Khutbat-eMahmud V2

Khutbat-eMahmud V2

خطبات محمود (جلد 2)

خطباتِ عیدالاضحیٰ
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

خطبات مود (خطبات عید الاضحی) فرموده سینا حضرت مرزا بشیرالدین محمد سمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی جلد زیر اهتمام

Page 2

خُطبات عيد الاضح

Page 3

بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِية حمَدُهُ وَنَصَنَى عَلَى رَسُوله الكريم : وَعَلَى عَبْدِهِ السيب پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے حضرت فضل عل المصلح الموعود رضی الہ عنہ کے نہایت ہی نصیف اور پر متعارف خطبات کی دوسری جلد حجاب جماعت کی خدمت میں پیش کرنیکی سعادت نصیب ہو رہی ہے.فالحمد لله على ذالك.پہلی جلد حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے خطبات عبید افتر پشتیں تھی.اس دوسری جلد میں خصت بعید اضحی کا مجموعہ پیش کیا جا رہا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ ان خنبات میں جو حوالہ جات آتے ہیں یا جو تاریخی واقعات اور تعلیمی داد بی نکات بیان کئے گئے ہیں انکے اصلی ماخذہ کی نشان دہی کر دی جائے.اس سلسلہ میں جو حوالے نہیں مل سکے ان کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے تاکہ بعد میں حوالہ مل جانے پر اسے مکمل کر دیا جائے.ان خطبات کے عناوین مندرجہ فہرس تدوین کے وقت مضمون کی مناسبت سے تجویز کئے گئے ہیں تاکہ قاری کین آسانی کے ساتھ استفادہ کر سکیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سال میں مسند خلافت پر نمکین مرنے سے لیکر شاہ تک کے خطبات سلسلہ وار درج کئے گئے ہیں.ایک خطبہ خلافت سے پہلے کا ہے جسے ابتداء میں درج کیا گیا ہے.اس عرصہ میں حضور رضی اللہ عنہ نے جس سال خطبہ نہیں دیا یا اگر دیا ہے اور وہ کسی وجہ سے لفضل میں شائع نہیں جو سکا ، الفضل نے اس کا خلاصہ شائع کر دیا ہے تو اس کا اپنے اپنے مقام پر الگ طور پر ذکر کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اس حقیر کوشش کو اپنے فضلوں سے نوازے.اسے ہمارے لئے دینی و دنیوی برکات کا موجب بنائے اور اس قیمتی خزانے سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین نہ

Page 4

یہ صاف بات ہے کہ جتنا بڑا کوئی انسان بنتا ہے اتنی ہی زیان است است مرتبہ تک پہنچنے کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے قربانی کی.خدا تعالیٰ نے اس قربانی کے بدلے ان کی اولاد کو بے شیر ترقی دکتے.اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہاری اولاد ترقی کرے تو تم بھی اپنی اولاد کو قربان گرو - اس سے ایسی محبت نہ کرو جو تم کو ان کی اصلاح اور علوم کے سکھانے سے باز رکھے اور تم اُن کی نگرانی چھوڑ دو.اگر تمہیں یہ خواہش ہے کہ تمہاری نسن ڑھے اور ترقی کرے تو بجائے ان کے آرام اور آسائش کی فکر کے ان کی رومانی تربیت کرنی چاہیے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولا د ترقی کرے اور آسمان کے ستاروں کی طرح اگنی نہ جاتے تو اس کا ایک ان ذریعہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کو بچنین میں آران آرام طلب، کامل اور سست نہ بنائیں بلکہ ان کے اعمال اور اخلاق کی پوری نگرانی کری(خطبہ عبید الا صفحه فرموده ۱۲ جولائی ) میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ اور اس عید سے سبق سیکھے.اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کو ہمیشہ سکھ حاصل ہوا اور آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ کی عیدیں ختم نہ ہوں تو آپ اپنے بچوں کو قربان کریں اور اُن کو دنیا کی ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ دین اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے کسی تکلیف اور مشقت سے خوف نہ کھائیں گا ( خطبہ عید الاضح فرمودن ۱۲ جولائی ) " نہ نہ نہ نہ نہ نہ نہ نہ نہ

Page 5

فهرست عناوین عناوين خطبات قیامت کے روز اولین و آخرین کے اجتماع میں تاریخ فرموده ار دسمبر ا ور لباس تقوی ہی کام آئے گا.اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اولاد کی قربانی اور اسکی اہمیت اور اکتوبر شاہ عید الفطر اور عید الا صفحے میں کیا تعلیم دی گئی ہے اور اکتوبر 1912ء خدا تعالے کی راہ میں پیش کی جانے والی پیچی قربانی رائیگاں نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی عید الا ضحے سے مشابہت ور اکتوبر ۲۸ ستمبر ۶۱۹۱۷ دین ودنیا کی ترقی قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کمار ستمبر نکلے ر ستمبر ۱۴ ۳۹ ۵۴ 51919 4 قربانی وہی ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کرے عید الا ضحے ایک عظیم الشان قربانی کی یادگار ہے.۲۶ اگست نشاه قربانی کے احکام اور اُن کی حکمت خطبات کی عظمت اُن کی طوالت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس اخلاص کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے سُنانے والا سناتے اور سکنے والا سنے.در اگست ۱۹ ۲۵ جولائی ۱۹۲۳ دینی اغراض کے لئے جو سفر اختیار کیا جاتا ہے، اس کی کامیابی کا انحصار مجاہدہ اور دعاؤں کی قبولیت ہے ہم در جولائی اے دنیا میں دہی قوم زندہ و پائندہ رہ سکتی ہے جو نسلاً بعد نسل اپنی اولاد کی تربیت اور اخلاق کا خیال رکھتی اور اُن میں قربانیوں کی روح پیدا کرتی ہے در جولائی ۱۹۲۵ 1 69 A.ས A 1." ۱۲

Page 6

عناوين خطبات عبید اللہ شیخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یادگار ہے جو اپنے اندر یہ سبق رکھتی ہے کہ تاریخ فرموده صفی قوموں کی ترقی کا رانہ اُن کی قربانیوں میں مضمر ہے ۲۲ جون ۲۱۹ عید کی قربانی میں تربیت اولاد کا سبق عید الا ضحے اس عزم کا اظہار ہے کہ رضائے الہی کے حصول کے لئے جان ومال حتی کہ اولاد تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا عید قربان کلی طور پر خدمت دین میں محو ہو جانے کی یاد گار ہے.جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض اور اس کے حصول کے لئے قربانی کی اہمیت.رجون ۳۰رستی ۱۹۲۰ در متی ۲ اه ار متی دار قربانیوں کی عید یہ سبق دیتی ہے کہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے کبھی ر اپریل ۹ ر اپریل ۹۱ ١١٢ 119 دریغ نہ کیا جائے.اشاعت اسلام اور ابراہیمی سنت پر عمل کرنیکی ضرورت قربانی اور اس کے ثواب کا دارو مدار ہر انسان کے حسن نیت اور خلوص دل پر ہے." خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنا ہی حقیقی عید ہے اسلام کی عالمگیر ترقی کے لئے ہر احمدی مرد کو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ہر احمدی عورت کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلنے کی تعمقین عید الا ضحی تمثیلی رنگ میں ابراہیم زندہ باد" کا نظارہ پیش کرتی ہے.IFA ۲۶ مارچ ۱۶۵ ۱۷ مارچ ر مارچ ۱۷۴ ۱۹۳۵ ١٨٨ ۲۲ فروری ۱۹۶۲ نمبر شمار ۱۵ 14 IA ۲۱ ۲۳

Page 7

ج ว่ عنادين خطبات خدا تعالٰی کی راہ میں قربانی کرنے سے کبھی بجل نہیں کرنا چاہیئے.۲۵ آبا و اجداد کی طرف سے درنہ میں ملنے والی خوشی استحقاق قربانی اور ایشیار ہی کے ذریعہ قائم 3 ۲۸ رہ سکتا ہے.حقیقی عید یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تاریخ فرموده صفحه زار فروری ۹۳ یکم فروری شده ۲۳۳ طرح اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف کر دیا جائے ۲۰ جنوری ۶۱۹ ۲۰ جنوری ۱۹۴۰ ۲۴۴ اگر جماعت احمدیہ اولاد کی ترقی چاہتی ہے تو اسے خدا کی راہ میں قربان کرے.ور جنوری ۶۹۴۷ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی پیشگوئیاں ۲۹ ؍ دسمبر ال ۲۹ اگر جماعت احمدیہ کا ہر فرد اسمائیلی نمونہ بن جائے تو دنیا کی ساری حالتیں مل کر بھی احمدیت کو نہیں i ۳۲ مٹا سکتیں.عید قربان یہ سبق سکھاتی ہے کہ بوقت ضرورت خدا کی راہ میں صرف جانوں ہی کو نہیں، اموال کو بھی قربان کر دیا جائے گا.عبد الاضحیہ غم بھول جانے کا سبق سکھاتی.اس لئے تقسیم ملک کی وجہ سے مبتلائے مصائب مسلمان بھائی تقدیر الہی کو خوشی سے قبول کریں اور مصاب ۲۷ نومبر ر هر نومبر ۲ و آلام کو ہمت و استقلال سے برداشت کریں.۲۶ راکتور را دارد سنت ابراہیمی کے مطابق قومی اور دینی ترقی کے وقف اولاد کی اہمیت.تم از اکتوبر شد ۲۵۷ ۲۶۵ ۲۸۳ ۲۹۵ ۳۰۶

Page 8

ر شمار عناوين خطبات تاریخ فرموده صفحہ ۲۴ ۳۸ ۱۹۴۹ ۲۳ ستمبر ۱۹۵ء جماعت احمدیہ کی حقیقی عید یہ ہے کہ وہ اپنے خدا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ ہونا ثابت کرے اور تبلیغ اسلام کی ایسی روح لے کر اُٹھے کہ اسلام دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائے سم راکتوبر عید الا ضحے اللہ تعالٰی کے اس وعدہ کو یاد دلاتی ہے کہ وہ دین مبین اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا.درود شریف میں میں قربانی کے کرنے کی دعا کی جاتی ہے عید الاضحیہ ہر سال اُسی کی یاد دلانے کے لئے آتی ہے ا ر ستمبر را نماز زکوۃ اور روزے کی طرح حج بھی ایک ضروری فریضہ ہے جس کی ادائیگی کیلئے ہر مسلمان کو اپنے دل میں ایک غیر معمولی جذبہ اور شوق پیدا کرنا چاہیئے.حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانی کوئی قصہ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت اور مشعل راہ ہے جسے ہر سال عید الاضحیہ کے ذریعہ امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.وہی قوم ترقی کرتی ہے جو خدا تعالے کے وعدوں کے پیش نظر دنیا کو قربانی اخلاق اور روحانیت کا درس دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی.یکم ستمبر شد ۱۵ ٣٢ ۳۵۱ ۲۱ اگست ۲۶۴ دار ا گست اهداء اور جولائی مکہ معظمہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے توحید کا جو جھنڈا بلند فرمایا تھا، وہ قیامت تک قائم رہے گا عبید الانجیہ بڑی عظمتوں والی اور بے مثل عید ہے.وار جولائی ۱۹۵۷ء ام عید الاضحیہ یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اسلام کی تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں اور ویران دنیا کو روحانیت سے آباد کر دیں تا ہمیں بھی ہمیلی برکات سے حصہ وافر عطا ہو.۴۲ جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ دین کی راہ میں مسلسل قربانیوں ۳۸۷ ور جولانی شد ۱۳۹۷ کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو قریب سے قریب کر دیں.۲۹ خون نشده (۴۰۵

Page 9

لاضحی فرموده ۱۲ دسمبر شاه بمقام قادیان) اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِهِ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيْنِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ تَعِيْدُه مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدُه وَجَاءَتْ سَكَرَةٌ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ، ذلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَجِيدُه وَنُفِخَ فِي الصُّورِهِ ذَلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِهِ وَ جَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدَهُ لَقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُ كَ الْيَوْمَ حَدِيدَه وَقَالَ قَرِيتُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَبْدُهُ الْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارِ مَنِيْدِهُ مَتَاعِ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ قَرِيبِ الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللهِ إلهَا أَخَرَ فَالْقِيةُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِهِ قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا اطفَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلَلٍ بَعِيدِهِ قَالَ لَا تَخْتَصِمُ وَ الدَى وَ قَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِهِ مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَى وَمَا أَنَا بظلام للعيد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عام طور پر عیدین میں سورہ ق ، سورہ جمعہ سورہ مومنون ، سوره غاشیہ ان سورتوں کو پڑھا کرتے تھے کہیے اس نسبت سے کہ ان سورتوں میں خصوصیت کے ساتھ اجتماع کے واقعے مذکور ہیں.فطرتا ہر شخص اپنے عیوب ظاہری و باطنی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے.بخلاف اس حالت کے کہ جب مکان میں اپنے خلوت میں ہوتا ہے تو بڑی بے تکلفی سے رہتا ہے.کچھ اپنے عیوب اور نقائص کی پرواہ نہیں کرنا.مگر جب مجلسوں میں ہوتا لا عید (یوم النحر کا خطبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھا.جو ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے.د محمد صادق علی اللہ عنہ ایڈیٹر بدکر"

Page 10

ہے تو بڑا محتاط ہرامر میں اپنے آپ کو بناتا ہے ڈرتا ہے کہ مبادا کہیں میرا کوئی نقص کسی پڑنا ہر موجا یہ ایک فطری تقاضا ہے.جو ہر انسان کی طبیعت میں ہوا کرتا ہے.بعض انسانوں کو تخلیہ میں اگر کچھ نصیحت کرو تو وہ اُسے خاموشی سے سنتے ہیں.مگر وہی نصیحت کی باتیں ان کو تب مجلس میں سنائی جاویں تو اس کو برا مناتے ہیں اور سُننا پسند نہیں کرتے.سورۂ ق میں جو ایک خاص غرض ہے اس کو ئیں انشاء اللہ بیان کروں گا.عید کے دنوں میں عام طور پر زیادہ سے زیادہ دو تین لاکھ انسانوں کا مجمع ہوتا ہے.مگر یہ وزقیامت اولین و آخر ین کا اجتماع ہوگا.اور وہاں وجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ کا نظار ہوگا.اور وہاں یہ دیکھا جاوے گا کہ لباس التقونی سے مز تین ہو کر کون آیا ہے.اور اس لباس تقوی پر کس کس کے عیب دار داغ پڑے ہوئے ہیں.اور کس کے نقوی کے کپڑے بے عیب اور میل کچیل سے پاک صاف میں کیا کیسی ذلت کی بات ہے کہ وہاں دوست دشمن خویش و اقارب اور ماں باپ سب حاضر ہوں گے بھیجو کچھ بدی دنیا میں کسی نے یہاں کی ہوگی وہ تمام اولین و آخرین کے سامنے ظاہر ہونے لگے گی.اور متعین قرین بھی شہادت دے گا.کہ هُذَا مَالَدَيَّ عَتِيدٌ پھر وہاں بخشی بھی ہونے لگیں گی مجرم اپنی بریت ظاہر کرنے کے لئے خیلے حوالے کرنے لگے گا اور پر پھینکنا چاہے گا.آگے سے قرین یوں کم کر رد کرے گا.رَبَّنَا مَا طَغَيْتُهُ ولكن كان في خللٍ بَعِيد - پروردگار احکم الحاکمین کی جناب سے یوں فیصلہ ہوگا کہ یہ وقت بحث مباحثات کا نہیں ہے.لا تختص مُوَالدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيد اور ارشاد ہوگا کہ ہم نے پہلے ہی سے نذیر بھیج کہ آج کے دن کی مصیبت سے تم کو آگاہ کر دیا تھا.مَايُبَدِّلُ القَولُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلام للعبید.فیصلہ کرتے ہیں کسی پر فلم نہیں کروں گا.میرے حضور میں چالاکیوں سے جو حق الامر ہے اس میں تبدل و تغیر راہ نہیں پاسکتی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ یوم الجزار اور استماع عظیم کے دن کے لئے لباس التقوی سے مزین ہو کر دنیا سے جاویں اور اپنے پروردگار سے پاک وصاف میں.آمین ثم آمین بقدر داد تا رو براش امت الزام دوسرے سے ۱۷:۵۰ تا ۳۰ ه - جامع ترندی کتاب العيدين باب القراءة في العيدين صحيح مسلم كتاب الصلوة باب القراءة في الجمعة (غالباً سهو كتابت کی وجہ سے سورہ مومنون لکھا گیا ہے.یہ دراصل سورہ منافقون ہے.تمام روایات اسی پر متفق ہیں ، ے.صحیح بخاری کتاب الانبسیار باب يزفون النسلان في المشي.تغیر در منشور جلد ۳ صت زیر آیت لباس التقولى ذلك خير شه بود ۱۰۴:۱۱

Page 11

ز بمقامه فرموده ۳۱ اکتو بریتشان باد میدان دارالعلوم قادیان میدان ياتها الذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السَّلْمِ كَا فَهُ، وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُو مينه آج کا دن مہربانی کا دن کہلاتا ہے گیا مسلمانوں میں بہت قربانیاں کی جاتی ہیں لاکھوں لاکھ بکرے اور ہزاروں ہزار اونٹ اور گائیں خدا کے نام پر ذبح کی جاتی ہیں.قربانی کیا ہے اور اس کے کہ نیکی کیا ضرورت ہے ؟ اس سوال کا جواب قربانی کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اللہ تعالے کا قرب حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے.اور اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے.دنیا میں بہت سی قربانیاں ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہوتی ہیں.بعض اپنے بتوں کے لئے بعض اپنے دیوی دیوتاؤں کے لئے اور بعض اپنے نبیوں کے لئے قربانیاں کرتے حتی کہ بیٹیوں کو بھی ذبح کر دیتے تھے.حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا کو بتایا کہ بہتوں ، دیوی دیوتاؤں اور نبیوں کے لئے قربانی کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اگر تم اپنے بیٹوں کی قربانی کرنا چاہتے ہو تو ہم تمھیں بتاتے ہیں کہ اس طرح کرنی چاہیئے.دیکھو ایک بیٹے کی قربانی ہم نے ابراہیم سے کروائی.رویا میں قربانی کا نظارہ اس کو دکھایا کہ بیٹے کو ذبح کر دیے اس رنگ میں ہم نے اس کو بتایا کہ بیٹے کی قربانی یہ ہوتی ہے کہ اس کو ایسی تعلیم دی جائے کہ دین کے لئے وہ اپنے آپ کو قربان کر سکے.اور ساری زندگی دین کے لئے وقف کر دئے.چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو وادی غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم کے ماتحت چھوڑ آئے جہاں نہ پانی تھانہ کھانا نہ کوئی ساتھی تھا اور نہ مدد گار.اور یہی اُن کے بیٹے کی قربانی تھی جو انہوں نے کردی ہے اور یہ بہت بڑی قربانی تھی.اپنے ہاتھ سے بیٹے کو ذبح کر دینا آسان ہے لیکن ایک ایران دسنسان جنگل میں بغیر کسی معین و مددگار اور بغیر کسی دانہ پانی کے چھوڑ آنا بہت مشکل ہے.کیونکہ ذبح کرنے والا سمجھتا ہے کہ ایک دم میں جان نکل جائے گی اور پھر کوئی تکلیف نہ رہے گی مگر جنگل میں اس طرح چھوڑ آنے کا بظاہر میطلب ہے کہ تڑپ تڑپ کر کسی وقت جان نکلے اور ایڑیاں رگڑہ رگریا کر جان دے لیکن خدا تعالے کا اسی طرح حکم تھا اور اس نے بتا دیا تھا کہ جو میرے حکم کے مانخت الفضل کی رپورٹ کے مطابق نماز عید مسجد نور میں ادا کی گئی.(مرتب)

Page 12

اپنی اولاد کی قربانی کرتے ہیں ان کی اولاد دنیا میں کبھی ضائع نہیں ہو سکتی.مس آج تم دیکھ لو کہ ملکوں کے ملک آباد ہیں.اور ہزار ہا ایسی قومیں ہیں جو اپنے آپ کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولا دیتا تی ہیں.تو خدا تعالے لئے اولاد کو اپنی راہ میں قربان کرنے کا طریقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا.اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ لوگ بے وقوف اور کم عقل ہیں ، جو چھری سے اپنے بیٹوں کو ذنبج کر کے خدا کی راہ میں قربانی دیتے ہیں.یہ ان کی قربانی کسی کام کی نہیں ہوتی اور نہ اس کا کوئی نتیجہ ان کے لئے مرتب ہوتا ہے.اصل قربانی اپنی اولاد کو خدا کی راہ میں وقف کر دینا ہوتی ہے.اور یہ ایک بیچ کی طرح ہوتی ہے جس سے آگے لاکھوں دانے پیدا ہوتے ہیں.اور کبھی ایسی قربانی ضائع نہیں ہوتی.آج مکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ کرنے کے لئے ہزار ہا قربانیاں ہو رہی ہیں اور وہی یاد گار قائم کی جارہی ہے شہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال کو دیکھو وہ کس طرح اس جنگل میں اپنے بیٹے کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور خدا نے جنگل سے ہی اس کے لئے پانی اور دانہ مہیا کر دیا.یہ بڑا دردناک واقعہ ہے.حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ کو بمعہ ان کے بچے کے اس جنگل میں چھوڑ چلے تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں یہاں کس کے بھروسہ پر چھوڑ چلے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ کھانا ، نہ کوئی ساتھی ہے اور نہ مددگارہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں تم کو خدا پر چھوڑ چلا ہوں.انہوں نے کہا.بس جاؤ.اب ہمیں کسی کی پر واہ نہیں.ہمارے لئے ہمارا خدا کافی ہے.جب وہ مشکیزہ پانی کا جو حضرت ابدہ الہیم علیہ السلام ان کے لئے چھوڑ گئے تھے ختم ہو گیا اور اہم کھیل پیاس کی وجہ سے رونے لگا.اور وہاں ارد گر دہانی چھوڑ کہیں سبزہ بھی نہ تھا تو اس وقت حضرت ہاجرہ گھبرائیں اور بچے کو بلبلاتا ہوا ان سے نہ دیکھا گیا تو ادھر اُدھر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگیں.لیکن وہاں پانی کہاں مل سکتا تھا.خالی ہاتھ واپس بچے کے پاس آئیں.مگر بچہ کی شکل دیکھ کر پھر گھبراگئیں.اور بچے کے اضطراب اور مطلبلاہٹ کو نہ دیکھ سکیں پھر دوڑنے لگیں.آخر کار ایک فرشتہ کے ذریعہ انہیں معلوم ہوا کہ ایک چشمہ پھوٹا ہے.وہ اس جگہ آئیں اور اس چشمہ کو پایا.جس کو آب زمزم کہا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر ہاجرہ اس چشمہ کو روک نہ دیتیں تو یہ دور دور تک پھیل جاتا ہے تو یہ ایک قربانی تھی آج بھی قربانیاں کی جائیں گی.لیکن ان قربانیوں کے کرنے والوں کو خیال کرنا چاہیئے کہ یہ قربانیاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے کیا نسبت رکھتی ہیں ان کی تو یہ قربانی منفی کہ خدا تعالٰی نے غالبا یہاں کچھ الفاظ رہ گئے ہیں حضور رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مشاء یہ ہے کہ میں تمہیں خدا کے تہار چھوڑ چلا ہوں (مرتب)

Page 13

حکم دیا کہ اپنے بچے اور اس کی ماں کو جنگل میں چھوڑ آؤ.حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں پوچھتے.کہ ان کے کھانے، ان کے پینے کا وہاں کیا بندوبست ہوگا.جنگل کے درندے تو انہیں نہیں کھا جائینگے یہ کہاں رہیں گے اور کون ان کا خبر گیراں ہو گا.وہ بلا کسی سوال اور عذر معذرت کے قبت اُن کو نیکل میں چھوڑ کر واپس آجاتے ہیں تو یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی اور ایسی ہی قربانی اللہ تعالئے بڑا ایک مسلمان سے چاہتا ہے.یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ جس چیز سے محبت ہوتی ہے اس کے لئے انسان سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے.اس وقت ہی دیکھ لو.دنیا میں ایک قربانی ہو رہی ہے کوئی اپنے وطن کے لئے ، کوئی اپنی تجارت کے لئے، کوئی اپنی عورت کے لئے، کوئی اپنی آبرو کے لئے، اور کوئی اپنے احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں اور آج دنیا میں ایک نہایت خطرناک جنگ ہو رہی ہے یہ اور بکروں اور دنبوں کی طرح انسان قتل ہو رہے ہیں اور خون کی ندیاں پانی کی طرح بہہ رہی ہیں.ایک دن میں لاکھ لاکھ اور دو دو لاکھ انسان ہلاک ہو رہے ہیں.لیکن مرنے والوں کی جگہ دوسرے بڑی خوشی سے لیتے اور لڑتے ہیں.ایک مردہ ہو کر کرتا ہے تو دوسرا خوشی سے اس کی جگہ کھڑا ہو جاتا ہے.اور ایسے خاندان بھی ہیں جن کے اگر آٹھے جوان تجھے تو آٹھوں ، اگر چار تھے تو چاروں جنگ میں شریک ہیں معینی ساری کی ساری اولاد لڑ رہی ہے.کیا تمھیں معلوم نہیں کہ یہ کیوں اس طرح کر رہے ہیں.یہ اپنی آبرو.اپنے وطن اپنی تجارت اپنی عزت اور اپنے اموال کے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں.اور کچھ لوگ احسان کی خاطر جو کہ اُن پر کیا گیا اپنی جانیں دے رہے ہیں.ایک کہتے ہیں کہ ہم جرمن ہیں ہم کسی سے نہیں ہار سکتے.ایک کہتے ہیں ہم فرانسیسی ہیں.ہم فرانس کی خاطر اپنی ہستی مٹادیں گے اور جیتے جی اس پر کسی کو قابض نہ ہونے دیں گے.ایک کہتے ہیں ہم برطانوی ہیں ہم کبھی کسی کے ماتحت نہیں رہے اور نہ رہ سکتے ہیں.ایک بلجیم کے رہنے والے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم معاہد کے خلاف نہیں کریں گے تو یہ لوگ ان باتوں کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں کر رہے ہیں.پھر کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک مسلمان خدا کے لئے کوئی قربانی نہ کرے.یہ قوت ، آبرو وطن اور مال کے لئے پانی کی طرح خون بہاتے اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم اپنے وقار کے لئے لڑ رہے ہیں.حالانکہ ان کی غرض محض دنیا ہی دنیا تک محدود ہے اور دین کی قطعا کوئی بات ان کے مد نظر نہیں.لیکن خدا تعالے ایک مسلمان سے اس لئے قربانی چاہتا ہے کہ وہ اس کا خالق اور رازق ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم ایسے مسلمان ہیں جو خدا کے لئے قربانی کرتے ہیں.

Page 14

خدا کے لئے قربانی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو یقین نہیں ہوتا کہ ہمارا کوئی رب ہے جو خالق اور رازق ہے.اور وہ دنیا کی حکومتوں کو خالق اور رازق سمجھتے ہیں اس لئے ان کے لئے تو جان دیتے ہیں لیکن خدا کے لئے کچھ نہیں کرتے.قربانی اللہ تعالے کے قرب کا ذریعہ ہے یہ اس لئے اللہ تعالے چاہتا ہے کہ میرے بندے کچھ کر کے دکھا ئیں تب میں انہیں اپنا مقرب بناؤں.جو شخص اللہ کے لئے اپنے نفس کو قربان نہیں کرتا.وہ اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں خدا کی محبت ہے تو وہ جھوٹا ہے اس کو نہ خدا سے کوئی محبت ہے اور نہ کوئی تعلق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اسے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر سلمان جو جاؤ اور اسلام کی تابعداری کا جوا اپنی گردنوں پر رکھ لو.یا اسے مسلما نو ! تم ساری فرمانبرداری کی راہیں پوری کرو.اور کوئی بھی فرمانبرداری کی راہ نہ چھوڑو.یہ قربانی ہے جو اللہ تعالے ہر ایک مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوؤں.تمام خواہشوں ، تمام اُمنگوں اور تمام امیدوں کو خدا کے لئے قربان کر دے اور اس طرح نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ کرے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے یعنی اس طرح کہ اگر شریعیت اس کو کچھ حق دلاتی ہو تو کہے کہ میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہیئے.لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے تو کہے کہ قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہئے.قانون کچھے نہیں دلواتا.اس لئے لیکن بھی کچھ نہیں دیتا.ابھی ایک معاملہ ہوا ہے.ایک شخص سے جب ایک چیز مانگی گئی تو اس نے کہا میں بے خبر نہیں بیٹھا رہا.میں نے نے خوب اچھی طرح دریافت کر لیا ہے کہ قانونا میں اس چیز کا مالک ہوں.چونکہ شریعت کی روسے اسے اس چیز کے رکھنے کا کوئی حتی نہیں اس لئے وہ قانون کی آڑ لے کر بیچنا چاہتا ہے اور یہ نفس پرستی ہے کیونکہ وہ نفس کی خاطر دین اور ایمان کو بیچتا ہے اور قانون کی پناہ لیتی چاہتا ہے.قانون کی هستی ہی کیا ہے ؟ یہ تو صرف انسانی عمر تک نہی ہوتا ہے.لیکن خدا کا قانون عینی شریعت ابدال آباد تک کے لئے ہے جو کوئی ظلم سے دوسرے کا حق لیتا ہے اور خواہ اس کے لئے کوئی وجہ تراشتا ہے وہ کبھی خدا تعالے کی عقوبت سے نہیں بچ سکتا.اور ایسا شخص هرگز ایماندار نہیں ہے کیونکہ وہ خدا کے لئے قربانی نہیں کرتا.ہر ایک مسلمان کے دل میں کسی معاملہ کے تصفیہ کے وقت جو سب سے پہلے خیال پیدا ہونا چاہیے وہ یہ ہونا چاہیئے کہ شریعیت کیا کہتی ہے اور مجھے کسی چیز کا حقدار قرار دیتی ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں دیتی تو قانون اگر دلوائے تو بھی نہیں لینی چاہیئے.کیونکہ خدا کے نزدیک یہ لینا جائز نہیں.مومن کو تو ایسا ہونا چاہیے کہ اگر قانون نہ بھی دلوائے اور شریعت دلوائے تو فورا دے دینا چاہیئے.جس میں یہ مادہ نہیں وہ مسلمان ہی نہیں.مومنوں کو فرمانبرداری کا ہر ایک پہلوا اور ہر ایک رنگ.زیر نظر رکھنا چاہیے.

Page 15

الہ تعالے اس آیت میں فرماتا ہے کہ تم شیطان کے پیچھے نہ چلنا ، کیونکہ وہ تمہارا دشمن ہے.یہ کیا ہی لطیف بات بیان فرمائی ہے.قربانی کرنے والا اس لئے قربانی کرتا ہے کہ بڑی چیز مال ہو.ایک طالب علم وقت کی قربانی اس لئے کرتا ہے.کہ بی.اے اور ایم.اے ہو کر گورنمنٹ سے کوئی چھا عمدہ ہے.تمام دنیا کے مذاہب قربانی کرنا تو سکھاتے ہیں لیکن ان کی قربانیاں کرنے والے کسی نیک تیجہ پر نہیں پہنچ سکتے.اسلام حکم دیتا ہے کہ تمہیں شیطان جسں قربانی کا حکم دیتا ہے اُسکومت قبول کرو.وہ مہارا دشمن ہے اس سے یہ نتیجہ ملا کہ خداتعالی فرماتا ہے کہ ہم تم سے جو قربانی چاہتے ہیں، دور جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں اس کا نتیجہ ضرور نیک نکلتا ہے.یہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق ہے کہ اور مذہب انسان سے قربانی کروا کر یعنی کچھ ترک کروا کر دیتے کچھ نہیں.لیکن اسلامی ایسی قربانی کرواتا ہے کہ انسان کا اس میں نفع ہی نفع ہے.اسی لئے خدا تعالئے فرماتا ہے کہ ہم جو تمہیں حکم دیتے ہیں ان کو پورے طور پر بجالا ڈر کیونکہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے.تو یہ کس قدر بیحیائی کی بات ہے کہ انسان اپنے افعال، اموالی، خیالات اور ارادوں کو ترک کر کے خدا تعالیٰ کا حکم قبول نہ کرے.خدا تعالیٰ تم سب کو سچی قربانی کرنے کی توفیق دے.و الفضل سور نومبر ۹ منت - البقره ۲۰۹:۲ ہے.یوم النحر يوم الاضحی صحیح بخاری کتاب العيدين باب الا كل يوم النحر ت - الصفت ۳۷ : ۱۰۳ ماه - الصفت ۳۷ : ۱۰۸ - ابراهیم ۱۴: ۳۸ - انوار انبیاء من مطبوعہ لاہور سشوار - الحج ۲۲ : ۲۷ تا ۲۹ - الصفت ۰۸:۳۷ این کتاب الاضاحی اب تو اب الله صحیح بخاری کتاب الانبياء باب يزفون الفلان في المشي پہلی جنگ عظیم کی طرف اشارہ ہے جو سواء سے عشاء تک لڑی گئی جس میں ایک کروڑ فوجی اور اتنے ہی شہری ہلاک.دو کروڑ زخمی اور اتنے ہی لوگ تخط اور مختلف وباؤں کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے.را انسائیکلوپیڈیا برٹنی کا زیر لفظ WAR ایڈیشن وائی سوسو شد روحانی خزائن جلد ۱۶ (خطبہ الہامیہ ص۳۳

Page 16

ر فرموده ۱۲۰ اکتو برشاشاده بمقام عیدگاه - قادیان) رَبَّنَا اثْنَا سَمِعْنَا مُنَا دِيَاتِنَا دِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا ربَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِة ربَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخَلِفُ الْمَيْعَادَه فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ آتِي لَا يُضِيعُ عَمَل عَامِلٍ منكم مِّنْ ذِكْرِ او انثى بَعْضُكُم مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَتَلُوا وَقتِلُو الأَكَفَرَنَ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَلَا دَخِلَنَّهُمْ يَنْتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ، ثَوَابًا مِنْ عِندِ اللهِ وَ اللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ انسان کی پیدائش کی غرض اور اس کے پیدا کرنے کا مقصد اللہ تعالے نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے یہ کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ ا نہیں پیدا کیا میں نے جن وانس کو مگر اس لئے کہ وہ میری جناب میں معبودیت اختیار کریں ، میں عبد بنا اور خدا تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کے حضور میں تذلل ، یہ انسان کی پیدائش کا مقصد ہے.دوسری چیزیں خدا تعالے کی اطاعت و فرمانبرداری کرتی ہیں.بلکہ بہت انسان تو خدا کے حکم کو توڑتے بھی ہیں مگر یہ اشیاء حکم کو ہرگز نہیں تو ڑ میں.پھر اس بات کے فرمانے کے کیا معنے ہوئے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ جسے عبادت کے لئے پیدا کیا وہ تو نا فرمانی کرتا ہے اور جس کی پیدائش کی یہ غرض بیان نہیں فرمائی وہ نا فرمانی و خلاف ورزی نہیں کرتی.یہ کیا بات ہے.اس کے لئے یا درکھنا چاہئیے کہ عبادت کے معنے ہیں تذکل اختیار کرنا خشوع تاہم اپنی تمام محبت، اپنا تمام پیار، تمام تعلق خدا ہی کے لئے کر دیا.سب چیزوں کو چھوڑ کر سب تعلقات کو قطع کر کے.تمام برائی اور تجبر کے خیالات کو علیحدہ کر کے خدا کے حضور جھک جانا ہیں اور محبت و پیار کا اعلیٰ سے اعلی درجہ حاصل کرنا.یہ بات ہم دیکھتے ہیں اور کسی چیز میں نہیں پائی جا سکتی.کیونکہ یہ تو اسی ہستی میں ہو سکتی ہے جو کچھ قدرت رکھتی ہو جس کے اندر یہ جس ہی نہیں پڑدہ ہی نہیں.یہ طاقت ہی نہیں کہ دو چیزوں میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسری کو اختیار کرے اور

Page 17

خدا تعالے کے لئے تذکل اختیار کر سکے.اس سے ایسا مطالبہ ہی بیجا ہے.یہ تو صرف انسان ہی میں قدرت ہے.پس حقیقی معنوں میں عابد انسان ہی بن سکتا ہے یہ مرتبہ تو ملائکہ بھی نہیں حاصیل کر سکتے.اس لئے انسان ہی کی پیدائش کی غرض یہ ہوئی کہ خدا کا عہد بنے اور اپنی تمام خوا مہتا تمام ارادوں کو ترک کر کے خدا کے حضور جھک جائے.پھر انسان کو اس راہ میں کامیاب کرنے کے لئے اور اس کا درجہ بڑھانے کے واسطے کچھ ایکی ششیں بھی رکھیں جو عبادت کے خلاف اس کو کھینچیں.لیکن ساتھ ہی اپنی طرف سے پکارنے والے بھی بھیجتا ہے جو انسان کا قدم صراط مستقیم سے پھیلنے نہ دیں اور پھر چونکہ ایسے لوگ ایک خاص مدت کے بعد آتے ہیں اس لئے خود انسان کے اندر ایسی طاقتیں نیکی کی رکھی ہیں جوان مورتا بدی پر غالب آسکیں یا کم از کم نیکی اور بدی میں تمیز کر سکیں.یہ آیت جو میں نے اس وقت پڑھی ہے اس میں ایسے منادوں کا ذکر ہے جو خدا کی طرف سے انسان کو اس کی پیدائش کی غرض پر متوجہ و قائم کرنے کے لئے آتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ انہی ! ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی.وہ آواز کیا تھی.تجارت یا مال اسباب کی طرف بلانے کے لئے نہ تھی بلکہ وہ ایک پاک عناد کی آواز تھی جو یہ پکارتا تھا کہ انسا نو اتر مان تو کس کو مان لو ؟ امِنُوا بِرَبِّكُم تم اس خدا کو مان لوجس نے پیدا کیا اور ا د نے حالت سے بڑھا کہ بڑے درجے تک ترقی دی.اس کے احکام کو قبول کرو.ہم نے اس کی بات کو قبول کر لیا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا الہی ہم نے مان لیا.مگر تیرے احکام پر چلنا بڑا بھاری کام ہے پہلے بھی بہت غلطیاں کر چکے ہیں آگے بھی لغزشوں سے از خود محفوظ نہیں رہ سکتے اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ حضور رت ہیں چھوٹے سے بڑے کو ترقی دینا آپ کا کام ہے.پس ہمارے ایمان کو بڑھا دیجئے.گناہ معاف ہوں.وَكَفَرَ عَنَّا سَاتِنَا.روکیں مٹ جائیں بلکہ بدلیوں کو مٹا ہی دیں.سزا سے بچائیں.وَتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِ - نیکوں میں شامل کر کے وفات دیں.ربنا وَاتِنَا هَا وَ عَدتَنَا عَلَى رُسُلِكَ - اپنے رسولوں سے تو نے جو وعدے کئے تھے ، وہ وعدے پورے کر دے.وَلَا تُخزِنَا يَوْمَ القِيمة اور ہمارے اعمال کو اپنے احکام کے ایسا ماتحت کر دے کہ قیامت تک دکھ اور تکلیف نہ پہنچے تیرے حضور شرمندہ نہ ہوں سزا کے مستوجب نہ نہیں.به آواز ہے جو منادی دیتے ہیں اور جو اس منار کے قبول کرنے والے کہتے ہیں اور دنیا کے لئے سب سے بڑی عید کا دن تو یہی ہوتا ہے کہ ان میں کوئی آیات اللہ پڑھنے والا، انہیں خدا سے نصرت کی بشارت دینے والا ہو.انہیں ان کے محبوب و معبود سے ملانے والا ہو.اس سے بڑھ کر کوئی خوشی کا دن نہیں ہو سکتا.

Page 18

دیکھو مجمع میں کسی کا بچہ گم ہو جائے.اور پھر ایک دو گھنٹہ کے بعد جب وہ بچہ اپنے باپ سے ملتا ہے تو بچہ کو اور باپ کو کس قدر خوشی ہوتی ہے.اسی طرح خدا تعالے سے بھیڑ کا جوا بندہ تب خدا سے ملتا ہے اور خدا کے حضور پہنچتا ہے تو بندے کو بھی خوشی ہوتی ہے اور اللہ تعالے بھی رضی ہوتات نپس حقیقی عید اگر ہے تو نہی ہے اور یہ عید تو اس عید کی طرف راہنما ہے بعید بھی تھے.میں اور وطن میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے.ایک شخص جنگل میں ہو.چاروں طرف درندے ہوں ڈاکو ہوں.جان خطرے میں ہو.اسے عید کی کیا خوشی ہو سکتی ہے.عید تو اس کی ہے جو گھر میں ہو.رشتہ داروں میں ہو.احباب میں ہو.خطرات سے مامون ہو.اسی طرح جو انسان خدا کی راہ سے بھڑکا ہوا ہے.ضلالت کے جنگل میں مارا مارا پھر رہا ہے اس کی حقیقی عید کیا ہو سکتی ہے.بعید تو خوشی کا نام ہے اور خوشی دل کے اطمینان، دل کی راحت سے پیدا ہوتی ہے.تمام محبتوں کا مرکز تو اللہ تعالے ہے.اسی سے کامل محبت چاہیئے اور اسی سے محبت ہو سکتی ہے.پس خوشی بھی اسی کو حاصل ہوگی اور حقیقی عید بھی اسی کی ہوگی جو اپنے مولیٰ کے حضور پہنچا ہو گا کیونکہ تمام قسم کی راحتوں، خوشیوں بعیدوں کا سر شیعہ تو وہی پاک ذات ہے.اسی حالت کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی عیدیں آجکل ما تم بن گئی ہیں.عید آئی اور ان کے گھروں میں جھگڑا شروع ہوا بیری زیوار کے لئے.بچے کپڑوں کے لئے چلا رہے ہیں.کھانے کا سامان نہیں سو الگ.پھر مفروض ہو کہ تمام سال دُکھ میں گزارتے ہیں.یہغیر یں اس لئے نہ تھیں بلکہ یہ عیدیں تو اپنے اندر ایک اور ہی حقیقت رکھتی تھیں جس سے آجکل کے مسلمان بالعموم فاضل ہیں.ماہ صیام کی عید میں تو یہ بتایا کہ انسان کو اس وقت کے لئے تیار رہنا چاہیئے جب اس کے مولی کی طرف سے مناد آئے.وہ کھانے پینے ، بیوی بچوں کے اشتغال سے وقت نکال کر اس کے انصار میں داخل ہو سکے.جیسا کہ وہ ماہ رمضان نہیں یہ مشق کرتا رہا ہے.اور عید قربان میں سکھایا کہ نہ صرف بیرونی انعامات سے بلکہ اندرونی انعامات سے بھی اگر علیحدگی اختیار کرنی پڑے اور اپنی جان قربان کرنی پڑے تو بھی دریغ نہ ہو.جب یہ حالت تم میں پیدا ہوگی تو پھر تمہاری عید ہی عید ہے.خدا کے نبی آکر یہی عہد لیتے ہیں اور سعادت مند یہ اقرار کرتے ہیں فَاسْتَجَابَ لَهُمْ ربكم.اور ان کا مولے اسے شرف قبولیت بخشتا ہے.چونکہ بندوں نے ایک عہد کیا.اس لئے خدا بھی اس کے مقابل پر جزائے خیر دنیا ہے.اور ارشاد فرماتا ہے.آت لا أضِيعُ عَمَل عامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى - میں کسی کام کرنے والے کا کام ضائع نہیں کرتا.مرد ہو یا عورت.حیرت آتی ہے کہ بعض پور میں مصنفین نے لکھا ہے ہے کہ اسلام تو عورتوں میں روح

Page 19

ہی نہیں مانتا.حالانکہ یہ آیت ایسی آیت ہے کہ میں نے کسی اور کتاب آسمانی میں اس مضمون کی آیت نہیں دیکھی.جس زور کے ساتھ عورتوں کے حقوق اسلام نے قائم کئے ہیں اور ان کے اعمال کی قبولیت اور انعامات کا ذکر کیا ہے کسی مذہب کی کتاب میں ایسا ذکر نہیں.پھر قرآن مجید تو جو کتنا ہے اس کی دلیل بھی دیتا ہے.چنانچہ یہاں فرمایا.مرد و عورت کو عمل کی جزا یکساں کیوں ملے گی.بعضُكُم مِّن بَعْضٍ - تم ایک ہی ہو.فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ فرمایا جنہوں نے چھوڑ دیا.کیا چھوڑ دیا ؟ مال چھوڑ دیے.مینمیات سے رک گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے.طرح طرح کے دکھ دیئے گئے.اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی.ایسے لوگوں کی نسبت فرمایا لأحمرنَ عَنْهُمْ سَاتِهِمْ وَلَا دَخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْفُرُ ميران تمام بدیوں کو ڈھانک دُوں گا.اور پھر وہ ایسی جگہوں میں پہنچائے جائیں گے جہاں دُکھ اور تکلیف نہ ہوگی اور جہاں انعام کا سلسلہ جاری رہے گا.جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَرُ میں ہی دونوں باتیں بتائیں.جنت کہتے ہیں سایہ دار جگہوں کو جہان تکلیف اور دکھ نہیں ہوتا.پھر ان کے نیچے نہروں کا سلسلہ بتا کر سمجھایا کہ وہ جنت سرسبز و شاداب رہیں گے.پس اس دنیا میں بھی مومنوں کو جو انعامات ملیں گے وہ جاری رہیں گے.سب سے کامل مومن تو نبی ہوتا ہے.اور نبیوں کے سردار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ہم دیکھتے ہیں اس کامل انسان سے زندہ کامل رنگ میں پورا ہوا.آپ نے ایسی ہجرت کی کہ سی اور نے نہیں کی.اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کیا تو ایسا کیا کہ کوئی اور نہ کرے گا.اس کا نتیجہ بھی آپ کو بے مثال ملا.باقی نبیوں کے ادیان خاص وقت تک رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ انعام ملا کہ آپ کا سلسلہ قیامت تک رہے گا اور فرما دیا کہ تمہارا باغ پر رکھینگا جب کوئی فتور آنے لگے گا تو ایک باغبان بھیجا جائے گا جو اس کو پھر سر سبز و شاداب بنا دے گانے اللہ تعالیٰ نے آپ کے باغ کے نیچے وہ نہر جاری کی کہ جس درخت کے نیچے چلتی ہے اس کو سرسبز و شاداب بنا دیتی ہے.جو شخص اس تعلیم پر چلتا ہے، صالحین و شہداء وصدیقین سے ہو جاتا ہے اور روحانی و جسمانی انعامات اللبیہ سے بقدر اپنی قابلیت کے حصہ پاتا ہے.اور اس کے مقابل اگر کوئی آتا ہے تو شکست کھاتا ہے.دیکھو ایک ان پڑھ سے ان پڑھ احمدی سے بھی غیر احمدی ملاوں گھبراتا ہے.پس بچی عید یہی ہے کہ اللہ کے مناد کی آواز کوئن کیا جائے.اور اس کے رستے میں مال و جان قربان کر دیں.یاد رکھو کہ جتناہم میں نقص ہوگا اتنی ہی خدا کے احکام میں کمی ہوگیا.جو لوگ اسلام میں ہو کہ پھر تکلیف میں میں ضرور ان کی اطاعت میں کچھ نقص ہے کیونکہ اللہتعالیٰ کا وعدہ سچا ہے وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا له

Page 20

١٢ یہ باتیں دوسروں کے لئے بطور قصہ کہانی کے ہوں مگر ہمارے لئے نہیں ہو سکتیں کیونکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے خدا کے ایک مناد کو دیکھا.لوگوں نے چاہا کہ اُسے مسل دیں مگر وہ منظفر و منصور ہوا.جو خاک اس چاند پہ ڈالنی چاہتے تھے وہ انہی لوگوں کے مونہوں پر پڑی.پیلسلہ ایک سجیہ کے مانند تھا جس کے گرد کئی خونخوارہ شیر تھے.جن کے مونہوں کو انسانی خون لگ چکا ہو.حملہ کرنے کے لئے کھڑے ہوں.جیب سے ایک ہاتھ نکلا اور اس نے شیر کے جبڑے کو چیر دیا پس اس عظیم الشان نصرت کے بعد ہم کیونکہ کہ سکتے ہیں کہ ہمارا مولئے ہمارے ساتھ نہیں.اب جو انعامات میں کمی رہے گی تو اسی لئے کہ خود ہمارے عہدوں کے الفاء میں کوئی نقص ہوگا.میں چاہیئے کہ خدا کے رستے میں دُکھ اُٹھائیں.نفسوں کو قربانی کے لئے تیار کریں یعنی وہ پور طور پر خدا کی رضامندی کے نیچے ہوں.ہم اُس کی راہ میں ہجرت کریں.ہجرت سے مراد وطنوں کو چھوڑ دینا ہی نہیں.ہجرت کیا ہے.ان خیالات بد کو چھوڑ دیا جن میں پہلے تھے.ان بڑے دوستوں کو چھوڑ دیا جو دینی ترقی میں حارج ہوں.پھر ضرور ہے کہ ہم گھروں سے نکالے جائیں گھر سے مراد شستی کاہلی غفلت کا مقام چھوڑ دیا ہے.پھر ہم میں یہ بات ہو کہ ہمیں محض خدا کے لئے خدا کی راہ میں دکھ دیا جائے.جو منبع کامل ہو اس کو ضرور دکھ دیا جاتا ہے.جو دنیا داروں کے دکھوں سے بچا رہے اُسے سوچنا چاہیئے کہ اس کے ایمان میں کوئی نقص تو نہیں دیکھو گاؤں میں کوئی سفید پوش جائے تو کتے اسے بھونکتے ہیں ، وہ اسے بیگا نہ سمجھتے ہیں.اسی طرح جو دنیا کے کل مکروہات سے پاک ہو گا، دنیا پرست اس کی ضرور مخالفت کریں گے اور جس کی مخالفت نہ ہو اسے ضرور ان سے مناسبت ہے جبھی تو وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے.اگر مومن کے نفس کے اندر تبدیلی پیدا ہو اور وہ ہر طرح کی دنس سے پاک ہو تو کلاب الدنیا کا بھونکنا بھی اس کیلئے بطو لازم و ملزوم ہے.کتا تو غیر جنس ہے اس کتے کو تو پتھر مارا جائے گا.مگریہ کتے ایسے نہیں ہوتے کہ انہیں پتھر نارا جائے بلکہ ان کے لئے بھی علاج ہے کہ خوب ڈٹ کران کا مقابلہ کیا جائے اور نہ صرف اپنی حفاظت کریں بلکہ دوسروں کو بھی بچائیں.پہلے تو تلوار کا جہاد تھا اس لئے قتتلوا وقت ہوا سے اور مراد تھی مگر اب تو دلائل کی شمشیر سے جہاد کرنے کا زمانہ ہے یہ اس لئے سب کو مقتول ہونا پڑے گا.یعنی دین کی اشاعت میں ایسا انہماک ہو کہ اسی میں موت آجائے.ایسے لوگوں کے لئے وعدہ الہی ہے کہ ان کی بدیاں چھپا دیجائیں گی.ایسے آدمیوں پر یہ فضل الہی ہوتا ہے کہ اگر ان میں کوئی بدی فی الواقعہ بھی ہو اور اسے کوئی شائع کرنا چاہے تو خدا کا غضب اس پر نازل ہوتا ہے.کیونکہ خدا تو اپنے بندے کی عزت قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ اس عورت میں رخنہ ڈالتا ہے.پس فرمایا ہے کہ میرے ساتھ کامل محبت کرو جس کا

Page 21

نشان یہ ہے کہ مومن ہجرت کرے.اپنے مولے کی راہ میں دُکھ دیا جائے مخالفین حق سے مقابلہ کرے اس کے عوض میں اس کی بدیوں کو مٹا دوں گا اور جنات میں داخل کروں گا.چونکہ یہ عید کا موقعہ ہے لوگ قربانیاں کریں گے اس لئے یہ بیان کر دنیا بھی ضروری ہے کہ لَن يَنَالَ الله لَحُومُهَا وَلَا دِمَاء هَا وَلَكِنْ تَنَالُهُ التَّقْوى منكر قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ تک نہیں پہنچتا کیونکہ خون تو مٹی میں مل جاتا ہے اور گوشت بھی نہیں پہنچتا کیونکہ وہ بھی تم خود کھا لیتے ہو.ہڈیاں پھینکی جاتی ہیں.پھر اس قربانی کا فائدہ کیا ہے ولیکن تَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ تمہارا تقویٰ خدا تک پہنچتا ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ اپنے نفس کو قربان کردو.قربانی کے وقت مومن اقرار کرتا ہے کہ جیسے اس بکری نے سر آگئے ڈال دیا اسی طرح میں اپنے نفس کے خیالات پر اسے میرے مولیٰ ! حضور کے ارادے کے مقابل چھری پھیرتا ہوں اور یہی وہ بات ہے جو خدا کے ہر مناد کے وقت اللہ تعالے لوگوں سے چاہتا ہے اور یہ وہ سچی بعید ہے جس کی آرزو ہر مومن کو چاہیئے.اللہ تعالے توفیق دے کہ ہم نفسوں کی قربانیاں کر سکیں.کمزوریاں دور ہوں کامل محبت پیدا ہو.اعلیٰ سے اعلیٰ نیک بندوں کے انعام حاصل ہوں اور ہمیں وہ عید نصیب ہوئیں میں کوئی دکھ نہ ہو اور جس میں عید منانے والوں کے سروں پر خدا کی رحمت کا سایہ ہوتا ہے اور میں عید کی کوئی شام نہیں ہوتی.آمین.والفضل ۳۱ اکتو برشته من ) 17-6-4 له آل عمران ۳ : ۱۵۴ تا ۱۹۰- له الذرت ال : 06 - سے لسان العرب جلد ۳ ص ۲۷.زیر لفظ عبد ه - لملفوظات جلد ۳ مش۲۹.روحانی خونه این مجله ۲۲ (حقیقة الوحی صاله A, GEORGE SALE, THE KORAN.P.SO 2, MAXMULLER, THE SACRED BOOKS (INTRODUCTION) OF THE EAST, PTRAN 3, SIR WILLIAM MUIR, THE LIFE OF MAHOMET, P 348 شہ تجدید دین کی طرف اشارہ ہے.سنن ابو دار و کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قون المائة میں ہر صدی میں مجدد آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے.کے القساء ۱۲۳:۴ - شه - بانی سلسلہ عالیہ محمد یه حضرت مرزا احلام احمد قادیانی ۱۸۳۵ - ۱۹۰۸ مسیح موعود ومحمد محمود عليه الصلوة والسلام - روحانی خزائن جلد ، و تحفہ گولڑ دیه) ۲ - روحانی خزائن جلد ۱۷ در خطبه العامیہ صلہ ملفوظات جلد، منت تھے.انج ۲۲ : ۳۸

Page 22

ر فرموده و راکتو براش بمقام عیدگاه - قادیان) وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ أَمِنَّاةَ اجْنُبْنِي وَبَنِي انْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَهُ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ : فَمَنِ تبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنَى وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيدُه رَبِّنَا إِلَ اسكنتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا يقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمَ وَارْزُ منَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ، رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يخفى عَلَى اللهِ مِنْ شَيْ ءٍ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبْ لِي عَلَى الكِبَرِ اسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ اِن رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاء له آج کا دن انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ خدا تعالے کے لئے دی ہوئی کوئی چیز ضائع نہیں جاتی.ہر ایک وہ چیز جو انسان صرف کرتا ہے.فنا ہو جاتی ہے ملکہ یوں کہنا چاہیئے کہ ہر ایک وہ چیز جو انسان کے پاس ہوتی ہے فنا ہو جاتی ہے مگر جو چیز انسان خدا کے سپرد کر دیا ہے وہ کبھی فنا نہیں ہوتی.آج کا دن ہمیں اسی بات کی طرف متوجہ کرتا ہے.کئی ہزار سال گذر گئے قریبا چار ہزار سال ہو گئے کہ ایک انسان نے خدا کے لئے کچھ قربانی کی تھی.اللہ کے حکم کے ماتحت اس نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسے جنگل میں جس میں نہ پانی تھا نہ کھانا، ن محافظ تھا نگهبان، لا کر ڈال دیا تھا پھر خدا تعالے نے اس قربانی کو ایسا تبدیل کیا کہ کو چار ہزار سال گزر گئے مگر آجتک لوگ اسے بار بار یاد کرتے ہیں اور کوئی سال ایسا نہیں گذرتا کہ اس قربانی کو یاد نہ کیا جاتا ہو.بہت سے لوگ خدا کے حضور اسی کی یاد میں قربانیاں گذارتے ہیں.میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ رویہ کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں.اسی رنگ میں پوری ہوئی کہ آپ حضرت اسمعیل کو ایک جنگل میں چھوڑ گئے.یہی حقیقی تعبیر متقی اس رؤیا کی.وہ دراصل ایک پیشگوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جبکہ تم خدا کے حکم کے ماتحت اپنے لڑکے کو ایسے جنگل میں جہاں بظاہر زیست کا کوئی سامان نہ ہو گا.چھوڑ آؤ لکھے اور اس کی بجائے قربانیاں ہوا کریں گی لیے چنانچہ حضرت ابرا استیم کو سہی دکھا یا گیا کہ دنبہ ذبح کرو جس کو انہوں نے کر دیا.اب اسی کی یاد میں قربانیاں ہوتی ہیں.

Page 23

۱۵ مرا یک انسان اس نظارہ کو اس وقت تک سمجھ ہی نہیں سکتا.ارہ کو اس وقت تک سمجھ ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنی آنکھوں نہ دیکھ لے کہ ایک ایسی جگہ جہاں نہ سبزہ ہے نہ پانی نہ پھل ہے نہ پھول بلکہ کوئی کھیتی بھی نہیں ہوتی اور اب تک نہیں ہوتی.بعض لوگوں نے کھیتی کرنی چاہی ہے مگر اس میں ناکامی ہوئی ہے.چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں سخی کے قریب نظر آتی ہیں مگر وہ بھی خشک سی.ایسی حالت کے ہوتے ہوئے اب وہاں لاکھوں انسانوں کی بستی ہے جنہیں ہر ایک چیز عمدہ اور تازہ مل جاتی ہے.انگور اور انار جیسے عمدہ وہاں ملتے ہیں ویسے تہندوستان بھر میں میں نے نہیں دیکھے.وہ ایسے اعلیٰ ہوتے ہیں کہ کابلی اور قندھاری بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ایک انار ہوتے ہیں جن کے دانے خشک سے اور چھوٹے ہوتے ہیں.ایک بڑے دانے والے ہوتے ہیں ان کے دانے کھنے اور ترش ہوتے ہیں لیکن مکہ میں میں نے دیکھا ہے انار کا دانہ بہت موٹا اور شیریں ہوتا ہے اسی طرح انگورہ کا دانہ بڑا بڑا اور گول ہوتا ہے اور نہایت شیریں - گنا سارے حجاز میں نہیں ہوتا مگر مکہ میں بجتا ہے.سنگترہ شام وغیرہ سے چلا جاتا ہے.نرم ہر قسم کے اور ہر موسم کے میوے اور سبزیاں تجمع جو کہ وہاں چلی جاتی ہیں تو کیوں؟ اس قربانی کے عوطن میں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی اور اپنے لڑکے کو ایک عظیم انسان ا دھر مذہب کی بنیاد کے طور پر ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آئے تھے جہاں نہ پانی تھا نہ دانہ.پھر اسی قربانی کی یاد میں وہاں ایک زمزم کا چشمہ ہے.ایک وقت تو یہ حال تھا کہ وہاں پانی کی ایک بوند نہ ملتی تھی یا اب یہ حالت ہے کہ وہاں سے پانی کو کیوں اور بوتلوں میں بند کر کے تمام جہان میں لے جایا جاتا ہے.اور اس مت در پانی نکلتا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا حالانکہ تمام دنیا میں جاتا ہے.وہاں کے لوگ پیتے ہیں اور یاد کرتے ہیں کہ یہ اس چشمہ کا پانی ہے جو حضرت اسمعیل علیہ السلام کے پیاسے تڑپنے اور ایک قطرہ پانی کا نہ ملنے کے وقت ملا تھا.اور آج اس میں اس قدر پانی ہے کہ ذرا بھی کمی نہیں آتی.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا تعالے کسی کی قربانی کو ضائع نہیں کرتا.اور وہ قربانی جو خدا تعالے کے حکم کے بہتخت کی جاتی ہے وہ کبھی ضائع نہیں جاتی بلکہ بہت سی برکات کا موجب ہوتی ہے.حضرت ابراہیم علیہا سلام کے حضرت ہاجرہ کو اور حضرت اسمعیل علیہ اسلام کو شکل میں چھوڑنے کے متعلق حدیث سے پتہ لگتا ہے، اور کچھ بائیبل میں بھی اس کا ذکر ہے یہ حضرت ابرا ہیم علیہ اسلام جب ان کو لے کر آئے تو انہیں وہاں چھوڑ کر کچھ دیر ٹھہرے رہے ،تا یہ غافل ہوں اور میں ان کے پاس سے چلا جاؤں.ایک تھیلی کھجوروں کی اور ایک مشک پانی کی ان کے پاس رکھ دی.اور آپ نظر بچا کر چل پڑے.حضرت ہاجرہ نے آپ کو جاتے ہوئے دیکھ لیا.ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت

Page 24

ہاجرہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور کہا.آپ ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہیں.یہاں نہ پانی ہے نہ کھانا، نہ کوئی ساتھی ہے اور نہ آبادی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کچھ جواب نہ دیا.آپ پر اس وقت رفت طاری تھی اور آپ بول نہ سکتے تھے.حضرت ہاجرہ نے پھر کہا کہ آپ ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہیں اس کا بھی انہوں نے کوئی جواب نہ دیا.پھر تیسری دفعہ حضرت ہاجرہ نے کہا.آپ ہمیں کہاں چھوڑ چھلے ہیں.پھر بھی آپ خاموش رہے.اس پر حضرت ہاجرہ نے کہا.کیا خدا تعالے نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے جواب میں صرف اتنا کہ سکے کہ ہاں.اس سے زیادہ اور کچھ جواب نہ دے سکے.نبیوں کا دل تو پہلے ہی بہت نرم ہوتا ہے.اور یہ نظارہ ہی ایسا تھا کہ سخت سے سخت دل رکھنے والا بھی گھل جاتا.اس سے دیکھو کہ حضرت ہاجرہ کا ایمان کیسا مضبوط اور قوی تھا.وہ موقعہ ایسا تھا کہ اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چل پڑتیں تو انہوں نے کیا کہنا تھا یا کم از کم ان کو پکڑ کر مٹھ رتیں کہ ہمیں کہاں چھوڑ چھلے ہو.میں آپ کو بھی جانے نہیں دوں گی.یا اگر یہ بھی نہ ہو سکتا تو ان کے چھے پیچھے ہی چل پڑتیں.اور اگر ان کے ساتھ نہ جانتیں تو کسی بستی اور آبادی میں ہی چلی جائیں اس طرح کچھ حرج بھی نہ تھا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو حکم ہوا تھا وہ تو انہوں نے پورا کر دیا تھا.اور حضرت ہاجرہ کو کوئی ایسا حکم نہ دیا گیا تھا کہ وہ ضرور وہاں ہی بیٹھی رہیں.کوئی کہے کہ حضرت ہاجرہ کو اس دردناک نظارہ کی وجہ سے اتنی ہوش ہی نہ رہی تھی کہ ایسا کرتیں اگر یہ بات مان کی جائے تو کم از کم وہ یہ تو کرتیں کہ روتیں پہنچتیں ، چلائیں اور شور مچاتیں کہ یہ ہم سے کیا دھو کہ کیا گیا ہے.ہمیں جنگل میں لا کر ڈال دیا گیا ہے اور خود چلے گئے ہیں.مگر اس قسم کی کوئی ایک بات بھی ان کے منہ سے نہیں نکلی بلکہ کہا تو یہی کہا کہ اِذن لا ضيعت اگر خدا کا بیک کم ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا.وہ روتی ہیں نہ چلاتی ہیں نہ یہ گھستی ہیں کہ میں یہاں نہیں بیٹھوں گی.بلکہ خدا کا حکم شنکر کہتی ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب پانی ختم ہو گیا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو سخت پیاس لگی اور حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر بھاگتی پھریں تو خدا تعالئے سکے فرشتہ نے اس جگہ ایک چشمہ پھوڑ دیا.اور پھر اسی چشمہ پر ایک قافلہ لا کر ڈال دیا اور وہیں ایک بستی بسا دی ہے اب وہاں ہر ایک نعمت ملتی ہے.اس سے خدا تعالے نے مسلمانوں کو یہ سمجھایا ہے کہ دیکھو خدا تعالے کے حکم کے ماتحت کی ہوئی قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی.حضرت ابراہیم علیہ اسلام خدا تعالے کے بنی تھے انہوں نے جو کچھ کیا اپنی شان کے مطابق کیا حضرت اسمعیل علیہ السلام اسبی بچنے تھے.اگر وہ اس وقت کچھ

Page 25

14 نہ سمجھتے تھے تو سہی لیکن ہر ایک مومن مرد اور عورت کے لئے حضرت ہاجرہ کی مثال موجود ہے کہ وہ نبی نہ تھی.ایک عورت تھی اور کمزور دل عورت تھی لیکن اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ جاتا ہے جو بالکل ویران اور بغیر آباد ہے.پھر اس کے لئے موقعہ ہے کہ اپنا بچاؤ کر ہے.مگر جب اس نے سنا کہ یہ خدا تعالے کے حکم کے ماتحت کیا گیا ہے تو کہا کہ ہم نہیں رہیں گے.خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا.میں نے حج کے موقعہ پر بڑے بڑے جسیم اور موٹے تازے مردوں کو اس لئے روتے دیکھنا ہے کہ ان سے ان کے ساتھی جدا ہو گئے حالانکہ اگر ساتھی جدا ہو گئے تو کیا ملکہ ایک شہر ہے کوئی دیران جنگل نہیں.رستے بنے ہوئے ہیں، ہر قسم کا انتظام موجود ہے، مگر با وجود اس کے میں نے ساتھیوں کے جدا ہو جانے کی وجہ سے کئی ایک مردوں کو روتے اور چلاتے دیکھا ہے.لیکن دیکھو ہاجرہ عورت ہو کو ایک ایسے جنگل میں رہتی ہے جس میں کھیتی تک نہیں ہوتی اور پانی کا ایک قطرہ تک نہیں مل سکتا.کوئی آبادی نہیں، کوئی خبر گیراں نہیں، کوئی محافظ نہیں لیکن جب اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجھے خدا کے جسم کے ماتحت یہاں چھوڑا گیا ہے تو کہتی ہے کہ خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا.یہ کامل ایمان کی علامت ہے.جب تک کسی میں ایسا ہی ایمان نہ ہو اس وقت تک وہ مومن نہیں کہلا سکتا اور جس میں ایسا ہی ایمان نہ ہو وہ یہ امید کیونکر رکھ سکتا ہے کہ خدا مجھے صنائع نہیں کرے گا.اس وقت خدا تعالے نے ہماری جماعت سے بھی ایسا ہی ایک معاملہ کیا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی ایک قربانی کرنی پڑتی ہے.ان سے عہد لیا جاتا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے لیکن افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری بڑی ضروریات ہیں ہم مدین کے لئے کہاں سے خرچ کریں.حالانکہ وہ نہیں دیکھتے کہ حضرت ہاجرہ سے زیادہ قربانی تو ان سے نہیں کرائی جاتی.اس کی قربانی کو دیکھیں اور پھر اپنی قربانی پر نظر کریں اور پھر حضرت ہاجرہ کے ایمان کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ ہاجرہ سے ابھی بہت پیچھے ہیں.حالانکہ یہ مرد ہیں اور دہ عورت تھی.پھر عورتیں بھی اس سے بہت پیچھے ہیں.حالانکہ ہاجرہ بھی انہیں کی طرح کی ایک عورت تھی اور اسی آدم کی اولاد تھی جس کی ہم سب ہیں مگر جس ایمان کو اس نے ظاہر کیا وہ نام مردوں عورتوں کے لئے قابل رشک ہے.مگر افسوس ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اگر دین کے لئے خرچ کرنے کو کہا جائے تو آگے سے کئی قسم کی مجبوریاں پیش کر دیتے ہیں اور کئی قسم کے عذرات گھڑ لیتے ہیں حالانکہ ہر ایک عید انہیں بتاتی ہے کہ خدا کے لئے جو قربانی کی جاتی ہے وہ کبھی ضائع نہیں جاتی.آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں پیشیش کی جا سکتی کہ خدا کے لئے کسی نے کوئی قربانی کی ہو اور اس کا نتیجہ اس کے حق میں عمدہ نہ نکلا ہو.بلکہ میں کسی نے بھی خدا کے لئے قربانی کی ہے اس کے لئے خدا تعا نے نے ملائکہ مقرر کر دیئے ہیں کہ اس کی

Page 26

مدد اور تائید کریں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں لیکن یہ بات کس قد را فسوسناک ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا تعالے صحابہ میں سے قرار دیتا ہے ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے متعلق ان کے سیکر ڈی یہ رسجدہ شکایات کرتے رہتے ہیں.کہ انہیں جب کبھی کسی دینی کا میم میں حصہ لینے کے لئے کہا جائے تو کہدیتے ہیں کہ ہماری تو اپنی بہت سی ضروریات ہیں یا اور اسی قسم کے عذرات پیش کر دیتے ہیں.ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میری بیوی کہتی ہے کہ تم قادیان میں کچھ نہ بھیجو اور جس قد وہاں بھیجتے ہو اس سے آدھا مجھے دے دیا کہ وہ.میں اس کے بدلے اپنا مہر تمھیں معاف کر دونگی کیا ئیں اس کی بات مان لوں.اس شخص کا مجھ سے یہ پوچھنا ہی بتا رہا ہے کہ اس کے دل میں خدا تعالے کے راستہ میں خرچ کرنے کا کس قدر جوش ہے.اس نے مجھ سے پوچھے بغیر سی کیوں نہ اپنی بیوی کی بات کو یہ کہ کر رد کر دیا کہ میں تیرا حکم مانوں یا خدا کا.پھر کئی لوگ ہیں جو خدا تعالے کے راستہ میں خرچ کرنا گویا نقصان اٹھانا خیال کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالے کے لئے جو کچھ مرح کیا جاتا ہے وہ بیج کی طرح ہوتا ہے کبھی کوئی زمیندار ایسا نہیں دیکھا گیا کہ جو زمین میں اس خیال سے بیج نہ ہونے کہ اُسے بیج کے صنائع پہلے جانے کا ڈر ہے بلکہ وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ جب میں کھیت میں دانے ڈالوں گا تو وہ بہت زیادہ بڑھیں گے.اسی طرح اللہ تعالے کے لئے جو خرچ کرتا ہے وہ بھی بیج کی طرح ڈالتا ہے.اور جس طرح کھیت میں ڈالا ہوا ایک دانہ سینکڑوں دانے پیدا کر دنیا ہے اسی طرح خدا کے راستہ میں خرچ کرنے پر بہت کچھ ملتا ہے اگر کوئی خدا کے لئے خرچ نہیں کرتا تو اس کے لئے ہی کہہ سکتے ہیں کہ اسے اس بات پر المیان نہیں کہ خدا کسی سے کچھ لے کر اسے ضائع نہیں ہونے دیتا.کیونکہ اگر اسے یہ ایمان حاصل ہو تو ضرور خدا کے لئے اسی یقین اور ایمان سے خرچ کرے جس کے ساتھ زمیندار کھیت میں دانہ ڈالتا ہے اور خوشی خوشی ڈالتا ہے کہ بہت زیادہ دالنے حاصل ہوں گے کوئی زمیندار مصیبت اور تکلیف سمجھ کر بیج نہیں ڈالتا بلکہ خوشی خوشی ایسا کرتا ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دین کے راستہ میں خرچ کرنے والے اول تو اس خیال سے خرچ ہی نہیں کرتے کہ ہمارا مال خرچ ہو جائے گا اور جو خرچ کرتے ہیں وہ اس یقین اور ایمان کے ساتھ خرچ کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ دیا دہ صنائع ہو گیا.اس سے ہمیں کچھ حاصل نہ ہو گا حالانکہ خدا تعا لئے کہتا ہے کہ جو میرے راستے میں خرچ کرتا ہے اسے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہم دیتے ہیں کہ زمین میں بویا ہوا دانہ اس قدر دانے نہیں اُگا سکتا لیکن خدا تعالے تو کہتا ہے کہ میں سات سو نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ دیتا ہوں اور زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں.اس کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال کو دیکھ لو کہ کس طرح خدا کے لئے ایک اند

Page 27

19 ڈالنے سے کروڑوں کروڑے دانے پیدا ہو جاتے ہیں.دنیا میں تو گیہوں بولنے والا گیہوں ہی کانتا ہے اور جو ہونے والا جو.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک دانہ سے کئی قسم کے پھل اور میوے حاصل ہوئے، انہیں بچے بھی ملے ، سلطنت بھی ملی، دولت بھی ملی ، عزت بھی ملی نار نیکہ ہر ایک چیز حاصل ہوئی.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالے کے لئے قربانی کرنے سے اس کے نتیجہ میں کئی قسم کی کھیتیاں نکلتی ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بچہ کو قربان کیا تھا اس کے بدلہ میں خدا تعالے نے ان کو کہا کہ جس طرح آسمان کے ستارے نہیں کئے جاتے اسی طرح تیری نسل بھی نہیں گئی جائے گی یا اب دیکھ لو، کوئی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد کو گن سکے جس قدر دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے آدمی ہیں اس قدر کسی اور انسان کی نسل ہرگز نہیں مل سکتی.اور یہ نسل اتنی پھیلی ہے کہ آسمان کے ستاروں کی طرح گئی نہیں جاسکتی.پھر اگر روحانی طور پر دیکھا جائے، تو تمام دنیا کا بیشتر حصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانے انا ہے پھر مال و دولت کے لحاظ سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ قریبا چار ہزا رسال تک ان کی نسل یا ان کے متبعین کے ہاتھوں میں حکومت رہی اور اب عیسائی حکومت کر رہے ہیں.وہ بھی آپ کو مانتے ہیں.روحانیت کے لحاظ سے دیکھو تو جتنے بڑے بڑے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد گزرے ہیں وہ آپ ہی کی نسل سے تھے.حضرت موسی ، حضرت عیسی اور سانحضور صلی اللہ علیہ وسلم انہی کی نسل سے تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے.کہ میں بھی اسحق کی نسل سے ہوتا ہے.اس لئے آپ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی نسل سے ہوئے ، غرض کوئی نعمت ایسی نہیں جو ان کو حاصل نہ ہوئی.دنیا کے لحاظ سے حکومت اور طاقت روحانیت کے لحاظ سے دولت نسل کے لحاظ سے سب سے زیادہ نسل آپ کو دی گئی اور وہ جگہ جو اس وقت تک بھی غیر ذی زرع ہے اس کو ایسی برکت نصیب ہوئی کہ اب سب کچھ وہاں پہنچتا ہے بلکہ مکہ کے رہنے والوں کو کوئی کام ہی نہیں کرنا پڑتا.ان کو مکانوں کا کیا یہ ہی اس ندر آ جاتا ہے کہ ان کے لئے کافی ہوتا ہے.ایک سو سے لے کر دو تین سو تک ایک چھوٹے سے مکان کا کرایہ لیتے ہیں.پھر وہاں لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ان کی تجارت خوب چلتی ہے.اور وہ ان سے خوب نفع کماتے ہیں.پھر وہی زمزم کا چشمہ جو خدا تعالے نے حضرت سمعیل کے لئے کھولا تھا.اسی کے پانی کی تجارت کرتے ہیں ،ایک چھوٹے سے مٹی کے برتن میں پانی بھر کر لے جاتے ہیں جسے زمزمی کہتے ہیں اور دو روپے لے لیتے ہیں.غرض اس جگہ کو بھی خدا تعالئے نے ایسا آباد کیا کہ اس کی نظیر اور کہیں نہیں مل سکتی.اور حضرت ابرا ہیم کی نسل کسی رنگ میں بھی گھاٹے میں نہ رہی.دنیا کی کوئی نسل اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.در اصل وہ قربانی ایک پیج

Page 28

تھا جسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نے ایک ایسی جگہ میں ڈالا جہاں بظاہر اس کی ہلاکت تھی لیکن چونکہ خدا تعالے کے لئے ڈالا گیا تھا اس لئے اس قدر بڑھا کہ اس سے کروڑوں کروڑے دانے نکلے.کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کہیں جارہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی ایسا درخت لگا رہا تھا جو بہت دیر میں پھل دینے کے قابل ہو سکتا ہے.بادشاہ نے اس سے پوچھا تم جو یہ درخت لگا رہے ہو، یہ تھیں کیا فائدہ دے گا.اس نے کہا، دوسروں کے لگائے ہوئے درختوں سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے ہمارے لگائے ہوئے سے دوسرے فائدہ اٹھائیں گے.بادشاہ نے کہا.زہ" اس سے اس کی یہ مراد ہو تی تھی کہ میں خوش ہوا ہوں، انعام دو.اس پر اس شخص کو چار ہزار انعام دیا گیا.انعام لینے کے بعد اس نے کہا.دیکھئے.اس درخت نے ایک پھل تو مجھے اسی وقت دے دیا ہے.بادشاہ نے پھر نہ کہا اور اسے دوسری بار انعام دیا گیا پھر اس نے کہا.اور لوگوں کو تو سال بھر میں ایک دفعہ پھل حاصل ہوتا ہے لیکن میں نے چونکہ بڑی نیک نیتی سے یہ درخت لگایا ہے اس لئے مجھے دو دفعہ پھل ملا ہے.بادشاہ نے کہا زہ پھر اسے تیسری دفعہ انعام دیا گیا.اس کے بعد بادشاہ نے کہا.چلو اب اس سے کچھ نہ پوچھنا چاہیے ، یہ تو نہیں لوٹ لے گائیے یہ تو اس بادشاہ نے کہا لیکن اللہ تعالے کبھی یہ نہیں کہتا اور نہ وہ دینے سے تھکتا ہے.کیونکہ اس کا خزانہ غیر محدود ہے.خدا تعالے ایک ہی پہنچ سے بے انتہا دانے پیدا کر دیتا ہے.اور پھر ایک ہی بیج سے آم ، خربوزے ، انا را انگور وغیرہ جس قدر بھی میبوسد ہیں اور جس قدر بھی نعمتیں ہیں سب پیدا کر دیتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا انعام ہو سکتا ہے اگر زمینداروں کو کوئی ایسا بیج مل جائے جس سے وہ کروڑوں پھیل حاصل کر سکتے ہوں اور پھر ایک ہی بیج سے کئی قسم کے پھل میسر آسکیں.تو ان کے لئے اس سے بڑھ کرا اور کیا خوشی ہو سکتی ہے وہ تو اپنا سب کچھ بیچ کر اور تمام زمینیں فروخت کر کے صرف ایک دو گز زمین رکھ لیں اور اس بیج کو خرید لیں لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایسا بیج خدا تعالے کے حضور سے ملتا ہے مگر بہت کم لوگ اس کے لینے کی کوشش اور سعی کرتے ہیں.اور یہ کوئی خیالی اور و سہی بیج نہیں بلکہ حقیقی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پھل اس کی تصدیق کے لئے موجود ہیں.یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیئے کہ خدا تعالے کے راستہ میں دی ہوئی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی.عید منانے والے لوگ اس بات کو سوچیں.کیا عید یہ نہیں بتاتی کہ خدا کے راستہ میں دی ہوئی کوئی چیز ضائع نہیں جاتی.پھر کیوں وہ خدا کے راستہ میں قربانی کرنے سے دل چراتے اور کتراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنا مال اس طرح خرچ کریں گے تو ضائع ہو جائیگا

Page 29

۴۱ ی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا خدا تعالے پر ایمان نہیں.اگر ان میں حضرت ہاجرہ جتنا ایمان ہوتا.تو وہ کبھی یہ خیال بھی نہ کرتے اور دین کے راستہ میں اپنی جانوں اور مالوں وغیرہ کو خرچ کرنے سے ذرا بھی نہ گھبراتے.اور یقین رکھتے کہ اس طرح خرچ کرنے سے ہمارے اموال ضائع نہیں جائیں گے بلکہ اس کے بعد اتنے انعامات حاصل ہوں گے کہ جنہیں ہم شمار بیجا نہ کر سکیں گے تو یہ ایسان کی کمزوری ہے.عید ہر سال اسی کمزوری کے دورہ کرنے کے لئے آتی ہے.تا کہ وہ لوگ جنہیں یقین نہ ہو کہ کس طرح خدا کے راستہ میں ایک دانہ خرچ کرنے سے اس قدر پھل مل سکتے ہیں انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمونہ دکھا دیا جائے.جید کو عام لوگ ایک میلہ سمجھتے ہیں.مگر دراصل پیران کے لئے تازیانہ عبرت ہے.تا کہ وہ بیدار اور ہوشیار ہوں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور وہی برکت حاصل کریں جو انہیں حاصل ہوئی مگر افسوس کہ بہت لوگ اس میں سستی اور کو تاہی کرتے ہیں.ہماری جماعت کے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانی کا زندہ نمونہ موجود ہے.جب آپ نے دعوی کیا.اس وقت آپ کی کیا حالت تھی.قادیان میں بھی اکثر لوگ آپ کو نہ جاتے تھے یا اور آپ یہ دعوئی سے کہتے کہ کوئی اس بات کی تردید کرے کہ دھونی سے پہلے میرے نام کوئی خط تک نہ آتا تھا مگر خدا تعالے کے لئے قربانی کر کے جس قدر اس کو پوشیدہ رکھا جا.اسی قدر زیادہ خدا تعالئے اسے ظاہر کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہتے کہ میں نے اپنے آپ کو دنیا سے چھپانا چاہا مگر خدا تعالے نے مجھے کھڑا کر دیائیے اور ایسا کھڑا کیا کہ اب دنیا کے چاروں کونوں سے آپ کی قربانی کے پھل پیدا ہورہے ہیں.کوئی افریقہ سے کوئی امریکہ سے کوئی ایران سے کوئی ہندوستان سے کوئی افغانستان سے کوئی یورپ سے.فضیکہ ہر علاقہ میں آپ کی شاخیں پھیل کر پھل پیدا کر رہی ہیں.پھر دیکھو آپ کو کس بات کی کمی رہی.آپ نے خدا تعالے کے لئے گالیاں نشنیں ، مگر گالیاں دینے والے آپ کو اس جوش سے گالیاں نہیں دیتے تھے میں جوش سے اب آپ پر درود بھیجنے والے پیدا ہو گئے ہیں.پھر آپ نے خدا تعالے کے لئے اپنے ایسے رشتہ دار اور دوست چھوڑے جو اپنی شرض اور مطلب کے تھے لیکن ان کے بدلہ میں خدا تعالے نے ایسے رشتہ دار اور دوست دیتے جو آپ کے نام پر جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں.پہلے رشتہ دار اور دوست ان کا کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں وہ ایسے تھے کہ جب تک حضرت صاحب ان کو دیتے اور ان کی حاجتیں پوری کرتے وہ آپ کے ساتھ تھے اور اگر کچھ نہ دیتے تو الگ.لیکن ان کی بجائے جو خدا نے دیئے وہ ایسے تھے کہ خود مصر صاحب کو اپنا مال دیتے اور اس بات کو اپنے لئے موجب فخر سمجھتے ، یہ کتنا بڑا فرق ہے.ایک تو

Page 30

۲۲ اپنے مطلب کے دوست اور رشتہ دار تھے لیکن ان کی بجائے جو خدا تعالیٰ نے دیئے وہ کسر بات کی تمنا رکھتے تھے کہ ہم سے حضرت صاحب کوئی خدمت میں ہے تا کہ اس طرح ہمارا بیڑا پار ہو جائے.تو ہر رنگ میں خدا تعالے نے آپ کو آپ کی قربانی کا بہت بڑھ چڑھ کر بدلہ دیا.ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ساری دنیا آپ کے قدموں میں آگرے کیونکہ ابھی ابتدائی زمانہ ہے.مگر کہتے ہیں اس ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.تمام مذاہب والے اس بات کو قبول کر رہے ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی ایسا پوداہے جس سے ڈرنا چاہیئے تو وہ وہی ہے جو مرزا صاحب بنے لگایا ہے.اس کے ہوتے ہوئے ہمارے درخت نہیں بڑھ سکتے.جہاں ایک قوی درخت ہو، وہاں اور کوئی درخت پھل پھول نہیں سکتا اور نہ ہی بڑھ سکتا ہے.اسی طرح تمام مذاہب والے کہتے ہیں کہ گو یہ پودا ہی ہے مگر اس کے مقابلہ میں ہمارے درخت بھی نہیں بڑھ سکتے بلکہ سو کچھ رہے ہیں.حضرت صاحب کتنے کہ نیسائی مشنری اور ان کی عورتیں یہاں قادیان میں آیا کرتی تھیں لے لیکن اب دیکھ لو کہ قادیان کے نام تک سے وہ کا نچتے ہیں.اور کئی کئی میل دور سے گزر جاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایسا زبر دست پودا ہے کہ جہاں یہ ہو وہاں بہار اُگانے سے کچھ نہیں اہل سکتا.ہمارے پو دے اسی وقت تک اُگ سکتے ہیں جبکہ اس سے دور ہی ہوں ، اس لئے اس سے دُور دُور ہی رہتے ہیں.لیکن خدا کے فضل سے یہ پودا دیا بھی پہنچ جاتا ہے، اس لئے پھر وہاں سے انہیں بھاگنا پڑتا ہے.پاک درخت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَصْلَهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاں نے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور اس کا پھیلاؤ آسمان تک ہوتا ہے.یہی بات ہم نے اس شہر کے متعلق دیکھ لی ہے اور ہم نے تجربہ کر لیا ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسروں کی کھیتیاں نہیں اگتیں اور اگر اگتی ہیں تو خشک ہو جاتی ہیں.گو اس وقت ہماری جماعت کمزور ہے مگر آثارہ بتا رہے ہیں کہ اس کے مقابلہ ہیں باقی تمام پودے مرجھا رہے ہیں.اور ایک دن آئے گا جبکہ بالکل خشک ہو جا ئیں گے اور سایہ کن درخت صرف یہی ہوگا.ہمارے سامنے یہ نظیر موجود ہے.غیر اگر ہے تو جی کریں تو کریں مگر وہ جو اس خدا کے مامور اور بنی پر ایمان لائے اور جہنوں نے اس کی محبت کی اور سب کچھ دیکھا.ان میں سے اگر کوئی اس طرح نا امیدی ظاہر کرے کہ اگر ہمیں خدا کے لئے خرچ کروں گا تو ضائع ہو جائے گا.وہ بہت ہی قابل افسوس ہے.اسے یادرکھنا چاہیئے کہ خدا تعالے کے لئے دی ہوئی چیز نہ کبھی پہلے صنائع ہوئی ہے اور نہ اب ہو سکتی ہے تم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ دیکھ لیا ہے.پھر اپنے اپنے گاؤں میں دیکھ لو کہ جنہوں نے اس سلسلہ کے لئے بچھی قربانیاں کی ہیں انہیں کیا کچھ

Page 31

۲۳ حاصل ہوا ہے.جنہوں نے نہیں کیں بلکہ پھر گئے انہوں نے کیا کچھ نقصان اٹھایا ہے.اخیر پر نہیں پھر بتا دیتا ہوں کہ عیدیں کوئی کھیل نہیں ، میلہ نہیں ، تماشا نہیں.اسلام کی ہر بات میں حکمت ہوتی ہے.پس عید میں بھی ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ عید ہی بات بتانے کے لئے آتی ہے کہ خدا تعالے کے لئے جو کچھ سرچ کیا جاتا ہے وہ کبھی منائع نہیں جاتا بلکہ کئی گنا ہو کر ملتا ہے.پس جو لوگ خدا کے لئے خرچ کرنے میں سست ہیں.وہ چست ہو جائیں تا کہ خدا تعالئے کے لئے ہر قسم کی قربانی کریں.اور جو چیت ہیں وہ اور تیز ہو جائیں کہ اس راستہ میں جس قدر تیزی دکھائی جائے اسی قدر زیادہ مہندی حاصل ہوتی ہے.خدا تعالئے ہماری جماعت کو اس بات پر عمل کرنے کی توفیق دے اور عید سے سچی قربانی کرنے کا سبق سکھائے.آمین.المفضل ۲۳ اکتوبر انه متا۹) اه - ابراہیم ۱۴ : ۳۶ تا بم - الصفت ۱۱۳:۳۷ - الصفت پیدائش باب ۲۲ - آیت ۱۲-۱۳ میں عبارت اس طرح ہے :.اور ابراہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے تب ابراہام نے جا کر اس مینڈھے کو پکڑا.اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا ہے شد مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلہ پر عرفات کی جانب ایک بستی کا نام ہے یہاں حاجی قربانی کرتے اور تین چھوٹے چھوٹے مینار (جمرات، پر سات سات کنکریاں مارتے ہیں.- حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ڈنمار سورۃ ابراہیم ۳۰:۱۳) کی قبولیت کے نشان..زمزم حجر اسود کے سامنے مطاف کے کنارے پر ایک کنواں ہے.حضرت اسمعیل علیہ اسلام کے زمانہ میں یہ ایک چشمہ تھا.پھر رفتہ رفتہ گرا ہوتے ہوتے کنواں بن گیا.اب اس کا عرض ہر گز اور گرائی و گز ہے.اور یہ نام اس کے پانی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے جمع کیا الانوار جلد ۲ مت) ہے.صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزفون النسلان في المشي - پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۹

Page 32

۲۴ ہے.صحیح بخاری کتاب الانبياء باب يزفون النسلان في المشي البقره ۲ : ۲۷۲ پیدائش باب ۱۵ آیت ۵ ، باب ۱۶ آیت ۱۰ ** لى - الاستغناء م، مطبوعه قادیان ۱۳۲۵ - مجاني الادب في حدائق العرب بن ثانی ص ۱۷۳ ھے.روحانی خزائن جلد ۱ ۳ برا امین احمدیہ حصہ نیم جنت و ص۱۳ - محفوظات جلد ۳۶ کلے.حقیقة الوحی مثلا د ۱۴۹ - ملفوظات جلد ۳-۳۴۴ - حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا مکتوب مندرجه فتح اسلام طبع اول فقه ۶۲ و حیات احمد جلد اول ما حاشیه و سیرت المہدی حصہ سوم ه ۱۶ - ملفوظات جلد ۱ ص۲۹۵ ہے.ابراہیم ۱۳: ۲۵

Page 33

۲۵ ور فرموده ۲۸۰ ستمبر ۱۹۴۷ء بمقام کو معی شهزاده واسدیو شین إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَهُ فَصَلَّ بِرَبِّكَ وَانْحَرْهِ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرَه اس عید کو جس کا ہمارے ملک میں لوگوں نے بقرہ عید نام لکھا ہوا ہے معلوم ہوتا ہے یہاں ابتدا نے اسلام میں اس عید کے دن گائیں بہت ذبح ہوتی ہوں گی کہ ہندو اسے بکرا عید کہتے ہیں.کچھ مدت ہوئی ایک ہندو اخبار نے لکھا تھا کہ مسلمان اس عید پر خواہ مخواہ ہندوؤں کو تنگ کرنے کے لئے گائے ذبح کرتے اور فساد پھیلاتے ہیں.اس کا تو نام ہی جو بکرا عید ہے بتا رہا ہے کہ بکرے ذبح کرنے چاہئیں.یہ تو اس کی عربی دانی کی حقیقت تھی.عربی میں اس کو عید الاضحی کہتے ہیں.عوام میں یعنی دو پہر کی عید مشہور ہے حالانکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تجبل الاطمی و آخر الفطرت یعنی عید الاضحی کو جلدی پڑھوا اور عید الفطر کو دیر سے پڑھو.یہ امید ہمارے سلسلہ سے خاص تعلق اور مناسبت رکھتی ہے.چنانچہ اللہ تعالے نے بھی اس غیر کو ہمارے سلسلہ میں ایک خاص خصوصیت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة و السلام کبھی کسی جمعہ با عید کا خطبہ نہیں پڑھا کرتے تھے.مگر ایک مرتبہ اسی عید کیے.موقعہ پر السلام کے ذریعہ آپ کو حکم ہوا کہ خطبہ پڑھیں.چنانچہ آپ نے پڑھا اور اب وہ خطہ الہا میں کے نام سے چھپ کر موجود ہے.تو یہ عید ہمارے سلسلہ سے ایک خاص منابیت اور تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مناسبت بیان فرمائی ہے جو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ کو عید الا ضحی سے مشابہت بتائی ہے اور وہ مشابہت اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں بیان کی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے.فرماتا ہے.اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَهُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبكر کو شر کے اصل معنی عربی میں خیر کثیر کے ہیں.اور کوثر کثرت سے نکلا ہے.یعنی بہت خیر چنا نچہ ان محقق صحابہ نے جو اس بات کو سمجھتے تھے کہ کسی خاص معنوں کے ساتھ کسی آیت کے معنوں کو محدود نہیں کرنا چاہیئے.انہوں نے اس کے یہی معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کوخیر کثیر دی ہے ہے شمار بے نماز عید اور جمعہ شا ہیں شہزادہ واسدیو سنگھ صاحب کی کو بھٹی پر پڑھی گئی.پونے بارہ بجے خطبہ عید ختم ہوا.اس کے بعد سنتیں پڑھ کر حضرت نے مختصر سا خطبہ جمعہ پڑھا (الفضل ۲ اکتوبر ۶۱)

Page 34

۲۶ مگر حد شیوں میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کو شر ایک نہ ہے جو جنت میں ہے اور مجھے دی گئی ہے اور یہ کوئی ضعیف و کمزور حد شیں نہیں ہیں بلکہ صحیحین میں ہیں ہے اور قابل قبول ہیں لیکن ان میں تو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کے متعلق سعید ابن جبیر نے اس طرح فیصلہ کر دیا ہے کہ جب اس نے کوثر کے معنی خیر کثیر لوگوں کے سامنے پیش کئے اور انہوں نے کہا کہ اس کے معنی تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک نر کے کئے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ کیا حوض کوثر خیر نہیں ہے یا کیا وہ شر ہے.اس پر سب خاموش ہو گئے تو بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کوثر کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے.اس کے بڑے بڑے فوائد ہیں.اس لئے پانی کی بہت اعلیٰ درجے کی لذت ہے.میے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوثر سے مراد وہی نہر ہے اور کچھ نہیں ہے.کیونکہ عبد اللہ بن عباش جن کے تفقہ فی الدین کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی لیے چنانچہ آپ کو ایسا علم قرآن عطا بھی ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں سب سے آگے بٹھاتے تھے اس پر بعض صحابہ کو اعتراض پیدا ہوا کہ عباس کے بیٹے کو تو آگے بٹھایا جاتا ہے.ہمارے بیٹوں کو کیوں نہیں بٹھایا جاتا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا.کسی وقت میں تمھیں بتاؤں گا کہ عبائش کے بیٹے کو کیوں آگے بٹھایا جاتا ہے اور اوروں کے بیٹوں کو کیوں نہیں سمجھایا جاتا.ایک دن جب بہت لوگ جمع تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کہ اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ کا مطلب بتاؤ.سب نے بتایا کہ اس میں اسلام کی ترقی اور فتوحات کی پیش گوئی کی گئی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ تو الفاظ سے ہی ظاہر ہے کچھ اور تناؤ مگر کسی نے کچھ نہ بتایا.اس پر آپ نے ابن عباس سے پو چھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی گئی ہے.یر شنکر سب نے مان لیا کہ واقعی ابن عباس اس قابل ہے کہ اسے آگے بٹھایا جائے تو انہوں نے کوثر کے یہی معنے کئے ہیں ہے.پھر حسن بصری رضی اللہ عنہ جو بہت اعلیٰ درجہ کے بزرگی اور پارسا گذرے ہیں انہوں نے بھی خیر کثیری معنے گئے ہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس لفظ کوثر کے معنوں میں وہ نہر بھی شامل ہے جس کی خبر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے دی ہے لیکن اور بھی جس قدر خیر کی چیزیں ہیں وہ سب اس کے معنوں میں داخل ہیں.پھر بہت سے تابعین جو قرآن کریم کے مفتر گزرے ہیں انہوں نے یہی معنے گئے ہیں لیے اس سورۃ میں لفظ کو تر رکھ کر خدا تعالے نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے کہ ہم نے تجھے خیر کثیر دیا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو ملی.اس کا نمونہ کسی اور جگہ نہیں پایا جاتا.دیکھو کہ اب ملی تو وہ کہ جس کا نمونہ تمام دنیا میں نہیں مل سکتا.

Page 35

اس کا مقابلہ وہ کتا بیں بھی نہیں کر سکتیں جو الہامی کہلاتی ہیں.پھر انسانوں کی بنائی ہوئی کتابوں نے کیا کر نا ہے جس طرح سورج کے پڑھنے سے تمام دیئے گل ہو جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے نازل ہونے پر باقی تمام کتابیں بے نور ہوگئیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو روحانی درجہ حاصل ہوا.وہ بھی خیر کثیر کا نمونہ تھا.پھر آپ کو جو اخلاق عطا کئے گئے وہ بھی ایسے تھے کہ جن کا نمونہ ملنا محال ہے.پھر جو صحابہ سے وہ بھی ایسے کہ جن کا نمونہ صفحہ عالم سے ناپید ہے.کوئی قوم ان کے مقابلہ پر نہ ٹھہر سکی.انہوں نے اطاعت کی تو ایسی کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کی بھی است نے ان جیسی اطاعت کی ہو.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے کہ کسی کو حکم دیا بیٹھ جاؤ.ایک صحابی نے آپ کی یہ آواز گلی میں کشنی اور د میں بیٹھ گئے اور میٹھے میٹھے ہی مسجد تک گئے کسی نے کہا.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے یہاں تو حکم نہیں دیا تھا کہ تم گلی میں سہی بیٹھے گئے ہو.انہوں نے کہا.کیا معلوم ہے مسجد تک جاتے ہوئے جان نکل جائے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بجا لانے کا موقعہ ملے یا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے معاہد کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی مدینہ پر ت نہ کرے تو تم ہماری مدد کرنا ، ہمارے ساتھ ہو کر لڑنا لیکن اگر تمہیں یا ہر جا کر حملہ کرنا پڑے تو تم نہ جانا ہے اس معاہدہ کے بعد کفارہ کی شرارتوں کی وجہ سے ضروری ہوا کہ آگے بڑھ کر ان پر حملہ کیا جائے.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور که ما که مهم با ہر دشمن پر حملہ کرنے چلے میں آپ لوگوں کی مرضی ہے تو چلو.ورنہ تم نہ جانے کیا وجیسے قطعا نہ خدا کے نہ اس کے رسول کے گناہ گار ہو گئے.اس وقت انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم لوگ موسٹنے کی امت کی طرح نہیں ہیں کہ آپ کو کہدیں.ذهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا اِنَّاهُهُنَا قَاعِدُون به کجا تو اور تیرا رب جا کر لڑتے پھر ہم تو یہ سمجھتے ہیں.ہم نے آپ کو خدا کا سچا رسول سمجھ کر قبول کیا ہے.پھر وہ معاہدہ کیسا ہوا کہ آپ لڑنے جائیں اور ہم گھر بیٹھے رہیں.ہم آپ کے ساتھ چلیں گے.اور اگر آپ سمندر میں کو.پڑنے کا حکم دیں گے تو اس میں گھوڑے ڈال دیں گے اور آپ تک کوئی دشمن اس وقت تک نہیں پہنچ سکی گا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ جائے گا یہ ایک ایسے صحابی جو سولہ غزوات میں شریک ہوئے وہ ایک مجلس میں اس صحابی کی یہ کلام بیان کرکے کہتے ہیں کہ کاش میں سولہ غرز وات میں شامل نہ ہوا ہو تا مگر یہ بات میرے منہ سے نکلی ہوتی ہے پھر غزوہ حنین میں جب نبو ثقیفہ اور ہو از ان سے مقابلہ ہوا.اور بعض نومسلموں یا کفار کے تکبیر کی وجہ سے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے مسلمانوں کو بھاگنا پڑا.چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے ساتھ بارہ ہزار مسلمان شامل ہو جائیں تو میں ساری

Page 36

دنیا کو فتح کہ لوں.اور اس دین مسلمانوں کی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں کفار اور سنتے مسلمان شدہ بھی شامل تھے.اس لئے ان میں سے بعض نے کہا کہ آج دیکھیں گے کہ کون بیمار مقابلہ میں ٹھہر سکتا ہے.مدینہ والوں کو چونکہ وہ حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ بہادر اور جنگجو سمجھتے تھے اس لئے ان میں تغیر پیدا ہو گیا ہے مگر جب وہ آگے پڑھے تو دشمنوں نے اس ترکیب سے پے در پے تیر برسائے کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگنے پر مجبور ہوئے ان کے گھوڑے پاک کر پیچھے کو بھا گئے اور سارے لشکر نہیں بھا گڑ مچ گئی.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے تو صحابہ نے روکا مگر آپ نہ رکے.آپ کے ایک چچازاد بھائی نے آپ کے گھوڑے کو آگے کیا.اسی وقت آپ نے عبائش کو حکم دیا کہ عبند آواز سے کہو کہ اے انصار اللہ کا رسول تمھیں وعدہ یاد دلاتا ہے اس کو پورا کرو.ایک صحابی کتے ہیں کہ اس وقت معلوم نہیں گھوڑوں کو کیا ہو گیا تھا ان کی ایسی حالت تھی کہ ہم ان کے لگام کھینچتے اور اس قدر کھینچتے کہ ان کا سردم تک پیچھے آجاتا.مگر وہ واپس نہ لوٹتے اور نگام کھینچے کھینچ کر ہمارے ہاتھوں سے لہو نکل آیا.مگر جب ہم نے عباس کی آواز سنی تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا صور پھونکا گیا ہے اس وقت ہم نے گھوڑوں کو واپس موڑنے کے لئے بڑی کوشش ه کی اور جو نہ مڑتے ان کی تلوار سے گردن کاٹ کر نہم پیدل واپس لوٹ آئے ہیں تو ایسے وفادار اور جاں نثار آپ کے صحابہ تھے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنِّي مَكَانِدُ بِكُمُ الأمم میں اپنی امت کی کثرت پر قیامت کے دن فخر کر دوں گا تو ہر وہ چیز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی کثیر ہی دی گئی اور ہر رنگ میں خدا تعالے نے آپ کو کوثر دی لیکن اس کوثر کے ماتحت دو معنی خاص طور پر ہیں ایک تو وہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں کہ مجھے ایک نہر دی گئی ہے جس کا نام کو شیر ہے.دوسرے وہ جو لذت میں آئے ہیں.گفت میں کوثر کے معنے ہیں الرجل کثیر العطاء ایسا آدمی جو بڑا سخی ہوا اور جس کو سب طرح کی غیر ملی ہو.تو اس کے وسیع معنے تو یہ ہوئے کہ ہم نے تجھے خیر کثیر دی ہے.اور اس کے ماتحت جنت والی نہر بھی آجاتی ہے.اور یہ بھی کہ آپ کو ایک ایسا بیٹا اور انسان دیا گیا جو بڑا سخی ہے.بہت سی حدیثوں میں آیا ہے کہ کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتر کہا اور ان کے اس اعتراض پر یہ سورۃ نازل ہوئی.اب اگر اس سورۃ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بیٹے کی بشارت نہیں دی گئی تو پھر اس کے معنی ہی نعوذ باللہ لغو ہو جاتے ہیں اور الٹا اعتراض ہوتا ہے کہ کہا تو یہ گیا ہے کہ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے.مگر جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس کو ایک نہر

Page 37

۲۹ دی گئی ہے.گوکسی رنگ میں یہ بھی جواب ہو مگر بظاہر یہ خیال آتا ہے کہ صرف نہر کا مراد لیا دشمنوں کے سوال کو رد نہیں کر سکتا.لیکن اگر کوثر کے معنی خیر کثیر کئے جائیں تو سب باتیں اس میں آجاتی ہیں اور اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ دیا ہے.اور کسی خیر اور بھلائی کے دینے میں کمی نہیں کی.اور اگر اس کے معنی صرف نر کے کئے جائیں تو یہ ایک بے معنی کلام بن جاتا ہے.اور ایسی ہی بات بن جاتی ہے کہ کسی نے ایک شخص کو کہا کہ تو نے اپنے کھیت کو بار پڑھی کیوں دی ہے اس نے کہا تو نے بھی تو اپنی لڑکی کا نکاح کیا ہی تھا.مگر خدا تعالے کے کلام کے متعلق ایسا خیال نہیں کیا جا سکتا.پھر اس سے اس کے معنی صاف ہو جاتے ہیں کہ عربی میں یہ محاورہ ہے کہ بستر الرجل یعنی ایک ایسا شخص جس کی اولاد نرینہ نہ ہو یا نہ رہے اور یہ بھی کہ اس انسان میں کوئی خیر اور بھلائی نہ ہو.ان دونوں باتوں کا جواب خدا تعالے نے یہ دیا ہے کہ ہم نے تجھے کو شر عطا کی ہے.اس بات کا ثبوت کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر کفار یہ اعتراض کرتے تھے کہ آپ ابتر ہیں اس سے بھی مل سکتا ہے کہ کعب بن اشرف جب مکہ میں گیا اور وہاں کے لوگوں نے اسے کہا کہ انت سند المدينة وهذا الرجل حسابی الم تر کہ تو مدینہ کا سردار ہے اور پیشخص (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) جو ابتر ہے وہ اچھا ہے یا ہم تو اس نے کہا کہ تم اچھے ہو تو کفار کے اس اعتراض کے متعلق خدا ننھائے فرماتا ہے کہ وہ چھوٹا ہے جو تجھے کہنا ہے کہ تیرے اندر کوئی خیر نہیں یا تو کوئی نرینہ اولادنہیں رکھتا.ہم نے تو تجھے ہر قسم کی غیر اور بھلائی دی ہے اور اولاد بھی ایسی دی ہے جیسی اور کسی کو نہیں دی.عربی میں بستر الرجل، اس شخص کو کہتے ہیں جس کا کوئی لڑکا نہ ہو.خواہ لڑکیاں کتنی ہوں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑکیاں تو تھیں مگر با وجود اس کے طبری میں آیا ہے کہ جب آنحضرت فلم کے صاحبزاہ ابراہیم کی وفات ہوئی تو کفار نے آپ کو بستر الرجل کیا ہے جس سے ان کی یہی مراد تھی کہ آپ کوئی نرینہ اولاد نہیں رکھتے ہیں اس اعتراض کے جواب میں جب اللہ تعالئے فرماتا ہے إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ تو ضرور ہے کہ اس میں اولاد کے متعلق اعتراض کا ہی جواب ہو اور پھر اس میں عطائے خیر کی خبر بھی دی گئی ہو.پس اللہ تعالے نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ہم نے تجھے ایسی خیر کثیر عطا کی ہے جو اسی دنیا میں ختم ہونے والی نہیں ہے بلکہ جنت میں بھی جاری رہے گی.یہ معنے کرنے سے کفار کا اعتراض رو ہو جاتا ہے اور یہی درست ہیں.گویا ان کو کہا گیا ہے کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ اس میں کوئی خیر نہیں تو یہ غلط ہے ہم نے تو اسے اتنی خیر عطا کی ہے کہ جو نہ صرف اس دنیا تک محدود ہے بلکہ آخرت میں بھی جائے گی اور اگر کہو کہ اس کی اولاد نہیں تو ہم اسے ایک ایسا بیٹا دیں گے.

Page 38

جو بہت نیک اور بڑا سخی ہوگا.اب ہم کو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کو ان ہے جس کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قرار دیا گیا ہے.اگر یہاں ہم عقل و فکر سے کام نہیں اور قرآن کریم کو سامنے رکھیں تو علوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی جس اولاد کا ذکر کیا گیا ہے وہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے کیونکہ جسمانی اولاد کے متعلق تو خدا ثنا نے صاف طور پر فرما چکا ہے کہ یہ نبی تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہے جیسے اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اولاد کی خبر نہیں دی گئی بلکہ.روحانی کی دی گئی ہے تو یہ بات باقی رہ گئی ہے کہ یہ خبر کس زمانہ اور کس وقت میں پوری ہونی چاہیے تو یہ صاف بات ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفار کا روحانی اولاد کے سلسلہ کے مچلنے کے متعلق اعتراض نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت ابو شجرہ عمر ، شمشان ، زیرت " اور بہت سے اعلیٰ شان اور درجہ کے صحابہ موجود تھے.اور وہ گرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد روحانی سلسلہ کو جاری رکھ سکتے تھے چنانچہ انہوں نے جاری رکھا، تو یہ اعتراض اسی وقت ہو سکتا تھا جب کہ یہ خطرہ ہو کہ روحانی نسل کا سلسلہ منقطع ہو جا ہیگا اس لئے ایسے ہی زمانہ کے متعلق یہ خبر ہے کہ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس وقت مسلمان بیوری اور نصاری ہو جائیں گے لیے پس جس زمانہ میں مسلمان یہودی اور نصاری ہو گئے تو پھر یہ صاف بات ہے کہ اس وقت وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی دھانی اولاد نہیں ہو سکتے.اسی وقت یا اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر ان کی روحانی اولاد کا سلسلہ کس طرح چلیگا اس کا جواب خدا تعالے نے یہ دیا ہے کہ اِنا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ.ہم تجھے اس وقت ایک ایسا بٹیا دیں گے جس سے رُوحانی نسل چلے گی.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب سیح آئے گا تو وہ لوگوں کو اس قدر مال دے گا کہ کوئی قبول نہیں کرے گا.یعنی وہ اس قدر سخی ہوگا کہ ساری دنیا ہے اس کی سخاوت پھیل جائے گی.اس کے متعلق بفیض المال بھی آیا ہے اور يَفِيضُ المال کے بھی کہ وہ خوب مال لٹائے گا اور لوگوں کو خوب مال ملے گا.مگر لوگ نہیں لیں گے ہاں اس کی طرف سے دینے میں کوئی کوتا ہی نہ ہوگی تو گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ میں آنے والے میسج کا نام دوسرے لفظوں میں کوثر رکھا ہے کیونکہ کوثر کے معنے بہت بڑے سخنی کے بھی ہیں.اور سیح کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اس قدر سخاوت کرے گا کہ لوگ قبول نہیں کرنیگے اس کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی مانگے اور وہ دے.مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ خود لوگوں کے پاس جا کر مال دے گا.نہ یہ کہ جب عام طور پر

Page 39

اس سے مانگنے آئیں گے تو دے گا.یہ بہت بڑھ کر سخاوت ہے اور یہ صرف حضرت مسیح کے متعلق ہی فرمایا ہے اور کسی کے متعلق نہیں فرمایا.اور ایسے ہی آدمی کو کو تر کر سکتے ہیں.تو اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الکوثر میں مسیح موعود کی آمد کی پیش گوئی کی گئی ہے.پھر دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کو فرنا یا کہ سلمان منا اهل البیت کہ مسلمان میرے اہل بیت سے ہیں.یہاں سوال ہوتا ہے کہ جس طرح مسلمان فارسی صحابی ہونے کی وجہ سے اہل بہت تھے تو اسی طرح تو اور صحابہ بھی اہل بیت میں سے ہی تھے پھر ان کے متعلق خاص طور پر کیوں کہا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ایک بیٹے کا وعدہ دیا گیا تھا اور وہ حضرت سلمان فارسٹی کی نسل سے ہونا تھا اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا اہل بیت قرار دے کر یہ بتایا ہے کہ وہ میرا ہی بیٹا ہو گا تو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فارسی النسل کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے پس ان سب باتوں کو پیش نظر رکھنے سے کہ (1) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ مسلمان باشت با با کشت یهود و نصاری کی اتباع کرینگے کیعنی پورے پورے نہو دی اور عیسائی بن جائیں گے، بتا دیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جبکہ روحانی سلسلہ منقطع ہونے کے اسباب پیدا ہو جائیں گے.(۲) یہ کہ حضرت مسیح کے متعلق تفيض المال فرما کر پیش گوئی کی ہے کہ مجھے ایک ایسا روحانی بیٹیا دیا جائے گا جو بڑا سخی ہوگا اور وہ میری روحانی نسل کو منقطع ہونے سے بچالے گا.(۳) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر کفار کا ابتر ہونے کا اعتراض کرنا اور اس کے جواب میں خدا تعالے کا إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكُوثَرَ فرمانا.(۴) کوثر کے معنی لذت میں بہت بڑے سخی کے ہونا.ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعود ہی مراد ہیں لیکن اگر کوثر کے معنی محدود کر دیئے جائیں اور اس سے صرف ہشت کی نہر سمجھی جائے تو یہ ایسی ہی بات ہوگی کہ اعتراض کچھ کیا تھا اور جواب کچھ اور دیا گیا ہے جس کا اعتراض سے بالکل کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے.اور نہ ہی کوئی عقل مند ا سے اس اعتراض کا جواب کہ سکتا ہے.میں اس وجہ سے کوثر کے ایسے معنے کرنا ضروری ہیں کہ جن سے بیٹیا مراد ہو مگر باوجود اس کے ہم کوثر کے معنی کو اسی پر محدود نہیں کر سکتے.بلکہ ہیں کہتے ہیں کہ کوثر سے جس طرح اس نہر کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے اسی طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی بیٹے کی طرف بھی اس میں استارہ ہے.

Page 40

پھر دیکھئے اللہ اتنا لے اس بات کو اور کھولتا ہے.فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ پس اپنے رب کی عبادت کر اور قربانی دے.یہ عبادت اور قربانی بیٹے ہی کی پیدائش کی خوشی میں بہت کی گئی ہے.اور نبی ایسے موقعہ پر بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور قربانی دیتے ہیں.قرآن کریم میں حضرت زکریا کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے خدا تعالے سے دُعا کی ہے کہ لیکن بلئے وہ ہوں، مجھے اولاد عطا کی جائے اور یہ دعانہ وحانی اولاد کے متعلق ہی تھی نہ کر جسمانی اولاد کے لئے.چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ مجھے ایسا بیٹا عطا کیا جائے جو میرا اور آل یعقوب کا دارت ہووے چونکہ انہیں خطرہ تھا کہ میرے بعد روحانی سلسلہ مٹ جائے گا ، اس لئے روحانی بیٹے کی دعا کی ہے.اس پر خد اتعالے نے آپ کو بنیا دیا.پھر آپ پوچھتے ہیں کہ الہی میں اس نعمت کے شکریہ میں کیا کروں.اس کے متعلق خدا تعالے نے فرمایا کہ تین دن روزے رکھو جیسے انہوں نے خود روزے رکھے اور دوسروں کو عبادت کرنے کی تلقین کی.چنانچہ ان کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے.ان ستحق بكرة وعشيات تو اولاد کی خوشخبری پر نبی خدا تھا کئے کی عبادت کرتے اور نماز پڑھتے ہیں.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ : سكوتر کی خوشخبری سنانے کے بعد فرمایا فصل ہر بات کہ اس کے شکریہ میں اپنے رب کی عبادت کرد و انحر قربانی دو.یہ بھی صاف بات ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر عقیقہ کیا جاتا ہے.اسی لئے فرمایا کہ ہم نے تجھے کو ردی ہے.پس اس نعمت کے ملنے پر خوب عبادت کرو اور قربانیاں دو.ایک زمانہ آئے گا جبکہ لوگ تمہیں بے اولاد بنانے کی کوشش کریں گے اور ساری دنیا تمہاری روحانی اولاد کے سلسلہ کو منقطع کرنا چاہے گی اور اب بھی تم پر بے اولاد ہونے کا اعتراض کیا جاتا ہے مروہ تمھیں ایک ایسا بیا دیا جائے گا کہ جو تیرے دشمنوں کو ان کی کوششوں میں ناکام و نامراد رکھے گا.تیرا دشمن تیرے بعد تیرہ سو سال زور مارتا ر ہے گا اور ایک حد تک اپنی کوشش میں اسے کامیابی بھی نظر آئے گی.مگر اس وقت تمہیں ایسا بیٹا دیا جائے گا کہ جس کی وجیسے تیرے دشمن ابتر ہو جائیں گے اور شیطان اپنے منصوبوں میں ناکام ہو جائے گا.چنانچہ یہ ایک پیش گوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں شیطان اپنی پوری قوت اور طاقت سے اپنا آخری حملہ کرے گا مگر ناکام رہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا جبکہ ساری دنیا کا مذہب اسلام ہو جائے گا : ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ اس سورۃ میں حضرت مسیح موعود کی بعثت کی پیش گوئی ہی کی گئی ہے نیز اسے عید اضحی سے مشابہت دی گئی ہے کیونکہ اس میں نماز پڑھنے اور قربانی دینے کا حکم ہے.اور یہی وہ عید ہے جس کے موقعہ پر نماز پڑھی اور قربانی دی جاتی ہے.پس

Page 41

العلم سفر اس طرح اس عید کو حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس طرح اس میں مومن کے لئے ضروری ہے کہ نما نہ پڑھے اور قربانی دے.اسی طرح کسی موید کے زمانہ میں مومنوں کا فوجین ہوگا کہ خوب خدا تعالے کی عبادت کریں اور قربانیاں دیں.کیوں ؟ اس لئے کہ کیسے موعود کے آنے کے وقت ان کو ایک ایسا انعام دیا جائے گا کہ اس کے شکر یہ میں وہ اپنے رب کے حضور جس قدر بھی ہو سکے عبادت کر کیا.یہاں پہلے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے یعنی انسان پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرے اور پھر قربانی کرے یعنی دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے.اس میں اُسے جو کچھ خرچ کرنا پڑے کرے.اصل قربانی نفس کی ہی ہوتی ہے اور اسی کو گرنے کی کوشش کرنا چاہیئے.تو اس آیت میں خدا تعالے نے دو اشارے فرمائے ہیں ایک یہ کہ وہ زمانہ خوشی کا نہ مانے ہوگا.اور مومنوں کو اس میں خاص طور پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو گویا وہ خدا تعالے کے اس فضل کو رد کر دیتا ہے اور اس طرح کرنے والے سے خدا تعالے وہ انعام چھین لیتا ہے.چنانچہ فرتا ہے.آئین شکر تُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد که اگر تم میرے انعامات پر شکر کرو تو میں اُسے بہت بڑھا دوں گا.اور اگر ناشکری که دو تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی بہت سخت ہے.تو جو انسان خدا تعالئے کے انعام کی شدہ نہیں کرتا اس سے چھین لیا جاتا ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کو خدا تعالے نے اپنا ایک خاص فضل اور انعام قرار دیا ہے.اگر اس انعام کے ملنے پر خوشی کا اظہار نہ کیا جائے گا تو اس سے محروم کر دیا جائے گا.تو خدا تعالے نے یہاں یہ بتایا ہے کہ تمہارا فرامین صرف مسیح موعود کو مانا ہی نہیں بلکہ اس پر خوشی اور فخر کرنا بھی ضروری ہے ، اور وہ ایسی خوشی ہونی چاہیئے جیسی کہ کسی کو اپنے گھر بیٹا ہونے کے وقت ہوتی ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ مسیح موعود تمہارے رسول کے ہاں روحانی بیٹا پیدا ہوا ہے.پس تم کو ایسی خوشی کرنی چاہئیے کہ تمہارے چہروں سے اس کا پتہ لگے.تمہاری حرکات و سکنات سے معلوم ہو کہ تم مسیح موعود کو مان کر بہت خوش ہو.لیکن اگر کوئی مسیح موعود کو ماننے کا دعوی کرتا ہے میرا اس کے اعمال اور افعال اس کے چہرہ مُہرہ سے ، اس کی بات جیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسے خوشی ہے تو گویا اس نے مسیح موعود کو قبول ہی نہیں کیا ادرا سے کچھ حاصل ہی نہیں ہوا.کیونکہ جس کو کوئی انعام ملتا ہے اس کی خوشی کی علامات اور آثار ضرور اس میں پائے جاتے ہیں.تو فرمایا کہ اگر تم یہ موجود کو خدا کا انعام سمجھتے ہو تو تمہارے اعمال ، افعال گفت گو اور بشرہ سے اس انعام کی خوشی کے علامات کا پتہ لکھنا چاہیئے.

Page 42

اور تمھیں مسیح موعود کی بعثت پر خوب خوشیاں کرنا چاہئیں اول تو ہر احسان اور انعام پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئیے مگر یہ تو ایسا انعام ہے کہ جس کے متعلق خود خدا تعالئے خوشی کرنے کا ارشاد فرماتا ہے.پھر سوچ لو کہ کس قدر خوستی کرنا چاہیئے.پھر دوسرا استارہ اس آیت میں یہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ ضروری ہوگا کہ دعائیں بہت کثرت کے ساتھ کی جائیں اور خوب قربانیاں کی جائیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اِنَّ شَانِسَك هو الان تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد پھیل جائے گی اور آپ کے دشمنوں کی نسل منقطع ہو جائے گی اور وہ ابتر ہو جائیں گے ان کی روحانی اولاد باقی نہ بریگی کیونکہ سب جگہ مومن ہی مومن پھیل جائیں گے.ہمیں اس آیت سے یہ فائدہ اور یوم عید سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کیونکہ یہ عید میں یاد دلاتی ہے کہ فصل لربک وال پر عمل کریں.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ خوب دعائیں کرے اور قربانیوں میں ہی رہے.قربانیوں میں سب سے ضروری اپنے نفس کی قربانی ہے اس کے کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے.اور دوسری بھی ہر قسم کی قربانیوں سے دریچے نہ ہونا چاہیئے.جب یہ ہو گا تو اس وقت ہماری کامیابی یقینی ہے کیونکہ اسی وقت ہمارا دشمن ابتر ہو گا اور اسکی نسل منقطع ہو جائیگی یہاں خدا تعالے نے نسل رب انکر کے بعد اِنَّ شَانِدُكَ عُر الابتر رکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالے کی عبادت اپنے نفس کی اصلاح کرنے اور قربانیاں دینے کے بعد دشمن ابتر ہوگا تو اللہ تعالے نے ہمارے دشمنوں کے ناکام ہونے کے ساتھ یہ شرط لگا دی ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اس حکم کے ماتحت اپنے نفس کی خاص اصلاح کریں اور قربانیاں دیں اپنے خیالات، اپنے اموال ، اپنی اولاد ، اپنے رشتہ دار اور اپنے نفس کی.غرضیہ کہ جو قربانی بھی کرنی پڑے کریں.کیونکہ خدا تعالے کہنا ہے کہ یہ قربانی کرنے کا زمانہ ہے.پس یہ خیر نہیں اس طرف متوجہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ جس طرح اس دن تم بحروں وغیرہ کو ذبح کرتے اور ان کی گردنوں پر چھری رکھتے ہو.اسی طرح اپنے مالوں اور جانوں کو قربان کرو تا کہ آنحضرت صلے شہد علیہ وسلم کی روحانی نسل بڑھے او.آپ کے دشمن ابتر ہوں.پس میں یہاں کی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں.جو لوگ بیٹھے ہیں وہ سُن لیں اور باقیوں کو انشاء اللہ اخبار کے ذریعہ سے یہ باتیں پہنچ جائیں گی.بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مسیح موعود کو مان لیا ہے اب ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے، ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس طرح خدا تعالٰی

Page 43

خوش نہیں ہوگا.خوش اسی وقت ہوگا جب کہ قصد پر بات والحریر عمل کیا جائے گا اور اپنے آپ کو خدا تعالے کے حضور گرا دیا جائے گا اور ہر ایک قربانی کی جائے گی لیکن اگر یہ نہیں تو پھر کچھے نہیں.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے فرائض سمجھیں اور ایک طرف اپنے اخلاق وعادات، اعمال و افعال تقونی و طهارت میں ترقی کو یا تی دوم می حرف به را یک قربانی کریں.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے انسان کے احسان تھے مقابلہ میں گہرے کہ میں نے بہت قربانی کر دی ہے مگر اللہ تعالے کے کسی فضل اور انعام کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی قربانی ایسی نہیں جو پیش کی جا سکے.اس کے لئے تو اگر خدا کے لئے جان ومال، بیوی بچے ، عزیز و رشتہ دار بھی قتل کرا دینے پڑیں تو پھر بھی کچھے نہیں.ایک شاعر تھا تو ہے دین مگر اس کا ایک شعر مجھے بہت پسند ہے کہتا ہے " تو جان دی.دی ہوئی اُسی کی تھی ستی تو یہ ہے کہ حق ادا نہ تو دنیا میں ایک انسان کے مقابلہ میں انسان قربانی کر کے اس کا بدلہ اتار سکتا ہے.مگر اللہ تعالئے اور اس کے خاص بندوں کے احسانات اور انعامات کہ وہ بھی خدا ہی کی طرف سے ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں کوئی انسانی قربانی ایسی نہیں جو کچھ حیثیت رکھتی ہو کیونکہ اس کے انعام اس قدر عظیم الشان ہوتے ہیں کہ جن کا شکریہ ادا ہی نہیں ہوتا.اس لئے انسان جو بھی قربانی کرتے وہ کم اور تھوڑی ہے مگر کئی لوگ ایسے ہیں جو کچھ خدمت دین کر کے یا چندہ دے کو خوش ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا ہے.پھر اگر ان سے چندہ مانگا جائے تو اعتراض کرتے کچھ.ہیں کہ ہر وقت چندہ ہی مانگا جاتا ہے، ہم پہلے جو دے چکے ہیں.لیکن ان کو دیکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالے کے احسانات کے مقابلہ میں کیا قربانی کی ہے.وہ تو اگر اپنا سب کچھ بھی خدا کی راہ میں دے دیتے تو پھر بھی احسان ادا نہیں ہو سکتا.کیونکہ جو کچھ انسان کے پاس ہوتا ہے ، وہ سب کچھ خدا تعالے کا ہی دیا ہوا ہوتا ہے اگر وہ سارا ہی لے نے تو انسان کیا کر سکتا ہے.مگر یہ بھی اس کا احسان اور رسم ہے کہ اپنی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کچھ ہی کتنا ہے اور باقی ہمارے پاس رہنے دیتا ہے تو اس قسم کے خیالات شیطانی خیالات ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالے کے محمد کے خلاف کرنے کی ترغیب دیتے ہیں.مومن کو چاہیے کہ جس قدر بھی اس سے ہو سکے، قربانی کرے لیکن ہو سکنے کا فیصلہ اپنے دل سے نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس وقت دین کو کسی قدرت بانی کی ضرورت ہے.اور وہ اس سے کیسی قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے کیونکہ خدا تعالے کی طرف سے کوئی دینی ضرورت ایسی نہیں پیدا کی جاتی کہ جس کے پورا کرنے کے لئے اس وقت کے لوگوں میں طاقت اور ہمت نہ ہو تے بلکہ ایسی ہی پیدا کی جاتی ہے جس کو لوگ or

Page 44

پورا کر سکیں اس لئے دین کی ضرورت کو دیکھ کہ قربانی کرنا چاہیئے اور یہ وسوسہ ہر گز دل میں نہ نے دینا چاہئیے کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا ہے.اب کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا ہم کر نہیں سکتے.للہ تعالے ہماری جماعت کو توفیق دے کہ اس زمانہ کو بجھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو خدا تعالے کا ہم پر فضل ہوا ہے اور ہم پر جو انعامات کے دروازے کھوئے گئے ہیں ان کا شکریہ ادا کر سکیں اور جہاں تک ہو سکے ہر رنگ میں قربانی کرنے کی خواہش اور موقعہ نصیب ہو اور کچھ خدمت دین کر کے اس پر فخرا در ناز نہ ہو جبکہ اس پر بھی خدا تعالے کا شکریہ ادا کریں کہ اس نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے اس کے کرنے کی توفیق دی ہے.را الفضل بار اکتوبر ۱۹۱۶ له ما تا ۱۰ - الكوثر ۱۰۸ : ۲ تام سے.مشکوۃ المصابیح باب صلوة العيدين ص ۱۳ مطبوعہ دہلی ۶۱۹۳۶ - نیل الاوطار امام شوکانی جلد سه ار ا پریل سنشائه مطابق اردوی الحجہ اس کو عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد حضرت مسیح مجود سلام نے اللی تصرت کے ماتحت عربی زبان میں ایک نہایت فصیح الطبيغ في البدیعه خطبہ ارشاد فرمایا یہ خطبہ بعد میں خطبہ الہامیہ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا.اس میں پہلا حصہ العامی ہے اور اور ایک زبر دست اعجازی نشان ہے باقی چار ابواب آپ نے بعد میں رقم فرمائے.اس خدائی نشان کی تفصیل کے لئے دیکھیں حقیقۃ الوحی ص۳۶ سے - مفردات امام راغب - فتح البیان مصری جلد ۱۰ ص ۳۲ - تفسیر کبیر امام رازی جلده ۳۹۵۵ تے.صحیح بخاری کتاب التغيير باب سورہ کوثر صحیح مسلم کتاب الصلوة باب حجة من قال البسماية أية من اول كل سورة شه - صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سوره کوثر - تفسیر کبیر امام رازی جلد ۸ ۳۹۵۵ شه - حضرت عبداللہ بن عباس - بنو ہاشم - اسلام سے قبل ہجرت - وفات شده یا نشده صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة - صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابن عباس من صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سوره نصر ه تفسیر ابن کثیر حاشیه تفسیر فتح البیان جلد ۱۰ ص۳ ه - حضرت حسن بصری رساله - نامه مشهور تابعی اور علوم ، ظاہری و باطنی میں یگانہ روزگار عالم تھے.

Page 45

- تفسير ابن كثير حاشیه تفسیر فتح البیان جلد ۱ مث۳۰ ه - تفسیر ابن کثیر هاشیه تفسیر فتح البیان جلد است ۷۵ - حضرت ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعود - نیونیم - وفات ۳ بعمر ۲ سال رط ا طبقات ابن سعد تاریخ کامل ابن اثیر یا - سنن ابی داؤد، کتاب الصفوة باب الاماهر يكلم الرحيل في خطبته شه - السيرة الامام ابن هشام الجزء الاول منا - المائدة ٢٥:٥ - حضرت مقداد بن عمرو نے مہاجرین کی طرف سے اور حضرت سعد بن معاذ نے انصار کی طرف سے یہ الفاظ کیسے تھے.السیرة الامام ابن هشام الجز الثاني ملا - صحیح بخاری کتاب التفسير سورة مائده و کتاب المغازی باب غزوہ بدر - سے.صحیح بخاری کتاب المغازی ابواب غزوہ بدر محمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد اصنا الله - به غر وہ سندھ میں ہوا چنین مکہ اور طائف کے درمیان ذی المجاز کے پہلو میں ایک وادی کا نام ہے معجم البلدان جلد ۳ م ۳۵) نام تند تواریخ میں بروایت اسطرح بیان ہوتی ہے.اظہار ہی رسول اله صلى الله عليه ولم كثرة من معه قال لن تقلب اليوم قلة تاریخ کامل ابن اثیر ہے ) - السيرة الامام ابن هشام جلد ۳ صدا ذکر خرده چنین - التوبة و: ۲۵ ۲۵ - السيرة الامام ابن هشام جلد ۳ هذا صحيح مسلم كتاب الجهاد باب شده و چنین سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب تز و هیج انکار - جامع ترمذی ابواب الطهارة باب ماجاء في فضل الطهور سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب ما جاء في فضل النكاح شه نه مفردات امام راغب زیر لفظ کوثر- تفسیر کبیر امام رازی بلده منم شه - طبقاب ابن سعد جلد ا مثه مطبوعہ لیدن deiden ۱۳۳۲ به تغییر در منشور جلد ۶ مردم - تاريخ العروس جلد ۳ مشا ه - تفسیر در منثور جلده منم - اہے.نائب سو کتابت ہے تاریخ طبری یا غیرطبری میں کرنی است تاریخ کی بنا دیا کیا ہے ان کے پینے قسم کی وفات پر ابتر کہنا ثابت ہے.الاحزاب ۳۳ : الم شاد حضرت ابوکی عبد اللہ ابن ابی قحافہ بنوتیم خلیفة الرسول الاول خلافت سے وفات - عبدالله

Page 46

۶۶۳۴ - حضرت عمر بن الخطاب - بنو عدی - خلیفة الرسول الثانی.خلافت سے وفات ٣٥ - حضرت عثمان بن عفان - بنو عبد الشمس - خلیفة الرسول الثالث خلافت و ذات سے ۳۵ ے.حضرت علی ابن ابی طالب - بنو ہاشم خلیفة الرسول الرابع - خلافت پر وفات ی - حضرت ابو محمد محمد بن عبید اللہ بنو تمیم - عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے سنت وہ جنگ جمل میں لڑتے ہوئے شہید ہے.ه - حضرت ابو عبد الله زبير بن العوام القرشی الاسدی - عمة رسول حضرت صفیہ کے صاحبزادہ اور عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے.وفات سندھ شته صبح بخاری کتاب نا بسیار باب ما ذکرین بنی اسرائیل صحیح مسلم کتاب العلم باب اتباع من الجهود و نصاری ے.صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نقد دل عیسی بن مریم به اسے صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم حاكماً بشريف نبينا صلى الله علیہ وسلم ے.حضرت ابو عبد اللہ مسلمان الخیر الفارسی - اسلام شنت - وفات شد - - اسد الغابه في معرفة الصحابه جلد ۲ ص.- مریم ۷۰۷:۱۹ مریم ۱۹ : - مریم ۱۹ : 11 ۱۲ - تبلیغ رسالت جلد باحث ے.ایک غلطی کا ازالہ ص ۱۵ مطبوعہ لاہور وسه - روحانی خدائن وخطبه الهامیه ، جلد 1 ص شد - ابراهیم ۸:۱۴ - تذکره طبع سوم من 5194 لهم - دیوان غالب مطبوعہ مکتبہ جدید لاہور ۶۱۹۶۰ - مام - البقره ۲: ۲۸۷ - تفسير در منشور جلد ا ٣٣

Page 47

افرموده ۱۷ ستمبر اااه بقام عید گاه.قادیان) قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ وَ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونَ يزا مالة اللہ تعالے کی سنت ہے کہ ہمیشہ کسی جماعت کی ترقی اور اس کی بلندی قربانیاں چاہتی ہے اور کوئی جماعت ایسی نہیں ملے گی جسے بغیر قربانی کے ترقی حاصل ہوئی ہو.کوئی انسان ایسا نہیں ملیگا جس نے بغیر قربانی ترقی پائی ہو.ترقی اور کامیابی کے لئے ضرور قربانی کرنی پڑتی ہے.اور جب تک انسان قربانی نہ کرے وہ کوئی بڑی کامیابی اور عزت حاصل نہیں کر سکتا.پس ہر ایک وہ شخص جس کے مدنظر ترقی ہو خواہ وہ دنیا دی ہو یا دینی ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام ان قربانیوں پر عامل ہو جو اس ترقی کے لئے ضروری ہیں اور ان قربانیوں کے لئے اس کے دل میں کسی قسم کی جھجک اور کسل پیدا نہ ہو کیونکہ جس کے دل میں ایسا خیال پیدا ہوتا ہے وہ کوئی قربانی نہیں کر سکتا اور جو قربانی نہیں کرتا اس کی امیدیں نا امیدی سے بدلی جاتی ہیں اور اس کی ترقی کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں.دنیا میں قربانی کا قانون ہر کام میں جاری ہے اور چھوٹی چیز بڑی چیز کے لئے قربان ہو رہی ہے.دیکھو فد لاکھوں اور کروڑوں من بڑی محنت سے پیدا کیا جاتا ہے.لیکن اس کا انجام کیا ہوتا ہے یہی کہ انسان کے اندر ایک بھٹی ہے جس میں جھونک دیا جاتا ہے.ہندو ہونی کرتے ہیں اور اس میں گھی ، صندل، نافہ وغیرہ وغیرہ چیزیں جلاتے ہیں.حالانکہ ان چیزوں کو بیرونی آگ پر جلا کر ضائع کرنے کی ضرورت نہیں.خود انسان کے اندر ہی ایک آگ ہے جس میں ان کو جلایا جاتا ہے اور اس طرح وہ اس کی زیست کا باعث بنتی ہیں.کیا یہ صحیح نہیں کہ کروڑوں من غل انسان کی زیست کے لئے اس کے پیٹ کے بھینٹ چڑھایا جاتا ہے.اور اربوں من بھوسہ جانوروں کے تنور شکم میں جلایا جاتا ہے یہ کیوں ؟ اس لئے کہ جانوروں اور انسانوں کی زندگی بھوسہ وہ غل سے بہت قیمتی ہے.اور وہ اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ ان چیزوں کو اس کے لئے قربان کیا جائے پس وہ اس کی خاطر قربان ہوتی ہیں.پھر ایک بڑے آدمی کی بقا کے لئے جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچتا ہو ہزاروں چھوٹے انسان قربان ہوتے ہیں اور ہزاروں اپنے وقت ، علم اور محنت اور جان تک کو اس کی زندگی قائم رکھنے کے لئے قربان کر دیتے ہیں

Page 48

تو تمام دنیا کے کاموں میں قربانی کا سلسلہ جاری ہے اور جتنی کار آمد کوئی چیز ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ اس کے لئے قربانی کی جاتی ہے.بعض انسانوں کے لئے ہزاروں لاکھوں انسان قربان ہو جاتے ہیں ایک بادشاہ کے لئے، ایک جرنیل کے لئے، ایک افسر کے لئے بیسیوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں آدمی اپنے آپ کو قربان کر دیتے ہیں اور اگر ایک کار آمد انسان بہت بڑی انسانی قربانیوں کے کے بعد بچا لیا جائے تو بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے اور جس دن ایسی کامیابی حاصل ہوئی ہو اسے عید کا دن سمجھا جاتا ہے.اور اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جو شخص کسی قوم کے لئے یا ملک کے لئے یا مذہب کے لئے مفید تھا اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کا سہارا اور الا کے لئے آرام کا باعث تھا اس کی حفاظت کے لئے اگر ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کو بھسم بنا پڑا ہے تو ہو گئے ہیں.اور اس ایک جان کے لئے بے شمار جانیں قربان کر دی گئی ہیں.اور قربان ہونے والے اس قربانی پر فخر کرتے ہیں کہ یہ خدمت ہم بجا لا سکتے.اس قسم کے نظا یہ دن کے شاہد تاریخی اور راق ہیں جن سے اس قسم کے بہت سے واقعا مل سکتے ہیں.یہ تو ایک مشہور واقعہ ہے اور ہندوستان کی تاریخ پڑھنے والے بچے بھی جانتے ہیں کہ جس وقت ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سے شکست کھا کر بھاگا ہے.اس وقت اس کا مشهور جرنیل بیرم خان دشمنوں کے قبضہ میں آگیا جس کے ساتھ اس کا غلام بھی گرفتار ہوتا جب ان سے پوچھا گیا کہ بیرم خان کون ہے تو غلام نے کہا ئیں ہوں اس پر بیرم خاں نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنا آپ دشمنوں پر ظاہر کر دے اور انہیں یقین دلا د سے کریکی ہی بیرم خان ہوں لیکن اس کے غلام نے ایسا رنگ اختیار کیا اور ایسے طریق سے گفتگو کی کہ دشمنوں کو یقین آگیا کہ وہی بیرم خاں ہے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا.اس طرح بیرم خان بچ گیا ہے اگر وہ نظام نے جھوٹ سے کام لیا لیکن اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنے آپ کو آقا پوست پربان کر کے اس کی جان بچائی.کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ میرے وجود کی نسبت اس کا وجود بہت قیمتی اور کار آمد ہے.چنانچہ بیرم خاں ہمایوں کی اس مصیبت کے وقت میں بستی کام آیا اور اسی کے ذریعہ ہمایوں کو بہت سی فوج ملی جس سے اس نے ہندوستان کو دوبا فتح کیا.شہ یہ تو ایک شخص کی قربانی کا واقعہ ہے.بعض جگہ تو ہزاروں اور لاکھوں انسانوں نے صرف ایک شخص کے لئے اپنی جان قربان کر دی ہے.ابھی قریب ہی کے زمانہ میں ایک مشهور بادشاہ گزرا ہے جس کا نام نپولین تھا.یہ ایک معمولی خاندان کا نمبر اور بہت ہی معمولی حیثیت کا انسان تھا.حتی کہ مورخین کو اس کے والدین کے تاریخی حالت میں بھی شہہ پڑا

Page 49

ہوا ہے.بعض اس کے والد کے متعلق کچھ لکھتے ہیں اور بعض کچھ.یہ جزیرہ کا رسیکا کا رہنے والا تھا اور تعلیم پانے کے لئے فرانس میں آیا تھا لیکن اپنی دانائی اور ملک کی خیر خواہی کی وجہ سے آہستہ آہستہ فرانس کا بادشاہ بن گیا ہے فرانس میں جب بغاوت اور فساد ہوا.تو بادشاہ اسی کو بنا یا گیا تھا.نسلی یا خاندانی تو کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اسے اپنا شہنشاہ بنالیتے.لیکن اس میں جو قابلیت اور ملک کی خیر خواہی تھی، اس کی وجہ سے یہ مقام اسے حاصل ہوا.کہ بعض اوقات لاکھوں ہزاروں انسان اس کی خاطر اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے ذبح ہو گئے لیے آخری دفعہ واٹر کو کے میدان میں جب انگریز اپنی اور جرمنوں نے اس کو شکست دی ہے.اس وقت کے واقعات نہایت موثر اور رفت پیدا کرنے والے ہیں.اس کے متعلق اسی کا ایک جرنیل لکھتا ہے کہ جس وقت نپولین کو یہ دھوکا لگ گیا کہ اس نے سمجھا کہ اس کی فوج کا وہ حصہ جسے اس نے پیچھے اپنی مدد کے لئے چھوڑ رکھا تھا کہ بعد میں آلے وہ آرہا ہے.حالانکہ آنیوالی فوج نشین کی فوج تھی ، اور وہ بالکل قریب آگئی تھی تو یہ خبر لے کر میں ہی نپولین کے پاس گیا.جس وقت میں گیا تو ہماری ساری فوج پراگندہ ہو ہی تھی اور گولہ بارود بالکل ختم ہو چکا تھا.آگے اور پیچھے دونوں طرف دشمن حملہ آور تھا اس خطر ناک صورت میں ہر ایک جرنیل نیونین کے پاس آتا اور کہتا کہ اب آپ میدان سے ہٹ جائیں لیکن اس کا یہی جواب تھا کہ جس میدان میں میں اپنے ملک کے نوجوانوں کو لا کو قربان کر رہا ہوں اس سے خود کس طرح ہٹ جاؤں.میں یہاں سے کبھی نہیں ہٹوں گا.اس وقت تو سیخانہ کے آدمی نہتے ہو کہ نپولین کے گرد کھڑے تھے جن سے پوچھا گیا کہ جب تمہارے پاس لڑائی کا سامات نہیں تو کیوں نہیں ہٹ جاتے.انہوں نے کہا.ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس سامان نہیں ہے لیکن ہم اس لئے میدان سے نہیں ہٹتے کہ ہمارے ہٹنے سے نپولین پکڑا جائے گا.آخر اس کے گارڈ کے آدمی بھی کتنے شروع ہو گئے بلکہ قریبا کٹ گئے تو بھی نپولین میدان سے ہٹ جائے پر آمادہ نہ ہوا.اور اس کی جان نہایت خطرہ میں پڑ گئی.تو دو جرنیل آئے اور انہوں نے اس کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں.اور کہا کہ اب ملک کی خیر خواہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس بارہ میں آپ کی اطاعت نہ کریں.یہ کہا اور نپولین کے گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوڑاتے ہوئے میدان سے لے گئے نے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ نپولین کے لئے کس قدر لوگوں نے اپنے آپ کو قربان کیا ہوگا.تاریخ اس سے بھی بڑی بڑی قربانیاں ہمارے سامنے پیش کرتی ہے.یہ قربانیاں تو وہ تھیں جو ایک آدمی کے لئے کی گئیں.لیکن ایک وہ قربانیاں ہوتی ہیں جو اس سے بھی بڑی

Page 50

سلام ہوتی ہیں اور آدمی کی قربانیاں ان قربانیوں کے سامنے کچھ تنقیقت نہیں رکھتیں.کے لئے اس سے بھی زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہے ، وہ حق اور صداقت ہے.اللہ کا قرب اور اس کی محبت ہے.اللہ کی رضا کا حصول ہے اور انسانوں کو جو اعلی اور حقیقی بڑائی حاصل ہوتی ہے وہ بھی اس کے حصول کے بعد ہوتی ہے.مثلاً حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑے آدمی تھے لیکن کیوں؟ اسی لئے کہ خدا کی رضا ان کو حاصل تھی یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان کے سہ دار اور سب سے بڑی شان اور عظمت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں.کیوں ؟ اس لئے کہ سب سے زیادہ خدا کا قرب اور اس کی رضا آپ کو حاصل ہے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس چیز نے تمام آدم زادوں سے بڑا اور معززہ بنا یا وہ خدا کا قرب اور اس کی رضا ہی ہے.اور اس کی وجہ سے آپ کا درجہ سب سے بلند اور اعلیٰ ہے تو برائی اسی میں ہے کہ ہم خدا کی رضا حاصل کریں.خود رسول کریم مسلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑائی بھی اسی ہیں ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑائی اپنی ذات کے باعث نہیں.موسسے علیہ السلام کی بڑائی اپنی ذات کے باعث نہیں.نوح علیہ استعلام و ابراہیم علیہ السلام کی بڑائی اپنی ذات کے سبب نہیں.ان کی بڑائی اور بزرگی کا سبب خدا کی محبت، اس کا قرب اور اس کی رضامندی ہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولوں کی سرداری کس بات سے حاصل تھی.اسی سے کہ آپ سب سے زیادہ خدا کی محبت میں گداز تھے اور آپ پر سب سے زیادہ خدا کے صفات جلوہ گر ہوئے تھے تو حق و صداقت، رضا، اور قرب الہی ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے لئے جتنی بھی بڑی سے بڑی قربانی کرنی پڑے کرنی چاہیئے.دیکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عزیز اور قیمتی جان کو میدان میں دشمنان حق کے مقابلہ کے لئے اسی لئے جانا پڑا کہ آپ حق کی حفاظت کریں.چونکہ دشمن حق کو مٹانا چاہتے تھے اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسی قیمتی جان تو بھی اس کی حفاظت کے لئے اپنی قربانی دینے سے انکار نہیں تھا.اس سے سمجھ لو کہ حق کتنی بڑی اور عظیم الشان چیز ہے اور اس کے لئے تمہیں کس قدر قربانی کرنی چاہیئے.اتمام کائنات میں یہ قانون جاری ہے کہ چھوٹی چیز بڑی چیز کے لئے قربان ہو سجی ہے.بڑے درخت کے نیچے چھوٹا درخت ہو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ چھوٹا بڑے کے لئے قربان ہو جائے گا اور سوکھ جائے گا.یہ خدا کا قانون ہے اس سے کسی چیز کو مفر نہیں اور قانون قدرت اس بات کا شاہد ہے کہ جو خود بخود قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا.اسے بھی دوسروں کے لئے قربان کر دیا جاتا ہے.دیکھو انسان کے فنا ہونے کے ہزاروں ذریعے ہیں

Page 51

کہیں مختلف قسم کی بیماریوں سے لوگ مرتے ہیں، کہیں زہر سے مرجاتے ہیں، بعض قتل کئے جاتے ہیں خرمن ہزاروی ذریعوں سے لوگ مر جاتے ہیں اور کوئی نہیں جو ہمیشہ زندہ رہا ہو.سب سے بڑا انسان جو دنیا میں آیا اور میں سے بڑا قیامت تک نہیں آئے گا وہ ہمارے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.لیکن کیا آپ زندہ رہے، ہر گز نہیں بلکہ آپ کو بھی آخر دنیا کو چھوڑنا ہی پڑا.آپ کی وفات کو حضرت کی خود دلار اسلام حضرت کیسے علیہ السّلام کی وفات کے لئے بطور دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ جب آپ زندہ نہیں رہے تو حضرت عیسے کسی طرح زندہ رہ سکتے ہیں یہ آپ سید ولد آدم تھے کہیے تمام بنی آدم کے سردانہ تھے.اور آپ کی وہ شان ہے کہ خدا تعا نے آپ کو فرماتا ہے.قل ان کنتم تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُم الله میله گر تم اللہ سے محبت کرتے ہو اور اس کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ میری اطاعت کرو جب تم ایسا کروگے تو خدا تعالے تم سے پیار کرے گا.پس جب آپ ایسا عظیم الشان اور بے نظیر انسان بھی بالآخر فوت ہی ہو گیا اور ایسے وقت میں ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے جلیل العت در انسان کو کہنا پڑا کہ اگر کوئی یہ کہے گا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اس کا سر تلوار سے اُڑا دوں گا.غرض آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو جہاں چھوڑنا ہی پڑا.اور آپ کی وفات پر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا كنت السَّوَادَ لِلنَّاظِرِي فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلَمتَ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرَته کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیرے فوت ہونے سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے، تیرا مرنا مجھے پر شاق تھا.اب ہو چاہے مرے تجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں.غرض مرنا تو سب کو ہے لیکن موت، وہی مبارک ہے.جو خدا کے لئے اور اس کے دین کی خاطر معہ محلہ ہزاروں من مائع ہو جاتا ہے لیکن کیا وہ قیمتی کہا جا سکتا ہے یا اسے جو انسان کے پیٹ میں جائے.پھر وہ پھل قیمتی ہے جسے انسان کھائے یا وہ جو اگر چہ کچھ زیادہ دنوی صورت پر رہے لیکن گل سڑ کر زمین پر گر پڑے.یقیناً ماننا پڑے گا کہ وسی پھیل قیمتی ہے جسے انسان نے کھایا اور جو انسان کے جسم کا کوئی جزوہ بنا اور خدا کی رضا کے ماتحت چلنے والا ہوا.مثلاً وہ سیب کست در قیمتی تھا جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھایا.اور وہ آپ کے جسم اطہر کا کوئی حصہ بنا اور اس نے اس ذریعہ سے خدا کی رضا کے حاصل کرنے والے کام کئے.تو اس سیب کو نہایت قیمتی کہا جائے گا.اور اس کی موت و قربانی مقابل قدر ہوگی جو انحصرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کا جزو ہوئی.اسی طرح وہ جان جو خدا کی راہ میں صرف ہوئی

Page 52

۴۴ دہ قیمتی ہو سکتی ہے.یادہ جو یونہی ضائع ہو گئی ، یقینا خدا کی راہ میں قربان ہونے والی قیمتی ہے.پس جب موت ہر ایک انسان کو لگی ہوتی ہے اور اس سے کوئی باہر نہیں تو پھر کیوں انسان اپنی جان ایسی جگہ صرف نہ کرے جس سے خدا کی رضا حاصل ہو.کیونکہ مبارک ہے وہ موت بھر خدا کے لئے قبول کی جائے.بابرکت ہے وہ مال جو اس کی راہ میں صرف ہو اور جس کا نتیجہ رمضاء مولیٰ ہو اور افسوس ہے اس زندگی پر تو خرچ تو ہو مگر حق و صداقت کے لئے خرچ نہ ہو.افسوس ہے اس مال پر جو صرف تو ہو لیکن رضاء مولے کے لئے صرف نہ ہو.ضائع ہو گئی وہ زندگی جو خدا کے لئے نہ دی گئی اور تباہ ہو گیا وہ مال تو اس کی راہ میں صرف نہ ہوا.اور برباد ہو گیا وہ وقت جو خدا کی محبت سے خالی گذرا.خدا نے تو انسان کے لئے بڑے بڑے اعلیٰ درجے کے مدارج رکھے ہیں مگر افسوس کہ اکثر انسان ان کی طرف سے لا پرواہی کرتے ہیں.وم انسان اگر اپنی ابتدا و پر غور کرے تو حیران ہو جائے کہ کن کن چیزوں کا خلاصہ ہے اور کیسی ادنی چیزیں اس کا جزو ہیں.کیچھے چنے ہیں کچھ مائش ہے اور کچھ گیہوں ہے کچھ ساگ پات وغیرہ چیزیں ہیں جو اس کے باپ نے کھائیں اور ان سے ایک خلاصہ تیار ہوا جو اس کی ماں کے رحم میں گیا اور اس کوہ پیدا ہوا اور خدا کی توفیق سے چلنے پھرنے لگا.پھر خدا نے اپنے فضل کی را ہیں اس پر کھول دیں اور اپنی ذات وصفات کا علم حاصل کرانے کے لئے اس کی جنس میں سے کسی انسان پر اس کی خاطر اپنا کلام نازل کیا.پھر اس کو توفیق دی کہ اس کلام کو سنے اور اسے تسلیم کرے خدا کے ان مرسلوں میں ایک سب سے عظیم الشان محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم میں انسان اپنی اس ابتداء کو دیکھے اور پھر انتہاء پر نظر کرہے.ابتداء میں تو یہ کہیں گوشت میں نظر آتا ہے، کہیں سبزی میں ، کہیں غلہ وغیرہ ہیں.مگر انتہار یہ ہوتی ہے کہ ازلی ابدی خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی ہر جگہ اور ہر حالت میں اور ہر شر اور مصیبت میں حفاظت کرتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اس کی خاطر لاکھوں انسانوں کو قربان کر ڈالتا ہے.اس سے بڑھ کر کونسا درجہ ہے جو انسان کو حاصل ہو سکتا ہے لیکن یہ کس طرح حاصل ہو سکتا ہے اسی طرح کہ خدا کے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیا جائے.اور جو خدا کے لئے اپنے آپ کو قربان کرتا ہے وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو کہ جو خدا کے لئے قربان ہوتا ہے وہ میں خام بھی ہوتا ہے تو کندن ہو کر نکلتا ہے.بکرا ذبح ہوتا ہے تو انسان اس کو کھاتے ہیں اور اس طرح اس کی قربانی ضائع نہیں جاتی بلکہ انسانوں کے جسم کا جزو بن جاتا ہے اسی طرح ہزاروں چیزوں کو انسان کے لئے قربان ہونا پڑتا ہے.اور انسان کو خدا کے لئے قربان ہونا پڑتا ہے.پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا

Page 53

۴۵ ہے کہ وہ خدا کا محبوب ہو جاتا ہے.جو لوگ خود خدا کے لئے قربان نہیں ہوتے.فنا تو ان کو ہونا ہی پڑتا ہے مگر ان کی یہ فنا قابل تندر نہیں ہوتی.اکثر تو ایسے ہوتے ہیں کہ دنیا میں ہی ان کی زندگی ان کے لئے وبال ہو جاتی ہے.آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا.کہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے علم کی بڑی شہرت ہوتی ہے مگر ان پر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جبکہ وہ ارذل العمر کو پہنچ جاتے ہیں ایسی حالت میں لوگ ان کے شاگرد اور عزیز ہوتے ہیں اور جو ہمیشہ ان کے مشوروں کے محتاج ہوتے ہیں ان کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو سٹھیا گیا ہے یا کتنے ہیں کہ میاں اس کے پاس کیا جائیں وہ تو بڑھاپے کی وجہ سے چڑ چڑا ہو گیا ہے.ایک دن تو وہ معلم ہوتا ہے لیکن جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو تعلیم بھی اس کو کوئی نہیں بناتا.یا تو وہ اُستاد ہوتا ہے یادہ شاگرد ہوئے کی بھی اہمیت نہیں رکھتا.نوض وہ قعر مذلت میں گر کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے.مگر جو خدا کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کے پیارے ہوتے ہیں ان کی یہ حالت ہرگز نہیں ہوتی.دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ ہوئے ہیں جن کا بڑا رعب اور بڑی سطوت مخفی لیکن آخری عمر میں فالج کی وجہ سے ان کے ہوش و حواس نہ آئل ہو گئے اور ان کی زندگی ان کے لئے موت سے بد تر ہو گئی.پھر کئی بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کے آخری لمحے نہایت حسرت و یاس کے ساتھ ختم ہوئے اور وہ ہاتھ ملتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے مگر کوئی ایک نبی بھی تو ایسا نہیں گذرا جس کا ایسا انجام ہوا ہو.بڑے بڑے جر میل گذرے ہیں جو ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرگئے ہیں.اور بڑے بڑے بہادر ہوئے ہیں جنہوں نے نہایت عبرت انگیز طریق سے دم توڑا ہے.مگر نبیوں اور ان کے خلفاء میں سے کسی کی یہ حالت نہیں ہوئی.کیوں.اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہ کہ چونکہ وہ خدا کی راہ میں مرنے سے پہلے مرچکے ہوتے ہیں.اس لئے خدا انہیں ہمیشہ کی ہلاکت سے بچا لیتا ہے.انسان کو قربان تو ہونا ہی پڑتا ہے کوئی اپنے نفس کے لئے قربان ہوتا ہے کوئی عزت کے لئے کوئی اپنے کسی عزیز کے لئے.اور کسی کو زمانہ کے ہاتھوں قربان ہونا پڑتا ہے مگر مبارک ہے وہ جو خدا کے لئے قربان ہو اور قربانیوں کے لئے ہلاکت ہے مگر خدا کے لئے قربان ہونے کے نتیجہ میں ہمیشہ کی زندگی نصیب ہوتی ہے اور ایسے شخص کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ہلاکت سے بچا لیا جاتا ہے بلکہ جو اس کو فنا کر نے کے لیئے بیٹھے اس کو فنا کر دیا جاتا ہے اور مٹا دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس وقت کا ایک الہام ہے جس وقت آپ کی بعیت میں ابھی ایک شخص بھی نہ تھا.کہ قُل مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ.آپ نے دیکھا

Page 54

م اد کہ جبرا.وں بھیڑیا ہیں جو زمین پر لٹاتی ہوتی ہیں اور قصائی چھریاں ہے کہ ان کو ذبح کرنے کو تیار ہیں آپ فرماتے ہیں کہ اس حالت میں میں نے دیکھا کہ انہوں نے منہ آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے.گویا کسی آوازہ کی منتظر تھیں.اس وقت میری زبان پر یہ آیت تھی قُل مَا يَعْبُوا بِكُر رَبِّي لَولا دُعا ولد میرا یہ پڑھنا تھا کہ ان قصائیوں نے ان کے گلوں پر چھری پھیر دی اور وہ بے دردی سے ذبح ہو گئیں ہیں اس کا یہ مطلب تھا کہ اس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بجھایا گیا کہ تو نے جو خدا کے لئے اپنے نفس کو قربان کیا ہے.اس سے ہمارے حضور میں تو اس قدر معززہ ہو گیا ہے کہ تیری خاطر ہزاروں اور لاکھوں کو ہم قربان کر دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے مخالف بھیڑوں کی شکل میں دکھائے گئے.بھیڑوں کا تاندہ ہوتا ہے کہ وہ گند کی طرف جاتی ہیں.اسے بتا یا کہ تیرے مخالف بھی بدی کی طرف جائیں گے اور چاہیں گے کہ تجھ کو بلاک اور فنا کر دیں.مگر تو ان کی مخالفت کی ذرا نہ واہ نہ کرنا.ہم تیری خاطر ان لاکھوں کو فنا کر دیں گے.اور جو تجھ کو مٹانا چاہیں گے ہم ان کے نام و نشان مٹادیں گے.خدا تعالے کو اپنے پیاروں کے مقابلے میں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی.دیکھو حضرت نوح علیہ السلام کا مقابلہ کرنے والوں نے نوح کو ادنی درجہ کا خیال کیا اور آپ کو مٹانا چاہا.مگر خدا نے ایک.نوحے کی خاطر کتنوں کو پانی میں فرق کر دیا اور ذرا پرواہ نہ کی لیے اسی طرح حضرت موسی کا مقابلہ فرعون نے کیا اور آپ پر ہنسی اڑانے کے لئے بابان سے کہا کہ ایک محل تو بنا تا اس پہ چڑھ کر موسنے کے خدا کو دیکھوں سے چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے تھے کہ میرا رب بلند اور پوشش پر ہے.اس لئے اس نے اس طرح ان کے ساتھ نفسی اور مسخر کیا.اگر وہ محل بنوا کہ اس کے اور پر چڑھتا تو وہاں بھی خدا اپنی قدرت اسے دکھا سکتا تھا مگر اس نے نہ چاہا کہ اسے اوپر چڑھنے پر تباہ کیا جائے اور اس طرح اسے بین سے بلند ہونے کا موقعہ دیا جائے.اس لئے خدا نے اپنا وجود جو اسے دکھایا تو اس طرح پر کہ سمندر کی تہد میں اس کو بٹھا دیا ہے اور وہاں اپنی قدرت کا جلوہ دکھایا.اس نے تو بجو شخر خدا کو دیکھنے کے لئے اوپر چڑھنا چاہا تھا.مگر خدا نے بوجہ اس کی سرکشی اور استہزاء کے اتنا بھی اسے موقع نہ دیا بلکہ اسے تحت الثریٰ میں گرا دیا.اب دیکھو کہ وہ فرعون جو حضرت موسے پر ہنسی کرنے کے لئے محل بنوانا چاہتا تھا خدا نے اس سے کیا سلوک کیا.یہ کہ اپنی قدرت نہائی کے لئے اسے سمندر کے نچلے حصہ میں فرق کر دیا یہ اسی طرح حضنہایت خیلی کہ لوگوں نے ذلیل کرنا چاہا اور آپ کے مثانے کی کوشش کی مگر حضرت عیسی معزز ہوئے اور آپ کو ذلیل کرنے والے خود رسوا اور ذلیل ہو گئے نے

Page 55

کام اب سوال ہوتا ہے کہ حضرت موستی کے پاکس، حضرت نوح کے پاس، حضرت عیسی کے پاس اور بالآخر ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وہ کیا چیز سنتی.جس کی وجہ سے خدا نے ان کو یہ رفعت بخشی اور ذلیل کرنے والوں کو ذلیل در سوا ہی نہ کیا بلکہ صفحہ عالم سے مٹا دیا.وہ محض صداقت اور حق تھا جو اُن کو دیا گیا اور ان کی قربانی تھی ہو انہوں نے خدا کی رائے میں کی.چونکہ ان کا مقابلہ کرنے والے دراصل ان کو نہیں مٹانا چاہتے تھے بلکہ وہ خدا کا مقابلہ کہ رہے تھے، اس لئے خدا کو ان کے تباہ کرنے میں کیا پرواہ ہو سکتی تھی.پیس جو قربانی خدا کے لئے کی جائے وہ ہر گز صنائع نہیں جاتی بلکہ اس سے ہمیشہ کی بقا حصل ہو جاتی ہے اس لئے ہر ایک انسان کو چاہیئے کہ اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کر کے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرے.ورنہ قربان تو اسے ہونا ہی ہے.اگر خود بخود نہ ہوگا تو خدا تعالے کا ہاتھ اسے کر دے گا.لیکن اس طرح اس کا قربان ہونا کسی مصرف کا نہ ہو گا.پس مبارک ہے وہ سپنے خود اپنے آپ کو خدا کی.اہ میں قربان کیا.اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا.اور ہلاکت ہے اس کے لئے جیسے خدا نے تباہ و برباد کر دیا.اس لئے وہی راہ اختیار کرنا چاہیئے جس سے ہمیشہ کی سلامتی نصیب ہوتی ہے.دیکھو مشال دو جگہ آگ جل رہی ہو.اور انسان کو اختیار دیا جائے کہ ان میں سے جس میں بچا اپنے آپ کو ڈال دے.جس میں سے ایک میں گرنے کا تو یہ نتیجہ ہو کہ جو اس میں گرے وہ ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جائے اور دوسری کا یہ انجام ہو کہ جو اس میں پڑے اس کو ایسی نہ بندگی دی جائے ہیں کا کبھی انقطاع نہ ہو تو بتاؤ ان میں سے کونسی آگ میں گرنے والا عقل مند کھائے گا یا وہی جو اپنے جسم کو ایسی آگ میں جلائے گا جس میں مل کر ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوتی ہے ایسی پر نیاس کر لو کہ انسان ایک ایسی بستی ہے کہ جس پر ضرور فنا آنی ہے خواہ وہ ہزار چاہیے کہ بچے سکوں تو بھی نہیں بچ سکتا.اسی طرح اپنے مال کو سنبھال سنبھال کر رکھنے کی ہزار کوشش کرتے وہ غریہ خرچ ہو گا یا چرا یا جائے گا یا کوئی اور آفت آئے گی، زمین میں گاڑ کر بھول جائے گا.اسی طرح بال بچے ہیں ، معز یز و بیشتہ دار ہیں، ان سب سے ایک نہ ایک دن ضرور.جدائی اختیار کرنی پڑپتی ہے وہ اس کو چھوڑ جائیں گے یا یہ ان کو چھوڑ جائے گا.اور اگر انسان چاہے بھی کہ ان سے جدا نہ ہو تو اس کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.لیکن جو جان خدا کے رستہ میں خرچ ہو.جو مال اس کی راہ میں صرف ہوا ور جن عزیزوں کو خدا کے لئے قربان کیا جائے ان میں سے ایک چیز بھی الگ نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ اس سے بڑھا چڑھا کر اس کو دی جاتی ہیں تو کیوں نہ انسان ان چیزوں کو خدا کے لئے بھی صرف کرے.دانائی کس میں ہے با آیا اس میں کہ وہ ان چیزوں کو کہا کی راہ

Page 56

NA میں قربان نہ کر کے بچانا چاہتا ہے مگر نہیں بچا سکتا.یا اس میں کہ جو خدا کے لئے ضرب کر ڈالتا ہے خرچ اس کی یہ چیزیں صنائع نہیں کی جاتیں.ماننا پڑے گا اور ہر دانشمندا سے تسلیم کرے گا کہ دانشمندی اسی میں ہے کہ ان اشیاء کو خدا کے لئے قربان کر دیا جائے تا کہ دہ ضائع نہ ہوں کیونکہ ابدی نجات خدا کے لئے قربانی کرنے میں ہے.اور ابدی بلاکت خدا کے لئے قربانی کرنے میں سنجل میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَونَ يَكُونُ يراما - ان کو کرو کہ خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے اگر تمہاری دعانہ ہو.پس ضرور تم نے جھٹلایا اس جھٹلانے کے وبال سے تم بیچا نہیں سکتے ہیں السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہوا جیس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان بھیڑوں سے کہو کہ تم ہو کیا چیز غلاظت کھانے والی بھیڑیں ہی ہوا.تمہاری تخلیق نطفہ سے ہے جو ایک حقیر پانی ہے.اگر تم خدا کی رضا کے حصول کی طرف نہیں آتے تو اس کو تمہاری کچھ پروا نہیں.بچہ کو مٹی کے کھلونے کی پروا ہوتی ہے.مگر خدا کو تمہاری اتنی بھی پروا نہیں.اگر تم اس کی عبادت کرو تو اس کی شان بڑھ نہیں جاتی اور اگر انکار کرہ ہو تو اس کا کچھ کر ج نہیں ہوتا.ایک بچہ کو کھلونا توڑتے وقت تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر خدا کو ساری دنیا کے ہلاک کر دینے میں اتنی پروا نہیں ہو سکتی.ہاں تمہاری دعائیں اور التجائیں ہیں جن کی وجہ سے وہ تم پر رحم فرماتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں جب خلافت اور انجین کی حیثیت اور تعلقات کا جھگڑا اُٹھا تو اس کے متعلق حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے چند سوال میرے پاس بھی بھجوائے اور ان کا تحریری جواب دینے کے لئے ارشاد فرمایا.چونکہ یہ معاملہ نہایت نازک اور اہم تھا اور جماعت پر بڑا اثر ڈالنے والا تھا.اس لئے میں ڈرا کہ اس میں کوئی ایسی رائے نہ دے دوں میں سے خدا کے عذاب کا مستوجب ٹھہروں یہ اگر چہ میں خلیفہ کو انجمن کا مطاع یقین کرتا تھا لیکن بغیر دعا کے میں نے اس کے متعلق رائے نہ دینا چاہی.اس لئے میں دعا میں مصروف ہو گیا.اور خدا سے اس بارے میں مدد طلب کی.کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خدا تعالے بالکل کھلے اور واضح طور پر مجھے الهام پا کشف و رویا کے ذریعہ اس حقیقت پر مطلع فرماد ہے.پس میں دعا میں مصروف رہا.لیکن مجھ کو چھ نسیم نہ ہوئی حتی کہ وہ دن آگیا جو آخری تاریخ حضرت خلیفہ اسیح نے جواب دینے کے لئے مقرر فرمائی تھی.اور صرف ۲۴ گھنٹے اس میں باقی رہ گئے.اس وقت میں سخت مضطرب ہوا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ چونکہ مجھے خدا کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا اس لئے میں اس مجلس میں سہی نہیں جاؤں گا کہیں اور باہر چلا جاؤں گا.لیکن اس ارادہ پر بھی اطمینان نہ ہوا.آخر جب النطراب نہ یادہ ہوا.تو اس وقت مجھے الہام ہوا کہ قتل مَا يَعْبَوا بِكُمْ رَة لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

Page 57

وم اس سے میرا شرح صدر ہو گیا کہ میں جس خیال پر ہوں وہ درست ہے اگر قتل کا لفظ نہ ہوتا تو اس کے منے یہ ہوتے کہ خلافت کے منکروں کا جو خیال ہے وہ درست ہے لیکن یہاں لفظ قبل تھا.جس طرح کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کنم کرد دو.اسی طرح مجھے کہا گیا کہ جو تمہارے خلاف خیال رکھتے ہیں.ان کو کردو کہ یورپ کی تقلید میں کامیابی اور فلاح نہیں یہ دینی سلسلہ ہے اس لئے جس طرح خدا کے نبیوں کے خلیفہ ہوتے رہے ہیں.اسی طرح یہاں بھی خلافت ہی ہوگی لیکن اگر وہ باز نہیں آئیں گے تو خدا کو ان کی کوئی پروانہیں کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خدا کے حضور گر جائیں اور زاری کریں.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا کا عذاب موجود ہے.جب میرا شرح صدر ہو گیا تو پھر میں نے حضرت مولوی صاحب کو اپنی رائے لکھ کر بھیجدی.تو و یا با قُلْ مَا يَعْبَدا بِكُمْ رَبّى لَوْلَا دُعا و گستم آج بھی قربانیوں کا دن ہے.خدا کی طاقتوں میں کمی نہیں آگئی.خدا اب بھی وہی خدا ہے جو پہلے تھا بلکہ آج پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ ظاہر ہو رہا ہے.کیونکہ آجکل ہلاکت کے بہت زیادہ سامان پیدا ہو گئے ہیں.ہزاروں تم کے نئے امراض پیدا ہو چکے ہیں.اور خود انسان نے اپنی ہلاکت کے لئے عجیب عجیب آلات ایجاد کرلئے ہیں.پہلے تلوار کے وار سے زرہ پہنکر انسان بچ سکتا تھا.تیر سے محفوظ رہ سکتا تھا لیکن اب کوئی زرہ نہیں جو گولی کی زد سے بچا سکے.طاعون سے وہ ٹھیکہ نہیں بچا سکتا جو بمبئی میں پیتا ہے بلکہ اس کا علاج وہی ٹیکہ ہے جو قادیان میں تیار ہوتا ہے.پس اس خدا کے لئے اتقی و صدات کے لئے قربانیاں کرو.اپنے آپ کو اعزیز و اقارب کو ، مال و دولت کو عزت و حرمت کو بغرض ہر پیاری سے پیاری چیز کو اس کی راہ میں خرچ کرو.دیکھو کیسے عظیم الشان نتائج ہیں اس قربانی کے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی.حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا.آج دنیا میں جہاں بھی کوئی خدا کا سچا نام لیوا ہے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اس سنت پر عمل کرتا ہے اور یہاں تک خدا نے آپ کو بزرگی دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جو دعا کی جاتی ہے اس میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام بطور تمثیل کے داخل کیا گیا ہے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الَّ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ عمل کے ساتھ جب تک نیست نہ ہو عمل کوئی چیز نہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بیٹے کو قربان کرنا چاہا.مگر آپ کی نیت بہت اعلیٰ درجہ کی تھی.قربانیاں تو بہت بہت لوگوں نے کیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس ایک قربانی کو کوئی نہیں پہنچتی ؟ کیونکہ جو نیت ان کی تھی ویسی کسی کی نیت نہیں.مثلاً جنگ اُحد میں مشہور ہو گیا کہ آنحضرت صلع الله

Page 58

٥٠ علیه و آله وسلم شہید ہو گئے.تو ایک صحابیہ عورت گھبرا کر مدینہ سے نکل آئی اور ایک شخص سے جو میدان جنگ سے واپس آرہا تھا اس نے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے.اس نے اس کا تو کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ تیرا باپ شہید ہو گیا ہے.عورت نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کیا حال ہے.اس نے کہا تیرا بھائی بھی شہید ہو گیا.عورت نے کہا میں سول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ کم کھال پو چھتی ہوں.وہ شخص چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیرو عافیت دیکھ آیا تھا.اس لئے ہے فکر تھا.اس نے کہا.اسے عورت تیرا خاوند بھی مارا گیا.اس نے کہا.میں تجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال پوچھنتی ہوں.ان کا کیا حال ہے.اس نے کیا وہ تو زندہ سلامت ہیں.عورت نے کہا.الحمد للہ ! جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ ہیں تو کسی کی موت کی پروا نہیں ہے.تو اتنے رشتہ دار اس عورت نے قربان کئے مگر حضرت ابراہیم اور اس عورت کی نیکیتوں میں کچھ تو فرق تھا کہ ابراہیم کے محض ارادہ کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے مگر اس عورت کی ان قربانیوں کا ایسا نتیجہ نہیں نکلا.اسی طرح عبداللہ ابن ابی ابن سلول کے بیٹے نے اپنے باپ کو اس لئے قربان کہ نا چاہا کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور گستاخی کی یہ قربانیاں بجائے خود تو بہت بڑی تھیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نیت کا مقابلہ ان کی نیت نہیں کر سکتی اسی لئے نتیجہ میں فرق ہوا.اسی طرح مسلمانوں کی عراق میں ایرانیوں سے جب جنگ ہو رہی تھی تو ایرانی میدان میں ہاتھی لائے تھے وہ مسلمانوں کو کچلتے پھرتے تھے اور ایسی حالت مسلمانوں کی ہوگئی تھی کہ اگر وہاں شکست ہو جاتی تو ایران و عراق میں مسلمانوں کی فتوحات کا خاتمہ ہو جاتا.اس وقت ایک مسلمان عورت کے چار بیٹے تھے.اس نے ان چاروں کو بلایا اور کہا میں نے تمھیں پرورش کیا اور تمہارے باپ کی کبھی خیانت نہیں کی.میرا تم پر حق ہے اور وہ حق میں آج اس طرح مانگتی ہوں کہ تم چاروں جاؤ اور اسلام کی حفاظت میں جان دید و سر پیچھے نہ ہٹو سیکے جان دینے کے لئے بھیجنا یہ بھی ایک قربانی ہے مگر اس کے چار بیٹے دے دینے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹا قربان کرنے میں بڑا فرق تھا اور وہ فرق نیت کا ہی تھا جس سے معلوم ہوا کہ نیت پر ہی ہر قسم کے اعمال کا نتیجہ مرتب ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر نہ کی نسبت فرمایا کہ ان کی بزرگی ان کی نمازوں کے باعث نہیں ہے.بلکہ اس بات کے باعث ہے جو ان کے دل میں ہے یعنی نیست نہیں درجہ کو بڑھانے والی عمل سے بڑھ کر نیت ہوتی ہے جیسی اعلی نیست ہو.ویسا ہی اعلی نتیجہ نکلتا ہے قربانی میں بھی نیست اصل چیز ہے اس لئے یاد رکھو.اسلام کے لئے خدا کے لئے اور یہ

Page 59

41 کا قائم مقام ہے.اس کے لئے جو قربانیاں کی جائیں گی ضائع نہیں جائیں گی اور پھر ان قربانیوں میں جو نیت ہوگی اس کے مطابق پھل ملے گا.آج ہم مال ، جان عززت وآبر در سیاست اگر خدا کے لئے قربان کر دیں گے تو خدا اسے ضائع نہیں ہونے دیا.سیاست تو کہنے کو ہے در نہ دیکام خدا نے ایک ایسی قوم کے سپرد کر دیا ہوا ہے جو عدل و انصاف سے حکمرانی کرتی ہے پس ہر ایک چیز جو قربان کی جائے اس کے ساتھ نیت ہوئی مزو رہی ہے.اور اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال بہترین مثال ہے.پھر دیکھو مکہ چھوڑنے کو تو سب نے پھوڑا.رسول کریم نے ابوبکر قدرت نے.حضرت عمر و خثمان و علی نے.مگر ہر ایک کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملا.اسی طرح گھر تو سب نے چھوڑے مگر خلیفہ سب نہیں بن گئے تھے.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر ایک کی نیت ایک صبی نہیں ہوتی اور جتنا جتنا فرق ہوتا ہے.اسی کے مطابق بدلہ ملتا ہے.اس فرق یا کسی کے بیعنی نہیں ہوتے کہ ایک کے مقابلہ میں دوسرے کی نیت ناقص اور خراب ہوتی ہے بلکہ یہ کہ مدارج میں فرق ہوتا ہے.ایک کی نیت اعلی درجہ کی ہوتی ہے اور دوسرے کی اس سے کم درجہ کی مہ کی خراب.حال میں مولوی محمد علی صاحب نے مجھے ایک بھی لکھی ہے.میں نے لکھا تھا کہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی فرد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں بادی کامل نہیں ہوا جیسا کہ حضرت مرزا صاحب.بلکہ آپ کے مقابلہ میں ان میں کمی رہی ہے.اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ یہ امت محمدیہ کے بزرگوں کی مہتک کی گئی ہے.حالانکہ کسی کے معنے یہ نہیں ہوتے کہ کمال ہوتا ہی نہیں.کمال تو ہوتا ہے مگر اس کے بھی درجے ہوتے ہیں.دیکھو حضرت موسی علینی و داؤد.ہزاروں نبی ہوئے ہیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان میں کوئی ایک کامل ہے.اور باقی ناقص ہیں.کامل تو وہ تھے مگر ہر ایک کے درجہ میں فرق ہے اور اس میں کسی کی متک نہیں.اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو بزرگ ہوئے انہیں جس قدر تقویٰ و طہارت حاصل تھا اس میں کوئی نقص نہ تھا لیکن وہ کمال کے اس درجہ تک نہیں پہنچا ہوا تھا جو مرتبہ نبوت پانے کے لئے ضروری ہے اور یہ بات صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی حاصل تھی اس لئے آپ نبی ہوئے.اس وقت میں نے جو یہ کہا ہے کہ ہجرت تو سب نے کی لیکن سب کو ایک جیسے نتائج حاصل نہ ہوئے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ جن کی ہجرت کے کم درجہ کے نتائج نکلے ان کی نیت درست اور ٹھیک بھی.ٹھیک تھی لیکن مقابلہ کے لحاظ سے اس میں فرق تھا اور فرق نقص نہیں ہوتا اس کو نقص قرار دنیا نادانی اور بیوقوفی ہے تو عمل کے ساتھ نیت کو بہت بڑا دخل ہے اس لئے میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں ان کے لئے بہر قسم کی قربانیاں کرنے کی منہ برستے

Page 60

۵۲ وہاں اس کی ضرورت ہے کہ خالص ارادوں ، پاک نیتوں کے ساتھ تیار ہوں تاکہ خدا کے فضلوں کے وارث ہوں کیونکہ بغیر قربانی اور خالص نیت کے ترقی اور کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ ہماری را الفضل ۲۰ ستمبر ۶۱۹ مه تا ۱۱) جماعت کو اس بات کی توفیق بخشے یہ ه - الفرقان ۷۸:۲۵ ۵۲ ١٣ - نصیر الدین محمد ہمایوں ( - ۲۹۷۳) شیر شاسوری است ترکست دریائے گنگا کے کنارے 41004 ۶۱۵۴۵ بمقام بھوج پور میں ہوئی.اخلاصه التواريخ مصنفہ سبحان رائے بالوی مد۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۶۶ منتخب البیان حصہ اول منا سے.مغل بادشاہ ہمایوں کا مشہور اور معتمد بورنیل.بادشاہ اکبر کا اتالیق و سرپرست.اکبر نے اسے خان خاناں کا لقب دیا تھا.یہ بمقام بندرگاہ لنبهایت حج پر جاتے ہوئے مبارک خان نامی پٹھان کے ہاتھوں قتل ہوا.که به تاریخ ہندوستان مصنفہ شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ صاحب جلد م ص ۳ ہے.نپولین بونا پارٹ ( ۱۷۶۹ - ۶۱۸۲۱) ک - نپولین دارمئی نشہ کو فرانس کا بادشاہ بنا د انسائیکلو پیڈیا ٹرین کا جلد ۱۶ مث) تو NAPOLEON by H.A.L, Fisher, P:184,185,200.ه.شه - الاعراف : ۱۴۵ ت - النجم شبوة : و تا (1- لیس سیرة : و تا رانی ٤٣٦ ٢-٣ - الاعراف ۷: ۱۵۹ - الانبیاء ۲۱ : ۱۰۸ - آئینہ کمالات اسلام مش و ص۳۷۹ ۵۳ - جامع ترمذی ابواب المناقب باب ماجاء في فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ - آل عمران ۳ : ۳۲ سيرة ابن هشام دارد و ترجمه) ۶۹ طبع اول ۶۱۹۶۱ 140.ہے.دیوان حسان بن ثابت مع شرح م۱۷۵ مطبوعہ مصر ۱۹۲۹ یو شه به تذکره طبع سوم هند شه - نبود ۴۵۰۴۴۰۱۱

Page 61

۵۲ 19 - المؤمن ۴۰ : ۳۷-۳۸ د - یونس ۱۰ : روتا ۹۳ سے.النساء ۴ : ۱۵۹، آل عمران ۳ : ۴۶ - الصفت - صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم - سيرة ابن هشام حصہ سوم دارد و ترجمه) من ۳ - السيرة الحلبیہ جلد ۲ منشا ہے.جامع ترمذی ابواب التفسير سورة المنافقون - السيرة الامام ابن هشام الجزء الثانی ها ۲۶ - تاریخ الطبري الجزء الثالث ص ۳۲ مطبوعہ مصر ٤١٩٦٣ گے.نزیہ المجالس ونتخب النقال مصنف عبد الرحمن الصفورى جلد ا م ے.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ( - 92(2) امیر غیر مبایعین.

Page 62

۵۴ فرموده بر نمبر شاه مقام با حضرت مولوی اسلام قادیا) وا عَلَيْهِمْ نَبَا ابْنَى دَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُتِنَ من أحدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَا قُتُلَنَّكَ قَالَ انَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ له یہ عید قربانی کی عید کہلاتی ہے.عیدالاضنمی بھی اسے کہتے ہیں.کیونکہ اس پر قربانیان کی جاتی ہیں ، ہمارے ملک میں اسی کا ترجمہ کر کے اس کا نام بعض لوگوں نے عید قربان رکھ لیا ہے.اس عید میں اور اس سے پہلی عید میں جو عید الفطر کھلاتی ہے.یہ فرق ہے کہ عید الفطر میں بوجہ اس کے کہ منان کا تمام مہینہ طاقت رکھنے والے مسلمان روزے رکھتے ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس عید کے دن یہ سنت تھی کہ آپ صبح کچھ ناشتہ کر کے عید پڑھنے کے لئے جاتے تھے یہے مگر آج کی عید کے دن کا پہلا حصہ نیم روزه اور پچھلا حصہ قربانی کا ہوتا تھا.اور آپ کی سنت تھی کہ عید پڑھنے سے پہلے کچھ تناول نہ فرماتے تھے ، بعد میں جا کر قربانی کے گوشت سے کھاتے تھے کیے اس لئے یہ عید اپنے اندر دو نمونے رکھتی ہے کیونکہ اس کا ایک حصہ روزے کا اور دوسراحصہ کھانے کا ہے مگر پہلی عید ایک ہی رنگ رکھتی ہے کہ مہینہ بھر روزے رکھے جاتے ہیں اور اس دن کھایا پیا جاتا ہے.عام طور پر یہ عید بڑی عید کہلاتی ہے.اور رمضان کے بعد جو عید آتی ہے وہ چھوٹی.یوں تو ان کی بڑائی چھوٹائی اللہ تعالئے ہی جانتا ہے لیکن یہ یقینی امر ہے کہ جس شخص نے جس عید پر خدا تعالے کے قرب کی راہ تلاش کی وہی عید اس کے لئے بڑی ہے.اور جس عید کا دن یونسی گذر گیا وہ عید اس کے لئے چھوٹی چھوڑ محرم اور ماتم کا دن ہے تو بڑی اور چھوٹی عید نسبتی امر ہے.حقیقت میں کوئی نہیں جانتا کہ کونسی عید بڑی ہوگی اور کونسی چھوٹی.نمو تا چونکہ اس عید پر قربانیاں ہوتی ہیں اور لوگ خوب کھاتے پیتے ہیں اس لئے اس کو بڑی عید کہتے ہیں.مگر لوگوں کے اس فیصلہ کے علاوہ اس کے متعلق ہم ایک خدائی فیصلہ بھی دیکھتے ہیں لوگوں نے تو اس کا نام بڑی عید رکھا مگر جہالت سے کہ کھانے پینے کا خوب موقع ملتا ہے لیکن خدا تعالے کی طرف سے بھی اس کو بڑائی کا خطاب ملا ہوا ہے.پرانے زمانہ کو تو جانے دو کہ اس میں خدا تعالیٰ نے اس عید کی کیا فضیلت بیان کی ہے.اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو الہام ہوا کہ اس عید پر عربی میں خطبہ پڑھنا.خدا تعالے تمہاری زبان پر الفاظ جباری کرے گا پہنا تو ایسا ہی کی

Page 63

۰۵ تو یہ عبید ہماری جماعت کے لئے ایک خاص نشان ہے کیونکہ اس پر خدا تعالے نے یہ حجزہ دکھایا کہ ایک ہمارے ہی ملک کا باشندہ جو نہ کبھی عرب میں گیا نہ کبھی خالہ کہلایا نہ اس نے علم عربی کی خاص طور تعلیم پائی اور لوگ مولوی پھوڑا سے مجلسی آدمی بھی نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس نے سب کو چھوڑ چھاڑ کر گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کی اور لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھا.اس پر خدا نے اپنا کلام جاری کیا.اور اس نے بغیر کسی قسم کی تیاری اور عربی زبان میں تقریر کرنے کی مشق کے ایک لہے ؛ صعہ تک تقریر کی جو ایسی شستہ اور فصیح تھی کہ جس کو اس ملک والے بھی دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتے ہیں جن کی مادری زبان میں وہ کی گئی اور ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ اگر قرآن کریم کے بعد آسانی اور سہولت سے کوئی عبارت حفظ ہو سکتی ہے تو یہی تقریر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی.یہ حفظ کرنے کے اس قدر اقرب ہے کہ وہ دن جس میں کی گئی تھی ابھی ڈوبا نہیں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بیچے اس کے فقرے گلیوں میں دوہراتے پھرتے تھے.وجہ یہ کہ ایسی منفی اور مسجع ہے کہ بہت آسانی سے یاد ہو سکتی ہے.اس وقت میری عمر بارہ برس کے قریب تھی اور کئی بچے مجھ سے بھی چھوٹی عمر کے تھے مجھے یاد ہے ہمیں اس تقریر کے کئی فقرے یاد ہو گئے تھے اور تقریر کرنے کے وقت کے نقشہ کا ایسا اثر تھا کہ بغیر اس بات کے علم کے کہ سواری کا پڑھنے کے ساتھ خاص تعلق ہوتا ہے ہم دیواروں کو گھوڑا بنا لیتے اور فقرات کو پڑھتے اور ہم سمجھتے کہ سواری سے ان فقرات کو خاص مناسبت ہے.تو بلحاظ اس کے کہ اس عید کو ہماری جماعت کے ساتھ یہ خاص خصوصیت ہے کہ اس پر خدا تعالے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ایک بہت بڑا معجزہ دکھایا ہمارے لئے یہ بڑی عید ہے.پھر اس لحاظ سے بھی بڑی ہے کہ اس کے ذریعہ قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور تمام بڑائیوں کے حاصل کرنے کے لئے نفس کی قربانی ضروری ہوتی ہے اس عید پر نفس کی قربانی کی طرف اشارہ ہے اور مال کی قربانی کرائی جاتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بنایا ہے، بڑائی چھوٹائی نسبتی امر ہے اور جس سے کوئی فائدہ اٹھائے ، وہی اس کے لئے بڑی ہے تاہم چونکہ اس عید میں قربانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، اس لئے جو اس سے فائدہ اٹھائے وہ اسے بڑا کر سکتا ہے.کیونکہ اس میں ایک طرف تو قربانی کی حقیقت اور اس کا نفع اور فائدہ بنایا گیا ہے اور دوسری طرف اس سے اس قربانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کی.دنیا میں لوگ معمولی معمولی باتوں کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر چاہتے ہیں کہ ان کا نام مشہور ہو جائے مثل مشہور ہے کہتے ہیں کوئی عورت بھی اس نے انگور بھٹی بنوائی.عورتوں کو دکھانے کے لئے وہ اس انگلی سے نہیں میں انکو سٹی پہنی ہوئی بھی باتوں باتوں میں اشارے کرتی.

Page 64

مگر اتفاق کی بات ہے کسی نے نہ دیکھی.اس پر اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی جب عورتیں اس کے پاس مدردی کرنے کے لئے آئیں تو انہوں نے پوچھا کہ کچھ بچا بھی یا سب کچھ مل گیا.اس نے کہا اور تو کچھ نہیں بچا صرف یہ انگوٹھی بیچی ہے.اس پر جیسا کہ بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ نئے کپڑے یا زیورہ کو دیکھ کر بے اختیار بول اٹھتی ہیں کہ کب نور یا ہے کسی عورت نے اس سے پوچھا کہ بہن تم نے یہ انکو سٹی کب بنوائی ہے.اس نے کہا.یہ سوال اگر کوئی مجھ سے پہلے کرتی تو میرا گھر ہی کیوں چلتا تو شہرت لوگوں کو اتنی مطلوب ہوتی ہے کہ ناجائنہ رنگ میں بھی اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جو جائز شہرت اور عزت خدا نے دی ہو اس کے متعلق تو خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.5 اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدت کہ اللہ نے جو تجھ پر انعام کیا ہے اس کو بیان کی اور لوگوں کو بتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایسا کرنا پڑا.مگر اس کے ساتھلا فخر لا فخر بھی آپؐ فرماتے رہے یہ تو بڑائی اور عزت شہرت اور رتبہ خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت خدا کی رحمتوں میں سے ایک رحمت خدا تعالیٰ کے احسانوں میں سے ایک احسان ہے.اور خدا تعالے جب کسی پر اپنا فضل کرتا ہے تو اس کو عزت بھی ساتھ ہی دے دیتا ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کو ئی شخص ذلیل بھی ہو اور خدا کا پیارا بھی.کیونکہ خدا کے قرب کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ انسان مکرم اور معزز ہو.چنانچہ خدا تعالئے قرآن کریم میں فرماتا ہے KATA TANمَكُمْ عِنْدَ الله انام ہے کہ تم میں سے اکثر مر وہی ہے جو ا نفی ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالے نئے اتقی کو محرم قرار دیا ہے.وجہ یہ کہ عربات اور نقوی ایسی لازم و ملزوم چیزیں ہیں کہ کبھی جدا ہو ہی نہیں سکتیں.اور ذلت ہمیشہ خدا کی نافرمانی کی وجہ سے نہی آیا کرتی ہے.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ خدا کے نافرمان لوگ بظاہر دنیا دی توت والے نہیں ہوتے.بلکہ یہ ہے کہ جو خدا کا مقرب ہو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا.یہ تو ہوگا کہ ان لوگوں کو بظا ہر عزت مل جائے جو متقی اور نیکو کار نہیں.مگر یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کوئی متقی ہو اور اسے حقیقی عزت حاصل نہ ہو.تو عزت و توقیر خدا کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے اور انسان چاہتا ہے کہ اُسے عزت اور شہرت حاصل ہو.اس عید پر خدا تعالے نے بتایا ہے کہ دیکھو حضرت اسمعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا اس وقت پر ہزاروں سال گذر گئے ہیں مگر آج تک ان کا نام فورت تو قیر سے لیا جاتا ہے اور ان کو ایسی عورت اور شہرت حاصل ہو گئی ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتی.میں جب لوگ معمولی معمولی عزتوں کے لئے جانیں ہے دیتے ہیں مثلاً گڑائیوں میں لوگ جانیں دیتے ہیں کہ عزت اور ناموری حاصل ہو مگر کب تک یاد رہتی نہیں بہت ہی قلیل عرصہ تک.اسی لڑائی میں دیکھ لو.ابھی سے یہ بحث ہو رہی ہے کہ رہے

Page 65

06 بڑا تمغہ اس لڑائی میں سب سے پہلے کس نے حاصل کیا تھا.گویا اتنے تھوڑے عرصہ میں یہ بھی یاد نہیں رہا.تو دنیا کی عزت جس کی یہ حالت ہے اس کے لئے جب جانیں قربان کی جاتی ہیں تو سوچنا چاہیئے کہ خدا کی طرف سے عزت حاصل کرنے کے لئے جو ہمیشہ.بہنے والی ہے کس قدر قربانی ہونی چاہیئے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ خدا تعالنے کے لئے جو قربانیاں کی جاتی ہیں ان کا نام تو قربانیاں ہوتا ہے مگر دراصل وہ خدمتیں ہیں جن کے معاوضے ملنے ہوتے ہیں کیونکہ قربانی تو اس کو سکتے ہیں کہ بغیر کسی معاوضہ کے کوئی کام کیا جائے.گوبندہ خدا تعالے سے سودا کر کے قربانی نہیں کرتا مگر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو انسان خدا کے لئے قربانیاں کرتا ہے اسے اس کے بدلہ میں اس قدر انعام ملتے ہیں کہ جن کی کوئی حد نہیں رہتی.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ خدا کے لئے جو قربانیاں کی جاتی ہیں وہ قربانیاں ہوتی ہیں بلکہ انہیں معمولی سے معمولی خدمتیں بھی نہیں کہ سکتے کیونکہ ان کے بدلے میں بہت بڑا معاوضہ اور اجر ملنا ہوتا ہے.تو خدا کے لئے جو قربانی کی جاتی ہے گو اس کا نام قربانی ہی ہے.لیکن یہ بھی محض خدا کا فضل اور احسان ہے کہ بندہ اپنی عورت اور مرتبہ کے بلند ہونے کے لئے جو کام کرتا ہے اس کا نام قربانی رکھ دیا گیا ہے ورنہ وہ کام معمولی خدمت بھی کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا.تو یا درکھنا چاہیئے کہ خدا تعالے کے لئے جو قربانیاں کی جاتی ہیں خواہ وہ نفس کی ہوں یا مال کی وہ در حقیقت خدمتیں ہیں کہ جن کے بدلے بہت بڑھ چڑ ھ کر ملتے ہیں.اور اس قدر ملتے ہیں کہ وہ قربانیاں خدمات کہلانے کی بھی مستحق نہیں ہیں.بہت لوگ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دھو کہ میں پڑ جاتے ہیں اور دین کا کوئی کام کر کے کتنے ہیں ہم نے یہ قربانی کی ہے جانا کہ وہ قربانی کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی.قربانی تو یہ ہے کہ ایک شخص ڈوب رہا ہو ، انسان اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اسے نکال لائے.یا ایک پیاسا ہو اُسے اپنا پانی دے دیا جائے گو یا جب کسی کو احتیاج ہو اور اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اس کی مدد کی جائے تو اس کو قربانی کہا جاتا ہے مگر خدا تعالے کو تو کسی قسم کی احتیاج نہیں ہے اور نہ اس کو کسی کی امداد کی ضرورت ہے.ایک ڈوبنے والا یہ نہیں کہتا کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے لیکن خدا تعالے کو تو کسی کی پروا نہیں ہے بلکہ وہاں تو یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ فلاں نے جو میرے نام سے کام کیا ہے اُسے قبول کیا جائے یارڈ کر دیا جائے.چنانچہ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دو آدمیوں نے قربانی کی جن میں سے ایک کی قبول کرلی گئی.اور دوسرے کی یہ کر دی گئی تو خدا تعالے کے حضور اور ہی رنگ ہے.قربانی تو یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص دوسرے کی خاطر خود تکلیف اُٹھا کر کوئی کام کرتا ہے اور دوسرا اس کا منون احسان

Page 66

ہوتا ہے مگر خدا تعالے کے لئے جو قربانی کیجاتی ہے اس کے متعلق وہ فیصلہ کرتا ہے کہ قبول کروں یا رد کروں پپس میہ در اصل قربانی نہیں بلکہ خدمت ہوتی ہے جو انسان اپنے ہی فائدہ اور نفع کے لئے کرتا ہے اور اس کو قربانی اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ خدا تعالے نے اس کا نام قربانی رکھا ہے.پس جس کسی کو دین کی خدمت کرنے کا کوئی موقع ملے اس کو اس پر کوئی گھمنڈ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اس کی خدمت کے متعلق تو ابھی یہ سوال درپیش ہوتا ہے کہ خدا کے حضور وہ قبول ہوئی بھی ہے یا نہیں.وہ لوگ جنہوں نے دین کی کوئی خدمت کر کے یہ خیال کیا کہ ہم بھی کچھ کہ رہے ہیں اور کچھ کر سکتے ہیں وہ تباہی کے گڑھے کے کنارے نہیں بلکہ گڑھے میں گر گئے اور ہمیشہ کی تباہی میں مبتلا ہو گئے.یہ آیات جوئیں نے پڑھی ہیں ان میں آدم کے دو بیٹوں کا ذکر ہے.یہ کوئی خاص بیٹے نہیں.کوئی ہوں.ان دونوں نے خدمت یعنی قربانی کی جن میں سے ایک کی رو ہوگئی اور دوسرے کی قبول ہو گئی اور معزز و مکرم وہی ہوا جس کی قربانی خدا تعالے نے قبول کر لی.بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے قربانیاں کی ہیں اور اس یہ فخر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ صرف قربانیاں کرنا قابل فخر بات نہیں ہے یوگی تو ہابیل بھی کہنا تھا کہ میں نے قربانی کی ہے لیکن کیا وہ اس کے لئے قابل فخر قربانی تھی.ہر گز نہیں.پس یہ کہنا کہ میں نے فلاں قربانی کی ہے کوئی عزت اور فخر کی بات نہیں ہے.کیا آدم کا وہ بیٹا جس کی قربانی خدا تعالے نے قبول نہ کی.معزز و مکرم ہوا یا ذلیل و خوار.خدا تعالے کہنا ہے کہ وہ ذلیل ہی ہوا شد تو محض قربانیاں کرنا کوئی نفر اور عزت کی بات نہیں.ہاں خدا تعالے کا کسی قربانی کو قبول کر لینا فخر اور عورت ہے.اگر ایک شخص بہت بڑی قربانیاں کرتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے مان قبول نہیں ہوتیں تو اس کے لئے کوئی فخر نہیں.لیکن اگر کوئی شخص ایک پیسہ کی قربانی کرتا ہے اور خدا تعالے کے ہاں قبول ہو جاتی ہے تو یہی اس کے فخر کا باعث ہے تو اس عید پر اس لئے فخر نہیں ہونا چاہیئے کہ قربانی کرنے سے موت حاصل ہو جاتی ہے بلکہ سمجھنا چاہیئے کہ قربانی قبول ہونے سے عورت ملتی ہے چونکہ ہمارا سلسلہ اللہ تعالے کی جانب سے ہے اور اس میں داخل ہونے والوں کو بھی بڑی بڑی قربانیاں کرنے کی ضرورت ہے اس لئے ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب اچھی طرح خیال رکھنا چاہئیے کہ کوئی قربانی کر دینے سے اس وقت تک برت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ خدا تعالے قبول نہ کرلے.ہاں جب خدا تعالے قبول کرلے تو اس وقت عزت حاصل ہوتی ہے اور جب خدا قبول کر لیتا ہے تو پھر بندہ اس پر فخر نہیں کرتا.و.ان آیات میں جو میں نے پڑھی ہیں خدا تعالے دو آدمیوں کا ذکرتا ہے کہ دو نے قربانی کی تھی ان میں سے ایک کی قبول ہو گئی اور دوسرے کی رو کردی گئی جس کی قبول ہوئی اس کا تو کوئی

Page 67

۵۹ نقرہ نقل نہیں کیا گیا لیکن جس کی.ذکی گئی اس کے متعلق فرماتا ہے کہ اس نے دوسرے کو کہا.میں تجھے مار دوں گا.گویا اس طرح وہ اپنی قربانی حبت لاتا ہے اس کے جواب میں دوسرا اپنی قربانی کا ذکر نہیں کرتا بلکہ یہی کہتا ہے ان تتقبل اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.یہ کیا بیہودگی ہے کہ تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس لئے تم اور ایٹا کام کرنے لگے ہو.تمھیں تو چاہیے تھا کہ ور زیادہ بجز اور انکسار اختیار کرتے نہ کہ مجھے قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتے.اگر ایسا کروگے نو انتقاء کی حدود سے بالکل باہر نکل جاؤ گے اور پھر تمہاری قربانی کبھی قبول نہ ہو سکے گی.جو حالت اس شخص کی ہوئی اسی طرح بہت سے لوگوں کی ہوتی ہے.ان کے سپرو جب کوئی دین کا کام ہوتا ہے تو پھر کہتے ہیں کہ فلاں کو تو خدمت کا یہ بدلہ ملا تھا ہم کو نہیں ملا.ایسے لوگوں کوان دو شخصوں کی مثال پر نظر رکھنی چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ عات، رتبہ اسی کو حاصل ہوتا ہے جس کی قربانی تبول ہو.اور اگر قربانی رو ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ملتا پس صرف قربانی پر فخر کرنا ایک مرض ہے.ایک زہریلا کیڑا ہے، ایک قسم کا حق ہے جس سے بہت ممکن ہے کہ انسان ہلاک ہو جائے اور جب تک کوئی یہ نہ مجھے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے.محض خدا کے فضل سے کیا ہے.اور وہ قربانی نہیں بلکہ خدا کا فضل ہی ہے اس وقت تک اس کو عزت نہیں مل سکتی بلکہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے.اس وقت دیکھو ہمارے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ کھڑے ہو گئے جنہوں نے چھوٹی کیا کہ چونکہ ہم نے بڑی بڑی نوکریاں اور بڑے بڑے فوائد چھوڑے اور ہم نے قربانیاں کی ہیں.اس لئے ہم غربت کے قابل ہیں.مگر وہ نہیں جانتے کہ محض قربانی کرنے سے کسی قسم کی عورت مقتل نہیں ہو سکتی.جب تک وہ قبول نہ ہو جائے.اگر ایک شخص نے ایسی قربانی کی جو نظر نہ آئے مگر خدا نے اس کو قبول کر لیا تو اسی کو عزت ملے گی لیکن اگر بظا ہر کسی نے بہت بڑی قربانی کی اور وہ قبول نہ ہوئی تو ہرگز اسے عزت حاصل نہ ہوگی.تو ظاہری قربانیوں کو نہیں دیکھنا چاہیے.بلکہ قربانی وہی ہوتی ہے جس کو خدا تعالے قبول کرلے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو دین کی خدمت کرنی کا موقع رات اور ان میں قربانی کی رح پیدا کرے اور وہ اسکو خڈ کا انسان اور فضل سمجھیں تا کہ خدا تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول کرتے آمین الفضل در تمبر و متاب) ا - المائده ۲۰:۵۰ نه صحیح بخاری کتاب العيدين باب الا كل يوم الفطر قبل الخرون سه جامع ترندی ابواب ) - الاكل - كتاب السنن الكبرى بقى كتاب صلاة العيدين باب ترك الا كل يوم النحر شي يرجو - له الصحي ۹۳: ۱۲ ے.مسند احمد بن فضیل جبلد ا صفحات ۲۹۵۰۷۸۰۵- له الحجرات ۱۲:۴۹ ته کے جنگ عظیم اول.اس کے متعلق نوٹ پہلے آچکا ہے.جسے المائده ۵ : ۳۲۳ (

Page 68

دفرموده ۲۶ اگست شاد بمقام ڈلہوزی ) یہ عید قربانی کی عید کہلاتی ہے کیونکہ ایک عظیم الشان قربانی کی یاد میں قائم کی گئی ہے لوگ بحث کرتے ہیں کہ یہ قربانی حضرت اسحق کی تھی یا حضرت آمنجیل کی لیکن اصل بات یہی ہے ، کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام ہی اس قربانی میں پیش کئے گئے تھے.یہ تو رات کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا تھا کہ اپنا اکلوتا بیٹا قربانی میں پیش کریں.اس نے کہا اللہ تعالے نے تو اپنے بیٹے ہاں اکلوتے بیٹے کو جسے تو پیار کرتا ہے - اضحاق کو لے اور زمین صوریاہ میں جا اور اسے وہاں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں سمجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے لئے چڑھایا ہے مگر چونکہ حضرت اسحی حضرت اسمعیل سے چھوٹے تھے.اس وجہ سے اکلوتے بیٹے کے لفظ کا اطلاق ان پر نہیں ہو سکتا تھا.لیکن بڑے بیٹے پر اکلوتے کا لفظ عائد ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک حضرت اسحق پیدا نہیں ہوئے تھے حضرت اسمعیل ہی اکلوتے تھے.یہود کو یا تو دھوکا لگا ہے یا انہوں نے عمدا حق پوشی کر کے لوگوں کو دھوکا دیا ہے اور اس خواب میں اضحق کا لفظ بڑھا دیا ہے تاکہ قربانی کے فوائد اور وندوں کا وارث اپنی قوم کو ثابت کر کے حق اپنی طرف منسوب کریں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رڈیا میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہیں.یہ ایک خواب تھی جس کی تعبیر تھی اور یہ ظاہر اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا تھا.اور یہ رو یا کچھ معنی رکھتی تھی مگر چونکہ اس وقت تک اللہ تعالے کی طرف سے کوئی قانون نازل نہ ہوا تھا کہ رویا پر کیونکر عمل کیا جائے اور خواب کی حقیقت اور معانی سمجھے کہ کیونکہ اسے عملی جامہ پہنایا جائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رڈیا کو اپنے ظاہر پر محمول کیا اور واقعہ میں اپنے جگر گوشہ کو خدا کے حکم کے ماتحت اور اس کی رضا کے حصول کے لئے قربان کرنے کو تیار ہو گئے اور حضرت ہمیں علیہ السلام کو جن کی رضا بھی اس میں شامل تھی.زمین پر لٹا دیا.مگر اللہ تعالے نے عین اس وقت کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اپنی طرف سے حضرت آنفیل کو قربان ہی کر چکے تھے.اس ساریا کی حقیقت بتائی اور اس خواب کو ظاہری طور پر پورا کرنے کے لئے حکم دیا کہ اللہ کی راہ میں ایک بحرا قربان کیا جائے نیک

Page 69

در اصل یہ رویا ایک بنیاد تھی جس کا دامن قیامت تک کے لئے وسیع تھا اور اس رڈیا کے دونوں پہلو تھے مندر بھی اور مبشر بھی.اللہ تعالے نے بتا یا کہ یہ ڈیا کے منذ رحصہ کی ہی این اور دکھ سے بچنے کے لئے بکرے کی قربانی ادا کرو.چنانچہ اسی ابراہیمی سنت کے ماتحت مسلمانوں کو بھی قربانی کا حکم ہے.اور اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں.مگر چونکہ اس رؤیا کے دونوں پہلو میں مندر بھی اور بیشتر بھی اسی وجہ سے اس قربانی اور صدقہ میں فرق ہے.صدقہ کی قربانی کا گوشت انسان کو خود کھانا جائز نہیں ہے مگر اس قربانی کا گوشت انسان خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے دوستوں اور غرباء ومساکین میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے." در اصل یہ رویا حضرت اسمعیل علیہ اسلامیہ کی ہجرت کی پیشگوئی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو قبل از وقت اشارہ بتائی گئی کہ اپنے تھے بچے کو ایک ایسے بے آب و دانہ خیل میں جہاں سینکڑوں میل تک نہ پانی نہ کھانے کا سامان کچھ بھی میسر نہ ہو گا، وہاں چھوڑنا پڑے گا.جو در اصل ان حالات کے ماتحت ذبح کرنے سے بھی زیادہ سخت ہوگا.اور یہی وہ قربانی تھی جس کی طرف رویا میں اشارہ تھا.ورنہ یہ خیال کہ بچے کو ذبح کر دو اور پھر ہیں.اس کے بعد اس کا کوئی نتیجہ نہیں، یہ تو ایک تسخر بن جاتا ہے جو اللہ تعالئے اور انبیاء کی نشان سے بعید ہے گو حضرت ابراہیم علیہ سلام نے وہی سمجھا جس کے مطابق اپنے اخلاص اور علم کی بناء پر عمل در آمد کیا مگر در اسل منشاء الهی وہی تھا جو واقعات سے ثابت ہوا.غور کا مقام ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ اسلام کی عمر اس وقت گیار یا بارہ برس کی ہے حکم ہوتا ہے کہ اس کو لق ووقی جنگل میں چھوڑ آئے جہاں سینکڑوں میل تک پانی ہے نہ دانہ بمحضر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کو یوں بیان فرماتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یک تھیلے میں تھوڑی کھجوریں اور ایک مشکیزہ میں کچھ پانی لیا.اور حضرت ہاجرہ اور اسمعیل کو لے کر ایک جنگل کی طرف روانہ ہوئے.حضرت ہاجرہ پو چھپتی ہیں کہ آپ کہاں جاتے ہیں اور ہمیں کدھر لے جاتے ہیں.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا اور جنگل کی طرف چلے گئے.حضرت ہاجرہ بار بار پوچھتی تھیں مگر کوئی جواب نہ ملتا تھا.حتی کہ اس خاص مقام پر پہنچے جہاں مکہ مکرمہ تھا.اور جس جگہ ان کو پہنچانے کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا تھا.وہاں پہنچکر کھجور کا تھیلہ اور پانی کا مشکیزہ ماں بچے کے پاس رکھ کر آپ واپس روانہ ہوئے.حضرت ہاجر گانے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو اس جنگل میں یکہ و تنہا چھوڑ کر خود واپس جا رہے ہیں تو وہ ان کے پیچھے پولیس اور عرض کیا کہ تمہیں اس جنگل میں چھوڑ کر آپ کہاں تشریف لے جاتے ہیں.مگر

Page 70

۶۲ کوئی جواب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو نہ دیا اور چپکے چلتے گئے.حضرت ہاجرہ نے پھر عرض کیا نہ دوباره سه باره پوچھا کہ حضور ہمیں اس ہے گیاہ، بے آب و دانہ خوفناک اور بھیانک جنگل میں جہاں نه انسان ہے او نہ کوئی مونس و غمخوار ، تنہائی اور جُدائی ڈراتی ہیں، ایسے لق و دق سنسان بیابان میں بے سروسامان چھوڑ کر کہاں تشریف لے جاتے ہیں ؟ مگر حضرت ابلہ سہیم علیہ سلام کی طرف سے پھر بھی کوئی جواب نہ ملا.تو حضرت ہاجرہ رضی الله عنها عرض کرتی ہیں کہ کیا اللہ تعالے نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور کیا آپ اللہ کے حکم سے ہمیں یہاں چھوڑتے ہیں.اس پر حضرت ابراہلیہ السلام نے صرف اتنا جواب دیا یتیم رہاں ).حضرت ہاجرہ کا ایمان بھی کیسا کامل ایمان ہے اور کیس پایہ کی مطیع اور متوقہ عورت ہیں کہ جب اللہ کا نام آیا ، دل قوی ہو گیا.تمام خطرے جاتے رہے.ساری تنہائی اور بے سروسامانی بھوں گئی.نہایت انشراح صدر اور کمال اطمینان سے کہتی ہیں.اِذَنْ لا يُضيعُنَا یہ کم کر حضرت ابراہیم کی طرف سے اپنے لخت جگر، نور بصر کی طرف لوٹ آتی ہیں اور رضاء الہی پر سیتا کر اور اس کے حکم کی نسبجا آوری کے لئے صابر ہیں.ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب راستہ کے موڈ پر پہنچے اور دیکھا کہ آپ اب ان کی نظروں سے اوجھل ہیں.منہ قبلہ کی طرف پھیر لیا اور کھڑے ہو کر اپنی پیاری بیوی اور عزیز بچے کو اللہ کے سپرد کرتے اور دعا کرتے ہیں بناتی انگنت مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ فِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ المُحرم - رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إلَيْهِمْ وَارْزُقَهُم مِّنَ الثَّمَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشكرون کے اس دعا کے بعد گویا حضرت یه ابراہیم علیہ السلام مطمئن ہو گئے اور ان کو اللہ کے وعدوں پر کامل یقین اور پورا بھروسہ تھا کہ وہ ان کو ضائع نہ ہونے دے گا.اور ایسا بڑھائے گا کہ دنیا کی ریت کے ذرات کا گنا جانا ممکن مگریہ کبھی نہ گئے جاسکیں گے.دُعا بھی کمیسی کامل دُعا کی ہے کہ ان کی روحانی جسمانی ضروریات کو مد نظر رکھ کر جامع دعا کی ہے.حضرت ہاجرہ اور ان کے بچے کے پاس تھوڑی سی کھجور اور تھوڑا پانی تھا.جلدی ختم ہوگیا.بچے بھوک پیاس کی زیادہ برداشت نہیں کر سکتے.پیاس سے تنگ آکر حضرت اسمعیل نے رونا اور چلانا شروع کیا.ماں کی مامتا مشہور ہے ان کے بیاب اور لوٹ پوٹ ہونے کو دیکھ نہ سکیں اور ادھر ادھر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگیں.ایک طرف صفا کی پہاڑی اور دوسری جانب مردہ کی بندیاں تھیں.اُدھر سے ادھر اور ادھر سے اُدھر سات مرتبہ دوڑی تھیں کہ کہیں کوئی پانی کا نشان مل جائے، گھبراہٹ میں تھیں، بچہ جاں بلب تھا.اس درد کا کون اندازہ کر سکتا ہے آخر ایک آواز

Page 71

۶۳ کان میں آئی جو محض آواز ہی تھی.سننے کے لئے کان لگائے.پھر آواز آئی اس کو امداد کے لئے پکارا.مگر وہ فرشتہ تھا جس نے اپنے پاؤں کی ایڑی سے یا اپنے پر سے ایک پتھر کو ٹھوکر لگائی.اور وہاں سے چشمہ صافی رواں ہو گیا.جس سے اپنے بچے کو پلایا در خود بھی پیا.وہی چشمہ اب دنیا میں زمزم کے نام سے موسوم ہے لیے صفا اور مروہ کی سعی ایام حج میں سی عظیم الشان قربانی کی یادمیں قائم ہوئی ہے.یہ قرانی کیا پھل لائی اور کیسی بار آور ہوئی.دنیا جانتی ہے.یہ قربانی تھی جسکی طرف اشارہ تھا ور یہی وہ قربانی ہے جو حضرت ہمعیل علیہ السلام کی اولاد کو بھی کرنا تھی پہلی کتابوں میں یونہی لکھا تھا کہ حضرت اسمعیل علیہ اسلام اور ان کی اولاد کے خلاف تمام دنیا کا ہا تھ اٹھے گا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کا ہاتھ تمام دنیا کے خلاف ہوگا.چنانچہ پیدائش بابت ہمیں یوں بیان ہوا ہے.اس کا ہاتہ سب کے خلاف اور سب کے اتھے اس کے خلاف ہوں گے.اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا نہ اور جس کا یہ حال ہو کہ تمام دنیا اس کے خلاف جمع ہو جائے اسے قربانی بھی بہت کرنی پڑہتی ہے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے آپ کے حقیقی وارث حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی سب سے بڑی قربانی کرنی پڑی چنانچہ اسی مقام پر جہاں مت آئیں علیہ سلام کو ہجرت کرنی پڑی تھی.اسی مقام پر آپ کا دانہ اور پانی روک دیا گیا.حضرت اسمعیل من کا اور علیہ سلام تو ایسے وقت میں وہاں پہنچائے گئے تھے کہ وہاں دانہ پانی تھا نہیں مگر یہاں یہ حالت ہے کہ دانہ اور پانی تو موجود ہے مگر پہرہ مقرر کر دیا جاتا ہے کہ ان کو نہ دانہ پہنچے اور نہ پانی.اور متواتر چھ سال تک یہی حالت رہتی ہے حتی کہ فاقوں کی وجہ سے لوگوں کے چہرے پہچاننے مشکل ہو گئے اور پھر یہ وہی قربانی کے ایام ہیں جن میں آپ کی نہایت پیاری بیوی حضرت فد نیجر رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہی مشکلات مصائب اور مشقتوں میں فوت ہوئیں کیا حضرت اسمعیل علیہ السلام کے واسطے تو وہ مشکل چند روزہ تھی مگر یہاں متواتر چھ سال کا عرصہ انہی مشکلات میں بسر کرنا پڑتا ہے.اور یہ بڑی قربانی آپ کو اس لئے کرنی پڑی کہ آپ ہی وہ نہیں تھے کہ جن کا ہاتھ تمام دنیا کے خلاف اور جن کے خلاف تمام تہان کھڑا ہونے والا تھا.عیسائی کہتے ہیں کہ ان الفاظ تورات سے مراد ڈاکو ہیں.مگر یہ ٹھیک نہیں.ڈاکو بھی پھیلا کوئی حیثیت رکھتے ہیں جن کے خلاف تمام دنیا اور سارے جہان کو جمع ہونے کی ضرورت پیش آوئے بڑے بڑے ڈاکو دنیا میں پیدا ہوئے اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ آخر ان کا کیا انجام ہوا تھوڑے

Page 72

ہی دنوں میں باندھکر ان کو سزائیں مل گئیں مگر حضرت اسمعیل علیہ السلام اور اس کی اولاد کی نسبت تو اللہ تعالے نے فرمایا ہے کہ باوجود سب دنیا کی مخالفت کے وہ اپنے سب بھائیوں کے نشا بود وباش کرے گا یعنی ان کی مخالفت ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گی.در اصل یہ ایک بہت بڑے انقلاب اور عظیم الشان تغیرات کی طرف اشارہ تھا جو ہمیشہ ہمیش کے لئے حضرت سہ میں علی اسلام اور انکی اولاد کے خلاف دنیا میں بپا ہونے والا تھا اور جسے اب دنیا آئے دن مشاہدہ کر رہی ہے جس دن سے حضرت سمعیل علیات ام کو مکہ کے پاک اور متبرک مقام پر کھڑا کیا گیا تھا اسی دن سے دُنیا میں اس عظیم الشان تغیر کی بنیاد رکھی گئی تھی آپ کو نہ مٹنے اور نہ بدلنے والے مقام پر کھڑا کیا گیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ دنیا کو اس کی اور اس کی اولاد کی طرف سے کھا جانیوالا خطرہ پیدا ہو گیا تھا.قاعدہ کی بات ہے کہ بدلتی رہنے والی چیز اور مٹ جانیوالی ہستی کا لوگوں کو زیادہ خون نہیں ہوتا.اصل خوف اور زیادہ ڈر اسی چیز کا ہوتا ہے جس کے متعلق خیال ہو کہ یہ نہ بدلے گی اور نہ مٹے گی.کیونکہ بدلنے اور مٹ جمانے والی چیز کے متعلق وہ دلوں کو تسلی دے لیتے ہیں کہ چند روز بعد بدل جائے گی یا مٹ جائے گی مگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو جس مقام پر کھڑا کیا گیا تھا اس کے متعلق وعدہ تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیش قائم رہے گا نہ مٹے گا اور نہ بدلے گا.اور یہی امر دنیا کی زیادہ مخالفت کا باعث ہوا.غرض یہ رویا اس قربانی پر دلالت کرتی تھی کہ حضرت آجیل علیہ السلام کی اولاد کو صداقت اور حق کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تمام دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے گا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مذہب دیا گیا وہ اس حقیقت کا پورا ثبوت اور بین دلیل ہے.اسلام کا اصل الاصول قربانی ہے.حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اسٹیل کو قربان کر کے آئندہ نسلوں کے لئے ترقیات اور وصول الی اللہ کی سنت قائم کر دی اور کمال فرمانبرداری کا نمونہ دیکھا کر اپنا مذہب کھول کر بتا دیا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جب تک خدا کے لئے اپنے اوپر ایک موت وارد نہیں کرتا اور اللہ تعالے کی رضا کے لئے ہر قسم کی ذلت اور کروائی کو اپنے اوپر لینے کے لئے تیار نہیں ہو جاتا اور مشکلات اور مصائب کے خاردار کوہ و دشت میں نہیں پھینکا جاتا.اور دنیا سے بالکل منقطع ہو کر کاٹا نہیں جاتا اس وقت تک قبول بھی نہیں کیا جاتا.ابراهیمی سنت اور آنیلی ایثار و فرمانبرداری کا رنگ جب تک انسان اپنے اندر پیدا نہیں کرتا جس کا کامل نمونہ ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی زندگی میں کمال صبر اور کمال استقلال سے دکھا کر تحقیقی قربانی کی مثال ہمیشہ ہمیش کے واسطے بطور نمونہ اور اسود جستہ

Page 73

14 قائم کر دی.اور تو سب کو مدنی زندگی کے زمانہ میں رنگ لائی ، بار آور ہوئی اور اس قربانی کی قبولیت کا ثبوت اور منظوری کی شہادت اللہ تعالے نے اپنے فعل سے دی) اس وقت تک انسان کو خدا تعالے کے حضور نہ قبولیت کا شرف بخشا جاتا ہے اور نہ ہی وہ منظور نظر ہوسکتا ہے.مگر لوگ بالعموم قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.میں دیکھتا ہوں طبائع میں عام طور پر کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا مادہ بہت کم پایا جاتا ہے.نفس کا مارنا اور خدا تعالے کے احکام کے مقابلہ میں اپنی تہ خواہشات اور امنگوں کو قربان کر کے گردن ڈال دینا، اپنا آپ تقبلا کر تمام ترز خدا کے لئے ہو جانا اور ابار و استکبار کو ترک کر دینا نہایت ہی مشکل اور موت سے بھی سخت تر ہے.بہت ہیں کہ نماز، روزہ ، حج اور زکوۃ کے پابند ہوں گے مالوں کی قربانی میں دلیری اور پیلے سے کام لیں گے.نفسانی خواہشات کو قربان کر کے ایشیار کا ثبوت دیں گے.ہر کئی اور جسمانی خدمات کے لئے کمربستہ ہوں گے اپنے اوقات گرامی کی قربانی کے لئے آمادہ نظر آئیں گے مگر تعمیل فرمانبرداری اور ترک اباد داستکبار کے امتحان میں کچنے نکلیں گے اور پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ وہ اعمال کو ایسے ہیں کہ کرتے کرتے ان کی عادت پختہ ہو جاتی ہے.اور وہ انسان کے ایسے عادت ثانی ہو جاتے ہیں کہ پھر ان کا ترک کرنا انسان کے واسطے مشکل ہو جاتا ہے.مگر فرمانبرداری اس بات کا نام ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی روح اور اس کے قلب میں ایک ایسا احساس پیدا ہو جائے کہ وہ ان تمام احکام کی فرمانبرداری اور تعمیل کے لئے ایسا کمر بستہ ہو جائے کہ جب جب بھی کوئی حکم اللہ تعالے کی طرف سے ، اس کے رسولوں اور انبیاء کی طرف سے یا اُن کے نواب اور خلفاء کی طرف سے صادر ہو.سو یہ اس کے ماننے اور فرمانبرداری کے لئے اپنے دل میں کوئی خلش نہ پائے.اور تعمیل کے لئے بالکل تیار ہو.ابارد استکبار اور نا فرمانی کا خپانی دہم تک بھی اس کے قلب میں نہ گزرے.پیس انسان ہزار نمازیں پڑھے، صدقات دے ظاہری قربانیاں ادا کرے مگر جب تک وہ قلب سلیم نہیں جس میں یہ یقینی عوام ہو کہ خدا تعالئے کا مقابلہ نہیں کرنا ، ابا و استکبار نہیں کرنا اور خدا کے لئے ہر موت اپنے اوپر وارد کرنا منظور ہے تب تک کچھ بھی نہیں.اور ایک شخص تھوڑی نمازیں پڑھنے والا اور کم تسبیح و تحمید کرنے والا اور ظاہری احکام کی پاندی میں بظا ہر دوسروں سے کم ہے.مگر اس کے اندر وہ سعید روح موجود ہے اور دل میں سچا جوش اور تڑپ ہے کہ جب بھی کوئی حکم خدا تعالے کی طرف سے اسے ملتا ہے وہ اس کی تعمیل و فرمانبرداری کے لئے حتی الوسع تیار ہوتا ہے اور ابارد استکبار نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے اور اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کہ اسے بھی کسی حکم کی تعمیل کا موقع و توفیق ملی اور شکر کرتا ہے.کہ وہ بھی اس قابل ہوا

Page 74

کہ اسے کوئی موقع خدمات کا دیا گیا، ہزار درجہ بہتر اور لاکھ درجہ افضل ہے اس انسان سے جو سارا دن نمازوں اور تسبیح و تحمید میں گزار دیتا ہے.اور سارے مال کو اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیتا ہے بلکہ بھی اس کے اندر وہ مادہ پیدا نہیں ہوا جس کے ذریعہ سے وہ ہر ایک حکم کے لئے اپنے آپ کو بشرح صدر تیار پاتا ہے یا اس کا نفس بعض احکام پر برا مانتا اور ان کی اطاعت میں اپنی حق تلفی سمجھ لیتا ہے.درحقیقت وہ مسلم نہیں، اس کے نفس نے اس کو دھوکا دے رکھا ہے.اور اس میں وہ رگ باقی ہے جس کی وجہ سے ابلیس اندہ درگاہ ہوا.قربانی کے معنے ہیں کہ انسان ایک مُردہ کی طرح ہو جائے جو بدست زندہ ہو وہ اسے جدھر چاہے پھیر دے اور جہاں چاہے کچھ دے.نہ کوئی اس کی خواہش ہو اور نہ اس کا اپنا کوئی جندبہ ہو.وہ اپنے ارادے اور نیت کو بالکل کھو چکا ہو.ایسا مردہ انسان بلکہ بے حس و حرکت پتھر بھی لاکھ درجہ بہتر ہے اس انسان سے جو اپنے ظاہری اعمال سے اپنے اسلام و فرمانبرداری کا دعونی کر سے مگر امتحان کے وقت جھوٹا ثابت ہو اور ابارہ استکبار کر ہے.کہتے ہیں کہ ابلیس بڑا عابد و زاہد تھائی یہ مان لیا کوئی بعید از قیاس بات نہیں بلکہ قرین قیاس ہے کیونکہ ہمیشہ انبیاء وصادقین کی آمد سے پہلے بھی ایک ایسا گروہ موجود ہوتا ہے جو مدعی اسلام و فرمانبرداری ہوتا ہے.دور کی بات نہیں ہمارے اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلامہ کہنے سب سے بڑے دشمن مولوی محمد حسین بنے بٹالوی ہی کی نسبت ہم نے تحقیقات کرائی ہے.وہ شریعیت کے ظاہری احکامہ کا بڑا پابند تھا تجد گزار تھا اور سوائے خاص مجبوری کے تہجد ترک نہ کرتا تھا.انبیاء و راستبازوں کی آمد سے پہلے ایک گروہ ایسا بھی ہوا کرتا ہے.اور ایک گروہ ایسا بھی ہوا کرتا ہے جیسے مولوی ثناء اللہ مین آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زماد بعثت سے پہلے بھی ایک شخص زید نامی شهور زاہد تھا اور وہ شرک کے خلاف وعظ بھی کیا کرتا تھا اور ایسی غیرت کا اظہار کیا کرتا تھا کہ ایک فعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھانے کے لئے بلوایا تو اس نے جواب دیا کہ میں تمہارا کھانا نہیں کھا سکتا کیونکہ تم لوگ مشرک ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے یقین دلایا کہ ہم لوگ ہرگز مشترک نہیں ہیں.مگر آخر ایسا ندھی بھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان کیا تو شا کی ہوا اور اس نے اپنی حق تلفی بھی کہ خدمات تو میں نے کی ہیں اور نبوت آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مل گئی.اباء کیا، استکبار دکھایا، مرود ہوا اور محروم رہ گیا.عرض اباد استنکہا.ایک ایسی آگ ہے جو ایک دم میں سالہا سال کی محنت ، ریاضت، تعبیر

Page 75

کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور عمروں کے اعمال کو حبط کر کے خالی ہاتھ کر دیتی ہے.محض گناه یا مخفی نا فرمانی تو حضرت آدم علیہ السلام کی طرف بھی منسوب ہوتی ہے.کیوانی نا فرمانی کہتے ہیں محکمہ کے نہ مانے کو.سو وہ تو حضرت آدم علیہ السلام سے بھی ہوتی ہے اور ابلیس کی تاریت بھی نافرمانی منسوب ہوئی.میکے فرق کیا ہے ؟ جس سے حضرت آدم علیہ السلام تو با د بود نا فرمانی کے مقرب اور محبوب ہے اور ابلیس ہمیشہ ہمیش کے لئے مردود اور متروک ہو گیا.فرق صرف یہی ہے که حضرت آدم علیہ السلام سے نافرمانی سرزد ہوئی مگر نسیان سے اعمد ا نہیں، ابا سے نہیں، بستگیا.سے نہیں.اور ابلیس سے نافرمانی ہوئی اباء سے اور استکبار سے نہیں یک مسلمان اگر نماز نہیں پڑھتا مگر اندر ہی اندر نادم ہوتا ہے اور نماز کا انکار تو نہیں کرتا بلکہ اپنی نشستی اور غفلت کا اقبال کرتا ہے.اور کسی کے پوچھنے پر شرمندگی سے سر نیچا کرلیتا ہے گردن ڈال دیتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے تو وہ مومن ہے اور مسلمان ہے لیکن اگرا باد کرتا استکبار دکھاتا اور اپنے گناہ پر مصر ہے اور اسے مستحسن سمجھتا ہے تو وہ ایمان سے حنا ر ن ہو جائے گا.محض گناہ انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتا خواہ انسان اعمال ظاہری میں سست ہی کیوں نہ ہو.لیکن بظاہر پابند شریعیت ہو کہ بارہ استکبار کرنے وال کبھی بھی مومن نہیں رہ سکتا.یہ ایک نکتہ ہے کہ جس کے سمجھنے کی وجہ سے لوگ دھوکا کھاتے ہیں.اکثر سوال ہوتا ہے کہ فلاں شخص تو بڑا نیک پارسا تھا.عابد تھا.زاہد تھا.خادم دین تھا تیلیغ میں حصہ وافر لیتا تھا، وہ کیسے مرتد ہو گیا.مگر وہ نہیں جانتے کہ ایسے بڑے کہلانے والے.ایسے قربانیاں کرنے والے لوگ ، لوگوں کے نفسوں کا تو محاسبہ کرتے ہیں.مگر اپنے نفس کے محاسبہ کا انہیں کبھی خیال تک بھی نہیں آتا.وہ عبادت کرتے ہیں مگر اس لئے کہ عبادت کرتے کرتے ان کے اند را یک ذوق پیدا ہو جاتا ہے.وہ زہد کرتے ہیں مگر اسی ذوق کی بناء پر.ان کے قلب کا انجن ٹھیک نہیں ہوتا.ان کے دل میں وہ ایمان اور وہ روح پیدا نہیں ہوئی ہوتی ہو حقیقت میں ہو.اس کی مثال بعینہ کلاک کے پنڈولم، PEN DOLUM ، کی ہے جو موازنہ سے حرکت کرتا ہے.ذراسی روک آئی اور تھم گیا.اس روک کے مقابلہ کرنے والی قوت ان کے لوں میں پیدا نہیں ہوئی ہوتی.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی شاذ ہیں جو اس نکتہ کو سمجھے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں.بہتر ہوتا کہ اگر وہ ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کی صفائی پر بھی زور دیتے.اوران کے اندر یہ روح پیپ را ہو جاتی کہ جب جب کوئی حکم اللہ تعالے کی طرف سے ، اس کے رسولوں کی طرف سے یا اُن کے نواب و خلفاء کی طرف سے آتا ، وہ اس کے قبول کرنے اور بسر و چشم ماننے

Page 76

ЧА کو تیار ہوجاتے.اگر اس نکتہ کو لوگ سمجھ لیں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو بہت جلد ایک ایسی مضبوط جماعت تیار ہو سکتی ہے جو بجائے ذرا اسی بات پر اڑ بیٹھنے اور معمولی باتوں کو جنگ سمجھکر الگ ہو جانے کے ایسی مضبوط ہو کہ اگر اسے آروں سے بھی چیر دیا جائے تو بھی اس کے اندر کمزوری نہ پیدا ہو اور اسے اس کا نہ آوے.بلکہ وہ بڑے بڑے استلاؤں کو بھی امتلاء قرار دینے سے پر ہیز کرے اور پوری صادق اور صابر اور فرمانبردار ہو.اللہ تعالٰے ہماری جماعت کو اس کے سمجھنے کی توفیق دے اور بارود استکبار کا مادہ جو ابتداء سے دنیا میں چلا آیا ہے اس سے بچائے اور جس فرمانبرداری اور شتربانی کی بناء حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل نے رکھی تھی اور جسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درجہ تکمیل تک پہنچایا تھا ، اس پر کار بند ہونے کی توفیق عطا فرما دے.آمین ثم آمین یہ الفضل ۲ ستمبر ۱۹۲۰ (9) له - تاریخ طبری جلد افت تا مت - ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علی الاسلام مصنفہ علامر عباس محمود العقاد المصرى ترجمہ مولانا را خوب رحمانی مه ۱ تا ۱۳ ه - پیدائش باب ۲۲ آیت ۲ الصمت ه پیدایش باب ۲۲ آیت ۱۲- - 2 - صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب إذا تحولت الصدقة - صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب عن اكل لحوم الاضاحی - سنن کبرى الجزء الخامس فت سنن الدارمي الجزء الأول من ٣٩ ه - صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزقون النسلان في المشى شه - ابراهیم ۱۴ : ۳۸ 2 - صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزنون النسلان في المشي ته " ے.پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ ና - شعب ابی طالب کی طرف اشارہ ہے جو ایک پہاڑی درہ تھا.جہاں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین اڑھائی تین سال تک محصور رہے.رطبقات ابن سعد الجزء الاول فدا

Page 77

۶۹ ریخ طبری جلد ۱۱۹۹ مطبوعہ بیروت غالبا سو کتابت ہے.اصل مدت اڑھائی تین سال ہے (تاریخ طبری جلد ۲ ۲۵ on the old Testament, new york.1893.شه زرقانی شرح المواہب الدنیہ جلدا من ے.تاریخ میں کون اول شده وزیر پیدائش باب ۱۶ - آسیت (۱۲) 218 Commentary ے.مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی رشته - یادوارترین ماشین شه - مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری رشته - ۱۹۲ مشهور معاند احمدیت امیر الحدیث - - 19 - صحیح بخاری کتاب المناقب باب حدیث زید بن عمر و بن نفیل ه البقره 114:

Page 78

ره مورخه ۵ ار اگست ۱۹۶۷ء کو عید کا مبارک دن تھا.حضور کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ اچھی رہی.نماز عید میں قریبا سوا تین سو حباب شامل ہوئے.حضور نے خطبہ میں مسائل عید و قربانی بیان فرمائے اور آخر میں یہاں کی جماعت کو بہت سی نصائح فرمائیں کہ و الفضل ۲۵ اگر افسوس ہے یہ خطبہ جماعت کے اسی اخبار یا رسالہ میں شائع نہیں ہوا.سله - آسنور کشمیر ز مرتب

Page 79

فرموده ها را گست تشاء بمقام قادیا میں آج آپ لوگوں کے سامنے لمبا مضمون بیان کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا جبکہ مختصر البعض باتیں بیان کرتا ہوں تا کہ خطبہ عید کی تو نور مین ہے وہ پوری ہو.حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ عید کے خطبوں میں اللہ تعالے کی تسبیح وتحمید بیان فرماتے اور قیامت کے متعلق صحابہ کو توجہ دلاتے تھے لیب عید کے خطبوں میں آپ کا مضمون زیادہ تر اس بات کے متعلق ہوتا تھا کہ بعث مابعد الموت کے متعلق توجہ ہو.اس میں نشہ نہیں کہ عید کا دن بھی بحث ما بعد الموت کے ساتھ ملتا ہے.عید کے دن بہت سے لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک قسم کا حشر ہوتا ہے حشر کے معنے اکٹھا کرنے کے ہیں.چنانچہ عید کے دن بھی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.حتی کہ اس دن جمع ہونے کے متعلق یہاں تک تاکید ہے.کہ حائضہ عورتیں بھی جمع ہوں.وہ نماز نہ پڑھیں مگر دوسروں کے ساتھ دُعا میں شامل ہوں پس یہ وہ دن ہے کہ اس دن مسلمان خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے سب جمع ہوتے ہیں ایسے جتماعوں کے متعلق رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ زینت کرنی چاہیئے اور خوشبو لگانی چاہیئے کہیے چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دستور تھا کہ جمعہ کے دن بعید کے دن حج کے ایام میں احرام باندھنے سے پہلے خوشہور گانے تھے یہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجمع میں تزئین کرنی چاہیئے.اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ مجمع میں خوبصورت نظر آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم میں فطرت انسانی کی ترجمانی فرمائی ہے.لوگ میلے میں جلسوں، شادیوں میں کیوں خوشبو لگاتے ہیں اسی لئے کہ وہ اچھے نظر آئیں جب ان کی یہ خواہش ہوتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ اس سے اس طرف توجہ ہو کہ قیامت کے دن جہاں اگلے پچھلے سب تبع ہوں گے خوبصورت نظر آنے کی کس قدر کوشش کی ضرورت ہے.آپ کا منشاء تھا کہ لوگ اس سفر اور اگلے جہان کے لئے تیاری کریں.بخود یہ وہ مبارک ایام تھے جن میں حضرت مصلح موجود رضی الله نه روز ان چار ساڑھے چارگھنٹے تک قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.چنانچہ عید کے دن بھی حضور نے باقاعدہ درس دیا.(الفضل ، در اگست ۱۹۲۶ ه )

Page 80

پھر آپ اس عید کے خطبہ میں قربانی کے احکام بیان فرمایا کرتے تھے.چنانچہ اس عید کے احکام یہ ہیں کہ ہر ایک خاندان کی طرف سے ایک بکرے کی قربانی ہو سکتی ہے.اگر کسی میں وسعت ہو تو مایک شخص بھی کر سکتا ہے.ورنہ ایک خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے کہ یہاں خاندان سے دور و نزدیک، کے رشتے مراد نہیں.بلکہ خاندان کے معنے ایک شخص کے بیوی بچے ہیں.اگر کسی شخص کے لڑکے الگ الگ ہیں اوراپنا علیحدہ کماتے ہیں تو ان پر علیحدہ قربانی فرض ہے.اگر بیویاں آسود ، ہوں اور اپنے خاوندوں سے علیحدہ ان کے ذرائع آمد ہوں تو وہ علیحدہ قربانی کر سکتی ہیں.ورنہ ایک قربانی کافی ہے.بکرے کی قربانی ایک آدمی کے لئے ہے اور گائے اور اُونٹ کی قربانی میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں.الحمد کا خیال ہے کہ ایک گھر کے لئے ایک حصہ کافی ہے اگر گھر کے سارے آدمی سات حصے ڈالیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے.ورنہ ایک گھر کی طرف سے ایک حصہ بھی کافی ہے.اور اس طرح ہر ایک شخص کی طرف سے آج کے دن قربانی ہو جاتی ہے لیکن کئی لوگ غریب ہوتے ہیں.اس لئے اس بات کو بند نظر رکھتے ہوئے کہ کوئی شخص قربانی سے محروم نہ رہ جا سکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستور تھا کہ بابا د امت کی طرف سے ایک قربانی کر دیا کرتے تھے اسی طریق کے مطابق میرا بھی قاعدہ ہے کہ اپنی جماعت کے غرباء کی طرف سے ایک قربانی کر دیا کرتا ہوں.اس کے بعد یہ بات یاد رکھو کہ ہماری جماعت میں اس بات کی سستی ہے کہ نماز عید وقت پر پڑھیں.گو پہلے کے لحاظ سے آج ہم نے جلدی نماز پڑھی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے زمانہ میں یہ عید اس وقت پڑھی جاتی تھی جب کہ آفتاب ایک نیزہ کی بلندی پر ہوتا تھا.اور رمضان کے بعد کی عید اس وقت پڑھی جاتی تھی.جب کہ آفتاب دو نیزے کی بلندی پر آجاتا تھا لیکن ہم نے آج جس وقت عید کا خطبہ شروع کیا ہے چار نیزے کے برابر سورج بلند ہوچکا تھا حالا نکہ الہی ہم نے جلدی کی تھی.اصل بات یہ ہے کہ بعض غلطیاں غلط فہمیوں کے باعث ہو جاتی ہیں.ایک دعوت میں میں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے پانی پینے سے روکا تو اس نے کہا کہ حضرت صاحب بھی بائیں ہاتھ سے پانی پیا کرتے تھے.حالانکہ حضرت صاحب کے ایسا کرن کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ آپ بچپن میں گر گئے تھے.جس سے ہاتھ میں چوٹ آئی اور ہاتھ اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ اس سے گلاس تو اٹھا سکتے تھے.مگر منہ تک نہ لے جا سکتے تھے.موسقت کی پابندی کے لئے آپ کو بائیں ہاتھ سے گلاس اٹھانے تھے مگر نیچے دائیں ہاتھ کا سہارا بھی دے لیا کرتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے وقت میں عید کی نماز کے لئے دیر ہو جایا کرتی تھی اور اس میں ایک حکمت تھی اور وہ یہ کہ باہر کی یا کتاب انقر على المدام سيد انار

Page 81

ناختیں تھوڑی تھیں، احباب بیرون جات سے نہیں آتے تھے.اس لئے ریل کے وقت کا انتظار کرنا چاہتا تھا.کیونکہ ریل تو کسی کے اختیار میں نہیں تھی.اور نو یا ساڑھے نو بجے بٹالہ میں ریل سے اتر کمہ یہاں پہنچ جاتے تھے اور اس صورت میں انتظار جائز ہے.اور اگر ضرورت ہو تو زوال تک بھی انتظار ہو سکتا ہے لیکن اب یہ حالت نہیں.یہ جگہ ہماری جماعتیں کافی تعداد میں ہو گئی ہیں.اس طرح انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی.اب اگر ہو گا تو محض سستی سے ایسا کیا جائے گا.بچونکہ احتیا پہنت ہمارا فرض ہے اس لئے عید کی نمازیں مطابق سنت ہونی چاہئیں.اور اس عید میں جلدی کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ لوگوں نے قربانی کرنی ہوتی ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ قربانی کے گوشت سے کھانا کھاتے تھے یہ اب اگر اس وقت نماز پڑھی جائیگی تو قربانی کا گوشت کھانے کے وقت تک تیار نہیں ہو سکتا.قربانی کے جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دوسال کے ہوں.دُنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جاسکتا ہے.قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہیئے.لنگڑا نہ ہو ہمیار نہ ہو سینگ ٹوٹا نہ ہو یعنی سینگ بالکل ہی ٹوٹ نہ گیا ہو.اگر خول اوپر سے اُتر گیا ہو ا در راس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے.کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے لیے قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیے لیکن اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو ہوتے تو حضرت صاحب کا بھی اور بعض اور بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینہ میں قربانی ہوتی ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیر تمی کیا کرتے تھے کیلیے اور اس کے مختلف کلمات ہیں.اصل غرض تکبیر و تحمید ہے خواہ کسی طرح ہو.اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیریں کہتی تھیں مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے.اٹھتے بیٹھتے تغیر کتنے کام میں لگتے تو تکبہ کہتے ہو لیکن ہمارے ملک میں جو یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت ہیں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط رائج ہو گیا ہے باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کیے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہیئے.قربانیوں کے گوشت کے متعلق یہ ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا.چاہیئے کہ خود کھائیں.دوستوں کو دیں چاہے تو سکھا بھی لیں یا امیر غریبوں کو دیں.غریب امیروں کو کہ اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیروں کو دینا اسلام کو قطع کرتا ہے اور محض غریبوں کو دنیا اور امیروں کو نہ دنیا اسلام میں درست نہیں.امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے.اور یہ

Page 82

مذہب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے.پس چاہئیے کہ امیر غریوں کو دیں اور غریب میں کو تا کہ محبت بڑھے.بس یہی چند نصائح ہیں جوئیں کرنی چاہتا ہوں.الفضل ، ار اگست ۶۱۹۲۶ ۳-۴ ) ے.سنن نسائی کتاب مصلوۃ العیدین باب قیام الامام متوکسا علی انسان - نیل الاوطار ہے سے صحیح بخاری کتاب العیدین باب اذا لم يكن لها جلباب في العيد صحیح بخاری کتاب الجمعة باب الطبيب للجمعة - نيل الأوطار - شنس ابی داؤد کتاب المناسك باب الطيب عند الاحرام 140 ۱۱۳۵۷ شه - جامع ترمذی ابواب الاضاحی باب ما جاء ان الشاة الواحدة تجزى عن اهل البيت.له - صحیح مسلم کتاب الحج باب الاشتراك في المهدى و اجزاء البقرة والبدنة كل منهما عن سيفة.شه - سنن ابی داؤ د کتاب المناسك باب فى هدى البقر - نیل الاوطان و مطبوع مصر خوره - نیل الاوطار ا - فقه احمدیہ حصه اول ۳۶۵ مطبوعه مارچ ۶۱۹۲۳ ه - السنن الکبری امام بیقی سی ه - جامع ترمذی ابواب الاضاحی باب ما يكره من الاضاحي لله - مشكورة المصابيح باب في الاضحية - نيل الأوطار / مطبوعه مصر ام مشكاة المصابح باب فى الاضحية - نيل الأوطار ۱۲۵ مطبوعه مهر ۱۳۹۶ ۳ - صحیح بخاری کتاب العيدين باب فضل العمل في ايام التشريق - السنن الكبرى امام مبقى تکبیر و تعمیر کے الفاظ یہ ہیں.اللہ اکبر اللہ اکبر لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْد.- صحیح بخاری کتاب الاضاحی باب ما يؤكل من لحوم الاضاحي وما يتزود -

Page 83

60 " در فرموده ۲۵ جولانی ۴۱۹۲۳ مقام مسجد نور نادیا گیر بوجہ نزلہ اور کھانسی نہیں بول نہیں سکتا تھا مگر میں نے مناسب سمجھا کہ کیونکہ عید کا دن ہے اس لئے میں اپنی زبان سے ہی چند کلمات کہہ دوں.کیونکہ خطبہ کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ بہت مباسی جو ملکہ بعض دفعہ نہایت مختصر الفاظ میں خطبہ کر دیا جاتا رہتا ہے.اور اسی سے فائدہ ہوتا رہا ہے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض لوگوں نے لکھا ہے گو تا ریخی طور پر مجھے معلوم نہیں مگر صوفیاء کہتے ہیں کہ خلافت کے پہلے دن جب آپ خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو چند مسنون لفاظ پڑھکر میٹھے گئے یہ صوفیاء کہتے ہیں.اس وقت ان کا اس طرح خموش بیٹھ جانا ہی شعبہ تھا گویا ان کی وہ تو خموشی تھی وہی خطبہ تھا تو بعض اوقات خموشی بھی خطبہ ہو جاتی ہے اور اس کا اتنا اثر ہوتا ہے جوڑے لیکچر کا نہیں ہوتا.در اصل خطبات کی بڑائی اور عظمت ان کی مبانی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس اخلاص کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے سنانے والا سناتے اور سننے والا سنے.اگر سنانے والا اخلاص سے سُنائے اور سننے والا قبول کرنے کے لئے سنے تو چھوٹی بات بھی بہت بڑا اثر کرتی ہے.لیکن اگر ایسا نہ ہو تو بڑے سے بڑالی کچھر بھی کچھ فائدہ نہیں دیتا.صوفیاء نے لکھا ہے پاک شخص تھا جو کئی قسم کی برائیوں اور بدکاریوں میں مبتلا تھا اسے ا نصیحتیں کی گئیں مگر وہ یہی کہے کہ نادان ہیں وہ لوگ جو دنیاوی چیزوں کو عیش و عشر کے لئے استعمال نہیں کرتے.ایک دن وہ گلی میں سے گزر رہا تھا کہ ایک آدمی قرآن کریم پڑھ رہا تھا اس وقت اس کے کان میں یہ آیت پڑی.العیانِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ ينخر اللہ ہی کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے قلوب ڈر جائیں.اس آیت کا یک سخت اس پہ اثر ہوا اور اس نے اس کی حالت کو بدل ڈالا.تو لمبے لمبے وعظ ، طول طویل لیکچر، اور عجیب عجیب سکتے، تو اس کے لئے کچھ بھی مفید نہ ہوئے.مگر ایک شخص جو اپنے طور پر آیت پڑھ رہا تھا اور ادھر سے یونہی گذر رہا تھا اس کا ایسا اثر ہوا کہ اس میں تاپ مقاومت نہ رہی اور اس کی یک سخت اصلاح ہوگئی ہے نماز عید بوجہ بارش عید گاہ کی بجائے مسجد نور میں ادا کی گئی" و الفضل ۲۱ جولائی 11

Page 84

64 پس جب سننے والے قبولیت کا مادہ لے کر بیٹھیں اور سُنانے والا اخلاص سے سنائے تو یہ دونوں باتیں مل کر چھوٹی بات کو لمبی اور اہم بنا دیتی ہیں اور اگر یہ نہ ہوں تو لمبی بات بھی چھوٹی ہو جاتی ہے.اصل بات یہی ہے کہ انسان اخلاص کولے کر اور دل کو صاف کر کے بیٹے تو چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے.دیکھئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے چھوٹے فقروں نے صحابہ میں ایسے تغیرات پیدا کر دیئے کہ وہ ساری دنیا کے استاد بن گئے.مگر آج لوگ بڑی لمبی لمبی تقریریں اور لیکچر سنتے ہیں مگر کورے کے کو رے ہوتے ہیں.ومحبط اور لیکچر میں واہ وا اور سبحان اللہ کہتے ہیں مگر جب اٹھتے ہیں تو ان کے دل اسی طرح صاف ہوتے ہیں جس طرح دھوبی میل نکال کر کپڑا صاف کر دیتا ہے.اور لمبے وعفوں اور خطبوں میں سوائے اس کے کہ لیکچرار کا زور اور وقت غریب ہو اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا.میں اس وقت دوستوں کو یہی نصیحت کرنا چا ہتا ہوں کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر اپنی اصلاح کی فکر رکھتے ہو ، اگر خدا تعالے کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو جو کچھ تمھیں سُنایا جائے کان کھول کر سنو.منافقین کے متعلق آتا ہے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے مگر باہر جا کہ ایک دوسرے سے پوچھتے کیا باتیں ہوئی ہیں.کیا وہ باتیں نہیں سکتے تھے سنتے تھے مگر بہروں کی طرح اور دیکھتے تھے مگر اندھوں کی طرح.پس اگر کوئی خطبہ اور وعظ سنتا ہے مگر اس پراثر نہیں ہوتا یا دائمی اثر نہیں ہوتا تو اس خطبہ اور وعظ سننے کا کہ ئی فائدہ نہیں بلکہ وقت ضائع کرنا ہے.تم اگر خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو.اگر اسلام سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر روحانی ترقی کرنا چاہتے ہو تو میری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ خدا تعالے کی باتوں کو سننے کے لئے کان اور دل کھول کر بیٹھو.کیونکہ اگر کانوں اور دل پر پر دہ ہو، تو خدا تعالے اپنی باتیجی نہیں سناتا اور اپنی ہتک سمجھتا ہے کہ وہ اپنی نعمت دے اور لینے والا دروازے بند کر کے بیٹھا ہو.دیکھو اگر کوئی کسی کو اعلئے درجہ کا کھانا دے مگر وہ اسے پھینک دے تو پھر نہیں دیتا.اسی طرح اگر خدا تعالے کی طرف سے نعمت آئے اور انسان کا قلب بند ہو تو پھر نہیں دیتا.عید میں بھی ہمارے لئے ایسی ہی مثال ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا دوسروں سے زیادہ سنتے تھے پھر وہ کیا چیز تھی جس نے ان پر اثر کیا.اور انہیں ابراہیم بنا دیا.وہ یہی تھی قالی له به اسلِمَ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ العالمین نے خدا تعالے نے حضرت ابراہیم کو کہا مسلمان ہو جا.انہوں نے کہا.میں مسلمان ہو گیا.یہ کتنا چھوٹا سا فقرہ ہے.اور کیا اور لوگ یہ فقرہ نہیں سنتے.یہ فقرہ بھی اور اس سے لاکھوں کروڑوں بڑھ کر بھی سنتے ہیں ، پڑھتے ہیں یعینی سارا

Page 85

قرآن کریم پڑھتے ہیں مگر پھر بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا اس کے غلاموں جیسے بھی نہیں بنتے محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے غلاموں کا تو بڑا درجہ ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان کے غلاموں جیسے بھی نہیں بنتے.اسی فقرہ سے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا العالے نئے فرمایا کہ جاؤ ہم نے تمھیں لوگوں کا امام بنا دیا.مگر آوروں پر ایسا اثر نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہ ہے کو محض حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے دل کا اثر اور کیفیت تھی جی نے اس فقرہ سے ایسا اللہ تبول کیا کہ آپ ابہ اہیم بن گئے اور الیسا در جدا اور رتبہ ملا کہ نہ صرف خود نبی بنے بلکہ نبیوں کے باپ ب بیتے حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی احسان کے طور یہ آپ ہی کی نسل سے ہوئے اور بیٹا خواہ کتنا بڑا ہو جائے باپ کا ادب نہی کرتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بہت ہی اعلیٰ اور ارفع ہے مگہ آپ نے یہی سکھایا کہ اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحمد و على الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيم يا رسول كريم صلى اللّه علیه و آله وسلم عبودیت میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے بڑھ کر تھے.مگر اس لحاظ سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کے باپ تھے یہ ادب ملحوظ رکھا تو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ سلا کوده در جہ د یا کہ سب نبیوں کا باپ بنا دیا.رسول کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی نسل سے ہوئے اور حضرت مسیح موعود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے یہ عید کیا ہے اس فقرہ کی یاد ہے کہ خدا تعالے نے کہا.اسلام اپنے آپ کو میرے سپرد کردے اور میرے لئے قربان کر دے.حضرت ابا بیمہ علیہ اسلامہ نے کہا اسکمت.میں نے اپنی جان آپ کے سپرد کردی.اسی کی یاد میں یہ عید ہے اعمالی مونہ کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا گیا قربانی کے لئے بیٹا ناؤ اور انہوں نے وہ بھی میشیں کر دیا آپ سے وطن کی قربانی مانگی.وہ بھی آپ نے دے دی.غرض کہ ہر ایک پیاری سے پیاری چیز آپ نے خدا کے سنئے قربان کردی.اسی کی یاد گار خیر ہے.پس غیر یاد گار ہے اس امر کی کہ جو کوئی خدا کی بات کو سنتا اور اس طرح سنتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے قلب کھول کر بیٹھتا ہے وہ گو مر جاتا ہے اور اس پر صدیاں گذریباتی مگر خدا اسے مرنے نہیں دیتا.کیونکہ اس کی زندگی سے خدا تعالے کا کلام زندہ رہتا ہے.ی نقرسی نصیحت ہے جو میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں.اس سے زیادہ میں اس وقت نہیں بول سکتا کیونکہ سینہ میں درد ہوتی ہے.دوسرا خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا :- میں اس خطبہ کے طریق کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں میں طرح عید لوٹ لوٹ کر آتی ہے اسی طرح

Page 86

LA ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبے بھی دو رکھے ہیں.اس سے بار بار و خطا در خطبہ کی طرف توجہ رسول مائی ہے.دو دفعہ پڑھ کر تکرار رکھا ہے اور بتایا ہے کہ اگر تم تکرار کروگے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر کوئی کام ایک بار کر کے چھوڑ دو گے تو اس کا اثر نہیں ہوگا.دیکھو باڑ کیا میں یہ بڑے بڑے اونچے جہد ہے میں معریانی نے ان پر جمعہ کو بڑی بڑی گری نارین بنادی ہیں اور جب پانی میسی زم چیز بھی تجھ جیسی سخت چیز پر اتنا اثر کر سکتی ہے تو حد تعالے کا نظام انسان کے دل میں کیوں نہ اپنی جگہ بنا لے گا اگر بار بار اس کا تکرار کیا جائیگا تو خطبہ کے تکرار سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نیک کام میں تکرار کرنا چاہیئے کا و الفصل ۳ اگست ۱۹۲۳ شته - كتاب الطبقات الكبير لابن سعد قسم النون - جزء الثالث حسام ہے.مثنوی مولنار وهم د فتر چهارم است - الحديد ۱۷:۵۷ ے.یہ حضرت فضیل بن عیاض کا واقعہ ہے.تذکرۃ الاولیا شیخ فرید الدین عطار مترجمه عبد الرحمن شوق مطبوعہ لاہور صدام ے محمد ۱۷۱۴۷ البقرة نو ۱۳: که - البقره ۲ : ۱۲۵ شه - صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم 2 - الصفت ۱۳۷ ۱۰۳ تا ۱۰۹ - الانبياء ۲۲:۲۱ - العنكبوت ۲۰:۲۹ - جامع ترمذی ابواب مجمعة باب ما جاء في الجلوس بين الخطبتين.

Page 87

١٢ فرموده ۱۴۲ جهانی شوور و بقا مینار ریلوے اسٹیشن ، میں اس وقت اس بات کی نصیحت آپ لوگوں کو کہنی چاہتا ہوں کہ یہ کام کی تیاری اس کے موافق کرنی چاہیئے.چھوٹا سا سفر انسان اختیار کرتا ہے تو اس کے موافق تیاری کرتا ہے جس سفر کے واسطے ہم جا رہے ہیں.یہ سفر اپنے اعراض کے لحاظ سے بہت بڑا سفر ہے اس کی تیاری یہی ہے کہ اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جائیں.مجاہدہ اور دعائیں ہی ہیں جو اس سفر کو کامیا بنائیں گی.اس لئے سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ ذکر اللہ کرے اور دعاؤں سے کام لو.تا اللہ تعالے ہم کو کامیاب کرے.اور اگر ہماری غفلت سے کامیابی میں کوئی روک ہو تو وقت اور روپیہ ضائع جائے گا.خدا تعالئے ہمارے اعمال کو ضائع ہونے سے بچائے.آمین.ر الحکم، اور جولائی سته مت لے یہ خطبہ حضور یعنی اللہ عنہ نے ا میں پہلے نظر یورپ کے دوران دیا تھا.اس خطبہ کے تحیق حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ ایڈیٹر اسلم جو اس سفر میں حضور کے ہمرکاب تھے قمطراز ہیں در جولائی ۱۹۲۳ء کو گیارہ بجے منماڑر یہ بہت بڑا جنکشن ہے.یہاں سے سورت اور احمد آباد کی طرف گاڑی جاتی ہے، پہنچتے ہی نماز عید ہم نے حضرت کے ہمراہ سی کارم داس سے مراد غالبا پلیٹ فارم ہے ، پر ادا کی.اس تقریب پر آپ نے مختصر خطبہ پڑھا ، رنگا ڈی کے کمرے میں آکر دعا کی.اگر چہ اس خطبہ میں حضرت نے اپنے خدام سفر کو خطاب فرمایا ہے مگر در مصل تمام جماعت اس کی مخاطب ہے.(احکم اور جولائی ۱۹۲۳ء) ۲ - حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا پہلا سفر یورپ - ۱۲ جولائی تا ۲۴ نومبر ۶۱۹۲۳ - ار تاریخ احمدیت ۳۹۰ تام بود

Page 88

د فرموده در جولائی ۱۹۷۵ء بمقام باغ حضر مسیح موعود قادیان) آج کا دن ہمارے لئے جہاں اور بہت سے سبق پیش کرتا ہے وہاں اس دن آئندہ نسلوں کے متعلق بھی عظیم الشان سبق ہے.اگر اس عید کے سبق کو ہماری جماعت یا کوئی جماعت بھی پوری طرح یاد رکھے تو وہ کبھی تباہ اور بر باد نہیں ہو سکتی.در حقیقت تباہی کا موجب یہ امر ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا کوئی جماعت اپنی عزت کو، اپنے وقار کو ، اپنی روحانیت کو قائم رکھنے کے لئے کوئی اپنا قائم مقام نہیں چھوڑتی.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں دنیا کی ہر ایک چیز تباہ ہورہی ہے اور اگر کسی جنس کے افراد اپنی تب ہی کے بعد کوئی اپنا قائم مقام نہ چھوڑیں تو اس جنس کا دنیا سے بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے.ہر ایک چیز ایک حد تک پہنچکر پھر اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکتی اس کا قیام اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے قائم مقام چھوڑ کر اپنی جنس کو نتا ئم رکھے.انسان کرتے ہیں.اگر وہ اپنی اولاد کو اپنا قائم مقام نہ چھوڑ جائیں تو آئندہ انسانی نسل کا دنیا سے خاتمہ ہو جائے.درخت اُگتے ہیں، پھل لاتے ہیں پھر سوکھ جاتے ہیں.اگر نئے درخت ان کی جگہ نہ لیں اور ان کے قائم مقام نہ نہیں تو ان درختوں کا بالکل وجود ہی مٹ جائے.غرض ہر ایک چیز ہم دیکھتے ہیں کہ تباہ ہو رہی ہے.اور وہ اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکتی جب تک کہ وہ اپنا قائم مقام نہ چھوڑ جائے.اگر کوئی یہ سمجھے کہ بغیر اپنے قائم مقام چھوڑے موجودہ حالت کے ساتھ دنیا میں قائم رہ سکتا ہے تو یہ ایک غلہ خیال ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے جب آپ اپنے اس وجود کے ساتھ دنیا میں نہیں رہے اور تریسٹھ سال کی عمر میں آپؐ نے وفات پائی تو اور کون شخص کہ سکتا ہے کہ میں موجودہ حالت کے ساتھ اپنے وجود میں قائم رہ سکتا ہوں.لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو انیس سو سال سے آسمان پر زندہ سمجھ رکھا تھا.مگر ان کے متعلق بھی اس زمانہ کے ورسل اور ماموں نے ثابت کر دیا کہ فوت ہو چکے ہیں زندہ نہیں پس اگر انبیاء بھی اپنے قائم مقاموں کے بغیر اپنے سلسلہ کو قائم نہیں رکھ سکتے تو پھر ہم اپنے قائم مقاموں کے بغیر اپنی جماعت کو کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں.اگر یہ بات صحیح ہو کہ موجودہ حالت کے ساتھ ہی انسان یا کوئی دوسرا وجود جو دنیا میں قائم رہ سکتا ہے تو پھر اس بات کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے کہ ایک انسان سیر

Page 89

Al اور اس کا بچہ اس کا قائم مقام ہو یا ایک درخت تباہ ہوا ور دوسرا درخت اس کا قائم مقام قرآ پائے.یہ اسی لئے ہوتا ہے کہ کوئی وجود ہمیشہ کے لئے قائم نہیں رہ سکتا.اور ہر ایک نوع کا قیام اس کی جنس کے قیام کے ساتھ وابستہ ہے.آم کا درخت فنا ہوتا ہے مگر چونکہ اس کے قائم مقام اور آم کے درخت پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اپنی نوع میں فنا نہیں ہوتا.اسی طرح سنگترہ کی جگہ سنگترہ گیہوں کی جگہ گیسوں ، چاولوں کی جگہ چاول پیدا ہو جاتے ہیں اور اس طرح ان کا وجود دنیا میں قائم رہتا ہے کیونکہ جب جنس قائم رہتی ہے تو گویا وجود دہی قائم رہتا ہے.کسی استاد کے مرنے پر اس کے لائق اور ہوشیارت گرد کی موجودگی میں کہا جاتا ہے کہ نہیں استاد کا ایسا لائق اور ہوشیار شاگرد موجود ہودہ نہیں مرا.اسی طرح جو جماعت کہ دین اور روحانیت کی حامل ہو اگر اپنے تجھے ایسی نسلیں چھوڑ جائے جو دین کی اور روحانیت کی حامل ہو.تو وہ جماعت بھی زندہ جماعت ہوتی ہے اور ایسی جماعت یا قوم کبھی نہیں مرتی.پس اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں اور احمدیت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا صرف یہی طریق ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو عید کے اس دن سے جو سبق حاصل ہوتا ہے وہ یاد کر آئیں اس عید سے جو نہیں سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عید نہیں ایک پرانا واقعہ یاد دلاتی ہے جو ابوالا انبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے.وہ واقعہ ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ ہماری جماعت کس طرح قائم رہ سکتی ہے اور ہماری آئندہ نسلیں کس طرح ترقی کر سکتی ہیں.واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابن قسیم علیہ السلام کو خدا تعالے نے رڈیا اور الہام میں یہ حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کریں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا اور جدائی کی چھری اس کی گردن پر پھیر دی.کیونکہ خدا تعالے کے حکم کے مطابق انہوں نے اپنی بیوی اور بچے کو ایسے جنگل بیابان میں چھوڑ دیا جہاں نہ غلہ تھا نہ پائی.نہ کوئی بازار تھا نہ آبادی کہ کسی آدمی سے مانگ کر یہی کچھ کھانے پینے کو میتر آ سکتا.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالے سے العام پا کر اپنے بچے اور اس کی ماں کو مکہ مکرمہ کی زمین میں جو اس وقت بالکل خیر آباد وادی تھی ورنیا ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلی کھجوروں کی دے کر چھوڑ آئے کیے جب آپ واپس آنے لگے تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا آپ کہاں چلے ہیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام و فور غم کی وجہ سے کوئی جواب نہ دے سکے.حضرت اجرہ نے پھر دریافت کیا اس جنگل میں آپ نہیں کہاں چھوڑ چلے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام زبان سے پھر بھی کچھ جواب نہ دے سکے.آخر ان کے متواتر پوچھنے پر اشارہ سے انہوں نے یہ جواب دیا کہ خدا کے حکم سے میں تم کو یہاں چھوڑ چھلا ہوں.تب حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اگر خدا کے حکم سے آپ ہمیں یہاں چھوڑ چھلے ہیں تو پھر تمہیں آپ کی حفاظت کی ضرورت

Page 90

AP نہیں.آپ بے شک جائیں.خدا خو د ہماری حفاظت کرے گا اور وہ ہم کو ضائع نہیں ہونے دیگا اور تسلی سے واپس آگئیں.اور اپنے بچے حضرت اسمعیل علیہ اسلام کے پاس جو اس وقت چھ سات برس کی عمر سے زیادہ ہے نہ تھے بیٹھ گئیں.اس وقت اگر وہ چاہتیں تو کسی آبادی کی طرف رخ کرلیتیں مگر انہوں نے خدا تعالے کے حکم کا احترام کیا اور اسی کے توکل اور بھروسہ پہ اس جنگل بیابان کی رہائشی منظور کر لی جہاں نہ کوئی آبادی تھی نہ بازار ، نہ کوئی کنواں تھا نہ تالاب - آخر پانی کا ایک مشکیزہ اور کھجوروں کی ایک تھیلی کیا ہوتی ہے.تھوڑے عرصہ میں پانی بھی ختم ہو گیا اور کھجوریں بھی ختم ہو گئیں.حضرت ہاجرہ کو بھی گو تکلیف تھی مگر بچے کی تکلیف کو دیکھ کر وہ بہت بے قرار ہوگئیں اور صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوں پر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر دوڑنا اور اوپر چڑھ کر دیکھنا شروع کیا تاشاید کوئی آتا جاتا قافلہ ہی نظر آجائے جس سے پانی لے کر بچے کو پلائیں اور خود بھی نہیں.جب وہ صفا پر یا مردہ پر چڑھتیں تو ساتھ ہی چلا کر ہر دفعہ ی بھی کہتیں کہ کوئی خدا کا بندہ ہے جو ہمیں پانی دے؟ اور ساتھ ہی بچے کی حالت کو دیکھ کر اور بھی پریشان ہو جائیں.جب ان کی گھبراہٹ انتہاء کو پہنچ گئی تو خدا کے فرشتے نے ان کو بشارت دی کے لئے اجرہ باگھبرا نہیں.جانتیرے بچے کا سامان خدا نے کر دیا ہے.چنانچہ جب وہ بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ خدا نے وہاں پانی کا چشمہ پیدا کر دیا ہے جو آجتک قائم ہے اور زمزم کہلاتا ہے انہوں نے بچے کو پانی پلایا اور خود بھی پیا.آہستہ آہستہ وہاں آبادی ہوگئی.کوئی قافلے اپنے جو وہاں سے گزرے تو انہوں نے تجارتی ترقی کے لئے یہ مناسب سمجھا کہ اس چشمے پر پڑاؤ قائم کیا جاے جہاں قافلے آکر بھرا کریں.چنانچہ اسی خیال سے وہ اپنے کچھ آدمی اس چشمہ پر چھوڑ گئے کہ اس سے ہماری تجارت میں ترقی ہو گی.آخر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے نتیجہ میں وہاں بہت بڑی آبادی ہو گئی.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تیا ئے کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کر دیا.اور اس تعلق در محبت کی کچھ پرواہ نہ کی جو اُن کو اپنے بچے سے تھی.کیونکہ طبعی طور پر بڑھاپے میں جا کر جو اولاد ہوتی ہے اس سے انسان کو بہت محبت ہوتی ہے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام بڑھاپے میں آپ کے ہاں پیدا ہوئے تھے ، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ سلام کے دل میں ان کی نہایت گہری اور شدید محبت تھی مگر خدا کے لئے انہوں نے اس کو قربان کر دیا.تب اللہ تعالے کی طرف سے ان کو الہام ہوا کہ اسے ابراہیم ! آسمان کی طرف دیکھے.کیا تو آسمان کے ان ستاروں کو گن سکتا ہے.انہوں نے عرض کیا.یہ میری طاقت سے باہر ہے کہ میں آسمان کے ستاروں کو گن سکوں تب خدا نے فرمایا.اسے ابراہیم ! میں نے تیری قربانی کو دیکھا.اب میں تیری اس قربانی کے بدلے

Page 91

A تیری اولاد کو اس قدر بڑھاؤں گا کہ جس طرح آسمان کے ستاروں کو کوئی گن نہیں سکتا.اسی طرح تیری اولاد کو بھی کوئی گن نہیں سکے گا.چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں.اس وعدہ الہی کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کو اتنی کثرت حاصل ہوئی ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کونسی قوم ان کی اولاد میں سے نہیں.تمام دنیا کے لوگوں میں ان کا خون مل گیا ہے اور تمام دنیا ان کی ممنون ہے.سینکڑوں قومیں میں جو ان کی اولاد میں سے ہونے کی مدعی ہیں.زرتشتی ہیں تو وہ اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں.یہودیوں کا تو دعوی ہی ہے کہ وہ ان کی اولاد میں سے ہیں.عیسائی بھی اپنی کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں.اور مسلمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپ کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں.خدا تعالے نے ان کی اس قربانی کے بدلے ان کی اولاد کو تعداد کے لحاظ سے اور عزت کے لحاظ سے اس قدر بڑھایا کہ تمام بڑے بڑے مذاہب انہی کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور ان کی بہت بڑی عزت کرتے ہیں.اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی اپنی اولاد کو بڑھانا چاہے تو وہ بچپن میں اپنی اولاد کو اسی طرح قربان کرے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچے کو قربان کیا یا در صرف انہوں نے حضرت نفیل علیہ السلام کی ہی قربانی نہیں کی بلکہ حضرت اسحق علیہ السلام کی بھی قربانی کی جن کی ایسی تربیت کی کہ بڑے ہو کہ وہ بھی خداتعالی کے نبی ہوئے اور یہ صاف بات ہے کہ جتنا بڑا کوئی انسان بنتا ہے اتنی ہی زیادہ اسے اس مرتبہ تک پہنچنے کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے، پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹیوں کے متعلق قربانی کی.خدا تعالے نے اس قربانی کے بدلے ان کی اولاد کو بے نظیر ترقی کی اگر تم بھی چھائے ہو کہ تمہاری اولاد ترقی کرے تو تم بھی اپنی اولاد کو قربان کرو.اس سے ایسی محبت نہ کہ وہ جو تم کو ان کی اصلاح اور علوم کے سکھانے سے باز رکھے اور تم ان کی نگرانی چھوڑ دو.اگر تمہیں یہ خواہش ہے کہ تمہاری نسل بڑھے اور ترقی کرے تو سجائے ان کے آرام اور آسائش کی فکر کے ان کی روحانی تربیت کرنی چاہیئے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بھی اسی طرح ترقی کرے اور آسمان کے ستاروں کی طرح گنی نہ جائے تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کو بچپن میں آوارہ ، آرام طلب، کابل اور شکست نہ بنائیں.بلکہ ان کے اعمال اور اخلاق کی پوری پورتی نگرانی کریں.خیال کر وبا حضرت المعیل علیہ السلام کی بچین کی زندگی کس طرح گذری اور انہوں نے کس قدر مشقت اٹھائی یہ انہیں تو خوراک حاصل کرنے کیلئے بھی جنگلوں میں پھرنا اور شکار کر کے پیٹ پالنا پڑتا تھا یہ شکار بندھے ہوئے جانوروں کا تو کیا نہیں جاتا کہ گئے اور پکڑ کر لے آئے.

Page 92

آج کل جب کہ بندوقیں ہیں بہت دفعہ لوگ شکار کو جاتے ہیں.اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں لیکن اس زمانہ میں تو تیرا در نیزے کے ساتھ شکار کیا جاتا تھا.اس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ کتنی دفعہ ان کو خالی ہاتھ واپس آنا پڑتا ہوگا اور کتنے فاقے کاٹتے ہوں گے.مگر یہ سب کچھ انہوں نے خدا کے لئے برداشت کیا.اور خدا نے ان کو نبوت کے مرتبے پر پہنچایا.انہی کی قربانیوں کا یہ نتیجہ ہے کہ ان کی نسل میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جیسے اولوالعزم رسول پیدا ہوئے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کتنی مشقت اٹھائی.ابھی آپ ماں کے پیٹ میں ہی تھے ، آپ کے والد فوت ہو گئے.پھر ا بھی اڑھائی سال کے تھے کہ والدہ کا سایہ بھی آپ کے سر سے اٹھ گیا.پھر دادا پرورش کرنے لگے.لیکن ابھی آپ سات ہی برس کے تھے کہ وہ نبی رحلت کر گئے شہ پھر چھا آپ کے متکفل ہو گئے.غرض آپ کی یہ زندگی آرام سے نہیں گذری قسم قسم کی تکلیفوں اور مشقتوں میں سے آپ کا گذر ہوتارہا.تاریخ میں لکھا ہے آپ کی چچی جس وقت بچوں میں کوئی چیز تقسیم کرنے لگتی تو نسب بچے اس کے گرد جمع ہو جاتے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ کونے میں خاموش بیٹھے رہتے جب سب بچے نے چکتے تو پھر وہ ان کو بھی حصہ دیتی ہے گو وہ محبت سے آپؐ کی پرورش کرتی تھیں اور آپ کو عزیز رکھتی تھیں مگر جو خوشی بچے کو اپنے گھر میں ہو سکتی ہے وہ دوسری جگہ نہیں ہو سکتی.کیونکہ جو تعلق بچے کو اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے اور جو ناز وہ ان پر کرتا ہے.خواہ دوسرا کتنی بھی محبت کرے بچہ اس سے نہیں کر سکتا.بے شک یہ بات بھی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وقار کی وجہ سے خاموش بیٹھے رہتے تھے.مگر یہ بات بھی تو ہے کہ آپ اس بات کو بھی طبعا محسوس کرتے تھے کہ ان کا رشتہ وہ رشتہ نہیں جو ماں باپ کا ہوتا ہے تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو بھی خدا تعالیٰ نے با مشقت بنانے کے لئے اس قسم کے سامان پیدا کر دیئے جن میں سے آپ کو گندے نا پڑا.یکی اپنی زندگی پر ہی غور کرتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ جو اب غیر مبائع ہو گئے ہیں.میرے لئے رحمت کا موجب بن گئے.اگر یہ لوگ میرے خلاف نہ اٹھتے اور ہمارے خاندان کو برا بھلا نہ کتنے تو میری توجہ روحانی امور کی طرف اتنی چھوٹی عمر میں نہ پھرتی.تو ان کا وجود بھی میرے لئے روحانی ترقی کا سامان بن گیا.یکن اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ اور اس عید سے سبق سیکھے.اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کو عیشہ سکھ حاصل ہو.اور آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ کی عیدیں ختم نہ ہوں تو آپ اپنے بچوں کو قربان کریں.اور ان کو دنیا کی ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کی عادت ڈالیں.تاکہ وہ دین اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے کسی

Page 93

تکلیف اور مشقت سے خوف نہ کھائیں.اگر اس عید سے آپ لوگ یہ سبق سیکھ لیں تو آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ کی عید میں ختم نہ ہوں گی.مجھے افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ اس معاملہ میں ہماری آئندہ نسل میں بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ بعض افراد کے دل میں یہ خیال میٹھا ہوا ہے.بچوں کی بڑے ہو کو خود بخود اصلاح ہو جائے گی.ان کا بچہ اگر کوئی غلطی کرتا ہے.تو وہ کہ دیتے ہیں.خیر بچہ ہے بڑا ہو کر سمجھ جائے گا.یہ ایک ایسا ناقص اور پاجی خیال ہے کہ اس سے بڑھکر اور کوئی غلط خیال نہیں ہو سکتا اور پھر یہ خیال ان کے دل میں ایسی جڑ پکڑ گیا ہے کہ نکلنے میں نہیں آتا.میں پوچھتا ہوں کیا رسول کریم صلی اللہ علیہا کہ وسلم سے بڑھ کر ہمیں اپنی اولاد پیاری ہو سکتی ہے.آپ کی نرینہ اولاد نہ تھی.اور یہ ایک طبعی امر ہے کہ جب کسی کی اپنی زمینہ اولاد نہ ہو تو اس کو اپنے نواسوں سے بہت محبت ہوتی ہے.پس ایک تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرینہ اولاد نہ تھی.اس لئے طبعاً آپ کو اپنے نواسے بہت پیارے تھے.دوسر اس لئے بھی کہ وہ حضرت فاطمہ کے بطن سے تھے جو آپ کو بہت پیاری تھیں پھر اس لئے بھی کہ وہ حضرت علی کے بچے تھے جو آپ کو بہت عزیز تھے.کیا بلحاظ اس کے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بچپن کے زمانہ میں جبکہ قریبی سے قریبی رشتہ داروں نے بھی آپ کا ساتھ دینے کی جرات نہ کی ، آپ کا ساتھ دیا تھا.اور کیا بلحاظ اس کے کہ حضرت علی کے والد ابو طالب نے آپ سے عمدہ سلوک کیا تھا.شروع شروع میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا او فرمایا مجھے خدا نے مامور بنایا ہے اور دنیا کی اصلاح کے لئے اس نے مجھے چنا ہے.تم میں سے کون ہے جو اس بوجھ کو اٹھانے میں میرے ساتھ شامل ہو.اگر چہ کئی رشتہ دار آپ کو سچا یقین کرتے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جھوٹ نہیں بولتے مگر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ آپ کا ساتھ دینے کی حامی بھر سکے.آپ کے کئی بچے تھے جو آپ کو سچا اور راستباز یقین کرتے تھے مگر ان مشکلات اور مخالفتوں کی وجہ سے جو آپ کا ساتھ دینے میں پیش آنیوالی تھیں خاموش رہے.مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ جن کی عمر اس وقت گیارہ برس کی تھی وہ آگے پڑھے اور انہوں نے کہا.میں آپ کی مدد کروں گا یہ تو ایسے وقت میں ان کی یہ جرات اور یہ دلیری خود اپنی ذات میں ایسی چیز تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں ان کی محبت کے جذبات پیدا کرتی اور انہیں عزیز بناتی تھی.علاوہ اس کے وہ ابو طالب کے لڑکے تھے اور ابو طالب وہ تھے بنوں آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم

Page 94

AY کی ہر طرح سے خدمت کی اور آپ کو آرام پہنچانے میں ہر طرح کی کوشش اور سعی کی ہے.یہ اور بات ہے کہ خواہ کوئی کتنی ہی محبت کرے اور آرام پہنچانے کی کوشش کرے ، بچہ وہ آرام اور لذت حاصل نہیں کر سکتا جو ماں باپ کی محبت اور سلوک سے حاصل کرتا ہے.مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو طالب نے اتنے لیے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی ہے کہ کوئی بڑا ہی وفادار دوست اتنے لیے عرصہ تک تکلیفوں میں ساتھ دے سکتا ہے.اگر چہ وہ آپ پر ایمان آپ نہ لاتے مگر کفار کے بائیکاٹ کے تین سال بھوکوں اور فاقوں میں کاٹنے انہوں نے منظور کئے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا.ایک دفعہ قوم کے لوگوں نے ان سے آکر کہا کہ ہم تم کو بہتر سے بہتر نوجوان دیتے ہیں اس کو تم پال لو مگر اپنے اس بھتیجے کا ساتھ چھودو جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ او نادانو ! کیا تمہاری یہ مرضی ہے کہ اپنے بچے کو تو میں دشمنوں کے آگے ڈال دوں اور تمہارے بچے نے کہ پالوں اللہ پس بوجہ اس کے کہ حضرت علی ابو طالب جیسے محسن حیا کے بیٹے تھے آپ کو وہ بہت عزیز تھے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو محض اس لئے سہی اپنے نواسوں سے محبت نہ تھی کہ وہ آپ کے نواسے تھے بلکہ اس لئے بھی آپ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی کہ وہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے بیٹے تھے.مگر با وجود اس محبت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خیال نہ فرمایا کہ انہیں بچپن میں آداب سکھانے کی ضرورت نہیں.یہ جب بڑے ہوں گے تو خود ان کی اصلاح ہو جائیگی ملکہ نچپن میں اس بات کا خیال رکھا.چنانچہ ایک دفعہ آپ کے پاس صدقے کی کچھ کھجوریں آئیں.ان میں سے ایک کھجور امام حسین نے اٹھا کر منہ میں ڈال لی.آپ نے یہ دیکھ کر خاموشی اختیار نہ کی اور صرف اتنا ہی نہ کیا کہ کھجور ان کے منہ سے نکلوا دی.ٹمبکہ ان کے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور کے چھوٹے چھوٹے ذرات بھی نکال دیئے گیے میں سمجھتا ہوں آج اگر کوئی شخص ایسا معاملہ اپنے بچے سے کرے تو کئی لوگ ہوں گے جو کہدیں گے جی بچہ تھا.ایک کھجور منہ میں ڈال لی تو کیا حرج ہو گیا.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے نواسے کے نہ میں انگلی ڈال کر کھجور کے ذرے نکالے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین " روتے اور صد کرتے ہوں گے.مگر آپ نے اس کی کچھ پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور کے ذرات تک نکال ڈالے.اور یہ تھپڑ مارنے سے کم نہیں ہے.پھر ان کی اسی عمر کا واقعہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آگے سے کھانا نہیں کھا رہے تھے.جس پر آپ نے فرمایا.اپنے آتے سے لو اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ.كُل بِيَمِينِكَ وَمِمَّا يُنيك لیے یہ اڑھائی برس کی عمر کی تربیت کا واقعہ ہے جس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ کس عمر سے بچے کی تربیت کا زمانہ شروع ہوتا ہے.

Page 95

AL جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اڑھائی برس کی عمر میں اپنے نواسے کی تربیت کی ہے اور اس کی حرکات کی نگرانی کی ہے تو کیا ہمارے زاسے بیچے ہیں کہ ان کی نگرانی نہ کی جائے اور یہ کب کر چھوڑ دیا جائے کہ بچہ ہے ناسمجھ ہے بڑا ہو کہ سمجھ جائے گا.اگر یہ عمر سمجھنے کی نہ ہوتی تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم بھی اپنے نواسے کے متعلق ایسا ہی کہہ دیتے.مگر آپ نے اس کو ٹوکا اور اس کی حرکت کو نظر انداز نہیں کیا.یہ کہہ دینے کے اکہ بچہ بڑا ہو کر خود سمجھے جائے گا، یہ معنے ہیں کہ اس بہانہ سے تم اپنی اولا کی تربیت اور اس کے اخلاق کی نگرانی نہیں کرنا چاہتے.اور اس بات کو اپنی بے جا محبت کی وجہ سے اس کے لئے تکلیف دہ خیال کرتے ہیں.حالانکہ دنیا کی کوئی قوم بھی اگر اپنی اولاد کی تربیت اور اخلاق کی درستی کا خیال نہیں رکھتی تو وہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.یورپ کے لوگوں نے اس گر کو خوب سمجھا ہے.وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر ہم اولاد کی تربیت اور اخلاق کی نگرانی نہ کریں گے تو ہماری قومی زندگی اور قومی ترقی بال نہیں رہ سکتی.ان کے چھوٹے بچے ماؤں کے ساتھ گرجوں میں جاتے ہیں لیکن کیا مجال کہ وہ وہاں اونچی آواز نکالیں.عبادت گاہوں کا ایسا احترام ان کے دلوں میں بٹھایا ہوتا ہے کہ وہ ذرا شور و غل نہیں کرتے.اور اگر کوئی بچہ شور کرے تو ماں باپ فورا اسے وہاں سے لے جاتے اور اس طرح تنبیہ کرتے ہیں کہ پھر وہ شور نہ کرے مگر یہاں کئی لوگ ہیں جو بچوں کو سجدوں میں لے آتے ہیں اور بچے دوران نماز شور مچاتے رہتے ہیں.مسجد مبارک میں تو بچوں کو لانے سے میں نے روکا ہوا ہے.دار الفضل کی مسجد میں جب ایسے لوگوں کو منع کیا گیا تو انہوں نے بُرا منایا اور کہدیا کہ وہ بچے ہیں بڑے ہو کر خود سمجھ جائینگے مگر یہ تربیت اولاد کے لئے نہایت مضر بات ہے.آپ لوگ اپنے ارد گرد اور آس پاس کی قوموں کو دیکھیں کہ وہ اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے اپنی اولاد کی تربیت کا کس قدر خیال رکھتے ہیں.یورپ میں میں نے دیکھا جو لوگ ہمیں ملنے کے لئے آتے.ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے.لیکن ذرا کسی بچے نے رونی صورت بنائی وہ گھبرا گئے.ذرا دیکھا کہ بچہ گھبرا گیا ہے اور رونے یا آواز نکالنے لگا ہے تو وہ جھٹ اس کو مجلس سے اٹھکر لے جاتے.بعض دفعہ ہم نے کہا بھی کوئی حرج نہیں ٹھہریں.مگر انہوں نے کہا.بچہ آواز نکالے گا جس سے دوسرے بُرا منائیں گے اور ان کو تکلیف ہوگی.ایک دفعہ ہم چھتری دیکھنے کے لئے گئے جو ہندوستانی سپاہیوں کی یادگار میں وہاں بنائی گئی ہے سمندر کے کنارے چار پانچ ہزار آدمی جمع تھے.اور ہزار بارہ سو لڑکے لڑکیاں ہوں گے مگر بالکل خموشی کا عالم تھا.کوئی بات بھی کرتا تو آہستہ سے.لیکن ہمارے ہاں معمولی اجتماع میں بھی ایک شور برپا اور

Page 96

^^ ہوتا ہے.آج ہی دیکھ لو.اس اجتماع کے موقعہ پر کسی قدر شور ہو رہا ہے.ادھر میرا خطبہ ہو رہا ہے اُدھر ان بچوں کے خطبے ہو رہے ہیں.حالانکہ ان کے ماں باپ بھی یہاں موجود ہیں.مگر ان کو اس بات کا کوئی خیال نہیں تو یہ تربیت میں غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہے.حالانکہ خطبہ سے پہلے میں نے کہا بھی تھا کہ جو مائیں اپنے بچوں کو چپ نہیں کر سکتیں وہ اپنے بچوں کو لیکر چلی جائیں تا دوسرے لوگ آرام سے خطبہ سُن سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.مساجد میں بچوں کو نماز کے لئے لے جاؤ تو پیچھے کھڑا کر ی ہے.مگر بعض ماں باپ خود انگلی پکڑ کر بچے کو اپنے ساتھ صف میں کھڑا کر لیتے ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کی وجہ یہی ہے کہ آخر بچہ بچہ ہی وہ بے چینی اور گھبراہٹ اور بچپن کی حرکات کا اظہار کرے گا اور اس طرح بڑوں کی نماز میں بدمزگی اور خلل واقعہ ہو گا.پھر اس حکم کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ان کے اندر تربیت کا احساس پیدا ہوتا ہے.اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ابھی ہم سیکھ رہے ہیں.اور جب تک سیکھ نہیں ہمارا حق نہیں کہ آگے کھڑے ہوں.پس جب تک بچپن میں تربیت کامل نہ ہو آئندہ نسل اخلاق فاضلہ نہیں سیکھ سکتی اور نہ وہ دین اسلام اور احمدیت کے حامل ہو سکتے ہیں.بچوں کو بچپن میں ہی خدا کے متعلق رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ وقت کے متعلق کچھ کچھ واقفیت کرانی چاہیئے.سلسلہ کے نظام کا مختصر سا نقشہ ان کے ذہنوں میں قائم کرنا چاہیئے.یہ مت سمجھو کہ بجے سمجھتے نہیں.وہ بات کو خوب سمجھتے ہیں.پچھلے دنوں ہم دریا پر گئے.ایک فسان عورت کی لڑکی میرے پاس آئی.اس کی باتیں بہت پیاری معلوم دیتی تھیں.اور بعض دفعہ بہت.سنجیدگی سے وہ باتیں کرتی تھی.میں نے اس سے پوچھا...تم کس کی بندی ہو؟ کہنے لگی میں خدا کی بندی ہوں.پھر میں نے پوچھا.مرید کس کی ہو یا جواب دیا خدا کی یہ میرے لڑکی امتہ العزیز پیشنکر ہنس پڑی.میں نے اس سے پوچھا.تم کیوں مہنسی ہو.کتنے لگی.یہ کہتی ہے میں مرید خدا کی ہوں.میں نے اس سے پوچھا.بتاؤ تم کس کی مرید ہو.تو اس نے بڑے زور سے کہا.میں ابا جان کی.چونکہ اس کے کان میں یہ بات پڑتی رہی ہے اس لئے وہ اس لڑکی سے یہ شنکر که یکی خدا کی مرید ہوں سمجھ گئی کہ اس نے غلط کہا ہے.تو یہ بات صحیح نہیں کہ بچہ سمجھے نہیں سکتا جس قسم کی بات بچے کے کان میں ڈالی جائے، وہ اپنی استعداد کے مطابق سمجھ سکتا اور سیکھ سکتا ہے ایگر اس کے ذہن میں دین کی سلسلہ کی مختصر باتیں ڈالی جائیں تو بچہ ان کو اپنے ذہن میں قائم رکھ سکتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم اگر بچپن میں بچے کی تربیت نہیں کرتے صرف اس خیال سے کہ تم نیک ہو اور وہ بھی نیک ہو جائیں گے.تو اس طرح تم اپنے فرض سے سبکدوش

Page 97

نہیں ہو سکتے.قرآن کریم میں خدا تعالے فرماتا ہے تم اپنے اہل کے ذمہ دار ہوتے اور آنحضرت صلی اللہ علیه و آله وسلم نے بھی فرمایا ہے.کلکم راع وَكُلُّكُمْ مَسْئُولُ عَنْ رَعِيَّتِهِ لِه کہ ہر ایک تم میں سے راعی اور بادشاہ ہے اور وہ اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا.بچپن میں تربیت صحیح کے بغیر بڑے ہو کر ان کی اصلاح کی امید رکھنا سخت غلطی ہے.دین کی درستی اور اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ظاہری اخلاق درست ہوں.اگر سجین میں ان کے دل میں مقامات مقدسہ کا احترام نہیں اور وہ ایسے مقامات پر شور اور شر کرتے ہیں.اور ماں، باپ ان کو ایسی حرکت سے نہیں روکتے.تو وہ اس بات کے لئے ان کو تیار کر رہے ہیں کہ بڑے ہو کر دینی امور میں وہ متسخر اور استہزاء سے کام لیں.اور ان کے دلوں میں شعائر دین کی کچھ عزت و وقعت نہ ہے.پس میں آپ کو اس قسم کی تربیت کی طرف توجہ دلاتا ہوں تا کہ دشمن بھی یہ سمجھے کہ یہ قوم ایسے اعلیٰ اخلاق کو پہنچ گئی ہے کہ کبھی ہلاک نہیں ہو سکتی.غرض یہ عید ہمیں یہ سبق سکھلاتی ہے کہ اگر ہم اپنی اولاد کو صحیح معنوں میں قربان کریں تو ہماری اولاد اتنی بڑھے گی جتنے آسمان کے ستارے.پس اگر کوئی سچی محبت خدا اور رسول سے رکھتا ، اگر ، اور اگر اس کو اسلام اور سلسلہ احمدیہ سے جبکہ اگر اس کو انسانیت سے بھی کچھ انس ہے تو بچپن میں اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرے.جہاں آپ اپنے نفسوں کو لالچ ، طمع، معرص ، چوری اور جھوٹ جیسی بداخلاقیوں سے بچاؤ وہاں بچوں کو بھی ان کا عادی نہ ہونے دو اور رابن کی پوری پوری نگرانی کرد.دین کی اور سلسلہ کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کرو.ان سے بے جا محبت کر کے اعلیٰ اخلاق کے سیکھنے سے ان کو محروم نہ رکھو تا دوسروں کے لئے نمونہ نہیں بلکہ دنیا میں ایک بڑی قوم اورنسل نہیں.حضرت عیسے علیہ السلام نے جو فرمایا کہ خدا کی بادشاہت میں بچے داخل ہو سکتے ہیں اسر منے ہیں کہ کوئی قوم آئندہ زندہ نہیں رہ سکتی جب تک کہ وہ اپنی اولاد کی بچپن میں تربیت کی فکر نہیں کرتی پیس بچپن میں اپنی اولاد کے اطلاق کی درستی اور اصلاح کرد تا تم کو دائمی عید نصیب ہو ور نہ اچھے اچھے کپڑے نچوں کو پہنا دینا کوئی خوشی کی بات نہیں.اللہ تعالے ہم کو توفیق عطا فرمانے کہ ہم اپنے فرائق اور ذمہ داریوں کو احسن طریق سے پورا کریں.الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۲۵ مقام ہے.صحیح بخاری کتاب الناب باب فاة النبی صلی الہ علیہ وسلم صحیح مسلم کتاب الفضائل باب کم من البنبی مسئلے اللہ علیہ وسلم یوم قیض

Page 98

۹۰ - ابراہیم ۱۳: ۳۸ - صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزفون النسلان في المشى سے پیدائش باب ۱۵ آیت ۵۵ باب ۱۶ آیت ۱۰ ه - پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۰-۲۱ - صحیح بخاری کتاب الانبياء باب يزنون النسلان في المشى ه - طبقات ابن سعد الازرقانی 19 زاد المعاد 14 ے.حضرت آمنہ کی وفات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بہ سال تھی.السیرۃ الامام این شام به طبقات ابن سعد ٣ السيرة الحلبيه كالا ۱۲۵ که - زاد المعاد 14 - طبقات ابن سعد ٤٣ - السيرة الكلبيه ١٢٥ شه - السيرة الامام ابن بشام اے - طبقات ابن سعد ؟ - نور اليقين في سيرة خير المرسلين از محمد خضرى ما - السيرة الم 1 ت - تاریخ طبری ۳۲۰-۳۳۱ مطبوعہ مصر - السيرة الحلبية ١٣٥ 1 - طبقات ابن سعد ١٢٠ - السيرة الحلبيه ٣٢٦.۱۳ - تاریخ طبری ۳۲۲ - طبقات ابن سعد ۱۳۲ ے.غالباً سمو کتابت سے حسین لکھا گیا ہے.یہ واقعہ حضرت حسین کا ہے.صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب ما یذکر فی الصدقة للنبی صلی اللہ علیہ وسلم والله صحیح مسلم کتاب الزکوۃ باب تحریم الزكوة على رسول الله وعلى اله - ه - صحیح بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين وباب الاكل متایلیه صحیح مسلم باب آداب الطعام - یہ واقعہ حضرت امام حسین یا حسین کی بجائے حضرت عمر بن ابی کہ کا ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کے پہلے خاوند سے لڑ کے تھے اور بخاری کی حدیث کے یہی زادی ہیں، جب حضرت ام سلمہ کا نکاح ہوا ہے تو یہ چھوٹے بچے تھے اور انہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ پرورش پائی تھی (کتاب الاصابة في تميز الصحابه ١٣٥) گیری برائی کے مقام پر مندرکے کی ہے منٹ کے انہیں انسانی را نمی بینی و ا ا لا بد من انظر کادر بندی و انسان - سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب مقام الصبيان في الصف شاه حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی صاجزادی بیگم محترم صاحبزادہ مرزا محمد احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - قُوا أَنفُسَكُمْ وَاهْلِيكُمْ نَارًا - والتحريم : ) ے.صحیح بخاری کتاب الاستقراض باب العيد رائع في مال سيده - - متی باب ۱۹ آیت ۱۴ ال الفضل (٢) ريويو ان اجزا

Page 99

فرموده ۱۲۲ جون ۱۹۲۶ به مقامه دَانَ مِنْ شِيعَتِهِ لَا بَرَاهِيمَ، إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمِهِ إِذْ قَالَ لابِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ: أَيْضًا أَلِهَةٌ دُونَ اللَّهِ تُرِيدُ وَنَ فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَلَمِينَ، فَنَظَرَ نَظَرَةً فِي النُّجُومِهُ فَقَالَ إِنّي سَقِيْمُه فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِيْنَ ، فَرَاعَ إِلَى الهَتِهِمْ فَقَالَ الانا كُلوي ما تكُمْ لَاتَنْطِقُونَ، فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ ، فَاقْبَلُوا إِلَيْهِ يَتُونَ، قَالَ اتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَهُ وَ اللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ.قالوا انتوالَهُ بُنْيَانَ فَالْقُوهُ فِي الْجَحِيمِهِ فَارَادُوْا بِهِ كَيْدًا تجعلتهُمُ الأَسْفَلِينَ، وَقَالَ إِنّى ذَاهِب إلى رَى سَيَهْدِينِ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّلِحِينَ ، فَبَشِّرْنَهُ بِغُلَمٍ حَلِيْمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ بُنَيَّ : أَرى فِي الْمَنَامِ آتِي اذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا ترى ، قَالَ يَاتِتِ الْعَل مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّبِرِينَ، فَلَمَّا أَسْلَمَا وَ تَلَّهُ لِلْجَبَيْنَهُ وَنَا دَيْنَهُ أَنْ يَا بْرَاهِيمَ قَدْ صَدَقْتُ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ، إِنَّ هَذَا لَهُوَ البوا المُبِينُ ، وَنَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ، وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الأخرينَ سَلَمٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ میں نے اس وقت جو چند آیات اللہ تعالے کے مقدس اور ہادی کلام میں سے پڑھی ہیں وہ خصوصیت سے اس دن کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جو آج ہم پر گذر رہا ہے.یہ دن اسلامی اصطلاح کی رو سے عید کا دن ہے.اور اس کا تعین خصوصیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد گار کے طور پر خصوصیت کے ساتھ اس دن کی یاد کو تازہ رکھا جاتا ہے.خصوصیت سے اس لئے کہ اللہ تعالے کی حکمتوں سے آگاہ ہونا انسان کے لئے ناممکن ہے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ کسی کام کے متعلق اس کی کیا حکمت ہے اور پھر ایک ہے یا کئی حکمتیں ہیں.البتہ جو بنا دی جاتی ہیں ان کے متعلق ہم کسی حد تک کچھ کر سکتے ہیں.چونکہ اللہ تعالے کے ہر کام میں کچھ نکاتیں ہوتی ہیں.عید اضحی کے دن میں بھی بعض حکمتیں ہیں ان میں سے بہت سی

Page 100

۹۲ ہم کو نہیں بتائی گئیں لیکن جو بتائی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ دالسلام کی یاد گار ہے.ہم اسے عید اور پھر قربانی کی عید کہتے ہیں.اور قربانی کی عید سے ہماری یہ مراد ہوتی ہے کہ اس دن آسودہ حال لوگ بکروں یا گائیوں یا اونٹوں کی قربانیاں کریں.خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں.اس عید کے دن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس دن قربانی کی جاتی ہے اس کے سوا مسلمانوں کے لئے ایک اور بھی عید ہے جو عید الفطر کہلاتی ہے اُس میں اور اس عید میں ایک فرق ہے جسے ہر شخص محسوس کرتا ہے.پہلی عید فاقہ کی عید تھی وہ ایک تہمینہ فاقہ کرنے کے بعد آتی ہے اپنی کسی غرض کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے فاقہ سے رہتے ہیں.مگر آج کی عید کھانے پینے کی عید ہے اور جس طرح اس عید سے پہلے محض خدا کی رضا کے لئے فاقہ کئے اسی طرح خدا تعالئے کی خاطر آج گوشت کھائیں گے.تو دونوں میں فرق نمایاں ہے ، ایک میں فاقہ دوسری میں کھانا.یہ میری منشاء نہیں کہ مسلمان عیدوں پر محض اس لئے خوش ہوتا ہے کہ ایک میں فاقہ کرتا.ہے اور دوسری میں گوشت کھاتا ہے.بلکہ میری عشایہ بتانا ہے کہ مسلمانوں کی عید در حقیقت فرمانداری میں ہے جو اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ تکلیفوں کے اٹھانے کی وجہ سے خوشی ہے وہ بھی نادان ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ خوشی صرف کھانے پینے میں ہی ہے ، وہ بھی نادان ہیں.خوشی ان میں نہیں بلکہ خوشی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے.اگر اللہ تعالنے کی اطاعت میں فاقہ کرنا پڑے یا کھانا کھانا پڑے تو یہی خوشی ہوتی ہے اور یہی عید ہے.ضرب المثل کے طور پر یہ بات مشہور خیلی آتی ہے کہ ایک بھیڑ ہے اور ایک شیر کے درمیان سردی کے بارے میں اختلاف ہو گیا.شیر کے سردی پورہ کے مہینے میں زیادہ ہوتی ہے بھیڑیا کیسے ماگھ کے مہینے میں زیادہ ہوتی ہے.آخر جب جھگڑا بڑھا تو قرار پایا کہ لومڑی سے فیصلہ کر لیا جائے چنا نچہ انہوں نے لومڑی سے پوچھا.اس نے دیکھا اگر میں پوہ کہتی ہوں تو بھیڑیا کھا جاتا ہے اور ماگھ بہت تی ہوں تو شیر بگراتا ہے یہ سوچ کر اس نے کہا ہے سنو سنگھ سردار بھنگیلا را ئے جی پالا پوہ نہ پالا ماگھ جی پالا مینهرند، پالا وا جی یعنی پوہ اور ماگھ میں سردی نہیں ہوتی.سردی سرد ہوا سے ہوتی ہے تو یہ سمجھنا کہ خدا فاقوں سے خوش ہوتا ہے یا گوشت کھانے سے خوش ہوتا ہے.غلط ہے بعض قوموں میں فاقہ کشی کا بڑا رواج ہے.وہ کثرت سے فاقہ کشی کرتی ہیں اور بھتی ہیں خدا تعالے کھانے پینے سے نہیں بلکہ فاقہ کشی سے خوش ہوتا ہے.سادھو.رومن کیتھولک اور

Page 101

۹۳ مسلمان فقراء کا بھی ایک گروہ اسی قسم کا ہے وہ فاقہ پر فاتہ کرتے ہیں.اور دوسری قسم کی نیتیں بھی کرتے ہیں.غرض وہ اس قسم کی نفس کشی سے سمجھتے ہیں کہ خدا تعالئے ان سے ہی خوش ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں بعض قو میں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کھاؤ پیو، یہی رضاء الہی کا ذریعہ ہے.یہ لوگ سمجھتے ہیں خدا تعالے نے ہر تیز ہمارے لئے پیدا کی ہے اس لئے وہ انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور خوب کھاتے پیتے رہیں.انہوں نے قربانیوں کے معیار کو رد کردیا، ان کی عید یہی ہوتی ہے کہ خوب کھائیں نہیں.روزے ان میں اگر چہ ہیں لیکن ان لوگوں کی بہت کم توجہ ادھر ہوتی ہے.مثلاً ہندوؤں میں بعض ایسے فرقے ہیں ہے جن کا کھانے پینے پر زور ہوتا ہے.ان کا عقیدہ ہے کہ خدا تعالے نے یہ چیزیں پیدا ہی اس لئے کی ہیں کہ انسان انہیں کھائے پیئے.پس ایک گروہ اگر ایک طرف جھکا ہے تو دوسرا دوسری طرف راور جس طرف کوئی جھک گیا دوسری طرف اس سے بالکل چھٹ گئی.لیکن اسلام وسعی تعلیم کے لے کر آیا ہے.چنانچہ اس نے جو عیدیں مقرر کیں ، ان میں سے ایک فاقہ کے ساتھ آئی ہے اور دوسری کھانے پینے کے ساتھ.ایک میں انسان اگر فاقہ کرتا ہے.تو خدا کے حکم کے با سخت اور دوسری میں اگر کھاتا ہے تو خدا کی منشاء کے مطابق.اس پر خدا تعالیٰ کہتا ہے تم نے میرے لئے فاقے کئے اور میرے لئے خوشی منائی اس لئے میں بھی خوش ہوں.پھر ایک اور خوشی بھی انسان کو حاصل ہوتی ہے.وہ اس موقعہ پر اپنے رشتہ داروں کو بھی کھلاتا ہے، دوستوں کو بھی کھلاتا ہے، ہمسایوں کو بھی کھلاتا ہے، غرباء اور مساکین کو بھی کھلاتا ہے اس میں بھی اسے ایک خوشی ہوتی ہے.لیکن ان سب سے بڑی وہی خوشی ہے جو انسان کو اس لئے ہوتی ہے کہ میں نے خدا کے واسطے خوشی کی اور خدا میرے خوشی کرنے پر خوش ہوا.پس نہ فاقوں سے خدا تعالے خوش ہوتا ہے اور نہ کھانے سے خوش ہوتا ہے بلکہ اطاعت سے خوش ہوتا ہے.اگر کوئی فاقہ کرتا ہے اور وہ فاقہ خدا کے حکم سے نہیں تو اس کے فاقہ سے خدا تعالے ہرگز خوش نہیں ہوگا.کیونکہ ایسا نا نہ کرنے کے لئے اسے خدا نے حکم نہیں دیا.اسی طرح اگر وہ کھاتا ہے اور عمدہ عمدہ کھانے کھاتا ہے مگر ایسے کھانے کھانے کے لئے اسے خدا نے حکم نہیں دیا ، تو اس پر خدا تعالے ہرگز راضی نہیں ہوگا.پس خدا صرف فاقہ اور کھانے سے خوش نہیں ہوتا.بلکہ اطاعت سے خوش ہوتا ہے.انسان اگر اس کی اطاعت میں فاقہ کرتا ہے یا اس کی اطاعت میں کھاتا ہے تو خدا تعالے خوش ہوتا ہے کیونکہ اس میں اس کی اطاعت ہے اور اطاعت یہی تو ہے کہ اگر وہ کسے کھاؤ تو کھاؤ اور اگر وہ کیسے کہ فاقہ کرو تو فاقہ کرو.آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں، عید کے دن شیطان روزے سے ہوتا ہے کہ اس سے بھی

Page 102

۹۴ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی خوشی نہ کھانے میں ہے نہ فائقے ہیں.بلکہ اس حکمت کے ماتحت ہے کہ انسان دونوں عیدوں پر ایک قسم کی قربانی کرتا ہے اور خدا تعالے کا حکم بجا لاتا ہے.تو عیدین تمہیں یہ بتاتی ہیں کہ جس طرح خدا کی خاطر فاقہ کرنا پڑا تو فاقہ کیا اور اچھے اچھے کھانے چھوڑ دیئے.اسی طرح اگر خدا کی خاطر اچھے اچھے کھانے کھانے پڑیں تو کھاؤ کیونکہ اس میں تمہاری اپنی غشاء اور خواہش کو تو ودخل نہیں صرف خدا کی منشاء کی متابعت ہے.ایسے لوگوں میں سے جو اچھا کھانے اور اچھا پہننے پر اس لئے اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا ان باتوں سے خوش نہیں ہوتا.بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر بھی اعتراض کیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعا لٰے عنہ فرماتے تھے ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک ڈپٹی صاحب میرا راستہ روک کر تعجب سے کہنے لگے میں نے سُنا ہے مرزا صاحب بادام روغن اور پلاؤ کھا لیتے ہیں.اور ساتھ ہی کہا.فقر میں تو یہ باتیں جائز نہیں.میں نے کہا.اسلام میں یہ چیزیں جائزہ ہیں.اس لئے آپ استعمال کرتے ہیں.تو بعض کا خیال ہے کہ اچھی غذا اور اچھے لباس سے خدا خوش نہیں ہوتا.حالانکہ بعض موقعے ایسے.ہوتے ہیں کہ ان پر اچھا کھانے اور اچھا لباس پہنے سے ہی خدا خوش ہوتا ہے.آج کا دن جو عید اضحی کا دن ہے یہ بھی ان موقعوں میں سے ایک موقعہ ہے.جن پر خدا تعالیٰ اچھا کھانے اور اچھا پہننے سے خوش ہوتا ہے.آج نہ صرف یہ حکم ہے کہ آپ کھاؤ.بلکہ یہ حکم بھی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی کھلاؤ.چنانچہ اس حکم کی متابعت میں کوئی مسلمان گھر نہیں رہ جاتا جس میں گوشت نہ پہنچ جاتا ہو.غلطی سے رہ جائے تو رہ جائے تقسیم کرنے والوں کی بھول سے کسی کے گھر گوشت نہ پہنچ سکے تو نہ پہنچ سکے اور نہ جس رنگ میں اس دن کے احکام ہیں ان کی رُو سے ہر مسلمان گھر میں پہنچتا ہے.اور ہر مسلمان اس دن کھانے کا خاص اہتمام کرتا ہے.پس یہ دن بتاتا ہے کہ اس دن خدا تعالے کی خوشی فاقہ میں نہیں بلکہ کھانے پینے میں ہے.خدا تعالے کی نعمتوں سے مستفیض ہونا بھی شکر گزاری میں داخل ہے اور نعمتوں کی بے قدری انسان کو خدا تعالے کی نگاہ میں مقہور بنا دیتی ہے.ایک دفعہ جب بہت سا مال آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے کہا تم نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.آؤ یں تمھیں مال دوں کیونکہ تم نے مہاجرین کو اپنا مال دیا تھا.انصار نے سمجھا کہیں ہماری قربانیوں میں شبہ نہ پڑ جائے.اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا.یہ مہاجرین کو ہی دے دیا جائے.اس پہ آپ نے فرمایا.تم نے نعمت کو رد کیا اب ان کو تو اس دنیا میں بھی ملے گا مگر تم کو قیامت کو بھی ملے گا.تو انعام کا رد کرنا معمولی بات نہیں

Page 103

۹۵ یہ سلب نعمت کا سبب ہو جاتا ہے.اگر کوئی شخص انعام کو رد کرتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے نعمتوں کے دروازہ کو بند کرتا ہے.آج کا دن بھی ایک ایسا دن ہے جس میں عمدہ کھانے کھانا اور اچھے کپڑے پہننا خدا تعالے کا انعام ہے.اور اس انعام کو تو کہ نا خدا کی خوشی کا باعث نہیں ہو سکتا بلکہ الٹا اس کی ناراضگی کا موجب ہو جاتا ہے.حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص دودھ لایا.آپ نے دودھ پیا اور پینے کے بعد دائیں بائیں دیکھا.دائیں طرف ایک لڑکا بیٹا تھا اور بائیں طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے لڑکے سے مخاطب ہو کر فرمایا شریعت نے دائیں طرف والے کا حق بے شک مقدم رکھا ہے مگر کیا میں یہ دودھ عمر کو دے دوں ؟ لڑکا فورا بول اُٹھا یا رسول اللہ ! میں تبرک پہ ایشار نہیں کر سکتا.دودھ مجھے دیدیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق کو منظور کر لیا اور اسے دید یا شے شیخ عبد القادر صاحب جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے پر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ میں نہیں کھاتا.جب تک خدا مجھے نہیں کہتا.اسے جیلانی ایتھے میری قسم کھا.اور میں کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا.اے جیلانی انجھے میری قسم کپڑا پین یا پھر رکھا ہے جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی خوراک نہایت اعلیٰ ہوتی تھی.اور اسی طرح ان کا لباس بھی اس وقت کے لحاظ سے بہت قیمتی اور بہترین ہوتا تھا.بلکہ کئی دفعہ وہ بادشاہ کے لباس سے بھی بڑھ کر ہوتا.بعض دفعہ ان کا کپڑا ایسا اعلیٰ ہوتا کہ ایک ہزار اشرفی ایک گز قعیت کا ہوتا ہے روایات میں اکثر اختلاف ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس روایت میں بھی اختلاف ہو.لیکن یہ بات درست تھی کہ وہ اللہ تعالے کے حکم کے ماتحت کھاتے اور اسی کے حکم کے ماتحت پہنتے تھے اور اسی میں اللہ کی رضا ہوتی ہے کہ انسان اللہ تعالے کے حکم کے نانخست کھا ہے پیئے اور دوسرے کام کرے.حضرت مسیح ناصری کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک جگہ جہار ہے تھے.کچھ حواری بھی ساتھ تھے.روزوں کے دن تھے.ان کے روز نے مسلمانوں جیسے روزے نہیں ہوتے تھے.بلکہ معمولی کھانے پینے سے پرہیز ہوتا تھا.وہ جب جارہے تھے تو ان کے شاگردوں نے راستے سے سٹے توڑ کر کھائے لیے اس میں کچھ شک نہیں کہ عیسائیوں کیلئے بھی روزوں کے دن آتے ہیں.مگر وہ روزے ایسے نہیں ہوتے جیسے مسلمانوں کے.سو روزے بھی اگر ایک عیسائی رکھے تو بھی مسلمانوں کے ایک روزہ کے برابر نہیں ہوتے.تو با وجود اس کے کہ ان لوگوں کے لئے روزے بہت ہلکے تھے تاہم حضرت کسی کے شاگرد روزہ نہ رکھتے تھے.انجیل میں

Page 104

۹۶ لکھا ہے ان کے روزہ نہ رکھنے کی حالت کو دیکھ کر یوجنا کے شاگردوں نے حضرت مسیح کے پاس آگر اعتراض کیا کہ تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے یہ حضرت مسیح نے جواب دیا.کیا براتی جب تک دولہا ان کے ساتھ ہے اُداس ہو سکتے ہیں.لیکن دے دن آرنیکے کہ دولہا ان سے جدا کیا جائے گا تب وے روزے رکھیں گے ہالہ اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ گوان کے روزے مقرر تھے مگر اس وقت رضاء الہی اسی میں تھی کہ حضرت مسیح کے شاکر دکھائیں اور پئیں.جو لوگ اللہ تعالے کی رضاء کے خواہاں ہوتے ہیں وہ انس بات کو جانتے ہیں کہ اس کی فضاء اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے.نہ کھانے میں اس کی رضاء ہے اور نہ فاقہ میں اور نہ اچھا پہننے میں ہے اور نہ نگا ر ہتے ہیں جس وقت اس کی رضا ہو کہ انسان کھائے اس وقت اگر انسان نہ کھائے تو مجرم ہے اسی طرح پینے کے متعلق ہے اسی طرح پہننے کے متعلق ہے کہ اگر اس کی رضاء اس میں ہو کہ انسان فلان کام کرے تو ایسا ہی کرنا ضروری ہوتا ہے.اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ دیکھے خدا تعالے کیا چاہتا ہے.اور پھر اس کے مطابق کام کرے تا اس کی رضاء کا پانے والا بنے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ جارہے تھے بعض صحابہ نے روزے رکھے ہوئے تھے.جب موقعہ پر پہنچے تو جو روزہ دار تھے وہ تو پہنچتے ہی زمین پر جا پڑے اور کچھ کام نہ کر سکے.اور جو ہے روزہ تھے وہ کام پر لگ گئے، اور انہوںنے فورا تمام نظام کرنا شروع کر دیا.اس طرح بے روزہ روزہ داروں سے بڑھ گئے لیے تو ہر ایک چیز کا مقام ہوتا ہے.جس موقع پر جس رنگ میں خدا کی رضا حاصل ہو سکتی ہو اسی رنگ میں حاصل کرنی چاہیئے.اگر آج کوئی شخص روزہ رکھ لے اور بال بچوں کو بھی رکھا دے تو وہ مجرم ہوگا.یا اگر با وجود استطاعت رکھتے کے بجائے عمدہ کھانوں کے صرف دال پکانے تو وہ بھی مجرم ہے.پس ایک سبق یہ ہے کہ انسان خدا کی رفتار کے موقعہ محل کو دیکھے اور پھر اس کے مطابق عمل کرے.اگر وہ موقعہ عمدہ کھانے اور عمدہ پہننے کا ہے تو عمدہ کھائے اور عمدہ پینے کہ اس میں ہی رضاء الہی ہے.اور اگر وہ وقت فاقہ کا ہے تو اس وقت فاقہ کرے کہ رضاء الہی اس وقتہ اسی میں ہے.دوسرا ایک اور سبق بھی ان عیدین سے ملتا ہے.مگر اس سبق سے بیشتر ان ہر دو کے مابه الا نیاز کو مد نظر رکھنا چاہیئے.ایک عید کو قربانی کی عید کہتے ہیں.جو آج ہم پہ گزر رہی ہے.یہ عید قربانی سے پہلے ہے اور دوسری عید جو ہے وہ قربانی کے بعد ہے.وہ روزوں کی عید کہلاتی ہے.روزوں کی عید قربانی کے بعد آتی ہے کیونکہ روزہ رکھنا قربانی نہیں ہینگر تو آج کی عید ہے.یہ

Page 105

१८ قربانی سے پہلے ہوتی ہے نہ کہ قربانی کے بعد یا پھر قربانی کے ساتھ یعنی اسی دن عید اور اسی دن قربانی ہوتی ہے.اور نماز کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ عید پہلے ہے اور وہ پیچھے.تو یہ ختلاف بھی ایک نکتہ ہے اور اس میں بھی ایک سبق ہے.ان عیدوں میں جو فرق ہے وہ یونی نہیں.اس نکتہ پر جو اس فرق میں ہے اگر غور کیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس کے اندر نبوت کا ایک انکشاف کیا گیا ہے.اگر ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ایک میں عبادت بعد میں آتی ہے اور ایک میں ساتھ ہی یا پہلے تو اس میں نکتہ یہ ہے کہ پہلی عید میں جو روزوں کی عید ہے آہستہ آہستہ نفس کی قربانی ہوتی ہے اور ایک شخص برابر یہ قربانی کئے جاتا ہے اور اس کے بعد اس کو عبادت کی توفیق ملتی ہے، مگر اس عید میں نفس کی قربانی آہستہ آہستہ نہیں ہوتی.بلکہ یکدم ہوتی ہے اور عبادت اس قربانی سے پہلے کی جانی ہے.روزوں کی عید میں روزوں کے ذریعہ اپنے نفس کی قربانی کی جاتی ہے مگر اس عید میں تیرے کی قربانی ہوتی ہے اور بکرے کی قربانی کو اپنی جان کی قربانی کے برابر سمجھنا چاہیئے.اس میں یہ نکتہ بنایا گیا ہے کہ انسانی اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک عمل ایسا ہوتا ہے کہ عبادت کی توفیق قربانی کے ساتھ ملتی ہے اور ایک ایسا عمل ہوتا ہے کہ قربانی کی توفیق عبادت کے ساتھ ملتی ہے.پہلی قسم کے اعمال میں قربانی پہلے کرنی پڑتی ہے.اور تزکیہ نفس پیچھے حاصل ہوتا ہے اور دوسری قسم کے اعمال میں پہلے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے اور پھر قربانی کرنی پڑتی ہے.ان دونوں قسم کے اعمال کے نمونوں میں ایک فرق واضح ہے.اور وہ یہ ہے کہ پہلی قسم کے اعمال میں تزکیہ نفس سے پہلے جو قربانی کی جاتی ہے اس کا کرنے والا قربانی کی خواہش آہستہ آہستہ کرتا ہے.اور دوسری قسم کے اعمال میں جن میں تزکیہ نفس سینی عبارت پہلے کی جاتی ہے.قربانی کرتے والا شخص قربانی کی خواہش میکدم کرتا ہے جس عمل میں قربانی کی خواہش آہستہ آہستہ کی جاتی ہے اس میں تزکیہ نفس دیر کے بعد ہوتا ہے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی قومیں جن کو آہستہ آبسته قربانی کے موقعے ملے ہیں ، ان کا تزکیہ نفس بھی آہستہ آہستہ ہوا.اور وہ قومیں جنھیں ندیم قربانی کرنے کے موقعے ملے، ان کا تزکیہ نفس بھی فوری طور پر ہوا.چنانچہ جو انبیاء مثیل مونٹی کہلاتے ہیں ان میں تزکیہ نفس اور قربانی ساتھ ساتھ ہوتی ہے.ان کے لئے سامان ہی ایسے کئے جاتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں اکٹھی ہی ہوتی ہیں.اور وہ انبیاء جو شیل کیسے کہلاتے ہیں.ان میں قربانی آہستہ آہستہ ہے اور ان کا تزکیہ بھی دیر سے ہوتا ہے.روزوں والی مثال کا مطلب یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قربانی کی جاتی ہے اور چونکہ قربانی آہستہ آہستہ کی جاتی ہے اس لئے تزکیہ بھی آہستہ آہستہ ہوتا ہے اور ان کی تربیت بھی آہستہ آہستہ ہوتی ہے.

Page 106

4^ حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں لوگ تزکیہ میں یکدم ترقی کر گئے.لیکن حضرت علیئے علی الصلو و اسلام کے وقت چونکہ قربانی آہستہ آہستہ تھی، تزکیہ بھی آہستہ آہستہ ہوا.حضرت موسیٰ کے وقت ایسا نہیں ہوا.ان کے وقت یہ باتیں معا ہوئیں اور لوگ تربیت میں تیزی کے ساتھ بڑھ گئے تزکیہ میں بھی سرعت کے ساتھ ترقی کرلی.اور عام ترقی میں بھی اس وقت کھے لوگوں پر فوقیت حاصل کر لی.حتی کہ حضرت موسی کے زمانہ میں لوگوں کو اس قدر الہام ہوتے تھے کہ لوگوں کو شبہ پڑ گیا تھا کہ شاید یہ بھی بنی ہو جائیں گے.قرآن کریم میں جو واقعات ان کے بیان کئے گئے ہیں وہ ان کی عام حالت نہیں وہ یہود پر محبت پکڑنے کے لئے لائے گئے ہیں.اور اگر ان واقعات کو ان کی عام حالت سمجھ لیا جائے تو یہ درست نہ ہوگا.کیونکہ جو مثالیں بیان کی گئی ہیں وہ جرم کی مثالیں ہیں.ورنہ عام حالت معا روحانی ترقی کرتی چلی گئی ہے.توریت میں آتا ہے لوگوں نے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آکر شکایت کی کہ آپ کے ماننے والے کثرت سے انعام پانے کا دعوی کرتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام نے کہا کہ میں تو چاہتا ہوں سب نبی ہو جا ئیں.تو حضرت موسی علیہ الصلوۃ و السلام کی قوم در حقیقت روحانی ترقی کے منازل کو بہت جلدی طے کر گئی تھی لیکن اس کے بالمقابل عیسائی قوم کی ترقی آہستگی سے ہوئی.وہ بہت جلدی اور فورا روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر نہ پہنچ گئی تھی بلکہ آہستگی سے روحانی مدارج پر چڑھی کیونکہ اس کی قربانی بھی آہستگی کے ساتھ ہوئی.سو جہاں قربانی فوری اور یکدم ہوگی وہاں ترقی تزکیہ اور روحانیت بھی فوری طور پر ترقی کرے گی.اور جہاں قربانی آہستگی کے ساتھ ہوگی وہاں ترقی.تزکیہ اور روحانیت بھی آہستگی کے ساتھ بڑھے گی.چونکہ موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں قربانی فوری ہوئی.اس لئے ان کی ترقی بھی فوری ہوئی.اور حضرت موسی علیہ السلام کے جتنے بھی مثیل ہوں گے ان میں جلدی طہارت.تزکیہ نفس روحانیت اور ترقی پیدا ہوگی اور یو نکہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں قربانی آہستگی کے ساتھ ہوئی اس لئے عیسوی مماثلت کے سلسلے میں جتنے سلسلے ہوں گے.ان میں طہارت.تزکیہ نفس روحانیت اور عام ترقی آہستگی کے ساتھ ہو گی.چند دن ہوئے میں نے سُنا بعض لوگ کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو لکھا ہے تین ماہ میں اگر ایک پیسہ بھی چندہ دید و تو کافی ہے کیے مگر یہاں آپ لحظہ لحظہ اسے بڑھا رہے ہیں.ایک آنہ فی روپیہ ماہوار آمد پر چندہ کر دیا گیا ہے اور ابھی اور بھی بڑھانے کا خیال ہے.یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا ہی فرمایا ہے.اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعد میں آنے والوں نے چندہ کی شرح بڑھا دی.مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں

Page 107

49 کیا جاتا ہے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مشیل موسی کی ترقی جلد ہوتی ہے اور مشیل میلے کی بتدریج.اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مشیل عیسی ہیں، اس لئے آپ کے سلسلہ کی ترقی بھی آہستگی کے ساتھ ہوتی ہے اور جب ترقی آہستگی کے ساتھ ہوتی ہے تو عیسوی سلسلے کی طرح اس کی قربانی بھی آہستہ آہستہ ہوگی جو آہستہ آہستہ بڑھتی رہے گی.اس وجہ سے ضروری ہے کہ مالی قربانی میں دن بدن اضافہ ہو.اسی طرح وصیت کا حصہ ہے.اس کے متعلق بھی کہا گیا ہے کہ یونہی اس کی شرح بڑھائی جا رہی ہے.مگر اس کے متعلق بھی سوچنا چاہیئے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت وہ شرح نہیں تھی جواب ہے اور جس پر لوگ میتیں کر رہے ہیں تو یہ بھی اسی اصل کے ماتحت ہے کہ یہ ترقی آہستگی کے ساتھ ہونی تھی.اور جوں جوں قربانیاں بڑھ رہی ہیں تزکیہ اور طہارت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایمانی حالت میں ترقی ہوتی چلی جارہی ہے.جو پھر الٹ کر زیادہ قربانی کرنے کا باعث ہوتی ہے.مجھے اگر سلسلے کی ترقی کے لئے نال زیادہ جمع کرنے کا شوق ہے تو اس سے ہماری جماعت ہی کی شان بڑھتی چلی جاتی ہے.کیونکہ قربانی میں تی کر نے ہماری ایمانی حالت اور اخلاص لوگوں کے سامنے آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس درجہ پر جماعت کی حالت نہیں آئی تھی جس درجہ پر اب ہے اور جس درجہ پر کھڑے ہو کے جماعت کے عام افراد یکدم بڑی بڑی قربانیاں کر سکتے.مگر اب جوں جوں زمانہ گذرتا جاتا ہے ایمان اس رنگ میں آتا جاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا کرنا چاہتے تھے.اور گو یہ حالت قربانیوں سے ہی پیدا ہو رہی ہے جو آہستہ آہستہ ہو رہی ہیں.مرزا جب یہ حالت پیدا ہو رہی ہے تو اس کا یہ بھی تو تقاضا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی تحریک کرے پس چندہ اور وصیت وغیرہ کی شرح کا بڑھتا چلا جانا ایمانی حالت کے ترقی یافتہ ہونے کے نتیجے میں ہے گو یہ ترقی قربانیوں سے حاصل ہو رہی ہے مگر یہ ترقی قربانیوں کے لئے بھی بہت دلا رہی ہے.کہنے والے یہ تو کہ دیتے ہیں کہ شرح چندہ بڑھائی جا رہی ہے مگر نہیں دیکھتے کہ اس طرح ان کی ایسا نی حالتوں کی تصدیق کی جارہی ہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کثرت سے مال آنے کے متعلق بھی تو ارشاد فرمایا ہے ہے کیا اگر جماعت نے اسی حالت پر رہنا ہوتا جس حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہ سکتے تھے کہ کثرت سے مال آئیں گے.حضرت صاحب کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت آہستہ آہستہ ترقی کرتی چلی جائے گی اور آخر اس مقام تک پہنچ جائے گی کہ مالوں کی قربانیوں کی ان کے سامنے کوئی حقیقت نہ رہے گی.قرآن شریف میں آتا ہے کہ دس کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان کافی ہے اور مسلمانوں کو

Page 108

100 کیا بھی گیا ہے کہ تم میں سے ایک ایک کو دس دس کا مقابلہ کرنا پڑے گالی مگر با وجود اس کے انحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی غزوہ میں بھی یہ حالت نہیں ہوئی کہ ایک مسلمان کو دس کا فروں کا مقابلہ کرنا پڑا ہو.زیادہ سے زیادہ ایک مسلمان کو پاس کافروں کا مقابلہ کرنا پڑا.ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں میں سے بھی زیادہ کا مقابلہ کرنا پڑا.چنانچہ مسلمان ایک جنگ پر گئے ہوئے تھے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جرنیل تھے.مسلمانوں کی تعداد کم تھی.ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ مرد بھیجی جائے.انہوں نے کہلا بھیجا.میں عقبہ کو بھیجت ہوں.عقبہ ہزار آدمی کے برابر ہے سمجھ لو کہ ہزار آدمی بھیج دیا تو حضرت عمر آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر قربانی نہیں چاہتے تھے.بلکہ بات یہ تھی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں وہ حالات پیدا نہیں ہوئے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں پیدا ہو گئے تھے اور ادھر مسلمان بھی ترقی کر گئے.بعض وقت ایک عمل ہوتا ہے جو دوسرے دل میں رعب ڈال دیتا ہے اگر انسان خطرہ کے وقت اپنے تو اس سجا رکھے اور اپنی ACCUMULATIVE POWER کا بیجا استعمال کرے تو ایسا کام بھی کر لیتا ہے جو اس کی دھاک بٹھا دیا ہے ، خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو.حضرت مسیح موعود فرماتے تھے.رستم کے گھر میں ایک دفعہ چور آیا وہ رستم سے زیادہ طاقتور تھا.لیکن رستم کا نام چونکہ طاقت میں مشہور تھا.چور کو اس سے کبھی طاقت آزمائی کا موقعہ نہ ملا تھا.اس دن جب رستم نے پکڑا تو اس نے رستم کو گرا لیا.اور اس کی چھاتی پر چوٹھ بیٹھا اس پر رستم نے چلا کر کہا.آگیا رستم آ گیا رستم ! ایکشن کر چور بھاگ گیا.یہ رستم کے نام کا اثر تھا کہ اس نے ایسے طاقتور کو بھگا دیا جس نے رستم کو گرایا ہوا تھا یہ تو عقبہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ بھی ایک طرح پراسی رنگ کا ہے.عقبہ بڑا ہے اور تھا.اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ کہلا بھیجنے پر کہ یہ ہزار آدمی کے برا بر ہے مسلمانوں کے دل میں تسلی پیدا ہو گئی.دنیا میں جب کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے تو اسے اس کے لئے طاقت بھی مل جاتی ہے یہی حال یہاں بھی ہے.لیکن کام کرنے کا عزم ہونا چاہیئے.پس ہماری جماعت جو کام کرنے کے لئے خدا نے قائم کی ہے کیونکر ہو سکتا ہے کہ اگر وہ کوئی کام کرنا چاہے تو اسے اس کی طاقت نہ ملے لیکن کام حالات کے لحاظ سے کئے جاتے ہیں.چونکہ ابتدائی حالات مکمزور ہوتے ہیں اس لئے ابتدائی کام بھی ہلکے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ابتدائی مطالبوں اور آجکل کے مطالبوں میں فرق نظر آتا ہے.پہلے جو مطالبہ کیا گیا وہ اس کی پہلی حالت کے مطابق تھا.پھر جو کیا گیا تو وہ اسکی دوسری حالت کے مطابق تھا.اسی طرح جیسے جیسے حالت ترقی کرتی چلی گئی ، مطابے بھی بڑھتے چلتے

Page 109

1+1 پس یہ توضیح نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر مجھے اشاعت کا شوق ہے اور ان سے بڑھکر تجھے دین کی خدمت کرنے کا خیال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے بڑھ کر اشاعت در خدمت دین کا شوق کیسے ہو سکتا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جاہلیت زیادہ تھی لوگ بالکل ابتدائی حالت میں تھے.لیکن میرے زمانہ میں جو لوگ ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ ہیں اس لئے اگر ان سے کوئی زیادہ مطالبات کئے جاتے ہیں تو وہ ان کی ترقی یافتہ حالت کے لحاظ سے ہیں اور پھر ان کو اور بھی ترقی دینے کے لئے ہیں.دیکھو اگر ایک مالک ہمیار خادم سے تھوڑا سا کام لے کر اسے چھوڑ دے اور ایک داروغہ اس سے سارا دن کام لے جب کہ وہ تندرست ہے تو کوئی یہ اعتر امن نہیں کر سکتا کہ دیکھو جی مالک تو تھوڑا سا کام لے کر چھوڑ دیتا تھا.لیکن دارد غہ اس سے سارا دن کام لیتا ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ اس وقت وہ بیمار تھا اور زیادہ کام نہیں کر سکتا تھا لیکن اس وقت تندرست ہے اور سارا دن کام کرنے کے قابل ہے.یہی حال ہماری جماعت کا ہے کہ ابتداء میں وہ ایسی قربانیاں نہیں کر سکتی تھی جیسی اب کر سکتی ہے.اور ایک زمانہ آرہا ہے کہ اس میں جو قر با نیا ل ہماری جمات کر سکے گی آج نہیں کر سکتی.پس جن دوستوں نے یہ خیال کیا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ خدمت دین کا شوق رکھتا ہوں یا میں نے آپ کی مقرر کی ہوتی صد سے تجاوز کیا ہے یا ئیں نے چندوں اور وصیتوں کی شرح میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیا ہے، انہوں نے غلطی کی ہے.جو اس قسم کے خیال کو دل میں جگہ دی ہے ایسے خیالات ترقی کے راستے میں روک ہو جاتے ہیں.پس اگر میں اللہ تعالے کی اس منشاء کو دیکھتے ہوئے کہ ان سلسلوں کی ترقی ان کی قربانیوں کی طرح آہستہ آہستہ ہوتی ہے جو عیسوی مماثلت رکھتے ہیں اس تدریجی ترقی کے رہتے ساتھ قدم نہ بڑھاؤ کی تو یہ ایک خلاف قدرت فعل ہوگا.اور ہر وہ فعل جو خلافت قدرت ہو خدا تعالے کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے.اور اس کے کرنے سے کوئی شخص خدا کو خوش نہیں کر سکتا.حضرت صاحب نے جو کچھ کیا وہ تمہاری ابتدائی حالت کو مد نظر رکھ کر کیا مگر اب معماری ابتداء نہیں.اب خالی ایمان ہی نہیں بلکہ دس یا نہیں یا تیس سال کی مجموعی طاقت بھی ساتھ ہے.اس لئے آج جس قربانی کی امید تم سے کی جاسکتی ہے اس وقت نہیں کی جاسکتی تھی.اور جیسا کہ میں نے بتایا جو مثیل مولتے نبی تھے ان میں پہلے تزکیہ اور طہارت اور بعد میں قربانیاں ہوتی ہیں.اور جوشیل مسیح ہیں ان میں تزکیہ قربا نیوں کے بعد ہوتا ہے.یہی اصول یہاں بھی جاری ہے کیونکی یہ ظاہر ہے کہ حضرت صاحب مشیل سیتیم ہیں.پس ہما را تزکیہ قربانیوں کے بعد ہے.جوں جوں ہم قربانیا کرتے چلے جائیں گے توں توں ہمیں تزکیہ اور طہارت حاصل ہوتی جائے گی.اور جتنی دیر ہم قربانیوں

Page 110

١٠٢ میں لگائیں گے اتنی دیر ہمیں تزکیہ حاصل کرنے میں ہوگی.پس اگر تز کیہ چاہتے ہو تو قربانی میں جلدی کرو.دونوں عیدیں مقررہ معینوں کے بعد آتی ہیں اور ان دونوں میں یہ تمیز ہے کہ ایک عید تو مغرزه قربانیوں کے بعد آتی ہے اور ایک کے ساتھ یا بعد قربانی کی جاتی ہے.اسی طرح عیسوی سلسلوں میں قربانی پہلے ہوتی ہے اور تزکیہ پیچھے اور موسوی سلسلوں میں تزکیہ پہلے اور قربانی بعد میں حضرت مو نے علیہ السلام اپنی زندگی میں ہی بادشاہ ہو گئے لیکن حضرت عیسے علیہ السلام اپنی زندگی میں بادشاہ نہ ہو سکے.بلکہ ان کے بعد ان کے پیروؤں کو بادشاہت ملی.یہی حال حضرت مسیح موجود عليه الصلوۃ والسلام کا ہے.پس نادان ہیں وہ جو کہتے ہیں ترقی نہیں کی.ہم کہتے ہیں ترقی بعد میں آتی ہے پہلے قربانیوں کو تو اس حد تک پہنچاؤ جس حد پر پہنچ کر کھلی کھلی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں.اس سے دونوں قسم کے سلسلوں کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے.اور یہ ہمارے لئے سبق ہے لیکن بڑا سبق اصلی واقعہ سے نکلتا ہے اور وہ واقعہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانی ہے.دنیا میں مختلف طبائع ہوتی ہیں، بعض لوگ ماں باپ سے محبت کرتے ہیں اور دوستوں یا رہوں کی پرواہ نہیں کرتے.بعض ماں باپ کے احکام کی اتنی مقدر نہیں کرتے جتنی دوستوں کی خو اس سے کی مقدر کرتے ہیں.بعض دوستوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور رشتہ داروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے.بعض رشتہ داروں کی دلداری کرتے ہیں اور دوستوں کا خیال نہیں کرتے.پھر بعض ایسے ہوتے ہیں جن کے تعلقات بچوں سے زیادہ ہوتے ہیں اور بڑوں کی طرف وہ کبھی دیکھتے نہیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالے کے لئے ان تینوں قسم کے تعلقات کی قربانی کی جب آپ نے دعوی کیا تو رشتہ داروں اور دوستوں نے مقابلہ کیا، آپ نے ان کی پرواہ نہ کی.آپ نے اپنے اب سے خدا کے لئے مقابلہ کیا.دوسرے اقرانِ قوم سے محبتیں ہوتی ہیں آپ نے ان کا بھی مقابلہ کیا.دوستوں نے مخالفت کی دوستوں کا بھی مقابلہ کیا.شاید کوئی کہے ان کے ساتھ محبت نہ ہوگی.اس لئے ان کی محبت کو قربان کر دیا اور ان کا.مقابلہ کیا.ان کے بالمقابل شاید اولاد سے زیادہ محبت ہوگی کیونکہ عام طور پر ماں باپ کو بچوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے.میں نے امینے ماں باپ کو دیکھا ہے جو بچوں کی خاطر سب محلے سے لڑتے رہتے ہیں.تو دنیا میں مختلف طبائع ہوتی ہیں.کوئی کہہ سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ماں باپ دوست یار چھوڑ دیئے.ممکن ہے ان کے ساتھ زیادہ محبت نہ ہو اور بچوں کے ساتھ زیادہ محبت ہو، ان کو نہ چھوڑ سکتے.خدا نے کہا.اچھا لڑکے کی مہربانی کرے

Page 111

١٠٣ لڑکا بھی اکلوتا لڑکا اور وہ بھی جو بڑھاپے میں ہوا.یہ تو خدا کا فضل تھا کہ اس کے بعد اسحق بھی پیدا ہو گیا ورنہ امید نہیں تھی.اس وقت ایک ہی لڑکا تھا اور وہ اسمعیل تھا.خدا نے جب س کی قربانی کرنے کو کہا تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اس کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اب نہ اولاد، نه دوست کہ ماں باپ تھے جو قربان کرنے سے رہ گئے.انہوں نے خدا تعالی کی فرمانبرداری کے لئے ان میں سے کسی کی پرواہ نہ کی.وہ سب کو قربان کرنے کے لئے تیار تھے.دوست بھی ، ماں باپ بھی ، اولاد بھی اور ساری اولاد، اس وقت اسمعیل ساری اولا دہی تھی.ماں باپ اور دوستوں کو قربان کر دیا.وطن کو چھوڑ دیا.اب کوئی رشتہ دار بھی نہیں مل سکتا تھا تو اس ساری قربانی کی یاد گار ہیں اس عید کو قائم کیا گیا.اس قربانی کی حقیقت بنانے میں بائیبل اور قرآن میں فرق ہے.بائیبل جس رنگ میں اسے بیان کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تحریف ہو گئی ہے.لیکن قرآن کریم اسے جس عمدگی کے ساتھ بیان کرتا ہے اس سے اس واقعہ کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے.بائیبل کہتی ہے.کہ خدا نے ابراہیم کو حکم دیا کہ اپنے اکلوتے اسحق کو قربان کر یہ ابراہیم نے کہا.قربانی کے لئے سامان نہیں.خدا نے کہا.یہ قربانی ضرور کرنی چاہیئے.تب ابرایم اسحق کو باہر لے گئے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی.اور قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.ابھی چھڑی پکڑی ہی تھی کہ خدا تعالے کے فرشتے نے آواز دی.اس کو مت قربان کر اور ایک مینڈھا اس کے عوض قربان کرنے کے لئے وہاں موجود کر دیا گیا ہے مگر قرآن شریف کہتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کو حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ لڑ کے کو قربان کریں.بلکہ آپ نے رویا دیکھی تھی کہ وہ اپنے لڑکے کو خدا تعالے کی راہ میں ذبیح کر رہے ہیں.اور اس رڈیا کی بناء پر وہ اپنے لڑکے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.بائیل کہتی ہے بیشک قربان نہیں کیا گیا مگر یہ ایک آزمائش تھی جو حضرت ابراہیم علیہ اسلامی کی گئی ہے لیکن ہم کہتے ہیں آزمائش کس طرح ہوگئی کیونکہ آزمائش و و طرح ہوتی ہے.یا تو جس کی آزمائش کی جائے.اسے بتانے کے لئے کہ تیرا ایمان پختہ ہے.یا دوسرے لوگوں کو بتانے کے لئے کہ یہ خدا تعالے پر ایمان رکھنے میں اتنا مضبوط ہے لیکن جو آزمائش استلاء ہوتی ہے وہ بنی پر نہیں آتی.رہی قربانی ، با مبل کہتی ہے کہ یہ پوشیدہ قربانی ہوئی ہے کیونکہ ملی ہوئی نہیں.اور اگر فی الواقع ہوئی نہیں تو یہ بات ہی لغو ہو جاتی ہے.رہی تیسری قسم کہ علی الاعلان قربانی ہو.مگر علی الاعلان ہوئی نہیں توان صورتوں میں اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ المهام اگر حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کو ہوا کہ لڑکے کی قربانی کر تو ہے وجہ ہوا تھا کیونکہ جب وہ قربانی فی الواقع ہوئی نہیں تھی تو ایک ایسی بات کے لئے کسی کو کچھ کہنا جو کچھ کر نی ہی نہیں بالکل بے وجہ ہے میگر قرآن شریف ان سب باتوں کے

Page 112

۱۰۴ بالمقابل اسے خواب بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں جسے انہوں نے چاہا کہ پورا کریں.قرآن شریف کے بیان کے مطابق یہ سب کچھ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کے خواب کا نظارہ تھا اور قرآن شریف کے بیان سے بڑھ کر صحیح اور سچابیان اور کس کا ہو سکتا ہے پس جبکہ یہ ایک خواب تھا تو یہ ضروری ہے کہ اس کی کوئی تعبیر ہو اور جب ہم واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس خواب کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ جب دیکھا کہ بیٹا قربان کر رہے ہیں تو یہ پیش گوئی تھی کہ وہ ایک دن اسے جنگل میں اپنے ہاتھ سے چھوڑ آئیں گے.قرآن شریف میں یہ الفاظ ہیں.نبى إني أرى فِي الْمَنَامِ الَي اذْبَحُكَ اے بیٹے ! ہمیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں.اب حضرت ابراہیم خود اپنے ہاتھ سے اسے جنگل میں چھوڑ آئے.اور جنگل بیابان میں چھوڑ آنے سے خواب پوری ہو گئی.مگر بائیبل جس رنگ میں یہ پیشگوئی بیان کرتی ہے وہ پوری نہیں ہوتی.تو جنگل میں چھوڑ آنا چھری پھیر دینے کے برابر ہو گیا محبتوں پر چھری اسی طرح پھرا کرتی ہے کہ محبت کو قطع کر دیا جائے.دوستوں کی محبت اور رنگ میں انہوں نے قطع کی.ماں باپ کی اور رنگ میں اور اولاد کی اور رنگ میں.تو قرآن کے بیان میں حکمت ہے اور بائیبل میں ظالمانہ قربانی بتائی جاتی ہے.رہی یہ بات کہ کس کو قربانی کرنے کا حکم ہوا تھا.عیسائی کہتے ہیں اسحق کو لیکن ہم کہتے ہیں اسمعیل کو.کیونکہ جب یہ خواب دیکھی گئی تب ایک ہی ان کا بیٹا تھا اور وہ آنیل تھا پس اسحق کو قربان کرتے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے نہیں دیکھا تھا.بلکہ اسمعیل کو دیکھا تھا.کہ آپ اسے قربان کر رہے ہیں.پھر یہ قربانی صرف حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام بھی کی نہیں متی بلکہ حضرت ہمیں کی بھی تھی.کیونکہ در حقیقت وہی تھے جو قربان ہو رہے تھے اور بائیل میں تو جس کی قربانی ہے اس سے پوچھا بھی نہیں گیا کہ کیا تو بھی قربان کئے جانے پر راضی ہے یا نہیں اور صرف اتنا بیان کیا گیا ہے کہ انھی نے جب سوختنی قربانی کے سامان دیکھے تو باپ سے سوال کیا آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کے لئے برہ کہاں ؟" جس کا جواب باپ کی طرف سے صرف یہ دیا گیا.خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے بڑہ کی تدبیر کرے گا یا ہے پس یہاں سے اگر کچھ نتیجہ نکلتا ہے تو یہی کہ صرف حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی قربانی کا ذکر ہے.اور بس کی قربانی کی جاتی ہے اس کی آمادگی کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی اس سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا ہے.حالانکہ مرنے والے کی قربانی بڑی ہوتی ہے تو بائیبل میں تو صرف حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانی کا ذکر آتا ہے.لیکن قرآن شریف بتاتا ہے

Page 113

۱۰۵ F جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے سمجھیل کو ذبح رہے ہیں تو انہوں نے بعد میں اسمعیل سے اس کے متعلق یہ چھا.چنانچہ قرآن شریف میں یہ لفاظ موجود ہیں.فانظر ماذا تری یعنی اے بیٹے ! میں خواب میں دیکھے تو رہا ہوں کہ تمھیں ذبیح کر رہا ہوں.اب تمہاری کیا منشاء ہے ، کیا تم چاہتے ہو کہ فی الواقع تم ذبح کر دیئے جاؤ کہا اگر تیری مرضی ہو توئیں اس کام کو کروں.گو یہ کام میرے ہاتھوں ہونا ہے مگر ہے درحقیقت قربانی تیری.کیونکہ تم نے قربان ہونا ہے.بائیبل تو اپنے بیان سے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ دھوکہ باز قرار دیتی ہے.مگر قرآن میں ایسا نہیں ہے بلکہ فَانظُرْ مَاذَا تَری کے الفاظ اس میں موجود ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اسمعیل سے پوچھتے ہیں آیا تو تیار ہے.اگر تو تیار ہے تو پھر یہ کام کیا جائے.ان دونوں بیانات میں کتنا عظیم الشان فرق ہے اور واقعہ کی نوعیت بناتی ہے کہ قرآن کریم کا بیان سچا ہے.بائیبل تو کہتی ہے.حضرت ابراہیم عليه الصلوۃ والسلام حضرت الحق کو بتاتے ہی نہیں کہ میں تمھیں قربان کرنے کے لئے جاتا ہوں مگر قرآن صاف بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے صاف صاف حضرت اسمعیل کو بتادیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں.پھر بائیبل اپنے بیان کو یہیں تک چھوڑ دیتی ہے.لیکن قرآن آگے اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ اسلام سے ان کی مرضی بھی دریافت کی.پھر ہی نہیں کہ صرف یہ سوال کر دیا ہو کہ تیری اس کے متعلق کیا مرضی ہے جبکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے جواب کو بھی بیان کر دیا.کہ اسے باپ با تو کچھ جھے حکم دیا گیا ہے بلا تامل اسے پورا کر.انشاء اللہ تعالے تو مجھے صابرین میں سے پائے گا.اس واقعہ کے سارے واقعہ کو قرآن شریف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے.فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ الشَّعْرَ قَالَ يبى الى ارى في المنام اني اذبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرَى - قَالَ يَا بَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّبِرنین.یعنی جب اسمعیل سیانے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا خواب ان کے سامنے بیان کیا اور ان کی مرضی دریافت کی جس کا جواب حضرت اسمعیل علیہ السلام يابَتِ افْعَلَ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُ فِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصبرین دیتے ہیں.یعنی اسے باپ ! آپ اس کے متعلق اپنا حصہ ادا کریں.میں اپنا حصہ ادا کرونگا یہ سچی قربانی تھی جس میں قربان ہونے والے کی رضامندی بھی شامل تھی.رہی یہ بات کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کیوں آمادگی ظاہر کی سو اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء پہلے دستوروں کو قائم رکھتے ہیں اور اس وقت تک ان کو قائم رکھتے ہیں جب تک وہ دائمی صدا توں کے خلاف نہ ہو جائیں.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں انسانی قربانی ہوتی تھی.

Page 114

وہ جانتے تھے کہ خدا تعالے مجھ سے ناجائز کام نہیں کرائے گا ، اس کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے اگر وہ اس کی منشاء کے خلاف چلنے لگے گا تو اسے روک لے گا.اور ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں انسانی قربانی کے خلاف کوئی نص نہ تھی.پس یہ اس زمانہ میں شرعی حکم تھا جس کے سامنے حضرت اسمعیل علیہ السلام نے اپنے آپ کو جھکا دیا.اور ذبح کئے جانے پہ آمادگی ظاہر کی.اس انسانی قربانی کا رواج حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیانی زمانہ میں ہوا.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر اس بات کا کوئی الزام نہیں آسکتا.کہ کیوں آپنهانی قربانی کے لئے آمادہ ہوئے اور ایسا ہی حضرت اسمعیل علیہ السلام پر بھی کوئی الزام نہیں آسکتا کہ کیوں آپ نے اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش کر دیا اور آمادگی ظاہر کر دی.بعض کام خدا تعالے بعض خاص خاص لوگوں کے ہاتھ سے اس لئے کراتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے سبق ہوں.حضرت ابراہیم کی یہ قربانی در حقیقت اولاد کی محبت کی قربانی تھی.جیسا کہ آنحضر صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں بیٹیا کہلانے والے شخص کی بیوی سے نکاح پڑھا یا گیا جس سے یہ بات بتانی مقصود تھی کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں بن سکتا.کیونکہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس کو بیٹا کہہ دیتے وہ بیٹا ہو جاتا.اور پھر اس کی بیوی سے وہ شخص جس کا کہ وہ بیٹا کہلاتا نکاح نہ پڑھا سکتا.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ سے خدا تعالے نے یہ کام کرا کر بتا دیا کہ یہ دستور غلط ہے اور آئندہ اس سے بچا جائے.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے اولاد کی محبت کو خدا کی محبت کے لئے قربان کر دینے کا فعل کرا کے بتا دیا کہ خدا کی محبت کے سامنے کسی اور کی محبت دل میں نہیں ہونی چاہیئے اور اگر ہو تو اسے قربان کر دینا چاہیئے.غرض حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام نے ظاہر طور پر اس خواب کو پورا کرنے کے لئے جو نئی حضرت اسمعیل کو لٹایا.آواز آئی کہ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا.اے ابراہیم تو ضرور ہی اپنی خواب کو پورا کرے گا.جب تو نے اس کو ظاہری صورت میں پورا کرنے کے لئے تیاری کر دی تو جو معنے اس کے فی الواقع ہیں.وہ بھی ضرور پورے کریگا.صدق کے معنے ہیں سچا سمجھنا یعنی تجھے اپنی خواب پر بڑا ہی یقین ہے تو نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ شائد اس کے کچھ اور معنے ہوں اور اس کو پورا کرنے پر تل گیا.قد وقوعہ پر دلالت کرتا ہے کہ ہو چکا ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کے مطابق پورے یقین اور ایمان کے ساتھ اس رنگ میں اس کام کے کرنے کا تہیہ کیا کہ گویا وہ کر ہی لیا.اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم کو اپنے خواب پر پورا پورا بھروسہ تھا اور یہ بھی یقین تھا کہ خدائق لئے میرا ہا تھے ناجائز بات پر نہیں اُٹھنے دے گا.اسی بناء پر انہوں نے یہ کام کیا.چنانچہ ان کے ایمان اور یقین اور آمادگی کو دیکھ کر خدا تعالے نے کہا کہ تو نے گویا

Page 115

106 اس کام کو کر ہی لیا.غرض حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و اسلام کی اس فرمانبرداری کا یہی نتیجہ ہے جئے کہ بائیبل میں ان کے متعلہ آتا ہے.اسے ابراہیم ! میں تیری نسل کو ریت کے ذروں کی طرح پڑھا و نگار اور وہ کمیت اور تعداد اور زمانہ اور مکان کے لحاظ سے بھی بڑھے گی اور دنیا کے پھیلاؤ کے لحاظ سے وہ پھیلے گی اور ہر زمانہ کے لحاظ سے اسے برکت دی جائے گی.یہ سب ابراہیمی قربانی تھی جو اس قدر پھل لائی.اب دیکھنا چاہیئے کہ ابو اسیمی قربانی کیا تھی.وہ قربانی بالیقین ترتیوں کا ذریعہ تھی جس کے ذریعہ ان کی نسل بڑھی پھلی اور پھولی.آج ہمیں بھی یہی دیکھنا چاہیئے اور ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم بھی خدا کی محبت کے سامنے سب محبتوں کو قربان کر سکیں تاہم بھی ترقی حاصل کرنے والے نہیں.اگر کوئی قوم ضائع ہوتی ہے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ کس طرح وہ بچ سکتی ہے اس کا ضائع ہونے سے بچنا اور غالب آنا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ابراہیمی قربانی کرے.ابراہیمی قربانی کیا ہے.خاندان کے تمام افراد کی قربانی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ آپ نے خواب میں دیکھا نہیں قربانی کہ رہا ہوں.اور اس کے مطابق قربانی کرنے کی آپ نے کوشش بھی کی مگر چونکہ خدا تعالے کی یہ منشاء نہ تھی اس لئے وہ اس رنگ میں نہ ہوئی ملکہ اس رنگ میں ہوئی جو خدا تعالے کی منشاء کے مطابق تھا.اور خدا تعالے کی منشاء یہ تھی کہ وہ اپنی اولاد کی محبت کو قربان کر دیں اور اسے دُور جنگل میں چھوڑ آئیں.خاندان کا مجموعہ مرد بیوی اور اولاد ہوتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا بھی یہی مجموعہ تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام خود، حضرت باجرہ اور حضرت اسمعیل.یہ تینوں تھے جن سے یہ خاندان تھا.مگر خدا کے لئے آپ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور ان کی ماں ہاجرہ کو دور جنگل میں چھوڑ دیا اور یوں ان کی محبتوں کو قربان کر دیا.وہ چھری جو خواب میں اولاد کو ذبح کر رہی تھی ، وہ یہی تھی جو اس رنگ میں چلی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہ صرف اپنی اولاد کی قربانی کی بلکہ خدا کے لئے اپنی اولاد کے ساتھ اپنی بیوی کی بھی قربانی کردی.پس یہ قربانی اکیلئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی نہ تھی بلکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کی بھی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تو اس طرح کہ وہ خدا کے لئے اپنے لڑکے کو جنگل میں چھوڑ آئے.حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اس طرح کہ انہوں نے خدا کے لئے جنگل میں چلے جانا منظور کر لیا.اور حضرت ہاجرہ کی اس طرح کہ وہ خدا کے لئے حضرت ہمیل علیہ السلام کو لے کر جنگل میں چلی گئیں.اس وقت اسحق نہ تھے، وہ بعد میں پیدا ہوئے تھے یہ قربانی صرف ان تینوں کی تھی.اور ان تینوں کی ہی قربانی مکمل ہوگئی اور یہ اس قربانی کا مکمل ہونا ہی تھا جس کے بعد خدا تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام سے یہ وعدہ کیا کہ تیری اولاد

Page 116

ستاروں کی طرح بے شمار ہوگی اور جہاں کہیں وہ جائے گی برکت دی جائے گی.تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ قربانی ترقیات کا باعث ہو گئی.اب بھی ترقی پانے کا یہی راستہ ہے.کوئی قوم ترقی نہیں پاسکتی حبیب تک اس قوم کے تمام مرد تمام عورتیں اور تمام بچے قربانیاں نہیں کرتے.دنیا میں وہی قومیں پڑھیں جن کے مرد بھی اور عورتیں کبھی اور بچے بھی قربانیاں کرتے رہے.پس یہ جو عید ہے یہ در حقیقت ہمیں قربانیوں کا سبق دیتی ہے اور اس بڑی قربانی کو یاد کراتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام نے کی اور جس کے سبب وہ ترقی پاگئے.یہ قربانیوں کی عید ہے.بے شک ہم اس موقع پر جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں لیکن یہ قربانیاں ہمیں دوسری قربانیاں کرنے کا سبق پڑھانے والی نہیں تب حقیقی قربانیاں ہیں.اس لئے ہیں پھر کہتا ہوں کہ ان قربانیوں کی طرف بھی توجہ کہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عورت ہو یا مردا ہر ایک اس قسم کی قربانیوں کے لئے تیار ہو کیونکہ ان کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.لیکن میں دکھتا ہوں کہ بعض مرد تو قربانیاں کرتے ہیں مگر ان کی بیویاں اور بچے نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ترقی نہیں ہوتی.پس چاہیئے کہ سب کے سب دین کے لئے قربانیوں میں لگ جائیں.اگر مرد قربانیاں کرنے والے ہوں اور عورتیں اور بچے نہ ہوں تو یہ بھی کوئی عمدہ بات نہیں.اور اگر مرد اور عورتیں قربانیاں کرتے ہوں اور بچے نہ کرتے ہوں تو پھر بھی ترقی نہیں ہو سکتی.پھر اگر مرد اور بچے قربانیاں کرتے ہوں اور عورتیں نہ کرتی ہوں تو یہ بات بھی ترقی کے لئے مضر ہے.ترقی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ مرد بھی قربانیوں میں لگے ہوئے ہوں.عورتیں بھی قربانیوں میں لگی ہوئی ہوں اور بچے بھی قربانیوں میں لگے ہوئے ہوں.ان قربانیوں کے ساتھ ساتھ اولا کی تربیت بھی ہے.ایک عورت اگر اپنی اولاد کی تربیت عمدہ کرتی ہے تو یہ بھی اس کی ایک قربانی ہے کیونکہ وہ ایسے مرد تیار کر رہی ہے جو قوم کے لئے مفید ہو سکتے ہیں لیکن اگر عورتیں تربیت نہیں کرتیں اور اولاد کی تربیت ایسی نہیں ہوئی جو وقت پر قوم کے لئے مفید ثابت ہو تو وہ کوئی نقش پائیدار نہیں چھوڑ رہیں.پس عورتوں کو بالخصوص چاہیئے کہ وہ ان قربا ئیو کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کو بھی اچھا بنائیں.یہ عید ہمیں قربانی سکھاتی ہے ، ہمیں چاہیے کہ جو کچھ میں سکھاتی ہے اس پر عمل کریں.اگر ہم اپنے آپ کو تو قربان کرتے ہیں اور اپنی فوتوں اور بچوں کو قربان نہیں کرتے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید نہیں.ہمارے لئے مفید ہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھی قربان کر دیں اور بیوی بچوں کو بھی قربان کر دیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان میں خود قربان ہونے کی روح پیدا کریں.تب جا کہ تم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم جیسی قربانی کی بس یہ ایک عظیم الشان سبق ہے جو اس قربانی سے ہمیں ملتا ہے اور جس کی یاد کے لئے

Page 117

1.9 ہر سال یہ عید کا دن آتا ہے.اگر ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ دن ہمیں اپنی قربانیوں کا اپنی عورتوں کی قربانیوں کا اور اپنے بچوں کی قربانیوں کا سبق سکھاتا ہے تو یہ دن ہمارے لئے ایسا ہی بہ گا جیسے اور دن.پس ہمیں اس سبق کو جو ان قربانیوں سے ملنا ہے اور جس کی یاد کے لئے یہ دن ہر سال ہمہ پہ آتا ہے ، ہر وقت یا درکھنا چاہیئے.بعض لوگ خود تو قربانی کرتے ہیں مگر اپنے بیوی بچوں کی قربانیاں نہیں کر سکتے حضرت صاحب کے ایک مرید تھے جو بڑی قربانیاں کرتے رہتے تھے.لیکن ایک دفعہ ان کی بیوی سے کوئی حرکت سر زد ہوئی، حضرت صاحب اس پر ناراض ہوئے تو اس شخص نے کہا کہ میں تو قادیان چھوڑ دوں گا.اب اس سے بالکل ہی قادیان چھٹ گئی ہے یہ اسی طرح ایک لڑکے نے ایک سمان کو تکلیف دی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے تھپڑ مارا.اس سے اس کا باپ بہت بگڑا مگر جلد ہی اس نے معافی مانگ نی شبه تو بعض آدمی اپنی تو قربانی کر لیتے ہیں مگر اپنی بیوی اور بچوں کی نہیں کرتے ، اس لئے وہ ترقی کرنے سے بھی رہ جاتے ہیں ، اسی سے قوموں کی ترقی کا اندازہ لگانا چاہیئے جو قومیں یہ تینوں قسم کی قربانیاں کرتی ہیں، رہی ترقی کرتی ہیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اگر ترقی کے خواہشمند ہیں ذان قربانیوں کو کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.جب تک یہ قربانیاں نہیں ہو ئیں کوئی نوم آگے نہیں بڑھ سکتی.آگے بڑھنا تو کجا اپنے اصل مقام پر بھی قائم نہیں رہ سکتی بلکہ پیچھے گرنے لگ جاتی ہے.بعض لوگ تھوڑی سی قربانی کر کے ملی نصر اللہ کہ اٹھتے ہیں : میں کہتا ہوں نصر اللہ انسان کے اپنے اعمال پر آتی ہے.انسان اعمال اس قسم کے بنائے کہ نصر اللہ لانے والے ہوں پھرا گو نصر اللہ نہ آئے تو کہہ سکتا ہے مستی نصر اللہ.لیکن اگر وہ اعمال تو اس رنگ میں نہ کرے کہ نصر اللہ آئے لیکن مشی نصر اللہ کی پکار لگاتا رہے تو یہ اس کی نادانی ہوگی.خدا اس عید کے ذریعہ بھی یہ بتانا چاہتا ہے کہ مرد بچے اور عورتیں جب تک ابرا بستیم اسمعیل اور ہاجرہ کی طرح قربانیاں نہ کریں مستی نصر اللہ نہیں کر سکتے ہیں اگر وہ اپنی قربانیوں کو ابراہیم اسمعیل اور ہاجرہ کی قربانیوں جیسا بنا لیں اور پھر نصر اللہ میں دیر ہو تو کہ سکتے ہیں مشی نصر الله.پس اگر تم نصر اللہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی اور اپنی بیوی اور بچوں کی قربانیوں کو ابراہیم اسمعیل اور ہاجرہ کی قربانیوں جیسا بناؤ.یکی ابھی اور باتیں بھی کہنا چاہتا تھا.مگر یکیں دیکھتا ہوں کہ خطیہ لمبا ہو گیا ہے اس لئے یکن اس کو اسی جگہ بند کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالے ہم سب میں ایسا اخلاص تقولی اور طہارت پیدا کرے کہ بچے طور پر اپنی اولاد اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں کی قربانیاں کر گئیں

Page 118

114 اور ہم اپنے اعمال سے وہ نقش دائم وقائم رکھ سکیں جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے کہ اگر انسان کوشش کرے تو وہ ہمیشہ رہ سکتا ہے.وہ ہماری کمزوریوں کو دور کرے اور ان کی وجہ سے ترقیوں میں روک نہ ڈالے اور ہم وہ عہد پورا کرنے والے ہوں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باندھا نہ اور پورا کیا.لیکن اپنے لئے بھی اور یہاں کے دوستوں کے لئے بھی اور باہر کے لوگوں کی واسطے بھی اور تمام مخلوق کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالے سب کی مدد کرے اور انہیں ہر قسم کی قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ! - الصفت ۰۳:۳۷ تا ۱۱۰ ہے.انسائیکلو پیڈیا ریجیس اینڈ ایتھکس جلد ۳۳ ه ۹۳ - البقره بد : ۱۳۴ ہے.الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۲۶ء تا ۱۲) صحیح بخاری کتاب الاضاحی باب قسمة الامام الاضاحي بين الناس سنن ابی داؤد کتاب الضحايا باب حبس لحوم الاضاحی - نیل الاوطار له - صحیح بخاری کتاب المناقب باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم للانصار اصبروا حتى تلقوني على الحوض - شه : صحیح بخاری کتاب الاشربة باب هل يستأذن الرجل من عن يمينه في الشرب ليعطى الأكبر.ث سفينة الاولیاء مصنفه دارا شکوه مرا ء 2 مطبو - نيا تذكرة الاولياء مؤلفه رئیس احمد جعفری ۲۲۰ و ۲۳ میلیون ۱۹۵۵ ۶ - گلدسته کرامات ما ه - مرفت باب ۲۲ آیت سوم امتی باب ۹ آیت ۱۵ " - صحیح مسلم کتاب الصیام باب اجر المفطر في السفر اذا تولى العمل ت ے.گنتی باب ۱۱ آیت ۲۶ - گفتی باب ۱۱ آیت ۲۹ ۱۱۴ - ملفوظات جلد صنه وحاشید مطبوعہ لاہور ۱۹۹۵

Page 119

7 - الوصیت من لى الانفال : ۶۶ ه روی انه لما جمعت الروم يوم اليرموك استغاث ابو عبيدة عمر فامدها بسعيد بن عامر د اسرانابہ سے ) 1 - رستم کسری ایران کا ایک مشہور در طاقتور جرنیل تھا.نے اس قسم کی روایت حضرت سعید بن عامر کے بالے میں بیان ہوئی ہے و فتوح الشام واقدی جزواح - ۱۷ ۱۸ - الفاری و الله - پیدائش باب ۲۲ آیت ۲ ه - پیدائش باب ۲۲ آیات ۱۰ تا ۱۳ - الصفت ۳۷ : ۱۱۳ پیدائش باب ۲۲ آیت ۷-۸ الاحزاب ۳۳ ۳۸ - تغییر در منثور جلد ۵ صلا۲ سے.پیدائش باب ۲۲ آیات ۱۵ تا ۱۷ مولفه شبلی نعمانی در - حیات النبی.مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حصہ سوم ۳۳۵ مطبوعه نومبر ۹۲۶ انو تے.یہ واقعہ حضور رضی اللہ عنہ کے سامنے رونما ہوا (واللہ اعلم بالصواب) اس کے لئے کوئی حوالہ دینے کی ضروت نہیں.

Page 120

١١٢ ۱۵ ا فرموده ۱۱ جون ۱۹۳۶ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود میرا تمام قادیا آج کچھ او از فقر تا نیچی ہے کیونکہ طبیعت اچھی نہیں اور کچھ لوگوں کی آواز اونچی ہے ا مجمع میں عورتوں اور بچوں کا شور تھا، اس لئے نہیں کہ سکتا کہ سب دوستوں تک آواز پہنچا سکوں گا یا نہیں لیکن چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے کہ عید کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا جائے ، اس لئے اس سنت کی اتباع میں مجھے خطبہ پڑھنا چاہیئے خواہ آواز سب تک پہنچنے یا نہ پہنچے.آج کا دن اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتا ہے.یہ دن یادگار ہے ایک نئے دور کی جو دنیا پر آیا.یہ دن یاد گار ہے ایک نئے دور کی جس نے پہلے دور کو ختم کر دیا.یہ دن یادگار ہے ایک نئے آدم کی جس نے نئی قسم کی نسل جباری کی.یہ دن یادگار ہے اس آدم کی جس کے ذریعہ اہلی اصلاح کا کام شروع ہوا.کیو نکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور اہلی اصلاح کا دور ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دو بڑی خصوصیتیں حاصل ہیں.ایک یہ ہے کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کا نام رکھا جس کے سپرد آخری اصلاح دنپ کی رکھی گئی ہے.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالے نے اسلام کی بشارت کے لئے چنا اور ان کے ذریعہ بتایا کہ آئندہ السلام کا دور ہو گا لیے اس طرح ایک تو خدا تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذاتی قربانی کے لئے چنا اور دوسری یہ خصوصیت ان کے لئے مقدر فرمائی کہ ان کو اہلی قربانی کے لئے چنا.ان کو رویا میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرتے ہیں اور اکلوتے بیٹے کو ذینج کر کے خدا تعالے کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس رڈیا کو عملاً پورا کرنا چاہا کیونکہ اس زمانہ میں انسانوں کی قربانی عام تھی.اور جب تک نہی کوئی خاص حکم نہیں پاتا.اس وقت تک عام مروجہ باتوں کو ہی قبول کرتا ہے.چونکہ مذہب کے نام پر اس وقت تمام کے تمام مذاہب انسانی قربانی کے عادی تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھ کے اللہ تعالے اس قربانی کوت کم کرنا چاہتا ہے اور مجھ سے بھی یہی چاہتا ہے.اس وجہ سے انہوں نے یہ نظر اندا نہ کر دیا کہ 40 سال کی عمر میں ان کو بیٹیا ملا تھائیے انہوں نے چاہا کہ اس بیٹے کو کبھی خدا کی رضا کے لئے قربان کر دیں.مگر اللہ تعالے انہیں اور سبق دینا چاہتا تھا اور وہ عظیم الشان سبق تھا جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اب بھی مسلمان تباہ ہو رہے ہیں.لوگ اٹھتے

Page 121

ہیں اور بکرے کی قربانی کر دیتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ بکرے کی قربانی کس بات کی علامت ہے اور خدا تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا چاہا تھا.میں نے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی دو قر با نیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے میں پہلے اس قربانی کو لیتا ہوں جس میں خدا تعالے نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اپنی درت دکھائے اور ایک عظیم الشان نشان قائم کمیتے.اس وقت با مشکل ممکن تھا کہ حضرت براہیم علیہ السلامہ وہ ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جاتے اور اس طرح اپنی جان بچی لیتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا.اور خدا تعالے کے حکم کے ماتحت اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوگئے.یہ اس وقت ہوا جب عراق میں ان کی قوم نے فیصلہ کیا کہ ان کو جبل دیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن سے ہی ایسی فطرت رکھتے تھے جو توحید کی تائید میں اور مشرک کے خلاف تھی چنا نچہ جب ان کے رشتہ داروں نے ان سے مشرک کے متعلق مباحثہ کیا تو انہوں نے سختی سے اس کا د کیا.ان کا ایک خاندانی بت خانہ تھا اس سے عملی طور پر نفرت اور مشرک سے بیزاری کے اظہار کے لئے انہوں نے اس طرح کیا کہ بتوں کو توڑ دیا یت یہ بہت جس کتبخانہ کے توڑے گئے وہ کسی دوسرے کا نہ تھا.اگر دوسروں کا ہوتا تو اس کا توڑ نا جائز نہ ہوتا.یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا تھا اور انہیں ورثہ میں ملا تھا.اور چونکہ پتھر پتھر ہی ہوتا ہے.اس لئے انسان کی ملک تھا انہوں نے اس بت خانہ کو کہ جو اُن کے لئے آمدنی کا ذریعہ اور عورت کا باعث تھا توڑ دیا، جب انہوں نے بتوں کو توڑا تو سارے ملک میں جوش پیدا ہو گیا.اور بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا.ملک کے دستور اور بادشاہ کے قوانین کے مطابق اس فعل کی سزا جلا دینا تھا اور اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے موقع تھا کہ بہتوں کو توڑانے کے بعد اس ملک سے باہر چلے جانے مگر وہ نہ گئے حالانکہ جانتے تھے کہ ملک کے قانون کے مطابق اس کی سزا حبل دنیا ہے.یہ ایک پرانی رسم تھی کہ جو بتوں کی بہتنگ کرتا اسے جلا دیا جاتا.کیونکہ بتوں کی ہتک کرنے کو ارتداد سمجھا جاتا اور ارتداد کی سزا پرانے زمانہ میں یا تو جلا نا محتی یا سنگسار کرتا.چنانچہ یورپ میں جب پروٹسٹنٹ عقیدہ کے عیسائی پیدا ہوئے تو انہیں مرتد قرار دے کر آگ میں جلا دیا جاتا تھا تے اس کے مقابلہ میں ایشیا میں سنگسار کرنے کا رواج تھا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو معلوم تھا کہ بتوں کو توڑنے کی وجہ سے کیا سزا ہو گی.اور وہ وہاں سے بھاگ سکتے تھے مگر خدا تعالئے چاہتا تھا کہ نشان دکھائے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا ، ٹھہرو اور وہ ٹھہرے رہے اور اس طرح اپنے نفس کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گئے.آخر ان لوگوں نے آگ جملاتی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈال دیا لیکن عین اس موقع پر بادل آیا جس نے

Page 122

۱۱۴ آگ کو ٹھنڈا کر دیا.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام صیحیح سلامت نکل آئے.چونکہ ثبت پرست بہت وہی ہوتے ہیں اس لئے جب ادھر انہوں نے آگ جلائی اُدھر بادل آگیا اور آگ بجھ گئی توانہوں نے سمجھا خدا کی مشیرت یہی ہوگی اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ دیات یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذاتی قربانی تھی.اس کے بدلہ میں اللہ تعالے نے انہیں فاتی کمال بخشے اور وہ مقام عطا کیا جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام قیامت تک مٹ نہیں سکتا.اس کے بعد دوسری قربانی اولاد کی قربانی تھی اس میں بھی حکمت تھی اور وہ یہ که حضرت ابراہیم علیہ سلام سے قبل تمدن قائم نہ ہوا تھا اور اہلی زندگی کمال کو پہنچی تھی انسان کا کمال ذاتی اور شخصی زندگی تاک تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اہلی زندگی کا دور قائم کیا گیا.اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ سلام کو ر و یا دکھائی گئی جو یہ تھی کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں.اللہ تعالے جانتا تھا کہ ابراہیم اس کا وفادار بندہ ہے تو کچھ اس نے دیکھا ہے، اسے پورا کر دے گا.مگر اس طرح وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک سبق دینا چاہتا تھا جب انہوں نے لوگوں کے دستور کے مطابق اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تمھیں قربان کرنا چاہتا ہوں اور بیٹا بھی اس کے لئے تیار ہو گیا تو خدا تعالے نے کہا: یہ نہیں دینہ لو اور اسے ذبح کرد وہ بیٹے کی قربانی کا قائم مقام ہو گا.اب یہ سیدھی بات ہے کہ بیٹا اور دنیہ برابر نہیں ہوسکتے.اگر کسی کو توفیق ہو تو وہ ہزار ڈائنہ بھی قربان کر دے گا مگر بیٹا قربان نہ کرے گا.پس دُنبہ بیٹے کا قائم مقام نہیں.نہ ایک نہ دس نہ ہزار نہ لاکھ نہ دس لاکھ.ممکن ہے کسی کو توفیق نہ ہو اور وہ ایک دنبہ بھی اپنے بیٹے کی بجائے نہ دے سکے.لیکن اگر توفیق ہو تو مال کا آخری تبہ تک دے دیگا مگر بیٹے کو ذبح نہ ہونے دے گا.اگر ایک شخص دس لاکھ دنبہ ذبح کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بہت آسان سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ اپنے بیٹے کو ذبح ہونے دے.پھر ایک دنبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے کس طرح ان کے بیٹے کا قائم مقام بن گیا.وہ مالدار انسان تھے ان کی ہزار ہا بھیڑ بکریاں اور گائیں تھیں اور ان کے ہال کا یہ حال تھا کہ ان کے ہاں اجنبی آتے ہیں ان کے آگے بغیر پوچھے بچھڑ ا ذبح کر کے رکھ دیتے ہیں اور وہ کھاتے ہی نہیں.ایسے انسان کے لئے ایک دنبہ کیا ہستی رکھتا ہے.وہ تو کتے کے پتے کے لئے بھی دنبہ ذبح کر سکتے تھے.پھر ان کے لئے اسمعیلی کی خاطر دنبہ ذبح کرنے میں کونسی مشکل تھی.اور اگر کوئی مشکل نہ تھی تو سمعیلی کے بدلے ایک دنبہ کسی طرح قبول ہوا.بات یہ ہے دنبہ آسٹیل کے بدلے ذبح نہیں ہوا.بلکہ اس میں اور حکمت تھی اور وہ حکمت یہی تھی جس سے اصلی اور تحقیقی زندگی کا دور شروع ہوا.عام طور پر انسان اولاد کو خوب کھلاتا پلاتا اور اس کی خاطر کرتا ہے.جتنی زیادہ ناجائز

Page 123

محبت کرنے والے ماں باپ ہوتے ہیں، اتنی ہی زیادہ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کے بچے خوب کھائیں پئیں.مگر یہ حیوانوں والی زندگی ہوتی ہے، اس طرح وہ گویا اولا د نہیں پالتے.بلکہ دنبہ پالتے ہیں.کیونکہ دنبہ کے لئے صرف کھانے پینے اور رہائش ہی کی فکر کرنی پڑتی ہے اور بہت لوگ اپنی اولاد کی بھی اتنی ہی فکر کرتے ہیں کہ اسے اچھا کھلائیں ، اچھا پلائیں اچھی زانش ہو ، اچھا کپڑا اپنائیں، یہ دنبہ کی نسبت زائد بات ہو گی.کیونکہ دنبہ کپڑے نہیں بن سکتا.لیکن دیکھا ہے بعض لوگ دنبوں کو بھی جھولیں پہناتے ہیں.اللہ تعالے نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو.کیا ہمیں یہ دکھایا کہ انیس کو ذبح کر دا تو اس کا یہ مطلب تھا کہ ہمعیل میں جو منہ کی خصلت ہے اسے ذبح کرو.یہ نہیں کہ اس کی انسانیت کی خصلت کو ذبح کرد و خدا تعالے نے بتایا.اسے ابراہیم ۹۰ سال کی عمر میں تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اس لئے تمہاری خواہش ہوگی کہ اسے اچھا کھلاؤ پلاؤ ، ہر طرح اسے آرام پہنچاؤ.لیکن اس طرح تو یہی ہو گا جیسے دنبہ پالا ، اس سے کیا فائدہ ہو گا دنیا کو اور اس سے کیا نقع ہو گا تمہارے حسن اندان کو.یہ ایک دنبہ ہو گا اور یں.اس لئے آج ہم تمھیں حکم دیتے ہیں کہ دنبہ کو ذبح کردو.گویا انسانیت باقی رہے او ر و بند بن ذبح ہو جائے.چنانچہ حضرت ابرا ہیم نے اس حکم کو عملی جامہ اس طرح پہنایا کہ دنیا سے الگ تھلگ ایک وادی غیر ذی زرع میں جہاں دانہ نہ بن سکے ، حضرت انجیل کو چھوڑ آئے.یه حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اہلی زندگی کی اصلاح کی بنیاد رکھی گئی اور بتایا گیا کہ بیٹوں کو دنیوں کی طرح نہ پا کو بلکہ ان کی روحانی تربیت کا خیال رکھو چنا نچہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اسٹیل کی قربانی کرو اور اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام تیار ہو گئے تواضع کر دیا اس لئے حضرت انھیں کی قربانی نہ ہوتی بلکہ دینیہ کی قربانی کی.اور جب خدا تعالے نے یہ فرمایا کہ اسمعیل کی نسل میں نبوت رہے گی تو یہ نتیجہ تھا دنبہ کی قربانی کا مطلب یہ کہ اگر اولاد کی اصلاح اور تربیت کا خیال رکھا جائے گا اور اسے دنبہ کی طرح نہ پا لو گے بلکہ دنبہ پن کو فریبا کر دو گے تو اس کے نتیجہ میں اس اولاد میں نبوت رہے گی.اس وجہ سے حضرت ابرارسیم علیہ السلام کی اولاد میں نبوت رہنے کا وعدہ تھا اور نہ یہ ظالمانہ و عدہ بن جاتا.اور اس طرح لحاظ ابن جاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولا دخواہ کیسی ہی ہو اس میں نبوت رہے گی.اور دوسروں کو اس سے محروم رکھا جائے گا.اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر اولاد کی تربیت کے وقت تم محبت کے احساسات کو قربان کر دو گے.اس کے اندر اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرو گے اس کے آرام و آسائش کو اس لئے قربان کر دو گے کہ خدا تعالے کی محبت اس کے دل میں

Page 124

پیدا کرو تو اس کے بدلے میں ہمیشہ اس میں نبوت رکھی جائے گی.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ نہیں قوم کی نسل پاک ہو اس پر خدا کے فضل نازل ہوتے ہیں.پس اگر تم بھی چاہتے ہو کہ الہ تعالے کے فیوض تم پر اور تمہاری اولاد پر ہمیشہ نازل ہوتے رہیں تو اپنی اولاد کو دنبہ کی طرح یہ پالو بلکہ اس کی روحانی اصلاح کی شکر کہ وہ خدا تعالے کی محبت اس کے دل میں پیدا کرو.خدا تعالے کا قرب حاصل کرنے کی تڑپ اس میں پیدا کر و.گرفتم اولاد کی اصلاح کی طرف اس طرح توجہ کرو گے اور حیوانوں کی طرح اس کی پرورش نہ کرو گے بلکہ انسانوں کی طرح کر دگئے تو انسانیت اس میں مذہب کے طور پر قائم ہو جائیگی.اور جب یہ قائم ہو جائے گی تو خدا تعالے کے فضل بھی نازل ہوں گے.چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچہ کی قربانی کی اور اسے دادی غیر ذی زرع میں رکھا اور اپنی طرف سے اس کی تربیت کی پوری پوری تدبیر کی تو خدا تعالے نے اس کے بدلہ میں آخری نبوت جس کے بعد اور کوئی مشرعی نبوت نہ تھی اس کی نسل میں رکھی یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں سے پیدا ہوئے جن کے بعد آپ کے خاندان سے باہر ہوت نہیں جا سکتی.پس جب خدا تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ تمہاری اولاد میں نبوت رہے گی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ تیری نسل میں سے وہ نبی آئیگا جو ساری دنیا کی طرف بھیجا جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے مصریت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں جو نبوت تھی وہ چند خاندانوں میں تھی اور باقی سب اس سے محروم تھے.کون کہ سکتا تھا کہ سب کو خدا تعالے نے نبوت کے انعام سے اس لیئے محروم رکھا کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں نبوت رہے.بلکہ اس کا یہی مطلب تھا کہ آخری شریعی نبی جو ساری دنیا کی طرف آئے گا وہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہو گا.اور اس طرح سب کو نبوت کا فیض پہنچ جائے گا.پس یہ جیسے قربانی کی عید کہا جاتا ہے یہ دراصل اولاد کی قربانی کی عید ہے.جب بجرے اور دینے کی قربانی کی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہماری اولا وجوان ہو کر ڈ نے نہ بنے گی بلکہ خدا تعالے کی محبت اور الفت میں اپنے دونبدین کو ذبح کر چکی ہوگی.اس کا مطلب نہیں کہ اولاد کو کھانا اچھا نہ دیں.کپڑا اچھا نہ دیں بلکہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کھانے پینے کے لئے نہیں بنائیں گے.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ آمَا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَةِ ت له که خدا تعالے کی طرف سے جو نعمت ملے اس کا اظہار کرو.پس اظهار نعمت منع نہیں.یہ منع ہے کہ اپنی زندگی اور اولاد کی زندگی ایسی نہ ہو کہ اس میں انسانیت نہ رہے اور حیوانیت ہی تیوانیت

Page 125

رہ جائے.مد نظر یہ بات ہونی چاہیئے کہ جہاں اخلاق اور دینی تربیت کا سوال ہوگا، وہاں اولاد کے آرام و آسائش کا خیال نہیں کریں گے.اور خدا تعالے کی شان اور عظمت ان کے دنوں میں بٹھانے کی پوری پوری کوشش کریں گے.جو لوگ ایسا کریں ان کی اولاد نہیں جراتی بد محبت سے ہی بگڑے تو بگڑے ورنہ نہیں بگڑ سکتی.اور اگر سارے مسلمان اپنی اولاد کی اصلاح کریں تو پھر بری صحبت ہی نہ رہے گی.یکی نہایت اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس اہلی اصلاح کی طرف توجہ کریں جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ذریعہ قائم ہوئی.اس کے بعد محمدی دور شروع ہوتا ہے.کیا یہ حبیب بات نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور شروع ہوا اور پھر محمدیت کار در آیا.مگر ابھی تک لوگ آدمیت کا دور ہی طے کر رہے ہیں.حضرت آدم کے وقت آدمیت کا دور شروع ہوا تھا یعنی ، انسان کی ذاتی اصلاح کا دورہ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور آیا جو اہلی اصلاح کا دور تھا.یعنی اپنے اہل کی اصلاح کی فکر کرنا.پھر محمدی دور آیا جو ساری دنیا کی اصلاح کا دور ہے.مگر افسوس ہے.ابھی تک اہلی دُور بھی طے نہیں ہوا.بہت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کی دینی اصلاح کو مدنظر نہیں رکھتے.ایسے بچوں کی پھر ضرورت ہی کیا ہے ؟ ان کی بجائے دینے پال چھوڑو.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی اولادوں میں اخلاق حسنہ اور قومی روح پیدا کریں اور انہیں دین کے خادم بنائیں ، اس وقت سے زیادہ کبھی اسلام کو خادموں کی ضرورت نہیں پڑی.آج بہت نازک حالت ہے ، تمام دنیا اسلام کے خلاف کھڑی ہے.اگر ہماری اولاد کے دلوں میں اسلام کی محبت او رالفت نہ ہوگی وہ اسلام کی شیدائی نہ ہو گی تو ہماری ساری کوششیں ضائع ہو جائیں گی یہ اور دشمن اپنے انتظام کی قوت اور رو سے مسلمانوں کو اس طرح اُڑا دے گا جس طرح آندھی خس و خاشاک کو اُڑا لے جاتی ہے ایسی حالت میں اسلام کی حفاظت کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی اولاد میں اسلام کی محبت پیدا کریں.پہلے زمانہ میں انسانوں کی جو قربانی کی جاتی تھی ، وہ غلط نہی کا نتیجہ تھی.اس وقت اس سے مراد یہ تھی کہ انسانی جذبات کی قربانی کی جائے ، ان کو مار دیا جائے.اس طرح انسانوں کی تربیت کی جاتی تھی.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت خدا تعالے نے اس طریق کو بدل دیا اور پھر یہ رکھا کہ بہیمیت بھی کچھ قائد یکھی جائے اور باوجود اس کے اطلاق کی نگرانی کی جائے.یہ اعلیٰ درجہ کی ترقی کا دور تھا.مگر افسوس ہے ہماری جماعت کے لوگ اولاد کی

Page 126

تربیت کی طرف ابھی تک پوری طرح متوجہ نہیں ہوئے حالانکہ دشمن کا مقابلہ کرنے اور اس کو شکست دینے کا یہی ایک مستقل ذریعہ ہے، اگر اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو عارضی کوششوں سے ہم دشمن کو تو یہ نہ کر سکیں گے.اس وقت میں قادیان کے دوستوں کو اور باہر کے دوستوں کو یہی توجہ دہ تا ہوں کہ وہ اپنی اولاد میں ایسی روح پیدا کر ہیں کہ اسلام کی محبت اور رسول کریم صلے اللہ علیه و آلہ وسلم کی محبت اس کے ذرے ذرے سے ظاہر ہو.وہ اسلام کے لئے اس قدر مضبوط ہو کہ دشمن کے دائرہ اُس پر اس طرح پڑیں جس طرح پہاڑ سے سر ٹکراتی ہے.میں جوش سے اتنا بول گیا ہوں، ورنہ آج صبح سے یہ حالت تھی کہ اسہال کی وجہ سے اُٹھ بھی نہیں سکتا تھا.میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے ہماری جماعت کو توفیق دے تاکہ وہ اللہ تعالے کی منشاء کے ماتحت اولاد کی قربانی کر کے ان فیومن کو حاصل کریں جو اب سیمی قربانی کے نتیجہ میں مل سکتے ہیں اور آئندہ کے تمام فیوض مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو جائیں ہماری نسلیں عام اخلاق بھی ایسے اعلی دکھائیں کہ لوگ محسوس کریں سوائے اسلام کے کہیں نجات نہیں ہے ! والفضل ۲۱ جون ۱۹۲۶ صدا تاهی ۲۱ - البقره ۲ : ۱۲۶ - روحانی خزائن ( تریاق القلوب ہے.پیدائش باب ۱۶ آیت 14 کی رو سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۸۶ برس کی تھی.اور باب ۱۷ آیت ۸ا کے مطابق حضرت اسحق علیہ اسلام کی ولادت کے وقت حضرت سارہ کی عمر ۶ ۸ برس تھی.ه - الأنبياء ۱۹:۲۱ ه - الأنبياء ۲۱ : ۶۹ " - شه ابوان بسیار حضرت ابراہیم علیہ السلام مصنفہ علامہ عباس محمود العقاد المصرى - ترجمہ مولانا را خیله حمانی شد ۳ -2% جیوش انسائیکلو میڈیا ۵۵۴ F.H.MARTENS THE STORY OF RELIGION & PHILOSOPHIC THOUGHT,MIZ P.293.20-44 شه انسائیکلو پیڈیا پیجیس اینڈ ایجکس زیر لفظ کو لیگز و غیره - شه الانبیاء ۲۱ : ۶۹-۷۰ 2 - قدسى العرفان تفسير سورة النجم من القرآن منت پر درج حضرت ابن عباس کی ایک ڈایت سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں لکھا ہے کہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور درخت سرسبز ہو گئے جو جیل گئے تھے ظاہر ہے ماحول کی سرسبزی و شادابی بارش ہی سے ہو سکتی ہے.شاه - ہود ۲۰:۱۱ - پیدائش باب ۱۳ آیت ۲ - باب ۱۸ آیت ۲ تا ۷ - الضحى ۱۲:۵۳

Page 127

119 י! و موده ۳۰ رستن ماده بهنام باغ مقداری موعود الاسلام قادیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تھی اور آپ کا یہ طریق تھا کہ اس عید کے موقعہ پر آپ نماز جلدی پڑھایا کرتے تھے اور خطبہ بھی مختصر فرماتے تھے بیلہ نا کہ جن لوگوں نے قربانی کر نی ہو وہ نماز سے فارغ ہو کر یا اگر خطبہ سننا چاہیں تو خطبہ شنکر قربانی کر سکیں.ہمارے ملک میں چونکہ اسلامی عادات اور طریق کی بہت کمی ہے اس لئے خاصہ طور پر اس عید اور اس سے پہلی عید کی نمازوں کے وقت میں زیادہ فرق نہیں کیا جاتا.میرا منشاء ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو جاری کیا جائے لیکن اگر میدیم تغیر کیا جائے تو خطرہ ہے کہ بہت سے لوگ نماز سے محروم رہ جائیں اس لئے آہستہ آہستہ اس سنت کو جاری کیا جائے اور لوگوں کو عادت ڈالی جاے کہ اس عید کی تیاری صبح ہی سے شروع کر دیا کریں.اور وقت پر نماز کے لئے پہنچ جایا کریں حضر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس لئے عید کی نمازوں کے متعلق انتظار کیا جاتا تھا کہ یہاں جماعت کم تھی اور باہر سے بہت سے دوست آیا کرتے تھے.ان کے آنے پر عید کی نماز ہوتی تھی.لیکن اب حالات متغیر ہو رہے ہیں باہر سے آنے والے دوستوں کی تعدا د نسبتاً کم ہوتی جا رہی ہے.اور مقامی دوستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.ارد گرد کے گاؤں کے لوگوں کو شامل کر کے جو عید کی نفسانہ کے لئے قادیان میں آتے ہیں میرے نزدیک یہاں کی تعداد ڈیڑھ دو ہزار کے قریب ہو جاتی ہے.اور باہر سے آنے والے درست ۱۰-۲۰ سے زیادہ نہیں ہوتے.اس طرح یہاں کے اور باہر سے آنیوالے دوستوں میں اس قدر فرق ہو گیا ہے کہ باہر سے آنے والوں کی خاطر ہم اس حکم سے ہمیشہ کے لئے دستبردار نہیں ہو سکتے جس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد موجود ہے.باہر کے تو دوست نماز میں شامل ہو سکیں اور خدا تعالے نے اس مقام کو برکت دی ہے اس لئے جس قدر بھی آسکیں آئیں.ان کو آئندہ یا تو شام کو ہی با زیادہ سے زیادہ صبح سویرے یہاں پہنچ جانا چاہیئے.بہر حال اس عید کی نماز کو سنت کے مطابق ادا کرنے کی نہیں آہستہ آہستہ کوشش کرنی چاہیئے.اس کے بعد میں اس عید کے ہی ایک حکم کے متعلق مختصرا ایک بات کہنی چاہتا ہوں.یہ عید قربانی کی عید ہے.اس موقعہ پر قربانیاں کی جاتی ہیں اور یہ عید یادگار ہے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے ایک فعل کی.جب انہوں نے خدا کے حکم کے ماتحت اپنے بچے کو قربان کر دیا.میں نے جیسا کہ

Page 128

پہلے کئی دفعہ بیان کیا ہے.میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کا یہ فعل کہ انہوں نے اپنے بچے کو چھری لے کر ذبح کرنا چاہا، یہ عید در حقیقت اس کی یاد گار نہیں ہے.اگر یہ اس کی یادگار ہوتی تو یہ واقعہ چونکہ شام کا ہے اس کی یادگار کے طور پر حج شام میں ہوتا کسی فعل کی یادگارت کم رکھنے کا بہترین ذریعہ نہیں ہوتا ہے کہ اس جگہ جہاں واقعہ ہوا ہو یا دگار بناتی جائے باقی علاقوں میں بھی بے شک ہو مگر اصل اور بڑا مقام رہی ہو جہاں واقعہ ہوا ہے.پس اگر یہ عید اس عملی طور پر چھری پھیرنے کے لئے تیار ہو جانے کے نتیجہ میں ہوتی جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بچہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن پر شام کے علاقہ میں رکھی تھی تو اس عید کا اصل مقام اور حج کا مقام شام ہوتا نہ کہ مجاز.لوگ اکتاب عالم سے وہاں جمع ہوتے اور اس جگہ جہاں یہ واقعہ ہوا تھا اکٹھے ہو کر خدا کی یاد کرتے اور کہتے ابراہیم عليه الصلوة والسلام نے کسی قدر عظیم الشان قربانی کی.لیکن خدا تعالے نے جج کے لئے مکہ تھے قرار دیا نہ ملی ہے کو قرار دیا.مزار اور عرفات کو قرار دیا لیکن شام کے کسی مقام کو قرار نہیں دیا.پس میرے نزدیک اس کا تعلق اس قربانی سے نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن پر عملی طور پر چھری پھیرنے پر آمادگی سے کی.پھر چھری پھیر نے کے لئے بیٹھ جانا.اور چھری پھیر دنیا ان دونوں باتوں میں بھی بڑا فرق ہے جس وقت تک انسان عملی قربانی کر نہیں دیتا اس کے دل کا حال اور ہوتا ہے.ممکن ہے آج بھی کوئی انسان اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کے لئے آمادہ ہو.اور چھری پھیرنے کے لئے اسے لٹا بھی دے.پھر چھری اس کی گردن تک بھی لے جائے.مگر ممکن ہے اس کا ہاتھ کانپ جائے اور وہ رو کر ہٹ جائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری لی ، حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا مگر الہام ہوا کہ تیرا خواب پورا ہو گیا، جانے دے.چونکہ آپ نے پچھری پھیری نہیں اس لئے اس مقام کو عملی قربانی کے مقام سے نسبت نہیں ہو سکتی.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے.اس عید اور رڈیا کا تعلق اس واقعہ سے نہیں بلکہ اس سے ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ایسی دادی غیر ذی زرع میں پھینک دیا ہے جہاں نہ پانی ہے نہ کھانا اور چھری پھیرنے سے مراد ایسی وادی غیر ذی زرع میں ہی پھینکنا ہے.ان کی رڈیا کے یہی معنی تھے.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالے کی محبت کے جوش میں واقعی چھری پھیرنے پر آمادہ ہو گئے.اگر خدا تعالے کے ایشاد کا یہ مطلب ہوتا کہ چھری پھیرو اور پھر روک دیتا تو اس کے تو یہ معنے ہوتے کہ وہ خود ہی اپنے حکم کی نافرمانی سکھاتا ہے وہ ایک کام کا حکم

Page 129

دیتا ہے مگر اس کا منشاء وہ نہیں ہوتا.اور خدا تعالے جیسی تحکیم ہستی کے تعلق یہ خیال کرنا کہ وہ ایک ایسا حکم دے جس کے متعلق وہ خود جانتا ہو کہ اسے پورا نہیں کراؤں گا منشاء احکام خداوندی کے خلاف ہے.در اصل بات یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہشت کے ابتدائی ایام میں جب نین دنیا سے مست چکا تھا اس وقت افسانی قوربانی ہوتی تھی.اور انبیاء کا یہ طریق ہے کہ جب تک کسی امر کے متعلق خدا تعالے کی طرف سے حکم نہ آئے وہ قومی دستور کو جاری رکھتے ہیں اور چونکہ اس دفت کثرت انسانی قربانی ہوتی تھی اس لئے آپ نے اپنی.ڈیا کا یہی مفہوم سمجھا کہ اسمعیل کو ذبح کر کے قربان کرنا چاہیئے.مگر منشاء الہی یہ نہ تھا بلکہ کچھ اور تھا.اور وہ یہ کہ آپ ان کو ایک دن ایک ایسی جگہ چھوڑ آئیں گے جہاں چھو ڑنا موت کے منہ میں دینے کے برابرہ ہو گا.چنانچہ حضرت ابراہیم کا یہ خواب اس وقت پو ر ا جب وہ حضرت اسمعیل اور ان کی والدہ کہ اس جگہ چھوڑ آئے جہاں مکہ آباد ہوا.اور جہاں آج لوگ اس واقعہ کی یاد تازہ کر رہے ہیں.یہ حضرت ابراہیم کے خواب کا اصل منشاء تھا اور یہ حضرت انجیل علیہ السلام کو ذبح کرنا تھا کہ انہیں ایسی جگہ چھوڑ آئے جہاں ایک مشکیزہ پانی اور تھوڑی سی کھجوروں کے سوا کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا.کئی کئی میل تک کوئی آبادی نہ تھی.ایسی حالت میں چھوڑ آنا سو فیصدی موت کے منہ میں پھینک آنا تھا.کون کہ سکتا تھا کہ تھوڑا سا کھانا اور پانی ختم ہونے پر کچھ اور میسر آسکے گا.پس حضرت ابراهیم علیہ السلام نے انہیں ذبح کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا.یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا نے انہیں پھر زندہ کر دیا.واقعہ اس طرح ہوا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فیصلہ کر لیا کہ حضرت مغیل اور ان کی والدہ کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئیں تو وہ ایک مشکیزہ پانی کا اور کچھ کھجوریں ساتھ لے کر حضرت اسمعیل اور ان کی والدہ کو خدا کے حکم کے ماتحت وہاں چھوڑ گئے لیکن محبت پڑی اور خاوند بیوی کی محبت تو نہیں چھوڑی جا سکتی تھی.جب آپ واپس چلے تو مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے جاتے تھے.کیونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ اس پانی اور ان کھجوروں کے ختم ہونے کے بعد ان کی بیوی اور ان کے بچہ کے لئے کھانے پینے کا کوئی سامان نہ ہو گا.حضرت ہاجرہ نے جب یہ دیکھا.تو خیال کیا ضرور کوئی بات ہے انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہمیں کہاں چھورے جاتے ہیں.چونکہ یہ ایک دردناک موقعہ تھا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے منہ سے بات نہ نکل سکی اور آپ نے تیز تیز چلنا شروع کیا.آخر حضرت ہاجرہ نے دریافت کیا آپ ہمیں نہاں کس کے حکم سے چھوڑے جاتے ہیں ، تب انہوں نے کہا.خدا تعالے کے حکم سے.اس پر حضرت ہاجرہ نے کہا.اگر خدا کے حکم سے چھوڑے جاتے ہیں تو وہ تمہیں منا ئع نہیں کرے گا اور خدا تعالے کی راہ

Page 130

۱۲۲ میں اپنی اور اپنے بچہ کی قربانی کو قبول کیا.اللہ تعالے ان کی آزمائش کرنا چاہتا تھا.پانی اور کھجوریں ختم ہو گئیں.نزدیک نہ کوئی بستی تھی اور نہ ہی ادھر سے کسی قافلے کے گزرنے کا امریان تھا.حضرت اسمعیل بچے تھے ، کوئی آٹھ پیس کی عمر ہوگی ، پیاس کے مارے تڑپنے لگے.حضرت ہاجرہ سے اپنے لخت جگر کی یہ حالت نہ دیکھی گئی اور بیقرار ہو کر صفا و مروہ پہاڑیوں پر دوڑنے لگیں کبھی ایک پہ چڑھ جاتیں اور کبھی دوسری پہ چڑھ کر دیکھنے لگتیں کہ شائد کوئی قافلہ آرہا ہو لیکن کوئی نظر نہ آتا.ایک پہاڑی سے اُتر کہ دوسری پہ جانے تک چونکہ راستہ میں نیچی جگہ تھی.اور وہاں حضرت ہمیں نظر نہ آسکتے تھے.اس لئے وہ فاصلہ دوڑ کر طے کر لیتیں.تاکہ اونچی جگہ پر جا کر بچہ کو بھی دیکھ سکیں.کئی بار متواتر انہوں نے اسی طرح کیا مگر کوئی صورت پانی ملنے کی نظر نہ آئی.آخر جب بہت بے قرار ہو گئیں تو آواز آئی ہاجرہ ! جا اسمعیل کے پاس جا.جب وہ حضرت اسمعیل کے پاس آئیں تو دیکھا کہ چشمہ پھوٹا ہوا ہے.اس سے انہوں نے پانی پلایا.پانی ملنے کے ساتھ ہی اللہ تعالے کی طرف سے ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ عرب کا ایک قافله - استہ بھول کر وہاں آ گیا.اس نے پانی پا کر آرام پایا تو حضرت ہاجرہ کو کچھ تحائف دینے اور پھر اجازت لے کر وہاں ڈیرے ڈال دیئے اور معاہدہ کیا کہ آپ کی رضا یا ہو کر یہاں ہینگے تے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیل علیہ السلامہ کو گویا وہاں کا بادشاہ بنا دیا.یہ ہے اصلی واقعہ اور یہ تھا قربانی اور عملی طور پر چھری پھیرنے کا مفہوم اور اسی واقعہ کی یاد گا ر ہیں آج کی عید ہے اور لوگ وہاں جاتے ہیں.باقی رہا یہ سوال کہ خدا تعالے نے مزدلفہ مٹی اور عرفات کو کیوں اس شرف کے لئے چنا.میرا خیال ہے کہ عرفات ساحل سمندر کی طرف ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس راستہ سے ان کو چھوڑنے کے لئے شام سے آئے.اور عرفات وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالے کی تیستی ظاہر ہوتی.اور مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں آپ سے وعدہ کیا گیا کہ اس قربانی کے بدلہ میں بہت بلند درجات خطا ہوں گے.مزدلفہ قرب پر دلالت کرتا ہے.اور عرفات عرفان پر منی وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہ گھبرائی ہوئی پہنچیں.اس جگہ شیطان کو روڑے مارے جاتے ہیں چونکہ آپ گھبرائی ہوئی تھیں.مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ خدا کے حکم سے تم کو یہاں چھوڑے جاتا ہوں اور انہوں نے کہا.اللہ تعالے ہمیں کبھی صنائع نہیں کرے گا تو گویا شیطان ہمیشہ کے لئے مار دیا گیا.یہ ساری جگہیں قربانی سے تعلق رکھتی ہیں پپس آج کے دن در حقیقت ہم اس بات کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ حضرت ابو جیم علیہ السلام نے خدا کے لئے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا.لیکن خدا نے اس کو زندہ کیا اور ہمیشہ کیلئے اسے زندہ کر دیا اور دنیا میں اس کا نام روشن کر دیا.اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا ہمیں

Page 131

١٢٣ دہی قومیں ترقی کر سکتی ہیں جو عملاً قربانی کرنے کی عادی ہوں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کیا.خدا تعالٰے نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ہمیشہ کے لئے تیری ذریت کو قائم رکھوں گا.اور جس طرح آسمان کے ستارے گئے نہیں جا سکتے، اسی شرح تیری اولاد بھی گئی نہیں جائے گی.پھر جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اس وادی غیر ذی نہ رٹ میں پھینک دیا، خدا تعالے نے اس کے بدلہ میں ان کی اولا دیں سے ایک شخص کو جنت کا آخری وارث بنایا.وادی غیر ذی زرت اس کو کہتے ہیں جہاں سبزی نہ ہو.اور جنت اس مقامہ کا نام ہے جہاں سبزی ہی سبزی ہولی گویا مکہ اور محنت و متضاد مقام ہیں.مکہ کی زمین ایسی شور ہے کہ بعض لوگوں نے وہاں باغ لگانے کی کوششیں کی ہیں اور اس کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں اور دوسرے ملکوں سے میٹی لا کر ڈالی ہے.مگہ کامیابی نہیں ہوئی.یہ تو مکہ کی حالت ہے اور جنت وہ جگہ ہے جہاں سایہ کی اتنی کثرت جو کہ کبھی دھوپ نہ ہو.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو ایسی جگہ ڈال دیا جہاں سایہ تک نہ تھا تو خدا تعالے نے کہا کہ میں تیری اولاد کو ایسی جگہ کا وارث کرونگا جہاں کبھی دھوپ نہ ہو گی.اور اب کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک حضرت امیل علیہ السلام کی اولاد کی غلامی نہ کرے اور ان سے جنت کی چابی نہ مانگے حضرت ہٹیل علیہ السلام کو وادی غیر ذی زرع میں رہنے کے نتیجہ میں اس جگہ کی وراثت عطا ہوئی جہاں کبھی دھوپ ہوتی ہے نہ خشکی.اور یہ قربانی ہے جس کی یاد نہیں دلائی گئی ہے اور جن کی یاد تازہ رکھنے کے لئے ہم ترے قربان کرتے ہیں.یہ قربانیاں عظیم الشان نشان میں جن کے اندر بڑی بڑی حقیقتیں مخفی ہیں.جب تک ان کو پیش نظر نہ کھا جائے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.دیکھو جس شخص سے محبت ہو اس سے مصافحہ کیا جاتا ہے جو محبت کے اظہار کا نشان ہے اور اس کے معنی ہیں کہ دلوں میں باہمی کوئی کدورت نہیں.یہ سچی محبت کا اقرابہ ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص ہاتھ تو مل کے مگر دل میں کدورت رکھے تو اس سے مصافحہ کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.جو شخص محبت کے جذبات تو اپنے اندر پیدا نہ کرے لیکن مصافحہ کرے وہ بہودہ حرکت کرتا ہے.پس جس طرح محبت اور شفو کی علامت مصافحہ ہے.اسی طرح خدا تعالے سے محبت اور تحقیقی قربانی کی ظاہری نشانی یہ بکرے کی قربانی ہے.یاد رکھنا چاہیے.کہ قربانی بھی اسی شخص کی مفت ہو سکتی ہے جو خدا کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اپنے جان ومال اور اولاد کی قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہو.اور جو خدا تعالے کے لئے اس قربانی پر آمادہ نہیں ہوتا اس کے لئے کوئی عید نہیں وہ محض ظاہری شکل اختیار کئے ہو گئے.

Page 132

۱۲۴ حضرت اسمعیل علیہ السلام نے جو قربانی کی یہ عید اس قربانی کی یاد گار ہے.حضرت ابراہیم علیہ سلام کی ایک بیوی نے کہا کہ اسمعیل کے یہاں رہنے سے فساد کا خطرہ ہے کیا اور حضرت اسمعیل نے اس کو مٹانے کے لئے قربانی کو قبول کیا تو اللہ تعالے نے ہمیشہ کے لئے اس کو امن قائم کرنے والا بنایا.اور اس کی اولاد کے ذریعہ دنیا میں مذہب اسلام نازل کر کے اس کو ہمیشہ کے لئے امن قائم کرنے والا قرار دیا.اسلام کے معنے نہیں سلامتی.اور اسلام سے تعلق رکھنے کا نام ایمان ہے بھیں کے معنے امن کے ہیں لہے چونکہ حضرت سمعیل علیہ السلامہ نے ایک گھر کا فسا دور کرنے کے لئے قربانی کی اللہ تعالے نے انہیں ساری دنیا کا امن قائم کر نیوالا بنا دیا.حقیقت ہے اس قربانی کی اور جب تک اس کو نہیں سمجھا جاتا اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.تعجب ہے کہ بعض لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اسراف قرار دیتے ہیں.اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ روپیہ خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے خرچ کیا جائے.ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ خواہ یہ سوال نیک نیتی سے ہی کیوں نہ آ جائے پھر بھی یہ وسوسہ شیطانی ہے اور شیطان بعض اوقات دین کے معاملہ میں اچھی صورت سے بھی وسوسے ڈالتا ہے.ایک جگہ ایک بزرگ کی دعوت تھی جب کھانا پینا گیا تو انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور کھانے سے انکار کر دیا.جب وجہ دریافت کی گئی تو کہا کہ چونکہ اس کھانے کی طرف بہت زیادہ رغبت ہو رہی ہے اس لئے میں نے اسے کھانا پسند نہیں کیا.اب گو بھوت قبول کرنا سنت ہے مگر انہوں نے کہا کہ نفس کی اس قدر رغبت شک ڈالتی ہے کہ ضرور اس کھانے میں کوئی نقص ہے.میزبان نے کیا.اس میں کوئی نقص تو نہیں، یہ حلال مال ہے.مگر انہوں نے کہا.ضرورہ کوئی نقص ہوگا، تحقیق کی جائے.غرض قصائی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا اونٹ مر گیا تھا میں نے سمجھا بہت نقصان ہوگا.اس لئے اسے کاٹ کر بیچ ڈالا ہے.تو شیطان بعض اوقات کسی کام کی زیادہ رغبت دلا کر بھی وسوسہ پیدا کرتا ہے.بظا ہر تو دین کے رستہ میں مال خرچ کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زبانیں میں دین زیادہ غریب تھا ، صحابہ کئی کئی نہ تخت تک بھوک کی وجہ سے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھتے ہیں مگر باوجود اس غربت و افلاس کے وہ قربانی کرتے تھے تو اب اسلام کی خدمت کے خیال سے قربانی چھوڑنا کیونکہ جائز ہو سکتا ہے.اسلام اور روحانیت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ کئی چیزوں کا نام ہے.جس طرح آنکھ ، کان ، ناک غری که تمام اعضاء مل کر ایک خوبصورت اور مکمل انسان بنتا ہے اسی طرح روحانیت کے لئے کئی ایک چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.

Page 133

۱۲۵ اب اگر کوئی شخص کہے کہ کسی کے تھوڑے تھوڑے کان کاٹ ڈالے جائیں تو کیا ہرج ہے.اس کی سماعت میں تو بے شک بہت تھوڑا فرق آئے گا.مگر اس کی زینت میں فرق ضرور آجائے گا.پس کسی چیز کو کامل بنانے کے لئے بعض باتیں اس کی زینت کے لئے ہوتی ہیں اور یہ قربانی ایسی حکمتوں کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی بھی نہیں یاد دلاتی ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ آلہ وسلم نے اس عید کو کھانے پینے کا دن کیا ہے کہ یہ بظا ہر امران ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں.بلکہ قوموں میں زندگی کا احساس اور امنگ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تحفہ تحائف تقسیم کرنے کے لئے دن مقرر کئے جائیں اور عید کے دن بھی گوشت بانٹا جاتا ہے.نکہ میں آج کے دن اس قدر بکرے ذبح کئے جاتے ہیں کہ گوشت کھانے والا کوئی نہیں ملتا مگر پھر بھی قربانیاں کی جاتی ہیں.گوشت سکھایا بھی جاسکتا ہے.سکھانا بھی جائز رکھا گیا ہے اس لئے سکھا کر اپنے لئے رکھنا بھی جائز ہے اور غربار میں تقسیم بھی کیا جاتا ہے ہے لیکن اگر مائع بھی ہو جائے تو بھی قربانی ضروری ہے روحانی امور سے تعلق رکھنے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں بعض صحابی دن رات مسجد میں بیٹھے رہتے تھے کہ شاید حضور باہر تشریف لے آئیں اور وہ کسی بات کے سننے سے محروم رہ جائیں یہ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ وہ وقت ضائع کرتے تھے لیکن نہیں وہ بہت بڑی خدمت کر رہے تھے.حضرت ابو ہریرہا کے بھائی ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی حضور ابو ہریرہ مقام دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا.مجھے تمام دن محنت کرنی پڑتی ہے آپ اسے سمجھائیں کہ کام کیا کرے.آپؐ نے فرمایا کہ تمھیں کیا معلوم خدا اسی کے طفیل تھیں بھی رزق دے رہا ہے ہے تو اصل میں وہ لوگ وقت ضائع نہیں کرتے تھے بلکہ بہت بڑے ثواب کا کام کرتے تھے.پھر رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مسجد میں آکر ہم کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے تو وہ بھی گویا عبادت میں ہی ہوتا ہے یہ اصل میں خدا تعالی دیکھتا ہے کہ انسان میری راہ میں کس قدر قربانی کے لئے آمادہ ہے.اگر معمولی قربانی کے لئے تیار ہے تو بڑی کے لئے بھی تیار ہو سکے گا.اگر تمام بکرے ذبح کر کے گوشت پھینک دیا جائے تو بھی ثواب ہے.مگر یہ گوشت تو غرباء میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اگر بیچ رہے تو پرندوں کو ڈال دیا جائے جن کا حق قرآن کریم نے بھی رکھا ہے کے یعنی جانوروں کا.پس اگر گوشت پھینک دیا جائے اور کہتے اور چیلیں اُسے کھا جائیں تو بھی یہ ثواب کا موجب ہے.اس قدر فوائد قربانی کے اندر ہیں کہ خواہ اسلام پر کس قدر بھی مصیبت کے دن آئیں توبھی -

Page 134

قربانی جائز اور ضروری ہوگی ہاں اگر انسان پر خود کوئی مصیبت ہو تو وہ نہ کرے لیکن اگر توفیق ہو تو ضروری ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک شخص سو دن گوشت کھاتا ہے یا کھانے کی کوشش کرتا ہے مگر اسے اسلام کی حالت اور غربت اور خدمت دین اور اس روپیہ کو خدا کی راہ میں خرچ کرینے کا خیال پیدا نہیں ہوتا لیکن ایک دن خدا کے لئے اسے کھانا پڑتا ہے تو اسے دین کے راستہ ہیں خرچ کرنے کا خیال آتا ہے.جب اپنی خواہش سے کھاتا تھا اس وقت تو اسلام کی مصیبت بھولے ہوئے تھا لیکن خدا کے حکم سے کھانا پڑا تو خدمت اسلام یاد آگئی.جب اپنا نفس کہتا ہے کہ گوشت کھاؤ تو یہ ضرور کھاتا ہے لیکن جب خدا نتا ہے حکم دیتا ہے تو کتنا ہے یہ اسراف ہے اسے کسی طرح نیک خیال کیا جاسکتا ہے.یقینا یہ وسوسہ شیطانی ہے.پس جس کو توفیق ہو وہ قربانی ضرور کرے اور لوگ عید کے دن کھا نہیں نہیں تا کہ ان کے دلوں سے مایوسیاں دنہ ہوں اور امنگیں پیدا ہوں اور خیال ہو کہ خدا تعالے نے ان کے کھانے پینے کے دن بھی مقرر کئے ہیں.خدا تعالے ہمیں توفیق دے کہ ہم اس عید کی حقیقت کو سمجھیں اور ہمیں ایسی بستر بانیاں کرنے کی توفیق دے جس کے نتیجہ میں یہ غیر حضرت ابدا عليه الصلوۃ والسلام کی قربانی کی یادگار ہے نا والفضل و ارجون مسئله ما : شه به سنن نسائی کتاب سلوة العيدين باب القصد في الخطبة.ے.یہ جزیرہ نمائے عرب کا قدیمی شہر ہے جو بیت اللہ شریف کی وجہ مرجع خلائق ہے.۷۸ درجے طول عید اور ۲۳ در جے عرض بلد پر واقع یہی وہ مقدس ہستی ہے جہاں فخر موجود است حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے کہتے ہیں کثرت ازدحام کی وجہ سے مکہ کا نام بکہ بھی ہے معجم البلدان ہیں) اسے ام القرنی بھی کہا گیا ہے (الانعام 4: ۹۳) اس کا ایک نام البلد الامین والنتین ۹۵ : ۴ بھی رکھا گیا ہے.اس میں خانہ کعبہ وہ پہلا گھر ہے جو عبارت حج کے لئے تعمیر کیا گیا ہے وآل عمران ۳: ۹۰) اسے ۲ - بیت العقیق را مج ۳۰:۲۲) ۳.بیت الحرام ومائده ۵ : ۱۹۸ اور ۴.بیت المعمور والطور ۵:۵۲) بھی کیا گیا ہے.ے.مکہ سے عرفات کی جانب قریباً سو میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایک سہتی ہے.جہاں حاجی قربانیاں کرتے اور جمرات پر کنکریاں پھینکتے ہیں.ہے.ایک کشادہ میدان جو منی سے شرقی جانب تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے اس میں بطن مستر ایک خاص مقام ہے جہاں اصحاب فیل بلاک ہوئے تھے.اور ذوالحجہ غروب آفتاب کے بعد حاجی یہاں مشعر الحرام میں قیام کرتے اور صبح کی نماز کے بعد منی پہلے جاتے ہیں.

Page 135

شه - ایک وسیع میدان ہے جہاں حاجی اور ذوالحجہ زوال آفتاب سے پہلے پہلے پہنچ جاتے ہیں.اسے یوم فرقه یا عرفات کے میدان میں وقوف کرنا کہتے ہیں اور یہ ارکان حج میں سے اہم رکن ہے.یہاں حاجی ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرتے، امام کا خطبہ سنتے اور گریہ و زاری سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں.له - صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزنون النسلان في المشي شه - معجم البلدان جلد ۸ ص شه - المنجد زير لفظ عرف 109 ہے.معجم البلدان جلده منها رستمی منی لان الكبش مُني بهای ذبح ) ذُبِحَ ے.صحیح بخاری کتاب المناسك باب التلبية والتكبير غداة التحرجين يُرفى جمرة العقبة مسیح بیاری کتاب الانبياء باب يزنون الغسلان في المشي.له المنجد زير لفظ حديقة پیدائش باب ۲۱ آیت ۹-۱۰ ماه - المنجد زیر لفظ امن.ے اس سے ملتا جلتا واقعہ حضرت شیخ عبداللہ حفیف کے بارہ میں خیر المجالس مرتبہ حمید شاعر القلند ر مت پر بیان کیا گیا ہے.- جامع ترمذی ابواب الزير باب ما جاء في معيشة اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث کے الفاظ یہ ہیں:.عن ابی طلحہ قالی شکونا إلى رسول الله الجوع ورفعنا عن بطوننا عن حجر حجر فرفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجرین صحیح بخاری کتاب الاضاحی باب ما يؤكل من لحوم الاضاحی صحیح مسلم كتاب الصيام باب تحريم صوم ايام التشريق.صحیح بخاری کتاب الاصناحی باب ما يؤكل من لحوم الاضاحي وما يتزود منها.۱ (۱) جامع ترمذی ابواب الزہد باب ما جاء فى معيشة اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم مجمع بحار الانوار جلد ۲ ۲۵۳ زیر لفظ صفف.۱۲۰ - جامع زندی ابواب الزہد باب ما جاء في الزهادة في الدنيا.صحیح بخاری کتاب الاذان باب من جلس في المسجد ينتظر الصلوة

Page 136

۱۲۸ فزوده ۲۰ مئی سن ۶۱۹۸۲ مقام باخ حضرت مرزا سلطان احمدرضا قادریا ، میں صحت کی خرابی کی وجہ سے اس وقت کچھ زیادہ تو نہیں بول سکتا.کیونکہ جمعہ کے دن خطبہ پڑ ھنے کی وجہ سے جو کھانسی کی شدت ہو گئی تھی ، اس میں تخفیف نہیں ہوئی.لیکن چونکہ اس تقریب پر کچھ نہ کچھ خطبہ کہنا سنت ہے اور قرآن کریم کی آیات سے بھی اس کا استدلال ہوتا ہے اس لئے میں اختصار سے موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ عید ایک بہت بڑی قربانی کی یاد میں ہے اور یہ عید اس واقعہ کو یا د رکھنے کے لئے ہے کہ خدا کی تائم کردہ جماعتوں اور اس کے بنائے ہوئے سلسلوں میں کچھ افراد ایسے ہوں جو اپنی زندگیوں کو کلی طور پر دین کے لئے وقف کر دیں.جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے ہرگز یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ فرمایا کہ واقعہ میں اپنے بچہ کو ذبح کر دو.انسانی قربانی کبھی بھی شریعت اسلامیہ سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جائز قرار دی گئی ہے.قرآن شریف نے حضرت آدم کے زمانہ کی قربانی کا ذکر کیا ہے لیے اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ انسان کی قربانی نہیں بلکہ دوسرے جانوروں کی قربانی کی گئی.کہا جاتا ہے کہ انسان کی قربانی کا بکرے کی قربانی کو قائم مقام قرار دیا گیا بلکہ یہ بات ان معنوں میں تو صحیح ہے کہ ایک انسان کی قربانی کا نشان قائم رکھنے کے لئے بکرے وغیرہ کی قربانی کا حکم دیا نیا ہے مگر یہ کہنا کہ پہلے انسان کی قربانی کا حکم تھا جسے بدلا گیا، یہ غلط ہے.کیونکہ حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے.مگر انہوں نے انسانی جانوں کی قربانی نہیں کی بلکہ دوسرے جانور کی کی.ان کے متعلق جو - دایات آتی ہیں وہ سچی ہوں یا جھوٹی ، ان سے پتہ لگتا ہے کہ ایک نے بکرے کی قربانی کی اور دوسرے نے اور چیزوں کی.پس اگر وہ روایات صحیح ہوں یا ان کا کوئی حصہ صحیح ہو تو یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیک اب تک جانوروں کی قربانی کا رواج رہا ہے کہ ایسی حالت میں یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک انسانوں کی قربانی کی جاتی تھی.پھر بکرے کی قربانی منظور ہوئی ، یہ درست نہیں جبکہ ابتداء سے ہی یہی ثابت ہوتا ہے کہ الہی سلسلوں میں انسان کی قربانی کبھی نہیں دی گئی.بلکہ اور جانوروں کی دی جاتی تھی کبھی بچوں کو قربان کرنے کا حکم نہ دیا گیا تو پھر یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالے نے انسانی قربانی کو موقوف کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلامہ کو پہلے بچے کی قربانی کا

Page 137

حکم دیا اور پھر اسے بدار دیا، پیسے نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ اسلامہ کو رڈیا میں دکھایا گیا کہ وہ بچہ کہ بج کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سمجہ کو ایک وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئیں.تاکہ وہ کھلی طور پر خدمت میں لگ جائے گویا دنیوی لحاظ سے اسے قربان کر دیا گیا.یہ ایک شنگیر کی تھی جو رویا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دکھائی گئی.مگر حضرت ابراہیم نے نہ نور محبت میں بیٹے کو خدا کے لئے ذبح کرنا چاہا یعنی اپنی قوم کے.راج کے ماتحت جو خد انتقالی کا قائم کردہ نہ تھا بلکہ لوگوں کا اپنا بنایا ہوا تھا بیٹے کو قربان کرنا چاہا.خدا تعالے ان کے اخلاص اور محبت کو دیکھکر اور بھی ان پر خوش ہوا اور کہا : اے ابراہیم ، جس طرح تو ظا ہری قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے، میں ظاہری لحاظ سے بھی اسے بچاؤں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خدا تعالے نے اس وادی غیر ذی زرع میں رزق پہنچانے کے ایسے سامان پیدا کر دیتے کہ وہاں کے رہنے والے رزق کی وجہ سے ہلاک نہ ہوں.- پھر جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ عظیم الشان کام کسی اور کے سپرد نہ کیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ میں اپنے بیٹے کا ذبح ہونا دیکھ نہیں سکتا.کوئی زید یا سکہ چھری چلانے دے.بلکہ خود چھری چلانے کے لئے تیار ہو گئے تھے.اسی طرح خدا تعالے نے ان کے بچے کو بچانے کے لئے بھی انہیں کسی انسان کا ممنون نہیں بنایا بلکہ اس کے لئے خود چشمہ پھوڑا جن سے اس سچہ نے پانی پیا.اس طرح کسی انسان کی مدد اور دستگیری سے اُسے بچا لیا.یہ ایک زبرد نشان ہے اس بات کا کہ قوم کے بعض افراد کو خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کر دینی چاہیے.گو یا ظاہری طور پر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دینا چاہیئے تاکہ دوسرے ہلاکت سے بچ جائیں یہ نشان ہے جو خدا تعالے نے اس رویا سے قائم کیا.ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیئے.کہ کوئی سلسلہ اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد کلی طور پر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور بعض جزوی طور پر قربانی نہ کریں.کئی طور پر تو اس طرح کہ اپنے تمام اوقات خدمت دین میں صرف کریں اور جزوی طور پر اس طرح کہ کچھ اوقات دین کے لئے خرچ کریں اور کچھ دنیا کمانے کے لئے خرچ کریں.چنانچہ قرآن کریم سے یہ دونوں قسم کی قربانیاں معلوم ہوتی ہیں.حضرت آنفیل علیہ السلام والی قربانی بھی اور حضرت اسحاق علیہ السلام والی قربانی بھی.حضرت اسمعیل کی کھلی طور پر قربانی کی گئی کہ کلی طور پر خدمت دین کے لئے وقف کر دیئے گئے اور حضرت اسحق کو اپنے ملک میں رہنے دیا گیا تا کہ کاروبار احمق کریں اور کچھ حصہ دین کی خدمت میں لگائیں.جزوی قربانی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ " ہر ایک مومن اپنے اموال میں سے کچھ دین کے لئے خرچ کرنے

Page 138

یہ حضرت اسحاق علیہ السلام والی قربانی ہے.اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کلی طور پر اپنے آپ کو خدمت میں لگا دیا.اور اس کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے.جب تک کسی قوم میں دونوں قسم کی قربانیاں کرنے والے نہ ہوں.وہ قوم کا میاب نہیں ہو سکتی.اس میں شک نہیں کہ اگر سارے کے سارے افراد کلی طور پر خدمت دین میں لگ جائیں اور دنیوی کام چھوڑ دیں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ دین کی مالی ضرورتیں کس طرح پوری ہوں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالے کا یہ نشاء نہیں کہ تمام کے تمام لوگ سب کاموں کو چھوڑ کر خدمت دین میں لگ جائیں.دین کی خدمت کے لئے مال کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، اگر مال نہ ہو تو کام چل نہیں سکتا.لیکن اگر قوم کے سارے کے سارے افراد مبلغ بن جائیں اور اپنا سارا وقت تبلیغ دین میں صرف کریں تو ٹریکٹ اور کتا بیں کس طرح شائع ہوئی.ان کے لئے اخراجات کہاں سے آئیں.بات یہ ہے کہ دین کے بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے مالی کی ضرورت ہے، رعب کی ضرورت ہے.جتھہ اور دبدبہ کی ضرورت ہے اور یہ باتیں دنیوی کاموں سے حاصل ہوتی ہیں.پس جماعت کا ایک حصہ اور بڑا حصہ ایسا ہونا ضروری ہے جو دنیوی مال کمائے اور اس میں سے دین کے لئے خرچ کرے.ایک حصہ اور ہو اور وہ تھوڑا حصہ ہو جو دین کے لئے وقف ہو.یہی کام دن رات کرے اور اسی میں لگا رہے.جماعت کو دشمنوں کے جوڑ توڑ سے واقف کرتا رہے ، ان کے مقابلے میں مصروف رہے.یہ دو سلسلے ہیں جن سے مل کر کامیابی حاصل ہوتی ہے.اسی کی بنیا د حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ڈالی اور اسی کی یاد کے لئے یہ عید ہے.بہت لوگ کہتے ہیں قربانی کی کیا ضرورت ہے.جان صنائع کرنے سے کیا فائدہ ؟ حالانکہ قربانی کرنا بھی مشتق چاہتا ہے کوئی کام بغیر مشق کے نہیں ہو سکتا.مجھے خوب یاد ہے بچپن میں سنجار ہمارے گھر کام پر لگے ہوئے تھے جب ہم سکول سے پڑھ کر آتے تو وہ اپنے اوزاری کو ہاتھ نہ لگانے دیتے.ایک دن ایک نتیار اپنے اوزار یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا، اس لئے مجھے موقعہ مل گیا.میں اور دوسرے ساتھ کھیلنے والے لڑکے بہت خوش ہوئے.میں نے تیشہ پکڑ کر ایک ہی ضرب لگائی کہ وہ میرے ہاتھ کے انگوٹھے پر لگی جس کا اب بھی نشان ہے.تو بغیر مشق معمولی ضرب بھی نہیں لگائی جاسکتی.حالانکہ ہم انہیں ہمیشہ چلاتے دیکھ کر سمجھا کرتے ان سے اچھا ہم چلا لیں گے.چونکہ انسان کو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خدا کی یاد میں جان کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہے.اور جب تک ظاہری قربانی نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا جب تک نتون بہانے کی مشق نہ ہو جان دینے کے لئے انسان تیار نہیں ہو سکتا.پھل اور سبزیاں کھانے والے بہادری کے ساتھ خون بہانے کے لئے کبھی تیار نہ ہوں گے.کہا جائے گا کہ گائے کے لئے ہندو

Page 139

مسلمانوں کو مار ڈالتے ہیں.مگر یہ ان کی قربانی نہیں ہوتی بلکہ بزدلی ہوتی ہے جن میں طاقت اور قوت کے ساتھ بہادری ہوتی ہے ، وہ کسی کو تباہ کرنے پر دلیری نہیں کیا کرتے.بلکہ وہ موقعہ دیتے ہیں.میں نے کئی دفعہ بھی چوہے کی مثال سُنائی ہے.بلی چوہے کو پکڑ کر چھوڑ دیتی ہے.جب بھاگنا چاہتا ہے تو پھر نچڑ لیتی ہے.وہ اسے یہ بتانا چاہتی ہے کہ چوہا اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا، تو فنا کر دینے پر آمادہ ہو جانا بزدلی کی علامت ہے.بہادر انسان اتنا ہی نقصان پہنچاتے ہیں جس قدر بقا کے لئے ضروری ہوتا ہے.جتنے بڑے بڑے بہادر ہوئے ہیں اتنے ہی زیادہ عفو کرنے والے ہوئے ہیں اور جتنے ایسے بزدل ہوئے ہیں جنہیں دوسروں کو تباہ کرنے کے سامان ہاتھ آگئے وہ فنا کرتے گئے بیچی بہادری یہی ہوتی ہے کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد اتنی ہی تکلیف پہنچائے جو اس کے لئے اور اس کی قوم کے لئے ضروری ہو اور پھر غور کردیا جائے.غرض قربانی کے لئے انسان سوائے مشق کے تیار نہیں ہو سکتا.اور یہ مشق اس کی سکے.موقعہ پر اس طرح گرائی جاتی ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرے کیے تا کہ جب خدا کے لئے خون بہانے کی ضرورت ہو تو خون بہائے اور جب رک جانے کا حکم ہو تو رک جائے پنانچہ ان دنوں خون بہا یا بھی گیا ہے اور خون بہانے سے روکا بھی گیا ہے.مسلمان آج خون بہا رہے ہیں.مگر آج سے دس بارہ دن پہلے مکتے کی سرزمین میں شکار کرنے سے منع کر دیا گیا ہے غرض خدا تعالے نے اس تقریب پر یہ مشق کرائی ہے کہ جب خون بہانے کے لئے کہا جائے تو خوان بہاؤ اور جب کہا جائے مت بہائے تو رک جاؤ.پس اس عہد میں دونوں قسم کے نظارے رکھے گئے ہیں اور یہ تمثیلی زبان میں دیری اور جرات پیدا کرنے کے لئے مشق کا سامان ہے.اس سے فائدہ اٹھا کہ حقیقی ست بانی کے لئے تیاری کرنی چاہیئے.اور ہماری جماعت میں دونوں قسم کی قربانی کرنے والے ہونے چاہئیں.وہ بھی جو دنیا میں ترقی کریں اور اپنے اموال کو خدا کے دین کے لئے صرف کریں.اور وہ بھی جو کلی طور پر خدمت دین میں اپنے آپ کو لگا دیں اور دن رات اسی کام میں لگے رہیں.خدا تعالے ہماری جماعت میں دونوں قسم کے لوگ پیدا کرے.جو نیک نیتی سے اپنا اپنا کام کریں.انہیں اپنے کام پر استقلال حاصل ہو.اور وہ اسے اپنے لئے نعمت سمجھیں.نہ وہ ہوں جو دنیوی ترقی کریں اور پھر اس پر فخر کریں کہ انہوں نے کوئی دین کا بڑا کام کیا ہے نہ وہ ہوں جو دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں اور پھر کہیں ان کی قربانی کی قدر نہیں کی گئی.ان کی قربانیاں خدا کے لئے ہی ہوں اور اسی سے بدلہ چاہیں : 1-0 ر الفضل ۲۸رسٹی ۱۹۲۹ء مشت ۶

Page 140

۱۳۲ طبقات الشافعية الكبرى مؤلف شیخ الاسلام تاج الدین السبکی معجزه ثانی مرا مطبوعہ مصر ه - المديده ۵ : ۲۸ ته - پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۳ شه - ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علی السلام مصنفہ علامہ عباس محمود العقاد المصری ترجمه مولا نارا لیف حمانی کے پیدائش باب ۲۵ آیت ۵-۶ ، جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد 4 ص ت - البقره : هم 414.صحیح بخاری کتاب الاضاحی باب من ذبح الاضاحي بيده.شه - جامع ترندی ابواب الحج باب ما جاء في حرمة مكة.

Page 141

۱۸ ا فرموده ۰ ارمئی ۱۹۳۰مه بمقام قادیان موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا اختراق اس حد تک نمایاں اور ایسا دل شکن ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے اس زمانہ میں کسی کو یہ عبرت ہی نہیں ہو سکتی کہ مسلمانوں کے اتنی د کے متعلق امیداور و توانا سے کوئی بات کہہ سکے.جس طرح ایک ایسے جنگل میں جہاں سینکڑوں میل تک کوئی آبادی نہ ہو کسی کو امداد کے لئے پکارنا یا کسی سے جواب کی امید رکھنا ایک فضول اور عبث فعل ہے اور اگر کوئی ایسی حالت میں پکارے گا بھی تو اس کی آواز یقین اور وثوق سے خالی ہو گی.ایک ریم اور عادت کے ماتحت ضرورت کے وقت ایک مصیبت زدہ چیخ پڑے گا.لیکن حقیقتا اس کا دل امید سے خیالی ہوگا اور وہ جانتا ہو گا کہ میری آواز بالکل بے اثر اور بے فائدہ ہے..اس کی نگا میں اس عادت کے ماتحت جو بچپن سے اسے پڑ چکی ہے اوپر کو اٹھیں گی اور وہ اس طرح دیکھے گا جس طرح مصیبت کے وقت ایک انسان اپنے دوستوں اور پیاروں کی طرف دیکھتا ہے لیکن اس کی نگاہ امید اور تاثیر سے خالی ہوگی.اسی طرح اس زمانہ میں مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دنیا یا ایک بات پر جمع ہوئے کی تلقین کرنا ایک غیر ممکن فعل اور بے فائدہ کام نظر آتا ہے.ایسا کرنا ایک ایسی آواز سے مشابہ ہے جو صحرا میں اٹھتی اور وہیں فنا ہو جاتی ہے.اور ایک ایسے شخص کی نگاہ ہے جو جنگل میں ایسے درختوں پر پڑتی ہے جو اس کی خواہش اور التجا کا جواب نہیں دے سکتے اور خود اس کے قلب میں بھی کوئی امید یا یقین نہیں ہوتا.مگر با وجود اس حالت کے جس میں مسلمان اس وقت مبتلا ہیں اور باوجود اس مایوسی کے جو اس وقت ان کے خیر خواہوں کے دلوں میں پیدا ہو چکی ہے.ہمارا ایمان ہے کہ بعض اوقات ایسے آجاتے ہیں جب خدا تعالے مایوسی کو امید سے اور غم کو خوشی سے تبدیل کر دیتا ہے.اگر ہمیشہ کے لئے انسان پر مایوسی ہی مایوسی طاری رہے تو وہ تمام اعلیٰ کاموں سے محروم رہ جائے اس لئے اللہ تعالے نے انسان کے لئے امید کی گھڑیاں بھی پیدا کی ہیں اور خوشی کی ساعتیں بھی رکھی ہیں تا مایوسیوں کی غیر متزلزل اور لمبی کڑی اسے ہمیشہ کے لئے قوت عمل سے محروم نہ کر دے.ہم سے مسلمانوں کو جو مخالفت ہے وہ ظاہر ہے اور بعض تو ہماری مخالفت میں اس حد تک بڑھے ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک ہماری مخالفت میں وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں ، جائز اور صحیح سمجھتے ہیں.اور ان کی ساری طاقت ہماری طاقت کو توڑنے کے لئے صرف ہو رہی ہے.خدا قا نے انہیں بار ہا.نا کام کر کے بتاتا ہے کہ وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن

Page 142

ان کے دل ہماری طرف سے خطرات سے اس قدر پر ہیں کہ با وجود متواتر ناکامیوں کے باز نہیں آتے.ذلت کے بعد ذلت، رسوائی کے بعد رسوائی، شکست کے بعد سست اور ہزعیت کے بعد بنزیت اُٹھاتے ہیں حتی کہ خود ان کے ہم خیال ان کے طریق کار کی ترقیت کرتے اور انہیں سمجھاتے ہیں کہ اس قسم کی شرارت اور دنایت قومی مفاد کے منافی اور اسلامی تعلیم کے مخالف ہے.مگر بایں تمہ وہ باز نہیں آتے.اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر میدان میں بتا دیا ہے کہ جو لوگ اس کی مدد اور نصرت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، انہیں تباہ کرنا کسی انسان کا کام نہیں اور احمدیت اسی طرح قائم کی گئی ہے بلکہ ہر نبوت اور ماموریت اس طرح قائم کی جاتی ہے جس طرح اسماعیلی درخت کو خدا تعالے نے مکہ کی سرزمین میں لگایا تھا.اور سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی صداقت اور راستبازی ایسے.حالات میں کبھی دنیا میں نہیں آتی کہ اس کے نشو و نما پانے کے لئے میدان خالی ہو.صداقت ہمیشہ اسی است آتی ہے جب اس کے پینے اور نشو و نما پانے کے لئے میدان خالی نہیں ہوتا.صداقت کا بیج خدا تعا نے اپنے ہاتھ سے ویران مقام پہ ڈالتا ہے تا وہ دوسرے بڑے دور ہوں کے سایہ سے محفوظ رہ کر ترقی کر سکے.اور اس وجہ سے انبیاء کی جماعتیں الگ قائم کی جاتی ہیں.نادان خیال کرتے ہیں کہ فلاں مدعی نبوت نے آکر لوگوں میں شقاق اور تفرقہ ڈال دیا.باپ کو بیٹے سے، بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا.حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک ہوشیار با نی نئے پودے کو ہمیشہ الگ لگاتا ہے.دنیا میں کوئی ایسا ہیو قوت مالی نہیں ہوگا جو کسی نئے اور قیمتی پودے کو کسی بڑے درخت کی جڑ کے پاس لگا دے کیونکہ وہ جانتا ہے اس طرح پور اصنائع ہو جائے گا.وہ ہمیشہ اسے ایسی جگہ لگائے گا.جہاں طاقت پکڑ سکے اور جہاں اسے پوری غذا مل سکے.اور اگر نئی جماعتوں کا الگ قائم کرنا بری چیز ہے تو اس کی بنیاد نمایاں طور پر حضر ابراہیم علیہ السلام نے رکھی جہنوں نے اپنے بیٹے کو تمام رشتہ داروں عزیز و اقارب اور ملک د وطن سے علیحدہ کر کے وادی غیر ذی درع میں چھوڑ دیا.کیا اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام غرب و شام اور عبرانیوں و شامیوں میں جدائی ڈال کر شقاق پیدا کرنا چاہتے تھے بانہیں ہر گز نہیں، وہ جانتے تھے کہ اس ہونہار پودے کے نشوونما اور ارتقاد کے لئے وادی غیر ذی زرع ہی کی ضرورت ہے.خدا تعالی کی مشیت یہی تھی کہ حضرت اسحق علیہ السلام کو پہلے ترقی دی جائے اور اسما عیلی پودا ایک دور مقام پر چھوٹی حالت میں رکھا جائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ چھوٹے پورے بڑے درخت کے زیر سایہ نہیں بڑھ سکتے اور ہمیشہ ضائع ہو جایا کرتے ہیں.اور چونکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد کو بعد میں خدا تعالے نے ترقی دینی تھی ، اس لئے اس کا پورا ایک سنسان جگہ میں لگایا.حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد نے ترقی کی مگر اسے کبھی یہ خیال بھی نہ آیا کہ مکہ فتح کرے کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے اسے فتح کرنا کسی فائدہ کا موجب

Page 143

۱۳۵ نہیں ہو سکتا بلکہ الٹا اس پہ خرچ ہی آئے گا.مکہ نہ صرف متمدن دنیا سے الگ تھلگ مقام تھا.بلکہ غیر ذی زرع بھی تھا اور اسی مقام کو خدا تعالے نے اسماعیلی پودے کے لئے اس لئے منتخب کیا.تا دوسرے لانچ کی نظر سے اسے نہ دیکھیں.پس یہ اللہ تعالٰی کی سنت ہے کہ نیا پودا ہمیشہ علیحدہ لگایا جاتا ہے.نادان اسے شقاق اور تفرقہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ قانون قدرت کے عین مطابق ہے.اگر نئے پودے پرانے درختوں کے نیچے لگانے شروع کر دیئے جائیں تو دنیا بہت جلد باغوں سے محروم ہو جائے کیونکہ میرا نا درخت تو اپنی عمر کو پہنچکر ضائع ہو جائے گا اور نیا پودا اس کی وجہ سے غذا حاصل نہ کر سکے گا اور اس وجہ سے بھی ضائع ہو جائے گا دنیا میں ہر ایک جو غذا کھاتا ہے ترقی نہیں کرتا.بوڑھے آدمی کو خواہ کتنی علی غذا کیوں نہ دی جائے پھر بھی وہ انحطاط کی طرف ہی جائے گا.لیکن ایک بچہ کو اس سے چوتھائی حصہ بھی دی جائے تو وہ جلد جلد بڑھے گا پس محض غذا کھانا ترقی کی علامت نہیں ہوا کہتی بلکہ ترقی میں عمر کا بھی دخل ہوتا ہے.یہی حال قوموں کا ہے جو تو میں اپنی عمر کو پہنچ جاتی ہیں اور جن کی اجمل آجاتی ہے اور جو اس بات کی انتظار میں ہوتی ہیں کہ خدا تعالے کا ہاتھ بڑھے اور کہ ان کو بڑھ سے کاٹ دے ان کے لئے خواہ کتنی غذا کیوں نہ مہیا کی جائے وہ بچ نہیں سکتیں.بوڑھے آدمی کو مغزیات اور مقویات وغیرہ دینے سے ممکن ہے اس کی موت میں چند روزہ کا التوا ہو جائے لیکن کسی کام کا نہیں بن سکتا.ایک نوے سالہ بوڑھے کو کتنی غذائیں کھلاؤ اور مالشیں کہ وہ اگر اس میں کوئی تغیر ہو گا تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہ اگر لیٹا ہی کہتا ہو گا تو کسی وقت میٹھنے لگ جائے گا لیکن دوبارہ پہلوان نہیں بن سکے گا.لیکن ایک بچے سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر اسے مقویات کھلائی جائیں تو وہ ترقی کر جائے.جو گھی اور مغزیات بوڑھے کو کھلائی جاتی ہیں وہ منائے جاتی ہیں لیکن جو سوکھی روٹی بچہ کو دی جائے وہ کام آتی ہے کیونکہ بچہ اس سے تبھی طاقت حاصل کرتا ہے.جو غذائیں بوڑھے کو دی جائیں وہ زیادہ سے زیادہ ایک دیوار بن سکتی ہیں جس سے وہ سہارا لے سکے.لیکن جو کچھ بچہ کو کھلایا جائے وہ ایک گھوڑا ہوتا ہے جو اسے ترقی کی منزل پر پہنچاتا ہے.یہی حال قوموں کا ہے.جب قومیں اپنی عمر گزار لیتی ہیں اس وقت ان میں اتحاد اور ان کی ترقی کے لئے خواہ کتنی کوشش کرو ، وہ زیادہ سے زیادہ ایک سہار کی دیوار ثابت ہو گی.لیکن جو نئی جماعت خدا تعالے کی طرف سے قائم کی گئی ہو اس کی ترقی کی کوشش سواریاں ہوں گی جو اسے لے کر دور دور لے جائیں گی اور دنیا پرمسلط کر دونگی پس یاد رکھو کہ جب کوئی قوم اپنی اصل کو پہنچ جاتی ہے تو اسے قائم اور زندہ رکھنے کے لئے کوشش کرنا اپنے زور اور طاقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے.اور وہ شخص نادان ہے جو یہ کہتا ہے

Page 144

کہ ایسی قوم کی موجودگی میں نئی بنیاد ڈالنا فضول ہے.جب خدا تعالے کی طرف سے ایک قوم کے متعلق فیصلہ ہو گیا کہ وہ اپنی عمر کو پہنچ گئی تو اس پر قوت کو ضائع نہیں کیا جا سکتا.دیکھو اگر ایک بچہ اور بوڑھا ہو اور دونوں کے لئے غذا میسر نہ آتی ہو لیکن اتفاقاً کوئی چیز کھانے کو مل جاتے اور یہ سوال پیدا ہو کہ کسے دی جائے تو ضرور پہلے بچہ کو ہی دی جائے گی تا کہ اس کی زندگی قائم رہے اور یہ ایک فطری احساس ہے جو ہر ماں باپ میں پایا جاتا ہے.ماں باپ خود قربان ہو جائیں گے لیکن بچہ کو تکلیف نہیں ہونے دیں گے.اور یہ بات کسی عقل کے ماتحت نہیں بلکہ فطرت کے ماتحت ہے.لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ در اصل فضل کے عین مطابق ہے.ماں باپ اپنی عمر کا بہترین حصہ گزار چکے ہوتے ہیں لیکن بچہ کے لئے ابھی کام کرنے کا میدان کھلا ہوتا ہے.اس وجہ سے ماں باپ اپنے آپ کو اپنی اولاد پر قربان کر دیتے ہیں.تو خدا تعالئے جب کوئی نئی جماعت قائم کرتا ہے، اسے دوسروں سے الگ کر دیا ہے تا اسے ترقی کرنے کے لئے کافی غذا مل سکے، ملکہ اگر دوسروں کی غذا بند کر کے بھی اسے دینی پڑے تو دیتا ہے.ہماری جماعت بھی وہ نیا پودا ہے جسے خدا تعالے نے اس زمانہ میں لگائیں.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام کیا.غرستُ لكَ بِيَدِي دَوْحَةٌ إِسْمَعِيلَ له اس کے یہی معنے ہیں کہ جس طرح اسماعیل کو علیحدہ کر کے بسایا تھا.اسی طرح احمدیت کو بھی دوسروں سے علیحدہ قائم کروں گا.چونکہ لوگوں نے اعتراض کرنا تھا کہ ان لوگوں نے اپنی نمازیں ، شادی بیاه جنازه و غیرہ کیوں علیحدہ کر لئے ؟ اس لئے اس الہام میں خدا اتقائے نے اس کا ایک جواب دیا ہے کہ آجیل کو بھی ابراہیم نے دوسروں سے بالکل علیحدہ کر دیا تھا.اور یہ ظلم، فساد اور تفرقہ نہیں تھا بلکہ ضروری تھا تا محمدی نور ترقی کر سکے.اس زمانہ میں بھی محمدی نور مدھم ہورہاتھا، اس لئے خدا تعالے نے پھر احمدیت کے پودے کو علیحدہ کر کے لگایا اور اسماعیلی پودے کی طرح اسے بھی وادی غیر زرع میں لگایا یعنی قادیان میں جو ترقی یافتہ اور متمدن دنیا سے بالکل الگ اور علیحدہ مقام ہے.پھر اس کی حفاظت بھی ایک بے کس اور ناتوان جماعت کے سپرد کی تا دنیا اس کی طرف لانچ کی نگاہ سے نہ دیکھے اور محمدی نور پھر بنیا میں ترقی کرے.اس میں شبہ نہیں کہ ایک نادان بوڑھا مالی جو اپنے پر اپنے درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے نئے درخت لگائے جانے کو اپنی شارہ سمجھتا ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ اس کا باغ تباہ ہونے والا ہے اور اگر پھل کو دنیا میں قائم رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ نئے نئے درخت لگائے جائیں.ہماری جماعت کے بعض دوست دنیا کی مخالفت کو دیکھ کر گھبراتے ہیں.حالانکہ ساری دنیا ہماری مخالف نہیں.فطرت صحیحہ ہماری تائید میں ہے.مخالفت ہمیشہ شیطانی وساوس سے ہوتی ہے

Page 145

۱۳۷ انسانیت کی طرف سے نہیں اور اشد تورین مخالفوں پر بھی جب کبھی انسانیت کا دور آتا ہے تو ان کو دل ہماری تائید ہی کرتا ہے ، اگر چہ وہ اسے ظاہر نہ کر سکیں.دنیا میں جتنے بھی شریف لوگ ہیں خواہ وہ ہندو ہوں یا عیسائی، یہودی یا کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں وہ ضرور ہماری تائید کرتے ہیں.چند دن ہوئے ایک ڈچ کانس گیاں آیا.وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہاں کی زندگی کے متعلق اس نے کہا.لیکن بائیبل میں حواریوں کی زندگی کے حالات پڑھ کر حیران ہوا کرتا تھا کہ کیا ایسی زندگی ممکن ہے لیکن یہاں آکر ان کی زندگی کا عملی نمونہ نظر آگیا.وہ عیسائی تھا اور سیاسیات سے تعلق رکھتا تھا لیکن یہاں جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ یہاں اسے حضرت مسیح علیہ السلام اور آپ کے حواریوں کی زندگی کے متعلق بائیبل کے بیانات کی جنہیں وہ نا ممکن سمجھا کرتا تھا تصدیق ہوگئی تو ایک شریف انسان خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ اس جدوجہد کو جو دنیا کی اصلاح کے لئے ہم کر رہے ہیں قدر کی نگاہ سے دیکھیگا.ہاں جن کے دلوں پر زنگ لگ چکا ہے اور جن کی آنکھیں بیمار ہیں وہ مجبور ہیں انہیں ہمارے اندر کوئی خوبی نظر نہیں آتی.جس طرح یرقان کا مریض ہر چیز کو زرد ہی دیکھتا ہے ہے یا اور مختلف بیماریوں میں مختلف رنگ نظر آتے ہیں.یا بعض وقت ہماری کی وجہ سے ایک کے دو دو نظر آتے ہیں.اسی طرح جن کی روحانی آنکھیں ہمیار اور دل مردہ ہوں ان کو بہر حال ہماری جماعت بھی بری ہی نظر آئے گی میں شخص کی ناک میں پھوڑا ہوا سے ہر چیز اور ہر مقام سے بو ہی آئے گی حالا نکہ بو اس کی اپنی ناک میں ہوتی ہے اسی طرح جن کی ناک اور دل ودماغ میں ہماری ہے، انہیں قرآن، توریت، انجیل ہر جگہ برائی ہی برائی نظر آئے گی.ممکن ہے مذہب کی پہچ یا لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ اس کا اظہار نہ کریں لیکن اگر انہیں کریدا جائے تو ایسا مسلمان قرآن پر عیسائی انجیل پر یہودی توربیت پر اور سکھ گرنتھ پر معترض نظر آئے گا.اور جب وہ اپنی کتاب پر سہی معترض ہو تو اس کی طرف سے دوسرے پر اعتراض تعجب انگیز نہیں.ایسے لوگوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرنی چاہیئے.صداقت مزہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر کے رہتی ہے لیکن ضروری ہے کہ صداقت پر چلنے کا دخوشی کرنے والے دنیا کو اپنا پھل دکھا ئیں.دُنیا میں کوئی درخت بغیر پھل کے قیمت نہیں پاتا.اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کا نیا پودا اسی لئے علیحدہ لگایا ہے کہ دنیا کو ہم اپنے شیریں ثمرات دیں ہے اور اگر نئے پودے پھل نہ دیں تو مالی انہیں کاٹ کر نیا باغ لگاتا ہے.پس جہاں یہ اعتراض غلط ہے کہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے وہاں اگر واقعہ میں ہماری جماعت دنیا میں راحت و آسائش کے لئے مفید نہ ہو تو نا جائز سے ناجائز اعتراض بھی جائز ہی ہوگا.اس لئے ہماری جماعت کے لوگ اپنے وجودوں کو دنیا کے لئے مفید بنائیں اور اگر وہ ایسا DUTCH Counsel

Page 146

۱۳۸ نہیں کرتے تو گویا باغ کی اہمیت کو گرانے کے ساتھ ہی اپنے وجود کی ضرورت کو بھی کھوتے ہیں.اگر کوئی پودا پھل نہیں دیتا تو اس کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے.اسی طرح اگر کیسی احمدی کا وجود دنیا کے لئے فائدہ رساں نہیں اور اگر وہ دنیا کی بھلائی کی خاطر ہر قربانی کے لئے آمادہ نہیں تو پھر اس کے علیحدہ وجود کی بھی ضرورت نہیں.یہ عید جہاں ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ خدا تعالئے جب کسی قوم کو ترقی دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے علیحدہ کر کے ایسے مقام پر کھڑا کرتا ہے جہاں دوسرے اس سے نہ مل سکیں.اور جہاں کھڑا رہنا بظاہر اس کی تباہی کے مترادف ہو لیکن خدا تعالے کی نصرت اسے بڑھاتی ہے وہاں بھی اسی عید سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ بغیر قربانی کے اتحاد نہیں ہو سکتا.اس عید کے موقعہ پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں تا خدا تعالے کی معرفت حاصل کریں.اور اس کے پینے ہیں کہ قربانی کے بغیر نہ باہمی اتحاد ہو سکتا ہے اور نہ ہی خدا تعالے سے وصال.آج کے دن بکر سے کھانے کے لئے ذبح نہیں کئے جاتے بلکہ کھانے کے لئے کئے جاتے ہیں جس کے یہ معنے ہیں کہ ہم دوسروں کے لئے اپنا خون اور گوشت قربان کرنے کو تیار ہیں.ہم نے کئی دفعہ ایسے لطیفے دیکھتے ہیں.کہ ایک شخص نے دوسرے کے ہاں گوشت بھیجا اس نے آگے کسی اور کے ہی بھیج دیا.اور اس طرح دس بارہ گھروں میں پھر پھرا کر وہی گوشت اسی کے گھر آ گیا.جس نے بھیجا تھا.اور اس نے اپنا بھیجا ہوا گوشت پہچان لیا.ہم اسے بے فائدہ کام نہیں کہ سکتے کیونکہ اس گوشت نے دس بارہ آدمیوں سے اس بات کا اقرار لے لیا ہے کہ ہم اپنا خون اور گوشت پوست ایک دوسرے کے لئے قربان کرنے کو تیار ہیں وہ اپنے ساتھ دس بارہ برکتیں لے کر آیا ، اب اگر وہی گوشت بھیجنے والے کے گھر میں پکے تو وہ اس کے لئے برکت کا موجب ہوگا کیونکہ وہ دس گھرانوں سے اتحاد کا اعترار کر اچکا ہے.آج کے دن جو قربانی کی جاتی ہے وہ اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کو تیار ہیں اور پھر یہ خدا کے سامنے اقرار ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو تیرے لئے قربان کرنے کو تیار ہیں، نیز یہ اتحاد کا دن ہے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے.پس اپنے دل میں عمد کرو کہ ہم اپنے بھائی کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں اگر کسی کو تباہ ہوتا دیکھو تو ہر ممکن قربانی کر کے اسے بچاؤ.میں دیکھتا ہوں کچھ عرصہ سے ہماری جماعت کے بعض دوستوں میں یا حساس ترقی کرتا جارہاہے کہ ہم نے اپنا حق ضرور لینا ہے.انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ جو اپنا انتہائی حق لینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے دہ دوسرے کا حق ضرور مارتا ہے.رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.ہر بادشاہ کی رکھ ہوتی

Page 147

۱۳۹ ہے جس کے کنارے مویشی پیرانا خطرہ سے خالی نہیں ہوتا.اسی طرح اللہ تعالے کی بھی کچھ رکھیں ہیں ان کی حدود پر نہ جاؤ ملکہ پرے پرے ہو.کیونکہ.کھ کے آخر سرے پر پہنچکر احتمال ہوتا ہے کہ اس کی حدود میں بھی گھس جاؤ.اس لئے اس سے پرے پرے رہو تا تفرقہ کی صورت پیدا نہ ہو.دنیا میں بھی قبا میر امن کا یہی طریق سمجھا جاتا ہے کہ سرحدوں پر فوجیں رکھنے کی بجائے دور رکھی جاتی میں پسی انتہائی درجہ کے حقوق کا مطالبہ ضرور تباہ کر دیا ہے.اس لئے اگر تم قربانی کرتے ہو تو انتہائی حقوق حاصل کرنے کے لئے کبھی اصرار نہ کہ وہ اپنا حق ثابت ضرور کر دو اور پھر اصرار نہ کرو بلکہ عفو سے کام لو.یہ بات پوری طرح واضح کر دو کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن تفرقہ سے بچنے کے لئے ہم اسے چھوڑتے ہیں.انتہائی حقوق کا مطالبہ کر کے کئی ایک نے دیکھا ہوگا کہ تفرقہ بڑھا.اب یہ تجربہ کر کے بھی دیکھ لو کہ اپنا حق ثابت کر نیکے بعد اسے چھوڑ دو.پھر دیکھو باہمی اتحاد ترقی کرتا ہے یا نہیں اور جس طرح ایک بڑھیا پر دوبارہ جوانی آجائے اسی طرح تمہاری حالت میں نئی تبدیلی نظر آئے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے.دوزخ میں انسان جبل کو کوئلہ کی طرح ہو جائے گا.پھر خدا تعالیٰ کی رحمت کے پانی کا چھینٹا اس پر پڑے گا اور نئی روئیدگی اس کے اندر پیدا ہو جائے گی شیہ یہی حالت انسانی روح کی ہے جب وہ خدا تعالے کے لئے قربانی کرتا ہے تو اس کے عضو کا پانی اسے شاداب کر دیتا ہے اور اس کے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا تجربہ کریں کہ اپنا حق ثابت کرنے کے بعد عفو اور درگزر سے کام لیں.جس شخص کا حق ہوا سے چونکہ سوچنے سمجھنے کا کم موقع ملتا ہے اس لئے اس کے دوستوں کا فرض ہے کہ اس وقت اسے سمجھائیں.جو دوست اسے نہیں سمجھاتا بس القرين ہے دوست کا فرض یہی ہے کہ جب اس کے دوست کی عقل ماری جائے تو اس کے کان میں ایسی بات ڈالے جو اس کے لئے برکت کا موجب ہو تا جب اس پر بھی کوئی ایسا موقعہ آئے کہ اس کی عقل ٹھکانے نہ رہے تو اسے بھی وہ آکر بھلائی کی بات سمجھائے.عرصہ ہوا میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ قیامت کا دن ہے اور ہم سب اللہ کے حضور پیش ہیں اس کے بہت سے نظارے تھے مگر میں تفصیلاً بیان نہیں کرتا.میں نے دیکھا کہ خدا تعالے کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ اپنی پیٹھوں کی طرف دیکھو جس کے پیچھے دیو آکچی ہوگی وہ دوزخی ہے اور جس کے پیچھے بھی وہ جنتی.یہ شنکر ہم سب پر اس قدر ہیبت طاری ہوئی کہ بہت عرصہ تک سب چپ چاپ بیٹھے رہے اور کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھتا تھا.میرے پاس حضرت خلیفہ اسبح الاول بیٹھے تھے.انہوں نے مجھے کہا: تم میرے پیچھے دیکھو اور میں تمہارے پیچھے دیکھتا ہوں.اس پر میں نے اُنکے

Page 148

۱۴۰ پیچھے دیکھا اور بے اختیار پکار اُٹھا، آپ کے پیچھے کی دیوار یکتی ہے.اور انہوں نے کہا.تمہارے پیچھے بھی کچی ہے اور ہم بڑے خوش ہو گئے تو خطرات کے موقع پر آپس میں تعاون کرنا بہت خیر و برکت کا موجب ہوا کرتا ہے.جب تم اپنے بھائی کو اس وقت جبکہ اس کی عقل ماری جائے نصیحت نہیں کرتے تو تم پر ایسا وقت آنے پر وہ بھی نہیں کرے گا.اور اگر تم اسے بری راہ پر لگانے کی کوشش کرتے ہو تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں تباہ ہو جاؤ گے پس جب تمہارے کسی بھائی پر ایسی مصیبت آئے کہ وہ اپنا انتہائی حق مانگنے پر مصر ہو ، کسی احمدی سے یہ تو امید ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ حق کے سوا بھی کچھ مانگے ، لیکن جب وہ اپنا حق لینے پر مصر ہو تو اسے بجھاؤ کہ وہ تفرقہ سے بچنے کے لئے قربانی کرے تا تم پہ اگر ایسی حالت آئے تو تمہارا دوست یہ سو چکہ کہ اس نے مجھے جنت کا راستہ دکھایا تھا میں بھی اسے دکھاؤں تمہاری مدد کو آئے.اور کسے مجھ پہ بھی ایک وقت ایسا آیا تھا جیسا اب تم پر ہے اس وقت تم نے میری دستگیری کی تھی اور صحیح راستہ دکھایا تھا اب تم پر رہی مصیبت ہے اس لئے میں تمھیں بھی صیحت کرتا ہوں کہ بھائی کی رعایت کر دی یہی وہ ذریعہ ہے جس سے قربانی کی روح پیدا ہو سکتی ہے.پس یا د رکھو کہ حقیقی ترقی کی راہ یہی ہے کہ بھائی کو مصیبت کے وقت قربانی کی تلقین کرو.میں اللہ تعالے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں، ایسا کرنے کی توفیق دے.حقیقی تربانی وہی ہے جو تقوی اللہ کی وجہ سے کی جائے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور باہمی اتحاد کے لئے ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا وہ مقام جو ایک طرف اس سے ملاتا ہے اور دوسری طرف تمام دنیا کو بھائی بھائی بناتا ہے، ہمیں حاصل ہو جائے.والفضل به ارمئی ۱۹۳ مشاه 114 ه - روحانی خزائن جلد ار صحیہ تحفہ گولڑدیم مش - ملفوظات جلد هم منشا حاشیه ے.تذکرہ طبع سوم ماه و ماه سے ہر طرف آواز دنیا ہے ہمارا کام آج ہے جس کی فطرت نیک ہے آئیگا وہ انجام کار کا دیر امین احمدیہ حصد نجم من سے میٹری انڈر یا ساجو سماٹا میں ڈچ آفیسر تھے اجڑ میں ڈچ قونصل مقر ہے تو وہاں جاتے ہوئے ارین شاہ کو تاوان بھی تشریف لےگئے شه - علم الامراض "مصنفہ میر اشرف علی ملک ۲ و الفضل د را بریل و می شه مفتح اسلام ۳۰ مطبوعہ لاہور ست ۱۹ شه - جامع ترمذی ابواب البيوع باب ما جاء في ترك الشبهات شه سنن دارمی الجزء الثانی ۳۳۲ مطبوعہ دمشق ۳۱۳۲۹ -

Page 149

19 عید الاضحی ۲۹ را پریل ۱۹۳۷ء کو سنائی گئی.حضرت خلیفہ انسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ ان دنوں منصوری میں قیام فرما تھے اور بعارضہ بخار ، پیٹ درد اور اسہال بمیار تھے جس کی وجہ سے غالبا عید کی نماز بھی نہ پڑھا سکے.سلسلہ کے کسی اخبار میں حضور کے اس سفر میں نماز عید پڑھانے سکا ذکر نہیں ملتا.(مرتب)

Page 150

۱۴۲ ۲۰ ر فرموده ارا پریل ا بمقام باغ حضرت کی موعو علی السلام فارنیا) گلے کی خرابی اور بعض دیگر تکالیف کے باعث میں زیادہ دیر نہیں بول سکتا اور اسی طرح اونچی آواز سے بھی نہیں بول سکتا.لیکن عید کا خطبہ چونکہ عبادت کا ایک جزو ہے کہ اس وقت بولٹ بھی ضروری ہے.اس لئے میں اختصار کے ساتھ دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ شریعیت کے بعض احکام نظاہر تھیوے ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر بڑی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک شخص اس بات پر مجھ سے گفتگو کر رہا تھا کہ داڑھی رکھنا ضروری ہے یا نہیں مختلف دلائل سننے کے بعد اس نے کہا.میں نہیں سمجھ سکتا روحانیت کی بنیا د چند بانوں کے رکھنے یا نہ رکھنے پر کیونکر ہو سکتی ہے.بظاہر یہ نہایت ہی دھوکہ دینے والا فقرہ تھا.ہیم اس وقت علیحدہ گفتگو کر رہے تھے.ممکن ہے اگر مجلس میں یہ کہا جاتا.تو بعض کو اس سے ٹھو کر بھی لگتی.میں نے اس وقت اسی رنگ میں ایک ہی فقرہ میں اسے جواب دیا.میں نے کہا میں تسلیم کرتا ہوں کہ روحانیت کی بنیاد چند بالوں کے رکھنے یا نہ رکھنے پر نہیں لیکن روحانیت کی بنیاد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت پر ضرور ہے جس سے میرا مطلب یہ تھا کہ داڑھی کا تعلق براه راست روحانیت سے بے شک نہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کا تعلق براہ راست روحانیت سے ہے اور جب آپ کا ارشاد ہے کہ داڑھی رکھو نہ تو کو داڑھی اپنی ذات میں روحانیت کا موجب نہ ہو لیکن جب آپ کا حکم توڑا جائیگا تو یقینا ایسا انسان کوتا نے محروم ہو جائے گا.اگر اس اعتراض کا میں تفصیلاً جواب دوں تو معلوم ہوگا کہ یہ نہایت ہی بودا ہے لیکن میں نے صرف یہاں اسے بطور مثال پیش کیا ہے کہ بعض چھوٹی باتیں بڑے اثرات پیدا کرتی ہیں.نمازوں میں صفوں کی درستی نظا ہر معمولی بات ہے اور یہ کوئی اہم بات نظر نہیں آتی کہ ایک آدمی کچھ آگے کھڑا ہو جائے یا کچھ پچھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صفوں کو درست کر و دیگر ز تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے کہے بات کتنی معمولی تھی لیکن نتیجہ کیسا عظیم الشان نکلا.مجھے اس کے متعلق ایک واقعہ یاد آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں کچھ لوگوں میں روزوں کے متعلق بحث ہو رہی تھی کہ کس وقت روزہ رکھنا اور کس وقت افطار کرنا چاہیئے.ایک شخص کا خیال تھا کہ جب ایک شخص خدا تعالے کے لئے سارا دن بھوکا رہتا ہے تو اگر اس نے 4 نیت

Page 151

پو پھٹنے کے بعد کھانا کھا لیا بلکہ اگر روسیت آفتاب کے بعد بھی چند گھونٹ پانی پی لیا با کچھ کھانا کھالیا توانس میں کونسا حرج ہے.یہ کہنے والے کسی زمانہ میں جو نا ہوں کا کام کیا کرتے تھے.انہوں نے خواب دیکھا کہ تانی کو خشک کرنے کے لئے ایک کیلے کے ساتھ باندھا اور دوسری طرف دوسرے کیلئے سے باندھنے گیا لیکن تانی کیلئے سے دو انگل کے قریب کہ رہ گئی لیکن کھیلا کچھ دور تھا وہ بیان کہتے ہیں کہ میں نے ہزار کوشش کی کہ کسی طرح تانی کیلئے تک پہنچ جائے، مگر اب بے سود آخر گھبرا کر میں نے رشتہ داروں کو آواز دی کہ دور کہ آؤ ، دو انگل کی وجہ سے میری تا نی خراب ہو جائے گی اِس پر آنکھ کھل گئی اور سمجھے آگئی کہ چند منٹ آگے پیچھے روزہ رکھنے یا انکار کرنے کے متعلق میکں جو کچھ بیان کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے متعلق آگاہ کیا ہے.تو عض باتیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہیں لیکن بلحاظ انت سج نہایت اہم ہوتی ہیں.اپنی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوقات کے لحاظ سے عید الفطر اور عید الاضحی میں فرق کیا ہے ہے وہ دیر سے پڑھائی جاتی ہے اور یہ جلدی کیونکہ اس کے متعلق محکم ہے کہ نماز کے بعد قربانی کی جائے، اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا دستور یہ تھا کہ آپ قربانی کے گوشت سے ہی کھانا شروع فرماتے تقیہ اس دن روزہ تو نہیں ہوتا تھا لیکن نیم روزہ ضرور ہو جاتا تھا آپ صبح کچھ نہیں کھاتے تھے اور پھر قربانی کے گوشت سے افطار کرتے توحید الا ضحی کی نماز جلد ادا کی جاتی.لیکن میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں اس حکم کے متعلق بہت کم توجہ ہے کمزوروں کا لحاظ کرنے کی وجہ سے گویا یہ ایک قاعدہ بن گیا ہے کہ عید کی نماز ایسے وقت پر ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریق کے مطابق نہیں.اس میں شبہ نہیں کہ یہ بانی معمولی ہیں اور جماعت کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے امور میں ڈھیل دی جا سکتی ہے لیکن اس کا بھی ایک وقت اور ایک حد ہونی چاہیئے.ہماری جماعت کی عمر ۲۲ سال ہو گئی ہے اور متو انز بلاناغہ یہ ڈھیل چلی آتی ہے.میں سمجھتا ہوں اس وقت تک یہاں ایک نماز بھی اس وقت پر نہیں ہوئی ہوگی جو احادیث میں آتا ہے.آج ساڑھے آٹھ بجے کا وقت مقرر تھا مگر 9 بجے نماز پڑھائی گئی.اور اب کہ میں خطبہ پڑھا رہا ہوں بلکہ خطبہ کا بھی ایک حصہ بیان کر چکا ہوں نہ صرف عورت میں ملکہ مرد بھی نماز پڑھنے کے لئے چلے آرہے ہیں اس اندازہ کو مد نظر رکھتے ہوئے انجے وقت ہوا اور دس پنجے موسع وسط کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے.حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سورج نیزہ بھر اونچا ہوتا تو عید الاضحی کی نماز ادا کی جاتی ہیے اور اس لحاظ سے اگر سوا چھ بجے سورج کا طلوع ہو تو نماز سات بجے تک ہو جانی چاہیئے.لیکن پرانی عادت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے نو بجے پڑھی اور اب بھی بعض لوگ عید پڑھنے کی خواہش سے برابر چلے آرہے ہیں.

Page 152

۱۴۴ میں سمجھتا ہوں اب ضروری ہے کہ یک لخت تو نہیں ، تھوڑا تھوڑا کم کرتے ہوتے ہیں نماز کو ٹھیک وقت پر لانا چاہیئے.عید کے ایام آپس میں ملنے جلنے کے لئے ہوتے ہیں.اگر عید کے دن صبح کی تیاری طبی ہو جائے اور پھر نماز اور خطبہ ہو تو آدھا دن تو اسی میں خرچ ہو جائے گا.اور باقی وقت قربانی کرنے اور کھانے پینے میں لگ جائے گا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء یہ ہے کہ عید کے دن باہمی تعلقات بڑھائے جائیں شیشہ دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ عید در حقیقت اس بات کا نشان ہے کہ ہم میں اپنی قربانیاں کسی مقصد کو مد نظر رکھکر کرنی چاہئیں.اور پھر جب کوئی خاص مقصد سامنے ہو تو کسی قربانی سے در یخ نہ کرنا چاہیئے.دوسری چیزوں کی طرح اسلام نے قربانی میں بھی اصلاح کی ہے ، باقی مذاہب کی بعض قربانیاں بظاہر بہت خوبصورت نظر آئیں گی لیکن وہ در حقیقت بالکل لغو اور بے فائدہ ہونگی عبادت کے متعلق بعض قوموں میں ایسی قربانیاں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں مثلا بعض لوگ الٹے لٹکے رہتے ہیں ہے.میں نے خود ایک شخص کو دیکھا جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ گیارہ سال سے مسلسل چھت سے ٹانگیں باندھ کر لٹکا ہوا ہے رات کے وقت وہ ہاتھ زمین پر یک لیتا تھا.اور یہی اس کا سونا تھا.میں نے خود تو نہیں دیکھا لیکن کہتے تھے وہ اسی طرح آٹا گوندھنا اور روٹی بچاتا ہے.جب ہم گئے اس وقت وہ آٹا گوندھنے کی تیاری کر رہا تھا.لوگ دُور دُور سے اس کی زیارت کو آتے تھے اور وہ بہت بزرگ سمجھا جاتا تھا.بظاہر تو یہ بہت بڑی قربانی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا.اسی طرح بعض لوگ سورج کی طرف دیکھنا شروع کرتے ہیں اور برابر دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ غائب ہو جائے لیے پھر بعض سردیوں کے موسم میں مرد پانی میں کھڑے رہتے ہیں لے اور بعض گرمیوں میں ارد گرد آگ جلا کر بیٹھے رہتے ہیں وہ یہ سب کچھ کر تب اور تماشا تو بے شک ہے لیکن دنیا کھیا ایسی مشقت اٹھانے والے کی ذات کو اس سے کیا فائدہ ہوا.اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ قربانی وہ ہے جس کا نفع تمہاری ذات کو یا دنیا کو پہنچے.پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ قربانی وہ ہے جس نے خدا کو نفع پہنچے اور اسی خیال کے ماتحت لوگ ایسی ایسی تکالیف اُٹھاتے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح خدا کو مزا آتا ہے.وہ خدا کے مزے کو بھی ایسا ہی سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خلیفة المسیح الا قول رضی اللہ عنہ ایک امیر زادہ کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ باپ کے مرنے کے بعد جب اسے تین لاکھ روپیہ ملا تو وہ دوستوں میں میٹھے کر مشورہ کرنے لگا کہ اسے کس طرح خرچ کیا جائے.وہ بازار میں گیا اور بزاز کو کپڑا پھاڑتے دیکھا.اس کے کان میں چرچہ کی آواز جو آئی تو اسے بہت پھیلی معلوم ہوئی.اور اس نے دوستوں سے آکر کہا.مجھے روپیہ حشریح کرنے کا بہت اچھا مصرف معلوم ہو گیا ہے اور نوکروں کو حکم دے دیا کہ کپڑوں کے تھان لا لاکر انھیں پھاڑتے رہو اور اس طرح ایک دن میں وہ چار پانچ سو کا کپڑا دھجیاں کر کر کے ضائع کر دیتا یہ نہیں تکالیف اٹھانے

Page 153

۱۳۵ والوں نے خدا تعالے کو بھی اس امیر زادہ کی طرح سمجھ رکھا تھے کہ انسان اگر اپنی دھجیاں اُڑاتے تو اُسے مزا آتا ہے.لیکن اسلام نے آکر بتایا کہ قربانی بندہ کے اپنے نفع کے لئے ہے ، فتقاد راسل بقاء کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہے تم اس لئے فنا نہیں ہوتے کہ خدا کو مزا آئے بلکہ اس لئے که خود تمہارے اندر ایک نئی چیز پیدا ہو.اور اگر یہ نہیں ہوتی تو تم اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہو بلکہ خدا تعالئے کے غضب کو بھڑکاتے ہو.اسے تمہیں ترقی دینا مقصود ہے نہ کہ دکھ دینا.الله تعالے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جائے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے.یہ عید در اصل اس بات کی یاد ہے کہ ہمیں لغو قربانیوں سے پر ہیز کرنے کے ساتھ مقید قربانی سے کبھی بھی پہلو تہی نہ کرنی چاہیئے.ایک طرف یہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہر ذرہ جو ضائع ہوتا ہے وہ خدا تعالے کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ بتاتی ہے کہ اگر کسی مقصد کے لئے تمہیں اپنی قیمتی جان بھی دینی پڑے تو بلا تامل دید گویا ایک طرف یہ عید ہمیں اپنے ذرہ ذرہ کو بچانے کا سبقتی دیتی ہے.اور دوسری طرف بڑی سے بڑی چیز کی قربانی سکھاتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجتہادی غلطی کے ما تحت اللہ تعالے کی رضا حاصل کرنے کی خاطر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنا چاہا لیکن چونکہ یہ ایک ایسی قربانی تھی جو محض بے فائدہ تھی اور کیس سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا تھا.اس سے نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کو کوئی فائدہ تھا اور نہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی ذات کو اور نہ ہی دنیا کو.اس لئے اللہ تعالے نے اس سے روک دیا.اور فرمایا کہ یہ قربانی ہماری خوشی کا موجب نہیں مانا تم رویا.کہ پورا کرنے والے ہو لیکن یہ تخیل ہمار کے حکم کے مطابق نہیں.گویا بتایا کہ لغو قربانی آج سے مشائی جاتی ہے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالے نے ایک اور قربانی قائم کی ہے اور وہ اس رویا کی تعبیر تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر اور اس کی والدہ کو ایک بے آب و گیاہ صحراء میں چھوڑ آئے اور اس غرض سے چھوڑ آئے کہ خدا تعالے کا گھر آباد ہو اور لوگ اس کا ذکر کریں.تلوار سے اگر وہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کر دیتے تو یہ اتنی بڑی قربانی نہ تھی اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کو ذبح کرتے وقت اتنا تو لحاظ کرتے کہ تیز چھری سے کام کرتے.اور یہ کام ایک منٹ میں ہو جاتا لیکن اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آنا جہاں سوسو میل تک کھانا پانی نہ مل سکتا ہو اور جہاں حد نظر تک نہ کوئی قافلہ ہو اور نہ آبادی.گویا اسے ایسی موت میں مبتلا کرنا تھا جو چھری سے ذبح کر دینے کے مقابلہ میں بہت زیادہ کلیف دہ تھی جس کے ساتھ بھوک اور پیاس بھی وابستہ تھی.اور اللہ تعالے نے اس قربانی سے حضرت

Page 154

ابراہیم علیہ السلام کو نہیں روہ.وہی خدا جس نے تیز چھری سے ذبح کرنے کے وقت کہا تھا یہ لغو ہے، فضول ہے ، اس کی ضرورت نہیں.اس سے زیادہ خطرناک قربانی کرتے ہوئے دیکھ کر نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا.ملکہ فرماتا ہے ہمارا منشا یہی ہے.وہ رحیم و کریم و شفیق کہتی ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری پھلانے سے روک دیا اس نے اُسے مکہ میں چھوڑنے سے نہ روکا بلکہ خود اس کا حکم دیا.اس کی یہی وجہ ہے کہ چھری سے ذبح کر دینے کے کوئی معنے نہ تھے اور اس کا کوئی فائدہ نہ تھا.لیکن غیر ذی زرع جنگل میں چھوڑ آنے کے معنے تھے ، اس سے خدا تعالے کی عبادت کو تنم کرنا مقصود تھا.اگر حضرت ابراہیم علیه اش دوم حضرت معیل علیه السلام کو چھری سے ذبح کر دیتے تو اس کا کیا فائدہ تھا.زیادہ سے زیادہ ایسا ندار لوگ مزے لے لیکن یه حکایت بیان کرتے.اور جو کز در ایمان والے ہوتے ، وہ زیادہ سے زیادہ اسی نقطہ نگاہ سے اسے دیکھتے جس سے فری تھنکر سوسائٹی کے بانی نے دیکھا.فرانس کا ایک لڑکا جو بعد میں دہریت کا بانی ہوا.وہ اپنے باپ اکلوتا بیٹا تھا.دس بارہ سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کے ساتھ پہلی دفعہ گر جائیں گیا.وہ کہتا ہے خوش قسمتی سے الیکن ہم تو اسے بدقسمتی ہی کہیں گے، پادری فضا نے اس وقت اسحاق کی قربانی پر وعظ کیا.رعیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت اسحق کی قربانی کی گئی عقی نہ کہ حضرت آمیل کی اور بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دیا.جوں جوں پادری صاحب یہ بیان کرتے مجھے خیال ہوتا کہ میں بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں.اگر میرا باپ بھی مجھے ذبح کر کے خدا کو خوش کرنا چاہئے تو کیا ہو.اس خیال کا مجھ پر اس قدر غلبہ ہوا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میرا باپ مجھے ضرور دیک کو ڈالے گا.جونی و خط ختم ہوا میں دوسرے دروازہ سے بھاگ گیا اور یمن در کے کنار سے پہنچا.امریکہ کو ایک جہاز جا رہا تھا اس میں سوار ہو گیا.ماں باپ کے لئے میرے دل میں کوئی محبت نہ رہی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ظالم ہوتے ہیں.ساتھ ہی مجھے خدا سے بھی نفرت ہوگئی اور میں نے دوسروں کو بھی اپنا ہم خیال بنا نا شروع کر دیا.آہستہ آہستہ دہریوں کی ایک بڑی جماعت بن گئی.یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں اخبار اور رسالے شائع کر رہے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ دنیا خدا کا انکار کر دیتے.تو ممکن تھا کہ اگر حضرت ابراہیم حضرت ہمیں کو ذبح کر دیتے تو اور بھی کئی لوگ کہ اٹھتے کہ ہم ایسی ظالمانہ تعلیم اور ایسے خدا کو نہیں مانتے.اور لیکن جس قربانی کا خدا نے حکم دیا وہ کتنی زبر دست ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک خدا تعالیٰ کی عبادت اس گھر سے وابستہ ہے جس کا قیام حضرت سمعیل علیہ السلام کے ذریعہ ہوا مگر کی آبادی اور اس بات کا علم کہ اللہ تعالے کی توحید کا مرکز اور سرختمیہ مکہ ہے، یہ تمام باتیں حضرت لکھیں

Page 155

کی قربانی سے ہی وابستہ ہیں.پس یہ عید کا دن ہمیں دو سبق دیت ہے.ایک خدم قربانی کا اور دوسرا قربانی کا.ایک تو یہ کہ کوئی ایسی تربانی نہ کرو جس کا کوئی نتیجہ نہ ہو.اور دوسرے یہ کہ جب نتیجہ نکلنے والا ہو تو عزیز سے عزیز چیز کی قربانی سے بھی دریغ نہ کرو.اس زمانہ میں اس کی مثال یہ ہے کہ جان کی قربانی اگرچہ اعلیٰ درجے کی قربانی سمجھی جاتی ہے لیکن اللہ تعالے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واستسلام کے ذریعہ اس سے روک دیا.اور دوسری طرف اموال اور را وقت کی قربانی کا حکم دیا اور فرمایا جو اس سے پیچھے ہٹتا ہے وہ راندہ درگاہ الہی ہے.اور یہ بھی اسی عید کی تشریح ہے کہ جو قربانی لغو اور بے نتیجہ ہے ، اس سے بچھہ اور مفید کو اختیار کرنے میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کرو.پس مومن کو ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھنا چاہئیے کہ کوئی کام ایسا نہ کرے جس سے اُسے یا دنیا کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو یہ اور جس سے کوئی فائدہ ہو اس سے ہرگز ہرگز دریغ نہ کرے یہی وہ روج ہے جو السلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور جس کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.افضل ہو ا پریل تک رہی ہے له زرقانی شرح موطا امام مالک جز اول ش - المنتقى من اخبار مصطفی طلا نیل الاوطار بن ثالث مشا، منها ه سفن ابی داود کتاب الترتقبل باب في اخذ الشارب - سل صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب تصوية الصفوف الخ - اخبار بند قادیان ۸ را پریل شار ۳۲۰ ه المصنف جزء ثالث قد ا مطبر بيرت - فنیل الاوطار ير ثالث مدا له سنن کبرنی جز ثالث مت $1961 نیل الاوطار جزء ثالث شاشه المغنی لابن قدامه جلد ۲ ص۳۹۹ طبع و دم ۳۱۳۷۷ " ے.انسائیکلو پیڈیا پیجیس اینڈ انیکس ی شله الملل و النحل امام شهرستانی جلد ۳ هنث ۲ حاشید انسائیکلو پیڈیا ٹیمیں اینڈ ایتھکس من ۳۳ - ۵۲ الملل و النحل امام شهرستانی جلد ۳ نقش ۲۵ حاشیه 3 انسائیکلو پیڈیا رییس اینڈ ایکس من ۵۳ - ابراهیم ۳۹:۱۳ تبلیغ رسالت جلد امید پر مندر بعد عبارت سے یہ معصوم مستنبط ہوتا ہے

Page 156

مصر ۲۱ د فرموده را پیریل ستاره بهنام باغ حضرت سی موعود علیہ اسلام قادیا، آج سے چار ہزار سال پہلے دنیا میں ایک انسان نے بچے اخلاص کا نمونہ دکھایا تھا.اس بچے اخلاص کے نتائج آج تک دنیا کو مل رہے ہیں ہے اور کی بنتی ہیں، اس علاقہ میں جو اس زمانہ میں عراق کہلاتا ہے ، ایک مشرک گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا.اس نے ایسے لوگوں میں تربیت پائی جن کا رات دن کا مشغلہ خدا کے شریک بنانا اور ایسی چیزوں کی پرستش کرنا تھا جو اپنے اندر کوئی طاقت وقوت نہ رکھتی تھیں.وہ بچہ ایک نورانی دل لے کر پیدا ہوا.خدا کی جو ہر شناس نگاہ نے دنیا کی بڑھتی ہوئی گمراہی اور اس کے طوفان ضلالت کو دیکھ کر چاہا کہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو اپنا بنائے اور اس کی نگاہ نے اس کنڈیوں کی بستی میں سے ابراهیم نامی بچہ کو چنا اور اسے اپنے فضل سے مسوح کیا جس قسم کے خاندان میں اور جن حالات میں ابراہیم کی پرورش ہوئی اس سے ظاہر ہے کہ اسرائیلی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے جب ابراہیم بارہ تیرہ سال کے ہوئے تو ان کے چچانے جن کے پاس وہ رہتے تھے کیونکہ آپ کے والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ، انہیں اپنی دکان پر بٹھایا.وہ دکان کس چیز کی تھی وہ ثبت فروشی کئی دکان تھی.ابراہیم نے اس دکان پر بیٹھتے ہی پہلی دفعہ یہ محسوس کیا کہ ان پتھروں اور مٹی کے بنے ہوئے بتوں میں بھی کوئی اہمیت سمجھی جاتی ہے.اپنے بچپن کے لحاظ سے انہیں اس وقت تک یہ احساس نہ تھا کہ ان کی قوم انہیں کسی حد تک عظمت دیتی ہے جب اس دکان پر بیٹھے اور انہوں نے اپنے بھائیوں سے پوچھا کہ ان تونیکی کیا غرض ہے اور انہیں بتایا گیا کہ لوگ انہیں لے جاتے اور ان کی پوجا کرتے ہیں تو انہیں تعجب آیا.یہودی تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک بڑھا گاہک جس کی داڑھی سفید ہو چکی تھی ستر اسی سال کی عمر تک پہنچ چکا تھا ایک دن آیا اوربیت طلب کیا.اور آخر بڑی تلاش کے بعد اس کو ایک بہت پسند آیا.جب وہ قیمت ادا کرنے لگا تو حضرت ابراہیم نے اس کا مونہ تجب سے تکتے ہوئے کہا.اتنی احتیاط سے یہ ثبت کیوں لے رہے ہو.بڑھے نے جواب دیا.میں اسے اپنے گھر میں رکھوں گا اور اس کی پرستش کروں گا تب ابراہیم نے جسے فطرت سے نیکی عطا ہوئی تھی حیرت سے کہا.یہ بہت تو کل بنا ہے اور تم ستر اسی سال کے بڑھے ہو.تمہاری داڑھی سفید ہو چکی ہے کیا تم اس کے سامنے جھکوٹے پیٹ سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کر لکھا ہے اس نے ثبت وہیں پھینک دیا اور چلا گیا.تب آپ کے چیرے بھائیوں نے چچا سے

Page 157

" * شکایت کی کہ یہ ہمارے گاہک خراب کرتا ہے اور چچا نے ابر اسمجھ کو خوب مار الله پرانی تاریخیں کوئی ایسی محفوظ نہیں اس لئے تم نہیں کہ سکتے کہ اس واقعہ میں کہاں تک صداقت پائی جاتی ہے.لیکن بیوردی تاریخیں یہی بیان کرتی ہیں اور تنتجب نہیں کہ یہ واقعہ صحیح ہو.اور بغیر کسی قسم کی آمیزش کے ہو.ہر حال معلوم ہوتا ہے کہ یہودی قوم میں اس قوم میں جو ابراہیم کی نسل سے چلی ، یہ بات مسلمہ ہے کہ ابراہیم کو بچپن سے ہی شرک کے خلاف جذبہ عطا کیا گیا تھا پیشتر اس کے کہ آپ نہیں ہوتے پیشتر اس کے کہ آپ وحی الہی سے برکت دیئے جاتے اور بیشتر اس کے کہ آپ اللہ تعالے کی طرف سے ہدایت پاتے آپ کا نفس ہی ان باتوں سے متنفر تھا.اور در اصل ہر نبی خدا تعالے کی اسی قسم کی برکت پایا کرتا ہے ہمارے آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے قبل زندگی کا بھی ایک واقعہ تاریخوں میں بیان ہوا ہے.زید ایک شخص تھے حضرت عمر کے رشتہ دار انہیں شرک کے خلاف توحید کے خیالات یہود سے سننے کا موقعہ ملا تھا اور وہ موحد ہو گئے تھے وہ جہاں جہاں جاتے توحید کی تائید میں لیکچر دیتے ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بھی آئے اور جب ان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو و انہوں نے کہا میں شرک کرنے والوں کا کھانا نہیں کھا یا کرتا.رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ سلم نے کہا.میں نے کبھی شرک نہیں کیا نتیجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نبوت سے پہلے ہر قسم کے مشہر کا نہ باتوں سے محفوظ اور اللہ تعالے کی حفاظت میں تھے بغیر حضرت ابراہیم جن کا میں واقعہ بیان کر رہا ہوں بچپن سے ہی توحید کے موید اور شرک کے مخالف تھے.مگر ایسی قوم میں پیدا ہو کہ جو رات دن شرک میں مبتلا رہتی اور ایسی قوم کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی کبھی یہ نہیں کہا کہ ران شرک میں مبتلا لوگوں کو بچایا نہیں جاسکتا.جب انہوں نے شرک کے خلاف اللہ تعالے سے ہدایت پا کر تعلیم دینی شروع کی تو ان کی قوم نے ان کی باتوں کو تسلیم نہ کیا.بلکہ طرح طرح کے کچھ دیئے.آپ کی مخالفت کی بیہانتک کہ آگ جلائی اور اس میں آپ کو ڈالا.قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ میں ان کے لئے آگ جلائی گئی اس میں ان کو پھینکا گیا.اور پھر وہ آپ آپ کے لئے ٹھنڈی کی گئی یہ ممکن ہے بارش ہوگئی ہو یا اور کوئی ایسے سامان پیدا ہو گئے ہوائی.رش انتہائی تکالیف کے ذریعہ آپ کو توحید سے روکنے کی کوشش کی گئی.مگر آپ نے کبھی یہ خیال نہ کیا کہ یہ دکھ دینے والے کہاں ہدایت پا سکتے ہیں، چلوان کو چھوڑو.پس ابراہیم کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مومن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ لوگوں کو دات کی رو اور کی کی یوگی حضرت ابراہیم کے لئے اندرونی مش است

Page 158

10.بھی تھیں اور بیرونی بھی.اندرونی یہ کہ آپ کے رشتہ دار تک آپکے مخالف تھے اور بیرونی یہ کہ اس زمانہ کی سیاست اور حکومت آپ کی مخالف تھی.سوائے ان کے ایک رشتہ دار کے جو ان کا خالہ زاد بھائی تھا یا بعض کہتے ہیں کہ وہ بھتیجا تھا اور کوئی ان پر ایمان نہ لایا تھا.اور اس قد تکلیفیں دی گئیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح انہیں بھی ہجرت کرنی پڑی مگر با وجود اس کے ان کے ایمان کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے کبھی یہ خیال نہ کیا کہ دنیا ہدایت کو قبول نہیں کرے گی بلکہ ان کے بھائی حضرت لوط جو دوسری بستی میں تھے جب ان کے منکروں پر عذاب آیا تو بائیبل میں لکھا ہے حضرت ابراہیم نے دُعا کرنی شروع کی کہ خدایا ! کیا تو اس قوم کو تباہ کر دے گا جبکہ تیرے نیک بندے بھی اس میں رہتے ہیں.اللہ تعالے نے فرمایا نہیں مگر وہ بستی تو گناہوں سے پُر ہو گئی.تب حضرت ابراہیمؑ نے کہا.بے شک مگر اسے خدا ! اگر اس میں سو مومن ہوں گے تو کیا تو ان پر نظر نہیں کرے گا اور کیا ان کی وجہ سے باقیوں کو بھی نہیں بچائے گا اللہ تعالے نے فرمایا.اسے ابراہیم ! اگر اس میں سو مومن ہوں تو میں ان کی وجہ سے سب کو بچانوگا مگر وہاں تو اس قدر بھی نہیں.تب ابراہیم نے کہا اسے خدا ! اگر اس میں تو سے مومن رہتے ہوں تو کیا محض اس لئے کہ دس مومن کم ہیں تو سب کو تباہ کر دے گا.اللہ تعالے نے کہا نہیں اگر فتنے مومن بھی ہوں گے تب بھی میں ان سب کو بچا نونگا.تب حضرت ابراہیم نے یہ مجھ کو کہ وہاں تو ہے مومن بھی نہیں کہا اے خدا ! اگر وہاں انٹی مومن ہوں تو کیا انٹی مومنوں کی تو قدر نہیں کریگا اور ایسی بستی کو ہلاک کر دے گا.خدا نے کہا: اگر وہاں اسی مومن بھی ہوں تب بھی میں بستی کو ہلاکت سے بچا لونگا.یہانتک کہ ہوتے ہوتے آخر حضرت ابراہیم‎ دس تک آگئے اور کہا.اسے خدا اگر وہاں دس مومن ہوں تو کیا یہ کم ہیں.اور کیا ان کی وجہ سے تو باقیوں کو ہلاکت سے نہیں ہنچائے گا.اللہ تعالے نے فرمایا کیوں نہیں.اگر وہاں دس مومن بھی ہوں تب بھی وہ نیکی کا بیج ہوں گے اور اس بستی کی ترقی کی امید ہو سکتی ہے.مگر وہاں تو دس مومن بھی نہیں.اتب حضرت ابراہیمہ خاموش ہو گئے اور انہوں نے حضرت لوط اور ان کے خاندان کے لئے دعا کی اور وہ بچائے گئے اللہ اس سے ان کے ایمان کا پتہ چلتا ہے مشرکوں نے انہیں دکھ دیار عزیز رشتہ داروں سے انہیں جدا ہونا پڑا ، آگ میں انہیں ڈالا گیا ، وطن سے بے وطن ہونا پڑا اور سینکٹر وسیل دور جا کر انہیں رہنا پڑا کر پھر بھی بنی نوع انسان سے شفقت ان کے دل میں اتنی تھی کہ اپنی قوم نہیں بلکہ ایک اور قوم کی تباہی کا حکم آتا ہے اور آپ وہاں بھی شفاعت کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.در اصل حضرت ابراہیم کا دل اس یقین سے پر تھا کہ جو تعلیم انہیں دی گئی ہے وہ اختر

Page 159

101 مشرکوں کو موجد بنا کہ رہے گی اور یہ یقین تو کل اور ایمان ہی تھا جو ان کو مایوس نہیں ہونے دیتا تھا.اور یہ بھی ان کے ایمان کا ثبوت ہے کہ جب خدا نے ان کا سوز و گداز دیکھا تو قرآن مجید میں ان کا ایک نام اقدامات رکھا گیا.گویادہ دنیا کی ہدایت کے غم میں مجسم سوز و گداز ہو گئے تھے اور ان کا یه سوز و گداز اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ جب انہوں نے خدا کے حضور دعائیں کیں تو انہوں نے کہا.اسے خدا میں ہی نہیں چاہتا کہ آج ہی گراد لوگوں کو ہدایت حاصل ہو.بلکہ میری یہ دخان، کہ جب بھی شریر دنیا میں شرارت کوین شیطان گمراہی اور ضلالت پھیلانا چاہے تیری طرف سے ہدایت دینے والے آتے رہیں.اور ہمیشہ ہمیش ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو نیکی کو پھیلانے والے اور توحید کو قائم رکھنے والے ہوں.خدا تعالے نے ان کی دعاؤں کو قبول کیا اور فرمایا بہت اچھا لیکن بدوں میں رہ کر چونکہ نیکی کا بیچ پنپ نہیں سکتا.میٹھے دودھ میں اگر ستی یا اور کوئی تریش چیز تھوڑی سی بھی ملائی جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے اس لئے خدا تعالے نے فرمایا.میں نے تیری دعائیں سنیں لیکن اگر واقعی تیری ہمدردی بنی نوع انسان سے اس قدر بڑھی ہوئی ہے تو تو جھا اور اپنے بیٹے کو قربان کر.لوگوں سے الگ اسے خاص میری حفاظت میں رکھ تاکہ علیحدہ ذخیرہ میں ایک پنیری لگائی جائے.نیکی اور تقوی کی پنیری.ایک چشمہ پھوڑا جائے ، پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ حضرت ابراہیم نے کہا.بہت اچھا ئیں تیار ہوں.انہوں نے اپنے بیٹے کو اس بیٹے کو جو بڑھاپے میں نصیب ہوا.اس وادی غیر ذی زرع میں چھوڑا جس کے متعلق خدا تعالے کہنا ہے کہ اس نہیں کھانے کا کوئی سامان نہیں تھا اس میں پانی نہیں تھا یہاں تک کہ خدا نے زمزم کا چشمہ پھوڑا.اور کھانے کی کوئی چیز نہ تھی کیونکہ اس کا نام ہی وادی غیر زرع تھا.ایسی ادی میں حضرت ابراہیم نے اس لئے اپنے بیٹے اور اس کی والدہ کو چھوڑا تاکہ خدا کا ذکر بلند ہو اور اللہ تعالے کی کھوئی ہوئی عظمت دنیا میں پھر قائم ہو چنانچہ حضرت ابراہیم کی دعا بتاتی ہے کہ انہیں اسی لئے وادی غیر ذی زرع میں رکھا گیا تھا تا وہ نیکی اور تقویٰ قائم کرنے والے نہیں چنانچہ وہ دعا کرتے ہیں.اے خدا میں نے انہیں اس لئے یہاں رکھا ہے کہ وہ نمازیں پڑھیں، اور تیرے ذکر کو دنیا میں قائم کرنے والے نہیں.پس ایسی جگہ او ناد رکھنے کے معنے یہ تھے کہ بڑے اثرات سے وہ اپنی اولاد کومحفوظ کر دیں اور نیکی کا بیج ہمیشہ قائم رکھیں.یہ کیا چیز تھی جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے قائم کی تم جانتے ہو؟ یہ وہ چیز تھی جس کے ذریعہ خدا نے کفر اور اسلام میں میں امتیاز قائم کیا.اسی لئے اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے.جو سماكم المسلمین سے نتی ابراہیم وہ اس لاشخص ہے جس نے کفر و اسلام میں امتیاز قائم کیا.یوں تو ہر نبی کے ذریعہ کوئی نہ کوئی کام ہوا ہے، کسی تعلیم کی بنیاد حضرت آدم نے رکھی کسی تعلیم کی بنیاد حضرت نوح نے

Page 160

10F رکھی.اور کسی تعلیم کی بنیاد حضرت ابراہیم نے رکھی.اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ ہر نبی مسلم تھا کیونکہ جو فرمانبردار ہے وہ مسلم ہے اور جو منکر ہے وہ کا فری مگر مسلم و کا فرمیں امتیاز اور نیکی کے بیج کے متعلق یہ محسوس کرا دیا کہ وہ بعض دفعہ کفر کے بیج کے نیچے آکر خراب ہو جاتا ہے، یہ بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہی قائم ہوئی اور یہی چیز ہے جس کے متعلق فرمایا.ھو سما کیم المسلمین.ورنہ قرآن مجید کے بتلائے ہوئے اصل کے ماتحت حضرت آدم حضرت نوح حضر دانود - حضرت سلیمان اور حضرت عیسی علیهم السلام سب مسلم تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خصوصیت اس لئے وہی گئی کہ آپ کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ آئندہ اسلام کو کفر سے جدا رہنا پڑیگا.ہدایت کو ضلالت سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے گی، اور نہ اور کوئی صورت اشاعت ہدایت کی نہیں ہوگی.یہ عمولی بات نہیں کہ کوئی شخص کھڑا ہو کر کہہ دے کہ تم الگ اور میں الگ تمہاری نمازیں الگ اور ہماری الگ ، تمہاری شادیاں الگ اور ہماری الگ تمہارے جنازے الگ اور ہمارے الگ.اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی تلواریں وہ اپنے خلاف کھڑی کرے اور یہی چیز ہے جس کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بائیبل میں کہا گیا کہ وہ اپنے بھائیوں کی تلواروں کے نیچے پلے گا.یعنی دنیا میں جب وہ یہ اعلان کرے گا کہ میں کفرو اسلام میں امتیازت تم کرتا ہوں.میں کفر کو جدا اور اسلام کو جدا کرتا ہوں تو اس کے بھائی اس پیر اعتراض کریں گے وہ اس سے جدا ہو جائیں گے اس کی مخالفت میں متحد ہو جائیں گے تب اس پر اپنے بھائیوں کی تلواریں اٹھیں گی ، مگر خدا فرماتا ہے کہ وہ تلواریں سجائے اسے مٹانے کے اس کے نشود ارتقاء کا موجب ہو جائیں گی.پس حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو دوسروں سے علیحدہ بسا کر اسلام اور کفر میں ایک امتیازت تم کر دیا.اور آئندہ کے لئے یہ قانون بنا دیا کہ جو بھی مامور آئے اس کے ماننے والوں کو اس کے منکروں سے علیحدہ رہنا پڑے گا.وہ علیحدگی بظاہر موت ہوگی، اور یوں معلوم ہوگا کہ وہ ایک واچ غیر ذی زرع میں پھینکے گئے.جب باپ بیٹے کو چھوڑ دیگا اور بیٹا باپ کو چھوڑ دے گا.بیوی خاوند کو چھوڑ دے گی اور خاوند بیوی کو چھوڑ دیگا.بھائی بہن کو چھوڑ دیگا اور بہن بھائی کو چھوڑ دے گی.ماں بچے کو چھوڑ دے گی اور بچہ ماں کو چھوڑ دے گا.اس وقت یوں معلوم ہوگا کہ با وجود دنیا میں رہنے کے وہ دنیا سے علیحدہ ہو گئے.وہ ایک وادی غیر ذی زرع میں چلے گئے.ایسے وقت میں جب مامور کے ماننے والے منکروں سے علیحدگی اختیار کریں گے تو ان کے بھائیوں کی تلواریں ان پر اُٹھیں گی.وہ تلواریں انہیں بلاک کرنا چاہیں گی ، تباہ و برباد کرنا چاہیں گی ، مگر خدا فرماتا ہے کہ وہ جو خدا کے حکم کے

Page 161

۱۵۳ ماتحت اپنے بھائیوں اور عزیزوں سے یہ جدائی اختیار کرے گا وہ اپنے بھائیوں کی تلواروں کے سایہ میں چلے گا اور کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی.نادان ہے وہ جو سمجھتا ہے کہ دشمنوں کی دشمنی اسے مٹا دے گی.نادان ہے وہ جو خیال کرتا ہے کہ اب جبکہ ان کے جنازے الگ، ان کی شادیاں علیحدہ اور ان کی نمازیں جدا ہو گئیں تو یہ جمہور سے علیحدگی اختیار کرکے کامیابی حاصل کریں گے.خدا فرماتا ہے کہ اگر وہ خدا کے لئے یہ موت قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو وہ ان نیکی کا ایک بیج ہیں جو کبھی ضائع نہیں ہوگا.بلکہ بڑھے گا اور پھو لیگا اور شہر خص جو اسے اکھاڑنا چاہے گا اللہ تعالے کا ہاتھ اسے برباد کر دے گا.کیا حضرت ابراہیم نعوذ باللہ نادان تھے جنہوں نے اپنے بیٹے کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑا.پھر کیوں انہوں نے ایسا کیا ؟ یا کیا خدا ان کا دشمن تھا جو کہہ دیا کہ جاؤ اور اس وادی میں بیوی بچہ کو چھوڑ آؤ.در اصل خدا اس طرح یہ نشان قائم کرنا چاہتا تھا کہ ایمان کی ترقی کے لئے پہلے موت بر داشت کرو.اگر تم موت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.اگر تم لوگوں کی دشمنی برداشت موند کرنے کے لئے تیار ہو تو پھر ضروری ہے کہ تمہاری نیکی کے بیج کو محفوظ رکھا جائے اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خراب زمین سے اسے علیحدہ کر لیا جائے.ایک بڑے درخت کے نیچے چھوٹا پورا کبھی پنپ نہیں سکتا.اسی طرح جب مامورین آتے ہیں تو ابتداء میں ان کی جماعت تھوڑی ہوتی ہے.وہ گنتی کے افراد دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہوتے ہیں.تب ضروری ہوتا ہے کہ انہیں دوسروں سے علیحدہ رکھا جائے مخالفوں سے جُدا کیا جائے تا وہ اپنے اخلاص اور محبت کے بیج کو نشو و نما دے سکیں.اگر یہ جدائی نہ ہو تو لا محالہ آپس میں تعلقات رکھنے پڑیں گے.اور اس طرح ہر وقت نقصان پہنچنے کا احتمال رہے گا.پس خدا ایک وقت بظاہر بگاڑ پیدا کرتا ہے اور جدائی پیدا کر کے موقع دیتا ہے کہ مامور کے ماننے والے بڑھ جائیں.پس دشمن سے جدائی خرابی نہیں بلکہ اللہ تعالے کی رحمتوں میں سے ایک حمت ہے.غرض یہ عید ہمارے لئے ایک سبق رکھتی ہے.یہ سبق کہ جو خدا تعالے کے لئے ہو جاتا ہے.وہ کبھی تباہ نہیں ہوتا.یہ سبق رکھتی ہے کہ جو شخص قربانی کرے اسے ہمیشہ ترقیات نصیب ہوتی ہیں.یہ سبق رکھتی ہے کہ جو جماعت ترقی کرنا چاہے اسے غیروں سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیئے جب تک وہ جماعت وادی غیر ذی زرع میں رہنے کے لئے تیار نہ ہو ، اس وقت تک اسے خروج بھی حاصل نہیں ہو سکتا حضرت مسیح نامرئی نے بھی یہی کہا کہ یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پہنچ کرانے آیا.مسلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں کیونکہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کر دوں اور آدمی

Page 162

۱۵۴ کے دشمن اس کے گھر سی کے لوگ ہوں گے یا یہ مقام ہے جو الٹی جماعتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے.بے شک یہ ایک موت ہے اور بے شک شخص ہمت نہیں کر سکتا کہ وہ ان شد اند کو پراشت کرنے کے لئے تیار ہو جائے.اور بے شک انسان خیال کرتا ہے کہ آہ ! میرا بھائی مجھ سے جدا ہو جائے گا.میری مصیبت میں کون میرے کام آئیگا.نوکر خیال کرتا ہے کہ اگر میں نے اپنے آقا سے علیحدگی اختیار کرلی تو میری ملازمت جاتی رہے گی.تاجر خیال کرتا ہے کہ اس کی تجارت کو ضعف پہنچ جائے گا.آقا خیال کرتا ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بدظن ہو جائیں گے.بیوی سمجھتی ہے میرا خاوند مجھ سے چھٹ جائیگا اور خاوند خیال کرتا ہے کہ میری بیوی مجھ سے علیحدہ کر لی جائیگی.بے شک انسانی قلوب میں یہ خیالات پیدا ہوتے ہیں مگر انہیں خیالات کو خدا تعالے نکالنا چاہتا ہے اور وہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ مومن صرف مجھ پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے عزیز و اقارب میں سے کسی کی پرواہ نہیں ہو سکتی.یہ عید گیا ہے؟ یہ قربانی کی عید ہے یہ عید یہ متبلانے کے لئے آئی ہے کہ مومن کو اللہ تعالے کے دین کے لئے اگر اپنی اولاد کو قربان کرنا پڑے تو وہ اس سے دریغ نہ کرے اگر اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنا چاہے تو وہ اس سے دریغ نہ کرے.اگر اپنی جان کی قربانی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے اگر وجاہت کی قربانی کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے غرض ہر چیز خدا کے لئے قربان کرے.مگر جتنی بڑی یہ قربانی نظر آتی ہے انعام کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وادی غیر ذی زرع میں اپنے بیوی اور بچہ کو رکھا تو بے شک کہنے والے کہتے ہوں گے کہ شخص کتنا پاگل ہے.ایک بے آب و گیاہ جنگل میں اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کو ہلاک کر رہا ہے.لیکن اگر ان کو وہ ترقی نظر آجاتی جو آج حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کو حاصل ہے.اگر انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کارہ پھیلاؤ نظر آ جاتا جو آج نظر آرہا ہے.اور اگر انہیں حضرت ابراہیم کی وہ عظمت دکھائی دیتی وہ نبوت کا سلسلہ انہیں نظر آجاتا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں چلا.پھر دنیومی فتوحات اور حکومتیں بھی دکھائی دیتیں تو میں سمجھتا ہوں ہر شخص ترلے کرتا اور کہنا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں اپنی اولاد کو یہاں چھوڑ جاؤں.وہ نمرود جو اپنی بادشاہی پر گھمنٹ ڈرکھتا تھا جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اسے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظمت نظر آجاتی تو وہ اپنی ساری عمر سجدے میں گذارہ دیتا اور دعا کرتا رہتا کہ میری اولاد کو یہاں رہنے کی اجازت مل جائے.مگر اس وقت شہر شخص دوست ہو یا دشمن کہتا ہوگا بڑھنا سٹھیا گیا ، اس کی عقل میں فتور واقع ہو گیا.یہ اپنے بیٹے اور پلوٹے بیٹے کو جو بڑھاپے میں اسے نصیب ہوا ، ایسی جگہ پر چھوڑ رہا ہے جہاں نہ پانی ہے نہ آدمی.رہا

Page 163

100 اور جو اس وقت کی کیفیت تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے معلوم ہوتی ہے.با تیبل میں بھی واقعات مذکور ہیں مگر اتارے کے طور پر کیونکہ بائبل والوں کو نبو اسمعیل سے ہشمنی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم نے ہاجرہ کو اس بیابان میں چھوڑا تو اس وقت ان کے پاس صرف ایک تھیلی کھجوروں کی اور ایک مشکیزہ پانی کا رکھے دیا اور کہا میں ذرا ادھر جاتا ہوں چونکہ نبی اور جھوٹ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے وہ جھوٹ تو بول نہیں سکتے تھے اور سچ بولنے سے حضرت ہاجرہ کو جو صدمہ ہوتا تھا وہ بھی سامنے تھا اس لئے انہوں نے صرف اسی قدر کہا کہ میں فی الحال جاتا ہوں کیونکہ الہام کے ذریعہ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ پھر دوبارہ انہیں اس وادی میں آنا ہو گا یہ اس وقت قدرتی طور پر بیوی اور بچے کی محبت نے اثر دکھایا انہوں نے اس وادی کو چاروں طرف دیکھا مگر انہیں تمھاڑی تک دکھائی نہ دی.پانی کا قطرہ تک نظر نہ آیا کھانے کی ایک چیز تک معلوم نہ ہوئی انہوں نے سوچا کہ ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور ایک دو دن سے زیادہ کہاں کام دے سکتی ہے.پھر سوائے ریت کے ذروں اور آفتاب کی چمک کے اور کوئی چیز میری بیوی اور بچے کے لئے نہیں ہوگی یہ سوچتے ہی ان پر رقت طاری ہو گئی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ان کی آنکھوں کی نمی اور ہونٹوں کی پھڑ پھڑاہٹ سے حضرت ہاجر سمجھ گئیں کہ بات کچھ زیادہ ہے وہ حضرت ابراہیم کے پیچھے پیچھے چلیں اور کہا ابراہیم کیا بات ، مر حضرت ابراہیم رقت کی وجہ سے جواب نہ دے سکے.حضرت ہاجرہ کے دل میں اس سے اور بھی مشبہ پیدا ہوا.اور انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا.ابراہیم تم ہمیں کہاں چھوڑے جاتے ہو یہاں تو پینے کے لئے پانی نہیں اور کھانے کے لئے غذا نہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دینا چاہا کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں مگر رقت کی وجہ سے آواز نہ نکل سکی تب انہوں نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے جس کے منے یہ تھے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں.تب حضرت باجرہ یقین اور ایمان سے پر ہاجرہ جو اپنی جوانی کی عمر میں تھی اور جس کا ایک ہی بیٹا تھا جوس وقت موت کی نذر ہو رہا تھا.فورا حضرت ابراہیم کا پیچھا کرنے سے رک گئی اور کہنے لگی اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا.آخر پانی ختم ہوا، غذا ختم ہوئی اور با وجود اس کے کہ اس علاقہ میں کوئی چیز نہ آتی تھی حضرت ہاجرہ اپنے بچہ کی تکلیف کو دیکھ کر جو پیاس سے تڑپ رہا تھا ایک ٹیلے پر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے اور اس سے پانی مانگ لیں یا کوئی آبادی دکھائی دے.انہوں نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر میں حد تک انسانی نظر کام کر سکتی تھی دیکھا اور خوب دیکھا مگر انہیں کہیں پانی کا نشان تک نظر نہ آیا.تب وہ اسی گھبراہٹ میں اتریں اور دوڑتی ہوئی دوسرے ٹیلے پر چڑھ گئیں وہاں سے بھی دیکھا مگر پانی کے کوئی آثار نظر نہ آئے پونا ، میلے کی چوٹی سے

Page 164

104 انہیں اپنا بچہ تڑپتا ہوا دکھائی دیتا تھا اس لئے جب وہ ٹیلے سے نیچے اترتیں تو اس خیال سے کہ میعلوم بجے کا کیا حال ہو جائے دوڑ کر اُتر نہیں.آجنگ حضرت ہاجرہ کے اس واقعہ کی یادگار کے طور پر حج کے ایام میں صفا اور مروہ پر دوڑ کر چلا جاتا ہے اور یہ دوڑ کر چلنا اسی رسم کو قائم رکھنے کے لئے ہے.جب حضرت ہاجرہ نے اس کرب و اضطراب میں بسات چکر کاٹے اور انہیں کوئی چیز نظر نہ آئی اور ان کا دل بیٹھنے لگا تو خدا تعالے کا الام نازل ہو اگر اسے باجرہ خدا نے تیرے بچہ کے نئے سامان کر دیا جا اور اپنے بچے کو دیکھے.حضرت ہاجرہ واپس آئیں تو انہوں نے دیکھا جہاں بچہ پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا وہاں ایک پرانا چشمہ ابل رہا ہے.جو لوگ پہاڑی مقامات کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ بعض دفعہ بہت پرانے چشمے مٹی وغیرہ سے اٹ جاتے ہیں.اور کسی کو یا تک نہیں رہتا کہ اس سطح زمین کے نیچے چیمہ ہے کشمیر میں بھی ایسے چٹھے دیکھنے میں آتے ہیں حدیثوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پیشہ پہلے سے تھا.بچے نے جب ایڑیاں رگڑیں تو وہ چشمہ پھوٹ پڑا.پانی کا تو اللہ تعالے نے اس طرح انتظام کر دیا ، اب غذا کی فکر تھی.اتفاقاً ایک قافلہ راستہ بھول گیا اور وہ اسی جگہ آپہنچا جہاں حضرت ہاجرہ بیٹھی تھیں.قافلہ والوں کو پانی کی سخت ضرورت تھی جب انہوں نے وہاں چشمہ دیکھا تو انہوں نے حضرت ہاجرہ کو بڑی بڑی رقوم دیں اور کہا کہ ہم آپ کی رعایا ہو کہ یہاں رہیں گے ہمیں اس جگہ بننے کی اجازت دی جائے.حضرت ہاجرہ نے انہیں اجازت دیدی پس وہ حضرت ہاجرہ اور اسمعیل کی ریمایا ہو کر وہاں رہنے لگے اور پیشتر اس کے کہ حضرت اسمعیل جوان ہو، خدا نے اسے بادشاہ بنادیا.آج تک حج کے ایام میں حضرت ہاجرہ کے واقعہ کو یاد دلایا جاتا ہے جب کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو دادی غیر ذی زاری میں چھوڑا.آج ہم میں سے جن کو اللہ تعالے توفیق دیتا ہے جاتے ہیں اور اسی جگہ اپنی پہاڑیوں کا طواف کرتے ہیں وہ وہاں اپنے بچے کو چھوڑ کر نہیں آتے حضرت ابراہیم والی قربانی کا ان سے مطالبہ نہیں کیا جاتا.صرف ان سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ اگر تمھیں خدا کے لئے اپنے بچوں کی قربانی کرنی پڑے تو تم بشاشت کے ساتھ یہ قربانی کرو گے صرف اقرار لیا جاتا ہے کہ اگر تم کو چندا کے لئے کسی وقت اپنے عزیزوں کو چھوڑنا پڑے تو تم انہیں چھوڑ دو گے.آج ہر دو شخص جو صفا و مروہ کا طواف کرتا ہے وہ اسی صورت کے نقش قدیم کا اتباع کرتا ہے جسے ناقص العقل والدین کہا جاتا ہے.اس طواف کے ذریعہ ہر مومن سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ کم از کم میں ایک عورت سے اپنے ایمان میں زیادہ ہونا چاہیئے.ہم اس کے بعد عید کرتے ہیں، اس لئے کہ ہم نے اس مقصد کو پورا کر دیا جو خدا نے ہم سے لیا اور یہ عید اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے اس محمد کو نباہا.مگر کیا تم اپنے نفسوں کو ٹٹول کر اور سینوں پر ہاتھ رکھ کر کر سکتے ہو کہ تم نے اس عہد کو

Page 165

پورا کیا ؟ کیا تمہارا ایمان صرف تمہاری زبانوں تک محدود نہیں.کیا واقعی وہ ایمان تمہارے قلوب پر حاوی ہو گیا.کیا واقعہ میں اس نے تمہارے جذبات پر تصرف حاصل کر لیا.اگر کر لیا تو پھر تمہاری سچی عید ہے.اور اگر نہیں بلکہ تمہارا ایمان صرف تمہارے دماغ اور فکر اور زبان تک محدود ہے تو پھر یہ عید تمہارے لئے عید نہیں بلکہ ایک ماتم کا دن ہے دیکھیو ایک عورت نے ، اُس عورت نے جس کی زندگی کا سہارا ایک ہی بچہ تھا اپنے وطن عزیز اور رشتہ داروں کو خدا تعالے کے لئے چھوڑ کرکھیا نمونہ دکھایا.آج خدا اس نمونہ کو قائم کر کے عورتوں سے کہتا ہے کہ تم میں سے ہی ایک عورت تھی جس نے خدا کے لئے یہ نمونہ دکھایا.کیا تم اس سے نرالی ہو کہ تمھیں الله تعالے کے راستہ میں مصائب برداشت کرنا دو بھر معلوم ہوتا ہے.اسی طرح وہ مردوں سے کتا ہے کہ تمھیں شرم کہو نی چاہیئے، ایک عورت نے نحیف ہو کر کمزور ہو کر ہے بصناعت ہو کر جب یہ نمونہ دکھا یا تو کیا تم مرد ہو کہ جنہیں زیادہ قوتیں دی گئی ہیں.قربانی سے ہچکچاتے ہو.لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے مسیح کو قبول کیا اور ہمیں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑنا پڑا.مگر میں کہتا ہوں تم سے کون ہے جس نے حضرت ہاجرہ سے زیادہ قربانی کی ہو جس نے اپنے آپ کو ان حالات میں سے گزارا ہو جن کے ماتحت حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا دیا.اور یقین سے پُر ہاجرہ نے کہا.اِذن لا يضيعنا.ہم کو بھی خدا کے ایک مامور کی صحبت نصیب ہوئی.ہمیں بھی اس پر ایمان لانے کا موقعہ عطا ہوا.مگر کیا ہم جو اس مامور پر ایمان لائے دعوئی سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حضرت ہاجرہ جیسی قربانی کی ؟ کیا ہمیں دشمنوں کی عداوت کو دیکھ کر یہ نہیں کہنا چاہیے.اذن لا يضيعنا اگر حضرت ہاجرہ کے دل میں سمجھیل کی اس تڑپ اور موت کی سی حالت کو دیکھ کر کرب و اضطراب پیدا ہوتا ہے.اور وہ بے تابانہ صفا و مروہ پر دوڑتی اور سات چکر لگاتی ہیں تو کیا محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے لئے جبکہ ہم اس دین کو آج موت کی حالت میں دیکھ رہے ہیں ہمارے دلوں میں کرب و اضطراب پیدا نہیں ہونا چاہئیے.ہم اس بات کے دعویدار ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود پر ایمان لاکر رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں داخل ہو گئے ہی مگر کیا ایمان اس بات کا نام نہیں کہ اپنی ہر چیز خدا کے مقابل پر ہماری نظروں میں ہیچ ہو جائے.اور جس طرح حضرت ہاجرہ نے اپنے بچہ سکتے لئے قربانی کی ہم اسلام کے لئے قربانی کریں.یقین اگر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ آج دین کی نہایت ہی نازک حالت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حالت کو ایک بیمار بچہ سے تشبیہ دی ہے.آپ فرماتے ہیں نے بران کفر است جوشان همچو انواع بزنید این حق بیمار دی کیس میمو زین العابدیان

Page 166

100 آج کفر اسی طرح زور و طاقت میں ہے جس طرح بنزید کی فوجیں زور و طاقت میں تھیں اور اسلام اسی طرح پیار و نیکیں ہے جس طرح زین العابدین جن کے باپ اور رشتہ دار جو دیشن کے مقابلہ کی طاقت رکھتے تھے مارے گئے تھے اور وہ خود بے کسی کی حالت میں تڑپ رہے تھے.آپ فرماتے ہیں.آج دین کی وہی حالت ہے جو زین العابدین کی تھی اور کفر کی وہی حالت ہے جو یزید کی فواج کی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلامہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ علم کے لائے ہوئے دین کو ایک بچہ سے تشبیہ دی ہے اور ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ دیکھو حضرت ہاجرہ نے اپنے بچہ کے لئے جو تڑپ دکھلاتی کیا تم محمد مصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے لئے ایسی تڑپ دکھانے کے لئے تیار نہیں یہ اگر واقعہ میں ہمارے دلوں میں اسلام کی محبت ہے ، قرآن کریم کی عظمت ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق ہے تو پھر دنیا کی مخالفتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں ایک اور صرف ایک خیال تمہارے دلوں میں ہونا چاہئے اور وہ یہ کہ اس وقت اسلام کو مٹانے کے لئے دنیا متحد ہو رہی ہے.آج لوگوں کے دلوں سے قرآن کا نوریسٹ گیا، قلوب کی صفائی جاتی رہی.وہ تعلیم جو دنیا کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے آئی تھی ، آج خود زمین پر مسلی جارہی ہے.وہ نبی جو دنیا کو گنا ہوں سے پاک کرنے کے لئے آیا تھا.آج ہرقسم کے غیوب اور گناہ اس کی طرف منسوب کئے جا رہے ہیں.وہ دین جو دنیا کو ترقی دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے آیا تھا، آج خود اس کا گلا گھونٹا جا رہا ہے.کوئی نہیں جو اس کا درد رکھتا ہو، کوئی نہیں جو اس کی اشاعت کا خیال رکھتا ہو.دل مردہ ہو چکے ، آنکھوں کی بنائی جاتی رہی اور محبت مفقود ہو گئی.آج لوگوں کی تمام غیر نہیں صرف اپنے نفوس کے لئے رہ گئی ہیں.آج ان کی تمام قوتیں صرف اپنی بڑائی اور شان و شوکت کے حصول کے لئے صرف ہو رہی ہیں، صرف ایک.ہاں صرف تم جو دنیا میں کمزور سمجھے جاتے ہو.تم جو دنیا میں حقیر سمجھے جاتے ہو، تمھیں خدا نے جینا ہے تا ہم سے وہ اپنے دین کی اشاعت کا کام ہے جس طرح آج سے ہزار ہا سال پہلے خدا نے حضرت اسمعیل کو چنا اور انہیں ایک وادی غیر ذی زرع میں رکھنے کا حکم دیا اسی طرح ہاں اسی طرح خدا نے تم کو چن لیا اور تمھیں بھی ، اپنے عزیزوں سے جُدا ہونا پڑا.تمہاری باتیں بھی تڑپتی ہیں جب تمھیں تبلیغ کے لئے دور دراز ملکوں میں جانا پڑتا ہے.مگر انہیں کیا پتہ کہ حضرت ہاجرہ کا دل بھی اسی طرح تڑپتا تھا.مگر اس نے خدا کے لئے مصاب کو برداشت کیا.چند روز ہوئے مجھے ایک ماں نے واقعہ سُنایا اس کا ایک بچہ جو نہایت

Page 167

104 ہی نیک تھا فوت ہو گیا ہے ، اللہ تعالے اس کی مغفرت کرے.اس نے بتایا کہ امرتسر میں جب ایک دفعہ جلسہ روک دیا گیا اور ارادہ ہوا کہ دوبارہ اسی جگہ جلسہ کیا جائے تو اس وقت مخالفت بہت زیادہ تھی اور لوگ کہتے تھے کہ اگر احمدی جلسہ کریں گے تو ہم انہیں ماریں گے.اس عورت نے سُنایا، میرا لڑکا آیا اور کہنے لگا.اماں جی میں امرت سر چلا ہوں.میں نے کہا بیٹیا ! میں نے تو سنا ہے مخالفت بہت زیادہ ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم احمدیوں کو ماریں گے.وہ کہنے لگا.باقی لوگ جو وہاں جائیں گے وہ بھی تو اپنی ماؤں کے بچے ہوں گے.اگر ساری باتیں یہی کہنے لگ جائیں تو پھر دین کی خدمت کون کرے گا.تو کئی مائیں ہیں جن کے دلوں میں پخیال آتا ہو گا کہ ان کے بچے دین کی خدمت کے لئے گئے ہوئے ہیں ، نہ معلوم ان کا کیا حال ہوگا.اور کئی بچے ہیں جو خیال کرتے ہوں گے کہ اگر یہ دین کی خدمت کے لئے نکلے تو ہماری مائیں کیا کریں گی.نہیں ایسی ماؤں اور بچوں سے کہتا ہوں کہ حضرت ہاجرہ کا بھی ایک بچہ تھا اور حضرت اسمعیل کی بھی ماں تھی اور حضرت ہاجرہ کے احساسات دوسروں کی ماؤں سے زیادہ تھے کیونکہ جتنی جتنی معرفت بڑھتی چلی جائے اتنے ہی احساسات تیز ہوتے جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو موٹی عقل والے زیادہ تکالیف بغیر کسی قسم کے احساس کے برداشت کر لیں گے میرے جیسے جیسے انسان تعلیم یافتہ ہوتا چلا جائے ، اس کی جس بڑھتی جاتی ہے.اسی طرح جتنا زیادہ کوئی شخص خدا کا مقرب ہوتا جائے ، اس کی جس بھی اسی نسبت سے ترقی کر جاتی ہے اس لئے سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَاكَ الَّا يكونوا مومنین.لوگوں کے مومن نہ ہونے کا ہمیں بھی صدمہ ہوتا ہے مگر محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدمہ کی کیفیت بالکل جدا گانہ ہے.اللہ تعالئے فرمانا ہے کہ تجھے پر اس صد کا اتنا اثر ہے کہ گویا تجھے پر پھری چل رہی ہے جس سے گردن ہی کٹ جائے گی.بائع تلوار کے گردن کی پچھلی رک تک پہنچ جانے کو کہتے ہیں.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرفان اور حسن کی زیادتی کا ثبوت ہے.پس یاد رکھو ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ دار کا اے ہوتی ہے اور ہماری غیر اسی دن ہو گی جب ہم حقیقی طور پر اپنی ذمہ داری کو پورا کریں گے وہی دن ہمارے لئے عید کا دن ہوگا.اور اسی دن خوش ہونا ہمارے لئے حقیقی خوشی کا اثبات ہوگا.اسی دن ہمارا حق ہوگا کہ ہم فرش کے کنگرے پکڑ کر کہیں کہ اے خدا ! ہم نے اپنے فرائھن کو پورا کر دیا.اب تو اپنے انعامات سے ہمیں سرفراز فرما.اور یقینا خدا تمہیں اپنے انعامات دے گا.پس مومن وہی ہے جو اس عید کے لئے تیاری کرے.اس دن جو بھی وہ دعا کرے گا خدا اسے قبول کرے گا.بلکہ خدا کہے گا کہ میرے بندے مانگ کہ میں تجھے دوں.اس ان

Page 168

14° خود خدا کو غیرت آئے گی اور کسے گاہ میرا بندہ مجھ سے کیوں نہیں مانگتا اس دن وہ اُجڑے ہوئے گھر جن کو آج دنیا ویران خیال کرتی ہے.آباد کر دیئے جائیں گے ، وہ دنیا کا مرکز بن جائینگے.اور جس طرح حج کے لئے لوگ مکہ میں جاتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو دین کے لئے قربانی کرنے والے ہیں، ان کے گھر بھی لوگوں کا مرکز ہو جائیں گے.قربانی بے شک بڑی ہے مگر انعام اس سے بھی بڑے ہیں.میں نے ابھی کہا تھا کہ اگر حضرت ابراہیم کی قربانی کے نتائج اس وقت دشمنوں کو معلوم ہو جاتے تو وہ بھی اپنی اولادوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے اور بڑے بڑے دشمن تمنا کرتے کہ کاش ہم سے سب کچھ لے لیا جائے اور ہماری اولاد کو اس ادی میں رہنے کے لئے جگہ دی جائے.یہی حال آئندہ ہونے والا ہے.آج جو لوگ تم میں سے بیچے طور پر اسلام کی خدمت کے لئے نکلیں گے خدا ان کے لئے وہی نمونہ دکھائے گا جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے لئے دکھا یا وہ اور اس کی اولاد ہمیشہ کے لئے اللہ تعالے کی رحمت اور اس کے بے انتہا فضلوں کی وارث ہو گی.اور وہ کبھی نہ اس جہان میں ضائع کئے جائیں گے اور نہ اگلے جہان ہیں.پس آج ایک موقع ہے وہ شخص جو عقل رکھتا ہے اس سے فائدہ اٹھائے گا.مگر وہ جو نادان ہے کاش وہ پیدا ہی نہ ہوتا کیونکہ اس قدر عظیم الشان موقع ملنے کے باوجود وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا.خطبہ ثانیہ میں فر مایا : ہر دن کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں.عید کے دن جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے اظہار کے لئے اس دن اسلام نے عبادت زیادہ کر دی.اور اس طرح بتایا کہ ہر خوشی کے موقع پر اللہ تعالے کے حضور جھکنا چاہئیے کیونکہ وہی تمام خوشیوں کا منبع ہے.عید کیا ہے.یہ ایک صفائی کا دن ہے اور اس دن ایک اور عبادت رکھ کر سمجھایا کہ حقیقی صفائی عبادت سے ہی ہوتی ہے.مگر یہ صفائی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو مایوس نہیں ہوتے کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنی زندگی کے گناہ دیکھ کر کہ دیا کرتے ہیں کہ کیا خدا ہمیں بھی معاف کر سکتا ہے.حالانکہ اگر یہ سمجھا جائے کہ کوئی ایسا گناہ بھی ہے جسے خدا نبش نہیں سکتا.تو میرے نزدیک اس کا صاف طور پر یہ مطلب ہوگا کہ خدا بڑا نہیں بلکہ نعوذ باشد شیطان بڑا ہے.اللہ تعالے تو فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيْعًا.خدا تعالے تمام قسم کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور نہ صرف گناہ بخشتا ہے بلکہ وہ انسان کو اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات بھی عطا کرتا ہے، صرف اپنے دل میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیئے بچے تھے تو ہم سکول کی کتابوں میں ایک نہایت ہی لطیف حکایت پڑھا کرتے تھے.لکھا ہے کہ سید عبد القادر جیلانی جب بارہ تیرہ سال کے ہوتے جب

Page 169

191 تو ان کی والدہ نے انہیں اپنے کسی عزیز کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں کوئی پیشہ سکھا دے یا تجارت کے کسی کام میں ان کی مدد کرے.ان کے پاس بیس پچیس اشرفیاں تھیں.ان کی والدہ نے کہا یہ تمہارے باپ کا دورہ شہ ہے میں انہیں گدڑی میں سی دیتی ہوں.جب منزل مقصود پر پہنچنا تو نکال لینا.جس قافلے کے ساتھ وہ جا رہے تھے اتفاقا راستہ میں اس پہ ڈاکہ پڑا.اور ڈاکر والوں نے سب کچھ لوٹ لیا.کسی ڈاکو نے گزرتے ہوئے ان سے بھی پوچھا کہ کیا تمہارے پاس بھی کوئی چیز ہے انہوں نے میں کھیں جتنی اشرفیاں تھیں بتا دیں اس نے کہا چل ہو قون مجھ سے محول کرتا ہے.تیرے پاس اشرفیاں کہاں سے آئیں.انہوں نے کہا نہیں میں مغول نہیں کرتا میرے پاس واقعی اشرفیاں ہیں.اس کے سمجھا یہ پاگل ہے اور چھوڑ کر چلا گیا.پھر کوئی دوسرا ڈ اکو گزرا اور اس نے پوچھا تو اسے بھی انھوں نے سچ بتا دیا.آخر وہ ڈاکو انہیں پچر کر اپنے سردار کے پاس لے گئے اور کہا.ہم میں سے پوچھتے ہیں تو یہ کہنا ہے کہ میرے پاس بیس پچیس اشرفیاں ہیں، ہمیں تو اعتبار نہیں آتا اب آپ کے پاس لائے ہیں جو حکم ہو اس طرح کیا جائے.اس نے کہا اس کی گھڑی پھاڑو جب انہوں نے گھڑی پھاڑتی تو اس میں سے اشرفیاں نکل آئیں.انہوں نے اس پر بڑی حیرت کا اظہار کیا اور کہا تیری گوڑی تو کسی نے دیکھینی نہیں تھی ، پھر تو نے یہ راز کیوں افشا کر دیا ہے انہوں نے نہایت سادگی سے کہا پھر میں جھوٹ کس طرح بولتا.چوروں پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اسی وقت تائب ہو گئے اور سوانخ والے لکھتے ہیں کہ وہی ڈاکو بعد میں بہت بڑا دلی بن گیا ہیں اسی طرح مشبلی جومشہور صوفی گذرے ہیں.اور تمام عالم اسلام ان کا ادب اور احترام کرتا ہے، وہ ایک علاقہ کے گورنر تھے مگر نہایت ہی ظالم و جابر جس طرح حجاج بن یوسف اپنے ظلم کی وجہ سے بدنام ہے.اسی طرح وہ بھی اپنے ظلموں کی وجہ سے بدنام تھے بلکہ حجاج بن یوسف تو شاید ظالم تھا یا نہیں کیونکہ اس کے متعلق اختلاف ہے.شبلی خود کہتے ہیں کہ میں نہایت ظالم و جابر گورنر تھا اور کوئی فتنہ نہیں تھا جس سے مجھے احتراز ہو.ہر گناہ کا میں مرتکب ہوا اور نہی علم میں میں نے حصہ لیا.ان کی ہدایت کا جو اللہ تعالے نے ذریعہ بنایا وہ یہ تھا کہ ایک دفعه وه با دشاہ کے دربار میں بیٹھے تھے کہ ایک جرنیل پیش ہوا جس نے بہت بڑی جنگی خدات سرانجام دی تھیں.بادشاہ نے اسے بر سر دربار خلوت دیا لیکن بد قسمتی سے وہ رومال لانا بھولوں گیا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ اسے نزلہ تھا پھینک جو آئی تو نزلہ بہنے لگا.اب اگر نزلہ پونچھتا تو یہ بد نما معلوم ہوتا.اور اگر یو پچھتا تو کوئی چیز نہ تھی.آخر اس نے نظر بچا کر اسی خلعت سے خست اک صاف کر لیا مگر بادشاہ کی نظر پڑگئی.وہ اپنے عطا کردہ خلوت کی اس بے قدری کو بدرد است ن کر سکا.اس نے نہایت ہی حصہ میں کہا کہ اس کا خلعت اتار لو اور اس کی تمام جائداد ضبط کر لو

Page 170

۱۹۲ a ہم نے ایک خلعت دیا مگر اس نے اس کی بے قدری کی شبلی نے جب یہ نظارہ دیکھا تو ایک دم ان کی چیخیں نکل گئیں.اللہ تعالے ایک تغیر کا وقت لاتا ہے ، اس وقت خدا کے حضور یہی مقدر تھا کہ ہدایت دے.بادشاہ نے پوچھا شبلی تمہیں کیا ہو گیا مگر ان پر ایسی رقت طاری تھی کہ کچھ دیر تک جواب نہ دے سکے.اور جب اصرار کیا گیا تو انہوں نے کہا بادشاہ سلامت میرا استعفیٰ منظور کیجئے.بادشاہ نے کہا: کیا تو پاگل ہو گیا ہے.انہوں نے کہا ئیں پاگل تو نہیں ہوا مگر اب مجھے وہ بات سمجھ آگئی ہے جو پہلے میں سمجھ نہیں سکا تھا.میں نے آجنگ ہر کام آپ کے خوش کرنے کے لئے کیا.مگر اب یہ نظارہ دیکھنے سے مجھے معا خیال آیا کہ اس جرنیل نے کتنی بڑی خدمات سر انجام دی تھیں.یہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بیوی کو بیوہ ہونے کے خطرہ ہیں اور بچوں کو یتیم ہونے کے خطرہ میں ڈال کر سالہا سال تک تکالیف برداشت کرتا رہا.اس کے بدلہ میں آپ نے جو اسے خلعت دیا وہ اس کی خدمات کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتا ہے مگر اس کی ایک معمولی سی فرد گذاشت پر آپ نے اس پر اتنا عتاب نازل کیا.اس کا خلعت اتار لیا.اس کی جائیداد ضبط کرلی اور اسے بر سر دربار ذلیل کرایا.مجھے بھی خدا نے ایک خلعت دی تھی مگر میں نے اپنے گناہوں کی وجہ سے اُسے سر سے پیر تک خراب کر لیا ہے.اب مجھے اجازت دی جاے کہ میں اپنی باقی عمران گناہوں کے داغوں کو دھوتے ہیں صرف کر دوں لکھا ہے وہ اتنے سخت ظالم تھے کہ وہ کئی صوفیا کے پاس گئے اور کہا میری توبہ قبولی ہو سکتی ہے یا نہیں مگر سب نے یہی کہا کہ تو اتنے ظلم کر چکا ہے کہ اب تیری توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں.آخر حضرت جنید یا کسی اور بزرگ کے پاس رمجھے ٹھیک یاد نہیں، وہ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہاں توبہ قبول ہوسکتی ہے.مگر یہ شرط رکھی کہ جن جن پر تم نے ظلم کیا ہے ان تمام کے دروازوں پر جاؤ اور ہر ایک سے معافی مانگو.آخر وہ ہر شخص کے دروازہ پر گئے اور انہوں نے معافی مانگی شی اب وہی شبلی روحانی ہادیوں میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں روحانیات میں بہت بڑا درجہ اور مقام حاصل ہے پیس انسان کے لئے ہر وقت مدارج کا دروازہ کھلا ہے اور اللہ تعالے کے انبیاء اسی لئے آیا کرتے ہیں کہتا وہ لوگوں کو گڑھوں سے نکالیں اور انہیں روشنی کے بلند مینار پر کھڑا کر دیں.پس یه سمت خیال کرو کہ تمہارے اندر کمزوریاں پائی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے سے یہ تمام کمزوریاں دور ہو سکتی ہیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کی تو به اس وقت تک اللہ تعالے قبول کرتا ہے.ما لم يُغر غیر جب تک اس پر موت طاری نہیں ہوتی اور جب تک اس کا دماغ پراگندہ نہیں ہو جاتا.پس ان باتوں سے ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہیئے.بلکہ ہمیشہ ترقی کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہیئے.اللہ تعالے نے ایک نبی بھیج کر اب پھر

Page 171

تمہیں موقع دیا ہے اس موقع کی قدر کرو اور اسے ضائع نہ ہونے دو.میں اللہ تعالے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.اور نہ صرف ہمیں اپنے نفوس کی اصلاح کا موقعہ دے بلکہ ہمیں دوسروں کی اصلاح کا جذبہ بھی عطا فرمائے.اور اس عظیم الشان موقع سے جو بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوا کرتا ہے.فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.یہ ایسا مبارک وقت ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اس وقت ایمان لانے والے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل ہوگئے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کا فضل ہمارے شامل حال ہو اور وہ ہماری ناچیز قربانیوں کو قبول فرما کر ہمیں اپنی ان نعمتوں کا وارث بنائے تو پہلے لوگوں کو حاصل ہو چکی ہیں.والفضل ۱۶ را سیریل ۱۹۳۳ء ۵ تا نا) ے مراد البوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں.پیدائش باب ۱۱ آیت ۲۷ تا ۳۱ - در ه - الانعام -۲: ۷۵ - تفسیر در منشور ہے ، جیوش انسائیکلو پیڈیا بسته سه - خویش انسائیکلومیٹڈ یا جلد اصل زیر لفظ ASRAAN شه - صحیح بخاری کتاب المناقب باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل - الانبياء ۲۱ : 49-6 - قدسی العرفان في تفسير سورة النجم من القرآن منحة شه غالبا سو کتاب ہے ایک دایت کے مطابق حضرت لوط الوان ضیاء ابراہیم الاسلام کے ا ا ا ا ا ا ت ا ر ا ا ا ا ا ا ا وانا الیہ ش - پیدائش باب ۱۱ آیت ۲۷ پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۲۳ جلد ).حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے اور میں رہتے تھے جو عراق کے علاقہ میں تھا.وہاں سے مار آن کی طرف جو بالائی عراق میں واقع ہے تشریف لے گئے.اور وہاں سے خدا تعالے کے حکم کے ماتحت کیا ہے کی طرف ہجرت کی.تاریخ طبری شے کی رو سے آپ نے ارض شام کی طرف ہجرت کی تھی.ہود ۷۶:۱۱ ه - التوبه ۹ : ۱۱۴ - سلام - ابرا سیم ۱۳: ۳۸ - الحج ۲۳ : ۷۹

Page 172

۱۶۴ ۱۵ - پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۲ - اصل عبارت یوں ہے :.وہ گورخر کی طرح آزاد مرد ہو گا.اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسا ر ہے گائے ه - منتی باب ۱۰ آیت ۳۴ تا ۳۰ شاه - تاریخ طبری ۲۵۴ مطبوعہ دار المعارف مصر شاه - صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزفون الغسلان فی المشی.پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۷ ے.غالباً اس سے مراد بعثت نبوی سے معاقبل حضرت عبد المطلب کے زریعہ زمزم کا دوبارہ طور ہے تاریخ انہیں جلد امت صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزفون المسلان في المشي.- صحیح بخاری کتاب الحيض باب ترك الحائض الصوم - سنن ابن ماجہ کتاب الفتن - باب فتنة النساء - بشیر احمد شریعت احمد ا در مبارکہ کی آمین مطبوعہ منشائه مندرجه در مشین اردو منه مطبوع شراء - روحانی خزائن (فتح اسلام) جلد ۳ مشا ۵۲۴ - الشعراء ۴:۲۶ - المنجد زیر لفظ بخح - تفسير الكشان علامہ زمخشری ۳۵ے زیرہ آیت کریہ.لَعَلَّكَ باخم نَفْسَكَ الَّا سَيَكُونُوا مُؤْمِنينَ.۳ - الزمر ۳۹ : ۵۴ ۹۲۵ - نيا تذكرة الاولیاء مؤلفه رئیس احمد جعفری ۲۲۲۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۵۵م - حجاج بن یوسف ) - 2) بنو امیہ کے صدر سلطنت میں پہلے مکہ مین اور نیامہ اور پھر بسارے جہان اور عراق (بصرہ اور کوفہ کا گورنہ رہا.- نيا تذكرة الاولياء مؤلفه رئيس احمد جعفرى قس مح - جامع ترندی ابواب الدعوات باب فضل التوبة

Page 173

140 ۲۲ د فرموده ۲۶ مارچ ۱۹۳۳ و مقام باغ حضرت کی موعود السلام قادیا، عید اضحی اپنے نام سے ہی قربانی چاہتی ہے.قربانی کے متعلق ایک بات یاد رکھنے والی ہے اور وہ یہ ہے کہ قربانی اپنے نتائج کے مطابق اور اپنے احساس کے مطابق ہوا کرتی ہے جتنی جتنی جس کم ہوتی چلی جائے اتنی ہی قربانی کی قیمت گرتی جاتی ہے اور جتنی جتنی جس زیادہ ہوتی جائے اتنی ہی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام نے کہا ہے کہ عوام کی نیکیاں خواص کی بدیاں ہوتی ہیں.ایک ایسا انسان جس کے دل کی حالت نہایت ہی تنگ ہے اور جس کے دل پر تخیل نے قبضہ کر رکھا ہے اگر وہ دین کی خاطر قربانی کرتا ہے.ایک تھوڑی سی قربانی جو دوسروں کی نگاہ میں بالکل حقیر ہے مگر اس کا دل اسی سے خون ہوا جاتا ہے وہ اُسے آنت سمجھتا ہے اور وہ بھی اسے پہاڑ نظر آتی ہے.مگر پھر بھی وہ کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے ایسے شخص کی قربانی یقیناً اسی کے طبقہ کے دوسرے آدمیوں کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے.بعض لوگ لا ابالی ہوتے ہیں مسرت ہوتے ہیں اور روپیہ کی قدر ان کے نزدیک کوئی نہیں ہوتی وہ جو کماتے ہیں اس سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں.ایسا آدمی اگر دین کے رستہ میں بھی بڑھ چڑھ کر خرچ کر دے تو گو دنیا کے نزدیک اس کی قربانی بڑی ہو، مگر خدا کے ہائی اس کے دل کی حالت کے مطابق ہی اس کی قیمت ہوگی.چونکہ عام حالات میں بھی وہ اسرانا سے ہی کام لیتا ہے اس لئے اگر چہ وہ دین کے معاملہ میں بھی اپنے بھائی سے زیادہ دیتا ہے پھر بھی اس کے دل کی حالت اور اس کی نگاہ میں روپیہ کی قدر و قیمت کا موازنہ کر کے ہی اللہ تعالے بھی اس کا بدلہ دیگا.اس نے اگر چہ زیادہ قربانی کی.اور دوسرے سے زیادہ رفتم دی مگرونیه رستم کی زیادتی اس نے دین کے بارہ میں ہی نہیں کی بلکہ دنیا کے کاموں تھے کہ اسود لعب میں بھی وہ ایسا ہی کرنے کا عادی ہے.مگر جو شخص دنیوی معاملات میں بھی اپنے اوپر تنگی برداشت کرتا ہے بلکہ ضرورت حقہ کو بھی پورا نہیں کرتا وہ اگر اتنی ہی رسم خدا کے رستہ ہیں دیدے جتنی ایک مشرف نے دی ہے تو وہ اللہ تعالے کے ہاں بہت زیادہ قیمت پائے گی.کیونکہ اس نے اپنے احساسات کو قربان کر دیا.اسی طرح ایک شخص جماعت میں نیا داخل ہوا ہے اور قربانی کے صحیح معنوں سے آگاہ نہیں وہ اپنے ایمان کے مطابق قربانی کرتا ہے.اور اپنے نفس میں خیال کرتا ہے کہ میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا ہے.مگر ایک پرانا احمدی ہے جو قربانی کا

Page 174

عادی ہو چکا ہے تو اللہ تعالے کے ہاں ان دونوں کو ان کی قلبی کیفیات اور احساسات کے مطابق بدلہ ملے گا، نئے احمدی کی تھوڑی قربانی کی قیمت پرانے کی زیادہ قربانی سے زیادہ ہوگی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوزخی جب ایک عرصہ تک عذاب اٹھا لیں گے تو پھر ہم ان کی جلدیں تبدیل کر دیں گے ہے.کیونکہ جتنی جتنی کسی چیز کی عادت ہو جائے اس کے متعلق خیس اپنی ہی کم ہو جاتی ہے.باورچی خانے میں کام کرنے والے لوگ بڑی آسانی سے ملتی ہوئی دیگی اُٹھا لیتے ہیں لیکن ہم اگر اس سے آدھی گرم کو بھی ہاتھ لگائیں تو ہا تھے جل جائے.بعض لوگ گرم چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں اتنی نیز کہ دوسرے اسے منہ کے قریب بھی نہ لا سکیں.اس کے متعلق مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا.1912ء میں جب میں بیمار ہوا.تو حکیم غلام محمد صاحبت جو حضرت خلیفہ اول کے شاگرد اور آپ کے مطب میں کام کیا کرتے تھے وہ اکثر میرے پاس ہی رہا کرتے تھے کیونکہ بیماری کی شدت تھی ، وہ رات کو بھی وہیں سو رہتے.اسی طرح عبد الاحد خان پٹھان بھی رہیں رہتے تھے ایک دن یونسی ذکر آیا کہ کشمیری اور پٹھان دونوں بہت گرم چائے پینے کے عادی ہوتے یں اور یہ سوال پیدا ہو گیا کہ دونوں میں سے کون زیادہ گرم پی سکتا ہے حکیم صاحب کہتے تھے که کشمیری بہت زیادہ گرم پی لیتے ہیں اور عبدالاحد خان کتنے تھے کہ پٹھان.بالآخر تجویز ہوئی که دونوں کو اہلیتی ہوئی چائے کی ایک ایک پیالی دی جائے.اور دیکھا جائے کہ کون جلدی ختم کرنا ہے.چنانچہ دونوں کو پیالیاں دی گئیں اور پینے لگے.حکیم صاحب پیالی کو منہ کے پاس لے جاتے اور جس طرح کوئی چیز انڈیلتا ہے اس طرح کرتے.لیکن سمجھ رہا تھا کہ بھلا اتنی تیز گرم اس طرح کہاں پی جا سکتی ہے.یہ عبد الاحد سے صرف مذاق کر رہے ہیں.لیکن چند بار ایسا کرنے کے بعد جب انہوں نے پیالی رکھی تو وہ بالکل خالی تھی.اور عبدالاحد نے اس وقت تک ابھی پیالی کا چوتھائی حصہ بھی ختم نہ کیا تھا.میرے واہمہ میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ اتنی تیز گرم چائے منہ کے پاس بھی لے جائی جاسکتی ہے.مگر یہ عادت کی بات ہے.اب اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ کوئی ثواب کا کام ہوتا تو میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو اس کے عادی نہیں، بہت زیادہ ثواب پاتے یہ نسبت ان لوگوں کے جنہیں کوئی احساس ہی نہیں ہوتا.کہ یہ گرم ہے کیونکہ قربانی اور اس کی قیمت احساس کے مطابق ہوتی ہے جس طرح دوزخ میں جلدیں بدلی جائینگی تا عذاب کا احساس ہو اسی طرح نیکی کا بھی حال ہے.اس میں بھی درجہ بدلنا پڑتا ہے ورنہ انسان کی نیکی نیکی نہیں رہتی.جب ایک نیکی کی عادت ہو جائے تو اس کا اتنا ثواب نہیں رہتا تک اس میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالے نے نیکیوں کے مدارج مقرر کئے ہیں.نماز کے فرض مقرر کئے مگر اس کے ساتھ نوافل اور سنتیں بھی لگا دیں.اب ایک شخص خیال

Page 175

146 کر سکتا ہے کہ جب فرض موجود ہیں تو پھر سنتوں اور نوافل کی کیا ضرورت تھی.اس میں بھی حکمت ہے کہ جب فرائض کی عادت ہو جائے تو مزید ترقی کے لئے رستہ کھلا رہے اللہ تعالے نے نماز کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا، مثلاً یہ نہیں کہا کہ ظہر کی نماز چار بجگرہ منٹ پر ادا کی جائے اور اس سے بھی اللہ تعالے کا منشاء یہی ہے کہ اگر کوئی خلوص دل سے چاہے تو اس میں زیادتی کر سکے پھر نماز میں توجہ کی بھی کوئی حد نہیں رکھی.وگرنہ پچلے درجہ کے لوگ محروم رہ جاتے ایک شخص معمولی سی توجہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لیتا ہے مگر دوسرا اتنا نہیں اُٹھا سکتا جب تک پوری توجہ سے کام نہ لے یہی حال صدقہ و خیرات کا ہے.ایک طرف زکوۃ رکھدی جس کی حد بندی کردی مگر صد و خیرات کی کوئی حد نہیں رکھی یعنی زکواۃ کے علاوہ نفلی صدقہ رکھا تا انسان جب نہ کوۃ کا عادی ہو جائے تو اس میں ترقی کر سکے.روزوں کا بھی یہی حال ہے رمضان کے روزے فرض کئے مگر ساتھ نفلی روزے بھی رکھے گیو یا ہر بات میں ترقی کی گنجائش رکھی تا جوں جوں ایک سیکی کی عادت ہوتی جائے اس میں اضافہ اور ترقی کی جاسکے.عرض شریعیت نے احساس اور عادت پر بنیاد رکھی، چیز پر نہیں.یہ نہیں کہ دس روپے دینے والا نو روپے دینے والے سے اچھا ہے.بلکہ احساس کے لحاظ سے ممکن ہے کہ ایک روپیٹر نے والا نو روپے دینے والے سے اچھا ہو.ایک تنگ دل آٹھ آئنہ دیتا ہے مگر اسے بھی ایک بڑی چیز خیال کرتا ہے لیکن دوسرا جو مشرف ہے وہ دس روپے دے دیتا ہے لیکن اس کے دل میں اس کا قطعاً کوئی احساس تک نہیں ہوتا.اس سے اس کنجوس کی ایک روپیہ کی قربانی جیسے کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی ہے زیادہ قیمتی ہے.یکی نے پہلے بھی ایک واقعہ سنایا ہے جو میرے ایک عزیز شنایا کرتے ہیں.وہ ایک دوسرے طالب علم کے ساتھ مل کر رہا کرتے تھے جو احمدی ہے.ایک دن انھوں نے دیکھا کہ وہ بہت افسردہ خاطر بیٹھا ہے.دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے.اس نے جواب دیا کہ امتحان سر پر ہے مگر آج میں نے ٹھیک طور پر پڑھا نہیں اور بہت سا وقت ضائع کر دیا ہے اس لئے میں نے اپنے آپ پر دو آنے جرمانہ کیا ہے انہوں نے پوچھا کہ کیا دو آنے کسی فقیر کو دیدیئے.کہنے لگے کہ نہیں اگر کسی فقیر کو دے سکتا.تو خوشی نہ ہوتی.انہوں نے پو چھا کہ پھر کسی طرح جرمانہ کیا.اس نے جواب دیا کہ دو آنہ کی ریوڑیاں لے کر کھالی ہیں.اب بعض طبائع روپیہ کی اتنی قدر کرتی ہیں کہ اپنی جان کے لئے بھی پیسہ خرچ کرنا پست نہیں کرتیں اور سوائے اشد ضرورت کے کہیں خرچ نہیں کرتیں.ایسا شخص اگر دو آنہ بھی دیتا ہے تو وہ بہت قابل قدر میں.لیکن جس شخص کے دل میں روپیہ کی قدر ہی نہیں اس کا ثواب بھی کم ہوگا.اس گڑ کے مطابق مومن کو ہمیشہ نیکی میں ترقی کرنی چاہیئے.اور یادرکھنا چاہیئے کہ جس نیکی کی عادت ہو جا

Page 176

اس کا ثواب بھی کم ہو جاتا ہے اور وہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب عادت سے زیادہ کی جائے.پس مومن کا ہر دن ایمان اور قربانی اور احساس کے لحاظ سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیئے.کیونکہ لازمی بات ہے کہ ہر قدم پہ عادت ہوگی اور اس طرح ہر قدم پہلے سے زیادہ اٹھانا پڑے گا یہی چیز ہے جس سے قرب الہی حاصل ہو سکتا ہے.مومن کسی ایک جگہ کھڑا نہیں ہوسکتا اگر کھڑا ہو جائے گا تو اس کی قربانی میچ ہو جائے گی.اسی مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن نوافل کے ذریعہ قرب الہی میں ترقی کرتا ہے حتی کہ اللہ تعالئے اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالے اس کی طرف دو قدم اُٹھاتا ہے حتی کہ اس کا وجود خدا کا وجود ہو جاتا ہے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ نوافل کے ذریعہ ترقی غیرمحدود ہوتی ہے تو یہ عید اضحی ہے.اور ہمیں قربانی کی طرف توجہ دلاتی ہے اور قربانی بھی احساس والی.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے لئے قربانی کرنی چاہی اور اپنے اکلوتے بیٹے کو شتربانی کے لئے پیش کر دیا.اول تو منشاء الہی یہ نہ تھا.ان کے رویا کی تعبیر یہ تھی کہ حضرت سمعیل کو مکہ میں چھوڑ آئیں تا اس کی نسل دین الہی کی حامل رہے مگر آپ نے اس رویا کو ظاہری رنگ میں پورا کرنے کی کوشش کی اور خدا نے الہام کے ذریعہ اس سے روک دیا لیکن محض اس قربانی کے ارادہ کرنے کے صلہ میں اللہ تعالی نے ہمیشہ کے لئے اس کی یاد گا ر مت تم کر دی.اس کے برعکس ہندوؤں میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو عملی اپنی اولادوں کو دیو ہی تو آؤ پر قربان کر دیتے ہیں.اگر چہ انگریزی حکومت نے قانونا اس کی ممانعت کر رکھی ہے.پھر بھی سینکڑوں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں میگران قربانیوں کا ذکر عزت سے کرنے کی بجائے ہم ذلت سے کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے بیوقوف ہیں میگر ایسا ہی ایک فعل ابراہیم نے کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی تہم اتنی تعریف کرتے ہیں.سوچنا چاہیئے ان دونوں میں کیا فرق ہے.ان میں ایک فرق تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فضل اللہ تعالے کے حکم کے ماتحت کیا تھا اور یہ لوگ جہالت سے غیر ضروری موقعہ پر کراتے ہیں.اور دوسرے یہ کہ با وجود قربان نہ کر سکنے کے حضرت ابراہیم کے فصل کی عظمت ہمارے نزدیک اس وجہ سے ہے کہ ابراهیمی احساسات بہت بڑھے ہوئے تھے.قرآن کریم میں آپ کے متعلق اواہ حلیم کے لفظ آتے ہیں.یعنی اس کا دل پگھلا ہوا تھا خالص آہیں بنا ہوا تھا.جس طرح اُبلتے اور کھولتے ہوئے پانی سے گیس نکلتی ہے اسی طرح حضرت ابراہیم کا دل اللہ تعالے کے سامنے ایسا تھر کا ہوا تھا کہ ہوا بن بن کر اڑ رہا تھا.احساسات کی نرمی ایسی تھی کہ دنیا میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے

Page 177

149 ایسے انسان سے تو معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں ہو سکتی.اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی قربانی اس سنگدل کے مقابلہ میں جسے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا بہت زیادہ قیمت رکھتی ہے مولوی ستید محمد سر در شاه صاحے ایک نواب کا قصہ سنایا کرتے ہیں جن کی اولاد اب احمدی ہو چکی ہے.وہ پہلے نواب تھے مگر کشمیر کے راجہ نے انہیں شکست دیدی تھی وہ بہت خوبصورت انسان تھے ایک دفعہ ان کے ہاتھ کی ہڈی کسی طرح لوٹ گئی جو بعد میں جڑ گئی تھی.ایک دن وہ راجہ کے دربار میں بیٹھے تھے.راجہ نے کہا کہ نواب صاحب جوڑنے والا اچھا ماہر نہ ہو گا کیونکہ کچھ نقص رہ گیا ہے.اگر آپ اس شخص سے جڑواتے جو ہم نے اس غرض کے لئے ملازم رکھا ہوا ہے توبہت اچھا جو ڑ لگتا.اور آپ کی خوبصورتی میں اس قدر نقص بھی نہ آتا.اس پر انہوں نے بازو کو پاؤں کے نیچے دبایا اور کرنا اک کر کے اسے توڑ دیا اور کہا لیجیئے اب اپنے آدمی سے جڑوا دیجئے مین تو ایک ایسے انسان بھی ہوتے اب ہیں.مگر دوسری طرف بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی جس بہت تیز ہوتی ہے اور وہ معمولی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ مجھے یاد آگیا ہے.ہم چھوٹے تھے ایک دن مرغی ذبح کرنی تھی.اور ڈیوڑھی پر اس وقت کوئی آدمی نہ تھا کوئی مہمان آئے ہوئے تھے اور جلدی تھی.آپ نے فرمایا.لاؤ میں ذبح کرتا ہوں.مرضی کو لٹا کر آپ نے آنکھیں بند کر لیں اور چھری پھیر دی.مگر جب اس خیال سے کہ اب ذبح ہو چکی ہوگی اسے چھوڑا تو مر عنی اُٹھے بھاگ گئی اور آپ کی انگلی سے خون بہہ رہا تھا.تو ایک جس یہ ہے کہ مرغی کو ذبح کرتے وقت بھی ایک رجب دل پر پڑھاتا ہے کہ ہم اللہ تعالے کی پیدا کردہ ایک جان خواہ جائزہ ہی سہی لے رہے ہیں.ایسے احساس والا اگر کوئی جسمانی قربانی کرتا ہے تو اس کی قیمت اس شخص کی قربانی سے جو خود پاؤں کے نیچے دبا کر اپنی ہڈی توڑ سکتا ہے بہت زیادہ قیمت ہوگی اور دونوں میں یقینا بہت بڑا فرق ہوگا.تو قربانی کی قیمت احساس کے مطابق ہوتی ہے.اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ بعض کی قربانی کم ہے اور بعض کی زیادہ.رسول کریم مسلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں بھی بعض صحابہ کو یہ شک ہوا کہ آپ حضرت ابو بکر کاسی کا زیادہ کرتے ہیں.حالانکہ قربانی کے لحاظ سے ہم بھی آپ سے کم نہیں ہیں.تو یہ بات بھی غلط تھی مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ ظاہری نمازوں پہ نہ جاؤ.ابو بکر کی قیمت اس کی ظاہری نمازوں اور رکھتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کے دل کی حالت پر ہے.ولی احساس سے ایک شخص ایک دفعہ سبحان اللہ کہتا ہے مگر دوسرا ۲۵ مرتبہ کہتا ہے مگر محض زبان سے اس کے دل میں اس کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا تو گو بظاہر اس نے زیادہ عبادت کی مگر اللہ تعالے

Page 178

15.کے ہاں دل سے ایک بار کہنے والے کا درجہ زیادہ ہوگا.بعض لوگوں کے دل کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ایک بار کہتا ہے مگر جیسے بتاشہ توڑ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کے دل کی کیفیت ہو جاتی ہے اس کا ایک دفعہ کہنا دوسرے کے ہزار دفعہ کہنے سے بھی زیادہ ہے.میں علمی طور پر دوسروں کے متعلق اور اپنے تجربہ کی بناء پر اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ بعض دفعہ دس میں دفعہ کی تشبیح سے اتنا اثر نہیں ہوتا اور بعض دفعہ ایک بار سے ہی بہت زیادہ ہو جاتا ہے.تو یہ دل کی کیفیات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے یاد ہے کہ مولوی عبد الکریم فضا کی وفات کے بعد آپ نے مسجد میں بیٹھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ مجلس دینی اور روحانی لحاظ سے بہت مفید ہوتی تھی.اس لئے کسی نے عرض کیا کہ آپ بیٹھتے کیوں نہیں.تو آپ نے جواب دیا کہ جب میری نظر مولوی عبد الکریم صاحب کی جگہ پر پڑتی ہے تو دل گھٹنے لگتا ہے مگر کئی ایسے ہوں گے جن پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا ہو گا.اب اگر کوئی تھے کہ دیکھیں میں کتنا صابر ہوں کہ اسی جگہ روز بیٹھتا ہوں اور حضرت مسیح موعود صابر نہیں ہیں کیونکہ آپ نہیں بیٹھتے تو یہ اس کی غلطی ہے.ہم اسے سنگدل کہ سکتے ہیں صابر نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ بہت سخت بیمار تھا اور آپ خود بھی بیمار تھے اسے دیکھنے کے لئے گئے تو نزع کی حالت تھی.آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ایک صحابی پاس کھڑے تھے.کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ بھی روتے ہیں.آپ نے فرمایا.اللہ تعالے نے تمہاری طرح مجھے سنگدل نہیں بنا یا.وہ صحابی بھی نیک تھے مگر ان کے دل میں ابھی سختی تھی اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ زیادہ صابر ننھے بلکہ یہ ہیں کہ ان کے دل میں اتنی خشیت پیدا نہیں ہوئی تھی.پس قربانیوں کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ثواب کا درجہ احساس سے ہے.جوں جوں احساس کم ہوتا جائے گا.اتنا ہی قربانی زیادہ کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی جائے گی.اس لئے مومن کو ہمیشہ قربانیوں میں ترقی کرنی چاہیئے.اور دوسرے کے درد کو محسوس کرنا چاہیئے.ایک شخص کسی مصیبت کو دیکھتا ہے مگر درد محسوس نہیں کرتا تو اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کے احساسات سخت ہیں تو جنوری کے مہینہ میں بتا رہیں زلزلہ آیا ہے لیے اس نے لاکھوں کو تباہ کر دیا ہے اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہماری جماعت نے اپنے مقام کے لحاظ سے ان مصیبت زدگان کے لئے وہ قربانی نہیں کی جو کرنی چاہیئے تھی.میں نے اس کے لئے تحریک کی مگر دو ہزار سے زیادہ چندہ نہ آیا حالانکہ جماعت لاکھوں کی ہے.اس زلزلہ سے جو تباہی آئی وہ بہت سخت ہے اور اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زبر دست نشان ظاہر ہوا ہے.۲۰-۲۵ ہزار جائیں ضائع ہو چکی ہیں مگر میری تحریک کا بہت کم اثر ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بس بہت کم

Page 179

161 لوگوں میں ہے باقیوں نے یا تو توجہ نہیں کی یا کی ہے تو بہت قلیل - حالانکہ قربانی وہی ہے جو نفس کو دکھ میں ڈالتی ہے اور اس کے متعلق ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وہ عادت سے آگے بڑھ کر کی جائے اور جب قربانی کرتے ہوئے کوئی احساس ہی نہ ہو تو انسان سمجھ لے کہ اس کا قدم منزل کی طرف جا رہا ہے.پس اس عید سے جو قربانی کی عید ہے.ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قربانی کی قیمت احساس کے مطابق ہوتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے احساسات بہت زیادہ تھے اس لئے اگر چہ بظاہر ان کی قربانی بہت کم نظر آتی ہے.مگر خدا کے ہاں وہ بہت زیادہ ہے جس کا دل پہلے ہی انگاروں پر لوٹ رہا ہو اس کا اپنے بچہ کو ذبح کر دینا کوئی معمولی قربانی نہیں.پس خوب یا درکھو کہ ترقی کا گر نہیں ہے کہ جب قربانی کی جس کم ہو جائے تو اسے بڑھایا جائے.اور کوئی ایسی قربانی نہیں جسے کرتے کرتے انسان کو عادت نہ ہو جائے.اس لئے مومن کو ہر دم سے آگے بڑھنا پڑے گا.اللہ تعالے ہمیں توفیق دے کہ اس کی راہ میں سچی قربانیاں کر سکیں اور ایسے رنگ میں کر سکیں کہ ابراہیمی فضل کو جذب کرنے والے بن جائیں.خطبہ ثانیہ میں فرمایا.عید الفطر کے موقعہ پر میں نے تحریک کی تھی کہ عید اضحی کے موقعہ پر احباب اپنی قربانیوں میں سے گوشت کا ایک حصہ مشترکہ انتظام میں غرباد کو تقسیم کرنے کے لئے دے دیں مادہ گوشت چندا حباب کے گھروں میں ہی چکر نہ کھاتا رہے اور ٹربا ومستحقین کو بھی میسر آسکے.مجھے امید ہے کہ دوست اس پر عمل کریں گے.کوشش کی جائے کہ سب قربانیاں آج ہی ہو جائیں.اور اپنے کھانے اور اعزہ کو تقسیم کرنے کے لئے جتنا ضروری ہو، اتنا گوشت رکھ کر باقی مشتر کہ انتظام میں دے دیا جائے ہے مثلاً ہمارے ہاں تو قربانیاں ہوں گی.اور میں نے کہ دیا ہے کہ ان میں سے تین اپنے کھانے اور رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کے لئے رکھ کہ باقی سب اسی انتظام میں دیدی جائیں.میرے رشتہ دار خدا کے فضل سے زیادہ ہیں.پانچ تو سسرال ہی ہیں.پھر ان کے بھی کئی کئی رشتہ دار ہیں.لیکن جن کے رشتہ دار کم ہوں وہ زیادہ دے سکتے ہیں اور اس طرح مواخات سلسلہ کو کم سے کم عید کے روز ہی عمدہ طریق پر پیش کیا جا سکتا ہے.والفضل ۳ را پریل ۱۹۳۳ء میتان) له - روحانی خزائن و خطبه العام جلد ۱۶ ۳۳۴ مجمع بحارالانوار هیله من - خیر الجالس مرتب حمید شاعر القلد یک ناشر امریکیر پر جون مارکیٹ کراچی "

Page 180

تو - النساء ۴: ۵۷ ہے.حکیم مولوی غلام محمد صاحب روفات ۲۲ فروری شد ( - خان عبدالاحد خان صاحب افغان در دین قادیان روفات ۳ اگست شاه ) افغانستان سے اوائل عمر میں ہجرت کر کے قادیان آگئے.خلافت اولیٰ میں احمدی ہوئے اور پھر عرصہ دراز تک نہایت اخلاص سے حفاظتی خدمات انجام دیتے رہے.صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع ك - الصفت ۳۷ : خود ۱ تا ۱۰۸ - ابراهیم ۱۴ : ۳۸ شہ ویدوں کی قربانیاں اور چڑیا دئے مثہ مطبوعہ لدھیانہ مشن پرییس سالہ - انسائیکلو پیڈیا یہیں اینڈا ٹیکس ، 2 - انسائیکلو پیڈیا ریلیجس اینڈ ایتھکس نه التوبة ۱۱۴:٩ ۱۲ الله - حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبت روفات سوار جون شاشاته ، حضرت مسیح مو تو علی السلام کے قدیم خدام اور اصحاب میں سے تھے.علم و فضل ، زہد و انتقاء اور صدق د وفا میں بے نظیر و جود تھے وقتاً فوقت کئی اہم انتظامی فرائض کے علاوہ مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بلند مقام پر فائز رہے.ر تفصیل کے لئے دیکھیں اصحاب احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے جلد ہر حصہ قتل تا سوم) سيرة المهدی حصہ دوم ماه مطبوعه و سمبر ۱۹۲۶ نو - نزدية المجالس مصنفہ شیخ عبدالرحمن الصفورى جلد ٢ ١ ے.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیا لکوٹی (۱۸۵۸ - ۱۹۰۵ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم خدام اور اصحاب میں سے تھے.آپ کی وفات پر مسیح پاک علیہ السلام نے لکھا.وہ دین اسلام کا حامی تھا اور جس کا خدا نے لیڈر نام رکھا تھا.وہ خدائی اسرار کا عارف تھا اور دین متین کا خزانہ ے.رسالہ جامعہ احمدیه سالنامہ ا ء ص واله تاریخ احمدیت جلد ۳ د ۲۱ - صحیح بخاری کتاب المرضى باب عيادة المريض شاه - یہ ہیبت ناک زلزله ۱۵ر جنوری ۱۹۳۳ء کو شمالی بہار اور اس کے گردو نواح میں آیا.جس سے ہزاروں جانوں کا خاتمہ ہو گیا.اور لاکھوں افراد بے خانماں و ہر بار ہو گئے.سید نا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعا لٰے عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ ہے مندرجہ الفضل بہتر میں زلزلہ سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لئے چندہ کی اپیل کی.

Page 181

ہے.اس زلزلہ کے بپا ہونے سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی صداقت کا وہ نشان کی ہی ہوا.جو آپ نے حقیقت الوحی ص پر ایسا کا درج فرمایا ہے..حضرت کے ارشاد کی تعمیل میں ایک خاص انتظام کے ماتحت قربانی کے گوشت کا ایک حصہ محلہ میں ایک جگہ جمع کیا گیا.اور یہ ان لوگوں کے گھروں میں افراد کے لحاظ سے پہنچایا گیا.جو قربانی نہ دے سکے.اور اس طرح قادیان میں کوئی ایسا گھر نہ رہا.جہاں قربانی کا گوشت نہ پہنچا ہو.الفضل ، در مارچ ۶۳۳)

Page 182

۲۳ و فرموده و در مادر باره انتقام می گه و قاریان یہ عید تو اپنے نام سے ہی اپنے مفہوم کو واضح کر دیتی ہے اور اپنی تشریح و تفسیر کے لئے کسی اور بیان کی محتاج نہیں.ہمارے ملک سے لوگوں نے بھی اردو میں اس کا نام عید قربانی رکھ کر اس کے مفہوم کو واضح کر دیا ہے اور واقعہ میں یہ عید ایک ایسی قربانی پر دلالت کرتی ہے جس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں.قربانی کی قیمت کو سمجھنے کے لئے یہ بڑا ضروری ہوتا ہے کہ معلوم کیا جائے قربانی کر نیوالے کا علم اور غم کس مقام کا ہے.مثلاً ایک جاہل اور بیوقوف انسان جو اپنی قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتا.اپنے بچہ کو شاہ دولہ کے نام پر وقف کر دیا ہے اور وہ بچہ ساری عمر کے لئے پاگل ہو جاتا ہے.بظاہر یہ اولاد کی قربانی ہے.مگر اس کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ وہ شخص خودشاہ دولہ کے چوموں جیسا دماغ رکھتا ہے.اگر اس کے دماغ میں عقل اور سمجھے ہوتی تو وہ ایسی حرکت کبھی نہ کر تا جس سے اُس کا بچہ ہمیشہ کے لئے علم اور عرفان سے محروم ہو جاتا.صرف سر چھوٹا ہونے سے عقل چھوٹی نہیں ہوتی اورنہ ہی بڑا سر از گنا زیادہ عقل مندی پر دلالت کرتا ہے.بعض بڑے سروالے ہیو قوت ہوتے ہیں.اور بعض چھوٹے سروالوں کی عقلیں بہت تیز ہوتی ہیں.افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والا ایک قبیلہ ہائن ٹاٹ 5 H OTTENT OF) ہے ان لوگوں کے سر بڑے بڑے ہوتے ہیں.دماغ کی بناوٹ کے بعض ماہرین نے شروع شروع میں اس امر تعجب کا اظہار کیا کہ ان میں عقل کیوں کم ہے لیکن آخر یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے دماغ کی ہڈیاں موٹی ہیں اور مغز چھوٹا ہے.مجھے اپنے بچپن کی بات یا د ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہو کر فرمایا کرتیں کہ اس کا سر سمیت چھوٹا ہے تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے یہ کوئی بات نہیں ر ایک تین جو بہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی بہت چھوٹا سا تھا.تو جو والدین اپنی اولاد کو شاہ دولہ کا چوہا بناتے ہیں ان کے بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ بہت عقلمند ہیں.جو شخص اپنی اولاد کو علم اور عرفان سے محروم کرتا ہے اس کا سرا گرچہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے جس شخص کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے.خدا اور رسول کیا ہے.قرآن کیا ہے.وہ عرفان کیا حاصل کر سکتا ہے.اور جو (RATTICAN )

Page 183

۱۷۵ باپ اپنی اولاد کو اس عرفان سے محروم رکھتا ہے اس کا دماغ یقینا شاہ دولہ کے چوہوں سے بھی چھوٹا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی قربانی کی کیا قیمت ہو سکتی ہے کوئی شخص اگر کہے کہ اس نے اولاد کی مہربانی کی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اولاد کی قربانی کی بھتی تو ہم کہیں گے کہ یہ وہی بات ہے کہ کسی شخص نے کسی ماہر طبیب سے پوچھا تھا کہ آپ بھی علاج کرتے ہیں اور عطائی فقیر بھی کچھ مریض آپ کے اچھے ہو جاتے ہیں اور کچھ مرجاتے ہیں اور کچھ ان کے اچھے ہو جاتے ہیں اور کچھ مر جاتے ہیں.پھر دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس طبیب نے جواب دیا کہ میرے ہاتھ سے جو مرتا ہے وہ بھی علم کے ماتحت مرتا ہے اور ان کے ہاتھ سے جو بچ جاتا ہے وہ بھی جہالت سے بچ جاتا ہے.نادان طبیب سے جو شخص شفا پا لیتا ہے ، وہ علم سے نہیں بلکہ اتفاق سے پاتا ہے اور ماہر طبیب کے علاج کے بعد جو مرتا ہے وہ اس لئے مرتا ہے کہ سب ملاحوں کے بعد بھی اللہ تعالے نے موت کا دروازہ کھلا رکھا ہے.پس قربانی وہی قابل قبول ہو سکتی ہے جو سمجھ کر کی جائے.ایک انسان چلا جا رہا ہے کسی اور چیز پر کوئی فائد کو رہا تھا اور یہ اتفاقاً سامنے آجاتا اور اس طرح مرجاتا ہے تو کوئی نہیں کہیں کتا کہ اس نے قربانی کی ہے قربانی وہی ہے جو علم اور سمجھ کے ماتحت کی جائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ایسی ہی تھی.آپ نے جب حضرت اسمعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو بیت اللہ کے پاس چھوڑا تو آپ جانتے تھے کہ یہاں کوئی چیز نہیں ہے.پھر آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ بچہ مریگا نہیں بلکہ اس کی اولاد ہو گی.آپ یہ بھی جانتے تھے کہ یہستی ہزاروں سال تک دوسری دنیا کی محتاج رہے گی اور اس میں کوئی چیز پیدا نہ ہو گی.یہ نہیں کہ آپ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو وہاں رکھ دیا اور سمجھ لیا کہ یہ مرجائے گا.یہ نہیں کہ آپ اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے تھے آپ نے اس وقت جو دودھیا کی.وہ واضح کرتی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ آپ کس شرم سے انہیں وہاں چھوڑ رہے ہیں اور یہ کہ ان کی اور ان کی اولاد کی آئندہ زندگی کیسے دکھوں اور تکلیفوں میں گزرے گی.وہ وقتی جوش کے ماتحت یہ کام نہ کر رہے تھے اور نہ ہی اسے کوئی خیالی بات سمجھتے تھے.یہ ایک ایسی بات تھی جس کے تمام متعلقات پر انہوں نے اچھی طرح خور کر لیا تھا.آپ خوب سمجھتے تھے کہ اس کے اعراض کیا ہیں اور یہ کہ یہ خدا کے حکم کے ماتحت کی جارہی ہے اور اسی لئے آپ کی قربانی بہت ممتاز ہے.ورنہ کوئی کہ سکتا ہے کہ شاہ دولہ کے لئے نیچے کو وقف کرنے والے نے بھی بچہ کی قربانی کردی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کر دی حالا کر دونوں میں عظیم الشان فرق ہے.شاہ دولہ کے چوہے کے باپنے اپنی اولاد کے احساسات کو مار دیا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں بند کر دیا.اور حقیقی قربانی یہی ہے کہ انسان سمجھکر قربانی کرے کہ اس قربانی کے اثرات کیا نکلیں گے اور کتنے لمبے عرصہ تک رہیں گے.بعض لوگوں میں جس

Page 184

1 نہیں ہوتی.کئی مریضیوں کے متعلق سُنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کلورا فارم (CHLOROFORM) کی ضرورت نہیں یونی اپریشن کر دیا جائے.ڈاکٹر بازو یا ٹانگ کاٹ رہا ہے اور وہ آرام سے بیٹھے ہیں.ڈاکٹر کا دل گھٹتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کوئی حرج نہیں کا تو.ایک شخص کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے.اب تو ان کی اولاد احمدی ہے کشمیر کے قریب ان کی ایک ریاست تھی جسے راجہ کشمیر نے فتح کر کے اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا.وہ بہت خوبصورت جوان تھے ایک دفعہ ان کا باز وہ ٹوٹ گیا.اس زمانہ میں کوئی اچھے ڈاکٹر نہ ہوتے تھے.کسی جوڑنے والے نے علاج کیا.بڑی جُڑ تو گئی مگر ذرا ٹیڑھی رہی جوڑ سیدھا نہ بیٹھا.ایک دن وہ مہاراجہ گلاب نگے یا رنبیر سنگھ کے دربار میں بیٹھے تھے کہ مہاراجہ نے کہا.آپ نے ہمیں کیوں نہ بتایا ہمارا ہڈی جوڑنے والا ملازم جوڑتا تو ٹیڑھی نہ ہوتی.اب سیکھو کیسی بدنما معلوم ہوتی ہے.انہوں نے بازو کو گھٹنے کے ساتھ دبایا اور پھر بڑی توڑ کر کہا کہ مہاراج اپنے جراحوں سے جڑوا‎ دیجئے.راجہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ عجیب آدمی ہے اور اسے ایسی گھبراہٹ ہوئی کہ دربار چھوڑ کر چلا گیا.تو بعض لوگوں کے احساسات باطل ہوتے ہیں اور بعض کے زندہ اور اس لحاظ سے دونوں کی قربانی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.اور قربانی کی قیمت ان تمام باتوں کے ساتھ ہوتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وہ بڑا درمن اور رقیق القلب تھا.اس لئے اس کے مقابلہ میں کسی سنگدلی انسان کی قربانی کی کیا قیمت ہو سکتی ہے جب کوئی مرتا ہے تو اس کے بیسیوں رشتہ دار موجود ہوتے ہیں مگر لوگ افسوس کے لئے اس کے ماں باپ کے پاس ہی جاتے ہیں.دوسرے رشتہ داروں کے پاس نہیں جاتے.اس لئے کہ جذبات زیادہ تر تو ماں باپ میں ہی پیدا ہوتے ہیں.اس لئے ان کا نقصان زیادہ سمجھا جاتا ہے.تو قربانی کی قیمت جذبات، علم ، فہم ، عقل اور ارادہ کے ماتحت ہوا کرتی ہے.ارادہ نہ ہو تب بھی قربانی کی قیمت نہیں ہوتی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کسی پر کوئی فائر کر رہا ہے اور عین اس وقت ایک شخص سامنے آجاتا اور مرجاتا ہے، تو یہ اس کی قربانی نہیں کہلا سکتی.قربانی یہ ہے کہ کوئی ارادہ کے ساتھ دوسرے کے آگے ہو جائے.یہ عید کی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسے وقت اور ایسے حالات میں کی ہے کہ انسان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ بہترین اور اعلی درجہ کی قربانی تھی اور اللہ تعالے کے فعل نے اس کی قیمت بتادی کہ ہمیشہ کے لئے اس دن قربانی مقر یہ کر دی.بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ ایک موت ہے جس کے لئے ہم عید مناتے ہیں.یہ عید علامت ہے اس بات کی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچے کو قربان کر دیا.لوگ پیدائش کی خوشیاں مناتے ہیں مگر ہمارا خدا نہیں کہتا ہے کہ جاؤ موت کی خوشیاں مناؤ کیونکہ ابراہیم نے بیٹے کو قربان کر دیا.

Page 185

166 اس میں یہ سبق ہے کہ خدا کی راہ میں قربانی ہی حقیقی عزت ہوا کرتی ہے.اور تحقیقی عورت میں قربانی ہوتی ہے.خدا تعالنے کے لئے قربانی کر نی الاکبھی نا کام نہیں رہ سکتا اور جیسے خدا تعالیٰ عززت دے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب قربان ہو جاؤ.قرآن کریم میں اللہ تعالے فرماتا ہے کہ بعض مسلمان جو منافق اور کمزور مسلمان تھے.احسان جتاتے تھے کہ ہم نے اسلام قبول کیا.لیکن اللہ تعالئے فرماتا ہے کہ یہ ہمارا ان پر احسان ہے.کہ انہیں اسلام لانے کی توفیق دی ہے اور اس احسان کے بدلہ میں اللہ تعالے کیا چاہتا ہے ایسی کہ جاؤ اور جا کر مر جاؤ.قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ جاؤ اور اللہ تعالے کے رستہ میں جائیں.دید و.یہ احسان کا بدلہ ہے.اسلام نے انعام کا نتیجہ قربانی رکھا ہے.جب تک قربانی نہیں انجام نہیں مل سکتا.اور جب انعام ملے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ قربانی کرو.پس خدا تھا نے سے کوئی شخص انعام نہیں پاسکتا جب تک کہ وہ قربانی نہ کرے.اور ہر انعام کے بعد اسلام امید کرتا ہے کہ پھر قربانی کی جائے.یہ ایک چکر ہے جو اسی طرح چلتا جاتا ہے.سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ یعنی سب کام رحمانیت اور رحیمیت سے شروع ہوتے ہیں.اور پھر اللہ تعالے رحمانیت اور رحیمیت کا دور لاتا ہے.اسی طرح ہر انعام قربانی کا تقاضا کرتا ہے.اور ہر قربانی کا نتیجہ امام ہے مشہور ہے کہ ایک بڑے بزرگ شمبل گذشت سے ہیں.وہ اپنے زمانہ کے اسلامی بادشاہ کی طرف سے کسی علاقہ کے گورز تھے.اور ایسے ظالم اور جابر گور نر کھتے کہ ان کے متعلق یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ انہیں بھی کبھی ہدایت ہوگی وہ ایک دفعہ بادشاہ کے دربار میں حاضر تھے کہ کوئی جرنیل بہت بڑی فتح کے بعد حاضر ہوگا.بادشاہ نے اسے خلعت دیا.جو اسے پہنایا گیا.اور سب نے اسے مبارکباد دی کہ بڑی عزت افزائی ہوئی ہے.لیکن بد قسمتی سے اس جرنیل کو نزلہ کی شکایت تھی.درباریوں میں رواج ہوتا ہے کہ وہ رومال ساتھ رکھتے ہیں مگر وہ جلدی میں یا خوشی ہیں گھر سے رومال لانا بھول گیا تھا.چھینک آئی تو ناک سے رطوبت نکلی وہ بہت گھبرایا کہ اب کیا کروں.اس نے ذرا نظر بچا کر اسی خلدت کے دامن سے پو نچھ لیا.اتفاق سے بادشاہ کی نظر اس پر پڑ گئی.اس نے حکم دیا کہ خلوت فوراً اتار لی جائے اور حمدے سے معزول کر دیا جاے کہ اس نے ہماری بنک کی ہے جو خلوت اسے حرکت کے لئے دیا گیا تھا اس سے ناک پونچھ لی ہے.مشعیلی بھی اس وقت کوئی رپورٹ دینے کے لئے بادشاہ کے دربار میں حاضر تھے حکم شنکر ان کی چنچنین نکل گئیں اور گورنری کا پروانہ بادشاہ کے سامنے رکھ کر آپ نے کہا کہ میرا استعفیٰ

Page 186

منظور کر لیا جائے.بادشاہ نے کہا کہ ناراض تو میں اس پر ہوا ہوں تم کیوں روتے اور استعفی دے رہے ہو شبلی نے کہا کہ اس پر آپ کی ناراضنگی نے میری آنکھیں کھول دی ہیں.اس شخص نے اپنی جان کو قربا ان کر کے آپ کے لئے ملک فتح کیا.وہ ہر رونہ اپنی بیوی کو ہو گی اپنے بچوں کو غنیم اور اپنی جان کو ہلاکت کے خطرہ میں ڈالتا تھا.وہ ہر روز آپ کے لئے موت کے منہ میں جاتا اور اپنی جان کو موت کے لئے پیش کرتا تھا.مگر آپ نے اسے کپڑوں کا خلعت دیا جس کی بے حرمتی سے آپ اتنے ناراض ہوئے کہ اس کی سب خدمات کو نظر اندازہ کر دیا.لیکن میرے رب نے مجھے کتنے خلعت دیتے ہیں.ناک ، مونسہ ہاتھ پاؤں وغیرہ اور میں انہیں روز خراب کرتا ہوں.شبلی گورنری کے زمانہ میں اتنے ظالم اور جابر تھے.کہ اس کے بعد وہ جس بزرگ کے پاس بھی گئے کہ اس کے ہاتھ پہ تو بہ کریں اس نے یہ کہکہ واپس کر دیا کہ تمہاری تو بہ نہیں قبول ہو سکتی.آخر دہ حضرت جنید کے پاس پہنچے جنہیں ابو الصوفیاء کہا جاتا ہے یہ اور کہا کہ میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں مگر سب کہتے ہیں کہ میری توبہ قبول نہیں ہو سکتی.حضرت جنید نے فرمایا کہ جھوٹ کہتے ہیں.خدا سب کی توبہ قبول کرتا ہے مگر ایک شرط تمہارے واسطے یہ ہے کہ اپنے دارالحکومت میں جاؤ اور ہر دروازه پر دستک دیگر مکینوں سے معافی مانگو.چنانچہ جہاں ایک عرصہ تک گورنری کرتے رہے تھے وہاں گئے اور ہر گھر سے معافی کی لیے پھر آ کر مبعیت کی اور ایسی سچی توبہ کی کہ آج وہ بھی جنید کی طرح ہی مشہور ہیں بلکہ خوام میں مشہلی زیادہ مشہور ہیں.یہ رہی مشبلی ہیں کہ منظور کو جب دار پر چڑھایا گیا اور لوگ پتھر مارنے لگے تو انہوں نے بھی ایک پھول اٹھا کر مارا.آپ کا مطلب غالبا یہ تھا کہ خدا کی راہ میں پڑنے والے پتھر در اصل پھول ہوتے ہیں میگر منصور نے اس بات کو نہ سمجھا اور خیال کیا کہ مشیلی نے بھی لوگوں کو دیکھ کر پتھر کے بجائے مجھے پھول مار دیا تا لوگ سمجھیں کہ یہ بھی مار رہا ہے.اس پر منصور رو پڑے اور کہا کہ عوام کے پھر مجھے نہیں لگتے مگر شبلی کا پھول بہت سخت لگا ہے ہے تو میں کہہ رہا تھا کہ ہر انعام کے لئے قربانی ضروری ہے بادشاہ نے اس جرنیل کو انعام دیا تھا اور اس سے یہ قربانی چاھی تھی کہ اس کی عزت کرے اور اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اسے بچائے.رسول کریم مسلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دفعہ ایک تلوار نکالی اور فرمایا یہ ہمیں اس شخص کو ڈونگا جو اس کا حق ادا کرے.ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے دیجئے.چنانچہ اسے دی گئی اور وہ جب شہید ہوا تو صحابہ کا بیان ہے کہ اس کے جسم کے ستر کڑے تھے.اور وہ دشمنوں کے لئے ایک آنت بنا رہا تھا جہاں بھی کوئی خطرہ پیدا ہوا وہ فوراً پہنچا.ایک بازوکٹ گیا تو دوسرے میں تلوار پکڑ کر چلاتا رہا وہ کٹ گیا تو منہ میں لیکر چلاتا رہا.پس اللہ تعالے کی طرف سے جو انعام آتے ہیں وہ ہمیشہ قربانی کا تقاضا کرتے ہیں وہ

Page 187

169 انعام دنیوی حکومتوں کی طرف سے نہیں ہوتے کہ کسی کو فشن پر بھیجنے لگے تو کپتان بنا دیا.اس کپتان کا مطلب نہیں ہوتا کہ جاؤ اور لڑو.بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ جاؤ آرام سے گھر میں بیٹھو لیکن اللہ تعالے کی طرف سے جو انعام آتے ہیں وہ بیسم، روح ، دل دماغ غرضیکہ ہر چیز کی قربانی چاہتے ہیں اور جب تک انسان سب کچھ اس کے سامنے نہیں ڈال دیتا.اور اپنے آپ کو معدوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا اس وقت تک اللہ تعالے یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے انعام کا بدلہ دیدیا ہے.مجھے اس مضمون کی طرف ایک رؤیا سے بھی تحریک ہوتی ہے.جو چند روز ہوئے ہیں نے دیکھا تھا میں نے دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور اس کی بیوی اور ملازم بھی ساتھ ہیں کیا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی آسودہ حال آدمی ہے.بعض مسائل پوچھتا اور اس کے بعد اطمینان حاصل کر کے سلسلہ میں داخل ہونا چاہتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ کچھ باتیں مجھ سے یا سلسلہ کے علماء کے ساتھ کر چکا ہے میں نے اسے بڑے کمرے میں جہاں میں ملاقاتیں کرتا ہوں سمجھایا اور جیسا کہ میرا قاعدہ ہے کہ سوائے اس وقت کے کہ ملنے والے پتلون وغیرہ پہنے ہوں فرش پر ہی سمیٹتا ہوں اس وقت بھی فرش پر ہی بیٹھا ہوں.ان کے دو ملازم آئے اور کوچ پرپیچھے گئے ہیں اس کے بعد ان کی بیوی بھی آگئی جو مصری یاشامی آزاد تعلیم یافتہ خورتوں کی طرح سیاہ رنگ کا برقعہ اوڑھے ہے جس میں منہ ناک آنکھیں ننگی ہیں ، سر بال اور گردن وغیرہ ڈھکی ہوئی ہے.پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرد پورے طور پر سمجھ چکا ہے اور عورت سمجھنا چاہتی ہے وہ آدمی کہنا ہے کہ میری بیوی بھی سوال کرنا چاہتی ہے.اور اس کی خواہش ہے کہ اُسے روحانی ترقی کے گر بتائے جائیں.تصوف کی طرف اس کا میلان معلوم ہوتا ہے.اور صوفیاء کا جیسا قاعدہ ہے کہ وہ بعض اصطلاحات بولتے ہیں.مثلاً مومن کو پرندہ کہتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت نے بھی کوئی ایسی اصطلاحیں بنائی ہیں.اس کا خاوند میرے کان میں کہتا ہے کہ اس کی خواہش ہے میں روحانی پٹواری بن جاؤں.چونکہ میں سمجھ گیا ہوں کہ اس کا میلان تصوف کی طرف ہے اس لئے اس لفظ کے سننے سے مجھے تعجب نہیں ہوتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح پٹواری زمینوں کی پیمائش کرتا ہے ، لوگوں کے حقوق کی نگرانی کرتا ہے، مالیہ مقرر کرتا ہے، اسی طرح اس کی خواہش ہے کہ میں ایسے مقام پر پہنچ جاؤں کہ دوسروں کی نگران ہو جاؤں اور میں یہی مفہوم سمجھتا ہوں.عورت چونکہ کچھ فاصلہ پر ہے وہ تبھی ذرا اونچی آواز سے کہتی ہے کہ میں چاہتی ہوں.میں پٹواری بن جاؤں اس پر اس کا خاوند ٹھیک کر کہتا ہے کہ پیچھے جیون فھاں بیٹھا ہے، یہ لفظ نہ بولو.گویا ان دو نوکروں میں سے ایک جو میری پشت کی طرف بیٹھا ہے جیوں خان ہے.دوسرا نو کر جیون خان کے پاس میرے پیچھے خدا بائیں طرف کو بیٹھا ہے اس پر وہ آہستہ سے کہتی ہے کہ میں چاہتی ہوں کوئی روحانی مقام حاصل کروں اور پھر آہستہ سے پٹواری

Page 188

۱۸۰ مینگور کا لفظ بولتی ہے اور پھر وہ کہتی ہے کہ ذرا الگ میری بات سُن لیں.گویا وہ یہ نہیں چاہتی کہ اس کے ملازم شن لیں اور میں ذرا پرے ہو کہ اس کی بات سُنتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ عاشق کو انعام سے کیا تعلق ہے.اس کا کام تو قربانی کرنا ہے پھر اسے انعام سے کیا واسطہ میں اسے کہتا ہوں کہ اپنی بات کو ذرا اور واضح کرو.اس پر وہ سورۃ الرحمن کی کچھ آیات پڑھ کر کہتی ہے کہ مجھے ان پر کچھ شبہ پیدا ہوتا ہے نہیں سمجھتا ہوں کہ اسی لئے اس نے کہا تھا کہ الگ ہو کر بات سن لیں کرنا نوکر اسے بے دین نہ سمجھیں حالانکہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.سورہ رحمن کی ان آیا ہے میں اللہ تعالے کے انعامات کا ذکر ہے.میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ گو الفاظ نام ہیں نہ انعامات سارے انسانوں کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لئے ہیں اور وہ پوچھتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو عاشق تھے انہیں انعام سے کیا واسطہ ہے اس پر میں نے اسے ایک مثال کے ذریعہ سے سمجھانا چاہا اور اس سے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ ایک بادشاہ ہے اس پر یتیم حملہ کرتا ہے وہ اپنے ایک وفادار جرنیل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں کمانڈر بنا کر اس غنیم کے مقابل پر بھیجتا ہوں.اب تم ہی بتاؤ کہ وہ کیا کہے کیا یہ کہے کہ نہیں حضور میں تو خادم اور عاشق ہوں مجھے انعام کی ضرورت نہیں یا یہ کہ بہت اچھا حضور اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں اسے چاہیئے اس عمدہ کو قبول کرلے نہیں کہتا ہوں کہ بس یہی حال یہاں ہے.یہاں اللہ تعالے نے جو انعام دیا ہے وہ حقیقت میں قربانی ہوتی ہے اس پر اس نے اپنی تسلی کا اظہار کیا اور میری آنکھ کھل گئی.یہ مضمون حقیقت پر مبنی ہے.دیکھو جنگ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گرد وہ لوگ کھڑے ہوتے تھے.جو سب سے زیادہ بہادر سمجھے جاتے تھے کہے کیونکہ آپ پر ہی مشین کے تمام حملوں کا دور ہوتا تھا اور ظاہر ہے کہ آپ پر یہ حملے نبوت کی وجہ کہی ہوتے تھے.گویا نبوت نے آپ کو بہت بڑی قربانی کے مقام پر کھڑا کر دیا تھا.تو اللہ تعالے کی طرف سے جتنے انعام آتے ہیں ان کے ساتھ قربانی کا تقاضا لازمی طور پر ہوتا ہے.اللہ تعالے نبی سے فرمانا ہے کہ جاؤ ہم نے دنیا تیرے ماتحت کر دی.مگر پہلے وہ دنیا جو ماتخت کی جاتی ہے بھارتی ہے ، گن سکتی ہے، مقدمے چلاتی ہے، دکھ دیتی ہے اور اس طرح نبوت جو دراصل انعام ہے.دنیوی نقطہ نگاہ سے بلا ہو جاتی ہے.کونسا نبی آیا ہے جسے گالیاں نہ دی گئیں تکالیف اور ایذائیں نہ پہنچائی گئیں.انبیاء کو تکالیف دینے والوں کا ذہن برائی کے متعلق اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ انسان خیال بھی نہیں کر سکتا کہ اتنی گندی گالیاں بھی دی جا سکتی ہیں تو گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئیں اور آپ کو ایذا رسانی کی جو تدابیر اختیار کی گئیں کیا

Page 189

101 کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے چور اور ڈاکو کے متعلق اتنی گالیاں سوچی اور کی گئی ہوں تو انبیاء کے دشمنوں کا دماغ گند کی ایجاد میں کمال کو پہنچے جاتا ہے اور اس طرح نبوت ایک رنگ میں انعام اور ایک رنگ میں ابتداء ہو جاتی ہے.محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ساری عمر قربانی میں گزار دی.مگر جب بادشاہت کا وقت آیا تو حضرت ابو سگی اور نظر آئے مگر ان کے زمانہ میں بھی خطرات ابھی باقی تھے اور انہوں نے کوئی ذاتی لذت بادشاہت سے نہیں اُٹھائی.ان کے بعد بنو امیہ اور بنو عباسش آگئے ان کے زمانہ میں ساری دنیا فتح ہوئی اور وہ امیر المؤمنین بن گئے.یہ سب انعام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے صلہ میں ملیے تو نبی اور خلفاء تو دکھ ہی اٹھاتے ہیں مگر بعد میں آنیوالوں کو انعام ملتے ہیں محمد رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو حالت تھی اس کا اندازہ اس سے ہوں کتا ہے کہ عرب میں چکی نہ ہوتی تھی اور پتھر پر کوٹ کر غلہ کا آٹا بنا لیا جاتا جو بہت موٹا ہوتا تھا یا بعد میں جب ایران فتح ہوا تو وہاں سے چکیاں آئیں.اور غروب میں بھی باریک آٹا ملنے لگا.ایک دفعہ حضرت عائشہؓ کے سامنے باریک آئے کے نرم نرم کھلے رکھے گئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.آپ کی ایک سہیلی نے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان پھلکوں کا ہر تعمہ میر سے گلے میں پھنستا ہے.اس نے کہا یہ تو نرم ہیں.آپ نے کہا کہ میرے دل میں خیال آرہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ ہوتے تو آپ کو بھی کھلاتے لیے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ کھانے کو موٹا آٹا ملتا تھا مگر آپ کے طفیل ہزاروں بادشاہ پیدا ہوئے.پس نبوت بے شک انعام ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساری عمر قربانی ہی کرتے رہے.یہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہم دیکھتے ہیں.آپ کی ساری عمر اسی طرح گزری کہ کہیں پھر ہیں ، کہیں گالیاں ہیں کہیں مقدمے دائر کئے جار ہے ہیں.کہیں شورشیں بپا کی جاتی ہیں.حتی کہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی اس وقت بھی جبکہ ہمارے دل زخمی تھے اور دنیا ہماری آنکھوں میں تیرہ و تاریعتی، ہزاروں، لوگ مختلط گالیاں بک رہے اور پتھر مار رہے تھے.حالانکہ کسی بڑے سے بڑے چور اور بدمعاش کی وفات پر بھی یہ لوگ کبھی نہیں ہوا ہو گا.ہمارے تعلق کہا جاتا ہے کہ ہم نے اپنی حکومت بنا رکھی ہے لیکن کیا حکومت ایسی ہی ہوتی ہے، ان لوگوں میں سے کوئی ایسا شریف آدمی نہ تھا جو انہیں بنا سکتا کہ مرنے والے سے محبت کرنے والے لوگ اندر بیٹھے رو رہے ہیں.تم لوگ خدا تعالے کا خوف کرو اور ان کے دل نہ دکھاؤ.پھر آپ کے بعد بھی ہیں حال ہے.بے شک اللہ تعالے نے

Page 190

۱۸۲ دنیا کو ہمارا غلامہ بنا دیا ہے مگر یہ بعد والے دیکھیں گے.وہ زمانہ آنے والا ہے جب وہ لوگ تختوں یہ میٹھے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام آتے ہی مؤدب کھڑے ہو جایا کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کے آگے آجکل کے بڑے بڑے لوگوں کی اولادیں جو تیاں رکھنا باعث فخر سمجھیں گی.مگر ہم نے کیا لیا سوائے گالیوں اور پتھروں کے.ہماری نہ ندگیاں اسی میں گزریں گی اور بادشاہتیں انہیں ملیں گی جو ان گالیوں کی لذت سے آشنا نہ ہوں گے ہمارے لئے مقدر بھی یہی ہے اور ہم چاہتے بھی یہی ہیں.ہاں اللہ تعالے کی طرف سے ہمیں خود بخود کچھ مل جائے تو اور بات ہے.مگر ہم چاہتے ہیں ہیں کہ ہماری تمرین مخالفتیں اٹھانے اور گالیاں کھانے میں ہی گزریں یہ کیونکہ ان میں جو لذت اور سرور ہے وہ بادشاہتوں میں نہیں.یہی وہ انعام ہے جو انبیاء اور رسولوں کو ملا اور یہی ہم اپنے لئے چاہتے ہیں.یہی وہ عید ہے جو آج منائی جارہی ہے.بقر عید نبیوں کے زمانہ کی عید ہوا کرتی ہے اور چھوٹی عید نلیوں کے بعد کے زمانہ کی چھوٹی عید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب بھوک کا زمانہ گزر گیا.لیکن اس عید کا مطلب یہ ہے کہ آؤ قربانی کریں.اس لئے یہ عید انبیاء اور ان کے خلفاء کے زمانہ کی عید ہے اور چھوٹی عید انبیاء کے بعد کے زمانہ کی ہوتی ہے.بڑی عید یہی ہے جو قربانیوں اور تکالیف کی ہے، وہ پھوٹی ہے جس میں بادشاہتیں اور حکومت میں ملتی ہیں.خدا کے انعام نام میں قربانی کا سہار لئے تخت حکومت سولی کا تختہ ہے.وہی ہماری حکومت ہے اور وہ تمام تکالیف جو ہمیں دی جاتی ہیں انہیں میں ہمارے لئے فخر ہے.ہم اگر اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے کرتے ہیں.اگر ہم مخالفوں سے کہتے ہیں کہ گالیاں مت دو تو اس لئے کہ ان کے اخلاق نہ بگڑ جائیں.اور اگر حکومت کو متوجہ کرتے ہیں تو اس لئے کہ حکومت خدا کی نظروں میں مغضوب ہو کر تباہ نہ ہو جائے ورنہ ہم تو لذت اسی میں محسوس کرتے ہیں اور مومن کی عید اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ جن لوگوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جائیں دیں انہوں نے عید نہیں دیکھی.آج وہ سامنے نہیں ہیں اور نہ تم دیکھتے کہ ان کے چہروں پر ایسے آثار ہوتے تھے جو ظاہری عید منانے والوں کے چہروں پر ہو ہی نہیں سکتے.جو جان دے دیتا تھا وہ میں سمجھتا تھا کہ میری عید آگئی.اسی لئے انہیں شہید کیا گیا ہے کہ وہ عید کا چاند دیکھتے ہوئے مرے.ہر مومن جو دین کے لئے خدا ہوتا ہے، وہ عید دکھتا ہے یہی عید اضحیہ ہوتی ہے یہی انبیاء کے زمانہ کا نشان ہے اور اسی کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے.پس آؤ ہم اللہ تعالے کا شکر ادا کریں اور اس کے نام کو عہد کریں کہ اس نے تمہیں

Page 191

JAP اس عید کی توفیق دی جو سب سے بڑی عید ہے اگر اللہ تعالے کے فرشتے آسمان سے اترتے اور بادشاہوں کو تختوں سے اتار کر ہمیں ان کی جگہ بٹھا دیتے تو ان گالیوں کے مقابلہ میں ہما سے لئے وہ چیز بالکل حقیر ہوتی.جن شہداء نے، افغانستان میں جانیں دیں کہ ان کی عزت چین جاپان اور افغانستان وغیرہ کے بادشاہوں سے بہت زیادہ ہے.اور دنیا کی ہزاروں سال کی بادشاہتیں ان کے مقابلہ میں بیچ ہیں.آئندہ احمدی بادشاہ جو دنیا کو فتح کریں گے ان کی حیثیت ان شہداء کے مقابلہ میں وہی ہوگی جو میلوان کے مقابلہ میں بچہ کی ہوتی ہے.یہ قربانیاں کرنے والے خدا تعالے کے دائیں ہاتھ پر تخت پر بیٹھے ہوں گے اور بادشاہتیں کرنے والے مودب سامنے کھڑے ہوں گے.پس بڑے وہی ہیں جن کو بڑی قربانیاں کرنے کی توفیق ملی.چند روزہ زندگی کیا ہے؟ اصل زندگی وہی ہے جو آئندہ شروع ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کی زندگی ہوتی ہے.اِس لئے حقیقی سعید وہی ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اور یہ عید محض کسی مہربانی سے نہیں ملتی ، اللہ تعالے کے فضل سے ملتی ہے.نبیوں کا زمانہ پانا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں اور لوگوں کے مانجھنے سے نہیں مل سکتا بغور کرو اگر تم آج سے پچاس سال بعد پیدا ہوتے توکس طرح یہ نعمت پاسکتے یا اگر ساٹھ سال پہلے مرجھاتے تو ان نعمتوں سے محروم رہ جاتے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانہ میں پیدا کیا اور پھر عید منانے کی توفیق دی.اس کے بدلہ میں وہ کہتا ہے کہ جاؤ دنیا میں پھیل جاؤ اور جدھر جاؤ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ اللہ کیر الہ ابر و له الحمد کہو.خدا کے نام کو بند کرو، اس کی حمد کرو اور گم گشتہ راہ لوگوں کو اس کے حضور ها هر کرو تا وہ بھی اس نعمت سے حصہ پائیں.پس قدر کرو ان استلاؤں کی اور تکالیف کی جو تم پر آتی ہیں کیونکہ ہر ایک قربانی اور انتہاء تہار سے درجہ کو بڑھاتا اور تمھیں خدا کے قریب کرتا ہے.یہ دکھ اور تکالیف تمہیں مایوس نہ کریں کیونکہ عید کے دن کوئی مایوس نہیں ہوا کرتا.عید خوشی کا نام ہے جن لوگوں کو اپنی قوم سے محبت ہوتی ہے وہ کبھی قربانیوں پر رنج نہیں کیا کرتے.میں نے کسی جگہ پڑھا ہے کہ فرانس اور جرمنی کے جنگ کے ایام میں ایک جرمن پڑھیا کا ایک ہی بیٹا تھا.اس بڑھیا کی عمر انسٹی بوس کے قریب تھی.اس کا لڑکا مارا گیا اور وزیر جنگ نے حکم دیا کہ ایک بڑا افسر اس کو بلا کر یہ خبر سنائے اور اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کرے لیکھا ہے کہ جب وہ بڑھیا یہ خبر شنکر دفتر جنگ سے باہر نکلی تو اس کی خمیدہ کمر غم کے مارے اور بھی ٹیڑھی ہوئی جاتی تھی.اس کی آنکھوں سے آنسو پھوٹ پھوٹ کر نکلنا چاہتے تھے مگر وہ تیر کر کے قبضہ مار تھی اور ہاتھ سے کمر کو سیدھا کر کے اونچی ہوتی تھی اور فخر سے کہتی تھی کہ کیا ہوا

Page 192

۱۸۴ تیرا بچہ آخر ملک کے لئے ہی قربان ہوا ہے کہیے غور کرو دنیا داروں کے لحاظ سے یہ کتنی بڑی قربانی ہے اس کی کمر ٹیڑھی تھی مگر وہ ہاتھ کا سارا دیکر اسے سیدھا کر تی تھی.اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے مگر وہ مصنوعی قہقہ لگاتی تھی.اور کیا تم خیال کرتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کالا یا ہوا پیغام اتنی بھی قیمت نہیں رکھتا اور اس کی اتنی بھی قدر نہیں جتنی اس بڑھیا کو جرمنی کی تھی.اگر واقعہ میں ہمارے جذبات اس عورت سے بھی کم ہیں تو ہم سے زیادہ ذلیل دنیا میں کوئی نہیں اور جتنی گالیاں ہمیں دی جارہی ہیں.ان سے ہزاروں گنا زیادہ کے ہم مستحق ہیں.اور اس قابل ہیں کہ کتوں سے پھڑوا دیے جائیں اور درندے ہمیں کھا جائیں آسمان و زمین کا خدا اپنے سپاہیوں میں ہمیں بھرتی کرتا ہے اور مسیح موجود کی جماعت میں جس کی تمام انبیاء خبر دیتے آئے ہیں ہمیں شامل ہونے کی توفیق عطا کرتا ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ لڑائی میں زخم کیوں آئے.ہر شخص جو احمدی ہوا.اقرار کرتا ہے کہ وہ خدا کے لئے اپنی جان دینے کے لیئے نکلتا ہے.اور اگر اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی کسی انسان کا ڈر ہے تو وہ دنیا کا ذلیل ترین انسان ہے اسے تو چاہیے کہ ہر وقت سر ہتھیلی پر رکھ کر تیار رہے اور ہر قربانی جو اسے کرنی پڑے اس کے بعد مایوس نہ ہو بلکہ اس کے اندر نئی امنگ اور نیا جوش ہو کیونکہ بہاری تو عید ہی قربانی ہے.نہیں اے دوستو ! لوگوں کے لئے تو سال میں ایک عید ہوتی ہے لیکن تمہارے لئے سال میں تین سو ساٹھ عیدیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہو کر تمہارے لئے ہر روز عید ہے.پس خوش ہو جاؤ کہ اللہ تعالے نے تمہیں قربانی کے لئے چنا ہے اس لئے ان مصیبتوں تکلیفوں اذیتیوں اور آفات کی قدر کرو کہ یہ رتبہ بڑھانے والی چیزیں ہیں.خطبہ ثانیہ میں فرمایا :- میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے ہمیں ان دنوں کی قدر کرنے کی سمجھ عطا فرمائے کیونکہ علم کے بغیر بھی کچھ نہیں ہوتا جو اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتے کہ جن مصیبتوں سے ہم گزر رہے ہیں یہ دراصل ہمارے لئے عید ہے.ان کے دماغ روشن کرے تا وہ مجھ سکیں کہ اللہ تعالے نے انہیں عوت کے کس مقام پر کھڑا کیا ہے.آج ہمیں جو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں وہ در اصل انعام ہے کیونکہ اللہ تعالے کی طرف سے جن قربانیوں کا مطالبہ ہو وہ انعام نہی ہوتی ہیں.جیسے کوئی شخص دیکھے کہ بیٹے کو ذبح کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سر او بج کر سکتے.اور جو دیکھے کہ بکرا ذبح کیا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا مر جائے گا ئی کاش دوست سمجھ کہیں کہ ہرفت ربانی جو ہم سے کرائی جاتی ہے وہ اللہ تعالے کی طرف سے محبت اور پیار کا اظہار ہے.

Page 193

1AB اس موقع پر میں پھر اعلان کرتا ہوں کہ سب دوست جوان مشکلات کو دور کرنا چاہتے ہیں اس لئے نہیں کہ ہم ان سے ڈرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ دین کی اشاعت میں روک پیدا کر رہی ہیں وہ آئندہ سات مفتوں تک ہر حجرات کو روزہ رکھیں تا اللہ تعالے ان مشکلات کے اس حصہ کو جو دین کی اشاعت کے رستہ میں روک ہے خواہ وہ افسروں کی طرف سے ہے یار عایا کی طرف سے دور کر دے جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دعا بکثرت پڑھنی چاہیئے.اللهم إنَّا نَجْعَلكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شرورهم شسته اے اللہ ! جو ہم پر حملہ کرے ا سلسلہ کو نقصان پہنچائے خواہ افسروں میں سے ہو یا رعایا میں سے تو اس کے مقابل پر ہماری طرف سے تلوار چلا اور ہمیں ان کے شرور سے محفوظ رکھ.یہ مت سمجھو کہ یہ کوئی معمولی سی دعا ہے اور تم بغیر ہتھیاروں کے ہو.یہ دعا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھائی ہے کہ جب کوئی قوم تم پر حملہ آور ہو تو یہ دی کہ وہ خدا اسے تباہ کر دے گا.اگر یہ دیا نیچے دل سے کر دگے تو اس کے ایسے اثرات دیکھو گے جو دنیا کے لئے عبرت کا موجب ہوں گے.پھر ایک اور دعا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعال نے سکھائی اور فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے جو دنیا کی شرارتوں سے محفوظ رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ربِّ كُلُّ شَیءٍ خَادِمَكَ رَبِّ فَاحْفَظنِى وَالْعُرْنِي وَارْحَمْنِنی ہے اس کو بھی کثرت سے پڑھو اور اخلاص سے پڑھو کہ یہ بھی اس زمانہ کے آفات سے محفوظ رہنے کے لئے ہے.اگر یہ دعائیں پڑھتے رہو گے تو دشمن خواہ افسروں میں سے ہوں یا رعایا میں سے.خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے یا تو ہدایت پا جائیں گے یا پھر اللہ تعالئے ان کو ایسی عبرت انگیز سزائیں دے گا کہ وہ محسوس کریں گے کہ ہم نے اس کے بندوں کو دکھ دے کو اس کے فضہ مجھے اپنے اوپر بھڑ کا لیا ہے میں نے کبھی کسی کے لئے بد و نا نہیں کی اور نہ ہی اب کرنے کو تیار ہوں.مگر اب جو مشکلات دین کی اشاعت کے راستہ میں پیدا ہو رہی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضرور کہوں گا کہ خدا کرے یا تو یہ لوگ سمجھ جائیں اور اگر ان کے دلوں پر از لی شقاوت کی مہر لگ چکی ہے تو اللہ تعالئے ان کے ہاتھوں کو پکڑے تا دنیا کو معلوم ہو جائے کہ خدا کے سلسلہ پر ہاتھ اٹھانا خود خدا پر ہاتھ اُٹھانا ہے.والفضل ۳ ر ا پریل ۱۹۳۵ مد تا ۶ )

Page 194

JAY ہے.حضرت کبیر الدین شاه دوله در یائی گجراتی پنجابی روفات ) ان کے متعلق تذکرہ اولیا کند جلد ۳ ۰ ۲۵-۴۹۲ پر لکھا ہے کہ جب کسی شخص کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی دعا کرتے تو اس سے یہ اقرار سے لیتے کہ پیلا لڑکا میری نذر کیا جائیگا اور اسکی چند علامات ہوں گی.مثلاً کوتاہ سر گنگ اور مسلوب الحواس.چنانچہ اس طرح کے سینکڑوں لڑکے دولہ شاہی چوہے مشہور ہو گئے.نے.انسائیکلو پیڈیا برٹین کا جلد اما زیر لفظ AFRICA ت - A ATTICAN مشہور عیسائی وکیل تھا جس نے قانون کے موضوع پر کئی کتابیں بھی تھی ہیں.- ابراهیم ۱۳: ۳۶ تا ۳۸ ہے.مہاراجہ کشمیر جی نے انگریزی عہد نامہ کے مطابق ۱۸۳۳ء میں جموں اور کشمیر میں ڈوگرہ راج کی بنیاد رکھی تھی.۲۰ اگست ۱۸۵ء کو اس کی وفات پر اس کا بیٹا جانشین ہوا.ل - مہاراجہ گلاب سنگھ کا جانشین تھا ایک ربع صدی سے زائد عرصہ تک حکومت کی.۱۸۸۵ء میں خوت ہوا.اس کے عہد حکومت میں مسلمانوں کو اذان دینے کی ممانعت کردی گئی تھی.شه - الحجرات ۴۹ : ۱۸ ن - آل عمران ۳ : ۱۶۸ ن - حضرت ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۳۳۰ ہجری) - حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ (وفات ش۲۹ ہجری) ائے.نیا تذکرة الاولیاء مؤلفہ رئیس احمد جعفری مراسم مطبوعہ لاہور ۶۱۹۵۵ - حضرت حسین منصور حلاج رشهادت ۵۳۰۹) مشہور اہل اللہ بزرگ تھے جنہیں عباسی خلیفہ مقتن در باشد کے زمانہ میں علماء کے فتونی کی بناء پر سنگسار کر دیا گیا تھا.تذكرة الاولیاء منت به ناشر ملک چین دین تاجر کتب کثیری بازار لاہور مطبوعہ بندے ماترم پریس لاہور ملی.حضرت ابو دجانہ سماک بن خرشہ کو یہ شرف حاصل ہو انتھار تاریخ طبری جلد ، فله سلاح دار المعارف مصر شہادت کے وقت دیکھا گیا تو ان کے جسم کے ستر کرے تھے (اصابہ جلد و صنا) شاه - كتاب الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد ۲ ۳ - شده.حضرت معاویہ بن ابو سفیان ) ، شکستہ) نے اسے میں دمشق کو پایہ تخت بنا کو بنو امیہ کی حکومت )، بنوامیہ قائم کی.جو قریباً ، و سال تک قائم رہی اور بالآ خر مروان بن احمد بن مروان کی دنیا با پرختم ہوگئی.شاه - عبدالله السفاح بن محمد بن علی بن عبد الله بن عباس ) نے ہے میں بغداد کو ا کہ 2017 وارالحکومت بنا کر بنو عباس کی حکومت کی بنیاد رکھی جو پانسو سال بعد با میں آخرون عباسی خلیفہ معتصم

Page 195

کی تاتاریوں کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ختم ہو گئی.- جامع ترمذی ابواب الزہد باب معیشتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ - ه به روایت جیم انسی الفاظ میں حضرت عبد الرحمن بن خوف کے متعدت بیان ہوئی ہے.الاستیعاب فی معرفة ان اصحاب بعد است) ہے.یہ پانچ شہدائے کابل کی طرف اشارہ ہے.جن میں پہلے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب تھے جو انشاء میں شہید ہوئے (روحانی خزائن (تذکرة الشهادتين ب دوسرے حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب جونم در جولائی شستہ کو شہید ہوئے (روحانی خزائن - تذكرة الشهادتين مبيت ، تمیرے حضرت مولوی نعمت الله خانصاحب تھے جن کی تاریخ شہادت ۳۱ اگست ۱۹۲۴ہ ہے.(الفضل ارتمیر نشه) چو تھے اور پانچویں شہید مولوی عبد الحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب تھے جن کو اور رجب سالہ ملا ہے کو شہید کیا گیا.(الفضل ۲۱ فروری ، شور مارچ ۱۹۲۵ء - تفسیر روح البیان تو تف شیخ اسمعیل حقی البروسوی جلد، مشتا i - تعبیر الرؤیا مصنف علامه امام محمد بن سیرین مترجمه سید حبیب احمد هاشمی شاد ۱۶۰ مسند احمد بن حنبل جلد سم طلا ۱۵ - سنن ابی داؤد کتاب الصلوة باب ما يقول الرجل اذا خان قوما.- - ملفوظات جلد ۷ ۱۳۵

Page 196

۲۴ فرموده در مادری ام و مقام عیدگاه قادیانی آج کی عید قربانی کی عید کہلاتی ہے عربی زبان میں بھی اس کو عید الاضحیہ کہتے ہیں یعنی یہی عقید میں میں قربانیاں کی حیاتی ہیں.یہ عید ایک قربانی کی یادگار کے طور پر ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی.قربانی ایک عجیب لفظ ہے جو کئی ایک متضاد جذبات کا جامع ہے.عام طور پر متضاد جند یا جمع نہیں ہو کتنے اور جو الفاظ محبت پر دلالت کرتے ہیں وہ ساتھ ہی راحت اور آرام پر بھی دلات کرتے ہیں لیکن تکلیف اور دکھ پر دلالت نہیں کرتے.اور جو الفاظ تکلیف اور دکھ کے مضوم پر دلالت کرتے ہیں وہ راحت، آرام اور محبت کے مفہوم پر دلالت نہیں کرتے.مگر قربانی ایک یسا جامع لفظ ہے جو جدائی اور وصال تکلیف اور راحت خوشی اور غم ان سارے ہی مقتضاد جذبات کا جامع اور ان پر مشتمل ہے.یہ لفظ جس وقت ایک انسان کے قلب میں پیدا ہوتا ہے اور اس وقت اس کے دماغ پر اس کا اثر ہوتا ہے ، وہ ایک ہی وقت میں یہ ساری باتیں محسوس کرتا ہے اور قربانی کا لفظ خود اپنی ذات میں اس کا ثبوت ہوتا ہے بلکہ اُردو میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ بھی وہی معنے رکھتا ہے جو توبی زبان کے لفظ کے ہیں.قربانی قرب پر بھی دلالت کرتی ہے اور ذبح ہونے پر بھی.ذبح ہو کر یعنی اپنی جان خدا تعالے کے راستہ میں دیگر انسان بظاہر اپنے عزیزوں سے جُدا ہوتا ہے.مگر قربانی ایسی چیز ہے کہ وہ جدائی میں بھی فعال کے سامان پیدا کر دیتی ہے جس وقت ایک مسلمان سپاہی میدان جنگ میں مرکز بظاہر اپنے پیاروں سے جدا ہو رہا ہوتا ہے حقیقتا وہ اپنے پیاروں کے قریب بھی ہو رہا ہوتا ہے.کیونکہ سب سے پیارا وجود تو خدا تعالے کی ذات ہے اور جو شخص خدا تعالے کی راہ میں جان دیتا ہے وہ اپنے خدا کے قریب ہو جاتا ہے.پھر انسان کے جتنے تعزیز اور پیارے دنیا میں ہوتے ہیں ان سے زیادہ عزیز اور پیارے اگلے جہان میں جا چکے ہوتے ہیں.اگر دنیا میں کسی کا باپ زندہ ہے اور شہادت اس کے اور اس کے باپ کے درمیان جدائی ہو جاتی ہے.تو اس کے کئی دادے اور پڑداد تے ایسے ہوتے ہیں.جو سینکڑوں اور ہزاروں سال سے اگلے جہان میں اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں.اگر دنیا میں اس کی والدہ زندہ ہے اور وہ خدا تعالے کی راہ میں جان دے کہ اس سے جُدا ہوتا ہے تو اس کی کئی دادیاں اور نانیاں اس سے محبت کر نیوالی

Page 197

اگلے جہان میں موجود ہوتی ہیں.اور اگر دنیا میں اس کی اولاد ہے تو خدا تعالے کی مشیت کے اگر ماتحت اکثر لوگوں کی اولاد کچھ زندہ رہتی اور کچھ مر جاتی ہے.پس اگر اس دنیا میں اس کی کچھ زندہ اول و موجود ہوتی ہے تو اس کی کچھ اولاد اگلے جہان میں بھی ہوتی ہے جس سے جاملتا ہے.تو قربانی کو رینج اور درد کا جذبہ اپنے اندر رکھتی ہے مگر ساتھ ہی راحت اور آرام کا جذبہ بھی اپنے اندر لئے ہوئے ہے.اور آج کا دن تو قربانی کا دن ہے، وہ اس قربانی کو یاد دلاتا ہے جو نہایت ہی کامل رنگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور پیش کی.آج سے قریبا ساڑھے چار ہزار سال پہلے وہ قربانی پیش کی گئی تھی.ساڑھے چار ہزار سال کا عرصہ کوئی معمولی شرصہ نہیں ہوتا.بسا اوقات دس پندرہ دن کے بعد انسان اپنی تکالیف بھول جاتا ہے جس کو سخت بخار چڑھا ہوا ہو، اس کی ہڈیوں میں درد ہو رہا ہو ، وہ خیال کرتا ہے کہ ساری عمر میں اس تکلیف کو نہیں بھولوں گا.مگر بخار اترنے کے آٹھ دس دن بعد وہ ساری تکلیف بھول جاتا ہے.لوگوں کے عزیز مرجاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اب ہمارے لئے تلخ ہوگئی.لیکن سال دو سال کے بعد وہ اسی طرح ہشاش بشاش ہوتے ہیں جس طرح پہلے اور مرنے والوں کی یاد دلوں سے محو ہو جاتی یا بہت حد تک کمزور ہو جاتی ہے.لیکن یہ نجیب قربانی تھی کہ ساڑھے چار ہزار سال کا عرصہ اس پر گزر گیا مگر آج بھی اس کا خیال کر کے انسان کا دل اعلیٰ درجہ کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے.اب بھی جب ہم میں سے کوئی شخص اس نظارے کا خیال کرتا ہے کہ جب حضرت ابن الہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے اسمعیل کو خدا تعالے کے حکم کے ایک ظاہری معنے کرتے ہوئے اس لئے لٹایا کہ وہ اس کو ذبح کریں اور چھری لے کر وہ اس کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اس بچے نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا کہ اگر خدا تعالے کی یہی رضا ہے تو میں اس پر راضی ہوں تو اس کا دل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.آج جب کہ اسلام نے اس قسم کی انسانی قربانی کرنے سے منع کر دیا ہے بوجہ اس کے کہ ہم اس کو منوع سمجھتے ہیں شاید ہم میں سے بہت اس کی پوری کیفیت نہیں سمجھ سکتے.مگر اُس زمانہ میں جب انسانی قربانی کا رواج تھا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعا لئے کا منشا یہ ہے کہ میں اپنا بچہ اس کی اہ میں قربان کر دوں جب وہ بچہ بھی سمجھتا تھا کہ خدا تعالے کا منشا یہ ہے کہ مجھے ذبح کر دیا جائے جب نو سے سال کی عمر کو پہنچ کر تمام جوانی کی عمر اور تمام ادھیڑ عمر اس امید اور تڑپ میں گزار کر کہ خدا تعا نے پاک اولاد دے جو ان کے نام کو قائم رکھنے والی ہو.خدا تعالے نے انہیں جو کچھ دیا اس کے متعلق خدا تعالے نے حکم دے دیا کہ اسے میری راہ میں ذبح کر دیا جائے، تو اس لمبی عمر

Page 198

14.کے بعد جب وہ اکلوتا بچہ اور بوڑھا باپ خدا تعالے کے حکم کو پورا کرنے کے لئے علیحدہ ہوئے ہونگے تو ان کے جذبات کا اندازہ لگانا ہر ایک کے لئے آسان کام نہیں ، صرف اہلِ دل ہی پوری طرح ان جذبات کو سمجھ سکتے ہیں بہت سے لوگ شاید ان کے درد کے جذبات میں شامل ہو سکتے ہیں اور اسی لئے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کا ذکر سنکر بہت سے مردوں اور بہت سی عورتوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں گو یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درد میں شریک ہونے والے موجود ہیں.مگر وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو اس جذبہ فخر کو محسوس کر سکتے ہیں جو اس وقت حضرت ابراہیم کے دل میں پیدا ہوا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اس وقت زمین زمین نہیں رہی تھی بلکہ عرش بریں بن گئی تھی ان کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے ملے جبکہ وہ ہوا میں اُڑتے تھے کیو نکہ خدا تعالے نے اپنی راہ میں انہیں قربانی پیش کرنے کا حکم ، بات جسے کسی انسان نے پیش نہیں کیا تھا.بے شک بحیثیت انسان ان کے دل میں درد بھی خا ن ر ضرور تھا خصوصا وہ ابراہیم جن کے متعلق خدا تعالئے فرماتا ہے کہ وہ حلیم اور اواہ تھا.بات بات پر اس کے دل سے آہیں نکلتی تھیں اور وہ نہایت رحم دل تھا.یقینا اس کے دل میں درد بھی پیدا ہوا ہوگا مگر جو چیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اور جو چیز حضرت ام خیل کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اوہ یہ جذبہ ہے کہ یہ قربانی ہماری ہی ترقی کا موجب ہے.اور خدا تعالے نے یہ حکم دے کہ ہم پر احسان کیا ہے.تم میں سے بہت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے غم میں شریک ہو سکتے ہیں.تم میں سے بہت ان کے درد میں شریک ہو سکتے ہیں.تمہارے دماغ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دماغ کی نقل کر سکتے اور تمہاری آنکھیں حضرت ابہ اہم علی السلام کی آنکھوں کی نقل کر کے آنسو بہا سکتی ہیں مگر تم میں سے بہت کم ان کے دل کی نقل کر سکی ہے جواس امید اور یقین سے پُر تھا کہ میرے رب نے مجھے اپنے لئے چن لیا.جب حضرت ابراہیمیہ نے حضرت اسمعیل کو ذبح کرنے کے لئے چھری اُٹھائی تو اس وقت غالب خیال ان کے دل میں یہ نہ تھا کہ میرا بیٹا مجھ سے جدا ہو رہا ہے بلکہ یہ خیال غالب تھا کہ میرا خدا میرے قریب ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالے نے اس قربانی کو یا د رکھا ور نہ قربانیاں دنیا میں ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں.اس قربانی میں ایک امتیازی نشان تھا اور وہ یہ کہ حضرت ابراہیم کے دل میں درد اور غم کے جذبات غالب نہ تھے بلکہ یہ خیال غالب تھا کہ اللہ تعالے کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ مجھ سے کام لے رہا ہے.پھر وہ جذبہ جو حضرت ابراہیم کے دل میں تھا وہ النوں نے دوسروں کی طرف منتقل کر دیا تھا.گویا وہ اتنا غالب جذب یہ تھا کہ ان کے پاس بیٹھنے والے لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے جس طرح آگ کے پاس بیٹھنے والا گرم

Page 199

ہو جاتا ہے، جس طرح برف کو ہاتھ میں پکڑنے والا ٹھنڈک محسوس کرتا ہے ، اسی طرح حضرت ابراہیم کے پاس بیٹھنے والے بھی قربانی کے خیالات سے لبریز ہو جاتے تھے.چنانچہ اس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اس پیشگوئی کو دوسرے معنوں میں پویا کرنے کے لئے کیونکہ چھری سے حضرت اسمعیل کو ذبح کرنے کی ممانعت کر کے خدا تعالٰے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ اس حکم سے ہمارا منشاء اور ہے اور وہ اسمعیل اور اس کی والدہ کو وادی بے آب و گیاہ میں چھوڑنا ہے.جب خدا تعالے نے آپ پر یہ کشف حقیقت کردی اور آپ پیشگوئی کے حقیقی مفہوم کو پورا کرنے کے لئے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو لے کر مکہ کے میدان میں پہنچے تو میل با میل تک نہ کوئی ٹھکانا تھا نہ رہنے کی جگہ.نہ پانی تھا نہ کھانے کا سامان - حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک محوروں کی تفصیلی ان کے پاس رکھ دی جن کے ختم ہونے کے بعد نہ انہیں پانی میسر آسکتا تھا نہ غذا اور رکھ کر واپس لوٹے جس وقت وہ لوٹ رہے تھے حضرت ہاجرہ نے ان کی شکل دیکھ کر محسوس کر لیا کہ یہ جدائی عارضی جدائی نہیں بلکہ مستقل جدائی ہے وہ ان کے پیچھے آئیں اور کہا.ابد استیم کہاں جا رہے ہو.اس وقت بوجہ اس جذ بہ طبعی کے جو اُن کے قلب میں تھا اور اوالا منیب ہونے کی وجہ سے ان پر رقت طاری ہو گئی اور وہ جواب نہ دے سکے.حضرت ہاجرہ پھر آگے بڑھیں اور امنوں نے سوال کیا.مجھے اور اسمعیل کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو.وہ پھر خاموش رہے جیب حضرت ہاجرہ کے متواتر ایج سے سوال کرنے کے باوجود وہ کوئی جواب نہ دے سکے تو پھر حضر ہاجرہ نے پوچھا کیا خدا نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے.اس وقت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم دیا بودجه جذبات کے غالب ہونے کے جواب تو نہ دے سکے مگر انہوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ اٹھا دیا.جس کے معنے یہ تھے.خدا کا حکم یہی ہے اور اسی کے سپرد کر کے تمھیں چلا ہوں باوجود اس کے کہ کوئی انسانی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی تھی کہ حضرت اسمعیل اور حضرت ہاجرہ کو اس وادی بے آب و گیاہ میں پانی کا مشکیزہ ختم ہونے کے بعد پانی مل سکے گا با وجود اس کے کہ کوئی انسانی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی تھی کہ حضرت اسمعیل اور حضرت ہاجرہ کو کھجوروں کی تھیلی ختم ہونے کے بعد اس وادی بے آب و گیاہ میں کھانا مل سکے گا.اور باوجود اس کے کہ کوئی انسانی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی تھی کہ حضرت اسمعیل اور حضرت ہاجرہ کو اس وادی ہے آب و گیاہ میں کوئی مونس و غمگسار مل جائے گا جو بیماری میں ان کی تیمارداری کر سکے اور ان کی ضروریا کو پورا کرنے کا شکر کرے.لیکن چونکہ ابراہیمی ایمان حضرت ہاجرہ میں اسی طرح سرایت کر چکا تھا جس طرح آگ کے پاس بیٹھنے والا گرم ہو جاتا ہے اس لئے جب حضرت ہاجرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت

Page 200

۱۹۲ بیم کا یہ فعل اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالے کی طرف سے ہے.تو انہوں نے وہیں حضرت ابراہیم کو چھوڑ دیا اور کہا اِذَنَ لا يُضَيعُنَا.اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا.جہاں آپ کی مرضی ہو چلے جائیں.حضرت ہاجرہ نے یہ اپنے ایمان کا مظاہرہ کیا اور ایسی تکلیف کے وقت میں کوئی دوسرا لفظ زبان سے نہ نکالا.اگر حضرت ہاجرہ ایک کمزور عورت ہو کہ خدا تعالے پر اتنے اعتماد اور اور یقین کا اظہار کر سکتی تھیں تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ہمارا طاقتور خدا اس کی قدر نہ کرتا.ہر شخص جسے روحانی آنکھ نصیب ہو وہ اپنی روحانی آنکھوں سے اس بات کو دیکھ سکتا ہمجھے سکتا، اور محسوس کر سکتا ہے کہ جس وقت حضرت ہاجرہ کے دل سے یہ آواز نکلی ہوگی کہ اِذَن لا يضيعنا خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا.تو اپنے ہوش سے خدا تعالے نے ان کو جواب دیا ہوگا کہ بے شک میں تجھے کبھی ضائع نہیں کروں گا.اور اس نے نہیں ضائع کیا.کونسی انسانی عقل سمجھ سکتی تھی کہ حضرت اسمعیل اور حضرت ہاجرہ کی وہاں جان بچ جائے گی.مگر جان بچنے کا تو کیا ذکر ہے خداتعالے نے ان کو ایک قوم بنایا ایسی زبر دست قوم جو ساری دنیا پر چھا گئی اور وہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں داخل ہوتے ہوئے ساری دنیا کی حاکم اور بادشاہ بن گئی.ہمارے آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم ساری دنیا کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ہے.پس وہ ساری دنیا کے بادشاہ ہیں اور یقیناً آپ کی بادشاہت روحانی رنگ میں آپ سے آباء کی طرف یعنی ان کی طرف جو روحانی اور جسمانی طور پہ آپ کے آباد میں منسوب ہوتی ہے.حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ نے ساری دنیا کو خدا تعالے کے لئے چھوڑ دیا تھا.خدا تعالی نے ساری دنیا اسمعیل کی کنسلوں کے قدموں میں ڈال دی.مکہ کی دادیوں میں سوائے حضرت اسمعیل کے کون ایسا تھا جو اپنی ماں کے ساتھ اکیلا چھوڑا گیا.گویا وہ سب دنیا سے خدا کے لئے جدا ہو گئے تھے پھر خدا تعالے نے بھی اپنی خاطر دنیا کو چھوڑنے والوں کے قدموں میں ساری دنیا کو لاڈالا کیونکہ ہم بھی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں تو خدا تعالے کے لئے.پس انہوں نے دنیا سے خدا تعالے کے لئے تعلق توڑا تھا دنیا نے خدا تعالے کے لئے نہی ان سے تعلق جوڑا.پس یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں اور نہ یہ دن کوئی معمولی دن ہے.یہ دن ہر شخص کو بہلاتا ہے کہ تمہارا خدا تمہارے قریب ہے.تم ہاجرہ اور اسمعیل کی طرح بن جاؤ.تمہارا خدا ساری دنیا کو تمہارے قدموں میں ڈال دے گا.جو کچھ حضرت ہاجرہ نے کیا تھا وہ ہر مومن عورت کو سکتی ہے اور جو کچھ حضرت اسمعیل نے کیا تھا وہ ہر مومن بچہ کر سکتا ہے.کوئی روگ درمیان میں حائل نہیں.پس است خیال کرو کہ اس وقت اس قربانی کا موقعہ تھا نگر

Page 201

۱۹۲ آج نہیں.آج بھی قربانی کا موقعہ ہے.آج بھی تم میں سے ہرشخص دین کے لئے اسمعیل بن سکتا ہے آج بھی تم میں سے ہر صورت دین کے لئے ہاجرہ بن سکتی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی امت میں داخل ہو کہ روحانی طور پر سب لوگ ہاجرہ اور اسمعیل کی اولاد ہو چکے ہیں.پس میں ہاجرہ کی بچیوں سے کہتا ہوں کہ تم اپنی ماں کی صفات اپنے اندر پیدا کرو اور میں اسمعیل کی اولاد سے کہتا ہوں کہ تم اپنے باپ کی صفات اپنے اندر پیدا کرو.تمہارا رب آج بھی اسی طرح قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جس طرح اس نے حضرت ابراہیم کے ذریعہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل سے مطالبہ کیا.کیونکہ اس زمانہ کے مامور کو بھی خدا تعالے نے ابراہم کیا.اور اس نے لوگوں سے کہا ہے میں کبھی آدم - کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں.نی را براہیم ہوں تسلیں ہیں میری بے شمار نہ پس ہر شخص آج بھی اسمعیل بن سکتا اور ہر عورت آج بھی ہاجرہ بن سکتی ہے کیونکہ اس زمانہ میں جس شخص کو خدا تعالے نے ہمارا روحانی باپ قرار دیا ہے اس کا نام اس نے ابراہیم رکھا ہے.پس تمہارے لئے آج بھی موقعہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اسمعیلی ثابت کرو.اور یاد رکھو جو لوگ خداقتی کئی کی راہ میں مرتے ہیں وہ مرتے نہیں بلکہ زندہ ہوا کرتے ہیں اور اس زمانہ نے تو سہیلی موت کی شکل بھی تبدیل کر دی ہے.پرانے زمانہ میں تلواروں اور پھر یوں کے زخم کھا کر لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے تھے یا بندوقوں کا نشانہ بن کر مرتے تھے لیکن اب عام طور پر اس قسم کی موت نہیں بلکہ وہ موت ہے جو دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقعت کرتے ہوئے آتی ہے کبھی کبھار پہلی قسم کی موت بھی آجاتی ہے.جیسے کابل میں ہماری جماعت کے بعض افراد شہید کئے گئے یہ یا ہندوستان میں بعض لوگ بیٹے جاتے اور اس تکلیف کی وجہ سے مرجاتے ہیں ہے مگر زیادہ تو موت وہی ہے جو اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کے مطابق اپنی زندگی بنانے میں آتی ہے.ہمارے سلسلہ کو خدا تعالے نے اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ تمام برکات واپس لائے جو اس پہلے دنیا میں موجود تھیں یہی اس سلسلہ کی غرض اور یہی اس کا مقصد ہے.خدا تعالے دنیا میں نئی بادشاہتیں قائم کرنا نہیں چاہتا.خدا تعالئے دنیا میں نئی حکومتیں قائم کرنا نہیں چاہتا خدا تعا لئے دنیا میں نئی قوموں کو غلبہ دینا نہیں چاہتا.بلکہ خدا اس وقت صداقت کو غلبہ دینا چاہتا ہے اور یہی ہمارے سلسلہ کے قائم ہونے کی غرض ہے.پس تم اپنے اندر سچائی اور دیانت پیدا کرد - اور ان تمام احکام پہ قائم رہو جو اسلام نے دیئے.اور یاد رکھو سپائی بھی معمولی چیز نہیں ہوتی.

Page 202

۱۹۴ آج ہمارے زمانہ میں عدالتوں کا رنگ ایسا ہے کہ ان میں جھوٹ خوب چلتا ہے اور یہ شخص سچائی پر قائم رہے اسے ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ وہ مشکلات میں پڑھائے گا.پس اگر تم عمد کر لو کہ تم نے سچائی پر چلتا ہے تو تمہیں نظر آجائے گا کہ تمہارے لئے قربانی کے رستے کھل گئے ہیں.مگر اس کے علاوہ بھی قربانی کے کئی رستے ہیں.اخلاقی طور پر اپنے نفس امارہ کو مار دنیا بھی قربانی ہے.دین کے مطالبات پورے کرنا بھی قربانی ہے.اور چونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ابراہیمی فیضان کا عام چھینٹا دنیا پر پڑا ہے.اس لئے اب اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہزاروں اسمعیل است محمدیہ میں پیدا ہو سکتے ہیں.پہلے ابراہیم کی نسل سے صرف ایک اسمعیل پیدا ہوا.مگر یہ ابراہیم چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بروز اور ساری دنیا کی طرف مامور ہے اس لئے ہزار ہا اسمعیل اس کے ذریعہ پیدا ہو سکتے ہیں صرف ارادہ کی دیر ہے اسی طرح آج ہزاروں عورتیں ہاجرہ بن سکتی ہیں بشرطیکہ وہ اس بات پر یقین اور ایمان رکھیں کہ ہمارا پیشوا ایک ایسے آقا کا خادم ہے جس کے ساری دنیا کی طرف مبعوث ہونے کی وجہ سے اس کے فیضان کا دائرہ بہت وسیع ہے یے پس میں جماعت کے نوجوانوں کو آج توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اسماعیلی رنگ میں رنگیں کریں.اور ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار رہیں.خواہ وہ اخلاقی ہوں یا جسمانی یا مالی.یاد رکھو اسلام کا درخت قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا.اگر تمہاری خواہش ہے کہ اسلام ترقی کرے.تو اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرو اور وہ تمام قسم کی قربانیاں کرو جو تم سے پہلے کسی امت نے دنیا میں کی ہوں.کیونکہ جس طرح اسلام جامع کمالات متفرقہ ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اس کے متبعین کی قربانیاں بھی تمام امتوں کی متفرق قربانیوں کی جامع ہوں.پھر خدا تعالے بھی اسی طرح ان قربانیوں کی یاد دنیا میں قائم رکھے گا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادت ئم رکھی.جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی معنی اس وقت کون کر سکتا تھا کہ ساری دنیا اسے یاد رکھے گی.مگر خدا تعالے نے اسے قائم رکھا اور اس قربانی کی یاد دنیا سے مٹنے نہ دی.پس یہ مت سمجھو کہ تمہاری قربانیاں کوئی کیا تمہاری قربانیوں کو آسمان پر دیکھنے والا خدا موجود ہے اور وہ انہیں دنیا سے مٹنے نہیں دے گا.اول تو جس شخص کے دل میں قربانی کا صحیح جذبہ ہو وہ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ مجھے کوئی دیکھنے والا ہے یا نہیں لیکن اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو تو میں اسے کہتا ہوں.ابراہیم کی قربانی کس نے دیکھی تھی.کیا اس وقت وہاں کوئی مورخ موجود تھا یا الف فضل تھا جس میں یہ واقعہ لکھا گیا.خدا نے آسمان پر اسے دیکھا اور کہا میں اس قربانی کو نہیں پھلاؤں گا اور

Page 203

دور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہیں بھولی.اسی طرح اگر کوئی شخص حقیقی طور پر اسماعیلی قربانی کرنے کے لئے وہ اگر تیار ہو تو اللہ تعالے اُسے نہیں بھولے گا اور نہیں بھولنے دیگا بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہے گی اور دنیا میں قائم رکھی جائے گی.پس اپنے اندر ابراہیمی جند به پیدا کرو اور اسماعیلی نمونہ دکھاؤ تب تم دیکھو گے کہ زمین تمہارے لئے بدل جائے گی آسمان تمہارے لئے بدل جائے گا.اور وہ دشمن جو تم پر حملہ کر رہے ہیں خدا تعالے کا ہاتھ ان کے اور تمہارے درمیان حائل ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی تلوار تمہاری حفاظت کرے گی لیکن ضرورت اس ایمان کی ہے جو عورتوں کو حضرت ہاجرہ کے مشابہ بنادے اور ضرورت اس ایمان کی ہے جو مردوں کو حضرت ابراہیم کے مشابہ بنا دے.میں اللہ تعالے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اندر حقیقی قربانی کا مادہ پیدا کرے اور ایسے نگ میں قربانیوں کی توفیق دے کہ ہم ان تمام برکات اور فیوض کو حاصل کر سکیں جن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جذب کر کے ہماری طرف منتقل کیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ تصلوۃ و السلام نے خدا تعالے سے حکم پا کر انہیں دنیا میں پھیلا دیا (الفضل در مارچ ۱۹۳۷ء ملا قا م ) محیط المحيط جلد ۲ مه - مجمع بحار الانوار جلد ۳ مفردات امام راغب زیر لفظ قرب - روحانی خزائن (خطبه الهامیه) جلد ۱۶ ص۳۳ تے - التوبة : ۱۱۴ ہے.الاعراف : ۱۵۹ ، سبا ۲۹:۳۴ - تذکره صفحه ۳۲۰،۱۸۴، ۳۹۲ مطبوعہ الشركة الاسلامیه ربوده - برامین احمدیہ حصہ نیم ما ه - البقره ۲: ۱۵۵ ہے.پانچ شہدائے کابل کی طرف اشارہ ان کے متعلق نوٹ منٹ پر ملاحظہ ہو.اسکے متعلق بھارت کا بحران مصنفہ رونلڈ سینگل مترجمه حسن عابدی میں زیر عنوان ذات مذہب اور تاریخ ایک جھلک دیکھی جاتی ہے نان - الانبياء ۲۱ : ۱۰۸ - تفسیر ابن جریر جلد ۱۷ هشت.یہ جماعت احمدیہ کا داعدار دو روزنامہ ہے جسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خلافت اولی میں ۱۲ رجب المرجب ساره مطابق ۸ در جون کو قادیان سے جاری فرمایا عقلہ ابتداء ہفتہ دار تھا خلات تا نی میں کیسی ہفتہ میں دو بار اور بھی تین بار چھپتار را در مارچ ۱۹۳۵ء سے اس وقت کت یو سی اخبار ہونے کی حیثیت میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے:

Page 204

194 ۲۵ د فرموده ۲۲ فروری ار انتقام عیدگاه قاریان عید الاضحیہ ہمیں انیسی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے جو انسانی احساسات کے لحاظ سے نازک ترین جذبات کی قربانیاں کہلاتی ہیں.دنیا میں انسان ہر روز ہی قربانیاں کرتا ہے.اور قربانیاں کرنے پر مجبور ہوتا ہے اس میں نیک اور بد کی کوئی تمیز نہیں ہے.محنتی اور آوارہ گرد میں کوئی تمیز نہیں ہے.ایک با اصول اور عیاش انسان کی بھی کوئی تمیز نہیں ہے.صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ کوئی اچھی چیز کے لئے قربانی کرتا ہے اور کوئی بری چیز کے لئے قربانی کرتا ہے.ان تمام قربانیوں پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بھاری قربانی انسان کے لئے اپنی اولاد کی تربانی ہوتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض انسان جن کی فطر تمیں مرجاتی ہیں اور جو انسانیت سے خارج ہو جاتے ہیں ان میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے عیش اور اپنی لذت کی خاطر قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ استثنائی وجود ہوتے ہیں اور در حقیقت اپنی مردہ فطرت کے لحاظ سے انسانوں میں شمار ہونے کے قابل نہیں ہوتے.فطرت انسانی کا اصلی جو ہر انسانوں کی اکثریت سے معلوم کیا جاسکتا ہے اور اگریم اپنے گردوپیش کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انسان کی دنیوی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ننانوے فیصدی آدمی بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ اپنی عمریس محض اپنی اولاد کی بہتری کی خاطر قربان کر رہے ہوتے ہیں.یہ ایک عجیب قسم کا نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے کہ دادا بیٹے کے لئے اور بیٹا پوتے کے لئے اور دادی بیٹی کے لئے اور بیٹی نواسی کے لئے اپنی جان قربان کر رہے ہیں.اور یہ اوپر سے نیچے اترنے والی قربانی نہ زمانے کی قید سے واقف ہے نہ مذہب کی قید سے واقعت ہے نہ ملک کی قید سے واقف ہے ، نہ علم کی قید سے واقف ہے ، نہ زبان کی قید سے واقف ہے ، نہ رنگوں کی قید سے واقف ہے.ایک مسلمان اور ایک عیسائی اور ایک ہندو ، ایک کان اور ایک گورا اور ایک زرد رنگ کا آدمی ، ایک مرد اور ایک عورت ، ایک ہندوستانی اور ایک انگریز اور ایک افریقی ، ایک جاہل اور ایک پڑھا لکھا انسان ، ایک سیدھا سادھا اور ایک فلا سفر اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اور اپنے کاموں کی تمام شاخوں میں بس ایک ہی دین میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اپنے آپ کو قربان کر دیں اور اس نتر بانی کے نتیجہ میں کچھ

Page 205

196 عزت یا کچھ جائیداد یا کچھ روپیہ یا کچھ رتبہ یا کچھ آرام حاصل کر کے اپنی اولادوں کو ورثہ میں دے دیں.نہ آج اس کے خلاف کوئی بات نظر آتی ہے نہ پچھلی صدی میں اس کے خلاف لوگوں کا دستور تھا.نہ اس سے پہلی صدی کے لوگ اس کے خلاف تھے.نہ اس سے پہلی صدی کے نہ اس سے پہلی کے.آج سے لے کر آدم تک.آدم کا ہر بچہ اور حوا کی ہر بیٹی سوائے اس کے جو انسانیت سے خارج ہو گیا ہو صرف ایک ہی کام میں مشغول نظر آتا ہے کہ اپنے آپ کو قربان کر دے اور اپنی اولاد کو آرام اور راحت بنتے.یہ مجیب مسلسل پیم اور متواللہ قربانی ہے جس کی مثال شاید کسی اور جذبے میں ملنی مشکل ہو پس یہ ایسی چیز نہیں ہے جو انسانی نگاہ سے اوجھل ہو.چلے جاؤ فلاسفروں کے گھروں میں یا چلے جاؤ اجڈ اور جاہل لوگوں کے گھروں میں.چلے جاؤ شہریوں کے گھروں میں یا چلے جاؤ گنواروں اور دور دراز گاؤں میں رہنے والوں کے گھروں ہیں.وہاں اس بات کا مشاہدہ کر کے دیکھ لو کہ ایک باپ اور ایک ماں اپنی جان کی قیمت زیادہ سمجھتے ہیں یا اپنی اولاد کی قیمت زیادہ سمجھتے ہیں.تمھیں ہی نظر آئے گا کہ وہ سب کے سب الا ماشاء اللہ اپنے آپ کو بھولے ہوئے ہیں.اور پیدائش مخلوق کا ایک ہی مقصد ان کے سامنے ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی راحت اور آرام اور ترقی کے سامان پیدا کریں اور اس امر میں غلطی کر سکتے ہیں کہ اولاد کو راحت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.ممکن ہے کوئی علم میں اس کی راحت سمجھتا ہو اور کوئی جہالت میں اور کوئی محنت نہیں ان کی راحت سمجھتا ہو اور کوئی آرام طلبی میں لیکن اپنے نقطۂ نگاہ کے ماتحت جس جس چیز کو وہ راحت اور آرام کا سبب سمجھتے ہیں اس چیز کو و محاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور اپنی اولادوں کے سپرد کر دیتے ہیں.ایک تعلیم یافتہ ماں اگر اپنے بچے کی بہتری اس میں خیال کرتی ہے کہ اس کی بیماری کے ایام میں ڈاکٹر کی کڑوی کڑوی دو ایک اس کو پلائے تو وہ تمہیں اپنے بچے کی لاتیں اپنی لاتوں میں دبائے ہوئے اور اس کا سر اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے چمچے سے اس کے منہ میں دوائی ڈالتی ہوئی نظر آئے گی.اس کے بچے کے آنسو اس کی آنکھوں میں آنسو لا رہے ہوں گے اور اس کی تکلیف اس کے دل میں درد پیدا کر رہی ہوگی لیکن وہ اپنے فعل سے باز نہیں آئے گی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے بچہ کی راحت اس دوا کے پلانے میں ہے.اسی طرح ایک جاہل عورت جو اس عارضی تکلیف کو بیماری کی مستقل تکلیف سے زیادہ سمجھتی ہے یا جس کا یہ خیال ہے کہ صحت تو خدا ہی کی طرف سے آتی ہے ، دوائیاں تو صرف ایک بہانہ ہیں.قضاوت در جس طرح جاری ہوئی ہے جاری ہو کہ رہے گی تم اسے دیکھو گے کہ اپنے خاوند کی لائی ہوئی دوائی کو

Page 206

197 وہ اپنے ہاتھوں سے پرے پھینک دے گی اور اپنے بچے کو اپنے گلے سے لیٹا کہ پیار کرتے ہوئے کہینگی کہ میرے پیارے بچے تو رو نہیں میں تجھے دوائی نہیں پلاتی.یہاں عمل محتلت ہے مگر جذبہ ایک ہے.وہ تعلیم یافتہ عورت دوائی پلاتے وقت اور وہ جاہل عورت دوائی پھینکتے وقت ایک ہی روح سے متاثر ہو رہی تھیں ایک دوائی کے پلانے میں اپنے بچے کا آرام دیکھتی تھی تو دوسری دوائی کے ھینکنے میں اس کی راحت پاتی تھی پپس تم اس قسم کے فرق تو ضرور دیکھو گے لیکن جند بہ کا فرق کہیں نظر نہ آئے گا.کالے اور گورے ، مشرقی اور مغربی ، جاہل اور عالم، مذہبی اور خیر نہ سہی ، ہر ایک قسم کے انسان کو اس جذبے سے متاثر پاؤ گے اور ان کو اسی جذبہ کے ماتحت اپنی زندگیاں بسر کرتے ہوئے دیکھو گے ہیں اولاد کی محبت ایک ایسا طبیعی چند یہ ہے جو صرف دیوانوں اور انسانیت سے خارج انسانوں کے دلوں سے ہی باہر ہوتا ہے ورنہ ہر انسان اس سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے ماتحت اپنی ز ندگی کے اعمال بجالاتا ہے.خواہ خدا تعالے کی خوشنودی کے لئے خواہ صرف حیوانی جذبہ سے متاثر ہو کر.پس آج کی عید ہمیں اس جذبے کی قربانی کی طرف راہنمائی کرتی ہے جو انسانی جذبات میں سے قوی تر اور وسیع تر ہے قوی ہے کہ اس سے زیادہ قوی کوئی اور انسانی جذبہ نہیں.اور وسیع ہے کہ اس سے زیادہ وسیع کوئی اور انسانی جندہ یہ نہیں.آج کے دن ہزاروں سال پہلے ابراہیم نے خدا سے حکم پایا کہ وہ اس چیز کو بس کو دنیا سب سے زیادہ عزیز قرار دیتی ہے اور جس کی زندگی کے لئے دنیا بھر کے باپ اور ماں زندہ رہ رہے ہیں، وہ خدا کے لئے اسے قربان کر دے.ابراہیم کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنے رب سے یہ نہیں پوچھا کہ اے گیگر خدا ایہ جذبہ لطیف جو باپ کے دل میں اپنے بیٹے کی محبت کے متعلق پیدا ہوتا ہے یہ تو تیرا ہی پیدا کیا ہوا ہے اور ایک مقدس امانت ہے اس مقدس امانت کی قربانی کا مطالبہ کیا ایک غیر طبعی حکم نہیں ہے اور کیا اس ماں کے جذبات کو جس کی تمام امیدیں اس ایک نقطہ کے ساتھ وابستہ ہیں، ایک ایسی ٹھیس نہیں لگے گی جس کا ازالہ بالکل ناممکن ہوگا.ابراہیم بھول گیا اپنے جذبات کو اور وہ بھول گیا ہاجرہ کے جذبات کو.وہ بھول گیا اپنے آباء کی ارواح کے جذبات کو جوا بر اہمیت کے ذریعہ سے اپنی نسلوں کے دوام کی امید وار تھیں اور ایک ایسی حالت میں جب کہ وہ بوڑھا تھا اور ایک نہی اس کی اولاد تھی وہ اس ایک ہی اولاد کو ایسے وقت میں جبکہ دوسری اولاد کی امید نہیں کی جاسکتی تھی.قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا بغیر ہچکچاہٹ کے بغیر سوال کے بغیر تشریح طلب کرنے کے بے چون و چرا.گویا کہ یہ ایک ایسا عام واقعہ ہے جس میں کوئی بھی تعجب کی بات نہیں یا ایک ایسا فرض ہے

Page 207

199 جسے ہر انسان ہر روز ہی ادا کر رہا ہے اور اس میں کوئی اچنبھا نظر نہیں آتا.اس نے اپنے اگلے بیٹے کو زمین پر گرایا.اور چھری اپنے ہاتھ میں پکڑ لی.اور اس کام کو جو بظا ہر خلاف فطرت نظر آتا ہے.ایسے شوق سے کرنے کے لئے تیار ہو گیا.گویا انسان پیدا ہی اس کام کے لئے کیا گیا ہے.انسان ابراہیم کے فعل کو دیکھ کہ حیران رہ جاتا ہے.اور چونکہ ابراہیمی کے زمانہ کو ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے.ایک مذہب سے ناواقف اور ابراہیم کی خوبیوں سے جاہل انسان یہ خیال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاید ابراهیم دلعونی باشند، دیوانہ تھا، شاید وہ انسانی جذبات سے عاری تھا شاید بنی نوع انسان میں وہ سب سے زیادہ سخت دل اور سب سے زیادہ شقی القلب تھا.کہ اس چیز کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گیا جس چیز کی قربانی کے لئے ایک جاہل اور اجڈ انسان بھی تیار نہیں ہوتا.ایسے ہی لوگوں کے شک کو ڈور کرنے کے لئے اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَعِلِيمُ أَوَاهُ مُّنِي ابراہیم تو بہت ہی دانا بڑا ہی نرم دل اور خدا تعالے کا عشق رکھنے والا انسان تھا یعنی ایک ذرا سی ، کچھ درد کی بات دیکھ کر اس کے دل کو ٹھیس لگ جاتی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو اور اس کے مونہہ سے آہیں نکلنے لگ جاتی تھیں.اور وہ تکلیف سے بے تاب ہو جاتا تھا.جب لوط کی قوم پر عذاب آیا تو اللہ تعالے نے وہ فرشتے جو اس عذاب کی تکمیل کے لئے ارسال فرمائے خواہ وہ انسان تھے یا حقیقی ملائکہ تھے، میکس اس موقعہ پر اس بحث میں نہیں پڑتا وہ پہلے ابراہیم ہی کے پاس آئے اور ان کو بتایا کہ اس اس طرح لوط کی قوم پر عذاب آنیواں ہے اس وقت ابرا نسیم کے قلب کی جو حالت ہوئی اور ان کافروں کے مارے جانے کی خبر یہ جو دیکھ ان کو پہنچا.قرآن کریم میں اور بائیبل میں اس کا ذکر موجود ہے.شاید وہ مائیں بھی اس طرح بنتا ہے نہ ہوئی ہوں گی جن کے بچے اس عذاب میں تباہ ہوئے جس طرح ابراہیم ان کی موت کی خبر شنکر بے تاب ہوا.اور وہ لوگ جو اس کے ہم مذہب اور بھائی اور پھر ساتھ ہی علاقی بھائی یعنی ایک نبی کو دکھ دے رہے تھے اور ہر روز اسے ایڈا میں پہنچا رہے تھے جب ان کی تباہی کی خبرا براہیم کو سنائی گئی تو وہ خوش نہیں ہوا.اس نے بے پرواہی بھی ظاہر نہیں کی وہ گھبرا کر اٹھا اور اس نے اپنے خدا کے سامنے رو رو کر التجا شروع کی کہ اے میرے خدار اسے میر سے خدا کیا تو اس شہر کو ہلاک کر دے گا.جبکہ اس میں تیرے نیک بندے بھی موجود ہیں.اور اگر ہزاروں بد ہیں تو سینکڑوں نیک بھی ہوں گے.تب خدا نے ابراہیم کے رحم اور اس کے دکھ کو دیکھتے ہوئے فرمایا.اسے ابراہیم ! میں تیری خاطر اگر سین کر دوں نیک بندے وہاں ہونگے تو اس شہر کو بچا لوں گا.تب ابراہیم نے سمجھا کہ شاید اس شہر میں سینکڑوں نیک بندے

Page 208

موجود نہیں ہیں اور اس نے کہا.اے خدا کیا اگر ایک سو نیک بندہ ہو گا تو تو اس کو تباہ ہونے دے گا.تب اللہ تعالے نے کہا.نہیں اگر ایک سو نیک بندہ بھی ہوا تب بھی ہیں اس شہر کو تباہی سے بچالوں کا تب ابراہیمؑ نے سوچا شاید سونیک بندہ بھی اس شہر میں نہیں ہے.اور اس نے دعا کی اے میرے خدا.اسے میرے خدا ! جو سو نیک بندوں کے لئے اس شہر کو بیچا ہے کے لئے آمادہ ہے اگر صرف دس اس میں سے کم ہوں اور نوے نیک بندے اس جگہ پر موجود ہوں تو کیا تیری سی رحیم ہستی صرف دس آدمیوں کی کمی کیوجہ سے اس شہر کو تباہ ہونے دے گی تب خدا نے کہا.اسے ابراہیم! اگر نوتے نیک بندے بھی اس شہر میں موجود ہوئے تو میں تیری خاطر اس کو تباہی سے بچالوں گا تب ابراہیم پھر نئے جوش سے دعا کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے خدا تعالے سے عرض کیا کہ اسے میرے رحیم خدا.جو ٹوٹے نیک بندوں کی خاطر اس علاقے کو بچانے کے لئے تیار ہے اگر صرف دس نیک بندے اس میں سے کم ہوں اور صرف انٹی نیک بند نے اس میں پائے جائیں.اے میرے رب کیا تو اُن انٹی کی خاطر اس شہر کو نہیں بچائیگا تب اللہ تعالے نے فرمایا.اسے ابراہیم ہیں ان انتی کی خاطر بھی اس شہر کو بچا لوں گا.اور ابرا ہیم کی امید اور بھی کم ہوگئی اور وہ سمجھ گیا کہ اس شہر میں انٹی نیک بندے بھی موجو د نہیں ہیں.مگر اس نے دعا نہ چھوڑی اور دس دس کے فرق کے ساتھ وہ خدا کی رحمت کو جوش میں لاتا گیا یہاں تک کہ آخری دعا اس کی یہ تھی کہ اے میرے خدا.اسے میرے خدا.دس نیک بندے بھی تو بڑی چیز ہیں.اگر دس نیک بندے اس شہر میں پائے جاتے ہوں تو اسے میرے رب کیا تو اس شہر کو ہلاک ہونے دے گا.اللہ تعالے نے جواب دیا.ابراہیم میں تیرے درد کی خاطر اس نیک بندوں کی موجودگی میں بھی اس شہر کو بچا لونگا ایک لیکن ابراہیم اس میں تو دس نیک بندے بھی موجود نہیں.تب ابراہیم نے سمجھ لیا کہ لوط اور اس کی اولاد کے سوا اس شہر میں سے کوئی بچائے جانے کے قابل نہیں ہے، اور اس نے جان لیا کہ ان کمزور اور گنہگار بندوں کے بچانے کے لئے جو لوط کی بستیوں میں بستے تھے شفاعت کے تمام سامان ختم ہو گئے اور وہ اس بارے میں بالکل بے ہیں اور بے طاقت ہے اور وہ درد اور دُکھ کے ساتھ اپنی ہی جان کو ہلکان کرتا ہوا خاموشی سے بیٹھ گیا.اور اس کے دل کا یہ درد اور اس کے جذبات کی یہ نزاکت اللہ تعالے کو ایسی پسند آئی کہ اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَعَلِيْمُ أَوَّاهُ مُّنِيْب.ابراہیم کو دیکھو کہ یہ ہمارا بندہ کیسا دانا.پھر کیسا دردمند ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر ہیں بھر نے لگ جاتا اور دُکھ اور تکلیف محسوس کرنے لگ جاتا ہے.اور ہمارا بھی کیسا عاشق ہے.یہ کیسے پیارے الفاظ ہیں جن میں خدا تعالے ابراہیم کو یاد کرتا ہے.اب اگر ہم تمثیل کی نگاہوں سے

Page 209

اس کو دیکھیں اور تمثیل کی زبان سے اس واقعہ کو بیان کریں.تو ہمیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالے ایک محبت کرنے والی ماں ہے اور ابراہیم ایک کمزور دل بچہ ہے جس نے ایک دردناک واقعہ دیکھا اور بلک بلک کر اپنی ماں کو چمٹ گیا.ماں اس کو ممنون کرنا چاہتی تھی مگر حالات سے مجبور تھی وہ واقعات کو تبدیل نہیں کر سکتی تھی مگر وہ اس کے دکھ کو بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی اس موقعہ پر اس نے وہی کیا جو وہ کر سکتی تھی یعنی اس نے اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور پیار کرتے ہوئے بولی کہ ہائے میرا بچہ بابائے میرا بچہ! یہ کتنا نازک دل والا اور کتنا رحم والا ہے.لفظ مختصر ہیں مگر جذبات کا ایک وسیع سمند در پیچھے لہریں مار رہا ہے.اللہ تعالئے انسانی جذبات سے بالا ہے.اور ہم اس کی صفات کی کیفیات کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے.مگر اس موقعہ پر جب خدا نے ابراہیم کے لئے علیم او الا منیب کے الفاظ استعمال کئے تو اس وقت اس کی صفنت شفقت اور صفت رانت جس جوش میں ظاہر ہو رہی ہوگی وہ ایسی کیف انگیز ہے کہ کم گو الفاظ میں اس کو بیان نہ کر سکیں لیکن ہمارے دل اس کی لذت سے آشنا ہیں.اور ہمارے قلوب اس سے مزا لے رہے ہیں اور ہم پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جو خدا کے لئے تکلیف اُٹھاتا ہے خدا تعالئے بھی اس کے لئے ایک ایسی صفت کا اظہار فرماتا ہے.کہ گو الفاظ میں یہ کہنا ہے ادبی ہوگی مگر وہ کچھ ایسی ہی چیز ہوتی ہے کہ جس طرح ماں کا دل اپنے بچہ کی تکلیف کو دیکھ کر مخون ہو جاتا ہے.گو یا خدا تعالے کا دل بھی ابراہیم کی تکلیف کو دیکھ کر درد سے بھر گیا.یہ تمثیلی زبان ہوگی اور حقیقت سے کوسوں دور.لیکن ہمارے پاس اور کوئی الفاظ بھی تو نہیں کہ جن سے اس حقیقت کا کوئی قریب ترنقشہ کھینچ سکیں.یہ تمثیل خواہ کوسوں دور جو مگر اس حقیقت کے بیان کرنے کے لئے قریب ترین ہے.اور شاید انسانی ذہین اللہ تعالے کی ایسی صفات کے سمجھنے کے لئے اس سے زیادہ اور الفاظ کے ذریعہ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض مذاہب نے خدا کو باپ کی صورت میں پیش کیا ہے.اور بعض مذاہب نے ماں کی صورت میں سے اسلام نے ایسی تمثیلوں سے اجتناب کیا ہے مگر پھر بھی وہ یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکا کہ خدا کا تعلق اس کے بندہ سے اپنے باپ اور اپنی ماں اور اپنے دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ قریب کا ہے کیا شاید میں اپنے مل مضمون سے کسی قدر دور ہو گیا ہوں.مگر جذباتی دنیا کا یہی حال ہوتا ہے.انسان جذبات کے تابع ہوتا ہے نہ کہ جذبات انسان کے پس شاید جذبات مجھے بھی کہیں سے کہیں لے گئے.میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ ابراہیم جس نے اپنے بیٹے کی قربانی خدا کے لئے پیش کی وہ دیوانہ نہیں تھا.کیونکہ خدا اس کو خلیق کہتا ہے جس کے معنے دانا کے ہیں.اور وہ جذبات سے عاری نہیں تھا اور سنگدل نہیں تھا کیونکہ خدا اسے آوائی

Page 210

کتنا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے جذبات نہایت ہی اُبھرے ہوئے اور نازک تھے یا اور یہی وہ سبب ہیں جن کے ماتحت انسان ان فطرتی تقاضوں کو بھول جاتا ہے جن کو پورا کرنا ہر انسان کی فطرت کا جزو ہے.پس جب ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تو اس کے دلی جذبات کا اندازه بهترین محبت کرنے والے ہاں باپ کے جذبات سے کیا جا سکتا ہے.اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ابراہیم ان صحبت کرنے والے اور ان دکھ اٹھانے والے ماں باپ سے جدا قسم کا انسان تھا جو اپنے بچے کی ایک ذراسی تکلیف بھی نہیں دیکھ سکتے بلکہ لوط کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ اپنے تو الگ رہے وہ بیگانوں کا دکھ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا.اب تم لوط کے واقعہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہوئے اس حساس دل کا خیال کرو جو دشمن کی تکلیف بھی برداشت نہیں کرتا تھا.اور اس کے آرام کے لئے بھی خدا سے جھگڑاتا تھا کہ جب کہ اس نے شدید ترین دشمنان مذہب اور خود اپنے خاندان کے اشد ترین مخالفوں کی تباہی کی خبر سن کر ساری رات خدا سے جھگڑے میں گزار دی اور قدم بقدم اس کے رسم سے اس اس طرح اپیل کی کہ خدا کے رجمہ کو مانے بغیر کوئی چارہ نہ رہا.اور وہ تب تک خاموش نہ ہوا جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو گیا کہ رسم کی اب کوئی نبی صورت باقی نہیں رہی.اس ابراہیم کو جب اس کے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تو جس ابراہیم نے دشمنوں کی ہلاکت کے لئے ساری رات خدا سے بحث کی تھی اپنے بیٹے سے متعلق اس نے ایک لفظ بھی تو نہیں کہا اور فور ا لبیک کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے اکلوتے بیٹے کی قر بانی پیش کرنے پر آمادہ ہو گیا.حج کے دن حاجی لبيك لبيك لا شريك لک لبیک کے نعرے لگاتے ہوئے خانہ کعبہ اور وہاں سے منیٰ کی طرف جاتے ہیں وہ اسی نظارہ کی تمثیل ہوتی ہے گویا وہ ابراہیم کی نقل کر رہے ہوتے ہیں.اور اپنے موقفہ سے اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ جس وقت خدا نے اس سے کہا اے ابراہیم اپنے بیٹے کی قربانی کرے تو اس نے قربانی کے وقت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اس خیال سے کہ اس حکم کے سننے اور قربانی کے پیش کرتے ہیں جو دیر لگے گی.وہ میرے رب کو گراں نہ گذرے.اس نے اسی وقت سے پکارنا شروع كيا بيك لبيك لا شريك لك لبيك - اے میرے رب میں حاضر ہوں اے رب میں حاضر ہوں تیرا اور کوئی شریک نہیں ہے.اسے خدا ! میں پھر کہتا ہوں کہ میں حاضر ہوں اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابر ہمیں خدا تعالے کے قربانی کے مطالبہ کو پورا کرنے میں اسی والہانہ رنگ سے کھڑا ہوتا ہے.جیسا ایک سخنی انسان جو درد مند دل رکھتا ہے کسی پیاسے کی آمد از شنکر جو شدت پیاس سے کراہ رہا ہو دُور سے چلا تا ہے کہ میں پانی لارہا ہوں ! پانی لا رہا ہوں انا اسے انتظار کی مزید تکلیف نہ اٹھانی پڑے.یہ کیسا دردناک نظارہ اور عشق کا مظاہرہ ہے.پیش تو ایک لڑکے

Page 211

کی جان کرتی ہے اور وہ بھی اکلوتا لڑکا.اور اکلوتا لڑکا بھی وہ جو بڑھاپے میں پیدا ہوا تھا اور جس کے بعد کسی اور لڑکے کے پیدا ہونے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہو سکتی تھی لیکن اپنے پیشیں اس طرح کیا جاتا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کا گلاس دیا جاتا ہے یا بھوکے کو کھانا دیا جاتا ہے.لوگ آجکل چھوٹی چھوٹی باتوں اور چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے بعد جب ان قربانیوں کے پیشں کرنیوالے اپنی قوم کی مجلسوں میں حاضر ہوتے ہیں تو بے اختیار ہو کر نعرے لگاتے ہیں کہ فلان شخص زندہ باد مگر ابراہیم نے جو کام کیا اس کے مقابل پر یہ لوگ حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں کہ ان کے لئے زندہ باد کے نعرے لگائے جائیں.اور تم جانتے ہو کہ یہ عید دوسرے لفظوں میں خدا تعالے کی آوازہ ہے جو سلمانوں کے ذریعہ سے تمام دنیا پر سے ایک وقت میں بلند کی جاتی ہے اور جس کا اگر نشیلی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اردو میں اس کے لئے یہی الفاظ ہوں گے کہ ابراہیم زندہ باد.ہم جب اس عید کے موقع پر کپڑے بدلتے ہیں، نہاتے ہیں، ایک مجمع میں جمع ہونے کے لئے تیاری کرتے ہیں تو گویا روحانی طور پر ہم اس امر کی تیاری کرتے ہیں کہ ابراہیم کی روح کا استقبال کریں گے اور جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر تکبیریں کہتے ہیں تے تو دوسرے الفاظ میں ابراہیم کی قربانی کے موقعہ پر اپنے ہدیہ تبریک پیش کرنے کی تکبیریں ہوتی ہیں کیونکہ اسلامی طریق کے مطابق جب کوئی شاندار نظارہ نظر آئے جس میں خدا کا جلال ظاہر ہو تو اس وقت تکبیر کہی جاتی ہے گیلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جنگ احزاب کے موقعہ پر دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے ایک خندق کے کھود نے کی ضرورت پیش آئی تھی تا کہ دشمن رات اور دن کسی وقت بھی چھا پہ نہ مار سکے.کیونکہ مسلمانوں کی فوج اتنی تھوڑی تھی کہ وہ چوبیس گھنٹے ہر مقام کا پرہ نہیں دے سکتے تھے.تب آدمیوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک خندق کھودی گئی تاکہ تھوڑے آدمیوں کے ذریعہ بہت آدمیوں کا کام لیا جا سکے.جب وہ خندق کھودی جارہی تھی تو ایک جگہ پر ایک پتھر نظر آیا جسے باوجود کوشش کے صحابہ نہ توڑ سکے.اور انہوں نے کول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ ایک چٹان ایسی آگئی ہے کہ اسے توڑا نہیں جاتی در خندق مکمل نہیں ہو سکتی.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اس جگہ پر تشریف نے گئے اور فرمایا کہ کدال میرے ہاتھ میں دو.اور آپ دو رگدال اس چٹان پر ماری ایسے زور سے کہ لوہے اور پتھر کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ایک آگ کا شعلہ نکلا.آپ نے سنہ مایا اللہ اکبر اور سارے صحابہ نے ساتھ کہا اللہ اکبر.پھر آپ بنے دوسری دفعہ کدال اُٹھائی اور اپنے پورے زور سے پھر وہ کدال چٹان پر ماری.اور پھر اس میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور

Page 212

۲۰۴ پھر آپ نے فرمایا اللہ اکبر.اور سب صحابہ نے ساتھ ہی کہا اللہ اکبر.پھر آپ نے تیسری دفعہ کرالی اٹھائی اور اپنے پورے زور سے کدال پتھر پر ماری اور پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور پھر آپ نے فرمایا اللہ اکبر اور صحابہ نے بھی اسی طرح زور سے آواز دی اللہ اکبر.اس تیسری ضرب سے وہ پتھر ٹوٹ گیا اور صحابہ نے خندق کو مکمل کر لیا.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے تین دفعہ تکبیر کے نعرے مارے ہیں ، تم نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں کہا.یارسول للہ ! ہم آپ کی نقل کی.آپ نے بھی تین دفعہ اللہ اکبر کہا تھا ، سو ہم نے بھی آپ کی نقل میں تین دفعہ جبیر کے نعرے لگائے.آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ میں نے تیر کیوں کہی تھی.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا جب میں نے پہلی دفعہ کدال ماری اور اس پتھر میں سے آگ کا شعلہ نکلا تو میں نے اس شعلہ میں یہ نظارہ دیکھا کہ اسلامی فوجوں کے سامنے رونا کی حکومت کی فوجیں تہ و بالا کر دی گئیں.اور یکس نے اس موقعہ کے مناسب حال اللہ اکبر کہا.پھر جب میں نے دوسری دفعہ کدال ماری اور نتھر کی چٹان میں سے آگ کا شعلہ نکلا تو مجھے یہ نظارہ دکھایا گیا کہ اسلامی سطوت کے سامنے کرائے ایران کے قصر یہ زلزلہ آگیا ہے اور اس کی شرکت توڑ دی گئی ہے.تب میں نے اس کے مناسب حال تکبیر کا نعرہ بلند کیا.اور جب میں نے تیسری دفعہ کدال پتھر پر ماری اور پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا تو مجھے یہ نظارہ دکھایا گیا کہ تمیز کی طاقت اور قوت اسلام کے مقابلہ میں برباد کر دی گئی.تب پھر میں نے خدائی بڑائی بیان کی اور تکبیر کا نعرہ لگا یا صحابیہ یہ ہے قو نے کہا.یا رسول اللہ ! پھر جس بات پر آپ نے تکبیر کسی ہم نے بھی تکبیر کی تیلیہ اس مثال سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ اسلامی آداب نہیں کہ جب کوئی خدا کا ملال ظاہر ہو تو مومن اس پر مبند آواز سے اللہ اکبر کہتا ہے.سوسم عید کی نماز میں جو بہت سی تکبیریں کرتے ہیں بلکہ ایام تشریق میں برا ہر تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں تو گویا ابراہیم کی قربانی کے لئے اپنے جذبات استحسان کا ہدیہ پیش کرتے ہیں.اور اپنے مونہوں سے اقرارہ کرتے ہیں کہ ہم نے ابراہیمیہ کی قربانی میں خدا کی شوکت اور اس کے جلال کو دیکھا مگر کیا یہ ہمارے لئے افسوس کی بات نہیں کہ ہم ابراہیمیہ میں تو خدا کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے نفس میں خدا کو دیکھنا نہیں چاہتے.ہم ابراہیمیہ کے ایک تحسن فعل پر تو اللہ اکبر کہتے ہیں مگر ہمارے دل میں یہ تڑپ پیدا نہیں ہوتی کہ ہم سے بھی کچھ ایسے افعال ظاہر ہوں کہ جنہیں دیکھ کر خدا کے بندے بیتاب ہو کر تکبیر بلند کریں.اور زمین اور آسمان اسی طرح ہمارے افعال کی وجہ سے خدا کی بڑائی سے گونج جائیں جس طرح قانون قدرت کے ذریعہ سے وہ تسبیح کے ساتھ کو سج رہے ہیں.اور یہ کوئی

Page 213

۲۰۵ ناممکن بات نہیں ہے کیونکہ ابراہیمیہ کو ئی خدا کا سگا بیٹیانہ تھا اور ہم کوئی سوتیلے بیٹے نہیں ہیں.کمی خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ کمی ہماری طرف سے ہے.دنیا میں عاشق ہاتھ پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں اور معشوق منہ پھلائے بیٹھے رہتے ہیں.مگر روحانی دنیا نوالی ہے.ہمارا معشوق ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے اور ہم میں سے کچھ بد قسمت ہیں جو مو نہ پھیرے بیٹھے ہیں اگر سُوئے ادبی نہ ہوتی اور انسانی الفاظ خدا تعالے کے لئے استعمال کرنے جائزہ ہوتے تو ہیں کہتا.اے نادان انسان دیکھے تو سہی، تیرا معشوق تیرا خدا کب سے تیری طرف ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے اتنی دیر سے کہ اتنی دیر میں انسان کی تو رگوں کا خون بھی خشک ہو جاتا ہے.مگر وہ تمثیلوں سے بالا ہے ، وہ نقصوں سے پاک ہے، وہ عیبوں سے مبرا ہے.وہ توتارا منتظر ہے مگر تمہارا انتظار اس کی بادشاہت میں کمی نہیں پیدا کرتا.وہ تمہاری طرف بڑھتا ہے کیا تمہاری بے رغبتی اس کی شان میں کمی نہیں کر سکتی.کیونکہ وہ سب نقائص سے پاک ہے.اور تمام کمزوریوں سے بالا ہے.انسانی زبان اس کی صفات کی حقیقت کو بیان کرنے سے قاصر ہے.اور انسانی الفاظ اس کی محبت کی کیفیت کو ادا ہی نہیں کر سکتے.وہ عاشقوں کے عشق سے زیادہ جوش والی وہ ماں باپ کے جذبات سے زیادہ نازک، وہ دوستوں کی دوستی سے زیادہ گرم ہے لیکن پھر بھی وہ اس کی اذیت کا موجب نہیں ہوتی.اور اس کی نشان کی کمی کا باعث نہیں ہوتی.وہ راغب ہو کر بھی بالا ہے اور انسان مستغنی ہو کر بھی بیٹا ہے.وہ متوجہ ہو کر بھی بڑا ہے اور یہ منہ پھیر کو بھی چھوٹا ہے کیونکہ اس کی توجہ احتیاج کی توجہ نہیں ہے بلکہ رحم کی توجہ ہے اور اس کی تڑپ کمزوری کی تڑپ نہیں ہے بلکہ علم کی تڑپ اور مسلم کی ٹوپ ہے.مگر انسان ان باتوں کو نہیں دیکھتا.وہ قدم آگے اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتا.وہ اس بات کا عادی ہو گیا ہے کہ تھیٹروں میں جائے اور چھوٹے بادشاہوں کی شان و شرکت کو دیکھے اور بدبخت یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے گھر میں اس وقت ایک خلعت شاہانہ اور ایک تاج اس کے پیدا کرنے والے کی طرف سے آیا ہوا ہے.اور ایک بادشاہت کا پروانہ اس کے لئے لکھا ہوا موجود ہے.وہ دوسروں کے ایکٹ دیکھنے پر فدا ہوتا ہے مگر اپنی بادشاہت سے مونہ موڑ لیتا ہے.قیمت ہے ایسا انسان.کاش اس کی ماں اسے پیدا نہ کرتی کہ وہ اپنے وجود میں انسانیت کے لئے عارہ ہے بلکہ حیوانات کے لئے بھی باعث تنگ ہے کہ وہ بے عقل ہو کر خدا کی تسبیح کو بلند کرتے ہیں لیکن یہ عقلمند ہو کہ بھی اس سے غافل رہتا ہے اُسے آنکھیں دی گئیں مگر اس نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا اسے کان دیئے گئے.مگر اس نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا.اسے ناک دیا گیا مگر اس نے

Page 214

۲۰۶ اس سے فائدہ نہ اٹھایا اسے چھونے والا جسم دیا گیا مگر اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا.خدا کی محبت کی شیرینی اس کے سامنے پیش کی گئی مگر یہ بدبخت دنیا کا منظل کھاتا رہا مگر اس شیرینی سے اس نے مولہ پھیر لیا.مگر اس کا خدا اس سے پھر بھی مایوس نہیں ہے.دیکھو وہ کس شان سے اپنے آخری کلام میں فرماتا ہے کہ انسانوں نے میرے نبیوں کا انکار کیا لیکن ان کے انکار نے تجھے نبی بھیجنے سے باز نہیں رکھا.میں اب بھی نبی بھیجتا ہوں اور نبی بھیجتا رہوں گا.وہ ماننے سے انکار کرتے جائیں میں جانے سے نہیں ہٹوں گا اور آخران کو کھینچ ہی لاؤں گا.کیونکہ میں نے ان کو اپنی عبودیت کے لئے پیدا کیا ہے اور میری حسیت کا گھر اپنے مکین کے بغیر ویران پڑا ہے.خواه و ه براہ راست آکر اس گھر کو آباد کریں یا دوزخ کے ہسپتال میں سے گزر کر آئیں مگر ہر حال انہیں میرے ہی پاس آنا ہو گا.اور ہیں انہیں اپنے پاس لا کر ر کھے بغیر نہیں رہوں گا.یہ ہے ہمارا محبت کرنے والا خدا.ابراہیم نے بڑی نرم دلی دکھائی مگر ابراہیم کے نرم دل کو پیدا کرنے والا بھی ہمارا خدا ہی تھا.پس تمام رحم اسی سے ہے اور تمام خوبیاں اسی کی طرف سے ہیں.کوئی حسن نہیں ہے جو اس کی طرف سے نہ آتا ہو.سب نیکی اسی سے ہے اور سب نیکی سی کی طرف جاتی ہے.وہ ایک ہے اور باقی سب ایک افسانہ ہے اور کوئی افسانہ بغیر ایک مرکزی نقطہ کے قائم نہیں رہتا.پس جب تک ہمارا افسانہ اس نقطۂ مرکز ی سے وابستہ ہے وہ ایک حقیقی اور تاریخی افسانہ ہے جب وہ اس سے جدا ہو جائے وہ ایک خیالی افسانہ ہے جن کی کوئی حقیقت نہیں.جس کے لئے کوئی دوام نہیں.پس کوشش کرو کہ تمہاری زندگیاں ایک حقیقی اور تاریخی افسانہ نہیں جس طرح ابراہیم کی زندگی ایک حقیقی اور تاریخی افسانہ بن گئی.اور اپنے آپ کو خدا سے دور کر کے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اپنی زندگیوں کو صرف کر کے ایک بے معنی اور لغو وجود مت بناؤ کیونکہ دائمی نہ زندگی ہی اصل زندگی ہے.اور وہ چیز جو آئی اور ختم ہو گئی محض ایک حیوانی زندگی کا مظاہرہ ہے جس طرح کتنے کے مرنے سے دنیا میں کوئی تغیر نہیں ہوتا، اسی طرح اس انسان کے مرنے سے بھی کوئی تغیر نہیں ہوتا جس کی نہ ندگی ابراہیم کی طرح خدا کے نور کے گرد پروانہ وار چکر نہیں لگا رہی ہوتی.اللہ تعالے نہیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اس عید سے سبق حاصل کریں اور ہمارے دل اس کے آستانہ محبت کے گرد لبَّيْكَ اللهُمَّ لَبَّيْكَ : لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، کہتے ہوئے اس وقت تک گھومتے رہیں جب تک کہ مشمع پر دانے کو جلا کر اپنے نور میں غائب نہ کر دے اور ہمارا وجود لا شريك لك كی ببین دلیل نہ ہو جائے.اس کے اجہ میں دعا کرتا ہوں.دوست اس میں شامل ہو جائیں لیکن یہ یاد رہے کہ چونکہ

Page 215

میں زیادہ بیٹھ نہیں سکتا، دعا کے بعد مصافحہ نہیں ہوگا.مجھے راستہ دے دیا جائے تاکہ میں گھر واپس جا سکوں.+1076 و الفضل ۲ مارچ ۱۹۳۶) ے بعد ال: ۷۶ - له بود (۷۷۱۱ - ۵۳ پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۲ -- ۳ - پیدانش باب ۱۸ آیت ۲۳۳ تا ۳۲ ے.انسائیکلو پیڈیا ریجیس اینڈ ایتھکس جلد ۶ ص۲۲۲ - ۲۵ الملل والنحل مصنفہ امام شهرستانی جلد ۳ ف حاشیہ - انسائیکلوپیڈیا ریجیس اینڈ انتیک جلد صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسولی مصلی اللہ علیہ وسلم من الالمان - شه - مفردات امام راغب زیر لفظ علم - تاج العروس جلده ملت ۲ AM 2 - تاج العروس جلد و مشتا صحیح بخاری کتاب المناسك باب التلبیہ میں پوری تلبیہ یوں درج ہے.لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ البيا لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ! إِنَّ الحَمد وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لا شَرِيكَ لَكَ.ے تیر تحریمہ کے بعد اور سورۃ فاتم کی تلاوت سے پہلے پہلی رکعت میں ساکت اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کسی جاتی ہیں (جامع زندی باب في التكبير فى العيدين - بنيل الأوطاهر جلد ٣ منشا زرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد ۲ منا - صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعا اذا اعلاعتية جنگ احزاب ستہ میں لڑی گئی.بنو قریش - غطفان اور ان کے حلیف اور یہود نے مل کہ دس ہزار کے شکر جرار کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا تھا.اس لئے یہ جنگ جنگ احزاب کے نام سے مشہور ہوئی.اس موقعہ پر چونکہ مدینہ کے اردگرد ایک خندق کھودی گئی تھی اس لئے اس کا دوسرا نام جنگ خندق بھی ہے.مدینہ کے اندر رہ کر دفاع کرنے کے لئے خندق کھود نے کا مشورہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیا تھا.- الخصائص الکبری جلد ۱ ۲۹ ، زرقانی شرح المواہب اللہ کیہ جلد " من - ۱۳-۱۲-۱۱ ذیا بجہ کو ایام تشریق کہتے ہیں جن میں ہر فرض نماز کے بعد مندرجہ ذیل الفاظ پشتمل تعبیر و تمجید کا درد کیا جاتا ہے.اللہ اکبر اللهُ الْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ اكبر الله اكبر ولله الحمد - يت تكبيرات صرف نمازوں کے بعد ہی نہیں بلکہ دوسرے اوقات میں کہنا بھی مستحب ہے.انیل الاوطار جلد ۲ م ) ،

Page 216

۲۶ د فرموده در فروری شار بمقام عیدگاه قادریا، چونکہ اسی ہفتہ میں لاہور کے کالجوں کے احمدی طالب علموں کے آنے کی وجہ سے مجھے گلے کی تکلیف کے باوجود ایک لمبی تقریر کرنی پڑی تھی اس لیئے اس دن سے میرا گلا بہت ہی بیٹھا ہوا ہے اور جلسہ سالانہ کے بعد کی گلے کی تکلیف میں جو کمی ہوئی تھی اس میں پھر اضافہ ہو گیا ہے.اس وجہ سے شاید میں اپنی آواز دوسروں تک اچھی طرح نہ پہنچا سکوں یا شاید ایک حصہ تک بالکل ہی نہ پہنچا سکوں اور پھر آج تو دو خطبوں کا دن ہے یعنی عید اور جمعہ دونوں جمع ہو گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا، جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نمانہ ادا کر نہیں مگر فرمایا.ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے لیے کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتوئی آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں.میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں، جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے.مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے.میں نے انہیں کہا.میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو شخص چاہے آج جمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لے.مگر جو ظہر پڑھنا چاہتا ہے وہ مجھے کیوں مجبور کرتا ہے کہ میں بھی جمعہ نہ پڑھوں میں تو وہی کہوں گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مجد ہی پڑھیں گے.ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے کہیں حدیث میں دیکھا کہ گوہ رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستر خوان پر کھائی گئی تھی.چونکہ وہ احمدیت سے.پہلے اہل حدیث میں شامل تھے اس لئے ان کے دل میں یہ جوشش رہتا تھا کہ ہر حدیث پر عمل کیا جاے پیجز احمدیہ انٹر کا بجٹیسٹ ایسوسی ایشن لاہور کے وہ طلباء کے علاوہ بعض غیر احمدی طلباء بھی تھے جن سے حضور رضی اللہ عنہ نے جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل میں دعوت چائے کے موقعہ پر تین گھنٹے تک خطاب فرمایا تھا.

Page 217

7-9 پنا نچہ انہوں نے لوگوں پر زور دنیا شروع کر دیا کہ گوہ کھانی چاہیئے.اور انہوں نے اس پر اتنا زبیر دیا کہ اچھی خاصی تبلیغ ہو گئی.مجھے بھی ایک دفعہ انہوں نے پندرہ بیس منٹ تک خوب تبلید کی اور پھر ہماری نانی جان صاحبہ مرحومہ سے گھر میں گوہ بچوائی تو مجھے بھی کہا کہ کھاؤ.میں نے اس وقت ان کے اصرار پر ارادہ کیا کہ گوہ کا گوشت کھا کر دیکھیواں، مگر اسے دیکھ کر مجھے سخت کر اہت آئی اور میں واپس لوٹ آیا.ان دنوں کچھ دن تک وہ حدیث کی کتاب نانا صاحب مرحوم اپنے ساتھ رکھتے تھے اور جو بھی ملتا اسے دکھاتے اور پھر پوچھتے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستر خوان پر یہ کھائی گئی ہے تو تم کیوں نہیں کھاتے.ایک دفعہ انہوں نے مجھے وہ حدیث کی کتاب دی اور حضرت خلیفہ اسح الاول رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ جب اس حدیث سے ثابت ہے کہ گوہ کا گوشت کھانا جائز ہے.تو آپ کو اس کے کھانے پر کوئی اعتراض تو نہیں یہ وہی حدیث تھی جس کے ایک حصہ میں یہ آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کو کے سامنے جب پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا ہمارے ملک میں چونکہ اس کے کھانے کا روا نہیں اس لئے میں نہیں کھاتا اگر اور کوئی کھانا چاہے تو بے شک کھا لے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جب میں یہ حدیث لے کر گیا اور میر صاحب کی بات کا آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا.لیکن اس حصے پر عمل کرتا ہوں میر صاحب دوسرے حصہ پر عمل کو لیں یہیں میں نے بھی انہیں جواب دیا کہ ہمیں اس حصہ پر عمل کرتا ہوں جس میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا.ہم جمعہ ہی پڑھیں گے اور اگر کوئی دوسرے حصہ پر عمل کرنا چاہتا ہے.تو وہ اس حصہ پر عمل کرلے.مگر وہ مجھے کیوں مجبور کرنا چاہتا ہے.کہ میں بھی اس دوسرے حصہ پر عمل کروں.تو آن دو عیدیں جمع ہیں.ہمارے ملک کی ایک پنجابی مثل ہے کہ دو دو تے چوپڑیاں چونکہ خدا تعالے کی دین کا بندہ قیاس بھی نہیں کر سکتا اور وہ اپنے بخل کو دوسرے کی طرف منسوب کر دیتا ہے.اس لئے ہمارے ملک میں یہ مثل ہے کہ دو دو تے چوپڑیاں یعنی ایک تو دو دو روٹیوں کی خواہش رکھنا اور پھر یہ بھی کہنا کہ ان پر گھی بھی لگا ہوا ہو.حالانکہ گھی والی تو ایک روٹی ہی کافی ہوا کرتی ہے.مگر دیکھو ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دور ہو دیں اور پھر پڑی ہوئی دیں.یعنی جمعہ بھی آیا اور عیدالاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالے نے ہمارے لئے جمع کر دیں.اب جس کو دو دو چپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو رد کیوں گرے گا، وہ تو دونوں لے گا سوائے اس کے کہ اس کوئی خاص مجبوری پیشیش آجائے.اور اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی ہے.کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہیئے کہ اس پر طعن کرے اور اگر بعض لوگ ایسے ہوں جند میں

Page 218

۲۱۰ دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہیئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا ہے پس اللہ تعالے کے فضل سے آج ہمارے لئے دو عیدیں جمع ہیں جن میں سے پہلی عید تو ہم پڑھ چکے ہیں اور اس کا نتمتہ خطبہ کے ذریعہ ادا کر رہے ہیں.یہ عید ایک ایسی قربانی کی یاد گار ہے جس نے ہم کو دو نہایت اعلیٰ درجہ کے سبق دیتے ہیں.اور بھی سبق دیئے ہیں مگر اس وقت میرے مضمون سے چونکہ ان دو سبقوں کا ہی تعلق ہے اس لئے مہر نے مضمون کے لحاظ سے اس عید نے ہمیں دو اعلیٰ درجہ کے سبق دیتے ہیں.ایک تو یہ سبق دیا ہے کہ اللہ تعالے کے راستہ میں بندہ کو قربانی کرنے میں کبھی جنسل سے کام نہیں لینا چاہیئے.اور دوسرا سبق یہ دیا ہے کہ خدا تعالے کے راستہ میں سچی قربانی کرنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا.اللہ تعالے کے راستہ میں قربانی پیش کرنے کی جرات اور اس میں فراخ حوصلگی کی مثال تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے کہ بڑھاپے کی عمر میں جبکہ آپ تو بے سال کے ہو چکے تھے آپ کو ایک بچہ ملتا ہے.یہ نہیں کہ آپ کو اس بچہ کی خواہش نہ تھی اس لئے کہ آپ نے کئی شادیاں محض نرینہ اولاد کے حصول کے لئے کہیں.چنانچہ دو تو شھر عورتوں سے شادی کی ہے جن میں سے ایک حضرت سارہ اور ایک حضرت ہاجرہ تھیں.ان کے علاوہ بعض لونڈیوں سے بھی آپ نے شادی کی.اور اس نیت اور اس ارادہ سے کی کہ کوئی بچہ پیدا ہو.میں نے حضرت ہاجرہ کے متعلق کہا ہے کہ وہ گر تھیں اور یہ عیسوی تاریخ اور بائیبل کے خلاف ہے.عیسائی تاریخ انہیں آزاد قرار نہیں دیتی بلکہ کہتی ہے کہ وہ لونڈی تھیں یہ لیکن خود بائبل کے ہی بعض واقعات اسے غلط قرار دے رہے ہیں.کیونکہ بائبل نے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد کا جو مقام تجویز کیا ہے.اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری اولاد کو شامل نہیں کیا.اگر حضرت ہاجرہ لونڈی ہوتیں تو با شبل ان کی اولاد سے وہی سلوک کیوں نہ کرتی جو اس نے دوسری بیویوں کی اولاد سے کیا.در حقیقت عیسائی مورخین کو حضرت ہاجرہ سے بغض تھا اور اس شخص کی وجہ سے انہوں نے آپ کو لونڈی قرار دے دیا.اور چونکہ جھوٹے الزام ہمیشہ الزام لگانے والوں پر لوٹ پڑا کرتے ہیں اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے تو حضرت ہاجرہ پر یہ الزام لگایا کہ وہ مصر کی لونڈی تھیں اور خدا تعالے نے اس کی پاداش میں اس قوم کوکئی سو سال تک حضرت ہاجرہ کی قوم کا غلام بنا دیا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت ان کی حالت بالکل غلاموں کی طرح تھی اور وہ حضرت ہاجرہ کی قوم کے ماتحت تھے.تو حضرت ہاجرہ اور حضرت سارہ دو بیویاں آزادوں میں سے تھیں اور حضرت ہاجرہ تو شہزادی تھیں.چنانچہ مصر کے شاہی خاندان کے افراد نے اس وجہ سے کہ انہوں نے حضرت

Page 219

۲۱۱ ابراہیم علیہ السلام کی نیکی اور بعض نشانات دیکھئے اپنی لڑکی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیاد کی دی تھی لیکن پرانے زمانہ میں قاعدہ تھا اور اب بھی بند دنوں میں ہے کہ وہ پہلی بیوی کو اسلی بیوی قرار دیتے ہیں اور دوسری بیویوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ اس کے ماتحت ہیں لیے چنانچہ مسلمانوں ہیں اور ہندوؤں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مسلمان تمام بیویوں کو کیساں قرانہ دیتے ہیں.مگر ہندو لوگ صرف پہلی بیوی کو بیوی سمجھتے ہیں اور دوسری بیویوں کو اس کا ماتحت قرار دیتے ہیں.مسلمانوں میں بھی جہاں مہندووانہ رسوم کا اثر ہے جب کسی شخص کی دو بیویاں ہوں تو اس کے عزیز پہلی بیوی کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بیاہی ہے اور دوسری بیوی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نکاحی ہے یہ حالانکہ جو بیاہی ہوئی ہوتی ہے وہ نکامی بھی ہوتی ہے.اور جسے نکاحی کہتے ہیں وہ بھی یہی ہوتی ہے.مگر وہ ان الفاظ سے دونوں میں فرق کرتے اور یہ بتلاتے ہیں کہ ایک ان میں سے اصل بیوی ہے اور دوسری بعد کی بیوی ہے.مگر اسلام نے اس امتیاز کو بالکل مٹا دیا اور سب بیویوں کا حق برا پر تسلیم کیا ہے یہ لیکن پہلے زمانہ میں بڑی بیوی کو فوقیت دی جاتی تھی یعنی گھر کی مالکہ صرف دیسی سمجھی جاتی تھی.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باوجود بڑی خواہش ، بڑے ارادوں اور بڑے چاؤ کے ساتھ شادی کرنے کے بچہ پیدا ہونے کے بعد جب دیکھا کہ اللہ تعالے کی طرف سے مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں اس کو اس کی راہ میں قربان کر دوں تو وہ فورا اس کو قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے.چنانچہ انہوں نے رویا دیکھا تھا کہ میں اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کر رہا ہوں.وہ یہ رہو یا دیکھتے ہی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ میں اسمعیل کو ذبح کر دوں.حالانکہ ذبح کرنے سے مراد اسمعیل کو چھری سے ذنج کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں جا کر چھوڑ آؤ.یہی ان کے خواب کی تعبیر تھی اور یہی بات اللہ تعالے نے ان کو بتائی تھی مگر چونکہ تعبیر اپنے وقت پر ظاہر ہوا کرتی ہے.اس لئے ان کا ذہن اس وقت اس طرف نہیں گیا کہ اللہ تعالے اس خواب کے ذریعہ مجھے یہ تنہا رہا ہے.کہ ایک دن تم اپنے اکلوتے بیٹے سے وہ معاملہ کروگے جو ذبح کرنے کے مترادف ہے.اور ہمارے حکم کے ماتحت تمہیں اسے ایک ایسے علاقہ میں چھوڑ کر آنا پڑے گا جہاں میلوں میل تک نہ کھانے کا کوئی سامان ہوگا نہ پینے کا.انہوں نے اس خواب کو ظاہری رنگ میں پورا کرنے کے لئے اپنے بیٹے کو گرایا اور چاہا کہ اسے ذبح کر کے اللہ تعالے کے منشاء کو پورا کر دیں.مگر اللہ تعالے نے انہیں المساما فرمایا کہ جانے دو، تم نے تو ظاہری شکل میں بھی خواب پوری کردی.لیکن انسان دوسرے کی باتوں کو شنکر ان جذبات اور احساسات کا قیاس نہیں کر سکتا جود دوسرے کے دل میں پیدا ہورہے ہوتے ہیں.اگر کسی کی اپنی مرضی بھی مر جائے تو اُسے جتنا درد ہوتا ہے اتنا در راسے دوسرے

Page 220

۲۱۴ کے بیٹے کی وفات کی خبر سن کر نہیں ہوتا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ دوسرے کے غم کی نقل کر کے اس سے ہمدردی کرتے ہیں.ان کے دل میں کوئی رینج نہیں ہوتا.اگر وہ سامنے آجائیگا تو رونے والی شکل بنا لیں گے اور ہمدردی کے چند الفاظ اپنے منہ سے نکال دیں گے لیکن ان کے دل غم کے جذبات سے بالکل خالی ہوں گے.اس کے مقابلہ میں اگر ان کی اپنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ضائع ہو جائے تو وہ اس کے صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتے.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی چوڑھی تھی جو بادشاہ کے گھر میں صفائی کیا کرتی تھی.ایک دفعہ جب وہ شاہی محل سے باہر نکلی تو ڈیوڑھی کے اندر کھڑے ہو کر اس کی دیوار سے سر لگا کر اس نے رونا شروع کردیا اور اس درد اور کرب کے ساتھ روٹی کہ باہر جو دربان کھڑے تھے انہوں نے سمجھا کہ شاہی خاندان میں کوئی موت واقع ہو گئی ہے.چنانچہ اس خیال پر انہوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے ہونا شروع کر دیا.اور دیوار سے لگ کر جھوٹی ہچکیاں لینی شروع کر دیں تا ایسا نہ ہو کہ ان کے متعلق یہ مجھا جائے.کہ وہ نمک حرام نہیں.ان کو روتے دیکھ کر اوروں نے بھی رونا شروع کر دیا.پھر اور وں کیا نتک که درباریوں تک یہ بات پہنچ گئی.چونکہ درباریوں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جب شاہی خاندان میں کوئی موت واقع ہو تو سیاہ لباس پہن کر آؤ، اس لئے وہ دوڑ دوڑ کر اپنے گھر گئے اور ہر ایک کالاباس پہن کہ دربار میں سر نیچے جھکا کر بیٹھ گیا اور آنکھوں کے آگے رومال رکھ لیا تا ئیعلوم و کہ وہ رو رہا ہے.مگر جو سب سے بڑا وزیر تھا وہ کچھ سمجھدار تھا وہ بغیر سیاہ لباس پہنے دربار میں آ بیٹھا اور اس نے پاس والے سے پوچھا کہ کیا حادثہ ہوا ہے.اس نے کہا مجھے تو یہ نہیں ساتھ والے کو پتہ ہو گا.میں نے اسے مانتی لباس میں بیٹھا دیکھا تھا.میں بھی پینکر آگیا کہ شاید شاهی خاندان میں کوئی حادثہ ہوا ہے.اس سے پوچھا گیا تو اس نے آگے سے اپنے پاس والے کا حوالہ دیا اور اس نے تیسرے کا اور اس نے پو تھے کا.آخر دربانوں تک بات پہنچی اور انہوں نے چوڑھی کا حوالہ دیا.جب اسے بلا کر پوچھا گیا.تو اس نے بتایا کہ اللہ رکھے قلعہ میں تو ہر طرح خیریت ہے.بات یہ ہے کہ میں نے ایک سٹور کا بچہ پال رکھا تھا.آج صبح وہ مر گیا صفائی کا وقت قریب تھا اس لئے میں جلدی سے محلات میں آگئی اور جذبات کو دریا ئے رکھا.لیکن جب محل سے باہر آئی تو مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور ڈیوڑھی میں مجھے رونا آگیا.اب وہ جذبات جو اس چوڑھی کے دل میں دبے ہوئے تھے وہ چونکہ انہیں نکال نہیں سکی تھی اس لئے جب تک کے صفائی میں مشغول رہی جذبات رہے رہے.مگر جب اس کا کام ختم ہوگیا اور اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تو اس نے بے تاب ہو کر رونا شروع کر دیا.اور باقیوں نے اس کی بے تابی کو دیکھ کر یہ قیاس کیا کہ اس قدر غم کسی بڑے حادثہ پر ہی ہو سکتا ہے اور

Page 221

۲۱۳ س کی نقل میں رونی شکل بنا کر چیخنا شروع کر دیا.اور انہوں نے سمجھا کہ شاید بادشاہ یا اس کی بیگم مر گئی ہے.مگر ہر حال ان کا رونا مصنوعی رونا تھا اور اس چوڑی کا رونا حقیقی رونا تھا.کیونکہ سورنی کا بچہ چو بیری کا اپنا تھا اور اس کے مرنے پر اس نے حقیقی درد محسوس کیا.مگر دربان اور درباری گو بادشاہ یا اس کی ملکہ یا کسی شہزادہ کو رو رہے تھے مگر ان کا رونا مصنوعی تھا کیونکہ بادشاہ یا مکہ سے ان کا حقیقی تعلق نہ تھا.تو اپنی قلیل سے قلیل تکلیف بھی بڑی معلوم ہوتی ہے اور دوسرے کی بڑی سے بڑی تکلیف بھی چھوٹی معلوم ہوتی ہے.ہمارے یہاں کی ایک مثال ہے.غالبا اب بھی وہ دوست یہاں بیٹھے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ پرانے صحابی ہیں.ایک دفعہ یہاں کسی قسم کا جھگڑا ہو گیا اور احمدیوں نے شکایت کی کہ بعض ہندوؤں نے ان پر آوازے کسے ہیں اور فساد کرانا چاہا ہے.میں نے اس کی تحقیق کرانی چاہی کہ آیا واقعہ میں ایدھا ہوا ہے یا نہیں تا اگر یہ بات درست ثابت ہو تو ان ہندوؤں کو سمجھا دیا جائے یا اپنے دوستوں کو سمجھایا جائے.اس وقت تک بھی سہندوؤں سے ہمارے تعلقات اچھے تھے.اور میری غرض اس تحقیق سے یہ تھی کہ جس کا قصور ثابت ہوا اسے سمجھایا جائے.چونکہ کسی دوست سے معلوم ہوا کہ وہ اس موقعہ پر موجود تھے اور وہ واقعہ کے عینی گواہ ہیں.میں نے انہیں بلایا اور کہا کہ اس قسم کا واقعہ کیا آپ کے سامنے ہوا ہے.انہوں نے سمجھا شاید میں اس واقعہ کو سنکر بہت گھبرا گیا ہوں اور ہندوؤں کے دو تین نعروں نے مجھے پریشان کر دیا ہے.چنانچہ وہ کہنے لگے ، ان باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ہمارے ساتھ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں اس سے بڑے بڑے واقعات پیش آتے رہے ہیں.لیکس نے ان کی یہ بات سُن کر ان سے پوچھا کہ سنائیے کیا کیا واقعات آپ سے گزرے ہیں.اس پر انہوں نے مرزا نظام الدین صاحب کا جو ہمارے چچا تھے ایک واقعہ بیان کیا.مرزا نظام الدین صاحب چونکہ سلسلہ کے مخالف تھے اس لئے وہ اپنے جدی حقوق کی حفاظت کے خیال سے احمدیوں سے بعض دفعہ معمولی معمولی باتوں پر لڑ جھگڑا لیتے تھے.مثلاً یہی کہ فلاں جگہ سے مٹی نہیں لینے دینی ، فلاں جگہ چار پائیاں نہیں سمجھانے دینی- خیر تو ان دوست نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ہم کسی احمدی کے مکان کے لئے یا سلسلہ کے کسی مکان کے لئے تالاب سے مٹی کھود رہے تھے.گدھے کھڑے تھے اور ان پر مٹی لادی جا رہی تھی کہ ہم نے دیکھا مرزا نظام الدین صاحب چلے آرہے ہیں اور انہوں نے آتے ہی غصہ سے کہا کہ کون ہے جو بیاں سے مٹی اٹھارہا ہے.بس ان کا یہ کہنا تھا کہ باقی تو سب بھاگ گئے مگر میں کھڑا رہا اور میں نے اپنا نام لے کر کہا کہ اسے فلان شخصی آج تیرے ایمان کی آزمائش کا وقت آگیا.چنانچہ میں ایک توار

Page 222

کے نیچے بیٹھ گیا.اور میں نے خدا تعالے سے کہا.اے خدا وہ جو تیرے رسول پر غار حراء میں وقت آیا تھا بس وہی وقت آج مجھ پر آگیا ہے.اب تو اسی طرح میری مدد کہ جس طرح اس دن ہمارے رسول کی مدد کی تھی.اب کجا غارِ حرا کا واقعہ اور کجا یہ واقعہ.انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہی کرنا تھا کہ کرائیں چھین لینی تھیں.اور مٹی کھودنے سے روک دینا تھا.بھلا اس کا غار حراء کے واقع سے کیا تعلق.جہاں اسلام اور جماعت اسلام کی موت کا سوال تھا لوگ لہو لگا کر شہیدوں میں ملنا کہتے ہیں.مگر یہاں تو اتنی بات بھی نہیں تھی.مگر اس بیچارے نے اپنے دل گردہ کے مطابق اسے ہی نار حراء کا واقعہ سمجھا اور خدا تعالے سے دعا کرنی شروع کر دی.کہ اسے خدا ! آج پھر وہی وقت آگیا ہے.جو تیرے رسول پر غار حراء میں آیا تھا.غرض یہ واقعہ سنا کر وہ دوست کہنے لگے کہ بس جی اللہ تعالے نے دعائن کی.اور وہی معجزہ غار حراء والا دکھا دیا دو اصل میں تو د افعہ غار ثور کا ہے لیکن عوام میں غار حراء کے واقعہ سے مشہور ہے.اس لئے اس دوست نے اپنے علم کی بناء پر سے غار حراء کا واقعہ ہی کہہ دیا) اور مرزا صاحب واپس چلے گئے اور مجھے کچھ نہ کہا شاید اللہ تعالٰی نے ان کی آنکھوں پر تصرف کیا اور انہیں میں نظر بنی نہیں آیا.اب دیکھیو اپنی کتنی چھوٹی سی تکلیف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غار ثور والے واقعہ کے برابر نظر آنے لگی.حالانکہ ان قربانیوں کے مقابلہ میں جو رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وم نے کیں اس بیچارے کی قربانی تو الگ رہی ہم میں سے جسے سب سے زیادہ قربانیاں کرنے کا موقعہ ملا ہے اس کی قربانیاں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.لیکن چونکہ اپنی تکلیف ہمیشہ بڑی معلوم ہوتی ہے ، اس لئے انہوں نے اپنی ایک معمولی سی تکلیف کو اتنی بڑی اہمیت دیدی.تی انسان اپنی چھوٹی سی تکلیف کو بھی بہت بڑا محسوس کرتا ہے اور دوسرے کی بہت بڑی تکلیف کہ بھی معمولی خیال کرتا ہے.سوائے اس کے کہ دل میں عشق ہوا اور محبت کے جذبات دل میں کام کہ رہے ہوں.کیونکہ یہاں عشق ہو وہاں انسان اپنی تکلیف کو معمولی خیال کرتا مگر اپنے محبوب کی ایک معمولی بلکہ خیالی تکلیف کو بھی بہت بڑی تکلیف محسوس کرتا ہے.مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے اور میں اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ الہی تیری بھی عجیب قدرت ہے کہ تونے کس طرح لوگوں کے دلوں میں میری نبوت محبت کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جب کبھی سفر میں باہر جانے کا موقعہ ملے اور میں گھوڑے پر سوار ہوں تو ایک نہ ایک نوجوان حفاظت اور خدمت کے خیال سے میرے گھوڑے کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا چلا جاتا ہے.اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ فورا آگے بڑھکر میرے پاؤں دبانے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے حضور تھک گئے ہوں گے.میں خیال کیا کرتا ہوں کہ میں تو گھوڑے پر سوار آیا اور یہ گھوڑے کے ساتھ پیدل چلنا آیا

Page 223

۲۱۵ مگر اس محبت کی وجہ سے جو اسے میرے ساتھ ہے اس کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ تو گھوڑے پر سوار تھے یہ کس طرح تھکے ہوں گے.وہ یہی سمجھتا ہے کہ گویا تھوڑے پر وہ سوار تھا اور پیدل میں چلتا آیا چنانچہ میرے اصرار کرنے کے باوجود کہ میں نہیں تھکا ئیں تو گھوڑے پر آرہا ہوں وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے.کہ نہیں حضور تھک گئے ہوں گے مجھے خدمت کا موقعہ دیا جائے اور پاؤں دبانے لگ جاتا ہے تو جہاں محبت ہو وہاں اپنی تکلیف انسان کو کم نظر آتی ہے اور اپنے محبوب کی تکلیف بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے.لیکن عام حالات میں اپنی تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے اور دو عمرے کی تکلیف کم محسوس ہوتی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی تھے ان کو قریب سے کفار نے گرفتار کر لیا اور چونکہ ان کے ہاتھ سے مکہ والوں کا کوئی عزیز مارا گیا تھا اس لئے گرفتار کر کے انہیں مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کر دیا.انہوں نے چاہا کہ اپنے اس عزیز کے بدلے اس صحابی کو تکلیفیں دے دے کر از دیں.چند دن انہیں قید میں رکھا اور جب ایک دن انہوں نے چاہا کہ آپ کو شہید کر دیں اور قتل کی تیاری کرنے لگے تو اس وقت انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ بہت ڈرا ہوا ہو گا.اس صحابی سے پوچھا کہ کیا تم را دل چاہتا ہے کہ اس وقت محمد (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہاری جگہ ہوتے اور تم آرام سے مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں میٹھے ہوئے ہوتے.انہوں نے کہا تم تو کہتے ہو کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ہوں اور میں مدینہ میں اپنی بیوی بچوں میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں لیکن مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں اور محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے کوئی کانٹا بھی چھو جائے.اب دیکھو اس صحابی کو اپنی تکلیف اس وقت یاد نہ رہی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق میں مدہوش ہونے کی وجہ سے آپ کی ایک خیالی تکلیف سے اسے بے چین کر دیا.اسی طرح اور ہزاروں واقعات صحابہ کی زندگی میں ملتے ہیں مثلاً میں نے کئی دفعت نایا ہے کہ اُحد کی جنگ میں ایک صحابی سخت زخمی ہوئے بہانتک کہ ان کی موت کا وقت بالکل قریب آگیا اتفاقاً ایک صحابی جو زخمیوں کی دیکھ بھال میں مشغول تھے ان کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ گھرمیں کوئی پیغامیہ دنیا ہے تو مجھے دیدو.تم خود ہی سوچو ایسی تکلیف کی گھڑی میں لوگ کس طرح کو اہتے اور چیختے چلاتے ہیں ہائے میں مرگیا.ہائے کوئی دوائی دینے والا بھی نہیں.یہی الفاظ ہوتے ہیں جو ان کے منہ سے نکل ہے ہوتے ہیں.مگر وہاں نہ مرسم بیٹی کا کوئی سامان ہے نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیاں ہیں نہ سٹریچر ہیں.نہ ہسپتال ہیں نہ پچکاریاں ہیں نہ شک اور عنبر ہیں.پتھریلی زمین میں پڑا ہوا ایک انسان خاک و خون میں تڑپ رہا ہے وہ جانتا ہے کہ میں تقریب مرنے والا ہوں اس کی تکلیف اپنی انتہاء کو پہنچی ہوتی ہے.

Page 224

' جس کی شدت کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تند سان بھی مٹی پر لیٹے تو اسے نیچے سے کنکر وغیرہ جیھتے ہیں مگر وہ زخمی تھا اور سرسے نے کہ پیر تک زخمی تھا اور اس زمین میں تڑپ رہا تھا جو پتھر لی تھی اور جس پر جابجا کنکر اور پتھر پڑے ہوئے تھے اس کا جسم اس وقت ٹکڑے ٹکڑے فضا اور اس کی روح عنقریب اپنے جسم خاکی سے پرواز کرنے والی بھی کہ ایسی نازک حالت میں ایک صحابی آتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے.بھائی ! کوئی حاجت ہے تو بتا دو.وہ اپنے ہاتھ آگے بڑھاتا اور اس سے مصافحہ کرتا ہے اور کہتا ہے.میں دل میں ہی خواہش کر یہ کہا تھا کہ کاش! اس وقت کوئی مسلمان ملے جو میرا ایک پیغام میرے رشتہ داروں تک پہنچا دے.سو خدا کا شکر کہ تم آگئے.لوشنو ! میرا یہ پیغام میرے عزیز دل تک پہنچا دینا کہ اے میرے عزیز و محمد صلے اللہ علیه و آله و سلم خدا تعالے کی ایک بہترین امانت ہیں.جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اس امانت کو سنبھال کر رکھنے کی کوشش کی.اب ہم چیلے ہیں اور وہ امانت تمہارے سپرد ہو رہی ہے میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی جانیں قربان کر کے بھی اس امانت کی حفاظت کرو گے اور یہ کہہ کر ان کی جان نکل گئی ہیں اب دیکھیو سخت کنکریلی اور تھریلی زمین پر ایک زخمی انسان پڑا ہے.وہ سر سے لیک کینک زخمی ہے.وہ انتہائی تکلیف میں مبتلا ہے وہ موت کے قریب پہنچ چکا ہے.اس کا تمام خون اسی نم سے نکل چکا ہے.مگر ایسی حالت میں بھی اُسے اپنی تکلیف کا خیال نہیں آتا.اگر آتا ہے تو یہی کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم جو مدینہ میں اپنے دوستوں اور خیر خواہوں میں جائیں گے ان کی حفاظت اور اطاعت میں کوئی کمی نہ ہو.تو عشق اور محبت میں انسان اپنی تکلیف کو بھی معمولی سمجھتا اور اپنے محبوب کی خیالی تکلیف کو بھی بہت بڑا سمجھتا ہے مگر جہاں عشق نہ ہو.وہاں انسان دوسرے کی بڑی سے بڑی تکلیف بھی محسوس نہیں کرتا.اسی لئے بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جب وہ سنتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھوی رکھ دی.حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی اور اپنے اکھلوتے بیٹے کو ایک ہے.آب و کیا وہ جنگل میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چھوڑ دیا تو ان کے دلوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا.وہ کہتے ہیں کیا ہوا ؟ اگر حضرت ابراہیم نے یہ قربانی کر دی.وہ سمجھتے ہیں بے شک ابرا ہیمیں ایک اچھا آدمی تھا اوراس نے نیکی کا ثبوت دیا.مگر ان کے جذبات کو اتنی بھی ٹھیس نہیں لگتی جتنی ھیں انہیں اس وقت لگتی ہے جب وہ اپنی مرغی کسی کے لئے ذبح کرتے ہیں.کیونکہ وہ ان کی اپنی چیز ہوتی ہے اور ان کے جذبات اور احساسات اس وقت اُبھرے ہوئے ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم کہیں سیر کے لئے گئے اور راستہ میں ایک جگہ ٹھر سے.دناں ایک

Page 225

غیر احمدی ٹھیکیدار تھے ان کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق تو نہ تھا مگر چونکہ ہمارے ملک میں یہ طریق ہے کہ خواہ کسی سے کوئی تعلق نہ ہو مہمان نوازی کے طور پر کھانے کے متعلق پوچھ لیتے ہیں.اس لیئے وہ ٹھیکیدار ہمارے پیچھے پڑ گیا اور کہنے لگا.میں آج آپ کی دعوت کروں گا.مفتی فضل الرحمن حساب صاحبت اور شیخ یعقوب علی صاحب کے ساتھ تھے میں نے انہیں کہا کہ ہمارے پاس کافی کھانا موجود ہے، اس کی دعوت قبول نہ کریں.کیونکہ جب ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو ہمیں کھانا کھلانا اس پر گراں گزرے گا اور مجھ پر ان کا کھانا کھانا گراں گزرے گا.انہوں نے کہا نہیں یہ ہمارا واقف ہے اور جب یہ اس قدر اصرار کرتا ہے تو اس کی دعوت کو قبول کر لینا چاہیئے ، میں اپنے ملکی اخلاق کو دیکھتے ہوئے جانتا تھا کہ بس کے ساتھ تعلق نہ ہو اس پر کسی کی دعوت کرنا گراں ہی گزرتا ہے مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو میں نے کہا اچھا منظور کر لو.اس کے بعد اس نے چاہا کہ وہ ہمارے لئے مرغی ذبح کرے چنانچہ اس نے مرغی پکڑنے کے لئے ہاتھ جو ہمارا تو مرغی ذرا آگے نکل گئی.اُس نے آگے ہو کہ پھر دوبارہ اس پر ہاتھ مارا تو وہ پھر ذرا آگے ہو گئی اس پر وہ کہنے لگا؛ کھڑی تے پھڑی نہیں جاندی چلو وال ہی پکا لو کہ ہم نے اسے کہا.آپ خواہ مخواہ کیوں تکلیف کرتے ہیں بہار پاس کھانا موجود ہے.چنانچہ اس کے بعد ہم نے اپنا پکا ہوا کھانا ہی کھایا بلکہ اسے بھی ساتھ سنبھالیا اور چونکہ کھانا بچ رہا تھا.میں نے دوستوں سے کہا کہ یہ کھانا کبھی ان کو ہی دے دو.ہمارے لئے خدا تعالے آگے اور انتظام کر دے گا.اب شخص ایک طرف اپنی مہمان نوازی جنتا نا چاہتا تھا.اور دوسری طرف چونکہ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اس لئے ایک مرغی کا ذبح کرنا بھی اس پر گراں گزر رہا تھا.غرض بغیر تعلق کے اپنی مرغی کی قربانی بھی بڑی نظر آتی ہے لیکن دوسر کا اکلوتا بیٹا بھی اگر مرجائے تو اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا.بے شک وہ لوگ جنھیں حضرت ابراہیم سے اُنس نہیں جنھیں یہ احساس نہیں کہ حضرت ابراہیم و شخص تھا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دادا لگتا تھا.اور وہ نبی ہوتا یا نہ ہوتا ، پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کی وجہ سے ہم اس سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتے ، وہ اس قربانی کی قدر و قیمت کو نہ پہچا نہیں.مگر جن لوگوں کے دلوں میں سول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عشق ہے جو محبت کے جذبات اپنے اندر رکھتے ہیں جو اپنے محبوب کی ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اپنی قیمتی شارح تصور کرتے ہیں، ان کی حالت اس واقعہ کوشکر اور ہی ہو جاتی ہے.رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبد المطلب چونکہ آپ کے زمانہ سے پلے گذر کے ر یہاں زمانہ سے مراد زمانہ نبوت ہے.(مرتب)

Page 226

۲۱۸.تھے.اس لئے ان پر کوئی الزام نہیں.مگر آپ کے چا ابو طالب جنہوں نے آپ کی بہت بڑی خواتا سرانجام دیں انہوں نے آپ کی نبوت کا زمانہ دیکھا لیکن آپ پر ایمان نہیں لائے قلیل اس لحاظ سے ابو طالب یقیناً اسلام کی موت نہیں مرے.مگر کسی وقت اگر کوئی شخص پوچھے کہ ابوطالب کیسا تھا تو مومنہ سے انہیں کا فرکتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گلا گھونٹ رہا ہے اور یہی کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی خدمت کی اور دل میں آپے پر ایمان بھی رکھتے تھے مگر ظاہر میں وہ ایمان نہیں لائے.اس طرح سو سو بیچ دے کر بات مونہہ سے نکلتی ہے.مگر آخر بات وہیں آکر رہ جاتی ہے کہ وہ آپ پر ایمان نہیں لائے بیماری جماعت میں ایسے کئی لوگ ہیں جنہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا اور مجھے انہیں یہی جواب دینا پڑا کہ دیکھو فلاں موقعہ پر انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی.اور فلاں موقعہ پر یہ کہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل میں وہ آپ پر ایمان رکھتے تھے کوظاہر میں وہ ایمان نہیں لائے.مگر ان کے متعلق کا فر کا لفظ مونہہ سے نہیں نکلتا کیونکہ وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے اور انہوں نے آپ کی بہت سی خدمت کی تھی.تو جہاں سچی محبت ہوتی ہے وہ انسانی جذبات بھی اُبھرے ہوئے ہوتے ہیں.اس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تم سوچو کہ ابراہیم جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا تھے انہوں نے اپنے بیٹے ہتھیلی کو کہ وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا تھے اور اپنی بیوی مقصر ہاجرہ کو جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دادی تھیں کس طرح اللہ تعالے کے راستہ میں قربان کر دیا.اور کس طرح انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے اسمعیل کو بغیر پانی اور بغیر کھانے اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ کو بغیر کھانے اور بغیر پانی کے منہ میں اس لئے چھوڑ دیا تا وہ وہاں اللہ تعالے کا نام بلند کریں.وہ نظارہ کتنا دردناک نظارہ ہوگا.میں نے ماؤں کو دیکھا ہے بعض دفعہ منسی سے وہ اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں اور جب وہ رونے لگتا ہے تو اس کے ساتھ خود بھی رونے لگ جاتی ہیں.حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ انہوں نے بچے سے منسی کی مگر محض اس خیال سے کہ اس کے دل پر اس وقت کیا گذری ہوگی جب وہ روتا ہے تو خو د بھی رو پڑتی ہیں.میں نے ماؤں کو دیکھا ہے وہ اپنے بچہ پر ناراض ہوتی ہیں اور اسے کسی کمرہ میں اکیلا بند کر دیتی ہیں پھر جب وہ کمرے میں رونے لگتا ہے تو اس کے چھپٹ کر رونے لگ جاتی ہیں اور کہتی ہیں میرے بیچتے کے دل پر اس وقت کیا گذر رہی ہوگی.غرض ہم اپنے کئی بچوں میں سے کسی ایک بچے کی تحقیقی تکلیف کا نہیں ایک خیالی تکلیف کا تصور کر کے ہی جبکہ ہم اسے کسی جنگل میں نہیں بلکہ اپنے گھر کے ایک کمرہ میں تھوڑی دیر کے لئے بند کر دیتے ہیں اتنی تکلیف محسوس کرتے ہیں یہ کہ اس کا اللہ ایک لیے عرض یک

Page 227

۳۱۹ ہماری طبیعت پر چلا جاتا ہے.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے بچے تھے تو ایک دفعہ ہماری ہمشیرہ مبارکہ کو لڑکیوں نے کھیلتے ہوئے ایک طاقچہ میں بند کر دیا اور خود ادھر کھیل میں مشغول ہو گئیں.اپنے آپ کو ایک طاقچہ میں بند دیکھیکہ وہ رونے لگیں اور کافی دیر تک روتی رہیں مگر وہ لڑکیاں چلی گئی تھیں اس لئے کسی نئے روازہ نہ کھولا.کچھ وقت گزرنے کے بعد اتفاقاً وہاں سے ایک شخص گذرا اور اسے جب معلوم ہوا کہ اندر کوئی لڑکی رو رہی ہے تو اس نے دروازہ کھولا اور یہ باہر نکل آئیں.مجھے یاد ہے اس واقعہ کا سالها سال تک ہماری والدہ صاحبہ کے دل پر اثر رہا.جبکہ ایک دفعہ دس بارہ سال کے بعد میں نے والدہ سے سنا کہ وہ کہ رہی تھیں میرا دل گھٹ رہا ہے.اور جب میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو فرمانے لگیں مجھے اس واقعہ کا خیال آگیا ہے جب لڑکیوں نے مبارکہ کو طاقچہ میں بند کر دیا تھا.اب ہماری ہمشیرہ زندہ سلامت بھی نکل آئیں.مگر دس بارہ سال کے بعد بھی جب ہماری والدہ صاحبہ کو اس کا خیال آیا تو ان کا دل گھٹ گیا.اور فرمانے لگیں کہ مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ اس وقت وہ اپنے دل میں کیا کہتی ہوگی کہ میں اندر ہی مرجاؤں گی اور مجھے کوئی نکالنے والا نہیں آئے گا.تو ہمارا بچہ اگر ایک معمولی مصیبت میں بھی گرفتارہوتا ہے تو کئی سالوں کے بعد جب ہمیں اس کی یاد آتی ہے تو تمہارا دل گھٹ جاتا ہے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت آکھیل کو ایک ایسے جنگل میں چھوڑا جس کے گرد منزلوں تک کوئی پانی نہیں تھا جس کے گرد منزلوں تک کوئی کھیتی نہیں تھی.جس کے گرد منزلوں تک کوئی قافلہ نہیں گزرتا تھا.اور جس کے گرد منزلوں تک کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا، وہاں تغیر ابراہیم حضرت ہاجرہ کو اور اپنے اکلوتے بیٹے کو جو بڑے چاؤ کے بعد بڑھاپے کی عمر میں پیدا ہوا تھا چھوڑ دیتے ہیں.اور اس بچے کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے متعلق خدا تعالے کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ تیری آئندہ نسل کی برکت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہوگی.پھر ان کے پاس کوئی کھانے کا ذخیرہ نہیں کوئی پانی کا ذخیرہ نہیں.ایک مشکیزہ پانی کا تھا جو جو نہیں گھنٹے سے زیادہ نہیں چل سکتا تھا اور ایک تھیلی کھجوروں کی حضرت ہاجرہ کے لئے تھی.جو دو تین دن سے زیادہ کے لئے کافی نہیں ہو سکتی تھیں.یہ دو چیزیں انہوں نے حضرت ہاجرہ اور آسھیل کے پاس چھوڑیں اور انہیں اس بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر واپسی لوٹے.حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے صابر تھے.انہوں نے صبر کیا.اور اپنے جذبات کو دبایا.مگر پھر بھی حضرت ہاجرہ کو ان کی بعض حرکات سے پتہ لگ گیا.کہ یہ اب ہمیشہ کے لئے تمہیں یہاں چھوڑ کر چلے ہیں.دراصل انہوں نے حضرت ہاجرہ کو بتایا نہیں تھا کہ میں تمھیں یہاں چھوڑ کر چلا ہوں تا انہیں صدمہ نہ ہو.جب وہ انہیں وہاں بٹھا کر جارہے تھے تو حضرت ہاجرہ کو شبہ پیدا ہوا اورہ

Page 228

۲۲۰ ان کے پیچھے آئیں اور کہا.ابراہیم ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تم اب جاہی رہے ہو، اور تمہارا واپس آنے کا ارادہ نہیں.حضرت ابراہیم نے جذبات کی شدت کی وجہ سے اس کا کوئی جواب نہ دیا.کیونکہ جب کسی نے اپنے جذبات کو دبایا ہوا ہو اور وہ بات کرے تو اسے رونا آجاتا ہے.حضرت ہاجرہ نے جب دیکھا کہ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.تو انہوں نے پھر کیا.ابراہیم با تم توکہیں جار ہے ہو حضرت ابراہیم نے پھر بھی جواب نہیں دیا.انہیں اس پر اور زیادہ شبہ پیدا ہوا.اور وہ اور زیادہ اصرار سے پوچھنے لگیں.ابراہیم تم ہمیں کہاں چھوڑ کر جارہے ہو.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا.چونکہ ابھی تک حضرت ہاجرہ کو یہ معلوم نہ تھا کہ انہیں خدا کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑا گیا ہے یا دوسری سوت کی ناراضگی کی وجہ سے.اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چند بات رحم کو اپیل کرتے ہوئے کہا.کہ ابراہیم بغیر کھانے اور پینے کے کسی سامان کے تم اس جنگل میں چھوڑا کہ ہمیں کہاں جا رہے ہو.مگر انہوں نے پھر بھی جواب نہیں دیا.اس پر حضرت ہاجرہ کو خیال پیدا ہوا کہ کہیں ابراہیم کا یہ فعل خدائی حکم کے ماتحت نہ ہو.اس لئے انہوں نے پو چھا.اے ابرہیم کیا تم خدا کے حکم کے ماتحت نہیں یہاں چھوڑے جارہے ہو.حضرت ابراہیم پھر بھی اپنے جذبات کی شدت میں اس کا کوئی جواب نہ دے سکے.مگر انہوں نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھا کر اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا کے حکم کے ماتحت میں تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں تب حضرت ہاجرہ اسی وقت لوٹ آئیں اور کہنے لگیں اِذن لا يضيعنا.اگر خدا نے یہ حکم دیا ہے تو پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.جب ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ اور اسمعیل کی نظروں سے اوجھیل ہو گئے.تو ان کے جذبات جوش میں آگئے اور انہوں نے خدا تعالے کے حضور ہاتھ اُٹھا کر عرض کیا کہ اے میرے خدا! میں اپنی بیوی اور بچے کو تیرے سپرد کر چلا ہوں.اب تو خود ان کی حفاظت فرمائیں ادھر کچھ دنوں کے بعد وہ پانی جو ایک مشکیزہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام دے گئے تھے.ختم ہوگیا.کھجوریں ختم ہوئیں یا نہیں اس کے متعلق اس وقت تاریخی شہادت یاد نہیں جب پانی ختم ہوا تو بچے نے پیاس کی شدت میں رونا اور بلبلانا شروع کر دیا.ہاجرہ دوڑتی ہوئی کبھی پھر جائیں اور کبھی ادھر اور نظر دوڑا ہیں کہ شاید کوئی شخص ایسا نظر آجائے جس کے پاس پانی ہو مگر وہاں تو میلوں میل تک کوئی پانی نہ تھا.اور پانی کا خیال کرنا بھی ایک دہم تھا.حضرت ہاجرہ لوٹ کر آئیں تو اپنے بچے کو روتا تڑپتا دیکھکہ پھر ادھر اُدھر بھا گئیں کہ شاید پانی مل جائے.مگر کہیں سے پانی دستیاب نہ ہوا.آخر جب بچے کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی اور انہوں نے سمجھا کہ ایک شدت پیاس سے دم توڑ رہا ہے تو وہ دو پہاڑیاں جن کے پاس انہوں نے اپنا ڈیرہ

Page 229

٢٢١ لگایا تھا اور جن کا نام صفا اور مروہ تھا ان میں سے ایک پہاڑی پر دوڑ کر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی دور سے قافلہ نظر آئے تو وہ اس سے پانی مانگ سکیں مگر انہیں کوئی قافلہ نظر نہ آیا.پھر وہ اس پہاڑی سے اتر کر دوسری پہاڑی پر دوڑتی ہوئی چڑھیں کہ شاید دوسری طرف سے کوئی قافلہ جاتا ہوا نظر آئے.مگر اس پہاڑی سے بھی انہیں کوئی قافلہ دکھائی نہ دیا.اور چونکہ وہ صفا سے جب نیچے اترتی تھیں تو انہیں اپنا بچہ نظر نہیں آتا تھا ، اس لئے دوڑ کر مر وہ پر چڑھتیں تا کہ بچہ ان کی نظروں کے سامنے رہے ایسا نہ ہو کہ اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے.پھر جب مردہ سے اترتیں تو اسی طرح دوڑ کر صفا پر چڑھ جاتیں تا دیکھیں کہ کوئی پانی والا تو وہاں نہیں.اس طرح انہوں نے صفا اور مروہ پر سات چکر لگائے مگر کہیں پانی میسر نہ آیا.تب جب کہ ان کی تکلیف اپنی انتہاء کو پہنچ گئی اللہ تعالے نے اپنے ایک فرشتہ سے کہا کہ جا اور ہاجرہ کو کہ کہ تیرے لئے پانی خدا تعالے نے پیدا کر دیا ہے.چنانچہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے آواز دی.حضرت ہاجرہ نے اپنے جذبات کے دور میں پہلی دفعہ اس آواز کو پوری طرح نہیں سمجھا.اور انہوں نے کہا.اے خدا کے بندے تیرے پاس کچھ پانی ہے.تب اس فرشتہ نے دوبارہ کہا کہ اسے ہاجرہ باجبار اور دیکھ کہ منذ التالے نے تیسے بیٹے کے لئے چشمہ پھوڑ دیا ہے.چنانچہ وہ واپس آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ مقتر اسمعیل جہاں شدت پیاس سے تڑپ رہے تھے وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے.یہ چشمہ در اصل عرصہ ہے وہاں تھا مگر اس کا دہانہ مٹی سے بند ہو چکا تھا.حضرت اسمعیل علیہ السلام نے جب پیاس کی شرکت میں ایڑیاں رگڑیں.تو اس کے دہانہ سے مٹی ہٹ گئی اور چشمہ پھوٹ پڑا.حضرت پانزه علیها السلام نے جلدی جلدی ہاتھوں سے اس کے دہانہ پر سے مٹی اُٹھائی اور اس کا مونہہ کھول کر چیکوؤں سے پانی نکالا.اور حضرت آجیل علیہ السلام کو پلایا.گویا وہی ایڈ یہاں جو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی موت کے قرب پر دلالت کر رہی تھیں اس کی حیات کا باعث ہو گئیں.اور انہیں سے وہ چشمہ پھوٹا جس نے ان کو زندہ کر دیا.جب وہاں چشمہ پھوٹ پڑا تو قافلے والوں نے وہاں آنا شروع کر دیا.اور انہوں نے حضرت ہاجرہ سے وہاں رہنے کی اجازت طلب کی اور کہا کہ ہم ٹیکس گزار ہو جائیں گے چنانچہ حضرت ہاجرہ نے انہیں اجازت دیدی اور وہ وہاں اپنے لگ گئے.اس طرح رفتہ رفتہ نکہ ایک بہت بڑا شہر بن گیا.لیکن ہاجرہ کی عمر خواہ کتنی بھی ملی ہوئی ہو اس عرصہ میں نہیں جب بھی وہ وقت یاد آجاتا ہو گا جب ان کا بچہ شدت پیاس سے تڑپ رہا تھا اور وہ پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے پیکر کاٹ رہی تھیں تو ان کا دل دھڑکنے لگ جھاتا ہوگا.آج اسی کی یاد میں ز آج سے میری مراد خاص آج کا دن نہیں بلکہ آجکل کے ایام مراد ہیں)

Page 230

۲۲۲ خدا تعالے کے بندے کہ میں جمع ہو کہ صفا اور مروہ پر دوڑتے ہیں ان کا دوڑنا کتنا مصنوعی ہونا ہے.ان میں سے بہتوں کا دوڑنا کتنا پر تکلف یا بطور تماشہ اور ٹانک کے ہوتا ہے.وہ صفا پر چڑھتے ہیں، وہ مروہ پر چڑھتے ہیں.وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتے بھی ہیں.مگر ان کے دل جذبات سے کلیہ کمانی ہوتے ہیں انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ آج سے ۳۸ سو سال پہلے ہی مقام پہ ایک ماں دوڑ رہی تھی.ایسے شدید جذبات کے ساتھ کہ دنیا میں شاید ہی کسی اویاں کے ایسے شدید جذبات ہوں.ایسی شدید تکلیف کی حالت میں کہ دنیا میں شاید ہی کسی ماں کو ایسی شدید تکلیف پہنچی ہو.وہ اور اس کا اکلوتا بچہ ایک بے آب و گیاہ جنگل میں میں میں منزلوں تک پانی کا کوئی نشان نہ تھا.پڑے تھے اور اس کا وہ اکلوتا بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جان دے رہا تھا سونے کے لئے نہیں.چاندی کے لئے نہیں.ہیروں اور جواہرات کے لئے نہیں بلکہ پانی کے ایک چلو کے لئے جو ایک چو بڑے کو بھی مل جاتا ہے.کون ہے جو ان جذبات کو سمجھنے کون ہے جو اس حقیقت پر نگاہ ڈالے.دوڑنے والے دوڑتے ہیں حج کرنے والے جج کرتے ہیں.مگر وہ تھی دل ہوتے ہیں اور اسی لئے تہی دست و اپس آجاتے ہیں.اگر کسی شخص کے دل میں صفا اور مروہ پہ دوڑتے وقت وہی جذبات پیدا ہوں جو ہاجرہ کے دل میں پیدا ہوئے تھے تو اگر وہ یہاں سے مٹی ہو کر بھی گیا تھا تو سونا بن کر واپس آئے گا اور اگر تانبا ہو کر گیا تھا تو اکسیر بن کر اپس آئے گا کیونکہ صفا اور مروہ انسان کو پاک نہیں کرتے اور نہ صفا اور مروہ کی وجہ سے فرشتہ نازل ہو ا تھا بلکہ ہاجرہ کے دل کی تکلیف کی وجہ سے جو اس نے خدا کے لئے برداشت کی فرشتہ نازل ہوا تھا.حضرت ہاجرہ نے موت کو سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور پھر بھی خدا تعالے پر انتہا ر کیا.اور حضرت ابراہیم سے کہہ دیا کہ اگر خدا تعالے نے ہمیں اس جگہ چھوڑ دینے کو کہا ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.پس خدا تعالے نے بھی نہ چاہا کہ اس کے اعتماد کو ضائع کرے.اگر وہی دل لیکر آج بھی کو ئی صفا اور مروہ پر دوڑے تو وہ ہاجرہ کی صفات اپنے اندر لے لیگا.وہ اسماعیلی صفت انسان بن جائے گا.وہ حضرت ابراہیم کی صفات کا مظہر ہو جائے گا.مگر ان قربانیوں کے مقابلہ میں کتنی حقیر قربانیاں ہیں جو لوگ کرتے ہیں اور پھر کس قدر بے حقیقت دعوے ہیں جو ان کی زبان پر آتے ہیں.آج اسلام کے لئے کس قدر نازک وقت ہے کتنی تاریک گھٹائیں ہیں جو اسلام پر چھائی ہوئی ہیں.اگر ہر مسلمان کی گردن آج تلوار کے نیچے ہوتی اگر ہر مسلمان کا سر آج جبلاد کے چمڑے کے اوپر رکھا ہوا ہوتا تو یں سمجھتا کہ اسلام ہرگز اس خطرہ میں نہیں جس خطرہ میں وہ آج گھرا ہوا ہے.کیونکہ ایک کے مسلمان کی گردن کا تلوار کے نیچے ہونا اتنی خطر ناک بات نہیں جتنی خطر ناک بات

Page 231

۲۲۳ ایک مسلمان کے دل کا شیطان کے قبضہ میں ہوتا ہے.جب ہمارا دل آزاد ہوگا ہماری قربانی دوسر کو موہ لے گی، کیونکہ گو ہماری گردن میں اس وقت کاٹی جارہی ہوں گی مگر ہماری زبانوں سے لاالہ الا الله محمد رسول اللہ کا کلمہ نکل رہا ہوگا.لیکن اگر ہمارے دل شیطان کے قبضہ میں ہوں اور ہم ظاہری طور پر تو مسلمان کہلاتے ہوں لیکن اندرونی طور پر ہمارا دل کفر کے آگے جھکا جا رہا ہو تو یہ موت دوسرے کے دل میں جذبہ مودت کس طرح پیدا کر سکتی ہے یہ موت تو اسلام کے دشمن کے دل میں جذبۂ حقارت ہی پیدا کرے گی کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ میرا مد مقابل میدان سے بھا گئے والا ہے.وہ جانتا ہے کہ یہ قلیل ہو کر میدان سے پسپا ہونے والا ہے.پس اس کے دل میں حضارت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے لیکن اگر کوئی دشمن کا مقابلہ کرتا اور اس کے مقابلہ میں مردانہ وا اپنی جان دے دیتا ہے.تو اس کی نفرت کم ہو جاتی ہے.اور وہ با وجود دشمن ہونے کے اس کی غربت کرنے لگ جاتا ہے.غرض اسلام آج ایسی مصیبت میں مبتلا ہے جس مصیبت میں وہ آج سے پہلے بھی مبتلا نہیں ہوا.آج اسلام پر دشمن چاروں طرف سے حملہ آور ہے.مگر تلواروں سے نہیں بلکہ الی اور کفر اور بدعت کے ہتھیاروں سے.آج مسلمان کی جان خطرے میں نہیں مگر اس کا ایمان خطرے میں ہے آج اس کے دل اور اسکے دماغ اور اس کے تمام اعضاء پر کفر مستولی ہو چکا ہے مگر مسلمان ہیں کہ مردوں کی طرح ہو رہے ہیں.اور اسلام کے لئے ان کے دلوں میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کی اس میکسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں سے ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو ا فواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدیں لا مگر زین العابدین پر تو لوگوں کو رحم آتا تھا کیونکہ وہ ظاہری مصیبت میں مبتلا تھے.اور ظاہری صیتیں انسان کے جذبات رحم کو اپیل کیا کرتی ہیں مگر اسلام پر تو رحم کھانے والا بھی کوئی نہیں پھر امام زین العابدین کو وہ مصیبت نہیں پہنچی جو اسلام کو پہنچ رہی ہے.جس مصیبت میں آج احمدیت مبتلا ہے جب امام حسین کے لشکر کو شکست دے کر ان کا سر یزید کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت یزید کتنے غرور اور گھمنڈ میں تھا.اور کس طرح لوگ اس سے مرغوب ہو رہے تھے کہ وہ ایک ہی کانٹا جو اس کے دل میں کھٹک رہا تھا اس کو بھی اس نے نکال کر باہر پھینک دیا.لوگ اس وقت یزید کی ہیت سے کس قدر خوفزدہ ہوں گے.اور وہ خود اپنے دل میں کس قدر خوش ہوتا ہو گا کہ میں نے امام حسین کو قتل کر دیا اور آج کوئی نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے.چنانچہ جب اس کے دربار میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرکاٹ کر لایا گیا تو چونکہ مرنے والے کے پیچھے کھینچ جاتے ہیں اس لئے ان کے ہونٹ بھی پیچھے کو کھنچے ہوئے تھے.یزید نے اس وقت اپنی سوٹی لی اور حضرت امام حسین کے دانتوں پر

Page 232

۲۲۴ یہ کہتے ہوئے مارنی شروع کر دی کہ دیکھو تو اس کے دانت کیسے چیکیلے ہیں ہے یہ ایک ظاہری حقارت کی چیز تھی.امام حسین کو اس سے کیا نقصان ہو سکتا تھا مگر اس کی اس حرکت پر اسی وقت اس کے دربات میں ایسے لوگ کھڑے ہو گئے جنہوں نے یزید کے اس فعل کو نہایت برا محسوس کیا.چنانچہ ایک شخص نے اسی وقت یزید کی سوٹی پر ہاتھ مارا اور کہا اسے پیچھے ہٹاؤ.میں نے ان دانتوں پر محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بوسہ دیتے دیکھا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ بادشاہ تھا اور ایسا مغرور بادشاہ تھا اسے یہ جرات نہیں ہوئی کہ اس کے مقابلہ میں کوئی لفظ کہہ سکے اس نے اپنی نظر نیچے کرلی اور سوئی کو پرے ہٹا لیا ہے زین العابدین اس وقت بچے تھے اور ان کی تکلیف بھی لوگوں پر اثر ڈالتی تھی.مگر یزید نے اپنا رعب جمانے کے لئے چاہا کہ ان کو بھی لوگوں کے سامنے ذلیل کرنے.چنانچہ کسی نے اُسے یہ تجویز بتائی کہ اس بچے سے تقریر کراؤ جب یہ تقریر نہیں کر سکے گا تو لوگ ہنسیں گے اور یہ ذلیل ہوگا.چنانچہ یزید نے پہلے اپنے خاندان میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا اور کہا کہ تم تقریر کرو.وہ کھڑا ہوا اور اس نے یزید کے خاندان کی تعریف کرنی شروع کردی که به خاندان کسی عزت و عظمت کا مالک ہے.اس کے بعد زین العابدین کو کھڑا کیا گیا وہ اس وقت بارہ تیرہ سال عمر کے بچے تھے ان کی تقریرہ بالکل بچگانہ ہے اور اسے پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ایک بچہ ہے جو صرف دخونی بیان کر رہا ہے انہوں نے کہا ئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تھے جنہوں نے مکہ فتح کیا جن کے احسانات تمام دنیا پر ہیں اور جن کی غلامی پر ہر شخص کو فخر ہے یہ وہ وقت تھا کہ ادھر لوگوں نے ان مصیبتوں کو دیکھا.جو حضرت امام حسین اور ان کے خاندان پر آئیں اور ادھر اس بچے کے مونہ نے بریشنا کہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہوتا ہوں نتیجہ یہ ہوا کہ یکدم لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا.اور یزید کو اس کے مشیروں نے کہا.کہ اس مباحثہ کو بند کرو اور نہ تمہاری حکومت خطرہ میں پڑ جائے گی اور لوگ بغاوت کر دیں گے سیتے یہ ظاہری مصیبتیں تھیں جنہوں نے لوگوں کے دلوں پر اثر کیا.بلکہ اوروں کا کیا ذکر ہے یزید کے اپنے بیٹے پر اس کا اثر ہوا.اور وہ اپنے باپ کا سخت مخالف ہو گیا.لوگ یزید کو گالیا دیتے اور اسے برا بھلا کہتے ہیں.مگر یہ نہیں جانتے کہ اسی کے خاندان میں دو قیمتی جو ہر پوشید ہیں.جن میں سے ایک جو ہر حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں اور دوسرا جو ہر یزید کا بیٹا ہے.جس کا نام بھی جہاں تک مجھے یاد ہے اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا.اس نے ان مظالم کو دکھیا اور اندر ہی اندر ان سے متاثر ہوتا چلا گیا.مگر چونکہ وہ اپنے باپ کے خلاف بول نہیں سکتا تھا اس لئے خاموش رہا مگر آخر وہ دن آیا کہ اس کا باپ مرگیا.باپ نے اپنی زندگی میں ہی اس کے نیز اس سے مراد اولاد ہے ویسے اصل رشتہ پڑ نہ ایسا ہونے کا تھا.

Page 233

۲۲۵ ہاتھ پر لوگوں کی بعیت کرادی تھی اس لئے یزید کے بعد وہی بادشاہ بنا اور اس نے دوبارہ لوگوں سے بعیت کی بعیت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن یا اس سے کم و بیش اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا.پھر ایک دن وہ باہر آیا.منبر پر کھڑا ہوا اور لوگوں سے کہنے لگا.ہے لوگو ! میں نے تم سے اپنے ہاتھوں پر بیت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو.ورنہ لیکن اپنے دل میں اس وقت بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص لوگوں سے معیت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں.چنانچہ اس کے بعد میں اپنے گھر چلا گیا.اور اتنے دن جو ہیں باہر نہیں نکلا تو اسی لئے کہ میں یہ سوچتا رہا کہ تمہاری بویت لینے کا کون شخص اہل ہے میں نے اپنے آپ کو ابو بکر کے مقام پر بھی کھڑا کیا اور چاہا کہ اگر تم میں کوئی عمر ہو تو میں اس کے ہاتھ میں تمہارے ہاتھ دیدوں.مگر مجھے تم میں کوئی عمر نظر نہیں آیا.پھر میں نے اپنے آپ کو عمر کے مقام پر کھڑا کیا اور چاہا کہ اگر مجھے ایک آدمی نہیں ملتا تو کم از کم ایسے چھ آدمی ہی مل جائیں جن کے سپر د عمر نے انتخاب خلافت کا کام کیا تھا مگر مجھے آج تم میں ایسے چھ آدمی بھی نظر نہیں آتے.اس لئے اے لوگو ! یہ اچھی طرح سُن لو کہ میں اس منصب کے قابل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس کہ منصب کے قابل نہیں تھے.میرا باپ حسین سے درجہ میں بہت کم تھا.اور اس کا باپ حسین کیے.باپ سے کم درجہ رکھتا تھا.علی اپنے وقت میں خلافت کا حقدار تھا اور اس کے بعد حسن خلافت کا زیادہ حقدار تھا بہ نسبت میرے دادا اور میرے باپ کے.اس لئے ہمیں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں اب یہ امر تمہاری مرضی پر منحصر ہے جس کی چاہو بدیت کر لو.اس کی ہاں اس وقت پردہ کے پیچھے میٹھی اس کا خطبہ سن رہی تھی.اس نے یہ سنتے ہی کہا.کمبخت! تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی اور اس کی تمام عزت خاک میں ملادی.وہ کہنے لگا، مجھے جو کچھ کہیں یہ آپ کی مرضی ہے.مگر حق بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور چند دن گزرنے کے بعد فوت ہو گیا ہے یہ اثر تھا ان مظالم کا جو اس نے اپنے خاندان کی طرف سے دیکھے اور یہ اثر تھا ان مصائب کا جو حضرت علیؓ اور حضرت حسین وغیرہ کو پہنچے.اس نے ان مقابلوں کو بھی دیکھا جو اس کے دادا کے حضرت علی سے ہوئے اور اس نے ان دکھوں کا بھی مشاہدہ کیا جو اس کے باپ نے حضرت حسین کو پہنچائے.اس کا دل یہ مظالم دیکھ کر اندر ہی اندر کباب ہو گیا.مگر چونکہ اس میں اتنی بہت زینتھی کہ وہ مقابلہ کے لئے کھڑا ہو سکتا اس لئے خاموش رہا مگر جب عنان حکومت اس کے ہاتھ

Page 234

میں آئی تو اس نے کہدیا کہ میں اسے ہاتھ میں رکھنے کے لئے ہر گز تیار نب ہوجہ یزید کے نہایت قریبی ہونے کے شاید لوگ اس کی تعریف کرتے ہوئے ڈرتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اس کی تعریف کی تو ایسا نہ ہو کہ یہ تعریف یزید کی سمجھی جائے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خواہ اس میں کتنی ہی مز یہ ریاں ہوں.وہ ایک پاک طینت شخص تھا.یہ نتیجہ نا ان ظاہری مصائب کا جو اس نے اپنی آنکھوں سے اہل بیت پر وارد ہوتے دیکھے اور انہی ظاہری مصائب نے یزید کے بیٹے کو حضرت علی اور حضرت امام حسین کا غلام بنا دیا.مگر اسلام پر جو ہر چھٹی چلائی جا رہی ہے وہ مخفی ہے وہ بظاہر نظر نہیں آتی لیکن اس کا حملہ بڑا خطرناک ہے.آج ساری دنیا متحد ہے اور وہ اپنی متفقہ کو ششوں سے چاہتی ہے کہ مظلوم اور میکس اسلام کو مٹادے اور اس کا کوئی نام لیوا دنیا میں نہ ہے ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آتے ہیں اور کتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.کہ ہم اسلام کی محافظت کریں گے.تم اپنی جانیں اس کی راہ میں قربان کر دیں گے مگر پھر وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا اقرار کیا تھا.ہماری وہ قربانیاں جنہیں ہم قربانیاں کہتے ہیں اور جن کو قربانیاں کہنا بھی قربانیوں کی بہتاک کرنا ہے ، اسلام کی مشکلات کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتی ہیں پھرا بھی تو ہم صرف مالی قربانیاں کر رہے ہیں جانی قربانی کا موقع تو بالعموم مہندوستان سے باہر ان حکومتوں میں ہی میسر ہے جہاں لوگ احمدیت کے اقرار کی ویسے قتل کئے جاتے ہیں.پھر وقت کی قربانی بھی بہت کم لوگوں کو میسر ہے اسی طرح وطن کی قربانی جذبات و احساسات کی قربانی آرام و آسائش کی قربانی اور دیگر بہت سی قربانیاں بہت ہی کم لوگوں کو میستر ہیں اور پھر مانی قربانی میں بھی صحیح طریق عمل اختیار نہیں کیا جاتا.بہت سے لوگ ہیں جو وعدے کرتے ہیں مگر انہیں پورا نہیں کرتے.بہت سے لوگ ہیں جو وعدے کرتے ہیں مگر انہیں میعاد کے آخر میں پورا کرتے ہیں بہت سے لوگ ہیں جو وعدے کرتے ہیں مگر دعدوں کو پورا کرنے کے لئے سامان ہم نہیں پہنچاتے.میں نے تحریک جدید کے شروع میں ہی کہا تھا کہ اگر تم کوئی وعدہ کرتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم وہ ماحول بھی پیدا کر و جس کے ماہخت تم اپنے وعدے کو آسانی کے ساتھ پورا کر سکو.اگر تم صرف ایک ہی کھانا نہیں کھاتے بلکہ کئی عمدہ سے عمدہ کھانے تیار کر واکر کھاتے ہو.اگر تم سادہ کپڑے نہیں پہنتے بلکہ لباس بہت سا روپیہ بجا طور پر صرف کر دیتے ہو.اور اس طرح تمہارے پاس کچھ نہیں بچتا.تو اگر تم نے تحریک جدید میں سو روپے دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے سوروپے تم نے وصیت کا دنیا ہے اور سو روپے تمہارا کوئی اور چندہ ہے تو وہ تین سو روپے تم کہاں

Page 235

سے دو گے.جب تم نے اس روپے کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی.جبکہ اپنی آمد کے برا بر میلے سے ہی تم شرح کی ہے ہو تو نہ مرا پیر ہو مجھے کس طرح اٹھا سکتے ہو.اس صورت میں اگر تم ہو یا دوستہ روپے کا وعدہ نبی لکھا دیتے ہو تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ تم نے محض نام و نمود کے لئے وحدہ لکھوا دیا ورنہ تمہاری نیت ترین سے ہی ہی ہے.تقر وعدہ پورا نہ کرو.پس جب تک کھانے اور پینے اور پہننے اور رہائش کے طریق میں تبدیلی نہیں کی جاتی.اس وقت تک کسی مالی قربانی کی توانیاں نہیں مل سکتی.اور اگر تم ان حالات میں کوئی وعدہ کرتے ہو تو تم خدا تعالے سے تمسخر کہتے ہو اور پھر اگر یہ دنده میعاد کے اندر پورا بھی ہو جائے تو خدا تعالے کے فضل سے پورا ہوگا.تمہارے متعلق نہیں سمجھا جائے گا تو تم نے اس کے لئے کوئی تیاری نہیں کی مشق.پھر جس قسم کی مالی مشکلات میں سے اس وقت ہمارا اسلسلہ گذر رہا ہے ان کی موجودگی میں ہماری موجودہ مالی قربانیاں ہرگز کافی نہیں ہیں.اور ہم ان کاموں کو کبھی بھی ایک لمبے عرصہ تک جاری نہیں رکھ سکتے.اس کے لئے ہمیں اپنے بجٹوں پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا.اور ہمیں اپنے طریق تبلیغ پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے گی اور ہمیں اپنے سارے کارکنوں سے ایسے رنگ میں قربانی لینی پڑے گی جس رنگ میں ان سے پہلے کبھی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ مالی دقتوں کے لحاظ سے، اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے مبلغین سے بھی یا تو آفریدی طور پر خدمت لیں یا اس صیفہ کو بالکل بند کر دیں.آخر نظر یک جدید میں جو مبلغ کام کر رہے ہیں وہ آنریری کام کر رہے ہیں.اور یا پھر نہایت ہی قلیل گزارہ لے رہے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر تحریک جدید کے مجاہد اس ترقبیل گزارہ پر کام کر سکتے ہیں تو دوسرے مبلغین کام نہ کر سکیں.اور اگر حالات پیدا ہوں تو ان کے سابقہ طریق میں تغیر نہ کیا جائے اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو سلسلہ کے کارکن ہیں ان کے لئے بھی مزید قربانیوں کے درواز کھولے جائیں گے.مگر وہ یاد رکھیں کہ ان کو اسی وقت ان قربانیوں کی توفیق ملے گی جب وہ تحریک جدید کے اصول کے پابند ہوں گے.اگر وہ ان اصولوں کی پیروی نہیں کریں گے تو انہیں قربانی کی توفیق ہرگز نہیں ملے گی کیونکہ جو شخص تیاری نہیں کرتا وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا.پس اے دوستو ! جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کو سنتے اور اس کی یاد میں بکرا یا گائے یا دنبہ ذبح کرتے ہو تمہیں یاد رہے کہ بکرے یا گائے کی قربانی کرنا آسان ہے مگر اپنی جان اپنے مال اپنے آرام اور اپنی آسائش کی قربانی کرنامشکل ہے حضرت ابراہیم نے

Page 236

بکرا ذبح نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی بیوی اور اپنے بچے کو قربان کر دیا تھا.اگر تم واقعہ میں حضرت ابراہیم کی یاد تازہ کرتے ہوئے عید الاضحیہ میں حصہ لینا چاہتے ہو اگر تم یہ آرزو رکھتے ہو کہ آئندہ جب دنیا میں عید الاضحیہ منائی جائیں تو گو دنیا اسے حضرت ابراہیم کی قربانی کی یاد میں منائے مگر خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں تمہارا نام بھی ہو اور آسمان پہ تمہاری قربانیوں کی یادگار میں بھی عید الاضحیہ منائی جائے تو تمھیں ابراہیمی صفات اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں.کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عید صرف حصہ براہیم کی یاد میں منائی جاتی ہے اور ان کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہوا جس نے خدا تعالٰی کی راہ میں اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو قربان کر دیا ہو کیا رسول کریم مسلے اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جو قربانیاں کہیں وہ کوئی معمولی ہیں اور کیا ان کے بعد ہزاروں ایسے لوگ نہیں ہوئے جنہوں نے اپنے بیوی بچے خدا تعالے کی راہ میں قربان کر دیئے.یقیناً ایسے لوگ ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں لیکن چونکہ اتنی لمبی لیسٹر 4157) لوگ یاد نہیں رکھ سکتے.اس لئے دنیا کے لوگ تو یہ عید صرف حضرت ابراہیم کی قربانی کی یاد میں مناتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی لیسٹ میں ان تمام لوگوں کے نام درج ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی راہ میں قربانیاں کیں جب عبید الا ضحیہ آتی ہے اور لوگ اسے حضرت ابراہیم کی یاد میں مناتے ہیں اس وقت خدا ان سارے شہداء کی یاد میں یہ عید مناتا ہے جنہوں نے اس کے لئے قربانیاں کیں.اسی طرح خدا تعالے کے فرشتے ان سارے شہداء کے نام پہ یہ عید مناتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو خدا تعالے کے بستہ میں قربان کر دیا.ہمارے سامنے آج وہ بکرے ہوتے ہیں جن کے گلوں پر ہم چھریاں پھیرتے ہیں اور میرے جیسے عدیم الفرصت انسان کے سامنے تو بکرا بھی نہیں ہم ہوتا.کوئی دوسرا ہی اسے ذبح کرتا ہے مگر خدا تعالے کے دربار میں یہ بکرے نہیں ہوتے.بلکہ آج جب کہ دنیا میں بکروں پر چھریاں پھر رہی ہوں گی خدائق لئے کے سامنے حضرت ابراہیم کو پیش کیا جارہا ہوگا اور وہ اسے کہہ رہا ہوگا کہ اے ابراہیئے دیکھ تو نے اپنے بچے سمعیل کو میری راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کر دیا تھا دیکھ تو نے اپنی بیوی ہاجرہ کو ایک بے آب گیاہ جنگل میں میرے حکم کے ماتحت چھوڑ دیا تھا.بے شک تو نے قربانی کی اور بہت بڑی قربانی کی.مگر اسے ابراہیم ! ذرا دنیا کی طرف نظر اٹھا اور دیکھے کہ آج تیری نسل کسی کثرت سے تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.یہاں تک کے ریت کے ذروں کو گنا جا سکتا ہے مگر تیری نسل کے افراد کا شمار نہیں کیا جا سکتا.اب بتا کہ اسمعیل کی قربانی صنائع گئی یادہ دنیا میں عظیم الشان رنگ لائی اور ! بر استیم شرم سے اپنی آنکھیں نیچی کر لیتا ہو گا.اور کہنا ہو گا.اسے خدا.نہیں میری قربانی تیرے انعاموں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور پھر آج حضرت ابرا ہیم

Page 237

۲۲۹ ہی نہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی خدا تعالے کے سامنے پیش کیا جارہا ہوگا.اور خدانانی ان تمام ترقیات کے نظارے آپ کو دکھا رہا ہو گا جو تیرہ سو سال میں آپ کو اور آپ کی امت کو حاصل ہوئیں.اور کہتا ہوگا اسے ہمارے سول تیری مکہ کی تکالیف بے شک بہت بڑی تکالیف تھیں.بے شک مدینہ کے مصائب بہت بڑے مصائب تھے.مگر بتا تو سہی کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں ہم نے تیرے ہاتھوں سے جو علوم اور عرفان کے دریا بہا دیتے اور دنیا میں حیرت انگیز انقلاب پیدا کر دیا یہاں تک کہ بہت وذلت کے گڑھے میں گرتی ہوئی تو میں تیری تعلیم پر عمل کر کے دنیا کی بادشاہ بن گئیں، کیا اس انقلاب اور ان عظیم الشان الغابات کے مقابلہ میں یہ قربانیاں کوئی بھی حقیقت رکھتی ہیں.اور محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح محبت کے ساتھ آستانہ الٹی پر جھکتے ہوئے یہ کہتی ہوگی کہ اسے خدا نہیں میری قربانیاں ان العاموں کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں اسی طرح آج بدر کے شہداء اور اُحد کے شہداء جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو بہ پہلو لڑتے ہوئے خدا تعالے کی راہ میں جان دی مین کے گھروں میں اس وقت آہ و فغاں سے ایک کہرام مچ گیا تھا تبن کی موت نے ان کے رشتہ داروں کے قلوب کو غم و اندوہ کے جذبات سے پہر یہ کر دیا تھا ان کی روحوں کو آج خدا تعالے اپنے دربار میں کا بڑا کر کے بتا رہا ہوگا که دیکیوں تمہاری قربانیوں نے کیسے میٹھے پھل پیدا کئے اور انہوں نے اسلام کی کھیتی کو کس طرح ہرا بھرا کر دیا اسی طرح وہ ہزاروں نہیں لاکھوں رو میں جو دنیا میں خدا کارٹی کے جذبات لئے ہیں جنہوں نے قربانیوں کے بعد نوار تورفان حاصل کیا اور سمادی برکات سے برہ یاب ہو نہیں.اللہ تعالے انہیں اپنے سامنے بلاتا ہوگا اور کہتا ہوگا اے میرے بندو ! کیا تمہاری قربانیاں رائیگاں گئیں اور کیا ان انعامات کے بدلہ میں جو میں نے تم پر کئے تمہاری قربانیاں کوئی بھی حقیقت رکھتی ہیں.اور وہ محبت سے اللہ تعالے کی بارگاہ میں گرتے ہوئے یہ کتنے ہوں گے کہ اسے ہمارے رب ! ہماری قربانیاں تو کچھ بھی نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی انسان کو سبق دیتا ہے مارا مستقبل صرف وانا کو سبقی دنیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالے فرماتا ہے کہ جب فتح ہوئی اور اسلامی لشکر غنیمت کے اموال لے کر واپس لوٹا تو منافقوں نے بکریوں اور بھیڑوں کی پیٹھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں.کیونکہ جب فتح ہو جاتی ہے تو منافق بھی اخامات میں شریک ہو جاتے ہیں.مگر مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف مومن ہی قربانی کرتا ہے اور وہی قربانی اللہ تعالے کے حضور قبول ہوتی ہے.کیونکہ وہ ایسے وقت میں قربانی کرتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ قربانی صنائع ہو گئی.جب دنیا اس کی تکلیفوں پر ہنس رہی ہوتی ہے.جب دنیا قربانیوں کو رائیگاں تصور کر رہی ہوتی ہے.جب دنیا اُسے پاگل اور مجنون کہہ رہی ہوتی ہے.وہ خدا تعالے کے ذکر کو جیت کرنے اور اس کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے را ندان

Page 238

جمانی اور مالی قربانیاں کرتا چلا جاتا ہے.وہ نہ اپنے آرام کی پرواہ کرتا ہے نہ آسائش کی بلکہ خدا تعالے کی راہ میں وہ اپنی بیوی اور بچوں کی بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے یہی لوگ ہیں جن کی قربانی اللہ تعالے قبول کرتا ہے لیکن بعد میں انعامات میں حصہ لینے کے لئے تو منافقوں کا گردہ بھی جاتا ہے.اور خدا تعالٰے انہیں بھی کہتا ہے کہ تم بھی کچھ لے لو.جیسے مرنے والا جب مر جاتا ہے ، در اس کا ترکہ تقسیم ہونے لگتا ہے تو ایسی حالت میں اگر کوئی مسائل آجائے تو اسے بھی کچھ دے دیا جاتا ہے.سی طرح جب دنیوی برکات آتی ہیں تو خدا تعالے کہنا ہے کہ ان منافقوں کو بھی کچھ دیر ہو گیا ہوا نسیمی برکات کے وہ وارث نہیں ہو سکتے.وہ برکات انہی کو ملتی ہیں جو قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ بڑھتے چلے جاتے ہیں.جن کی نگاہیں آسمان کی طرف طلبت ہوتی ہیں اور جو دنیوی نعماء کی بجائے اُخروی نعماء کی در قیمت پہچانتے ہیں اور در حقیقت انسان نخستین در تحقیقی برکات وہی ہیں.خدا تعالے مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اس امر کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہرقسم کی قربانیوں میں دلی شوق سے حصہ لینے والے ہوں.ہمارے قلوب پر رسم کے زنگ سے پاک ہوں اور کلی اعتماد اور پورے شوق کے ساتھ پر جانی اور مالی قربانی اس کے حضور پیش کرنے کے لئے تیار ہوں.اور پھر ہمیشہ اپنی قربانیوں میں بڑھنے پھلے جائیں تا آئندہ جب دنیا ابرا ہیم کی یاد میں عید الاضحیہ منانے لگے تو اس وقت آسمان پر خدا تعالٰی کے رجسٹر می میرا اور تمہارا نام بھی ہو.اور اللہ تعالے کی ہرقسم کی رحمتیں ہمارے شامل حال ہوں اللهم آمین + الفضل ها در مارچ ۱۹۳ به عده تا علام ۱۵در له - سنن ابن ماجہ ابواب صلاة العيدين باب ما جاء فيما ذا اجتمع العيدان في يوم ہے.سنن ابی داؤد کتاب الاطعمة باب في أكل الضب.- سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب اذا دفق يوم الجمعة يوم عيد ہے.ارض القرآن جلدا منها شه - پیدائش باب ۱۱ آیت ۲۹ باب ۱۷ آیت ۱۵ - باب ۲۳ آیت ۱-۲ - پیدائش باب ۱۶ آیت ۳۰۲ شه و یا فیملی ڈیود شنل با نبل مع تشریحی نوش از میتصبو منبری جبلد امه - تاریخ الخمیس - شه - پیدائش باب ۱۶ آیت 1

Page 239

۲۳۱ ۹ - ارت تاریخ ابن خلد دن موسومه به تاریخ لا میاد مره حجمه علامه حکیم محمد سین الله آبادی حصہ اول حاشیه ملت پر توریت کے ہفتہ وہی سلو مو اسحاق کے حوالہ سے حضرت جرہ کے متعلق لکھا ہے وہ فرعون کی بیٹی تھی جب اس نے سارہ کے ضمن میں کرامات کو دیکھا تو اس نے کہا میری بیٹی کا دردسر سے گھر میں ملکہ ہو کہ رہنے سے را برا تنظیم کے گھر میں خادمہ بن کر بنا متر ہے نا (۲) ارض القرآن جلد ا حت - بس انوار الانبیاء م مطبوعه لاجور - فرهنگ آصفیه جلد چهارم ماده گاه - النساء - : ١٣٠ - تفسیر در منثور جلد ، ص 1- ا به حضرت مسیح خود علیہ السلام کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کے لڑکے تھے.انہوں نے اپنے بھائی مرزا امام الدین صاحب کے ساتھ ساری زندگی احمدیت کی مخالفت میں گزار دی.له - التویه ۲۰:۵ - نمایه ثور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت پناہ لی تھی.سورۃ توبہ کی اس آیت میں غار سے مراد غار تو رہی ہے.غار حرا میں آپ بعثت سے قبل عبادت کیا کرتے تھے د زرقانی شرح مواہب لدنیہ ) حضرت زید بن دشمنہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی طرف اشارہ ہے جنہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے چند دیگر اصحاب کے ساتھ عضل اور قارہ قبیلے میں تدریس قرآن کے لئے بھیجوایا تھا.راستہ میں جمیع کے مقام پر کفار نے حملہ کر دیا.حضرت زید بن دشنہ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے مکہ لے جایا گیا.جہاں صفوان بن امیہ نے اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے کے لئے ان کو خرید لیا.یہ مکالمہ آپ کی شہارت سے مکا پہلے کا ہے.(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابة ف۳ ) ے.یہ واقعہ حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ہے جو جنگ احد میں شہید ہو گئے تھے.(موطا کتا اینجا.باب الشهداء فی سبیل الله - زرقانی شرح مواہب الدنیہ جلد ۲ هشد ے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ (وفات شله حضرت مسیح موضوع علیا 61400 کے شدیم معابی.نامور مورخ اور شہور صحافی تھے.ششماہ میں انہیں سلسلہ احمدیہ کا پہلا ان حکم جاری کرنے کا خصوصی شرف حاصل ہوا.سيرة حلبيه جز اول منشا و نشم صحیح بخاری کتاب الانبياء باب يزفون النسلان في المشي - ابراهیم ٣٨:۱۴

Page 240

الله - روحانی خزائن (فتح (اسلام) بد۳ ۲۵۰ AD ۲۲ - تاریخ طبری جلد ۵ ۲۷۵۰ تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۴ - حضرت الشر - حضرت زید بن ارقم اور حضرت ابو برزة الاسلمی.مگر عام طور پر حضرت انسش کی سجا کے حضرت زید بن ارقم کی موجودگی بتائی جاتی ہے.(طبری ہے ، حضرت امام بارگی نے سیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب حسین میں حضرت انس انہی کا نام لکھا ہے.یہ واقعہ پہلے ابن زیاد کے دربار میں پیش آیا اور پھر دوبارہ یزید کے دربار میں جہاں حضرت ابو برزة الاسلمی رضی اللہ عنہ نے یزید کو منع کیا ( تاریخ طبری می تاریخ کامل ابن اثیر شده، بحارالانوار جلد ۱ ۲۳۵ - بحار الانوار جلد ۲۳۶۱ - ۲۳۷ حضرت عمر بن عبد العزیین دست ی ہے.معاویه (ثانی بن یزید (وفات تاریخ کامل ابن اثیر جلدم منه !

Page 241

د فرموده یکم فروری ۱۹۳۶ء بمقام عید گاه قادریان) سلمانوں میں دو عیدیں منائی جاتی ہیں.ایک حمید، عید الفطر کہلاتی ہے جسے ہمارے ملک کے لوگ چھوٹی عید کہتے ہیں اور دوسری عید.غیدان صحیہ کہلاتی ہے جسے ہمارے ملک میں بڑی عید کتنے ہیں.ان کے علاوہ جمعہ بھی مسلمانوں کے نزدیک عید ہے لیے اور چونکہ قرآن کریم میں جمعہ کی نماز کا خصوصیت کے ساتھ ذکر آتا ہے اس لئے بعض اولیاء نے جمعہ کی نیند کو ان دونوں عیدوں سے بھی بڑا قرار دیا ہے یہ ہر حال اجتماع کے لحاظ سے یہ دونوں عیدیں اپنے اند ر خصوصیت رکھتی ہیں اور چونکہ خوشی کا مظاہرہ لوگ جلد جبلہ نہیں کر سکتے.اس لئے بھی ان عیدوں کی لوگ زیادہ خوشی سناتے ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے متعلق فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے کھانے پینے کے دان ہیں کہ گویا اس طرح ان عیدوں کی اجتماعی خوشی کے لحاظ سے آپ نے ایک جداگانہ حیثیت قرار دی ہے.پس ان عیدوں میں جو سبق ہے وہ جمعہ کی عید سے مختلف قسم کا ہے اور ہمیں اس سبق کے سمجھنے اور اسے یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے.اس سبق کے سمجھنے سے پہلے ہمیں انسانی فطرت کا مطالعہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیئے کہ انسان کو جو خوشی پہنچتی ہے ، وہ کتنی قسم کی ہوتی ہے.چنانچہ جب ہم انسانی فطرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انسانی خوشی دو قسموں میں منقسم معلوم ہوتی ہے.ایک خوشی تو وہ ہوتی ہے جس کا منبع انسان کا اپنا وجود ہوتا ہے اور دوسری خوشی وہ ہوتی ہے جو دوسروں سے اسے ورثہ میں ملتی ہے جسے متعدی خوشی کہنا چاہیئے.یعنی پہلے اس خوشی کو چند افراد حاصل کرتے ہیں اور پھر آگے اسے اپنی اولادوں اور اولادوں کی اولادوں کی طرف منتقل کر دیتے ہیں اس سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ چیز انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے آباء کی عزت اور خوشی میں اپنی خوشی اور عزت سمجھتا ہے.چنانچہ قومی فخر یا خاندانی فخر اسی کی مثال ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی جب پوچھا گیا کہ کونسا شخص زیادہ اشرف ہے تو آپ نے فرمایا کہ یوسف جو نبی کا بیٹا تھا اور پھر جو آگے ایک اور نبی کا بیٹا تھا کہ گویا حضرت یوسعت کی عزت کی وجہ آپ نے یہ قرار دی کہ وہ ایک نبی کا بیٹا تھا اور اس کا باپ پھر ایک بنی کا بیٹا تھا.گو یا متواتر اس کے آباد میں سے دو بالوں کو نبوت کا فخر حاصل ہونے کی وجہ سے حضرت یوسعت کی موت بھی بڑھ گئی ، اور اس لحاظ سمجھنا چاہئیے کہ اس کی خوشی بھی بڑھ گئی.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 242

۳۳۳ سے سوال کیا کیا کہ یا رسول الله اعربوں میں سے کونسے لوگ زیادہ معزز ہیں.تو آپ نے فرمایا عربوں ے تو خاندان جامعیت میں زیادہ درجہ رکھتے تھے وہی اسلام میں بھی زیادہ درجہ رکھیں گے بشر طیکہ وہ خود بھی متقی ہوں ہے اس میں بھی آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے.کہ اپنے آبا د کے کاموں پر فخر کہ نا یا ان کی عورت میں اپنے آپ کو شریک سمجھنا ایک فطری تقاضا ہے جس سے اسلام درد نہیں سکتا وہ صرف انتی پابندی کاتا ہے کہ تم اپنے اندر ذاتی مشرف بھی پیدا کرو تا کہ اپنے آباد کی عزت کی خوشی پر خوشی مناکر تم منافق مت بنو اور جس چیز کو ایک وقت میں عزت کا موجب قرار دو، دوسرے وقت میں اسے حقیر قرار دے کہ اور متردک کر کے اس سے بیزاری کا اظہار نہ کرو.کیونکے جب کوئی شخص ایک شرف کو حاصل کرنے سے اجتناب کرتا ہے.یا غفلت برتتا ہے تو وہ اپنے فعل سے ثابت کر دیتا ہے کہ وہ اسے شرف نہیں سمجھتا.پس کسی دیانت دار انسان کا حق نہیں کہ وہ بعض افعال کو تحقیر کے ساتھ ترک کر دے اور پھر انہی افعال کی وجہ سے اپنے باپ دادا کی عزت کا اعلان کرے.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں فلاں دادا کی اولاد ہوئی جو بڑا بہادر تھا اور خود بزدلی دکھاتا ہے تو وہ در حقیقت دو اصدار کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ نقیضین کو ایک جگہ جمع کرتا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ میرا دادا بہادر آدمی تھا.اور دوسری طرف وہ قربانی سے گریز کرتا ہے اس کا یہ فعل بتاتا ہے کہ دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے یا تو وہ جب اپنے دادا کے افعال پر فخر کرتا ہے تو وہ دوسروں کو بیوقون بناتا ہے ، ورنہ اپنے دل میں اپنے دادا کو معزز نہیں سمجھتا بلکہ ایک بیوقوف انسان سمجھتا ہے جو اپنی جان کو خواہ مخواہ بلا ضرورت اور بلا وجہ خطرات میں ڈال دیا کرتا تھا.اور یا پھر وہ اس کے افعال کو تو اچھا سمجھتا ہے لیکن اپنے آپ کو ایک پاجی اور ذلیل انسان سمجھتا ہے جو شرافت کے احساسات سے عاری ہے اور اتنے گندے وجود پر شرف کا جبہ مینانا بالکل احمقانہ بات ہے.غرض یہ دونوں باتیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں.اگر تو ایسے شخص کے آباد جو خود بزدل ہے بوجہ بہادری اور جرات دکھانے کے مکرم در معزز ہو گئے تھے تو اگر یہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان کی عزت اور ان کا شرف اسے کوئی نفع نہیں دے سکتا.اوراگر خطرہ سے جان بچانا ہی عزت ہے اور یہی عقل ہے اور یہی مناسب ہے تو پھر یہ کہنا کہ اس کے آباء مکرم اور معزز تھے یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے کیونکہ اگر قربانی سے بچنا عقلمندی ہے تو پھر جن لوگوں نے قربانی کی وہ جاہل اور نادان تھے اور ہر گز کسی عزت کے مستحق نہ تھے.پر ایسے شخص کے لئے دو طریق میں سے ایک کو اختیا کرنا لازمی ہوگا.یا تو اسے یہ کہنا پڑے گا کہ میرے آباء ور قاعدہ اور جمع تھے اور کسی شرف کے مستحق نہیں تھے.اور یا پھر اسے یہ کہنا پڑے گا کہ میں ایسا

Page 243

۲۳۵ گندہ اور ذلیل وجود ہوں کہ میرے آباد کا شہرت اور ان کی عورت مجھے کوئی نفع نہیں دے سکتی.بلکہ ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا ان کی تنگ کرنا ہے اور اس نسبت سے مجھے کوئی عزت محال نہیں ہوتی بلکہ میری ذلت بڑھ جاتی ہے کہ قرآت کا سامان موجود ہوتے ہوئے میں نے ذلت کو اپنے لئے قبول کر لیا.یہی مثال دوسرے اخلاق کی بھی ہے خواہ وہ دین کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا سیاست کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں.یا اقتصادیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا صنعت و حرفت کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا تجارت کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے عورتیں دو قسم کا ہیں اور ان کے مقابلے میں خوشیاں بھی دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو باتی ہوتی ہیں اور ایک خوشی وہ جو ورثہ میں ملتی ہے.ذاتی خوشی تو ہر حال خوشی ہوتی ہے مگر جو نہ منشی در شه میں ملتی ہے وہ مقید ہوتی ہے.جب تک اس کے ساتھ ذاتی خوشی شامل نہ ہو.وہ کار آمد نہیں ہوتی ملکہ بسا اوقات ذلت اور رسوائی کا موجب ہو جاتی ہے انسانی فطرت کے اس مطالعہ کے بعد اب ہمیں اپنی دونوں عیدوں پر غور کرنا چاہئیے کہ وہ نہیں کیا سبق دیتی ہیں کہ جب تم ان دو عیدوں کو تین میں سے ایک ہمارے ملک میں چھوٹی عید کہلاتی ہے اور دوسری بڑی عید کہلاتی ہے.دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام تو اپنی تعلیمات میں مقام ضروری احکام پرشتمل ہے اور تمام اچھے عناصر پر حاوی ہے.اس نے فطرت کے اس تقاضا کو بھی ان دونوں عیدوں کے ذریعہ سے ظاہر کیا ہے.مثلاً چھوٹی عید کو دیکھو.اس عید سے پہلے ہم روزے رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے بعد ہم ایک دن عید مناتے ہیں.وہ عید کسی گذشتہ عزت کی یاد نہیں ہوتی.ہمارے باپ دادا کے کسی مشرف کو نیا ہر میں کرتی بلکہ اس کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم نے خود اپنی ذات میں قربانی اور ایشیا کا ثبوت نہیا کیا ہوتا ہے اور اپنی قربانی کے ساتھ اپنے رب کو خوش کیا ہوتا ہے.پھر دوسری عید کو بعد لیتے ہیں جو بڑی عید کہلاتی ہے.اس عید کے دن یا اس سے پہلے تم نے اپنی ذات میں کوئی کام نہیں کیا ہوتا.کوئی خاص عبادت ہم نے نہیں کی ہوتی.کوئی خاص تکلیف ہم نے نہیں اُٹھائی ہوتی.نام دنوں کی طرح ایک دن ہوتا ہے اور ہم اس دن کیدم عید کا اعلان کرتے ہیں.کیوں ؟ اس لئے کو ہزاروں سال پہلے اس دن ہمارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک عظیم الشان کام مصادر ہوا تھا اور اسے ایک خوشی پہنچی تھی اور چونکہ وہ ہمارا روحانی باپ تھا اور ہمارے روحانی باپ کا باپ تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہ کا ، ہم اس دن نور اپنے کپڑے پہن کر یا دھنتے ہوئے بات کپڑے پہن کر گروہ در گروہ اور جماعت در جماعت اکیلے اکیسے اور کٹھے بو کر میدان کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کا دل خوش ہوتا ہے.اس لیئے

Page 244

ہمارے دادا کو یہ عورت نصیب ہوئی تھی اور چونکہ وہ خوش ہوا تھا اس لئے ہم بھی خوشی مناتے ہیں یا ہم اس دن اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے کچھ بھائی جو دور دراز کا سفر کر کے خدا تعالے کے گھر کے پاس اپنے ایمان اور اخلاص کا تحفہ پیش کرنے کے لئے گئے تھے وہ اس پیش کش میں کامیاب ہو گئے اور حج مبرور ادا کر کے انہوں نے خدا تعالے کے گھر میں عزت حاصل کی.پس چونکہ ہمارے بھائیوں کو خوشی پہنچی اس لئے ہم بھی خوش ہیں.پس ہماری یہ خوششی درشہ کی خوشی ہوتی ہے اور ان دونوں عیدوں میں یہی سبق دیا گیا ہے کہ کسی قوم کی مکمل خوشی اسی میں ہے کہ اسے دونوں خوشیاں پہنچیں.ایک خوشی تو یہ کہ اس کو ذاتی قربانی کرنے کی توفیق ہے اور دوسری خوشی یہ کہ اس کے آباد کو بھی خدا تعالے کی راہ میں مستربانی کرنے کی توفیق خطا ہو.جب کسی قوم کو یہ دونوں خوشیاں نصیب ہو جائیں تو اس کی خوشی مکمل ہو جاتی ہے.کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دیکھتا ہے کہ میرے ماں باپ تو معزز و مکرم تھے لیکن میں ذلیل ہوں تو اس کا دل رنج سے بھر جاتا ہے اور وہ خوش نہیں رہ سکتا.تاریخوں میں ایک واقعہ آیا ہے کہ ایک امیرت فرایک دن حمام میں نہانے کے لئے گیا.اور وہاں اس نے اپنا جسم ملوانے کے لئے ایک خادم کو بلوانے کا حکم دیا.حمام والے نے ایک مضبوط نوجوان اپنے نوکروں میں سے اس کا جسم ملنے کے لئے بھیجوا دیا.جب اس نے تمہ نیند وغیرہ باندھ لیا اور اپنے کپڑے اتار کر حمام میں بیٹھ گیا اور خوشبو دار پانی اپنے جسم پر ڈالا اور خوشبودار مسالے خادم نے اس کے جسم پر ملنے شروع کئے تو اس وقت کی کیفیت اسے ایسی لطیف معلوم ہوئی کہ اس نے اپنے نفس میں موسیقی کی طرف رغبت محسوس کی اور کچھ گنگنا گنگنا کر شعر پڑھنے لگا.جب وہ شعر پڑھ رہا تھا تو اچانک اس ملازم کی حالت متغیر ہو گئی اور اس کی چیخ نکل گئی اور وہ بہیوش ہو کر زمین پر گر گیا.اس غسل کر نیو الے نے سمجھا کہ شاید اس کو مرگی کا دورہ ہوا ہے اور اس نے حمام کے افسر کو بلایا.اور اس کے پاس شکایت کی کہ تم نے میرے جسم کو ملنے کے لئے ایک مجنون اور بیمار کو بھیج دیا.اس نے معذرت کی اور کہا کہ آجتک اس نوجوان کی ہمیاری کا حال مجھے معلوم نہیں ہوا، یہ تو بالکل تندرست تھا.ہر حال وہ اسے ہوش میں لاتے اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے ، آجنگ تو تم پر کبھی ایسا دورہ نہیں ہوا تھا.اس نوجوان نے نہایت گھبرائی ہوئی حالت میں اس شاعر سے دریافت کیا کہ آپ نے جو یہ شعر پڑھے تھے یہ آپ نے کس سے سنے ہیں اس نے کہا میرے اپنے ہیں اور مجھے نہایت ہی محبوب ہیں.کیونکہ میں نہایت غریب ہوتا تھا اور نان نکنید تک کا بھی محتاج تھا.اتفاقاً مجھے معلوم ہوا کہ فضل برکی تو ہارون الرشید کے وزراء میں سے ایک وزیر تھا اور یا یہ مسکی وزیر اعظم کا بیٹا تھا اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور شاعروں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ شعر کس کہ لائیں.پھر جو مقابلہ میں اول آئے گا اسے انعام دیا جائے گا

Page 245

چنانچہ میں بھی قسمت آزمائی کے طور پر چند شعر کہکہ اس مملیس میں حاضر ہوا.اور جب میری باری آئی تو میں نے یہ شعر سنائے نفس بریگی اور اس کے بھائیوں اور اس کے باپ کو یہ شعر ایسے پسند آئے کہ انہوں نے لاکھوں.وہ مجھے انعام میں دیا.اور کئی خادم اور کئی گھوڑے اور کئی او نشادر چاندی اور سونے کے برتن اور غالیچے اور قالین اور عطریات کا اتنا بڑا خزانہ میرے حوالہ کیا کہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا.اور میں نے کہا حضور میرے گھر میں تو اس کے رکھنے کی بھی گنجائش نہیں.انہوں نے کہا.کوئی تشکر مت کہ وہ فلاں محلہ میں فلاں بڑی عمارت کو ابھی ہمارے خادموں نے تمہارے لئے خرید لیا ہے.اور ہمارے خادم ہی یہ سب مال اسباب اس نئے محل میں ابھی بھی پہنچا دیں گے.اس دن سے میں امراء میں شمار ہوتا ہوں.اور مجھے یہ شعر نہایت ہی پیارے ہیں کہ انہوں نے میری حالت کو بدل دیا اور تنگی سے نکال کر فراغت سے آشنا کیا.اس غلام نے کہا جانتے ہو کہ وہ شعر جن کی وجہ سے تم اس مرتبہ کو پہنچنے میں بیٹے کے لئے کئے گئے تھے وہ میں ہی ہوں جب میں نے یہ شعر تمہاری زبان سے سنے تو مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا.جو میں نے اپنی دائیوں اور کھلائیوں سے سنا ہوا تھا کہ تیری پیدائش پر ایک شاعر کو اتنا انعام دیا گیا تھا اور میں نے کہا کہ وہ بچہ جس کی پیدائش پر یہ انعام دیا گیا تھا اور جن شعروں کی وجہ سے انعام دیا گیا تھا وہ شعر آج ایک اجنبی حمام میں اس راحت و آرام سے پڑھ رہا ہے اور وہ لڑکا جس کے لئے یہ شعر کیے گئے تھے، ایک خادم کی حیثیت سے اس کا جسم مل رہا ہے.اس شاعر پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اس کو چپٹ گیا اور رونے لگا اور اس نے کہا کہ میری ساری دولت تمہارے باپ دادا کی دی ہوتی ہے اور یہ تمہاری ہی دولت ہے.تم میرے گھر چلو میں خادموں کی طرح تمہاری خدمت.کروں گا اور تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا.اس لڑکے نے جواب دیا کہ جس ذلت کو ہم پہنچ چکے ہیں وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے.اب میں اس کے ساتھ یہ مزید ذلت نہیں خریدنا چاہتا؟ کہ جو انعام میرے باپ نے دیا تھا وہ جا کر خود استعمال کرنا شروع کر دوں.مگر چونکہ میرا راز اب کھل گیا ہے اس لئے ہمیں اب اس جگہ بھی نہیں رہ سکتا.اب میں کسی اور علاقہ میں نکل جاؤنگا جہاں مجھے جانے والا کوئی نہ ہو اور کوئی محرم راز میری مشکل کو دیکھکر میرے آباء کی ذلت کو یاد کرے یہ کنکر وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا اور معلوم کہاں غائب ہو گیا.دیکھو یہ ایک مثال ہے کہ باپ دادا کی عزت جبکہ اولاد اس عزت میں شریک نہ رہی اولاد کو کوئی نفع نہ پہنچا سکی بلکہ شریف اولاد کے لئے زیادہ تکلیف کا موجب ہو گئی.بے شک کمینہ انسان اس رستہ کو چھوڑ کر جس پر چل کر اس کے آباء نے عزت حاصل کی تھی فخر کرتا ہے.مگر وہ اس سے صرف اپنی کمینگی کا انظباء کرتا ہے ورنہ شریف انسان تو اس واسطہ کو مٹا دیتا ہے.اسے چھپا دیتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے

Page 246

۲۳۸ کہ کوئی اس سے واقف نہ ہوتا کہ اس کی ذلت اس کے آباد کی عزت کو نہ مادے اور وہ یہ کبھی نہیں کرتا کہ خود توان کے دستہ کو چھوڑ رہا ہو اور اس راستہ کی مسجد سے جو عورت ان کو ملی ہو اس میں اپنے آپ کو شریک کرنا چاہتا ہو.پس ورثہ کی عزت تبھی عورت کہلاسکتی ہے جب کہ ذاتی عزت انسان ها نسل کے چکا ہو.قرآن کریم نے اسی نکتہ کو ایک اور رنگ میں بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے کہ مومنوں کی بیویاں اور بچے بھی جنت کے اس اعلیٰ مقامہ میں رکھے جائیں گے جہاں ان کے باپ دادا ہوں گے.بشرطیکہ وہ خود بھی مومن ہوائے یعینی ذاتی سوت بن کو حاصل ہوگی وہی اس بات کے مستحق قرار دیتے جائیں گے کہ اگر ان کے آباء میں سے کسی نے کوئی بڑا یہ حاصل کیا ہو تو ان کو بھی اس بڑے رتبہ کے مطابق انعام دست دیا جائے.لیکن اگر ذاتی عزت حاصل نہ ہو.تو پھر یہ اس مشرف کے مستحق نہیں ہوں گے.یہ نہیں کہا جائے گا کہ ایک دوزخی کو یہ باں سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے اس لئے کہ اس کے باپ دادا میں سے کوئی مومن تھا.ہاں یوں کیا جائیگا کہ اگر کوئی اوئے درجہ کا مومن ہوگا.اور اپنے ذاتی شرف کی وجہ سے جنت میں داخل ہو چکا ہو گا تو اگر اس کے باپ دادا میں سے کوئی جنت کے اعلی درجہ میں پہنچا ہوا ہوگا تو اس کو بھی انس مقام شرف پر رکھ دیا جائے گا کیونکہ اس نے ذاتی شہرت حاصل کر کے ثابت کر دیا ہو گا کہ وہ اپنے آباد کے پسندیدہ بستہ کو خود بھی پسند کرتا تھا اور اسے حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا.پس ان دونوں عیدوں نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمیشہ دونوں قسم کی خوشیوں کو یاد رکھنا چا ہیئے اول وہ خوشی جو ذاتی کامیابی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور دوم وہ خوشی جو آباد کی کامیابی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے.پھر اسلام کی پر حکمت تعلیم کو دیکھو تو اس نے ان عیدوں کی ترتیب بھی عین فطرت کے مطابق رکھی ہے.یعنی جس طرح فطرت انسانی میں ذاتی خوشی پہلا زینہ ہے اور ورثہ کی خوشی دوسرا اور جب تک ذاتی خوا صل نہ ہو.انسان ورزشه کی خوشی کا مستحق نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالے نے ہمارے لئے وہ عید پہلے رکھی ہے جو ذاتی خوشی کی عید ہے اور وہ عید بعد میں رکھی ہے جو ورثہ کی خوشی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اسلامی سال محترم سے شروع ہوتا ہے اور اس مہینہ سے اگر گنا جائے تو پہلے عید الفطر آتی ہے اور پھر عید الاضحیہ آتی ہے.اسی طرح ایک اور نکتہ ان عیدوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ یہ عیدیں سال کے آخر میں رکھی گئی ہیں.اور اس طرح بتایا گیا ہے کہ ایک لمبی جدوجہد کے بعد ہی انسان کو کامیابی اور کامیابی کے تیریں ناشی ما نسل ہوتی ہے، جو لوگ خوشی پہلے منانا چاہتے ہیں اور جد و جہد پیچھے کرنا چاہتے ہیں.وہ احمق ہیں اور ان کے تقامنے غیر فطری ہیں اور جس طرح غیر فطری تقاضے پورے نہیں ہوا کر تھے ان کا یہ تقاضا بھی کبھی پورا نہیں ہو سکتا.

Page 247

۲۳۹ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ ادھر ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور ادھر ان کو یہ حیرت ہونی شروع ہو جاتی ہے کہ ابھی تک العام کا سلسلہ کیوں شروع نہیں ہوا اور مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو اول درجہ کے بے عمل ہوتے ہیں اول درجہ کے قربانی سے گریز کرنے والے ہوتے ہیں اور ایثار کے موقع پر سب سے پیچھے رہنے والے ہوتے ہیں.اور وہ سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں کہ ابھی تک احمدیت کو وہ ترقی نصیب نہیں ہوئی جو پہلی جماعتوں کو حاصل ہوا کرتی تھی.میں ان لوگوں سے کہا کرتا ہوں کہ اسے نادانو ! تمہارے گدھے تمہارے اصطبل میں بندھے ہوئے ہیں.اور تمہارا یکہ تمہارے دروازے کے آگے کھڑا ہے اور تم یہ رٹ لگا رہے ہو کہ ابھی منزلِ مقصود نہیں آئی تمہارا گدھا تو اصطبل میں بندھا ہے اور تمہارا بلکہ اپنی سیکسی پر رو رہا ہے.تم منزل مقصود پر کس طرح پہنچ سکتے ہو.پہلے اچھی سواری لاؤ) اچھی گاڑی میں جس کو جو تو.پھر اس میں سوار ہو کر چلو.سفر کی صعوبتیں برداشت کر وہ تب منزل مقصود آئے گی.اس سے پہلے منزل کی طلب کرنا نہ جماعت پر اعتراض وارد کرتا ہے.اور نہ مخلص احمدیوں میں کوئی اخلہ مہمن جات کم کرتا ہے.یہ تو محض اس بات کی علامت ہے کہ تم ابھی قومی ترقی کے ابتدائی اصول سے بھی آگاہ نہیں.پہلے جد وجہد کرو، قربانیاں کرو اور وہ اشیار دکھلاؤ جو پہلی جماعتوں نے دیکھایا تھا اور پھر اس بات کی امید رکھو کہ تم وہ نتائج دیکھو گے جو پہلوں نے دیکھے تھے.یں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں یہ نقص اس قدر عام ہے کہ عمل کی کوئی قیمت ہی باقی نہیں رہی ، صرف زبان کی قیمت سمجھی جاتی ہے.اور سب سے بڑا لیڈر وہی سمجھا جاتا ہے جو سٹیج پر کھڑے ہو کر سب سے بڑے مقاصد کو پیش کر دے یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ عملاً اس شخص نے کوئی قربانی بھی کی ہے یا نہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ چھوٹی عمر میں میں ریل پر سفر کر رہا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی ہمارے کمرہ میں داخل ہوا.اس وقت لوگوں کی اخلاقی حالت کے متعلق مختلف باتیں ہو رہی تھیں ، وہ بھی ان باتوں میں شامل ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں دراز دغہ جیل رہا ہوں.اس لئے اخلاق کے متعلق جو واقعیت مجھے ہو سکتی ہے اور کسی کو نہیں ہو سکتی.چنانچہ اس نے بڑے بڑے قصے لوگوں کے دھوکوں اور فریبوں کے بتائے اور ساتھ ساتھ یہ کہنا چلا جائے کہ ان چالاکیوں سے ہم لوگ خوب واقف ہیں جن کا رات دن ایسے لوگوں سے تعلق رہتا ہے.دنیا کے اخلاق بہت بگڑ چکے ہیں، دیانت جاتی رہی ہے اور ٹھگی بڑھ گئی ہے.اس وعظ کے وقت وہ اس قدر جوش میں تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے اخلاق کی اصلاح میں یہ شخص دیوانہ ہورہا ہے.انہی باتوں کے دوران میں شاید میرٹھ یا سہارنپور کا اسٹیشن آگیا.اور ٹکٹ چیک کر نیوالا

Page 248

وام عالم ہمارے کمرہ میں داخل ہو گیا.ہم انٹر میں تھے جب اس نے ٹکٹ دیکھے تو اس اخلاقی واعظ کے پاس تھرڈ کلاس کا ٹکٹ نکلا.اور جب اس نے پوچھا کہ آپ کے پاس ٹکٹ تو تھرڈ کا ہے اور میٹھے انٹر میں ہیں تو معنا اس کا چہرہ مجسم سادگی بن گیا.اور یوں معلوم ہونے لگا کہ ساری عمر اسکو بصورت میں رکھا گیا ہے اور آج پہلی دفعہ اسے سورج نظر آیا ہے عجیب سادہ صورت بنا کر کہنے لگا بابو جی تھرڈ کیا ہوتا ہے اور انٹر کیا ہوتا ہے.بابوجی دھو کہ میں آگیا.اور اس نے سمجھا کہ شاید پہلی دفعہ اسے سفر کا موقعہ ملا ہے اور کہنے لگا.اس ڈیوڑھا کا کرایہ ذرا زیادہ ہوتا ہے آپ تھرڈ میں چلے جاتیں مگر شاید اس نے خیال کیا کہ میں نے سادگی کا ڈرامہ ابھی پوری طرح نہیں دکھایا.اور چہرہ پر کمزوری اور اضمحلال دکھا کر اس سے مخاطب ہوا.اور کہنے لگا کہ یہ ذرا ٹرنک اور بستر تو اٹھا کرنے چلو اور مجھے بتاؤ کہ وہ تھرڈ کیا چیز ہے.تب تو اس بابو بے چارے کی حالت بھی رحم هستیم بن گئی وہ باہر نکلا اور خشکی کو لایا.اس بوڑھے کا ہاتھ اسے پکڑایا اور کہا کہ بابا جی کو آرام سے تھرڈ کے کمرہ میں بٹھا دو.اُدھر وہ بوڑھا باہر نکلا ، ادھر ہمارے نانا جان مرحوم حجو اس وقت ہم سفر تھے اور اصل میں پہلے وہی اخلاقی وعظ کر رہے تھے بڑھے نے اپنی ہوشیاری کی وجہ سے ایسا سماں باندھ دیا تھا کہ پچھلے نصف گھنٹہ میں ان کو ایک فقرہ کہنے کی بھی فرصت نہ مل سنگی تھی.ان کے لئے خدا تعالے نے ایک دروازہ کھول دیا.وہ سارے کمرہ پر برس پر ہے اور کہنے لگے کہ دیکھو دنیا کی جو حالت میں بیان کرتا تھا اسے اس نے ثابت کر دیا.پہلے کس طرح وعظ کر رہا تھا اور دنیا کا بڑا عقلمند اپنے آپ کو ظاہر کرتا تھا لیکن بابو کے آنے پر مجسم سادگی بن گیا.یہی حالت منافق اور بد عمل لوگوں کی ہوتی ہے.جب تک ان پر گرفت نہ ہو وہ بھیڑ یئے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے رسول کی بھیڑوں کو ایک ایک کر کے اٹھا لے جانا چاہتے ہیں.لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو تین چار یوم کا لیلہ بن جاتے ہیں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سیکیسی اور ناواقفیت اور سادگی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ابھی ضرورت ہے کہ کچھ عرصہ تک ان کا منہ کھول کر ٹونٹیوں سے دودھ ڈالا جائے.اور نادان اور سادہ لوگ ان کے اس مظاہرہ سے جو وہ پبلک میں دکھاتے ہیں، دھو کے میں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا سکین آدمی اول تو شرارت کر ہی نہیں سکتا اور اگر اس نے کی ہوگی تو محض سادگی کی وجہ سے کی ہو گی.وہ اس واقعہ کو بھول جاتے ہیں جو کہانیوں میں بچپن میں ہم سُنا کہ تھے تھے کہ کسی شخص کا کوئی نوکر تھا وہ اس تلاش میں تھا کہ کسی طرح مجھے وہ جگہ معلوم ہو جائے جہاں میرے آقا او میری سیدہ نے رو پیدا اور زیور دفن کر رکھا ہے کیونکہ پرانے زمانہ میں لوگ ان چیزوں کو دفن کیا کرتے تھے.اس نے بہت کوشش کی مگر کوئی سراغ نہ ملا.ان کا ایک تین چار سال کا لڑکا

Page 249

۲۴۱ تھا جس کی نسبت وہ سمجھتا تھا کہ اسے معلوم ہے کہ اس کے ماں باپ کہاں خزانہ دفن کیا کرتے ہیں.ایک رات اس بچہ کو اجابت کی حاجت ہوئی اور اس کے باپ نے نوکر سے کہا کہ اسے باہر بے جاؤ اور پاخانہ کرا لاؤ.وہ اسے اُٹھا کر لے گیا اور بٹھا کر کہنے لگا کہ اگر تم نے پاخانہ پھرا تو بارہا کہ کھال ادھیڑ دوں گا اور ڈنڈا لے کر کھڑا ہو گیا.بچہ اس دھمکی سے ایسا ڈرا کہ میں نچھپیں منٹ بغیر پاخانہ پھرے بیٹھا رہا.پھر نوکر نے اسے اٹھایا اور کہا کہ اگر میرے اس سلوک کا تم نے اپنے باپ سے ذکر کیا تو قتل کردوں گا.یہ کہکر واپس لے آیا.اور کہا کہ اسے حضور پاخانہ کوئی نہیں آیا.لیکن دیر تک انتظار کرتا رہا مگر اس نے نہیں پھرا.اور میں واپس لے آیا ہوں لڑکا پہلے تو ڈر کے مارے خاموش رہا لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر باپ سے کہا کہ پاخانہ آیا ہے.اس نے پھر نوکر کے سپرد کر دیا اور نوکر نے پھر وہی سلوک کیا اور اسی طرح اُٹھا کر لے آیا.پھر تھوڑی دیر کے بعد بچہ نے باپ سے کہا کہ سخت پاخانہ آیا.لیکن دھمکی کی وجہ سے یہ نہ کہ سکا کہ تو کر پھرنے نہیں دیتا.تیسری دفعہ پھر آقا نے اس کے سپرد کیا اور کہا کہ اب کے جاکر اسے بٹھاؤ اور اگر اب بھی نہ پھرے تو خوب مارو.یہی اجازت نوکر چاہتا تھا وہ اسے لے کر پھر گیا اور کہا کہ بتا تیرے ماں باپ کہاں گڑھا کھودا کرتے ہیں اگر تو نے یہ بتا دیا تو تجھے پاخانہ پھرتے دوں گا ورنہ نہیں.اور تیرے باپ نے تو مجھے اجازت دے یہی دی ہے ، اس لئے خوب ماروں گا.ادھر بچے کو زور سے پاخانہ آرہا تھا، ادھر بار کی دھمکی تھی.اس نے ڈر کے مارے بتا دیا کہ فلاں کو نہ میں فلاں جگہ میرے ماں باپ گڑھا کھود کر چیزیں دفن کیا کرتے ہیں.اس پر اس نے اسے پاخانہ پھرنے دیا.اور لا کہ باپ کے سپرد کر دیا.بچہ تو تھ کا ہوا تھا آرام سے سو گیا اور نوکر کرہ میں داخل ہو کر سب مال زیور نکال کر چلتا بنا.یسی کیفیت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے اندر منافقت کی رگ رکھتے ہیں جب الگ ہوتے ہیں تو اس نوکر کی طرح جلاد بنتے ہیں اور جب دوسرے سامنے ہوں تو پو پہلے منہ سے ایسی سادگی کی باتیں کرتے ہیں کہ رقیق القلب انسان کو ان کی مسکینی پر رونا آجاتا ہے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس خوشی کے حصول کی کوشش کریں جو ذاتی قربانی سے حاصل ہوتی ہے.اور یاد رکھیں کہ تبھی وہ اس خوشی کے مستحق ہوں گے جو ان کو آباء کی طرف سے ورنہ میں ملنے والی ہے جب وہ خود بھی نیکی اور تقویٰ میں اعلیٰ مقام رکھنے والے ہوں گے.وہی بہادر جو میدان جنگ میں اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار رہے کہ سیکھتا ہے کہ یا درکھو میں وہ بہادر ہوں جس کا باپ بھی ایسا بہادر تھا اور جس کا دادا بھی ایسا بہادر تھا اور یقینا اس کے اس اعلان سے رعب طاری ہوگا.مگر خیال تو کرو کہ ایک شخص ایک

Page 250

طرف تو میدان جنگ سے بھاگتا چلا جائے سانس چڑھا ہوا ہو ت یہ لڑکھڑا رہنے ہوا، چوو درد ہو.آنکھیں باہر نکل رہی ہوں.ہونٹوں پر ڈر کے مارے پیڑیاں حکم رہی ہوں.وہ بھا کرنا بھی جائے اور مڑ مڑ کر تعاقب کرنے والوں کو یہ بھی کہنا جائے کہ تم جانتے ہو کہ نہیں ملال بہادر کا بیٹا ہوں.کیا تم سمجھتے ہو اس کی اس بات سے ان کے دلوں پر رغب طاری ہوگا یا نزرت اان کے دلوں میں پیدا ہوگی.یا ان کے دلوں میں اور بھی غصہ پیدا ہو گا.اور وہ کہ ہیں گے کہ ٹھر تو جا.تو ہمارا ہی دشمن نہیں بلکہ اپنے باپ دادا کا بھی دشمن ہے جس نے اپنی ہی عزت برباد نہیں کی بلکہ اپنے باپ دادا کی بھی کی ہے.پس قربانی اور ایثار کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ یخ اور اپنے لئے عید الفطر حاصل کرو تاکہ اس کے بعد خدا تعالے کا وہ کلام پورا ہو کہ جو مومن ہو تے وہ اپنے باپ دادا میں سے حثیت میں بلند مرتبہ حاصل کرنے والوں کے ساتھ رکھے جائیں گے اور تمہارا خدا تمہیں کے کہ پہلے تم نے خدا ستانے کی راہ میں قربانی کر کے عید الفطر حاصل کی تھی اور مومن بنے تھے ، اب آؤ عید الاضحیہ کا مزہ ہم تم کو چکھائیں.اور تمہیں حضرت ابراہیم او حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب میں جگہ دیں.اور یقینا ذاتی خوشی کے بعد یہ دوسری خوشی اتنی عظیم الشان ہوئی کہ اس کا نستور کر کے بھی دل خوشی سے گزری اچھنے لگتا ہے.کیونکہ یہ وہ خوشی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نصیب ہوئی تھی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نصیب ہوئی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نصیب ہوئی تھی.جب پہلے ہم اپنے لئے ایک عیا.پیدا کر لیتے ہیں تو خدا تعالے ہمارے لئے وہ دوسری عید پیدا کرتا ہے جو ابراہیمی عید ہے.محمدی عہد ہے اور احمدی عید ہے.پس پہلے عید الفطر پیدا کرو.اور اس سے پہلے قومی کامیابی کے دان کا انتظار کرنا نہیں ایسا ہی احمق بناتا ہے جیسے وہ احمق ہے جو عید الاضحیہ پہلے کرنا چاہیے اور عید الفطر کا بعد میں انتظار کرے.تم جانتے ہو کہ ایسے شخص کے لئے نہ عید الاضحیہ آئے گی اور نہ عید الفطر وہ عید الاضحیہ کو پہلے حاصل نہیں کرے گا بلکہ دونوں عیدوں سے محروم رہے گا مگر جو پہلے عید الفطر کرے گا.اسے عید الاضحیہ بھی نصیب ہوگی اور وہ ایک کی جگہ دو عیدیں دیکھے گا.پس آؤ اور اپنے دلوں میں پختہ ارادہ کر لو.کہ پہلے اپنی ذاتی قربانیوں کے ساتھ تم اپنے لئے عید پیدا کروگے تاکہ اس کے بعد تمہارا خدا آسمان سے تمہارے لئے ابر اسیمی عید اتارے محمدی عید اُتارے اور احمدی عید انارے - اللهم آمین." والفضل ۱۷ جولائی ۱۹۵ء صوتا

Page 251

نے سنن کبری (کتاب الجمعة، جلد ۳ ۲۳۲۵ شه نزیہ انجانی و منتخب النفاس مصنفہ علامہ عبد الرحمن عصفوری جز اول عنا ہے.صحیح مسلم کتاب الصيام باب تحريم صوم ايام التشريق - عز ه صیح بخاری کتاب لانبیاء باب قول الله عز وجل لَقَدْ كَانَ فِي بُيُوسُكَ وَاخْوَتِدايَاتٌ - تشائين - صحیح بخاری کتاب المناقب باب قول الله تعا نے وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبا الي تاخر صحیح مسلم النتاب الفضائل باب خيار الناس.ت محمد بن یزید الدمشقی کتاب تحفته الجالس و نز بنته المجالس مؤلفه علامه جمال العرين السیوطی ۱۹۳۳ تا ۱۹ ش - الطور ۱۲:۵۱ تفسیر در منشور ملا شته - متر زنان جان می نام نواب صاحب معنی الله عنه د شتاء - شاء اللہ تعالی نے آپ کو بڑی عورت حضر اور عظمت بخشی ہے کیونکہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مہری ابوت کا فخر حاصل ہے آپ محکمہ اندار میں دور سر تھے ملازمت سے ریٹائر ہونے پر دہلی سے ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان میں رہائش اختیار کرلی اور آخر دم تک سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مثالی زنگ میں خدمات بجا لاتے رہے.آپ نہایت ہی نیک دل صاف گو، پاکیزه طبیعت، صوفی منش اور خدارسیدہ بزرگ تھے.

Page 252

۲۴۴ ۲۸ فرموده ۲۰ جنوری ۱۹۳۰ بمقام عیدگاه قاریا) آج کی عید جو عید الا ضحیہ کہلاتی ہے یعنی وہ عید جو قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.حج کے دوسرے دن اور اس کے ساتھ وابستہ وپیوستہ ہو کہ آتی ہے لیے اس تقریب کی وجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ قربانی بیان کی جاتی ہے.جو انہوں نے اپنے بیٹے کی خدا کے حضور تیشیں کی پس یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یادگار ہے کہ انہوں نے اللہ تعالے کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا.بیٹوں کی ظاہری رنگ میں قربانی تو اسلام نے ناجائزنہ بتائی ہے.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی قربانی کرنے کا حکم دینے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اللہ تعالے دنیا میں اس اصل کوت کم کرنا چاہتا تھا کہ آئندہ کے لئے بیٹوں کی ظاہری قربانی ممنوع قرار دی جاتی ہے ور نہ ہو سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب کی جو تعبیر تھی اس مضمون کو اللہ تعالے اس صورت میں نہ دیکھاتا بلکہ کسی اور صورت میں دکھا دیتا کیو نکہ آخر اللہ تعالے کے حضوران کے بیٹے کی ظاہری قربانی مقصود نہیں تھی.حضرت اسمعیل علیہ السلام نبی ہونے والے تھے ! جس شخص کے لئے نبوت مقدر تھی.اس کے متعلق یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالے اپنے نبی سے کہتا کہ اسے ذبح کر دو.پس خدا تعالے کا شروع سے ہی یہ مقصد نہ تھا کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کیا جائے بلکہ یہ رویا جو حضرت ابراہیم علیہ سلام کو دکھایا گیا تعبیر طلب تھا اور جبکہ اللہ تعالے کا مفہوم کچھ اور تھا اور جب کہ کر دیا بھی تعبیر طلب تھا تو سوال ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالے نے اس امر کو کسی اور صورت میں کیوں نہ بیان کر دیا.خواب آئندہ رونما ہونے والے واقعات کی ایک تصویر ہوتی ہے جیسے مصور تصویریں کھینچتے ہیں ویسے ہی اللہ تعالے خوابوں میں واقعات کی تصویر کھینچ کر اپنے مفہوم بیان کر دیتا ہے.پھر جبکہ اللہ تعالے اس مفہوم کو کسی اور رنگ میں بھی بیان کر سکتا تھا تو سوال ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالے نے اس رنگ میں یہ منظوم کیوں بیان کیا ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس سے پہلے لوگ اپنے بیٹوں کی قربانی کیا کرتے تھے.اور اللہ تعالے چاہتا تھا کہ نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ یہ خبر دے کہ وہ آپ سے اپنے بیٹے کی قربانی کہ انا چاہتا ہے بلکہ اس امرتے بھی انہیں مطلع کرے کہ ابراہیمی دین میں انسانوں کی ظاہری قربانی جس کا ان کی قوم میں رواج تھا.آئندہ جائزہ نہیں ہوگی.

Page 253

۲۴۵ پس خدا تعالے نے یہ خواب دیکھا کہ دو اہم امر بیان فرما دیئے.یہ بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا بیٹا خدا تعالے کی راہ میں قربان کرنا ہو گا.اور یہ بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ظاہری رنگ میں بیٹے کی قربانی کرنا چاہیں گے تو میں انہیں منع کر دوں گا اور کہوں گا کہ انسان کی اس رنگ میں قربانی میں نہیں چاہتا.اسی حکمت کے ماتحت خدا تعالے نے تصویری زبان میں انہیں یہ تمام نظارہ دکھایا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان بھی ہو گیا اور وہ شرح صدر سے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کا بھی امتحان ہو گیا اور وہ بھی خوشی سے ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے.اور دوسری طرف جیب وہ اپنے بیٹے کو قربان کرنے گئے تو اللہ تعالے نے انہیں بتادیا کہ میرا اس قربانی کے حکم سے یہ مفہوم نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا.انسانوں کی ظاہری قربانی میں پسند نہیں کرتا اور یہ آئندہ کے لئے ممنوع قرار دی جاتی ہے.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنی نوع انسان پر یہ عظیم الشان احسان کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے ارادہ کے ساتھ ہی آئندہ انسانوں کی قربانیوں کو روک کر انہیں ہلاکت سے بچا لیا.اصلی قربانی کیا تھی ؟ وہ جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے یہ بھی کہ اللہ تعالے چاہتا تھا.حضرت ابراہیم علیہ سلام اپنے بیٹے حضرت آجیل علیہ اسلام کو مکہ میں چھوڑ آئیں تا کہ وہ بیت اللہ کی حفاظت اور دین ابراہیمی کی خدمت کریں ہے اور ان کے ذریعہ وہ اولاد پیدا ہو جس کے ہاتھوں خدا تعالئے اپنے دین کا آخری دور قائم کرنا چاہتا تھا نے میں حقیقت حضرت اسمعیل علیہ السلام کو جس دن بہیت اللہ کے پاس چھوڑا گیا اس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا اعلان کیا گیا.کیونکہ بہت اللہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے زمانہ میں ہی اللہ تعالے کے ذکر کا آخری گھر ہونا تھا.اور اس کی تیاری صرف حضرت اسمعیل علیہ السلام کے زمانہ سے کی گئی تھی جیسے یہاں اب عید کا خطبہ ہونے لگا ہے مگر بعض دوست رات سے ہی یہاں آگئے تھے جنہوں نے صفائیاں کیں.چٹائیاں سمجھائیں اور دیگر انتظامات کئے.اور پھر صبح سے وائرلیس والے آگئے جنہوں نے بیٹریاں تیار کیں بجلی کی تاریں درست کہیں اور اسی طرح کے اور انتظامات کئے تاکہ جب آپ لوگ آئیں تو آسانی سے بیٹھ کر خطبہ سُن سکیں.تو جب کوئی بڑا کام ہونے لگتا ہے تو پہلے سے اس کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چونکہ مکہ میں طور مقدر تھا.اس کے متعلق اللہ تعالے نے دو ہزار سال پہلے حضرت اسمعیل علیہ اسلام کے ذریعہ سے تیاری شروع کر دی.یہ کتنا اہم مقام ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل ہے کہ دو ہزار سال پہلے اللہ تعا لئے مضر ابراہیم اور حضرت

Page 254

۲۴۶ سمعیل علیہما السلام کو حکم دیتا ہے کہ میرے اس گھر کو صاف کرو کیونکہ یہاں میرا وہ بنی آنیوالی جس کے نور سے ساری دنیا منور ہو گی.مقرا بَيْتِيَ لِلصَّانِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرع السجود للہ میرے اس گھر کو ان لوگوں کے لئے تیار کرو جو طواف کرنے کے لئے یہاں آئیں گے جو اعتکاف بیٹھنے کے لئے یہاں آئیں گے اور جو یہاں آکر رکوع اور سجدہ کریں گے.مگر حضرت ہے.سمعیل علیہ السلام کے زمانہ میں اور اس کے بعد کتنے لوگ تھے جو اس نیت کے ساتھ وہاں آیا کرے ہے.طواف تو لوگ کرتے ہی تھے مگر کتنے لوگ تھے جو وہاں اعتکاف بیٹھتے تھے اور اپنی عمریں خدا تا ہے کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے پہلے سینکڑوں سال کی تاریخ محفوظ ہے مگر وہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس وقت وہاں بت پرستی سی بت پرستی تھی لیے نہ خدا کے لئے کوئی اعتکاف بیٹھنے والا تھا.نہ خدا کے لئے وہاں رکوع ہوتا تھا اور نہ خدا کے لئے وہاں سجدہ ہوتا تھا.بلکہ جو لوگ خدا تعالے کے نام کو بلند کرتے انہیں مارا ور پیٹا جاتا تھا نہیں یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں کہ میرے اس گھر کو تیار کرو تا کہ طواف کرنے والے اعتکاف بیٹھنے والے اور رکوع و سجود کرنے والے یہاں آئیں.یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہونے والی تھیں اور حضرت آنفیل علیہ سلام کو اسی تیاری کے لئے مقرر کیا گیا تھا.باقی رہا یہ سوال کہ حضرت آمعیل علیہ السلام نے کیا کام کیا.اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ظاہری رنگ میں کعبہ کی تعمیر کی.اس طرح انہی کے ذریعہ اللہ تعالے نے زمرہ نکلوایا.بعد میں جو خرابیاں نظر آتی ہیں ان کی وجہ سے حضرت آجیل علیہ السلام پر اعتراض نہیں ہوسکتا اصل غور کرنے والی بات یہ ہے کہ گو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے جن لوگوں کو اپنے بعد تھوڑا ان میں سے بہت سے مشرک اور بت پرست ہو گئے مگر کیا دنیا کا کوئی شخص اس امر سے انکار کر سکتا ہے کہ دین کو پھیلانے کی قابلیت انہی کے اندر تھی.اہل مکہ نے بے شک اسلام کی مخالفت کی.قریشی نے بے شک رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کی اور شدید مخالفت کی بلکہ ابو جبل کو پیش کرکے کوئی شخص کہ سکتا ہے کہ جس قوم میں ابو جبل جیسے لوگ پیدا ہونے والے تھے کیا اس کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ ظَهَرَا بَيْتِي لِلمَّا تُفِيْنَ والعالمين والرع السُّجُود - کیونکہ جب خدا نے حضرت ابراہیم اور حضرت الفیل علیهما السلام سے کہا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں.اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے دالوں کے لئے تیار کرو تو اس کے معنے یہی تھے کہ ان کی آئندہ نسلیں یہ کام کریں گی ہیں یہ وہ تو ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رہ سکتے تھے.پس ایک کہنے والا کہ سکتا ہے کہ کیا جس قوم میں ابو جہل جیسے لوگ پیدا ہونے تھے ، اس

Page 255

۲۴۷ قوم کے متعلق یہ پیشگوئی ہو سکتی ہے؟ مگر میں اسے کہوں گا کہ اسے نادان تجھے ابو تبل تو نظر آگیا جس کا کام ختم ہو گیا.مگر تجھے ابو بکر نظر نہ آیا جس کا کام آجنگ جاری ہے.تجھے عقبہ در شیبہ تو نظر آگئے جو پیدا ہو کر فنا ہو گئے مگر تجھے عمر، عثمان اور علی نظر نہ آئے جن کو دائمی حیات بخشی گئی ہے، اور جن کے کارنات قیامت تک دنیا سے محو نہیں ہو سکتے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جس جوش اور جس اخلاص کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلامہ کی اس اولا دینے دین کی خدمت کی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آئی.پس بے شک وہ لوگ بظا ہر خراب ہو گئے مگر وہ خرابی ایسی ہی تھی جیسے اچھے کپڑے پر کوئی ایسی چیز گر جاتی ہے جس کا نشان نہیں پڑتا.مثلاً کوسٹ پر خشک مٹی جا پڑے تو پریش سے اس کو جھاڑ دیتے ہیں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مکہ والے بظا ہر خراب نظر آئے تھے مگر ان کی یہ خرابی ایسی ہی تھی جیسے کوٹ پر مٹی جا پڑے یا وہ میرا تو تھے مگر تراشا ہوا ہمیں انہیں تھے.جب محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ اور آپ کی قوت قدسیہ کی برکت سے وہ تراشے گئے تو وہی میرے دنیا کی بہترین متاع شمار ہونے لگے.جب تک - دنے کے ذرات مٹی میں سے جوئے ہوتے ہیں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی.مگر جب کسی ماہر کی نگاہ ان پر پڑتی ہے تو ہ ان ذرات کو مٹی سے علیحدہ کر لیتا ہے.اور پھر وہی ذرات بہت بڑی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں.اسی طرح میرا جب تک پتھر میں رہتا ہے اس کی قدر و قیمت کا کسی کو احساس نہیں ہوتا.مگر جب کوئی ماہر اسے کاٹ کہ میرے کو اپنی اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس کی قیمت لاکھوں، کروڑوں روپیہ تک پہنچ جاتی ہے.تو شد نہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں خرابیاں پیدا ہوئیں.مگر جب محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں صفائی پیدا کی تو انہی میں ابو بکر، عمر، عثمان اور علی جیسے لوگ پیدا ہو گئے اور صرف ابو بکر، عمر، عثمان اور علی پیدا ہوئے بلکہ اور ہزاروں لوگ پیدا ہوئے.ان میں طلوعری جیسے لوگ پیدا ہوئے ، ان میں زیرہ جیسے لوگ پیدا ہوئے ، ان میں عبد الرحمن بن عوف جیسے لوگ پیدا ہوئے.ان میں ابو عبیدہ جیسے لوگ پیدا ہوئے ، ان میں سفر جیسے لوگ پیدا ہوئے.ان میں عثمان بن مظعون جیسے لوگ پیدا ہوئے.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نام کو روشن کرنے کے لئے اپنے جذبات کی انتہائی قربانی کی یہاں تک کہ ان میں سے ہر شخص زندہ ابراہیم بن گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد میں سے تھے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ آپ ابو ابراہیم بھی تھے کیا اور رسول کریم صلی الہ علیکم

Page 256

۲۴۸ کی قوت قدسیہ سے آپ کی روحانی اولاد میں ہزاروں ابراہیم پیدا ہوئے.میں نے ایک دفعہ رویا دیکھا کہ میں بہت الدعائیں بیٹھا ہوں کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا.اور اس نے کہا میں تم کو ابراہیم بتاؤں میں نے کہا ئیں ابراہیم کو جانتا ہوں.وہ کہنے لگا ایک ابراہیم نہیں کئی ابراہیم ہوتے ہیں.چنانچہ اس کے بعد اس نے کئی ابراہیم مجھے بتانے شروع کئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت اس نے کہا کہ وہ بھی ابراہیم تھے.پھر اس نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا کہ وہ بھی ابراہیم تھے اور آپ کا نام اس نے ابراہیم ادھم بنایا.اسی طرح اور بیسیوں ابراہیم اس نے مجھ پر ظاہر کئے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہی نہ تھے بلکہ روحانی طور پر آپ ابراہیموں کے باپ بھی تھے.اور آپ کی روحانی اولاد میں سے ہزاروں ابراہیم ہوئے.مجھے ہی فرشتہ نے بیسیوں کے قریب ابراہیم بنا دیتے تھے اور امت محمدیہ میں تو آجتک ہزاروں ابراہیم گذرے ہوں گے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اسلام ابراہیمیوں کا باپ بھی قرار دیتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالے کے لئے اپنی اولادوں، اپنی جائدادوں ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو اس رنگ میں قربان کیا کہ ان میں اور ابراہیم میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے ان کے لڑکے عبدالرحمن بھی موجود تھے یہ بعد میں مسلمان ہوئے ہیں پہلے کچھ مدت تک مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے اور بدر یا اُحد کی جنگ میں کفار کی طرف سے لڑے تھے.دورانِ گفت گو وہ حضرت ابوبیہ رضی اللہ تعالئے منہ سے کہنے لگے.ابا جان ! اس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گزرے تھے تو میں ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر کھڑا تھا.اور میں اگر چاہتا تو آپ کو مار دیا کیونکہ اس وقت میری تلوار آپ تک پہنچ سکتی تھی مگر میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا.اور کہا اپنے باپ کو کیوں ماروں.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا.خدا کی قسم اگر میری نظر تھے پر پڑھاتی تو میں تجھے ضرور مار ڈالتا.میں ابراہیمی مقام ہے ابر اسی کو بھی خدا نے کہا.قربانی کہ اور وہ قربانی کے لئے تیار ہو گیا.اور یہاں بھی خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا.اگر تمہیں اپنے ماں باپ اپنے بیٹے.اپنے رشتہ دار اپنے مکان اور اپنے اموال خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیارے ہیں تو تمہیں میری طرف سے کوئی انعام نہیں مل سکتا بلکہ تم پر میرا عذاب نازل ہوگا، ان لوگوں نے خدا تعالے کی اس آواز کوشنا.اور پھر جیسا کہ خدا نے ان سے مطالبہ کیا تھا.انہوں نے اپنے ماں باپ کو قربان کر دیا.انہوں نے اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا.انہوں نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو قربان کر دیا.

Page 257

۲۴۹ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی دیکھ لو.انہوں نے جب اپنے بیٹے کی بات سنی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح فورا یہ جواب دیا کہ اگر میری نظر تھے پر پڑ جاتی تو میں تجھے ضرور مار ڈالتا.یہ تیری خوش قسمتی تھی کہ تو بچ گیا.ان کا بیٹا اس وقت کا فر تھا اور اس کی نگاہ میں اپنے باپ کی بڑی قدر تھی.چنانچہ باوجود دینی مخالفت کے اس نے نہ چاہا کہ اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے، مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو ماننے والے تھے ان کے اندر خدا تعالے نے وہ ایمان پیدا کر دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے قربان کر دینے کے لئے تیار ہو جاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام ہی ہماری ماں ہے.اسلام ہی ہمارا باپ ہے اور اسلام کی ہمارا سب کچھ ہے.بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو صرف بیٹے کی قربانی اصل قربانی نہیں کیونکہ بسا اوقات لوگ ماں باپ کے لئے اپنے بیٹوں کو قربان کر دیتے ہیں.بے شک اولاد کی محبت کا طبعی جذبہ ہر انسان کے دل میں موجود ہوتا ہے.مگر بعض لوگ ان طبیعی جذبات سے باں ہو کر اخلاقی زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں اور اخلاقی دنیا میں ماں باپ کا درجہ بڑا ہوتا ہے.طبعی اور حیوانی دنیا میں بے شک بیٹے کا درجہ بڑا ہوتا ہے لیکن اخلاقی دنیا میں ماں باپ کا درجہ بڑا ہوتا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے اللہ تعالے کے دین کی خاطر ماں باپ کی ایسے ایسے رنگ میں قربانی کی ہے کہ انسان ان واقعات کو پڑھ کر بغیر اس کے کہ اس کے جذبات قابو سے نکل جائیں نہیں رہ سکتا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے ایک نوجوان جو بارہ تیرہ سال کا تھا اسلام میں داخل ہوا.اس کی ماں نے اسے تکلیفیں دیں، برتن الگ کر دیئے، کھانا الگ کر دیا اور گھر کے افراد سے کہہ دیا کہ کوئی اسے چھوٹے نہیں اور اس کی چیزوں کو ہاتھ تک نہ لگائے.اس کے علاوہ اس پر سختی بھی کی جاتی اور اسے مارا پیٹا جاتا.اور سالہا سال ہی حالت رہی یہاں تک کہ ہجرت حبشہ کا زمانہ آ گیا اور وہ مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلا گیا.وہاں ایک لمبا عرصہ رہنے کے بعد وہ پھر مکہ میں واپس آیا اور کئی سال کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے گھر گیا.اس نے سمجھا کہ اب ان کا غصہ دور ہو چکا ہوگا اور ماں کی مامتا اور باپ کی محبت جوش میں آئی ہوئی ہوگی.آجکل سفر کی سہوت میں نہیں اور ریل گاڑیوں کی آمد و رفت اور ڈاک کی وجہ سے بعد مسافت کا زیادہ احسا کس نہیں ہوتا.مگر آج بھی جن کے بچے لاہور یا دہلی میں عید منا رہے ہیں ان کی ماؤں کے دلوں میں بار بار یہ خیال آتا ہو گا کہ نہ معلوم ہمارا بچہ کس حال میں ہے.لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ جب کوئی دور چلا جاتا تو سالہا سال تک اس کا پتہ نہیں چلتا تھا.ایسی صورت میں ماں باپ کی جو قلبی کیفیات ہوتی ہوں گی ان کا بآسانی اندازہ

Page 258

۲۵۰ لگایا جاسکتا ہے.وہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں جب گھر میں داخل ہوا تو میری ماں بقیاب ہو کہ مجھ سے چمٹ گئی اور رونے لگی.اس نوجوان کو بھی رونا آگیا اور اس نے سمجھا کہ شاید میں اب اس گھر میں رہ سکوں گا.لیکن اس کی ماں بھی کفر میں بڑی پختہ تھی اور وہ اگر اسلام پر مضبوطی سے قائم تھا تو اس کی ماں کیفر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھی.تھوڑی دیر کے بعد اس کی ماں اسے کہنے لگی کہ بچے اب تو تجھے سمجھ آگئی ہو گی کہ تو نے کیسا دین اختیار کیا ہے.دیکھ تجھے ہاں باپ چھوڑنے پڑنے اپنے عزیز اور رشتہ دار چھوڑنے پڑے اور پھر کیسی کیسی تکلیفیں ہیں جو تو نے اُٹھائیں.اب بھی تو ہم میں آکریل جا.اور یا د رکھ کہ ہم اس صورت میں تجھے کو اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں.تو پھر ہم میں شامل ہو جائے اور اسلام کو ترک کر دے.اس نے سمجھا کہ اثر ڈالنے کا یہی موقعہ ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے مگر وہ نوجوان بھی کم المیان الانہ میں تھا.یہ سنکر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے کہا ماں اگر تمہاری یہی شرط ہے کہ میں حضرت محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ دوں تو یہ شرط ہیں کبھی تسلیم نہیں کر سکتا.یہ میری تم سے آخری ملاقات ہے اس کے بعد میں اب اس گھر میں نہیں آؤں گا چنانچہ پھر عمر بھر اس صحابی نے اپنی ماں کی شکل نہیں دیکھی سنیے به قربانی اگر ہم غور کریں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے کسی طرح کم نہیں بلکہ اخلاقی نقطہ نگاہ سے جب اس قربانی کو دیکھا جائے تو یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے.لیکن یہ نہیں کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درجہ اس صحابی سے کم ہے.ئیں جانتا ہوں کہ اگر اللہ تعالے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایسی ہی قربانی کا مطالبہ کرتا تو وہ بھی ضرور کرتے.میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ابراہیمی صفت لوگ حضرت محمد صلے اللہ علیہ آلہ وسلم کی امت میں پیدا ہوئے جو ابراہیم کی طرح اس مقام پر کھڑے ہوئے کہ جب خدا نے انہیں کہا کہ آسیم - ہماری بات مان لو تو انہوں نے کہا اسسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ حضور کیا کہتے ہیں ہم تو پہلے سے قربانی کے لئے تیار کھڑے ہیں.تو آسلَمْتُ لِرَبِّ العلمين له کنے والے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی اولاد میں ہزاروں ہوئے.جنھوں نے دنیا کے سامنے پھر وہی نظارہ پیش کر دیا.جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا.اور جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تم سید الانبیاء لیکہ ابو الانبیاء کہتے ہیں تو اس کے معنی ہی ہیں کہ آپ کی روحانیت کے اثر کے نیچے ہر نبی کا جلوہ آپ کی اُمت نے دیکھا دیا.کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان سے کر دنیا میں ظاہر ہوا.کوئی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی شان سے کردیا میں ظاہر ہوا.کوئی حضرت اسحاق علیہ اسلام کی شان سے گر دنیا میں ظاہر ہوا.اور کوئی معقول السلام

Page 259

۲۵۱ کی شان نے کہ دنیا میں ظاہر ہوا.اسی طرح کسی نے نوقع کا جلوہ دکھایا، کسی نے موسی کا جلوہ دکھایا کسی نے صالح کا جلوہ دکھایا.کسی نے شعیب کا جلوہ دکھایا، کسی نے زکریا کا جلوہ دکھایا اور کسی نے مینے کا جلوہ دکھایا.غرض ہر رنگ کے لوگ آپ کی جماعت میں ہوئے.اور ہرنی کی شان کا حلوہ دکھانے والے لوگ خدا تعالے نے آپ کی امت میں پیدا کر دیئے تو اللہ تعالٰی نے اس دن جب حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ میں بھیجا تو در حقیقت یہ تیاری تھی رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کی.خدا تعالے نے انہیں کہا کہ تم ہمارا گھر تیار کرو.کیونکہ ہمارا محبوب اور ہمارا آخری شریعی رسول دنیا میں نازل ہونے والا ہے.تم آج سے ہی ہمارے محبوب کی آمد کی تیاری میں مشفونی ہو جاؤ.اور آج سے ہی ایسی اولاد پیدا کر و جویست محبوب کو ابو بکر دے ، ہو میرے محبوب کو غمر دے ، تو میرے محبوب کو عثمان دے ، جو میرے محبوب کو علیٰ رہے.جو میرے محبوب کو طلحہ ، نہ بیری حمزہ اور حیات دے اور اسی طرح کے اور سینکڑوں صحابہ اس کے حضور بطور نذر پیش کرے یہی مفہوم تھا.اس حکم کا وہ نہ ظاہری معنوں میں تو نہ والوں نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے بعد دین کا کوئی اچھا مونہ نہیں دکھایا.ہاں چونکہ اس پیشگوئی کا ظہور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے شروع ہونا تھا ، اس لئے خدا تعالے نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ میں لاکر رکھا تا کہ وہ ایسی اولاد تیار کریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کی خدمت کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالئے کے حبلال کے اظہار کے لئے وقت کر دے.میں نے خطبہ کے شروع میں یہ ذکر کیا تھا کہ یہ عید جونج کے قریب رکھی گئی ہے.اس میں فوقیت اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالے کا قرب جب کسی قوم کو نصیب ہو جائے تو اس کا فونت ہے کہ وہ اپنی اولاد کی قربانی کرے.حج کیا ہے؟ خدا تعالے کی رویت اور اس کا دیدار.چنانچہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے متعلق دیکھے کہ اس نے جج کیا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کا مقصد پورا ہو جائے گا ہے اور انسان کی زندگی کا بڑا مقصد خدا تعالے کی عبادت اور اس کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے.جیسے وہ فرماتا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُ وَنَ کہ میں نے بنی نوع انسان کو اپنا مقرب بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.اور حج اس بات کی علامت ہے کہ جس غرض کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ اس نے پوری کرلی اور وہ غرض جیسا کہ میں بنا چکا ہوں لقاء الہی ہے.پس حج کے ساتھ عید الاضحیہ کی تقریب رکھ کہ خدا تعالے نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب کسی قوم کو نقار الہی نصیب ہو جائے تو اس کا دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی قربانی

Page 260

۲۵۲ کرے تا کہ خدا تعالے کی بقاء دنیا سے مٹ نہ جائے.لقاء النبی ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے اور دنیا میں قیمتی چیزوں کے متعلق یہ دستور ہے کہ ان کی حفاظت کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے چنانچہ دیکھ لو جب تمہارے پاس کوئی اچھی چیز ہوتی ہے تو تم اس کے متعلق کیا کرتے ہو تم ہی کرتے ہو کہ اس کوحفاظت سے رکھنے کے لئے برتن تیار کرتے ہو جن لوگوں کے گھر گائے یا بھینس ہوتی ہے ان کے متعلق بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب بھینس بچہ جننے والی ہو تو وہ بچہ جننے سے پہلے ہی برتن تیار کرنے شروع کر دیتے ہیں.کوئی برتن دودھ دوہنے کے لئے تیار کرتے ہیں کوئی دودھ گرم کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں کوئی دودھ جمانے کے لئے تیار کرتے ہیں، کوئی سنتی بنانے کے لئے تیار کرتے ہیں اور کوئی مکن اور گھی رکھنے کے لئے تیار کرتے ہیں تاکہ گائے یا بھینس جب دودھ دے تو اس وقت وقت پیش نہ آئے.اسی طرح اگر کسی کو لقاء الہی میسر آتی ہے.تو اس کا بھی فرض ہوتا ہے.کہ وہ لقاء الہی کو محفوظ رکھنے کے لئے برتن تیار کرے اور نقاد الہی کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ اولاد کی قربانی ہے جب کوئی شخص اللہ تعالے کے دین کے لئے اپنی اولاد کی قربانی کرتا ہے تو وہ عرفان کا دودھ اپنی ایک نسل کے لئے محفوظ کر دیا ہے اور جب اس کی نسل کو عرفان ملتا ہے اور وہ بھی اپنی اولاد کی قربانی کرتی ہے تو عرفان کا دودھ اگلی نسل میں منتقل ہو جاتا ہے.اسی طرح جب تک لوگ اپنی اولاد کی قربانی کرتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالے کا عرفان ان کے دلوں میں محفوظ رہتا ہے.پس اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں یہ نسخہ بتایا ہے کہ جب تمہیں خدا ہے اور اس کا قرب حاصل ہو جائے تو اس رحمت اور برکت کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ تم اللہ تعالے کے لئے اپنی اولادوں کو قربان کر دو تب اس کی رحمت کا دودھ بعد کی نسل کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے.اور اگر اللہ تعالیٰ اس اولاد کو بھی عقل دیتا ہے اور وہ بھی اپنی اولاد کی تربانی پیش کر دیتا ہے تو اس سے اگلی نسل میں بھی یہ رحمت اور فضل کا دودھ محفوظ ہو جاتا ہے.غرض جب تک نسلیں اپنی اولاد کی قربانی کرتی رہیں گی ، دین اور عرفان ان میں محفوظ رہے گا.بیہ اولاد کی قربانی دو طرح ہوتی ہے ظاہری رنگ میں تو اس طرح کہ اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کی جائے.ان میں دین کی محبت اور اس سے رغبت پیدا کی جائے اور انہ میں علم دین سے واقف کیا جائے.مگر اس کے علاوہ اولاد کی ایک خاص قربانی بھی ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ انسان اپنی اولاد کو اللہ تعالے کے دین کی خدمت کیلئے وقف کر دے.تا کہ جب تک وہ زندہ رہے اسلام کی خدمت کرتی رہے.قربانی کے یہ دونوں رنگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں.اور اس وقت ایک ہماری جماعت ہی ایسی ہے جس میں خدا تعالے نے وقوف بندگی

Page 261

۲۵۳ کے سامان کئے ہوئے ہیں.اور ایک ہماری جماعت بی ایسی ہے جسے اولاد کی اعلیٰ تربیت کے سامان میستر ہیں مگر کتنے ہیں جو ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.عید کے موقعہ پر خوشی منانے کے لئے تو بعض لوگ سب سے آگے آجاتے ہیں.لیکن اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح خدا تعالے کے دین کے لئے اپنی اولاد کی قربانی نہیں کرتے اور اسے اسلام کی خدمت کے لئے وقف نہیں کر دیتے تو ان کا کیا حق ہے کہ وہ اس خوشی میں شامل ہوں جب کہ وہ وہ کام نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوشی میں شامل ہونے کا اسی کو حق ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی قربانی بھی کرتا ہے.بے شک یہ خوشی منانے کا ابو نگر کو حق حاصل تھا جس نے خدا کے لئے ہرقسم کی قربانی میں حصہ لیا.بے شک یہ خوشی منانے کا عمران، عثمان اور علی کو حق حاصل تھا جنہوں نے ہر ختم کی قربانی میں حصہ لیا.اور بیشک یہ خوشی منانے کا طلحہ زبیر عبد الرحمن بن عوف، حمزہ، عباس اور عثمان بن مظعون کو حق قتل تھا جنہوں نے اپنی جانوں، اپنے مالوں اپنی اولادوں اپنے رشتہ داروں اور اپنی عزیز سے یز چیزوں کو خدا کے لئے قربان کر دیا.مگر دوسروں کا کیا حق ہے کہ وہ اس خوشی میں شریک ہوں.ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں نظام الدین صاحب اور انبیاء جن کی طرف خواجہ حسن نظامی صاحب بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ایک دفعہ اپنے مریدوں کے ساتھ بازار میں سے گذر رہے تھے کہ انہیں ایک خوبصورت لڑکا نظر آیا جسے آگے بڑھ کر انہوں نے چوم لیا.یہ دیکھ کر ان کے تمام مریدہ ایک ایک کر کے آگے بڑھے اور انہوں نے اس بچے کو چومنا شروع کر دیا.مگر ان کے ایک مرید جو بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے.خاموش کھڑے رہنے اور انہوں نے اس بچے کو نہ چوہا.یہ دیکھ کر باقی سب نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیں اور کہا کہ پیر صاحب نے اس بچہ کو چوما مگر اس نے نہیں چوما.معلوم ہوتا ہے اس کے اخلاص میں کوئی نقص ہے حالانکہ اسے چاہئے تھا یہ پیر صاحب کی نقل کرتا.اور جس طرح پیر صاحب نے اسے چوما تھا اسی طرح یہ بھی چومتا اس نے ان باتوں کو سُنا مگر کوئی جواب نہ دیا اور حضرت نظام الدین صاحب اولیاء پھر آگے چل پڑے.چلتے چلتے انہوں نے ایک بھٹیاری کو دیکھا کہ وہ دانے بھون رہی ہے اور بھٹی میں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں حضرت نظام الدین صاحب اولیا، آگے بڑھے اور انہوں نے آگ کے ان شعلوں کو چوم لیا.یہ دیکھکر اور تو کسی مرید نے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کی مگر وہی مرید مجس نے بچہ کو نہیں چھوٹا تھا آگے بڑھا اور اس نے بھی شعلے کو چوم لیا.پھر اس نے باقیوں سے کہا کہ اب شعلے کو کیوں نہیں چومتے ؟ ہمت ہے تو آگے بڑھو اور اسے چومو مناسب پیچھے ہٹ گئے اور کسی نے ان شعلوں

Page 262

۳۵۴ کو چومنے کی جرات نہ کی.ان کو تو خدا نے محفوظ رکھا.اور باوجود شعلوں کو بوسہ دینے کے نہ ان کے سر کے بال جملے اور نہ داڑھی کا کوئی بال جدا.لیکن اگر دوسرے بھی چومتے ، تو انہیں خطرہ تھا کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال جل جائیں گے اور وہ کنڈمنڈ ہو کر گھر پہنچیں گے.غرض جب کوئی بھی آگے نہ بڑھا تو ده م بریس نے شعلوں کو چوما تھا کہنے لگا.میں نے تمہارے اعتراض کو سن لیا تھا مگر بات یہ ہے کہ تم حقیقت تک نہیں پہنچے تھے تم نے سمجھا کہ پر صاحب نے اس لڑکے کو چوما ہے حالانکہ پیر صاحب نے اس لڑکے کو نہیں چھوٹا.اس کے اندر انہیں کوئی کر دھانی قابلیت نظر آئی ہوگی.جس نے کسی آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونا ہوگا اور اسی وجہ سے انہوں نے اسے چوما.مگر مجھے اس میں وہ انہی جلوہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے پیر صاحب کی نقل نہ کی اور اس لڑکے کو نہ چوما.پھر انہیں دہی جلوہ آگ میں نظر آیا اور مجھے بھی اس آگ میں خدا تعالے کا حلوہ نظر آگیا.پس انہوں نے آگ کو چوما اور میں نے بھی آگ کو چوما لیکن میرا چو منا ایک حقیقت پر مبنی ہے اور تم نے جو اس بچہ کو جوما تو محض ایک نقل تھی.تو در حقیقت خوشی میں شامل ہونا اسی کو نصیب ہوتا ہے.جو آگ کے شعلوں کو چومنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور اسی کا حق ہے کہ وہ عید منائے کیونکہ جب تک کوئی شخص آگ کے شعلوں میں سے نہیں گذرتا اس وقت تک وہ حقیقی خوشی بھی نہیں دیکھ سکتا.پس حضرت ابراہیم علیہ سلام کی طرح جس نے اپنے بیٹے کی قربانی کر دی خواہ تعلیم و تربیت کے رنگ میں اور خواہ وقف زندگی کی صورت میں اُسے حق ہے کہ وہ اس عید کی خوشی میں شریک ہو.اور اگر وہ اپنی اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف نہیں کرتا اور نہ ان کی اس زنگ میں تربیت کرتا ہے جس رنگ میں اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے تو یقینا اس کا اس عید میں شامل ہونے کا کوئی حق نہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق لوگوں کو جب جہاد پر جانے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بہانے بنا بنا کر پیچھے بیٹھے رہتے ہیں یہ مگر مسلمان جب فتح پا کر اور مال غنیمت لے کر بکریوں اور اونٹوں کے گلتے ہانکتے ہوئے واپس آتے ہیں تو وہ منافق بھی دوڑ کر ان کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں.ہمیں بھی مالی نقیمت میں سے حصہ دو اور تمہیں بھی ان گلوں اور ریور ون کی تقسیم میں شریک کرو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب اس قسم کے منافق تمہارے پاس پہنچیں تو تم انہیں دھتکار دو اور کہو کہ دور ہو جاؤ ہماری نظروں سے.جب جہاد میں شامل نہیں ہوئے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم مال غنیمت میں شامل ہو.اسی طرح جس نے حضرت ابراہیم کے جہاد میں شمولیت کی ، اس کا حق ہے

Page 263

۲۵۵ کہ وہ عید منائے مگر میں نے حضرت ابراہیم کے جہاد میں شمولیت نہیں کی ، جس نے حضرت ابرا ہیمہ کی طرح اپنی اولاد کو خدا تعالے کے دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کیا اور اس خوشی میں شریک ہونے کے لئے آگیا ہے وہ منافق ہے.اور جس وقت وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوشی میں شریک ہوتا ہے آسمان کے فرشتے اس لعنت کرتے ہیں اور کہتے ہیں اسے منافقو! دور ہو جاؤ ہماری نظر سے.تمہارا کوئی حق نہیں کہ تمہ اس خوشی میں شریک ہو.تم نے وہ جہاد تو نہ کیا جو حضرت ابراہیم نے کیا تھا.مگر تم بوٹیاں کھانے کے لئے آگئے.پس تمہاری عید کوئی عید نہیں عید اسی کی ہے جوحات ابراہیم کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھتا اور اپنی اولاد کو خدا تعالے کے دین کے لئے قربان کرتا ہے، اے وستو! اس سبق کو یاد کہ جو اس عید سے حاصل ہوتا ہے اور اپنے اندر سے نفاق کوڈ.کہو.اور حضرت ابراہیم کی طرح اپنے بیٹوں کی قربانی کرو تا کہ تمہیں بھی حقیقی عید کا دن دیکھنا نصیب ہو.ونیر وہ شخص جو خوشی میں تو شامل ہو جاتا مگر تکلیف میں شامل نہیں ہوتا وہ منافق ہوتا ہے.خدا س نفاق سے پر شخص کو اپنی پناہ میں رکھے" الفضل و مٹی ٤١ ) ن - صحیح بخاری کتاب المناسك باب الزيارة يوم النحر والخطبة ايام منى البقره ۲: ۱۲۹ تفسیر کبیر امام رازی نه مطبوعه مصر ۱۲۹:۲ - البقره ۲: ۱۳۰ - الاهران ۷ : ۱۷۰ - سنن ابن ماجہ کتاب الزبد باب صفتہ امتہ محمد صل اللہ علیہ وسلم - البقره ۲: ۱۲۶ شه را الملل و النحل لامام ابی الفتح محمد بن عبد الكريم الشمه ستانی برحاشیه کتاب الفصل في الملل والاهواء والنخل امام ابن حزم جز ثالث من تا ماوں کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے.امام شهرستانی نے عرب میں ثبت پرستی کی ابتداء.تہوں کے نام اور ان کی وجہ تسمیہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.( حجم البلدان یاقوت حموی جلوه م.زیر لفظ مکہ لکھا ہے :.عرب میں بت پرستی کی عام اشاعت کی دیہ یہ ہوئی کہ قبائل ا رب جو تمام اطراف سے حج کو آتے تھے واپس جاتے ہوئے حرم کے پتھروں کو اٹھا کر ساتھ لے جاتے تھے اور ان کو اصنامیہ کعبہ کی صورت پر تراش کر ان کی عبادت کرتے تھے.شه - تاریخ طبری جلد ۲ ۳۳۳۶ مطبوعه و ارالمعارف مصر - تاریخ انمیں جلد ۳۳ شه به عمرو بن شام کنیت ابوالحکم، جنگ بعد میں دولڑکوں کے ہاتھوں قتل ہوا مسلمانوں نے اسے ابو جہل کہنا شروع کر دیا تھا.شه طلحہ بن عبید اللہ کنیت ابو محہ - القرشی التیمی - عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے راستہ میں جنگ جمل میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے.انتقانی که تاریخ کامل ابن اثیر سے )

Page 264

2 - ابوعبد - - زبیر بن العوام - کنیت ابو عبد الله القرشی الاسدی.رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ کے بیٹے اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے.اسلہ میں وفات پائی.- عبد الرحمن بن عوف - کنیت ابومحمد القرشی از بری.واقعہ فیل کے دس سال بعد پیدا ہوئے.زمانہ جاہیے میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا.راستہ میں وفات پائی.- ابو عبیدہ عبداللہ بن الجراح القرشی العمری ان الله - شده) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں امین الامت کا خطاب اور دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی تھی.- سعد بن ابی وقاص کنیت ابو اسحق القرشی الزہری.عشرہ مبشرہ میں ساتویں نمبر پر تھے مدینہ سے دس میل دور حقیق کے مقام پر سہ باشہ یا شتہ میں فوت ہوئے.گاه عثمان بن مطعون - الفرشي انجمنی - وفات سنته - كنز العمال جلد ما سے.یہ واقعہ حضرت عامر بن ابی وقاص کا ہے و طبقات ابن سعد اپنے مطبوعہ لین - اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ ) - البقره ۲ : ۱۳۲ شاه - حمزہ بن عبد المطلب.بنو ہاشم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چا اور رضاعی بھائی تھے.جنگ اُحد میں شہید ہوئے.1- عباس بن عبدالمطلب - بنو ہاشم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چا تھے سے نہ میں مال کی عمر میں وفات پائی.٢٠ - لسان العرب جلد ، مر ۲ زیر لفظ حجم سے تعطیر الانام متوسط الشيخ عبد الغني النابلسی شب اول به ۱۳۵ - الذاریت ٥٠:۵۱ - محمد بن احمد بن دانیال بدایونی (۶۳ - ۵۴۲۵) برصغیر پاک و ہند میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے نام اور محبوب الہی کے لقب سے مشہور ہیں.- خواجه علی حسن نظامی دی ) ناشر مورخ اور اردو کے صاحب طرز ادیب تھے.(۱۲۹۶ - ۱۳۷۵ ت ا.اس سے ملتا جلتا واقعہ خیرالمجالس مرتبہ حمید شاعر القلند رفتہ پر بیان ہوا ہے یہ کتاب حضرت خواجہ صاحب کے اعلم محمود چراغ کے عنوقا - التوبه و ۹۰ - الاحواب ۳۳ : ۱۴ - الفتح ۱۶:۳۰

Page 265

۲۹ و موده به جبوری استاد به نام عید گاه قادیان ی عید اس قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی خوشنودی کے حصول اور دنیا کی ہدایت کے لئے پیش کی تھی.اللہ تعالے نے اپنے بندوں کو ہدایت پر جمع کرنے کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ دنیا میں سے ایک مقام کو برگزیدہ کرے اور لوگوں کے لئے مشابہ یعنی جمع ہونے کی جگہ نیا دے اور اسے پاک وصاف اور عبادت کے لئے تیار رکھنے کے لئے حضرت براہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ اپنے نبچہ کو مقرر کر دیں کہ وہ اور اس کی آئندہ نسلیں اس مقام کو باہر سے آنیوالوں نیز مکہ کے رہنے والوں کے لئے بھی عبارت کے قابل رکھیں ہے مگریہ حکم اس رنگ میں دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رویا میں دیکھا کہ وہ اپنے بچہ کو ذبح کر رہے ہیں.اور آپ نے اس زمانہ کے رواج کے مطابق کہ شام دنیا میں اس قسم کی قربانی رائج تھی یہی تمھا کہ گویا انہیں اپنے بچہ کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے.اور وہ اسے ظاہری شکل میں پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اللہ تعالے نے یہ حکم اس رنگ میں اس لئے دیا کہ نا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اس رواج کا قلع قمع کیا جائے.چنانچہ حضرت ابراہیم اپنے اکلوتے بیٹے کو لیکر جنگل میں گئے اور اسے ذبیچ کرنے کے لئے بہین پر گرا دیا.مگر عین اس وقت یہ الہام ہوا.قد صد نت السرور بات کہ تو نے ظاہری طور پر بھی یہ بات پوری کر دی اور باطنی طور پر بھی تو نے اس حقیقت کو پورا کر دیا.جو شخص چھری سے اپنے بچے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جائے وہ اسے جنگل میں چھوڑ آنے سے کبھی انکار نہیں کر سکتا، چنانچہ آپ نے اس رویا کے مطابق اپنے بیچے اور بیوی کو خانہ کعبہ کے مقام پر چھوڑ دیا تا وہ دین کی خدمت کے لئے ایک مرکز تیار کریں لیے اور وہی مرکزہ اس وقت حج کا مقام ہے جہاں تمام دنیا سے حاجی اکٹھے ہو کر پہنچتے ہیں ہے یہ در اصل اسی قربانی کی یاد ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے خدا کے حکم کے مطابق اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گئے تھے.حج کے موقعہ پر سب مسلمان قربانی کر کے اس کی یاد کو تازہ کرتے ہیں اور اسی کی نقل میں ہر جگہ مسلمان قربانی کرتے ہیں ہے اور اس طرح گویا یہ تباتے ہیں کہ وہ اللہ تعالے کی را ہمیں اپنی اور اپنی اولادوں کو قربان کرنے کو بالکل تیار ہیں.عید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی اور اپنی اولادوں کی قربانی ضروری ہے.جب بھی انبیاء دنیا میں آئے ہیں ان کو معنوی طور پر یہ قربانی

Page 266

پیش کرنی پڑی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے انسان کی جسمانی قربانی تو بند ہوگئی میگا نفوس کی قربانی کی بنیاد ڈال دی گئی.اور حق یہ ہے کہ اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضاء کا حصول ناممکن ہے.ظاہری قربانی جو جانوروں کی باقی ہے.اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو لوگ ظاہری رنگ میں جانور وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں.ان کو اس امر پر خوش نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ خدا تعالے کو پہنچتی ہے.فرمایا.لَن يَنَالَ اللهُ لَحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِنْ تَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ تمہارے ان قربانی کے جانور وں کا گوشت یا خون اللہ تعالے کو نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالے کو صرف وہ نیکی اور پاکیزگی پہنچتی ہے جو تمہارے دلوں میں ہے.بہت سے لوگ بلکہ سے اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالے کو پا لیا.مگر اللہ تعالے فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں.خود ہی جانور ذبح کیا.اور خود ہی کھا لیا.اس سے خدا تعالے کو کیا.یہ تو تصویری زبان ہے جس کے معنی کچھ اور ہیں.مصور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں کبھی وہ زنجیر بناتے ہیں جس سے مراد قومی اتحاد ہوتا ہے کبھی وہ طلوع آفتاب کا نظارہ در کھاتے ہیں مگر اس کا مطلب قومی ترقی ہوتا ہے.اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی کے لئے تیار ہے جو شخص قربانی کرتا ہے رہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ نہیں خدا تعالے کی راہ میں سب کچھ قربان کردونگا اور جو شخص قربانی کا گوشت کھاتا ہے.وہ گویا یہ اقرار کرتا ہے.کہ ہماری قوم کی قربانیاں میرے لئے اور ساری امت کے لئے سہولت پیدا کر دیں گی.جب عید کے روز کسی کے ہاں قربانی کا گوشت بطور تحفہ آتا ہے تو یہ بکرے یا دُنبے یا گائے کا گوشت نہیں ہوتا بلکہ دراصل اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ میرے بھائیوں کی قربانیاں جو وہ خدا تعالے کی راہ میں کر رہے ہیں قبول ہوں گی اور اسلام کی ترقی کا موجب ہوں گی.یہ گوشت گویا تصویری زبان میں اسلام کی ترقی کا اقراآ ہوتا ہے.پس جو بات ہم تصویری زبان میں بیان کرتے ہیں، چاہئیے کہ عملاً بھی اسے پورا کریں.کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو عزت کا موجب نہیں ہو سکتی.تھیٹر والوں کو شرفاء کیوں ناپسند کرتے ہیں.تھیڑیں جو نقال بادشاہ بنتے ہیں ، شرفاء کے ننہ دیا ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی لیکن حقیقی بادشاہ کی عزت سب کرتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ جب بادشاہ بننا موجب عورت ہے تو کیوں اس ایکٹر کی عزت نہیں کی جاتی جو تھیٹر میں بادشاہ بنتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹھیٹر والا محض نقل کرتا ہے اور حقیقی بادشاہ جو کچھ کرتا ہے دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے کرتا ہے.تھیٹر میں بادشاہ بننے والا اگر عملی زندگی میں بھی اس کے لئے جد وجہد کرے تو اسے برا نہیں سمجھا جائے گا لیکن محض نقل کسی عزت کا مستحق نہیں بنا سکتی.اسی طرح جو شخص

Page 267

۲۵۹ بکرے کی قربانی کے ساتھ اپنے نفس کی قربانی بھی کرتا ہے، وہ شرفاء کے نزدیک قابل عزت و احترام ہے لیکن جو صرف بکرے کی قربانی پر اکتفا کرتا ہے.وہ نقال اور بھانڈ ہے اس لئے کسی عزت کا مستحق نہیں جس طرح بھانڈ کی کوئی عزت نہیں ہوتی اس کی بھی نہیں ہو سکتی.اسی طرح جو شخص قربانی کا کونت کھانے کو تو تیار ہو جاتا ہے مگر اسلام کی ترقی کی خوشی میں شامل ہونے کو تیار نہیں وہ بھی بھانڈوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.در اصل عمل ہی ہے جو انسان کو معزز بناتا ہے محض نقالی کوئی چیز نہیں.پس دوست آج کے دن سے سبق حاصل کریں اور ہمیشہ اس قربانی کو مد نظر رکھیں جو ابراہیم علیہ اسلام کے مد نظر تھی ، جو حضرت ہاجرہ کے مد نظر تھی.کوئی کہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم تو نبی تھے عام انسان انبیاء جیسی قربانی کس طرح کر سکتے ہیں.مگر ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت اجرہ تو نبی نہ تھیں مگر ان کی قربانی کتنی شاندار ہے کیا ہی دردناک نظارہ ہے، حضرت ابراہیم اپنی بیوی اور بچے کو ایک جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں پچاس پچاس میل یا سو سو میل تک کوئی آبادی نہیں.پھر کوئی ساتھی بھی نہیں، کوئی سامان نہیں، صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلی کھجوروں کی جو زیادہ سے زیادہ دو تین روز کے لئے کفایت کر سکتی ہے.ایسی سکیسی کی حالت میں چھوڑ کر حضرت ابراہیمیں واپس ہوتے ہیں تو حضرت ہاجرہ ان کا تعاقب کرتی ہیں انہوں نے سمجھ لیا کہ حضرت ابا ہمیں ان کو چھوڑ کر جارہے ہیں.اس سے وہ پچھے پچھے چلتی ہیں.اور پوچھتی ہیں.کہ ابراہیم ہم کہ کہاں چھوڑے جاتے ہو یہاں نہ تو کوئی آبادی ہے.اور نہ ہمسایہ، نہ کھانے پینے کی کوئی چیز ہے.وہ بار بار یہ سوال کرتی ہیں مگر حضرت ابراہیم کوئی جواب نہیں دیتے چونکہ ان کو سخت صدمہ اور غم تھا.وہ سمجھتے تھے کہ اگر میں نے بات کی تو میرے آنسو جاری ہو جائینگے اور اس سے ان کو اور صدمہ ہوگا ، اس لئے وہ جواب سے پہلو نہی کرتے رہے.آخر حضرت ہاجرہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اللہ تعالے نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے.آپ نے فرمایا: ہاں.حضرت ہاجرہ کی نت بائی دیکھیو ں ان کو اس امر میں صریح تباھی نظر آتی تھی.پھر ساتھ چھوٹا بچہ تھا ، حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا، دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی.ایک مشکیزہ پانی اور ایک تفصیلی کھجور کے سوا کھانے پینے کا بھی کوئی سامان پاس نہ تھا جو دو آدمیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دو تین روز تک کفایت کر سکتا ہے.یہ ایسے حالات ہیں کہ جن میں ایک قوی سے قوی انسان بھی ڈر جاتا ہے.لیکن جب حضرت ابراہیم نے جواب میں کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے حکم سے تمھیں یہاں چھوڑے جاتا ہوں تو جانتے ہو کہ حضرت ہاجرہ نے کیا جواب دیا.آپ فوڑا پیچھے لوٹیں اور کہا کہ اگر خدا کا حکم ہے تو بے شک جائیے ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہمارا

Page 268

خدا ہمیں صنائع نہیں کرے گا یہ دیکھو کتنا ز بر دست ایمان اور عظیم الشان یقین ہے.حضرت ہاجرہ کا یہ ایمان اور یقین ہی تھا جس نے حضرت ابراہیم کے ایمان اور یقین سے مل کر مکہ کو ایک آباد شهر بنا دیا.دنیا کی عورتوں میں اس کی مثالیں بہت کم مل سکتی ہیں.اول تو عورت ہوتی ہی کمزور دل کی ہے.لیکن اگر کسی سے کہا جائے کہ آگ میں جل جاؤ یا چھری سے اپنے آپ کو ذبح کرلو تو یہ نسبتاً آسان ہے سجائے جنگل میں بھوکا مرنے کے.جہاں اور نبی خطرات ہوں ممکن ہے شہر یا کوئی چیتا آنکہ بلاک کر دے یا پیاس سے تڑپنا پڑے اور بھوک سے مرنا ہو.پھر اس کے علاوہ ایک اور بات ہے.اور وہ یہ کہ ماں اپنی موت قبول کر سکتی ہے مگر اپنے بچے کی ایسی دردناک موت کو یہ داشت نہیں کر سکتی کہ اس کا اکلوتا لڑکا پانی کے گھونٹ اور روٹی کے نغمہ کے لئے ایڑیاں رگڑ کر مر جائے.پھر حضرت ہاجرہ کے دل میں یہ وسوسہ بھی پیدا ہوتا ہوگا کہ ممکن ہے پہلے میں مرجاؤں اور بچہ ہی میں تڑپ تڑپ کر جان دے.اس قسم کے خطرات کے باوجود ان کا اس قربانی کے لئے تیار ہو جانا ایسی بہت کا کام ہے جو ہمیشہ کے لئے یاد رکھے جانے کے قابل ہے.وہ ان سب صدمات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوگئیں.اور اپنی اور اپنے بچہ کی موت کے خوف کے باوجود اس دن کے انتظار کے لئے آمادہ ہو گئیں.جب اللہ تعالے مکہ کو ایک شہر بنا دے گا.یہ قربانی ہمیں بتاتی ہے ، کہ انسان مومین کامل اس صورت میں بن سکتا ہے جب وہ خدا تعالے کے سامنے اپنے آپ کو اس رنگ میں ڈال دے کہ اسے کسی خطرہ کی پرواہ نہ ہو.بھوک اور پیاس کی تکلیف کا احساس مٹ جائے.اور وہ دوستوں اور مددگاروں سے بالکل بے نیاز ہو جا ئے یہ قربانی اپنے اندر ہر قسم کی قربانی رکھتی ہے.اس میں وطن کی قربانی بھی ہے فتنہ دار ہے اور دوستوں کی قربانی بھی ہے.انسان چاہتا ہے کہ وہ ڈر سے بچ جائے مگر اس قربانی میں اطمینان کی قربانی سبھی شامل ہے.گویا آرام کی ساری صورتیں یہاں مفقود تھیں.ساتھی نہ تھے بیوطنی تھی.بھوک پیاس سے بچنے کے سامان نہ تھے، اطمینان کا کوئی ذریعہ نہ تھا.مگر ان سب باتوں کے باوجود اللہ تعالے نے حضرت ہاجرہ کو توفیق دی.اور انہوں نے ان سب خطرات کو قبول کیا.اور سمجھ لیا کہ جب میں خدا تعالے کے لئے قربانی کرتی ہوں تو وہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا." سب انبیاء کی جماعتوں کو درجہ بدرجہ قربانی کرنی پڑتی ہے.اس وقت جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے اکثر ہیں جن کو اپنے وطن قربان کرنے پڑے.پھر اب تو قادیان میں حالات کچھ درست ہو گئے ہیں اور کچھ تجارتیں چل نکلی ہیں مگر جو لوگ ابتدائی زمانوں میں یہاں آئے ، ان کے گزارہ کی یہاں کوئی صورت تھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالے نے ایک اعلیٰ درجہ

Page 269

۲۶۱ کی ملازمت عطا فرمائی تھی.وہ چھوٹی تو آپ نے اپنے وطن میں پر یکیش شروع کی لیے وہاں آپ کی بہت شہرت تھی.آپ کا وطن بھیرہ سرگودھا کے ضلع میں ہے جہاں بڑے بڑے زمیندار ہیں اوران میں سے اکثر آپ کے بڑے معتقد تھے.پس وہاں کام چلنے کا خوب امکان تھا.لیکن آپ حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام سے ملنے قادیان آئے چند روز بعد جب واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ دنیا کا آپ بہت کچھ دیکھ چکے ہیں.اب یہیں آبیٹھئے.نے آپ نے اس ارشاد پر ایسا عمل کیا کہ خود سامان لینے بھی واپس نہیں گئے بلکہ دوسرے آدمی کو بھیج کر سامان منگوایا.اس زمانہ میں یہاں پریکٹس چلنے کی کوئی امید ہی نہ تھی.بلکہ یہاں تو ایک پیسہ دینے کی حیثیت والا بھی کوئی نہ تھا مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی.پھر بھی آپ کی شہرت ایسی تھی کہ باہر سے مریض آپ کے پاس پہنچ جاتے تھے.اور اس طرح کوئی نہ کوئی صورت آمد کی پیدا ہو جاتی تھی کیا مگر حضرت مولوی عبد العریمہ صاحب کی قربانی ایسے رنگ کی تھی کہ کوئی آمد کا احتمال بھی نہ تھا.نہ کہیں سے کسی فیس کی امید تھی نہ کوئی تنخواہ محنتی اور نہ وظیفہ کسی طرف سے کسی آمد کا کوئی ذریعہ نہ تھا، مگر وہ حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ و السلام کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے تھے.اس وقت جتنے کام تمام محکمے کر رہے ہیں یہ سب وہ اکیلے کرتے تھے.حالانکہ گزارہ کی کوئی صورت بھی کیے اور یہ بھی واد کی غیر ذی زرع میں جان قربان کرنے والی بات ہے.اور بھی کئی ایسے لوگ ہیں.اب تو یہاں بعض ملازمتیں نکل آئی ہیں اور صنعت و حرفت کے بعض کا م بھی چل پڑے ہیں.تمہارت نبی کچھ نہ کچھ ہونے لگی ہے گولا ہور، امرت سر وغیرہ بڑے شہروں کی طرح تو نہیں مگر پھر بھی گزارہ کی صورت پیدا ہو گئی ہے.لیکن ابتداء میں ان چیزوں میں سے کچھ بھی یہاں نہ تھا.اور اب بھی دوست اگر اپنی قربانیاں جاری رکھیں تو موجودہ حالت بھی ترقی کے لئے بیج بن جائے گی.یہ اللہ تعالے کی سنت ہے.کہ وہ ہر ربانی کو جو انسان کرتا ہے آئندہ ترقیات کے لئے بیج کی حیثیت دے دنیا ہے.کئی لوگوں کی قربانیوں کی مثال بوڑھے درخت کی ہوتی ہے جو صرف اپنے آپ کو ہی فائدہ پہنچاتے ہیں.کئی ایک کی مثال جوان پھلدار درخت کی ہوتی ہے جو کچھ نہ کچھ فائدہ دنیا کو بھی پہنچاتے ہیں.مگر کئی ایک کی مثال اس بیچ کی سی ہوتی ہے جس میں سے سو سو ، دو دو سو دانے پیدا ہو سکتے ہیں.ایسی ہی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت آمیل علیہ السلام کی قربانی کی طرح ہوتی ہے.اور کوئی انسان مبتنی استقسیم کی مشربانی کرتا ہے اتنا ہی اللہ تعالے اس میں نشو و نما کی طاقت کو بڑھا دیتا ہے.حضرت ابراہیم نے جب قربانی کی تو اللہ تعالے نے کہا کہ آسمان کی طرف دیکھ جس طرح آسمان پر ستارے بے شمار ہیں اسی طرح دنیا میں تیری نسل بھی بے شمار ہوگی بلکہ آج دنیا میں جدھر جاؤ ، حضرت ابراہیمیہ کی نسل نظر آتی ہے.کروڑوں نیو دی ہیں ، پھر سید بھی چالیس پچاس لاکھ ہوں گئے کروڑ دو کہ واہ بیت

Page 270

به نظر تقلة قریب قرشی ہیں.اور اس طرح تمام دنیا کی قریبا پانچ فیصدی آبادی ابراہیمی نسل سے ہے.الله تعالے نے آپ کی نسل کو اس قدر صرف اس لئے بڑھایا کہ وہ اپنے آپ کو نیز اپنی اولاد کو اللہ تعالے کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے یہ اور حضرت ابراہیم کی یہ قربانی ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اولاد قربان کرنے سے نسل بڑھتی ہے.اور اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی نسل بڑھے اور پھیلے اور اسے اور اس کی نسلوں کو عزت ملے تو اس کا طریق یہ ہے کہ اپنی اولاد کو دین کی راہ میں قربان کر دیے.یہ ایک ایسا گر ہے کہ ہمارے دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی نسلیں دنیا پر چھا جائیں اور ہزاروں سال تک ان کا نام شوت کے ساتھ زندہ نہ ہے تو وہ اُسوہ ابراہیمی پر عمل پیرا ہوں.حضرت ابراہیم کیا تھے ایک معمولی رئیس تھے.جن کے پاس شاید چار پانچ سو بکریاں ہوں گی ، سو دو سو اونٹ ہوں گے جو آج ہزاروں لوگوں کے پاس ہیں.مگر ان کا کسی کو علم بھی نہیں ہوتا لیکن حضرت ابراہیم کی پاو ساری دنیا میں قائم ہے.اس لئے کہ اللہ تعالے نے ان کی نسل کو وسعت دی اور اب تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے کر ان کی روحانی اولاد بھی بہت سی بنا دی ہے اور اس طرح اور بھی غلات قائم کر دی.آج یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی یہودی حضرت ابراہیم کے لئے گالی برداشت کرے مگر کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا.یہودی آپ کی ذریت سے ہیں مگر کوئی یہودی آپ کے لئے روزانہ دعا نہیں کرتا ہوگا.لیکن مسلمان دن میں پانچ وقت اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ ابراھیم کہتا ہے اور اس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابراہیم کے لئے بھی دعا کرتا ہے.یہ برکت حضرت ابراہیم کو اس قربانی کی وجہ سے ملی.اور یہ بات یاد رکھنی چاہیئے که حضرت ابراہیم کے ساتھ اللہ تعالے کا کوئی رشتہ نہ تھا جو ان کو اتنی برکت دیدی.شخص جو آپ کے نقش قدم پر چلے اور اپنے نفس اور اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کردے ان برکات سے حصہ پاسکتا ہے جو اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم کو عطا کیں.پس اس عید سے یہ سبق سیکھا جائے تو یہ ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے.ورنہ یہ ہمارے لئے خوشی کا نہیں بلکہ علامت کا ذریعہ ہے.اللہ تعالے نے ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر سال یہ عید آکر ہمیں اپنے فرض منصبی کی طرف متوجہ کرتی ہے مگر ہم پھر بھول جاتے ہیں.پس دوستوں کو یہ سبق اچھی طرح یاد رکھنا چاہئیے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ حضرت ابراہیم کے نقش قدم پر چلیں.اللہ تعالے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، میں اسی پر خطبہ کوختم کرتا ہوں.

Page 271

له آج بعض دوستوں کی طرف سے تحریک کی گئی تھی کہ اعلان کر دیا جائے کہ سب لوگ خطبہ کے لئے بیٹھے رہیں کوئی خطبہ ختم ہونے سے پہلے نہ جائے.مگر میں نے اس سے روک دیا کیونکہ قربانی کے لئے یا اور اشد ضرورتوں کے لئے چلے جانا جائز ہے تلے مگر میں نے دیکھا ہے کہ قریبا سب لوگ آپ ہی آپ بیٹھے رہے ہیں.شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے آواز ہر جگہ آسانی سے پہنچ رہی ہے.یا شاید اللہ تعالے نے ہی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ نسب کے سب بیٹھ کر خطبہ سنیں.اسی طرح مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھا جاتا ہے وہ نعت نہیں، اس کا اعلان کر دیا جائے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کر کے کھاتے تھے خلیے تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھنے تو گنہگار ہو جائے.یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اور ستحب : جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار، بوڑھا ، یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلف نہیں اور نہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہو گا.مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بق پوری ملر نے لکھا ہے میں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے.پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنا لیا گیا بلکہ مستحب نقل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعامل رہا اور یہیں پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جو نہ کرنے اسے گناہ نہیں.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے اس عید کو ہمارے لئے حقیقی عید بنائے اور اسے اسلامی ترقیات کا موجب کرے.ہم میں باہمی محبت اور الفت پیدا کرے اور مخالفتوں البغض و عناد اور عداوتوں کو دور کردے.اور سب کے دلوں میں حقیقی ہمدردی اور محبت پیار پیدا کرے.ہماری مستیوں اور کوتاہیوں کو دور کر کے محنت کی عادت ڈال دے تاہم دنیا میں کار آمد اور مفید وجود بن سکیں اسکے ذلیل اور ناکارہ نہ ہوں، آمین.والفضل ۱۷ جنوری ۹۳له ) البقره ۲ : ۱۲۷ - الحج ۲۰:۲۲ - الصفت ۳۷ : ۱۰۳-۱۰۴ و الصلت ۳۷ : ۱۰۶

Page 272

- ابراہیم ۳۸:۱۴ - آل عمران ۳ : ۹۷ - ۹۸ - الج ۲۲ : ۲۸ ا - الصفت ۳۷ : ۱۰۹ که - اسمج ۳۸:۲۲ ہے.صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزنون النسلان في المشي.شه - تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۱۳۳ ه - تاریخ احمدیت جلد نم مش۱۳ ہے.مکتوب امام الزمان بنام حضرت نواب محمد علی خان - اصحاب احمد جلد ۲ ص ۹ ه حیات نور الدین مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۶ ۱۹۲ و حیات نور مصنفہ شیخ عبد القادر صاحب من والے ملفوظات جلد ۳۷۵ ے.پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷ ۱۵ - پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۸ ت - الصفت ۱۰۵:۳۷، ۱۰۷.سنن ابی دائود صلوة العيدين.باب الجلوس للخطبة شاه - حضرت مولوی محمد ابرایمی با پورشی (۱۸۷۳ - ۶۱۹۶۲ ) با قاعدہ معیت شنٹر میں کی.آپ سلسلہ کے ممتاز خادم تھے.سالہا سال تک مبلغ اور پھر رئیس التبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہے : ه یشتن کبری جلد ۳ ۲

Page 273

۲۶۵ ا فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۳۷ نه انتقام مسجد نور قادیا نَّا هُم اعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَهُ فَصَلِّ لِرَتِكَ وَانْحَرَهُ إِنَّ شَائِنَكَ هُـ آج سے کوئی سوا تیرہ سو سال پہلے یا اس سے کچھ زیادہ یہ سورۃ رسول کریم صیر متد عليه و آلہ وسلم پر نازل ہوئی منفی.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپکے ساتھیوں کی یہ حالت تھی کہ با ہر نماز بھی ادا نہیں کر سکتے تھے اور آپ کے پیغام کو ماننے والے صرف چند ہی آدمی تھے یے جب آپ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو معتبر تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اض وقت مکہ مکرمہ کے کل ۸۶ آدمی آپ پر ایمان لائے تھے کہ مگر یہ تو آخری دنوں کی بات ہے.اس سے پہلے یہ حالت تھی کہ صرف چند آدمی ہی آپ پر ایمان لائے تھے جن کی تعداد پندرہ سولہ ہے، زیادہ نہیں تھی.مکہ کی آبادی گروہ بہت بڑا شہر نہیں ہے اور نہیں تھا مگر پھر بھی اس وقف بیٹھے دس ہزار کی معلوم ہوتی ہے.اور آٹھ دس ہزار کی آبادی میں سے ایک دو درجن کے قریب آدمیوں کا ساتھ ہوتا اور سارے شہر کے لوگوں کا مخالف ہوتا کہ ہر وقت ان کا مسلمانوں کی جان لینے کی فکر میں رہنا.اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سالہا سال تک مکہ میں مسلمانوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی.چنانچہ اس بات کو دیکھ کر کہ رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صرف چند آدمی ایمان لائے تھے جو نئی زندگی کے پہلے سالوں میں دو تین درجن تک تھے اور آخر میں چھ سات در جن تک ہو گئے اور ادھر یہ دیکھ کر کہ آپ کی زمینیہ اولاد کوئی نہیں آپ کے دشمن اپنی نابینائی اور اندھے پن خیر الا متحیہ طلبہ سالانہ کے دنوں میں منائی گئی اس تقریب سعید کے متعلق الفضل نے جو نوٹ لکھا اس کے چیڈ چیدہ چلو حسب ذیل تھے.۲۹ و کبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ الشر تعالے بذریعہ کار مسجد نور میں تشریف لے گئے اور پھر نماز عید پڑھانے کے بعد طلبہ گاہ میں تشریف لائے.حضور نے خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے ہی بلند آواز سے عید کی تکبیر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ اللہ اکبر اللہ اکبر و لله الحمد دو دفعہ پڑھی خطبہ کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ احباب ایک دو شہر سے ملاقات کرتے وقت عید کی تکبیر ائر ہیں.خواتین نے عید کی نمانہ زنانہ حلیمہ گاہ میں پڑھی.اور اسی جگہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ خطبہ شنا عید گاہ میں بھی نماز عید ہوئی جہاں سکریم مولوی عبدا لرحمان صاحب مولوی فاضل جنرل پریزیڈنٹ لوکل انجین احمدیہ نے قریبا تا ر سو مقامی احباب کو عید کی نماز پڑھائی به والافضل یکم جنوری شاء مت) -

Page 274

کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ شخص دین سے بھی کیا اور دنیا سے بھی.وہ کہتے تھے کہ یہ دھانی لحاظ سے بھی اس کے ماننے والے کوئی نہیں اور جسمانی لحاظ سے بھی نرینہ اولاد سے محروم ہے.ہماری پنجابی زبان میں جیسے کسی کی تخقیر کرنی ہو تو کہتے ہیں اوترا کھرانہ اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ان بدبختوں نے یہی نام رکھا ہوا تھا کہ اوترا نکھرا ہے کیا مگر میں آپ کے ماننے والوں کی جو درگت بنا کرتی تھی.اس کے متعلق غلاموں کے واقعات تو بہت دفعہ بیان ہو چکے ہیں مگر جو لوگ گھر بار والے تھے اور بڑے بڑے رئیس خاندانوں میں سے تھے.ان کی بھی یہ حالت تھی کہ اپنے کیا اور خیر کیا بہت بری طرح ان کی خبر لیتے تھے.ایک صحابی جو مکہ کے بہت بڑے خاندان میں سے تھے اور ایک بڑے رہیں کی اولاد تھے عثمان بن مظعون ان کا نام نفقہ نام تھا وہ اپنی جوانی کے ایام میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے اور اس صداق اور جوش سے ایمان لائے کہ گویا اپنے محلہ والوں کو انہوں نے ہلا دیا.لوگوں نے ان کو تکلیفیں دینی شروع کیں.دُکھ دینے شروع کئے اور اس قدر دکھ دیتے کہ جب ہجرت اُولیٰ ہوئی تو وہ ایسے سینیا ( ETHOPIA) کی طرف چلے گئے.مگر بعد میں کفار نے جب یہ خبر اڑا دی کہ مگر کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور وہاں امن قائم ہو گیا ہے تو وہ پھر مکہ کو واپس آئے مگر جب مکہ میں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر بالکل چھوٹی ہے اور اس لئے اڑائی گئی ہے تاکہ مسلمان واپس آئیں اور کفار ان کو پھر دیکھ دیں.انہوں نے ارادہ کیا کہ پھر واپس اپنے سینیا چلے جائیں مگر اتنے میں مکہ کا ایک سردار جو بہت بڑی عظمت اور شان رکھتا تھا اور جس کا تمام لوگ ادب کیا کرتے تھے اور جو عثمان بن مظعون کے باپ کا گہرا دوست تھا اور وہ دونوں آپس میں بھائی بھائی بنے ہوئے تھے.ان کو ملا اور انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ تم کہاں غائب تھے ؟ انہوں نے کہا میری زندگی یہاں کے لوگوں نے خوامہ کی ہوئی تھی.اور میں مظالم سے تنگ آکر اسے سینیا چلا گیا تھا.وہاں مجھے معلوم ہوا کہ مکہ کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے ہیں مگر جیب واپس آیا تومعلوم ہوا کہ وہی حالات ہیں.اس لئے اب لیکن پھر واپس جانے لگا ہوں اس نے کہا.نہیں تمہارا باپ میرا بھائی بنا ہوا تھا، کون ایسا ہو سکتا ہے جو میری موجودگی میں تم کو دکھ دے سکے.چنانچہ اس نے ان کا ہاتھ پکڑا اور خانہ کعبہ کی طرف لے کر چل پڑا.جیسے تمہارے ہاں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اگر کوئی عام اعلان کرنا ہو تو جلسہ کی سٹیج پر کیا جاتا ہے.اسی طرح ان لوگوں میں دستور تھا کہ جب کوئی عام اعلان کرنا ہوتا تو خانہ کعبہ میں جا کر کرتے اس نے بھی کرنا توسان بیره اس سے مراد ہیشہ ہے.

Page 275

ان کا ہاتھ پکڑا.خانہ کعبہ میں لے گیا.اور وہاں جا کر اعلان کر دیا کہ اسے لوگو سُن لو عثمان بن مطعون میری حفاظت میں ہے اگر اس کو کسی نے کچھ کہا تو اس نے اسے نہیں بلکہ مجھے کہا.عربوں میں اس بات کا بڑا لحاظ کیا جاتا تھا کہ جس شخص کا ادب اور احترام ان کے دلوں میں ہوتا تھا وہ جس کو بھی اپنی پناہ میں لے لیتا اسے کوئی شخص کا نہیں سکتا تھا.عثمان بن مظعون بھی کھلے بندوں مکہ میں پھرنے لگے اور شخص انہیں جھڑ نہیں سکتا تھا.مگر ایک دن جب وہ باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ بعض مسلمانوں کو لوگ مار رہے ہیں اور بعض غلاموں کو دیکھا کہ لوگ ان کو گلیوں میں گھسیٹ رہے ہیں.ان کے مومنوں پرپھوک رہے ہیں اور انہیں کوڑے لگا رہے ہیں.یہ نظارہ دیکھکر ان سے برداشت نہ ہو سکا.وہ واپس آئے اور جس رئیس نے انہیں پناہ دی تھی اس سے آکر کہنے لگے کہ آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا تھا ہو مجھے مجھے پناہ دی.اور مکہ والوں کے ظلموں سے مجھے سچا یا.مگر آج میں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو اس طرح ظلم کا نشانہ بنتے دیکھا ہے کہ مجھ سے یہ بے غیرتی اور بے حیائی برداشت نہیں ہو سکتی کر ان کو تو مانیں پڑیں اور مجھے نہ پڑیں.مکی آپ کا اعلان واپس کرنے کیلئے آیا ہوں.اس نے کہا چیے ! سوچ لو.انہوں نے کہا مین نے خوب سوچ لیا ہے.چنانچہ اس نے اعلان کر دیا کہ نہیں نے عثمان بن مطعون کو جو پناہ دی ہوئی تھی وہ واپس لیتا ہوں.تھوڑے دنوں کے بعد حج کا موقعہ آیا اور عرب کے مشہور شاعر بعید جو بعد میں اسلام لے آئے تھے اور جو ایک سو بیس سال کی عمر میں فوت ہوئے وہ حج کے دنوں میں مکہ میں آئے اور انہوں نے اپنے شعر سنائے.تمام روسا جمع تھے مجلس لگی ہوئی تھی اور سب تعریفیں کر رہے تھے کہ اشعار سناتے سناتے انہوں نے یہ صرفہ تھے لگی اور سب کر رہی ہے کہ کے پڑھا شند خدا کے سوا ہر سپیز فنا ہونے والی ہے.عربوں کو زبان کا چسکا تو پڑا ہی ہو اتھا.صحابہ بھی اس سے متاثر تھے اور وہ ایسے موقعوں پر ہمیشہ داد دیا کرتے تھے عثمان بن مظعون اس وقت مجلس میں موجود تھے جب اس نے کہا.الا كل شي و ما خلا الله باطل سنو ہر چیز خدا کے سو افنا ہونے والی ہے تو عثمان بن مظعون نے کہا.سچ کہا سچ کہا وہ اپنے آپ کو اتنا بڑا آدمی سمجھتا تھا کہ سوائے بڑے بڑے ادبیوں اور رؤساء کے اپنے اشعار کی کسی سے تعریف سننا بھی اپنی ہتک سمجھتا تھا اس نے جب سنا کہ ایک لڑکے نے اس کا مصرعہ سُن کر کہا ہے کہ سچ کہا سچ کہا تو اس نے وہیں شعر پڑھنے بند کر دیئے اور مکہ والوں سے کہا کیا تم میں اب کہ بی شریف آدمی نہیں رہا.یہ کل کا چھو کر مجھے داد دیتا ہے.کیا میں اس کی داد کا محتاج ہوں اگر یہ کہے گا کہ میں نے

Page 276

سچ کہا تو میری بات سچ ہوگی اور اگر یہ کہے گا کہ میری بات غلط ہے تو وہ غلط ہوگی.اس پر رؤساء نے عثمان بن مطعون کو ڈانٹا اور کہا خبردار تم مت بولو.تمہارا کوئی حق نہیں کہ اس مجلس میں کسی شعر پر داد دو.اور ان کی نعتیں کر کے کہا کہ آپ آگے چلئے چنانچہ انہوں نے اگلا مصرفہ پڑھا کہ پھ وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مَحَالَةٌ رَائِل در هر قسمت آخر تباہ ہو جانے والی ہے.عثمان بن مظعون ابھی ڈانٹ کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ جونی انہوں نے یہ مصرعہ پڑھا وہ فورا بول اُٹھے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوں گی.پھر کیا تھا لبید کو غصہ آگیا.اور انہوں نے کہا.میں تو اب آگے نہیں پڑھتا.چنانچہ بعض نوجوان رئیس کھڑے ہوئے اور انہوں نے عثمان کو مارنا شروع کر دیا.اسی دوران میں ایک نے زور سے آپ کی آنکھ پر منکہ مارا جس سے آنکھ نکل گئی.وہ رئیس جو ان کے باپ کا بھائی بنا ہوا تھا.وہ اس حالت میں ان کی مدد بھی نہیں کر سکتا تھا.اور ادھر ان کے باپ کی محبت بھی اس کے دل پر غالب تھی.ایسی حالت میں اس نے وہی کچھ کیا جو غریب ماں اپنے اس بچہ سے کیا کرتی ہے جسے کسی امیر آدمی کے بچہ نے مارا ہو.جب کسی غریب عورت کے بچہ کی کسی امیر عورت کے بچہ سے لڑائی ہو جاتی ہے.اور اس امیر کے نوکر اور رشتہ دار اور عزیز اپنے آقا کے بیٹے کی طرفداری کرتے ہوئے اس غریب عورت کے بچہ کو مارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم زبر دست ہیں تو جانتے ہو وہ غریب عورت کیا کیا کرتی ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آقاؤں کا مقابلہ کرے بلکہ وہ غصہ اپنے اس بچہ پر نکالا کرتی ہے.اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچہ کو مار رہی ہوتی ہے.اور یہ کہتی جاتی ہے کہ تجھے جو کہا ہے کہ ایسی جگہ نہ جایا کہ اور اس طرح وہ اپنی کمزوری اور بے نبی کا گویا اظہار کرتی ہے.اس رئیس کی حالت بھی یہی تھی ایک طرف وہ اپنی قوم کے جتھہ اور اس کی مخالفت اور غصہ کو دیکھ رہا تھا.اور دوسری طرف عثمان بن مطعون کی مظلومیت اور اس کے باپ کی محبت اس کے دل میں جوش مار رہی تھی.آخر اس غریب ماں کی طرح اس نے بھی عثمان بن مظعون پر اپنا غصہ نکالا اور انہیں مخاطب ہو کر کیا.دیکھا ہیں نہیں کہتا تھا کہ میری پناہ میں آجاؤ.آخر مجھے یہ دیکھنا پڑا کہ تیری آنکھ نکال دی گئی مگر جانتے جو عثمان بن مظعون نے اس کا کیا جواب دیا.انہوں نے کہا تم اپنی حفاظت اپنے گھر میں رکھو.تم کو تو یہ برا لگ رہا ہے کہ میری ایک آنکھ نکل گئی اور میری تو دوسری آنکھ بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیار ہے ہے یہ ان لوگوں کی حالت تھی فظلم وستم کا وہ ایسا نشانہ بنے ہوئے تھے کہ دنیا کے پردہ پر کوئی ایسی بے بس قوم نہیں گذری عیسی بے بس قوم محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اتباع کی نگہ میں تھی

Page 277

۲۹ خود رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حالت تھی کہ گو آپ کو خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں تھی مگر کبھی کبھی آپ محبت الہی کے جوش میں وہاں چلے جاتے اور نماز ادا فرماتے ایک دفعہ آپ نماز ادا کر رہے تھے کہ شہر کے فنڈے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ کو مارنا شروع کر دیا.اور پھر آپ کے گلے میں ریتی ڈال کر گلا گھونٹنے لگ گئے یہاں تک کہ صدیوں سے معلوم ہوتا ہے یوں لگتا تھا کہ آپ کی آنکھیں باہر آگئی ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو وہاں آئے اور مارنے والوں اور آپ کے درمیان کھڑے ہو گئے اور انہیں ہٹانا شروع کیا.آپ اس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خون پو نچھتے جاتے تھے.آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اے میری قوم تم کو کیا ہو گیا کہ تم ایک شخص کو محض اس لئے مار رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے تیے ان حالات میں اور اس قسم کے اعتراضوں کو دیکھ کر خدا تعالے کی غیرت آسمان پر جوش میں آئی اور اس نے کہا.اسے محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ لوگ کہتے ہیں کہ تیرے ماننے والے تھوڑے ہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ تیری نرینہ اولاد کوئی نہیں.اور یہ لوگ تجھے خانہ کعبہ میں بھی نماز پڑھنے نہیں دیتے.مگر اے ہمارے رسولی ! ایک دن ہم تجھے کو اس شہر پر غالب کریں گے اور تو ایک بہت بڑی مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ یہاں اگر حج کرے گا.اور کھلے بندوں نماز پڑھے گا عید ادا کرے گا اور قربانیاں کریگیا اور تیرے دشمن جو آج تجھ پر طعنہ زنیاں کر رہے ہیں ان کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا چنانچہ فرماتا ہے.انا اعطینا اور یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تیرے ساتھی تھوڑے ہیں.یہ تجھے کہ رہے ہیں کہ تیری نسل تیرے ساتھ ختم ہو جائے گی مگر یہ بالکل غلط ہے.ہم تمھیں ایک بہت بڑی جماعت دیں گے اور خالی جماعت ہی نہیں دیں گے بلکہ غالب جماعت دیں گے جو اس شہر پر غالب آئے گی اور یہاں آکر جج کرے گی.فَصَلِّ رَبِّكَ وَانْحَرِ جب ہم تجھے کثرت عطا کریں گے جب ہم تجھے غلبہ عطا کریں گے اور تم حج کرو گے اس وقت یہاں اگر خدا کی عبادت کرنا اور اس کی راہ میں قربانیاں کرنا.إنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْكر اس وقت تمہارے دشمنوں کا نشان بھی نہیں ملے گا اور صرف تمہاری ہی نسل باقی ہوگی.یہ وہ حج تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد کیا اور جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ تجھ پر سب سے زیادہ اعتراض کرنے والے ابو جہل، عتبہ شیبہ اور ولید و غیره اس وقت تک مٹادیئے جائیں گے.چنانچہ خدا نے یہ کیسا زبردست نشان دکھا یا کہ جس وقت رسول کریم

Page 278

۲۷۰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس حج کے لئے آئے اور خدا کے حکم کو پورا کرنے کے لئے کہ تم نمازیں پڑھو اور قربانیاں کرو.انہوں نے نمازیں پڑھیں اور خدا تعالے کے رستہ میں قربانیاں کہیں تو وہ کو نثر میں کا دخدہ دیا گیا تھا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوا.چنانچہ ابو جہل کا بیٹا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت میں شامل ہو گیا اور ولید کا بیٹا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جماعت میں شامل ہو گیا انہوں نے کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں.مگر خدا نے کہا کہ میں ان اعتراض کرنے والوں کے بچے محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے دوں گا.چنانچہ جب اس حج کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی ہوگی اور پھر قربانیاں کی ہوں گی.تو گو آپ نے اپنے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ماتحت دشمنوں کو شرمندہ کرنے کے لئے یہ نہیں پوچھا کہ بتاؤ میرا د تسمن ابتر ہے یا ئیں.ابہتر ہوں.لیکن جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آگے پیچھے عکرمہ اور جنالد و غیره نوجوان پھر رہے ہوں گے اس وقت گو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان کچھ گورسول نمی کہ نہیں رہی تھی.مگر مکہ کی گلیوں کی وہ زمین جس پر ان کے مقدم پڑ رہے تھے وہ ان دشمنوں کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی کہ او ابو جبل او ختیبه او شیبہ کہاں ہے تمہاری وہ اولاد جس پر فخر کرتے ہوئے تم محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن بنے پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد صلی الشہ علیہ و آلہ وسلم) ابتر ہے.وہ ابتر ہے یا آج تم ابتر ثابت ہو رہے ہو.پھر کوثر کے ایک اور معنے بھی ہیں جس کے لحاظ سے اس میں آئندہ کی ایک سے شگوئی کا ذکر کیا گیا تھا اور وہ معنے یہ ہیں کہ ایک بڑا آدمی جو بڑا صدقہ و خیرات کرنے والا ہوں اور آنے والے مسیح کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ اتنا صدقہ کرے گا، اتنا صدقہ کرے گا کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا یعنی وہ اس قدر روحانی معارف لٹائے گا کہ حد ہو جائے گی.مگر لوگ اپنی نانی کی وجہ سے ان کو رد کر دیں گے.وہ سونے اور چاندی کے خزانوں پر تو مر رہے ہوں گئے مگر خدا کے کلام کی مقتدر نہیں کریں گے.تو اس سورۃ ہیں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تجھے یہ لوگ ابتر کہتے ہیں.اور ابتر اسے کہتے ہیں جس کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو.اور روحانی اولاد میں سے تریہ بیٹا للہ تعالے کا نبی ہوتا ہے کیونکہ نبوت ہی ایک ایسا عمدہ ہے جو عورتوں کو نہیں مل سکتا ہے باقی سارے عہدے عورتوں کو مل سکتے ہیں.عورت صدیقہ ہو سکتی ہے چنانچہ سب لوگ کہتے ہیں مریم صدیقہ ، عائشہ صدیقہ.عورت شہداء میں شامل ہو سکتی ہے چنانچہ کسی مسلمان عورتیں شہید ہوتی ہیں.اور صالح تو مجہتی ہی ہیں اگر کوئی عمدہ عورت کو نہیں مل سکتا تو وہ صرف نبوت ہی ہے

Page 279

پس اللہ تعالے نے اس سورۃ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ ہم اب بھی تجھے کثرت دیں گے اورر آئندہ نہ مانہ میں سبھی تجھے ایک بہت بڑا روحانی فرزند دیں گے وہ کثیر الخیر ہو گا.کثرت سے وہ قرآن کریم کی دولت لٹائے گا.چنانچہ فرماتا ہے:.إِنَّا أَعْطَيْتُكَ الْكَوْثَرَ اسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آج ہی ساری نعمتیں تیرے لئے ختم نہیں کر دیں بلکہ خدا تعالے کی اس سنت کے مطابق کہ ہر نبی کی جماعت پر کچھ عرصہ کے بعد ضعف کا زمانہ آتا ہے جب تیری امت پر ضعف کا زمانہ آئے گا اور شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے لگے گا تو اس وقت ہم سمجھے ایک روحانی بیٹا عطا کریں گے جو بڑا کثیر الخیر ہوگا.فَصَلِّ لِرَباكَ وَانْحَرُ پس تو اس کی پیدائش کی خوشی میں آج ہی اس کے لئے خدا تعالے کے حضور دعائیں کہ اور اس شکریہ میں فقر بانیاں کہ.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تیرا دشمن ہی بہتر ہے تو بہتر نہیں.پہلے معنوں کے لحاظ سے دشمن سے مراد ابو جبل اعتبہ اور شیبہ وغیرہ ہیں.اور دوسر سے معنوں کے لحاظ سے ابتر سے مراد وہ تمام قومیں ہیں جو آج اسلام پر حملہ کر رہی ہیں.چنانچہ اس وقت جب اسلام ضعیف ہو گیا.جب مسلمانوں کی طاقتیں کمزور ہو گئیں جب عیسائی مصنفیں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ہم نے اسلام کو کھالیا ہے اب وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا حتی کہ مسلمان مصنفین نے بھی اسلام کی طرف سے دشمن کے مقابلہ میں معذر نہیں لکھنا شروع کر دیں.اور عام طور پر یہ خیال کیا جانے لگا کہ اب اسلام میں یہ طاقت نہیں رہی کہ وہ دوسرے مذاہب کا مقابلہ کر سکے.ہندوؤں میں بھی جو بش اُٹھا اور پنڈت دیا نند اور دوسرے لوگ اسلام کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے.اور انہوں نے سمجھا کہ ہم اسلام کو مٹا دیں گے.دوسرے ممالک مثلاً چین وغیرہ میں بھی جو مسلمانوں کو غلبہ حاصل تھا، وہ جاتا رہا اور بدھ اور کنفیوشس مذہب کے پیروڈی نے بھی خیال کیا کہ ان کا مذہب غالب آگیا ہے اور اسلام کو انہوں نے مٹا دیا ہے.نرم لوگوں نے خیال کر لیا کہ اسلام کی روحانی نسل دنیا سے لٹ گئی ہے.اور یہی خبر اس سورۃ میں دی گئی تھی.کہ آج ہی نہیں بلکہ ایک اور زمانہ میں بھی دشمن کہیں گے کہ ہم نے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد کو ختم کر دیا ہے.مگر فرمایا ہم تجھے ایک ایسا بیٹا دیں گے جو بڑا کثیر بخیر ہوگا اور وہ دنیا کو چیلنج کرے گا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روحانی بیٹا ہوں اور میرے ن اور خط شکاگو یا دری عماد الدین ۱۱۸۹۳ ۱۲۱ دی شنه من آرکا کس گل و بروز یکم مدام

Page 280

ذریعہ سے اسلام دوبارہ دنیا پر غالب آئے گا.وہ تمام مذاہب کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا اور اعلان کرے گا کہ میں زندہ نمونہ ہوں اس بات کا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ نبی ہیں مگر تمہارے مذاهب زندہ نہیں ہیں اگر تم سمجھتے ہو کہ تم زندہ مذہب کے پیرو ہو تو تم میرے سامنے وہ زندہ شخص پیش کرو جس پر خدا تعالے کا تازہ کلامہ اترتا ہو.مگر یساری قومیں ابتر ہو کہ.: جائیں گی اور دہ سلام کے پہلوان کے مقابلہ میں اپنا کوئی پیستوان پیش نہیں کر سکیں گی چنانچہ عملی لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا تعالے نے ایسا ہی بنیا دیا اور اس نے اعلان کیا که که آج محمدی خیمہ ہی جاری ہے لیے باقی تمام شیشے سوکھ گئے ہیں اور اس بات کا ثبوت میری ذات ہے میں اسی چشمہ کا پانی پی کر زندہ ہوا ہوں اور اسی چشمہ کے پانی سے تمام دنیا کو زندہ کرنے والا ہوں غرض دوبارہ دنیا نے محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتراض کیا.کہ وہ ابتر ہیں اور دوبارہ اس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی نسل دنیا سے مٹ گئی ہے.تب پھر خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک روحانی بیٹا دیا جس نے دنیا کو چپ نیچے دیا.کہ میں محمد صل اللہ علیه و آله و سلمہ کا روحانی بیٹا ہوں تم بھی اپنے نبیوں کے روحانی بیٹے میرے مقابلہ میں پیش کو نیست مگر آج پچاس سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے.نہ ہندہ کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ عیسائی کوئی روحانی بیا پیش کر سکے ہیں نہ یہودی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ بڑھ کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں، نہ کنفیوشس مذہب کے پیرو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہا ہیں اور نہ ہی یورپ کا فلسفہ کوئی بیٹا پیش کر سکتا ہے.پچاس سال سے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کا چیلنج موجود ہے کہ اگر تم میں کوئی نور ہے.اگر تمہارے پاس سچائی ہے ، اگر تمہار ہے اندر صداقت ہے تو تم میرے مقابلہ میں ایسا کوئی روحانی بیٹا پیش کرو جس نے تمہار سے مذب پر چل کر خدا تعالے کے انعامات کو حاصل کیا ہو مگر پچاس سال ہو گئے ، کوئی مذہب اپنا روحانی بیا پیش نہیں کر سکا.یہ عید بھی اسی کوثر کے وعدہ کو پورا کر رہی ہے.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شروع میں بہت کم لوگوں نے مانا اور قبول کیا ، ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ابتداء میں لوگوں نے نہیں مانا.آپ ایک فرد واحد کی حیثیت میں تھے جب آپ نے دنیا کو مقابلہ کے لئے بلایا.مگر جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عید منائی تھی جو حج کے بعد آئی اور اس میں آپ نے یہ اعلان کردیا کہ خدا نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا ہے.اسلام قائم ہو گیا ہے اور دین اپنے کمال کو پہنچ گیا دہ ہے جیسے اللہ تعالے نے فرمایا- الْيَوْمَ اَ كَمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاتْمة

Page 281

۲۷۳ نِعْمَى وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَام دنياء آج یہ عید بھی اسی رنگ کی عید ہے یہ وہ جلسہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو اکٹھا کرنے کے لئے قائم کیا اور یہ طلبہ ان ایام میں آیا ہے جبکہ فصلِ لِرَبكَ دا نحر کا نظارہ نظر آرہا ہے.چنانچہ کل حج تھا اور آج ہم سب عید منارہے ہیں پس آج خدا کا یہ کلام پھر پورا ہو رہا ہے کہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام جوا کیلے تھے انہیں خدا تعالے نے اتنی کثیر جماعت دی ہے کہ آج آلا نشر الصوت کے بغیر ان تک آواز بھی نہیں پہنچ سکتی.پس حل کے حکم کی تعمیل تو ہم کو ہی چکے ہیں اب ہم قربانیاں کریں گے اس خوشی میں کہ اللہ تعالے نے ہمیں کو شروط کیا یعنی اللہ تعالے نے ہمیں ظاہری کثرت بھی دی جس طرح اس نے ہمیں روحانی انعامات کی کثرت دی ہے اور ہم خدا تعالئے کا شکر ادا کریں گے.کہ اس نے ایک بار پھر دنیا پر ثبت کر دیا کہ مصیلی شد علیہ و آلہ وسلم ہی صاحب اولاد ہیں اور آپ کے دشمن ہی ابتر ہیں.دیکھو آج ہم یہاں کتنی کثرت سے موجود نہیں.اترسوں میں نے ۲۳ ہزارہ آدمیوں کا اندازہ بتایا تھا مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ اندازہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس وقت عورتوں کی مردم شماری اندازہ سے بہت زیاد نکلی گویا قریب میں چالیس ہزار آدمی اس وقت جلسہ میں شامل تھے.اور آج بھی قریباً اتنے ہی ہیں اگر کچھ فرق ہے تو بہت معمولی ہے پس اس وقت تیس چالیس ہزار کے قریب مرد د عورت بیٹے ہیں.اتنے کثیر مجمع کے مقابلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روشن کتنے تھے محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشن صرف بیسیوں تھے.اور آپ اکیلے تھے مگر آج خدا تعالے کے فضل سے ہم میں سے ہر ایک فخر کے طور پر نہیں، تکبر کے طور پر نہیں، ریا کے طور پر نہیں بلکہ امر واقعہ کے اظہار کے طور پر یہ کہنے کے لئے تیار ہے کہ میں محد صلے اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہوں.کیا ہے کوئی اس میں چالیں ہزار میں سے جو یہ کہہ سکے کہ میں ابو جہل کا بیٹا ہوں یا عتبہ یا شیبہ کا بیٹا ہوں یقینا ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے.پھر عید کا یہ اجتماع صرف اسی مقام پر نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونہ میں اس وقت لوگ جمع ہیں.ہر ملک میں لوگ جمع ہیں اور ہر علاقہ میں لوگ جمع ہیں.ان لاکھوں لاکھ لوگوں میں سے ہر شخص اس تمنا کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوتا ہے کہ کاش میرانڈین سچا ہو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا ہوں.مگر ابو جہل کی اولاد میں سے آج اگر کوئی ہے بھی تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں ابو جہل کی اولاد میں سے ہوں.بلکہ وہ بھی یہی کہے گا کہ میں محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے ہوں.

Page 282

پس ہم اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے مسلمانوں کو کلیف کی زندگی سے بچا کر انہیں کوثر عطا کیا.اور ہم اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ تیرہ سو سال کے بعد اس نے آج پھر ہم کو چنا اور پھر وہی نظارہ اپنی حالات میں سے گزار کر ہم کو دکھایا اور ہمیں خمر صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کا مصداق بنا کر وہی ایمان افروز نظارہ دیکھا دیا.پس آؤ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالے ہمیں واقعہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرزند ینے کی توفیق سمجھتے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں کو اور بھی ابتر کرے.اللهم آمین.و الفضل د جنوری ۱۹۳۲) ب : تاریخ ابن خلدون کے تاریخ الخمیس ۳۳۴ ، تاریخ طبری ما دار المعارف مصر ہے.سیرت الامام این میشام کے مندرجہ ذیل صفحات کے مطالعہ سے ہجرت تک مکہ کے مسلمانوں کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے.۸۸ ۱۱۰ تا ۱۴ - ۱۹۳ تا ۱۶۰ ۱۹۰ تا ۲۰ سے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادہ قاسم کی وفات پر عاص بن وائل سمی ر والد حضرت عمرو بن عاص نے کہا تھا کہ نعوذ باللہ ان محمدا استر لا يَعِيشُ لَهُ ولد ذكر یعنی آپ کی کوئی نرینہ اولاد زندہ نہ رہے گی ر تاریخ کامل ابن اثیر ہو - سيرة ابن هشام مترجمه میشیخ محمد اسمعیل پانی پیتی (۱۳) ہے.اسد الغابه في معرفة الصحابه ہے.سیرت حلبیہ جز اول مهر ۳۲ - صحیح بخاری باب بیان الكعبة باب ما لقى النبي صلى الله عليه وسلم من المشركين بمكة - زرقانی شرح مواہب لدنیہ ۲۹۱.حضرت حکمیہ کی طرف اشارہ ہے.جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے.اور ساتہ میں جنگ پر نوک میں لڑتے ہوئے شہادت پائی.شہ.اس سے مراد حضرت خالد بن ولید ہیں.جن کی کنیت ابو سلیمان اور لقب سیف اللہ تھا.سنہ اور شندہ کے درمیان مشرف بہ اسلام ہوئے اور زندگی کا بیشتر حصہ میدان جہاد میں داد شجاعت دیتے ہوئے گزار دیا.ان کے اسی ذوق جہاد اور شجا مانہ کارناموں کی وجہ سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ان کو سیف اللہ کا لقب مرحمت فرمایا.تقریباً سوا سو لڑائیوں میں تلوار کے جوہر دکھائے ہوئے

Page 283

میں مدینہ منورہ میں وفات پائی.شه - تاج العروس مند ۳ ۵۳۰۰ - مفردات امام راغب زیر لفظ کستر شاه صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم له - تاج العروس جلد ۳ ۲۵ ه - الانبياء ۲۱ : ۸ حسن الأسوة بما ثبت من الله ورسوله في السوة مؤلف نواب محمد صدیق حسن خاں صاحب صلا طبع اول مطبوعه قسطنطنیه را راه 100 ۱۳ - سوامی دیانند سرسوتی روفات سلة ، ہندوؤں کا مشہور مذہبی رہنما اور آریہ سماج کا بانی تھا.شه - اعجاز احمدی من ، من محفوظات جلد اول ملام له - المائده ۴:۵ ا بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین مطبوعہ سنا

Page 284

۳۱ عبد الاضحی مورخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۳۷ء کے متعلق الفضل ۲۲ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ء صٹ پر یہ نوٹ درج ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے نئے نماز عید الاضحیٰ پرانی عیدگاہ میں پڑھائی اور لطیف خطبہ ارشاد فرمایا.یہ خطبہ غالبا سلسلہ کے کسی اخباریں شائع نہیں ہوا.(مرتب)

Page 285

۳۲ عید الاضحی اور دسمبر س ا ء کو منائی گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ چونکہ بیمار تھے اس لئے حضور حمید کی نماز نہ پڑھا سکے.اس تقریبیہ کے بارہ میں روزنامہ الفضل نے لکھا:.یونکہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالے بوجہ علالت عید گاہ میں تشریف نہ لے جائے اس لئے عید کی نما را حضرت مولوی شیر علی صاحب نے گیارہ بجے پڑھائی.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے عہد مبارک کی یہ پہلی حمید الا ضحی ہے جس کے اجتماع میں حضور قادیان میں رونق افروز ہوتے ہوئے بوجہ نتے بوجہ علالت تشریف نہ لے جاسکے.والفضل (ار دسمبر ۳۳ ۲ )

Page 286

۳۳ ر فرموده ۲۷ نومبر ۱۹۳۳ء بمقام قادیان) جھے چونکہ شدید نزلہ اور کھانسی ہے اور میں صرف عید کی وجہ سے یہاں آگیا ہوں.اس لئے میں بہت ہی اختصار کے ساتھ چند باتیں کہوں گا.جیسا کہ ہر مسلمان کو اس بات سے واقف ہونا چاہیئے یہ عید جو عید الاضحیہ کہلاتی ہے یعنی قربانی کی عید حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا! تعالے کے حضور میں پیش کی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رو یاد میں دیکھا کہ گویا انہوں نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالے کی راہ میں ذبح کر دیا ہے.اور چونکہ اس وقت تک انسانی قربانی کی مانفت کا حکم نہ ہوا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی سمجھا کہ شاید ان سے حضرت اسمعیل کی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے.حضرت سمعیل علیہ السلام اس وقت چھوٹے سے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو بتایا کہ میں نے اس قسم کی رؤیا دیکھی ہے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام نے جو ایک اچھی تربیت پائے ہوئے بچہ تھے ، باپ کے اس رڈیا کو سن کر اس بات کی اہمیت کو سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہر حال پورا ہونا چاہیئے.اور انہوں نے اپنے والد سے کہدیا کہ آپ اپنی رڈیا کو پورا کریں میں اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کو تیار ہوں.لیکن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر نی چاہی تو اللہ تعالے نے المانا انہیں تبا دیا کہ در حقیقت رڈیا کی تعبیر اور تھی.اور کہ تم نے ظاہری طور پر بھی اپنی اس رویا کو پورا کر دیا ہے ہے کیونکہ تم نے اپنے بیٹے کوئی الواقع ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلامہ نے اپنی نسل کو خدا تعالے کی راہ میں قطع کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اس وقت تک ان کے ہاں صرف ایک ہی بچہ تھا تو اس کے بالمقابل خدا تعالے نے فیصلہ کیا کہ میں تیری نسل کو کبھی قطع نہ ہونے دوں گا.اور خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دیکھ لو آج سے سو سال قبل حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے اور ان سے قریبا چودہ سو سال قبل حضر موسی علیہ السلام پیدا ہوئے.یہ گویا ا ۳۳ سو سال ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے انداز چھ سو سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے یہ گویا چار ہزار سال کے قریب کا زمانہ ہے جب ایک دن ایک غیر آباد علاقے میں خدا تعالے کا ایک نامور اور ایک نبی اپنے اکلوتے بیٹے کو جو انٹی سالی کی عمر میں ان کے ہاں پیدا ہوا تھا ایک سنسان جنگل میں اس نئے لے گیا کہ

Page 287

٢٤٩ خدا تعالے کے لئے اُسے ذبح کر دے.اس وقت آسمان اور زمین کے خدا نے تمام کائنات کے پیدا کر نے والے خدا نے عرش سے آواز دی کہ اسے ابراہیم تو نے اپنے رویا کو سچا کر دکھایا اور اپنی نسل کو قطع کرنے کے لئے تیار ہو گیا.مگر میں تیری اولاد کو کبھی ختم نہ ہونے دونگا، تیری نسل کو بھی تقطع نہ ہونے دوں گا.بلکہ اسے بڑھاؤں گا یہاں تک کہ جس طرح آسمان کے ستارے نہیں گئے جا سکتے تیری نسل بھی نہ گنی جاسکے گئی ہے اب دیکھو آج سے چار ہزار سال قبل فلسطین کے ایک سنسان جنگل میں دنیوی لحاظ سے ایک نہایت ہی کمزور شخص کو اللہ تعالے کی طرف سے یہ آوازہ آئی تھی اور آج دنیا کی بہترین مہذب قوم کے سردار ، دنیا کی بہترین طاقت رکھنے والی قوم کے سردار، دنیا کی بہترین سائنٹیفک قوم کے سردار نے چند سال قبل یہ فیصلہ کیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل کو تباہ کر دے گا تے اور سات سال قبل دنیا نے یہ اندازہ بھی کر لیا.کہ یہودی قوم اب مٹ جائے گی مگر با وجود اس کے کہ سیودی قوم اپنے مذہب کو چھوڑ چکی ہے.چونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جسمانی اولاد سے ہے ، اس لئے چار ہزار سال قبل اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا تھا کہ میں تیری نسل کو کبھی قطع نہ ہونے دوں گا، اس نے اس کے حق میں اسے پورا کر دکھایا.جرمن قوم کے سردار ہٹلر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ یہودی قوم کو بلاک کر دیا ، اسے تباہ کر دے گا.اور بظاہر یہ نظر بھی آتا تھا کہ وہ ایسا کر دے گا، مگر نوش پر سے خدا تعالے کہہ رہا تھا کہ میں اسے ناکام کر دوں گا.بے شک آج یہودی قوم بے حقیقت ہے اور اسے کوئی طاقت حاصل نہیں اور بے شک دنیا کا سب سے زیادہ اخت دار والا سیاسی لیڈر اس سے ٹکرایا.ایسا زبر دست لیڈر کہ جس کے سامنے برطانیہ جیسی عظیم الشان سلطنت کے وزیر اعظم مسٹر چیمبر لین بھی سر چھب کا آئے تھے لیکن آخر وہ وعدہ پورا ہوا جو آج سے قریباًا چار ہزار سال قبل فلسطین کے ایک جنگل میں اللہ تعالے نے اپنے بندے سے کیا تھا اور خدا تعالے کی عجیب قدرت ہے کہ آج چھ سال کے بعد دنیا یہ بحث کر رہی ہے کہ مہلو زندہ ہے یا مر چکا ہے.وہ جرمنی میں ہے یا کہیں بھاگ گیا ہے.وہ پاگل ہو گیا ہے یا تندرست ہے.اب دیکھ لو خدا تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اسے کس طرح پورا کیا.یہود نے خدا تعالے کو بھلا دیا مگر خدا تعالے نے یہود کو نہیں بھلایا.انسان بے وفا ہو سکتا ہے مگر خدا تعالے بے وفا نہیں ہو سکتا.جب مٹلر یہ کہہ رہا تھا کہ میں یہود کو مٹا دوں گا خدا تعالے اپنے عرش سے یہ کہہ رہا تھا کہ چار ہزار سال ہوئے ہم نے دنیوی شان و شوکت کے لحاظ سے ایک معمولی حیثیت کے انسان سے فلسطین کے جنگل میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اس کی

Page 288

.نسل کو قطع نہ ہونے دیں گے.اور ہم زندہ خدا ہیں.ہمارا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اور یکم ابراہیم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو خدا تعالنے کا وعدہ پورا ہوا.یہ ایک ایسا نہ منہ نشان دنیا کے سامنے ہے.ایسا زندہ معجزہ دنیا کے سامنے ہے کہ جس کا انکار کوئی بڑے سے بڑا دہر یہ بھی نہیں کرسکتا.اس معجزہ سے فائدہ اٹھانے والا آج دنیا میں سوائے ہماری جماعت کے اور کوئی نہیں.ہماری جماعت کے بانی علیہ السلام کو بھی اللہ تعالے نے ابراہیم فرمایا ہے.اور یہ معجزہ دکھا کہ اللہ تعالے نے ہماری جماعت کو بتایا ہے کہ میرے وعدوں کے بارہ میں تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیئے.اور جو اس بارہ میں کسی شک میں ہو، وہ دیکھے کہ ابراہیم اول کے ساتھ چار ہزار سال قبل میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ کس طرح پورا ہوا ہے.اور جب میں اتنے پر اپنے وعدوں کو نہیں پھیلاتا تو اپنے تازہ وعدوں کو کس طرح تھیلاسکتا ہوں.اور یہ معجزہ دیکھا کہ اللہ تعالے ہمیں بتاتا ہے کہ جس طرح ابراہیم کی نسل کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور قوت اور کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ نہیں مٹا سکتا.اسی طرح اسے جماعت احمدیہ ! تمہیں بھی کوئی طاقت اور کوئی قوت تباہ نہیں سکتی ہاں نبود ابراہیم اول کی جسمانی اولاد ہیں اور جسمانی تعلق میں دین کی شرط نہیں ہوتی میگر تم ابراهیم ثانی کی روحانی نسل ہو اور روحانی نسل کے لئے دین کی شرط نہایت ضروری ہے پس تمہیں کوئی قوت اور طاقت مٹا نہیں سکتی بشر طیکہ تم اس روحانی تعلق کو مضبوطہ رکھو جو تم نے ابراہیم ثانی کے ساتھ قائم کیا ہے.خدا توانے نے یہود کو مٹنے نہیں دیا کیونکہ ابر آسم اول سے ان کا جسمانی تعلق قائم ہے اور ہم ابراہیم ثانی کی روحانی نسل سے ہیں اور جب تک یہ روحانی تعلق قائم ہے.ہمیں کوئی نہیں مٹا سکتا.یہ روحانی تعلق قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو حضرت سمعیل علیہ السلام کا مثیل ثابت کرے.اور اپنی جان کو دین کی خدمت کے لئے ایک حقیر تحفہ کے طور پر پیش کر دے اور اسے ایک بے حقیقت قربانی قرار دے.پس جب تک ہماری جماعت کے دوست دین کے لئے اپنی قربانیاں پیشیں کرتے رہیں گے جب تک وہ اسلام کی شمع پر پروانہ وار فدا ہونے کے لئے آگے بڑھتے رہیں گے دنیا کی کوئی قوت اور کوئی طاقت بلکہ جیسا کہ میں کئی بار کہ چکا ہوں دنیا کی تمام طاقتیں اور تمام قوتیں اور تمام بادشاہتیں مل کر بھی ہم کو مٹانہ سکیں تھی.اللہ تعا نے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو ابراہیم قرار دیا ہے اور تم اس ابراہیم کے روحانی فرزند ہو اس لئے تم وہ کونے کا پتھر ہو کہ جس پر تم کرو گے وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا اور جو تم پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائیگا دنیا

Page 289

۲۸۱ ہم کو ڈراتی ہے ، ہم کو دھمکاتی ہے اور اپنی قوت و طاقت کے مظاہرے کرتی ہے.بے شک ہم کمزور ہیں اور ظاہری طاقت وقوت کے محاظ سے ہمارا تباہ کرنا مشکل نہیں مگر انجام ہمارے ہاتھ میں ہے.دشمن جتنا بھی ہم کو ڈبوئیں گے اتنا ہی ہم ابھریں گے.جتنا بھی وہ ہم کو نیچے پھینکنا چاہیں گے اتنا ہی ہم اونچا اٹھیں گے جتنا وہ ہم کو قتل کرنا چاہیں گے ، خدا تعا لئے اتنی ہی ہمیں نمایاں زندگی دیگا.بشرطیکہ ہم میں سے ہر ایک ہمھیل کا نمونہ بن جائے تا ابراہیم ثانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں.بے شک ہم کمزوے ہیں.مگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ ذرہ ذرہ کا خدا کائنات عالم کا خدا اور زمین و آسمان کا خدا ہمارے ساتھ ہے.ہم پرحملہ کرنے والا ہم پر نہیں بلکہ خدا تعالے پر حملہ کرنے والا ہو گا اور خدا تعالے پر حملہ کرنے والے کا انجام ظاہر کیا ہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے جماعت کے دوستوں کو توفیق دے کہ وہ ہر وقت سمجھیل کی طرح خدا بتانے کی راہ میں اپنی جانیں فدا کرنے والے ہوں تا اللہ تعالئے اس دنیا میں بھی اور اگلی زندگی میں بھی اپنی برکات کو ان کے لئے مخصوص کر دے.اور خدا تعالئے نہ صرف یہ کہ ان کو موت سے بچائے بلکہ دنیا ان کے ذریعہ زندگی حاصل کرے اور دوبارہ خدا تعالے کا قرب ان کے ذریعہ پائے.خطبہ ثانیہ میں فرمایا.اب میں دعا کرتا ہوں اسلام کیلئے، جماعت کیلئے ، افراد جماعت کے لئے ، ان مبلغین کے لئے جو باہر گئے ہوئے ہیں.اور ان کے لئے جو تیاری کر رہے ہیں.ان دوستوں کے لئے جو مال و جان سے خدت دین کے لئے کمر بستہ ہیں اور ان کمزوروں کیلئے بھی جو قربانی کرنے سے ڈرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے لوں کو مضبوط کردے خدا تعالی ان کو توفیق دے کہ وہ موت کو حقیر ترین چیز مجھیں اور خدا تعالے کی راہ میں مرنے کہ لذیذ ترین شے جائیں.آمین.والفضل یکم دسمبر ۱۹۳۳ اه - الصفت ۱۲۰۳:۳۷ تا ۱۰۷ - ۵۳ - پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷ ے.جرمنی کے آمر مطلق اور دوسری جنگ عظیم کے اصل محرک اولف میلو (۱۹۲۵۸۸۸۹ء) کی طرف اشارہ ہے انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ HITLER ADOLF) جرمن نسل کے بیسویں صدی کے مرد آمین اوڈلف مٹلر کی خود نوشتہ پرینکا سور نمری تری میبلری "مترجمه مولوی محمد ابراهیم علی صاحب چیشتی ماه تا هنا - CHAMBERLAIN (ARTHUR NEVILLE (۲۱۹۲۰-۱۸۷۹) مشهور برطانوی سیاستدان - ۶۱۹۳۷ سے ۳۰ ور و تک برطانوی وزیر اعظم رہا.له - تذکرہ ایڈیشن سوم صفر ۳۳۱۰۷۹، ۳۷۷، ۶۷۲۷،۳۹۲

Page 290

۳۴ قادیان ۸ار نومبر ۱۹۳۵ء - عیدالاضحی کی تقریب ۱۶ار نومبر کو منائی گئی.حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی طبیعت کئی روز قبل سے علیل خیلی آرہی تھی.حرارت کے علاوہ درد نقرس کی شدید تکلیف تھی.مگر اس حالت میں ایک طرف تو ہر خور دو کلاں کی یہ خواہش تھی کہ حضور کی اس مبارک تقریب پر زیارت کرے اور حضور کے ارشادات سے مستفیض ہو اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحبان کی یہ رائے تھی کہ حضور کے عید گاہ تک سواری پر تشریف لے جانے سے بھی تکلیف میں کم از کم ۲۵ فیصدی اضافہ ہو جانے کا اندیشہ ہے.مگر باوجود اس کے حضور نے اپنی تکلیف کے مقابلہ میں خدام کی دلجوئی کو مقدم کرتے ہوئے عید گاہ میں تشریعیت لے جانے کا ارادہ فرمایا اور کہلا بھیجا کہ نماز مفتی محمد صادق صاحب پڑھا دیں اور عید کا خطبہ بھی وہی پڑھیں گے.اس کے بعد میں کچھ کلمات کہوں گا.لیکن حضور کے تشریف لے جانے کی تیاری ہی کی جا رہی بھتی کہ مطلع پر جو پہلے معمولی سا ابر آلود تھا اور بارش کے کوئی آثار نہ تھے.تھوڑی ہی دیر میں بادل گھر آئے.اور بارش ہونے لگی.اس پر اعلان کرنا پڑا کہ نماز عید گاہ کی سجائے مسجد اقصے میں ہوگی.چنانچہ بہت سے لوگ مسجد میں پہنچ گئے جہاں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کرسی پر بیٹھیک تشریف لائے ہوئے تھے.حضور کے ارشاد کے مطابق نماز حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے پڑھائی اور خطبہ بھی مختصر طور پر پڑھا.اس کے بعد حضور نے آرام کرسی پر بیٹھیکہ درود شریف کے کلمات کی تشریح میں نہایت ہی لطیف تقریر فرمائی.اور جماعت کو نہایت نبی مؤثر الفاظ میں تبلیغ احمدیت کی طرف توجہ دلائی اور پھر دیا کرنے کے بعد گھر تشریف لے گئے.الفضل وار نومبر ۶۱۹۳۵ ۱۹۴۵ء مت)

Page 291

۳۵ و فرموده در نومبر لها بمقام باغ حفر ام المنان قادر انسان کی زندگی پر مختلف مواقع آتے ہیں کبھی اسے بڑی باتیں ضرور پا کستی پڑتی ہیں اور کبھی اسے چھوٹی باتیں ضرور نا کہنی پڑتی ہیں.کبھی وہ چھوٹی بات کہتا ہے جو بظا ہر بڑی نہیں ہوتی مگر حقیقتاً بڑی ہوتی ہے اور کبھی وہ چھوٹی بات اس لئے کہتا ہے کہ کئی چھوٹی باتیں کہنی بھی ضروری ہوتی ہیں.آج کی عید جو عید الاضحیہ کہلاتی ہے یہ وہ عید ہے جو حضرت ابراسیم علیہ السلام اور ان کے لڑکے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی یادگار کے طور پر اسلام میں منائی جاتی ہے.یہ وہ عید ہے جو ہر سچے مسلمان سے یہ اقرار لیتی اور اس سے یہ حمد کراتی ہے کہ اس کی زندگی اس کی جان اور اس کا مال صرف اللہ تعالے ہیں کے لئے ہے اور وہ ہر وقت اپنی جان اور اپنے مال کو قربان کرنے کے لئے خدا تعالے کے حضور حاضر ہے.پس یہ عید اپنے اندر نہایت اہمیت رکھتی ہے اور یہ خدا تعالے کے سامنے مومنوں کے اخلاص کے اظہار کے لئے عظیم الشان مواقع میں سے ایک موقع ہے مگر آج میں اس عید کے سلسلے میں ان باتوں کے متعلق زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا سوائے ایک چھوٹی سی بات کے اور جو اس سے پہلے کسی حمید کے موقعہ پر یکیں نے بیان نہیں کی.مگر آج بیان کرتا ہوں.اور وہ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رڈیا میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کی قربانی دے رہے ہیں.تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت سمعیل علیہ السلام سے اس کا ذکر کیا کہ رویا میں میں نے دیکھا ہے کہ میں تمھیں قربان کر رہا ہوں حضرت اسمعیل علیہ السلام نے اپنے باپ سے یہ شنکر اس پر آمادگی کا اظہار کیا اور کہا آپ اسے پورا کیجئے.مجھے اس میں ہر گز عذر نہیں ہو سکتا اور میں بخوشی اس کے لئے تیار ہوں اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام چھری لے کر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے آپ نے اپنے بیٹے کو زمین پر گرایا اور جب چھری چلانے لگے تو ذبح کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالے نے فرمایا بس بس آیا تو اهِيمُ قَد صَدَّ تَتَ الر یا.اسے ابراہیم علیہ السلام، تو نے اپنی خواب پوری کر دی.اب اس قربانی کی ضرورت نہیں.پھر اللہ تعالے نے فرمایا ہے وَفَدَيْنَاهُ با اخلاق کے مطابق غیر الہ قسمیہ کی نماز عید گاہ میں پڑھی جانتی تھی (الفضل ر نومبر ۱۹۳۶ء صدا مگر الفضل نومبر ڈالر ملا پر لکھا ہے کہ حضور نے نماز عید باغ حضرت ام المؤمنین میں پڑھائی (مرتب)

Page 292

بذبح عظیم - ہم نے اس کی جگہ ایک اور ذبیحہ پیش کر دیا ہے اب سوال یہ ہے کہ وہ ذبیحہ کون تھا.بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالے نے اس کی جگہ مینڈھے کو قربان کرنے کا حکم دیا.مگر سوال یہ ہے کہ جب رؤیا والی انسانی قربانی سے مراد حقیقی ربانی نہ تھی اور خدا تعالیٰ نے حضرت ابرا ہمیں اور حضرت سمعیل علیہما السلام کی نیت کو ہی دیکھ کر کہ دیا کہ بس تمہاری قربانی ہو گئی تو جانور کی قربانی کا حکم دینے کی ضرورت ہی کیا علی اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ انسانی قربانی کے رواج کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا اس سے پہلے لوگ انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے.اور بڑے بڑے زاہد جو نیکی اور تقوی کی راہوں کو اختیار کرتے تھے اپنا آخری امتحان یہ سمجھتے تھے کہ اپنی اولاد کو خدا تعالے کی راہ میں قربان کر دیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسی رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی قربانی کے لئے کھڑے ہو گئے اور آپ نے رویا سے یہ مجھا کہ خدا تعا لئے کھتا ہے اپنے بیٹے کو قربان کردو اور اس خیال سے کہ غالبا اس رڈیا سے مراد ظاہری صورت میں بیٹے کی قربانی ہے وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے مگر خدا تعالے نے اس سے منع کر کے بتا دیا کہ ہم آئیندہ کے لئے انسانی قربانی کا رواج بند کرتے ہیں اور یہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی رویا میں اپنے بچے کو ذبح کرتے دیکھے تو اس کی جگہ دنبے کی قربانی کرے.اور آج کے بعد انسانوں کی بی نے جانوروں کی قربانی کی جائے.پس اللہ تعالے نے حضرت ابہ امیر علیہ السلام کوانسانی قربانی کے لئے اس لئے کہا تھا کہ اس طرح سے انسانی قربانی کو بن کر دئے.پس ایک وجہ تو اس کی یہ ہے جو میں نے بار ہا بیان کی ہے.مگر اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض جگہ لوگ جانی قربانی تو بڑے شوق سے کر دیتے ہیں مگر انہیں مالی قربانی سے دریغ ہوتا ہے.جانی قربانی ایسی ہے جس کا ازالہ نہیں ہو سکتا اور مالی قربانی کا ازالہ ہو سکتا ہے پیس جہاں اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا کہ وہ خدا تعالے کی راہ میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں یا نہیں اور جہاں خدا تعالے نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کا امتحان لیا کہ وہ اپنی جان کو میرے حضور پیش کر سکتے ہیں یا نہیں اور جہاں خدا تعالے نے انسانی قربانی کو آئندہ کے لئے بالکل منشوفع کر دیا اور فرمایا کہ آئندہ پیچھے مذہب میں انسانی قربانی نہیں ہوگی.انسانی قربانی صرف جہاد کے موقعہ پر کی جائے گی بلاوجہ نہیں کی جائے گی وہاں دوسری طرف خدا تعالے نے یہ بھی کہ دیا کہ صرف جانی قربانی پر ہی خوش نہیں ہو جانا چاہیئے.تم سے مالی قربانی کے مطالبے بھی کئے جائیں گے اور تمہارے لئے ضروری ہوگا کہ تم مالی قربانی بھی پیش کرو.دنیا میں کئی ایسے زمانے آتے ہیں کہ لوگ جانی قربانی تو کرتے ہیں

Page 293

۲۸۵ مگر مالی قربانی نہیں کر سکتے اس لئے اللہ تعالے نے حکم دیا کہ مینڈھے کی قربانی کیا کرو تاکہ تمہاری مالی قربانی کا بھی امتحان ہو جائے.کسی شاعر نے اس کی مثال دیتے ہوئے فارسی میں یہ شعر کہا ہے.گر جاں طلبی مضائقہ نیست یعنی اگر جان مانگو تو کوئی حرج نہیں لیکن دوسرے مصرعہ میں کھتا ہے.گرزر طلبی سخن درین است اگر روپیہ مانگو تو اس میں مجھے اعتراض ہے بظاہر تو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک شخص اپنی جان دینے کو بخوشی تیار ہو جائے مگر وہ روپیہ نہ دے لیکن دنیا میں بہت سے ایسے دور بھی آتے ہیں جب لوگوں کی ذہنتی ہیں یہ شکل اختیار کرلہ میں.چنانچہ آجکل کے غیر احمدیوں پر بھی یہ دور آیا ہوا ہے.دیکھو کس طرح سہندوستان میں ہزاروں ہزار مسلمان مارے جا رہے ہیں.یوں تو ہمار احمدیوں کے بھی زخمی ہونے کی خبر آئی ہے تو کسی کے بارے جانے کی خبر نہیں آئی.اس کے علاوہ احمدیوں کی کئی عمارتیں جلادی گئی ہیں ہے.حالانکہ جھگڑا ہندوؤں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیاں تھا.لیکن جہاں تک عام مسلمانوں کا سوال ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ مہندو ان صوبوں میں کہ جہاں ہندو اکثریت ہے بے رحمی سے مسلمانوں کو مار رہے ہیں.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بھی جانی متربانی کا جذبہ تو پایا جاتا ہے خواہ وہ لغو ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ فضول ہی کیوں نہ ہو مگر جذ به ضرور موجود ہے.چنانچہ اس جذبہ نے نواکھالی اور ملتان را ولپنڈی میں نہایت افسوسناک صورت اختیار کرلی لیکن ایسے واقعات پڑھ کر کہ فلاں صوبہ کے مسلمانوں کو ہنڈوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر پھینک دیا.حیرت آتی ہے کہ مسلمان کیوں ان جانوں کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ تھوڑی سی کوشش کر کے ان کو بچایا جاسکتا ہے اور وہ اس طرح که مسلمان رو پیہ خرچ کرنے سے دریغ نہ کریں اور پورے طور پر منظم ہو جائیں تب یہ جانی قربانی مٹائی جاسکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ اور کوئی صورت مسلمانوں کے بچنے کی دکھاتی نہیں دیتی.مگر مسلمان ان تمام تفکرات سے بالکل آزاد نظر آرہے ہیں اور باوجود اس نازک زمانہ کے پھر بھی وہ خواب خرگوش سے بیدار نہیں ہوتے.حالانکہ موجودہ حالات جھنجوڑ جھنجور کو مسلمانوں کو بیدار کر رہے ہیں مگر وہ ہیں کہ کروٹ ہی نہیں لیتے.جب تک مسلمان اس طرح غافل پڑے رہیں گے جب تک مسلمان اپنے آپ کو منظم نہیں کریں گے جب تک مسلمان اپنے مالوں کو غیر قوام سے بھی بڑھ چڑھ کر قربان نہ کریں گے وہ کبھی چین اور سکھ کی زندگی بسر نہیں کر سکتے اس وقت جانی قربانی اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی مالی قربانی.مگر افسوس کہ مسلمانوں کا ہاتھ اپنی جیبوں پر شعر غالب شاہ علم کا ہے.یا نام سین آزاد نے بھی اپنی مشہور کتاب آب حیات کے ما ہی شعر کو درج کیا ہے.مرتب:

Page 294

۲۸۶ کی طرف اُٹھتا نظر ہی نہیں آتا.میں جب دتی گیا تو لوگوں نے مجھ سے ایسے واقعات کا ذکر کیا ان کو کبھی میں نے یہی کہا تھا کہ اگر چندہ کے ذریعہ مسلمانوں سے روپیہ اکٹھا کیا جائے تو ان کی حالت سدھر سکتی ہے.مگر انہوں نے کہا ہم کیا کریں.لوگ روپیہ نہیں دیتے.پس آج یہ حالت ہے کہ مسلمان یہ تو برداشت کر لیتا ہے کہ اس کی بیوی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے.مسلمان یہ تو برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے گھر کو جلا دیا جائے اور مسلمان یہ تو برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے مال کو لوٹ لیا جائے اور وہ اس کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے کہ دشمن کو قتل کر دے یا اس کے گھر کو جلا دے مگر وہ یہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتا کہ اپنے مال کا دسواں حصہ ہی اپنے ہاتھ سے دے کر اپنی قوم اور اپنی جان کو بچائے.پس یہ وہی زمانہ ہے کہ اگر جان مانگو تو حاضر اور اگر مال مانگتے ہو تو ہمیں اس میں اعتراض ہے.یہ موجودہ دور نہایت ہی نازک حالات میں سے گزر رہا ہے.اور عید قربان ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے کہ صرف جانوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے اموال کو بھی قربان کرو.چنانچہ جہاں اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعہ یہ سنت قائم کی کہ جانوں کو قربان کیا جائے.جہاں یہ فرمایا کہ انسانی قربانی ناجائز قرار دی جاتی ہے وہاں ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ بسا اوقات صرف جانی قربانی سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کے ساتھ مالی قربانی بھی ہونی چاہئیے ، ورنہ تمہاری قربانیاں حقیقت کا رنگ اختیار نہیں کر سکتیں.آج خیر احمدی مسلمانوں پہ وہی دور آیا ہوا ہے کہ مالی قربانی کا نام ہی نہیں لیتے.آخر احمدی بھی تو مسلمانوں میں سے ہی آئے ہوئے ہیں احمدی خواہ اتنی قربانی نہ کریں جتنی قربانی کا خدا تعالے ان سے مطالبہ کر رہا ہے اور خواہ وہ اتنی قربانی نہ کریر متنی قربانی کا مطالبہ ان کا امام ان سے کر رہا ہے بہر حال جماعت احمدیہ نے قربانی کی ایک مثال دنیا میں قائم کر دی ہے.ایک چھوٹی سی جماعت ہونے کے باوجود دنیا بھر کے کونے کونے میں اسلام کے مشن قائم کر دیئے ہیں.ہمارے نوجوان اپنی نوکریاں چھوڑ کر اپنے عزیز ہو اقارب کی محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے امام کے حکم پر لبیک کہنے ہوئے اعلائے کلیہ الہ کیلئے نکل گئے ہیں.ہیں خدا تعالی کے فضل سے احمدی جانی قربانی بھی پیش کر رہے ہیں اور مالی قربانی بھی پیش کر رہے ہیں.وہ جانی قربانی بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی تھی جو ہمارے احمدیوں نے افغانستان ، اور دوسرے غیر ممالک میں شہید ہو کر پیش کی لی لیکن یہ جانی قربانی بھی قابل قدر ہے جو ہندوستان کے کئی علاقوں میں احمدیوں نے پیش کی ہے.ہندوستان میں بھی انہیں طرح طرح کی مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.ان کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور وہ خود بھی اور ان کے بیوی بچے بھی فاقوں ہے رہے.پھر یہ بھی عظیم الشان جانی قربانی ہے کہ ہماری جماعت کے سینکڑوں

Page 295

۲۸۷ نوجوانوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لئے وقف کی ہوتی ہیں.اور ان کو ایک لمبے عرصہ کے لئے غیر ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے.وہ اپنے وطن اور عزیزوں کی محبت کو فراموشش کرتے ہوئے اور اپنے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد کو رکھتے ہوئے کہ انہوں نے کفر کے قلعوں پر اسلامی جھنڈے کو گاڑنا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو دوبارہ دنیا میں اسی شان و شوکت سے قائم کرنا ہے جس طرح آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قائم ہوا تھا نهایت قلیل گزارے پاتے ہوئے ان ان علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں نہایت غربت کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کرنے پڑتے ہیں.نہ وہاں ان کا کوئی دوست ہوتا ہے نہ آشنا وہ ایسے ایسے غیر مانوس علاقوں میں پہنچتے ہیں جہاں سوائے خدا کے کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا.وہ اگر ہمیار ہو جائیں تو ان کا تیمار دار کوئی نہیں ہوتا اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو کوئی تسلی دینے والا نہیں ہوتا.مگر پھر بھی وہ اپنے عزام پر چٹان کی سی مضبوطی سے قائم رہتے ہیں.بعض اوقات ان کو درختوں کے پتے کھا کر یا پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرنا پڑتا ہے مگر وہ اپنے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آنے دیتے.یہ سب باتیں جانی قربانی میں شامل ہیں.اس کے علاوہ ان کے گھروں میں جو حالت ہوتی ہے وہ بھی جانی قربانی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے.ان مبلغین کی بیویاں آٹھ آٹھ دس دس سال تک ان کی واپسی کے انتظار میں گزار دیتی ہیں، ان کے بچے نہایت غربت اور جدائی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی تعلیم و ترسیت کا دہرا ہو مجھے ان پر ہوتا ہے.یہ بھی جانی قربانی ہے.پس آج دنیا میں صرف ہماری جماعت ہی ہے جو مالی قربانی بھی کر رہی ہے اور جانی قربانی بھی کر رہی ہے.احمدی کوئی آسمان سے تو نہیں آئے یہ بھی انہی مسلمانوں میں سے ہیں.اور یہ صرف تین چار لاکھ کی قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی جو کچھ کر رہے ہیں وہ ساری دنیا کے مسلمان بھی نہیں کر سکتے.اس وقت ہندستان میں دس کروڑ مسلمان ہیں.اس کے یہ معنے ہوئے کہ وہ احمدیوں سے دسو گئے زیادہ ہیں گویا ایا کہ احمدی کے مقابلہ میں دو سو غیر احمدی ہیں.دیکھو یہ کتنا بھاری فرق ہے.ہماری جماعت خدا تعالے کے فضل سے پچیس لاکھ روپیہ سالانہ چندوں میں دیتی ہے.جس میں سے کچھ تحریک جدید اور کچھ چندہ عام اور کچھ دوسری تذات میں آتا ہے اس میں سے اگر چار یا پانچ لاکھ روپیہ باہر کی جماعتوں کا نکال دیں تو سنیں لاکھ روپیہ سالانہ عرف مہندوستان کی جماعتوں کا بنتا ہے اگر ہماری جماعت کی طرح ہندوستان کے دوسرے مسلمان بھی چندہ اکٹھا کریں تو چالیس کروڑ رو پر سالانہ چندہ اکٹھا ہو سکتا ہے اور چالیس کروڑ روپیہ سالانہ وہ آمدن ہے جو چالیس پچاپیس سال پہلے حکومت سند کی ہوا کرتی تھی.چالیس کروڑ روپیہ سہندوستان کے

Page 296

YAA کی پوری آمدن سے بھی دگنی رستم ہے.پس اگر باقی مسلمان بھی ہماری جماعت کے برابر نشر بانی کریں تو چالیس کروڑ روپیہ سالانہ کی رفتم اکھٹی کر سکتے ہیں اور اس رقم سے وہ اپنی ہر قسم کی مشکلات کو آسانی سے دُور کر سکتے ہیں مثلاً آجکل ایک ہوائی جہاز پچیس نیس ہزار روپیہ ہیں مل سکتا ہے اور ایک لاکھ روپیہ میں چار ہوائی جہاز خریدے جاسکتے ہیں.اور ایک کروڑ روپے میں چار سو ہوائی جہاز خرید سے جاسکتے ہیں.چار سو ہوائی جہاز وہ طاقت ہے جس سے دنیا کے ہر گوننے کے مسلمانوں کی نگرانی اور خبر گیری کی جاسکتی ہے.اگر وہ لوگ ہمارے برابرہ قربانی کریں تو چالیس کروڑ روپیہ سالانہ اکٹھا کر سکتے ہیں اور اگر اس میں سے صرف ایک کروڑ روپیہ کے ہوائی جہاز خرید لیں تو تمام دنیا کے مسلمانوں کی خبر گیری ہو سکتی ہے.بہار کے متعلق اخبارات کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں چار سو مسلمان مارے گتے ہیں مگر ہماری جماعت کے آدمیوں نے جور پورٹ بھیجوائی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک علاقہ میں ہی دو ہزار مسلمان مارے گئے ہیں اور یہ بھی خبر ہے کہ ایک جگہ تین سو میل کے لیے علاقہ کے اندر کوئی ایک مسلمان بھی نہیں رہا، سب مارے گئے ہیں.یہ حالت مسلمانوں کی کیوں ہوئی اس لئے کہ ان کی خبر لینے والا کوئی نہ تھا او وہ خود اپنی خبر کسی کو پہنچا نہ سکتے تھے اور مسلمانوں کو پتہ بھی نہیں کہ کون مرا اور کون جیا.اب مسلمان لیڈرا اعلان کر رہے ہیں کہ ہمیں سب حالات کا علم دیا جائے مگر سوال تو یہ ہے کہ ان کو یہ کون د ہے چونکہ مسلمانوں میں مالی قربانی کی عادت نہیں اس لئے یہ انتظام ہونا مشکل ہے اپنے انتظاما جانی قربانی سے نہیں بلکہ مالی قربانی سے ہوا کرتے ہیں.اگر مسلمان مالی قربانی کرتے تو انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.اسی طرح اور ہزاروں طریق اور ذرائع ہو سکتے تھے جن کو استعمال کر کے ایسے فسادات کا اندفاع ہو سکتا تھا.اگر دوسرے مسلمان ہماری جماعت کا دسواں حصہ بھی قربانی کرتے تو چار کروڑ روپیہ سالانہ کی رقم فراہم کر سکتے تھے.مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کا مسلمان جانی قربانی تو دیتا ہے مگر مالی قربانی سے دریغ کرتا ہے.آج کا جھوٹا ابراہیم جانی قربانی تو کر سکتا ہے مگر بچے ابراہیم کی طرح اس کے ساتھ دُنبہ قربان نہیں کر سکتا حالانکہ قومی ترقی کے لئے بسا اوقات دُنبے کی قربانی نہایت ضروری ہوتی ہے.آج دنیا میں صرف اور صرف ہماری جماعت ہے جو دونوں قسم کی قربانیاں کر رہی ہے.وہ جانی قربانی بھی پیش کر رہی ہے اور دینے کی قربانی بھی پیش کر رہی ہے.میں علیے خطبہ کے بعداب اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالے بعض چھوٹی چیزوں سے بھی ایمان کی آزمائش کیا کرتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر عید کے ساتھ کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں رکھ دی ہیں.ان میں سے پہلی بات جو ہر عید کے ساتھ رکھی ہے یہ ہے کہ عید

Page 297

۲۸۹ کے دن غسل کیا کر رہے.دوسری بات یہ ہے کہ عید کے دن یا تو نئے کپڑے پہنے جائیں ورنہ احتیاط سے و ھو کر پرانے ہی پہن لئے جائیں تے میری بات یہ ہے کہ ہر عید کے موقعہ پر خطہ ضرور لگایا جائے جو بھی بات جو صرف اس عید الاضحیہ کے لئے ہے یہ ہے کہ جب دو مسلمان گھر پر یا دستہ میں ملیں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و لبلد الحمد پڑھا کریں.مگر کتنے مسلمان ہیں جو باقاعدہ ان باتوں پر عمل کرتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ کپڑے بدلنے میں غلو کر لیتے ہیں اور خاص کر شہروں میں تو بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منشاء سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.گاؤں والے تو بیچارے سیدھے سادے ہوتے ہیں اور پرانے کپڑے ہی دھوکہ پہن لیتے ہیں مگر شہری لوگ بہت زیادہ غلو اور اسراف سے کام لیتے ہیں جو نا جائز ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کو عام طور پر مجالس میں آتے وقت صفائی کا خیال نہیں ہوتا سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احکام مجانس میں صفائی کر کے آنے کے بارہ میں ارشاد فرمائے ہیں.جن میں سے پہلا حکم بلاناغہ مسواک کرنا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے منہ کو ہمیشہ صاف رکھا کہ واس کے متعلق میں نہیں جانتا کہ اسلامی ممالک میں اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے.مگر بند وبستان میں سو میں سے ہے 99 فیصدی مسلمان رسول کریم مسلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کی خلا ورزی کرتے ہیں بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ ہزار میں سے ایک آدمی بھی اس حکم یہ پوری طرح عمل کرتے والا نہ ہو گا.اگر کسی کو اس کے متعلق شبہ ہور یہاں تو معانقہ کا رواج نہیں تو کسی ایسے معانقہ کر کے دیکھ لو اور اپنے ساتھی کے مُنہ کو سونگھو نہیں پتہ لگ جائے گا کہ یہ آدمی کا منہ نہیں سنڈ اس ہے پوشخص منہ کی صفائی نہیں رکھتا اگر وہ قریب آجائے تو ہمارا ناک تمہیں بتائیں گا کہ اس نے کبھی منہ کی صفائی نہیں کی.مجھے اللہ تعالے نے خاص طور پر قوت شامہ عطا کی ہے اور مجھے بعض اوقات ایسی باتوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے مثال کے طور پر سعیت کے وقت ہیت کرنیوالا مجھ سے فٹ ڈیڑھ منٹ پر بیٹھا ہوتا ہے مگر الا ماشاء اللہ سب کے منہ سے بو آتی ہے اور بعض اوقات بدیت سے توجہ ہٹ جاتی ہے.بسا اوقات وہ بُو اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.حالانکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منہ کی صفائی کا انتنا خیال تھا کہ کئی کئی دفعہ دن میں مسواک کرتے تھے.پس منہ کی صفائی کے لئے مسواک نہایت ضروری چیز ہے یہ بحث فضول ہے کہ منجن اچھے ہیں یا مسواک اچھی ہے.آجکل کے ڈاکٹروں کا دعوئی ہے کہ منجمین مسواک سے اچھے ہیں مگر اصل مدعا تو یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں میں سے کسی ایک کا تو باقاعدہ استعمال کیا جائے.اور منہ کی بو کو دور کیا جائے.خواہ وہ مسواک سے دور ہو یا منجن سے ہر حال منہ کو صاف رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ دوسروں کی طبائع پر برا اثر ڈالنے کا موجب

Page 298

۲۹۰ و وہ.ن جو مگر عام طور پر لوگ منہ کی صفائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ عید کو خراب کر دیتے ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو حکمتیں اس کے اندر رکھی ہیں وہ مائع ہو جاتی ہیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی ایسی چیز کھا کر مسجد میں نہ جاؤ جس سے تمہارے مونیوں سے جو آئے اور نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ کچا پیاز کھا کر انسان ہرگز مسجد میں نہ جائے نہ اس سے فرشتوں کو اذیت پہنچتی ہے.مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ فرشتے نظر نہیں آتے اس لئے ان کو بو بھی نہیں آتی اور اذیت بھی نہیں پہنچ سکتی.پھر بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ صرف پیاز ہی کی شرط ہے کہ نہ کھایا جاے حالانکہ سیاز سے بھی زیادہ مولی کا ڈکار متعفن ہوتا ہے.اور وہ اتنا سخت متعفن ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص آٹھ یا دس گز کے فاصلہ پر بھی ڈکار لے تو اس کی بُو سے سر چکرا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ ہر چیز جو اپنے اندر کو رکھتی ہے اس کو کھا کر مجالس یا مساجد میں نہیں جانا چاہیئے.آپ نے پیاز کا نام صرف مثال کے طور پر لیا ہے ورنہ اس حکم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے بو پیدا ہوتی ہے.اور فرشتے کے متعلق به خیال کہ وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں آیا کرتا تھا اور انہیں آتا ، نہ صرف قلب تدبیر کا نتیجہ ہے اور ایسا خیال بالکل باطل ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس فرشتہ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے ، اس سے مراد مومن فرشتہ ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کو عورتوں نے یہی کہا تھا کہ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكَ كریم و شخص تو بیشر نہیں ہے، فرشتہ ہے.مگر تعجب ہے کہ مصر کے کفار تو اس بات کو سمجھتے تھے کہ مومن کو ہی فرشتہ کہتے ہیں مگر جو مومن ہیں وہ نہیں سمجھ سکتے کہ فرشتہ کس کو کتنے ہیں جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پیاز کھا کر مسجد میں نہ آؤ کیونکہ اس سے فرشتے کو اذیت ہوتی ہے.تو وہ فرشتے تم ہو اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مومن جو میرے احکام پر پوری طرح عمل کرکے مجالس میں آتا ہے ، اس کو اس شخص کے منہ کی بو سے اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے جو ان احکام پر عمل نہیں کرتا پس فرشتہ سے مراد وہ مومن ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام پر پوری طرح عمل کرتا ہے.پھر بعض اوقات ان ساری باتوں پر عمل کرنے کے باوجود بھی کچھ کوتاہی ہو جاتی ہے مشکی بعض لوگوں کو بغل گندہ ہوتی ہے یا بعض کے پیروں کی انگلیوں میں بُو ہوتی ہے.اس کے لئے سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عطر لگا کہ آیا کہ بیتے پس پہلی بات جو مجالس میں آنے کے لئے نہایت

Page 299

۲۹۱ ضروری ہے وہ منہ کی صفائی ہے.دوسری یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ کھائی جاوے جس سے منہ ہیں بو پیدا ہو.تیسری یہ ہے کہ نہاد بھو کر بدن اور کپڑوں کی اچھی طرح صفائی کر کے آؤ.اور جو بھی ہے کہ چونکہ بعض کو بغل گند یا اور کسی قسم کی تکلیف ہو گئی ہے جو صفائی کرنے سے بھی نہیں دی سکتی اس لئے سب کے لئے حکم ہے کہ عطر لگا کر آؤ.خصوصاً عیدین اور جمعہ کے موقعہ پر سب لوگوں کو عطر لگانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کسی شخص کی وجہ سے دوسرے مومن کو تکلیف نہ ہو یعنی ایسے مومن کو جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام پر پوری طرح عمل کر کے فرشتہ بن کر مجلس میں آتا ہے.بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے احکام میں مگر اپنے اندر بڑی بڑی حکمتیں رکھتے ہیں چونکہ نمازوں میں توجہ کا ہونا نہایت ضروری ہے.اگر ایسے لوگ بھی نمازوں میں شامل ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان حکمت بھری باتوں پر عمل نہیں کرتے تو نماز سے توجہ ہٹ جاتی ہے.اب تو میں تمام نمازوں میں امام ہوتا ہوں مگر جب میں اپنی خلافت سے پہلے مقتدی ہوتا تھا تو بعض دفعہ میری نماز خراب ہو جایا کرتی تھی اور لوگوں کے مونہوں کی ٹو کی وجہ سے نماز کی نظر توجہ رکھنی مشکل ہو جاتی تھی.پس نماز کو صحیح طریق سے ادا کرنے کے لئے توجہ نہایت ضروری ہے اور توجہ کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے نمازہ کی طرف سے توجہ کے ہٹ جانے کا احتمال ہو.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مساجد میں شور نہ کیا کر ہی ہے اس لئے نمازوں میں عورتوں کو سب سے پیچھے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ ان کے ساتھ بچے بھی آجاتے ہیں اور وہ شور مچاتے ہیں.خورتوں کو پیچھے رکھنے سے علاوہ پردہ کا انتظام کرنے کے یہ بھی عرض ہے کہ اگر بچے شور مچائیں تو نمازیوں کی نماز خراب نہ ہو سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کوئی بچہ رویا تو آپ نے نماز جلد پڑھا کو ختم کر دی.پس نمازوں میں توجہ کے لئے ضروری ہے کہ ان احکام پر پوری طرح عمل کیا جائے خصوصا عیدین اور جمعہ کی نمازوں کے مواقع پر ان باتوں پر پوری طرح عمل کیا جائے تاکہ عبادت بابرکت ہو اور توجہ کا موجب ہو اور نمازیوں کی نمازوں میں حرج واقعہ نہ ہو.اسی طرح مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذکر الٹی کی عادت ڈالے مگر آجکل لوگ اس پر بہت کم عمل کرتے ہیں اور عید کے مواقع پر دنیوی اور غیر ضروری رسم ورواج کی طرف چلے جاتے ہیں.اکثر لوگ ایسے مواقع پر طرح طرح کی عیاشیوں ناچ گانے اور تماشے کی طرف بہت زیادہ رغبت رکھتے ہیں اور یہ سب نقائص اجتماعی حیدوں کے مواقع پر پیدا ہوتے ہیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اجتماعی عیدوں کے مواقع پر خاص طور پر حکم دیا کہ ذکر الہی کثرت سے کیا کرو.مگر کثرت سے اور زائد ذکر الہی تو الگ رہا ہوںی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 300

۲۹۲ نے جو احکام دیئے تھے ان کی بھی پوری پابندی نہیں کی جاتی.مثلاً اس عید کے موقع پر رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا الله والله اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد کا کثرت سے ذکر کیا جائے.آپ اس موقع پر صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ٹیلے پر چڑھو تو یہ ذکر کرو اور ٹیلنے سے اترو تو بھی لا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھا کر وہا جب ایک دوسرے کے سامنے آؤ تو بھی ذکر بلند آواز سے پڑھا کر وایا میں نے پچھلے چند سالوں سے متواتر اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے مگر ابھی تک اس نے پوری توجہ نہیں کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ایسے اذکار کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن اگر نہ میں سے اندر کوئی نشان ہے تو وہ ذکر الہی کرنے سے جائے گی نہیں بلکہ اور بھی زیادہ ہوگی.جو چیز محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے خلاف ہے جو اللہ وہ ہرگز شان نہیں کہلا سکتی.وہ نشان نہیں بلکہ شیطان ہے.آج عید گاہ کی طرف آتے ہوئے رستے میں میں نے دیکھا کہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے اور ان کی زبان پر لا الہ اللہ اللہ واللہ اکبر کا ذکر نہ تھا.حالانکہ میں اور میرے ساتھی سب بیڈ کر انہی کرتے آرہے تھے.اور ہم جس کے پاس سے بھی گزرے ہم نے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھا.مگر ہمارے منہ سے شنکر بھی کسی نے اس کا جواب نہ دیا.حالانکہ میں پہلے بھی کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی طریق تھا خصوصا اس عید کے موقعہ پر یہ ذکر کثرت سے کرتے تھے.صحابہ ایک دوسرے کو رستہ میں جاتے ہوئے پکڑ لیتے تھے اور کہتے تھے کہ ذکر الہی کو اللہ ہیں جو جھوٹا وقار قائم رکھنے کے لئے ذکر الہی کو ترک کرتا ہے اس میں اس کی شان نہیں بلکہ وہ ایک شیطانی فعل کا ارتکاب کرتا ہے بعض لوگ تو اپنے وقار کا اس ت در خیال رکھتے ہیں کہ کسی سے بات ہی نہیں کرتے حالانکہ وقار کی بھی حد ہونی چاہیئے.وقار پر اتنا بھی زور نہ دیا جائے کہ بنی نوع انسان کی محبت کے اندر خیلیج حائل ہو جائے.پس تمھیں چاہیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو.ممکن ہے وہ بات جس کو تم نے چھوٹا سمجھ رکھا ہو.و حقیقت نہیں بڑی ہو اور وہی تمہاری اصلاح کا موجب ہو جائے.اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی عمل کئے بغیر نہ چھوڑ و تا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور تمہارے اندر پیدا ہو اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقیقی معنوں میں تصویر بن جاؤ تاکہ لوگ تمھیں دیکھ کر پکار اٹھیں کہ شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے متبعین میں سے ہے."

Page 301

۲۹۳ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ان سب باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ان پر عمل کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کو پورا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالے ہمیں بھی اور دوسرے تمام مسلمان کہلانے والوں کو بھی موجودہ مشکلات اور تکالیف سے اور جو تغیرات زمانہ میں رونما ہو رہے ہیں ان سے بھی اپنی حفاظت میں رکھے.دوسرے مسلمان گودہ احمدی نہیں ہیں لیکن چونکہ وہ بھی محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیواؤں میں ہیں اس لئے وہ بھی ہماری دعاؤں میں شامل ہیں.میں نے آج اس مضمون پر جو اپنے اس خطبہ میں مسلمانوں کے متعلق شروع کیا تھا زیادہ زور اس لئے نہیں دیا کہ کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچ جائے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے سے چھیڑا نے نعمت بادِ بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھکیلیاں کو کبھی ہیں ہم بیزار مجھے میں نے میرے نزدیک صحیح طریق یہی ہے کہ خدا تعالے کے حضور رات دن دُعائیں کی جائیں کہ وہ اپنے فضل اور کرم سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت کو بچالے اور مسلمانوں کو ہدایت دے کہ وہ مسیح محمدی کو قبول کر کے اُنکی بے چینی اور بے آرامی کی حالتوں کو راحت اور آرام سے بدل لیں.اب یکیں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالئے ہم پر اپنے انعامات نازل فرمائے میں نے جو خواب چند دن ہوئے عید کے دن کے متعلق دیکھی تھی ، وہ اپنے ظاہری رنگ میں تو پوری نہیں ہوئی اور خدا تعالے کے فضل سے دنگہ اور فساد بھی نہیں ہوا اور بادل بھی نہیں آئے.اگر بادل آجاتے تو سم سمجھے جاتے کہ وہ خواب اپنے ظاہری رنگ میں پوری ہو گئی ہے.شاید خدا بقالے کے نزدیک اس خواب والی تاریکی سے وہ تاریکی مراد ہو جو آجکل کے مسلمانوں پر چھائی ہوئی ہے اور ہر طرف مسلمانوں کو ذلت نصیب ہو رہی ہے اور ان سیاہ بادلوں سے مراد وہ بادل ہوں جو دشمنوں کی تباہ کن پالیسیوں کی شکل میں مسلمانوں کے سروں پر چھائے ہوئے ہیں اور عید کی قربانی سے مراد اسمعیل علیہ السلام کے سچے یا جھوٹے نام لیواؤں کی ر الفضل ۲۳ مئی ۱۹۳۷) قربانی ہو (واللہ اعلم بالصواب) لى - الصفت ۳۷: ۱۰۳ تا ۱۰۸ ۹۲ - پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۳

Page 302

۲۹۴ سے :- تاریخ احمدیت جلد، صفحه ۵۹۱ - ۵۹۲ کے.شہدائے افغانستان کے متعلق دیکھیں نوٹ منشا ان کے علاوہ البانیہ کے ممتازہ احمدی شریف دو تسا اپنے خاندان سمیت کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں نہایت بیدردی سے شہید کر رہیے گئے.شریف دو تسا صاحب یورپ کے پہلے احمدی تھے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا دتاریخ احمدیت جلد ۱۰ م حضرت مولانا عبید اللہ صاحب اور حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب بھی علی الترتیب ماریشیس اور ایران میں اعلائے کلمتہ اللہ کہتے ہوئے فوت ہوئے اور شہادت کا درجہ پایا.و تاریخ احمدیت عبده من۱-۱۹۱ و ۴۲ - ۴۴۲ شهر سنن ابن ماجه صلاة العيدين باب ما جاء في الاغتسال في العبد بن 4 - صحیح بخاری کتاب العيدين باب ماجاء في العيدين والتجمل فيهما سنن كبرى جلد ۳ من که - جامع ترمذی ابواب الجمعة باب السواك والطيب - كتاب الفقه على المذاهب الاربعة مولفہ عبد الرحمن الجزيرى جز اول منت ٣ - سنن کبری جلد ۳ ملا۳ - كتاب الفقه على المذاهب الاربعة مولفه عبد الرحمن الجزیری جز او المسلم 2 - صحیح بخاری کتاب الوضوء باب السواک ، جامع ترندی ابواب الطهارة باب ما جاء في السواك - سنن ابن ماجه كتاب الطهارة وسنتها باب السواك - ت صحیح بخاری کتاب الاذان باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اكل الثوم والبصل قلا يقربن مسجدنا - سنن ابی داؤد کتاب الاطعمة باب في اكل الثوم الم یوسف ۱۲ : ۳۲ مخزون الجواہر مؤلفه شمس الاطباء حکیم وڈاکٹر غلام جیلانی خان من سول - جامع ترمذی ابواب الجمعة باب السواك والطيب - مؤطا امام مالك كتاب الصلوة باب المهنية و تخطى الرقاب والاستقبال الامام يوم الجمعة.ن - صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب يرفع الصوت في المسجد ملے.صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب من اخف الصلوة عند بكاء الصبي - سنن کبری جلد ۳ م ۳۱ ، سنن دار قطنی جلد ۲ ص ۲۳ ے.سنن کبری جلد ۳ ۳۱۲۰ شاه - سفن دار قطنتی جلد ۲ منه مطبوعہ قاہرہ ۱۹۶۶ ء سنن کبری جلد ۳ صدام 19 - کشف الغمہ جلد اصل ۱۳ مطبوعہ مصر - یہ شعر سید انشاء اللہ خان انشاء روفات ۱۲۳۳) کا ہے واہیات مصنف نولان هرسین آزاد ۲۹ مطبوعه لا جو نشره بار پانی

Page 303

(7) ۳۶ ۲۹۵ فرموده ۲۶ اکتو بر ۱۹۲۳ء بمقام منٹو پارک لاہور دنیا کی ہر چیز میں ایک نسبت پائی جاتی ہے اور نسبتوں کو نظر انداز کر دینا کبھی بھی انسان کے لئے سکھ کا موجب نہیں ہوتا.اپنے اپنے مقام پہ ہر چیز کی ایک اہمیت بھی ہوتی ہے اور اپنے اپنے مقام پر ہر چیز دوسرے کے لئے قربان بھی کی جاتی ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.كُتَّامَ رَاعٍ وَكُنكُمْ مَسْئُولُ عَنْ رَعِيَّتِدا تم میں سے ہر شخص ایک نگر ان کی حیثیت رکھتا ہے اور جو چیزیں اس کے سپرد کی گئی ہیں ان کے متعلق وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگا.اب کتگو تراع کے الفاظ بتاتے ہیں تو نسبت کا اصل بالکل درست ہے.کیونکہ ملکم راع سے معلوم ہوتا ہے.کہ با دشاہ بھی ایک راعی ہے اور اس سے رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا.مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں یہ ہیں فرمایا کہ صرف بادشاہ راعی ہے بلکہ فرمایا ہے كُلكم راع تم میں سے شخص ایک ساعی کی حیثیت رکھتا ہے پس بادشاہ ہی نہیں ایک وزیر بھی راعی ہے اور اسے اللہ تعالے کے حضور جواہدہ ہونا پڑے گا مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بادشاہ کے سامنے بھی جوابدہ ہے.پھر گورنر بھی رائی ہے اور اپنی رعایا کے متعلق اسے اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینا پڑے گا مگر اس کے ساتھ ہی وہ وزیر کے سامنے بھی جوابدہ ہے.پس كُلكم راع وكلكم مسْتُولُ عَنْ رَعِيَّتِهِ نے بتا دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسبت کے اصل کو تسلیم فرماتے ہیں اگر نیت کے اصل کو تسلیم نہ کیا جائے تو ایک ہی راضی ہو گا مگر آپ فرماتے ہیں تم میں سے ہر شخص ایک راعی کی حیثیت رکھتا ہے یہانتک کہ خاکروب بھی اپنی جگہ ایک راضی ہے اور چرواہا جو بکریاں چراتا ہے وہ بھی اپنی جگہ رائی ہے اسی طرح مرد بھی رائی ہے اور عورت بھی بلکہ بچے بھی اپنے اپنے مقام پر راضی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ کوئی انسان بسیا نہیں ہوتا جس کے سپرد کوئی چیز نہیں ہوتی.راعی کے معنے ضروری نہیں کہ ایسے شخص کے ہوں جس کے سپرد آدمی ہوں.اگر ایک چرواہا اپنے پاس صرف بھیڑ بکریاں رکھتا ہے تو اس سے بھی ان کے متعلق سوال کیا جائے گا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچوں کو کھلونے لے کر دیئے جاتے ہیں تو مائیں اپنے بچوں سے پوچھتی ہیں کہ تم نے فلاں کھلونا کیوں ضائع کر دیا.یا فلاں دن تمھیں گڑیا خرید کر دی گئی تھی وہ تم نے کیوں

Page 304

۲۹۶ توڑ دی جس طرح بچوں سے کھلونے کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالے شخص سے دریافت کرے گا کہ اس نے اپنے اپنے حلقہ اثر میں اپنی ذمہ داریوں کو کہاں تک ادا کیا ہے.ریعیت کے معنے لفظی طور پر خواہ کچھ ہوں حُلُكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُوكَ عَنْ عین میں ہر وہ چیز مراد ہے جو کسی کے سپرد کی جاتی ہے خواہ وہ جاندار ہویا ہے جان جاندا چیزوں میں اس کا مفہوم اور معنوں کے لحاظ سے آ جائے گا اور بیچان چیزوں میں اس کا مفہوم اور معنوں کے لحاظ سے آجائے گا.بہر حال ہر شخص پر کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہوتی ہے مگر وہ ذمہ داری نسبتی ہوتی ہے.بسا اوقات جس کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے اس کے اُوبر اور افسر ہوتے ہیں، اور ان کے اوپر اور افسر ہوتے ہیں.اگر نسبت کے اصول کو ہم نظر انداز کہ دیں تو کارخانہ عالم سب درہم برہم ہو جائے.اس دنیا میں نسبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت اللہ تعالے کے وجود کو حاصل ہے.اللہ تعالیٰ کی حیثیت ایک خالق اور بالک کی ہے اور باقی جس قدر ہستیاں ہیں وہ سب اس کی مخلوق اور مملوک ہیں.اس وجہ سے اس دنیا میں یا ہر دنیا میں سب سے مقدم مقام اللہ تعالٰی کی آواز کو حاصل ہے اور سب سے زیادہ اہمیت اللہ تعالے کے حکم کو حاصل ہے.جہاں اللہ تعالے کی آوازہ آئے گی ، وہاں دوسروں کی آواز ہمیں دبانی پڑے گی.اور جہاں اللہ تعالے کا حکم آئے گا وہاں دوسروں کے احکام کو ہمیں نظر انداز کرنا پڑے گا.ورنہ ہماری حیثیت ایک باطنی کی سی ہو گی.ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لاکھ غریب جو دوسروں کی ملازمت پر گزارا کرتے ہیں ان کے اپنے جذبات ان کے مالکوں کے جذبات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے.ایک مشاطہ کا بچہ فوت ہو جاتا ہے، ایک دھوبی کے گھر موت واقع ہو جاتی ہے ایک نائی کا عزیز اسے چھوڑ چکا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ مجبور ہوتے ہیں کہ مسکراتے ہوئے پروں کے ساتھ اپنے آقاؤں کی خدمت کریں اس لئے کہ وہ خادم ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے آقا کے مقصد اور مدعا کو پورا کریں خواہ انہیں خوشی ہو یا نمی.رنج ہو یا راحت - حالانکہ دھونی سے کپڑے دھلانے والے کا یا نائی سے حجامت بنوانے والے کا با مشاطہ سے چوٹی کروانے والی کا دھوبی یا نائی یا مشاطہ سے کتنا چھوٹا اور محدود تعلق ہوتا ہے.بسا اوقات دھوبی کی خدمت زیادہ ہوتی ہے ، نائی کی خدمت زیادہ ہوتی ہے.مشاطہ کی خدمت زیادہ ہوتی ہے اور جو کچھ ان کے آقاؤں کی طرف سے انہیں معاوضہ میں ملتا ہے وہ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر امراء اپنی طبیعت میں خشت رکھتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں امراء کی یہ حالت ہوتی

Page 305

ہے کہ بسا اوقات وہ بازار میں سودا سلف خریدنے کے لئے جائیں گے تو دوکاندار سے بحث شروع کر دیں گے کہ اتنی قیمت ہمیں چھوڑ دی جائے گی.گویا وہ غرباء سے بھی روپیہ چھڑانے کے عادی ہوتے ہیں.انہیں اپنے پاس سے کچھ دینے کی عادت مفقود ہوتی ہے.سوائے ان لوگوں کے جو اپنے اندر تقویٰ رکھتے ہوں اور اللہ تعالے کی خشیت ان کے دلوں میں پائی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ دنیا میں عام طور پر مزد و ریشہ لوگ اپنے آقاؤں سے عناد رکھتے ہیں کیونکہ مالک ان کا حق مارنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور انصاف اور حسن سلوک سے کام نہیں لیتے.لیکن اللہ تعالے کا اپنے بندوں سے یہ معالہ نہیں.اللہ تعالیٰ کسی کاحق نہیں مارتا.کیونکہ درہتی ہے اور نہ صرف غنی ہے بلکہ محمد بھی ہے.یعنی کے معنے ہیں جس کو خود کسی کی احتیاج نہیں اور محمد کے معنے ہیں جس کو خود کسی کی احتیاج نہیں اور جو دوسروں کی احتیاج کو پورا کرتا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - الله الصمدیہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ خود کسی کا محتاج نہیں اور دوسروں کی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے.ایسے آقا کی شان کا معت اللہ دوسرے لوگ کہاں کر سکتے ہیں.اور جب ہمارا آقا اس شان اور عظمت کا ہے تو ایک مومن کو ہمیشہ اپنے آقا کے منشاء اور اس کے مقصد کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے.اور اپنے مقاصد کو اسی طرح بھول جانا چاہیئے جس طرح عام ملازمت پیشہ لوگ اپنے آقا کی خوشی میں اپنے عموں کو بھول جاتے ہیں.آج کی عید اس بات کا سبق اپنے اندر رکھتی ہے کہ اپنے آقا کی خوشی اور اس کی مرضی کے موقع پر انسان کو اپنا غم بالکل بھول جانا چاہیئے حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی یادگا یہ کے طور پر یہ عید مقرر کی گئی ہے انہیں اللہ تعالے نے فرمایا کہ تو اپنا اکلوتا بیٹا ذبح کر دیے ہے.ابراہیم نے اس خواب کے معنے یہی سمجھے کہ مجھے ظاہری طور پر اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہیئے اور انہوں نے عملی طور پر اپنے بیٹے کے حلق پر اس کو ذبح کرنے کے لئے چھری رکھ دی ہے.اپنے بیٹے کا اپنے ہاتھوں حلق کاٹنا تو دور کی بات ہے.اپنے بچے کی موت کی خبر سننا بھی باپ کے لئے بہت تلخ ہوتا ہے.پھر باپ کے سامنے اپنے بیٹے کا مرنا اور بھی تلخ ہوتا ہے.اور بیٹے کا باپ کی غلطی کی وجہ سے مرجانا اس سے بھی زیادہ تلخ ہوتا ہے.مگر بیٹے کا اس کی اجازت سے مارا جانا اس سے بھی تلخ تر ہوتا ہے.اور بیٹے کو لٹا کر اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا اور بھی تلخ ہوتا ہے لیکن باوجود اس انتہائی تلخی اور مرارت کے ابراہیم نے تعبیر کی کوشش نہیں کی بلکہ جب خدا تعالے نے کہا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرو تو ابراہیم نے ہی سمجھا کہ مجھے حکم کی ظاہری طور پر تعمیل کرنی چاہئے اور اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دینا چاہیئے.انہوں نے سمجھا یہ ایک انعام ہے کہ میں خدا فغانے کے ایک حکم کو پورا کرنے لگا ہوں اور انہوں نے اپنے بیٹے کو لا کر اس کا

Page 306

۲۹۸ ذکر کیا.وہ بیٹا بھی اپنے باپ کا سپوت بیٹا تھا.جب ابراہیم نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تھیں ذبح کر رہا ہوں اور اب میں چاہتا ہوں کہ تمھیں واقعہ میں ذبح کر دوں تو حضرت سمعیل علیہ السّلام نے جواب میں کہا مجھے اور کیا چاہیئے.جب خدا نے یہ حکم دیا ہے تو آپ شوق سے اس حکم کی تعمیل کریں.چنانچہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ قربان ہونے کے لئے چل پڑا.حضرت ابراهیم علیه السلام نے اپنے بیٹے کو لٹا کر اس کے حلق پر چھری رکھدی تو اللہ تعالے نے کہا.ابراہیم ! تو نے اپنا ر و یا ظاہر میں بھی پورا کر دیا ہے تو مگر نہار انشاء اور تھا.اب تم اس کی جگہ ایک دنبہ ذبح کر دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں یہ عبید ابراہیم کے اس واقعہ کی یادگار کے طور پر امت محمدیہ میں قائم کی گئی ہے کہ اب ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ اس عید میں وہ کونسی چیز ہے جو یاد گار سمجھی جاسکتی ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ یہ عید تبھی یادگار ہو سکتی ہے جب ابراہیم نے اسمعیل کو ذبح کرنا اپنے لئے عید سمجھا ہو.اگر اسمعیل کی قربانی کو انہوں نے عید نہیں سمجھا تو یہ عید اس واقعہ کی یاد گا یہ بھی نہیں ہو سکتی.یادگار اسی صورت میں کہلا سکتی ہے جب ابراہیم نے اسمعیل کی قربانی کو اپنے لئے عید سمجھا ہو.اور در حقیقت یہی سبق ہے جو اس عید کے ذریعہ دیا گیا ہے.عید الاضحیہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کو مصیبت نہیں سمجھا.ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کو آفت نہیں سمجھا.ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کو استلاء نہیں سمجھا بلکہ چونکہ وہ اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے خدا تعالے کے حکم کے ماتحت گیا تھا اس لئے اس دن ابراہیم ویسی ہی خوشی محسوس کر رہا تھا جیسے عید کے دن ہم بکرا ذبح کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں یا اگر ہم خود قربانی نہ کریں تو اپنے ہمسایہ کو قربانی کرتے دیکھ کر ہی جو خوشی محسوس کرتے ہیں.ویسی ہی خوشی اس روز ابراہیم کا قلب محسوس کر رہا تھا.مگر افسوس ابراہیم کی تو یہ حالت تھی کہ اس نے خدا تعالے کے لئے اپنے بچہ کو قربان کرنا بھی اپنے لئے عید سمجھا.اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے بعض لوگ عید کے موقعہ پر بکرا قربان کرنے کی توفیق رکھنے کے باوجود اس قربانی کو بھی بوجھ سمجھتے اور اس کے لئے تیار نہیں ہوتے.میں نے خود کئی مسلمانوں کے مضامین اخبارات میں پڑھتے ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ قربانی پر بلا وجہ روپیہ ضائع کیا جاتا ہے.کیوں نہ یہ روپیہ غرباء میں تقسیم کر دیا جائے یا کیوں نہ یتیم خانوں کو دے دیا جایا کرے یا کیوں نہ قومی ترقی کے کاموں پر اس روپیہ کو صرف کیا جائے شیو ان سے کوئی نہیں کہتا کہ تمہاری جیب میں اور بھی تو جیسے ہیں.تم خدا تعالے کے اس حکم کو پورا کرو اور پھر اس حکم کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ تمہاری جیب میں بچے وہ یتیم خانوں کو دے دو یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف کر لو.تمھیں اس سے کون منع کرتا ہے.مگر وہ نام تو یہ رکھیں گے کہ یتیم خانہ کی

Page 307

۲۹۹ مدد کی جائے ، وہ نام تو یہ رکھیں گے کہ حجاز ریلو ے کی مدد کی جائے، وہ نام تو یہ رکھیں گے کہ ریفیوجیز (REFUGEES) کی مدد کی جائے مگر جب خرچ کریں گے تو اس خانہ میں سے خرچ کریں گے جو خدا نے اپنے لئے رکھا تھا حالانکہ اگر انہیں ریفیوجیز کی مدد کا شوق تھا، اگر وہ یتیم خانوں کو روپیہ دینا چاہتے تھے اگر وہ حجاز ریلوے کی مدد کرنا چاہتے تھے تو وہ اپنے جیب سے کر سکتے تھے.کیا قربانی کرنے کے بعد انسان کنگال ہو جاتا ہے اور کیا دوسرے کاموں کے لئے اس کے پاس کوئی روپیہ نہیں بچتا ؟ جب بچتا ہے تو خدا تعالے کے ایک حکم کو پس پشت ڈال کر اور کاموں پر روپیہ صرف کر دنیا کونسی دانائی اور عقلمندی ہے.ایمان تو یہ تھا کہ جو کچھ خدا نے کہا تھا پہلے اس کو پورا کیا جاتا اور پھر اور کاموں پر روپیہ صرف کیا جاتا.مگر خدا تعالنے کے حکم کو نظر انداز کر دینا اور دوسرے کاموں پر وہ روپیہ صرف کرنا جسے خدا تعالے نے اور جگہ خرچ کرنے کا حکم دیا ہوا تھا بتاتا ہے کہ مسلمان اسلام سے کسی قدر دور جا چکے ہیں اور وہ اللہ تعالے کے احکام کو کیسی ناقدری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اگر یتیم خانوں اور حجاز ریلوے اور ریفیوجیز کی مدد کا انہیں شوق ہی ہے تو وہ اپنی جیب سے کریں.خدا تعالے کے حکم کو پس پشت ڈال کر کیوں کرتے ہیں کیا ہی ایک قربانی ہے جس پر امیر آدمی سارے سال میں روپیہ صرف کیا کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے پاس کوئی پیسہ نہیں رہتا.جب کیوں نہیں کسینکڑوں کاموں کے لئے اس کے پاس روپیہ ہوتا ہے.تو قربانی کے روپیہ کو دوسری جگہ کیوں صرف کیا جاتا ہے ؟ کیوں قربانی کا روپیہ قربانی پر صرف نہیں کیا جاتا اور باقی کاموں کے لئے اپنے پاس سے اوپر نہیں دیا جاتا ؟ قربانی پر اعتراض کرنا اور اسی روپیہ کو اپنے ذاتی کاموں پر صرف کر دنیا بتاتا ہے.که مسلمانوں کو قربانی کی اہمیت کا کوئی احساس ہی باقی نہیں رہا.وہ قربانی کی توفیق رکھنے کے با وجود چند روپے خرچ کرنا بھی اپنے اوپر بوجھ محسوس کرتے اور بکرے کی قربانی بھی موت کی طرح سمجھتے ہیں میگا ابراہیم علیہ السلام نے یہ نمونہ دکھا یا کہ اس نے اپنے بیٹے کی قربانی کو عید مجھے اس نے کہا مجھ سے زیادہ خوش قسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالے نے اس فضل ہے نوازا اور وہ اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور بچے وفادار کی یہی محلات ہوتی ہے ، وہ اپنے دوست اور محبوب کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے کجا یہ کہ ایسا محبوب اور دلدار ہو جو نہ صرف محبوب اور دلدار ہو بلکہ انسان کا خالق اور مالک اور آقا بھی ہو.قصہ مشہور ہے کہ ایک نوجوان اپنے باپ کا مال دوستوں کے ساتھ مل کر اڑانے کا عادی تھا.ہر وقت اس کے ارد گر خوشامدیوں کا ہجوم رہتا اور وہ دن رات روپیہ کو برباد کرتے رہتے

Page 308

اس کا باپ اسے ہمیشہ نصیحت کرتا کہ یہ خوشامدی اور خود غرض نوجوان ہیں انہیں تم سے تقیقی محبت نہیں.تم ان پر اپنا روپیہ یہ بادست که در مگر وہ اپنے باپ کی نصیحت کو کبھی تسلیم نہ کرتا اور یہی جواب دیا کہ یہ میرے بچے دوست ہیں.باپ نے کہا تمہیں اتنے دوست کہاں سے مل گئے مجھے تو ساری عمر میں صرف ایک دوست ملا ہے.اور تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے ارد گردبر وقت دوستوں کا ہجوم رہتا ہے.جب بہت عرصہ گزر گیا اور باپ کی نصیحت اس نے تسلیم نہ کی.تو ایک دن باپ نے اسے کہا اگر تمھیں میری بات پر اعتبار نہیں تو تجربہ کر لو.اور اپنے دوستوں کا امتحان لے لو.پھر تمہیں خود بخود پتہ لگ جائے گا.کہ تمہارے کتنے حقیقی دوست ہیں اس نے کہا.میں اپنے دوستوں کا کس طرح امتحان لوں.باپ نے کہا کہ تم ہر دوست کے مکان پر جاؤ اور اسے کہو کہ میرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور جائداد سے مجھے بے دخل کر دیا ہے مجھے اس وقت کچھ روپیہ دیا جائے تاکہ میں روزگار کا انتظام کر سکوں.جب وہ اپنے دوستوں کے مکانوں پر گیا اور انہیں معلوم ہوا کہ اسے باپ نے گھر سے نکال دیا ہے تو کسی نے اندر سے کہلا بھیجا.کہ میں بیمار ہوں افسوس ہے کہ اس وقت مل نہیں سکتار کسی نے خادم کے ذریعہ کہلوا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں کسی نے معذرت کا اظہار کر دیا اور کہدیا کہ روپیہ تو تھا.مگر آج ہی خلال کو دیدیا گیا ہے.اسی طرح وہ خالی ہاتھ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچا.اور اسے کہا کہ آپ کی بات درست ثابت ہوئی ، میری تو کسی شخص نے مدد نہیں کی.باپ نے کہا.اب آؤ میں تمہیں اپنا دوست بتاتا ہوں.یہ کہ کر وہ اسے اپنے ساتھ شہر سے باہر جنگل کی طرف لے گیا اور ایک مکان کے پاس پہنچ کر اس نے آواز دی.جس طرح اس زمانہ میں ریل پر پہرہ ہوتا ہے اس طرح کرانے زمانے میں سڑکوں پر پہرہ ہوا کرتا تھا.اور وہ شخص بھی اپنی پہرہ داروں میں ملازم تھا.اس نے زنجیر کھٹکھٹائی تو اندر سے آواز آئی کہ کون ہے اس نے اپنا نام لیا کہ فلاں شخص ہوں.اس نے کہا بہت اچھا مگر اتنا کہنے کے بعد خاموشی طاری ہو گئی اور آدھ گھنٹے تک اندر سے کوئی جواب نہ آیا.بیٹا کہنے لگا.آپ کا دوست بھی میرے دوستوں جیسا ہی ثابت ہوا ہے.باپ نے کیا گھبراؤ نہیں ابھی پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے نکلتے ہیں کیوں دیر لگاتی ہے.پانچ دس منٹ اور گزرنے کے بعد وہ شخص باہر نکلا.اس نے ایک ہاتھ میں اپنی ہوئی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.اس کی کمر میں بیانی بندھی ہوئی تھی اور اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی.اس نے باہر نکل کر کہا.میرے دوست معاف کرنا.مجھے دیر اس لئے ہو گئی کہ آج آپ دھی رات کے وقت تشریف لائے ہیں.جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو میرے دل میں خیال آیا کہ آدھی رات کے وقت آپ کا میرے پاس آنا ضرور اپنے اندر کوئی غرض رکھتا ہے.چنانچہ

Page 309

یں نے سوچا کہ ممکن ہے آپ پر اس وقت کوئی مصیبت آئی ہوئی ہوا وا.آپ مدد کے لئے میرے پاس آتے ہوں اس خیال کے آنے پر میں نے تلوار اٹھا لی کیونکہ یہی اک چیز ہے جس سے ہیں آپ کی مدد کر سکتا تھا.پھر مجھے خیال آیا کہ گو آپ کر دو رہتی ہیں کیا تبھی کر دو پتیوں پرھی ایسی مصیبت آجاتی ہے کہ وہ پیسہ پیسہ کے محتاج ہو جاتے ہیں.رجیسے مشرقی پنجاب میں کئی مسلمان کر دیتی تھے مگر آج وہ بالکل کنگال ہیں.میں نے ساری عمر پیسہ پیسہ جمع کر کے چار پانچ سو روپیہ اکٹھا کیا تھا اور اسے زمین میں دبا رکھا تھا.اس خیال کے آنے پر میں نے زمین کھودنی شروع کر دی اور وہ تھیلی نکال لی اس لئے مجھے باہر آنے میں دیر ہو گئی ہے اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے آپ کے گھر والے بیمار ہوں اور ان کی تیمار داری کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت ہو.چنانچہ میں نے اپنی بیوی کو جگایا اور اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا.اب یہ تینوں چیزیں حاضر ہیں ، بتائیے آپ کو کیا کام ہے.باپ نے اپنے بیٹے سے کہا.دیکھا ! اس قسم کے دوست ہوا کرتے ہیں ہے.یہ مثال اپنے اندر یہ سبق رکھتی ہے کہ اگر انسانوں کے دوست اس قسم کے ہوسکتے ہیں تو خدا تعالے کے دوست کو کیسا ہونا چاہیئے اور اسے خدا تعالے کی رضا اور اس کی خوشنودی کو کس طرح مد نظر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے.انسان اگر سچا مومن ہو تو اسے ہر وقت خدا تعالے پر نظر رکھنی چاہیئے.اور یہ دیکھنا چاہیئے کہ میرا خدا کد ھر دیکھ رہا ہے.پھر جس چیز میں خدا کی رضا ہو اسی چیز کو قبول کرنا چاہیئے اور خوشی اور بشاشت کے ساتھ قبول کرنا چاہیے.مسلمانوں کو بھی چاہئیے کہ بہت بڑی مصیبت پر جو ان دنوں ان پر وارد ہوئی ہے سجائے اس کے کہ وہ روئیں اور ہمت ہار کر بیٹھے جائیں ، اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو خوشی سے قبول کریں اور مصائب کو ہمت اور استقلال کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت ڈالیں.مجھے افسوس ہے کہ باہر سے جو ریفیوجی ( REFUGEE) آرہے ہیں وہ کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھا رہے.بلکہ ہماری جماعت کے بعض دوستوں میں بھی یہ نقص پایا جاتا ہے کہ وہ پہلے ایک گاؤں میں جاتے ہیں اور جب انہیں وہاں دانہ وغیرہ مل جاتا ہے تو اس گاؤں سے دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں اور یہ عذر کر دیتے ہیں کہ وہاں زمین اچھی نہیں ہمیں کسی اور جگہ بھیجا جائے.دراصل انہیں بینکار میٹھکر روٹی کھانے کی عادت پڑگئی ہے.اور دوسری طرف چونکہ ان کی اپنی جائدادیں ضائع ہو گئی ہیں ان کے نفس میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور وہ کسی جگہ استقلال کے ساتھ بیٹھ کر کام نہیں کر سکتے.حالانکہ اگر وہ اپنے خدا پرسیجا ایمان رکھنے تو ان مصائب میں بھی ایک لذت محسوس کرتے اور خدا تعالے کے مقابلہ میں خون کی کسی

Page 310

چیز کی پرواہ نہ کرتے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اُحد کی جنگ میں جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں تو اس خبر کے سنتے ہی مدینہ کی عورتیں گھبرا کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں.اور بعض تو اس اضطراب اور پریشانی میں اُحد تک جانچیں جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے جب مسلمان عوز میں گھبراہٹ اور اضطراب کے عالم میں اُحد کی طرف جا رہی تھیں تو انہیں راستہ میں بعض مسلمان سپاہی ملے جو واپس مدینہ جا رہے تھے.ان میں سے ایک عورت آگے بڑھی اور اس نے ایک مسلمان سپاہی سے پوچھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے.چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلامت دیکھ چکا تھا اور اس کا دل مطمئن تھا.اس نے بجائے یہ جواب دینے کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیریت کے ساتھ ہیں.اس عورت کو یہ جواب دیا کہ بی بی مجھے بڑا افسوس ہے تمہارا والد اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے.اس نے کہا.میں تم سے اپنے والد کا حال دریافت نہیں کر رہی.میں تم سے یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے.اس نے پھر اصل بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کہا: بی بی تمہارا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے اس عورت نے پھر کیا ہیں تم سے اپنے خاوند کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہی تیم مجھے یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کیا حال ہے.اس نے کہا بی بی تمہارا بیٹا بھی شہید ہو گیا ہے اس پر پھر اس نے کہا میں نے تم سے اپنے بیٹے کے متعلق بھی سوال نہیں کیا میں تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال دریافت کر رہی ہوں اور غصہ سے کہا کہ میں تم سے اپنے رشتہ داروں کے متعلق سوال نہیں کر رہی.تم مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حال بتاؤ.اس نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خیریت سے ہیں جب عورت نے یہ سنا تو اس نے کہا جب رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم خیریت سے ہیں تو پھر مجھے کسی کی موت کی پرواہ نہیں.اس کے بعد اس عورت نے کہا.گو تم نے تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر نادی ہے مگر مجھے سستی نہیں ہو گی جب تک نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں.اس نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فلاں جگہ کھڑے ہیں.وہ خورت دوڑی ہوئی وہاں گئی وہ منہ سے کہتی جاتی تھی کہ یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیا کیا معینی زخمی ہو کر گرے اور آپ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اور ہم لوگوں کو اتنا دکھ پہنچا ہے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا تو دیوانہ وار دوڑی ہوئی آپ کے پاس پہنچی اور محبت کے جذبہ سے سرشار ہو کہ اس نے جھک کر آپکے کرتے کا دامن چوما.اُسے اپنی آنکھوں سے لگایا.اور پھر کیا یا رسول اللہ ! لوگ مجھے کہتے نہیں کہ تیرا خاوند مارا گیا ہے.

Page 311

٣٠٣ تیرا باپ مارا گیا ہے.تیرا بیٹا مارا گیا ہے.یا رسول اللہ ! آپ کے زندہ ہوتے ہوئے کسی اور کی مجھے پرواہ ہی کیا ہے یہ تو دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں کتنی تھی اور کتنا عشق تھا جو ان لوگوں کے قلوب میں پایا جاتا تھا.مگر اس کے ساتھ ہی ایک مومن کو نسبت کا اصل ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیئے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بہت بڑے محبوب ہیں مگر خدا ہمیں آپ سے بھی زیادہ پیارا ہے.اگر اس عورت کو اپنے خاوند کی موت، اپنے باپ کی موت، اپنے بیٹے کی موت اور اپنے بھائی کی موت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں پریشان نہیں کر سکتی تھی تو ہمیں اپنے زندہ خدا کی موجود تھی میں کوئی مصیبت کی طرح پریشان کر سکتی ہے.اگر ہمارا نقصان ہو جائے تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ ہمارے خدا کا ایسا ہی ارادہ تھا.اور ہمیں راضی برضارہ کو اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانا چاہیئے.لیکن اگر بفرض محال ہمارا خدا ہی ہمیں مارنے پر تلا ہوا ہے تو پھر تمہیں کوئی طاقت موت سے بچ نہیں سکتی.اس صورت میں ہمارا اپنے متعلق فکر کرنا نادانی اور حماقت ہے.بہر حال دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے اگر ہمارے خدا نے ہماری موت کا فیصلہ کر دیا ہے تو پھر کوئی میرات ہمیں اس موت سے بچا نہیں سکتی.اس صورت میں غم میں معتدار رہنا بالکل فضول ہے.اور اگر ہمارے خدا نے ہمیں زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے تو اس صورت میں بھی ہمارا گھبرانا اور پریشان ہونا بیوقوفی اور پاگل پن کی بات ہے.بے شک عموں اور مصیبتوں کے وقت خوشی کا اظہار مشکل ہوتا ہے.لیکن اگر ایک مشاطہ - ایک نائی اور ایک دھوبی تھوڑے سے پیسوں کی خاطر اپنے آقا کے سامنے اپنے چہرہ کو اس لئے مہشاش بشاس بنا لیتے ہیں کہ کہیں ان کے تعلقات اپنے آقا سے خراب نہ ہو جائیں تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ جب خدا نے ہماری جماعت کے لئے ایک عید تجویز کی ہے تو ہم مصائب کے دوران میں بھی خوشی کے ساتھ اس عید کو منائیں اور مہشاش بشاش چہروں کے ساتھ اپنے رب کی عطا کردہ خوشی میں شریک ہوں.عبید الاصفیہ کے معنے ہیں قربانیوں کی عید جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مضموم ہے کہ قربانیوں پر لوگ رویا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارا اس طرح امتحان لوں گا کہ تم قربانی کرد اور مینو.اور اگر ہمارا خدا چاہتا ہے کہ ہم ہنستے ہوئے اس کے حضور قربانی پیش کریں تو ایک مومن کی حیثیت سے، ایک عاشق کی حیثیت سے ایک محبت کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم قربانی کریں اور سنتے ہوئے کریں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں آج کی عید کی حکمت کو کبھی نہیں بھولا ہی ہے.یہ عید بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو قربانیاں کرنی پڑیں گی اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ جلتے ہوئے چہروں

Page 312

کے ساتھ قربانیاں کرنیا.گذشتہ جنگ عظیم میں ایک جرمن بڑھیا کے متعلق اخبارات میں شائع ہو انتھا کہ اس کے سات وہ بچے تھے اور اس نے ساتوں کے ساتوں بچے ملک کی خدمت کے لئے میدانِ جنگ میں بھیج دیئے.اور پھر سارے کے سامے مارے گئے جب اس کا آخری پہ بھی مارا گیا تو گورنمنٹ کی طرف سے وزیر کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس بڑھیا سے خود اظہار ہمدردی کرے جب اسے بلا کر بتایا گیا کہ اس کا آخری بیٹیا بھی جنگ میں مارا گیا ہے تو ایک طرف غم کے مارے اس کی کمر جھکی چلی جارہی تھی اور دوسری طرف اس خیال سے کہ اس کا بیٹا ملک کی خدمت کرتے ہوئے مارا گیا ہے اس نے کوشش کر کے اپنی کمر سیدھی کی اور پھر اپنے چہرہ کو خوش بناتے ہوئے قہقہ لگایا اور کہا.کیا ہوا اگر میرا بچہ مارا گیا ہے وہ ملک اور قوم کی خاطر مرد مارا گیا ہے پیالے اگر ایک عورت کا فرعورت ، ایسی قوم کی عورت جو توحید کے علم سے ناواقف تھی جو عدالتی کی محبت اور اس کے پیار سے ناواقف تھی.ملک کی خاطر اپنے ساتوں بیٹے قربان کر سکتی ہے اور.پھر اپنے آخری بچہ کی وفات پر اپنی کمر کو سیدھا کرتے اور اپنے چہرہ پر خوشی کے آثار ظاہر کرتے ہوئے قہقہ لگا کر کہتی ہے کہ کیا ہوا اگر میرا بیٹا مارا گیا ہے.وہ قوم اور ملک کی خدمت کرتا ہوا مارا گیا ہے تو ایک زندہ قوم ، ایک موحد قوم ، ایک خدا سے تعلق رکھنے والی قوم اور رات اور دن خدا تعالے کے معجزات اور نشانات دیکھنے والی قوم کو کس طرح خوشی سے اللہ تعالے کی طرف سے آنیوالے مصائب برداشت کرنے چاہئیں.اگر وہ خدا تعالے پر سچا ایمان رکھتی ہے تواس کا فرض ہے کہ وہ ہر مصیبت پر رضا بالقضا کا اعلیٰ نمونہ دکھائے.اپنے آپ کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دے اور اس کے لئے مرنا خندہ پیشانی سے قبول کرے.اگر وہ ایسا کریگی تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ہلاک نہیں کر سکے گی کیونکہ جو لوگ خدا کے لئے مرتے ہیں انہیں کوئی شخص مار نہیں سکتا.وہ ایک تنومند درخت کی طرح دنیا میں بڑھتے اور پھیلتے اور پھولتے ہیں جس کی جڑیں ایک طرف زمین کی پاتال تک چلی جاتی ہیں اور دوسری طرف اس کی شاخیں آسمان تک پھیل جاتی ہیں.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے اپنے فضل سے ہمیں سچی فرمانبرداری کی توفیق عطا فر ہے اور بغیر کسی ملاوٹ کے اپنا خالص عشق عطا کرے.ہمارے دنوں پہ وہ آپ جلوہ گر ہو.اپنا چیرہ ہم پر روشن کرے.ہماری تاریکیاں ہم سے دُور کرے اور اپنا نور ہمارے لئے ظاہر فرماے الفضل یکم نومبر ۶۹) آمین اللهم آمین.

Page 313

۳۰۵ - صحیح بخاری کتاب النکاح باب المرأة راعية في بيت زوجها - الاخلاص ۱۱۲ : ۲-۳ - الصفت PF FC ه - الصفت ۱۰۴:۳۷ ه - الصفت سو : سودا ت - الصفت 1-4: شهر سنن ابن ماجه کتاب الاضاحی باب ثواب الأضحية شہ.عید کی قربانیاں.مصنفہ حضرت صاجزادہ مرز البشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ رات ۲۰ - - تاریخ الخمیس جزاول منته

Page 314

۳۷ د فرموده ۱۴ اکتو برش ها و مقام منٹو پارک لاہو) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق تھا کہ عیدالاضحیہ کے موقع پر آپ نماز کے بعد اس قربانی کے گوشت سے جو آپ پیش کرتے تھے ناشتہ فرماتے تھے نے اس لئے عید الاضحیہ کا خطبہ الفطر کی نسبت مختصر کیا جاتا ہے.تا کہ جو لوگ اس سنت اور تعامل کی اتباع کرنا چاہیں وہ اس پر ٹیل کر سکیں.گوشہروں میں یہ بات آجکل نا ممکن ہو گئی ہے بوجہ اس کے کہ قربانیاں قریب میں نہیں کی جاسکتیں.دوسرے اتنے بڑے بڑے شہر بن گئے ہیں کہ باہر جا کر نماز پڑھنے اور پھر واپس آنے میں ہی بارہ ایک بج جاتے ہیں.یه حمید جو عید الاضحیہ کہلاتی ہے یعنی قربانیوں کی عید کس طرح شروع ہوئی اور کسی واقعہ کی یاد میں مقرر ہوتی.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ مسلمانوں میں بیان ہوتا چلا آیا ہے اور قریبا ت مر تعلیم یافتہ لوگ اس سے واقف ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی ایک رڈیا کی بناء پر ایک ارشاد الہی کی بناء پر.اور خدا نے ان کے اس فعل کو پسند فرما کر حکم دیا کہ تم بکرے کی قربانی کرو.بیٹے کی قربانی نہ کر وسیہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں که حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اللہ تعالے کی طرف سے جو یہ دکھائی دیا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں اس کی کیا تعبیر تھی.یہیں بارہا بتا چکا ہوں کہ بیٹے کی قربانی کا میطلب نہیں تھا کہ چھری لے کر اپنے بیٹے کو ذبح کر دو بلکہ مطلب یہ تھا کہ دین کی خدمت کے لئے اپنے اور بیٹے کو وقف کر دو.دنیوی ترقیات کے رستہ کو چھوڑ دینا.دنیوی تر توں پر لات مار دیا دنیوی کامیابیوں کے حصول کے تمام ذرائع کو نظر انداز کر دنیا ایک بہت بڑی موت ہوتی ہے جو بسا اوقات دوسری موت سے زیادہ سخت معلوم ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ دوسری موت کو تو قبول کر لیتے ہیں لیکن اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.کیونکہ اس میں احساس اذیت بہت لمبا ہوتا ہے اور ایک لمبے عرصہ تک انسان کو تکالیف میں مبتلا رہنا پڑتا ہے.بہر حال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس زمانہ کے لحاظ سے خدا تعالے کے حکم اور ارشاد کو جس رنگ میں سمجھا اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اس زمانہ میں چونکہ عام طور پر انسانوں کی قربانیاں کی جاتی تھیں اس لئے وہ بھی اپنے بچے کو ظاہری ننگ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن اللہ تعالے کا منشاء یہ تھا کہ وہ انسانی قربانی کسی نبی کے ذریعہ سے روک دے.اور

Page 315

ранов اسی لئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ سلام کو یہ نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں اس طرح دونوں فائدے ہو گئے.حضرت ابراہیم علیہ التلامہ کے ایمان کا بھی ایک روشن ثبوت دنیا کو مل گیا اور دوسری طرف ہمیشہ کے لئے یہ بات مذہب کا جزو بن گئی کہ انسان کی قربانی کسی صورت میں بھی جائزہ نہیں ، خواہ وہ اپنا جیٹا ہی کیوں نہ ہو.ی عید اس خوشی میں منائی جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی خدا تعالے کی راہ میں پیشی کی لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم ان کے دنبہ کی قربانی کو تو یاد رکھتے ہیں لیکن ہمارا ذہن اس طرف بالکل نہیں جاتا کہ ہم کس چیز کی یاد مناتے ہیں اور کس چیز کی یاد بھیا اتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو قربانیاں تھیں.ایک وہ قربانی جو انہوں نے اپنے بیٹے کی کی اور ایک وہ قربانی جو انہوں نے بکرے کی کی.بکرے کی قربانی محض یادگار کے طور پر تھی تا کہ جو حقیقی قربانی انہوں نے پیش کی تھی اس کی ایک ظاہری شکل بھی پیدا کر دی جائے.اصل قربانی ان کی یہی تھی کہ انی اسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِی زرع عبے میں اپنی نسل کو خدارا واحد کی یاد اور اس کے ذکر کے لئے ایک ایسی جگہ بسا دیا ہے جہاں دنیوی آمد کا کوئی ذریو نہیں اور جہاں کی زندگی دنیوی مال و متاع کے کمانے میں محمد نہیں ہو سکتی.یہ قربانی تھی جو حضرت ابر انسیم علیہ السّلام نے کی لیکن اس کی یاد کے طور پر خدا تعالے نے یہ بھی فرما دیا کہ تم بڑے کی قربانی کرو.(اس موقع پر ایک احمدی نوجوان نے کھڑے ہو کر حضور کا فوٹو لینا چاہا.اس پر حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا.اور اس نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.میاں اپنے کیریکٹر مسلمانوں والے بناؤ.یورپ تمہارا آقا نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے آتا ہیں.کہیں تم نے پڑھا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس طرح کیا کرتے تھے.کیا چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو.تمہیں بتایا یہ جا رہا ہے کہ تم اتخیل کی طرح اپنی جانیں قربان کرو اور تم کام وہ کرتے ہو جو محض تعیش کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ نہ تم میری ہیں سنتے ہو اور نہ ضرورت سمجھتے ہو کہ سُنو.اگر میرے ایک لفظ پر بھی تم عمل کر لو تو تمہاری اور تمہاری اولادوں کی زندگی سنور جائے.لیکن اگر میرا دس ہزار فوٹو بھی تمہارے پاس موجود ہو تو وہ تمہیں ایک پیسے کا بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فوٹو ہمارے پاس نہیں ، پھر تمہیں کیا نقصان ہو گیا.اسی طرح اگر میرے فوٹو مٹ جائیں گے تو کیا نقصان پہنچ جائے گا ، اس کے بعد پھر سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا ہو.

Page 316

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو فعل کئے تھے ایک انہوں نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی اور دوسرے اس کی یاد میں انہوں نے بکرے کی قربانی پیش کی.مگر آج کے دن مسلمان کیا کرتے ہیں.وہ بکرے کی قربانی تو پیش کرتے ہیں لیکن بیٹے کی قربانی بھول جاتے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے.جیسے کہتے ہیں کہ ایک خادمہ رمضان کے دنوں میں باقاعدہ سحری کے وقت اپنی مالکہ کے ساتھ اٹھتی اور پھر سحری تو کھا لیتی مگر روزہ نہیں رکھتی تھی.گھر کی مالکہ ایک شریف اور رحمدل عورت تھی اس نے خادمہ کی اس حالت کو د بھیک سمجھا کہ یہ شاید ہماری خدمت کے لئے اٹھتی ہے اور چونکہ ہیں وقت ہمارے پاس بیٹھی ہوئی ہوتی ہے اس لئے سحری بھی کھا لیتی ہے چنانچہ دو چار دن کے بعد ماسکو نے اس خادمہ سے کہا کہ بیٹی تو رات کو نہ اُٹھا کر.ہم خود کام کر لیا کریں گے ، تجھے بلاو و تکلیف ہوتی ہے.اس پر وہ لڑکی بڑی سادگی سے کہنے لگی کہ بی بی انتہا تو سوچو کہ روزہ نہیں نہیں رکھتی.نماز میں نہیں پڑھتی.اگر سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں.اس مثال یہ عظیم سب ہنس پڑے ہو.لیکن کیا تم سوچتے نہیں کہ تمہاری بھی یہی حالت ہے کہ تم اپنے بیٹے کو وادتی غیر ذی زرع میں رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.تم اپنے بیٹے کو اللہ تعالے کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.گویا روزہ تم نہیں رکھتے، نماز تم نہیں پڑھتے، لیکن بکرے کی قربانی کرنے اور اس کا گوشت کھانے کے لئے فوراً تیار ہو جاتے ہو اور تم پر بھی وہی مثال صادق آتی ہے کہ اگر میں سحری بھی نہ کھاؤں تو کا فری ہو جاؤں.حقیقت یہ ہے کہ کوئی نسل اور کوئی قوم اور کوئی خاندان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی اولاد کی تربانی پیش نہ کرے جس طرح کوئی زمیندار اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے حاصل شدہ شکہ کی قربانی نہ کرے.زمیندار ہل چلاتا، زمین کو نرم اور ہموار کرتا اور پھر بطور بینچ اپنا وہ غلہ زمین میں ڈالتا ہے.جو کہا کہ وہ اپنے گھر میں لاچکا ہوتا ہے اس امید پر کہ اس کے ہاں موہوم غلہ پیدا ہوگا.جو چیز وہ زمین میں ڈالتا ہے وہ یقینی اور قطعی ہوتی ہے اور جو چیز پیدا ہونے والی ہوتی ہے وہ وہی ہوتی ہے مگر کامیاب و ہی زمیندار ہوتا ہے جو ایک وہی چیز کے لئے اپنی حاضر چیز کو قربان کر دیتا ہے.جو زمیندا اس بات کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ اپنے حاضر غلہ کو موسوم غلہ کے لئے قربان کر دے ، وہ خود بھی آئندہ ترقی سے محروم رہتا ہے اور اپنے ملک کو بھی آئندہ ترقی سے محروم رکھتا ہے.اسی طرح اگر کوئی قوم یہ مجھتی ہے کہ اس کی اولاد کی حاضر نہ ندگی زیادہ قیمتی ہے اور وہ اپنی اولاد کو آئندہ کی زندگی کے حصول کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی، وہ بھی انسی طرح تباہ ہو جاتی ہے جس طرح وہ زمیندار تباہ ہو جاتا ہے جو اپنے حاضر غلہ کو محفوظ رکھتا ہے

Page 317

٣٠٩ اور غائب غلہ کو نظر انداز کر دیتا ہے.بے شک بعض جگہیں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں حاضر چیزی غائب چیزوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں لیکن ایسے بھی مواقع ہوتے ہیں جہاں غائب چیز حاضر چیز سے زیادہ بہتر ہوتی ہے.ایک شخص جھوٹ بول کر اپنی جان بچا لیتا ہے.جھوٹ بول کر اپنی جان بچا لینا ایک حاضر فائدہ ہے.اور سچ بولکر اللہ تعالے کی رضا کا حاصل ہونا ایک غائب فائدہ ہے مگر کون کہ سکتا ہے کہ یہ حاضر چیز نمائی سے زیادہ بہتر ہے یا ایک چور چوری کر کے اپنے لئے روٹی کا سامان مہیا کرتا ہے.اب اس کا دیانت پر عمل کر کے اس دنیا کی آئندہ زندگی یا اگلے جہاں کی زندگی میں فائدہ حاصل کرنا ایک غائب چیز ہے اور روٹی کا مل جانا ایک حاضر چیز ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ یہ حاضر چیز نائب چیز سے اچھی ہے تو بعض چیزیں غائب ہوتی ہیں مگر وہ حاضر کی نبوت اچھی ہوتی ہیں.اور اپنی چیزوں میں سے ایک اولاد کی قربانی ہے جس کا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں نمونہ دیکھایا.آپ کا اپنی اولا کو وادی غیر ذی زرع میں رکھنا اور عملی طور پر چھری لے کر اپنے بچے کو قربان کرنے کے لئے کھڑے ہو جانا یہ دوباتیں تھیں جو حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کیں.خدا تعالے کا غشاء یہی تھا کہ وہ وادی غیر ذی زرع میں جا کر اپنے بچے کو چھوڑ آئیں اور خدا تعالے کے ذکر اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے اسے وقف کر دیں.مگر اللہ تعالے نے انہیں نظارہ یہ دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں.اللہ تعالے جانتا تھا.کہ اگر خواب میں میں نے ابر اسیم کو یہ نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان کر رہا ہے تو وہ واقعہ میں اپنے بیٹے کو ظاہری رنگ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.اور چونکہ اللہ تعالئے ابراہیم کے ذریعہ آئندہ انسانی جان کی قربانی کو ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار دینا چاہتا تھا اس لئے اس نے بجائے یہ کہنے کے کہ اسے ابا ہمیں جا اور اپنے بچے کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آہ یہ نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے بچے کو قربان کر رہے ہیں.تاکہ جب وہ اپنے بچے کو قربان کرنے لگیں انہیں روک کر ہمیشہ کے لئے انسانی قربانی کو ممنوعہ قرار دے دیا جائے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ویسے ہی کیا.انہوں نے چھری پکڑی اور اپنے بچے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.جب وہ اس فعل پر کلی طور پر تیار ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے انہیں روک دیا اور فرمایا آئندہ خدائی سلسلوں میں انسان کی قربانی قبول نہیں کی جائے گی ، تم اس کی بجائے بکرا ذبح کر دوں یہ اس طرح انسانی قربانی بھی بند ہوگئی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان بھی ہوگیا اور حضرت سعیل علیہ اسلام کو ایک دادی غیر ذی زرع میں چھوڑنے کے نتیجہ میں ان کا رویا بھی پورا ہو گیا پھر حال اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یادگار میں کہ وہ اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ

Page 318

+ کی راہ میں ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے بجرے کو رکھا تھا مگر ہم تمثیل کو قبول کرتے ہیں حقیقت کو رد کرتے ہیں.ہماری زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں.ہماری اولادوں کی نہ ندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں، ہمارے بھائیوں کی زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں.ہمارے ہمسایوں کی زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں مگر ہم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پیش نہیں کرتا لیکن ہم میں سے ہر شخص ابراہیم کے بکرے میں سے گوشت کھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.یہ تو وہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پور بیا مر گیا.وہ آسودہ حال تھا اور روپیہ کا استعمال صحیح طور پر کرتا تھا کہیں تجارتوں میں اس نے اپنا روپیہ لگایا ہوا تھا.کہیں سود پر روپیہ دیا ہوا تھا.کہیں قرض دیا ہوا تھا.اس کی وفات کے بعد پوریوں کے دستور کے مطابق ماتم شروع ہوا.پوریوں میں دستور ہے کہ تمام پوربی جمع ہو جاتے ہیں اور عورت بین ڈالنا شروع کرتی ہے جس میں وہ اپنی مشکلات کا ذکر کرتی ہے اور قوم ان مشکلات کا جواب دیتی ہے گویا وہ ایک قسم کا مشورہ ہو رہا ہوتا ہے.وہ اپنے حالات کا ذکر کرتی جاتی ہے اور قوم اسے جواب دیتی جاتی ہے.اس طرح سب لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ آئندہ یہ بیوہ اور بچے کس طرح زندگی بسر کریں گے ، اسی رواج کے مطابق اس پور بی عورت نے بلین ڈالنے شروع کئے.کہ ہائے میرے خاوند کے اتنے روپے فلاں کے ذمے تھے اب وہ روپیہ کون وصول کرے گا اس پر ایک پور بیا آگے بڑھا اور اس نے کہا ہم رے ہم.پھر اس نے بین ڈالا اور کہا اتنا روپیہ اس نے تجارت پر لگایا ہوا تھا.اب کون اس روپیہ کو لے گا.اس پر وہ پھر کھڑا ہوا اور کہنے لگا ہم رہے ہم.پھر اس نے روتے ہوئے کہا کہ فلاں شخص کو اس نے اتنا روپیہ سود پر دیا ہوا تھا اب کون اس سے روپیہ وصول کرے گا.اس پر وہ پھر بول اٹھا کہ ہم رہے ہم.غرض جتنی وصولیاں تھیں وہ اس نے بیان کرنی شروع کر دیں اور ہر وصولی کے ذکر پر وہ پور بیا فورا جواب دیا کہ ہم رہے ہم.اس کے بعد اس نے ذمہ داریاں بیان کرنی شروع کیں اور کہا کہ اس نے فلاں کا انتشا روپیہ قرض دیا تھا.اب وہ کون دیگا ؟ اس پر وہ پور بیا اپنی قوم کے دوسرے افراد کی طرف منہ کر کے کہنے لگا.ارے میں ہی جواب دنیا جاری یا کوئی اور بھی بولے گا، گویا جب تک وصولیوں کا ذکر تھا وہ ہر وصولی کے ذکر پر آگے بڑھتا اور کتنا ہم رہے ہم.اور جب قربانی کا وقت آیا تو کہنے لگا ارے میں ہی بولتا جاؤں یا کوئی اور بھی بولے گا یہی حال ہمارا ہے، جب بجرے کے گوشت کھانے کا وقت آتا ہے تو ہم کہتے ہیں اسے ہم سے ہم اور جب بیٹے کی قربانی کا وقت آتا ہے تو ہم بھی اس پور بئے کی طرح یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اسے کوئی اور بھی بولیگا یا ہم ہی بولتے چلے جائیں.ہمیں غور کرنا چاہیئے، کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کونسی قربانی تھی جس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے ہر سال عید منائی جاتی ہے.کیا ہر سال اس لئے

Page 319

۳۱۱ عید منائی جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے خدا تعالے کی راہ میں بکرا قربان کیا تھا یکجرے کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے اور پھر وہ لوگ جو جنگل میں رہنے والے ہوں اور جن کا گزارہ ہی جانوروں پر ہو، وہ تو بکرے کی کوئی حیثیت ہی نہیں سمجھتے بلکہ بکرے کی قربانی ان کی نگاہ میں انڈے سے بھی زیادہ حقیر ہوتی ہے.انہیں انڈے کا میسر آنا زیادہ مشکل ہوتا ہے لیکن سیکرا بڑی آسانی سے مل جاتا ہے.اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے متعلق تو با نسل سے تپہ لکھتا ہے کہ ان کے کئی گئے تھے اسی طرح ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے بھی کئی محلے تھے کئی نوکر انہوں نے رکھے ہوئے تھے اور جانور اس کثرت کے ساتھ ان کے پاس تھے کہ ان سے وادیاں بھر جاتی تھیں تیے پس بکرے کی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے کچھ بھی مشکل چیز نہیں تھی.جو چیز مشکل نفتی وہ یہ تھی کہ بڑھاپے کے زمانہ میں پیدا ہونے والا اکیلا نچہ ان کے ہاں موجود ہے اور خدا کتنا ہے کہ اس بچے کو میری راہ میں قربان کر دو.اور ابراہیم کہتا ہے کہ ہے میرے رب میں اس کے لئے تیار ہوں.اور پھر وہ عملی طور پر چھری ہاتھ میں لے کر اسے ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.پھر حضرت آنفیل علیہ السلام کو وادی غیر ذی زرع میں رکھے جاتے کا حکم دیتے ہیں اللہ تعالے کی طرف سے اس طرف بھی اشارہ تھا کہ دنیا میں جب بھی کوئی نیا سلسلہ اللہ تعالے کی طرف سے قائم کیا جاتا ہے وہ ایک دادی غیر ذی زرع کا سارنگ رکھتا ہے جس طرح ایسی وادی میں بسنا انتہائی مشکلات کا موجب ہوتا ہے اسی طرح اپنی سلسلوں میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں.وہ بھی مقصود معتوب اور لوگوں کی نگاہ میں مغضوب بن جاتے ہیں.لوگ ہر طرح انہیں تکالیف دینے اور ہر کار کی کوشش کرتے ہیں اور ہر رنگ میں انہیں کھ اور اذیت پہنچاتے ہیں اسلئے انبیاء اور مامورین کا سلاد بھی ایک ادتی فیروزی زریع سے ریاست رکھتا ہے پھر اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے وادی غیر ذی زرع کا ایک اور نظارہ بھی پیدا کر دیا ہے.قادیان ہمارا مرکز ہے مگر ان دنوں جو لوگ وہاں میں رہے ہیں ، ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں.کیونکہ وہ لوگ وہاں محبوس ہیں اور ہر شخص بغیر کمائی کے اپنی زندگی کے دن بسر کر رہا ہے.میں جماعت کے تمام افراد سے پوچھتا ہوں کہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادیں دہ بکرے کا گوشت کھاتے ہیں وہاں وہ ان کی اس قربانی کی یاد میں کہ انہوں اپنے اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ایک وادی غیر ذی زرع میں جا کر چھوڑ دیا تھا.کونسی قربانی پیش کر رہے ہیں.قادیان اس وقت ایک وادی غیر ذی زرع کا رنگ رکھتا ہے اور وہاں رہنا اپنے آپ کو بے آب و گیاہ بستی میں جا کر بہا دینا ہے.میں تم سے پوچھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح تم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.

Page 320

۳۱۲ سو میں سے کتنے ہیں جنہوں نے وہاں جانے کے لئے اپنے نام پیش کئے ہیں.کیا ایک فیصدی لوگوں نے اب تک اپنے نام پیش کئے ہیں کیا ہے فیصدی لوگوں نے اب تک اپنے نام پیش کئے ہیں ؟ کیا یہ فیصدی لوگوں نے ہی اب تک اپنے نام پیش کئے ہیں ؟ اگر اتنے لوگوں نے بھی اپنے آپ کو پیش نہیں کیا تو کونسی قربانی ہے جس کا تم نمونہ دکھا رہے ہو.آخر خدا تعالے کے عذاب سے محفوظ رہنے کے لئے نیکی اور تقوی اور قربانی کی کوئی نسبت تو ہونی چاہیئے.نجیب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو خدا تعالے کے بعض مرسل پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کی خبر دینے کے لئے گئے.قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے ہے اور بائبل میں بھی اس کا ذکر آتا ہے شیہ مگر بائبل چونکہ تاریخی کتاب ہے ، اس لئے اس میں زیادہ تفصیل سے یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السّلام بہت نرم دل انسان تھے.انہوں نے مرسلوں سے خبر شنکر چاہا کہ للہ تعالے سے درخواست کریں کہ وہ لوط کی قوم کو اس عذاب میں مبتلا نہ کرے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ خبر سنتے ہی ایک گوشے میں چلے گئے.اور انہوں نے دعا کی کہ الہی ان بستیوں میں تیرے بڑے بڑے نیک بندے بھی بستے ہیں.کیا تو ان نیک لوگوں کو بھی بدوں کے ساتھ تباہ کر دے گا.اللہ تعالے نے فرمایا : اسے ابراہیم باران بستیوں کے رہنے والوں نے بڑا ظلم کیا ہے.ہمارے بندے لوط نے انھیں بڑا سمجھایا مگر وہ باز نہیں آئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا.اسے میرے خدا! ایسے شاک یہ بڑے ہیں.مگر تیرا رحم بھی تو بہت بڑا ہے.یہ کتنے ہی گندے اور نا پاک کیوں نہ ہوں تیرا رسم تو ہر حال سب پر غالب ہے.اور اے میرے رب ! کیا تیرے قانون میں بھی یہ بات داخل ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھٹن بھی پس جائے.اگر یہ لوگ بڑے ہیں تو ان میں کچھ نیک لوگ بھی ضرور ہوں گے کیا ان نیکوں کا لحاظ بھی نہیں کیا جائے گا اور کیا اگر ایک سو بھی ان میں نیک لوگ موجود ہوں تو ان کی خاطر اس عذاب کو دور نہیں کر دیا جائے گا.اللہ تعالے نے فرمایا لے ابراہیمی اگران لوگوں میں سو بھی نیک آدمی ہوں تو میں اس بستی کے لوگوں کو کبھی تباہ نہیں کروں گا.تب ابراہیم سمجھ گیا کہ اس بستی میں سو بھی نیک آدمی نہیں ہیں اور اس نے کہا.اسے میرے رب سو کیا اور نوے کیا.اگر پورے سو نہ ہوں اور نوے نیک ہوں.تو کیا اس کی کمی کی وجہ سے تیرا رسم آڑے نہیں آئے گا اور وہ ان لوگوں کو تباہی سے نہیں بچائے گا.اور اللہ تعالیٰ نے کہا.ابراہیم ! اگر توے بھی نیک آدمی ہوں تو میں ان کی خاطر اس نسبتی کو تباہ نہیں کرونگا تب ابراہیم نے کیا خدایا توے کیا اور راستی کیا.تو ہے اور انٹی کا فرق تو بہت معمولی بات ہے.اتنے معمولی سے فرق کی وجہ سے تو ان پر عذاب نہیں آنا چاہیئے.اللہ تعالے نے کہا.ان میں اسی بھی.

Page 321

نیک آدمی ہوں تومیں ان پر اپنا عذاب نازل نہیں کروں گا.تب ابراہیم نے سمجھا کہ اگر اسی نہیں توستر تو ان میں ضرور نیک ہوں گے اور اس نے کہا.خدا یا استی کیا اور ستر کیا.اگر ستر بھی نیک نکل آئیں تو آخر یہ بھی تو ایک بڑی تعداد ہے.اللہ تعالے نے کہا.ابرا هستیم! اگر ان میں سنتر بھی نیک آدمی ہوں تو میں ان کو تباہ نہیں کروں گا.اس طرح گفت گو ہوتے ہوتے حضرت ابراہیم نے کہا کہ خدایا اگر ان میں میں نیک آدمی ہوں تو کیا ان بنیں کا لحاظ نہیں کرے گا.اور اس بستی کو تباہ کر دے گا.اللہ تعالے نے کہا اگر اس بستی میں بنتیں بھی نیک آدمی ہوں تب بھی میں اسے تباہ نہیں کروں گا.تب ابراہم نے یہ مجھکہ کہ اس بستی میں طبی آدمی نہیں ہیں کہا.خدا یا ! اگران میں اس نیک آدمی موجود ہوں تو کیا ان دس کا لحاظ نہیں رکھا جائیگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم اگر ان میں دسنس بھی نیک آدمی ہوں تو میں ان کو تباہ نہیں کروں گا.تب ابر استیم خاموش ہو گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ ان بستیوں میں دس بھی نیک آدمی نہیں ہیں اور یہ اس ت بل ہیں کہ ان کو عذاب سے تباہ کر دیا جائے یہ تو دیکھو کچھ افراد کی نسبت بھی ایک قابل لحاظ نسبت ہوتی ہے.اگر وہ نسبت پوری ہو جائے تو قوم پر سے الزام دور ہو جاتا ہے.اور اگر یوری ہو تو ساری قوم اللی مواخذہ کے نیچے آجاتی ہے.ہماری جماعت کو بھی غور کرنا چاہیئے کہ کیا قربانی کے لحاظ سے اس کے افراد کے اندر وہ نسبت پائی جاتی ہے جو اللہ تعالنے کی ناراضگی سے محفوظ رکھنے والی ہوتی ہے.اگر نہیں تو یہ کتنے بڑے خون کا مقام ہے کہ وہ دعوئی تو ایمان کا کرتے ہیں اور عمل وہ کرتے ہیں جو ایمان کے خلاف ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں اب بھی اس واقعہ کے بعد جب کہ جماعت اس قربانی میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے اور وہ اپنی اولادوں کو اس رنگ میں خدمت دین کے لئے پیش کرنے کو تیار نہیں ہوتی اور اگر پوچھا جائے کہ کیا تم خدا کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو تو تم سب کھڑے ہو کر کہنے لگ جاؤ گے کہ ہاں جی اہم تیار ہیں.حالانکہ واقعہ یہ ہوگا کہ تم اول درجہ کے مجرم ہو گے.یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے صلیخانہ میں کوئی شخص تقریر کرے اور کئے کہ چوری نہیں کرنی چاہئیے تو تمام چور کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ ہاں ہاں چوری ہرگز نہیں کرنی چاہیئے ، ہم چوری کو بہت برا سمجھتے ہیں.حالانکہ چور تو چوری کر چکا، اب اس کا یہ کہنا کہ چوری نہیں کرنی چاہیئے کیا حقیقت رکھتا ہے.اس طرح جس فعل کے تم مرتکب ہو چکے جو اس کے بعد تمہارا یہ کہنا کہ ہم اپنی جانیں خدا تعالے کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اس سے زیادہ جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے.حالانکہ مومن کی حالت تو یہ ہوئی ہے.کہ اگر کوئی ایسی جگہ پیدا ہو جو وادی غیر ذی زرع کا سارنگ رکھتی ہو تو اس کا دل خوشی سے اُچھلنے لگتا ہے اور وہ مجھتا ہے کہ آج مجھے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ اس نے مجھے بھی ابراہیمی نمونہ دکھانے کا موقعہ دیا.یہی وجہ ہے کہ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے

Page 322

۳۱۴ کہ میں اپنا ایک بیٹا ہمیشہ قادیان میں رکھوں گا یہ اس وجہ سے میرا حق ہے کہ آج میں ابراہیم کے ساتھ بکرے کا گوشت کھاؤں کیونکہ جو کچھ ابراہیم نے کیا دہی میں نے بھی کیا گو میرا فعل اس شان کا نہیں جس شان کا فعل حضرت ابراہیم کا تھا.حضرت ابراہیم نے اپنا اکلوتا بیٹا جو نوے سال کی عمر میں ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا تعالے کی راہ میں قربان کر دیا تھا اور میرے کئی بیٹے ہیں.حضرت ابراہیم کے لئے وہ وادی غیر ذی زرع زیادہ خطرناک مفتی.آجکل پریس کی وجہ سے کئی قسم کی سہولتیں میستر ہیں.اخبارات کثرت سے شائع ہوتے ہیں اور مظلومیت کی آواز ساری دنیا میں پھیلائی جا سکتی ہے.اگر آجکل ان لوگوں پر جو قادیان میں رہتے ہیں مظالم ہوں، یا وہ مارے جائیں تو ہم ساری دنیا میں اس کی تشہیر کر سکتے ہیں اور اس اشاعت سے بھی ظالم لوگ ڈرتے ہیں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میری پیش کردہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اپنے حالات میں ہی ہر شخص قربانی کیا کرتا ہے.اگر ابراہیم کا صرف ایک بیٹا تھا اور میرے زیادہ بیٹے ہیں یا اس زمانہ میں پریس کی وجہ سے خبروں کی اشاعت کے سامان موجود ہیں اور پریس ظلم کے کم کرنے میں مدد دیتا ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں.میں نے خدا سے یہ نہیں کہا تھا کہ میرے اتنے بیٹے کر دے تب یکی ابراہیمیہ کی طرح قربانی کروں گا.یا پوریس جاری کر دے تب میں قربانی کروں گا.یہ خدا کا فعل ہے.میرا فعل نہیں.پس جو فرق ہے وہ خدائی فعل کے نتیجہ میں ہے.میری خواہش کے نتیجہ میں نہیں.یہ سوال کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں کیا کرتا.اس کا جواب یہ ہے کہ میرا دل تو سہی کہتا ہے کہ میں اس وقت بھی ابدا سیم کی نقل ہی کرتا.لیکن بہر حال موجودہ حالات نے میری قربانی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی میں ایک بہت بڑا فرق پیدا کر دیا ہے.پھر اب ایک اور وادی غیر ذی زرع اس رنگ میں بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہم مرکزہ سلسلہ کے لئے ایک نئی بستی اسی قسم کے مقام پر عبا رہے ہیں بستی بھی اسی لئے عیسائی جاری ہے کہ بہ ماحول اور بُرے خیالات سے الگ ہو کر ہماری جماعت کے افراد دین کی تعلیم حاصل کریں اور پھر اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں.یہ ایک چھوٹی قربانی ہے جس کے ذریعہ جماعت کے افراد اپنے اخلاص کا ثبوت دے سکتے ہیں اور دیں گے مگر عملاً وہی ثبوت دیں گے جو اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ ہمارا اس وادی غیر ذی زرع میں رہنا صرف اس غرض کے لئے ہے کہ ہم دین کی اشاعت کریں.اس کے بغیر اگر وہاں رہیں گے تو انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا.ہر حال میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ کوئی قومی ترقی بغیر اولاد کی

Page 323

قربانی کے نہیں ہو سکتی.جو قوم یہ چاہتی ہے کہ وہ ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں جا کھڑی ہو اور پھر وہ اپنی اولاد کی قربانی سے دریغے کرتی ہے وہ ایک ناممکن بات کا قصد کرتی ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتی ہے ، گھری ہوئی قومیں تمھیں بڑھتی ہیں اور تھی وہ ترقی یافتہ قومری کی صفوں میں اپنا رستہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنی اولادوں کو وادی غیر ذی زرع میں رکھنے اور خدا کے لئے انہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.جب وہ مرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں ، جب وہ اپنی اولادوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالے کے قانون کے ماتحت اس وقت کی زندہ قوموں کی زندہ نسلیں مرجاتی ہیں.یہ قانونِ قدرت ہے جس کا ہر جگہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے.بوڑھا درخت مرتا ہے اور نیا درخت ترقی کرتا ہے.پس دنیوی لحاظ سے بھی ترقی کی یہی راہ ہے کہ اپنی اولاد و کو قربان کیا جائے.اگر مسلمان چاہتے نہیں کہ وہ یورپ کے لوگوں پر غلبہ حاصل کریں تو انہیں اپنی اولادوں کو قربان کرنا پڑے گا.انہیں تعیش کے سامانوں کو اپنے لئے حرام کرنا پڑے گا یہ موت ہے جو انہیں قبول کرنی پڑے گی ، اسی موت کے دروازہ سے زندگی ملتی ہے اور اسی روازہ میں سے گزر کر گری ہوئی قومیں دنیا پر غالب آیا کرتی ہیں.اگر آج مسلمان اپنی زندگیوں کو سادہ بنا لیں اور اپنی جانوں اور اپنی اولادوں کی جانوں کو اللہ تعالے کی راہ میں مہربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو اب بھی کچھ نہیں گیا.جس وقت عیسائیت بڑھنی شروع ہوئی ہے ، اس وقت اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی جو حالت تھی ، آج عیسائیت کی ترقی کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اس سے بدرجہا اچھی ہے.اگر عیسائیت ہم سے کمزور ہو کر ساری دنیا پر غالب آسکتی ہے تو مسلمان ساری دنیا پر کیوں غالب نہیں آسکتے.اگر وہ اپنے نفس میں تغیر پیدا کریں اگر وہ اپنی اولادوں کو شیطان کے قبضہ میں دینے کی بجائے خدا تعالے کے قبضہ میں دے دیں تو یقینا اسلام کفر پر غالب آسکتا ہے، یقینا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکومت آج بھی ساری دنیا پر قائم ہو سکتی ہے.خدا تعالے سے دُعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دلوں کے زنگ دور کر دے.اور ان کی آنکھوں کو کھولے.ان کی غفلتوں اور کوتاہیوں کو دور کرے اور انہیں صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا جس طرح وادی غیر ذی زرع میں بسنے والے انفیل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک نورانی چراغ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں روشن کیا جس سے تمام دنیا جگمگا اٹھی.اسی طرح خدا محمدیت کے باغ میں سے ایک نیا پودہ پھوڑے جو ساری دنیا کو اسلام اور صداقت کی طرف کھینچ لانے کا موجب ہو.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پودا خدا نے

Page 324

پیدا کر دیا ہے.کاش مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں.اور وہ مجھیں کہ آج سوائے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے ان کی نجات کی اور کوئی صورت نہیں اور اسی شخص کے ہاتھ پر تمام دنیا کے لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں جیسے خدا نے کھڑا کیا ہو کو ئی انسانی ہاتھے ساری دنیا کو متحد نہیں کر سکتا ، عرب عراق کے ہاتھے پر جمع نہیں ہو سکتا، عراق سعودی عربیہ کے ہاتھ پر جمع نہیں ہو سکتا، مصر شام کے ہاتھ پر اکٹھا نہیں ہو سکتا.اور یہ مغربی علاقے پاکستان کے ہاتھ پر اکٹھے نہیں ہو سکتے.اور پاکستان ان کی اتباع نہیں کر سکتا.ہر شخص کو اپنی آزادی پیاری ہوتی ہے.کون ہے جو دوسرے کیلئے اپنی آزادی قربان کر دے.اس کے لئے اپنی آزادی قربان کی جا سکتی ہے جس کے متعلق انسان کو یہ یقین ہو.کہ اس کا ہاتھ انسان کا ہاتھ نہیں بلکہ خدا کا ہاتھ ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک جرمن تو مسلم کا خط میرے نام آیا جو بڑے اخلاص اور محبت کے ساتھ لکھا ہوا تھا.میں نے اسے جواب میں لکھا کہ کیا یہ ممکن تھا کہ جرمنی کے لوگ ہندوستانیوں کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے.یہ خدا کا ہاتھ ہی ہے جو تمہیں ہندوستان میں رہنے والے ایک شخص کی طرف کھینچ لایا.ورنہ وہ لوگ جو ایشیا اور ہندوستان میں رہنے والوں کو ذلیل سمجھا کرتے تھے ان سے یہ کب امید ہو سکتی تھی کہ وہ ان کی اطاعت کریں گے.یہ خدا کے ہاتھ کی ہی برکت ہے کہ اسی ہاتھ پر سب دنیا جمع ہوگی اور اسی سے ساری دنیا ایک دن عدل اور انصاف سے بھر جائے گی.اب میں دُعا کرتا ہوں سب دوست میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو حقیقی طور پر ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اور باقی مسلمانوں کی بھی آنکھیں کھولے تا وہ اپنے اس فرض کو بیچا نہیں جو ان پر عائد ہوتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ نور جو آج دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے اور جس کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمارے ذریعہ سے پھر ظاہر ہو اس میں وہ اپنی غفلتوں اور کشتیوں سے روک نہ نہیں بلکہ اس جماعت میں شریک ہو کر اللہ تعالے کے نور کے پھیلانے میں محمد ہوں تا جلد سے جلد اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ اس دُنیا کی حالت کو بدل دے.نه سنن کبری جلد ۲ هستند ہے.سنن نسائی کتاب صلاة العيدين باب القصد في الخطبة الفضل در مارچ شاخ)

Page 325

٣١٤ ے - الصفت ۱۰۳ تا ۱۰۰ شه - ابه ایم ۱۴: ۳۸ شه - پیدائش باب ۲۰ آیت ۱۲۳ پیدائش باب ۱۳ آیت ۲ تا به - بود : ۷-۷۱ - الذاریت ۵۱ : ۲۵ - ۲۷-۲۲ تا ۳۷ پیدائش باب ۱۸ آیات ۲ تا ۲۰۶ تا ۲۲ - پیدائش باب ۱۸ آیات ۲۳ تا ۳۲ شاه - حضور رضی اللہ عنہ کے اس عہد کے مطابق پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رقیقه اسح الثالث ایدہ اللہ قادیان میں رہے.آپ 14 نومبہ عشاء کو پاکستان تشریف لائے.آپ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب اور پھر ۵ مارچ 14ء سے اب تک صاحبزادہ مرزا وسیم احمد فت قادیان میں درویشانہ زندگی گذار رہے ہیں (تاریخ احمدیت جلد افت ۳ عبد سواعت ،

Page 326

٣١٨ ٣٨ فرموده مهم را کتوبر ۱۹۳۹ بهت ام ربوه) یہ اور به عید حبیبیا کہ دوستوں کو معلوم ہے عید الاضحیہ کہلاتی ہے یعنی قربانی کی عید اور قربانی کی عید کا لفظ جب بورما جاتا ہے تو اس کے دو ہی معنے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ وہ عید جونتر بانی کے نتیجہ میں منائی جاتی ہے اور دوسرے وہ عید جس کے نتیجہ میں مہربانی کی جاتی ہے.اضافت دونوں قسم کے معنوں پر دلالت کرتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس جملہ میں یہ لفظ دونوں قسم کی حقیقتیں اپنے اندر رکھتا ہے.کسی بڑی قربانی کی توفیق پانے پر ہی عید حاصل ہوتی ہے.اور خوشی حاصل ہونے کے شکریہ میں بھی مستند بانی کی جاتی ہے.یہ عید اس یاد میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اگر اپنے بیٹے کی قربانی کی تو نہیں کس بات کی خوشی ہے.قربانی کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور قربان ہونے والے حضرت اسمعیل علیہ السلام - ہم اس بات پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کر سکتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالے نے توفیق بخشی اور آپ نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اس کی خاطر قربان کر دیا.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے زمانہ میں ایک لمبا فا صلہ ہے.اور اتنے لیے عرصہ تک اس واقعہ کی یاد کو تازہ رکھنا کوئی معقول بات نہیں کہا سکتی.دوسرے ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی پر اس لئے بھی خوشی کا اظہار نہیں کر سکتے کہ آپ ایمان اور تقویٰ میں بہر حال ہم سے زیادہ تھے اور ہم یہ سٹ یہ نہیں کر سکتے کہ شاید وہ یہ قربانی نہ کرتے یا ان کے قدم ڈگمگا جاتے ، شکر ہے ایسا نہیں ہوا.اس طرح تو یہ عید عید نہیں بلکہ شاک ، تذبذب اور بے ایمانی سے بچنے پر اظہار بھی کیا ہم اس وجہ سے عید مناتے ہیں که رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیب دینے کے موقعہ پر کفار کے مقابلہ میں خوب ڈٹے رہے یا کیا ہم اس بات کی عید منایا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی قوم نے جب آپ کو دنیاوی لالچ دیا تو آپ ان کے لانچ میں نہ آئے اور اپنے مقصد کے پورا کرنے میں آپ نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یا کیا تم اس لئے عید مناتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پے درپے اپنی اولادوں کو خدا تعالے کی خاطر قربان کیا بلکہ خود اپنی جانوں کے دینے میں بھی دریغ نہ کیا.پس نہ تو حضرت ابراہیم علیہ سلام کی قربانیاں رسول کریم صلی شد علیہ وآلہ وسلم کی قربانیوں سے زیادہ ہیں کہ ہم ان کی خاطر عید مناتے ہیں.اور نہ ہمیں حضرت

Page 327

٣١٩ ابراہیم علیہ السلام کے ایمان اور تقوی پر کوئی شک وشبہ ہو سکتا ہے کہ شاید خدا تعالے کی خاطر آپ اپنے بیٹے کو قربان نہ کرتے ، مگر چونکہ آپ نے ایسا کہ دیا اس لئے ہم خوش نہیں کیا ہم آپ کے مقام کو اپنے مقام سے ادنی سمجھتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں خدا تعالے کا فضل ہو گیا کہ آپ کا قدم نہ ڈگمگایا پس یہ بات غلط ہے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی وجہ سے یہ عید مناتے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو ضرور اس کی کوئی اور وجہ ہے.اس عید کا منانا اور پھر ساری دنیا میں اس عید کا منایا جانا کسی خدائی فعل کی وجہ سے ہے اور خدائی فصل کی کوئی معقولی وجہ ہونی چاہیئے.اسلام سے پہلے بھی تو عرب میں عید منائی جاتی تھی.در حقیقت یہ حج کا ہی ایک حصہ ہے لوگ حج کرنے کے بعد خوشی مناتے تھے یا پھر اسلام کے زمانے سے یہ عید ساری دنیا میں منائی جانے لگی.اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ خیر ساری دنیا کے لئے کردی گئی.اور صرف ہم ہی یہ عید نہیں مناتے بلکہ ساری دنیا میں یہ عید منائی جاتی ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بات یقینا نہیں کہ یہ عید ہم اس لئے مناتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی بے ایمانی کا مظاہرہ نہیں کیا اول نہ ہی ہم اس لئے عید مناتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کی محض حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو قربان کر دیا گیا ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو سکتا ہے.ایک ایسا شخص جو چار ہزار سال پہلے گزرا ہے ایک ایسا شخص جس کے ساتھ نہ ہمیں کوئی جسمانی رشتہ ہے اور نہ سیاسی ، پھر اس کے ساتھ ہمیں کوئی تمدنی رشتہ بھی نہیں پھر اس کے اور ہمارے درمیان ایک ایسیارا ہر آجاتا ہے جس کی عزت ہمارے دلوں میں اس سے زیادہ ہے جوھانا نہیں ہے ، جو سید ولد آدم ہے.بلکہ جو سید الانبیاء ہے پس گو وہ ایک قربانی کرتا ہے بے شک وہ بہت بڑی قربانی ہے لیکن ہم اس قربانی کی وجہ سے عید کیوں منائیں.پھر کیا ہم اس لئے خوشی مناتے ہیں.کہ شاید حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالے کے حکم کی اطاعت میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی نہ کرتے ہم شکر کرتے ہیں کہ ان کو ٹھوکر نہ لگی.یہ بات بالبداہت غلط ہے، ابراہیم علیہ السلام کے پایہ کے آدمی کو ٹھوکر لگ ہی نہ سکتی تھی، ابو الانبیاء کا مقام یقینا ٹھوکروں سے بہت اونچا تھا.غرض ہماری اس عید کی دوسی صورتیں ہو سکتی ہیں.یا یہ کہ ہم اس لئے عید مناتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے اسے ربح کرنے پر آمادگی کا انکار کیا یا حضرت اسمعیل علیہ السلام قربان ہونے کے لئے تیار ہو گئے.اور یا ہم اس لئے عید مناتے ہیں کہ خدا تعالے نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بچا لیا.ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی ایسی بات نہیں جس کا براہ راست ہم سے تعلق ہو.یا اس کے واقع ہونے پر ہمیں خوشی کا حق پہنچتا ہو یا جو اتنی اہم ہو کہ اس کی مثال دوسرے انبیاء میں نہ پائی جاتی ہو.اس واقعہ پر ہمارا خوشی

Page 328

٣٢٠ منانا ایسا ہی مضحکہ خیر ہے جیسے مثلاً چنیوٹ یا احمد نگر میں کسی عام شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا در صوبہ میٹی کا گورنہ اس کی خوشی میں صوبہ بھر میں چھٹی کا اعلان کر دے.کیا کوئی شخص اس گورز کی عقلمند قرار دے گا.اسی طرح حضرت اسمعیل کے بچائے جانے کا واقعہ ہے.ہم اس امر پر بھی خوشی نہیں منا سکتے کہ خدا تعالے نے حضرت آنفیل علیہ السلام کو قربانی کے اثرات سے بچالیا.کیونکہ اس نے صرف حضرت اسمعیل علیہ السلام کو سی نہیں بچایا بلکہ ان کے علاوہ لاکھوں دوسرے اولیاء کو بھی بچایا ہے ہر صحابی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کے ساتھ لڑائیوں میں شامل ہوا کیا اس کی جان معجزانہ طور پر نہیں بچی.چنانچہ خالد بن ولید جب وفات پانے لگے تو آپ رو پڑے.ان سے ان کے ایک دوست نے کہا.آپ روتے کیوں ہیں، خدا تعالے کے رستہ ہیں قربانی کرنے کی آپ کو غیر معمولی توفیق ملی ہے اس لئے جب آپ خدا تھا لئے کے پاس جائیں گے تو انعام پائیں گے.خالد نے کہا.یہ بات نہیں تم ذرا میرے پاؤں سے پاجامہ اُٹھا کر تو دیکھو کیا وہاں کوئی ایسا حصہ ہے جس پر تلوار کا نشان نہ ہو.پھر دوسرے پاؤں سے پاجامہ اُٹھا کر دیکھو.ہاتھوں پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھوں، پیٹھ کو ننگا کر کے دیکھو، میرا سینہ دیکھو، غرض سارا جسم دکھانے کے بعد کیا.میرے دوست کیا میرے جسم پر کوئی اپنے بھر بھی ایسی جگہ باقی ہے جس پر تلوار کا نشان نہ ہو.خالد یہ بیان کرنے کے بعد پھر رو پڑے اور کہا: میں نے خدا تعالیٰ ے رستہ میں شہادت پانے کے لئے اپنے آپ کو ہر قسم کے خطرات میں ڈالا چنا نچہ تم نے دیکھے ہی لیا ہے کہ میرے جسم پر کوئی ایسی جگہ باقی نہیں جس پر تلوار کا نشان نہ ہو لیکن با وجود گوش کے ہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور شہادت نصیب نہ ہوئی اور آج پلنگ پر مر رہا ہوں سے خالد نے ادب کی وجہ سے اس طرح بچ جانے کے اور معنے لئے.انہوں نے سمجھا کہ شاید میں شہرت ہوں کہ مجھے باوجود کوشش شہادت کا رتبہ نہ مل سکا.لیکن ان کے دوست کی جگہ اگر میں ہوتا تو یہ کہنا کہ خالد یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کی جان تو خدا تعالے نے ایک دفعہ بچائی لیکن تمھیں خدا تعالے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہ کی برکت سے ہزاروں دفعہ موت سے بچایا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت سے ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب کہ خداتعاننے کی خاطر آپ نے قربانی کی اور آپ کی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کوئی کم نہ تھی بلکہ زیادہ تھی.پس سوال یہ ہے کہ جب رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے زیادہ تھی تو پھر آپ کی قربانی کی وجہ سے ہم کیوں عید نہیں مناتے بیشک عید الفطر محمدی عید ہے.اسلام سے قبل یہ عید مربوں میں نہیں منائی جاتی تھی عربوں میں صرف عید الاضحیہ رائج تھی.لیکن یہ عید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی مستر بانی کی خوشی میں نہیں منائی جاتی

Page 329

۳۲۱ حالانکہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کم نہیں تھے اس لئے ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ ایسا کیوں ہوا.ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک قربانی کی وجہ سے تو عید مناتے ہیں لیکن سول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کسی قربانی کی وجہ سے عید نہیں مناتے.لازٹا ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گئے که اگر مسلمان عید مناتے ہیں تو ہورہی ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شامل ہوں ورنہ آپ کی قربانی ایثار اور جو کام آپ نے کیا.اور جو عملی نمونہ آپ نے دکھایا ، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کم نہیں تھا بلکہ بہت زیادہ تھا.آج اس سوال کا جواب میں دیتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہالسلام کی قربانی کی وجہ سے ہم یہ عید کیوں مناتے ہیں.اور ہمارے اس عید کے منانے پر وہ شبہات کس طرح وارد نہیں ہوتے جوئیں نے وارد کئے ہیں.اس شبہ کا ازالہ کرنے کے لئے تم با ئیکیل کا مطالعہ کرتے ہیں.بائیبل میں لکھا ہے کہ اللہ تعالے نے کہا.اسے برسیم تو اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر رہمارے نزدیک اکلوتے بیٹے سے مراد حضرت اسمعیل علیہ السلام ہیں عیسائیوں کے نزدیک حضرت اسحق علیہ اسلام ہیں ) حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اس بات کا ا بیٹے سے ذکر کیا اور اسے راضی پا کر ساتھ لے گئے.اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور الٹا لٹا دیا.اور چھری نکالی تا اُسے خدائی حکم کے مطابق ذبح کریں لیکن بجائے حضرت آجیل علیہ السلام کے ایک دنبہ ان کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے اسے ذبح کر دیا.اس طرح حضرت اسمعیل علیہ السلام بچ گئے.جب حضرت آمفیل علیہ اسلام نے قربانی کا اصلی نمونہ دکھا یا.بالقبول بائیبل حضرت اسحاق علیہ سلام نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھایا تو اللہ تعالے نے کہا : اے ابراہیم! تو نے میری خاطر اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کیا ، دیکھ میں تیری ذریت کو بڑھاؤں گا، اور اسے پھیلاؤں گا جیسے ستارے نہیں گئے جاسکتے اسی طرح تیری ذریت بھی نہیں گئی جا سکے گی لیے پھیلنے کے معنے غالب طور پر پھیلنے کے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ کسی کا ایک بیٹا امریکہ چلا جائے، ایک افریقہ چلا جائے تو کہیں اس کی نسل پھیل گئی.پھیلنے کے تو یہ معنے ہوا کرتے ہیں کہ وہ قوم غلبہ یا منزلہ فلہ حیثیت رکھتی ہو.اور یہ ظاہر ہے کہ ابراہیمی نسل حضرت اسحق علیہ السلام کے ذریعہ تمام دنیا میں نہیں پھیل سکتی تھی.حضرت اسمعیل علیہ السلام جن کی طرف اکلوتا بیٹا کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں.ان کی نسل بھی تمام دنیا میں نہیں پھیل سکتی لختی ، عملاً بھی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل عرب میں ہی محدود رہی.اس کے پھیلنے کا وقت تب آیا جب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم ظاہر ہوئے.اور آپ نے فرمایا.مجھے سیاہ وسفید، سرخ اور زرد سب ہی کی طرف مبعوث کیا گیا ہے مجھے عربوں کی طرف بھی مبعوث کیا گیا ہے اور مجھے عجمیوں کی طرف بھی مبعوث کیا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالے نے آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کو

Page 330

۳۲۲ مخاطب کر کے فرمایا ہے :.اے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کہد ہے.اِنّى رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جمیعا.میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.راہ وہ کسی ملک کے ہوں ، خواہ وہ کوئی زبان بولتے ہوں ، تمام روئے زمین پر بسنے والوں کی طرف مجھے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جو تمام دنیا سے منقطع تھا.وہ متن کے لحاظ سے بھی کمزور تھا.وہ علمی لحاظ سے بھی کمزور تھا.وہ سیاسی لحاظ سے بھی کمزور تھا اس کمزور ترین ملک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کمزور ترین انسان تھے لیکن خدا تعالے نے آپ کو پہلے اس ملک میں غلبہ عطا فرمایا.پھر مینگوئی کے مطابق آپ کو ابیض و اسود، احمر و اصغر سب میں ہی قبولیت بخشی گئی ہے.آپ کا دین مختلف قوموں میں پھیلنا شروع ہوا.یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا.چین میں کروڑوں مسلمان ہیں، انڈونیشیا میں نوے فیصدی مسلمان ہیں، انڈین یونین میں پچیس تیس فیصدی مسلمان ہیں.پچر افغانستان، ایران ، به یا، شام، فلسطین، اپنے سینیا، وسطی افریقیه ، شمالی و جنوبی افریقیه مغربی و مشرقی افریقہ ، امریکہ، ایشیا اور یورپ کے بہت سے علاقوں میں لاکھوں کروڑوں سلمان پائے جاتے ہیں.پس آج ایک مسلمان اگر عید الاضحیہ مناتا ہے تو اس لئے نہیں کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو خدا تعالے نے بچالیا یا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے بے ایمانی کا نمونہ نہیں دکھایا اور اللہ حکم کے مطابق وہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبیح کرنے پر تیار ہو گئے بلکہ مسلمان جب عید کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ابراہیم علیہ اسلام کے متعلق خدا تعالئے کی پیش گوئی کہ ستارے گنے جائیں گے لیکن تیری اولاد نہیں گئی جاسکے گی.پوری ہو گئی ہے.وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پیش گوئی در اصل محمدی پیش گوئی تھی اور ابراہیمی نسل کے پھیلنے کا وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا زمانہ تھا.پس یہ عید بے شک حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے.لیکن یہ اس بات کی شہادت ہے کہ چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علی یم علیہ السلام پر خدا تعالے کا جو کلام نازل ہوا تھا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تھا اور آپ ہی کے ذریعہ پورا ہوا.اس عید کے ذریعہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اب ابراہیمی نسل وہ نہیں جو حضرت ابراہیم کے نطفہ سے پیدا ہوئی.ملکہ ابراہیمی نسل وہ لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے.آج ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں تا اس بات کا اعلان کریں کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ سلام کی روحانی اولاد ہیں اور ان پر نازل شدہ خدا تعالیٰ کے کلام کو پورا کرنے والے ہیں.ہم آج جمع ہو کہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کام جو حضرت ابه السیم علیہ السلام پر مکہ میں بھی نہیں بلکہ فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں ایک رگیستان و"..

Page 331

اور کم آبادی والی جگہ میں نازل ہوا.اور ایک ایسے شخص پر نازل ہوا جو اپنی قوم اور ملک سے نکال دیا گیا تھا جس کی ساری مالی حیثیت چند گائے اور بکریاں تھیں.اور افراد کے لحاظ سے اس کی خاندان اسکے ایک نتیجے کو ملا کہ پندرہ میں افراد پر مشتمل تھا.وہ جب اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہوا تو خدا تعالے نے کہا میں تیری اولاد کو دنیا کے کناروں تک پھیلاؤں گا.اور تیری نسل کو اس قدر ترقی دوں گا کہ ستارے گنے جاسکیں گے مگر تیری اولاد نہیں گنی جاسکے گی.یہ بات حضرت اسمعیل علیہ السلام کے متعلق ہی کی گئی تھی جس کی نسل کے پھیلنے کے ذرائع موجود نہیں تھے حضرت اسحق علیہ السلام کی نسل بھی دنیا میں پھیلی لیکن ان کے پاس طاقت تھی جس کے زور پر وہ پھیلی.یہودیوں کو ابتداء میں ہی حکومت مل گئی تھی لیکن حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل غرب میں ہی محدود رہی اور تہذیب اور ان قوتوں سے جن سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں منقطع رہی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بنی اسمعیل میں پھر دینی روح پیدا ہوئی.وہ دنیوی مانت کی وجہ سے نہیں ، دینی طاقت کے زور پر دنیا میں پھیلے.جہاں جہاں بنی اسرائیل پھیلے ہیں ، دنیوی طاقت کے زور سے پھیلے ہیں اور ان کا پھیلنا نسلی لحاظ سے پھیلنا کہلا سکتا ہے.لیکن یہ پھیلنا کوئی پھیلینا نہیں کیونکہ آخر ہر قوم کے بیٹے ہوتے ہیں.اور وہ کچھ نہ کچھ پھیلتی ہے.ہاں غیر قوم کے بیٹوں کو چھین کر لے آنا اور اپنی نسل بنالینا ایک نشان ہوتا ہے.اس لئے یہ پیشگوئی بنی اسحق کے حق میں پوری نہیں ہوتی کیونکہ واپسلی لحاظ سے پھیلے ہیں لیکن اس کے مقابل پر بنی اسمعیل بھی دنیا میں پھیلے ہیں مگر انہوں نے جو ترقی کی ہے وہ اس طرح کی ہے کہ ان میں سے زیادہ تعداد دوسروں کے گھروں سے چھین کر لائی گئی ہے.ہم مغل میں کیا ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صلبی اولاد ہیں ؟ ہم جب اپنے بزرگوں با تو خان اور قبلائی خاں کے نام لیتے ہیں تو ان کے لئے کچھ نہ کچھ اعزاز کا ب الله جذبہ ہمارے اندر ضرور پیدا ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اچھی حکومتیں کی ہیں لیکن جنگیر خان اوربی کو عالی وغیرہ کا نام آنے پر جذبہ نفرت پیدا ہوتا ہے حالانکہ وہ بھی ہماری قوم سے تعلق رکھتے تھے.مینگر حضرت ابراہیم علیہ سلام کے ذکر پر جو جذبہ اکرام پیدا ہوتا ہے اور آپ کے ذکر سے جو گد گدی ہمار دلوں میں ہوتی ہے وہ اپنے آباء و اجداد کے ذکر پر نہیں ہوتی.کہیں روحانی طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم اتفاقی طور پر مغلوں کے ہاں پیدا ہو گئے ہیں ورنہ ہم ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد مغل ہمیں چھرا کر لے گئے تھے.اسی طرح ہر قوم کا مسلمان خواہ وہ جاٹ ہو یا راجپوت مغل ہو یا پٹھان یورپین ہو یا ایرانی بلکہ خواہ وہ یہودیوں میں سے ہی کیوں نہ آیا ہو.اسے اپنے آباء و اجداد کے ذکر پر وہ جوش نہیں آتا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر پہ آتا ہے.پس در حقیقت یہ گھنا چاہئیے کہ حضرت اسماعیل کی نسل

Page 332

۳۲۳ دنیا کے کناروں تک پھیل گئی.دوسرے لوگوں نے اپنی اولاد میں حضرت آجیل علیہ السّلام کے گھر میں پھینک دیں اور وہ ان کی اولادیں نہ رہیں بلکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی روحانی اولادیں بن گئیں لیکن یہ ہو اکس کے ذریعہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ ہوا.پس جب ہم عید مناتے ہیں تو اس پرانے واقعہ کی وجہ سے نہیں مناتے بلکہ اس بات کے اظہار کے لئے مناتے ہیں کہ ہمارا خدا زندہ ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں.اور ہم جو آپ کی دھانی اولاد ہیں زندہ ہیں.ہم اس موقعہ پر جمع ہو کر اور اپنے آپ کو برا نہیں اولاد کے طور پر پیشی کر کے دنیا سے کہتے ہیں کہ دیکھو ستارے گئے جاسکتے ہیں مگر ابراہیمی نسل نہیں گئی جاسکتی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے فلسطین کے جنوب میں واقع ایک ریگستان میں ایک ایسے شخص پر جس کی کل جائداد چند بکریاں اور چند گائیں تھیں، اس کا خاندان پندرہ بیس افراد پرمشتمل تھا ، خدا تعالے کا کلام نازل ہوا کہ جو چار ہزار سال کے بعد محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ شاندار رنگ میں پورا ہوا ، ہم آج ربوہ میں جو سینکڑوں سال (جہاں تک اس جگہ کی تاریخ بتاتی ہے آباد نہیں ہوا.جہاں پانی بھی مشکل سے ملتا تھا، جمع ہوئے ہیں اور اس تبا کا اظہار کر رہے ہیں کہ جو بات آج سے چار ہزار سال قبل خدا تعالے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کی تھی ، وہ ہمارے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے اسمعیل اور ابراہیم کی اولاد ہیں اور عرب سے ہزاروں میل دور غیر زبانیں بولتے ہوئے ایک وادی غیر ذی زریخ میں اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا اور ستاروں کا گننا ممکن ہو گا مگر تیری اولاد کا گفتا ممکن نہ ہو گا.ہماری طرح اور لاکھوں جگہ پر سلمان جمع ہو کر اس بات کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں کہ خدا تعالے کا یہ کلام کہ میں تیری نسل کو بڑھاؤں گا اور اتنا بڑھاؤنگا کہ تارے گنے جاسکیں گے مگر تیری نسل گئی نہیں جاسکے گی.محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ شاندار طور پر پورا ہوا ہے.سو ہم یہاں اس لئے جمع نہیں ہوتے کہ حضرت ابراسیم علیہ السلام نے الہی حکم کے مطابق اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کی.ہم اس لئے یہاں جمع نہیں ہوئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کمزوری ایمان کا نمونہ نہیں دکھایا.ہم اس لئے یہاں جمع نہیں ہوئے کہ خدا تعالے نے حضرت اسمعیل علیہ اسلام کو بچا لیا.بلکہ اس لئے جمع ہوئے ہیں تا اس بات کا اظہار کریں کہ یہ عجزانہ کلام جو خاص شان رکھتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تھا اور انہیں کے ذریعہ سے پورا ہوا اور ہم اس کے زندہ گواہ ہیں.پس جہاں بھی یہ عید منائی جاتی ہے ، گویا وہاں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ابراہیمی نسل حضرت

Page 333

۳۳۵ اسحق علیہ السلام کے ذریعہ نہیں کھیلی جبکہ حضرت آمیل علیہ السلام کے بیٹے حضرت محمد رسول اللہ صلی للہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ سے پھیلی ہے.ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہمارا یہ دھونی غلط ہے ، یہ پیشگوئی بنو اسحق کے حق میں حضرت مسیح کے ذریعہ سے پوری ہوتی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ درست ہوتا تو نبو اسحق اس واقعہ کی یاد میں کوئی عید مناتے مگر ایسا نہیں ہے.صرف مسلمان ہی اس گذشتہ واقعہ کی یاد کو تازہ رکھتے ہیں.اور اسی طرح اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے ذریعہ ابرا سیمی نسل میپیلی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ کہ مسیح علیہ السلام نے اس عید کو قائم کیا ہے اور اب ساری دنیا کے مسلمان یہ عید مناتے ہیں نہ کہ سیمی یا یہودی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی عید الا ضنجیبہ عربوں میں منائی جاتی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مبعوث ہونے پر اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اسے عالمگیر بنا دیا.اس لئے کہ پہلے طرف عرب حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دعونی کے بعد آپ پر ایمان لانے والے سب لوگ حضرت آنفیل علیہ السلام کی اولا میں شامل ہو گئے اور پیش گوئی پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.پھر جہاں ہم یہ عید منا کر رسوئی قدیم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت کا ایک ثبوت بہم پہنچاتے ہیں.وہاں یہ عید اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ تم تبلیغ کے ذریعہ ابراہیمی نسل کو اور بھی بڑھا ئیں چقنی جتنی ہمت تبلیغ ک نی ہمت تبلیغ کریں گے اور جتنے جتنے مقامات پر اسلام پھیلے گا اتنے ہی شاندار طور پر پیش گوئی پوری ہوگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ابراہیم کیا گیا ہے تیے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں جہاں اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کی نسل میں بھی اسمعیلی ہجرت کا نمونہ ملے گا ، وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ پیش گوئی آپ کے ذریعہ اور بھی شاندار طور پر پوری ہو گی.خدا تعالئے آپ سے اور آپ کی قوم سے تبلیغ کا کام لے گا اور تبلیغ کے ذریعہ ابراہیمی نسل کو دنیا میں پھیلائے گا.پس جب ہم اس عید کے لئے جمع ہوتے ہیں تو اس لئے جمع ہوتے ہیں تا اس نشان کا اظہار ہو اور ہم نئی روح کے ساتھ اٹھیں اور کوشش کریں کہ ابراہیمی نسل اور بھی پھیلے تا وہ نشان پہلے سے دگنا لگنا بلکہ ہزار گنا زیادہ شان سے ظاہر ہو اور ہم یہ کوشش کریں کہ اس جہان میں سوائے ابراہیمی فضل کے اور کوئی باقی نہ رہے " ان - سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیة الفضل ۲۳ مئی ۱۹ع) نے صلح حدیبیہ رشتہ میں ہوئی.حدیبیہ ایک جگہ کا نام ہے جو کہ ہے ایل کے فاصلے پر ہے تاریخ انہیں علی و منا

Page 334

سی - مرقاۃ شرح مشکوۃ رباب صلاة العيدين جلد ۲ ۲۵۲ ة نرو شو - اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابه جلد ۲ ۱۰ تاریخ الخمیس جلد ۲ ۲۶۵ شه - پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۳ پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷ شه - الاعوان ۱۷ ۱۵۹ - تغییر در منثور جلد ۱۳۵۳ - جلد ۵ ص ۲ زیر آیت کریمه وَمَا أَرْسَلْنَاكَ الاعاقه للناس رسبا شه - با تو خان روفات (۶۱۳۵۵) جوچی کا بڑا لڑکا اور چنگیز خاں کا پوتا ، روسس کا فاتح اور اردو کے مطلا رخانوادہ زریں کا بانی تھا.اپنے سمدھروں میں نیک دل خان کے نام سے مشہور تھا.بعض غیر جانبدار مورخین نے اسے بڑا انصاف پسند، نیک خصلت اور دانش مند بادشاہ قرار دیا ہے ، طبقات ناصری میں لکھا ہے کہ وہ جنگ میں اپنے دشمنوں سے بڑا ظالمانہ سلوک کرنا تھا.مگر اپنی رعایا کے حق میں بڑا رحم دل تھا.اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ در پردہ مسلمان تھار انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد ( ص ) با تو خان کے بعض اوصاف کی تفصیل کے لئے دیکھیں تاتاریوں کی یلغار - مؤلفہ ہیرلڈ نیم مترجمه عزیز احمد ص ۲۲ تا ما ۲۳ قبلائی خان روفات ۶۱۲۹۴) تولوئی کا بیٹا.چنگیز خان کا پوتا اور چین کا فاتح تھا.چین کی تاریخ میں قبلائی کے خاندان کو یو آن (بیرونی) خاندان کہتے ہیں.اس کے عہد میں رفاہ عامہ کی طرف توجہ دی گئی چنانچہ سڑکوں اور ڈاک کا انتظام کیا گیا.یتیموں اور بوڑھے عالموں کے لئے وظیفے مقرر ہوئے بیماروں کے لئے ہسپتال بن گئے.ملکی نظم ونسق میں مسلمان ناظموں اور مدبروں کا بہت عمل دخل تھا رانسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد ۲ و ۲۳۵ چنگیز خان (۶۲ ۱۱ - ۶۱۲۲۷) کا آبائی نام تموجین تھا.اس نے تاتاریوں کے متفرق گروہوں کو متحد کر کے ایک خوفناک طاقت بنا دیا.اور خود چنگیز خاں (نہایت عظیم الشان) کا لقب اختیار کیا.اس کے ماتخت منگول کی فتوحات کا سلسلہ دور دور تک پہنچ گیا.چنگیز خاں نے دنیائے اسلام کے اکثر بڑے بڑے شہر بہ باد کر ڈالے رانسا ئیکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد اول جنت سے ہلاکو خان روفات ۶۱۲۷۴) چنگیز خان کے بیٹے تو لوئی کا تیسرا لڑکا تھا.اس نے ایران کو فتح کر کے اہل خانی سلطنت کی بنیاد رکھی.۱۲۵۸ ۶ء میں ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی.عباسی خاندان کے آخری خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کرا دیا.بے شمار لوگ مارے گئے.صدیوں کی جمع کی ہوئی دولت تاتاریوں نے لوٹ لی.بڑے بڑے کتب خانے نذر آتش کر دیئے گئے.درسگا میں ویران ہو گئیں.علم و فضل اور جاہ حشمت کا یہ سب سے بڑا اسلامی مرکز کھنڈرات بن کر رہ گیا.رانسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد اول ص ) ے.تذکرہ ایڈیشن سوم م ، دا ۳۳ ، ۳۷۷ -

Page 335

۳۲۷ ۳۹ زموده و تمیز با تعلیم الاسلام کا یا لاہور، وہ دوست جو اخبار پڑھنے کے عادی ہیں ان کو معلوم ہو گا کہ مجھے ڈیڑھ مہینہ سے شدید کھانسی ہے راستہ کی گرد کی وجہ سے یہ شوایت اور بھی بڑھ گئی ہے.اور پھر چونکہ یہاں کئی دن بارش رہی اور اس کی وجہ سے مرے نغم آلود تھے اس نمی نے اور بھی زیادہ کھانسی کے بڑھانے میں مدد دی ہے ، اس لئے نہ تو میں اونچا بول سکتا ہوں اور نہ لمبا بول سکتا ہوں.بہر حال عید کے بعد خطبہ پڑھنا سنت ہے.اپنے خطبہ تو میں پڑھوں گا لیکن بجائے کسی ایک مضمون کے میں ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کر دینا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ میں پہلے.بوہ میں سنا کرتا تھا لیکن کل میں نے دیکھا تو نہیں، ہاں میں نے اپنے کانوں سے سنا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہاں لاہور میں دور تجھے ہوتے ہیں ، ایک مسجد میں اور ایک رین باغ میں.مجھے اس بات کو دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کیونکہ شریعیت کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شہر میں ایک ہی جمعہ ہو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ چو ہد ری قسم کے لوگ رتن باغ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور غریب مسجد میں چلے جاتے ہیں.شاید میرے کچھ دن یہاں رہنے کی وجہ سے رتن باغ کو ان کی نگاہ میں وہ فضیلت حاصل ہو گئی ہے جو خانہ کعبہ کو اللہ تعالے کا گھر ہونے کی وجہ سے حاصل ہے.یہ دین کے ساتھ تمسخر ہے اور مومن کے لئے ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں.اگر تم نے جمعہ کی مشتق ہی کرنی ہے تو ہفتہ یا اتوار کے کسی دن اکٹھے ہو کہ جمعہ کی مشق کر لیا کرو، دین کو مسنجر بنانا ہرگز جائزہ نہیں ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں دو جمعے ہوتے تھے گے یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ دلیل دی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں قادیان میں تو دو جمعے ہوتے رہے ہیں.پھر تمہیں روکا کیوں جاتا ہے.سو یا د رکھنا چاہیئے.کہ اس کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ ان دنوں ملک میں شدید طاعون پھیلا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے الہامات اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسجد مبارک اور اس کے ارد گرد کا حلقہ زیادہ تر طاعون سے محفوظ رہا.لیکن مسجد اقصی کے ارد گرد چونکہ کثرت سے ہنڈ رہتے تھے.ان میں طاعون پھوٹی اور ان میں سے اکثر بلاک ہو گئے.اور چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں طاعون پھیلی ہوئی ہو وہاں کے لوگ دوسرے علاقوں میں نہ جائیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ طاعون زدہ علاقہ میں نہ آئیں تو اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں سجد مبارک

Page 336

میں الگ جمعہ ہوتا رہا اور مسجد اقصے میں الگ مسجد اقصے میں وہ لوگ جو اس مسجد کے ارد گرد رہتے تھے اور وہ لوگ جن کے علاقہ میں طاعون پھیلی ہوئی تھی اکٹھے ہو جاتے تھے.اور مسجد مبارک میں وہ لوگ جمع ہو جاتے تھے جو طاعون سے محفوظ تھے.پس یہ شریعت کا حکم تھا جس کے ماتحت دو تجھے ہوتے تھے کسی بندے نے یہ کم نہیں بنایا تھا.نیکن رتن باغ میں جمعہ کی نماز الگ پڑھنا بندوں کی خالص اپنی ایجاد ہے.میں ربوہ میں سُن سنکر سمجھتا تھا کہ شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہو مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ بات درست ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں چند لوگوں کے متعلق ذکر آتا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک علیحدہ مسجد بنائی تھی تیجس پر رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ اس مسجد کو گرا کر مزیلہ یعنے میلے کے ڈھیر بنا دیا جائے ہے جسے ہمارے ہاں روڑی کہتے ہیں.چنانچہ صحابہ نے ایسا ہی کیا.انہوں نے مسجد گرا دی اور وہاں روڑی کا ڈھیر بنا دیا جہاں لوگ گند پھینکا کرتے تھے شیشے پس یہ نہایت ہی مکروہ اور ناپسندیدہ بات ہے اور دین میں تفرقہ اور انشقاق پیدا کرنے والی چیز ہے.لیکن حیران ہوں کہ باقی جماعت کے لوگوں نے اس کے خلاف کیوں احتجاج نہ کیا بیاں ہمارے مولوی صاحب جو مقامی مبلغ ہیں رہتے ہیں، مولوی کے معنے ہوتے ہیں ایسا شخص جو شریت کے مسائل جانتا ہو.انہیں سختی سے اس بات کا اظہار کرنا چاہیئے تھا کہ یہ جائز نہیں ، تم مسجد میں آؤ اور سب کے ساتھ مل کر جمعہ کی نماز ادا کرو.آخر کیا وجہ ہے کہ جیل روڈ اور بھائی درازه کے آدمی تو مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے جائیں اور رتن بانغ جو بالکل قریب ہے وہاں کے لوگ الگ نماز پڑھا کریں.آئندہ جو سیاسی مبلغ ہیں انہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کا کام صرف اتنا ہی نہیں کہ خطبہ پڑھا دیا یا کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا تو وہ بتلا دیا.بلکہ تعلیم و تربیت بھی ان کا کام ہے.جب وہ دیکھیں کہ کوئی کام دین کے خلاف ہو رہا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس سے لوگوں کو روکیں.اور اگر لوگ پھر بھی نہ رکیں، خلیفہ وقت کے پاس رپورٹ کی جائے.ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ یہاں لاہور میں کئی جمعے ہوتے تھے اور وہ سب جمعے جائز ہوتے تھے کیونکہ دفاتر کو جمعہ کے دن چھٹی نہیں ملتی تھی.اور چونکہ معدہ مقدم ہے.اس لئے ملازم پیشہ لوگ عموما آدھ گھنٹہ کی چھٹی ہے کہ دفاتر کے قریب ہی کہیں جمع ہو کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے.ایسے دو تین جمعے لاہور میں ہوتے تھے اور ہمیں کبھی اعتراض نہیں ہوا.لیکن رتن باغ میں جمع ہونے والوں کو کونسی حکومت مجبور کرتی ہے کہ آدھ گھنٹہ کے اندر ہی نماز سے فارغ ہو کر واپس آجاؤ ، صرف اپنی چو ہدایت جنانے کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعض دفعہ جب ہماری میں میٹھے میٹھے تھک جاتے تو فرماتے

Page 337

۳۲۹ اب دوست چلے ت چلے جائیں.اس پر کچھے چلے جاتے اور کچھے بیٹھے رہتے.تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد آپ پھر تنگ اگر فرماتے کہ دوست چلے جائیں مجھے تکلیف ہو رہی ہے.اس پر پھر کچھ لوگ چلے جاتے اور کچھ بیٹھے رہتے.آخر تیسری دفعہ آپ فرماتے کہ اب چوہدری بھی چلے جائیں کہ یعنی جو ہر دفعہ میرے کہنے کے یہ معنے لیتے ہیں کہ یہ حکم دوسروں کے لئے ہے ، ہمارے لئے نہیں ہے ، وہ بھی تشریف لیجائیں اسی طرح یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں جمعہ پڑھنے کا حکم ہمارے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہے حالانکہ اللہ تعالے کے حکم ساروں کے لئے ہوتے ہیں.ان احکام پر عمل کرنے کے لحاظ سے ایک بادشاہ - بھی برا یہی ہے اور ایک چوڑھا بھی ، ایک بنی بھی برابر ہے اور ایک عام مسلمان بھی جو خدا تعالے کے احکام ہوتے ہیں وہ سب کے لئے یکساں ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو بعض دفعہ آپ اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے شی جب آپ کی عمر بڑی ہوگئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ دیکھ کر تکلیف پہنچی.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ اپنی جان کو اتنا دکھ میں کیوں ڈالتے ہیں.کیا خدا تعالے نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عائشہ جب خدا تعالے نے یہ بات میرے متعلق فرمائی ہے اور اس نے مجھ پر اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ میرے اگلے پچھلے سب گناہ اس نے معاف کر دیتے ہیں تو کیا اس احسان کے بدلہ میں میرے لئے ضروری نہیں کہ میں پہلے سے بھی زیادہ عبادت کر دوں.اب دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو اس کے یہ معنے لئے کہ آپ کو عبادت کم کرنی چاہئیے.لیکن آپ نے اس کے یہ معنے لئے کہ مجھے پہلے سے زیادہ عبادت کرنی چاہیئے.کیونکہ اس نے مجھ پر احسان کیا ہے.یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چھوٹی عمر کی تھیں اور دین کی معرفت ان میں کم تھی.پھر حضرت عائشہ نے بھی وہی بات کی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تھی.ایک وقت آیا جب ان کی معرفت بھی تیز ہوگئی.اور انہوں نے بالکل وہی طریقہ اختیار کیا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اختیار کیا تھا.صحابہ کا دستور تھا کہ وہ حضرت عائشہ کو دین کی خاص واقف اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص بیویوں میں سے سمجھ کر اکثر تحائف وغیرہ بھیجا کرتے تھے.اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ جو کچھ روپیہ وغیرہ آتا اس کا اکثر حصہ صدقہ کر دیتیں.حضرت زبیر کے چھوٹے بچے عبید اللہ نے جب یہ بات دیکھی تو چونکہ وہ آپ کے بھانجے تھے.انہیں خیال آیا کہ اگر خالہ نے اسی طرح اپنا تمام مال تقسیم کر دیا تو باقی رشتہ داری اور قریبوں کو کچھ نہیں ملے گا.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کر دیا کہ لوگو تم عائشہ کو اس اسرا نے

Page 338

٣٣٠ رد کتے کیوں نہیں.ان کے پاس جتنا روپیہ آتا ہے اس کا اکثر حمتہ ، تقسیم کر دیتی ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا اس بھانجے کو آئندہ میرے گھر میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی اور میں اسے معاف نہیں کروں گی، اگر کروں تو مجھ پر صدقہ لازم ہو گا.چنانچہ آپ نے اپنے بھانجے کو اپنے گھر آنے جانے میں منع کر دیا صحابہ نے جب یہ بات دیکھی تو انہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں ایسا اختلاف پسندیدہ نہیں خصوصا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایسی مقبول اور محبوب بیوی کا اپنے بھانجے پر ناراض ہونا اچھا نہیں اور انہوں نے تجویزہ کی کوکسی طرح حضرت عائشہ سے ان کے بھانجے کو معافی دلوائی جائے چنانچہ ایک دن انہوں نے عبیداللہ کو اپنے ساتھ لیا.اور حضرت عائشہ کے دروازہ پر جا کر کہا کہ حضور ہم نے ایک بات کہنی ہے ، اگر اجازت ہو تو ہم سب اندر آجائیں.حضرت عائشہ نے پردہ بھیجوا دیا.اس زمانہ میں علیحدہ علیحدہ کمرے تو ہوتے نہیں تھے صحن میں پردہ لٹکا دیا جاتا تھا.جس کے ایک طرف مرد بیٹھ جاتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی پردہ لٹکا دیا ، خود ایک طرف ہو گئیں.اور انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی جب وہ اندر گئے تو نبید اللہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دیتے قیمت کسی خاص شخص کا نام نہیں لیا تھا، یہی کہا تھا کہ سب آجائیں.انہوں نے عبید اللہ کو پہلے سمجھا رکھا تھا کہ جب ہم تجھے اندر پہنچا دیں تو یہ وہ اُٹھا کر خالہ سے چمٹ جانا اور کہنا کہ مجھے معاف کر دو.جب صحابہ پردہ کے ایک طرف بیٹھ گئے تو نبید اللہ نے دوڑ کر پردہ اٹھایا اور خالہ سے چمٹ گئے اور کہنے لگے خالہ مجھے معاف کر دیں مجھ سے سخت غلطی ہوئی ہے.ادھر سے صحابہ نے بھی سفارش کردی کہ بچہ تھا اس سے غلطی ہو گئی ہے.آپ اسے معاف فرما دیں چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے معاف فرما دیا.مگر اس کے بعد آپ کے پاس جو چیز بھی آتی آپ اسے صدقہ کے طور پر دیدیا کرتی تھیں.ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتی ہیں تو آپ نے فرمایا.میں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر میں اپنے بھانجے کو معاف کروں گی تو کچھ صدقہ کروں گی.میں ڈرتی ہوں کہ اگر میں تھوڑا صدقہ کروں تو شاید وہ کچھ کی مقدار تک نہ پہنچے اور اللہ تعالے مجھ پر ناراض ہو.اس لئے میرے پاس جو چیز بھی آتی ہے ، میں صدقہ دے دیتی ہوں.اس طرح آپ نے اپنے بھانجے کو معاف بھی کر دیا اور صدقہ اس سے بھی زیادہ دینا شروع کر دیا جتنا وہ پہلے دیا کرتی تھیں.کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ جب خدا نے مجھے اور میرے بھانجے کو ملا دیا ہے تو اب میرا فرض ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے شکر میں پہلے سے بھی زیادہ صدقہ دو.گویا جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا وہی حضرت عائشہ نے کیا.مگر اس وقت جب ان کی معرفت زیادہ ترقی کر گئی.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب ہماری جماعت کو قائم ہوتے ساٹھ سال گزر

Page 339

چکے ہیں.ساتھ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا.پس ہمیں سنجیدگی کے ساتھ عوز کرنا چاہیئے کہ اتنے لمبے عرصہ میں ہم نے دنیا پر روحانی لحاظ سے غالب آنے کے لئے کیا کیا ہے ، بے شک خدا تعالے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ہماری جماعت کو غالب کرے گا مگر کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالے کسی دینی اور روحانی جماعت کو اشاعت دین کے لئے متواتر جد و جہد اور قربانیوں کے بغیر غلبہ عطا کر دے.پس میں جماعت کو ایک دفعہ پھر ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.خصوصا یہ عید کا دن ایسا ہے جس میں ہمیں وہ وعدہ یاد دلایا گیا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کیا تھا کہ میں تیری اولاد کو دنیا کے کناروں تک پھیلاؤں گا.ہم اس پیشگوئی کی یاد میں یہ دن مناتے ہیں.مگر تعجب ہے ہم دنیا کے ایک کونے میں میٹھے ہیں اور بغیر اس بات کی منارہے ہیں کہ اللہ تعالے نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد کو ساری دنیا میں پھیلا دیا.اگر یہ سچی بات ہے تو تم ہی حق پر ہو، اگر یہ سچی بات ہے کہ خدا تعالے کے دین کو ماننے کی تھیں ہی توفیق علی ہے تو تمھیں سوچنا چاہیئے کہ تم کس طرح خوش ہو کہ یہ کہ سکتے ہو کہ خدا تعا نے ابراہیم علیہ السلام کی پیشنگوئی پوری کردی.اگر تم دنیا کے ایک کونے میں بیٹھے ہو تو خدا تعالے نے ابر استیم کی پیش گوئی پوری نہیں کی بلکہ اس کے پورے ہوتے ہوتے اس میں روک پیدا کر دی اور یا پھر تمہیں ماننا پڑے گا کہ تمہا ہے علاوہ بھی کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو خدا تعالے سے تعلق رکھتی ہیں اور چونکہ وہ دنیا میں تھیلی ہوئی ہیں اس لئے ابراہیم کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.ایک طرف تمہارا یہ دخونی کرنا کہ خدا تعالیٰ کی رضا تم سے وابستہ ہے اور دوسری طرف تمہا را ابراہیم کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر خوش ہونا حالانکہ تم دنیا کے ایک کونے میں سمیٹے بیٹھے ہو آپس میں کوئی مطابقت نہیں رکھتے.جب قانونی طور پر بنی نوع انسان کو خدا تعالے کی رضا اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب وہ احمدی جماعت میں داخل ہو جائیں تو ابراہیم کی پیشگوئی بھی اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہے جب تم دنیا کے کونے کونے میں پھیل جاؤ.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالئے یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ جس کو چاہے بخش دے مگر یہ استثناء ہے اور استثناء اور قانون میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.ایک شخص اگر اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ کسی فقیر کو بھی کھانا کھلا دیتا ہے.مگر اس کا فقیر کو کھانا کھلانا ایک استثنائی رنگ رکھتا ہے.اسی طرح ہم یہ نہیں کتنے کہ خدا تعالے کسی اور کو پیش نہیں سکتا.وہ استثنائی طور پر جس کو چاہیے بخش دے میگر قانونی طور پر صرف خدائی جماعتوں کا ہی یہ دعوئی ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ شامل ہونے سے اللہ تعالے کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.اگر کسی اور کو رھنا حاصل ہوتی ہے تو وہ غیر قانونی اور استثنائی رنگ

Page 340

۳۳۲ رکھتی ہے جیسے آج ہی اخبارات میں یہ اعلان ہوا ہے کہ آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں پاکستان کے ایک ممبر کو بھی بیٹھنے کی اجازت دی گئی ہے ہے اور یہ تیسری مثال ہے جبکہ آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں ایک غیر مبر کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی.اب دیکھو پارلیمنٹ میں ایک غیر ممبر کا بیٹھنا ممکن تو ہو گیا.کیونکہ دو پہلے بیٹھ چکے تھے ایک یہ بیٹھ گیا مگر اس کو قانون نہیں کیا جاسکتا.قانونی طور پر صرف پارلیمنٹ کا ممبر ہی پارلیمینٹ میں میٹھے سکتا ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا.بلکہ اگر کوئی رو سکے تو اس پر مقدمہ چل جاتا ہے.عدالتیں بھی سیاسی مقدمات میں ایسے آدمی کی گرفتاری کو ناجائز سمجھتی نہیں کہاں اگر دیوانی یا فوجداری مقدمہ ہو جائے.تو پھر اور بات ہے.غرض قانونی طور پر ہماری جماعت کا ہی یہ دعوی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہے.باقی رہا استثنی ہو استثنی قانون کو توڑتا نہیں.ہم کہتے ہیں.وہ اختیار رکھتا ہے جس کو چاہیے بخش دے.ہمارا ادعونی صرف اتنا ہے کہ ہم کو خدا تعالے نے بخشش کے لئے قانون بخشا ہے.اور دوسرے لوگوں کو استثنا بخشا ہے ہم کر سکتے.ہیں کہ اگر ہم اللہ تعالے کے احکام کی اتباع کریں.تو لازمی طور پر ہم اللہ تعالے کی رضا حاصل کر سکتے ہیں.لیکن دوسرے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے وہ صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر اللہ تعالے ہمیں بخش دے تو اس کا احسان ہے.بہر حال اگر یہ سچی بات ہے کہ صرف ہم لوگ ہی اللہ تعالے کی رضا کی راہوں پر چلنے والے ہیں.تو پھر ہمارے ذریعہ سے ابراہیم کی نسل دنیا میں پھیلی نہیں بلکہ وہ سمٹ گئی ہے.کیونکہ کروڑوں کرو ڈلوگوں کے متعلق ہم نے کہ دیا کہ قانونا وہ رضاء الہی کے مستحق نہیں پس ہمیں فکر کرنا چاہیئے کہ ہمیں خدا نے کس انتہاء میں ڈال دیا کہ ایک عظیم الشان پیشگوئی جو دنیا کے کناروں تک ابراہیمی ذریت کے پھیلنے کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہ ہماری وجہ سے سمٹ کو رہ گئی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اس پیشگوئی کے حلقہ کو ہم زیادہ سے زیادہ وسیع کریں.تا کہ کوئی شخص ہمیں یہ طعنہ نہ دے کہ تم نے آل ابراھیم کو محدود کر دیا.یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر کوئی احمدی سوچے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی راتوں کی نیت بھی آڑ جائے.جب تک دنیا میں ان لوگوں کی اکثریت نہ ہو جائے جو اس قانون کے مطابق جس کو تم سچا سمجھتے ہو.اللہ تعالے کی رضا اور اس کی خوشنودی کے وارث ہوں اس وقت تک تم صحیح معنوں میں اپنے فرائض کو ادا کرنے والے نہیں سمجھے جاسکتے.یہ صحیح ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ تبلیغ اسلام صرف ہماری جماعت ہی کر رہی ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ عیسائی اور دوسرے غیر مذاہب کے لوگ ہمارے ذریعہ سے ہی اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اس طرح اپنی تائید میں ایک عقلی دلیل ہمیں حاصل ہے.مگر عقلی دلیل اور واقعاتی ولیل میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے عقلی طور پر بے شک ہم اسلام کو پھیلا رہے ہیں.لیکن اگر اسلام کو ہمارے ذریعہ سے غلبہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ ہماری آئندہ نسلیں اس کو

Page 341

غالب کرتی ہیں تو ہماری خوشی ایسی ہی ہوگی جیسے گیدیوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ رات کو اکٹھے ہوتے ہیں.تو شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ پدرم سلطان بود - ہمارا باپ بادشاہ تھا اس پر ایک گیٹڈ آمنے نکل کر انہیں کہتا ہے، ترا چہ قیلہ گو تمہارا باپ پادشاہ تھا تو پھر تمہیں کیا.گیدڑ تو تینی گیرانی بادشاہت یاد دلاتے ہیں.ہم لوگوں کو اپنی آئندہ بادشاہت یاد دلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک صدی کے بعد دیکھ لینا ، سب دنیا پر ہمارا ہی غلبہ ہوگا وہ کہتا ہے اول تو مجھے یقین بعد ، ہی نہیں اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو پھر ترا چہ سمجھے کیا.جن کے زمانہ میں جماعت پھیلے گی وہ فخر بھی کر لیں گے.اور خوش بھی ہوئیں گے، تمہیں کیا حق حاصل ہے کہ تم خوشیاں مناتے پھرو.تمہارے ہاتھ سے تو پھیلی بادشاہت بھی گئی اور آئندہ کی بھی تمھیں امید نہیں.مثل مشہور ہے کہ ایک شخص نے کسی سے کہا کہ دو آدمی حلوے اور مٹھائیوں کی سینیاں اٹھائے ہوئے آ رہے تھے.وہ کہنے لگا پھر مجھے کیا.اس نے کہا نہیں وہ تمہارے گھر کی طرف آرہے تھے.وہ کہنے لگا پھر تجھے کیا یعنی اگر وہ کہیں اور جا رہے تھے تو پھر مجھے کیا.اور اگر وہ میری طرف آرہے تھے تو پھر تجھے کیا.کہ تو خوش ہو رہا ہے.اگر تمہاری اولادوں نے ہی کامیاب ہونا ہے.تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ ترا چہ.تم کو کیا.تم کو تو بھی خوشی ہو سکتی ہے جبکہ تم آنے والی کامیابی اور فتح میں خود حصہ ہو.یہ کیا کہ گھروں میں آرام سے سوئے ہوئے ہو ا رات دن کے کاموں میں مشغول ہو ہستی اور فضلت تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی اور آئنڈ آنیوالی نسلوں نے جو فتح حاصل کرنی ہے اس پر تمھارا سر اونچا ہورہا ہے اور تم خوشی سے جھوم رہے ہو ، آنے والے آئیں گے.اور کامیابیاں حاصل کریں گے، تو خوش بھی ہو لیں گے، تمہارا کیا حق ہے کہ تم خوش ہوتے پھر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو فتح اور کامیابی حاصل کی تھی اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو فخر کر سکتے تھے لیکن اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے داد سے پرداد سے فخر کرتے کہ ہماری نسلی میں سے ایک ایسا انسان پیدا ہوگا.جو دنیا میں عظیم انسان کامیابی حاصل کرے گا تو ہر شخص انہیں یہی کہتا کہ تراجہ تمھیں کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا میں آئیں گے اور فتح حاصل کر لیں گے تو خوشی بھی منا لیں گے، تم کو کیا حق حاصل ہے کہ تم خوشی مناتے پھرو.اسی طرح اگر تمھاری کامیابی نے بھی ڈیڑھ نسو سال کے بعد آتا ہے اور تم نے اس کی بنیا دیں بھی نہیں رکھیں تو پھر تمہیں کیا ، آنیوالے آئیں گے تو فخر بھی کرلیں گے.پس اپنے حالات میں تبدیلی پیدا کرو.تم میں سے بعض کی مثال اب اس شخص کی سی ہو گئی ہے.جو افیون کھاتے کھاتے افیون کا قاری ہو جاتا ہے.میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ تمہیں اتنے وعظ سنائے گئے ہیں ، دنیا کی اور کسی قوم کو اتنے وعظ نہیں سنائے گئے مگر تم من چکنا گھڑا ثابت ہوئے ہو تم نے بھی وعظ سکے مگر ان کا اثر قبول نہ کیا.

Page 342

۳۳۴ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کوخدا تعالے نے سلطان السلم قرار دیا تھا.اس کے مقابلہ میں اس نے مجھے اتنا بولنے کا موقع دیا کہ مجھے اس نے سلطان البیان بنا دیا.مگہ نہ مسلم نے تمھے ہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ بیان نے تمھیں کوئی فائدہ دیا.قسلم نے لکھا اور اتنا لکھا کہ سو کتاب بن گئی مگر اس کثرت نے بھی تمہارے لئے صرف اتنا ماحول پیدا کیا کہ ہے شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر باشی کتابوں کی کثرت نے تمھیں تسلیم سے بالکل غافل کر دیا اور لکھنا نہ لکھنا تمہارے لئے مساوی ہو گئے.میں نے اپنی تقریریں کیں اور اپنے لیکچر دیئے کہ شاید دنیا میں اس کی بہت ہی کم مثال لے گی لیکن میری تقریریں اور میرے بیانات بھی کچھ نہ کہنے کے مساوی ہو گئے گویا تم میں سے بعض کی وہی علامات ہوگئی.سَوَاء عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ به دونوں باتیں تمہارے لئے برا بر ہو گئیں.ڈرانا بھی اور نہ ڈرانا بھی.تمہارے لئے قلم بھی برابر ہو گئی اور بیان بھی برابر ہو گیا.مسلم نے لکھا اور اتنا لکھا کہ تم نے کہدیا کہ مسلم نے تو اب اتنا لکھدیا ہے کہ ہم سے پڑھا ہی نہیں جاتا.اور زبان نے اتنا بیان کیا اتنا بیان کیا کہ تم نے کردیا ہم رات کس کس بات کو یاد رکھیں.ہم سے تو عمل ہی نہیں ہو سکتا.پس دونوں باتیں تمہارے لئے برابر ہو گئیں.یہ بڑے شنکر کی بات ہے ، یہ بڑے خطرہ کی بات ہے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ایک بات سنتے ہیں اور نجات پا جاتے ہیں، وہ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں.اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو بار بار سنتے ہیں اور نجات پا جاتے ہیں ، وہ بھی خوش قسمت ہوتے ہیں.مگروہ جن کے لئے اتنا لکھا گیا جس کی حد نہیں اور جن کے لئے اتنا کیا گیا جس کی حد نہیں اور پھر بھی ان میں تبدیلی پیدا نہ ہوئی ، وہ خوش قسمت نہیں کہلا سکتے.دوسرا لفظ میں نہیں بولتا، اس لئے کہ میری زبان پر وہ گراں گذرتا ہے.بہرحال ابھی وقت ہے اپنے اندر تغیر پیدا کرو.زمانہ کے حالات بتا رہے ہیں کہ خدا کچھ کرنا چاہتا ہے.تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو تا کہ جب خدائی تقدیر ظاہر ہو تو وہ تمہارے حق میں فیصلہ کرے.اگر تم اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کر لو تو دنیا تمھیں تباہ نہیں کر سکتی سمندر میں تلاطم آئے گا اس کی موجیں اٹھیں گی اور لوگ سمجھیں گے کہ تم تباہ ہو گئے.مگر جب طوفان میں سکون پیدا ہو گا تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گی کہ تم سلامتی کے ساتھ کنارے پر کھڑے ہو اور لوگ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے.ر الفضل 9 مئی ست 9

Page 343

له کتاب الفقه على المذاهب الاربعة - مولفه عبد الرحمن الجزاير يا جنه ول ٣٥ نه - كتاب الفقه على المناسب الاربعة مؤلفه عبد الرحمن الجزیری خبر اول ما ت - حبیب مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحت ، ص ۲۲ ہے.جامع ترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء في كراهية الفرار من الطاعون.- التوبه و : ۱۰۷ نه نام مستند تاریخی اور غیری کتب سے میں معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صل للہ علی نے را کے گانے اور جانے کا حکم فرمایا تھا شه - تفسیر ابن جریر جلد ارمش.یہ حضور صلی اللہ عنہ کی اپنی روایت ہے اور ظاہر ہے کہ اسے ایک مستند درجہ حاصل ہے.2 - صحیح بخاری کتاب التهجد باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم الليس حتى ترماه قدماه ه - جامع ترندی شمائل النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب ما جاء عبادة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناسب قریش، مستدرک حاکم جلدم مثلا - صحیح بخاری کتاب الادب باب الهجرة سلے.پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷-۱۸ ا - آسٹر لوی پارلیمنٹ میں شریف باران سابق پاکستانی یا استار نے کیا بتا دیتی تھی روان کراچی نے ایم ۷۱۵ - انتخاب ضرب الا شال د اسلم فارسی مدہ موقعہ آقائے علی اکبر مطبوعہ ارود بازار ۶۱۹۵۸ ۱۷ - تذکرہ ایڈیشن سوم مشته - ه - البقره ۷:۲

Page 344

۳۲۶ ۴۰ ر فرموده ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ بهتام ابوه) آج میرا ارادہ تھا کہ ایک خاص مضمون کے متعلق خطبہ پڑھوں.عام طور پر تو یہی ہوتا ہے کہ ئیں بغیر کسی خیال کے خطبہ کے لئے آجاتا ہوں بعض دفعہ شاید ۵۰۴۰ یا سو میں سے ایک دفعہ خطبہ کے لئے آنے سے پہلے بھی مضمون ذہن میں آجاتا ہے اور کبھی کبھی اس بات کے لئے فکر کیا جاتا ہے کہ آجکل کے اہم مسائل میں سے کونسا مسئلہ خطبہ میں بیان کیا جائے.کل شام مجھے خیال آیا کہ عیدالاضحیہ کا تعلق جو درود سے ہے اس پر عید کا خطبہ پڑھا جائے.چنانچہ اس بارہ میں کچھ سوچتا بھی رہا.رات کو میں نے ایک رویا دیکھا، میں نے دیکھا کہ میں کہیں سے آرہا ہوں وہ بازار ہے یا گلی ہے جہاں میں جا رہا ہوں میں نے اس کے پہلو میں ایک مکان دیکھا جہاں میں جانا چاہتا ہوں معین صورت میں مجھے یا د نہیں کہ میں اس مکان میں کیوں جانا چاہتا ہوں.اس مکان کا جو دروازہ ہے وہ گلی یا بازار میں ذرا اونچا کر کے لگایا گیا ہے.وہ قریباً تین نسٹ بازار یا گلی سے اونچا ہے.خواب میں مجھے یہ احساس ہے کہ میرے گھلنے میں تکلیف ہو رہی ہے ، میں نے سہارا لیکر پتھر پر پاؤں رکھا.ہے.آگے ایک کھلا میدان ہے اس کھلے میدان میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام ایک چارپائی پہ بیٹھے ہوئے ہیں.آپ کی زیارت ایک عرصہ کے بعد اس خواب کے ذریعہ ہوئی ، آپ نے داڑھی پر خضاب لگایا ہوا ہے وہی خضاب جو آپ سے منقول ہے ہے اور میں بھی وہی لگاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں مندی ذرا زیادہ ملایا کرتے تھے لیکن ہیں ذرا کم مہندی ملاتا ہوں.اس لئے حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ وال ع موجود علیہ الصلوۃ و السلام کے بالوں پہ ذرا سرخی ہہ جاتی تھی ، اویسی سرخی جیسے وفات کے قریب جب آپ خضاب لگاتے تھے تو بالوں پر دکھائی دیتی تھی.اس خطبہ کو الفضل میں اشاعت کے لئے بھجواتے وقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے یہ نوٹ رقم فرمایا.جو اس خطبہ کی ابتداء میں درج ہے :.ی خطبہ نہایت لطیف اور ضروری تھا گر خطبہ لکھنے والے ظالم نے اسے اس قدر نسخ کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.ایس طرح کی خلافت عقل باتیں لکھی ہیں کہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ سکھتے ہوئے اپنے جو اس میں تھا یا نہیں.ہر حال تکلیف اٹھا کر جو قدر اصلاح کر سکا ہوں کر کے چھپوانے کے لئے بھجواتا ہوں.(مرتب)

Page 345

آپ کا چہرہ روشن تھا، آپ پگڑی پہنے ہوئے تھے کوٹ پہنا ہوا تھا.بالکل ایسا کوٹ جیسا آپ اپنی زندگی میں اپنا کرتے تھے اور آپ چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے میں نے السلام علیکم کہا.آپ نے جواب دیا اور وعلیکم السلام فرمایا مجھے خیال آیا کہ ذرا اور آگے جاؤں وہاں اور لوگ بھی مہینے ہیں.میں ایک دو قدم بھی آگے چلا تھا کہ میں نے دیکھا وہاں لوہے کا ایک پینگ رکھا ہوا ہے یہ پلنگ اسی طرف پڑا ہے نہیں طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چار پائی پر بیٹھے ہوتے ہیں.یہ پلنگ عام ملنگوں سے اونچا ہے اور چوڑا بھی ہے اور تار کے ساتھ بنا ہوا ہے.اس پلنگ پر میاں ممان محمد صاحب جو قادیان کے رہنے والے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا کا م کر نے والے حجام خاندان میں سے ہیں.اور قادیان میں پوسٹ مینی کا کام کرتے تھے تشہد کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں ان کے بیٹے تجارت کا کام کرتے ہیں اور ان کے بھتیجے میاں محمد عبد اللہ صاحب ربوہ میں حجام کا کام کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ میاں جان محمد صاحب تشہد کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں مجھے خیال آتا ہے کہ وہ ہمیار ہیں اس لئے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں.میرے پاس سے گزیتے ہوئے انہوں نے سلام پھیرا اور میں آگے چلا گیا.میرا خیال ہے کہ میں آئے جس جگہ جانا چاہتا ہوں وہ کچھ فاصلہ پر ہے.وہ فاصلہ مسیلوں کا نہیں وہ فاصلہ فرلانگوں کا نہیں بلکہ یہی کہیں نہیں گز کا ہے میں آگے چلا تو میں نے دیکھا کہ پاس ہی ایک کھلی جگہ ہے اور اس میں کرسیاں رکھی ہوئی ہیں.ان کو سیوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے کے لئے آئے ہیں.میرے ذہن میں آتا ہے.کہ میں اسی جگہ کی طرف آرہا تھا.ان میں ایک نوجوان بھی ہے جس کی داڑھی منڈھی ہوتی ہے یا اس کی داڑھی ابھی نکلی ہی نہیں لیکن اس کی شکل ایسی ہے جیسے غیر احمدی نوجوانوں یا کمزور احمدیوں کی ہوتی ہے.اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی جوتا پہن کو میرے پیچھے چل پڑے ہیں جب آپ میرے قریب آئے تو آپ نے زور سے کچھ الفاظ دہرانے شروع کئے جو اس قسم کے تھے کہ کیا کا ہو مل گیا تھو مل گیا اور ایک تیسری چیز کا نام بھی لیا جو یاد نہیں رہا.آپ کے ان الفاظ کے جواب میں اس داڑھی منڈے شخص نے جسے اب میں کوئی طبیب خیال کرتا ہوں کہا کہ کا مومل گیا اور ایک اور چیز کے بارہ میں کہا کہ وہ مل گئی ہے اور تیسری شے کے متعلق کیا اس کی تلاش ہے.مجھے کا ہو اور نتھوا کا نام یا درہا ہے.تیسری چیز بھول گیا ہوں شاید وہ کا سنی ہے یا کوئی اور چیز مجھے اب یاد نہیں رہا.مجھے چونکہ اس وقت بہت خوشی تھی کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو دیکھا ہے اس لئے اس خوشی سے آنکھ کھل گئی اور خواب پوری طرح یاد نہ رہ نامہ یہ خواب ایسا واضح تھا کہ اب بھی جب میں اس خواب کو بیان کر رہا ہوں آپ کی شکل میرے سامنے پھر رہی ہے.

Page 346

۳۳۸ کچھ دیر کے بعد میری آنکھ پھر لگ گئی.اور میں نے ایک اور رویا دیکھا.ایسا معلوم ہوتاہے ہم ایک ایسے ہی گھر میں رہتے ہیں جس ختم کے گھر میں میں آجکل رہتا ہوں لیکن وہ گھر ذرا کھلا ہے اور خاندان کے کچھ لوگ وہاں جمع ہیں.وہاں ایک عورت ہے جس کی گود میں ایک بچہ ہے.اس بچہ کو دیکھتے ہی میں محسوس کرتا ہوں.کہ وہ مو بود احمد ہے جو میری لڑ کی امتہ احکیم اور رسید واکہ منظر کا لڑکا ہے.وہ اس عورت کی گود میں بیٹھا ہے میں نے اس بچہ کو دیکھا اور کہا.مولود احمد ہے ؟ پھر میں نے کہا.کیا اس کی ماں بھی آتی ہے ؟ اس عورت نے کہا.نہیں.اس کے معا بعد نظارہ بدلا اور میں نے محسوس کیا کہ مونو د احمد بڑی عمر کا ہے اور وہ اس عورت کی گود سے اتر گیا ہے اور دوڑتا ہوا میرے سامنے سے گزر رہا ہے.، یہ دونوں نظارے جو میں نے دیکھے اس وقت اُن کی تعبیر میرے ذہن میں نہیں آتی صبح اٹھنک میں نے اتنا سمجھا کہ کا ہو کھانسی نزلہ اور سوزش گلو کے علاج میں استعمال ہوتا ہے.اور نتھوا بھی کھانسی اور حقت معدہ وغیرہ کے کام آتا ہے تیسری چیز بھی غالبا اسی قسم کی ہوگی.اس حصہ کے متعلق صبح میرا ذہن اس طرف گیا کہ شاید جس طرح کی کھانسی کے دور سے پچھلے سال مجھے ہوئے تھے اسی قسم کے دورے پھر مجھے ہوں.ہاں ایک بات میں بھول گیا گذشتہ سال جب میں کھانسی سے بیمار ہوا کراچی اور لاہور کے ڈاکٹر میرا علاج کرتے رہے لیکن کوئی خاص فائدہ نہ ہوا.لیکن ایک دیسی نسخہ کے استعمال سے مجھے کافی فائدہ ہوا تھا.خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو کھانسی ہے اور میر چاہتا ہوں کہ آپ کو وہ نسخہ بتاؤں.لیکن ابھی میں یہ بات کہنے نہ پایا تھا.کہ میری آنکھ کھل گئی.صبح خیال ہے کہ شاید یہ نسخہ بھی کھانسی نزلہ اور سوزش گلو کے لئے بنایا گیا ہے لیکن زیادہ تر خیال یہ ہے کہ اس خواب کا تعلق جماعت سے ہے.جب یہ دیکھا جائے کہ امام کو کچھ تکلیف ہے امام کی تو اس کی تعبیر یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے توابع کمزور ہیں.کھانسی ورم اور گلے کی سوزش کا تعلق بولنے سے ہے.اور میں سمجھتا ہوں اس کی تعبیر یہ ہے کہ جماعت میں بولنے کی عادت ہو گئی ہے جس سے کھانسی ورم اور سوزش گلو پیدا ہوتی ہے اور عمل کی عادت کم ہو گئی ہے.اور خدا تعالے نے اس کا علاج بتھوا اور ایک اور چیز جس کا نام میں بھول گیا ہوں، بتایا ہے نطلب اس کا یہ ہے کہ کوئی ایسا علاج کیا جائے کہ جس سے سوزش گلو بلغم اور کھانسی دور ہو.ایک قسم کی مفید ہوتی ہے.انسان محنت کرتا ہے اور اس میں تیزی اور گرمی پیدا ہوتی ہے یہ گرمی اور تیزی مفید ہے لیکن ایک قسم کی گرمی بیکار ہوتی ہے ، اس سے بلغم پیدا ہوتی ہے اور انسان تکلیف اکھاتا ہے کھانسی والی گرمی کے یہ معنے ہیں کہ طبائع میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے جس کا صحیح استعمال

Page 347

۳۲۹ نہ کرنے کی وجہ سے ایک بیکار قسم کی گرمی اور سوزش پیدا ہو گئی ہے یعنی محض باتیں کرنے ، بڑے بڑے دعوے کرنے بلاوجہ فخر کرنے اور یہ کہنے کی کہ ہم یوں کر دیں گے ہم دُوں کر دیں گے کی عادت پیدا ہو گئی ہے.جس کے نتیجہ میں بعض روحانی امراض مثلاً مطبعہ کا آنا.سوزش گلو کھانسی اور نزلہ پیدا ہو گئی ہیں.خواب میں یہ نظارہ دیکھا کو خدا تعالیٰ اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ یہ عادت دور ہونی چاہیئے اور عمل کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیئے.میری طبیعت پر یہی اثر ہوتا رہتا ہے اور اس نظارہ کے دیکھنے کے بعد وہ اثر زیادہ نمایاں ہو گیا ہے کہ جماعت میں بولنے کی عادت زیادہ ہو گئی ہے اور عمل کی طرف توجہ بہت کم ہے.دو سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ احراری جماعت کے خلاف شرارتیں کر رہے ہیں.کہیں احمدیوں کو مارا جارہا ہے، کہیں سے انہیں نکالا جا رہا ہے.کہیں ان کا منہ کالا کیا جا رہا ہے، کہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور مجھے گالیاں دی جاتی ہیں.کہیں مکانوں پر نشان لگاتے جاتے ہیں کہ کسی رات اچانک حملہ کر کے تمام احمدیوں کو ختم کر دیا جائے.لیکن ہماری جماعت حرف ارینه ولیوشن لکھ کر الفضل کو بھیج دیتی ہے.اور افضل بھی اسے جماعت احمد یہ میں غم دفتہ کی سر کے عنوان سے شائع کر دیتا ہے.حالانکہ میں نے تو یہ غم وغصہ کی لہر جماعت میں کبھی نہیں دیکھی اور یوں بھی مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا، کہ میں کوئی نئی سکیم سوچوں.کیونکہ جب تک جماعت میں کام کا استان پیدا نہ ہو اور جماعت سنجیدگی سے قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس کے لئے کوئی نئی سکیم سوچنے کا کیا فائدہ ؟ جب احرار کا فتنہ ستہ میں شروع ہوا، ایک دفعہ میں لاہور کا سفر کر رہا تھا، ایک جوشیلا نوجوان میرے ساتھ آیا.اس نے مجھے کہا وہ اب ہمیں گاندھی جی کی طرح کرنا چاہیئے.میں نے کہا.گاندھی تو فورا مطلب کی بات دیکھ کر صلح کر لیتا ہے.کیا تم اپنے امام سے بھی یہی امید رکھتے ہو کہ کہیں ہمالیہ کی غلطی ہوئی کہیں بند ھیا چل کی غلطی ہوئی ، کہ نہیں گنگا اور تمنا کی غلطی ہوئی اور پھر صلح کر لی.اگر اپنے امام کے لئے تم یہ اخلاق پسند کرتے ہو تو پھر تمہارا مشورہ بجا ہے.یا پھر یہ ہو کہ امام جنگ کے لئے گئے تو تمام جماعت تیار ہو جائے.پھر جنگ میں فتح ہو یا سب لوگ مارے جائیں.میں نے کہا، بتاؤ کیا ہے بہت ؟ اگر یہ ہو جائے کہ سارے مر جاؤ اور یا فتح حاصل کرو یہ تب تو متها را مشورہ مفید ہوسکتا ہے.ورنہ دوسروں میں سے اگر.4 فیصدی لوگ بھی بھاگ جائیں تو ان کی عزت اور درجہ میں فرق نہیں آتا لیکن ہماری جماعت کے دس فیصدی لوگ بھی بھاگ جائیں تو اس کی عزت اور در جرائم نہیں رہتا.جب تک یہ نہ ہو کہ مسلمان..ا کے اکھڑے ہو جائیں اور پھر اگر ان کی تقدیر میں شکست لکھی ہے تو میدان سے ان کی..ا کی..نعشیں برآمد ہوں، اس وقت تک ہم اپنے آپ کو کامیاب خیال نہیں کر سکتے.اگر ظاہری طور پر شکست ہو جائے اور 100

Page 348

۳۴۰ اڑنے والوں میں سے 20 کی نعشیں میدان میں ملیں اور ایک کی نہ ملے اور وہ بھاگ جائے تو یہ بھی ہماری ذلت ہے.مومن کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ اپنی جان کی پر واہ نہیں کرتا.اگر احراری حمدیوں کو مارتے ہیں تو صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ریزہ ولیوشن پاس کر سکی عادت ہو گئی ہے.یہ ریزولیوشن پاس کریں گے اور بیٹھ جائیں گے.جہانتک قانون شکنی کا سوال ہے.حمدیت اس سے روکتی ہے.لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ جہاں اسلام اور احمدیت نے قانون شکنی سے منع کیا ہے وہاں اس نے اس کا کوئی علاج نہیں بتایا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ انگر یہ آدھی دنیا پر حاکم تھے.جب پہلی جنگ ہوئی تو ان کی طاقت پوری طرح قائم تھی لیکن انہوں نے قادیان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تھے.ہم نے قانون شکستی نہیں کی تھی صرف الہی تدبیر سے کام کیا تھا لیکن حکومت کو پارلیمینٹ میں اعلان کرنا پڑا کہ ہمیں احمدیوں کے متعلق کوئی شبہ نہیں کتنا تلخ گذرا ہوگا یہ لمحہ اس گورنر پریس نے حکم دیا تھا کہ تم سے نقص امن کا خطرہ ہے.اس لئے فلاں دفعہ کے ماتحت نہیں یہ نوٹس دیا جاتا ہے.اسے پارلیمنٹ کے سامنے بیان دینے کے لئے یہ ماننا پڑا کہ جماعت احمدیه نهایت و فادار جماعت ہے.کتنے تلخ گھونٹ تھے جو اسے پینے پڑے مگر نہ ہم نے کسی کو مارا تھا نہ پیٹا تھا اور نہ قانون شکنی کی تھی.صرف جماعت میں اس وقت اما دہ عمل تھا اور نظر آتا تھا کہ جماعت میں عمل کی قوت موجود ہے.اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں وہ قوت عمل نہیں پائی جاتی جو اس وقت پائی جاتی تھی.اس لئے میں چپ ہوں.جب میں لفضل میں ریزولیوشن پڑھتا ہوں تو ہنستا ہوں کہ یہ غم و فتہ کی لہر کہاں سے آگئی جو الفضل کے ایڈیٹر کو نظر آگئی ہے.مان لیا کہ میری جسمانی نظر کمزور ہے اور نہیں عینک استعمال کرتا ہوں لیکن میری باطنی آنکھیں تو ان سے تیز ہیں مگر مجھے وہ غم و غصہ کی لہر نظر نہیں آتی.پھر غم کی ہر تو جائزہ ہے کہ غصہ کی لہر اسلام میں بالکل جائزہ نہیں ہے.مسلمان پر غصہ کی لہر نہیں آسکتی غصہ کے معنے ہیں اس قدر غیظ ہوتا کہ انسان کی عقل ماری جائے اور اس کا گلا گھٹنے لگ جائے.لیکن غضب جائز ہے، خدا تعالے غضب کرتا ہے لیکن اسے حصہ نہیں آتا.کیونکہ جسے غصہ آتا ہے اس کی جان تنگ ہو جاتی ہے.اور وہ اپنے آپ کو مارنے پر تیار ہو جاتا ہے اور یہ چیز اسلام میں جائزہ نہیں.لیکن میاں تو غم کی لہر بھی نظر نہیں آتی جیسے وہ پہلے تھے ویسے ہی اب ہیں.سیدھی بات ہے کہ اس وقت میں نے ، ۲ ہزار روپر یا نگا تھا اور ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کے وعدے آگئے تھے.اب یہ حال ہے کہ دو لاکھ چالیس ہنر آ کے وعدوں میں سے نو ماہ میں صرف ایک لاکھ بیس ہزار کی رقم وصول ہوئی ہے.لیکن پہلے ایک لاکھ سات ہزار کے وعدوں میں سے سال میں ایک لاکھ دس ہزار روپیہ وصول ہو گیا تھا.یہ

Page 349

صاف بتاتا ہے کہ جماعت میں جو جوش اس وقت تھا، اس وقت نہیں ہے.میں یہ نہیں کر سکتا کہ جماعت پر مردنی چھائی ہوتی ہے.لیکن یہ بات ضرور ہے کہ طلبائے کے اندرستی پیدا ہوری ہے ممکن ہے کہ یہ نیند کی قسم ہو اور اس کے بعد لوگ بیدار ہو جائیں اور کام کرنے لگ جائیں.اس لئے میں مایوس نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ کام کا وقت نہیں ہوتا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ہم انہیں اٹھائیں اور وہ پھر سو جائیں.پھر اٹھائیں اور وہ دوبارہ سو جائیں تو ہم ان سے کام نہیں لے سکتے.ہاں ہم مایوس بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ بالکل مر نہیں گئے لیکن ایسا وقت کام کا توتا نہیں ہوتا.اس وقت اگر کوئی مسکیم بنائی جائے تو یہ بیوقوفی اور حماقت کی علامت ہو گی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جب وہ جاگیں تو کوششوں کا موقعہ ہی جاتا رہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعبیر اس رنگ میں کی جاسکتی ہے واللہ اعلم بالصواب ) کہ جماعت میں جوش تو ہے لیکن وہ جوش غلط قسم کا اور بناوٹی ہے.وہ حقیقی قربانی جو اسلام پیش کرتا ہے.اور وہ گرمی جو صحت اور عمل کی علامت ہوا کرتی ہے.وہ جماعت میں نہیں پائی جاتی جیسے اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مومنوں کو جنت میں زنجبیل کے پیالے پلائے جائیں گے لیے اس سے یہ نہیں ہوگا.کہ وہ جگہ کی ہمیاریوں اور پیاس میں مبتلا ہو جائیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہوگا کہ ان کے اندر وہ گرمی اور حرارت پیدا کی جائے جو قوت عملیہ کے لئے ضروری ہوتی ہے.سردی اور گرمی دو طرح کی ہوتی ہیں.ایک سردی وہ ہوتی ہے جو کم مہتی پیدا کرتی ہے.لیکن دوسری قسم کی سردی غلط جوش کو نہ آئل کرتی ہے.جسے قرآن کریم میں کاس کا فوری کیا گیا ہے شہ کا نور کے زیادہ استعمال سے انسان نامرد ہو جاتا ہے.اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کام کے قابل نہیں رہتا.لیکن اگر اسے مناسب موقعہ پر اور مناسب مقدار میں استعمال کیا جاے تو یہ ناجائز گرمی کو روکتا ہے اور غلط جوش کو دور کرتا ہے.چنانچہ کا ہو اور نتھو ابھی جیسا کہ اظہار لکھتے ہیں.سرد اور خشک ہیں اور ان کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ ناجائزہ گرمی کو دور کرتے ہیں.اسی طرح کاس کا فوری کے ساتھ نا درست اور ناجائز گرمی کو دور کیا جائیگا خواب میں کا ہو اور نتھوا سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم جماعت کے موجودہ غلط جوش کو کارس کا فوری کے ساتھ دور کریں.پھر خدا تعالے فرماتا ہے اس کے بعد مومنوں کو زنجبیل کے پیالے پلائے جائیں گے اوران کے ذریعہ ان کے اندر وہ گرمی پیدا ہوگی جو قوت عملیہ پیدا کرنے کا موجب ہوگی.یہ زنجبیلی پائے ناجائز گرمی اور غلط جوش پیدا کرنے اور جگر کی خرابی اور دیگر ہماریوں کا موجب نہیں ہوں گے بلکہ مومنوں کے اندر قوت علیہ پیدا کریں گے.پھر جو دوسری رویا ہوئی اس کو اس رڈیا کے ساتھ جب میں نے ملایا تو میں نے سمجھا کہ ان کے

Page 350

آسم اندر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو میرے ذہن میں تھا کہ آج خطبہ عید یدالاضحیہ میں بیان کرونگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا ایک نام ابراہیم بھی تھا ، آپ کو الہامات میں بار بار امیہ ہم کیا گیا ہے یہ مجھے بھی ایک دفعہ بیت الدعا دکھائی گئی کہ میں اس میں دعا کر رہا ہوں مجھے بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ابراہیم تھے اور خلیفہ اول بھی ابراہیم تھے.اور آپ براہیم ادم ہیں.اور مجھے بتایا گیا کہ میں نبی ابراہیم ہوں.ابراہیم ادھم ایک بادشاہ گذرا ہے.غالباً وہ ترک تھا.کیونکہ ترکوں میں یہ نام زیادہ پایا جاتا ہے.وہ تو بہ کر کے فقیر ہو گیا تھا اور بڑے پایہ کا صوفی گنا جاتا ہے.دوسری رویا ئیں مجھے ایک لڑکا دکھایا گیا جس کا نام مولو د احمد ہے.اور مولود احمد کے معنے ہیں احمد کا بیٹا.اور یہاں دوڑنے کے بھی وہی معنے ہیں جو قرآن کریم کی آیت قلما تبلغ معه السنی کے ہیں اور وہ لڑکا بھی دکھایا گیا.در حقیقت اس میں بتایا گیا ہے.کہ اس جدید ابراہیم کا بیٹا بھی اسمعیل " کا رنگ رکھتا ہے.پھر یہ بھی دیکھایا گیا کہ قربانی کا وقت آگیا ہے پھر یہ بہت یا گیا کہ جماعت کی کمزوریاں دور کرنی چاہئیں کیونکہ جماعت کے تمام افرا در روانی طور پہ ابراہیم کے بیٹے ہیں.اور ان پر قربانی لازمی ہے.ان پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب وہ بچے تھے لیکن اب وہ اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ وہ دوڑنے لگ گئے ہیں حضرت ہم خیل علیہ السلام کے متعلق جب فرمایا.کہ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ الشعر تو اس سے بڑی عمر مراد نہیں تھی، نہیں چھ سات برس کی عمر مراد تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب تیز چلتے تھے توحضرت اسمعیل آپ کے ساتھ ساتھ دوڑتے تھے اور یہ چھ سات برس کی عمر میں ہوتا ہے.یہی وہ وقت تھا جب حضرت آیل علیہ اسلام کو قربان کیا گیا.ہر حال میں نے دونوں خوابوں کو ملا کر ان کی یہ تعبیر مَعَهُ کی ہے اور یہی وہ معصوم تھا جو میں درود کے مستعان بیان کرنا چاہتا تھا.مسلمان درود کے بہت شائق ہیں اور انہیں شائق ہونا بھی چاہیئے کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَدُّوا عَلَيْهِ وَسَلّموا تسالہ خدا اور اس کے فرشتے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں.اے مومنو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجو.گویا ہم درد کے ذریعہ خدا تعالے کے اس حکم کو پورا کرتے ہیں.طبعی طور پر ایسے احکام دوسرے نبیوں کے متعلق بھی آتے ہیں لیکن کسی حکم کی عظمت کا اس بات سے یہ پتہ لکھتا ہے کہ تمام لوگوں کی توجہ کو طرف پھیر دیا جائے.عیسائیوں کا یہ دعوی ہے کہ خدا تعالے نے حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنا بیٹا بنایا ہے ملے لیکن ان میں وہ روح نہیں پائی جاتی میں سے یہ معلوم ہو کہ آپ اتنی خدا تعالیٰ

Page 351

۳۳۳ کے بیٹے ہیں لیکن مسلمان بگڑ بھی جاتے ہیں مگر ان میں سے درود کی آواز نہیں جاتی.یہ ایسی گل چلی ہے جو رک نہیں سکتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ درد و اہم احکام میں سے ہے میں کو با وجود کمزوری کے مسلمان چھوڑ نہیں سکتے.ہر سلمان درود پڑھنا ہے کوئی کم درود پڑھنا ہے اور کوئی زیادہ پڑھتا ہے کوئی دس دفعہ پڑھتا ہے کوئی نہیں دفعہ پڑھتا ہے اور کوئی سو دفعہ پڑھتا ہے اور کئی مسلمان عمارا سارا دن بھی درود پڑھتے رہتے ہیں.ہم انہیں خواہ نکما قرار دیں لیکن ان کی یہ خوبی ماننی پڑیگی کہ وہ سارا دن درود پڑھتے کہ ہتے ہیں اور یہ نہایت اچھی چیز ہے بشرطیکہ صحیح رنگ میں ہو لیکن مسلمانی نے غور نہیں کیا کہ درود کا کیا مفہوم ہے.درود جو سب سے چھوٹا اور سب سے عام ہے یہی ہے- اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ تَجِيد محمد من ورود ہے.گئی اور درد دینی ہیں جو مختلف روایتوں سے آتے ہیں ہیں لیکن جس درود کو عام طور پر پڑھا جاتا ہے وہ یہی درود ہے.اس کے آدھے حصہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے اور آدھے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس کے تین ٹکڑے کئے گئے ہیں.پہلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر ہے جیسے فرما یا اللهم صل علی محمد وعلى ال محمد.دوسرے ٹکڑے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے جیسے TALAND NANA عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيم - تیرے مکوڑے میں خدا تعالے شامل کر لیا گیا ہے.جیسے انك حميد مجید میں ہے.گویا درود کے تین حصوں میں سے خدا تعالے نے ایک حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیا اور ایک حصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیدیا اور ایک حصہ خود لے لیا.عام طور پر لوگ خصوصا عیسائی اور ہندو اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ در و دمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ابراہیمی انعام دینے کی دعا کر کے اقرار کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑے تھے.ہندوؤں کو اسلام سے بغض تھا اور ہمارا خیال تھا کہ پارٹیشن کے بعد یہ لفض کم ہو جائیگا لیکن یہ بغض اب بھی کم نہیں ہوا یسنا جاتا ہے کہ وہاں جب کوئی مصنف تاریخ وغیرہ کی کوئی کتاب تصنیف کرتا ہے تو اس کی تان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہی ٹوٹتی ہے.اگر چہ یہ ایسی ہی چیز ہے جیسے چاند پر تھوکنے والے کی تھوک اس کے اپنے منہ پر پڑتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان احتراموں سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن ایک مسلمان کا دل دکھتا ہے اور اس کو اپنا دل قربان کرنا پڑتا ہے، اور یہ چیز اس کی روحانیت کے لئے مفید ہو جاتی ہے.بہر حال معترضین میں سے بہتوں نے اعتراض کیا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ یکم

Page 352

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے چھوٹے ہیں.کیو نکہ جب ہم کہتے ہیں ہمیں فلاں کی طرح بننا چاہیئے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ ہم سے بہتر ہے وہ مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہمیشہ دعا کرتے ہو اور قیامت تک یہ دُعا کرتے رہوگے کہ خدا تعالے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسے ہی درود بھیجے جیسے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا تھا.اب یا تو تم یہ بتاؤ کہ فلاں وقت تک خدا تعالے ایسا کرے اور اگر قیامت تک تم نے یہ دعا مانگنی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت تک افضل رہیں گے.لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ زبان میں کئی قسم کے الفاظ ہوتے ہیں.ایک الفاظ وہ ہوتے ہیں جن کے معنے معین ہوتے ہیں.اور ایک الفاظ وہ ہوتے ہیں جن کے معنے غیر معین ہوتے ہیں ان الفاظ سے کسی ایک معنے کی بلا قرینہ تعیین کرنا جہالت ہوتا ہے.جیسے کوئی کہے کہ میں رات کے وقت فلاں کے گھر گیا تو اگر کوئی اس کے یہ معنے کرتا ہے کہ وہ ضرور آج رات اس کے گھر گیا ہے تو یہ اس کی حماقت پر دلالت کرے گا اور لوگ کہیں گے کہ یہ تمہاری جہالت ہے.اگر بولنے والے نے اپنے الفاظ کی تعیین نہیں کی تو جو معنے اس کے مد نظر ہوں وہ لے سکتا ہے.یہاں بھی مشابہت کا ذکر ہے جو مبہم معنے ہیں اور ان معنوں پر دلالت کرنے کے لئے عربی زبان میں مختلف الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.اُردو زبان میں اس کے لئے ایک سے زیادہ الفاظ میں خلا لفظ " کی طرح ہے.مثلاً کہتے ہیں یا اللہ ! تو اسی طرح دولت دے جس طرح تو نے قارون کو دولت دی.یا آج کل کے لحاظ سے لوگ کہتے ہیں یا اللہ تو اسے اسی طرح دولت دے جس طرح تو نے راک فیلر یا روس ہیڈ کو دولت وی یا لوگ کہتے ہیں یا اللہ تو اسے اسی طرح دولت دے جس طرح تو نے مثلاً بر یکی خاندان کو دولت دی.اس کے معنے یہ ہیں کہ تو اسے ان کی قسم کا دولتمند بنیا دے یہ معنے نہیں کہ تو اسے مقداً میں اتنی دولت دے جتنی دولت تو نے قارون ، بر مکی خاندان ، روشیلڈ یا راک فیلر کو دی ، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یا اللہ تو اسے اس قدر دولت دے جس قدر دولت تو نے قارون کودی بر مکی خاندان کو دی یا راک فیلر اور روشیلڈ کو دی.تو اس کے معنے درجہ کے ہونگے اگر درود میں کما صلیت کی بجائے اپنی قدر ما مگنت کہا جاتا کہ تو محمد رسول الله صلے اللہ علیہ وسلم پر اس درجہ کا درود بھیجے میں درجہ کا در و د تو نے ابراہیم علیہ السّلام پر بھیجا.تومعلوم ہوتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان سے کم ہے مگر یہاں درجہ کا ذکر نہیں ، قسم کا ذکر ہے.ایک کنگال آدمی بھی بعض دفعہ کہ دتیا ہے کہ میرے پاس روپیہ ہے اور وہ روپیہ نکال دیتا ہے.مثلاً فرض کرو ایک کنگال آدمی

Page 353

۴۵ سم خیال کرتا ہے کہ اس کے پاس جو لوگ بیٹھے ہیں وہ سب غریب ہیں اور وہ انہیں کہتا ہے کہ میرے پاس پانچ.ویسے ہیں.اب اگر اس مجلس میں سے ایک امیر آدمی جو کروڑ پتی ہے لیکن وہ کنگال آدمی اسے نہ جانتا ہو وہ کسے جس طرح تمہارے پاس روپیہ ہے میرے پاس بھی روپیہ ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اس کروڈ پینٹی کے پاس بھی پانچ روپے ہیں بلکہ یہاں اس فقہہ کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ بھی روپے والا ہے.حالانکہ یہ کروڑ پتی ہے اور وہ کنگال آدمی صرف پانچ روپے کا مالک ہے.درود میں گما کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جیسے کما صلیت كَمَا صَلَّيْتَ ہے اور کما میں ما مصدر یہ ہے جس کے معنے ہیں تصلواتك على ابراهيم جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا، اے اللہ اسی قسم کا درود تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بھی بھیج.گویا اس میں قسم کی طرف اشارہ ہے.یعنی کوئی خاص قسم الفضل ہے جس کے متعلق خدا تعالے سے دعا کی گئی ہے.کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ہے.یہاں درجہ کا سوال نہیں جس طرح" میں چھوٹا آدمی بھی آسکتا ہے اور بڑا آدمی بھی اسکتا ہے.مثلاً ایک مسلمان یہ دعا کرتا ہے کہ اسے اللہ جس طرح تو نے غار ثور میں محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھی حضرت ابو حجرہ کو بچایا تھا اسی طرح تو مجھے بھی بچا.تو اس میں قسم نجات کی طرف اشارہ ہوتا ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ میرے حالات بھی محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات جیسے ہیں اس لئے جن صفات کا تو نے اس وقت اظہار کیا تھا اپنی صفات کا تو اب بھی اظہار فرما.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تو مجھے بھی رسول اللہ نا دے.پھر بعض دفعہ ایک مسلمان یہ بھی دعا کر لیتا ہے کہ اسے اللہ ! جس طرح تو نے بدر کے موقعہ پر رسول کریم مسلے اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ملتی رہماری بھی اسی طرح مدد کر.اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ میں بھی رسول ہوں.اور میرے سامتی ابو بکر، عمر اور دوسرے صحابہ نہیں.وہ صرف یہ کہنا ہے کہ میری تکلیف اسی قسم کی ہے.اس لئے اسے خدا مجھ پر تو اسی قسم کی برکت نازل کر جس قسم کی برکات تو نے اس وقت نانہ لی کی تھیں.ایک ماں اپنے بچے کو بھی روٹی دیتی ہے اور کتنے کے سامنے بھی روٹی ڈالتی ہے.فرض کرو اس کے پاس دو روٹیاں تھیں جن میں سے ایک روٹی اس نے اپنے بیٹے کو دے دی اور ایک روٹی اس نے کتنے کے سامنے ڈال دی.تو کیا اس کا بچہ اور کتا برابر ہو گئے ، کیا اس کی محبت بچے اور کتے سے ایک جیسی ہے ؟ گویا اگر اتنی چیز بھی مل جائے تب بھی درجہ ایک نہیں ہوتا اور یہاں تو صرف قسم ایک ہے درجہ ایک نہیں اللهُم جل عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْراهيم إِنَّكَ سَید مجید.میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک قسم برکت کی ابراہیم علیہ السلام

Page 354

سالم اور آپ کی اولاد کو دی گئی تھی.دہی قسم برکت کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو طے.اب با تیبل دیکھو کہ اس میں کس برکت کا ذکر ہے جو نمایاں طور پر حضرت ابراہیم کو دی گئی.با تیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکومت یا شریعت کی تکمیل کی برکت نہیں دی گئی تھی.بلکہ انہوں نے اپنا اکلوتا بلیا خدا تعالے کی خاطر قربان کر دیا تھا گئیں جب یہ کہا جائیگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس قسم کی برکت ملے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملی تو اس کا اشارہ اس برکت کی طرف جائے گا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمایاں طور پر بلی اس کا اشارہ کسی مہم چیز کی طرف نہیں ہو سکتا.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نسلاں آدمی نے رات کو یہ کام کیا ہے تو بھی ایسا ہی کہ.تو وہ اس جیسا کام کب کر سکتا ہے کیونکہ اس نے ریمیا ہی نہیں کہ اس نے کیا کام کیا ہے.اس طرح ہم کسی کو وہی کام کرنے کے لئے کہ سکتے ہیں ہو ہم نے دیکھا ہو.پس جب اللهم صل على محمدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ على ابراهیم و عَلَى آلِ اِبرا هستیم کہا جاتا ہے.اس سے وہ برکت مراد ہوتی ہے جس ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کا اشتراک نمایاں طور پر پایا جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کام کو نسا تھا جو آپ نے اور آپ کی اولاد نے اکٹھا کیا تھا.اور ہمیں معلوم ہے کہ وہ کام آپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنا تھا.اور بیٹے کا ذبح کے لئے تیار ہو جانا تھا.یہی وہ بنیادی کام ہے جو باپ بیٹے دونوں نے کیا اور یہ ایک ہی کام ہے جو حضرت آدم علیہ السلام نے نہیں کیا تھا جو حضرت نوح علیہ السلام نے نہیں کیا تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوا اور سرسے انبیاء علیہما السلام نے جن کو ہم جانتے ہیں نہیں کیا تو درجن انبیاء کا ہمیں علم نہیں ان کے متعلق بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے یہ کام کیا ہو.گویا کما صلیت کے الفاظ میں شمارت ذبح اسماعیل کا ذکر ہے کیونکہ یہاں وہ برکت ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی اولاد دونوں شریک تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل سے کہا میں نہیں خداتعانے کے حکم کے ماتحت ذبح کرنا چاہتا ہوں اور حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کہا میں ذبح ہونے کے لئے تیار ہوں نہیں اسے تم ہمیشہ یہ دعا کرتے ہو اور اپنے منہ پر تھپڑ رسید کرتے ہو.تم نماز میں یہ کہنے ہو اللہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دہی برکت دے جو تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور ان کی اولاد کو دی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹوں کو بھی قربان ہوئے کی توفیق دے.پھر کہتے ہو الہی مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی وہی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرما

Page 355

جس کے کرنے کی تو نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو توفیق دی ہم آگے بڑھ کو خنجر پر اپنی گردنیں رکھ دیں.تم نماز میں یہ کتنے ہو لیکن جب چندہ کے لئے کیا جاتا ہے تو اپنی جیبیں پکڑ لیتے ہو.ہر نماز میں تم درود پڑھتے ہوئے یہ کہتے ہو کہ اے اللہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت ابر آید علیہ السلامہ کی طرح اپنی اولاد قربان کرنے کی توفیق عطا فریا اور اولاد کو قربان ہونے کی توفیق دے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو چکے ہیں ، اس لئے اس دنیا کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ چیز ہمیشہ جاری رہے.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ایک بیٹے کے قربان کرنے کی توفیق ملی تھی لیکن یہاں یہ چیز ہمیشہ رہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ اپنے بیٹے قربان کرنے کی توثیق ملے.اب بتاؤ بڑا کون ہوا ؟ وہ جس نے ایک بیٹیا ذبح کیا یا جو بہ زمانہ میں بیٹے قربان کرتا ہے.مسٹر سوچو کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ اے اللہ ! تو مجھے ویسے ہی قربان ہونے کی توفیق عطا فریا جیسے قربان ہونے کی توفیق تو نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو دی تھی.تو پھر تم دیانتدار ہوتے ہوئے قربانی سے بھاگ کسی طرح سکتے ہو.کیا تم اپنے نفس کو اس نے مستغنی کر لیتے ہو.بلکہ حقیقتا دعا کرنے والا تو سب سے پہلا مخاطب ہوتا ہے پس سب سے پہلے اپنے نفس کو اس میں شریک کرنا چاہیئے ورنہ یہ ایک متسخر بن جائے گا اور کیا یہ چیز کوئی مسلمان برداشت کر سکتا ہے اور کیا کوئی مسلمان اس بات کا اقرار کرے گا.کہ میں دعا کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اسے اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اپنے بیٹے قربان کرنے کی توفیق عطا فرما اور آپ کے بیٹوں کو بھی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی طرح ذوق شوق سے قربان ہونے کا موقعہ دنے سوائے میرے اور میرے بچوں کے کوئی احمق بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ وہ یہ دعا کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس سے مستثنیٰ قرار دے لیتا ہے.کوئی ہے حیا ہی ہوگا جو یہ کہے یکیں دعا کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو مستثنی قرار دے لیتا ہوں.اگر یہ حماقت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم نماز پڑھتے ہوئے تو یہ کتنے ہو کہ اے اللہ تو مجھے اور میری اولاد کو قربان ہونے کی توفیق عطا فرما لیکن باہر جا کر کوشش کرتے ہو کہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی جائیں بچ جائیں.عید الا ضحیہ اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے آتی ہے.خدا تعالے کھتا ہے کہ ہم سال میں یہ ایک دن لاکہ یہ واقعہ تمہارے سامنے لے آتے ہیں تا تمہیں یادر ہے کہ درود میں جو تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کے لئے دعا مانگتے ہو اس میں تم بھی شریک ہو.یہ نہیں کہ تم دعا تو یہ کہو کہ اسے اللہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حفتر ابراہیم علیہ السلام کی طرح بیٹے قربان کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں حضرت اسمعیل علیہ السلام

Page 356

رم کی طرح قربان ہونے کی توفیق عطا فرما لیکن جب قربان ہونے کا وقت آئے تو پیچھے بھاگ جاؤ.اگر قتم ایسا کرتے ہو تو نہاری مثال اس عورت کی سی ہے جس کے متعلق لطیفہ مشہور ہے کہ اس کی بیٹی کو جس کا نام جمتی تھا دق اور سیل ہو گئی.وہ ہمیشہ یہ دعا کیا کر تی تھی کہ اسے خدا انہیں مرجاؤں میکن میری بیٹی بچ جائے.جب عزرائیل اس کی جان نکالنے آئے تو اس کی سجائے میری جان تعمال ہے.اس عورت نے ایک گانے رکھی ہوئی تھی.ایک رات کو اس کا رستہ ٹوٹ گیا و صحن میں گھس آئی.وہاں ایک گھڑا پڑا تھا گائے نے بھوسہ کھانے کے لئے اس میں اپنا منہ ڈال لیا گھڑے کا منہ تنگ تھا لیکن بوجہ دباؤ اس کا سر گھڑے میں پڑ گیا.مگر جب اس سے سر نکالنا چاہا تو وہ نہ نکلا.گائے گھبرائی اور صحن میں اس نے ناچنا شروع کر دیا.وہ عورت یہ خیال کرتی تھی کہ وہ رائیل کی شکل ندالی ہو گی.جب اس گائے کو گھڑا اُٹھائے ناچتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ یہ عزرائیل ہے جو مہنتی کی جان نکالنے آیا ہے.وہ پہلے تو یہ دعا کیا کرتی تھی کہ یا اللہ ! میں مرحبا کویں جمتی نہ مرے اور جب عزرائیل آئے تو میری جان نکال لے جہتی کی جان نہ نکالے لیکن جب اس کے خیال میں عزرائیل جان نکالنے آیا تو وہ سب دعائیں بھول گئی اور کہنے لگی ملک الموت من نه جهتی ام من یکے پیر زال مفتی ام یعنی جو عورت پہلے یہ دعا کر رہی تھی کہ عزرائیل میری لڑکی کی سجائے میری جان نکال ہے.وہی جب وقت آیا تو کہنے لگی میں نہتی یعنی لڑکی کی والدہ نہیں ایک اور مزدور عورت ہوں.یہی مثال اس شخص کی ہے جو درود پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا تعالے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے بیٹے قربان کرنے کے مواقع بار بار دے.حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو تو ایک دفعہ بیٹا قربان کرنے کا موقع ملا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بار بار بیٹا قربان کرنے کا موقعہ ملے.پھر اسمعیل علیہ اسلام کو تو ایک دفعہ قربان ہونے کا موقعہ ملا تھا.لیکن تم دعا کرتے ہو کہ اسے خدا ہمیں بار بار قربان ہونے کا موقعہ دے.لیکن جب قربان ہونے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں ملک الموت من نہ مستی ام - من یکے پیر زال محنتی ام - یہ چیز ہے جو عید الا ضحیہ یاد کرانے کے لئے آتی ہے.گویا درود کی تشریح عید الاضحیہ ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ ہم خدا تعالے کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں گے اور جب تم ہمیشہ یہ اقرار کرتے ہو تو اب اپنی جانیں قربان کرو ہم بھی تمہاری بھی عید الاضحیہ آئیگی کہ نہیں ؟ الفضل ، اکتوبر وار)

Page 357

سیرت المهدی مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صابے جلد و ۱۳ لله - میاں بجان محمد صاحب رضی اللہ عنہ (۶۱۸۸۲-۶۱۵۶۲) جمعیت شش.بڑے بین در مخلص انسان تھے.سه ه - تاریخ احمدیت جلد، مشاه شه - صحیح بخاری کتاب الادب باب الصبر والاذي ے.صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب ت - الدهر ١٨:٢٠ ك - الدهر ۷۶ : ب ش - تذکره طبع سوم مشك، فتمت من - نبيا تذكرة الاولیاء صد مرتبه سید رئیس احمد جعفری نه - الصفت 1.4:76 الاحزاب سوس : ۵۷ ۱۲ - متی باب ۴ آیت ۳ باب ۲۸ آیت ۲۹ ۱۳ - صحیح بخاری کتاب الانبياء باب يزفون الفلان في المشى صحيح مسلم كتاب الصلواة بالبصلوة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد مسنون درود شریف کے علاوہ صحیح بخاری کتاب الانبیاء اور صحیح مسلم کتاب الصلوۃ میں یہ درود شریف بھی مروی ہے : - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَازْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ على آل إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكَ عَلى مُحَمَّدٍ وَازْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَکتَ على آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد.-۲- سنن ابن ماجه کتاب اقامة الصلوة والسنة فيها باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم میں یہ درود شریف بھی روایت کئے گئے ہیں.و- اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ.ب - اللهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ وَرَحْمَتَكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَعِيدِ الْمُرْسَلِينَ د امامِ الْمُتَّقِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ ، مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ اِمَامِ الْخَيْرِ وَقَائِدِ الخَيْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ - اَللهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَا مَّا لَحْمُود الغيط به الاولونَ وَالآخِرُونَ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد الا ے قارون جی کا نام بائبل نے قرح بتایا ہے اسرائیلی فورسی کا ایک فرد تھا وعن کا اخرخزانہ اور بہت مالدار شخص تھا اسی دورات کے نقشے پر نا اور کینو نہ کرنے کیلئے بنی ہے اور ظلم کرنا نہ وع کرنا.سکے نقاد کیلئے لاہونا، نفر که جله محمد حصہ سوم منت.

Page 358

۳۵۰ - ROCALLER ته جان دیوی اسن راک فیلر SON DAISON ROCK FELLER (۱۸۳۹ - ۱۹۳۷ امریکا کا مشهوراها ترین 50 2A1 شخص جسے تیل کی صنعت و تجارت نے ارب پتی بنا دیا.ANSEL ME :۱۷۴۳ - ۲۱۸۱۰ جرمنی کا بہت بڑا بیوی شه روشیلڈ ایسم میری VS EL ME DSCHLA MEYER مالدار جو فرینکفرٹ کے بنک کا باقی تھا اسکے پانچ بیٹوں نے فری کیفیت روی کارتان میلینا اور پریس شاه - برمکی خاندان کے متعلق محض مہ خین کا خیال ہے کہ اس خانوادہ کا جد اعلیٰ برمات بلخ کے بڑھ مندر نو بہار کا پجاری اور متونی تھا.بعض مورخین نے تو بہار کو مجوسیوں کا آتشکدہ قرار دیا ہے.یہ بھی بیان کیا جاتا ہے.کہ تب تک اس شخص کا نام نہ تھا بلکہ یہ اس عہدے کا نام تھا جس پر وہ فائنہ تھا.ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں قتیبہ بن مسلم نے بلغ کو فتح کیا تو ہر کام مسلمان ہو گیا ، بر یک کار کا خالد صاحب علم و دانش تھا.سینٹ جبان فنی لکھنا، کہ یہ ولید کے مشہور جرنیل قتیبہ کے عصبانی عبد اللہ کا بیٹا تھا.لیکن اس کی ماں ایرانی النسل تھی.ابن خلدون کا بیان ہے کہ جب قتیبہ نے بلخ پر حملہ کیا تو اس لڑائی میں جہاں اور بال قیمت کمانوں کے ہاتھ آیا وہاں لونڈیاں بھی گرفتارہ ہو کر آئی تھیں ان میں ایک عورت بر تک کی تھی.مالِ غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ عورت قتیبہ کے بھائی عبداللہ کے حصہ میں آئی.خالد اسی عورت کے بطن سے پیدا ہوا.ابو مسلم خراسانی کی تحریک میں خالد نے نمایاں حصہ لیا اور اپنی عالی ہمتی اور عقل وفراست سے اس میں بڑا مقام حاصل کر لیا.بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی تو اسے وزیر بنا دیا گیا.خالد کا بیٹا جی بھی باپ کے اوصاف سے متصف تھا.ہارون الرشید کا اتالیق مقرر ہوا.ہارون کے کمالات یحیی کے فیضان تربیت کا نتیجہ تھے.بچی کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے فضل اور جعفر زیادہ مشہور ہیں.ان کے روز افزوں اقتدار، جاہ وجلال اور علم و فضل کے چرچے جب عام ہو گئے اور ہارون الرشید کی حیثیت برائے نام ہو کر رہ گئی تو ہارون کے دل میں بر امکه خصوصا جعفر کی طرف سے بد گمانی پیدا ہو گئی جو بالآخر جعفر کے قتل پر منتج ہوئی.بیٹی اور فضل کو قید کر دیا گیا.اسی قید وبند میں نہایت بے بسی کی حالت میں دونوں نے داعی اجل کو لبیک کہا.بنو عباس خصوصا ہارون الرشید کے محمد حکومت کو سنہری زمانہ بنانے میں برا مکہ کا سب سے زیادہ حصہ ہے لیکن دنیا یه دلدوز منظر دیکھ کر محو حیرت رہ گئی کہ اسی ہارون الرشید نے برامکہ کو خون کے آنسور لاڈلا کر مروا ڈالا.دہرا سکر کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو اسلامی انسائیکلو میڈیا جلد 4 ص ، تاریخ ابن خلدون جلد ۳) اردد ترجمه) طلا، تاریخ اسلام مصنفه پروفیسر سید عبد القادر جلد ۲ ۳۳۵ ۵۱۹ پیدائش باب ۲۲ آیت ۱-۲ - الصفت ۱۰۳:۳۷

Page 359

ام فرموده یکم ستمبر شاه بقام ربوه یہ ہمارے اسلامی سال کی دوسری عید ہے اور آج وہ مبارک دن ہے جب نمدا تعالے کے بند سے جو لاکھوں کی تعداد میں مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں جج کر کے واپس لوٹ آئے ہیں.آج ان میں سے بہت سے لوگ منی سے سواریوں پہ جلدی جلدی مکہ مکرمہ کی طرف آرہے ہیں تا کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کریں اور طواف کے بعد وہ د بریا تین دن منی میں تھہریں گے اور اس کے بعد میچ ختم و جائے گا.یہ عید تو عید الا ضحیہ کہلاتی ہے جج کے ساتھ وابستہ ہے.اس عید کا ایک تعلق تو تاریخی لحاظ سے اس قربانی سے ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کی کی اور دوسہ التعلق اس کا حج کے ساتھ ہے کہ ان ایام میں لاکھوں لاکھ مسلمانوں کو حج کے لئے جمع ہونے کا موقع ملتا ہے.گویا ہم سارے کے سارے مسلمان اس خوشی میں عید مناتے ہیں کہ ہمارے کچھ بائیں کو حج کا موقعہ مل گیا.اس عید کا وہ پہلو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے میں ہمیشہ بیان کرتا آیا ہوں.آج یکی اختصار کے ساتھ اس تعلق کو لیتا ہوں کہ یہ عید اس بات کی خوشی میں کہ ہمارے بعض بھائیوں کو حج کا موقعہ نصیب ہوا ہے.ہماری یہ عید اس خوشی میں ہے کر مسلمان ابھی مرکز وحدت یہ قائم ہیں.ہماری یہ عید اس خوشی میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی زندگی کا ثبوت پیش کرنے کے لئے لاکھوں مسلمان آج مکہ مکرمہ میں جمع ہیں.ہماری یہ عید اس خوشی میں ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے نمائند ے دین کے مرکز مکہ مکرمہ میں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ وہ خدا تعالے کی عبادت کریں اور اس کے نام کو بلند کریں.یہ وہ باتیں ہیں جو اس عید کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.شاید بسا اوقات یہ باتیں عید منانے والوں کے دلوں سے غائب ہوتی ہیں.عید کے دن کو دیکھے لو.ہزاروں آدمی چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ وہ عید منائیں.ابھی ربوہ کیا چیز ہے ایک نئی آباد ہوئے والی چھوٹی سی بستی ہے اس میں بھی ہزاروں آدمی عید کے لئے جمع ہیں.اور ان کی خواہش کی انتہاء کا اس بات سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت سینکڑوں عورتیں اور بچے اس قدر شور کر رہے ہیں کہ لوگ خطبہ بھی نہیں سن سکتے.گویا عید کیا ہے ایک نشہ ہے جو دماغوں پر طاری ہے ایک مستی ہے جو انسانوں پر چھائی ہوئی ہے.عید آگئی عید آگئی.اے کیا چیز آگئی ہے دیکھنے والے کو

Page 360

۳۵۲ یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ کیا چیز آئی ہے جس سے ہر انسان خوشی سے معمور نظر آتا ہے کسی جگہ مٹھائیا بٹ رہی ہوتی ہیں تو دریافت کیا جائے کہ یہ خوشی کیسی ہے ؟ تو لوگ کہتے ہیں دلہن آگئی ہے.اور دلہن ایک چیز ہے جو ہمیں نظر آتی ہے.کسی جگہ پہ خوشیاں منائی جاتی ہیں اور چھوہارے میٹ رہے ہوتے ہیں لوگ پوچھتے ہیں کیا ہوا تو انہیں کہا جاتا ہے نکاح ہو گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ کل کو دلہن آئے گی کہ بھی خوشیاں منائی جاتی ہیں کہ لڑ کا پاس ہو گیا ہے اور ہمیں نظر آتا ہے کہ کل وہ لڑکا ہی.اسے نہیں تھا، آج ہی.اسے ہو گیا ہے.کل وہ لڑ کا اہم اسے نہیں تھا آج ایم.اے ہو گیا ہے.کل اس پر بعض نوکریوں کے دروازے بند تھے آج وہ درواز سے اس کے لئے کھل کے ہیں.پھر یہ عید کیا چیز ہے.ہمیں کوئی چیز نظر تو نی چاہیے.لوگ کہ رہے ہیں فید گئی نیند آگئی.وگ است ہوئے جار ہے ہیں شور پڑ رہا ہے اور اتنا شور ہے کہ خطبہ بھی سنائی نہیں دے رہا، آخر یہ کیا چیز ہے.ظاہر ہے کہ پہلی چیز تو یہ ہی ہے جو میں نے تہائی ہے یعنی ابراہیم اور اسمعیل علیہما السلام کی قربانی اور اس کا نتیجہ.دوسری بات یہ ہے کہ آج کے دن ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں جو یا توکل تک ہمیں نہیں ملی تھیں یا جن کا کل تک ہمیں تین نہیں تھا.آج کی عید ایک تو یہ خبر لائی ہے کہ پھو نے چودہ سو سال کے بعد بھی مسلمان اپنے مرکز پر قائم ہیں.آج بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کے نمائندے اس مقام پر گئے ہیں جہاں سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر ہوئے جہاں اسلام کی بنیاد رکھی گئی.آج افریقہ سے بھی کچھ مسلمان وہاں گئے ہیں.ایشیاء سے بھی کچھ مسلمان داں گئے ہیں.یورپ سے بھی مسلمان وہاں آئے ہیں ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا امریکہ سے بھی مسلمان حج کے لئے آئے ہیں یا نہیں لیکن دہ زمانہ یقینی طور پر آنیوالا ہے کہ امریکہ سے بھی لوگ وہاں آئیں گے اور شاید اس سال بھی بعض مسلمان امریکہ سے حج کے لئے آگئے ہوں تاکہ وہ اپنے ملک کو اس الزام سے بچائیں کہ امریکن لوگ حج نہیں کرتے.یورپ سے تو بعض مسلمان حج کے لئے آجاتے ہیں.خصوصا مشرقی اور جنوبی یورپ میں مسلمان پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک تعداد جج کے لئے بھی آتی ہے.بہر حال آج ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان پھر ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے ہیں.اور انہوں نے پھر اس بات کی شہادت دی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لایا ہوا دین آج بھی زندہ ہے.آپ کے خادم آج بھی آپ کی آواز کو بلند کرنے کے لئے دنیا ہیں موجود ہیں اور یہ بات ہمارے لئے کتنی خوش کن ہے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ماں بنات کے پاس سے کوئی شخص ہمیں ملنے کے لئے آتا ہے.تو ہم پوچھتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ کا کیا حال ہے اگر وہ ان کی خیریت کا پتہ دیتا ہے تو ہم کہتے ہیں الحمد للہ.عید بھی ہمارے لئے ایک سندیسہ

Page 361

۳۵۳ اور ایک خبر لائی ہے کہ اسلام کی رگوں میں اب بھی خون چل رہا ہے.اب بھی محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق رکھنے والے لوگ دین کے مرکز مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے ہیں.اور انہوں نے اپنے اس تعلق کا اعلان کیا ہے جو انہیں آپ سے ہے انہوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ چاہے کمزو رہی سہی لیکن آپ کے نام لیوا اب بھی دنیا میں موجود ہیں تو دیکھو یہ کتنی خوشی کی بات ہے.اگر کوئی شخص ہم سے کسی کے ماں باپ کی خیریت کی خبر لاتا ہے تو وہ کہتا ہے الحمد لله توجب یہ بعید ہمارے پاس اسلام کی زندگی کا ثبوت لائی ہے تو ہم کیوں نہ سجدوں میں گر جائیں کیوں نہ ہم خدا تعالے کا شکر بجالائیں کہ ابھی قومی زندگی کی رگ پھڑک رہی ہے ابھی ہماری قومی زندگی کا سانس چل رہا ہے.ابھی رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وفاداری کا دم بھرے والے دنیا میں موجود ہیں.ابھی مسلمان وحدت کے مرکز پر قائم ہیں.دوسری چیز جس کی خبر یہ عید لائی ہے وہ حج ہے یہ عید ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے کچھ بھائیوں کو جج نصیب ہوا ہے کسی بھائی کا بیاہ ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کیسی کے ہاں بھائی پیدا ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کسی کی بہن کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو وہ خوش ہو رہا ہوتا ہے.کسی کے بھائی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو وہ خوش ہو رہا ہوتا ہے.تم سے اگر کوئی یہ سوال کرے کہ بیٹا تو تمہاری والدہ کے ہاں پیدا ہوا ہے تم کیوں ہنس رہے ہو.بیٹا تو تمہارے باپ کے ہاں پیدا ہوا ہے تم کیوں خوش ہو رہے ہو.بیٹا تو تمہاری بہن کے ہاں ہوا ہے تمہیں خوشی کیوں ہے.بیٹا تو مہارے بھائی کے ہاں ہوا ہے یا بیٹیا تو تمہارے چچا کے ہاں ہوا ہے تم خواہ مخواہ کیوں سہنس رہے ہو تو تم میں سے ہر ایک یہ جواب دیگا کہ واہ کیا ان کی خوشی میری خوشی نہیں کیا میرے ماں باپ کے ہاں بیٹا ہوا ہے تو میں ان کی خوشی میں شریک نہیں اگر میں اپنے بھائی کی خوشی میں شریک ہوا ہوں تو کیا وہ میرا بھائی نہیں، اگر میری بہن کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے توئیں کیوں خوشی نہ مناؤں ؟ کیا وہ میری بہن نہیں.اس کی خوشی کی وجہ سے مجھے کیوں خوشی نہ ہو.پس دنیا میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بھائی بھائی کی خوشی سے خوش ہوتا ہے.ایک بھائی کامیابی حاصل کرتا ہے تو دوسرا بھائی بھی خوش ہوتا ہے.ایک بھائی بنجاری کا کام سیکھ رہا ہوتا ہے اور ایک تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے.لوگ کہتے ہیں.میاں ! اگر تمہارا بھائی بی.اسے ہو گیا ہے تو تم خوش کیوں ہوتے ہو، تم نے تو ساری عمر سکر یہاں چیرنی ہیں.ایک بھائی نانبائی کا کام کرتا ہے اور وہ آگ کے سامنے جھلس رہا ہوتا ہے تو دوسرا بھائی ڈاکٹرین رہا ہوتا ہے یا اپنے عہدے میں ترقی پا رہا ہوتا ہے، تو وہ نانبائی بھی اپنے بھائی کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے.اگر کوئی پوچھے کہ میان تمہارے لئے خوشی کی کیا بات ہے؟ تم نے تو آگ میں جھلسنا.

Page 362

۳۵۴ ہے تو وہ کہتا ہے آخر وہ میرا بھائی ہے اور بھائی کی خوشی سے مجھے خوشی ہوتی ہے.بہر حال میں ہر جگہ یہ بات نظر آتی ہے کہ کسی کا عز یز یا دوست کسی بات میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو اس کو بھی خوشی ہوتی ہے.پس عید کی دوسری وجہ یہ ہوتی کہ اگر چہ ہمیں حج نصیب نہیں ہوا لیکن ہمارے کچھ بھائیوں کہ حج نصیب ہوا ہے اور جس طرح ایک نانبائی کے بھائی کو ڈگری ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں کہنا کہ ڈگری میرے بھائی کو ملی ہے مجھے کیا فائدہ ؟ ایک بخار اپنے بھائی کی کامیابی یا حمدے میں ترقی پر خوش ہوتا ہے اور یہ نہیں کہنا کہ کامیابی میرے بھائی کو ہوئی ہے یا ترقی میرے بھائی کو ملی ہے مجھے کیا فائدہ ؟ اسی طرح آج مسلمان اس لئے عید مناتے ہیں کہ ان کے کچھ بھائیوں کو حج نصیب ہوا ہے.اور پھر جہاں کسی کو خوشی کا موقعہ ملتا ہے.وہاں اس کے اندر یہ جار ی بھی ہوتا ہے کہ مجھے بھی کل کو یہ خوشی نصیب ہو.جب انسان اپنے بھائی کی خوشی پر خوش ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں کتنا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا.بسا اوقات وہ اس کی خوشی میں اس لئے شامل ہوتا ہے کہ وہ یا تو وہ کام کر چکا ہوتا ہے یا اسے امید ہوتی ہے کہ میں بھی یہ کام کروں جب اس کے بھائی کو کامیابی ہوتی ہے تو وہ یہ نہیں کہنا کہ میرے بھائی کو یہ موقع ملا ہے مجھے یہ موقع نہ ملے.بلکہ اس کے اندر یہ چند یہ پنہاں ہوتا ہے.کہ یہ چیز مجھے مل چکی ہے یا خدا کرے آئندہ کسی وقت مل جائے.پس یہ عید اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی حج کرنے کا ہند بہ پیدا ہونا چاہیئے.جہاں اپنے بعض بھائیوں کو حج نصیب ہونے کی خبر سنکر تم خوش ہوتے ہیں ، وہاں ساتھ ہی ہمیں یہ خیال بھی کرنا چاہیئے کہ ہم کیوں حج نہ کریں.ہمارے اندر یہ خودان پیدا ہونی چاہیئے کہ خدا تعالے ہمیں بھی حج کا موقع دے.مگر افسوس کہ حج کی طرف سے لوگوں کی توجہ بہٹ گئی ہے.بہت کم لوگ ہیں جو حج کے لئے جاتے ہیں اور اس سے ہماری جماعت بھی مستثنی نہیں.ہماری جماعت کے افراد بھی بہت کم تب دا د میں حج کے لئے جاتے ہیں حالانکہ حج پر اتنا.وپیر خرچ نہیں ہوتا جتنا روپیہ تم میں سے بعض زمیندار اپنے بچوں کی شادیوں پر خرچ کر دیتے ہیں اور اس قسم کے زمیندار جماعت میں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں.آجکل کے حالا سے مطابق جس شخص کے پاس دو مریعے زمین ہے وہ -- ۷-۱۰ ہزار روپیہ سالانہ تک کھاتا ہے جیب لوگ مشورہ کے لئے آتے ہیں تو کہتے ہیں لڑکی کی شادی کے لئے تنے ہزار روپیہ تبع کیا ہے اور اس قدر اُدھار سے لیا جائیگا.وہ زمیندار جن کے پاس دو دو تین تین مربعے میں جماعت میں لیکر داری کی تعداد میں موجود ہیں اور وہ سینکڑوں ایسے ہیں جن پر حج فرض ہے ان میں سے ہر ایک اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی پر اس قدر روپیہ خرچ کر دیتا ہے جس سے بہت کم روپیہ حج پر خرچ ہوتا

Page 363

1 ۳۵۵ اور غیر احمدیوں میں تو اس کی کوئی انتہاء نہیں.ان میں لاکھوں نہیں کہ وڑوں لوگ ایسے ہیں جن پر جمع فرض ہے لیکن انہوں نے حج نہیں کیا.پھر ایسا شخص جس کی تنخواہ چار پانچ سو روپیہ ماہوار ہو اس پر بھی حج فرض ہے.اور اس قسم کے آدمی بھی ہماری جماعت میں سن کر اپ کی تعدا د میں ہیں مگر کتنے ہیں جنہوں نے حج کیا ہے ؟ تم بہت کم لوگ ایسے دیکھو گے جن پر حج فرمن تھا اور انہوں نے حج کیا.جماعت میں سے یہی پانچ دس پندرہ میں آدمی ہر سال حج کے ئے جاتے ہیں تعداد ایسی نہیں جس کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ کافی ہے.بیرون عرب سے چالیس پچاس ہزار کے قریب لوگ حج کے لئے جاتے ہیں.رپورٹیں تو بہت زیادہ تعداد کی آتی ہیں لیکن ان میں مبالغہ ہوتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ مہند وستان و پاکستان سے ۱۵ ۲۰ ہزارہ آدمی حج کے لئے ہر سال جاتا ہے.دس بیس ہزارہ آدمی انڈونیشیا سے جاتا ہے ۱۵ ۱۶ ہزارہ آدمی جنہیں پچاس ہزار کہہ دیا جاتا ہے.مصر سے جمع کے لئے جاتا ہے یہ کل ملا کہ پچاس ساٹھ ہزار آدمی ہو جاتا ہے.اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے قرین شام غرب اور عراق اور خود مکہ سے شریک ہو جاتا ہے.اس لئے ڈیڑھ دو لاکھ کی تعداد بن جاتی ہے اور اگر زیاد کامیابی ہو تو دو اڑھائی لاکھ کی تعداد حاجیوں کی ہو جاتی ہے.لیکن دنیا میں چالیس کروڑ کے قریب مسلمان ہے.اگر سو میں سے ایک آدمی حج کے قابل سمجھا جائے تو چالیس لاکھ کے قریب لوگ یج کے قابل بنتے ہیں اور اگر یہیں سال کی عمر بھی حج کی سمجھ لی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ انسان کے پاس سفر کے لئے روپے جمع ہوتے ہیں اس کی صحت ایسی ہوتی ہے کہ سفر کرے تو گویا دو لاکھ آدمی حج کے لئے سالانہ جانا چاہیئے.لیکن اتنی تعداد مسلمانوں کی حج کے لئے نہیں جاتی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے مکہ اور شرب والوں کو ملا کر ڈیڑھ دو لاکھ حاجی ہر سال حج کے لئے جاتا ہے جن میں سے بیرون عرب کے صرف ۵۰-۲۰ ہزار حاجی ہوتے ہیں.اگر پاکستان کو سی لیا جائے تو اس میں 4 کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں.اس طرح لاکھ آدمی حج کے قابل بنتے ہیں.اور اگر نہیں سال کی عمر حج کے قابل سمجھ لی جائے تو قریباً تیس ہزار کادمی سالانہ پاکستان سے حج کے لئے جانا چاہیئے تب کہیں جا کہ حج کے قابل آدمی کا حساب پور را بردیا ہے لیکن جاتے صرف بارہ تیرہ ہزار ہیں.پھر بڑی مشکل یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان سے حج کے لئے جاتے ہیں یا جو لوگ افریقہ اور مصر وغیرہ سے حج کے لئے آتے ہیں وہ سو فیصدی ایسے نہیں ہوتے جن پر صحیح شرعی طور پر فرض ہوتا ہے.ان میں سے ۸ فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن پر حج فرض نہیں ہوتا.صرف وہ ایمان کی وجہ سے حج کے لئے چلے جاتے ہیں.جس سال میں نے حج کیا ہے اس سال کا ایک واقعہ ہے.ایک آدمی میرے پاس کچھ مدد مانگنے کیلئے آیا

Page 364

۳۵۶ میری عمر جوانی کی تھی.بعض باتیں جائز ہوتی ہیں لیکن تجربہ کار آدمی منہ پر نہیں لانا.میں نے جوانی کی وجہ سے اس کا خیال نہ کیا.جب وہ شخص میرے پاس آیا تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ اگر تمہارے پاس اخراجات سفر نہیں تھے تو پھر تم حج کے لئے کیوں آئے.شریعیت کا یہ حکم ہے کہ اگر تمہارے پاس اخراجات سفر ہوں اور پھر اپنی غیر حاضری میں بال بچوں کے گزارہ کے لئے بھی تمہارے پاس روپیہ ہو تو حج کے لئے جاؤ اس لئے اگر تمہارے پاس اخراجات سفر نہیں تھے تو پھر تم حج کے لئے آئے کیوں ؟ پھر میں نے دریافت کیا کہ تم کام کیا کرتے ہو.اس نے کہا ئیں نائی کا کام کیا کرتا ہوں میں جب حج کے لئے چلا تو میرے پاس کافی روپیہ تھا لیکن بعض مشکلات کی وجہ سے مزید روپیہ کی جضرورت محسوس ہوئی ہے.میں نے جب دریافت کیا کہ تمہار ہے پاس کتنا روپیہ تھا تو اس نے کہا لیبی سے جب میں چلا تو میرے پاس پچاس روپے تھے گویا ان دنوں جب حج پر اڑھائی تین سو روپیہ خرچ ہوتا تھا پچاس روپے کی پونجی والا حج کے لئے چل پڑا.راب بارہ تیرہ سو روپیہ کے قریب حج پر خرچ ہوتا ہے، اب کجا پچاس روپے اور کجا اڑھائی تین سو روپے.میں نے کہا کہ جب تمہارے پاس اس قدر قلیل رستم تھی تو تم جج کے لئے کیوں چلے؟ تو اس نے کہا.میں نے خیال کیا کہ اس قدر روپیہ میرے پاس ہے اور کچھ رستہ میں محنت کر لونگا.چلو دربار محبوب کی زیارت تو کر آؤں لیکن اب واپس جانے کے لئے میرے پاس اخراجات نہیں.لیکن دوسری طرف یہ حالی ہے کہ میں کے پاس ایک لاکھ روپیہ کی جائدا رہے وہ بھی حج کے لئے نہیں جاتا.شاید اس لئے کہ جتنی زیادہ دولت کسی کے پاس آتی ہے اس کا ایمان کمزور ہوتا جاتا ہے.ایک دفعہ ایک مالدار شخص حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا اے استاد مجھے بھی اپنی شاگردی میں لے لیجئے.حضرت مسیح علیہ السلام نے دیکھا کہ اس کے کپڑے اچھے ہیں آپ نے اس کے حالات دریافت کئے.اس کے حالات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک لاکھ پتی آدمی ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا.سوٹی کے ناکہ میں سے اُونٹ کا گذر جانا ممکن ہے.لیکن خدا تعالے کی بادشاہت میں ایک مالدار کا داخل ہونا ممکن نہیں ہے گویا اگر کوئی بیوقوف تم سے کہے کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گذر گیا.تو تم اس پہ اعتبار کر لو لیکن اگر کوئی کہے کہ فلاں مالدار شخص خدا تعالے کی بادشاہت میں داخل ہو گیا ہے تو اس پر اعتبار نہ کہ در حضرت مسیح علیہ السلام نے اس شخص سے کہا جاؤ تمہیں خدا تعالے کی بادشاہت میں داخل کرنا میرے بس کی بات نہیں.پس جن لوگوں کی حیثیت ہوتی ہے وہ تو جج کے لئے نہیں جاتے اور جن کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی وہ حج کے لئے جاتے ہیں اور بارہ تیرہ ہزار آدمی جو پاکستان سے حج کے لئے جاتا ہے اس میں سے در حقیقت پانچو یا ہزارہ آدمی ایسا ہوتا ہے جس پر حج فرض ہوتا ہے.پس وہ اندازہ جو میں نے لگایا ہے وہ بھی

Page 365

۳۵۰ گھٹانا پڑتا ہے اور در حقیقت حج پر جانے والوں میں سے صرف تین فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر حج فرض ہوتا ہے.باقی لوگ جو حج کے لئے جاتے ہیں ان پر حج فرض نہیں ہوتا.وہ عاشق ہوتے ہیں.جن کے پاؤں میں کانٹے چھو رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محض عشق کی وجہ سے جا رہے ہوتے ہیں.وہ حج کا فریضہ ادا کرنے نہیں جاتے وہ عشق کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہوتے ہیں.پس یہ عید اس لئے آتی ہے تا ہمارے دلوں کو بیدار کرے اور ہمیں ہمارا فرض یاد دلائے.عید ہمیں یہ بتانے آتی ہے کہ جج کی عبادت تم پر بھی فرض ہے جس طرح نماز ایک ضروری فریضہ ہے.جس طرح زکوۃ ایک ضروری فریضہ ہے.جس طرح روزے ایک ضروری فریضیہ ہیں ، اسی طرح حج بھی ایک ضروری فریضہ ہے لیکن افسوس کہ نہ غیر احمدیوں میں اس فریضہ کا صحیح احساس پایا جاتا ہے اور نہ احمدیوں کو اس کا پورا احساس ہے.غیر احمدیوں میں تو یہ لطیفہ ہوتا ہے ان کے خطوط آتے ہیں که اگر حضرت مرزا صاحب مسلمان تھے تو انہوں نے حج کیوں نہیں کیا.پھر ان کے پہلے خلیفہ نے بھی حج نہیں کیا اور آپ نے بھی حج نہیں کیا.حالانکہ حضرت خلیفہ المسیح الاول نے نہ صرف حج کیا تھا بلکہ دو سال کے قریب آپ مکہ مکرمہ میں رہے ہے اور میں نے بھی حج کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ آپ سفر کرتے پھر آپ کے لئے استہ میں امین بھی نہیں تھا.اس لئے آپ نے حج نہیں کیا لیکن آپ کی طرف سے ہم نے حج بدل کروا دیا تھا.گویا غلو میں دونوں نے کمال کر دیا ہے بس سیالکوٹ میں ایک بڑے پیر تھے.انہوں نے ایک دفعہ تقریر کی وہ چھوٹی چھوٹی بانوں کو اپنے رنگ میں پیش کرتے تھے.انہوں نے تقریر میں کہا دیکھو مرزائی اپنی سچائی کے ثبوت میں بڑے بڑے دلائل دیتے ہیں اور علماء میں بخشیں ہوتی ہیں.یہ تو مولویوں والی باتیں ہیں لیکن روحانی آدمی ہوں.میں تمھیں موٹی دلیل دنیا ہوں جس سے پتہ لگ جائے گا کہ مرزائی اپنے دعوئی میں سچے نہیں اور وہ دلیل یہ ہے کہ مرزا صاحب چونکہ اقبال ہیں جو شخص مرزائی ہوتا ہے وہ مرتد اور سخت بے ایمان ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالے اس کا رنگ کا لا کر دیتا ہے تم کوئی مرزائی دیکھ لو اس کا رنگ کالا ہو گا.اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ خدا تعالے کی لعنت ان پر پڑتی ہے.پیر صاحب کی ایک آنکھ میں نقص تھا اور مجلس میں ایک احمدی مدرس بھی بیٹھیے تھے انہیں غصہ آگیا.ان کا رنگ بہت سفید تھا.پیر صاحب سے بھی زیادہ جن کا رنگ بھی سفید تھا مگر اس احمدی کے برابر نہیں وہ احمدی مدرس کھڑے ہوئے اور کہا.میں ایک احمدی ہوں.آپ اپنے مریدوں سے پوچھ لیں کہ میں زیادہ گورا ہوں یا آپ زیادہ گورے ہیں.پھر آپ حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ والسلام کو دقبال کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اب دنیا میں موجود نہیں لیکن آپ ایک آنکھ سے کانے ہیں اور اقبال کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ

Page 366

۳۵۰ وہ ایک آنکھ سے کانا ہو گا یا اس پر یہ صاحب کے مریدوں نے اس احمدی دوست کو مارنا شروع کر دیا اور اسے خوب پیٹا.اس نے پیر صاحب اور اس کے مریدوں کے خلاف نالش کر دی.پیر صاحب ہے گھبرائے.وہ زمانہ حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کا تھا.میں اس وقت کوئی اکیس سال کا تھا اور لاہور گیا ہوا تھا.جب میں واپس قادیان جارہا تھا تو اتفاقا حبس کمپارٹمنٹ میں میں میٹھا تھا اس میں وہ پیر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ بڑے جہاندیدہ آدمی تھے.انہوں نے کرید کرید کہ پتہ لے لیا کہ میں کون ہوں اور جھٹ قلم کا غذ منگوایا اور کہا.ایک مرزائی نے کسی شخص پرنا امش کی ہے اور اب دونوں طرف سے جھوٹ بولا جائے گا اور ایمان خراب ہوگا.میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ فریقین میں سے کوئی اس میں پھنس جائے.اس لئے آپ اس احمدی کو بیٹھی لکھدیں کہ وہ مقدمہ اپس لے لے.میں نے کہا.مرزائی تو جھوٹ نہیں بولتے اس لئے ان کا ایمیان خراب نہیں ہوتا اور اگر دوسرے فریق کو علم ہے کہ جھوٹ بولنے سے ایمان خراب ہوتا ہے تو وہ جھوٹ کیوں بولے گا واپس آکر میں نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کو یہ واقعہ سُنایا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ تمھیں خدا تعالے نے موقعہ دیا تھا کہ تم احمدیت کے ایک دشمن کو ممنون احسان کر لیتے لیکن تم نے یہ موقع ضائع کر دیا.تمھیں چاہیے تھا کہ ضرور رقعہ لکھ دیتے.میں نے کہا.مجھے قانون کا علم نہیں تھا، میں نے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دوست میری اس تحریر کیوں ہے کسی مصیبت میں پھنس جائیں.وہ پر صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ مرزائی حج کو نہیں جاتے اور نہ وہ حج کر سکتے ہیں کیونکہ درقبال خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہوسکتا.دیکھ لو مرزا صاحب نے حج نہیں کیا اور نہ ان کے مرید کرتے ہیں.اس بات کا اظہار انہوں نے جس مجلس میں کیا تھا اس میں سرگودھا کے ایک احمدی میٹھے ہوئے تھے جنہوں نے حج کیا ہوا تھا.اتفاق سے جب وہ احمدی دوست عرفات میں کھڑے تھے تو وہ پیر صاحب بھی وہیں تھے انہیں جگہ نہیں ملی تھی.پاس ہی پتھروں کی ایک منڈیر تھی جس پر وہ احمدی دوست کھڑے تھے.اس احمدی دوست نے پیر خان کو ان پتھروں پر سہارا دے کر بٹھا دیا اور خود نیچے اُتر آئے تھے.جب یہ صاحب نے یہ کہا کہ مرزائی حج نہیں کرتے نے مرزائی وقبال ہیں اور وقبال خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہو سکتا تو اس احمدی دوست نے کہا آپ کو تو وہاں جگہ بھی ایک احمدی نے دی تھی میشه غرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دشن جھوٹ کو انتہاء تک لے جاتا ہے.لیکن اس حقیقت کو چھپا یا نہیں جاسکتا کہ فریدیہ حج کو جماعت احمد یہ بھی پوری طرح ادا نہیں کر رہی.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ باقی مسلمان بھی تو اس کی ادائیگی میں سستی کر رہے ہیں کیونکہ تمہارا یہ دعوی ہے کہ جو نفاق اور گہری باتیں مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں.ہم انہیں مٹانے آئے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں

Page 367

کہ احمدیوں کی مساجد خیر احمدیوں کی مساجد سے زیادہ آباد ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض احمد یو میں شکستی پائی جاتی ہے لیکن یہ مستی اسی رنگ میں ہے کہ وہ مسجد میں نماز ادا کرنے میں با قاعدہ نہیں.ویسے وہ نماز پڑھتے ہیں.اور شاید سو میں سے ایک احمدی ایسا نکلے جو نماز میں سست ہوں اکثر حصہ نماز پڑھ لیگا.روزہ میں بھی احمدی اچھے ہیں گو خواہ رسما ہی سہی.خیر احمدیوں میں بھی روزہ اچھا ہے.اس میں ہم ان پر الزام نہیں لگا سکتے.زکوٰۃ میں احمد سی بہت زیادہ اچھے ہیں دوسرے مسلمانوں میں اس فریقینہ کی طرف بہت کم توجہ ہے.پس چاروں ارکان عبادت میں سے روزہ میں تو ہم فضیلت کا دعوی نہیں کر سکتے ہاں تھوڑا بہت فرق ہو تو کوئی بات نہیں لیکن نماز اور زکوۃ میں احمدیوں کا پلہ یقینا بھاری ہے اور اس بار میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں نمایاں فرق ہے.لیکن حج میں بظا ہر کوئی فرق نہیں حالانکہ ہمارا فرض آدھی اصلاح کرنا نہیں بلکہ پوری اصلاح کرنا ہے جب تک روزے اور حج میں بھی احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں نمایاں فرق نظر نہ آئے.اس وقت تک ہم پوری اصلاح کا دعوی نہیں کر سکتے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احمدی روزہ میں آوارگیاں نہیں کرتے.گالی گلوچ نہیں کرتے، قرآن کریم کا درس سنتے ہیں پھر نسبتا زیادہ روزے رکھتے ہیں لیکن کوئی نمایاں فرق نہیں.یہاں بھی رپورمیں ایسی آتی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض نوجوان روز سے نہیں رکھتے.ہمارے خاندان کے بعض لوگ بھی روزے نہیں رکھتے اور خرابی صحت کا تعذر کر دیا جاتا ہے.اس طرح ڈاکٹر بھی.اس گناہ میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر اس بارہ میں ان کی مدد کرتے ہیں بال حقیقت یہی ہے.کہ احمدیوں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو روزے نہیں رکھتا حالانکہ ان کی عمر اور صحت ایسی نہیں ہوتی.کہ وہ روزے نہ رکھ سکیں.کمزوری اور چیز ہے اور ترک اور چیز ہے نہ مثلاً ایک شخص نماز پڑھتا ہے لیکن وہ با وجود طاقت کے مسجد میں نہیں جاتا تو ہم اسے کمزور کہیں گے، تارک نہیں کہیں گے کیونکہ اس نے نماز چھوڑی نہیں.اس طرح اگر کوئی شخص روزہ میں احتیاط نہیں کرتا وہ گالی گلوچ سے کام لیتا ہے یا کسی سے لڑ پڑتا ہے تو ہم اس کو کمزور کہیں اس کو روزے کا تارک نہیں کہیں گے تارک اسے کہتے ہیں جو باوجود طاقت کے روزہ رکھنے سے انکار کر دیتا ہے.آخر وہ بیماریاں جو ہمارے اندر ہیں کیا صحابہ کے اندر نہیں تھیں صحابہ میں کیوں ایسی بیماریاں نہیں تھیں.تم لوگ ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پیش کر دیتے ہو، پھر کھاتے پیتے ہو.شکار کرتے ہو ، سیر کرتے ہو، کیا صحابہ اور قسم کے انسان تھے اور تم اور قسم کے انسان ہو ؟ ان میں اور تم میں صرف یہ فرق ہے کہ تم بہانے بناتے ہو وہ بہانے نہیں بناتے تھے.اس لئے اس قسم کے ستشفاء ان میں نظر نہیں آتے.اسی طرح حج کے متعلق مختلف بہانے بنا دیئے جاتے ہیں ہمیں اس کے متعلق سونیا

Page 368

۳۶۰ چاہیے اور اپنے اپنے محلہ میں دیکھنا چاہئیے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن پر حج فرض ہے اور انہوں نے حج کیا ہے.پھر دیکھو کتنے لوگ مکان بنا رہے ہیں.ہجرت کے چار سال کے بعد ہی کئی مہاجرین نے مکان بنا رہے ہیں.پیچھے چھوڑے ہوئے سامان کے متعلق جو رپورٹیں وہ گورمنٹ کو دیتے ہیں ان میں سے کوئی دو لاکھ کی ہوتی ہے کوئی تین لاکھ کی ہوتی ہے.اگر یہ بات صحیح ہے کہ ان کی جائداد اس قدر تھی تو انہوں نے حج کیوں نہیں کیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ دلوں میں حج کی وہ نظمت نہیں رہی جو ایک بچے مسلمان کے دل میں ہونی چاہیئے اور افسوس کہ احمدیوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی.اب اس عید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دلوں میں حج کی عظمت پیدا کرو اور زیادہ سے زیادہ حج کے لئے جاؤ تا کہ حج کی غرض پوری ہو اور حج سے جو خدا تعالے کا منشاء ہے وہ پورا ہو اور پھر جو لوگ حج کے لئے جائیں ، ان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس بات پر غور کریں کہ آج با وجود اتنی تعداد میں ہونے کے مسلمان آزاد کیوں نہیں مسلمان منظم کیوں نہیں وہ اسلام کو اس کی پہلی شان پر لے جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہے وہ ان ذرائع پر غور کیوں نہیں کرتے جن سے اسلام کو پہلی شان حاصل ہو.اگر مسلمان غور کریں گے تو انہیں احمدیت کے سوا کوئی اور جگہ نظر نہیں آئے گی.احمدیت کے اصولی ہی ایسے ہیں جن پر عمل کر کے ہم اسلام کو وہی شان دلا سکتے ہیں جو اسے پہلے حاصل تھی.صرف پاکستان کی گورنمنٹ کا یہ کہہ دیا کہ احمدی نجات کے سرکاری آفیسر زاپنے اپنے محلے کے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں.درست نہیں اگر یہ بات بھی تو پان کا فرض تھا کہ وہ اس کا ثبوت دیتے کہ فلاں افسر کی وجہ سے فلاں محکمے کے اتنے لوگ احمدی ہوگئے ہیں محض مولویوں نے یہ بات کہی اور حکومت نے یہ خیال کر کے کہ وہ ان کے بزرگ ہیں اور ہمیشہ ہی سچ بولتے ہیں ، ان پر اعتبار کر لیا.حالانکہ دو جھوٹ مل کر سچ نہیں ہو جاتے وہ زیادہ خطر ناک گناہ بن جاتے ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ احمدیت وہ چیز پیش کرتی ہے کہ جب انسان معلمی با بطع ہو کہ اس پر غور کرے گا تو وہ ضرور ایمان لے آئے گا.جن عقائد اور تعلیمیوں کو احمدیت پیش کرتی ہے اگر انسان تعصب کی بیٹی اتار کر ان پر غور کرے گا تو وہ احمدی ہوجانے پر مجبور ہوگا ہی وجہ ہے کہ مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں کی باتیں نہیں سنتی چاہئیں.احمدیوں کو پتھر مارو کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مخفی بالطبع ہو کر احمدیت کی تعلیم پر غور کرے گا تو اس پر ان کی دلیل کارگر نہ ہوگی.احمدیوں کے دلائل کے مقابلہ میں ان کی دی ہوئی دلیل کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے وہ اس بات کی جرات نہیں رکھتے کہ وہ دوسروں کو احمدیوں کی باتیں سننے دیں.کبھی وہ گورمنٹ کے آگے ناک رگڑتے ہیں کبھی وہ پبلک کو احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے پر کساتے ہیں کبھی وہ یہ فتوی دیتے ہیں کہ جو شخص احمدیوں کی باتیں سنے گا وہ کافر ہو جائے گا.

Page 369

۳۶۱ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ احمدیت کی تعلیم جب بھی مسلمانوں کے سامنے آئے گی ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ احمدیت قبول کر لیں گے اس میں شبہ نہیں کہ ہزار وقت ایسے آتے ہیں جب دلیل ضائع ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی انسان پر کچھ نہ کچھ بیداری آتی ہے اور جب بھی کسی پر بیداری آتی ہے.اور اس کے دل کی کھڑکی کھلتی ہے وہ سچائی کو قبول کر لیتا ہے.آخر وہ لوگ بھی تھے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلے دن ایمان لائے جیسے حضرت ابو بشیر احمد حضرت خدیجہ حضرت علی اور حضرت زیدہ اور وہ لوگ بھی تھے جو بیسیویں سال ایمان لائے کہ جیسے حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمرو بن عائش.بے شک جو عقل خالہ میں بیسویں سال تھی وہی پہلے سال بھی تھی.لیکن فرق یہ تھا کہ پہلے سال ان کے دل کی کھڑکیاں نہیں کھلی تھیں.حضرت عمر و بن عاص میں بھی عقل تھی جو انہیں پہلے سال مسلمان بنا سکتی تھی لیکن ان کے دل کی کھڑکیاں بھی نہیں کھلی تھیں.حضرت ابو بکر کیا حضرت خدیجہ ، حضرت علی اور زید کی کھڑکیاں کھلی تھیں اس لئے وہ پہلے دن ایمان لے آئے کیلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرمایا که یکین خدا تعالے کی طرف سے مبعوث ہوا نہوں تو ان سب نے اُمَنَّا وصَدَّقنا کہا.لیکن کچھ لوگوں کی کھڑکیاں سال بعد کھلیں ، کچھ لوگوں کی کھڑکیاں دو سال بعد کھلیں ، کچھ لوگوں کی کھڑکیاں چار سال بعد کھلیں اور بعض لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے قریب ایمان لائے.پس کھڑ کی کھلنے کی بات ہے ورنہ یہ یقینی بات ہے کہ جب کسی کی کھڑ کی کھلے گی ، اوہ احمدیت قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.کیونکہ جس طرح مولویوں نے اسلام کی شکل کو بگاڑ کو پیش کیا ہے، کوئی مسلمان مختی بالطبع ہو کر اسے مان نہیں سکتا.جو اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا ہے جو تشریح قرآن کریم اور حدیث کی آپ نے پیش کی ہے وہی ہے جسے دنیا آرام اور خوشی سے مان سکتی ہے باقی تشریحیں جو مولوی کرتے ہیں وہ ڈنڈے سے تو منوائی جا سکتی ہیں عقل سے نہیں منوائی جا سکتیں.اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ خدا تعالئے مسلمانوں کو ہدایت نصیب کرے ، انہیں سعادت نصیب کرہے.خدا تعالے انہیں توفیق دے کہ جس طرح وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر حج کے لئے گئے ہیں خدا تعالے بھی انہیں اپنا بنا لے تاکہ وہ اللہ تعالے کا سچا قرب حاصل کر سکیں.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو حج کی توفیق عطا فرمائے اور محمد سول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا مولدا اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا اٹھایا ہوا گھر وہ عزت و شوکت حاصل کرے جس کا وہ مستحق ہے.مسلمان اپنے گھروں میں بھی سب سے زیادہ مومن سب سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اطاعت گزار اور آپ کے فرمانبردار ہوں اور

Page 370

۳۶۲ سب سے زیادہ آپؐ کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوں ، ان میں المیان ہو، تقویٰ ہوں، پر سیز گاری ہو.سعادت ہو.ان کی ہر بات خدا تعالے کو یاد دلانے والی ہو.ان کا ایک ایک لفظ خداتعالی کے ذکر کو لینڈ کرنے والا ہو اور اسلام کو وہ شوکت حاصل ہو جس کا وہ مستحق ہے.پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ مکہ کے رہنے والے اسلام کی صحیح خدمت کرنے والے ہوں.اللہ تعالے چاروں طرف سے ان کے لئے رزق مہیا کرے وہ کسی کے محتاج نہ ہوں.انہیں سوال کی عادت نہ ہو.اللہ تعالے ان کی ہر قسم کی احتیاج کو دور کرے ان کی کمینگی اور ذلت جاتی رہے.اللہ تعالیٰ انہیں طیب اور فراواں رزق نہم پہنچائے.وہ حج کے لئے جاننے والوں سے ہمیشہ محبت رکھنے والے ، ان کے بچے خدمت گار اور معلم ثابت ہوں.پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعا لئے ہم سب کو حج کی توفیق عطا فرمائے.ہم میں سے جن کو جج نصیب نہیں ہوا ، وہ بھی حج کریں.تقویٰ اور پر سیز گاری سے بچ کریں اور ایک دلولہ اور شوق سے کریں.جس ایمان سے وہ حج کے لئے جائیں ، اس سے ہزار گنا المیان کے ساتھ وہ واپس آئیں.اللہ تعالے محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرے اور کفر و ضلالت کو مٹا دے.باتوں کو بگاڑ کر پیش کرنے والوں اور جھوٹ بولنے والوں کو تباہ کرے اور لوگوں کو ان کے پنجہ سے نکالے نا وہ سچے منتقی اور پرہیز گار بن جائیں وہ صالح ہو جائیں ، وہ شہید ہو جائیں ، وہ صدیق ہو جائیں اور جب کبھی بھی اسلام ماموروں کا محتاج ہو وہ اس میں ظاہر ہوتے رہیں.اور مسلمانوں کے اندر ایسی نیکی پیدا ہو کہ ان کو دیکھ کر خدا تعالے سے نفرت کی بجائے خدا تعالے سے محبت پیدا ہو اور لوگ مسلمانوں کے مذہب کی طرف خود بخود کھینچے چلے آئیں.والفضل ۳ اکتوبر ساع) - كتاب الفقه على المذهب الاربعة مؤلفه عبد الرحمن الجزيري جز اول ۳ - دیس باب ۱۰ آیت ۲۵ اد سه - تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۵۲، ص۶۲ ه - تاریخ احمدیت جلد ۴ منش - - حضرت حافظ احمداللہ صاحب ناگپوری رضی الہ عنہ روفات (۱۹۳۲ء) نے حضرت مسیح موضور علیہ السلام کی طرف تسریع مبدل کیا تھا.صحیح مسلم کتاب ذکر الدجال وصفته و ما معه ہے.اس واقعہ کا تعلق حضور رضی اللہ عنہ کی ذاتی یاد داشت سے ہے.و الفصل با نور اکتوبر ۲۶۱۹۳۶

Page 371

شه - حضرت ابوبکر صدیق یعنی اللہ عنہ کے متعلق دیکھیں نوٹ مٹا ہو شه - حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں.زبان جاہلیت میں آپ کے اخلاق کو دیکھی کہ لوگ آپ کو طاہرہ کے نام سے پکارتے تھے.آپ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور بعثت نبوی کے دسویں سال رحلت فرمائی.اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چھا حضرت ابو طالب بھی فوت ہوئے تھے.اس لئے ان دو صدمات کی وجہ سے اس سال کو عام الحزن کہا جاتا ہے.وزرقانی شرح مواہب الدنیه جلد احته من ے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق نوٹ مشت پر ملاحظہ فرمائیں.لاہ - حضرت ابو اسامہ زید بن حارثہ الکلبی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور پہلے تین مرد مسلمانوں میں سے ایک تھے.جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے اسی جنگ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا.(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابه جلد ) (ص ۲۳) ۱۳ - حضرت خالد بن ولید کے متعلق نوٹ م پر گزر چکا ہے.اه - حضرت عمرو بن العاص السمی صلح حدیبیہ اور غزوہ خیبر کے درمیانی عرصہ میں ایمان لائے.پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور پھر امیر معاویہ کے عہد حکومت میں دوبارہ مصر کے گورنر رہے.سینہ میں وفات پائی رکتاب الاصابہ فی تمیز الصحابه جلد 4 صنا) شاه - تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۲ مده تا مده

Page 372

۳۹۴ ۴۲ ر فرموده ۱۲ اگست تر مقام با اوسنگ سوسائٹی کراچی) بوجہ اس کے کہ رستہ میں غالباً ایک جگہ کھانے میں خرابی تھی اور گھی خالص نہیں تھا میرا گلا بیٹھے گیا.یہاں آکر بھی ابھی گلے کی خرابی برابر چلی جارہی ہے اور وہ درست ہونے میں نہیں آتی ، شاید یہاں بھی لگھی میں خرابی اور ملاوٹ ہے.ہر حال گلے کی سوزش اور آواز کے بیٹھنے اور پھر پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے میں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہو سکتا.یوں تو پاؤں میں ایسی تکلیف نہیں جو کھڑے ہونے میں زیادہ وقت پیدا کر سکے ، صرف انگوٹھے میں تکلیف ہے اور پاؤں کے دوسر حصہ پر دباؤ ڈال کر میں کھڑا ہو سکتا ہوں لیکن اگر کوئی اور تکلیف ہو جائے تو پھر اسے بھی میں محسوس کرنے لگتا ہوں.اسی سفر میں میں نے انگوٹھے کی تکلیف کے باوجود ایک لمبا خطبہ دیا تھا جو اب تک میں درست نہیں کر سکا کیونکہ اس کا بھی طبیعت پر بوجھ معلوم ہوتا ہے.بہر حال عید الاضحیہ کا خطبہ ایک مسنون خطبہ ہے ہے اور ایک بڑے واقعہ کی یاد دلاتا ہے اس لئے کچھ نہ کچھ تو اس موقعہ کے مناسب حال کہنا ضروری ہوتا ہے.اس لئے تکلیف کے باوجود میں یہاں آگیا ہوتے قوموں میں یادگاریں تا تم رکھنے کا بڑا بھاری رواج ہے اور مختلف قومیں اپنی اپنی یادگار قائم رکھتی ہیں.اوروں کو جانے دو چوہڑوں اور چاروں تک میں یا حساس پایا جاتا ہے.کہ وہ اپنی قومی روایات کو نتائم اور زندہ رکھیں اور انہوں نے بھی اپنے لئے کوئی نہ کوئی فخر کی بات نکالی ہوئی ہوتی ہے.علم النفس کے ماہرین کا تجربہ ہے کہ انسانی جد وجہد جو اپنے نفس کی بہتری کے لئے کی جاتی ہے ، اس کو جاری رکھنے اور پوری شان کے ساتھ جاری رکھنے کے لئے جن ذرائع کو استعمال کیا جاسکتا ہے ان ذرائع میں سے زیادہ اہم اور موثر ذریعہ ٹریڈیشن (TRADITION) لیسنی روایات سابقہ ہوتی ہیں.ایک بچہ جب اپنے کام کے لئے اپنی جد و جہد کو لمبا نہیں کرسکتا تو اس کے رشتہ دار اور دوست اور عزیز و اقرباء اسے کہتے ہیں کہ ذرا یاد رکھنا تم کن کی اولاد میں سے ہو اور فورا اس کی طبیعت اصلاح کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ناکام جد وجہد کو کامیابی میں بدل دیتا ہے.قرآن کریم نے بھی اس طریق کو استعمال کیا ہے اور اس نے لوگوں کے سامنے ان کے آباد کے کارنامے رکھے نہیں بلکہ قرآن کریم نے یہ حربہ دوہرے طور پر استعمال کیا ہے.اس نے کفار کے آگے بھی ان کے آباد کے کارنامے رکھتے ہیں اور انہیں توجہ دلائی ہے کہ جب تم ایسے

Page 373

۳۶۵ سکتے ہو لیل لوگوں کی نسل میں سے ہو تو تم کیسے کامیاب ہو سکتے ہو اور اس نے مسلمانوں کے سامنے بھی ان کے پیشروؤں کے کارنامے رکھ کر بتایا ہے کہ تم ایسے شاندار پیشرو لوگوں کے قائم مقام ہو تو کس طرح ناکام ہو سکتے ہو جب مسلمان رکھوں اور تکالیف سے گھبراتے تھے تو ان کے سامنے یہ بات پیش کی جاتی تھی کہ تمہارے پیشروؤں نے تم سے زیادہ تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور جب کبھی دشواریوں نے ان کی ہمتوں کو پست کرنا چاہا تو فورا ان کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ تمہارے پیشروؤں کے سپر د جو کام تھے وہ بھی اپنی عظمت کے لحاظ سے کچھ کم نہیں تھے بلکہ بہت بڑے تھے اسی طرح اگر مسلمانوں نے کبھی قربانی کرنے میں سستی دکھائی تو انہیں بتایا گیا کہ پہلے لوگوں نے بھی بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو ہمت دلانے کے لئے یہی طریق حقیات کیا تھا.چنانچہ جب آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں ان مصائب اور آلام کی وجہ سے جو دشمن کی غیر سے پیدا کئے جارہے ہیں.گھبراہٹ کے آثار نظر آتے ہیں تو آپ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے یہ سلوک کیا گیا کہ انہیں کھڑا کر کے ان کے سروں پر آرہ رکھ دیا جاتا اور پھر انہیں چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا مگر پھر بھی وہ اُن تک نہیں کرتے تھے.جب انہوں نے ان سخت مشکلات کو برداشت کر لیا تو تم کیوں برداشت نہیں کرتے نرم ٹریڈیشن یا کسی قوم کے بزرگوں کی سابقہ روایات اس قوم کو بہت دلانے اور اسے سیدی به استه پر قائم رکھنے میں بڑی محمد ہوتی ہیں.چنا نچہ دیکھ لو ہماری ٹریڈیشن تو سورہ فاتحہ سے شروع ہو جاتی ہے.اللہ تعالے ہمیں یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِهْدِنَا الصراط المستقيم صراط الذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - اے خدا تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا وہ راستہ جو نعم علیہ لوگوں کا تھا اور جس پر چل کر وہ لوگ کامیاب ہوئے.یہ منعم علیہ گروہ ہی ہے جسے قرآن کریم نے مسلمانوں کا آباء و اجداد قرار دیا ہے دنیوی آباد دنیوی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور روحانی آباد روحانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خالصہ نسلاً بعد نسل بغیر کسی شبہ کے ابراہیم علیہ سلام م ملاہوار کا پوتا ہو لیکن ابراہیم علیہ السلام کی خوبیوں اور اس کے کمالات سے اسے کچھ نہ ملا ہو اور ہوتا ہے کہ ایک شخص نسلی لحاظ سے ابراہیم علیہ السلام سے سینکڑوں سال کا فاصلہ رکھتا ہوا ور اس کا کوئی باپ دادا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے نہ ہو لیکن سویا دو سو یا ہزار پشتوں کے باوجود پھر بھی وہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہو کیونکہ ابراہیم ہیو دیوں کا باپ نہیں تھا.ابراہیم خلیفہ اللہ تھا اور خلیفتہ اللہ ہونے کے لحاظ سے وہی اس کی نسل تھی جو خدا تعالے سے تعلق رکھتی تھی.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بار بار مسلمانوں کو برا نہیمی طریق پر چلنے کی ہدایت دیتا ہے اور ابراہیم کے طریق عبادت کو اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے.حالانکہ قرآن کریم خود کہتا ہے کہ

Page 374

نبیاء سابقین میں سے کوئی نبی بھی ایسا نہیں جو ساری دنیا کی طرف بھیجا گیا ہو.صرف رسوم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ایک ایسے وجود ہیں جو ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں..اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ مجھے خدا تعالے نے ابیض و اسود اور احمر وصفر سب کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں کوئی شخص ایسا نہیں جو میرے دائرہ ہدایت سے باہر ہوتی مگر اس کے باوجود جب اللہ تعالئے سب مسلمانوں کو ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کا حکم دیتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کی جسمانی نسل سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے خطاب کرتا ہے.اور روحانی لحاظ سے ساری دنیا کو ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے قرآ دیتا ہے اور نہ ابراہیم علیہ السلام صرف ایک قوم کی طرف آتے تھے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے بلکہ ایک قوم بھی نہیں صرف ایک قبیلہ تھا جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے.بلکہ اگر ہم با ٹیبل کے بیان کو دیکھیں تو ایک قبیلہ بھی نہیں صرف ایک تھاندان تھا.جس کی ہدایت کے لئے وہ مبعوث ہوئے.پس یہ کہنا کہ وہ شخص صرف ایک خاندان کی طرف آیا تھا تم اس کے نقش قدم پر چلو بتاتا ہے کہ تم کو اس کا خاند قرار دیا جاتا ہے اور تم بھی آئندہ ابراہیمی نسل میں سے ہو.غرض قرآن کریم نے ہمارے لئے ہمارے بزرگوں کی روایات کو زندہ دیکھا ہے اگر ہم ان روایات کو یا درکھیں تو ہمارے اخلاق اور ہماری ہمت اور ہمارے حوصلے کو بڑھانے میں یہ بات بہت کچھ مدد دے سکتی ہے یہ بات جو میں نے تمہارے سامنے بیان کی ہے یہ علم النفس کے لحاظ سے نہایت ہی اہم ہے اتنی اہم کہ انسان کے اخلاق اور اس کے کردار کو بالکل بدل دیتی ہے.میں نے مہیں یہ نکتہ بتایا ہے کہ عید آتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ابراہیم نے بڑی قربانی کی.لوگ سمجھتے ہیں اسمعیل نے اپنی جان خدا تعالے کے لئے دیدی جس وقت لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم نے بڑی قربانی کی اور جس وقت لوگ کہتے ہیں کہ آجیل نے بڑی قربانی کی تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ سامی نسل کے ایک انسان ابراہیم نے بڑی قربانی کی یا سامی نسل کے ایک انسان اسمعیل نے بڑی قربانی کی.وہ اس سے یہ نتیجہ نکال رہے ہوتے ہیں کہ وہ بھی انسان تھے اور ہم بھی انسان ہیں.اگر وہ ایسی قربانی کر سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے.مگر جو بات ہیں نے بیان کی ہے اس کے نتیجہ میں جب ایک مسلمان یہ کہتا ہے کہ ابراہیم نے بڑی قربانی کی یا اسمعیل نے بڑی قربانی کی تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ایک سامی نسل کے انسان ابراہیم نے بڑی قربانی کی یا ایاب سامی نسل کے انسان اسمعیل نے بڑی قربانی کی ملکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے دادا ابراہیمیہ نے یہ قربانی کی یا میرے دادا اسمعیل نے یہ قربانی کی.اور تم سمجھ سکتے ہو کہ میرے باپ دادا کہنے اور سامی نسل کے

Page 375

٣٩ ایک باپ اور داد ا کتنے میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.ایک شخص سمجھتا ہے کہ سامی نسل کا ایک انسان تھا جس نے یہ قربانی کی.وہ بھی انسان تھا اور میں بھی انسان ہوں.اگر وہ یہ کام کر سکتا ہے توکیں بھی یہ کام کر سکتا ہوں لیکن دوسرا شخص سمجھتا ہے کہ مجھے قرآنی اصطلاحات نے ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دیا ہے مجھے قرآنی اصطلاحات نے اسمعیل کی اولاد میں سے قرار دیا ہے.میں ابراہیم اور اسمعیل نے جو کچھ کیا سلامی نسل کے لئے نہیں کیا بلکہ میرے ایک باپ اور میرے ایک دادا نے یہ کام کیا اور میں بھی اس کا خون اپنے اندر رکھتا ہوں.جو شخص اس نقطہ نگاہ سے ابراہیم کی قربانی کو دیکھتا ہے اس کے جذبات بالکل اور ہوتے ہیں.لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات حدیثوں میں پڑھتے ہیں یہ حدیثیں شیعوں کی بھی ہیں اور سنیوں کی بھی ہیں لیکن جب شیعوں کی حدیثیں پڑھی جائیں تو ان میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ تمہارے نا نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں کہا یا ہمارے وادا علی نے یوں کہا.اب جس شان کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو نانا اور علی کو داد ا کتنے والے راوی کا قول نظر آتا ہے اسی شان کے ساتھ کسی دوسرے راوی کا قول کہاں نظر آسکتا ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ نہیں درود میں بھی بنی تعلیم دی گئی ہے چنانچہ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وعلى ال محمد میں یہی بتایا گیا ہے کہ ہر مسلمان کو اپنی وسعت ایسی بدل لینی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے سمجھنے لگے جب ہم دعا کرتے ہیں کہ النبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر فضل نازل کہ تو ظاہر ہے کہ اس جگہ آئی سے مراد صرف نسل نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ شخص ہوتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ غلامی میں شامل ہوتا ہے.آخر انسان کا کوئی فقرہ اس کے نام طریق کار اور معمول سے مختلف نہیں ہو سکتا.یا ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی ایسی دعا نظر آنی چاہیئے جس میں آپ نے عام مسلمانوں کو باہر رکھا ہو اور صرف اپنی نسل کو شامل کیا ہو اور یا پھر ہی سمجھنا چاہیے کہ اس جگہ آل سے صرف جسمانی آل مراد نہیں ملیکہ روحانی آل مراد ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے کوئی الا دعا نہیں کی تو ماننا پڑے گا کہ اللهم صل عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد سار مسلمانوں کو شامل کیا گیا ہے.اور آل سے صرف جسمانی آل مراد نہیں بلکہ روحانی آلی مراد ہے.اور روحانی آل جسمانی آل سے کم نہیں ہوتی.خود رسول کریم صلے اللہ منیہ وآلہ وسلم کے نہ مان میں عملاً اس کا تجربہ ہو چکا ہے.جب صلح حدیبیہ کا موقعہ آیا تو عرب لوگوں نے یہ دیکھکر کہ الہ مسلمانوں کو عمرہ سے روکیں گے تو سارے عرب میں تمہاری بدنامی ہوگی اور دوسری طرف اگر تم نے ان کو انا

Page 376

۲۶۸ آنے دیا تو لوگ سمجھیں گے کہمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے زور سے داخل ہوئے ہیں انہوں نے ایک درمیانی طریق نکالا کہ ہم آپس میں مسلح کر لیں اور اگلے سال مسلمانوں کو طواف کعبہ کے لئے آنے کی اجازت دیں.چنانچہ انہوں نے عرب کا ایک بڑا سردار صلح کے لئے بھیجوایا.وہ اتنا بڑا سردار تھا کہ سارا عرب اس کی عزت کرتا تھا اور وہ اتنا مخیر تھا کہ نگہ کا کوئی فرد ایسنائیں تھا جو اس کے احسان کے نیچے نہ ہو.مکہ والے جانتے تھے کہ جب یہ سردار گیا تو مسلمان جو حد سوا ابد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ان کی آنکھیں اس کے سامنے نیچی ہو جائیں گی چنانچہ وہ آیا اور اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفت گو شروع کی.بات کرتے وقت جیسے گاؤں کے لوگوں اور زمینداروں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کی داڑھی کو اپنا ہاتھ لگاتے ہیں اس نے بھی متکبرانہ لہجہ میں کہا کہ جانتے ہو میری کیا حیثیت ہے.میں سارے عرب کا سردار ہوں تم کچھ تو میرا لحاظ کرو.اور دیکھو میں تمہاری داڑھی کو ہاتھ لگاتا ہوں کہ میری عزت کا خیال کہ وہ یہ کہ کر اس نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داڑھی کی طرف بڑھا یا.اس پر ایک صحابی نے زور سے اپنی تلوار کا کندہ اس کے ہاتھ پہ مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک داڑھی کو مت لگا.اس نے اوپر کی طرف دیکھا کہ شخص کون ہے اور اسے پہچان کر کہنے لگا کہ تم فلاں ہو.کیا تم میں بھی جرات ہے کہ تم میرے ہاتھ کو اپنی تلوار کے کندہ سے بناؤ.کیا تمہیں میرے فلاں فلاں احسانات یاد نہیں رہے؟ چونکہ اس صحابی کا خاندان اس سردار کا ممنون احسان تھا اس لئے جب اس نے یہ فقرہ سنا تو پیچھے ہٹ گیا.وہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوا اور اس نے کہا میں بزرگ ہوں.بڑی عمر گزار چکا ہوں.تم زمانہ کے حالات کو لکھو.یہ لوگ جن میں سے کوئی کسی جگہ کا آدمی ہے اور کوئی کسی جگہ کا آدمی.یہ تمہارے کیا کام آسکتے ہیں.آخر اپنے خاندان کے آدمی اور اپنے بھائی ہی کام آیا کرتے ہیں.تم ان کے لئے اپنے بھائیوں سے نہ لڑو.اور دیکھو میں تمہیں یہ بات کہتا ہوں اور پھر اس نے آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگا نا چاہا اس پر ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس نے اپنی تلوار کا کندہ اس کے ہاتھ پہ مارا اور کہا.اپنے ناپاک ہاتھ پیچھے بیٹا.اس نے پھر اوپر کی طرف آنکھ اٹھائی اور پہچان کر کہنے لگا کیا تم میں جرات ہے کہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرو.کیا تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں اور میرے تم پر کتنے احسانات ہیں ؟ اس پر وہ بھی شرمندہ ہو کہ پیچھے بہٹ گیا.شرین وہ بار بار زور دنیا کے اپنے خاندان کے لوگوں سے نہیں لڑنا چاہیئے.ان کے تعلقات دوسروں کے قائم مقام نہیں ہوتے یہ لوگ منہ سے تو باتیں کرتے ہیں مگر اتنی محبت نہیں رکھ سکتے جتنی محبت رشتہ دار رکھا کرتے ہیں.

Page 377

749 اور اس وقت ایک ایک صحابی کے دل میں جوش آتا تھا کہ ہم اسے پیچھے ہٹائیں مگر وہ سب کے سب مجبور تھے کیونکران کے دلوں میں یہ احساس تھا کہ اس شخص کے ہم پر احسانات نہیں.تب صحابہ کہتے ہیں اس وقت ہما رہے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا اور تم نے کیا خدا اب کسی ایسے نیندے کو آگے لائے جس پر اس کا احسان ہو تب ایک شخص آگے بڑھا اور جب پھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے کیا تو اس نے ایک سخت لفظ استعمال کر کے جو میں خطبہ میں دو برا نہیں سکتا مگر بخاری میں موجود ہے.زور سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیکر مجھے بٹا دیا اور کہا کہ اپنا نا پاک ہاتھ پیچھے ہٹا.اس نے آنکھیں اُٹھائیں یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کون شخص ہے پھر اس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں اور کہا کہ میں تجھے کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ میرا تجھ پر کوئی احسان نہیں ہے به نیا شخص ابو یکرہ تھا.گویا سارے صحابہ میں سے صرف ایک ابوبکر کہی تھے جن پر اس کا کوئی احسان نہیں تھا.انہوں نے جب دیکھا کہ سارے اس کے احسانوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے وہ کچھ نہیں کر سکتے تو انہوں نے سمجھا کہ اب میرا کام ہے کہ میں آگے آؤں تو رشتہ داروں کی محبت اور ان کے فوائد بتبانے کا واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں موجود ہے.مگر پھر وہی لوگ جن کے متعلق پنجابی محاورہ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہ ون دن کی لکڑی ہے.مختلف جنگوں کی لکڑی ہے ، انہوں نے اپنے اخلاص اور فدائیت کا وہ نمونہ دکھایا جس کی نظیر دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی حقیقت یہی ہے کہ وہ ون ون کی کینڈی تھی اور ون دن کی لکڑی کار آمد نہیں ہوتی.اگر تم نے اچھا فرنیچر تیار کرنا ہوا اورمختلف قسم کی لکڑیاں تمہارے پاس ہوں.کوئی دو سال کی ہو.کوئی پانچ سال کی ہو کوئی دس سال کی ہو، کوئی سوسال کی ہوا.پھر کوئی شیشم کی ہوں کوئی کیکر کی ہونے کوئی گیلی ہو اور کوئی سوکھی تو کبھی تم اس سے اچھا فرنیچر تیار نہیں کر سکتے.اچھے فرنیچر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایک جگہ اور نہ ایک نمر اور ایک سی قسم کی لکڑدی ہو.اگر مختلف جنگلوں سے مختلف قسم کی لکڑی کاٹ کر لائی جائے تو جب ہے فرنیچر نہیں بن سکتا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت سے اور آپ کی دعاؤں اور روحانیت کی برکت سے وہی جو مختلف جنگلوں کی کاٹی ہوئی کھو دیاں تھیں ان میں اتنا استحاد پیدا ہوگیا کہ کوئی رشتہ دار اپنی محبت کا اس قسم کا مونہ نہیں دیکھا تھا جب قسم کا نمو انہوں نے دکھایا.اسلام کی سخت ترین جنگوں میں سے ایک غزوہ احزابے ہے.عام طور پر مسلمان چونکہ تا ریخ کا مطالعہ نہیں کرتے اس لئے وہ بدر اور اُحد کی تفصیلات سے تو واقف ہیں لیکن احزاب سے نہیں.حالانکہ قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے.کیونکہ احزاب کی جنگ ہی ہے جس میں دشمن نے متحدہ طور پر مسلمانوں کا مقابلہ کیا.اور ایسی صورت میں کیا کہ ظاہری حالات

Page 378

کے محافظ.سلمانوں کا ان کے مقابلہ میں ٹھونا بالکل ناممکن نظر آ میں صرف بارہ سو بھی جس میں - سلمان ورتوں کی حفاظ مسلمان اور زیادہ کے مقابلے ہیں ئے گئے تھے لیا اور دین کی کم سے جے چوبیس ہزار تک بھی بیان کیا جاتا ہے یا پھر یہ ساقی سے عرب کا مقابلہ تھا منہ کے تعارفی ہودی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے.مغرب کے ایک ایک قبیلہ کے تھی.اور پھر ان کے آپس میں خونی رشتے بھی تھے.اور وہ سب مل کر اپنی کے لئے تیار ر اور آمادہ تھے.دھر مسلمانوں کی حالت بھی کہ ان کے اپنے پہلو میں ہوئی.ان کا معاہدہ تھا مگر بھی خطرہ نفقہ ر بھی خطرہ تھا کہ وہ کسی وقت کوئی شرارت نہ کر دیں.سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد شہر کی اس جہت میں جو بے حفاظت تھی اور جس طرف سے دستے کے جملہ کا امکان تھا.قریباً ایک میل لمبی خندق کھدوا دی تھی مگر لبی با زیاده بان کم تھا اور آدمی کے ہے کو کیا کر سکتا د بھی.اور مسلمانوں کی اس کی حفاظت کرنا بڑا مشکل یہ ہے کہ مسلمانوں کو وسکا یا حیا.حملہ کرتا تھا ان بانی فوج انکی جگہ آجاتی.فرشین آرام کرتے ہیں اڑھائی ہزارم دایس جیسے " بز ایران کی جگہ آیا ہے.ليكن: ڈی منتقی اور نے اپنا ہ بیسیوں واقعات ایسے ہوئے کہ دشمن کے آدمی گھر ں کے علاقہ میں آگئے مگر یا وتبول IAM.کے شدید و تمنوا رسید دین ہونے کے وہ پیڑا ادمین جہاں کوئی باتے تی ہے یار سے بھی وہ بیان کرنے میں بھیجو نامید احزاب کے واقعاء کرتا ہے.انجیر میر کا مات

Page 379

کہ اتنے دنوں تک مسلمانوں پر حملہ کیا گیا اور متواتر اور پوری شدت کے ساتھ کیا گیا.یہ حملہ جو نہیں.چوبیس گھنٹے مسلسل کیا گیا اور سلمانیوں کو آرام کرنے کا کوئی موقع نہیں ملا.پھر اگر خندق زیادہ چوڑی ہوتی تب بھی ہم سمجھ سکتے تھے کہ مسلمان مضمئن تھے کہ دشمن ہم تک نہیں پہنچ سکتا مگر واقعات بتاتے ہیں کہ متعدد بار دیشن کے آدمی مسلمانوں کے علاقہ میں آتے اور پھر واپس بھاگنے پر مجبور ہوگئے ہ اور ر وہ سوال اٹھاتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.اتنی تھوڑی تعداد کے باوجود اور پیشین کے اتنے متفقہ حملے کے باوجود جب کہ مسلمانوں کو آرام کرنے کا بھی کوئی موقعہ نہیں سکتا تھا.ایسا کیوں ہوا کہ دشمن جیب بھی خندق ہوجاتا.وہ اس پربحث کر یار کر کے آیا وہ واپس بھا گئے.ور ہوجاتا.وہ اس پہ حرکت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مین کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ محمد رسول اللہ سے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ران کی نگاہوں میں اتنا عزیز تھا اور اتنا قیمتی اور مقدس تھا کہ جب دشمن قریب پہنچتا تو مسلما برای نیسان نہیں رہتے تھے بلکہ وہ کچھ اور ہی چیزیں جاتے تھے، وہ پہاڑوں کو دھکیل کر پر سے پھینک دیئے.پر تیار ہو جاتے تھے ، ہمندروں کو جو کر گزر جانے پر آمادہ ہو جاتے تھے اور اس وقت آپ کی محبت میں اپنے وجود کو بھول جاتے تھے.اپنی انسانی کمزوریوں کو بھول جاتے تھے اور جینونوں کی طرح آگے ڑھو کہ ہر سامنے کی چیز کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتے تھے بے چنانچہ جب کبھی دشمن کا میشنکر کوہ کر آگئے آیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنا چاہا تو وہ دیوانہ کیا ہے سے اس کے مقابلے کے لئے بھی کھڑے ہو گئے.اور انہوں نے کہ سامان احمد کم تعداد کے باوجود زیادہ سنائو سامان اور زیادہ تعداد رکھنے والوں کو ایسا بارا کہ ان کے لئے ہوا کے بھاگنے کے اور کوئی بھاری ه ر باشه نون فتح بے شک آئی مگر کئی ہفتوں کے بعد.درمیانی عرصہ جو ایک نہایت ہی کمشن زمانہ تھا.اس غیر معمولی ایشان اور قربانی اور بے مثال اخلاص اور فدائیت کی وجہ سے گذرا جس کا مظاہر جوب کے مختلف حصوں کے مسلمانوں نے کیا جن کی رسول کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی رشتہ داریا نہیں تھیں مگر دینی لحاظ سے ان کا آپ کے ساتھ ایسا تعلق تھا کہ انہوں نے آپ کے لئے اتنی بڑی قربانیاں کیں کہ قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی باپ اپنے بیٹے کے لئے یا کوئی بیٹا بھی اپنے باپ کے لئے ایسی قربانی نہیں کرسکتا.تو دینی رشته دنیوی رشتوں سے بہت زیادہ اہم ہوتا ہے یہی وہ رشتہ ہے جو اپنی شدت کے لحاظ سے اور اپنی اہمیت اور تقدیس کی وجہ سے چھوٹی تو رو کو آگے بڑھاتا اور انہیں دنیا پر غالب کر دیا ہے.ان کے اندر اس تعلق کی وجہ سے قربانی اور ایشیار کا ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اسے دبا نہیں سکتی.بدر کی جنگ میں تھوڑے سے سلمان تھے اور پھرا نہیں لڑائی کا کسی قسم کا تجربہ حاصل نہیں تھا.جب کفار کا تشکر مسلمانوں

Page 380

کے قریب پہنچ گیا تو کفار نے یہ جائزہ لینے کے لئے کہ مسلمانوں کی کتنی تعداد ہے اپنے ایک آدمی کو تحقیقات کے لئے بھجوایا.اس نے ان اونٹوں سے جو ذبح کئے جارہے تھے مسلمانوں کی تعد دکھا اندازہ لگا لیا اور انہیں جا کر کہا کہ میرے نزدیک مسلمانوں کی تعداد تین سو ساڑھے تین سو کے درمیان ہے.اس پر انہوں نے سمجھا کہ اتنی تھوڑی تعداد کا تو ہم بڑی آسانی کے ساتھ مت ابلہ کر سکیں گے مگر خوش شخص تحقیقات کے لئے گیا تھا، اس نے کہا کہ واقعہ تو یہی ہے جو میں نے تھیں بتا دیا ہے کہ ان کی تعداد زیادہ نہیں بس تین سو اور ساڑھے تین سو کے درمیان ہے لیکن میری نصیحت نہیں ہے کہ آپ لوگ ان سے لڑنے کا ارادہ نہ کریں.کیونکہ وہ ہیں تو تھوڑے لیکن سچی بات ہ ہے کہ میں جب ان کو دیکھنے کے لئے گیا تو میں نے اونٹوں اور گھو ڑوں پہ آدمی سوار نہیں دیکھے بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں کہ یعنی ان میں سے شخص اس نیت اور ارادہ سے اپنے گھر سے نکلا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں اور باتیں مرجائیگا مگر وہ اپس نہیں جائیگا.ایسے لوگوں کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں.یہ اخلاص اور خدا نیت کی روح ان میں کس طرح پیدا ہوتی ہے اسی دینی تعلیم کی وجہ سے جو اُن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا.پھر یہ تو دور کی بات ہے تیرہ سو سال گزر گئے اور مسلمان نسلاً بعد نسل کمزور ہوتے چلے گئے.دین کی محبت ان کے دلوں سے کم ہو گئی ، اسلامی احکام پر عمل جاتا رہا، غفلت اور سستی ان پر چھا گئی مگر اس گئے گزرے زمانہ میں نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں ایسی مرکوز نظر آتی ہے کہ اسے دیکھ کر مردہ امیان بھی زندہ ہو جاتا ہے.میں چھوٹا تھا کہ قادیان میں ایک عورت آئی وہ میراثی خاندان میں سے تھی.وہ اپنے ساتھ اپنے لڑکے کو بھی لائی ، اسے سل کا مرمن تھا.اس نے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کی تعریف سنی تو وہ آپ کے پاس اپنے لڑکے کو علاج کے لئے لے آئی.مگر جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ملی تو اس نے کہا کہ اصل میں میں اس لئے نہیں آئی کہ اپنے بیٹے کا علاج کرواؤں بلکہ دراصل میں اس لئے آئی ہوں کہ میرا بیٹا عیسائی ہو گیا ہے.میں نے سُنا تھا کہ آپ نے عیسائیوں کا بڑا نہ کیا ہے نہیں چاہتی ہوں کہ آپ اس لڑکے کو سمجھائیں تا کہ کسی طرح مسلمان ہو جائے.اس نے بتایا کہ ہمار ا قبیلہ اپنے اخلاق کے لحاظ سے بہت گھٹیا قسم کا ہے ہمارا پیشہ گانا بجانا ہے.میں خود بھی شادیوں پر کاتی بجاتی ہوں لیکن میں اس امر کو برداشت نہیں کر سکتی کہ میرا بیٹا عیسائی ہو کر مرے میں آپ کے پاس اسے اس لئے لائی ہوں کہ وہ کسی طرح مسلمان ہو جائے.میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا مگر وہ نظارہ ایسا تھا جسے یکیں کبھی بھول نہیں سکتا.میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے سامنے بیٹھی ہے اس نے ہاتھ

Page 381

۳۷۳ جوڑے ہوتے ہیں اور زار و قطار رو رہی ہے.اور کہہ یہی ہے کہ حضور میرا ایک ہی بیٹیا ہے میں نہیں چاہتی کہ یہ اچھا ہو جائے میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ یہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے اور پھر خواہ اسی وقت مرجانے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تیرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کے دلوں میں اپنی پائی جاتی ہے کہ ایک ایسی عورت جو نہایت ادنی اور ڈلیل خاندان میں سے تھی وہ بھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کا لڑکا کلمہ پڑھے بغیر اس دنیا سے گزر جائے مگر وہ لڑکا بھی بڑا پنچا عیسائی تھا.اسے تبلیغ شروع ہوئی تو اس نے ارادہ کیا کہ قادیان سے بھاگ جائے.چنانچہ ایک رات کو وہ اٹھا اور ہماری کی حالت میں ہی بٹالہ کی طرف بھاگ گیا.کچھ دیر بعد اس کی ماں کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ چار پائی خالی پڑی ہے.وہ سمجھ گئی کہ میرا لڑکا بھاگ گیا ہے.چنانچہ وہ بھی اس کے پیچھے بھائی اور پانچ سات میل پر جا کر اس نے اپنے بیٹے کو پکڑا اور پھر اسے قادیان واپس لائی.اور اس طرح گڑ گڑا گڑ گڑا کر وہ حضرت سیه موعود علیہ السلام سے کہنے لگی کہ حضور و نا کریں یا یک گڑ دفعہ کلمہ پڑھ یہ پھر بے شک ، جائے.مجھے اس کی پرواہ نہیں.آخر خدا نے اس کی دعائن بلی اور وہ لوڈ کا مسلمان ہو گیا اور پھر چند دنوں کے بعد مر گیا.اس کی ماں نے اس صدمہ کو بڑ ہے.مبر سے برداشت کیا.اور وہ خوش تھی کہ میرا لڑکا عیسائی ہو کر نہیں مرا بلکہ کلمہ پڑھ کر مرا ہے.تو رشتوں کی محبت بے شاب جاہل لوگوں اور نادان لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے لیکن انسانیت کا مقام اس محبت سے انسان کو اونچا لے جاتا ہے.جتنا نیچے چلے جائے محبت کا ذریعہ مادیت ہوتی ہے لیکن جتنا اوپر چلے جاؤ محبت کا ذریعہ روحانیت ہوتی ہے.جتنا جتنا انسان جانوروں میں شامل ہو گا.اتنی ہی اس میں مادیت والی محبت اور بھائیوں اور رشتہ داروں کی محبت زیادہ ہوگی اور جتنا جتنا اونچا ہو گا.اتنی ہی اس کی محبت بھی بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے گی.پہلے وہ اپنی اولاد سے زیادہ محبت رکھے گا.پھر اور اونچا ہو گا تو اپنے خاندان سے محبت رکھے گا.اور اونچا ہو گا تو اپنے وطن سے محبت کرنے لگ جائے گا.اور اونچا ہوگا تو اپنی قوم سے محبت کرنے لگ جائے گا.اور اونچا ہو گا تو انسانیت سے محبت کرنے لگ جائیگا.اور اونچا ہو گا تو دین الہی سے محبت کرنے لگ جائیگا.اور اونچا ہو گا تو فرشتوں سے تعلق رکھنے لگ جائے گا.اور اونچا ہو گا، تو اس کا خدا سے تعلق ہو جائے گا.مگر خدائی تعلق کا پہلا نہ یہ خدا تعالے کے نبیوں سے تعلق پیدا کرنا ہے جس طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ تم چھلانگ النگا کر چھت پر چڑھ سکو اسی طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالے کی طرف رہنمائی کرنے والے وجودوں کو چھوڑ کر تم خدا تعالے سے حلق پیدا کر سکو مگر جس طرح کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے

Page 382

نوده جب یا دیکھتا ہے کہ کسی پری شیر یا ڈاکو نے حملہ کر دیا ہے تو وہ میسی گرہ کریں.اسی طرح کبھی کبھار ایسا بھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعا سے جب دیکھتا ہے کہ کوئی شخص ن وہ ایسے ماحول میں ہے کہ اسے انبیاء کی موسی خانی معیشتر س کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے مگر انیسا بت شاد ہوتا ہے اور شادی کیسی انون کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی.حامد قانون نہیں ہے کہ جو لوگ خدا نما و سجود ہواتھے ہیں انھی کے ذریعہ انسان کو دوحانی شرقی ملتی ہے.اور اس ترقی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان دنیوی محبتوں کو سرد کر کے ، ان کی محبور ، ان کی محبت کو اپنے اوپر غالب کر پر غائب کرے جب وہ ان کی محبت کو غالب کر لیتا سے تو ان کا نمونہ اختیار کرنا اس.سان ہو جاتا ہے.اس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی برے جس کی تین اقتدار کر رہا ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے.ہے اور اس کا خون میری رگوں رہا صل و على ال محمد میں سکھایا گیا ہے.اور پھر آگے ابراہیم اور آل ابراہیم کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ جو شخص محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں شامل ہو جاتا ہے.وہ ابراہیم کی اولاد میں بھی شامل ہو جاتا ہے.پھر جو کام اسمعیل نے کیا وہی کام وہ خود بھی کرنے لگ جاتا ہے.اس لئے نہیں کہ اگر سمعیل نے یہ قربانی د پیش کر دی تھی تو میں کیوں ملکہ اس لئے کہ وسی خون جو معیل کی رگوں میں دوڑ تھا میری رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے.اور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹیا ہو کر ابراہیم بھی بیتا ہوں اور ابراہیم کا بیٹا ہو کہ اسمعیل" کے کاموں میں اس کا شریک ہوں نہیں جو کام اس نے کیا وہ میں بھی کردن گا.جو شخص اس نقطہ نگاہ سے اسلام کو دیکھتا ہے اس کے لئے عید الا ضحیہ بالکل اور چیز ہو جاتی ہے کسی نے کہا ہے کہ دوسروں کی باتیں شفا نصیحت حاصل کرنا عقلمند انسان کا کام ہے.یہ بھی درست ہے مگر اپنے ہی خاندان کے افراد کی قربانی اور ان کا نمونہ جو تغیر انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے وہ کسی دوسرے کی قربانی اور اس کا نمونہ تغیر میلا نہیں کر سکتا.پس عید الا صفحہ کے آنے پر ہر سلمان یہ سبق تازہ کرتا ہے کہ اس میں کسی غیر کا ذکر نہیں بلکہ میرے بھائی اسمعیل کی قربانی کا ذکر ہے.اگر اس نے ایسا نمونہ دکھایا تھا تو میں کیوں نہیں و سکتا.اگر ابراہیم کا ایک بیٹا ایسی قربانی کر سکتا ہے تو اس کا دوسرا بیا ایسی قربانی کیوں نہیں کر سکتا.کیا حقیقت تو یہ ہے کہ چونکہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آل میں سے ہیں جو ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے.اس لئے ایک سچا مسلمان تو اس موقع پر یہ کھے گا کہ اگر حضرت ابراہیمیہ نے ہندا کی راہ میں اپنا ایک بیٹا قربان کیا تھا تو میں دین کی راہ میں اپنے

Page 383

دو بیٹے پیش کروں گا.کیونکہ میں ابراہیم ہی کی نہیں محمد عرض نیر سلمان اگر حقیقی معیا یہ روحانیت کو حاصیل کرنا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ لسلہ انبیاء جاری رہا، اس کا مجھنے کی عادت ڈالے.یا ں کا اخلاص بالکل اور رنگ اختیا کر لے گا.اس کی روحانیت ترقی کر جائے گی.اس کی قربانی بڑھ جائے گی.او راس کی روح ایک نیا جامہ پہن لینگی.اور جو چیز اسے پہلے دوسروں کے باپ میں اسے تھی.سے اپنے خاندان میں نظر آنے لگے گی تب وہ خطرناک وادیاں جن میں سے گذرتے بلکہ داخل ہوتے.بھی لوگ ڈرتے اور گھبراتے ہیں ان میں سے گذرنا اس کے لئے آسان ہو جائے گا اور وہ خدا تعا کے قرب میں تیزی سے ترقی کرنے لگے گا.پس اس عید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ روح اپنے اندر پیدا کرو که به دو سروں کے باپ کے قصے نہیں بلکہ تمہارے اپنے بالوں اور اپنے خاندان کے واقعات میں جو تمہارے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کو عیدالا صحیہ کے ذریعہ تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے.د المصلح کراچی ۱۶ اکتوریست و سه ر سنن ابی داود کتاب صلوة العيدين باب الخطبة يوم العيد المائة ۵ : ۱۰۵ - الانعام نعام ۸۸۱۶ الاعراف : ے.صحیح بخاری کتاب المناقب (نمبیان (الکعبه) باب مالفی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحاب من المشركين بمكة.ه - الفاتحه C-4:1 البقره ۲: ۱۳۶ - آل عمران ۳ : ۹۶ - النساء ۴ : ۱۲۶ ه - الاعران ۱۷ ۱۹۰ ، سیا ۲۹:۳۴ شه - تفسیر در منشور جلده من ۲۳ شه - صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد والمصالحة من اہل الحرب - تاریخ کامل ابن اثیر اند تاریخ طبری ، زرقانی شرح المواہب الله نیه 104 2 - غزوہ احزاب یا خندق کے متعلق نوٹ منٹ پر ملاحظہ فرمائیں.

Page 384

۳۷۶ - زرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد ۲ من زرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد ۲ مشا - ے.زرقانی شرح المواہب اللدنیہ جلد ۲ مش A الے یہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفه على مد شبلی نعمانی جلد اول مشن 101 شاه - تاریخ کامل ابن اثیر یا ، زرقانی شرح المواہب اللدنيه الا ہے.تاریخ طبری جلد ۲ من wi لیے یہ تبصرہ صرف جنگ احد کے ضمن میں کیا گیا ہے.( WILLIAM MUIRS LIFE OF HANDHET V3.12 116 ه در قانی شرح المواہب اللدنيه جبلد به "ص" 12 - عمير بن و سبب الجمعی ے.تاریخ طبری جلد ۲ ۴۳۵ (173,.اس سارے واقعہ کے راوی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہی میں معلوم ہوتا ہے سائلہ مذکورہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں جب یہ درخواست پیش کی تو اس وقت حضور رضی اللہ نہ موجو د تھے اس لئے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے.

Page 385

موده در اگست شهدا مقامه انه آبا د رسند عید میں کی بات کا سبق دیتی ہے کہ کس طرح قوربانیوں سے قومیں بنتی ہیں اورکس خسرت عیاشیوں سے قومیں مرتی ہیں جس طرح موت ایک ایسی چیز ہے جو ہر انسان پہ آتی ہے مگر پھر بھی دیک اسے یاد نہیں رکھتے.اسی طرح قومی تباھی بھی ایسی چیز ہے جو ہر قوم پر آتی ہے مگر پھر بھی کوئی قوم اسے یاد نہیں رکھتی یہ ایسا سبکتی ہے جسے آ جنگ کبھی کسی نے یاد نہیں رکھا.اس کی مثال بالکل یسی ہی ہے جیسے جھیڑوں میں سے جب اگلی بھیڑ کوئی کام کرنے تو دوسری بھیڑ بھی وہی کام کرنے لگتی ہے جو میلی نے کیا ہوتا ہے.اگر آگے گڑھا ہو اور پیلی بھیڑ اس میں گر جائے تو دوسری بھی اس میں گرتی ہے اور تمیری بھی اس میں گرتی ہے.یہانتک کہ چرواہا انہیں بٹائے تو وہ ہٹتی ہیں ور نہ اس میں گرتی چلی جاتی ہیں.تعلم حیوانات کے ماہرین نے ایک دفعہ تجربہ کرکے دیکھا ہے کہ بھیڑ توں کے گھتے کے آگے دو آدمی ایک رہتی پکڑ کر میٹھے گئے اور گیارہ اپنے انہوں نے رستی کو اونچا رکھا جب بھیڑی وہاں پہنچیں تو پہلے پہلی بھیڑ کو دہی پھر دوسری کو دی اور اس کے بعد میری کو دی.دو تین بھیڑوں کے کو دینے کے بعد انہوں نے دستی بٹالی مگر ہزار بھیڑ اسی طرح کو دتی چلی گئی.تاب بھی کوئی بھیٹر وہاں پہنچتی تو وہ کود کر اس جگہ سے گزرتی ، گویا اپنے خیال کے نتیجہ میں وہ نہیں اندھی ہو جاتی ہیں کہ دکھیتی نہیں کہ واقعہ کیا ہے.یہی حال قوموں کا نظر آتا ہے جب کوئی قوم غریب ہوتی ہے مانا تو ان ہوتی ہے کمزور ہوتی ہے اور اس کے افراد دولت مند قوموں کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے محلات بنائے ہوئے ہیں، بڑے بڑے تکلفات کے سامان ان میں موجود ہیں آٹھ آٹھ دس دس نوکر ایک ایک شخص کے ہیں ، انہوں نے وردیاں پہنی ہوئی ہیں پائیٹیاں باندھی ہوئی ہیں اور جب وہ گھر کے دروازہ پر پہنچتا ہے تو وہ اسے سلام کر کے بڑی عزت سے بٹھاتے اور اس کی خدمت کے لئے آگے پیچھے دوڑتے ہیں تو بجائے یہ خیال کرنے کے کہ یہ قوم تب ہی کی طرف جا رہی ہے.دیکھنے والا دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ اگر مجھے دولت ملی تو میں بھی اسی طرح کر دونگا.وہ دیکھتا نہیں کہ یہ اس قوم کی موت کی علامت ہے جب قومیں مرنے لگتی ہیں تو اسی طرح کرتی ہیں اور اگر وہ اس طرح نہ کریں تو مریں کیوں.مگر بجائے اس کے کہ وہ تو بہ کرے اور کہے کہ یہ مرتے لگے ہیں اور خدا کا شکر کرے کہ اب ان کی گوبھی پر بیٹھنے کے لئے میری باری آئی ہے وہ انہی کی نقل کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے اور اس طرح خود بھی تباہ ہوجاتا ہے پہلے انگر یہ آئے تو د اکسٹر کے

Page 386

تک کی تنخواہ ہزار روپیہ ہوئی مگر اب ڈپٹی کمشتہر کی تنخواہ تین ہزار روپیہ ہوگئی تھی.اسی طرح ھستان سے جو سیاہی آئے ان کو صرف تین رو ایسے مفتہ کے ملتے تھے یعنی بارہ روپے ماہوار ہے ہمارے مبند دستانی سپاہی کی تنخواہ بعد میں اس سے زیادہ ہو گئی تھی یعنی آج سے پندرہ سولہ سال پہلے اسے اٹھارہ روپے ماہوار ملتے تھے.مگر وہ چھ ہزار میل سے اپنا وطن چھوڑ کہ آتا اور سے تین روپے ایک ہفتہ کے ملتے اور وہ بھی کشت نہیں بلکہ ایک روپیہ مفتی وار ملتا نہ اور دور دیے سرکاری خزانہ میں جمع رکھے جاتے اور کیا جاتا کہ یہ دو پہیہ اس لئے جمع کیا جا رہا ہے.تم واپس جاؤ تو اپنے بیوی بچوں کے لئے لے جاؤ.مگر اس وقت ساری دنیا میں انگریز ہلے جاتے تھے.ان میں دلیری بھی تھی ، طاقت بھی بھی ہمت بھی تھی.مگر جب دولت آئی اور ترقہ برا ہوا تو ان کی تنخواہیں پڑھنی شروع ہوئیں اور یا تو پہلے انگریز گھوڑے پر سوار ہو کر سان اسان اون دھوپ میں پھرتا رہتا تھا اور اس کے ماتحت ایسے کہتے تھے کہ جناب کچھ آرام بھی کر لیجئے اور یا پھر ڈاک بنگلے بن گئے جن میں وہ اترا کرتے.اب سارا دین سیکھے چل رہے ہیں.برفیں آرہی ہیں.شیرا ہیں پی جارہی ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ہیبت نہ رہی.اور مہندوستانیوں نے انگریزوں کو پکڑ کر نکال دیا یہ گاندھی جی نے اعلان کیا تھا کہ اگر تم ساری ہندوستانی اکٹھے ہو جاؤ تو تم ان لوگوں کو میرا یہاں سے نکال سکتے ہو اور میمندر سے پرے دھکیل سکتے ہو.لوگوں نے سمجھا کہ گاندھی جی کوئی معجزہ دکھانے لگے ہیں.حالانکا حقیقیت یہ تھی گاندھی جی اپنے ملک کے لوگوں کے متعلق تو سمجھتے ہی تھے.کہ وہ فاضل اور شکست میں لیکن وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ انگریز مر چکے ہیں اور اب انکی لاش کو پھینکنا کوئی مشکل کام نہیں.ستم کی لاش بھی اسی طرح اٹھا کر پھینکی جاسکتی ہے جس طرح ایک کتے کی لاش بے گانہ معنی جی کی ذہانت اور ہوشیاری یہ تھی کہ وہ یہ مجھ چکے تھے کہ انگریز اب مر چکا ہے ، اور نیم جان ہندوستانی بھی ہے اٹھا کر پیسے پھینک سکتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو یا انگریز کو مہندوستان نے ہی اٹھا کر نہیں پھینکا، سیلون نے بھی اسے پھینکا ، ہر مانے بھی اسے پھینکا، مصر نے بھی اسے پھینے کا ؛ ایران نے بھی اسے پھینکا، عراق نے بھی اسے پھینکا ، غرض تمام ممالک کے لوگوں نے اسے اپنے اپنے ملک سے نکال دیا.آخر سمٹ سمٹا کر وہ انگلستان میں محدود ہو کر رہ جائیں گے اور پھر کچھ مدت کے بعد ممکن ہے ان کی ہیں ہی حالت ہو جائے جیسے ابتداء میں تھی کہ چمڑے کے تہ بند باندھا کرتے تھے اور ننگے جسم رہا کرتے تھے تھے یا اگر یہ زمانہ نہ آئے تو اس کے قریب قریب ان کی حالت پہنچ جائے.گاندھی جی کی عقلمندی یہ نہیں تھی کہ انہوں نے بین استانیوں کو زندہ کیا.ان کی عقلمندی تھی کہ انہوں نے دیکھ لیا کہ انگریز مریکا ع ہے.اور اب ذرا سے اتحاد کی ضرورت ہے اگر ہندوستانی اکھٹے ہو جائیں تو وہ ان کو بڑی آسانی لیا

Page 387

سے نکال سکتے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں اب محمد و وجہ اسی طرف دیکھتے میں تو میری نظر تائج من انو ن دولت نهد میں یہ شور مچایا ہوا سٹورپ کے پاس دولت سے " ہے کہ ہم ساندی دنیا کو کھا نا دیں اور وہ لوگ تہو تھو کے مرتے بس وہ ہم س کہ اگر روس کو جد حالانکہ جو لوگ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ روسی نظام لئے تو ہمیں کھانے کے لئے روتی کوئی برتری ہے وہ غلطی کرتے ہیں سی القوادہ موقع مل جائے تو وہ بھی دسی کچھ کرئے گا جو انگر یہ کرتے رہے ہیں ی طرح اس نے دنیا کی دولہ دولت سے فائدہ اٹھانا ہے میں طرح انگریز قائدہ اٹھانے سے ہیں غرض ایک قوم کے بعد دوسری قوم مرتی چلی جاتی قوم مرتی چلی جاتی ہے مگر وہ مگروہ عبرت حاصل نہیں کرتی جب ڈ دوسری قوم کی باری آتی ہے تو اس کے افراد بھی چاہتے ہیں کہ ہم اسی طرح ناچیں اسی طرح گائیں، اسی طرح شہر نہیں پہنیں جس طرح پہلی قوم کیا کرتی تھی.پھر خدا اسے تباہ کر دنیا.ام کو بھیج دنیا ہے بغرض انسانوں کی موت پر ان کو قبروں میں دفن کیا جاتا ہے.انسانوں کی موت کی علامت یہ ہوتی ہے کہ تیز بخار ہو گیا با تنز کی اہنی موگئی یا انتڑیوں میں سے خون آنے لگ گی دی کشش ہو گئی اور قوموں کی موت کی علامات سی اور قوم کو یہ ہوتی ہے.کہ ان کے پاس دولت یہ ت ہوتی ہے.مگر ان کو اس دولت کے خرچ کرنے کا ڈھ ڈھنگ نہیں آتا ہوہ اسے زیادہ سے زیادہ اپن اچھے سے اچھا لباس پہنتے ہیں.اچھے مکانات میں ں.اچھے سے بسر کرتے ہیں محنت کی عادت ان میں سانی جسم کی حرار ہیں اور رات دن تریقہ اور آ ساری علاف طرح قوم کی زندگ؟ ترف پیدا ہوگیا ہے.کی؟ تو سمجھو کہ منی یہاں ناصر آباد میں اگر تمہارا کیا ہے ، اور وہ موت غذا تعالے کے حکم الڑکا ا ہو جائے ہم اسے گزری بھجوائیں.گئے گھڑی دا بھجوائیں گے.میر پور خاص ڈالوں سے پوچھو تو پنے لڑکوں کو میر پور خاص.والوں سے پو چھوا تو وہ کہتے ہیں کہ ہمرا - لہ کر اپنے لڑکوں کو ا اکلینڈ بھجوائیں گے ترین تم اوپر کی جان جائے.جولی کن ابرا میرا یہاں رہتے تھے گو وہ نبی ایک چھوٹا ساق تھا ں کو کراچی بھجوائیں گے کراچی مگر انہوں نے اپنے بچے کو

Page 388

است اس جگہ سے بھی نکال کر وہاں جا کر رکھا جو ایک وادی غیر ذی زریع تھی.جہاں نہ کھانے کا کوئی سامان تھا.پینے کا کوئی سامان تھا تا کہ اس میں محنت کی عادت پیدا ہو.کام کی عادت پیدا ہو قربانی کی عادت پیدا ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ابراہیم کا اپنے بیٹے کو اس طرح ایک جنگل میں جا کر چھوڑ دنیا گو ظاہر میں اسے اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا تھا مگر فَدَيْنَهُ بِذِبح عظیم کے ہم نے آمین کا فدیہ ایک بہت بڑی قربانی کے ذریعہ سے دیدیا.بعض لوگ غلطی سے اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اللہ تعالے نے اسمعیل کے بدلے ایک مینڈھا قربان کروا دیا.حالانکہ یہاں ذبح عظیم کے الفاظ ہیں میں کے معنے ہیں بہت بڑی قربانی اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو بڑی بڑی قومیں سمجھی جاتی تھیں ہم نے ان کو ابر استیم کی نسل پہ قربان کر دیا.بڑے لوگ تختوں پر بیٹھتے ہیں مگر وہ قوم جو بھو کی رہنے کی عادی ہو جب اس کے غلبہ کا وقت آتا ہے تو وہ بڑی بڑی حکومتوں کا تختہ الٹ دیتی ہے.یہ ایک شگوئی تھی جو حقیقی معنوں میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پوری ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابدا سیم نے اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا اور اس نے ایک ایسی جگہ ! بھید کا یہاں نہ کھانا تھا نہ پانی اور جہاں اس کے زندہ رہنے کی کوئی صورت نہیں تھی.ہم نے ان کی اس قربانی کو دیکھا اور کہا کہ اب اس کے بدلہ میں ایک بہت بڑی قربانی پیش کی جائیگی چنا نچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے زمانہ میں جو اسماعیل کی نسل میں سے تھے کس طرح عرب نکلے اور انہوں نے قیصر و کسری کو کاٹ کر رکھ دیا.گویا سبجائے اس کے کہ ہمیں کی نسل بھر کی مرتی اس نے بڑی بڑی دولتوں اور شانوں والی حکومتوں کو تباہ کر دیا.قومی ترقی حقیقت ٹڈی دل کی طرح ہوتی ہے.جس طرح ٹڈیاں جنگلوں میں پلتی ہیں.اور جب ان کی غذا ختم ہو جاتی ہے تو وہ اڑتی ہیں اور بڑے بڑے سرسبز و شاداب کھیتوں کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں اسی طرح جو قومیں صحیح اصول پر چلنے والی ہوتی ہیں وہ غربت سے گزارے کرتی ہیں محنت اور قربانی سے کام لیتی ہیں.مگر جب لوگ پھر بھی ان کو جینے نہیں دیتے اور انہیں مارنے کے لئے اٹھتے ہیں تو اللہ تعالے کا مذاب ظلم کرنے والوں پہ نازل ہوتا ہے.اور وہ غریب اور کمزور سمجھے جانے والے دنیا پر غالب آجاتے ہیں.جب عرب کے لشکر نے ایران پر حملہ کیا تو ایران کے بادشاہ نے اس خچه کوشنکر کو نا کہ یہ جھوٹی خبر ہے میں کس طرح مان لوں.کہ وہ عرب جس میں ہمارے دس سپاھی بھی جاتے تو سارے ملک کو آگے لگا لیتے تھے.اس نے ہم پر حملہ کر دیا ہے.لوگوں نے کہا.خبر درست ہے واقعہ میں ہم پر حملہ ہو چکا ہے.اس نے کہا.اچھا ان کے چند لیڈر بلواؤ تاکہ میں ان سے خود بات کروں اور پوچھوں کہ آخر ان کا مقصد کیا ہے.چنانچہ وہ گئے اور صحابہ نے ایک وفد تیار کر کے بادشاہ کی ملاقات کیلئے بھیجوا دیا.جب صحابہ کا وفد پہنچا تو بادشاہ نے کہا.میں نے سُنا ہے کہ تم لوگوں

Page 389

نے میرے ملک پر حملہ کر دیا ہے.میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ تم میں یہ جوڑت کسی طرح پیدا ہوئی تھی وہ جو جو ہڈیاں کھایا کرتے تھے ، نہ تمہارا کھانا اچھا تھا نہ پینا اچھا تھا ، نہ تمہارا لباس اچھا تھا.تم نگے پھر تے تھے ، اخلاق تر میں تھے ہی نہیں ، ماؤں سے تم نکاح کر لیتے تھے.تھیں کیا سوجھا کہ تم جمال.کے لئے آگئے اگر تم پر غربت کا بہت ہی دور آگیا ہے تو میں تم میں سے ہر افسر کو دو دور اشرفی اور بر سپاسی کو ایک ایک اشتر نی دینے کے لئے تیار ہوں.تم روپیہ لو اور واپس چلے جاتے اس زمانہ میں گور و پیر کی بڑی قیمت تھی مگر پھر بھی پتہ لکھتا ہے کہ اس کی نگاہ میں عربوں کی کیا حیثیت بھی ہوب کا جو شکر ایران پر حملہ آور ہو رہا تھا، اس کی حیثیت ایران کے بادشاہ کے نزدیک یہ تھی کہ سمجھتا تھا کہ اگر میں ان کو پندرہ پندرہ روپے دے دوں تو یہ واپس جانے کے لئے تیار ہو جائیے اب پینتالیس روپے ماہوار اور راشن سپاہی کو ملتا ہے مگر وہ بجھتا تھا کہ اگر میں انہیں صرف پندرہ پندرہ روپے بھی دیدوں گا تو یہ واپس چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ اچھا اب ہم چلتے ہیں.تو ایران کے بادشاہ کے نزدیک عربوں کی حیثیت اتنی ہی تھی مگر جو اس وفد کے سردار تھے انہوں نے کہا تم جو کچھ کہتے ہو ٹھیک ہے ہم ایسے ہی تھے.ڈیڑیاں کھاتے تھے مردار کھاتے تھے ، ماؤں سے نکاح کر لیا کرتے تھے مگر اب اللہ تعالے نے ہم ہمیں اپنا رسول بھیج دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری حالت بدل بیچی ہے اور ہم خدا تعالے کے وعدوں کے مطابق تمہارے ملک پر حملہ آور ہوئے ہیں.بادشاہ کو غصہ آیا، اس نے درباریوں کو حکم دیا کہ مٹی کا ایک بورا لاؤ اور اس کے سر پر رکھا.باقی صحابہ کو غصہ آیا کہ یہ ہمارے امیر کی بہتک کرتا ہے مگر وہ ہنس پڑا.اور اس نے کہا انہیں مٹی کا بورا میرے سر پر رکھنے دو جب انہوں نے مٹی کا بورا اس کے سر پر رکھ دیا.تو وہ دربارہ سے.بھاگے اور انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ بادشاہ نے ایران کی زمین اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کردی ہے مشرک بڑا وہی ہوتا ہے، اب تھا تو یہ ایک لطیفہ مگر وہ گھبرا گیا اور اس نے سمجھا کہ یہ توبڑی بدشگونی ہوئی چنانچہ اس نے حکم دیا کہ دوڑو اور ان کو پکڑ کر واپس لاؤ.مگر غریب لوگ گھوڑے کی سواری کے بڑے مشاق ہوتے ہیں.وہ دربار سے نکلنے تو انہوں نے اپنی گھوڑوں کو ائیر بال لگائیں اور وہ کہیں سے کہیں نکل گئے ہے یہ کیفیتیں تھیں صحابہ کی ، دنیا حیران بھی کہ یہ لوگ کہاں سے آگئے.جس طرح ٹڈی آتی ہے تو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.کوئی روس کے میدانوں سے آتی ہے ، کوئی چین کے میدانوں سے آتی ہے ، کوئی عرب کے میدانوں سے آتی ہے اور وہ سارے علاقہ پر چھا جاتی ہے.اتنا چھوٹا سا جانور ہوتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں لوگ عاجز آجاتے ہیں اور پھر اس کی نسل میں خداتعالے نئے اتنی بڑھوتی رکھی ہے کہ جہاں میٹی اور اس نے انڈے دیئے.وہ اگلے سال پھر ری پیدا ہو جاتی ہے اور فصلوں کو تباہ کر دیتی ہے.یہی علامت بڑھنے والی قوموں کی ہوتی ہے.

Page 390

لوگوں کا ایک ایک بچہ ہوتا ہے تو ان کے آٹھ آٹھ ہوتے ہیں.غرض قوموں کی ترقی کار از صریت ان میں ہے.مگر بہت سے لوگ اپنی کم ہمتی کی وجہ سے پہلے بند پر بھی گر جاتے ہیں اور ان کی میز ہی حالت بالکل ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسے کسی شاہد نے کہا ہے کہ..اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے.لیکن جو لوگ قربانیوں کے معیار کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں.وہ اس زمانہ کو دیکھتے ہیں جبیں ہیں اللہ کی قربانیوں کا بدلہ ان کو ملتا ہے.ایران کے بادشاہ نے صحابیدیم ن کے بادشاہ نے صحابہ کو میرٹ ایک ایک پیر محمد ایک ایک پند مر دنیا چاہا مگر جو صحابہ کو ملا اس کے مقابلہ میں پھلا پونڈ کی کیا حیثیت تھی.حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ فوت ہوئے تو باوجود پاس کے کہ وہ اس قدر صدقہ و خیرات کرنے والے تھے کہ و رب میں مشہور تھے پھر بھی ان کے ورثاء کو لاکھوں روپیہ ملا تو لیہ تعالئے غلبہ کے موقعہ پر قوموں کو بہت کچھ دیتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی اس کی عادت میں یہ بات داخل ہو کہ اپنے نفس پر خرچ کرنے کی بجائے وہ اس برو پینے کو دین پر بچے کے ہے کر ہے ، غرباء پر خرچ کر ہے ، صدقہ و خیرات ارة ، صدقہ و خیرات میں دے.یہ تو بے شک شریعت کہتی ہے کہ جب تھیں دولت ہے تو تمہارے جسم اور چہرہ پر بھی اس کے کچھ آثار ہونے چاہئیں مگر وہ کچھ آثار ہی کہتی ہے یا یہ نہیں کہتی کہ ساری دولت اپنے نفس کے لئے خرچ کرنی شروع کردو اور اچھے کھانے اور اچھے پینے میں مشغول وجاد لیکن بیوقوف اور نادان انسان اس وقت کے آنے سے پہلے پھر جاتا ہے بہ اور اس کی مثال ویسی ہی ہو جاتی ہے، جیسے ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ تھکتے جٹ کٹوری تھی پی پی.پانی آپھر گیا ہے." پھیلا ایک کٹوری کی بادشاہوں کی دوستوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے.مگر وہ صرف کٹوری ملنے پر ہی اتنا مغرور ہو جاتا ہے کہ کبھی اس گھر میں جاتا ہے اور یہ دکھانے کے لئے کہ ہیں کے پاس کٹوری ہے وہ ان کے گھڑے سے پانی پینے لگ جاتا ہے کبھی دوسرے گھر میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے پیاس لگی ہے اور یہ بنانے کے لئے کہ اس کے پاسن کٹوری ہے وہ اس میں ان کے سامنے پانی پیتا ہے جو قوم اپنے بڑے وعدوں کے ہوتے ہوئے ایران کے بادشاہ کے پونڈ یا ایک کٹوری پر مرنے لگتی ہے اس کے متعلق کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بڑھے گی.وہی قوم رتی ہے جو خدا تعالے کے وعدوں کو اپنے سامنے رکھتی ہے جو سمجھتی ہے کہ ہم نے اخلاق اور روحانیت کے ساتھ دنیا کو فتح کرنا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں وہ ویسی ہی قربانی بھی کرتے ہیں اور ویسی ہی محنت بھی کرتے ہیں.ت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب نیا نیا د خونی فرمایا تو مولوی به ان الدین صاحب

Page 391

رضی اللہ عنہ جو اہل حدیث میں سے تھے اور ان کے لیڈر تھے ، انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا ذکر سنا.شاید انہوں نے براہین کا اشتہار پڑھا یا آردیونی اور عیسائیوں کے خلاف کسی اخبار میں آپ کا مضمون دیکھنا تو ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں خود انمیں جا کر دیا آؤں.چنانچہ وہ قادیان پہنچے مگر ان دنوں حضرت مسیح موعود سلام قادیان میں نہیں تھے بلکہ کہیں باہر تشریف لے گئے تھے.غالبا یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام چلہ کے لئے ہوشیار پور تشریف لے گئے تھے وہ قادیان سے ہوشیار پور پہنچے مگر وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ آپ سے ملاقات نہیں ہو سکتی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ساتھ والوں کو ہدایت دے دی تھی کہ کسی کو اند یہ نہیں آنے دنیا اور شیخ حامد علی صاحب کو دروازہ پر بٹھایا ہوا تھا کہ وہ نگرانی رکھیں اور کسی کو اندر نہ آنے دیں.یہ وہاں پہنچے اور انہوں نے منتیں کہیں کہ مجھے ملنے دو مگر انہوں نے نہیں مانا آخر مولوی برہان الدین صاحب نے کہا کہ مجھے صرف چق اُٹھا کر ایک دفعہ دیکھ لینے دو.اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کروں گا.لیکن حامد علی صاحب نے یہ بات بھی نہ مانی مگر اللہ تعالے نے چونکہ ان کی خواہش کو پورا کرنا تھا.میں لئے اتفاق ایسا ہوا کہ ایک ن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو کوئی ضرورت پیش آئی اور آپ نے فرمایا میاں امد علی ! تم فلاب چیز لے آؤ.وہ اس طرف چلے گئے اور انہیں موقع میسر آگیا.یہ چھڑی چوری گئے اور انہوں نے حق اٹھا کو حضرت صاحب کو دیکھا.حضرت مسیح موجود و علیہ السلامہ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور جلدی موع جلدی کرد ہیں ٹہل رہے تھے.یہ عام انسان کی نظر میں بہت معمولی بات ہے مگر صاحب عرفان کی نانا میں یہ بڑی بات تھی.انہوں نے آپ کو دیکھا اور واپس آگئے لوگوں نے آپ سے پوچھا مولوی صاحب آپ نے کیا دیکھا.انہوں نے کہا.اس نے بہت دور جانا ہے.یہ کمرے میں بھی تیز تیز چل رہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بڑا کام کرنا ہے یہ تو حقیقت یہ ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ہے جس نے جینا ہوتا ہے اس میں جینے کے آثار پائے جاتے ہیں.اور جس نے مرنا ہوتا ہے اس میں مرنے کے آثار پائے جاتے ہیں.اگر یہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان کو کون نکال سکتا ہے.فرانسیسی بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان کو انڈو چائنا سے کون نکال سکتا ہے کیسی زمانہ میں ہسپانیہ والے بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان کو بیانیہ سے کون نکال سکتا ہے مسلمان بھی نہیں سمجھتے تھے کہ ان کو مہندوستان اور چین وغیرہ سے کون نکال سکتا ہے مگر آخر نکل گئے.یہ موت ہے جو ایک کے بعد دوسری قوم پر آئی اور کسی قوم نے پہلی قوم سے عبرت حاصل نہیں کی.انفرادی موت سے بچا نہیں جاسکتا.لیکن قوم کی موت سے بچا جاسکتا ہے اگر وہ زندہ رہنے کی کوشش کرے.مگر آج تک کسی قوم نے یہ کوشش نہیں کی جو بھی آتا ہے وہ فورا زہر کھانا شروع کر دیا ہے.اور موت کو قبول کر لیتا ہے ! والنسل در جولائی شلات

Page 392

۳۸۴ - ہے.موہن داس کرم چند گاندھی (۱۸۶۹ - ۱۹۲۸ ۶) ہندوؤں کے مشہور رہنما اور ہندوستان کی آزادی کے اولین معمارہ تھے ، مہاتما " کہلاتے اور عدم تشدد کا پرچار کیا کرتے تھے.TH EPIC عي MAN.P.139.Published by TIME-LIFE International ( Nederland, 1963."Looking At HISTORY" Britain from Caveman to the present day · by R.J.unstrad.P.24 ه ابراهیم ۱۱۴ ۳۸ له الصمت paire - تاریخ کامل ابن اثیر ۲۵۶ ، تاریخ طبری ، البدایہ و النہایہ ابن کثیر ہے ، ه دیوان غالب وضها مطبوعہ مکتبہ جدید لاہور اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد ۳ ص۳۱۷.اس سے کسی کی کم ظرفی اور کمینگی کی طرف اشارہ منصور ہونا ہے فرہنگ آصفیہ بلد اول ما زیر لفظ اوچھا، 2 - حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ (۱۰۳۰ - ۲۱۹۰۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی تھے شاہ میں سعیت کی.اس سے قبل اہل حدیث کے پور جوش مبلغ تھے قبول احمدیت کے بعد ایمان اور اخلاص میں اتنی ترقی کی کہ عبد الله احمد بیت کے شہر بھرے (تاریخ احمدیت ہے) ه - حضرت حافظ شیخ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ روفات 1919ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ اور مخلص خدام میں سے تھے.ان کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو.اصحاب محمد جلد سود ا حضور رضی اللہ عنہ کی اپنی روایت ہی کافی ہے.اس کیلئے کسی حوالہ کی ضرورت نہیں.641 - فرہنگ آصفیہ جلد چهارم طلا

Page 393

۴۴ ۲۶۱۵۵۵ و فرموده امور جولاتی ۱۹۵۵ به بت م لندن) یہ عید جس کو مسلمان عبید الا ضحیہ کہتے ہیں یعنی قربانیوں کی عید.یہ ابراہم ملا اس کے ایک بیٹے کی یاد میں منائی جاتی ہے جس کے قربان کرنے کا اللہ تعالے نے ابراھیم کو حکم دیا تھا.اور اللہ تعالی کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے براہیمہ تیار ہو گیا تھا.وہ کونسا بیٹا تھا اس معاملہ میں اسلام اور عیسائیت میں اختلاف ہے.بائیبل کہتی ہے کہ وہ اسحق تھا.قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ ہمیں تھا جہانتک اس واقعہ سے جو نتیجہ نکلتا ہے.اس کا تعلق ہے نہ بوح اسحق ہو یا اسمعیل ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.بات ایک ہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا نے اپنے ایک بیٹے کی قربانی کا حکم دیا، اور اس نے قبول کر لیا.لیکن جہاں تک اس واقعہ کے اخلاقی پہلو کا تعلق ہے قرآن کا بتایا ہوا واقعہ بہت زیادہ معقول معلوم ہوتا ہے.بائیبل کہتی ہے کہ خدا نے ابراہیم کو مطلوبہ کے قتل کرنے کا حکم دیا.اور اس نے اسے قبول کر لیا.لیکن پھر وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب وہ اسے ذبح کرنے لگا تو فرشتہ نے اسے منع کر دیا کہ اس کو مت ذبح کر ملکہ ایک سکہ ا جو جھاڑیوں میں پھنسا ہوا کھڑا تھا اسے ذبح کر یہ گویا اسحق کو کسی شکل میں بھی ، نہ ظاہری الفاظ میں تشبیہی الفاظ میں ذبح کیا گیا.گویا یہ سارا واقعہ ایک مضحکہ تھا.ایک کھیل تھا.جو خدا نے ابراہیم سے کھیلا آخر اس میں کیا لطف تھا کہ پہلے تو خدا نے ابراہیم سے کہا کہ تو اسطوح کو ذبح کر اور پھرا سے منع کر دیا.بعض عیسائی پادری کہتے ہیں کہ خدا تعالے نے اس ذریعہ سے ابراہیم کو بتا یا کہ انسانی قربانی آئندہ نہیں ہوگی ہے لیکن یہی بات خدا تعالے اس سے زیادہ حمدہ اور صاف الفاظ میں بھی کر سکتا تھا.قرآن کریم نے جو اسمعیل کا واقعہ بیان کیا ہے.وہ نہایت معقول ہے اور ہر آدمی سمجھ سکتا ہے.کہ اس واقعہ میں بہت سی حکمتیں تھیں اس میں کہا گیا ہے کہ خدا تعالے نے ابر اہمیت کو دو حکم دیئے ایک یہ کہ تو اسمعیل کو ذبح کر اور دوسرے یہ کہ تو ہمیں کو بغیر پانی اور بعد کھیتی ہاڑی والی جگہ میں چھوڑ آ یعنی مکہ میں جہاں وہ اس لئے دنیا سے دور رہ کر اور بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کر کے زندگی گزارے کہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیے اور خدائے واحد کی عبادت میں لگائے.گویا ہمیں کی قربانی کا جوابراہیم کو حکم دیا گیا تھا وہ تشبیہی زبان میں تھا.مراد یہ نہ تھی کہ واقعہ میں چھری سے اپنے بیٹے کو ذبح کرے جو بے کار اور بیٹیو رہ فعل ہے بلکہ ذبیح

Page 394

سے مراد اس کو دین کی خاطر ایسی جگہ پر رکھنا مراد تھا جہاں کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں تھے.چنانچه گو قرآن کریم کے مطابق بھی آنفیل کو ذبح کرنے سے منع کر دیا اور اس کی جگہ ایک دنبہ ذبح کرنے کی تلقین کی لیکن خواب کا جو اصل مفہوم تھا یعنی انجیل کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ آنا اس سے ابر اسی کو منع نہیں کیا بلکہ اسی حکم پر ابراہیم سے عمل کروایا.چنانچہ آجتک کہ اسمعیل کی نسل سے آباد ہے اور خدائے واحد کی وہاں پرستش کی جاتی ہے اور خدا تعالے کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے.اس تشریح کے مطابق ابراہیم نے واقعہ میں الفیل کو قربان کر دیا.اور یہ قربانی مظالمانہ اور وحشیانہ قربانی نہیں تھی.بلکہ پر مغز اور با معنی قربانی تھی جس سے آجتک دنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے.اور اب بھی ہمعیل کے ذریعہ سے اس بے آب و گیاہ جنگل میں خدا تے واحد کا نام مبند کیا جاتا ہے آج ہم اس واقعہ کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے اس جگہ پر نمیچ ہوئے ہیں.لاکھوں آدمی اکس وادی غیر ذی زرخ میں جمع ہیں اور بلند آواز سے کہہ رہے ہیں لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك اسے میرے خدا میں حاضر ہوں جس طرح کہ ابراہیم نے کہا تھا کہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تیری توحید کو پھیلانے کے لئے حاضر ہوا ہوں.ذرا اس بات پر غور کرو اور سوچو کہ بائیبل میں بیان کیا ہوا واقعہ قرآن کے بیان کردہ واقع سے کیا کوئی بھی مناسبت رکھتا ہے.باغیل کا حکم تو ایاک و حشیانہ اور ظالمانہ حکم معلوم ہوتا ہے جس میں کوئی حکمت نہیں بھتی.اسحق کے گلے پر چھری پھیرنے سے دنیا کو کیا فائدہ ہو سکتا تھا یا خود اسخن تو کیا فائدہ ہو سکتا تھا.مگر اسمعیل کو مکہ میں چھوڑنے سے آئیل کو بھی فائدہ ہوا اور دنیا کو بھی فائدہ ہوا.انھیں توحید کھانے کا ایک بہت بڑا استاد بن گیا اور دنیا اس کے ذریعہ سے خدائے واحد کی عبادت کرنے میں کامیاب ہو گئی.مکہ کو دنیا کے نقشہ سے الگ کر دو تو ساری دنیا میں تو جیب کا کوئی مرکز باقی نہیں رہتا.اور آمین کی قربانی کو حذف کردو.تو خدا کے لئے نہ ندگیاں وقت کرنے والا ولولہ پیدا کرنے کی کوئی صورت دنیا میں باقی نہیں رہتی.اسحاقی اپنی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گیا.بڑی اچھی بات ہے.مگر ہم تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اسحاق ایک خدا پرست انسان تھا.انھیں بھی اپنی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گیا اور ہم کہ سکتے ہیں کہ تکمیل توحید کے لئے زندگی وقف کر کے دنیا کا حسن بن گیا اور جس جس جگہ پر اس نے یہ قربانی اور پیش کی تھی وہ ہمیشہ کے لئے توحید کا مرکز بن گئی.پس خدا تعالے کی برکتوں کا مستحق ہے سمعیل اور خدا تعالنے کی برکتوں کا مستحق ہے.مکہ جہاں اس نے قربانی پیش کی قیامت تک خدا کی توحید کا جھنڈا وہاں کھڑا رہے گا.تو میں قوموں پر چڑھائی کریں گی.ایک قوم کے بعد دوسری قوم کا جھنڈا زمین پر گرے گا مگر مکہ میں اسمعیل کے ہاتھ سے گاڑا ہوا توحید کا بھنڈا قیامت تک کھڑا رہے گا.

Page 395

کوئی نہیں جو اس کو توڑ سکے.کوئی نہیں جو اس کو گرا سکے ، وہ کونسے کا پتھر ہے جو اس پر گرے گا.وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا اور میں پر وہ گرے گا وہ بھی بچنا چور ہو جائے گا یہ یہ خدائی فیصلہ ہے جس کو کوئی نہیں بدل سکتا.ایک ایک کر کے دنیا اس توحید کے جھنڈے کے نیچے آئے گی یہاں تک کہ ساری دنیا وہاں جمع ہو جائیگی.اور آخر ایک دن آئے گا کہ جس طرح آج کی عید کے دن مکہ میں خدا کی توحید کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں دنیا کے کونہ کونہ سے توحید کے نعرے بلند کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی تعبیر کہی جائے گی اور جس طرح دنیا سے تمام چھوٹے معبود مٹا کر ایک خدا کی حکومت قائم کی گئی ہے اسی طرح دنیا سے مختلف قومیتیں مٹاکر انسانیت کی حکومت قائم کی جائے گی.اور آسمان پر بھی ایک خدا ہو گا اور زمین پر بھی ایک ہی نسل ہو گی.سب جھوٹی قومیتیں مشادی جائیں گی جس طرح سب جھوٹے خدا مٹائے جاچکے ہیں.آخرعي في الله تعالے سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ دل جلد آئے اور اس عید کا سبق ساری دنیا یاد کرئے.اور ساری دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھک جائے.اور فساد اور لڑائی جھگڑا دنیا سے مٹ جائے.ہر دل کعبہ بن جائے یعنی خدا کا گھر اور میں طرح خدا عرش پر ہے.اسی طرح خدا انسان کے دل میں بھی ہو.د - پیدانستنش باب ۲۲ آیت ۲ ر الفصل ۳۱ اگست ۶۱۹۵۵ له - الصفت ۳۷: ۱۰۳ - تفسیر در منثور جلده منش ۲ ته - میدائش باب ۲۲ آیت ۱۳ ہے.پیدائش کی کتاب کی تفسیر ص ۱۱ مصنفہ پادری کیدن سیل ڈی ڈی مترجمه ای- جوزف به ناشر کرسچن نابخ سوسائٹی پنجاب طبع اول مطبوعہ وکٹوریہ پریس بٹالہ.ہے - ابر اسیم ۳۸:۱۴ شه - سیاه باب ۸ آیت ۱۳ تا ۱۷

Page 396

۴۵ ر فرموده و در جولائی ۱۹۵۷ مقام ربوده ) آج عید الاضحیہ ہے یعنی قربانیوں کی عید کا دن.یوں تو اس عید پر مسلمانوں میں سے صاحب نوفیق لوگ بھی بہت کم قربانی کرتے ہیں.سوائے حج کے کہ اس موقعہ پر میں نے دیکھا ہے بڑی کثرت کے ساتھ قربانیاں کی جاتی ہیں.لیکن یہ عید ، عید الاضحیہ اسی طرح ہو گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کروڑوں کی تعداد میں است ملی.چنانچہ کہتے ہیں اس وقت مسلمانوں کی تعداد 4 کروڑ ہے.اگر ان ساٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے فی کرو ایک مسلمان بھی بنتِ رسول پر صیحیح طور پر عمل کرنے والا ہو تو 40 آدمی قربانی کرنے والے نکل آتے ہیں.اور اگر لاکھ میں سے ایک آدمی سنتِ رسول پر عمل کرنے والا ہو تو...و مسلمان قربانی کرنے والا نکل آتا ہے.اور اس طرح یہ عیب حقیقی معنوں میں عید الاضحیہ بن جاتی ہے گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عید کا نام عید الاضحیہ رکھ کر بتایا کہ آپ کی امت کو خدا تعالے اس قدر بڑھائے گا کہ اگر ان میں سے اس موقعہ پر بہت کم قربانی کرنے والے لوگ ہوں تب بھی ان کی قربانیاں ایک بہت بڑا مجموعہ ہو جائیں گی پیس ریجید بڑی شاندار عید ہے جس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی.اس موقعہ پر لوگ بکروں اور دنوں کی قربانیاں کرتے ہیں لیکن قرآن کریم نہ ماتا ہے.لن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ تَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ له اللہ تعالے کو ان قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والوں کا تقویٰ پہنچتا ہے.پس اصل قربانی وہ ہے جو انسان اپنی اور اپنے اہل وعیال کی پیش کرے اور یہی وہ سبق ہے جو عید الاضحیہ نہیں سکھاتی ہے.چنانچہ و سکچھ لو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل اور حضرت با جزرة کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ آئے یہ تو گو وہ خود اس جنگل سے باہر چلے گئے لیکن ان کی قربانی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی اور اکلوتے بچے کی جدائی کا دکھ اٹھایا اور بیوری کی یہ قربانی تھی کہ اس نے اپنے خاوند کی جدائی کا دُکھ اُٹھایا اور اپنے بیٹے کا دُکھ دیکھا اور بیٹے کی قربانی یہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے ایک ایسے جنگل میں بس گیا جہاں دور دور تک انسان نظر نہیں آتا تھا.اور اس نے نه صرف خود پیاس اور بھوک کی تکلیف اُٹھائی بلکہ ماں اور باپ کا دکھ بھی دیکھا پس وہ قربانی کسی ایک فرد کی نہیں تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت آافیل علیہ السلام کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر کی بلکہ درحقیقت وہ سارے خاندان کی قربانی تھی.میں سمجھتا ہوں اثر

Page 397

فی الواقعہ آج پر سلمان ان معنوں میں عید منانے لگ جائے اور وہ دنبوں اور بکروں کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے جیوں کی قربانی بھی کرنے لگ جائے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں تباہ نہیں کر سکتی.دیکھو سکھوں نے اپنے زمانہ حکومت میں پشاور پر قبضہ کر لیا تو حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے جو ائیر ہویں صدی کے مجدد تھے سید المعیل صاحب شہید کو اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے مقرر کیا.انچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پشاور کی طرف بڑھے سکھوں کے پاس تو میں تھیں اور مسلمانوں کے پاس نہیں تھیں پہیلیاں سامنے کھڑے ہوئے تو لوگ کہنے لئے یہ کیا مقابلہ کریں گئے بلکہ بعض نے تو بیا تک کہا کہ یہ لوگ بیوقوف ہیں جو تو پوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں اس وقت کی جنگ آجکل کی جنگ کی طرح زیادہ خطر ناک نہیں ہوتی تھی.اس وقت توپ کا گولہ اگر چہ کئی کئی من کا ہوتا تھا مگر وہ ایک ہی جگہ پڑتا تھا اور آجکل کے گولوں کی طرح پھیل کر زیادہ نقصان نہیں پہنچانا تھا.سید امیل صاحب شہید نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تم متفرق طور پر کھڑے ہوئے تو توپ کا گولہ زیادہ سے زیادہ تم میں سے ایک کو مارے گا.اس لئے تم ایک دوسرے سے کندھا لگا کر کھڑے نہ ہو بلکہ اپ میں دس دس گزر کا فاصلہ رکھو اور دشمن کی طرف اس طرح پڑھو کہ جوں جوں تم دشمن کے قریب ہوتے جاؤ تمھارا درمیانی فاصلہ کم ہوتا جائے.اور جب تم دشمن کے بالکل قریب پہنچ جاؤ تو یکدم حملہ کر کے اس کی تو پوں پر قبضہ کر لو.ان لوگوں میں اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا.انہوں نے ستید اسمعیل صاحب شہید کی ہدایات کے ماسخت آپس میں دس دس گز کا فاصلہ رکھ کر قلعہ کی طرف پڑھنا شروع کیا.فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے دشمن کے گولے انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے تھے زیادہ سے زیادہ وہ ایک آدمی کو اپنی زد میں لیتے تھے اور باتی محفوظ رہتے تھے بعض مسلمان اسی طرح آگے بڑھتے گئے اور جوں جوں دشمن کے قریب ہوتے گئے ان کا فاصلہ کم ہوتا گیا.نیب وہ توپ خانہ کے بالکل قریب پہنچے تو یکدم حملہ کر کے انہوں نے تو بچیوں کو توپوں کے دہانے سکھوں کسی طرف پھیر دینے پر مجبور کر دیا.اس طرح سکھوں کی تو میں سکھوں پر ہی چلیں اور پشا در پر سلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے اب دیکھو جو کچھ ہوا.قومی تربانی کا ہی نتیجہ تھا، ورنہ مسلمان خالی ہاتھ تھے.اور دشمن مسلح تھا اور اس کے مقابلہ میں ان کی ظاہری طور پر کوئی حیثیت نہیں تھی.صرف اتنی بات سنتی کہ وہ لوگ مرنا جانتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے فتح حاصل کر لی.اسی طرح پٹھانوں میں بھی بڑی جرات اور دلیری پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ مرنا جانتے ہیں.پٹھان لڑتے تھے تو بعض دفعہ انگریزی فوج پر حملہ کر کے ان کی رائفلیں تک چھین کرلے جائیے تھے.جب نادر شاہ نے سرحد پر حملہ کیا تو نادر شاہ کے جتھے آتے در مرتے جاتے یہانتک کہ وہ علاقہ فتح کر لیتے.میں نے ان دنوں ایک خواب دیکھی کہ ایک انگریز میرے پاس آیا ہے.اور اس نے کہا ،

Page 398

٣٩٠ کہ سرحد پر پٹھانوں کے حملے ہو رہے ہیں اور وہ بڑی سختی سے حملہ کرتے ہیں کیا اسلام میں یہ بات جائز ہے کہ اگر کوئی دشمن ہمارے کسی آدمی کو مارے او راس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو اس کے مقابل ہیں بھی ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے.میں نے کہا ہاں قرآن کریم میں جاوا - سية مشا.یہ مسئلہ تو فقی طرز کا تھا جو میں نے خواب میں بتایا لیکن خواب کا دوسرا حصہ نہایت اہم تھا مجھے خواب میں بتایا گیا کہ اگر انگریزوں نے اس محاذ پر اپنے چوٹی کے افسر نہ بھیجے تو نہیں شکست ہوگی.اتفاق کی بات ہے کہ میں کچھ عرصہ کے بعد شملہ گیا وہاں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری نے مجھے چائے پر بلایا.اس وقت مسٹر کہ میرا ہوم سیکرٹری تھے جو وائسرائے ہند کے رشتہ دار تھے.اس موقعہ پر سر ولیم ( SIR WILLIAM) بھی آئے ہوئے تھے جو انگریزی فوج کے (1) چیف آف دی جنرل سٹاف تھے، ان کا ایک بھائی اس وقت بادشاہ انگلستان کا پرائیویٹ سیکٹری تھا باتوں باتوں میں اس خواب کا ذکر آگیا.جو میں نے اوپر بیان کی ہے تو سر بیم بے اختیار بول اُٹھے کہ آپ کی رویا بالکل درست ہے.اور میں اس کا گواہ ہوں میں ان دنوں اس فوج کا کمانڈر تھا جو پٹھانوں سے لڑ رہی تھی.ایک دن پٹھان فوج ہمیں دھکیل کر اتنا پیچھے لے گئی کہ ہماری شکست میں کوئی شبہ باقی نہ رہا اور ہمیں مرکز کی طرف سے یہ احکام موصول ہو گئے کہ فوجیں واپس لے آؤ.چنانچہ ہم نے اپنا سامان ایک حد تک واپس بھی بھیجدیا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ پٹھان فوج کو ہماری فوجی طاقت کے متعلق غلطی لگ گئی اور وہ آگے نہ بڑھی.اگر وہ آگے بڑھتی تو افغان فوج ڈیرہ اسمیل خان تک ہمیں دھکیل کرلے آتی.سرولیم نے بتایا کہ پٹھانوں کے جتھے ہمارے مقابلہ پہ.آتے تو وہ مرتے چلے جاتے اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہتا جب تک کہ وہ اس علاقہ کو فتح کر لیتے.آخر ہمیں حکم ہوا کہ اپنی فوجیں پیچھے لے جاؤ.نادر شاہ بدت ہوشیار جرنیل تھا اس نے قبائلیوں کو اکٹھا کر کے ان کی تنظیم کر لی تھی.یہ لوگ چاروں طرف سے پہاڑوں سے بارش کی طرح اُترتے اور انگریزی فوج کے سپاہیوں کو مارتے چلنے جاتے اور تھور کے ہی عرصہ میں انگریزوں کی رائفلیں ان کے پاس ہو تیں جس کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنا انگریزوں کے لئے مشکل ہو گیا.اب دیکھو یہ قربانی کا ہی نتیجہ تھا کہ نا تجربہ کار لوگ مسلح فوج پر غالب آگئے.اسی طرح اگر سب مسلمانوں کے اندرا براہیمی روح پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.عید الا منجیہ ہمارے اندر اسی قسم کا نمونہ پیدا کرنا چاہتی ہے اگر ہم ابراہیمی روح اپنے اندر پیدا کر لیں اور پاکستانی خدا تعالے کی راہ میں مرنا قبول کرلیں تو وہ یقینا دنیا پر غالب آسکتے ہیں.لیکن شرط یہی ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ میہ کی بیوی

Page 399

٣٩١ اور بیٹے کا کیا بنے گا.اسی طرح پاکستانی یہ خیال نہ کریں کہ اگر وہ مر گئے تو ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا کیا حال ہوگا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب خدا تعالیٰ نے اپنی بیوی اور اکلوتے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑنے کا حکم دیا تھا تو آپ نے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ خدا یا انہیں دبال کیا خرچ ملے گا.ملکہ آپ نے بغیر کوئی سوال کئے خدا تعالنے کے حکم کی تعمیل کی اور کہا کہ اگر وہ بھوک سے مرتے ہیں تو بے شک مریں.دھوپ میں جلتے ہیں تو بے شک جلیں، میں نے خدا تعالیٰ کا حکم پورا کرنا ہے.اگر پاکستانیوں کے اندر بھی یہی روح پیدا ہو جاتے کہ ان کے بیوی بچے مرتے ہیں تو مریں ، وہ وطن کی حفاظت کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے تو دیکھو کس طرح کا میا بی ان کے مقدم چومتی ہے.اسی طرح اگر یہ روح ہماری جماعت کے افراد میں بھی پیدا ہو جائے تو ہماری تبلیغ کتنی وسیع ہوسکتی ہے.اب تو ہم بعض مبلغین کے بیوی بچوں کو بھی ساتھ ہی بھیج دیتے ہیں لیکن بعض مبلغین نے جب پچھلے دنوں اپنے بیوی بچوں کو بھیجنے کے لئے کہا تو تحریک جدید نے انہیں لکھا کہ اس سے خرچ پڑھیگا ہاں اگر بجٹ بڑھ جائے تو ایسا کیا جا سکتا ہے.مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے کہا اس میں دونوں کا قصور ہے تحریک جدید کا بھی قصور ہے اور مبلغین کا بھی قصور ہے تحریک جدید کا یہ قصور ہے کہ اس نے خیرا بر اہیم کو ابراہیم سمجھے نیا اور مبلغین کا یہ قصور ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ابراہیم نہ بنا یا.اگر وہ فی الواقع ابراهیم بن جائیں تو پچاس سال تک بھی اپنے بیوی بچوں کو بلانے کا نام نہ لیں اتنے عرصہ میں احمدیت دنیا پر غالب آسکتی ہے.اور پھر ان کی جگہ اور مبلغ بھی بھیجے جاسکتے ہیں گویا اتنے لمبے عرصہ میں تحریک جدید پر صرف چند مبلغین کے آنے جانے کا خرچ پڑے گا.پس یہ قصد دونوں طرت کا ہے ، مبلغین ابراہیم نہیں ہیں اور تحریک جدید نے غیر ابراہیم کو ابراہیم سمجھ لیا ہے.حالانکہ جو شخص ابراہیم بنے گا اسے ابراہیں کام بھی کرنا پڑے گا.اسے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی طرح اپنے بیوی بچوں کو چھوڑنا بھی پڑیگا.اگر وہ اپنے بیوی بچوں کو نہیں چھوڑتا تو وہ ابراہیم نہیں اور اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح انہیں خدا تعالے کے لئے ذبح کرتا ہے تو پھر وہ وہیں بیٹھا رہے گا.اور تبلیغ کے کام کو جاری رکھے گا یہاں تک کہ خدا تعالے کی رحمت مرکز کے پاس روپیہ بھیجوا دے گی.اور وہ اس کے بیوی بچوں کو اس کے پاس بھیج دے گا.تم دیکھ لو حضرت ہاجرہ اور حضرت ہم جیل کو کھانا کس نے جتیا کیا تھا انہیں کھانا خدا تعالے نے ہی تیا کیا تھا اور نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو ان کے پاس صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی چھوڑ آئے تھے اور یہ تیزیں تو مفتہ بھر کے لئے بھی کافی نہیں تھیں اور وہ ساری عمر کے لئے دے کر گئے تھے.پھر خدا تعالے نے ان کے کھانے کا انتظام کیا.وہ ایک قبیلہ کو وہاں سے آیا.اس نے پانی کا چشمہ دیکھا.تو ا

Page 400

حضرت ہاجرہ سے درخواست کی کہ انہیں پانی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے.اس کے بدلہ میں وہ ہر سال انہیں میں ادا کیا کریں گے.چنانچہ انہیں اجازت دے دی گئی اور اس کے بدلہ میں کہ جو کچھ کھاتے اس کا دسواں حصہ آپ کو دے جاتے ہے پس اگر مبلغین ابراہیم مبنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے بیوی بچوں سے بھی حضرت ہاجرہ اور حضرت امیل والا سلوک کرنا چاہیئے.اب تو یہ حالت ہے کہ وہ کہتے تو اپنے آپ کو ابراہیم ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہاجرہ اور انیل کے لئے خرچ مقرر کیا جائے.حالانکہ حضرت ابراہیم نے جب حضرت ہاجرہ اور حضرت آجیل علیہ السلام کو جنگل میں چھوڑا تھا تو انہیں صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی دی تھی اگر تحریک جدید بھی اپنے مہر بلغ کے بچوں کو اتنا ہی خرچ دے تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے لوگ تحر یک جدید کے افسروں کے پاس آئیں اور انہیں کہیں کہ تم پاگل ہو گئے ہو کہ ایک تعقیلی کھجوروں کی اور ایک مشکیزہ پانی کا مبلغ کے گھر بھجوا کر یہ مجھ لیتے ہو کہ اب تمر بھر کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.ایسی صورت میں ان کا جواب یہی ہوگا کہ تم ابراہیم نہیں ہو.اگر تم ابراہیم بنو گے تو تمہارے بیوی بچوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا.جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیوی ہونا کے ساتھ ہوا.یہ قدرتی بات ہے کہ جب ایک مبلغ کے بیوی بچے جدا ر ہیں گے تو وہ اس طرح قربانی کرے گا کہ جماعت کی تعداد بڑھے گی اور زیادہ سے زیادہ جنید سے آئیں گئے لیکن اگر وہ بیکار بیٹھا رہے گا اور دس سال کے بعد یہ رپورٹ بھیجے گا کہ دو احمدی ہوئے ہیں اور ڈیڑھ روپیہ چندہ ہے اور ساتھ ہی کہیے کہ میرے بیوی بچوں کو بھیج دیا جائے.اور اس پر سینکڑوں روپیہ خرچ آئے تو کام کیسے ہو گا.پس ہمارے مبلغوں کو اپنے اندر ابراہیمی روح پیدا کرنی چاہئیے اگر وہ یہ روح اپنے اندر پیدا کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ نہیں اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہ ہو.دیکھو حضرت ابراهیم علیہ السلام کے مخالف آٹے ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ یا تو وہ تبلیغ سے باز آئیں ورنہ انہیں آگ میں ڈال دیا جائے.حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے تبلیغ بند کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا.اگر آپ کہتے کہ میں آگ میں نہیں پڑتا.تو فرشتے آسمان پر چلے جاتے لیکن جب آپ نے کہا میں آگ میں پڑنے کے لئے تیار ہوں تو ضد العالے نے عرش سے کہا.ينا رُكُوني بردًا وَسَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَه اسے آگ تو لوگوں کو تو جلاتی ہے لیکن ابراہیم کے لئے تو اس خاصیت کو چھوڑ دے اور ٹھنڈی ہوجا.عظیم الشان نشان اس لئے ظاہر ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالنے کے لئے جلنا منظور کر لیا تھا اگر تم بھی اسی طرح کے مومن بن جاؤ تو خدا تعالئے تمہارے لئے بھی اپنے نشانات نازل کرے گا

Page 401

۳۹۳ اور تھیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا کرے گا.پس تم عبید الا صحیہ منانے کے لے نہ نشیں کہ وہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو شخص خدا تعالے کے لئے ہجرت کرتا ہے.يَجِدَ فِي الْأَرْضِ مراغماً كَثِيرًا وَسَعَدَ وہ دنیا میں بڑی کشائش اور ترقی کے سامان پاتا ہے، تم دوسرے مھاجروں سے اپنا مقا بلہ کہ وہ اور دیکھو کہ خدا تعالے نے تمہارے ساتھ کس قد ر امتیازی سلوک کیا ہے.تمہارے خدا نے تمھیں ایک علیحدہ شہر بسانے کی توفیق دے دی ہے جس میں کو اطمینان سے نہ زندگی بسر کر رہے ہو اور اگر تم اپنے ایمان اور اخلاص میں پڑھو نوی شہر انشاء اللہ تعالی یک دن لائل پور کی طرح کسان حضرت ابراہیم علیہ سلام سے کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکہ میں رستہ کا رزق لائے گا، در رزق لانے کے کچھ طریق ہوتے ہیں.اس زمانہ میں اللہ تعالی نے یہ طریق تیار کیا کہ ایک تجارتی قبیلہ وہاں آگیا.وہ دوسرے ممالک میں تجارت کے لئے جاتا اور اپنے ساتھ دولت لاتا اور اس میں سے دسواں حصہ حضرت ہاجرہ اور اسمعیل کو دے دیتا.اس طرح گویا انہوں نے حضرت اسمعیل علیہ سلام کو اپنا بادشاہ بنا لیا.لیکن یہاں منظم حکومت موجود ہے اور وہ اس قسم کے سیکس خود لیتی ہے اس لئے یہاں یہ صورت نہیں ہو سکتی.یہاں وہ لوگوں کو توفیق عطا کرے گا کہ وہ کارخانے کھو لیں جس سے یہاں کے رہنے والوں کے لئے محنت اور مزدوری کے ذرائع نکل آئیں گے.اور بعد میں ترقی کر کے کراچی اور بیرونی ممالک سے تجارت کے وسائل پیدا ہوجائیں گے.لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہو گا جب تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح قربانی کرنے لگ جاؤ گے.جب تمہاری بیویاں ہاجرہ کی سی قربانیاں کرنے لگ جائیں گی اور تمہارے بیچے حضرت اسمعیل علیہ السلام کا سا نمونہ پیش کریں گے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السّلام سے یہ ذکر کیا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ وہ اسے ذبح کر یہ ہے میں تو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے چھینیں نہیں ماریں، بلکہ فرمایا کہ آپ خدا تعالے کے حکم کی تعمیل تحریر میں اس کے لئے بسر و چشم تیار ہوں ہے پھر جب آپ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو تکہ میں چھوڑ کر گئے تو حضرت ہاجرہ نے واویلا نہیں کیا بلکہ صرف اتنا پوچھا کہ آپ ہمیں اپنی مرضی سے یہاں چھوڑ کر جارہے ہیں یا خدا تعالے کی طرف سے آپ کو ایسا کرنے کا حکم ملا ہے اس پر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کر مجھے خدا تعالے کی طرف سے اس کا حکم ملا ہے.حضرت ہاجرہ کے لئے آپ کا آسمان کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی ہو گیا.اور انہوں نے فرمایا.اذن لا يُضَيعُنَا.اگر یہ بات ہے تو پھر خدا تعالے ہمیں ضائع نہیں کرے گا.چنانچہ آپ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے پاس واپس آگئیں اور اس کے بعد آپ نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی طرف نہیں دیکھا حضرت ابراہیم علیہ سلام

Page 402

۳۹۴ متعلق احادیث میں آتا ہے کہ جب کوئی اُونچی جگہ آتی تو وہ واپس مڑ کر دیکھتے ہے لیکن حضرت ہاجر نے لوٹ کر نہیں دیکھا.بلکہ وہ اپنے بچے حضرت آنفیل علیہ السلام کے پاس چلی گئیں اور سمجھا کہ جب خدا تعالے کے حکم کے تحت ہمیں یہاں چھوڑا گیا ہے تو اب وہ خدا تعالے کی طرف بھی کھینگی.اگر تم بھی اپنے اندر اور اپنی اولاد کے اندر یہ روح پیدا کر لو اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ہی اپنی صاحبات طلب کرو.تو تم دیکھو گے کہ زمین اپنے خزانے اگل کے رکھ دے گی اور آسمان اپنی ساری دولتیں برسا دے گا.اب تو آسمان برستا ہے تو طوفان آجاتا ہے لیکن جب تم خداتعالے کے ہو جاؤ گے تو وہ طوفان کی بجائے حمتیں بہ سائے گا.اب تو وہ پانی برساتا ہے تو اس سے راوی چناب اور جملہ کی سطح بلند ہو جاتی ہے ، پانی سیلاب کی شکل میں کناروں سے باہر نکل آتا ہے اور سب کچھ اپنے ساتھ یہ لیجاتا ہے.لیکن جب تم خدا تعالے کے بن جاؤ گے تو یہ آسمانی پانی سجائے سب کچھ بہائے جانے کے اپنے پیچھے روئی گی چھوڑ جائے گا اور گندگی بہا لے جائیگا.پس تم عید منا لیکن اس طرح جس طرح خدا تعالے نے حکم دیا ہے، پھر دیکھو گے کہ خدا تعالے کی برکتیں کس طرح نازل ہوتی ہیں.خدا تعالے کے رسول پر درود بھیجو اور بارہا.وہ درود پڑھو جو نماز میں تھیں سکھایا گیا ہے.میں سچہ ہی تھا اب مجھے یاد نہیں رہا ، یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات سے پہلے کا ذکر ہے یا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے.بہر حال میں بيت الدعا میں دعا کر رہا تھا کہ مجھے رویا میں بتایا گیا کہ پانچ ابراهیم گذرے ہیں ایک ابراہیم تو وہ تھے جن کا تورات میں ذکر آتا ہے.دوسرے ابراہیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.تیرے ابراہیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تھے.چوتھے ابراہیم حضر : خلیفہ اول کی تھے اور پانچویں ابراہیم تم ہو.ب دیکھو یہ بچپن کی بات ہے جب مجھے رویا سی بتایا گیا کہ تم اب اسیم ہوں اس وقت کسی کے هم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑے گا لیکن ابراہیمی مشاہت کے لئے ضروری تھا کہ ہمیں بھی ہجرت کرنی پڑے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابراہیم قرار دے کر اللہ تعالے نے حفتر مسیح موعود علیہ السلام کو اسمعیل بنادیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ابراہیم قرار دے کر مجھے ہمیل بنا دیا.اور پھر مجھے ابراہیم قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ ربوہ نہایا اور تم المفضیل بن گئے اور تم نے اسے آباد کر لیا.غرض ایک کے طفیل دوسرا ابراہیم بنا اور دوسرے کی وجہ سے تیسرا بنا.نیلسل خدا تعالے کی طرف سے دنیا میں ہمیشہ جاری رکھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ

Page 403

۳۹۵ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ الله يبدوا الخَلق لم يُعيد لعنی اللہ تعالے پیداش عالم کو شروع بھی کرتا ہے اور پھر اس سلسلہ کو دہراتا بھی جاتا ہے.اسی طرح ابراہیمی مقام بھی چکر کھاتا رہتا ہے.پہلا ابراہیم جاتا ہے تو ایک اور ابراہیم آجاتا ہے.دوسرا جاتا ہے تو تیسرا آجاتا ہے اور یہ سب کچھ يُعِید کے ماتحت ہوتا ہے..پس تم خدا تعالے کے اس قانون سے فائدہ اٹھاؤ اور دعائیں کرنے کی عادت پیدا کرد تا تمھیں بھی خدا تعالے کی طرف سے رڈیا و کشون ہونے لگیں مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں نوجوانوں کو دعا کی طرف توجہ دلائی تو میرے پاس در جنوں ایسے خطوط آئے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں رڈیا وکشون ہونے لگ گئے ہیں بلکہ بعض کو خدا تعالے کی زیاد بھی ہوئی لی.اس کے منے یہ ہیں کہ انہوں نے اس کا تجربہ کیا اور پھل کھایا ، تم بھی اسکا تجربہ کہ دہ یہانتک کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہو جسے دعاؤں اور گریہ و زاری کی وجہ سے رویا و کشون نہ ہونے لگ جائیں.اسی طرح تم رہے دل مضبوط ہو جائیں گے اگر کوئی آفت آئے اور لوگ تمھیرا جائیں تو تم انہیں کہو کہ گھبرا امت میں نے رات کو ہڈیا میں دیکھا ہے یا مجھے الہام ہوا ہے کہ خدا تعالے یہ آفت دور کر دے گا اور ترقی کے سامان پیدا کر دے گا.پھر تمہاری اولاد میں رویا کیشوف اور الہام سے مشرف ہوں.اور وہ لوگوں کو گھبراتے دیکھکر تسلی دیں.پھر تمہارے پوتوں اور پڑپوتوں کو بھی الہام ہوں اور یہ سلسلہ ہزاروں سال تک چلتا چلا جائے.مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم نہ صرف خود دعاؤں کی عادت ڈالو بلکہ اپنی اولاد کو بھی دعاؤں کی عادت ڈالو.ان کے اندر خدا تعالے کی محبت پیدا کرو.تم اسمعیل پیدا کرو.ابراہیم خود آئیں گے اور یہ سلسلہ دنیا میں ہمیشہ جاری رہے گا یہانتک کہ ساری دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل جھیل جائے گی.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : لَو كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّنِ نمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباع ہے کہ اگر موسی اور عیسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا حالانکہ موسمی اور عینی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بیٹے تھے.پس اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاه إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ ابراهيم إنك حميد مجید کی دعا سکھا کر اللہ تعالے نے موسی اور نعیسی کو بھی آپ کی غلامی میں دیدیا اور بتادیا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو آپ کی کامل اتباع کرتے اور آپ کی امت بن جاتے گویا بتایا کہ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی علیحدہ امت نہیں رہی بلکہ اب تیری امت بن کر یہی ان کی امت بنے گی.پہلے کوئی تیرا مطیع بنے گا تو پھر ابراہیم علیہ السلام کا مطیع ہوگا ، اسی طرح یه درد د چکر کھاتا چلا جائے گا.اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ ایک معجزانہ کلام سناتا

Page 404

ہے کیونکہ اتنے چھوٹے سے فقرہ میں یہ سارا مفہوم بیان کرنا انسان کی طاقت میں نہیں تھا.پس یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ ساری دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پھیل جائیگی اور کوئی بچہ ایسا نظر نہیں آئیگا جو روحانی طور پر ابراهیم اکبر عینی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد نہ ہو.اور جب ایسا ہو جائے گا تو دنیا میں امن ہی امن قائم ہو جائیگا.ر الفضل.ارجون وهوری) - الجج ۲۲ : ۳۸ - ) سے ابراہیم ۳۸:۱۳ ١٢ ١٣٣٦۰۱ ا تیرھویں صدی ہجری کے مجتہد تھے سکھوں سے جہاد کرتے ہوتے ۳- حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ (۶۱ ۶۱۸۳۱ بالا کوٹے ضلع ہزارہ میں شہادت کا درجہ پایا.اور وہیں دفن کئے گئے.سے - حضرت سید منجیل شہید رحمتہ اللہ علیہ ( ۱۹ ۱۳۳۶ م ) حضرت شاہ جلال غنی کے اکلوتے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز شا ولایعنی ممتاز عالم دین کے نتیجے اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے تھے ساری زندگی حضرت سید احمد بریلوی کے دست اتا ہے اور پانی کے ساتھ بالاکوٹ کے نام پرکھوں جا کرتے ہوئے شہید ہوئے ان کا مدفن بھی بلا لوٹی ہی ہے.شه - سوانح احمدی مصنفہ محمدجعفر تھانیسری ما ه - نادر خان (۱۸۸۳-۶۱۹۳۳ مشہور افغان جرنیل جس نے ۱۹۲۹ ء میں بچہ ستہ کو شکست دیکر نادرشاہ کے نصیب سے فغانستان کی عنان حکومت سنبھالی اور لک میں امن وامان قائم کیا ۱۹۳۳ء میں اسکا جانا قتل ہوجانا ضر مسیح مولود علی اسلام کی پیشگوئی کا مصداق ٹھہرا.جس کے الفاظ تھے.آہ ! نادر شاہ کہاں گیا" که الشورى ١٤٣٢لم شه - انا سٹوری آن خیبر مصنفہ محمد شفیع صابرمت مطبوعہ پشا در ۶۱۹۳۳ AFGHANISTAN HIGH WAY OF CONQUEST by Arnold Flatchez P.238, New york 1966.وه صیح بخاری کتاب الابنیاء باب يزفون النسلان في المشى ت - الانبياء ( :60 لله - النساء ابراهیم ۳۸۱۴ الصفت ۱۰۱ : ۴ ۱۰۳ : ۳۷ ملا صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يزفون النسلان في المشي - صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب يتوفون النسلان في المشي الروم ١١:٣٠ 1904 که خطبه جمعه یکم جون ۱۹۵۶ء مطبوعه الفضل ۱۲۲ جون ۶۱۹۵۶ مراء - الیواقیت والجواہر مصنفہ عبد الوہاب شعرانی جلد ۲ ص ۲۲ - تفسیر ابن کثیر جلد ۲ ص ۲۳

Page 405

ر فرموده ۱۹ جولائی ۱۹۵۷ء بمقام مسجد مبارک (بود) یہ عید عید الاضحیہ کہلاتی ہے یعنی اس میں جانور وں کی قربانیاں کی جاتی ہیں.ہم قادیان میں اس طرح کیا کرتے تھے کہ قربانیاں جمع کرلیا کرتے تھے اور پھر ان کا گوشت تمام محفلوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.اور یہ انتظام اس لئے کیا جاتا تھا کہ تا قربانی کا گوشت بر غریب اور میرے گھر پہنچ جائے یہاں ابھی اس طریق پر انتظام مکمل نہیں ہوا لیکن چونکہ انڈونیشیا میں قادیان کے پڑھے ہوئے طالب تم گئے ہیں اس لئے وہاں جماعت نے یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر احمدی اپنی قربانی مرکز میں پہنچا دیتا ہے اور آگے قام احمدیوں کی لسٹ بنا لیتے ہیں اور ایک انتظام کے مانستان میں وہ تقسیم کردیا جاتا ہے.اب یہاں فوری طور پہ تو سارا انتظام مشکل تھا تا ہم ایک بکرا تو میں نے قادیان میں کروا دیا اور پانچ دنوں کے متعلق یہ ہدایت دے دی ہے کہ انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت پانچے محلوں کے عہدیداروں کو دے دیا جائے کہ وہ اپنے طور پر تقسیم کر دیں.مگر ہونا یہاں بھی بھی چاہئیے کہ لوگ قربانی کا گوشت اکٹھا کہ ہیں اور ایک نظام کے تحت شہر کے لوگوں میں تقسیم کریں.آخر یہاں بھی خدا تعالنے کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے اور لوگ باہر سے بھی قربانیاں بھجوا دیتے ہیں.کچھ مدت پہلے ربوہ میں یہ دستور رہا تھا کہ لوگ اپنی قربانیاں لنگر خانہ میں دیدیتے تھے.مگر بر مهمان لنگر خانہ میں نہیں ٹھرا ہوتا.کئی مہمان گھروں میں بھی ٹھہرتے ہیں اور پھر صرف مهمان ہی قربانی کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ ربوہ کے مقیم لوگ بھی قربانی کے مستحق ہیں.اس لئے انتظام ایسا ہی ہونا چاہئیے کہ گوشت اکٹھا کہ لیا جائے اور اس میں سے ایک مناسب مقدار لنگر کو دے دی جائے.اور باقی گوشت تمام شہر کے لوگوں کی لسٹ بنا کر ان میں تقسیم کیا جائے.گرمی کی شدت اور تکلیف کی وجہ سے میں نے آج مصافحہ کے لئے بھی بعض خاص ہدایات دی ہیں پہلے تومیں نے ہدایت دیدی تھی کہ مصافحہ نہیں ہوگا لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ عید کے موقعہ پر فت درتی طور پر لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش ہوگی کہ وہ مصافحہ کریں.اس لئے میں نے مصافحہ کے لئے بعض ہدایات دے دی ہیں ان کے سانحہ منتظمین صف وار مصافحہ کرائیں گے لیکن کسی کو انتظار نہیں کرنے دیا جائے گا.پچھلی عید پر میں نے دیکھا تھا کہ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تھا.لوگوں کو دھکے دے کہ آگے لایا جاتا تھا اور قریب اگر کوئی ادھر کھسک جاتا تھا کہ ئیں آخر میں مصافحہ کروں گا اور کوئی اُدھر کھسک جاتا تھا کہ کسی طرح اسے زیادہ موقعہ مل جائے.یہ

Page 406

٣٥٨ طریق دو سروں کے حقوق کو بھی ناجائز طور پر تلف کرنے والا ہے اور خود اپنی جماعت اورا کو بھی تکلیف میں ڈالنے والا ہے اس لئے میں نے کہدیا ہے کہ کسی کو انتظار میں مت بیٹھنے منتظمین پہلے پہلی صف والوں کو مصافحہ کرا دیں اور وہ با ہر علی بیا نے پھر دوسری صف والوں کو مصالحہ کرنا ہیں جب وہ باہر چلے جائیں تو تیری صف والوں کو مصافحہ کرائیں.جب وہ باہر چلے جائیں تو جو بھی صف والوں کو مصافحہ کرائیں جتنے لوگ مصافحہ کو لیں ، کر لیں.جو رہ جائیں رہ جائیں کسی کو یہ اختیار نہ ہو کہ وہ مرضی سے آگے جائے.جو پہلی صف والا پہلے مصافحہ نہیں کرنا چاہتا وہ باہر جا کر بیٹھ جائے اور انتظا ر کرے پھر بعد میں اسے موقعہ مل جائے تو مصافحہ کرے ورنہ صبر کرے.یہ عید جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے قربانیوں کی عید ہے اور حضرت آئیل علیہ السلام کی یاد میں ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت آمنجیل علیہ السلام کی قربانی یہ نہیں تھی جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہیں ذبح کرنے کے لئے حضرت ابراہیم نے زمین پر لٹا دیا تھا لیکن بعد میں خداتعالے سے الہام پا کر آپ نے ذبح کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور انہی اشارہ کی بنیاد پر ان کی جگہ ایک بکرا ذبح کر دیا.میں بار ہا بنا چکا ہوں کہ در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کے وادی مگر میں چھوڑ آنے کے متعلق یہ رویا دکھائی نظمی تھی کیونکہ ایک بے آب و گیاہ وادی میں بیٹھے جانا بھی بہت بڑی قربانی ہے.جیسے شروع شروع میں ربوہ میں چند آدمی جیسے لگا کر بیٹھ گئے تھے تاکہ اسے آباد کیا جائے یہ وہ آدمی در حقیقت اس وقت امیلی سنت کو پورا کر رہے تھے وہ صرف اس لئے یہاں میٹھے گئے تھے کہ آئندہ یہاں ربوہ آباد کیا جائے.اگر وہ قربانی نہ کرتے اور ربوہ میں آکر جیسے لگا کر نہ میٹھے جاتے تو نہ یہ شہر بنتا نہ سڑکی نہیں نہ بازار بننے ، نہ مکانات بنتے اور یہ جگہ پہلے کی طرح چٹیل میدان ہی رہتی.امریکہ میں جعفری تھنکنگ ( FREE THINKING ) کی سنخر یک پیدا ہوئی ہے اس کا بانی ایک فرانسیسی شخص ہے اس نے اپنا قصہ یہی لکھا ہے کہ میں ایک دن اپنے باپ کے ساتھ ایک پادری کا وعظ سنے گیا تو وہاں اس نے یہ کہا کہ ابراہیم بڑا نیک انسان تھا اس نے خدا کی خاطر اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی.وہ کھتا ہے کہ اتفاق کی بات ہے میں بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹیا ہی تھا میں وہاں سے نکل کر بھاگا.میرے دل میں یہ خون پیدا ہوا کہ اگر میرے باپ کو یہ خطبہ سند آگیا تو وہ کہیں میری گردن پر بھی چھری نہ پھیر دے ، میں سمندر پر گیا وہاں ایک امریکہ جانیوالا جہاز کھڑا تھا ئیں اس میں گھس گیا اور کسی کو نہ میں چھپ کر میٹھے گیا.اور اس طرح امریکہ پہنچ گیا.یہاں میں گیا کو آکر میں نے یہ دہریوں والی تحریک جاری کی ہے.غرضیکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی قربانی کو فل شکل میں پیش کیا جاتا ہے

Page 407

149 حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی رڈیا کا یہ مطلب تھا کہ آپ اپنی مرضی سے اور یہ جانتے ہو مجھتے ہوئے کہ دادی مکنہ ایک بے آب وگیاہ جنگل ہے اور وہاں کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا.اپنی بیوی اور بچے کو وہاں چھوڑ آئیں.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا.جب حضرت اسمعیل علیہ السلام بڑے ہوتے تو آپ نے اپنی نیکی اور تقوی کے ساتھ اپنے گرد لوگوں کا ایک گردہ جمع کر لیا.اور انہیں نمانہ اور زکوۃ اور صدقہ و خیرات کی تحریک کر کے اور اسی طرح عمرہ اور حج کے طریق کو جاری کر کے آپ نے مکیہ کو آباد کرنا شروع کیا.چنانچہ ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں صدیوں سے مکہ آباد چلا آتا ہے قریبا تین ہزار سال سے برابر خانہ کعبہ آباد ہے اور اس کا طواف اور جج کیا جاتا ہے.پس عید الا ضحیہ کی قربانی بے شک اس قربانی کی یاد دلاتی ہے، مگر اس قربانی کی یاد نہیں ولاتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلامہ نے ظاہری شکل میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن پر چھر کی پھیردی.ر حقیقت قربانیوں کی عید ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم خدا تعالے کی خاطر او راس کے بعد دین کے لئے جنگلوں میں جانیں اور وہ ہاں جا کر خدا تعالے کے نام کو بند کریں.اور لوگوں سے اس کے رسول کا کلمہ پڑھوائیں جیسا کہ ہمارے صوفیاء کرام کرتے چلے آئے ہیں.اگر ہم ایسا کریں تو یقینا ہماری قربانی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ ہوگی.ہم یہ تو نہیں کر سکتے.کہ وہ قربانی با لکل حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی طرح ہو جائے گی کیونکہ دلوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے.حضرت اسمعیل علیہ السلام کے دل کی حالت اور تھی اور ہمارے زمانہ کے لوگوں کے دلوں کی حالت اور ہے مگر ہر حال وہ حضرت آمنجیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ ضرور ہو جائیگی پس تم اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش کرو.میرے نزدیک اس زمانہ میں حضرت سمعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ قربانی وہ مبلغ کر رہے ہیں جو مشرقی اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.وہ غیر آباد ملک ہیں جن میں کوئی شخص خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام نہیں جانتا تھا لیکن ان لوگوں نے وہاں پہنچکر انہیں خدا تعالے اور اس کے رسول کا نام بتایا.میں پہلے بھی ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ مغربی افریقہ کے ایک ملک میں عیسائیوں نے اپنے پریس میں احمدی اخبار کا چھاپنا بند کر دیا تو ہمارے مبلغ انچارج جماعت کا علیحدہ پریس لگانے کے سلسلہ میں چندہ اکٹھا کرنے سے نئے ایک جگہ گئے وہاں انہیں ایک ایسا آدمی ملا جسے انہوں نے بڑی تبلیغ کی تھی مگر اس نے احمدیت قبول نہیں کی تھی، بعد میں اس کے پاس ایک مقامی مبلغ پہنچا تو اس نے کہا کہ تمہارے بڑے پاکستانی مبلغ نے مجھے تبلیغ کی ہے لیکن اگر یہ دریا در وہ اس وقت ایک دریا کے کنارے جارہے تھے، اپنا رخ پھیر کر الٹی طرف چل پڑے تو یہ بات ممکن ہے لیکن میرا احمدیت کو قبول کرنا ناممکن ہے.

Page 408

لیکن کچھ دن اس مبلغ کی صحبت میں رہنے کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ احمدی ہو گیا.ہمارے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ جب میں وہاں چندہ لینے گیا تو اتفاقاً وہ شخص اس شہر میں آیا ہوا تھا وہ مجھے ملا اور کہنے لگا.آپ یہاں کیسے تشریف لائے ہیں.میں نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا اور کہا کہ عیسائیوں نے اپنے پریس میں ہمارا اخبار شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے.اور کہا ہے کہ اگر تمہارے خدا میں کوئی طاقت ہے تو اسے چاہئے کہ وہ کوئی معجزہ دکھائے اور تمہارا اپنا پرسیس جاری کر دے.پس میں اپنا علیحدہ پریس لگانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنے آیا ہوں.اس پر وہ احمدی دوست کہنے لگا مولوی صاحب! یہ تو بڑی بے غیرتی ہے کہ اب ہمارا اخبار ان کے پریس میں چھپے.آپ یہاں کچھ دیر انتظار کریں میں ابھی آتا ہوں.اس کا گاؤں قریب ہی تھا.وہ وہاں گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر اس نے پانچ سو پونڈ کی نیتم مولوی صاحب کے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ پریس کے سلسلہ میں یہ میرا چندہ ہے کے اس کے بعد خدا تعالے کے فضل سے اس مد میں ۲۰۰۰ پونڈ کے قریب چندہ جمع ہو چکا ہے.اور اب سُنا ہے کہ پریس لگ رہا ہے ہے یا کم از کم وہ انگلستان سے چل چکا ہے.غرض ہمارے یہ مبلغ ایسے ممالک میں کام کر رہے ہیں جہاں جنگل نہی جنگل ہیں.شروع شروع میں جب ہمارے مبلغ وہاں گئے تو بعض دفعہ انہیں وہاں درختوں کی جڑیں کھانی پڑتی تھیں اور وہ نہایت تنگی سے گزارہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہو جاتی تھی.گو اب ہمارے آدمیوں کے میل ملاپ کی وجہ سے ان لوگوں میں کچھ نہ کچھ تہذیب آگئی ہے.ان ممالک کے سفیر آدمیوں کی قبر کہا جاتا ہے تے کیونکہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں نہیں میں جب سفید آدمی وہاں جاتے ہیں تو وہ مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور پیش وغیرہ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.غرض اس زمانہ میں حضرت اسمعیل علیہ السلام سے زیادہ سے زیادہ مشابہت ہمارے مبلغوں کو حاصل ہے.جو اس وقت مشرقی اور مغربی افریقہ میں کام کر رہے ہیں.کیونکہ وہ ملک اس وقت بھی جنگل ہیں اور دنیا میں کوئی اور ملک جنگل نہیں.امریکہ کبھی آباد ہے یورپ بھی آباد ہے اور مڈل ایسٹ بھی اب آباد ہو چکا ہے لیکن افریقہ کے اکثر علاقے اب بھی غیر آباد ہیں.ان میں تبلیغ کرنے والوں کو بڑے بڑے لمبے سفر کرنے پڑتے ہیں اور بڑی جان کا ہی کے بعد لوگوں تک اسلام پہنچانا پڑتا ہے.خدا تعالے نے یہ ملک ہمارے لئے رکھے تھے تا کہ ہمارئے نوجوان ان میں کام کر کے حضرت اسمعیل علیہ السلام سے مشابہت حاصل کریں.پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوان افریقہ کے جنگلات میں بھی کام کر رہے ہیں.مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری کیا جا سکتا ہے چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب پشتی اور حضرت

Page 409

شہاب الدین صاحب سم در دشتی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں ستحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں.وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے طریق پہ کام نوں کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں.وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں.ہمارا ملاک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے.اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے سہر وردیوں کی ضرورت ہے نقشبندیوں کی ندرت ہے اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت عین الدین صاحب پشتی حضرت شہاب الدین صاحب سهروردی ، در حضرت فرید الدین صاحب کر گئی جیسے لوگ را نہ ہوتے تو یہ ملک رومانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا.بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائیگا جتنا مکہ مکرمہ کسی زمانہ میں آبادی کے لحاظ سے ویران تھا.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں وہ صدر انجین احمد یہ یا تحریک جدید کے ملازم نہ ہوں.جبکہ اپنے گزارہ کے لئے وہ طریق اختیار کریں جوئیں انہیں بناؤں گا اور اس طرح آہستہ آہستہ دنیا میں نئی آبادیاں قائم کریں.اور طریق آبادی کا یہ ہوگا کہ وہ حقیقی طور پر تو نہیں ہاں معنوی طور پر ربوہ اور قدیان کی محبت اپنے دل سے نکال دیں اور باہر جا کرتے رہو سے اور نئے قادیان بسائیں.ابھی اس ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں میلوں میل تک کوئی بڑا قصبہ نہیں وہ جا کر کسی ایسی جگہ مجھے جائیں اور حسب ہدایت و ہاں تبلیغ بھی کریں اور لوگوں کو تعلیم بھی دیں.لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث پڑھائیں اور اپنے شاگرد تیار کریں جو آگے اور جگہوں پر پھیل جائیں.اس طرح سارے ملک میں وہ زمانہ دوبارہ آجائیگا جو پرانے صوفیاء کے زمانہ میں تھا.دیکھو ہمت والے لوگوں نے پچھلے زمانہ میں بھی کوئی کمی نہیں کی.یہ دیوبند جو ہے یہ ایسے ہی لوگوں کا قائم کیا ہوا ہے.مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کی ہدایت کے ماتحت یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.اور آج سارا ہندوستان ان کے علم سے منور ہورہا ہے.حالانکہ وہ زمانہ حضرت معین الدین صاحب چشتی کے زمانہ سے کئی سوسال بعد کا عقابیس کن پھر بھی روحانی لحاظ سے وہ اس سے کم نہیں تھا جب کہ ان کے زمانہ میں السلام هندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں تھا.اس زمانہ میں بھی وہ ہندوستان میں ایک مسافر کی شکل میں ہی تھا حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے اپنے شاگردوں کو ملک کے مختلف حصوں میں بھجوایا جن میں سے ایک ندوہ کی طرف بھی آیا پھر ان کے ساتھ اور لوگ مل گئے اور ان رہنے اس ملک میں دین اور اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں.اب چاہے ان کی اولا د خراب ہو گئی ہے.دارالعلوم دیوبند مراد ہے جو وہ نامحمدقاسم نانوتوی کے نام پر قاسم العلوم کہلاتا ہے اس سے کے اصل محرک مولوی فضل الرحمن سنا اور او اور اسائندہ تھے بعد میں مولانا نانوتوی کی سر پرستی میں اسے بہت فروغ حاصل بود موج کوثر ۲۰ مطبوعہ فیروز سنز لاہور نشده

Page 410

اللہ تعالئے ہماری اولادوں کو بچائے کہ وہ خراب نہ ہوں ، لیکن ان کی اولادوں کی خرابی ان کے ختیار میں نہیں تھی.انہوں نے تو جس حد تک ہو سکا دین کی خدمت کی بلکہ جہاں تک مسلمی اولاد کا تعلق تھا مولانا محمد قاسم صاحب کی اولاد پھر بھی دوسروں سے بہت بہتر ہے.میں جب ندوہ دیکھنے گیا.تومولویوں نے ہماری بڑی مخالفت کی.مگر مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے بیٹے یا پوتے جو ان دنوں ندوہ کے منتظم تھے انہوں نے میرا بڑا ادب کیا.اور مدرسہ والوں کو حکم دیا کہ جب یہ لوگ آئیں تو ان سے اعزاز کے ساتھ پیش آئیں.بعد میں انہوں نے میری دعوت بھی کی لیکن میں پیشی کی وجہ سے اس دعوت میں شریک نہ ہو سکا.میرے ساتھے اس سفر میں مولوی سید سردار شاہ صاحب.حافظ روشن علی صاحب اور قاضی سید امیرحسین صاحب بھی تھے اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے اندر ابھی مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی والی شرافت باقی تھی اگر ان میں وہ شرافت نہ ہوتی تو ہمارے جانے پر جیسے اور مولویوں نے مظاہرے کئے تھے وہ بھی مظاہرہ کرتے لیکن انہوں نے مظاہرہ نہیں کیا.اور بڑے ادب سے پیش آئے اور بڑی محبت کے ساتھ انہوں نے ہماری دعوت کی اور استقبال کیا.بعد میں انہوں نے مولوی عبید اللہ صاحب ہے سندھی کو ہمارے پاس بھیجوایا اور معذرت کی کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ بعض مولویوں نے آپ سے گستاخانہ کلام کیا ہے مجھے اس کا بڑا افسوس ہے میں انہیں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ ایسا نہ کیا کریں لیکن وہ سمجھتے نہیں.اس وقت مولوی عبید اللہ صاحب سندھی جو بڑے متمدن اور مہذب آدمی تھے ان کے مشیر کارتھے.اور وہ مولوی صاحب کا پڑا لحاظ کرتے تھے اور انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی باتیں مانتے تھے لیکن اصل بات یہی ہے کہ ماننے والے کے اند رجب تک اطاعت کا مادہ نہ ہو تو چاہے اسے کوئی کتنا بڑا آدمی ہی کیوں نہ مل جائے.وہ مفید نہیں ہو سکتا.مولوی محمد قاسم صاحب کے یہ بیٹے یا پوتے جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا نام غالب محمد یا احمد تھا.مولوی عبید اللہ صاحب سندھی انہیں ہمیشہ صحیح مشورہ دیتے رہتے تھے اور اور ان سے ایسا کام لیتے تھے جس سے اسلامی اخلاق صحیح طور پر ظاہر ہوں.چنانچہ اسی کا یہ ہم نتیجہ تھا کہ انہوں نے میرا بڑا ادب کیا اور دعوت کی اور بعد میں مولوی عبید اللہ صاحب سندھی ا کو میرے پاس بھیج کر معذرت کی کہ بعض مولویوں نے آپ کے ساتھ گستاخانہ کلام کیا ہے جس کا مجھے افسوس ہے آپ اس کی پرواہ نہ کریں.تو ہماری جماعت کے لئے اس ملک میں بھی ابھی صوفیا، پہنا کے طریق پر کام کرنے کا موقعہ ہے جیسا کہ دیوبند کے قیام کے زمانہ میں ظاہری آبادی توبہت بھی ہے لیکن روحانی آبادی کم ہوگئی تھی.روحانی آبادی کی کمی کی وجہ سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی : نے دیکھ لیا تھا کہ یہاں اب روحانی نسل جاری کرنی چاہئیے تاکہ یہ علاقہ اسلام اور روحانیت کے اس گراد دار العلوم ندوہ لکھنؤ ے جس کو مولانا کہ علی من کا نوری نے شہر میں قائم کیا اسے دار العلما بھی کہتے ہیں وہ ایل اعمال کی سرپرستی

Page 411

۳۰۳ نور سے منور چنانچہ انہوں نے بڑا کام کیا، جیسے ان کے پیر حضرت سید احمد صاحب بریلوی نے بڑا کام کیا تھا اور جیسے ان کے ساتھی حضرت اسمعیل صاحب شہید کے بزرگ اعلیٰ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے بڑا کام کیا تھا.یہ سارے کے سارے لوگ اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.در حقیقت ہر زمانہ کا فرستادہ اور خدا تعالے کا مقرب بندہ اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے باقی انبیاء اپنے اپنے زمانہ کے لیئے اسوۂ حسنہ تھے سید احمد صاحب شہر مہندی اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے اور حضرت سید احمد صاحب بریلوئی اپنے زمانہ کے لئے اسوہ حسنہ تھے.پھر دیوبند کے جو بزرگ تھے وہ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ تھے انہوں نے اپنے پیچھے ایک نیک ذکر دنیا میں چھوڑا ہے.ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے.اسے یاد رکھنا چاہیئے اور اس کی نقل کرنی چاہیئے.سو آج بھی زمانہ ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جن میں اس قربانی کا مادہ ہو کہ وہ اپنے گھر بار سے علیحدہ رہ سکیں.بے وطنی میں ایک نیا وطن بنائیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے ذریعہ سے تمام علاقہ میں نور اسلام اور نور ایمان پھیلائیں، اپنے آپ کو اس غرض کے لئے وقف کریں.میرے نزدیک یہ کام بالکل ناممکن نہیں بلکہ ایک سکیم میرے ذہن میں آرہی ہے.اگر ایسے نوجوان تیار ہوں جو اپنی زندگیاں تحریک جدید کو نہیں بلکہ میرے سامنے وقف کریں اور میری ہدایت کے ماتحت کام کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ خدمت اسلام کا ایک بہت بڑا موقعہ اس زمانہ میں ہے جیسا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے زمانہ میں تھا یا جیسا کہ حضرت سید احمد صاحب بریلوئی اور دوسرے صوفیا ریا اولیاء کے زمانہ میں تھا.الفضل یکم اگست شاید ) له - الصفت ۳۷ : ۱۰۸ ، سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحية ه تاریخ احمدیت جلد ۱۲ ص۲۲۲ ہے.انچارج مبلغ مکرم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری - اخبار کا نام دی اوریقین کرسینیٹ اور افریقین دوست جن کا یہاں ذکر ہے.شه - تاریخ احمدیت جلد ۸ شده - Page 720 London 1955.مکرم حاجی چیف قاسم کے کمانڈ ا صاحب ہیں.INSIDE AFRICA" by John Gunther ۵۴ - حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ) - ۶۱۱۴۲ 1

Page 412

۶۱۳۳۳ - شه - حضرت شیخ شهاب الدین شهر در دی رحمة الله علیه ).2 - حضرت فرید الدین با با شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ ) ۵۶۹ ۶۶۴ فرید ) شاه حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ - ے.تاریخ احمدیت جلدم مام - - ۱۲۴۸ - ه - ناظم مدرسه مولوی محمد احمد صاح تھے جو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے خلف الرشید تھے تاریک احمدیت جلد ۴۲) له - حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے متعلق نوٹ منٹ پر ملاحظہ ہو.ه - حضرت حافظ روشن علی صاحب ( ۱۸۸۲ - ۱۹۲۹ ۶) کا ملے.حضرت قاضی سید امیرحسین صاحب رضی اللہ عنہ ( 19 ) - مولوی عبید اللہ صاحب سندھی (۱۱۸۷۲ - ۶۱۹۴۴ ) بر صغیر پاک و ہند کے مشہور عالم دین تھے.ه - حضرت شاہ ولی الله صاحب محدث دہلوی ) F- 01164 برصغیر پاک و ہند کے ممتاز عالم دین محدث اور مفسر تھے آپ کئی مشہور کتابوں کے مصنف بھی تھے.شاه حضرت شیخ احمد سرمندی مجدد الف ثانی ) #961.plore 51845 ۶۱۹۲۴ ) وقف جدید کی طرف اشارہ ہے جس کے اجراء کا اعلان حضور رضی اللہ عنہ نے 100 کے طلبہ سالانہ کے موقعہ پر کیا تھا.رالفضل ، جنوری ، اس کی تفصیلات حضور نے خطبہ جمعہ فرموده به در نور استوار و مطبوعه الفضل در جنوری شام میں جماعت کے سامنے رکھیں.وقت تمدید نجمین احمدیہ کا باقاعدہ قیام ۱۹ جنوری شششبہ کو عمل میں آیا.

Page 413

۴۰۵ ۴ د فرموده ۲۹ جون شاه بمقام هری) مری سے بذریعہ فون اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مورخه ۲۹ جون شاه کوسیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے نے نماز عید الاضحیہ پڑھائی جس کے بعد حضور نے قربانی کے موضوع پر ایک بصیرت افروز خطبه ارث و فرمایا جو قریبا نصف گھنٹے تک جاری رہا.خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ یہ زمانہ خصوصیت کے ساتھ قربانیوں کا زمانہ ہے.اس میں ہی قوم زندہ رہ سکتی ہے اور ترقی کر سکتی ہے جو عملاً ہر وقت قربانیوں کے لئے آمادہ رہے.حضور نے فرمایا: عیسائیوں نے قربانیاں کیں اور آج تک ان کی نسلیں اس قربانی سے فائدہ اٹھارہی ہیں.افسوس ہے کہ مسلمانوں نے آہستہ آہستہ اس سبق کو فراموش کر دیا جس کی وجہ سے انہوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا.اب ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ متوانت اول مسلسل دین کی راہ میں ستر با بنیاں کر کے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو قریب سے قریب تر کر یہ سوال الفضل در تجود لائی شان) افسوس ہے یہ خطبہ الفضل یا کسی دوسرے رسالہ میں شائع نہیں ہوا.(مرتب)

Page 414

انشار خطبات محمود جلد دوم ابراہیم علیہ السلام - حضرت ابوالانبیاء - ۳-۴ ابوجهل - ۲۴۰ - ۲۵۵ - ۲۶۹-۲۷۱ احد جنگ - ۴۹ - ۲۱۵ - ۲۲۹ - ۲۴۸ - - ۶۰-۴۹ - ۴۲-۲۱-۱۸-۱۵-۱۴ ۱۱۳-۱۰۷ - ۱۰۲ - ٢٢-٨١-٨٢-۶۲ ۱۴۸-۱۴۵ - ۱۳۴ -۱۲۹-۱۲۳ - ۱۱۹ ۱۷۶-۱۷۵-۱۷۱-۱۶۸ - ۱۵۵ - ۱۵۲ ۲۲۷-۲۱۷ -١٩٨٠١٨٩ - ٢٠١-٢١٠ ٣٠٢ احزاب جنگ - ۲۰۳ - ۲۰۷ - ۳۶۹ احمداللہ ناگپوری.حضرت حافظ - ۳۶۲ احمدیہ انٹر کا نجفیٹ ایسوسی ایشن - ۲۰۸ ۲۳۵ - ۲۴۴ - ۲۵۷ - ۲۶۲ - ۲۷۸ - حضر ، آدم علیه السلام - ۶۷ - ۱۲۸- ۱۳۴-۱۵۱ 1 ۲۸۳ - ۲۹۷ - ۳۰۶ - ۳۱۲ - ۳۱۸- حضر المعیل علیه السلام - ۲-۱۶ - ۵۵ - ۶۰ ۳۸۸-۳۸۵-۳۷۹-۳۶۵ -۳۴ -۳۹۳-۳۹۲ ابر سیم - صاحبزادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۲۴۷-۲۹ ابراهیم ادهم - ۳۴۲ ۱۰۷ - ۱۰۵ - ۸۳ ۸۲ - ۶۳ - ۹۱ ۱۵۶-۱۳۴ - ۱۲۹ - ۱۲۴ - ۱۲۳ - ۱۲۲ - ۲۵۰-۲۴۴ - ۲۱۸ - ۱۹۱ - ۱۵۹ ۳۴۲-۳۲۱-۳۱۸ - ۲۹۸ - ۲۷۸ ۳۹۸-۳۹۳-۳۸۸-۳۸۵ -۳۴۶ ابو بکر رضی اللہ عنہ - حضرت خلیفۃ الرسول الاول -۳۰ | حمزه اسحاق علیہ السلام - ٣ ۲۴۷-۲۲۵ - ۱۸۱ -۱۶۹ - ۵۰-۳۷ - -٨٣٠-١٠٣ ۳۹۵-۳۲۱-۲۵۰-۱۳۲ ۲۳۸ - ۲۵۱ - ۲۵۳ - ۳۲۵-۲۶۹ آسنور د کشمیر: ۳۶۹-۳۶۱ ، آسٹریلوی پارلیمنٹ.۳۳۲ ابو طالب عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افریقہ - ۲۱ - ۳۲۲ - ۳۵۲ - ۳۵۵ - عم ۲۱۸ - ۸۵ ۳۹۹ ابو عبيدة بن الجراح - ۱۰۰ - ۲۴۷ - ۲۵۶ افغانستان - ۲۲۳۲۰۲۸۶۰۹۰۳۰۲۱ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ - ۱۲۵ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ - ۱۸۶ ۳۲۲ - ۲۸۶ افریقن کریسنٹ اخبار - ۴۰۳ ابو برزة الاسلمی رضی اللہ عنہ.۲۳۲ الفضل اخبار - ۱۹۴ - ۱۹۵ - ۳۳۹

Page 415

امریکہ - ۲۱- ۳۵۲-۳۲۲ - ۲۱ امتہ العزیز صاحبزادی - ۸۸ امہ الحکیم صاحبزادی - ۳۳۸ امیر سین - حضرت قاضی سید - ۴۰۲-۴۰۴ امیہ بنو - ۱۸۱ - ۱۸۶ امرت سر - ۲۶۱ انس بن مالک رضی اللہ عنہ.۲۲۳۲ انڈ نیشیا.۳۲۲-۳۵۵ انڈین یونین - ۳۲۲ اوریتی - ۱۴۸ تخر یک فری تھنکنگ ستخر یک وقف جدید - ۴۰۰ - ۴۰۴ ثناء اللہ مولوی - ۶۶ - ۶۹ ثور غار - ۲۱۴ - ۳۴۵ ثقیفہ بنو - ۲۷ جاپان - ۱۸۳ جان محمد حضرت میاں - ۳۳۷ - ۳۴۹ جرمنی - ۱۸۳ ایران - ۲۱ - ۵۰ - ۱۸۱ - ۳۲۲-۳۷۸ جنگ عظیم (اول) - ۵-۷ - ۵۶ ایشیا - ۱۱۳ - ۳۲۳ - ۳۵۲ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ - ۱۶۲ - ۱۷۸ جہلم دریا - ۱۳۹۴ با تو خان - ۳۲۲۳ - ۳۲۶ بدھ مذہب - ۲۷۱ چنگیز خان - ۳۲۳ - ۳۲۶ بدر جنگ - ۲۲۹ - ۲۲۸ - ۳۴۵-۳۷۱ چناب دریا - ۳۹۲ برمکی خاندان - ۳۴۴ - ۳۵۰ بریا - ۳۲۲ - ۳۷۸ چھتری یادگار - ۸۷ مین - ۱۸۳-۲۷۱-۳۲۲ برهان الدین - حضرت مولوی - ۳۸۲-۳۸۴ چیمبر لین برطانوی وزیر اعظم - ۲۷۹ - ۲۸۱ - بھیرہ (ضلع سرگودھا) - ۲۶۱ بسیار رضویه - ۱۷۰-۲۸۸ بیرم خان - ۴۰ - ۵۲ پاکستان - ۳۱۷ - ۳۵۵ - ۳۶۰ پروٹسٹنٹ - ۱۱۳ حامد علی حضرت شیخ - حبشہ رائے سینیا، ۲۴۹ - ۲۶۶-۳۲۲ حجاز د سعودی عرب ۱۲۰-۱۸۱-۳۱۹ ۳۵۵ حجاج بن یوسف - ۱۷۱ را غمار - ۲۱۴ تحریک جدید - ۲۲۶-۳۹۱ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ - ۲۶-۳۶

Page 416

۴۰۸ حضرت امام - ۸۶ - ۲۲۳ - ۲۲۵ رین باغ - ۳۲۷ حسن حضرت امام - ۹۰ - ۲۲۵ سن نظامی خواجه علی - ۲۵۳ - ۲۵۶ رجیع - ۲۳۱ - 1.رضی اللہ عنہ - ۲۵۱ - ۲۵۳-۲۵۶ رنبیر سنگھ مہاراجہ - ۱۷۶ - ۱۸۷ ۲۰۴ مین جنگ - ۲ خالد بن ولید - ۲۷۰ - ۲۷۴ - ۳۲۰ - روس - ۳۷۹ روشن علی - حضرت حافظ - ۴۰۲ - ۴۰۴ روشیلڈ - ۳۴۴-۳۵۰ ۳۶۱ خدیجه ام المؤمنین - ۶۳ - ۳۶۱ زبیر بن العوام - ۳۰ - ۲۵۶-۲۵۳ - ۲۵۱ خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ - ۴۸-۹۴ زرتشتی مذہب - ۸۳ ۳۲۸ - ۲۷۰ - ۲۰۹ - ۱۳۹ خندن جنگ - ۲۰۳ - ۳۷۱ داد منظفر احمد سید - ۳۳۸ دوله شاه - ۱۷۴ - ۱۸۶ دہلی - ۲۸۶ دیانند پنڈت - ۲۷۱ - ۲۷۵ ویویند - دارالعلوم - ۴۰۱ ڈچ قونصل - ۱۳۷ ڈیرہ اسمعیلیاں.۳۹۰ راسکین - راک مجید - ۳۴۴ - ۳۵۰ راوی دریا - ۳۹۴ زکریا علیہ السلام - ۳۲-۲۵۱ - زمزم - ۱۵-۱۹ - ۶۳ - ۸۲ - ۱۵۱ - -۲۴۶ زید بن عمرو بن نفیل - ۶۶ - ۱۴۹ زید بن دشنه - ۲۳۱ زید بن ارقم - ۳۲ ۲۳۲ زید بن حارثہ - ۳۶۳ زین العابدین – ۱۵۷ - ۲۲۳ - ۲۲۴ سارہ رضی الله عنها - ۲۱۰ سعید بن جبير - ۲۶ سعد بن معاذ - ۳۷ د من الربيع - ۲۳۱ - ۲۴۷ سعد بن ابی وقاص - ۲۵۶ سلمان الفارسی - ۳۱ - ۳۸ ربوه - ۳۲۲ - ۳۵۱ - ۳۹۳ - ۳۹۷-۳۹۸ سلمہ رضی الله عنها أم المؤمنين - ۹۰

Page 417

سہارنپور - ۲۳۹ سیالکوٹ - ۳۵۷ سیلون - ۳۷۸ عائشہ - حضرت ام المومنين.٣٧٩ عامر بن ابی وقاص - ۲۵۶ سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ - ۳۸۹-۳۹۶ عبدالله بن عباس رضی الله عنها- ۱۵-۲۷ - - ۴۰۱ سید احمد سربندی - ۴۰۳-۴۰۲ سید اسمعیل شید - ۳۸۹-۳۹۲ سی انڈریا سا مسٹر.۱۴۰ TIA-YY عبداللہ بن مسعود - ۳۷ عبد الله حفیف - ۱۲۷ عبد الله بن ابی بن سلول - ۵۰ عبید اللہ سندھی موادی - ۲۹۴ - ۲۰۲ شام - ۱۲۰- ۳۱۹ - ۳۲۲-۳۵۵ م.م شبلی رحمتہ اللہ علیہ.۱۶۱ - ۱۷۷ - شریف دو تا شهید - ۲۹۴ شعب ابی طالب - ۶۸ عبید اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما - ۳۲۹ عباس بن عبد المطلب - ۲۵۱ - ۲۵۳ - عباس بنو.JAY SAI ۲۵۶ شهاب الدین سهروردی - ۴۰۱ - ۴۰۳ عبد الاحد خال - ۱۶۶ - ۱۷۲ شعیب علیہ السلام - ۲۵۱ شیر شاه شوری - ۴۰-۵۲ عبد القادر جیلانی حضرت سید - ۹۵ - ۱۶۰ شیبه - ۲۴۷ - ۲۶۹ - ۲۷۱ عبد الکریم - حضرت مولوی - ۱۷۰-۱۷۲-۲۷۱ صالح علیہ السّلام - ۵۱ سفا - ۰۱۵۶-۱۲۳ - ۸۲ - ۹۳ ۲۲۲ - ۲۲۱ صفوان بن امیہ - ۲۳۱ صلح حدیدیه - ۳۱۸ - ۳۶۷ طلحہ بن عبید الله - ۳۰ - ۳۸ - ۲۴۷ - ۲۵۵-۲۵۱ ۳۰-۸ عبد اللطیف شہید - صاحبزادہ سید - ۱۸۶ عبدالرحمن شہید - مولوی - ۱۸۶ عبد المطلب - ۲۱۷ عبد الرحمن بن عوف - ۲۴۷ - ۲۵۳-۲۵۶ ۳۸۲ ۲۴۸ عبد الرحمن بن ابی بکر عبد المجید شهزاده - ۲۹۲ عقبہ - ۲۴۷ - ۲۶۹-۲۷۱ عثمان بن عفان - حضرت خلیفة الرسول الثالث - ۳۰ ۲۶۱-۲۵۱-۲۴۷ - ۲۲۵ - ۸۵ - ۳۰

Page 418

- فرعون - ۴۶ عثمان بن مظعون - ۲۴۷ - ۲۵۳ - ۲۷۶ عراق - ۵۰ - ۱۴۸ - ۳۵۵ - ۳۶۶- ۳۷۸ فرید الدین شکر گنج - ۴۰۱ - ۴۰۴ عرفات - ۱۲۰ - ۱۲۲- ۱۲۷ - ۳۵۸ فضل برمکی ۲۳۶ فضل قبیلہ ۲۳۱ عقبہ رضی اللہ عنہ - ۱۰۰ عکرمہ بن ابی جہل - ۲۷۰-۲۷۴ على بن ابی طالب - حضرت خلیفة الرسول الرابع ހ ۲۵۱۰۲۴۷-۲۲۵۰۱۸۱-۱۰۰ - ۳۸ -۳۰ عمر بن خطاب حضر علیه الرسول الثانی- ۳۰- ۳۸-۱۰ عمران بن ابی سلمہ - ۹۰ عمر بن عبد العزيز - ۲۲۴ - ۲۳۲ عمرو بن عاص - ۳۶۱ - ۳۶۳ عمر بن وهب الجمحی - ۳۷۶ - فضل الرحمن - مفتی - ۲۱۷ فضیل بن عیاض - ۷۸ فلسطین - ۲۷۹ - ۳۲۲ فادیان - ۲۲ - ۱۱۸ - ۲۶۰ - ۳۱۱ - ۳۹۴-۳۴۰ - ۳۲۷ - ۳۱۴ قاره قبیله - ۲۳۱ قارون - ۳۴۴ - ۳۴۹ قاسم کمانڈا حاجی چیف.۴۰۳ قبلائی خان - ۳۲۳ - ۳۲۶ عیسی مسیح ناصری علیه السلام - ۸۰ - ۸۹ - کابل - ۱۹۳ ۳۵۶-۲۵۱-۱۵۳ - ۹۸ - ۹۵ کافور - ۳۴۱ غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام - حضرت مرزا - کریرا مسٹر - ۳۹۰ شدی - ۱۴۸ ۰۲۵-۲۲- ١٣ - ١٩ - ٢١ - ۱۲ -۲۵ - ۵۴ - ۹۹ - ۱۳۶ - ۱۴۷- کشمیر - ۱۵۶ - ۱۶۹ - ۱۷۶ -۲۶۶-۲۵۷-۲۴۶-۲۰۲ ۳۹۹-۳۵۸-۳۵۱ - ۲۶۹ ۲۶۱۰۲۴۲-۲۲۳ - ۱۸۰-۱۶۹ ۰۲۳۴ -۳۲۵-۲۰۰-۲۰۱ فلام محمد حکیم ۱۶۶ - ۱۷۲ کعب بن اشرف - ۲۹ کنفیوشس مذہب - ۲۷۱ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم - ۸۵ گاندھی جہا تھا.فتح مكة ؟ ۲۶۹ - ۳۷۸-۳۳۹ گلاب سنگھ مہاراجہ ۱۷۶ - ۱۸۶ فرانس - ۴۱ - ۱۸۳

Page 419

لاہور - ۲۶۱ - ۳۲۸ بید شاعر - ۲۶۷ لوط علیہ السلام - ۳۱۲ -۳۱۱ - ۱۹۹-۱۵۰ مریم صدیقہ - ۲۷۰ مزدلفه - ۱۲۰ - ۱۲۲-۱۲۶ مصر - ۳۱۶ - ۳۵۵- ۳۷۸ معاویہ بن یزید - ۲۲۴ - ۲۳۲ معین الدین چشتی - خواجه - ۴۰۰ - ۴۰۳ مبا به که میگیم - حضرت سیده نواب - ۲۱۹ مقداد بن عمرو - ۳۷ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکه معظمه (وادی خیر زرع ) ۳- ۴ - ۱۵ - - IYP-IY-A1-01-19-14 -۱۵۱-۱۴۶ - ۱۳۴ - ۱۳۱ - ۱۲ -۲۴۵ - ۲۲۱ - ۲۱۸ - ۲۱۱ -۲۰۲ ۳۵۱-۲۶۵ - ۲۵۹ - ۲۵۱ - ۲۴۹ ۳۹۹-۳۸۵ ۳۲-۲۸-۲۷-۲۶ - ۲۵ - ۱۱-۱ - ۶۱ - ۴۹ - ۴۴ ۱۴۲ - ۱۳۸ - ۱۱۶ - ۹۵ - ۹۴ ۲۲۹-۴۲۴-۲۱۴ - ۱۸۱ -۱۴۹ ۲۶۵-۲۵۰-۲۴۸ - ۲۴۵ - ۲۳۳ ۲۶۹ - ۲۹۱ - ۳۰۲ - ۳۱۹-۳۰۵ منی - ۱۵-۱۲۰- ۱۲۲- ۱۲۶ - ۲۰۲ - ۳۶۱-۳۴۵ -۳۴۳ -۳۲۹ محمد سرور شاہ - حضرت سید - ۱۷۹-۱۷۱ منمار ریلوے جنکشن - ۷۹ منصوری بہار - ۱۴۱ ۴۰۲ منصور حلاج - ۱۷۸ - ۱۸۷ محمد صادق - حضرت مفتی - ۲۸۲ - محمد ابرا استیم بقا پوری - مولوی - ۲۶۳-۲۶۴ موسی علیه السلام - ۴۲ - ۴۶ - ۹۸ - ۲۷۸ - ۲۵۱ محمد بن یزید الدمشقی - ۲۴۳ محمد قاسم نانوتوی - مولانا - ۴۰۱ - ۴۰۲-۳۰۴ مونود احمد - ۳۳۸ محمد صدیق امرتسری - مولانا - ۴۰۳ میرٹھ - ۲۳۹ محمد احمد مولوی ۴۰۴ محمد حسین بٹالوی مولوی - ۶۶-۶۹ محمد علی مولوی - ۵۱ مدینه منوره - ۲۲۸ - ۳۰۲ نا در شاه - ۳۸۹ - ۳۹۶ ناصر نوائب - نانا جان حضرت میر ۲۰۸ - ندوۃ العلماء لکھنو.۴۰۲ ۲۴۳-۲۴۰ مروه - ۶۳-۸۲ - ۱۲۲ - ۱۵۶- نپولین - ۴۰ ۲۲۲-۲۲۱

Page 420

۴۱۲ نظام الدین اولیاء - ۲۵۳ - ۲۵۶ نظام الدین مرزا - ۲۱۳ – ۲۳۱ نعمت اللہ خان شہید مودی.نوح علیہ السلام - ۴۲-۴۶ - ۱۵۱-۲۵۱ - نور علی شہید قاری - ۱۸۷ واٹرلو - ۴۱.ولید بن مغیره - ۲۶۹ - ولیم میور سر ۳۷۰ ولیم سر چیف آف دی جنرل سٹان ۳۹۰ بابیل - ۵۰ ہٹلر اورلف - ۲۷۹ - ۲۸۱ ہلاکو خان - ۳۲۳ - ۳۲۶ ہمایوں شبیت و نصیر الدین محمد - ۲۰-۵۲ ہندوستان - ۱۵ - ۲۱-۱۹۳-۳۵۵-۳۷۸ ہون - ۳۹ ہوازن بنو - ۲۷ ہوشیار پور - ۳۸۳ يحي برمکی ۲۳۶ - ولی اللہ شاہ محدث دہلوی - ۴۰۳ - ۴۰۴ یزید بن معاویه - ۱۵۷-۲۲۳ یعقوب علیه السلام - ۲۵۰ ہاجرہ رضی اللہ عنہا- ۴ - ۱۵ - ۱۷ - ۲۱-۶۱ - یعقوب علی عرفانی شیخ - ۰۹ - ۲۱۷-۲۳۱ ۹۲ - ۸۱ - ۱۰۷ - ۱۲۱ - ۱۵۹-۱۵۵ یوحنا حوارمی - ۹۶ ۳۸۸-۲۵۹-۲۱۸۰ - ۲۱۰ - ۱۹۱ ۳۹۳ ہاٹن ٹاٹ قبیلہ - ۱۷۴ ہارون الرشید - ۲۳۶ یورپ - ۲۱ - ۸۷ - ۲۷۲ - ۳۲۲ - ۳۵۲ - بور مین مصنفین - ۱۰ - ۱۳ یوسف علیہ السّلام - ۲۳۳ - ۲۹۰ یامان - ۴۶

Page 421

۴۱۳ قرآن کریم کتابیات الفاتحه ۱ : ۳۷۵ BIBLIOGRAPHY : البقره ٢ : ٢ - ٢٤ - ٣٨ - ۶٩ - ۷۸ - ۱۱۰ - ۱۱۸ - ۱۳۲ - ۱۹۵ - ۲۵۵ - ۲۶۳ - ۳۷۵-۳۳۵ آل عمران ۳ : ۱۳ - ۵۲ - ۱۸۶ - ۲۶۴ - ۳۷۵ النساء ۴ : ۳۹۶-۳۷۵-۲۳۱۰۱۷۲-۵۳ المائده ۵ : ۳۷ - ۵۹ - ۱۳۲ - ۲۷۵ - ۳۷۵ الانعام ۱۶ ۱۶۳ - ۳۷۵ الاعراف : ۵۲ - ۱۹۵ - ۲۵۵-۳۲۶-۳۷۵ الانفال : ۱۱ 11 A -4≤ التوبة 9 : یونس ۱۰: ۵۳ ۳۳۰-۲۵۵-۲۳۱-۱۹۵ - ۱۷۲ - ۱۳ ہود ۱۱ : ۲-۵۲-۱۱۸ - ۱۶۳ - ۲۰۷ - ۳۱۷ یوسف ۱۲ : ۲۹۴ ابر اسیم ۱۴: ۷-۲۳ - ۲۴ - ۳۸-۶۸-۹۰ - ۱۴۷ - ۱۶۳ - ۱۷۲-۲۳۱-۲۶۴ ۳۹۶-۳۸۷ - ۳۸۴ - ۳۱۷ ۳۸ مریم ۱۹ : الانبیاء ۲۱: ۵۲ - ۷۸ - ۱۱۸ - ۱۶۳ - ۱۹۵ - ۲۷۵ - ۳۹۶ الحج ۲۲ : ۱۳۷ - ۱۶۳ - ۲۶۳ - ۲۶۴-۳۹۶ الفرقان ۲۵: ۵۲ الشعراء ۲۶ : ۱۶۴ العنكبوت ۲۹ : ۷۸

Page 422

۴۱۴ الروم ۳٠: ۳۹۶ الاحزاب ۳۳ : ۳۷ - ۱۱۱ - ۲۵۵ - ۳۴۹ سیا ۳۴ ۳۷۵ یس ۳۶ ۵۲ الصفت ۷:۳۷-۲۳-۵۳ - ۶۸-۷۸ - ۱۱۰ - ۱۱۱ - ۱۷۲ - ۲۶۴۳۲۶۳- ۴۰۳-۳۹۶-۳۸ - ۳۸۴-۳۵۰-۳۴۹ - ۳۱۷ - ۳۰۵ - ۲۹۳ - ۲۸۱ الزمر ۳۹ : ۱۶۴ المؤمن ۴۰ : ۵۳ الشوری ۳۹۶۴۲ محمد ۱۴ ۷۸ الفتح ۱۳۸ ۲۵۵ الحجرات ۱۸۶:۴۹ الذریت ۵۱ : ۱۳ - ۲۵۶ - ۳۱۷ النجم ۵۲:۵۳ التحريم ۶۷ : ۹۰ 44 • ۳۴۹ الصحي مرو: ۵۹ - ۱۱۰ الكوثر ۱۰۸: ۳۶ الاخلاص ۱۱۲ ۳۰۵ تفاسیر قرآن کریم ير الدر المنثور مصتفه امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابى بكر السيوطي جلد : ۳۸ جلد ۲۳۱۱۲ جلد ۳ ۲-۱۹۳-۳۲۹ جلد ۵: ۱۱۱-۳۸۷ جلد ۳۷۶ - ۲۴۳

Page 423

۴۱۵ نفسیر فتح البیان مصنفہ ابوالفضل شهاب الدین السيد محمد الالوسى البغدادی جلد ۱۰: ۳۶ فسير كبير مصنفه امام فخر الدین رازی جلد ۴ : ۲۵۵ جلد ۸: ۳۶ - ۳۷ تفسیر ابن کثیر رحاشیه بر تغییر فتح البیان مولفه نواب صدیق حسن خان) جلد ۲ : ۳۹۷ مصنفہ حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعيل بن عمر ابن کثیر جلد ۱۰ : ۳۶ - ۳۷ : < ير الكشاف مصنفہ امام ابو القاسم جار الله محمود بن حمر الزمخشری الخوارزمی جلد ۱۲ ۱۶۴ تفسیر روح البیان مولفه شیخ اسمعیل حقی البروسوی جلد تفسير ابن جریر مصنفہ امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری جلد ۱۱ : ۳۳۵ يركبير مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی جلده حصہ سوم ۳۴۹ دسى العرفان تفسير سورة النجم من القرآن مصنفه محمد فوزى (47-117: ارض القرآن مؤلفه سید سلیمان ندوی جلد اول ۲۳۰ - ۲۳۱ انوار انبیاء ادارہ تصنیف و تالیف لاہور ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز ۲۳۱۷ كتب احادیث و فقہ جامع صحیح بخاری مؤتلفه امام ابو عبدالله محمدبن اسمعیل بخاری ۲ - ۷ - ۲۳ - ۲۴-۳۶-۳۷ - ۱۱۵ - ۹۵ - ٤٤ - ٢٨ - ٨٩ - ۶۹ - ۶۸ - ۵۹ - ۵۳-۳۸ ۲۵۵-۲۴۳ - ۲۳۱-۲۰۷ - - - - ۳۹۶-۳۴۹ - ۳۳۵ - ۳۰۵ - ۲۹۴ - ۲۷۵ - ۲۷۴ ۲۶۴ صحیح مسلم مؤلفہ امام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم الفشیری ۲ - ۳۶ - ۳۸ - ۴ ۷-۱۱۰ ۳۶۳-۳۴۹-۲۴۳ - ۱۴۷ جامع ترندی و شمائل تریدی مؤلفه ابو عینی محمد بن عینی الترندی ۲ - ۳۷ - ۵۲ - ۵۳-۵۹ ۳۳۵ -۲۹۴-۱۸۷ - ۱۶۴ -۱۴۰-۱۲۷ - ۷۸ - ۷۴ سنن ابی داؤد مولفہ ابی داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی ۱۳ - ۳۷ - ۷۴ - ۹۰ - ۱۱۵ ۲۹۴-۲۶۴ -۲۳۰-۱۸۷ - ۱۴۷ سنن نسائی مؤلفه امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی النسائی ۷۴-۱۲۶-۳۱۶ سنن ابن ماجه مولفه حافظ ابو عبدالله محمد بن یزید القزوین این ماجبر ۷ - ۳۷ - ۲۵۵۰۲۳۰-۲۹۴ ۴۰۳-۳۴۹-۳۲۵-۳۰۵

Page 424

۴۱۶ موطا امامه مالک ولفه ابو عبدالله مالک بن انس ۲۳۱ - ۲۹۴ زرتانی شرح موطا امام مالک مؤلفه محمد بن عبد الباقي بن يوسف الزرقانی اللہ ۱۴۷ مسند احمد بن حنبل مولفہ امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن فضیل جلدا: ۵۹ جلد۴ : ۱۸۷ مشكورة المصابيح مولفه محمد بن عبد الله التبریزی ۳۶ - ۷۴ مرقاة شرح مشكوة المصابيح المعلامه على بن سلطان محمد القاری جلد ۲ : ۳۲۶ مجمع بحارالا نواره مولفہ الشیخ محمد طاہر ۲۳ - ۱۲۷-۱۷۱ - ۱۹۵ کنز العمال مؤلفه الشيخ علاء الدين على المنتقى بونى حسام الدين الهندي جلد ۶ : ۲۵۵ السنن الكبرى مولفه ابو بكر احمد بن الحسين بن على البيقي جلد ۳ : ۱۴ - ۱۴۷ - ۲۴۳-۲۶۴ ۳۱۶-۲۹۴ جلد ۵ : ۶۸۵۹ الخصائص الکبری علامہ جلال الدین عبدالرحمن بن ابى بكر السيوطي جلد ۱ : ۲۰۷ شنن داره می مولفه امام ابو محمد عبد الله بن عبد الرحمن الدار می جلد ۱ : ۶۸ جلد ۱۲ ۱۴۵ سنن دار قطنی مؤلفه علی بن عمر الدار قطنی مطبوعہ قاہرہ تشله جلد ۲ : ۲۹۴ المنتقى من اخبار المصطفے مولفہ ابو البرکات عبد السلام بن تمیمنه السحرانی ۱۴۷ المصنف للحافظ ابي بكر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی مطبوعہ بیروت ۶۱۹۷ جلد ۳ : ۱۴۷ كشف الغمه مولفه الشيخ عبد الوہاب الشعرانی جلدا مطبوعہ مصر ۲۹۴ المغنی لابن قدامه مولفه ابو احمد عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامه ۱۴۷ كتاب الفقة على المذاهب الاربعة مولفہ عبد الرحمن الجزيزى جلد ۱ : ۷۲ - ۲۹۲ - ۳۳۵-۳۶۲ نيل الأوطار مصنفہ محمد بن على الشوكاني فقہ احمدیہ حصہ اول ۷۴ جلد ۲ : ۲۰۷ جلد ۳ ۷۴-۱۴ - ۲۰۷ عید کی قربانیاں مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ ۳۰۵ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقة الوحی " ۱۷۳-۹۴-۱۳

Page 425

تحفہ گولڑویہ ۱۳-۱۴۵ خطبه الهاميه الاستفتاء > - ۲۴ برا بین احمدیہ حصہ بحجم ۲۴-۱۴۰ - ۱۹۵ فتح اسلام ۲۴ - ۱۴۵ - ۱۶۴ - ۲۳۲ ایک غلطی کا ازالہ ۳۸ آئینہ کمالات اسلام الوصیت مطبوعة 119 تریاق القلوب ۵۲ " بشیر احمد - شریف احمد ا در مبارکہ کی آمین ۱۶۴-۲۷۵ اعجاز احمدی ۲۷۵ تذکرہ ( مجموعه الهامات و رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام طبع سوم تبلیغ رسالت جلد ۶ : ۳۸ جلد ۱۰ : ۳۴۹۰ - ۳۳۵ - ۳۲۶-۲۸۱-۱۹۵ ملفوظات جلدا : جلد ۳ : جلدم : ۲۷۵ ۱۳ ۱۴۰ جلد : ۱۸۷ جلد : ۱۳-۲۴ جلد : ۲۴-۲۶۴ جلد : جلد ۱۰: 11- ۲۴ کتب سیرت تاریخ و تصوف سیرت المهدی مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے حصّہ دوم ۳۴۹ - ۱۷۲ حصہ سوم ۲۴

Page 426

۴۱۸ السيرة الامام ابي محمد عبد الملك ابن ہشام جلدا : ۹۰ - ۲۷۴ جلد ۲ : ۳۷ - ۲۷۴ جل۳ : ۳۷ ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ۳۳۵ سیرت ابن ہشام دارد و ترجمه از شیخ محمد المعیل صاحب پانی پتی ۵۲ - ۵۳ - ۲۷۴ السيرة الحلبیہ مؤلفہ علامہ علی بن به بان الدین الحلبی جلد ۱ : ۹۰ - ۲۳۱ جلد۲ : ۵۳-۲۷۴ تاریخ انمیں مصنفہ علامہ الشیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری جلد ۱ : ۶۹ - ۱۶۴ - ۲۳۰-۲۵۵ نور اليقين في سيرة خير المرسلین مصنفہ محمد خضری ۹۰ حياة النبي مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی حصہ سوم حیات نور الدین مطبوعہ دسمبر ۲۲ شه حیات نور مصنفہ شیخ عبد القادر صاحب ۲۶۴ ۲۶۴ ترک میبری مترجمه مولوی محمد ابراهیم علی چشتی ۲۸۱ ۳۰۵ - ۲۷۴ جلد ۲ : ۳۲۵-۳۲۶ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولفہ علامہ شبلی نعمانی جلد اول ۳۷۶ سوانح احمدی مصنفہ محمد جعفر تھانیسری ۳۹۶ كتاب الطبقات الكبير موسي طبقات ابن سعد مصنفه محمد بن سعد کاتب الواقدی جلدا : ۳۷-۶۸-۹۰ جلد ۳ : ۳۷-۷۸ بیج کامل مؤلفه الشيخ ابي الحسن على بن ابى المكرم الشيباني المعروف ابن الاثير جلد ۲ : ۳۷ - ۲۵۵-۴-۲-۳۹۳ - ۳۷۶-۳۸۴ جلد ۳ : ۳۷ جلد : ۲۳۲ معجم البلدان مولفه ابوعبداللہ یا قوت بن عبد الله الحموی جلد ۳ : ۳۷ جلد : ۱۳۷ - ۲۵۵ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابه مؤلفه ابن الاثير جلدا : ۳۶۳ جلد ۱۲ ۳۸-۱۱۱-۳۲۹ جلد ۳ : ۲۷۴-۳۸۴

Page 427

۴۱۹ خلاصة التوا رینج مصنفہ سجان رائے بٹالوی ۵۲ منتخب التباب ( مغلیہ دور حکومت مصنفه خانی خال مترجمه حمود احمد فاروقی مجلد ۱ : ۵۰ تاریخ ہندوستان مصنفہ شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ جلد ۳ : ۵۲ تاریخ طبری ولفه ابى جعفر محمد بن جریر الطبری جلدا : ۲۸ - ۱۶۳ - ۱۶۴ - ۲۷۴ جلد ۲ ۲۹ ۹۰ - ۲۵۵ - ۳۷۶ جلد ۳ ۵۳-۹۰-۳۸۴ جلدی ۱۸۶ ابو الانبیاء حضرت ابراهیم علیه السلام مصنفہ علامہ عباس محمود العقاد المصرى مترجمه راغب عمانی زرقانی شرح المواہب الله نیہ متوتفرا نام علامہ محمد بن عبد الباقي الزرقاني جلد : ۶۹ - ۹۰-۲۳۱ زاد ۳۶۳-۲۷۴ - ۲۵۵ جلد ۱ ۲۰۷ ۲۳۱-۳۷۶ اد المعاد للامام علام شمس الدین ابی عبد الله حمد بن عبد المالك المشهور با بن قتیم جدا : کتاب الاسا به فی تمییز الصحابه مؤلفہ شہاب الدین احمد بن على المشهور بابن حجر العسقلانی جلده : بن ۹۰ فتوح الشام واقدی جلدا : الفاروق مؤلفہ علامہ شبلی نعمانی ۱۱۱ جنده: ۳۶۳ جلد ۹ ۱۸۶ طبقات الشافعية الكبرى مؤلفه شیخ الاسلام تاج الدین السبکی جلد ۲ : ۱۳۲ تفریح الازکیا فی احوال الانبیاء مولفہ مولوی ابو الحسن کا کوردی جلد ۱ : ۱۶۳ الاستيعاب في معرفته الاصحاب للحافظ ابی عمر یوسف بن عبد الله المعروف بابن عبد البر النمری القرطبي جلد ۲ : ۱۸۶ تاریخ ابن خلدون موسمه به تاریخ انبیاء مترجمه علام حکیم احمحسین اله آبادی بیلدا : ۲۳۱ ۲۳۲ : جلد ۲ ۲۷۴ بحار الانوار مولفہ علامہ باقر مجلسی ریکی از شیعه کتب) جلد ۱۰ تاریخ احمدیت مولفہ مولانا دوست محمد صاحب شاہد فاضل عبله ۲: ۲۶۴ جلد ۳: ۳۸۴ چلدیم ۲۶۴-۳۶۲-۴۰۴

Page 428

۴۲۰ تاریخ احمدیت مؤتفر مولانا دوست محمد صاحب شاہد فاضل جلد ۵ : ۷۹-۲۹۴ جلد : ۳۴۹ جلد : ۴۰۳ جلد ۱۰ : ۲۹۴ جلد ۱۱ : ۳۱۷ جلد ۱۲ : ۴۰۳ اصحاب احمد متولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے جلد ۲ ۲۶۴ جلد : ۳۸۴ ۳۲۶ : انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم مولفہ ولیم ایل لینگر مترجمه غلام رسول مهر بلدا البدايه والنهايه مؤلفه ابن الاثیر جلد ۷ : ۳۸۴ بھارت کا بحران مصنفہ رونلڈ سیگل مترجمه حسن عابدی مثنوی مولانا روم دفتر چهارم ۷۸ تذكرة الاولياء مترجمہ عبدالرحمن شوق مطبوعہ لاہور ۷۸ سفينة الاولياء مصنفه دارا شکوه ۱۹۵ جلد ۲ : ۳۲۷ نما تذكرة الاولياء مؤلفه رئيس احمد جعفری ۱۱۰ - ۱۶۴ - ۱۸۶ - ۳۲۹ گلدسته کرامات مطبوعہ لاہور ۱۹۵۵ ۱۱۰ 1AY تذکرہ اولیائے ہند جلد ۳ : ۱۸۶ تذکرۃ الاولیاء ناشر ملک چنین دین و غیره تاجر کتب کشمیری بازار لاہور موج کوثر مطبوعہ فیروز سنز لاہور شاه ۲۰۱ - ۲۰۲ تعبیر الرویاء مصنفه امام محمد ابن سیرین مترجمه سید حبیب احمد ہاشمی ۱۸۷ تعطير الا نام مؤلفه الشيخ عبد الغني النابلسي جز اول ۲۵۶ خیر المجالس مرتبه حمید شاعر القلندر ۱۲۷-۱۷۱ نزية المجالس و منتخب النفائس مصنفہ عبدالرحمن الصفوری جلد ۲ : ۵۳-۱۷۲ - ۲۴۳ كتاب تحفة المجالس و نزمت المجالس مولفہ علامہ جلال الدین السیوطی ۲۴۳

Page 429

۴۲۱ ب ، کلام و عقائد مجانی الادب في حدائق العرب جینہ ثانی ۲۴ دیوان غالب مطبوعه ۱۹۶ ۳۸۴-۳۸ دیوان حسان بن ثابت مع شرح مطبونه مصر ۱۹۳۶ء شد ۵۲ آپ خیات مصنفہ مولانا محمد حسین آزاد ۲۸۵ - ۲۹۴ انتخاب ضرب الامثال و احکم فارسی متوقفہ آقائے علی اکبر ۳۳۵ الملل و النحل مصنفہ امام ابی الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستانی جلد ۳ : ۱۴۷ - ۲۰۷ - ۲۵۵ الیواقیت والجواہر مصنفه امام عبدالوہاب شعرانی جلد ۲ : ۳۹۶ حسن الأسوة بما ثبت من الله ورسوله في النشوة مولفه نواب محمد صدیق حسن خان النساء ۲۷۵ ثفات لسان العرب للا ماهم العلامه ابن منظور جلد ۷ : ۲۵۵ جلد ۱۴: ۱۳ المفردات فی غریب القرآن علامام را خوب الاصفهانی ۳۶ - ۳۷ – ۱۹۵ - ۲۰۷ - ۲۷۵ محيط المحيط مؤلفه المعلم بطرس البستاني جند ۲ : ۱۹۵ تاج العروس للامام ابي الفيض استید محمد مرتضی الحسینی جلد ۳ : ۲۷۵ ۱۶۴ - ۱۲۷ فرمینگ آصفیہ مطبوعہ شنشله جلدا : ۳۸۴ پیرا ناعت د نامه پیدائش باب ۱۱ ۱۶۳ جلد ۴ : ۲۳۱-۳۸۴ باب ۱۳ : ۱۱۸ - ۳۱۷ باب ۱۵ : ۹۰ باب ۱۶ ۶۸-۹۰ - ۱۱۸ - ۲۳۰ جلد ۲۰۷:۸

Page 430

پیدائش باب ۱۷ : باب ۱۸ : ۴۲۲ ۳۱۷ - ۲۰۷ - ۱۹۳ - ۱۱۸ باب ۲۱ : ۲۳ - ۲۴ - ۵۰-۱۰۴ باب ۲۲ : ۶۸ - ۱۱۱ - ۱۳۷ - ۲۶۴-۲۹۳ - ۳۱۷ - ۳۲۶ - ۳۸۷ - ۳۵۰ باب ۲۳ : باب ۲۴ : ۲۸۱ باب ۲۵ : ۱۳۲ باب ۱۱ : يسعياه باب ۸ : ۳۸۷ نیا عید نامه متی باب ۴ : باب و : باب ۱۰ : باب ۱۹ : باب ۲۸ : 11.۱۶۴ ۹۰ ۳۴۹ ١١٠ مرقس باب ۲ : باب ۱۰ : متفرق كتب علم الامراض مصنفہ میرا شرف علی ۱۲۰ دیدوں کی قربانیاں اور پڑھا دے مطبوعہ لدھیانہ مشن مینار ۱۷۲ مخزن الجواہر مولفہ شمس الاطباء حکیم ڈاکٹر غلام جیلانی خان ۲۹۴ پیدائش کی کتاب کی تفسیر مصنفہ پادری کیفین سیل مترجمه ای جوزف ۳۸۷

Page 431

161 ۱۸۵ ۱۹۵ ۱۹۳۳ الفضل قادیان ۱۳ اپریل ۴ را پریل ۱۹۳۵ در تاریخ ۶۱۹۳۷ ۲ مارچ ۶۱۹۳۶ ۱۵ر تاریخ ۶۱۹۳ ورسٹی نہ ار جنوری ۶۹۳ یکم جنوری ۱۹۳۳ شه در جنوری ۴۱۹۲۶ ۲۲ دسمبر ۴۱۹۲۳ ۲۳۰ ۲۵۵ ۲۶۳ ۲۶۵ ۲۷۴ 514 ۲۷۶ ۱۱ دسمبر ۶۱۹۲۳ یکم دسمبر ۱۹۳۳ ۱۹ نومبر ۱۹۳۵ ۲۸۲ رمئی ۶۱۹۴۷.۲۹۳ الفضل لاہور یکم نومبر 9 1 در تاریخ ۶۱۹۲۹ ۲۳ مئی ۶۱۹۵ ڈان کراچی ۲۱ار ستمبر 19 الفضل لاہور ، اکتوبر ۱۹۵۷ ۳ اکتوبر ۱۹۵ ۳۱۶ ۳۲۵ ۳۳۵ ۳۴۸ ۳۶۳ المصلح کراچی 14 اکتوبر ١٩٥٣ ۱۲ الفضل ربوه ۳۱ اگست ۱۹۵۵ء اگست ۱۹۵۵ء ۳۸۷ ۱۷ جولائی ۱۹۵۶ یکم اگست شده ۲ جولائی ۱۹۵۷ء 51900 ارجون ۱۹۵۹ ور مئی ۱۹۶۲ ١٩٥٠ ۲۴۲ ۴۰۳ ۴۰۵ ۳۹۶ ۳۳۴ ۴۲۳ ، ۱۳ ۲۳ ۵۹ YA 6.41 ۷۴ ۷۵ <.^ < 9 11.۱۳۱ ۱۴۰ ۱۴۰ ۱۴۰ ۱۴۵ ۱۶۳ ۱۷۳ اخبارات و رسائل بدرت دیان ، دسمبر الفضل قادیان ۱۳ نومبر ۱۹ ۳۱ اکتوبر شانه ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۶ه ۲ اکتوبر ۱۹ ۲۰ ستمبر شه ۲۰ ستمبر شامله ستمبر 2 د بار اگست ۱۹ ار اگست ۱۹۲ ار اگست ۶۱۹۲۲ ۲۱ جولائی ۱۹۲۳ ۳ اگست ۴۱۹۲۳ احکمت ادیان ۲۱ جولائی تار الفضل قادیان ۲۱ جولائی ۱۹۲۵ء در جولائی ۱۹۲۶ء ۲۱ جون ۶۱۹۲۶ ۱۵ جون شالله ۲۸ مئی ۱۹۲۹ ۱۳۸ ر اپریل ۱۹۳۰ و مئی ۶۱۹۳۰ ر مٹی ۱۹۳ ۲۶ اپریل ۱۹۳۶ ار ایریل ۱۹۳۳ ۲۷ مارچ ۱۹۳۷

Page 432

رساله جامعه احمديه سالنامه ريويو ريديجنز انگریزی ۶۱۹۲۴ آف ۴۲۴ F1gr.१.انگریزی کتب GEORGE SALE: The Koran P.13 MAX MULLER: The Sacred Books of the East Pixxy (Introduction).P.13 WILLIAM MUIR: Life of Mahomet (Mohammad H.A.L.FISHER: Napolean P.52 p.b.u.h.) P.13-376 Encyclopaedia Britannica P.52-186 Commentry on the Old Testament 1893 P.69 Encyclopaedia of Religion and Ethics P.110, 118, 147, 172,207 The Jewish Encyclopaedia P.118, 132, 163 Fredrick H.Martens: The Story of Religion and Philo- sophic Thought P.118 MATHEW HENRY: The Family Devotional Bible with Copious Notes and Reflections on the Old and New Testament P.230 Encyclopaedia of Islam.P.326 THE EPIC OF MAN (TIME - LIFE INTERNATIONAL) P.384 - R.J.UNSTEAD looking at History P.384 M.S.SABIR Story of Khyber P.396 : ARNOLD FLETCHER : Afghanistan Highway of Conquest.P.396 JOHN GUNTHER: Inside Africa P.403 PRINT BY NU LAND: &

Page 432