں سکتی اور نہ خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ انگریز ہمیشہ حکمران رہیں گے.پس یہ صورت بھی درست نہ ہوئی.دوسری کی صورت اِس اعتراض کی یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جو حکومتیں انگریزوں کی جگہ لیں گی وہ مذہب پر تشد د کرنے والی اور تبلیغ کو روکنے والی ہوں گی.بالکل ممکن ہے وہ انگریزوں سے بھی زیادہ تبلیغ کی آزادی تسلیم کرنے والی ہوں اور اس طرح ان کے ماتحت رہتے ہوئے مذہب پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہو.گویا اس صورت میں اعتراض یوں بنے گا کہ انگریز ہار تو سکتے ہیں مگر دوسری حکومتیں اتنی بُری نہیں جتنا برا آپ انہیں سمجھتے ہیں.وہ تبلیغ کی آزادی کی
خطبات محمود ۴۳۴ سال ۱۹۳۹ء دے دیں گی اور جو خدشہ پیش کیا جا رہا ہے درست نہیں.اس اعتراض کا جائزہ لینے کے لئے ہم صورت حالات کو واقعات کے لحاظ سے دیکھتے ہیں.اس وقت جنگی خطرہ سب سے بڑھ کر کی جرمنی کی طرف سے ہے جس کی پشت پر روس ہے جس نے آہستہ آہستہ اب اپنے پاؤں نکالنے شروع کئے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں حکومتوں سے تبلیغ کے راستہ میں روک واقع ہوگی یا مذہبی آزادی پہلے سے بھی زیادہ ہو جائے گی.میں اس مقابلہ میں سب سے پہلے جرمنی کو لیتا ہوں.ہر ہٹلر نے اپنی کتاب مائنے کامیف میں جس میں اس نے اپنی حکومت کے اصول واضح کئے ہیں لکھا ہے کہ جس قوم کا مرکز باہر ہو وہ جرمن حکومت کے ماتحت نہیں رہ سکتی.وہ لکھتا ہے کہ یہ کیونکر برداشت کیا جاسکتا ہے کہ ایک قوم پر حکومت کرنے والے کسی اور جگہ ہوں اور اس کو ماننے والے ہمارے پاس ہوں.اِس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہماری حکومت میں بعض لوگ رہتے ہوں مگر وہ دراصل ہمارے تابع فرمان نہ ہوں اور یہ امر قطعاً برداشت نہیں کیا جاسکتا.اب بتاؤ کی اس اصل کے ماتحت احمدیت کا جرمن حکومت کے ماتحت کہاں ٹھکانا ہے.احمدیت کا مرکز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان مقرر فرمایا ہے.اب فرض کرو قادیان کی انگریزوں یا اٹلی کے ماتحت ہو اور دوسرے علاقے جن میں احمدی کثرت سے ہوں جرمن کے ماتحت ہوں تو یقیناً اس اصل کے ماتحت جرمن حکومت احمدیوں پر ظلم شروع کر دے گی اور اگر کی اس کے برخلاف قادیان جرمنی حکومت کے ماتحت چلا جائے تو اٹلی وغیرہ حکومتیں اپنے علاقوں میں احمدیت کو نہیں پھیلنے دیں گی.کیونکہ وہ بھی اسی قسم کے اصول کی ماننے والی ہیں.دوسرا اصل جو پہلے سے بھی زیادہ خطر ناک ہے یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے ہم کسی ایسے مذہب کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے جس کے اقتصادی ، تجارتی اور سوشل قوانین مذہب نے بنائے ہوں اور دراصل یہی وہ وجہ ہے جس کی بناء پر وہ یہودیوں کا سخت دشمن ہے.وہ کہتا ہے یہ بات کسی طرح جائز تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ ایک ملک کے متعلق دو قانون ساز ہستیاں ہوں.میں کچھ کہوں اور وہ وہ کچھ کہے.میں لوگوں کو کسی اور شاہراہ پر چلانا چا ہوں اور وہ اپنے مذہب کی مقرر کردہ شاہراہ پر چلیں مثلاً میں کہتا ہوں فلاں چیز کھا ؤ اور ا
خطبات محمود ۴۳۵ سال ۱۹۳۹ء مذہب کہتا ہے وہ چیز نہ کھاؤ.تو اب یہ میری اور اس کی لڑائی ہے اور یہ لڑائی میں برداشت نہیں کی کر سکتا.میں یہی چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں کہوں وہی ہو نہ وہ جو کہ کسی کو اُس کا مذہب بتائے.پس اگر کسی مذہب کے اقتصادی ، تجارتی اور تمدنی قوانین مذہب نے بنائے ہوں تو اس مذہب کو ہم اپنے ملک میں پھیلنے اور اس کے پیروؤں کو اپنے اندر بڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتے.یہودیوں کا وہ اِسی لئے مخالف ہے کہ یہودیت نے تفصیل کے ساتھ تمدن کے متعلق احکام دیئے ہیں اور کھانے پینے کے مسائل بیان کئے ہیں.انہیں ان کے مذہب نے کہا ہے کہ یہ کھاؤ اور وہ کی نہ کھاؤ، یوں کرو اور اُس طرح نہ کرو.اب یہودی جب اپنے مذہب کے احکام پر عمل کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا موسیٰ کون تھا اور اس نے کیا حکم دیا.تمہیں وہی حکم ماننا پڑے گا جو میں دے رہا ہوں.اس نے اسی ضمن میں عیسائیت پر بھی اعتراض کئے ہیں.بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ہٹلر عیسائیت کا دشمن ہے حالانکہ ہٹلر عیسائیت کا دشمن نہیں بلکہ وہ لکھتا ہے کہ اصلی عیسائی میں ہی ہوں.باقی عیسائی تو انجیل پر عمل ہی نہیں کر رہے.وہ کہتا ہے انجیل میں تو صرف چند عقائد کی تعلیم ہے.اس نے شریعت کوئی تجویز نہیں کی لیکن اب کلیسیا لوگوں کے اعمال میں بھی دخل دینے لگ گیا ہے اور اس طرح اس نے سیاسیات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اس لئے حکومت مجبور ہے کہ کلیسیا کو پھر اس کی حد پر لا کر کھڑا کر دے.اب بتاؤ اسلام ایسے ملک کی میں کہاں رہ سکتا اور کس طرح ترقی اور نشونما پاسکتا ہے.اسلام نے تو یہودیت سے بھی بڑھ کر کی تفصیلی احکام اور حرام حلال کے مسائل بیان کئے ہیں.پس ایسی حکومت کے ماتحت رہنے کے معنے ہیں کہ اسلام پر ہم عمل نہ کر سکیں.کیونکہ ہٹلر کا یہ قائم کردہ اصل ہے کہ حکومت کے ماتحت اسی قسم کی دو عملی برداشت نہیں ہو سکتی کہ میں کچھ کہوں اور بعض لوگ بجائے اس پر عمل کرنے کے یہ کہیں کہ ہمارے مذہب نے اس کے خلاف تعلیم دی ہے.فرض کرو کسی وقت جرمنی میں سخت قحط کی پڑتا ہے اور اس کی حکومت میں مسلمانوں کا بھی عنصر ہے اس علاقہ میں سو ر زیادہ ہوتے ہیں وہ حکم دے دیتا ہے کہ سب لوگ سؤ رکھا ئیں.اب ایک مسلمان تو یہ حکم سنتے ہی کہہ دے گا کہ میں سؤ رنہیں کھاتا.میرے مذہب نے منع کیا ہوا ہے مگر وہ کہے گا تم عجیب احمق ہو.حکومت میری ہے یا تمہارے مذہب کی تمہیں میری بات ماننی پڑے گی اور ضرور سؤر ہی کھانا پڑے گا.
خطبات محمود ۴۳۶ سال ۱۹۳۹ء یہود سے ہٹلر کی جو مخالفت ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہودی ایک ایسے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو انسانی اعمال میں بھی اسی طرح دخل دیتا ہے جس طرح انسانی افکار میں.وہ مذہب صرف عقائد ہی نہیں سکھا تا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ فلاں چیزیں کھاؤ ، فلاں نہ کھاؤ ، شادی بیاہ میں اِن اِن امور کو ملحوظ رکھو، تمدنی اور تجارتی تعلقات اس اس طرح قائم کرو اور یہ امر ہٹلر کی حد برداشت سے باہر ہے.وہ کہتا ہے صرف ایک قانون چلے گا دو نہیں چل سکتے اور چونکہ یہ اپنے مذہب کے حکم کے ماتحت اس بات پر مجبور ہیں کہ اگر میرا حکم اس کے احکام کے خلاف ہو تو اسے نہ مانیں.اس لئے اس بغاوت اور نافرمانی کی روح کوکچل دینا ہی بہتر ہے.اب بتاؤ ایسی حکومت جہاں بھی قائم ہوگی وہاں اسلام اس کی زد میں آئے گا یا نہیں آئے گا.اسلام نے تو یہودیت سے بہت زیادہ اعمال کی تفاصیل بیان کی ہیں.اس کے یہ معنے نہیں کہ ہٹلر لا مذہب ہے.وہ مذہب کو مانتا ہے مگر وہ کہتا ہے مذہب کا صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ کہے ایک خدا ہے یا دو خدا ہیں یا تین خدا ہیں.اس سے زیادہ کوئی بات منوانے کا وہ قطعا حق نہیں کی رکھتا.پس وہ لامذہب نہیں بلکہ مذہب کا قائل ہے بلکہ ان لوگوں کا مخالف ہے جو لا مذہب ہیں اور وہ ان پر حملہ کرتا اور کہتا ہے کہ یہ لوگ جو لا مذہب ہیں اپنی قوم کے دشمن ہیں کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہونا چاہئے کیونکہ مذہب اتحاد پیدا کرتا ہے لیکن مذہب کا دخل صرف یہیں تک ہے کہ وہ انسانوں کو بتادے کہ وہ کیا عقائد رکھیں.انسانی زندگی کے متعلق قواعد بنانا اس کا کام نہیں یہ حکومت کا کام ہے.غرض ہٹلر کے نزدیک ایسے خدا کو نہ صرف برداشت کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے جو آسمان پر بیٹھا رہے اور آسمان تک ہی اس کا کام محد ودر ہے.زمین سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو.زمین سے صرف ہٹلر کا ہی تعلق ہونا چاہئے.اس عقیدہ کی موجودگی میں جو قوم بھی اس کے ماتحت رہے گی اگر وہ مذہبی احکام کی پیرو ہو گی تو وہ کبھی چین اور امن سے زندگی بسر نہیں کر سکے گی اور اسلام تو یقیناً ایسی تعلیم سے ٹکراتا ہے اور یہی ہٹلر کے یہودیوں سے ٹکراؤ کی وجہ ہے.یہودی جرمنی میں پچاس ساٹھ لاکھ ہیں اور سارے ملک کی آبادی آٹھ کروڑ ہے.گویا جرمنی کی آبادی کا آٹھ فیصدی حصہ یہودی ہیں.مگر وہ چونکہ اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں اس لئے ہٹلر کو بُرا محسوس ہوتا ہے.وہ کہتا ہے ان یہودیوں کو میری تائید کی
خطبات محمود ۴۳۷ سال ۱۹۳۹ء کرنی چاہئے.یہ کیا کہ موسی" جو آج سے دو تین ہزار سال پہلے ہوا ہے اُس کی باتیں مانی جائیں.اس کے بعد ہم روس کو لیتے ہیں، روس میں مذہب ہے ہی نہیں.دہریت ہی دہریت ہے اور اس دہریت کو پھیلانے کے لئے وہ پورا زور لگا رہا ہے گومنہ سے وہ انصاف کا دعویٰ کرتا ہے مگر یہ دعویٰ محض دھوکا ہے.چنانچہ روسی حکومت کہتی ہے کہ انسانی فکر میں آزادی ہونی چاہئے اور کسی سے جبراً کوئی عقیدہ نہیں منوانا چاہئے اور اس اصل کی تشریح وہ یہ کرتے ہیں کہ ماں باپ کو کوئی حق نہیں کہ بچہ کو اپنے مذہب کی تعلیم دیں بچہ جب جوان ہو جائے وہ جو مذہب چاہے قبول کر لے.نہ حکومت اُسے کوئی مذہب سکھائے اور نہ ماں باپ.اب بظاہر یہ تعلیم منصفانہ معلوم ہوتی ہے لیکن ادنی فکر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ محض دھوکا ہے کیونکہ مذہب تو ایک مثبت بات ہے اور سکھانے سے ہی آسکتی ہے لیکن لامذہبیت اور اور دہریت ایک منفی چیز کا نام ہے کی جسے خدا کا علم نہ دیا جائے وہ خالی الذہن نہیں ہو گا بلکہ وہ دہر یہ ہوگا کیونکہ جسے خدا تعالیٰ کا علم نہ ہو اُسی کو دہر یہ کہتے ہیں اور وہی لا مذہب کہلاتا ہے.غرض یہ صاف بات ہے کہ مذہب تو سکھانے سے ہی آئے گا بغیر سکھائے مذہب کس طرح آ سکتا ہے؟ مگر وہ کہتے ہیں نہ ہم مذہب کی تعلیم دیتے ہیں نہ تم مذہب کی تعلیم دو اور اسے خود بخود جو جی چاہے سیکھنے دو.اب جبکہ اُسے کوئی سکھانے والا ہی نہیں ہوگا تو وہ سیکھے گا کیا ؟ دہریہ نے بھلا کسی کو کیا سکھانا ہے.وہ تو نفی کا قائل ہے اور نفی کا قائل دوسرے کو کیا سکھا سکتا ہے.جو شخص کسی چیز کے متعلق کہتا ہے کہ ” ہے وہی اس چیز کے متعلق دلائل بھی دیا کرتا ہے مگر جو کہے کہ کچھ نہیں اُس نے دوسروں کو سکھانا ہی کیا ہے اور اسے ضرورت ہی کیا ہے کہ تعلیم دے مگر وہ اپنی طرف سے بڑے منصف مزاج بنتے ہیں اور کہتے ہیں نہ تم بچوں کو کچھ سکھاؤ اور نہ ہم سکھاتے ہیں.حالانکہ یہ بات صاف ہے کہ خدا ہے کا پتہ تو بچے کو اُسی وقت لگے گا جب اُسے بتایا جائے گا کہ خدا ہے مگر خُدا نہیں ، سکھانے کی ضرورت نہیں جب کان میں خدا ہے کی آواز نہ پڑے گی تو ذہن خود بخود خُد انہیں کا سبق سیکھ لے گا.پھر ہمارے مبلغ وہاں جاچکے ہیں اور ان کا عملی تجر بہ حکومت روس کے متعلق جو کچھ ہے وہ بھی نہایت ہی تلخ ہے.مولوی ظہور حسین صاحب جب وہاں تبلیغ کے لئے گئے تو حکومت روس انہیں سات سات دن کا فاقہ دیتی اور کہتی کھانا ہے تو سور کا گوشت کھاؤ ورنہ ہم تمہیں کچھ نہیں
خطبات محمود ۴۳۸ سال ۱۹۳۹ء دیں گے.پھر وہاں سرکاری طور پر تمام لوگوں کو اس قسم کے تھیٹر دکھائے جاتے ہیں جن میں کی مذہب پر تمسخر اڑایا جاتا اور اس کی نفرت دلوں میں پیدا کی جاتی ہے لینن جو اس دہریت اور الحاد کا بانی ہے اس کے نام پر تھیڑ میں ایک شخص حج بنتا ہے اور اس کے سامنے بطور ملزم ایک شخص پیش ہوتا ہے اور اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ تمام ملک میں فساد اور لڑائیاں کراتا پھرتا ہے.مہربانی کر کے آپ اس کا فیصلہ کریں.وہ پوچھتا ہے یہ کون شخص ہے؟ تو آگے سے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ خدا ہے جو سارے جہان کے فسادات کا ذمہ دار ہے.اس کے بعد خدا پر مقدمہ ہے اور آخر لیفن فیصلہ کرتا ہے کہ خدا کو (نعوذ باللہ ) پھانسی دے دیا جائے کیونکہ دُنیا میں جتنے فساد ہیں سب اسی کی وجہ سے ہیں.چنانچہ سب کے سامنے اس مردود کو جو اپنے آپ کو خدا کہتا ہے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے ( تمثیل کے طور پر نہ کہ حقیقتا ) اب بتاؤ جن قوموں کی یہ حالت ہو اور جو مذہب کی اس قدر دشمن ہوں ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ بیشک آجائیں ہمیں کوئی پرواہ کی نہیں کہاں کی دانشمندی ہے اور کیا کوئی بھی عقلمند اسے درست تسلیم کر سکتا ہے؟ اس اعتراض کی کی تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی کہہ دے میرا یہ مطلب نہیں تھا.بیشک تبلیغی آزادی ایک بہت اہم چیز ہے لیکن آپ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ اگر کسی اور حکومت نے مذہبی تبلیغ پر پابندیاں عائد کر دیں تو خدا تعالیٰ کا ہاتھ اسے سزا نہیں دے گا.ہمارا اللہ حافظ ہے.روس آجائے یا جرمنی جو بھی ہمارے مذہب میں مداخلت کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے مار ڈالے گا.پس آپ نے کیوں کی تو کل چھوڑا اور کیوں یہ سمجھ لیا کہ انگریزی حکومت کے جانے سے اسلام اور احمدیت کو بھی ضعف پہنچے گا.ہمارا خدا قادر ہے اور وہ ہر حالت میں امن قائم کر سکتا ہے.یہ اعتراض بظاہر معقول نظر آتا ہے لیکن سُنت اللہ کے یہ بھی بالکل خلاف ہے.سنت اللہ ہمیشہ دو طرح ظاہر ہوتی ہے ایک تو اس طرح کہ جس قوم کی مدد اور نصرت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہو اُس پر کوئی ایسی آفت آپڑے جن کا علاج انسانی ہاتھوں میں نہ ہوا ایسی حالت میں سنت اللہ یہی ہے کہ وہ خارق عادت طور پر اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے مثلاً بالکل ممکن ہے کہ کسی جگہ طاعون پڑے اور مخالفوں پر تباہی آجائے لیکن مومن محفوظ رہیں یا زلزلہ سے دُشمن تباہ ہو جائیں مگر مومن محفوظ رہیں لیکن بعض مصیبتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے دور کرنے میں انسان کا
خطبات محمود ۴۳۹ سال ۱۹۳۹ء بھی دخل ہوتا ہے.ایسی حالت میں سنت اللہ کہتی ہے کہ پہلے خود قُربانی کرو اور اپنی قربانی کو انتہا تک پہنچا دو پھر میں تمہاری مدد کو آؤں گا.پس اگر تدبیر کا ساتھ تعلق ہو تو اللہ تعالیٰ کی نصرت اسی وقت آیا کرتی ہے جب انسان تدبیر اختیار کر لیتا ہے.زیر بحث امر پہلی قسم میں سے نہیں بلکہ دوسری قسم میں سے ہے.کیونکہ یہ لڑائی ہے کوئی آسمانی آگ نہیں جو مومنوں سے ذرا پرے ہٹ کر جا گرے گی.لڑائی ہمیشہ ہاتھوں سے ہوتی ہے.مضبوط اور طاقتو رلوگ تو ہاتھ سے مدد کر تے ہی ہیں اگر کوئی بیمار ہے تو وہ اس رنگ میں مدد کر سکتا ہے کہ اور لوگوں کے دلوں میں جوش پیدا کرے یا علمی کام کر سکتا ہے.اسی طرح امیر لوگ جنگ میں روپیہ سے مدد دے سکتے ہیں اور جو غریب ہیں وہ محنت اور جفاکشی کے کام کر سکتے ہیں.بہر حال لڑائی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ تدبیر کا تعلق ہے چاہے وہ تدابیر مکمل ہوں یا نا مکمل.پس ایسے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی مدداسی وقت نازل ہوا کرتی ہے جب انسان تدابیر سے کام لے اور اگر وہ تدابیر والے کاموں میں تدبیر سے کام نہ لے اور محض تو کل کر کے بیٹھ رہے تو سنت اللہ نہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مددنا زل نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ہے کہ ایسے جھوٹے متوکل پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے.وہ کہتا ہے ہم نے تمہیں موقع دیا تھا کہ تم تدبیر سے کام لومگر تم نے تدابیر سے کام لینے کی بجائے جھوٹا تو کل کیا جس کی سزا یہ ہے کہ اب تمہیں الہی مدد نہیں پہنچے گی بلکہ تم ذلت کے عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے.پس اسی سنت اللہ کے ماتحت ہمارا ابھی ایسے موقع پر تو کل کر کے بیٹھ رہنا اور تدابیر سے کام نہ لینا کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا.پھر تعجب ہے ہم دین کے معاملہ میں تو تو کل ظاہر کرتے ہیں لیکن دُنیا کے معاملہ میں ہم کبھی تو گل نہیں کرتے.کبھی کسی کا عزیز بیمار ہو جائے تو تم یہ نہیں دیکھو گے کہ وہ خاموش ہو کر گھر میں بیٹھ رہے اور کہے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہوں وہ خود کبھی گھر میں نہیں بیٹھے گا بلکہ وہ فوراً دوائی کی لینے کے لئے کسی ہسپتال کی طرف دوڑے گا.وہ کبھی نہیں کہے گا کہ بھلا ملیر یا میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ یا ہیضہ مجھے کیا کر سکتا ہے؟ یا طاعون مجھے کیا نقصان پہنچا سکتی ہے؟ وہ فوراً علاج کرے گا اور ڈاکٹروں کی فیسوں پر روپیہ بھی خرچ کرے گا اور اس معاملہ میں تو کل سے کام لینے کی بجائے تدبیر سے کام لے گا.اسی طرح تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ کوئی لڑکا سکول میں داخل ہو تو نہ کی
خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۹ء کتابیں خریدے، نہ پڑھائی کرے اور یہی کہتا رہے کہ اللہ مجھے پاس کر دے گا.میں اس پر بچے طور پر تو کل کرتا ہوں یا کسی کو اپنے لئے مکان کی ضرورت ہوتو نہ اینٹیں مہیا کرے، نہ چھونا خریدے، نہ گارا بنوائے ، نہ مزدور اور مستری بلوائے اور کہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں یہ تر ڈ دکروں.اللہ تعالیٰ خود مکان بنا دے گا یا مثلاً کھانے کی ضرورت ہو تو بیوی کھانا تیار نہ کرے اور شام کو جب خاوند گھر آئے اور پوچھے کہ کھانا تیار ہے تو وہ کہے کہ مجھے کھانا تیار کرنے کی کیا تج ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہر جاندار کو روزی پہنچانا ہے.وہ خود ہمیں کھانا پہنچائے گا.اب کیا تم سمجھتے ہو کہ خاوند اس کی بات سُن کر یہ کہے گا کہ میری بیوی نے بڑا تو کل کیا.وہ یقیناً اس پر ناراضگی کا اظہار کرے گا بلکہ ایک غیر تعلیم یافتہ گنوار تو کچھ تعجب نہیں کہ دو چار سو نٹیاں بھی رسید کر دے مگر اس قسم کا تو کل ہم کو دین کے معاملہ میں فوراً یاد آ جاتا ہے.ہم اپنی روٹی کے لئے کی تو کل نہیں کرتے ، ہم اپنے مکان کے لئے تو کل نہیں کرتے ، ہم اپنی ملازمت کے لئے تو گل نہیں کرتے ، ہم اپنے دوسرے کاموں کے لئے تو کل نہیں کرتے بلکہ تمام وہ تدابیر اختیار کرتے کی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس عالم اسباب میں مقرر فرمائی ہیں.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موت اور حیات میرے اختیار میں ہے، ذلت اور عزت میرے ہاتھ میں ہے، رزق کی فراخی اور تنگی میرے ہاتھ میں ہے مگر ہم موت سے بچنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ، ہم حیات کے کی پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ، ہم ذلّت سے محفوظ رہنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ، ہم عزت اور ترقی کے حصول کے لئے بھی کوشش کرتے ہیں ، ہم رزق بڑھانے اور آمدنی کو وسیع کرنے کی کی بھی کوشش کرتے ہیں.گویا ہم وہ ساری تدابیر اختیار کرتے ہیں جن تدابیر کا اختیار کرنا دنیوی کاموں کی سرانجام دہی کے لئے ضروری ہے مگر جب دین کا سوال آجاتا ہے تو ہم نہایت بے ے تکلفی سے کہہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کرے گا ہمیں اس میں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں ایک دفعہ لاہور آ رہا تھا یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کا واقعہ ہے جس کمرہ میں میں سوار ہو ا اُسی کمرہ میں ایک مشہور پیر صاحب بھی سوار ہو گئے.انہیں مجھ سے کچھ کام تھا اور وہ مجھ سے ایک معاملہ میں مدد لینا چاہتے تھے.دورانِ گفتگو میں اُنہوں نے مجھے ممنون کرنے کی کے لئے ایک رومال نکالا جس میں کچھ میوہ بندھا ہوا تھا اور رومال کھول کر میرے سامنے بچھا دیا
خطبات محمود ۴۴۱ سال ۱۹۳۹ء اور کہا کھائیے.وہ مجھ سے کسی احمدی کے پاس ایک معاملہ میں سفارش کرانا چاہتے تھے مگر اس سے پہلے وہ پیر صاحب یہ فتویٰ بھی شائع کر چکے تھے کہ احمدیوں سے ملنا جلنا اور گفتگو کرنا بالکل حرام ہے اور اگر کوئی ان سے ملے جلے یا گفتگو کرے یا ان کے جلسہ میں شریک ہو تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جاتی ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں ایک جلسہ ہو ا جس میں آپ نے تقریر فرمائی تو راستہ میں بڑے بڑے مولوی ان پیر صاحب کے فتویٰ کے اشتہارات اُٹھائے لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ جو مرزا صاحب کے لیکچر میں جائے گا اُس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی، جو احمدیوں سے ملے گا اُس کی بیوی کو بھی طلاق ہو جائے گی ، جو ان سے مصافحہ کرے گا اُس کی بیوی کو بھی طلاق ہو جائے گی اور جو ان کے سلام کا جواب دے گا اُس کی بیوی کو بھی طلاق ہو جائے گی.مجھے یاد ہے جلسہ میں جب لوگ جاتے تو باہر بڑے بڑے مولوی کھڑے ہو کر لوگوں کو روکتے کہ اندرمت جانا ورنہ تمہارا نکاح فسخ ہو جائے گا.اس پر کئی جوش میں آ جاتے اور کہتے نکاح کا کیا ہے نکاح تو سوار و پیہ دے کر پھر پڑھا لیا جائے گا.مرزا صاحب نے روز روز نہیں آنا ہے.اس لئے ہم ان کا لیکچر ضرورسُنیں گے اور یہ کہہ کر وہ جلسہ میں شامل ہو جاتے تو انہی پیر صاحب نے جن کا یہ فتویٰ تھا کہ احمدیوں سے ملنے اور باتیں کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے باوجود یہ معلوم ہونے کے کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کا لڑکا ہوں رومال بچھا کر میرے سامنے میوہ رکھ دیا اور کہا کہ کھائیے.مجھے اس فتوی کی وجہ سے ان سے یوں بھی نفرت تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا سامان بھی پیدا کیا ہوا تھا اور وہ یہ کہ اس روز مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی.میوہ میں کشمش بھی تھی جس کا کھانا نزلہ کی حالت میں نزلہ کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے اس لئے میں نے معذرت کی اور کہا کہ آپ مجھے معاف رکھیں مجھے نزلہ کی شکایت ہے.میں میوہ نہیں کھا سکتا.پیر صاحب فرمانے لگے کہ نہیں کچھ نہیں ہوتا آپ کھائیں تو سہی.میں نے پھر انکار کیا کہ مجھے اس حالت میں ذراسی بد پر ہیزی سے بھی بہت تکلیف ہو جاتی ہے.اُس پر وہ کہنے لگے جی یہ تو باتیں ہی ہیں کرنا تو سب اللہ نے ہوتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو اللہ کرتا ہے.میں نے کہا پیر صاحب آپ نے یہ بات بہت بعد میں بتائی اگر آپ لاہور میں ہی بتا دیتے تو آپ اور میں دونوں ایک نقصان سے بچ جاتے.
خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۳۹ء کہنے لگے وہ کیا ؟ میں نے کہا غلطی یہ ہوئی کہ آپ نے بھی ریل کا ٹکٹ لے لیا اور میں نے بھی.وہ امرتسر آ رہے تھے اور میں بٹالہ آ رہا تھا.) اگر اس مسئلہ کا پہلے علم ہوتا تو نہ ہم تانگے پر کرایہ خرچ کرتے نہ ریل کا ٹکٹ مول لیتے.جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہنچانا ہی تھا تو وہ آپ کو امرتسر پہنچا دیتا اور مجھے قادیان پہنچا دیتا.ہمیں ٹکٹ پر روپیہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ وہ کہنے لگے تدبیر بھی تو ہوتی ہے.میں نے کہا بس اسی اسباب کی رعایت کی وجہ سے مجھے بھی میوہ کھانے کی میں عذر تھا تو جب انسان کا ذاتی سوال ہو اُس وقت اُسے ہزاروں قسم کی تدبیریں یاد آ جاتی ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کے دین کا معاملہ ہو تو انسان نہایت بے تکلفی سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے تدبیر سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ خود کرے گا.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ دین کا کام اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے اور ہمارے کام بھی دراصل وہی کرتا ہے ہم ہزاروں کام جو کرتے اور پھر کامیاب ہو جاتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا ہی نتیجہ ہے.ہماری کسی کوشش کا خالصتاً اس میں دخل نہیں ورنہ ہمیں ہر کام میں کامیابی ہو لیکن کامیابی ہر بات میں نہیں ہوتی.کسی بات میں ہو جاتی ہے اور کسی میں نہیں ہوتی.ہزاروں لڑکے محنت کر کے پاس ہو جاتے ہیں اور ہزاروں لڑ کے محنت کرنے کے باوجود فیل ہو جاتے ہیں.ہزاروں کوشش کرتے ہیں اور انہیں عزت مل جاتی ہے اور ہزاروں عزت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ پہلے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتے ہیں.تو تمام کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تدبیر کا تعلق ہو وہاں اگر مومن تدبیر نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا نازل ہوتی ہے اور وہ اس کی گرفت اور عذاب میں آجاتا ہے.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک نہایت واضح مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی پیش کی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ کنعان کی سرزمین کا اسے مالک بنا دیا جائے گا جیسے ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں دُنیا کا حکمران اور بادشاہ بنائے گا مگر اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ جاؤ اور جنگ کرو.اس جنگ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی تمہیں فتح دے دے گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو خدا تعالیٰ کا یہ حکم سنایا تو اُنہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ وعدہ ہے کہ وہ ہمیں کنعان کی سرزمین دے گا.وہ اپنے ا
خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۹ء مدے کو آپ پورا کرے ہم اپنی جانوں کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں؟ موسیٰ اور اس کا خدا دونوں جا کر دشمنوں سے لڑیں اور جب فتح ہو جائے تو ہمیں آ کر بتا دیا جائے ہم کنعان کی سرزمین میں داخل ہو جائیں گے.پھر جانتے ہو اس کا کیا نتیجہ ہوا ؟ باوجود وعدہ کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے وہ زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی اور ان پر ایسی ذلت نازل کی کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے یہ اعتراض کیا تھا ایک ایک کر کے جنگلوں میں بھٹک کر مر گئے اور پھر ان کی نسلوں کے ذریعہ یہ الہی وعدہ پورا ہوا.تو جہاں تدبیر کا تعلق ہو وہاں باوجود وعدے کے، باوجود الہی فیصلہ کے، باوجود الہی مشیت اور ارادہ کے اس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت نازل نہیں ہوتی جب تک تمام کی تمام قوم قربانی کے لئے تیار نہیں ہو جاتی اور اگر کوئی قربانی کے لئے تیار نہ ہو تو با وجود وعدوں کے وہ انعامات اس قوم کو نہیں دیئے جاتے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ بدر کے لئے نکلے تو گل تین سو تیرہ صحابہ آپ کے ساتھ تھے.وہ بھی ایسے جو فنونِ جنگ سے نا آشنا اور ساز وسامان سے تہی دست تھے.صحابہ کا پہلے یہ خیال تھا کہ ہماری ایک تجارتی قافلہ سے مڈ بھیڑ ہو گی مگر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ تجارتی قافلہ سے نہیں بلکہ ملکہ کی مسلح فوج سے مسلمانوں کا مقابلہ ہو گا.اُن سپاہیوں سے مقابلہ ہو گا جو آزمودہ کار ہیں اور ساز وسامان سے آراستہ و پیراستہ ہیں.یہ چونکہ پہلی لڑائی تھی اس لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ ہمارا مکہ والوں سے مقابلہ ہو گا.اس لئے میں تم سے مشورہ لینا چاہتا ہوں حالات ایسے ہیں کہ ہمیں بہت زیادہ خطرات کا اندیشہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ لوگوں سے مشورہ لے لیا جائے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مشورہ لینے کی یہ تحریک صحابہ کے ایمانوں کو ظاہر کرنے کے لئے ہی کی ہو.بہر حال جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات پیش کی تو یکے بعد دیگرے کی مہاجرین اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! آپ ہم سے کیا مشورہ پوچھتے ہیں؟ آپ ہمیں حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں مگر جب ایک مہاجر اپنی رائے کا اظہار کر کے بیٹھ جاتا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرماتے اے لوگو !
خطبات محمود ۴۴۴ سال ۱۹۳۹ء مجھے مشورہ دو.اس پر پھر کوئی اور مہاجر کھڑا ہوتا اور کہتا یا رَسُول اللہ ! مشورہ کیا پوچھتے ہیں ہمیں حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے حاضر ہیں.جب وہ بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرماتے.اے لوگو! مجھے مشورہ دو.آخر جب بار بار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فقرہ کو دوہرایا تو انصار سمجھ گئے کہ شائد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ ہم اپنی رائے کا کی اظہار کریں.چنانچہ ایک انصاری کھڑا ہوا اور اُس نے کہا یا رَسُول اللہ ! آپ کی مراد شاید ہم کی انصار سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے.میری مراد تمہی سے ہے.اس نے کہا یا رَسُول الله ! شاید آپ کا اشارہ اس معاہدہ کی طرف ہے جو ہم نے آپ کے مدینہ آنے پر کیا تھا؟ آپ نے کی فرمایا ہاں.بات دراصل یہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو انصار سے آپ کا یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو لڑائی میں انصار مہاجرین کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر کسی دشمن کا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقابلہ کرنا ہوا تو انصار اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد می کریں.چونکہ اس موقع پر مدینہ سے باہر جنگ ہو رہی تھی اس لئے آپ نے چاہا کہ انصار کو اُن کا معاہدہ یاد دلا دیا جائے اور پھر اس کے بعد وہ جو مشورہ چاہیں دیں.پس جب اُس انصاری نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ کی مراد اس معاہدہ سے ہے جو ہم نے آپ کے مدینہ آنے پر کیا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا یا رسول اللہ ! ہمیں اُس وقت آپ کی حیثیت کا علم کی نہیں تھا اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آپ کس پائے کے انسان ہیں.اس لئے ہم نے لاعلمی میں کی ایک ایسا معاہدہ کر لیا جس میں آپ کی شان اور بزرگی کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا گیا مگر يَا رَسُول اللہ ! اب تو ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہیں ، سامنے سمندر تھا.( دو تین منزل کے فاصلہ پر یہ نہیں کہ نظر آتا تھا ) اُس کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگا یا رَسُول اللہ ! اگر آپ حکم دیں کہ ہم اس بے کنا رسمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں تو ہم بغیر ہچکچاہٹ اور بغیر ایک ذرہ بھر تر ڈر کے اپنے گھوڑے اس سمندر میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں.پھر اس نے کہا.یا رَسُول اللہ ! اگر جنگ ہوئی تو ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا اور کوئی دشمن اُس وقت تک آپ کے پاس نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ
خطبات محمود ۴۴۵ سال ۱۹۳۹ء ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے سے اب دیکھو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جب خدا کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا اور کفار پر ہمیں غلبہ عطا کرے گا تو ہماری جانوں کو کیوں خطرہ میں ڈالا جاتا ہے بلکہ اُنہوں نے ہر ممکن قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.وہ اس اعتراض کو جانتے تھے جو موسیٰ کی قوم نے کیا اور غالبا اس انصاری نے اس خیال سے کہ ممکن ہے ہم میں سے بھی بعض کمزور ایمان والے یہ سمجھیں کہ جب خدا کا ہم سے فتح کا وعدہ ہے تو ہم سے جانی قر بانی کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے واقعہ کو ہی دُہرایا اور کہا يَا رَسُول اللہ ! ہم موسیٰ کی قوم کی طرح نہیں جس نے حضرت موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ ما ذهب انت وربك فَقَاتِلا انا هنا قاعِدُون سے جاتو اور تیرا خدا دشمن سے لڑتے پھریں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور کسی دشمن کو اس وقت تک آپ کے پاس پہنچنے نہیں دیں گے جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.اب صحابہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم کیوں لڑیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس قسم کے وعدے تدبیر کامل کے بعد پورے ہؤا کر تے ہیں.پھر اُسی لڑائی میں باوجود کامیابی کے وعدے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کی اور اتنی دُعا کی کہ آخر آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ اے خدا! مسلمانوں کی تھوڑی سی جماعت اس وقت دشمن کی ایک کثیر جماعت کے مقابلہ میں ہے.اے اللہ ! اگر یہ لوگ بھی مارے گئے تو پھر دُنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو اُس وقت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہے تھے اُنہوں نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ فقرہ سُنا تو انہیں چبھا اور اُنہوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! کیا خدا کا ہم سے یہ وعدہ نہیں کہ ہم فتح پائیں گے؟ آپ نے فرمایا بے شک خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا مگر خدا غنی بھی ہے اور بندے کا پھر بھی یہی کام ہے کہ وہ دُعا میں لگا رہے ہے پس کی باوجود کامیابی کے وعدہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تدبیریں بھی کیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعائیں بھی کیں اور اس سوز ، اس درد اور اِس گھبراہٹ کے ساتھ کیں کہ آ.کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اے خدا! اگر آج تیری یہ جماعت ماری گئی تو فَلَنْ تُعْبَدَ
خطبات محمود ۴۴۶ سال ۱۹۳۹ء فِي الْاَرْضِ اَبَدًا ے زمین میں تیری کبھی پرستش نہیں ہوگی.تو کیا ہمارے ساتھ جو وعدے ہیں وہ ان وعدوں سے زیادہ اہم ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے گئے تھے.زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ انہی وعدوں کا یہ تسلسل ہے مگر ان وعدوں کے متعلق ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بڑی بڑی قربانیاں کیں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مدینہ اگر ابو جہل کے قبضہ میں آ گیا تو پھر بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں.اللہ ہماری حفاظت کرے گا.باقی رہا یہ سوال کہ میں نے کہا ہے اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو اسلام کی اشاعت کے منافی ہوں تو میں ایسے حالات میں موت کو زیادہ پسند کرتا ہوں.اس کے متعلق جو معترض کو حبہ ہو ا ہے تو شاید اُس کی یہ وجہ ہے کہ اس نے خیال کیا ہے کہ میرا اس سے یہ مطلب ہے کہ میں اس موقع پر خود کشی کرلوں گا اگر یہی محبہ کی وجہ ہے تو یہ وسوسہ صرف معترض کی دماغی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے.ہر شخص کے فقرہ کا مفہوم اس کے عقیدہ کے مطابق ہوتا ہے.موت کے ایک معنے بے شک خود کشی کے ہوتے ہیں مگر جب ایک مسلمان کے نزدیک خود کشی کرنا بالکل نا جائز ہے تو کی جب وہ یہ کہے گا کہ میں فلاں بات سے موت زیادہ پسند کرتا ہوں تو لازماً اس موت کا خودکشی کے علاوہ کوئی اور مفہوم ہو گا اور اس کے معنے وہی لئے جائیں گے جو قائل کے نزدیک جائز اور درست ہوں گے.دوسرے معنے موت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم ایسے حالات میں دُعا کریں گے کہ یا الہی ہمیں مار دے.مگر یہ بھی درست نہیں کیونکہ جس طرح خود کشی کرنا حرام ہے اُسی طرح اسلام میں موت کی دُعا کرنا بھی منع ہے.تیسرے معنے اس قسم کے فقرے کے یہ ہو سکتے ہیں کہ ایسے معاملات کے پیدا ہونے پر ہم اپنے آپ کو موت کے خطرہ میں ڈال دیں گے اور یہی معنے اسلام میں جائز اور درست ہیں.پس اُس نو جوان کو کیوں یہ وہم پیدا ہوا کہ میں خود کشی کا ارادہ رکھتا ہوں یا ایسے حالات کے پیدا کی ہونے پر میں دُعا کروں گا کہ خدا مجھے مارڈالے.مومن کا کام یہ ہے کہ جب اس قسم کے حالات کی پیدا ہو جائیں وہ عواقب کا لحاظ کئے بغیر مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے اور پھر خدا کا حکم چاہے تو ی اسے موت دے دے اور چاہے تو اسے فتح دے.بہر حال اپنی طرف سے وہ موت کے خطرہ
خطبات محمود ۴۴۷ سال ۱۹۳۹ء میں کود پڑے.پس جب میں نے کہا کہ میں اپنے لئے اور اپنی جماعت کے دوستوں کے لئے ان حالات سے موت زیادہ پسند کرتا ہوں تو اس کے یہی معنے تھے کہ ہم اس وقت اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیں گے جس مقام پر کھڑا ہونا دُنیا کے نزدیک موت ہوا اور وہ یقین کرے کہ اب ہم زندہ نہیں رہ سکتے لیکن یاد رکھو جب کوئی قوم موت کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو وہی وقت ہوتا ہے جب موت اس پر حرام کر دی جاتی ہے.میں نے تو اس کی مثال بھی دی تھی اور کہا تھا کی کہ ایک قوم تھی جسے خدا نے کہا مُوتُوا لے یعنی مر جاؤ اور جب وہ موت کے لئے تیار ہوگئی تو کی اللہ تعالیٰ نے اُسے زندہ کر دیا.اس موت کے یہ معنے نہیں کہ ان لوگوں نے خود کشی کر لی تھی یا تج موت کے لئے اُنہوں نے دُعا مانگنی شروع کر دی تھی بلکہ یہ معنے ہیں کہ وہ نڈر ہو کر اور عواقب سے بے پرواہ ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کی مدد اور دشمن مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اُنہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ہم مر جائیں گے مگر خدا تعالیٰ کے دین کو زندہ کر کے رہیں گے اور دراصل یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لولے لنگڑے، بہرے کانے ، چھوٹے بڑے اور مضبوط اور کمزور سب کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوں.عام حالات میں صرف اتنا کافی ہوتا ہے کہ قوم کے مضبوط نوجوان حفاظت کے لئے آگے بڑھیں لیکن اگر ایسی قوم حکمران ہو جائے جو جبری طور پر دہریت اور کفر والحاد کو پھیلائے اور مذہب کی اشاعت پر پابندیاں عائد کر دے اور تبلیغ کو روک دے تو اس وقت ہر شخص کا خواہ وہ لولا ہے یا لنگڑا ، اندھا ہے یا کا نا، مضبوط ہے یا کمزور، بیمار ہے یا تندرست فرض ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو قربان کر دے اور مقابلہ کے لئے اُٹھ کھڑا ہو.پھر اگر اس کے لئے موت مقدر ہے تو مر جائے اور اگر فتح مقدر ہے تو فتح پا کر گھر لوٹے.مثلاً موجودہ جنگ ہی ہے اگر اس جنگ کے متعلق وہی حالات ظاہر ہوں جن کا مجھے خطرہ ہے تو ایسی صورت میں یہ کوئی سوال نہیں ہوگا کہ انگریز کیا کہتے ہیں؟ اگر انگریز ایسے دشمنوں سے صلح بھی کر لیں تو مومنوں کا فرض ہوگا کہ وہ جنگ جاری رکھیں یا اس ملک کی کو چھوڑ دیں جس میں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہوں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یقینی بات ہے کہ چونکہ احمدیت کی فتح کے متعلق خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں اس لئے اگر قوم کی قوم تباہ اور ہلاک ہونے کے لئے تیار ہو جائے تو اس کے بعد خدا یہ ارادہ کرے گا کہ میں تم کو مر نے نہیں دوں گا.
خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۹ء موت تبھی آتی ہے جب خدا کسی کے لئے موت پسند کرتا ہے اور ہمارا خود اپنے لئے موت کو کی پسند کرنا تو موت کا نہیں بلکہ زندگی کا پیش خیمہ ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کا کلام بتا تا ہے کہ اگر تم اپنے لئے موت پسند کرو تو میں تمہارے لئے حیات پسند کروں گا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اسلام پر کوئی ایسا نازک وقت آ جائے جب اس کی تبلیغ کو روک دیا جائے ، اس کی اشاعت کو بند کر دیا جائے اور اس کو پھیلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جائے اور اسلام کی بجائے دہریت کی اور کفر و الحاد کو فروغ دیا جائے تو میں یقیناً اپنے لئے ، اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور اپنی تمام جماعت کے افراد کے لئے موت زیادہ پسند کروں گا بلکہ میں اس سے بھی زیادہ الفاظ کہتا مگر شاید ان لوگوں کے نزدیک جن کے دلوں میں کامل ایمان نہیں وہ مبالغہ میں داخل سمجھے جائیں لیکن یا درکھو ہمیشہ ایسے موقع پر ہی جب مومن اپنے لئے موت کا فیصلہ کر لیتے ہیں خدا تعالیٰ ان پر موت کو حرام کر دیتا ہے.افراد بے شک مارے جاسکتے ہیں ، زید اور بکر بے شک ہلاک کی ہو سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم کبھی نہیں مر سکتی.ایسی قوم کو خدا ہمیشہ زندہ کیا کرتا ہے اور (الفضل ۲۱ /اکتوبر ۱۹۳۹ء ) 66 اس کے دشمن کو ہی مارا کرتا ہے.“ ل الصحيح البخارى كتاب الجهاد و السير باب من حَبَسَهُ العذر عن الغَزو السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۱۶۰ مطبوعه ۱۹۳۵ء المائده : ۲۵ مستدرک الحاکم کتاب معرفة الصحابة رضى الله عنهم باب مناقب مقداد بن عمر الكندى دار الكتب العلمية بيروت لبنان الطبعة الاولى ١٩٩٠ء ۵ تفسیر طبری زیر آیت اِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبكم فاستجاب لكُم جز ۱۳ صفحه ۴۱۰ مطبوع ۲۰۰۰ء الناشر مؤسسة الرسالة البقره : ۲۴۴
خطبات محمود ۴۴۹ ۲۹ سال ۱۹۳۹ء روزوں کے متعلق نہ بے جا تشد داختیار کیا جائے اور نہ بے جانرمی.(فرموده ۲۰ /اکتوبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چھ دن سے وہ مہینہ شروع ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے کہ شهرُ رَمَضَانَ الَّذِي أنزل فيه القرآن لا یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اُتارا ، یا جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اُتارا.جیسا کہ میں کئی کی دفعہ بیان کر چُکا ہوں تاریخ سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائے نزول قرآن بھی رمضان کے مہینہ میں ہوا اور ہر رمضان میں جتنا اس وقت تک نازل ہو چُکا ہوتا تھا جبرائیل دوبارہ نازل ہو کر اُس کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دُہراتے تھے.ہے اس روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سارا قرآن ہی رمضان میں نازل ہوا بلکہ کئی حصے متعدد بار نازل ہوئے یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی مبعوث ہونے کے بعد اگر تئیس رمضان آئے تو بعض آیات ایسی تھیں جو تئیس بار نازل ہوئیں، بعض بائیس بار نازل ہوئیں، بعض اکیس بار اور بعض ہیں بار.اسی طرح جو آیات آخری سال نازل ہوئیں وہ دو دفعہ دہرائی گئیں کیونکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ کی حیات طیبہ کی
خطبات محمود ۴۵۰ سال ۱۹۳۹ء کے آخری سال میں جبرائیل نے دو دفعہ قرآن کریم آپ کے ساتھ دوہرایا.یہ بات قرآنی کے رُو سے ثابت ہے کہ ملائکہ جو کام کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جبرائیل کا رمضان میں آپ کے ساتھ قرآن کریم کا تکرار نزول نہیں کہلا سکتا.کیونکہ فرشتہ اُترتا ہی تب ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو.پس یہ کہنا صحیح نہیں کہ جبرائیل خود بخود تکرار کے لئے آتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے آتے تھے اور اسلامی زبان میں اس کے لئے نزول کی اصطلاح ہی استعمال ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ایام میں تلاوت قرآن کریم کو ضروری قرار دیا ہے اور صحابہ کرام ، تابعین اور تیرہ صدیوں کے مسلمان برابران ایام میں تلاوت قرآن کریم میں زیادتی کرتے چلے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں بھی ہم نے رمضان میں درس کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے تا لوگ قرآن کریم کا ترجمہ اور معمولی تفسیر سُن سکیں.اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تتبع میں قریباً تمام مساجد میں تراویح کا بھی انتظام کیا جاتا ہے.مسجدوں میں لوگ جمع ہو کر اس طرح قرآن کریم سنتے ہیں پھر بہت سے لوگ گھروں میں قرآن کریم پڑھ لیتے ہیں اور تہجد پڑھتے ہیں.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستور تھا.جب اسلام بہت پھیل گیا اور کئی کمزور لوگ بھی داخل ہونے لگے تو حضرت عمر نے سمجھا کہ بہت سے لوگ تہجد نہیں پڑھ سکیں گے اس لئے شروع وقت میں تراویح کا طریق اختیار کیا کی تا مسجدوں میں قرآن کریم سُن سکیں.گویا یہ طریق صحابہ کا جاری کردہ ہے اور تہجد کا طریق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے.جو لوگ تہجد پڑھ سکتے ہوں اور گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کر سکیں ، انہیں شروع وقت میں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تہجد نہیں پڑھ سکتے یا قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر سکتے یا وہ ان پڑھ ہیں یا پڑھے ہوئے تو ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے ان کے لئے یہ صورت ہے کہ وہ تراویح پڑھیں اور مسجد میں قرآن سُن لیں خواہ کی اول وقت میں یا آخری وقت میں.اسی طرح وہ لوگ بھی اس طریق سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ گھر پر وہ با قاعدگی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے لیکن مسجد میں ناغہ کرنامشکل ہوگا.ایک روز جانے کے بعد دوسرے روز ناغہ ہو گا تو دوست احباب دریافت کریں گے کہ کیوں نہیں آئے؟
خطبات محمود ۴۵۱ سال ۱۹۳۹ء اس طرح نفس شرمندگی محسوس کرے گا اور وہ ناغہ سے بچ جائیں گے.انہیں بھی تراویح پڑھنی چاہیئے اس کے علاوہ رمضان میں روزہ بھی نہایت اہم عبادت ہے.اوّل تو سب کی سب عبادات اپنی اپنی جگہ پر نہایت اہم ہیں لیکن اگر عبادات کی کوئی ترتیب مقرر کی جاسکتی ہے تو روزہ کا درجہ تیسرا ہے یعنی نماز، زکوۃ اور روزہ.گو ہمارے ملک میں اس کی ترتیب اور ہے یعنی لوگ کہا کرتے ہیں نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ لیکن شریعت کے احکام سے جہاں تک ثابت ہوتا ہے صحیح ترتیب نماز، زکوۃ، روزہ اور حج ہے.ہندوستان کے مسلمان چونکہ زکوۃ دینے میں سُست ہیں یا مالی قربانی کا مادہ اُن میں کم ہے اس لئے اُنہوں نے اسے چوتھے نمبر پر رکھ لیا ہے.بہر حال روزہ اہم عبادتوں میں سے ہے اور اُن میں سے جن کو قرآن کریم نے خاص طور پر بیان کیا ہے اور متعدد بار اس پر زور دیا ہے مسلمانوں میں اس وقت یہ عیب پیدا ہو گیا ہے کہ وہ می اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں یا ایک سرے پر کھڑے ہوں گے اور یا دوسرے سرے پر روزہ کے متعلق بھی ان کا یہی حال ہے یا تو وہ لوگ ہیں جو اس کے ایسے پابند ہیں کہ سفر اور بیماری میں بھی کی اسے ضروری سمجھتے ہیں اور بعض تو اس میں اس قدر شدت اختیار کرتے ہیں کہ بچوں پر بھی جن پر روزے واجب نہیں ہیں سختی کرتے ہیں.یعنی اگر بچے روزہ رکھ لیں تو توڑنے نہیں دیتے.ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ ۷، ۷، ۸، ۸ سال کے بچوں نے روزے رکھے تو ماں باپ نے ان کی حفاظت کی کہ توڑ نہ دیں اور روزہ رکھنے پر ان کو مجبور کیا حتی کہ وہ مر گئے.بیشک روزہ کا ادب واحترام ان کے دلوں میں پیدا کرنا ضروری ہے اور اس لئے ان کو بتا نا چاہئے کہ اگر سارا دن نباہ نہیں سکتے تو رکھو ہی نہیں لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھر توڑیں نہیں خواہ کر نے لگیں نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.پس گو یہ ضروری ہے کہ ان کے اندر ادب پیدا کیا جائے اور اس غرض سے ان کو سمجھایا جائے کہ اسی صورت میں روزہ رکھو کہ اسے نباہ سکولیکن رکھنے کے بعد اگر نہ نباہ سکیں تو یہ جبر کہ ضرور پورا کریں ظلم ہے.تو ایک طرف تو کی مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قد رسختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرورت کے ہی قائل نہیں.بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مجھے یاد ہے میں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ
خطبات محمود ۴۵۲ سال ۱۹۳۹ء ایک شخص لڑکی یا مصر سے یہاں آیا جو تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے.اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہئے گویا پہلے وہ یہ فرض کر لیتا کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ اور ہے.پھر یہ کہ اگر آپ اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی موجودہ شکل میں تبدیلی کر دیتے اور پھر یہ نتیجہ نکالتا کہ اس وجہ سے ہمیں بھی اب اس میں تبدیلی کر لینی چاہئے اور اس کی صورت وہ یہ تجویز کرتا تھا کہ صبح کے وقت ناشتہ کر لیا جائے پھر بعد عصر دو چار بسکٹ اور کچھ چائے پی لی جائے اور روزہ کے معنی یہ ہوں کہ زیادہ روٹی نہ کھائی جائے.اسی طرح وہ کہتا تھا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج ہوتے تو نماز کی صورت بھی بدل دیتے.اُس زمانہ میں لوگ تہ بند باندھتے تھے اور نہ بند باندھ کر خواہ اُلٹے لیٹو یا سید ھے ، خواہ اکڑوں بیٹھو خواہ گھٹنوں کے بل کوئی حرج نہیں لیکن اب پتلونوں کا زمانہ ہے.اب تو یہی کافی ہے کہ کرسیوں پر بیٹھ کر سر جھکا لیا جائے.اگر اسی طرح کی نماز آج پڑھی جائے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پڑھی جاتی تھی تو پتلونوں میں شکن پڑ جائیں گی اور ان کی استری خراب ہو جائے.تو ایک طبقہ اس طرف چلا گیا ہے اور دوسرا اس طرف.لاہور وغیرہ شہروں میں میں نے سُنا ہے ( دیکھا نہیں اور اگر دیکھا ہوتو یاد نہیں ) کہ رمضان میں غیر مسلم جو دعوتیں وغیرہ کرتے ہیں اُن میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ افطاری کا انتظام بھی ہوتا ہے.بعض مسلمان تو خواہ روزہ نہ بھی ہو شرم کی وجہ سے پہلے یونہی بیٹھے رہتے ہیں اور پھر افطاری کی میں شریک ہوتے ہیں مگر کئی پہلے وہاں کھا کر پھر افطاری میں جا شامل ہوتے ہیں اور اس طرح کی گویا عصر کے بعد کھولا ہوا روزہ دوبارہ کھولتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا دوہرا فائدہ اُٹھاتے ہیں.عصر کے بعد تو ناشتہ کرتے ہیں اور پھر افطاری میں شامل ہوتے ہیں.تو مسلمانوں میں آج ان دونوں قسموں کے لوگ ہیں حالانکہ اسلام وسطی مذہب ہے.اس نے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ جائز نہیں رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت یہی ہے مگر کی روزہ اور نماز قصر کرنے کے احکام میں فرق ہے.نماز کے متعلق تو یہ حکم ہے کہ اگر کسی نے چودہ کی دن تک رہنا ہو تو نماز پوری پڑھے ورنہ قصر کرے لیکن روزہ کے متعلق یہ پابندی نہیں.چنانچہ آپ نے قادیان میں آنے والوں کو اجازت دی کہ یہاں روزہ رکھ لیں بشرطیکہ وہ دن سفر میں
خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۹ء نہ ہو اس کی اور بھی کئی حکمتیں ہیں جو میں کئی دفعہ بیان کر چُکا ہوں مثلاً یہ کہ قادیان کو آپ نے ایک روحانی گھر قرار دے کر اس میں روزہ کی اجازت دے دی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزہ و نماز کے سفر میں فرق کیا ہے.بعض ان لوگوں کے روزے جو باہر سے عصر کے بعد یہاں پہنچے آپ نے تڑوا دیئے اور فرمایا کہ سفر کا روزہ قبول نہیں ہوتا.یہ تو محض بھوکا پیاسا رہنے والی بات ہے لیکن یہاں پہنچ کر دوسرے دن رکھنے کی آپ نے اجازت دی ہے اور اس طرح دونوں سفروں میں امتیاز ہے گو ایک رنگ میں مشابہت بھی ہے اور وہ اس طرح کہ نماز کی جماعت سفر میں بھی ضروری ہے اور اس لئے سفر کی رعایت کو استعمال کرنے کا انسان کو بہت کم موقع ملتا ہے مثلاً جو لوگ قادیان آتے ہیں ان میں کوئی معذور یا بد بخت ہی ہوسکتا ہے جو مسجد میں نہ آئے اور مہمان خانہ میں علیحدہ نماز پڑھ لے.جو شخص یہاں آئے گا وہ اگر معذور نہ ہوگا تو مسجد میں ہی آئے گا اور اس طرح اسے قصر کا بہت ہی شاذ موقع مل سکے گا یا اگر باہر کسی جگہ جائے گا تو وہاں بھی عام طور پر جماعتیں ہیں اس لئے وہاں بھی مسجد میں نماز کے لئے جائے گا اور وہ اگر مومنانہ طریق اختیار کرے تو باجماعت نماز پڑھنے کی کوشش کرے گا اور چونکہ مقامی امام ہی نماز کرائے گا اس لئے قصر سے فائدہ اُٹھانے کا بہت ہی کم موقع ملے گا.لیکن روزہ انفرادی فعل ہے.اگر اس میں بھی وہی شرط رکھی جاتی تو بہت سے لوگ روزوں سے محروم ہو جاتے (چنانچہ اس بناء پر میرا مدت سے یہ خیال ہے کہ روزہ کا سفر جبکہ ایک جگہ انسان کا قیام ہو ، تین دن کا ہے.برخلاف نماز کے جس کے لئے سفر کی مدت چودہ دن مقرر ہے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قیام کے دن قادیان میں روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص یہاں ایک دو دن ٹھہرے ضرور روزہ رکھے بلکہ آپ نے صرف روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے.غرض روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشد دنا جائز ہے، حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ نہ تو اتنی سختی کریں کہ جان چلی جائے اور نہ اتنی نرمی اختیار کریں کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو
خطبات محمود ۴۵۴ سال ۱۹۳۹ء.بہانوں سے ٹال لیا جائے.کئی لوگ کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے.بعض کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے.بعض کہتے ہیں ضعف ہو جاتا ہے حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے.جب تک پیچش نہ ہو روزہ رکھنا ضروری ہے.جب پیچش ہو جائے پھر بے شک چھوڑ دے.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے.یہ بھی کوئی دلیل نہیں روزہ چھوڑنے کی.صرف اُس کی شعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں؟ میں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی.اُسی وقت سے میری صحت خراب ہے.کئی دوست کہتے ہیں کہ شائد ہی کبھی ” الفضل میں یہ دیکھنا نصیب ہوتا ہو کہ آپ کی صحت اچھی ہے.میں کہتا ہوں کہ آپ کی خوشی کے لئے میں کس طرح اپنی صحت کو درست کر سکتا ہوں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ کام لئے ہی جاتا ہے.اگر ایسے ضعف کو بہانہ بنانا جائز ہو تو پھر میرے لئے تو شائد ساری عمر میں ایک روزہ بھی رکھنے کا موقع نہ تھا.ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کا بہانہ بنایا جاتا ہے اُسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھایا جاتا ہے.یہ تو ایسی بات ہے کہ قرآن کریم میں لکھا ہے نماز بدی سے روکتی ہے.اس پر کوئی شخص کہے کہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی سے رُک جاتا ہوں.پس روزہ کی تو غرض ہی یہ ہے کہ کمزوری کی برداشت کی عادت پیدا ہو.ورنہ یوں تو کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ میں اس لئے روزہ نہیں رکھتا کہ مجھے بھوک اور پیاس لگ جاتی ہے.حالانکہ اسی قسم کی تکالیف کی برداشت کی عادت پیدا کرنے کے لئے ہی تو روزہ مقرر کیا گیا ہے.جو شخص روزہ رکھے کیا وہ چاہتا ہے کہ فرشتے سارا دن اُس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں؟ جب بھی کوئی روزہ رکھے گا.بھوک، پیاس ضرور برداشت کرنی پڑے گی اور کچھ ضعف بھی ضرور ہو گا اور اس کمزوری اور ضعف کی عادت پیدا کرنے کے لئے روزہ رکھایا جاتا ہے اور بھی حکمتیں کی اس کی ہیں مگر یہ حکمت بھی ضرور مد نظر ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ جو لوگ بھو کے اور پیا سے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ان کی کیا حالت ہوتی ہے اور اس طرح اسے ان کی مدد اور اعانت
خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۹ء کی طرف توجہ ہو.روزہ اس لئے نہیں رکھایا جاتا کہ انسان کو کوئی تکلیف ہی نہ ہو اور کوئی ضعف وہ محسوس نہ کرے.تو ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑ نا ہرگز جائز نہیں سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہو چکا ہو یا ڈاکٹر اس کے ضعف کو بھی بیماری قرار دے.اس صورت میں بے شک روزہ نہیں رکھنا چاہئے.ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے.بعض لوگ بالکل ہٹے کٹے ،موٹے تازے ہوتے ہیں بخوبی چلتے پھرتے ہیں لیکن دراصل وہ بیمار کی ہوتے ہیں اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا.بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو وہ کی بظاہر تو موٹے تازے نظر آتے ہیں لیکن بیٹھے بیٹھے اُن کی جان نکل جاتی ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شور کی آواز کان میں پڑی اور ان کی جان نکل گئی بلکہ یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے مریض کے پاس کوئی تھالی فرش پر گری یا اور ایسا ہی کوئی شور ہو ا تو اس کی جان نکل گئی.ایسے می لوگوں کے لئے بھوک پیاس کا برداشت کر ناسخت خطر ناک ہوتا ہے.ہے.پس کمزوری یا ضعف کا فیصلہ بظاہر دیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈاکٹر کیا کہتا مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانتداری سے کام نہیں کرتے.ذرا کوئی شخص دو چار بار مجھک کر سلام کر دے تو جو چاہے ڈاکٹر سے لکھوالے.یوروپین لوگ اپنے پیشہ میں بے حد دیانت دار ہوتے ہیں گوان میں مذہب نہیں.یہاں کے ڈاکٹروں کا تو یہ حال ہے کہ ایک واقعہ مجھے یاد ہے.ایک ڈاکٹر نے انجمن کے کسی کارکن کو بیماری کا سرٹیفکیٹ دیا.تحقیقات پر معلوم ہوا کہ معمولی نزلہ زکام تھا مگر ڈاکٹر نے سفارش کر دی کہ بیمار ہے اور دفتر کی جانے کے قابل نہیں.وہ سو دالینے بھی گیا ، بازاروں میں بھی پھرتا رہا لیکن دفتر میں ضروری کام کے لئے بلایا گیا تو نہ آیا اور کہہ دیا کہ مجھے ڈاکٹر نے سرٹیفکیٹ دیا ہوا ہے.یہ نور ہسپتال کے انچارج صاحب کا ذکر نہیں بلکہ اور ڈاکٹر کا ذکر ہے.غرض ہندوستانی ڈاکٹروں میں پیشہ کی دیانت بہت کم ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے سرٹیفکیٹ کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے.ایک شخص اپنے افسر سے لڑ پڑتا ہے اور چاہتا ہے کہ چند روز اس کے
خطبات محمود ۴۵۶ سال ۱۹۳۹ء سامنے نہ آؤں.وہ جاتا ہے ، ڈاکٹر کو جھک کر سلام کرتا ہے اور سرٹیفکیٹ لے جاتا ہے کہ یہ کام کے نا قابل ہے.یہ پیشہ کی ذلت نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن اگر حقیقی طور پر ڈاکٹر کسی کو مشورہ دے کہ اس کے لئے روزہ رکھنا مضر ہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظر آئے اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہو گا.خواہ دُنیا اُسے تندرست سمجھتی ہو لیکن بیماری کے خیال سے روزہ چھوڑ نا جائز نہیں.آج کی ہی میری مثال ہے.میں جب صبح اُٹھا تو مجھے اسہال ہوا اور پیٹ میں درد بھی.شیخ بشیر احمد صاحب میرے ساتھ کھانا کھا رہے تھے.میں نے اُن سے کہا کہ میں اس وقت بیماری کے آثار معلوم کرتا ہوں مگر روزہ کی نیت سے سحری کھاتا ہوں.اگر یہ اسہال بڑھے تو روزہ ترک کر دوں گا اور اگر اتفاقی طور پر اسہال ہو گیا ہے تو روزہ بچ جائے گا.صبح کی نماز کے بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو طبیعت صاف تھی.وہ گویا وقتی بیماری تھی.میں اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر جانتا تھا کہ طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے یہ بیماری کا عارضی حملہ ہے جو بعض اوقات یکدم مجھ پر ہو جایا کرتا ہے.بعض دفعہ دیکھنے والا حیران ہوتا ہے کہ ابھی تو اچھے بھلے تھے مگر یکدم بیمار ہو گئے اور پھر آرام بھی فوراً ہو گیا حالانکہ بیماریاں اس رنگ میں بھی آتی ہیں.اس کے بعد میں دکانداروں کو بھی ہدایت کرتا ہوں اور دفتر کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھیں اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں اس کے متعلق دفتر کو ہدایت دیتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس قسم کی نگرانی کی ضرورت تو وہاں ہوتی ہے جہاں مذہب نہ ہو.احمدی دکانداروں کا خدا تعالیٰ سے واسطہ میرے ذریعہ سے نہیں.اگر وہ اسے میرے ذریعہ رکھیں گے تو گھاٹے میں رہیں گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ اگر میں نے عذاب دینا ہوتا تو کبھی کا ہلاک کر دیتا.سے پس اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی پر عذاب آنے کی صورت میں لوگ مارے جاتے تو جو میرے ذریعہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھیں وہ تو بہت زیادہ خطرہ میں ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم، خشیت اللہ اور ہر چیز مجھ سے کہیں زیادہ تھی.پس ان کی مرضی سے عذاب آنے کی صورت میں اگر تبا ہی جلدی آ سکتی تھی تو میری مرضی پر تو کہیں زیادہ جلدی آئے گی.پس ہمارے دکانداروں
خطبات محمود ۴۵۷ سال ۱۹۳۹ء کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ میں کیا کہتا ہوں یا دفتر والے ان سے کیا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ انہیں یہ کی بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ دین ان سے کیا چاہتا ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ بعض احمدی دکاندار رمضان میں کھانے کی اشیاء کی دکانوں کو کھلا رکھتے ہیں اور لوگ وہاں بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں حالانکہ یہ رمضان کے احترام کے منافی ہے.عصر کے بعد تک کھانے پینے کی تمام دکانیں بند رہنی چاہئیں.ہاں روٹی کی کھلی رہ سکتی ہیں کیونکہ مسافر اور بیمار بھی وہاں سے کھاتے ہیں لیکن بہتر ہو کہ ان پر بھی بورڈ لگا دیئے جائیں کہ دن میں یہاں صرف بیمار اور مسافر ہی کھانا کھا سکتے ہیں.اس سے ہماری پالیسی تو کم سے کم ظاہر ہو جائے گی لیکن یہ تو کھانے کی دکانوں کے متعلق ہے.مٹھائی وغیرہ کی دکانیں تو بہر حال بند ہونی چاہئیں.یہ کوئی ایسی چیزیں نہیں کہ جن کے بغیر گزارہ نہ ہو سکے.کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ کوئی کہے جلیبیاں اور شکر پارے ضروری ہیں ورنہ جان نکل جائے گی.پس ایسی دکانوں کے متعلق یہی قانون ہونا چاہئے کہ وہ تمام دن بندر ہیں.ہاں افطاری کے وقت کھلیں تا جو لوگ گھر میں افطاری کا سامان نہیں کر سکتے ان کو تکلیف نہ ہو.میں نے کئی دفعہ دکانداروں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اصلاح کی تجاویز پیش کریں اور اپنی ایک کمیٹی مقرر کریں جو ان تجاویز پر غور کر کے میرے سامنے پیش کرے بلکہ ایک گزشتہ خطبہ میں تو میں یہ بھی کہہ چُکا ہوں کہ میں دوسروں سے سودا نہ لینے کی قید جو جماعت نے اپنے پر مقرر کر رکھی ہے اُسے ہٹانے کا ارادہ رکھتا ہوں.اس لئے اس سے پہلے پہلے اپنے آپ کو منظم کر لو مگر اُنہوں نے کوئی توجہ اب تک نہیں کی لیکن جس روز میں وہ قید اُٹھا دوں گا اُس دن دھڑا دھڑ عرضیاں آنے لگیں گی کہ حضور مہلت ملنی چاہئے تھی ، یہ ہونا چاہئے تھا ، وہ ہونا چاہئے تھا.اب تو سب سو ر ہے ہیں لیکن جس روز میں نے اعلان کر دیا رقعوں کی بھر مار ہو جائے گی.میں تین سال سے کہہ رہا ہوں مگر کوئی توجہ نہیں کی جاتی لیکن جس روز میں نے پابندی ہٹانے کا اعلان کر دیا منافق شور مچانے لگیں گے کہ بختی کی جاتی ہے.اتنا ظلم ہو رہا ہے ہم کیا کریں؟ حالانکہ وہی کرنا چاہئے جو میں تین سال سے کہہ رہا ہوں.دکانداروں کی انجمن بننے سے اصلاح کی کئی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں.مجھے افسوس ہے کہ جنگ کی خبر کے ساتھ ہی یہاں کے بعض دکانداروں نے بھی بالکل ناجائز طور پر قیمتوں میں اضافہ کر دیا حالانکہ ان کا کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح
خطبات محمود ۴۵۸ سال ۱۹۳۹ء قیمتیں بڑھاتے.میں اس دلیل کا تو قائل نہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے کہ یہ چیزیں ستی خریدی ہوئی ہیں اس لئے سستی بیچی جائیں.یہ بے وقوفی کی بات ہے جنگ کے دوران میں دکاندار جو اشیاء مہنگی خریدیں گے کیا یہ دلیل دینے والے بعد میں جبکہ قیمتیں گر جائیں گی اسی نرخ پر ان سے وہ چیزیں خریدنے کو تیار ہوں گے؟ پس یہ بات عقل کے خلاف ہے اور کوئی تجارت اس اصول پر نہیں چل سکتی.یہ بات تو تمہارے لئے آسان ہے کہ اگر کوئی چیز جس کی قیمت سات آنہ تھی ، آٹھ آنہ کی ہو جائے تو تم اسے خرید لو.گو دکاندار کی خرید کی قیمت چھ آ نہ ہی کیوں نہ ہو لیکن جو چیز کسی دکاندار نے چھ آنہ میں خریدی ہوئی ہے اور سات آنہ میں اسے بیچتا ہو وہ اگر ستی ہو جائے اور اس کی قیمت مثلاً پانچ آ نہ ہو جائے تو تم اس کی چھ آنہ میں خریدی ہوئی چیز کو سات آنہ میں لینے کے لئے کبھی تیار نہ ہو گے اور بازار کے اس وقت کے ریٹ یعنی پانچ آنہ پر فروخت کرنے پر اُسے مجبور کرو گے.پس یہ مطالبہ بالکل غلط ہے کہ جو چیز ستی خریدی گئی ہے ستی فروخت کی جائے.کیونکہ جو چیز دکاندار نے مہنگی خریدی ہے اُس کے کی سستا ہو جانے پر اس وجہ سے تم اسے مہنگا نہیں خریدو گے کہ دکاندار نے وہ مہنگی خریدی تھی.ان حالات میں دکاندار کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے جو چیز سستی خریدی ہے اُسے سستا فروخت کرے.پس یہ دلیل تو نا درست ہے مگر یہ بھی جائز نہیں کہ مارکیٹ کی قیمت سے ناجائز طور پر بڑھا کر کوئی قیمتیں وصول کرنے لگے.مثلاً ایک چیز انگلستان سے پانچ آنہ میں چلتی تھی بمبئی میں چھ آنہ میں پہنچتی تھی اور لاہور سات آنہ میں ملتی تھی.کوئی شخص جنگ کی وجہ سے یکدم اسے تو آ نہ ! میں بیچنے لگے.بغیر اس کے کہ کارخانہ نے اس کی قیمت بڑھائی ہو یا جہاز والوں نے کرایہ زیادہ کیا ہو تو یہ نا جائز ہوگا.جب بنانے والا اسی قیمت میں بناتا ہے، بھیجنے والا اسی قیمت بھی بھیج رہا ہے ، پہنچانے والا اسی قیمت میں پہنچاتا ہے تو تمہارے ساتھ آنہ سے کو آنہ کس طرح ہو گئے ؟ اس کی آخر کوئی وجہ تو ہونی چاہئے.یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سُنا یا کی کرتے تھے کہ کوئی شخص کسی کے باغ سے انگوروں کا بھرا ہوا ٹوکرا اُٹھا کر لے جا رہا تھا.رستہ میں باغ کا مالک مل گیا اُس نے کہا کہ میرے انگور اُٹھا کر کہاں لے جارہے ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ آپ ناراض نہ ہوں پہلے میری بات سُن لیں.اس نے کہا اچھا سنا ؤ تو کہنے لگا کہ میں تو
خطبات محمود ۴۵۹ سال ۱۹۳۹ء راستہ پر چلا جارہا تھا کہ بڑے زور کا بگولا آیا جس نے مجھے اُٹھا کر آپ کے باغ میں پھینک دیا.اب بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ اُس نے کہا نہیں اس میں تو کوئی نہیں بلکہ اس میں تو مجھے آپ کے ساتھ ہمدردی ہے.اس نے کہا اچھا تو جب میں باغ میں گرا تو پھر بگولا آیا جس سے میں اُڑنے لگا اور جان بچانے کے لئے اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے لگا.اس میں بتائیے میرا کیا قصور ہے؟ اُس نے کہا نہیں کوئی قصور نہیں جان بچانا آپ کا فرض تھا.اس نے کہا کہ میں جب ہاتھ مارتا تھا تو انگور گرتے تھے.اس میں بھلا میرا کیا قصور ہے؟ مالک نے کہا کہ اس میں بھی تمہارا کوئی قصور نہیں.پھر اُس نے کہا کہ نیچے ٹو کر پڑا تھا اور انگور اُس میں گرتے جاتے تھے.بتائیے اس میں میرا کیا قصور؟ اس نے کہا اس میں بھی کوئی قصور نہیں.وہ کہنے لگا پھر آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ مالک نے کہا کہ باقی بات تو سب درست ہے تم مجھ کو اس کا جواب دو کہ اس کے بعد ٹو کرا تمہارے سر پر رکھ کر کس نے کہا کہ تم یہ گھر لے جاؤ.اس نے جواب دیا کہ میں بھی دل میں یہی سوچتا چلا آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور میں کیوں ٹو کرا سر پر رکھ کر گھر لے جا رہا ہوں؟ یہی حال ان دکانداروں کا ہے جو اشیاء مہنگی ہوتی ہیں ان کی قیمت زیادتی کے مطابق بڑھانی تو جائز بات ہے لیکن بلا وجہ ان اشیاء کی قیمت کیوں بڑھا دی گئی کہ جن کی قیمت نہ کارخانوں نے بڑھائی ، نہ ان پر کوئی محصول لگائے گئے یا اگر خرید کی قیمت میں فرق تو ۱/۱۰ کاکی پڑا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسی اشیاء کی قیمت ڈیوڑھی، دُگنی کر دی گئی.جب ان لوگوں سے وجہ کی پوچھی جاتی ہے تو سوائے اس ٹو کرے والے کے جواب کے ان کے پاس اور کوئی جواب نہیں ہوتا.ا غرض یہ بالکل ناجائز طریق ہے مگر یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو میں نے بیان کر دی اور اس کی یہ مناسبت تھی کہ رمضان کے مہینے میں کھانے پینے کی چیزوں کے لوگ زیادہ حاجتمند ہوتے ہیں اس لئے فروخت کرتے وقت احتیاط کی جائے.میرا اصل مضمون یہ تھا کہ رمضان کے دنوں میں کھانے پینے کی دکانوں کو بند رکھا جائے.روٹی کی دکانیں کھلی رہیں مگر اس سے صرف مسافر اور بیمار کو روٹی دی جائے تندرست مقیم نہ کھائے.اس امر کے بعد میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس سال تحریک جدید کے سلسلہ میں
خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۹ء روزوں کے متعلق میں نے تا حال کوئی اعلان نہیں کیا.اس کے متعلق میں آج اعلان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ شوال میں روزے رکھا کرتے تھے.پس اس سال کے لئے تحریک جدید کے مقررہ سات روزے میں شوال کے مہینہ میں مقرر کرتا ہوں اس طرح ایک تو اس سنت پر عمل ہو جائے گا اور دوسرے ہمارا روزے رکھنے کا طریق بھی پورا ہو جائے گا.میں نے تو حساب نہیں کیا ، دیکھ لیا جائے.اگر پیر یا جمعرات کو عید نہ ہو تو ان میں سے جو بھی پہلے آئے اُس دن پہلا روزہ رکھا جائے اور اس سے شروع کر کے پھر ہر پیر اور جمعرات کو روزے رکھے جائیں اور سات پورے کئے جائیں.اس سال کے روزوں کے متعلق دُعاؤں کے سلسلہ میں میں یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں اپنے لئے ، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے ، سلسلہ کے لئے اور اسلام کے لئے دُعا کریں وہاں یہ بھی خیال رکھیں کہ یہ تحریک جدید کا چھٹا سال ہوگا اور اس طرح وہ چوٹی پر پہنچ کر نیچے کی طرف اُتر رہی ہوگی اور یہ دن زیادہ قربانی کے ہوں گے.پس دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زیادہ قر بانیوں کی توفیق دے اور اسلام کی ترقی کے لئے ایسا مستقل فنڈ اور مجاہدین کی جماعت پیدا کر دے جو اسلام کے جھنڈے کو دُنیا میں کھڑا کر سکے اور دُنیا کے کناروں تک پہنچا سکے.نیز اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور دوسرے کارکنوں کو بھی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے اموال کو زیادہ سے زیادہ دیانت اور دانائی کے ساتھ خرچ کرسکیں.جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے اُن پر اپنے انعام کرے، جنہوں نے وعدے کئے ہوئے ہیں اُن کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو لوگ نئے شامل ہوئے ہیں یا جن کی پہلے کوئی آمد نہ تھی اب ہو گئی ہے مثلاً پہلے طالب علم تھے مگر اب ملازم ہو گئے ہیں یا جن کی مالی حالت پہلے اچھی نہ تھی اب اچھی ہو گئی ہے ان کو بھی شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے.دوسری نہایت ضروری دُعا ایک اور ہے.دوستوں کو اس بات کا پوری طرح علم نہیں کہ اس جنگ کے اثرات کتنے وسیع ہیں.انہیں چونکہ سیاسیات یا جغرافیہ وغیرہ علوم پر عبور نہیں اس لئے وہ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس کے پیچھے ایسا گن پاؤڈر پوشیدہ اور
خطبات محمود ۴۶۱ سال ۱۹۳۹ء اس کے نیچے ایسا خطرناک ڈائنامیٹ دبا ہوا ہے کہ جس کے پھٹنے سے تمام دُنیا کا نقشہ بدل جائے کی گا اور نہیں کہا جاسکتا کہ دُنیا کی کیا حالت ہو جائے گی.کتنے لوگ مریں گے اور کتنی جائدادیں تلف ہوں گی.ان سب باتوں کے سمجھنے کے لئے جس حکمت علم اور واقفیت کی ضرورت ہے وہ چونکہ اس سے محروم ہیں اس لئے نہیں سمجھ سکتے.پس رمضان کے مبارک ایام میں بھی یہ دُعا کریں اور وہ دوسری دُعائیں جو میں نے پہلے بتائی ہیں اور بعد کے روزوں میں بھی.پھر یہ بھی دُعا کریں کی کہ اللہ تعالیٰ جنگ کے خطرات سے دنیا کو کم سے کم تکلیف پہنچنے دے اور ہماری جماعت کو تو کلی طور پر اس سے محفوظ رکھے لیکن اگر اس کی مشیت اس کے خلاف ہو تو پھر کم سے کم تکلیف پہنچائے اور اس کے اندر سے احمدیت اور اسلام کی ترقی کے سامان اپنے فضل سے پیدا کر دے.یہ دُعائیں ضرور کی جائیں اور درد دل سے کی جائیں.یہ نہ ہو کہ صرف ہونٹ ہل رہے ہوں بلکہ دل میں بھی ایسا درد ہو کہ جس کے پیدا ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ مومن کی دُعا کوسُن لیا کرتا ہے (الفضل ۲۸ /اکتوبر ۱۹۳۹ء ) اور رد نہیں کیا کرتا.“ البقره : ١٨٦ مصنف ابن ابی شیبه کتاب فضائل القرآن باب في درس القرآن جلد اصفحه ۵۶۰٬۵۵۹.ادارة القرآن و العلوم الاسلامیه کراتشی ۱۹۸۶ء وَرَبُّكَ الْغَفُورُةُ والرّحْمَةِ ليُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَلَ لَهُمُ الْعَذَاب (الكهف :۵۹)
خطبات محمود ۴۶۲ سال ۱۹۳۹ء ما كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَانتَ فيهم کی لطیف تشریح عذاب الہی کی قسمیں اور فتح مکہ کی پیشگوئی فرموده ۲۷ /اکتوبر ۱۹۳۹ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی:- ياتها الذينَ آمَنُوا انَ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَا وَ يُحَقِّرْ عَنْكُمْ سيّاتِكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُم، والله ذو الفضلِ العَظِيمِ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الذينَ كَفَرُوا يُثبتك أو يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ ، وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ والله خَيْرُ الْمَاكِرِينَ وَإِذَا تُثلى عَلَيْهِمْ أَيْتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا تو نشاء تقلنا مثل هذا إن هذا إلا أسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ وَاِذْ قَالُوا اللهُمَّ إن كان هذا هُوَ الْحَقِّ مِن عِندِكَ فَآمُطِرُ عَلَيْنَا حِجَارَنَا مِنَ السَّمَاءِ او اثتِنَا بِعَذَابِ اليْهِ وَ مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَانْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ اس کے بعد فر ما یا :- دو میں نے اپنے سندھ کے قیام کے دوران میں ان آیتوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا تھا مگر وہاں چونکہ خطبہ لکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اس لئے وہ شائع نہ ہو سکا گو کبھی کبھی بعض دو دوست
خطبات محمود ۴۶۳ سال ۱۹۳۹ء ایسے خطبات لکھ بھی لیتے ہیں اور چونکہ وہ نا واقف ہوتے ہیں اس لئے خلاصہ کے طور پر ہی وہ لکھ سکتے ہیں اور ان کا لکھا ہوا خطبہ جو بہت چھوٹا ہوتا ہے بعض دفعہ شائع بھی ہو جاتا ہے لیکن اس کی خطبہ کا چونکہ کوئی خلاصہ بھی میری نظر سے نہیں گزرا اور چونکہ اس کا مضمون ایسا ہے کہ میں سمجھتا ہوں وہ جماعت کے ان دوستوں کے لئے جو عملی زندگی میں کوئی تغیر پیدا کرنا چاہتے ہیں مفید ہو سکتا ہے.اسی طرح ان دوستوں کو بھی جو قرآن کریم کی تحقیق اور اس کے علوم کی دریافت میں کی لگے رہتے ہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس مضمون کو دوبارہ خطبہ میں بیان کر دوں.گوکئی مضامین اگر چہ بار بار مختلف رنگوں میں بیان ہوتے رہتے ہیں مگر تکراری کے طور پر ایک ہی مضمون کو دوبارہ بیان کرنا مجھ پر گراں گزرا کرتا ہے.اس خطبے کا محترک در اصل مولوی شیر علی صاحب کا ایک خطبہ جمعہ ہو ا تھا جو اُنہوں نے میری بیماری کے دنوں میں پڑھا.اِس کا مضمون تو اور ہے مگر اُس وقت میں نے جو آیتیں پڑھی ہیں کی ان میں سے ایک آیت میں نے اس خطبہ میں بھی دیکھی.میں نے وہ سارا خطبہ نہیں پڑھاتی صرف سرسری طور پر میں نے اس پر نگاہ ڈالی تو ایک آیت میرے سامنے آگئی جس پر مجھے خیال کی آیا کہ بعض سوالات ایسے ہیں جو اس آیت کے متعلق عام طور پر دلوں پر پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر ان کے حل کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے.وہ آیت جو منی طور پر ان کے خطبہ میں آگئی تھی اور جس سے مجھے اس مضمون کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے یہ ہے کہ مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ شایاں نہیں ہے کہ وہ ان پر عذاب نازل کرے و انت فيهم در آنحالیکہ تو ان میں موجود ہو د ما كَانَ اللهُ مُعد بهم اسی طرح خدا یہ نہیں کر سکتا کہ وہ ان پر عذاب نازل کرے.دھم يستغفرون اور وہ استغفار کر رہے ہوں.اس آیت میں استغفار کا حصہ تو بالکل واضح ہے کہ جو قو میں سچے دل سے استغفار کرتی رہتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا عذاب اُن پر نازل نہیں ہوتا مگر یہ جو پہلا حصہ ہے کہ ما كان الله يُعَذِّبَهُم و أنت فيهم که خدا ان پر عذاب نازل نہیں کر سکتا اس حالت میں کہ تو ان میں موجود ہو.یہ حصہ بہت حد تک قابل غور اور لائق توجہ ہے.یہ تو سارے ہی تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تک کوئی نبی زندہ رہے.
خطبات محمود ۴۶۴ سال ۱۹۳۹ء اُس کی قوم پر عذاب نازل نہیں ہوتا مگر عام طور پر اُس کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ جب نبی کسی جگہ موجود ہو تو اُس جگہ اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا کرتا لیکن اگر ہم گہری نظر سے انبیاء کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ہمیں درست معلوم نہیں ہوتی.انبیاء کی زندگی کی اور تاریخوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ہم تاریخ کا وہی حصہ لے لیں جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے تو اس سے ہی متعدد مثالیں اس امر کی مل سکتی ہیں کہ انبیاء کی زندگی بلکہ ان کی موجودگی میں قوموں پر عذاب نازل ہوئے چنانچہ سب سے پہلے ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لیتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی بالکل ابتدائی آیتوں کی یعنی سورۃ بقرہ میں ہی فرماتا ہے کہ اُنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی جس پر انہیں حکم دیا گیا کہ اقْتُلُوا انْفُسَكُمْ کے یعنی اگر تم بچنا چاہتے ہو تو اپنے نفسوں کو قتل کرو اور بائبل کہتی ہے کہ اس کی وقت ہزار ہا آدمی مارے گئے.سے اب یہ ایک عذاب تھا جو اُس قوم پر آیا مگر یہ عذاب حضرت کی موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں ہی آیا.وہ قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چلی جا رہی تھی کہ درمیان میں ہی یہ واقعہ ہو گیا یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب پہاڑ پر گئے تو ان کی قوم نے بعد میں بچھڑے کی پرستش شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی آپ کو الہاما خبر دی جس پر آپ پہاڑ سے واپس تشریف لائے اور پھر اُن کی قوم کو یہ سزا ملی جس سے بقول بائیل ہزاروں آدمی ہلاک ہو گئے.دوسرا عذاب جس کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہے اُس وقت اُتر ا جب اُن کی پرمَن وَسَلوی نازل ہوا.یہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا ہی واقعہ ہے.من وسلویٰ کے نزول کے بعد جب اُنہوں نے بے صبری کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن پر ذلت اور مسکنت کا عذاب نازل کیا.اسی طرح قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک دفعہ بنی اسرائیل نے مخاطب کر کے کہا کہ اے موسیٰ جب تک ہم خدا کو دیکھ نہ لیں تیری کوئی بات نہیں مان سکتے.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان پر عذاب نازل کیا.یہ واقعہ بھی کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں ہوا.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جاؤ اُس موعود ملک میں داخل ہو جاؤ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ه جس کے ملنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں وعدہ دیا گیا ہے اور انہوں نے کہ دیا کہ فاذهب أنت ورَبُّكَ فَقَاتِلا انا ههنا قاعِدُونَ کے جاتو اور تیرا رب دُشمنوں سے لڑتے پھر میں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.اس وقت بھی اُن پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو چالیس سال تک اس عذاب میں مبتلا رکھا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَتِيمُونَ في الأَرْضِ ٥ وہ چالیس سال تک زمین میں آوارہ پھرتے رہے اور انہیں اپنے لئے کوئی ٹھکانہ نظر نہیں آتا تھا.یہ عذاب بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا.گو اس دوران میں ہی آپ وفات پاگئے.تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے متعدد واقعات سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک قوم میں موجود تھے.پھر بھی اس قوم پر عذاب نازل ہوا بلکہ اُس جگہ بھی لوگوں پر عذاب نازل ہوا جس جگہ آپ موجود تھے.اس کے بعد ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپ کی زندگی اور آپ کی موجودگی میں دشمنوں پر عذاب نازل ہوا.آپ نے بعض کے متعلق بد دعائیں کیں اور وہ مکہ میں ہی عذاب میں مبتلا ہو کر مر گئے اور پھر آپ کی بد دعا سے ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا جو آپ کی زندگی اور آپ کی موجودگی میں آیا بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جس عذاب کا ان آیتوں میں ذکر ہے وہ بھی کفار مکہ پر آپ کی موجودگی میں ہی آیا اور شائد اس وقت آپ صرف چند گز کے فاصلہ پر ہی کھڑے ہوں گے یعنی یہ جو آیت ہے کہ ما كان الله ليُعَذِّ بَهُمْ وَانْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ اس سے پہلی آیت یہ ہے وَاِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقِّ مِنْ عِنْدِكَ فا مطر علينا حِجَارَةً من السماء کہ جب ان لوگوں نے کہا خدا یا اگر یہ تعلیم سچی ہے اور تیری طرف سے ہی ہے تو آسمان سے ہم پر پتھر برسا کے اشتنَا بِعَذَابِ الیم یا اور کسی قسم کا دُکھ والا عذاب ہمیں دے اور جیسا کہ صحیح حدیثوں اور تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے یہ دُعا ابو جہل نے بدر کے میدان میں کھڑے ہو کر کی تھی.اور بدر کے میدان میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان پر یہ حجاره نازل ہوئے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دُعا کی تحریک کر دی اور آپ نے
خطبات محمود ۴۶۶ سال ۱۹۳۹ء دُعا کرنے کے بعد کنکروں کی ایک مٹھی اُٹھا کر دشمنوں کی طرف پھینک دی اس مٹھی کا پھینکنا تھا کہ ایک تیز آندھی مسلمانوں کی پشت کی طرف سے چل پڑی اور اس کے ساتھ ریت اور کنکروں کا ایک طوفان اُٹھا جس نے کفار کی آنکھوں میں پڑکر ان کی نظر کو کمزور کر دیا.کیونکہ ہوا اُدھر سے آ رہی تھی جدھر مسلمانوں کا لشکر تھا اور اُس طرف جارہی تھی جس طرف کفار کا لشکر تھا پھر اس ہوا کی مخالفت کی وجہ سے ہی کفار کے تیر بھی مسلمانوں تک پہنچنے سے رُک گئے.کیونکہ وہ جو تیر پھینکتے تھے میدان کے درمیان میں ہی بے کار اور بے ضرر ہو کر گر جاتے تھے مگر مسلمان جو تیر پھینکتے تھے وہ کئی گنا زیادہ تیزی کے ساتھ کفار کے سینہ میں پیوست ہو جاتے تھے.کے پس اس عذاب کی وجہ سے کفار کے حملے ناکام رہے مگر مسلمانوں کا ہر حملہ کامیاب ہوا.کیونکہ ہوا مسلمانوں کی پیٹھ کی طرف سے آ رہی تھی جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں کھلی تھیں مگر کفارا اپنی آنکھیں آسانی سے کھول نہیں سکتے تھے کیونکہ ہوا اُن کی طرف زور سے جا رہی تھی اور اگر کھولتے تھے تو خاک اور کنکر اُن کی آنکھوں میں گھس جاتے اور اُن کی نظر کو بے کا ر کر دیتے ہی تھے.اسی طرح تلوار کے ذریعہ کفار پر جو عذاب آیا اور بڑے بڑے صنادید مارے گئے.یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہی آیا اور ایسی حالت میں آیا جبکہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان چند گزوں کا ہی فاصلہ تھا بلکہ جب لڑائی شروع ہوئی اُس وقت گزوں کے کی فاصلہ کا سوال بھی کوئی نہ رہا مسلمان اگر کافروں کے لشکر میں گھسے ہوئے تھے تو کا فرمسلمانوں کے لشکر میں.پس ابو جہل کی اس دُعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب نازل ہوا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آیا اور ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اسی کا ذکر کرتے ہوئے کفار سے فرماتا ہے کہ جو کچھ تم نے دُعا مانگی تھی جب وہ پوری ہوگئی اور اسلام کی صداقت کا تم نے اس رنگ میں مشاہدہ کر لیا تو اب تم پر حجت تمام ہو گئی اور تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جو لوگ بیچ رہے ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں.ابوجہل نے جو یہ دُعا کی یہ دراصل خدا تعالیٰ سے آخری اپیل تھی.اس میں اس نے خدا تعالیٰ سے بڑے جوش سے استدعا کی کہ اگر اسلام سچا ہے اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) واقعی خدا تعالیٰ کے رسول ہیں تو ہم پر پتھر برسیں یا کوئی اور عذاب الیم نازل ہو.اللہ تعالیٰ نے اُس کی اس دُعا کے نتیجہ میں
خطبات محمود ۴۶۷ سال ۱۹۳۹ء یہ شانِ صداقت ظاہر کر دیا کہ وہ اور اس کے ساتھی تباہ و برباد ہو گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھی کامیاب و کامران ہوئے بلکہ اُس نے کہا تھا کہ خدایا یا ہم پر پھر نازل کر یا کوئی درد ناک عذاب نازل کر مگر اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کی بجائے اُن پر دونوں عذاب نازل کر دیئے اور کہا کہ تم ایک نشان کے ذریعہ ہمارے رسول کی صداقت معلوم کرنا چاہتے ہو ہم تمہارے منہ مانگے دونوں نشانوں کے ذریعہ اس کی صداقت ظاہر کرتے ہیں چنانچہ پہلے ابوجہل پر خصوصاً اور دوسرے کفار پر عموماً پتھر نازل ہوئے اور پھر عذاب الیم نازل ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مکہ کے لوگ مدینہ کے لوگوں کو قومی طور پر نہایت حقیر اور ذلیل سمجھا کرتے تھے کیونکہ مکہ والے لڑائی کے فن میں ماہر تھے اور مدینہ کے لوگ محض زراعت کی پیشہ تھے جن کا کام یہ تھا کہ وہ ترکاریاں بوتے ، باغات لگاتے اور کھیتوں میں کام کر کے اپنی کی معاش کا سامان پیدا کرتے.پس چونکہ وہ لڑائی بھڑائی میں ماہر نہیں تھے اس لئے مکہ کے لوگ انہیں بہت ہی ادنیٰ اور ذلیل سمجھتے مگر اللہ تعالیٰ نے جب ان پر عذاب الیم نازل کرنا چاہا تو اس نے ان ادنی اور ذلیل سمجھے جانے والے لوگوں میں سے بھی پندرہ پندرہ سال کے دونو جوانوں کو جو خود اپنی قوم میں بھی ادنی اور کمزور تھے چنا اور اُن کے ہاتھوں ابو جہل کو زخمی کرایا.ان دو نو جوانوں میں سے ایک کو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے لے لیا کہ وہ لمبے قد کا مضبوط نو جوان تھا اور دوسرے کو اِس لئے کہ وہ رونے لگ گیا تھا اور اس نے اصرار کیا کہ میں کی ضرور ساتھ جاؤں گا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی ساتھ لے لیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ بدر کے میدان میں جب کفار اور مسلمانوں کے لشکروں کی صفیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں تو میں نے اس خیال سے کہ آج ایک بہت بڑی جنگ در پیش ہے دیکھوں تو سہی میرے دائیں بائیں کون ہیں منہ موڑ کر جو دیکھا تو مجھے نظر کی آیا کہ میرے ایک طرف بھی ایک پندرہ سال کا چھوکرا ہے اور دوسری طرف بھی پندرہ سال کا ایک چھوکرا.میں نے اپنے دل میں کہا افسوس ! آج میرا دن خراب ہو گیا کیونکہ ایسی صورت میں جبکہ میرے دائیں بائیں مضبوط سپاہی نہیں ہیں میں دلیری سے دُشمن کی طرف نہیں بڑھ سکتا کیونکہ میری پیٹھ بچانے والا کوئی نہیں.جنگ کے موقع پر ہمیشہ قابل اور تجربہ کار سپاہی یہ خیال
خطبات محمود ۴۶۸ سال ۱۹۳۹ء رکھا کرتے ہیں کہ ان کے دائیں بائیں اچھے سپاہی ہوں تا کہ جب وہ دشمن کی صفوں میں گھس جائیں تو اُن کی پیٹھ کی دُشمن کے حملہ سے حفاظت ہو سکے.حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بھی اسی خیال سے اپنے دائیں بائیں دیکھا اور جب انہیں نظر آیا کہ ان کے دائیں بائیں کوئی مضبوط سپاہی نہیں بلکہ دو پندرہ پندرہ سال کے ناتجربہ کارلڑ کے ہیں تو اُن کا دل بیٹھ گیا اور اُنہوں نے کہا افسوس آج میں کچھ نہیں کر سکوں گا کیونکہ میرا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط نہیں.وہ کہتے ہیں یہ خیال ابھی میرے دل میں آیا ہی تھا کہ دائیں طرف سے میرے پہلو میں ایک کہنی لگی.میں نے مُڑ کر دائیں طرف کے لڑکے کی طرف دیکھا اور کہا تم کیا کہتے ہو؟ وہ نہایت آہستگی سے تا کہ اُس کا دوسرا ساتھی سُن نہ لے کہنے لگا چا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے دُکھ دیا کرتا ہے؟ آج میں نے نیت کی ہوئی ہے کہ اُسے قتل کروں گا.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں اُس کا یہ فقرہ سُن کر میں حیران رہ گیا اور حیرت زدہ ہو کر کی اُس کا منہ دیکھنے لگ گیا مگر ابھی میری اس حیرت کا اثر دُور نہیں ہوا تھا کہ مجھے بائیں طرف سے کی کہنی لگی ( وہ کہنی اِس لئے مارتے تھے تا کہ ایک کی بات دوسرا ساتھی نہ سُن سکے ) حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں میں نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرا اور پوچھا کیا بات ہے؟ اُس پر اُس طرف جو لڑ کا کھڑا تھا اُس نے آہستگی سے میرے کان میں کہا چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دُکھ دیا کرتا ہے؟ میری بڑی خواہش ہے کہ میں اُس کو قتل کروں.وہ کہتے ہیں میں ان دونوں کی یہ بات سُن کر حیران رہ گیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ان کے متعلق کیا خیال کر رہا تھا اور یہ کس نیت اور کس ارادے کے ماتحت یہاں آئے ہوئے ہیں.میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ میری پیٹھ بھی نہیں بچا سکیں گے اور ان کی نیست وہ ہے جس کا میں بھی اپنے دل میں خیال نہیں لاسکتا کیونکہ ابو جہل کمانڈر انچیف تھا اور وہ قلب لشکر میں ساز و سامان سے مسلح سپاہیوں کے پہرہ میں کھڑا تھا اور اُس تک پہنچنا نہایت ہی دُشوار تھا.بہر حال وہ کہتے ہیں میں نے خاموشی اور حیرت کے ساتھ اپنی انگلی اٹھائی اور کہا وہ جس کے سامنے دو نہایت تنومند اور مضبوط نوجوان نگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے ہیں وہ ابو جہل ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں یہ فقرہ میری زبان سے نکلا ہی تھا کہ جس طرح باز چڑیا پر
خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۳۹ء حملہ کرتا ہے اسی طرح وہ دونوں نوجوان تلوار میں کھینچ کر آگے بڑھے اور آنا فانا دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اُس مقام پر پہنچ گئے جہاں ابو جہل کھڑا تھا اور جاتے ہی اُس پر حملہ کر دیا ہے ج کفار اس اچانک حملہ سے کچھ گھبرا سے گئے اور وہ پوری طرح مقابلہ نہ کر سکے.عکرمہ جو ابوجہل کے بیٹے تھے اُنہوں نے ایک نوجوان پر تلوار سے وار کیا جس سے اُس کا آدھا ہا تھ کٹ کر لٹک گیا اس نے فورا ہاتھ کے اُس ٹکڑہ کو تو ڑ کر پرے پھینک دیا اور آگے بڑھ کر دونوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے زمین پر گرا دیا مگر اُس کی موت ابھی نہیں آئی تھی یہ دونوں اُسے سخت زخمی کر کے کی واپس آ گئے.جب کفار کے لشکر کو شکست ہو گئی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو مہاجر تھے اور کفار سے اچھی طرح واقف تھے اُنہوں نے میدان جنگ کا یہ دیکھنے کے لئے چکر کاٹا کہ آج کفار پر کیا بنی ہے؟ وہ کہتے ہیں میں مردوں اور زخمیوں کو دیکھتا جا رہا تھا کہ ایک جگہ میں نے دیکھا ابو جہل زخموں کی شدت کی وجہ سے کراہ رہا ہے.میں نے اُس سے کہاسنا ؤ کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگا سب نے کرنا ہے میں بھی اب مر رہا ہوں مگر مجھے بڑا دکھ یہ ہے کہ مدینہ کے دو چھوکروں نے کی مجھے مارا.یہ وہی آج اتنا بعذاب الیم کی دُعا کا ظہور تھا کہ مرتے وقت اُس نے کہا کہ مجھے بڑا دکھ یہ ہے کہ مدینہ کے دو چھوکروں نے مجھے مارا.اگر مکہ کے اچھے خاندان کا کوئی مشہور سپاہی مجھے مارتا تو ایسا دُ کھ نہ ہوتا.خیر عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے اس سے کہا اچھا اب بتاؤ کیا تمہارے دل میں کوئی خواہش تو نہیں؟ وہ کہنے لگا مجھے اس وقت سخت تکلیف ہے میری خواہش یہ ہے کہ تم مجھے قتل کرو مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کیونکہ تم جانتے ہومیں مکہ کا سردار ہوں اور سردار کی گردن ہمیشہ لمبی کائی جاتی ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے اُسے کہا اب یہ تیری آخری حسرت بھی پوری نہیں ہوگی اور میں تیری گردن سر کے قریب سے کاٹونگا چنانچہ اُنہوں نے اُس کی گردن سر کے قریب سے کائی.اب دیکھو ابو جہل نے جو عذاب مانگا تھا وہ ابو جہل اور اُس کی قوم دونوں پر نازل ہوا اور نہ صرف ایک بلکہ دونوں عذاب نازل ہوئے مگر یہ عذاب جب نازل ہوا اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن میں موجود تھے بلکہ اُس جگہ موجود تھے جہاں یہ عذاب اُترا اور اُس گروہ کے قریب کھڑے تھے جو اُس عذاب کا نشانہ بنا.پھر مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ انْتَ فِيهِمْ
خطبات محمود ۴۷۰ سال ۱۹۳۹ء کے یہ معنی کس طرح ہو سکتے ہیں کہ جب نبی کسی جگہ موجود ہو تو وہاں عذاب نازل نہیں ہوا کرتا.فيهم سے مراد آخر جسمانی قرب ہی ہو سکتا ہے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ یہاں فیھم سے مراد روحانی قرب لیا جائے.غرض اس فیھم سے مراد بہر حال جسمانی قرب ہے اور میں جیسا کہ بتا چکا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمانی قُرب کے باوجود کفار پر عذاب آیا اور عذاب بھی وہ آیا جو آیت زیر بحث کے ساتھ ہی ہے.پھر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو دیکھتے ہیں تو یہاں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں بلکہ آپ کے سامنے ایسے عذاب آئے جو قومی تھے مثلاً جب زلزلہ آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے قادیان میں بھی زلزلہ آیا.اسی طرح جب طاعون آئی تو قادیان میں بھی آئی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی تھی.ایسی طاعون یہاں نہیں آئی جو گھروں کو برباد کر دینے والی اور گاؤں کو اُجاڑ دینے والی ہو مگر بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے یہاں طاعون آئی اور یہ ایک عذاب تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر نازل ہوا.ان حالات میں مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیهِم " کے یہ معنی تو نہ ہوئے کہ جب نبی کسی قوم میں موجود ہو تو اُس پر عذاب نازل نہیں ہوتا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اپنی قوم میں موجود تھے جبکہ اُس پر عذاب نازل ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کی میں موجود تھے جبکہ اُس پر عذاب نازل ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی قوم میں موجود تھے جبکہ اُس پر عذاب نازل ہوا.جیسے میں نے بتایا ہے کہ قادیان میں زلزلہ بھی آیا اور طاعون بھی آئی اور یہ دونوں عذاب تھے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی پیشگوئیاں تھیں.اس کے علاوہ اور بھی بعض عذاب نازل ہوئے ہیں مگر یہ دوموٹی مثالیں ہیں جن سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپ کی موجودگی میں عذاب نازل ہوئے اور اس مقام پر نازل ہوئے جس میں آپ موجود تھے.پس معلوم ہوا کہ اس آیت کے یہ معنی تو نہیں کئے جا سکتے کہ جب نبی کسی قوم میں موجود ہو تو اُس پر کسی قسم کا عذاب نہیں آ سکتا.پس لازماً اس کے کوئی اور معنی تلاش کرنے ہوں گے اور کوئی ایسے معنی کرنے پڑیں گے جن کے رو سے ہم یہ سمجھیں کہ بعض قسم کے
خطبات محمود ۴۷۱ سال ۱۹۳۹ء عذاب نبی کی موجودگی میں آ سکتے ہیں اور بعض قسم کے عذاب نبی کی موجودگی میں نہیں آ سکتے.گویا ہمیں عذاب کی تقسیم کرنی پڑے گی.اس امر کو سامنے رکھ کر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں کی معلوم ہوتا ہے کہ عذاب دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک عذاب شخصی ہوتے ہیں مثلاً کوئی دشمن شرارت میں بڑھ جاتا ہے تو وہ ہلاک کر دیا جاتا ہے.اس قسم کے عذاب نبیوں کی موجودگی میں اور ان کے سامنے اکثر آتے رہتے ہیں اور اس کا کوئی تعلق نبی کی موجودگی یا غیر موجودگی سے نہیں ہوتا.ایک فرد کے ساتھ یہ عذاب مخصوص ہوتا ہے اور اس کے عذاب میں مبتلا ہونے سے نبی پر حرف نہیں آتا بلکہ اس کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں لیکن اس شخصی عذاب کے علاوہ ایک قومی عذاب ہو ا کرتا ہے.اس قومی عذاب میں سے بھی ایک قسم کا عذاب نبی کی موجودگی میں آ سکتا ہے مگر ایک قسم کا نہیں آ سکتا.مثلاً ایسا عذاب جس میں ساری قوم کی تباہی مقصود نہ ہو وہ نبی کی موجودگی میں بھی آجاتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کی طاعون کی خبر دی.اے اب یہ ایک قومی عذاب ہے جس کا خطرہ ہر شخص کو ہو سکتا ہے یا زلزلہ ہے یہ بھی ایک قومی عذاب ہے اس میں بھی ہر شخص کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میرا مکان نہ گر جائے لیکن زلزلہ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کے آنے پر تمام لوگ مر جائیں یا طاعون کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اگر وہ کہیں پھوٹے تو ایک متنفس کو بھی جیتا نہ چھوڑے.بڑی بڑی تباہیاں آتی ہیں جن سے سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں مگر ہزاروں بیچ بھی جاتے ہیں.تم کبھی یہ نہیں دیکھو گے کہ کہیں طاعون پڑے اور تم لوگوں کو تعجب سے یہ کہتے سنو کہ فلاں جگہ طاعون پڑی اور اتنے لوگ بچ گئے بلکہ تم اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے دیکھو گے کہ فلاں جگہ طاعون پڑی اور آدھے لوگ مر گئے.گویا مرنے والوں پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے.بچنے والوں پر تعجب کا اظہار نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ ایک عام بات ہے کہ تمام لوگ کبھی نہیں کرتے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور بچ جاتا ہے.ساری بستی کے لوگ مرتے آجتک کبھی نہیں دیکھے گئے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ بعض بستیاں بالکل اُجڑ جائیں مگر وہ اس لئے نہیں اُجڑ تیں کہ اس میں رہنے والے تمام لوگ مر جاتے ہیں.بلکہ اس لئے اُجڑتی ہیں کہ پچاس، ساٹھ یا سو مر جاتے ہیں اور باقی ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگ جاتے ہیں.بٹالہ کے قریب ہی دو تین میل ادھر ایک گاؤں تھا جو طاعون کے حملہ سے بالکل اُجڑ گیا.
خطبات محمود ۴۷۲ سال ۱۹۳۹ء گواب پھر آباد ہو گیا ہے مگر اس گاؤں میں بھی یہ نہیں ہوا تھا کہ ہر شخص مر گیا ہو بلکہ بہت سے کر گئے تھے اور بہت سے گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے مگر یہ کہ کسی گاؤں کے سارے لوگ مر گئے ہوں اس قسم کی کوئی مثال کم از کم میرے ذہن میں کوئی نہیں اور اگر کہیں ایسا ہو ا بھی ہوگا تو شاذ و نادر کے طور پر ہؤا ہوگا.یہی حال زلزلہ کا ہے.اکثر زلزلے ایسے ہی ہوتے ہیں جو ساروں کی تباہی کا موجب نہیں ہوتے.کچھ لوگ مرتے ہیں تو کچھ بچ بھی جاتے ہیں.کوئٹہ کا زلزلہ نہایت ہی شدید تھا مگر پھر بھی کچھ لوگ بچ گئے.بہار کا زلزلہ نہایت خطر ناک تھا مگر اس زلزلہ میں بھی بعض لوگ محفوظ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی جو زلزلہ آیا اس سے ہیں ہزار آدمی صرف کانگڑہ میں ہلاک ہوئے تھے اور بعض قصبات میں ستر فیصدی تک لوگ ہلاک ہو گئے مگر تمیں فیصدی پھر بھی بچ گئے.پس اس قسم کے عذاب انبیاء کی موجودگی میں بلکہ ان کے سامنے بھی آسکتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرق نہیں کرتا کہ نبی موجود ہے یا نہیں.ہاں نبیوں اور ان کی جماعت کو دشمنوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ رکھتا ہے جیسے زلزلہ آیا تو خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کے نتیجہ سے بہت حد تک محفوظ رکھا لیکن لاہور اور امرتسر میں بڑی موتیں ہوئیں.سینکڑوں عمارتیں گر گئیں اور سینکڑوں لوگ مر گئے مگر قادیان کو خدا تعالیٰ نے اس قسم کی تباہی سے محفوظ رکھا.تو آگے پیچھے کی زلزلہ آئے.ارد گر د زلزلے آئے کتنی کہ قادیان میں بھی زلزلہ آیا مگر بہت حد تک یہ مقام محفوظ رہا.اسی طرح طاعون کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ قادیان اس کے حملہ سے بالکل محفوظ رہے گا بلکہ یہ تھا کہ بہت حد تک اسکے حملہ سے احمدی محفوظ رہیں گے اور بہت حد تک اس کے حملہ سے قادیان بچا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ارد گرد کے دیہات میں طاعون سے بڑی موتیں ہوئیں.کسی گاؤں کے چالیس لوگ مر گئے کسی کے پچاس حتی کہ میں نے بتایا ہے ایک کی گاؤں بالکل اُجڑ گیا لیکن قادیان میں اس کا ایسا حملہ نہیں ہوا کہ ایک شور مچ جائے اور لوگ گھبراتی کر بھاگنے لگ جائیں.زیادہ سے زیادہ یہاں ایک یا دو فیصدی موتیں ہوئیں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفار پر تلوار کے ذریعہ جو عذاب آیا
خطبات محمود ۴۷۳ سال ۱۹۳۹ء اس میں کچھ مسلمان بھی مارے گئے.فرق یہ تھا کہ کفار کی تباہی بہت زیادہ ہوئی اور مسلمانوں کی جی تنا ہی بہت کم.پھر کفار کو تو شکست ہوئی اور مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے مال دیا، عزت دی اور بالآخر فتح و کامرانی کے ساتھ وہ گھروں کو واپس لوٹے.پس کفار کو تو نقصان ہی نقصان ہوا اور مسلمانوں کو نفع زیادہ ہو ا گو کسی قدر نقصان بھی ہوا.یہی وجہ ہے کہ ایسی صورت میں انبیاء کی جماعتوں کو جو تکلیف پہنچا کرتی ہے وہ عذاب نہیں ہوتا کیونکہ عذاب تباہی کا موجب ہوتا ہے اور یہاں اگر پانچ سات مسلمان مارے بھی گئے تو اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی.پس پانچ سات آدمیوں کا مارے جانا نقصان کا نہیں بلکہ کامیابی کا موجب ہوا.کیونکہ ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا اور انہیں کفار پر غلبہ واقتدار حاصل ہو گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں طاعون پڑی اور بعض احمدی بھی طاعون سے فوت ہوئے.قادیان میں بھی ایک دو احمدی طاعون سے شہید ہوئے.گو بعض کی لوگ مجبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو طاعون نہیں کوئی اور مرض تھا لیکن بہر حال اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ طاعون سے فوت ہوئے تو بھی احمدیوں میں سے تو صرف چند لوگ فوت ہوئے مگر اس کے مقابلہ میں قادیان میں تین چار سال کے عرصہ میں سینکڑوں آدمی دوسروں کی کے مرے.باہر بھی اسی طرح ہوا کہ احمدی تو بہت قلیل تعداد میں فوت ہوئے مگر دوسرے لوگوں کی میں اموات کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی.پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ آٹھ دس سال کے عرصہ میں اگر سو ڈیڑھ سو احمدی طاعون سے فوت ہوئے ہیں تو طاعون کی وجہ سے کتنے آدمی احمدیت میں داخل ہوئے.یقیناً ہزار ہا ایسے لوگ ہیں جو طاعون کی وجہ سے ہماری جماعت میں شامل ہوئے اور ان کے لئے احمدیت قبول کی کرنے کا محرک یہی نشان ہوا جو طاعون کی صورت میں دُنیا پر ظاہر ہوا تھا.اُنہوں نے جب چاروں طرف موت دیکھی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور اُنہوں نے ضروری سمجھا کہ آپ کی بیعت کر لیں.چنانچہ ان دنوں اس کثرت سے بیعت کے خطوط آیا کرتے تھے کہ ہر ڈاک میں ستر ، استی ، سو بلکہ ڈیڑھ ڈیڑھ سو لوگوں کے بیعت کے
خطبات محمود ۴۷۴ سال ۱۹۳۹ء خط ہوتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما یا کرتے تھے ہماری جماعت میں دو قسم کی کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جو سارے نشانوں کو دیکھ کر احمدی ہوئے اور ایک طاعونی احمدی ہیں کہ جو اکیلا طاعون کا نشان دیکھ کر احمدی ہوئے اور فرمایا کرتے تھے کہ طاعونی احمدیوں کی تعداد کی دوسرے سارے نشانوں کو دیکھ کر احمدی ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے.اب بتاؤ.ہماری جماعت میں سے اگر آٹھ دس سال کے عرصہ میں سو ڈیڑھ سو آدمی طاعون سے مر بھی گیا تو اس سے احمدیوں کو نقصان کیا پہنچا ؟ پس جو احمدی مرے ان کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ عذاب سے ہلاک ہوئے بلکہ ہم کہیں گے کہ سُنت اللہ کے ماتحت ایک وبا سے جہاں اور لوگ ہلاک ہوئے وہاں بعض احمدی کی بھی فوت ہو گئے.مگر غیر احمدیوں کی طاعون سے تباہی کو ہم عذاب کہیں گے کیونکہ وہ مرے بھی زیادہ اور پھر اُن کے آدمی بھی کٹ کر ہم میں آملے.گویا انہیں دو رنگ میں تباہی ہوئی اور ہمیں دورنگ میں فائدہ پہنچا.ان کے آدمی بھی زیادہ مرے اور پھر زندہ رہنے والوں میں سے بھی بہت سے ہم میں آملے اور ہمارے آدمی بھی کم کرے اور ہماری جماعت میں غیر لوگ داخل بھی بہت ہوئے.پس احمدیوں پر جو موت آئی وہ ایک ابتلا تھا مگر غیروں پر جو موت آئی وہ ایک عذاب تھا.غرض اس قسم کے عذاب نبیوں کی موجودگی میں آ سکتے ہیں.ہاں ایک اور قسم کا عذاب نبی کے سامنے نہیں آسکتا اور وہ عذاب وہ ہوتا ہے جب ساری بستی کو تباہ و برباد کر نا مقصود ہوتا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جب طوفان کا عذاب آیا تو اس وقت منشاء الہی یہی تھا کہ آپ اور آپ کی جماعت کے سوا جس قدر لوگ ہیں وہ سب غرق کر دیئے جائیں جس کا سامان کی اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو ایک کشتی تیار کرنے کا حکم دیا جس میں آپ اور آپ کے ساتھی سوار ہو کر بچ گئے اور باقی سب غرق ہو گئے.یا اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام کی کی قوم پر جب عذاب آیا تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ تھا کہ سب تباہ کر دیئے جائیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس بستی سے نکل جائیں گو بعد میں وہ لوگ کی تو بہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ گئے.۱۳ مگر بہر حال فیصلہ الہی یہی تھا کہ اگر عذاب نازل ہوتا تو سب تباہ کر دیئے جاتے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو وہاں سے
خطبات محمود ۴۷۵ سال ۱۹۳۹ء نکل جانے کا حکم دے دیا تھا.اسی طرح لوط علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس بستی ے چلے جاؤ کیونکہ لوط کی ساری بستی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ اُس کا تختہ اُلٹ دیا جائے گا اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچے گا.پس جب وہ عذاب آتا ہے جس میں صرف نبیوں اور ان کی جماعتوں نے ہی بچنا ہوتا ہے.باقی سب کے متعلق یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ تباہ کر دئیے جائیں تو اس وقت انبیاء اور ان کی جماعتوں کو الگ کر لیا جاتا ہے اور ایسے سامان پیدا کر دئیے جاتے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں باقی جس قدر لوگ ہوتے ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں.کوئی کہہ سکتا ہے ایسے موقعوں پر بھی خدا تعالیٰ کو یہ کیا ضرورت ہے کہ وہ انبیاء کو کسی اور جگہ چلے جانے کا حکم دے.وہ دوسرے لوگوں میں رہتے ہوئے بھی ان کو بچا سکتا ہے مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی سنت اور اُس کے قانون کے خلاف ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرتا کی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ مثلاً حضرت لوط اور ان کے ساتھی جب اپنی بستی ہی میں رہتے اور عذاب کا وقت آجاتا تو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کو ہلاک کرنے کے لئے تو زمین کا تختہ اُلٹ دیتا اور کروڑوں من مٹی ان پر گرا کر انہیں تباہ کر دیتا جس قدر درخت تھے وہ گر جاتے جس قدر باغات تھے وہ اُجڑ جاتے ، جس قد ر کنویں تھے وہ برباد ہو جاتے اور جس قدر مکانات تھے وہ پیوند خاک کی ہو جاتے مگر جب وہی مٹی جس کے نیچے دب کر اور لوگ ہلاک ہوئے حضرت لوط اور ان کے ساتھیوں پر گرتی تو انہیں یوں محسوس ہوتا کہ گویا روئی کے گالے گر رہے ہیں یا حضرت نوح کے زمانہ میں جب طوفان آتا تو سینکڑوں میل سیلاب ہی سیلاب ہوتا.مکانات ڈوبے ہوئے ہوتے ، درختوں کی چوٹیوں تک پانی پہنچا ہوا ہوتا مگر جب وہ پانی حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں تک پہنچتا تو ان کے اردگر د حلقہ بنالیتا اور وہ خشکی میں بیٹھے رہتے.اب ایک طرف تو کئی سوفٹ بلند پانی کی دیوار میں کھڑی ہوتیں کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان پہاڑ کی چوٹیوں تک پہنچ گیا تھا تھا، مگر درمیان میں دس فٹ کی جگہ خالی ہوتی جس میں حضرت نوح اور ان کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے یا پھر یہ صورت ہوتی کہ طوفان بے شک سب جگہ آ جاتا مگر حضرت نوح اور اس کے ساتھی پانی پر اسی طرح چلتے پھرتے جس طرح خشکی پر چلا جاتا ہے اور ان کا تمام سامان بھی پانی پر اسی طرح محفوظ رہتا جس طرح خشکی پر رہتا ہے اور یا پھر یہ صورت تھی کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء ان کے مکانات پانی پر تیرنے لگ جاتے اور وہ اپنے مکانوں میں مزے سے بیٹھے رہتے مگر اس کی قسم کے معجزے خدا تعالیٰ کبھی نہیں دکھاتا کیونکہ اِس طرح نہ صرف اس کے قانون کی ہتک ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں وہ غیب کا پردہ بھی اُٹھ جاتا ہے جس کا ایمانیات کے سلسلہ میں موجود رہنا ضروری ہے.پس جب بھی ایسا عذاب آئے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو الگ کر لیا کرتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ اس بستی کو چھوڑ دو اور جب انہوں نے اُسے چھوڑ دیا تو وہ تباہ کر دی گئی کیونکہ اس وقت اس قوم پر ایک ایسا عذاب نازل ہونے والا تھا جو نبی کی موجودگی میں نہیں آ سکتا تھا.یہ معنی جو میں نے کئے ہیں یہ بالکل درست اور واقعات کے مطابق ہیں مگر زیر بحث آیت میں یہ معنی بھی مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدم موجودگی میں مکہ پر کوئی ایسا عذاب آیا جس سے وہ نعوذ باللہ کلیہ تباہ ہو گیا ہو بلکہ اس قسم کی کے عذاب کا مکہ کے متعلق امکان بھی نہیں ہو سکتا تھا.کیونکہ مکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اس کی عزت کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا اور وہاں حاجی ہمیشہ حج کے لئے جاتے رہیں گے.پس جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُم و انت فيهم ، تو ایک ہی عذاب ایسا ہوسکتا تھا جو نبی کی عدم موجودگی میں آسکتا تھا مگر وہ عذاب ایسا ہے جو مکہ میں کسی صورت میں نہیں آسکتا کیونکہ اُس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ کی طرف سے اوّل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے وعدہ کیا ہوا ہے.پس اس آیت کی میں نہ تو ایسے عذابوں کا ذکر ہے جو نبی کی موجودگی میں آ سکتے ہیں کیونکہ ایسے عذاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اہل مکہ پر آئے اور نہ ایسے عذابوں کا اس میں ذکر ہے جو نبی کی موجودگی میں نہیں آسکتے.یعنی جن سے کفار اور ان کے مقامات کو کلی طور پر تباہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کی تباہی مکہ پر آ ہی نہیں سکتی تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس آیت کے معنی کیا ہوئے؟ یہ سوال نہایت اہم ہے اور ایسے سوالات میں سے ہے جو اُنہی لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو ا کرتے ہیں جو قرآن کریم پر غور کرنے کے عادی ہیں.چنانچہ مدت ہوئی میرے دل میں بھی یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عذاب کی جو دو قسمیں ہیں ان دونوں قسموں میں سے کسی ایک پر بھی یہ آیت چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ شخصی عذاب یا ایسے قومی عذاب جن سے ساری قوم یا تی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء بستی تباہ نہیں کی جاتی وہ اس آیت میں اس وجہ سے مراد نہیں کہ اس قسم کے عذاب اہلِ مکہ پر آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں موجود تھے.حالانکہ خدا یہ کہتا ہے کہ تیری موجودگی میں عذاب ان پر نہیں آسکتا اسی طرح وہ عذاب بھی مراد نہیں جو بعض پہلے انبیاء کی قوموں پر آئے جن سے اللہ تعالیٰ نے ساری قوم اور شہر کو تباہ کر دیا کیونکہ مکہ کی نقد میں اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ وہاں اس قسم کا عذاب نہ آئے اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ وہ ملکہ کو قیامت تک عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اس بات کا یقینی ثبوت تھا کہ ایسا عذاب مکہ پر نہیں آسکتا.نہ اُس وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں موجود ہوں اور نہ اُس وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں موجود نہ ہوں.کیونکہ مکہ نے خدا کے فضل سے کبھی تباہ ہونا ہی نہیں اور اس کے متعلق پہلی کتابوں میں بھی کئی پیشگوئیاں تھیں.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بالکل قریب اللہ تعالیٰ نے مکہ کو جو محفوظ رکھا وہ بھی اسی پیشگوئی اور وعدے کے مطابق تھا.میری مرادا بر ہہ کے حملہ سے ہے.جب وہ حملہ کے ارادہ سے آیا ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ کی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت پیدا ہو چکے تھے.صرف چالیس پچاس دن کے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے.بہر حال وہ آپ کی نبوت کا زمانہ نہیں تھا.سورہ فیل میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.ابرہہ جب لشکر لیکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایسا عذاب نازل کیا کہ لشکر میں چیچک پھوٹ پڑی اور چند دنوں میں ہزاروں آدمی مر گئے.وہ قوم چونکہ مشرک تھی اس لئے موتوں کی کثرت کو دیکھ کر بھاگ نکلی اور ہزاروں لاشیں کی ان کی وہاں پڑی رہیں جن کی بوٹیاں چیلوں اور گڑھوں نے کنکروں اور پتھروں پر مار مار کر کھائیں تو قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ یہ خبر دی جا چکی ہے کہ مکہ تباہ کی نہیں ہوگا بلکہ ہمیشہ امن کا مقام رہے گا.اب جس مقام کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی فرمایا کہ وہاں امن رہے گا اور جس مقام کے متعلق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کبھی تباہ نہیں ہو گا اس مقام پر جب وہ عذاب آہی نہیں سکتا جو انبیاء کی عدم موجودگی میں آیا کرتا ت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس آیت سے مراد کیا ہے؟ جب یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ایک اور صورت ہماری ذہن میں
خطبات محمود ۴۷۸ سال ۱۹۳۹ء آ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد آیا کوئی ایسا عذاب تو نہیں جس کے متعلق پیشگوئی ہو کہ وہ کی اہل مکہ پر اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان میں موجود ہوں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں عام عذاب نبی کی موجودگی میں بھی آسکتے ہیں اور وہ خاص عذاب جس کے نتیجہ میں کسی قوم کی کئی ہلاکت مقدر ہو وہ اُس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک نبی کسی علیحدہ مقام میں نہ چلا جائے.مگر اس قسم کا عذاب مکہ پر کسی صورت میں بھی نہیں آ سکتا تھا کیونکہ مکہ کی حفاظت کا خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ تھا.پس اب یہی صورت رہ جاتی ہے کہ اس عذاب سے کوئی ایسا کی عذاب مراد ہو جو مکہ پر آ تو سکتا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نہیں آسکتا ہے تھا.کیونکہ پیشگوئیوں کے رو سے وہ عذاب اسی صورت میں آ سکتا تھا جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نہ ہوں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی نبی کسی کے متعلق کہہ دے کہ فلاں شخص کی موت میرے مرنے کے بعد ہوگی.اب محض اس کی موت سے یہ پیشگوئی سچی ثابت نہیں کی ہوگی بلکہ پیشگوئی اُس وقت سچی ثابت ہوگی جب اس کی موت اس نبی کی وفات کے بعد ہو.اسی طرح جب کسی خاص عذاب کے متعلق کہا جائے کہ وہ نبی کی موجودگی میں نہیں آسکتا تو وہ کی اسی صورت میں نبی کی صداقت کا ثبوت بن سکتا ہے جب نبی کی عدم موجودگی میں آئے اور اگر اس کی موجودگی میں آجائے تو وہ اس کی صداقت کا نشان نہیں بن سکے گا.پس اس صورت کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ آیا مکہ والوں کے لئے کوئی ایسا عذاب مقدر تھا جس کی شرط یہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ میں موجود نہیں ہوں گے تب عذاب آئے گا ورنہ جب تک آپ اُن میں موجود رہیں گے وہ عذاب نہیں آئے گا.یہ بات معلوم کرنے کے لئے جب ہم انہی آیتوں پر جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں غور کرتے ہیں تو انہی میں ہمیں اس کی طرف راہنمائی حاصل ہو جاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا کہ اس وقت کو یا دکر و جب مکہ کے کافر تیرے متعلق تدبیریں کر رہے تھے لیثْبِتُوكَ تا کہ وہ تجھے قید کر دیں آؤ يَقْتُلُوكَ یا تجھے قتل کر دیں آؤ يُخْرِجُوت یا تجھے شہر میں سے نکال دیں.یہ وہ تین تدبیریں تھیں جو کفار مکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کر رہے تھے کہ یا وہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا اپنے شہر سے نکال دیں.اگر آپ کو وہ قید کر دیتے تو بھی آپ مکہ میں کی
خطبات محمود ۴۷۹ سال ۱۹۳۹ء ނ ہی رہتے اور اگر قتل کر دیتے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں کہیں بھی نہ ہوتے نہ مکہ میں ہوتے نہ کہیں اور بلکہ آپ فوت ہو چکے ہوتے.البتہ تیسری صورت یہ تھی کہ وہ آپ کو مکہ.نکال دیں اور آپ کو مجبور ہو کر کسی اور جگہ جانا پڑے.اس صورت میں بیشک اہل مکہ پر وہ عذاب آ سکتا تھا جس کا آنا اس وقت مقدر تھا جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن میں موجود نہ ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ ہماری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آ چکی تھی کہ لوگ تجھے اپنے وطن سے نکال دیں گے اس لئے قید اور قتل والی تدبیریں ہمارے مقصد کو حل نہیں کرتی تھیں.بلکہ اخراج والی صورت ہی ایسی تھی جس سے ہماری پیشگوئی پوری ہو سکتی تھی.اگر وہ قتل کر دیتے تو سلسلہ ہی تباہ ہو جاتا اور وہ غرض فوت ہو جاتی جس کے لئے ہم نے تجھ کو مبعوث فرمایا تھا اور اگر تجھ کو قید کر دیتے تو بھی تو مکہ میں ہی رہتا مکہ سے باہر نہ جاتا صرف ایک ہی صورت تھی جس سے ہماری پیشگوئی پوری ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ وہ تجھے یہاں سے نکال دیتے.چنانچہ فرمایا کی ويَمْكُرُونَ ويمكر الله وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر دیں یا یہاں سے نکال دیں اور خدا کی تدبیریں انہیں اس طرف چلا رہی تھیں کہ پہلی دو باتوں کے لئے ان کی کوششیں ناکام رہیں لیکن آخری صورت پر جو اخراج والی ہے وہ عمل کریں وَ الله خَيْرُ الْمَاكِرِينَ اور آخر خدا کی تدبیر ہی غالب آئی اور انہیں اس بات کی توفیق نہ ملی کہ وہ آپ کو قتل کر دیں اور نہ انہیں اس بات کی توفیق ملی کہ وہ آپ کو قتل کر دیں.گو یہ دونوں باتیں ان کے لئے زیادہ آسان تھیں بلکہ ان کی تمام کوششوں کا نتیجہ آخری امر نکلا یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے نکلنے پر مجبور ہو گئے اور آپ کے مکہ سے نکلنے پر کفار خوش ہو گئے کہ چلو اچھا ہو ا مصیبت ٹل گئی اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے.اُنہوں نے سوچا کہ ہم چاہتے تھے کہ اسے قید کر دیں مگر ایسا نہ کر سکے.پھر ہم چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں مگر ایسا بھی نہ کر سکے.پھر ہم چاہتے تھے کہ اسے اپنے شہر سے باہر نکال دیں تا اِس کا اثر ہمارے نوجوانوں پر نہ پڑے اور باہر سے آنے والے حاجی اس کے اثر کو قبول نہ کریں اور ہم اس مقصد میں کامیاب ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ان کی خوشی باطل ہے اور یہ کہ در حقیقت انہوں نے خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے سامان پیدا کئے ہیں قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کی
خطبات محمود ۴۸۰ سال ۱۹۳۹ء اِنّ الّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآن تَرَادُكَ إلى مَعَادٍ ، 14 یعنی ہمیں اپنی ذات ہی کی کی قسم وہ جس نے تجھ پر قرآن کے احکام فرض کئے ہیں ایک دن پھر تجھے اس مرجع عالم مقام یعنی مکہ کی طرف واپس لے آئے گا.سورہ قصص مکتی ہے پس اس آیت میں اوّل ہجرت اور پھر مکہ میں کامیاب داخلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اسی طرح سورہ بلد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا أقسم بهذا البلدِن وَانتَ حِلٌّ بِهذا البلد کا یعنی کفار اپنے وعدوں میں جھوٹے ہیں اور اس کے ثبوت میں ہم شہادت کو پیش کرتے ہیں مکہ شہر کو اس حالت میں کہ تو پھر اس شہر میں کامیاب طور پر داخل ہو گا.ان آیات سے ہجرت اور پھر دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں داخلہ ثابت ہے اور اس کے سوا اور کوئی آیات اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں.کتب سابقہ میں بھی یہ پیشگوئی موجود ہے.چنانچہ یسعیاہ باب ۲۱ میں لکھا ہے ” عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کو کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اے تیما کی سرزمین کے باشندو روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک کی برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیرا اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے باقی لوگ گھٹ جائیں کے ہ خدا وند اسرائیلی کے خدا نے یوں فرمایا ۱۸۰ اس پیشگوئی میں ہجرت اور جنگ بدر کا نقشہ کھینچا گیا ہے.اوّل تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں جانے کی خبر دی گئی ہے اور پھر بتایا ہے کہ اس کے ایک سال بعد آپ کے اور آپ کے دشمنوں کے درمیان جنگ ہوگی جس میں دشمن شکست کھا ئیں گے اور بھاگ نکلیں گے اور وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے بھاگ جانے کا الزام لگاتے تھے اپنے لاؤلشکر کی موجودگی میں پیٹھ دکھائیں گے اور پھر اس حال میں کہ کمانڈر اور ان کے جرنیلوں کی لاشیں میدانِ جنگ میں پڑی رہ جائیں گی اور آخر وادی مکہ اپنے جرنیلوں کو کھو کر اپنی اس شوکت کو کھو بیٹھے گی جو اُس سے پہلے اسے حاصل تھی.اسی طرح تو رات میں یہ پیشگوئی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکالے جا کر پھر فاتحانہ مکہ میں داخل ہوں گے.چنانچہ
خطبات محمود ۴۸۱ سال ۱۹۳۹ء استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے ” فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہو ا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.19 فاران کے پہاڑ مکہ کے گرد کے پہاڑ ہیں اور فاران کی وادی مکہ کی وادی ہے.پس اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ میں اس طرح داخل ہوں گے کہ ان کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ہو گی.آتشی شریعت سے مراد دلوں کو صاف کرنے والی شریعت بھی ہوسکتی ہے اور موقع کے مناسب اس کے معنے تلوار کے بھی ہو سکتے ہیں کہ جب کی مکہ والے قرآن کی حکومت کو جو رحمت کا پیغام تھا قبول نہ کریں گے بلکہ اسے مٹانے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آتشی شریعت یعنی تلوار دے گا اور آخر مکہ کے لوگ تلوار کے آگے اپنے سر جھکا دیں گے.ان پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکل جانے کے بعد مکہ والوں پر یہ عذاب آنا تھا کہ ان کی حکومت جاتی رہنی تھی اور ان کے بڑے بڑے سرداروں نے مارا جانا تھا.میرے نزدیک ما كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُم و انت فيهم ، میں اسی عذاب کی طرف اشارہ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار محمد رسول اللہ کو نکال کر خوش تھے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملکہ سے نکال کر نعوذ باللہ ذلیل کر دیا مگر در حقیقت انہوں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور اپنے لئے عذاب کا راستہ کھول دیا ہے.چنانچہ اس کا پہلا ظہورا بو جہل کی بددعا سے جسے اس آیت سے پہلے نقل کیا گیا ہے اور پھر اُس کے پورا ہونے سے ہوا ہے اور بقیہ ظہور بعد میں ہوں گے.بائیبل میں جو پیشگوئی ہے اس میں بھی بھاگنے والے کے الفاظ ہیں اور بھا گا وہیں سے جاتا ہے جہاں لوگ ظلم و ستم کر رہے ہوں اور امن و آرام کے ساتھ رہنے نہ دیتے ہوں.اسی طرح رگ وید میں بھی یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ دو بھاگنے والے بھاگیں گے اور خدا ان کی حفاظت کرے کی گا.جس سے مرا د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے.پس یہ پیشگوئی کی متعدد کتابوں میں پائی جاتی تھی کہ ایک عظیم الشان نبی آئے گا بلکہ تو رات میں تو عرب کا نام بھی لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ نبی عرب میں آئے گا پھر اُس کے شہر کے لوگ اس پر ظلم کریں گے اور اسے وہاں سے بھاگنا پڑے گا.۲۰
خطبات محمود ۴۸۲ سال ۱۹۳۹ء اس پیشگوئی کا اس امر سے بھی ثبوت ملتا ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی تو آپ گھبرا گئے اور آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا وہ آپ کو اپنے چازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو صحف انبیاء سے خوب واقف تھا اور کہا کہ ان کے پاس اپنی حالت کا ذکر کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُنہیں باتیں بتائیں کہ کس طرح ان پر وحی نازل ہوئی ہے تو ورقہ بن نوفل نے کہا کاش میں اُس وقت جوان ہوتا اذُ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ جب تیری قوم تجھے مکہ سے نکال دے گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحف سابقہ کی یہ پیشگوئیاں ان کے ذہن میں تھیں کہ عرب میں ایک عظیم الشان نبی کی پیدا ہو گا جسے اس کی قوم کے لوگ اپنے شہر میں سے نکال دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات سنی تو آپ سخت حیران ہوئے کیونکہ اس وقت تک ابھی آپ نے کوئی دعوئی نہیں کیا تھا اور سارا عرب آپ کو راستباز اور امین سمجھتا اور آپ کو عزت کے مقام پر بٹھاتا تھا.چنانچہ اسی حیرت کے عالم میں آپ نے ورقہ بن نوفل سے کہا أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمُ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ اُنہوں نے کہا ہاں ضرور نکال دے گی.اسے تو یہ ایک ایسی پیشگوئی تھی جو متعدد بارالہی کتابوں میں آچکی تھی اور اس کی طرف پہلے ہی واقف لوگوں کے ذہن منتقل تھے چنانچہ ورقہ بن نوفل نے اپنی گفتگو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی لیا اور کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ پر وحی لایا کرتا تھا.تو پہلی کتابوں میں نہایت وضاحت کے ساتھ اس پیشگوئی کا ذکر تھا کہ عرب میں ایک عظیم الشان نبی آئے گا جو موسیٰ کا مثیل ہو گا.اس کی قوم کے لوگ اسے کی اپنے شہر سے نکال دیں گے.پھر وہ کسی اور مقام میں پناہ لے گا اور وہاں سے طاقت حاصل کر کے مکہ کو فتح کرے گا.قرآن کریم میں بھی لَرَادُكَ إِلَى مَعَادٍ اور اَنْتَ حِلُّ بِهَذَا الْبَلَدِ وغیرہ الفاظ میں مختصراً اور متعد د دوسرے مقامات میں تفصیلاً یہ پیشگوئی بیان کی جاچکی تھی اور ایسی کی حالت میں کی جا چکی تھی کہ ابھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں تھے اور یہ خیال بھی نہیں کی کیا جاسکتا تھا کہ ملکہ کے لوگ کسی وقت آپ کو اپنے شہر میں سے نکال دیں گے مگر بہر حال اللہ تعالیٰ یہ خبر دے چکا تھا کہ کفار پہلے آپ کو مکہ سے نکالیں گے اور اس کے بعد خدا آپ کو فاتح کی حیثیت میں مکہ میں لائے گا.یہ پیشگوئی تھی جس کا پورا ہونا مقدر تھا اور اس پیشگوئی کا پورا ہونا
خطبات محمود ۴۸۳ سال ۱۹۳۹ء مکہ والوں کے لئے بہت بڑا عذاب تھا.کیونکہ مکہ والے اپنے آپ کو عرب کا حاکم اور سردار سمجھتے اور مکہ کو ہی دارالخلافہ سمجھتے تھے مگر جب ان پر یہ عذاب نازل ہوا اور مکہ فتح ہو گیا تو اس کی کے بعد دارالخلافہ ہمیشہ کے لئے مدینہ رہا.گویا دارالخلافہ والی عزت جو مکہ کو حاصل تھی وہ چھین لی گئی.البتہ حج والی برکات وہاں بدستور قائم رہیں اور قیامت تک قائم رہیں گی.مگر اسلام کا مرکز ہونے اور دنیوی نظام کا مرجع ہونے کا شرف مکہ کو پھر حاصل نہ ہوسکا نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر مکہ میں رہائش کے لئے واپس آئے اور نہ صحابہ آئے بلکہ اُنہوں نے مدینہ کو ہی اپنا کی دارالخلافہ بنائے رکھا.اس کے بعد مسلمان مدینہ سے نکلے تو اُنہوں نے دمشق کو مرکز بنایا ، دمشق سے نکلے تو بغداد کو مرکز بنایا، بغداد سے نکلے تو مصر کو مرکز بنایا ، مصر سے نکلے تو استنبول کو مرکز بنایا ای مگر اسلام کا مرکز نہ آیا تو مکہ میں نہ آیا.پس اس قوم کی حکومت کی تباہی و بربادی، اس کے افسروں کا مارا جانا، ان کی عزتوں کا خاک میں مل جانا اور ان کی وجاہتوں کا خاتمہ ہو جانا یہ عذاب تھا جس کا اہل مکہ پر آنا مقدر تھا مگر یہ عذاب اسی وقت آ سکتا تھا جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنے شہر میں سے نکال دیں.اس کے بغیر یہ عذاب آ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ پیشگوئی یہی تھی کہ وہ اپنے نبی کو شہر میں سے نکالیں گے تب ان پر عذاب آئے گا.پس یہ وہ عذاب تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اہلِ مکہ پر آ ہی نہیں سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مکہ والے تین تدبیریں کر رہے تھے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا شہر میں سے نکال دیں.دو تدبیریں ہمارے منشا کو پورا کرنے والی نہیں تھیں.ہمارا منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا تھا جب وہ آپ کو اپنے شہر میں سے نکال دیں.تب ہم نے بھی تدبیر کی اور مکہ والوں کو اس رنگ میں چلایا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور ان کی آنکھوں کے سامنے محمد رسول اللہ کو مکہ سے نکال کر مدینہ پہنچا دیا.( گورسول کریم کی خود نکلے لیکن اس کا موجب کفار کا قتل کا منصوبہ تھا ورنہ آپ نکلنا نہ چاہتے تھے.) اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے مکہ میں داخل ہونے کی پہلی بنیا د کب پڑی؟ سو مکہ میں داخل ہونے کی پہلی بنیاد جنگ بدر میں ہی پڑی اور اس جنگ میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اہل مکہ پر وہ عذاب آیا جس نے ان کی طاقت کو تو ڑ کر رکھ دیا.کیونکہ بدر کے
خطبات محمود ۴۸۴ سال ۱۹۳۹ء میدان میں ابو جہل نے یہ دُعا کی تھی کہ اے خدا! اگر اسلام تیری طرف سے ہے تو ہم پر پتھر برساتی یا ہمیں درد ناک دُکھ کے عذاب میں مبتلا کر.اللہ تعالیٰ نے اس دُعا کے نتیجہ میں وہ عذاب اُن پر نازل کر دیا اور اس طرح اُس دوسرے عذاب کی بنیاد ڈال دی جو اُس کے بعد فتح مکہ کی صورت میں اُن پر آنے والا تھا کیونکہ اس عذاب کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکالے جائیں گے اور پھر مدینہ سے آ کر مکہ پر حملہ کریں گے اور اہل مکہ کی رہی سہی طاقت کو بالکل توڑ دیں گے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور آپ نے کی دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ مکہ کو فتح کر لیا.اب دیکھو اس عذاب کے ذکر کا محل اور موقع بالکل صاف معلوم ہو گیا اور ان آیتوں میں کوئی بھی ایسی بات نہ رہی جس کا سمجھنا کسی کے لئے مشکل ہو.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ مکہ والوں پر جو یہ عذاب آیا وہ ان کے لئے نہایت ہی دردناک تھا.مکہ کے رؤساء کولوگوں میں اس قسم کی عزت اور عظمت حاصل تھی کہ لوگ ان کے کی سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے اور ان کے احسانات بھی لوگوں پر اس کثرت کے ساتھ تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ تک نہیں اُٹھا سکتا تھا.ان کی اس عظمت کا پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جس سردار کو مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتکو کرنے کے لئے بھیجا اس نے باتوں باتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیا.یہ دیکھ کر ایک صحابی نے زور سے اپنی تلوار کا کندہ اِس کے ہاتھ پر مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو مت لگا.اُس نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا تا کہ معلوم کرے کہ یہ کون شخص ہے جس نے میرے ہاتھ پر تلوار کا دستہ مارا ہے.صحابہ چونکہ خود پہنے ہوئے تھے اس لئے اُن کی صرف آنکھیں اور اُس کے حلقے ہی دکھائی دیتے تھے.وہ تھوڑی دیر غور کے کے دیکھتا رہا.پھر کہنے لگا کیا تم فلاں شخص ہو؟ انہوں نے کہا ہیں.اُس نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں میں نے فلاں موقع پر تمہارے خاندان کو فلاں مصیبت سے نجات دی اور فلاں موقع پر تم پر فلاں احسان کیا.کیا تم میرے سامنے بولتے ہو؟ اب تو احسان فراموشی کا مادہ لوگوں میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ کسی پر شام کو احسان کرو تو صبح کو وہ بھول جاتا ہے اور کہتا ہے کیا میں اب ساری عمر اس کا غلام بنا رہوں.وہ ساری عمر کی غلامی چھوڑ ایک رات کی کی
خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۹ء احسان کی قدر تک برداشت نہیں کر سکتا.مگر عربوں میں احسان مندی کا جذبہ بدرجہ کمال پایا جاتا تھا.اب یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا مگر جب اُس نے اپنے احسانات گنوائے تو کی اُس صحابی کی نظریں زمین میں گڑ گئیں اور وہ شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا.اس پر پھر اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنی شروع کر دیں اور کہا میں عرب کا باپ ہوں.میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم اپنی قوم کی عزت رکھ لو اور دیکھو یہ جو تمہارے ارد گرد جمع ہیں یہ تو کی مصیبت آنے پر فوراً بھاگ جائیں گے اور تمہارے کام آخر تمہاری قوم ہی آئے گی.پس کیوں کی اپنی قوم کو ذلیل کرتے ہو؟ میں عرب کا باپ ہوں تم میری بات مان لو اور جس طرح میں کہتا ت ہوں اُسی طرح عمرہ کئے بغیر واپس چلے جاؤ.اسی دوران میں اُس نے اپنی بات پر زور دینے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منوانے کی خاطر آپ کی ریش مبارک کو پھر ہاتھ لگا دیا اور گوی آپ کی ریش مبارک کو اُس کا ہاتھ لگانا لجاجت کے رنگ میں تھا اور اس لئے تھا کہ آپ سے وہ اپنی بات منوائے مگر چونکہ اس میں تحقیر کا پہلو بھی پایا جاتا تھا اس لئے صحابہ اُسے برداشت نہ کر سکے اور جونہی اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگایا پھر کسی شخص نے زور سے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پر مارا وار کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کی طرف مت بڑھا.اُس نے پھر آنکھیں اُٹھا ئیں اور غور سے دیکھتا رہا کہ یہ کون شخص ہے جس نے مجھے روکا اور آخر پہچان کر اُس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں اور کہا.ابو بکر ! میں جانتا ہوں کی کہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں.۲۲ پس وہ دوسروں پر اس قدر احسانات کرنے والی قوم تھی کہ سوائے حضرت ابو بکر کے جس قدر انصار اور مہاجر وہاں تھے اُن سب پر اُس ایک رئیس کا کوئی نہ کوئی احسان تھا اور حضرت ابو بکر کے سوا اور کسی میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ اس کے ہاتھ کو روک سکے.اب ایک تو وہ زمانہ تھا کہ اہلِ مکہ کو اس قدر عزت حاصل تھی کہ اُن کا ایک سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جاتا اور آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا کر کہتا ہے میں کی عرب کا باپ ہوں میری بات مان لو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی بات کا انکار نہیں کرتے اور جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا ہے تو سوائے حضرت ابو بکر کے اور کوئی صحابی جرات نہیں کر سکتا کہ اُسے رو کے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک پر
خطبات محمود ۴۸۶ سال ۱۹۳۹ء رؤساء مکہ کا کوئی نہ کوئی احسان تھا مگر پھر وہ زمانہ آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت عمرؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے تو حج کے بعد آپ کی ملاقات کے لئے لوگوں نے آنا شروع کر دیا.انہی ملاقاتیوں میں مکہ کے رؤساء اور سرداران قریش کے بعض لڑکے بھی تھے.حضرت عمر نے اُن کو عزت سے بٹھایا اور ان سے مختلف باتیں پوچھتے رہے.اتنے میں ایک غلام صحابی آیا وہی غلام جو ابتدا یا سلام میں ان رؤساء عرب اور سردارانِ قریش کے باپ دادا کی جوتیاں کھایا کرتا تھا جسے وہ گلیوں میں گھسیٹتے اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مار مار کر زخمی کر دیتے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں.وہ پیچھے ہٹ گئے اور وہ صحابی قریب ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے باتیں کرنے لگ گیا.اتنے میں ایک اور صحابی آ گیا.حضرت عمرؓ نے پھر ان نوجوانوں سے کہا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کے لئے جگہ چھوڑ دو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں.وہ نو جوان پھر پیچھے ہٹ گئے مگر اسی دوران کی میں تیسر اصحابی آ گیا اور حضرت عمرؓ نے ان سے پھر کہا کہ ان کے لئے جگہ خالی کر دو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں.چونکہ حج کے ایام تھے اس لئے یکے بعد دیگرے کئی صحابہ آتے چلے گئے جن میں سے کئی ان رؤساء کے یا اُن کے باپوں کے غلام تھے اور حضرت عمر ہر صحابی کے آنے پر ان نوجوانوں سے یہی کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کے لئے جگہ خالی کر دو یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے.یہ دیکھ کر وہ اس مجلس سے اُٹھ کر باہر آ گئے اور ایسی حالت میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسوں بھرے ہوئے تھے.اُنہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کیا کبھی یہ خیال بھی ہوسکتا تھا کہ ہم کسی زمانہ میں اس قدر ذلیل ہو جائیں گے کہ وہ لوگ جو ہماری جوتیاں اٹھانا اپنے لئے فخر کا موجب سمجھا کرتے تھے مجلس میں ایک ایک کر کے ہم سے آگے بٹھائے جائیں گے اور ہمیں ہٹنے پر مجبور کر دیا جائے گا.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہم جو نتیوں تک جا پہنچیں گے.گویا وہ جو ذلیل تھے معزز ہو گئے اور ہم جو معزز تھے ذلیل ہو گئے.یہ تمام نو جوان اگر چہ ایماندار تھے مگر غصہ اور جوش میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے لیکن ان میں سے ایک نوجوان کی
خطبات محمود ۴۸۷ سال ۱۹۳۹ء جس کا ایمان بہت زیادہ مضبوط تھا وہ کہنے لگا بھائی تم نے بات تو ٹھیک کہی مگر اس کا ذمہ داری کون ہے؟ اور کس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ کا انکار کر دیں ؟ انہوں نے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی تھی اس لئے آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مجلس میں پیچھے ہٹا دیئے گئے مگر وہ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی تھی ، جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں قربان کر دیئے اُن میں سے گو بہت سے مارے گئے مگر اب جو باقی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے اور ان کو ہم سے زیادہ ادب کے مقام پر بٹھایا جائے.اُنہوں نے کہا یہ بات تو تسلیم کی مگر کیا اب اس ذلت کو مٹانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں اور کیا کوئی ایسی قربانی نہیں جو اس گناہ کا کفارہ ہو سکے؟ اس پر اسی نے کہا کہ چلو حضرت عمرؓ کے پاس چلیں اور انہی سے اس کا علاج دریافت کریں.چنانچہ وہ پھر آپ کے مکان پر گئے اور دستک دی.مجلس اس وقت خالی تھی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر بلایا اور کہا کس طرح آنا ہوا.اُنہوں نے کہا آج جو کچھ سلوک ہمارے ساتھ ہوا ہے وہ آپ جانتے ہی ہی ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں معذور تھا کیونکہ اُس وقت جو لوگ میرے پاس آئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ میں اُن کی عزت و تکریم کرتا.اُنہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا نے کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر کے اپنے لئے بہت بڑی ذلّت مول لے لی مگر کیا اب کوئی کی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانیوں سے مٹ سکے اور کیا ہمارے باپ دادا سے یہ جو غلطی ہوئی اُس کا کوئی علاج نہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چونکہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے ذمہ اہل عرب کے نسبوں کو یا د رکھنا ہوتا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ان نو جوانوں وروہ کے باپ دادا کو کتنی بڑی عزت اور وجاہت حاصل تھی.یہاں تک کہ اسلام کی دشمنی کے زمانہ میں بھی وہ اگر کسی مسلمان کو پناہ دے دیتے تھے تو کسی شخص کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اُس کی مسلمان کو دُکھ پہنچا سکے.اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے یہ واقعات آئے اور اُس کا تصور کر کے اُن پر رقت طاری ہو گئی اور بات کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گیا اور غلبہ رقت میں صرف آپ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں
خطبات محمود ۴۸۸ سال ۱۹۳۹ء ان دنوں عیسائیوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر کے کہا اُس کا علاج صرف وہاں ہے یعنی اب کی اس ذلت کا علاج ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس جہاد میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو پھر خود بخو دلوگ ان باتوں کو بھول جائیں گے.چنانچہ اسی وقت وہ لوگ وہاں سے اُٹھے اور اپنے کی اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے.وہ سات نوجوان تھے جو اس ذلت کو دور کرنے کے لئے جہاد میں شامل ہوئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان نوجوانوں میں سے ایک نوجوان بھی کی زندہ مکہ کی طرف واپس نہیں آیا.سب اسی جنگ میں شہید ہو گئے.۲۳ اب دیکھو گیا تو انہیں وہ عزت حاصل تھی کہ وہ مکہ میں کھڑے ہو کر جب کہہ دیتے کہ ہم فلاں مسلمان کو پناہ دیتے ہیں تو کسی شخص کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ اس مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچا سکے یہاں تک کہ ان کا ایک سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا تا کج ہے اور سوائے حضرت ابوبکر کے اور کوئی شخص ایسا ثابت نہیں ہوتا جو اُن کا زیر بار احسان نہ ہو اور جو جرات اور دلیری سے اُسے روک سکے اور گجا یہ زمانہ کہ ادنی ادنی غلام جب آتے تو ان رؤسا اور سردارانِ قریش کے لڑکوں سے حضرت عمر فر ماتے کہ پیچھے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ ہوتے ย ہوتے وہ جوتیوں میں جا پہنچے.حالانکہ ان آنے والے صحابہ میں سے اکثر وہ تھے جنہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس سے روپیہ دے کر آزاد کروایا ہوا تھا اور ایک کی تو کی والدہ کی شرمگاہ میں کفار نے نیزہ مار کر مار ڈالا تھا.۲۴ے ان ادنی اور ذلیل سمجھے جانے والے لوگوں کو ایک ایک کر کے آگے بٹھایا گیا اور جب اُن میں سے کوئی حضرت عمرؓ کی مجلس میں آتا تو کی آپ نو جوانوں سے فرماتے پیچھے ہٹ جاؤ پھر کوئی اور صحابی آتا تو آپ فرماتے اور زیادہ پیچھے ہٹ جاؤ پھر کوئی اور صحابی آتا تو آپ پھر فرماتے پیچھے ہٹ جاؤ.یہ وہ عذاب تھا جو پیشگوئی کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکالے جانے کے بعد اہلِ مکہ پر آیا.چنانچہ جب اُنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیا اور یہ تصور کر کے خوش ہوئے کہ ہم جیت گئے تو خدا نے کہا تم نادان ہو.تمہاری فتح نہیں ہوئی بلکہ فتح ہمارے رسول کی ہوئی ہے اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہمارا رسول دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہو اور اسے ہمیشہ کے لئے فتح کرے اور یہی وہ خبر تھی جو دَ مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ
خطبات محمود ۴۸۹ سال ۱۹۳۹ء میں دی گئی تھی کہ وہ عذاب جو فتح مکہ کی صورت میں آنا ہے وہ اہلِ مکہ پر اُس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں موجود ہیں.اس عذاب کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ آپ کو مکہ سے نکال دیں.چنانچہ انہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دیا جس کے بعد پہلے جنگِ بدر ہوئی جو فتح مکہ کی پہلی کڑی تھی اور اس کے بعد بعض اور غزوات ہوئے جو اس فتح کی دوسری کڑیاں تھیں اور آخر خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر تھا اور جس کا پہلی الہامی کتابوں میں بھی ذکر پایا جاتا تھا مکہ فتح ہوا اور اسلام کے مقابلہ میں اہلِ مکہ کی طاقت بالکل ٹوٹ گئی.یہ وہ عذاب ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اہلِ مکہ پر نہیں آ سکتا تھا اور جس کا اس آیت میں کہ ما كان الله العَذِّبَهُم و انت فيهم ، ذکر کیا گیا ہے لیکن وہ عذاب بھی بہر حال وقتی تھا مگر قرآن کریم چونکہ سارے زمانوں کے لئے ہے اس لئے اس آیت کے ایک روحانی معنے بھی ہیں جس کے ماتحت مومن ہر وقت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دو قسم کے مومن ہو ا کرتے ہیں.ایک تو وہ جو آپ کے اُسوہ حسنہ کے کامل پیرو ہیں ، تمام احکام اسلام پر عمل کرتے اور ہر بات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور پیروی کرتے ہیں مگر ایک وہ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا نمونہ نہیں.ان سے غلطیاں بھی کی ہو جاتی ہیں مگر معاوہ استغفار کر کے اپنی حالت کو بدلنے اور قلب کی اصلاح کرنے کی کوشش کی میں مصروف ہو جاتے ہیں.پس مومنوں کی یہ دو قسمیں ہیں اور انہی دونوں قسموں کا اس آیت کی میں ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ عذاب سے بچنے کے دو ہی طریق ہیں.اول تو یہ کہ ما كان اللهُ عَذِّبَهُمْ وَانتَ فِيهِمْ، جس قوم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اُس پر عذاب نازل نہیں ہو سکتا یعنی وہ لوگ جن کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ بیٹھیں جو تقویٰ کی کی باریک سے باریک راہوں کو اختیار کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی پوری کوشش کریں اُن پر کبھی عذاب نازل نہیں ہو سکتا گویا کامل تقویٰ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکتا ہے لیکن اگر کامل تقوی نہ ہو اور انسان سے غلطیاں سرزد ہو جاتی ہوں تو اس صورت میں بھی اگر تم کوشش کرتے ہو کہ تم سے غلطیاں دور ہو جائیں اور تم استغفار میں مصروف ہو جاتے ہو
خطبات محمود ۴۹۰ سال ۱۹۳۹ء اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہو تو اس صورت میں بھی عذاب نازل نہیں ہوسکتا.پس عذاب سے بچنے کے دو ہی ذریعے ہیں یا تو انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے اور ایسا چلے کہ آپ کو اپنے دل میں مہمان بنالے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے رگ وریشہ میں سرایت کر جائے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر نہیں بلکہ خدا کا نام لے کر کہا ہے کہ سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے مرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھ یہ وار یعنی وہ یار مجھ میں سر سے لے کر پیر تک نہاں ہے اب تم حملہ کرو گے تو وہ مجھ پر نہیں بلکہ خدا پر ہو گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جس شخص کے اندر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ جائیں ہمارا عذاب اس پر نازل نہیں ہو سکتا.پس اگر تم میرے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت اور ایسا پیار کرو اور آپ کے احکام پر ایسا عمل کرو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق تمہاری رگ رگ میں سرایت کر جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے دل میں گھر بنالیں.یہاں تک کہ تم پر حملہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہو جائے.اگر تم یہ حالت اختیار کر لو تو تم پر کبھی عذاب نازل نہیں ہو سکتا اور اگر تمہاری یہ حالت نہیں مگر تمہاری خواہش یہ ضرور ہے کہ تم کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل بن جاؤ اور اگر تم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو تم بے اختیار اسْتَغْفِرُ الله اسْتَغْفِرُ الله کہنے لگ جاتے ہو اور کوشش کرتے ہو کہ وہ غلطی آئندہ تم سے سرزد نہ ہو تو اس صورت میں بھی تم پر عذاب نازل نہیں ہوسکتا کیونکہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جا رہے ہو اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جارہا ہو ہماری یہ سنت ہے کہ ہم اُس پر بھی عذاب نازل نہیں کیا کرتے.یہ وہ معنے ہیں جن پر کسی طرح بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ورنہ جو معنے عام لوگ کرتے کی ہیں اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ وہ معنے واقعات کے لحاظ سے غلط ہیں کیونکہ بعض قسم کے عذاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اہلِ مکہ پر آئے اور جو دوسرے معنے ہیں وہ گو درست ہیں مگر وہ اس آیت پر اس وجہ سے چسپاں نہیں ہو سکتے کہ ویسا عذاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو کیا غیر موجودگی میں بھی مکہ پر نہیں آسکتا تھا.“ (الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء)
خطبات محمود ۴۹۱ سال ۱۹۳۹ء ل الانفال : ۳۰ تا ۳۴ البقره : ۵۵ المائده : ۲۵ المائده : ۲۷ الصحيح البخارى كتاب التفسير سورة الانفال باب قوله و مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ و انت فيهم الاصابه في تمييز الصحابه ابن حجر عسقلانی الجزء الثالث صفحہ۳۵ذکر عمیر بن ابی وقاص دار الاحياء التراث العربي الطبعة الاولى ۱۳۲۸ھ ف الصحيح البخارى كتاب المغازى باب فضل من شَهِدَ بدراً ا سیرت لابن هشام جلد ۲ صفحہ ۲۸۷، ۲۸۸ مطبع المصطفی البابی الحلبی و اولاده مصر ۱۹۳۶ ء غزوہ بدر ا تذکرہ صفحہ ۳۱۴.ایڈیشن چہارم المومنون : ۲۸ ها هود : ۴۳ ۱۳ یونس : ۹۹ القصص : ٨٦ الحجر كل البلد :٣،٢ يسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۷ تا ۲۱ 19 استثناء باب ۳۳ آیت ۲ ٢٠ يسعياه باب ۲۱ آیت ۲۳ تا ۲۶ ال السيرة النبويه لامام ابن كثير - باب كيفية بدء الوحى على رسول الله الجزء الاول صفحه ۳۸۶ مطبعة عيسى البابي الحلبى و شركائه - القاهره ١٩٧٤ء السيرة النبوية لا بن هشام - الجزء الثالث صفحہ ۳۲۹ مطبعة مصطفى البابي الحلبي واولادة بمصر ۱۹۳۶ ء زیر عنوان امر الحديبيه في اخرسنة ست ۲۳ اسد الغابه جلد ۲ صفحه ۳۷۲ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۲۴ عمدة القاری شرح صحيح البخارى كتاب البيوع باب شراء المحلوك من الحربي صفحہ ۲۹.الجزء الثاني عشر - المكتبة الرشيديہ کوئٹه الطبعة الاولى ١٧٠٢ء
خطبات محمود ۴۹۲ ۳۱ سال ۱۹۳۹ء رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی برکات سے مستفیض ہونے کی کوشش کرو.(فرموده ۳/نومبر ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وإذا سألكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اس کے بعد فرمایا:- کل سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے اور کچھ لوگ آج سے اور کچھ کل سے اعتکافوں میں بیٹھ جائیں گے.اس رمضان کے آخری عشرہ میں ایک اور خصوصیت بھی ہے اور وہ یہ کہ اس کی ستائیسویں تاریخ جس میں بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے جمعہ کے دن آتی ہے.جمعہ اپنی ذات میں مقدس دن ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہماری عید کا دن ہے.اور عید کے دن کھانے ، پہننے اور عبادت کے دن ہوتے ہیں.جمعہ کے دن لوگ نہاتے ، دھوتے ، کپڑے بدلتے اور خوشبوئیں لگاتے ہیں اور وسیع علاقہ سے جمع ہو کر ایک جگہ نماز پڑھتے ہیں.اس دن خاص طور پر وعظ کرنے کا حکم ہے.کچھ حصہ دن کا دُنیوی کاموں میں سے فارغ کر کے عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا ہے اس روز کچھ وقت گھر کی صفائی کے لئے
خطبات محمود ۴۹۳ سال ۱۹۳۹ء مخصوص ہوتا ہے، کچھ اپنے جسم اور کپڑوں کی صفائی وغیرہ کے لئے اور کچھ حصہ میں خصوصیت سے عبادت کی جاتی ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہماری عید کا دن ہے.پس اس رمضان کے آخری عشرہ میں جمعہ کے دن جو مسلمانوں کی عید کا دن ہے ستائیسویں تاریخ ہے جس میں عام طور پر لیلۃ القدر کی برکات بزرگوں نے دیکھی ہیں اور ان کی دونوں کا جمع ہونا خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے اور اس وجہ سے یہ ایام اس قابل ہیں کہ ان سے انسان فائدہ اُٹھائے اور اپنے اندر ایک تغیر پیدا کر مگر تغیر بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض تغیر چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگر اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے ان انسانوں کے ساتھ جوان تغیرات کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں خاص تعلق رکھتے ہیں مثلاً ایک شخص ایک بڑے محل کی تعمیر کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لئے سامان جمع کر رہا ہے مگر ایک اور ہے جو بارش میں سوکھی مٹی کی تج ایک ٹوکری کی تلاش میں ہے.چونکہ اس کے کچے مکان کی چھت ٹپک رہی ہے.اب مٹی کی ٹوکری کومحل کے سامانوں کے ساتھ بے شک کوئی نسبت نہیں اور مٹی کی ٹوکری اس شخص کے ضروری سامانوں کے مقابل میں بہت حقیر چیز ہے.جس نے محل بنوانا ہے وہ کہیں نقشے تیار کراتا ہے، اسٹیمیٹ بنواتا ہے اور کہیں اینٹیں اور لکڑی جمع کرتا ہے مگر اس غریب کے لئے جس کی کا مکان بارش میں ٹپک رہا ہے سوکھی مٹی کی ٹوکری ہی زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کا کی گزارہ نہیں ہوسکتا تو انسان کو جس چیز کی ضرورت ہو وہی اُس کے لئے زیادہ اہم ہوتی ہے اور جو اُ سے چنداں فائدہ نہیں پہنچاتی وہ اُس کے لئے اہم نہیں ہوتی چاہے وہ اپنی ذات میں کتنی ہی مُفید کیوں نہ ہو ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ کوئی چوہڑا لا ہور کے پاس سے ایک مرتبہ گزرا اُس نے دیکھا کہ شہر میں کہرام مچ رہا ہے.ہندو، مسلمان ، مرد، عورت سب رو ر ہے ہیں.اس نے اس کی وجہ دریافت کی تو اُسے بتایا گیا کہ مہا راجہ رنجیت سنگھ مر گیا ہے.یوں تو سکھوں کی حکومت بہت بدنام ہے مگر اس میں طلبہ نہیں اور کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی میں نے بار ہائسُنا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں امن قائم ہو گیا تھا اور اس نے خرابیوں کو بہت حد تک دُور کر دیا تھا.مسلمانوں پر سکھوں کے
خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۹ء مظالم کے جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں وہ سکھ مسلوں کے زمانہ کے ہیں.جب ملک کی حکومت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی ، لوٹ مار ہو رہی تھی اور طوائف الملو کی پھیلی ہوئی تھی.مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کوشش ہمیشہ یہی رہتی تھی کہ امن قائم ہو اور وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایک حد تک اچھا سلوک کرتے تھے.ان کے وزراء میں مسلمان بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد یعنی ہمارے دادا بھی ان کے جرنیلوں میں سے تھے اور کئی مسلمان بھی بڑے کی بڑے عہدوں پر تھے.پس اس امن کو دیکھتے ہوئے جو ان کی وجہ سے ملک کو حاصل ہوا اور اس فساد کو یاد کر کے جو ان سے قبل پا یا جا تا تھا ان کی موت کا سب کو صدمہ تھا اور لوگ رور ہے تھے.چوہڑے نے جو اس کہرام کی وجہ دریافت کی تو کسی نے اسے بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گئے ہیں.وہ چوہڑا حیرت سے اس شخص کا منہ تکنے لگا اور دریافت کرنے لگا کہ لوگ ان کی وفات پر اتنے بے تاب کیوں ہیں؟ میرے باپ جیسے لوگ مر گئے تو مہا راجہ رنجیت سنگھ کس شمار میں تھے.یہ لطیفہ بیان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جسے جس چیز کی قدر ہوتی ہے وہی اُس کے نزدیک بڑی ہوتی ہے.اس چوہڑے کا باپ اس سے حسنِ سلوک کرتا تھا اس لئے وہ اسے پیارا تھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا حسنِ سلوک گولا کھوں سے ہو مگر چونکہ وہ ان لاکھوں میں سے نہ تھا، نہ اس کی نظر اتنی وسیع تھی کہ وہ سمجھتا ملک کا فائدہ اور امن و امان بڑی چیز ہے.انفرادی فائدہ کی اِس کے مقابل پر کوئی حقیقت نہیں.اس لئے اُس کا یہی خیال تھا کہ اصل چیز قد ر کی میرا باپ تھا.جب وہ فوت ہو گیا تو پھر مہا راجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گیا تو کیا ہوا.تو دنیا میں اپنی ضرورت کی اہمیت کی وجہ سے بعض چھوٹی چیزیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور بعض بڑی چیزوں کو عدم علم کی وجہ سے انسان نظر انداز کر دیتا ہے.بچے کو اگر قیمتی سے قیمتی ہیرے بھی مل جائیں تو وہ ان کی کیا قدر کرے گا ؟ وہ تو یہی سمجھے گا کہ یہ شیشے کے ٹکڑے ہیں.غالبا حج کے سفر میں جبکہ میں بمبئی جہاز کے انتظار میں تھا مجھ سے ایک دوست نے ذکر کیا کہ چند روز ہوئے کوئی کی جوہری بازار میں سے جا رہا تھا کہ اس کے ہیرے گر پڑے.غالباً ایک سو پانچ ہیرے تھے جن میں سے بعض چھوٹے اور بعض بڑے تھے.اس نے پولیس کے مرکزی دفتر میں اطلاع دے دی جس نے تمام تھانوں میں آگے اطلاع کر دی کہ ان کی تلاش رکھی جائے.کچھ دنوں کے بعد
خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۹ء ایک شخص ان میں سے بعض ہیرے لایا اور کہا کہ میں نے بعض بچوں کو ان سے کھیلتے دیکھا تھا.ایک بچہ سے پوچھا گیا تو اُس نے کہا میں نے تو یہ گولیاں ایک کاغذ میں پڑی ہوئی پائی تھیں.اس نے انہیں بازار میں پڑے دیکھا اور ان سے گولیاں کھیلنے لگا جس طرح بچے کھیلا کرتے ہیں.جس کی گولی کا سرا دوسرے کی گولی سے لگ جائے وہ جیت جاتا ہے.اس سے جب دریافت کیا گیا کہ باقی گولیاں کہاں ہیں تو اُس نے کہا میں نے محلہ والوں میں تقسیم کر دی تھیں.حالانکہ وہ کئی لاکھ کے ہیرے تھے مگر اس بچے کو اس کی کیا قدر ہو سکتی تھی ؟ وہ شیشہ کی گولیوں کی طرح ان سے کھیلنے لگا.اگر اس کے باپ کو وہ ہیرے ملتے تو اگر وہ بددیانت ہوتا تو چھپاتا پھرتا اور شائد شہر ہی چھوڑ کر چلا جاتا اور کسی دوسرے شہر میں جا کر فروخت کرتا اور اگر دیانتدار ہوتا تو پولیس میں جا کر رپورٹ لکھوا تا مگر بچہ کی نگاہ میں ان کی کوئی قدر نہ تھی.وہ انہیں شیشہ کی گولیاں سمجھتا تھا اور دوسرے بچوں میں تقسیم کرتا پھرتا تھا.اگر اسے مٹھائی کی گولیاں مالتیں تو وہ اس خوشی سے ان کو کی تقسیم نہ کرتا.جب دوسرے بچے وہ ہیرے مانگتے ہوں گے تو وہ کہتا ہوگا کہ یہ گولیاں میرے پاس ایک سو پانچ ہیں.میں نے ان سب کو کیا کرنا ہے کچھ تم بھی لے لولیکن اگر اسے مٹھائی کی کی گولیاں ملتیں تو وہ ہر گز دوسروں کو نہ دیتا بلکہ یہ کہتا کہ میں یہ گولیاں خود کھاؤں گا، دوسروں کو کیوں دوں؟ اس کے نزدیک مٹھائی کی گولیاں زیادہ کام کی چیز تھیں شیشہ کی اتنی نہ تھیں.تو ہر چیز کی قدر انسان کو ضرورت اور علم کے مطابق ہوتی ہے.ایک وقت انسان کے نزدیک روٹی کی کے ٹکڑے کی قدر بڑی ہوتی ہے بہ نسبت جواہرات کے.کہتے ہیں کوئی شخص جنگل میں جارہا تھا کھانا بالکل ختم تھائی کہ وہ بھوک سے بیتاب ہو گیا.زندگی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی کہ اسے راستہ میں ایک تھیلی پڑی ہوئی نظر آئی.اُس نے بڑے شوق سے یہ سمجھ کر اٹھایا کہ شائد اس میں بھنے ہوئے دانے ہوں.وہ بیتاب ہو کر اُس پر جھپٹا اور جھٹ چاقو نکال کر اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ موتی ہیں.اُس نے نہایت حقارت کے ساتھ اُن کو پھینک دیا اور آگے چل پڑا.اُس کی وقت اس کے نزدیک مٹھی بھر دانے یا روٹی کا ایک ٹکڑا زیادہ قیمتی تھا بہ نسبت ان موتیوں کے.تو ضرورت اور اہمیت کے مطابق انسان کو کسی چیز کی قدر ہوتی ہے بعض لوگ اہمیت کو دیکھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تلاش میں نکلتے ہیں اور نہایت ہی اہم باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.
خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۹ء ہزاروں تم میں سے ایسے ہوں گے جو سارا رمضان یہی دُعا کرنے میں گزار دیں گے کہ یا اللہ مجھے رضائی مل جائے ، ہزاروں سارا رمضان یہی دُعا کرتے رہیں گے کہ دفتر میں ہم دو چپڑاسی ہیں ایک کی ترقی ہونے والی ہے، ایک کی تنخواہ پندرہ سے سولہ ہو جائے گی ، یا اللہ یہ ترقی مجھے ملے میرے دوسرے ساتھی کو نہ ملے.ہزاروں یہ دُعائیں کرتے رہیں گے کہ فلاں سے ہمارا جو پندرہ روپیہ کا جھگڑا ہے اُس کا فیصلہ عدالت میرے حق میں کر دے.ممکن ہے او پرے دل کی سے کوئی اور دُعا بھی کر لیں مگر وہ صرف اس لئے ہوگی کہ توازن پورا ر ہے.ورنہ حقیقی جوش کے ساتھ یہی دُعا کریں گے کہ رضائی مل جائے یا پندرہ سے سولہ کی ترقی مجھے ملے یا پندرہ روپیہ کا کی مقدمہ میرے حق میں فیصلہ ہو جائے.حالانکہ اس سے بہت بڑی بڑی چیزیں ہیں جن کی ان کو ضرورت بھی ہوتی ہے مگر چونکہ علم نہیں ہوتا اس لئے ان کو مانگنے کا احساس بھی ان کے دل میں نہیں ہوتا.مثلاً ایک شخص کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں جن کا اس کے سوا کوئی نگران نہ ہو اور دو گھنٹے کے بعد اُس کی موت آنے والی ہو اور ساتھ ہی اُس کی مرغی بھی گم ہو گئی ہو اور اُسے کوئی تھی فرشتہ آ کر پوچھے کہ مانگو جو مانگتے ہو تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ مجھے اتنی لمبی عمر مل جائے کہ بچوں کی کی پرورش کر سکوں بلکہ اُس وقت یہی کہے گا کہ میری مُرغی مل جائے کیونکہ مُرغی کا نقصان اُسے نظر آ رہا ہے اور موت کا اُسے کوئی علم نہیں.تو انسان بعض اوقات عدم علم کی وجہ سے بڑی بڑی چیزوں کو نظر انداز کر دیا کرتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی زندگی کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ ہے.اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو بڑا بنا نا ہوتا ہے اُن کے لئے شروع سے ہی ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے.مثل مشہور ہے کہ ہونہار پر وا کے چکنے چکنے پات.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ حج کیا.یہ حج آپ نے چھوٹی عمر میں ہی کیا تھا اور اس کا بھی ایک عجیب واقعہ ہوا.آپ ایک ریاست میں حصول تعلیم کی غرض سے گئے.وہاں کے ایک شہزادے کو ایک مخفی مگر خطرناک مرض ہو گیا.وہ چاہتا تھا کہ اس بات کا علم اس کے والدین کو نہ ہوا اور نہ دوسرے لوگوں پر یہ بات ظاہر ہو.اس لئے اُس نے اپنے خاص آدمیوں کو ہدایت کی کہ کوئی مسافر طبیب ملے تو اُسے لاؤ.وہ مقامی اطباء کو بھی اس سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھتا تھا.حضرت خلیفہ اول وہاں مسافری کی حالت میں گئے تھے.اُس وقت طب تو آپ بہت پڑھ چکے تھے
خطبات محمود ۴۹۷ سال ۱۹۳۹ء ، دوسرے علوم کی تعلیم کے لئے وہاں گئے تھے.شہزادہ کے کسی آدمی نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے کہا کہ میں طبیب ہوں.اس نے کہا کہ پھر چلو علاج کرو بہت کچھ ملے گا.مگر یہ عہد کرو کہ اس بات کا تذکرہ کسی سے نہ کرو گے.چنانچہ آپ وہاں پہنچے تو اُس وقت بھی ایک ایسا لطیفہ ہوا کہ آپ فرماتے کہ تھا تو وہ ہماری مصیبت کی وجہ سے مگر سمجھا گیا ہمارا ہنر.حالانکہ اس میں عقل کا کوئی دخل نہ تھا بلکہ حالات کے ماتحت تھا اور یہ اس طرح ہوا کہ جب آپ وہاں پہنچے تو شہزادہ کھانے پر بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا آئیے حکیم صاحب کھانا کھائیے.اس روز شہزادہ کا باورچی اسے اطلاع دے گیا تھا کہ آج میں نے آپ کے لئے خاص شور با تیار کیا ہے وہ بہت قیمتی ہے اور کوئی دوسرا اسے بنانا نہیں جانتا.ادھر حضرت خلیفہ اول کی یہ حالت تھی کہ آپ تین روز سے فاقہ سے تھے.پیسہ پاس نہ تھا.آپ دستر خوان پر تو بیٹھ گئے مگر گلا خشک تھا.آپ نے خیال کیا کہ اگر پہلے روٹی کھائی یا چاول کھائے تو نگلنا مشکل ہوگا اور اگر پہلے پانی پیا تو طبیب تھے جانتے تھے کہ معدہ خراب ہو گا.اس لئے آپ نے شور با کا پیالہ اُٹھایا اور پینا شروع کر دیا.آپ نے تو اس وجہ سے ایسا کیا کہ گلا خشک تھا اور اُنہوں نے سمجھا کہ یہ شخص بہت اچھے کھانوں کا عادی ہے جبھی تو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ دستر خوان پر بہترین چیز کونسی ہے.خیر آپ نے علاج کیا اور اُسے فائدہ ہوا.بعد میں اُس نے آپ کو اتنی رقم دی کہ آپ فرماتے میں نے سمجھا مجھ پر حج فرض ہو گیا ہے اور اس طرح آپ زمانہ طالب علمی میں ہی حج کو چلے گئے.احادیث میں پڑھا تھا کہ خانہ کعبہ کو دیکھ کر پہلی دُعا جو انسان کرے وہ قبول ہو جاتی ہے.آپ فرماتے جونہی ہم بیت اللہ کے قریب پہنچے میں نے سوچنا شروع کیا، کیا دعا مانگوں.کبھی خیال آتا دولت کے لئے دُعا مانگوں مگر پھر سوچتا کہ اگر چور نکال کر لے گئے تو کیا فائدہ، کبھی خیال آتا کہ دُعا کروں علم ملی جائے مگر پھر سوچتا علم کے ساتھ اگر عمل نہ ہو ا تو کیا فائدہ.پھر خیال آتا عمل کی توفیق ملنے کی دُعا کی کروں مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اگر ساتھ علم نہ ہوا تو یونہی اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتا پھروں گا.سوچ ہی رہا تھا کہ خانہ کعبہ سامنے آ گیا میں نے دُعا کی کہ یا الہی میری ساری دُعائیں تو ل کر لیا کر جب بھی کسی مصیبت کے وقت میں تیری طرف توجہ کروں تو میری دُعا کورڈ نہ کرنا بلکہ ضرور قبول کر لینا.سے یہ کیسی لطیف دُعا تھی جس نے آپ کو ساری عمر کام دیا.میں جب
خطبات محمود ۴۹۸ سال ۱۹۳۹ء حج کے لئے گیا تو میں نے بھی یہی دُعا مانگی تھی مگر یہ خیال حضرت خلیفہ اول ہی کی ایجاد سے تھا اور کہتے ہیں اَلفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّم مگر دُعا مانگنے کا بھی ایک طریق ہوتا ہے.ہمارے ملک میں ایک طریق ہے کہ بغیر عقل کے نقل کرتے ہیں جسے میں تو چھچھورا پن سمجھتا ہوں مثلاً میں نے جو یہ بات بیان کی ہے اب تو خیر میں نے روک دیا ہے لیکن اگر نہ روکتا تو کل ہی مجھے کئی رقعے آنے شروع ہو جاتے کہ دُعا کریں ہماری ہر دعا قبول ہو جایا کرے.حالانکہ صرف منہ سے کوئی بات کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوتا.دُعا قلب کے تغیر کا نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ دُعا کی مثال وہی ہے جو کہتے ہیں جو منگے سومر رہے مرے سونگن جائے.یعنی کوئی سوال ایسا ہوتا ہے کہ اس سے موت بہتر ہوتی ہے مگر بعض سوال جیسے مثلاً خدا تعالیٰ سے مانگنا جائز تو ہے مگر اس کے پورا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے اوپر ایک موت وارد کرے.صرف یہ نہیں کہ منہ سے الفاظ دُہراتا جائے مگر میں نے دیکھا ہے لوگ کوئی بات سنتے ہیں تو یونہی منہ سے کہنے لگ جاتے ہیں کہ دُعا کریں یوں ہو.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ مجلس میں فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے بعد الموت ان ان انعاموں کے وعدے کئے ہیں.ایک صحابی جھٹ بول اُٹھے یا رَسُول اللہ ! دُعا کریں میں بھی جنت میں آپ کے ساتھ ہوں.آپ نے فرمایا ہاں تم ساتھ ہی ہو گے جیسے ہم میں بہت سے نقال ہیں ان میں بھی بعض تھے.چنانچہ یہ بات سنتے ہی ایک دوسرا شخص اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا یا رَسُول اللہ ! میرے لئے بھی یہی دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا یہ نقل ہے پہلے نے جو لینا تھا لے لیا ہے تو نقل سے کام نہیں چلتا.کسی سے بات سنی اور منہ سے کہہ دیا یا رقعہ لکھ دیا.اس سے کوئی فائدہ نہیں.ایک دفعہ مولوی رحمت علی صاحب کے والد بابا حسن محمد صاحب نے حضرت خلیفہ اول کو دُعا کے لئے ایک رقعہ لکھا اور اس میں کوئی ایسا فقرہ لکھ دیا کہ آپ کو بہت ہی پسند آیا اور آپ نے درس میں اس کا ذکر کیا.یہ دیکھ کر دوسرے روز آپ جو رقعہ اُٹھاتے اس میں وہی فقرہ درج ہوتا حالانکہ بابا حسن محمد صاحب نے جب رقعہ لکھا ہو گا ان کے قلب کی خاص کیفیت ہو گی.اس اضطراب اور کیفیت سے اس شخص کو جو اُن کا نقال ہو فائدہ پہنچ سکتا تھا اس کے بغیر نہیں.غرض جب تک کوئی خاص موقع نہ ہو خاص تحریک نہ ہو اور دُعا کسی اعلیٰ جذبہ کے ماتحت نہ ہو محض منہ سے کہہ دینے سے کی
خطبات محمود ۴۹۹ سال ۱۹۳۹ء کوئی فائدہ نہیں ہوتا.بیشک جب میں نے یہ دعا کی تو یہ بھی نقل تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد نہیں تھا بلکہ اتنا بھی خیال نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں.میں تو سمجھتا تھا کہ میں مر چکا ہوں اور اسرافیل صور پھونک رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہے کہ میری طرف چلے آؤ.اس لئے اس وقت میں نے جو فعل کیا وہ نقل نہیں تھا لیکن چونکہ یہ واقعہ میں نے پہلے سُنا ہوا تھا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ دماغ کے پس پردہ ضرور اُس کا اثر تھا.تو منہ سے کوئی بات کہہ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ دُعا کے لئے ان کیفیات اور جذبات کا پیدا ہونا ضروری ہے جو دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے.میں بتا یہ رہا تھا کہ بعض چیزیں گو چھوٹی ہوتی ہیں مگر انسان اپنی ضروریات کے مطابق انہیں مانگ لیتا ہے اور بعض بہت زیادہ ضروری ہوتی ہیں مگر چونکہ اسے ان کی اہمیت کا علم نہیں کی ہوتا اس لئے ان کے لئے دُعا نہیں کرتا.حالانکہ انسان اگر اپنی نظر وسیع کرے اور خدا تعالیٰ کے کی کلام پر غور کرے تو اُس کی نظر ایسی چیزوں پر پڑ سکتی ہے جو ضروری ہیں مگر ان کا علم قرآن کریم پر غور کئے بغیر نہیں ہو سکتا.ان آیات میں جو میں نے پڑھی ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ کس طرح انسان کے ذہن کو اس طرف لے گیا ہے.رمضان کی غرض خدا تعالیٰ کو ملنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے روزہ کا بدلہ میں آپ ہوں یعنی جب کوئی روزہ رکھتا ہے تو میں اُسے مل جاتا ہوں.اسی مضمون کی طرف ان آیات میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں اشارہ کیا گیا ہے.فرماتا ہے اے ہمارے رسول و اذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قریب تو نے میرے بندوں کو بتایا ہوا ہے کہ روزہ رکھنے سے خدا ملتا ہے.پس جب وہ روزہ رکھیں گے تو ضرور پوچھیں گے کہ خدا کہاں ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ راتي قريب اللہ فرماتا ہے میں تمہارے پاس ہی بیٹھا ہوں.اس پر وہ سوال کر سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی پاس ہی ہے تو نظر کیوں نہیں آتا.نیز اگر وہ پاس ہے تو کون سا طریق ہے کہ ہم اُس کے پاس ہونے سے فائدہ اُٹھا سکیں.اس کے جواب میں فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اُجیب دعوة الداع إذا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - يعنى ان کے روزوں کی وجہ سے تو ہم ان کے پاس تو بے شک آن بیٹھے ہیں مگر چونکہ ہماری ذات کی
خطبات محمود ۵۰ سال ۱۹۳۹ء وراء الوری ہے اس لئے مادی اسباب سے ہم تک پہنچنا ناممکن ہے.اس پر وہ پوچھیں گے کہ پھر اس سے تعلق اور وابستگی پیدا کرنے کا کونسا ذریعہ ہے؟ تو اُس کا جواب یہ دینا کہ اُجیب دعوة الداعر یعنی صرف دن کو بھوکا پیاسا رہنے سے روزہ مکمل نہیں ہوتا بلکہ روزہ رات کی کی دُعاؤں سے مکمل ہوتا ہے.روزہ صرف اسی کا نام نہیں کہ دن کو تم کچھ کھاتے پیتے نہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر خدا تعالیٰ کے حضور تم چلا ؤ ، زاری کرو.پس جو میرے قرب سے فائدہ اُٹھانے کا ذریعہ دریافت کرتا ہے اُسے بتا دو کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاءِ جو راتوں کو اُٹھ کر روتا ہے میں اُس کی طرف آتا ہوں.دعوة الداع میں ہر پکارنے والا مراد نہیں بلکہ وہ روزہ دار پکارنے والا ہے جو راتوں کو اُٹھ کر خدا تعالیٰ کے حضور چلا تا ہے.اسی طرح ایسا پکارنے والا مراد ہے جس میں خدا تعالیٰ سے ملنے کا اضطراب ہوتا ہے اُسے ملنے کے لئے وہ دن کو روزے رکھتا ہے اور راتوں کو جاگ کر گریہ وزاری کرتا ہے.ایسے پکارنے والے کی دُعا کو اللہ تعالی سنتا ہے.یہ بالکل افتراء اور جھوٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی ہر دُعا کو سنتا کی ہے.کئی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے بڑے اضطراب سے دُعائیں کیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ہر دعا سنتا ہوں لیکن یہ بھی غلط ہے ، جھوٹ ہے اور افتراء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو ضرور سنتا ہے یا یہ کہ وہ ہر پکارنے والے کی دُعا کو سنتا ہے.بے شک الداء کے معنے ہر پکارنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں مگر اس کے معنے ایسے پکارنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں جس کا ذکر ہو رہا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنے ہیں اور مراد یہ ہے کہ وہ بندے جو مجھے ملنے کے اضطراب میں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں اور مجھے ما نگتے ہیں میں ان کی کی دُعا سنتا ہوں.چنانچہ اس جگہ وَ اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فرمایا ہے یعنی میرے بارہ کی میں سوال کرتے ہیں.روٹی مانگنے کا کہیں ذکر نہیں ہے ، نوکری کا کہیں ذکر نہیں ہے ، عتي فرمایا ہے عَنِ الخُبُزِ يَا عَنِ الْوَظِيفَةِ نہیں فرمایا کہ جو روٹی یا نوکری مانگے.اس کی دُعا میں ضرور سنتا ہوں.پس جو خدا تعالیٰ کو مانگے اور وہ نہ ملے تو اسے اعتراض ہو سکتا ہے نیز اس آیت کی عبارت ایسی ہے کہ اس سے اضطراب کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.بعض مضامین الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتے بلکہ عبارت میں پنہاں ہوتے ہیں اور یہی حالت یہاں ہے.یہاں الدّاء
خطبات محمود ۵۰۱ سال ۱۹۳۹ء کے معنی ہر پکارنے والا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو پکارنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کی میرے بندے میری طرف دوڑتے ہیں ان کے اندر ایک اضطراب اور عشق پیدا ہوتا ہے اور وہ چلاتے ہیں کہ میرا خدا کہاں ہے تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہاری طرف کے پکارنے والے کی پکا رکورڈ نہیں کرتا اور ضرور اُس کی دُعا کو سنتا ہوں.دوسری جگہ بھی قرآن کریم میں یہ مضمون بیان ہے.چنانچہ فرمایا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا، یعنی جو لوگ ہمارے رستوں کی تلاش کی کوشش کرتے ہیں ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے ہم ضرور ان کو رستہ کی دکھاتے ہیں.دو تین سال ہوئے میرے پاس ایک سکھ آیا وہ بوڑھا آدمی تھا اُس نے ایک سکھ ٹھیکیدار کا نام لیا اور کہا کہ وہ کروڑ پتی آدمی ہے.میں اُس کا منیم ہوں اور اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ دنیا تو بہت کمائی ہے اب خدا تعالیٰ کو ملنے کی خواہش ہے.آپ بتائیں اس سے کس طرح مل سکتے ہیں اور کہنے لگا کہ میں خود بھی اسی خیال کا ہوں.میری طرف سے بھی یہی درخواست ہے.میں نے کہا کہ میں راستہ تو بتا دوں گا مگر تم نے اُس پر چلنا نہیں.وہ کہنے لگا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نہ چلیں.میں نے کہا اگر چلیں تو یہ تو میری عین خواہش ہے مگر میرا خیال ہے آپ لوگ چلیں گے نہیں.اس نے وعدہ کیا کہ ضرور چلیں گے.میں نے اُسے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ لکھ دیا اور کہا کہ یہ پڑھا کرو اور ساتھ دُعا کیا کرو کہ یا اللہ ہمیں سچائی کا رستہ دکھلا دے اور یہ سچا راستہ اسلام کا ہی ہو گا مگر روپیہ اور تعلقات وغیرہ کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا تمہارے لئے مشکل ہوگا.بعض لوگ تو بے پرواہ ہوتے ہیں اور پھر کبھی جواب بھی نہیں دیتے مگر مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد اُس کا خط آیا کہ ہم نے اسی طرح دُعا کی تھی اور راستہ ہمیں بتایا بھی گیا ہے.مگر اُس کے بعد اُس کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی اور میری بات سچی نکلی کہ راستہ تو دکھا دیا جائے گا مگر رہیں گے وہ وہیں جہاں تھے.غرض اللہ تعالیٰ ہر عقل ، مذہب اور علم کے آدمی کو اپنا راستہ دکھاتا ہے بشرطیکہ انسان اُس کے لئے کوشش کرے اور اُس دُعا کو وہ ضرورسُن لیتا ہے.باقی کی دُعاؤں کے لئے وہ مصلحتوں کو دیکھتا ہے.بعض دفعہ انسان جو روٹی مانگتا ہے اُس کے علم میں وہ اس کے لئے مہلک ہوتی ہے یا جو دولت مانگتا ہے، جو علم مانگتا ہے وہ اس کے لئے مہلک ہوتا ہے.پھر بعض دفعہ ایک نوکری
خطبات محمود ۵۰۲ سال ۱۹۳۹ء ہوتی ہے اور اُس سے اچھا کوئی مانگنے والا ہوتا ہے اب نوکری تو ایک کی دو نہیں ہو جائیں گی اس کی لئے ایک کو ہی مل سکتی ہے کسی کے ہاں چپڑاسی کی جگہ خالی ہے اور یہ اس کے لئے دُعا کرتا ہے لیکن اُسے کیا علم ہے کہ دوسرا بھی اُس کے لئے کس طرح رو رو کر دعائیں مانگ رہا ہے اور اس کی کے سامان بھی زیادہ ہیں.یعنی صحت وغیرہ بھی اس کی بہتر ہے.ضرورت بھی اس کی زیادہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کو کس طرح سُن لے؟ نوکری ایک کی دو نہیں ہو سکتی مگر وہ چیز جس کی کے بانٹنے کے باوجود اس میں کمی نہیں ہو سکتی وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.روٹی بھی محدود ہے، عزت بھی محدود ہے.یہ ساری چیزیں محدود ہیں اگر ایک شے کے لئے دو مانگنے والے سامنے ہیں تو زیادہ حق والے کو وہ دے گا.یا پھر اگر وہ تمہارے لئے مضر ہے تو کو کوئی اور حق دار نہ ہو پھر بھی نہیں دے گا.وہ دوست سے دشمنی کیوں کر سکتا ہے اور کیونکر ممکن ہے کہ جس چیز کے متعلق وہ جانتا ہے کہ آگ ہے وہ اپنے دوست کو دے دے؟ غرضیکہ سب دُعاؤں کی قبولیت میں روکیں ہوتی ہیں مگر ایک دُعا ہے جس کے ملنے میں کوئی بُرائی نہیں اور جس کے ملنے میں کوئی تج روک نہیں.دُنیا کی ہر چیز میں بُرائی ہو سکتی ہے نماز میں بھی ہو سکتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا ہے ويل للمصلين " خدا تعالیٰ کو مانگنے میں کوئی ڈیل نہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کسی سے اس لئے نہ ملے کہ وہ عذاب میں نہ پڑے.یا یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود میں کمی نہ آجائے.جس طرح ہوا ہر ایک کے ناک میں جاتی ہے مگر اُس میں کمی نہیں ہوتی اسی طرح کی خدا تعالیٰ ہر بندے کو ملتا ہے اور پھر بھی اُس میں کوئی کمی نہیں ہوتی.سورج کی شعاعوں سے سب مخلوق فائدہ اُٹھاتی ہے مگر اُن میں کوئی کمی نہیں ہوتی ، چاند کی شعاعوں میں کمی نہیں ہوتی.تم چاند کی روشنی میں گھنٹوں بیٹھ کر لطف اُٹھا ؤ مگر نور پھر بھی وہیں کا وہیں رہے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے بلکہ خدا تعالیٰ تو ان سے بھی کامل ہے.ان میں بھی ممکن ہے کہ کوئی باریک سے باریک کمی ہو جاتی ہو مگر خدا تعالیٰ میں اتنی بھی نہیں ہوتی اور وہ اپنے کی بندوں سے خود کہتا ہے کہ مانگومگر یاد رکھو کہ اس کے ساتھ میرے بھی دو مطالبے ہیں اور وہ یہ کہ (1) فليستجيبوا لي تم بھی ان باتوں کو جو میں کہتا ہوں مانو (۲) وَلْيُؤْمِنُوالي مجھ پر پورا پورا اعتماد کرو اور کامل تو کل رکھو.گویا ایک طرف تو تم خدا تعالیٰ سے غداری نہ کرو اور کی
خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۳۹ء دوسری طرف یقین رکھو کہ وہ بھی تم سے غداری نہیں کرے گا.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پھر دیکھو تم کی کس طرح تیزی سے قدم مارتے ہوئے جسے پنجابی میں دگر دگر کر کے چلتے جانا کہتے ہیں اس راستہ پر چل پڑو گے جس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور باوجود یکہ وہ غیر مرئی ہے تم اس کو پالو گے اور اس کا وصال حاصل کر لو گے.اب غور کرو یہ کتنی بڑی چیز ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو یہ طلب کرتے ہیں.کئی لوگ ہیں جو کہ تو کل کا نام تو لیتے ہیں مگر یہ سمجھتے نہیں کہ یہ کیا چیز ہے.کچھ عرصہ ہوا اسی سفر سندھ میں مجھے خدا تعالیٰ کی ملاقات کے متعلق ایک عجیب رویا ہوا جس کا اثر میری طبیعت پر اب تک ہے.میں نے دیکھا کہ دو پہاڑیاں ہیں جن میں ایک درہ ہے اور پہاڑیوں کے پرے بہت بڑا وسیع میدان ہے جو گو مجھے نظر نہیں آتا مگر میں اُس درّہ کی طرف جارہا ہوں.چاروں طرف اندھیرا ہے اور میں پہاڑیوں کے درمیانی راستوں پر سے گزر کر جا رہا ہوں.میرے کانوں میں دور سے گونج کی اواز آ رہی ہے.میں نے اس کے قریب ہونے کی کوشش کی تو وہ گانے کی آواز می معلوم ہوئی جیسے دور کوئی نہایت ہی شیریں آواز میں گا رہا ہو.میرے قلب میں ایک بشاشت اور مسرت محسوس ہوئی اور میں نے اپنے قدم اور تیز کر دیئے کہ دیکھوں کیا بات ہے.جب میں کچھ اور قریب ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ گویا کچھ لوگ شعر پڑھ رہے ہیں مگر ابھی وہ شعر سمجھ میں نہیں آئے.میں اور قریب ہوا تو کوئی کوئی لفظ سمجھ میں آنے لگا.نہایت ہی سریلی آواز تھی اور ی یوں معلوم ہوا کہ کئی آدمی ہیں جو مل کر ایک ہی شعر پڑھ رہے ہیں.میں اور آگے ہو ا تو آواز اور واضح ہونے لگی اور جب میں نے پھر کان لگائے کہ سنوں کیا پڑھتے ہیں تو یکدم میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ یہ تو میرے شعر ہیں اور جب میں نے اور غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ میرے ایک پرانے شعر کا مصرعہ پڑھ رہے تھے جو یہ ہے.زنہار کے میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے پڑھنے والوں کی آواز نہایت ہی سُریلی اور دل کو لبھا لینے والی تھی اور وہ اس طرح پڑھ رہے تھے جس طرح کوئی مست ہو کر گاتا ہے.وہ نظر تو نہیں آتے تھے مگر اُن کی آواز سُنائی دیتی تھی.جب میں اور قریب ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو فرشتے ہیں جو میرا مصرعہ پڑھ رہے
خطبات محمود ۵۰۴ سال ۱۹۳۹ء ہیں.اتنے میں یکدم دور افق میں بجلی چمکی اور روشنی سی ہوئی اور معا مجھے القا ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی دوسری تجلتی ہے.پہلی تجاتی وہ تھی جو میرے پہنچنے سے قبل ظاہر ہو چکی ہے اور گویا وہ ادنی تجلی تھی اور اسے دیکھ کر فرشتے یہ مصرعہ پڑھنے لگے تھے کہ ے زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے اور گومیں نے پہلی تجلی نہیں دیکھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ دوسری زیادہ ہے اور جب یہ ظاہر ہوئی تو فرشتوں نے پہلے مصرعہ کی بجائے یہ مصرعہ پڑھنا شروع کر دیا کہ اک معجزہ دکھا کے تو عیسی بنا مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ سب ملائکہ نہایت جوش کے ساتھ اکٹھے جس طرح انگریزوں کے ہاں Chorus ہوتا ہے گا رہے ہیں.وہ کچھ دیر اسی جوش اور شدت کے ساتھ گاتے رہے اور یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا ان کی آواز نے اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کی آخری تجلی ہوئی اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ پہلی تجلی جو میرے پہنچنے سے قبل ظاہر ہوئی عاشقانہ تحجتی تھی ، دوسری عیسوی تجلتی تھی اور یہ تیسری محمدی تجلّی ہے جس میں بہت نور تھا اس پر فرشتوں نے ایک تیسرا مصرعہ پڑھنا شروع کر دیا جو مجھے یاد نہیں رہا اور اس پر میری آنکھ کھل گئی.مجھے یاد ہے کہ میں خواب میں ہی کہہ رہا تھا کہ یہ تیری تجلی محمدی تجلی ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی کو کسی مقام پر کھڑا کرنا چاہتا ہے تو وہ اُسے پہلے اُس مقام کی ادنی تجلی دکھاتا ہے جن سے اس کے اندر اس مقام کے حصول کے لئے شوق پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس کے لئے والہا نہ طور پر کوشش شروع کر دیتا ہے.سب سے پہلے وہ عام عشق کی تجلتی دکھاتا ہے جو عام لوگوں کے لئے ہے.اسے دیکھ کر جن لوگوں کے دلوں میں محبت کا جذبہ ہوتا ہے وہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ ہمیں اس کی پوری تجلی دکھا اور بے تاب ہو ہو کر کہتے ہیں کہ زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے جس پر وہ تجلی انہیں دکھائی جاتی ہے اس تجلی کے بھی بہت سے درجے ہوتے ہیں.جب وہ اپنے مناسب حال در جوں کو طے کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس سے اوپر کی تجلی کے لائق پاتا ہے تو اُس کے دل میں اس کا شوق پیدا کرنے کے لئے ایک ادنی تجلی دوسرے مقام کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء دکھاتا ہے جسے دیکھ کر بندہ سمجھ لیتا ہے کہ جو مجھے پہلے ملا وہ تو اُس کے مقابل پر کچھ بھی نہ تھا اور ی بے تاب ہو ہو کر کہنے لگتا ہے کہ اک معجزہ دکھا کے تو عیسی بنا مجھے اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان معجزات کے ساتھ اس مقام کو حاصل کرتا ہے عقل سے نہیں.عیسوی مقام کے لئے دُعا کا جوش خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے جب وہ دُعا قبول ہو جاتی ہے اور وہ مقام اور اُس کے مختلف مدارج انسان حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جو اعلی مقامات کے قابل ہوتا ہے محمدی تجلی کی ایک ادنی جھلک ظاہر کرتا ہے جسے دیکھ کر پھر بندے کے دل میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس کے حصول کے لئے دُعائیں اور التجائیں اور ی گریہ وزاری شروع کر دیتا ہے.یہاں تک کہ اسے محمدی مقام حاصل ہو جاتا ہے.غرض اس کی رویا میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے ایک والہا نہ کیفیت اور مجنونانہ حرکت کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح بچہ ماں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں چیز لے کر چھوڑوں گا اور آخر ماں اس کی خواہش پوری کر ہی دیتی ہے.اسی طرح بندہ بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو تجھے دیکھ کر ہی چھوڑوں گا.تب اللہ تعالیٰ بھی حجاب اُٹھا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لے دیکھ لے.جب اس مقام کے نور اس کے اندر رچ جاتے ہیں کہ اور اللہ تعالیٰ دیکھ لیتا ہے کہ اس سے بڑا مقام پانے کے یہ قابل ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسری اور پھر اسی طرح تیسری تجلّی کو ظاہر کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کو ایک کی نہایت لطیف مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص دوزخ میں سب سے آخر رہ جائے گا اللہ تعالیٰ اُسے نکالے گا اور کہے گا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ وہ کہے گا کہ بس یہی مانگتا ہوں کہ مجھے دوزخ سے نکال دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا نکال دیا اور اسے بہت خوشی وہ گی.کچھ روز کے بعد اُسے دور ایک سبز و شاداب درخت نظر آئے گا اور اُس کے دل میں لالچ کی پیدا ہو گا کہ اگر میں وہاں پہنچ کر اُس کے نیچے بیٹھ سکوں تو کیا اچھا ہو.کچھ مدت تک تو وہ اُس خیال کے اظہار سے رُکے گا مگر آخر خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ ہے تو بڑی بات لیکن اگر مجھ پر رحم کر کے اس درخت کے نیچے بیٹھنے دیں تو بہت مہربانی ہو.اللہ تعالیٰ اس کی بات کو مان لے گا اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء اسی درخت کے نیچے پہنچا دے گا.آخر جب وہ اُس درخت کے نیچے کچھ عرصہ راحت حاصل کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ امتحان کے لئے اُس سے بہتر درخت اُس سے کچھ فاصلہ پر ظاہر کرے گا اور وہ پھر لالچ کرے گا کہ اس کے نیچے بیٹھے.کچھ مدت تک تو وہ اپنے نفس کی اس خواہش کو برداشت کرے گا اور کہے گا کہ میں اب اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کس طرح کروں لیکن آخر درخواست کر ہی دے گا اور کہے گا کہ آئندہ اور کچھ نہ مانگوں گا تب خدا تعالیٰ اُسے وہاں رہنے دے گا اور پھر وہ دور سے جنت کا دروازہ دیکھے گا اور آخر اُس سے باہر رہنا برداشت نہیں کر سکے گا اور خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ مجھے اس جنت کے دروازے کے آگے تو بٹھا دے میں اندر جانے کی درخواست نہیں کرتا.صرف باہر بٹھا دے.وہیں سے لطف حاصل کروں گا.اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا اس کے بعد تو کچھ نہیں مانگے گا؟ بندہ کہے گا نہیں.اس پر اللہ تعالیٰ اُسے جنت کے دروازہ پر بٹھا دے گا لیکن بھلا وہاں اُسے کس طرح چین حاصل ہو سکے گا.آخر وہ بیتاب ہو کر کہے گا کہ یا اللہ مجھے دروازہ کے اندر کی طرف بٹھا دے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ مجھے جنت کی نعماء دے لیکن یہ کہتا ہوں کہ دروازہ کے اندر بٹھا دے.اس پر اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور کہے گا کہ میرے بندے کی حرص کہیں ختم نہیں ہوتی.جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ اور جہاں چاہور ہو.یہی نظاره خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ پہلے ایک ہلکی سی تجلتی دکھاتا ہے اور اسے دیکھ کر جب ملائکہ صفت انسان بے تاب ہو جاتا ہے اور دُعائیں کرتا ہے کہ کامل تجاتی دکھا تو پھر اللہ تعالیٰ اُسے کامل تجلی دکھاتا ہے اس کے بعد دوسرے مقام کی ہلکی سی تجلتی دکھاتا ہے اور بندے کے دل میں اس کے حصول کی خواہش پیدا کر دیتا ہے.جب بندہ اس کے لئے دُعاؤں میں لگ جاتا ہے تو اُسے اس مقام کی کامل تحتی دکھا دی جاتی ہے.اس کے بعد اگلے مقام کے متعلق پہلے کی طرح شوق پیدا کیا جاتا ہے اور آخر وہ مقام بھی بندہ کو مل جاتا ہے اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو مومن کا دل کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا ہمیشہ مضطرب ہی رہتا ہے.دُنیوی انسان کا دل بھی کبھی مطمئن نہیں ہوتا اور مومن کا بھی.فرق صرف اتنا ہے کہ ایک خدا تعالیٰ کے لئے مضطرب ہوتا ہے اور دوسرا دُنیا کے لئے لیکن اضطراب ہوتا دونوں میں ہے اور دُنیا کا گزارہ ہی اضطراب سے ہے.فرق صرف یہ ہے کہ کسی کا اضطراب دُنیا کے لئے ہوتا ہے اور کسی کا خُدا کے لئے.
خطبات محمود ۵۰۷ سال ۱۹۳۹ء بعض مومن جب اپنے اندر اضطراب دیکھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ شاید ہمیں ایمان نصیب کی نہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اضطراب ان مدارج کے لئے ہوتا ہے جو میسر نہ ہوں یا اونچے درجوں کے لئے ہوتا ہے.جو مقام مومن کو حاصل ہوتا ہے اس سے اگلے کے لئے اس میں اضطراب پیدا ہوتا ہے.جنت میں بھی مختلف مقام یوں نظر آئیں گے جیسے ستارے زمین سے نظر آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں اتنی غیر محدود ہیں کہ انہیں گلی طور پر طے کرنے کا خیال کرنا بھی کفر ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب طے نہیں کیں.بے شک اپنے مقام کی سب کیں اور آپ سب سے آگے ہیں مگر یہ کہ خدا تعالیٰ کا احاطہ کر لیا ہو یہ غلط ہے.ولا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّن عِلمه إلا بما شاء 2 کوئی بندہ اس کا احاطہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ جتنا وہ خود دکھائے.باقی پھر غیر محدود رہتا ہے اور اس کے حصول کی خواہش مومن کے دل میں پیدا ہونی ضروری ہے اور اسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے مگر ہزاروں ہیں جو دُعائیں بھی کرتے ہیں دوسروں کو بھی دُعاؤں کے لئے رقعے لکھتے ہیں مگر یہ خواہش اور کی اضطراب ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا.مجھے تو بعض دفعہ ہنسی آتی ہے.بعض واقفین تحریک جدید مجھے رقعے لکھتے ہیں کہ کوٹ نہیں یا فلاں چیز نہیں.حالانکہ وقف کرنے کے معنے تو یہ ہیں کہ آدمی کھڑا ہو گیا اب اس نے ہلنا نہیں اس کی زبان بند ہے.مگر یہ عجیب وقف ہے کہ تھوڑے دنوں کی کے بعد لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں چیز نہیں.میں دے تو دیتا ہوں مگر سوچتا ہوں کہ جسے کھانے پینے کے لئے میری مدد کی ضرورت ہے اُسے خدا تعالیٰ سے کیا تعلق ہے؟ واقفین کو ہم جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے.کیونکہ ان کی طلب کے بغیر ملتا ہے مگر یہ کہ اپنی خواہش ہو کہ مل جائے یہ خدا تعالیٰ پر توکل کے منافی ہے.تو کل کی مثال تو یہ ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح اول ایک مرتبہ مطب میں بیٹھے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی میں تھے وہاں حضرت میر صاحب سخت بیمار ہو گئے.قولنج کا اتنا سخت حملہ ہوا کہ ڈاکٹروں نے کہا آپریشن ہونا چاہئے.بعض لوگوں نے کہا کہ بعض یونانی دواؤں سے بغیر آپریشن کے بھی آرام ہو جاتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خلیفہ اول کو تار دے دیا کہ جس حالت میں بھی ہوں آجائیں.
خطبات محمود ۵۰۸ سال ۱۹۳۹ء آپ مطب میں بیٹھے تھے.کوٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا پیسے بھی پاس نہ تھے.آپ نے غالباً حکیم غلام محمد صاحب مرحوم امرتسری کو ساتھ لیا اور اسی طرح اُٹھ کر چل پڑے.حکیم غلام محمد صاحب نے کہا کہ میں گھر سے پیسے وغیرہ لے آؤں مگر آپ نے کہا کہ نہیں حکم یہی ہے کہ جس حالت میں ہو چلے آؤ.سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول چلنے میں کتنے کمزور تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو جاتے تو آپ پیچھے رہ جاتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہو کر فرماتے مولوی صاحب کہاں ہیں اور حضرت خلیفہ اول بعد میں آکر ملتے.اسی کی طرح پھر پیچھے رہ جاتے اور پھر کھڑے ہو کر انتظار فرماتے مگر آپ غالباً حکیم غلام محمد صاحب کو ساتھ لے کر پیدل بٹالہ پہنچے.اسٹیشن پر جا کر بیٹھ گئے.حکیم صاحب نے کہا کہ اب کرایہ وغیرہ کا کیا انتظام ہوگا ؟ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ یہاں بیٹھو اللہ تعالیٰ خود کوئی انتظام کر دے گا.اتنے میں ایک شخص آیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ حکیم نورالدین صاحب ہیں؟ آپ نے کہا ہاں.وہ شخص کہنے لگا کہ ابھی گاڑی آنے میں دس پندرہ منٹ باقی ہیں اور میں نے اسٹیشن ماسٹر سے کہہ بھی دیا ہے کہ ذرا آپ کا انتظار کرے.میں بٹالہ کا تحصیلدار ہوں میری بیوی بہت سخت بیمار ہے.آپ ذرا چل کر اسے دیکھ آئیں.آپ گئے ، مریضہ کو دیکھ کر نسخہ لکھا اور اسٹشین پر واپس آگئے.وہ شخص بھی ساتھ آیا اور کہا کہ آپ چل کر گاڑی میں بیٹھیں میں ٹکٹ لے کر آتا ہوں اور وہ سیکنڈ کلاس کا ایک ٹکٹ اور ایک تھرڈ کلاس کا لے آیا اور ساتھ پچاس روپے نقد دیئے اور کہا کہ یہ حقیر ہدیہ ہے اسے قبول فرما ئیں.آپ دہلی پہنچے اور جا کر میر صاحب کا علاج کیا.نا یہ صحیح تو کل کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرے بندے کا تو کل صحیح ہے یا نہیں.ممکن ہے اس آزمائش کے لئے وہ فاقے دے، نگا کر دے، موت کے قریب کر دے تا بندوں کو بتائے کہ میرے اس بندے کا انحصار تو کل پر ہے.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسے لنگوٹی باندھنی پڑتی ہے، دھجیاں لٹکنے لگتی ہیں اور بعض کو اس کی مدد کے لئے اس طرح ننگا دکھا کر الہام کرتا ہے.بعض کو لفظی الہام سے بھی مدد کا حکم دیتا ہے مگر بعض کو اس کی حالت دکھا کر تحریک کرتا ہے مگر تو گل کے صحیح مقام پر جو لوگ ہوتے ہیں وہ کسی سے منہ سے مانگتے نہیں دُنیا میں ہر ایک شخص کے ماں باپ فوت ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات بھی ہوئی مگر ہمارے لئے
خطبات محمود ۵۰۹ سال ۱۹۳۹ء مشکل یہ تھی کہ ہم سمجھتے ہی نہ تھے کہ آپ وفات پا جائیں گے.لوگوں کو اس کا احساس ہوتا ہے.اس لئے کوئی روپیہ جمع کرتا ہے، کوئی بیمے کراتا ہے اور کوئی اور انتظام کرتا ہے مگر ہم تو سمجھتے ہی نہیں تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو جائیں گے.ہم میں سے ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ میں پہلے فوت ہوں گا اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا جنازہ پڑھائیں.نوجوان احباب یہ درخواستیں کرتے تھے کہ حضور دُعا کریں کہ ہم آپ کے ہاتھوں میں فوت ہوں اور آپ جنازہ پڑھائیں.آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات دیکھ کر ہر شخص یہی خیال کرتا تھا کہ آپ کو زندہ رہنا چاہئے اور قلوب کی اس کیفیت کی وجہ سے نہ ہمیں اس کا خیال تھا اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری تھی کہ آپ فوت ہو گئے.بعض رشتہ داروں نے والدہ صاحبہ کو تحریک کی ( ہمارے نانا جان مرحوم نے ایسا مشورہ نہیں دیا مبادی کوئی یہ خیال کی کرے) میں یہ تو نہیں کہتا کہ ورغلایا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ نیک نیتی سے ہی کہہ رہے ہوں کی گے مگر انہوں نے تحریک کی کہ آپ مطالبہ کریں کہ جو چندے آتے ہیں وہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہی آتے ہیں اس لئے ان میں سے ہمارا حصہ مقرر ہونا چاہئے.میں اُس کی وقت بچہ تھا مگر یہ مشورہ مجھے اتنا بُر ا معلوم ہوا کہ میں نے کمرہ کے باہر ٹہلنا شروع کر دیا کہ جو نہی مجھے موقع ملے میں والدہ سے اس کے متعلق بات کروں اور جب موقع ملا میں نے کہا کہ یہ چندے کیا ہماری جائیداد تھی یہ تو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ہیں ان میں سے حصہ لینے کا کسی کو کیا حق ہے؟ پھر بعض لوگ ایسے تھے کہ جو یہ مشورہ کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے گزارہ مقرر کرنا چاہئے.چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے آ کر کہا کہ ہم نے یہ تجویز کی ہے کہ آپ کو گزارہ دیا جائے.میں نے کہا کہ ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں.ہم بندوں کے محتاج کیوں ہوں؟ اس وقت ہماری جائیداد بھی پراگندہ حالت میں تھی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف توجہ نہ کی تھی اور بظاہر گزارہ کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی مگر میرے نفس نے یہی کہا کہ جو خدا انتظام کرے گا اُسی کو منظور کروں گا.بندوں کی طرف کبھی توجہ نہ کروں گا.میرا جواب سُن کر اُس دوست نے کہا کہ پھر آپ لوگوں کے گزراہ کی کیا ت صورت ہوگی ؟ میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء زندہ رکھنے کا ہوگا تو وہ خود انتظام کر دے گا
خطبات محمود ۵۱۰ سال ۱۹۳۹ء اور اگر اُس نے مارنا ہے تو وہ موت زیادہ اچھی ہے جو اُس کے منشاء کے ماتحت ہو.تو گویا میں کی نے یہ دونوں صورتیں رڈ کر دیں.حصہ والی تجویز تو شرعاً بھی ناجائز تھی مگر میں نے دوسری صورت کو بھی منظور نہ کیا.یہ ذاتی غیرت تھی.اب تیسرا پہلو سلسلہ کے لئے غیرت کا تھا اس کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب کے دل میں مشورہ کی تحریک پیدا کی.آپ اُس وقت غیر احمدی تھے آپ نے مناسب سمجھا کہ بڑے بھائی کی حیثیت میں مجھے مشورہ دیں اور شیخ یعقوب علی صاحب کو میرے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ سلسلہ سے کوئی رقم لینا منظور نہ کریں یہ ہماری خاندانی غیرت کا سوال ہے.میرے نفس نے فوراً کہا کہ گو یہ مشورہ وہی ہے جو میرے دل نے دیا ہے مگر اس وقت مشورہ دینے والا ایک ایسا شخص ہے جو گو میرا بڑا بھائی ہے مگر ہے غیر احمدی اور مذہب کے رو سے سب سے زیادہ قریبی رشتہ ہم مذہبوں کا ہوتا ہے.یہ میرے اور سلسلہ کے تعلقات میں کیوں دخل دیں.چنانچہ اس خیال کی کے آتے ہی میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ ان کا شکریہ ادا کر دیں اور کہہ دیں کہ میرا اور سلسلہ کا جو تعلق ہے اس کے بارہ میں میں خود ہی فیصلہ کرنا پسند کر تا ہوں.انہیں اس سے تعلق نہیں.آخر حضرت خلیفۃ امسیح اول نے مجھے بلایا اور کہا ہم آپ لوگوں کو اپنے پاس سے کچھ پیش نہیں کرتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے جس کے ماتحت میں نے گزارہ کی تجویز کی ہے اور کی الہام میں رقم تک مقرر ہے.اب سوال انسانوں کا نہ رہا بلکہ خدا تعالیٰ کے دین کا آ گیا.اس کی لئے میں نے اس امر کو منظور کر لیا.جو گزارہ مقرر ہوا وہ ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی کی تھا.گو اس زمانہ میں ہمارے بچے بھی اس میں گزارہ نہیں کر سکتے.مجھے اُس وقت ساٹھ روپے ملتے تھے جن میں سے میں دس روپیہ ماہوار تو تفخیذ پر خرچ کرتا تھا.دو بچے تھے، بیوی تھی اور کو کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی مگر خاندانی طور طریق کے مطابق ایک کھانا پکانے والی اور ایک خادمہ بچوں کے رکھنے اور اوپر کے کام میں مدد دینے کے لئے میری بیوی نے رکھی ہوئی تھی.سفر اور بیماری وغیرہ کے اخراجات بھی اسی میں سے تھے.پھر مجھے کتابوں کا شوق بچپن سے ہے.جس وقت میری کوئی آمد سوائے اس کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپڑوں کے لئے مجھے دیا کرتے تھے نہ تھی تب بھی میں کتب خرید تا رہتا تھا بلکہ اس سے پہلے جبکہ کا پہیوں، کاغذ قلم وغیرہ
خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۳۹ء کے لئے مجھے تین روپے ماہوار ملا کرتے تھے اس میں سے بھی بچا کر کتابیں خریدتا رہتا تھا.اب تو میں نے دیکھا ہے اچھی اچھی نوکریوں والے بھی نہیں خرید تے مگر مجھے اُس وقت بھی یہ شوق تھا اس رقم سے جو بھی گزارہ کے لئے ملتی تھی اپنی علمی ترقی کے لئے اور مطالعہ کے لئے کتابیں بھی خرید تا رہتا تھا اور کافی ذخیرہ میں نے جمع کر لیا تھا.تو میں بتا رہا تھا کہ تو کل کا صحیح مقام یہی ہے.بعض لوگ اب مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی بیویاں ہیں، اتنے بچے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں کہ ان بیوی بچوں کے لئے کیا میں نے کسی سے کچھ مانگا ہے؟ میں تو یہی سمجھتا ؟ ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے نہ دیا تو فاقے کر لیں گے مگر کسی سے مانگیں گے نہیں.میرا اصول ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی لینا ہے اور جو وہ بھیج دے اُسی پر گزارہ کرنا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ ایسی ایسی راہوں سے دیتا ہے کہ انسان گمان بھی نہیں کر سکتا.مجھے آٹھ دس غیر احمدیوں سے اس قدر امدا د ملی ہے کہ شاید سب احمدیوں نے جو ہدایہ دئیے ہوں ان کے برا بر ہوگی اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ کبھی اُنہوں نے اپنے نام کے اظہار کی بھی خواہش نہیں کی.حج بعض کو اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ تحریک کی بعض کو دوسرے ذرائع سے، بعض دنیوی کاموں میں اتنار و پیل گیا کہ جس کا وہم بھی نہ تھا مگر اصول میرا یہی رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ تو دے اور اگر نہ دے تو انسان صبر سے کام لے اور بندوں کی طرف نگاہ نہ اُٹھائے اور میں سمجھتا ہوں یہی تو کل ہے.یہ بھی نہیں کہ اگر اللہ تعالی کوئی اچھی چیز بھیج دے تو انسان اُسے پھینک دے.یہ تو کل نہیں گستاخی ہے اور نہ ہی یہ تو کل ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو وقف کرے اور پھر ضرورت پڑے تو مانگے.یہ مانگنا خواہ خلیفہ سے بلکہ خواہ نبی سے ہی کیوں نہ ہو بلکہ خواہ خاتم النبیین سے کیوں نہ ہو تو کل کے خلاف ہے.تو کل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دے تو لے نہیں تو جو ہے اُسی پر قناعت کرے اور سمجھے کہ اگر اللہ تعالی مارنا ہی چاہتا ہے تو مار دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک بزرگ کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ وہ کسی گوشہ میں بیٹھے وعظ و نصیحت کرتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ اُن کو وہیں روزی پہنچا دیتا تھا.دور شہر سے باہر جگہ تھی جہاں وہ رہتے تھے ایک دفعہ کئی دن گزر گئے اور کھانے کو کچھ نہ آیا.یہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان تھا.اُنہوں نے کہا کہ اب شہر میں چل کر کسی دوست سے کچھ مانگنا چاہئے چنانچہ وہ گئے اور ایک دوست سے کہا
خطبات محمود ۵۱۲ سال ۱۹۳۹ء کہ کچھ کھانے کو دو.اُس نے دو تین روٹیاں اور کچھ سالن اوپر ہی ڈال کر دے دیا.یہ چل پڑے تو ساتھ ہی اُس دوست کا کتا بھی پیچھے پیچھے ہو لیا.وہ دُم ہلاتا جاتا تھا اور پیچھے پیچھے چل رہا تھا.اُس بزرگ نے سمجھا کہ اس روٹی میں اس کا بھی حق ہے کیونکہ اس گھر کی نگرانی کرتا ہے اور کی اُس نے ایک روٹی پر سالن کا تیسرا حصہ ڈال کر اُسے ڈال دی.کتے نے وہ کھالی اور پھر پیچھے پیچھے چل پڑا.بزرگ نے خیال کیا کہ بے شک اُس کا حق زیادہ ہے کیونکہ یہ اُس گھر کا محافظ ہے کی اور ایک روٹی پر سالن کا ایک اور حصہ ڈال کر اُس کے آگے پھینک دی مگر گستا وہ کھا کر بھی پیچھے چل پڑا.ادھر اُس بزرگ کو خود سخت بھوک لگی ہوئی تھی وہ کہنے لگا کہ تو بڑا بے حیا ہے میں تین میں سے دو روٹیاں تجھے دے پچکا ہوں مگر پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا.یہ کہنا تھا کہ معا کشف کی حالت پیدا ہوئی وہ دُنیا کی حالت کو بالکل بھول گئے.گتے کی روح متمثل ہو کر ان کے سامنے آئی اور کہا کہ تم مجھے بے حیا کہتے ہو حالانکہ میں تو کہتا ہوں اور تم انسان ہو.مجھے سات سات فاقے اس گھر میں آئے اور میں نے اس ڈیوڑھی کو نہیں چھوڑ ا مگر تمہیں تین دن کا فاقہ آیا اور تم چھوڑ کر شہر کو آگئے.بتاؤ بے حیا میں ہوں یا تم ہو؟ یہ بات سُن کر ان کی آنکھیں کھل گئیں اور تیسری روٹی مع سالن بھی گتے کے آگے پھینک دی.جب واپس اپنے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص نہایت پر تکلف کھانے لئے بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کہاں چلے گئے تھے میں انتظار میں تھا تو تو کل کا مقام یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نظر نہ رکھے اور توکل کے یہ معنے بھی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ کی جستجو کرنے والوں کے لئے سامان کرنے منع ہیں.سامان بھی کئے ج جاسکتے ہیں.تجارت ، نوکری، زراعت وغیرہ سب کام کرنے جائز ہیں مگر نظر خدا تعالیٰ پر ہی کی ہونی چاہئے کہ وہی سب ضروریات پوری کرے گا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ایسے ہوتے کی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر بھی کوئی کمی ہوئی تو جھٹ چندہ میں کمی کر دیتے ہیں دس روپیہ آمد تھی تو روپیہ چندہ دیتے تھے مگر جب آمد و رہ گئی تو چندہ آٹھ آ نہ کر دیا کہ اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آمد میں اور کمی کر دی اور آٹھ کے چھ رہ گئے تو پھر چند ۲۰ کر دیا.گویا آمد میں تو چار کی کمی ہوئی اور چندہ میں ۱۴ ء کی کر دی.اللہ تعالیٰ بھی یہ سب کچھ دیکھتا ہے.اُس نے آمد میں اور کمی کی تو چندہ دینا ہی بند کر دیا.ایسی حالت میں خدا بھی آمد کا دروازہ
خطبات محمود ۵۱۳ سال ۱۹۳۹ء بالکل بند کر دیتا ہے.اس نے تو ایک روپیہ بند کیا مگر خدا تعالیٰ نے دس کی کمی کر دی.تو یہ سامان نہیں.سامان یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق بے شک انسان کمی کر لے.اگر ایک روپیہ کی کمی آمد میں ہو تو چندہ میں ڈیڑھ آنہ کی کمی تو جائز ہے مگر آٹھ آنہ کم کر دینا تد بیر نہیں بلکہ اس رستہ کو بند کر دینا ہے جس سے آتا تھا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی کو پیاس لگی ہوئی ہو تو وہ منہ کے آگے ہاتھ رکھ لے.حالانکہ منہ کے راستہ پانی اندر جا کر پیاس بجھ سکتی ہے.ہاں ایسے موقع پر اگر انسان قربانی زیادہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا فضل بھی زیادہ نازل ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے اسی سفر کا واقعہ ہے جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں.آپ سُنایا کرتے تھے کہ میرے پاس دو صدر یاں تھیں جو بہت قیمتی تھیں اور مجھے ان پر بہت ناز تھا.گویا بڑی دولت تھی مگر ایک روز میں اس حجرہ سے جہاں ٹھہرا ہوا تھا باہر گیا تو کسی نے ان میں سے ایک چرالی.آپ فرماتے مجھے صدمہ تو بہت ہوا مگر مجھے خیال آیا کہ جس چیز کی نگرانی میں نہیں کر سکتا اُسے رکھنے کا کیا فائدہ اور دوسری خود لے جا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دی.اس کے بعد وہ لوگ آئے جو شہزادہ کے علاج کے لئے آپ کو لے گئے.تو تو گل کے یہ معنے نہیں کہ انسان دنیوی سامان نہ کرے بلکہ یہ ہیں کہ نظر خُدا تعالیٰ پر ہو.اس کے سوا نظر کسی پر نہ ہو.اگر ایسا ہو تو دنیوی مشکلات کا اثر دینی خدمات پر نہیں پڑسکتا.اس تو کل کے ساتھ جب انسان اللہ تعالیٰ کی اخلاص سے عبادت کرتا ہے تو اس کا کی جواب اسے ضر وریل جاتا ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض خواب بینوں نے اپنی خوابوں اور کی دُعاؤں کو آمد کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور وہ آنوں بہانوں سے لوگوں سے سوال بھی کرتے رہتے ہیں جس شخص کو اللہ تعالیٰ بندوں سے مانگنے پر مقرر کر دیتا ہے وہ تو ایک عذاب ہے.ایسے شخص کی خوا میں بھی یقیناً ابتلاء کے ماتحت ہو سکتی ہیں انعام کے طور پر نہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ دین کے لئے انسان دُعا کے پورا ہونے پر خدمت مقرر کر لے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے اپنے نفس کے لئے جائز نہیں اور کامل مومن کی فطرت ہی کے یہ امر خلاف ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی دُعا سنے اور پھر جس کے حق میں دُعا کی گئی ہے اُس کے دل میں تحریک کرے کہ وہ خود اپنی خوشی سے دُعا کرنے والے کی خدمت کرے.آخر میں پھر احباب کو کی
خطبات محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۹ء توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن قرب الہی کے حصول کے لئے خاص ہیں اس لئے ان کی قیمت کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ سے مانگو.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“ (الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۹۳ء) البقره : ۱۸۷ الترغيب والترهيب كتاب الصوم باب الترغيب فى صوم الاربعاء و الخميس و الجمعه مرقاة اليقين فی حیات نورالدین صفحااا الصحيح البخارى كتاب الطب باب من اكتوى او كولى غيره و فضل من لم يكتو العنكبوت :۷۰ کے زنہار: ہرگز کبھی نہیں، خبر دار الماعون : ۵ الصحيح البخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى وجوه يومئذ ناضرة.البقره : ۲۵۶ ۱۰ حیات نور باب چهارم صفحه ۲۸۵
خطبات محمود ۵۱۵ ٣٢ سال ۱۹۳۹ء اعلیٰ روحانی کمالات کے حصول کے لئے نماز تہجد اور دیگر نفلی عبادات بھی بجالانی چاہئیں فرموده ۱۷ /نومبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج لاؤڈ سپیکر بھی خراب ہے اور میری طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں ہے ممکن ہے میں.سب دوستوں تک اپنی آواز نہ پہنچا سکوں.اس ہفتہ میں رمضان کا مبارک مہینہ ختم ہوا ہے اور وہ شب بیداری جو بڑوں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹوں میں بھی پائی جاتی تھی اس کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ بھی نظر آتا ہے لیکن اگر ہم حقیقت پر نگاہ ڈالیں تو در حقیقت رمضان ہمیں مجرم بنانے کے لئے آتا ہے.بہت سے لوگوں کو جب تہجد پڑھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ غذر کرتے ہیں کہ ہماری آنکھ نہیں کھلتی.مگر رمضان میں روزوں کی خاطر ان کی آنکھ کھل ہی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنکھ تو کھل سکتی ہے مگر نفل اور فرض کا جو فرق ہے اس فرق کی وجہ سے لوگوں سے سستی ہو جاتی ہے.رمضان کے روزے چونکہ فرض ہیں اس لئے تمام مومن ان دنوں رات کے وقت اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور تہجد کی نماز چونکہ نفل کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے اس کی خاطر بعد میں اُٹھنا انسان پر گراں گزرتا ہے.پس رمضان ہماری اس کمزوری کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور اگر وہ ایک طرف ہم سے کی
خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۹ء عبادات کروا کے ہماری بعض اور کمزوریوں کو دُور کرتا ہے تو دوسری طرف وہ ہم پر ہمارے نفس کی کی اس کمزوری کو ظاہر کر کے بتا تا ہے کہ ہمارا نفس حکم ماننے کے لئے تو تیار ہے مگر خوشی اور مرضی سے عبادت کرنے کے لئے تیار نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض اس قسم کے جبری احکام نہیں ہوتے جیسے حکومتوں کے ہوتے ہیں.حکومتوں کے احکام کی جب کوئی شخص تعمیل نہیں کرتا تو اسی وقت گرفت شروع ہو جاتی ہے، مقدمات چلتے ہیں اور بالآخر اسے سزا دے دی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی کے فرائض ایسے نہیں ہوتے.بے شک قیامت کے دن ہر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کے متعلق جوابدہ ہو گا مگر دُنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ جب کسی فرض کی ادائیگی میں کسی شخص سے کوئی کچ کوتا ہی ہو جائے تو آسمان سے فرشتے اُتریں، اس کا مقدمہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو اور اس کے جُرم کی اُسے سزا مل جائے.باوجود اس کے کہ اپنے دل میں ایمان رکھنے والا انسان سمجھتا ہے کہ یہ خدا کا فرض ہے کسی کی کوتاہی پر نہ فرشتے اُترتے ہیں نہ مقدمے ہوتے ہیں اور نہ سزائیں ملتی ہیں مگر اس کا دل جانتا ہے کہ اگر میں نے خدا تعالیٰ کے کسی مقرر کردہ فرض کو چھوڑا تو کی میں اس کی نظروں سے گر جاؤں گا.اسی لئے جب کسی حکم کے ساتھ فرض کا لفظ آتا ہے تو وہ کی اُسے پورا کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے مگر جب کسی نیکی کے کام کے ساتھ نفل کا لفظ آ جائے تو کی وہ کہتا ہے اس کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص فرائض کو پوری طرح ادا کر دے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بری الذمہ ہو جاتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ فرائض کی ادا ئیگی نوافل کے بغیر پوری ہوتی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا.صحابہ کہتے ہیں ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمیں یوں آواز آنی شروع ہوئی جیسے گنگناہٹ کی ہوتی ہے اور ہمیں محسوس ہوا کہ کوئی شخص آ رہا ہے.تیز چلنے کی وجہ سے کچھ اس کے کپڑوں میں سے آواز پیدا ہو رہی تھی اور کچھ آہستہ آہستہ وہ بولتا چلا آ رہا تھا اور ان دونوں آوازوں نے مل ملا کر ایک شورسا پیدا کیا ہوا تھا.وہ کہتے ہیں تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک بدوی تمام صفوں کو چیرتا ہوا آگے آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۹ء کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم پانچ وقت نمازیں پڑھا کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا اچھا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کہا ہے کہ ہم اپنے مالوں میں سے ہر سال زکوۃ نکالا کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم ہر سال ایک مہینہ کے روزے رکھا کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں.پھر اُس نے کہا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کہا ہے کہ ہم استطاعت پر حج کیا کریں؟ آپ نے فرمایا کی ہاں.اس پر اُس نے کہا میں بھی اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یہ تمام حکم بجالا ؤں گا اور ان میں نہ کچھ کمی کروں گا اور نہ ان میں کسی قسم کی زیادتی کروں گا لیے بیشک یہ ایک بدوی کا قول ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق فرما دی اور فرمایا اگر اس نے اپنی اس بات کو پورا کر دیا تو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کا مستحق ہو جائے گا.پس اس میں کوئی محبہ نہیں کہ کی اگر کوئی شخص فرائض کو پوری طرح ادا کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعامات کا مستحق ہو جاتا ہے مگر یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ فرائض کی کامل ادا ئیگی نوافل کے بغیر ناممکن ہے.ایک شخص زکوۃ دیتا ہے اور اپنی طرف سے پوری احتیاط کے ساتھ دیتا ہے مگر بسا اوقات کی اس کے اندازے میں غلطی ہو جاتی ہے اور اس نسبت سے وہ زکوۃ ادا نہیں ہوتی جس نسبت سے زکوۃ کا ادا ہونا ضروری ہوتا ہے.تو جو شخص اپنی طرف سے زکوۃ دینے کی پوری کوشش کرتا ہے اُس کے متعلق بھی اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ اس کے اندازے میں غلطی رہ جائے اور قیامت کے دن اسے معلوم ہو کہ فرض زکوۃ جو اس پر عائد تھی.اس کی ادائیگی پورے طور پر نہیں ہوئی کی بلکہ اس میں کمی رہ گئی ہے یا ایک شخص صرف فرض نماز ادا کرتا ہے.اب فرض نماز میں بھی صرف یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو یا تین یا چار رکعات جو مقرر ہیں وہ ادا ہو جائیں بلکہ رکعات کے ساتھ خلوص اور محبت اور خشیت الہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں بھی کی فرض نماز کا حصہ ہیں، اس سے علیحدہ نہیں.اب فرض کر و ا یک شخص چار رکعت فرض نماز ادا کر دیتا ہے مگر اس کے خلوص اور اس کی توجہ میں کمی رہ جاتی ہے تو گو وہ یہی سمجھے گا کہ میں نے فرض نماز
خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۳۹ء پوری طرح ادا کر دی مگر قیامت کے دن اُسے معلوم ہوگا کہ اس کی فرض نمازوں کی ادائیگی کامل نہیں بلکہ ناقص ہے.اسی طرح روزے انسان رکھتا ہی ہے مگر بعض دفعہ کئی قسم کی بے احتیا طیاں کی بھی ہو جاتی ہیں.میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں ہی بیان کیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے روزہ صرف اس امر کا نام نہیں کہ انسان بھوکا پیاسا رہے بلکہ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان اور اپنے تمام جوارح کو قابو میں رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو خلاف شریعت ہوئے اب فرض کرو ایک شخص روزہ تو رکھ لیتا ہے مگر کسی کو گالی دے دیتا ہے یا کسی سے جھگڑ پڑتا ہے یا کسی کی غیبت سُن لیتا ہے یا کسی کا شکوہ کرنے لگ جاتا ہے تو اپنی طرف سے تو وہ یہی سمجھ رہا ہو گا کہ میں نے روزہ رکھا ہے مگر خدا تعالیٰ کے حضور اس کا وہ روزہ نہیں ہوگا.اب ممکن ہے وہ سمجھتا ہو کہ میں نے رمضان کے مہینہ کے تمہیں روزے رکھ لئے اور اپنے فرض کو کامل طور پر ادا کر دیا مگر قیامت کے دن جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو تو اُسے معلوم ہو کہ کسی سال کے اس کے ۲۹ روزے لکھے ہوئے ہوں، کسی سال کے ۲۸، کسی سال کے ۲۷ اور کسی سال کے ۲۶.یہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتے ہی شوق سے پوچھے گا کہ میرے روزے کہاں ہیں جو میں نے ہر سال رکھے اور جن میں میں نے ایک کی بھی کمی نہیں آنے دی.مگر جب اللہ تعالیٰ اپنا رجسٹر دکھائے گا تو اس میں اس کے کسی سال کے ۲۸ روزے لکھے ہوئے ہوں گے، کسی سال کے ۲۷ اور کسی سال کے ۲۶ اور اس طرح کئی مہینوں کے فرضی روزوں میں اسے کمی دکھائی دے گی.حالانکہ اس کی نجات پورے تمہیں روزوں پر ہونی تھی.اسی طرح ایک شخص حج کرتا ہے مگر اس سے کوئی نہ کوئی کوتا ہی ہو جاتی ہے.اب اس کا حج تو ہو جاتا ہے مگر وہ حج ناقص ہوتا ہے.حالانکہ اس پر جو حج فرض تھا وہ ناقص نہیں تھا بلکہ وہ حج تھا جو تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا گیا ہو مگر یہ کوشش کے باوجود تمام شرائط کو پورا نہیں کر سکا اور اس طرح اس کا حج ناقص ہو گیا تو چاروں فرائض میں باوجود اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے کوئی نہ کوئی نقص رہ سکتا ہے اور اس طرح نجات کے لئے انسان کو بعض اور نیکیوں کی احتیاج باقی رہتی ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دیتا ہے اور وہ ایک حج کی بجائے دو حج کر لیتا ہے یا کسی کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے اور وہ فرض زکوۃ کے علاوہ اور دنوں میں بھی صدقہ و خیرات کرتا رہتا ہے یا کی
خطبات محمود ۵۱۹ سال ۱۹۳۹ء فرض نمازوں کے علاوہ وہ تہجد اور دوسرے نوافل بھی ادا کرتا رہتا ہے تو قیامت کے دن جب اس کے فرض اعمال میں کمی واقع ہوگی اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ اس بندے کا کچھ اور بھی کی حساب ہمارے ذمہ ہے لاؤ یہ کمی وہاں سے پوری کر دیں.فرض زکوۃ میں کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہمارا یہ بندہ صدقہ و خیرات بھی کرتا رہتا تھا اس کمی کو وہاں سے پورا کر دیا جائے.فرض روزوں میں کسی قسم کی کوتاہی رہ گئی ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہمارا یہ بندہ فرضی روزے ہی نہیں رکھتا رہا بلکہ نفلی روزے بھی رکھتا رہا ہے یہ کمی وہاں سے پوری کر دو.حج میں کوئی نقص ہوگا کی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہمارے اس بندے نے ایک اور حج بھی کیا ہوا ہے وہاں سے اس کمی کو پورا کر دیا جائے.غرض اگر یہ نوافل کا شوقین ہوگا تو اس کا حساب بجائے کم ہونے کے کچھ بڑھ ہی جائے گا اور اس زیادتی کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے حساب کو پورا کر دے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زائد انعامات کا بھی مستحق ہو جائے گا.پھر ہم کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ رسول کریمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں بندہ نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے.سے ہی اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ فرائض انسان کو صرف دوزخ سے بچاتے ہیں اور جو شخص سزا سے بچ جائے اس کے متعلق یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بھی بن سکے.سزا سے بچ کر یہ اپنے لئے صرف اتنا حق قائم کر لیتا ہے کہ دوزخ میں نہ پڑے مگر اسے اس بات کا حق نہیں مل جاتا کہ خدا تعالیٰ کی مجلس میں بھی بیٹھ سکے.خدا تعالیٰ کی مجلس میں آنے کا حق انسان کو نوافل سے ہی حاصل ہوتا ہے اور میں تو نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو جو یہ کہے کہ میری عبادات کی صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ میں جہنم میں نہ جاؤں.اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچوں یا نہ پہنچوں مجھے اس کی پرواہ نہیں.اگر کوئی شخص ایسا ہو تو اس کے متعلق سوائے اس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس کا دل محبت الہی سے بالکل خالی ہے.تو یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ نوافل انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جانے والی چیز ہیں اور رحقیقت اعلیٰ روحانی کمالات انہی سے حاصل ہوتے ہیں.فرضوں سے انسان صرف سزا سے بچتا ہے.تو رمضان کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر دو باتیں ظاہر کی ہیں ایک تو یہ کہ اگر ہم تہجد کے لئے
خطبات محمود ۵۲۰ سال ۱۹۳۹ء اُٹھنا چاہیں تو اُٹھ سکتے ہیں، دوسری بات جو سوچنے والی ہے یہ کہ آخر بچے بھی تو رمضان کی میں سحری کے وقت اُٹھتے ہیں.ہم نے تو دیکھا ہے بچوں کوسختی سے روکنا پڑتا ہے ورنہ وہ روتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بھی روزہ رکھیں گے اور خواہ انہیں نہ جگایا جائے رمضان میں سحری کے وقت ان کی آنکھ ضرور کھل جاتی ہے.پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ دوسرے ایام میں تو بڑوں کی بھی آنکھیں نہیں کھلتیں اور رمضان میں بچوں کی بھی آنکھیں کھل جاتی ہیں.اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ رمضان میں کثرت سے لوگ تہجد کے لئے اُٹھتے ہیں اور جب کثرت سے لوگ اُٹھے ہوئے ہوں تو بچوں اور کمز ور لوگوں کی بھی شور سے آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ بھی دوسروں کو کثرت سے تہجد پڑھتے دیکھ کر خود تہجد پڑھنے لگ جاتے ہیں.اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب کسی قوم میں کثرت سے نیکی کا کوئی کام ہورہا ہو تو کمز ور لوگوں کو بھی اس نیکی کے کرنے کی تحریک ہو جاتی ہے.تہجد کو ہی لے اور مضان میں چونکہ کثرت سے لوگ تہجد پڑھتے ہیں اس لئے دوسروں کی بھی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان پر اٹھنا گراں نہیں گزرتا کیونکہ جب انسان دوسروں کو ویسا ہی کام کرتے دیکھتا ہے تو اس کی طبیعت سے بوجھ اتر جاتا ہے اور وہ بھی شوق سے اس میں حصہ لینے لگ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس جو اس وقت چھوٹے بچے تھے آپ کے ہاں سوئے ہوئے تھے.آپ کو تہجد کے لئے اُٹھتے دیکھا تو خود بھی اُٹھ کر تہجد کی نماز میں شامل ہو گئے.گے حضرت ابن عباس کی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت تیرہ سال کی عمر تھی.اگر آپ کی وفات سے تین چار سال پہلے کا یہ واقعہ سمجھا جائے تو آپ کو دس سال کے اس وقت ہوں گے.غرض جب بڑے تہجد کے لئے اُٹھتے ہیں اُس وقت انہیں اٹھتے دیکھ کر بچوں کی بھی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ بھی ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.پس دوسرا سبق رمضان سے ہمیں یہ ملا کہ اگر تہجد پڑھنے والوں کی کثرت ہو جائے تو کمزوروں کی کے لئے بھی اس عبادت کا بجالانا آسان ہو جاتا ہے.ہاں جب تہجد پڑھنے والوں کی قلت ہو تو پھر دوسروں کے لئے اُٹھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ جواب دے دیتے ہیں کہ یہ تو کسی ہمت والے کا کام ہے لیکن اگر عام طور پر لوگ تہجد کے لئے اُٹھتے ہوں تو پھر یہ نہیں کہتے کہ رات کو اُٹھنا کسی
خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۹ء ہمت والے کا کام ہے بلکہ اگر کوئی نہ اُٹھے تو وہ کہتا ہے کہ یہ امر میری سستی پر دلالت کرتا ہے اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ مجھے اُٹھنا چاہئے.تو رمضان نے ہمیں جو سبق سکھایا ہے ہمیں اس سبق کو یا د ر کھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور نہ صرف تہجد پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے بلکہ مختلف اوقات میں نفلی روزے بھی رکھنے چاہئیں.اب کی دفعہ تو کچھ نفلی روزے اس مہینہ میں ہی آگئے ہیں جو میں نے دُعاؤں کے لئے مقرر کئے کی ہیں مگر اس کے علاوہ بھی روزے رکھتے رہنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپ نفلی روزے رکھتے رہتے تھے.اوّل تو رمضان کے ہی بعض روزے رہ جاتے ہیں جنہیں دوسرے اوقات میں رکھنا ضروری ہوتا ہے مگر میں نے دیکھا ہے نماز کی پابندی کا تو لوگ خاص طور پر خیال رکھتے ہیں اور اگر ایک وقت کی نماز رہ جائے تو دوسرے وقت کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے ہیں لیکن رمضان کے روزے اگر رہ جائیں تو وہ بہت کم رکھے جاتے کی ہیں.اس طرح بھی ہر انسان کے ذمہ کافی حساب جمع ہوتا رہتا ہے اگر انسان رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھتا رہے تو اس قسم کی کمی بآسانی پوری کر سکتا ہے.عورتوں کے لئے خصوصاً زیادہ مشکل ہوتی ہے کیونکہ بعض ایام ان پر ایسے آتے ہیں جن میں روزہ رکھنا ان کے لئے جائز نہیں ہوتا بعض دفعہ بیمار ہو جاتی ہیں اور بعض دن گو بظا ہر ایا م صحت ہوتے ہیں مگر چونکہ روزہ کا مضر اثر ان کی یا ان کے بچہ کی صحت پر پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے ان دنوں میں وہ روزہ نہیں رکھتی سکتیں.جیسے ایام حجمل ہیں یا رضاعت کے دن ہیں.ان دنوں میں روزہ رکھنے سے چونکہ بچہ کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے شریعت انہیں رخصت دے دیتی ہے مگر بہر حال یہ روزے اور دنوں میں رکھنے ضروری ہوتے ہیں جس کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے.اگر انسان نفلی روزے رکھنے کا عادی ہو تو پہلے وہ فرض روزے رکھے گا اور فرض روزوں کی ادائیگی میں اگر کوئی کی کمی رہ جائے گی تو اسے نفلی روزے پورا کر دیں گے.پس ہمیں رمضان کے بعد نفلی روزوں کی کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپ ہر جمعرات اور پیر کو روزہ رکھا کرتے اور حدیثوں سے تو پتہ چلتا ہے کہ بعض ایام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متواتر نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور آپ کو دیکھ کر نفلی روزے رکھنے ھے
خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۹ء کے متعلق صحابہ میں اس قسم کا جوش پیدا ہو گیا کہ ایک صحابی نے یہ عہد کیا کہ میں روزانہ روزہ رکھا کروں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ ٹھیک نہیں اس طرح تمہاری صحت کو نقصان پہنچے گا.اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے اندر بہت طاقت ہے اور میں روزانہ روزہ رکھ سکتا ہوں.آپ نے فرمایا بے شک تم میں اس وقت طاقت ہے مگر طاقت ایک عرصہ تک ہی چلتی ہے ہمیشہ انسان کے اندر ایک جیسی طاقت نہیں رہتی.چنانچہ آپ نے خود فر مایا اگر نفلی روزے رکھنے کی تم میں بہت طاقت ہے تو ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو.اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! مجھ میں اس سے بھی زیادہ طاقت ہے.آپ نے فرمایا اچھا ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن نہ رکھا کرو.یہی صحابی جب بڑی عمر کے ہو گئے تو کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رخصت سے فائدہ اُٹھا لیتا کیونکہ اب روزے رکھنے مجھ پر کمزوری کی وجہ سے گراں گزرتے ہیں.مگر چونکہ میں نے خود ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس رنگ میں روزے رکھنے کی اجازت حاصل کی تھی اس لئے اب کی میں چھوڑ نہیں سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جو اجازت ہے وہ یہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن نہ رکھا جائے اور جو شخص اس طرح روزے رکھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صائم الدھر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والا قرار دیا ہے.کے مگر اس روایت کے یہ معنے نہیں کہ کبھی نفلی روزے یکے بعد دیگرے رکھنے جائز نہیں.یہ اس شخص کے لئے حکم ہے جو ہمیشہ روزے رکھنا چاہے لیکن اگر کوئی شخص ایسا نہ کرتا ہو.ہاں کبھی کبھی پندرہ سولہ دن کے اکٹھے روزے رکھ لیتا ہو تو اس کے لئے ان ایام میں روزانہ روزے رکھنا جائز ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ بعض دفعہ پندرہ پندرہ ہیں ہمیں دن مسلسل نفلی روزے رکھتے چلے جاتے.ہاں یہ جائز نہیں ہوتا کہ بغیر سحری کھائے یا بغیر افطار کئے مسلسل روزے رکھے جائیں.مثلاً افطاری تو کی مگر شام کا کھانا نہ کھایا اور سحری کھا کر دوسرا روزہ رکھ لیا.یا سحری نہ کھائی اور یونہی روزہ رکھ لیا.جسے ہمارے ملک میں آٹھ پہرہ روزہ کہتے ہیں.اس قسم کے روزے متواتر رکھنے منع ہیں.رمضان کے ایام میں اگر سحری کے وقت کسی کی آنکھ نہیں کھلتی تو اس وقت اس کے لئے روزہ چھوڑ نا جائز نہیں وہ
خطبات محمود ۵۲۳ سال ۱۹۳۹ء بغیر سحری کھائے آٹھ پہرہ روزہ رکھ سکتا ہے.کیونکہ وہ فرضی روزے ہیں مگر دوسرے ایام میں سحری کے بغیر نفلی روزے نہیں رکھنے چاہئیں.اگر کوئی غریب ہے اور اُسے سحری کے وقت کچھ کھانے کو نہیں ملا تو یہ اور بات ہے لیکن اگر کھانا موجود ہو اور پھر وہ سحری کے وقت نہ کھائے تو یہ طریق نفلی روزں میں جائز نہیں.(اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ صرف افطار پر کفایت کرے اور صبح شام کا کھانا کئی دن تک بند کئے رکھے.) اسی طرح نمازیں ہیں.نمازوں میں بھی نوافل کی طرف خاص طور پر توجہ رکھنی چاہئے.چندے بھی بعض فرضی ہوتے ہیں اور بعض نفلی.اس میں بھی جماعت کی توجہ نفلی چندوں کی طرف بہت کم ہے.بعض تحریکیں ایسی ہوتی ہیں جو میری طرف سے ہوتی ہیں یا مرکز سلسلہ کے دوسرے اداروں کی طرف سے ہوتی ہیں.اس قسم کی تحریکیں دراصل فرضی چندہ کی صورت رکھتی ہیں مگر یہ کہ کوئی غریب مسکین سامنے آ جائے اور اس کی مدد کے طور پر انسان کچھ دے دے یہ نفلی چندہ ہے جس میں حصہ لینا ضروری ہوتا ہے مگر میں نے دیکھا ہے جو فرضی چندے ہیں یا جن چندوں کی تحریک میری طرف سے یا دوسرے مرکزی اداروں کی طرف سے کی جاتی ہے ان میں تو ہماری جماعت کے دوست اچھا حصہ لے لیتے ہیں مگر ایسے چندے جو نفلی ہوتے ہیں مثلاً کوئی غریب اور دُکھیا سامنے آ گیا اور اس کی حاجت روائی کر دی.اس میں بہت کچھ کمی ہے حالانکہ نفلی چندے بھی بہت کچھ انسان کی اصلاح کا موجب ہوتے ہیں.اسی طرح حج کا فریضہ ہمارے ملک میں بہت کم لوگ ادا کرتے ہیں اور جو حج پر جاتے ہیں وہ زیادہ تر ایسے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس پر حج فرض نہیں ہوتا.گویا جن پر حج فرض نہیں وہ تو حج کرنے چلے جاتے ہیں اور جن پر حج فرض ہے ان میں سے بہت کم حج کرنے جاتے ہیں.حالانکہ ہمارے ملک میں سات کروڑ مسلمان ہیں اور ان سات کروڑ مسلمانوں میں سے سات آٹھ لاکھ آدمی ہمیشہ ایسا ہوتا ہے جس پر حج فرض ہوتا ہے مگر حج پر جانے والے بیس پچیس ہزار سے زیادہ نہیں ہوتے اور ان میں سے بھی اکثر وہ ہوتے ہیں جن پر حج فرض نہیں ہوتا.وہ یا تو غریب اور مسکین ہوتے ہیں یا وہ مصیبت زدہ ہوتے ہیں جن کو اپنے چین اور اطمینان کا اور کوئی ذریعہ نہیں ملتا اور وہ کی چاہتے ہیں کہ حج کر کے ہی اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچا لیں.مثلاً ایک غریب بیوہ ہے، خاوند اس کا کی
خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۹ء مر چکا ہے اور اس کے دل میں دُکھ اور درد ہے اور وہ اپنے دُکھ اور درد کو دور کرنے کا ذریعہ یہی دیکھتی ہے کہ حج کر آئے شاید اسی طرح اس کے دل کو سکون نصیب ہو یا کوئی بڑھا ہے اُس کی بیوی مر چکی ہے اور اب اس کا دل بھی دُنیا سے سرد ہو چکا ہے.وہ اُٹھتا ہے اور آخرت کا تو شہ جمع کرنے کی نیت سے حج کے لئے چل پڑتا ہے.گویا ان کا حج حج نہیں ہوتا بلکہ ان کے زخمی دلوں کے لئے ایک مرہم ہوتی ہے.وہ دُکھیا ہوتے ہیں، مصیبتوں اور غموں میں گرفتار ہوتے ہیں.انہیں چین اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں آؤ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد اور آپ کا آخری مقام جا کر دیکھ آئیں.وہاں جا کر ہم دُعا کریں گے شاید اللہ تعالیٰ اسی طرح ہمارے دل کو تسلی دے دے اور یا پھر بعض لوگ صرف اس لئے حج کرتے ہیں کہ لوگوں میں وہ حاجی کہلا سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قصہ سُنایا کرتے تھے.فرماتے تھے ایک حاجی لوگوں کی دعوتیں کرنے کا بہت شوقین تھا مگر محض اپنے حج جتانے کے لئے چنانچہ جب وہ دستر خوان پر بیٹھتا تو نوکر کو آواز دیتا کہ ارے! جلدی وہ سلفچی ۵ لانا جو میں پہلے حج پر لایا تھا اور دیکھنا آفتابہ ہے وہ کی لا نا جو دوسرے حج پر میں لایا تھا اور دستر خوان یہ تم نے کیا بچھا دیاوہ دستر خواں لاؤ جو تیسرے حج پر میں لایا تھا.اسی طرح وہ اپنے ساتھ آٹھ حج گنوا جاتا.ایک دفعہ کسی نیک آدمی کی اس نے دعوت کی اور جب کھانا کھانے کے لئے بیٹھا تو اسی طرح اس نے اپنے حج گنا نے شروع کر دئیے.وہ بزرگ سُن کر کہنے لگے میں کھانا تو بہر حال کھالوں گا.آپ اپنے حج کیوں خراب کرتے ہیں.تو ایک طبقہ ایسا ہے جو محض حاجی کہلانے کے لئے حج کرنے جاتا ہے.ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے زخمی اور مجروح دلوں پر مرہم رکھنے کے لئے حج کرنے جاتا ہے.ایک طبقہ ایسا ہے جو محبت اور خلوص سے حج کرنے جاتا ہے مگر حج اس پر فرض نہیں ہوتا.اس کا حج چاہے ایک دفعہ ہو یا دو دفعہ بہر حال نفلی حج ہی ہوتا ہے کیونکہ حج اس پر فرض نہیں ہوتا.ہاں اپنی اس محبت اور عشق کے جوش میں جو اسے خدا اور اس کے رسول سے ہوتا ہے مکہ مکرمہ کی طرف کھچا چلا جاتا ہے مگر چونکہ حج اس پر فرض نہیں ہوتا اس لئے اس کا حج نفلی حج ہی قرار پاتا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان پر زکوۃ فرض نہ ہو اور وہ اپنے مال میں سے زکوۃ نکال دے تو اس کی زکوۃ نفلی صدقہ و خیرات میں شمار ہو گی.غرض بہت تھوڑا طبقہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن پر حج فرض ہوتا ہو اور وہ
خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۹ء اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حج کرنے جاتے ہوں.حالانکہ جن پر حج کرنا فرض ہو اُن کے لئے کی ضروری ہے کہ وہ حج کرنے جائیں بلکہ اگر وہ فرضی حج ادا کرنے کے بعد نفل کے طور پر ایک اور حج کر کے اپنے حج کے رکن کو مکمل کر لیں تو یہ اور بھی اچھی بات ہے تا کہ فرض حج میں اگر کچھ کمی رہ گئی ہو تو نفلی حج سے وہ پوری ہو جائے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں نفلی عبادتوں کا مقام مقام شفاعت ہے.شفع کے معنے جفت کے ہوتے ہیں اور جس قدر فرائض ہیں وہ بھی اکیلے انسان کے کام نہیں آ سکتے بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ نوافل کو ملایا جائے.اکیلا فرض حج ایسی چیز نہیں جو انسان کو کامل فائدہ پہنچا سکے.جب تک اس فرض حج کے ساتھ کسی نفلی حج کو بھی شامل نہ کیا جائے یہی حال اور فرائض کا ہے.پس جس طرح شفاعت میں ایک جوڑا اور اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح فرائض کے ساتھ بھی جوڑ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ جوڑ نوافل سے ہوتا ہے.پس نفلی عبادات شفاعت کا رنگ رکھتی ہیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری اُمت میں سے سب سے زیادہ میری شفاعت کا مستحق وہ شخص ہو گا جس نے سچے دل سے لَا إِلهَ إِلَّا الله کہا.ملا اب جس نے سچے دل سے لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کہا ہو گا وہ تو پہلے ہی نجات یافتہ ہوگا اس کے لئے کسی شفاعت کی ضرورت کیا ہو گی.اس میں بھی درحقیقت اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان خواہ کس قدر خلوص کے ساتھ عبادات بجالائے پھر بھی کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے جس کے لئے شفاعت کی ضرورت ہوتی ہے.اصل میں کامل فرد جو اکیلا ہو اللہ تعالیٰ ہی ہے.باقی خواہ فرشتے ہوں ، خواہ انسان ہوں ، خواہ اعمال ہو، خواہ اعتقادات ہوں سب جوڑا کے محتاج ہیں.لَا إِلهَ إِلَّا اللہ بے شک اپنی ذات میں انسان کو نجات دلانے والا ہے مگر پھر بھی کئی قسم کی کمی رہ جاتی ہے اور یہ کمی اسی وقت دُور ہو سکتی ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اس کے ساتھ شامل ہو جائے بلکہ کلمہ طیبہ میں لَا إِلهَ إِلَّا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے الفاظ کا اضافہ اسی شفاعت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ جب لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہہ دیا تو وہی کافی تھا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی اس کے ساتھ کہنے کی کیا ضرورت تھی.اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات محمود ۵۲۶ سال ۱۹۳۹ء فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے زیادہ میری شفاعت کا مستحق وہ شخص ہو گا جس نے بچے دل سے لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہہ دیا ہو.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ کا کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا يَا رَسُولَ الله مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشِفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ حصہ لینے کی سعادت قیامت کے دن کون شخص حاصل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ ! مجھے پہلے ہی یہ خیال تھا کہ چونکہ تم مجھ سے بہت باتیں دریافت کرتے رہتے ہو اس لئے یہ سوال بھی تم ہی مجھ سے پوچھو گے.پھر آپ نے فرمایا اے ابو ہریرہ ! قیامت کے دن میری شفاعت میں سے سب سے زیادہ وہ شخص حصہ لے گامَن قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا الله جس نے سچے دل سے لا الهَ إِلَّا اللہ کہہ دیا ہو.اب ایک طرف تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ میری شفاعت میں سے سب سے زیادہ وہ شخص حصہ لے گا جو خلوص دل سے لا إله إلا الله کہے گا اور دوسری طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهَ دَخَلَ الجنّة لے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا.اب ادھر آپ لَا اِلهَ إِلَّا الله کہنے کے ساتھ ہی انسان کو جنت کی بشارت دیتے ہیں اور دوسری طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ جو لا إله إلا الله کہے گا اسے میری شفاعت میں سے حصہ ملے گا.یہ بظاہر دو متضاد باتیں دکھائی دیتی ہیں مگر دراصل متضاد نہیں اور اس کے معنے در حقیقت یہی ہیں کہ لَا إِله إِلَّا الله خلوص دل اور پوری احتیاط کے ساتھ کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے باوجود انسان سے کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی ہے.پس وہ جو اپنی طرف سے عمل کی پوری کوشش کرتا ہے مگر پھر بھی انسانی کمزوریوں کی وجہ سے اس سے کوئی نہ کوئی کوتاہی ہو جاتی ہے اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ میں لا اله الا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ رکھا.یہ بتانے اور واضح کرنے کے لئے کہ تم لا اله الا اللہ تو کہہ رہے ہو اور اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی کوشش کرو گے مگر یاد رکھو تم سے پھر بھی کوئی نہ کوئی کوتا ہی ضرور ہو جائے گی.اس کی لئے ہم تمہیں بتا دیتے ہیں کہ تم اس کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کو بھی یادرکھنا.وہی ہیں جو تمہاری اس قسم کی کمی کو اپنی شفاعت سے پورا کر دیں گے.پس جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کہا وہی ہے جو نجات پانے کا مستحق ہے.بیشک اپنی ذات میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ بھی کافی ہے مگر کافی چیز
خطبات محمود ۵۲۷ سال ۱۹۳۹ء میں بھی کوئی نہ کوئی نقص رہ جاتا ہے.پس پوری نیست ، پورے اخلاص، پوری کوشش اور پوری کی سعی کے بعد جو نقص رہ جائیں گے ان کے دفعیہ کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کریں گے اور کہیں گے یا اللہ یہ مجھ سے ملتا جلتا ہے.صرف تھوڑی سی اس میں کمی ہے تو میری دُعا اور التجا کی برکت سے اس کمی کو پورا فرما دے.گویا شفاعت کیا ہے وہی وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہہ قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله - اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے خواہاں ہو تو میری اتباع کرو.جب کوئی میری اتباع کرے گا تو خدا کہے گا یہ بھی میرے محمد جیسا ہے.آؤ ا سے بھی میں اپنی گود میں بٹھالوں.پس اگر تم میری اتباع کرو کے تو يُخبكُمُ اللهُ خدا تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اور وہ کہے گا کہ اس کی شکل بھی میرے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شکل کے مشابہہ ہے جیسے اگر اپنے بچہ کی شکل سے کسی اور بچے کی شکل ملتی جلتی ہو تو انسان کی اسے پیار کرنے لگ جاتا ہے.اسی طرح خدا اس شخص سے پیار کرنے لگ جاتا ہے جس کی روحانی شکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل سے ملتی جلتی ہو.میرے بچپن کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے جو نقش فی الحجر کی طرح میرے دماغ میں محفوظ ہے.حضرت خلیفہ اول کا ایک لڑکا ایک دفعہ فوت ہو گیا.یہ عبدالحی مرحوم سے پہلے کی بات ہے.مجھے اب اس وقت صحیح طور پر یاد نہیں کہ وہ آپ کا لڑکا تھا یا نواسہ.بہر حال وہ آپ کے گھر کا ہی کوئی بچہ تھا.ہمارے گھر سے والدہ وغیرہ بھی ادھر گئیں.ان دنوں ہمارے گھر میں ایک ملازمہ تھی جس نے مجھے دودھ بھی پلایا تھا.وہ ملازمہ والدہ کے ساتھ ہی تھی جب حضرت خلیفہ اول کے مکان پر وہ پہنچی تو وہ ملازمہ اتنا روئی اتنا روئی کہ گھر والوں کو بھی بچہ کی وفات پر اتنا رونا نہ آیا تھا اس کی ہچکی بندگئی اور رونا ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا.سب کو تعجب ہوا کہ یہ کیوں اس قدر رو رہی ہے مگر کسی کی سمجھ میں یہ راز نہ آتا تھا.آخر والدہ صاحبہ نے اس سے پوچھا کہ تم اتنا کیوں رو رہی ہو ؟ ضرور اس میں کوئی بھید ہے.پہلے تو اس نے نہ بتایا مگر جب اُنہوں کی نے زیادہ اصرار کیا تو وہ کہنے لگی کہ اصل بات یہ ہے کہ جب بچے کا جنازہ نکلا اور اس کے ساتھ میں نے پیر منظور محمد صاحب کو دیکھا تو ان کو دیکھ کر مجھے اپنا ایک بھائی یاد آ گیا جو عین جوانی کے
خطبات محمود ۵۲۸ سال ۱۹۳۹ء عالم میں وفات پاچکا تھا.وہ کشمیرن تھی اور اس کا بھائی بھی نہایت مضبوط جوان اور گورے رنگ کا تھا اور پیر منظور محمد صاحب بھی اپنی جوانی کے عالم میں بہت مضبوط جسم کے تھے اور ان کا رنگ بھی خوب گورا تھا.پس انہیں دیکھ کر اس ملازمہ کو اپنا بھائی یاد آ گیا اور اس وجہ سے وہ خوب روئی.تو مشابہت بھی انسان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے بلکہ شکل کی مشابہت تو الگ رہی جنس کی مشابہت بھی بعض دفعہ اپنی توجہ کھینچے بغیر نہیں رہتی.آدمی سے آدمی یاد آ جاتا ہے اور بچے سے بچہ.چاہے ان دونوں کی شکل کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہ ہو.بدر کی جنگ میں ایک عورت دیوانہ وار ادھر اُدھر دوڑ رہی تھی اور جہاں کہیں اسے کوئی بچہ نظر آتا اُسے اُٹھاتی گلے سے چمٹاتی کج اور پیار کر کے چھوڑ دیتی اور دیوانہ وار پھر دوڑ پڑتی.پھر کوئی اور بچہ نظر آ تا تو اُسے سینہ سے چمٹاتی ، پیار کرتی اور اُسے وہیں چھوڑ کر پھر آگے دوڑ پڑتی.یہاں تک کہ آخرا سے ایک بچہ ملا اس نے کی اس بچہ کو اُٹھایا ، سینہ سے لگایا اور پھر اُسے گود میں لے کر میدانِ جنگ میں ہی بیٹھ گئی اور اس کا جی تمام کرب اور اضطراب جاتا رہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا ؟ اُنہوں نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! دیکھا.آپ نے فرمایا تم نے دیکھا کس طرح یہ مجنونانہ طور پر ادھر ادھر پھر رہی تھی ؟ جہاں اسے کوئی بچہ نظر آتا اُسے اُٹھاتی پیار کرتی اور پھر ایک دیوانگی اور جنون کی حالت میں دوڑ پڑتی.مگر جب اس کو اپنا بچہ مل گیا تو اس کا تمام کرب اور اضطراب جاتا رہا اور وہ آرام سے اسے گود میں لے کر بیٹھ گئی.پھر آپ نے فرمایا جس طرح یہ عورت اپنے بچہ کی تلاش میں مجنونانہ طور پر پھر رہی تھی اور اپنے بچہ کے لئے مضطرب اور بے تاب تھی اسی طرح خدا بھی اپنے گمراہ بندے کے لئے بے تاب ہوتا ہے اور جب وہ بندہ تو بہ کر کے اس کے حضور حاضر ہوتا ہے تو اسے ایسی ہی راحت حاصل ہوتی ہے جیسی اس عورت کو کی اپنا بچہ پا کر حاصل ہوئی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.۱۳ تو مشابہتیں بلکہ بعض دفعہ ناقص مشابہتیں بھی انسان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کو اپنے بچہ کی تلاش میں جب مجنونانہ وارا دھر اُدھر دوڑتے دیکھا تو آپ کو یہ نظارہ دیکھ کر وہ نظارہ یاد آ گیا جو ایک گنہگار بندہ کے تو بہ کرنے پر عالم بالا میں.رونما ہوتا ہے اور یہ ناقص مشابہت آپ کے ذہن کو اس واقعہ کی طرف کھینچ کر لے گئی.
خطبات محمود ۵۲۹ سال ۱۹۳۹ء تو جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرے گا اور آپ کا نقش اپنے اندر پیدا کی کرے گا قیامت کے دن وہ کیوں خدا کو پیارا نہیں ہوگا اور کیوں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ کی و آلہ وسلم کو محبوب نہیں ہوگا اور شفاعت کے معنے بھی یہی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ یا اللہ یہ بھی میرے ساتھ ملتا ہے، یا اللہ وہ بھی میرے ساتھ ملتا کی ہے اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا جلتا ہوگا یہ ناممکن ہے کہ خدا اُس سے محبت نہ کرے.تو اعمال میں کمال پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان نوافل ادا کرے تا کہ اس کی جو کو تا ہیاں ہیں وہ دور ہو جائیں او جو زائد نیکیاں ہوں وہ اسے اللہ تعالیٰ کے اور زیادہ انعامات کا مستحق بنادیں.در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات فرض سے مشابہت رکھتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نفل سے.جس طرح فرضوں کے ساتھ نوافل کا ہونا ضروری ہے اسی طرح لَا إِله إِلَّا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنا بھی ضروری ہے اور جس طرح نوافل کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا اسی طرح کوئی شخص اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں بن سکتا جب تک وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اطاعت نہ کرے.یہ سبق ہے جو ہماری جماعت کو نہ صرف رمضان میں بلکہ رمضان کے بعد بھی یا درکھنا چاہئے مگر بہت لوگ ایسے ہیں جو عید کے دن ہی سبق ان کو بھول جاتے ہیں.وہ رمضان میں روزے کھیں گے، تہجد پڑھیں گے، تلاوت قرآن کریم کریں گے، ذکر الہی اور دُعاؤں پر زور دیں گے مگر جو نہی عید آئے گی وہ نیکی کے اس جبہ کو اُتار کر رکھ دیں گے اور کہیں گے اب یہ جبہ اگلے سال رمضان میں پہن لیں گے جس طرح غریب لوگ اپنے بعض اچھے کپڑے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کپڑوں کو ہم عید یا شادی بیاہ کے موقع پر پہنیں گے.اسی طرح وہ عبادت کا کی جبہ رمضان میں تو پہنے رہتے ہیں جو نہی عید کا دن آتا ہے اس جبہ کو اُتار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب یہ جتبہ اگلے رمضان کو پہنیں گے حالانکہ عبادات کا جبہ رکھنے کے لئے نہیں بلکہ پہنے کے لئے ہوتا ہے.باقی تمام کپڑے پہنے سے رفتہ رفتہ پھٹ جاتے ہیں مگر یہ وہ جتبہ ہے کہ اسے جتنا زیادہ پہنیں اُتنی ہی زیادہ اس میں صفائی پیدا ہوتی ہے.پس بجائے اس کے کہ عید کے دن ہی کی
خطبات محمود ۵۳۰ سال ۱۹۳۹ء اس جبہ کو اُتار دیا جائے کوشش کی جائے کہ یہ جبہ تمہارے جسم سے نہ اُترے کیونکہ جتنا زیادہ یہ تمہارے تن پر رہے گا اُتنی ہی زیادہ اس میں صفائی پیدا ہوگی.میں اُمید کرتا ہوں کہ اس رمضان سے ہماری جماعت کے دوست یہ فائدہ اُٹھائیں گے اور کوشش کریں گے کہ نفلی عبادات کا جو خدا تعالیٰ نے انہیں موقع دیا تھا اسے ضائع نہیں کریں گے بلکہ ہمیشہ اس سے فائدہ اُٹھاتے رہیں گے تا کہ اگلا رمضان پہلے سے بھی بہتر حالت میں آئے اور درمیانی نوافل ان کی تمام قسم کی کوتاہیوں اور کمیوں کو پورا کر دیں.خواہ وہ نماز کی قسم میں سے ہوں یا زکوۃ کی قسم میں سے ہوں یا روزوں کی قسم میں سے ہوں یا حج کی قسم میں سے ہوں.جب وہ ایسا کریں گے تو چونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہہ ہو جائیں گے اس لئے وہ شفاعت کے مستحق ہوں گے اور انہی کا کہا ہو الَا إِلهَ إِلَّا الله حقیقی معنوں میں ( الفضل ۲ دسمبر ۱۹۳۹ء) لا إلهَ إِلَّا الله ہوگا.“ ا سنن النسائى كتاب الصلوة باب كم فرضت الصلوة في اليوم والليلة الطبعة الاولى دار الكتب العلمية بيروت ١٩٩١ء صحیح بخاری کتاب الصوم باب مَن لَمْ يَدَعُ قَوْلَ النُّورِ والعمل بهِ فِي الصّوم صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع صحیح بخاریى كتاب الوضوء باب قراءة القرآن بعد الحدث ۵ سنن ابن ماجه كتاب الصيام باب ما جاء فى صيام النبي صلى الله عليه وسلم صحیح بخارى كتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم بخاری کتاب الصوم باب صوم داؤد سلفچی: (سِلَپُچی) ہاتھ دھونے کا برتن 2 آفتابہ: ڈھکنے دار اور دستہ لگا ہوا لوٹا تفسیر طبری زیر آیت وإن منكم إلا واردها (مریم:۷۲) مطبوعه ۲۰۰۰ء صحیح بخارى كتاب الصلوة باب المساجد في البيوت ۱۲ ال عمران :۳۲
خطبات محمود ۵۳۱ ۳۳ سال ۱۹۳۹ء تحریک جدید کے چھٹے سال کی مالی قربانی کا اعلان تشهد فرموده ۲۴ /نومبر ۱۹۳۹ء) ند ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- گو آج میری طبیعت اچھی نہیں ہے لیکن چونکہ میں اس بات کا ارادہ کر چکا تھا کہ تحریک جدید کے چھٹے سال کے متعلق اعلان کروں گا اس لئے باوجود طبیعت کی خرابی کے اور باوجود اس کے کہ شاید میں زیادہ کھڑا نہیں ہوسکوں گا اور بول نہیں سکوں گا میں نے یہی فیصلہ کیا کہ آج اس کا اعلان کر دوں.تحریک جدید پر پانچ سال کی مدت اب ختم ہو رہی ہے اور قریباً قریباً انہی ایام میں میں کی نئے سال کی تحریک کا اعلان کیا کرتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تک تحریک جدید کی اہمیت اور ضرورت کو میں اس حد تک واضح کر چکا ہوں کہ اب کسی لمبی تحریک کی ضرورت باقی نہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے دین کی محبت پیدا کی ہے اور جو اپنی ذمہ داری کو سمجھتے کی ہیں اور جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کی تڑپ ہے انہیں اب کسی مزید تحریک کی ضرورت نہیں.ان پر یہ امر اچھی طرح کھل چُکا ہے کہ اس میں کیا فوائد مخفی ہیں اور اس کے ذریعہ کس طرح کوشش کی جارہی ہے کہ ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے جو ہماری تبلیغی ضرورتوں کو ہمیشہ کے لئے تو نہیں مگر موجودہ ضرورتوں کو ایک عرصہ تک پورا کرتا رہے.یہ فنڈ ا تنا قلیل ہوگا کہ آئندہ کی ضرورتوں کے عشر عشیر کے لئے بھی کافی نہیں ہوسکتا.عیسائیوں کو دیکھو وہ ایک
خطبات محمود ۵۳۲ سال ۱۹۳۹ء غلط عقیدہ کی اشاعت کے لئے کئی کروڑ روپیہ سالانہ خرچ کر رہے ہیں لیکن اس تحریک کے ماتحت اگر کوئی فنڈ قائم بھی کیا جا سکے تو وہ اتنا محدود ہو گا کہ ہماری آئندہ کوششوں اور ضرورتوں پر حاوی نہیں ہوسکتا.آج ہماری جماعت چند لاکھ ہے اور اس کی کوششیں بھی چند لاکھ روپیہ تک محدود ہیں مگر جب اس کی تعداد کروڑوں کی ہوگی تو روپیہ بھی کروڑوں کی تعداد میں خرچ کرنا پڑے گا اور پھر جب یہ اربوں کی تعداد میں ہو جائے گی تو اسی نسبت سے ضروریات کے لئے روپیہ بھی اربوں خرچ ہو گا.ہماری جماعت کے قیام کی اصل غرض یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کی تربیت کریں اور جو مسلمان نہیں کہلاتے ان میں اشاعت اسلام کریں اور اس کی راہ میں جو کی روکیں ہیں انہیں دور کریں اور نئے سرے سے اسلام کی ترقی کے سامان کریں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے اپنی کوششوں کو اس حد تک اور اس کی وقت تک جاری رکھیں کہ دُنیا میں احمدیت ہی احمدیت نظر آئے اور باقی لوگ ادنی اقوام کی کی طرح قلیل تعداد میں رہ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ احمدیت بڑھتے بڑھتے تین سو سال میں ایسے مقام پر پہنچ جائے گی کہ دنیا میں اسے ہی غلبہ حاصل ہوگا اور جولوگ اس سے باہر رہیں گے وہ ایسی ہی قلیل تعدا د اور کمزور حالت میں رہ جائیں گے جس حالت میں کہ آج ہندوستان میں ادنیٰ کہلانے والی اقوام ہیں مگر یہ چیز ہمیں جادو سے حاصل نہیں ہو جائے گی.یہ نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر کر مداری کی طرح کوئی ڈنڈا ہلائیں گے اور دُنیا میں احمدیت کو غلبہ حاصل ہو جائے گا بلکہ یہ اسی طرح ہوگا جس طرح کہ ہمیشہ سے قاعدہ چلا آتا ہے.اس جماعت کو ترقی اسی طرح ہوگی جس طرح کہ الہی سلسلوں کو ہوتی ہے اور یہ ہماری جد و جہد اور قر بانیوں سے ہوگی.ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ چونکہ خدا تعالیٰ کی قضا و قدر ہے اس لئے ضرور ہو کر رہے گی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ جماعت میں کمزوریاں کی ہیں اس کی رفتار ترقی بہت سست ہے.یہ کس طرح ساری دُنیا میں پھیل سکے گی.یہ لوگ دُنیا میں اس قد را نقلاب کیسے پیدا کر سکتے ہیں مگر سوال یہ نہیں کہ ہماری حالت کیسی ہے اور طاقت کتنی ہے بلکہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کرنے کا فیصلہ کر چُکا ہے اور اس لئے وہ خود ایسے لوگ پیدا کر دے گا جو دنیا کا تختہ الٹ کر رکھ دیں گے.پس سوال ہماری موجودہ کوششوں کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس پیج کو
خطبات محمود ۵۳۳ سال ۱۹۳۹ء بڑھا کر خدا تعالیٰ نے ایسا باغ بنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے جس کے سایہ میں ساری دُنیا آرام کرے گی.جب کوئی چیز ترقی کرنی شروع کرتی ہے تو ابتدا میں وہ تھوڑی ہی ہوتی ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ چاہے تو آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے.ہمارے ملک میں پہلے لوکاٹ کا درخت نہیں ہوتا تھا.پہلے پہل کوئی یورپ، جاپان یا کسی اور ملک سے اسے یہاں لایا اور آج سارے ملک میں یہ پایا جاتا ہے.آج سے پچاس ساٹھ سال قبل مالٹا یہاں نہیں ہوتا تھا کوئی شخص باہر سے لایا اور آج سارے ہندوستان میں یہ پایا جاتا ہے اور اب تو زمیندار بھی جانتے ہیں کہ مالٹا کیا ہوتا ہے.اسی طرح ہمارے ملک میں کئی اجناس ایسی ہیں جو حال کی تیار کردہ ہیں.گیہوں کی ہی کئی قسمیں ہیں جنہیں آج سے چند سال پیشتر کوئی جانتا بھی نہ تھا لیکن آج سب زمیندار اُن کو جانتے ہیں تو جو چیز بھی بڑھتی اور ترقی کرتی ہے وہ ابتدا میں تھوڑی ہوتی ہے.ایک پیج بھی بڑھتے بڑھتے وسیع کھیت پیدا کر دیتا ہے اور پھر اس سے ملکوں کے ملکوں میں کاشت شروع ہو جاتی ہے.ایک قصہ مشہور ہے جو معلوم نہیں سچا ہے یا جھوٹا.کہتے ہیں فرانس کا کوئی شخص استنبول میں شاہی باغات میں نوکر تھا ترکی میں پھول بہت اعلیٰ اور کثرت سے ہوتے ہیں.بادشاہ کے باغ میں ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے پھولوں کا پودا تھا اس نے وہاں سے ایک بیج پھرایا اور فرانس میں لے گیا اور اسے کاشت کیا.جب پھول لگنے شروع ہوئے تو وہاں کے امراء نے کوشش کی کہ انہیں اس کے بیج مہیا ہو سکیں اور اُنہوں نے ایک ایک بیج کے لئے ایک ایک پونڈ کی پیشکش کی مگر وہ اس قیمت پر بھی دینے پر رضا مند نہ ہوا.آخر ایک کمیٹی بنائی گئی جو اس سے بیج لینے کی کوشش کرے.اس نے اسے ہیں ہزار پاؤنڈ کی رقم دینے کی تجویز کی مگر وہ پھر بھی پیچ دینے پر رضامند نہ ہوا.آخر ایک دن ایک چالاک آدمی اسے ملنے گیا جس نے فرفل یعنی بر دار کی کوٹ پہنا ہوا تھا.وہ گیا اور اس پودے کے پاس کھڑا ہو کر اس سے سودے کی بات چیت کی کرنے لگا.بات کرتے ہوئے اس نے دو تین بار پہلو بدلے اور فرفل کو ایسے طور پر حرکت دی کہ وہ اس پودے پر لگتا رہا.واپس آکر اس نے اُسے جھاڑا تو دو تین بیج جو اس میں چھٹے ہوئے تھے گر پڑے جو اس نے بوئے اور ان سے پودے تیار ہو گئے اور اس طرح اس کا بیج عام ہو گیا.
خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۳۹ء تو ایک بیج بھی سارے ملک میں پھیل سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی کو بڑھانے لگتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ بیج کتنا تھوڑا اور چھوٹا ہے.آج ہماری جماعت بہت تھوڑی اور کمزور ہے.حتی کہ جماعت کے بعض کمزور لوگ بھی حیران ہیں کہ یہ کس طرح ساری دُنیا کو فتح کرے گی مگر سوال یہ ہے کہ کونسی چیز ایسی ہے جو ابتدا میں بڑی کوشش سے شروع ہوئی.اللہ تعالیٰ نے کیا سارے انسان ایک ہی دن میں پیدا کر دیئے تھے ؟ نہیں بلکہ پہلے اس نے آدم کو پیدا کیا اس وقت جب خدا تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا اگر کوئی اور مخلوق ہوتی اور خدا تعالیٰ فرماتا کہ اس نے آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ دُنیا کو انسانوں سے بھر دیا جائے تو وہ مخلوق ہنستی اور کہتی کہ یہ کیا پا گلا نہ خیال ہے لیکن آج یہ حالت ہے کہ دُنیا میں آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ماہرین اقتصادیات اب اس امر پر بحثیں کرتے ہیں کہ لوگ کھائیں گے کہاں سے.آدم کی پیدائش کے وقت یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ نسل انسانی اس قدر پھیل جائے گی مگر اب یہ حال ہے کہ ۲۰، ۲۵ سال کی بات ہے کہ ماہرین اقتصادیات کی طرف سے ایک شور بپا تھا کہ زمین بہت کم ہے اور کھانے والے زیادہ کی ہیں.اب کیا انتظام ہو گا ؟ انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کو بڑھانے کا انتظام کیا ہے اسی طرح وہ خوراک کو بڑھانے کا انتظام بھی کر دے گا اور ہر جاندار کا رزق اس کے ذمہ ہے.کوئی دابہ ایسا نہیں جس کا رزق خدا تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو.انہوں نے کی روزی مہیا کرنے کا کام اپنا سمجھ لیا.گویا خدائی اب خدا تعالیٰ نے ان کے سپر د کر دی ہے.آخر ملک میں زراعت کی جدوجہد شروع ہوئی اور ۱۹۲۹ ء میں اس قدر غلہ دُنیا میں پیدا ہوا اور اس قدر ارزاں ہو گیا کہ پھر لوگ اس امر کو سوچنے لگے کہ زمیندار گزارہ کس طرح کریں گے؟ گزشتہ جنگ میں گندم کا نرخ آٹھ روپیہ من تک بڑھ گیا تھا مگر ۱۹۲۹ء میں چار اور دو من تک گر گیا اور کپاس کا نرخ جہاں ۲۷ روپے من تک تھا چار، پانچ رو پید رہ گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا کر دیا اور ان کو بتا دیا کہ ہم غلہ کو اتنا بڑھا سکتے ہیں کہ لوگ حیران رہ جائیں کہ اب اسے بچیں گے کہاں؟ چنانچہ اس کے بعد کئی کمیٹیاں بیٹھیں کہ اس امر پر غور کریں کہ کاشت محدود کر دی جائے.چنانچہ ربڑ کی کاشت کے لئے مختلف ممالک نے رقبے معتین کر دیئے اور فیصلہ کیا گیا کہ اس سے زیادہ کاشت نہ کی جائے.حالانکہ اس سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ربڑ کی کاشت کی.
خطبات محمود ۵۳۵ سال ۱۹۳۹ء جتنی زیادہ کی جائے بہتر ہے.اسی طرح کپاس کی کاشت کو محدود کرنے کا قانون پاس کیا گیا اور امریکہ نے اس کی کاشت ۷۵ فیصدی کر دی اور اسی طرح دوسرے ممالک نے بھی کمی کی.تو کی کسی چیز کو بڑھانا یا گھٹانا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور اس کا قانون یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کو ترقی دینا چاہتا ہے تو اس کے بیج کو بڑھا دیتا ہے.جب وہ ایک بیج ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اس سے سینکڑوں کیسے بنیں گے اور جب سینکڑوں ہو جائیں تو کہتے ہیں اس سے ہزاروں کیونکر ہوں گے.پھر ہزاروں سے لاکھوں ، لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں تک بڑھنے میں شک کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اسی طرح بڑھاتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو دنیا حیران تھی اور کہتی تھی کہ ایک سے دو کس طرح ہوں گے؟ کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں ہو گا جو ان عقائد کو مان جائے لیکن جب چند لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے تو دُنیا نے کہا کہ چالیس پچاس پاگل تو دنیا میں ہو سکتے ہیں مگر یہ آخری حد ہے اس سے زیادہ نہیں بڑھ سکتے اور جب یہ تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی تو کہا جانے لگا کہ دُنیا میں پاگلوں کے علاوہ بعض احمق بھی ہوتے ہیں جو شریک ہو گئے ہیں مگر ساری دُنیا تو عظمندی کو نہیں چھوڑ سکتی کی اب اُن کی تعداد نہیں بڑھ سکتی اور جب جماعت ہزاروں تک پہنچ گئی تو کہا گیا کہ بعض اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی دھوکا کھا سکتے ہیں مگر اب یہ لوگ لاکھوں تک نہیں پہنچ سکتے اور اب حیران ہیں کہ یہ کروڑوں کس طرح ہوں گے اور یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح ایک سے دسیوں، دسیوں سے سینکڑوں سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں ہوئے اسی طرح اب لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو کر ان کو اسی طرح بڑھاتا جائے گا اور کون ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کو روک سکے.اسی طرح اس تحریک کی بنیاد بھی آج چند ہزار روپوں پر ہے جو چندہ آتا ہے اس میں سے اخراجات کو نکال کر جو روپیہ بچتا ہے موجودہ اندازہ کے مطابق اس سے اسی قدر مستقل فنڈ قائم کیا جا سکتا ہے کہ جس سے ساٹھ ستر ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکے اور یہ اس کے لئے کافی ہے کہ اس وقت جومشن ہمارے مد نظر ہیں یعنی جن کے لئے اس وقت مجاہدین ٹرینینگ لے رہے ہیں انہیں قائم کیا جا سکے.یہ زیادہ سے زیادہ ۲۵ ،۳۰ نئے مشن ہوں گے اور اگر دیکھا جائے تو یہ
خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۳۹ء کچھ بھی نہیں.اس جدو جہد کے مقابلہ میں جو اس وقت عیسائی کر رہے ہیں.اس وقت ۶۵ ہزار عیسائی مبلغ دُنیا کے مختلف حصوں میں کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے مقابلہ میں ہمارے ۲۵ ،۳۰ مبلغوں سے کیا بنے گا ؟ مگر ہمیں امید ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ضرور ترقی دے گا اور جس طرح خدا تعالیٰ نے اتنا مستقل فنڈ قائم کرنے کا سامان کر دیا ہے جبکہ پہلے ایک روپیہ بھی اس فنڈ میں نہ تھا تو اسے اس کو اور بڑھانے سے کون روک سکتا ہے.وہ ضرور اُسے کسی وقت لاکھوں ، کروڑوں بلکہ اربوں تک ترقی دے گا اور ایک وقت آئے گا کہ ہمارا تبلیغی فنڈ دُنیا کی بڑی بڑی کی حکومتوں کے خزانوں سے بھی زیادہ ہو گا جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ احمدیت کو اتنی ترقی دے گا کہ ساری دُنیا کی اقوام مل کر بھی اس کے مقابلہ میں ادنیٰ اقوام کی حیثیت رکھیں گی.اسی طرح وہ اس کے فنڈوں کو دُنیا کی حکومتوں کے خزانوں سے زیادہ مضبوط بنا دے گا اور وہ اسے ضرور بڑھائے گا.میسیج محمدی کو مسیح ناصری سے ہر لحاظ سے بڑھ کر ہونا چاہئے.مسیح ناصری کی قوم نے اپنے انتہائی کمال کے وقت ۶۵ ہزار مبلغ پیدا کئے ہیں مگر احمدیت انشاء اللہ تعالیٰ اپنی ترقی کے زمانہ میں ۶۵ لاکھ پیش کرے گی اور یہ ضروری بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ علماء ہوں کیونکہ علماء کا کام صرف غیروں میں تبلیغ نہیں ہوتا بلکہ ان کا کام تعلیم و تربیت بھی ہے اور حقیقی تعلیم و تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ چند سو آدمیوں پر ایک عالم ضرور مقرر ہو.جب تک ہر ڈیڑھ دوسو آدمیوں پر ایک نہ ہو صحیح تربیت نہیں ہو سکتی.جب کوئی قوم بڑھتی ہے اور افراد کی تربیت کا انتظام نہیں ہوتا تو وہ گرنے لگتی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں فلاں جماعت میں فلاں وقت اخلاص زیادہ تھا.اب ویسا نہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس وقت جماعت کم تھی یا کسی جگہ کوئی خاص آدمی تھا وہ چلا گیا تو ان کی تربیت کا ویسا انتظام نہ رہا.پہلے ایک مبلغ ایک علاقہ میں جاتا تھا وہاں کی چند آدمی ہوتے اور وہ ان کی تربیت کے لئے زیادہ کوشش کر سکتا مگر اب ہر علاقہ میں جماعتیں بڑھ گئی ہیں اس لئے تربیت میں نقص رہ جاتے ہیں اور یوں بھی جس رنگ میں ہم نے مبلغ پیدا کرنے کی اب تک کوشش کی ہے اس سے تربیت صحیح رہ بھی نہیں سکتی تھی.صحیح رنگ وہی تھا جو اب میں نے تحریک جدید میں اختیار کیا ہے یعنی ایسے مبلغ ہوں جو بغیر روپے اور معاوضہ کے کام کریں اور سلسلہ پر بوجھ نہ ہوں.یہ کوشش خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہورہی ہے.گو بوجہ اس کے
خطبات محمود ۵۳۷ سال ۱۹۳۹ء کہ یہ ابھی پیج کی حالت میں ہے اس کی اہمیت کا احساس نہیں کیا جاسکتا.یہ پہلے دن کا چاند ہے جو صرف تیز نظر والوں کو ہی نظر آ سکتا ہے اس وقت ہماری کوششیں بالکل معمولی ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں شاندار کامیابی ہو رہی ہے.دوستوں نے اخبار ” الفضل میں ایک مصری اخبار الفتح کے مضمون کا ترجمہ پڑھا ہو گا.یہ مصر کا شدید ترین مخالف اخبار ہے جو نہایت گندے الزامات ہم پر لگا تا رہتا تھا اور جو لوگ ان مضامین سے واقف ہیں وہ تعجب کرتے ہوں گے کہ اس نے یہ مضمون کس طرح لکھ دیا.اس نے لکھا ہے کہ سارے مسلمانوں کی مجموعی کی تعدا دمل کر بھی اسلام کی خدمت کے لئے وہ قربانی نہیں کر رہی جو یہ مٹھی بھر جماعت کر رہی ہے.غور کرو یہ کتنا بڑا سرٹیفکیٹ ہے.ایک شدید ترین مخالف تسلیم کرتا ہے کہ یہ جماعت اسلام کی بے نظیر خدمت کر رہی ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ ایک احمدی کو دوسرے مسلمانوں کے برابر ہے یا ہزار کے برابر ہے بلکہ کہتا ہے کہ ساری دُنیا کے مسلمان جن میں بادشاہ اور بڑے بڑے امراء بھی کی شامل ہیں مل کر بھی اسلام کے لئے وہ جد و جہد نہیں کر رہے جو یہ جماعت کر رہی ہے.ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا رعب قائم ہو رہا ہے.عربی میں ضرب المثل ہے الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الأعْدَاءُ یعنی فضلیت وہی ہے جس کی دشمن گواہی دے.میں جب شام میں گیا تو وہاں عبدالقادر المغر بی جو بہت بڑے اور مشہور ادیب ہیں مجھ سے ملنے آئے.جس وقت وہ آئے ایک اور شخص مجھ سے بات چیت کر رہا تھا.وہ بیٹھے گفتگو سُنتے رہے اور پھر اسے کہنے لگے کہ ان سے بحث مت کرو.یہ ہمارے وطن میں آئے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ان کا اعزاز کریں.مذہبی باتیں ان سے نہیں کرنی چاہئیں اور پھر ان باتوں کا فائدہ بھی کیا ہے.یہ ہندوستان کے رہنے والے ہیں جو جاہل ملک ہے جہاں کے لوگ نہ قرآن کریم سے واقف ہیں اور نہ عربی سے، جو قرآن کریم کی زبان ہے اور ان کی باتوں کا ہم لوگوں پر اثر بھی کیا ہوسکتا ہے جن کی مادری زبان عربی ہے.اس لئے ان کے ساتھ بحث کر کے خواہ مخواہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ یا د رکھیں میں واپس جا کر یہاں اپنا مبلغ بھیجوں گا اور اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ یہاں جماعت قائم نہ ہو اور آپ اسے دیکھ نہ لیں کہ اس ملک کے رہنے والے بھی ہماری باتوں پر ایمان لاتے ہیں.چنانچہ میں نے وہاں مبلغ بھیجا اور اللہ تعالیٰ کے
خطبات محمود ۵۳۸ سال ۱۹۳۹ء فضل سے ان کی زندگی میں ہی وہاں جماعتیں قائم ہو گئیں.اب تو مجھے معلوم نہیں وہ زندہ ہیں یا مر گئے لیکن جماعتیں وہاں ان کی زندگی میں ہی قائم ہوگئی تھیں اور اب شام، فلسطین ، مصر وغیرہ ممالک میں ایسے ایسے مخلص احمدی موجود ہیں کہ ان پر رشک آتا ہے.ان میں ایسے بھی ہیں جن کو احمدیت کی وجہ سے قتل کیا گیا.ایسے بھی ہیں جو زخمی کئے گئے ، ایسے بھی ہیں جو ملک بدر کئے گئے اور جن کی جائدادیں اور مال و اسباب لوٹ لئے گئے مگر وہ پھر بھی استقلال اور ہمت کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہیں اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو ہر جگہ ترقی حاصل ہو رہی ہے.پس ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیج کو جو آج ہم بور ہے ہیں ضرور ترقی دے گا.ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ بیج بونے کی پوری پوری کوشش کریں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں.اب ہماری جدو جہد کا چھٹا سال شروع ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اب ہم چندے کے زمانہ کے لحاظ سے چوٹی پر پہنچ کر نیچے اُتر رہے ہوں گے.اس سال مالی قربانی کے زمانہ کا ماضی بڑھ جائے گا اور مستقبل گھٹ جائے گا.اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رویا کے مطابق جو بظاہر تو اسی پر چسپاں ہوتا ہے وَالله أَعْلَمُ بِالصَّوَاب.۵۵۰۰ احباب کے وعدے آئے ہیں جن میں ساڑھے چار ہزار ادا ابھی کر چکے ہیں باقی کر رہے ہیں اور ابھی ۳۰ /نومبر تک میعاد بھی باقی ہے.بعض لوگ مزید مہلت لے لیتے ہیں اور بعض نے لے بھی لی ہے کہ ہم دسمبر یا جنوری یا فروری میں ادا کر دیں گے اور اس طرح ممکن ہے پانچ ہزار پورے ہو جائیں یا کچ کچھ بڑھ جائیں لیکن اگر پانچوں سالوں کو دیکھا جائے تو یہ تعدا داڑھائی ہزار کے قریب رہ جاتی ہے کیونکہ بعض نے ایک سال کا ادا نہیں کیا ، بعض نے دو سال کا اور بعض نے تین سال کا.گو وہ کی ابھی وعدے کر رہے ہیں کہ ضرور ادا کر دیں گے لیکن اس جدو جہد میں شریک ہونے والوں کی جو فہرست تیار ہوگی اس میں وہی لوگ شامل ہوں گے جو دس سالہ میعاد کو پورا کریں گے.بعض لوگوں نے بے شک معافی لے لی ہے اور ان پر وعدہ خلافی کا جرم عائد نہیں ہوتا لیکن میں یہ نہیں کی سمجھ سکتا کہ ان میں سے بعض یہ شکایت کیوں کرتے ہیں کہ جب آپ نے ہمیں معاف کر دیا تو پھر اس فہرست میں ہمارا نام کیوں نہ آئے.یہ محض نفس کا دھوکا ہے.ایک شخص وعدہ کرتا جائے کی اور معافی لیتا جائے تو کیا وہ ثواب کا مستحق ہو جائے گا ؟ معافی کے معنی تو صرف یہ ہیں کہ وہ گناہ کی
خطبات محمود ۵۳۹ سال ۱۹۳۹ء سے بچ جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ثواب کا بھی مستحق ہو جائے گا.ثواب تو قربانی کے نتیجہ میں کی ہی مل سکتا ہے.ہاں اگر واقعی کسی ایسے شخص کے دل میں قربانی کا جذبہ ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ثواب کا مستحق ہو سکتا ہے لیکن ہماری فہرست میں وہ کسی طرح نہیں آ سکے گا.تو یہ محض نفس کی کا دھوکا ہے کہ ہم وعدہ کر کے معافی لے لیں تو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو جائے گا.ایسے ایک شخص کا خط پڑھکر مجھے تو حیرت ہوئی.اس نے لکھا کہ گزشتہ سال میں نے تھیں روپیہ کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ادا نہیں کر سکا.اس لئے وہ تو معاف کر دیں اور آئندہ سال کے لئے میں چونکہ جانتا نہیں کہ کس قد ر ادا کرنے کے قابل ہوسکوں گا اور کب ادا کر سکوں.اس کی لئے آئندہ سال کے لئے میرا وعدہ دس ہزار کا لکھ لیں.ایسا شخص جو جانتا ہے کہ میں جو وعدہ کر رہا ہوں اسے پورا نہیں کر سکوں گا اسے وعدہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور پھر وہ قر بانی کرنے والے مجاہدین کی فہرست میں شامل کیونکر ہو سکتا ہے؟ معافی کے معنی تو صرف یہ ہیں کہ کی ایسا شخص وعدہ خلافی کے گناہ سے بچ جائے.یہ کیونکر ہو گیا کہ وہ ثواب کا مستحق بھی ہو جائے اور کی جو شخص معافی لیتا ہے وہ یہ کس طرح فرض کر لیتا ہے کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور پھر وہ مجاہدین کی فہرست میں کیونکر آ سکتا ہے؟ فہرست میں تو وہی شخص آئے گا جو دس سالہ میعاد کو پورا کرے گا اور انہی لوگوں کے ثواب کو لمبا کرنے کی ہم کوئی صورت کریں گے تو اس فہرست میں وہی شامل ہوں گے جو شرائط کے ماتحت اس تحریک میں حصہ لیتے رہیں گے.سوائے ان کے جو فوت ہو گئے اور جب تک زندہ رہے برا بر شرائط کے ماتحت حصہ لیتے رہے.ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَدُ پس ایسا شخص جو زندگی میں برابر کی حصہ لیتا رہا اور پھر فوت ہو گیا.وہ آخر تک شامل سمجھا جائے گا.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ دین کی خدمت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہی سمجھے جاتے ہیں ہے وہ ان کے برا بر ثواب پاتے ہیں جو زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے ، جہاد کرتے یا ثواب کے کی دوسرے کام کرتے ہیں جو نیک کام وہ دُنیا میں کرتے تھے اس کا ثواب ان کو برابر ملتا رہتا ہے.پس جو فوت ہو گئے ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں وہ دس سالہ میعاد میں شامل سمجھا جائے گا.اس کی نیت کے مطابق اسے اجر ملے گا خواہ وہ ایک سال ہی دینے کے بعد فوت ہو گیا مگر چونکہ اس کی کی
خطبات محمود ۵۴۰ سال ۱۹۳۹ء نسیت آخر تک شامل ہونے کی تھی اس لئے اسے نیت کا ثواب مل جائے گا.بشرطیکہ جب تک وہ زندہ رہا شریک رہا ہو.ہاں جس نے زندگی میں اپنی مرضی سے ناغہ کر دیا وہ اس میں شامل نہیں کی سمجھا جائے گا.کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی نیت ہی اس میعاد کو پورا کرنے کی نہ تھی.کی ہاں وہ شخص جو جب تک زندہ رہا ادا کرتا رہا.اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے پورا کر دیا.یا جن کی آمدنیوں میں کمی ہوئی اور وہ چندہ میں شرائط کے مطابق کمی کرتے رہے.وہ بھی کی اس فہرست میں شمار ہوں گے.مثلاً وہ لوگ جو ملا زمت سے پنشن پر آگئے اور انہوں نے آمد میں کمی کے ساتھ شرائط کے ماتحت چندہ میں کمی کر دی ان کی کمی کمی نہیں سمجھی جائے گی یا وہ لوگ بھی جن کے متعلق کوئی ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ وہ بوجھ اُٹھانے کے قابل ہی نہ رہے.پہلے وہ چندے دیتے رہے مگر پھر ان کی مالی حالت ایسی خراب ہو گئی کہ وہ چندے دینے کے قابل نہ رہے.ان کے متعلق تحقیقات کر کے فیصلہ کرنا ہمارے اختیار میں ہو گا.جو لوگ ملازمت سے پنشن پر چلے گئے یا جن کی تجارت میں کمی واقع ہو گئی ان کی حالت تو ظاہر ہی ہے اور اگر وہ شرائط کی کے ماتحت چندے میں کمی کر دیں تو ان کی کمی کو کمی نہیں سمجھا جائے گا لیکن جو یہ کہیں کہ ان کی کی مالی حالت ایسی خراب ہو گئی کہ وہ حصہ لینے کے قابل ہی نہیں رہے ان کے متعلق تحقیقات کر کے فیصلہ کرنا ہمارے اختیار میں ہوگا.اس کے علاوہ جو لوگ معافی لیتے ہیں وہ ادا کرنے والوں میں شامل نہیں سمجھے جا سکتے.وہ تو صرف گناہ سے بچ سکتے ہیں.جو لوگ قواعد کے مطابق چندہ دیتے ہیں ان کی بھی دو شقیں ہیں ایک تو وہ جو ہر سال بڑھاتے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے چوتھے سال میں کمی کر دی مگر پھر اس میں برابر زیادتی کرتے جاتے ہیں.یعنی بعض تو وہ ہیں جنہوں نے چوتھے سال میں کمی نہیں کی.ان کا کی دوسرے سال کا چندہ پہلے سے بڑھ کر ، تیسرے کا دوسرے سے بڑھ کر اور چوتھے کا تیسرے سے بڑھ کر تھا اور پھر پانچویں کا چوتھے سے بڑھ کر تھا.خود میں نے بھی چوتھے سال میں کمی نہیں کی مگر بعض وہ ہیں جنہوں نے چوتھے سال کمی کر دی کیونکہ میں نے اس کی اجازت دی تھی اور پھر پانچویں سال میں اس سے زیادہ چندہ دیا.کیونکہ اس وقت میں نے مکمل سکیم کا اعلان کر دیا تھا اُن کی کمی کو کمی نہیں سمجھا جائے گا.اگر چوتھے سال کے بعد پانچویں میں انہوں نے زیادتی کر دی ہوئی
خطبات محمود ۵۴۱ سال ۱۹۳۹ء اور پھر آئندہ ہر سال کچھ نہ کچھ زیادتی کرتے چلے جائیں یہ دونوں قسم کے لوگ سَابِقُون میں شمار ہوں گے.جنگ اور اس سے پیدا شد ہ حالات اور خطرات کو ممکن ہے بعض لوگ چندوں میں کمی کا موجب قرار دے لیں مگر میرے نزدیک یہ کمی کا موجب نہیں بلکہ قر بانی میں اضافہ کا موجب ہونے چاہئیں کیونکہ جنگ ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان کی زندگی اور اس کے آرام و آسائش کی کے سامان نا پائیدار ہیں.دیکھو کس طرح آج کئی ممالک میں انسانی زندگی اور آرام و آسائش کی ایک انسان کی وجہ سے خطرہ میں پڑی ہوئی ہے.انسانی زندگیوں کا اس طرح خاتمہ ہو رہا ہے جس طرح دانے بھونے جاتے ہیں، سمندروں میں جہاز غرق ہو رہے ہیں اور ان میں انسانی کی جانیں بے دریغ ضائع ہو رہی ہیں.ابھی خشکی پر جنگ با قاعدہ شروع نہیں ہوئی.خشکی پر جنگ کے وقت ایسے عظیم الشان لشکروں میں بعض دفعہ پانچ پانچ اور دس دس ہزار انسان روزانہ مرتے ہیں اور یہ نہایت مہیب نظارہ ہے.بے شک بیماریوں میں بھی لوگ مرتے ہیں مگر ان میں زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جو ایسی حالت کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہینگ لگتے ہیں لیکن جنگ میں ملک کے چیدہ نو جوان مارے جاتے ہیں اور ایسے جوان جن سے نسلیں چلتی ہیں گو یا ملک کے چمن کے چیدہ پھول مسلے جاتے ہیں اور صرف پتے اور ٹہنیاں لٹکتی ہوئی رہ جاتی ہیں.غرض بیماری اور جنگ کی موت میں بڑا فرق ہوتا ہے.بیماری میں پچاس فیصدی ایسے انسان کرتے ہیں جو اپنی عمر گزار چکے ہوتے ہیں.۳۵،۳۰ فیصدی عورتیں یا بچے ہوتے ہیں اور ۱۵ ،۲۰ فیصدی نوجوان بھی ہوتے ہیں مگر جنگ میں مارے جانے والے سو فیصدی جوان ہوتے ہیں اور ایسے جوان جن پر ملک کو ناز ہوتا ہے اور جو ملک اور قوم کی ترقی کا موجب ہونے والے ہوتے ہیں.گویا جنگ میں ملک کی جان نکال کر اسے مسل دیا جاتا ہے اور یہ موت نہایت دردناک ہوتی ہے مگر پھر بھی دیکھو کس طرح لوگ اپنی جانیں جنگ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں.مائیں کس طرح اپنے بیٹوں کو نکال کر باہر پھینک دیتی ہیں اور پھر جب وہ مارے جاتے ہیں تو بسا اوقات ان کو رونے کی بھی اجازت نہیں ہوتی.جرمنی میں اب یہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ
خطبات محمود ۵۴۲ سال ۱۹۳۹ء کہ کسی عزیز کی موت پر جو جنگ میں مارا جائے رونا، پیٹنا یا رنج کے آثار ظاہر کرنا جرم ہے اور جو ایسا کرے اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے.یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ کسی کا جوان بیٹا مارا جائے اور اُسے چند منٹ غم کا اظہار کرنے کی بھی اجازت نہ ہو.بیشک بعض لوگ ایسے مواقع پر بہادری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور رنج وغم کے آثار ظاہر نہیں ہونے دیتے مگر ایسی مثالیں بہت شاذ ہوتی ہیں.گزشتہ جنگ کے واقعات میں سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جرمنی کی ایک.اسی سالہ بوڑھی عورت کا صرف ایک ہی جوان بیٹا تھا اُس کے سوا اُس کا کوئی نہ تھا.وہ جنگ میں مارا گیا.وزیر جنگ نے اُسے یہ خبر سنانے کے لئے بلایا.جن لوگوں کو زیادہ صدمہ ہوان کی کے ساتھ زیادہ ہمدردی کا اظہار اور عزت کرنے نیز تسلی و تشفی دینے کے لئے جرمنی نے یہ اصول مقرر کیا تھا کہ وزیر جنگ خود بُلا کر انہیں ان کے غم سے آگاہ کرتا تھا اور تسلی دیتا تھا.اس عورت کا بھی چونکہ یہی ایک لڑکا تھا اس لئے وزیر جنگ نے اسے بلایا کہ یہ اندوہناک خبر سنائے.ایک امریکن اخباری نامہ نگار نے لکھا کہ اس بڑھیا کی کمر بڑھاپے کی وجہ سے کبڑی ہو رہی تھی مگر جب ج وہ یہ خبر سُن کر دفتر جنگ سے باہر نکلی تو اس نے اپنی کمر کو ہاتھ سے سیدھا کیا اور ایک مصنوعی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ کیا ہو ا میرالڑ کا مارا گیا وہ ملک کی خاطر مارا گیا ہے.اُس وقت اظہارِ غم ممنوع نہ تھا.لوگ اس حالت پر رور ہے تھے مگر وہ ہنستی تھی.صحابہ کرام میں اس بہادری کی مثالیں بہت کثرت سے ملتی ہیں.دُنیوی لوگوں میں تو کروڑوں لوگوں اور سینکڑوں ملکوں میں سے ایک آدھ ایسی مثال مل سکے گی مگر چند ہزار صحابہ میں سینکڑوں مثالیں ہیں.کیسی اعلیٰ درجہ کی وہ مثال ہے جو ایک عورت سے تعلق رکھتی ہے اور جسے میں نے پہلے بھی بار ہا سنایا ہے اور جو اس قابل ہے کہ ہر مجلس میں سنائی جائے اور اس کی یاد کو تازہ رکھا جائے.بعض واقعات ایسے شاندار ہوتے ہیں کہ بار بار سُنائے جانے کے باوجود پُرانے نہیں ہوتے.ایسا ہی واقعہ اس عورت کا ہے جس نے جنگ احد کے موقع پر مدینہ میں یہ نی که آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ مدینہ کی دوسری عورتوں کے ساتھ گھبرا کر باہر نکل آئی اور جب پہلا سوار اُحد سے واپس آتا ہوا اُسے نظر آیا تو اُس نے اس سے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا تمہارا خاوند مارا گیا ہے.
خطبات محمود ۵۴۳ سال ۱۹۳۹ء اُس نے کہا کہ میں نے تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا ہے اور تم میرے خاوند کی خبر سُنا رہے ہو.اُس نے پھر کہا کہ تمہارا باپ بھی مارا گیا ہے.مگر اُس عورت نے کہا کہ میں تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں اور تم باپ کا حال بتا رہے ہو.اُس سوار نے کہا کہ تمہارے دونوں بھائی بھی مارے گئے مگر اُس عورت نے پھر یہی کہا کہ تم میرے سوال کا جواب جلد دو.میں رشتہ داروں کے متعلق نہیں پوچھتی.میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں.اس صحابی کا دل چونکہ مطمئن تھا اور وہ جانتا تھا کہ آپ بخیریت ہیں اس لئے اس کے نزدیک اس عورت کے لئے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ اس کے متعلقین کی موت سے اسے آگاہ کیا جائے مگر اس عورت کے نزدیک سب سے پیاری چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی.اس لئے اس نے اسے جھڑک کر کہا کہ تم میرے سوال کا جواب دو اس پر اُس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خیریت سے ہیں.یہ سُن کر عورت نے کہا کہ جب آپ زندہ ہیں تو پھر مجھے کوئی غم نہیں خواہ کوئی مارا جائے کے اور ظاہر ہے کہ اس مثال کے سامنے اس بڑھیا کی مثال کی کوئی حقیقت نہیں جس کے متعلق خود نامہ نگار کو اعتراف ہے کہ اس کا دل غم کے بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہوتا تھا.وہ دل میں رو ر ہی تھی مگر یہ صحابیہ تو دل میں بھی خوش تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں.اس عورت کے دل پر تو صدمہ ضرور تھا گو وہ اسے کی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اس کے تو دل پر بھی کوئی صدمہ نہ تھا اور یہ ایسی شاندار مثال ہے کہ دُنیا کی تاریخ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی اور بتاؤ اگر ایسے لوگوں کے متعلق یہ نہ فرمایا جاتا کہ مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَہ تو دُنیا میں اور کونسی قوم تھی جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جاتے.میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرا دل اس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگالوں کہ اس نے میرے محبوب کے لئے اپنی محبت کی ایک بے مثل یادگار چھوڑی ہے.پھر اسی اُحد کا ایک واقعہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مشہور ہوئی تو اُس وقت حضرت انس بن نضر کھجوریں کھا رہے تھے انہیں اطمینان تھا کہ فتح ہو چکی ہے اس لئے میدان سے پرے چلے گئے تھے اور چونکہ بھوکے تھے کچھ کھجور میں جو اُن کے پاس تھیں ان کے
خطبات محمود ۵۴۴ سال ۱۹۳۹ء کھانے میں مشغول ہو گئے تھے.جب ٹہلتے ٹہلتے میدان جنگ کے قریب ہوئے تو دیکھا کہ حضرت عمر ایک چٹان پر بیٹھے اور ہے ہیں.حضرت انسؓ نے حیرت سے دریافت کیا کہ عمر! یہ رونے کا کونسا موقع ہے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ہے اور تم رور ہے ہو؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ تمہیں معلوم نہیں فتح کے بعد کیا ہوا ؟ دشمن نے پھر پیچھے سے حملہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.حضرت انس نے یہ بات سنی تو اس وقت آخری کھجور ان کے ہاتھ میں تھی اُنہوں نے کہا کہ عمر ! جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے حضور پہنچ چکے ہیں تو ہم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے؟ جہاں آپ گئے وہیں ہمیں پہنچنا چاہئے.خدا کی قسم ! میرے اور جنت کے درمیان اس کھجور کے سوا اور کوئی چیز نہیں یہ کہتے ہوئے اُس کھجور کو پھینک دیا اور تلوار لے کر میدانِ جنگ میں جا گھسے.دایاں ہاتھ کاٹا گیا تو بائیں سے تلوار پکڑ کر لڑتے رہے.وہ بھی کٹ گیا تو منہ میں پکڑ لی اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے اور جنگ کے بعد جب دیکھا گیا تو جسم پر ستر زخم تھے اور جسم کے کئی ٹکڑے کٹ کر الگ ہو گئے تھے سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ انہی کے متعلق تھی ۵ گو یہ درست نہیں کی بلکہ یقیناً یہ آیت اور بہت سے صحابہ کے متعلق بھی تھی.مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ صحابی اس کے اولین مستحقین میں سے تھے.پھر اسی اُحد کا اسی قسم کا ایک اور واقعہ ہے.لوگ جب مرنے لگتے ہیں ، جب اپنا آخری کی وقت دیکھتے ہیں تو اگر کوئی سامنے آئے تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں کو سلام کہنا ، اس اس طرح ہمارے دُکھ اور غم کا ان سے اظہار کرنا لیکن جنگ اُحد میں جب صحابہ کو دوبارہ فتح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ دیکھو کون کون شہید یا زخمی ہوئے ہیں.ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے تلاش کرتے ہوئے مدینہ کے ایک انصاری کو دیکھا کہ بُری طرح زخمی کی ہے اور نزع کی حالت میں ہے.میں نے اسے سلام کہا اور پوچھا کہ کوئی پیغام چاہو تو دے دو.یہ سُن کر اُس کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور اُس نے کہا میں اسی انتظار میں تھا کہ کوئی بھائی ادھر آ نکلے تو اُس کے ذریعہ پیغام بھجوا دوں.سو تم آگئے ہواب میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعده کرد که میرا یہ پیغام ضرور پہنچا دو گے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کہ میرے رشتہ داروں
خطبات محمود ۵۴۵ سال ۱۹۳۹ء سے کہنا کہ جب تک ہم زندہ تھے خدا تعالیٰ کی امانت یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ہمارے سپر د تھی اُس کی اپنی جانوں سے حفاظت کرتے رہے.اب ہم دُنیا سے جاتے ہیں اور یہ امانت اب تمہارے سپرد ہے اور میری آخری وصیت تم کو یہ ہے کہ رسول کریم کے وجود کی قدر کرنا اور اپنی جانوں کو قربان کر کے آپ کی حفاظت کرنا.دیکھو اس وقت اس صحابی کو یہ فکر نہیں ہوئی کہ میری اولا د اور رشتہ داروں کو روٹی دے کر زندہ کون رکھے گا بلکہ یہ فکر تھی کہ وہ اس موت سے نہ بھا گئیں جو ہم نے قبول کی ہے.اب بتاؤ کونسا ایسا ملک اور کونسی ایسی قوم ہے جو کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش کر سکے.یہ تین واقعات ہی ایسے ہیں کہ دُنیا کی تاریخ کے تمام صفحات بھی ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں.حالانکہ دُنیا کی تاریخ ہزاروں سالوں ، ہزاروں قوموں اور ہزاروں لڑائیوں اور کروڑوں فوجیوں پر پھیلی ہوئی ہے اور صحابہ کی چھوٹی سی جماعت میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں.دراصل ایسی قربانیاں ہی ہیں جو قوموں کو بڑھاتی ہیں.غرض اس جنگ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ دُنیا فانی ہے.صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی غیر فانی ہے اور اسی سے تعلق پیدا کرنا انسان کے لئے نفع مند ہوسکتا ہے باقی دنیوی جاہ و جلال اور جائداد و اموال کی کوئی حیثیت نہیں.دیکھ لو یہودیوں کے پاس کتنی جائداد میں تھیں مگر ہٹلر نے حکم دیا اور سب کی سب ضبط ہو گئیں.پس اس جنگ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کی راہ میں اور قر بانیاں کریں اگر دنیاوی امن کے لئے ایسی عظیم الشان قربانیاں کی جاتی ہیں جیسا کی کہ ان جنگوں میں محبانِ وطن کر رہے ہیں تو خدا تعالیٰ کی خاطر قر بانیوں کا معیار کس قدر بلند ہونا چاہئے اور جو یہ قربانیاں نہیں کرتے.وہ کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ سے محبت ہے.پس یہ حالات قربانی میں کمی کے بجائے اضافہ کا موجب ہونے چاہئیں.یا د رکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس لئے وہ اسے ضرور ترقی دے گا اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی ان کو بھی دُور کر دے گا اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ اس کو برکت دے گا اور مبارک ہیں وہ جو بڑھ بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا نام ادب اور احترام سے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور خدا تعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں کے کیونکہ انہوں نے خود
خطبات محمود ۵۴۶ سال ۱۹۳۹ء تکلیف اُٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا اللہ تعالیٰ خود متکفل ہو گا اور آسمانی نوران کے سینوں سے ابل کر نکلتا رہے گا اور دنیا کو روشن کرتا رہے گا.میں ان الفاظ کے ساتھ اس چھٹے سال کی تحریک کا اعلان کرتا ہوں اور اس کے لئے وعدہ کی آخری تاریخ کی ۳۱ / جنوری ۱۹۴۰ء مقرر کرتا ہوں اور جن لوگوں نے ابھی گزشتہ سال کا چندہ ادا نہیں کیا یا جن کے ذمہ بقائے ہیں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ ادائیگی کی طرف جلد متوجہ ہوں کیونکہ بوجھ جتنا زیادہ ہوتا جائے گا اُتنا ہی دل پر زنگ لگتا جائے گا اور ادائیگی میں اتنی ہی مشکل پیدا ہوتی جائے گی.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے دلوں میں دین کی خدمت کے لئے خود الہام کرے اور اعلیٰ قر بانیوں کی توفیق دے.اَللَّهُمَّ امِینَ.واخِرُ دَعْونَا أَنِ الْحَمْدُ ِللَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۳۹ء) الاحزاب ۲۴ ولا تَقُولُو المَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ آمَوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَ لكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقره: ۱۵۵) 66 سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه ۰۵ امطبع مصطفى البالي مصر مطبوعہ ۱۹۳۶ء صحیح بخاری کتاب المغازى حالات غزوة أحد و تفسیر طبری جلد ۲ صفحه ۱۴۶، ۱۴۷ مطبوعہ ۱۹۶۸ء تفسير طبرى سورة الاحزاب زیرآیت فمنهم من قضى نحبه جلد ۲ صفحه ۱۴۶ ، ۱۴۷ مطبع مصطفى البالي مصر الطبعة الثالثه ١٩٦٨ء
خطبات محمود ۵۴۷ ۳۴ سال ۱۹۳۹ء تحریک جدید کا مقصد دنیا کے ہر ملک میں اسلام کے علمبر دار پیدا کرنا ہے.( فرموده یکم دسمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میں اختصاراً اپنی جماعت کے دوستوں کو تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کے متعلق پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت کے مخلص حصہ پر اس کی تحریک کی اہمیت اچھی طرح واضح ہو چکی ہے.چنانچہ اس سال یہ ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے کہ ایک دوست جو ہندوستان سے باہر رہتے ہیں اُن کا چندہ بر وقت نہیں پہنچ سکا تھا.اُنہوں نے تار کے ذریعہ گزشتہ سال کا چندہ بھی بھجوایا ہے اور موجودہ سال کی تحریک میں شمولیت کا بھی وعدہ کیا ہے.حالانکہ غیر ممالک سے تار بھیجنے پر بہت کچھ خرچ ہو جاتا ہے.اسی طرح اور دوستوں نے بھی ہندوستان کے رہنے والوں میں سے بھی اور بیرونی ممالک میں رہنے والوں میں سے بھی کی تحریک کے شروع ہونے کے وقت کا اندازہ لگا کر اس پہلے ہفتہ میں جس توجہ سے کام لیا ہے کی وہ بتاتا ہے کہ جماعت کے ایک طبقہ میں اس کی اہمیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی طرح واضح ہو چکی ہے.چنانچہ اس ہفتہ میں باوجود اس کے کہ خطبہ شائع ہوئے ابھی چار روز ہی ہوئے ہیں بیس ہزار سے اُوپر کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی کچھ ڈاک بے پڑھی بھی باقی ہے.ممکن ہے
خطبات محمود ۵۴۸ سال ۱۹۳۹ء اس کے پڑھنے سے ان وعدوں میں اور زیادہ اضافہ ہو جائے.میں نے جیسا کہ بار بار بتایا ہے اس وقت جن اقوام کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے وہ تبلیغی لحاظ سے اتنی آگے بڑھی ہوئی ہیں کہ انہوں نے اس فن کو حد کمال تک پہنچا رکھا ہے.درحقیقت تبلیغ کے میدان میں ایک غلط مذہب کی تائید کرنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اُن کے دماغ میں ایسا ملکہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر دکھانے میں بڑے ماہر ہو گئے ہیں اور وہ بالکل نڈر ہو کر جھوٹ بول لیتے ہیں.میں نے جب ہر ہٹلر کی کتاب مائنے کیمف (Meine Kampf) کا ترجمہ پڑھا جس کتاب پر نازیوں کو بہت ناز ہے تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی.جب میں نے دیکھا کہ ہر ہٹلر اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہماری پہلی حکومت کے متعلق یہ اتہام لگایا جاتا ہے کہ اس نے بڑی جنگ کے زمانہ میں جھوٹ بولا.وہ کہتے ہیں مجھے یہ شکوہ نہیں کہ اُس نے جھوٹ بولا یہ کوئی کی بات نہیں امور سیاست میں لوگ جھوٹ بولا ہی کرتے ہیں.گو انسان کو کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اگر ہو سکے تو سچ بولے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو سچ نما جھوٹ بولے.مگر مجھے یہ شکوہ ہے کہ اس نے پیٹ بھر کر جھوٹ کیوں نہیں بولا.وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ کو بھی اگر متواتر دہرایا جائے اور دلیری سے دُہرایا جائے تو آہستہ آہستہ لوگوں کو یہ یقین آجاتا ہے کہ جو بات ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ سچ ہے.اب جو وائرلیس کے ذریعہ جرمنی انگریزوں کے خلاف پراپیگنڈا کر رہا ہے اس میں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے.دوسرے ملکوں کے متعلق تو ہمارے نوجوان کہہ دیا کرتے ہیں کہ خبر ہے انگریزوں کی بات غلط ہے یا جرمنوں کی.مگر ہمارے ملک کے متعلق جرمنی کی طرف سے جو پراپیگنڈا کیا جارہا ہے وہ اس قدر حیرت انگیز ہے کہ اُسے سُن کر انسان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ کونسا ملک ہے جس کے متعلق یہ باتیں بیان کی جارہی ہیں.کئی دفعہ جرمنی کی طرف سے وائرلیس میں یہ خبریں آجاتی ہیں کہ ہندوستان میں بڑی بغاوتیں ہو رہی ہیں حالانکہ ہمیں یہاں خبر بھی نہیں ہوتی کہ کوئی بغاوت ہو رہی ہے.سرحد افغانستان پر جوڈا کے پڑتے ہیں اُنہیں کا اس قدر بڑھا چڑھا کر ذکر کیا جاتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے گویا سارے ملک میں بغاوت ہورہی ہے.حالانکہ جو جنگی قو میں ہوتی ہیں اُن میں اس قسم کے واقعات
خطبات محمود ۵۴۹ سال ۱۹۳۹ء.ہوتے ہی رہتے ہیں.فیروز پور ، گورداسپور ، لاہور اور امرتسر کے اضلاع میں بھی بعض دفعہ ڈا کے پڑتے ہیں اسی طرح پٹھانوں کے علاقہ میں بھی کبھی کبھی ڈا کے پڑ جاتے ہیں جن میں ایک دو سپاہی مارے جاتے ہیں مگر اس معمولی سی بات کو اتنی شان سے بیان کیا جاتا ہے کہ گویا کئی کروڑ سرحدیوں نے انگریزوں پر حملہ کر دیا ہے اور وہ انہیں دباتے چلے جاتے ہیں.غرض ایسی ایسی گئیں ہانکی جاتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور جب ہمارے اپنے ملک کے متعلق اس قد رجھوٹ سے کام لیا جا رہا ہو تو غیر ملکوں کے متعلق ہمیں آپ ہی آپ تسلی ہو جاتی ہے اور حج ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جو کچھ یہاں ہو رہا ہے وہی کچھ وہاں ہو رہا ہوگا.یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ ان قوموں نے پراپیگینڈا کو ایک فن کا رنگ دے دیا ہے اور اس کمال تک اس کو پہنچا دیا ہے کہ اپنی ذات میں یہ ایک ہنر بن گیا ہے.اگر چہ اس کو بُرے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے.بہر حال ہٹنر ہنر ہی ہے.جب کبھی ہم اس ہنر کو سچ کے ساتھ اور سچائی کے متعلق استعمال کریں گے یہ مفید نتائج پیدا کرنے والا بن جائے گا اور جب اس ہنر کو جھوٹ کے متعلق استعمال کیا جائے گا تو یہ بُرے نتائج پیدا کرنے والا بن جائے گا.ایسی قوموں کے مقابلہ میں اسلام کی تبلیغ جب تک خاص شان کے ساتھ نہ کی جائے اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.کیونکہ ہم نے سچ کے ساتھ تبلیغ کرنی ہے جھوٹ کے ساتھ تبلیغ نہیں کرنی اور ہمارے لئے اس قسم کے پراپیگینڈا کا مقابلہ کرنا آسان بات نہیں.تم اسی کی بات کو دیکھ لو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا میں وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کو قائم کیا اور یہ اتنا کھلا مسئلہ ہے کہ کوئی سلیم الطبع انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.ساری دُنیا میں عورتوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا تھا نہ ان کے متعلق کسی مذہب نے ورثہ کی تعلیم دی تھی نہ بیاہ اور طلاق کے قوانین مقرر کئے تھے ، نہ ان کی ذاتی جائیدادوں کے متعلق کوئی قانون مقرر کیا تھا ، نہ یہ بتایا تھا کہ مرد عورتوں سے کس رنگ میں معاملہ کریں ، نہ یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ان سے نرمی اور محبت کا سلوک کریں اور ان کا ادب اور احترام کیا کریں، نہ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف کسی نے توجہ دلائی تھی.غرض سوائے اسلام کے دُنیا کا اور کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے عورتوں کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ اور مکمل طور پر قائم کیا ہو مگر عیسائی پادریوں کے جھوٹے اور ناپاکی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء پراپیگنڈے کا اثر یہ تھا کہ آٹھ سو سال تک یورپ کے لوگوں کو پادری یہ کہ کہہ کر دھوکا اور فریب دیتے رہے کہ اسلام عورت میں روح کی موجودگی کو تسلیم ہی نہیں کرتا.وہ کہتا ہے کہ روح صرف مرد میں ہوتی ہے عورت میں نہیں ہوتی.یہ کیسا جھوٹا پراپیگنڈا ہے جو اسلام کے خلاف کیا گیا.اہلِ عرب جب کسی چیز کی بڑائی کا تمثیلی طور پر ذکر کیا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ فلاں بات اُحد پہاڑ کے برابر ہے.گاندھی جی نے ہندوستان میں یہ ایک نیا محاورہ جاری کیا ہے کہ فلاں بات ہمالیہ پہاڑ کے برابر ہے مگر میں حیران ہوں کہ اس جھوٹ اور فریب کا کیا نام رکھوں ؟ اس کی کے آگے تو ہمالیہ پہاڑ بھی مٹی کے ڈلے کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر برا برسات آٹھ سوسال تک پادری مصنفوں نے لوگوں کو یہ دھوکا دیا اور کروڑوں نہیں اربوں ارب لوگوں کو اس غلط نہی میں مبتلا رکھا کہ اسلام عورتوں کو بے جان اور بے روح تسلیم کرتا اور اسے مردوں کے لئے دل کی بہلانے کا ایک کھلونا تصور کرتا ہے.وہ قوم جس کے اپنے مذہب میں عورت کو کوئی حیثیت نہیں کی دی گئی اس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتنا بڑا افترا کیا اور اس قوم کے لکھے پڑھے لوگ حتی کہ مدرسوں کے اساتذہ، کالجوں کے پروفیسر، محکموں کے افسر، پارلیمنٹوں کے ممبر اور حکومتوں کے وزراء اور بادشاہ سب اس دھوکا میں آگئے اور ایک ادنیٰ انسان سے لے کر بادشاہ تک یہ سمجھنے لگ گئے کہ واقع میں اسلام عورتوں میں روح کی موجودگی کا قائل نہیں.کیونکہ نہ پروفیسروں نے اسلامی کتابیں دیکھی تھیں ، نہ حکام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا علم تھا ، نہ افسروں کی اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو حقیقت کا علم تھا نہ وزراء اور بادشاہوں کو عربی زبان سے واقفیت تھی.اُنہوں نے چند پادریوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم نے اسلام کے سمندر میں غوطہ لگایا اور ہم نے یہ امر معلوم کیا ہے کہ اسلام عورت میں روح کا قائل نہیں اور پھر انتہائی دلیری سے وہ پادری بڑے بڑے چیتے پہن کر لیکچر دیتے اور کہتے کہ واقع میں یہ بات درست ہے اسلام تو عورت کو کی کوئی درجہ دیتا ہی نہیں اور اُن کے اس جھوٹے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر تمام یورپ میں یہی سمجھا جانے لگا کہ اسلام عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.وہ سمجھتے تھے کہ شاید پادریوں کی لکھی ہوئی انگریزی کتابیں تمام عرب کے لوگ پڑھتے ہیں اور چونکہ وہ ان باتوں کا جواب نہیں دیتے اس لئے واقعہ یہی ہوگا کہ اسلام میں یہ تعلیم موجود ہے.جرمن سمجھتے کہ جرمنی میں اسلام
خطبات محمود ۵۵۱ سال ۱۹۳۹ء کے خلاف لکھی ہوئی کتابوں کا چونکہ عرب کے لوگ جواب نہیں دیتے اس لئے اسلام پر جس قدر کی اعتراضات کئے گئے ہیں وہ درست ہیں کیونکہ ہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ میری بولی سب لوگ سمجھتے ہیں ، جرمن سمجھتے ہیں کہ دُنیا میں جرمن زبان سے ناواقف کوئی نہیں ہوسکتا، فرانسیسی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں فرانسیسی زبان سے ناواقف کوئی نہیں ہوسکتا اور انگریز سمجھتے ہیں کہ دُنیا میں انگریزی زبان سے ناواقف کوئی نہیں ہو سکتا.غرض ہر قوم اپنی زبان کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتی ہے کہ اسے تمام دُنیا کے لوگ سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتی ہے کہ بھلا کونسا ایسا نا معقول کی انسان ہوسکتا ہے جسے ہماری بولی بھی سمجھ میں نہ آ سکے.پنجابی زبان کوئی علمی زبان نہیں مگر پنجابی جاٹ بھی جب ڈھولے کہتے اور پنجابی میں لکھے ہوئے اشعار پڑھتے ہیں یا لکھے شاہ کی کافیاں پڑھتے ہیں تو وہ خیال کرتے ہیں کہ بھلا کونسا ایسا انگریز یا امریکن ہے جسے یہ مضمون بھی معلوم نہ ہو.اس طرح قوموں کو دھوکا لگ جاتا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ چونکہ فلاں بات ہماری طرف سے بار بار دہرائی گئی ہے اور اس کا مخالف فریق کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا.اس لئے وہ ضرور کچی ہے.غیر مبائعین بھی اس فن میں عیسائیوں کے خوشہ چین ہیں وہ بھی بعض دفعہ جھوٹے پراپیگنڈا کو کمال تک پہنچا دیتے ہیں.جب میری خلافت کے ابتدائی ایام میں اُنہوں نے ہمارے خلاف اپنے اخبار میں مضامین لکھنے شروع کئے تو ایک دن اُنہوں نے اپنے اخبار میں بڑے جلی عنوانات سے اس قسم کے الفاظ لکھے کہ مرزا محمود کی خفیہ سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا.حقیقت بے نقاب ہو گئی اور سازش کھل گئی مگر جب ہم نے نیچے مضمون دیکھا تو یہ تھا کہ ایک مبائع نے ہم سے بیان کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول جب فوت ہوئے ہیں تو اس رات مرزا محمود لوگوں کو جگا جگا کر کہہ رہے تھے کہ دُعائیں کرو اللہ تعالیٰ فتنہ سے لوگوں کو بچائے.اب نیچے تو یہ خبر تھی مگر اوپر اس قسم کا عنوان تھا کہ بھانڈا پھوٹ گیا، سازش کھل گئی ، حقیقت بے نقاب ہو گئی اور خفیہ کارروائیوں کا پتہ چل گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ کئی احمدیوں کے مجھے خط پہنچے کہ کیا پیغام صلح میں جو یہ بات شائع ہوئی ہے درست ہے؟ میں نے انہیں جواب لکھوایا کہ تم نیچے کی عبارت بھی تو پڑھو تم نے تو محض عنوان دیکھ کر سمجھ لیا ہے کہ کوئی سازش تھی جس کا بھانڈا پھوٹ گیا.حالانکہ نیچے
خطبات محمود ۵۵۲ سال ۱۹۳۹ء یہ لکھا ہے کہ میں نے لوگوں سے کہا کہ دُعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی صحیح راہنمائی کرے اور اسے فتنہ سے بچائے.میں نے انہیں لکھا کہ اگر یہ سازش ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور میں دونوں سازش میں شریک تھے اور یہ کہ میں نے فریب دے کر لوگوں کو کہا کہ تم خدا سے پوچھو کہ حقیقت کس طرف ہے.پھر خود بخود تم پر کھل جائے گا کہ سچی بات کونسی ہے.گویا پہلے میں نے خدا سے سازش کی اور اسے غیر جانبدار رہنے کی بجائے اپنے ساتھ شامل کر لیا پھر میں نے ج لوگوں کو فریب دے کر کہا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو چلو خدا سے جا کر پوچھ لو کہ حق میرے ساتھ ہے یا میرے مخالفوں کے ساتھ.پس اس صورت میں مجھ پر ہی سازش کا الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کو بھی نعوذ باللہ اس سازش میں شریک ماننا پڑتا ہے اور اگر خدا واقع میں غیر جانبدار ہے تو پھر میں نے جب یہ کہا کہ تم دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے قلوب کی صحیح راہنمائی کرے اور اسے فتنہ اور ٹھوکر سے محفوظ رکھے تو اس کے معنے یہ تھے کہ میں نہیں چاہتا کہ میری مرضی دُنیا کی کے سامنے آئے بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جو کچھ خدا کی مرضی ہے وہی پوری ہو.اب میرا اُس وقت کا خیال اچھا تھا یا بُرا.یقیناً ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ اس کے پر کھنے کا اس سے زیادہ اچھا طریق اور کوئی نہیں ہوسکتا مگر اُنہوں نے اس خبر کا عنوان یہ رکھ دیا کہ مرزا محمود کی خفیہ سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا اور جیسا کہ میں نے بتایا اس عنوان سے متاثر ہو کر بعض قلیل الند بر احمدیوں نے کی مجھے چٹھیاں لکھیں کہ کیا یہ بات درست ہے اور میں نے انہیں لکھا کہ تم ایک خطر ناک ہیڈ نگ کی سے ہی دھوکا میں مبتلا ہو گئے.نیچے کا مضمون بھی تو پڑھو اور دیکھو کہ اس میں کیا لکھا ہے.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ ہمیں اُس دن سخت گھبراہٹ تھی اور یہی وجہ تھی کہ میں نے دُعاؤں پر زور دیا اور دوستوں سے کہا کہ وہ اُٹھیں اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کریں کہ جو خدا کی مرضی ہے وہ پوری کی ہو.ایسا نہ ہو کہ ہماری یا دوسروں کی غلطی سے سلسلہ کو کوئی نقصان پہنچے لیکن اگر یہ نیکی نہیں تھی اور اگر لوگوں کو دعاؤں کے لئے جگانا اور کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا ؤ اور عرض کرو کہ اے خدا ! کی سلسلہ کو ہر فتنہ سے محفوظ رکھ اور اس نہایت ہی مُشکل گھڑی میں ہماری صحیح راہنمائی فرما ایک کی سازش تھی تو چاہئے تھا کہ وہ لوگ اس کے مقابلہ میں یہ اعلان کر دیتے کہ آج رات کوئی شخص کی دُعا کے لئے نہ اُٹھے بلکہ جو پہلے تہجد کے لئے اُٹھا کرتے ہوں وہ بھی آج رات سوئے رہیں اور
خطبات محمود ۵۵۳ سال ۱۹۳۹ء خدا تعالیٰ سے کوئی دُعا نہ کریں.ایسا نہ ہو کہ خدا صحیح راہنمائی کر دے یا یہ کہ اگر دُعائیں کی گئیں تو نعوذ باللہ خدا بجائے ہدایت دینے کے گمراہ کر دے گا.پس اگر وہ اعلان کر دیتے کہ آج رات خدا تعالیٰ سے کوئی دُعا نہ مانگی جائے اور اگر خدا کچھ بتائے بھی اُس پر کان نہ دھرا جائے ایسا نہ ہو کہ وہ فریب میں آجائیں تو دنیا خود بخود فیصلہ کر لیتی کہ کس نے صحیح راستہ اختیار کیا ہے اور کس نے غلط مگر اُنہوں نے بجائے اس کے کہ وہ راستہ اختیار کرتے جو صحیح تھا ہمارے طریق عمل پر اعتراض کر دیا اور اسے ایک بہت بڑی خفیہ سازش قرار دے دیا.اسی طرح آجکل کے مفسدین نے کیا.اُنہوں نے بھی جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہوئے اعلانوں پر اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ہماری روٹی بند کر دی گئی ، ہمارا پانی بند کر دیا گیا، ہمارا دودھ بند کر دیا گیا.ہم حیران کہ یہ کیا بات ہے؟ ہم نے تو ایسا کوئی حکم نہیں دیا ، ان کی روٹی کس طرح بند ہوگئی اور ان کا دودھ پانی کس نے روک لیا ؟ ہم دکانداروں سے پوچھتے تو وہ کہتے کہ ہم سے روزانہ وہ لوگ دودھ کی اور دوسری ضروریات کی چیزیں لے جاتے ہیں مگر شر یہ مچایا جا تا کہ ہم پر ظلم کیا جاتا ہے ، ہمیں دُکھ دیا جاتا ہے ، ہمیں دکانوں سے سودا تک خرید نے نہیں دیا جاتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سودا سلف کے معاملہ میں محکمہ کی میری اجازت سے یہ ہدایت تھی کہ جو ضروریات زندگی سکھوں، ہندوؤں اور غیر احمدی دکانداروں سے مل سکتی ہوں وہ احمدی دکانداروں کی طرف سے نہ دی جائیں اور جو نہ مل سکتی ہوں وہ ضرور دی جائیں لیکن اس میں بھی ایک حکمت تھی اور وہ یہ کہ وہ یہ شور مچارہے تھے کہ احمدی ہمیں مار ڈالنا چاہتے ہیں.اس صورت میں اگر احمدی دکانداروں کو انہیں ہر قسم کا سودا دینے کی اجازت ہوتی اور کسی دن ان کا کوئی فرد بیمار ہو جاتا تو وہ یہ شور مچا دیتے کہ فلاں احمدی دکاندار کے ذریعہ ہمیں زہر دی گئی ہے.اس قسم کے امکانات کو روکنے کے لئے ہم نے ہدایت دے دی کہ جو ضروریات زندگی انہیں غیروں سے بآسانی میسر آ سکتی کی ہوں وہ تو احمدی دکاندار نہ دیں مگر جو چیزیں ان سے نہ مل سکتی ہوں وہ احمدی دکاندار ضرور دے دیا کریں اور اس کے لئے محکمہ نے ان سے پوچھا کہ جن دکانداروں پر انہیں اعتبار ہو ان کے نام بتا دیں ہم انہیں اس قسم کی اشیاء کے دے دینے کی اجازت دے دیں گے.مگر ان کے مد نظر چونکہ محض شور مچانا اور اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا تھا اس لئے انہوں نے شور مچانا ج
خطبات محمود ۵۵۴ سال ۱۹۳۹ء.شروع کر دیا کہ ہمارا حقہ پانی بند کر دیا گیا.یہ بند کر دیا گیا وہ بند کر دیا گیا.( حقہ پانی کا لفظ میں نے پنجابی محاورہ کے مطابق استعمال کیا ہے ورنہ ان میں حقہ پینے والا میرے علم میں کوئی نہیں ) غرض اس رنگ میں اُنہوں نے اپنی مظلومیت کا رونا رویا حالانکہ ہم نے حکم دیا ہوا تھا کہ جو ضروریات زندگی غیروں سے نہیں مل سکتیں وہ احمدی دکاندار انہیں ضرور دے دیا کریں مگر بہر حال وہ یہ شور مچاتے رہے کہ ہم مارے گئے ، ہمیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا ، ہمیں پینے کو کچھ نہیں ملتا دکانداروں کو منع کر دیا گیا ہے کہ وہ ہمارے ہاتھ کوئی چیز فروخت نہ کریں.حالانکہ جو واقع میں کی تکلیف زدہ ہو اور جسے حقیقت میں ان چیزوں کی ضرورت ہو وہ پہلے اپنی روٹی کا فکر کیا کرتا ہے.یہ نہیں کرتا کہ روٹی کا تو فکر نہ کرے اور شور مچانا شروع کر دے کہ میں مارا گیا.اگر انہیں دودھ نہیں ملتا تھا تو وہ پہلا کام یہ کرتے کہ کسی سے دودھ لیتے اور اپنی ضرورت کو پورا کرتے مگر وہ دودھ اور روٹی تو نہ لیتے بلکہ محض یہ شور مچاتے رہتے کہ ہم مارے گئے ہم مارے گئے.تو کی پرو پیگنڈا اس زمانہ کی تمام حیات کا روح رواں ہو گیا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ اسلام کی طرف سے بھی پرو پیگنڈے کا مقابلہ پرو پیگنڈا سے کیا جائے اور سچائی سے جھوٹ کو مٹایا جائے.در حقیقت اس زمانہ میں جھوٹ کی اتنی کثرت ہو گئی ہے اور دھوکا اور فریب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ جب تمہارا ایک قریب ترین دوست بھی تم سے کوئی بات کر رہا ہو تو تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ مجھ سے فریب تو نہیں کر رہا.پس جھوٹ اور فریب کی کثرت کی وجہ سے جھوٹ کی ہیبت اور اس کی اہمیت لوگوں کے قلوب سے نکل گئی ہے اور جب کوئی شخص کی جھوٹ بولتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کوئی بُرا کام نہیں کیا.ساری دُنیا ہی ایسا کرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے دوسروں کے عیوب کی تشہیر کرنے سے بنی نوع انسان کو روکا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے اگر تم ایسا کرو گے تو رفتہ رفتہ لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ ساری دُنیا ہی عیوب میں مبتلا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جُرموں کا رُعب جو انسانی قلوب میں ہوتا ہے وہ جاتا رہے گا مگر نادان خدا تعالیٰ کی وسیع حکمتوں کو نہیں سمجھتے اور اپنی معمولی معمولی ضرورتوں اور خواہشوں کو خدا تعالیٰ کے احکام پر مقدم کر لیتے ہیں.تو اسلام اس وقت ایک وسیع خطرہ میں گھرا ہوا ہے.اس زمانہ میں جھوٹ کا پروپیگنڈا
خطبات محمود ۵۵۵ سال ۱۹۳۹ء اپنے انتہاء کو پہنچ چکا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سچ کے واعظ دُنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیئے جائیں.سچ بے شک طاقتور ہوتا ہے مگر یہ بھی تو ضروری ہوتا ہے کہ سچ کی کچھ نہ کچھ آواز نکل رہی ہو.ہم نے مانا کہ اگر سو جھوٹ بولنے والے ہوں تو ان پر ایک سچ بولنے والا غالب آ سکتا ہے.ہم نے یہ بھی مانا کہ اگر ہزار جھوٹ بولنے والے ہوں تو ان پر ایک سچ بولنے والا غالب آ سکتا ہے مگر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ لاکھوں اور کروڑوں جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے ہوں اور سچ اپنی کوٹھڑی میں چھپا ہوا ہو اور ہم یہ سمجھ رہے ہوں کہ سچ جھوٹ پر غالب آ جائے گا.وہی سیچ غالب آیا کرتا ہے جو دلیری سے جھوٹ کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوتا کی ہے اور پھر یہ پرواہ نہیں کرتا کہ میرا انجام کیا ہوگا.جو سچ اس طرح کھلے بندوں نڈر ہو کر جھوٹ کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا سے ہی غلبہ حاصل ہوتا ہے اور یہ غلبہ مقابلہ سے ہی میسر آتا ہے بغیر اس کے نہیں.اور تحریک جدید کی غرض یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے تو ہم ساری دُنیا میں اسلام کی طرف سے مقابلہ کرنے والے پہلوان کھڑے کر دیں، چاہے ایک کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو چاہے دو کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو، چاہے تین کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو ، چاہے چار کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو، چاہے پانچ کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو اور چاہے دس کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو بلکہ خواہ ساری دُنیا ایک طرف ہوا اور دوسری طرف وہ اکیلا کمزور اور نا تواں انسان ہو جس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوں جس کو اپنے رہنے کے لئے مکان تک میسر نہ ہو اور جسے کھانے کے لئے پیٹ بھر کر روٹی نہ ملتی ہو مگر وہ اپنی ناتوان اور کمزور آواز سے لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کا نعرہ بلند کر رہا ہو.جس دن ہم یہ کام کر لیں گے، جس دن ہم جاپان میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم چین میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے ، ہم فلپائن میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم امریکہ اور اس کی ریاستوں میں بھی اپنے مبلغ بھجوای دیں گے، ہم انگلستان میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم یورپ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم سوئٹزر لینڈ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم رومانیہ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم یوگوسلو و یکیا میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم یونان میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم ہنگری میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم جرمنی میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے ، ہم ڈنمارک
خطبات محمود ۵۵۶ سال ۱۹۳۹ء میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم بیلجیم میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم ہالینڈ میں بھی اپنے ک مبلغ بھجوا دیں کے، ہم فن لینڈ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے ، ہم سپین میں بھی اپنے مبلغ بھجوا نی یں گے، ہم پُرتگال میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے اور اگر ہم زیادہ مبلغ نہ بھجوا سکیں تو کم سے کم ایک مبلغ ہر علاقہ میں بھجوا دیں گے.اسی طرح ہم افریقن ممالک میں ایک ایک مبلغ بھجوا دیں گے تاکہ ان ممالک میں اسلام کا جھنڈا تو لہراتا رہے اِس دن ہم یہ سمجھیں گے کہ ہمارے کام کا آغاز ہوا.نہ سہی حکومتیں، نہ سہی سلطنتیں، نہ سہی کثرت تعداد، نہ سہی شان و شوکت ، نہ سہی وہ لٹریچر جو سارے ملک میں پھیل جائے اور تعلیم یافتہ طبقہ کو اسلام کی خوبیوں کا گرویدہ کر دے، نہ سہی بلند و بالا چوٹیوں پر لہرانے والا جھنڈا کم سے کم ہر ملک میں اسلام کی طرف منسوب ایک دیجی لے تو ہو جو ہوا میں لہرا رہی ہو اور لوگوں کو یہ بتا رہی ہو کہ اسلام مر انہیں بلکہ زندہ ہے مگر ہم نے تو ابھی یہ بھی نہیں کیا حالانکہ تحریک جدید کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ہم دُنیا کے ہر ملک میں کم از کم کی ایک آدمی ایسا کھڑا کر دیں جو اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھے اور اس کے پھر مرے کو ہوا میں لہراتا رہے.دُنیا بجھتی ہے کہ اس نے اسلام کو مٹا دیا مگر ہر ملک میں ہمارا ایک ایک منا دلوگوں کو یہ آواز دے رہا ہو کہ ہم بے شک کمزور ہیں ، ہم بیشک نا تواں اور حقیر ہیں ، بے شک ہماری طاقت ٹوٹ گئی ، ہماری حکومت جاتی رہی مگر اسلام نے اپنا سر نیچا نہیں کیا بلکہ اسلام کا پھر میرا آج بھی ہوا میں اُڑ رہا ہے مگر ابھی تو اس دن کے آنے میں بھی ہمیں دیر نظر آتی ہے اور اس کے لئے کئی قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے لیکن بہر حال جس دن ہم یہ کام کر لیں گے اُس دن ہمارا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ان ممالک میں صرف اسلام کا پھر مرا ہی نہ لہرائے بلکہ ان ممالک کے باشندوں میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا کریں جو اسلام کے جھنڈے کو سرنگوں نہ ہونے دیں بلکہ ہمیشہ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیں.جاپان میں ایک ہندوستانی اسلامی جھنڈے کو نہ لہرا رہا ہو بلکہ چند جاپانی اسلامی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہوں.چین میں ایک ہندوستانی اسلامی جھنڈا نہ اہرا رہا ہو بلکہ چند چینی اسلامی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہوں.اسی طرح انگلستان، امریکہ، فرانس، جرمنی ، سویڈن، ناروے، فن لینڈ ، ہنگری ، سپین، پرتگال اور دیگر ممالک میں ہندوستانی اسلامی جھنڈا نہ اہرا ر ہے ہوں بلکہ
خطبات محمود ۵۵۷ سال ۱۹۳۹ء خود اُن ممالک کے بعض باشندے اسلامی جھنڈا لے کر کھڑے ہوئے ہوں.چاہے وہ تعداد میں کتنے ہی تھوڑے ہوں اور چاہے وہ کتنے ہی کمزور اور ناتواں ہوں یہ ہمارا دوسرا مقصد ہے جو تحریک جدید کے ماتحت ہمارے سامنے ہے.غرض ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے.فتح بہت دُور ہے اور منزل بہت بعید ہے.بزدل اس لمبی مسافت سے گھبرا تا اور قر بانیوں سے جی چراتا ہے مگر بہادر انسان جانتا ہے کہ میرا یہ کام نہیں کہ میں دیکھوں مجھے فتح حاصل ہوتی ہے یا نہیں بلکہ میرا یہ کام ہے کہ جب تک میری زبان چلتی رہے میں بولتا چلا جاؤں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور حج اُس کے دین کی اشاعت زمین پر کرتا رہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا کیا ہی عمدہ نقشہ کھینچا ہے.آپ فرماتے ہیں ایک سچا مومن خواہ موت کے قریب پہنچ جائے دشمن اُسے قتل کرنے کے درپے ہوں اور اُس کی گردن پر خنجر پھر رہا ہو تب بھی وہ سچائی کو بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ یہ ہمارے ہی زمانہ کا نقشہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا.آج ہی وہ زمانہ ہے کہ سچائی کو گند ہتھیاروں سے ذبح کیا جا رہا ہے.آج ہی وہ زمانہ ہے کہ مسلمان کمزور اور بے بس ہیں مگر بجائے ڈرنے اور گھبرانے اور بھاگنے کے جو شخص آج کی تلوار کے نیچے بھی لا إِلَهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھتا چلا جاتا ہے وہی بہادر ہے کیونکہ موت بھی اُس کو نہیں ڈرا سکی اور مرتے وقت بھی وہ کہتا چلا گیا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ اسلام نے تو ایک بہت بڑا مقصود بنی نوع انسان کے سامنے رکھا ہے ہمارے تو دنیوی شاعر بھی بُزدلی اور دون ہمتی کے خلاف رہے ہیں چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ؎ شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے امیر مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب که شکست اور فتح تو قسمت سے تعلق رکھتی ہے اگر قسمت نے یاوری کی تو فتح ہو گی نہ کی تو شکست ہوگی مگر مجھے خوشی ہے تو یہ کہ.مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا ہم تو لڑتے رہے اگر فتح نہیں ہوئی اور شکست ہوگئی تو اس میں ڈر کیا کونسی بات ہے.یہ تو ایک دُنیوی شاعر کا قول ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو کیسے عجیب رنگ میں
خطبات محمود ۵۵۸ سال ۱۹۳۹ء.بیان فرمایا کہ مومن کی یہ شان ہے کہ اگر تلوار اس کی گردن پر پھیری جا رہی ہو تو پھر بھی وہ بیچ بیان کر رہا ہوتا ہے تو شکست و فتح کا کوئی سوال نہیں.مقابلے کا بھی کوئی سوال نہیں ، کمزوری کا بھی کوئی کی سوال نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت بھی ایک مومن سے سچ بولنے کی توقع ظاہر کی ہے جب مخالف اُسے پچھاڑ لیتا ہے، جب وہ اُس کی چھاتی پر چڑھ جاتا اور تلوار اُس کی گردن پر رکھ دیتا ہے، جب وہ اُسے ذبح کرنے کے لئے بالکل تیار ہو جاتا ہے اور دُنیوی لحاظ سے اُس کو کوئی آس باقی نہیں رہتی.ایسی نازک گھڑیوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ ایک مومن اپنی بات کو دُہراتا چلا جاتا ہے.تم ان دونوں نقشوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لاؤ اور پھر دیکھو کہ تمہارا دل ہاں وہ دل جس پر دُنیوی آلائشوں سے زنگ نہ لگ چُکا ہو اور بالکل پاک صاف ہو کس نظارہ سے زیادہ متاثر ہوتا ہے.تم دیکھو گے کہ ایک طرف ایک بہت بڑا اسلامی لشکر ہے.تمام سپاہی ساز وسامان سے آراستہ ہیں، سامانِ حرب کی ان کے پاس کمی نہیں ، شکر کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور تمام سپاہی فنونِ جنگ کے ماہر ہیں.یہ اسلامی لشکر ایک بہت بڑے دُشمن کے لشکر پر حملہ کرتا اور اُسے رگیدے چلے جاتا ہے یہاں تک کہ دشمن میدانِ جنگ سے بھاگ جاتا ہے اور مسلمان اپنی شوکت کے اظہار کے لئے زور سے الله اَكْبَرُ کا نعرہ بلند کرتے ہیں.تم ایک طرف اس نظارہ کو اپنے ذہن میں لاؤ اور دوسری طرف یہ نظارہ عالم تصور میں اپنی انکھوں کے سامنے لاؤ کہ ایک مسلمان ایک ایسے ملک میں ہے جہاں ہر طرف جھوٹ اور فریب کا دور دورہ ہے لوگ اُس کے مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُسے قتل کر دیں.ایک دن وہ یہی تہیہ کئے اُس کے گھر کا احاطہ کر لیتے اور اُسے پکڑ کر باہر نکالتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام چھوڑ دوور نہ ہم تمہیں مار دیں گے.وہ کہتا ہے یہ تو نہیں ہوسکتا اسلام مجھ سے نہیں چھوٹ سکتا.وہ اسے مارنا شروع کر دیتے ہیں اور مارتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ جب وہ ادھ موا ہو جاتا ہے تو وہ اُسے چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں بتاؤ اب تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ وہ کہتا ہے میرا عقیدہ یہی ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اِس پر وہ پھر اسے پیٹتے ہیں اور پیٹتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ زخموں سے چُور چُور ہو جاتا ہے.وہ پھر اُسے چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں
خطبات محمود ۵۵۹ سال ۱۹۳۹ء بتا ؤ اب بھی تم باز آتے ہو یا نہیں ؟ مگر وہ جواب دیتا ہے کہ میرا عقیدہ یہی ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله.اس پر وہ پھر اُسے پیٹتے ہیں اور پیٹتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اُسے اپنے زعم میں قتل کر دیتے ہیں اور عین اُس وقت جبکہ وہ اُس کی لاش کو پھینک دیتے ہیں اُس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہو جاتے ہیں ، اُس کا سر لڑھک جاتا ہے ، اُس کی گردن لٹک جاتی ہے اس کے ہونٹ آخری بار ہلتے ہیں اور ان سے ایک آواز آتی ہے.نہایت دھیمی آواز اتنی دھیمی کہ وہ ایک فٹ کے فاصلہ سے بھی نہیں سنی جا سکتی.تب ایک شخص آگے بڑھتا اور اُس کے ہونٹوں پر اپنے کان رکھ دیتا ہے ہے تا کہ وہ معلوم کرے کہ اُس نے کیا کہا.جب وہ اپنے کان اُس کے ہونٹوں کے قریب لے جاتا ہے تو اُسے ہلکی سی یہ آواز آتی ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللہ اور اُس کے ساتھ ہی اُس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے.اب ایک طرف میدانِ جنگ میں دشمنوں پر فتح پانے والے اسلامی لشکر نے نعرہ تکبیر بلند کیا تھا اور دوسری طرف اس جان توڑنے والے نے لَا اِلهَ إِلَّا الله کہا مگر یقیناً ان دونوں آوازوں میں سے وہ کمزور اور نا تو ان آواز جو ایک فٹ کے فاصلہ سے بھی سنائی نہیں دیتی تھی وہ زیادہ شاندار ہوگی.وہ سچے مومنوں کے دلوں میں زیادہ اُمنگیں اور حو صلے پیدا کرنے والی ہوگی بہ نسبت اس نعرہ کے جو میدان جنگ میں فاتح لشکر نے بلند کیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کو دیکھ لو اور ان کی مکہ والی حالت کو بھی دیکھو اور پھر غور کرو کہ کونسی چیز ہے جو ہمارے دل میں گدگدی پیدا کرتی ہے.وہ جنگیں ہمارے دلوں میں اس قدر گد گدی پیدا نہیں کرتیں جن میں مسلمان فوجیں کافی تعداد میں ہوا کرتی تھیں اور کفار کا پوری قوت سے مقابلہ کرتی تھیں بلکہ جو چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے پیش کر دیتی ہے وہ وہی ہے جب کہ آپ اکیلے اور تن تنہا مکہ کی گلیوں میں توحید کا وعظ کرتے اور قریش مکہ آپ کو ہر رنگ میں دُکھ اور اذیت پہنچاتے یہاں تک کہ جب اُنہوں نے دیکھا کہ وہ کسی طرح محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تو حید کے وعظ سے نہیں روک سکے تو مج وہ آپ کو مارنے کے درپے ہو گئے اور اس فیصلہ کے بعد وہ آپ کے چچا کے پاس جو آپ کی امداد کا آخری دنیوی ذریعہ تھے گئے اور کہا اے ابو طالب ! تیرے اس بھتیجے نے ہم کو بڑا ستایا ج
خطبات محمود ۵۶۰ سال ۱۹۳۹ء ہے اب تو اس کی مخالفت کی حد ہو گئی اگر یہ اتنا ہی کرلے کہ ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دے تب بھی ہم اس کے خدا کو مان لیتے ہیں.یہ صرف اتنا کرے کہ ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا نہ کہے.لیکن اگر اس نے اس آخری نوٹس اور تجویز کے بعد بھی ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہنا نہ چھوڑا اور تم اس کی مدد پر رہے تو اے ابو طالب ! ہم تمہیں بھی ریاست سے جواب دے دیں گے.اب تک ہم تمہارا بڑا لحاظ کرتے چلے آئے ہیں مگر اب یہ معاملہ ہماری حد برداشت سے باہر ہو گیا ہے اور ہم تمہیں یہ کہنے آئے ہیں کہ یا تو اپنے بھتیجے کو روک لیں ورنہ اس کے ساتھ ہی ہم تمہارا بھی مقابلہ کریں گے اور تم کو رئیس اور سردار کے مرتبہ سے الگ کر دیں گے.سے ابو طالب کی تو زندگی ہی ملکہ کی ریاست اور سرداری میں تھی.وہ بھلا اس کو کہاں چھوڑ سکتے تھے.اُنہوں نے جب یہ دھمکی سنی تو ان کے ہوش اُڑ گئے اور یہ بات ابو طالب پر ہی منحصر نہیں پرانے خاندانوں میں اپنی عزت کو قائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے.ہمارے دادا کے متعلق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سُنایا کرتے تھے کہ وہ مختلف کام جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملازمت میں اور پھر کشمیر میں کرتے رہے ان ایام میں اُنہوں نے ایک لاکھ کے قریب روپیہ جمع کیا.اُس زمانہ میں روپیہ کی بہت بڑی قیمت ہوا کرتی تھی.چنانچہ قریب ہی ایک گاؤں راجپورہ ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچانے پانچ سو روپیہ میں خریدا تھا.چھ سوا سیکٹر اسکی کی زمین ہے اور گووہ زمین اتنی اچھی نہیں مگر پھر بھی گجا چھ سوا یکٹر زمین ایک رو پیدا یکڑ سے بھی کم قیمت میں انہیں زمین مل گئی.پس اگر وہ چاہتے تو اس روپیہ سے بہت بڑی جائیداد پیدا کر سکتے تھے مگر جب انگریزوں کی حکومت آئی اور اُنہوں نے ان کی جائیداد ضبط کر لی تو وہ اس کے حصول کے لئے مقدمات میں لگ گئے بعض دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اس کام میں نہ پڑیں اس میں چنداں فائدہ نہیں.اگر کچھ ملا بھی تو بالکل بے حقیقت ہو گا.اس وقت جائیداد کی قیمت کچھ نہیں آپ کے پاس روپیہ ہے آپ اگر چاہیں تو اس روپیہ سے پچاس اچھے اچھے قصبے خرید سکتے ہیں.اس میں آپ کی اولاد کی بھی بہتری ہوگی.کیونکہ اس جائیداد سے ان کے لئے گزارہ کی معقول صورت پیدا ہو جائے گی.اس علاقہ میں ان دنوں چھوٹے چھوٹے زمیندار تھے مگر باہر گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع میں اچھے اچھے زمیندار تھے جو پچاس پچاس
خطبات محمود ۵۶۱ سال ۱۹۳۹ء ساتھ ساتھ بلکہ سو سو گاؤں کے مالک تھے.اس لئے انہیں بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ بجائے اس جگہ روپیہ ضائع کرنے کے آپ باہر چالیس پچاس گاؤں خرید لیں مگر اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر باہر ہم نے گاؤں خرید بھی لئے تو ہمارے بچے جب کبھی باہر نکلیں گے اور لوگ ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ یہ کون ہیں تو وہ آگے سے کہیں گے کہ خبر نہیں کون ہیں.کوئی باہر سے آئے ہوئے ہیں لیکن اگر قادیان اور اس کے ارد گرد ہمیں دوا یکٹر زمین بھی ملک جائے اور ہماری اولا د فاقوں میں بھی مبتلا ہو جائے تو بھی جب ان کی نسبت کوئی سوال کرے گا کی کہ یہ کون ہیں؟ تو لوگ جواب دیں گے کبھی یہ ہمارے حاکم اور بادشاہ تھے.مگر اب گردشِ ایام سے غریب ہو گئے ہیں.چنانچہ اسی خیال کے ماتحت اُنہوں نے ایک لاکھ روپیہ ضائع کر دیا اور قادیان میں انہیں جو تھوڑی سی جائداد ملی اس پر اکتفا کر لیا.میں سمجھتا ہوں وہ جائیداد جو انہیں ملی وہ اس جائیداد کا پانچ سوواں حصہ بھی نہیں تھی جو وہ اس روپیہ سے خرید سکتے تھے مگر بہر حال اُنہوں نے اس تھوڑی سی جائیداد کو خوشی سے قبول کیا لیکن اس مقام کو چھوڑ نا پسند نہ کیا جہاں انہیں اپنے بزرگوں کی وجہ سے ایک رنگ کی حکومت حاصل تھی.غرض پرانے خاندانوں کے افراد اپنی خاندانی عزت کو جاتے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.پس جب ابو طالب سے مکہ والوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے بھتیجے کو نہ روک سکے اور اس کی حمایت بھی نہ چھوڑی تو پھر آپ کا اور ہمارا تعلق قطع ہو جائے گا تو ابو طالب بالکل گبھرا گئے اور کی اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا اے میرے بھتیجے ! اب تیری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے.آج بڑے بڑے رؤسا اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ ابوطالب صرف تیری حفاظت کی وجہ سے ہم نے تیرے بھتیجے کو اب تک چھوڑا ہوا تھا اور ہم نے تیرا بڑا لحاظ کیا.کیونکہ تو شہر کا رئیس ہے مگر آخر یہ ظلم کب تک برداشت کیا جا سکتا ہے؟ اگر ی تیرا بھتیجا اب بھی باز نہ آیا اور اُس نے ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہنا ترک نہ کیا تو ہم تجھے بھی ریاست سے جواب دے دیں گے اور آئندہ تیری کوئی عزت نہیں کریں گے اور اے میرے بھیجے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تیرا بھتیجا تھوڑی سی بھی نرمی کرے اور ہمارے بنوں کو
خطبات محمود ۵۶۲ سال ۱۹۳۹ء بُرا بھلا نہ کہے تو ہم اسے اپنی آنکھوں پر بٹھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر تیرے بھتیجے کا یہ مقصد ہے کہ کسی نہایت ہی خوبصورت لڑکی کے ساتھ اس کی شادی کر دی جائے گی تو ہم اپنی تمام بیٹیاں اس کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.ان میں سے جس کے ساتھ اس کا جی چاہے شادی کرے اور اگر اس کو دولت کا شوق ہے تو ہم تمام اپنی آدھی آدھی دولت اس کو دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر اسے یہ شوق ہے کہ وہ عرب کا حاکم اور سردار بن جائے تو کی ہم اسے اپنا حاکم اور سردار بنانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ کچھ تو رعایت کر دے اور ہمارے بچوں کو اتنابُر ا تو نہ کہے جتنا بُر اوہ انہیں آجکل کہتا پھرتا ہے.ڈ نیوی طور پر یہ کتنا بڑا لا لچ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا.لوگ خوبصورت لڑکیوں سے شادی کے لئے کوشش کرتے ہیں اور مکہ والوں نے خود یہ کہہ دیا کہ ہم اپنی تمام بیٹیاں اُس کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں وہ جس کے ساتھ جی چاہے شادی کر لے.لوگ مال اور دولت کے حصول کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور مکہ والوں نے یہ خود ہی کہہ دیا کی کہ ہم اپنی آدھی آدھی دولت اُس کو دینے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح لوگ حکومت کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگوں میں اُن کا اعزاز قائم ہو جائے اور یہ پیشکش بھی مکہ والوں نے خود ہی کر دی اور کہہ دیا کہ ہم اُسے اپنا سردار اور حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں.غرض اُنہوں نے کہا کہ ہم تمام اعزاز اُسے دینے کے لئے تیار ہیں مگر اُسے بھی تو چاہئے کہ ہمارے ساتھ کچھ نرمی کرے اور ہمارے بتوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دے.پھر ابو طالب نے کہا کہ اے میرے بھتیجے اب مجھ میں بھی طاقت نہیں رہی کہ میں تجھے دشمن کے حملوں سے بچا سکوں.اب تو یہ مجھے بھی دھمکی دینے لگ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تو نے اپنے بھتیجے کو منع نہ کیا تو ہم تجھے بھی ریاست سے الگ کر دیں گے اور شہر سے نکل جانے پر مجبور کریں گے.ابو طالب کے لئے تو مکہ کی سرداری ایک بہت بڑی بادشاہت تھی.جب اُنہوں نے اس واقعہ کا ذکر کیا اور اس مقام پر پہنچے کہ انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے تجھے منع نہ کیا تو وہ مجھے ریاست سے الگ کر دیں گے تو وہ رو پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کی اس حالت کو دیکھ کر صدمہ محسوس کیا اور چونکہ آپ پر ابو طالب کے بہت بڑے احسانات تھے اس لئے آپ کی
خطبات محمود ۵۶۳ سال ۱۹۳۹ء آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے مگر آپ نے فرمایا اے میرے چچا ! آپ کو اگر اپنی تکلیف کا خیال ہے تو میرے ساتھ آپ آئندہ کوئی واسطہ نہ رکھیں اور مجھے میرے حال پر رہنے دیں اور اے میرے چا! کسی خوبصورت لڑکی سے شادی اور روپیہ اور سرداری کا تو کیا ذکر ہے اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں پہلو پر بھی لا کھڑا کریں تب بھی میں ان کی بات نہ مانوں گا اور خدا تعالیٰ کی توحید کا کلمہ بلند کرتا رہوں گا.ہے گویا مکہ کی حکومت کیا اگر ساری دُنیا کی حکومت انہیں مل جائے اور ساری دُنیا کی حکومت کیا سارے عالم کی حکومت انہیں مل جائے اور یہ جب چاہیں سورج کو اُتار لیں اور جب چاہیں چاند کو اُتار لیں گویا سورج اور چاندان کی مٹھی میں اس طرح کھیل رہے ہوں جس طرح بچے اپنے ہاتھوں میں گیند اٹھائے پھرتے ہیں تب بھی میں ان کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں.یہ غریب اور بیکس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس نے ابوطالب کو کو ٹھری میں یہ جواب دیا تھا کونسا انسان ہے جو اس کے مقابلہ میں ٹھہر سکتا کی ہو.اس ایک واقعہ سے ہی کروڑوں سورج سے زیادہ شعاعیں نکل نکل کر قلوب کو منور کر رہی ہیں اور دُنیا کی ساری روشنیاں اس کے سامنے اندھیرا بن جاتی ہیں.پس کمزوری کی جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں ہوتی وہ نادان بزدل اور بیوقوف ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم کیا اور ہماری ہستی کیا.لوگ کہتے ہیں کہ کیا پڑی اور کیا پدی کا شور بہ.مگر اس کی پڑی کی دلیری سے کون متأثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے جو باز کے مقابلہ میں کھڑی ہو جائے اور کہے کہ میں مر جاؤں گی مگر باز کے ظلم کو برداشت نہیں کروں گی.اب مرنے کو پولینڈ والے مر گئے اسی طرح فن لینڈ والے مر جائیں یا بچ جائیں کیونکہ وہ کچھ صلح کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں مگر کون کہہ سکتا ہے کہ پولینڈ والے ذلیل ہو گئے.وہ لڑے اور لڑتے ہوئے مارے گئے.اگر وہ یونہی بغیر لڑائی کے اپنا ملک جرمنی کے حوالے کر دیتے تو بیشک وہ ذلیل ہو جاتے مگر اب وہ مر کر بھی ذلیل نہیں ہیں اور خواہ انگریز انہیں آزادی دلا سکیں یا نہ دلا سکیں بعد میں پیدا ہونے والے پولینڈ کے لوگ ذلیل ہو جائیں تو ہو جائیں موجودہ پولینڈ کے لوگ ذلیل نہیں کہلا سکتے.اسی طرح وہ جو آج اسلام کی اشاعت کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں جو سچ اور ہدایت کو پھیلانے کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں یا آئندہ کھڑے ہوں گے یقیناًا عزت میں ان کا مقابلہ دُنیا کی
خطبات محمود ۵۶۴ سال ۱۹۳۹ء کوئی طاقت نہیں کر سکتی.بیشک ظاہری بینائی رکھنے والوں کی آنکھ سے ان کا مستقبل پوشیدہ ہے مگر جن کی باطنی آنکھ کھلی ہے وہ ان کے کام کو نہایت ہی شاندار نتائج پیدا کرنے والا دیکھ رہے ہیں.کیونکہ وہی ہیں جو آج اس بیج کو بور ہے ہیں جس نے کل ایک ایسے عظیم الشان درخت کی شکل اختیار کرنی ہے جس کے سایہ کے نیچے دُنیا کی تمام اقوام آرام کریں گی.ہماری کوششوں کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے ایک غریب اور کمزور انسان جس کے تن کو صرف چیتھڑوں نے ڈھک رکھا ہو دُنیا سے الگ ایک جنگل میں چھوٹا سا بیج بوتا دکھائی دے.جنگل کی ہدہدیں بھی اس کی.کے بیوقوفانہ ارادوں پر حیران ہو رہی ہوں.فاختہ بھی ہنس رہی ہو، چڑیاں بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہی ہوں اور کہتی ہوں کہ کس امید پر یہ شخص بیج بو رہا ہے.ادھر یہ بیج بو کر ہٹے گا ادھر ہم چونچ سے بیج کو زمین میں سے نکال کر کھا جائیں گی.زمین پر تو اس کا یہ حال ہولیکن آسمان پر خدا کے فرشتے اس کے کام کو دیکھتے ہوئے ادب اور احترام کے ساتھ سر جھکائے کھڑے ہوں اور کہہ رہے ہوں خاموش کہ دُنیا میں پھر سچائی کا بیج بویا جا رہا ہے.خدا تعالیٰ کا کی ہاتھ اُس کے اوپر ہو گا وہ آپ اُسے بڑھائے گا اور ترقی دے گا یہاں تک کہ وہ بیج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلے گا اور تمام دنیا اس کے سایہ کے نیچے آرام کرنے پر مجبور ہوگی.“ (الفضل ۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء ) ا و میجی ٹکڑہ، پرزہ ، چیتھڑا ل السيرة النبوية لابن هشام جلد ا صفحه ۲۰۰ مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولاده بمصر مطبوعہ ۱۹۳۶ء السيرة النبوية لابن هشام جلد ا صفحه ۲۸۵ مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولاده بمصر مطبوعه ۱۹۳۶ء السيرة النبوية لا بن هشام جلد ا صفحه ۲۶۶ مطبع مصطفى البابي الحلبي واولاده بمصر مطبوعہ ۱۹۳۶ء
خطبات محمود ۵۶۵ ۳۵ سال ۱۹۳۹ء خلافت جو بلی کے موقع پر جلوس اور چراغاں جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کے متعلق مقامی جماعت کو اہم ہدایات فرموده ۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اخبارات میں مختلف اعلانات خلافت جو بلی کے متعلق نکل رہے ہیں ان اعلانات کے پڑھنے کے بعد میں بعض باتیں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.میں نے مجلس شوری کے موقع پر بھی ان باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی مگر انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ نقل کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے بہ نسبت عقل کے.کیونکہ نقل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور عقل سے کام لینا مشکل ہوتا ہے.یہ زمانہ عیسائیت کے فروغ کا زمانہ ہے.وہ قومیں جو آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہیں ان میں مظاہرے کرنے کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جن کو یکدم غلبہ حاصل ہوتا ہے وہ چونکہ حقیقت سے آشنا ہو چکی ہوتی ہیں اور مقصود ان کو مل چکا ہوتا ہے اس کی لئے ان کو مظاہروں کی ضرورت پیش نہیں آتی.جو ماں باپ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں انہیں ان کی کی تصویر میں رکھنے کا شوق اتنا نہیں ہوتا لیکن جن کے بچے ان سے دُور ہوتے ہیں انہیں تصویروں کی طرف زیادہ خیال ہوتا ہے کیونکہ جب اصل انسان کے سامنے نہ ہو تو وہ نقل سے کی دل بہلانے کی کوشش کرتا ہے.جن قوموں کو خدامل جاتا ہے وہ بچوں اور بت خانوں کی طرف توجہ نہیں کرتیں لیکن جن کو خدا نہیں ملا ہوتا وہ جوں اور بت خانوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۹ء کیونکہ کچھ نہ کچھ خدا تعالیٰ کا نقشہ ضرور چاہئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو قریب عرصہ میں خدا تعالیٰ نے وہ باتیں دلا دیں جو ان کے اور ان کی قوم کے متعلق موعود تھیں.اس لئے ان کی قوم میں ایسے مظاہروں کی طرف توجہ نہ تھی.عیسائیوں کو ایک لمبے عرصہ کے بعد وہ باتیں حاصل ہوئیں اس لئے وہ درمیانی زمانہ میں مظاہرے کرتے رہے کیونکہ کچھ نہ کچھ تو دل خوش کرنے کے لئے ہونا چاہئے.پھر مسلمانوں کو ان کے موعود انعامات بہت ہی تھوڑے عرصہ میں حاصل ہو گئے کہ حضرت موسی" کی قوم کو جتنے وقت میں کامیابی حاصل ہوئی تھی اس کے ایک تہائی زمانہ میں اُنہوں نے کامیابیاں دیکھ لیں.اس لئے ان کو بھی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ایسے مظاہرے کرتے کی اور نقلیں کرتے.ہمارا زمانہ بھی عیسوی زمانہ کے نقش قدم پر ہے اور اس کے لئے آہستہ آہستہ ترقی موعود ہے.اس لئے ہمارے لوگوں میں بھی لاز ما گدگدی پیدا ہوتی ہے کہ اگر ابھی فتح دور ہے تو فتح کے زمانہ کی نقل تو بنا ئیں.ہندوؤں میں بعض قو میں مثلاً بھا بڑے ایسے ہیں جو گوشت کبھی نہیں کھاتے اور اس بارہ میں بڑی احتیاط کرتے ہیں مگر چونکہ اپنے ہمسائے میں ان کے کانوں میں ایسی آوازیں آتی رہتی ہیں کہ ذرا ایک بوٹی اور دینا یا یہ کہ آج کباب بناتے ہیں اور پھر گوشت کی خوشبو بھی آتی ہے.اس لئے ان میں سے بعض کی نسبت کہا جاتا ہے کہ جب گوشت کا بہت شوق پیدا ہو تو بڑیاں بنا لیتے ہیں اور پھر ان کو ہی بوٹیاں فرض کر لیتے ہیں اور کی آپس میں کہتے ہیں کہ ایک بوٹی مجھے بھی دینا ذرا شور با اور ڈال دینا وغیرہ اور اس طرح وہ بڑی کو بوٹی کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں.لڑکیوں کو دیکھ لو خدا تعالیٰ نے ان کی فطرت میں اولاد پیدا کرنا اور اس سے محبت کرنا رکھا ہوتا ہے مگر بھی ان کی عمر اتنی نہیں ہوتی کہ ا عمر ان کی شادی ہو اور اولاد ہو اس لئے وہ گڑیا بنا لیتی ہیں اور اسی سے پیار کرتی ہیں اور کہتی ہیں لاؤ کی اسے دودھ دیں، میری بچی روتی کیوں ہے وغیر ہا وغیر ہا.یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہوتا ہے مگر زمانہ ابھی آیا نہیں ہوتا اس لئے وہ ایسی باتوں سے ہی دل بہلا لیتی ہیں.میں ڈرتا ہوں بلکہ میں اس کے آثار دیکھ رہا ہوں کہ اس قسم کے نقص جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں.مظاہرات کی طرف طبیعت فطرتا مائل ہوتی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ چراغاں کیا جائے اور جلوس نکالے جائیں چاہے کتنی قید میں لگا دو پھر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ایسا کر ہی لیا جاتا ہے.یہاں خلافت
خطبات محمود ۵۶۷ سال ۱۹۳۹ء یا خلافت جوبلی کا سوال نہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیم کو قائم رکھنا ہے.خلافت تو الگ رہی نبوت بھی اسلامی تعلیم کے تابع ہے کیونکہ اسلام دائمی صداقت کا نام ہے اور ہر عقلمند شخص یہ تسلیم کرے گا کہ دائی صداقت انبیاء پر بھی بالا ہے.دائگی صداقت کو انبیاء کے لئے بان نہیں کیا جاتا بلکہ انبیاء اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں اور ہمیشہ ادنی چیز اعلیٰ کے لئے قربان کی جاتی ہے اعلیٰ ادنیٰ کے لئے نہیں.قرآن کریم نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان خطرہ میں ہو تو تو حید کو قربان کر دیا جائے ،صداقت اور حق کو قربان کر دیا جائے.یہ کہا ہے کہ اے محمد قرآن کی خاطر تو اپنے آپ کو قربان کر دے.پس صداقت انبیاء سے بھی بالا چیز ہے.انسان خواہ وہ نبی ہو یا نبیوں کا سردار بہر حال صداقت کے تابع ہے.جہاں تک صداقت کی اشاعت کا تعلق ہوتا ہے نبی بے شک بمنزلہ سورج کے ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے ذریعہ صداقت قائم ہوتی ہے.صداقت کو شہرت اور عزت ان کے ذریعہ ہی ملتی ہے اس لئے تمثیلی طور پر اللہ تعالیٰ ان کو سورج بھی قرار دیتا ہے ورنہ حقیقتا وہ قمر کی حیثیت رکھتے ہیں.تمام انبیاء ضیاء الحق یعنی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں جو اصل صداقت ہے قمر کی حیثیت رکھتے ہیں.ان کو سورج کہنا ایسی ہی بات ہے جس طرح ماں باپ کی عزت ہر مذہب میں ضروری ہے اور اسلام نے تو اس پر زیادہ زور دیا اور فرمایا ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے یا قرآن کریم کا حکم ہے کہ ان کے سامنے اُف تک نہ کرو مگر باوجود اس کے ماں باپ اپنے بچے کو کہتے ہیں کہ میں قربان جاؤں ، واری جاؤں.ان کا کہنا مقام کے لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ اظہار محبت کے لئے ہوتا ہے.اسی طرح انبیاء کبھی شمس بھی کہلاتے ہیں مگر اصل مقام ان کا الحق کے مقابلہ میں قمر کا ہی ہوتا ہے اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی دن جب جو بالکل صاف ہو مطلع بالکل ابر آلود نہ ہو ، چاند چودھویں کا ہو اور وہ تمام باتیں جن سے روشنی تیز ہوتی ہے موجود ہوں تو کوئی شخص کہے کہ آج چاند کیا ہے سورج ہے.اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آج چاند سورج سے اتنا مشابہہ ہے کہ اس کا دوسرا نام رکھنا ٹھیک نہیں اس لئے بالکل وہی نام دینا چاہئے.تو یا درکھنا چاہئے کہ ایسے مواقع پر ہمیشہ شریعت کی حفاظت اور اسے سب باتوں پر مقدم
خطبات محمود ۵۶۸ سال ۱۹۳۹ء رکھنا چاہئے.جلوس وغیرہ اسلام میں ثابت نہیں ہیں یعنی ایسے جلوس جیسے آجکل نکلتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ دوسرے شہروں میں جو جلوس وغیرہ نکلتے ہیں ان کے مقابلہ میں قادیان کے جلوس اسلامی جلوس کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر پھر بھی مجھ پر یہ اثر ہے کہ قادیان میں جو جلوس نکلتے ہیں وہ بھی خالص اسلامی جلوسوں کے مشابہ نہیں ہیں.اسلام کے زمانہ میں ہمیں یہ تو کی نظر آتا ہے تاریخ سے ثابت ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کے عمل سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مسلمین جمع ہو کر خاص بازاروں میں سے گزر رہی ہے اور جب لوگ ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو کسی تکلیف کے بغیر ایک دوسرے کو بلند آواز سے سلام کہتے ہیں یا تکبیر و تحمید کرتے ہیں مگر یہ کہ ایک شخص شعر پڑھتا ہے اور دوسرے اس کے پیچھے لچکتے جاتے ہیں اور وہی شعر پڑھتے ہیں یہ کہیں سے ثابت نہیں.میں تو خیال کیا کرتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے ایسا کرنے کے لئے کہے اگر تو وہ حاکم مذہب ہو جس کی اطاعت ضروری ہے تو اور کی بات ہے ورنہ میں کبھی ایسا نہ کر سکوں.میری فطرت اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.مجھے تو یہ جلوس دیکھ کر بچپن کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب بچے اکٹھے ہو کر کھیلا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی کمر کو پکڑ کر کہتے تھے کہ ہم بکرا لینے آئے ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اس سے منع کیا ہے مگر پھر بھی بعض لوگ اسی طرح کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اگر سنجیدگی سے کام لیا جائے تو ی ایسے موقع پر دل میں ذکر الہی کرنا چاہئے.ہاں جیسا کہ سنت ہے جب کوئی دوسری جماعت سامنے آتی ہوئی نظر آئے تو تکبیر اور تسبیح وتحمید کرنی چاہئے.اسلام بیشک شعر پڑھنے اور سننے کی اجازت دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے مگر اس قسم کا کورس میں نے اسلام میں کہیں نہیں دیکھا ( کورس سے مشابہ ایک صورت اسلام میں ہے اور وہ امام کے پیچھے آمین کہنے کی ہے.اسی طرح بعض آیات قرآنیہ کے جواب میں بعض فقرات کہے جاتے ہی لیکن یہ اوّل تو نثر میں ہوتا ہے دوسرے نماز میں اور خاص سنجیدگی کے ساتھ ہوتا بازاروں میں اس طرح کرتے پھرنے کی مثال پر اور شعر پڑھ پڑھ کر ایسا کرنے کے متعلق میں اس وقت بات کر رہا ہوں اور اس کی مثال مجھے نہیں ملی.) حالانکہ جہاں تک کوشش ہوسکتی ہے میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ بہت لمبا اور گہرا کیا ہے.اگر کسی اور کو اس کی کوئی مثال معلوم ہو تو کی ہے.
خطبات محمود ۵۶۹ سال ۱۹۳۹ء وہ مجھے بتا دے.میں تسلیم کرلوں گا.مجھے اسلامی تاریخ میں یہ تو ملتا ہے کہ عورتیں مل کر شعر پڑھتی ہی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو ان کے استقبال کے لئے کی عورت مرد نکلے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے تو انہوں نے شعر بھی پڑھے مگر یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اہلِ مدینہ اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھے.اس وقت عورتوں نے جو شعر پڑھنے وہ اس طرح شروع ہوتے تھے طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوِدَاع یعنی آج ہم پر چودھویں رات کا چاند فلاں گوشے سے طلوع ہوا ہے.یہ سب لوگ استقبال کے لئے باہر نکلے تھے اور جب آپ کو دیکھا تو یہ شعر پڑھنے لگے مگر یہ وہ زمانہ تھا جب ان لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح دیکھا بھی نہ تھا بلکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ان لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر آپ پر کوئی دشمن مدینہ میں حملہ آور ہوگا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر آپ مدینہ سے باہرلڑ نے جائیں تو ہم پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی کی مگر اس سے زیادہ پھر بھی ثابت نہیں کہ لوگوں نے جمع ہو کر شعر پڑھے.یہ ثابت نہیں کہ تکلف کے ساتھ ایک پہلے شعر پڑھتا ہے دوسرے اس کے پیچھے مٹکتے جاتے ہیں اور بعد میں اس کے شعر کو یا اس کے ٹکڑے کو دہرا دیتے ہیں.اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود شعر پڑھوا کر سُنتے تھے.بعض بیوقوف اس پٹھان کی طرف جس نے کہہ دیا تھا کہ خوہ محمد صاحب کا نماز خراب ہو گیا اس کو جائز نہیں سمجھتے مگر یہ حقیقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کہہ کہہ کر بعض دفعہ شعر پڑھواتے تھے.جہاد کو جاتے ہوئے خوش الحانوں سے کہہ کر شعر پڑھوانا تو حدیثوں میں کثرت سے ثابت ہے.پھر حدی خوانی تو عربوں کی مشہور ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے منع نہیں فرمایا.اونٹ شعر پر عاشق ہوتا ہے اور اسے سُن کر تیز چلتا ہے تو اس قسم کی شعر خوانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں ثابت ہے.اپنے بے تکلف دوستوں کی مجالس میں میں بھی بچپن میں شعر پڑھ لیا کرتا تھا.اب تو گلے کی تکلیف کی وجہ سے خوش آوازی ہی باقی نہیں رہی شعر کیا پڑھنا ہے اور اگر ہو بھی تو مجلس میں شعر پڑھنے سے مجھے حجاب ہے مگر اس کے باوجود میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ میری فطرت کے خلاف ہے.بچپن میں
خطبات محمود ۵۷۰ سال ۱۹۳۹ء میں پڑھتا رہا ہوں لیکن جس طرح یہاں جلوسوں میں کیا جاتا ہے اس طرح نہ میں نے کبھی کچ کیا ہے اور نہ میری فطرت اسے برداشت کر سکتی ہے.ہاں بعض ادعیہ حدیثوں سے ثابت ہیں ان کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شعر بھی ہوتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے اور وہی طریق اب تم بھی اختیار کر سکتے ہو مگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فعل پر زیادتی کی کیا ضرورت ہے.جلوس کی صورت میں جمع ہو کر چلنا ثابت ہے اور پھر یہ بھی ثابت ہے کہ جب دو جماعتیں آپس میں ملیں تو بلند آواز سے تکبیر یا تسبیح و تحمید بھی کریں.عید کے موقع پر بھی ایسا کرنے کا حکم ہے اور ہم کرتے ہیں مگر یہ جلوس نکالنے والے عید پر تکبیر اور تسبیح و تحمید نہیں کرتے.ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ عید کے روز بھی یہ اسی طرح بلند آواز سے تکبیر اور تبیح و تحمید کہتے ہوئے جائیں.میرا گلا خراب ہے میں خوش الحانی کے طور پر صرف اونچی آواز نکال سکتا ہوں ہلکی نہیں نکال سکتا اور اگر آہستہ تلاوت کرنا چاہوں یا شعر پڑھنا چا ہوں تو آواز منہ میں ہی رہ جاتی ہے یا تو آواز بالکل چھوٹی نکلے گی یا بہت بڑی مگر پھر بھی میں کوشش کر کے بڑی عید کے موقع پر جب ایسا کرنے کا حکم ہے تکبیر اور تسبیح و تحمید کرتا ہوں مگر یہ جلوس نکال کر شور کرنے والے چپ کر کے پاس سے گزر جاتے ہیں.پس اگر اس رنگ میں جو کہ میں نے بتایا ہے اور جو اسلامی جلوس کا رنگ ہے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.اس طرح ذکر الہی کی کثرت ثواب کا بھی موجب ہے اور دوسرے اگر نقل کریں تو ان کے دلوں میں بھی خدا کی بڑائی پیدا ہو گی اور کی پھر ان کو بھی ثواب ہو گا لیکن جس طرح یہاں عام طور پر جلوس نکالے جاتے ہیں ان کا ثبوت اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا.اسی طرح چراغاں کا سوال ہے.مجھ سے میری ایک لڑکی نے سوال کیا.اس نے کہا میں نے اپنی فلاں عزیز سے پوچھا تھا تو اس نے کہا کہ مجلس شوری میں حضرت (خلیفہ اسیح) نے چراغاں کرنے سے جماعت کو منع کیا تھا افراد کو نہیں.میں نے کہا ہاں یہ درست ہے اس قدر بات بالکل درست تھی کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ میں نے افراد کو منع نہیں کیا کی تھا مگر اس وقت افراد کا سوال بھی تو پیش نہ تھا.پھر اس کے بعد یہ بازگشت میرے کانوں میں آنی شروع ہوئی کہ افراد بیشک چراغاں کریں.حالانکہ شوریٰ کے موقع پر جماعت کو منع کرنے کے یہ معنے نہیں تھے کہ افراد بیشک کریں.اُس وقت چونکہ جماعت ہی کے بارہ میں مجھ سے سوال کیا
خطبات محمود ۵۷۱ سال ۱۹۳۹ء گیا تھا میں نے اتنا ہی جواب دے دیا.افراد کے متعلق نہ مجھ سے پوچھا گیا اور نہ میں نے بتایا.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑھیا عورت آئی جو حضرت کی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی تھی اس کے ساتھ بوجہ اس کے کہ وہ عمر میں بڑی تھی آپ اس قسم کی بے تکلفی فرما لیتے تھے جیسا کہ بڑوں سے انسان کر لیا کرتا ہے.اس نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا میں جنت میں داخل ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہو سکے گی سے جی در حقیقت اس کا سوال بیوقوفانہ تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پتہ کہ کون جنت میں داخل ہو گا ؟ پس آپ نے سوال کے رنگ میں ہی جواب دیا اور فرمایا کہ کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہو گی.اس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں سب جوان ہوں گے.آخر جنت کی نعماء حظ اُٹھانے کے لئے ہیں اور اگر نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت ہو، کمر جھکی ہوئی ہو ، آنکھیں بصارت کھو چکی ہوں تو جنت کی نعماء سے انسان کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟ پس آپ کا جواب بالکل درست تھا اور سوال کے مطابق الفاظ میں دیا گیا تھا.اس عورت نے نہ غور کیا اور نہ آپ سے و چھا بلکہ یہ بات سنتے ہی رونے لگ گئی.اس پر آپ نے فرمایا تم روتی کیوں ہو؟ اس نے کہا اس لئے کہ آپ فرماتے ہیں تو جنت میں داخل نہیں ہو گی.آپ نے فرمایا میں نے یہ تو نہیں کہا تج کہ تم داخل نہیں ہوگی.میں نے تو کہا ہے کہ کوئی بڑھیا داخل نہیں ہو سکے گی اور یہ صحیح بات ہے کیونکہ جنت میں سب جوان ہو کر داخل ہوں گے.تو اسی رنگ میں اپنی لڑکی کو جواب دیا اور کہا کہ میں نے افراد کو چراغاں سے منع نہیں کیا تھا.میرا مطلب یہ تھا کہ شوری میں سوال ہی جماعت کا تھا ورنہ مذہبی خوشیوں کے مواقع پر چراغاں شریعت سے ثابت نہیں.ہاں عیسائیوں سے ثابت ہے.بعض نقال کہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بادشاہ کی جو بلی پر چراغاں کیا.مگر بادشاہ کی جو بلی پر تو میں بھی کرنے کو تیار ہوں.سوال تو یہ ہے کہ کیا تی خلافت جو بلی پر بھی ایسا کرنا جائز ہے؟ ہمیں کئی ہندو ملتے ہیں اور ہاتھ سے سلام کرتے ہیں اور جواب میں ہم بھی اس طرح کر دیتے ہیں مگر مسلمان کو تو اس طرح نہیں کرتے بلکہ اسے تو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے ہیں تو جن چیزوں کی حرمت ذاتی نہیں بلکہ نسبتی ہے بلکہ حرمت ہے ہی نہیں صرف کراہت ہے اسے ہم اپنے لئے تو اختیار نہیں کر سکتے ہاں دوسرے کے لئے کرنے کو تیار ہیں.جب تر کی سفیر
خطبات محمود ۵۷۲ سال ۱۹۳۹ء حسین کامی یہاں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خاص آدمی بھیج کر لا ہور سے اس کے لئے سگریٹ اور سگار منگوائے.کیونکہ قرآن کریم میں تمباکو کا ذکر نہیں آتا صرف قیاس سے اس کی کراہت ثابت کی جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس سے کراہت کرتے تھے مگر مہمان کے لئے لاہور سے منگوائے.اسی طرح چراغاں اپنی ذات میں بیشک منع نہیں سب لوگ اپنے گھروں میں لیمپ یا دیئے وغیرہ جلاتے ہیں اس لئے غیروں کی دلجوئی اور انہیں خوش کرنے کے لئے ان کی کسی تقریب پر چراغاں کرنے میں کوئی حرج نہیں.اب بھی اگر بادشاہ یا حکومت کی کوئی تقریب ہو اور وہ کہے کہ چراغاں کرو تو ہم کر دیں گے کیونکہ حکومت کی عزت ہم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے واجب ہے اور ایسا کر دینے سے ہمارا خدا بھی ہم سے خوش ہو گا اور حکومت بھی مگر یہی بات ہم اپنی کسی مذہبی تقریب پر اختیار نہیں کر سکتے.اگر تو حکم کے ماتحت چراغ جلاتے ہیں تو ہمیں ثواب بھی پہنچتا ہے کہ ہم نے حکم مانا.یہ جلا نا ضائع کی نہیں جائے گاور نہ یوں کسی غریب کو روٹی کھلا دینا اس سے بہت زیادہ بہتر ہے کہ انسان گھر میں کی پندرہ میں دیئے جلائے.دیئے جلانے میں کم سے کم ڈیڑھ دو آنہ کا تیل تو ضائع ہو گا اور اتنے کی پیسوں میں دوغریبوں کا جو فاقہ سے تڑپ رہے ہوں پیٹ بھرا جاسکتا ہے.بتاؤ یہ اچھا ہے کہ دیئے جلا کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی جائے یا کسی غریب کا پیٹ بھر کر اللہ تعالیٰ کو خوش کیا جائے؟ تو چراغاں کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس کا شریعت نے حکم دیا ہے.شریعت نے صدقہ کا حکم دیا ہے اور اس سے کئی فوائد بھی ہیں.اس طرح کئی لوگوں کی طرف جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا توجہ ہو جاتی ہے اور پھر دوسرے کی مصیبت اور اپنی خوشی کے موقع پر اس کی طرف توجہ ہو جاتی ہے.پس ایسی تقریبات کے موقع پر ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ یورپین لوگوں کی نقل نہ ہو بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کی کے روز اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے متعلق فرمائے گا کہ ان کو جنت میں اعلیٰ انعام دو.میں بھوکا تھا انہوں نے مجھے کھانا کھلایا، میں ننگا تھا انہوں نے مجھے کپڑے پہنائے.وہ لوگ استغفار پڑھیں گے اور کہیں گے یا الہی یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ تو بھوکا پیاسایا ننگا ہو اور ہم کنگال کیا حیثیت رکھتے تھے کہ تجھے کھانا کھلاتے یا کپڑے پہناتے مگر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہیں تم نے ایسا ہی کیا.جب کہ میر.
خطبات محمود ۵۷۳ سال ۱۹۳۹ء غریب بندے بھوکے تھے اور تم نے ان کو کھانا کھلایا.وہ پیا سے تھے تم نے انہیں پانی پلایا ، وہ ننگے تھے اور تم نے انہیں کپڑے پہنائے.۵ غور کرو یہ کتنا عظیم الشان درجہ ہے جو غریبوں کو کھانا کھلانے سے حاصل ہو سکتا ہے اور خوشیوں کو ایسے رنگ میں منانے سے ہو سکتا ہے جو رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مگر تیل خرچ کر دینے پر خدا تعالیٰ کیا کہہ سکتا ہے؟ کیا وہ کہے گا کہ ان میرے بندوں کو جنت میں اعلیٰ درجہ کے انعام دو کیونکہ یہ بازار سے تیل خرید کر لائے ، بہت سے دیے جلائے اور اس طرح اپنی آنکھیں تو خوش کر لیں مگر میرے کسی بھوکے اور پیا سے بندے کی خبر نہ لی.یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کی زبان پر سجتا نہیں مگر وہ دوسرا فقرہ تو دل کو لگتا ہے اور اس سے ایسا درد پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے خدا تعالیٰ سے اپنے لئے سُن لے مگر یہ تو ایسا ہے کہ نہ اسے کان برداشت کر سکتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی زبان سے زیب دیتا ہے.پس جو کرنا چاہو کر ولیکن شریعت کے مطابق کرو اور ایسے رنگ میں کرو کہ دُنیا بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکے.جب تمہارے کام دُنیا کے لئے مفید بن جائیں گے تو خدا تعالیٰ دُنیا کے دوسرے کاموں کو بھی تمہارے لئے مفید بنا دے گا.جب تم لوگوں کے لئے اپنے کاموں کو مفید بناؤ گے تو خدا تعالیٰ دوسروں کے کام تمہارے لئے مفید بنادے گا.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اور جس کے لئے اب میں ایک دو منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتا یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے دن قریب ہیں اس کے لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنی خدمات اور مکانات بھی پیش کریں.جن کے دلوں میں یہ جوش اُٹھتا ہے کہ جو بلی کے موقع پر شعر پڑھتے ہوئے چلتے جائیں انہیں چاہئے کہ جلسہ پر آنے والوں کے لئے مکان بھی خالی کر کے دیں اور اپنی خدمات بھی پیش کریں.پس اگر جو بلی کے موقع پر خوشی منانا چاہتے ہو تو اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ غرباء کو کھانا کھلاؤ ، مکانات خالی کر کے مہمانوں کے لئے پیش کرو اور اپنے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں فارغ کر کے خدمات کے لئے پیش کرو.یہ تو ٹھیک نہیں کہ تم لوگوں کے لئے اعلان تو یہ کرو کہ آجاؤ آ جاؤ اور اگر وہ آ جائیں تو نہ ان کے رہنے کے لئے کوئی مکان ملے اور نہ کوئی خدمت کرنے والا ہو.لوگ آئیں اور یہاں ان کے
خطبات محمود ۵۷۴ سال ۱۹۳۹ء لئے نہ رہائش کا انتظام ہو اور نہ کوئی پوچھنے والا ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ کتنے بے حیا لوگ ہیں.پہلے تو شور کر رہے تھے کہ آؤ آؤ اور اب آئے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم سے کوئی جان پہچان ہی نہیں.جب لوگ زیادہ آئیں گے تو ان کے کھانے پینے کے لئے بھی زیادہ اشیاء درکار ہوں گی ، مکان بھی زیادہ درکار ہوں گے اور خدمت کرنے والے بھی زیادہ چاہئیں.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ منتظمین کا یہ خیال کہ اس موقع پر بہت زیادہ رؤسا آئیں گے اور سینکڑوں غیر احمدی امراء شامل ہوں گے صحیح نہیں.تمہارے دلوں میں بیشک خلافت اور خلافت جوبلی کی کی عزت ہو گی مگر دوسروں کے نزدیک اس کی کیا عزت ہو سکتی ہے.پندرہ ہیں غیر احمدی رؤسا تو ممکن ہے رونق دیکھنے کے لئے آجائیں یا ممکن ہے کچھ احمدیوں کے دوست آجائیں مگر یہ کہ ہزاروں دوڑے چلے آئیں گے غلط ہے.ان کے نزدیک خلافت جو بلی کی نہ کوئی قیمت ہے اور کی نہ اہمیت.ایاز قدر خود بشناس.آج تمہاری کیا حیثیت ہے کہ بڑے بڑے لوگ دوڑے چلے آئیں گے.آج اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو بے شک تمہاری قدر ہے مگر بڑے لوگوں کے نزدیک کوئی نہیں.آج تو بعض جگہ ایک نمبردار بھی تمہارے پاس سے گزرتا ہے تو ناک چڑھا کر کہہ دیتا ہے کہ یہ بے حیثیت لوگ ہیں مگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری بڑی اہمیت ہے.آج صرف خدا تعالیٰ کے گھر میں تمہاری اہمیت ہے اس لئے تم اسی کی طرف توجہ کرو جس کے گھر میں تمہاری عزت ہے.اسی پر نگاہ رکھو.دنیا داروں کے نزدیک ابھی تمہاری عزت کوئی نہیں.بیشک ایک دن آئے گا جب ان کے نزدیک بھی عزت ہوگی اور اس وقت یہ لوگ بھی کہیں گے کہ ہم تو ہمیشہ سے ہی اس طرف مائل تھے مگر ا بھی وہ دن نہیں آیا.اس کے لئے ابھی بہت زیادہ قر بانیوں کی ضرورت ہے جب وہ کر لو گے تو وہ دن آئے گا اور اس وقت بادشاہ بھی تمہاری طرف مائل ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم تو بچپن سے ہی اس طرف مائل تھے محض اتفاق ہے کہ اب تک اس طرف نہ آ سکے.گواب تو معمولی نمبر دار بھی ناک چڑھا کر گزر جاتا ہے اور کہتا ہے معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کی کون نہیں.ہر زمانہ کی حیثیت علیحدہ ہوا کرتی ہے.ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مخالفین نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور آپ کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کر لوگوں کو مسجد میں لاتے اور کئی لوگ اوپر سے ہو کر آتے.سال یا چھ ماہ تک یہ راستہ بند رہا.آخر
خطبات محمود ۵۷۵ سال ۱۹۳۹ء مقدمہ ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ دیوار گرائی گئی.بعض خوا میں بھی عجیب ہوتی ہیں.می میں نے اس زمانے میں خواب دیکھا کہ میں بڑی مسجد سے جار ہا ہوں اور دیوار گرائی جارہی ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ امسیح الاوّل تشریف لا رہے ہیں میں نے ان سے کہا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے.خدا کی قدرت ہے کہ پہلے ایک مقدمہ ہوا وہ فیل ہوا، دوسرا ہوا وہ ناکام ہوا ، تیسرے میں کامیابی ہوئی اور دیوار گرانے کا حکم ہوا.مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اول درس دے رہے تھے جب درس ختم ہوا اور میں گھر کو چلا تو دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے.میں نے پیچھے دیکھا تو حضرت خلیفہ اول آ رہے تھے اور میں نے ان سے کہا کہ دیوار گرائی جارہی ہے.بعینہ اسی طرح ہوا جس طرح میں نے خواب میں کی دیکھا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے.میں نے یہ خواب حضرت خلیفہ اول کو سُنائی ہوئی تھی اور اُنہوں نے میری بات سُن کر فرمایا کہ تمہاری خواب پوری ہو گئی.پھر وہ بھی دن تھے کہ چوک کی میں جہاں آج کل موٹریں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اس کے سامنے لوگ جانور باندھنے کے لئے کیلے گا ڑ کر جانور باندھ دیتے تھے اور جب احمدی اندھیرے میں مہمان خانہ سے نماز کے لئے آتے تو ٹھوکریں کھا کر گرتے مگر آج یہ زمانہ ہے کہ کہتے ہیں قادیان میں احمدی ظلم کرتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ مان لو احمدی ظلم کرتے ہیں مگر کیا یہ اللہ تعالیٰ کا نشان نہیں ؟ میں مان لیتا ہوں کہ احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل نہ کیا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی سچائی تو بہر حال ظاہر ہے.مانا کہ ہم ظالم ہو گئے مگر اس ظلم کی تو فیق کا ہمیں ملنا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا پورا ہونا ہے.تم ہمیں ظالم مان لو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو ایمان لے آؤ.اس میں شبہ نہیں کہ غالباً جماعت کے لوگ اس سال زیادہ آئیں گے گو بعض روکیں بھی کی ہیں جنگ کی وجہ سے سرکاری ملازموں کو چھٹیاں نہیں مل سکیں گی یا کم ملیں گی اس لئے ان میں کمی کاج امکان ہے.اس لئے ممکن ہے کمی بیشی اس طرح پوری ہو جائے لیکن بہر حال سمجھنا یہی چاہئے کہ اس سال پہلے سے زیادہ لوگ آئیں کے اس لئے زیادہ مکانوں اور زیادہ خادموں کی ضرورت ہوگی اور اگر واقع میں تمہارے دلوں میں خوشی ہے تو اس کا اظہار اس طرح کرو کہ زیادہ سے زیادہ کی.
خطبات محمود ۵۷۶ سال ۱۹۳۹ء مکانات خالی کر کے دو اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں خدمات کے لئے نام پیش کرو.یہ کی ہم خر ماء ہم ثواب کا موجب ہو گا.خوشی بھی حاصل ہو جائے گی اور ثواب بھی حاصل ہوگا اور اگر ثواب کی نیت نہ ہوگی تو میلہ ٹھیلہ تو ہو ہی جائے گا.میلوں میں کیا ہوتا ہے.جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو دیکھنے والے کو کیا مل جاتا ہے؟ کیا اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے یا اسے کوئی اور ذاتی خوشی حاصل ہوتی ہے.لوگ کندھے سے کندھے لگاتے ہوئے چلتے ہیں اور تمہاری باچھیں یونہی کھل جاتی ہیں.گویا تمہارے گھر میں بہن برس 1 گیا تو اجتماع میں اللہ تعالیٰ نے خوشی رکھی ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی میلوں کے خلاف بہت وعظ کیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ یہ بدعت ہے، دنیا گمراہ ہوگئی لوگوں نے سنت کو چھوڑ دیا.وہ کوئی مہینہ بھر پہلے یہی کی شور مچاتا رہتا مگر جب میلہ کا دن آتا تو جبہ پہنے دوڑتا ہوا میلہ کی طرف چل دیتا اور جب کوئی تی پوچھتا کہ مولوی صاحب کہاں جا رہے ہیں تو کہتا دُنیا گمراہ ہوگئی سمجھانے جاتا ہوں اور وہاں کونے میں کھڑا ہو کر تماشہ دیکھنے لگ جاتا اور جب کوئی پوچھتا کہ مولوی صاحب آپ یہاں کہاں؟ تو کہتا کہ حیران کھڑا ہوں کہ کوئی سنتا ہی نہیں.تو ہجوم ایک ذریعہ خوشی کا ہوتے ہیں کسی روتے ہوئے شخص کو میلہ میں لے جاؤ تو اس کی توجہ بھی ادھر ہو جائے گی اور وہ خوش ہو جائے گا.حالانکہ ذاتی طور پر اس کے لئے خوشی کا کوئی سامان اس میں نہیں ہوتا.خواہ کوئی پیسہ کے پکوڑے بھی میلہ میں جا کر نہ کھائے ، خواہ کوئی بچہ میری گو راؤنڈ کے (MERRY GO ROUND) پر سوار نہ ہو سکے ، ایک دھیلے کا کھلونا بھی نہ خرید سکے مگر وہ ماں سے اصرار ضرور کرے گا کہ میں میلہ میں ضرور جاؤں گا.تو ہجوم میں ایک خوشی انسان کو حاصل ہوتی ہے.پس جو لوگ خدا کی خوشنودی کے لئے جو بلی میں ایک سبق پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ جو بلی کی تقریب پر ہجوم زیادہ ہوتا وہ زیادہ خوشی حاصل کر سکیں.ان کو بھی چاہئے کہ وہ مکان بھی زیادہ خالی کر کے دیں اور خدمات کے لئے زیادہ کی سے زیادہ نام پیش کریں اور چندے بھی زیادہ دیں.ابھی تو میں اخباروں میں یہی شور پڑھتا ہوں کہ چندہ پورا نہیں ہوا.پس اگر تمہاری عقیدت سچی ہے تو خوشی کا اظہار ایسے رنگ میں کرو کہ ثواب بھی ہو اور خوشی بھی حاصل ہو جائے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اپنے مالوں ، جانوں کی
خطبات محمود ۵۷۷ اور مکانوں کی زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرو.“ کنز العمال ج ۱۶ صفحه ۴۶ کے بنی اسرائیل :۲۴ سال ۱۹۳۹ء ( الفضل ۱۴ / دسمبر ۱۹۳۹ء) عمدة القاری شرح صحیح بخارى كتاب المناقب باب مقدم النبي صلى الله عليه وسلم مطبوعه اپریل ۲۰۰۶ء المعجم الاوسط للطبرانی جو۵ صفحه ۳۵۷ مطبع دار الحرمین القاهره ۱۴۱۵ھ 1 من برسنا: دولت برسنا، خوب آمدنی ہونا.میری کو راؤنڈ : ( A revolving machine with :( MERY-GO-ROUND wooden horses or cars for riding on at a fair etc.یعنی میلے وغیرہ میں بچوں کے سوار ہونے کا گول چکر والا جھولا.
خطبات محمود ۵۷۸ ۳۶ سال ۱۹۳۹ء تحریک جدید کے بقایا دارا ۳ رمئی ۱۹۴۰ ء تک بقائے ادا کریں یا مُہلت لیں.فرموده ۱۵/ دسمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - تحریک جدید سال ششم کا تو میں اعلان کر چُکا ہوں لیکن میں اس سلسلہ میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک خاصی تعداد ایسے دوستوں کی ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ سالوں کے چندوں کے متعلق ابھی تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا.گو جس قدر تحریکیں اس وقت تک ہوئی ہیں ان میں سے تحریک جدید ہی ایک ایسی تحریک ہے جس کے ناد ہندوں اور سستی کرنے والوں کی نسبت چندہ ادا کرنے والوں کی نسبت بہت ہی کم ہے.یعنی جو لوگ ناد ہند ہیں اُن کی پانچ فیصدی سے دس فیصدی تک اوسط رہتی ہے بلکہ میرا خیال ہے شائد اس سے بھی کم اوسط ہے مثلاً چوتھے سال میں قریباً ایک لاکھ پچیس ہزار روپیہ کے وعدے ہوئے اور ان ایک لاکھ پچیس ہزار روپیہ کا وعدہ کرنے والوں میں سے تین چار ہزار کا وعدہ کرنے والے فوت ہو گئے.باقی ایک لاکھ بائیس ہزار بلکہ ایک لاکھ بیس ہزار قابل وصول تھا کیونکہ غالباً وفات پانے والوں کے وعدوں کی رقم تین چار ہزار سے زیادہ بنتی تھی اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ دفتر والوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ جو روپیہ وصول ہونے کے قابل ہے اُس میں سے
خطبات محمود ۵۷۹ سال ۱۹۳۹ء غالباً ایک لاکھ پندرہ ہزار کے قریب وصول ہوا ہے.اس کے علاوہ دو تین ہزار روپیہ کی ایسی رقم ہے جو یقینی طور پر وصول شدہ ہے کیونکہ بعض نے اپنے چندہ کے عوض جائداد میں دے دی ہیں اور بعض نے ایسی ضمانتیں دے دی ہیں جن سے روپیہ وصول ہونا قریباً یقینی ہے اس طرح اس سال کی ادائیگی چار فیصدی کے قریب ہی کم رہ جاتی ہے لیکن بہر حال چار فیصدی کے قریب کمی ہو یا پانچ یا دس فیصدی کے قریب نادہندگی اور بلا وجہ نا دہندگی عقل کے بالکل خلاف ہے.بعض چندے اس قسم کے ہوتے ہیں کہ انسان ان کی وصولی کے لئے دوسروں کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور کہتا ہے ضرور چندہ دو مگر تحریک جدید کے ابتدا میں ہی میں نے اعلان کر دیا تھا کہ اس میں چند ہ لکھوانا انسان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے.جو شخص اپنے شوق اور اپنے اخلاص سے اس میں حصہ لینا چاہتا ہے وہ لے مگر جو شخص اپنی مرضی سے اس میں حصہ نہ لے اُسے ہم مجبور نہیں کرتے اور نہ کا رکن کسی کو مجبور کریں کہ وہ ضرور اس چندہ میں شامل ہو.اسی طرح میں نے یہ اعلان بھی کی کر دیا تھا کہ اس چندہ کا ادا کرنا بھی ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے اگر چندہ لکھوانے کے بعد کسی کے حالات بدل جائیں اور وہ چندہ ادا نہ کر سکے یا چاہے کہ آئندہ اس تحریک میں بالکل حصہ نہ لے تو وہ ہمیں لکھ دے کہ میں اس تحریک میں شامل نہیں رہ سکتا میرا نام کاٹ دیا جائے.ہم اس کا وعدہ اپنے رجسٹر میں سے کاٹ دیں گے.پس جب کہ تحریک جدید میں چندہ لکھانا بھی ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے اور وعدہ کر کے اپنا نام رجسٹر سے کٹو الینا بھی ہر شخص کے اختیار میں ہے اور جب کہ دونوں طرف انسان کا اپنا اختیار ہی کام کر رہا ہے تو ایسی صورت میں چار فیصدی کیا اگر ایک فیصدی کی کمی بھی رہتی ہے تو وہ لوگ جو اس کمی کا موجب بنتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور گنہگار ٹھہرتے ہیں.اس لئے کہ جب چندہ لکھواتے وقت وہ اختیار رکھتے تھے کہ چاہیں تو لکھوائیں اور چاہیں تو نہ لکھوائیں اور جب چندہ لکھوا دینے کے بعد بھی وہ اختیار رکھتے تھے کہ چاہیں تو لکھ دیں ہمارے حالات بدل گئے ہیں اب ہم چندہ نہیں دے سکتے ، ہمارا نام لسٹ میں سے کاٹ دیا جائے تو انہوں نے نادہند بننے کی بجائے وہ طریق کیوں نہ اختیار کیا جو اُن کے لئے کھلا تھا اور جسے اختیار کر کے وہ نا دہند اور گنہگار بننے سے محفوظ رہ سکتے تھے.فرض کر د وفات یافتوں اور اُن کی موجودہ رقوم کو نکال کر ایک لاکھ بائیس ہزار روپیہ وصول ہونا ضروری تھا مگر وہ لوگ جنہیں ا
خطبات محمود ۵۸۰ سال ۱۹۳۹ء ادا کرنے کی توفیق نہیں تھی اُنہوں نے اپنے نام کٹوا لئے اور اس طرح تین چار ہزار کی اور کمی کی ہوگئی تو دفتر حساب لگا کر کہہ سکتا ہے کہ اتنے لوگوں نے چونکہ اپنے نام کٹوالئے ہیں اس لئے اب اس قدر وصولی ہوگی کیونکہ جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم چندہ نہیں دے سکتے ہمارا نام کاٹ دیا جائے ہم اُن کا نام دونوں طرف سے کاٹ دیتے ہیں.وعدہ کرنے والوں میں سے بھی اور ناد ہندوں میں سے بھی.اس صورت میں دفتر والے یہ نہ کہتے کہ ایک لاکھ بائیس ہزار میں سے تج مثلاً ایک لاکھ اٹھارہ ہزار وصول ہوا ہے بلکہ وہ یہ کہتے کہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کے وعدے تھے اور ایک لاکھ اٹھارہ ہزار ہی وصول ہوا.در حقیت اگر کسی انسان کے حالات بدل جائیں اور وہ کی چندہ دینے کی طاقت نہ رکھے تو لازمی چندوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں بھی اُس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا کجا یہ کہ اُس چندہ کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگا رہنے جو طوعی ہے.ہاں اگر کسی کی ایمانی حالت خراب ہو جائے تب بیشک وہ گنہگار ہو گا اِسی طرح فرائض کی صورت میں اگر وہ جی طاقت رکھتا ہو ا حصہ نہیں لے گا تو گنہگار ہو گا لیکن ہمارا خدا اتنا تنگ دل نہیں کہ وہ کہے کہ خواہ تم میں کچھ بھی طاقت نہ ہو تب بھی تمہیں ضرور چندہ دینا پڑے گا.بعض شرائع بیشک ایسی ہیں جن میں اس قسم کی تختی پائی جاتی ہے مگر اسلام میں نہیں.چنانچہ بعض مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کا جب تک بیٹا نہ ہو وہ جنت میں نہیں جا سکتا.اب بتا ؤ بیٹا پیدا کرنا کیا کسی انسان کے اختیار میں ہے؟ کسی انسان کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ بیٹا بنا سکے مگر بعض مذاہب میں یہ تعلیم موجود کی ہے.آخر اس کا علاج اُنہوں نے یہ سوچا کہ جن کے ہاں بیٹا نہیں ہوتا وہ لے پالک بنا لیتے ہیں اور بعض دفعہ چونکہ انسان لے پالک بنائے بغیر ہی فوت ہو جاتا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی کو لے پالک بنائے فوت ہو جائے اور اُس کی بیوی رکر یا کرم سے پہلے پہلے کسی کو لے پالک بنالے تو پھر بھی وہ جنت میں داخل ہو سکتا ہے.یہ مصیبت اسی لئے آئی کہ ایسا قانون بنایا گیا جوانسان کے اختیار میں نہیں.اس کے مقابلہ میں اسلام کو دیکھو ہماری شریعتی میں نماز کی کس قدر تاکید کی گئی ہے اتنی تاکید نظر آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعه فر ما یا جو لوگ بلا وجہ مسجد میں عشاء اور صبح کی نماز نہیں پڑھتے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ نماز کے لئے کسی اور کو کھڑا کر دوں اور اپنے ساتھ بعض اور لوگوں کو لے کر ان کے سروں پر کی
خطبات محمود ۵۸۱ سال ۱۹۳۹ء لکڑیوں کے گٹھے رکھوں اور ان لوگوں کے مکانوں کو جا کر آگ لگا دوں جو عشاء اور فجر کی نماز پڑھنے مسجد میں نہیں آتے لیے اتنا رحیم و کریم انسان جو کسی کی ذراسی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا وہ اِس بارہ میں اتنی سختی کرتا ہے کہ چاہتا ہے اُن لوگوں کے مکانوں کو آگ لگا دے جو عشاء اور فجر کی نماز پڑھنے مسجد میں نہیں آتے کیونکہ جب کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اپنی مرضی سے ہوتا ہے اور جب وہ اپنی مرضی سے اسلام کو قبول کرنے کے بعد اسلامی قیود کی پابندی نہیں کرتا اور نماز پڑھنے مسجد میں نہیں آتا تو وہ سزا کا مستحق ہے مگر اتنے اہم فریضہ کے متعلق بھی اسلام اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں بوجہ معذوری نہیں آسکتا تو وہ گھر میں نماز پڑھ لے.اسی طرح یہ اجازت دی کہ اگر کوئی شخص گھر میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو وہ بیٹھ کر پڑھ لے.الگ الگ نہیں پڑھ سکتا تو جمع کر کے پڑھ لے.چنانچہ چار نمازیں ایسی ہیں جو دو دو جمع ہو سکتی ہیں.ظہر عصر کے ساتھ اور مغرب عشاء کے ساتھ.صرف صبح کی نماز ایسی ہے جو کسی اور نماز کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی.پھر اگر کوئی بیٹھ کر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو اُسے شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ لیٹے لیٹے اشاروں سے نماز پڑھ لے اور اگر اشاروں سے بھی نما زنہیں پڑھ سکتا تو شریعت اُسے اجازت دیتی ہے کہ وہ دل میں نماز پڑھ لے اور اگر وہ بے ہوش ہو جاتا ہے اور دل میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتا تو اُس پر شریعت کوئی حکم ہی عائد نہیں کرتی اور کہتی ہے کہ اسے نماز معاف ہے.تو دیکھو شریعت نے کس قدر نرمی کر دی حالانکہ یہ عبادت اس قد را ہم ہے کہ اُس کو بلا وجہ چھوڑ دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کے گھروں کو آگ لگا دی جائے.اسی طرح زکوۃ کا حکم ہے.یہ حکم بھی صرف طاقت رکھنے والوں کے لئے ہے.ان کے لئے نہیں جو غریب اور کنگال ہیں.اب اگر کوئی شخص کہے کہ میں زکوۃ نہیں دے سکتا تو وہ احمق ہوگا کیونکہ جو شخص طاقت رکھنے کے باوجود کہتا ہے کہ مجھ میں زکوۃ کی دینے کی طاقت نہیں وہ ویسی ہی بات کرتا ہے جیسے کوئی کہے کہ میں چل تو سکتا ہوں مگر مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں یا پانی پی تو سکتا ہوں مگر مجھ میں پینے کی طاقت نہیں یا روٹی تو کھا سکتا ہوں مگر مجھ میں روٹی کھانے کی طاقت نہیں.اس کے پاس بھی دولت ہے، مال ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میں دے نہیں سکتا اس کے صاف معنے یہ ہوں گے کہ وہ ایمان دار نہیں.باقی رہا روزہ اور حج.سو.
خطبات محمود ۵۸۲ ا سال ۱۹۳۹ء روزہ کے متعلق تو شریعت نے کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ اُن دنوں کی بجائے کی دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لیا کرے اور اگر کوئی کمزوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا مگر فدیہ دینے کی طاقت رکھتا ہے تو اُسے شریعت کہتی ہے کہ تم فدیہ دے دیا کرو اور اگر وہ فدیہ دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتا اور اُس کی جسمانی حالت ایسی ہے کہ وہ ایک روزہ بھی نہیں رکھ سکتا تو چاہے وہ ساری عمر روزہ نہ رکھے اُس پر کوئی گناہ نہیں.اسی طرح حج کے متعلق قرآن کریم نے مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا کی شرط عائد کر دی ہے اور مَنِ اسْتَطَاعَ میں صرف یہی شرط نہیں کہ تم تندرست ہو یا تمہارے پاس روپیہ کا فی ہو بلکہ اگر تمہارے پاس حج کے لئے تو روپیہ ہے لیکن تم اپنے بعد اپنے بیوی بچوں کے لئے کوئی انتظام نہیں کر سکتے تب بھی تم پر حج فرض نہیں.تو استطاعت کا مفہوم صرف اسی قدر نہیں کہ تمہاری اپنی صحت اچھی ہو اور اخراجات کے لئے تمہارے پاس کافی روپیہ ہو بلکہ جن کا گزارہ تمہارے ذمہ ہے تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اُن کا بھی انتظام کر کے جاؤ اور ا گر نہ کر سکو تو تم پر حج فرض نہیں.اسی طرح جہا د اسلام کے نہایت ہی اہم احکام میں سے ہے اور اس کو اسلام نے اُن اُمور میں سے قرار دیا ہے جو روحانیت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں مگر جہاد کو ارکانِ اسلام میں اس لئے نہیں رکھا گیا کہ باقی احکام تو ہر زمانہ اور ہر حالت میں قابل عمل ہوتے ہیں مگر جہاد ایک ایسی چیز ہے جس کا اختیار دشمن کے ہاتھ میں ہے ہمارے ہاتھ میں نہیں.روزہ رکھنا ہمارے اپنے اختیار کی بات ہے، نماز پڑھنا ہمارے اپنے اختیار کی بات ہے، زکوۃ دینا ہمارے اپنے اختیار کی بات ہے اور حج کرنا بھی ہمارے اپنے اختیار کی بات ہے مگر ہمارا یہ اختیار نہیں کہ ہم جب جی چاہے دُشمن سے جہاد کر سکیں کیونکہ جہاد اسی وقت جائز ہوتا ہے جب دشمن حملہ کرے اور اسلام کو مٹانے کے لئے کرے.تو چونکہ جہاد کا اختیار دشمن کے ہاتھ میں ہے اس لئے اسلام نے اسے ان ارکانِ اسلام میں نہیں رکھا جن کی پابندی اُمت پر ہر وقت فرض ہے مگر جس وقت جہاد فرض کی ہو جاتا ہے اُس وقت وہ ویسی ہی اہمیت اختیار کر لیتا ہے جیسے نماز وغیرہ بلکہ بعض اوقات اس کی اہمیت اس سے بھی بڑھ جاتی ہے.چنانچہ جہاد کے موقع پر جب خطرات زیادہ ہوتے ہیں ، اسلامی شریعت نے نمازیں چھوٹی کر دی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق
خطبات محمود ۵۸۳ سال ۱۹۳۹ء احادیث سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ نے جہاد میں صرف ایک رکعت پڑھائی اور دوسری کی رکعت کے متعلق کہہ دیا کہ لوگ الگ الگ پڑھ لیں.بعض دفعہ آپ آدھے مسلمانوں کو ایک رکعت پڑھاتے اور وہ ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے اور جنہوں نے نماز ا بھی نہیں پڑھی ہوتی تھی وہ آکر دوسری رکعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ لیتے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعت نماز ہو جاتی اور اُن کی ایک ایک اور ایک ایک وہ الگ پڑھ لیتے سے بلکہ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ بجائے قبلہ رو کھڑے ہونے کے ایک حصہ مسلمانوں کا دشمنوں کی طرف منہ کر کے کھڑا رہا ہے تو جہاد کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس میں نماز کے متداول طریق کو بھی توڑ دیا گیا ہے.اسی طرح روزہ ہے.جہاد کی حالت میں اس کی اہمیت بھی بدل جاتی ہے.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد پر تشریف لے گئے تو کچھ مسلمانوں نے روزے رکھ لئے اور بعض نے نہ رکھے.جب مقام پر پہنچے اور خیمہ لگانے کا وقت آیا تو وہ جنہوں نے روزے رکھے ہوئے تھے وہ تو تھک کر جا پڑے مگر جنہوں نے روزہ نہیں رکھا ہو ا تھا وہ خوب ہمت سے کام کرنے لگ گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا آج روزہ داروں سے بے روز ثواب میں بڑھ گئے ہیں.ھے تو بعض اوقات جب جہاد واجب ہوتا ہے نماز اور روزہ کی ضرورتوں پر اُس کی ضرورت کو مقدم کر دیا جاتا ہے حتی کہ یہاں تک حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جہاد کے لئے جارہے تھے کہ آپ نے اُن مسلمانوں سے جو پیچھے رہ گئے تھے فرمایا عصر کی نماز میرے پاس آ کر پڑھنا.جب وہ تیار ہو کر روانہ ہوئے تو راستہ میں ہی عصر کا وقت ہو گیا اور آہستہ آہستہ مغرب کا وقت قریب آ گیا یہ دیکھ کر بعض صحابہ نے کہا کہ ہمیں عصر کی نماز پڑھ لینی کی چاہئے وقت جا رہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منشا تھوڑا تھا کہ خواہ عصر کا وقت گزر جائے پھر بھی میرے پاس آکر عصر کی نماز پڑھنا مگر دوسروں نے کہا کہ ہم تو عصر کی نماز رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہی جا کر پڑھیں گے خواہ سورج غروب ہو جائے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ میرے پاس عصر کی نماز آ کر پڑھنا.
خطبات محمود ۵۸۴ سال ۱۹۳۹ء چنانچہ بعض نے تو نماز پڑھ لی اور بعض نے نہ پڑھی.یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اُن لوگوں کا ذکر ہوا جنہوں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی تو آپ نے فرمایا اُنہوں نے ٹھیک کیا تو جہاد کی ضرورت کو مقدم رکھ لیا گیا اور نماز کو دوسرے وقت پر ڈال دیا گیا.ایک اور وقت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسا آیا کہ آپ کو چار نمازیں جمع کرنی پڑیں.حالانکہ عام قاعدہ کے ماتحت چار نمازیں جمع ہو ہی نہیں سکتیں مگر اس دن ایسی لڑائی شروع ہوئی کہ ختم ہونے میں ہی نہ آئی اور سارا دن گزر گیا حتی کہ ایک کی ایک رکعت پڑھنے کا بھی موقع نہ ملا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر یہ امر بہت ہی گراں گزرا اور آپ نے فرمایا خدا ان کفار کا بُرا کرے کہ آج اُنہوں نے ہماری نمازیں خراب کر دیں کے تو جہاد کے لئے نماز کو دوسرے وقت پر ڈال دینا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے عمل سے ثابت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد میں سخت مصروف ہونے کی وجہ سے ظہر کی نماز نہیں پڑھی، عصر کی نماز پڑھی، مغرب کی نماز نہیں پڑھی ہاں عشاء کے کی وقت سب کو جمع کر لیا.حالانکہ عام حالات میں چار نمازیں جمع نہیں ہوسکتیں.یہی صحابہ کا طریق عمل تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا.چنانچہ اُنہوں نے شام کے وقت عصر کی نماز پڑھی.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ہمارے پاس آکر نماز عصر پڑھنا اور ان صحابہؓ نے بھی عہد کر لیا کہ ہم عصر پڑھیں گے تو وہیں پہنچ کر ، پہلے نہیں پڑھیں گے.مگر جہاد اتنے اہم فریضہ کے متعلق بھی شریعت نے یہ اجازت دے دی کہ لولے لنگڑے اور اپاہج اگر اس میں شامل نہ ہوں تو اُن پر کوئی الزام نہیں.یہاں تک کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے لئے تشریف لے گئے.صحابہ جو آپ کے ساتھ تھے اُنہوں نے بڑی بڑی تکالیف اُٹھا ئیں.راستہ میں وہ کہیں گٹھلیاں کھاتے ، کہیں پتے کھا کر گزارہ کرتے.اسی دوران میں وہ ایک وادی پُر خار میں سے گزرے.اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا ، ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ سخت تکلیف کی کی حالت میں جار ہے تھے مگر اُن کے دل اس تکلیف کے ساتھ یہ فخر بھی محسوس کر رہے تھے کہ انہیں خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے کا موقع ملا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف
خطبات محمود ۵۸۵ سال ۱۹۳۹ء دیکھا اور فرمایا مدینہ میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم جس وادی میں سے بھی گزرتے ہو تی اور تکلیفیں اُٹھا اُٹھا کر ثواب حاصل کرتے ہو وہ مدینہ میں بیٹھے ہوئے لوگ تمہارے اس ثواب کی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیا کہ قربانیاں ہم کریں ، تکلیفیں ہم اُٹھا ئیں اور ثواب میں وہ ہمارے شریک ہو جائیں.آپ نے فرمایا کیوں نہیں.یہ وہ معذوراندھے لولے اور لنگڑے ہیں جو اس لئے جہاد میں شامل نہیں ہوئے کہ انہیں جہاد میں شامل ہونے کا شوق نہیں تھا بلکہ اس لئے وہ محروم رہے کہ وہ جہاد میں اپنی معذوری کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکتے تھے.پس وہ گھر بیٹھے دُکھ اُٹھا رہے ہیں اور اس تصور سے غم زدہ ہورہے ہیں کہ کیوں وہ جہاد میں شریک ہونے سے محروم رہے اور یہی غم ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور اُسی ثواب کا مستحق بنا رہا ہے جو تم کو حاصل ہوا.2 تو جس قدرا ہم سے اہم احکام شریعت ہیں ان تمام میں اللہ تعالیٰ نے سہولت رکھی ہے جب تک کسی انسان کے اندر طاقت رہتی ہے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کی کرےاور جب طاقت ختم ہو جائے تو اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں رہتی جب اہم احکام شرعیہ کا یہ حال ہے تو جو چندہ پہلے ہی لازمی نہ ہو اور جس میں حصہ لینا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہو اس میں اگر کوئی شخص حصہ لیتے لیتے کسی وقت ایسی مشکلات میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ وہ آئندہ کے لئے اپنی شمولیت کو جاری نہیں رکھ سکتا تو اس کا حق ہے کہ وہ اپنا نام کٹوا لے اور گناہ سے بچ ج جائے.کیونکہ اس تحریک میں شمولیت بھی اختیاری ہے اور اس میں سے نکلنا بھی اختیاری ہے.ہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم دوستوں کو تحریک کرتے رہیں کہ وہ اس میں حصہ لیں.جیسے نوافل پڑھنے واجب نہیں مگر یہ تو نہیں کہ ہم دوسروں کو نوافل کی ادائیگی کی تحریک کرنی چھوڑ دیتے ہیں.ہمارا کام یہی ہے کہ ہم تحریک کرتے رہیں تا کہ جو چست ہیں وہ ثواب حاصل کر لیں.پس اس بارہ میں میرا تحریک کرنا یا دفتر والوں کا تحریک کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہم لوگوں کو مجبوری کرتے ہیں.ہم کسی کو اس میں حصہ لینے کے لئے مجبور نہیں کرتے.ہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو تحریک کرتے رہیں جو لوگ ہماری تحریک پر اس میں حصہ لیں گے انہیں تو اب مل جائے گا اور جو حصہ نہیں لیں گے اُن پر کوئی گناہ نہیں ہو گا.
خطبات محمود ۵۸۶ سال ۱۹۳۹ء اس تحریک میں اس وقت تک پانچ ہزار چھ سو دوستوں نے حصہ لیا ہے.حالانکہ ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ لاکھوں آدمی گنہ گار ہیں ممکن ہے ان میں سے کئی ایسے ہوں جنہیں اس میں حصہ لینے کی توفیق ہی نہ ہو.کئی ایسے ہوں جنہیں تو فیق تو ہو مگر دل کی کمزوری کی وجہ سے وہ ڈرتے ہوں کہ اگر ہم نے وعدہ کیا تو ممکن ہے اسے پورا نہ کر سکیں اور اس طرح گنہ گار ٹھہر ہیں.اسی طرح ممکن ہے بعض اور حالات کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہی لے رہے ہوں.مگر بہر حال وہ گنہگار نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا مگر وہ ضرور گنہگار ہے جو پانچ ہزار چھ سو میں اپنا نام لکھا تا اور پھر نہ تو اپنے چندہ کوادا کرتا ہے نہ مہلت لیتا ہے اور نہ معافی لیتا ہے.دیکھو صحابہ میں نیکیوں میں حصہ لینے کا کتنا بجوش پایا جاتا تھا.جس طرح آج تم یہاں جمعہ کے لئے جمع ہو اُسی طرح ایک دفعہ صحابہ مسجد میں جمعہ کے لئے جمع ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے خطبہ شروع کر دیا.جب آپ خطبہ فرما رہے تھے تو ایک شخص آیا جس کے جسم پر پورے کپڑے نہیں تھے صرف ایک کپڑا تھا اور وہ بھی پھٹا ہو ا.جب وہ بیٹھنے لگا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے سنتیں پڑھی ہیں؟ وہ کہنے لگا یا رَسُول اللہ ! میں تو ابھی کام سے اُٹھ کر آیا ہوں سنتیں پڑھنے کا موقع نہیں ملا.آپ نے فرما یا پہلے سنتیں پڑھو اور پھر بیٹھو.چنانچہ اُس نے سنتیں پڑھیں اور بیٹھ گیا.رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ میں صحابہ کو صدقہ و خیرات کی تحریک کی.شائد سردی کا موسم آیا می ہوگا اور غرباء کو ضرورت ہو گی.جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ نے اُٹھ اُٹھ کر گھروں کی سے زائد کپڑے لانے شروع کر دیئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کپڑوں کا ڈھیر لگا دیا.آپ نے وہ کپڑے غرباء میں بانٹنے شروع کر دیئے.بانٹتے وقت آپ نے اُس کی آدمی کو بھی بلایا اور فرمایا تمہارے پاس لباس نہیں.یہ دو چادر میں لو ایک کا تہہ بند بنالو اور ایک اوپر کا جسم لپیٹنے کے لئے رکھ لو.جب اگلا جمعہ آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ پڑھانے لگے تو پھر وہی شخص جلدی جلدی گھبرایا ہوا آیا.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے وعظ پر جس قدر کپڑے اکٹھے ہوئے تھے وہ غرباء کی ضروریات کے لئے کافی نہ ہوئے تھے اور ابھی اور کپڑوں کی ضرورت تھی.اس لئے آپ نے خطبہ میں پھر صدقہ کرنے کی
خطبات محمود ۵۸۷ سال ۱۹۳۹ء تحریک کی اسی دوران میں جب آپ نے اُس شخص کو آتے دیکھا تو فرمایا کی سنتیں پڑھ لی ہیں.اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں تو ابھی آ رہا ہوں.آپ نے فرمایا سنتیں پڑھو اور پھر بیٹھو.چنانچہ وہ سنتیں پڑھ کر بیٹھ گیا.جب آپ کی تقریر کے بعد چندہ جمع کرنے کا وقت آیا تو وہی شخص آگے بڑھا اور اُس نے ان دو چادروں میں سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی اُسے بطور صدقہ دی تھیں ایک چادر اُتار کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !یہ میری طرف سے چندہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھ کر ہنس پڑے اور آپ نے فرمایا یہ ہم نے تم کو اپنا جسم ڈھانکنے کے لئے دی تھی تم پھر واپس کر رہے ہو.اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں ثواب میں شریک ہونا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا کی ثواب تمہیں مل جائے گا یہ چادر اٹھاؤ اور اپنے پاس رکھو.2 دیکھو یہ کس قدر دل پر اثر کرنے والا واقعہ ہے کہ ایک شخص کو ایک مجلس میں صدقہ کے طور پر کپڑا ملتا ہے اور وہ اسی کپڑے کو اسی مجلس میں دوسرے موقع پر اپنی طرف سے بطور صدقہ پیش کر دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتا ہے کہ یا رسول اللہ ! یہ میری طرف سے چندہ ہے.تو صحابہ کے دلوں میں اس بات کی بڑی اہمیت تھی کہ ضرور ہر نیک تحریک میں حصہ لینا ہے.ہماری جماعت کو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی قسم کی تربیت ہے اور اس میں کوئی طبہ نہیں کہ اس وقت دنیا کے پردے پر اور کوئی جماعت ایسی نہیں جو مالی لحاظ سے ویسی قربانی کر رہی ہو جیسی قر بانی ہماری جماعت کر رہی ہے.ہم کتنا ہی زجر کریں، کتنا ہی بعض لوگوں کا شکوہ کریں اس سچائی کا انکار سوائے اندھے اور از لی شقی کے اور کوئی نہیں کر سکتا کہ اس زمانہ میں اس غریب جماعت سے زیادہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانیاں کرنے والا کوئی نہیں.ہم میں ہزاروں کمزوریاں ہیں، ہم میں ہزاروں عیب ہیں، ہم میں ہزاروں نقائص ہیں مگر با وجود ان نقائص کو تسلیم کرنے کے اِس میں کوئی کلام نہیں کہ دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ایسی بے نظیر قربانیاں پائی جاتی ہیں کہ قریب زمانہ میں ان کی کوئی نظیر نظر نہیں آتی اور دشمن بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے مگر پھر بھی اس فخر اور خوشی کی تکمیل کے جتنے مدارج ہوں ان کے حصول کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے
خطبات محمود ۵۸۸ سال ۱۹۳۹ء اور خدا تعالیٰ کا مقرب بنانے کے لئے جن مجاہدات کی ضرورت ہے ان کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا ضروری ہے.پس میں پھر جماعت کو اس طرف توجہ دلا دیتا ہوں خصوصاً اُن لوگوں کو جو نا دہند ہیں اور جن کی طرف تحریک جدید کا کئی کئی سال کا بقایا ہے کہ جب اُن کے لئے راستہ کھلا تھا کہ وہ اس میں شامل نہ ہوں تو وہ کیوں شامل ہوئے اور جب اُن کے لئے اب بھی اس بات کا راستہ کھلا ہی ہے کہ وہ اپنا نام کٹوالیں تو وہ اپنا نام کیوں نہیں کٹواتے ؟ ہمیں اس تحریک کے متعلق یہ نظر آتا ہے کہ اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد پانچ ہزار کی کے اردگرد چکر کھا رہی ہے.گویا اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشف میں بیان ہوئی.اس کے علاوہ بیسیوں رویا وکشوف اور الہامات اس تحریک کے بابرکت ہونے کے متعلق لوگوں کو ہوئے.بعض کو رویا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے، بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے اور بعض کو الہامات ہوئے کہ یہ تحریک بہت مبارک ہے.غرض یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے بابرکت ہونے کے متعلق بیسیوں رویا وکشوف اور الہامات کی شہادت موجود ہے.اس کے علاوہ تحریک جدید کے واقعات اس کشف سے بہت حد تک ملتے جلتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا اور جس میں بتایا گیا تھا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا چنانچہ شروع سے اس کی تعداد پانچ ہزار کے گرد چکر کھا رہی ہے مگر رویا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد بھی ذرا مشکل سے پوری ہو گی.چنانچہ رویا یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شخص سے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.اس نے کہا ایک لاکھ تو نہیں مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.تب آپ فرماتے ہیں میں نے کہا گو پانچ ہزار تھوڑے ہیں پر اگر خدا چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں.نا پس اس رؤیا کا جو انداز ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ ہزار تعداد پوری تو ہو گی مگر ذرا مشکل سے اور وہ مشکل ہمیں اب نظر آنے لگ گئی ہے کہ کئی ناد ہند ہیں جنہوں نے کئی کئی سال سے چندہ دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر ابھی تک اُنہوں نے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا.اگر یہ نادہند
خطبات محمود ۵۸۹ سال ۱۹۳۹ء نکل جائیں تو ہم اصل تعداد معلوم کر کے باقی جماعت کو تحریک کریں اور کہیں کہ بہادر و ذرا ہمت کرو اور اس پانچ ہزار کی تعداد کو پورا کرو مگر اب ہم کسی صحیح فیصلہ پر نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ہمیں نظر تو یہ آتا ہے کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والے پانچ ہزار چھ سو ہیں مگر ممکن ہے کہ وہ چار ہزار چھ سو ہوں اور باقی نادہند ثابت ہوں.میں جیسا کہ پہلے بھی بتا چکا ہوں اگر تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے اوپر چلی جائے اور چھ ہزار کے قریب پائی جائے جب بھی پیشگوئی کے پورا ہونے میں کوئی نقص نہیں ہوسکتا کیونکہ پانچ اور چھ ہزار کے درمیان کوئی بھی تعداد ہو وہ پانچ ہزا ر ہی کہی جائے گی اور کسر کا حصہ شمار نہیں ہو گا.پس اگر آٹھ نوسو کے قریب زیادہ بھی ہو جا ئیں تب بھی کوئی حرج نہیں لیکن ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پانچ ہزار کی بجائے چار ہزار نو سو یا چار ہزار نو سو ننانوے سپاہی حاصل ہوں.ہاں اگر پانچ ہزار نو سو یا پانچ ہزار نو سو نانوے ہو جائیں تو یہ کشف کے خلاف نہیں ہو گا مگر یہ تمام مشکل ہمیں نادہندوں کی وجہ سے پیش آ رہی ہے جن کے متعلق ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہماری لسٹ میں ہیں حالانکہ حقیقتاً ہماری لسٹ میں نہیں ہوتے.اگر وہ نکل جائیں تو ہمیں پتہ لگ جائے کہ ہمیں اس غرض کے لئے کتنی محنت اور کرنی چاہئے.پس جس قدر نادہند ہیں وہ تحریک جدید کے کام میں روک بن رہے ہیں.اس لئے یا تو وہ اپنے اپنے چندہ کو ادا کر دیں اور یا اپنے نام ہمارے رجسٹر میں سے کٹوا لیں تا جماعت کے دوسرے با ہمت دوستوں کی طرف ہم توجہ کریں.اسی طرح جو سال ختم ہو گیا ہے اُس کی میعاد گو ۳۰ نومبر تک ہی تھی مگر پھر بھی جن دوستوں کے وعدے ابھی پورے نہیں ہوئے اُنہیں کوشش کرنی چاہئے کہ ۳۱ / جنوری تک اپنے وعدوں کو پورا کر دیں.پس آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہے ہوں کہ جن دوستوں کے ذمہ تحریک جدید کے گزشتہ چار سال میں سے ایک یا ایک سے زیادہ سالوں کا چندہ ابھی واجب الادا ہے وہ یا تو اپنے وعدوں کو جلد سے جلد پورا کریں اور اگر وہ ی اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکتے تو یا ہم سے معافی لے لیں یا اپنے نام کٹوالیں تا کہ نہ تو وہ خود گنہگار بنیں اور نہ بیچ لسٹ کے متعلق ہمیں کوئی دھوکا لگے.
خطبات محمود ۵۹۰ سال ۱۹۳۹ء بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہماری نیت دینے کی ہے میں سمجھتا ہوں یہ محض ان کے نفس کا کی دھوکا ہے ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اُن کی نیت دینے کی ہوتی اور سالوں گزر جاتے اور ان کی نیت پوری نہ ہوتی.بہر حال دو باتوں میں سے ایک ضرور ہے یا تو اُن کی نیت ہی درست نہیں یا یہ ہے کہ انہیں تو فیق ہی نہیں کہ وہ وعدہ کو پورا کر سکیں.اگر دوسری صورت ہے تو انہیں چندہ لکھوانے کا کوئی حق نہ تھا اور اگر چندہ لکھوانے کے بعد ان کی مالی حالت خراب ہوئی ہے تو اُن کا کوئی حق نہیں کہ وہ معافی نہ لے لیں اور صرف اس خیال میں رہیں کہ ہماری نیت دینے کی ہے جو نیت حالات کے خلاف ہوتی ہے وہ تو کوئی قیمت نہیں رکھتی.اگر خالی نیت سے ہی کام چل سکتا ہے تو پھر انہیں پانچ دس روپیہ لکھوانے کی کیا ضرورت تھی وہ جرمنی یا روس کا ملک ہی چندہ تحریک میں بخش دیتے.وہ کہہ سکتے تھے کہ گو روس اور جرمنی ہمارے قبضہ میں نہیں لیکن خدا تعالیٰ کو تو طاقت ہے کہ وہ یہ ملک ہمارے حوالہ کر دے.پس ہم نے یہ نیت کر لی ہے کہ جب وہ ملک ملیں گے ہم تحریک کے چندہ میں ادا کر دیں گے مگر اس قسم کے ہوائی قلعے تیار کرنے اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں.میرے نزدیک تو ایسے لوگوں کی نیت اور ان کے وعدے ایسے ہی ہیں جیسے کہتے ہیں کہ کوئی راجہ سخت بخیل تھا.ایک دن اُس کے دربار میں کوئی برہمن چلا گیا اور کہنے لگا مجھے پہن لے دیجئے.راجہ تو بخیل تھا ہی اُس کا ولی عہد اُس سے بھی زیادہ بخیل تھا.جب برہمن نے پئن مانگا تو راجہ سخت گھبرایا کہ اب میں کیا کروں کیونکہ برہمن کو کچھ نہ دینا اُس کے وقار کے سخت خلاف تھا.وہ سوچ میں پڑ گیا اور سوچتے سوچتے اُسے یاد آیا کہ پچھلے سال سرکاری گلے میں سے ایک گائے گم ہوگئی تھی وہی اسے دے دیں.چنانچہ وہ وزیر سے مخاطب ہو کر کہنے لگا وزیر صاحب! برہمن صاحب پئن مانگتے ہیں انہیں ہم وہ گائے دیتے ہیں جو پچھلے سال ہمارے گلے میں سے گم ہو گئی تھی.یہ اسے ڈھونڈ لیں تو وہ ان کی ہوگئی.لڑکے نے جب یہ بات سنی تو اُسے فکر ہوا کہ شائد یہ برہمن اُس گائے کو تلاش ہی کرلے.وہ کہنے لگا والد صاحب! پچھلے سال کی گمشدہ گائے آپ اسے کیوں دیتے ہیں اسے وہ گائے کیوں نہ دے دی جائے جو پر ارسال مر گئی تھی.تو یہ تو ویسا ہی وعدہ ہے.وعدہ کا وقت گزر جاتا ہے دوسرا سال بھی شروع ہو جاتا ہے مگر اُن کا وعدہ پورا ہونے میں ہی نہیں آتا.میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ تم خواہ مخواہ گنہگار
خطبات محمود ۵۹۱ سال ۱۹۳۹ء کیوں بنتے ہو.اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے کہ تم لیت و لعل کرتے ہو یا واقع میں تمہیں ادا کرنے کی توفیق نہیں.یا تم نے محض لوگوں کی واہ واہ کے لئے اپنا نام لکھا دیا تھا اور تم نے سمجھا کہ چلو دس سال تک تحریک جدید کی لسٹ میں ہمارا نام تو آتا رہے گا نہ ادا ہوا نہ سہی.ان تمام باتوں کو خدا جانتا ہے اور خدا کے ساتھ ہی تمہارا معاملہ ہے.اگر تم تو فیق کے باوجود ادا نہیں کرتے تو تم گنہگار ہو اور یہ گناہ بعض کو دو سال سے ہو رہا ہے ، بعض کو تین سال سے ہو رہا ہے اور بعض کو چار سال سے ہو رہا ہے.اسی طرح اگر تم کو ظاہری حالات کے مطابق توفیق نہیں اور توفیق ملنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے تو تم کیوں ہمت نہیں کرتے اور اپنا نام لسٹ میں سے کٹوا کر سلیٹ کو صاف نہیں کر لیتے ؟ اس طرح تم گناہ سے بھی بچ جاؤ گے اور ہم بھی صحیح طور پر اندازہ لگا سکیں گے کہ کتنے لوگ اس تحریک میں شامل ہیں.پس میں تحریک جدید کے تمام بقایا داران سے کہتا ہوں کہ اپنے اپنے بقائے ادا کرو اور اگر تم بقائے ادا نہیں کر سکتے تو معافی لے لو اور اپنا نام لسٹ میں سے کٹوالولیکن چونکہ عام رنگ میں بات کہہ دینے سے بعض دفعہ فوری طور پر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اس لئے میں اب یہ اصول مقرر کر دیتا ہوں کہ پہلے چار سالوں کے تمام بقایا داران کو ۳۱ رمئی تک مہلت دی جاتی ہے.۳۱ رمئی تک جو لوگ اپنے بقائے ادا نہیں کریں گے سوائے ان کے جو مہلت لے لیں یا دفتر کی منظوری سے ادا ئیگی کا کوئی وقت مقرر کر دیں اُن کے نام لسٹ میں سے کاٹ دیئے جائیں گے اور میں دفتر کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ تمام بقایا داران کے بقائے نکال کر ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ چٹھی لکھ دے جس میں یہ ذکر ہو کہ آپ کے ذمہ تحریک جدید کا فلاں فلاں سال کا اتنا بقایا ہے.۳۱ رمئی تک ہم آپ کو مہلت دیتے ہیں اس عرصہ میں اگر آپ اپنا وعدہ پورا کر دیں گے تو آپ کا نام اس لسٹ میں رہے گا ور نہ ہم سمجھیں گے کہ آپ نادہند ہیں اور ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ آپ کا نام اپنی لسٹ میں سے کاٹ دیں.معافی کے طور پر نہیں بلکہ مجرم کے طور پر مگر اس کی میں وہ شامل نہیں جنہوں نے مہلت لے لی ہے یا آئندہ مہلت لے لیں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حالات کے مطابق مزید مہلت لے لیتے ہیں.ایسے لوگ گنہگار نہیں کیونکہ اُنہوں نے دلیری سے کام لیا اور کہہ دیا کہ ہمیں فلاں مجبوری تھی جس کی وجہ سے ہم وعدہ پورا نہ کر سکے.
خطبات محمود ۵۹۲ سال ۱۹۳۹ء اب فلاں وقت تک مہلت دی جائے.پس یہ نوٹس مہلت دینے والوں کو نہیں بلکہ اُن لوگوں کو کی بھیجا جائے گا جو نہ تو مہلت لیتے ہیں نہ معافی لیتے ہیں اور نہ ہی چندہ ادا کرتے ہیں.ایسے تمام لوگوں کے متعلق میں اعلان کرتا ہوں اور دفتر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ہر ایک کو چٹھی لکھ دے بلکہ اگر ہو سکے تو رجسٹری خط بھیجے تا کسی کو یہ اعتراض نہ رہے کہ مجھے خط نہیں ملا تھا اور سب بقایا داران کو اطلاع دے دے کہ یا تو اس رمئی تک آپ اپنی اپنی رقوم ادا کر دیں اور اگر مُہلت کی لینا چاہیں تو مہلت لے لیں ورنہ اگر نہ تو آپ نے مہلت لی اور نہ ۳۱ رمئی تک چندہ ادا کیا تو لسٹ میں سے آپ لوگوں کا نام خارج کر دیا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ آپ نے محض جھوٹی کی عزت کے لئے اپنا نام لکھا دیا تھا.آپ کی نیت یہ نہیں تھی کہ قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.ایسے نادہندوں کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے مثنوی رومی میں لکھا ہے کہ کوئی شخص تھا ج جب وہ اپنے دوستوں میں بیٹھتا تو بڑی بڑیں ہانکا کرتا اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے عجیب عجیب باتیں کرتا.اس کی عادت تھی کہ اس نے گھر میں دُنبے کی چکی کی چربی رکھی ہوئی تھی جب باہر آ تا تو تھوڑی سی چربی مونچھوں پر مل لیتا جب لوگ اُس سے پوچھتے کہ یہ آپ کی مونچھوں پر چر بی کیسی لگی ہوئی ہے تو کہتا آج دنے کا پلاؤ کھا کر آیا ہوں.حالانکہ بھوک سے اُس کی آنتیں قل ھو اللہ پڑ رہی ہوتی تھیں.کچھ مدت تو بڑا چر چا رہا کہ فلاں شخص بڑا خوش خور اور اچھی حیثیت کا آدمی ہے.ہر روز ڈنے کا پلاؤ اور مرغن کھانے کھاتا ہے مگر ایک دن وہ اپنے دوستوں میں بیٹھا ہوا بڑیں ہانک رہا تھا کہ اُس کا لڑکا روتا ہوا آیا اور کہنے لگا اتبا وہ چھوٹی سی چربی کی ڈلی جو آپ اپنی مونچھوں پر ملا کرتے تھے چیل اُٹھا کر لے گئی ہے.اس طرح اُس کا سارا تکبر ٹوٹ گیا.یہی حال اُن نادہندوں کا ہے اور اگر وہ وعدہ پورا کر کے یا معافی لے کر حساب صاف نہ کریں گے تو میں ڈرتا ہوں کہ یہی حال اُن کا ہوگا.وہ جھوٹی عزت حاصل کرنے کے لئے تحریک جدید میں شامل ہو گئے ہیں ورنہ دراصل وہ تحریک جدید کی ہتک کرنے والے ہیں اور اُن لوگوں کی صف میں ان کا کھڑا رہنا جو دس سال تک خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے اور چندوں کے علاوہ تحریک جدید کا چندہ بھی ادا کرتے چلے جائیں گے خواہ عارضی
خطبات محمود ۵۹۳ سال ۱۹۳۹ء وہ طور پر ہی کیوں نہ ہو بہت بڑی ہتک کا موجب ہے اور اب ایسے تمام لوگوں کو میں نے نوٹس کی دے دیا ہے کہ اگر وہ ۳۱ مئی تک اپنی واجب الا دار قوم ادا کر دیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ وہ کی تحریک جدید کی مالی فخر بانی میں حصہ لینے والوں میں شامل رہنا چاہتے ہیں اور اگر اُنہوں نے بقائے ادا نہ کئے تو اُن کے متعلق یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس گروہ میں شامل نہیں رہنا چاہتے اور اُنہوں نے محض جھوٹی عزت اور جھوٹے فخر کے لئے نام لکھا دیا تھا.پس وہ اس قابل نہیں کی ہوں گے کہ اُن کا نام عارضی طور پر بھی اس لسٹ میں رہ سکے.ہاں جو لوگ مہلت لینا چاہیں و لے سکتے ہیں.اسی طرح اب جو سال ختم ہوا ہے یعنی تحریک جدید کا پانچواں سال اس کے بقایا داران کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ادائیگی کی فکر کریں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے انہیں کوشش کرنی کی چاہئے کہ وہ ۳۱ / جنوری تک اپنے بقالوں کو صاف کر دیں اور اگر ۳۱ / جنوری تک ادا نہ کر سکتے ہوں تو مزید مہلت لے لیں.غیر ممالک کے لئے آخری میعاد جون تک ہے.گو اس سال باہر کی جماعتوں نے بھی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ ہی اپنے وعدوں کو پورا کی کر دیں جیسا کہ میں نے بتایا تھا ایک دوست نے افریقہ سے بذریعہ تار روپیہ بھجوایا.اس کے بعد ان کا خط آیا کہ میرے پاس روپیہ نہیں تھا مگر میعاد ختم ہو رہی تھی.میں نے بعض دوستوں سے کی ذکر کیا کہ میں اس سال ثواب سے محروم رہا جا رہا ہوں مجھے کچھ قرض دیا جائے تا کہ میں یہ رقم ادا کی کر دوں.چنانچہ ان سے قرض لے کر میں نے تار کے ذریعہ روپیہ بھجوایا تا کہ وقت کے اندر پہنچ سکے.اسی طرح امریکہ کے دوستوں نے بھی چندہ وقت پر ادا کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ ابھی چند دن ہوئے امریکہ کے نومسلموں کی طرف سے پونے چار سو روپیہ کا چیک تحریک جدید کے چندہ کے طور پر آیا جس سے میں سمجھا کہ ان کی کوشش یہی تھی کہ ہندوستان والوں کے لئے چندہ کی جو آخری تاریخ مقرر ہے اُس تاریخ کے اندر اندر ان کا وعدہ بھی پورا ہو جائے.پس کی پانچویں سال کے بقایا داران کو چاہئے کہ وہ ۳۱ / جنوری تک اپنا وعدہ پورا کرنے کی انتہائی کوشش کریں اور اگر وہ مزید مہلت لینا چاہیں تو مزید مہلت لے لیں اور جن کے ذمہ ابھی تک پہلے چار سالوں کا بھی بقایا ہے.دفتر کو چاہئے کہ ان تمام کو رجسٹری چٹھیاں بھجوا کر نوٹس دے
خطبات محمود ۵۹۴ سال ۱۹۳۹ء دے کہ آپ لوگوں کو ۳۱ رمئی تک مہلت دی جاتی ہے.اس عرصہ تک یا تو اپنے چندوں کو پورا کی کریں اور اگر نام کٹوانا چاہیں تو نام کٹوا لیں.اگر اس رمئی تک نہ تو وہ اپنی رقوم کو ادا کریں گے اور نہ دفتر سے مزید مہلت حاصل کریں گے تو ان کے نام رجسٹر میں سے کاٹ دیئے جائیں گے اور سمجھا جائے گا کہ اُنہوں نے صرف جھوٹے فخر اور جھوٹی عزت کو حاصل کرنا چاہا تھا.ان کا منشا اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کرنے کا نہیں تھا.اس کے بعد میں نئے سال کی تحریک کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میں نے پہلے بھی یہ کہا ہوا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو قریب عرصہ میں برسر روزگار ہوئے ہوں یا انہیں کوئی اور کام ملا ہو جس سے وہ روپیہ کمانے لگ گئے ہوں وہ اب بھی تحریک جدید میں شامل ہو سکتے ہیں.اسی طرح وہ جن کی اب پوزیشن بڑھ گئی ہے اور پہلے سے انہیں اللہ تعالیٰ نے زیادہ وسعت عطا فرما دی ہے وہ بھی اگر پہلے شامل نہ تھے تو اب تحریک جدید میں شامل ہو سکتے ہیں اور انہیں چاہئے کہ جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کی وسعت دی ہے تو وہ تحریک جدید کے ثواب سے محروم نہ رہیں.ایک دوست نے سوال کیا ہے اور وہ میرے نزدیک نہایت ہی معقول ہے کہ میں نے تحریک جدید کے پہلے تین سالوں میں اپنی طاقت اور ہمت سے بہت زیادہ حصہ لیا حتی کہ میرے پاس جس قدر اندوختہ تھا وہ میں نے دے دیا مگر اب میری حیثیت ایسی نہیں کہ میں دوسرے سالوں میں بھی پہلے معیار کو قائم رکھ سکوں مگر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں ادنیٰ ہو جاتا ہوں اور وہ جنہوں نے ابتدائے تحریک سے بہت معمولی چندہ دے کر شمولیت اختیار کی تھی اور پھر اُس پر تھوڑا تھوڑا اضافہ کرتے رہے وہ سابقون میں شامل ہو جاتے ہیں.یہ اعتراض میرے نزدیک بہت معقول ہے اور میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے شروع سے چندہ کم لکھوایا اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے پہلے تین سالوں میں بہت زیادہ چندہ لکھوا دیا اور اب ان کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ اپنے معیار کو آئندہ سالوں میں قائم نہیں رکھ سکتے.مثلاً ایک شخص کی پچاس ساٹھ روپیہ تنخواہ ہے وہ پہلے سال میں لکھوا دیتا ہے، دوسرے سال پچپیں، تیسرے سال تھیں اور اسی طرح ہر سال تھوڑا تھوڑا اضافہ کرتا چلا جاتا ہے وہ تو اپنے طریق کو آئندہ بھی جاری رکھ سکتا ہے لیکن بعض ایسے ہیں کہ ان کی تنخواہ تو مثلاً پچاس روپیہ تھی مگر جب اُنہوں نے
خطبات محمود ۵۹۵ سال ۱۹۳۹ء یہ تحریک سنی تو اس سے متاثر ہو کر اُنہوں نے آٹھ دس سال کا اندوختہ جو تین سو روپیہ کے قریب تھا تین سالوں میں بھجوا دیا.پہلے سال مثلاً سو بھجوا دیئے پھر دوسرے سال کو بھجوا دیئے اور جو کچھ باقی رہا وہ تیسرے سال بھجوا دیا اور ان کا اندوختہ سب ختم ہو گیا.اب ان کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ ہر سال سو روپیہ یا اس پر کچھ اضافہ کر کے دیں کیونکہ انہوں نے پہلے جو سو روپیہ ہر سال دیا تھا وہ اپنے جمع کردہ روپیہ میں سے دیا تھا ورنہ ان کی ماہوار آمد ایسی نہ تھی کہ وہ اس بوجھ کو برداشت کر سکتے.اب ایسے لوگ اگر آئندہ سالوں میں ان قواعد کے مطابق جو سابقون کے متعلق ہیں حصہ نہیں سکتے تو وہ سابقون کی لسٹ میں سے نکل جاتے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے کم قربانی کی تھی وہ سابقون کی لسٹ میں آجاتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قر بانی انہوں نے زیادہ کی تھی نہ اُنہوں نے جو شروع سے تھوڑا تھوڑا حصہ لیتے رہے اور پھر اس پر معمولی اضافہ کرتے رہے.میں ایسے لوگوں کے متعلق کوئی تجویز سوچ رہا ہوں.اب بھی میرے علم میں کوئی کی ایسا واقعہ آتا ہے تو میں اس شخص کو سابقون کی لسٹ میں ہی شامل کرانے کی کوشش کرتا ہوں.چنانچہ بعض جگہ ہم ایسے لوگوں کے چندہ کو کئی سالوں میں پھیلا دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی قربانی ان لوگوں سے بہت زیادہ ہے جو تحریک جدید میں معمولی حصہ لے کر سابقون کی فہرست میں آئے ہوئے ہیں.یہ دوست جن کا میں نے ذکر کیا ہے بہت ہی اخلاص سے قربانی کرنے والے ہیں.سال پنجم کا روپیہ وہ جلدی ادا نہیں کر سکے تھے.میعاد ختم ہونے میں ایک دن رہتا تھا کہ انہیں کہیں سے روپیہ دستیاب ہو گیا اُنہوں نے اپنی جماعت کے سیکرٹری کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا ، منی آرڈر بھیجنے کا کوئی وقت نہ تھا وہ اسی وقت گاڑی پر سوار ہو کر قادیان آئے اور اُنہوں نے میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنا چندہ داخل کرا دیا.اب وہ اسی مشکل میں مبتلا ہیں کہ شروع میں ان کی کے پاس جس قدر اندوختہ تھا وہ انہوں نے تحریک جدید میں دے دیا لیکن اب وہ اس معیار کو قائم نہیں رکھ سکتے اُنہوں نے ہی یہ سوال اُٹھایا ہے اور ان کے علاوہ بھی بعض اور دوستوں نے پوچھا ہے جس کا اصل جواب تو یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سابقون کی لسٹ میں شامل ہیں.اگر ہمارے رجسٹر میں وہ سابقون کی لسٹ میں شامل نہیں تو کیا ہوا.یہ ہوسکتا تھا کہ ہم آخر میں
خطبات محمود ۵۹۶ سال ۱۹۳۹ء ہر شخص کی ماہوار آمد کی ساتھ ہی لسٹ دے دیتے.اس طرح یہ بات تاریخی طور پر محفوظ ہو جاتی کی کہ فلاں شخص گو یہ بظاہر اس میعار پر پورا نہیں اُتر ا لیکن حقیقت میں اس کی قربانی اس معیار پر پورا اُترنے والوں سے زیادہ ہے مگر اس تجویز میں بھی مشکلات ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی دوسو روپیہ ماہوار آمد ہے اور پچاس آدمیوں کا بوجھ اُس کے سر پر ہے جن کا گزارہ اسی روپیہ میں سے ہوتا ہے اور ایک اور شخص ہے جس کی گو ۲۵ روپیہ تنخواہ ہے مگر وہ اکیلا ہے اس طرح ممکن ہے دو سو روپیہ والا کم قربانی کرے اور ۲۵ روپے والا زیادہ حالانکہ دوسو روپے والا کم قربانی پر مجبور ہوگا اور اس کی تھوڑی قر بانی بھی زیادہ اہمیت رکھنے والی ہو گی.پس یہ تجویز بھی کوئی ایسی مکمل نہیں.بہر حال میں اس پر مزید غور کر کے اس بارہ میں کوئی فیصلہ کروں گا اور جس حد تک ان کی دلجوئی ہو سکے گی ان کی دلجوئی کرنے کی کوشش کروں گا.* آخر میں میں زمیندار دوستوں کو بھی تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتا ہوں.پچھلے دس پندرہ سال زمینداروں کے گھر خاک اُڑتی رہتی تھی اور شہری آرام میں تھے مگر اب شہری تکلیف میں ہیں اور زمیندار آرام میں ہیں.جنگ کی وجہ سے روز بروز اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں.گجا تو یہ حال تھا کہ سو روپیہ من گندم بکا کرتی تھی اور گجا اب ہوتے ہوتے چار روپیہ من کے قریب پہنچ گئی ہے اور ابھی چار روپیہ من سے بھی زیادہ تیز ہو گی.اسی طرح گنے کی قیمت دگنی ہو گئی ہے، کپاس کا بھاؤ بھی دو گنے کے قریب بڑھ گیا ہے.پس وہ زمیندار جو تر ستے تھے اور کہتے تھے کاش ہمارے پاس روپیہ ہوتا اور ہم تحریک جدید میں حصہ لے سکتے ، اب ان کو بھی خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے انہیں چاہئے کہ وہ ان فراخی کے ایام سے فائدہ اُٹھائیں اور ثواب کا یہ موقع رائیگاں نہ جانے دیں بلکہ اگر ہو سکے تو پچھلی کمی کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں.اگر جنگ نے طول پکڑا اور جیسا کہ حالات سے ظاہر ہو رہا ہے یہ جنگ لمبی چلے گی تو لازماً قیمتیں اس سے بھی زیادہ بڑھ ج خطبہ کو درست کرتے وقت میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ عام قاعدہ اس بارہ میں کوئی نہیں بنایا جاسکا.ہاں جن دوستوں کو یہ مشکل پیش آتی ہو وہ دفتر میں اطلاع کر دیں.ہر ایک کے معاملہ پر الگ الگ غور کر کے جہاں تک ان کی جائز مشکلات میں ان کوملحوظ رکھا جائے گا اور ان کا حق دلانے کی پوری کوشش کی جائے گی.انشاء اللہ.
خطبات محمود ۵۹۷ سال ۱۹۳۹ء جائیں گی.پچھلی دفعہ جنگ میں گندم آٹھ روپیہ مین تک پہنچ گئی تھی اور کپاس ستر روپیہ من تک اور گو یہ بہت زیادہ اندھیر تھا جس کی طرف اُس وقت گورنمنٹ نے توجہ نہ کی مگر اس جنگ میں غالباً گورنمنٹ توجہ کرے گی اور اس قدر قیمتیں بڑھنے نہ دے گی مگر بہر حال جنگ کے دنوں میں اشیاء کا نرخ اچھا خاصہ بڑھ جائے گا اور گوگورنمنٹ نرخ کو گرا کر بھی رکھے تو بھی زمینداروں کو دو گنا سے لے کر سہ گنا تک قیمت مل جایا کرے گی.پس ان کو بھی خدا تعالیٰ نے اب موقع دیا ہے کہ وہ اپنے دل کی حسرت نکالیں اور تحریک جدید میں حصہ لیں.مبارک ہیں وہ جو خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.“ ( الفضل ۲۱ ؍ دسمبر ۱۹۳۹ء) صحيح ابن خزيمة كتاب الصلوة باب ذكر اثقل الصلوة على المنافقين مطبع المكتب الاسلامی بیروت مطبوع ۲۰۰۳ء ال عمران : ۹۸ صحيح بخارى كتاب الخوف باب صلوة الخوف مجمع الزوائد كتاب الصلوة باب صلوة الخوف صحیح مسلم کتاب الصيام باب اجر المفطر في السفراذا تولى العمل ك مصنف ابن ابی شیبة كتاب الصلوة باب في الرجل يتشاغل في الحرب اونحو كيف يصلّى سنن ابن ماجه كتاب الجهاد باب من حسبه العذر تذکرۃ صفحہ ۷۸،۷۷.ایڈیشن چہارم ین: عطا.خیرات.صدقہ.دان
خطبات محمود ۵۹۸ ۳۷ سال ۱۹۳۹ء تمام کمالات انسانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملے اور ان میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے (فرموده ۲۲ / دسمبر ۱۹۳۹ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا جو سوال و جواب غالباً الفضل “ میں شائع ہو چکے ہیں اُس وقت اختصار کے ساتھ میں نے اس سوال کا جواب دے کی دیا تھا.آج جس وقت میں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا تو اذان سنتے ہی میرا ذہن اس سوال اور اس کے ایک اور جواب کی طرف چلا گیا جو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کا دیا ہے اور میں نے سوچا کہ آج اسی سوال کے جواب کو خطبہ کے ذریعہ سے اس روشنی میں جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سند سے حاصل ہوئی ہے بیان کر دوں.یہ سوال غالباً میرے کسی خطبہ کی بناء پر کیا گیا تھا جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے اور سوال یہ تھا کہ آپ بتائیں کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام کے تمام کمالات اس دُنیا میں حاصل نہیں کر چکے تھے ؟ غالباً میرا کوئی مضمون یا خطبہ کسی ایسے موضوع کے متعلق تھا کہ جس سے سائل کو یہ شبہ پیدا ہوا کہ شاید میرے نزد یک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کمالات حاصل نہ تھے.میں نے جو جواب دیا اُس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر تو تمام کمالات سے مراد یہ ہے کہ جو ترقیات کوئی انسان حاصل کر سکتا ہے
خطبات محمود ۵۹۹ سال ۱۹۳۹ء اور جو کمالات انسان کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کئے تو یہ ٹھیک ہے لیکن اگر تمام کمالات اللہ تعالیٰ کی نسبت سے ہیں اور اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ اب یہ معاملہ ختم ہے اور مزید کسی ترقی کی گنجائش نہیں تو یہ غلط ہے.جتنے فضل آپ پر نازل ہوئے ہیں وہ ان سب سے زیادہ ہیں جو آپ سے پہلوں پر ہوئے یا پچھلوں پر ہوں گے اور اگر اس نسبت سے کہا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کمالات حاصل تھے تو یہ ٹھیک ہے.کیونکہ جو کمالات حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوئے ، حضرت نوح علیہ السلام کو حاصل ہوئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حاصل ہوئے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو حاصل ہوئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی حاصل ہوئے.اسی طرح دوسرے ملکوں کے نبیوں کو جن کے نام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے جو کمالات حاصل ہوئے وہ آپ کو بھی حاصل ہیں اور نہ صرف انبیاء کے کمالات بلکہ دوسرے لوگ بھی جن کو کوئی نہ کوئی ایسا کمال حاصل تھا جو کسی نہ کسی کی رنگ میں مذہب پر اثر انداز ہوتا ہے.وہ خواہ آپ سے پہلے ہوئے ہیں یا بعد میں پیدا ہوں گے ان کے سب کمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہیں بلکہ آپ کے بعد آنے والوں کو جو کمال بھی حاصل ہو گا ظنی طور پر حاصل ہو سکے گا.یہ ہمارا عقیدہ ہے اور اگر کوئی اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوئی پر غور ہی کی نہیں کیا لیکن اگر تمام کمالات کے معنے یہ لئے جائیں کہ خدا تعالیٰ کے قُرب کی تمام راہیں اپنی کچ انتہاء تک آپ کو حاصل ہو گئیں اور اب کوئی اور راہ باقی نہیں اور نہ کوئی اور درجہ باقی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہو سکتا ہو تو یہ بالکل غلط بات ہے اور یہ جواب الفاظ میں میری طرف سے ”الفضل میں شائع ہوا تھا.پہلے بھی یہ مضمون میں نے کئی بار بیان کیا ہے لیکن انسان کو جس سے محبت ہو اُس کے متعلق ظاہری شان و شوکت کے الفاظ کے استعمال پر وہ بڑا حریص اور دلیر ہوتا ہے اور مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو محبت ہے اس کے ماتحت وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا لفظ آپ کے متعلق نہ بولا جائے جس سے معلوم ہو کہ آپ کے لئے ابھی کوئی مقام طے کرنا باقی ہے.اس لئے مسلمانوں میں سے جولوگ عارف نہیں ہیں ان کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خطبات محمود ۶۰۰ سال ۱۹۳۹ء نے جومراتب حاصل کئے ہیں ان سے آگے بھی ابھی مدارج باقی ہیں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا کہ کسی ترقی کرنے والی چیز کا کسی مقام پر جا کر رک جانا اس کے تنزل کی دلیل ہو ا کرتی ہے.پھر اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان خواہ کتنی بلند ہو اور آپ سے ہمیں خواہ کتنی محبت ہو اللہ تعالیٰ کی شان بہر حال آپ کی شان سے بہت بالا ہے.خدا تعالی ازلی ابدی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے فیضانوں میں سے ایک بہت بڑا فیضان ہیں اور یہ آپ کی ذات سے دشمنی ہو گی کہ ہم آپ کو کوئی ایسا مقام دے گی دیں جس کے دینے سے خدا تعالیٰ کا مقام چھٹتا ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس شان کو کبھی پسند نہیں کر سکتے بلکہ ایسا خیال کرنے والے کو اپنا بدخواہ سمجھیں گے.آپ کا اپنا عمل اس بات پر شاہد ناطق ہے.آپ نہایت زبر دست قوتوں کے مالک تھے اور آپ کو ایسے ایسے کاموں کی توفیق ملی جو بڑے بڑے قومی انسان بھی نہیں کر سکتے اور جس کے قومی زیادہ مضبوط کی ہوں اسے جان کنی کی تکلیف زیادہ ہو ا کرتی ہے.اس لئے آپ کو یہ تکلیف بہت زیادہ تھی.کی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں پہلے یہ سمجھا کرتی تھی کہ جسے جان کنی کی تکلیف زیادہ ہو وہ اچھا آدمی نہیں ہوتا مگر جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو اپنی رائے بدلنی پڑی.اس انتہائی تکلیف کے وقت بھی آپ کو اللہ تعالیٰ کے مقام کا اتنا خیال تھا کہ آپ چونکہ جانتے تھے کہ میرے اتباع کو مجھ سے اتنا عشق ہے کہ ممکن ہے میرے مرتبہ کے متعلق غلو سے کام لیں اس لئے اس تکلیف کے وقت میں بار بار آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے تھے کہ خدا تعالیٰ یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا آپ بار بار یہی فرماتے تھے لے گویا اپنی قوم کو آخری سبق جو آپ نے دیا وہ یہی تھا کہ مجھے کوئی مشر کا نہ مقام نہ کی دینا اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ خیال مت کرنا کہ میں اس سے خوش ہوں گا بلکہ میری روح ایسا کرنے والوں پر لعنت کرے گی.پس خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوں آپ کی طرف ایسا مقام منسوب کرنا جو اللہ تعالیٰ کے درجہ کی تنقیص کا موجب ہو آپ کے لئے خوشی کا موجب نہیں بلکہ ایسا کرنے والے پر آپ کی لعنت ہوتی ہے اور موت کے وقت کی لعنت تو بہت ہی خطرناک ہوتی ہے.جو لوگ بچے مذہب کے پیرو نہیں مثلاً ہندو وغیرہ قومیں وہ بھی کی
خطبات محمود ۶۰۱ سال ۱۹۳۹ء موت کے وقت کی بد دعا سے بہت ڈرتی ہیں.کسی کے ماں باپ فوت ہو رہے ہوں تو ان کی کی اس وقت کی دُعا یا بددُعا کو بہت اہمیت دی جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کا وہ رسول جو سب پہلے اور پچھلے انبیاء کا سردار ہے اس کے مرنے کے وقت کی بد دعا کو کس قدر اہمیت حاصل ہونی چاہیئے اور لعنت کتنی بڑی لعنت ہے.یا د رکھو اللہ تعالیٰ غیر محدود ہے.باقی سب محدود ہیں.غالباً اسی سلسلہ میں میں نے ایک قصہ بھی سنایا تھا کہ ایک دفعہ جمعہ کے روز ایک شخص مجھے ملنے آیا اور کہا کہ میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں.میں نماز کے بعد مسجد ہی میں بیٹھ گیا.وہ فقیری طرز کا آدمی تھا اور اباحتی طریق رکھتا تھا.ان کا خیال ہے کہ جب انسان خدا کو پالے تو اسے نماز روزہ کی ضرورت نہیں کیونکہ نماز روزہ بطور سواری کے ہیں اور جب کوئی سالک یار کے در پر پہنچ جائے تو پھر اُسے کسی سواری کی کیا ضرورت.اس وقت سوار رہنا تو گستاخی ہے.اسی عقیدہ کو مد نظر رکھ کر اس نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کشتی میں بیٹھ کر دریا کے پار جانا چاہے تو جب وہ دوسرے کنارے پر پہنچ جائے اس وقت بیٹھا رہے یا اُتر جائے ؟ مجھے اس وقت تک معلوم نہ تھا کہ وہ کن خیالات کا آدمی ہے مگر جونہی اس نے سوال کیا اللہ تعالیٰ نے معا میرے دل میں ڈال دیا کہ یہ ابا حتی طریق کا آدمی ہے.یہ سوال سُن کر لازما ہر شخص یہی کہے گا کہ جب کنارہ آ گیا تو کشتی سے اتر جانا چاہئے لیکن اگر میں اُسے یہ جواب دیتا تو وہ کہتا کہ نماز روزہ وغیرہ تو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے ذرائع ہیں جب انسان پہنچ جائے تو پھر ان کا کیا فائدہ؟ مگر اللہ تعالیٰ نے معا میرے دل میں اس کے ارادہ کو ظاہر کر دیا اور میں نے جواب دیا کہ جس دریا کو پار کرنے کے لئے وہ کشتی میں بیٹھا ہے اگر تو وہ محدود ہے تو کنارہ پر پہنچ کر اُتر جانا چاہئے لیکن اگر غیر محدود ہے تو جہاں اس کو خیال ہو کہ کنارہ آ گیا وہ سمجھے یہ میری نظر کا قصور ہے.وہ جہاں اُتر ا و ہیں ڈوبا کیونکہ غیر محدود دریا کا کنارہ آ ہی نہیں سکتا.میں نے کہا آپ جس دریا کا ذکر کر رہے ہیں وہ محدود ہے یا غیر محدود؟ اگر تو غیر محدود ہے تو جہاں یہ خیال کیا کہ کنارہ آ گیا ہے وہیں ڈوبے گا کیونکہ غیر محدود دریا کے متعلق یہ خیال کہ کنارہ آ گیا نفس کا دھوکا ہے.پس ہمارا خدا غیر محدود ہے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترقی خدا تعالیٰ کے مقام کے لحاظ سے دیکھی جائے تو ماننا پڑے گا کہ
خطبات محمود ۶۰۲ سال ۱۹۳۹ء ابھی کنارہ نہیں آیا بلکہ پہلے تو میں نے کہا تھا کہ نہیں آیا مگر اب یہ کہتا ہوں کہ نہیں آ سکتا.اگر دس ارب سال بھی گزر جائیں بلکہ دس ارب x دس ارب سال بھی گزرجائیں اور ایسا سبک رفتار انسان ہو جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تب بھی وہ کنارہ نہیں آ سکتا.آج جب میں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا تو جیسا کہ میرا عام طریق ہے سوائے اس کے کہ ان ایام میں تحریک جدید وغیرہ کی قسم کا کوئی خاص مضمون بیان کرنا ہو کوئی موضوع ذہن میں رکھ کر نہیں آیا کرتا.آج بھی کوئی مضمون میرے ذہن میں نہ تھا مگر جب مؤذن نے اذان کہی اور کی میں نے دُعا پڑھی اور اس میں یہ الفاظ تھے اتِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِيْلَةَ وَ الْفَضِيلَةَ - تو میرا ذہن فوراً اس معترض کے اعتراض اور اس کے جواب کی طرف پھر گیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں آج اسی کے بارہ میں خطبہ بیان کروں.تو سوچنا چاہئے کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت حاصل نہیں.وسیلہ کے معنی قرب کے ہیں اور جب ہم یہ دُعا کرتے ہیں تو کی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اپنا قرب اور بزرگی عطا فرما.اب اگر تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تقرب اور فضیلت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل نہیں تو اسلام کی بنیاد ہی باقی نہیں رہتی اور اگر حاصل ہے تو ایسی دُعا کرنا بیوقوفی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کسی شخص نے قلم تو کان پر رکھا ہو اور تلاش کرتا پھرے کہ کہاں گیا.پس اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو وسیلہ اور فضیلت حاصل ہے تو پھر اس دُعا کے کیا معنے مگر حقیقت یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ آپ کو وسیلہ بھی حاصل ہے اور فضیلت بھی مگر جب اس کا ایک درجہ حاصل ہو جاتا ہے تو دوسرا سامنے آجاتا ہے.ہمارا خدا ایسی شان اور مرتبہ والا ہے کہ جب اس کے دربار میں ایک درجہ حاصل ہوتا ہے تو سینکڑوں اور نظر آنے لگتے ہیں اور آپ نے خود ہر اذان کے بعد مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو مسلمان یہ کہے کہ آپ نے کی سارے مقام طے کر لئے ہیں اُسے یہ دُعا نہیں مانگنی چاہئے کیونکہ کسی چیز کے مل جانے کے بعد اس کے لئے دُعا کرنا فضول ہے.پس جو شخص یہ سمجھے گا کہ آپ کے لئے اب کوئی درجہ باقی نہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم پر عمل کرنے سے بھی محروم رہے گا.آپ کے دُعا سکھانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وسیلہ اور فضیلت کی اتنی راہیں ہیں کہ کبھی ختم
خطبات محمود ۶۰۳ سال ۱۹۳۹ء ہو ہی نہیں سکتیں.اس لئے آپ نے فرمایا کہ مسلمانو! تم خدا تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دُعا مانگتے رہو.اس دُعا نے اس سوال کو جو مجھ پر کیا گیا تھا بڑی اچھی طرح حل کر دیا ہے.بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابراہیمی کمالات حاصل ہوئے ، موسوی اور عیسوی کمالات حاصل ہوئے ، کرشنی کمالات حاصل ہوئے اور آپ تو الگ رہے آپ کے خادموں میں سے ایک خادم نے یہ کہا ہے کہ آنچه داد است هر نبی را جام داد آن جام را مرا بتمام یعنی ہر نبی کو جو پیالہ پلایا گیا ہے وہ مجھے بھی بھر کر پلایا گیا اور جب آپ کے خادموں کو وہ نعمتیں ملیں جو پہلے انبیاء کو دی گئیں اور نہ صرف معمولی طور پر بلکہ لب بہ لب بھرے ہوئے پیالہ کی صورت میں ملیں مگر باوجود اس کے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے قرب کی راہیں اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ختم ہو گئیں.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو جام ملا وہ بھرا ہوا تھا بیشک مرزا صاحب کو بھی وہی جام دیا گیا مگر وہ آدھا تھا.حضرت عیسی علیہ السلام کو جو جام دیا گیا وہ بیشک حضرت مرزا صاحب کو بھی ملا مگر حضرت عیسی کو بھرا ہو املا اور مرزا صاحب کو صرف ایک چوتھائی اور اس سے آپ کا یہ شعر بھی صحیح ثابت ہو گیا.مگر نہیں آپ نے فرمایا ہے کہ ؎ داد آن جام را مرا بتمام یہ تو ممکن ہے کہ عیسوی جام حضرت عیسی علیہ السلام کو کم ملا ہو مگر یہ نہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو کم ملا ہو.آپ کو بھرا ہو ا دیا گیا ہے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادموں کا یہ درجہ ہے تو آپ کے اپنے مقام کی بلندی کا اندازہ بآسانی ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ابھی آپ کے سامنے بھی مدارج کا ایک لامتناہی سلسلہ باقی ہے چنانچہ آپ نے خود یہ دعا مسلمانوں کو کرنے کا حکم دیا کہ اتِ مُحَمَّدَل الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ يعنى اے خدا ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیشک بہت ترقیات حاصل کی ہیں مگر تیرے فضلوں کے مدارج لا متناہی ہیں اور ہمارا دل یہ نہیں چاہتا اور ہماری غیرت برداشت نہیں کرسکتی
خطبات محمود ۶۰۴ سال ۱۹۳۹ء کہ کوئی ایسا مقام بھی ہو جو آپ کو حاصل نہ ہو.اس لئے آپ کو ترقیات کا اگلا مقام بخش.غوری کرو اس سے کتنا غیر متناہی ترقیات کا رستہ کھل جاتا ہے.مجھے اس وقت حدیث کے لفظ اچھی کی طرح یاد تو نہیں مگر مجھ پر یہ اثر ہے کہ ایک حدیث میں بھی اسی قسم کا مضمون آتا ہے کہ مومنوں کو جنت میں بالا مدارج ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آئیں گے اور جب وہ ان کی طرف توجہ کریں گے اور خدا تعالیٰ ان تک ان کو پہنچا دے گا تو پھر اس سے اوپر کے نظر آنے لگیں گے سے کی اس حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں غیر محدود ہیں اور یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب راہیں طے کر لی ہیں.آپ کی عزت نہیں بلکہ ہتک ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی راہیں تو غیر محدود ہیں اگر ہم کہیں گے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ حاصل کر چکے تو اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ آپ کی ترقی رُک گئی ہے اور اس کی عقیدہ میں آپ کی عزت نہیں بلکہ ہتک ہے.ہماری اس کوشش کی مثال وہی ہوگی جو کہتے ہیں کہ کسی ریلوے اسٹیشن پر کوئی فقیر بھیک مانگ رہا تھا.گاڑی میں ایک ڈپٹی صاحب بیٹھے تھے.کسی نے اسے کہا کہ یہ ڈپٹی ہیں ان سے مانگو.ڈپٹی صاحب نے اس کی امید اور توقع سے بہت زیادہ پیسے اسے دے دیئے.اس پر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا ”خدا تینوں تھانیدار کرے، یعنی خدا تعالیٰ تم کو تھانیدار بنادے.حالانکہ یہ کوئی دُعا نہیں بلکہ اس کے لئے بددعا تھی کیونکہ اس کے ما تحت تو کئی تھانیدار تھے.پس یہ کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی بات منسوب کریں جو آپ کو ترقیات سے محروم کر دے.خدا تعالیٰ نے یہ رستہ کھلا رکھا ہے کہ ساری اُمت آپ کی ترقیات کے لئے دُعائیں کرتی رہے کہ یا خدا! ہمارے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اور بلند درجات عطا فرما اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ کو تمام مدارج مل چکے ہیں تو یہ دُعائیں بھی بند ہو جائیں گی کروڑوں مسلمان دُعا کرنا بند کر دیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کو پورا کرنے سے رُک جائیں گے اور دُعا کرنے والا خواہ کتنا حقیر بندہ کیوں نہ ہو خدا تعالیٰ اس کی دُعا سنتا ہے.یہ صحیح ہے کہ حضرت موسیٰ “ حضرت عیسیٰ “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے فضل کئے ہیں مگر ایک حقیر بندہ بھی
خطبات محمود ۶۰۵ سال ۱۹۳۹ء ایسا نہیں کہ وہ اپنے خدا کے حضور کھڑا ہو اور یہ سب مل کر بھی اس کے درمیان آسکیں.چاہے کی کوئی کتنا کمزور انسان ہو جب وہ درد اور سوز کے ساتھ دُعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے ہر گز ضائع نہیں کرے گا اور اگر یہ دُعائیں بند ہو جائیں تو اس طرح وہ تحائف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچتے ہیں بند ہو جائیں گے کیونکہ جب یہ یقین ہو جائے کہ اور مقام کوئی باقی نہیں تو پھر دُعا کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوگی بلکہ درود بھی چھوڑنا پڑے گا کیونکہ یہ بھی تو بلندی درجات کی پر ہی دلالت کرتا ہے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلَّم کے معنے یہ نہیں کہ آپ کو روٹی اور کباب ملیں بلکہ اس سے روحانی برکات ہی مُراد ہیں اور اسی کا نام کمال ہے.تو ایسا عقیدہ رکھنے سے درود شریف کو بھی چھوڑنا پڑے گا اور جب کسی مسلمان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تحائف نہ پہنچیں گے تو وہ بھی آپ کی دُعا سے محروم ہو جائے گا.قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ جب کسی مسلمان کو کوئی تحفہ دیا جائے تو وہ اس سے اچھا نہیں تو ی ویسا ہی تحفہ دے اور جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کے لئے دُعا کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اسے آپ کے پاس پہنچا تا ہے تو آپ دُعا کرتے ہوں گے کہ خدایا! اس بندے کو بھی وسیلہ اور فضلیت عطا فرما.اسی طرح جب درود آپ کی خدمت میں پیش ہوتا ہوگا تو آپ دُعا فرماتے ہوں کے کہ خدایا! اس شخص کے گھر کو بھی برکت سے بھر دے اور ان دُعاؤں کے طفیل انسان ہزاروں آفات سے محفوظ رہتا ہے لیکن جب یہ یقین ہو کہ آپ کے درجات میں ترقی ممکن نہیں تو ہر معقول آدمی دُعا کرنی اور درود پڑھنا چھوڑ دے گا اور اس طرح تمام ان برکتوں سے محروم ہو جائے گا جو آپ کے ذریعہ اسے ملتی تھیں.پس یہ عقیدہ بالکل غلط ہے.حقیقت یہی ہے کہ جتنے کمالات سب انبیاء اور بزرگوں کو ملے ہیں یا بعد میں آنے والوں کو ملیں گے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہیں اور اگر ان معنوں میں کہا جائے کہ آپ کو تمام کمالات حاصل ہیں تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر یہ مطلب ہو کہ اب خدا تعالیٰ کے پاس بھی دینے کے لئے کچھ نہیں رہا تو یہ صیح نہیں اور ہر سُننے والا سُن لے کہ خواہ وہ اس میں بہتک سمجھے یا کچھ اور ، حقیقت یہی ہے کہ ہمارے خدا کے پاس نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینے کے لئے بھی بہت کچھ ہے.اس کے
خطبات محمود ۶۰۶ سال ۱۹۳۹ء 66 خزانے غیر محدود ہیں اور کوئی ان خزانوں کو ختم نہیں کر سکتا.“ (الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۴۰ء) صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما يكره من اتخاذ المساجد عَلَى القُبُور
خطبات محمود ۶۰۷ * ۳۸ سال ۱۹۳۹ء سورۃ فاتحہ روحانی دولت کا نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے میں نے جو کچھ سیکھا اسی سے سیکھا (فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۳۹ء بمقام قادیان) تشہد تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - د بعض معترضین یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ خطبہ جمعہ سے پہلے میں ہر دفعہ سورۃ فاتحہ کی ہی تلاوت کیوں کرتا ہوں اور ان کے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر دفعہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرنے سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے لیکن حق یہ ہے کہ مجھے تو سارے قرآن کریم کی سمجھ ہی اسی سورۃ سے آئی ہے اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسے انکشافات کیا کرتا ہے کہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جو کچھ سیکھا ہے اسی سے سیکھا ہے میں نے اس سورۃ کی تفسیر فرشتہ سے سیکھی تھی جس نے کہا کہ مجھے خدا تعالی نے اس لئے بھیجا ہے کہ آپ کو اس کی تفسیر سمجھاؤں اور میں ہمیشہ سے یہ دعوی کرتا آیا ہوں کہ جس شخص کو میری یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی صداقت میں شبہ ہو وہ میرے سامنے آئے اور سورۃ فاتحہ یا قرآن کریم کے کسی اور حصہ کی تفسیر کرے.یہ سورۃ ایسی ہے جو ہر مضمون اور ہر صداقت کی طرف ہمیں لے جاتی ہے اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم لے کیسی با برکت دُعا ہے کونسا ہنر
خطبات محمود ۶۰۸ سال ۱۹۳۹ء اور کونسا کام ہے جو اس سے باہر رہ سکتا ہے دنیا میں انسان کو ہزاروں کام ایسے کرنے پڑتے ہیں کی جو اس کے دل کی خواہش کے خلاف ہوتے ہیں لیکن جب وہ اللہ تعالی سے یہ دُعا مانگتا ہے کہ کی اهدنا الصراط الْمُسْتَقِيمَ تو اللہ تعالی کوئی نہ کوئی ایسا جوڑ پیدا کر دیتا ہے کہ جس سے اس کی کامیابی کا رستہ کھل جاتا ہے انسان کو خدا تعالیٰ نے پیدا کر کے اس کے ذمہ مختلف کام لگا دئے ہیں.بیوی بچوں کی خبر گیری ہے، ماں باپ کی خدمت، رشتہ داروں سے میل جول، تجارت اور کاروبار کی دیکھ بھال وغیرہ کئی قسم کے مشاغل ہیں.اس کے دل میں اپنی محبت بھی پیدا کی اور پھر اسے مادیات کی طرف لگا دیا اور خود ایسا وراء الوری ہو گیا کہ جہاں انسان پہنچ ہی نہ سکے اب وہ حیران ہے کہ کیا کرے لیکن پھر خود ہی اسے یہ دعا سکھا دی اهدنا الصّراطَ الْمُسْتَقِيم اور جب انسان اللہ تعالی سے یہ دُعا کرتا ہے تو خدا تعالی فرماتا ہے کہ لگاؤ تو ٹیلیفون اس کے دماغ میں اور اس کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں دو چنانچہ جب کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی تکلیف کے وقت میں اللہ تعالیٰ سے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا فرماتے تو فوراً إِنِّى مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ " کے الہام کا ٹیلیفون لگ جا تا تو بندہ دنیا کا کوئی کام کرے اس دُعا سے باہر نہیں ہو سکتا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے تشریف لے گئے جو لوگ ساتھ جا سکتے تھے وہ گئے مگر نا بینا، معذور اور کمزور لوگ گھروں میں رہے اور ساتھ نہ جاسکے وہ اپنے دلوں میں دکھ محسوس کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو میدان جہاد میں ہیں اور ہم گھروں میں بیٹھے ہیں مگر دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی مجاہدین سے فرمایا کہ تم لوگ بے شک میدانِ جہاد میں تکالیف اٹھا رہے ہو لیکن مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جو ثواب میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہیں.انہوں نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کام تو ہم کریں ، تکالیف ہم اٹھائیں اور ثواب ان کو ملے آپ نے فرمایا اپنی معذوری کی وجہ سے شریک نہ ہو سکنے پر ان کے دلوں میں جو تکلیف ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ساتھ ملا دیا ہے.سے تو دیکھو اس دُعا نے کیسا جادو کیا اور کس طرح ان کے لئے بھی ثواب کے رستے کھول دیئے.اب جو میں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا تو مجھے خیال آیا کہ اب نماز کے بعد یہ سب لوگ جو اس وقت کی
خطبات محمود ۶۰۹ سال ۱۹۳۹ء میرے سامنے ہیں اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے اور معلوم نہیں اگلے سال تک کون کون زندہ کی رہتا ہے اور پھر کس کس سے ملاقات کا موقع میسر آتا ہے میری ان سے یا انکی مجھ سے پھر ملاقات ہوتی ہے یا نہیں اور اس خیال نے میرے دل میں ایک گھبراہٹ سی پیدا کر دی مگر پھر معا مجھے خیال آیا کہ گھبراہٹ کی کیا بات ہے اور میں نے اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پڑھا تو مجھے اپنے اس درد کا علاج بھی اسی میں مل گیا اور میں نے خیال کیا کہ اگلا جہان ایک ایسا مرکز ہے جس میں ہم پھر مل سکیں گے غرض کوئی درد نہیں جس کا علاج سورۃ فاتحہ میں نہ ہو اور کوئی علم نہیں جو اس سورۃ میں موجود نہ ہو ا سلئے میں احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس سورۃ پر غور کرنے کی عادت ڈالیں اور اخلاص سے اسے پڑھا کریں اخلاص کی برکت سے آپ کو بھی وہ گر مل جائے گا جو ساری مشکلات کا حل ہے یہ دولت کا خزانہ ہے جہاں سے میں نے بہت کچھ کچ پایا ہے اور یہ خزانہ میں نے آپ کو دکھا دیا ہے اس کی کنجی اللہ تعالیٰ نے مجھے تو دیدی ہے مگر آپ لوگ خود کوشش کریں اور اسے حاصل کریں اور پھر اس خزانہ سے متمع ہوں یہ ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا.آخر میں اللہ تعالی سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ میرے اور آپ کے ساتھ ہو ، میرے غموں کو بھی دور کرے اور آپ کے غموں کو بھی.وہ میرے لئے بھی اور آپ کے لئے بھی خوشیوں کے سامان پیدا کرے اور ایسا کرے کہ ہمارے غم اور ہماری خوشیاں سب اس کے لئے ہوں.“ (الفضل ۱۴ /اکتوبر ۱۹۵۹ء) الفاتحة :۷،۶ ۲ تذکرہ صفحه ۴۶۲ ایڈیشن چهارم صحیح بخاری کتاب المغازى باب نزول النبى صلى الله عليه وسلم الحجر