Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات محمود T سال ۱۹۳۸ء آلہ نشر الصوت شرک کے عقیدہ پر کاری ضرب ہے فرموده ۷/جنوری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اُس خدا کا بے انتہا ء شکر ہے جس نے ہر زمانہ کے مطابق اپنے بندوں کیلئے سامان بہم پہنچائے ہیں.کبھی وہ زمانہ تھا کہ لوگوں کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل کر جانا بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور اس وجہ سے بہت بڑے اجتماع ہونے ناممکن تھے لیکن آج ریلوں، موٹروں ، لا ریوں ، بسوں، ہوائی جہازوں اور عام بحری جہازوں کی ایجاد اور افراط کی وجہ سے ساری دُنیا کے لوگ بسہولت کثیر تعداد میں قلیل عرصہ میں ایک مقام پر جمع ہو سکتے ہیں اور اس وجہ سے موجودہ زمانہ میں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ وہ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے عظیم الشان اجتماعات میں تقریر کر کے اپنی آواز تمام لوگوں تک پہنچا سکے.پس خدا نے جہاں اجتماع کے ذرائع بہم پہنچائے وہاں لوگوں تک آواز پہنچانے کا ذریعہ بھی اُس نے ایجاد کر وا دیا اور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ شکر ہے اُس پروردگار کا جس نے اس چھوٹی سی بستی میں جس کا چند سال پہلے کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اپنے مامور کو مبعوث فرما کہ اپنے وعدوں کے مطابق اس کو ہر قسم کی سہولتوں سے متمتع فرمایا یہاں تک کہ ہم اب ہم اپنی اس مسجد میں بھی وہ آلات دیکھتے ہیں جو لاہور میں بھی لوگوں کو عام طور پر میسر نہیں ہیں.آج اس آلہ کی وجہ سے اگر اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھایا جائے تو ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں تک
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ ء بسهولت آواز پہنچائی جاسکتی ہے اور ابھی تو ابتداء ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس آلہ کی ترقی کہاں تک ہوگی.بالکل ممکن ہے اس کو زیادہ وسعت دے کر ایسے ذرائع سے جو آج ہمارے علم میں بھی نہیں میلوں میل یا سینکڑوں میل تک آواز میں پہنچائی جاسکیں اور وائر لیس کے ذریعہ تو پہلے ہی ساری دنیا میں خبریں پہنچائی جاتی ہیں.پس اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہو سکے گا.ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے ، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی وقتیں بھی ہمارے راستہ میں حائل ہیں لیکن اگر یہ تمام وقتیں دُور ہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سُرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام وقتیں دُور ہو جائیں گی.تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جا رہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں.یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کر کے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں.اس کے بعد میں آج اس آلہ کے لگائے جانے کی تقریب کے موقع پر سب سے بہتر مضمون یہی سمجھتا ہوں کہ میں شرک کے متعلق کچھ بیان کروں کیونکہ یہ آلہ بھی شرک کے موجبات میں سے بعض کو توڑنے کا باعث ہے.جو لوگ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں یا جو لوگ بعض اور ذرائع کو بیچ میں لانا چاہتے ہیں ، ان کے اس عقیدہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ان کا دماغ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ ایک ہستی ایسی بھی ہے جو سب دنیا کو دیکھ رہی اور سب لوگوں کی آوازوں کو سُن رہی ہے.پس وہ خیال کرتے تھے کہ بعض ایسے درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے جن میں خدائی طاقتیں تقسیم ہوں اور جو اپنی اپنی جگہ اُس کی طاقتوں کو استعمال کر رہے ہوں.اسلامی فلاسفروں نے بھی اسی مقام پر آ کر دھوکا کھایا ہے اور یورپین فلاسفر بھی اس دھوکا کا شکار ہو گئے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء کہ وہ خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ اپنی طاقتوں کے لحاظ سے کرتے تھے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا قَدَرُوا الله حق قدرہ کے ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا بلکہ انسانی طاقتوں پر خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا قیاس کر لیا.جب انہوں نے دیکھا کہ انسان جب ایک طرف نگاہ کرتے ہیں تو دوسری طرف کی چیزیں انہیں نظر نہیں آتیں تو انہوں نے خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ کی نظر بھی محدود ہے.پھر جب انسانوں نے دیکھا کہ ہم ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتے تو خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ بھی ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتا.غرض انسانی طاقتوں پر خدائی طاقتوں کا جب انہوں نے قیاس کیا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے بعض شریک مقرر کریں.اسی خیال کے نتیجہ میں فلسفیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کو گلی علم ہے جو کی نہیں.یعنی اسے یہ تو پتہ ہے کہ انسان روٹی کھایا کرتا ہے مگر اسے یہ پتہ نہیں کہ زید اس وقت روٹی کھا رہا ہے.اُسے یہ تو علم ہے کہ انسانوں کے گھر میں بچے پیدا ہوا کرتے ہیں مگر اسے یہ علم نہیں کہ اس وقت زید یا بکر کے گھر میں بچہ پیدا ہو رہا ہے.مسلمانوں میں اس نہایت ہی گندے اور خبیث عقیدہ کو رائج کرنے والا ابن رشد ہسپانوی ہؤا ہے.اس کی ذات عجیب قسم کے متضاد خیالات کا مجموعہ تھی.یہ بڑا فقیہ بھی تھا اور اس نے فقہ کے متعلق بعض اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں.پھر قاضی بھی تھا اور ایک وسیع علاقہ پر اس کو قضاء کا اختیار تھا.گویا ایک قسم کا چیف حج تھا.پھر نمازیں بھی ادا کر لیا کرتا تھا بلکہ جب اس کے خلاف اسلام عقائد کی وجہ سے بادشاہ نے اسے عہدہ قضاء سے برطرف کر دیا اور مسلمانوں میں اس کے خلاف جوش پیدا ہوا تو اُس وقت اُسے جو تکالیف پہنچیں ان تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اور تکالیف کا مجھے اتنا رنج نہیں جتنا مجھے اس بات کا ہے کہ میں جمعہ کے دن مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو لوگوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو صرف رسمی نماز کی عادت نہیں تھی بلکہ وہ واقعی نماز کی اہمیت کو سمجھتا تھا.اب ایک طرف نماز کی اہمیت کو سمجھنا جس میں ہر شخص کو براہ راست خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے اور جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر فرد کی آواز سنتا ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کوگالی علم ہے جو کی علم نہیں ،
خطبات محمود ۴ سال ۱۹۳۸ء اتنی متضاد باتیں ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے اور دونوں میں سے ایک بات ضرور بناوٹ معلوم ہوتی ہے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں اس کی اپنی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.اگر اس کی اپنی کتابوں میں یہ باتیں موجود نہ ہوتیں تو ہم سمجھتے کہ ابن رشد کی طرف جو فلسفہ منسوب کیا جاتا ہے وہ غلط ہے.مگر ابن رشد کا فلسفہ بھی اس کی اپنی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور دینداری کی باتیں بھی اس کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں اور اس کی فقہ کی کتابیں آج تک مسلمانوں میں پڑھائی جاتی ہیں.غرض وہ متضاد خیالات کا مجموعہ تھا اور اسی کا یہ فلسفہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو مخلوق کا گلی علم ہے حجز ئی نہیں.یورپ کے موجودہ فلسفہ پر اس کے فلسفہ کا نہایت گہرا اثر ہے.خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا دادا یہودی سے مسلمان ہوا تھا اور سپین اور فرانس کے یہودی علماء قومی تعلق کی وجہ سے اس کی کتابوں کا بہت درس دیا کرتے تھے اور چونکہ ابتداء میں علومِ جدیدہ کا رواج ہسپانیہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذریعہ سے ہوا ہے، اس لئے سارے سپین میں اس کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور سو سال قبل تک بھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں اس کی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں.اس لئے موجودہ فلسفہ بہت حد تک اس کے خیالات سے متاثر ہے.غرض یہ خیال کہ خدا تعالیٰ ہر چیز کو نہیں جانتا اس کی بنیاد اسی امر پر ہے کہ انسان اپنی محدود طاقتوں سے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ لگاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ جب انسان ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا ، جب انسان تمام دنیا کی آوازوں کو نہیں سن سکتا ، تو خدا کس طرح تمام چیزوں کو دیکھ سکتا اور تمام آوازوں کو سُن سکتا ہے اور اس طرح وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا علم اور خدا تعالیٰ کا دیکھنا اور خدا تعالیٰ کا سننا سب انسانوں کی طرح ہے اور جس طرح انسان کو درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے.مگر آج دیکھو! وہ کمزور انسان جو خدا تعالیٰ کی طاقتوں کو گرا ر ہے تھے انہیں خدا نے کہا تم تو ہماری طاقتوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے.آؤ میں تمہاری اپنی طاقتوں کو اُبھارتا اور تمہیں بتاتا ہوں کہ تم اپنی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچا سکتے ہو اور تم کتنے دُور دُور مقام کی آواز بخوبی سن سکتے ہو.چنانچہ اُس نے وائرلیس ایجاد کروا کے بتا دیا کہ جب تمہارے جیسی ذلیل، ناپاک اور حقیر ہستی ساری دنیا کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء آوازیں وائرلیس کے ذریعہ سُن سکتی اور ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا سکتی ہے تو کیا وہ خدا جو تم کو پیدا کرنے والا ہے وہ تمہاری آوازیں نہیں سن سکتا.پس اسی فلسفہ کی تعلیم کے نتیجہ میں جن علوم نے ترقی کی ، آج ان علوم کے ذریعہ جب انگلستان کا ایک ڈوم یا میراثی یا ایک گانے والی کنچنی جب ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا رہی ہوتی ہے تو فضا کی ہر حرکت اور آواز کی ہر جنبش رپ کے فلسفیوں پر قہقہے لگا رہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ کم بختو ! اب بتاؤ کیا خدا ساری دنیا کی آواز میں نہیں سُن سکتا ؟ اسی طرح اب دور بینیں نکل چکی ہیں جن سے دُور دُور کی چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں اور اب تو وائرلیس نے ترقی کرتے کرتے یہ صورت اختیار کرلی ہے کہ شکلیں بھی دُور دُور تک دکھا دی جاتی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ قریب زمانہ میں جرمن میں بیٹھا ہوا اشخص جب انگلستان کے ایک شخص سے گفتگو کر رہا ہوگا تو نہ صرف اس کے الفاظ وہاں پہنچیں گے بلکہ ساتھ ہی اُس کی تصویر بھی آجائے گی اور یوں معلوم ہوگا گویا آمنے سامنے بیٹھ کر دونوں گفتگو کر رہے ہیں.اس وقت بھی یورپ کے بعض ممالک میں ریڈیو کی ایک دوسری قسم عمل کر رہی ہے.جس میں آواز کے ساتھ وہاں کا نظارہ بھی آجاتا ہے مگر ابھی اس کا دائرہ عمل محدود ہے.سو میل سے زیادہ ایسا نہیں کر سکتے.اس ایجاد کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ جب ترقی کر جائے گی تو دنیا بھر میں آواز کے ساتھ نظارے اور تصویریں بھی ایک ہی ساتھ پہنچائی جاسکیں گی.مثلاً انگلستان میں کوئی شاہی جلوس نکلا یا ولایت میں تاج پوشی کی تقریب ہوئی تو نہ صرف ہندوستان کے لوگ وہاں کے لوگوں کی آوازیں سُن سکیں گے بلکہ ساتھ کے ساتھ نظارہ بھی دیکھتے جائیں گے اور انہیں یوں معلوم ہوگا کہ گویا وہ لنڈن میں موجود ہیں.بادشاہ گزر رہا ہے اور اس کے ساتھ فلاں فلاں تزک واحتشام کا سامان ہے.اس کے متعلق وہاں تجربے شروع ہو گئے ہیں اور پچاس سو میل کے اندر اس قسم کے نظارے دکھائے جانے شروع ہو گئے ہیں.گویا آواز کے ساتھ نظارہ کا انتقال بھی شروع ہو گیا ہے اور آئندہ ہندوستان یا چین یا جاپان میں بیٹھا ہوا شخص نہ صرف انگلستان کے لوگوں کی آوازیں سنے گا بلکہ وہاں کے نظارے بھی دیکھ سکے گا.وہ نہ صرف یہ سنے گا کہ فلاں شخص
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء لیکچر دے رہا ہے بلکہ اس شخص کو اور اس کے ارد گرد بیٹھنے والوں کو بھی دیکھتا جائے گا اور دنیا تھوڑے ہی عرصہ میں اس قابل ہو جائے گی کہ نہ صرف لوگوں کی آواز میں سنے بلکہ ان کی شکلیں بھی دیکھے اور ان کی حرکات کا بھی مشاہدہ کرے.پھر ٹیلیفون پر بھی اس قسم کے تجربے شروع ہو گئے ہیں کہ جب کوئی دو شخص ٹیلیفون پر آپس میں گفتگو کرنے لگیں تو معاً ان دونوں کی شکلیں بھی ایک دوسرے کے سامنے آجائیں.جب اس میں کامیابی ہو جائے گی تو اگر ایک شخص شملہ یا دہلی میں یا کلکتہ میں بیٹھا ہوا قادیان کے ایک شخص سے گفتگو کرے گا تو ادھر وہ بات شروع کریں گے اور ادھر وہ ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنے لگ جائیں گے اور انہیں اس طرح معلوم ہو گا جس طرح وہ دونوں پاس پاس بیٹھے باتیں کر رہے ہیں.تو وہ جو واہمہ پیدا ہو گیا تھا کہ خدا کس طرح ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور کس طرح ساری دنیا کی آوازیں سُن سکتا ہے، اِس ترقی نے اسے دُور کر دیا اور بتا دیا کہ جب معمولی انسان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قابلیت رکھی ہے کہ وہ اپنی آواز تمام دنیا کو سنا سکتا ہے اور دنیا کے دوسرے کنارے کے آدمی کی بات کو بآسانی سن سکتا ہے اور نہ صرف آواز سن سکتا ہے بلکہ اس کی شکل بھی دیکھ سکتا ہے، تو کیا خدائے ذوالجلال والقدرة جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہر چیز کوہیں دیکھ سکتا اور ہرشخص کی آواز نہیں سن سکتا ؟ اور جب وہ ہر چیز کو دیکھتا اور ہر شخص کی آواز سنتا ہے تو اس کیلئے کسی اور مددگار خدا کی کیا ضرورت رہی.وہ اکیلا ہی ساری دنیا پر حاوی ہے اور اکیلا ہی سب پر حکومت کر رہا ہے.پس نشر الصوت کے آلہ نے شرک کے عقیدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے.خصوصاً اس شرک کے عقیدہ پر جو فلسفیوں کا پیدا کردہ ہے اور وہی درحقیقت علمی شرک ہے اور اس طرح وائرلیس اور لاؤڈ سپیکر نے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کو محدود کرنے والے عقائد کو باطل کر کے رکھ دیا ہے.پس اس زمانہ میں جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو رہی ہے ، مومن پر جو ان زمانوں میں بھی موحد کہلاتا تھا جبکہ انسان کی عقل ابھی پورے طور پر تیز نہیں تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں سمجھ سکتا تھا بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہم سے پہلوں نے اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان رکھا جبکہ ان کے سامنے اس کی توحید کو ثابت کرنے والے وہ سامان نہ تھے جو آج ہمارے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء سامنے ہیں جبکہ وہ انسان کی طاقتوں کو نہایت ہی محدود دیکھتے تھے مگر آج ایتھر نے اور وائرلیس نے اور خوردبینوں نے اور دور بینوں نے انسان پر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے جس کی طاقتیں محدود ہیں جب ایک جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا سکتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طاقت اور قوت محدود کس طرح ہو گئی.پس اس زمانہ میں ہماری ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور ہمارے فرائض نہایت نازک ہیں مگر افسوس ان پر جو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے.خدا تعالیٰ کا ایک نبی ہم میں آیا.اس کا ایک رسول ہم میں مبعوث ہوا اور اس کا ایک مامور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر ابھی کچھ اندھے ایسے موجود ہیں جو خدا تعالیٰ پر توکل کرنے کی بجائے انسانوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ حقیقتا خدا تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے پر ایمان نہیں رکھتے.مجھے افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کی نگاہیں انسانوں پر اُٹھتی ہیں ، جس کی نگاہیں اسباب پر جاتی ہیں اور جو انسانی طاقتوں اور قوتوں پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں اور جب بھی انہیں کوئی کام کرنا پڑتا ہے وہ انسانی طاقتوں میں اُلجھ کر رہ جاتے اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.اس طرح وہ با وجود ایمان لانے کے بے ایمان رہتے ہیں ، باوجود تو حید کا دعویٰ کرنے کے شرک کی غاروں میں گرے رہتے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا نہیں آیا جس نے تمام اصلاحوں کے ساتھ ساتھ شرک کو دور کرنے کی کوشش نہ کی ہو.حضرت آدم آئے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے وہ کئی مقاصد لے کر آئے.انہوں نے دنیا کو متمدن بنایا اور نظام کی پابندی کی عادت ڈالی مگر تو حید کو انہوں نے بھی قائم کیا.پھر حضرت نوح آئے تو اُس وقت انسانی دماغ اور زیادہ ترقی کر چکا تھا اور اس نے صفات الہیہ کا ادراک کرنا شروع کر دیا تھا اور اس فکر میں ٹھو کر کھا کر اُس نے شرک کا عقیدہ اخذ کر لیا تھا.چنانچہ انہوں نے بھی اپنی تعلیم میں توحید کی تعلیم کے علاوہ شرک کے خلاف بے انتہاء زور دیا اور روحانیت کی باریک راہیں بنی نوع انسان کو سکھائیں.پھر حضرت ابراہیم آئے تو گو انہوں نے اور اصلاحات بھی کیں مگر شرک کے باریک حصوں کا انہوں نے بھی رڈ کیا کیونکہ آپ کے زمانہ میں شرک ایک فلسفی کا مضمون بن گیا تھا اور عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہو گیا تھا.پھر موسیٰ آئے تو وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ایک ایسا تفصیلی ہدایت نامہ لائے جس کا تعلق سیاست ، روحانیت اور تمدن متینوں سے تھا مگر تو حید کی اہمیت انہوں نے بھی بتائی اور شرک سے بچنے کی لوگوں کو تعلیم دی.پھر حضرت عیسی آئے تو انہوں نے شریعت کی ظاہری پابندی کو قائم رکھتے ہوئے حقیقت کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی اور فر مایا کہ ظاہری پابندی تمہیں باطن کی اصلاح سے مستغنی نہیں کر سکتی.چنانچہ آپ نے ایک طرف جہاں موسوی احکام کو اپنی اصل شکل میں قائم کیا وہاں جولوگ قشر کی اتباع کرنے والے تھے انہیں بتایا کہ اس ظاہر کا ایک باطن ہے اور اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو ظاہر لعنت بن جاتا ہے مگر اس کے ساتھ آپ نے شرک کو نہیں بھلایا اور اس سے بچنے کی لوگوں کو ہمیشہ نصیحت کی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپ نے دنیا جہان کے مسئلے بیان کئے.آپ نے انسانوں کے آپس کے تعلقات پر روشنی ڈالی ، آپ نے انسانوں کے اس تعلق پر روشنی ڈالی جو اس کا خدا سے ہوتا ہے، آپ نے مردوں کے حقوق بیان کئے ، آپ نے عورتوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے بادشاہوں کے حقوق بیان کئے ، آپ نے رعایا کے حقوق بیان کئے ، آپ نے آقا کے حقوق بیان کئے ، آپ نے نوکر کے حقوق بیان کئے ، اسی طرح آپ نے وراثت کے مسئلے بیان کئے.تمدن کے مسئلے بیان کئے.معاشرت کے مسئلے بیان کئے.معاش کے مسئلے بیان کئے.غرض تمام مسائل آپ نے بیان کئے ،مگر سب سے بلند اور سب سے بالا آپ کی تعلیم میں بھی یہی بات تھی کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ اِلَّا الله ـ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس یہ مسئلہ ہمارے مسئلوں کی جان ہے.یہ مسئلہ سارے مسئلوں کی رُوح ہے.یہ مسئلہ سارے مسئلوں کا مغز ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ قشر ہے ، وہ چھلکے ہیں ، وہ لوازمات ہیں ، وہ ضمنی چیزیں ہیں.اصل جان اور روح اور مغز اور حقیقت توحید کا ہی مسئلہ ہے کیونکہ تو حید ہی ہے جو خدا اور انسان میں محبت پیدا کرتی ہے اور جب تک یہ نہ ہو انسان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا.جب تک انسان کی نظر کسی اور طرف بھی اُٹھتی رہتی ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ کا کامل حسن نہیں دیکھا کیونکہ حسنِ کامل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان کی نظر اس کو دیکھ کر کسی اور طرف نہیں اُٹھتی.جب تک دنیا میں تمہیں اور بھی حسین نظر آئیں تم کبھی ادھر دیکھو گے، کبھی اُدھر مگر جب تمہیں ایک ایسا حسین نظر آ جائے گا جو اپنے حُسن میں کامل ہوگا تو پھر
خطبات محمود ۹ سال ۱۹۳۸ء تمہاری نظریں وہیں جم جائیں گی اور کسی دوسرے کی طرف نہیں اُٹھیں گی.یہی معنے تو حید کے ہیں.یعنی مومن کو اللہ تعالیٰ کا حُسن ایسے کامل رنگ میں نظر آ جائے کہ اس کے بعد خواہ دنیا جہان کی خوبصورت چیزیں اس کے سامنے پیش کی جائیں وہ نفرت اور حقارت سے انہیں ٹھکرا دے اور کہے کہ مجھے جو کچھ ملنا تھا مل گیا، مجھے کسی اور کی جستجو نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے کا بھی محتاج بنایا ہے اور پینے کا بھی ، سونے کا بھی اور جاگنے کا بھی ، لیٹنے کا بھی اور چلنے پھرنے کا بھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں اور پاؤں اور دوسرے تمام اعضاء میں لذت اور سرور کی ایک حسن رکھ دی ہے.چنانچہ اس کی زبان ، اس کے کان، اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں اور اس کے جسم کے ہر حصہ میں خدا تعالیٰ نے لذت اور سرور کی حسن رکھی ہوئی ہے اور ان حتوں کے ذریعہ ہی وہ لاکھوں کروڑوں چیزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور آرام حاصل کرتا ہے.مگر تو حید کا مقام یہ ہے کہ مومن ان ساری چیزوں کے باوجود خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہتا ہے اور یہ مزے اور آرام اسے اللہ تعالیٰ کی محبت سے غافل نہیں کر سکتے.اور اگر ہم غور کریں تو حقیقتا یہ تمام مزے اور لذتیں اور آرام اس لئے نہیں کہ یہ حقیقی لذتیں اور حقیقی آرام ہیں بلکہ اس لئے ہیں کہ یہ ہمارے لئے ایک امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہیں.خدا ہمارے لئے دنیا میں مزے دار چیزیں پیدا کرتا ہے اور ہماری زبان میں اس مزے کے چکھنے کی طاقت رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے اب میں دیکھوں گا تم اس مزے میں ہی محو ہو جاتے ہو یا میری محبت کا بھی کچھ خیال رکھتے ہو.وہ دنیا میں حسین ترین نظارے اور حسین ترین شکلیں پیدا کرتا ہے اور انسان کو آنکھیں دیتا ہے کہ وہ ان حسنوں کو دیکھے اور ان سے لذت حاصل کرے.اور پھر کہتا ہے اب میں دیکھوں گا کہ ان محسنوں کو دیکھ کر بھی تمہیں میری محبت یا د رہتی ہے یا نہیں.ایک نابینا اگر کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا مجھے کوئی حسین نظر نہیں آتا تو اس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی کیونکہ اُس نے کب دُنیا کے حسین دیکھے کہ ان کو دیکھنے کے بعد وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو نہ بھولا.ایک بہرا اگر کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی آواز سے بڑھ کر مجھے اور کوئی شیریں آواز معلوم نہیں ہوتی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بلند ہوئی، تو اُس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی کیونکہ کب اُس نے دنیا کی دلکش آواز میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء سنیں کہ ان کے سُننے کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کی آواز کا عاشق رہا.اگر وہ شخص جس کی زبان مفلوج ہے اور جو میٹھے کھٹے اور چیٹے کا فرق محسوس نہیں کرتی یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال کھانے سے زیادہ اور کسی میں مزا محسوس نہیں ہوتا تو اُس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی.مگر وہ جس کی زبان ذائقہ کو خوب پہچانتی ہے وہ اگر یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال کھانے سے زیادہ اور کسی میں مزہ نہیں آتا اور خدا تعالیٰ کی باتوں سے زیادہ حلاوت مجھے اور کسی چیز میں معلوم نہیں ہوتی.تو وہی کامل موحد ہے اور اسی کی تعریف صحیح تعریف کہلانے کی مستحق ہے.اسی طرح اگر کسی کے کان درست ہیں اور وہ لوگوں کی سُریلی اور دلکش آوازیں سنتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ آواز جو مجھے اس کے کلام سے آتی ہے وہی سریلی اور وہی دلکش معلوم ہوتی ہے تو وہی ہے جس کی محبت کامل ہے.اسی طرح وہ شخص جس کی آنکھیں دنیا کے تمام حسین نظارے دیکھتی ہیں وہ اگر تمام خوبصورتی اور حسن دیکھنے کے باوجود خدا تعالیٰ کی باتوں اور اس کے کلام میں ہی حسن پاتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی حقیقی محبت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں پیدا کیں تا وہ دیکھے کہ ان کے ہوتے ہوئے بندے اس کی خوبصورتی اور اس کے حُسن کی کیا قدر کرتے ہیں.پس اگر خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جاؤ اور دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جاؤ ، جاؤ اور شادیاں کرو اور بچے پیدا کرو، جاؤ اور پیشے کرو ، جاؤ اور حلال اور طیب رزق کھاؤ ، اسی طرح اگر اس نے سُریلی اور دلکش آوازیں سننے کی اجازت دی ہے، عمدہ سے عمدہ خوشبوئیں سُونگھنے سے نہیں روکا ، اچھے نظاروں کے دیکھنے کی ممانعت نہیں کی تو اسی لئے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کے حُسن میں خدا تعالیٰ کا حُسن کیونکر دیکھتے ہیں اور یہ چیزیں ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہیں یا اس کے قُرب کے راستہ سے دور پھینک دیتی ہیں.پس اے عزیز و! اپنے ایمان کی بنیاد توحید کامل پر رکھو.انسانوں سے اپنی نظریں ہٹا لو اور خدا اور صرف خدا پر اپنی نظریں رکھو.یا د رکھو انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں نبیوں کی جماعتوں سے بڑھ کر مقہور ، ذلیل اور حقیر اور کوئی جماعت نہیں ہوتی.عالموں کی نظر میں اور جاہلوں کی نظر میں ، امیروں کی نظر میں اور غریبوں کی نظر میں، بادشاہوں کی نظر میں اور رعایا کی نظر میں ،
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ ء فلاسفروں کی نظر میں اور گند ذہن اور بلید لوگوں کی نظر میں وہی سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہوتے ہیں اور صرف خدا ان کا دوست ہوتا ہے.پس ایسی حالت میں جبکہ وہ اپنا صرف ایک ہی دوست رکھتے ہوں اگر اُس سے بھی ان کی نگاہیں ہٹ جائیں اور اُس کی بجائے انسانوں پر وہ بھروسہ کرنے لگیں تو اس سے زیادہ ان کی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے.پس آؤ کہ ہم خدا تعالیٰ پر تو کل کریں اور آؤ کہ ہم اپنے خدا کو اپنا مقصود قرار دیں تا جس طرح ہماری زبانوں پر أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله ہے اسی طرح ہمارے دلوں اور دماغوں پر بھی یہی نقش ہو کہ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ - اس کے بعد میں قادیان کی جماعت کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے.نومبر کے آخر میں میں نے یہ تحریک کی تھی اور اب جنوری ہے.گویا اس تحریک پر ڈیڑھ مہینہ کے قریب گزر چکا ہے اور ہماری طرف سے جو میعاد مقرر ہے اس میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.ہندوستان کے لوگوں کیلئے سوائے بنگال اور مدراس کے کہ وہاں غیر زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان علاقوں میں اتنی جلد اس تحریک سے ہر شخص آگاہ نہیں ہوسکتا ۳۱ / جنوری آخری تاریخ ہے لیکن چونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض دوست ۳۱ / جنوری کی شام کو اپنا وعدہ لکھوائیں اور وہ خط یکم فروری کو ڈالا جائے اس لئے جس خط پر یکم فروری کی مہبر ہوگی اُسے بھی لے لیا جائے گا لیکن اس کے بعد کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا اور چونکہ اس میعاد میں اب بہت قلیل دن رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں کو بہت جلد وعدے لکھوا دینے چاہئیں.آج جنوری کی سات تاریخ ہے اور اس مہینہ کے ۲۴ دن رہتے ہیں اور ۳۸ ۳۹ دن پہلے گزر چکے ہیں.گویا ساٹھ فیصدی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور صرف چالیس فیصدی وقت باقی ہے.مجھے افسوس ہے کہ اب تک اکثر جماعتوں نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے اور ان جماعتوں میں بعض بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں.چند دن ہوئے دفتر کی طرف سے جو رپورٹ مجھے ملی تھی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ صرف تین فیصدی جماعتوں کے وعدے آئے ہیں اور ستر فیصدی جماعتیں ابھی تک خاموش ہیں.قادیان میں سے اکثر وعدے اگر چہ آچکے ہیں مگر پھر بھی مکمل وعدے نہیں آئے.ابھی بعض محلے
خطبات محمود ۱۲ سال ۱۹۳۸ء ایسے باقی ہیں جنہوں نے پوری کوشش نہیں کی.اسی طرح لجنہ اماءاللہ نے بھی پوری کوشش کر کے عورتوں سے وعدے نہیں لکھوائے لیکن پھر بھی ایک معقول رقم قادیان والوں کی طرف سے پیش ہو چکی ہے.جنہوں نے سستی کی ہے اور ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھجوائے ان کو مستی کرتے ہوئے جو وعدے آچکے ہیں اور جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے.چنانچہ بہت سی جماعتوں نے اپنے تیسرے سال کے وعدہ سے بھی زیادہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پہلے سال کے چندہ سے دو گنا بلکہ تکنا اور تیسرے سال سے بھی کچھ زیادہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.اس کے مقابلہ میں جو لوگ اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ میں شامل نہیں ہو سکے اور پیچھے رہ گئے ہیں ، ان میں سے بعض کی حالت نمایاں طور پر قابلِ اعتراض ہے.چنانچہ بعض دوست اس دفعہ جلسہ پر آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ نے چونکہ خود چندہ نہیں دیا اس لئے جب اس تحریک کا ان سے ذکر ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں میاں یہ طوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں حصہ لے اور جس کی مرضی ہو نہ لے.ایسے سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کو دیکھتے ہوئے میں نے پہلے سے دوستوں کو ہوشیار کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ جب وہ اپنے کسی سیکرٹری کو ئست دیکھیں تو اس کی جگہ کسی اور کو تحریک جدید کا سیکرٹری مقرر کر لیں اور اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی غفلت اور سستی کی وجہ سے ثواب کے اس موقع کو نہ کھوئیں.پس جس جس جگہ کی جماعتوں کے سیکرٹریوں نے اپنے فرائض کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کی انہیں چاہئے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کے سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی میں ستی کر رہے ہیں تو اُن کی بجائے کسی اور کو سیکرٹری مقرر کر دیں اور اگر ساری جماعت میں سے کوئی ایک ہی دوست ایسا ہے جو پچست ہے تو وہی آگے آجائے اور اپنے آپ کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری تصور کر کے کام شروع کر دے کیونکہ خدا تعالیٰ کی دین بعض دفعہ ایسے رنگ میں آتی ہے کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا.ممکن ہے پہلے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کو اللہ تعالیٰ ثواب سے محروم رکھنا چاہتا ہو اور اب اس نے شخص کو ثواب کا موقع دینا چاہتا ہو.پس وہ پیچھے نہ رہے بلکہ آگے آئے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی
خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۳۸ء مجلس کا سیکرٹری سمجھ لے.میں نے پچھلے سالوں میں بتایا تھا کہ قربانی وہی ہے جو انتہاء تک پہنچے.پس یہ مت خیال کرو کہ فلاں شخص جس نے پہلے اتنا چندہ دیا تھا اُس نے چونکہ اس دفعہ چندہ نہیں لکھا یا اس لئے ہم بھی اس کی تقلید کریں.بہت لوگ بظاہر بڑے نیک ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ گر جانے والے ہوتے ہیں اور بہت لوگ بظاہر کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں.پس ایسا نہ ہو کہ تم کہو جب فلاں شخص نے اس کام کو نہیں کیا جو عہدہ دار ہے تو ہم کیوں کریں.شاید خدا اب اسے گرانے کا ارادہ رکھتا ہو اور تمہارے متعلق وہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمہیں اُٹھائے اور بلند کرے.پھر یہ امراچھی طرح یا درکھو کہ قربانی وہی ہے جو موت تک جاتی ہے.پس جو آخر تک ثابت قدم رہتا ہے وہی ثواب بھی پاتا ہے.اگر کوئی کہے کہ پھر نئے دور کوسات سال تک محدود کیوں رکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانیاں کئی رنگ میں کرنی پڑتی ہیں.موجودہ سکیم کو میں نے سات سال کیلئے مقرر کیا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۲ ء یا ۱۹۴۴ ء تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات جاری رہیں گی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کر دے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہوجائیں گے اور اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہو جائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دُور ہو جائیں گی اور سلسلہ احمد یہ نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگ جائے گا.پس میں نے چاہا کہ اس پیشگوئی کی جو آخری حد ہے یعنی ۱۹۴۴ ء اُس وقت تک تحریک جدید کو لئے جاؤں اور جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کرتا چلا جاؤں تا آئندہ آنے والی مشکلات میں اسے ثبات حاصل ہو.پس آج میں پھر خصوصیت کے ساتھ تمام جماعتوں کو خواہ وہ بڑی جماعتیں ہیں یا چھوٹی قریب کی جماعتیں ہیں یا دور کی توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد وہ اپنی لسٹوں کو مکمل کر کے بھیج دیں.کیونکہ ہندوستان کی جماعتوں کیلئے جو آخری تاریخ مقرر ہے اس میں اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اور کوشش کریں کہ اگر وہ اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ میں شامل نہیں ہو سکے تو کم از کم -
خطبات محمود ۱۴ سال ۱۹۳۸ء پھسڈی کے بھی نہ رہیں اور اپنے اخلاص سے کام لیتے ہوئے قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں.کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ہندوستان سے باہر کی جماعتیں جن کو اپریل تک مہلت حاصل ہے وہ تو اپنے وعدے بھجوا رہی ہیں مگر ہندوستان کی کئی جماعتیں جو بغل میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ بالکل خاموش ہیں اور انہوں نے وعدے بھجوانے کی کوئی کوشش نہیں کی.اگر افریقہ کے لوگ اس قسم کی پستی دکھا سکتے ہیں اور ایسی جگہوں سے اپنے وعدے اِس عرصہ میں بھیج سکتے ہیں جہاں سے خط بھی پندرہ دن میں پہنچتا ہے تو کیا یہ افسوس اور شکوہ کی بات نہ ہوگی کہ پنجاب اور ہندوستان کی جماعتوں کے عہدیدا رسستی دکھا ئیں اور وہ خاموشی سے بیٹھے رہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ۳۱ / جنوری ۱۹۳۸ ء تک انہیں مہلت حاصل ہے مگر اس میعاد کے ابتدائی وقت میں شامل ہونے کی بجائے آخری وقت شامل ہونے کی کوشش کرنا بھی کوئی اچھی علامت نہیں.بے شک بہت جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی اور ان لوگوں کو جو معمولی توجہ سے ہو سکتے ہیں ترک کر دینا کوئی خوبی نہیں مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہے اور کہے کہ ابھی کافی وقت ہے.آخری تاریخ کو خط لکھ دیں گے.حیدرآباد کی جماعت کافی دور ہے مگر وہ بڑی جماعتوں میں سے ایک ہے.جنہوں نے بہت جلد اپنے وعدے بھجوا دیئے ہیں.بیشک اس میں بھی بعض کمزور ہیں مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو قربانی کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور وہاں سے جو چندہ آتا ہے وہ مقدار کے لحاظ سے بڑی بڑی جماعتوں کے چندوں کے برابر ہوتا ہے.وہاں سے یہاں پانچ دن میں خط آتا ہے.لیکن میری اس تحریک کے دسویں بارھویں دن حیدر آباد کی جماعت کے وعدوں کا بہت سا حصہ پہنچ چکا تھا.نومبر کے آخر میں میں نے یہ تحریک کی تھی اور ابھی اس تحریک پر دس بارہ روز نہیں گزرے تھے کہ اس جماعت نے اپنے وعدہ کی لسٹ بھیج دی جو بہت حد تک مکمل تھی اور جو چند اور دوست باقی رہتے تھے اُن کی لسٹ ۱۵-۲۰ دسمبر تک پہنچ گئی.بلکہ پہلے انہوں نے بذریعہ تاراپنے وعدے بھجوائے اور پھر تفصیلی فہرستیں بعد میں بھیجیں.ان کی اس سرگرمی اور اخلاص کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ پہلے سال انہوں نے چھتیں سو روپیہ داخل کیا تھا مگر اس سال پہلے ۳۵ سو کی لسٹ بھیجی اور اب تک چار ہزار کی لسٹ بھیجوا چکے ہیں اور ابھی کہہ رہے ہیں کہ اور وعدے بھی بجھوائیں گے.
خطبات محمود ۱۵ سال ۱۹۳۸ء تو اگر دُور کی جماعتیں اس عرصہ میں کام کر سکتی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ قریب کی جماعتیں فہرست مکمل نہ کر سکیں اور اس خیال میں بیٹھی رہیں کہ ابھی کافی وقت ہے.پس محض اس لئے سستی کرنا کہ ۳۱/ جنوری ۱۹۳۸ ء تک ابھی کافی وقت ہے ایک خطر ناک علامت ہے.جس کا نتیجہ بعض دفعہ یہ نکلتا ہے کہ انسان آخری وقت میں بھی شامل نہیں ہوسکتا اور ثواب حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو تین صحابی ایک جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ اس لئے پیچھے رہے تھے کہ پہلے وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی کافی وقت ہے ہم تیاری کر لیں گے.مگر آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کیلئے چل پڑے اور چونکہ ان کی تیاری مکمل نہیں تھی اس لئے وہ محروم رہ گئے کے پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں وہ ہوشیار ہو جائیں اور اپنے اپنے وعدے جلد لکھ کر دفتر میں بھجوا دیں اور جس جماعت کے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سیکرٹری سست ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ثواب کے مواقع آتے ہیں وہ سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کیلئے نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص کیلئے ہوتے ہیں.پس وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ تصور کر لیں اور کام شروع کر دیں.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور وہی پریذیڈنٹ ہوں گے.پس تم دوسروں کے مونہوں کی طرف مت دیکھو.تم اپنی زبان کو خدا کی زبان اور اپنے ہاتھوں کو خدا کا ہاتھ سمجھوتا اللہ تعالیٰ کی رحمت تم پر نازل ہو.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت سے شرک کو گلی طور پر دور کر کے توحید کامل کا مقام ہمیں عطا کرے.ہمیں کچی قربانیوں کی توفیق دے اور ہم میں سے ہر شخص کا حوصلہ اتنا بڑھائے کہ وہ سمجھے کہ سلسلہ کی تمام ذمہ داریاں اُسی پر ہیں اور دوسروں کی شستی ہماری پستی کو دور کرنے والی نہ ہو بلکہ ہماری چستی دوسروں کی شستی کو دور کرنے والی ہو.( الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۸ء ) اللَّهُمَّ مِينَ الانعام: ۹۲ پھسڈی: کچھڑا ہوا.شکست خوردہ.آخری.ناقص.کم درجہ بخاری کتاب المغازى باب حدیث کعب بن مالک
خطبات محمود ۱۶ سال ۱۹۳۸ اسلامی شریعت کا قیام ہمارا اولین فرض ہے فرموده ۱۴ /جنوری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جلسہ سالانہ پر اور اس سے پہلے جو خطبات میں نے بیان کئے ہیں ان میں میں تحریک جدید کے بعض حصوں کے متعلق بیان کرتا رہا ہوں اور آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انسان جب تک خود اپنے سے دشمنی نہ کرے اُس وقت تک کوئی اُس سے دشمنی نہیں کر سکتا.میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا، دنیا میں اُس کا کوئی دشمن نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بچے طور پر اپنے نفس کا خیر خواہ ہوتا ہے وہ لا ز ما باقی دنیا کا بھی خیر خواہ ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک لازمی بات ہے کہ جو شخص دنیا کا خیر خواہ ہوتا ہے دنیا ضرور اس سے دشمنی کرتی ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص اپنے نفس کا خیر خواہ ہو اور دنیا کا بدخواہ ہو اور پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی شخص دنیا کا خیر خواہ ہو اور دنیا اُس کی بدخواہ نہ ہو.جو شخص بھی دنیا کی خیر خواہی کرے لازماً دنیا اس کی دشمن ہوتی ہے.اور جب میں نے یہ کہا کہ کوئی اُس سے دشمنی کر نہیں سکتا تو میری مراد اس سے یہ ہے کہ اس کے ساتھ دنیا کی دشمنی کا میاب نہیں ہو سکتی.جس قد را نبیا ء دنیا میں آئے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے نفس کے خیر خواہ تھے.یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اول المؤمنین رہے ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز سننے کے بعد معاً اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے پھینک دیا اور کہا کہ ہم اپنے آپ کو تیرے رستہ میں فنا کر کے
خطبات محمود ۱۷ سال ۱۹۳۸ء نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب انہوں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے رستہ میں فنا کر کے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ کر لیا تو اپنی خیر خواہی کے بعد ان کے اندر یہ طاقت اور ہمت پیدا ہوگئی کہ وہ دنیا کی خیر خواہی کر سکیں.ایک شخص جو تیرنا سیکھتا ہے سب سے پہلے اپنی جان بچاتا ہے اور جو اپنی جان کو بچالیتا ہے وہی اس قابل ہوتا ہے کہ دوسروں کو بچا سکے.اگر وہ اپنی جان کو نہ بچا سکے تو کسی صورت میں بھی دوسروں کو بچانے کے قابل نہیں ہوسکتا.مگر وہی تیر نے والا جو کی اپنی جان بچانے کے سامان پیدا کر کے دوسروں کی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے جب ایک ڈوبنے والے شخص کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو ڈوبنے والے کا مقدم کام یہ ہوتا ہے کہ اُسے ڈبوتا ہے اور یہ دنیا میں ایک عام قاعدہ ہے.ڈوبنے والے کے حواس چونکہ قائم نہیں ہوتے اس لئے اپنے آپ کو بچانے کیلئے وہ عقل کے ساتھ ہاتھ پیر نہیں مارتا بلکہ ہمیشہ ایسے رنگ میں ہاتھ پیر مارتا ہے کہ اسے بچانے والا بھی ساتھ ہی ڈوبنے لگے.مجھے ایک واقعہ بچپن کا یاد ہے.ایک دفعہ یہاں ڈھاب میں ایک کشتی الٹ جانے کی وجہ سے کچھ آدمی ڈبکیاں کھانے لگے.انہیں بچانے کیلئے کچھ اور آدمی گو دے لیکن ان کو ڈوبنے والوں نے پکڑ کر اس طرح ساتھ گھسیٹا کہ ان کے ناک اور منہ میں پانی پڑنے کی وجہ سے وہ بھی خطرے میں پڑ گئے.اس پر کچھ اور لوگ گودے اور قریباً اٹھارہ آدمی اس طرح ڈبکیاں کھانے کی لگے.آخر ایک اچھے تیراک نے بعض دوسرے ہلکے تیرا کوں کو سہارا دے کر سانس دلایا اور پھر ان کی مدد سے اس طرح پکڑ پکڑ کر ڈوبنے والوں کو نکالنا شروع کیا کہ وہ اُن کو ساتھ نہ ڈبوسکیں.تو یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص دوسرے کو بچانا چاہتا ہے، ڈوبنے والا اُسے ضرور ڈبونے کی کوشش کرتا ہے.اس کے حواس چونکہ معطل ہوتے ہیں اس لئے وہ بچانے والے کو یا تو اپنا دشمن سمجھتا ہے یا اگر دوست بھی سمجھتا ہے تو ایسے رنگ میں اُس پر بوجھ ڈالتا ہے کہ وہ اُٹھا نہ سکے اور اس طرح اپنے ساتھ اسے بھی ڈبونے کی کوشش کرتا ہے.کثرت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں اور ہر مہینہ ہی اخبارات میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ شائع ہوتا ہے کہ ایک شخص ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے گیا مگر خود ڈوب گیا اور ڈوبنے والا بچ گیا.پس یہ ایک عام قانون ہے جس سے دنیا آزاد نہیں ہوسکتی.یعنی جو اپنی ذات کا خیر خواہ نہیں وہ دنیا کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا اور جو دنیا کا کی
خطبات محمود ۱۸ سال ۱۹۳۸ء خیر خواہ ہو ممکن نہیں کہ دنیا اس کی دشمن نہ ہو.ہاں الہی سلسلوں میں خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ایسی دشمنیاں کامیاب نہیں ہوسکتیں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا دنیا میں کوئی اُس کا دشمن نہیں ہوتا تو میری مراد اس سے یہی ہے کہ اس کے دشمن اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.یہ مطلب نہیں کہ ان کے دشمن دنیا میں ہوتے نہیں.بیشک ان کے دشمنوں کو عارضی خوشیاں بھی کسی وقت نصیب ہو جاتی ہیں مگر حقیقی خوشی وہ کبھی حاصل نہیں کر سکتے اور کوئی واقعہ بھی جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے دشمن ان کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں.عارضی طور پر ان کو خوش ہونے کے موقعے مل سکتے ہیں.جب وہ خیال کر لیتے ہیں کہ اب ہم اس جماعت کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر آخر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنی جماعت کی مدد کو بڑھتا اور اس کو بچالیتا ہے.پس اس قانون کے ماتحت حقیقی خیر خواہی انسان کی اپنے نفس سے یہی ہوگی کہ بنی نوع کی خدمت کرے اور خاص کر مذہبی میدان میں خدمت کرے اور جب وہ خدمت کرے گا تو لازماً لوگوں کی غلطیوں سے بھی ان کو آگاہ کرے گا اور وہ چونکہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اس لئے ضرور اس کی مخالفت کریں گے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کریں گے.حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آئے اور لوگوں کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے لیکن جن کی اصلاح کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے اُنہوں نے ہی اُن کو تباہ کرنا چاہا.حضرت نوح علیہ السلام لوگوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور جن کو بچانے کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے انہوں نے ہی ان کو تباہ کرنا چاہا.حضرت ابراہیم علیہ السلام جن لوگوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے انہی لوگوں کی نے ان کو تباہ کرنے کی کوشش کی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے تو ان کو بھی ان لوگوں کی نے جن کو بچانے کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے تباہ کرنا چاہا.حضرت عیسی علیہ السلام آئے تا اپنی قوم کی کو ہلاکت سے بچائیں مگر اُن کی قوم نے ان کو ہلاک کرنا چاہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے مگر لوگ ان کے دشمن ہو گئے اور ہر ممکن طریق سے ان کو نقصان پہنچانا چاہا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ دشمن اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے مگر اپنی طرف سے انہوں نے کوئی کوتاہی نہ کی مگر یہ سب باتیں تبھی ہوسکتی ہیں جب انسان پہلے اپنے نفس کا خیر خواہ ہو.
خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۸ اور جب تک وہ یہ نہ کر سکے کسی دوسرے کی اصلاح کے قابل ہی نہیں ہوسکتا.کسی نے کہا ہے آنانکه خود گم اند کجا رهبری کنند جو شخص خود گمراہ ہو وہ دوسروں کو کہاں ہدایت دے سکتا ہے.دوسرے کو راستہ وہی دکھا سکتا ہے جو پہلے خود تلاش کرے اور جو شخص دوسرے کو گمراہی سے بچانے کیلئے آگے بڑھے گا اُس کی مخالفت بھی ہوگی اور لوگ اُس کے دشمن بنیں گے.گو یہ الہی قانون ہے کہ ایسے لوگوں کو دشمنی نقصان نہیں پہنچا سکتی.مخالفوں کو عارضی طور پر خوش ہونے کا موقع تو مل سکتا ہے مگر حقیقی خوشی وہ کبھی حاصل نہیں کر سکتے.ہماری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے.یعنی یہ کہ سب سے پہلے ان کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ ان کے اندر طاقت پیدا کر دے تو پھر کوشش کریں کہ دوسروں کو بچائیں اور اس کے ساتھ یہ بھی یادرکھیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی مخالفت لازمی طور پر ہوگی اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان کے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.بظاہر ان کو ذلت اور رسوائی بھی ہو سکتی ہے مگر انجام کا روہی کامیاب ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور اس کے بعد اس نے اپنے دل میں رجوع کیا اور اس وجہ سے میعاد مقررہ کے اندر اس کی موت نہ ہوئی تو لوگوں نے بڑی خوشیاں منائیں اور شور مچادیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.اُس زمانہ میں ریاست بہاولپور کے جو نواب تھے ، اُن کے پیر چاچڑاں والے بزرگ تھے.ایک دن نواب صاحب کے دربار میں یہی ذکر ہورہا تھا کہ مرز اصاحب نے پیشگوئی کی تھی جو غلط نکلی اور اس پر لوگوں نے ہنسی اُڑانی شروع کی اور آہستہ آہستہ اہل مجلس کی باتوں سے متاثر ہو کر نواب صاحب بھی اس ہنسی میں شامل ہو گئے.اُس وقت مجلس میں وہ بزرگ بھی بیٹھے تھے.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت عقیدت تھی اور انہوں نے حضور کو خط بھی لکھا تھا وہ پہلے تو خاموش رہے مگر جب دیکھا کہ نواب صاحب بھی ہنسی میں شریک ہو گئے ہیں تو اس لئے کہ وہ نواب صاحب کے پیر تھے اور سمجھتے تھے کہ مجھے ان کو اس طرح ڈانٹنے کا حق ہے، بڑے جوش سے فرمایا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء دنیا کے اندھوں کو یہ نظر آتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مگر مجھے تو اس کی لاش سامنے پڑی ہوئی نظر آ رہی ہے یعنی تم موت سے مراد ظاہری موت لیتے ہو اور یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ موت کیا ہے یہ تو ہر انسان کو آتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی سے خوف کھا کر جو آتھم نے تو بہ کی اور رجوع کیا ، وہ جذبات کی موت تھی اور ظاہری موت سے زیادہ سخت تھی.تو سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے بعض دفعہ ایسی بات پیدا ہو سکتی ہے جو بظاہر رُسوائی کا موجب ہو مگر عقلمند جانتے ہیں کہ دراصل وہ بھی دین کی نصرت کا موجب ہوتی ہے.پس سب سے مقدم بات تو یہ ہے کہ اپنے نفسوں کی اصلاح کرو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح پھینک دو کہ اُس کی نصرت حاصل کر سکو اور اگر تم یہ کر لوتو دنیا کی کوئی طاقت کی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی.مگر حالت یہ ہے کہ تم ہندو سے تو کہتے ہو کہ اسلام کی تعلیم افضل ہے مگر جب کوئی موقع پیدا ہوتا ہے تو تم جوش سے بھر جاتے ہو اور کہتے ہو کہ ایسے موقع پر اسلام کی کچ تعلیم ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اور جب یہ حالت ہو تو خدا تعالیٰ کو تمہاری نصرت کرنے کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ اگر تمہاری مدد کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اس جماعت میں جو لوگ ہیں وہ اسے بہت پسند ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ جماعت دنیا میں اُن اصولوں کو قائم کرنے کیلئے کھڑی ہوئی ہے جنہیں قائم کرنا اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے.اگر تم میں یہ خصوصیت نہ ہو تو پھر تمہارے متعلق بھی وہی عام قانون ہوگا کہ ایک پر دو بھاری ہوتے ہیں.دور پر چار، سو پر دوسو ، ہزار پر دو ہزار اور لاکھ پر دولاکھ.لیکن اگر تم خدا تعالیٰ کے اصولوں سے اپنے آپ کو اس طرح وابستہ کر لو کہ تم میں اور ان میں کوئی فرق نہ رہے.تمہارے اندر تو حید ایسی نہ ہو جیسی دنیا دار لوگوں میں ہوتی ہے بلکہ ایسے موحد بن جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم مجسم تو حید ہو جاؤ اور تمہیں اور تو حید کو جدا نہ کیا جاسکے.تو پھر اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری حفاظت کرے گا کیونکہ اس صورت میں تمہاری تباہی توحید کی تباہی کے مترادف ہوگی.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ برتن کو بھی بچایا جاتا ہے.کسی پیسے میں گھی یا شہد بھرا ہوا ہو تو گو اُس پیپر کی قیمت دو چار آنے سے زیادہ نہیں ہوتی مگر اس گھی یا شہد کیلئے جو اس کے اندر ہے، انسان اس کی بھی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس میں سوراخ ہو گیا تو
خطبات محمود ۲۱ سال ۱۹۳۸ گھی یا شہد بہہ جائے گا.مٹی کی ایک پیالی جس کی قیمت دمڑی بھی نہیں ہوتی بلکہ کبھی تو چھوٹی پیالیاں پیسہ کی آٹھ آٹھ پکا کرتی تھیں اس میں اگر ایک انسان اپنے کسی عزیز کیلئے دوائی لئے جا رہا ہو اور اُس عزیز کی کمزور حالت کی وجہ سے دوا کے پہنچنے میں تاخیر کو مہلک سمجھتا ہو، تو اس حالت میں اگر کوئی اس پیالی کو توڑنا چاہے تو وہ انسان اُسے بچانے کیلئے کتنی جد و جہد کرے گا.اگر وہ شخص کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بھی ہے اور اس کے گھر میں چاندی کے برتنوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی تو بھی اس وقت وہ اس مٹی کی پیالی کو بچانے کیلئے جس کی قیمت کچھ بھی کی نہیں اپنی ساری جائیداد کو قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائے گا.اس لئے نہیں کہ وہ مٹی کی پیالی کی اسے عزیز ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں ایک ایسی چیز پڑی ہے جس کے ساتھ اس کے عزیز کی جان وابستہ ہے.وہ اسے بچانے کیلئے اس لئے جدو جہد نہیں کرے گا کہ وہ مٹی کی بنی ہوئی پیالی قیمتی ہے ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں وہ دوا ہے جس کا فوراً اس کے عزیز کے پاس پہنچنا ضروری ہے.اسی طرح بے شک انسان خاک کا ایک پتلا ہے جو دنیا میں آتا اور چلا جاتا ہے اور اس لحاظ سے اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن جب وہ اپنے اندر اُس تریاق کو بھر لیتا ہے جس سے دنیا نے زندہ رہنا ہے، اگر وہ اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کر لیتا ہے جس سے دنیا میں نبوت قائم ہوتی ہے اور جس سے دنیا میں صفاتِ الہیہ نے جاری ہونا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قیمت بہت کی بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کی حفاظت کرتا اور دشمنوں کے ضرر سے اسے بچاتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اب اگر یہ انسان ٹوٹا تو اس کے ساتھ ہی نبوت کا روح افزا شربت بھی بہہ جاتا ہے، توحید کی زندگی بخش روح بھی ضائع ہو جاتی ہے، دنیا میں صفات الہیہ کا ظہور بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ ہر کوشش کرتا ہے اس کے بچانے کی تا وہ چیزیں محفوظ رہ سکیں جو اس کے اندر ہیں اور تاوہ دنیا میں قائم اور جاری ہوسکیں.جنگ بدر کے موقع پر جب لڑائی کی حالت ایسی خطرناک ہوگئی کہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ کفار مسلمانوں کو بالکل مٹادیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک علیحدہ مقام پر جا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تیری ہدایت اور عبادت کو قائم رکھنے والا دنیا میں ان چند ایک لوگوں کے سوا کوئی نہیں اور اگر یہ تباہ ہو گئے تو اور کوئی نہیں جو
خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۸ء اسے قائم کر سکے اس لئے ان کی حفاظت فرما لے آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ میرے رشتہ دار ہیں یا میرے عزیز دوست ہیں یا کوئی معززین ہیں یا کسی عام صداقت کیلئے کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیر معمولی سلوک کی کوئی وجہ نہ تھی اور ان کی قیمت اتنی نہ بن سکتی تھی کہ ان کے لئے دوسروں پر عذاب نازل کیا جائے.ان کی قیمت بڑھانے والی صرف یہی ایک چیز تھی کہ ان کا منا خدا کی تو حید کا مٹنا ہے اور اُس کی عبادت کا مٹنا ہے.پس آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابو بکر میرا پیارا ہے، عمر اور عثمان میرے پیارے ہیں اور دوسرے صحابہ میرے پیارے اور عزیز ہیں.ان سب امور کو نظر انداز کر کے آپ نے یہ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں معرفت کی شراب بھری ہے اور اگر یہ لوگ مٹ گئے تو پھر دنیا میں تیری توحید اور تیری عبادت کو قائم کرنے والا اور کوئی نہ ہوگا.پس جب انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی معرفت بھر جائے تو وہ اسے ایسا پیارا ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرتا ہے.اس کی ذات کی خاطر نہیں بلکہ اس چیز کی خاطر جو اس کے دل میں بھری ہے.جس طرح انسان مٹی کی پیالی کی حفاظت کرتا ہے.اُس پیالی کیلئے نہیں بلکہ اس کی چیز کیلئے جو اس میں پڑی ہوئی ہے.اُس وقت اللہ تعالیٰ یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ انسان محض خاک کا پتلا نہیں رہا بلکہ اب اس کے ساتھ میری تو حید اور میری تعلیم وابستہ ہو گئی ہے اور اس کے اندر وہ چیز بھر گئی ہے جو دنیا کی نجات کیلئے ضروری ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو سب سے پہلے تو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کو پیدا کریں اور اپنے آپ کو اس کی ربوبیت ، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات سے ایسا وابستہ کر لیں کہ وہ معمولی انسان نظر نہ آئیں بلکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ، اُس کی رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات نظر آئیں اور اگر کوئی ان کو کی تباہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کہے کہ ان پر حملہ کرنے والا دراصل میری ان صفات پر حملہ کرتا ہے.اگر یہ لوگ مٹ گئے تو اور کون ہے جو دنیا میں میری ان صفات کو قائم رکھے گا اس لئے وہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے والوں کو نا کام کر دیتا ہے.تحریک جدید کے دوسرے دور کی تحریک سے میری غرض یہی ہے کہ ہم دنیا میں اسلامی تعلیم
خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۸ء کو قائم کریں.اسلامی تعلیم اس وقت مٹی ہوئی ہے اور ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو خوش کر لیتے ہیں کہ اس کا قیام حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھنے والی باتیں بہت تھوڑی ہیں اور ان کا دائرہ بہت ہی محدود ہے.باقی زیادہ تر ایسی ہیں کہ ہم حکومت کے بغیر بھی ان کو رائج کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت ، اس کی توحید اور عرفان کی خواہش دل میں رکھنا اور اس کیلئے جد و جہد کرنا ، صفات الہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر ان کو دنیا میں رائج کرنا ، قرب الہی کے حصول کی کوشش کرنا ، امانت، دیانت، راستبازی و غیره و غیره سینکڑوں باتیں ہیں جن کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں.کیا اگر ہمارے پاس حکومت نہ ہو تو ہم کی نماز نہیں پڑھ سکتے ، ذکر الہی نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کو پگھلا نہیں سکتے دیانت اور امانت کو قائم نہیں رکھ سکتے ؟ سچ نہیں بول سکتے ؟ یقیناً یہ سب کچھ کر سکتے ہیں اور اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلام کی تعلیم بغیر حکومت کے قائم نہیں ہو سکتی.ان باتوں میں سے بعض ایسی کی ہیں جو انسان کی ذات سے وابستہ ہیں اور بعض ایسی ہیں جو نظام سے وابستہ ہیں اور نظام بغیر حکومت کے بھی قائم ہوسکتا ہے.دنیا میں کوئی سخت سے سخت حکومت بھی افراد کے نظام کو باطل نہیں کر سکتی.افراد کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل دینے والی حکومتیں جرمنی اور اٹلی کی ہی ہیں مگر ان میں بھی افراد کے نظام کو کلی طور پر باطل نہیں کیا جا رہا.لوگ اب بھی وہاں مجالس قائم کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ملک کی اصلاح اور خدمت خلق بھی کرتے ہیں اور پھر ہمیں تو کی اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کے ماتحت رکھا ہے کہ جس کی حکومت افراد کے نظام میں کم سے کم دخل دیتی ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں سے کوئی رعایت کرنا چاہتی ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے ملک کا نظام ہی ایسا ہے اور انگریز قوم نے حکومت کیلئے اس بارہ میں اختیارات اور قوانین ہی ایسے رکھے ہیں.اگر ہم کسی اور ملک کے ماتحت ہوتے تو ہمیں نظام قائم کرنے کے متعلق اس قدر آزادی حاصل نہ ہوتی جتنی اب ہے اور اس صورت میں اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کیلئے ہمارا دائرہ عمل بہت محدود ہوتا.لیکن اب ہمارا دائرہ کافی وسیع ہے.اٹلی اور حج جرمنی وغیرہ ممالک جہاں فسطائی اور نائسی اصول رائج ہیں وہاں حکومتیں افراد کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل دیتی ہیں لیکن انگریز قوم نے اپنی حکومت کو ایسے اختیارات ہی نہیں دیئے
خطبات محمود ۲۴ سال ۱۹۳۸ء اور اس لئے برطانوی حکومت ایسے معاملات میں کم سے کم دخل دیتی ہے.میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دونوں میں سے کون سا اصل بہتر ہے.چاہے میرے نزدیک فسطائی یا ناسی اصول ہی نسبتاً زیادہ صحیح ہوں مگر بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی حکومت کے ماتحت رکھا ہے کہ ہمارے لئے یہ موقع ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ کے بغیر اسلامی تعلیم کو جاری کرسکیں اور پھر نظام کے ذریعہ اسے طاقت دے سکیں اور اس سہولت کی موجودگی میں سمجھتا ہوں الہی حکمت کے بغیر نہیں.اللہ تعالیٰ نے جب کسی نبی کو مبعوث کرنا ہوتا ہے تو ہزاروں سال پہلے اس کیلئے تغیرات کرتا ہے اور اس طرح داغ بیل ڈالتا ہے کہ اسے اپنے کاموں میں سہولت حاصل ہو سکے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ انگریز قوم کے افراد بہت نیک اور اسلام کی تعلیم کے قریب ہیں.ان میں بھی ظالم، غاصب ، فاسق ، فاجر اور ہر قسم کا نُحبث رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور دوسری قوموں میں بھی.ان میں بھی اچھے لوگ ہیں اور دوسری قوموں میں بھی.جو چیز رحمت ہے وہ یہ ہے کہ یہ حکومت افراد کی آزادی میں بہت کم دخل دیتی ہے اور وہ جن معاملات میں دخل نہیں دیتی ان میں اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کا ہمارے لئے موقع ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسی قوم کو ہم پر حاکم مقرر کیا کہ جو افراد کے معاملات میں بہت کم دخل دیتی ہے.ہو سکتا ہے کہ اگر نائسی یا فیسٹ لوگ ہم پر حکمران ہوتے تو وہ دوسرے معاملات میں انگریزوں سے بھی اچھے ہوتے.ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والے اور زیادہ عدل کرنے والے ہوتے مگر انفرادی آزادی وہ اتنی نہ دیتے جتنی انگریزوں نے دی ہے.وہ اشخاص کے لحاظ سے تو اچھے ہوتے مگر سلسلہ کے لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہوتے اور اس کے یہ معنی ہوتے کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو جاتی اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کا دائرہ ہمارے لئے بہت ہی محدود ہوتا اور اسلامی احکام میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے جن کو ہم قائم کر سکتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی معنوں کے لحاظ سے انگریزی حکومت کو رحمت قرار دیا ہے اور اس قوم کی تعریف کی ہے.آپ کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز انصاف زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کوئی کچ
خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۸ء دوسری حکومت اس سے اچھی ہو.قابل تعریف یہی ہے کہ اس قوم کے تمدن کا طریق یہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو انفرادی معاملات میں دخل اندازی کے اختیارات نہیں دیئے.پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جس ملک میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو پیدا کرنا تھا وہاں ایسی قوم حاکم ہو جو لوگوں کے معاملات میں کم سے کم دخل دینے والی ہو.پس ج انگریزوں کی حکومت اس لئے قابلِ تعریف نہیں کہ اس کے افسر باقی سب حکومتوں سے انصاف زیادہ کرنے والے ہیں یا وہ اسلام کی تعلیم کے زیادہ قریب ہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ افراد کے معاملات میں بہت ہی کم دخل دیتی ہے.ان کی خوبی مثبت قسم کی نہیں بلکہ منفی قسم کی ہے.پس جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی.انہیں چاہئے کہ ان حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کریں.یہ خیال کر کے بیٹھ رہنا بالکل نامناسب ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام اسلامی حکومت کے ساتھ وابستہ ہے.ایسی باتیں تو سو میں سے دس ہوں گی جو اسلامی حکومت سے تعلق رکھتی ہیں باقی نوے ایسی ہیں جو بغیر حکومت کے بھی قائم کی جاسکتی ہیں.نوے پر عمل کو اُس وقت تک ترک کرنا کہ دس پر عمل کرنے کا وقت آجائے ، بیوقوفی ہے.جو شخص دس کی خاطر نوے ضائع کر دیتا ہے اس کی مثال اس لڑکے کی ہے جسے اس کی ماں نے ایک پیسہ دیا تھا کہ بازار سے تیل خرید لاؤ.وہ گیا ، دکاندار نے کی اپنے پیمانہ کو بھر کر اس کے کٹورے میں تیل ڈالا چونکہ کٹورا چھوٹا اور تیل کچھ زیادہ تھا اس لئے کی تیل بچ گیا اور دکاندار نے کہا کہ یہ پھر کسی وقت لے جانا مگر لڑکے نے کہا کہ پھر کون آئے گا میں ابھی لے جاتا ہوں اور اس نے اپنا برتن اُلٹا دیا اور اس کے پیندے پر جو چھوٹا سا خلا تھا اس میں باقی تیل ڈالنے کو کہا.اُلٹا کرنے سے کٹورے کے اندر جو تیل تھا وہ تو گر گیا.جب گھر پہنچا تو کی اس کی ماں نے کہا کہ کیا اتنا تھوڑا تیل دکاندار نے دیا ہے لڑکے نے کہا کہ نہیں ، دوسری طرف بھی ہے اور یہ کہہ کر برتن سیدھا کر دیا جس سے پیندے والا تیل بھی گر گیا.پس ہم بھی اگر دس باتوں کیلئے نوے کو ضائع کر دیں تو ہماری مثال بھی اسی احمق کی سی ہوگی.ہم اس لڑکے کی مثال کو سنتے اور ہنستے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو خود نوے کو دس کی خاطر ضائع نہیں کر رہے.اللہ تعالیٰ نے نوے فیصدی امور ہمارے اختیار میں دے دیئے ہیں
خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۸ء اور ایسے حاکم دیئے ہیں جن کے ملک کا دستور یہ ہے کہ وہ انفرادی آزادی میں کم سے کم دخل ہے دیتے ہیں.دنیا میں بعض حکومتیں ایسی ہیں جو افراد کے معاملہ میں زیادہ سے زیادہ دخل دیتی ہیں تا اصلاح ہو.وہ کہتی ہیں کہ جب ایک بات میں ملک کا فائدہ ہے تو کیوں لوگوں کو طاقت سے اس پر کار بند نہ کیا جائے.مگر بعض دوسری حکومتوں کا اصول یہ ہے کہ جب تک انفرادی معاملات میں کم سے کم دخل نہ دیا جائے ، افراد کی قوت قائم نہیں رہ سکتی اور ان کی ذہنی ترقی رُک جاتی ہے اور لوگ محض ایک مشین بن کر رہ جاتے ہیں اور انگریزوں کی قوم اس آخری اصول کی کی کار بند ہے.اس کے برخلاف جرمن حکومت کا اصول یہ ہے کہ جب ایک بات مفید ہے تو اس کی بات کا انتظار کیوں کیا جائے کہ لوگ اس کے ذریعہ خود اپنی اصلاح کرلیں گے اور اپنے اپنے طور پر کوشش کر کے اس پر کار بند ہو جائیں گے.کیوں نہ حکومت خودا سے قائم کر دے اور جتنا چاہے دخل دے دے.اور اسلامی ترقی کیلئے ہندوستان میں زیادہ مفید وہی حکومت ہو سکتی تھی جو کم سے کم دخل دے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں انگریزی حکومت کو قائم کر دیا.ہندوستان میں اس کے بجائے اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو یہ تو ممکن تھا کہ ہندوستان دیگر لحاظ سے بہت ترقی کرتا.یہاں کی اقتصادی حالت اچھی ہوتی یا تجارت ترقی کرتی.یا یہ کہ آج ہندوستان میں زیادہ کارخانے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ کارخانے ملک میں گھل جاتے.جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کہ انگریزی حکومت نے دو سو سال میں ہندوستان میں اتنا کام نہیں کیا جتنا اٹلی نے دو سال کے عرصہ میں حبشہ میں کیا ہے.پس اگر کوئی اور حکومت یہاں ہوتی تو ممکن ہے بعض اور لحاظ سے ہندوستان کو زیادہ ترقی حاصل ہو جاتی مگر قومی اور شخصی اصلاح کے کاموں میں وہ آزادی ہرگز نه ملتی جو انگریزی حکومت کے ماتحت اُسے حاصل ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم اسلامی تعلیم کے قیام کے دائرہ کو بہت وسیع کر سکتے ہیں اور اگر ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی ہم ان کو قائم کی نہ کریں تو یہ ایک بہت بڑی حماقت ہوگی.انگریزی حکومت میں پرائیویٹ مدر سے جاری کرنے کی اجازت ہے مگر جرمنی میں نہیں.وہاں سب کو سرکاری مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۸ ایسے ملک میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہو سکتا.روس میں پادری شور مچارہے ہیں کہ ہمیں مذہبی تعلیم کی اجازت نہیں دی جاتی مگر حکومت کہتی ہے کہ بائبل کی تعلیم دینا کسی کیلئے روٹی کے سوال کو حل نہیں کرتا اس لئے ہم تم کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ ایک شخص کو نا کارہ بنادو.ایسی تعلیم جوان ہونے کے بعد دی جاسکتی ہے.ہمیں تو ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو زیادہ سے زیادہ روپیہ تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ دوسرے ممالک سے کھینچ سکے.اب دیکھوا گر کوئی ایسی ہی حکومت یہاں ہوتی تو ہم نہ احمد یہ سکول جاری کر سکتے تھے اور نہ مبلغین کے لئے جامعہ احمدیہ کے ذریعہ تعلیم کا انتظام کر سکتے تھے.حکومت سب کو جبراً سرکاری سکولوں میں تعلیم دلاتی اور م کیلئے کوئی موقع نہ رہتا.سوائے اس کے کہ گریجوایٹ بن جانے کے بعد پھر نو جوانوں کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جاتا لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی یہ آزادی کب تک قائم رہے.اب یہاں ملکی حکومت قائم ہو رہی ہے اور بعض وزراء نے اپنی تقریروں میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ پرائیویٹ مدر سے بند کر دینے چاہئیں.پس پیشتر اس کے کہ وہ کی دن آئیں یا ان کے آنے میں ہم روک بننے کے اہل نہ رہ سکیں ہمیں اسلامی تعلیم کو اس طرح کی اپنے اندر قائم اور جاری کر لینا چاہئے کہ اگر دینی سکول تو ڑ بھی دیئے جائیں تو ہر احمدی اپنی جگہ پر پروفیسر اور فلاسفر ہو جو اپنے بچوں کو گھر میں وہی تعلیم دے جو ہم نے سکولوں میں دینی ہے.اس وقت جو بچے ہیں وہ اپنی ماؤں سے اور باپوں سے اور بھائیوں بہنوں سے وہی باتیں سنیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے نکلی ہیں.اس طرح وہ وقت جو بچوں کو گھر میں والدین کے پاس رہنے کیلئے ملتا ہے، اسی میں ان کی دینی تعلیم و تربیت ہو سکے گی.ماں باپ سے ملنے کا وقت بچوں کو سخت سے سخت حکومتوں کے ماتحت بھی ملتا ہے.حتی کہ روس میں بھی جہاں بہت پابندیاں ہیں، والدین سے بچوں کو ملنے کی اجازت ہے.پس اگر کوئی ایسا وقت آبھی جائے جب دینی تعلیم کا انتظام حکومت ہمیں کرنے نہ دے.اُس وقت وہ وقت جو بچے والدین کے پاس گزاریں ان کی دینی تعلیم کو مکمل کرنے کا ذریعہ بن جائے.اس کے علاوہ علم النفس کا بھی ایک نکتہ ہے جسے ہم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.جب کسی قوم کے اندر کوئی اچھی تعلیم قائم ہو جائے تو وہ بجائے خود ایک خاموش تبلیغ کا ذریعہ
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۸ء بن جاتا ہے.اگر ہماری جماعت غلط خیالات پر مُصر نہ رہے، قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق یہ نہ کہے کہ وہ ہے تو بہت اچھی مگر اس سے ہر موقع پر گزارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اسے ہر حال میں قائم کرے اور اس پر عمل کرے اور اس طرح دنیا کو اسے دیکھنے کا موقع دے.تو چونکہ وہ بہت اچھی تعلیم ہے دیکھنے والوں کے دل میں خود بخود یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہمیں بھی اسے اختیار کرنا چاہئے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بعض چیزیں اخلاق کے لحاظ سے سخت مضر ہوتی ہیں ، بعض صحت کے لحاظ سے مضر ہوتی ہیں مگر چونکہ وہ بظاہر اچھی نظر آتی ہیں اس لئے لوگ خود بخود انہیں اختیار کرتے جاتے ہیں.بھلا کوئی مبلغ کسی جگہ لوگوں کو یہ تلقین کرنے کیلئے گیا ہے کہ مانگ نکالا کرو مگر دیکھ لو ماں باپ بھی سمجھاتے ہیں، استاد بھی منع کرتے ہیں اور لوگ بھی کہتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں مرد بنایا ہے یہ عورتوں والی ہیئت کیوں بناتے ہومگر آجکل کے لڑکے ہیں کہ اس سے کسی صورت نہیں رکھتے.جس کے پاس کوئی اعلیٰ قسم کا تیل نہ ہو وہ بازار سے ایک پیسے کا کڑوا تیل ہی لے آئے گا اور ٹوٹی ہوئی کنکھی کے ساتھ ٹیڑھی مانگ نکال کر اس طرح اکٹر اکٹر کر چلے گا کہ گویا بادشاہ نے اُسے وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے.پھر کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ لیکچرار لیکچر دیتے پھر تے ہوں کہ داڑھیاں منڈواؤ.مگر جب ایک ہندوستانی نوجوان ایک انگریز کو دیکھتا ہے کہ ڈاڑھی منڈائے ہوئے اور پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پھر رہا ہے تو وہ خود بخود چاہتا ہے کہ میں محمد ابراہیم نہ رہوں بلکہ ٹامسن ہو جاؤں.کیونکہ وہ عزت والا ہے اور اس کی نقل کرنے سے میں بھی شاید عزت والا سمجھا جانے لگوں.اور اسے اگر سیفٹی ریز رنصیب نہ ہو تو وہ دیسی گند اُسترے سے اپنی ٹھوڑی پر خواہ دس زخم کیوں نہ کرے لیکن بال ضرور نوچ ڈالے گا.تا وہ بھی مسٹر ٹامسن معلوم ہو کیونکہ اسے اس میں ایک خوبصورتی نظر آتی تھی.چونکہ اسے اپنی کی مرعوب شدہ آنکھوں سے وہ دیکھتا ہے.مسٹر ٹامسن خوبصورت نظر آتا ہے اس لئے جھٹ اُس کی نقل کرتا ہے.سو تم اگر اسلام کی تعلیم کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرو، خدا تعالیٰ کی صفات کو کی پیش کرو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ انہیں اختیار نہ کریں گے اور تمہاری نقل نہ کرنے لگیں گے ! مجھے انہی دنوں یورپ سے ایک مبلغ کی چٹھی آئی ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جو روسی نظام حکومت کا قائل تھا اور خیال رکھتا تھا کہ اس کو قائم کئے بغیر
خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۸ء دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا لیکن میں نے جب اُس کے سامنے آپ کی کتاب احمدیت سے اسلامی نظام حکومت والا حصہ رکھا اور اُسے کہا کہ اِن دونوں کا مقابلہ کرو اور دیکھو کہ سوویٹ سکیم میں جو نقص ہیں وہ اس میں دور کر دیئے گئے ہیں یا نہیں اور اس کی خوبیاں اس میں موجود ہیں یا نہیں؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہاں اگر ایسی حکومت دنیا میں قائم ہو سکے تو پھر کسی اور کی ضرورت نہیں.اس دوست نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور لکھا ہے کہ میرے لئے ایسے خیالات کے آدمی سے ملاقات کا پہلا موقع تھا اور اسلام کی تعلیم نے جس طرح اس پر اثر کیا اس سے مجھے خیال ہوا کہ یہ کس طرح دلوں کو موہ لینے والی تعلیم ہے.مگر افسوس ہے کہ ہم اسے دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کرتے.منہ سے تو کہتے ہیں کہ یہ تعلیم بہت اچھی ہے مگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں کہ جو سب کو نظر آنے والی ہوتی ہیں عملی طور پر انہیں پیش نہیں کر سکتے.ہم میں سے بہت سے ہیں جن کو یہ بھی علم نہیں کہ ماں باپ اور بیٹیوں کے باہمی تعلقات کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی ہے.ہمسائیوں کی کے متعلق کیا تعلیم دی ہے، کون سے اصول ہیں جن کی پابندی ضروری رکھی ہے.مگر ان کی پابندی کا کبھی خیال بھی ہمارے دل میں نہیں آتا.منہ سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کہتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.ہماری مثال اُس کمزور ہندو کی ہے جس کا مذہب اسے صبح ہی صبح دریا پر نہانے کا حکم دیتا ہے.مگر سردی کی وجہ سے اس کے لئے چونکہ یہ مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ پانی کی گڑوی اپنے سر کے اوپر پھینکتا ہے اور خود گو دکر آگے ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کا بدن خشک ہی رہتا ہے.بعینہ یہی حالت ہماری ہے.ہم اسلامی تعلیم کی گڑوی اس طرح اوپر پھینک کر خود آگے چھلانگ لگا جاتے ہیں کہ اس کا کوئی چھینٹا بھی ہمارے اوپر نہیں گرتا اور اس کے باوجو د دل میں خوش ہوتے ہیں کہ اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں.پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جلسہ سالانہ پر جس بات کا وعدہ انہوں نے کیا تھا اسے عملی رنگ میں پورا کریں.میں علماء سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اسلامی تمدن کا پوری طرح مطالعہ کریں اور قرآن کریم اور احادیث سے اس کے احکام کو اچھی طرح مستنبط کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر ہم آج بھی عمل کر سکتے ہیں اور پھر اسے جماعت کے سامنے بار بار پیش کریں اور لوگوں کے دماغوں میں اسے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اس طرح ٹھونسنے کی کوشش کریں کہ پھر وہ نکل ہی نہ سکے.ہم میں سے ہر فرد کو جس طرح یہ معلوم ہے کہ میں احمدی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام راستباز ہیں اسی طرح ہر زمیندار احمدی تک کو یہ علم ہونا چاہئے کہ اُس کے بیوی بچوں کے اُس پر کیا حقوق ہیں اور ان کے متعلق اُس پر کیا ذمہ داریاں ہیں، زراعت کے متعلق ، امانت و دیانت کے متعلق ، لین دین کے متعلق، دوسروں سے سلوک کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی ہے اور یہ چیز میں اسے اس طرح یاد ہوں کہ آپ ہی آپ اس کے منہ سے نکلتی جائیں اور اس کے اعمال سے ظاہر ہوتی رہیں اور اس کے اندر اس طرح راسخ ہو جائیں کہ ان کا نکالنا مشکل ہو.جو بات اچھی طرح دل میں گڑ جائے پھر کی اس کا نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.کہتے ہیں کوئی شخص ہندو سے مسلمان ہو ا تھا، کسی مجلس میں بیٹھا.جس طرح مسلمانوں میں اچنبھے کی کوئی بات سن کر اگر وہ بُری ہو تو اَسْتَغْفِرُ الله اور اچھی ہو تو سُبحَانَ الله کہتے ہیں ، اسی طرح ہندوؤں میں رام رام کہتے ہیں.اس مجلس میں کسی نے کوئی اچنبھے کی بات کہی تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا.کسی نے کہا مسلمان ہو کر کی بھی رام رام ہی کہتے ہو! تو اُس نے جواب دیا کہ میری زبان پر اللہ تعالیٰ کا لفظ تو آہستہ آہستہ ہی جاری ہوگا اور رام رام ذرا مشکل سے ہی نکلے گا.تو انسان کو جس بات کی عادت پڑ جائے اُس کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے اگر ہماری جماعت باہمی تعاون کے ساتھ اس بات کے پیچھے پڑ جائے کہ اسلامی تعلیم کو رائج کرنا ہے اس کے متعلق کتابیں لکھی جائیں اور سوال و جواب کے رنگ میں چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کئے جائیں.جس طرح کی روٹی یا اور اسی قسم کی پنجابی کتابیں موجود ہیں.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان میں کیا ہے لیکن بہر حال ایسی چھوٹی چھوٹی کتا بیں جن میں سوال و جواب کی صورت میں اسلامی باتیں سکھائی گئی ہوں ، تو ایسی کتب اس مقصد کے حصول کیلئے بہت مفید ہوسکتی ہیں اس لئے پنجابی میں ، اردو میں نظم میں، نثر میں ایسی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں کہ فلاں موقع پر کیا کرنا چاہئے ، فلاں بات یوں کرنی چاہئے.غصہ کے وقت جو جذبات انسان کے ہوتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کرنا چاہئے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر غصہ آجائے تو بیٹھ جاؤ ، پھر بھی غصہ فرو نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پیو، پھر بھی اگر غصہ دور نہ ہو تو وہاں سے ہٹ جاؤ سے اب اگر یہ باتیں لوگوں کو کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اچھی طرح یاد کرادی جائیں تو روز مرہ کے وعظوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ سکتی.ناممکن ہے کہ ان سب باتوں پر انسان عمل کرے اور پھر بھی اس کا غصہ دور نہ ہو.ان سب باتوں کے کرنے کے دوران میں ضرور کسی نہ کسی نماز کا وقت آجائے گا اور اگر انسان نماز با تر جمہ جانتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے وقت اس کا غصہ دور ہو جائے.پھر ایک صورت غصہ کی یہ ہو سکتی ہے کہ جس بات کے متعلق غصہ ہے وہ مستقل نقصان کا موجب ہو سکتی ہو اور ہو بھی میاں بیوی کے درمیان.اس حالت کے متعلق بتایا جائے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمان کو کیا کرنا چاہئے.مثلاً یہ کہ ایسے موقع پر اسلام کا حکم ہے کہ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِمَات مقرر کرو.یہ ایک ایسا کی حکم ہے جس پر عمل کی ضرورت میرے خیال میں ہزاروں کو پیش آتی رہتی ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ انہیں علم ہی نہیں ہوتا.لوگ کیا کرتے.جب غصہ آیا جھوٹ کہہ دیا طلاق.طلاق.طلاق.تین طلاق.دس طلاق.سو طلاق.ہزار طلاق.تم میری ماں ہو، بہن ہو.حالانکہ اس سے زیادہ بیہودہ بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی.ایک وقت میں تو تین طلاقیں جائز ہی نہیں ہیں.مگر لوگ اس طرح طلاق طلاق کہتے چلے جاتے ہیں کہ گویا اس عورت کو سوٹے لگ رہے ہیں اور انہیں وہ ذرائع معلوم ہی نہیں جو غصہ کو فرو کرنے کے ہیں.اور پھر انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مستقل نقصان کی صورت میں اگر اس کا بیوی کے ساتھ ، بھائی بہن، ماں باپ یا ہمسایہ کے ساتھ جھگڑے سے تعلق ہو تو اس کے متعلق کیا کیا کی احکام ہیں حالانکہ اگر ان باتوں کا علم ہو تو انسان بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتا ہے.پھر یہ پستہ نہیں کہ بیٹے کی جائیداد کے معاملہ میں ماں باپ کیلئے کیا حکم ہے.شریعت نے بیٹے کی جائیداد پر والدین کا اختیار نہیں رکھا.اولا دکو یہ اخلاقی تعلیم دی ہے کہ والدین کی خدمت کرے مگر یہ نہیں کہ جس طرح چاہیں اس کی جائیداد کو استعمال کر سکتے ہیں.اگر ماں باپ کو ایسا حق ہوتا تو ان کیلئے شریعت زکوۃ کو جائز نہ رکھتی کیونکہ اپنے مال کی زکوۃ اپنے لئے جائز نہیں.پھر بیٹے کی کی جائیداد میں باپ کیلئے شریعت نے ورثہ رکھا ہے اور انسان اپنے ہی مال کا وارث نہیں ہوا کرتا.پھر نکاح کے متعلق باپ کی مرضی کو شریعت نے ایک حد تک ضروری رکھا ہے اور اگر اس کی مرضی کے خلاف ہو تو باپ کہہ سکتا ہے کہ بیوی کو طلاق دے دے.مگر شادی ہو جانے کی صورت میں کی
خطبات محمود ۳۲ سال ۱۹۳۸ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ بیوی سے تعلق نہ رکھو یا اس سے علیحدہ رہو.اگر لوگوں کو شریعت کے احکام کا علم ہو تو اب اگر وہ نو سو ننانوے نافرمانیاں ہزار میں سے کرتے ہیں تو پھر یقیناً ایک رہ جائے اور وہ بھی کبھی جوش کی حالت میں.جوش کی حالت میں کسی بات کا نظر انداز ہو جانا اور بات ہے لیکن عدم علم کی وجہ سے تو کئی احکام کی تعمیل سے انسان رہ جاتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ان امور کی طرف ہماری جماعت کے دوستوں کی کوئی توجہ نہیں.نہ ذمہ دارا فسر توجہ کرتے ہیں ، نہ علماء، نہ مدرس اور نہ انجمن کے ناظر.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اصل غرض جو آپ کو الہام میں بتائی گئی یہی ہے کہ يُخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ کہ وہ دین کو زندہ اور شریعت کو قائم کرے گا.پس ہمارا فرض ہے کہ شریعت جومٹ چکی ہے ، جو ہزاروں پردوں کے نیچے چھپ گئی ہے، مسلمانوں کے نہ عوام اس پر عمل پیرا ہیں اور نہ علماء بلکہ ان کا علم بھی کسی کو نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے تو کہا تھا کہ فریسی جو کہتے ہیں وہ کر و.جو کرتے ہیں وہ نہ کرو.مگر اب تو یہ حالت ہے کہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے اس لئے جو کہا جاتا ہے وہ بھی اسلام کے خلاف ہے اور جو کیا جاتا ہے وہ بھی خلاف.پس ہمارا فرض ہے کہ ہزاروں تو ہمات اور رسومات کے نیچے دبے ہوئے اسلامی آثار کو پھر نکالیں.انگریز لاکھوں من مٹی کو کھدواتے ہیں اور جب نیچے سے قدیم زمانہ کا ایک مٹی کا پیالہ بھی مل جاتا ہے تو بہت خوش ہوتے ہیں اور کی پھولے نہیں سماتے مگر ہماری تو ساری جائیدادیں ہی مٹی کے نیچے دفن ہیں.کیا ہمیں ان کے نکالنے کی کوئی فکر نہ کرنی چاہئے؟ شریعت کے ایسے ایسے مخفی خزانے زمین کے نیچے دفن ہیں کہ جن کی تی قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا.انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کیلئے مفصل ہدایات موجود نہ ہوں اور جو ایسی روشن نہ ہو کہ جنہیں دیکھ کر تیز سے تیز نظر والے انسان کی آنکھیں بھی چندھیا نہ جائیں.مگر یہ سب خزانے رسوم اور جہالتوں اور نسیان کی مٹی کے نیچے دفن ہیں اور ایک بے قیمت چیز کی طرح پڑے ہیں اور اُنہیں نکالنے کی طرف ہماری توجہ بالکل نہیں اور اس کی کام سے بالکل بے فکر ہیں.پس میں احباب جماعت کو ان کا عہد یاد دلاتا ہوں جو جلسہ سالانہ کے موقع پر انہوں نے کیا تھا اور یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میرے اس خطبہ کو ہر جگہ تمام دوستوں کو اکٹھا کر کے سنایا جائے
خطبات محمود ۳۳ سال ۱۹۳۸ء.اور ان سے پھر عہد لیا جائے کہ وہ اسلامی تمدن اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں کی گے.جلسہ سالا نہ کی تقریر تو معلوم نہیں کب تک چھپے.گزشتہ سال کی تقریر بھی ابھی تک مجھے نہیں پہنچی اس لئے دوست کوشش کریں کہ یہ خطبہ ہر ایک احمدی تک پہنچ سکے.یوں بھی جلسہ سالانہ پر سب لوگ نہیں آسکتے.بہت سے احمدی ہیں جنہوں نے اس تقریر کو نہیں سُنا.پھر قادیان کے بھی کئی احمدی ہیں جو انتظامات جلسہ کی وجہ سے یہ تقریر نہیں سن سکے اس لئے قادیان کی سب مساجد میں بھی اس خطبہ کو بار بار پڑھ کر سنایا جائے اور جلسہ پر جو عہد لئے گئے تھے انہیں بھی دُہرایا جائے کی اور پھر جماعت سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اس پر عمل کریں گے اور احیائے دین اور قیامِ شریعت کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے.تاقلیل سے قلیل عرصہ میں وہ تمدن قائم ہو جائے جس کو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کو قائم کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.پس ہر جگہ یہ خطبہ سب دوستوں کو جمع کر کے سنایا جائے.قادیان میں بھی کئی مساجد میں نماز ہوتی کی ہے اس لئے یہاں بھی ہر مسجد میں اسے سنایا جائے اور دوبارہ سب سے وعدے لئے جائیں کہ کی وہ اس کی ہدایتوں کے مطابق عمل کریں گے.بیرونی جماعتوں میں کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو جلسہ کے موقع پر نہیں آئے تھے اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خطبہ کو لوگوں تک پہنچایا جائے اور اسے سنا کر لوگوں سے اقرار لئے جائیں کہ وہ آئندہ اسلامی تمدن اور تہذیب کے مطابق عمل کریں گے.اور جہاں تک حکومت کا قانون ان کو اجازت دیتا ہے تمدنی ، معاشی ، معاشرتی اور دوسرے معاملات میں اسلامی تعلیم کو رائج کریں گے.یہ کوئی معمولی کام نہیں.بعض چیزیں جو دل میں گڑ جاتی ہیں ان کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اس لئے اس کام پر سخت جدوجہد کرنی ہوگی.مثلاً بد دیانتی اور محنت نہ کرنے کا مرض ہے.یہ ایسا مرض ہے جو بہت ہی خطرناک اور بہت سے نقصانات کا موجب ہے اور یہ ہماری جماعت میں بھی پایا جاتا ہے.بعض لوگ دوسروں کی سے بلا وجہ روپیہ لے لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کے وقت ہنس کر کہہ دیتے ہیں کہ ضائع ہو گیا.بعض امانتیں رکھ لیں گے مگر پھر ا دا نہیں کریں گے اور ان چیزوں کو دور کرنے کیلئے ہمارے دوستوں کو بہت سی لڑائی اپنے نفسوں سے اور دوسروں سے کرنی پڑے گی لیکن نتیجہ نہایت اچھا ہوگا کیونکہ اگر ہماری جماعت اپنی دیانت کا سکہ بٹھا دے اور اس لحاظ سے اپنی شہرت قائم کر لے
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۸ تو اقتصادی مشکلات کا خود بخود حل ہو سکتا ہے اس صورت میں لوگ خود آ آ کر ان کو روپیہ دیں گے.جب دہلی کا غدر ہوا تو اس وقت دہلی میں حکیموں کا خاندان دیانت کی وجہ سے بہت مشہور تھا.اب میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اپنا وہ معیار قائم رکھا ہوا ہے یا نہیں.لیکن اُن دنوں میں اس لحاظ سے ان کی شہرت بہت تھی اور ان کی بات بینک کی رسید سجھی جاتی تھی.جب غدر ہوا اُس زمانہ میں اس خاندان کے بڑے غالباً حکیم محمود خان صاحب تھے جو پٹیالہ کے شاہی خاندان کے طبیب تھے اور ریاست پٹیالہ کی فوجیں انگریزوں کی فوجوں سے مل کر باغیوں سے لڑ رہی تھیں.جب دلی فتح ہوئی تو ایسے موقعوں پر چونکہ لوٹ مار ہوتی ہے اس لئے مہا راجہ پٹیالہ نے انگریز افسروں کو کہلا بھیجا کہ ہمارے حکیم صاحب کے مکان پر ایک گارد رہے گی تا ان کا تج مکان کوئی نہ کوٹ سکے.چنانچہ پٹیالہ کی فوج کی گاردان کے مکان پر پہرہ دینے لگی.لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے شہر سے بھاگ رہے تھے اور جاتے جاتے اپنے قیمتی اموال کی پوٹلیاں مع اپنے پستہ وغیرہ کے ان کی ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے.چونکہ گارد کی وجہ سے اندر جانا یا بات کرنا مشکل تھا اس لئے بھاگتے بھاگتے ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے.میں نے اپنے ننھیال کے رشتہ داروں سے یہ باتیں سنی ہیں کہ امن قائم ہونے پر جب لوگ واپس آئے تو ہر ایک کی امانت اُسے مل گئی.ملک میں بددیانتی عام ہونے کی وجہ سے یہ بات بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن اگر دنیا میں اسلامی تعلیم قائم ہوتی اور معیار اس کے مطابق ہوتا تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی.پس اگر ہماری جماعت کے اندر امانت کی روح قائم ہو جائے تو پھر یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ روپیہ کہاں سے آئے.میں مانتا ہوں کہ سب بد دیانت نہیں ہیں لیکن جب سو میں سے دس بددیانت ہوں تو باقیوں کی امانت بھی مشتبہ ہو جاتی ہے.یہ چیزیں ایسی ہیں جو نظام کے ذریعہ سے ہی قائم کی جاسکتی ہیں، بغیر نظام کے نہیں.مثلاً اگر بد دیانت کو سزا نہ دی جائے تو اس کا انسداد نہیں ہوسکتا.مگر اب کیا ہوتا ہے اگر کسی کے خلاف بد دیانتی کی وجہ سے کارروائی کی جائے تو محلہ کے آدھے لوگ اس کی تائید میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب یہ حالت ہو تو کسی کو سبق کیسے مل سکتا ہے اور اس بدی کو کیسے مٹایا جاسکتا ہے.
خطبات محمود ۳۵ سال ۱۹۳۸ء انگلستان کے تاجر اس بات میں مشہور ہیں کہ وہ دھوکا نہیں کرتے اور اس شہرت کی وجہ سے وہ فائدہ بھی بہت اُٹھاتے ہیں.وہ امانت اور دیانت سے تجارت اس وجہ سے نہیں کرتے کہ وہ اس کو مذہباً اچھا سمجھتے ہیں بلکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کو چھوڑنے سے ہماری تجارت کو نقصان پہنچے گا.مذہب کے وہ اتنے قائل نہیں ہوتے مگر تجارتی مفاد کے لئے اس حکم پر سختی سے عمل کرتے ہیں اس لئے تجارتی دنیا میں ان کی بات کو بہت پختہ سمجھا جاتا ہے.ان میں بھی بددیانت لوگ ہیں مگر بہت بڑی کثرت چونکہ دیانت سے کام کرنے والوں کی ہے اس لئے وہ اپنی قومی ساکھ کو قائم رکھ رہے ہیں.تو قومی دیانت سے ایسا اعتبار قائم ہو جاتا ہے کہ غیر قوموں کے لوگ بھی خود آ آ کر روپیہ دیتے ہیں.مسلمانوں میں جب تک دیانت قائم تھی ، تجارت کا یہی اصول تھا.جب تاجروں کا قافلہ روانہ ہونے لگتا تو لوگ خود آ آ کر روپیہ دے جاتے تھے.وہ لے آتے تھے اور پھر واپس جا کر منافع ان میں تقسیم کر دیتے تھے.آج لوگ کہتے ہیں ہم تجارت کس طرح کی کریں حالانکہ اگر قومی دیانت قائم ہو جائے تو وہ لاکھوں روپیہ جو لوگوں کے گھروں میں پڑا ہے فوراً باہر آ سکتا ہے.یہاں قادیان میں ہی لوگوں کے پاس کافی روپیہ ہے.اگر چہ تنخواہیں اور آمد نیاں کم ہیں مگر ہم چونکہ کفایت سے گزارہ کرنا سکھاتے ہیں اور اسراف سے روکتے ہیں اس لئے لوگ کچھ نہ کچھ پس انداز کر لیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ جب کسی نفع مند سودا کا موقع ہو تو لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ سفارش کریں یہ ہمیں حاصل ہو جائے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ایسے موقع پر باہر سے کسی کی طرف سے انتظار کرنا پڑے.اگر ایک ہزار کی جائیداد کے متعلق دس بھی کی ایسی درخواستیں آئیں تو اس سے یہ تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ان دس لوگوں کے پاس دس ہزار روپیہ موجود ہے.پس اگر لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جاکر ان کا روپیہ محفوظ رہے گا تو نہ صرف احمدی بلکہ دوسری قوموں کے لوگ بھی بخوشی اپنا روپیہ دے سکتے ہیں.مگر یہ بات انفرادی دیانت سے حاصل نہیں ہو سکتی ، شہرت ہمیشہ قومی دیانت ہی پکڑتی ہے اور اُسی کی وقت لوگ اپناروپیہ دینے کیلئے تیار ہو سکتے ہیں جب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاچکی ہو کہ احمدی بد دیانت نہیں ہوسکتا.میں بتا چکا ہوں کہ انگلستان کے تاجر اپنی اس دیانت کی وجہ سے تمام دنیا سے مال و دولت
خطبات محمود ۳۶ سال ۱۹۳۸ اکٹھی کر کے لے گئے ہیں.ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں دھوکا کا خطرہ نہیں.اس لئے وہ سو دا دو پیسے گراں لے لے گا مگر لے گا انگلستان سے ہی.تو بعض باتیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہیں مگر وہ اقوام کی حالت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں.جس طرح دیانت قوم کی مالی حالت کو بہتر بنا دیتی ہے اسی طرح بد دیانتی سے نقصان پہنچتا ہے.ایک شخص جو ایک روپیہ کسی کا کھا جاتا ہے، وہ تو خیال کرتا ہے کہ میں نے ایک روپیہ کھایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک نہیں ایک کروڑ بلکہ ایک ارب کھاتا ہے کیونکہ اس کے ایک روپیہ کھانے کے یہ معنے ہیں کہ قومی دیانت پر حرف آئے گا اور قومی دیانت کی شہرت کی صورت میں دوسروں سے جو کروڑ ہا روپیہ حاصل کیا جاسکتا تھا وہ نہ مل سکے گا.کیونکہ اس کی بددیانتی سے قومی دیانت کے متعلق شکوک پیدا ہو جا ئیں گے.پس یہ معمولی باتیں نہیں ہیں اور نہ معمولی کوشش سے حاصل ہوسکتی ہیں.اور اگر تم انہیں اپنے اندر پیدا کر لوتو پھر حکومتیں بھی اور بادشاہتیں بھی تمہارے سامنے جھکیں گی اور سمجھیں گی کہ ان سے ملنے میں فائدہ ہے.اسی طرح اگر تم سچائی کا معیار بلند قائم کر لو تو اگر ایک شخص تم پر کی الزام لگانے والا ہو تو سو اس کی تردید کیلئے کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا کہ ہر گز نہیں ، احمدی جھوٹے نہیں ہو سکتے.اخلاقی لحاظ سے اصولی صداقتیں چار ہیں.دیانت ،صداقت ، محنت اور قربانی.اور اگر یہ چار تم اپنے اندر پیدا کر لوتو یقیناً تم کامیاب ہو سکتے ہو.جس طرح اللہ تعالیٰ کی انسان سے تعلق رکھنے والی ابتدائی صفات چارہی ہیں اسی طرح یہ چار اصولی صداقتیں ہیں جن کے ما تحت سارے اخلاق آ جاتے ہیں.میں اس مضمون کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اب چونکہ دیر ہوگئی ہے اس لئے اسی پر بس کرتا ہوں.“ الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۸ء) 66 بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بَدْرٍ تحفہ قیصریہ صفحہ ۳۱.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۸۳ ( مفهوماً ) ابو داؤد کتاب الادب باب مَايُقَالُ عِنْدَ الْغَضَبِ النساء:۳۶ ۵ تذکرہ صفحہ ۷۰ ایڈیشن چہارم متی باب ۲۳ آیت ۲ ،۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ۱۸۸۷ ءلندن ( مفہوماً )
خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۸ متواتر اور مسلسل قربانیوں سے ہی خدا تعالیٰ حاصل ہوتا ہے فرموده ۲۱ /جنوری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - پچھلے جمعہ کے بعد سے مجھے گلے کی تکلیف ہے اور اس وجہ سے میں بلند آواز سے نہیں بولی سکتا.پس اپنی آواز دوسرے دوستوں کی وساطت سے پہنچا تا ہوں ( تین دوست بلند آواز سے خطبہ کے الفاظ دُہرانے کیلئے مقرر کئے گئے تا حاضرین تک آواز پہنچاسکیں ).تحریک جدید کے دوسرے دور کے مالی وعدے کا زمانہ اب چند دنوں میں ختم ہونے والا کی ہے.اور جیسا کہ میں اعلان کر چکا ہوں ۳۱ / جنوری کے بعد ہندوستان کے اُن علاقوں کے جن میں اُردو بولی جاتی یا سمجھی جاتی ہے مزید وعدے وصول نہیں کئے جائیں گے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ کے ذریعہ سے جو اس دوران میں چھپ کر جماعت تک پہنچنے والے خطبوں میں سے آخری خطبہ ہوگا جماعت کو پھر ایک دفعہ ان کی مالی خدمات کے سلسلہ میں ذمہ داریوں اور دوسری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا دوں.خدا تعالیٰ کے کام ہو کر رہیں گے اور بندوں کی سستی یا غفلت ان میں کوئی حرج پیدا نہیں کر سکتی.وہ جوسستی کرتا ہے خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا دین زید یا بکر کا محتاج نہیں.اگر زید یا بکر پہلی آواز دینے والوں میں سے بنیں تو خدا تعالیٰ دوسرے ثواب کی پہلی آواز بھی انہی تک پہنچاتا ہے ج
خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۸ء لیکن اگر وہ اس آواز کو نہ سُنیں اور اس کی طرف سے اپنے کان بہرے کر لیں تو پھر وہ اور ی دوسرے شخصوں کو آگے لے آتا ہے تا کہ وہ اس کے دین کی خدمت کریں کہ خدا تعالیٰ کی فوج کی میں تھک جانے والے اور ملال پیدا کرنے والے اور ہتھیار پھینک دینے والے اور نتائج کے متعلق جلد بازی کرنے والے کبھی قبول نہیں ہوتے.تھوڑی سی قربانیوں کے بعد بڑی اُمنگوں کے ساتھ تو ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور وقتی قربانی خواہ کتنی ہی عظیم الشان ہو، کمزور سے کمزور انسان بھی پیش کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تھوڑے سے وقت میں کسی اشتعال کے ماتحت یا جوش کے ماتحت بڑی سے بڑی قربانی کرنا کمزوروں ہی کا کام ہے اور طاقتور اور مضبوط ایمان والے وہی ہوتے ہیں جن کا قدم مضبوطی کے ساتھ ایسے مقام پر قائم کی ہوتا ہے کہ دن کے بعد دن اور ہفتے کے بعد ہفتہ اور مہینے کے بعد مہینہ اور سال کے بعد سال اور دسیوں سال کے بعد دسیوں سال مصائب اور قربانی کے گزرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی کے دل میں اپنے آرام کی خاطر کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ منزلِ مقصود کب آنے والی ہے اور انہیں بیٹھنے کا موقع کب ملے گا.وہ اگر کبھی دعا کرتے ہیں اور مَتی نَصْرُ اللهِ لے کہتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا کا جلال ظاہر ہو.نہ اس لئے کہ ہماری قربانیوں کا زمانہ ختم ہو کیونکہ وہ ج جو خدا تعالیٰ کے سچے شیدا ہوتے ہیں ان کی منزلِ مقصود کوئی دنیا کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ وصالِ الہی ان کا منزل مقصود ہوتا ہے اور وہ ہر دم اور ہر لحظہ انہیں حاصل ہوتا چلا جاتا ہے.پس وہ یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ان کی مادی قربانیوں نے کیا مادی نتائج پیدا کئے ہیں اور وہ اپنے بوئے ہوئے درختوں کو اس لالچ سے نہیں دیکھتے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں گے بلکہ وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں دوسروں کیلئے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں اور وہ اپنی کوششوں کا ثمرہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس نے قربانیاں کی ہیں اور کون قربانیاں کر سکتا ہے لیکن آپ کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہی قربانیوں میں آپ اس جہان سے گزر گئے اور اس دنیا کی ترقیات کا زمانہ آپ کی زندگی میں نہیں آیا.قیصر اور کسری کے خزانے جو اُن قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھیں وہ جا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے
خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۸ء زمانہ میں فتح ہوئے اور ان کا فائدہ زیادہ تر اُن لوگوں نے حاصل کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر میں ابو جہل اور ابوسفیان کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں ایمان لائے اور فتوحات کے زمانہ میں تھوڑے سے عرصہ کیلئے لڑائیوں میں بھی شامل ہوئے اور پھر فتوحات میں حصہ دار بن کر ہر قسم کی راحت و آرام حاصل کرنے والے ہو گئے.اور وہ جنہوں نے قربانیاں کی تھیں اور جو آسمان کی سے اس بہشت کو کھینچ کر لائے تھے وہ اپنے خدا کے پاس مدتوں پہلے جاچکے تھے یا ان چیزوں سے مستغنی ہو کر اپنے رب کی یاد میں بیٹھے تھے یا خدمت خلق میں مشغول تھے.کیا عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد معاویہ ہزاروں مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں وہی معاویہ جو فتح مکہ تک برابر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑتے رہے تھے اور کھڑے ہو کر مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رؤساء میں سے ہے اور ہم لوگ اشراف قریش میں سے ہیں.پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہوسکتا ہے اور میرے بعد میرے بیٹے سے کون زیادہ مستحق ہو سکتا ہے ہے اُس وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد کے ایک کو نہ میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ عبداللہ بن عمرؓ جن کو حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کی موجودگی میں صحابہ نے خلافت کا حق دار قرار دیا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے خواہش کی کی تھی کہ آپ اپنے بعد ان کو خلافت پر مقرر فرمائیں کیونکہ مسلمان زیادہ سہولت سے ان کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں گے اور کسی قسم کے فتنے پیدا نہیں ہو سکیں گے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں اس کی نیکی کو جانتا ہوں اور اس کے مقام کو پہچانتا ہوں لیکن یہ رسم میں نہیں ڈالنا چاہتا کہ ایک خلیفہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کر دے اور خصوصاً جبکہ اکابر صحابہ زندہ موجود ہیں اس لئے میں اس کو مشورہ میں تو شامل رکھوں گا لیکن خلافت کا امید وار قرار نہیں دوں گا.سے یہ عبد اللہ بن عمرؓ اُس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے معاویہؓ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پاؤں کے گرد لپیٹ رکھی تھی اس کے بند کھولے اور کی ارادہ کیا کہ کھڑا ہو کر کہوں کہ اے معاویہ ! اس مقام کا تجھ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا باپ کی ا
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو کر لڑتا رہا ہے اور جو خود اسلامی لشکر میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کیلئے کی جنگ کرتا رہا ہے مگر پھر مجھے خیال آیا یہ دنیا کی چیزیں ان کیلئے رہنے دو اور اسلام میں ان باتوں کی وجہ سے فتنہ مت پیدا کرو اور میں پھر بیٹھ گیا اور معاویہ کے خلاف میں نے کوئی آواز نہ اُٹھائی ہے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں کیں اور یا تو وہ ان کے دنیوی ثمرات پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئے یا پھر ان کے زمانہ میں وہ ثمرات ظاہر ہوئے لیکن انہوں کی نے یا تو باوجود مقدرت کے ان ثمرات میں سے حصہ نہیں لیا اور یا پھر وہ ثمرات دوسروں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھے مگر اپنا حصہ خدا کی رضا میں سمجھ کر ان ثمرات کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں اور حقارت سے ان کو ٹھکرا دیا.یہی لوگ ہیں جو ایمان کا سچا نمونہ دکھانے والے ہیں اور انہی کے نقش قدم پر چل کر انسان مؤمن کہلا سکتا ہے لیکن وہ شخص جو تھوڑی سی قربانی کرتا اور اس کے بعد تھک جاتا ہے اور اس امید میں لگ جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کیلئے کیا بدلہ آیا می ہے اس کو خدا کی رحمتیں نہیں آتیں بلکہ اس کی بزعم خود قربانیاں خود اسی کے منہ پر ماری جاتی ہیں کیونکہ گوخدا قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس کا مطالبہ سائکلوں کی طرح نہیں ہے.خدا کا مانگتے وقت ہاتھ نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہاتھ اوپر ہی ہوتا ہے.جس طرح حکومتیں لوگوں سے ٹیکس لیتی ہیں مگر وہ ذلت کے ساتھ نہیں مانگتیں.خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ مطالبہ کرتا ہے کیونکہ حکومتیں تو لوگوں کے روپیہ سے فائدہ اُٹھاتی ہیں مگر خدا تعالیٰ بندوں کی قربانیوں.کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھاتا بلکہ اس کا سارا فائدہ بندوں ہی کو پہنچتا ہے.جو عظمند ہوتے ہیں وہ تو کوشش کرتے ہیں کہ ہماری جسمانی قربانیوں کا روحانی فائدہ ہمیں مل جائے اور جو کم عقل ہوتے ہیں وہ جسمانی فائدے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور قومی لحاظ سے وہ بھی ان کو مل ہی جاتا تی ہے.ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خدا کا کوئی نبی آیا ہو اور جلد یا بدیر اس کی قوم میں حکومت نہ آ گئی ہو.پس حکومتیں تو آتی ہیں اور دنیوی فائدے تو پہنچتے ہی ہیں مگر ڈ نیوی فوائد سے زیادہ متمتع ہونے کی کی خواہش ان لوگوں کو ہوتی ہے جو روحانی فوائد کی قیمت نہیں جانتے لیکن دوسرے لوگ جن کو روحانی آنکھیں عطا ہوتی ہیں ، وہ اپنے انعامات کو روحانی شکل میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں.
خطبات محمود ۴۱ سال ۱۹۳۸ء پس وہ لوگ جو کہ قربانیوں میں تھک جاتے ہیں وہی لوگ ہیں جو کہ خدا تعالیٰ سے سو دا کرنا ہی چاہتے ہیں اور ان کی غرض خدا تعالیٰ کی محبت نہیں ہوتی بلکہ دنیوی فوائد ہوتے ہیں.جب کچھ عرصہ کی قربانیوں کے بعد وہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہمیں دنیوی انعامات مل جانے چاہئیں لیکن وہ انعامات حاصل نہیں ہوتے تو وہ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے قربانیوں میں جو حصہ لینا تھا لے لیا، اب ہمیں مزید قربانیوں کی ضرورت نہیں ہے.حالانکہ وہ لوگ جو کل کی غذا کو آج کی غذا کیلئے کافی نہیں سمجھتے اور آج کے دن کیلئے نئی غذا کے طالب ہوتے ہیں بلکہ دن میں کئی کئی دفعہ کھانے اور پینے کی طرف رغبت کرتے ہیں.وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہمارا کل کا کھانا اور کل کا پینا ہمارے آج کیلئے کافی ہو گیا ہے بلکہ وہ آج کل سے بھی زیادہ اچھے کھانے اور زیادہ شیریں پانی کی جستجو کرتے ہیں لیکن خدا کے دین کی قربانیوں کے موقع پر جو کہ انسان کیلئے روحانی کی غذا ہیں ، وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ہماری کل کی غذا آج کیلئے بھی کافی ہوگی اور آئندہ آنے والے دنوں میں بھی وہی ہماری طاقت کو بڑھاتی چلی جائے گی حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جس کی طرح جسم کو بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی بار بار غذا کی ضرورت ہوتی کی ہے.اور جب تک روح کو بار بار غذا نہ پہنچے جو بار بار کی قربانیوں اور متواتر قربانیوں کے ذریعہ سے پہنچ سکتی ہے، اُس وقت تک روحانی زندگی قائم نہیں رہ سکتی.اگر تم آج ظہر کے وقت بار رکعتیں پڑھ لو.اسی طرح عصر کے وقت بارہ پڑھ لو اور پھر مغرب کے وقت کو پڑھ لو اور پھر عشاء کے وقت بارہ پڑھ لو اور دوسرے دن صبح چھ پڑھ لو اور یہ امید رکھو کہ آئندہ دو دن یہ پانچوں نمازیں تم چھوڑ سکتے ہو کیونکہ تم نے خدا کا حق وقت سے بھی پہلے ادا کر دیا تو یہ مت سمجھو کہ یہ بات کی تمہارے ایمان کے بڑھانے کا موجب ہوگی بلکہ وہ سب سے پہلی نماز جسے تم اس وہم کی وجہ سے چھوڑ دو گے، تمہارے ایمان کو باطل کرنے والی ہو جائے گی اور تم یہ نہیں کہہ سکو گے کہ ہم نے تو یہ نماز پہلے ہی دن ادا کر دی تھی.تم اگر پہلے دن فرض رکعتوں کے علاوہ سو سو رکعت بھی اور پڑھ جاؤ تو دوسرے دن اپنے وقت پر نئے فرض ادا کرنے پڑیں گے.وہ سو رکعتیں ورکعتوں کے قائم مقام تو الگ رہیں وہ دوسرے دن چار رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں ، وہ دو رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں ، وہ ایک رکعت کے قائم مقام بھی نہیں
خطبات محمود ۴۲ سال ۱۹۳۸ء ہوسکتیں ، وہ ایک سجدے کے قائم مقام بھی نہیں ہو سکتیں ، وہ سجدہ کی ایک تسبیح کے قائم قام بھی نہیں ہو سکتیں.جس طرح کل کی کھائی ہوئی دس روٹیاں آج صبح کے وقت ناشتہ کے ایک لقمہ کی کفایت کی بھی نہیں کر سکتیں اسی طرح وہ روحانی عبادتیں یا جسمانی قربانیاں جو انسان ماضی میں کرتا ہے اور ان پر تو کل کر کے چاہتا ہے کہ مستقبل کی قربانیوں سے آزاد ہو جائے وہ اس کو کوئی فائدہ نہیں کی پہنچا سکتیں.وہ اگر ایسی بیوقوفی کرے گا تو یقینا اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہوگا.وہ جو خدا کی جماعتوں میں داخل ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ہر آن انہیں اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنا کی چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں ہی دکھاتا ہے.میں نے گزشتہ سالوں میں کہا تھا کہ وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں موت سے پہلے کسی وقت بھی قربانیوں سے آزاد ہو سکتا ہوں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی فوج کا سپاہی بننے کے قابل نہیں ہے.مجھے افسوس ہے کہ جہاں جماعت کے ایک حصہ نے میری اس بات کو انہی معنوں میں سمجھا ہے جن معنوں میں کہ میں نے اسے بیان کیا تھا وہاں ایک حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے یہ خیال کیا کہ شاید میں یہ باتیں صرف اس وقت کیلئے اور ان قربانیوں کے کیلئے جوش پیدا کرنے کی خاطر کہہ رہا ہوں جن کا اس وقت مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ اپنے دلوں کی میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید ہماری تین سال کی قربانیاں جو صرف چند حقیر رقموں پر مشتمل تھیں ، وہ زمین و آسمان کا نقشہ بدل ڈالیں گی اور ان چند روپوں میں وہ کام ہو جائے گا جو تئیس سال کی کچ ہر قسم کی قربانیوں کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان میں صحابہ کر سکے تھے.گویا ان لوگوں نے اپنے چند روپوں کی قربانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رات اور دن کی جانکا ہیوں اور قسما قسم کی مصیبتوں اور بے وطنیوں اور جائیدادوں کے چھینے جانے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں اور اپنی بیویوں کے مارے جانے اور خود ان میں سے کئیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جانے اور قسم قسم کے عذابوں سے مارے جانے اور سردیوں اور شدید گرمیوں میں کھانے اور پینے کے سامانوں کے بغیر بے آب و گیاہ جنگلوں میں سے بعض دفعہ بغیر سواری کے اور بعض دفعہ ننگے پاؤں سفر کرنے اور پھر اپنے سے کئی کئی گنا زیادہ کی تعداد والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی قیمت کے برابر خیال کر رکھا تھا.شاید وہ اپنے روپوں کی
خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۳۸ء قیمت اُس بڑھیا سے بھی زیادہ لگاتے تھے جو اپنی روئی کے گالوں سے یوسف کی خریداری کیلئے گئی تھی.کیونکہ اس نے تو یوسف کو جو ابھی تک نبی نہیں تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے، اپنی تھوڑی سی پونجی کے ساتھ خریدنا چاہا تھا.مگر یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار ہیں اور خاتم النبین ہیں، ان کی قربانیوں کی قیمت اپنی دو چار سال کی حقیر مالی قربانیوں کے مطابق لگانا چاہتے تھے لیکن یاد رکھو! ایسے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.دین کی فتح ان لوگوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ انہی کے ہاتھوں سے ہوتی ہے جو نتائج اور انجام سے غافل ہو کر صرف ایک ہی بات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنی موت تک ہم نے قربانیاں کرتے چلے جانا ہے اور ہمارے آرام کا وقت وہی ہوگا جب کہ ہم اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے حقیقی مولا کی گود میں جا بیٹھیں گے.تم ایک چھوٹے سے بچے کو جس کو محاورے کے طور پر بھی نادان بچہ کہتے ہو، دنیا کی قیمتی سے قیمتی مٹھائیوں یا عمدہ سے عمدہ کھلونوں سے تھوڑی دیر کیلئے پہلا سکتے ہو لیکن اس بیوقوف اور نادان بچے کو بھی اپنی ماں کی یاد سے ہمیشہ کیلئے غافل نہیں کر سکتے.بسا اوقات وہ دنیوی نعمتوں کے کھانے یا ان کے حسن کے نظاروں کے دیکھنے سے ایک منٹ کیلئے یا چند منٹوں کیلئے اپنی ماں کی طرف سے خیال ہٹالے گا لیکن پھر اس کا خیال ادھر ہی چلا جائے گا اور اس کو حقیقی راحت تبھی نصیب ہوگی جب وہ اپنی ماں کی گود میں پہنچ جائے گا.پھر جبکہ ایک نادان بچے کا یہ حال ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ مؤمن جو داناؤں کا دانا ہوتا ہے اپنے خدا کے ملنے سے پہلے چین پا جائے اور اسے آرام حاصل ہو جائے.اس کی راحت کی گھڑیاں اور اس کے آرام کی ساعتیں تو اُسی وقت سے شروع ہوتی ہیں جب وہ اپنے جسم خاکی کو اس دنیا میں چھوڑ کر اپنے رب کی طرف دیوانہ وار دوڑتا ہوا چلا جاتا ہے.جس طرح پرندہ شام کو لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور للچانے والے دانوں کے ڈھیروں کو چھوڑ کر اڑتا ہوا اپنے بسیرے کی طرف جاتا ہے، اسی طرح مؤمن کی روح موت کے وقت اپنے رب کی طرف بھاگتی ہے اور پیچھے مڑ کر بھی تو نہیں دیکھتی کہ میں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے کیونکہ اس کی خوشیاں اس کے آگے ہوتی ہیں نہ کہ پیچھے.پس جو شخص چاہتا ہے کہ ایمان پیدا کرے، اُس کو اپنی لذت اور اپنی راحت خدا میں
خطبات محمود ۴۴ سال ۱۹۳۸ء بنانی چاہئے اور یہ کبھی امید نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی ایک قربانی یا دوسری قربانی اس کے حقوق کو ادا کر دے گی کیونکہ حقوق قربانیوں سے ادا نہیں ہوتے بلکہ قربانیوں کے متواتر اور مستقل ارادوں سے ادا ہوتے ہیں.پس جو کچھ میں نے کہا تھا وہ کسی وقتی جوش دلانے کیلئے نہیں کہا تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان کی سلامتی کیلئے متواتر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور موت سے کوشش کے چھوڑ دینے کا خیال اندرونی بے ایمانی کی علامت ہے اور ایسے شخص کیلئے خطرہ ہے کہ اگر آج اس کا ایمان سلامت ہے تو کل سلامت نہ رہے اور مرنے سے پہلے کسی وقت وہ ٹھوکر کھا جائے اور اپنے انعامات جو پہلی قربانیوں سے اس نے جمع کئے تھے، اس کی اس غفلت کی کی وجہ سے کسی اور مومن کومل جائیں جو کہ پہلے ٹھو کر کھایا ہوا تھا لیکن مرنے سے پہلے خدا کی طرف متوجہ ہو گیا کیونکہ نتائج انسان کی زندگی کے کاموں کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ انسان کے انجام کے مطابق ہوتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ یہ ظلم ہے کہ خدا انسان کی زندگی کے کاموں کو تو نظر انداز کر دیتا ہے لیکن آخری گھڑیوں کے کاموں کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ آخری گھڑی کی حالت در حقیقت پہلے کاموں کا نتیجہ ہوتی ہے.وہ جس کی پہلی زندگی اچھی نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام خراب نظر آتا ہے اس کا انجام اسی لئے خراب ہوتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی گو بظاہر خوشنما تھی لیکن خدا کی نگاہ میں وہ گندی تھی.تم کبھی بھی یہ امید نہیں کر سکتے کہ گوبر کی گولیوں پر کھانڈ چڑھا کر مریضوں کو شفا کی دے سکو یا بھوکوں کے پیٹ بھر دو کیونکہ باہر کی کھانڈ اندر کے مُحبت کا علاج نہیں ہو سکتی.پس وہ کی جس کا انجام خراب ہوتا ہے یا کمزور نظر آتا ہے وہ اسی لئے خراب ہوتا ہے اور اسی لئے کمزور ہو جاتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی بناوٹی تھی اور منافقانہ تھی اور خدائے علیم وخبیر جو دلوں کا بھید جاننے والا ہے اس نے نہ چاہا کہ یہ غیر مستحق حق والوں کا حق لے جائے.پس اس نے مرنے سے پہلے اگر یہ ایمان کے ضائع ہو جانے کا مستحق تھا تو اس کے ایمان کو ضائع کر دیا اور اگر یہ ایمان کے کمزور ہونے کا مستحق تھا تو اس نے اس کے ایمان کو کمزور کر دیا.یہی حال اس کا ہے جس کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے.یعنی اس کی پہلی زندگی تو خراب ہوتی ہے لیکن اس کا انجام اچھا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے انجام کو اس لئے اچھا نہیں کرتا کہ وہ بغیر کسی مقصد کے ایک شخص
خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۸ء کے ساتھ رعایت کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے اچھا کرتا ہے کہ اس دوسرے شخص کے اعمال یا اس کی کا ایمان گو بظاہر کمزور نظر آتا تھا لیکن اس کے دل کی گہرائیوں میں کوئی ایسا جو ہر ہی تھا ، کوئی ایسی کی قابلیت چھپی ہوئی تھی ، کوئی ایسی محبت کی ٹیس اُٹھ رہی تھی جس کو خدا تعالیٰ نظر انداز نہیں کر سکتا تھا.پس اس نے اس کی موت کو پیچھے کر دیا اور اس وقت تک ملک الموت کو نہ آنے دیا جب تک اس کا مخفی جو ہر ظاہر نہ ہو گیا اور اس کی چھپی ہوئی محبت عیاں نہ ہوگئی.پس خدا نے بلا وجہ اس کی حالت کو نہیں بدلا بلکہ جو قابلیتیں اس کے اندر مخفی تھیں اور جو کی در دمحبت اس کے اندر نہاں تھا اسی کو ظاہر کر کے انصاف قائم کیا ہے نہ کہ رعایت.پس انجام کے مطابق ہی خدا کے بدلے ملتے ہیں اور اسی طرح ہونا چاہئے.یہی انصاف ہے اور اسی میں عدل ہے اور یہی رحمت کا تقاضا ہے.پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ اس کا قدم قربانیوں میں کی آگے ہی بڑھتا چلا جائے ، خدا کا فیصلہ اس کے ایمان پر مہر لگاتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کی اس ج ترقی کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر رہے گا لیکن وہ جو چلتا ہے اور کھڑا ہو جاتا ہے اور قربانی کرتا ہے اور پھر آسمان کی طرف بدلہ کیلئے نگاہ اٹھاتا ہے اور اپنی موت سے پہلے ہی اپنے پھل حاصل کرنا چاہتا ہے یا تھک کر بیٹھ جاتا ہے یا پہلے سے اس کا قدم سُست ہو جاتا ہے ( جیسا کہ اس سال بعض جماعتوں اور بعض افراد کی حالت سے نظر آ رہا ہے ) اس کا کی پھل اس کا خدا نہیں بلکہ اس کی دنیا ہے.دنیا تو شاید اس کو مل جائے مگر خدا اس کو نہیں ملے گا اور ( الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۳۸ء ) کبھی نہیں ملے گا.“ البقرة: ۲۱۵ ۲ طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحه ۲ ۱۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء سے تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۴ طبقات ابن سعد جلد ۴ صفحه ۱۸۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
خطبات محمود ۴۶ سال ۱۹۳۸ قلوب کی فتح کیلئے اسلام کی عملی تعلیم کی پوری پابندی لازم ہے فرموده ۲۸ /جنوری ۱۹۳۸ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - قوموں کی ترقی کیلئے قومی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.کوئی ایک یا دو آدمی مل کر یہ کام نہیں کر سکتے.کیونکہ افراد کے اخلاق کی حفاظت قومی اخلاق سے ہوتی ہے.اگر قومی طور اخلاق درست نہ ہوں تو صرف چند لوگ ہی جو علیحدگی اور خلوت میں زندگیاں بسر کریں اپنے اخلاق کو بچا سکتے ہیں دوسرے نہیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب قومی طور پر اخلاق میں بگاڑ پیدا ہو تو شہروں اور بستیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں چلے کی جاؤ اور وہیں زندگی بسر کر ویلے اس کے معنے یہی ہیں کہ جب قومی اخلاق بگڑ جائیں تو افراد کے اخلاق درست نہیں رہ سکتے.اول تو ارد گرد کے حالات کے اثر کی وجہ سے انسان کی طبیعت میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اگر انسان اپنے اخلاق کو بیرونی اثرات سے بچا بھی لے تو اس کے بیوی بچوں کے اخلاق تو بوجہ کمی علم یا کم عمری کی وجہ سے ضرور ہی خراب ہو جاتے ہیں اور ایسے حالات میں چونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ نیکی کا بیج ہی ختم نہ ہو جائے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بستیوں اور شہروں کو چھوڑ کر کسی علیحدہ جگہ میں بیٹھ جاؤ ، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں حالانکہ عام حالات میں آپ نے لوگوں سے ملنے جلنے اور باہم تعلقات رکھنے کی تاکید فرمائی ہے مگر قومی اخلاق میں بگاڑ پیدا ہونے کی صورت میں خلوت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی.
خطبات محمود ۴۷ سال ۱۹۳۸ء اور ایسے ہی موقع کیلئے یہ حکم ہے کہ لا يَضُرُ كُم من ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ، جب خرابی عام ہو جائے تو انسان کو اپنے ایمان کے بچانے کی فکر کرنی چاہئے.اُس وقت اپنے ایمان کا بچانا ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ عام خرابیوں کو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہی دور کر سکتے ہیں.اگر عام خرابی کی اصلاح کی افراد کوشش کریں تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو گا کہ وہ خود بھی ڈوب جائیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کبھی ایسا وقت آئے تو تم علیحدہ کی رہ کر اپنا ایمان بچاؤ.پس قومی اخلاق کی درستی ایک ایسی چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اگر قوم میں جھوٹ عام ہو تو انسان خود خواہ کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو اور وہ اس عام خرابی سے اپنے آپ کو کتنا ہی کیوں نہ بچائے ، اس کی اولا دضرور جھوٹ بولنے لگ جائے گی کیونکہ بچے اپنے ساتھ کھیلنے والوں سے اخلاق سیکھتے ہیں.انہیں عمر اور تربیت کے لحاظ سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے تو روکا نہیں جاسکتا.اگر انہیں گھروں میں بند کر کے رکھا جائے تو وہ سل کا شکار ہو جائیں گے اور اگر آزادی دی جائے تو اخلاق خراب ہوں گے.گویا دونوں صورتوں میں خاندان کی موت ہی موت ہے.پس اس کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ قومی اخلاق کی درستی کیلئے کوشش کر کے انہیں بچایا جائے اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر ماں اور ہر باپ اپنی ذمہ داری کو سمجھے لیکن اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ ہماری اولاد کی ذمہ داری ناظر تعلیم و تربیت پر ہے تو ایسی قوم آج بھی ڈوبی اور کل بھی ڈوبی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه.یعنی تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا.اور اس کی تشریح آپ نے یوں فرمائی کہ گھر کا مالک راعی ہے اور اس کے بیوی بچوں کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا.پس قومی اخلاق کی درستی کیلئے ہر فرد کا اس حیثیت کو اچھی طرح سمجھ لینا کہ وہ راعی ہے اور اس کی رعیت کے متعلق اُس سے سوال کیا جائے گا بہت ضروری ہے اور تمام افرادکو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ایسی پود اور ایسی نسل پیش کریں جو سچائی اور دیانت کی پابند اور محنت سے کام کرنے والی ہو.اور جو شخص یہ احساس
خطبات محمود ۴۸ سال ۱۹۳۸ء رکھتا ہے وہ ایسا سامان مہیا کرتا ہے کہ جس سے اخلاق درست ہو کر آئندہ نسلوں کی تربیت صحیح رنگ میں ہو سکے.تحریک جدید کے دوسرے دور کے متعلق میں نے جو یہ کہا ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا میں اسلامی اخلاق قائم کر سکیں ، یہ بات بھی اس کا ایک حصہ ہے.میں نے پچھلے سال بعض خطبات بیان کئے تھے جن میں بتایا تھا کہ زبانی دعوؤں سے ہم دنیا کو مرعوب نہیں کر سکتے.یہ کام عمل سے ہی ہو سکتا ہے.عقائد کے لحاظ سے ہم نے دنیا میں غلبہ حاصل کر لیا ہے مگر عملی لحاظ سے ابھی ایسا نہیں کر سکے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ ابھی تک ہم ایسا کیوں نہیں کر سکے.اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایمان سے عادت کا گہرا تعلق نہیں ہوگا مگر عمل سے ہوتا ہے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کا مسئلہ ہے.اس سے عادت کا کوئی تعلق نہیں.جس دن کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آجائے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں، اس کے بعد اس پر عادت کے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا کیونکہ خیالات کا تعلق عادت سے بہت ہی کم ہوتا ہے اور جب خیال کی اصلاح ہو جائے تو عادت خود بخود پیچھا چھوڑ دیتی ہے.مگر عمل کے ساتھ عادت کا بہت گہرا تعلق ہے اس لئے صرف عقائد کی اصلاح سے اعمال کی اصلاح نہیں ہوسکتی.ایک کمزور احمدی سے بھی جب کوئی غیر احمدی پوچھتا ہے کہ سناؤ جی حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں یا زندہ ہیں ؟ تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ فوت ہو گئے ہیں.جب کسی درمیانہ درجہ کے احمدی سے یہ سوال کرتا ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتا ہے.کسی اعلیٰ درجہ کے احمدی سے سوال کرتا ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتا ہے.کسی جاہل احمدی سے پوچھتا ہے تو وہ بھی یہی کہتا ہے اور کسی عالم سے پوچھتا ہے تو وہ بھی یہی بات قرآن کریم اور حدیث کی رو سے اسے سمجھاتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت کی ہو گئے ہیں.مگر جب سچ کے بارہ میں وہ ایک احمدی سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیوں جی سچ بولنا چاہئے؟ تو وہ کہتا ہے ہاں ضرور چاہئے.خواہ کچھ ہو سچ بولنا ضروری ہے.پھر وہ کسی کی دوسرے احمدی سے ملتا اور پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں سچ بولنا تو چاہئے مگر ہمارے جیسے کمزوروں سے کہاں بولا جاتا ہے.پھر وہ کسی تیسرے احمدی سے ملتا اور یہی سوال کرتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ جی کہتے تو ہیں کہ بیچ بولنا چاہئے مگر ہمیشہ سچ بولنے سے بھلا گزارہ ہوسکتا ہے.پھر
خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۸ء وہ ایک اور سے ملتا ہے تو وہ بات شروع کرنے سے بھی پہلے کہتا ہے کہ تم میری خاطر یہ جھوٹ بول دو اور یہ کہو اور یہ گواہی دو.تو اس پر لازماً یہی اثر ہوگا کہ جس بات پر یہ خود عملی طور پر قائم نہیں ہیں اس کے صحیح ہونے کا میں کیسے یقین کر لوں اور وہ خیال کرتا ہے کہ جو کہتا ہے ہر حال میں سچ بولنا چاہئے اس کی بات کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے اور میں اس کی بات کو مان کرج کیوں نقصان اٹھاؤں جبکہ دوسرے لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں اس لئے اس کی بات کی کا بھی جس نے ہر حال میں اسے سچ بولنے کی نصیحت کی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا.دیکھ لو عقائد کے بارہ میں جن باتوں پر ہماری جماعت مضبوطی سے قائم ہے ان میں ہمارے مقابل پر دوسرے لوگ بالکل گر گئے ہیں لیکن جن باتوں میں ہمارے علماء نے اختلاف کیا ہے وہ غیروں میں پھیل نہیں سکیں.انہوں نے تو یہ سمجھا کہ ہم نے جدت پیدا کی نئی بات نکالی ہے.مگر یہ نہیں سوچا کہ اس جدت سے انہوں نے احمدیت کی شوکت کو نقصان پہنچایا ہے اور ان کی اس جدت کی وجہ سے وہ بات غیروں میں پھیل نہیں سکی.لیکن جن باتوں میں وہ متفق رہے ہیں وہ خوب پھیلی ہیں اور ایسی پھیلی ہیں کہ دشمنوں نے بھی ان کی مضبوطی کو تسلیم کر لیا ہے.اور گو وہ مخالفین کے ڈر کی وجہ سے انہیں عَلَى الْإِغلان نہ مانیں مگر اپنی پرائیویٹ مجالس میں وہ اکثر ان کو تسلیم کر لیتے ہیں.مجھے ایک دوست نے جو اب مخلص احمدی ہیں، جب وہ ابھی غیر احمدی تھے سنایا تھا کہ ایک دفعہ وہ صاحبزادہ سر عبدالقیوم صاحب کے پاس جو صوبہ سرحد میں پہلے وزیر اعظم تھے اور حال میں فوت ہوئے ہیں بیٹھے تھے.تو سر موصوف نے کہا کہ مرزا صاحب پنے آپ کو نبی کہتے ہیں اس لئے ان کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی.اگر وہ اپنے آپ کو مجدد منوائیں تو ماننے کو تیار ہیں.اس دوست نے جو خود بھی ایک بڑے عہدہ پر ہیں اور انجینئر ہیں سنایا کہ میں نے ان سے کہا کہ واہ صاحبزادہ صاحب آپ یہ بات کیا کرتے ہیں.میں تو کی مرزا صاحب کو اگر نہیں مانتا تو اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص آہی نہیں سکتا.قرآن کریم کے بعد ہمیں کسی اور الہام کی ضرورت نہیں لیکن اگر یہ مان لیا تج جائے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آسکتا ہے تو پھر یہ اعتراض کیسا بے معنی ہے کہ وہ نبی ہے یا کیا ہے.خدا تعالیٰ جس کو بھیجے گا اس کا عہدہ وہ مقرر کرے گا یا ہم کریں گے؟ جب انہوں
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء نے یہ واقعہ مجھے سنایا اُس وقت تک وہ غیر احمدی ہی تھے اور اپنے عقائد پر پختہ تھے لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا دل کھول دیا اور وہ احمدی ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں.اب دیکھو وہ جس نتیجہ پر پہنچے وہ وہ نہیں تھا جس پر شروع میں غیر احمدی پہنچے تھے.یہ تغیر ان کے اندر در حقیقت اُس مخفی اثر سے پیدا ہوا جو احمدیوں کے دلائل کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں پیدا ہورہا تھا اور روز بروز پیدا ہوتا جا رہا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ عام طور پر نبوت کی کے مسئلہ میں ہی ہماری مخالفت زیادہ ہے.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ خیال بھی پیدا ہو رہا ہے بلکہ اس طبقہ کی مخالفت کی بنیاد ہی اب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آہی نہیں سکتا کیونکہ اگر کوئی آ سکتا ہے تو وہ نبی بھی ہوسکتا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ کوئی آہی نہیں سکتا.مامور ومجددیا نبی کا کوئی سوال ہی نہیں ہم کسی کی آمد کو کی بھی تسلیم نہیں کرتے.اور حقیقتا عقلی طور پر یہی ایک پہلو ہے جو ان کے بچاؤ کا ہوسکتا ہے کیونکہ جب کوئی کہے کہ مرزا صاحب کا نبوت کا دعویٰ غلط ہے، وہ مجدد ہو سکتے ہیں تو ہماری طرف سے جھٹ یہ جواب دیا جاتا ہے کہ کیا مجد د بھی جھوٹ بول سکتا ہے.اس پر ساری مجلس ہنس پڑتی ہے کہ اس نے کیسی پاگل پن کی بات کی کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی آسکتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ جو آیا ہے اس کا نبوت کا دعویٰ غلط ہے، ایک بیہودہ بات ہے کیونکہ جو آئے گا وہ ضرور سچ بولے گا.اگر کوئی شخص یہ مان لے کہ حضرت مرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر آپ جو دعوی کریں وہ ماننا پڑے گا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فتح اسلام اور توضیح مرام کتابیں لکھیں تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا کوئی دوست ان میں سے کسی کتاب کا کوئی پروف لے گیا اور کہنے لگا کہ اب نورالدین مرزا صاحب کو چھوڑ دے گا کیونکہ اور تو خواہ کچھ ہوا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت ہے اور مرزا صاحب نے اس میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے.جب یہ کتاب میں نے سامنے رکھی وہ فوراً مرزا صاحب کو چھوڑ دے گا.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ وہ شخص ایک جتھا بنا کر میرے پاس آیا.سب لوگ بیٹھ گئے.میں نے بھی سمجھا کہ آج کوئی خاص بات ہے جو یہ سب لوگ اکٹھے ہو کر آئے ہیں.
خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۳۸ء آخر اس نے جیب سے کاغذ نکالا اور کہا کہ آپ جو مرزا صاحب کو مانتے ہیں تو اسی لئے نا کہ وہ کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں لیکن اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بات کہیں مثلاً یہ کہیں کہ وہ نبی ہیں تو پھر تو آپ ان کو نہیں مانیں گے.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل نے فرمایا کہ نہیں میں نے مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مانا ہے اگر وہ کوئی ایسی بات کہیں گے جو میرے پہلے عقیدہ کے خلاف ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ میرا پہلا عقیدہ غلط تھا اور جو بات مرزا صاحب کہتے ہیں وہ درست ہے.جب میں نے یہ مان لیا کہ مرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر ان کا حق ہے کہ وہ اپنے عقائد مجھ سے منوائیں.میرا حق نہیں کہ میں ان کی کو اپنے عقائد کے تابع کروں.اس پر وہ شخص مایوس ہوکر اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا کہ بس جی چلو مولوی صاحب بہت آگے نکل چکے ہیں اور ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی.حق یہی ہے کہ جب یہ مان لیا جائے کہ کوئی شخص واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر وہ جو بھی کہے اُسے ماننا پڑے گا.اور جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کے کہنے کا حق نہ ہو اس کی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی موازنہ کیا جائے گا.اصل سوال یہی ہے کہ جو شخص کھڑا ہے اُسے اللہ تعالیٰ نے کیا پوزیشن دی ہے.اگر تو یہ پوزیشن ہے کہ اس کی ہر بات مانی جائے تو پھر ہر بات ماننی پڑے گی.اگر یہ ہے کہ ایک خاص دائرہ میں اس کی بات ماننی چاہئے تو پھر اُس دائرہ کی میں اُس کی بات ماننی پڑے گی اور اگر یہ ہے کہ اُس کی کسی بات کا ماننا بھی ہمارے لئے ضروری نہیں تو پھر اس کی جس بات کو عقلِ سلیم تسلیم کرے گی وہ ہم مانیں گے باقی کو رڈ کردیں گے.غرض اب تعلیم یافتہ طبقہ غیر احمدیوں کا یہ سمجھتا جارہا ہے کہ نبوت کا مسئلہ اپنی ذات میں اہم مسئلہ نہیں اور وہ اس میں اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور ان کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم جو عقائد پیش کرتے ہیں انہیں خاص اہمیت حاصل ہے اور اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جواب کیلئے انہیں اب اپنے پہلے مقام کو بدلنا چاہئے.مگر عمل کے میدان میں ابھی یہ بات ہمیں حاصل کی نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عقائد میں ہمارا ہر شخص خواہ وہ مضبوط ہو یا کمزور، جاہل ہو یا عالم ، چھوٹا ہو یا بڑا، بوڑھا ہو یا جوان یا بچہ، مرد ہو یا عورت سب ایک ہی بات کہتے ہیں.مگر عملی باتوں میں آکر دوسرے لوگ دیکھتے ہیں کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں.لڑکیوں کو ورثہ میں حصہ
خطبات محمود ۵۲ سال ۱۹۳۸ء دینے کا سوال آتا ہے تو ہم میں سے بعض کہہ دیتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کو حصہ دے کر اپنی زمینیں خراب کر لیں تو دوسرے شخص پر بھی یہی اثر ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے جس سے نقصان کا اندیشہ ہے.یا جب سچ بولنے کا موقع آتا ہے تو ایک احمدی کہہ دیتا ہے کہ جی سارے اے ہی کہندے ہندے نے.پر کدی سچ نال ہر ویلے گزارہ ہندا اے، یعنی منہ سے تو سچ بولنے کی تاکید ہر کوئی کر دیتا ہے مگر کیا ہمیشہ سچ بولنے سے دنیا میں گزارہ چل سکتا ہے اس لئے سننے والا خیال کرتا ہے کہ جو کہتا ہے ضرور سچ بولنا چاہئے ہممکن ہے وہی غلطی پر ہو.میں اس کے پیچھے لگ کر کیوں خواہ مخواہ اپنا نقصان کروں.شبہ سے ایمان اور یقین دوسرے کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتا.یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب اپنے دل میں بھی ایمان اور یقین ہو.اور جو شخص خود عمل نہیں کرتا اس کے معنے یہی ہیں کہ اس کے دل میں قرآن کریم پر ایمان نہیں.ایک دفعہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور سوال کیا کہ قرآن کریم سے مرزا صاحب کی صداقت کا کوئی ثبوت پیش کریں.ایسے لوگ اکثر آتے رہتے ہیں مگر یہ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں سال دوسال کی بات ہے کہ میرے پاس آیا اور کہا کہ قرآن سے کوئی ثبوت دیں.میں نے کہا کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے.اس نے کہا کہ آپ کوئی آیت پیش کریں.میں نے کہا کہ آپ کوئی آیت لے لیں.وہ کہنے لگا وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بالله و باليوم الآخرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِين نے اس سے ثابت کریں.میں نے کہا اس سے کی بھی ثابت ہے اور میں نے اسے بتایا کہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اس رنگ میں ثابت ہوتی ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر دراصل وہ مومن نہ تھے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے لوگ تھے تو اب کیوں نہیں ہو سکتے.آپ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم موجود ہے اور ہم سب ایمان لاچکے ہیں تو اب کسی اور کے آنے کی کیا ضرورت ہے.مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ منہ سے کہنے کے باوجود مومن نہیں ہوتے.تو یا تو مسلمان قرآن کریم کی اس بات کا انکار کر دیں یا پھر ماننا پڑے گا کہ محض منہ سے کہہ دینے کا کوئی اعتبار نہیں.اور اگر امت محمدیہ اسی طرح بگڑ جائے جس طرح
خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۸ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ تھے تو کیا ایسے لوگوں کے علاج کیلئے کوئی چ انتظام ہونا چاہئے یا نہیں ؟ اور قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسے لوگ ہوتے رہیں گے.پس صاف بات ہے کہ ان کے لئے معالج بھی آتے رہیں گے.میں نے جب یہ بات اس سے کہی کہ قرآن کریم کی جو آیت چاہو لے لو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے تو اس یقین کے ساتھ کہی تھی کہ جب قرآن کریم نبوت کی تائید کرتا ہے تو ضرور اس کی ہر آیت سے نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے اس لئے وہ جو آیت پڑھتا میں اسی سے ثابت کر دیتا.وہ اگر ورثہ کی آیت پڑھتا تو بھی میں اسی سے ثابت کر دیتا کیونکہ جو کلام نبوت کی تائید کرے گا اس سے ہر نبی کی صداقت ثابت ہوگی اس لئے میں نے جب یہ بات اس کے سامنے بیان کی تو مجھے اس میں کوئی محبہ نہیں تھا اور میرے دل میں اس بات کا پورا پورا یقین تھا لیکن جب اپنے دل میں یقین نہ ہو تو بڑی سے بڑی بات بھی غیر مفید ہوگی.ان ہماری جماعت میں ایک بڑے مولوی تھے جو عالم تھے مگر بولنے میں وہ کچے تھے.میں نے خود بھی ان کو کئی مرتبہ گفتگو کرتے سنا.کوئی اعتراض کرتا تو وہ ہنس کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ”لے ہن اے اعتراض کر دتا.یعنی لواب یہ اعتراض کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب وفات مسیح کیلئے تمہیں آیات پیش فرما ئیں تو وہ بہت خوش ہوئے.ایک شخص سے ال کی وفات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی.اس نے پوچھا کہ کیا قرآن کریم کی کسی آیت سے بھی وفات مسیح کا ثبوت ملتا ہے، وہ کہنے لگے کسی ایک آیت سے کیا تمیں آیات سے یہ ثابت ہے.اس نے کہا اچھا کوئی ایک پیش کریں.انہوں نے ایک آیت پیش کی.اس نے اس پر کوئی اعتراض کیا تو کہنے لگے اچھا اسے چھوڑو اور لو اور دوسری آیت پیش کر دی.اس نے اس پر بھی ایک اعتراض کر دیا.تو کہنے لگے اچھا لو اور آیت سن لو.اس طرح سب کی سب آیات ختم ہو گئیں اور وہ منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے.تو جب انسان خود یقین سے بات پیش نہ کرے کی دوسرے پر اس کا اثر نہیں ہوتا.یقین سے ہی سب کا میابی ہوتی ہے.دیکھو یقین تو کتے اور بتی کا بھی کام آجاتا ہے.گتا ، ہلکی اور شیر وغیرہ وحشی جانور لڑتے بہت کم ہیں.صرف غوں غوں کر کے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں.اور پھر ایک ڈر کر چلا جاتا ہے.وہ غوں غوں سے ایک دوسرے کے.
خطبات محمود ۵۴ سال ۱۹۳۸ یقین کا پتہ لگا لیتے ہیں اور جو دوسرے کی غوں غوں کو زیادہ یقینی دیکھتا ہے وہ بھاگ جاتا ہے.تو طاقت ہمیشہ دل کے ایمان اور یقین سے حاصل ہوتی ہے.اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے دلوں میں ایمان اور یقین پیدا کریں.وہ پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں.قرآن کریم کہتا ہے سچ بولو.وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں ؟ اور آیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ پھر اگر ٹھیک ہے تو اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائیں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے قائم کریں.اسی طرح کی دیانت کا حکم ہے.وہ دیکھ لیں کہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو پھر خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے پیدا کریں.اور اگر وہ اپنی اولادوں کی اصلاح کی طرف ہی توجہ کریں تو یہ چیزیں اگر ان کے اپنے اندر نہ بھی پیدا ہوسکیں تو بھی وہ اپنی اولا دوں میں تو ضرور پیدا کر سکتے ہیں.اگر ان سے خود بوجہ اس کے کہ وہ غیر احمدیوں میں سے آئے ہیں کمزوری بھی ہے تو بھی وہ اپنے بچوں کو یہ باتیں ضرور سکھا سکتے ہیں.اور اگر وہ ایسا کی کر دیں تو ہماری آئندہ نسل ضرور دنیا پر غالب آجائے گی اور سب کے دلوں کو موہ لے گی.یہ مضمون پہلے بھی میں نے ایک خطبہ میں شروع کیا تھا اور آج بھی اسے بیان کرنے کا ارادہ تھا مگر معلوم نہیں کہ کیا وجہ ہے کہ صبح سے مجھے دورانِ سر کی تکلیف ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا کرتی تھی.مجھے بھی صبح سے سر میں چکروں کی تکلیف کی ہے اور زیادہ کھڑا نہیں ہو سکتا اس لئے لمبا خطبہ نہیں بیان کر سکتا.صرف یہ کہتا ہوں کہ جب تک ہماری جماعت اس بات کیلئے کھڑی نہ ہو کہ اسلام کی اصولی اور ابتدائی باتیں جن میں میں نے آج بھی بیان کی ہیں، اپنی اولادوں کے دلوں میں داخل کر دے، اُس وقت تک کبھی احمدیت دنیا میں عملی طور پر قائم نہیں ہو سکے گی اور جب یہ باتیں پیدا ہو جا ئیں تو عملی مخالفت بھی خود بخو دگر جائے گی.دیکھو ایک جانور کے محض یقین کے ساتھ غرانے سے اس کے مقابل کے جانور بھاگ جاتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے دلوں کا یقین تمہارے مخالفوں کے دلوں پر اثر نہ کرے.جب تم اس یقین اور ایمان کو لے کر کھڑے ہو گے کہ اسلام کی تعلیم صحیح ہے اور تم نے سے دو
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اسے دنیا میں قائم کر کے رہنا ہے تو تمہارے مخالف یقیناً دُم دبا کر بھاگ جائیں گے اور کہیں کہ گے کہ اچھا پھر تم اس تعلیم کو قائم کر لو.اور جس دن تمہارے اپنے دلوں میں یقین پیدا ہو جائے گا دوسروں کے دلوں میں خود بخود تمہارے لئے قبولیت کا مادہ پیدا ہو جائے گا اور وہ مخالفت چھوڑ کر جس طرح عقائد میں تمہارے پیچھے چل پڑے ہیں ، اعمال میں بھی چل پڑیں گے.“ 66 الفضل ۵ فروری ۱۹۳۸ء) بخاری کتاب الرقاق باب الْعُزَلَةُ رَاحَةُ مِنْ خُلَّاطِ السُّوءِ ( مفهوم ) المائدة: ۱۰۵ بخارى كتاب النكاح باب الْمَرْءَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا البقرة : ٩
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ تحریک جدید کا دور ثانی اور دوسری مدات (فرموده ۴ رفروری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- و تحریک جدید کے متعلق بعض دوستوں کی طرف سے مجھے خطوط موصول ہور ہے ہیں کہ اس کی جو دوسری مدات تھیں آیا وہ اب تک جاری ہیں یا نہیں سوئیں اس بارے میں آج بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.سب سے اوّل تو یہ بات سوچنے والی ہے کہ اچھی بات آیا وقتی ہو ا کرتی ہے یا دائی.کچھ باتیں صداقت کی ایسی ہوتی ہیں جو دائمی ہوتی ہیں.ان دائمی صداقتوں کو کبھی بھی ترک نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی وقت ان میں کسی قسم کی سہولت روا رکھی جائے تو وہ سہولت وقتی ہوگی اور جب کبھی تبدیلی ہوگی اس سہولت کے دور کرنے میں ہوگی نہ کہ اصل چیز کے دور کرنے میں.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شروع کے زمانہ میں چونکہ عرب میں رواج تھا کہ لوگ گدھے کا گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے اس لئے آپ نے اس میں دخل نہ دیا لیکن بعد میں جا کر آپ نے اس سے روک دیا ہے در حقیقت گدھا اپنی اخلاقی حالت کے لحاظ سے شروع سے ہی دوسرے ممنوع جانوروں سے مشابہت رکھتا تھا مگر وقتی ضرورتوں اور لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے ابتداء میں اس میں دخل نہ دیا یا متعہ کے بارے میں آپ نے شروع میں کوئی حکم نہ دیا لیکن دوسرے وقت جا کر آپ نے اس سے منع فرما دیا ہے تو جو چیزیں اپنے اندر
خطبات محمود ۵۷ سال ۱۹۳۸ء کوئی برائی یا عیب رکھتی ہیں، ان میں اگر کسی وقت کوئی سہولت دی جاتی ہے تو وہ سہولت عارضی ہوتی ہے، اصل حکم عارضی نہیں ہوتا.مثلاً تحریک جدید ہے اس میں ایک ہدایت یہ تھی کہ سادہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اب یہ غور کرنا چاہئے کہ آیا سادہ زندگی اسلام کا کوئی اصل ہے یا ضرورت کے مطابق اس کی ہدایت دی جاتی ہے.اگر اصل اسلامی تعلیم یہ ہو کہ انسان کو خوب عیاشا نہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے تو سادہ زندگی کا حکم عارضی سمجھا جائے گا اور یہ سوال ہر وقت کیا جا سکے گا کہ اب اس ہدایت پر عمل ترک کر دیا جائے یا نہ کیا جائے.لیکن اگر اسلام کی اصل تعلیم سادہ زندگی کی ہو تو پھر اس حکم کے متعلق یہ سوال نہیں ہوگا کہ یہ عارضی ہے اسے واپس لے لیا جائے بلکہ یہ سوال ہو گا کہ اس حکم کو کامل طور پر جاری کرنے میں اگر کوئی روک تھی تو اس روک کو کب دُور کیا جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے بطور شریعت سادہ زندگی کی کوئی تعریف نہیں کی.اسلام نے بطور اصول یہ تو بتایا ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو مگر یہ تعریف نہیں کی کہ سادہ زندگی کس کو کہتے ہیں.پس یہ بحث تو کی جاسکتی ہے اور ہر وقت کی کی جاسکتی ہے کہ سادہ زندگی کی تعریف کیا ہے اور آیا فلاں احکام جو سادہ زندگی اختیار کرنے کے ضمن میں دیئے گئے ہیں وہ سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے.یا بعض افراد یا بعض قو میں آپس میں مل کر فیصلہ کر لیں کہ فلاں بات بھی سادہ زندگی کے اصول میں شامل کر لینی چاہئے لیکن اصولی طور پر اس بات پر بحث نہیں ہو سکتی کہ آیا سادہ زندگی اختیار کرنی چاہئے یا تی نہیں.کیونکہ یہ خالص اسلام کا حکم ہے اور قرآن کریم کی بیسیوں آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں احکام اس معاملہ میں موجود ہیں جو ہمارے لئے خضرِ راہ اور ہدایت نامہ ہیں اور پھر ہماری عقل بھی ہماری اسی طرف راہنمائی کرتی ہے.اگر ہم نے دنیا میں اس اسلامی تہذیب کو قائم کرنا ہے جو اس دنیا میں بھی اسی طرح بنی نوع انسان کیلئے بہشت کھینچ کر لاتی ہے جس طرح اگلے جہان میں بہشت ہے تو لازماً اس معاملہ میں آہستہ آہستہ ہمیں بعض اور کی قیود بھی بڑھانی پڑیں گی یہاں تک کہ اسلام کے منشاء کے مطابق سادہ زندگی کی روح دنیا میں قائم ہو جائے.بیشک ایک کھانا کھانا چاہئے یا زیادہ کی بھی اجازت ہو.یہ خود اپنی ذات میں پورے طور پر سادہ زندگی کے مفہوم کو ادا کرنے والے نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خطبات محمود ۵۸ سال ۱۹۳۸ء سنت سے یہی ثابت ہے کہ آپ ایک کھانا کھانے پر اکتفا کیا کرتے تھے.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ خاص دعوتوں یا عیدین کے موقع پر آپ نے ایک سے زائد کھانے کھالئے تو یہ اور بات ہے.چنانچہ ان قیود سے عیدوں کو میں نے پہلے ہی مستی کر دیا تھا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب یہ سوال پیش ہوا تو آپ نے عیدین کے متعلق فرمایا یہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے کھانے پینے کے دن رکھے ہیں.سے تو میں نے سادہ طعام کے متعلق جو ہدایت دی تھی اس میں یہ اصول مقرر کیا تھا کہ عیدوں پر ایک سے زائد کھانا کھانے کی اجازت ہے.ہاں لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق پھر بھی سادگی کو مد نظر رکھیں کیونکہ جب سادہ زندگی کی اصل کے طور پر ہے تو اس میں وسعت پیدا کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمارے پنجاب میں اچھی اچھی دعوتوں کے موقع پر صرف چار پانچ کھانوں پر لوگ کفایت کرتے ہیں لیکن انگریزوں میں جہازوں اور ہوٹلوں میں عام کھانے ہی سات آٹھ سکتے ہیں اور کی ان کے رات کے ڈنر میں تو پندرہ پندرہ سولہ سولہ کھانے ہوتے ہیں.گو وہ سارے پکے ہوئے کی نہیں ہوتے بلکہ بعض کھانے چٹنیوں کی قسم کے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے کھانے پکتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہمارے ہندوستان کے ہی بعض گوشوں میں مہمان نوازی کی تعریف یہ سمجھی جاتی ہے کہ میں تمیں ، چالیس چالیس کھانے پکائے جائیں.مجھے اپنی عمر میں صرف ایک دفعہ ایسی دعوت میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے وقت کی بات ہے کہ ہم بعض دوست ایک وفد کی صورت میں ہندوستان کے مختلف مدارس دیکھنے کیلئے گئے.جب دورہ کرتے ہوئے ہم ایک شہر میں پہنچے تو وہاں ایک پرانی وضع کے نہایت مخلص احمدی تھے.انہوں نے میرے آنے کی خوشی میں دعوت کی اور اس خیال سے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں میرے اعزاز میں انہوں نے بہت سے کھانے پکائے.میں نے وہ کھانے گئے تو نہیں مگر یہ مجھے یاد ہے کہ جو کھانے میرے دائیں بائیں رکھے گئے تھے وہ اتنے تھے کہ اگر میں اپنے دونوں ہاتھ پھیلا بھی دیتا تو وہ دائیں بائیں کی طشتریوں کو نہیں ڈھانپ سکتے تھے اور جو میرے سامنے کھانے پڑے تھے وہ اتنے زیادہ تھے کہ اگر میں لیٹ بھی جاتا تب بھی بعض کھانے دور رہ جاتے.میں نے جب اس قدرکھانے پکے ہوئے دیکھے تو ایک دوست سے
خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۸ء میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ اتنے کھانے انہوں نے کیوں تیار کئے ہیں؟ اس پر اس نے چپکے سے میرے کان میں کہا کہ آپ اس امر کا یہاں ذکر نہ کریں کیونکہ اس طرح ان کی دل شکنی ہوگی.یہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے اعزاز میں دعوت کی جاتی ہے تو خاص طور پر بہت زیادہ کھانے پکائے جاتے ہیں.پس جو کھانا آپ نے کھانا ہے کھا لیں کچھ کہیں نہیں.اب یہ بھی دعوت کا ایک طریق ہے.تو زیادتی میں بھی سادگی کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ایک سے زائد کھانے کے معنے دو بھی ہو سکتے ہیں ، تین بھی ہو سکتے ہیں ، دس بھی ہو سکتے ہیں ، ہمیں بھی.پس کی ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ سادگی اصل حکم ہے اور ترقہ ایک عارضی اجازت، اور ی عارضی اجازت ہر حالت میں اصل حکم کے تابع رہنی چاہئے.حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک امیر میرے پاس آیا اور کہنے کی لگا مولوی صاحب ! ہاضمہ کی کوئی اچھی سی دوائی مجھے دیں تا کہ میں کھانا پیٹ بھر کر کھا سکوں.میری یہ حالت ہے کہ بس لقمہ دو لقمے کھاتا ہوں اور پیٹ بھر جاتا ہے.آپ فرماتے کہ ایک دن مجھے اس امیر کے دستر خوان پر جانے کا اتفاق ہوا.میں نے دیکھا کہ کھانے کی چالیس پچاس طشتریاں اُس کے سامنے آئیں.اُس نے ہر تھالی میں سے ایک دو لقمے لئے اور چکھا کہ ان سب میں سے اچھا کھانا کون سا ہے.پھر دو چار کھانے جو اسے پسند آئے وہ اس نے الگ کر لئے اور ان میں سے تھوڑے تھوڑے لقمے لینے کے بعد کہنے لگا دیکھئے مولوی صاحب ! اب بالکل کھایا نہیں جاتا.حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا یہ کوئی بیماری نہیں.کیونکہ جو چکھنے کے لقمے ہیں وہ بھی آپ کے معدہ میں ہی گئے ہیں اور اس سے زیادہ کوئی تندرست آدمی نہیں کھا سکتا.پس میں اس بارے میں جہاں پھر سادگی کی تاکید کرتا ہوں وہاں میں بعض دوستوں کی متواتر تحریک پر دو استثناء بھی کر دیتا ہوں.ایک تو عیدوں کی طرح میں جمعہ کا استثناء بھی کرتا ہوں اور اُس دن ایک سے زائد کھانا کھانے کی لوگوں کو اجازت دیتا ہوں.مگر اسی حد تک کہ اگر اس دن کوئی دوسرا کھانا کھالے تو جائز ہوگا.یہ نہیں کہ ضرور اُس دن ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں اور اس استثناء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس دن کئی کئی کھانے پکنے لگ جائیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء پس جمعہ کا میں استثناء کرتا ہوں اور اُس دن دو کھانوں کی اجازت دیتا ہوں.کیونکہ جمعہ کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہماری عید ہے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چھٹیوں کے دنوں میں چونکہ رشتہ دار وغیرہ جمع ہوتے ہیں اور ان کی خاص طور پر خاطر مدارت کرنی پڑتی ہے اس لئے چھٹی کے دن بھی اس قید کر اُڑا دیا جائے.میرے لئے یہ سوال مشکل پیدا کر رہا ہے کہ میں اتوار کو چھٹی قرار دوں یا جمعہ کو.کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ چونکہ چھٹی کے دن رشتہ دار ایک دوسرے کے ہاں ملاقات کیلئے آتے ہیں اس لئے اس خوشی کی کے موقع پر کسی قدر خاطر مدارات کیلئے یہ اجازت ہونی چاہئے کہ ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں.اب ایک طرف چونکہ سرکاری دفاتر میں اتوار کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے اس اجازت کے ماتحت اتوار کو مستثنیٰ کرنا چاہئے لیکن دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کیلئے عید کا لفظ فرمایا ہے اس لئے اس رخصت کا حقدار وہ دن ہے.اگر شریعت اور موجودہ حالات کا لحاظ رکھا جائے تو ہفتہ میں دو دن مستقلی کرنے پڑتے ہیں لیکن ہفتہ میں دو دن کا استثناء بہت زیادہ ہے اور اس طرح سہولت بہت وسیع ہو جاتی ہے اس لئے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم چھٹی کا دن جمعہ کو ہی رار دیں.گو عملاً ہمارے ملک میں جمعہ کے دن چھٹی نہیں ہوتی.لیکن زمیندار ، تاجر اور جولوگ ایسی جگہوں میں ملازم ہیں جہاں جمعہ کے دن چھٹی ملتی ہے اب بھی جمعہ کو چھٹی کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں.دوسرے لوگ جنہیں اتوار کو چھٹی ملتی ہے وہ بھی اگر چاہیں تو اس بات کی عادت ڈال سکتے ہیں کہ اتوار کو اپنے آرام کا وقت رکھ لیں اور جمعہ کی شام کو اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے رشتہ داروں سے مل لیں.گویا رشتہ داروں کی ملاقات کا وقت بجائے اتوار کے جمعہ کی شام کو رکھا جائے.اس طرح جمعہ کے استثناء سے فائدہ اُٹھا کر وہ ان کی خاطر مدارات کیلئے کی ایک سے زائد کھانا تیار کر سکتے ہیں.غرض شرعی مسئلہ چونکہ جمعہ کی تائید میں ہے اس لئے میرا میلان طبع اسی طرف ہے کہ بجائے اتوار کے جمعہ کو مستقلی کیا جائے.بعد میں اگر دوست اس میں کوئی مشکلات دیکھیں تو وہ بتا سکتے ہیں اور اس پر ہر وقت غور کیا جا سکتا ہے.فی الحال میں جمعہ کا استثناء کرتا ہوں.مگر اس کا کی
خطبات محمود ۶۱ سال ۱۹۳۸ء مطلب یہ نہیں کہ ہر جمعہ کو ضرور ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی ایسی تقریب ہو جب رشتہ دار یا دوست احباب جمع ہوں یا کوئی مہمان آئے ہوئے ہوں تو ان کی خاطر اگر دوکھانے پکالئے جائیں تو جائز ہوگا.اس استثناء کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے دوستوں نے شکایت کی ہے کہ ہمارے پنجاب اور ہندوستان میں چاول نیم غذا ہے جس کا کبھی کبھی کھانا صحت کے لحاظ سے اور ملک کی آب و ہوا کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے.مگر اس حکم سے کہ ایک کھانا کھایا جائے ہم چاول کو بالکل ترک کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ صرف چاول کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور کی روٹی سالن کے علاوہ اگر چاول کھائیں تو وہ دوکھانے ہو جاتے ہیں.پس ایک کھانا کھانے کی وجہ سے یہ جو دقت پیدا ہو گئی تھی کہ لوگ روٹی ہی کھاتے تھے چاول نہیں کھا سکتے تھے حالانکہ چاولوں کا کبھی کبھی کھانا ہماری ملکی آب و ہوا کے لحاظ سے ضروری ہے اس استثناء سے اس کا ازالہ ہو جائے گا.اور وہ لوگ جو شکایت کیا کرتے ہیں کہ ایک کھانا کھانے کا حکم دے کر چاول کی غذا بالکل بند کر دی گئی ہے انہیں اطمینان ہو جائے گا اور وہ جمعہ کے دن حسب خواہش روٹی کے علاوہ چاول بھی کھاسکیں گے.دوسرا استثناء جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دعوتوں کے موقع پر میں نے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر اپنا ہی کوئی احمدی دوست مہمان ہو تو دسترخوان پر میزبان صرف ایک ہی کھانا کھائے.لیکن اگر کوئی غیر مہمان ہو تو اس کے ساتھ ایک سے زائد کھانے کھا سکتا ہے.اس کے کی متعلق بعض دوستوں نے شکایت کی ہے کہ یہ پابندی بہت مشکلات پیدا کرتی ہے کیونکہ جب مہمان وہ کھانے کھا رہا ہو اور ہم صرف ایک ہی کھانا کھا ئیں تو یہ امر مہمان پر بہت شاق گزرتا ہے.پس آئندہ کیلئے میں اس پابندی کو بھی دور کرتا ہوں اور اس امر کی اجازت دیتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا مہمان ہو جس کیلئے ایک سے زائد کھانے پکائے گئے ہوں تو اس صورت میں خود بھی کی دو کھانے کھانے جائز ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی غیر مہمان ہو.یہ نہ ہو کہ اپنے ہی رشتے دار بغیر کسی خاص تقریب کے اکٹھے ہوں اور ان کیلئے (جمعہ کے استثناء کے علاوہ ) ایک سے زائد کھانے تیار کر لئے جائیں اور خود بھی دو دو کھانے کھالئے جائیں.
خطبات محمود ۶۲ سال ۱۹۳۸ء غرض میری یہ اجازت اس حالت کے لئے ہے جب غیر لوگ مہمان ہوں یا اپنے عزیزوں کی خاص دعوت ہو.میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ کوئی اور سہولت دینا سوائے تکلف کے اور کوئی پیدا نہیں کر سکتا.مثلاً اگر مہمان کیلئے تین چار کھانے پکائے جائیں تو میز بان کو مہمان کے ساتھ سب کھانے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اسے زیادہ سے زیادہ دو کھانے کھانے کی اجازت دی جاسکتی ہے.اور اگر یہ ان کھانوں میں سے دو کھانے کھالے گا تو مہمان کو یہ اصرار نہیں ہوگا کہ ضرور تین کھانے کھاؤ.مہمان کی طرف سے اُسی وقت اصرار ہوتا ہے جب یہ صرف ایک کھانا کھاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ روٹی سالن ایک کھانا سمجھا جاتا ہے اور چاول دوسرا کھانا.اب جب یہ صرف روٹی سالن پر اکتفا کرتا ہے اور چاول نہیں کھاتا تو مہمان کو یہ بات چھتی ہے لیکن اگر یہ روٹی سالن بھی کھا لے اور چاول بھی کھالے تو مہمان یہ اصرار نہیں کرے گا کہ اب ضرور فلاں چیز بھی کھاؤ.کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ جو چیز ا سے پسند تھی اس نے کھالی اگر فلاں چیز یہ نہیں کھانا چاہتا تو نہ کھائے.پس چونکہ صرف روٹی سالن کھانے سے ایک امتیاز معلوم ہوتا ہے اور مہمان کو یہ بات چھتی ہے اس لئے دوسرا کھانا کھانے کی بھی اجازت ہے.اس طرح میں سمجھتا ہوں مہمان پر اس کا طریق عمل گراں نہیں گزرے گا کیونکہ جب مثلاً دستر خوان پر دو سالن ہوں گے اور یہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا تو وہ خیال کرے گا کہ اس نے ایک سالن تو استعمال کر لیا دوسرا نہیں کیا تو نہ کرے.کیونکہ ایک سالن دوسرے سالن کا قائمقام ہو جاتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ملک میں روٹی چاول کا قائمقام نہیں سمجھی جاتی اس لئے مہمان کو یہ امر چُبھتا ہے کہ میزبان نے مثلاً خالی چاول کھائے ہیں یا صرف روٹی کھائی ہے اور اسے بھی دوسری اشیاء استعمال کرنے میں حجاب ہوتا ہے.ہاں ایک اور استثناء میں گزشتہ سالوں میں کر چکا ہوں وہ قائم ہے اور وہ رسمی یا حکام کی دعوتوں کے متعلق ہے.ایسی دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانے کھانا یا کھلا نا جو ملک کے رواج کے مطابق ضروری ہوں جائز رکھا گیا تھا اور اب بھی جائز ہے.بعض ملکوں میں جیسے بنگال اور بہار کے علاقے ہیں چاولوں کے ساتھ ایک پتیلی دال پکاتے ہیں جس کی غرض محض چاولوں کو گیلا کرنا ہوتی ہے.اس کی اجازت میں پچھلے دور میں دے چکا ہوں اور اس دور میں پھر اس کو دُہرا دیتا کی
خطبات محمود ۶۳ سال ۱۹۳۸ء ہوں کہ جن علاقوں میں یہ رواج ہے کہ تھوڑا سا خشک سالن وہ چاولوں کے ساتھ استعمال کرنے کیلئے الگ پکاتے ہیں اور ایک پتیلی دال جو بالکل پانی کی طرح ہوتی ہے، الگ پکاتے ہیں تا کہ چاول گیلے ہو کر آسانی سے ہضم ہو سکیں ، انہیں پیلی دال استعمال کرنے کی اجازت ہے کیونکہ پتیلی دال وہاں غذا نہیں سمجھی جاتی بلکہ غذا صرف خشک سالن اور چاول ہوتی ہے.یہ دال صرف اس لئے ملائی جاتی ہے تا کہ چاول گیلے ہو جائیں اور انہیں نگلنے میں آسانی ہو.یہ استثناء اگر چہ میں نے پچھلے دور میں کر دیا تھا مگر اس دور میں میں پھر اس کو دُہرا دیتا ہوں.مگر یہ شرط ہے کہ وہ دال پتیلی دال تک ہی محدود ہو.اگر اُس دال کو خود ایسا گاڑھا اور مرغن بنالیا جائے کہ وہ کی سالن کا کام دے سکے تو پھر اس کی اجازت نہیں.خطوں میں تو مجھے یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کسی خطبہ میں بھی میں بیان کر چکا ہوں یا نہیں کہ اچار اور چٹنی اگر سادہ ہو اور بطور مصالحہ یا ہاضوم کے اسے استعمال کیا جائے تو کھانے کے ساتھ اس کا استعمال جائز ہے لیکن بعض ملکوں میں چٹنی بھی سالن کا قائمقام سمجھی جاتی ہے.پس جب چٹنی میں بھی تکلف کی کوئی صورت ہو اور سالن کے قائمقام سمجھی جا سکے تو پھر اس کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی چاہئے.ہر شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب انسان محبت اور حیلہ سازی سے کام نہ لے.اگر چٹنی اور ا چار صرف چٹنی اور اچار کی حد تک ہی ہوا اور اس کے استعمال کی غرض یہ ہو کہ ہاضمہ درست ہوا ور کھانا ہضم ہو جائے تو اس کا استعمال جائز ہے لیکن اگر وہ سالن کے قائمقام ہو تو پھر کسی دوسرے سالن کے ساتھ اس کا استعمال جائز نہیں.اور یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چٹنیاں ہی چٹنیاں بنا کر کھاتے ہیں، کوئی الگ سالن استعمال نہیں کرتے.ایک دفعہ جب میں شملہ میں تھا تو ایک رئیس میری ملاقات کیلئے آئے.اُن سے دورانِ گفتگو کہیں میں نے ذکر کر دیا کہ سنا ہے آپ کے وطن میں کھانے اور قسم کے ہوتے ہیں.اس کے کی بعد مجھے اس بات کا کوئی خیال نہ رہا.اُنہوں نے میری دعوت کی.جب میں ان کے ہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی پیالیاں آنی شروع ہو گئیں جن میں مختلف قسم کی چٹنیاں تھیں.میں نے ان چٹنیوں کو کچھ چکھا اور پھر چھوڑ دیا اور دیر تک باتیں ہوتی رہیں.اب میں یہ انتظار کرتا رہا
خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۸ء کہ کھانا آئے تو میں کھاؤں مگر کھانا کوئی نہ آیا.یہاں تک کہ گیارہ بج گئے اور ہم وہاں سے رُخصت ہو گئے.راستہ میں میں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے جو میرے ساتھ تھے پوچھا کہ کیا آج ہماری یہاں دعوت نہیں تھی ؟ اور کیا ہمیں غلطی تو نہیں لگی کہ ہم دعوت کے خیال سے یہاں آگئے ؟ وہ اتفاق سے اس علاقہ میں رہ چکے تھے.وہ کہنے لگے کھانا آیا جو تھا آپ نے نہیں کھایا ؟ میں نے کہا کھانا کون سا آیا ؟ کچھ چٹنیاں آئی تھیں وہ میں چکھ کر چھوڑتا گیا.کہنے لگے وہی تو کھا نا تھا.میں نے کہا میں نے سمجھا کہ یہ صرف ہاضمہ کے تیز کرنے کیلئے چٹنیاں آرہی ہیں اور چونکہ مجھے کھانسی کی شکایت تھی میں چکھ کر چھوڑ دیتا تھا ، کھاتا نہ تھا اور خیال کرتا تھا کہ اصل کھانا بعد میں آئے گا.کہنے لگے یہی چٹنیاں جو انہوں نے بھجوائی تھیں کھانا تھیں.تو بعض علاقوں میں چٹنیاں بھی کھانا کبھی جاتی ہیں جیسے میرے ساتھ واقعہ پیش آیا.یہاں تک کہ مجھے راستہ میں دریافت کرنا پڑا کہ آیا ہماری یہاں دعوت بھی تھی یا نہیں.اگر اس قسم کی چٹنیاں ہوں تو پھر یہ بھی کھانے میں شمار ہوں گی اور ان میں بھی سادگی اور حد بندی کی ضرورت ہوگی.لباس کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے حالانکہ لباس کی سادگی نہایت ضروری چیز ہے.میں نے دیکھا ہے لباس میں سادگی نہ ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ امیروں اور ی غریبوں میں ایک بین فرق ہے.امیر اپنے کپڑے سنبھالے بیٹھے رہتے ہیں اور ہر وقت انہیں یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں کپڑے پر داغ نہ لگ جائے ، کہیں میلا نہ ہو جائے اور اس طرح وہ غرباء ے پرے رہتے ہیں.پس لباس میں سادگی نہایت ضروری ہے بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک جوڑا ہے اور وہ اسے ایسی احتیاط سے رکھتا ہے کہ ہر وقت اسے یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں اُس پر دھبہ نہ پڑ جائے ،کہیں اُس پر داغ نہ لگ جائے اور اس کی طرح غریبوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے تو اس نے ہر گز تحریک جدید کے اس کی مطالبہ پر عمل نہیں کیا.اس کے مقابلہ میں اس شخص کو میں زیادہ سادہ کہوں گا جس کے پاس دو یا تین جوڑے کپڑوں کے ہیں اور وہ ان کے متعلق ایسی احتیاط نہیں کرتا جو امارت و غربت میں امتیاز پیدا کر دیتی ہے.در حقیقت لباس میں ایسا تکلف جو انسانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کا موجب ہو جائے ، جو بنی نوع انسان میں کئی قسم کی جماعتیں پیدا کرنے کا محرک ہو جائے ،
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ ނ سخت ناپسندیدہ اور فتنے پیدا کرنے والا ہے.خواہ اس کے پاس ایک ہی جوڑا ہو یا دو ہوں.پس یہ ہدایت بھی کوئی وقتی ہدایت نہیں بلکہ مستقل ہدایت ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسانوں میں سے تفرقہ دور ہوتا ہے.عورتوں میں خصوصاً اعلیٰ لباس کی بہت پابندی ہوتی ہے اور اس میں ان کی طرف بڑے بڑے اسراف ہو جاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض گھر عورتوں کے لباس اور زیور کی وجہ سے ہی برباد ہو گئے ہیں.انگریز اقتصادی لحاظ سے بہت بڑی محتاط قوم ہے مگر ان میں بھی کی عورتوں کے لباسوں کے اخراجات کی وجہ سے بڑے بڑے امراء تباہ ہو جاتے ہیں.عورت بازار میں جاتی اور مختلف فیشنوں کے جنون میں ماری جاتی ہے.میں نے ایک دفعہ ایک ولائتی اخبار میں لطیفہ پڑھا کہ فرانس میں جہاں فیشن کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ایک عورت جو فیشن میں خاص طور پر مشہور تھی ایک دکان سے ایک ٹوپی خرید کر نکلی.اتفاق سے راستہ میں اُسے ایک فیشن کی ملکہ نظر آگئی.یورپ کے ہر ملک میں چار پانچ ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو فیشن کی ملکہ کہلاتی ہیں یعنی جو لباس وہ پہنیں وہی فیشن سمجھا جاتا ہے.ان کے لباس کے خلاف اگر کوئی عورت لباس پہنے تو اس کا لباس فیشن کے خلاف سمجھا جاتا ہے.جب اس نے اس فیشن کی ملکہ کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس نے اور قسم کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے.یہ دیکھ کر اس نے وہ نئی ٹوپی جو اس نے ابھی خریدی تھی سر سے اُتار کر اپنی بغل کے نیچے دبالی تا کہ کوئی اُسے اس ٹوپی کے ساتھ نہ دیکھ لے.یہ فیشن پرستی جنون بھی ہے اور قومی اتحاد کونی تباہ کرنے والی بھی.ہمارے ملک میں بھی جو مغربی لباس پہننے والوں کی نقل کرتے ہیں انہیں دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آدمی ہیں بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشینیں ہیں جن پر کپڑے لیٹے ہوئے ہیں.ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ کپڑے کو شکن نہ پڑ جائے ، اس پر داغ نہ لگ جائے ، اس میں سلوٹ نہ پڑ جائے.بھلا ایسے دماغ کو خدا کے ذکر کیلئے کہاں کی فرصت مل سکتی ہے.دماغ نے تو آخر ایک ہی کام کرنا ہے.جسے اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے یہی خیال رہتا ہو کہ پتلون کو شکن نہ پڑ جائے اس نے بھلا اور کیا کام کرنا ہے.اس کے دماغ کا
خطبات محمود ۶۶ سال ۱۹۳۸ بہت سا وقت تو اپنے لباس کی درستی میں ہی لگ جاتا ہے.درحقیقت اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہمارا دماغ اور تمام باتوں سے فارغ ہو اور یا تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہو یا بنی نوع انسان کی بہتری کی تدابیر سوچ رہا ہو.اور حق بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان باتوں میں ہمہ تن مشغول ہو تو اسے یہ موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ لباس کی درستی کی طرف توجہ کرے.میں نے دیکھا ہے کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھانا کھا رہا ہوتا ہوں اور اُدھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں.بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھا ئیں مگر میں کہتا ہوں میرے پاس اور کوئی وقت نہیں.پھر کئی دفعہ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کے لباس میں یہ نقص ہے، وہ نقص ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے تو اس بات کا احساس بھی نہیں.آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا کیوں خیال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم نے دیکھا ہے گو مخالف اس پر ہنسی کی اُڑاتے اور یہ کہتے ہیں کہ آپ نَعُوذُ باللہ پاگل تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کئی دفعہ بوٹ ٹیڑھا کی پہن لیتے ، دایاں بوٹ بائیں پاؤں میں اور بایاں بوٹ دائیں پاؤں میں.وہ نادان نہیں کی جانتے کہ جس کا دماغ اور باتوں کی طرف شدت سے لگا ہوا ہو اُسے ان معمولی باتوں کی طرف توجہ کی فرصت ہی کب مل سکتی ہے.اسی طرح کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ بٹن اوپر نیچے لگا لیتے یعنی اوپر کا بٹن نچلے بٹن کے کاج کی میں اور نیچے کا بٹن اوپر کے بٹن کے کاج میں لگا دیتے.میرا بھی یہی حال ہے کہ دوسرے کی تیسرے دن بٹن اوپر نیچے ہو جاتے ہیں اور کوئی دوسرا بتا تا ہے تو درستی ہوتی ہے.گو بوٹ کے متعلق اب تک میرے ساتھ ایسا کبھی واقعہ نہیں ہوا کہ بایاں بوٹ میں نے دائیں پاؤں میں پہن لیا ہو اور دایاں بوٹ بائیں پاؤں میں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میرے پاؤں پر بھنوری ہے اور ڈاکٹر نے مجھے بچپن سے ہی بوٹ پہننے کی ہدایت کی ہوئی ہے.اور چونکہ بچپن سے ہی مجھے بوٹ پہننے کی عادت ہے اس لئے ایسا کبھی اتفاق نہیں ہوا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو اکثر ایسا ہوا کہ چلتے چلتے آپ کو ٹھو کر لگتی اور کوئی دوسرا دوست بتا تا کہ حضور نے گر گابی اُلٹی پہنی ہوئی ہے اور آخر آپ نے انگریزی جوتی پہنی بالکل ترک کر دی.تو انسانی دماغ جب ایک طرف سے فارغ ہو سبھی دوسرا کام کر سکتا ہے.اگر ہم اپنے دماغ کو ان کی
خطبات محمود ۶۷ سال ۱۹۳۸ء چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف لگا دیں تو اسلام کی ترقی کے کام ہم کب کرسکیں گے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کھانے اور لباس میں انسان کو سادگی کا حکم دیا تا کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھنے کی بجائے اہم امور کی طرف توجہ کرے.پس لباس کے متعلق بھی میں سمجھتا ہوں کہ جو قیود میری طرف سے عائد کی گئی تھیں ان کا قائم رکھنا ضروری ہے.فیتوں کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ آیا اس کے متعلق عورتوں پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اُس کا وقت گزر گیا ہے یا ابھی جاری ہے؟ سو اس کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پابندی بہر حال قائم ہے کیونکہ کپڑے خواہ کتنے گراں ہوں ایک لمبے عرصہ تک کام دے سکتے ہیں.مگر فیتے چونکہ لباس پر صرف ٹانکے جاتے ہیں اور ہر روز بدلے جاسکتے ہیں اس لئے ہر نئے فیشن کو دیکھ کر عورتیں ریجھ جاتی ہیں اور نیا فیتہ خرید کر پہلے فیتے کی جگہ لگا لیتی ہیں اور میرا تجربہ ہے کہ کپڑوں پر اتنی قیمت نہیں لگتی جتنی کہ ایک فیشن پرست عورت کے فیتوں پر ، کیونکہ فیتے بدلتے چلے جاتے ہیں.پس مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس میں تغییر کروں.بلکہ میں کہتا ہوں کہ ہمیں آہستہ آہستہ ابھی بعض اور قید میں اس بارہ میں بڑھانی پڑیں گی لیکن چونکہ میں ابھی تک ان امور کے متعلق غور کر رہا ہوں اس لئے ابھی ان کا ذکر نہیں کرتا.زیورات کے متعلق میں یہ اجازت دے چُکا ہوں کہ شادی بیاہ کے موقع پر نیا زیور بنوانا جائز ہے.اس کے علاوہ کسی موقع پر نہیں اور در حقیقت زیور اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ شادی کے بعد خاص طور پر بنوایا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خاص طور پر زیور بنوانے کا کوئی رواج نہیں تھا.ہاں ٹوٹے پھوٹے زیور کی مرمت کی اجازت میں پہلے بھی دے چکا ہوں اور اب بھی وہ اجازت قائم ہے لیکن ٹوٹے پھوٹے زیور کے بنوانے کے یہ معنے نہیں کہ ایک زیور تر واکر دوسرا زیور بنوا لیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے زیور کی محض مرمت کرائی جائے.مجھے معلوم ہے کہ عورتیں زیورات کو توڑ پھوڑ کر بعض کی دفعہ زیور کی قیمت سے بھی زیادہ اس پر خرچ کر دیتی ہیں.پس تو ڑنے پھوڑنے کی مرمت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ گلے کا زیور ہاتھ کا بنا لیا جائے اور ہاتھ کا زیور گلے کا بلکہ اس سے مرا دصرف ٹوٹے ہوئے زیور کی معمولی مرمت ہے تا کہ وہ کام دے سکے.
خطبات محمود ۶۸ سال ۱۹۳۸ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گوز یور کیلئے سونا بھی کم ہوتا تھا مگر اس فرق کو کی مد نظر رکھتے ہوئے بھی زیور کا جس قدر رواج تھا کہا جا سکتا تھا کہ سونے کی نسبت سے بھی کم تھا.اُس وقت زیورات کی اتنی کمی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کے متعلق آتا ہے کہ ان کا زیور محض یہ تھا کہ ان کے پاس ایک ہار تھا جو لونگوں اور بعض دوسرے خوشبو دار بیجوں سے بنا ہوا تھا اور وہ بھی کسی سے عاریتاً لیا ہو ا تھا.ہمارے ملک میں بھی زمیندار عورتیں کھوپرے کے ٹکڑوں اور خربوزوں کے بیجوں کے ہار بنالیتی ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی خوشبو کے لئے مختلف قسم کے بیجوں اور رنگوں کو اکٹھا کر کے ایک ہار بنایا ہو اتھا.در حقیقت زیور اقتصادی لحاظ سے ایک نہایت ہی مضر چیز ہے کیونکہ اس میں قوم کا روپیہ بغیر کسی فائدہ کے پھنس جاتا ہے اور دراصل یہی وہ سونا چاندی اکٹھا کرنا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں قیامت کے دن اس سونا چاندی کو گرم کر کے ان کے جسم پر داغ لگایا جائے گا.یوں قرآن مجید رو پی رکھنے کی ممانعت نہیں کرتا.اگر روپیہ جمع کرنا منع ہوتا تو اسلام میں زکوۃ کا مسئلہ بھی نہ ہوتا.پس روپیہ جمع کرنا کی منع نہیں بلکہ ایسا روپیہ جمع کرنا منع ہے جو دنیا کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے.ایک شخص کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہو اور وہ تجارت پر لگا ہوا ہو تو پانچ دس سو لوگ ایسے ہوں گے جو اس کے روپیہ کی سے فائدہ اُٹھا رہے ہوں گے.پس بڑے تاجر کا روپیہ یا بڑے زمیندار کا روپیہ بند نہیں کہلا سکتا.مثلاً ایک زمیندار کے پاس اگر دو چار سو ایکڑ زمین ہے تو چونکہ وہ اکیلا اس زمین میں ہل نہیں چلا سکے گا اس لئے لازماً وہ اور لوگوں کو نوکر رکھے گا اور اس طرح بارہ تیرہ آدمی بلکہ بہ شمولیت بیوی بچوں کے ساٹھ ستر آدمی کا اس کی زمین سے گزارہ چلے گا اور تمام قوم کو فائدہ پہنچے گا.لیکن اگر وہ سو دو سو ایکٹر زمین کی بجائے اتنے روپیہ کا سونا خرید کر گھر میں رکھ لیتا ہے تو کسی ایک شخص کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.تو اپنے روپیہ کو ایسے استعمال میں نہ لانا جس کا دنیا کو فائدہ کی پہنچے، اسلام سخت نا پسند کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہی قیامت کے دن سزا دینے کا خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے.چونکہ زیورات کے ذریعہ بھی روپیہ بند ہو جاتا ہے اور قوم کے کام نہیں آتا اس لئے زیورات کی کثرت بھی ناپسندیدہ امر ہے.ہاں عورت کی اس کمزوری کو مد نظر
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء رکھتے ہوئے کہ وہ زیور پسند کرتی ہے اور جس کا قرآن کریم نے بھی يُنَشَّوانِى الْحِلْيَةِ میں ذکر فرمایا ہے اسے تھوڑا سا زیور پہنے کی اجازت ہے.اسی طرح ریشیم اللہ تعالیٰ نے مردوں کیلئے منع کیا ہے مگر عورتوں کیلئے اس کا پہننا جائز رکھا ہے.اس طرح اسلام نے عورت کا یہ حق کیا ہے کہ وہ کچھ زیور پہن کر اور کچھ ریشمی لباس میں ملبوس ہو کر زیب وزینت کر سکتی ہے اس لئے میں نے یہ اجازت دی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر کچھ زیور بنوا لیا جائے لیکن اس کے بعد کسی نئے زیور کے بنوانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی سوائے خاص حالات اور اجازت کے.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ٹوٹے پھوٹے زیور کی مرمت کرالی جائے کیونکہ زیورات ملک کی تجارت اور زراعت اور صنعت و حرفت کی ترقی میں سخت روک ہیں اور اس طرح ملک کا کروڑوں روپیہ بغیر کسی فائدہ کے بند پڑا رہتا ہے اور کسی قومی یا ملکی فائدہ کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا.ایک عورت اگر اپنے پاس دس ہزار روپیہ کا زیور بھی رکھ لیتی ہے تو کسی کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر وہ دس ہزار روپیہ تجارت میں لگا دیتی ہے اور پندرہ میں آدمی پرورش پا جاتے ہیں تو اس سے ملک اور قوم کو بہت بڑا فائدہ پہنچے گا اور گو اس صورت میں اس کو بھی نفع ملے گا لیکن یہ نفع دوسروں کو نفع میں شامل کر کے ملے گا.اس لئے شریعت اس کی اجازت دے گی.تو اسلام روپیہ کے استعمال کی وہ صورت پسند کرتا ہے جسے لوگ استعمال کریں.وہ صورت پسند نہیں کرتا جس میں آنکھیں اسے دیکھ دیکھ کر لذت حاصل کریں مگر لوگ اس کے فائدہ سے محروم کی ر ہیں.پس زیورات کے بنوانے میں جس قدر احتیاط کی جاسکے وہ نہ صرف امارت وغربت کا امتیاز دور کرنے کیلئے ، نہ صرف مذہبی احکام کی تعمیل کرنے کیلئے بلکہ اپنے ملک کو ترقی دینے کیلئے بھی نہایت ضروری ہے.پس یہ احکام ایسے نہیں جنہیں بدلنے کی ضرورت ہو.بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت ان میں زیادہ سختی کی ضرورت پیش آجائے.اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر حکومت مسلمان ہو یا اسلامی احکام کے نفاذ کی اجازت اس کی طرف سے ہو تو ایسی کئی قیود لگانی پڑیں گی جن کے ماتحت افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے کیونکہ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو کھانا ضرور مہیا ہو ، پانی ضرور مہیا ہو ، لباس ضرور مہیا ہو اور مکان ضرور مہیا ہو.اور جب بھی اسلام کا یہ مقصد پورا ہوگا لازماً امیروں کے ہاتھ سے دولت چھینے گی کیونکہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اگر دولت بعض لوگوں کے ہاتھ میں بے اندازہ طور پر چلی جائے تو حکوت سب کیلئے کھانا پینا، لباس اور مکان کس طرح مہیا کر سکتی ہے.پس جب بھی اسلامی حکومت قائم ہوئی اسے ضرور ایسے تغیرات کرنے پڑیں گے جن کے ماتحت ہر شخص کیلئے کھانا پینا کپڑا اور مکان مہیا ہو سکے گا.بلکہ اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک اور چیز بھی اس میں شامل کرنی پڑے گی اور وہ علاج کی ہے.اس زمانہ میں بیماریوں کا علاج اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ میرے نزدیک علاج بھی حکوت کے ذمہ ہونا چاہئے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ بتایا ہے کہ تعلیم بھی اسی میں شامل ہے.چنانچہ بدر کے موقع پر جب کفار کے بہت سے قیدی آئے تو ان میں سے بعض پڑھے لکھے تھے.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مدینہ کے بچوں کو پڑھا دو تو تمہاری طرف سے یہی فدیہ سمجھا جائے گا اور تمہیں اس کے بدلہ میں رہا کر دیا جائے گا.۵ تو تعلیم ، علاج ، کھانا، پینا، کپڑا اور مکان یہ دنیا کے تمام لوگوں کو میسر آنا چاہئے.اور اگر کوئی ملک کی ایسا ہے جس میں ایک شخص تو اپنا علاج کراسکتا ہے مگر دوسرا بیماری سے ہر وقت کراہتا رہتا ہے، ایک شخص تو اپنے لئے کپڑے مہیا کر سکتا ہے مگر دوسرا سردیوں اور گرمیوں میں ننگے بدن پھرتا ہے، ایک شخص تو مکان میں رہتا ہے مگر دوسرے کو اپنا سر چھپانے کیلئے ایک جھونپڑی بھی میسر نہیں تو وہ ملک کبھی جنت نہیں کہلا سکتا بلکہ وہ دوزخ ہے.ہزاروں آدمی ہمارے ملک میں ایسے ہیں جو بڑھے ہو جاتے ہیں، اُن کی بیوی پہلے فوت ہو چکی ہوتی ہے اور ان کا کوئی بچہ نہیں ہوتا جوان کی خبر گیری کرے، وہ اکیلے اپنی کوٹھڑی میں دن رات پڑے رہتے ہیں، نہ انہیں روٹی دینے والا کوئی ہوتا ہے نہ اُنہیں پانی دینے والا کوئی ہوتا ہے ، نہ اُن کی بلغم اٹھانے والا کوئی ہوتا ہے، نہ اُن کا علاج کرنے والا کوئی ہوتا ہے.یہ کتنے غضب اور کتنی لعنت کی بات ہے اُس قوم کیلئے جس کی قوم میں ایسے افراد موجود ہوں.مگر یہ تمام باتیں اسلامی طریق عمل اختیار کرنے سے ہی دور ہوسکتی ہیں، اس کے بغیر نہیں.اور اس وقت لازمی طور پر اُن ٹیکسوں پر حکومت کا گزارہ نہیں ہو سکے گا جو ٹیکس حکومت کی طرف سے اب وصول کئے جاتے ہیں.پس اُس وقت اسلامی حکومت کو بعض نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے اور امراء سے زیادہ روپیہ وصول کرنا پڑے گا جیسا کہ اسلامی اصول اس بارے میں موجود ہیں اور پھر اس روپیہ سے غرباء کی خبر گیری کرنی کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ پڑے گی لیکن جب تک اسلامی حکومتیں قائم نہیں ہوتیں ہمیں اس مقصد کیلئے تیاری تو کرنی چاہئے.ہمیں کیا پتہ کہ کب خدا تعالیٰ حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور وہ دوڑتے ہوئے اسلامی احکام کو دنیا میں قائم کرنے لگ جائیں.فرض کرو ایک دن ایسا آتا ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ بھی اور وزراء بھی اور امراء بھی اور بڑے بڑے جرنیل بھی سب اسلام قبول کرنے کیلئے تیار ہیں تو بتاؤ کیا ہم اُس وقت تیاری کریں گے یا ہمیں آج سے می ہی تیاری شروع کر دینی چاہئے.پس ہمیں اس عظیم الشان مقصد کیلئے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قائم کیا ہے تیار رہنا چاہئے اور تجربہ سے ان احکام کی باریکیوں کو پہلے سے دریافت کر چھوڑنا چاہئے اور اپنی قربانیوں سے اسلام کے احکام کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں اور حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور پھر وہ اسلامی احکام کے اس حصہ کی تکمیل شروع کر دے جس کی تکمیل کرنی اس وقت ہمارے لئے ناممکن ہے.چندوں کی وصولی کا جو طریق موجودہ حالت میں ہم جماعتی طور پر اختیار کئے ہوئے ہیں وہ کی یقیناً ایسا نہیں کہ اس سے وہ تمام ضرورتیں پوری ہوسکیں جن ضرورتوں کو پورا کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے.دوسرے موجودہ حالت میں ہمارا بہت سا روپیہ تبلیغ پر خرچ ہورہا ہے اور ہونا چاہئے.پس ان وجوہ سے ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں بھی جہاں صرف چند ہزار نفوس ہیں، اس اسلامی طریق کو کہ ہر شخص کو کھانا ، مکان اور لباس وغیرہ بہر حال میسر ہو جاری نہیں کر سکتے بلکہ ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو جھٹ ایک منافق شور مچانے لگ جاتا ہے اور ہمارا کچھ روپیہ اس منافق کی آواز کو دبانے اور اس کے فتنے کو دور کرنے میں خرچ ہونے لگتا ہے.پس تحریک جدید کے یہ مطالبات ایسے نہیں جنہیں اب منسوخ کر دیا جائے یا ایک عرصہ کے بعد منسوخ کر دیا جائے.ہاں ان مطالبات میں تغیر ہوسکتا ہے کیونکہ تفصیلات کے متعلق اسلام نے ہر زمانہ کے اہل الرائے پر معاملہ کو چھوڑا ہے اور اجتہاد کی اجازت دی ہے.پس اجتہاد بدل بھی سکتا ہے لیکن اصول بہر حال یہی رہے گا جو تحریک جدید کے مطالبات میں ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو، سادہ کھانا کھاؤ ، سادہ لباس پہنو اور آرائش وزیبائش کے سامانوں
خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۸ء سے الگ ہو جاؤ.کیونکہ اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہمارا روپیہ زیورات وغیرہ کی صورت میں بند نہ ہو بلکہ قوم کے فائدہ کے کاموں پر لگا ہوا ہو.اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ امیر اور غریب میں کوئی فرق نہ رہے، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں ، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہماری ایک دوسرے سے ایسی محبت و الفت ہو کہ ہم ایک کی دوسرے سے پرے پرے نہ رہیں اور یہ نہ بجھیں کہ ہم کچھ اور چیز ہیں اور وہ کچھ اور چیز ہے.میں ایک دفعہ گورداسپور کا فارم دیکھنے گیا.اس فارم کا جو افسر ہوتا ہے اس کا عہدہ ڈپٹی کلکٹر کے برابر ہوتا ہے.اس افسر نے مجھے تمام فارم دکھایا لیکن میں نے دیکھا کہ سڑک پر چلتے چلتے جب زمیندار سامنے آجاتے تو وہ اسے فرشی سلام کر کے گود کر ایک طرف ہو جاتے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے انہیں ہنس کر کہا کہ آپ کے صیغے کا کوئی فائدہ نہیں.کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا جن زمینداروں کے فائدہ کیلئے آپ کام کر رہے ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ کی آپ کو دور سے دیکھتے ہی کو ذکر الگ ہو جاتے ہیں.بھلا ایسے لوگ آپ سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور آپ ان کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں.چنانچہ اس کے بعد میں نے سرایڈورڈ میکلیگن کو جو اُس وقت گورنر پنجاب تھے پیٹھی لکھی کہ میں نے آپ کے ایک محکمہ کا اتفاقاً ملاحظہ کیا ہے جس کے ماتحت مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس محکمہ کا کوئی فائدہ نہیں.اگر آپ زمینداروں کو فائدہ پہنچانے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں تو اس کا طریق صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں والے افسر مقرر کریں جو گاؤں میں جائیں اور زمینداروں سے مل جل کر کام کریں.انہیں ہل چلا کر بتائیں اور نئے طریق زراعت کی طرف ان کی طبائع کو مائل کریں.اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ ایک بڑی تنخواہ والا افسر آپ نے مقرر کر دیا ہے جس کی شکل دیکھتے ہی زمیندار گود کر پرے ہو جاتے ہیں.چنانچہ انہوں نے میری اس تجویز کو بہت پسند کیا اور لکھا کہ میں اس پر غور کروں گا.چنانچہ اب چھوٹے چھوٹے افسر مقرر ہیں جو کھیت میں ہل چلا کر اور بیج بوکر کی زمینداروں کو دکھا دیتے ہیں.گو اب بھی اس سے پورا فائدہ نہیں پہنچ رہا مگر بہر حال اب چھوٹے افسر بھی مقرر ہو گئے ہیں اور زمیندار آسانی سے ان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں مگر اُس وقت صرف ڈپٹی ہی ڈپٹی ہوتا تھا کوئی چھوٹا افسر نہیں ہوتا تھا.
خطبات محمود ۷۳ سال ۱۹۳۸ء غرض اسلام یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں امتیاز کم ہوا اور محبت اور میل جول زیادہ ہو.ایک دفعہ ایک نہایت ہی غریب شخص نے میری دعوت کی.میں گیا.اُس بے چارہ کے پاس کوئی سامان نہ تھا.اُس نے ایک چارپائی بچھا دی اور اُس پر مجھے بٹھا کر شور با روٹی جو اسے میسر تھا اُس نے میرے سامنے رکھ دیا.اتفاق سے ایک باہر کے دوست بھی اُس وقت میرے ساتھ چل پڑے.جب میں کھانا کھا کر باہر نکلا تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ کیا آپ ایسے غریب کی دعوت بھی قبول کر لیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا اگر میں اس غریب شخص کی دعوت کو قبول نہ کرتا اور انکار کر دیتا تو آپ ہی یہ اعتراض کرنے والے ہوتے کہ یہ امیروں کی دعوت قبول کر لیتے ہیں، غریبوں کی دعوت قبول نہیں کرتے.مگر اب جبکہ میں نے دعوت قبول کر لی ہے تو آپ کے خیال کی نے یہ صورت اختیار کر لی ہے کہ ایسے غریب کے ہاں کھانا کھانا تو ظلم ہے.میں نے کہا اس کے کی ہاں کھانا کھانا ظلم نہیں تھا بلکہ انکار کرنا ظلم تھا.کیونکہ میرے انکار پر یہ ضرور محسوس کرتا کہ میں چونکہ غریب ہوں اس لئے انکار کیا گیا ہے.پس جو اعتراض اُس دوست نے کیا اُس کے بالکل کی الٹ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسی امارت نہ ہو جو غربت کو حقارت کی ج نگاہوں سے دیکھے اور کوئی ایسی غربت نہ ہو جو غریب کیلئے وبالِ جان بن جائے.یہ خیال بہت ڈور کا ہے.ایسا ہی دور جیسے دنیا میں جنت کا خیال.مگر ایک دفعہ اسلام اس مقصد کو پورا کر چکا ہے اور اب دوسری دفعہ اس مقصد کو پورا ہونا ناممکن نہیں.پس ضرورت ہے کہ ہم اس عظیم الشان مقصد کیلئے داغ بیل ڈالیں اور اس عظیم الشان محل کی بنیادیں رکھ دیں جس کی تعمیر اسلام کا منشاء ہے.بیشک ہمارے لئے بہت بڑی دقتیں ہیں.ہم دوسروں کے محکوم ہیں اور ہمارے لئے ان کے قواعد کی پابندی لازمی ہے اور بعض دفعہ ہماری ایک نیک خواہش کا بھی وہ یہ مفہوم لے لیتے ہیں کہ گویا ہم بادشاہ بننا چاہتے ہیں حالانکہ ہم کی بادشاہ نہیں بلکہ خادم بننا چاہتے ہیں.لیکن بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے بھی لازمی ہے کہ کوئی قانون جاری کیا جائے.اس قانون کا نام بادشاہت کی خواہش رکھ لینا انتہائی نادانی اور کی نا واقفیت ہے.ہماری غرض صرف یہ ہے کہ ایسے اصول دنیا میں جاری کر دیں جن کے ماتحت امارت و غربت کا امتیاز جاتا رہے اور بنی نوع انسان کو نہایت آرام سے خدا تعالیٰ کے ذکر اور
خطبات محمود ۷۴ سال ۱۹۳۸ء اپنی ترقی کیلئے جد و جہد کرنے کا موقع مل جائے.کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق میری خواہش ہے کہ انہیں اس وقت دور کر دینا چاہئے مگر وہ چونکہ حکومت سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے انہیں دور نہیں کیا جاسکتا.اگر اسلامی حکومت ہوتی تو میں کہتا کہ ان باتوں کو ابھی دور کر دو مگر چونکہ حکومت غیر ہے اس لئے محبت، پیار اور آہستگی کے ساتھ قدم آگے بڑھانا ضروری ہے اور اُس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ ہمارے حاکموں کے دلوں کو کھول دے.ورنہ ان احکام کی ضرورت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے قائم تھی.سادہ زندگی کے متعلق آجکل ہمیں ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایام سلسلہ کیلئے سخت نازک ہیں اور جماعت نے کئی قسم کے چندوں کے وعدے کئے ہیں جن کا اثر ایک دو سال تک رہے گا.پس اس لحاظ سے بھی یہ نہایت ہی ضروری امر ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے.اگر ایک باپ کا اپنے بچوں کے اخراجات پر یا خاوند کا اپنی بیوی کے زیورات پر اُسی طرح روپیہ خرچ ہو رہا ہے جس طرح پہلے خرچ ہوا کرتا تھا تو اسے دین کی خدمت کا موقع کس طرح مل سکتا ہے.اگر وہ زیورات پر روپیہ خرچ کرے گا تو دین کی خدمت سے محروم رہے گا اور اگر دین کیلئے روپیہ دے گا تو لازماً اسے سادہ زندگی اختیار کرنی پڑے گی اور بعض قیود اپنے او پر عائد کرنی ہوں گی.پس اس زمانہ میں ان مطالبات پر عمل کرنا بہت زیادہ ضروری ہے اور پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے.میں جہاں تک سمجھتا ہوں جماعت کا ایک بڑا حصہ دیانت داری سے ان احکام پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے امراء میں سے بھی اور غرباء میں سے بھی اور بعض سست بھی ہیں.مجھے بعض امراء ایسے معلوم ہیں جنہوں نے سختی سے ان مطالبات پر عمل کیا ہے اور سادہ زندگی کے متعلق اپنے اوپر قیود عائد کی ہیں اور مجھے بعض غرباء ایسے معلوم ہیں جنہوں کی نے کہا ہے کہ ایک کھانا کھانا یہ کون سی شریعت کا حکم ہے حالانکہ یہ محض ان کے فائدہ کی بات تھی اور پھر وہ تو پہلے ہی ایک کھانا کھایا کرتے تھے.انہیں تو چاہئے تھا اس مطالبہ کی تائید کرتے نہ کہ مخالفت.مگر انہوں نے مخالفت کی اور اس پر عمل نہ کیا.گویا ان لوگوں کی مثال جنہوں نے غرباء میں سے اس مطالبہ پر عمل نہ کیا ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے دوست کی کٹیا نے بچے دیے.اسے معلوم ہوا تو وہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا میں نے سنا ہے آپ کی کنیا نے کی
خطبات محمود ۷۵ سال ۱۹۳۸ بیچے دیئے ہیں.اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو ایک کتیا کا بچہ مجھے دے دیں کیونکہ مجھے مکان کی نگرانی کیلئے اس کی ضرورت ہے.وہ کہنے لگا بھئی! بچے تو مر گئے ہیں لیکن اگر زندہ بھی ہوتے تو میں تمہیں نہ دیتا.وہ کہنے لگا اب تو خدا نے بچے مار دیئے تھے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زندہ ہوتے تب بھی نہ دیتا.اسی طرح وہ غرباء تو پہلے ہی ایک کھانا کھاتے ہیں اگر وہ ایک کھانا کھانے کی ہدایت پر اعتراض کریں تو ان کا اعتراض محض بیوقوفی ہے.انہیں تو چاہئے تھا کہ وہ امراء کے خلاف شور مچاتے اور کہتے کہ فلاں فلاں امیر اس پر عمل نہیں کرتا اور وہ ایک سے زائد کھانے کھاتا ہے.نہ یہ کہ وہ اس بات پر اعتراض کرتے جس میں خود انہی کا فائدہ ہے.اس کے مقابلہ میں میں ایسے امراء کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے بعض ہدایات پر عمل نہیں کیا اور ایسے غرباء کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے خاص قربانی کر کے بعض ہدایات پر عمل کیا ہے اور جنہیں مہینوں ایک کھانا کھانے کے بعد جب کسی وقت اتفاقی طور پر دو کھانے ملے تو انہوں نے ایک کھانا ہی کھایا اور دوسرا کھانا چھوڑ دیا.ان کی قربانی یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت شاندار قربانی ہے اور وہ اس کے اجر سے محروم نہیں رہیں گے.یا درکھو! اس وقت ہمارے ارد گر د اتنے ابتلاؤں کے سامان ہیں کہ ہمیں سپاہیانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے اور اپنی تمام زندگی کو مختلف قسم کی قیود کے ماتحت لانا چاہئے.دنیا چاہتی ہے کہ احمدیت کو مٹا دے لیکن خدا یہ چاہتا ہے کہ احمدیت کو قائم کرے اور یقیناً ویسا ہی ہوگا جیسا کہ خدا کا منشاء ہے.مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ تم سچے مسلمان بن کر اپنے اندر ایسی سادگی پیدا کرو جو تمہارے اندر مساوات پیدا کر دے، جو تمہارے اندر اخلاق فاضلہ پیدا کر دے، جو تمہارے اندر اُلفت و محبت پیدا کر دے اور جو تمہارے اندر برادرانہ اخوت و تعلق پیدا کرنے کا موجب ہو جائے تا اس کے بعد ایک طرف سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو تو دوسری طرف کی سے خود تمہارے اندر ایسی طاقت اور قوت پیدا ہو جائے کہ جو بھی تمہارے سامنے آئے اسے اپنے آگے سے بھگا دو.دیکھو! پہلوان جب اپنے شاگردوں کو کشتی لڑنا سکھاتے ہیں تو گو ان کے شاگر د دس دس ہیں ہیں ہوتے ہیں مگر وہ اکیلے سب کو گرا لیتے ہیں.اسی طرح اگر تم بھی مجاہدات کرو گے تو تی
خطبات محمود ۷۶ سال ۱۹۳۸ء تمہارے اندرایسی طاقتیں پیدا ہو جائیں گی کہ تم دس دس ، بیس ہیں دشمنوں کا مقابلہ کر سکو گے.جس طرح دنیوی ریاضات کے نتیجہ میں ایک ایک جسم دس دس جسموں کو گرا لیتا ہے اسی طرح کی جب روحانی ریاضات کی جاتی ہیں تو اپنی اپنی ریاضت اور اپنے اپنے مجاہدہ کے مطابق کوئی روح دس بدروحوں کو گرا لیتی ہے، کوئی بیس کو گرا لیتی ہے، کوئی پچاس کو گرا لیتی ہے، کوئی سو کو گرالیتی ہے، کوئی ہزار کو گرا لیتی ہے اور جب کسی قوم میں زبر دست روحانی طاقت وقوت پیدا ہو جائے اُس وقت تعداد کا سوال بالکل اہمیت کھو بیٹھتا ہے.اُس وقت یہ نہیں پوچھا جاتا کہ دشمن کی ایک کے مقابل پر دس ہیں یا نہیں بلکہ ایسی روحانی طاقت حاصل کرنے والی قوم کے تھوڑے سے آدمی ساری دنیا پر غالب آجاتے ہیں.مثل مشہور ہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ بلی کو پکڑ کر قید کر دیا جائے.دس ہیں نے کہا کہ ہم اُس کا کان پکڑ لیں گے، دس ہیں نے کہا کہ ہم اُس کی دُم پکڑ لیں گے ، دس ہیں نے کی کہا ہم اُس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے، اس طرح سینکڑوں چو ہے تیار ہو گئے اور انہوں کی نے کہا کہ آج بلی آئی تو ہم اسے جانے نہیں دیں گے.یہ باتیں ہوہی رہیں تھیں کہ ایک بڑھے چوہے نے کہا تم سب کچھ پکڑ لو گے مگر یہ تو بتاؤ کہ اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا ؟ اتفاقاً اُسی وقت ایک کونے میں سے ایک بلی کی آواز آئی جو وہاں چھپی بیٹھی تھی.اُس نے میاؤں جو کی تو کی تمام چو ہے بھاگ کر اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے.غرض انسان کے اندر جب غیر معمولی یقین پیدا ہو جائے تو دنیا اُس سے دبنے لگتی ہے اور یہ ایک صوفیانہ نکتہ ہے جو تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ انسان کے اندر ایک میں ہوتی ہے جب وہ میں پاک ہو جائے تو باقی تمام دنیا کی میں اُس کے آگے دَب جاتی ہے.اُس وقت جسموں اور تعداد کا کوئی سوال نہیں رہتا بلکہ جس طرح ایک شیر کے مقابلہ میں ہزاروں خرگوش کوئی حقیقت نہیں رکھتے اسی طرح ایسی روحانی طاقت رکھنے والے انسان کے سامنے ہزاروں کیا لا کھوں نفوس بھی بے حقیقت ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانیت سے خالی ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو پیدا کرنا ہمارا مقصود ہے.ہماری اصل غرض نہ ایک کھانا کھانا ہے، نہ سادہ کپڑا پہننا ہے ، نہ یہ ہے نہ وہ بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسی روحانی طاقت پیدا ہو جائے جس کے نتیجہ میں ہم میں کی
خطبات محمود LL سال ۱۹۳۸ء اخوت اسلامی پیدا ہو جائے ، ہم میں حجرات اسلامی پیدا ہو جائے.اور جب وہ پیدا ہوگئی تو ایک طرف ہمارے اندر کوئی فتنہ پیدا نہیں ہو سکے گا اور دوسری طرف دشمن ہمیں دبا نہیں سکے گا کیونکہ ہمارے اندر قوت روحانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہوگا اور چشمہ کبھی خشک نہیں ہو سکتا.جس طرح ایک چشمہ سے تم جس قدر پانی نکا لو وہ خشک نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اسی طرح جو لوگ روحانی اور اخلاقی ورزشوں سے اپنے اندر قوت پیدا کر لیتے ہیں وہ کی روحانیات کا چشمہ بن جاتے ہیں.جب دشمن اس میں سے کچھ پانی چرا کر لے جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب پانی ختم ہو گیا، اُس چشمہ کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی بھرا رہتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سادہ زندگی کی طرف متوجہ ہوں اور بجائے اس کے کہ وہ ان قیود کو کم کرنے کی کوشش کریں انہیں چاہئے کہ وہ زیادہ تعہد کے ساتھ ان مطالبات پر عمل کریں.بلکہ جن لوگوں نے گزشتہ سالوں میں ان مطالبات پر عمل کرنے کی میں کوئی کوتاہی کی ہے اُنہیں بھی اس طرف لانے کی کوشش کریں.تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی کی برکتیں نازل ہوں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے راستے میں جو مشکلات حائل ہیں وہ دُور ہو جائیں اور خدا اور اس کے رسول کا جلال دنیا میں ظاہر ہو.“ (الفضل ۱۱ فروری ۱۹۳۸ء) بخارى كتاب النكاح باب نهى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَن نكاح الْمُتْعَةِ أَخِيرًا مسلم كتاب القيام باب تحريم صوم ايام التشريق (الخ) ترفہ: آسودگی.دولتمندی ۵ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۰۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ل يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا في نَارِ جَهَنَّمَ فَتُغوى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وظُهُورُهُمْ (التوبة: ۳۵) ك الزخرف:١٩ زرقانی جلد ۲ صفحه ۳۲۴.حاشیہ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
خطبات محمود ۷۸ 1 سال ۱۹۳۸ جمعہ کے اجتماع میں دو سبق فرموده ۱۱ فروری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ عیدا گر جمعہ کے دن ہو تو اگر چہ نماز ظہر ادا کرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا.جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دوسبق یئے گئے ہیں.ایک تو قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف.خطبہ کیلئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کر دی ہے اور اس طرح تبلیغ کی اہمیت بتادی ہے اور جمعہ کے اجتماع میں قومی اتحاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.دراصل حق کے مخالفین ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ صداقت کے ماننے والوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کر دیں اور اس طرح انہیں بددل کر کے جماعت کی طاقت کو توڑ دیں.مگر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز اجتماع کا حکم دے کر اتحاد کی اہمیت واضح کی ہے.جماعت احمدیہ کے مخالفین بھی ہمیشہ یہ کوشش کرتے آئے ہیں کہ جماعت میں تفرقہ پیدا کر کے اسے کمزور کریں اور اس کی کیلئے وہ کئی قسم کی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں.جب مستریوں نے فتنہ اُٹھایا تو وہ یہی کہتے تھے کہ جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور بہت جلد ظاہر ہونے والے ہیں.مگر اس پر قریباً دس سال کا عرصہ گزرچکا ہے اور کوئی بھی ظاہر نہیں ہوا.ان سے بھی پہلے بہائیوں کا فتنہ تھا.ان کی طرف سے بھی یہی آواز بلند کی جاتی تھی کہ تمام
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں.حتی کہ ایک دوست حکیم ابوطاہر صاحب نے جو تھوڑا ہی عرصہ ہو ا فوت ہو گئے ہیں اور جماعت احمدیہ کلکتہ کے امیر تھے اور اُس زمانہ میں یہاں آئے ہوئے تھے ، سخت گھبراہٹ میں مجھے ایک خط لکھا کہ خدا کے واسطے ان لوگوں کے اخراج کی از جماعت کا اعلان نہ کریں.میں نے بہت ہی معتبر ذریعہ سے سُنا ہے ( یہ معتبر ذرائع وہ خود بہائی خیالات کے دو تین آدمی ہی تھے جنہوں نے ان سے مل کر کہا اور انہوں نے بوجہ نا واقفی کے انہیں معتبر سمجھا ) کہ جماعت کے کئی بڑے بڑے لوگ ان کے ساتھ ہی جماعت سے اخراج کا اعلان کرنے کو تیار ہیں بلکہ مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہو ا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب بھی اُسی وقت کہیں گے کہ میں بھی بہائی ہوں اور ان ہی کے ساتھ جاتا ہوں.میں نے ان کو جواب میں لکھا کہ حق کے معاملہ میں کسی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں.اگر ساری جماعت کے لوگ بھی کہہ دیں کہ ہم جاتے ہیں تو میں کہوں گا کہ بے شک جاؤ.میرا اور آپ کا تعلق محبت کا ہی تعلق تھا اور اگر وہ قائم نہیں رہا تو جاؤ مگر ان کی یہ سب باتیں بالکل غلط ثابت ہوئیں.میں نے حافظ صاحب مرحوم سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا تھا.مگر انہوں نے بڑے زور سے ان لوگوں کو خارج کرنے کی حمایت کی اور بعد میں بھی بڑی مضبوطی کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کرتے رہے.اس کی فتنہ سے پہلے پیغامی فتنہ شروع ہوا تھا.اس میں بھی بعینہ یہی قصہ گزرا تھا.یہ لوگ بھی جب الگ ہوئے تو یہی کہتے تھے کہ سب جماعت ہمارے ساتھ ہے اور بیعت کرنے والے تو چند ایک تنخواہ دار ملازم ہی ہیں یا قادیان کے دست نگر لوگ اور ایسی باتوں سے ان کی غرض یہی تھی کہ جماعت میں تفرقہ ڈال دیں اور جب یہ لوگ اس قسم کا پرو پیگنڈا کر رہے تھے ان کی اصلی حالت کی یہ تھی کہ ماسٹر عبد الحق صاحب مرحوم نے جو پہلے ان کے ساتھ تھے مگر بعد میں بیعت کر لی تھی ، سنایا کہ میں اور مولوی صدر الدین صاحب اور ایک تیسرا شخص لالٹین لے کر تمام رات پھرتے رہے کہ اگر چالیس آدمی ہمیں میسر آجائیں تو ایک اور خلیفہ بنادیں تا جماعت میں تفرقہ تو پیدا ہو جائے.مگر ہم دس بارہ سے زیادہ آدمیوں کو اس کیلئے آمادہ نہ کر سکے بلکہ ہمارے اپنے آدمیوں نے بھی یہی کہا کہ یہ کیا پاکھنڈ بنایا جا رہا ہے.اب مصری صاحب کا فتنہ ہے.یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت کے بہت سے لوگ تو دہریہ
خطبات محمود ۸۰ سال ۱۹۳۸ء ہو گئے ہیں اور جو دہریت سے بچ گئے ہیں ان میں سے کئی بڑے بڑے لوگ ان کے ساتھ ہیں.گویا جماعت تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے.کچھ حصہ تو دہر یہ ہو گیا ہے باقیوں میں سے مخلص اور سمجھدار طبقہ مصری صاحب کے ساتھ ہے اور بچے کھچے کچھ بیوقوف یا کچھ اہل غرض عقلمند یا ناواقف لوگ میرے ساتھ ہیں اور ایسی باتوں سے ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ تا ہر شخص یہی سمجھے کہ جماعت اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے.اسی طرح احرار کا فتنہ اُٹھا تو روز اس قسم کی اطلاعات کی آتی تھیں کہ ہوشیار رہیے کہ آج اطلاع ملی ہے کہ احرار نے میاں بشیر احمد صاحب کو قابو کر لیا ہے، آج خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مولوی عنایت اللہ کو خط لکھا ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ، آج چوہدری فتح محمد صاحب نے احرار کو پیغام بھیجا ہے کہ میں بھی خلیفہ سے بیزار اور تمہارے ساتھ ہوں.اسی طرح اب مصری صاحب کہہ رہے ہیں کہ فلاں شخص بھی ہمارے ساتھ ہے اور فلاں بھی اور اس سے ان کی غرض صرف یہ ہے کہ جماعت کے اندر فتنہ پیدا کیا جائے اور تفرقہ ڈالا جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان اور اس کے دوست مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ تمہاری طاقت ٹوٹ رہی ہے اور تم کمزور ہور ہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا ہے کہ اگر تم دشمن پر فتح پانا چاہتے ہو تو ا کٹھے ہو جاؤ اور ڈرو نہیں لے دشمن اگر زبر دست ہے تو کیا ، ہم نے تو اس کا مقابلہ نہیں کرنا، مقابلہ کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے.جماعت احمدیہ کا سہارا بندے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے اور اگر اس کی کے گرنے کا خطرہ ہے تو خدا تعالیٰ کو ڈرنا چاہئے جس کی یہ جماعت ہے ہماری تو ہے نہیں کہ ہم ڈریں.بندے کا کیا ہے وہ تو کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہو جائے گا.انسان کا فرض صرف یہ ہے کہ کہ وہ دیانت داری کے ساتھ کوشش کرے.اس کے بعد اگر دشمن زبر دست ہے اور اس وجہ سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے.لیکن یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر بندوں کو کوئی کامیابی ہو سکے.انسان کی مثال اللہ تعالیٰ کے مقابل پر ایسی بھی نہیں جیسی بیل کے مقابلہ پر مچھر کی.کہتے ہیں کسی بیل کے سر پر مچھر آ کر بیٹھ گیا بیل کو تو اس کا پتہ تک نہ لگا.مگر تھوڑی دیر کے بعد مچھر کہنے لگا کہ بھائی ! بیل تم بھی جانور ہو اور میں بھی جانور ہوں اس لئے تم سے ہمدردی رکھتا
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ہوں.اگر تم تھک گئے ہو تو مجھے بلا تکلف بتا دینا تا میں اُڑ جاؤں.بیل نے جواب دیا کہ بھائی ! کی مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ تم بیٹھے کب تھے.اس سے بھی بدتر حال اُس بندے کا ہے جو خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑا ہو جاتا ہے.وہ مچھر کی طرح بھنبھنا تا اور اس کے بندوں کو ڈنگ مارتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے میدان مارلیا.اور شروع میں بعض کمزور لوگ کچھ گھبراتے بھی ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خبر نہیں اب کیا ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا کچھ بھی نہیں.چند دن کا ایک شغل ہوتا ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی اُس زہر کا تریاق پیدا کر دیتا ہے اور لوگوں کی طبائع میں سکون پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ جب شیخ مصری صاحب الگ ہوئے تو بعض بڑے بڑے سمجھدار لوگ کہتے تھے کہ اب کیا ہوگا اور معلوم نہیں کتنے لوگ ان کے ساتھ جا ملیں گے.لیکن اب سوائے چند اشخاص کے جو پہلے سے ہی دل میں ان سے ہمدردی رکھتے چلے آئے ہیں ، کوئی کی نئی جماعت ان کے ہاتھ پر نہیں بنی اور اب تو بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس فتنہ کی طرف اس کی قدر توجہ کی ضرورت نہ تھی.یہ تو کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.پس صداقت کے مقابلہ میں جھوٹ ٹھہر انہیں کرتا اور غلبہ ہمیشہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے.ہم غیر احمد یوں ، ہندؤں اور سکھوں میں سے کتنے آدمی جیت کر لائے ہیں.اگر پانچ سات ہم میں سے الگ ہو گئے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو دوستوں کیلئے کسی افسردگی کا موجب ہو.فتح بہر حال احمدیت کی ہوگی.میں نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ مدرسہ احمد یہ والی گلی میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کبڈی کا میچ ہو رہا ہے.غیر احمدیوں کے سردار مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں.میری عمر اُس وقت گیارہ بارہ سال کی تھی اور میں نے مولوی محمد حسین صاحب کو دیکھا ہوا نہیں تھا اور جب بعد میں دیکھا تو ان کی جسمانی وضع بالکل ویسی ہی پائی جیسی خواب میں دیکھی تھی.سفید انگر کھانے پہنا ہوا تھا اور پگڑی تھی.تو میں نے دیکھا کہ ایک طرف پانچ سات احمدی ہیں اور دوسری طرف سینکڑوں غیر احمدی ہیں.مگر ان کی طرف سے جو کبڈی کہتا ہوا ادھر آتا ہے احمدی اسے پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں.کبڈی وہ ہے جسے پنجابی میں چھل کہتے ہیں.پس جو غیر احمدی احمدیوں کی طرف آتا ہے احمدی اسے پکڑ لیتے ہیں اور جب اس کا دم ٹوٹ جاتا ہے اسے ایک طرف بٹھا دیتے ہیں.گویا انہوں نے اس شخص کو جیت لیا ہے.کبڈی کی کھیل کی اصطلاح میں
خطبات محمود ۸۲ سال ۱۹۳۸ء اسے مرجانا کہتے ہیں.آہستہ آہستہ میں نے دیکھا مقابل کے سب آدمی ہی احمدیوں نے جیت لئے ، صرف مولوی محمد حسین صاحب رہ گئے.جب انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ ادھر چلے گئے ہیں تو انہوں نے دیوار کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور حد فاصل لکیر کے پاس آکر آہستہ سے قدم اس طرف رکھ دیا اور کہا کہ اچھا جب سارے آگئے ہیں تو میں بھی آجاتا ہی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد حسین صاحب کے رجوع کرنے کے متعلق جو لکھا ہے اس کے مطابق مولوی صاحب نے آخری عمر میں اپنے رویہ میں تبدیلی کرلی تھی.اپنے لڑکے بھی یہاں تعلیم کیلئے بھیج دیئے تھے.مجھے بھی بٹالہ میں ایک دفعہ ملنے آئے تھے اگر چہ ندامت کی وجہ سے اس کمرے میں سے صرف گزر گئے اور مجھ سے کلام نہیں کیا.لیکن آئے اسی غرض سے تھے کہ مجھے ملیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ تحریر فرمایا ہے اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخر میں مولوی صاحب جیسے کفر باز مولوی بھی تو بہ کر لیں گے.کیونکہ ائمہ سے مراد بعض دفعہ ان کے اتباع بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے مثیل لوگ بھی کی ہوتے ہیں.پس میری خواب کی تعبیر یہ ہو سکتی ہے کہ جس وقت غیر احمدی بکثرت جماعت میں داخل ہو جا ئیں گے اس وقت یہ مولوی لوگ بھی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے آئیں گے کہ ہم علماء تو پہلے ہی صداقت کو جانتے تھے.ہم تو اس لئے مخالفت کر رہے تھے کہ تا لوگوں میں کچھ بیداری کی پیدا ہو.تو میں نے بتایا ہے کہ جمعہ کی غرض اتحاد کا قیام ہے.بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ سیاسی اتحاد صرف ان اقوام کیلئے ضروری ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں حکومت ہو حالانکہ یہ صحیح نہیں.بلکہ روحانی جماعتوں میں تو یہ زیادہ ضروری ہوتا ہے.دوسری چیز جس میں جمعہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تبلیغ ہے.اگر ہماری جماعت تبلیغ میں لگی رہے تو چند سالوں میں جماعت میں نمایاں ترقی ہوسکتی ہے.پھر اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ افرادِ جماعت کیلئے علمی ترقی کا موقع کی پیدا ہوتا رہتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ قادیان کے لوگ چونکہ اکٹھے رہتے ہیں اور مخالفانہ اعتراضات سننے کا موقع ان کو نہیں ملتا اس لئے ان میں سے ایک طبقہ ایسا ہے کہ علمی لحاظ سے وہ بالکل کورے ہیں اور ان میں سے اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو وہ عام مسائل بھی معلوم نہیں کی
خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۸ء جو باہر کے زمیندار جانتے ہیں.یہاں کے لوگ اپنی ملازمتوں یا تجارتوں میں ہی لگے رہتے ہیں اور چونکہ جمعہ کے روز خطبہ ہو جاتا ہے اور علماء موجود ہیں جو تبلیغ کیلئے باہر جاتے اور یہاں بھی لیکچر دیتے رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طرف سے جب لڑنے والے موجود ہیں تو ہم کو کیا ضرورت ہے کہ مسائل سیکھیں.حالانکہ دین کی لڑائی میں کوئی کسی کی جگہ نہیں لڑسکتا.دنیا کی لڑائی میں تو تنخواہ دار ملازم آقا کی جگہ لڑ سکتے ہیں مگر دین کے معاملہ میں نہیں.دین میں ہر ایک کیلئے کی ضروری ہے کہ تبلیغ کرے ورنہ وہ علم سے بھی کو را ر ہے گا اور وَمَنْ كَانَ في هذةٍ أَعْمَى فَهُوَ في الأخرة أشمی سے جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا رہے گا.اگر کوئی شخص نورا سلام اور علیم دین سے واقف نہیں تو وہ قیامت کے روز اندھا ہوگا.یا درکھو کہ علم سے ہی نور پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کونور فرمایا ہے.ہے جس میں بینت من الھدی اور فرقان ہے اور جسے نور ہدایت معلوم نہیں ، اسلام کے غلبہ کے دلائل کا علم نہیں اسے خدا تعالیٰ سے محبت کیسے پیدا ہو سکتی ہے اور جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی کی محبت نہ ہو وہ اسے مل کیسے سکتا ہے.اور یہ قدرتی بات ہے کہ جو شخص تبلیغ کیلئے باہر نکلے گا اسے کی علمی مسائل کے متعلق کرید پیدا ہوگی اور علم دین کی طرف وہ زیادہ توجہ کرے گا.جو شخص جس پیشہ سے تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کی طرف وہ زیادہ توجہ کرتا ہے.کوئی ترکھان اگر کسی جگہ سے گزر رہا ہو اور کوئی گیلی پڑی ہوئی ہو تو اس کی نظر فوراً اس کی طرف جائے گی.کسی لوہار کو راستہ میں گھوڑے کا کوئی سم ہی گرا ہوا ملے تو وہ اسے اٹھا کر رکھ لے گا.لیکن دوسرے لوگ گزریں تو ان کا خیال بھی اس طرف نہیں جائے گا.شہری لوگ کھیتوں میں سے گزر جائیں تو کچھ خیال نہ کریں گے لیکن ایک زمیندار گزرے تو وہ یہ سوچتا جائے گا کہ اس میں سے اتنے من گندم نکلے گی اور اس میں سے اتنے من کیونکہ یہ اس کا کام ہے اور اس کی طرف کی اس کی توجہ ہے.اسی طرح جب انسان تبلیغ کرنے لگے تو قدرتی طور پر اس کی توجہ تعلیم دین کی کی طرف ہوگی.کوئی اعتراض کرے یا نہ کرے وہ خود بخو دسوچے گا اور اس طرح اس کا اپنا نور معرفت بڑھتا رہے گا اور پھر اس طرح خدا تعالیٰ سے اس کی محبت ترقی کرے گی.پس جمعہ میں دوسرا سبق یہ سکھایا گیا ہے کہ تبلیغ کرو.اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کا اپنا علم بڑھتا ہے.
خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۸ء بیسیوں مسائل ایسے ہیں کہ جو ہم مدرسہ میں پڑھتے تھے مگر باوجود یا د ہونے کے ان کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے.مگر جب بعد میں پڑھانے کا موقع ملا اور بچوں نے یا دوسرے لوگوں نے ان کے متعلق سوالات کرنے شروع کئے تو ان کی سمجھ آئی.تو علم صرف پڑھنے سے نہیں بلکہ دوسروں کو پڑھانے اور سمجھانے سے آتا ہے.باہر کی جماعتوں کیلئے بھی یہ بات ضروری ہے مگر قادیان کے دوستوں کو بالخصوص اس طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں علمی کمی بہت زیادہ ہے.جس طرح باہر کا کوئی کی احمدی زمیندار گود گود کر مولوی کے پاس جاتا اور کہتا ہے کہ آپ کہتے کیا ہیں؟ میرے ساتھ بات کریں.یہاں کے لوگ ایسا نہیں کر سکتے.یہاں کے کئی لوگ خلافت وغیرہ کے متعلق بعض مسائل دریافت کرتے رہتے ہیں لیکن باہر سے کبھی کسی نے ایسی باتیں نہیں پوچھیں کیونکہ یہاں نہ ان کو اعتراضات سننے کا موقع ملتا ہے اور نہ ان کے جواب معلوم کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے اس لئے ان کا علم نہیں بڑھتا.خدا کی قدرت ہے ہم قادیان والوں کے حصہ میں غیر احمدی مولوی بھی وہی آئے ہیں جو لٹھ مار ہیں اور دلائل وغیرہ کوئی نہیں دیتے.صرف یہی کہتے ہیں کہ احمدیوں کو مارو اور گوٹو اور ہماری جماعت سے علمی بحث نہیں کرتے.جس کی وجہ سے علمی ترقی جماعت کی نہیں ہوتی.پس میں قادیان کے دوستوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ جمعہ سے سبق حاصل کریں اور تبلیغ کیلئے نکلیں اور ایسے لوگوں کو تبلیغ کریں کہ ان کا اپنا علم بھی بڑھے اور ان کے اندر سے عرفان اور پھر عرفان سے نور پیدا ہو.تبلیغ بجائے خود ایک تعلیمی مدرسہ ہوتا ہے.بعض اوقات انسان کو خود توجہ نہیں ہوتی مگر جب کوئی اعتراض کرتا ہے تو پھر ا سے توجہ پیدا ہوتی ہے.حضرت عمر بن عبد العزیز ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے.بلکہ ظاہری شریعت پر عمل کرنے میں وہ بعض کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کی بہت زیادہ متشدد تھے.ان سے پہلے بادشاہوں میں سے ایک ولید بن عبد الملک تھا.اس کی تعلیم بہت خراب تھی.حضرت عمر بن عبد العزیز اس سے کہا کرتے تھے کہ آپ کچھ صرف نحو پڑھ لیں کیونکہ آپ کی بات بعض اوقات غلط ہو جاتی ہے مگر وہ پرواہ نہیں کرتا تھا.ایک دفعہ اس کے
خطبات محمود ۸۵ سال ۱۹۳۸ء دربار میں ایک اعرابی آیا اور شکایت کی کہ مجھ پر بہت ظلم ہوا ہے.میرا ایک داماد میر احق مارتا ہے میرا انصاف کریں.عربی زبان میں لفظ ختن داماد اور خسر اور سالے وغیرہ کیلئے بولا جاتا ہے.یعنی وہ رشتے جو بیوی یا لڑکی کی طرف سے ہوں.ولید نے اُس سے پوچھا کہ مَنْ خَتَنَكَ؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے نام معلوم نہیں.قبیلہ کے کسی آدمی نے ایسا کیا ہے جسے میں جانتا نہیں.ولید نے کہا کہ یہ عجیب آدمی ہے.کہتا ہے کہ میرا انصاف کریں اور جب میں پوچھتا ہوں کہ تمہارا داماد کون ہے؟ تو کہتا ہے کہ نام معلوم نہیں.ولید نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف دیکھا.انہوں نے اس اعرابی سے کہا کہ امیر المؤمنین کہتے ہیں کہ مَنْ خَتَنْكَ؟ تو اُس نے فوراً جواب دیا کہ وہ باہر دروازہ پر کھڑا ہے.اس پر ولید نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ میں نے بھی اس سے یہی سوال کیا تھا مگر اس نے کہا پتہ نہیں اور آپ نے بھی یہی کہا ہے مگر اس نے کہا وہ کی باہر کھڑا ہے.حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا کہ یہ وہی بات ہے جو میں آپ سے روز کہتا کی ہوں.آپ نے کہا تھا مَنْ خَتَنَكَ اور زبر کے ساتھ یہ فعل بن جاتا ہے جس کے معنی یہ کی ہو جاتے ہیں کہ تمہارا ختنہ کس نے کیا تھا؟ اور اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ قبیلہ کا کوئی آدمی ہو گا جس نے میرا ختنہ کیا تھا مجھے اُس کا نام معلوم نہیں اور میں نے خَتَنگ پیش سے کہا ہے جو اسم ہے اور اس کے معنے ہیں کہ تیرا داماد کون ہے؟ تو اس نے صحیح جواب دیا.اسی واقعہ کی وجہ سے ولید کو توجہ ہوگئی اور اُس نے کہا میں جب تک علم نہ سیکھ لوں نماز کیلئے دوسرا امام مقرر کروں گا خود نہیں پڑھاؤں گا.تو دوسرے کی طرف سے جب اعتراض پیدا ہو تو انسان کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کی طرف توجہ ہوتی ہے.حضرت عمر پہلے سے کہتے رہتے تھے مگر توجہ نہ ہوتی تھی.جب غیر سے بات ہوئی اور اپنی کمزوری معلوم ہوئی اور شرمندگی اُٹھانی پڑی تو کی اس کو توجہ ہوئی.بیسیوں علوم ایسے ہوتے ہیں جن کا بحث مباحثہ کے بعد پتہ لگتا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ تبلیغ کیلئے باہر نکلیں تا ان کا اپنا علم بھی ترقی کرے اور جماعت بھی بڑھے.اللہ تعالیٰ ہماری مستیوں کو دور کر کے ہم میں فرض شناسی کا مادہ پیدا کرے.“ 66 (الفضل ۱۹ رفروری ۱۹۳۸ء)
خطبات محمود ۸۶ سال ۱۹۳۸ء إنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَنُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَة فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُوْنِ (ال عمران : ۱۷۶) انگرکھا مردوں کے پہننے کا ایک لباس.قبا سے بنی اسرائیل: ۷۳ وانز لنا اليكُمْ نُورًا مُّبِينًا (النساء : ۷۵) ه ، بينت من الهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة : ۱۸۶)
خطبات محمود ۸۷ L سال ۱۹۳۸ کامیابی اسلامی اصول پر چلنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے فرموده ۱۸ / فروری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ہر ایک کام کیلئے کوئی طریق مقرر ہوتا ہے جس طریق پر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے اور جب تک اس طریق کو استعمال نہ کیا جائے اپنی کامیابی کی امید رکھنا محض جہالت اور بیوقوفی ہوتا ہے کیونکہ جو شخص الہی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو مجرم بنالیتا ہے اور مجرم کا یہ امید رکھنا کہ اس کے اس مجرم میں خدائی تائید حاصل ہو گی ، نہ صرف کم عقلی اور کی حماقت کی بات ہے بلکہ گستاخی کی بات بھی ہے.دنیا میں جب قوموں کے اخلاق گر جاتے ہیں اور وہ دین اور روحانیت سے بالکل کوری ہو جاتی ہیں تب ان میں ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو خدا اور اس کی شریعت کو اپنے جرائم کی تائید میں استعمال کرنے لگ جاتے ہیں.مثلاً اب مسلمانوں میں ان کی تباہی اور تنزل کے وقت ایسے لوگ ہیں جو مثلاً چوریوں کیلئے اپنے بزرگوں اور پیروں کے پاس تعویذ لینے جاتے ہیں اور ایسے پیر کہلانے والے موجود ہیں جو نہایت شوق سے چند آنے یا چند روپے لے کر ایسے تعویذ لکھ کر دے دیتے ہیں جن کی غرض یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی مدد سے چور پکڑا نہ جائے گا اور وہ اپنی چوری کے فعل میں کامیاب ہو جائے گا.گویا وہ اللہ تعالیٰ کو نَعوذُ بِاللہ چوروں کا سردار قرار دیتے ہیں.اسی طرح ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے ناجائز تعلقات کیلئے عاملوں اور
خطبات محمود ۸۸ سال ۱۹۳۸ء پیروں کے پاس تعویذ لینے جاتے ہیں اور ایسے پیر اور عامل کہلانے والے موجود ہیں جو باوجود اپنی بد عملی کے عامل کہلاتے اور کچھ روپے لے کر ایسے تعویذ لکھ کر دے دیتے ہین جن کے نتیجہ میں کہا جاتا ہے کہ کسی شریف کی بہو بیٹی اس بدمعاش کے قابو میں آجائے گی.گویا وہ دلالی کا کی ذلیل ترین پیشہ نَعُوذُ باللہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں.یہ قومی تباہی کی ایک علامت ہے.لیکن کوئی ترقی یافتہ اور سمجھدار قوم جو ترقی کے راستہ پر قدم مارنے والی ہو اس قسم کی بیوقوفیاں اور حماقتیں نہیں کریگی.مسلمانوں کی طرح ہندوؤں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اور ایک قلیل حد تک عیسائیوں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اور یوں تو ہر قوم میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو دوسری قوموں کے بزرگوں اور عاملوں یعنی بزرگ اور عامل کہلانے والوں کے پاس جاتے اور ان سے ایسے تعویذ اور ایسی تحریریں لکھواتے ہیں جن سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ناجائز مطالب پورے ہو جائیں گے.ان خیالات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ واقعہ میں ایسے تعویذوں میں کوئی کچ اثر ہے بلکہ یہ خیالات اس طریق کی برائی کو اور بھی واضح کر دیتے ہیں.اگر اس قسم کے جرائم دنیا میں نہ ہوتے تو شاید کسی کیلئے یہ مجھنا مشکل ہو جاتا کہ کیونکر کوئی شخص غلط طریق پر چلتے ہوئے یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا.مگر ان مثالوں سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض کی لوگ غلط طریق پر چلتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ان مثالوں سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض لوگ شرمناک جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ امید رکھتے ہیں کہ عُوذُ بالله خدا ان کی مدد کرے گا اور وہ ڈا کہ یا چوری یا کسی ناجائز تعلق میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن مومن ایسا کبھی خیال نہیں کر سکتا.ہمیں قرآن کریم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر وہ - انسان جو اپنے جرائم کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو ناراض نہیں کر دیتا ، اللہ تعالیٰ کا پیارا اور اس کی محبت کا نقطہ ہوتا ہے.مجرم بے شک اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے اور الہی تائید کو اپنے اوپر نازل ہونے سے ایک حد تک روک بھی دیتا ہے.مگر جو مجرم نہیں خواہ وہ بچے دین میں شامل ہو یا نہ ہو، وہ حقیقی مذہب کو ماننے والا ہو یا نہ ہو، محض شرافتِ نفس کی وجہ سے خدائی فضل کو ایک حد تک جذب کر رہا ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بچے دین کو ماننے والا اللہ تعالیٰ کی زائد برکاتی
خطبات محمود ۸۹ سال ۱۹۳۸ء اور اس کے زائد انعام حاصل کر لیتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ شخص جو اخلاص سے اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے مگر سچائی ابھی اس تک نہیں پہنچی یا پہنچ تو گئی ہے مگر ابھی وہ اس کو کی پورے طور پر سمجھ نہیں سکا، ایسا انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ سے محبت کر رہا ہوتا ہے اور اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے.بے شک وہ ان فوائد سے محروم رہ جائے گا جو خدائی قرب سے ایک انسان کو حاصل ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہے ہوگا کہ خدا تعالیٰ اس پر اپنا غضب نازل کرے اور اس کی تباہی کے احکام نازل کرے.ایسے ہی واقعہ کی مثال میں نے کئی دفعہ سنائی ہے.مثنوی رومی والوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ کسی جنگل میں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک گڈریا بیٹھا ہے اور عالم بے خودی میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے اللہ ! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیرے پیروں میں سے کانٹے نکالا کروں ، تیری گدڑی کی میں پیوند لگاؤں ، تیری جوئیں نکالوں، تجھے مل مل کر نہلا ؤں ، تو تھک کر سو جائے تو میں تیرے پیر دباؤں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ باتیں سنیں تو انہوں نے اپنا عصا اُٹھایا اور اُسے زور سے مار کر کہا بے حیا ! تجھے شرم نہیں آتی تو خدا کی ہتک کر رہا ہے.وہ ڈر کے مارے بھا گا.اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ اے موسیٰ ! تو نے اپنے اس فعل سے ہمیں تکلیف دی ہے.یہ بندہ جو کچھ کہہ رہا تھا یہ کسی بغض اور دشمنی کی وجہ سے تو نہیں کہہ رہا تھا.یہ ہمارا ایک نادان بندہ تھا جس تک وہ علم نہیں پہنچا جو تجھ تک پہنچا ہے مگر اس کے دل میں محبت تھی اور وہ اپنے رنگ میں ہم سے اپنی محبت اور عشق کا اظہار کر رہا تھا، تمہارا کیا حق تھا کہ تم اسے سرزنش کرتے.تمہارا زیادہ سے زیادہ یہ کام تھا کہ تم اسے سمجھاتے مگر مارنا اور غصے ہونا یہ تمہارا کام نہیں تھا.اس کی کہانی میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص جس کے تعلقات خدا تعالیٰ سے محبت پر مبنی ہوں ، چاہے وہ غلط رنگ میں ہی اس سے محبت کا اظہار کر رہا ہو ، وہ اس کی ناراضگی کا مورد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے رنگ میں ایک نیک کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کی وہی ادا خدا تعالیٰ کو پیاری معلوم ہوتی ہے.پس ایسا شخص اگر کوئی اور جرائم نہیں کر رہا تو یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرے گا اور آخر ایک دن ہدایت پا جائے گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
خطبات محمود ۹۰ سال ۱۹۳۸ء وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ، کہ وہ لوگ جو ہمیں پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ہم تک پہنچ جائیں ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم اپنے قُرب کا راستہ ضرور دکھا دیتے ہیں.یہ کتنی محبت اور شفقت کا کلام ہے اور کتنا یقینی قطعی اور حتمی وعدہ ہے.والذینَ جَاهَدُوا فینا.بندہ کا کام صرف کوشش کرنا ہے.ورنہ اپنے طور پر وہ کامل علم اسے کہاں حاصل ہو سکتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہمیں پالے.اس کا کام یہی ہے کہ کوشش کرے.پس دالّذینَ جَاهَدُوا فینا جو لوگ کوشش کرتے ہیں وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیتے ہیں.آگے یہ ہمارا کام ہوتا ہے کہ ہم انہیں صحیح علم دیں.چنانچہ فرماتا ہے جب بندے نے اپنا کام کر لیا تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم جو قادر ہیں جو کامل ہیں اور جو ہر نقص اور عیب سے منزہ ہیں ، اپنے فرض کو ادا نہ کریں.سو کنهدِ يَنْهُمْ سُبُلَنَا ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور ہم انہیں ان راستوں سے چلا کر لے آئیں گے جو ہم تک پہنچنے والے کی ہوں.کتنا شاندار وعدہ ہے اور انسانی قلب کی نیکی کا کتنا بڑا اعتراف ہے جو انسان کو پیدا کرنے کی والے رب نے کیا.تو انسان کی طرف سے اگر صحیح جدو جہد ہو تو بھی اگر نیک نیتی سے غلط رنگ میں جد و جہد ہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر لیتا ہے مگر جب صحیح جد و جہد نہ ہو اور انسان شرارت اور گستاخی کر رہا ہو تو وہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتا.خواہ وہ بچے مذہب میں شامل ہو یا جھوٹے مذہب میں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بچے مذہب میں ہوتے ہوئے ان راستوں کو اختیار نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کے قرب تک پہنچانے والے ہوں تو وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکا تا ہے کیونکہ اس نے علم رکھتے ہوئے نافرمانی کی اور جو غلط راستے پر تھا اس نے بے علمی میں نافرمانی کی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو شخص بے علمی میں نافرمانی کرے وہ کم مجرم ہے بہ نسبت اس شخص کے جو علم کے باوجود نافرمانی کرتا ہے.اسی نکتہ کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو اس موقع پر توجہ دلائی ہے.جہاں حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو اور جس کی کام کو کرنا چاہو کرو اس کیلئے وہ طریق استعمال کرو جو خدا تعالیٰ نے اس کام کیلئے مقرر کئے ہیں.مثلاً گھر میں داخل ہونے کا سہل اور آسان طریق یہ ہے کہ دیواروں میں جو منافذ یعنی درواز.
خطبات محمود ۹۱ سال ۱۹۳۸ء بنائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ انسان اندر داخل ہو جائے لیکن اگر کوئی شخص کسی کے گھر دروازہ میں سے داخل ہونے کی بجائے سیندھ لگانا شروع کر دے اور کہے کہ میں سیندھ لگا کر اندر داخل ہوں گا تو گھر والے بھی شور مچائیں گے اور ہمسائے بھی شور مچائیں گے اور پولیس اسے گرفتار کر کے لے جائے گی.یا فرض کرو وہ اپنے گھر میں ہی دروازہ میں سے اندر داخل ہونے کی بجائے دیوار پھاند کر آجاتا ہے تو گو اس پر چوری کا الزام نہیں لگے گا اور نہ اسے دخلِ بے جا کا کوئی شخص مرتکب قرار دے گا مگر ہر دیکھنے والا اسے احمق اور بیوقوف کہے گا اور اسے عقل سے کی بالکل کو را قرار دے گا.تو جو چیز اپنی ہوتی ہے اور کسی اور کا اس میں دخل نہیں ہوتا اس میں بھی انسان اگر صحیح طریق کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے تو ہر شخص یا تو اسے احمق اور بیوقوف کہے گا یا بھانڈ اور مسخرہ قرار دے گا.مثلاً پانی پینے کا طریق یہ ہے کہ گلاس میں پانی بھرا جائے اور منہ لگا کر پی لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح پینے کی بجائے گتے کی طرح پانی کو زبان سے چاٹنے لگ جائے تو ہر شخص اسے ذلیل اور حقیر تصور کرے گا یا گلاس کے اوپر ہونٹ لگانے کی کی بجائے اگر وہ چاقو سے گلاس میں کسی اور جگہ سوراخ کرلے اور کہے کہ میں اس جگہ سے پانی پیوں گا یا پیندے میں سوراخ کرلے اور کہے کہ میں اوپر کی بجائے نیچے سے پانی پیوں گا تو کوئی اسے عظمند قرار نہیں دے گا بلکہ ہر شخص اسے احمق اور بیوقوف کہے گا.انسان کا پاجامہ اور گر تہ اس کی اپنی ملکیت ہوتا ہے لیکن اگر وہ پاجامے کو گردن میں ڈال لے اور گرتے میں ٹانگیں ڈال دے تو کوئی نہیں کہے گا کہ چونکہ یہ اس کا اپنا گر تہ اور اپنا پاجامہ ہے اس لئے اس کا حق ہے کہ جس طرح جی چاہے استعمال کرے.ہر شخص کہے گا کہ گوگر تہ اس کا ہے مگر لاتوں کیلئے نہیں اور گو پاجامہ بھی اسی کا ہے مگر گردن میں ڈالنے کیلئے نہیں اور اگر کوئی شخص گر تہ اور پاجامہ کو اپنی ملکیت کے گھمنڈ میں اُلٹا پہن لے یعنی گرتے کی جگہ پاجامہ اور پاجامے کی جگہ گر نہ تو ہر شخص کہے گا کہ یا تو یہ پاگل ہے یا بھانڈ اور مسخرہ ہے کہ یہ صیح طریقہ جو مقرر ہے وہ اختیار نہیں کرتا.تو محض کسی چیز کا مالک ہونا تمہیں اس کے استعمال میں بالکل آزاد نہیں کر دیتا.تم اپنے گھر میں دروازہ سے داخل ہونے کی بجائے سیندھ لگانے لگ جاؤ یا دیوار پھاند کر اندر داخل ہو جاؤ یا تم اپنی روٹی بجائے منہ میں ڈالنے کے ناک میں ڈالنے لگ جاؤ یا پانی بجائے سیدھی طرح کی
خطبات محمود ۹۲ سال ۱۹۳۸ء پینے کے اسے گنتے کی طرح لق لق کر کے چاٹنے لگ جاؤ یا گلاس میں چاقو سے سوراخ کر کے یا اس کے پیندے کو تو ڑ کر وہاں منہ لگا کر پانی پینے لگ جاؤ.تو کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ یہ چیزیں تمہاری ہیں اس لئے ان میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں.بے شک یہ چیز میں تمہاری ہی ہوں گی مگر باوجود اس کے کہ گھر تمہارا ہوگا ، روٹی تمہاری ہوگی ، پانی تمہارا ہو گا، گلاس تمہارا ہوگا، پھر بھی اگر غلط طریق اختیار کرتے ہو تو ہر شخص کا حق ہے کہ تمہیں پاگل اور بیوقوف سمجھے گا جس طرح اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ ایسا کر رہا ہے تو تمہارا بھی حق ہے کہ اسے احمق قرار دو اور نہ صرف تمہارا یہ حق ہے بلکہ تم اس حق کو استعمال بھی کرو گے اور فوراً فیصلہ کر دو گے کہ یا تو یہ احمق ہے یا بھانڈ اور شرارتی ہے.تو محض کسی چیز کو اپنا قرار دے کر اس کا غلط استعمال درست نہیں ہوتا کی اور جب چیز بھی اپنی نہ ہو تو اس کا غلط استعمال تو انسان کو اور زیادہ مجرم بنا دیتا ہے.مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو دیکھے کہ وہ ننگے پاؤں پھر رہا ہے اور اسے ہمدردی کے طور پر اپنا بوٹ یا جوتی دے دے تو اگر وہ شخص بوٹ میں اپنا پیر بھی ڈالے اور ساتھ ہی چند لکڑی کے ٹکڑے اور پتھر کے ٹکڑے بھی ڈال لے تو ہر دیکھنے والا اسے بیوقوف اور احسان فراموش قرار دے گا اور کہے گا یہ کیسی بیہودگی ہے کہ اس نے تو اپنا بوٹ اسے پہنے کیلئے دیا اور اس نے اس میں لکڑی کے ٹکڑے کی بھی رکھ لئے تا کہ وہ جلدی پھٹے.پھر صرف دوسرے کی جوتی کو استعمال کرنے کا سوال نہیں.اگر یہ اپنی جوتی بھی اسی طرح استعمال کرے گا تو بھی ہر دیکھنے والا اس پر ہنسے گا اور اسے احمق اور بیوقوف قرار دے گا.اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے کر تہ اور پاجامہ کا غلط استعمال کرتا ہے یعنی گرتے کی جگہ پاجامہ اور پاجامے کی جگہ گر تہ ڈال لیتا ہے.تب بھی لوگ اسے بیوقوف کہیں گے اور اگر کسی دوسرے کے گرتے اور پاجامے کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے تو لوگ اسے احمق بھی کہیں گے اور ساتھ ہی شرارتی بھی کہیں گے کہ اس نے بجائے دوسرے کا احسان مند ہونے کے اس کا گر نہ پھاڑا اور اس کے پاجامے کا نقصان کیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جو چیزیں دی ہیں وہ گو بندوں کی نظر آتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہیں.یہ آنکھیں جو ہم کو ملی ہیں ، یہ کان جو ہم کو ملے ہیں، یہ ہاتھ جو ہم کو ملے ہیں، یہ پاؤں جو ہم کو ملے ہیں.اسی طرح وہ روپیہ، وہ علم ، وہ فہم ، وہ فراست اور وہ ذہن
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۸ جو ہم کو ملا ہے یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی ہیں اور گو بظاہر یہ ہمارے قبضہ میں ہیں مگر کون کہہ سکتا تج ہے کہ یہ چیزیں ہم نے بنائی ہیں.ہمارے پیدا ہونے سے لاکھوں سال پہلے یہ تمام چیزیں موجود تھیں جو پہلوں سے ہماری طرف منتقل ہوئیں اور ان کو ان سے پہلوں سے ملیں اور ان کو ان سے بھی پہلوں سے ملیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا گیا.پس یہ تمام نعمتیں ہماری تمہاری نہیں بلکہ خدا نے ہمیں دی ہیں اور پھر ان نعمتوں کے استعمال کے متعلق اس نے کچھ قوانین مقرر کی کئے ہیں اور بعض حد بندیاں مقرر کی ہیں کہ اس حد تک ان چیزوں کو اپنی ذات پر استعمال کر سکتے ہیں اور اس حد تک خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت یا بنی نوع انسان کی بہبودی کیلئے تمہیں استعمال کرنی چاہئیں.دنیا میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اس ذمہ داری کو قبول کر لیتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو قبول نہیں کرتے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں کوئی مامور آتا ہے تو جو لوگ اسے نہیں مانتے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک شخص نے کسی دوسرے کے پاس اپنی امانت رکھی مگر جب وہ امانت لینے کیلئے آیا تو اس نے کہہ دیا کہ میں امانت نہیں دیتا جاؤ اپنے گھر بیٹھو مگر کچھ لوگ کی ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے مامور کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.وہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں جس قدر چیزیں ملی ہیں یہ ان کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ہیں مگر پھر وہ عہد شکنی کرتے ہیں اور دھو کہ بازی سے کام لیتے ہیں.ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے پاس مثلاً ہزار روپے امانت رکھے اور جب وہ روپیہ لینے کیلئے آئے تو یہ بڑے اکرام اور اجلال کے ساتھ پیش آئے ، اپنی مسند پر اسے بٹھائے اور کہے آئیے تشریف لائیے.میں تو آپ کا ہی شب و روز انتظار کر رہا تھا، شکر ہے کہ آپ آگئے اور میں امانت کے فرض سے سبکدوش ہوا اور یہ کہہ کر وہ اندر جائے اور تھیلی میں بجائے روپیہ کے مٹی کی ٹھیکریاں بھر کر اس کے سامنے رکھ دے اور کہہ دے لیجئے یہ آپ کا ہزار روپیہ ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ میرے ذمہ آپ کی امانت ہے آئیے آپ اپنی امانت لے لیں ، وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا چاہے تھیلی میں روپیہ کی بجائے ٹھیکریاں ہی بھر کر پیش کر دے.اور کیا تم خیال کرتے ہو کہ جس نے اس کے پاس امانت رکھی تھی وہ بڑا خوش ہوگا اور کہے گا کہ اس نے روپیہ دینے کا اقرار تو کیا اور کوئی نہ کوئی چیز بھی مجھے دے دی.یقیناً وہ کبھی خوش نہیں ہوگا بلکہ جب دیکھے گا کہ
خطبات محمود ۹۴ سال ۱۹۳۸ء اس نے روپیہ کی بجائے ٹھیکریاں دی ہیں تو اس کا غصہ بھڑک اٹھے گا اور وہ کہے گا کہ تم نہ صرف خائن ہو بلکہ میری ہتک بھی کرتے ہو.اسی طرح وہ انسان جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کا انکار کرتے ہیں وہ تو ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے کسی کے پاس کوئی امانت رکھے اور وہ بعد میں کسی دوسرے وقت اپنی امانت لینے جائے تو کہہ دے کہ میں نے آپ کا کچھ نہیں دینا.وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کا کچھ نہیں دینا.اسی طرح وہ بھی مجرم ہوتے ہیں جو یہ تو مان لیتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کا دینا کی ہے مگر کہتے ہیں ہمیں اس بات پر اعتبار نہیں کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.جب خدا تعالیٰ خود ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے امانت دے دیں گے.حالانکہ جب اس نے بندوں کے پاس امانت رکھی تھی اُسی وقت کہ دیا تھا کہ میں خود یہ امانت لینے نہیں آؤں گا بلکہ میرے رسول آئیں گے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ایسے لوگ بھی مجرم ہیں اور پھر ایسوں کے پاس کی اللہ تعالیٰ خود آتا ہے مگر اپنی امانت لینے کیلئے نہیں بلکہ انہیں تباہ کرنے کیلئے.چنانچہ فرمایا اتى اللهُ بُنْيَانَهُمْ ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کے دروازوں پر اپنی امانت مانگنے نہیں آتا بلکہ ان کی بنیادوں اور جڑوں پر اپنے قہر کی بجلی گرانے آتا ہے.لیکن ان دو کے علاوہ ایک تیسری جماعت بھی ہوتی ہے جس وقت خدا تعالیٰ کا کوئی پیغامبر آتا ہے وہ آگے بڑھتے ہیں اور کی کہتے ہیں سُبحَانَ اللهِ ہم پر امانت کا ایک زبر دست بوجھ تھا اور ہم تو اس بات کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی امانت لینے والا آئے تو اسے امانت سپر د کر کے اپنے فرض سے سبکدوش کی ہو جائیں.سوخدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے.یہ اقرار جو وہ کرتے ہیں اسی کا نام بیعت ہوتا ہے.چنانچہ بیعت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے تسلیم کر لیا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارا نہیں بلکہ آپ کا ہے.جس طرح کسی کے نام پٹہ لکھ دیا جاتا ہے یا بعض لوگ کسی اور کو اپنا ایجنٹ بنا دیتے ہیں اسی طرح بیعت ایک پٹہ اور ایک اقرار ہوتا ہے اس امر کا کہ ہماری ہر چیز کا مالک خدا ہے اور تم اس کے نمائندہ اور ایجنٹ ہو اور تم اس بات کا حق رکھتے ہو کہ جس وقت چاہو اپنی چیز کا ہم سے مطالبہ کر لو مگر جب انہی لوگوں سے امانت مانگی جاتی ہے تو وہ بجائے رو پید اور قیمتی جواہر پیش کرنے کے ٹھیکریاں اور کوڑیاں اور اسی طرح کی اور ذلیل اور گندی چیز میں اسے چھپا کر دینا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ہم لوگوں کے سامنے سر خرو بھی ہو جائیں کہ ہم نے امانت ادا کر دی اور کی
خطبات محمود ۹۵ سال ۱۹۳۸ء چیز بھی ہمارے پاس رہے.مگر کون کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے امانت ادا کی ، کون کہہ سکتا ہے کہ خدا ان کے اس فعل پر خوش ہوگا.یقیناً خدا ان پر ناراض ہوگا بلکہ دوسروں سے زیادہ ناراض ہوگا اور کہے گا کہ تم سے جب میں نے امانت مانگی تو تم نے عملاً فریب کاری سے کام لیتے ہوئے چاہا کہ مجھے دھوکا دو.پس تم نے نہ صرف خیانت کی بلکہ ہمارے نمائندہ کی بہتک بھی کی ہے.تو یہ طریق کامیابی کا نہیں.یہ مکان میں اس کے دروازہ سے داخل ہونے کا طریق نہیں بلکہ سیندھ کی لگا کر اندر داخل ہونے کا طریق ہے.یہ ایسا ہی طریق ہے کہ جیسے کوئی کہے میں اندھیری رات میں ہزار مصیبتوں کے بعد بڑی محبت اور پیار سے فلاں کے مکان کے پاس آیا تھا اور چاہا تھا کہ سیندھ لگا کر اندر داخل ہو جاؤں مگر اس نے چور چور کہہ کر مجھے پکڑوا دیا.بھلا دنیا میں اس سے زیادہ اور کیا اندھیر ہو گا کہ میں اتنی محبت سے آیا اور اس نے مجھے پولیس کے سپرد کر دیا.ہر شخص اسے کہے گا کہ تو دھوکا اور فریب سے کام لے رہا تھا اگر ملنے کیلئے آیا تھا تو چاہئے تھا کہ دروازہ سے داخل ہوتا مگر جب تو دروازہ سے داخل نہیں ہوا بلکہ تو نے سیندھ لگانی شروع کر دی تو اس کا کی صاف یہ مطلب تھا کہ تو چاہتا تھا کہ اندھیری رات میں جو مال ملے اسے ہتھیا لے.تو ایسا انسان مجرم ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑ کا تا ہے جو صحیح طریق اختیار نہیں کرتا.اب میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست غور کریں کہ ان کی میں سے ہر شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یا اگر اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تو اس نے آپ کے خلفاء کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس امر کا اقرار کیا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میر انہیں بلکہ خدا کا ہے.میں اس کی ملکیت کو تسلیم کرتا اور اس کے ایجنٹ اور مختار کے ہاتھ پر اقرار کرتا ہوں کہ اس کے دین کی خدمت کے لئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہوگی ان تمام قربانیوں میں حصہ لوں گا ، اس کے تمام احکام کو قبول کروں گا ، اسلام کے احیاء کیلئے ہمیشہ کوشاں رہوں گا اور اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی تمام زندگی اسلام کی ترقی کیلئے لگادوں گا.اب آپ لوگ غور کریں کہ کیا واقعہ میں ہم میں سے ہر شخص اس امانت کو ادا کر رہا ہے؟
خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۸ء ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں تو ہماری مثال اُس امین کی سی ہوتی ہے جو کہتا ہے ہاں جی امانت میرے پاس ہے.آپ بخوشی لے لیں.مگر کیا کسی کا صرف منہ سے یہ الفاظ کہہ دینا اسے اپنے فرض سے سبکدوش کر سکتا ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہو کہ اس سے جب امانت طلب کی جائے تو وہ بجائے روپیہ دینے کے ٹھیکریاں اور ایسی ہی اور رڈی چیزیں جنہیں غلاظت لگی ہوئی ہو ، پیش کر نے لگ جائے اور جبکہ واقعہ یہ ہو کہ بسا اوقات جس چیز کا نام وہ ایمان رکھتا ہے وہ منافقت ہوتی ہے، جس چیز کا نام وہ قربانی رکھتا ہے وہ ریاء ہوتی ہے اور جس چیز کا نام وہ حزم اور احتیاط رکھتا ہے وہ سستی اور غفلت ہوتی ہے اور وہ ان ٹھیکریوں کو پیش کر کے چاہتا ہے کہ میری تعریف ہو.میرے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ سلسلہ کا بڑا دیانتدار اور امین کا رکن ہے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے والا سپاہی ہے حالانکہ ان باتوں سے کام نہیں چلتا.جب ایک معمولی عقل و فہم کا مالک انسان بھی ایسی باتوں سے دھوکا نہیں کھا سکتا تو خدائے عالم الغیب ان باتوں سے کب دھوکا کھا سکتا ہے اور پھر انبیاء کی جماعتوں کا تو ایک مقررہ طریق ہوتا ہے.اس طریق سے اگر وہ بال بھر بھی ادھر اُدھر ہوں تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں.اور میں نے نہ ایک دفعہ بلکہ بارہا بتایا ہے کہ جب تک ہماری جماعت ان طریقوں پر نہیں چلے گی سلسلہ کی خدمت کبھی بھی وہ صحیح معنوں میں نہیں کر سکتی.ابھی تک ہمارا بہت سا نظام موجودہ زمانہ کے مغربی اثر سے متاثر اور اسی کے تابع ہے اور ہمارے زیادہ تر کام مغربی امور کی نقل ہیں.اسلامی اصول ابھی تک ہم اپنے نظام میں بھی جاری نہیں کر سکے.مثلاً تحریک جدید ہے.اس کے شروع ہی میں میں نے کہا تھا کہ اس میں ملازمتوں پر بنیاد نہیں رکھی جائے گی.چنانچہ اس اصل پر یہ کام ایک حد تک چلا یا جا رہا ہے اور اب تحریک جدید کے دوسرے دور میں ان شرائط کو اور بھی مستحکم کر دیا گیا ہے.مگر تحریک جدید سلسلہ کے شعبہ جات میں سے ایک بہت چھوٹا سا شعبہ ہے.اس میں بے شک اور رنگ میں کام شروع ہے مگر سلسلہ کے باقی تمام کام ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے یورپ میں انجمنیں چلا کرتی ہیں.تنخواہ دار ملازموں کا ایک لمبا سلسلہ ہے.ان کے باقاعدہ گریڈ ہیں اور ان کو ہر سال ترقیاں ملتی ہیں حالانکہ انبیاء کی جماعتوں میں کوئی ایک مثال بھی اس قسم کی انجمنوں کی نہیں ملتی جن میں کی
خطبات محمود ۹۷ سال ۱۹۳۸ء تنخواہ دار ملازم ہوں، ان کے باقاعدہ گریڈ ہوں اور ان میں تنخواہوں اور گریڈوں پر آپس میں بحثیں ہوتی ہوں.اگر ایک مثال بھی کسی زمانہ میں اس قسم کی مل سکے تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طریق منہاج نبوت پر ہے لیکن اگر ایک مثال بھی ایسی نظر نہ آتی ہو تو سمجھنا پڑے گا کہ یہ ایک عارضی سہولت ہے جو کارکنوں کو دی گئی.جیسے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں میں نے بیان کیا تھا کہ کچھ عارضی سہولتیں ہوتی ہیں جنہیں قانون نہیں کہا جاتا.وہ درمیانی زمانہ میں لوگوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے دی جاتی ہیں اور انہیں مناسب وقت آنے پر دور بھی کیا جا سکتا ہے تا کہ اصل قانون جاری ہو.پس صدر انجمن احمدیہ کے تمام کاموں کا ڈھانچہ لوگوں کی عادات اور ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا اور ایک عارضی سہولت کے لئے اسے اختیار کیا گیا تھا ورنہ وہ منہاج نبوت پر مبنی نہیں.منہاج نبوت والا طریق وہی ہے جن میں تنخواہوں اور گریڈوں کا کوئی سوال نہ ہو بلکہ لوگوں سے قربانی کا مطالبہ ضرورت کے مطابق ہو اور ان کا گزارہ قربانیوں کے نتائج پر مبنی ہو.جیسے حضرت خالد بن ولید حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی کما نڈر رہے ، حضرت ابو بکر کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے.مگر اپنے کاموں کے لحاظ سے انہیں ترقیات نہیں ملتی تھیں بلکہ ان کاموں کے نتیجہ میں جو ترقیات ہوتی تھیں ان پر ان کی ترقی منحصر تھی یعنی اگر کسی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت سا مال غنیمت میسر آ گیا تو وہ سب میں تقسیم ہو گیا اور ہر ایک کو کافی مال مل گیا اور اگر کسی جنگ میں کچھ حاصل نہیں ہوا تو جیب خالی رہے اور کسی کو بھی کچھ نہ ملا بلکہ انہیں جنگ میں شامل ہونے کے اخراجات بھی گھر سے مہیا کرنے پڑے.بعض لوگ نادانی سے خیال کرتے ہیں کہ نبیوں کی جماعتوں کو بیت المال سے کچھ نہیں ملتا.اگر انہیں کچھ نہیں ملے گا تو وہ کھائیں گے کہاں سے.حقیقت یہ ہے کہ نبیوں کی جماعتوں کو مال کی ملنا تاریخ سے ثابت ہے مگر اس طرح نہیں کہ ایک معتین رقم ان کیلئے مقرر ہو بلکہ وہ جنگوں میں کی شامل ہوتے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ایک پیسہ بھی نہ ملتا مثلاً وہ لڑائی کیلئے گئے تھے مگر جاتے ہی صلح ہوگئی اور اس طرح نہ صرف انہیں کوئی مال نہ ملا
خطبات محمود ۹۸ سال ۱۹۳۸ء بلکہ آنے جانے کا خرچ اور جنگ کیلئے سامان مہیا کرنے کے اخراجات بھی خود برداشت کرنے پڑے اور بجائے حکومت سے کوئی امداد ملنے کے انہیں اپنے پاس سے روپیہ خرچ کرنا پڑا.اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مثلاً ہزار دو ہزار روپے خرچ ہوتے اور انہیں لاکھوں روپیہ مل جاتا.گویا اُجرت اور کام کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی تھی.کبھی وہ کام کرتے اور اس کام کا معاوضہ انہیں کچھ بھی نہ ملتا اور کبھی اتنامل جاتا کہ وہ اسے دیکھ کر حیران ہو جاتے اور سوچتے کہ اب اسے رکھیں کہاں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہی بعض دفعہ اتنے اموال آئے ہیں کہ صحابہ کہتے ہیں ہمیں وہ اموال رکھنے کیلئے جگہ نہیں ملتی تھی اور بعض دفعہ بجائے کچھ ملنے کے انہیں اپنے گھر سے تمام خرچ پورا کرنا پڑتا.یہی منہاج نبوت ہے اور اسی طریق کو ہمیں اپنے صدرانجمن کے کارکنوں میں جلد یا بدیر جاری کرنا پڑے گا.میں نے یہ کبھی نہیں کہا اور نہ میں اس کا قائل ہوں جو بعض احمق لوگ کہا کرتے ہیں کہ نبیوں کی کی جماعتوں کو کچھ دیا جانا ثابت نہیں.اگر انہیں کچھ دیا جانا ثابت نہیں تو وہ کھاتے کہاں سے تھے.پس ملنے کا طریق تو تھا اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جاری تھا.چنانچہ قرآن کریم میں ہی حکم ہے کہ جب غنیمتوں کے اموال آئیں تو انہیں تقسیم کر دو گے اور مختلف قسم کی تقسیمیں ہیں جو شریعت نے تجویز کی ہیں مگر وہ کام کے لحاظ سے نہیں ملتا تھا بلکہ یا تو اس میں گزارے کو مد نظر رکھا جاتا تھا یا نتائج کو مدنظر رکھا جاتا تھا یعنی اگر روپیہ میسر آ گیا تو دے دیا اور اگر نہ آیا تو کچھ بھی نہ دیا.یہاں تک کہ تاریخوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ سونے کی تقسیم ترازوؤں سے ہوتی تھی.یعنی اتنی کثرت سے سونا اور دیگر اموال آگئے کہ انہیں گن گن کر دینے کی کوئی صورت ہی نہ رہی.پس اُس وقت تکڑ پر اشرفیاں تول تول کر سب میں برابر تقسیم کر دی گئیں.مگر اس کے مقابلہ میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ صحابہ کو اپنی سواریوں کا آپ کی انتظام کرنا پڑا، تلوار میں اور نیزے خود خرید نے پڑے، آنے اور جانے کے اخراجات خود برداشت کرنے پڑے مگر جب جنگ سے واپس آئے تو انہیں ایک پیسہ کی امداد بھی نہیں دی گئی کی اور ان کا جواند وختہ تھا وہ سب جنگ کے اخراجات میں صرف ہو گیا.پھر نہ صرف یہ نظر آتا ہے کہ صحابہ نے بعض دفعہ اپنے گھر کا مال و اسباب بیچ کر جنگ کے اخراجات پورے کئے.بلکہ
خطبات محمود ۹۹ سال ۱۹۳۸ یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ انہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر دوسروں پر خرچ کر دیں اور ان کی کیلئے تمام ضروریات مہیا کیں.چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر ہماری فوج جانے والی ہے مگر مومنوں کے پاس کوئی چیز نہیں.کیا کوئی تم میں سے ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی اُٹھے اور آپ نے اپنا اندوختہ نکال کر وہ رقم مسلمانوں کے اخراجات کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا عثمان نے کی جنت خرید لی.اسی طرح ایک دفعہ ایک کنواں بک رہا تھا.مسلمانوں کو چونکہ اُن دنوں پانی کی بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے اس موقع پر پھر فرمایا کوئی ہے جو ثواب حاصل کرے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.چنانچہ آپ نے وہ کنواں خرید کری مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ عثمان نے جنت خرید لی.اسی طرح ایک اور موقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی الفاظ کہے.غرض تین موقعے ایسے آئے ہیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے جنت خرید لی ہے.گو مسلمانوں کی کی بدقسمتی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جب وہ کسی شخص سے مخالفت کرتے ہیں تو اس کی مخالفت میں دوسرے بزرگوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مجھ پر حملہ کرے گا اس کے حملہ کی زد تمام انبیاء پر پڑے گی.اسی طرح جو شخص ایک خلیفہ پر حملہ کرتا ہے وہ دراصل سارے خلفاء پر حملہ کرتا ہے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ قریب کے عرصہ میں مصری صاحب نے ایک کی اشتہار شائع کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب فلاں فلاں غلطیاں کیں اور مسلمانوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ خلافت سے دست بردار ہو جائیں تو گوانہوں نے الگ ہونے سے انکار کر دیا مگر مسلمانوں نے تو بہر حال ایک رنگ میں انہیں معزول کر ہی دیا.گویا حضرت عثمان اسی بات کے مستحق تھے کہ خلافت سے معزول کئے جاتے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق بارہا یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے جنت خرید لی اور وہ جنتی ہیں اور ایک دفعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے دوبارہ بیعت لی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اُس وقت موجود نہ تھے تو آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے میں اس کی طرف سے اپنے ہاتھ پر رکھتا ہوں.اس طرح آپ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا اور پھر ایک دفعہ آپ سے فرمایا اے عثمان ! خدا تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا.منافق چاہیں گے کہ وہ تیری اس قمیص کو اُتار دیں مگر تو اُس قمیص کو اُتار یو نہیں.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہیں کہ اُس قمیص کو نہ اُتارنا اور جو تم سے اس قمیص کے اُتارنے کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے.مگر مصری صاحب محض میری مخالفت میں آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان سے عزل کا مطالبہ کرنے والے حق پر تھے اور غلطی پر حضرت عثمان ہی تھے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پٹھان کنز پڑھ رہا تھا.اس میں اس نے یہ لکھا دیکھا کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث کا سبق لے رہا تھا تو اتفاقا یہ حدیث آگئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ نے اپنے ایک نواسہ کو اٹھا لیا؟ تو وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا کہ خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ خدا تجھے خلافت کی قمیصی پہنائے گا اور تو اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوگا اور جو لوگ تجھ سے عزل کا مطالبہ کریں گے وہ منافق کی ہوں گے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ خدا کے قائم کردہ خلیفہ نہیں تھے اور جنہوں نے آپ سے عزل کا مطالبہ کیا وہی حق پر تھے.گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات تو نَعوذُ بالله جھوٹ ہوئی لیکن منافق جو کچھ کہہ رہے تھے وہ سچ تھا اور اصل مومن وہی تھے کیونکہ ان کے نزدیک خدا اور رسول کا کیا ہے وہ تو دو ہوئے اور منافق بہت سے تھے اور دو کی کہ رائے اکثریت کے مقابلہ میں کمیٹیوں میں کہاں مانی جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانیاں آتی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجے کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی نہیں ملتے.یہی صحابہ میں نظر آتا ہے اور یہی طریق عمل ہمیں اختیار کرنا پڑے گا.یہ طریق کی
خطبات محمود 1+1 سال ۱۹۳۸ء بالکل غلط ہے کہ نتیجہ خواہ نکلے یا نہ نکلے لوگوں کا جو حق مقرر ہے وہ انہیں دے دیا جائے.صد را منجمن احمدیہ کی بنیاد اب تک اس امر پر ہے کہ ہر شخص کا ایک حق مقر ر ہے.خواہ چندہ جمع ہو یا نہ ہو، خواہ تھوڑا آئے یا بہت آئے.انہیں اپنا حق ضرور ملنا چاہئے.مگر یہ منہاج نبوت نہیں بلکہ منہاج مغرب ہے.مغرب کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کسی نے اپنا کام کر دیا تو اس کا اب یہ حق ہو گیا کہ وہ ہم سے اُجرت کا مطالبہ کرے حالانکہ یہ اصل بندوں کے لحاظ سے تو درست تسلیم کیا جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے لحاظ سے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا.یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کی بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ خدا ہر نیک کام کی جزا دینے والا ہے اور اگر کسی کو اس جہان میں کی بدلہ نہ ملے تو اگلے جہان میں مل کر رہے گا لیکن جو شخص اس بات کو مانتا ہے وہ گویا اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ میرا معاملہ بندوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے.اگر بندوں کی طرف سے مجھے کچھ بھی نہ ملا تب بھی خدا میرے اجر کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اگلے جہان میں اپنی نعمتوں سے مجھے مالا مال کر دے گا.پس اس کیلئے کسی معین اُجرت کا ہونا بالکل بے معنی بات ہے.اگر ایک کی بادشاہ کا کوئی شخص ایک مہینہ تک کام کرے اور وہ دنیا میں اسے کام کی اُجرت نہ دے تو کیا وہ کی بادشاہ اس امر کی طاقت رکھتا ہے کہ اگلے جہان میں اسے اس کے کام کی جزاء دے.اگلے جہاں میں تو وہ خود مدد کیلئے دوڑتا پھرے گا ، اسے کہاں دے گا.پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملازم کو اسی جہان میں اس کی مزدوری دے.لیکن جو لوگ ایک نبی کی جماعت میں داخل ہوں اور منہاج نبوت پر کام کر رہے ہوں وہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر اس جہان میں انہیں کام کاج معاوضہ نہ دیا گیا تو اگلے جہاں میں انہیں نہیں مل سکے گا.کیونکہ ان کا مالک خدا ہے اور اگر اس جہان میں انہیں اپنے کاموں کا بدلہ نہ ملا تو اگلے جہان میں بہتر سے بہتر بدلہ مل کر رہے گا پس مقررہ بدلہ ان لوگوں کے ذمہ ہوتا ہے جو دوسرے وقت میں بدلہ نہیں دے سکتے لیکن جو دوسرے وقت میں بھی بدلہ دے سکتا ہو بلکہ اگر اس جہان میں بدلہ نہ ملے تو اگلے جہان میں بھی کی دے سکتا ہو.اس کے مقابلہ میں کسی قسم کی شرط جائز نہیں ہوسکتی.پس ابھی ہمارے بہت سے کام منہاج مغرب پر ہیں منہاج نبوت پر نہیں ہیں اور جب تک ہم اپنے ان کاموں کو منہاج نبوت پر نہیں لائیں گے، کامیابی کا منہ ہر گز نہیں دیکھ سکتے.
خطبات محمود ۱۰۲ سال ۱۹۳۸ء اسی طرح یہ شرط کہ آنہ فی روپیہ چندہ مقرر ہے یا پانچ پیسے فی روپیہ، بالکل غلط ہے.مقر ر تو ایک پیسہ بھی نہیں خواہ اس فقرہ سے فائدہ اُٹھا کر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ دیکھو جب اب انہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ مقرر ایک پیسہ بھی نہیں تو ہم زیادہ چندہ کیوں دیں ، مگر حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم آنه فی روپیہ چندہ کہیں یا پانچ پیسہ فی روپیہ مقرر کچھ بھی نہیں.مقر ر سلسلہ کی ضروریات کے لحاظ سے ہے.اگر سلسلہ کی ضروریات یہ تقاضا کرتی ہوں کہ ہم آنہ یا پانچ پیسہ کی بجائے پورا روپیہ کی ہی سلسلہ کے حوالے کریں تو اُس وقت ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم روپیہ دیں اور اگر پیسہ کی ضرورت ہوتو اس وقت پیسہ دینا پڑے گا.کوئی کہے کہ اس طرح روپیہ جمع کس طرح ہوسکتا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیوی گورنمنٹیں بے شک روپیہ جمع کرتی ہیں لیکن اسلامی گورنمنٹیں روپیہ جمع نہیں کیا کرتیں اور نہ ہمارا حق ہے کہ روپیہ جمع کریں.یہی وجہ ہے کہ اسلامی زمانہ کی میں نقد روپیہ جمع کی صورت میں بہت کم نظر آتا تھا.گو کچھ جائیدادیں ضرور محفوظ کی گئی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو روپیہ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ آتا اسے تقسیم کر دیتے تھے.کی بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں روپیہ اس لئے جمع نہیں رکھتے کی تھے کہ آپ پر الزام نہ آئے مگر یہ غلط خیال ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نہ صرف اپنے گھر میں روپیہ جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے کوئی خزانہ بھی نہ بنایا ہو ا تھا.جس قدر روپیہ آتا وہ آپ تقسیم فرما دیتے اور سمجھتے تھے کہ جب اور ضرورت کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور بھیج دے گا.یہ آپ کے تو کل کا اعلیٰ مقام تھا.ہر شخص یہ طریق اختیار نہیں کر سکتا مگر بہر حال منہاج نبوت یہی ہے کہ روپیہ جمع نہ ہو بلکہ خرچ ہوتا رہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کر لوگوں کے کندھوں سے پھاندتے ہوئے جلدی جلدی گھر تشریف لے گئے.صحابہ کچھ حیران سے ہوئے کہ اتنی جلدی رسول کریم صلی اللہ کی علیہ وسلم گھر میں کیوں تشریف لے گئے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر کسی کام کیلئے واپس آئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کچھ مال بھیجا تھا جو میں نے تقسیم کر دیا.صرف دو دینار باقی تھے.میں نماز پڑھا کر جلدی جلدی گھر گیا اور مجھے خیال آیا کہ وہ اب تک کیوں پڑے ہیں چنانچہ میں اب انہیں تقسیم کر کے آیا ہوں.نے پس یہی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں روپیہ
خطبات محمود ۱۰۳ سال ۱۹۳۸ء جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ میں خزانہ سرکاری میں بھی روپیہ جمع نہیں کی کیا کروں گا.چنانچہ جس قدر روپیہ آتا آپ اُسی وقت تقسیم کر دیتے.البتہ بعض اوقات کچھ رکھ بھی لیتے مگر بالعموم آپ کا طریق یہی تھا کہ اپنے پاس کچھ نہ رکھتے.ہاں اگر کوئی عارضی ضرورت سامنے ہوتی تو کچھ رکھ لیتے مگر وہ بھی زیادہ عرصہ کیلئے نہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی طریق جاری رہا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں البتہ کچھ جمع کیا جاتا رہا مگر وہ بھی زیادہ تر اس لئے کہ بعض بڑو اور دوسرے غرباء آجاتے تھے اور ان کیلئے آئے ، دانے ، گھی ، شہد اور نقدی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تھی.پس کسی حد تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ چیزیں جمع رکھتے تھے.وگر نہ عام طور پر جو مال آتا اسے آپ بھی تقسیم ہی کر دیا کرتے تھے.غرض خلفاء کے زمانہ میں روپیہ جمع کرنے کا رواج ہمیں کہیں نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ بعض زمینیں جو فتوحات میں حاصل ہوئیں آئندہ ضرورتوں کیلئے محفوظ رکھ لی جاتی تھیں.اور نہ معین معاوضے لوگوں کو ملا کرتے تھے.اگر حکومت کے پاس روپیہ زیادہ آجاتا تو لوگوں کو زیادہ دے دیا جاتا اور اگر تھوڑا آتا تو تھوڑا دے دیا جاتا.یہ طریق تھا جس پر اُس زمانہ میں کام ہوتا تھا اور یہی منہاج نبوت ہے.مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کام کرنے والے کہیں کہ ہم معتین معاوضے نہیں لیں گے بلکہ سلسلہ کو جس قدرآمد ہوگی اُس نسبت سے ہمیں جو کچھ کی دیا جائے گا اسے ہم بخوشی قبول کریں گے.غرض ہمارے بہت سے کاموں میں ابھی تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ منہاج نبوت پر نہیں بلکہ منہاج مغرب پر قائم ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان حالات کو بدل دیں.اگر کوئی کہے جب یہ معاملہ اس قدر ضروری ہے تو اس وقت تک چُپ کیوں رہے ہو یا کیوں ابھی تبدیلی کی نہیں کر دیتے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس وجہ سے میرے بڑے خاموش رہے اسی وجہ سے میں بھی خاموش ہوں اور اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے کاموں میں تبدیلی آہستہ آہستہ پسند کی ہے، فوری طور پر تبدیلی پسند نہیں کی لیکن بہر حال یہ کام خواہ آج ہو یا آج سے چند سال بعد، ہو کر رہے گا اور ہمیں اپنے تمام کاموں کو اسلامی بنیاد پر لانا پڑے گا اور بڑوں اور چھوٹوں کے معاوضوں کے اس طریق کو مٹانا پڑے گا جو اس وقت جاری ہے اور وہی راہ عمل اختیار کرنا
خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۸ء پڑے گا جو خالص اسلامی ہے اور جس کا اصول یہ ہے کہ خزانہ میں جس نسبت سے روپیہ آئے کی اُسی نسبت سے کام کرنے والوں میں تقسیم ہوتا رہے ، خواہ انہیں تھوڑا ملے یا بہت.بالکل ممکن ہے ہم اپنے نظام کے بعض حصوں میں اس طریق کو جاری نہ کر سکیں.مثلاً مدرسہ ہے وہاں حکومت کی بعض پابندیوں کی وجہ سے اس امر کا امکان ہے کہ ہم یہ طریق اختیار نہ کر سکیں مگر جہاں اور جس حد تک سرکاری قانون ہمارے راستہ میں حائل نہیں ہوگا وہاں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیں جو اسلامی طریق پر چلنے کیلئے تیار ہوں اور اگر کوئی اس کی بات کیلئے تیار نہ ہوا تو اسے کہہ دیا جائے گا کہ تم اپنے گزارہ کا کوئی اور انتظام کرلو.میں نے یہ جماعت کو اس لئے بتایا ہے تا جماعت کے دوست اس امر پر غور کریں اور کا رکن بھی سوچیں کیونکہ جلد یا بدیر ہمیں یہ طریق اختیار کرنا پڑیگا.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میں اپنا پورا زور اس بات کیلئے لگاؤں گا کہ ہما را تمام نظام منہاج نبوت پر آ جائے اور مغرب کے اصول کو جلد یا بدیر ہم بالکل ترک کر دیں کیونکہ ہم کو اگر کامیابی ہو گی تو انہی اصول پر چل کر جو اسلام نے مقرر کئے ہیں نہ ان اصول پر چل کر جو مغرب نے تجویز کئے ہیں.اور اگر ہم اپنے نظام اور اصول میں مغرب کے ہی شاگر د ر ہے اور عقیدہ میں ہم نے مغرب پر فتحی حاصل کر لی تو ہم نے مغرب کو شکست بھی دی تو کیا شکست دی.حالانکہ ہماری جس قدر دشمنی ہے وہ مغربیت سے ہے نہ کہ مغرب کے آدمیوں سے.اور اگر مغربیت ہمارے اندر خود آگئی تو مغرب کو ہم نے کیا زک پہنچائی.آخر مغرب کے آدمی تو ہمارے دشمن نہیں وہ تو ہمارے بھائی ہیں.اگر آج مغرب کے لوگ مسلمان ہو جائیں تو ہم انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا ئیں.لیکن اگر ہم آدمیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے افعال سے محبت کرتے ہیں.مغربیت کو تو خود اختیار کرتے ہیں مگر مغرب کے باشندوں سے دور بھاگتے ہیں تو ہم نہ صرف مغربیت کا جبہ خود پہن لیتے ہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بھی چلتے ہیں.کیونکہ اسلام آدمیوں سے عداوت جائز قرار نہیں دیتا بلکہ بُرے افعال سے عداوت پسند کرتا ہے.جب افغانستان میں ہمارے چند آدمی مارے گئے اور ہم نے حکومت کے اس فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو ہم نے اُسی وقت اس امر کی تصریح کر دی تھی کہ ہماری امیر اور اس کے آدمیوں سے کوئی دشمنی نہیں
خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۸ ہمیں تو اس غلط عقیدہ سے دشمنی ہے جس کے مطابق انہوں نے ہمارے آدمیوں کو شہید کیا اور جسے اسلام کی تعلیم کے خلاف انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو کی چاہے وہ کتنا بڑا دشمن ہو ہم اسے اپنا بھائی سمجھیں گے.آخر جو احمدی بنتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ انہی لوگوں میں سے آتے ہیں جو احمدیت کے شدید مخالف ہوتے ہیں بلکہ ایسے ایسے شدید دشمن ہدایت پر آجاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ایک دفعہ بتایا کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک دن احمد یہ چوک میں تھیں چالیس آدمی باہر بورڈنگ کی طرف آ رہے تھے اور پانچ سات آدمی لنگر خانہ کی طرف سے.جب وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب پہنچے تو ٹھٹھک کر کھڑے ہو گئے اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے.پھر معا وہ آگے بڑھے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر چھینیں مار کر رونے لگے.فرماتے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو وہ جو زیادہ تعداد والے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ پانچ سات آدمی ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے احمدی ہوئے جس پر ہم نے انہیں بڑی بڑی تکلیفیں پہنچائیں ، یہاں تک کہ انہیں اپنے گاؤں سے نکال دیا.پھر ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوا کہ یہ کہاں چلے گئے.ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم بھی احمدی ہو گئے.آج یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے کی ان کی شکل دیکھی.بس انہیں دیکھتے ہی ہمیں وہ تمام تکلیفیں یاد آ گئیں جو ہم نے انہیں پہنچا ئیں اور بے اختیار ہمیں یہ تصور کر کے رونا آگیا کہ آخر ہم بھی وہیں آپنچے جس جگہ یہ تھے.تو ایسے ایسے دشمن اگر سلسلہ میں داخل ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں تو آدمیوں کی عداوت سے زیادہ اور کون سی بیوقوفی ہوگی.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب کی ذات سے بھی کبھی دشمنی نہیں ہوئی بلکہ بچپن میں جب مجھے کامل عرفان حاصل نہیں تھا میں بعض دفعہ حیران ہو کر کہا کرتا تھا کہ خدایا! کیا میرے اندر غیرت کم ہے کہ لوگ تو کہتے ہیں ہمیں مولوی ثناء اللہ پر بڑا غصہ آتا ہے مگر مجھے نہیں آتا.تو اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ اپنی ذات میں مجھے کسی شخص سے عداوت نہیں، نہ اپنے دشمن سے اور نہ سلسلہ کے کسی دشمن سے.افعال بے شک مجھے بُرے لگتے ہیں اور انہیں
خطبات محمود 1+4 سال ۱۹۳۸ء مٹا دینے کو میرا جی چاہتا ہے مگر کسی انسان سے مجھے دشمنی نہیں ہوئی.حتی کہ سلسلہ کے شدید ترین دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے آج تک کبھی عداوت نہیں ہوئی حالانکہ اگر عداوت جائز ہوتی تو ان لوگوں سے ہوتی جو خدا اور اس کے رسول کے دشمن ہیں کیونکہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو کم درجہ دے مگر خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کو زیادہ بُرا جانے.مگر جب خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے کبھی عداوت نہیں ہوئی تو اپنے دشمنوں کی ذات سے مجھے کس طرح عداوت ہو سکتی ہے.یہ دل بے شک چاہتا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام رہیں اور اللہ تعالیٰ یا تو انہیں ہدایت دے یا ان کی طاقتوں کو توڑ دے مگر یہ کہ ان کو اپنی ذات میں نقصان پہنچے یہ خواہش نہ کبھی پہلے میرے دل میں پیدا ہوئی اور نہ اب ہے.تو آدمیوں کی عداوت کوئی چیز نہیں.جس چیز کو مٹانا ہمارا فرض ہے وہ خلاف اسلام عقائد اور طریقے ہیں جو دنیا میں جاری ہیں.اگر ہم ان عقائد اور ان طریقوں کو مٹانے کی بجائے کی آدمیوں کو مٹانے لگ جائیں اور وہ اصول اور طریق خود اختیار کر لیں تو اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کوئی بادام کے چھلکے رکھتا جائے اور مغز پھینکتا جائے.آدمی تو مغز ہیں اور ان کے افعال وہ چھلکے ہیں جن کو دور کرنا ہمارا کام ہے.پس جس چیز کو مٹانا ہے اگر اسی کو ہم لے لیں اور جس کو رکھنا ہے اس کو مٹا دیں تو اس میں کونسی عقلمندی ہوگی.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی قربانیوں پر غور کرو اور یا درکھو کہ جو قربانیاں اس وقت کی جارہی ہیں وہ ہرگز کافی نہیں ہیں.اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.اسی طرح میں صدرانجمن احمد یہ اور اس کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس طریق پر وہ چل رہے ہیں وہ منہاج نبوت والا طریق نہیں اور اس پر چل کر کی انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.ہاں اگر وہ منہاج نبوت پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھ لیں گے تو پھر کامیابی انہیں حاصل ہو جائے گی اور جلد یا بدیر ایسا ہو کر رہے گا.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی آئے اور اس کی جماعت کے نظام کا کوئی حصہ منہاج نبوت سے باہر رہ جائے.پس کیوں نہ جو چیز بعد میں آنی ہے اس کو ابھی لے لیا جائے اور جس امر کو سالوں بعد اختیار کرنا ہے اسے ابھی سے اختیار کر لیا جائے.اگر صدرانجمن احمد یہ اس طریق کو اختیار کر لے تو یقیناً بہت جلد
خطبات محمود 1.6 سال ۱۹۳۸ء احمدیت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.ورنہ مشکلات بڑھتی جائیں گی اور سلسلہ کی ترقی کے راستہ کی میں روکیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.پس میں دوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری دشمنی ان تمام خیالات اور طریقوں سے ہے جو اسلام کے مخالف دنیا میں نظر کی آتے ہیں اور ان کو مٹانا اور دنیا سے نا پید کرنا ہمارا فرض ہے اس اصل اور طریق کے بعض حصے کی ہم مٹا چکے ہیں اور بعض مٹا رہے ہیں اور بعض مٹانے والے ہیں.جو حصے ہم مٹا چکے ہیں ان کے متعلق ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے اس کی توفیق عطا فرمائی اور جو حصے ہم مٹارہے ہیں ان کے متعلق ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے اور جو حصے ابھی باقی ہیں ان کے متعلق ہمیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے تاج جس قدر جلد ہو سکے انہیں مٹا کر اسلامی طریق پر ہم اپنے تمام نظام کو لے آئیں اور جس قدر کی انسانی سہارے نظر آتے ہیں انہیں دور کر دیں تا ہمارا سلسلہ کلی طور پر منہاج نبوت کے رنگ میں رنگین ہو جائے اور جس قدر روکیں ہماری ترقی کے راستہ میں حائل ہیں وہ دور ہو جائیں.اے خدا تو ایسا ہی کر.اَللَّهُمَّ أَمِينَ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۸ ء ) ل العنكبوت:٧٠ وأتُوا البيوت من أبوابها (البقرة : ١٩٠) النحل: ۲۷ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَيْمُتُمْ مِّن شَيْءٍ فَانَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ (الانفال : ۴۲) تا کہ بخاری کتاب فضائل أَصْحَاب النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم باب مناقب عثمان بن عفان (الخ) ابن ماجه كتاب السنة باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بخاری کتاب الصلواة باب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً....( مفهواً ) ١٠ بخارى كتاب الزكواة باب مَنْ أَحَبَّ تَعْجِيل الصدقَة مِنْ يَوْمِهَا
خطبات محمود 1+A ٨ سال ۱۹۳۸ صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں اور جماعت کے افراد سے خطاب فرموده ۲۵ فروری ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج نزلہ اور گلے میں خراش کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا علاوہ از میں دائیں پاؤں میں در دنقرس کا دورہ ہو گیا ہے اس لئے زیادہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا.اس وجہ سے میں آج بہت ہی چھوٹا خطبہ کہنا چاہتا ہوں.میں نے پچھلے خطبہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ منہاج نبوت کے مطابق جو انتظام ہوتا ہے وہ اور قسم کا ہوتا ہے اور مغربی اصول کے مطابق اور قسم کا.منہاج نبوت کے مطابق جو انتظام ہوتا ہے اس میں نہ کام کرانے والے کوئی معاوضہ مقرر کرتے ہیں اور نہ کام میں مدد کر نے والے کوئی حد بندی لگاتے ہیں.منہاج نبوت کے مطابق نہ تو یہ شرط ہوتی ہے کہ کوئی شخص دین کی ضرورت کے وقت ایک پیسہ یا دھیلہ یا دمڑی فی روپیہ چندہ دے اور نہ یہ شرط ہوتی ہے کہ کوئی شخص چار پیسے یا چھ پیسے فی روپیہ چندہ دے بلکہ زکوۃ مقررہ اور مفروضہ اور صدقات مقررہ کے بعد ہر انسان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اپنی طاقت اور اسلام اور سلسلہ کی ضرورت کے مطابق چندہ دے.اسی طرح جو لوگ کام کرتے ہیں ان کا معاوضہ مقررہ شرحوں پر نہیں ہوتا بلکہ حسب استطاعت سلسلہ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے.کوئی شخص بھی اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہوئے کبھی یہ فیصلہ نہیں کیا کرتا کہ میں اپنی بیوی بچوں کی بیماری پر اس قدر رقم خرچ کروں گا اس سے
خطبات محمود 1+9 سال ۱۹۳۸ء زیادہ خرچ کی اگر ضرورت پڑی تو انکار کر دوں گا.پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اسلام کی خدمت کیلئے حد بندی کی جائے.اسی طرح کوئی زمیندار کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی زمین پر محنت اس صورت میں ہی کرسکتا ہوں کہ جب دس روپیہ ماہوار مجھے معاوضہ ملے.بسا اوقات اس کی زمینداری نقصان پر جارہی ہوتی ہے اور وہ کہیں باہر جا کر زمین کی آمد سے زیادہ کما سکتا ہے مگر وہ اسے چھوڑتا نہیں ہر وقت بنتا رہتا ہے ، بیل سے بھی زیادہ محنت کرتا ہے.صرف اسی وجہ سے کہ وہ سمجھتا ہے یہ میری زمین ہے.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ شرط کریں کہ اگر کی ہمارا اتنا گریڈ ہو یا اتنی رقم دی جائے تو ہم کام کریں گے ورنہ نہیں.اسی طرح چندہ کی حد بندی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر غیریت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ تعلق پر.اللہ تعالیٰ اور بندہ کا معاملہ آپس میں ایسا ہونا چاہئے کہ جو تمام تعلقات سے زیادہ مضبوط اور تمام قرابتوں سے زیادہ قرب والا ہو.آقا اور ملازم والا معاملہ نہیں ہونا چاہئے.میں نے گزشتہ خطبہ میں کارکنوں کے معاوضہ کے متعلق جو بات کہی مجھے خوشی ہے کہ اس پر کئی کارکنوں نے لبیک کہا ہے.بعض نے تو یہ لکھا ہے کہ ہم پہلے ہی صدرانجمن کے ساتھ اپنا تعلق ملازمت کا نہیں سمجھتے تھے اور بعض نے یہ کہ ہم نے اب فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہم انجمن کے ساتھ اپنا تعلق تنخواہوں یا گریڈوں والا نہیں رکھیں گے بلکہ جو کچھ بھی گزارہ کیلئے ہمیں دیا جائے گا اسے قبول کر لیں گے.اس کے مقابلہ میں میں جماعت سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی ذمہ داری بھی اسی رنگ کی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ چندہ ایک آنہ فی روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کب مقرر کیا تھا یا پانچ پیسے کب مقرر کئے ہیں.دوسرا کہتا ہے کہ جب میں نے پانچ پیسہ فی روپیہ کی شرح سے چندہ دے دیا تو جب تک دوسرا جو بالکل نہیں دیتا اتنا ہی ادا نہ کرے میری ذمہ داری نہیں بڑھ سکتی حالانکہ یہ طریق تو وو ”دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں، والا ہے اور آقا اور ملازم والا تعلق ہے، مُحب اور محبوب کا نہیں.اور اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلقات آقا و ملا زم والے ہوں تو ہمیں بھی اس سے آقا والے سلوک کی ہی امید رکھنی چاہئے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اور یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْء دل کے ماتحت ہم سے سلوک کرے گا.ہماری لاکھوں خطائیں اور گناہ ایک تو بہ سے معاف کر دے گا.کوئی آقا ایسا کی نہیں ہوسکتا کہ تم اس کا کروڑ روپیہ کا نقصان کر دو اور پھر یہ کہہ کر کہ اچھا جی معاف کر دیں ، اس سے معافی بھی لے لو لیکن کوئی انسان جو ساری عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا رہتا ہے اگر مرنے کی سے کچھ دیر پہلے بھی کچی تو بہ کرے اور اپنے اعمال پر ندامت کا اظہار کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے.کوئی آقا اپنے ملازم کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کرتا.یہ محب اور محبوب والا معاملہ ہے مُحب اور محبوب دونوں کو یہ لو لگی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے مل جائیں ، خواہ کسی طرح ملیں اور چاہے ان میں سے کسی کو د بنا ہی کیوں نہ پڑے.اس لئے جب انسان کسی وقت بھی یہ خواہش کرتا ہے کہ میں اپنے خدا سے ملنا چاہتا ہوں تو خدا تعالیٰ جھٹ اسے اپنے سینہ سے ! چھٹا لیتا ہے.کوئی جرنیل کسی بادشاہ کا کوئی علاقہ دشمن کے ہاتھ بیچ دے اور پھر آ کر کہے کہ مجھے معاف کر دیا جائے تو بادشاہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا بلکہ فوراً اسے پھانسی پر لٹکا دے گا لیکن خدا تعالیٰ کا بندہ کتنا بھی نقصان کرنے کے بعد جب خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچتا ہے تو وہ کہتا و ہے کہ اچھا تم سے جو نقصان ہوا اس کا انتظام میں خود کرلوں گا اور تمہیں معاف کرتا ہوں.پس جماعت کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے اور کارکنوں کو بھی.کارکنوں کو اپنے کام کی بنیاد اس امر پر نہ رکھنی چاہئے کہ ہم اتی تنخواہ اور اتنا گر یڈلیں گے اور جماعت کو اپنے تعلقات کی بنیا دبھی اس امر پر نہ رکھنی چاہئے کہ ہم اتنے آنے یا اتنے پیسے چندہ دیں گے کیونکہ سوال آنوں یا پیسوں کا نہیں بلکہ ضرورت کا ہے.جب ضرورت کم ہو کم دیں اور جب زیادہ ہوزیادہ دیں.اس کے بعد میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں جماعت کی اصلاح کے متعلق بعض اور باتوں پر بھی غور کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ انہیں مجلسِ شوریٰ میں پیش کروں اور احباب سے ان کے متعلق مشورہ لوں.ان باتوں میں سے بعض نتائج کے لحاظ سے اور بعض ضرورت کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں.ممکن ہے جماعت کے مشورہ کے ماتحت میں ان میں کوئی تبدیلیاں بھی کروں لیکن بہر حال بعض نہایت اہم سوالات میرے سامنے ہیں جن کے متعلق میں مشورہ لینا چاہتا ہوں.اس کے متعلق دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ
خطبات محمود 111 سال ۱۹۳۸ء اللہ تعالیٰ مجھے بھی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی توفیق دے اور جو نمائندے آئیں ان کو بھی.مجلس شوری کے نمائندوں کے علاوہ میرے ساتھ تعلق کی بناء پر ہر شخص مجھے مشورہ دے سکتا ہے اور جب ایجنڈا شائع ہو جائے تو جو سمجھے کہ ان میں سے کسی امر کے متعلق وہ اپنے تجر بہ یا علم کی بناء پر کوئی مشورہ دے سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ دے دے.مجلس شوری کے موقع پر تو میری حیثیت اس مجلس کے صدر کی بھی ہوتی ہے اور اُس وقت انہی سے مشورہ لے سکتا ہوں جو وہاں موجود ہوں ، دوسروں سے نہیں لیکن وہاں سے باہر نکلتے ہی ہر احمدی کا تعلق مجھ سے ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی نمائندہ کا اس لئے جو چاہے مجھے مشورہ دے سکتا ہے..میں سمجھتا ہوں ہمارے کاموں میں کئی قسم کی اصلاحوں کی ضرورت ہے.بعض مجبوریاں بھی درپیش ہیں جن کے ماتحت بعض کاموں کی شکلیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری مشکلات بڑھتی جائیں گی اور یا پھر ہماری کامیابی میں تاخیر ہوتی جائے گی.بعض باتیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر مجبوریاں انہیں چھڑا دیتی ہیں اور بعض مفید ہوتی ہیں مگر ان پر کی عمل کا وقت نہیں آیا ہوتا.پس ہمیں اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھتے ہوئے اپنے کاموں میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلہ میں اگر بعض کا موں کی صورت میں تبدیلی بھی کرنی پڑے تو کرنی چاہئے.نیکی ہمیشہ موقع کے مطابق ہوتی ہے.مثلاً روزہ بے شک ترقی کا موجب ہے لیکن جہاد کے موقع پر ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی بے روزہ روزہ داروں سے بڑھ گئے لے کیونکہ روزہ دار تو روزے کھول کر مُردوں کی طرح پڑ گئے اور جن کے روزے نہیں تھے انہوں نے خیمے وغیرہ لگائے ، جانوروں کو باندھا، اُن کے لئے چارہ وغیرہ کا انتظام کیا اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج بے روز روزہ داروں سے بڑھ گئے.پس ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور کوئی نیکی ایسی نہیں جو ہر وقت ضروری ہو سوائے محبت الہی کے.یہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی.باقی سب نیکیاں ایسی ہیں کہ ان میں تبدیلی کی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں.نما ز کسی وقت تو نہایت ہی ضروری چیز ہے مگر کسی وقت یہی گمراہی کا موجب ہو جاتی ہے.اسی طرح روزہ ہے، حج بھی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے.مگر کسی وقت یہ بے ادبی کا موجب ہو جاتا ہے.صدقہ و خیرات نیکی ہے مگر کسی وقت یہی کی
خطبات محمود ١١٢ سال ۱۹۳۸ء تباہی و بربادی کا موجب ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فویل المُصلين الذينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ٣ یعنی جو لوگ اس خیال سے نمازیں پڑھتے ہیں کہ لوگ دیکھ کر کہیں گے کہ یہ بڑے نمازی ہیں ، ان کی نماز لعنتی نماز ہے اور وہ لعنت بن کر نمازی پر گرتی ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورج نکلنے اور سورج ڈوبنے کے وقت جو نماز پڑھتا ہے وہ شیطان ہے.کے اسی طرح روزہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عید کے روز روزہ رکھے وہ شیطان ہے.شا گویا ایک دن ایسا آجاتا ہے جب کھانا پینا مقدم ہو جاتا ہے.اسی طرح حج کے متعلق ہے.اور عمرہ کے متعلق بھی کہ وہ زیارت مکہ مکرمہ ہے.مثلا صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ مسلمانوں کو عمرہ کر لینے دیں مگر مکہ والوں نے کہا کہ ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور دوسرے مسلمانوں کو تو اجازت نہیں دے سکتے مگر آپ چونکہ آگئے ہیں اور ہمارے رشتہ دار اور مہمان ہیں اس لئے آپ کر سکتے ہیں لیکن حضرت عثمان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں ہرگز اسے پسند نہیں کرتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ممانعت ہو اور میں عمرہ کرلوں نے اب دیکھو ان کیلئے عمرہ یعنی طواف بیت اللہ کا موقع تھا مگر آپ نے اس سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کر سکتے تو میں بھی کی نہیں کرتا.پھر صدقہ و خیرات ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں.یعنی وہ مبذ رجو مال و دولت لگاتے وقت یہ خیال ہی نہیں کرتے کہ وہ کس طرح کی اندھا دھند خرچ کر رہے ہیں وہ صرف دینا ہی جانتے ہیں ان کو اخوان الشَّیولین کے فرمایا ہے.گویا یہ ثابت ہو گیا کہ نماز بھی شیطانی فعل بن سکتا ہے.روزہ بھی اور تبذیر بھی یعنی بے تحا شا خرچ کرنا، خواہ صدقہ کے طور پر ہی کیوں نہ دے دیا جائے.تو تین نیکیوں کے متعلق تو ی شریعت اور شارع کے صریح الفاظ سے ثابت ہو گیا کہ اگر بعض وقت وہ فرض ہیں تو دوسرے اوقات میں گناہ کا موجب.حج کے متعلق صریح الفاظ میں مثال نہیں ملتی مگر ایسے مواقع ہو سکتے ہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ کہ اس کا ادا کرنا بھی گناہ ہو جاتا ہو.اور ایک بات تو ظاہر ہی ہے کہ حج کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں.اگر ان شرطوں کے بغیر کوئی حج کرے تو یقیناً وہ شریعت کا حکم پورا کرنے والا نہ ہوگا.مثلاً آجکل ہی بعض بزرگ لوگ حج کیلئے جاتے ہیں ،اس لئے کہ لوگ انہیں حاجی کہیں ورنہ ان کے اندر جج کے نتیجہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.کہتے ہیں سردی کے موسم میں کوئی غریب اور اندھی بڑھیا گاڑی میں سفر کر رہی تھی.اس کے پاس اوڑھنے کیلئے صرف ایک ہی چادر تھی.کسی نے اسے اُٹھا لیا لیکن جب چادر کھسکی تو وہ سمجھ گئی کہ کسی نے میری چادر اٹھائی ہے اور کہنے لگی کہ بھائیا حاجیا.یعنی بھائی حاجی صاحب مجھ غریب اندھی کی چادر تو نہ اُٹھا ئیں.اٹھانے والے نے چادر تو آہستہ سے رکھ دی مگر کہا کہ مائی یہ بتاؤ تمہیں کیسے پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں.اس بڑھیا نے کہا کہ اس قد رسخت سنگدلی کا کام سوائے حاجی کے کون کر سکتا ہے کہ مجھ ایسی غریب ، اندھی بڑھیا کی اس قدر سخت سردی کے وقت چادر اٹھالے جائے.پھر میں نے اپنے کانوں سے سُنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سورت کا ایک حاجی منی اور مکہ کے درمیان سفر کرتے وقت جو حج کا موقع ہوتا ہے اور جب سب حاجی لبیک اَللَّهُمَّ لَكَ لَبَّیک کہتے جا رہے ہوتے ہیں ، اردو کے نہایت گندے عشقیہ شعر پڑھ رہا تھا.واپسی کے وقت وہ اسی جہاز میں تھا جس میں میں سفر کر رہا تھا.میں نے اسے پوچھا کہ آپ کو حج کی کیا ضرورت پیش آئی تھی جبکہ آپ حج کے موقع پر عشقیہ شعر پڑھ رہے تھے.تو اس نے کہا کہ ہمارے پاس والی دکان کے بورڈ پر چونکہ حاجی کا لفظ لکھا ہے، وہاں خریدار بہت آتے ہیں.میرے والد نے کہا کہ تم بھی حج کر آؤ تا ہم بھی بورڈ پر لفظ حاجی لکھوا سکیں اور ہمارا بھی سو دا زیادہ فروخت ہو.اس کی اپنی دینی حالت کا تو یہ حال تھا لیکن جب اسے علم ہوا کہ میں کی احمدی ہوں تو میں نے خود سے ایک دوسرے شخص سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حیران ہوں ایسا شخص جہاز میں پھر رہا ہے اور پھر بھی یہ جہاز غرق نہیں ہوتا.گویا اس کے نزدیک احمدیت ایسی کی بغض والی چیز تھی کہ جس جہاز میں کوئی احمدی سوار ہو اللہ تعالیٰ کو چاہئے تھا کہ اسے غرق کر دیتا.خواہ اس کے ساتھ ہزار اس کے ہم عقیدہ لوگ بھی غرق ہو جاتے.پس حج بھی بُری چیز ہو سکتی کی ہے اس لئے مومن کا کام ہے کہ مناسب موقع نیکیوں کی صورتوں میں تبدیلی کرتا ر ہے.ہاں جو چیز کی
خطبات محمود ۱۱۴ سال ۱۹۳۸ء بدلنے والی نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے.اس کے سوا نماز ، روزہ ، حج ، صدقہ خیرات، دیانت، امانت اور سچ سب کے استعمال کے مواقع میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے.غیبت سچ ہی کا نام ہے مگر چونکہ یہ خدا تعالیٰ کی محبت کیلئے نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دید تحل هُمَزَةٍ تم ایک شخص کو بعینہ وہی گالی جا کر سناتے ہو جو دوسرے نے تمہارے سامنے اسے دی تھی اور اس میں کوئی غلطی نہیں کرتے.تم کہتے ہو فلاں شخص نے کہا تھا کہ زید بڑا خبیث ہے.یہ چار الفاظ ہیں جن کے بیان کرنے میں کوئی بچہ بھی غلطی نہیں کر سکتا اور اس کا ایک ایک حرف یاد رکھ سکتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کا سچ بولنے والے پر اس کی لعنت نازل ہوتی ہے.یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس موقع پر خدا تعالیٰ کا حکم تھا کہ کچھ بھی نہ بولو.اس نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ جھوٹ بولو بلکہ یہ کہ چُپ رہو.چُپ رہنا اور بات ہے اور جھوٹ بولنا اور.تو ہر سچائی خدا تعالیٰ کی کے رحم کو جذب کرنے کا موجب نہیں ہوا کرتی بلکہ کئی سچائیاں جو فتنہ وفساد پیدا کرنے والی ہوں ان کا بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب اور اس کی لعنت کا مورد بنا دیتا ہے.پس ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں کے متعلق غور کرتے رہیں اور ان میں مناسب تبدیلیوں کا خیال رکھیں.اس لئے احباب دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرے تا ہم صحیح رستہ پر پہنچنے کی بجائے کسی اور غلطی میں مبتلا نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کی نصرت دعاؤں سے میں بھی بڑھ جاتی ہے.بے شک اسے اپنا سلسلہ بہت پیارا ہے اور جن کو وہ سلسلہ کے کام کیلئے کھڑا کرتا ہے ، ان کی مدد بھی کرتا ہے لیکن جب وہ اور اس کے ساتھی دعاؤں میں لگ جائیں تو وہ کی اللہ تعالیٰ کو اور بھی زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو یہ بات بھی بہت پیاری ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں.آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ اگر بچہ ماں سے کوئی چیز مانگے نہیں تو وہ اپنے دل میں گردھتی ہے کہ میرا بچہ مجھ سے کبھی کوئی خواہش نہیں کرتا.ساٹھ ستر فی صدی مائیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کا بچہ پہلے پہل ان سے کوئی مٹھائی یا پیسہ مانگتا ہے تو وہ اس قدرخوش ہوتی ہیں کہ گویا ساری دنیا کی بادشاہت انہیں حاصل ہوگئی.پس اللہ تعالیٰ اس بات سے بھی خوش ہوتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں اور جب اُس سے مانگا جائے تو اُس کا فضل بڑھ جاتا ہے اس لئے ہمیں خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں
خطبات محمود ۱۱۵ کہ جماعت کو ترقی حاصل ہوا اور اس کے فضل ہم پر بڑھتے جائیں“.پر بہ الاعراف: ۱۵۷ سال ۱۹۳۸ الفضل ۲ مارچ ۱۹۳۸ء) مسلم کتاب الصيام باب أجر المُقْطر فِي السَّفَرِ (الخ) الماعون: ۵ تا ۷ ے کنز العمال جلدے صفحہ ۴۱۷ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء ( مفہوماً ) سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۲۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء کے بنی اسرائیل: ۲۸ سورت کسی زمانہ میں مغربی ہند کا مشہور تجارتی مرکز اور سفر حجاز کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی اس وجہ سے اسے ”باب المکہ “ اور ” بندر مبارک بھی کہا جاتا تھا.۱۷۹۷ء میں اس کی آبادی آٹھ لاکھ سے کم نہ تھی.یہ شہر ابتداء سے ہی پارسیوں کا خاص مرکز رہا ہے.مغلوں کے ماتحت بندرگاہ کے طور پر اس شہر کو ترقی ہوئی.سترہویں ، اٹھارہویں صدی میں بڑا تجارتی مرکز رہا.ستر ہویں صدی کے اواخر میں یہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام بن گیا تھا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ا صفحہ ۹۳ ۷ لا ہور.۱۹۸۷ ء ) الهمزة:٢
خطبات محمود 117 ۹ سال ۱۹۳۸ رحم میں وسعت اختیار کرو فرموده ۴ / مارچ ۱۹۳۸ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اللہ تعالیٰ کی جماعتیں یعنی حزب اللہ اور خدا کا گروہ جب کبھی دنیا میں قائم ہوتا ہے تو اس کو تمام دنیا سے ایک روحانی جنگ کرنی پڑتی ہے.لیکن روحانی جنگ سب سے پہلے انسان کو اپنے نفس سے کرنی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ایسا شخص جس کا گھر دشمن کے قبضہ میں ہو وہ باہر جا کر نہیں لڑسکتا.جس کا کوئی ملک ہی نہ ہو اس نے جنگ کیا کرنی ہے.اسی طرح جس شخص کے دل پر شیطانی قبضہ ہواُس نے شیطانی مظاہر کا دنیا میں مقابلہ کیا کرنا ہے.آخر فوجوں کے رکھنے کیلئے یا ذخیروں کے رکھنے کیلئے یا گولہ و بار و د ر کھنے کیلئے یا اور سامانِ جنگ رکھنے کیلئے کوئی مُلک چاہیئے بے ملک تو کوئی فوج نہیں ہوتی.لازماً وہ فوج کہیں سے کھانا مہیا کرے گی ، کہیں سے پانی مہیا کرے گی، کہیں سے سامان جنگ مہیا کرے گی ، کہیں قلعے بنائے گی ،کہیں سپاہیوں کیلئے بیرے اور جگہیں بنائے گی ، کہیں خندقیں کھو دے گی اور کہیں گھوڑے کھڑے کرے گی اور اگر باقی ضرورتوں کو مد نظر نہ رکھا جائے تو بھی کم سے کم سپاہیوں کے ڈیروں کیلئے ہی ایک وسیع علاقہ کی ضرورت ہو گی مگر جس کا ملک ہی نہیں وہ یہ انتظام کس طرح کر سکتا ہے.اس اصل کے ماتحت روحانی فوج کیلئے بھی ملک کی ضرورت ہو ا کرتی ہے مگر روحانی فوج کا ملک انسان کا دل ہوتا ہے اور جس شخص کا دل اپنے قبضہ میں نہ ہو وہ روحانی معارف کی فوج
خطبات محمود 112 سال ۱۹۳۸ء.کہاں رکھے گا اور اس کے قدم کس جگہ نکلیں گے.تم کہو گے زمین پر.مگر روحانی جنگ زمین کی پر نہیں لڑی جاتی بلکہ وہ جنگ دلوں میں کی جاتی ہے، وہ جنگ دماغوں میں کی جاتی ہے اور جو جنگ دلوں اور دماغوں میں کی جانی ہو وہاں روحانی ہتھیاروں کی ہی ضرورت ہوگی اور وہ کی روحانی ہتھیار تقویٰ و طہارت اور وہ معارف و علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر نازل ہوتے ہیں.اگر کسی شخص کا دل اور دماغ اپنا نہیں تو وہ ان چیزوں کو رکھے گا کہاں ؟ پس روحانی جماعتوں کو اپنے دل اور اپنے دماغ کی صفائی کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے.جس شخص کا دماغ صاف نہیں اس کے افکار صاف نہیں ہو سکتے کیونکہ تدبر کا تعلق فکر کے ساتھ ہوتا ہے اور جس شخص کا دل صاف نہیں اس کا تقوی صاف نہیں ہوسکتا اور جس کا تقویٰ صاف نہیں اسے خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید کبھی حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ جذبات کا اصل مقام دل ہے گوان کا ظہور دماغ کے اعصاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے.سائنسدان اس بات پر بخشیں کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانی روح کا منبع در حقیقت دماغ کی ہے دل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ روح کی حقیقت کو نہیں پاسکے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی روح کا جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیموں اور رویا وکشوف سے پتہ چلتا ہے دل سے تعلق ہے.ہاں دماغ چونکہ منبت اعصاب ہے اس لئے قلبی علوم کو محسوس کرنا اور دل کے علوم مخفیہ سے مستفیض ہونا اس کا کام ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیات کا مقام دل کو قرار دیا ہے دماغ کو نہیں.اور روح کا سب سے گہرا تعلق اُسی عضو سے ہو سکتا ہے جو انسانی جسم میں سب سے اہم حیثیت رکھتا ہو اور جس کا کام سب سے نمایاں ہو اور وہ اہم کام دل کا ہی ہے دماغ کا نہیں.دل کی ایک سیکنڈ کی حرکت بند ہونے سے کلی طور پر انسان پر موت وارد ہو جاتی ہے لیکن دماغ میں کی اگر کوئی فتور پیدا ہو جائے تو گو اس وجہ سے کہ دماغ کا کام علوم قلبیہ کو محسوس کرنا ہے ، علوم پر دہ کی میں آجاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ انسان پر موت بھی وارد ہو جائے.تو دماغ خادم ہے اور دل وہ اصل مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے انوار نازل فرماتا ہے.خیر یہ تو ایک لمبی بحث ہے جس میں میں اس وقت نہیں پڑنا چاہتا.میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک مؤمن کیلئے اپنے دل اور دماغ کی صفائی نہایت ضروری ہوتی ہے.ایک شخص خواہ فلسفیوں کے تتبع میں تدبر
خطبات محمود ۱۱۸ سال ۱۹۳۸ء اور تفکر اور اخلاق فاضلہ کا تمام مدار دماغ پر رکھے یا یہ کہے کہ انسانی عقل اور معرفت کا سر چشمہ دل ہے اور دماغ کو علوم اور معارف سے کچھ تعلق نہیں پھر خواہ وہ دل اور دماغ کی بجائے جذبات اور افکار کا لفظ استعمال کرے بہر حال کوئی بھی صورت ہو انسان کیلئے دو چیزوں کی صفائی نہایت ضروری ہے جن میں سے ایک فکر ہے اور دوسری جذبات لطیفہ.انسان کے گہرے جذبات یعنی جذبات کی حسن نہ کہ عارضی جذ بے قلوب کی صفائی سے پیدا ہوتے ہیں اور افکار کی صفائی جسے عربی میں تنویر کہتے ہیں دماغ کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے.تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کی کے اندر ایسا نور پیدا ہو جائے کہ اسے ہمیشہ خیال صحیح پیدا ہو.فعلاً صحیح خیال کا پیدا ہونا تنویر نہیں بلکہ ایسے ملکہ کا پیدا ہو جانا کہ ہمیشہ صحیح خیالات ہی پیدا ہوتے رہیں تنویر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے خود سُنا ہے.بعض دفعہ جب آپ سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھا جاتا تو چونکہ یہ مسائل زیادہ تر انہی لوگوں کو یاد ہوتے ہیں جو ہر وقت اسی کام میں لگے رہتے ہیں.بسا اوقات آپ فرما دیا کرتے کہ جاؤ مولوی نورالدین صاحب سے پوچھ لو یا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا نام لیتے کہ ان سے پوچھ لو یا مولوی سید محمد احسن صاحب کا نام لے کر فرماتے کہ ان سے پوچھ لو یا کسی اور مولوی کا نام لے لیتے اور بعض دفعہ جب آپ دیکھتے کہ اس مسئلہ کا کسی ایسے امر سے تعلق ہے جہاں بحیثیت ما مور آپ کیلئے دنیا کی را ہنمائی کرنا ضروری ہے تو آپ خود مسئلہ بتا دیتے.مگر جب کسی مسئلہ کا جدید اصلاح سے تعلق نہ ہوتا تو آپ فرما دیتے کہ فلاں مولوی صاحب سے پوچھ لیں اور اگر وہ مولوی صاحب مجلس میں ہی بیٹھے ہوئے ہوتے تو اُن سے فرماتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کس طرح ہے.مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ جب آپ کہتے کہ فلاں مولوی صاحب سے یہ مسئلہ دریافت کر لو تو ساتھ ہی آپ یہ بھی فرماتے کہ ہماری فطرت یہ کہتی ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہونا چاہئے اور پھر فرماتے ہم نے تجربہ کی کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ کوئی مسئلہ ہمیں معلوم نہ ہو اُس کے متعلق جو آواز ہماری فطرت سے اُٹھے بعد میں وہ مسئلہ اسی رنگ میں حدیث اور سنت سے ثابت ہوتا ہے.یہ چیز ہے جو تنویر کہلاتی ہے.تو تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو خیالات بھی پیدا ہوں وہ درست ہوں.جس طرح ایک تندرستی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اس وقت تندرست ہوں.اور ایک تندرستی
خطبات محمود 119 سال ۱۹۳۸ء یہ ہوتی ہے کہ انسان آگے بھی تندرست رہے.تو تنویر وہ فکر کی درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیدا ہوں درست ہی ہوں.تو روحانی ترقی کیلئے تنویر فکر ضروری ہوتی ہے.اسی طرح روحانی ترقی کیلئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو تنویر کے معنے دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنی دل کی نسبت سے ہیں.ہمارے لوگ عام طور پر غلطی سے نیکی اور تقوی کو ایک چیز سمجھ لیتے ہیں حالانکہ نیکی وہ نیک کام ہوتا ہے جو ہم کر چکے ہیں یا آئندہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایسے مقام پر کھڑا ئے کہ اس کے اندر آئندہ جو جذبات بھی پیدا ہوں وہ نیک ہوں.تو افکار کیلئے تنویر اور جذبات کیلئے تقویٰ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جب کسی انسان کو تنویر افکار اور تقوی قلب حاصل ہو جائے تو وہ بدی کے حملہ سے بالکل محفوظ ہو جاتا ہے اور ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے فضل کے نیچے آجاتا ہے.پس یہ دو چیزیں ہیں جن کی جماعت کو ضرورت ہے.ایک تو یہ کہ ہمارے خیالات صحیح ہوں اور ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں.اور دوسری یہ کہ نہ صرف ہمارے خیالات صحیح ہوں بلکہ ہمارے اندر ایسا ملکہ پیدا ہو جائے کہ آئندہ جب بھی ہمیں کوئی خیال پیدا ہو وہ صحیح ہو اور نہ صرف ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں بلکہ ہمارے اندر ایسا ملکہ پیدا ہو جائے کہ آئندہ جب بھی ہمارے اندر جذبات پیدا ہوں وہ پاکیزہ ہوں.اول امر کو تنویر کہتے ہیں اور دوسرے امر کو تقوی.چنانچہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی دماغ کو تنویر عطا کی جاتی ہے اور کسی کے دل میں ایسا مادہ تقویٰ پیدا کر دیا جاتا ہے کہ باوجود کسی بات کو نہ جاننے کے وہ سمجھ جاتا ہے کہ شیطان اس موقع پر مجھے دھوکا دے رہا ہے.چند بزرگوں کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ اکٹھے مل کر سفر کر رہے تھے کہ راستہ میں ایک شخص نے مہمان نوازی کے طور پر ان کی دعوت کی اور کھانا ان کے سامنے رکھا.جب وہ کھانا کی کھانے کیلئے بیٹھے تو معا سب نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے.جب انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ آپ نے ہاتھ کیوں کھینچے ہیں؟ تو ہر ایک نے یہی کہا کہ یہ کھانا طیب معلوم نہیں ہوتا.آخر جس نے دعوت کی تھی اُسے بلا کر انہوں نے پوچھا.تو مجھے اب اچھی طرح یاد نہیں اُس نے جانور کے
خطبات محمود ۱۲۰ سال ۱۹۳۸ء متعلق یہ کہا کہ وہ مر گیا تھا اور میں نے اس کا گوشت حاصل کر لیا یا اور کوئی ایسی ہی بات تھی اور اس طرح اس نے اقرار کیا کہ واقعہ میں یہ کھانا جائز نہیں تھا.آخر اس نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ کیونکر معلوم کر لیا کہ یہ کھانا نا جائز ہے ؟ تو ان سب نے یہ جواب دیا کہ جب یہ کھانا ہمارے سامنے رکھا گیا تو ہمارے نفس میں اس کے کھانے کیلئے خاص طور پر رغبت پیدا ہوئی.جس سے ہم نے یہ سمجھا کہ یہ ضرور کوئی گناہ والی بات ہے تبھی ہمارا نفس اس قدر رغبت کا اظہار کر رہا ہے.اب یہ ایک جذباتی امر ہے ، افکار سے اس کا تعلق نہیں کیونکہ فکر ظاہری باتوں پر غور کر کے دلیل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.تو جب انسان ایسے مقام پر کھڑا ہو جائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خود بخو د راہنمائی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کو ایسی مخفی ہدایت ملتی ہے جسے الہام بھی نہیں کہہ سکتے اور جس کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام سے جُدا امر ہے.الہام تو ہم اس لئے نہیں کہ سکتے کہ وہ لفظی الہام نہیں ہوتا اور عدم الہام ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عملی الہام ہوتا ہے اور انسانی قلب پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہو کر یہ بتا دیتا ہے کہ معاملہ یوں ہے حالانکہ لفظوں میں یہ بات نہیں بتائی جاتی.بعض دفعہ جب اس سے بھی واضح رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات بتائی جاتی ہے تو اسے کشف کہہ دیتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعاعیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے.مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے.میں نے اپنے طور پر بھی دیکھا ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی شخص مجھ سے ملتا ہے تو اس شخص کے قلب میں سے ایسی شعاعیں نکلتی دکھائی دیتی ہیں جن سے صاف طور پر اس کا اندرونہ کھل جاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی کپٹ سے ہے یا غصہ ہے یا محبت ہے.ایک دفعہ ایک دوست مجھ سے ملنے آئے.وہ نہایت ہی مخلص تھے.مگر مجھ پر اُس وقت اثر ایسا پڑا جس سے میں نے محسوس کیا کہ ان کے دل میں کوئی خرابی پیدا ہو چکی ہے.میں نے بعض کی دوستوں سے اس کا ذکر کیا کہ مجھے ایسا نظارہ نظر آیا ہے مگر انہوں نے اس دوست کی بڑی تعریف کی حالانکہ میرے ساتھ ایسا کئی دفعہ ہوا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملنے آیا اور وہ حقیقت میں
خطبات محمود ۱۲۱ سال ۱۹۳۸ء مخلص ہے تو میں نے محسوس کیا کہ میری روح میں سے کوئی چیز نکل رہی ہے اور اس کی روح میں سے بھی کوئی چیز نکل رہی ہے اور وہ آپس میں مل گئی ہیں.مگر جب دوسرا شخص مخلص نہ ہو تو یوں کی معلوم ہوتا ہے کہ میری روح اس کی روح کو دھکا دے رہی ہے.اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے دل میں جذبات تنافر پائے جاتے ہیں.مگر جب ارواح کا اتصال ہو جائے تو کی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جذبات محبت پائے جاتے ہیں.پس وہ دوست بھی جب مجھ سے ملنے آئے تو میری فطرت نے محسوس کیا کہ ان کے اندر خرابی پیدا ہو چکی ہے حالانکہ وہ اُس وقت نہایت مخلص تھے.آخر سالہا سال کے بعد اس دوست کو ٹھو کر لگی اور پھر ان کے خیالات میں بھی کئی تبدیلیاں پیدا ہو گئیں.گو یہ بات ابتلاء تک ہی رہی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہ ہونے سے بچالیا مگر بہر حال بات ظاہر ہوگئی اور ان کے اندر جو تنافر اور سلسلہ کے کاموں سے بے رغبتی کا جذبہ کام کر رہا تھا وہ ظاہر ہو گیا.پس ایسا معاملہ میرے ساتھ بھی کئی دفعہ ہوا ہے.گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا اور میرے ساتھ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت.ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کر دیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اُس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کر دے.اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا اس بات سے ہی علم ہو سکتا ہے کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسی وقت یہ جانتا ہے کہ بڑا ہو کر یہ مثلاً ڈا کو بنے گا.مگر خدا تعالیٰ باوجود علم کے اُسے سزا نہیں دیتا.یا ایک شخص کے دل میں گناہ کے خیالات پیدا ہو رہے ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ دل کے خیالات پر اُس وقت تک گرفت نہیں کرتا جب تک عمل سے ان خیالات کو وہ پورا کرنے کی کوشش نہ کرے.یہی حال اس کے مقربین کا بھی ہوتا ہے.جب وہ اپنے کسی بندے کو دوسرے کا عیب بتا تا ہے تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دے دیتا ہے کہ اس عیب کو ظاہر نہ کرو کیونکہ اُس وقت جب ایک شخص ظاہر میں نیک کہلا تا ہو اُس کی ظاہری نیک نامی کو برباد کرنا بھی گناہ ہوتا ہے.غرض ہماری جماعت کو دنیا کا روحانی ہتھیاروں سے مقابلہ کرنے کیلئے اپنے قلوب کی
خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۸ء اصلاح کرنی چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ غصہ اور جوش میں آجاتے کی ہیں.کئی ہیں جو امانت میں خیانت کرتے ہیں، کئی ہیں جو اپنی ذمہ داری کو صحیح رنگ میں ادا نہیں کرتے.یہ مثالیں جہاں غیر از جماعت لوگوں پر بُرا اثر ڈالتی ہیں وہاں اپنی جماعت کے بعض لوگ بھی ایسے لوگوں کو دیکھ کر عمل میں سُست ہو جاتے ہیں حالانکہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کی کہ ایک شخص خود کشی کرے تو اسے دیکھ کر سارے لوگ خودکشی کرنے لگ جائیں مگر دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کو جب نیک اعمال میں سستی کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی سستی کرنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو دوسروں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اس گناہ کی نقل کریں بلکہ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس گناہ کو روکیں اور خود اس سے بچنے کی کوشش کریں.تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ جب ڈا کہ یا چوری کی وارداتیں لوگ سنہیں تو ڈا کہ اور چوری کو پسند کرنے لگ جائیں.پھر اگر ڈا کہ اور چوری جو تمدنی گناہ ہیں، اُنہیں دیکھ کر ڈا کہ اور چوری سے نفرت ہی پیدا ہوتی ہے ، ان کی طرف رغبت پیدا نہیں ہوتی تو جو اخلاقی اور کی مذہبی گناہ ہیں انہیں دیکھ کر بھی نفرت ہی پیدا ہونی چاہئے.اگر ایک ڈاکہ کی واردات سن کر سارے زمیندار یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں نے بہت بُرا کیا تو کسی کے متعلق یہ سن کر کہ وہ نمازیں نہیں پڑھتا ایک شخص کے دل پر یہ اثر ہونا کہ معلوم ہوتا ہے یہ معمولی بات ہے آئندہ میں بھی ایسا کی ہی کروں گا، محض حماقت اور نادانی ہے.پس بُری مثالوں سے اپنی قوت عمل کو کمزور نہیں ہونے کی دینا چاہئے اور نہ بُری باتوں کی تشہیر کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح بدی دنیا میں کثرت سے پھیل ہے.یہی امر خدا تعالیٰ نے سورہ نور میں ان الذینَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَاب اليد، في الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ، وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لا تعلمون سے میں بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ بُری باتوں کا مجالس میں تذکرہ نہیں کرنا چاہئے ورنہ لوگ عام طور پر ان باتوں میں مبتلا ہو جائیں گے.میں نے ابھی کہا ہے کہ دنیا میں لوگ کثرت سے ڈا کہ اور چوری وغیرہ بُرے افعال سے نفرت کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ واقعات بجائے شاذ و نادر ہونے کے کثرت سے ہونے لگ جائیں یا ان کا ذکر لوگوں میں کثرت سے ہونے لگے تو تھوڑے ہی
خطبات محمود ۱۲۳ سال ۱۹۳۸ء دنوں میں تم دیکھو گے کہ ڈاکہ کی وارداتیں زیادہ ہونے لگیں ہیں جیسے گجرات، شیخو پورہ اور کی گوجرانوالہ وغیرہ اضلاع میں کئی بڑے بڑے شریف نمازی اور تہجد گزار کہلانے والے دوسرے کی بھینس کھول کر گھر لے آئیں گے اور اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کریں گے کہ انہوں نے کوئی بُرا کام کیا ہے.میرے ایک دفعہ گھوڑے چوری ہو گئے.تو ایک احمدی نے جو پہلے چوروں کے ساتھ مل کر چوریاں کیا کرتے تھے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم سارے علاقہ کوسیدھا کر دیتے ہیں.میں نے پیغامبر کو جواب دیا کہہ دینا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں تو بہ کی توفیق عطا فرمائی ہے، اب یہی بہتر ہے کہ آپ اپنی تو بہ پر قائم رہیں اور اس کو توڑنے کی کوشش نہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اور گھوڑے دے دے گا.غرض بعض علاقوں میں جانوروں کی چوری کی اتنی کثرت ہے کہ اسے اعلیٰ درجہ کا بہادری کا فن سمجھا جاتا ہے.مثلاً گجرات کے علاقہ میں ہی بعض اقوام میں پہلے یہ رواج ہوا کرتا تھا گواب شاید نہیں کہ بیٹے کو پگڑی نہیں پہناتے تھے جب تک وہ ایک چوری کی بھینس اپنی بہن کو لا کر نہ دے.لڑکا جب جوان ہو جاتا اور پگڑی اُس کے سر پر نہ ہوتی تو اپنے رشتہ دار سے طعنے دیتے اور کہتے بے حیا! اتنا بڑا ہو گیا ہے مگر اب تک اس سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ ایک بھینس چرا کر اپنی بہن کو لا دے اور اپنے سر پر پگڑی بندھوائے.اس طرح پر ہر نوجوان کو چوری پر مجبور کیا ؟ جا تا اور وہ بڑا ہو کر جانوروں کا چور بنتا.ہماری جماعت کے ایک مخلص احمدی ہیں بلکہ اب تو وہ ہجرت کر کے قادیان آئے ہوئے ہیں.جب وہ شروع شروع میں آئے تو ان کا ایک لڑکا ان کے ساتھ تھا جس کے سر پر پگڑی نہیں تھی.ہماری والدہ صاحبہ حضرت اماں جان نے گھر میں ان کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ اس بچے کے سر پر پگڑی کیوں نہیں تو اس نے بتایا کہ جب یہ کسی کی بھینس چرا کر اپنی بہن کو لا کر دے گا تب اس کے سر پر پگڑی باندھی جائے گی.کیونکہ یہ ہمارے علاقہ کا دستور ہے.گو وہ دوست ہمیشہ یہ واقعہ سُن کر شرمندہ ہوا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بات نہیں تھی میرے گھر والوں نے صرف ہنسی سے ایسا ذ کر کیا تھا مگر بہر حال ان کے علاقہ میں یہ رواج تو تھا تبھی ان کی اہلیہ نے ذکر کی کیا.یہی بات ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے سنی تو اس کا کی
خطبات محمود ۱۲۴ سال ۱۹۳۸ء ان پر اتنا اثر ہوا کہ ایک دفعہ جبکہ مجلس میں بعض اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے، برسبیل تذکرہ وہ کہنے لگے کہ گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے.میرے ذہن میں اُس وقت یہ حکایت نہیں تھی.کی میں نے کہا یہ صحیح نہیں.ہر علاقہ میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں.کہنے لگے نہیں گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے.میں نے کہا میر صاحب ! آپ کی یہ بات درست نہیں.ہماری جماعت میں بھی اس علاقہ کے لوگ شامل ہیں اور وہ بڑے نیک ہیں.وہ میری اس بات پر بھی کہنے لگے خواہ کچھ ہو چور ضرور ہوں گے.میرا ذہن اُس وقت تک بھی اس قصہ کی طرف نہیں گیا اور میں نے چند دوستوں کے نام لئے کہ دیکھیں فلاں دوست کیسے نیک ہیں ، فلاں دوست کیسے نیک ہیں.وہ کہنے لگے اگر وہ گجرات کے ہیں تو چور ضرر ہوں گے.اس دوران میں چونکہ ایک مذاق کی صورت پیدا ہوگئی تھی اس لئے میں نے نام لے کر کہا کہ حافظ روشن علی صاحب گجرات کے علاقہ کے ہیں ، کیا وہ بھی چور ہیں؟ میرے اس جواب پر میر صاحب کہنے لگے حافظ روشن علی صاحب کی گجرات کے ہیں؟ میں نے کہا ہاں.اس پر وہ پہلے تو ذرا رک گئے پھر بولے اگر وہ گجرات کے ہیں تو وہ بھی چور ہوں گے.آخر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے وثوق سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ وہاں تو دستور ہے کہ بچہ کے سر پر اُس وقت تک پگڑی نہیں باندھتے جب تک وہ ایک بھینس چرا کر گھر میں نہ لے آئے.اس تشریح سے غالبا گجرات کی کے دوستوں کے دل کی تکلیف جاتی رہے گی.ورنہ پہلے تو انہیں ان کی بات بُری ہی لگی ہوگی.اب یہ جو رسم ان علاقوں میں ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میں چونکہ ہر وقت جانوروں کی چوری کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے سارے علاقہ میں چوری کا رواج ہو گیا ہے.یوں اگر وہ سنیں کہ کسی نے دوسرے کا روپیہ اُٹھا لیا ہے تو وہ بھی بُرا مناتے ہیں لیکن جانوروں کی چوری کے ذکر پر ان کے دلوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ذکر ان میں عام ہے اور جس بدی کا ذکر عام ہو جائے وہ قوم کے افراد میں پھیل جاتی ہے.اسی طرح پٹھانوں میں قتل کا رواج ہے اور وہ اسے کوئی عیب نہیں سمجھتے کیونکہ ہر وقت ان میں قتل کا چرچا رہتا ہے.مثل مشہور ہے کہ کسی پٹھان کا لڑکا ایک ہندو سے پڑھتا تھا.ایک دن استاد کسی بات پر ناراض ہو ا تو لڑکے نے تلوار اُٹھالی اور چاہا کہ اسے قتل کر دے.وہ ہند و آگے آگے بھاگا اور
خطبات محمود ۱۲۵ سال ۱۹۳۸ء لڑکا پیچھے پیچھے.وہ بھاگتا جا رہا تھا کہ رستہ میں اس لڑکے کا باپ مل گیا اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ باپ اسے روک لے گا کہا خان صاحب دیکھئے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اسے رو کئے.اب خان صاحب بجائے اس کے کہ اپنے لڑکے کو روکتے اُس ہندو کو گالی دے کر کہنے لگے او بنئے ! کیا کر رہا ہے میرے بیٹے کا پہلا وار ہے، یہ خالی نہ جائے.غرض جب اشاعتِ مخش ہو اور کی بدی کا ذکر عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہو تو وہ بدی قوم میں پھیل جاتی ہے اسی لئے ہماری شریعت نے عیوب کا عام تذکرہ ممنوع قرار دیا ہے اور فرمایا ہے جو اولی الامر ہیں ان تک کی بات پہنچا دو اور خود خاموش رہو.اگر ایسا نہ کیا جائے اور ہر شخص کو یہ اجازت ہو کہ وہ دوسرے کا جو عیب بھی سنے اسے بیان کرتا پھرے تو اس کے نتیجہ میں قلوب میں سے بدی کا احساس مٹ.ہے اور بُرائی پر دلیری پیدا ہو جاتی ہے.پس اسلام نے بدی کی اس جڑ کو مٹایا اور حکم دیا کہ تمہیں جب کوئی بُرائی معلوم ہو تو اولی الاخر کے کے پاس معاملہ پہنچاؤ جو سزا دینے کا بھی اختیار رکھتے ہیں اور تربیت نفوس اور اصلاح قلوب کیلئے اور تدابیر بھی اختیار کر سکتے ہیں.اسی طرح بدی کی کی تشہیر نہیں ہوگی ، قوم کا کریکٹر محفوظ رہے گا اور لوگوں کی اصلاح بھی ہو جائے گی.پس یا درکھو کہ نیکی کی تشہیر اور بدی کا اخفا یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ قومیں اس سے بنتی اور قو میں اس سے بگڑتی ہیں.جتنا تم اس بات کا زیادہ ذکر کرو گے کہ فلاں اتنی قربانی کرتا ہے، فلاں اس طرح نمازیں پڑھتا ہے، فلاں اس اہتمام سے روزے رکھتا ہے، اتنا ہی لوگوں کے دلوں میں دین کیلئے قربانی کرنے اور نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کی خواہش پیدا ہوگی.اور کی جتنی تم اس بات کو شہرت دو گے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، وہ خیانت کرتے ہیں ، وہ چوری کرتے ہیں ، وہ ظلم کرتے ہیں ، اتنا ہی لوگوں کو ان بدیوں کی طرف رغبت پیدا ہوگی اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم کسی کی نیکی دیکھو تو اسے خوب پھیلا ؤ اور جب کسی کی بدی دیکھو تو اس پر پردہ ڈالو.ایک بلی بھی جب پاخانہ کرتی ہے تو اُس پر مٹی ڈال دیتی ہے پھر انسان کیلئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ بدی کی تشہیر نہ کرے بلکہ اُس پر پردہ ڈالے اور اس کے ذکر سے اپنے آپ کو روکے.اگر اس ذکر سے اپنے آپ کو نہیں روکا جائے گا تو متعدی امراض کی طرح وہ بدی قوم کے دوسرے افراد میں سرایت کرے گی اور خود اس کا خاندان تو
خطبات محمود ۱۲۶ سال ۱۹۳۸ لا زماً اس میں مبتلا ہو گا.تو بدیوں میں لوگوں کی نقل نہیں کرنی چاہئے بلکہ نیکیوں میں لوگوں کی نقل کرنی چاہئے اور ضمنی طور پر میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیکیوں کی تشہیر ضروری ہوتی ہے اور بدیوں کا چُھپانا ضروری ہوتا ہے.دیکھو باوجود اس بات کے کہ ریاء سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدّ شن یعنی ریاء تو منع ہے لیکن اگر برسبیل تذکرہ بغیر اس کے کہ فخر ہو یا خیلاء اور تکبر ہوا اگر کبھی تم اپنی نیکیوں کا ذکر کر دیا کرو تو یہ اور لوگوں کیلئے ہدایت کا موجب ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا پسندیدہ امر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ بعض دفعہ جب ضروریات دینی کیلئے آپ صحابہ سے چندہ کا مطالبہ کرتے تو لوگوں کو تحریص دلانے کیلئے فرماتے کہ فلاں نے اتنا چندہ دیا ہے.اب کون ہے جو اُس سے سبقت لے جائے.اس پر صحابہ نیکی میں مقابلہ کرتے اور ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے لیکن ایسا کبھی کبھار کرنا چاہیئے جب ریاء اور نمائش نہ ہو یا تماشہ کی صورت نہ بن جائے.جیسے انجمنوں میں کیا جاتا ہے کہ ایک پنسل رکھ کر کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں یتیم کی پنسل ہے کتنے روپے کی لو گے؟ یہ تماشہ ہے اور اس قسم کا فعل کوئی پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا.لیکن اگر لوگوں کو نیکی کی تحریص و ترغیب دلانے کیلئے بعض دفعہ اپنی نیکی کا ذکر کر دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ جائز ہے بلکہ بسا اوقات مفید ثابت ہوتا ہے.پس ہماری جماعت کو نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.دشمن اگر گندے حملے کرتا تج ہے تو کرے.تمہیں اس کے مقابلہ میں گندے حملے کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر تم بھی ویسا ہی گندہ حملہ کر دو تو یہ ویسی ہی مثال ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ کسی بیوقوف کا کٹورہ کوئی نمبر دار مانگ کر لے گیا پھر شاید وہ بھول گیا یا اُس کا ارادہ ہی واپس کرنے کا نہ رہا.حتی کہ کئی دن گزر گئے.ایک دن وہ بیوقوف اُس کے گھر چلا گیا اور دیکھا کہ وہ اس کے کٹورے میں ساگ کھا رہا ہے.وہ کہنے لگا نمبر دار! یہ کیسی بُری بات ہے کہ تم مجھ سے کٹورہ مانگ کر لائے اور چار پانچ مہینے ہو گئے مگر تم نے اب تک واپس نہیں کیا.پھر وہ اپنے آپ کو گالی دے کر کہنے لگا تم تو ساگ کھا رہے ہو میں بھی اگر تمہارے کٹورے میں نجاست ڈال کر نہ کھاؤں تو مجھے ایسا ایسا سمجھنا.
خطبات محمود ۱۲۷ سال ۱۹۳۸ء اب کوئی اُس سے پوچھے کہ اگر تم نجاست ڈال کر کھاؤ گے تو تم ہی نقصان اُٹھاؤ گے ، اس کا کیا کی ہوگا.تو بدی کے مقابلہ میں بدی کا استعمال کسی صورت میں جائز نہیں.دشمن ہر قسم کی شرارتیں کر رہا ہے اور کرے گا.مگر تمہیں جہاں تک ہو سکے اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور نیکیوں میں بڑھتے چلے جانا چاہئے.آخر وہ گند جو ہمارا دشمن اُچھال رہا ہے ہم وہ گندا چھال کس طرح سکتے ہیں جب تک ہم بھی اس کی طرح سچ کو نہ چھوڑ دیں.اور اگر ہم اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سچ کو چھوڑ دیں اور جھوٹ کو اختیار کر لیں تو پھر تو وہی جیتا اور ہم ہارے.یہی طریق حضرت کی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دشمنوں کا تھا اور یہی طریق پہلے انبیاء کے زمانہ میں مخالفین نے اختیار کیا.یہ تو منہاج نبوت ہے اور ناممکن ہے کہ دشمن جھوٹ اور فریب سے کام نہ لے.ابھی پچھلے ایام میں لاہور کے کالج کے جو طالب علم آئے تھے ان کے سامنے میں نے ایک تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا تھا کہ میرے خلاف ایک درخواست شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کی طرف سے عدالت میں اس مضمون کی دی گئی تھی کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو کہا ہے کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرو.حالانکہ بات کیا تھی ؟ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے میرے اس خطبہ میں سے ایک فقرہ کہیں سے لے لیا اور دوسرا کہیں سے.مثلاً ایک فقرہ اگر میں نے ایک جگہ کہا ہے تو اُس کو لے لیا.پھر دو چار کالم چھوڑ کر ایک اور فقرہ لے لیا اور ان کی دونوں کو ملا کر ایک نتیجہ قائم کر لیا اور کہہ دیا کہ جماعت کو قتل کرنے کی تحریک کی گئی ہے.حالانکہ اصل مضمون اس کے بالکل الٹ تھا.مثلاً میں نے جو کچھ خطبہ جمعہ میں کہا اور آپ لوگوں میں سے اکثر نے سنا وہ یہ تھا کہ دنیا میں لوگ دو طریق سے کامیاب ہوا کرتے ہیں.یا تو وہ دوسروں کی کو مار کر ان پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں.جیسے قو میں ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتی اور مد مقابل کو زک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں.اور یا وہ ماریں کھاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس طرح ان کی مظلومیت ایک دن رنگ لاتی اور انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کر کے دکھا دیتی ہے.پھر میں نے بتایا کہ گوڈ نیوی طریق یہی ہے کہ دوسروں کو مار کر ان پر غالب آنے کی کوشش کی جائے.اگر نبیوں کا طریق جو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور جو انبیاء کی
خطبات محمود ۱۲۸ سال ۱۹۳۸ء جماعتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ماریں کھائیں اور خاموش رہیں ، گالیاں سنیں ! دم نہ ماریں.اب یہ جو میں نے کہا تھا کہ نبیوں کی جماعتوں والا طریق یہ ہے کہ تم ماریں کھاؤ اور خاموش رہو.اس کو تو انہوں نے حذف کر دیا اور میرے اس فقرہ کو لے لیا کہ کامیابی دشمن کو مار کر حاصل ہوتی ہے.حالانکہ میں نے وہاں صاف طور پر بتا دیا تھا کہ یہ دنیوی طریق ہے، انبیاء کا طریق نہیں ہے.مگر چونکہ تمام فقرات اگر وہ نقل کر دیتے تو ان کا دعویٰ خود ہی باطل ہو جاتا اس لئے انہوں نے کوئی فقرہ کہیں سے لے لیا اور کوئی کہیں سے اور اس کا ایک مفہوم نکال کر کہہ دیا کہ اس میں اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کی تحریک کی گئی ہے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے ہم دورانِ گفتگو میں اگر یہ کہیں کہ فلاں چور یہ کہتا ہے کہ چوری کرو تو دوسرا اس فقرہ کے ابتدائی حصہ کو جس میں چور کی طرف بات منسوب کی گئی ہے حذف کر کے کہنا شروع کر دے کہ یہ لوگوں کو کہتے پھرتے ہیں کہ چوری کرو اور اُس امر کو چھپا ڈالے کہ چور کا قول نقل کیا گیا تھا نہ کہ اپنی طرف سے بات کہی تھی.اسی قسم کے ایک شخص کے متعلق مشہور ہے کہ وہ نمازیں نہیں پڑھا کرتا تھا.ایک دن لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ بھئی نماز کیوں نہیں پڑھتے وہ کہنے لگا میں نماز کیا پڑھوں.قرآن کریم خود کہتا ہے کہ نماز نہ پڑھو.اُنہوں نے کہا کس جگہ ؟ وہ کہنے لگا دیکھو قرآن میں صاف لکھا ہے لا تقربوا الصلوة " نماز کے قریب بھی مت جاؤ.حالانکہ اس سے اگلا فقرہ ہے وَ انتُمْ سُگاری کے یعنی ایسی حالت میں نماز نہ پڑھو جبکہ تم مدہوش ہو.جیسے سخت نیند آئی ہوئی ہو یا غصہ میں ہو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں انسان کچھ کا کچھ بکواس کرنے لگتا ہے اور ممکن ہے وہ دعا کرنے کی بجائے بددعا کرنے لگ جائے.مگر یہ فقرہ چونکہ اس کے مفید مطلب نہیں تھا اس لئے اس نے اسے چھوڑ دیا اور پہلا حصہ لے کر کہہ دیا کہ میں کیا کروں مجبور ہوں.اگر قرآن کا حکم نہ مانوں تو گنہگار ٹھہروں.لوگوں نے کہا اس آیت کا ذرا اگلا حصہ بھی پڑھو.وہ کہنے لگا سارے قرآن پر کس نے عمل کیا ہے.کوئی کسی نی حصے پر عمل کر لیتا ہے اور کوئی کسی پر.میں اس حصے پر عمل کرتا ہوں تم دوسرے پر عمل کر لو.اسی طرح اپنے خطبہ میں وہ جو میں نے کہا تھا کہ بعض شریر اور مفسد لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور
خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف جیسا کہ اسے میں سمجھتا ہوں ، چاہتے ہیں کہ تشدد اور سختی سے دشمن کا مقابلہ کریں وہ خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے ہیں.انبیاء کی جماعتیں اسی صورت میں کامیاب ہوا کرتی ہیں جب وہ وہی طریق اختیار کریں جو خدا نے ان کیلئے مقرر کیا ہے اور جو یہ ہے کہ وہ ماریں کھائیں اور چپ رہیں.اس قسم کے تمام فقرات انہوں نے کاٹ دیئے اور دوسرے نامکمل فقرے لے کر شور مچا دیا کہ انہوں نے ہمارے متعلق اپنی جماعت کو کہا ہے کہ انہیں مارو.اسی طرح اس خطبہ میں بھی میرا ایک فقرہ ہے اور کئی دوسرے خطبات میں بھی وہ فقرہ آتا ہے کہ دیکھو تم میں سے کئی ہیں جو معمولی باتوں پر اظہار غضب کرتے ہیں.میں کس طرح مان لوں کہ وہ غیر تمند ہیں.اگر وہ سچے ہیں تو دوسروں کی کو کیوں جوش دلاتے ہیں، خود انہیں کوئی غیرت نہیں آتی اور وہ اسلام پر اپنی آنکھوں سے دشمن کی طرف سے حملے ہوتے دیکھتے ہیں اور گھروں میں خاموش بیٹھے رہتے ہیں.اب اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جاؤ اور دشمن سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم جماعت میں جوش پیدا کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے.یہ جھوٹ ہے اگر ایسا ہوتا تو دوسروں کو جوش نہ دلاتے خود اپنے عقیدہ کے مطابق لوگوں سے لڑتے.مگر انہوں نے اس فقرہ کا بھی یہ مفہوم لے لیا کہ گویا میں نے لوگوں سے یہ کہا ہے کہ تم لڑتے کیوں نہیں اور ی بے غیرت بن کر کیوں بیٹھے ہو.غرض کوئی فقرہ اس کالم سے اور کوئی اُس کالم سے ، کوئی اس کی صفحہ سے اور کوئی دو چار صفحے چھوڑ کر اگلے صفحہ سے انہوں نے لے لیا اور اس طرح لا تَقْرَبُوا الصلوۃ والے فقرہ کی طرح انہوں نے بھی ایک مضمون تیار کر لیا.حالانکہ بعض جگہ میں نے اپنی بات نہیں بیان کی بلکہ دنیا کا عام طریق یا دشمن کا مقولہ بیان کیا ہے اور اگر اس کی طرح استدلال کرنا درست ہو تو قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ اے خدا! دشمنوں کے عمائد ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ تم ود، سواع، یغوث ، یعوق اور نسر کومت چھوڑو اور ان کی پرستش کئے چلے جاؤ.نے اس کے ابتدائی الفاظ کو جن میں یہ بات کفار کے عمائد کی طرف منسوب کی گئی ہے حذف کر کے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت نوح نَعُوذُ بِالله مشرک ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں ؤد اور سواع اور دوسرے معبودانِ باطلہ کی پرستش مت چھوڑو.مگر کیا
خطبات محمود ۱۳۰ سال ۱۹۳۸ء کوئی بھی عقلمند اس استدلال کو درست قرار دے گا اسی طرح جن باتوں کی میں نے اس میں تردید کی ہے اور جنہیں اپنی تعلیم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف بتایا ہے اور کہا ہے کہ جو اِن کو نہیں چھوڑ تا وہ قرآن کریم اور اسلام کی نافرمانی کرتا ہے.انہی باتوں کو انہوں نے میری طرف منسوب کر دیا اور جن فقرات میں.باتیں دوسروں کی طرف بتائی گئی تھیں ، انہیں اُڑا دیا.اب اس کے مقابلہ میں اگر تم بھی کہو کہ ہم بھی یہی طریق اختیار کریں گے اور ہم بھی اسی طرح انہیں بد نام کریں گے تو بتاؤ اس کا فائدہ کیا ہوا اور پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم جیتے ، جبکہ واقعہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن جیت گیا ہوگا کیونکہ شیطان کی تو غرض ہی یہی ہے کہ وہ تمہیں سچائی سے منحرف کر کے جھوٹ کے راستہ پر ڈال دے.پس اگر تم اسی کا تتبع کر کے جھوٹ کو اختیار کر لو تو بہر حال فتح تمہاری نہ ہوئی بلکہ تمہارے دشمن کی ہوئی.تمہارا کام تو یہ ہے کہ تم اپنے مقام پر مضبوطی سے کھڑے رہو اور دشمن کے مقابلہ میں بھی جھوٹ اور فریب سے کام نہ لو.دشمن اگر ان کی ہتھیاروں کو استعمال کرتا ہے تو بے شک کرے کیونکہ جب کسی انسان کا دل تقویٰ سے خالی ہو جاتا ہے اور بغض اس کی بصیرت کے آگے دیوار بن کر حائل ہو جاتا ہے تو وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھتا چلا جاتا ہے.آج ہی میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے کہ مصری صاحب کے بعض ساتھی ایک جگہ کھڑے تھے کہ انہوں نے میری تصویر لے کر اس کی ایک آنکھ چاقو سے چھید دی اور اس کے نیچے رنجیت سنگھ کا نام لکھ دیا اور ایسی جگہ پھینک دیا جہاں سے احمدی اسے اُٹھا لیں.یہ شکایت پہنچانے والے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کر سخت غصہ اور جوش آیا حالانکہ اس میں جوش کی کون سی بات تھی.دشمن جب عداوت میں اندھا ہو جاتا ہے تو وہ اسی قسم کے ہتھیاروں پر اتراکی کرتا ہے.پھر ہمارے لئے تو یہ کوئی نئی بات نہیں.ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا کی چلا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو ایک دفعہ ”زمیندار“ نے لوگوں میں جوش پیدا کر کے جُوتیاں مروائی تھیں.کچھ دن پہلے اُنہوں نے اس قسم کے مضمون لکھے کہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو.پھر ”زمیندار“ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اپنے اخبار میں ا
خطبات محمود ۱۳۱ سال ۱۹۳۸ء شائع کر دی اور اس پر کئی طرح عوام اور جہلاء نے تصویر کی ہتک کی.چنانچہ انارکلی لاہور میں عین سڑک کے درمیان ایک شخص نے تصویر چسپاں کر دی تا کہ لوگوں کے پاؤں اُس پر پڑیں.مگر کیا تم سمجھتے ہو اس کے مقابلہ میں ہمیں بھی یہی چاہئے کہ ہم ان کے باپ دادا کی تصویر لے کر اسے خراب کریں اور اگر ہم بھی ایسا ہی کریں تو اس کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ بدی اور گند دنیا میں پھیلے.پس ان باتوں کی کبھی پرواہ نہ کرو اور نہ ان باتوں سے جوش اور اشتعال میں آؤ.یہ دشمن کی کے پرانے ہتھیار ہیں اور ہمیشہ انبیاء کی جماعتوں کے مقابلہ میں اس قسم کے ہتھیار وہ استعمال کرتا چلا آیا ہے.میں جب خطبہ پڑھتا ہوں تو گلے کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ منہ میں دوا کی گولی رکھ لیتا ہوں یا بعض دفعہ پان کی گلوری منہ میں رکھ لیتا ہوں.چنانچہ پچھلے جمعہ بھی ایسا ہی ہوا.اس پر مصری صاحب کے ایک چیلے نے ناظر امور عامہ کو گمنام چٹھی لکھ دی اور لکھا کہ اچھے خلیفہ اسیح ہیں ادھر خطبہ پڑھتے ہیں اور اُدھر جگالی کرتے چلے جاتے ہیں.اب اس نے اس کا نام اگر جگالی رکھ دیا تو میرا کیا بگڑا، اُسی کی زبان خراب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا.آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا قرآن میں یوں آتا ہے.پنجابی لہجہ میں چونکہ ق اچھی طرح ادا نہیں ہو سکتا اور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح ق کی کی آواز گلے سے نہیں نکالتے بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جوق اورک کے درمیان درمیان ہوتی ہے.آپ نے بھی قرآن کا لفظ اُس وقت معمولی طور پر ادا کر دیا.اس پر وہ شخص کہنے لگا بڑے نبی بنے پھرتے ہیں ، قرآن کا لفظ تو کہنا آتا نہیں اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے.جونہی اس نے یہ فقرہ کہا حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جو اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اُنہوں نے اُسے تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ اُٹھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معا ان کا ہاتھ پکڑ لیا.دوسری طرف مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے ، دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کردی.پھر آپ نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہیں.اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام کی
خطبات محمود ۱۳۲ سال ۱۹۳۸ء نہ لیں تو بتلائیں اور کیا کریں.اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور کی صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.اس کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی.یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں.پھر دشمنانِ احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے نام پڑھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا تھا اور پھر یہ خطوط اتنی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے.میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بیرنگ آتے ہیں اور واپس کر دئیے جاتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہر ہفتہ میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پُر ہوا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہو جاتا.میں نے اتفاقاً اُن خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے جسم کا خون کھولنے لگ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو.اس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جمع ہو گئے تھے.لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں آپ یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے.کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی مگر پھر بہت سے جمع ہو جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمنوں کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں.پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی کی بات ہے.یہ باتیں تو ہمارے تقوی کو مکمل کرنے کیلئے ظاہر ہوتی ہیں.ان میں ناراضگی اور جوش کی کی کون سی بات ہے.آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے.دشمن کے دل میں چونکہ گند ہے اس لئے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی و تقوی پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں.اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو تم اُس مجلس سے اٹھ کر چلے آؤ ، یہی خدا کا حکم ہے جو اس نے
خطبات محمود ۱۳۳ سال ۱۹۳۸ء ہمیں دیا مگر بیہودہ غصہ اور نا واجب غضب کا اظہار بیوقوفی ہے.اگر اس وقت جب کہ تم کمزوری ہو اور تمہاری مثال دنیا کے مقابلہ میں بتیس دانتوں میں زبان کی سی ہے مخالفین کی حرکات پر تمہیں غصہ آتا ہے اور تم اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تو یاد رکھو جب ہمیں بادشاہت حاصل ہوگی اُس وقت ہمارے آدمی دشمنوں پر سخت ظلم کرنے والے ہوں گے.پس آج ہی اپنے نفوس کو ایسا مارو ایسا ما رو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں یا تمہاری اولادوں کو بادشاہت دے تو تم ظلم کرنے والے نہ بنو اور تمہارے اخلاق اسلامی منہاج پر سُدھر چکے ہوں.اگر آج تم صبر سے بھی کام لیتے ہو تو دنیا کی نگاہ میں یہ کوئی خوبی نہیں کیونکہ کمزوری کے وقت ظلم کو برداشت کر لینا کوئی کمال نہیں ہوتا.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت مسیح ناصری سے مقابلہ کرتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی دلیل پیش کی ہے کہ مسیح ناصری کا حلم اپنے اندر کیا حقیقت رکھتا ہے جبکہ انہیں سختی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا.اور ان کی نیکی اپنے اندر کیا حقیقت رکھتی ہے جبکہ بدی کے مواقع ہی انہیں پیش نہیں آئے.ایک عنین اگر یہ کہے کہ میں بڑا عفیف کی ہوں ، ایک اندھا اگر یہ کہے کہ میں نے کبھی بدنظری نہیں کی ، ایک بہرا اگر یہ کہے کہ میں نے کبھی تج غیبت نہیں سنی تو یہ کوئی خوبی اور کمال نہیں.خوبی اور کمال یہ ہے کہ انسان مخالف حالات میں سے گزرے اور پھر اپنے زہد والقاء کا شاندار نمونہ دکھائے.پس ہمارا آجکل کے زمانہ میں جب کہ ہم کمزور ہیں اور ہمیں کوئی طاقت حاصل نہیں مظلوم ہونا اور تمام مظالم کو برداشت کرتے چلے جانا دنیا کی نگاہ میں کوئی خوبی نہیں.گو خدا کی نگاہ میں ہے کیونکہ جب ہم اسی کی رضاء کیلئے اپنے نفسوں کو مارتے اور جذبات کو دبا دیتے ہیں تو یقیناً اس کی نظر میں مقبول ہیں.مگر دنیا اس امر کو کی نہیں سمجھتی.وہ خیال کرتی ہے کہ چونکہ اس وقت یہ کمزور ہیں اس لئے مظالم برداشت کرتے چلے جارہے ہیں جیسے ہر کمزور طاقتور کے مقابلہ میں جھکا رہتا ہے.پس چونکہ دنیا ہمارے صبر کو کمزوری اور ہمارے عفو کو ضعف پر محمول کرتی ہے اس لئے اس کا جواب یہی ہے کہ جب خدا کی ہماری جماعت کو طاقت دے تو اُس وقت بھی وہ عدل اور انصاف کے دامن کو نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھ کو ظلم سے رو کے اور اس طرح اپنے عمل سے بتادے کہ کمزوری اور طاقت ہر دو حالتوں میں محض خدا کیلئے اس نے ہر کام کیا.
خطبات محمود ۱۳۴ سال ۱۹۳۸ء پس دشمنوں کے حملوں سے مت گھبراؤ اور اس کی ناجائز تدابیر سے کبھی جوش میں نہ آؤ.ایک چیونٹی کو بھی مارنے لگو تو وہ انسان کو کاٹتی ہے، پھر وہ تو انسان ہیں.یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ تم ان کے عقائد کو باطل کر رہے ، ان کی جمعیت کو ایک ایک کر کے اپنے ساتھ ملا رہے اور ان کو ان کے ہر حملہ میں ناکام و نامراد کر رہے ہو اور وہ پھر بھی کی جوش میں نہ آئیں اور گالیوں کے رنگ میں اپنے دل کا بخار نہ نکالیں.انہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید ہماری جماعت کو حاصل ہے ، انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے کہ آسمان سے فرشتے ہماری تائید کیلئے اُتر رہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ گھٹتے جا رہے ہیں اور ہم بڑھتے جارہے ہیں، اگر یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود وہ جوش میں نہ آئیں تو کیا کریں.ان کے پاس صداقت تو ہے نہیں.پس وہ گالیاں دیتے اور تہذیب سے گرے ہوئے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں اور یہی چیزیں ان کے پاس ہیں.مگر تم چاہتے ہو وہ شکست بھی کھاتے جائیں اور بولیں بھی نہ.پس تم ان کو اپنا غصہ نکالنے دو اور اپنے اندر نیکی پیدا کرو اور تقویٰ کی بھٹی میں اپنی تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دو تا آئندہ آنے والی نسلوں اور نئے احمدیوں پر تمہاری نیکی کا اثر ہو.چاہئے کہ تمہاری زبانیں کلمات محبت سے تر ہوں اور دشمن کی خیر خواہی بھی تمہارے دلوں میں مرکوز ہو.ہاں اس حد تک جو کم سے کم حد ہو تمہیں احتیاط بھی رکھنی چاہئے.مثلاً وہ لوگ جو منافقت کا نقاب اپنے چہرے پر اوڑھے رہیں اور جماعت کے اندر رہ کر جماعت کی بربادی کی کوشش کریں ان کی سازش کے ظاہر ہونے پر ضروری ہے کہ ان سے بول چال ممنوع قرار دی جائے.اگر کوئی سازش نہ کرے اور جماعت میں شامل رہ کر جماعت کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس سے بول چال ممنوع نہیں کی جاتی.یہ صرف ایسے شخص کو ہی سزا دی جاتی ہے جو منافقانہ رنگ اختیار کرتا ہے.کئی نادان ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں ایک دفعہ بعض لوگوں کو یہ سزا دی تھی مگر تم تو ہمیشہ یہ سزا دیتے ہو.ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت دی ہوئی تھی اور آپ اس سزا کے علاوہ ی
خطبات محمود ۱۳۵ سال ۱۹۳۸ء اور سزائیں دینے کی بھی طاقت رکھتے تھے مگر ہمارے پاس یہی ایک سزا ہے.اگر ہم یہ سزا بھی نہ دیں تو اور کیا دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مجرموں کو کوڑے لگانے کا حکم بھی دے دیتے تھے ، آپ کے حکم سے سنگساری بھی کی گئی ہے، آپ نے بعض لوگوں کو ملک سے جلا وطن بھی کیا ت ہے اور پھر ایک وقت میں آپ نے یہ بھی حکم دے دیا کہ فلاں فلاں شخص سے کوئی بات نہ کرے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سزائیں دینے کا حق حاصل تھا تو جہاں آپ نے اور سزائیں دیں وہاں ایک دفعہ یہ سزا بھی دے دی.مگر کیا ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم مجرموں کو شرعی سزا دیں؟ جب نہیں تو ہمارے پاس صرف ایک سزا کا اختیار باقی رہا اور وہ یہ کہ ہم بولنا چالنا منع کر دیں.اگر اس سزا کو بھی ہم ترک کر دیں تو اور کونسی سزاد یں.پس یہ سزا دینے پر ہم مجبور ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عمر بھر میں ایک دفعہ یہ سزا دی تھی اور ہماری طرف سے متعدد مرتبہ دی گئی ہے.پھر یہ سزا جو ہماری طرف سے دی جاتی ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کا اندرونہ ظاہر ہو جائے.اگر تو اس کے دل میں سلسلہ کی محبت ہوتی ہے اور وہ جماعت سے جُدائی اپنی روح کیلئے ہلاکت کا باعث سمجھتا ہے تو جلد ہی اسے ہوش آ جاتا ہے اور وہ تو بہ کر لیتا ہے اور اگر اس کے دل میں بدی ہوتی ہے تو وہ بھی ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر اسے محسوس تک نہیں ہوتا کہ میں کن لوگوں سے کٹ کر کن لوگوں سے جا ملا.میں نے دیکھا ہے بعض زمیندار جو ان پڑھ ہوتے ہیں ان میں سے اگر بعض کو کسی غلطی پر ایسی سزا دی جاتی ہے تو سال بھر وہ روتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور انہیں فوراً نظر آ جاتا ہے کہ جماعت کے پاک لوگوں سے الگ ہو کر انہیں کس قسم کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا پڑ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تین صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ حکم دیا کہ کوئی ان سے گفتگو نہ کرے تو ان میں سے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ جب سزا کے آخری ایام تھے تو اُن کی دنوں ایک بادشاہ کی طرف سے مجھے خط ملا جس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے تمہارے آقا نے تمہیں سخت سزا دی ہے.تم ہمارے پاس آجاؤ ہم ہر طرح تمہاری خاطر و مدارات کرنے کیلئے تیار ہیں.میں نے یہ خط دیکھتے ہی کہا کہ محبت صالح سے تو میں پہلے ہی محروم تھا، اب صحبت طالع
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء میسر آنے لگی ہے اور یہ میرے لئے ایک امتحان کا وقت ہے.چنانچہ میں وہ خط لئے ایک بھٹی کے پاس گیا جس میں آگ جل رہی تھی اور جاتے ہی وہ خط اُس میں جھونک دیا اور چٹھی دینے والے سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے.اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ فعل ایسا پسند آیا کہ چند دنوں کے بعد ہی اس نے انہیں معاف کر دیا.کے تو نیک آدمی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ میں کن لوگوں سے الگ ہوا ہوں اور اب کون سے لوگ کی میرے ارد گرد ہیں مگر جس کے اندر بدی ہوتی ہے اسے بُروں کی صحبت میں ہی لذت آنی شروع ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو مصری صاحب کے دل میں اگر واقعہ میں سلسلہ کی محبت ہوتی اور احمدیت سے اخلاص رکھتے تو تھوڑے دنوں میں ہی وہ سمجھ جاتے کہ ایک پاک جماعت سے الگ ہوکر میں کس قماش کے انسانوں میں آملا ہوں.وہ اپنے آپ کو مصلح کہتے ہیں مگر کیا کی مصلحین کا بدوں سے تعلق ہوتا ہے یا نیکوں سے.پھر کیوں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر وہ نیک تھے تو چاہئے تھا کہ نیکوں سے ان کا تعلق ہوتا نہ کہ بد وں اور آوارہ منش لوگوں سے.مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ بسا اوقات سلسلہ کے دشمنوں اور آوارہ منش لوگوں کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایسے خوش ہوتے ہیں کہ گویا خدا کی خاص تائید اُنہیں حاصل ہے اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہیں ایسے لوگوں کی صحبت حاصل ہوئی.صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کے دل میں احمدیت سے محبت نہیں.ورنہ ایسے لوگوں کو اپنے ارد گرد دیکھ کر چاہئے تھا کہ وہ روتے اور کی خدا تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتے اور کہتے خدایا! تو نے کہاں سے نکال کر مجھے کہاں کی ڈال دیا.مگر وہ اس کا نام تائید الہی اور نصرت ایز دی کہتے ہیں اور اس امر کو بھول جاتے ہیں کہ اگر یہی تائید ایزدی ہے تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی حاصل نہیں ہوئی.پس اگر وہ سوچتے تو یہی نشان ان کیلئے کافی تھا اور اس سے وہ اگر چاہتے تو فائدہ اُٹھا سکتے تھے.غرض یہ سزائیں جو بعض لوگوں کو دی جاتی ہیں یہ مجبوراً دی جاتی ہیں اور محدود طور پر دی جاتی ہیں.اور ہم سے اگر ہو سکے تو ہم تو چاہتے ہیں ان سزاؤں کو بالکل ہی مٹا دیں اور میں کئی کی دفعه خود مصری صاحب کے بارہ میں ہی غور کر چکا ہوں کہ کیا کوئی ایسا طریق ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں ہی فتنہ و فساد کا مجرم بننے کے بغیر اس سزا کو ہی ان سے دور کر دوں لیکن.
خطبات محمود ۱۳۷ سال ۱۹۳۸ء اب تک ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی.مگر میں نے دیکھا ہے ہمارے دوست یہ امر سو چتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان سزاؤں کو بڑھا دیں.ی امرا چھی طرح یا درکھو کہ جس طرح بے غیرتی ایک گناہ ہے اور اس کا مرتکب خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتا ہے اسی طرح ظلم بھی ایک گناہ ہے اور اس کا مرتکب بھی خدا تعالیٰ کے حضورا اپنے اعمال کا جواب دہ ہے مگر تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ غیرت کا مادہ اپنے اندر نہیں کی رکھتے.بٹالہ جا ئیں اور مصری صاحب یا ان کے ساتھی اُنہیں مل جائیں تو بڑے تپاک سے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہیں گے اور جب قادیان آئیں گے اور ان کے سامنے کوئی ان کا نام لے دے گا تو کہیں گے تو بہ تو بہ ایسے آدمی کا نام ہمارے پاس کیوں لیتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمیں ایسی رپورٹیں نہیں پہنچتیں.رپورٹیں پہنچتی ہیں مگر ہم بغیر کسی کا رروائی کے رکھ دیتے ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ یہ فعل بے ایمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ حماقت یا بُزدلی کی وجہ سے ہے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم بے غیرت مت بنو.مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا؟ ہوں کہ تم ظالم بھی مت بنو.ایسا نہ ہو کہ ایک گڑھے سے نکلو اور دوسرے گڑھے میں گر جاؤ.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم فتنہ کو روکیں.کسی کی ذات کو نقصان پہنچانا اور ا سے بُرا بھلا کہنا نہ پہلے ہمارے مد نظر رہا ہے نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ دل دُکھانا اور دشمن کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال کرنا مؤمن کا کام نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں.مگر یا درکھو اللہ کے انبیاء مجسٹریٹ ہوتے ہیں اور مجسٹریٹ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ چور کو چور اور سادھ کو سادھ کہے مگر تمہارا یہ حق نہیں کہ تم کسی کو چور یا ڈا کو کہو.پس تم اپنے مقام کو سمجھو اور جو نبیوں کا مقام ہے وہ انہی کے پاس رہنے دو.تم اگر دشمن کی طرف سے گالیاں سنتے اور جوش دلانے والے واقعات بھی دیکھتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم صبر کرو اور ساتھ ہی استغفار کرتے چلے جاؤ تا ایک طرف تمہارے دل پر بے غیرتی کا زنگ نہ لگے اور دوسری طرف ظالموں والا غصہ پیدا نہ ہو ، یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے.وہ تمہیں ایسے مواقع پر استغفار کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تم دشمن کی دل آزار باتیں سنو تو استغفار کرو اور استغفار پڑھنے سے ایک طرف تم ظالم نہیں
خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۸ بنو گے اور دوسری طرف بے غیرت بھی نہیں بنو گے.پس دنیا کو اپنا نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرو اور سزا کے معاملہ میں یہ امر یاد رکھو کہ اسے کم سے کم حد تک اور کم سے کم عرصہ کیلئے جاری کرو.ہاں اپنے رحم کو وسیع کرو اور اس حد تک کرتے چلے جاؤ جب تک رحم کرنا بے غیرتی کا موجب نہ ہو جائے مگر اس کے ساتھ ہی اس امر کوملحوظ رکھو کہ نافرمانی کرنا بھی مُجرم ہے.پس اگر کسی کے متعلق کسی سزا کا اعلان ہوتا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس حکم کی تعمیل کرو کیونکہ جس کو خدا نے ایک کام کیلئے مقرر فرمایا ہے تمہارا کام نہیں کہ اُس کے احکام پر نکتہ چینی کرو.اور اگر تم اس کے احکام پر جرح کرو گے اور ان کی تعمیل میں کوتا ہی سے کام لو گے تو تم نا فرمان قرار پاؤ گے اور نا فرمان بھی ظالم ہی ہوتا ہے.پس تم نہ تو نافرمانی کی حد تک جاؤ نہ بے غیرتی یا ظلم کی حد تک جاؤ بلکہ رحم کرو اور رحم میں وسعت اختیار کرو.کیونکہ خدا نے رحم کیلئے وسیع میدان بنایا ہے اور سزا کیلئے تنگ.وہ خود ہے رحمتي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ 2 پس بنی نوع انسان پر رحم زیادہ سے زیادہ ہو اور سزا کم سے کم.اس گر کے ماتحت تم اپنے تمام کام لا ؤ اور فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کرو اور جب دشمن کی طرف سے کوئی بُری بات سنو تو دل میں استغفار کرو تا اللہ تعالیٰ تم کو بے غیرت ہونے سے بچائے اور اللہ تعالیٰ تم کو ظالم ہونے سے بھی محفوظ رکھے.“ ا منبت: جائے روئیدگی.بنیاد کپٹ: بغض.عداوت.دشمنی.حسد الفضل ۹ مارچ ۱۹۳۸ء ) النور : ٢٠ 6 ل ، ك النساء : ۴۴ النساء:۸۴ ه الضحى :١٢ وقالوا لا تَذَرُكَ الهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَذَا وَلَا سُوا عَاهُ وَلَا يَغُوتُ وَيَعُوقَ وَنَسْرا ( نوح:۲۴) 2 الاعراف: ۱۵۷
خطبات محمود ۱۳۹ 1.سال ۱۹۳۸ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی کذب بیانیوں کا ایک نمونہ فرموده ۱۱ مارچ ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اللہ تعالیٰ مؤمنوں کے ایمان کی زیادتی کیلئے ہمیشہ ایسے سامان پیدا کرتا رہتا ہے جو اُن کو صراط مستقیم پر قائم رکھتے اور اُن کے ایمانوں کو بڑھاتے رہتے ہیں.جو لوگ تو ظاہر اور باطن میں یکساں ہوتے ہیں اور ان کے دلوں کا ایمان ان کی زبانوں کے دعووں کے مطابق ہوتا ہے ایسے امور ان کے ایمان میں چلا پیدا کرتے ہیں اور ان کی روحانیت کو ترقی دیتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں ایمان ان کی زبانوں کے دعووں کے مطابق نہیں ہوتا اور ان کا ایمان زبان کی نوک تک ہی رہ جاتا ہے اور ان کے دل ویران ہوتے ہیں ان کیلئے وہی چیز ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.چونکہ یہ قدیم سے الہی سنت چلی آتی ہے کہ خدا ئی نشان ، خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتابیں ، خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل اور خدا تعالیٰ کے دین کی تائید اور مدد میں کھڑے ہونے والے انسان سب اپنے اندر یہ صفت رکھتے ہیں کہ يُضل به كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ما دنیا میں خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا مامور نہیں آیا جو بعض لوگوں کی ٹھوکر کا موجب نہ ہو ا ہو.خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب ایسی نہیں آئی جو بعض کی گمراہی کا موجب نہ ہوئی ہو.خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا خواہ وہ مامور ہو یا غیر مامور، جو بعض لوگوں کی
خطبات محمود ۱۴۰ سال ۱۹۳۸ء گمراہی کا موجب نہ ہوا ہو، اسی طرح دنیا میں خدا تعالیٰ کا کوئی مامور یا مرسل ایسا نہیں آیا کی جولوگوں کی ہدایت کا موجب نہ ہوا ہو.کوئی کتاب ایسی نہیں آئی جس سے لوگوں نے ہدایت کی نہ پائی ہو.کوئی شخص خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے ایسا کھڑا نہیں ہوا جس کے دل میں سچی تڑپ ہو اور خدا تعالیٰ نے اس کی کوششوں میں برکت نہ ڈالی ہو.یہ دونوں دریا یکساں اور بیک وقت چلتے ہیں.لیکن بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يبغين بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی دریا ہے جو کسی زمانہ میں خالص اسلام کے نام سے بہتا ہے، کسی زمانہ میں عیسوی تعلیم کے نام سے بہتا ہے اور کسی زمانہ میں ابراہیم کی تعلیم کے نام سے بہتا ہے اور کسی زمانہ میں احمد یہ اسلام کے نام سے بہتا ہے.گو ہر زمانہ میں یہ دریا ایک نظر آیا ہے مگر دراصل اس کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک میٹھا اور ایک کڑوا.جو حصہ میٹھے پانی پر مشتمل ہوتا ہے وہ مؤمنوں کی جماعت ہوتی ہے اور جو کڑوے پر مشتمل ہوتا ہے وہ منافقوں کی جماعت ہوتی ہے اور ان دونوں کے درمیان کی ایک بہت ہی بار یک پردہ ہوتا ہے.جیسا کہ فرمایا بینَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ یعنی گودنیا کو وہ دریا ایک ہی نظر آتا ہے مگر دراصل اس میں دو قسم کے پانی میں ایمان کا بھی اور نفاق کا بھی.مؤمن کوشش کرتے ہیں کہ منافقوں کو سیدھا کریں اور راہ راست پر لے آئیں مگر ان کی باتیں ان کو اور بھی گمراہ کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں اور منافق کوشش کرتے ہیں کہ مومنوں کو گمراہ کریں.مگر ان کی تدبیریں مؤمنوں کے ایمان کو اور بھی بڑھانے کا باعث ہو جاتی ہیں.سورۂ بقرہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَزَادَهُمُ الله مَرَضًا کے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نشانوں سے منافقوں کے مرض کو بڑھاتا ہے.پھر سورۃ احزاب میں ہے کہ منافقوں نے آکر مسلمانوں کو ڈرانا شروع کیا اور کہا کہ گھر بہت ترقی کر گیا ہے اور کہ کا فر چاروں طرف سے حملہ آور ہور ہے ہیں اور اب ایسا وقت آگیا ہے کہ مسلمان بالکل تباہ ہو جائیں مگر یہ باتیں سُن کر اور کفار کا لشکر دیکھ کر بجائے اس کے کہ مؤمن ڈرتے ان کے ایمان اور بھی بڑھ گئے وَمَا زَادَهُمْ اِلَّا اِيْمَانَا و تسليما ان امور نے مؤمنوں کے ایمان اور ان کی فرمانبرداری کو اور بھی بڑھا دیا.کی غرض نشان ایک ہی ہوتا ہے مگر دو قسم کے لوگوں کیلئے وہ دو مختلف نتائج پیدا کرتا ہے.ایک فریق اس کی وجہ سے ایمان میں ترقی کرتا ہے اور دوسرا نفاق میں.
خطبات محمود ۱۴۱ سال ۱۹۳۸ء غرض دنیا کی نگاہ میں گواہی سلسلہ ایک دریا کی طرح بہتا ہوا نظر آتا ہے اور سب دیکھنے والے اسے ایک ہی سمجھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ جُدا جُدا دریا ہوتے ہیں.کئی نادان کی کہتے ہیں کہ یہ دونوں فریق ایک ہی ہے اور ان میں کیا اختلاف ہے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا تبغينن نہیں.وہ اصل میں بالکل الگ الگ ہیں اور ان کے درمیان خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک پردہ حائل ہے.منافق مؤمن کے حالات کو نہیں پاسکتا اور مؤمن منافق کی ذلتوں سے حصہ نہیں لیتا.اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ ایسے نشان بھیجتا ہی رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات نے نشانات ظاہر کرنے سے نہیں روکا کہ دنیا میں جب بھی وہ ظاہر ہوئے ان کا انکار کیا گیا.وَمَا مَنَعَنَا ان تُريل بالايت إلا ان كذب بها الاولون ، کے یعنی ہمیں اس بات کے سوا نشان بھیجنے سے کس امر نے روکا ہے کہ جب پہلے زمانوں میں نشانات ظاہر ہوئے تو لوگوں نے انہیں نہیں مانا.مطلب یہ کہ یہ روک کوئی روک نہ تھی اس لئے ہم پھر بھی نشانات بھیجتے ہی رہے کیونکہ نشانات تو ماننے والوں کے لئے ہوتے ہیں اور وہی لوگ خدا تعالیٰ کی جماعت ہیں.سو جب نشانات ان کو فائدہ پہنچاتے ہیں تو دشمنوں کے انکار کی وجہ سے دوستوں کو فائدہ سے کیوں محروم کیا جائے.ان نشانوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی جماعتوں کی صداقت کے اظہار کیلئے مقرر کئے ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے وہ جھوٹ کا ہتھیار ضرور استعمال کرتا ہے اور بالعموم ایسے لوگوں کے دعوؤں کی بنیاد جھوٹ اور فریب پر ہوتی ہے اور ان کے مقابلہ پر مؤمنوں کی بنیاد بالعموم صداقت پر ہوتی ہے.بالعموم میں نے اس لئے کہا کہ ان میں بھی بعض کمز ور لوگ ہوتے ہیں جو مصائب کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور بعض اوقات جھوٹ بول جاتے ہیں.مگر ان کا جھوٹ عارضی ہوتا ہے مستقل نہیں.مگر مقابلہ کرنے والوں کا جھوٹ مستقل ہوتا ہے اور وہ بھی علی الاعلان اپنی قوم کی طرف سے ایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ ہر شریف الطبع محسوس کر لیتا ہے کہ وہ ایسی خلاف بیانی کرتے ہیں جو مومن نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا تو دشمن نے کہا کہ آپ جھوٹے ہیں.حالانکہ اگر آپ نَعُوذُ بِاللہ جھوٹے ہوتے تو سچ سے آپ کو مغلوب کرنا آسان تھا.اگر وہ دعوے
خطبات محمود ۱۴۲ سال ۱۹۳۸ء جو آپ نے کئے قرآن کریم سے ثابت نہیں ہوتے تھے تو آسان طریق یہ تھا کہ قرآن کریم یا تی احادیث صحیحہ سے ان کا غلط ہونا ثابت کر دیا جاتا.پس دشمن کیلئے یہ راہ بالکل آسان تھی کہ وہ ان آیتوں اور حدیثوں کو پیش کرتا جو ان دعوؤں کے خلاف تھیں مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے آپ کی طرف جھوٹے دعوے اور جھوٹے کام منسوب کئے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں ایسا نبی نہیں ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ اطاعت سے باہر جاؤں بلکہ میں آپ کے دین اور قرآن کریم کی اشاعت کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں.لیکن دشمنوں نے لوگوں کو یہ بتایا کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی ہے یا پھر یہ کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری“ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.مگر خدائی صفات جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ آپ میں نہیں تھیں.اور اس پر دشمنوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آپ نے حضرت مسیح کی ہتک کی ہے.حالانکہ اگر آپ کا یہ دعویٰ غلط تھا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرف ایسے معجزات منسوب کرنا جن کی سے شرک پیدا ہوتا ہے غلطی ہے تو اس کا رڈ آسان تھا اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم سے یہ ثابت کر دیا جاتا کہ بندے مُردوں کو زندہ کر سکتے ہیں یا یہ کہ انبیاء کو ایسا علم غیب حاصل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو ہے.مگر یہ آسان راہ اختیار کرنے کی بجائے دشمنوں نے آپ کی طرف ایسے دعوے منسوب کئے جو آپ نے نہیں کئے تھے اور آپ کی کتابوں سے حوالے کانٹ چھانٹ کی کر آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جو دراصل آپ نے نہیں کہی تھیں.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک رسالہ لکھا اور گورنمنٹ کو بھجوایا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ آپ گویا گورنمنٹ کے مخالف ہیں.اور اس میں آپ کی کتابوں سے بعض کی حوالے کانٹ چھانٹ کر اور کوئی ٹکڑا عبارت کا کہیں سے لے کر اور کوئی کہیں سے درج کر دیئے مگر آج اس کے برخلاف دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپ گورنمنٹ کے خوشامدی تھے اور آپ کی کتابوں کی ایسی تھیں الماریاں بھری پڑی ہیں جن میں آپ نے گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی ہے اور گورنمنٹ کی خوشامد سکھائی ہے.گویا پہلے بغاوت کا حربہ استعمال کیا لیکن اب یہ دیکھ کر کہ وہ حربہ اب کارآمد نہیں ہوسکتا، کیونکہ لوگوں میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اور قومی خیالات کی
خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۸ ترقی کر رہے ہیں ، تو یہ پہلو اختیار کر لیا کہ آپ خوشامدی تھے.تو یہ دونوں قسم کے اعتراضات کئے گئے حالانکہ ان دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین و آسمان میں بلکہ اس سے بھی زیادہ.کیونکہ زمین آسمان تو ایک وقت میں موجود ہیں لیکن یہ باتیں تو بالکل متناقض ہیں.اگر کوئی شخص دشمن ہو تو وہ خوشامد نہیں کر سکتا اور اگر خوشامدی ہو تو دشمن نہیں ہو سکتا لیکن ان لوگوں کو تو دیانت سے تعلق نہ تھا.جب دیکھا کہ ملک میں بیداری ہے اور پبلک کو جوش دلانے سے فائدہ ہے تو کہہ دیا کہ آپ خوشامدی تھے.مگر جب پبلک گورنمنٹ کی کے خلاف نہ تھی اور یہ سمجھا جا تھا تھا کہ گورنمنٹ کو جماعت احمدیہ کے خلاف کرنے میں فائدہ ہے تو اُس وقت یہ کہہ دیا کہ آپ گورنمنٹ کے مخالف ہیں.غرض جب گورنمنٹ مضبوط تھی اور لوگوں میں قومی خیالات نہ پائے جاتے تھے اُس وقت گورنمنٹ کو آپ کے خلاف کرنا چاہا اور کی جب گورنمنٹ میں کمزوری پیدا ہوئی اور پبلک میں قومی خیالات ترقی کرنے لگے تو خوشامدی کہنا جی شروع کر دیا.اور یہ کہ آپ کو حکومت نے ہی کھڑا کیا ہے.لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ یہ دونوں کی باتیں غلط اور جھوٹ ہیں.اس زمانہ میں میرے متعلق بھی یہی طریق استعمال کیا گیا ہے.ایک زمانہ تھا جب میرے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ گورنمنٹ کا خوشامدی ہے اور اب یہ کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کا دشمن ہے.یہ بعینہ وہی بات ہے.فرق صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہلے مخالف اور بعد میں خوشامدی کہا گیا اور مجھے پہلے خوشامدی اور بعد میں مخالف کہا گیا.پہلے مجھے حکومت کا خوشامدی کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب دیکھا کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے دشمن ہیں تو مجھے حکومت کا دشمن کہنے لگے.اس خیال سے کہ اس طرح بعض حکام بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے.پھر ان فتنوں میں دیکھ لو جو مذہبی لحاظ سے اُٹھے ہیں کس طرح خلاف واقعہ اور غلط حوالے پیش کئے جا رہے ہیں.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں خیال ہے کہ حضرت عیسی جب دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو اسلام پر عمل کریں گے حالانکہ جب وہ مستقل نبی ہیں تو وہ اپنے دین پر عمل کریں گے.یہ بنیا د قائم کر کے آپ لکھتے ہیں کہ اسلام کیلئے وہ کیسا مصیبت کا وقت ہوگا جب اس میں ایک ایسا نبی آئے گا کہ مسلمان تو
خطبات محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۸ء مسجدوں کی طرف نماز پڑھنے جا رہے ہوں اور وہ گر جا کی طرف جارہا ہو، مسلمان تو قرآن کی تلاوت کر رہے ہوں اور وہ انجیل پڑھ رہا ہو.(مفہوم عبارت ).پیغامی جب جماعت سے علیحدہ ہوئے تو انہوں نے اس حوالہ کو بگاڑ کر یوں شائع کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے وہ کیسا مصیبت کا وقت ہوگا جب ان میں ایک نبی آئے گا.انہوں نے ایسا کو کاٹ کر اس کی جگہ ایک لکھ دیا اور اس طرح اس کے یہ معنے کر لئے کہ اب کسی قسم کا بھی نبی نہیں آسکتا حالانکہ ایسا“ کا لفظ بتا رہا ہے کہ ایک خاص قسم کے نبی کے متعلق آپ یہ فرما رہے ہیں.تو انہوں نے ایسا کاٹ کر آرام سے اس کی جگہ ایک“ کا لفظ لکھ دیا.ہر ایک شخص کے پاس کتاب نہیں ہوتی.پس انہوں نے سمجھا کہ اس طرح بہت سے لوگ دھوکا کھاتے چلے جائیں گے اور حوالوں میں بھی ان کا یہی رویہ رہا ہے.ابتدائی کتب کے حوالے لوگوں کو دکھا دیتے ہیں اور آخری کتب کے حوالوں کو چھپا لیتے ہیں.کل ہی ایک دوست ڈاکٹر عبدالغفور صاحب کی لاش یہاں لا کر دفن کی گئی ہے.جن دنوں وہ سلسلہ کے بارہ میں تحقیق کر رہے تھے انہیں ڈلہوزی جانے کا اتفاق ہوا.مولوی محمد علی صاحب بھی وہاں تھے.وہ ان سے ملنے گئے اور نبوت کے بارہ میں گفتگو شروع کی تاکہ اس مسئلہ کے بارہ میں بھی کوئی فیصلہ کر سکیں.انہوں نے بعض حوالے اپنے مطلب کے ڈاکٹر صاحب کو دکھائے.چونکہ ڈاکٹر صاحب مرحوم بعض ہمارے دوستوں سے بھی حوالہ جات سُن چکے تھے.انہوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ حقیقۃ الوحی منگوائیں اور اس کی فلاں فلاں کی عبارت کو حل کریں.اس کے جواب میں جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں ذکر کیا ، مولوی صاحب نے جواب دیا کہ وہ کتاب میرے پاس یہاں نہیں ہے.ڈاکٹر صاحب نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ دوسری کتب موجود ہیں مگر صرف وہ کتاب نہیں ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعزیرات ہند قرار دیا ہے.اور ان پر اس امر کا خاص اثر ہوا کہ ان کتب کو کی بھی یہ لوگ نہیں رکھتے جن سے ان کے عقیدوں کے خلاف ثبوت ملتا ہے.آخر انہوں نے ۱۹۳۵ء یا ۶ ۱۹۳ ء میں میری بیعت کر لی.تو انسان کے مد نظر جب صداقت ہو تو سب قسم کی باتیں سامنے لانی چاہئیں.کوئی بات چھپانے کی ضرورت نہیں مگر بعض لوگ چونکہ خاص مقاصد کی
خطبات محمود ۱۴۵ سال ۱۹۳۸ء ان کے مد نظر ہوتے ہیں ، جان بوجھ کر غلط حوالہ جات پیش کر دیتے ہیں اور یہی ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ ان کے پاس دلائل کوئی نہیں ہیں ورنہ انہیں جھوٹ کی کیا ضرورت تھی.اب میں دیکھتا ہوں کہ مصری صاحب کے فتنہ میں بھی وہی طریق اختیار کیا جا رہا ہے.صریح طور پر وہی باتیں پیش کی جارہی ہیں جن کے متعلق ہر عقلمند جانتا ہے کہ غلط ہیں.اور ایسے حوالے پیش کئے جارہے ہیں کہ اگر ایک بچہ کے سامنے بھی رکھ دیئے جائیں تو وہ کہے گا یہ غلطکی ہیں.کسی غیر احمدی کے سامنے دونوں حوالے رکھ دو اور یہ نہ بتاؤ کہ میرا کون سا ہے اور ان کاج کون سا ، اور اس سے پوچھو کہ کیا میرے الفاظ کا وہی مفہوم ہے جو وہ پیش کرتے ہیں.تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ ہر گز نہیں.بالکل جھوٹ ہے.یہی فخر الدین صاحب اور عزیز احمد صاحب کا واقعہ ہے.اس مقدمہ میں ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ کیا اور اس کی بناء پر ان لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ کیا کی ہے کہ مرزا محمود احمد کے خطبات کے نتیجہ میں یقتل ہوا ہے.اس میں شک نہیں کہ جس رنگ میں وہ فیصلہ کیا گیا اور جس رنگ میں اس کا استعمال ہوا اس سے ہم بھی متاثر ہوئے تھے اور میں نے بھی ایک مضمون لکھا تھا کہ فیصلہ میں بعض ایسے الفاظ ہیں جن کے معنے بعض لوگوں کیلئے صاف نہیں.غرض اُس وقت ان الفاظ سے غلط مفہوم لینے کا امکان تھا اور اس وجہ سے غلط معنے کرنے والوں پر یقینی طور پر بددیانتی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا تھا.مگر اب جبکہ ہائیکورٹ کے فاضل ججوں نے اس غلط فہمی کو دور کر دیا ہے اگر ان الفاظ کو اسی رنگ میں استعمال کیا جائے تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ یہ صاف بد دیانتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا شرک ہے.اس پر مخالف کہتے ہیں کہ ان تمام بزرگانِ سلف کو جو اس عقیدہ کے تھے آپ نے مشرک کہا ہے.ہم کہتے ہیں کہ جب تک ایک مامور نے آکر اس غلطی کو واضح نہیں کیا اُس وقت تک یہ ایک نہایت مخفی شرک تھا جو صرف اجتہاد کی غلطی کہلا سکتا تھا اور ایسا عقیدہ رکھنا لوگوں کی کو گنہگارنہیں بناتا تھا کیونکہ لوگوں کی توجہ پھیری نہیں گئی تھی کہ یہ شرک ہے.لیکن مامور کی طرف سے اس کی وضاحت کے بعد ایسا عقیدہ رکھنا کھلا شرک بن گیا پس اب اس کا معتقد گنہگار کہلائے گا.
خطبات محمود ۱۴۶ سال ۱۹۳۸ء پس پہلے بزرگ گنہگار نہیں تھے اور اس زمانہ کے لوگ گنہگار ہیں.اسی طرح جب تک ہائیکورٹ نے اپنے الفاظ کی وضاحت نہیں کی تھی اس قسم کا مفہوم لینا بددیانتی نہیں کہلا سکتا تھا مگر اب کہ ججوں نے اپنے الفاظ کی وضاحت کر دی ہے ، وہ مفہوم لینا بد دیانتی ہے.مگر ان لوگوں کی دیانت کا یہ حال ہے کہ وہ اب بھی یہی مفہوم لے رہے ہیں.ان کے ہمدرد اخبارات فیصلہ کو چھاپتے نہیں صرف یہ لکھ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ نے درخواست مستر د کر دی مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیوں درخواست مسترد کی گئی.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے زید بکر کے پاس ایک ہزار روپیہ امانت کے طور پر رکھے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس جائے کہ میں نے جو ایک ہزار روپیہ آپ کے پاس امانت رکھا تھا وہ مجھے واپس دے دیں.اس پر بکر جواب دے کہ مجھے آپ کا پیغام اس سے پہلے مل چکا ہے اور میں نے اسی وقت فلاں آدمی کے ہاتھ روپیہ آپ کے گھر بھجوا دیا ہے.اس پر زید بجائے گھر جا کر روپیہ وصول کرنے کے لوگوں میں شور مچا دے کہ بکر میرا روپیہ دینے سے انکاری ہے.اس میں کیا شک ہے کہ الفاظ میں بکر یہی کہتا ہے کہ میں آپ کو روپیہ نہیں دیتا.مگر وہ یہ لفظ اس لئے نہیں کہتا کہ وہ امانت سے منکر ہے بلکہ اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں آپ کے آنے سے پہلے ہی روپیہ بھجوا چکا ہوں.بعینہ اسی طرح ہائیکورٹ نے کی میری درخواست کو مسترد کیا ہے.یعنی انہوں نے میری اس درخواست کے جواب میں کہ آپ کے فلاں الفاظ کے لوگ یہ معنے کرتے ہیں کہ گویا میں نے اپنے خطبات میں جسمانی سزا کی طرف اشارہ کر کے قتل کی انگیخت کی ہے اور ایسا میں نے ہرگز نہیں کیا اس لئے ان الفاظ کی اصلاح کی جائے.یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے ایسا ہرگز نہیں کہا اور لوگ ہماری طرف غلط بات منسوب کرتے ہیں.پس جبکہ ہماری عبارت کا وہ مفہوم نہیں جو لوگ لیتے ہیں تو ہمیں کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ہم اپنے الفاظ کو بدلیں.پس درخواست مسترد ہے.ہر دیانتدار آدمی جانے گا کہ یہ ویسی ہی مثال ہے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں.یعنی بکر زید کو روپیہ دینے سے اس لئے انکار کرتا ہے کہ وہ پہلے ادا کر چکا ہے.ظاہر ہے کہ ہائیکورٹ کے فاضل جوں کیلئے میری درخواست کی منظوری کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن تھیں.یا تو وہ کہتے کہ ہم خطبہ کا مطلب پہلے وہی سمجھتے تھے جو مصری اور ان کے ساتھیوں نے سمجھا لیکن اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہم نے پہلے
خطبات محمود ۱۴۷ سال ۱۹۳۸ جو بات کبھی تھی وہ غلط تھی اس لئے اپنے الفاظ کاٹ دیتے ہیں.اور دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ کہ کہتے کہ ہم نے وہ الزام آپ پر لگایا ہی نہیں جو آپ یا دوسرے خیال کرتے ہیں کہ ہم نے لگایا ہے.پس چونکہ ہم نے ایسا کہا ہی نہیں اس لئے ہم اپنے الفاظ کو کاٹتے بھی نہیں.ظاہر ہے کہ مؤخر الذکر فیصلہ تو پہلی صورت سے بھی زیادہ ہمارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر جز پہلی صورت اختیار کرتے تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ خطبہ کے الفاظ ایسے مشتبہہ تھے کہ ایک دفعہ تو ہائی کورٹ کے جوں کو بھی غلطی لگ گئی مگر وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے بھی کوئی غلطی نہیں لگی.ہم پہلے بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان الفاظ میں روحانی سزا کا ذکر ہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں.اور جب ہم نے پہلے بھی یہ نہیں سمجھا تو ہم کا ٹیں کس بات کو.چنانچہ ان کا فیصلہ یہ ہے.یہ درخواست مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے اس غرض کیلئے دی گئی ہے کہ ہم نے فوجداری اپیل ۱۱۲ آف ۱۹۳۷ ء کے فیصلہ میں جو ۳ / جنوری ۱۹۳۸ ء کو کیا گیا ہے بعض ریمارکس ایسے کئے تھے جنہیں حذف کر دیا جائے.مرافعہ گزار کے وکیل مسٹر سلیم نے ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ ہمارے فیصلہ کے آخری پیرا گراف کے ایک فقرہ کا غلط مطلب لے کر اسے امام جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے.وہ فقرہ یہ ہے اگر ہم اپیل کنندہ کے وکیل کے اس استدلال کو قبول بھی کریں کہ خلیفہ صاحب کا سزا سے مقصد روحانی سزا تھا تو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مذہبی راہنماؤں کے بعض پُر جوش پیروؤں کیلئے روحانی اور جسمانی سزا میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے.بہر نوع اس ملک میں ایسے مذہبی دیوا نے موجود ہیں جو ایسی سزاؤں کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو خدا کا آلہ کا رسمجھتے ہیں“.کہا گیا ہے کہ خلیفہ صاحب کے مخالف اس فقرہ کا یہ مطلب لے رہے ہیں کہ خلیفہ صاحب کی اس تقریر میں جس کا ہم نے ذکر کیا تھا سزا سے روحانی سزا مراد نہیں بلکہ جسمانی سزا مراد تھی اور فی الحقیقت اس میں تشدد کی تلقین کی گئی تھی.
خطبات محمود اس کے بعد ججز کہتے ہیں کہ : ۱۴۸ اس فقرہ کا یہ مفہوم درست نہیں.لیکن اس معاملہ کو اچھی طرح واضح کرنے کیلئے نیز خلیفہ صاحب کے متعلق انصاف کو ملحوظ رکھنے کیلئے In Justiceto کا یہ ترجمہ صحیح نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ صاحب کے متعلق انصاف کا تقاضا پورا کرنے کیلئے ) ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ہم نے وکیل کے اس بیان کو صحیح تسلیم کیا تھا کہ خلیفہ صاحب کی تقریر میں جسمانی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر سزا کا ذکر تھا.ہم نے دراصل اس ملک میں اس قسم کی تقریروں کے متعلق اس خطرہ کا اظہار کیا تھا کہ کسی مذہبی راہنما کے پُر جوش پیروان دو قسم کی سزاؤں میں مشکل سے تمیز کر سکتے ہیں“.سال ۱۹۳۸ یعنی ہمارا واعظانہ رنگ تھا.اس ملک میں لوگ عام طور پر جاہل ہیں اور عین ممکن ہے کہ کسی تقریر میں کسی مذہبی بزرگ کی مراد سزا سے روحانی ہو مگر اس کے جاہل مریدوں میں سے کوئی اس بات کو نہ سمجھ سکے اور وہ جسمانی سزا مراد لے لے.پھر وہ لکھتے ہیں کہ : - ”ہم اپنے فیصلہ کے کسی حصہ کو حذف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ( یعنی جب ہم نے وہ بات کہی ہی نہیں تو حذف کس کو کریں ) لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس فیصلہ کو جس رنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے.اس کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ آخری حصہ کے مفہوم کی ایسی تشریح کر دی جائے کہ اس کا مطلب غلط نہ لیا جا سکے.چنانچہ اس غرض کے لئے ہمارا یہ فیصلہ فوجداری اپیل ۱۱۲ آف ۱۹۳۷ء کے متعلق ہمارے فیصلہ کے حصہ کے طور پر پڑھا جانا چاہئے.درخواست خارج کی جاتی ہے“.گویا وہ قرار دیتے ہیں کہ آئندہ پہلے فیصلہ کو علیحدہ کوئی شائع نہیں کر سکتا بلکہ اسے ساتھ لگانا ضروری ہے تا ہر پڑھنے والا سمجھ سکے کہ ہمارا کیا مطلب ہے.اور وہ قرار دیتے ہیں کہ ہماری اس تشریح کے بغیر جو شائع کرے گا وہ مجرم ہو گا.یہ الفاظ کہ درخواست خارج کی جاتی ہے تو ٹیکنیکل اور اصطلاحی الفاظ ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے کہا گیا ہے کہ ہم ان الفاظ کو کی
خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۸ء منسوخ کر دیں مگر ہم نے وہ الفاظ چونکہ کہے ہی نہیں اس لئے منسوخ کسے کریں.یہ بالکل وہی تی بات ہے کہ بکر زید سے کہتا ہے کہ میں تمہارا ایک ہزار روپیہ اس لئے نہیں دیتا کہ وہ میں تمہارے مکان پر بھجوا چکا ہوں اور اب تک وہ پہنچ بھی چکا ہوگا.لیکن زید کہے کہ بکر بددیانت ہے.اسی طرح حجز کہتے ہیں کہ ہم درخواست کو مسترد کرتے ہیں.کیونکہ اس میں وہ بات حذف کرنے کو کہا گیا ہے جو ہم نے کہی ہی نہیں.اور دشمن جو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کہا ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں.اور آئندہ کیلئے ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ہمارے اس فیصلہ کو بھی سابقہ فیصلہ کا جو سمجھا جائے اور اسے اُس کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے.لیکن یہ لوگ عوام کو صرف یہ سناتے ہیں کہ مرزا صاحب کی درخواست مسترد ہو گئی.ان کے حامی اخبارات بھی یہ بات لکھ رہے ہیں اور یہاں قادیان میں مصری صاحب اور ان کے ساتھی بھی یہ کہتے ہیں کہ الحَمدُ لِلہ درخواست مسترد ہوگئی.کیسی عجیب بات ہے.ہائیکورٹ کے جج تو یہ کہتے ہیں کہ مصری اور اس کے ساتھی جھوٹے ہیں.مگر یہ کہتے ہیں کہ الْحَمدُ لِللہ درخواست مسترد ہو گئی.ہم تو دعا کرتے ہیں کہ ایسی اَلحَمدُ للہ کہنے کی توفیق ان کو روز ملتی رہے.حکومت اور غیر حکومت کے لوگوں کی طرف سے روز ان کو جھوٹا کہا ج جائے اور یہ روز الْحَمْدُ لِلہ کہتے رہیں.مصری صاحب نے اس فیصلہ کے الفاظ سے مراد جسمانی سزا ہی لی تھی.چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے مجھ پر اعانت قتل کا مقدمہ بھی دائر کر دیا.ان کی طرف سے مجھ پر تین مقدمات کی اعانت قتل کے دائر کئے گئے ہیں.پہلے ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا جو خارج کر دیا گیا.پھر اس کی اپیل عدالت سیشن میں کی جسے عدالت سیشن نے بھی خارج کر دیا اور لکھا کہ مستغیث کو چونکہ مرزا صاحب سے دشمنی ہے ، اتنے عرصہ میں وہ جھوٹے گواہ تیار کرسکتا ہے.پھر ایک استغاثہ مجسٹریٹ علاقہ کی عدالت میں دائر کیا گیا جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے منگوا کر خارج کر دیا.ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دشمن جھوٹ بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے.باقی کی صرف ایک فقرہ ایسا رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ جوں نے لکھا ہے کہ احتیاط کرنی چاہئے.مگر اس سے دشمن کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.ملکی قانون کے نگران ملک میں امن کے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے الزام دیئے بغیر اگر عام نصیحت کریں تو یہ ان کا حق ہے.جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے کی
خطبات محمود ۱۵۰ سال ۱۹۳۸ء جسمانی سزا کا ذکر نہیں کیا تو اگر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں عام پبلک کے فائدہ کیلئے مجھے نہیں کی بلکہ سب مذہبی لیڈروں کو نصیحت کر دینی چاہئے کہ ان کیلئے احتیاط ضروری ہے تو اس میں دشمن کیلئے خوشی کا کوئی موقع نہیں.آخر ہائیکورٹ کے حج یا حکومت کے بعض دوسرے افسر کسی موقع کے لحاظ سے اگر اظہار رائے کرنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی تحریر کو پڑھ کر ایک احمدی تو کہہ دے گا کہ یہ بالکل اور حرف بحرف صحیح ہے لیکن جو شخص غیر احمدی ہے اور غیر متعصب بھی ہے وہ کسی حصہ کو صحیح اور کسی کو غلط کہے گا.تو کیا ہم کہہ سکتے کی ہیں کہ اُس نے ہتک کی؟ ہرگز نہیں.اسی طرح ججوں کے یہ کہنے سے میری بھی کوئی ہتک نہیں کی ہو سکتی.سوال تو میری نیت اور ارادہ کا ہے.اس کو انہوں نے صاف کر دیا ہے.وہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جاہل اس سے یہ مطلب لے لے اس لئے صرف مجھے نہیں بلکہ ہندوستان کی میں عام طور پر مذہبی لیڈروں کو احتیاط کرنی چاہئے.دشمن تو اِن الفاظ کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کی کرتا ہے مگر میں بتا تا ہوں کہ اس سے تو میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک اور مشابہت پوری ہوگئی ہے.جس طرح مجھ پر مصری نے اعانت قتل کا مقدمہ دائر کیا ، حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام پر بھی ایسا مقدمہ کیا گیا تھا.میری نسبت کہا گیا ہے کہ میں نے ایسی تقریر کی جس کے نتیجہ میں قتل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت کہا گیا تھا کہ آپ نے ایک آدمی بھیجا ہے کہ فلاں شخص کو قتل کر آؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدمہ کا ذکر اپنی کتاب کتاب البریہ میں کیا ہے اور اس کے آخر میں اس مقدمہ کی روئیداد اور پھر فیصلہ درج کر دیا کی ہے اور اسے اپنا معجزہ اور انگریزی انصاف کا نمونہ قرار دیا ہے اور آج تک جماعت احمد یہ بھی اسے معجزہ کے طور پر شائع کرتی آئی ہے.اور جس افسر نے یہ فیصلہ کیا تھا اسے آج تک عزت کی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ولایت میں ہمیشہ پارٹیوں پر اُسے بلایا جاتا ہے.اس فیصلہ کے آخر میں اس حج نے جسے انگریزی زمانے کا پیلاطوس بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہا جاتا ہے، یہ الفاظ ھے ہیں: ہم اس موقع پر مرزا غلام احمد کو بذریعہ تحریری نوٹس کے جس کو انہوں نے خود پڑھ لیا اور اس پر دستخط کر دیئے ہیں ، باضابطہ طور پر متنبہ کرتے ہیں کہ
خطبات محمود ۱۵۱ سال ۱۹۳۸ ان مطبوعہ دستاویزات سے جو شہادت میں پیش ہوئی ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اشتعال اور غصہ دلانے والے رسالے شائع کئے ہیں.جن سے ان لوگوں کی ایذا متصور ہے.جن کے مذہبی خیالات اس کے مذہبی خیالات سے مختلف ہیں جو اثر کہ اس کی باتوں سے اس کے بے علم مُریدوں پر ہو گا اس کی ذمہ داری انہی پر ہی ہوگی اور ہم انہیں متنبہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زیادہ تر میانہ روی اختیار نہ کریں گے وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے.بلکہ اس کی زد کے اندر آجاتے ہیں.کے اس فیصلہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام معجزانہ قرار دیتے ہیں.کیونکہ اس میں اصل الزام کو غلط قرار دیا گیا ہے.مگر دیکھ لو کہ اس فیصلہ میں ویسے ہی لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھے گئے ہیں کہ جیسے مقدمہ بنام عزیز احمد میں میری نسبت لکھے گئے ہیں.بلکہ مسٹر ڈگلس کے لفظ زیادہ سخت ہیں.کیپٹن ڈگلس نے بھی یہ لکھا ہے کہ بے علم مرید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے دھوکا کھا سکتے ہیں اس لئے آپ کو احتیاط کرنی چاہئے.اور ہائیکورٹ میں بھی عام واعظانہ رنگ میں یہ بات کہی ہے کہ مذہبی لیڈروں کو احتیاط کرنی چاہئے.ہاں الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کیپٹن ڈگلس نے ہائیکورٹ کے جوں سے زیادہ سخت لفظ استعمال کئے ہیں.مگر پھر بھی مصری اور ان کے رفقاء خوش ہیں کہ مرزا محمود احمد کی ذلت ہوگئی.اس کی اپیل مستر د ہو گئی.اگر یہ الفاظ سخت ہیں اور ان سے ہتک ہوتی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں کیا اعتقا در کھتے ہیں؟ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”دھی اے نی میں تینوں کواں.نو ہیں نی تو گن رکھے “.یعنی ماں اپنے بیٹے کے ڈر کی وجہ سے کہ وہ لڑائی کرے گا اور بیوی کی مدد کرے گا بہو کو تو کچھ نہیں کہتی بلکہ گالیاں دیتے وقت اپنی لڑکی کو مخاطب کر لیتی ہے اور دراصل اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بہو کو سنائے.میں سمجھتا ہوں یہی حال ان لوگوں کا ہے.اصل میں یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظن ہو چکے ہیں.مگر آپ کو براہ راست گالیاں دیں تو جماعت ان سے بدظن ہو جائے اس لئے یہ لوگ ایسے امور کو سامنے رکھ کر جن میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ہے، مجھے
خطبات محمود ۱۵۲ سال ۱۹۳۸ء 9966 گالیاں دیتے ہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دینے کیلئے راستہ صاف کرتے ہیں.اگر ان میں تقویٰ ہوتا تو وہ یہ غور کرتے کہ آخر اس شخص کو ہر بات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیوں مشابہت حاصل ہو رہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ آخر کیا بات ہے کہ جو مجھ پر اعتراض کرتا ہے وہ مجبور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اعتراض کرے.مصری صاحب نے اپنے اشتہار ” بڑا بول“ میں میرے ان الفاظ کو کہ ”مجھے یہ یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے، ” بڑی تعلی اور بڑا غلو کہا ہے.مگر وہ دیکھ لیں کہ جو اعتراض وہ مجھ پر کرتے ہیں اس سے زیادہ سخت اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پڑتا ہے یا نہیں.اور یہ امر اس الہی قانون کے ماتحت ہے کہ جب تم ایک صداقت پر حملہ کرو تو وہ حملہ ضرور دوسری صداقت پر بھی پڑھتا ہے.خلاصہ یہ کہ اگر اس قسم کے فقروں سے ذلت ہوسکتی ہے جو ہائیکورٹ کے فیصلہ میں تھے تو مصری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کیا کہتے ہیں.کیونکہ جو فقرے میرے متعلق لکھے گئے ہیں ان سے زیادہ سخت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھے گئے ہیں.پس اس واقعہ سے تو میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ثابت ہوتی ہے نہ یہ کہ مجھ پر اعتراض پڑتا ہے.بلکہ عقلمند انسان کیلئے تو اس فیصلہ میں ایک سے زیادہ مشابہتیں ہیں.وہ مشابہت ہے جو میں بتا چکا ہوں.یعنی ایک ہی قسم کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اور میرے متعلق عدالت نے استعمال کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی سازش قتل کا الزام لگایا گیا اور میرے متعلق بھی ، اور اسی سلسلہ میں یہ الفاظ لکھے گئے.جن مجسٹریٹ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کئے تھے ان کا نام کیپٹن ڈگلس تھا.اور جس بینچ نے میرے متعلق اس قسم کے لفظ استعمال کئے ہیں ان کا نام بھی سر ڈگلس ہے.-٣
خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۸ء اب تم غور کرو کہ یہ باریک سے باریک مشابہتیں کون پیدا کرا رہا ہے.قرآن کریم میں کی اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ موسیٰ کی پیشگوئیاں جو تیرے سے یہ حق میں پوری ہوری ہیں کیا تو مدین میں موجود تھا یا تو طور پر موجود تھا کہ موسیٰ.باتیں تو نے کہلا لیں.2 اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ میں تو اُس وقت بچہ تھا.کیا میں نے مارٹن کلارک اور دوسرے پادریوں کو کہہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایسا مقدمہ کریں، پھر کیا میں نے عبدالحمید کو اس قسم کا بیان دینے کیلئے تیار کر لیا تھا؟ اور پھر میں نے گورنمنٹ کو کہہ دیا کہ ڈگلس نام کے ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں اس کی سماعت کرائے ؟ اور پھر کیا اب بھی میں نے یہ کوشش کی تھی کہ اس نام کے چیف جسٹس اس صوبہ میں آئیں اور وہ مقدمہ عزیز احمد کی سماعت خود کریں؟ پھر کیا میں نے ہی مصری صاحب سے کہا تھا کہ وہ مجھ پر قتل کا دعویٰ کر دیں تا کہ میری مشابہت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ثابت ہو جائے ؟ اگر یہ سب باتیں منصوبہ ہیں تو پھر مصری صاحب بھی اس میں شامل ہیں اور وہ مخالفت سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر مجھ سے الگ ہوئے ہیں تا کہ وہ ایسی مشابہت کے سامان پیدا کریں.کہا جاسکتا ہے کہ جس مجسٹریت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، ان کے نام کا آخری حصہ ڈگلس تھا.اور موجودہ چیف جسٹس کے نام کا یہ پہلا حصہ ہے اور یہ فرق ہے.سو یا د رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس کا علاج بھی کر دیا ہے اور وہ یہ کہ جن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا وہ مسٹر تھے اور چیف جسٹس صاحب نائٹ نے ہیں.اور انگریزی قوم کا دستور ہے کہ جو نائٹ نہ ہوں اُن کے نام کا آخری حصہ بولا جاتا ہے اور جو نائٹ ہوں اُن کے نام کا پہلا حصہ پکارا جاتا ہے.اس طرح بولنے میں وہ صاحب کیپٹن ڈگلس کہلائیں گے اور چیف جسٹس صاحب سر ڈگلس کہلائیں گے اور نام کی مشابہت بولنے کے ذریعے سے پوری طرح قائم رہے گی.غرض اس مقدمہ نے بھی میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ثابت کی ہے اور یہ امر دشمن کیلئے یقیناً ذلت کا موجب ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود مصری صاحب اور ان کے ساتھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ اپیل مسترد ہوگئی ، بڑی ذلت ہوئی حالانکہ یہ استرداد
خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۸ء بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ معافی مانگو تم نے گالی دی ہے.تو وہ کہے کہ میں نے تو گالی دی ہی نہیں معافی کیسی مانگوں.اگر تو ہائیکورٹ کے جج کہتے ہیں کہ اس خطبہ میں سزا سے مراد جسمانی سزا ہی ہے مگر ہم اپنے الفاظ واپس نہیں لے سکتے پھر تو مصریوں کا اعتراض صحیح ہوسکتا تھا.مگر جب وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یہ الفاظ کہے ہی نہیں تو پھر صرف یہ کہتے چلے جانا کہ درخواست مسترد ہوگئی، کس قدر دھوکا ہے.ان لوگوں کی دیانتداری اور تقویٰ کا حال اور بہت سی باتوں سے بھی معلوم ہو سکتا ہے.مثلاً یہ کہ یہ لوگ واقعات کو بالکل غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور چھپے ہوئے حوالہ جات کو پیش کرتے ہوئے بھی بد دیانتی سے نہیں رکھتے.مثلاً شیخ مصری کی صاحب نے مجھ پر جو استغاثہ دائر کیا تھا اُس میں مجھے پر یہ الزام لگایا ہے کہ گویا میں نے خطبات کی کے ذریعہ سے قتل کی تحریک کی ہے اور ثبوتوں میں سے ایک ثبوت کے طور پر ۲۳ رمئی ۱۹۳۷ ء کے ایک خطبہ کو پیش کیا تھا اور لکھا تھا کہ مرزا محمود احمد نے اپنے اس خطبہ میں کہا ہے کہ 'یا درکھو دنیا میں قیامِ امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے.درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں.اگر ان دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مار کھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈرا سکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہی ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابو میں رکھتا ہے.پس اگر تم جینا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو.میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتا دیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں.یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو.اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اُس سے کہوں گا کہ اے بے شرم ! تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں.
خطبات محمود ۱۵۵ سال ۱۹۳۸ء گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں.تم خود کی دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اور پھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ کی سے کہتے ہو وہ تمہاری مدد کرے.وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے.تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سود ہے“.یہ الفاظ ہیں جو مصری صاحب نے میری طرف منسوب کئے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ میرا خطبہ الفضل ۵ / جون ۱۹۳۷ء میں دس صفحات پر شائع ہوا ہے اور انہوں نے اس دس صفحہ کے خطبہ میں سے یہ الفاظ کہیں کہیں سے کاٹ کر لکھ دیئے ہیں.میں اس خطبہ کا موضوع بتا دیتا ہوں تا اس کے سمجھنے میں آسانی ہو.بات یہ ہے کہ یہاں آریوں کا ایک جلسہ ہو ا جس کے سلسلہ میں اُنہوں نے جلوس نکالا اور اُس میں لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائے.اس پر ایک احمدی نے جو وہاں کھڑا تھا ”مرزا غلام احمد زندہ باد کے نعرے لگائے.اور بعض کی مقامی افسروں نے افسرانِ بالا کے پاس شکایت کی کہ احمدیوں نے اس موقع پر اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا.میں اُس وقت سندھ میں تھا.میرے پاس ایک احمدی نے یہ شکایت لکھ کر بھیجی کہ مقامی پولیس والے ہمارے خلاف کیسی کیسی شرارتیں کر رہے ہیں کہ ایک احمدی نے "مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اس نے لیکھرام مُردہ باد کہا تھا.اس پر میں نے سندھ سے واپس آکر یہ خطبہ پڑھا اور اس خطبہ کا مضمون یہ ہے کہ اس احمدی نے اگر مرزا غلام احمد زندہ باد کہا تو بھی غلطی کی اس لئے کہ اگر آریہ ہمارے کسی جلسہ میں آکر لیکھرام زندہ باد کہیں تو ہمیں اُس پر غصہ آئے گا یا نہیں ؟ اسی طرح ان کے جلوس کے موقع پر مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی ان کیلئے اشتعال کا موجب تھا.سوخطبہ کا مضمون تو یہ ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہے کہ جاؤ اور جا کر مخالفوں کو مار دو.غور کرو ان دونوں کی باتوں میں کوئی بھی جوڑ ہے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اس احمدی کو " مرزا غلام احمد زندہ باد" بھی کی اس موقع پر نہیں کہنا چاہئے تھا.مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے تلقین کی ہے کہ جاؤ اور جا کر مخالفوں کو ماردو.اب دیکھو میرے الفاظ کس طرح کاٹے گئے ہیں.میری عبارت یوں ہے:
خطبات محمود ۱۵۶ سال ۱۹۳۸ء (مصری صاحب کے نقل کردہ حصہ کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے اور جو حصہ انہوں نے جان بوجھ کر چھوڑ کی دیا ہے تا کہ لوگوں کو دھوکا لگے اُس کے نیچے لکیر کھینچ دی گئی ہے تا دوستوں کو معلوم ہو جائے کہ کس قدرخیانت سے کام لیا گیا ہے ).یا درکھو دنیا میں قیام امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے.یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے.درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں.اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں مارکھانے کی طاقت ہونی چاہئے.بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا خیال ہو کہ ہم میں مارنے کی طاقت ہونی چاہئے.میں اسے غیر معقول نہیں کہتا.ہاں غلط ضرور کہتا ہوں.یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس نے قرآن کو نہیں سمجھا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو نہیں سمجھا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اس وقت ہمیں میسر نہیں.پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا.میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اس کی ایک رائے ہے جو میری رائے سے مختلف ہے.لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اور پھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بچانا ، مجھے بچانا.آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے.کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے.تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھاؤ اور اپنے جرم کا اقرار کرو.اوپر کی نشان کردہ عبارت کو مصری صاحب نے چھوڑ دیا ہے اور اگلی عبارت اس کے ساتھ جوڑ دی ہے.) اگر ان دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں جو مارکھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.اس کے آگے کی عبارت پھر انہوں نے چھوڑ دی ہے.)
خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۳۸ء مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ بھر آتی ہے اور وہ گو دکر اس پر حملہ کر دیتے ہیں.لیکن اُسی وقت ان کے پیر پیچھے پڑ رہے ہوتے ہیں.تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مر جائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہیں کریں گے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں بھائیو کچھ روپے ہیں کہ جن سے مقدمہ لڑا جائے ، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے.بھلا ایسے خنثوں نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے.(اس کے بعد ذیل کی عبارت انہوں نے پہلی عبارت سے جوڑ دی ہے.) بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری کی سے سچ بولتا ہے اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابو میں رکھتا ہے.پس اگر تم جینا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو.اس کے بعد ذیل کی عبارت ہے جو مصری صاحب نے حذف کر دی ہے.اس کو ساتھ ملا کر پڑھو اور دیکھو کہ یہ صلح ہونے کا دعویٰ کرنے والا کس تقوی کا مالک ہے.) جو کچھ میں سمجھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں سچ سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ بہادر بنو.مگر اس طرح کہ مارکھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہو کر دشمن سے جنگ کرو.ہاں جب وہ کہے کہ اب لڑو، اُس وقت بے شک لڑو.لیکن جب تک تمہیں امام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں.لاٹھی اور سوٹے سے نہیں بلکہ ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں.بلکہ میں سمجھتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے.لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیں تب بھی میں شریف انسان تمہیں تب سمجھوں گا کہ اگر تمہارا یہ دعوئی ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہو اور اس سے جوش میں آکر وہ پھر اور بد کلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جاؤ اور اپنے آپ کو فنا کر دو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے گالی نکلی تھی
خطبات محمود ۱۵۸ سال ۱۹۳۸ء کیونکہ اُس کو خاموش کرانا تمہارا ہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں.کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بد لگام دشمن کا جواب دے کر اُس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو!! اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی دیا ہے اور تمہارا سچ سچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تو تم دنیا سے مٹ جاؤ یا گالیاں دینے والے کو مٹا دو.مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعوی کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو.میں تو ایسے لوگوں کی کے متعلق یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ ا سلسلہ کے دشمن اور خطرناک دشمن ہیں.اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں کہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کر کے خوب پیٹنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ گالیاں دلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں.(اس کے آگے کچھ عبارت اس مضمون کی تائید میں ہے جسے بخوف طوالت چھوڑا جاتا ہے.مصری صاحب نے اس سب عبارت کو اپنے مخصوص اغراض کی وجہ سے حذف کر کے ذیل کا فقرہ پچن کر پہلے بیان کردہ فقرہ سے جا ملایا ہے ).پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتا دیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو.اس کے بعد کے فقرات جو ان کے مضمون کے غلط ہونے کو روزِ روشن کی طرح ثابت کر دیتے ہیں.انہوں نے پھر حذف کر دیئے ہیں اور وہ یہ ہیں ) ہمارا طریقہ مرنے کا ہے، مارنے کا نہیں.ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اس مقام پر رکھا ہو اہے کہ مر جاؤ مگر اپنی زبان نہ کھولو.کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی.اس میں کس وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتا دیا ہے کہ اگر جہاد کا موقع ہوتا تو خدا تعالیٰ تمہیں تلوار کیوں نہ دیتا.اُس کا تلوار نہ دینا بتاتا ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں.اسی طرح اگر تمہارے لئے مارنے کا مقام ہوتا تو تمہیں اس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے ، جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
خطبات محمود ۱۵۹ سال ۱۹۳۸ء کو گالیاں دی جاتی ہیں.مگر تمہیں اس کی توفیق نہیں دی گئی اور سامان نہیں دیئے گئے.پس معلوم ہوا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنوا اور صبر کرو.( اوپر کی عبارت کو چھوڑ کر پھر مصری صاحب نے ذیل کا فقرہ پچن لیا ہے.) اور اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا کہ اے بے شرم تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں.گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں.تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو پھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آکر ختم ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو وہ تمہاری مدد کرے.آگے ذیل کی عبارت پھر انہوں نے چھوڑ دی ہے.) گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے.کیا اس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے یا اس کی تمہاری سیاست ایک ہے؟ گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو ان لوگوں کی جو تمہارے دشمن ہیں؟ کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں.اور گورنمنٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہو سکتی ہے.اُس کو تو اُسی وقت تک ہمدردی تمہارے ساتھ ہو سکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اور دشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اس صورت میں بھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ و فساد سے بچالیا.مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو، نادانی ہے.اُس وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہوگی.کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کر سکتی.پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کر سکتے ہو جب خود قربانی کر کے لڑائی اور جھگڑے سے بچو.اور اُس وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کر کے فتنہ و فساد کو بڑھنے نہ دیا.مگر رذیل حکام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہوا اگر دشمن کا تھپڑ انہوں نے کھالیا.وہ زیادہ تھے اور تھوڑے.اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھا لیا ہے تو یہ کوئی خوبی نہیں.
خطبات محمود 17.سال ۱۹۳۸ ( یہاں تک کی عبارت کو حذف کر کے مصری صاحب نے اگلا فقرہ نقل کر دیا ہے.) پس وہ تمہارے صبر کو بُز دلی پر محمول کریں گے.اس کے بعد یہ فقرہ حذف کر دیا ہے.) اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کا نتیجہ قرار دیں گے پس (اس کے بعد ذیل کا فقرہ نقل کر دیا ہے.) تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا فضول ہے“.اب دیکھ لو میرے فقروں کو کس طرح تو ڑ مروڑ کر اور کانٹ چھانٹ کر کوئی ٹکڑا کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر پیش کیا ہے اور پھر یہ شخص کہتا ہے کہ میں مصلح کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہوں.یا در کھودین کی اصلاح صرف وہی کر سکتا ہے جو سچائی کی مضبوط چٹان پر قائم ہو اور اس کی دیانت تو اسی سے ظاہر ہے کہ میں تو کہتا ہوں کہ مارنا اور فساد کرنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے، احادیث صحیحہ کے خلاف ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے، میری تعلیم کے خلاف ہے.لیکن جو اس تعلیم کو غلط سمجھتا ہے وہ خود ذمہ دار ہے، وہ ہمارے ساتھ کیوں شامل ہے.یہ بالکل غیر شریفانہ بات ہے کہ وہ شامل تو ہم میں ہے مگر کام غیروں والے کرتا ہے اور کہ میری رائے تو یہی ہے لیکن اگر کوئی اس سے مخالف رائے رکھتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسی کی پر ہونی چاہئے.جماعت اسے کیوں بچائے.کیا اس نے نظام کی پابندی کی ہے؟ پھر میں تو یہ کہتا تج ہوں کہ دنیا میں انسان کو شرافت اور سچائی اختیار کرنی چاہئے اور اگر وہ کسی کو مارنا چاہیے ہمارے ساتھ شامل نہ رہے.ان لوگوں میں چلا جائے جو ایسا عقیدہ رکھتے ہیں.یہ دوغلہ پن ٹھیک نہیں کہ ملا تو رہے ہم میں اور کام وہ کرے جو ہم جائز نہیں سمجھتے.مگر یہ صاحب بیچ میں سے کئی کالم کے مضمون چھوڑ کر ایسے رنگ میں بات کو پیش کرتے ہیں کہ گویا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مخالفوں کو مارو اور ان کو فنا کر دو.بے شک ایک جگہ میں نے کہا ہے کہ اگر ایسے چالیس آدمی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.لیکن یہ اردو کا محاورہ ہے کہ جب قانون بیان کرنا ہو تو اس موقع پر بھی ہم' کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں.انگریزی میں ایسے موقع پر ایک کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں.عربی میں یہ محاورہ ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
خطبات محمود ,, 66 171 سال ۱۹۳۸ء فرمایا کہ تم انصار یہ کہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اُس وقت پناہ دی جب اس کے وطن والوں نے اس کو نکال دیا مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے بعض منافق طبع یوں کہہ سکتے ہیں.اسی طرح ان الفاظ میں کہ اگر ان دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈرا سکتے ہیں ایک قانون بیان کیا گیا ہے.ایک قاتل یا ڈا کو اُٹھتا ہے تو تمام علاقے میں دہشت پیدا کر دیتا ہے.اسی طرح میں نے یہ کہا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی ڈاکو بننا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ جا کر ڈاکوؤں میں شامل ہو.لیکن اگر ہمارے ساتھ رہنا ہے تو پھر مارکھاؤ.لیکن میرے ان الفاظ کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس سارے مضمون کو نظرانداز کر کے پھر ان الفاظ کو نقل کر دیا ہے کہ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہتا ہے.حالانکہ ان الفاظ میں تو میں نے انسانی فطرت کا ذکر کیا ہے.کیا دنیا میں ایسے لوگ نہیں گزرے؟ سکندر اور نپولین وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے.ایمان سے باہر بھی تو بہادری کے اظہار کے ذرائع ہیں.اسی کا میں نے ذکر کیا ہے.ان الفاظ میں مؤمنوں کا میں نے ذکر نہیں کیا.کہتے ہیں سکھ بڑے بہادر ہوتے ہیں.تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بچے مؤمن ہوتے ہیں؟ یہ تو عام دنیوی اخلاق ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.پھر میں نے کہا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو.جو کچھ میں سمجھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں سچ سمجھتا ہوں.وہ یہ ہے کہ بہادر بنو مگر اس طرح کہ مار کھانے کی عادت ڈالو.اگر ان الفاظ کو وہ ساتھ نقل کر دیتے تو میرا مطلب واضح ہو جاتا.اس لئے ان الفاظ کو کی انہوں نے چھوڑ دیا ہے.اسی طرح میں نے تو لکھا تھا کہ اگر تم جیتنا چاہتے ہو.مگر انہوں نے کی اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے کہ اگر تم جینا چاہتے ہو جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ ذہن کی خالص احمدی نقطۂ نگاہ کی طرف پھرے، عام قانون کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہو.یہ مصری صاحب کا حال ہے.وہ اس طرح بد دیانتی کے ساتھ میرے فقروں کو پیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ دعوی کرتے جاتے ہیں کہ امام جماعت احمد یہ اور جماعت احمدیہ کا ایک حصہ گندہ ہو گیا ہے اور مصری صاحب اس کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے ہیں.ایک اور میرا فقرہ یہ ہے کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں.یا انسان کو مرنا کی
خطبات محمود ۱۶۲ سال ۱۹۳۸ء آتا ہو.یا انسان کو مارنا آتا ہو.ان الفاظ کو تو نقل کر دیا ہے.لیکن اس کے ساتھ کا فقرہ کہ ”ہمارا طریقہ مرنے کا ہے چھوڑ دیا ہے.اس سے آگے جا کر میں نے کہا ہے کہ ” تم گالیاں سنوا اور صبر کرو.اسے چھوڑ کر اس کا یہ حصہ درج کر دیا ہے اے بے شرم تو آگے کیوں نہیں جاتا کی اور اُس منہ کو کیوں تو ڑ نہیں دیتا جس منہ سے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلوائی ہیں.پھر اس سے آگے یہ فقرہ، نقل کر کے کہ گورنمنٹ تمہاری مدد نہیں کرے گی ، یہ فقرہ نقل کر دیا ہے کہ وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے.حالانکہ یہ فقرہ گورنمنٹ کے متعلق نہیں.بلکہ جیسا کہ میں نے درمیان میں نقل کیا ہے.یہ فقرہ رذیل حکام کے متعلق ہے اور میں نے صاف فرق کیا ہے کہ گورنمنٹ کا شریف حصہ تمہاری قدر کرے گا.مگر رذیل حکام تمہارے صبر کو بھی بُزدلی قرار دیں گے.غرضیکہ لا تقربوا الصلوة " کہنے والے کی طرح صرف کہیں کہیں سے کوئی کوئی ٹکڑا جو میرا عقیدہ نہیں بلکہ دوسرے کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے لیکن میری طرف منسوب کر دیا گیا.اور کی جو میرا عقیدہ وہاں بیان ہے اسے چھوڑ دیا گیا ہے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ دشمن جانتا ہے کہ وہ سچ سے میرے مقابلہ پر کامیاب نہیں ہوسکتا.آخر میں بھی مصنف ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے تصنیف کا کام کرتا آرہا ہوں.میں نے ۱۹۰۷ ء میں مضمون لکھنے شروع کئے اور ایک دو مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مجھ سے لکھوا کر اپنی طرف سے شائع کی کرائے.گویا آج اکنتیس سال ہوئے کہ میں تصنیف کا کام کر رہا ہوں.اس عرصہ میں میں نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں اور درجنوں اشتہار اور رسالے بھی شائع کئے ہیں.کوئی ثابت تو کرے کہ میں نے بھی کبھی کوئی غلط حوالہ دیا ہے.میرے کسی حوالہ کو بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے بھی رکھ دو پھر دیکھو کیا وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے کبھی کوئی حوالہ ا را د تا غلط پیش کیا ہے.مگر ان کو علیحدہ ہوئے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا کہ دیانت کا معیار اس قدر گر گیا ہے اور پھر دعوی جماعت کی اصلاح کا ہے.تم کوئی ایک ہی مثال پیش کرو کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنی جماعت کی اصلاح کیلئے کسی جھوٹے کو لیڈر بنا کر کھڑا کیا ہو.ہاں یہ صحیح ہے کہ جب کوئی جماعت گندی ہو جائے اور خدا تعالیٰ نے اُسے تباہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہو تب وہ فاجروں سے بھی یہ کام کی
خطبات محمود ۱۶۳ سال ۱۹۳۸ لے لیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کوئی چار سو سال بعد جب بغداد پر تباہی آئی تو بغداد کے لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس تباہی سے ہمیں بچالے.تو انہوں نے کہا میں دعا کیا کروں.میں تو جب بھی دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہوں مجھے یہی آواز آتی ہے کہ يَا أَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّار یعنی اے کا فرو! ان فاجروں کو تباہ کر دو.پس یا تو وہ یہ فیصلہ کریں کہ وہ بے شک جھوٹے اور فریبی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ احمدیت کو تباہ کر کے کوئی نیا دین قائم کرنا چاہتا ہے.لیکن اگر جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ احمدیت ایک صداقت ہے تو پھر اس کی اصلاح کیلئے کوئی جھوٹا کھڑا نہیں ہوسکتا.میری یہ تحریریں جن میں اس طرح کتر بیونت سلا کی گئی ہے کوئی پوشیدہ باتیں نہیں ہیں بلکہ اخبار میں شائع ٹھدہ ہیں اور جو شخص ان شائع شدہ تحریروں میں بھی بد دیانتی سے کام لے سکتا ہے اس کی مثال اُس چور کی سی ہے جو لیمپ لے کر چوری کرنے جاتا ہے.یہ باتیں بھی اللہ تعالیٰ کی کی طرف سے میری صداقت کا ایک نشان ہے.باریک علمی نکتے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا.خلافت کا کی مسئلہ بالکل واضح ہے.مگر ممکن ہے کوئی شخص اس کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ سکتا ہو.مگر کون ہے جو کچ ان باتوں کو بھی نہ سمجھ سکے اور یہ معلوم نہ کر سکے کہ میرے دشمن میرے مقابل پر کس طرح بد دیانتی ، جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں.پھر اس مقدمہ میں ایک اور نشان بھی ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کے مقدمہ کے متعلق رؤیا ہوگئی تھی اسی طرح اس مقدمہ میں مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویا ہوئی جو بالکل صحیح ثابت ہوئی.مجھے شیخ بشیر احمد صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ اس درخواست کے فیصلہ کیلئے جو تاریخ مقررتھی وہ بدل گئی ہے.پھر اس کے بعد دوبارہ اطلاع دی کہ دوسری تاریخ جو مقر رتھی وہ بھی بدل گئی ہے.میں نے انہیں کہا کہ یہ تاریخوں کا بدلنا اچھا نہیں کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں جوں پر مخالف اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی.میں بہت حیران تھا کہ ہائیکورٹ کے جج تو بڑے پایہ کے لوگ ہوتے ہیں ان پر بیرونی اثر ڈالنا تو ناممکن ہے.مگر اس کی کوشش کرنا بھی بظاہر ناممکن ہے.پھر یہ رویا کس طرح پورا ہوگا.مگر خدا تعالیٰ نے اس کے بھی سامان پیدا کر دئیے اور وہ اس طرح کہ ان لوگوں نے فخر الدین صاحب ملتانی کے لڑکے
خطبات محمود ۱۶۴ سال ۱۹۳۸ء کی طرف سے ایک ٹریکٹ انگریزی میں شائع کرا کے جوں کو بھجوا دیا اور اسے مظلوم قرار دے کر ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی.اس ٹریکٹ میں میرے حوالوں کو غلط طور پر کانٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا ہے اور ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا وہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور میاں فخر الدین کو میں نے مروا دیا ہے.یہ ٹریکٹ علاوہ دوسرے لوگوں کے بہت سے جوں کو بھی بھجوایا گیا اور اس طرح جوں کے خیالات پر اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس منصو بہ کو بھی نا کام کیا اور جوں کو سچ تک پہنچنے کی توفیق دی اور اُنہوں نے صاف کہہ دیا کہ خطبہ میں ہرگز جسمانی سزا کی طرف کسی کو ترغیب نہیں دلائی گئی بلکہ روحانی سزا کا ذکر ہے.عجیب بات یہ ہے کہ یہ خطبہ جس کو غلط رنگ میں اور بگاڑ کر اس طرح پیش کیا گیا ہے وہ کی فخر الدین صاحب کے جماعت سے اخراج سے بھی پہلے کا ہے.یہ خطبہ ۲۷ رمئی کا ہے اور فخر الدین صاحب کا اخراج ۷ / جون کو ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ یہ بھی میری صداقت کے نشان دکھا رہا ہے.ان سے ایسے جھوٹ بلوا کر یہ بتا رہا ہے کہ جو لوگ اخبار میں شائع ھدہ تحریروں میں اس طرح بددیانتی سے کام لے رہے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں وہ میری پرائیویٹ زندگی پر جو الزام لگاتے ہیں وہ کس حد تک قابل اعتبار ہو سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک یہودی آیا اور کہا کہ آپ نے میرا فلاں قرض دینا ہے.اُس نے خیال کیا ہوگا کہ آپ کو یاد نہیں ہوگا اس لئے دوبارہ وصول کی کرلوں.یا ممکن ہے وہ واقعی بھول گیا ہو.اس طرح کئی لوگ مجھ سے دوبارہ وصول کر لیتے ہیں.مگر جب آپ نے فرمایا کہ میں تو ادا کر چکا ہوں تو ایک صحابی نے کہا ہاں یا رَسُول اللہ ! میں گواہ ہوں کہ آپ نے ادا کر دیا ہوا ہے.اور جب اُس صحابی نے پورے وثوق سے گواہی دی تو کی اُس یہودی نے بھی کہا کہ ہاں مجھے یاد آ گیا آپ ادا کر چکے ہیں.اُس کے جانے کے بعد رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس صحابی سے پوچھا کہ تم تو اُس وقت موجود نہیں تھے، تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں نے وہ قرض ادا کر دیا ہوا ہے؟ تو اُس صحابی نے کہا یا رَسُول اللہ ! آپ کہتے ہیں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے حالانکہ اسے نہ ہم دیکھتے ہیں اور نہ کوئی اور.اور کی ہم ایمان لے آتے ہیں اور امَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہہ دیتے ہیں.تو پھر اس معمولی سی بات کے
خطبات محمود ۱۶۵ سال ۱۹۳۸ء صحیح ہونے کی گواہی میں ہمیں کیا تامل ہو سکتا ہے.کے سچائی کی طرح یہی اصل جھوٹ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص اخبار میں چھپے ہوئے خطبہ کے متعلق اس طرح دلیری کے ساتھ جھوٹ بول سکتا ہے، پوشیدہ زندگی کے متعلق اس کی بات کس طرح قابلِ اعتبار سمجھی جاسکتی ہے.پس یہ الہی فعل ہے جس سے وہ مؤمنوں کی مدد کرتا اور دشمنوں کی ذلت کے سامان پیدا کرتا ہے.مصری صاحب کا دعوی ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کی اصلاح کریں گے حالانکہ اس جماعت کی کو اُس عظیم الشان نبی نے قائم کیا ہے جس کی خبر حضرت نوح ، حضرت موسی ، حضرت عیسی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ایسے عظیم الشان نبی کی جماعت میں جبکہ ابھی اس کے صحابہ اس میں زندہ موجود ہیں، اگر فتور آ جائے تو اس کی اصلاح کیلئے جو شخص کھڑا ہو وہ تقویٰ اور دیانت کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوسرے درجہ پر تو ضرور ہونا چاہئے.لیکن جو شخص چھپی ہوئی تحریروں کو اس طرح بددیانتی سے پیش کرتا ہے ، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کیس چلا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا اور ان فقروں کو جو میں نے دشمن کے منہج میں ڈالے تھے دیدہ دلیری کے ساتھ میری طرف منسوب کرتا ہے، تم اُس کے ایمان اور تقویٰ کا اندازہ بآسانی کر سکتے ہو.اور یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی (الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۳۸ء ) جماعت کی اصلاح کیلئے کھڑا ہوا ہوں.“ البقرة: ۲۷ الرحمن: ۲۱ الاحزاب : ۲۳ ۵ بنی اسرائیل: ۶۰ ملفوظات جلد ا صفحه ۴۵ البقرة:اا ك كتاب البریه صفحه ۵ ۲۸ ، ۲۸۶ - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۰۴،۳۰۳ مَا كُنْتَ نَاوِيًا في أَهْلِ مَدينَ (القصص:(٤٦) وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ (القصص: ۴۷) ٹائٹ: KNIGHT).وہ شخص جسے ذاتی طور پر سر کا خطاب دیا گیا ہو.KNIGHT MARSHAL، شاہی محل کا ایسا افسر جو امور قانونی سے تعلق رکھتا تھا.(آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری )
خطبات محمود ۱۶۶ سال ۱۹۳۸ ا خنثوں: حنفی.ہیجڑہ بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب الانصار رضى الله عنهم ١٢ النساء : ۴۴ ۱۳ کتر بیونت: کانٹ چھانٹ.کمی بیشی (مفہوماً) ابو داؤد كتاب القضاء باب إذا علم الحاكم صدق شهادة الواحد يجوزله ان يقضى به.
خطبات محمود ۱۶۷ ۱۱ سال ۱۹۳۸ قربانیوں کے میدان میں کبھی سست نہیں ہونا چاہئے فرموده ۱۸ / مارچ ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں نے کئی دفعہ جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک جلالی ہوتے ہیں اور ایک جمالی.اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اتنا زور دیا ہے اور اتنی وضاحت سے اس کو بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص بھی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو پڑھا ہو ، اس سے غافل نہیں رہ سکتا کہ انبیا ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ انبیاء ہوتے ہیں جو جلالی رنگ میں آتے ہیں اور ایک وہ انبیاء ہوتے ہیں جو جمالی رنگ میں آتے ہیں.جو انبیاء جلالی رنگ میں آتے ہیں اُن کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ ان کی قوم کو دشمن سے لڑائیاں کرنی پڑتی ہیں.ان لڑائیوں میں فتوحات ہوتی ہیں اور اس طرح قریب ترین زمانہ میں اللہ تعالیٰ انہیں حکومت دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تمام شرعی احکام کا نفاذ کر کے دنیا میں شریعت کو عملی رنگ میں قائم کر دیتے ہیں.مگر دوسری قسم کے انبیاء جو جمالی رنگ میں آتے ہیں ان کی بعثت سے پہلے چونکہ کسی جلالی نبی کے ذریعہ شریعت دنیا میں قائم ہو چکی ہوتی ہے، گومرور زمانہ کی وجہ سے لوگ اُسے بھول چکے ہوتے ہیں اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ شریعت کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے.
خطبات محمود ۱۶۸ سال ۱۹۳۸ء پس اللہ تعالیٰ انہیں تدریجی رنگ میں ترقیات دیتا اور تدریجی رنگ میں ہی وہ شریعت کے احکام کا دنیا میں قیام کرتے ہیں.اور چونکہ دنیا جلالی قسم کے انبیاء سے یہ دھوکا کھا جاتی ہے کہ شاید انہوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلایا ہے، اس لئے خدا تعالیٰ اس اعتراض کو مٹانے کیلئے بعد میں جمالی انبیاء بھیجتا ہے جو تبلیغ کے ذریعہ وہی مذہب دنیا میں قائم کرتے ہیں.اس طرح جہاں ایک طرف ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی جمالی صفات دنیا میں ظاہر ہوتی ہیں ، وہاں ان سے پہلے جلالی نبی پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلا یا ، اس کا بھی دفعیہ ہو جاتا ہے.اب وہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب دنیا میں قائم کیا اور لڑائی کے نتیجہ میں اپنی حکومت قائم کر کے یہود کو بام ترقی پر پہنچایا یا وہ جو حضرت کرشن پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفوں سے لڑائی کی اور انہیں کی تلوار سے ہلاک کر کے اپنے ساتھیوں کی حکومت ہندوستان میں قائم کر دی یا وہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے تلوار کے زور سے عرب فتح کیا اور اسلام کو غلبہ واقتدار حاصل ہوا، ان کے سامنے جب یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب دنیا میں قائم کیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک خادم اور آپ کی اُمت کے ایک نبی حضرت مسیح علیہ السلام نے بغیر تلوار چلائے کس طرح دین عیسوی دنیا میں قائم کر دیا جو در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہی لایا ہوا مذہب تھا.بعد میں لوگوں نے بگاڑ کر اُس کی اور شکل بنادی ، تو وہ سوائے خاموش رہنے کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتے.اس طرح ان کا اعتراض فوراً باطل ہو جاتا اور کوئی ہوش مند انسان یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ اعتراض محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے.ورنہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بغیر تلوار چلائے لوگوں کو اپنا ہم خیال نہیں بنا سکتے تھے تو حضرت عیسی علیہ السلام نے بغیر تلوار کی چلائے کس طرح لاکھوں کو اپنا ہم خیال بنالیا.اسی طرح اگر کرشن جی پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا مذہب تلوار کے زور سے پھیلایا تو اس کے جواب میں یہ بات پیش کی جاسکتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت رام چندر جی جو اُن کے بعد آئے اُنہوں نے صلح ، محبت اور کی
خطبات محمود ۱۶۹ سال ۱۹۳۸ء قربانی سے کام لیتے ہوئے اپنے مذہب کی اشاعت کی اور لوگوں نے انہیں قبول کیا.اگر حضرت رام چندر جی بغیر لڑائی اور تلوار اٹھائے اپنا مذہب دنیا میں پھیلا سکتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ حضرت کرشن نہیں پھیلا سکتے تھے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا ، اس اعتراض کا دفعیہ اب خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے.علیہ ال دنیا کہتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نَعُوذُ بِاللَّهِ مذہب پھیلانے کیلئے تلوار چلائی اور لوگوں نے تلوار کے ڈر سے آپ کو قبول کر لیا.مگر اب خدا نے حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو دنیا میں اس لئے بھیجا ہے تا آپ دلائل اور براہین کے ساتھ اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب ثابت کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ان معترضین کو یہ جواب دے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شاگرد، ایک خادم اور ایک غلام تبلیغ کے ذریعہ اسلام کو تمام کی دنیا میں پھیلا سکتا ہے تو کیا وہ آقا جس کی قوت قدسیہ نے ایسا عظیم الشان شاگرد پیدا کیا ہے، تبلیغ کے ذریعہ دین نہیں پھیلا سکتا تھا ؟ یقیناً وہ بھی تبلیغ کے ذریعہ اپنا دین پھیلا سکتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے اُس وقت جلال کا ظہور چاہا اور اُسی کی حکمت نے اب جمال کا ظہور دنیا میں فرمایا.پھر میں نے کئی دفعہ جماعت کے دوستوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جلالی رنگ کے زمانہ میں وہ ہمیشہ جلد جلد ایسی قربانیاں طلب کرتا ہے جن کا نتیجہ تھوڑے ہی دنوں میں ظاہر ہو جاتا ہے جیسے جان کی قربانی ہے.مگر جمالی زمانہ میں خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے یہ قربانیاں جن کا مطالبہ آہستہ آہستہ کیا جاتا ہے کوئی کم قسم کی یا ادنیٰ قسم کی قربانیاں نہیں ہوتیں بلکہ بعض حالات میں پہلی قسم کی قربانیوں سے یہ زیادہ سخت ہوتی ہیں اور درحقیقت انسانی ایمان کی آزمائش ایسی ہی قربانیوں سے ہوتی ہے.کیونکہ اول تھوڑی قربانی سے دل پر کی دہشت طاری نہیں ہوتی اور بالعموم انسان اس کے کرتے وقت پوری ہمت سے کام نہیں لیتا.بے شک جو مؤمن ہوتا ہے وہ باوجود اس کے کہ خطرہ نمایاں صورت میں اس کے سامنے نہیں ہوتا، قربانی کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے.مگر جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اس تسلی میں رہتا ہے کہ ابھی
خطبات محمود ۱۷۰ سال ۱۹۳۸ء کوئی گھبراہٹ کا موقع نہیں اور اس طرح باوجود اپنے دل میں کسی قدر ایمان رکھنے کے وہ قربانی کی کے صحیح مقام پر کھڑا نہیں ہوتا اور دھوکا میں مبتلا رہتا ہے.مگر جہاں لڑائی ہورہی ہو، جہاں تلوار میں چل رہی ہوں، جہاں کفار اپنی پوری طاقت سے مسلمانوں کو مٹانے کیلئے حملہ آور ہوں وہاں نفس انسان کو دھوکا نہیں دے سکتا.وہاں جب کبھی دھوکا دے گا اس رنگ میں دے گا کہ اسلام کو چھوڑو، اس میں شامل رہ کر تو مصائب ہی مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ خطرہ کوئی نہیں.مثلاً جب کفار مکہ کا لشکر آ گیا اور مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ ابو جہل یا ابوسفیان اس کا کمانڈر ہے اور ہزاروں آدمی اس لشکر میں شامل ہوکر مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں تو اُس وقت کونسا کمزور سے کمزور مسلمان بھی کہہ سکتا تھا کہ کوئی خطرہ نہیں ، یہ محض وہم ہے.لیکن اگر دشمن کا حملہ مخفی ہے یا ظاہری سامانِ حرب کی بجائے دلائل سے وہ اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہے یا مختلف رنگ کی سازشوں سے وہ اسلام کو کچلنا چاہتا ہے یا منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل رہ کر اسلام کو ضعف پہنچانا چاہتا ہے تو ان تمام صورتوں میں جب کہا جائے کی گا کہ آؤ اور قربانی کرو تو بہت سے کمزور طبع لوگ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ یونہی ڈرا ر ہے ہیں دشمن کی طرف سے تو کوئی حملہ نظر نہیں آتا.پس اس وجہ سے یہ ابتلاء زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں اور اگر پہلی قسم کے ابتلاء میں بعض کمزور ایمان والے بچ بھی جاتے ہیں اور وہ خطرہ کو اپنے کی سامنے دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ قربانی کا وقت آگیا ہے تو دوسری قسم کے ابتلاء میں باوجود ایمان رکھنے کے بعض لوگ تباہ ہو جاتے ہیں کیونکہ جو قربانی کا وقت ہوتا ہے اسے وہ محض اس وجہ سے کہ دشمن کا حملہ مخفی ہوتا ہے کھو بیٹھتے ہیں.پھر دوسرا خطرہ جمالی زمانہ کی قربانیوں میں یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ لمبی قربانیوں سے گھبرا جاتے ہیں.کئی دفعہ میں نے مثالوں سے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ جاؤ اور دشمن سے لڑ کر مر جاؤ تو وہ فوراً اپنی جان دینے کیلئے تیار ہو جائیں گے لیکن اگر روزانہ اُن سے تھوڑی تھوڑی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو وہ رہ جائیں گے اور قربانی میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے لگ جائیں گے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ خبر دی ہوئی ہے کہ جماعت پر ابتلاء پر ابتلاء
خطبات محمود 161 سال ۱۹۳۸ء آئیں گے اور آزمائش پر آزمائش ہو گی ، یہاں تک کہ بہت سے لوگ جھڑ جائیں گے اور صرف وہی باقی رہ جائیں گے جو بچے مؤمن ہوں گے اور انہی کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا.بہت سے نادان ایسے ہیں جو میری نسبت اعتراض کرتے رہتے ہیں اور دنیا کا طریق بھی کچھ ایسا ہے کہ جو حاضر شخص ہوتا ہے اس پر اعتراض لوگ آسانی سے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اسے لوگوں کے خلاف منشاء کرنی پڑتی ہیں اور اس کا اُنہیں رنج ہوتا ہ ہے.لیکن وہ شخص جو فوت ہو جاتا ہے لوگ اُس پر اعتراض بہت کم کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس نے دنیا میں جو کام کرنا تھا کر لیا.پس دنیا میں حاضر شخص پر الزام زیادہ قائم ہو ا کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں کی تعریف زیادہ کی جاتی ہے.چونکہ اس زمانہ میں ایک حصہ جماعت کو منافقوں کے اثر کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کرنے کی عادت ہوگئی ہے اس لئے جب میری طرف سے قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے بات بنا رہے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لٹریچر موجود ہے، اسے پڑھو.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ میرے بعد ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے اور اس حد تک آئیں گے کہ جماعت کا کمزور حصہ الگ ہو جائے گا مگر وہ جو آخر دم تک ثابت قدم رہیں گے خدا تعالیٰ انہی کے ذریعہ قدرت ثانیہ کے بعض مظاہر کی ماتحتی میں احمدیت کو فتح دے گا.اب یا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس سازش میں میرے ساتھ شریک ہیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ موسی نے میرے متعلق یہ یہ پیشگوئیاں کی ہیں تو مکہ کے نادانوں نے سمجھا کہ موسیٰ کوئی زمانہ حال کا آدمی ہے جس سے مشورہ کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے متعلق پیشگوئیاں کرالی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کیا تو مدین میں موجود تھا یا طور پر موجود تھا کہ موسیٰ کی سے تو نے یہ باتیں کہلا لیں؟ اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ اگر جو کچھ میں نے کہا وہ غلط ہے تو کیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا تھا کہ آپ اپنی کتابوں میں یہ یہ باتیں لکھ جائیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر خدا تعالیٰ سے خبر پا کر جماعت کو اطلاع دی تھی کہ
خطبات محمود ۱۷۲ سال ۱۹۳۸ء ابتلاء آتے چلے جائیں گے، آتے چلے جائیں گے اور آتے چلے جائیں گے اور جماعت کے کمزور لوگ گرتے چلے جائیں گے ، گرتے چلے جائیں گے اور گرتے چلے جائیں گے یہاں تک کی کہ صرف صادق الایمان لوگ باقی رہ جائیں گے اور انہی کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا.اب سوال صرف یہ ہے کہ صادق الایمان کون ہو.اور میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ صادق الایمان لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہے یا گر نے والوں میں.اگر ایک شخص یہی فیصلہ کرتا ہے کہ میں گرنے والے لوگوں میں شامل ہوں تو میں اُسے کہوں گا کہ تو نے اب تک اس قدر قربانیاں کیوں کیں.تجھے تو چاہئے تھا کہ آج سے ایک عرصہ پہلے الگ ہو جاتا کیونکہ میں آج جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ نہیں کر رہا بلکہ ابتداء کی سے کرتا چلا آیا ہوں.اور اگر ہم میں سے ہر شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ گرنے والا دوسرا ہو ، میں گرنے والا نہ بنوں تو اول تو کوشش ہماری یہی ہونی چاہئے کہ دوسروں کو بھی بچائیں اور کسی کو کی گرنے نہ دیں.لیکن چونکہ خدائی فیصلہ یہی ہے کہ کچھ لوگ گریں گے اس لئے زید یا بکر کے گرنے کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہو کر رہیں گی.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اس کے وعدے نہیں مل سکتے.ہم نے اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے بہت سے نشانات کو پورا ہوتے دیکھا.نشان پر نشان اور معجزہ پر معجزہ ہمارے لئے ظاہر ہوا.کی ایسے ایسے حالات آئے جبکہ دنیوی نقطہ نگاہ سے یہی سمجھا جاتا تھا کہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا مگر معاً خدا تعالیٰ نے رنگ بدل دیا اور ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ وہ مصیبت اُڑ گئی اور سلسلہ کا وقار پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا اور منافق یہ کہنے لگ گئے کہ مصیبت تو کو ئی تھی ہی نہیں ، یہ محض بہانہ بنایا گیا تھا ، یہی منافقوں کا طریق ہے.جب الہی سلسلوں پر کوئی مصیبت آتی ہے منافق کہتا ہے اب یہ تباہ ہو جائیں گے مگر جب ٹل جاتی ہے تو کہتا ہے مصیبت تو کو ئی تھی ہی نہیں ، یہ محض فریب کی کیا گیا تھا.گویا جب کوئی مصیبت موجود ہو تو وہ اُسے اتنا بڑھاتا ہے، اتنا بڑھاتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں رہتی.اور جب ٹل جاتی ہے تو شروع میں تو وہ یہی کہتا ہے کہ ٹلی نہیں مگر جب بالکل ٹل جاتی ہے تو کہتا ہے مصیبت کو ئی تھی ہی نہیں یونہی ڈرانے کیلئے ایک بات بنائی گئی تھی.
خطبات محمود ۱۷۳ سال ۱۹۳۸ء چنا نچہ دیکھ لو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ تینوں صورتیں بیان کی ہیں.فرماتا ہے احزاب کے موقع پر جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے خلاف جمع ہو گیا تو منافقوں نے کہا اے اہل میثرب ! لا مقام تكُم " اب تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں.تم ان کا کہاں مقابلہ کر سکتے ہو.گویا انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلمان اب مارے جائیں گے اور ہم تو پہلے ہی یہ کہتے تھے کہ خواہ مخواہ دوسروں سے بحشیں کرتے پھرنا فضول بات ہے.ہم کوئی دوسروں کی ہدایت کے ٹھیکہ دار تھوڑے ہیں مگر مسلمانوں نے ہماری بات نہ مانی اور نتیجہ یہ ہوا کہ سارے لوگ مل کر حملہ آور ہو گئے.اب انہیں پتہ لگے گا کہ اسلام کی تبلیغ کس طرح کیا کرتے ہیں.پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جب احزاب کو شکست دی تو منافق کہنے لگے شکست کوئی نہیں ہوئی.وہ تو صرف تھوڑی دیر کیلئے پیچھے ہٹے ہیں تا کہ دوبارہ جمعیت کو مضبوط کر کے حملہ کریں.تیسری کیفیت منافقوں کے کی قلوب کی ایک اور جنگ کے موقع کے ذکر میں بیان فرماتا ہے.فرماتا ہے منافق کہتے ہیں کی لو تعلم قتالاً لا اتبعتكم ، سے اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوتے.مگر ہمارا تو یہ خیال تھا کہ لڑائی کوئی ہے ہی نہیں ، صرف خیالی خطرہ ہے ( اس آیت کے اور معنے بھی ہیں.میں ان کی تردید نہیں کرتا.قرآن کریم ذومعانی ہے ).اسی حالت کا نقشہ سورۃ بقرہ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے واذا قيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلاَ نَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ ® واذ ارقيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ، الا إنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء ولكن لا يَعْلَمُونَ ) کے یعنی جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے ساز باز رکھ کر فساد پیدا نہ کرو.تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں.یعنی آپس کا اختلاف کوئی بڑا اختلاف نہیں صلح ناممکن نہیں ہے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ آپس میں صلح ہو جائے اور فساد دُور ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم غلط کہتے ہو.دنیا کا جھگڑا نہیں کی کہ صلح ہو جائے ، یہ تو دینی اختلاف ہے جس میں سو دا نہیں ہوسکتا.پس اس ساز باز سے وہ فساد پیدا کر رہے ہیں مگر ایمان نہیں ، اس لئے محسوس نہیں کرتے.پھر فرماتا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح باقی لوگ ایمان لا رہے ہیں تم بھی ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ یہ تو بیوقوف ہیں.
خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۸ء خواہ مخواہ لڑائی کر کے فساد کر رہے ہیں، ہم بیوقوف کیوں بنیں.ہم جانتے ہیں کہ لڑائی کا موقع کی نہیں ہے، صلح ممکن ہے.فرماتا ہے افسوس کہ یہ لوگ جانتے نہیں ورنہ خود ان کا یہ قول بیوقوفی کا ہے.تو یہ تینوں قسم کی حالتیں منافقوں کی طرف سے ظاہر ہوتی ہیں اور منافق ہمیشہ ایسے وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے جن کے نتیجہ میں قوم کا قدم قربانیوں کے میدان میں سُست ہو جائے لیکن مومن کا قدم ہمیشہ آگے کی طرف اُٹھتا ہے اور وہ ہمیشہ اس امر کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے وعدہ کو کی اور اُس عہد کو جو اس نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے پورا کرے.اس دوران خواہ اسے مشکلات پیش آئیں یا راحت میسر ہو ، دونوں اس کیلئے برابر ہوتی ہیں کیونکہ اس کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے.اگر راحت آئے تو اس کی وجہ سے قربانیوں میں سُست نہیں ہو جاتا اور اگر تکلیف آئے تو گھبرا تا نہیں بلکہ اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آلذين قال لَهُمُ النَّاسُ انّ النّاس قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۵ یعنی مومن وہ ہیں کہ جب ان سے لوگ کہتے ہیں کہ سب تو میں تمہارے خلاف جمع ہو گئی ہیں اس لئے تم اب لوگوں کی سے ڈر کر نرم پڑ جاؤ.تو بجائے اس کے کہ وہ ڈریں یہ بات ان کو ایمان میں اور بھی بڑھا دیتی ہے اور وہ کہتے ہیں اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ سب سے بہتر کارساز ہے.غرض مصیبت آئے تو تب بھی مؤمن اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے اور اگر راحت ملے تب بھی وہ غافل نہیں ہوتا کیونکہ ہر بات میں اسے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کرتا دکھائی دیتا ہے.جب تک کسی شخص کے اندر یہ ایمان پیدا نہ ہو، جب تک بچے طور پر وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کا کام جہاں ایک طرف اپنے نفس کی اصلاح کرنا ہے وہاں دوسری طرف تمام دنیا سے روحانی جنگ کرنا ہے اس وقت تک وہ خطرہ کی حالت میں ہوتا ہے اور اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ اس کی مقام کو کھو بیٹھے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے.گویا اس کی وہی مثال ہو جائے جو کسی کی شاعر نے اس طرح بیان کی ہے کہ خدا ہی ملا وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۸ ایسے شخص کو نہ تو دنیا حاصل ہوتی ہے اور نہ دین حاصل ہوتا ہے.دنیا کو وہ ناراض کر لیتا ہی ہے اس ظاہری دین کی وجہ سے جو اس کے پاس ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتا ہے،اس باطنی گندگی کی وجہ سے جو اُس کے دل میں پائی جاتی ہے حالانکہ سنجیدگی اور ظاہر و باطن کی یکسانیت دنیا میں سب نیکیوں کی جڑ ہے.اگر کوئی کا فرسنجیدہ نہیں تو وہ اس کا فر سے بُرا ہے جو سنجیدہ ہے اور اگر کوئی مؤمن سنجیدہ نہیں تو نہ صرف وہ اس مؤمن سے بُرا ہے جو سنجیدہ ہے بلکہ سنجیدہ کا فر سے بھی بُرا ہے.ایک شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتا ہے وہ با وجود بچے طور پر آپ کو جھوٹا سمجھنے کے بُرا ہے.مگر بہر حال وہ اُس کا فر سے اچھا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا بھی سمجھتا ہے اور مخفی طور پر مسلمانوں سے سمجھو تہ بھی کرنا چاہتا ہے.بظاہر وہ نرم مزاج نظر آتا ہے لیکن اصل میں وہ نرم نہیں.اسی طرح وہ مؤمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی سمجھتا ہے اور ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہتا ہے ، وہ تو اعلیٰ درجہ کا انسان ہے لیکن وہ شخص جو مؤمن کہلاتا ہے مگر دشمنوں سے ساز باز بھی رکھتا ہے یا وعدہ کرتا اور پھر پورا نہیں کرتا یا کسی اور رنگ کی میں اپنے ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے ، وہ اُس کافر سے بدتر ہے جو سنجیدگی سے اپنے کفر پر قائم ہے.کیونکہ گوا سے غلطی لگی مگر وہ اپنے نقطۂ نگاہ سے سچائی پر تو قائم ہے.( سچائی سے مراد میری اس جگہ حقیقی سچائی نہیں بلکہ وہ سچائی مراد ہے جس کو وہ سچا سمجھتا ہے ) وہ تو خدا تعالیٰ سے قیامت کے دن کہہ سکتا ہے کہ خدایا! مجھے دھوکا لگا میں سمجھتا رہا کہ میں بچے راستہ پر قائم ہوں حالانکہ یہ بات درست نہ تھی.مگر منافق کیا کہے گا.کیا وہ یہ کہے گا کہ میں نے تو سمجھا تھا کہ فلاں شخص خدا کا رسول ہے مگر میں نے اس کے احکام کی اطاعت نہ کی.یا وہ کا فر کیا کہے گا جس نے کفر کے باوجود اندرونی طور پر مسلمانوں سے فائدہ اُٹھانا چاہا.کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے سچے دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھا تھا خدا کہے گا اگر تو سچے دل سے جھوٹا سمجھتا تھا تو اندرونی طور پر مسلمانوں سے ساز باز کیوں کرتا رہا ؟ تو دنیا میں ساری نیکیوں کی جڑ سچائی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جولوگ سچے دل سے ایک بات پر قائم ہوں چاہے وہ غلط راستے پر ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ بالآخر انہیں ضرور ہدایت دے دیتا ہے.وہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنا ، ل وه لوگ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء جو ہماری تلاش کرتے ہیں اور سچے دل سے ہماری جستجو میں لگ جاتے ہیں، ہم اپنی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم انہیں ضرور سیدھا راستہ دکھا دیتے ہیں.اس میں کسی مذہب کی شرط نہیں ،.چاہے کوئی کی ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ ہو.اگر کسی شخص کے دل میں بچے طور پر یہ تڑپ پائی جاتی ہے کہ اسے خدامل جائے تو اسے خدا ضرور مل جاتا ہے اور عجیب عجیب رنگ میں وہ اس کی ہدایت کے سامان کر دیتا ہے.میں نے دیکھا ہے ہر سال کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن بہر حال اوسطاً آٹھ دس ایسے غیر احمدیوں کی چٹھیاں مجھے آجاتی ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم پہلے احمدیت کے شدید مخالف تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعہ ہمیں بتایا کہ احمدیت کچی ہے اس لئے ہم تو بہ کرتے ہوئے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.ابھی چند دن کی بات ہے ایک شخص کی چٹھی مجھے آئی ، وہ لکھتے ہیں کہ میں سلسلہ کا شدید مخالف تھا اور گندی سے گندی گالیاں احمدیوں کو دیا کرتا تھا مگر اب مجھے رویا میں کی بتایا گیا ہے کہ میں غلطی پر ہوں اس لئے میں سخت ڈرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے مزید جو.حالات معلوم کروں.تو جو شخص سچے طور پر مخالفت بھی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی ہدایت کے سامان پیدا کر دیتا ہے مگر شرط یہی ہے کہ سنجیدگی پائی جائے اور تمام کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے کئے جائیں.اگر کوئی سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کو پکارے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلمت میں رہے.خدا ایک نور ہے اور جب وہ مل جاتا ہے تو ظلمت کہیں نہیں رہتی.پس ہماری جماعت کو اپنے اند ر سنجیدگی پیدا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کھول کر بیان فرمایا ہے کہ ہر وہ قوم جو یہ بجھتی ہے کہ ہدایت اور نجات ہمارے ساتھ ہی وابستہ ہے، اس کی سچائی کی ایک ہی علامت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتُ إِن كُنتُمْ صدقين کے وہ اگر اپنے دعوئی میں بچی ہوتی ہیں تو اپنے اوپر موت وارد کر لیتی ہیں.جب دنیا میں ایسے نبی آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں تلوار ہوتی ہے تو اس زمانہ میں موت کا یہ مطلب ہے کہ اُٹھو اور اپنی جانیں لڑائیوں میں قربان کر دو.مگر جب ایسے نبی آئیں جو تبلیغ کے ذریعہ اپنا مذہب پھیلاتے ہیں جیسے حضرت عیسی علیہ السلام ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اُس وقت موت سے مراد مختلف قسم کی قربانیاں ہوتی ہیں.جیسے مالی قربانیاں ہیں یا وقتی قربانیاں
خطبات محمود 122 سال ۱۹۳۸ء ہیں یا اوقات کی قربانیاں ہیں یا عزت و وجاہت کی قربانیاں ہیں.یا مثلاً یہ قربانی ہے کہ گالیاں سنو اور خاموش رہو، ماریں کھاؤ اور ہاتھ نہ اُٹھاؤ.آخر گالیاں سُننا بھی موت سے کوئی کم قربانی نہیں.جن کے دلوں میں سچی محبت ہوتی ہے وہی جانتے ہیں کہ جب ان کے محبوب کو کوئی گالی دیتا ہے تو اُن کو کس قدر اذیت پہنچتی اور ان کیلئے یہ بات کتنے بڑے دکھ اور درد کا موجب ہوتی ہے.پس صرف دوسرے سے لڑ کر اپنی جان دے دینا موت نہیں بلکہ گالیاں سُن کر اپنے نفس کو قابو میں رکھنا بھی ایک موت ہے اور یہ پہلی موت سے ہر گز کم نہیں.جن لوگوں کے دلوں میں عشق کی ہوتا ہے وہی جانتے ہیں کہ ان کی کیا حالت ہوتی ہے.اُس وقت وہ اپنی جان دے دینے کو صبر کرنے کی نسبت بدرجہا آسان سمجھتے ہیں مگر بہر حال انہیں صبر کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم یہی ہوتا ہے کہ صبر کرو.میں نے مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کا واقعہ کئی دفعہ سنایا ہے.ایک دفعہ فساد کرانے کی غرض سے کسی نے یہاں یہ خبر مشہور کر دی کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں اور پیر یوسف جو بھٹے والے ہیں ان کا اور ایک دو اور احمدیوں کا نام لیا کہ وہ زخمی تڑپ رہے ہیں.نیر صاحب اُن دنوں غالباً بورڈنگ میں سپرنٹنڈنٹ تھے.لڑکوں نے جونہی اس خبر کو سنا وہ سٹکیں لے کر اس کی طرف کو اُٹھ دوڑے.میں اُس وقت اتفاقاً ( حضرت اماں جان کے دالان میں ٹہل رہا تھا.دوڑنے کی آواز جو آئی تو میں یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا ہو اگلی کی طرف گیا اور دیکھا کہ لڑکے بے تحاشا دوڑے چلے جا رہے ہیں اور ان کے آگے آگے مولوی رحمت علی صاحب ہیں.میں نے مولوی صاحب کو آواز دی کہ ٹھہر و مگر مولوی صاحب نہ رُکے.اس پر میں نے پھر آواز دی تو وہ ٹھہر گئے.میں نے کہا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے حضور خبر آئی ہے کہ نیر صاحب کو ہندوؤں نے مار دیا ہے اور بعض اور احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں.میں نے کہا جب یہ خبر تمہارے پاس پہنچی تھی تو تمہارا فرض تھا کہ مجھ تک بات پہنچاتے.یہ تمہارا کام نہیں تھا کہ اُس طرف اُٹھ بھاگتے.میں اس واقعہ کی تحقیقات کراؤں گا تم آگے مت جاؤ.اتفاقاً اُسی وقت قاضی عبد اللہ صاحب اس طرف سے گزررہے تھے.میں نے انہیں بھیجا کہ جا کر پتہ لگا ئیں اور انہیں اطمینان دلا کر میں پھر کمرہ میں ٹہلنے لگا.تو اتنے میں پھر مجھے شور کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ مولوی رحمت علی صاحب
خطبات محمود ۱۷۸ سال ۱۹۳۸ء اور دوسرے لڑکے بے اختیار پھر دوڑے چلے جارہے ہیں.میں نے آواز دی کہ مولوی صاحب ٹھہر و مگر اُنہوں نے میری آواز کو نہیں سنا.میں نے پھر کہا کہ ٹھہر و مگر وہ پھر بھی نہیں رکے یہاں کی تک کہ وہ اُس موڑ سے کئی گز آگے نکل گئے جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کے جنوبی کونے پر مسجد اقصیٰ کی طرف مڑتا ہے.میں نے اُس وقت سمجھا کہ اب اگر ایک لحظہ بھی اور دیر ہوئی اور یہ موڑ سے دوسری طرف ہو گئے تو پھر میرا ان پر کوئی اختیار نہیں رہے گا اور انہوں نے جاتے ہی جو ہند وسامنے آیا اُس سے لڑنا شروع کر دینا ہے.پس اُس وقت مجھے ایک ہی علاج کی نظر آیا اور میں نے مولوی صاحب کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک قدم بھی آگے بڑھے گی تو میں آپ کو جماعت سے خارج کر دوں گا.ایک مخلص احمدی کیلئے یہ الفاظ ایسے نہ تھے کہ ان کے بعد بھی وہ آگے بڑھ سکتا.میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب رُک تو گئے مگر وہ تھر تھر کانپ کی رہے تھے ، اُن کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور وہ کہہ رہے تھے حضور احمدی مارے گئے ہیں.میں نے کہا اس کے تم ذمہ دار نہیں ، میں ذمہ دار ہوں.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اگر میں کی مولوی رحمت علی صاحب کو اُس وقت یہ کہتا کہ جائیں اور گردن کٹوا دیں تو وہ انشراح دل سے اس بات کیلئے تیار ہو جاتے لیکن میرا یہ حکم کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہیں اور آگے مت بڑھیں ، ان کیلئے موت سے بہت زیادہ سخت تھا لیکن جمالی زمانہ میں اسی قسم کی قربانیاں کرنی ضروری ہوتی ہیں اور بغیر ان قربانیوں کے خدا تعالیٰ کو خوش بھی نہیں کیا جاسکتا.یہ کوئی قربانی نہیں کہ خدا تعالیٰ کہتا ہو کہ پیسہ دو اور ہم کہیں سر لے لو اور خدا کہے سردو اور ہم کہیں پیسہ لے لو.اُس وقت اگر ہم کی اپنی ساری دولت بھی خدا تعالیٰ کے راستہ میں لٹا دیں گے تو وہ قبول نہیں ہوگی کیونکہ خدا تعالیٰ جان کا مطالبہ کر رہا ہو گا نہ کہ مال کا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں خدا تعالیٰ نے یہی کہا کہ تلواریں پکڑو اور دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دو.چنانچہ وہ گئے اور قربان ہو گئے مگر یہ قربانی بھی ایک عرصہ کے بعد اُن سے مانگی گئی.پہلے انہیں کچ بھی یہی کہا گیا تھا کہ صبر کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ہاتھ مت اُٹھاؤ مگر دیکھو صبر کا امتحان کتنا شدید ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ایک موقع بھی ایسا نظر نہیں آتا جبکہ صحابہ نے دشمنوں سے لڑائی کرنے سے انکار کر دیا ہومگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع ایسا
خطبات محمود 129 سال ۱۹۳۸ ضرور نظر آتا ہے جبکہ وہ اپنے جذبات کو نہ دبا سکے.جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر مسلمانوں کو یہ بتانے کے کہ کوئی جنگ کی ہو گی ، انہیں ساتھ لے کر مدینہ سے چل پڑے.بدر کے مقام کے قریب پہنچ کر آپ نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ ہم میں اور کفار میں ایک جنگ ہوگی.پس بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے.اس پر مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! رائے کیا کی ہوتی ہے.چلئے اور دشمن کا مقابلہ کیجئے ہم ہر وقت لڑنے کیلئے تیار ہیں مگر جب مہاجر خاموش کی ہو جاتے تو آپ پھر فرماتے اے لوگو مشورہ دو.اس پر پھر کوئی مہاجر کھڑا ہوتا اور وہ کہتا حضور ہم لڑنے کیلئے تیار ہیں.مگر جب وہ خاموش ہو جاتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مشورہ دو.آخر انصار سمجھ گئے کہ مشورہ دو سے مراد یہ ہے کہ ہم بولیں اور اپنی رائے پیش کریں.دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم مدینہ سے باہر آپ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ، ہاں مدینہ کے اندر آپ کے ذمہ دار ہیں.پس ج چونکہ اس معاہدہ کے بعد انصار پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی اور وہ مدینہ سے باہر آپ کی مدد کرنے میں آزاد تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو ! مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! کیا آپ ہم سے پوچھتے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.اس پر اس نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! آپ کی مراد شاید اس معاہدہ سے ہے جو ہم نے اُس وقت کیا تھا جب آپ مدینہ تشریف لائے تھے.آپ نے فرمایا ہاں.اُس نے کہا یا رَسُول اللہ ! وہ معاہدہ اُس وقت کا تھا جب ہمیں آپ کی رسالت کا مقام معلوم نہیں تھا، ہم نے اس وقت نادانی سے یہ معاہدہ کیا ، مگر یا رَسُول اللہ ! اب تو ہم آپ کے مقام کو خوب پہچان چکے ہیں اور اب سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ حضور کیا حکم دیتے ہیں.یا رَسُول اللہ ! چلئے جدھر چلتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.پھر اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! سامنے سمندر ہے اگر اس میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں.یعنی کفار
خطبات محمود ۱۸۰ سال ۱۹۳۸ء سے لڑائی کے وقت تو یہ خیال ہو سکتا ہے کہ شاید ہم فتح پا جائیں اور زندہ واپس آجائیں مگر ہم تو کی ایسی قربانی کرنے کیلئے بھی تیار ہیں جس میں موت ہی موت دکھائی دیتی ہے.ایک اور صحابی کہتے ہیں میں سولہ لڑائیوں میں شامل ہوا.گیارہ بارہ لڑائیوں میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو مگر باوجود اس کے کہ میں اتنا بڑا ثواب حاصل کر چکا ہوں ، میرا جی چاہتا ہے کہ کاش ! میرے منہ سے صرف وہ فقرہ نکلتا جو اس صحابی کے منہ سے نکلا اور لڑائیوں میں میں بے شک شامل نہ ہوتا کیونکہ اس ایک فقرے کا ثواب سولہ لڑائیوں کے ثواب سے میرے نزدیک زیادہ ہے.اب دیکھو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اپنی کچ جانیں قربان کیں اور اس قربانی کے پیش کرتے وقت انہوں نے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی مگر اس کے مقابلہ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کیلئے گئے اور کفار کی نے روک لیا اور آپس میں بعض شرائط ہو ئیں تو ان صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کی کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گالیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے کی گا.یہ معاہدہ ابھی لکھا ہی جارہا تھا کہ ایک مسلمان مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا اُس کا جسم بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے زخموں سے چور تھا کی اُس کے ہاتھوں میں جھکڑیاں تھیں اور پاؤں میں بیڑیاں ، اُسے دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی ہے کا ایک زبر دست جذ بہ پیدا ہو گیا.دوسری طرف کفار نے مطالبہ کیا کہ اسے واپس کیا جائے.یہ دیکھ کر مسلمان اس بات کیلئے کھڑے ہو گئے کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اسے جانے نہیں دیں گے اور اپنے ہاتھوں اسے موت کے منہ میں نہیں دھکیلیں گے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب معاہدہ ہو چکا ہے اور اسے واپس کیا جائے گا ، خدا کے رسول جھوٹ نہیں بولا کرتے.چنانچہ آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دیات اور مسلمانوں کے جذبات کو قربان کر دیا.یہ نظارہ دیکھ کر مسلمانوں کو اتنی کوفت ہوئی کہ وہ مجنون سے ہو گئے.چنانچہ جب معاہدہ ہو چکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا قربانیاں کر دو مگر اُس وقت ایک صحابی بھی
خطبات محمود ۱۸۱ سال ۱۹۳۸ء قربانی کرنے کیلئے نہیں اُٹھا.حالانکہ ان میں ابو بکر بھی موجود تھے، ان میں عمرؓ بھی موجود تھے، ان میں عثمان بھی موجود تھے ، ان میں علی بھی موجود تھے.غرض وہ سب صحابہ ان میں موجود تھے جن میں سے مسلمانوں کا کوئی فرقہ کسی کو اور کوئی کسی کو بڑا قرار دیتا ہے مگر ان میں سے ایک بھی تو کھڑا نہیں ہوا اور سب خاموش بیٹھے رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ آپ نے حکم دیا مگر صحابہ نے نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ وفور جذبات سے مجبور ہو کر اس کی تھوڑی دیر کیلئے تعمیل نہ کی.چونکہ یہ خفیف سی دیر بھی پہلی مثال تھی آپ اپنے خیمہ میں گئے اور اپنی ایک بیوی سے جو ساتھ تھیں فرمایا میں نے آج ایک ایسی بات دیکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے صحابہ میں کبھی اطاعت کے لحاظ سے کمی نہیں دیکھی مگر آج میں نے انہیں حکم دیا کہ قربانیاں کر دو تو ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھا.اُم المومنین فرمانے لگیں یا رَسُول اللہ ! آپ جانتے ہیں انہیں کیسا صدمہ ہوا ہے.وہ اس صدمہ سے پاگل ہورہے ہیں آپ کسی سے بات نہ کریں اور خاموشی سے اپنی قربانی کرتی دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ نہایت ہی نیک مشورہ سنا تو آپ نے اسے پسند کیا اور خاموشی سے اپنی قربانی کے پاس گئے اور اُسے ذبح کر دیا.اخلاص آخر اخلاص ہی ہوتا ہے.بے شک صبر کی آزمائش بڑی تلخ تھی اور ایک لمحہ کیلئے صحابہ میں ہچکچاہٹ پیدا ہوئی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص جس کے اشارہ پر وہ اپنی جانیں قربان کرتے رہے ہیں ، جس کی تعلیم کے ماتحت انہوں نے نہ صرف اپنی زندگیوں کو بلکہ اپنے باپوں ، اپنی ماؤں ، اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کو قربان کر دیا تھا، آج وہ اس خاموشی سے بغیر اس کے کہ ہم میں سے کسی کو اپنی مدد کیلئے بُلائے ، قربانی کرنے جا رہا ہے تو ایک دم اُن کے دل پگھل گئے اور بے اختیار دوڑ دوڑ کر انہوں نے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کر دئیے.اب دیکھ لولڑائیوں کے موقع پر تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور پھر اپنے عمل سے اس قول کو سچا ثابت کر دکھایا مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع ایسا آیا کہ ان کیلئے صبر کرنا مشکل ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی تعمیل کو انہوں نے ایک منٹ کیلئے پیچھے ڈال دیا.
خطبات محمود ۱۸۲ سال ۱۹۳۸ء یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی کیونکہ انہوں نے اپنی کج قربانیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اطاعت میں درجہ کمال رکھتے تھے.یہ صرف جذبہ اور جنون کی کیفیت تھی اور ایسی صورت تھی جیسے پیارا پیارے سے شا کی ہوتا ہے لیکن پھر بھی صحابہ کی اطاعت کے لحاظ سے یہ ایک غیر معمولی بات تھی.تو دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جان دینے کے موقع پر کبھی صحابہ نے ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع پر وہ بھی ایک منٹ کیلئے جذبات کی رو میں بہہ گئے.تو صبر کوئی معمولی قربانی نہیں.ہماری جماعت میں کئی نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہماری قربانیاں ویسی نہیں جیسی کہ صحابہ نے کیں.حالانکہ حق یہ ہے کہ اگر ہم دیانتداری اور خلوص سے قربانیاں کریں تو ہماری قربانیاں ان سے کسی صورت میں کم نہیں ہوں گی.ہم نے بہت لوگ دیکھے ہیں جب کوئی خاص اعلان کیا کی جاتا ہے تو وہ بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد بیچ کر دین کے راستہ میں دے دیتے ہیں مگر پھر وہی کی لوگ آنہ فی روپیہ چندہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ متواتر لمبی قربانی انسان کی پر گراں گزرتی ہے مگر یکدم قربانی کر لینا آسان ہوتا ہے.پس یاد رکھو فتمنوا الموت إن كُنتُمْ صدقین کا چینج خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی طرف سے یہود کو دیا ہے اور فرمایا می ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ نجات تمہارے لئے ہی مخصوص ہے اگر درست ہے اور تم اپنے دعوئی میں بچے ہو تو جس طرح مسلمان ہر وقت موت کیلئے تیار رہتے ہیں اسی طرح تم بھی موت قبول کر کے دکھاؤ.یہ چینج آج بھی قائم ہے اور آج بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتیں اسی معیار کی رو سے اپنی صداقت دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہیں.آج ہماری جماعت کیلئے بھی جانی قربانیوں کا زمانہ نہیں بلکہ مسلسل اور متواترلمبی قربانیوں اور لمبی آزمائش کا زمانہ ہے جس میں دوسروں سے لڑنا نہیں پڑتا بلکہ دوسروں سے مار کھانی پڑتی ہے جس میں غنیمتیں نہیں مانتیں بلکہ اپنے اموال کی قربانی کرنی پڑتی ہے، جس میں انسان سے یکدم جائداد یا زمین چھوڑ دینے کا مطالبہ نہیں کیا جاتات بلکہ یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مثلاً اپنی زمین کے کام میں سے ہر روز ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے خدمتِ دین کیلئے وقف کرو.یہ قربانی بھی کوئی کم قربانی نہیں مگر میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں صحابہ نے اپنی زمینیں اور جائدادیں خدا تعالیٰ کیلئے چھوڑ دیں احمدیوں نے اس کے
خطبات محمود ۱۸۳ سال ۱۹۳۸ء مقابلہ میں کیا کیا ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یکدم زمین کا چھوڑ دینا آسان ہوتا ہے لیکن اگر یہ کہا ج جائے کہ ہر روز اپنے کام کے اوقات میں سے ایک گھنٹہ وقف کرو تو اس پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کیونکہ چیز کا اپنے پاس ہونا اور پھر آہستہ آہستہ اسے قربان کرتے جانا بڑا مشکل ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ چیز پاس ہی نہ رہے.ہزاروں واقعات دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کا بچہ اُٹھا کر لے جاتا ہے، ایسی صورت میں ہزاروں کے متعلق سننے میں آتا ہے اور پانچ دس واقعات تو میرے سامنے بھی آئے اور میں نے خودان بچوں کے والدین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر ہمارا بچہ مر جاتا تو ہمیں اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا اس کے گم ہو جانے کا ہؤا ہے.اب دیکھو گم ہو جانے کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ والدین سے الگ ہو گیا اور مرجانے کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جدا ہو گیا مگر بچہ جو مر جاتا ہے اس کے متعلق انسان پہ سمجھ لیتا ہے کہ گو وہ جُدا ہو گیا مگر اب دنیا کی تکالیف میں سے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں مگر جو بچہ گم ہو جاتا ہے اس کے متعلق والدین کو کی ہر روز قربانی کرنی پڑتی ہے اور ہر روز انہیں یہ خیال آتا ہے کہ نہ معلوم ہمارے بچے کا کیا حال ہے.کبھی خیال آتا ہے ممکن ہے وہ آج فاقے کر رہا ہو ممکن ہے وہ آج زمین پر سو یا پڑا ہو ممکن ہے وہ بیمار ہو اور کوئی اُس کو پوچھنے والا نہ ہو.پھر کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید کوئی اسے گالیاں دے رہا ہو ، شاید آج کوئی اسے مار رہا ہو غرض ہزاروں وسوسے ماں باپ کے دل میں اٹھتے ہیں کہ اور ہر روز انہیں اپنے جذبات کی قربانی کرنی پڑتی ہے حالانکہ وہ اتنا صدمہ نہیں ہوتا جتنا اپنے بچے کی موت کا صدمہ ہوتا ہے مگر لوگ اس بات کو پسند کر لیں گے کہ ان کی ساری اولا د یکدم جائے بہ نسبت اس کے کہ وہ گم ہو جائے حالانکہ یہ صدمہ تھوڑا ہے اور وہ بڑا.تو دائمی قربانی ہی اصل قربانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج تک کبھی کسی نبی کو اس طرح کھڑا نہیں کیا کہ اُسے پہلے ہی دن لڑائی کا حکم دے دیا ہو بلکہ جلالی انبیاء کی زندگیوں کا ابتدائی حصہ اسی قسم کی قربانیوں میں سے گزرتا ہے جس قسم کی قربانیوں میں سے جمالی انبیاء گزرتے ہیں اور یہ جلالی اور جمالی انبیاء میں فرق ہے.یعنی جمالی نبی شروع سے آخر تک جمالی رہتے ہیں مگر جلالی نبی کی شروع میں جمالی ہوتے ہیں بعد میں جلالی بن جاتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام بیشک جلالی نبی تھے مگر کچھ مدت آپ بھی مصر میں تکلیفیں اُٹھاتے رہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات محمود ۱۸۴ سال ۱۹۳۸ جب تک مکہ معظمہ میں رہے ویسی ہی تکلیفیں برداشت کرتے رہے جیسی ہمیں برداشت کرنی پڑتی تھ ہیں.پھر جب مدینہ میں گئے تو وہاں جا کر چند سال بعد آپ کی جلالی زندگی کا دور شرع ہوا.اس میں حکمت یہی ہے کہ جمالی رنگ کی مشکلات کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں جلالی نبی بھی کھڑا کیا ہے وہاں جمالی رنگ کی قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے کیونکہ ایمان کی آزمائش مسلسل اور لمبی قربانیوں سے ہوتی ہے.آخر سوچو کہ تیرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں.اس عرصہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مکہ میں چلتے پھرتے گالیاں سننی پڑتیں ، لوگ مارتے ، دُکھ دیتے ، آوازے گستے ، راستوں میں کانٹے بچھا دیتے، غلاظتیں پھینکتے ، پتھروں پر گھسیٹتے ، وطن سے بے وطن کرتے ، غرض کونسی تکلیف تھی جو انہیں کفار نہ پہنچاتے.صحابہ کو بعض دفعہ غصہ بھی آتا اور وہ جوش کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ فرماتے خدا نے مجھے لڑائی کا کی اذن نہیں دیا.یہ لبی تکالیف ۱۳ سال تک مکہ معظمہ میں آپ کو پہنچیں.پھر دو سال مدینہ کی زندگی کے بھی انہی تکلیفوں میں گزرے.گویا پندرہ سال تک جمالی رنگ کی تکالیف ان پر گزریں اور کی انہی تکالیف نے ان کے ایمانوں کو کامل کر دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ نے بڑی قربانیاں کیں.اس میں کوئی طبہ نہیں کہ اُحد کے موقع پر صحابہؓ نے بڑی قربانیاں کیں مگر میں کہتا ہوں اور صحیح کہتا ہوں کہ بدر کے موقع پر وہ قربانیاں نہیں کر سکتے تھے اگر مکہ کی ساری زندگی اور مدینہ کی کچھ زندگی ان قربانیوں میں سے نہ گزرتی جو جمالی رنگ کی قربانیاں تھیں.بے شک ابو بکر کی اور عمر اور عثمان اور علی بڑے پایہ کے انسان تھے ، بے شک کبار صحابہ اور اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مہاجر اور اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ انصار بڑی قربانیاں کرنے والے تھے لیکن انہیں بدر اور احد اور دوسری جنگوں نے اس مقام تک نہیں پہنچایا بلکہ انہیں مکہ اور مدینہ کی جمالی زندگی نے ان قربانیوں کی توفیق دی.اگر شروع میں ہی بدر اور احد کی جنگیں پیش آجاتیں اور صحابہ کو جمالی رنگ کی مشکلات میں سے نہ گزرنا پڑتا تو ابو بکر ابو بکر نہ بنتے، عمر عمر نہ بنتے ، عثمان عثمان نہ بنتے اور علی علی نہ بنتے.پس بدر نتیجہ تھا اُس جمالی زندگی کا جو مکہ و مدینہ میں گزری.اسی طرح اُحد اور دوسرے غزوات نتیجہ تھے اُس جمالی زندگی کا جو مکہ ومدینہ میں صحابہ پر آئی اور انہی تکلیفوں
خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۸ء کے نتیجہ میں وہ بعد کی مشکلات میں بھی ثابت قدم رہے.یہی وجہ ہے کہ جلالی انبیاء کی زندگی کا ایک حصہ جمالی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.جلال آتا ہے بعض اور حکمتوں کی وجہ سے اور جمال آتا ہے لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کیلئے.اور چونکہ ہر نبی کی بعثت کا اہم ترین مقصد لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے.اس لئے ہر نبی جمال کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.تم ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھا سکتے جس کو خدا تعالیٰ نے مقام نبوت پر کھڑا کرتے ہی حکم دے دیا ہو کہ جاؤ اور مخالفین سے جہاد کرو کیونکہ اگر اسی دن جہاد کا حکم دے دیا جاتا تو لوگوں کے ایمان مضبوط نہ ہوتے اور لمبی اور مسلسل تکالیف سے ان کے قلوب میتقل نہ ہوتے.مگر تم میں سے کتنے ہیں جو کہتے ہیں کہ کاش! ہم بدریا اُحد یا احزاب کے موقع پر ہوتے اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے راستے میں قربان کر دیتے اور اس امر کو بھول جاتے ہیں کہ اصل قربانیوں کا میدان ان کیلئے بھی کھلا ہے اور آج بھی وہ اسی طرح قربانیاں کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں جس طرح کی صحابہ نے قربانیاں کیں.مگر تم میں سے کتنے ہیں جو قربانی کی اس خواہش کے باوجود قربانیوں کی میں استقلال دکھاتے ہیں.تم میں سے کتنے ہیں جو وعدے کرتے اور پھر انہیں جلد پورا کرنے کی کا فکر کرتے ہیں، تم میں سے کتنے ہیں جو میرے کسی خطبہ یا تقریر وتحریر کے محتاج نہیں حالانکہ اصل مؤمن وہی ہیں جو اس بات کے محتاج نہیں کہ میں انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں بلکہ میرے کسی خطبہ یا تقریر یا یاد دہانی کے بغیر وہ ہر وقت قربانیوں کیلئے تیار رہتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی یا غفلت سے کام نہیں لیتے.ہاں وہ جو میری یاد دہانیوں کے محتاج ہیں وہ بھی مؤمن ہیں مگر اول درجہ کے نہیں بلکہ دوسرے درجہ کے.لیکن وہ جو غافل ہیں جو خدا تعالیٰ کے دین کی مدد سے کنارہ کشی کر رہے ہیں، جو مصائب کو دیکھتے اور ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور کہتے ہیں مصیبتوں کا زمانہ لمبا ہو گیا ، ہم کب تک قربانیاں کرتے چلے کی جائیں ، وہ وہ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مُہر کر دی.وہ اس قابل نہیں کہ اس جماعت میں رہ سکیں اور یقیناً اگر وہ اپنے افعال سے تو بہ نہیں کریں گے تو کسی وقت کوئی ایسی ٹھو کر کھائیں گے کہ ان کا رہا سہا ایمان بھی جاتا رہے گا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں سے بالکل محروم ہو جائیں گے.وہ بظاہر اس وقت مؤمن نظر آتے ہیں مگر ان کا ایمان اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے، ود وہ
خطبات محمود ۱۸۶ سال ۱۹۳۸ء حقیقت ایمان سے بے نصیب ہو چکے ہیں اور ایمان کی بشاشت ابھی انہیں حاصل نہیں ہوئی کی کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایمان کا ادنی مقام یہ ہے کہ اگر انسان آگ میں بھی ڈالا جائے تو پرواہ نہ کرے.مگر وہ آگ تو کیا معمولی معمولی قربانیاں کرنے سے ہچکچاتے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم مؤمن ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ہم خدائی سلسلہ میں شامل ہیں.یاد رکھو خدائی سلسلے بندوں کی تعداد پر نہیں چلتے بلکہ ایمان اور اخلاص سے ترقی کرتے ہیں.تم اگر لاکھوں بھی ہو جاؤ مگر تمہارے دل میں وہ ایمان نہ ہو جو غیر متزلزل ہو تو تم دنیا میں کوئی سچائی قائم نہیں کر سکتے.لیکن اگر تم ایمان اور اخلاص پر قائم ہو جاؤ تو پھر خواہ تم تھوڑے ہی ہو تم دنیا پر غالب آکر رہو گے کیونکہ جو خدا کے ہو جاتے ہیں ان کو کوئی زک نہیں پہنچا سکتا.پس میں دوستوں کو ایک دفعہ پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر وہ مضبوط ایمان پیدا کرو جس کے بعد دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ میں اس جماعت کے ایک حصہ کو اپنے ساتھ شامل کر سکتا ہوں مگر اب کیا ہوتا ہے؟ اب ابتلاء پر ابتلاء آتا ہے اور ہر دفعہ دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اب گر جائیں گے، یہ اب گر جائیں گے.گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ یہ سب منافق ہیں کیونکہ ابتلاؤں کے وقت منافق گرتا ہے مؤمن نہیں گرتا لیکن اگر تم مضبوطی سے ایمان پر قائم ہو جاؤ تو دشمن اس قسم کی امید بھی نہ کر سکے اور تم تمام دنیا کو فتح کرلو.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے اگر مجھے کی چالیس مومن مل جائیں تو میں تمام دنیا کو فتح کرلوں اور یہ بالکل سچ ہے مگر ان چالیس مومنوں سے وہی مومن مراد ہیں جو اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں، جو مصائب و مشکلات پر صبر کرتے اور لمبی اور مسلسل قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں، وہ دشمن کی انگیخت سے برانگیختہ نہیں ہوتے.وہ مشکلات اور حوادث سے خوف نہیں کھاتے ، وہ صبر کرتے اور قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے وعدے بچے ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کی کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا.کیا تم سمجھتے ہی ہوا گر تم کمزور اور بے بس ہو کر خدا تعالیٰ پر یہ توکل اور اعتماد کرو تو خدا تعالیٰ قادر ہوتے ہوئے تمہارے اعتماد کو ضائع کر دے گا.اگر تم یہ سمجھتے ہو تو اس سے زیادہ بے بنیاد اور غلط خیال
خطبات محمود ۱۸۷ سال ۱۹۳۸ اور کوئی نہیں.آدم سے لے کر آج تک ہزاروں سال میں یا سائنسدانوں کے قول کے مطابق لاکھوں اور کروڑوں سال میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے صدق دل سے خدا تعالیٰ پر اعتماد کیا ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس کے اعتماد کو ضائع کر دیا ہو لیکن ایسی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں ملتی ہیں کہ خدا نے بندوں پر اعتماد کیا مگر بندوں نے اس سے غداری اور بے وفائی کی.پس یہ ناممکن ہے کہ تم خدا تعالیٰ پر اعتماد کرو اور وہ تمہیں چھوڑ دے.ہاں یہ ممکن ہے کہ خود تمہارے دل میں کوئی گند پیدا ہو جائے اور تم اسے چھوڑ دو کیونکہ خدا بے وفا نہیں لیکن بندے بے وفا ہو سکتے ہیں.پس اگر حقیقی طور پر تم اس مقام پر کھڑا ہونا چاہتے ہو تو قربانیاں کرو اور کرتے چلے جاؤ اور یہ مت کہو کہ قربانیوں کا زمانہ لمبا ہو گیا.آج خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمالی رنگ میں مبعوث فرما کر چاہا ہے کہ مسلسل اور متواتر قربانیوں سے تمہارے ایمانوں کو مضبوط کرے.اگر تم تھوڑی سی قربانی کرتے یا ایک عرصہ تک قربانیاں کرنے کے بعد اپنا قدم پیچھے ہٹا لیتے ہو تو تمہاری مثال بالکل اُس شخص کی سی ہے جو چشمہ کے پاس پہنچ کر اُس سے پیاسا واپس کو تھا کہ ہے اور اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے.اگر تم بھی ایک نبی پر ایمان لا کر ایسے ہی ٹھہرے تو تم سے زیادہ بد قسمت اور کون ہوسکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جہاں اور نصائح فرمائی ہیں وہاں ایک نصیحت یہ بھی کی ہے کہ تم اُس عورت کی طرح مت بنو جو سوت کا تا کرتی کی اور پھر اسے کاٹ کاٹ کر ضائع کر دیا کرتی تھی.تم کبھی قربانیاں کرتے ہو اور ایک عرصہ تک کرتے رہتے ہو مگر جب ایسے مقام پر پہنچنے لگتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہونے کا وقت آ پہنچتا ہے تو تم اپنا قدم پیچھے ہٹا لیتے ہو اور اس طرح الہی فضلوں سے محروم ہو جاتے ہو.قرآن کریم میں اس عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے یہ ایک مثال ہے جو خدا تعالیٰ نے دی.چنا نچہ اہلِ عرب کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ کسی شخص کے متعلق یہ کہنا چاہیں کہ اس نے کام کرتے کرتے بگاڑ دیا تو یوں کہتے ہیں کہ اس کی مثال اس عورت کی طرح ہے جو موت کا نتی اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی تھی.لوگوں نے اس محاورہ کو ایک حکایت کا رنگ بھی دے دیا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک امیر عورت تھی جو خود بھی سوت کا تی اور دوسروں سے بھی کتواتی.
خطبات محمود ۱۸۸ سال ۱۹۳۸ء جب بہت سائوت اس کے پاس اکٹھا ہو جاتا تو غرباء میں برابر تقسیم کرنے کیلئے سوت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی اور اس طرح ساری محنت ضائع کر دیتی.بظا ہرا اپنی طرف سے وہ انصاف کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میں کسی کو زیادہ اور کسی کو کم کیوں دوں.مگر اپنی حماقت سے اٹی بیچ میں سے کاٹ دیتی اور بالشت بھر کسی کو دے دیتی اور بالشت بھر کسی کو اس طرح نہ غرباء کو فائدہ ہوتا ، نہ اسے ثواب ہوتا.تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم اس عورت کی طرح مت بنو الَّتِي نَقَضَتْ غَزَلَها مِن بَعْدِقُوةٍ انْكَانَاء " جو سوت کات کات کر بعد میں اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی اور اپنی تمام محنت ضائع کر دیتی.تم میں سے بھی بعض خدمت دین کرتے اور اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر کسی گناہ کی وجہ سے یا سستی اور غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے یا خدا تعالیٰ پر بے اعتمادی کی وجہ سے ان قربانیوں کو ایسے وقت میں ضائع کر دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات نازل ہونے کا وقت قریب ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو اور اس کی سے دعا کرو کہ وہ تمہیں گالتي نقضت غزلها مِن بَعْدِ قُوَّةِ انْكًا ثاء کا مصداق نہ بنائے.تمہاری قربانیوں کو قبول فرمائے اور تمہیں تو فیق عطا فرمائے کہ تم قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے قدم اُٹھاتے چلے جاؤ.پھر قادیان والوں کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ ہم اس طریق کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اسلام اور احمدیت کو مضبوط کرنے والا ہو اور ان راہوں پر چلنے سے محفوظ رکھے جو اسلام اور احمدیت کیلئے مضر ہوں.ہماری غفلتوں کو معاف کرے، ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں اپنے فضل سے ہدایت دے کر اپنی خوشنودی اور رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین ( الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۳۸ ء ) مَا كُنْتَ نَادِيًا في أَهْلِ مَدْيَنَ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ (القصص: ۴۶ ، ۴۷) الاحزاب:۱۴ ۵ ال عمران: ۱۷۴ ال عمران: ۱۶۸ البقرة : ١٢ تا ١٤ ل العنكبوت: ٧٠ ك الجمعة: سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۳۹۳،۳۹۲.مطبوعہ قاہر ۱۹۶۴۰ء
خطبات محمود ۱۸۹ 2 سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۳۹۴، ۳۹۵.مطبوعہ قاہر ۱۹۶۴۰ء بخارى كتاب الصلح باب الصلح مَعَ الْمُشْرِكِيْن بخارى كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد (الخ) بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۴۲.جدید ایڈیشن النحل : ٩٣ سال ۱۹۳۸
خطبات محمود ۱۹۰ ۱۲ سال ۱۹۳۸ ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے ( فرمودہ یکم اپریل ۱۹۳۸ء) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اپنے ایک سابق خطبہ کے متعلق ایک تشریح کرنی چاہتا ہوں.غالبا گزشتہ خطبہ سے پہلے خطبہ میں میں نے مثال کے طور پر جلالی اور جمالی نبیوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کرشن جی اور رام چندر جی کا بھی ذکر کیا تھا اور میں نے ان دونوں کی ترتیب زمانی اس رنگ میں بیان کی تھی کہ پہلے کرشن جی گزرے ہیں بعد میں رام چندر جی ہوئے ہیں.اس پر ایک دوست نے قادیان سے اور ایک دوست نے باہر سے مجھے لکھا ہے کہ ہند و عقائد کے رو سے یہ ترتیب غلط ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں اور کرشن جی بعد میں.( بعد میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض ہند و جرائد نے بھی اس پر اعتراض کیا ج ہے ).اس ترتیب زمانی سے تو یوں مجھے کوئی تعلق نہیں وہ پہلے ہوئے ہوں یا بعد میں.میں نے تو صرف جلالی اور جمالی نبیوں کے اوقات کے متعلق اور ان کی آمد کی غرض کے متعلق ایک مثال دی تھی.اگر یہ بات صحیح ہو یعنی عام طور پر ہندوؤں میں جو یہ خیال پایا جاتا ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں اور کرشن جی بعد میں.وہی درست ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میری مثال کے کی افراد میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی اور میری مثال یوں تبدیل ہو جائے گی کہ ویدوں کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لڑائیوں کے متعلق بہت سے احکام پائے جاتے ہیں.چنانچہ
خطبات محمود ۱۹۱ سال ۱۹۳۸ رگ وید تو ایسے احکام سے بھرا پڑا ہے.پس ویدوں کے زمانہ میں جو لڑائیوں کے احکام دیئے گئے ان سے جو یہ غلط فہمی پیدا کی ہو گئی تھی کہ ویدوں کو تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے اس کے ازالہ کیلئے رام چندر جی آئے اور کرشن جی سے ہم ایک نیا دور فرض کر لیں گے.بہر حال جلالی اور جمالی نبیوں کی ترتیب جو میرا اصل مقصود تھا اُس میں ان دو بزرگوں کے زمانہ کے مقدم و مؤخر ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اس کے بعد میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب میں نے یہ اعتراض سُنا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے جو بات کہی تھی وہ قیاس نہ کہی تھی بلکہ کسی سابق مطالعہ کے اثر کے ماتحت کہی تھی اور یہ کہ ضرور اس خیال کی بنیاد کسی تاریخی تحقیق پر مبنی تھی اور اس خیال سے میں نے بعض کتب خود دیکھیں اور بعض اور دوستوں سے بھی مدد لی اور آخر وہ خیال میرا درست نکلا کہ میرے بیان کا ما خذ تاریخی کتب میں موجود ہے اور اس تحقیق کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہوا کہ موجودہ محققین میں سے بعض نے زبان کی بنیاد پر اور جغرافیائی واقعات پر یہ دعوی کیا ہے کہ کرشن جی پہلے آئے ہیں اور رام چندر جی بعد میں.یہ نتیجہ انہوں نے دو قسم کی تحقیقات کے نتیجہ میں نکالا ہے.ان کے دعویٰ کی ایک تو اس امر پر بنیاد ہے کہ رام چندر جی کے متعلق جولٹریچر ہے وہ ویدوں کے علوم کے جس دور سے تعلق رکھتا ہے وہ بعد میں ہوا ہے.شاید صحیح تلفظ میں ادا نہ کرسکوں کیونکہ وہ ہندی لفظ ہے لیکن بہر حال اس کا نام وہ سوتر رکھتے ہیں.ان کا دعویٰ ہے کہ سوتر قسم کا لٹریچر جو ویدوں کے متعلق ہے اور جو اختصار نویسی پر مشتمل ہے بعد کا ہے اور والمیک جو رامائن کے مصنف ہیں ان کا تعلق اسی لٹریچر سے ہے لیکن بیاس جی جو مہا بھارت کے مصنف سمجھے جاتے ہیں ان کا تعلق اس لٹریچر سے ہے جو رزمیہ کہلاتا ہے اور تفصیل اور اطناب کی طرف مائل ہے.پس وہ کہتے ہیں کہ گو ہندو تاریخ کرشن جی کو بعد کا قرار دیتی ہے لیکن علم ادب کی زمانی قسموں کے لحاظ سے چونکہ مہا بھارت پہلے زمانہ کے علم ادب میں لکھی ہوئی ہے اور رامائن بعد کے زمانہ کی اور چونکہ اس زمانہ میں کتب پہلے لکھی نہ جاتی تھیں بلکہ عام گیتوں کے طور پر پہلے زبانوں پر جاری ہوتی تھیں اور پھر لکھی جاتی تھیں اس لئے نتیجہ نکلتا ہے کہ مہا بھارت کے واقعات لوگوں میں پہلے مشہور تھے اور رامائن کے واقعات کا چرچا بعد میں ہوا.پس مہا بھارت کے افراد
خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۸ پہلے گزرے ہیں اور رامائن کے افراد بعد میں گزرے ہیں.اس تحقیق میں حصہ لینے والے صرف مغربی عیسائی مصنف ہی نہیں بلکہ ہندوستانی اور ہندوی محققین بھی ہیں.چنانچہ ڈاکٹر آئنگر اور رامیشور دت جیسے فاضل مصنفوں نے بھی اسی قسم کے نتائج نکالے ہیں.ان دونوں ہندوستانی مصنفوں کی تحقیق کے مطابق مہا بھارت کے واقعات کا زمانہ بارہ سو قبل مسیح تھا اور رامائن کے واقعات کا زمانہ ساڑھے سات سو سے ایک ہزار قبل مسیح تک.جس کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں واقعات میں وہ دوسو سے ساڑھے چار سو سال کا فاصلہ بتلاتے ہیں اور رامائن کے واقعات کو بعد میں اور مہا بھارت کے واقعات کو پہلے بتاتے ہیں جس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ وہ کرشن جی کو مقدم سمجھتے ہیں اور رام چندر جی کو بعد میں سمجھتے ہیں.دوسری بات انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ سنسکرت کے قدیم مصنف پانی نی کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ مہا بھارت کے واقعات اُس وقت تک ہو چکے تھے اور رامائن کے واقعات کا اُس وقت تک کوئی نام نہ تھا کیونکہ اس کی تصنیف سے مہا بھارت کے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے لیکن رامائن کے واقعات کا سُراغ نہیں ملتا.دوسرا اصل بعض محققین نے جغرافیائی تحقیق کا کی بیان کیا ہے.ان کا خیال ہے کہ مہابھارت میں بعض جغرافیائی کوائف ایسے بیان ہیں جو پہلے کے ہیں اور رامائن کے جغرافیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساتویں صدی قبل مسیح کے زمانہ کے قریب کے زمانہ کے حالات بیان کر رہی ہے.ایک اور قرینہ بھی بعض لوگ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ مہا بھارت میں جن پانڈوؤں کا ذکر آتا ہے ، ان پانڈوؤں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کی زرد قوم تھی اور زرد نسل چینی قو میں ہیں.اور کوروں کی قوم جو ہے یہ آرین نسل ہے گومکسچر ہے.یہ ظاہر ہے کہ شمالی ہند میں غیر آرین قوموں کی حکومتیں ابتدائی زمانہ میں تھیں.بعد میں آریوں نے ان کو دبا لیا یا وہ آریوں سے مل گئیں یا فنا ہو گئیں لیکن رامائن کے زمانہ میں شمالی ہند کی کچ آریائی قوموں کا جنوبی ہند کی غیر آریائی قوموں سے ملاپ ظاہر ہوتا ہے جو بعد کے زمانہ میں ہوا.کیونکہ آریہ لوگ جنوبی ہند کی طرف اُس وقت بڑھے ہیں جب شمالی ہند پر وہ فتح پاچکے تھے.پس اس فرق کی وجہ سے بعض لوگ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مہا بھارت کے واقعات پہلے کے ہیں اور رامائن کے بعد کے.
خطبات محمود ۱۹۳ سال ۱۹۳۸ء ایک مزید استدلال اس بارہ میں یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مہا بھارت کے ابتدائی دور کے نسخوں میں پانڈوؤں کی مذمت کی گئی ہے اور کوروں کی تعریف کی گئی ہے کیونکہ اُس زمانہ میں آریہ قوم ابھی نئی نئی آئی تھی اور غیر قوموں کو شمالی ہندوستان سے نکال رہی تھی.اس دشمنی کی وجہ سے وہ غیر آریائی قوموں کو بہت بُراسمجھتی تھی لیکن بعد کے زمانہ کے اضافوں میں یہ نقشہ اُلٹ گیا اور پانڈوؤں کی تعریف اور کوروں کی مذمت نظر آتی ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض غیر آرین نسلیں کی آرین نسلوں میں مل جل گئیں اور اب ان کے فاتحین آرین نسل کے فاتحین کی طرح قابل تعریف ہو گئے اور ہارنے والے کو ر و قابل نفرت قرار پائے.میرا یہ منشاء نہیں کہ میں اس کو ہندو قوم کے عام خیال پر ترجیح دوں.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس امر کے بارہ میں اختلاف ہے اور خود ہندو مصنفین نے اختلاف کیا ہے.مجھے اپنے مضمون کیلئے اس اختلاف میں پڑنے یا اس کا فیصلہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں.کیونکہ کوئی بات بھی مان لی جائے میرے مضمون کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا.میری غرض تاریخی ترتیب پیش کرنے کی نہیں تھی بلکہ جلالی اور جمالی انبیاء کے متعلق ایک مثال دینے کی تھی.اگر یہ صحیح ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں تو پھر وہ مثال یوں بن جائے گی کہ ویدوں میں دشمنوں سے لڑائی کے متعلق جو تعلیم دی گئی ہے اس کی سے جب یہ غلط نہی لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگئی کہ وید تلوار کے زور سے پھیلائے گئے ہیں تو اس کے ازالہ کیلئے رام چندر جی آئے اور کرشن جی سے بعد میں ایک اور سلسلہ شروع ہوا اور اگر وہی ترتیب درست ہو جو میں نے بیان کی تھی تو مثال اپنی جگہ پر قائم رہے گی.اس تحقیق کے دوران ایک اور عجیب بات بھی معلوم ہوئی جسے تاریخی طور پر نہیں بلکہ ذوقی طور پر میں بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ آپ حضرت کرشن کے مثیل ہیں.اب اس تحقیق کے دوران میں معلوم ہوا کہ پانڈوی منگولین ریس یعنی مغل قوم میں سے تھے اور پرانے ہندو لٹریچر میں ان کو زردا قوام قرار دیا گیا تھا جو چینیوں کا نام ہے.اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مشابہت ثابت ہے.کیونکہ آپ بھی منگولین ریس میں سے ہیں اور آپ کا خاندان مغلیہ خاندان ہے اور مغل سب چینی ہیں ، گواصل میں ہمارا سب کا منبع عرب ہے.صرف درمیانی عرصہ میں کسی قوم کے
خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۸ء کسی دوسری جگہ زیادہ عرصہ رہنے سے اس کے خواص بدل جاتے ہیں.ورنہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ عربی زبان اُم الالسنہ ہے، اس لئے انسانی نسل کا منبع بھی عرب ہی ہے.اس کے بعد میں آج کے خطبہ کے مضمون کی طرف آتا ہوں.میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی.نئی نسلیں جب تک اُس دین اور اُن اصول کی حامل نہ ہوں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور مامور دنیا میں قائم کرتے ہیں اُس وقت تک اس سلسلہ کا ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم نہیں اُٹھ سکتا.بے شک ترقی ہوتی ہے مگر اس طرح کہ کبھی ترقی ہوئی اور کبھی کچ رُک گئی ، کبھی بڑھ گئے اور کبھی رخنہ واقع ہو گیا.اس طرح وہ الہی سلسلہ پہاڑوں کی طرح اونچا نیچا ہوتا چلا جاتا ہے.لیکن بہر حال رخنہ بُری چیز ہے کوئی اچھی چیز نہیں اور ہمیں اس کو جلد سے جلد دور کرنا چاہئے.مگر یہ رخنے آج ہم میں ہی پیدا نہیں ہوئے پہلی قوموں اور پہلے زمانوں میں بھی موجود تھے جن کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض لوگ ہماری جماعت پر یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اگر یہ الہی سلسلہ ہے تو اس میں فلاں نقص کیوں ہے حالانکہ یہ باتیں پہلے زمانوں میں بھی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے حقوق کی ہمیشہ حفاظت کیا کرتی تھیں اور بعض دفعہ جب کوئی عورت اپنے خاوند کی شکایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتی تو حضرت کی عائشہ رضی اللہ عنہا بڑے زور سے اس کی تائید کیا کرتیں اور بار بار فرما تیں کہ اس کے حقوق تلف ہور ہے ہیں ، ایسا نہیں ہونا چاہئے.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ فرماتے کہ عائشہ ! تم تو عورتوں کی بڑے زور سے حمایت کرتی ہو.پھر دین کے کاموں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑا حصہ لیتی تھیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اعتکاف بیٹھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہو ا تو انہوں نے اُسی وقت مسجد میں خیمہ جالگایا.باقی اُمہات المؤمنین نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے اپنے خیمے مسجد میں آکر لگا دیئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لائے تو آپ کیا دیکھتے ہیں کہ جس طرح کہیں فوج اُتری ہوئی ہوتی ہے اُسی طرح مسجد می
خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۸ء میں خیمے لگے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یہ امہات المؤمنین کے خیمے ہیں جو اُنہوں نے معتکف ہونے کیلئے لگائے ہیں.آپ نے فرمایا اُٹھاؤ سب کو.اگر یہ خیمے یہاں لگے رہے تو لوگوں کو نماز پڑھنے کی جگہ کہاں ملے گی لے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے حقوق کا ہمیشہ خاص خیال رکھا کرتی تھیں مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک موقع پر آپ نے فرمایا.اگر عورتوں کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ویسے ہی حالات ظاہر ہوتے جیسے آج کل ظاہر ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیتے ہے اب یہ بالکل قریب زمانہ کی بات ہے.زیادہ سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تمیں چالیس سال گزرے ہوں گے مگر آپ فرماتی ہیں کہ اگر آج سے چند سال پہلے یہ حالات ظاہر ہوتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مساجد میں آنے سے منع فرما دیتے اور آپ نے جو اجازت دے رکھی تھی اسے منسوخ فرما دیتے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض کی حدیث العبد عورتیں یا غیر قوموں کی عورتیں پردہ میں پوری احتیاط ملحوظ نہیں رکھتی ہوں گی اور کی لوگ اعتراض کرتے ہوں گے جس پر آپ نے یہ فرمایا.جیسے قادیان میں بھی بعض ایسی باتوں پر لوگ اعتراض کر دیا کرتے ہیں مگر باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس اعتراض کے وہ زمانہ خیر القرون ہی کہلاتا ہے کیونکہ انہوں نے اصلاحی پہلو سے یہ اعتراض کیا تھا.یہ نہیں کہا کہ قوم گندی ہوگئی.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ان چیزوں کو قائم رکھا جائے بلکہ ہمیں ان امور کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے اور وہ اصلاح اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ نو جوانوں کو اس امر کی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے اندر ایسی روح پیدا کریں کہ اسلام اور احمدیت کا حقیقی مغز انہیں میسر آجائے.اگر ان کے اندر اپنے طور پر یہ بات پیدا ہو جائے تو پھر کسی حکم کی ضرورت نہیں رہتی.حکم دینا کوئی ایسا اچھا نہیں ہوتا.دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا حکم ماننا لوگوں کیلئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے اور الہامی کتابیں
خطبات محمود ۱۹۶ سال ۱۹۳۸ء Ꮮ تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اِس لئے کرو، اس لئے کرو.گویا وہ خالی ہی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میں رغبت بھی پیدا کر دیتا ہے.تو سمجھانا اور سمجھا کر قوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا یہ کامیابی کا ایک اہم گر ہے اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے.چنانچہ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ واقصة في مَشيكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ، ٣ے کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمز ور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں.بے شک تم آگے بڑھنے کی بھی کوشش کرو مگر اتنے تیز بھی نہ ہو جاؤ کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں.دوسرے جب بھی تم کوئی حکم دو محبت پیار اور سمجھا کر دو.اس طرح نہ کہو کہ ہم یوں کہتے ہیں بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے.وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ کے یہی معنے ہیں.گویا میانہ روی اور پر حکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی رُوح پیدا کیا کرتی ہیں.اور پُر حکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کر دی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی.یہی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے مگر جب امام کچھ کہے اور ماموم کچھ سمجھے، امیر کوئی حکم دے اور مامور اس سے کوئی مطلب لے اور سمجھنے اور سمجھانے کی کشمکش جاری رہے.وہ حکم دے اور یہ کہے کہ مجھے پہلے اس کی غرض اور اس کا فائدہ سمجھا دیجئے اور جب سمجھایا جائے تو کہے میری سمجھ میں نہیں آیا.تو ایسی صورت میں کبھی بھی قومی ترقی نہیں ہوتی.لیکن جب امیر اور مامور کے آپس میں ایسے تعلقات ہوں یا تربیت دماغی کی ایسے رنگ میں ہو چکی ہو کہ امیر جب کوئی حکم دے تو سب لوگ یہ سمجھیں کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے اور یہی ہماری خواہش تھی ، تو اُس وقت یقینا وہ ترقی کر جاتی ہے.ہمارے ملک میں مثل ہے کہ سو سیانے اگو مت.یعنی اگر سو عظمند ہوں تو وہ سب ایک ہے بات پر متفق ہوں گے.یہ نہیں ہوگا کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ.اسی طرح اگر ہم ساری جماعت کو عقلمند بنادیں تو سب کی ایک ہی رائے ہو اور متحدہ عزم، متحدہ ارادے اور متحدہ کوششیں
خطبات محمود ۱۹۷ سال ۱۹۳۸ء اپنے اندر جو اثر رکھتی ہیں وہ بہت وسیع ہوتے ہیں لیکن اگر امیر کی عقل تو تیز ہے لیکن مأمور کی نہیں ، ما مور قدم قدم پر ٹھہر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے سمجھا لیجئے ایسا نہ ہو کہ مجھے کوئی غلطی لگی جائے، تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس امیر کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں اور قوم کا میابی کا پھل کھانے سے محروم رہتی ہے.تو بہترین ذریعہ قومی ترقی کا یہ ہوتا ہے کہ ساروں کی عقل تیز کر دی جائے.ادھر انہیں حکم ملے اور ادھر طبائع اس پر عمل کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہوں اور وہ کہیں کہ ہم تو پہلے ہی اس کے منتظر تھے.حدیثوں میں ایسے بہت سے واقعات آتے ہیں کہ جب قرآنی احکام نازل ہوتے تو صحابہ کہتے ہم تو پہلے ہی ان احکام کے منتظر تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ فوراً عمل کی طرف متوجہ ہو جاتے اور بحث اور غلط بحث سے بچ جاتے.پس ایسے ذرائع کو اختیار کرنا چاہئے جن سے قوم کے دماغ کی تربیت ہو اور خصوصاً نوجوانوں کے دماغ کی تربیت ہو کیونکہ زیادہ تر کاموں کی ذمہ داری آئندہ نو جوانوں پر ہی کی پڑنے والی ہوتی ہے.اگر نو جوانوں میں بُری باتیں پیدا ہو جائیں مثلاً سکتے پن کی عادت پیدا کی ہو جائے یائستی کی عادت پیدا ہو جائے یا جھوٹ کی عادت پیدا ہو جائے تو یقیناً آج نہیں تو کل وہ قوم تباہ ہو جائے گی.بالخصوص جھوٹ تو ایسا خطر ناک مرض ہے کہ یہ انسان کے ایمان کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے.بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال تک ہم ایک شخص کے متعلق یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ بڑا بزرگ اور راستباز انسان ہے مگر پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ بڑا کذاب ہے.دیکھتا کچھ کی ہے اور بیان کچھ کرتا ہے.مگر یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا ہوتی ہیں.پس نو جوانوں میں اگر اس قسم کی باتیں پیدا کر دی جائیں اور ان کے اخلاق کو صحیح رنگ میں ڈھالا جائے تو یقینا قوم کی ترقی میں بہت مدد مل سکتی ہے.مثلاً میں نے تحریک جدید جاری کی.اس میں اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی.اگر عور تیں اور بچے ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں تو یقیناً جماعت کا ایک حصہ اس پر عمل کرنے سے رہ جائے گا لیکن اگر عورتیں اور کی بچے اس میں شامل ہوں تو ہمارے کام میں بہت سہولت پیدا ہوسکتی ہے.مثلاً سادے کپڑے ہیں یا زیورات کی کمی ہے یا ایک خاص عرصہ تک زیور بالکل نہ بنوانا ہے اب جب تک عورتیں اس میں شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے.یا ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اس کی
خطبات محمود ۱۹۸ سال ۱۹۳۸ء میں اگر بچے اور نوجوان شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے.مثلاً نکما نہ رہنا ہے اب سکتے پن کی عادت بچوں میں ہی ہو سکتی ہے، بڑے تو اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی آسودہ حال ہوتے ہیں لیکن ان کی نئی نسل یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ ہمارے ابا نواب ، ہمارے ابا فلانے ، ہم فلاں کام کیوں کریں اس میں ہماری ہتک ہے اور پھر تمام خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں حالانکہ اگر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے اور ان کے قلوب پر اس کا نقش کر دیا جائے کہ جو شخص کام کرتا ہے وہ عزت کا مستحق ہے اور جو کام نہیں کرتا بلکہ نکتا رہتا ہے وہ اپنی قوم اور اپنے خاندان کیلئے عار اور ننگ کا موجب ہے اور یہ کہ معمولی دولتمند یا زمیندار تو الگ رہے اگر ایک بادشاہ یا شہنشاہ کا بیٹا بھی نکما رہتا ہے تو وہ بھی اپنی قوم اور اپنے خاندان کیلئے عار کا موجب ہے اور اس چمار کے بیٹے سے بدتر ہے جو کام کرتا ہے.تو یقیناً اگلی نسل درست ہو سکتی ہے اور پھر وہ نسل اپنے سے اگلی نسل کو درست کر سکتی ہے اور وہ اپنے سے اگلی نسل کو.یہاں تک کہ یہ باتیں قومی کریکٹر میں شامل ہو جا ئیں اور ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائیں کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو باتیں قوم کی عادت بن جاتی ہیں وہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جاتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عادت ایک لحاظ سے بُری ہے مگر اس میں بھی طبہ نہیں کہ ایک لحاظ سے وہ اچھی بھی ہوتی ہے.جب کوئی قوم بیدار ہو اور اُس وقت وہ اپنے اندر کی اچھی عادتیں پیدا کرے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ قوم سو جاتی ہے تو اُس کی عادت اُس کی کے ساتھ رہتی ہے اور اس طرح وہ نیکی ضائع نہیں جاتی بلکہ محفوظ رہتی ہے.چاہے وہ خود اس سے فائدہ نہ اٹھائے بلکہ کوئی اور اس سے فائدہ اُٹھائے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے انسان ہوتے ہیں.ایک کی مثال تو اُس کھیت کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آتا ہے اور وہ اپنے اندر جذب کر لیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں سے خوب کھیتی نکلتی ہے.اور ایک کی مثال اس زمین کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آ کر جمع تو ہو جاتا ہے مگر کھیتی نہیں اُگتی دوسرے لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.اور ایک کی مثال اُس کنکریلی زمین کی سی ہوتی ہے جہاں پانی آتا ہے تو نہ اُس زمین میں جذب ہوتا ہے اور نہ اُس میں محفوظ رہتا ہے.ہے اسی طرح انسان بھی تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ ہوتے ہیں جو الہی نورا اپنے اندر جذب کی
خطبات محمود ۱۹۹ سال ۱۹۳۸ء کرتے ، اُس سے فائدہ اُٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں.اور ایک ایسے ہوتے ہیں جو خود تو فائدہ نہیں اُٹھاتے مگر جس طرح بعض زمینوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے اسی طرح عادت کے طور پر بعض نیک کام ان میں پائے جاتے ہیں اور اس کا گو انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے مگر کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ نیکی محفوظ رہتی ہے.مثلاً اگر باپ التزام کے ساتھ سوچ سمجھ کر نماز پڑھنے کا عادی ہے اور اس کا بیٹا نماز کا تارک ہے تو پوتا بہر حال نماز کا تارک ہوگا کیونکہ اُس نے اپنے باپ کو نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا ہوگا لیکن اگر بیٹا نماز تو پڑھتا ہے مگر عادتاً پڑھتا ہے، دلی ذوق و شوق کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تو گو وہ اس فائدہ سے محروم رہے جو حقیقی نماز پڑنے والوں کو حاصل ہوتا ہے مگر نماز اس کے بیٹوں تک ضرور پہنچ جائے گی اور ممکن ہو گا کہ وہ اگلی نسل نماز سے حقیقی فائدہ حاصل کر لے.تو عادتاً جو نیکیاں پیدا ہو جائیں وہ بھی قوم کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور گو عادت کی وجہ سے وہ قوم اس سے خود فائدہ نہ اٹھائے مگر وہ نیکی راستہ میں برباد نہیں ہو جاتی بلکہ اگلے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور ان میں سے جو فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں وہ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.اسی لئے جب کسی قوم میں تین چار نسلیں اچھی گزر جائیں اس کے معیاری اخلاق دنیا میں قائم رہتے ہیں مٹتے نہیں اور اگر ایک دو نسلوں میں ہی کمزوری آجائے تو وہ اخلاق راستہ میں ہی فنا ہو جاتے ہیں.پس اگر کئی اچھی نسلیں گزر جائیں اور ان میں نیکیاں عادت کے طور پر پیدا ہو جائیں تو کو کوئی زمانہ ایسا آجائے کہ وہ اصل نیکی کی روح سے محروم ہو جائے.مگر چونکہ اس کا ظاہر باقی ہوگا اس لئے بعد میں آنے والے اس سے پھر زندگی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ نمونہ ان کے پاس موجود ہوگا.تو اولادوں کی درستی اور اصلاح اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور عورتوں کی درستی اور اصلاح یہ نہایت ہی ضروری چیز ہے.اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کا میاب بنا ئیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنات اماءاللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم کریں.قادیان میں بعض نو جوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہو ا تو انہوں نے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کر دی ہے.چونکہ ایک حد تک کام میں ایک دوسرے کے ذوق کا ملنا بھی ضروری ہوتا ہے اس
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء لئے شروع میں میں نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ ہم ذوق لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں کی لیکن میں نے انہیں یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جہاں تک ان کیلئے ممکن ہو باقی لوگوں کو بھی اپنے اندر شامل کریں مگر میں نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نو جوانوں میں کام کرنے کی روح پیدا ہو یہ ہدایت کی ہے کہ جو لوگ جماعت میں تقریر و تحریر میں خاص مہارت حاصل کر چکے ہوں اُن کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے.جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو غلط فہمی بھی ہوئی ہے.چنانچہ ہماری جماعت کے ایک مبلغ مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں کی میں نے کہا میں تو ناراض نہیں ، آپ کو یہ کیونکر وہم ہوا کہ میں ناراض ہوں.وہ کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ میں میری شمولیت کی اجازت نہیں دی.میں نے کہا یہ صرف آپ کا سوال نہیں جس قدر لوگ خاص مہارت رکھتے ہیں اُن سب کی شمولیت کی میں نے ممانعت کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بڑے آدمیوں کو بھی ان میں شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پریذیڈنٹ بھی انہی کو بنائیں گے سیکرٹری بھی انہی کو بنائیں گے، مشورے بھی انہی کے قبول کریں گے اور اس طرح اپنی عقل سے کام نہ لینے کی وجہ سے وہ خود بدھو کے بدھور ہیں گے.مثلاً میں اگر کسی انجمن یا جلسہ میں شامل ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ چونکہ جماعت کے اعتقاد کے مطابق خلیفتہ اس سے بڑا مقام اور کوئی نہیں ، اس لئے وہ کہیں گے کہ خلیفہ امسیح کو ہی پریذیڈنٹ بنایا جائے.نتیجہ یہ ہوگا کہ جو تربیت پریذیڈنٹی سے حاصل ہوتی ہے وہ بیچ میں ہی رہ جائے گی اور جماعت اس قسم کے تجربے سے محروم رہ جائے گی.پس میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہو چکی ہیں اُن کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے تا انہیں خود کام کرنے کا موقع ملے.ہاں دوسرے درجہ یا تیسرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے تا اُنہیں خود کام کرنے کی مشق ہو اور وہ قومی کا موں کو سمجھ سکیں اور اُنہیں سنبھال سکیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس وقت تک انہوں نے جو کام کیا ہے اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں انہیں یہ اجازت دے دیتا کہ وہ پُرانے مبلغین مثلاً مولوی ابوالعطاء اللہ دتا صاحب یا مولوی جلال الدین صاحب شمس اور اسی قسم کے دوسرے مبلغوں کو بھی اپنے اندر شامل کر لیں تو جو اشتہارات اس وقت تک
خطبات محمود ۲۰۱ سال ۱۹۳۸ء انہوں نے لکھے ہیں سب وہی لکھتے ، وہی اعتراضات کے جوابات دیتے اور دوسرے نو جوانوں کو کچھ بھی پتہ نہ ہوتا کہ اعتراضات کا جواب کس طرح دیا جاتا ہے.پس میں نے انہیں ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے روک دیا.میں نے کہا تم مشورہ بے شک لومگر جو کچھ لکھو وہ تم ہی لکھو تا تم کو اپنی ذمہ داری محسوس ہو.گو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں وہ بہت گھبرائے.اُنہوں نے ادھر اُدھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں ، لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاں بات کا کیا جواب دیں.مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہو گئے اور انہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے.اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ دوسرے مضمونوں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں.گو ان کو ایک ایک مضمون لکھنے میں بعض دفعہ مہینہ مہینہ لگ گیا اور ہمارے جیسا شخص جسے لکھنے کی مشق ہو شاید ویسا مضمون گھنٹے دو گھنٹے میں لکھ لیتا اور پھر کسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہ پڑتی مگر وہ دس بارہ آدمی ایک ایک مضمون کیلئے مہینہ مہینہ لگے رہے لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جو اسلامی لٹریچر ان کی نظروں سے پوشیدہ تھا وہ ان کے سامنے آ گیا اور دس بارہ نو جوانوں کو پڑھنا پڑا اور اس طرح ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا.تو اگر اس قسم کے علمی کام یہ انجمنیں کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی تاریخ کی کتب ، اسلامی تفسیر کی کتابیں ، حدیث کی کتابیں ، فقہ کی کتابیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اور اسی طرح اور بہت سی کتابیں ان کے زیر نظر آجائیں گی اور انہیں اپنی ذات میں بہت بڑا علمی فائدہ ہوگا.دوسرا فائدہ جماعت کو اس قسم کی انجمنوں سے یہ پہنچے گا کہ اسے کئی نئے مصنف اور مؤلف مل جائیں گے.تیسرا فائدہ یہ ہوگا یہ نو جوانوں میں اعتماد نفس پیدا ہوگا اور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ہم بھی کسی کام کے اہل ہیں.اب اگر میں بڑے آدمیوں کو بھی انہیں اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت دے دیتا تو یہ سارے فوائد جاتے رہتے.لیکن یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ تصنیف کا کام ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہر شخص کر سکتا ہے کیونکہ ہر شخص نہ عربی میں احادیث پڑھ سکتا ہے، نہ عربی میں تفسیر میں دیکھ سکتا ہے، نہ عربی کتب کا مطالعہ کر سکتا ہے، پس ان کیلئے اور کاموں کی بھی ضرورت ہے.اور میں
خطبات محمود ۲۰۲ سال ۱۹۳۸ انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی عادت ڈالیں.نو جوانوں کی کے اخلاق کی درستی کریں، انہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دیں، سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں.دینی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کی طرف توجہ کریں اور ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کریں، جو واقع میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہوں.بعض طبائع صرف چوہدری بننا چاہتی ہیں، کام کرنے کا شوق اُن میں نہیں ہوتا.ایسوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ لوگ صرف پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بننا چاہتے ہیں اور ان کا طریق یہ ہوتا ہے کہ جس دن پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کے انتخاب کا سوال ہو فوراً آجائیں گے اور پھر کبھی شکل بھی نہیں دکھا ئیں گے لیکن جب دوبارہ انتخاب کا سوال ہو تو پھر اپنے پندرہ میں چیلے لے کر آجائیں گے جنہیں پہلے سے یہ سکھا دیں گے کہ ہمیں ووٹ دینا اور اس طرح پھر پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جائیں گے اور خیال کریں گے کہ ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک جگہ ایک مجلس قائم ہوئی تو اس میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گیا.میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپس میں خوب لڑائی ہوئی ہے.ایک کہتا ہے میں پریذیڈنٹ بنوں گا اور دوسرا کہتا ہے میں بنوں گا.آپ فرماتے تھے کہ میں نے کہا تم یوں کیوں نہیں کرتے کہ ایک کو پریذیڈنٹ بنا دو، دوسرے کا صدر نام رکھ دو، تیسرے کو مربی بنا دو اور چوتھے کو چیئر مین قرار دے دو.وہ یہ سُن کر بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے اسی طرح کیا.ایک کے متعلق کہہ دیا کہ یہ مربی صاحب ہیں اور چپکے سے اس کے کان میں کہہ دیا کہ اجی مربی ہی سب سے بڑا ہوتا ہے صدر کی کیا حیثیت ہوتی ہے.پھر دوسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ ہیں صدر اور دیکھئے صدر ہی سب سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ سب سے نمایاں جگہ اسی کو ملتی ہے مربی کا کیا ہے وہ تو گھر بیٹھا رہتا ہے.پھر تیسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے پریذیڈنٹ ہیں صدر تو ملاؤں قُلْ اَعُودیوں کا لفظ ہے آپ موجودہ زمانہ کے روشن دماغ انسانوں کی طرف دیکھئے وہ اپنے میں سے بہترین شخص کو پریذیڈنٹ بناتے ہیں چنانچہ ہم آپ کو اپنا پریذیڈنٹ بناتے ہیں.پھر چوتھے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے چیئر مین ہیں.چنا نچہ سب خوش ہو گئے کیونکہ انہیں کام سے کوئی غرض نہ تھی.اُنہیں صرف اتنا شوق تھا
خطبات محمود ۲۰۳ سال ۱۹۳۸ء کہ جب مثلاً کسی ڈپٹی کمشنر کوکو ئی چٹھی لکھنی پڑے تو نیچے لکھ دیا مر بی مسلم ایسوسی ایشن ، دوسرے نے لکھ دیا چیئر مین مسلم ایسوسی ایشن ، تیسرے نے لکھ دیا صدر مسلم ایسوسی ایشن ، چوتھے نے لکھ کی دیا پریذیڈنٹ مسلم ایسوسی ایشن، محض یہ بتانے کیلئے کہ ہم مسلمانوں کے سردار ہیں ورنہ کام کچھ نہیں کرتے.تو بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کیلئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں.ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کیلئے اور لعنت ہوتے ہیں اپنے نفس کیلئے.وہ وہی ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُراء ون ریاء ہی ریاء ان میں ہوتی ہے کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا.تو میں نے انہیں نصیحت کی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے اندرمت شامل کریں جو کام کرنے کیلئے تیار نہ ہوں بلکہ انہی کو اپنے اندر شامل کریں جو یہ اقرار کریں کہ وہ بے قاعدگی کے ساتھ نہیں بلکہ باقاعدگی کے ساتھ کام کیا کریں گے.بے قاعدگی کے ساتھ کام میں کبھی برکت نہیں ہوتی.اگر تھوڑا کام کیا جائے لیکن مسلسل کیا جائے کی تو وہ اس کام سے زیادہ بہتر ہوتا ہے جو زیادہ کیا جائے لیکن تو اتر اور تسلسل کے ساتھ نہ کیا جائے.میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں.یہ ایسا ہی نام ہے جیسے لجنہ اماء اللہ.لجنہ اماء اللہ کا مطلب ہے اللہ کی لونڈیاں اور خدام الاحمدیہ سے مراد بھی یہی ہے کہ احمدیت کے خادم.یہ نام انہیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں.یہ جو بعض لوگوں کے دلوں میں خیال پایا جاتا ہے کہ کاش ہم کسی طرح کی لیڈر بن جائیں ، یہ بیہودہ خیال ہوتا ہے.لیڈر بنانا خدا کا کام ہے اور جس کو خدا لیڈر بنانا چاہتا ہے اُسے پکڑ کر بنا دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے کہ: میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اُس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا“.
خطبات محمود ۲۰۴ سال ۱۹۳۸ء پھر حضرت خلیفہ اول کو ہم نے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آپ ہمیشہ پیچھے ہٹ کر بیٹھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ پر نظر پڑتی تو آپ فرماتے مولوی صاحب آگے آئیں اور آپ ذرا کھسک کر آگے ہو جاتے.پھر دیکھتے تو تی فرماتے مولوی صاحب اور آگے آئیں اور پھر آپ ذرا اور آگے آجاتے.خود میرا بھی یہی حال تھا.جب حضرت خلیفہ اول کی وفات کا وقت قریب آیا اُس وقت میں نے یہ دیکھ کر کہ خلافت کی کیلئے بعض لوگ میرا نام لیتے ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں، یہ ارادہ کر لیا تھا کہ قادیان چھوڑ کر چلا جاؤں تا جو فیصلہ ہونا ہو میرے بعد ہو مگر حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ میں نہ جاسکا.پھر جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی تو اُس وقت میں نے اپنے دوستوں کو اس بات پر تیار کرلیا کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو، تو ہم ان لوگوں میں سے ( جو اب غیر مبائع ہیں ) کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور پھر میرے اصرار پر میرے تمام رشتہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس امر کو تسلیم کر لیں تو اول تو عام رائے لی جائے اور اگر اس کی سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق کی ہو.اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے اور میں یہ فیصلہ کر کے خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ گزشتہ سال حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بھی حلفیہ بیان شائع کرایا تھا کہ میں نے حافظ صاحب کو اُنہی دنوں کہا تھا کہ اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنا دے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا کے لیکن اللہ تعالیٰ نے دھکا دے کر مجھے آگے کر دیا.تو اللہ تعالیٰ جس کو بڑا بنا نا چاہے وہ دنیا کے کسی کو نہ میں پوشیدہ ہو، خدا تعالیٰ اُس کو نکال کر آگے لے آتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہو سکتی.چنانچہ اس کیلئے میں پھر حضرت لقمان والی مثال دیتا ہوں.حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں يبني إنّها إن تك مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّن خَرَدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَو فِي السَّمَوتِ آؤ في الأرض بات بھا الله ، ۵ کہ اے میرے بیٹے ! اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز ہو اور وہ کسی پتھر میں پوشیدہ ہو یا آسمانوں اور زمین میں ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کو نکال کر
خطبات محمود ۲۰۵ سال ۱۹۳۸ لے آئے گا.اس کے معنے یہی ہیں کہ اگر تمہارے دل میں ایمان ہو تو خدا تعالی تمہیں خود اس کام پر مقرر کرے جس کے تم اہل ہو.تمہیں خود کسی عہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.تو وہ لوگ جو خدمت خلق کو اپنا مقصود قرار دیتے ہیں وہی ہر قسم کی عزت کے مستحق ہیں.پھر اگر خدا تعالیٰ تمہیں خود مخدوم بنا نا چا ہے تو ساری دنیا مل کر بھی اس میں روک نہیں بن سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو خدا تعالیٰ کے مسیح اور مامور تھے اور پھر ایسے مامور تھے جن کی تمام انبیاء کی نے خبر دی.اُن کا ذکر تو بڑی بات ہے.میں اپنے متعلق ہی شروع سے دیکھتا ہوں کہ مخالفتیں ہوتی ہیں اور اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہر دفعہ لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب کی دفعہ یہ مخالفانہ ہوا ئیں سب کچھ اُڑا کر لے جائیں گی مگر پھر وہ اس طرح بیٹھ جاتی ہیں جس طرح جھاگ بیٹھ جاتی ہے.تو جس کو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہے اُس کو کوئی مٹا نہیں سکتا.پس تمہیں اپنے دلوں میں سے ہر قسم کی نمود کا خیال مٹا کر کام کرنا چاہئے.بڑ بولا ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ تیز کلامی میں مشغول ہیں.صحابہ چونکہ سادہ کلام کرنے کے عادی تھے اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ معمولی فقرہ فرما دیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باتیں کرتے دیکھا ہے.آپ اس طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے.اب ایک نیک شخص اور مؤمن انسان کو یہ فقرہ بالکل کاٹ دینے والا ہے اور وہ اسی سے سمجھ سکتا ہے کہ کس رنگ میں گفتگو کرنی چاہئے.تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کے رس میں ساری کامیابی ہے حالانکہ اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے.مگر میں انہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں یعنی یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی اور اُن مجالس خدام الاحمدیہ کو بھی جو میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں قائم ہوں کہ وہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ اُن کا تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا ان کا مقصود ہو.یہ بات میں پہلے بھی بیان کی کر چکا ہوں لیکن آج مجھے اس طرف خاص توجہ اس لئے ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک کی عہدہ دار کی مجھے پیٹھی ملی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس مجلس میں شامل کی ہونے سے انکار کر دیا ہے اور بعض لوگ جو پہلے اس میں شامل تھے وہ اب پیچھے ہٹ گئے ہیں حالانکہ اس بات پر بجائے رنجیدہ ہونے کے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کیونکہ میری تعلیم یہی ہے
خطبات محمود ۲۰۶ سال ۱۹۳۸ء کہ کام کرنے والے چاہئیں.ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ محض تعداد بڑھانے کے شوق میں نا اہلوں کو بھی شامل کر لیا جائے.ہم سے زیادہ تعدا د شیعوں کی ہے اور ان سے بھی زیادہ حنفیوں کی ہے.پھر غیر مسلموں کو جمع کیا جائے تو وہ مسلمان کہلانے والوں سے زیادہ ہیں.پس اگر تعداد کی زیادتی پر ہی مدار رکھا جائے تو پھر تو انسان کو باطل کی طرف جھکنا پڑتا ہے حالانکہ نیک کام ہمیشہ نیک بنیاد سے ہوتے ہیں.میں کہتا ہوں یہ سوال نہیں کہ تمہارے دس ممبر ہیں یا نہیں یا پچاس یا ہو.اگر مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہی کسی ہاتھ میں لے لے اور گلیوں کی تج صفائی کرتا پھرے یا لوگوں کو نماز کے لئے بلائے یا کوئی غریب بیوہ جس کے گھر سو دا لا کر دینے والا کوئی نہیں اسے سودا لا کر دے دیا کرے تو بے شک پہلے لوگ اسے پاگل کہیں گے مگر چند دنوں کے بعد اس سے باتیں کرنی شروع کر دیں گے.پھر انہی میں سے بعض لوگ ایسے نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی آپ کے کام میں شریک ہو جائیں.اس طرح وہ ایک سے دو ہوں گے ، دو سے چار ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ سکتے ہیں.تو نیک کام کرتے وقت کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کتنے آدمی اس میں شریک ہیں.اگر وہ کام جسے تم کرنا چاہتے ہو واقع میں نیک اور پسندیدہ ہے تو تھوڑے ہی دنوں میں تم ایک سے دس ہو جاؤ گے، پھر دس سے سو بنو گے اور سو سے ہزار ہو جاؤ گے کیونکہ نیک کام اثر کئے کی بغیر نہیں رہتا.آجکل یورپ میں ایک بہت بڑی انجمن ہے جس کی نہ صرف یورپ میں بلکہ سارے ایشیا کی میں شاخیں ہیں.روٹری کلب اس کا نام ہے اور لاکھوں اس کے ممبر ہیں.یہ کلب امریکہ سے شروع ہوئی تھی.پہلے اس میں صرف تین آدمی شامل تھے.لوگ ان سے مخول کرتے ، انہیں پاگل اور احمق قرار دیتے مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ سال دوسال کے بعد سات آٹھ ممبر ہو گئے اور پھر تین چار سال کے بعد تو سینکڑوں تک نوبت پہنچ گئی.اب اسے قائم ہوئے غالباً بیس پچیس سال گزر چکے ہیں اور اس کے لاکھوں ممبر یورپ اور ایشیا میں موجود ہیں.تو یہ خیال پیدا ہو جانا کہ ہماری مجلس میں کم آدمی شامل ہیں، زیادہ شامل ہونے چاہئیں ، یہ بھی بتاتا ہے کہ مخفی طور پر دل میں شہرت کی خواہش ہے ورنہ مقصد ہو تو تعداد کا
خطبات محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۸ء خیال بھی دل میں نہ آئے اور میں تو سمجھتا ہوں بجائے اس کے کہ وہ تعداد بڑھانے کے شوق میں کام نہ کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کریں جنہیں بعد میں نکالنا پڑے، یہ زیادہ بہتر ہے کہ صرف کام کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے اور جو کام کرنے کا شوق نہیں رکھتے انہیں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اندر سے گند کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن باہر سے گند نہ آنے دینا بہت آسان ہوتا ہے.پس ان کو اپنے نمونہ سے ایک نیک مثال قائم کرنی چاہئے پھر خود بخود نو جوانوں کے دلوں میں تحریک پیدا ہوگی اور وہ بھی ان کے کام میں شریک ہونے کی خواہش کریں گے کیونکہ وہ دیکھیں گے کہ باوجود کام کرنے کے یہ زندہ اور ہشاش بشاش ہیں پھر ہمارا کی کیا بگڑتا ہے اگر ہم بھی کام کریں اور نیک نامی حاصل کریں.دنیا میں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اتنا وقت فلاں کام کیلئے دے دیا تو دوستوں سے گئیں ہانکنے کیلئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں رہے گا اور اس طرح ہماری ساری بشاشت اور زندہ دلی ماری کی جائے گی مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ کام کرنے والوں کے چہرے بھی ویسے ہی ہشاش بشاش ہیں کی اور پھر زائد بات یہ ہے کہ انہیں لوگوں میں نیک نامی حاصل ہے تو پھر وہ بھی سمجھتے ہیں کہ دوستوں میں بیٹھ کر دو دو چار چار گھنٹے گیں ہانکنے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ خدمت خلق کا کوئی کام کیا جائے.پس افراد کا ان کو کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے.جو شخص ان کی مجلس میں شامل نہیں ہوتا اس کے متعلق انہیں کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا عملی نمونہ بہتر سے بہتر دکھانا چاہئے.اگر تم نو جوانوں کے لئے کامل نمونہ بن جاؤ تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تم سے نہ ملیں.وہ اگر نہ ملیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ تمہارے نمونہ میں کوئی نقص ہے.یہاں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی کئی غرباء ہوتے ہیں، کئی بیمار ہوتے ہیں جنہیں کوئی دوائی لا کر دینے والا نہیں ہوتا ، کئی بیوائیں ہوتی کی ہیں جنہیں سو دا سلف لا کر دینے والا کوئی نہیں ملتا.آخر یہ کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ ایک شخص بازار میں کسی دکان پر یا اپنے کسی دوست کے مکان پر بیٹھ کر دو دو تین گھنٹے کہیں مارتا چلا جاتا ہے مگر جب اُسے کہا جاتا ہے کہ آؤ اور خدمت خلق کیلئے تھوڑا سا وقت دو تو وہ کہنے لگ جاتا ہے کیا کروں، بڑا کام ہے ، ذرا بھی فرصت نہیں ملتی حالانکہ جس وقت وہ گئیں مار رہا ہوتا ہے، جب وہ
خطبات محمود ۲۰۸ سال ۱۹۳۸ء اپنے نہایت قیمتی وقت کا خون کر رہا ہوتا ہے اُس وقت اس کے محلہ میں ایک بیوہ عورت کے بچے بلک بلک کر رور ہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس کوئی شخص نہیں ہوتا جو اسے آٹا لا کر دے یا دال لا کر دے.آخر یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیں گے.کیا جس وقت وہ یہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی وقت نہیں تھا اُس وقت خدا یہ نہیں کہے گا کہ تیرے پاس دو گھنٹے گئیں ہانکنے کیلئے تو تھے مگر تجھے پندرہ منٹ کی فرصت نہیں تھی کہ تو اس بیوہ کے بچوں کیلئے سو دالا کر دے دیتا.تو تم اپنا عملی نمونہ جس وقت لوگوں کے سامنے پیش کرو گے یہ ناممکن ہے کہ لوگ تم میں شامل ہونے کی کی خواہش نہ کریں.یہ سلسلہ تو خدا کا ہے اور اس میں اس کے وہ بندے شامل ہیں جن کو خدا نے اپنی رضا کیلئے چن لیا.میں کہتا ہوں ایک کافر سے کا فر بھی نیک نمونہ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایک استاد مولوی رحمت اللہ صاحب تھے جو بعد میں مدینہ چلے گئے.وہ بڑے نیک اور بزرگ تھے مگر عیسائی مذہب سے انہیں کوئی واقفیت نہ تھی.ایک دفعہ عیسائیوں کے ساتھ ان کا مباحثہ قرار پایا.ان کے مقابلہ میں جو پادری تھا وہ بڑا ہوشیار اور عالم تھا مگر یہ صرف قرآن اور حدیث جانتے تھے اور چونکہ دانا اور سمجھدار تھے اس لئے کہتے تھے کہ اگر میں نے قرآن اور حدیث کو اس کے سامنے پیش کیا تو وہ کہہ دے گا کہ میں ان کو نہیں مانتا.دلیل ایسی چاہئے جسے یہ بھی تسلیم کرے اور وہ مجھے آتی نہیں.آخر کہنے لگے لوگوں سے کیا کہنا ہے آؤ خدا سے دعا کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے دعا کی رات کو گیارہ بجے کے قریب ان کے دروازے پر کسی نے دستک دی.انہوں نے دروازہ کھولا تو ایک شخص بجبہ پہنے ہوئے اندر داخل ہوا اور کہنے لگا صبح آپ کا فلاں پادری سے مباحثہ ہے، میں بھی پادری ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ توحید کے معاملہ میں آپ حق پر ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کی کہ آپ بعض حوالے نوٹ کر لیں کیونکہ ممکن ہے ان حوالوں کا آپ کو علم نہ ہو.چنانچہ اُس نے تمام حوالے لکھوا دیے اور صبح جب مناظرہ ہوا تو وہ پادری یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ انہیں تو ی کسی حوالے کا علم نہ تھا اب یہ کیا ہوا کہ یہ کہیں یونانی کتب کے حوالے دے رہے ہیں تو کہیں عبرانی کتب کے حوالے پڑھ رہے ہیں، کہیں انگریزی کتب سے اقتباس پیش کر رہے ہیں تو کی
خطبات محمود ۲۰۹ سال ۱۹۳۸ء کہیں بائبل سے تو حید کی تعلیم سنا رہے ہیں.غرض انہوں نے زبردست بحث کی اور اس پادری کو کی سخت شکست اُٹھانی پڑی.اسی طرح روزانہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھا جاتا اور صبح آپ خوب دھڑلے سے پیش کرتے.بعد میں یہ مباحثہ انہوں نے کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا اور مظاہرالحق اس کا نام رکھا.ہندوستان میں لوگوں نے اس کتاب سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے.اب دیکھو اس پادری کی طبیعت پر حق کا اثر تھا.اُس نے جب دیکھا کہ آج حق مظلوم ہے تو اُس کی حمایت کا اُسے جوش آ گیا اور اس نے کہا آج تو حید کہیں شکست نہ کھا جائے.چنانچہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھا جاتا اور گو وہ لوگوں سے چھپ کر آیا مگر بہر حال آتو گیا.تو جب کوئی شخص کی نیک کام کرنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ خود بخود لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کر دیتا ہے اور وہ اس کی تصدیق اور تائید کرنے لگ جاتے ہیں.پس قادیان کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنا نیک نمونہ دکھا ئیں.خصوصیت سے میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اس رکن کو مخاطب کرتا ہوں جس نے مجھے خط لکھا اور میں اسے کہتا ہوں کہ کی تم بھول جاؤ اس امرکو کہ قادیان میں کوئی اور شخص بھی ہے.تم سمجھو کہ صرف تم پر ہی اس کام کی ذمہ داری عائد ہے.کیونکہ وہ شخص ہرگز مؤمن نہیں ہوسکتا جو کہتا ہے کہ میری یہ ذمہ داری ہے اور فلاں کی یہ ذمہ داری ہے مؤمن وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ صرف اور صرف میری ذمہ داری ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم تجھ سے پوچھیں گے کسی اور سے نہیں ہے مگر اس سے مراد بھی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ ہر مؤمن مراد ہے.اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تم میں سے ہر شخص سے یہ سوال کروں گا کہ تم نے کیا کیا.مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اپنے ایک فعل پر جو گو ایک بچگانہ فعل تھا مگر جس طرح بدر کے موقع پر ایک انصاری نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں کی گے، دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے اور اس صحابی کو اپنے اس فقرہ پر ناز تھا.اسی طرح مجھے بھی اپنے اس فعل پر ناز ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو چونکہ
خطبات محمود ۲۱۰ سال ۱۹۳۸ء آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جبکہ ابھی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں اور چونکہ میں نے عین آپ کی وفات کے وقت دو آدمیوں کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہوگا.عبد الحکیم کی کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے ،محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعترض کریں گے وغیرہ وغیرہ.تو ان باتوں کو سنتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ میں خاموشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش مبارک کے پاس گیا اور سر ہانے کی طرف کھڑے ہوکر میں نے خدا تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا اے خدا! میں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پھر گئی تو میں اِس دین اور اس سلسلہ کی اشاعت کیلئے کھڑا رہوں گا جس کو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا ہے.میری عمر اُس کی وقت انیس سال کی تھی اور انیس سال کی عمر میں بعض اور لوگوں نے بھی بڑے بڑے کام کئے ج ہیں مگر وہ جنہوں نے اس عمر میں شاندار کام کئے ہیں وہ نہایت ہی شاذ ہوئے ہیں.کروڑوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے جس نے اپنی اس عمر میں کوئی شاندار کام کیا ہو بلکہ اربوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے اور مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مجھے یہ فقرہ کہنے کا موقع دیا.تو مؤمن کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سمجھے اصل ذمہ دار میں ہوں.جب کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ میں اور فلاں ذمہ دار ہیں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہو گیا اور اس کے اندر منافقت آگئی.ہم میں سے ہر شخص سمجھتا اور کچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ احمدیت کچی ہے اور اسلام سچا مذہب ہے مگر کیا اگر فرض کر لیا جائے کہ کسی وقت سب لوگ فوت ہو جائیں یا تی مقطوع النسل ہو جائیں یا نَعُوذُ بالله مرتد ہو جائیں اور صرف اکیلا کوئی شخص باقی رہ جائے تو وہ اس کام کو چھوڑ دے گا.یقیناً وہ اس کام کو کبھی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ سمجھے گا کہ اس کام کے کرنے کا بہترین وقت یہی ہے کیونکہ جتنے تھوڑے لوگ ہوں گے اسی قدر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ زیادہ عمدگی سے ان پر پڑے گا.اگر ایک سیر بھر مصری سمندر میں ڈال دی جائے تو مٹھاس کا پتہ تک نہیں لگ سکتا لیکن اگر گلاس دو گلاس میں اتنی مصری ملا دی جائے تو بہت زیادہ میٹھا ہو جائے گا.اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ جب ہزار دو ہزار یا لاکھ دو لاکھ نفوس پر پڑے گا تو وہ کی
خطبات محمود ۲۱۱ سال ۱۹۳۸ء پھیل جائے گا لیکن جب وہ ایک ہی شخص پر پڑے گا تو وہ مجسم محمد بن جائے گا.پس اگر ایک نیکی میں تمہیں اکیلے کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو تمہارا دل خوشی سے بلیوں اچھلنا چاہئے کیونکہ تم اس کی کام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلتِ کامل بنو گے اور دوسرا کوئی ایسا شخص نہیں ہو گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ لے رہا ہو.پس یہ وہم اپنے دلوں سے نکال دو کہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوتے.تم اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہو جاؤ تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرسکتا ہے، سورج مغرب کی بجائے مشرق میں ڈوب سکتا ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی نیک کام کو جاری کیا جائے اور وہ ضائع ہو جائے.یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از وقت ہمیں بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں جب کوئی شخص مقبول ہو جاتا ہے تو کی وہ اپنے فرشتوں کو پتہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں بندہ میری نگاہ میں مقبول ہے پھر وہ اگلے فرشتوں کو بتاتے ہیں اور وہ اپنے سے اگلے فرشتوں کو فَيُوْضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ " یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کر دی جاتی ہے مگر اس مقبولیت کا پیمانہ تمہارے دل کا اخلاص ہے تمہارے دل کا اخلاص جتنا زیادہ ہو گا اتنی ہی زیادہ یہ مقبولیت ہوگی اور تمہارے دل کا اخلاص جتنا کم ہو گا اتنی ہی کم یہ مقبولیت ہو گی.پس میں یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو بھی نصیحت کرتا ہوں اور اُن بیرونی جماعتوں کو بھی جن کے نو جوان اس مجلس کی نقل میں کام کرنے کو تیار ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے اس نیت سے کام کریں کہ صرف کام کرنے والے نوجوان اپنے اندر شامل کریں گے، تعداد بڑھانے کیلئے ہر شخص کو شامل نہیں کیا جائے گا.اسی طرح جو تجربہ کارلیکچرار یا تجربہ کار لکھنے والے ہیں ان کو شروع میں اپنے اندر شامل نہ کیا جائے.بے شک نگرانی کیلئے کسی وقت ان سے مشورہ لے لیا جائے مگر انہیں اپنا ممبر نہ بنائیں تا وہ ان کے کام پر حاوی نہ ہو جائیں اور ان کی عقلیں ان کی عقلوں کے مقابلہ میں پست نہ ہو جائیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بڑے درخت کے نیچے اگر ایک چھوٹا پودا لگا دیا جائے تو چند ہی
خطبات محمود ۲۱۲ سال ۱۹۳۸ء دنوں میں وہ سُوکھ جاتا ہے.اسی طرح جب بڑے لوگوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے تو چھوٹوں کا ذہنی ارتقاء رک جاتا ہے.مگر میں نے دیکھا ہے قادیان میں یہی مرض نہایت شدت سے پھیلا ہؤا ہے.کوئی جلسہ ہو، کوئی ٹی پارٹی ہو ، کوئی دعوت ہو اس میں مجھے ضرور شامل کریں گے جس کا یقیناً انہیں یہ نقصان پہنچتا ہے کہ انہیں خود اُٹھنے اور کام کرنے کا موقع نہیں ملتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا طریق بہت کم نظر آتا ہے اور گو صحا بہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاتے بھی تھے مگر موقع کی حیثیت سے لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ جنازہ بھی خلیفہ امسیح پڑھائیں ، نکاح بھی خلیفہ اسیح پڑھائیں ، کوئی دعوت ہو تو اس میں بھی وہ ضرور شامل ہوں ، کوئی ولیمہ ہو تو اس میں بھی ضرور شامل ہوں.اسی طرح مبلغ کے جانے کی تقریب ہو ، تب وہ شامل ہوں اور آنے کی ہو تو تب بھی وہ شامل ہوں.غرض خلیفہ سے اتنے کاموں کی امید کی جاتی ہے کہ جن میں شامل ہونے کے بعد دین کی ترقی اور اس کے کاموں میں حصہ لینے کا اس کیلئے کوئی کی وقت ہی نہیں رہتا اور اس کا کام صرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ دعوتیں کھائیں ، ملانوں کی طرح پر ہاتھ پھیرا، ڈکار لیا اور سور ہے.یہ ایک مرض ہے جس کے نتیجہ میں افراد کا ذہنی ارتقاء ما را جاتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑے درخت کے نیچے جو پودے لگے ہوئے ہوں وہ نشو و نما نہیں پاتے.پھر اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جب کوئی اور کی تحریک کرتا ہے تو لوگ اُس کی بات پر کان نہیں دھرتے اور وہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے آپ اس امر کے متعلق تحریک کریں.میں اُس وقت دل میں ہنستا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ سزا ہے جو ان لوگوں کو اس لئے مل رہی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ جب تک کی کوئی بات خلیفہ نہ کہے اُس کا ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں ہوتا.حالانکہ دینی مشاغل اور قرآن کا درس و تدریس اور دوسرے ایسے ہی بیسیوں کام میں خلیفہ کے کہنے کی کیا ضرورت ہے یا کسی ناظر کے کہنے کی کیا ضرورت ہے.ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ دلی شوق سے یہ کام کرنے چاہئیں اور اگر وہ آجائیں تو سارا کام انہی کا دماغ کر رہا ہوگا اور باقی لوگ خاموش بیٹھے رہیں گے اور اس کا نتیجہ قوم کیلئے مُہلک ہوگا.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے لَا تَسْلُوا عَن اشْيَاء إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ : یعنی اے مومنو!
خطبات محمود ۲۱۳ سال ۱۹۳۸ء تم بہت باتوں کے متعلق سوالات نہ کیا کرو کیونکہ اگر خدا ان باتوں کو بیان کرے گا تو تمہیں دُکھ پہنچے گا.اب سوال یہ ہے کہ دُکھ کیوں پہنچے گا ؟ کیا خدا کے احکام دُکھ دینے والے ہوتے ہیں؟ خدا کا تو ہر حکم انسان کیلئے باعث رحمت ہے.پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ اگر خدا نے ان باتوں کو بیان کیا تو تمہیں دُکھ پہنچے گا.بعض لوگ نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بار بار سوال کیا تو خدا ناراض ہو کر تمہیں کوئی سخت حکم دے دے گا.یعنی جب کی مثلاً یہ پوچھا کہ دو نمازیں پڑھنی چاہئیں یا پانچ ؟ تو خدا کہے گا اچھا تم نے تو یہ پوچھا ہے میں بطور سزا تمہیں کہتا ہوں کہ تم چھ نمازیں پڑھا کرو.مگر یہ بیوقوفی کی بات ہے خدا کوئی تھکنے والا وجود نہیں کہ ایک دو سوالوں سے وہ نَعُوذُ باللہ گھبرا جائے اور اُکتا کر سخت حکم دینے شروع کر دے.اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر تم ہر بات مجھ سے دریافت کرو گے اور اپنی عقلوں پر زور نہیں ڈالو کی گے تو تمہارے قوائے دماغیہ کمزور اور بیکار ہو جائیں گے کیونکہ جس عضو سے ایک عرصہ تک کام نہ لیا جائے وہ بیکا ر ہو جاتا ہے.ہاتھ سے کام نہ لیا جائے تو ہاتھ خشک ہو جاتا ہے، دماغ سے کام کی نہ لیا جائے تو دماغ کمزور ہو جاتا ہے.پس فرماتا ہے اگر تم ہم سے پوچھو گے تو گو ہم تمہیں وہ کی بات بتادیں گے مگر پھر تم فقیہہ نہیں رہو گے بلکہ نقال بن جاؤ گے حالانکہ قوم کی ترقی کیلئے فقیہوا کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے.مگر وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ کام تحریک جدید کے اصول پر کریں.میں نے بارہا کہا ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ " تمہارا کام بے شک یہ ہے کہ تم دشمن سے لڑ و مگر تمہارا فرض ہے کہ امام کے پیچھے ہو کر لڑو.پس کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں.پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا اور تم تحریک جدید کے والٹیرز ہو گے.تمہارا فرض ہو گا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو ، تم سادہ زندگی بسر کرو ، تم دین کی تعلیم دو، تم نمازوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرو، تم تبلیغ کیلئے اوقات وقف کرو، اسی طرح باہر جو انجمنیں بنیں وہ بھی اسی رنگ میں کام کریں ،مگر موجودہ حالات میں جس طرح قادیان کی لجنہ کو میں نے باہر کی بجنات پر ایک برتری اور فوقیت دی ہوئی ہے، اسی طرح میں اعلان کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عارضی طور پر سال دو سال کیلئے قادیان کی مجلس خدام الاحمدیہ کی بیرونی جماعتوں کی مجالس خدام الاحمدیہ شاخیں ہوں گی.اور ان کا ی
خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱۹۳۸ء فرض ہوگا کہ اس انجمن کے ساتھ اپنی انجمنوں کا الحاق کریں اور اس انجمن کی اپنے آپ کو کی شاخ سمجھیں.اسی طرح ہر جگہ ان کا یہ کام ہو گا کہ وہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھیں ، نو جوانوں کو دینی اسباق دیں مثلا صبح کے وقت یا کسی اور وقت ایک دوسرے کو پڑھایا جائے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کیلئے کہا جائے اور پھر ان کا امتحان لیا جائے ، اسی طرح وہ خدمت خلق کے کام کریں اور خدمت خلق کے کام میں یہ ضروری نہیں کہ مسلمان غریبوں اور مسکینوں اور بیواؤں کی خبر گیری کی جائے بلکہ اگر ایک ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیروکسی دُکھ میں مبتلا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے دکھ کو دور کرنے میں حصہ لو.کہیں جلسے ہوں تو اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کر دو.میں نے اسی قسم کے کاموں اور مقاصد کیلئے احمد یہ نیشنل لیگ کو ر قائم کرنے کی اجازت دی تھی.مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کا بہت سا وقت لیفٹ اور رائٹ میں ہی خرچ ہو گیا.وہ اپنے دائیں اور بائیں دیکھتے رہے مگر انہوں نے اپنے سامنے کبھی نہ دیکھا.میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اس وقت تک کوئی مفید کام نہیں کیا.انہوں کی ۱۴ نے بھی بعض مفید کام کئے ہیں.خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقع پر اور دوسرے اجتماعوں کے مواقع پر ان کا جو انتظام ہوتا ہے وہ بہت اچھا ہوتا ہے مگر قواعد کرنے کے علاوہ یا بعض جسمانی خدمات کے علاوہ اور جن کاموں کی میں ان سے امید رکھتا تھا وہ پورا نہیں ہوا ( میرے پاس کی لیگ کو ر کی قواعد کرانے والے افسروں نے اپنے کام کی فہرست پیش کی ہے کہ وہ فلاں فلاں کام کرتے رہے ہیں.میں خطبہ میں ان کے کام کے اس حصہ کا خود ہی اعتراف کر چکا ہوں.میرا اظہارِ خیال قواعد سکھانے والوں کے مطابق نہیں.انہوں نے باقاعدگی سے کام کیا ہے اور اس کا مجھے اعتراف ہے.جو شکوہ میں نے کیا ہے وہ لیگ کا ہے کہ دوسری اغراض جو علاوہ قواعد کے تھیں وہ انہوں نے باوجود درجنوں دفعہ مجھ سے مشورہ لینے کے پوری نہیں کیں ).بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ اگر نیشنل لیگ نے یہ مقصد پورا نہیں کیا تو اب مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان ہی اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی زندگی کو کارآمد بنا ئیں گے اور سلسلہ کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں مجلس خدام الاحمدیہ میں جو بھی شامل ہے ہو وہ یہ اقرار کرے کہ میں آئندہ یہی سمجھوں گا کہ احمدیت کا ستون میں ہوں اور اگر میں ذرا بھی ہلا
خطبات محمود ۲۱۵ سال ۱۹۳۸ اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں یہ سمجھوں گا کہ احمدیت پر ز د آ گئی.حضرت طلحہ ایک بہت بڑے صحابی گزرے ہیں ان کا ایک ہاتھ لڑائی کے موقع پر شل ہو گیا تھا.بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو جنگیں ہوئیں ان میں سے کسی موقع پر ایک شخص نے طنز احضرت طلحہ کو نجا کہہ دیا.حضرت طلحہ نے کہا تمہیں پتہ بھی ہے میں کس طرح لنجا ہوا.پھر انہوں نے بتایا کہ احد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار نے حملہ کر دیا اور کی اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا تو اُس وقت کفار نے یہ سمجھتے ہوئے کہ صرف محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ذات ہی ایک ایسا مرکز ہے جس کی وجہ سے تمام مسلمان مجتمع ہیں ، آپ پر پتھر اور تیر برسانے شروع کر دیے.میں نے اُس وقت دیکھا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر آکر نہ آ لگے.چنانچہ میں نے اپنا باز و رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کر دیا.کئی تیر آتے اور میرے بازو پر پڑتے مگر میں اسے ذرا بھی نہ کی ہلا تا یہاں تک کہ تیر پڑتے پڑتے میرا بازو شل ہو گیا.کسی نے پوچھا جب تیر پڑرہے تھے تو اُس وقت آپ کے منہ سے کبھی اُف کی آواز بھی نکلتی تھی یا نہیں کیونکہ ایسے موقع پر انسان بے تاب ہو جا تا اور درد سے کانپ اُٹھتا ہے.انہوں نے کہا میں اُف کس طرح کرتا جب انسان کے منہ سے اُف نکلتی ہے تو وہ کانپ جاتا ہے.پس میں ڈرتا تھا کہ اگر میں نے اُف کی تو ممکن ہے میرا ہاتھ کانپ جائے اور کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر لگ جائے اس لئے میں نے اف بھی نہیں کی.۱۵ دیکھو کتنا عظیم الشان سبق اس واقعہ میں پنہاں ہے.طلحہ جانتے تھے کہ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت میرا ہاتھ کر رہا ہے.اگر میرے اس ہاتھ میں ذرا بھی حرکت ہوئی تو تیر نکل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جا لگے گا.پس انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہلا یا کیونکہ وہ کی جانتے تھے کہ اس ہاتھ کے پیچھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہے.اسی طرح اگر تم بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو، اگر تم بھی یہ سمجھنے لگو کہ ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے اور اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دو نہیں بلکہ ایک ہیں تو تم بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہو جاؤ اور تم بھی ہر وہ تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اور سینوں پر لینے کیلئے تیار ہو جاؤ.
خطبات محمود ۲۱۶ سال ۱۹۳۸ء پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادم احمدیت ہیں ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے.تب بیشک تم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا.پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بناؤ.غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو نہ صرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بیکسوں کی.تا دنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں.مشورہ دینے کے لحاظ سے میں ہر وقت تیار ہوں مگر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نمایاں شخصیتوں کو اپنا ممبر مت بناؤ کیونکہ بڑے درخت کے نیچے اگر آؤ گے تو تمہاری اپنی شاخیں سوکھ جائیں گے.اسی طرح سچائی کو اپنا معیار قرار دو.قواعد کے تیار کرنے میں میں انشاء اللہ تمہاری ہر طرح مدد کروں گا.سر دست یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہر نمبر سے یہ اقرار لو کہ اگر وہ جھوٹ بولے گا اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جائے گا تو وہ خوشی سے ہر سزا برداشت کرنے کیلئے تیار رہے گا.جب تمکی سچائی پر قائم ہو جاؤ گے، جب تم نمازوں میں با قاعدگی اختیار کر لو گے، جب تم دین کی خدمت کی کیلئے رات دن مشغول رہو گے ، تب جان لینا کہ اب تمہارا قدم ایسے مقام پر ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں.اسی طرح تمہیں چاہئے کہ تم تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ خطبات سے تمام ممبران کو واقف کرو اور ان سے کہو کہ وہ اوروں کو واقف کریں.اور پھر ہر شخص اپنی ماں اور اپنی بہن اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو ان سے واقف کرے.اسی طرح میں لجنات اما ء اللہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں کام کریں اور جہاں جہاں لجنہ ابھی تک قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والٹیئر ز سمجھیں اور اسلام کی ترقی کیلئے اپنی زندگی کو وقف قرار دیں.اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے (اور اس دنیا کی زندگی کی حقیقت ہے ہی کیا ہے.چند سال کی زندگی ہے اور بس ) مگر خدا تمہارا نام جانے گا اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہوسکتا.“ (الفضل.۱ را پریل ۱۹۳۸ء)
خطبات محمود ۲۱۷ بخارى كتاب الاعتكاف باب الاخبية في المسجد بخاری کتاب الاذان باب خروج النساء الى المساجد لقمان: ۲۰ بخاری کتاب العلم باب فضل مَنْ تَعَلَّمَ وَعَلَّمَ الماعون : ۵ تا ۷ حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۳ - جدید ایڈیشن.روحانی خزائن جلد ۲۲ الفضل ۶ را گست ۱۹۳۷ ء لقمان:۱۷ و لا تكلّف إِلَّا نَفْسَكَ (النساء: ۸۵) بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة (الخ) ۱۲ المائده: ۱۰۲ بخاری کتاب الجهاد باب يُقَاتَلُ مِنْ وَّ رَاءِ الامام (الخ) قواعد کرنا: ورزش کرنا.جنگی کرتب کرنا.سال ۱۹۳۸
خطبات محمود ۲۱۸ سال ۱۹۳۸ مجالس خدام الاحمدیہ کیلئے بعض ہدایات ( فرموده ۱/۸اپریل ۱۹۳۸ء ) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں نے گزشتہ جمعہ میں نوجوانوں کی تنظیم کے متعلق خطبہ پڑھا تھا آج اسی سلسہ میں بعض اور باتیں کہنا چاہتا ہوں لیکن میرے ان خطبات کے یہ معنے نہیں کہ کسی خاص عمر کے آدمی خصوصیت کے ساتھ میرے مخاطب ہیں کیونکہ گو یہ صحیح ہے کہ نوجوان کی اصطلاح ایک خاص عمر کے آدمی کیلئے بولی جاتی ہے لیکن حقیقتاً انسان نوجوان عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ دل کے لحاظ سے ہوتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ وہ شخص جس کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال ہے ضرور نو جوان ہو.بالکل ممکن ہے کہ اس عمر کا انسان بوڑھا ہو اور اپنی طاقتوں کو ضائع کر چکا ہو اور یہ ضروری نہیں کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کا آدمی ضرور ادھیڑ یا بوڑھا ہو.یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بظاہر بوڑھایا ادھیڑ عمر کا نظر آتا ہولیکن اس کا دل خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کیلئے نو جوانوں سے بھی زیادہ نوجوان ہو.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۶۳ سال کی عمر میں فوت ہوئے مگر کون کی کہہ سکتا ہے کہ ایک دن بھی آپ پر بھی ایسا آیا جب آپ بوڑھے تھے.چالیس سال کی عمر میں کی جب آپ پر وحی نازل ہوئی آپ کے اندر جو جوانی تھی ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ جوان آپ وفات کے وقت تھے کیونکہ ایمان انسان کی جوانی کو بڑھاتا ہے اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے.
خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۸ء پس گو ظاہری الفاظ میں میرے مخاطب نوجوان ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ عمر کے لحاظ سے اس حد سے آگے گزر چکے ہیں جسے جوانی کی حد کہا جاتا ہے ، وہ میرے مخاطب نہیں ہیں.جن لوگوں کے دل جوان ہیں اور اپنے اندر سلسلہ کی خدمت کیلئے ایک جوش پاتے ہیں، ان کی عمر خواہ کتنی بھی کیوں نہ ہو وہ میرے ویسے ہی مخاطب ہیں جیسے چالیس سال سے کم عمر کے لوگ.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ایک مشہور بزرگ پنجاب میں گزرے ہیں.وہ دراصل رہنے والے تو افغانستان کے تھے مگر حکومت افغانستان نے بوجہ ان کے اہل حدیث خیالات کے اُن کو ملک سے نکال دیا تھا ان کی اولا دا نہی کی پیشگوئی کے مطابق ہمارے سلسلہ کی شدید مخالف ہے مگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بہت سے رویا اور کشوف ہوئے تھے.گو وہ آپ کے دعویٰ سے قبل ہی فوت ہو گئے اور سلسلہ میں داخل نہ ہو سکے.ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور مرض الموت کی میں مبتلا تھے کہ کوئی شخص اُن کے پاس آیا ، اُن کی بزرگی کی وجہ سے لوگ ان سے اپنے ذاتی معاملات میں بھی مشورہ لے لیا کرتے تھے ، جیسے آج ہم سے بھی لے لیتے ہیں.کوئی مرید ان کے پاس آیا اور کہا کہ میری لڑکی جوان ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی کا کوئی انتظام ہو جائے.مولوی صاحب کے ساتھی جو اُس وقت وہاں موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے چار پائی پر لیٹے لیٹے ہی فرمایا کہ میرے ساتھ ہی شادی کر دو.بعض لوگ اس واقعہ کو ایک ہنسانے والا واقعہ خیال کرتے ہیں مگر یہ واقعہ ایسا نہیں ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان کا دلی جوش ان کو یہ خیال بھی نہیں آنے دیتا تھا کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں.باوجود یکہ ان کا جسم جواب دے چکا تھا مگر ایمان کی وجہ سے دین کی خدمت کیلئے جو روحانی قوت وہ اپنے اندر محسوس کرتے تھے اس کے ماتحت ان کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آ سکتا تھا ا کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں.ایک صحابی کا واقعہ بھی اس سے مشابہہ ہے.حضرت انس بن مالک ہی ایک ایسے شخص ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم کہلاتے ہیں.ان کے سوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خادم نہیں رکھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو حضرت انس کی والدہ انہیں آپ کے پاس لائیں اور
خطبات محمود ۲۲۰ سال ۱۹۳۸ء عرض کیا کہ یا رَسُول اللہ ! مرد تو اور طرح خدمت کر کے ثواب حاصل کرتے ہیں مگر میں عورت کی ہوں اور تو کچھ نہیں کر سکتی ، یہ میرا لڑکا ہے جسے میں آپ کی خدمت کیلئے پیش کرتی ہوں ، یہ آپ کی خدمت کرے گا لیے حضرت انسؓ کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی تھی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کی خدمت کرتے رہے.ان کی وفات ایک سو دس یا ایک سو ہیں سال کی عمر میں ہوئی.سے یہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ اُس زمانہ میں پیدائش کی تاریخیں عام طور پر یاد نہیں رکھی جاتی تھیں.مسلمان چونکہ بہت بڑے مورخ تھے اس لئے وفات کی تاریخیں کی تو پوری طرح محفوظ ہوگئیں مگر پیدائش کی تاریخیں اسلام سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے محفوظ نہیں ہو سکیں.حضرت انس جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بعض لوگ ان کی عیادت کیلئے گئے اور کہا کہ آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور خادم ہیں ہمیں کی کوئی خدمت بتائیے.انہوں نے جواب دیا کہ آپ لوگ میری کیا خدمت کر سکتے ہیں ہاں اگر کی ہو سکے تو میری شادی کرا دیں.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص بغیر شادی کے فوت ہوتا ہے وہ بطال ہے، بطال اسے کہتے ہیں جس کی عمر ضائع گئی ، حضرت انس کی بیوی ان سے کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہوئی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر میری شادی کرا دو تو میں بھال نہ کہلاؤں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب تو یہ تھا کہ جو شخص اپنی زندگی بھر شادی نہیں کرتا اور اس کی اولاد نہیں ہوتی وہ بطال ہے کیونکہ اسلام نے کی رہبانیت کو نا جائز رکھا ہے مگر حضرت انس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لفظی بات کو پورا کرنے کیلئے یہ بھی پسند نہ کیا کہ چند دن کی عمر بھی بطال گزاریں حالانکہ اُس وقت وہ عمر کی اس حد سے گزر چکے تھے جس میں بچے پیدا ہو سکتے ہیں.یہ بھی دراصل ان کے دلی جوش کا نتیجہ تھا.دین کی خدمت کا جو احساس ان کے دل میں تھا اس کے ماتحت اگر چہ جسم جواب دے چکا تھا مگر کام کی اُمنگ روح میں موجود تھی اور اسی کے ماتحت وہ بعض اوقات یہ بھول جاتے تھے کہ ہم بوڑھے ہو چکے ہیں یا ہمارے جسم اب جواب دے چکے ہیں.پس عمر کوئی چیز نہیں بلکہ در حقیقت انسان کی اُمنگ اور حوصلہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور اسے مقرب بنا دیتا ہے اور جو اس کی کوششوں کو ہر زمانہ میں جا کر نو جوانوں سے آگے بڑھا دیتا ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء پس ان خطبات میں اگر چہ بظا ہر میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی عمر چالیس سال سے کم ہے تی مگر حقیقتاً وہ لوگ بھی میرے مخاطب ہیں جن کی عمر خواہ کتنی ہو مگر خدمت دین میں وہ دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہ لوگ ظاہری نو جوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے کی ہیں.کیونکہ نو جوانوں کے تو جسم بھی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں مگر ان کے جسم جواب دے چکے ہوتے ہیں اور ان کی مثال اُن غرباء کی ہوتی ہے جن کے پاس دولت نہیں ہوتی مگر چندوں کے وقت وہ دوسروں سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے.قرآن کریم میں اشارہ ایک ایسے واقعہ کا ذکر آتا ہے جس کی تفصیلات احادیث سے یوں معلوم ہوتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ کی تحریک کی.ایک صحابی مجلس سے اُٹھے اور جا کر ایک کنویں پر کچھ کام کیا اور وہاں سے کچھ جو مزدوری کے طور پر حاصل کر کے لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے.مختلف لوگ چندے لا رہے تھے ، کوئی سینکڑوں اور کوئی ہزاروں روپے کی مگر انہی میں یہ صحابی بھی وہ بو لے کر آئے جو دونوں ہاتھوں میں تھے اور لا کر رسول کریم صلی اللہ می علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے.اس پر منافق ہنسے اور کہا کہ ان جوؤں سے دنیا فتح کی کی جائے گی.انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ جو خدا تعالیٰ کے نزدیک ہزاروں روپوں سے زیادہ تھے کیونکہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا مگر اس نے خیال کیا کہ میں دوسروں سے پیچھے کیوں رہوں.اپنے جسم سے کام لیا ، مزدوری کی اور جو لا کر حاضر کر دیا.یہی حال اُن بوڑھوں کا ہے جن کے جسم اگر چہ جواب دے چکے ہیں مگر دل جوان ہیں اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ثواب میں پیچھے رہیں.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ جوان ہی ہیں بلکہ جوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہیں.جس طرح غریب لوگ باوجود تھوڑی رقم دینے کے کئی زیادہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں.اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور نو جوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کی اپنی حالت کو سُدھارنے اور دین کی خدمت کیلئے تقوی اور سعی سے کام لینے کی طرف توجہ کریں.آج اسلام غربت میں ہے اور اگر آج کوئی جماعت اسے قائم نہ کرے تو تھوڑے عرصہ میں کوئی اس کا نام لیوا بھی باقی نہ رہے گا.ہندو اور عیسائی تو اسے مٹانے میں لگے ہی ہوئے ہیں کی
خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۸ء مگر مسلمان کہلانے والے بھی اصلاحات کے نام سے اس کی تعلیم کو مٹانے کیلئے طرح طرح کی کی کوششیں کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کو جو قرآن کریم میں ہے، بدل دیں ایسے کئی بڑے بڑے مسلمان کہلانے والے موجود ہیں اور دوسرے مسلمان ان پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کی ترقی کے سامان کر رہے ہیں حالانکہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے اور ذلت ہے.ایسے وقت میں ضرورت ہے ایک ایسی جماعت کی جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کرے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کو ایسے وقت میں بھیجا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا دعوی عقل کے مطابق ہے.اسلام جس صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے مٹ چکا ہے اور ہر دنیا دار یہ سمجھتا ہے کہ پھر اسی صورت میں قائم نہیں کیا جا سکتا.آج ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ملے گا جو دیانت داری سے یہ سمجھتا ہو کہ اسلامی پردہ پھر دنیا میں قائم کیا جا سکتا ہے اور غیر تو کی ایک منٹ کیلئے بھی یہ خیال دل میں نہیں لا سکتے.خود مجھے ایک بڑے سرکاری افسر نے نہایت ہی حیرت سے پوچھا کہ کیا آپ بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ اسلامی پردہ اب دنیا میں قائم ہوسکتا ہے.اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں تو آپ کو عقلمند سمجھتا ہوں کیا آپ بھی ایسی جہالت کی بات کے قائل ہیں.میں نے جواب دیا کہ پردے سے زیادہ اہم امور ہیں جن میں تبدیلی کو ناممکن سمجھا جاتا تھا مگر ان میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں.میں نے اس افسر سے کہا کہ آپ تو تاریخ دان ہیں کہ کیا آپ کو ایسے امور معلوم ہیں یا نہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان میں تبدیلی نہیں کی ہوسکتی مگر آخر کا ر ہو گئی.اُس نے کہا ہاں ایسے امور تو ہیں.میں نے کہا کہ جب مثالیں موجود ہیں تو باقی صرف یقین کی بات رہ جاتی ہے.مجھے یہ یقین ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا اور آپ سمجھتے ہیں کہ نہیں ہوسکتا.آج سے ۲۵ سال قبل کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ میں ڈیما کریسی کا خاتمہ ہو جائے گا.آج سے ۲۵ سال قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام بادشاہتیں مٹ کر ان کی جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہو جائیں گی مگر آج عَلَى الإعلان جرمنی، اٹلی اور سپین میں ڈیما کریسی کی ہنسی اُڑائی جا رہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کیسے بیوقوف وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈیما کریسی کے ذریعہ کسی ملک کی ترقی ہو سکتی ہے.سارے افراد کہاں اتنے عقلمند ہو سکتے ہیں کہ ملکی ترقی کے وسائل کو سمجھ سکیں.صرف
خطبات محمود ۲۲۳ سال ۱۹۳۸ء چند لوگ ہی ایسے ہو سکتے ہیں اور ان کے پیچھے چل کر ہی ترقی ہوسکتی ہے.انگلستان کے سیاستدانوں کی آج سے صرف ۲۵ سال قبل کی کتابیں پڑھو اُن میں اس خیال کا شائبہ بھی نہیں کی ملے گا جو آج دنیا میں قائم اور رائج ہے.ان کتابوں میں یہی ہے کہ ہم نے دنیا میں ڈیما کریسی کے اصول کو قائم کیا ہے اور آج ہم اس میں کامیاب ہو گئے ہیں اور دنیا میں یہی اصول غالب ہے.مگر آج ان میں سے کئی ایک کی تقریریں بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ آج سوائے انگلستان کے ڈیما کریسی کے اصول کہیں بھی قائم نہیں.کتنا بڑا فرق ہے، کتنا قلیل زمانہ اور کتنا وسیع تغیر ہے.پس اگر دنیا کے لوگوں کی کوششوں سے دنیا کے خیالات تبدیل ہو سکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوں نہیں ہو سکتے.فرق صرف یقین اور ایمان کا ہے.لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات میں تبدیلی کا ذریعہ یو نیورسٹیاں اور بڑے بڑے بارسوخ لیڈر ہیں اور وہی دنیا کے خیالات کو بدل سکتے ہیں مگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کی مدد سے یہ تغیر ہو سکتے ہیں.تغیرات کے ہونے میں کسی کو شک نہیں.فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کے مخالف کہتے ہیں کہ دنیا چونکہ ان باتوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں اس لئے یہ تبدیلی نہیں ہو سکتی مگر ہم کہتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ اس تبدیلی کا فیصلہ کر چکا ہے اس لئے یہ ہو کر رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا وہ اس زمانہ میں غیر ممکن نظر آتا ہے.آج سارے کے سارے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اپنی اصلی صورت میں دوبارہ قائم نہیں ہوسکتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی ہے کہ اسی صورت میں اسلام دوبارہ قائم کیا جائے گا.صرف اسلام کا نام قائم نہیں ہوگا بلکہ اس کی صورت بھی وہی ہوگی.آج ترکی اسلام کی تعلیم میں تمام تبدیلیوں کے بعد یہ کہتا ہے کہ مسلمان کامیاب ہو گئے ، ایران تمام تغیرات کے با وجو دمسلمانوں کی کامیابی کا دعویٰ کرتا ہے، ان ممالک میں سو د قائم کیا گیا ہے، پردہ اُڑا دیا کی گیا ہے ، قرآن کریم کو عربی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے ، عربی کریکٹر اور حروف کو مٹانے کی کی پوری کوشش کی جاتی ہے، ایشیائی خصوصاً عربی لباس کو مٹانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اور ان سب باتوں کے باوجود کہا یہ جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری فتح اسلام کی فتح ہے.حالانکہ ان ممالک کی فتح اسلام کی فتح نہیں کہی جاسکتی.انگریزوں کو اگر فتح ہو تو یہ کسی مذہب کی فتح نہیں بلکہ
خطبات محمود ۲۲۴ سال ۱۹۳۸ء انگریز قوم کی فتح سمجھی جائے گی کیونکہ انگریز کسی مذہب کا نام نہیں مگر اسلام مذہب کا نام ہے.اگر وہ قائم نہیں ہوتا تو اسلام کی بہر حال شکست ہے اور فتح ان لوگوں کی ہوگی جو اپنے ملک میں ایک نیا نظام قائم کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کیلئے ایسی فتح کے مدعی نہیں.آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پھر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور ہم نے یہ فتح حاصل کرنی ہے مگر ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کام کی راہ میں کس قدر مشکلات حائل ہیں.ایک ایک قدم بڑھانا ج مشکل ہو رہا ہے.بیرونی مخالفتوں کے علاوہ جماعت میں لوگوں کے اندر وسو سے پیدا ہور ہے ہیں.کئی منافق ہیں جو فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں.میں نے تحریک کی کہ لوگوں کو نبوت کے کی طریق پر لانا چاہئے اور اس پر میں یہ اعتراض سن رہا ہوں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طریق پر نہیں چلاتے تھے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ورثہ پر کوئی زور نہیں دیا اور جماعت میں اسے قائم نہیں کیا ، تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیشہ کیلئے ورثہ کے حکم کو مٹادینا کی چاہئے.اسی طرح داڑھی رکھنے کا مسئلہ ہے.آپ نے فرمایا کہ ہم تو نصیحت کر دیتے ہیں جسے ہمارے ساتھ محبت ہوگی وہ خود رکھے گا.ہماری داڑھی ہے اور جو ہمارے ساتھ محبت کرے گا وہ خود رکھ لے گا.تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ اب ہمیں داڑھی رکھنے پر کوئی زور نہیں دینا چاہئے.میرے پیش کردہ اصول پر اگر اعتراض کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سوائے ان چند عقائد کے جن کے پھیلانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں زور دیا گیا اور کسی بات کو جاری کرنا جائز نہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس پیشگوئی کے ماتحت کہ جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ ہو گی ، ان باتوں کو بعد میں آنے والوں کیلئے چھوڑ دیا کیونکہ اُس وقت جماعت اتنی پھیلی ہوئی نہیں تھی اور کسی نظام کے ذریعہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرانا مشکل تھا.پس اگر اس اصل کو مان لیا جائے کہ جس بات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جبر سے کام نہیں لیا ہمیں بھی زور نہیں دینا چاہئے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کیلئے قرآن کریم پر عمل کرنا ضروری نہیں لیکن اگر یہ بات درست نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر مناسب موقع پر اس کوشش کی جاسکتی ہے.میرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کیلئے پوری کوشش کریں خواہ ۵۰ سال کا عرصہ کیوں نہ گزر چکا ہو اور معترض کا مقام یہ ہے کہ
خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۸ء لوگ آزاد ہیں جس طرح چاہیں کریں.گویا اس کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اسلام کا قیام اصل غرض کی نہیں ، اصل غرض صرف یہ ہے کہ احمدی کہلایا جائے اور میرا یہ کہ اصل چیز صحیح اسلامی تعلیم کا قیام کی ہے صرف منہ سے احمدی کہلانا کوئی چیز نہیں.اس میں طبہ نہیں کہ دنیوی نقطۂ نگاہ سے اس کا اصول صحیح سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام ناممکن ہے مگر میں اسے بالکل ممکن سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ ہوکر رہے گا.وہ اپنے ایمان کے مطابق بات کرتا اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور میں اپنے ایمان کے مطابق امید پر قائم ہوں اور دراصل مقابلہ اس کی مایوسی اور میرے ایمان کا ہے.ایک طرف اس کی مایوسی ہے جو کہتی ہے کہ چھوڑ دو اس کوشش کو ، اس میں کامیابی نہیں اور دوسری طرف میرا ایمان کہتا ہے کہ یہ ہو سکتا ہے اور ضرور ہو کر رہے گا اس لئے ہمیں جلدی اسے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا اس کا ثواب ہمیں ہی ملے ، دوسروں کو کیوں ملے.بعد میں آنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ ثواب حاصل کرنے کے اور سامان پیدا کر دے گا اور اس جدو جہد میں جسے میں شروع کرنا کی چاہتا ہوں کامیابی کیلئے بہترین وجو د نو جوان ہی ہو سکتے ہیں.مثلاً ورثہ کو ہی لے لو.والدین کی کی وفات کے بعد ورثہ انہی کے ہاتھ میں آنا ہے اور وہی اس کو تقسیم کرنے والے ہوں گے.وہ اگر چاہیں تو اپنی بہنوں اور ماؤں کو حصہ دیں اور چاہیں تو نہ دیں.قانون ان پر کوئی جبر نہیں کرتا بلکہ قانون تھوڑ اسا جبر اس رنگ میں کرتا ہے کہ وہ حصہ نہ دیں.اگر ہمارے نوجوان اس بات کیلئے تیار ہوجائیں اور کہیں کہ خواہ ہمارے لئے کچھ بچے یا نہ بچے اور خواہ ہم غریب ہو جائیں ہم ورثہ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی تقسیم کریں گے تو ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ یہ جماعت ہے جس نے اسلام کی تعلیم کو عملاً دنیا میں قائم کر دیا ہے.پس اگر ہمارے نوجوان اصلاح کر لیں اور اقرار کر لیں کہ جس طرح بھی ہو اسلام کی تعلیم کو قائم کریں گے تو مایوس لوگ خود بخود اپنی شکست کا اقرار کر لیں گے کیونکہ جب کوئی واقعہ ہو جائے تو پھر اعتراض خود بخو دمٹ جاتے ہیں.جو لوگ بھی خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے والے ہوں گے خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر کرامات الصادقین میں ہے جس کا پہلا مصرعہ آپ فرماتے ہیں کہ الہامی ہے اور وہ یہ شعر ہے
خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۸ وَ إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ نَاصِرُ حِزْبِهِ وَ مَنْ كَانَ مِنْ حِزْبِى فَيُعْلَى وَ يُنْصَرُ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں رحمن ہوں جس کی دین اور بخشش اور رحمت سب پر وسیع ہے اور کا فرومؤمن میں کوئی فرق نہیں کرتی اور میرے دین کے جو مخالف ہیں میری رحمت ان کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے.دیکھو سانس لینے کیلئے ہوا اور پانی اور روشنی کا سامان میں نے ان کیلئے بھی جو میرے دین کی مخالفت کرتے ہیں، ویسا ہی کیا ہوا ہے جیسا مؤمنوں کیلئے کیونکہ میں رحمان ہوں.پھر یہ کوئی کیونکر خیال کر سکتا ہے کہ جو میرا ہو جائے میں اسے چھوڑ دوں گا اور اس کی مدد پر کمر بستہ نہیں ہوں گا.گویا پہلے مصرعہ کا نتیجہ آگے بیان کیا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے حزب ہو جاتے ہیں انہیں غلبہ دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے.پس جو بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو جائے اُسے مدد ملنا یقینی ہے کیونکہ جو رحمن اپنے دین کے مخالفوں کو بھی فیض سے محروم نہیں رکھتا یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو اس کا ہو جائے وہ اس کی مدد نہ کرے.وہ ماں جو غیر کے بچہ سے محبت کرتی اور پالتی ہے اپنے بچے کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ کرنا بالکل آسان ہے.خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں غیر سے بھی حسنِ سلوک کرتا ہوں.میرا سورج ہے وہ تم کو ہی نہیں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی فائدہ پہنچا تا ہے بلکہ یہ تو پھر بھی خدا کے کسی نہ کسی رنگ میں قائل ہیں، دہریوں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے.خدا تعالیٰ کے بادل آتے ہیں مگر کیا کبھی تم نے دیکھا کہ وہ مؤمن کے کھیت کو تو سیراب کریں اور غیر مومنوں کے کھیتوں کو چھوڑ دیں.کیا کبھی یہ ہوا ہے کہ اس کی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے لئے تو ٹھنڈی اور آرام پہنچانے والی ہوں مگر کافروں کیلئے گرم کو بن جائیں.وہ اسی طرح ان کو بھی لذت پہنچاتی ہیں جس طرح کی تمہیں.تو جو رحمن خدا ہے اور جس کے فضلوں کا سلسلہ اتنا وسیع ہے ، کیا تم خیال کرتے ہو کہ جو اُس کا ہو جائے وہ اُسے چھوڑ دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے جو دراصل پنجابی کا ایک پرانا شعر ہے مگر آپ پر بھی الہا م نازل ہوا ہے اور وہ یہ کہ جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو.یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اللہ تعالی ساری دنیا کو اُسی کا بنادیتا ہے اور ذرہ ذرہ کو
خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۸ء اُس کی تائید میں لگا دیتا ہے.شرارتیں بھی ہوتی ہیں، مخالفتیں بھی ہوتی ہیں ، فتنے بھی اُٹھتے ہیں مگر اُسے مٹانے کیلئے نہیں بلکہ اس کی عزت اور عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے.ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تباہ نہیں ہوا.تو لوگ کہتے ہیں کہ تم پر کوئی آفت تو آئی نہیں تم تباہ نہ ہوئے تو کون سے تعجب کی بات ہے.مگر ایک کو لوگ سمندر میں پھینکتے ہیں ، آگ میں ڈالتے ہیں مگر وہ نہیں کرتا تو دوسرے اس سے لازماً مرعوب ہوتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی غیر معمولی آدمی ہے.ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو آگ میں نہیں جلے.اور ہم سب کا یہاں موجود ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آگ میں نہیں جلائے گئے مگر کیا ہمارا نہ جلنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نہ جلنا ایک ہی بات ہے.کیا اگر کوئی کہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا تھا تو تم بھی اس کے جواب میں کہہ سکتے ہو کہ ہمیں بھی نہیں جلایا.ظاہر ہے کہ اِن دونوں کی باتوں میں کوئی نسبت ہی نہیں.تم کو آگ میں ڈالا ہی نہیں گیا مگر حضرت ابراہیم کو آگ میں کی ڈالا گیا اور پھر وہ نہیں جلے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر حملے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی ان کو تباہی سے بچاتا ہے تا وہ کہہ سکیں کہ ان کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر وہ تباہ ہوئے کی نہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعویٰ کہ وہ آگ میں نہیں جلے ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مگر تمہارا یہ کہنا کہ تم آگ میں نہیں جلے ایک پاگل کی بڑ سمجھی جائے گی کیونکہ تمہیں جلانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے بادشاہ اور رعایا سب نے اکٹھے ہو کر کوشش کی اور آپ کو آگ میں ڈال کر جلانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کر کے آگ کو بجھا دیا اور ایک ایسا نشان ظاہر کیا جس سے سب مخالف مرعوب ہو گئے اور انہوں نے اپنا ارادہ ہی چھوڑ دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھا اور یہ آخری غلبہ ہی خدا تعالیٰ کا نشان ہوتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو وہ عظمت اور شان حاصل ہے جو دوسروں کو نہیں اور یہ مقام کسی سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئے اور اسے حاصل کرے.پس یہ خیال مت کرو کہ یہ مقام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام،
خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۸ء حضرت نوح علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے مخصوص ہے.نبوت اور چیز ہے اور یہ مقام اور چیز ہے.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید حاصل کرنے کیلئے نبوت شرط نہیں بلکہ یہ کامل مؤمن کو حاصل ہو سکتی ہے.دیکھو حضرت امام حسین نبی نہ تھے اور بظاہران کو یزید کے مقابلہ میں شکست بھی اٹھانی پڑی.یزید اُس وقت تمام عالم اسلامی کا بادشاہ تھا اور اُس وقت چونکہ تمام متمدن دنیا پر اسلامی حکومت تھی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام دنیا کا بادشاہ تھا اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دنیا پر اُس کے رشتہ داروں کی حکومت رہی اور اُس وقت منبروں پر حضرت علی اور آپ کے خاندان کو گالیاں دی جاتی تھیں، یزید کو اتنی بڑی حکومت حاصل تھی کہ آجکل کسی کو حاصل نہیں.آج انگریزوں کی سلطنت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے مگر ذرا مقابلہ تو کریں بنوامیہ کی حکومت سے جن کے خاندان کا ایک فرد یزید بھی تھا.انگریزوں کی حکومت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں.فرانس سے شروع ہو کر سپین ، مراکو، الجزائر ، طرابلس اور مصر سے ہوتی ہوئی عرب، ہندوستان ، چین ، افغانستان، ایران ، روس کے ایشیائی حصوں پر ایک طرف اور دوسری طرف ایشیائے کو چک سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی جزائر تک بہ حکومت پھیلی ہوئی تھی.اس قدر وسیع سلطنت آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی.موجودہ زمانہ کی دس پندرہ سلطنتوں کو ملا کر اس کے برابر علاقہ بنتا ہے اور اتنی بڑی سلطنت کا ایک بادشاہ ہوتا تھا جن میں سے قریباً ہر ایک حضرت علی اور آپ کے خاندان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اس لئے منبروں پر کھڑے ہو کر ان کو گالیاں دی جاتی تھیں.اُس وقت کون کہ سکتا تھا کہ ساری دنیا میں امام حسین کی عزت پھر قائم ہوگی اور اُس وقت کوئی وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یزید کو بھی لوگ گالیاں دیا کی کریں گے مگر آج نہ صرف تمام اس علاقہ میں جہاں امام حسین کو گالیاں دی جاتی تھیں بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی کیونکہ بعد میں اسلامی حکومت اور بھی وسیع ہوگئی تھی گو وہ ایک بادشاہ کے ماتحت نہ رہی سب جگہ یزید کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حضرت امام حسین کی عزت کی جاتی ہے.گو آپ نبی نہ تھے ، صرف ایک برگزیدہ انسان تھے اور حق کی خاطر کھڑے ہوئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی دی.بظاہر دشمن یہ سمجھتا ہوگا کہ اُس نے آپ کو شہید کر دیا مگر آج اگر یزید دنیا میں واپس آئے (اگر چہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں کہ مردے دنیا میں واپس آئیں )
خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۸ء تو کیا تم میں سے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ یزید ہونے کو پسند کرے گا ؟ جس دن حضرت امام حسین شہید ہوئے وہ کس قدر غرور اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھتا ہوگا اور اپنی کامیابی پر کس قدر نازاں ہو گا لیکن آج اگر اُسے اختیار دیا جائے کہ وہ امام حسین کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہے یا یزید کی جگہ تو وہ بغیر ایک لمحہ کے توقف کے کہہ اُٹھے گا کہ میں دس کروڑ دفعہ امام حسین کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں.اور اگر حضرت امام حسینؓ سے کہا جائے کہ وہ یزید کی جگہ ہونا پسند کریں گے یا اپنی جگہ؟ تو وہ بغیر کسی لمحہ کے توقف کے کہہ اُٹھیں گے کہ دس کروڑ دفعہ اُسی جگہ پر جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے.کسی اور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں اگر یزید خود آئے تو اُس کا اپنا کی فیصلہ بھی یہی ہوگا.فرعون اپنے زمانہ حکومت میں حضرت موسیٰ کو کیا سمجھتا ہوگا.وہ ہنستا اور کہتا تھا کہ یہ شخص پاگل ہے، اس کا دماغ خراب ہے.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے.لیکن اگر آج فرعون کی روح دوبارہ دنیا میں لائی جائے تو بتاؤ کیا وہ اسی تخت پر بیٹھنا پسند کرے گا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ادنی خادموں میں کھڑا ہونا.وہ بغیر ایک لمحہ کے سوچنے کے کہہ اٹھے گا کہ میں موسیٰ کے ادنی ترین خادموں میں کھڑا ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کو جن کی لوگوں نے پھانسی دی وہ افسر اور وہ مجسٹریٹ جس نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ شخص حکومت کا مخالف اور لائق تعزیر ہے اور وہ علماء جنہوں نے یہ کہا کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ، اگر آج انہیں دوبارہ دنیا میں لایا جائے اور پوچھا جائے کہ بقول ان کے وہ ذلیل ماچھی جو اُس وقت حضرت عیسی کے ساتھ تھے، ان کے ساتھ کھڑا ہونا وہ زیادہ پسند کریں گے یا اس بات کو کہ ان کو روم کا شہنشاہ بنا دیا جائے.تو وہ ایک منٹ کیلئے بھی غور کئے بغیر کہہ اُٹھیں گے کہ وہ ان ماچھیوں کی رفاقت کو زیادہ پسند کرتے ہیں.آج پیٹر اور یعقوب کے نام پر کروڑوں عیسائی جان دینے کیلئے تیار ہیں مگر اُس زمانہ کے گورنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو کوئی جانتا بھی نہیں.پس تم میں سے بھی جو حزب اللہ میں اپنے آپ کو شامل کر لے گا اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کی ویسی ہی مدد کرے گی.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کے
خطبات محمود ۲۳۰ سال ۱۹۳۸ء.بعض مجسٹریٹ جماعت کے خلاف بہت بُرے ریمارکس کرتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے ہی ریمارکس حضرت عیسیٰ اور حضرت موسی علیھما السلام کے زمانہ میں ہوتے تھے.رسول کریم ا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کہی جاتی تھیں لیکن انہی بادشا ہوں اور گورنروں کی اور افسروں کو اگر سو دو سو سال بعد دنیا میں لایا جائے تو یہی کہیں گے کہ وہ باتیں سب جھوٹ تھیں اور ہمیں اس سلسلہ کی ادنی خدمت ہی زیادہ پسند ہے.جھوٹ خواہ کسی بادشاہ کی زبان سے نکلے یا وزیر کی زبان سے ، خواہ کسی وائسرائے کی زبان سے نکلے یا گورنر کی زبان سے آخر جھوٹ ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے.ظلم کبھی کسی کو عزت نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم اپنے اندر سے ظلم کو نکال دو اور حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ تو تمہیں کوئی خفیہ تدبیریں اور منصوبے جیسے آج بعض حکام کی مدد سے کئے جار ہے ہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے.یہ سب جھاگ ہے اور جھاگ ہمیشہ مٹ جاتی ہے اور پانی قائم رہتا ہے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تم حزب اللہ بن جاؤ.اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت، نیکی ، سچائی ، ہمت اپنے دلوں میں پیدا کر لو، دنیا کی بہتری کی ج کوشش میں لگ جاؤ اور بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کرو، اسلام کا کامل نمونہ بن جاؤ پھر خواہ دنیا تمہیں سانپ اور بچھو بلکہ پاخانہ اور پیشاب سے بھی بدتر سمجھے تم کامیاب ہو گے اور خواہ کتنی طاقتور حکومتیں تمہیں مٹانا چاہیں وہ کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور تم جو آج اس قدر کمزور سمجھے جاتے ہو تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ ہو گے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو دنیا کی بادشاہت مل جائے گی بلکہ میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ تم تحصیلدار بن جاؤ گے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میں یہ بھی نہیں کہتا تم ایک کانسٹیبل ہی بن جاؤ گے.ظاہری حیثیت خواہ تمہاری چپڑاسی سے بھی بدتر ہو مگر دنیا پر قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ تم کو بادشاہوں سے بڑا اور تم پر ظلم کرنے والوں کو ادنی نوکروں سے بھی بدتر نہیں بنا دیا جائے گا.قرآن کریم یہی بتا تا ہے کہ تم پر ظلم کرنے والوں کو جب تک ذلیل ترین وجودوں کی شکل میں اور تم کو معزز ترین صورت میں پیش نہ کیا کہ جائے ، قیامت قائم نہیں ہو گی.بے شک تم مر چکے ہو گے بلکہ تم میں سے بعض کی نسلیں بھی باقی نہ ہوں گی مگر نیک نامی کے مقابلہ میں نسلیں چیز ہی کیا ہیں.آج یہ بحث ہوتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی اولاد تھی یا نہیں.لیکن کیا ان کی اولاد کی
خطبات محمود ۲۳۱ سال ۱۹۳۸ء نہ ہونے سے یا اگر تھی تو معلوم نہ ہونے سے ان کی عزت کو کوئی نقصان پہنچا ہے؟ ان کی زندگی میں روم کے بادشاہ کو شاید ان کا علم بھی نہ ہو مگر آج روم کی ہی حکومت نہیں بلکہ ویسی ہی بیسیوں اور حکومتیں ان کی روحانی بادشاہت کے ماتحت ہیں.اٹلی ، جرمنی، فرانس ، سپین ، آسٹریا، ہنگری، لینڈ، رومانیہ، بلغاریہ اور چیکوسلواکیہ سب حضرت عیسی علیہ السلام کی روحانی رعایا ہیں.اُس زمانہ میں رومی سلطنت کا ایک چپڑاسی بھی آکر کہتا کہ چلئے آپ کو بلاتے ہیں تو آپ کی مجال نہ کی ہو سکتی تھی کہ انکار کریں.اُس وقت آپ کے مخالف آپ کو دکھ دینے کیلئے مشہور کیا کرتے تھے کہ آپ حکومت کے دشمن ہیں اور خود بادشاہ بنا چاہتے ہیں.جیسا کہ آجکل ہمارے مخالف ہمارے خلاف شور کرتے ہیں.ایک دفعہ اس سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا قیصر روم کو ٹیکس دینا کی جائز ہے؟ اس سوال سے غرض یہ تھی کہ اگر تو آپ کہیں گے کہ ٹیکس دینا جائز ہے تو یہودی کہہ سکیں گے کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ کس طرح ہو سکتا ہے جو روم کو ٹیکس دینا جائز قرار دیتا ہے اور اگر کہیں گے کہ ٹیکس مت دو تو حکومت کا باغی قرار پائیں گے.آپ نے اس سوال کا جواب ایک کی اور سوال سے دیا کہ روم کے سپاہی آپ لوگوں سے کیا مانگتے ہیں؟ اس کے جواب میں سوال کرنے والوں نے کہا کہ روپیہ مانگتے ہیں.اس پر آپ نے کہا کہ روپیہ پر کس کی تصویر ہے؟ سوال کرنے والوں نے کہا کہ روم کے بادشاہ کی.اس پر آپ نے فرمایا کہ جو چیز قیصر کی ہے وہ اُسے دو اور جو خدا کی ہے وہ خدا کو.کے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے فقط دین مانگتا ہوں ٹیکس بادشاہ کا حق ہے وہ اسے دو.یہی ہم کہتے ہیں کہ جو چیز انگریز کی ہے وہ اسے دو.انگریر ٹیکس مانگتا ہے جو اسے دینا چاہئے مگر ہم دل مانگتے ہیں.انگریز دل نہیں مانگتا اور مانگ بھی نہیں سکتا.جو تلوار روپیہ لیتی ہے وہ اس کے پاس ہے اور جو دل لیتی ہے وہ ہمارے پاس ہے.پس میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ حزب اللہ بنو پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں کامیاب کرتی ہے.اب بھی تمہیں اس کی نصرت حاصل ہے مگر پھر خصوصی اور فردی نصرت حاصل ہو گی.آجکل کی نصرت کی مثال تو ویسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر کو آگ لگے تو لوگ اُس کا سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر نکالتے ہیں، عزت تو اس کی ہوتی ہے مگر ساتھ ہی اس کے نوکر کا سامان بھی باہر اُٹھا لاتے ہیں.محلہ کے لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں، فائر بریگیڈ بھی ، پولیس بھی.فرض کرو
خطبات محمود ۲۳۲ سال ۱۹۳۸ء مکان کسی گورنر یا ڈپٹی کمشنر کا ہو تو جس جوش سے لوگ اُس کا سامان نکالتے ہیں اُس جوش سے اگر اُس کے نوکر کے گھر میں آگ لگے تو کبھی نہ نکالیں گے.لیکن اُسی نوکر کا سامان جب آقا کے سامان کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے تو اس کو بھی احتیاط سے نکال لیا جاتا ہے لیکن یہ نکالنا طفیلی ہوتا کی ہے.اسی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ تمہاری مدد تو کرتا ہے مگر یہ مد طفیلی ہے لیکن اگر تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ تو پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہوگی اور طفیلی بھی.اس وقت تمہاری نصرت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت سے سلسلہ کی ذلت ہو گی مگر حزب اللہ میں کی داخل ہونے کے بعد اس لئے بھی نصرت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کہے گا اس کی ذلت سے میری ذلت ہوگی.اگر یہ بدنام ہوا تو چونکہ یہ میرا دوست ہے اس لئے مجھ پر الزام آئے گا کہ میں نے دوست سے وفاداری نہیں کی.دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے.گوتم نے اُس زمانہ کو نہیں پایا مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے.پس اس قدرقریب زمانہ کے نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں اور نشانات جانے دو مسجد مبارک کو ہی دیکھو.مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے.اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانہ کی مسجد تھی اور اُس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطر میں ہوتی تھیں.اس ٹکڑہ میں تین دیوار میں ہوتی تھیں.ایک تو دو کھڑکیوں کی والی جگہ میں جہاں آجکل پہریدار کھڑا ہوتا ہے اس حصہ میں امام کھڑا ہوا کرتا تھا.پھر جہاں اب ستون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا.اس حصہ میں صرف دو قطار میں نمازیوں کی کھڑی ہو سکتی تھیں اور فی قطار غالباً پانچ سات آدمی کھڑے ہو سکتے تھے.اُس حصہ میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی تھی اور کبھی دو ہوتی تھیں.مجھے یاد ہے اس حصہ مسجد سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصہ میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی.گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہو کر کہنے لگے کہ اب تو بہت لوگ نماز میں آتے ہیں.تم نے غالباً غور کر کے وہ جگہ نہیں دیکھی ہوگی مگر وہ ابھی تک موجود ہے، جاؤ اور دیکھو.صحابہ کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں
خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۸ء قائم کر کے بھی دیکھا کرتے تھے اس لئے تم بھی جا کر دیکھو.اُس حصہ کو الگ کر دو جہاں امام کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہاں فرضی دیوار میں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطر میں ہوں گی اُن کا تصور کرو اور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر ہمیں جو حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اُس کا قیاس کرو اور پھر سوچو کہ خدا تعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں تو کیا سے کیا کر دیتے ہیں.مجھے یاد ہے ہمارا ایک کچا کوٹھا ہوتا تھا اور بچپن میں کبھی کھیلنے کیلئے ہم اُس پر چڑھ جایا کرتے تھے.اُس پر چڑھنے کیلئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں.اُس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی کی ہوگئیں، مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ ”جیہو جیا کاں او ہو جئی کو کو.میں بوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہوتا ، اس پنجابی فقرہ کے معنے نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کو ا ہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں.کوے سے مراد ( نَعُوذُ بِالله ) تمہارے ابا ہیں اور کوکو سے مراد تم ہو.مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ وہی تائی صاحبہ اگر میں کبھی ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں.میرے لئے گدا بچھاتیں اور احترام سے بٹھاتیں اور ادب سے متوجہ ہوتیں.اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں ، ضعیف ہیں پلیں نہیں یا کوئی تکلف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ تو میرے پیر ہیں.گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں ” کو کو “ تھا اور وہ بھی جب میں پیر بنا.اور ان ساری چیزوں کو دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح دل بدل دیتا ہے.پس ان انسانوں کو دیکھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو کہ جو تمہیں خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دے اور تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.مجھے افسوس ہے کہ تمہید میں ہی زیادہ وقت صرف ہو گیا اور ابھی گھنٹی نے بتایا ہے کہ ساڑھے تین بج چکے ہیں.پس چونکہ تھوڑی دیر میں ہی عصر کا وقت ہو جائے گا اس لئے میں مضمون کو ختم نہیں کر سکتا.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں اسے ختم کر دوں گا لیکن اس وقت پھر اختصار سے جماعت کے
خطبات محمود ۲۳۴ سال ۱۹۳۸ء نو جوانوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں ایک عزم اور ارادہ لے کر کھڑے ہوں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے اور اس طرز پر اپنی زندگیاں گزاریں کہ ان کا وجود ہی خدا تعالیٰ کا نشان بن جائے.یہ نہ ہو کہ صرف ان کی زبانیں نشانات بیان کریں بلکہ ایسا ہو کہ ان کے جسم بھی خدا تعالیٰ کا نشان بن جائیں اور یہ کچھ بعید نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کیلئے بھی اپنے فضلوں کے دروازے ویسے ہی کھلے رکھے ہیں جیسے ان سے پہلوں کیلئے کھولے گئے تھے.“ ( الفضل ۱۳ را بریل ۱۹۳۸ء) 66 ا بخارى كتاب الدعوات باب قول الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَصَلِّ عَلَيْهِمْ اسد الغابة جلدا صفحه ۱۲۸ ، ۱۲۹.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۴ء بخاری کتاب التفسير تفسير سورة براءة باب قوله الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوعِيْنَ (الخ) کرامات الصادقین صفحه ۴۴.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۸۶ ه تذکره صفحه ۴۷۱.ایڈیشن چہارم اِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ (الشعراء: ۲۸) کمتی باب ۲۲ آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
خطبات محمود ۲۳۵ ۱۴ سال ۱۹۳۸ نو جوانوں اور بچوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے ( فرموده ۱۵ را پریل ۱۹۳۸ ء ) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - خطبہ جمعہ شروع کرنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ آج جمعہ کی نماز کے بعد ہماری مجلس شوریٰ کا اجلاس ہونے والا ہے اور درمیان میں اس کو ملتوی کرنا کام کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی انشاء اللہ جمع کی جائے گی.اس کے بعد میں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں آج پھر کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.گزشتہ خطبات میں میں نے مجالس خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور اسی سلسلہ میں میں آج پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کی کے قیام کیلئے یہ ضروری ہے کہ اُس قوم کے بچوں کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے رنگ میں ہو کہ وہ اُن اغراض اور مقاصد کو پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں جن اغراض اور مقاصد کو لے کر وہ قوم کھڑی ہوئی ہو.جب تک کسی قوم کا کوئی خاص مقصد اور مدعا نہیں ہوتا اُس وقت تک اس کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق کوئی حج تعلیم دلا دے یا عام علوم سے واقفیت بہم پہنچا دے یا بعض پیشے انہیں سکھا دے.جب کوئی قوم نا کام کر لیتی ہے تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش سمجھی جاتی ہے.لیکن جب کوئی قوم ایک خاص مقصد اور مدعا لے کر کھڑی ہوئی ہو تو اُس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اُس مقصد اور مدعا کو کی
خطبات محمود ۲۳۶ سال ۱۹۳۸ء نو جوانوں کے ذہنوں میں پورے طور پر داخل کرے اور ایسے رنگ میں ان کی عادات اور خصائل کو ڈھالے کہ وہ جب بھی کوئی کام کریں خواہ عادتا کریں یا بغیر عادت کے کریں ، وہ اُس جہت کی طرف جارہے ہوں جس جہت کی طرف اس قوم کے اغراض و مقاصدا سے لئے جارہے ہوں.جب تک کسی قوم کے نو جوان اس رنگ میں کام نہیں کرتے اُس وقت تک اسے ترقی حاصل نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے ہیں اُس وقت عرب کا کوئی مذہب نہیں تھا اس وجہ سے جو بات بھی آپ بیان فرماتے وہ عربوں کیلئے نئی ہوتی اور اُن میں سے ہر شخص جو کی مسلمان ہوتا اس بات کو ذہن میں رکھ کر مسلمان ہوتا تھا کہ پچھلی تمام باتیں اُس نے ترک کر دینی ہیں.پس اُس زمانہ میں مسلمان ہونے کا مقصد اور مدعا آپ ہی آپ سامنے آ جاتا تھا اور کوئی کی خاص زور دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ یکدفعہ ہر شخص یہ فیصلہ کر لیتا تھا کہ اسے اپنی گزشتہ تمام باتیں ترک کرنی پڑیں گی اور نئے مقاصد، نئی اغراض ، نئی شریعت اور نئے احکام اس کے سامنے ہوں گے لیکن جب کوئی ایسا سلسلہ شروع ہو جس کی بنیاد پہلے مذہب پر ہو اور وہ خالص اصلاحی سلسلہ ہو تشریعی نہ ہو تو اس کیلئے اس مقام میں پہلی جماعتوں سے زیادہ وقتوں کا کی.سامنا کرنا پڑتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کی وقتیں پہلی جماعت کو زیادہ ہوتی ہیں مگر اس میں بھی کوئی طبہ نہیں کہ بعض قسم کی وقتیں اصلاحی سلسلہ کو زیادہ ہوتی ہیں.چنانچہ انہی دقتوں کی میں سے ایک وقت یہ ہے کہ ایسے سلسلہ کے افراد کو اس سلسلہ کے مقاصد اور اغراض سمجھانے کیلئے جد و جہد کرنا پڑتی ہے.جب نو جوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا دین کوئی نیا دین نہیں تو کی قدرتی طور پر ان کا ذہن یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ سوائے چند مستثنیات کے جن میں ہمارے آباء نے غلطی کی اور وہ اصل شریعت سے دُور جا پڑے ہر چھلی چیز کو ہم نے قائم کرنا ہے.اس وجہ سے ان کے ذہن میں کوئی امتیازی بات نہیں آتی اور وہ اس امر کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے.لیکن جب نیا دین ہو یا پہلے دین کی بعض باتوں میں تغیر و تبدل ہو تو وہ ہر قدم کے اُٹھاتے وقت یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کیوں جی! یہ کام ہم نے اس طرح کرنا ہے یا اس طرح؟ حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں جب آپ کے متبعین کے دلوں میں فقیہوں اور
خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۸ء فریسیوں کے متعلق یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم ان کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں اور انہوں نے حضرت مسیح ناصری سے یہی سوال کیا تو چونکہ معلوم ہوتا ہے اُس زمانہ میں شریعت موسویہ میں لوگوں نے زیاہ تغیر نہیں کیا تھا ، چندنی با تیں تھیں جو حضرت مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں بتا دیں اس لئے حضرت مسیح نے فرمایا : - فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گڑی پر بیٹھے ہیں.پس جو کچھ وہ تمہیں بتا ئیں وہ سب کرو اور مانولیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں لے گو یا بد عقیدگی ان میں کم تھی اور بداعمالی زیادہ تھی.اسی لئے آپ نے یہ ہدایت کر دی کہ جو کچھ فقیہی اور فریمی کہتے ہیں اُس پر بے شک عمل کرو مگر ان کے اعمال کی نقل نہ کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ کی حالت اُس زمانہ سے بالکل مختلف ہے.اس زمانہ میں مثلاً تو رات میں بہت سے تغیرات کئے جاچکے تھے مگر باوجود تغیرات کے اور باوجود تحریف والحاق کے یہودی اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ہماری کتاب محفوظ ہے مگر ہمیں ایک ایسی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو اس کے بالکل الٹ چلتی ہے یعنی تو رات میں تو تبدیلی ہو چکی تھی اور یہودی قوم یہ اصرار کرتی تھی کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوئی مگر قرآن جو کہ بالکل محفوظ ہے اس کے متعلق مسلمان کہتے ہیں کہ اس کی کئی آیتیں منسوخ ہیں.اب یہ کتنا عظیم الشان اختلاف ہے اُس زمانہ کے یہودیوں اور اس زمانہ کے مسلمانوں میں.وہ با وجود کتاب کے بگڑ جانے کے کہتے تھے کہ ہماری کتاب بالکل محفوظ ہے اور مسلمان باوجود اس کے کہ خدا کہتا ہے کہ اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں اور اس کے ایک حرف اور ایک شععہ کی تبدیلی بھی ناممکن ہے، مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اس کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں قرآنی احکام پر عمل کرنے کا جوش باقی نہیں رہا کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں شک پیدا ہو گیا.اور جب کسی حکم کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے تو جوش عمل باقی نہیں رہتا اور ہر آیت پر عمل کرتے وقت انسانی قلب میں یہ وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے جس آیت پر میں عمل کر رہا ہوں یہ منسوخ ہی ہو.چنانچہ پانچ آیتوں سے لے کر چھ سو آیتیوں تک منسوخ قرار دی جاتی ہیں.یعنی بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی پانچ آیتیں منسوخ ہیں اور بعض نے زیادہ.یہاں تک کہ بعض علماء نے کی
خطبات محمود ۲۳۸ سال ۱۹۳۸ء منسوخ آیات کی تعداد چھ سو تک پہنچادی ہے.اب چھ سو آیتیں قرآن مجید کا ایک معتد بہ حصہ ہیں جن کو اگر الگ کر لیا جائے تو ایک خاصہ حصہ علیحدہ ہو جاتا ہے مگر مسلمانوں کو اس امر کی کوئی پرواہ نہیں.ان کی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں اور اب تک مسلمان ان کے قائل ہیں.شیعہ لوگوں نے گو اس رنگ میں قرآنی آیات کو منسوخ قرار نہیں دیا مگر انہوں نے اتنا ضرور کہہ دیا ہے کہ قرآن کریم کے بعض حصے اُڑا لئے گئے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور اس کی صفات کے متعلق مسلمانوں میں بیسیوں غلطیاں پائی جاتی ہیں.یہ نہیں کہ شروع سے مسلمانوں میں یہ غلطیاں پائی جاتی تھیں بلکہ قریب کے زمانہ میں آکر مسلمانوں میں یہ غلطیاں پیدا ہوئی ہیں.ور نہ قرونِ اولیٰ کا لٹریچر انہی عقائد کی تائید کرتا ہے جو آج ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.سوائے اُس حصہ قرآن کی تشریح کے جو اُس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ موجودہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.قرآن کریم کے بعض حصے ایسے ہیں جو پہلے زمانہ سے تعلق رکھتے تھے اور بعض کی حصے ایسے ہیں جو خصوصیت سے اس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں.پس جو حصہ قرآن کریم کا پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا اُس میں قرونِ اولیٰ کے صحابہ، آئمہ اور مجددین ہماری ہی تائید میں نظر آتے ہیں اور یہ تمام باتیں ان کی کتابوں میں اب تک موجود ہیں گو بد قسمتی سے مسلمان انہیں بھول چکے ہیں.غرض اس وقت نہ صرف مسلمانوں کے اعمال میں نقص ہے بلکہ ان کے عقائد اور ان کے خیالات بھی قابل اصلاح ہیں.ایسی حالت میں جب تک نو جوانوں میں بیداری پیدا نہ کی جائے اور انہیں یہ ہدایت نہ کی جائے کہ وہ اپنا قدم پھونک پھونک کر رکھیں اُس وقت تک ہم میں بھی بعض غلطیاں پیدا ہونے کا امکان ہے.ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں اور یہی صحیح امر ہے کہ قرآن کریم میں تبدیلی ناممکن ہے.ہم صرف اُن غلطیوں کو دور کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور چونکہ اس رنگ میں انسان بعض دفعہ سُست بھی ہوتا ہے اس کی لئے اپنے کام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.میں نے بتایا تھا کہ قوم کے نوجوانوں کے اندر اس قسم کی بیداری اور ہوشیاری پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی جائے اور اس میں ایسے نوجوان شامل کئے جائیں جو عملی رنگ میں اپنی ایسی اصلاح کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اُن کا وجود دوسروں کیلئے نمونہ
خطبات محمود ۲۳۹ سال ۱۹۳۸ء بن جائے.علاوہ ازیں بعض اور بھی نقائص ہیں جو مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور جو زمانہ کی مخفی رو یا ورثہ کے اثرات کے ماتحت ہماری جماعت کے بعض افراد میں بھی پائے جاتے ہیں.ایسی مجالس کے قیام کی ایک غرض ان نقائص کو دور کرنا بھی ہوگی.مثلاً ہندوستانی ایک عرصہ سے غلامی کی زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں اور میں نے بار ہا بتایا ہے کہ غلامی کی زندگی اپنے ساتھ بعض نہایت ہی تلخ اور نا خوشگوار نتائج لاتی ہے.مثلاً غلامی کی ذہنیت جن لوگوں کے اندر پیدا ہو جائے وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے.فاتح اقوام ہمیشہ اس کوشش میں رہتی ہیں کہ غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہماری تجارت اعلیٰ ہو، غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہماری دفاعی کوششیں مضبوط ہوں، غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہمارا تعلیمی معیار زیادہ بلند ہو، غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہماری صنعت و حرفت نہایت بلند پایہ ہو.اسی طرح اور بیسیوں باتیں ہیں جو اُن کی کے دلوں میں جوش پیدا کرتی رہتی ہیں اور ہر سال ان باتوں پر جھگڑے رونما ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں قوم میں بیداری اور بلند خیالی پیدا ہو جاتی ہے.مگر غلام قوم کے معنے یہ ہیں کہ اس کی تمام جد و جہد صرف اس امر پر آکر ختم ہو جاتی ہے کہ مزدوری کی اور پیٹ پال لیا یا مدر سے گئے اور تعلیم حاصل کر لی.بظاہر یہ ایک آرام کی زندگی نظر آتی ہے مگر دماغی لحاظ سے کی قتل عامہ کی حیثیت رکھتی ہے.کیونکہ تمام قوم کا ذہن مُردہ کر دیا جاتا ہے اور وہ قوم مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے.اس کی مثال بالکل اس طوطے کی سی ہو جاتی ہے جسے کئی سال تک پنجرے میں بند ہے رکھنے کے بعد جب آزاد کیا جاتا ہے تو وہ اِدھر اُدھر پھدک کر پھر پنجرے میں ہی آ بیٹھتا کیونکہ اُڑنے کی ہمت اس میں باقی نہیں رہتی.اسی طرح غلام قوموں میں سستی اور غفلت کو کی امن اور آرام سمجھا جاتا ہے اور اُمنگوں کا فقدان اس قوم میں اطمینان قرار پاتا ہے.جب ان میں سے کوئی شخص یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں بڑے اطمینان کی زندگی بسر کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا دل اُمنگوں سے بالکل خالی ہے.اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ دیکھو مجھے کیسا امن کی اور چین نصیب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر قسم کی جدو جہد اور ترقی کے راستے میرے لئے مسدود ہو چکے ہیں.غرض ان عیوب اور نقائص کو دور کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ ہمیں جو تعلیم
خطبات محمود ۲۴۰ سال ۱۹۳۸ دی گئی ہے وہ انسانی اُمنگوں اور جذبات کو چلتی نہیں بلکہ انہیں بڑھاتی اور ترقی دیتی ہے.وہ تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا نے کسی انسان کو غلام نہیں بنایا اور کوئی انسان کسی دوسرے کو غلام بنا بھی کی نہیں سکتا جب تک وہ خود غلام نہ بن جائے.اس تعلیم کے ماتحت ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ترقی کا جب کوئی ایک راستہ ہمارے لئے مسدود ہو جائے تو اللہ تعالیٰ بعض اور راستے ہمارے لئے کھول دیتا ہے اور اگر ہم ان راستوں کو اختیار کریں تو بالکل ممکن ہے کہ جو آج ہم پر افسر ہیں وہ کل ہمارے غلام ہو جائیں.مثلاً انہی ذرائع میں سے ایک ذریعہ تبلیغ ہے یا اپنی اخلاقی برتری کی کا ثبوت مہیا کرنا ہے.دنیا میں اخلاقی برتری کے ہوتے ہوئے کبھی کوئی قوم غلام نہیں ہوسکتی.غلام قوم وہی ہوگی جو اخلاق میں بھی پست ہوگی.ہمارے ملک میں عام طور پر انگریزوں کو بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اُن بعض خیالات اور عقائد کو مستی کر کے جن میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے اور جن میں ہم انہیں غلطی پر سمجھتے ہیں، عملی رنگ میں ان کو دیکھا جائے تو ایک ہندوستانی اور انگریز میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.ایک انگریز کی کوشش ، اُس کی جد و جہد ، اُس کی جی قربانی اور اُس کا ایثار اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی کی جدوجہد کی اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.وہ یورپ سے چلتے اور ہندوستان میں آکر سالہا سال تک تبلیغ کرتے ہیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ پادری کیا ہیں انگریزوں نے انہیں اپنے سیاسی غلبہ کے حصول کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے.پھر اگر ان کی تبلیغ کا ذکر آئے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اجی ! یہ ان کی تبلیغ کی اپنے فائدہ کیلئے ہے.مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے فائدہ کیلئے جو قربانیاں کرتے ہیں کیا اس قسم کی قربانیاں ایک ہندوستانی نہیں کر سکتا ؟ وہ چالیس چالیس، پچاس پچاس بلکہ ساٹھ ساٹھ سال تک ہندوستان میں رہتے ہیں ، یہیں بوڑھے ہوتے اور یہیں مرجاتے ہیں اور واپس جانے کا نام تک نہیں لیتے مگر ایک ہندوستانی یا تو آوارہ ہو کر گھر سے نکلے گا یا اگر آوارہ نہ ہوگا تو غیر ملک میں جانے کے چند سال کے بعد ہی شور مچانا شروع کر دے گا کہ مجھے واپس بلا لو.غرض یا تو آوارہ ہو کر گھر سے نکلتا ہے اور اگر آوارہ ہو کر گھر سے نہیں نکلتا تو غیر ممالک میں ہمیشہ بے کل رہتا اور واپسی کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے.اس کے مقابلہ میں یورپین قومیں آوارہ ہو کر اپنے ممالک سے نہیں نکلتیں.وہ کام کیلئے نکلتی ہیں اور پھر جب کسی دوسرے ملک میں اپنا کام
خطبات محمود ۲۴۱ سال ۱۹۳۸ شروع کر دیتی ہیں تو گھبراتی نہیں اور جو تکلیف بھی انہیں برداشت کرنی پڑے اُسے خوشی سے برداشت کرتی ہیں.مگر یہ نتیجہ ہے اُن کی آزادی اور حریت کا اور ہمارے آدمیوں کی سستی اور غفلت نتیجہ ہے ان کی غلام ذہنیت کا.اگر یہ ذہنیت مٹ جاتی اور وہ سمجھ لیتے کہ ترقی کا صرف ایک ہی ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بیسیوں ذرائع خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں تو وہ سستی اور غفلت میں مبتلا ہونے کی بجائے جد و جہد کرتے اور ایثار اور قربانی سے کام لیتے اور پھر دیکھتے کہ اس کے کیسے خوشگوار نتائج نکلتے ہیں.جیسے ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو یہ آواز سنتے ہی کہ آؤ اور خدمتِ دین کیلئے اپنی زندگی وقف کر دو نہایت خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کر دیتا اور غیرممالک میں نکل جاتا ہے.چنانچہ بعض تو بغیر کسی سرمایہ کے غیر ممالک میں کام کر رہے اور نہایت اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں.تو مجالس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ نو جوانوں کے سامنے وہ مقاصد رکھے جائیں جن کے بغیر ان میں ارتقائی روح پیدا نہیں ہوسکتی اور جن کے بغیر جماعت کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی.ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس وقت ایک ذہنی آزادی عطا کی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اُس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن بہر حال وہ عرصہ غیر معمولی طور پر لمبا نہیں ہو سکتا ) ہمیں کی تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی.اب یہ خیال ایک منٹ کیلئے بھی کسی بچے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیدا نہیں کرسکتا.جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ اُن سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے.ہم انگریزی قوم کی کو عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب دیکھتے ہیں مگر مستقل طور پر اسے اسلام کا غلام بھی دیکھ کچ رہے ہیں.ہماری مثال اس وقت ایسی ہی ہے جیسے کوئی بڑا آدمی جب کسی چھوٹے آدمی کے ہاں بطور مہمان جاتا ہے تو کچھ عرصہ کیلئے وہ اُس کے قوانین کا پابند ہوتا ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا آدمی ہو جب کسی دوسری جگہ جائے تو وہاں کی
خطبات محمود ۲۴۲ سال ۱۹۳۸ء کے امام کے تابع ہو کر رہے خواہ وہ امام چھوٹا ہی ہو کے اسی طرح جب گورنر کسی دورہ پر جاتا ہے تو گو وہ بڑا ہوتا ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی مرضی اور اُس کے بنائے ہوئے پروگرام کے ماتحت اُسے کام کرنا پڑتا ہے.حضرت عمرؓ جب شام میں گئے تو حضرت ابو عبید کا جو وہاں کے امیر تھے اُنہوں نے دریافت کیا کہ آپ کا پروگرام کیا ہو گا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہاں میرا پروگرام نہیں بلکہ تمہارا پروگرام ہوگا اور جو کچھ تم کہو گے اُسی طرح میں کروں گا.اب حضرت عمرؓ کا اُس وقت ایک قسم کی ماتحتی قبول کر لینا یہ معنے نہیں رکھتا کہ حضرت عمرؓ نے دوسرے کی غلامی پسند کر لی.عمر بہر حال عمرؓ تھے.وہ حاکم تھے ، روحانی بادشاہ تھے اور خلیفہ وقت تھے.حضرت ابو عبیدہ اُن کے تابع تھے مگر تھوڑی دیر کیلئے حضرت عمرؓ نے بھی ان کی ماتحتی اختیار کر لی.اسی طرح ہم جو ڈ نیوی احکام کو ملتے ہیں تو اس رنگ میں ملتے ہیں کہ انہیں اس وقت عارضی طور پر ہم پر برتری حاصل ہے مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کل وہ ہمارے شاگرد ہوں گے اور ہر قسم کی ترقی کے حصول کے سبق وہ ہم سے سیکھیں گے.اگر اس خیال کو ہم اپنی جماعت کے افراد کے ذہنوں میں پورے طور پر زندہ رکھیں اور اسے مضبوط کرتے چلے جائیں تو ایک منٹ کیلئے بھی ہماری جماعت کے نو جوانوں کے دلوں میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا.جیسے اُس بالا افسر کے دل میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا جو تھوڑی دیر کیلئے کسی چھوٹے افسر کے ہاں جاتا اور اس کے پروگرام کا پابند ہو جاتا ہے.پس جماعت کے تمام دوستوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے ہاں نو جوانوں کو منظم کریں اور ان کی ایک مجلس بنا کر خدام الاحمدیہ اُس کا نام رکھیں اور انہیں سلسلہ کے وقار کے تحفظ اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے کام کرنے کی ترغیب دیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی گوا تفاقی طور پر وقت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے میں بعض باتیں بیان نہیں کر سکا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اگلے خطبہ میں میں ان باتوں کو بیان کروں گا.اُس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگلے جمعہ کو تمام جماعتوں کے نمائندے آنے والے ہیں شاید آج اس مضمون کا کچھ حصہ رہ جانے میں یہی حکمت ہو کہ میں جماعت کے تمام دوستوں کو براہ راست اس امر کی طرف توجہ دلاؤں کیونکہ
خطبات محمود ۲۴۳ سال ۱۹۳۸ء اخبار میں خطبہ کا پڑھ لینا اور بات ہے اور زبان سے کوئی بات سننا اور اثر رکھتا ہے.پس اب چونکہ تمام جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اس لئے میں ان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر نوجوانوں میں یہ تحریک کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں.اس مجلس کے قواعد میں تجویز کر رہا ہوں اور بعض موٹے موٹے قواعد جو میں نے بتائے تھے وہ تو غالبا مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان نے شائع بھی کر دیئے ہیں لیکن بہر حال تفصیلی قواعد انہیں پہنچ جائیں گے.اس وقت اس کے ایک اور حصہ کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو بالخصوص مرکزی کی مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ کہ نو جوانی میں بے شک خدمت دین کا کام کرنا اچھا ہوتا ہے کیونکہ ادھیڑ عمر میں بعض دفعہ انسان ان کاموں کے کرنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے مگر اس کی سے بھی بڑھ کر ایک اور کام ہے اور وہ یہ کہ بچوں کے اندر بھی یہی جذبات اور یہی خیالات پیدا کئے جائیں کیونکہ بچپن میں ہی اخلاق کی داغ بیل پڑ جاتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کی کاموں کی داغ بیل جوانی میں پڑتی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل کی بچپن میں پڑتی ہے.جوانی میں جن کاموں کی داغ بیل پڑتی ہے وہ بالعموم عملی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انسان کا ذہن بُرے اور بھلے کی تمیز کر لیتا ہے.مگر قو میں صرف بُرے اور بھلے کی تمیز سے ہی ترقی نہیں کیا کرتیں بلکہ قوم کی ترقی کیلئے اچھی عادتوں کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.بے شک عادت بعض لحاظ سے نقصاں رساں بھی ہوتی ہے مگر عادت در حقیقت قومی ترقی کا ایک کی ضروری حربہ بھی ہوتی ہے.کسی قوم کو نیک اخلاق کی عادت ڈال دو وہ خود بخود باقی اقوام پر غالب آنے لگ جائے گی اسی طرح جب کسی قوم میں بد عادات پیدا ہو جائیں تو وہ خود بخو دگرتی چلی جاتی ہے اور اگر اسے کسی بات کی بھی عادت نہ ڈالو تو اس قوم میں ایک تزلزل رہے گا.کبھی اخلاقی رو غالب آگئی تو وہ ترقی کر جائے گی اور اگر اخلاقی رو دب گئی تو وہ گر جائے گی.تو اصل حقیقی چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہومگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے.عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے.پس خدام الاحمدیہ کی
خطبات محمود ۲۴۴ سال ۱۹۳۸ء ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال عمر کے بچوں سے لے کر ۱۵ ، ۱۶ سال کی عمر تک کے بچے شامل ہو سکیں.یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اُس کے ماتحت بچوں کو کی شامل کیا جائے.بہر حال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہئے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں مگر یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ ان بچوں کے نگران نو جوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں.پس خدام الاحمدیہ کو اس مقصد کے ماتحت اپنے اندر کچھ بوڑھے نو جوان بھی شامل کرنے چاہئیں یعنی ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل جوان ہوں اور وہ خدمت دین کے لئے نہایت بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں.ایسے لوگوں کے سپر د بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں میں با قاعدہ لائیں.سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھا ئیں ، پریڈ کرائیں اور اسی کی طرح کے اور کام ان سے لیں جن کے نتیجہ میں محنت کی عادت ، سچ کی عادت اور نماز کی عادت ان میں پیدا ہو جائے.اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کر دی جائیں تو یقیناً جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں.پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے ، سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور نمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے.نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیں اگر کوئی قوم چاہتی ؟ ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے.اسی طرح سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے.جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاق فاضلہ بھی نہیں اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں.جس قوم میں محنت کی عادت نہیں اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں.گویا یہ تین معیار ہیں جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی.پس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو چاہئے کہ اپنی ایک شاخ بچوں کی بھی قائم کریں مگر ان کے نگران ایسے لوگ مقرر کریں جو کم سے کم چالیس سال کے ہوں اور بہتر ہوگا اگر وہ اس سے بھی زیادہ عمر کے ہوں اور اپنے اندر ہمت اور استقلال رکھتے ہوں ، ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ
خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۸ء وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں کھلا ئیں، انہیں وقت ضائع کرنے سے بچائیں ، نمازوں کیلئے با قاعدہ لے جائیں اور اخلاق فاضلہ ان میں پیدا کریں.اور گو تفصیلی طور پر تمام اخلاق کا پیدا کرنا ہی ضروری ہے مگر یہ تین باتیں خاص طور پر ان میں پیدا کی جائیں.یعنی نمازوں کی باقاعدگی کی عادت، سچ کی عادت اور محنت کی عادت.باقی ہمارے ملک میں بعض اور بھی اخلاقی خرابیاں ہیں جن کا دُور کرنا ضروری ہے.مثلاً ہمارے ملک میں گالی دینے کا عام طور پر رواج ہے اور س میں شرم و حیا سے کام نہیں لیا جاتا.مجھے یاد ہے حضرت خلیفتہ امسیح الا قول کو جب چوٹ لگی تو مرہم پٹی کرنے کیلئے ایک مخلص دوست مقرر تھے مگر اُن کی زبان پر بہن کی گالی بہت چڑھی ہوئی تھی.ایک دن جبکہ حضرت خلیفہ اول کے پاس ہم سب بیٹھے ہوئے تھے اور باہر سے بھی کچھ مہمان آئے ہوئے تھے ایک دوست نے برسبیل تذکره دریافت کیا کہ ابھی حضرت صاحب کا زخم اچھا نہیں ہوا ؟ اس پر وہ بے اختیار زخم کو بہن کی گالی دے کر کہنے لگے یہ اچھا ہونے میں آتا ہی نہیں.حضرت خلیفہ اول اُس وقت سامنے بیٹھے تھے اور باقی سب دوست بھی موجود تھے.اُن کے منہ سے جب اس مجلس میں یہ گالی کی نکلی تو ہم سب پر ایک سکتے کی حالت طاری ہوگئی مگر پھر ہم یہی سمجھ کر خاموش ہور ہے کہ ان بیچاروں کو اس گالی کی عادت پڑی ہوئی ہے.تو گالی دینے کی عادت ہی جب کسی شخص میں پیدا ہو جاتی ہے اُس کا مٹانا بہت مشکل ہو جاتا ہے.اسی طرح اور کئی قسم کی بُری عادتیں ہیں جو ہمارے ملک میں لوگوں کے اندر پائی جاتی ہیں.اِن عادتوں کو مٹا کر ان کی جگہ اگر نیک عادتیں پیدا کر دی جائیں تو لا ز ما قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے.پس مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ نو جوانوں کی اصلاح کریں بلکہ ان کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی اصلاحی شاخ الگ قائم کریں اور اس کے ذریعہ جو چھوٹی عمر کے بچے ہیں اُن کی تربیت کریں.میں اس کیلئے بھی إِنْشَاءَ الله تَعَالیٰ انہیں قواعد تیار کر دوں گا.سر دست جو تین باتیں میں نے بتائی ہیں ان پر انہیں عمل کرنا چاہئے.یعنی بچوں میں نماز کی عادت ، سچ کی عادت اور محنت کی عادت پیدا کرنی چاہئے.محنت کی عادت میں آوارگی سے بچنا خود آجاتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ بھی
خطبات محمود ۲۴۶ سال ۱۹۳۸ء اور بیرونی جماعت کی مجالس بھی ان اصول کے ماتحت اپنے کام کو محنت سے سرانجام دیں گی اور ی خدمت خلق کے کام کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھیں گی.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہو سکے وسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہئے خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ.ہمارا خدا ربُ العالمین ہے اور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اُسی طرح اُس نے ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے.پس ج اگر خدا ہمیں توفیق دے تو ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہئے.یہاں قادیان میں بعض مجبور یوں کی وجہ سے ہم عارضی طور پر ہندوؤں سے سو دا نہیں خریدتے مگر بیسیوں ہندو اور سکھ ہمارے پاس امداد کیلئے آتے رہتے ہیں اور ہم ہمیشہ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں.ایک دفعہ کانگریس کی ایک مشہور لیڈر یہاں آئیں اور انہوں نے کہا کہ یہاں کے ہندوؤں کو بہت تکلیف ہے.میں نے کہا میں ایسی بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں جب یہ ہندو میرے پاس آئے اور میں نے ان کی امداد کی اور ان پر بڑے سے بڑے احسان کئے.چنانچہ بعض واقعات میں نے انہیں بتائے کی بھی.وہ میری باتیں سُن کر حیران ہو گئیں اور کہنے لگیں یہ بات ہے میں نے کہا آپ ان سے کی پوچھ لیجئے کہ آیا فلاں فلاں مواقع پر میں نے ان کی مدد کی ہے یا نہیں ؟ اور اب بھی میں ان کے ساتھ موقع ملنے پر حُسنِ سلوک ہی کرتا ہوں مگر انہوں نے پھر ہندوؤں سے پوچھا نہیں شاید میری کی بات پر ہی اعتماد کر لیا یا انہیں پوچھنے کا موقع نہ ملا.تو حسن سلوک میں کسی مذہب کی قید نہیں ہونی چاہئے اور جو شخص بھی اس قسم کے حسن سلوک میں مذہب کی قید لگاتا اور اپنے ہم مذہبوں کی خدمت کے کام کرنا تو ضروری سمجھتا ہے مگر غیر مذہب والوں کی خدمت کرنا ضروری نہیں سمجھتا وہ اپنا نقصان آپ کرتا ہے اور دنیا میں لڑائی جھگڑے کی روح پیدا کرتا ہے.پھر جو تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں اُن کیلئے تو یہ بہت ہی ضروری ہوتا ہے کہ وہ ساری قوموں سے حسن سلوک کریں اور کسی کو بھی اپنے دائرہ احسان سے باہر نہ نکالیں.تا تمام قو میں اُن کی مداح بنیں.پس وہ خدمت خلق کے کاموں میں مذہب وملت کے امتیاز کے بغیر حصہ لیں اور جماعت کے جو اغراض اور مقاصد ہیں اُن کو ایسی وفاداری کے
خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۸ء ساتھ لے کر کھڑے ہو جائیں کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں ان کیلئے اپنی جان قربان کر دینا کوئی کی دو بھر نہ ہو.جب کسی قوم کے نوجوانوں میں یہ روح پیدا ہو جائے کہ اپنے قومی اور مذہبی مقاصد کی تعمیل کیلئے جان دے دینا وہ بالکل آسان سمجھنے لگیں اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت انہیں مار نہیں سکتی.جس چیز کو مارا جا سکتا ہے وہ جسم ہے مگر جس شخص کی روح ایک خاص مقصد لے کر کھڑی ہو جائے اُس روح کو کوئی فنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.بلکہ ایسی قوم کا اگر ایک شخص مرے تو اُس کی جگہ دس پیدا ہو جاتے ہیں.میں ہمیشہ یہ سمجھا کرتا ہوں کہ قصے کہانیوں میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں نے ایک دیو مارا تو اس کے خون کے قطروں سے دس دیو اور پیدا ہو گئے ، یہ ذہنی قتل کے ناممکن ہونے کو ایک تمثیل کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب کسی قوم کے ذہن میں راسخ کی طور پر کوئی نیک عقیدہ پیدا ہو جائے اُس وقت اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا.اور اگر اس قوم کے کسی فرد پر کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا اور اُسے قتل کرتا ہے تو اُس کی موت ایسی شاندار ہوتی ہے کہ ہزاروں اس کے قائمقام پیدا ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہمیشہ یہ نظارہ نظر آیا ہے اور اب بھی یہ نظارہ نظر آسکتا ہے بشرطیکہ ہمارے نوجوان یہی روح اپنے اندر پیدا کر یں.پھر نہ انہیں وطن میں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ غیر ملک میں ان کو کوئی مٹا سکتا ہے.کیونکہ وہ اس روح کے نتیجہ میں وہی لوگ بن جائیں گے جن کو اسی دنیا میں خدا تعالیٰ ایسی زندگی دے دیتا ہے جس پر موت نہیں آتی اور ایسی حیات دے دیتا ہے جس پر فنا طاری نہیں ہوتی.چونکہ اب نماز کے بعد مجلس شوریٰ کا اجلاس ہونے والا ہے اس لئے میں خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو فرض شناسی کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت کے دوسرے افراد کے دلوں میں بھی ایسی روح پیدا کرے کہ وہ دوبارہ اُسی اسلام کو دنیا میں قائم کر کے دکھا دیں جس اسلام کو آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا.“ (الفضل ۲۲ را پریل ۱۹۳۸ء ) ا متی باب ۲۳ آیت ۲ ،۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء مسلم كتاب المساجد باب مَنْ اَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ
خطبات محمود ۲۴۸ ۱۵ سال ۱۹۳۸ ا.مجلس شوریٰ میں تنقید کے اصول ۲.جماعت احمدیہ اور حکام کے تعلقات (فرموده ۲۲ را پریل ۱۹۳۸ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ” میرے سامنے ایک سوال اُٹھایا گیا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جماعت کے سامنے اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت ہے تا جس جس حصہ میں کوئی نقص ہے اس کی اصلاح ہو سکے.مجھ سے کہا گیا ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر ناظروں کے کام پر جس رنگ میں تنقید کی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ناظروں کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ان کا مقام جماعت کی نگاہ میں گر جاتا ہے اور یہ کہ اس تنقید کا موجب وہ تنقید ہوتی ہے جو کبھی میری طرف سے ناظروں کے کام پر کی جاتی ہے.میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ اگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں کی میں سلسلہ کے کام کی باگ ڈور ہو، اُن کی حیثیت اور مقام لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے اور لوگوں میں ان کی سبکی کر دی جائے تو کام میں وقتیں ضرور پیدا ہوتی ہیں.اگر یہ امر واقعہ ہو کہ کی موجودہ حالات میں ناظروں کا مقام اور ان کی حیثیت اور ان کے عہدے کا اعزاز اور اکرام کم ہو گیا ہوا ور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں کہ ان کو کام میں دقتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ہونے کا خطرہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس سوال کے کئی حصے ہیں اور وہ
خطبات محمود ۲۴۹ سال ۱۹۳۸ الگ الگ توجہ کے محتاج ہیں.پس میں انہیں علیحدہ علیحدہ لیتا ہوں.پہلا حصہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی تنقید خواہ وہ تربیت کیلئے ہو یا تا دیب کیلئے یا ہدایت کیلئے وہ کی شوری کے دوسرے ممبروں کے دلوں میں تنقید کا ایسا مادہ پیدا کر دیتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں تنقید حد سے زیادہ گزر جاتی ہے.جو لوگ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے رہتے ہیں اور قسم قسم کے لوگوں سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے متعلق دونوں قسم کی شکایتیں سنی جاتی ہیں.ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ناظروں کی پیٹھ ٹھونکتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کا نظام درست نہیں ہوسکتا.ذرا کسی نے کسی ناظر پر اعتراض کیا تو انہوں نے فوراً اسے گرفت شروع کر دی.اور یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے ناظروں کا صحیح طور پر اعزاز قائم نہیں کیا جاتا اور ایسی تنقید ان کے کام پر کی جاتی ہے جس سے وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائیں.ان دونوں سوالوں کی موجودگی میں یہ ماننا پڑے گا کہ صداقت بہر حال تین میں سے ایک صورت میں ہے.یا تو کی پہلا اعتراض غلط ہو گا کہ یہ ناظروں کے مقابلہ میں جماعت کو زیادہ ڈانٹتے ہیں اور یا پھر یہ غلط ہوگا کہ جماعت کے مقابلہ میں ناظروں پر تنقید میں سختی کرتے ہیں.یا پھر یہ کہ دونوں ہی اعتراض غلط ہوں گے.یہ تین صورتیں ہی ممکن ہوسکتی ہیں ان کے سوا کوئی نہیں.لیکن ان تینوں صورتوں پر غور کرنے سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ کا مقام کیا ہے.مجلس شوری ہو یا تی صدر انجمن احمدیہ، خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی سرداری کا ہے.انتظامی لحاظ سے وہ صدرا انجمن کیلئے بھی رہنما ہے اور آئین سازی و بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوری کے کی نمائندوں کیلئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے.جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کر لئے جائیں تو وہ اِس کا بھی سردار ہے اور اُس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے.اس لحاظ سے اس کیلئے یہ نہایت کی ضروری ہے کہ جب کبھی وہ اپنے خیال میں کسی حصہ میں کوئی نقص دیکھے تو اس کی اصلاح کرے.اپنے خیال میں میں نے اس لئے کہا ہے کہ انسان ہمیشہ غلطی کر سکتا ہے اور خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے.میں نے کبھی اس عقیدہ کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی یہ اسلامی عقیدہ ہے کہ ا
خطبات محمود ۲۵۰ سال ۱۹۳۸ء خلیفہ غلطی نہیں کر سکتا.اور بشری انتظام میں جب نبی بھی غلطی کر سکتا ہے تو خلیفہ کی کیا حیثیت ہے.پس یقیناً خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے.سوال یہ نہیں کہ امکان کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ موقع کا تقاضا کیا ہے.یہ عین ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے میں غلطی کی کر جائے لیکن کیا اس غلطی کے امکان کی وجہ سے اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق انتظام کا اسے جو حق ہے وہ مارا جاتا ہے.ساری دنیا بالا تفاق اس بات کو مانتی ہے کہ باپ خواہ فیصلہ غلط کی کرے یا درست، اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق بہر حال اُس کو ہے.یہی صورت خلیفہ کے بارہ میں ہے.اس کی نسبت غلطی کا امکان منسوب کر کے اس کی ذمہ داری کو اُڑایا نہیں جاسکتا لیکن یہ ادنی تمثیل ہے.باپ اور خلیفہ کے مقام میں کئی فرق ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری شریعت کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ جسے خلیفہ بناتا ہے اُس سے ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کیلئے نقصان کا موجب ہو.گویا عصمت کبری تو بطور حق کے انبیاء کو حاصل ہوتی ہے لیکن عصمت صغریٰ خلفاء کو بھی حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ کی فرماتا ہے کہ جو کام خلفاء کریں گے اُس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ لازمی ہوگا.ان کے فیصلوں میں بجوئی اور معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں ، ادنی کو تا ہیاں ہو سکتی ہیں مگر انجام کا رنتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی یہ خلافت کیلئے ایک معیار قائم کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَيْمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضَى لَهُمْ لاے دین کے معنے مذہب کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی دیکھ لو خلفائے اربعہ کا ہی مذہب دنیا میں قائم ہوا ہے.بے شک بعض علیحدہ فرقے بھی ہیں مگر وہ بہت اقلیت میں ہیں.اکثریت اسی دین پر قائم ہے جسے خلفائے اربعہ نے پھیلا یا مگر دین کے معنے سیاست وحکومت کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جس سیاست اور پالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ کی اسے ہی دنیا میں قائم کرے گا اور بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہے ، خدا تعالیٰ کی کی پالیسی بھی وہی ہوگی.بے شک بولنے والے وہ ہوں گے، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی ، ہاتھ انہی کے چلیں گے اور پیچھے دماغ انہی کا کام کرے گا مگر دراصل ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ ہوگا.کبھی ان سے جودنیات میں غلطیاں ہوں گی، کبھی ان کے مشیر غلط مشورہ دیں گے.
خطبات محمود ۲۵۱ سال ۱۹۳۸ء بعض دفعہ وہ اور ان کے مشیر دونوں غلطی کریں گے لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہیں ہی حاصل ہوگی.جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنیں گی وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط کہ کوئی اسے توڑ نہ سکے گا.پس اس لحاظ سے خلیفہ وقت کا یہ فرض ہے کہ جس حصہ میں بھی اسے غلطی نظر آئے اس کی اصلاح کرے.جہاں اس کا یہ فرض ہے کہ منتظمین اور کارکنوں کی پوزیشن قائم رکھے ، وہاں یہ بھی ہے کہ جماعت کی عظمت اور اس کے مشورہ کے احترام کو بھی قائم رکھے.اگر جماعت کسی کی وقت کارکنوں کے حقوق پر حملہ کرے تو اس کا کام ہے کہ اسے پیچھے ہٹائے.اگر کبھی کارکن جماعت کے حقوق کو دبانا چاہیں تو خلیفہ کا فرض ہے کہ انہیں روک دے.مجلس شوری کی گزشتہ رپورٹوں سے جو چھپی ہوئی ہیں یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میں نے متوازی طور پر ان دونوں باتوں کا خیال رکھا ہے.اگر ناظروں پر جماعت نے ناواجب اعتراض کئے ہیں تو میں نے سختی کے ساتھ اور بے پرواہ ہو کر ان کے اس فعل کی قباحت کی وضاحت کی ہے اور اگر کبھی کچ ناظروں نے جماعت کو اس کے حق سے محروم کرنا چاہا ہے تو اُن کو بھی ڈانٹا ہے.یہ متوازی سلسلہ جو خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ہے، میں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگر ایک طرف ناظروں کا احترام اور اعزاز جماعت کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو دوسری طرف جماعت کی عظمت کو بھی قائم رکھا ہے.میں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کو چھوڑ دیا جائے تو کی دوسرے کی عظمت بھی قائم نہ رہ سکے گی.اور اگر دونوں کو چھوڑ دیا جائے تو با وجود نیک نیتی اور نیک ارادہ کے ایک حصہ دوسرے کو کھا جائے گا.اگر کارکنوں کے اعزاز اور احترام کا خیال نہ رکھا جائے تو نظام کا چلنا مشکل ہو جائے گا اور اگر جماعت کے حقوق کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کی عظمت کو تباہ ہونے دیا جائے تو ایک ایسا آئین بن جائے گا جس میں خود رائی اور خودستائی غالب ہوگی اس لئے میں ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھتا ہوں کہ جس کی غلطی ہو اسے کی صفائی کے ساتھ کہہ دیا جائے.چنانچہ مجلس شوری کی گزشتہ رپورٹوں سے یہ بات پوری طرح کی ظاہر ہوتی ہے کہ میں نے ناظروں کے اعزاز کو قائم کرنے کا پوری طرح خیال رکھا ہے.چنانچہ گزشتہ رپورٹوں سے ظاہر ہوگا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ ناظر بعض جگہ گئے اور جماعت نے
خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۸ء لا پروائی کا ثبوت دیا تو میں نے شوری میں اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور بتایا کہ یہ طریق صحیح نہیں.جب بھی کوئی ناظر بحیثیت ناظر کسی جگہ جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ اُس کا استقبال کرے اور اُس کا مناسب اعزا ز کرے.چنانچہ اس کے بعد جماعت میں اس کا احساس پیدا ہوا اور انہوں نے ناظروں کا مناسب اعزاز کیا.ابھی تو ہماری جماعت میں کوئی بڑے آدمی ہیں ہی کی نہیں لیکن بڑے سے بڑا آدمی بھی نظام سلسلہ کے لحاظ سے ناظروں کے ماتحت ہے اور جب کی بادشاہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں تو وہ بھی ناظروں کے ماتحت ہوں گے.خواہ کوئی ان کی ناظروں میں سے کسی بادشاہ کی رعایا کا فرد ہی کیوں نہ ہو اور نظام سلسلہ کے لحاظ سے وہ اس کے ماتحت ہوگا اور اس کو اس کا ادب و احترام اسی طرح کرنا ہوگا جیسے ایک ماتحت افسر کا کرتا ہے.اس حقیقت کی موجودگی میں عقلاً یہ ممکن ہی کس طرح ہوسکتا ہے کہ قانون پر چلتے ہوئے کوئی شخص ناظروں کی سبکی یا ہتک کا خیال بھی کر سکے.مگر اس کے مقابلہ میں جماعت کے بھی حقوق ہیں.مثلاً جب ناظروں سے کوئی ملے تو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو ناظر کا فرض ہے کہ اُس کا ادب اور احترام کرے اور اگر میرے پاس یہ شکایت پہنچے کہ کوئی ناظر کسی چھوٹے آدمی کا مناسب ادب نہیں کرتا تو اُس وقت میں افراد جماعت کے ساتھ ہوں گا.یوں میرے پاس بعض شکایات آتی ہیں میں ان کی کی تحقیقات نہیں کراتا کیونکہ میں نصیحت کو تحقیقات سے بہتر سمجھتا ہوں پس نصیحت کر دیتا ہوں لیکن ی بہر حال ناظروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان سے ملنے آئیں ان سے عزت و احترام سے پیش آئیں.میں خود بھی کوئی کونے میں بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں.ہر روز دس پانچ بلکہ ہیں تمیں اشخاص مجھ سے ملنے آتے ہیں جن میں غریب سے غریب بلکہ سائل بھی ہوتے ہیں بلکہ اکثر کی سائل ہوتے ہیں لیکن میں جیسا اعزاز بڑے سے بڑے آدمی کا کرتا ہوں ویسا ہی چھوٹے سے چھوٹے کا بھی کرتا ہوں.مثلاً حکومت کے عہدہ کے لحاظ سے ہماری ہندوستان کی جماعت میں چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سب سے بڑے عہدہ دار ہیں لیکن ان کے آنے پر بھی میں ان کا کی استقبال اسی طرح کرتا ہوں جس طرح ایک غریب کے آنے پر.اور میں اس بارہ میں چوہدری صاحب اور ایک غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا.اسی طرح چوہدری صاحب کو کھڑا ہو کر ملتا ہوں
خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۸ء جس طرح ایک غریب آدمی کو اور پہلے اُسے بٹھا کر پھر خود بیٹھتا ہوں.بعض غریب اپنے اندازہ سے زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں نہیں بیٹھنے دیتا اور اُن سے کہہ دیتا ہوں کہ جب تک آپ نہ بیٹھیں گے میں بھی کھڑا رہوں گا.بعض دفاتر کے چپڑاسی آتے ہیں اور وہ زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں آپ چپڑاسی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مجھے خلیفہ سمجھ کر ملنے آئے ہیں.غرضیکہ جب تک آنے والے کو نہ بٹھالوں میں خود نہیں بیٹھتا.مجھے ملنے والوں کی تعداد ہزاروں کی تک ہے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کبھی مختلف ہوا ہو سوائے اس کے کہ میں بیمار ہوں یا کسی کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے کبھی غلطی ہو جائے.ہاں جلسہ سالانہ کے ایام مستقلی ہیں.اُن کی دنوں میں ملنے والے اس کثرت سے آتے ہیں کہ ہر ایک کیلئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے.ہاں اُن دنوں میں بھی جب کوئی غیر احمدی آئے تو چونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ میری مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا ؟ اس کیلئے کھڑا ہو جاتا ہوں.یا پھر اُن ایام میں جب ملاقات کا زور نہ ہو تو کھڑا ہوتا ہوں.میرا اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں ناظروں کو بھی ایسا کرنا چاہئے اور اگر اس کے خلاف کبھی شکایت آئے تو میں چاہتا ہوں کہ جس کے خلاف شکایت ہو، اُسے تنبیہ کی جائے.جب تک بات قائم نہ ہوا سلام کی روح قائم نہیں ہوسکتی.ذرا غور کرو کہ خلیفہ چھوڑ نبی کا بھی کیا حق ہے کہ وہ بندوں پر حکومت کرے.اگر ہم مذہب اور اسلام کی روح کو سمجھتے ہیں تو اس خدمت کی روح کو بھی سمجھنا چاہئے جس کیلئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں.کیا ہمارے لئے یہ بات کم ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو ایک رتبہ دے دیا ہے.وہ ہمیں ایک چھوٹا سا د نیوی کام کرنے کو دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اپنا مقرب بنالیتا ہے.گویا اُجرت اس نے ادا کر دی پھر ہمارا کیا حق ہے کہ دونوں جگہ سے اُجرت وصول کریں.کیا دنیا میں کوئی کی ایسا مزدور بھی ہوتا ہے جو دو جگہ سے اپنی اجرت وصول کرے.پس جب خدا تعالیٰ ہمیں اس کی خدمت کی اُجرت ادا کرتا ہے تو بندوں سے کیوں لیں قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ہے یہ نہیں فرمایا کہ میں اُجرت مانگتا ہی نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں مانگتا.جس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے اُجرت خدا تعالیٰ سے مل رہی ہے.پس میرا فرض ہے کہ میں اس بات کا خیال رکھوں کہ
خطبات محمود ۲۵۴ سال ۱۹۳۸ء یہ اصل ہماری جماعت میں قائم ہو.اور اگر اس میں غلطی ہوا اور میرے پاس شکایت آئے تو میں اس بات کا خیال رکھوں گا کہ غریب سے غریب آدمی کا حق بھی مارا نہ جائے اور اس بات کا خیال نہیں رکھوں گا کہ اس کا حق دلانے میں ناظر کی ہتک ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا حق ہے جو بہر حال لیا جائے گا، خواہ اس میں کسی بڑے آدمی کی ہتک ہو یا چھوٹے کی.لیکن اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کارکنوں کو جماعت میں ایک اعزاز حاصل ہے اور اگر کوئی فردا سے نہیں سمجھتا یا ان کی کی طرف سے جو آواز اُٹھتی ہے اس پر کان نہیں دھرتا اور اپنی دنیوی وجاہت کے باعث ناظر کو اپنے درجہ سے چھوٹا سمجھتا ہے تو یقیناً وہ جماعت کا مخلص فرد نہیں.اُس کے اندر منافقت کی رگ ہے جو اگر آج نہیں تو کل ضرور پھوٹے گی.پھر ناظروں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مجلس شوریٰ اپنے مقام کے لحاظ سے صدر انجمن پر غالب ہے.اس میں براہ راست اکثر جماعتوں کے نمائندے شریک ہوکر مشورہ دیتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ابھی بیرونی ممالک کی جماعتوں کے نمائندے شریک نہیں ہو سکتے لیکن جب ان میں بھی امراء داخل ہو جائیں گے یا جماعتیں زیادہ ہو جائیں گی اور وہ اپنے نمائندوں کے سفر خرچ برداشت کر سکیں گی اور سفر کی سہولتیں میسر ہوں گی.مثلاً ہوائی جہازوں کی آمد و رفت شروع ہو جائے گی تو اُس وقت ان ممالک کے نمائندے بھی اس میں حصہ لے سکیں گے.پس مجلس شوری جماعت کی عام رائے کو ظاہر کرنے والی مجلس ہے اور خلیفہ اس کا بھی صدر اور رہنما ہے.انبیاء کو بھی اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا حکم دیا ہے اور خلافت کے متعلق تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ کے خلیفہ کو یہ حق تو ہے کہ مشورہ لے کر رڈ کر دے لیکن یہ نہیں کہ لے ہی نہیں.مشورہ لینا بہر حال ضروری ہے اور جب وہ مشورہ کی لیتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ اسے رڈ اسی صورت میں کرے گا کہ جب سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کی کے حضور میری ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے.اگر وہ شریف آدمی ہے اور جب اسے خدا تعالیٰ کا کی مقرر کردہ خلیفہ سمجھا جائے تو اس کی شرافت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے تو وہ سوائے خاص حالات کے مشورہ کو ضرور مان لے گا.ہاں خاص صورتوں میں بوجہ اس کے کہ در حقیقت وہ خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہے اگر وہ سمجھے کہ اس بات کو ماننے سے دین کو یا اس کی شان و شوکت کو کوئی خاص نقصان کی
خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۸ پہنچتا ہے تو وہ اس مشورہ کو رڈ بھی کر دے گا مگر اس اختیار کے باوجود اسلامی نظام مشورہ اور رائے عامہ کو بہت بڑی تقویت دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ اتنے لوگوں کی رائے کو جو پبلک میں ظاہر ہو چکی ہو کبھی کوئی شخص خواہ وہ کتنی بڑی حیثیت کا ہو معمولی طور پر رڈ کرنے کی جرات نہیں کرسکتا.وہ کثرتِ رائے کو اُسی وقت ردّ کر سکتا ہے جب وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ اکیلے شخص کو یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ کثرت رائے کورڈ کر دے.کثرتِ رائے کو ر ڈ یا تو پاگل کر سکتا ہے اور یا پھر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی طاقت ہے جو اس کی بات کو منوا لے گی.پس خلفاء اسی وقت ایسی رائے کو ر ڈ کر دیں گے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی مدد کا یقین رکھیں گے اور سمجھیں گے کہ ہم صرف خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کر رہے ہیں اور جب وہ خدائی طاقت سے جماعت کے مشورہ کو ر ڈ کریں گے تو ان کی کامیابی یقینی ہوگی.غرض اسلام نے شوری کے نظام سے خودسری اور خود رائی کے کیلئے ایک بڑی روک پیدا کر دی ہے.پھر تربیت کے لحاظ سے بھی مشورہ ضروری ہے کیونکہ اگر مشورہ نہیں لیا جائے گا تو جماعت کے اہم امور کی طرف افراد جماعت کو توجہ نہیں ہوگی اس لئے بعد میں آنے والا خلیفہ بوجہ نا تجربہ کاری اور حالات سلسلہ سے ناواقفیت کے بالکل بڑھو ہو گا.یہ کسی کو کیا علم ہے کہ کون کی پہلے مرے گا اور کون بعد میں اور کس کے بعد کس نے خلیفہ ہونا ہے اس لئے یہ حکم شریعت نے دے دیا ہے کہ مشورہ ضرور لو تا جماعت کی تربیت ہوتی رہے اور جو بھی خلیفہ ہو وہ سیکھا سکھایا ہو اور نئے سرے سے اُس کو نہ سیکھنا پڑے.اس میں اور بھی بیسیوں حکمتیں ہیں مگر میں اس وقت انہیں نہیں بیان کر رہا.مختصر یہ ہے کہ شوریٰ خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص حکمت کے ماتحت ہے.قرآن کریم میں ہے کہ و آمُرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ می ۵ گویا مشوره والی انجمن کو قرآنی تائید حاصل ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم میں کر کے اسے اہم قرار دے دیا ہے.گو قرآن کریم میں کارکنوں کا بھی ذکر ہے مگر شوری کو ایک فضیلت دی گئی ہے اور جب جماعت کے مختلف افرادمل کر ایک مشورہ دیں اور خلیفہ اسے قبول کرلے تو وہ جماعت میں سب سے بڑی آواز ہے اور ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دیکھے جس مشورہ کو اس نے قبول کیا ہے اس پر کا رکن عمل کرتے ہیں یا نہیں من
خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۸ء اور کہ اس کی خلاف ورزی نہ ہو.یہ دو مختلف پہلو ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے دونوں فریق اعتراض کرتے ہیں.جب میں جماعت کے دوستوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے سمجھاتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی حریت کہاں گئی اور جب میں دیکھوں کہ ناظروں نے غلطی کی ہے اور اُن کی کو گرفت کروں تو بعض دفعہ اُن کو بھی شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں مگر مجھ پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فرض ہے جسے کسی صورت میں کی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا اور دراصل خلافت کے معنی ہی یہ ہیں.دوسرا حصہ اس سوال کا یہ ہے کہ ناظروں پر تنقید خلیفہ کی تنقید کی وجہ سے ہوتی ہے.مجھے اس کے تسلیم کرنے سے انکار ہے.اگر اسی مجلس شوری کو لے لیا جائے تو جس حصہ پر میں نے تنقید کی ہے اس پر میری تنقید سے پہلے بہت سی تنقید ہو چکی تھی اور میں نے جو تنقید کی وہ بعد میں تھی اور شوری کے ممبر بہت سی تنقید پہلے کر چکے تھے.مگر میں کہتا ہوں کہ ناظر تنقید سے گھبراتے کیوں کی ہیں؟ ان کا مقام وہ نہیں کہ تنقید سے بالا سمجھا جاتا ہو.ہر کارکن خلیفہ نہیں کہلا سکتا.میرے نزدیک اس بارہ میں جماعت اور ناظر دونوں پر ذمہ داری ہے.جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خیال رکھیں کہ ان میں سے جو لوگ سلسلہ کیلئے اپنی زندگیوں کو وقف کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ان کا مناسب احترام کیا جائے اور ناظروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کی تنقید کو ایک کی مخلص بھائی کے مشورہ کے طور پر سنیں کیونکہ ان کا مقام تنقید سے بالا نہیں ہے.پارلیمنٹوں میں تو وزراء کو جھاڑیں پڑتی ہیں جس کی حد نہیں مگر پھر بھی وزراء کے رعب میں فرق نہیں آتا.یہاں تو میں روکنے والا ہوں ، مگر وہاں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا.گالی گلوچ کو سپیکر روکتا ہے ،ہسخت تنقید کو نہیں بلکہ اسے ملک کی ترقی کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے پس اس تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے.اگر تنقید کا کوئی پہلو غلط ہو تو ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور اگر وہ صحیح ہے تو بجائے گھبرانے کے اپنی اصلاح کریں.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ثابت کرنا یا ر ڈ کرنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی بنیا دایسے بار یک اصول پر ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے کوئی منطقی نتیجہ نکالنا قریباً ناممکن ہوتا ہے.مثلاً دو کمرے ایک سے ہوں اور یہ سوال ہو کہ ان میں سے کس میں بستر بچھانے چاہئیں اور کس کو بیٹھنے اُٹھنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے تو یہ ایک ذوقی سوال ہوگا لیکن دو شخص اگر اس پر
خطبات محمود ۲۵۷ سال ۱۹۳۸ء بحث شروع کر دیں کہ کیوں اس میں بستر بچھانا چاہئے اور دوسرے میں بیٹھنا اُٹھنا چاہئے تو یہ بحث خواہ مہینوں کرتے رہیں نتیجہ کچھ نہ ہوگا.تو اس قسم کی ذوقی باتوں کو چھوڑ کر باقی باتوں کو ثابت یارڈ کیا جاسکتا ہے اور اگر اعتراض نامناسب رنگ میں ہوگا تو یا تو وہ کسی معذور کی طرف سے ہوگا جو بوجہ بڑھاپے کے یا نا تجربہ کاری یا سادگی کے ایسا کرے گا اور اس صورت میں سب محسوس کر لیں گے کہ اس شخص کے الفاظ کی کوئی قیمت نہیں اور اس کو روکنا فضول ہوگا.ایسی بات پر صرف مسکرا کر یا استغفار کر کے گزر جانا ہی کافی ہو گا لیکن اگر ایسا نہ ہو تو مجلس شوری کی رپورٹیں اس پر گواہ ہیں کہ میں نے نامناسب رنگ میں اعتراض کرنے والوں کو ہمیشہ سختی سے روکا ہے اور جنہوں نے غلط تنقید کی ان کو اس پر تنبیہہ کی ہے اور اگر آئندہ بھی ایسا ہوگا تو اِنْشَاءَ اللہ روکوں گا.اگر ساری جماعت بھی غلط تنقید کرے گی تو اسے بھی روکوں گا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈروں گا نہیں.اس قسم کا لحاظ میں نے کبھی نہیں کیا کہ غلط طریق اختیار کرنے پر کسی کو تنبیہہ نہ کروں.ہاں اس وجہ سے چشم پوشی کرنا کہ کام کرنے والوں سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں ، اور ی بات ہے.ایسی چشم پوشی میں جماعت سے بھی کرتا ہوں اور کارکنوں سے بھی.ورنہ میں نہ جماعت سے ڈرتا ہوں اور نہ انجمن سے.اور جب بھی میں نے موقع دیکھا ہے جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور انجمن کو بھی.اس سوال کا تیسرا حصہ جو پہلے سے ملتا جلتا بھی ہے اور علیحدہ سوال بھی.وہ یہ ہے کہ تنقید ایسے رنگ میں کی جاتی ہے کہ جس سے ناظروں کی بے رُعبسی ظاہر ہوتی ہے لیکن میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں.جو لوگ خدا تعالیٰ کے دین کے کام کیلئے کھڑے ہوں ان کی بے رُعبی نہیں ہو سکتی.جب تک جماعت میں اخلاص اور ایمان باقی ہے کوئی ان کی بے رعبی نہیں کر سکتا.ان کے ہاتھ میں سلسلہ کا کام ہے.پس جو ان کی بے رُعبی کرے گا یہ سمجھ کر کرے گا کہ اس سے سلسلہ کی بے رُعبی ہوگی اور اس کیلئے کوئی مخلص مؤمن تیا ر نہیں ہو سکتا.ہاں بعض دفعہ بعض لوگ نادانی سے ایسا کر جاتے ہیں مثلاً اس دفعہ ہی سرگودھا کے ایک دوست نے نامناسب الفاظ استعمال کئے لیکن میں بھی اور دوسرے دوست بھی محسوس کر رہے تھے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ یہ باتیں نہیں کر رہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کی باتوں پر دوست بالعموم مسکرا رہے تھے
خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۸ء اور سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں اور جوش میں انہیں اپنی زبان کی پر قابو نہیں رہا اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کی تردید کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے.چنانچہ میں نے اس کی تردید نہ کی اور میں سمجھتا ہوں تردید نہ کرنے سے لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ باتیں وزنی ہیں بلکہ غالب حصہ کو یہی یقین تھا کہ یہ تردید کے قابل ہی نہ تھیں.کیونکہ دوست خود اُن کی باتوں پر ہنس رہے تھے اور بعض کے بننے کی آواز میں نے خود سنی اور ہنسی کی وجہ یہ خیال تھا کہ انہوں نے کیا بے معنی نتیجہ نکالا ہے.اور جب جماعت پر ان کی بات کا اثر ہی نہ تھا اور سب سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنی سادگی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں تو ان کی تردید نہ کرنے سے نقصان کیا ہوسکتا تھا لیکن اس کے بالمقابل اسی مجلس شوری میں میں نے ایک مثال سنائی تھی کہ ایک انجمن نے جو کسی گاؤں یا شہر کی انجمن نہ تھی بلکہ پراونشل انجمن تھی ، مجھے لکھا کہ ہم نے صدر انجمن کو یہ بات لکھی ہے جو اگر اس نے نہ مانی تو اس کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہیں گے.میں نے انہیں لکھا کہ صدر انجمن جو کچھ کرتی ہے چونکہ وہ خلیفہ کے ماتحت ہے اس لئے خلیفہ بھی کی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جب آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی بات نہ مانی گئی تو صدرانجمن کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہ رہ سکیں گے تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ خلیفہ کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہ رہیں گے اور اس صورت میں آپ کو نئی جماعت ہی بنانی پڑے گی، اس جماعت میں آپ نہیں رہ سکیں گے.تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس بات کے سننے کے بعد بھی کسی احمدی کے دل میں ناظروں کا رُعب مٹ سکتا ہے.یہ کیونکر ممکن ہے کہ شوری کے ممبروں نے ناظروں کے کام پر تنقید کو تو سُن لیا مگر یہ بات انہوں نے نہ سنی ہوگی اور یہ بات جو میں نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ ایک صوبہ کی انجمن کو لکھی تھی اس کے سننے کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ناظروں کا رُعب مٹ جائے.اس میں شبہ نہیں کہ اس شوری میں جرح زیادہ ہوئی ہے.مگر ناظروں کو بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا.ایسا اس وجہ سے نہیں ہوا کہ میں نے بھی ان پر تنقید کی نمی.جب وہ چھپے گی تو ہر شخص دیکھ سکے گا کہ شوری کے ممبروں نے جو جرح کی وہ میری تنقید کے نتیجہ میں نہ تھی اور حق بات یہ ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور جس کا مجھے شدید احساس ہے
خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۸ء کہ ناظر شوری کے فیصلوں پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور واقعات اس بات کو پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ وہ ان پر خاموشی سے گزر جاتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ سال کے آخر پر ناظر اعلیٰ دوسری نظارتوں سے پوچھ لیتا ہے کہ ان فیصلوں کا کیا حال ہوا.اور پھر یا تو یہ کہ دیتا ہے کہ کوئی جواب نہیں ملا اور یا یہ کہ کوئی عمل نہیں ہوا.میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ بعض فیصلے ناظروں کے نزدیک نا قابل عمل ہوتے ہیں مگر ایسے فیصلوں کو قانونی طور پر بدلوانا چاہئے.وہ ایسے فیصلوں کو میرے سامنے پیش کر کے مجھ سے بدلوا سکتے ہیں.وہ میرے سامنے پیش کر دیں میں اگر چاہوں تو دوسری شوری بلوالوں یا چاہوں تو خود ان فیصلوں کو رڈ کر دوں.اور پھر اگر دوسری شوریٰ میں ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ رڈ ہو چکا ہے.لیکن اگر وہ فیصلہ جوں کا توں قائم رہے اور پھر وہ اس پر عمل نہ کریں تو جماعت کے اندر بے انتظامی اور خود رائی کی ایسی روح پیدا ہوتی ہے جس کی موجودگی میں ہرگز کوئی کام نہیں ہوسکتا.اگر شوری میں ایک فیصلہ ہوتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں اور اگر وہ اس کی کو قابل عمل نہیں سمجھتے تو اس کو منسوخ کرائیں لیکن ایسے فیصلوں کی ایک کافی تعداد ہے جن پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا.مثلاً اسی شوری میں ایک سوال پیدا ہوا تھا جس سے جماعت میں جوش پیدا ہوا.۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں فیصلہ ہوا تھا کہ سلسلہ کے اموال پر وظائف کا جو بوجھ ہے اسے ہلکا کرنا چاہئے.یہ تو صحیح ہے کہ جس احمدی کے پاس روپیہ نہ ہو وہ مستحق ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے انجمن سے مدد مانگے اور اگر انجمن کے پاس ہو تو اس کا فرض ہے کہ مدد کرے مگر اس طرح کی مدد لینے والے کا یہ بھی فرض ہے کہ جب وہ مالدار ہو جائے تو پھر اسے ادا کرے.۱۹۳۰ء کی شوری میں یہ فیصلہ ہو ا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں گزشتہ تعلیمی وظائف کی رقوم وصول کی جائیں اور پھر آئندہ اسی رقم میں سے وظائف دیئے جائیں ، عام آمد سے امداد نہ کی جائے اور اس کیلئے ناظر بیت المال کو ذمہ دار مقرر کیا گیا تھا.یہ پانچ سال ۱۹۳۵ء میں پورے ہوتے تھے اور ۱۹۳۵ء کے بعد وظائف اسی وصول شدہ رقم میں سے دیئے جانے چاہئیں تھے لیکن تین سال ہو چکے ہیں مگر وظائف برا برخزانہ سے ادا کئے جارہے ہیں.شوری کے ممبروں میں سے ایک کو یہ بات یاد آئی اور اُس نے اعتراض کر دیا کہ جب یہ فیصلہ ہوا تھا تو اس پر کیا کارروائی کی گئی
خطبات محمود ۲۶۰ سال ۱۹۳۸ اور اب وظائف گزشتہ وظائف کی وصول شدہ رقم میں سے دئیے جاتے ہیں یا سلسلہ کے خزانہ پر ہی بوجھ ہے اور اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اب ظاہر ہے کہ اگر اس تنقید کا دروازہ بند کر دیا جائے تو سلسلہ کیوں تباہ نہ ہوگا اور اسے ناظروں کی بے رُعبی کے ڈر سے کیونکر روکا جاسکتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی ناظر نماز نہ پڑے اور ہم اسے کہیں تو کہا جائے کہ اس بات سے ناظروں کی بے رعبی ہوتی ہے لیکن میں کہوں گا کہ اس کے نہ کہنے سے سلسلہ کی بے رعبسی ہوتی ہے.پس یہ اعتراض روکا نہیں جاسکتا تھا اور اس کیلئے جواب دینا ضروری تھا.عام پارلیمنٹوں میں یہ قاعدہ ہے کہ وزراء بعض دفعہ کوئی ٹلا واں جواب دے دیتے ہیں تا اس پر مزید جرح نہ ہو سکے اور بات مخفی رہے لیکن یہاں یہ نہیں ہوسکتا.بحیثیت خلیفہ میرا فرض ہے کہ صیح جواب دلواؤں.پہلے اس سوال کے ایسے جواب دیئے گئے جو ٹالنے والے تھے مگر آخر اصل جواب دینا پڑا کہ اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا گیا.اب اگر اس میں نظارتوں کی بے رعبی ہوئی تو اس کی ذمہ دار نظارت ہے.اگر اس قسم کی تنقید کو روک دیا جائے تو سلسلہ کا نظام ایسا گر جائے گا کہ اس کی کوئی قیمت نہ رہے گی.اس میں شک نہیں کہ بعض دفعہ شوریٰ بھی غلط فیصلے دیتی ہے.مثلاً اسی سال کی مجلس شوریٰ میں پہلے ایک مشورہ دیا گیا اور پھر اس کے خلاف دوسرا مشورہ دیا گیا جس کی طرف مجھے توجہ دلانی پڑی.تو ایسی غلطیاں مجلس شوری بھی کر سکتی ہے، انجمن بھی کر سکتی ہے اور خلیفہ بھی کرسکتا ؟ ہے بلکہ بشریت سے تعلق رکھنے والے دائرہ کے اندر انبیاء بھی کر سکتے ہیں.جو بالکل غلطی نہیں کرسکتا وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ شوری کو تنقید کا جو حق ہے وہ مار دیا جائے.گو شوری غلطی کر سکتی ہے مگر اس سے اس کا حق باطل نہیں کیا جاسکتا.اور ناظر بھی غلطی کر سکتے ہیں مگر ان کے دائرہ عمل میں ان کے ماتحتوں کا فرض ہے کہ ان کی اطاعت کریں.ہاں جو امور شریعت کے خلاف ہوں ان میں اطاعت نہیں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک صحابی کی کو ایک چھوٹے سے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا.راستہ میں انہوں نے کوئی بات کہی جس پر بعضی صحابہ نے عمل نہ کیا ، اس پر وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر امیر مقرر کیا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی کی
خطبات محمود ۲۶۱ سال ۱۹۳۸ء اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قائمقام ہوں تو تم نے میری نافرمانی کیوں کی ؟ اس کی پر صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے.انہوں نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اطاعت کرتے ہو یا نہیں.چنانچہ انہوں نے آگ جلانے کا حکم دیا اور جب آگ جلنے لگی تو صحابہ سے کہا کہ اس میں کود پڑو.بعض تو آمادہ ہو گئے مگر دوسروں نے اُن کو روکا اور کہا کہ اطاعت امور شرعی میں ہے ان کو تو شریعت کی واقفیت نہیں اس طرح آگ میں کود کر جان دینا ہے ناجائز ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ خود کشی نہیں کرنی چاہئے.جب یہ امر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو ا تو آپ نے اس میں اُن لوگوں کی تائید کی جنہوں نے کہا تھا کہ آگ میں گو دنا جائز نہیں.پس میں جو کہتا ہوں کہ ناظر کے دائرہ عمل میں اس کی اطاعت کرنی چاہئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی ناظر کسی سے کہے کہ جھوٹ بولو تو اسے بولنا چاہئے.نظارت کے شعبہ میں جھوٹ بلو ا نا شامل نہیں.اسی طرح اگر کوئی ناظر کہے کہ کسی کو قتل کر دو تو اس میں اس کی اطاعت جائز نہیں.اطاعت صرف شریعت کے محدود دائرہ میں ضروری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ غلطی ہر شخص کر سکتا ہے ممکن ہے کسی فیصلہ میں ناظر بھی غلطی کرے لیکن اس دائرہ میں اس کی غلطی کو بھی ماننا پڑے گا.پس خلیفہ کا فیصلہ مجلس شوری اور نظارت کیلئے ماننا ضروری ہے.اسی طرح شوری کے مشورہ کو سوائے استثنائی صورتوں کے تسلیم کرنا خلیفہ وقت کیلئے ضروری ہے اور جس مشورہ کو خلیفہ وقت نے بھی قبول کیا اور جسے شرعی احکام کے ماتحت عام حالتوں میں خلیفہ کو بھی قبول کرنا کی چاہئے یقیناً نظارت اس کی پابند ہے خواہ وہ غلط ہی ہو.ہاں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فیصلہ کی موجودگی میں وہ کام کو نہیں چلا سکتے تو ان کو چاہئے کہ اسے پیش کر کے وقت پر منسوخ کرالیں لیکن کی یہ امر واقعہ ہے کہ ہر شوریٰ میں کچھ نہ کچھ شور ضرور اٹھتا ہے کہ فلاں فیصلہ پر عمل نہیں ہوا ، فلاں قانون کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، پھر ایسی باتوں پر کس طرح پردہ پڑ سکتا ہے.اور جب ایک نقص ظاہر ہوتو میرا فرض ہے کہ میں نظارت کو اس نقص کے دور کرنے کی طرف توجہ دلاؤں کیونکہ میں
خطبات محمود ۲۶۲ سال ۱۹۳۸ء صدرا انجمن احمدیہ کا رہنما ہونے کی حیثیت میں خود بھی اس خلاف ورزی کا گو قانونی طور پر نہیں مگر اخلاقی طور پر ذمہ دار ہو جاتا ہوں.پس میرا فرض ہے کہ غلطی پر اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلا ؤں.غرض ناظروں کا یہ فرض ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کریں یا پھر ان کو بدلوالیں لیکن جب تک وہ فیصلہ قائم ہے ناظروں کا اس پر عمل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا ان کے ماتحت کلرکوں اور دوسرے کارکنوں کا ان کے احکام پر.اگر ناظر اس طرح کریں تو بہت سے جھگڑے مٹ جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہونا چاہئے کہ ہر شوری کے معاً بعد ایک میٹنگ کر کے دیکھے کہ کونسا فیصلہ کسی نظارت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور پھر اسے ناظر متعلقہ کے سپرد کرے کہ اس پر عمل ہو اور وقت مقرر کر دیا جائے کہ اس کے اندراندر اس فیصلہ کی تعمیل پوری طرح ہو جائے اور پھر اس مقررہ وقت پر دوسری میٹنگ کر کے دیکھے کہ عمل ہوا ہے یا نہیں.اس کی طرح تنقید کا سلسلہ خود بخود بند ہو جائے گا اور اگر کوئی نمائندہ غلط تنقید کرے تو میرا فرض ہے کہ اسے روکوں.پھر بعض اوقات ناظر صحیح جواب پیش نہیں کرتے.اب کے ایک اعتراض بجٹ کے بر وقت تیار نہ ہونے پر تھا.اس کا جواب صاف تھا جو آخر خانصاحب فرزند علی صاحب نے اشارہ دیا مگر جب اس کے غلط جواب دیئے جا رہے تھے تو میں چوہدری سر ظفر اللہ خانصاحب سے کہہ رہا تھا کہ یہ صحیح جواب کیوں نہیں دیتے اس تأخیر کیلئے ذمہ وار تو میں ہوں.میں نے جب بجٹ کا بہت سا کام ہو چکا تھا یہ ہدایت بھجوائی تھی کہ اس اس طرح تخفیف کر کے بجٹ پھر تیار کیا جائے اور اس لئے تاخیر کی ذمہ داری کو قبول کرنے کیلئے میں تیار تھا.خانصاحب نے اسے بیان تو کیا مگرا شارۂ ہی.آخر میں نے پا لوضاحت یہ کہا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور نظارت کیلئے کی تو یہ امر قابل تعریف ہے کہ جب میں نے بڑھتے ہوئے اخراجات کو دیکھ کر اسے نئے سرے سے بجٹ تیار کرنے کو کہا تو اس نے دوبارہ محنت کی.ایسے حالات میں صحیح جواب اگر دے دیا جائے کی تو بھی تنقید کا دروازہ بند ہو جاتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی ناظر پوری طرح پابندی کریں.اگر کوئی رکاوٹ دیکھیں تو میرے سامنے پیش کریں.اگر میں اسے منسوخ کر دوں تو ان کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی اور اگر اس کیلئے دوسری شوری بلواؤں تو بھی ان کی کی
خطبات محمود ۲۶۳ سال ۱۹۳۸ء ذمہ داری ختم سمجھی جائے گی لیکن اگر ان صورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو ان کا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے عمل کریں.میں نے وظائف کے متعلق فیصلہ کی جو مثال دی ہے اس میں کوئی کی ایسا کام نہیں تھا جو کیا نہ جاسکتا ہو.۱۹۳۵ء میں ناظر بیت المال کا فرض تھا کہ صورت حالات مجلس شوری کے پیش کر دیتے اور جتنی رقم جمع ہوتی اُس کے متعلق کہہ دیتے کہ اتنی رقم ہے صرف اسی میں سے وظائف دیئے جائیں یا خزانہ میں سے مدد لی جائے ؟ یہ اتنا معمولی کام تھا کہ جس میں کسی محنت کی ضرورت نہ تھی.نہ کلرکوں کی اور نہ نائب ناظر کی امداد در کارتھی.میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ وظائف کے معاملہ میں شوریٰ کا رحجان بند کرنے کی طرف نہیں ہوتا.جماعت کے دوست چونکہ عام طور پر غریب ہیں اس لئے کسی کا دوست ، کسی کا رشتہ دار ، کسی کا گاؤں یا شہر اور کسی کا ضلع فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے اس لئے وہ ضرور یہی مشورہ دیتے کہ وظائف بند نہ کئے جائیں اور مزید روپیہ ان کیلئے منظور کر دیا جاتا اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر جماعت کو علم ہو جاتا ہے کہ وصولی کم ہوئی ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتی اور نادہندوں کے خلاف کوئی مؤثر کا رروائی کرنے کی کا مشورہ دیتی.بہر حال جو بھی ہوتا قانون کے مطابق ہوتا اور اس کیلئے کسی محنت کی ضرورت نہ تھی.صرف ایک دو منٹ میں معاملہ پیش ہی کر دینا تھا کہ اتنا روپیہ وصول ہوا ہے اور اتنے کی وظائف ہیں.اسی رقم سے وظائف دیئے جائیں یا مزید روپیہ خزانہ سے لیا جائے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چونکہ ممبروں کا میلان وظائف جاری رکھنے کی طرف ہی ہوتا ہے اگر وہ اس کی طرح کرتے تو پھر بھی ہونا وہی تھا جو اب ہوا ہے مگر وہ جائز ہوتا اور یہ نا جائز ہے اور اس طرح مسلسل قانون ٹوٹتا رہا ہے.وظائف کو اُڑانے کا سوال جب بھی پیدا ہوا ہے ننانوے فیصدی ممبروں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ ہم مزید بوجھ اُٹھا لیں گے مگر ان کو بند نہ کیا جائے.تو اس صورت میں بھی ہونا تو وہی تھا جو اب ہوا.مگر اعتراض کی صورت نہ رہتی اور شوری کے فیصلہ پر عمل ہو جاتا.اور جب شوری انجمن کی حاکم ہے تو ناظروں کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور اس کے فیصلوں پر عمل کریں.چوتھی بات یہ ہے کہ اس قسم کی تنقید سے جماعت کے کام میں روک پیدا ہوتی ہے مگر میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ تنقید نا مناسب رنگ میں
خطبات محمود ۲۶۴ سال ۱۹۳۸ء نہ ہو اور اس قسم کی تنقید کرنے والوں کو میں سختی سے روکتا ہوں.مثلاً فیروز پور کے دو بھائی کی پہلے بہت تنقید کیا کرتے تھے مگر میں نے اُن کو سختی سے روکا اور اب میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے بہت اصلاح کرلی ہے اور بھی بعض لوگ سخت تنقید کیا کرتے تھے مگر میرے سختی سے روکنے کا یہ اثر ہے کہ اب اعتراضات بہت سلجھے ہوئے ہوتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ اس سال کی شوری میں ایک مثال ایسی ہے جو نا مناسب تنقید کہلا سکتی ہے.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عام طور پر دوستوں نے اُسے جنسی میں ٹال دیا اور تر دید کے قابل نہیں سمجھا.یہ صاحب ایک لمبے عرصہ تک قادیان نہیں آئے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ریل میں نہیں بیٹھ سکتے تھے.شاید ایک دفعہ کوئی ٹکر ہوگئی تھی یا کیا ہوا کہ انہوں نے ریل میں سوار ہونا ترک کر دیا اور اس وجہ سے کبھی قادیان بھی نہ آئے.اب دو تین سال سے وہ آنے لگے ہیں اور اب ان کے بڑھاپے کی عمر ہے پہلے چونکہ وہ آتے نہیں رہے اس لئے شوری کی روایات سے انہیں پوری طرح واقفیت نہیں اس کی لئے وہ کسی وقت کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں جو شوری کے قواعد کے خلاف ہوتی ہے.اس امر کو کی سب دوست جانتے ہیں اس دفعہ نظارت کے متعلق بعض نامناسب الفاظ انہوں نے ہی کہے تھے اور میرا یہ اثر ہے کہ جماعت پر ان الفاظ کا کوئی اثر نہ تھا.۲.جماعت احمدیہ اور بعض حکام کے تعلقات اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال جو واقعہ ہمارے ایک نوجوان کی نادانی سے سلسلہ کی تعلیمات کے صریح خلاف اور میرے متعد د خطبات اور تقریروں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہو گیا تھا یعنی اس نے ایک شخص پر جو جماعت سے خارج ہو چکا تھا حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں وہ مر گیا.اس کے ازالہ کیلئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کا کفارہ ادا کیا جائے اور وہ یہ کہ اب اگر ہم پر سختی بھی ہو تو ہم اسے ایک عرصہ تک خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے جائیں.اصل بات یہ ہے کہ اُس زمانہ میں اُس ضلع کے جو ڈ پٹی کمشنر تھے اُن کو ہماری وجہ سے بہت شرمندگی اُٹھانی پڑی.وہ گورنمنٹ کو ہمیشہ یہ یقین دلاتے تھے کہ اس جماعت کی طرف سے کوئی اندیشہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا نہیں ہو سکتا اور کہ میں اس بات کاج
خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۸ء ذمہ دار ہوں.اور جب ہمارے ایک نوجوان نے اس طرح غلطی کی تو اُن کو جو دکھ ہو سکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس لئے میں نے سمجھا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم قربانی کر کے اُن کے اس دکھ کو دور کر دیں.چنانچہ بعض دفعہ جماعت کے حقوق تلف کئے جاتے رہے اور میں ہمیشہ جماعت سے یہی کہتا رہا کہ اپنا حق جانے دو اس لئے کہ ہم میں سے ایک شخص نے ایک ایسی غلطی کی ہے جس کا کفارہ ضروری ہے.غلطی خواہ جماعت کا ایک فرد ہی کرے اس میں شک نہیں کہ ہم اس کے کی بداثر سے باہر نہیں رہ سکتے.یہ صحیح ہے کہ شرعی اور اخلاقی طور پر ہم اس کے ذمہ دار نہیں لیکن اس کا بُرا اثر ہم پر ضرور پڑے گا.کسی کا بیٹا بدمعاش ہو تو خدا تعالیٰ کے حضور یا قانون کے نزدیک اس پر ذمہ داری نہیں لیکن بدنامی سے حصہ اسے ضرور ملے گا گو اس کے تعلق سے وہ کتنا ہی بری الذمہ کیوں نہ ہو.میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس حرکت کے خلاف ہم نے انتہائی نفرت کا اظہار کیا کی اور کرتے ہیں مگر باوجود اس کے بدنامی سے نہیں بچ سکتے اور اگر خدانخواستہ ہم میں سے پھر کوئی ایسی حرکت کرے گا تو اس کی بدنامی سے بھی سلسلہ کی بدنامی ضرور ہو گی.چاہے ہم لوگوں کو کتنا ہی یقین کیوں نہ دلائیں کہ ہم نے یہ کہا تھا اور وہ کہا تھا یہ گویا ایک جماعتی ورثہ ہوتا ہے جو ضرور مل کر رہتا ہے.ایک خاندان اگر نیک نام ہو تو اس کے کسی بد معاش فرد پر بھی لوگ اعتبار کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی خاندان بدمعاش ہو تو اُس کے نیک فرد کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا.جب بدنامی آتی ہے تو جماعت کو بھی اس سے حصہ ملتا ہے جس طرح نیک نامی سے ملتا ہے.اس خیال کے ماتحت میں نے یہ رویہ اختیار کیا اور جماعت کو یہی مشورہ دیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے اِن دنوں ہمارے ساتھ جو نا انصافیاں کی جائیں ان کو برداشت کرو اور اس طرح وہ موقع آنے دو جب ہماری مظلومیت بالکل واضح ہو جائے.اگر حکومت میرے اس طریق کی قدر و قیمت کو مجھتی تو بہت زیادہ امن قائم ہو جاتا کیونکہ میں نے اپنا رستہ چھوڑ کر اُس کی بات کو ماننے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور یہ اس لئے کیا تھا کہ ہمیں اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا چاہئے جو ہمارے ایک فرد سے ہوئی ہے.کانگرسیوں کی غلطی کی وجہ سے گاندھی جی چودہ روز کا برت رکھتے ہیں مگر ہم نے نو ماہ کی سے زیادہ عرصہ تک یہ برت رکھا ہے اور اتنا لمبا عرصہ تک ان تمام الزامات کو سنا اور برداشت کیا ہے جو ہم پر لگائے جاتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اس کی قدرو قیمت کو سمجھتی
خطبات محمود ۲۶۶ سال ۱۹۳۸ء اور اس کے مقابلہ میں ہمارے ساتھ صحیح تعاون کیلئے تیار ہوتی مجلس شوری کے ایام میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ نے ہماری اس خاموشی اور برداشت کو بزدلی پر محمول کیا ہے حالانکہ مؤمن کبھی بر دل نہیں ہوتا.معمولی افسروں کی تو بات ہی جانے دو مجھے گورنر ان کونسل نے ایک ایسی چٹھی لکھی تھی جو سراسر نا جائز تھی اور میں نے صاف طور پر کہ دیا تھا کہ یہ بالکل ناجائز ہے.میں اس کی اطاعت تو کروں گا مگر حکومت کو اس کا بدلہ ضرور بھگتنا پڑے گا.پس نہ تو میں بُزدل ہوں اور نہ جماعت کو بُز دل بنانا چاہتا ہوں.بلکہ صاف الفاظ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ بزدل کا یہاں کام نہیں وہ ہمیں چھوڑ کر چلا جائے.ہمارے ساتھ وہی رہ سکتا ہے جو ہر وقت جان و مال کی قربانی کیلئے تیار ہو.یہ دین کا معاملہ ہے اور اس میں تمہیں اپنی جان کی قیمت اتنی بھی نہیں سمجھنی چاہئے جتنی ایک امیر آدمی کے نزدیک اُس کے پھٹے ہوئے کوٹ کی ہو سکتی ہے.اگر کوٹ لینے والا کوئی غریب اسے نہیں ملتا تو بھی وہ تی اسے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیتا ہے تا اس کے گھر میں تو گند نہ رہے.پس مؤمن کو اپنی جان کی قیمت اتنی بھی نہیں سمجھنی چاہئے اور اگر خدا تعالیٰ کے دین کیلئے اسے قربان کرنا پڑے تو ذرہ بھر پرواہ نہیں کرنی چاہئے.اب بھی میرا ارادہ نہیں کہ کوئی ایسا طریق اختیار کیا جائے جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہولیکن میں اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوں کہ حکومت کو.ایسے طریق اختیار کرنے دوں جن سے جماعت کی ہتک اور ذلت ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ حکومت کے بعض افسر متواتر ہمارے خلاف ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں جو سراسر نا جائز ہیں.ہم ان کے بالا افسروں کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں تو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کرتے.پولیس کے بعض آدمی ہمارے خلاف مسلسل اور متواتر جھوٹی رپورٹیں کرتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں دی جاتی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت نے باعزت زندگی بسر کرنی ہے اور احمدیت کے جھنڈے کو بے داغ رکھنا ہے تو وہ اس ذلت کو برداشت نہیں کرے گی.بے شک میں نے اعلان کیا ہوا ہے اور ہماری تعلیم یہی ہے کہ ہم حکومت کے وفادار ر ہیں گے اور قانون شکنی نہیں کریں گے لیکن ایسے ذرائع ہیں کہ جن سے قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی ہم اپنے حقوق کی
خطبات محمود ۲۶۷ سال ۱۹۳۸ء حفاظت کر سکتے ہیں اور ایسی بیسیوں تدابیر ہیں کہ قانون کی پوری پوری پابندی کرتے ہوئے بھی ہم ظالم حاکموں کے ظلم کا مقابلہ کر سکتے ہیں.پس میں جماعت کے نو جوانوں اور بوڑھوں اور مردوں اور عورتوں سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ سلسلہ کی عزت اور احترام کیلئے انہیں ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے.ان کا حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کریں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حق ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے، خدا تعالیٰ کا حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کرے بلکہ میں کہوں گا کہ انسانیت کا بھی حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کرے کہ تم کو تو حکومت کے قوانین کی پابندی کی اور اس کی فرمانبرداری کا حکم تھا پھر تم نے کیوں اس پر عمل نہ کیا.جماعت کی عزت کی حفاظت کی کیلئے میں جو کچھ کروں وہ جائز ہے اور اس کیلئے جس قسم کی قربانی کا میں مطالبہ کروں سلسلہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اسے پورا کرے اور جو اس سے دریغ کرے وہ ہر گز احمدی نہیں رہ سکتا.میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ تم میں سے بہت ایسے ہیں کہ جب انہیں کوئی شخص گالی دے تو وہ بھی جواب میں اسے گالی دیتے ہیں گویا ان کے نزدیک ان کے نفس کی عزت اتنی ہے کہ وہ می معمولی ہتک کو بھی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب سلسلہ کی قربانی کا سوال پیش ہو تو وہ لوگ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں.وہ اپنے نفس کی خاطر تو ہر قسم کی جانی ، مالی اور عزت و عظمت کی قربانی کیلئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنے کا سوال اگر پیدا ہو تو کیوں اُن کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ بڑی قربانی ہے.یاد رکھو خلافت قائم ہی اس لئے ہوتی ہے کہ جماعت سے قربانیاں کرائی جائیں ورنہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بغیر خلافت کے بھی ادا کر سکتا ہے.خلافت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جب سلسلہ کیلئے مجموعی قربانی کا وقت آئے تو وہ کرائی جاسکے اور دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک یہ آواز کی بلند ہو جائے اور ہر طرف سے یہ جواب آئے کہ ہم تیار ہیں.اس کیلئے خواہ وطن چھوڑ نے پڑیں اور خواہ جائیدادوں سے ہاتھ دھونا پڑے، مال قربان کرنا پڑے یا جان، کسی سے دریغ نہ کیا جائے.میں نے حکام کو ہمیشہ توجہ دلائی ہے کہ یہ یک طرفہ تعاون درست نہیں.اگر وہ ہم.تعاون کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ہمارے احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہئے.بے شک ہم تھوڑے
خطبات محمود ۲۶۸ سال ۱۹۳۸ ہیں لیکن اگر تھوڑوں کی حفاظت نہ کی جائے تو حکومتوں کا فائدہ ہی کیا ہے اور ان کی ضرورت کیا ہے.حکومتیں تو قائم ہی اس لئے ہوتی ہیں کہ تھوڑوں کی حفاظت کریں.بعض نادان افسر کہہ دیتے ہیں کہ تمہیں قادیان میں اکثریت حاصل ہے اس لئے ہم یہاں اقلیت کی حفاظت کرتے ہیں حالانکہ یہ صیح نہیں.اکثریت یا اقلیت کیلئے کبھی ایک ہی گاؤں کو نہیں لیا جا تا بلکہ علاقہ کو دیکھا جاتا ہے.دیکھنا یہ ہے کہ اگر اس تھا نہ کو لیا جائے تو ہماری اکثریت ہے یا اقلیت؟ تھانہ کی آبادی کی دولاکھ ہوگی جن میں احمدی صرف بارہ تیرہ ہزار ہوں گے اور یہ نہایت کمزور اقلیت ہے چہ جائیکہ اسے اکثریت ظاہر کیا جائے.اکثریت یا اقلیت ہمیشہ علاقہ کے لحاظ سے ہوتی ہے گاؤں کی کیا ہستی ہوتی ہے کہ اس سے اقلیت یا اکثریت کا اندازہ کیا جائے.مگر افسوس ہے کہ بعض افسر ہمارے ساتھ یہ کہہ کرنا انصافی کرتے ہیں کہ تم اکثریت میں ہو لیکن اب ہم اس بات کو برداشت نہیں کریں گے.میں وہ شخص ہوں جس نے کم سے کم تمہیں سال تک حکومت سے تعاون کیا ہے اور اس کیلئے ہر قسم کی ذاتی اور خاندانی اور جماعتی قربانیاں کی ہیں اور اس لئے میں کب یہ بات پسند کر سکتا ہوں کہ خواہ مخواہ حکومت سے لڑائی چھڑ جائے لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ جس حکومت کی نظر اتنی کو تاہ اور کان اتنے بہرے ہوں کہ وہ کسی کی سالہا سال کی قربانیوں کو محض کسی اکثریت کو خوش کرنے کیلئے قربان کر دے تو وہ بھی اس بات کی حقدار نہیں کہ اس سے اس رنگ میں تعاون کیا جائے جس رنگ میں میں پہلے کرتا چلا آیا ہوں.تاہم چونکہ ہماری مذہبی تعلیم ہے کہ قانون شکنی نہ کرو اور قانونی حدود میں حکومت کے وفادار رہو ، ہم اس حد تک وفادار ر ہیں گے.لیکن میں جماعت کے دوستوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ اگر سلسلہ کی تذلیل کا یہ سلسلہ جاری رہا اور حکام بالا نے بھی اسے روکنے کی طرف توجہ نہ کی تو وہ اسے بند کرانے کیلئے جس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ ہوگا ان کیلئے تیار رہیں گے.ہم پہلے ضلع کے حکام کو متوجہ کریں گے اور اگر وہ نہ مانے تو پھر حکام بالا کو توجہ دلائیں گے اور اگر انہوں نے بھی توجہ نہ کی تو قانون کے اندر رہتے ہوئے ہمیں جو ذرائع بھی اختیار کرنے پڑیں گے، کریں گے اور جو قربانیاں بھی ضروری ہوں گی اُن سے منہ نہ موڑیں گے.میں ہر احمدی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے دریغ نہ کرے گا لیکن اگر کوئی میرے ساتھ شامل نہ ہوتی.
خطبات محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۸ء تب بھی میں چونکہ خدا تعالیٰ کے سامنے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں اس لئے میں خدا تعالیٰ سے کہہ دوں گا اے میرے رب ! میری اپنی جان حاضر ہے اور اسے تو جس جگہ اور جس طرح چاہے سلسلہ کی عزت کی حفاظت کیلئے قربان کرنے کو تیار ہوں.اس کے علاوہ میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی طبیعتوں میں سے غصہ کو دور کرو اور مظلوم بنو.کسی کے ساتھ خواہ وہ کتنا کمزور سے کمزور کیوں نہ ہوں ظلم نہ کرو.اور یاد رکھو کہ کمزور کا مقابلہ کرنا بہادری نہیں.ہمارا مطالبہ حکومت سے ہے ورنہ افراد کے لحاظ سے تم قادیان کو اتنا امن والا مقام بنادو کہ یہاں ذلیل سے ذلیل آدمی بھی اپنے آپ کو معزز ترین وجود سمجھے اور اپنے آپ کو ہر لحاظ سے محفوظ محسوس کرے.کسی کی گالیوں سے غصہ میں نہ آؤ، کوئی خواہ تمہارا کتنا نقصان کر دے، خواہ تمہیں مارے مگر اسے برداشت کرو لیکن حکومت طاقتور ہے اس سے اس قسم کی کا سلوک برداشت نہ کرو.شریف آدمی وہ ہے جو اپنے تابع کی بے انصافی کو تو برداشت کر لیتا ہے مگر جو غالب ہو اُس سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے.پس میں جہاں جماعت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو قربانیوں کیلئے تیار کرو وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ یہ مت سمجھو کہ تم تھوڑے ہو کیونکہ جو خدا تعالیٰ کیلئے کھڑا ہو وہ اکیلا بھی بہت ہوتا ہے.مجھے معلوم نہیں یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں مگر تاریخی لحاظ سے گو صحیح نہ ہو لیکن واقعات کے لحاظ سے ضرور صحیح ہے.کہتے ہیں کہ نمرود بڑا بادشاہ تھا مگر اُس کی ناک میں مچھر گھس گیا اور اندر گھر بنالیا اور اس سے اُس کی موت واقع کی ہوگئی.اس کے سر میں کھجلی ہوتی اور جوتیاں مارتے تھے تو آرام ہوتا تھا.یہ صحیح ہو یا نہ ہو مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ کتنے پہلوانوں کو مچھر کاٹتا ہے اور وہ ملیریا میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تو مچھروں سے بھی بڑے بڑوں کو نیچے گرا دیتا ہے.جماعت کے دوستوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ مخالف اقوام کی طرف سے ہر قسم کی باتیں سن لو اور برداشت کرو لیکن حکومت سے مطالبہ کرو کہ ہمارے ساتھ جو سلوک وہ کرتی ہے وہی ہمارے مخالفوں سے کرے اور اپنے افسروں کو ایسے احکام صادر کرنے سے رو کے جو محض حکومت جتانے کیلئے کئے جاتے ہیں اور جو انصاف کے بالکل خلاف ہوتے ہیں.ورنہ ہم ایسی باتوں کا ازالہ ضرور کرا کر چھوڑیں گے ، خواہ عدالتوں کے ذریعہ سے کرائیں اور خواہ کی
خطبات محمود ۲۷۰ سال ۱۹۳۸ ایسی ایجی ٹیشن کے ذریعہ جس کی قانون اجازت دیتا ہے.میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ سلسلہ کی عزت کے تحفظ کیلئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار ہو جائے.ہمت کرنے والا ہمت کرتا ہے تو اس میں کامیابی بھی ہو جاتی ہے.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جماعت قادیان نے صوفی عبد القدیر صاحب کی ماتحتی میں جن کو ملک میں کوئی خاص سیاسی یا تمدنی پوزیشن حاصل نہ تھی اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا اور کہ دیا تھا کہ اس طرح ہم ظلم برداشت نہیں کر سکتے اور حکومت کو اتنے دن کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ اس عرصہ کے اندر اس کا ازالہ کر دے ورنہ ہم اپنی قربانیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ کرائیں گے.تو حکومت کا ایک خاص پیغامبر گورداسپور آیا اور وہاں سے راتوں رات حکومت کا جواب یہاں پہنچایا گیا کہ آپ کی شکایات پہنچ چکی ہیں اور ان کی طرف توجہ کی جارہی ہے.تو جب قوم قربانی کیلئے تیار ہو جائے تو حکومت بھی اُس کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کیونکہ حکومتیں پبلک کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کیا کرتیں اگر وہ ایسا کریں تو چل نہیں سکتیں.اور جب کسی قوم کو خود اپنے حقوق کی حفاظت کا خیال نہ ہو تو حکومت بھی خاموش رہتی ہے.بعض اوقات حکومت کی نیت تو اچھی ہوتی کی ہے مگر وہ اس خیال سے کہ اکثریت کو بگاڑ کر فساد کیوں پیدا کریں، اقلیت کو تھپکا کر سُلانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہم یہ نہیں ہونے دیں گے.اسے یا تو ہمارا حق دینا پڑے گا یا کہنا پڑے گا کہ تم ہماری رعایا نہیں ہو.اس صورت میں پھر مذہب اور قانون کے ماتحت جو کچھ ہم سے اپنی عزت کی حفاظت کیلئے ہو سکے گا کریں گے.حکومتوں کو ہمیشہ یا تو انصاف دینا پڑتا ہے اور یا پھر وہ بدنام ہو جایا کرتی ہیں اور بدنامی حکومت کیلئے ہی نقصان کا موجب ہو ا کرتی ہے افراد کیلئے نہیں.ہم گو عدم تعاون وغیرہ اصول کے قائل نہیں مگر قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسے ذرائع اختیار کر سکتے ہیں کہ جن سے حکومت ہماری عزت کی حفاظت پر مجبور ہو جائے اور اپنی عزت کی حفاظت کیلئے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالنا چھوڑ دے.ہماری جماعتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونہ کونہ میں ہیں اور وہ ہر جگہ انگریزوں کی تعریف کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مرکز والے کہتے ہیں کہ انگریزوں کی حکومت اچھی ہے.امریکہ، جرمنی ، چین، جاپان ، سماٹرا، جاوا وغیرہ ممالک میں ہماری جماعتیں ہیں اور اس کی
خطبات محمود ۲۷۱ سال ۱۹۳۸ء رنگ میں ہر جگہ ہی انگریزی حکومت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے کیونکہ ہم انگریزوں کے انصاف کی تعریف کرتے تھے تو وہ بھی قدرتاً ان باتوں کو دُہراتے تھے لیکن حکومت کا یہ رویہ نہ بدلا تو لا زمانی آئندہ احمدیوں کے منہ پر کم سے کم ہندوستانی حکومت کی بُرائی ہوگی تعریف نہ ہوگی اور اس کا اثر دوسرے ملکوں پر بھی پڑے گا کیونکہ ہماری جماعت اس وقت سب دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیل چکی ہے اور اگر ہم اور کچھ بھی نہ کریں تو بھی صرف یہ امر حکومت کی بدیوں سے دنیا کو واقف کرنے کیلئے کافی ہوگا اور وہ اس سزا کی عظمت کو محسوس کرے گی.علاوہ ازیں ایک اور کی صورت بھی ہے.ہم اگر گزشتہ واقعات کو لکھ کر ملک میں پھیلا دیں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ اس اس طرح ہمارے خلاف ہمارے دشمن کارروائیاں کرتے رہے یا بعض حکام یا ماتحت اظہار عداوت کرتے رہے ہیں لیکن باوجود وقت پر مقامی حکام کو توجہ دلانے کے اور پھر بالا حکام کو توجہ دلانے کے کوئی تدارک نہیں ہوا.اس کے مقابلہ میں ہمارے بعض افراد پر دشمنوں نے غلط الزامات لگائے تو ان پر فوراً کارروائی کی گئی اور جواب طلبیاں یا قانونی کارروائیاں کی شروع ہو گئیں.جس سے ظاہر ہے کہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی جاتی ہے اور ہمارے مخالفوں سے جنبہ داری کا برتاؤ کیا جاتا ہے تو یہی ترکیب حکومت کو ہوش میں لانے کیلئے کافی ہے بلکہ ساری دنیا تو کجا اگر صرف ہندوستان بلکہ پنجاب میں ہی ایسا کریں تو تمام انصاف پسند لوگ حکومت کو ملامت کریں گے.دراصل انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس پر صحیح الزام لگایا جائے تو وہ ضرور شرمندہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے غریب کو بچانے کیلئے یہ مادہ انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے کہ بڑے سے بڑے بادشاہ پر بھی جب سچا اعتراض کیا جاتا ہے تو وہ کانپ اُٹھتا ہے اور اس طرح غریب کے حق کی داد رسی ہو جاتی ہے تو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے علاج حکام کی ضمیروں میں پوشیدہ طور پر رکھ دیا ہوا ہے.ہمیں نہ فتنہ وفساد کی ضرورت ہے نہ عدم تعاون کی.پچھلے دنوں جب حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق یہ کہنا شروع کیا کہ یہ حکومت کے غدار ہیں تو ہم نے اس کے متعلق ولایت میں اُن پرانے افسروں کے پاس ذکر کیا جو ہمیں جانتے اور ہم سے اچھی طرح واقف ہیں.اس پر پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے وزراء سے
خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۳۸ء سوال کئے اور انہوں نے یہاں دریافت کرایا تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ہم تو انہیں بڑا وفادار سمجھتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ غریب اور کمزور کی حفاظت پر مجبور ہوتا ہے.ضرورت صرف عقل سے کام کرنے کی ہوتی ہے اور اس بات کی کہ انسان اپنے نفس پر قابو ر کھے اور اپنی مظلومیت کو ثابت کر سکے.اگر کوئی شخص کسی کو دس جوتیاں مارتا ہے اور وہ اسے برداشت کر لیتا ہے لیکن جب وہ گیارہویں مارنے لگے تو یہ بھی ایک اُسے ماردے.تو جنہوں نے پہلا حال نہ دیکھا ہو اور بعد میں پہنچے ہوں وہ یہی کہیں گے کہ دونوں لڑ رہے تھے.وہ اسے مارتا تھا اور یہ اسے.لیکن جو گیارہویں ضرب بھی برداشت کر لے اُس کے ساتھ ہر کوئی ہمدردی کا اظہار کرے گا اور کہے گا کہ اس نے ہاتھ نہیں اُٹھایا.پس یاد رکھو کہ مظلومیت اپنی ذات میں بڑا حملہ ہے اور یہ خود ظالم کا ہاتھ کاٹنے کیلئے کافی ہے.اگر تم میرے ساتھ ان دو باتوں میں تعاون کرو یعنی میری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قربانیوں کیلئے تیار ہو جاؤ اور انتہائی مظلومیت اور قانون کی اطاعت کو برداشت کر لو تو تمہاری عزت دنیا میں اس طرح قائم ہو جائے گی کہ جو لوگ تمہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں وہ نامراد ہوں گے اور تم اپنی آنکھوں سے اُن کو شکست خوردہ اور میدان سے بھاگتے ہوئے دیکھ لو گے.پھر میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ ایک طرف تو انتہائی قربانی کیلئے تیار ہو جاؤ اور دوسری طرف ظالم بننے کی بجائے مظلوم بنو.قادیان میں خواہ کسی قوم کا ایک ہی فردرہتا ہو وہ یہی سمجھے کہ میں بہت بڑا ہوں اور یہ لوگ میرے سامنے حقیر ہیں.تم اپنے آپ کو بڑا مت سمجھو، تمہاری ابھی دُنیوی لحاظ سے ہستی ہی کیا ہے.سکھ صرف چالیس لاکھ ہیں لیکن حکومت ان سے ڈرتی ہے.احمدی اگر بیس لاکھ بھی ہوں تو ان کی عزت ظالم حکام سے بھی اور ظالم رعایا سے بھی محفوظ کی ہو جائے اور کسی کو جرات نہ ہو کہ ان کو ترچھی نگاہ سے بھی دیکھ سکے لیکن ابھی جماعت بہت کم ہے جس کی وجہ سے جو حکام اخلاقی زور سے نہیں بلکہ پولیس کے زور سے حکومت کرنے کے عادی ہیں جماعت کے حقوق کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اس قلیل جمعیت کے باوجوداگر جماعت میں کچی روح ہو تو یہ ممکن نہیں کہ حکومت کے افسر جماعت کو ڈرا لیں.مؤمن کبھی کسی سے بھی نہیں ڈرتا ہاں ایک صورت ہے جس سے حکومت اپنا مطلب پورا کر سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر
خطبات محمود ۲۷۳ سال ۱۹۳۸ء کسی وقت اس کے راستہ میں دقتیں ہوں تو ہم کو حالات بتا کر ہم سے تعاون کی درخواست کرے.اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہم اپنے حقوق کو خود خوشی سے چھوڑ دیں.اگر تو کوئی افسر ہمیں کی یوں کہے کہ ہم مانتے ہیں فلاں قوم نے یا فلاں شخص نے تم پر ظلم کیا ہے مگر چونکہ ہمارے لئے انتظام کرنا مشکل ہوگا اس لئے تم معاف کر دو، تو ہم یقیناً معاف کر دیں گے لیکن اس کی بجائے وہ ظالم کے بچاؤ کیلئے دلائل دینے لگتے ہیں اور ہم پر اعتراض کرنے لگتے ہیں جسے برداشت کرنے کیلئے ہم تیار نہیں ہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم مظلوم بھی ہوں اور حکام محض بُزدلی سے اور کی احرار یا دوسری قوموں سے ڈر کر ہمارے حقوق تلف کریں اور پھر اپنی اس کمزوری کو چھپانے کیلئے ہمیں ہی غلطی پر قرار دیں اور ہم اس کو برداشت کر لیں.ایسی صورت میں ہمارا فرض ہے کہ ملکی قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے جو تد بیر بھی اس سختی کو دور کر نے کیلئے اختیار کر سکیں کریں.غرض حکومت کو یا تو انصاف کرنا پڑے گا اور یا ہماری مظلومیت کو تسلیم کر کے ہم سے خواہش کرنی پڑے گی کہ ہم اُس کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے حق کا مطالبہ نہ کریں لیکن اگر وہ ایسا نہ کی کریں تو میں جیسا کہ پہلے بھی کہہ آیا ہوں ہماری جماعت کو دو باتیں کرنی پڑیں گی.ایک تو یہ کہ وہ قربانی کیلئے تیار ہو جائے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے اخلاق کی اصلاح کرے اور قانون کی اطاعت پر پہلے سے بھی زیادہ کار بند ہو.انہیں چاہئے کہ وہ ہر قسم کے ظلم کو کلی طور پر چھوڑ دیں اور اپنے نفس کی عزت کا خیال دل سے نکال دیں.ان کی عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت سے زیادہ نہیں.آپ پر مکہ میں جسے خدا تعالیٰ نے امن والا شہر بنایا ہے اور جہاں تمام مشرک اور بُت پرست بھی آزادی کے ساتھ رہتے سہتے تھے ، عین خانہ کعبہ میں جب آپ نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ میں تھے بعض شریر مخالفوں نے اونٹ کی گوبر سے بھری ہوئی اوجھڑی لا کر آپ کے سر پر رکھ دی.سکے انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہماری عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ ہے.اگر ہمارا آقا اور سردار ان باتوں کو برداشت کر لیتا تھا تو ہمیں اس سے کئی گنا زیادہ مصائب برداشت کرنے چاہئیں.پس جب تمہاری ذلت ہو تو اسے برداشت کرو اور جب تم پر ظلم ہو تو خاموش رہو.ہاں صرف ایک بات کو مدنظر رکھو اور وہ یہ کہ جہاں سلسلہ کی عزت کا سوال ہو اُس وقت ہر جائز قربانی کرنے کیلئے تیار رہو.اور جب تم ان دو باتوں
خطبات محمود ۲۷۴ سال ۱۹۳۸ء کے لئے تیار ہو جاؤ گے یعنی ظلم سہنے اور قربانی کرنے کیلئے تو یاد رکھو کہ یہ وہ موت ہوگی جس کے بعد پھر موت نہیں آیا کرتی.“ ل النور: ۵۶ قُلْ لَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْدًا (الشورى : ۲۴) (الفضل ۲۷ را پریل ۱۹۳۸ء) کنز العمال جلد ۵ صفحہ ۶۴۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ ء میں لَا خِلَافَة إِلَّا عَنْ مَشْوَرَةٍ کے الفاظ ہیں.خود رائی: خودسری.سرکشی.اپنی مرضی کے مطابق کوئی کام کرنا.الشورى:٣٩ ل بخارى كتاب الاحكام باب السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلهِ مَامِ (الخ) ے بخارى كتاب الصلوة باب الْمَرأَة تُطْرَح عن المصلى (الخ) 66
خطبات محمود ۲۷۵ ۱۶ سال ۱۹۳۸ منعم علیہ گروہ وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے (فرموده ۳/ جون ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو ایک ایسی دعا سکھلائی ہے جو کئی معنوں میں اپنی جلوہ گری کرتی اور قرآن کریم کے مطالب کی وسعت پر دلالت کرتی ہے.وہ دعا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : کہ اے ہمارے ربّ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا.یعنی اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام نازل کیا.ادھر تو یہ دعا سکھائی گئی ہے دوسری طرف قرآن کریم فرماتا ہے کہ مؤمن کی دعا رد نہیں کی جاتی.چنانچہ سورہ بقرہ میں جہاں روزوں کے فرض کرنے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے روزے فرض کئے ہیں تا کہ تم میں کامل تقویٰ پیدا ہو.یہ روزے خدا تعالیٰ کے اس عہد کا نشان ہیں جو قرآن کریم کے نزول کے ذریعہ سے اس نے دنیا سے باندھا ہے.گویا حضرت کی ابراہیم کے عہد کا نشان ختنہ تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا نشان رمضان کے روزے ہیں اور امت محمد یہ ان دونوں عہدوں کی وارث بنائی گئی ہے اور اس میں ختنہ ابراہیمی عہد کے اجراء کی علامت ہے اور رمضان کے روزے محمدی عہد کے اجراء کی علامت ہیں.
خطبات محمود ۲۷۶ سال ۱۹۳۸ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر عبادت کا ایک بدلہ ہے اور روزہ کا بدلہ میں خود ہوں کے اس عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے.پس تم کو چاہئے کہ اس عہد کو پورا کرو اور ہمیشہ اس عہد ہدایت کی یاد میں اللہ تعالیٰ کی تکبیر بلند کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد ہونے کا ثبوت دو.پھر فرماتا ہے و إذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قَرِيبَ ، أَجِيبُ دَعْوَةٌ الدّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ٣ے اور جب تجھ سے میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دے کہ میں جس نے تم سے یہ نیا عہد باندھا ہے تمہارے قریب ہی ہوں.اس عہد کے اندر آئے ہوئے ہر شخص کی جب وہ مجھے پکارے دعا کو میں سنتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ بھی میرے اس عہد میں کامل طور پر داخل ہوں گی اور میری امداد پر یقین رکھیں تا کہ انہیں رُشد و ہدایت کا راستہ مل جائے.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جو بھی الہی عہد کے تابع ہو کر دعا کرتا ہے یا یوں کہو کہ قرآنی اصطلاح کے مطابق مؤمن کامل یا عبد ہو کر دعا کرتا ہے اس کی دعا ضرور سنی جاتی ہے اور کبھی ضائع نہیں جاتی.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آمن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ سے یا ( مجھے یہ تو بتاؤ کہ ) وہ کون ہستی ہے جو سب طرف سے مایوس ہو کر دعا کرنے والے کی طرف جھکتی ہے اور اُس کی مصیبت کو ٹال دیتی ہے.یعنی ایسی ہستی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مضطر ہوتے ہیں اُن کی دعائیں سنی جاتی ہیں.خواہ وہ ہندو ہوں، خواہ عیسائی ہوں ، خواہ سکھ ہوں ، خواہ پارسی ہوں اور خواہ دنیا کے کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں.جب کبھی اضطرار کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی دعا کوسُن لیتا ہے.وجہ یہ کہ ان کی وہ کی حالت بھی درحقیقت ایمان کی حالت ہوتی ہے کیونکہ ایک مؤمن اور غیر مومن میں فرق یہی ہے کہ مؤمن خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے اور غیر مؤمن خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا ، ورنہ تھوڑا بہت ایمان ہر شخص میں پایا جاتا ہے حتی کہ ایک دہریہ کے دل میں بھی ہوتا ہے.چنانچہ دہر یہ بھی کسی نہ کسی بالا طاقت کا ضرور اقرار کرتا ہے.پس اگر ایک مؤمن اور غیر مؤمن میں
خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۳۸ء فرق ہے تو یہی کہ مؤمن خدا تعالیٰ کو ایسی صورت میں دیکھتا ہے جس کے بعد اسے کوئی شک باقی نہیں رہتا.اور غیر مؤمن اسے ایسی صورت میں دیکھتا ہے جس کے ساتھ بہت سے شکوک وابستہ ہوتے ہیں.ورنہ تھوڑا بہت ایمان ہر ایک میں پایا جاتا ہے لیکن جب کا فر پر بھی حالت اضطرار آتی ہے تو اس کا وہ شک جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اس کے دل میں پایا جاتا ہے وقتی طور پر دور ہو جاتا ہے کیونکہ اضطرار کی مثال آگ کی سی ہے جس طرح آگ میں اگر تنکے ڈالے جائیں تو وہ جل جاتے ہیں، لکڑی ڈالی جائے تو وہ بھسم ہو جاتی ہے اسی طرح اضطرار کی آگ کی شکوک وشبہات کے خس و خاشاک کو بالکل جلا کر راکھ کر دیتی ہے.چنانچہ ایک غیر مؤمن کے دل میں اسی وقت اضطرار پیدا ہوتا ہے جب اس کے دیوی دیوتا اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ، جب اس کے اپنے گھڑے ہوئے خدا اسے بالکل ناکارہ اور بریا رنظر آتے ہیں، جب اس کے اپنے اختیار کئے ہوئے عقائد اسے غیر ملفی دکھائی دیتے ہیں اور جبکہ ساری دنیا سے نگاہیں ہٹ کر صرف ایک خدا کی ذات اس کے سامنے ہوتی ہے اور وہ گڑ گڑاتے اور روتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہہ کر گر جاتا ہے کہ اے خدا ! میری مدد کر.جب یہ کیفیت کسی شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو عارضی طور پر وہ اس وقت مؤمن ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی دعا کو قبول کر لیتا ہے.تو غیر مؤمن کیلئے مضطر کی شرط ہے.مگر مؤمن کیلئے محض الدّار ہونے کی شرط ہے.اور قطع نظر اس سے کہ اس پر اضطرار کی حالت وارد ہو یا نہ ہو اور وہ ہلاکت کے قریب پہنچے یا نہ پہنچے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے.تو اجيب دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں مؤمن کی دعا کی طرف اشارہ ہے اور آمن يُجِيبُ الْمُضْطَر میں مؤمن اور کا فرسب کی دعا کی طرف اشارہ ہے.اب جو خدا کا فر اور مؤمن دونوں کی دعائیں سننے والا ہے، کافر کی اُس وقت جب وہ مضطر ہو کر بمنزلہ مؤمن ہو جاتا ہے اور مؤمن کی اُس وقت جب وہ شرعی قواعد کے مطابق خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتا ہے جیسا کہ الدّاء کے لفظ میں ال کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے.تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ خود مؤمنوں کو ایک دعا سکھائے اور پھر اسے رد کر دے.جو فرمایا ہے کہ اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : خدایا! ہمیں سیدھا رستہ دکھا.ان لوگوں کا راہ جو منعم علیہم ہیں اور جن پر تیری نعمتیں
خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۸ء نازل ہوئیں.اس سے دو باتیں نہایت واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر مؤمن کو منعم علیہ بنانا چاہتا ہے.اپنے اپنے درجہ اور مقام کے مطابق کسی کو زیادہ اور کسی کو کم.جیسے سکولوں میں انعامات تقسیم ہوتے ہیں تو جماعت کے فرق کے لحاظ سے کسی کو تھوڑا انعام ملتا ہے اور کسی کو بہت.جو پرائمری میں اول رہتا ہے اسے بھی انعام ملتا ہے، جو مڈل میں اول رہتا ہے اسے بھی انعام ملتا ہے اور جو انٹرنس کے امتحان میں یو نیورسٹی بھر میں اول نکلتا ہے اسے بھی انعام کے طور پر وظیفہ ملتا ہے.اور ایف اے اور بی اے میں اول رہنے والوں کو بھی وظائف ملتے ہیں.مگر سارے وظائف ایک مقدار کے نہیں ہوتے.پرائمری میں اول رہنے والے یا ضلع بھر میں اول نکلنے والے کو جو وظیفہ ملتا ہے وہ پانچ سات روپے کا ہوتا ہے اور انعام میں اسے جو چیزیں ملتی ہیں وہ بھی دو چار روپے کی ہوتی ہیں.لیکن انٹرنس کے امتحان میں تمام یو نیورسٹی میں اول رہنے والے کو میں چھپیں بلکہ تمیں روپیہ تک کا وظیفہ مل جاتا ہے اور ایف اے اور بی اے میں جو اول نکلتے ہیں انہیں تو اس سے بھی زیادہ وظیفہ اور انعام ملتا ہے.تو گو منعم علیہ سارے ہی ہیں اس پر بھی انعام ہو ا جو پرائمری میں اول رہا اور اسے بھی انعام ملا جو بی اے میں اول رہا.مگر انعاموں میں فرق ہے.ایک کو اعلیٰ درجے کا انعام ملا اور ایک کو کم درجے کا.تو ایک بات اس دعا میں یہ بتائی گئی ہے کہ جو مؤمن ہو گا وہ ضرور منعم علیہ ہو گا ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ دعا کبھی نہ سکھائی جاتی.دوسری بات جس کا اس جگہ سے پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ اس جگہ منعم علیہ کے لفظ سے دنیا کے عام انعام مراد نہیں.اول تو اس لئے کہ وہ ہر ایک کو نصیب ہیں.مثلاً آنکھیں اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہیں مگر کیا یہ انعام کا فروں کو حاصل نہیں؟ کیا ہندوؤں کی آنکھیں نہیں ؟ کیا سکھوں ، عیسائیوں اور دہریوں کی آنکھیں نہیں ؟ یا کان اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مگر کیا یہ کافروں کو نہیں ملے ہوئے؟ یا ہاتھ پاؤں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مگر کیا کفار کے ہاتھ پاؤں نہیں ؟ یا د نیوی دولت ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے مگر کیا یہ نعمت ان کو میسر نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور مومنوں کی نسبت کا فر ہزار درجے زیادہ امیر ہیں.یا اگر عمارتوں اور مکانوں کا ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے تو یہ نعمت بھی ان کو حاصل ہے بلکہ مؤمنوں سے زیادہ حاصل ہے.
خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۸ء اسی طرح حکومت اور دبدبہ اور شوکت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمتیں ہیں مگر بعض حالات میں جیسے آجکل کا زمانہ ہے یہ بھی مسلمانوں کی نسبت کفار کو زیادہ حاصل ہوتی ہیں.پس کج معلوم ہوا کہ را هدنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : میں جن انعامات کا ذکر ہے وہ بعض مخصوص قسم کے انعامات ہیں جو صراط مستقیم کے ساتھ تخصیص رکھتے ہیں اور جب تک انسان صراط مستقیم پر قائم نہیں ہوتا وہ انعامات حاصل نہیں ہوتے.گویا دو قاعدے ہیں جو اس آیت سے ثابت ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ ہر مؤمن کیلئے منعم علیہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ تسلیم کرنا کہ کوئی شخص مؤمن تو ہے مگر اسے صراط مستقیم نہیں ملا بالکل غلط بات ہوگی.اور اس فقرہ کو اگر ہم سادہ اردو میں بیان کریں تو یوں بنے گا کہ فلاں شخص بڑا مؤمن ہے مگر اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں.اب کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ کوئی شخص مومن بھی ہو اور خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق بھی نہ ہو.جب صراط مستقیم کے معنے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ہی ہیں تو کی یہ کہنا کہ فلاں مؤمن ہے مگر اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق نہیں، بیہودہ بات ہو گی.جو بھی مؤمن ہوگا خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا ضرور تعلق ہو گا.پس اهدنا الصراط المستقيم میں در حقیقت حصول ایمان کے متعلق یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا ! ہمارے ایمان کو کامل کر اور ہمیں منعم علیہ گروہ میں شامل فرما.گویا منعم علیہ گروہ میں شامل ہونا ایمان کے کمال کی ایک علامت ہے اور ایمان کے کمال کے دوسرے معنے منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے ہیں.پس ہر مؤمن اپنے اپنے درجہ کے مطابق منعم علیہ گروہ میں شامل ہے.دوسرے یہ کہ جو انعام اِس جگہ مذکور ہے وہ ایسا نہیں جیسے دنیوی رتبے یا جائدادیں ہوتی ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں مگر اس درجہ کی نہیں جس درجہ کی نعمتوں کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے.یہ دنیوی نعمتیں اُن روحانی نعمتوں کی محض توابع ہیں.جیسے آقا کے ساتھ خادم ہوتے ہیں اسی طرح روحانی نعمتوں کے ساتھ یہ بطور خادم ہوتی ہیں.آخر جس انسان کو اللہ تعالیٰ جہاد کی توفیق دے گا اُسے دولت بھی بخشے گا ، اُسے فتح بھی دے گا ، اُسے مال غنیمت بھی عطا کرے گا.مگر یہ ادنی چیزیں اُس کا مقصود نہیں ہوں گی ، یہ ادنی انعمتیں ہیں جو اُسے حاصل ہوں گی ورنہ اس کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو گی جو بہت بڑی چیز ہے.اس کی کی
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۸ء ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک دوست دوسرے دوست کے ہاں بعض دفعہ ملاقات کیلئے چلا جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر تواضع کیلئے اس کیلئے کھانا پکواتا ہے اور اگر امیر ہو تو کئی کئی قسم کے کھانے تیار کراتا ہے اور اگر غریب ہو تب بھی وہ اچھی سے اچھی چیز اس کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے.مگر یہ کھانا اس کا مقصود نہیں ہوگا بلکہ اس کا اصل مقصد دوست سے ملاقات کرنا ہو گا اور وہ چاہے گا کہ میں اپنے دوست کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کروں چاہے کھانا مجھے ملے یا نہ ملے.اسی طرح اس دنیا کی نعمتیں مؤمن کومل تو جاتی ہیں مگر وہ اس کا مقصود نہیں ہوتیں.مقصود والا انعام بالکل اور ہے.اب وہ انعام جو اس دعا کے نتیجہ میں مؤمن کو ملتا ہے وہ کچھ بھی ہو قرآن کریم انعامِ الہی کے متعلق یہ ہدایت دیتا ہے کہ آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدّث.تو اپنے رب کی نعمت کو کی لوگوں کے سامنے پیش کر.اپنے عمل سے بھی اور اپنے قول سے بھی کیونکہ تحدیث پالنعمت کے لفظی معنے گو صرف اتنے ہی ہیں کہ نعمت کو بیان کرنا مگر عربی زبان کے محاورہ کے لحاظ سے تحدیث پالنعمت کے معنی یہ ہیں کہ شکر گزاری کے طور پر عملی رنگ میں دنیا پر یہ ظاہر کرنا کہ میں اس نعمت کی واقعہ میں قدر کرتا ہوں کیونکہ تحدیث باب تفعیل سے ہے اور یہ باب معنوں میں کثرت و وسعت پیدا کر دیتا ہے.چنانچہ کسی کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہو یا بڑا انعام ملے تو وہ اس خوشی میں لوگوں کی دعوت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ دعوت کر رہا ہوں حالانکہ وہ اس وقت کھانا کھلا رہا ہوتا ہے کوئی تقریر نہیں کر رہا ہوتا اور اگر بالفرض وہ کھانا نہ کھلائے اور محض لوگوں کو بلا کر یہ خبر سنادے کہ مجھے فلاں اعزاز حاصل ہوا ہے تب بھی لفظی طور پر وہ تحدیث پالنعمت کا مفہوم پورا کر سکتا ہے.لیکن محاورہ کے لحاظ سے تحدیث بالنعمت کے جو معنے ہیں ان کو وہ پورا کرنے والا نہیں ہوگا.اگر کسی کو خان بہادر کا خطاب ملے اور وہ لوگوں کو کی اکٹھا کر کے ایک تقریر شروع کر دے اور کہے لوگو مجھے خان بہادر کا خطاب ملا ہے اور میں آپ کی سب کو اس کی اطلاع دیتا ہوں تو لوگ اس کی بات سن کر ہنسیں گے اور کہیں گے میاں ! اگر تم نے صرف اتنی بات بتائی تھی تو ہمیں اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت تھی ، ہم اخباروں میں ہی یہ خبر پڑھ سکتے تھے.لیکن اگر وہ اس خوشی میں اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے اور انہیں کھانے یا چائے پر کی
خطبات محمود ۲۸۱ سال ۱۹۳۸ مدعو کرتا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تحدیث پالنعمت کی یا کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو لفظی طور پر تحدیث بالنعمت کا مفہوم ادا کر نے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ لوگوں سے کہہ دے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے لیکن محاورہ کے طور پر تحدیث بالنعمت کا مفہوم اُس وقت تک ادا نہیں ہوگا جب تک وہ غریبوں کو کھانا نہ کھلائے یا انہیں کپڑے نہ پہنائے.ہاں جب وہ غریبوں کو کھانا کھلاتا یا ننگوں کو کپڑے پہناتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا عملی رنگ میں شکر یہ ادا کرتا ہے تب کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے تحدیث بالنعمت کی.تو آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدّث کے صرف یہی معنے نہیں کی کہ تُو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ مجھے فلاں انعام ملا اور گولفظی طور پر یہ معنے بھی درست ہیں مگر محاورہ کے لحاظ سے درست نہیں کیونکہ محاورہ میں تحدیث بالنعمت کے یہ معنے ہیں کہ منہ سے اقرار کرے اور عملاً کوئی ایسا فعل کرے جو اس بات پر دلالت کرے کہ اس نے واقع میں اس نعمت کی قدر کی ہے.پس اُمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدّت کے یہ معنی ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمت نازل ہو اُس کا زبان سے اظہار کرو اور اُس کے شکریہ میں ایسے اعمال بجالا و جو دنیا کو فائدہ اور آرام پہنچانے والے ہوں.جب کوئی شخص ان دونوں پہلوؤں کے لحاظ سے تحدیث بالنعمت کرتا ہے تو اُس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کی.اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مجھ سے انعام مانگو اور دوسری طرف اس کے سیاق وسباق سے اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے جو چیز مانگی جائے ، بالخصوص ایسی چیز جس کے مانگنے کا وہ خود حکم دے وہ انسان کو ضرور دیتا ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم اس نعمت کا اظہار کرو جو تمہیں ملے اور شکر اور امتنان کا کوئی طریقہ اختیار کرو جس سے معلوم ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرنے والے ہو.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مؤمن کو جو نعمت ملتی ہے اور جس کا اس آیت میں بھی ذکر کیا گیا کی ہے وہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ سب سے اعلیٰ نعمت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بیان فرمایا ہے نبوت ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ سکھلایا ہے کہ تم ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں اپنی اس نعمت نبوت کو قائم رکھے.اب نبی اپنی نعمت کی تحدیث کس طرح کرتے ہیں سو یہ ہر شخص جانتا ہے کہ نبی اپنی نعمت کی تحدیث اس طرح کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی
خطبات محمود ۲۸۲ سال ۱۹۳۸ء کو الہی پیغام پہنچاتے چلے جاتے ہیں.قطع نظر اس سے کہ لوگ انہیں دکھ دیں، اُن کا بائیکاٹ کریں، انہیں گالیاں دیں، اُنہیں ماریں یا اُنہیں پیٹیں وہ اپنی بات لوگوں کے کانوں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس نعمت کا عملی رنگ میں شکریہ یہی ہے کہ ہم تمام دنیا کے عذاب اپنے سر پر اٹھا لیں.پھر ان کی اُمتیں اُن کی تابع ہو کر ساری دنیا میں تبلیغ دین کرتیں کہ اور لوگوں کو صداقت کی طرف دعوت دیتی ہیں.وہ بھی بڑے بڑے دکھ اُٹھاتی ہیں اور ان پر بھی بڑے بڑے مصائب وارد ہوتے ہیں.حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا پہلے انبیاء کی جماعتوں میں بعض لوگ ایسے گزرے ہیں جنہیں دشمنوں نے آروں سے چیر ڈالا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی.ہماری اپنی جماعت میں بھی اس رنگ کی تحدیث بالنعمت کے بعض واقعات موجود ہیں.چنانچہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جس وقت شہید کیا گیا ہے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ ادھر اُن پر پتھر پڑ رہے تھے اور اُدھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے جارہے تھے کہ یا اللہ ! میری قوم نادانی سے یہ فعل کر رہی ہے تو اسے معاف کر دے.یہ کچی تحدیث بالنعمت ہے جو اُن سے ظاہر ہوئی کہ آخری وقت میں بھی ان کے دل میں یہی خیال آیا کہ میں نے جس عظیم الشان نعمت کو حاصل کیا ہے مجھے عذاب دینے والے اس سے محروم نہ رہیں اور چاہے وہ مجھے دُکھ دے رہے ہیں میں ان کے متعلق یہی دعا کروں کہ خدا انہیں معاف کرے اور انہیں کی احمدیت کی شناخت کی توفیق عطا کرے.غرض نبوت پہلا اور سب سے بڑا انعام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو دیتا ہے.پھر اس سے اُتر کر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیقیت کا مقام ہے.جب انسان نبیوں کے کہ نقش قدم پر چلتے چلتے اس قدر بلند مرتبہ حاصل کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے نبیوں والا سلوک کی شروع کر دیتا ہے.وہ نبی نہیں ہوتے مگر خدا تعالیٰ کی غیرت ان کیلئے ایسی ہی بھڑکتی ہے جیسے نبیوں کیلئے ، وہ نبی نہیں ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ان کی زبان پر اسی طرح صداقت جاری کرتا ہے جس طرح نبیوں کی زبان پر وہ کامل مظہر ہو جاتے ہیں اس مقام کا کہ دليُمَكنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ.کے جس چیز کو وہ کہہ دیں کہ یہ دین ہے خدا تعالیٰ اُسی کو قائم کرتا ہے اور کی
خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۸ء جس چیز کو دنیا دین کہہ رہی ہو خدا تعالیٰ اسے مٹا کر رکھ دیتا ہے.درحقیقت یہ نبوت کا مقام ہی ہے کیونکہ نبی ہی ہیں جو دین کے قیام کیلئے بھیجے جاتے ہیں اور گو وہ نبی نہیں ہوتے مگر نبوت کے مقام کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ گویا وہی ہو جاتے ہیں.جس طرح لوہا جب آگ میں ڈالا جائے تو آگ کی شکل اور گرمی اور خواص سب اپنے اندر لے لیتا ہے اسی طرح وہ انبیاء کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ان کی تمام خصوصیات کے ایک حد تک حامل ہو جاتے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے تو گو وہ انگارہ نہیں بن جاتا مگر پھر بھی آگ کے تمام خواص ظاہر کرنے لگ جاتا ہے.وہ ویسے ہی جلاتا ہے جیسے آگ جلاتی ہے ، وہ ویسا ہی گرمی پہنچاتا ہے جیسے آگ گرمی پہنچاتی ہے ، وہ ویسی ہی شکل رکھتا ہے جیسی آگ کی شکل ہوتی ہے.غرض رنگ ، شکل اور خواص کے لحاظ سے اس میں اور آگ میں کوئی فرق نہیں ہوتا.اسی طرح صدیق مقام نبوت کے اتنا قریب ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی باتوں کو نبیوں کی باتیں قرار دے دیتا ہے جس طرح نبیوں کی باتوں کو وہ اپنی باتیں قرار دیتا ہے.پھر تیسرا گر وہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شُهَدَاء کا ہوتا ہے اور گوشُهَدَاء کیلئے خدا تعالیٰ کی کی غیرت اتنی نہیں بھڑکتی جتنی صدیقوں کیلئے بھڑکتی ہے.پھر بھی وہ چلتے پھرتے خدا تعالیٰ کے گواہ کی ہوتے ہیں اور دنیا میں اگر کسی نے چلتے پھرتے جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے.اگر دنیا میں کسی نے خدا تعالیٰ کے پیاروں کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے.وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کیلئے کی آئینہ کا رنگ رکھتے ہیں مگر ان میں اور صدیق میں ایک فرق ہوتا ہے.یعنی صدیق کی مثال تو می ایک ایسے آئینہ کی ہے جس میں تصویر ثبت کر دی گئی ہے جسے جب بھی دیکھو اس میں محبوب کے ہو بہو خد و خال نظر آئیں گے.آج دیکھو تو آج اور کل دیکھو تو کل.لیکن شہید کی مثال اُس آئینے کی طرح ہے جو گو بنایا اسی لئے گیا ہے کہ محبوب کا چہرہ اس میں نظر آئے مگر پھر بھی اس میں محبوب کی تصویر مستقل طور پر کندہ نہیں ہے.بایں ہمہ شیشہ اپنی ذات میں بھی ایک قیمتی اور مصفی چیز ہوتا ہے.جب محبوب کا چہرہ اس میں نظر آرہا ہو تب بھی وہ قیمتی ہوتا ہے اور جب محبوب کا چہرہ اس میں نظر نہیں آرہا ہوتا تب بھی وہ قیمتی ہوتا ہے مگر بہر حال اس آئینہ میں محبوب کی تصویر دائمی طور پر مثبت نہیں کر دی جاتی.ہاں اکثر اس میں محبوب کی شکل نظر آتی ہے کیونکہ شہید وہ آئینہ ہے جو کی
خطبات محمود ۲۸۴ سال ۱۹۳۸ء ہر وقت محبوب کے سامنے رکھا رہتا ہے.جیسے لوگ کام کی میز پر یا رہائش کے کمرہ میں آئینہ لگا دیتے ہیں.پس شہید کی مثال ایسے شیشے کی سی ہے جو قریباً ہر وقت سامنے رہتا ہے.یوں تو اس کے ہر دوسرے لحظہ کا عکس مختلف ہوتا ہے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ سامنے رکھنے کے لئے چن لیا گیا ہے قریباً ہر وقت اس میں چہرے کا انعکاس پڑتا رہتا ہے.اس کے بعد چوتھا درجہ صالح کا ہے.صالح کے معنی ہیں قابلیت رکھنے والا انسان.یعنی بعض چیزیں اپنی ذات میں ایک مقام تک نہیں پہنچی ہوتیں مگر ان میں اس مقام تک پہنچنے کی قابلیت ہوتی ہے.منطقیوں نے اسی بناء پر کہا ہے کہ بعض چیزیں کسی خاصہ کی بالقوہ مظہر ہوتی ہیں ور بعض بالفعل.یعنی بعض چیزیں تو وہ ہوتی ہیں جن میں کسی خاص قابلیت کے حصول کی قوت تو ہوتی ہے لیکن عملاً انہوں نے وہ قوت حاصل نہیں کی ہوئی ہوتی اور بعض وہ ہوتی ہیں جو عملاً بھی وہ قوت ظاہر کر رہی ہوتی ہیں.شہید کا جو مقام ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے سامنے پڑا ہوا شیشہ.کیونکہ شاہد کے معنے دیکھنے والے کے ہیں.گویا شہید ایک ایسا شیشہ ہے جو ہر وقت محبوب کے سامنے پڑا ہوا ہے اور جب بھی کوئی شخص اس میں دیکھتا ہے اس میں محبوب کا چہرہ نظر آ جاتا ہے.اور صالح کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہر وقت سامنے پڑا ہوا تو نہیں مگر اس میں ایسی قابلیت موجود ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ اپنا چہرہ اس میں سے دکھانا چاہے وہ دوسروں کو دکھا سکتا ہے.گویا شہید اور کی صالح کے مقام میں وہی فرق ہے جو ان دو آئینوں میں ہے کہ ان میں سے ایک ہر وقت کمروں کی میں لٹکے ر ہتے ہیں اور دوسرے جیب یا ٹرنک میں رکھے رہتے ہیں.اب جو شیشہ کمرہ میں ہر وقت سامنے ہوگا اس میں سے اکثر مکین کی صورت نظر آ جائے گی کیونکہ مکین اکثر مکان میں ہی رہتا ہے.ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی وقت اگر مکین وہاں نہ ہو تو وہ اس کی صورت نہ دکھا سکے.اسی طرح شہید گو ہر وقت خدا تعالیٰ کا چہرہ اپنے آئینہ قلب میں سے نہیں دکھا سکتا مگر چونکہ وہ اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں اکثر محبوب حقیقی نے جلوہ گر رہنا ہے اس لئے اکثر اس کا چہرہ اس کیلئے آئینہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے لیکن صالحیت کا مقام وہ ہے جس میں چہرہ دکھانے کی قابلیت تو پیدا ہو جاتی ہے مگر اس رتبہ کو نہیں پہنچتا کہ ہر وقت سامنے رہے.وہ جب کبھی سامنے آجاتا ہے محبوب کا چہرہ دکھا دیتا ہے اور جب ایک طرف ہو جاتا ہے تو محبوب کا چہرہ نہیں دکھا سکتا لیکن بہر حال اس میں
خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۸ء شکل دکھانے کی قابلیت موجود رہتی ہے.اسی طرح جو شیشہ سامنے پڑا ہوا ہو اس کے سامنے سے بھی کبھی انسان ایک طرف ہو جاتا ہے مگر غائب ہونے کا وقت بہت کم ہوتا ہے اور سامنے رہنے کا وقت بہت زیادہ.غرض صدیق ، شہید، صالح ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جن میں سے بعض کا مقام زیادہ اہم ہے اور بعض کا کم.صدیق وہ ہے جو اصل کی تصویر بن جاتا ہے اور جس کی حالت من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری کا مصداق ہوتی ہے.اسے سامنے رکھو تب بھی وہ وہی صورت دکھائے گا جو اصل کی ہے اور اگر اسے الگ لے جاؤ تب بھی وہ وہی صورت دکھائے گا.اگر ایک میل دور لے جاؤ تب بھی اور اگر ہزاروں میل پرے جاؤ تب بھی تمہیں اصل اور تصویر کے نقوش میں کوئی فرق دکھائی نہیں کی دے گا.یہی حال صدیق کا ہوتا ہے اس میں مستقل طور پر رسول کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کی ہو بہو وہی شکل ہو جاتی ہے جو نبی کی ہوتی ہے مگر اس کے برخلاف شہید ا کثر اوقات میں نبوت کے نقوش کو پیش کرنے والا شیشہ ہے اور صالح وہ ہے جو نبوت کے نقوش تو دکھاتا ہے لیکن اس اظہار میں نمایاں وقفے پڑتے رہتے ہیں.یہ وہ چار انعامات ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے.اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زیادہ تر مقصود اس آیت میں یہی چار انعام ہیں.باقی سب انعامات ان کے تابع ہیں اور چونکہ ان چاروں انعامات سے باہر اور کوئی روحانی انعام نہیں ہوسکتا اس لئے مؤمن یا نبی ہوگا یا مؤمن صدیق ہوگا یا مؤمن شہید ہوگا یا مؤمن صالح ہوگا.اور اگر ان چاروں مقامات میں سے کوئی بھی مقام اسے حاصل نہ ہو تو وہ مؤمن نہیں ہوسکتا.ان ساروں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ منعم علیہم ہیں.اب جبکہ منعم علیہ گروہ کی تعیین ہو گئی تو سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ اپنے رب کی نعمت کی تحدیث کرو اور عملی طور پر ایسے کام بجالاؤ جن سے معلوم ہو کہ تمہیں واقع میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر ہے.پس معلوم ہوا کہ ہر مؤمن کیلئے تحدیث بالنعمت لازمی ہے اور چونکہ مؤمن بغیر انعام کے
خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۸ء نہیں ہوسکتا اور اور نعمت بغیر تحدیث کے نہیں ہو سکتی اس لئے ہر مؤمن کیلئے تحدیث بالنعمت ضروری ہے.دراصل ایمان کا مقام احسان کا مقام ہے اور مؤمن اور محسن ایک ہی چیز ہیں.کوئی مؤمن ایسا نہیں ہو سکتا جو محسن نہ ہو اور کوئی ایسا حقیقی محسن نہیں ہو سکتا جو مومن نہ ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جیسے ایمان کے مختلف مدارج ہیں اسی طرح احسان کے بھی مختلف مدارج ہیں.مگر بہر حال وہ شخص جس میں کامل درجہ پر ایمان پایا جائے گا اس میں کامل درجہ پر احسان بھی پایا جائے گا اور جس میں کم درجہ کا ایمان ہوگا اس میں کم درجہ کا احسان پایا جائے گا.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محسن وہ ہے جو اس یقین اور وثوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اور اگر یہ یقین اسے حاصل نہ ہو تو اس سے اُتر کر اس میں اتنا یقین ضرور ہوتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.^ گویا محسن کی دو حالتوں میں سے ایک حالت ضرور ہوتی ہے یا تو اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جس وقت وہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے.جب وہ کہتا ہے الْحَمْدُیتے تو یہ کہنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا ملہ کا نقشہ اس کے سامنے کھیچ جاتا ہے اور اس کے انعامات اسے یاد آنے شروع ہو جاتے ہیں.اور جب وہ کہتا ہے رب العلمین تو اس کیلئے اسے کہیں دُور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ ریت العلمین اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان اس کے سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب وہ کہتا ہے الرّحمنِ تو اس کی صفت رحمانیت کی جلوہ گری سامنے آجاتی ہے.جب الرحیم کہتا ہے تو اس کی رحیمیت کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے بیچ جاتا ہے اور جب ملات يوم الدين کہتا ہے تو اس کی مالکیت کا تصور اس کے جسم کے ذرہ ذرہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا دیتا ہے.گویا وہ صرف اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے اسماء نہیں نکالتا بلکہ اپنی ذات میں اس کی ربوبیت، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کی صفات کو جلوہ گر ہوتا ہوا پاتا ہے.پس محسن کی یا تو یہ حالت ہوتی ہے اور یا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے اتر کر اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ عبادت کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو گو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے مگر بہر حال وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.
خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۸ء یہ ادنی درجہ ہے جو انسان کو نیکی کے راستہ پر قائم رکھتا ہے کیونکہ جب اُسے یہ یقین ہو کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو لازماً وہ سنبھال سنبھال کر قدم رکھتا ہے اور گناہوں کا آسانی سے شکار نہیں ہوتا.غرض محسنِ کامل ہونا تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن دنیا میں ادنی محسن بھی ہوتے ہیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ فرما دیا کہ اعلی محسن تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی اس رنگ میں کی عبادت کرے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور احسان کا ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان یہ یقین رکھتے ہوئے عبادت کرے کہ خدا اُس کو دیکھ رہا ہے.اسی طرح مؤمنوں میں سے بھی بعض ادنی درجہ کے ہوتے ہیں اور بعض اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں مگر جو ادنی ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول کر لئے جاتے ہیں.کیونکہ مؤمن جس حالت میں بھی ہو خواہ ادنی ہو یا اعلیٰ منعم علیہ گروہ کی سے باہر نہیں ہوتا.دنیا میں عام طور پر جنہیں ہم تندرست کہا کرتے ہیں ان میں بھی کئی کی بیماریاں پائی جاتی ہیں مگر ہم انہیں بیمار نہیں کہتے اور نہ وہ خود یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کام کے قابل نہیں.بعض دفعہ ایک جرنیل ہوتا ہے مگر کسی ادنی سی مرض میں مبتلا ہوتا ہے.ایک پہلوان ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے مگر ان معمولی امراض سے پہلوان اپنی پہلوانی کے فن کو اور جرنیل اپنی فوج کی نگرانی کو ترک نہیں کر دیا کرتا کیونکہ ان کی صحت کی زیادتی ان کی بیماری کی کمزوری پر غالب آئی ہوئی ہوتی ہے.اسی طرح مؤمنوں میں سے بھی کسی میں کوئی کمزوری کی ہوتی ہے اور کسی میں کوئی مگر ان کمزوریوں کی وجہ سے وہ منعم علیہ گروہ میں سے نہیں نکل جاتے کیونکہ اُن کی نیکیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کی کمزوریاں بالکل چھپ جاتی ہیں.بہر حال جبکہ ہر مؤمن منعم علیہ گروہ میں شامل ہے تو ہر مؤمن کیلئے تحدیث پالنعمت بھی ضروری ہے اور کی تحدیث بالنعمت یہی ہے کہ عملی رنگ میں دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے اور جو کچھ بھی خدا تعالیٰ دے اس سے دوسروں کو متمع کیا جائے.اگر دین ملے تو دوسروں تک دین پہنچایا جائے ، اگر عرفان ملے تو عرفان دیا جائے ، اگر علم ملے تو علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے ،غرض مؤمن کا مقام اللہ تعالیٰ نے محسن کا مقام رکھا ہے اور جب خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فحدت اور ادھر یہ فرماتا ہے کہ ہر مؤمن منعم علیہ گروہ میں شامل ہے تو معلوم ہو ا کہ
خطبات محمود ۲۸۸ سال ۱۹۳۸ کوئی مؤمن ایسا نہیں جو محسن نہ ہو اور کوئی مومن ایسا نہیں جس کا یہ فرض نہ ہو کہ وہ دنیا کو اپنی کی تمام طاقتوں سے فائدہ نہ پہنچائے.اس نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو یہ امر سوچنا چاہئے کہ اس کے تمام کام بنی نوع انسان کو فوائد پہنچانے کیلئے ہیں یا اپنی ذات کو نفع پہنچانے کیلئے ؟ میں نے جو خدام الاحمدیہ نام کی ایک مجلس قائم کی ہے اس کے ذریعہ اسی روح کو میں نے کی جماعت میں قائم کرنا چاہا ہے اور اس کے ہر رکن کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اپنے فوائد کو وہ بالکل بھلا دے اور دوسروں کو نفع پہنچا نا اپنا نتہی قرار دے دے.چنانچہ جہاں جہاں بھی اس کے ماتحت کام کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں اور خود انہوں نے بھی اپنی روحانیت میں بہت بڑا فرق محسوس کیا ہوگا کیونکہ جب کوئی شخص ایک منٹ کیلئے بھی اپنے فوائد کو نظر انداز کر کے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے اُس ایک منٹ کیلئے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے.کیونکہ خدا ہی ہے جو اپنے فائدہ کیلئے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تمام کام کرتا ہے.وہ غنی ہے اور اس بات سے بے نیاز ہے کہ اُسے کوئی فائدہ ہو.وہ جو بھی کام کرتا ہے مخلوق کیلئے کرتا ہے.پس جس گھڑی بندہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا فائدہ اُس کی ذات کو نہیں پہنچتا بلکہ دوسروں کو پہنچتا ہے تو اُس گھڑی میں وہ خدا نما آئینہ ہوتا ہے جس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آ رہا ہوتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو چیز ایک وقت انسان کے ساتھ وابستہ ہوگی وہ بعد میں بھی اپنا اثر دکھائے گی.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم جمعہ کیلئے آؤ تو اپنے کپڑوں کو خوشبو لگا کر آؤ.2ے اب خوشبو لگانا ایک منٹ کا کام ہے مگر وہ خوشبو بعد میں بھی گھنٹہ دو گھنٹے، ایک دن دو دن بلکہ ہفتہ ہفتہ تک جیسی جیسی قیمتی خوشبو ہوتی ہے قائم رہتی ہے.بارش برستی ہے اور وہ محدود وقت میں برستی ہے مگر اُس کی ٹھنڈک کا اثر دنوں چلا جاتا ہے.آگ جلتی ہے تو گو بعد میں بجھ بھی جاتی ہے مگر کمرے میں پھر بھی بہت دیر تک گرمی قائم رہتی ہے.اسی طرح جب کوئی مؤمن خدا نما ہو جاتا ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس میں وہ اپنے فائدے کو بالکل نظر انداز کر دیتا اور محض دوسروں کو فائدہ پہنچا نا اپنا منتہی قرار دے
خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۳۸ء لیتا ہے تو اُس وقت وہ خدا تعالیٰ کا مظہر بن ہو جاتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ عطر کا ایک چھینا تی جب کپڑوں پر پڑے تو وہ کئی کئی دن تک انسانی دماغ کو معطر رکھے سورج چڑھے اور اس کے غروب ہونے کے بعد بھی زمین سے گرمی کی لپیٹیں آتی رہیں.بارش برسے اور اس کے کئی کئی کی دن بعد بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی رہے مگر خدا کسی جسم میں آئے اور اس کا اثر کام کے ختم ہوتے ہی غائب ہو جائے.اگر تم ایک منٹ کیلئے بھی خدا تعالیٰ کا مظہر بن جاتے ہو تو یقیناً اس کے گھنٹوں بعد کی تمہاری حالت بھی خدا نما ہوگی اور تم ایک منٹ میں جو کام کرو گے اس کے بدلے کئی ج گھنٹوں کیلئے خدا تعالیٰ کے مظہر بن جاؤ گے.اور اگر تم اس ایک منٹ کو ترقی دیتے چلے جاؤ تو کی پھر تم چوبیس گھنٹے ہی خدا تعالیٰ کے مظہر بن سکتے ہو.چاہے دنیا کے نزدیک تم نے خدمتِ خلق کیلئے ایک یا دو گھنٹے وقت دیا ہو.جس طرح آگ بجھ جاتی ہے مگر کمرہ پھر بھی گرم رہتا ہے، بارش برس جاتی ہے مگر خنکی پھر بھی قائم رہتی ہے اسی طرح ہوتے ہوتے تمہاری یہ حالت ہو جائے گی کہ تمہارا گھنٹے دو گھنٹے کا کام اپنے اثرات کے لحاظ سے چومیں گھنٹوں پر پھیل جائے گا اور پھر کل کا کام اس اثر کو اور بڑھائے گا اور پرسوں کا کام اس اثر کو اور ترقی دے گا یہاں تک کہ بالکل ممکن ہے بلکہ غالب ترین بات یہ ہے کہ تمہاری روحانیت اس قدر ترقی کر جائے اور کی تمہاری نیتیں اتنی صاف ہو جائیں کہ وہ دو گھنٹے کا کام نہ صرف تمہیں باقی بائیس گھنٹوں کیلئے خدا تعالیٰ کا مظہر بنادے بلکہ جب دوسرا دن چڑھے تو اُس دن جو کام تم خدا تعالیٰ کے نمونہ پر کرو صرف اُسی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے مظہر نہ بنو بلکہ پہلے دن کی مظہر بیت ابھی باقی ہو اور وہ دونوں کی مل کر تمہارے نور کو اور بھی بڑھا دیں اور ہوتے ہوتے ایک غیر محدود ذخیرہ انعکاساتِ الہیہ کا تمہارے جسم میں جمع ہو جائے.آخر یہی وہ طریق ہے جس کے ماتحت کسی انسان کی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کہلاتی ہے.ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس قسم کا بنایا ہے اس کے لحاظ سے ۲۴ گھنٹے وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کا مظہر نہیں بن سکتا.آج تک کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جو سوتا نہ ہو، یا کھانا نہ کھا تا ہو، یا پانی نہ پیتا ہو، یا پاخانہ پیشاب نہ کرتا ہو، یا نہا تا دھوتا نہ ہو، یا بیوی بچوں کا فکر نہ کرتا ہو.یہ ساری ضروریات نبیوں کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں پھر کیونکر خدا تعالیٰ نے ان کی ہر حرکت اور
خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۸ء ان کا ہر سکون اپنی راہ میں قرار دیا اور کیونکر کہہ دیا کہ ان کا ہر کام میری رضا کیلئے ہے.اس کی تہہ میں دراصل وہی بات ہے جو میں نے بتائی ہے اور جس کی مثال میں میں نے بتایا ہے کہ عطر لگانے کے بعد تم گھنٹوں بلکہ دنوں تک اس کی خوشبو محسوس کرتے ہو.کمرہ میں آگ جلاتے ہو تو اس کے بجھنے کے بعد بھی اس کی گرمی محسوس کرتے ہو.اسی طرح انبیاء خدا تعالیٰ کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ جب وہ سوتے ہیں اُس وقت بھی ان پر یہی محویت طاری ہوتی ہے، جب اٹھتے ہیں اس وقت بھی یہی محویت ہوتی ہے، جب کھاتے ہیں اُس وقت بھی اور جب پیتے ہیں اُس وقت بھی ، اس طرح اُن کی نیند بھی خدا کیلئے ہوتی ہے اور اُن کی بیداری بھی ، اُن کا کھانا بھی خدا کے لئے ہوتا اور اُن کا پینا بھی.اسی طرح اُن کا اُٹھنا ، اُن کا بیٹھنا ، اُن کا نہانا، اُن کا پیشاب پاخانہ کرنا سب خدا کیلئے ہوتا ہے.وہ کام دنیا کو دنیا کے نظر آتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ کی میں وہ اُس کیلئے ہوتے ہیں کیونکہ اُن کاموں میں وہی خوشبو سمائی ہوئی ہوتی ہے جو خوشبو اُن کی زندگی کا اصل مقصود ہوتی ہے.تو جب محض اللہ کوئی شخص کام کرتا ہے اُس وقت اُس کی باقی گھڑیوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.پس مؤمن کو اپنے کاموں میں للہیت کو کبھی نہیں بھولنا کی چاہئے.خدا تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسے ماحول میں پیدا کیا ہے کہ ہمیں سزائیں بھی دینی پڑتی ہیں، ہمیں گرفتیں بھی کرنی پڑتی ہیں، ہمیں سیاستِ اسلام کو بھی قائم کرنا پڑتا ہے مگر باوجود اس کے چونکہ بندہ خدا تعالیٰ کا ظل ہے اور خدا تعالیٰ اپنے متعلق یہ فرماتا ہے کہ رحمتِي وسعت كُل شَيءے اس لئے ہمیں معافیاں بھی دینی پڑتی ہیں ، درگزر بھی کرنا پڑتا ہے اور چشم پوشیاں بھی کرنی پڑتی ہیں.کئی نادان ہیں جو ان باتوں کی وجہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں.چنانچہ بعض تو وہ ہیں جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ کیوں زیادہ بختی نہیں کی جاتی اور بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کیوں نرمی نہیں کی جاتی وہ یہ نہیں جانتے کہ ہم اس خدا کے مظہر ہیں جو نرمی بھی کرتا ہے اور سختی بھی.وہ مجرم کو اس کے کئے کی سزا بھی دیتا ہے اور کئی مجرموں کو معاف بھی کر دیتا ہے.مؤمن تو خدا تعالیٰ کا ظلت ہے ور نہ اپنی ذات میں مؤمن کوئی چیز نہیں، اپنی ذات میں نبی بھی کوئی چیز نہیں.نبی کی قیمت اسی لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ظل ہے، صدیق کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ظل.ہے،
خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۸ء شہید کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ظل ہے اور صالح کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ظل ہے.کوئی بڑا سا یہ ہے اور کوئی چھوٹا.اپنی ذات میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو حتی اور قیوم ہے.جو پہلے بھی تھا ، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا.باقی چیزیں آئیں اور فنا ہو گئیں ، آئیں اور مٹ گئیں.ان کو اگر زندگی ملتی ہے جیسے مَا بَعْدَ الْمَوْت حیات دی جاتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے طفیل ملتی ہے.اپنی ذات میں ان کے اندر کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ابدی زندگی کے مستحق ہوں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ جو چل بھی نہیں سکتا ہو سکتا ہے اسے ایک مضبوط انسان اپنی گود میں اٹھالے اور بھاگ پڑے.اب بچہ یقیناً اس جگہ نہیں ہو سکتا جہاں وہ ایک منٹ پہلے تھا.وہ اگر پہلے اس جگہ تھا تو ایک منٹ کے بعد پندرہ بیس گز دور چلا جائے گا پھر اور دور چلا جائے گا اور پھر بالکل نظروں سے اوجھل ہو جائے گا مگر وہ بچہ نہیں چل رہا بلکہ آدمی چل رہا ہے.اسی طرح جو حیات ابدی مرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ انسان کی حیات ابدی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی حیات ابدی ہوتی ہے.وہ انسان نہیں بڑھ رہا ہوتا بلکہ خدا بڑھ رہا ہوتا ہے.دنیا میں کون ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑے سے بڑا انسان ہو جو یہ کہہ سکے کہ وہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک سیکنڈ بھی زندہ رہ سکتا ہے.ایک سیکنڈ کیا سیکنڈ کا اربواں حصہ بھی کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.پس مَابَعْدَ الْمَوْت اگر انسان کو ابدی زندگی ملتی ہے تو محض اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی گود میں آجاتا ہے اور چونکہ خدا ہمیشہ کیلئے زندہ ہے اس لئے وہ بھی ہمیشہ کیلئے زندہ ہو جاتا ہے.تو بندے کے تمام کام دراصل خالی ہوتے ہیں.پس جب اللہ تعالیٰ اپنی شان میں یہ فرماتا ہے کہ رّحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شيء تو لازماً بندوں کے کاموں میں بھی رحمت کا پہلو وسیع ہونا چاہئے.اسی وجہ سے بندہ کسی مجرم کو بخشے گا اور کسی کی سزا کو کم کرے گا لیکن کسی مجرم کو وہ سزا بھی دے گا کیونکہ وہ صرف رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ کا مظہر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت یوم الدین کا بھی مظہر ہے.پس جس جس مقام پر وہ خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اس مقام کے مناسب حال وہ سلوک کرتا ہے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیوں ایسا کام کرتا ہے جو ملك يوم الدين کا کام ہے، اس لئے کہ جو اس کی مالکیت کا ظلت ہے وہ اس صفت میں اس کا
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۸ء مظہر نہ بنے تو کیا کرے.اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سزا کے مقام پر صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کا مظہر بنے ، چشم پوشی یا احسان کے موقع پر صفت رحمانیت کا مظہر بنے ، پرورش کے موقع پر صفت ربوبیت کا مظہر بنے اور انعامات کے موقع پر صفت رحیمیت کا مظہر بنے.ہاں اگر وہ ان صفات کے خلاف چلتا ہے تب بے شک اعتراض کیا جاسکتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ جب میت یوم الدین کی صفت کا ظہور ضروری ہوتا ہے تو یہ رحمانیت کی صفت ظاہر کرنے لگ جاتا ہے اور جب رحیمیت کی صفت جلوہ گری ضروری ہوتی ہے تو ربوبیت کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ رحمن کیوں ہے، یہ رحیم کیوں ہے، یہ رب العلمین کیوں ہے اور یہ ميك يوم الدین کیوں ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کسی موقع پر رب العلمین ہوتا ہے اور کسی موقع پر رحمن، کسی موقع پر رحیم ہوتا ہے اور کسی موقع پر ملک یوم الدین.یہی حال بندے کا ہے اسے بھی مختلف موقعوں پر مختلف صفات کا اظہار کرنا پڑتا ہے.ہاں جو چیز اعتراض کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدا کسی کو معاف کر رہا ہو اور یہ اسے سزا دینے کے درپے ہو.یا خدا سزا دینے کے درپے ہو اور یہ اسے معاف کر رہا ہو.یہ قابلِ اعتراض بات ہے اور یہ نہیں ہونی کی چاہئے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیوں کسی وقت سزا دی جاتی ہے اور کسی وقت معاف کر دیا جاتا ہے.قرآن کریم میں دیکھ لو اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو معاف کیا کرو کیونکہ درگزر کرنا اور چشم پوشی سے کام لینا بڑی اچھی بات ہے.لیکن دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جب فلاں قسم کے مجرموں کو سزادی جارہی ہوتو یا درکھو اگر اُس وقت تمہارے دل میں ذرا بھی رحم پیدا ہوا تو تم اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لو گے.اب ایک طرف اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو معاف کرو اور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ دیکھنا تمہارے دل میں بھی رحم نہ آئے.رحم پیدا ہوا اور تمہارا ایمان ضائع ہوا.اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نَعُوذُ بالله شقاوت قلبی کی تعلیم دیتا ہے.یا جب کہتا ہے کہ معاف کرو تو بُز دل بناتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اس میں ہمیں یہ بتانا ہے کہ جب میں کہوں کہ سزا دو تو تم سزا دو اور جب میں کہوں چھوڑ دو تو تم چھوڑ دو.جب میں رحمانیت کا جامہ پہن کر آؤں تو تم بھی رحمانیت کا جامہ پہن لو اور جب میں ملت يوم الدين کا جامہ پہن کر آؤں تو تم بھی رحمانیت کا جامہ اتار کر مالکیت یوم الدین کا جامہ پہن لو.غرض جس جبہ
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۸ میں بھی میں ہوں وہی جبہ تمہارا ہو اور جو کچھ میں کروں وہی تم کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی دفعہ ایک مثال سنایا کرتے تھے جو بیسیوں دفعہ میں نے آپ کی زبان سے سنی ہے.آپ فرماتے ہیں بندہ کا کام اسی رنگ میں رنگین ہو جانا ہے جو اسے خدا تعالیٰ بخشتا ہے.پھر آپ مثال سناتے اور فرماتے کہتے ہیں کوئی راجہ تھا، ایک دفعہ اس کے سامنے بینگن کا سالن رکھا گیا جو بہت عمدگی سے تیار کیا گیا تھا اور اسے بہت پسند آیا.اس نے دربار میں اُس کی تعریف کی اور کہا کہ بینگن معلوم ہوتا ہے بہت اچھی ترکاری ہے.یہ سنتے ہی ایک درباری ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور بینگن کے کیا کہنے ہیں اس میں یہ خوبیاں ہیں ، اس میں وہ خوبیاں ہیں.چنانچہ جتنی تعریفیں طب میں بینگن کے متعلق لکھی تھیں وہ سب اس نے بیان کر ڈالیں اور آخر میں کہنے لگا حضور ! اس کی شکل بھی تو دیکھیں بالکل صوفی معلوم ہوتا ج ہے.جس طرح صوفیوں نے سبز عمامہ پہنا ہوا ہوتا ہے اور ان کا کالاجتبہ ہوتا ہے اسی طرح اس کی شکل اور رنگ اور وضع سب صوفیوں کی سی ہے.خیر بادشاہ جو چند دن مسلسل بینگن کھاتا رہا تو اسے بواسیر ہوگئی.حکیموں نے کہا حضور ! آپ نے بڑی بے احتیاطی کی ، اتنے دن جو مسلسل آپ بینگن کھاتے رہے ہیں اسی وجہ سے آپ کو بواسیر ہوئی ہے.بادشاہ نے یہ سُن کر بینگن کھانے ترک کر دیے اور ایک دن دربار میں باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ بینگن بھی کچھ ایسی اچھی چیز نہیں ہوتے اس میں بھی کئی خرابیاں ہیں.یہ سُن کر وہی درباری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور ! بینگن بھی کوئی ترکاریوں میں سے ترکاری ہے.اس میں یہ مضرت ہے، اس میں وہ مضرت ہے.چنانچہ طب میں بینگن کی جس قدر مضر تیں بیان کی گئی ہیں وہ سب اُس نے ذکر کر دیں کیونکہ طب میں ہر چیز کے فوائد اور نقصانات دونوں بیان ہوتے ہیں پھر آخر میں کہنے لگا کی حضور ! اس کی شکل بھی تو دیکھیں کیسی منحوس ہے.جس طرح چور کے ہاتھ منہ کالے کر کے پھانسی پر لٹکایا ہوا ہوتا ہے اسی طرح یہ بیل سے لڑکا ہوا ہوتا ہے.لوگوں نے اُسے کہا ارے! یہ کیا ، اُس کی دن تو تو بینگن کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور آج تو اس کی برائیاں بیان کر رہا ہے.وہ کہنے لگا میں بینگن کا نوکر تھوڑا ہوں، میں تو راجہ کا نوکر ہوں.آپ فرماتے جب لوگ ایسے آقاؤں کی جو کی غلطیاں کر سکتے ہیں ایسی اطاعت کرتے ہیں تو ہم اُس آقا کی اتباع کیوں نہ کریں جو کبھی غلطی
خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۳۸ء نہیں کرتا اور جس کا ہر رنگ با موقع اور ضروری ہوتا ہے.ہم تو وہی کریں گے جو خدا تعالیٰ کہتا تج ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب تک کسی انسان کو ایسی ہی وابستگی حاصل نہ ہو وہ کی کبھی نجات نہیں پاسکتا کیونکہ انسان غلطی کر سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ غلطی نہیں کرسکتا.جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس وقت دن ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اس وقت دن ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ رات ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ رات ہے.جب وہ کہتا ہے کہ نرمی کرو تو ہم بھی کہتے ہیں نرمی کرو اور جب وہ کہتا ہے سختی کرو تو ہم بھی کہتے ہیں سختی کرو.جب وہ کہتا ہے آگے بڑھو تو ہم بھی کہتے ہیں آگے بڑھو اور جب وہ کہتا ہے کہ پیچھے ہٹو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ پیچھے ہٹو.نادان کہتے ہیں کہ تم اپنی باتوں کو بدلتے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نہیں بدلتے بلکہ وہی کچھ کہتے ہیں جو اُدھر سے ہمارے دل اور دماغ میں ڈالا جاتا ہے.اگر ہم اپنے پاس سے کچھ کہیں تو ہم پر اعترض ہوسکتا ہے لیکن جب ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو تو یقیناً وہی بہتر ہو گا جو خدا کا منشاء ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے پہلے حضرت مسیح پر اپنی فضیلت صرف جو کی قرار دی تھی مگر اب فرماتے ہیں کہ میں اپنی تمام شان میں اس سے بڑھ کر ہوں.تو آپ نے اس کے جواب میں یہی فرمایا کہ میں تو خدا تعالیٰ کی وحی بڑھ.بھی کی پیروی کرنے والا ہوں.جب تک مجھے اُس سے علم نہ ہو امیں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں کی نے کہا اور جب مجھے اُس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اُس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دعوی نہیں.تو نبی بھی جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز نہیں آتی ، قوم میں مروجہ خیالات کی پیروی کی کرتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ کی آواز آتی ہے تو وہ فوراً ان خیالات کو پھینک دیتا ہے.مثنوی رومی والے اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے بندوں کی مثال بانسری کی طرح کی ہوتی ہے.اب بانسری آپ تھوڑی بول رہی ہوتی ہے اس میں تو جو کچھ پھونکا جاتا ہے وہی وہ باہر نکال دیتی ہے.اسی طرح جو حقیقی مؤمن ہیں وہ بھی اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہیں.خدا جہاں اُنہیں بٹھاتا ہے وہ وہاں بیٹھ جاتے ہیں، جہاں کھڑا کرتا ہے وہاں کھڑے ہو جاتے ہیں، جو کہتا ہے وہ کہتے چلے جاتے ہیں اور جس سے روکتا ہے اس کی
خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۸ء سے رُک جاتے ہیں.جب یہ رنگ کوئی شخص اختیار کر لے تب وہ واقع میں مؤمن کہلا سکتا ہے.ور نہ نہ ہر جگہ نرمی اچھی ہوتی ہے نہ ہر جگہ سختی.مؤمن صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کا فائدہ کس میں ہے.اگر اس کے دین کا فائدہ بختی میں ہو تو وہ سختی کرتا ہے اور اگر اس کے دین کا ج فائدہ نرمی میں ہو تو وہ نرمی کرتا ہے.جب خدا اسے کہتا ہے کہ میرے دین کا فائدہ اس وقت نرمی میں ہے تو وہ اتنا نرم بن جاتا ہے کہ پانی بھی اتنا نرم نہیں ہوتا اور جب وہ کہتا ہے کہ میرے دین کا فائدہ بختی میں ہے تو وہ اتنا سخت بن جاتا ہے کہ لوہا بھی اتنا سخت نہیں ہوتا.اس کی نہ بختی اصلی ہوتی ہے نہ نرمی اصلی ہوتی ہے اصل چیز تو وہ عشق اور محبت الہی ہوتی ہے جو اس کے دل میں مخفی ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی آنکھ کی طرف دیکھتا رہتا ہے.جس سے اُس کی آنکھ پھرے اُس سے وہ بھی پھر جاتا ہے اور جس پر وہ رحمت کی نگاہ ڈالے اُس سے وہ بھی محبت کرنے لگ جاتا ہے.جب خدا کسی کو غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو بغیر ایک منٹ کے تر ڈر کے وہ بھی اس پر غضبناک ہو جاتا ہے اور جب خدا کسی کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو بغیر ایک لمحہ کے توقف کے وہ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جس کی اتباع کر رہا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ فلاں غضب کا مستحق ہے اور فلاں رحمت کا.یہ وہ مقام ہے جس کے حصول کی طرف اللہ تعالیٰ نے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : توجہ دلائی ہے اور منعم علیہ گروہ وہ ہے جس کی دوسری جگہ یہ تشریح کی گئی ہے کہ اس میں نبی ، صدیق ، شہید اور صالح شامل ہیں.گویا منعم علیہ گروہ وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے کیونکہ سب سے بڑی نعمت اس کی صفات کا آئینہ قلب میں منعکس ہونا ہی ہے.نبوت کیا ہے؟ وہ خدا تعالیٰ کا ایک آئینہ ہے.صدیقیت کیا ہے؟ وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک آئینہ ہے.شہادت کیا ہے؟ وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک آئینہ ہے.اور صالحیت کیا ہے؟ وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک آئینہ ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی مستقل آئینہ ہے، کوئی عارضی ، کوئی چھوٹا اور کوئی بڑا.کوئی تھوڑی دیر کیلئے آئینہ اور کوئی زیادہ دیر کیلئے مگر بہر حال اپنی ذات میں وہ کچھ نہیں.وہ صرف خدا تعالیٰ کا انعکاس ہیں اور اگر انعمت عليْهِمة کا محبت کی زبان میں ہم ترجمہ کریں تو یوں ہوگا کہ وہ لوگ جن کی طرف تو نے منہ کر کے دیکھ لیا.اب جس آئینہ کی طرف
خطبات محمود ۲۹۶ سال ۱۹۳۸ء محبوب منہ کر کے دیکھتا ہے اُس میں اُس کی شکل بھی آجاتی ہے.پس صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عليهم : کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھ لیا اور اُنہوں نے لوگوں کی سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی شکل دیکھنا چاہتے ہو تو ہمارے دل کے آئینہ میں اس کی شکل دیکھ لو.پس ان کا لوگوں کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو خدا تعالیٰ کی طرز پر ہوتا ہے.جب وہ کہتا ہے نرمی کرو تو وہ نرمی کرتے ہیں.جب کہتا ہے دلیری دکھاؤ تو دلیری دکھاتے ہیں.جب کہتا ہے خاموش رہو تو خاموش ہو جاتے ہیں.جب کہتا ہے بولوتو بولتے ہیں.جب اس مقام کو کوئی جماعت حاصل کر لیتی ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ کا ظہور اس کے ذریعہ ہونے لگتا ہے لیکن جو قوم اپنے آپ کو اس کا آئینہ نہیں بناتی اس میں اس کی شکل نظر نہیں آسکتی.کیا مٹی کے ڈھیلے لے کر تم لوگوں کو تصویریں دکھا سکتے ہو؟ مٹی کے ڈھیلوں میں تصویر نظر نہیں آتی بلکہ تصویر اُس وقت نظر آئے گی جب تمہارے پاس آئینہ ہو گا اور آئینہ بھی وہ جس کا محبوب کی طرف منہ ہو.پس تم اپنے آپ کو خدا نما آئینہ بناؤ اور آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّت کے حکم کے مطابق تمام دنیا کو محبوب ازلی کے خوبصورت چہرہ سے روشناس کرو کیونکہ آئینہ صرف اپنے اندر ہی تصویر نہیں لیا کرتا بلکہ دوسروں کو بھی دکھا دیتا ہے.پس تم بھی ایسے بنو کہ تمہارے اندر خدائی نور نظر آئے اور تمہارے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا منشاء ظاہر ہو.جب تم سختی کیلئے کھڑے ہو تو اس لئے مت کھڑے ہو کہ تمہارا نفس تمہیں کہتا ہے کہ تم سختی کرو بلکہ تم اس لئے سختی کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے میں مالِكِ يَوْمِ DOWNLOAD ہوں اور تمہارا فرض ہے کہ تم اس صفت کے مظہر بنو.اسی طرح جب نرمی کیلئے کھڑے ہو تو اس لئے مت نرمی کرو کہ تمہارا نفس تمہیں نرمی کا مشورہ دیتا ہے بلکہ اس لئے نرمی کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْء اور تمہارے خدا کا یہ حکم ہے کہ تم اس کی صفات اپنے اندر پیدا کرو.اسی طرح جب بنی نوع انسان سے شفقت اور احسان کے ساتھ پیش آؤ تو اس لئے شفقت اور مروت مت کرو کہ ذاتی طور پر تمہارے دل میں کی شفقت کا خیال پیدا ہوا ہے بلکہ اس لئے شفقت کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے کہ میں رحمن اور رحیم ہوں اور تمہارا فرض ہے کہ صفت رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر بنو.اسی طرح جب تم بیکسوں اور غریبوں کی خبر گیری کرو، جب تم قتیموں کی پرورش کرو ، جب تم بیواؤں پر ترس کھاؤ تو ان کی ؟
خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۸ء خبر گیری اور پرورش اس لئے نہ کرو کہ تمہارے دل میں اس کا خیال پیدا ہوا ہے بلکہ اس لئے کی کرو کہ رب العلمین خدا تمہارے سامنے جلوہ گر ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس کی ربوبیت کا جامہ پہن لو.غرض تم اُس وردی کے پہننے والے ہو جو تمہارا افسر پہنتا ہے.جس طرح بادشاہ جس قسم کی وردی پہنتا ہے اُسی کی نقل سپاہیوں کو پہنائی جاتی ہے.اسی طرح تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اپنے ازلی اور ابدی بادشاہ کی طرف دیکھو اور جو اُس کا لباس ہو وہ پہنو.اور یا درکھو کہ جس طرح وہ سپاہی جو بادشاہ کا مقرر کردہ لباس نہیں پہنتا اُس کا نام فوج میں سے کاٹ دیا جاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے آئینہ قلب میں منعکس نہیں کرتا اور نہ ان صفات کے مطابق اپنے معاملات رکھتا ہے، اُس کا نام اللہ تعالیٰ کے حضور مؤمنوں کی فہرست میں سے کاٹ دیا جاتا ہے.(الفضل ۱۰؍جون ۱۹۳۸ء) الفاتحة : ٧،٦ بخارى كتاب الصوم باب هَلْ يَقُولُ إِنِّي صَائِمٌ إِذَا شُتِم البقرة: ۱۸۷ النمل: ٦٣ ه الضحى: ۱۲ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الإسلام ك النور : ۵۶ بخاری کتاب الایمان باب سُوالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عن الايمان (الخ) بخارى كتاب الجمعة باب الطَّيِّبُ للجُمُعة ا الاعراف: ۱۵۷
خطبات محمود ۲۹۸ K سال ۱۹۳۸ یا جوج ماجوج کی حقیقت اور اسلامی تعلیم کا نفاذ فرموده ۱۰رجون ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: -.مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ خبر دی گئی ہے اور احادیث میں بھی متواتر اور کثرت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اُس وقت دو طاقتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی مخالف کی ہوں گی ظاہر ہوں گی.ان میں سے ایک طاقت کا نام یا جوج رکھا گیا ہے اور دوسری طاقت کا نام ماجوج رکھا گیا ہے اور چونکہ بظاہر دو مخالف طاقتیں تیسری طاقت سے سمجھوتے کی کوشش کیا کرتی ہیں یعنی اگر تین طاقتیں دنیا میں ہوں تو دو مخالف طاقتیں ہمیشہ اُس سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ہر ایک ان میں سے چاہتی ہے کہ اس کی ہمدردی ہمیں حاصل ہو اور اس کا تعاون ہمارے ساتھ ہو اور بظاہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اگر ایک علیحدہ گر وہ ہیں تو مخالف طاقتوں میں سے کسی کی ہمدردی یا تعاون ہمیں حاصل ہو ہی جائے گا اس لئے ہوسکتا تھا کہ مسیح موعود کی جماعت بھی اس وہم میں مبتلا ہو جاتی کہ شاید ان میں سے کسی ایک گروہ کا ہم سے تعاون ہو جائے گا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کو دور کرنے اور اس خیال کی کی تکذیب کرنے کیلئے پھر ان دونوں کا ایک مجموعی نام رکھ دیا اور وہ نام دجال ہے اور اس طرح بتا دیا کہ گو یا جوج اور ماجوج دونوں آپس میں مخالف ہوں گے لیکن اسلامی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ہی اس کے مخالف ہوں گے اور اسلامی تعلیم کی تائید کی ان دونوں سے ہی امید
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۸ء نہ کی جاسکے گی سوائے اس کے کہ وہ بحیثیت جماعت یا انفرادی طور پر اپنے طریق کو چھوڑیں اور اسلام کے اصول کو کلیۂ اختیار کر لیں.اس وقت تک گزشتہ زمانہ کو دیکھتے ہوئے عام طور پر ہماری جماعت میں بھی اور پہلی جو جماعتیں اس امر کی تحقیق میں لگی رہی ہیں ان میں بھی یہ خیال پایا جاتا تھا کہ یاجوج اور ماجوج در حقیقت دو ملکوں کے نام ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں ان کی پوری حقیقت وقت پر کھلا کرتی ہے.اب جو واقعات ظاہر ہور ہے ہیں انہوں نے بتا دیا ہے کہ یہ دو ملکوں کے نام نہیں بلکہ دو اصول کے نام ہیں.بے شک ممکن ہے یہ دو اصول خاص دو ملکوں کے ذریعہ زیادہ نمایاں طور پر نظر آتے ہوں مگر حقیقتا یہ کسی ایک ملک سے تعلق نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ هُم مِن كُلّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ ! یعنی یہ دونوں گروہ دنیا کے کی ہر مقام پر مسلط ہونے کی کوشش کریں گے اور ہر ایک روک جو اُن کے راستہ میں آئے گی اُس پر چڑھنے اور اس پر غالب آنے کیلئے جد و جہد اور سعی عمل میں لائیں گے اور یہ بات اب بالکل نمایاں اور واضح طور پر نظر آگئی ہے.چنانچہ واقعات نے ظاہر کر دیا ہے کہ یا جوج اور ماجوج دو اصول ہیں جو اس زمانہ میں دنیا پر غالب آنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایک اصل تو وہ ہے جو جمہوریت کو اس کے تمام عیوب سمیت دنیا میں ترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسرا اصل وہ ہے جو قابلیت اور لیاقت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کی روح کو دبانا چاہتا ہے.یہ دو اصول اس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایک اصل تو اِس بات کی جدو جہد میں مشغول ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھا کر دنیا میں کی غلبہ حاصل کیا جائے اور ایک اصول اس غرض کیلئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو رہنمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے.ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے اور ساری دنیا اِن دو گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے.اسلام ان دونوں کے خلاف اور ان دونوں سے بالکل الگ ایک درمیانی راہ پیش کرتا ہے.وہ انفرادیت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا اور چیدہ افراد کی طاقتوں سے کام لینے کو بھی نا پسند نہیں کرتا.وہ یہ اجازت بھی نہیں دیتا کہ افراد کی حریت کو کچل دیا جائے اور وہ یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ چیدہ افراد کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ قابلیت سے دنیا محروم کر دی جائے.غرض اسلامی تعلیم کا دائرہ اپنی وسعت کے ساتھ ان دونوں گروہوں پر حاوی ہے اور وہ دونوں کے درمیان ایک راستہ بتاتا ہے.چنانچہ اسلامی حکومت کا دارو مدار ان دونوں اصول کے بین بین تھا.ایک طرف وہ تسلیم کرتا ہے کہ سب انسانوں میں ذہنی مساوات نہیں.بعض دماغ زیادہ قابلیت رکھتے ہیں اور بعض کم ، بعض زیادہ قربانیاں کر سکتے ہیں اور بعض کم ، بعض زیادہ مجھدار ہوتے ہیں اور بعض کم.پس قوم کو زیادہ سمجھدار، زیادہ عقلمند اور زیادہ فہم و تدبر رکھنے والوں کی قابلیت سے محروم نہیں کر دینا چاہئے مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ افراد کی مجموعی رائے بھی بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بعض لوگ خیال کرتے ہیں اور نہ اسے نظر انداز کرنا انسانی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہی ہے.پس اسلام کا مقابلہ اِن دونوں اصول کے ساتھ ہے.وہ ان کے بھی خلاف ہے جو افراد کو کی اتنا غلبہ دینا چاہتے ہیں کہ چیدہ افراد سے لیاقت اور قابلیت کو دنیا سے مٹا دینا چاہتے ہیں.اور وہ اس کے بھی مخالف ہیں کہ چند لائق افراد کے ہاتھ میں دنیا اس طرح دے دی جائے کہ قوم کی اکثریت کی رائے مٹا دی جائے.پس جہاں تک دنیا کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے آئندہ دنیا کی میں اسلام کا مقابلہ یا جوج اور ماجوج سے اس رنگ میں ہوگا کہ ایک طرف افراد کی حریت قائم کی جائے گی اور دوسری طرف چیدہ افراد کی قابلیتوں سے فائدہ اٹھانے کا راستہ کھولا جائے.مگر یہ اتنا بڑا کام ہے کہ جو اسلام کی حامل یعنی جماعت احمدیہ کی موجودہ قوتوں کو مدنظر رکھتے ہی ہوئے انسانی نقطہ نگاہ سے ناممکن نظر آتا ہے.ان دونوں گروہوں کی پوری شوکت اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ دنیا کی برتری حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی مختلف جماعتوں کو دیکھ لے اور اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت مذکورہ بالا دو اصول کلی طور پر دنیا کو تقسیم کئے ہوئے ہیں.آدھی دنیا ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف.اور بیچ میں بے سامان و بیکس جماعت احمد یہ ہے جو اسلامی اصول کی حمایت میں کھڑی ہے.پس اگر اسلامی اصول نے دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ان دونوں طاقتوں کو ایک درمیانی نقطہ پر جمع کیا جائے اور پھر اسلامی تعلیم کے ماتحت ان کو چلایا جائے مگر ایک ایسی جماعت جسے اپنے مرکز میں بھی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء امن حاصل نہیں، جسے چھوٹی چھوٹی اقلیتیں بھی دبانے اور ڈرانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ، جس کی مثال اپنے مخالفین کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے.وہ ان زبردست اور عظیم الشان طاقتوں کی اصلاح کرسکتی ہے یا نہیں.یہ ایک سوال ہے جو ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور بظاہر انسانی سامانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امر بالکل ناممکن نظر آتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی کام لیا ہے ہمیشہ ایسے ہی وجودوں سے لیا ہے جو بظا ہر دنیا میں بے کس نظر آتے تھے ، بظاہر ذلیل اور حقیر نظر آتے تھے ، بظاہر نا کا رہ اور لغو دکھائی دیتے تھے مگر الہی تصرف سے ترقی کر کے وہ ایسی طاقت پکڑ گئے کہ دنیا ان کے کاموں سے حیران رہ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جد وجہد شروع ہوئی کون کہہ سکتا تھا کہ وہ دنیا پر ایک دن غالب آکر رہے گی.فرانس کا ایک مشہور مصنف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے ممکن ہے بعض امور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عظمت کے متعلق ہمیں محبہ میں ڈال سکتے ہوں مگر ایک چیز ہے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ کے ساتھیوں میں مجھے نظر آتی ہے اور میں جب بھی اس پر غور کرتا ہوں محو حیرت ہو کر رہ جاتا ہوں اور وہ یہ کہ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے عرب کی سرزمین میں ایک مسجد میں جس کی دیواریں گارے سے بنی ہوئی ہیں، جس کی چھت پر لکڑیاں نہیں بلکہ کھجور کی شاخیں پڑی ہوئی ہیں اور وہ اتنی کمزور ہے کہ ذرا بارش ہو تو پانی ٹپکنے لگ جاتا ہے.اُس میں چند آدمی جمع ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ جن کے تن پر پورا لباس بھی نہیں.اگر بعض کے پاس پاجامے ہیں تو گرتے نہیں ، اگر گرتے ہیں تو پاجامے نہیں اور اگر کسی کے پاس گر تہ اور پاجامہ ہے تو اُس کے سر پر پگڑی نہیں.اور گر کسی کے پاس سرڈھانکنے کیلئے پھٹی پرانی پگڑی ہے تو اسے جوتی میسر نہیں.پھر وہ کی ان پڑھ ہیں ، وہ جاہل ہیں ، وہ دنیا کے کسی علم سے واقف نہیں.غرض میں اپنے خیال کی نگاہ میں جب اُن کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے چند غریب اور بے کس انسان نظر آتے ہیں.وہ ایک کچی مسجد میں بیٹھے ہیں، وہ پورے لباس سے بھی عاری ہیں ، وہ جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور سجدہ میں مجھکتے ہیں تو بارش کی وجہ سے اُن کی پیشانی کیچڑ میں لت پت ہو جاتی ہے ( یہ تمام کی
خطبات محمود ٣٠٢ سال ۱۹۳۸ء باتیں احادیث میں لکھی ہوئی ہیں) مگر جب میں قریب ہو کر سنتا ہوں کہ آپس میں وہ کیا باتیں کی کر رہے ہیں تو میرے کانوں میں یہ آواز آتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ ہم کس طرح تمام دنیا کو فتح کر کے اسلام کو غالب کر دیں.اور یہ ان کی باتیں جو پاگلوں کی بڑ معلوم ہوتی ہیں تھوڑے ہی عرصہ میں پوری بھی ہو جاتی ہیں.اور وہ واقع میں ساری دنیا پر غالب آ جاتے ہیں.وہ لکھتا ہے کہ جب میں یہ بات دیکھتا ہوں تو مجھے ماننا پڑتا ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کچھ کہتے تھے اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ کوئی اور زبر دست طاقت تھی جو اُن سے یہ باتیں کہلواتی تھی.آج جو ہماری حالت ہے یہ بظاہر اُس زمانہ سے اچھی نظر آتی ہے.ہماری یہ مسجد پختہ ہے، اس کے ستون سیمنٹ کے ہیں، اس کی چھت پر گارڈر پڑے ہوئے ہیں اور نمازیوں کے آرام کیلئے بڑے بڑے سائبان لگے ہوئے ہیں، غرض اُس زمانہ سے بظاہر ہماری حالت مختلف.مگر جو ہمارے دشمنوں کی حالت ہے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی حالت سے مختلف ہے.اور اگر نسبت کے لحاظ سے غور کیا جائے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ جو حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے صحابہ کی دشمنوں کے مقابلہ میں تھی وہی ہماری جماعت کی موجودہ زمانہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں ہے کیونکہ دنیا میں ہمیشہ نسبت دیکھی جاتی ہے، تعدا د نہیں دیکھی جاتی.اگر ایک روپیہ سے ایک شخص ایک سو روپیہ کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص ایک سو روپیہ سے دس ہزار کا مقابلہ کرتا ہے تو ان دونوں کا معاملہ بالکل یکساں سمجھا جائے گا کیونکہ جو نسبت ہے وہ قائم ہے.یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ فلاں کے پاس ایک روپیہ تھا اور فلاں کے پاس ایک سو.بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس نے ایک سے سو کا مقابلہ کیا اور اُس نے سو سے دس ہزار کا.کیونکہ جو ایک اور سو میں نسبت ہے وہی نسبت ہو اور دس ہزار میں ہے اور جب نسبت ایک ہے تو دونوں کی ایک ہی حالت ہوئی.پس اس میں کوئی طبہ نہیں کہ بظاہر ہماری حالت اچھی نظر آتی ہے مگر اس کے مقابلہ میں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ احمدیت نے جن طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے اُن کی نسبت ہماری طاقت کے مقابلہ میں کیا ہے.بے شک ہماری مسجد کی چھت پختہ ہے، اس کا فرش بھی پختہ ہے اور اس میں لوگوں کے آرام کیلئے کی
خطبات محمود ٣٠٣ سال ۱۹۳۸ء سائبان موجود ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دشمنوں کے پاس بھی تو تو ہیں اور ہوائی جہاز نہیں تھے.پھر ان میں کوئی نظام نہیں تھا، اُس وقت سفر کی سہولتیں میسر نہیں تھی ، تار، ٹیلیفون اور وائرلیس نہیں تھا.پھر اُن میں وہ فوجی نظام نہیں تھا جو آج ہے.اُن کا مالی نظام مضبوط انہیں تھا اور اسی طرح کے اور بہت سے نقص اُن میں موجود تھے.پس بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت بہت کمزور تھی اور اس زمانہ میں ہماری حالت بظاہر اچھی نظر آتی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دشمن کی جس قدر اس وقت طاقت تھی اُس سے بہت زیادہ آج ہما را دشمن طاقتور ہے.حقیقتا اگر غور کیا جائے اور اس بے بسی کو بھی کی دیکھا جائے کہ جماعت احمدیہ جس کے سپرد یہ عظیم الشان کام کیا گیا ہے وہ محکوم ہے جبکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آزاد تھے ، تو ماننا پڑتا ہے کہ اس زمانہ کا کام اُس زمانہ سے کوئی کی کم مشکل نہیں بلکہ نسبت وہی قائم ہے جو پہلے تھی.لیکن باوجود اس کے کہ اس زمانہ کا کام ویسا تج ہی ناممکن نظر آتا ہے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نظر آتا تھا.جس خدا نے اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ میں تیری تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلا دوں گا ، اُسی خدا نے آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ میں تجھے کامل غلبہ بخشوں گا اور تیرے تمام دشمنوں کو تیرے مقابلہ میں شکست دوں گا.اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو کام ہوا تھا وہ انسانی کام تھا تو کہا جا سکتا ہے کہ اُس زمانہ میں اگر یہ کام ہو بھی گیا تھا تو آج اِس کا کوئی امکان نہیں کیونکہ آج انسانی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہے لیکن اگر خدا نے وہ کام کیا تھا اور واقع میں اُسی نے کیا تھا تو جس خدا میں یہ طاقت تھی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو زیر کر کے آپ کی تعلیم کو تمام کی دنیا میں پھیلا دے، اُسی خدا میں آج بھی یہ طاقت ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کر کے احمدیت کی تعلیم اکناف عالم میں پھیلا دے اور دنیا کے تمام ادیان پر اسلامی تعلیم کی برتری اور فوقیت عملی رنگ میں ثابت کر دے.پس اس غلبے کا امکان موجود ہے مگر موقع کی نزاکت اور اہمیت ایسی کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کی توجہ اس کام کی طرف مبذول ہونی چاہئے.اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہم میں سے کوئی شخص دیانتداری کے ساتھ احمدی نہیں کہلا سکتا جب تک وہ اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے سوتے اور جاگتے یہ مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتا کہ اُس نے دنیا کے تمام تمدنوں کو مٹا کر
خطبات محمود ۳۰۴ سال ۱۹۳۸ء اسلامی تمدن قائم کرنا ہے.اُس نے دنیا کے تمام اصول کو مٹا کر اسلامی اصول کا احیاء کرنا ہے اور اس نے اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق تمام دنیا کو ایک نئے رنگ میں ڈھالنا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی طرف میں ایک عرصہ سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں مگر مجھے افسوس کی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے دوست جب ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھ کی کر داخل ہوتے ہیں کہ صرف چند مسائل کا نئے رنگ میں سمجھنا احمدیت میں داخل ہونے کی غرض ہے.حالانکہ چند مسائل کا سمجھانا حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض نہیں.مسیح موعود کی بعثت کی غرض اسلام اور احمدیت کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنا ہے.مسیح موعود کے آنے کی یہ غرض نہیں کہ صرف تم اس پر ایمان لاؤ یا میں اُس پر ایمان لے آؤں ، بلکہ میرا اور تمہارا ایمان کیا کی ساری دنیا کا ایمان لے آنا بھی مسیح موعود کی بعثت کی غرض نہیں.پس میرے یا تمہارے ایمان لانے سے وہ غرض پوری نہیں ہو سکتی ، وہ دس کروڑ افراد کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں کی ہو سکتی ، وہ ایک ارب لوگوں کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہو سکتی ، وہ ساری دنیا کے ایمان کی لانے سے بھی پوری نہیں ہو سکتی.اگر ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے مگر وہ تبدیلی پیدا نہ ہو جس تبدیلی کو پیدا کرنا آپ کا حقیقی مقصد اور مدعا تھا تو یہ ہماری فتح کس طرح کہلا سکتی ہے.ہماری فتح تو اُسی وقت ہوگی جب وہ تبدیلی پیدا ہوگی جس تبدیلی کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.پس جب بھی کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے، اسے یہ امر اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہماری غرض یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں اور باقی تمام تعلیموں کو مٹا کر رکھ دیں.ہم نے یہ غرض کبھی نہیں چھپائی.ہم حکومت کے وفادار ہیں اور جس حکومت کے ماتحت بھی رہیں گے اُس سے وفاداری کرنا نہیں چھوڑیں گے مگر اسلام کے غلبہ کی خواہش جو ہمارے دلوں میں ہے وہ مٹائی نہیں جاسکتی اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ ہمارے ضمیر کی حریت کو سلب کرے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا کی ہے یہ کام اتنا اہم ہے کہ اس کیلئے ہمیں بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.سب سے پہلی اور کم درجہ کی قربانی یہ ہے کہ جماعت کے خیالات میں ایک تبدیلی پیدا کی جائے تا ہماری جماعت کے ہر بچے ، ہر بوڑھے ، ہر مرد اور عورت کے دل میں پوری مضبوطی سے
خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۸ء یہ بات گڑ جائے کہ اس کے سپرد کیا کام ہے.ہمارا ایک زمیندار جس وقت ہل چلا رہا ہو جب اس کے تن پر پورا کپڑا بھی نہ ہو، جب ایک معمولی تہبند اُس نے باندھا ہو ا ہو اُس وقت گو وہ ہل کی چلا رہا ہو مگر اُس کے دل میں یہ خیال موجزن ہونا چاہئے کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اسلام کا جھنڈا میں دنیا کے تمام لوگوں کے دلوں پر گاڑ سکتا ہوں.ہمارا ایک درزی جس وقت سوئی چلا رہا ہو جس وقت اسے یہ معلوم نہ ہو کہ آج کی مزدوری میرے بیوی بچوں کے کھانے کی کیلئے کافی بھی ہوگی یا نہیں یہی خیالات اس کے دل میں بار بار اٹھنے چاہئیں کہ وہ کونسا ذریعہ ہے کہ جس سے کام لیتے ہوئے اسلام تمام دنیا پر غالب آ سکتا ہے اور ادیانِ باطلہ شکست کھا سکتے ہیں.ہمارا ایک سقہ جس وقت مشک اُٹھائے جا رہا ہو جب اس کے بوجھ کے نیچے اس کی کمرخم ہورہی ہو، اس کے دماغ میں یہی خیالات پیدا ہونے چاہئیں کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے کام لیتے ہوئے اسلام کو دنیا پر غالب کیا جا سکتا ہے.ہمارا ایک مزدور جس وقت من دومن بوجھ اُٹھائے جارہا ہو ، جب گرمی کی شدت سے اس کا پسینہ بہہ رہا ہو ، جب اس کا سر بوجھ کے مارے جھٹکا جا رہا ہو، اُس وقت بھی اس کے دماغ میں یہی خیالات اٹھنے چاہئیں کہ کن ذرائع سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کا احیاء ہوسکتا ہے اور وہ کون سے طریق ہیں جن کے ماتحت اسلام کو تمام دنیا پر غالب کیا جاسکتا ہے.جب یہ کیفیت ہماری جماعت کے تمام دوست اپنے اندر پیدا کرلیں گے تو اس کے نتیجہ میں ان کے اندر ایسی روح پیدا ہو جائے گی کہ وہ آستانہ الہی کی طرف تمام دنیا کو کھینچ کر لے آئیں گے اور جس قدر مخالف طاقتیں ہیں اُن کو کچل کر رکھ دیں گے.مگر ہمارا چلنا تلواروں سے نہیں بلکہ تبلیغ کے ذریعہ ہوگا ، ہمارا کچلنا تعلیم کے ذریعہ ہوگا ، ہمارا کچلنا ترغیب کے ذریعہ ہوگا.ہم لوگوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کریں گے اور اس کے بعد ان کے جسموں پر قبضہ کر لیں گے.یہ نہیں ہوگا کہ ان کے جسموں پر قبضہ کر کے ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا کریں.اسی کیلئے میں نے مختلف شکلوں میں بعض انجمنیں قائم کی ہیں مگر غرض صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ان خیالات کو دور کیا جائے جو اسلام کے خلاف دنیا میں پیدا ہو گئے ہیں.دنیا اس وقت قسم قسم کے ظلموں کے نیچے دبی ہوئی ہے.کوئی کسی فلسفہ کے ماتحت ظلم کر رہا ہے اور کوئی کسی فلسفہ کے ماتحت مگر انسان کی حقیقی راحت کیلئے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء نازل ہوئی تھی اسے لوگوں نے بھلا رکھا ہے.پس یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس تعلیم کو دنیا میں رائج کی کریں اور سب سے پہلے خود اس پر عمل کریں اور پھر دنیا کی بہتری کیلئے آہستہ آہستہ اُسے لوگوں میں رائج کریں.کئی باتیں بظا ہر نہایت چھوٹی نظر آتی ہیں مگر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہیں.پہلے لوگ انہیں سنتے ہیں تو ہنستے ہیں مگر بعد میں انہیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقع میں یہ تعلیم نہایت کی اعلیٰ درجہ کی ہے.اسی وجہ سے میں کچھ عرصہ سے جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ اسلامی تمدن کے قوانین اپنے اندر جاری کریں تا دوسرے لوگ دیکھ کر اندازہ لگا سکیں کہ اسلامی تمدن کیسا با برکت اور آرام دہ ہے.اس کے متعلق گزشتہ سال سے میں یہ کہتا چلا آ رہا ہوں کہ ہمیں اپنی تجارتوں میں ، اپنے لین دین کے معاملات میں اور اسی طرح اور تمدنی اور اقتصادی امور میں اسلامی تعلیم کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بارہ میں ایسی ہدایات دی ہیں کہ جن پر اگر عمل کیا جائے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے.بعض باتیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب دنیا کی حکومتیں بھی ان کی طرف توجہ کر رہی ہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے اخبارات میں ایک خبر پڑھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی.خوشی تو اس لئے کہ وہ ایک اسلامی تعلیم ہے جس کا احیاء ہوا ہے اور افسوس اس لئے کہ مسلمانوں نے اس بات کو اسلامی تعلیم سے نہ سیکھا بلکہ صدیوں تک مصیبتیں اُٹھانے اور تکالیف برداشت کرنے کے بعد یورپ سے سیکھا حالانکہ وہ تعلیم اسلام میں موجود ہے اور اسی نے سب سے پہلے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا.وہ بات یہ ہے کہ ایک دو مہینے ہوئے ترکوں نے یہ قانون پاس کیا کی ہے کہ تمام اشیاء کا ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تاکہ کوئی دکاندار سو دا مہنگا یا سستا فروخت نہ کر سکے بلکہ جب بھی کوئی گاہک کسی دکان پر جائے اُسے مقررہ قیمت پر چیز مل جائے.اس ضمن میں ہر دکاندار کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی دکان پر تمام چیزوں کی ایک لسٹ بنا کر لٹکا دے اور ہر چیز کے آگے اس کا بھاؤ درج کرے تا تمام بازار میں چیز ایک قیمت پر ملے.یہ نہ ہو کہ کسی سے زیادہ قیمت وصول کر لی جائے اور کسی سے کم.اس کی وجہ انہوں نے یہی بتائی ہے کہ
خطبات محمود ۳۰۷ سال ۱۹۳۸ء بیرونی ملکوں کے لوگ جب ہمارے ملک میں آتے ہیں تو ایک ہی چیز کسی جگہ انہیں کسی قیمت پر کی ملتی ہے اور کسی جگہ کسی قیمت پر.اگر کوئی ہوشیار گا ہک ہو تو اُس سے کم قیمت لے لیتے ہیں اور کی اگر کوئی بیوقوف ہو تو اُس سے زیادہ پیسے وصول کر لیتے ہیں.پھر جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ چیز کتنے کو خریدی ہے تو ایک کوئی قیمت بتاتا ہے اور دوسرا کوئی.ایک کہتا ہے میں نے یہ چیز دورو پے کو خریدی ہے اور دوسرا اُسی چیز کے متعلق یہ کہتا ہے کہ میں نے بارہ آنے کو خریدی ہے.ایک کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کے پندرہ روپے دیئے ہیں اور دوسرا کہتا ہے میں نے دس روپے دیئے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے اخلاق ان کی نگاہ میں گر جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ترک جھوٹے ہوتے ہیں.یورپ میں ایک حد تک اس پر عمل کیا جاتا ہے مگر اس کے ہر ملک میں نہیں بلکہ زیادہ تر انگلستان میں ہی اس پر عمل ہوتا ہے.ورنہ اور ممالک میں خواہ وہ یورپین ہی کیوں نہ ہوں قیمتوں کی کا گھٹنا اور بڑھنا ہمیشہ نظر آتا ہے.انگلستان میں بھی کسی حد تک ہی یہ بات پائی جاتی ہے مگر جوی معزز دکاندار ہیں وہ ہمیشہ اپنی اشیاء کی ایک قیمت رکھتے ہیں اور بعض دکاندار تو اتنی سختی سے کام لیتے ہیں کہ اگر کوئی گاہک انہیں یہ کہے کہ قیمت ذرا گھٹا دیں تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہماری دکان سے چلے جائیں.لیکن بہر حال ایشیا کی نسبت یورپ میں اس بات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مقررہ قیمتوں پر چیزیں فروخت ہوں.مگر تعجب ہے کہ وہ مذہب جس نے اپنے ابتدائی زمانہ کی میں سے ہی لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی اس کے ماننے والے اتنی بات بھی نہیں جانتے کہ یہ اصل میں اسلامی تعلیم ہے بلکہ وہ اسے یورپ کی خوبی خیال کرتے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے مدینہ منورہ میں قیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک شخص حاطب بن ابی بلتعہ المصلی نامی بازار میں دو بورے سُوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے بھاؤ دریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دومد بتائے.یہ بھاؤ بازار کے عام بھاؤ سے سنتا تھا.اس پر آپ نے اُن کو حکم دیا کہ اپنے گھر جا کر فروخت کریں مگر بازار میں وہ اس قد رستے نرخ پر فروخت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس سے
خطبات محمود ۳۰۸ سال ۱۹۳۸ء بازار کا بھاؤ خراب ہوتا ہے اور لوگوں کو بازار والوں پر بدظنی پیدا ہوتی ہے کے فقہاء نے اس پر کی بڑی بحثیں کی ہیں.بعض نے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمرؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا تھا مگر بالعموم فقہاء نے حضرت عمرؓ کی رائے کو ایک قابل عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ مقرر کرے ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا.مگر یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ اس جگہ اُنہی اشیاء کی کا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں.جو اشیاء منڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت کی رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں.پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں ان کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تا کوئی دکاندار قیمت میں کمی بیشی نہ کر سکے.چنانچہ بعض آثار اور احادیث بھی فقہاء نے لکھی ہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے.اب دیکھو وہ خوبی جو آج ترک یورپ سے نقل کر کے اپنے اندر پیدا کر رہے ہیں وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے موجود چلی آتی ہے مگر اس کو مسلمانوں نے بھلا دیا اور سمجھ یہ لیا کہ یہ اچھی باتیں یورپ کی ایجاد کردہ ہیں.اسی طرح اور ہزار ہا باتیں ہیں جن میں اسلام نے ابتداء سے صحیح تعلیم دی ہوئی ہے جن سے ایک طرف افراد کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے تو دوسری طرف اجتماعی حقوق کی نگرانی ہوتی ہے.وہ ایک درمیانی راستہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے انفرادیت کا یہ حق نہیں کہ وہ اجتماعیت کو کچلے اور اجتماعیت کا یہ حق نہیں کہ وہ انفرادیت کو کچلے.مثلاً قرآن شریف حکم دیتا ہے کہ لین دین کا معاملہ ہو تو اسے لکھ لو.اب کتنے مسلمان ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں.مگر یورپین لوگ سب اس پر عمل کرتے ہیں اور یورپ والوں نے یہ خوبی سپین والوں سے سیکھی ہے جہاں کئی سو سال تک اسلامی حکومت قائم رہی.سپین میں جس قد رسودے ہوتے تھے وہ لکھے جاتے تھے اور پرانی اسلامی تاریخ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وقت سودے لکھے جاتے تھے ، یہی قرآن کا حکم ہے.اگر اس حکم کوملحوظ نہ رکھا جائے تو بسا اوقات بعد میں بڑے بڑے جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں.تو چھوٹی باتیں ہوں یا بڑی باتیں سب کی سب قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے انہیں ترک کر دیا
خطبات محمود ۳۰۹ سال ۱۹۳۸ء ہے.پس اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان تمام باتوں کو دنیا میں رائج کریں کیونکہ کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام میں کامل تعلیم موجود نہ ہو.ورثہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں ، لین دین کے معاملات کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں ، شادی بیاہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، سیاسیات کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، تعلیم و تربیت کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، شاگرد کے استاد سے کیسے تعلقات ہوں ، استاد کے شاگرد سے کیسے تعلقات ہوں، بادشاہ کا رعایا سے کیسا سلوک ہو اور رعایا کا بادشاہ سے کیسا سلوک ہو، ان تمام امور کے متعلق اسلام میں نہایت تفصیلی تعلیم موجود ہے اور کوئی شعبہ انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس کے متعلق احکام موجود نہ ہوں.اگر ہم ان تمام احکام پر خود عمل کریں اور دوسروں میں انہیں رائج کریں تو دنیا پر اسلامی احکام کی خوبی خود بخود واضح ہوتی چلی جائے گی اور وہ ایک دن اس بات پر مجبور ہو جائے گی کہ اس طرف گلیہ آجائے.ہمارے راستہ میں جو چیز روک ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس حکومت نہیں.یعنی اگر ہم اسلامی قواعد جاری کریں تو ایک ایسا طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے جو یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے اور چونکہ حکومت ہمارے پاس نہیں اس لئے حکومت کے بعض افراد کو بھی دشمن اُکسانے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بنی نوع انسان کے حقوق میں مداخلت کر رہے ہیں اور کوئی یہ خیال کی نہیں کرتا کہ ہم حکومت میں دخل نہیں دینا چاہتے بلکہ شیطان کی حکومت کی جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں آخر اسلام کی حکومت اگر دنیا میں قائم ہو تو اس میں میرا کیا فائدہ ہے؟ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا فائدہ ہے ؟ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا فائدہ ہے؟ اس حکومت کے قیام میں تو خدا کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ خدا جس قدرا حکام دیتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے نہیں دیتا بلکہ لوگوں کے فائدہ کے لئے دیتا ہے.اگر ہم ان احکام پر عمل کی کریں تو آرام و راحت میں رہ سکتے ہیں اور اگر عمل نہ کریں تو اسی دنیا میں ایک عذاب میں رہیں گے.چنانچہ قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جو احکام بھی دیتے ہیں وہ لوگوں کو نفع پہنچانے کیلئے دیتے ہیں اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وراء الوریٰ ہستی ہے جو غنی اور صمد ہے اسے ان باتوں سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ میاں اور بیوی کے تعلقات کیسے ہوں ،
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء راعی اور رعایا کے تعلقات کیسے ہوں ، مدعی اور مدعا علیہ کے تعلقات کیسے ہوں، اس سے تو سرا سر ہمیں ہی فائدہ پہنچتا ہے خدا کو فائدہ نہیں ہوتا.پس ضروری ہے کہ ہم نہ اپنے فائدہ کیلئے بلکہ بنی نوع انسان کی فلاح اور بہبود کیلئے اسلامی تعلیم دنیا میں قائم کریں اور ان تمام اصول کو دنیا میں رائج کریں جنہیں اسلام نے ضروری قرار دیا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی طرف میں ایک عرصہ سے جماعت کو لا رہا ہوں اور بار بار بتا رہا ہوں کہ ہماری جماعت کے قیام کی غرض اسلام کی تعلیم کو قائم کرنا ہے.جب ہم عملی طور پر اس تعلیم کو قائم کر لیں گے اور کوئی روک ہمارے راستہ میں حائل نہیں رہے گی اس وقت ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنے قیام کی غرض کو پورا کر دیا.میں نے بتایا ہے کہ اگر چہ اسلامی تعلیم کے بعض حصے ایسے ہیں جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ بہت ہی قلیل ہیں.ایک کثیر حصہ اسلامی احکام کا ایسا ہے جسے ہم ہر وقت جاری کر سکتے ہیں کیونکہ خدا نے ہمیں ایک ایسی حکومت عطا کی ہے جس کے بعض افراد کی خواہ ہم کسی قدر مذمت کریں یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے افراد کو ان کے اپنے عقائد کے متعلق بہت کچھ آزادی دی ہوئی ہے اور وہ بہت تھوڑے معاملات میں دخل دیتی ہے.یہ انگریزی حکومت میں ایک ایسی خوبی ہے جس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے.گو اسلام میں اس سے بہت زیادہ آزادی حاصل تھی.چنانچہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں یہودیوں کو اپنے قاضی اور عیسائیوں کو کی اپنے قاضی مقرر کرنے کی اجازت تھی.جو ان کی اپنی شریعت کے مطابق ان کے جھگڑوں کا کی فیصلہ کرتے اور انہیں تنخواہیں سرکاری خزانہ سے دی جاتیں.یعنی تنخواہ انہیں مسلمان حکومت دیتی اور وہ اپنی قوم کے جھگڑوں کا تو رات یا انجیل کے مطابق فیصلہ کرتے.اب انگریزی حکومت کی میں یہ بات تو نہیں کہ وہ ہمارے قاضیوں کو اپنے خزانہ سے تنخواہ دے مگر بہر حال خاص دائرہ کے اندر اگر ہم اپنے لئے خود قاضی مقرر کر لیں تو حکومت اس سے روکتی نہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے.پس ہم اگر چاہیں تو اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کی نوے یا چی پچانوے فی صدی تعلیمات جاری کر سکتے ہیں.اسی طرح ہم لین دین اور سودوں کے معاملات میں شریعت کے احکام جاری کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے گا ہک اور تاجر اس بات پر راضی ہوں کیونکہ حکومت ان معاملات میں دخل نہیں دیتی.
خطبات محمود ۳۱۱ سال ۱۹۳۸ء ابھی پچھلے دنوں ایک جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ مصری صاحب کا مقاطعہ جو جماعت احمدیہ نے کیا ہے یہ درست نہیں اور کسی کا حق نہیں کہ وہ ایسے معاملات میں دخل دے اور ج دکانداروں کو ہدایت کرے کہ سودا وغیرہ نہ دیں مگر اس کے خلاف جب بالا حج کے پاس اپیل کی گئی تو اس نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ یہ بالکل غلط بات ہے.اگر کوئی قوم اپنے لئے ایک قانون بناتی ہے تو کسی کا کوئی حق نہیں کہ اس قانون میں دخل دے.یہ برطانوی روح جو اس حج سے ظاہر ہوئی وہی ہے جس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ برطانوی حکومت میں افراد کی آزادی کی کی روح پائی جاتی ہے.گویا یہ ایک ممتاز نیکی ہے جو اس قوم میں پائی جاتی ہے اور اسی نیکی کے اثر کے ماتحت مذکورہ بالا جج نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت احمدیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون شکنی کئے بغیر جماعت کی بہتری کیلئے جو قانون چاہے بنائے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اگر اس بات کو سمجھیں کہ اصل فائدہ اسی تعلیم میں ہے جو اسلام نے پیش کی ہے تو وہ وسو سے جو بعض دفعہ انسانی قلب میں پیدا ہو جاتے ہیں اور انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کر کے مجھے فلاں نقصان پہنچے گا وہ تھوڑی سی توجہ اور اصلاح سے دور ہو سکتے ہیں.مثلاً بد دیانتی ہے.یہ ایک عیب ہے جو دنیا میں پایا جاتا ہے.اس کے ماتحت بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زید بکر سے دس روپے کو ٹتا ہے اور عمر، زید سے وہ روپے کوٹ لیتا ہے.پھر خالد آتا ہے وہ عمر سے روپے لے جاتا ہے اور اس طرح عملی رنگ میں حساب و ہیں آکر ٹھہرتا ہے جہاں بد دیانتی سے پہلے تھا.اگر زید، بکر، عمر اور خالد سب دیانتداری اختیار کریں تو روپیہ بھی وہیں کا وہیں رہے گا اور مزید فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں گے.تمہیں دنیا میں یہ کہیں نظر نہیں آئے گا کہ ٹھگ آخر تک کامیاب ہوتا چلا جائے.ٹھگی اور دھوکا بازی آخر ایک دن ظاہر ہو کر رہتی ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ اس سے روپیہ چھینتا ہے اور وہ اس کا روپیہ غصب کر لیتا ہے.اگر سب اپنی اپنی جگہ روٹی کھائیں اور دوسرے کے مال کی طرف تحریص کی نگاہوں سے نہ دیکھیں تو انہیں ایک دوسرے کے خلاف کوئی شکایت پیدا نہ ہو.مگر اب یہ حال ہے کہ ایک دوسرے سے چھینتا ہے اس سے اگلا چھین لیتا ہے اور اس سے کوئی اور چھین لیتا ہے اور سارے ہی فریا دی رہتے ہیں.ایک کہتا ہے دنیا کتنی خراب ہوگئی ، فلاں شخص مجھ سے دھوکا بازی کر کے
خطبات محمود ۳۱۲ سال ۱۹۳۸ء اتنا روپیہ لے گیا اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں نے فلاں کے ساتھ دھو کہ بازی کی تھی اور اس کا اتنا کی مال میں نے بھی بے جا طور پر غصب کر لیا تھا.اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف اور دوسرا تیسرے کے خلاف شور مچائے پھرتا ہے حالانکہ ان میں سے ہر شخص خود بھی دھوکہ باز اور مجرم ہوتا ہے.اگر یہ سارے اپنی اپنی جگہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے بد دیانتی سے دوسرے کا مال نہیں لینا تو مالی حالت گو ان کی پھر بھی ویسی ہی رہتی جیسی پہلے تھی مگر زائد فائدہ یہ ہوتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہو جاتے اور اس کی نصرت اور تائید ان کے شامل حال رہتی.تو اسلامی تعلیم کے رائج ہونے کے ساتھ ہی دنیا کی بہتری ہے اور ہمیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان عطا کیا ہے، جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بے نظیر ہادی اور قرآن کریم جیسا بے نظیر ہدایت نامہ ملا ہے، یہ امر ہمیشہ سوچتے رہنا چاہئے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے ماتحت اسلامی تعلیم کو دنیا میں قائم کیا جا سکتا ہے.ہم خود جب قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے صحیح ہے تو ہمارے لئے اس امر کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ ہمارا اولین فرض اسلامی تعلیم کا احیاء ہے کیونکہ ہم جس دن قرآن پر ایمان لائے اسی دن ہم نے اقرار کر لیا کہ ہم اس کا جوا اپنی گردن پر اٹھاتے ہیں اور اس کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلانے کا عہد کرتے ہیں لیکن اگر اس اقرار اور اس ایمان کے بعد بھی ہم عمل ترک کر دیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف کوئی توجہ نہ کریں تو دوسروں پر کیا گلا ہوسکتا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ نہایت سنجیدگی اور اہتمام سے اس کام کیلئے کھڑی ہو جائے.یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو، تم دنیا میں کیا کر سکو گے.دنیا میں کئی چھوٹی چیزیں ایسی ہیں جو ابتداء میں حقیر دکھائی دیتی ہیں مگر آخر سب دنیا میں پھیل جاتی ہیں.طریق یہی ہے کہ پہلے اسے ایک اختیار کرتا ہے پھر دوسرا اختیار کرتا ہے پھر تیسرا اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ تمام لوگ اسے اختیار کر لیتے ہیں.حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی پیارے بندے کی قبولیت کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو قریب کے فرشتوں کو بتا تا ہے کہ فلاں شخص میرا محبوب ہے تم بھی اس سے محبت رکھو.نچلے فرشتوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر کے ملائکہ سے کوئی بات کہی ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء تو وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ اللہ میاں نے تم سے کیا بات کہی ہے.اس پر وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے اور اب ہمارا بھی یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ ہم اس سے محبت کریں.ان کی آپس کی باتوں کی اطلاع پاکر جو اور نیچے فرشتے ہوتے ہیں وہ اپنے سے اوپر والے فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو.اس پر وہ انہیں بتاتے ہیں کہ فلاں کی شخص خدا تعالیٰ کا محبوب ہے اور ہمیں اس سے محبت رکھنے کا حکم ملا ہے.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے زمین کے فرشتوں تک بات پہنچ جاتی ہے.فَيُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِى الْاَرْضِ سے اس شخص کی قبولیت تمام دنیا کے نیک بندوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے.یہ در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس امر کی ایک مثال دی ہے کہ نیکی کے متعلق کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ تھوڑی ہے.اگر تم تھوڑی نیکی بھی کرو گے تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھائے گا پھر اور بڑھائے گا.یہاں تک کہ تمام دنیا میں وہ پھیل جائے گی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم دنیا کے سامنے کی پیش کی تھی اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کسی وقت تمام دنیا اس تعلیم کے آگے اپنے سر کو جھکا دے گی کی مگر کروڑوں کروڑ لوگ تو اب بھی اس تعلیم کو لفظا مانتے ہیں اور ہزار سال ایسے گزرے ہیں جبکہ مسلسل کروڑوں نفوس اس پر عمل کرتے رہے ہیں.اسی طرح جب حضرت عیسی علیہ السلام نے کی دنیا کے سامنے تعلیم پیش کی تھی کون کہہ سکتا تھا کہ وہ ساری دنیا میں رائج ہو جائے گی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی تعلیم پیش کی کی تھی کون کہ سکتا تھا کہ وہ ساری دنیا میں رائج ہو جائے گی ، جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی تعلیم پیش کی تھی اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے گی ، مگر آخر یہ تمام تعلیمیں ساری دنیا میں پھیل کر رہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم پیش فرمائی ہے اس کے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم تھوڑے ہیں ، ہم غریب ہیں ، ہم دنیا کی کی نگاہوں میں حقیر اور ذلیل ہیں مگر یہ ہم جانتے ہیں کہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ اتنی اچھی ہے کہ لوگ زیادہ دیر تک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اگر ہم اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا دستور العمل بنالیں تو یقیناً دوسرے لوگ بھی اس کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے اور تو اور ہماری جماعت کے سب سے زیادہ مخالف ”پیغام صلح سے تعلق رکھنے والے احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے
خطبات محمود ۳۱۴ سال ۱۹۳۸ء افراد ہیں انہیں اٹھتے بیٹھتے ہمیشہ ہماری مخالفت کا خیال رہتا ہے لیکن الفضل میں تم نے کئی بار ایسے مضامین پڑھے ہوں گے اور جو واقف ہیں وہ ذاتی طور پر اس سے بھی زیادہ جانتے ہیں کہ جو آواز ہمارے مرکز سے اٹھائی جائے سب سے پہلے وہ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں مگر سال دو سال کے بعد اسی کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیں.پہلے تو انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید ہم مخالفت کر کے انہیں ناکام اور ذلیل کر دیں مگر جب دیکھتے ہیں کہ وہ نا کام اور ذلیل نہیں کر سکے تو آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ کام تو بڑا اچھا ہے.اگر ہم نے اسے اختیار نہ کیا تو اس کے فوائد سے ہم محروم رہیں گے اور یہ جماعت ہم سے بڑھ جائے گی.چنانچہ وہ پھر اسی کی نقل میں خود وہ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں.سچ تو الگ رہا دنیا میں جھوٹ کے طور پر بھی اگر کوئی اچھی بات بتائی جائے تو لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں.عربوں میں ایک مثل مشہور ہے جب انہوں نے یہ کہنا ہو کہ فلاں شخص بڑا حریص ہے تو کہتے ہیں کہ وہ فلاں لڑکے کی طرح حریص ہے.کہتے ہیں کہ کوئی لڑکا تھا جو نہایت ہی سادہ مزاج تھا مگر اسے کی کھانے پینے کا بڑا شوق تھا.لڑکے اس سے ہمیشہ ہنسی مذاق کرتے اور اس قدر چھیڑ تے کہ وہ تنگ آجاتا اور دق ہو کر اپنا پیچھا چھڑانے کیلئے ان سے کہہ دیتا کہ آج فلاں عرب رئیس کے ہاں کی بڑی بھاری دعوت ہے.وہ سمجھتا تھا دعوت کا میں نے ذکر کیا تو یہ تمام لڑکے ادھر بھاگ جائیں گے اور مجھے چھوڑ دیں گے.چنانچہ وہ سب اسے چھوڑ کر اس رئیس کے مکان کی طرف چلے جاتے.بعد میں اسے خیال آتا کہ میں نے انہیں کہا تو جھوٹ موٹ ہی ہے مگر کیا پستہ شاید واقع میں اس نے کسی دعوت کا انتظام کیا ہوا ہو.اس صورت میں یہ تمام لڑکے کھانا کھا کر آجائیں گے اور میں محروم رہ جاؤں گا.چنانچہ اس خیال کے آتے ہی وہ خود بھی اس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتا.اتنے میں وہ لڑکے غصہ میں بھرے ہوئے واپس آرہے ہوتے تھے کیونکہ وہاں دعوت کی تو کوئی ہوتی نہ تھی.نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ اسے پکڑ لیتے اور پھر تنگ کرنا اور پیٹنا شروع کر دیتے.وہ کی کہتا اصل بات یہ ہے کہ میں نے تم سے ٹھٹھا کیا تھا اور سچی بات نہیں بتائی تھی.اگر سچ پوچھتے ہو تو اس رئیس کے ہاں نہیں بلکہ فلاں رئیس کے ہاں دعوت ہے یہ سن کر تمام لڑکے پھر اس رئیس کے مکان کی طرف بھاگ پڑتے مگر ان کے جانے کے بعد پھر اسے خیال آتا کہ میں نے بات تو کی
خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۸ء یونہی کہی ہے لیکن اگر واقع میں اس رئیس کے ہاں اتفاقاً کوئی دعوت ہوئی تو پھر میں تو اس سے محروم رہوں گا اور اس کا کیا فائدہ کہ لڑکوں سے مار بھی کھائی اور دعوت سے بھی محروم رہا.چنانچہ اس خیال کے آتے ہی وہ خود بھی اس رئیس کے مکان کی طرف بھاگ پڑتا.اس حکایت سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اچھی چیز سے ہر شخص حصہ لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ خیالی اور وہمی ہی کیوں نہ ہو.کجا یہ کہ ہم سچ مچ ایک نہایت ہی قیمتی چیز لوگوں کے سامنے رکھ دیں اور وہ اس کو لینے کیلئے تیار نہ ہوں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ تعلیم دی ہے جس سے بہتر اور کوئی تعلیم نہیں کی اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ کتاب دی ہے جس سے بہتر اور کوئی کتاب نہیں.چنانچہ دیکھ لو د نیا اس تعلیم کی مخالفت بھی کرتی ہے مگر آخر چکر کھا کھا کر اسی جگہ پہنچتی ہے جس جگہ اسلام بنی نوع انسان کو لا نا چاہتا ہے.آخر وہ کون سی اسلامی تعلیم ہے جس کی دنیا نے مخالفت کی مگر پھر دوسرے وقت اس نے اس کو اختیار نہیں کیا.مسئلہ طلاق کی یورپ نے اتنی شدید مخالفت کی تھی کہ مسلمانوں نے اس سے متاثر ہو کر ایسی کی کتابیں لکھنا شروع کر دیں جن میں یہ ظاہر کیا کہ طلاق اسلام میں جائز نہیں.یہ پہلے زمانہ کے لوگوں کے حالات کی وجہ سے مجبوراً جاری کی گئی تھی ورنہ طلاق دینا حقیقتاً جائز نہیں لیکن آج یورپ کے رہنے والے خود طلاق کی ضرورت کو تسلیم کر چکے ہیں اور آئے دن عدالتوں میں طلاق کی درخواستیں پیش ہوتی رہتی ہیں اور عدالتیں اپنے حکم سے طلاق دلوا دیتی ہیں.اسی طرح ایک کی سے زیادہ شادیاں کرنے کا مسئلہ ہے.یورپ نے اس پر ایک لمبے عرصہ تک اعتراضات کئے مگر آج یورپ میں ایک سے زیادہ شادیوں کی تائید میں مضامین لکھے جاتے ہیں اور مضامین لکھنے والے بڑے بڑے فلاسفر ہوتے ہیں.اسی طرح حرمت سود کی ایک عرصہ تک یورپ نے کی مخالفت کی اور کہا کہ سود کے بغیر تجارتیں نہیں چل سکتیں مگر آج اسی یورپ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سود کو بین الاقوامی مناقشات کی اصل جڑ قرار دیتے ہیں.اسی طرح شراب سے اسلام نے روکا اور مغرب نے اس پر اعتراض کیا مگر آج امریکہ میں شراب کو سخت نا پسند کیا جاتا ہے بلکہ کچھ سال تو اس نے قانوناً شراب پینے اور فروخت کرنے کی ممانعت کر دی تھی.آج کی ہندوستان میں بھی کانگرسی حکومت شراب نوشی کے خلاف زبر دست جد و جہد کر رہی ہے حالانکہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں شراب نوشی کی اجازت پائی جاتی ہے.پس بے شک وہ شراب نوشی کو روک رہے ہیں مگر وہ اپنے مذہب پر عمل نہیں کر رہے بلکہ اسلام پر عمل کر رہے ہیں.اگر دنیا مسئلہ طلاق کی ضرورت کو تسلیم کرنے کی طرف آرہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہو رہی ہے، اگر وہ تعدد ازواج کی اجازت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی طرف آرہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہورہی ہے، اگر وہ سود کے خلاف ہو رہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہورہی ہے ، اگر وہ کی شراب نوشی کو روک رہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہورہی ہے، مگر تم میں اور ان میں فرق کیا ہے؟ فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے کسی فریق نے اسلامی تعلیم کا ایک ٹکڑہ لے لیا ہے اور کسی فریق نے اس تعلیم کا دوسرا ٹکڑا لے لیا ہے مگر تم وہ ہو جنہیں خدا تعالیٰ نے تمام کی تمام تعلیم دے رکھی ہے.دنیا اس تعلیم کے ایک ایک ٹکڑے کیلئے لڑائیاں لڑ رہی ہے اور لاکھوں کروڑوں لوگ ایک طرف ہیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ دوسری طرف، حالانکہ وہ اسلام کی عمارت کا ایک چھوٹا سا ذرہ ہے مگر تمہارے پاس ہدایت اور رشد کا عالیشان محل تیار ہے.پس تم پر خدا تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے عملی رنگ میں اسے دنیا میں قائم کرو مگر اس کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء اسلامی تعلیم کوعمدگی کے ساتھ جماعت کے دوستوں پر واضح کریں اور انہیں اس پر عمل کرنے کی رغبت دلائیں.آخر ہمارے پاس طاقت تو کی ہے نہیں کہ جیسے ہٹلر اور مسولینی نے اپنے خیالات لوگوں سے منوالئے ہیں اسی طرح ہم بھی منواسکیں.ہم تو جب بھی اپنی باتیں لوگوں سے منوائیں گے تبلیغ کے ذریعہ منوائیں گے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جب ہماری جماعت کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے گی اور اسے معلوم ہو جائے گا کہ فلاں فلاں معاملات میں اسلام نے یہ تعلیم دی ہوئی ہے تو اس میں سے ہر شخص نہایت ذوق شوق کے ساتھ اس پر عمل کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے گا.مردا اپنی جگہ عمل کریں گے، عورتیں اپنی جگہ عمل کریں گی اور بچے اپنی جگہ عمل کریں گے.اور اس کے ایسے شاندار نتائج نکلیں گے کہ دنیا یہ تسلیم کرے گی کہ اس تعلیم سے بڑھ کر اور کوئی تعلیم نہیں.پس ایک طرف یہ علماء کا فرض ہے کہ اسلام نے دنیوی معاملات کے متعلق جو وسطی تعلیم پیش کی ہوئی ہے اسے جماعت کے دوستوں پر اچھی طرح واضح کریں.صرف وفات مسیح یا
خطبات محمود ۳۱۷ سال ۱۹۳۸ء ختم نبوت یا صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسائل پر تقریریں کر دینا ان کیلئے کافی نہیں کی بلکہ ان کا یہ بھی کام ہے کہ وہ اسلام کے تمدنی اور اقتصادی احکام کا مطالعہ کریں ، ان پر غور کریں اور جماعت کے دوستوں تک انہیں پہنچائیں اور جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے.مثلاً مجلس خدام الاحمدیہ کے جو ممبر ہیں وہ اگر چاہیں تو اس سلسلہ میں بہت مفید کام کر سکتے ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو اور ان تمام مسائل کو جو ان کی مطالبات کی بنیاد ہیں اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر انہیں لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کی کر دیں.اسی طرح اسلام کے جو مسائل تفقہیہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کا مطالعہ کریں اور انہیں پھیلا ئیں.خالی یہ مسائل نہیں کہ وضو میں اتنی بار ہاتھ دھونا چاہئے یا اتنی بار کلی کرنی چاہئے.بلکہ وہ مسائل جن کا تعلق تفقہہ سے ہے انہیں نکالیں اور لوگوں کے سامنے بیان کریں.اسی طرح اسلام کے جو اقتصادی احکام ہیں ان کا پہلے خود مطالعہ کریں پھر یہ سوچیں کہ دیگر مذاہب کے احکام پر اسلام کے ان حکموں کو کیا کیا فضیلتیں حاصل ہیں اور جب وہ اپنی معلومات کو مکمل کر لیں تو لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں اور مختلف جگہوں میں لیکچر دے کر ہر احمدی کو اس سے واقف کریں اور اسے بتائیں کہ اسلام میں کیسی اعلیٰ تعلیم موجود ہے.اگر وہ اس رنگ میں جد و جہد کر کے تمام جماعت کو اسلامی مسائل سے آگاہ کر دیں تو یقیناً جماعت کا ایک کثیر حصہ ان پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جائے گا کیونکہ میرا تجربہ جماعت کے متعلق یہ ہے کہ اس میں ایمان کی کی روح کی کمی نہیں جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ عربی نہیں جانتے اور اسلامی تعلیم کا بیشتر حصہ عربی میں ہے اس لئے وہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف رہتے ہیں.اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ اسلام کی ان امور کے متعلق کیا تعلیم ہے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سو میں سے پچانوے نقصان اٹھا کر بھی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کیلئے کھڑے ہو جائیں گے کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہے.جس چیز کی کمی ہے وہ علم ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ ہماری جماعت کی تمام انجمنوں کا فرض ہے کہ وہ انہیں اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں.مثلاً انصار اللہ کی جو جماعتیں مختلف مقامات میں قائم ہیں ان کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ تبلیغ کریں بلکہ اپنی جماعت کو اسلام کی تعلیم سے واقف کرنا بھی ان کا کام ہے.بعض علوم بیشک ایسے ہیں جو انہیں کی
خطبات محمود ۳۱۸ سال ۱۹۳۸ بوجہ علم کی کمی کے نہیں آسکتے مگر کم سے کم جو باتیں میرے خطبات میں آچکی ہیں ان کے متعلق یہ ان کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ انہیں تمام جماعت میں پھیلا دیں.پھر صرف انصار اللہ ہی نہیں مدرسوں کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ صاحبان کا بھی یہی فرض ہے کہ وہ اپنے لڑکوں میں وہ روح پیدا کریں جو میں جماعت کے تمام دوستوں کے دلوں میں پیدا کرنی چاہتا ہوں.ابھی چند دن ہوئے ہمارے زنانہ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر صاحب مجھے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کہ میں کیا کام کروں.میں نے انہیں بعض ہدایتیں دیں مگر اب میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ واقع میں کوئی ٹھوس کام کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی تعلیم کے احیاء کے متعلق میرے جس قدر گزشتہ خطبات ہیں وہ نکالیں اور ان کے مضامین سے سکول کی طالبات کو آگاہ کریں.جب وہ واقف ہو جائیں تو پھر وہ اپنی ماؤں کو ، اپنی بہنوں کو اور اپنی دیگر رشتے دار عورتوں کو بتائیں کہ ہماری جماعت کے قیام کی اصل غرض کیا ہے.یہاں تک کہ تھوڑے دنوں میں ہی قادیان میں رہنے والا ہر شخص اسلامی تعلیم سے آگاہ ہو جائے اور وہ بشاشت کے ساتھ اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جائے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو بعض لوگ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کا خاص حکم نہیں بلکہ ان کا ذاتی استدلال ہے.جو سچا مؤمن ہوتا ہے وہ کی تو ان باتوں کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس قسم کے وساوس سے اپنے ایمان کو متزلزل کرتا ہے ، وہ ج صرف یہی جانتا ہے کہ جب ایک شخص ہمارا خلیفہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے تو پھر وہ جو حکم بھی دے گا اس پر عمل کرنا ہمارے لئے ضروری ہوگا.وہ خدا اور رسول کے خلاف حکم نہیں دے سکتا.اصل بات یہ ہے کہ سب لوگ ایمان میں برا برنہیں ہوتے.کامل الایمان تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ جو بات ان سے کہی جاتی ہے وہ اچھی ہے.اگر ان کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ جو بات ان سے کہی جاتی ہے اچھی ہے تو وہ اسے فوراً قبول کر لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ضرور خدا تعالیٰ کا بھی یہی منشاء ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھی نہیں تو اس سے رک جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ان سے کم ایمان والے ہوتے ہیں اور وہ اچھی بات کے ساتھ کسی اچھے آدمی کی تائید کے بھی محتاج ہوتے ہیں.وہ ہر فتویٰ کسی بڑے آدمی کے منہ سے سننا چاہتے ہیں.اگر چھوٹا آدمی وہی فتویٰ سنائے تو وہ اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے لیکن اگر بڑا آدمی وہی فتویٰ سنائے کی
خطبات محمود ۳۱۹ سال ۱۹۳۸ تو اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.پس اس قسم کی طبائع رکھنے والے لوگوں کو اگر یہ بتایا جائے کہ فلاں مشہور عالم نے یہ کہا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں اچھا تب تو عمل کرنا ضروری ہوا.مگر کچھ لوگ ان سے بھی کم ایمان کے ہوتے ہیں وہ کسی بہت بڑے آدمی کی گواہی چاہتے ہیں اور کہتے ہیں اگر خلیفہ وقت کہے گا تو ہم مانیں گے ، وہ نہیں کہے گا تو کسی دوسرے کی بات ہم نہیں مان سکتے.ایسے لوگوں کو اگر خلیفہ وقت کا حکم سنا دیا جائے تو ان کی تسلی ہو جاتی ہے لیکن بعض لوگ اور بھی ضدی ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں ایسا حکم دیا ہے یا نہیں.ایسے لوگوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام بتائے جائیں.جب وہ یہ ارشادات سنتے ہیں تو ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں اور وہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ نے یہی تعلیم دی ہے تو لازماً ہمارا فائدہ بھی اس تعلیم پر عمل کرنے میں ہے مگر کچھ طبیعتیں اس سے بھی اوپر جانا چاہتی ہیں اور وہ کہتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع تھے ہمیں یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں ایسا حکم دیا ہے.ایسے لوگوں کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام احادیث سے نکال کر بتائے جائیں.جب ان کے سامنے یہ احکام رکھے جاتے ہیں تو کہتے ہیں بہت اچھا.اب تو عمل کرنا ضروری ہوا مگر کچھ طبائع یہاں آکر بھی ضد کرتی ہیں اور کہتی ہیں کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہماری طرح ایک انسان تھے تم یہ بتاؤ کہ قرآن میں کہیں خدا نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں.پس ایسے لوگوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ قرآن سے احکام پیش کئے جائیں.غرض چونکہ دنیا میں مختلف طبائع ہیں اس لئے ہمیں ہر طبیعت اور ہر مذاق کے انسان کا علاج سوچ لینا چاہئے.جو خالص نیک فطرت آدمی ہو اس کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوتا کی ہے کہ میاں یہ بات تمہارے فائدہ کیلئے ہے اور صداقت کے قیام کیلئے تمہارا اس پر عمل کرنا ضروری کی ہے.وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ بات کسی عالم نے کہی ہے یا خلیفہ وقت نے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہی ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے.بے شک وہ علمی تحقیق بھی کرتا ہے مگر اس کا نفس نیکی کو دیکھ کر ہی اس کی طرف راغب ہو جاتا ہے مگر دوسروں کیلئے مؤیدات کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ضرورت ہوتی ہے.بعض دفعہ علماء کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے.بعض دفعہ خلفاء کی تائید کی تی ضرورت ہوتی ہے، بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، بعض دفعہ قرآن کریم کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے اور جو بالکل کو را ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی بھی نہیں مانتا مگر وہ نہ ہمارا ہے نہ خدا کا بلکہ شیطان کا غلام ہے.جس نے اس کی روحانیت کو بالکل سلب کر لیا ہے.ایسے کئی آدمی کی ہوتے ہیں جنہیں احمدیت کی تبلیغ جس وقت کی جاتی ہے تو وہ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اگر خدا کی بھی آسمان سے اتر کر ہمیں کہہ دے کہ مرزا صاحب بچے ہیں تو ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے.ایسے آدمیوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا مگر جو دوسرے لوگ ہیں ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے.اگر کوئی شخص محض اس وجہ سے احکام مان لینے کا عادی ہے کہ ان سے دنیا میں صداقت کا قیام ہوتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس پر یہ امر واضح کر دیں کہ ان حکموں کے نتیجہ میں دنیا میں سچائی قائم ہوگی.اگر کوئی علماء کی تائید چاہتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے سامنے علماء کے اقوال پیش کریں ، اگر کوئی خلفاء کی تائید چاہتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے سامنے خلفاء کے اقوال پیش کریں اور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر محبت چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تائیدی ارشادات کہاں ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کے احکام اس کے سامنے پیش کریں اور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر حجت چاہتا ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اس کے سامنے رکھیں اور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر حجت چاہتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے سامنے خدا تعالیٰ کے اوامر پیش کریں اور اس میں ہمارا کوئی حرج نہیں کیونکہ یقینا سچائی کی تائید ہر صادق کے قول سے ملکی جائے گی.پنجابی میں ایک مثل ہے کہ سو سیانے اگو مت“ عظمند خواہ سو ہوں اُن کا مشورہ ایک ہی ہو گا.غرض جس رنگ میں بھی کوئی شخص مطمئن ہوسکتا ہے ہمارا کام ہے کہ اسی رنگ میں اسے مطمئن کریں.اور جس میں کوئی بھی قابلیت نہ ہوگی اور جو نہ علماء کے اقوال سے مطمئن ہوگا نہ خلفاء کی ہدایات سے مطمئن ہوگا نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے مطمئن ہوگا نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے مطمئن ہوگا اور بالآخر خدا کے اوامر سے بھی مطمئن.66
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء نہیں ہوگا وہ ہمارا آدمی ہی نہیں کیونکہ ہمارا دائرہ تو خدا تک چلتا ہے.پنجابی کی ایک مثل ہے.کہتے ہیں ”ملاں دی دوڑ مسیت تک.ہماری بھی آخری دوڑ خدا تک ہے جو خدا تعالیٰ کی بات بھی نہ سنے تو ہم اسے کہہ دیں گے کہ میاں تمہارا راستہ اور ہے اور ہمارا اور.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست بھی تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور چونکہ وہ وہابی تھے اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بڑی مدد کیا کی کرتے تھے.ایک دفعہ مولوی صاحب لدھیانہ کے قریب ایک شہر میں گئے اور انہوں نے وہابیت کی تبلیغ شروع کر دی پھر ایک جلسہ کیا جس میں ان کے خلاف زبردست تقریر کی.حنفیوں نے پولیس میں رپورٹ کر دی کہ مولوی صاحب کی تقریر سے فساد کا سخت خطرہ ہے.یہ حنفیوں کو گالیاں نکال رہے ہیں اور اگر انہیں روکا نہ گیا تو آپس میں فساد ہو جائے گا اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جائے گی.مولوی صاحب تو گھبرا گئے مگر یہ صاحب باوجود ناخواندہ ہونے کے ذہین تھے، کہنے لگے مولوی صاحب آپ جائیں، ان لوگوں کو میں سنبھال لوں گا.چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر کا اعلان کیا اور کچھ دوستوں کو مقرر کر دیا کہ تھانہ کا خیال رکھنا.اگر لوگ شکایت کریں اور پولیس آئے تو مجھے اطلاع کر دینا پھر میں دیکھوں گا وہ کس طرح میرے خلاف کوئی بات کرتی ہے.انہوں نے پہلے یہ پتہ لگا لیا تھا کہ تھانیدار سکھ ہے.چنانچہ وہ حنفیوں کے خلاف زبر دست تقریر کرتے رہے.اسی دوران میں ایک آدمی دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا تھانیدار صاحب آ رہے ہیں.وہ کہنے لگے کوئی پرواہ نہیں.وہ تقریر اسی موضوع پر کر رہے تھے کہ اہلحدیث میں کیا کیا خوبیاں ہیں.مگر چونکہ لوگوں میں مخالفت کا سخت جوش تھا اسی لئے تھانے میں انہوں نے رپورٹ یہ درج کرا دی کہ انہیں روکا جائے ورنہ خون ہو جائے گا کیونکہ یہ ہمیں گالیاں دے رہے ہیں.جیسے آجکل ہمارے خلاف لوگ حکوت کو مشتعل کرنے کیلئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں، انبیاء کو گالیاں دیتے ہیں اور بزرگوں کی توہین کرتے ہیں.انہوں نے بھی پولیس کے پاس اسی رنگ میں رپورٹ کی اور تھانیدار صاحب پولیس کی گارد لے کر پہنچ گئے.جس وقت انہیں پتہ لگا کہ تھانیدار صاحب لیکچر گاہ میں
خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۳۸ء داخل ہو گئے ہیں تو اپنی تقریر کا رخ بدل کر کہنے لگے مسلمانو ! تم میں کتنی خرابیاں پائی جاتی ہیں.تم کہلاتے تو مسلمان ہو مگر کام وہ کرتے ہو جو ہندو اور سکھ بھی نہیں کرتے.دیکھو سکھ مسلمان نہیں مگر ان میں یہ کتنی بڑی خوبی ہے کہ وہ ڈاڑھی رکھتے ہیں.تم لوگ سکھوں کو برا کہتے ہو، ان کے ہزار عیب نکالتے ہومگر اتنا نہیں سوچتے کہ تمہاری ڈاڑھیاں تو منڈی ہوئی ہیں اور سکھوں نے اپنے منہ پر ڈاڑھیاں رکھی ہوئی ہیں.پھر خود ہی سوچو کہ سکھ اچھے ہوئے یا تم.ہر شخص کہے گا کہ تم مسلمانوں سے سکھ ہزار درجے اچھے ہیں.پھر دیکھو تم حقہ پیتے ہو اور اٹھتے بیٹھتے حقہ کی نڑی تمہارے منہ میں ہوتی ہے.جب کسی سے بات کرتے ہو تو تمہارے منہ سے حقہ کی بد بو آتی ہے.مگر سکھوں کو دیکھو وہ حقہ کے قریب بھی نہیں جاتے اور ایک سکھ بھی ایسا نہیں ہے جو حقہ پیتا ہو.مگر تم ڈاڑھیاں منڈواتے ہو، تم حقہ پیتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہم اچھے ہیں.تم سے تو سکھ ہزار درجے اچھے ہیں.تھانیدار یہ سن کر کہنے لگا ہیں ! مولوی صاحب تو بڑی اچھی تقریر کر رہے ہیں.پھر وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا سنو اگر مولوی صاحب کی تقریر میں کوئی شخص بولا تو میں فوراً سے ہتھکڑی لگالوں گا.اس کے بعد سپاہیوں کو اس نے ہدایت کی کہ میں تو اب جا تا ہوں مگر دیکھنا مولوی صاحب کے خلاف اگر کوئی ذرا بھی بولے تو اسے ہتھکڑی لگا لینا.یہ کہہ کر وہ تھانے کو چل دیا.ادھر وہ جلسہ گاہ سے باہر نکلا اور اُدھر مولوی صاحب نے پھر اپنا مضمون شرع کر دیا.اس وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مقابلہ میں جو شخص کھڑا تھا وہ ارائیں قوم سے تعلق رکھتا تھا اس زمانہ میں عام طور پر ارائیں قوم میں یہ رواج تھا کہ ان کی عورتیں شہروں میں جا کر تر کاریاں فروخت کرتی تھیں.گواب خدا کے فضل سے اس میں بہت کچھ اصلاح ہے.مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں ارائیں قوم سے تمسخر کرنے شروع کر دیئے اور کہا بڑے مولوی بنے پھرتے ہیں.حالت یہ ہے کہ ان کی عورتیں مولیوں اور گاجروں کا ٹوکرا سر پر اٹھائے ہر وقت چکر لگاتی کی رہتی ہیں اور کہتی ہیں لے لو بھیناں مولیاں لے لو بھیناں گاجراں.وہ لوگ پھر دوڑے دوڑے تھانیدار کے پاس گئے اور کہنے لگے مولوی صاحب ہمیں گالیاں دے رہے ہیں.مگر تھانیدار کہنے لگا تم سب شرارت کر رہے ہو.اگر پھر بھی تم نے مولوی صاحب کے خلاف شکایت کی تو میں تم سب کی خبر لوں گا.
خطبات محمود ۳۲۳ سال ۱۹۳۸ء غرض وہ آدمی بڑے ذہین تھے.یوں پڑھے لکھے اور عالم نہیں تھے مگر تقریر بہت اچھی کر سکتے تھے اور ان کا ذہن بہت صاف تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی ماموریت کیا اور لوگوں نے شور مچادیا کہ مرزا صاحب کا فر ہو گئے ہیں تو وہ کہنے لگے میں مرزا صاحب کو جانتا ہوں وہ قرآن سے باہر نہیں جاتے.انہیں کوئی دھوکا لگ گیا ہوگا ورنہ ان کے دل میں قرآن کریم کی جس قدر محبت ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے کی دیده دانسته خلاف قرآن باتیں کہہ دی ہوں، ضرور انہیں کوئی دھوکا لگا ہے.پھر کہنے لگے میں خود قادیان جاتا ہوں اور ان سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا بات ہے.چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آکر کہنے لگے میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہاں میرا یہی دعویٰ ہے.وہ کہنے لگے میں تو کی سمجھتا تھا لوگ جھوٹ کہہ رہے ہیں اور مجھے بڑا یقین تھا کہ آپ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کی کہنے والے نہیں.مگر اب آ کر معلوم ہوا کہ لوگ جو کچھ کہ رہے ہیں وہ سچ ہے.حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام نے فرمایا میاں صاحب جب قرآن یہی کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو میں قرآن کے خلاف کس طرح کوئی بات کہہ سکتا ہوں.وہ کہنے لگے اچھا تو آپ قرآن کو مانتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں تو قرآن کے ایک ایک حرف اور ایک ایک شعنہ کو بھی قابل عمل سمجھتا ہوں.وہ کہنے لگے میں پہلے ہی کہتا تھا مرزا صاحب قرآن کی کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتے.ضرور انہیں کسی آیت سے دھوکا لگ گیا ہو گا.چنانچہ یہی بات صحیح نکلی.پھر کہنے لگے اچھا اگر میں قرآن کریم سے سوایسی آیتیں نکال کر لے آؤں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ وفات مسیح کا عقیدہ ترک کر دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا سو کا کیا سوال ہے.آپ اگر ایک آیت بھی قرآن کریم سے ایسی نکال دیں جس سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو میں اپنے عقیدہ کو بالکل ترک کر دوں گا.اس پر انہیں قحبہ پیدا ہوا کہ شاید سو آیتیں قرآن کریم میں ایسی نہ ہوں.اس لئے وہ کہنے لگے اچھا سو نہ سہی اگر پچاس آیتیں لے آؤں تب بھی کیا آپ اپنے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ آپ ایک آیت ہی نکال لائیں
خطبات محمود ۳۲۴ سال ۱۹۳۸ء میں مان لوں گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.آخر ہوتے ہوتے وہ دس آیتوں پر آگئے اور کہا کہ میں دس آیتیں تو ضرور لاؤں گا جن سے حضرت عیسی کی حیات ثابت ہوتی ہو.مگر آپ پکا وعدہ کریں کہ قرآن کریم کی آیتیں سننے کے بعد آپ اپنے عقیدہ کو ترک کر دیں گے اور لاہور چل کر شاہی مسجد میں لوگوں کے سامنے تو بہ کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہاں میں پختہ وعدہ کرتا ہوں اگر آپ ایک آیت بھی لے آئے تو جس جگہ آپ کہیں گے وہاں پہنچ کر اس عقیدہ کو ترک کرنے کا اعلان کر دوں گا.یہ سن کر وہ خوش خوش لاہور پہنچے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان دنوں لاہور تھے اور حضرت خلیفۃ امسیح الا ول گو اس وقت جموں میں ملازم تھے مگر آپ بھی اتفاقا کسی ضرورت پر لاہور تشریف لائے ہوئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو چونکہ اپنے علم پر بڑا گھمنڈ تھا اس لئے انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے مقابلہ میں اشتہار پر اشتہار دینے شروع کر دیے کہ میرا مقابلہ کرو اور مجھ سے جب چاہو بحث کرلو.حضرت خلیفہ اول بھی جواب میں اشتہار شائع فرماتے اور اس طرح آپس میں خوب اشتہار بازی ہو رہی تھی اور ایک اکھاڑہ سا لگا ہوا تھا.مگر شرائط کا تصفیہ نہیں ہوتا تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ کہتے کہ حدیثوں کی رو سے وفات وحیات مسیح پر بحث ہونی چاہئے اور حضرت خلیفہ اوّل یہ فرماتے کہ قرآن کی رو سے بحث ہونی چاہئے.آخر جب بہت عرصہ گزر گیا اور کوئی فیصلہ نہ ہوا تو لوگوں نے حضرت خلیفہ اول پر زور دینا شروع کر دیا کہ آپ اس شرط کو کچھ نرم کر دیں تا کہ کسی نہ کسی طرح مباحثہ ہو جائے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا اچھا قرآن کے علاوہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ بخاری بھی پیش کر دی جائے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس پر بڑے خوش تھے اور مجلس میں بیٹھے خوب فخر کر رہے تھے کہ دیکھا میں نے مولوی نورالدین کو کیسا رگڑا.آخر وہ قرآن کے علاوہ حدیث کی طرف آہی گیا.ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ یہ کی صاحب وہاں جا پہنچے اور کہنے لگے آپ نے یہ کیا تماشہ بنایا ہوا ہے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کہنے لگے تماشہ کیا ہے مولوی نورالدین سے میں نے بحث کی اور آخر اسے قابو کر ہی لیا.وہ کہنے لگے ان بحثوں کو چھوڑیے میں تو سیدھا مرزا صاحب کے پاس گیا تھا اور انہیں اس بات پر تیار کر آیا ہوں کہ وہ یہیں لاہور میں آکر شاہی مسجد میں سب لوگوں کے سامنے تو بہ کریں گے.
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۸ء آپ جلدی سے مجھے قرآن کی دس آیتیں ایسی لکھ دیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں.بس میں جاتے ہی وہ آیتیں ان کے سامنے پیش کروں گا اور انہیں یہیں لاہور میں لے آؤں گا اور شاہی مسجد میں سب کے سامنے تو بہ کراؤں گا.مولوی محمد حسین بٹالوی جو اس وقت اس بات پر خوش ہورہے تھے کہ میں آخر بڑی جدوجہد کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حدیثوں کی طرف لے آیا.انہوں نے جب یہ بات سنی تو چونکہ مغلوب الغضب آدمی تھے اس لئے غصہ سے لال سرخ ہو گئے اور کہنے لگے تو بڑا جاہل ہے تجھے کس نے کہا تھا کہ تو خود بخود شرائط طے کرتا پھرے.میں دو مہینے بحث کر کر کے مولوی نورالدین کو حدیثوں کی طرف لایا تھا تو پھر قرآن کی شرط مان آیا ہے.غصے کی حالت میں ان کے منہ سے جو نہی یہ فقرہ نکلا ان صاحب پر سکتہ طاری ہو گیا اور چونکہ آدمی تھے نیک اس لئے مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے مولوی صاحب میں اب بات سمجھ گیا.میں تو قرآن کی طرف ہوں جدھر قرآن ہے ادھر ہی میں ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیئے اور قادیان آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.تو حقیقت یہ ہے کہ مؤمن ادھر ہی جاتا ہے جدھر قرآن اسے لے جاتا ہو.اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں پچانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسے مؤمن خدا تعالیٰ کے فضل سے موجود ہیں جن پر اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ قرآن کریم کا وہی حکم ہے جو ہم بتا رہے ہیں تو وہ کی اس ان پڑھ مؤمن کی طرح یہی کہیں گے کہ جدھر قرآن ہے ادھر ہی ہم ہیں.غلطی ہماری اور ہمارے علماء کی ہے کہ وہ پوری طرح لوگوں کو ان مسائل اور تعلیمات سے آگاہ نہیں کرتے.تو جس قدر انجمنیں اور سکول ہیں اگر وہ اپنے فرائض میں یہ امر داخل کر لیں کہ انہوں نے لوگوں کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ شوق سے ان باتوں پر عمل نہ کریں.اگر سکول میں لڑکے اور لڑکیوں کو یہی باتیں بتائی جائیں اور بار بار بتائی جائیں تو گو پھر بھی ان میں بعض غلطیاں رہ سکتی ہیں مگر جو آئندہ نسل پیدا ہوگی وہ بہت زیادہ اصلاح یافتہ ہوگی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ایک دنیوی سکول ہے مگر یہ دنیوی سکول قادیان میں قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ لڑکوں میں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی روح پیدا کی جائے کی
خطبات محمود ۳۲۶ سال ۱۹۳۸ جس کے نتیجہ میں وہ سلسلہ اور اسلام کیلئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکیں.پس مدرسه تعلیم الاسلام کے ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے مدرسوں کے ہیڈ ماسٹر اور اسا تذہ صاحبان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی ان تعلیموں کو متواتر اور کثرت کے ساتھ لڑکوں کے سامنے پیش کریں اور انہیں ان حکمتوں اور فوائد سے آگاہ کریں جو ان تعلیموں میں کام کر رہے ہیں اور ایسے جلسے سکولوں میں کرتے رہیں جن میں انہی مضامین پر لڑکوں سے تقریریں کرائی جائیں.بیشک وہ لڑکوں کو دنیوی تعلیم بھی دیں اور ضروری ہے کہ دنیوی تعلیم دیں کیونکہ یہ امر بھی اور طالبعلموں کو کھینچنے اور مرکز سلسلہ میں لانے کا موجب ہوتا ہے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ جب سے سکول کے اساتذہ نے اس طرف توجہ کی ہے ان کے نتائج پہلے سے بہت زیادہ شاندار نکلنے شروع ہو گئے ہیں.حالانکہ یہی مدرس اور اساتذہ پہلے بھی تھے مگر چونکہ اب انہوں نے توجہ اور محنت سے کام کرنا شروع کر دیا ہے اس لئے انہیں کا میابی بھی زیادہ ہو رہی ہے.اسی طرح اگر وہ دینی معاملات کی طرف توجہ کریں تو یقیناً ہمارے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہو کر نکلیں گی گے تو اسلام کے جھنڈے کے حامل ہوں گے.پس یہ دو محکمے تو ایسے ہیں کہ اگر ان میں کی دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے تو صدیوں تک ثواب میسر آ سکتا ہے.آخر انٹرنس کی کے امتحان میں اگر لڑ کے اچھے نکلیں گے تو اس کا ثواب مدرسوں کو اسی سال حاصل ہوگا اور اس کی نیک نامی بھی انہیں اسی سال حاصل ہوگی لیکن اگر وہ اچھے احمدی اپنے سکول سے نکالیں تو کی اس کا ثواب ان کی وفات کے ہزاروں سال بعد بھی انہیں ملتا رہے گا.پس خدا تعالیٰ نے ان کیلئے یہ ایک ایسا راستہ کھولا ہوا ہے جس پر چل کر وہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کی دعا ئیں حاصل کر سکتے ہیں.پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہو سکے گا.فتنہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب فتنہ پرداز یہ سمجھتے ہیں کہ بعض لوگ ہماری باتوں سے متاثر ہو جائیں گے لیکن اگر یہ دونوں مدر سے لڑکوں اور لڑکیوں میں اسلامی روح پیدا کر دیں ، نظام سلسلہ کا احترام ان کے دلوں میں پیدا کر دیں، اسلام کے احکام کی عظمت ان کے دلوں میں پیدا کر دیں اور انہیں ایک ایسی مضبوط چٹان کی طرح بنا دیں کہ کوئی فتنہ ان کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکے اور وہ سلسلہ اور اسلام کے کامل عاشق ہوں تو جس قدر.
خطبات محمود ۳۲۷ سال ۱۹۳۸ فتنہ پرداز ہیں وہ یقیناً مایوس ہو جائیں گے اور آلومیئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ والی حالت نظر آنے لگ جائے گی.اس صورت میں وہ مدرس مدرس نہیں ہوگا جو اس رنگ میں اسلام کی تعلیم دے گا بلکہ دین کا ستون ہوگا اور آئندہ جب لوگ یہ دعا کریں گے کہ اللهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ تو آلِ مُحَمَّد میں خدا تعالیٰ کے فرشتے اس مدرس کا نام بھی لکھ لیں گے اور کہیں گے یہ وہ شخص ہے جس کی بدولت آج تک دنیا میں تعلیم اسلام قائم ہے.پس مدرس بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.در حقیقت وہ ایک خاموش نائب ہے نبی کا.وہ دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے مگر خدا تعالیٰ کی نظر اس پر ہر وقت پڑ رہی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے ذریعہ دین کی ترقی ہو رہی ہے.اسی طرح ہر جماعت اور بڑی جماعتوں میں ہر محلہ کے پریذیڈنٹ اگر کوشش کریں تو وہ اپنے اپنے دائرہ میں مفید کام کر سکتے ہیں.انجمن خدام الاحمدیہ کے ارکان کو بھی چاہئے خواہ وہ مرکزی انجمن سے تعلق رکھتے ہیں یا بیرونی انجمنوں سے کہ وہ اس سلسلہ میں عملی قدم اٹھا ئیں اور اپنے ممبروں کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنے کیلئے ایک پروگرام تیار کریں اور ایسا کورس مقرر کریں جس کو پڑھ لینے کے بعد وہ اسلامی مسائل سے بہت حد تک آگاہ ہو جائیں.پھر ان سے جگہ جگہ لیکچر دلائیں تا کہ یہ باتیں نہ صرف ان کے ذہن میں پختہ طور پر جم جائیں بلکہ دوسروں کو بھی ان کے مطالعہ سے فائدہ پہنچے.اور اگر وہ اس رنگ میں کام کی کریں تو سلسلہ کی بہت بڑی خدمت کر سکتے ہیں کیونکہ یہ کام کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا ہے اور جب تک ساری جماعت مل کر کام نہ کرے انفرادی کوششوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا.اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ میں مختلف گروہ کام کر رہے ہوں.ایک طرف بچوں کی تربیت ہورہی ہو، ایک طرف عورتوں کی تربیت ہورہی ہو، ایک طرف نو جوانوں کی تربیت ہو رہی ہو اور ایک طرف بڑی عمر کے لوگوں کی تربیت ہو رہی ہو.مثلاً اب خطبہ میں میں نے اس امر کی طرف توجہ دلا دی ہے مگر خالی میرا خطبہ پڑھ دینا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ خطبہ شائع ہونے کے بعد مختلف انجمنیں اس خطبہ کی روح کو لے کر کھڑی ہو جائیں اور لوگوں کو اس کی کے مطابق تیار کرنا شروع کر دیں، پھر ان سے جو چھوٹی انجمنیں ہیں وہ کام شروع کر دیں، پھر مدرسوں کے اساتذہ زور دینا شروع کر دیں.پھر گھروں میں ماں باپ سمجھانا شروع کر دیں،
خطبات محمود ۳۲۸ سال ۱۹۳۸ء غرض جس جس دائرہ میں کوئی شخص کام کرتا ہے اسی دائرہ میں وہ لوگوں کو سمجھانا اپنا فرض قرار می دے لے.جب اس رنگ میں ہماری جماعت کے تمام افراد کام کریں گے تب وہ دن آئے گا جب اسلامی تعلیم عملی رنگ میں دنیا میں قائم ہو جائے گی.عربوں کو اس سلسلہ میں بہت آسانی تھی ان کی زبان بھی عربی تھی اور قرآن کریم بھی عربی زبان میں نازل ہوا انتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اسلامی تعلیم سے آگاہ ہو گئے.مگر ہمارے لئے یہ مشکل ہے کہ ہماری جماعت کا ایک کثیر حصہ عربی زبان سے ناواقف ہے اس وجہ سے چند لوگ جو عربی جانتے ہیں وہ تو ( بشر طیکہ ان میں تقومی ہو ) اسلامی مسائل کی اہمیت کو سمجھ جاتے ہیں مگر باقی نہیں سمجھتے.پس یہ عربی جاننے والوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو ان مسائل سے آگاہ کریں بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہماری جماعت میں سے ہر شخص کو قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو.اس کیلئے اگر مجلس خدام الاحمدیہ ہر جگہ نائٹ سکول کھول دے اور ان لوگوں کو جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا ترجمہ پڑھانا کی شروع کر دے.تو یہی ایک ایسی خدمت ہوگی جو انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بنا دے گی.اگر قادیان کا بچہ بچہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو تو یقیناً دنیا کا کوئی شہر اس خوبی میں قادیان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا.حتی کہ عرب کے شہر بھی اس خوبی میں قادیان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ عرب بھی سارے کے سارے قرآن پڑھے ہوئے نہیں ہوتے.پس اگر مجلس خدام الاحمدیہ صرف اتنا کام کرے کہ وہ ان لوگوں کو جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا ، نائٹ سکول قائم کر کے ( تا جو لوگ دن بھر اور کاموں میں مشغول رہتے ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوسکیں ) ترجمہ پڑھا دے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے لئے بہت بڑی برکت کا ذخیرہ جمع کر سکتی ہے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمہارے سامنے جو کام ہے وہ کوئی معمولی کام نہیں دنیا کی تمام طاقتوں کو مٹاکر اسلامی تعلیم کا از سر نو احیاء تمہارا فرض ہے اور تمہارے کمزور کندھوں پر ایک عظیم الشان بو جھ لادا گیا ہے.اس کیلئے جب تک تمام افراد مل کر کوشش نہیں کریں گے اور احکام اسلامی کے اجراء میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کریں گے اس وقت تک یہ کام نہیں ہو سکے کہ گا.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه ۵ کہ تم میں سے ہر شخص بادشاہ ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اپنی اپنی رعیت کے متعلق
خطبات محمود ۳۲۹ سال ۱۹۳۸ء سوال کیا جائے گا.یہاں تک کہ گھر کا ایک بڑا آدمی بھی اپنی جگہ بادشاہ ہے اور اس سے اپنے بیوی بچوں کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس نے انہیں کہاں تک اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا.گویا اسلام نے ہم میں سے ہر شخص کو آواز دی ہے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلَّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ تو گویا دوسرے لفظوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں اور انہیں اپنے اپنے دائرہ میں مختلف قسم کی بادشاہتیں حاصل ہیں.میں ان سب کو پکارتا اور آواز دیتا ہوں کہ آؤ اور اسلام کے قیام میں میری مدد کرو کیونکہ قیامت کے دن میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے اسلام اور ایمان پھیلانے کیلئے کیا کیا.ایک ہیڈ ماسٹر اپنے سکول کا بادشاہ ہے اور قیامت کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے یہ سوال کریں گے کہ تم نے اپنی رعایا میں جو طالبعلم تھے اسلام پھیلانے کیلئے کیا جدوجہد کی.ایک جماعت کا پریذیڈنٹ اپنی جماعت کا حاکم ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ تم میں سے ہر شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا.پس جماعت کے پریذیڈنٹ سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن پوچھیں گے کہ اے فلاں جماعت کے پریذیڈنٹ تو نے اپنے شہر یا محلہ میں میری تعلیم جاری کرنے کیلئے کی کیا کوشش کی.اسی طرح ہر خاوند بادشاہ ہے اور اس کی بیوی اور اس کے بچے اس کی رعایا ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میں اس سے یہ دریافت کروں گا کہ اے خاندان کے بادشاہ ! تو نے اسلامی تعلیم کے احیاء کیلئے کیا کیا؟ اسی طرح ایک ماں بھی اپنے بچوں پر بادشاہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے یہ دریافت کریں گے کے اے ماں تو بتا کہ میری تعلیم پھیلانے کیلئے تو نے کیا کوشش کی؟ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کیونکہ یہ سوال ہے جو تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنا ہے اور کی تمہیں قیامت کے دن اس کا جواب دینا پڑے گا.پس پیشتر اس کے کہ اس سوال کا وقت آئے تم میں سے ہر شخص کو اس کے جواب کیلئے تیار رہنا چاہئے.“ ( الفضل ۱۷ رجون ۱۹۳۸ء ) ل الانبياء: ۹۷
خطبات محمود ۳۳۰ مؤطا امام مالک کتاب البیوع باب الْحُكْرَة وَالتَّرَبُّصُ بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الْمَلَائِكَة (الخ) المائده: ه بخارى كتاب النكاح باب الْمَرْءَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا سال ۱۹۳۸
خطبات محمود Ι سال ۱۹۳۸ احباب جماعت کی تربیت کیلئے تحریک جدید کے جلسے کئے جائیں فرموده ۱۷/جون ۱۹۳۸ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - عقلمند اور پاگل ، مؤمن اور منافق میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عقلمند اور مؤمن کے اقوال اور افعال میں اختلاف اور تضاد نہیں ہوتا لیکن پاگل اور منافق کے کاموں اور قولوں میں تضاد پایا جاتا ہے.یہی ایک علامت ہے جس کے ذریعہ سے پاگل اور منافق و مؤمن اور عقلمند کو پہچانا جاسکتا ہے.اگر کسی شخص کو ہم دیکھیں کہ وہ کسی چیز کی تعریف کر رہا ہے لیکن وہ چیز جب اسے میسر آ رہی ہو تو اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا تو ہم سمجھیں گے کہ اس کا تعریف کرنا بناوٹ تھی.اگر واقع میں وہ اس کے نیک اثرات کا قائل ہوتا تو جب وہ اسے میسر آ رہی تھی تو اسے کیوں نہ لیتا.پس اس کی تعریف یا تو پاگل نہ تھی یا منافقانہ گو یہ جنون یا منافقت حالات کے ماتحت کم و بیش درجہ کی ہوگی.چنانچہ قرآن کریم نے عارضی حالت کی کا نام جہالت رکھا ہے.اور وہ جہالت جو عارضی طور پر بعد علم کے انسان پر غالب ہوتی ہے جنون کی ہی ایک قسم ہے.جیسا کہ آجکل کی طبی تحقیق میں ایسے جرائم کا موجب جو انسان کے عقیدہ اور مسلّمات کے خلاف اس سے سرزد ہوں.ایک قسم کے جنون کا دورہ ہی بتایا گیا ہے،
خطبات محمود ۳۳۲ سال ۱۹۳۸ء تیسری کوئی صورت نظر نہیں آتی.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو کوئی چیز اچھی نظر آئے مگر وہ اسے ی ملتی نہ ہو.اس صورت میں ہم اسے پاگل یا منافق نہیں کہیں گے کیونکہ اگر وہ اس کی تعریف کرتا ہی ہے تو اپنے عقیدہ کا اظہار کرتا ہے اور چونکہ اسے عمل کا موقع نہیں ملا اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا.اگر اسے عمل کا موقع ملے اور وہ غفلت برتے یالا پرواہی سے کام لے تو بے شک ہم کہیں گے کہ یا تو اس کی تعریف منافقانہ اور پاگلا نہ تھی اور یا پھر اب اس پر جنون کا دورہ ہو گیا ہے.جس کے ماتحت یہ اس چیز کی نیکی اور خوبی کو بھول گیا ہے.اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان متواتر بلا ناغہ اور دن میں کئی کئی بار الحON TWITTERGENT AND AT A N ! کہتا ہے گویا وہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی تعریف والا ہے، کیوں اس لئے نہیں کہ مجھ پر احسان کرتا ہے، اس لئے نہیں کہ میری خبر گیری کرتا ہے، بلکہ وہ اس لئے تعریف کا مستحق ہے کہ رب العلمین ہے اور ساری دنیا کا خیال رکھتا ت ہے.رات دن صبح و شام، دو پہر غرض کہ ہر لحظہ اور ہر روز اور ہر ہفتہ اور ہر مہینہ اور ہر سال وہ اس امر کا اقرار کرتا چلا جاتا ہے.بلوغت سے لے کر موت تک کبھی کھڑے اور کبھی بیٹھے، کبھی لیٹے کبھی ان معتین الفاظ میں اور کبھی عام فقرہ کی صورت میں ہم اس مضمون کو بیان کرتے ہیں.کبھی تو ال DOWNLOADNANTAGE AND TO WATAN ANLAN ہی کہتے ہیں اور کبھی دوسری دعائیں کرتے ہیں جن کا مطلب بھی دراصل یہی ہے.جب سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمُ يَاسُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کہتے ہیں یا اَشْهَدُ أَنْ ANAL NAWAL LAN اللہ کہتے ہیں تو اس کا بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کیونکہ یہ سب باتیں کی ربوبیت عالمین پر دلالت کرتی ہیں.خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعریف کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ سب کا رب ہے اور اس کے سوا اور کوئی ربوبیت کرنے والا نہیں.پس بعض حالتوں میں انہی الفاظ میں اور بعض حالتوں میں دوسرے الفاظ میں ہم اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ واہ واہ ہمارا رب کیسا اچھا ہے ساری دنیا کی ربوبیت کرتا ہے لیکن غور کرنا چاہیئے کہ ہمارے لئے بھی تو ربوبیت کے مواقع آتے ہیں.اگر ر بو بیت اچھی چیز ہے تو ہمیں بھی یہ صفت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اگر ہم اسے پیدا کرتے ہیں تو ہمارا الْحَمْدُيده رب العلمین کہنے کا دعوی سچا اور مؤمنانہ ہے.ورنہ یہ منافقانہ یا پا گلا نہ ہے.مؤمن کیلئے
خطبات محمود ۳۳۳ سال ۱۹۳۸ء یہ بات کتنی اہمیت رکھنے والی ہے کہ جس چیز کی تعریف وہ اس قدر تواتر کے ساتھ کرتا ہے، اسے خود بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں.انسان ایک دفعہ بھی جو بات زبان سے نکال دے اس پر اس کا قائم رہنا ضروری ہوتا ہے.مگر جس بات کو دن میں تمہیں چالیس مرتبہ دُہرائے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اسے نظر انداز کر دے.اس کے یہ معنے ہیں کہ صفت رب العلمین کی کوئی حقیقت اس کے نزدیک نہیں ہے اسی لئے وہ اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتا.بعض حالتوں میں تو میں نے دیکھا ہے کہ بیوی بچے بھی انسان کی اس صفت کی سے محروم رہتے ہیں.بعض لوگ اپنے بچوں کی روٹی اور لباس کی تو بڑی فکر رکھتے ہیں لیکن انہیں نماز کا پابند بنانے کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی.پھر بعض لوگوں کے دلوں میں تعلیم کی قدر ہوتی ہے اس لئے وہ بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں.بعض کے نزدیک آداب مجلس کی قدر ہوتی ہے اس لئے ان کو یہ باتیں اچھی طرح سکھاتے ہیں.بعض ادیب ہوتے ہیں اور وہ اس بات کا بڑا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی زبان درست ہو.جو اپنے پیشہ کو ہمیشہ عزیز رکھتے ہیں وہ اس کی سے اپنے بچوں کو پوری طرح واقف کرتے ہیں.زمیندار اپنے بچوں کو ہل چلانا اور دوسرے زمیندارہ کام کرنا سکھاتا ہے.ان کو موسموں کے حالات اور ان کے تغیرات کا فصلوں پر اثر بتا تاج ہے.انہیں وہ امثال سکھاتا ہے جس میں بیان ہوتا ہے کہ کون سی فصل کیلئے کس موسم میں پانی اچھا ہوتا ہے.کب گوڈی اچھی ہوتی ہے.پھر اگر کوئی لوہار یا ترکھان ہے تو وہ اپنے بچوں کو اس کام کی کی باتیں بتاتا ہے لیکن جب خدا رسول کی باتیں یا نماز روزہ کے مسائل سکھانے کو کہا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ جی اجے نیا نا اے.یعنی ابھی یہ بہت چھوٹا بچہ ہے.حالانکہ تم اسے زبان سکھاتے ہو، آداب مجلس سکھاتے ہو، پیشہ کی باتیں سکھاتے ہو، زمیندارہ کی باتیں بتاتے ہو اور کبھی تمہیں یہ خیال نہیں آتا کہ یہ نیا نا، یعنی چھوٹا بچہ ہے لیکن جب دین کا سوال ہو تو جھٹ کہہ دیتے ہو کہ یہ نیا نا ہے.کیا دین ہی ایک ایسی چیز ہے جو مجھی نہ جاسکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے ہے مگر افسوس ہے کہ خدا و رسول نے جن باتوں کو ابتداء میں سکھانے کی ہدایت کی ہے ان کو پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ سکھانے اور تعلیم دینے کا بہترین وقت بچپن ہی ہے.اس عمر میں
خطبات محمود ۳۳۴ سال ۱۹۳۸ء جو بات سکھائی جائے وہ میچ کی طرح دل میں گڑ جاتی ہے.بچوں کو لوگ کہانیاں سناتے ہیں جن میں بھوت پریت کا ذکر ہوتا ہے اور ان کا طبیعت پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بچپن میں ایسی کہانیاں سنی ہیں وہ ان باتوں کے خلاف دلیلیں دیں گے، تقریریں کریں گے مگر ان کی اپنی کچ زندگی کے مختلف شعبوں میں ان باتوں کا اثر ضرور ظاہر ہوگا.وہ لوگوں کو ان باتوں کا غلط ہونا بتائیں گے اور اس کیلئے تقاریر بھی کریں گے مگر بعض دفعہ وہ خود شک میں پڑ جائیں گے.۱۹۱۳ ء میں حضرت خلیفہ اول کے عہدِ خلافت میں جب میں نے ”الفضل“ جاری کیا تو ڈیکلریشن کیلئے گورداسپور جانے لگا.ایک دوست نے دریافت کیا کہ آپ کہاں جاتے ہیں.کی میں نے بتایا تو کہنے لگے کہ آج تو منگل ہے، آج نہ جائیں.میں نے کہا کہ منگل ہے تو کیا حرج ہے.کہنے لگے کہ یہ بڑا منحوس دن ہے ، آپ نہ جائیں.میں نے کہا کہ میں نے تو اس کی نحوست کوئی نہیں دیکھی اور اگر اللہ تعالیٰ کی برکت ہو تو منگل کی نحوست کیا کر سکتی ہے اور میں تو ضرور آج ہی جاؤں گا.کہنے لگے کہ آپ چلے جائیں لیکن یاد رکھیں کہ اول تو ٹانگہ رستہ میں ہی ٹوٹے گا نہیں تو ڈپٹی کمشنر دورہ پر ہوگا.اور اگر وہ دورہ پر نہ ہوا تو بھی اسے کوئی ایسا کام در پیش ہوگا کہ مل نہیں سکے گا اور اگر ملنے کا موقع بھی مل جائے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ درخواست رڈ نہ کر دے مگر میں نے کہا کہ چاہے کچھ ہو میں تو ضرور منگل کو ہی جاؤں گا.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی میرے ساتھ تھے.چنانچہ ہم گئے تو ڈپٹی کمشنر و ہیں تھا.ہم اس کے مکان پر گئے اور جا کر اطلاع کی کرائی کہ ڈیکلریشن داخل کرنا ہے.اس نے کہا کہ آپ کچہری چلیں میں ابھی آتا ہوں.چنانچہ وہ فوراً کچہری آگیا اور چند منٹ میں اس نے ڈیکلریشن منظور کر لیا اور ہم جلدی ہی فارغ ہو گئے.یہاں سے کوئی سات آٹھ بجے چلے تھے اور کوئی تین چار بجے واپس آگئے.چونکہ اُن دنوں اگوں میں سفر ہوتا تھا اور اس کے یکطرفہ سفر پر ہی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے ، جب اس دوست نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو یقین کر لیا کہ یہ اس قدر جلد جو واپس آئے ہیں تو ضرور نا کام آئے ہوں گے اس لئے دیکھتے ہی کہا کہ اچھا آپ واپس آگئے.ڈپٹی کمشنر غالبا وہاں نہیں ہو گا.میں نے کہا کہ وہ وہیں تھا ہل بھی گیا اور کام بھی ہو گیا.اس پر وہ کہنے لگے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ اس نے اتنی جلدی آپ کو فارغ کر دیا ہو.میں نے کہا منگل جو تھا.
خطبات محمود ۳۳۵ سال ۱۹۳۸ء تو اچھے اچھے پڑھے لکھے آدمی منگل کی نحوست کے قائل ہوتے ہیں.ان کے سامنے اگر کوئی اور ایسی باتیں کرے تو کہیں گے کہ فضول ہیں، کیا کوئی عقلمند ان کو مان سکتا ہے.مگر منگل کی نحوست کا وہم چونکہ بچپن سے سنتے آئے ہیں اس لئے یہ دل سے نہیں نکلے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی منگل کے متعلق ایسا فرمایا ہے.میں کہتا ہوں ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بذریعہ الہام بتایا گیا ہو کہ آپ کیلئے منگل کے دن کوئی واقعہ ہونے والا ہے چنانچہ آپ کی وفات منگل ہی کے روز ہوئی.پس کسی خاص واقعہ کی وجہ سے اگر کسی دن کا طبیعت پر مخالفانہ اثر ہو تو حقیقتاً اس دن کی نحوست نہیں کہلائے گی بلکہ اس کا تعلق ایک تکلیف دہ واقعہ سے بتائے گی.یہی حال برکات کا ہے.جمعہ کو ہم با برکت کہتے ہیں اور اس کی وجہ جمعہ کے دن کا سورج نہیں بلکہ جمعہ کی عبادات ہیں.یا رمضان کو مبارک کہتے ہیں اس کی وجہ بھی مہینہ کی برکت نہیں بلکہ ان ایام کی عبادات ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جمعرات اور ہفتہ کو سفر کیلئے مبارک کہا ہے.اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ جمعرات یا ہفتہ کے دن سفر کرنے والا جمعہ کی نماز کو محفوظ کر لیتا ہے یا کم سے کم جمعہ کی نماز کی ہتک کرنے سے محفوظ ہو جاتا ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ بچپن کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں.عام طور پر ہر انسان سوائے اس کے کہ جسے عادت ہواندھیرے میں گھر سے باہر جانے سے گھبراتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اسے چور چکار کا ڈر ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ وہ کہانیاں ہوتی ہیں جو بچپن میں بچوں کوسنائی جاتی ہیں اور جن کا تعلق اندھیرے سے ہوتا ہے.اگر پوچھا جائے کہ گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے تو کوئی وجہ اس کیلئے پیش نہیں کی جاسکتی کیونکہ عقل تو مانتی نہیں کہ یہ باتیں صحیح ہیں.اس کی وجہ وہ مخفی اثر ہوتا ہے جو بچپن میں طبیعت پر پڑتا ہے اور پھر ساری عمر ساتھ جاتا ہے اور اس کا موجب صرف والدین ، بھائی بہن، ارد گرد کے لوگوں اور قصوں کہانیوں کا اثر ہوتا ہے اور اس کی کے بعد پھر عادت کا اثر ہوتا ہے.کئی ہندو مسلمان ہونے کے بعد بھی عرصہ تک گائے کے گوشت سے گھبراتے ہیں.سردار فضل حق صاحب جو حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور اب فوت ہوئے ہیں، یہاں مہمان خانہ میں بعض اوقات دوست کہتے تھے
خطبات محمود ۳۳۶ سال ۱۹۳۸ء کہ لاؤ ان کو گائے کا گوشت کھلائیں تو وہ بالکل انکار کر دیتے تھے اور ان کے آگے آگے بھاگے پھرتے تھے اور اگر کبھی دوست پکڑ کر زبردستی کرنا چاہتے تو چھڑا کر بھاگ جانے کی کوشش کرتے.بہت عرصہ بعد بعض دوستوں نے بغیر بتائے انہیں گائے کا گوشت کھلا دیا لیکن جب ی انہیں بتایا گیا تو انہیں کئے ہو گئی.تو انسان کی طبیعت پر بچپن کی بات کا بہت اثر ہوتا ہے اسی لئے انسان کے بچپن کی عمر اللہ تعالیٰ نے لمبی کی ہے.کیونکہ یہی اس کے سیکھنے کی عمر ہے.جانور کے بچہ نے چونکہ ماں باپ سے تربیت حاصل نہیں کرنی ہوتی اس لئے اس کا بچپن انسان کے بچپن کی نسبت سے بہت چھوٹا ہوتا ہے.اگر ایک جانور کی عمر میں سال ہو تو اس کا بچہ چھ ماہ سے دوسال تک کی عمر میں جوان ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی تمام عمر اور بچپن کی عمر میں اوسطاً ایک اور تمیں کی نسبت ہوتی ہے.لیکن انسان کے بچہ کے بالغ ہونے کی عمر اٹھارہ سال ہے اور اگر اوسط عمر پچاس سال سمجھی جائے تو گویا دونوں میں ایک اور تین کی نسبت ہے.اگر انسان کیلئے بھی کی یہی نسبت ہوتی تو اس کیلئے کل عمر ۱۸×۳۰ یعنی پانچ سو چالیس سال کی ہونی چاہئے تھی لیکن جانوروں کی نسبت انسانی بچپن کا زمانہ بہت زیادہ ہے.جانور چھ ماہ یا سال یا حد دوسال میں جوان ہو جا تا ہے لیکن انسان اٹھارہ سال کی عمر میں.غرض جانور کی بلوغت کی عمر اور اس سے پہلی عمر میں بہت فرق ہے لیکن انسان کی عمر میں یہ فرق بہت کم ہے.بعض ڈاکٹروں نے اس فرق کو دیکھ کر یہ خیال کیا ہے کہ شاید انسان کی عمر خوراک وغیرہ کی غلطی سے کم ہوگئی ہے لیکن بات کی یہ نہیں.لوگ مادی ہونے کی وجہ سے مادیات سے نگاہ اوپر نہیں اٹھا سکتے.حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ علمی وجود بنانا تھا اس لئے اس نے یہ انتظام کر دیا کہ وہ ماں باپ کے پاس زیادہ سے زیادہ عرصہ تک رہ سکے تا ان سے سیکھ سکے اور جانوروں میں چونکہ ماں باپ پر تعلیم کی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لئے ان کے قبضہ میں بہت تھوڑا عرصہ بچہ کو رکھا ہے.لیکن اہے انسان کی تعلیمی ذمہ داری اس کے ماں باپ پر رکھی ہے اس لئے اس کے بچپن کا زمانہ لمبا کیا ہے تا اگر ماں باپ اپنا فرض ادا کرنا چاہیں تو کر سکیں.پھر بچوں کے بعد خاوند اور بیوی کا تعلق ہے.عورتوں پر بھی تربیت کا حق ہے.یوں تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کو یکساں بنایا ہے لیکن یہ بھی فرمایا کہ مرد کو چونکہ ہم نے مربی بنایا ہے اس لئے
خطبات محمود ۳۳۷ سال ۱۹۳۸ء اس کے اختیارات انتظام کے لحاظ سے زیادہ رکھے ہیں اور تربیت کے اختیارات میں مرد کو کی مقدم رکھا ہے اور مردوں پر عورتوں کی اصلاح کی ذمہ داری رکھی گئی ہے.یوں تو سارے بنی نوع انسان کی اصلاح کی ذمہ داری مؤمن پر ہوتی ہے لیکن اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کی ذمہ داری خصوصیت کے ساتھ ہے.مگر افسوس ہے کہ لوگ بالعموم اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے.ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں ، ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ مجھے میرے والد صاحب اخبار الفضل، خرید کر نہیں دیتے.آپ ان کو لکھیں کہ میرے نام جاری کر دیں.وہ لڑکا سکول یا کالج میں پڑھتا تھا.اس نے لکھا کہ ہماری اور دینی تعلیم کا تو سامان نہیں کم سے کم اخبار سے سلسلہ سے لگاؤ رہے گا.اس کے والد ا چھے آسودہ حال آدمی تھے.میں نے ان کو خط لکھوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ بچوں کا ایمان ان کے ساتھ ہوتا ہے.انہیں آزادی ہونی چاہئے کہ خود تحقیقات کریں اور جو نتیجہ چاہیں نکالیں.بہر حال مجھے اپنے بچہ کی شکایت پر خوشی ہے کہ اس کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی میں کی اخبار اس کے نام جاری کرا دوں گا.اب بظا ہر تو یہ بات بہت خوشنما ہے کہ گویا وہ حریت ضمیر کے قائل تھے لیکن کیا ہندو ، عیسائی اور یہودی وغیرہ دیگر مذاہب کے لوگ اپنے بچوں کو یونہی چھوڑ دیتے ہیں.اگر ہم اس اصول پر کار بند ہوں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ باطل کے سر پرست اپنے بچوں کو باطل کی تعلیم دیں لیکن اسلام کے خدام اپنے بچوں کو چھوڑ دیں کہ جو چاہے ان کا شکار کر کے لے جائے.یقیناً جو شخص بچوں کی اصلاح کے طریقوں کو بھی حریت ضمیر کے خلاف سمجھے گا اس کے بچے گمراہی کا شکار ہونے کے خطرہ میں رہیں گے.پس بیوی بچوں کی اصلاح کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے.اس لئے جو بھی تحریک ہوا سے اس قدر عام کرنا چاہئے کہ وہ بچوں اور عورتوں تک بھی پہنچ جائے ورنہ اس کے وہ عظیم الشان نتائج نہیں نکل سکیں گے جو نکلنے چاہئیں اور جن کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ جائے.یا د رکھنا چاہئے کہ بچپن کی تربیت بہت اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا کرتی ہے.ایمانی لحاظ سے دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں.یا تو خود تحقیق کر کے ایمان لایا جائے اور یا پھر بچپن کی تربیت ایسی ہو.تحقیق کے ذریعہ سب کے سب لوگوں کا ایمان حاصل کرنا تو انبیاء کے زمانہ میں ہوتا ہے.بعد کے زمانوں میں
خطبات محمود ۳۳۸ سال ۱۹۳۸ء یہ موقع بہت کمزور ہو جاتا ہے اور جو لوگ مؤمنوں کے گھروں میں پیدا ہوں ان کیلئے تربیت ہی سے ایمان کا کمال مقدر ہے.حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کے حالات اور عقائد کے دلائل سے بچہ بچہ واقف ہوتا تھا کیونکہ چاروں طرف مخالف ہی مخالف تھے اور ہر وقت ہمارے کانوں میں یہی آواز پڑتی تھی کہ فلاں مسئلہ پر یہ اعتراض ہوا ہے اور اس کا جواب یہ ہے.یہی ہماری جد سے تھی اور یہی ہمارا کھیل تھا جو ہم کھیلا کرتے تھے.مگر اب دار الفضل یا دار الرحمت کے بچوں کے سامنے کوئی سوال رکھ دیا جائے تو وہ اس کا جواب نہیں دے سکیں گے اور انہیں اتنی واقفیت دس سال میں بھی نہیں ہو سکتی جتنی ہمیں ایک سال میں ہو جاتی تھی کیونکہ اب ہمارے بچوں کے کان اعتراضات سے آشنا نہیں ہیں.قادیان یا کسی اور جگہ کے بچے جہاں جماعت زبردست ہو وہ احمدیت کے اہم مسائل سے بھی تفصیلاً بغیر تعلیم کے آگاہ نہیں ہو سکتے لیکن ہمیں بچپن میں ان کی خبر تھی.مجھے یاد ہے میں بہت ہی چھوٹا تھا ہمارے گھر میں دادا صاحب کے زمانہ کی ایک کتاب تھی جس میں لکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جبریل کا آنا بند ہو گیا ہے.ایک اور بچہ کہیں باہر سے آیا ہوا تھا اس نے کہا یہ بات ٹھیک ہے مگر میں نے کہا کہ کیوں تم کس طرح اسے صحیح کہتے ہو اور بچپن میں جیسے دلائل ہوتے ہیں ان کے ساتھ میں نے اس خیال کا رڈ کیا اور کہا کہ ہمارے ابا کو الہام ہوتے ہیں.آخر میں نے اسے کہا کہ چلو حضرت صاحب سے پوچھیں اور ہم کتاب لے کر حضور کے پاس پہنچے.حضور نے ہم دونوں کی بات سن کر فرمایا کہ یہ لڑ کا غلط کہتا ہے ، ہم پر جبریل نازل ہوتا ہے.تو اس زمانہ میں ہم چونکہ چاروں طرف سے دشمنوں سے ہی گھرے ہوئے تھے یا پرانا لٹریچر ہمارے سامنے رہتا تھا اس لئے وہ باتیں ہر وقت کان میں پڑتی رہتی تھیں مگر اب یہاں ہر طرف احمدی ہی احمدی ہیں اور پرانا لٹریچر بھی احمدی بچوں کے سامنے نہیں آتا اس لئے دشمن کی بات تو پہنچ نہیں سکتی اور اپنے کچھ سناتے نہیں اس لئے سختی کوری کی کوری ہی رہتی ہے.دشمن کی بات اس لئے نہیں سن سکتے کہ دوستوں سے گھرے ہوئے ہیں اور دوست ستی کر رہے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ بالکل کورے کے کو رے رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ جوش و خروش کہاں رہ سکتا ہے.پس سلسلہ کی تحریکات سے ہر فرد کو واقف کرنا اہم قومی فرائض میں سے ہے.
خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۸ء میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں جلسوں کے انعقاد کا اعلان اس سال کیلئے نہیں کیا کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ یہ جلسے بھی رسمی ہو کر رہ گئے تھے.لوگ شوق سے شریک نہیں ہوتے تھے.جہاں ساٹھ ستر احمدی ہوئے ان میں سے چند ایک آگئے.میں غور کر رہا تھا کہ اس نقص کا ازالہ کس طرح کیا جائے.چنانچہ اس کی اصلاح کی تجاویز پر غور کرنے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ تحریک جدید کے الگ سیکرٹری ہوں جن کے سامنے خاص یہی کام ہو.ایک سیکرٹری عام تحریکات کیلئے ہو اور دوسرا سیکرٹری چندوں کیلئے ہو اور ان کا فرض ہو کہ اس تحریک سے نہ صرف جماعت کے ہر مرد کو بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی واقف کریں.اگر چہ اب تک ساری کی جماعتوں نے سیکرٹری مقرر نہیں کئے مگر ایک معتد بہ حصہ نے سیکرٹری مقرر کر دیئے ہیں اس لئے اب میں اعلان کرتا ہوں کہ جولائی کے آخری ہفتہ میں جو اتوار آئے ( یہ ۳۱ / جولائی کا دن ہوگا ) اس میں تحریک جدید کے جلسے کئے جائیں اور اس دوران میں متواتر جلسے ہوتے رہیں جن کی میں اس جلسہ میں لوگوں کو شامل ہونے کیلئے تیار کیا جائے.اس عرصہ میں کم سے کم تین جلسے کی تو ضروری کئے جائیں.ایک مردوں کیلئے ، ایک عورتوں کیلئے اور ایک بچوں کیلئے.پس سیکرٹریان تحریک جدید کا یہ فرض ہے کہ جس میں اگر دوسرے سیکرٹری بھی مدد دیں تو وہ بھی ثواب میں شریک ہو جائیں گے کہ اس بڑے جلسہ تک کم سے کم تین جلسے ایسے کرا دیں جن میں سے ایک خالص عورتوں کیلئے ، ایک خالص مردوں کیلئے اور ایک خالص بچوں کیلئے ہو اور ان میں علیحدہ علیحدہ وہ حصے بیان کئے جائیں جو ان سے تعلق رکھتے ہوں.اگر زیادہ جلسے ہو سکیں تو اور کی بھی اچھا ہے.جب جماعت کے ان تینوں حصوں کو اچھی طرح تحریک جدید کی اغراض سے واقف کر دیا جائے گا تو پھر بڑا جلسہ کیا جائے اور اس صورت میں امید ہے کہ جماعت کے تمام افراد میں خاص جوش پیدا ہو چکا ہوگا اور وہ اس کی اہمیت سمجھ لینے کی وجہ سے خاص طور پر اس میں حصہ لینے کیلئے تیار ہوں گے اور اس آخری بڑے جلسہ کا جو خواہ مرد عورت کا بالالتزام پردہ مشترک ہو یا الگ الگ بہت فائدہ ہوگا.اب تو یہ حالت ہے کہ مثلاً جن باتوں کا تعلق عورتوں سے ہے ہم ان پر زور نہیں دے سکتے کیونکہ مردوں نے ان کو اطلاع بھی نہیں دی.سادہ زندگی اختیار کرنے اور اسراف سے بچنے میں عورتیں بہت بڑی روک ہوتی ہیں.
خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۳۸ اگر ہم نے دنیا میں اسلام کے صحیح نقش و نگار کو قائم کرنا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ سب روکوں کو دور کی کریں.میں نے دیکھا ہے کہ چونکہ ہماری جماعت کی عورتوں اور بچوں کی تربیت صحیح رنگ میں کی نہیں ہوتی اس لئے مرد جب کوئی کام کرنے لگتے ہیں وہ ان کے رستہ میں روک ہو جاتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ بعض عورتیں مردوں سے بھی بڑھی ہوئی ہیں بلکہ بعض میرے پاس شکایتیں کرتی رہتی ہیں کہ ہمارے مردست ہیں، فلاں مرد نماز نہیں پڑھتا ، فلاں چندہ میں ست ہے اور ان میں مردوں سے بھی زیادہ اخلاص ہے.یہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے دفتر میں یقیناً اپنے مردوں سے افضل ہیں اور ان کے مرد خدا تعالیٰ کے دفتر میں ان کی رعایا ہیں اور جبراً ان سے وصول کر کے دیتی ہیں.پس عورتوں اور بچوں کی تربیت اگر صحیح رنگ میں کی جائے تو بہت اچھے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اس لئے میری تجویز ہے کہ آج سے لے کر جولائی کے آخری ہفتہ تک قادیان کی بھی اور کی بیرونجات کی بھی تمام جماعتیں جلسے کریں اور تحریک جدید کے مطالبات کی طرف مردوں ، عورتوں اور بچوں کو متوجہ کریں اور جنہوں نے چندے لکھوائے ہوئے ہیں ان کو تحریک کریں کہ فوراً ان کو ادا کریں بلکہ کوشش کریں کہ اس جلسہ تک تمام چندے ادا ہو جائیں.اور جنہوں نے گزشتہ وعدے پورے نہیں کئے ان کو تحریک کریں کہ وہ آئندہ ہی پورے کریں اور اس طرح کی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں.اگر کسی نے پہلے ستی کی ہے تو وہ آئندہ اس کا ازالہ کر کے آگے بڑھ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے متعلق لکھا ہے کہ آپ پیچھے آئے مگر بہتوں سے آگے نکل گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حضرت علیؓ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پہلے ایمان لا چکے تھے اور حضرت عمر بعد میں لائے مگر سب سے آگے بڑھ گئے.پس اگر کسی کے اندر کچی تو بہ اور حقیقی تبدیلی پیدا ہو جائے تو وہ اپنی گزشتہ ہستیوں اور کی غفلتوں کا ازالہ کر سکتا ہے ہاں اس کیلئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے، اپنے دل کا خون کرنا ہوتا ہے اور اگر چند گھنٹوں کیلئے بھی کوئی دل کو خون کر دے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.
خطبات محمود ۳۴۱ سال ۱۹۳۸ء پس مت خیال کرو کہ جو گزشتہ سالوں میں اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے ان کیلئے رحمت کی کے دروازے بند ہو چکے ہیں.توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے.جو شخص نیکی کو شروع کر کے آخر تک لے جاتا ہے یا جو درمیان سے شامل ہو کر آخر تک ساتھ جاتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے.نا کام وہی ہوتا ہے جو رستہ میں چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے.ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ تم نے ہمیں چھوڑ دیا اس لئے ہم تمہیں چھوڑتے ہیں.مگر جو دیر سے آتا ہے اور تو بہ کرتا اور کوشش کرتا تج ہے کہ خدا تعالیٰ سے مل سکے وہ ضائع نہیں کیا جاتا.حضرت مسیح ناصری نے اس کیلئے کیا اچھی کی مثال دی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : - کسی ایک شخص کے دو بیٹے تھے.ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا حصہ جو مجھے پہنچتا ہے مجھے دے.اس نے مال انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دیا.اور جب سب خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا.پھر اس ملک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا.اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سو رکھاتے تھے انہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا.پھر اس نے ہوش میں آ کر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں.میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ اے باپ ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں.مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے.پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا.وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اس کو گلے لگالیا اور بوسے لئے.اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جا مہ جلد نکال کر اسے پہناؤ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں.کیونکہ یہ میرا بیٹا مر وہ تھا اب زندہ ہوا،
خطبات محمود ۳۴۲ سال ۱۹۳۸ کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.پس وہ خوشی منانے لگے.لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا.جب وہ آ کر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے.اس نے اس سے کہا کہ تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا.وہ غصے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا.مگر اس کا باپ باہر جا کر اسے منانے لگا.اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی.مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی منا تالیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال کسبیوں میں اڑا دیا تو اس کیلئے تو نے پلا ہوا کچھڑ ا ذ بح کیا.اس نے اس سے کہا کہ بیٹا تو تو ہمیشہ میرے پاس ہے.اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن خوشی منانی اور شادماں ہونا مناسب تھا.کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا اب زندہ ہوا ، کھویا ہوا تھا ، اب ملا ہے.کے اس میں حضرت مسیح علیہ السلام بتاتے ہیں کہ اے لوگو! جو گنہگا رتو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کے پاس آجاتا ہے وہ اس کیلئے ویسی ہی خوشی دکھاتا ہے جیسی اس باپ نے دکھائی تھی اور یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کی نہایت لطیف مثال ہے.لوگ آنے والے کو طعنہ دیتے ہیں کہ جھک مار کر واپس آگیا اور کہتے ہیں کہ کم بخت جب طاقت اور ہمت تھی اس وقت تو ساتھ نہ دیا اور اب آیا ہے لیکن جب کوئی گنہ گار تو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور آئے تو وہ اسے یاد بھی نہیں دلا تا کہ تم نے کیا کیا قصور کئے تھے بلکہ خوش ہوتا ہے کہ اس کا کھویا ہو ا بندہ واپس آیا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا نام غفار، ستار اور مُكَفِّرْ عَنِ السَّيِّئَاتِ آیا ہے.غفار کے معنے ہیں کہ وہ معاف کر دیتا ہے اور سزا نہیں دیتا.ستار کے معنے ہیں کہ وہ بندے کے گناہوں کو بعد میں بھی یاد نہیں دلاتا.اور مکفر کے معنے ہیں کہ مستقبل میں گناہوں کے بد نتائج کو بھی مٹا ڈالتا ہے.مثلاً ایک شخص نے ایسی روٹی کھائی کہ جس کے نتیجہ میں اس کے پیٹ میں درد ہونے والا ہے تو وہ اگر تو بہ کرے تو خدا تعالیٰ ان نتائج کو مٹا دیتا ہے جو اس روٹی سے نکلنے والے تھے اور
خطبات محمود ۳۴۳ سال ۱۹۳۸ء انسان کے گزشتہ گناہوں کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ خود یاد نہیں دلاتا بلکہ دوسرے جن انسانوں کو ان کا علم ہوتا ہے ان کے دلوں سے بھی ان کو مٹا دیتا ہے.پس تم مت خیال کرو کہ تم سے پہلے کوتا ہی ہوئی ہے.اگر تم سچی توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ سب بھلا دے گا بلکہ دوسرے جاننے والوں کے دلوں سے بھی مٹادے گا.پس دوست جولائی کے آخری اتوار تک جلسے کریں.عورتوں ، بچوں اور مردوں کا کم سے کم ایک ایک جلسہ ضرور کیا جائے جن میں تحریک جدید کے چندہ نیز دوسرے مقاصد کے متعلق کھول کر بیان کیا جائے اور پھر کوشش کی جائے کہ اس جلسہ تک چندہ کا بہت سا حصہ جمع ہو جائے.احباب نے شروع شروع میں چندوں کی ادائیگی میں سُستی کی تھی مگر میرے اعلانوں کے نتیجہ میں بہت حد تک چندے ادا ہو گئے ہیں.سیکر ٹر یان تحریک جدید کو سمجھنا چاہئے کہ اب ان کی ذمہ داری کے امتحان کا وقت آگیا ہے.ثواب صرف نام سے نہیں بلکہ کام سے ہوتا ہے اس لئے کوشش سے کام کریں اور کم سے کم ایک ایک جلسہ عورتوں ، مردوں اور بچوں کا کرا دیں جس میں تحریک جدید کے تمام شعبے کھول کھول کر بیان کئے جائیں اور پھر جولائی کی کے آخر میں جو جلسہ ہو وہ رسمی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو.مجھے افسوس ہے کہ پچھلے جلسے قادیان میں بھی رسمی ہوتے رہے ہیں اور بہت کم لوگ شامل ہوتے رہے ہیں حالانکہ چاہئے تھا کہ بیرون جات سے بھی لوگ شامل کئے جاتے اور قادیان کے بھی سب دوست شامل ہوتے.اب میں امید کرتا ہوں کہ اب باہر کے بھی اور قادیان کے دوست بھی اس کو تا ہی کو دور کریں گے.مجلس خدام الاحمدیہ کیلئے خدمت کا یہ ایک موقع ہے.اس کے والنٹیر لوگوں کے گھروں میں جائیں اور مردوں اور بچوں کو شریک کریں اور لجنہ اماءاللہ عورتوں میں تحریک کرے اور سب کوشش کریں کہ یہ جلسے بہتر سے بہتر صورت میں ہوں اور ہر احمدی تک یہ پیغام پہنچ جائے تا کوئی نہ کہہ سکے کہ مجھے پتہ نہیں تھا.ابھی سفر سندھ کے دوران میں مجھے بعض خطوط ملے جن میں ذکر تھا کہ ہمیں تو چار سال میں تحریک جدید کا علم بھی نہیں ہوا.اور جب ہم ایک چھوٹی سی جماعت تک بھی یہ پیغام نہیں پہنچا سکے تو ساری دنیا تک کس طرح پہنچا ئیں گے.پس ضروری ہے کہ ہر ایک کو پوری طرح واقف کر دیا جائے تا عمل کرنے کی روح پیدا ہو سکے.اور آخری جلسہ میں لوگوں سے اس عہد کی تجدید کرائی جائے کہ وہ اسلامی تعلیم کے
خطبات محمود ۳۴۴ سال ۱۹۳۸ ماتحت اپنی زندگیاں بسر کریں گے اور اپنے وعدے پورے کریں گے.تجدید عہد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صوفیاء سے ثابت ہے جسے بیعت ارشاد کہا جاتا کہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ دوبارہ بیعت کرلو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ستر ستر اور سوسو مرتبہ بیعت کی.یعنی جب بھی موقع ملتا وہ شامل ہو جاتے.تو تجدید عہد خوبی کی بات ہے.میں ید کرتا ہوں کہ دوست اس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں جماعت کے اندر نئی بیداری اور نئی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.یہ عہد یدار ان کے بھی امتحان کا وقت ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبروں کا بھی اور باقی جماعت کا بھی.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق کی دے کہ میں سچائیوں کو کھول کھول کر بیان کر سکوں اور جماعت کو بھی توفیق دے کہ ان کو قبول الفضل ۲۲ جون ۱۹۳۸ء ) امید 66 کر سکے اور ان پر عمل کر سکے.آمین.“ الفاتحة:٢ کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۵۹۹.مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء سے جد : کوشش.سعی لوقا باب ۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ( مفہوماً)
خطبات محمود ۳۴۵ ۱۹ سال ۱۹۳۸ میاں عزیز احمد صاحب مرحوم کے متعلق اپنوں کے خیالات اور معاندین کے اعتراضات فرموده ۲۴ / جون ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اس ہفتے مجھے پشاور کی جماعت کے ایک دوست کی طرف سے ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے ایک دوسرے دوست کی شکایت کی ہے کہ ایک مجلس میں بیٹھ کر انہوں نے بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو قابلِ اعتراض ہیں اور مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان باتوں کا ازالہ کر دوں.چونکہ وہ باتیں اور ویسی ہی بعض اور باتیں ایسی ہیں جو کسی قدر تو ضیح چاہتی ہیں اور کی اس بات کی متقاضی ہیں کہ جماعت کو ان کے متعلق صحیح رائے سے آگاہ کیا جائے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں جمعہ کے خطبہ میں ان امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں :- انہوں نے دو باتیں لکھی ہیں.ایک تو یہ ہے.کہ اس دوست نے مجلس میں بیٹھ کر به اصرار و به تکرار یہ بات بیان کی کہ قادیان کے لوگ بے غیرت ہیں کیونکہ وہ سلسلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یا ان کے خاندان کے متعلق جو بدگوئی کی جاتی ہے اسے برداشت کر لیتے ہیں.اور انہوں نے کہا کہ اہلِ قادیان جو یہ کہتے ہیں کہ صبر سے کام لیتے ہیں یہ درست نہیں اس لئے کہ جب انہیں یا ان کے رشتہ داروں کو کوئی شخص گالی دے تو وہ صبر نہیں کرتے.
خطبات محمود ۳۴۶ سال ۱۹۳۸ء وہ کہتے ہیں ہم نے اس دوست کو سمجھایا کہ یوں نہیں کہنا چاہئے.تو وہ کہنے لگے میرے ساتھ قادیان چلو.میں اسی فیصدی ایسے لوگ ثابت کر سکتا ہوں کہ جب انہیں یا ان کے ماں باپ کو گالی دی جائے تو وہ برداشت نہیں کریں گے اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا سلسلہ اور نظام کے متعلق جب دشمنوں کی طرف سے کوئی بات کہی جاتی ہے اور وہ اسے برداشت کر لیتے ہیں تو یہ صبر کا نہیں بلکہ بے غیرتی کا نتیجہ ہوتا تج ہے.حالانکہ گالی دینے والے کا علاج سوائے سختی کے اور کیا ہے: دوسری بات وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہی کہ ان میں سے ایک ہی شخص نے غیرت کا حج مظاہرہ کیا.یعنی میاں عزیز احمد صاحب نے اور انہوں نے اس کی کوئی امداد نہ کی بلکہ خاموش بیٹھے رہے.یہاں تک کہ جب اس کی وجہ سے ہائی کورٹ نے خلیفہ اسی کے متعلق بعض کی ریمارکس کئے تو اس وقت جماعت میں جوش پیدا ہوا.اور دوڑ بھاگ کی گئی حالانکہ اگر شروع کی سے ہی جب یہ واقعہ ہوا تھا کوشش کی جاتی تو شاید میاں عزیز احمد کو پھانسی نہ ملتی اور وہ بچ جاتے.یہ دو باتیں ہیں جو اس دوست نے پشاور سے لکھی ہیں.اور تحریر کیا ہے کہ ہم اس دوست کو سمجھاتے رہے اور وہ اصرار کرتے رہے جس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ دوست اور ایسے ہی اگر کوئی اور دوست ہوں تو ان دلوں پر زنگ لگا ہوا ہے کیونکہ وہ قادیان اور مرکز سلسلہ کا کی احترام نہیں کرتے اور چونکہ ایسے شخص نے قادیان کے لوگوں کی ہتک کی ہے اور فتنہ پیدا کیا ہے کی اس لئے اس کا ازالہ ہونا چاہئے.یہ تو ایک احمدی اور اپنے دوست کی طرف سے مجھے بات پہنچی ہے.نام انہوں نے نہیں لکھا صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ دوست احمدی اور مبائع ہیں.اس کے علاوہ مجھے دو اور باتیں بھی پہنچی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی قابل توجہ ہیں.اگر چہ وہ کی دوستوں کی طرف سے نہیں بلکہ مخالفوں کی طرف سے پہنچی ہیں.ان میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کہا تو یہ جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ میاں عزیز احمد کی مدد نہیں کرتی رہی حالانکہ اس کے مقدمات پر ہزار ہا روپیہ خرچ کیا گیا ہے ورنہ ایک غریب آدمی ہائی کورٹ اور پر یوی کونسل تک مقدمہ کیونکر لڑ سکتا تھا.مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک احراری مولوی نے بھی اپنی ایک تقریر میں یہ مضمون بیان کیا ہے.ایک اعتراض مخالفوں کی طرف سے یہ بھی میرے کان میں
خطبات محمود ۳۴۷ سال ۱۹۳۸ء پڑا ہے کہ میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں ہزاروں احمدی شامل ہوئے یہ بغیر حکم کے کس طرح ہوسکتا تھا.ضرور ہے کہ جماعت کے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہو کہ جاؤ اور مظاہرہ کرو.پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم ایسے افعال سے ہمدردی نہیں رکھتے.یہ صحیح نہیں.کیا یہ ہمدردی نہیں کہ ہزاروں احمدی اس کے جنازہ میں شامل ہوئے اور کیا بغیر خاص حکم کے ایسا ہوسکتا تھا.پھر یہ بھی کہ کیوں جماعت نے ان کا جنازہ پڑھا اگر وہ اس فعل کو برا کہتے تھے تو ایسے شخص کا جنازہ کیوں کی پڑھا گیا.دوسری طرف یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اگر جنازہ پڑھنا بُر انہیں تھا تو امام جماعت احمد یہ نے خود کیوں جنازہ نہیں پڑھایا گویا وہ اس اعتراض کی دو شقیں کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ اگر اس کا فعل بُرا تھا تو پھر جماعت کا اس کثرت کے ساتھ اس کے جنازہ میں شامل ہونا درست نہیں تھا.پھر یہ کہ ان کا شامل ہونا آپ ہی آپ نہیں تھا بلکہ مرکز کی طرف سے حکم تھا کہ جنازہ میں ضرور شامل ہونا چاہئے.اس طرح ان کے نزدیک گویا منافقت کی گئی ہے کہ دنیا کو یہ کہا گیا ہے کہ ہم اس کے فعل سے بیزار ہیں مگر عملاً اس بیزاری کا اظہار نہیں کیا گیا.دوسری شق اس کی اعتراض کی یہ ہے کہ اگر جنازہ پڑھنا کوئی بُرا کام نہیں تھا تو خود میں نے کیوں جنازہ نہیں پڑھایا.یہ وہ چار اعتراضات ہیں جو میرے کانوں میں پڑے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں ان کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دینا میرے لئے ضروری ہے تا کہ جس حد تک اعتراض نا واجب کی ہے اس کا ازالہ ہو جائے اور جس حد تک اعتراض حقیقت پر مبنی ہے اس کی تشریح ہو جائے.بیشتر اس کے کہ میں اصل سوالوں کا جواب دوں.میں سمجھتا ہوں یہ مناسب ہوگا کہ دوستوں کو سمجھانے کے لئے اور مخالفوں کو سمجھانے کے لئے بھی (اگر وہ سمجھنے کی کوشش کریں ) بعض اصول بیان کر دوں کیونکہ ان اصول کو سمجھے بغیر ان باتوں کے جوابات پوری طرح سمجھ میں نہیں آسکتے اور جو پہلو میں اختیار کروں گاوہ پوری طرح ان پر واضح نہیں ہو سکے گا.پہلا امر جوان تشریحات کے سمجھنے سے پہلے جنہیں آئندہ چل کر اگر اللہ نے مجھے توفیق دی تو بیان کروں گا یہ ہے کہ الفاظ کی ظاہری شکل کو دیکھ کر کسی فتویٰ کا لگا دینا درست نہیں ہوتا بلکہ اس حقیقت کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جو الفاظ کے پیچھے ہوتی ہے.دنیا میں ظاہری صورتیں کی
خطبات محمود ۳۴۸ سال ۱۹۳۸ء نہ کچھ حقیقت رکھتی ہیں اور نہ ظاہری فقرات کچھ حقیقت رکھتے ہیں.بسا اوقات اچھے فقرے ہوتے ہیں جن کے بُرے معنے ہوتے ہیں اور بسا اوقات بُرے فقرے ہوتے ہیں جن کے اچھے معنی ہوتے ہیں.ہمارے ملک میں لوگ عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ فلاں بڑا حضرت ہے.اب بڑا حضرت کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ قابل عزت لوگوں میں سے وہ شخص بہت بڑا ہے.اور اگر ہم الفاظ کو لیں تو یہ تعریفی الفاظ ہیں بُرے الفاظ نہیں کہ فلاں صاحب بڑے حضرت ہیں کیونکہ حضرت کا لفظ ادب اور احترام کے لئے بولا جاتا ہے.حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی جو لفظ کثرت سے ہمارے ملک میں استعمال کیا جاتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی جو لفظ ہم کثرت سے استعمال کرتے ہیں وہ حضرت صاحب یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہے.پھر ان سے اُتر کر اور بزرگوں کی کے متعلق بھی ہم حضرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں چاہے وہ دینی بزرگ ہوں یا دنیوی.عام طور پر ہمارے ملک میں مؤدب اولاد کہتی ہے.حضرت والد صاحب کی طرف سے یہ بات ہے.اس زمانہ میں عربی زبان میں بھی والد کی نسبت یا اور بزرگوں کی نسبت حضرت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.تو ہمارے ہاں جو تعریف کے الفاظ ہیں ان میں سے بہترین لفظ یہ ہے.علماء کا جب ذکر جب عربی کے اخبارات میں کریں گے تو کہیں گے، الحضرت الفاضل فلاں فلاں ، باپ کا ذکر آئے تو کہیں گے الحضرة الوالد، پیروں کا ذکر ہمارے ملک میں جب ان کے مرید کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے حضرت صاحب ایسے تھے ، بزرگوں کا ذکر کرنا ہو تو کہتے ہیں، حضرت فلاں بڑے بزرگ ہوئے ہیں لیکن باوجود اتنا متبرک لفظ ہونے کے اور با و جو د اتنی وسیع عظمت کے معنی اپنے اندر مخفی رکھنے کے ہمارے ملک میں طنز ا بعض دفعہ کہہ دیا جاتا ہے فلانے بڑے حضرت ہیں.یا فلاں بڑا حضرت ہے.اب کیا ان معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ بڑے حضرت کا لفظ اس نے ادب کے طور پر استعمال کیا ہے.تو ہر جگہ خالی الفاظ کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ حقیقت کو دیکھا جائے گا اور اس امر پر غور کیا جائے کہ ان الفاظ کو کس رنگ میں استعمال کیا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی عادت تھی کہ جب آپ بہت جوش اور محبت سے
خطبات محمود ۳۴۹ سال ۱۹۳۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے تو مرزا کا لفظ استعمال کیا کرتے اور فرماتے ”ہمارے مرزا کی یہ بات ہے.ابتدائی ایام سے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابھی دعویٰ نہیں تھا چونکہ آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات تھے اس لئے اس وقت سے یہ الفاظ آپ کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے.کئی نا دان اس وقت اعتراض کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں.(حضرت) مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کو لوگ عام طور پر مولوی صاحب ، یا بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے ) میں نے خود کئی دفعہ یہ اعتراض لوگوں کے منہ سے سنا ہے اور حضرت مولوی صاحب کو اس کا جواب دیتے ہوئے بھی سنا ہے چنانچہ ایک دفعہ اسی مسجد میں حضرت خلیفہ اول جب کہ درس دے رہے تھے آپ نے فرمایا.بعض لوگ مجھ پر اعتراض کی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں کرتا حالانکہ کی میں محبت اور پیار کی شدت کے وقت یہ لفظ بولا کرتا ہوں.تو ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ ان الفاظ کے اندر جو حقیقت مخفی ہو اس کو دیکھنا چاہئے.جیسے میں نے بتایا ہے بعض الفاظ معمولی ہوتے ہیں مگر ان میں پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے اور بعض الفاظ اچھے ہوتے ہیں مگران کا مضمون نہایت بُرا ہوتا ہے.ہمارے ملک میں عام طور پر جب کسی کو بیوقوف کہنا ہو تو اسے بادشاہ کہہ دیتے ہیں اور باتیں کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں ' بادشا ہواے کی کہندے ہو ، یعنی تمہاری باتیں احمقوں کی سی ہیں.پس جب کسی کو بادشاہ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے.کہ وہ احمق ہے اور اگر اگلا بادشاہ کہنے سے چڑے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ میں نے اس کی اتنی تعریف کی اور یہ الٹا مجھ سے ناراض ہوتا ہے.تو خالی الفاظ نہیں دیکھے جاتے بلکہ ان الفاظ کا جو مفہوم ہوتا ہے وہ دیکھا جاتا ہے:- پس ہمیشہ کسی امر کے متعلق فتویٰ لگانے سے پہلے اس حقیقت کو معلوم کرنا چاہئے جو پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے.ہر اعتراض اعتراض نہیں ہوتا اور ہر تعریف تعریف نہیں ہوتی.قرآن کریم میں آتا ہے کہ دوزخ میں جب وہ کا فر رو سا ڈالے جائیں گے جودنیا میں بڑے بڑے دعوے
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۱۹۳۸ء کیا کرتے تھے تو انہیں کہا جائے گا.ذى انك انت العَزِيزُ الكَرِيم تو عذاب کا مزه چکھ.تو تو بڑی شان والا اور معزز آدمی ہے.اب قرآن کریم میں جو یہ الفاظ آتے ہیں که دق إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الکریم اس کے معنے گو بڑی شان والے اور معزز کے ہیں مگر یہ حقیقت کے لحاظ سے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ طعن کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں.یعنی تو دنیا میں سمجھا کرتا تھا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں مجھے کوئی عذاب نہیں دے سکتا ، میں ایسا معزز ہوں مجھے کوئی ذلت نہیں پہنچ سکتی اب تو دیکھ کہ تیری عزت اور شان کہاں گئی اور اگر تو واقع کی میں شان والا اور معزز ہے تو آج تجھے یہ ذلت کیوں پہنچ رہی ہے گو الفاظ ایسے استعمال کئے گئے ہیں جن کے ظاہری معنے عزت اور شان کے ہیں.مثنوی رومی کا ایک واقعہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے.اس میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گڈریا چٹان پر بیٹھا ہوا کی ہے.پاس اس کی بکریان پچر رہی ہیں اور وہ اپنی گڈری میں سے جوئیں دیکھتا چلا جاتا ہے اور کہتا ؟ جاتا ہے کہ اے اللہ ! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیری جوئیں دیکھوں ، تیرے پیروں سے کانٹے نکالوں ، تجھے بکریوں کا تازہ تازہ دودھ پلاؤں ، تو تھک جائے تو تجھے دباؤں اور تیری دن رات خدمت کرتا رہوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سنا تو وہ بڑے ناراض ہوئے اور اسے جا کر ڈانٹا اور مارا اور کہا نالائق تجھے شرم نہیں آتی تو اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے.وہ ڈر کے مارے وہاں سے بھا گا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الہام نازل ہو ا کہ اے موسیٰ ! تو نے ہمارے بندے کو بڑا دکھ دیا.اے موسیٰ ! ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق بات کرتا ہے.جو الہامات سے تجھ پر صفات الہیہ کا ظہور ہوا ہے وہ اس گڈریا پر تو نہیں ہوا.پس یہ جو کچھ کہہ رہا تھا محبت کے جوش میں کہہ رہا تھا.اس سے زیادہ تعریفی الفاظ اس کے نزدیک اور کوئی نہیں ہو سکتے اور اس کا پیارا نہی الفاظ میں ظاہر ہو سکتا تھا کہ اے اللہ ! میں تیری وئیں دیکھوں ، میں تیرے کانٹے نکالوں، میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلاؤں ، میں تیرے تلوے سہلاؤں، میں تیرے پاؤں دباؤں.یہی چیزیں اس کے نزدیک اہمیت رکھتی تھیں اور یہی وہ پیار کی ممتاز علامتیں سمجھتا تھا ، تو جو کچھ اس کے پاس اپنی محبت کے اظہار کا
خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۸ء ذریعہ تھا اس سے اس نے کام لے لیا.پس اس کو مار پیٹ کر تو نے اسے نہیں بلکہ ہمیں دکھ دیا چی ہے جا اور اس کو راضی کر.اب دیکھو بظاہر یہ کتنے برے لفظ ہیں.خدا تو الگ رہا ایک معمولی رئیس کے متعلق بھی اگر ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں اور کہا جائے کہ کاش میں تیری جوئیں نکالا کروں.تو وہ کہنے والے پر سخت ناراض ہوگا.اور کہے گا کیا تو چاہتا ہے میں عقل و ہوش بالکل کھو بیٹھوں اور اتنا گندہ ہو جاؤں کہ سر میں جوئیں پڑ جائیں اور پھر اس قدر عاجز اور لاچار ہو جاؤں کہ کسی دوسرے کو صفائی کرنی پڑے.لیکن خدا تعالیٰ کے حضور وہ الفاظ چونکہ ایک ایسے شخص کے تھے جس کی نیت صاف تھی اور وہ اپنے مافی الضمیر کو کسی اور رنگ میں ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اس لئے وہ قبول ہو گئے.اس سے زیادہ سے زیادہ یہی مطالبہ کیا جا سکتا تھا کہ جن بہترین کی الفاظ میں وہ محبت کا اظہار کر سکتا ہے ان الفاظ میں وہ خدا تعالیٰ کے متعلق محبت کا اظہار کرتی دے.سو اس نے اس مطالبہ کو پورا کر دیا.اس کے پاس محبت ظاہر کرنے کا یہی طریق تھا کہ پاؤں میں سے کانٹے نکالے ، بکریوں کا دودھ پلائے.سر میں سے جوئیں نکالے، پس اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہوئے اس نے یہی طریق اختیار کیا اور کہنا شروع کر دیا اے اللہ ! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے نہلاؤں ، تیری گدڑی صاف کروں ، تیرے سر میں سے جوئیں نکالوں، تجھے تازہ تازہ دودھ پلاؤں اور تو سو جائے تو تیرے ہاتھ پاؤں دباؤں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کی مقدار کو نہیں دیکھتا بلکہ قلب کی حالت کو دیکھتا ہے اس لئے اس نے ان الفاظ کو قبول کر لیا.پھر بندوں کا کیا ذکر ہے ہم تو دیکھتے ہیں خدا تعالیٰ بھی ایسے الفاظ استعمال کر لیتا ہے اور قرآن کریم اس قسم کے الفاظ سے بھرا پڑا ہے.کہیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر آجاتا ہے، کہیں اس کی آنکھوں کا ذکر آجاتا ہے، کہیں اس کی پنڈلیوں کا ذکر آجاتا ہے اور حدیثوں میں تو خدا تعالیٰ کے بہت سے اعضاء کا ذکر آتا ہے.اب ان الفاظ کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ بھی نَعُوذُ بالله انسان کی طرح ہے یا اس کی بھی گردن ہے، چہرہ ہے ، ناک ہے، منہ ہے ، کان ہیں، دانت ہیں، زبان ہے،حلق ہے ، سینہ ہے ، دل ہے ، پھیپھڑے ہیں ، گردے ہیں، جگر ، تلی معدہ انتڑیاں ہیں.یہ مراد ہر گز نہیں بلکہ چونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ نہیں سکتا اس لئے بندوں کو
خطبات محمود ۳۵۲ سال ۱۹۳۸ سمجھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال کئے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ بھی بندے کی حالت دیکھ کر اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ اپنی صفات کو محدود شکل میں پیش کرے تو اگر اس کا کوئی نادان بندہ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے ان الفاظ میں اپنی محبت کا اظہار کر دے تو یہ قابلِ اعتراض بات نہیں ہوگی جب تک وہ عقیدے اور حقیقت کے طور پر بیان نہ کرے.ہاں اگر وہ حقیقت کے طور پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نَعُوذُ بِاللہ ایک غلیظ ہستی ہے ، اس کے بڑے بڑے بال ہیں اور چونکہ اسے پانی نہیں ملتا اس لئے بالوں میں جوئیں پڑ جاتی ہیں اور ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی گڈریا اس پر مہربان ہو جو ا سے نہلائے اور اس کی جوئیں نکالے، تو یہ واقع میں بری بات ہوگی.یا اگر عقیدے کے طور پر کوئی شخص بیان کر دے کہ اللہ تعالیٰ نَعُوذُ بِاللہ کنگال ہے ، وہ سارا دن سفر کرتا رہتا ہے ، اس کے پاؤں میں جوتی تک نہیں ہوتی اور کانٹے اس کے پیر میں کچھ جاتے ہیں اور اس بات کی کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی گڈریا اس کے کانٹے نکالے تو یہ سخت معیوب بات ہوگی جیسے یہ معیوب بات ہے جو بعض مذاہب والوں کی طرف سے کہی جاتی ہے کہ خدا بندہ بن کر نازل ہوتا ہے چنانچہ بعضوں نے کہہ دیا کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہوا.اور بعضوں نے کہہ دیا کہ وہ حضرت کرشن یا حضرت رام چندر جی کی شکل میں ظاہر ہوا.آخر کیا فرق ہے اس بات میں کہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے صوفی اس گڈریا کی براءت تو کرتے ہیں مگر ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی شکل میں حلول اختیار کرتا ہے.کوئی کہ سکتا ہے کہ گڈریا نے بھی یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں، اس کے پیر ہیں اس کا جسم ہے اور بعض مذاہب والے بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کی شکل میں تجسم اختیار کرتا ہے مگر تم ایک کے متعلق تو یہ کہتے ہو کہ وہ گمراہ ہیں اور ایک کے متعلق یہ کہتے ہو کہ اس نے محبت کے جوش میں ایسا کہا.اس کا جواب یہی ہے کہ گڈریا خدا تعالیٰ کو واقع میں ایسا نہیں سمجھتا تھا.مگر وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے جسم کے قائل ہیں ، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی جسم اختیار کرتا ہے.پس ج چونکہ وہ واقع میں سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں عام انسانوں کی طرح پیدا ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا ہے، پھر شادی بیاہ کرتا ہے، پھر اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں ، اس لئے وہ گنہ گار ہوتے ہیں ، مگر کی
خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۳۸ جو نا واقفیت کی وجہ سے اس رنگ میں اظہار محبت کرتا ہے وہ گنہ گار نہیں ہوتا.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بعض دفعہ مائیں اپنے بچوں سے ایسا سلوک کرتی ہیں جس کا ظاہر اور ہوتا ہے اور باطن اور.اگر کسی کو اپنا ما حول غور سے دیکھنے کا موقع ملا ہو تو اسے کئی ایسی مثالیں نظر آئیں گی کہ بعض دفعہ وہ غریب عورتیں جو امیر گھرانوں میں نوکر ہوتی ہیں یادہ غریب عورتیں جن کے ارد گر دا امیر لوگ ہی بستے ہیں ان کا کوئی بچہ بعض دفعہ مظلومیت کے طور پر کسی امیر آدمی کے بچہ سے پٹ جاتا ہے ، وہ بعض دفعہ تکبر کی وجہ سے بعض دفعہ شرارت کی وجہ سے اور بعض دفعہ یونہی بلا وجہ دوسرے غریب بچہ کو پیٹ ڈالتا ہے ، ماں یہ تمام واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے.وہ جانتی ہے کہ میرا بچہ مظلوم ہے ، وہ جانتی ہے کہ میرے بچے کا کوئی قصور نہیں، مگر وہ یہ بھی جانتی ہے کہ میں بدلہ نہیں لے سکتی.پس وہ اپنے غصہ کا اظہار اس طرح کرتی ہے کہ اپنے ہی بچہ کو پیٹنے لگ جاتی ہے.وہ اسے مارتی جاتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں اور کہتی جاتی ہے کہ تو وہاں گیا کیوں تھا.تو وہاں گیا کیوں تھا.اب گو بظاہر بچے کو مار پڑ رہی ہوتی ہے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ما ر نفرت یا غصے کے اظہار کی علامت نہیں بلکہ محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتی ہے.اگر کوئی طاقتور ماں ہو تو وہ مارنے والے بچہ کی ماں سے جا کر لڑ سکتی ہے.اگر کوئی برابر کا خاندان ہو تو اس کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر وہ ماں جو مجھتی ہے کہ میرے اندر مقابلہ کی طاقت نہیں اور ادھر اس کا دل چاہتا ہے کہ میں پیٹ کر اپنا غصہ نکالوں.جب وہ اپنے غصہ کے اظہار کا اور کوئی ذریعہ نہیں دیکھتی تو اپنے ہی بچہ کو مارنے لگ جاتی ہے اور کہتی ہے تو وہاں گیا کیوں تھا حالانکہ وہ بچہ کوحق پر بجھتی ہے.تو عقل بتاتی ہے کہ اس کی مار اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ تو وہاں کیوں گیا تھا بلکہ اس کی مار اس وجہ سے ہوتی ہے کہ تو نے ایسے مقام پر مجھے کیوں کھڑا کیا کہ میں تیری کوئی ہمدردی نہیں کر سکتی.دنیا میں ماریں غصہ پیدا کرتی ہیں اور بہت سی ماریں دیکھ کر کی تمہارے دل میں طیش پیدا ہو گا اور تم چاہو گے کہ اگر تمہارا بس چلے تو تم مارنے والے کو مارو اور کی اسے سرزنش کرو لیکن اگر تمہاری عقل کی آنکھیں کھلی ہیں اور اگر روحانیت کی کوئی حس تم میں باقی ہے تو ایسی عورت کو مارتے دیکھ کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے اور تم عورت پر غصے نہیں ہو گے بلکہ اپنے خدا سے کہو گے کہ اے خدا! کیا دنیا میں تیری ایسی بے بس مخلوق بھی موجود
خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۸ء جو ظلم کا جواب کسی رنگ میں بھی نہیں دے سکتی اور آخر اپنے آپ کو ہی پیٹ ڈالتی ہے اب وہ مار پیٹ در حقیقت مار پیٹ نہیں ہوگی بلکہ دھواں ہو گا ماں کے دل کا وہ غبار ہو گا اس کی بے بسی کا.تم اس کی ظاہری شکل پر فتویٰ نہیں لگا دو گے بلکہ تم اس کے اندرونی احساسات اور جذبات کو کی دیکھو گے.اسی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں پشاور کے جس دوست کے متعلق یہ خیالات ظاہر کئے گئے ہیں ان کی حالت بھی ایسی ہی ہے.ان کے دل میں بھی ایک جوش پیدا ہوا اور انہوں کی نے دیکھا کہ اب یہ جوش کسی طرح نکل نہیں سکتا تو جس طرح ماں بعض دفعہ اپنے مظلوم بچے کو پیٹنے لگ جاتی ہے اسی طرح وہ بھی اپنے آدمیوں کو بُرا بھلا کہنے لگ گئے.یہ چیز ظاہر میں بُری ہوگی جیسے مار پیٹ ظاہر میں بُری چیز ہے.جیسے یہ امثال بہر حال بُری ہیں کہ میں خدا کے پیر سے کانٹے نکالوں ، اس کے ہاتھ اور پاؤں دباؤں لیکن کہنے والا بُرا نہیں کیونکہ اسے اپنی محبت کے جوش میں کوئی اور ذریعہ سوائے اس کے نہیں ملا.بہر حال فعل کا صدور محبت کے نتیجہ میں ہوا ہے کی کسی بُرائی کے نتیجہ میں نہیں ہوا.میرے نزدیک پشاور کے جس دوست کی باتوں پر اعتراض کیا کی گیا ہے ، اُن کا اظہار خیال بھی اسی قسم کا ہے.یعنی اپنے دل کی تکلیف کو انہوں نے غلط الفاظ میں ادا کر دیا ہے.ورنہ واقعہ بتاتا ہے کہ اعتراض ان کے مد نظر نہیں تھا صرف ان کے دل کے دکھ نے کوئی رستہ نکلنے کا نہ دیکھ کر بظاہر معترضانہ شکل اختیار کر لی ہے.جیسے ماں بعض دفعہ اپنے بچے کو ہی پیٹنے لگ جاتی ہے.خواہ وہ کسی سے مظلومانہ طور پر مارکھا کر آئے.اسی طرح انہوں نے بھی محبت کے رنگ میں قادیان کے لوگوں کو دو چارصلوا تیں سنا دیں.پھر میرے نزدیک جس دوست نے شکایت کی ہے اس دوست نے بھی کوئی بُرا کام نہیں کیا اس لئے کہ اس نے اپنے نقطہ نگاہ سے اس کو دیکھا.جن جذبات سے معترض پر تھا ان جذبات سے رپورٹ کرنے والا پر نہیں تھا.اُس کی کیفیت بالکل اور قسم کی تھی اور اس کی کیفیت بالکل اور قسم کی.ان میں سے ایک محبت کے مقام پر کھڑا تھا اور دوسرا ادب کے مقام پر اور یہ دونوں مقام اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں لیکن بعض دفعہ یہ دونوں مقام ایک دوسرے کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں.یوں اسلام نے یہ دونوں مقام جمع کئے ہیں اور فرمایا ہے کہ کامل ایمان اسی شخص کا ہے جس میں محبت اور ادب دونوں جمع ہوں لیکن دنیا میں عام طور پر کبھی محبت کا پہلو غالب آجاتا ہے اور کی
خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۸ء کبھی ادب کا پہلو غالب آ جاتا ہے.جب محبت کا پہلو غالب ہو تو وہ ادب کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور جب ادب کا پہلو غالب ہو تو وہ محبت کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے.ہم روزانہ دیکھتے ہیں ایک ہی قسم کے واقعات سے ایک کچھ نتیجہ نکالتا ہے اور دوسرا کچھ.جلسہ سالانہ کے ایام میں میں نے دیکھا ہے بعض لوگ آنے والوں کے متعلق یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ وہ کیسے ہیں.یہاں آتے ہیں اور خلیفہ اسیح سے مصافحہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے کی ان کے دل میں محبت کا کوئی جذ بہ نہیں اور دوسرا شخص یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ رات دن ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور پھر بھی بعض لوگ حضرت خلیفہ اسیح کو چلنے نہیں دیتے دھکے پر دھکا مارتے ہیں اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ غصے سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں.وہ بھی سچا ہوتا ہے اور یہ بھی سچا ہوتا ہے مگر ان میں سے ایک ادب کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ محبت کے مقام کو نہیں سمجھ سکتا.اور دوسرا محبت کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ادب کے مقام کو نہیں سمجھ سکتا.پس میں دونوں کو مخلص سمجھتا ہوں.در حقیقت واقعات کی کڑی کسی کے اخلاص میں فرق لاتی ہے.مثلاً اگر ہم ایک شخص کو دیکھیں کہ اس نے کوئی بُرائی بیان کی ہے تو ہم اسی وقت یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ اس نے محبت کے جذ بہ کی وجہ سے یہ برائی بیان کی ہے.یا دل کے زنگ کی وجہ سے یہ برائی بیان کی ہے.لیکن اگر ہم دیکھیں کہ ایک شخص ہمیشہ بُرائیاں بیان کرتا رہتا ہے یا ہمیشہ جماعتی کاموں سے الگ رہتا ہے.تب ہم بے شک کہہ سکیں گے کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکا ہے اور اس کے اخلاص میں کمی آگئی ہے.پس اگر واقعات کا تسلسل اور ایک لمبی زنجیر بتا دے کہ فلاں شخص مجرم ہے تب ہم اسے مجرم سمجھیں گے ورنہ محض ایک بات سن کر ہم کسی کے اخلاص سے انکار نہیں کر سکتے دوسری بات جو میں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ واقعات سے موجبات کو دریافت کرنا کوئی محفوظ طریق نہیں ہوتا.ہم ایک واقعہ دیکھتے ہیں اور بغیر اس کے کہ اصل سبب ہمیں معلوم ہو ہم اس کا ایک سبب فرض کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے لئے یہ جائز ہو گیا ہے کہ ہم وہ سبب ہر جگہ بیان کرتے پھریں حالانکہ ایک قسم کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی سبب کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی قسم کے نتیجہ کے مختلف اسباب ہوتے ہیں.پیٹ درد ایک مرض ہے جو بالعموم کی
خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۳۸ء لوگوں کو ہوتا رہتا ہے مگر ہر پیٹ درد ایک ہی کھانے سے نہیں ہوتا بلکہ بیسیوں کھانے ایسے ہیں جن کے کھانے سے پیٹ درد ہو جاتا ہے.پھر بیسیوں در دیں ایسی بھی ہیں جو کھانے سے تعلق ہی نہیں رکھتیں.کسی کو چوٹ لگ جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا.معدہ کے اعصاب میں حدت اور تیزی پیدا ہو جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا.تیزابی مادہ معدہ میں بڑھ جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا.خلو معدہ سے بھی پیٹ درد ہو جاتا ہے اسی طرح اور بیسیوں اسباب ہیں جن کے نتیجہ میں پیٹ درد پیدا ہو جاتا ہے.اب اگر کوئی سمجھے کہ پیٹ درد محض ثقیل غذاء کھانے سے ہوتا ہے اور جب کسی کے متعلق یہ سنے کہ اسے پیٹ درد ہے تو یہ کہا شروع کر دے کہ ضرور اس نے ثقیل غذاء کھائی ہوگی ، تو یہ نادانی ہوگی.اسی طرح ہیضہ زیادہ کھانا کھانے سے بھی ہو جاتا ہے اور ہیضہ خالی معدہ رہنے سے بھی ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہیضہ پڑا.ایک شخص ہیضہ میں مبتلا ہو کر مر گیا.جب اس کی نعش آئی اور جنازہ پڑھا جانے لگا تو ایک شخص بغیر اس بات کا خیال کئے کہ اس کے رشتہ داروں کو تکلیف ہوگی صفوں میں ادھر ادھر دوڑتا پھرے اور شور مچاتا پھرے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگوں کی عقل کو کیا ہو گیا.بس وہ کھانے بیٹھتے ہیں تو غذا ٹھونستے چلے جاتے ہیں اور اس بات کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ زیادہ کھا لیا تو ہیضہ ہو جائے گا بس اُٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے کھانے کا فکر رہتا ہے اور پھر اتنا کھائیں گے کہ حلق تک غذا ، ٹھونس لیں گے کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے.ہم تو ہمیشہ ایک پھل کا کھاتے ہیں.ہم تو ہمیشہ ایک پھل کا کھاتے ہیں.ہمیں ہیضہ کیوں نہیں ہوتا.بس وہ ادھر اُدھر دوڑتا پھرے اور بار بار یہ الفاظ کہتا جائے.دوسرے دن پھر ایک جنازہ آیا کسی نے پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے؟ کوئی دل جلا پاس کھڑا تھا وہ کہنے لگا یہ اُسی ایک پھل کا کھانے والے کا جنازہ ہے.بات یہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن اس ایک پھلکے کا شور مچانے والے کو بھی ہیضہ ہو گیا اور وہ فوت ہو گیا.تو ہر چیز کا سبب ایک نہیں ہوتا بلکہ مختلف اسباب ہوتے ہیں کیونکہ ایک نتیجہ کئی موجبات سے نکل سکتا ہے.تناسخ کے بارہ میں ہندوؤں نے یہی دھوکا کھایا ہے.وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی امیر ہے
خطبات محمود ۳۵۷ سال ۱۹۳۸ء کوئی غریب، کوئی کمزور ہے کوئی طاقتور ، کوئی سفید ہے کوئی کالا ، کوئی بیمار ہے کوئی تندرست، کوئی موٹا ہے کوئی دبلا ، کوئی اندھا ہے کوئی سو جا کھا، اب یہ جو مختلف قسم کے تغیرات دنیا میں پائے جاتے ہیں ان کا کوئی سبب ہونا چاہئے.پھر وہ خود ہی ایک سبب نکال لیتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان میں اتنا عظیم الشان فرق نہیں کر سکتا تھا اس لئے ضرور ہے کہ پہلے جنم کے اچھے یا بُرے اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرق کیا ہو.اس طرح انہوں نے خود بخود ایک سبب تجویز کر کے تناسخ کا عقیدہ گھڑ لیا حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.انسانوں میں فرق ہونے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں.کسی ایک عقلی سبب کو اصل سبب قرار دینا صداقت سے محروم ہونا ہے.کسی نتیجہ کا اصل سبب کیا ہے اس کا علم واقعہ سے ہی لگ سکتا ہے نہ کہ قیاس سے اگر کوئی قیاس کرے گا تو وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا.میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ہندوؤں کے اس اصل کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رات کے وقت کوئی شخص بازار میں سے گزر رہا ہو.اب یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا کوئی رشتہ دار بیمار ہو اور اس نے اسے کہلا بھیجا ہو کہ مجھے آکر مل جاؤ.اور یہ بھی ممکن ہے کہ کی ریل کا وقت ہوا اور ریلوے سٹیشن کا راستہ وہیں سے گزرتا ہو اور وہ گاڑی میں سوار ہونے کے لئے وہاں سے گزر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی مسافر ہو جو کہیں دور سے آرہا ہومگر راستہ میں اسے دیر ہوگئی ہو اور وہ اب گھر پہنچنے کے لئے جلدی جلدی جار ہا ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی چور ہو اور چوری کی نیت سے اس وقت پھر رہا ہو.اب اگر ہم اس کو دیکھ کر ان تمام قیاسات کی میں سے ایک قیاس کر لیں کہ وہ ضرور چور ہے اور اس قیاس کی بناء پر بلا تحقیق کے اسے چوری کی سزا دے دیں تو سخت ظلم ہوگا.یہی حال ہندوؤں کا ہے.انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ چونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں فرق نہیں کر سکتا اس لئے ضرور ہے کہ پہلے کسی جنم میں انسان اچھے یا برے اعمال کر چکا ہو اور ان کی سزا یا جزاء بھگتنے کے لئے اس عالم میں آیا ہو.یہ نہیں دیکھا کہ بنی نوع انسان میں جو تفاوت پایا جاتا ہے اس کے اور بھی کئی موجبات ہو سکتے ہیں.صرف عقل سے ایک سبب معلوم کیا اور اسی کو اصل سبب قرار دے کر اس پر عقیدہ کی بنیا د رکھ دی.یہی ٹھوکر کی عیسائیوں نے کھائی ہے.انہوں نے بھی یہ خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ عادل ہے وہ کسی کو بغیر گناہ کے تکلیف نہیں دے سکتا اور مسیح بے گناہ تھے ان کو جو تکلیف پہنچی وہ ضرور کسی گناہ کے سبب
خطبات محمود ۳۵۸ سال ۱۹۳۸ء ہونی چاہئے مگر چونکہ وہ گنہگار نہ تھے اس لئے معلوم ہوا انہوں نے اپنے ماننے والوں کے گناہ اپنے سر پر اٹھالئے اور ان پر ایمان لانے والوں کے گناہ اس طرح معاف ہو گئے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ بے شک تکلیف گناہ کے نتیجہ میں بھی آتی ہے لیکن ہر تکلیف گناہ کے نتیجہ میں نہیں کی آتی.بعض تکالیف قوانین طبیعت کی خلاف ورزی سے آتی ہیں ، بعض قوانین طبیعت کے مخالف اجتماع سے آتی ہیں ، بعض تکالیف محض ایک تکلیف پانے والے کے قرب میں بیٹھے ہونے کے سبب آتی ہیں ، بعض تکالیف انسان کے اعلی اندرونی قومی کو ظاہر کرنے کے لئے اور اس شخص کی کی قیمت لوگوں پر ثابت کرنے کے لئے آتی ہیں ، بعض تکالیف اس لئے آتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دور کر کے اپنی قدرت کو ظاہر کرے.غرض تکالیف کا فلسفہ ایک وسیع فلسفہ ہے اور سب تکالیف ایک ہی سبب کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتیں مگر مسیحیوں نے ان تمام اسباب کو نظر انداز کر کے ایک ہی سبب قیاس کر کے اس پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھ دی اور حضرت مسیح ناصری کے صلیبی واقعہ کو امتیوں کے گناہوں کی سزا قرار دے دیا.تو دوست بھی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں لیکن عام طور جی پر دشمن بوجہ دشمنی کے اور بوجہ اس کے کہ تعصب کی پٹی ان کی آنکھوں پر بندھی ہوتی ہے ایک سبب جو بُرا ہوتا ہے لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فلاں فعل کا یہی سبب ہو گا.یہ خیال نہیں کرتے کہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی اور سبب ہو.جس کی وجہ سے وہ فعل جس پر وہ معترض ہیں برا نہ رہے.مجھے اس کی پر زیادہ زور دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں دیکھتا ہوں ہمارے دوستوں میں سے بھی کئی ایسے ہیں جو واقعات کو دیکھ کر قیاس کر لیتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس کا سبب ضرور فلاں امر ہے حالانکہ ایسے موقع پر انسان کا قیاس سے نتیجہ نکالنا بسا اوقات اسے گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ اَكْذَبُ الْحَدِيثِ لے گمان سے اور خیالی باتوں سے بچ کیونکہ خیال تجھ کو اکثر جھوٹ میں مبتلا کر دیتا ہے.تو واقعات کے بارہ میں اربعہ لگا کر نتیجہ نکالنا بڑا خطرناک راستہ ہے اور ا کثر دفعہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے.گو کبھی درست نتیجہ بھی نکل آتا ہومگر چونکہ طریقہ غلط ہے، نتیجہ درست بھی ہو تو بھی انسان بدظنی کے گناہ کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی کتاب میں مجرم لکھا جاتا ہے.ہمیں قیاس اُسی حد تک کرنا چاہئے جس حد تک
خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۸ء بات ہے.اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے.اسلام کے جو محقق فقہا ء گزرے ہیں ، انہوں نے تو اس مسئلہ پر اتنا زور دیا ہے کہ اسے کمال تک پہنچا دیا ہے.مثلاً ان میں اس بات پر بخشیں ہوئی کی ہیں کہ اگر شریعت نے کسی بات کے متعلق قسم رکھی ہو اور دوسرا شخص قسم نہیں کھا تا مگر جس کے مقابلہ میں وہ کھڑا ہے وہ قسم کھا لیتا ہے تو اس کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائیگا.محققین فقہاء نے کہا ہے کہ دوسرے شخص کو اس وجہ سے کہ اس نے قسم نہیں کھائی ہم مجرم قرار نہیں دیں گے بلکہ اسے اس کی وقت تک بند رکھیں گے جب تک وہ قسم نہیں کھاتا یا اقرار نہیں کرتا.اگر وہ نہ قسم کھائے اور نہ اقرار کرے تو اسے قید تو رکھیں گے مگر اس جرم کی شرعی سزا کا مستوجب اسے قرار نہیں دیں گے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے قسم نہ کھانے سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اصل واقعہ کا پتا نہیں لگا.یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پتہ لگ گیا ہے.مثلاً میاں بیوی میں ملاعنہ کی صورت ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے یا بیوی خاوند پر الزام لگائے اور ان کے پاس سوائے اپنی عینی شہادت کے اور کوئی گواہ موجود نہ ہوں تو پھر میاں بیوی کے درمیان ملاعنہ ہوگا اور چار چار گواہوں کی جگہ اُن سے چار چار دفعہ قسمیں لی جائیں گی.سے اب اگر مرد قسم کھا جائے مگر عورت نہ کھائے تو فقہاء نے بحث کی ہے کہ اس صورت میں کیا کیا جائے.بعضوں نے کہا ہے کہ جس نے قسم نہیں کھائی ہم اسے مجرم سمجھیں گے.مگر بہتوں نے کہا ہے کہ ہم اسے مجرم نہیں سمجھیں گے بلکہ اس وقت تک اسے قید رکھیں گے کی جب تک وہ قسم نہ کھائے یا اقرار نہ کرے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس فعل سے شبہ پیدا ہوتا ہے، مجرم ثابت نہیں ہوتا.تو قیاس سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ ممکنات کئی ہوتے ہیں.بعض دفعہ ضد میں آکر انسان کہ دیتا ہے کہ میں قسم نہیں کھاؤں گا اور بعض دفعہ کسی اور وجہ سے قسم نہیں کھاتا.پس وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں ہم اسے صرف قید رکھیں گے.کسی نے کہا کہ قید کیوں کرو گے.تو انہوں نے جواب دیا کہ اس لئے کہ شریعت کہتی ہے قسم کھاؤ اور چونکہ اس نے قسم نہیں کھائی اس لئے ہم اسے شریعت کی نافرمانی کا مجرم تو قرار دے سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ قسم نہ کھانے کی وجہ سے وہ جرم ثابت ہو گیا ہے جس کے فیصلہ کرنے کے لئے قسم رکھی گئی تھی.ہمارے دشمنوں نے بھی صرف یہ دیکھ کر کہ میاں عزیز احمد صاحب جو ایک غریب آدمی تھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ان کے مقدمہ کی ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی اور شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے اور پھر پریوی کونسل کی میں اپیل ہوئی، یہ قیاس کر لیا کہ جماعت جھوٹ بولتی ہے اور ضرور اندرونی طور پر ہزاروں رو پید انہوں نے خرچ کیا ہے بلکہ دشمن تو دشمن رہے ہمارے جماعت کے بعض منافقین نے بھی جن کے متعلق ہمارے پاس رپورٹیں پہنچ چکی ہیں مگر ابھی میں نے ان کے اخراج کا اعلان نہیں کیا اپنی مجلسوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہزاروں روپیہ ان مقدمات پر جماعت نے خرچ کیا کی ہے حالانکہ جیسا کہ اعتراض کے جواب میں میں بتاؤں گا ان کا یہ تخمینہ بالکل غلط ہے.انہوں کی نے فرض کر لیا کہ جماعت کی مدد کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا تھا اور پھر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا کہ ضرور جماعت نے اس کی مدد کی ہے حالانکہ واقعہ بالکل اور ہے.اس وقت میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی غلطیوں کے نتائج نہایت ہیبت ناک ہوتے ہیں تم واقعات کو دیکھ کر اس امر کے مجاز نہیں کہ کہہ سکو اس واقعہ کا فلاں سبب ہے.کیونکہ ایک واقعہ کے کئی موجبات ہو سکتے ہیں.پھر جس واقعہ کے ثبوت کے لئے گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی کی طرح کسی واقعہ کا موجب بیان کرنا بھی اُس وقت تک ہمارے لئے جائز نہیں ہوسکتا جب تک اس موجب کا ثبوت ہمارے پاس مہیا نہ ہو.تیسرا اصل یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی افعال کا اثر جو دلوں پر پڑتا ہے وہ صرف ان کے اچھے یا بُرے ہونے کی نسبت سے نہیں پڑتا بلکہ قلوب کا انفعال بعض اور متعلقہ واقعات کو مدنظر رکھ کر پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی چوری دیکھ کر یا اس کا ذکر دوسرے کی زبان سے سُن کر یا قتل ہوتے دیکھ کر یا اس کا ذکر دوسرے کی زبان سے سُن کر یا کسی کو غیبت کرتے دیکھ کر یا اس کا ذکر دوسرے کی زبان سے سن کر ہمارے دل پر جو اثر پیدا ہوتا ہے وہ فعل کی برائی کی نسبت سے نہیں ہوتا بلکہ قلوب میں جو اثرات پیدا ہوتے ہیں وہ اور بہت سے امور متعلقہ کے مجموعی اثر کا نتیجہ ہوتے ہیں.بسا اوقات ایک بڑی چوری ہو گی مگر جب تم اس کا ذکر سنو گے تمہارے دل پر زیادہ برا اثر نہیں پڑے گا.اور بسا اوقات ایک چھوٹی سی چوری ہوگی.مگر جب تم اسے سنو گے تو تمہارا دل کی اس کی بُرائی کو بہت زیادہ محسوس کرے گا کیونکہ گو پہلی چوری بڑی تھی مگر متعلقہ امور نے اسے بڑا نہیں بنایا اور گو دوسری چوری بڑی نہیں مگر متعلقہ امور نے اسے بھیا نک بنا دیا ہے.تو تمام افعال
خطبات محمود ۳۶۱ سال ۱۹۳۸ء خواہ اچھے ہوں یا برے، بدیاں ہوں یا نیکیاں ، انسانی قلب پر جو اثر پیدا کرتے ہیں وہ سے ظاہری حالات کے مطابق نہیں کرتے بلکہ اور بہت سے متعلقہ امور ہوتے ہیں جن کی وجہ انسان ان سے زیادہ یا کم متاثر ہوتا ہے.قدیم عربی زبان میں اسے انفعال یا تاثر کہتے ہیں.گویا ہر فعل کے مقابلہ میں ایک حرکت ہماے دل اور دماغ میں پیدا ہوتی ہے.نئی عربی میں اسے رد العمل انگریزی میں ری ایکشن اور اُردو میں بھی جدید عربی کی نقل میں رد عمل کہتے ہیں اور یہ رد عمل ہر فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.تم اگر کسی جگہ کھڑے ہو اور تمہارا کوئی دوست تمہارے پیٹ کی طرف یک دم اپنی انگلی زور سے لے آئے تو باوجود یہ جاننے کہ وہ تمہارا دوست ہے اور باوجود یہ جاننے کے کہ اس کے ہاتھ میں چا تو نہیں، تمہارا پیٹ کچھ پیچھے کو کھنچ جائے گا اور یہ جواب ہوگا کہ جو طبعی طور پر تمہارا پیٹ دے گا.اسی طرح جب تم کسی کے منہ سے کوئی بات سنو گے تو اس کے مقابلہ میں تمہارے دل میں ایک اثر پیدا ہوگا.بعض دفعہ وہ اثر اچھا ہوگا اور بعض دفعہ بُرا.اگر بُرا اثر ہے تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ تم اسے ہر صورت میں بُرا سمجھتے ہو یا بعض صورتوں میں اور اگر اچھا اثر ہے تو پھر بھی یہ دیکھا جائے گا کہ تم اسے ہر صورت میں اچھا سمجھتے ہو یا بعض صورتوں میں اسی طرح اگر تم کسی فعل کو برا سمجھتے ہو تو یہ دیکھا جائے گا.کہ اس کے نتیجہ میں تمہارے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے یا نفرت پیدا ہوتی ہے یا رحم پیدا ہوتا ہے اور اگر تم کسی فعل کو اچھا سمجھتے ہو تو باوجود اچھا سمجھنے کے تمہارے دل میں محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں یا نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.یہ رد عمل کی مختلف حالتیں ہیں جو انسانی قلب میں پیدا ہوتی ہیں.کبھی کوئی حالت ہوگی اور کبھی کوئی.یہ نہیں ہوگا کہ ہمیشہ ایک اثر پیدا ہو بلکہ مختلف برے اعمال کے نتیجہ میں مختلف اثرات پیدا ہوں گے.مثلاً ایک شخص بھوکا مر رہا تھا اس نے کسی دوسرے شخص کی روٹی اٹھا کر کھالی.اب یہ چوری ہے جو اُس نے کی اور اُس کا یہ فعل بہر حال بُرا ہے مگر اس چوری کا ذکر سن کر تمہارے دل میں صرف غصہ نہیں بلکہ رحم بھی پیدا ہوگا کیونکہ اس کا محرک ایک مجبوری تھی.یعنی چونکہ وہ بہت تنگ حال تھا اس لئے مجبور ہو کر اس نے دوسرے کی روٹی کھالی.پس جو خارج میں افعال پیدا ہوتے ہیں.ان کا جو جواب دل میں پیدا ہوتا ہے وہ مفرد نہیں بلکہ مرتب ہوتا ہے اور بہت سی وجوہات سے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے.ا
خطبات محمود ۳۶۲ سال ۱۹۳۸ء کبھی ایک اچھے کام کے مقابلہ میں بھی دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے دس روپے لینے ہیں یہ اس کا حق ہے اور وہ اس کا ہر وقت تقاضا کر سکتا ہے لیکن فرض کرو جس س سے اس نے دس روپے لینے ہیں وہ سخت تنگدست ہے.اس کے پاس صرف پانچ سات مرغیاں ہیں جن کے انڈے بیچ بیچ کر وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے.اب اگر یہ جا کر اس کی مرغیاں اٹھا لیتا اس کے انڈوں پر قبضہ کر لیتا اور اس کے گھر کی ایک دو اور چیزیں بھی ان روپوں کے بدلہ میں لے لیتا ہے اور قانون کی مدد سے قرق کرا کے لیتا ہے تو کوئی قانون اسے مجرم قرار نہیں دے گا اور تم بھی اس کے اس فعل کو بُر انہیں کہو گے کیونکہ اس نے اپنا ایک حق حاصل کیا مگر یہ فعل دیکھ کر تمہارے دل میں محبت نہیں نفرت پیدا ہوگی.جب ایک بھو کے شخص نے دوسرے کی روٹی چرالی تھی تو گوتم اس فعل کو برا کہہ سکتے تھے مگر اس مجرم کے متعلق رحم بھی پیدا ہوتا تھا.مگر اس فعل کو تم یوں تو جائز کہو گے مگر اس کے مرتکب کے بارہ میں ا ساتھ ہی نفرت بھی پیدا ہو گی حالانکہ اس نے اپنا حق حاصل کیا.حکومت کے کہنے پر لیا اور سپاہی کو ساتھ لے کر لیا مگر با وجود ان تمام باتوں کے تمہارے دل میں اس سے ہمدردی نہیں ہوگی.تمہارے دل کی ہمدردی اسی شخص کے ساتھ ہوگی جس نے دوسرے کا مال کھالیا.اس کے مقابلہ میں جس شخص نے چوری کی تھی اس کا فعل گو برا ہے مگر تمہارے دل میں اس سے نفرت پیدا نہیں ہوگی بلکہ اگر تمہارا دل ٹھیک ہے اور تمہارا دماغ درست ہے تو تمہارے دل میں رحم پیدا ہوگا.پس خارجی اعمال کے مقابلہ میں قلوب کا انفعال ایک بسیط امر نہیں بلکہ مرکب امر ہے لیکن جہاں تک قضاء کا تعلق ہے.ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ نفس واقعہ سے ہم اِدھر اُدھر نہ ہوں.اگر ایک چور چوری کر کے آتا ہے اور ہم قاضی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے سزا دیں.اگر ایک قاتل قتل کر کے آتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے فعل سے بیزاری کا اظہار کریں.اگر کوئی کی دوسرے سے کچھ روپیہ وصول کرنے کا حق رکھتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وہ روپیہ وصول کی کرانے میں اس کی مدد کریں.پس قضاء کے سلسلہ میں ہمارا فرض ہے کہ ہم نفس واقعہ سے کبھی اِدھر اُدھر نہ ہوں.گو اس میں بھی بعض دفعہ مجبوری پیدا ہو جاتی ہے.اور قضاء میں واقعات کی مجبوری کو تسلیم کر کے دوسرے واقعات کو مد نظر رکھ لینا پڑتا ہے.جیسے قانونِ انگریزی میں یہ کی
خطبات محمود ۳۶۳ سال ۱۹۳۸ بات داخل ہے کہ اگر نہائت اشتعال کی حالت میں کوئی شخص قتل کر دے تو اسے پھانسی کی سزا نہیں دیتے بلکہ قید کی سزا دیتے ہیں کیونکہ حج کہتے ہیں یہ ایک قسم کی دیوانگی ہے.جس کے نتیجہ میں اس نے اس فعل کا ارتکاب کیا.ہم اسے قاتل سمجھتے اور اس کے وجود کو سوسائٹی کے لئے مضر سمجھتے ہیں مگر ہم اسے پھانسی کی سزا نہیں دے سکتے کیونکہ اس نے انتہائی مجبوری کی حالت میں سخت مشتعل ہو کر اس فعل کا ارتکاب کیا.چنانچہ وہ اسے عمر قید کی سزا دے دیتے ہیں یا دس بارہ سال قید کی سزا دے دیتے ہیں حالانکہ وہ قاتل ہوتا ہے مگر اس کی دماغی طور پر جو مجبوری کی حالت ہوتی ہے اسے قانون تسلیم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قسم کے فیصلے بہت محدود ہونے چاہئیں ورنہ انصاف کا خون ہو جائے گا.اسی لئے قتل کے مقدمات میں بہت شاذ اس قانون کا استعمال کرتے ہیں.عام طور پر قتل کی سزا میں پھانسی کی سزا ہی تجویز کرتے ہیں.تو گو قضا کے لحاظ سے کوشش یہی ہونی چاہئے کہ نفسِ واقعہ سے انسان اِدھر اُدھر نہ ہو مگر اس کی میں بعض دفعہ مجبوری بھی پیدا ہو جاتی ہے.جیسا کہ شدید اشتعال کی حالت میں قتل کی مثال میں نے بیان کی ہے یا جیسا کہ حال میں ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہوا ہے.جس میں اسی بات پر عمل کیا گیا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ بٹالہ کے ایک مجسٹریٹ نے ایک مقدمہ کے دوران میں یہ لفظ کہے.کہ مسلمان جو حضرت باوا نا نک رحمۃ اللہ علیہ کو مسلمان کہتے ہیں ، یہ سکھوں کو بُرا لگتا ہی ہے اور یہ ایسا ہی ہے.جیسے نَعُوذُ بِاللہ کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کا فرکہہ دے.الفضل نے اس پر بعض مضامین لکھے.جن میں مجسٹریٹ کے اس رویہ کے خلاف احتجاج کیا اور لکھا کہ یہ بہت ناشائستہ الفاظ ہیں اور مجسٹریٹ سے اس کے متعلق بازپرس ہونی چاہئے.اس پر گورنمنٹ نے ہائی کورٹ میں الفضل کے خلاف اس بناء پر مقدمہ چلا دیا کہ اس کے ایڈیٹر اور پرنٹر و پبلشر نے عدالت کی ہتک کی ہے اور انہیں سزاملنی چاہئے کیونکہ انہوں نے مجسٹریٹ کے متعلق یہ لکھ دیا ہے کہ اس نے ناشائستہ الفاظ کہے ہیں.ہائی کورٹ والوں نے اس کے متعلق پہلے کچی پیشی رکھی.دو حج سماعت کے لئے موجود تھے.ایک مسٹر جسٹس ایڈیسن صاحب اور دوسرے مسٹر جسٹس دین محمد صاحب گورنمنٹ کی طرف سے اس کا سب سے بڑا وکیل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہو ا اور اس نے ہائی کورٹ کو توجہ دلائی.کہ ایڈیٹر الفضل کو بلا کر باز پرس کرنی چاہئے اور
خطبات محمود ۳۶۴ سال ۱۹۳۸ء ہتک عدالت کے جرم میں اسے سزا دینی چاہئے.جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ہائی کورٹ کے ججوں کی نے اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل کی تقریر سننے کے بعد کہا کہ یہ جرم اصطلاحی طور پر جرم ہے.ہم مانتے ہیں کہ مضامین میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ استعمال نہیں کرنے چاہئیں تھے مگر جو الفاظ مجسٹریٹ نے استعمال کئے ہیں ان کو سن کر بھی ایک مسلمان کا بے قابو ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں.پس اگر آپ زور دیتے ہیں تو ہم اسے بلا تو لیں گے.مگر یہ مجرم صرف اصطلاحی مجرم کی ہوگا اور ہم اسے صرف نام کی سزا دیں گے مگر اس کے ساتھ ہی نہائت سخت ریمارکس مجسٹریٹ کی کے متعلق اپنے فیصلہ میں لکھیں گے.اس پر گورنمنٹ ایڈووکیٹ کچھ ڈھیلے ہوئے اور جوں نے الفاظ میں فیصلہ کر دیا کہ ہم سمجھتے ہیں اگر ہم نے ایڈیٹر الفضل“ کو بلایا تو ہم اسے سزا دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اس لئے اس مقدمہ کو خارج کرتے ہیں.گویا انہوں نے ایک طرف جرم کو تسلیم کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ ہماری ہمدردی مجرم کی طرف جا رہی ہے اور صاف کہہ دیا کہ اگر ہم اسے بلائیں گے تو صرف NOMINAL سزا دیں گے مگر دوسرے کے متعلق ہمارا رویہ سخت اظہار نفرت کا ہوگا اس لئے یہی بہتر ہوگا کہ اسی مرحلہ پر اس مقدمہ کو چھوڑ دیا جائے.چنانچہ انہوں نے مقدمہ خارج کر دیا.اس فیصلہ کے ساتھ جوں نے یہ ثابت کر دیا کہ قانون ، انصاف اور انسانیت کے اعلیٰ اخلاق بیک وقت ایک وجود میں جمع ہو سکتے ہیں.اور ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں جو قضاء کے رُعب کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں.قضاء کا رعب صرف پھانسیاں دیتے جانے سے نہیں ہوتا بلکہ ایسے فیصلوں سے ہوتا ہے جہاں انسانی فطرت کا مطالعہ کر کے صحیح راستہ اختیار کیا جائے ، خواہ تختی کا ہو خواہ نرمی کا.تو فیصلوں کے لحاظ سے ہمارا پورا فرض ہے کہ جو مُجرم ہے اسے مجرم کہیں اور جو نیکی.اسے نیکی کہیں لیکن جب ہم جذبات کی دنیا میں آتے ہیں تو معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ ہر شخص کے اندر اللہ تعالیٰ نے دو مجسٹریٹ پیدا کئے ہیں.ایک دماغی مجسٹریٹ ہوتا ہے اور ایک جذباتی مجسٹریٹ ہوتا ہے.دماغی مجسٹریٹ کا کام زیادہ آسان ہوتا ہے مگر جذباتی مجسٹریٹ کا فیصلہ بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے.جب انسان دماغی مجسٹریٹ کے بعد جذباتی مجسٹریٹ کے محکمہ میں آتا ہے تو چونکہ انسانیت قضاء کے ذریعہ سے اپنا حق ادا کر چھکتی ہے اس لئے اب وہ
خطبات محمود ۳۶۵ سال ۱۹۳۸ چھلکے کو چھوڑ کر مغز کی طرف توجہ کرتی ہے اور اب وہ بسیط مسئلہ ایک پیچیدہ سوال کی شکل اختیار کر لیتا ہے.اب صرف یہ سوال نہیں ہوتا کہ زید نے چوری کی ہے یا نہیں ، بلکہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اس نے کیوں چوری کی.اب صرف یہ سوال نہیں ہوتا کہ زید نے مارا پیٹا ہے یا نہیں.بلکہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر اس نے مارا ہے تو کیوں؟ اسی طرح صرف یہ سوال نہیں ہوتا کہ زید نے کسی کو بُرا بھلا کہا ہے یا نہیں، بلکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے اگر بُرا بھلا کہا ہے تو کیوں کہا تی ہے.تو جذبات کی دنیا میں بہت سی باتیں سامنے آجاتی ہیں.مثلاً یہی کہ فعل کے محرکات کیا ہیں ،اس نے کن حالات میں اس فعل کا ارتکاب کیا ہے ، اسے کسی نے انگیخت کی ہے یا نہیں اور کی اگر کسی نے انگیخت کی تھی تو وہ معمولی انگیخت تھی یا ز بر دست اور وہ اس انگلیت کا آسانی سے مقابلہ کر سکتا تھا یا نہیں ، پھر یہ کہ فاعل کا ماحول کیسا تھا اور اگر اس نے بدی کی تو کن حالات میں کیونکہ ماحول سے بھی کسی کی مجبوری یا عدم محبوی ظاہر ہو جاتی ہے.ایک شخص نمازی ہوتا ہے مگر نمازیوں کی کے گھر میں اور دوسرا شخص نمازی ہوتا ہے مگر بے نمازیوں کے گھر میں.اب یہ یقینی بات ہے کہ اس کی نماز زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے جو بے نمازوں میں رہ کر با قاعدہ نماز پڑھتا ہے بہ نسبت اس کی شخص کے جو ایسے ماحول میں ہے جہاں تمام لوگ التزام کے ساتھ نماز پڑھنے کے عادی ہیں.اسی طرح اس کی مجبوریاں دیکھی جائیں گی ، اس کا نقطہ نگاہ دیکھا جائے گا کیونکہ نقطہ نگاہ کے بدل جانے سے بھی بہت فرق پڑ جاتا ہے.اور پھر گو مُجرم رہ جاتا ہے مگر اس کے متعلق نفرت کی کم ہو جاتی ہے.جیسے پٹھانوں میں یہ دستور ہے کہ جب ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اٹھ کر اسے قتل کر دیتے ہیں اور اسے بالکل جائز سمجھتے ہیں.اب ایک ہی فعل اگر ایک پٹھان کرے گا تو گو اس کے متعلق بھی ہمارے دل میں نفرت پیدا ہوگی مگر وہ اتنی نہیں ہوگی جتنی اس وقت پیدا ہوگی جب ایک پنجابی ایسی ہی حرکت کرے گا کیونکہ پنجابی کا نقطۂ نگاہ اور تھا اور پٹھان کا اور یا سکھ اور عیسائی سؤر کھاتے ہیں اور ہم سب اسے جانتے ہیں.اب سور کھانا یقینی طور پر بُری بات ہے.مگر ایک سکھ یا عیسائی کو سو رکھاتے دیکھ کر ہمارے دل میں وہ جذبات نفرت پیدا نہیں ہونگے جو ایک مسلمان کو سو رکھاتے دیکھ کر پیدا ہوں گے حالانکہ فعل ایک ہی ہے وہ بھی سو رکھا رہا ہے اور یہ بھی سو رکھا رہا ہے.ایک ہند و نماز نہیں پڑھتا اور ہم
خطبات محمود ۳۶۶ سال ۱۹۳۸ء جانتے ہیں کہ یہ بُری بات ہے.مگر ایک ہندو کو نماز نہ پڑھتے دیکھ کر ہمارے دل میں وہ نفرت پیدا نہیں ہوگی جو ایک مسلمان کو نماز نہ پڑھتے دیکھ کر پیدا ہوگی کیونکہ ان دونوں کے نقطہ نگاہ میں فرق ہے.وہ نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھتا اور یہ نماز کو ضروری سمجھنے کے باوجود سستی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا.پھر اس کی تعلیم کو دیکھا جائے گا کہ وہ پڑھا لکھا ہے یا جاہل ، اس کے پسماندگان کی حالت دیکھیں گے کہ کیسی ہے کیونکہ یہ بات بھی جذبات کو بالکل بدل دیتی ہے.اگر ایک بڑے سے بڑا ڈا کو ہوا اور فرض کرو اس کی بیوی مری ہوئی ہے اور اس کا صرف ایک ہی بچہ ہے اور وہ بھی چار پانچ سال کا اور پھر وہ بھی آنکھوں سے اندھا تو جس وقت اس ڈاکو کو پھانسی پر لٹکا یا جا رہا ہو اور اس کا بیکس یتیم اور اندھا بچہ رو رہا ہو اس وقت تم میں سے کون ہے جس کا دل رحم سے نہیں بھر جائے گا.پس پسماندگان کی حالت بھی قلبی کیفیات کو بدل دیتی ہے.اسی طرح اس کے دوسرے افعال کو بھی دیکھنا پڑے گا.ایک وہ ہوتا ہے جو عادی طور پر چوری کرتا ہے اور کی ایک وہ ہے جو یوں تو بڑا نیک تھا مگر کسی بات سے مجبور ہو کر انتہائی لاچاری کی حالت میں اس کی نے چوری کر لی.یا ایک وہ ہے جو ہمیشہ دوسروں سے لڑتا رہتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو ہے تو بڑا کی رحم دل مگر اتفاقی طور پر ایک دفعہ جوش میں آکر وہ دوسرے سے لڑ پڑا ہے.اب گوان دونوں سے ایک ہی قسم کا جرم سرزد ہوا ہو مگر ایک کے متعلق ہمارے جذ بات بالکل اور قسم کے ہوں گے اور دوسرے کے متعلق ہمارے جذبات اور قسم کے ہوں گے.پھر جس کے خلاف حملہ ہوا ہے اس کے حالات اور اس کے پسماندگان کے حالات بھی دیکھے جائیں گے.بظاہر جس طرح ایک آدمی قتل ہو جاتا ہے اسی طرح دوسرا آدمی بھی قتل ہوتا ہے مگر ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جس پر ملک کا انحصار ہوتا ہے اور دوسرا آدمی معمولی اور نکھتا ہوتا ہے.ایک کے قتل ہونے پر اتنا شور پڑتا ہے کہ تمام ملک ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ہل جاتا ہے اور دوسرے آدمی کے قتل ہونے پر کسی کو خبر تک نہیں ہوتی.اب کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ یہ دونوں فعل اپنے اثرات کے لحاظ سے یکساں ہیں.پنڈورہ میں اک چوہڑہ دوسرے چوہڑے کو قتل کر دیتا ہے تو گاؤں سے باہر اس کے قتل ہونے کی خبر تک نہیں جاتی.مگر ملک کا کوئی خادم مارا جاتا ہے تو تمام ملک اس آواز سے گونج اٹھتا ہے.بے شک ایسے مواقع پر ایک چوہڑے کے قاتل کو بھی وہی سزا ملے گی
خطبات محمود ۳۶۷ سال ۱۹۳۸ء جو ایک خادم ملک کے قاتل کو ملے گی مگر ہمارے قلب کا فیصلہ صرف جرم کے لحاظ سے نہیں ہوگا کی بلکہ ان اثرات کے لحاظ سے ہو گا جو ان قتلوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں پس جہاں تک قضاء کا تعلق ہے وہاں دونوں کو یکساں سزا ملے گی مگر جہاں جذبات اور احساسات کا سوال آجائے گا وہاں ان دونوں قتلوں کے تاثرات میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا.پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ جس پر حملہ ہوا ہے وہ حملہ ہونے کے وقت جواب دینے کے قابل تھا یا نہیں.آیا اس پر ایسی حالت میں تو حملہ نہیں ہوا جب کہ وہ سور ہا تھا یا اسے رسیوں سے باندھ کر آگ میں تو نہیں جلایا گیا.اور اگر ہمیں معلوم ہوا کہ اس پر سوتے ہوئے حملہ کیا گیا ہے یا رسیوں سے باندھ کر آگ میں جلایا گیا ہے اور اس طرح بے بسی کی حالت میں اسے قتل کیا گیا ہے تو اس قسم کے جرائم زیادہ خطرناک سمجھے جائیں گے.پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آگے سے اس نے یا اس کے ساتھیوں نے کوئی جواب دیا ہے یا نہیں.غرض جذبات کی دنیا میں معاملہ زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے اور اب صرف فعل نہیں بلکہ فعل کے محرکات ، فاعل کا ماحول ،اس کی مجبوریاں ، اس کا نقطہ نگاہ ، اس کی تعلیم ، اس کے پسماندگان کی حالت ، اس کے دوسرے افعال جس کے خلاف حملہ ہوا ہے، اس کے حالات ، اس کے پسماندگان کے حالات.اگر وہ ہلاک کی ہوا ہے تو دنیا کو جو اس کی ہلاکت سے نقصان پہنچتا ہے ، اس کا اندازہ حملہ ہونے کے وقت وہ جواب کے قابل تھا یا نہیں، آگے سے اس نے یا اس کے ساتھیوں نے کوئی جواب دیا یا کی نہیں.بیسیوں باتیں ہیں جو سامنے آجاتی ہیں اور ان بیسیوں باتوں کو جو مشترک نتیجہ ہوگا وہ ہمارے دل کا رد عمل ہو گا.اسی وجہ سے بعض دفعہ ایک برے فعل کو ہم برا سمجھتے ہیں مگر دل میں اس کی فعل کا ارتکاب کرنے والے سے ہمدردی بھی پیدا ہوتی ہے.اور بعض دفعہ ظاہری نگاہ سے اچھا نظر آنے والے ایک فعل کو ہم اچھا کہتے ہیں مگر دل میں اس فعل کا ارتکاب کرنے والے کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.پھر ان میں درجوں کا فرق ہوگا.کسی وقت ہماری ہمدردی بہت زیادہ ہوگی اور کسی وقت کم ، کسی وقت زیادہ نفرت ہوگی اور کسی وقت تھوڑی.غرض جس وقت جذبات فیصلہ کرنے لگتے ہیں اور وہ چھلکے کو چھوڑ کر مغز کی طرف آتے ہیں ، اس وقت اصل واقعہ ایک وسیع گل کا چھوٹا سا جزو ہو کر رہ جاتا ہے اور قلبی تاثرات سارے گل کا نتیجہ
خطبات محمود ۳۶۸ سال ۱۹۳۸ ہوتے ہیں.خالی واقعہ کے ایک جز و کا نتیجہ نہیں ہوتے.جب ہم قضاء کی کرسی پر بیٹھیں گے تو قتل کا واقعہ ایک عمارت کی شکل میں ہمارے سامنے ہو گا مگر جب ہم جذبات کی کرسی پر بیٹھیں گے تو وہی عمارت ایک کھڑکی یا کنڈا بن کر رہ جائے گی.اور یہ تاثرات جو دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر واقعات کے طبعی نتائج ہوں یعنی انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے تمام باتوں کو سوچا ہو اور ان کے ماتحت ہمارے دل میں ایک تاثر پیدا ہوا ہو تو ایسے تاثرات کبھی قابلِ اعتراض نہیں کہلا سکتے بشر طیکہ ان تاثرات کو قضاء میں دخل انداز نہ ہونے دیا جائے.چنانچہ ایسے واقعات عدالتوں میں بھی کثرت سے ہوتے ہیں کچھ مدت کی بات ہے لاہور کے ایک انگریز جج نے ایک شخص کو سزا دی مگر فیصلہ میں لکھا کہ میں اسے قانونی سزا دیتا ہوں ورنہ میرے نزدیک یہ جرم اس نوعیت کا نہیں کہ اسے سزا دی جائے مگر چونکہ قانون کہتا ہے کہ سزا دو اس لئے میں اسے اتنے روپے جرمانہ کی سزا دیتا ہوں.جرمانہ کے بعد اس نے نوکر کو بلایا اور کہا میرا کوٹ جو فلاں کھونٹی پر لٹک رہا ہے وہ لے آؤ.چنانچہ وہ کوٹ لایا اور اس حج نے جیب میں سے اتنا روپیہ نکال کر جتنا اس نے جرمانہ کیا تھا ملزم کی طرف سے خزانے میں داخل کرا دیا.اب دیکھو ایک ہی وقت اس نے دونوں امور کوملحوظ رکھا.اس نے جرمانہ کیا قضاء کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اور اس نے خود مجرمانہ ادا کیا اپنے جذبات کو تسلی دینے کے لئے.وکٹر ہیوگو فرانس کا ایک مشہور مصنف گزرا ہے بلکہ موجودہ دور تصنیف کا وہ بادشاہ سمجھا جاتا ہے.اس نے بہت سے تاریخی ناول لکھے ہیں جن میں واقعات تمام تاریخی ہوتے ہیں صرف ان کے بیان کرتے وقت وہ رنگ آمیزی کر لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے قلم میں بڑی تاثیر پیدا کی ہے چنانچہ اسے وفات پائے گو عرصہ گزر گیا ہے مگر آج تک اس کی تحریریں کی علمی مذاق رکھنے والوں میں بڑی مقبول ہیں.فلسفے کے بڑے بڑے نکتے ہیں جن کا اس نے اپنی کتابوں میں حکایات میں ذکر کیا ہے.ان میں اس مضمون کے متعلق بھی ایک تاریخی قصہ آتا ہے.فرانس میں اٹھارھویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے شروع میں بڑی بغاوتیں ہوئی کی تھیں اور بڑے قتل اور خونریزیاں ہوئی تھیں.ایک موقع پر جو پرانا شاہی خاندان تھا اسے جب لوگوں نے فرانس سے نکال دیا تو اس خاندان کے کچھ افراد انگلستان چلے گئے اور کچھ تبجیم میں
خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۸ء مقیم ہو گئے اور وہاں بیٹھ کر انہوں نے سازشیں شروع کر دیں.اس موقع پر قصہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک نواب کے خورد سال بھتیجے کو جو اسی نواب کا وارث تھا، ایک استاد رکھ کر تعلیم دلائی گئی.استاد دل میں جمہوریت کا قائل تھا.اس نے اسے جس قدر تعلیم دی وہ جمہوریت کے اصول پر دی.ملک کے حقوق اس کے ذہن نشین کئے اور اس عمدگی سے وہ اصول اس کے ذہن میں داخل کئے کہ وہ ان کا اچھا خاصہ مبلغ ہو گیا.چنانچہ جہاں بیٹھتا انہی اصول کی لوگوں کو تلقین کرتا.جب بغاوت ہوئی تو قدرتی طور پر وہ عوام الناس کے ساتھ مل گیا اور اپنے بھائی بندوں کو اس نے چھوڑ دیا.ایک موقع پر ایسا اتفاق ہوا کہ اس کا وہ چچا جس نے اسے پالا تھا لڑائی میں اس کے مقابل میں آ گیا اور آخر شکست کھا کر وہ گرفتار کر لیا گیا.جب اس کا چچا پکڑا گیا تو چونکہ اس نے بچپن سے اسے پالا تھا، اس لئے بھیجے کے دل میں محبت کے جذبات نے جوش مارا اور اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ملک کی خیر خواہی کا جو فرض مجھ پر عائد ہوتا تھا وہ تو میں ادا کر چکا ہوں اور اب میں اپنا ذاتی فرض بھی ادا کر دوں.قید خانہ میں جا کر اپنے چا کو چھوڑ دیا.اس پر تمام ملک میں شور پڑ گیا اور فرانس کی پارلیمنٹ میں مقدمہ پیش ہوا.انہوں نے ایک کمیشن تجویز کی کیا اور اسی استاد کو جس نے اسے تعلیم دی تھی اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے جج مقرر کیا.چونکہ اس نے ملک کے لئے بڑی قربانیاں کی تھیں اس لئے فوج کے بڑے بڑے افسر وفد بن کر اس کے پاس گئے اور کہا کہ اس کی گزشتہ خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق نرم فیصلہ کیا جائے مگر اس نے ان کی ایک نہ سنی اور فیصلہ کیا کہ اسے گولی سے اڑا دیا جائے اور کہا کہ اس کے فعل کے نتیجہ میں جو کشت و خون ہوگا اس کا کیا علاج ہے.چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق اسے ایک جگہ کھڑا کیا گیا اور بندوقوں کی باڑ مار کر اسے مار دینے کا حکم ملا.طریق یہی ہے کہ جب باڑ مارتے ہیں تو درجن بھر یا کم و بیش تعداد سپاہیوں کی صف باندھ کر مجرم پر حکم ملتے ہی گولیاں چلاتی ہے اور اس سے غرض ایک تو رُعب قائم کرنا ہوتا ہے دوسرے یہ احتیاط ہوتی ہے کہ بیک وقت کئی سپاہی نشانہ لیں گے تو نشانہ خطا نہ ہو گا اور مجرم ضرور مر جائے گا.جب اس نواب زادہ کو میدان میں کھڑا کیا گیا اور سپاہی بھی مختلف جگہوں پر متعین کر دیئے گئے تو پھر بڑے بڑے افسروں کا ایک وفد اس استاد کے پاس گیا اور اس نے کہا ہماری ساری فتح اسی کے
خطبات محمود ۳۷۰ سال ۱۹۳۸ طفیل ہے.اس نے بادشاہی تعلقات کی کبھی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ ہمارا ساتھ دیتا رہا اب اس کے ساتھ رعائت کی جائے اور اسے یہ سزا نہ دی جائے.مگر اس نے ان کی کوئی بات نہ سنی اور کی کہا گولی چلا ؤ.چنانچہ سپاہیوں نے باڑ مار دی اور وہ رئیس مرکر گر پڑا.ادھر استاد کے منہ سے اس مفہوم کا ایک فقرہ نکلا.کہ آہ میری امیدوں کی عمارت منہدم ہوگئی اور ایک پستول چلنے کی آواز آئی.لوگوں نے مڑ کر دیکھا.تو اس رئیس کی لاش کے ساتھ استاد کی لاش بھی تڑپ رہی تھی.اور وہ بھی اس کے غم میں خود کشی کر چکا تھا.ہے یہ واقعہ گو ایک ناول میں بیان ہوا ہے لیکن تاریخی مواد سے ماخوذ اس میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی فیصلہ بعض دفعہ متضاد حالات میں ہوتا ہے.قضاء اور طرف جاتی.اور جذبات اور طرف جاتے ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ انسانی روح بعض فعلوں سے دو طرح متاثر ہوتی ہے.ایک قضائی طور پر اور ایک جذباتی طور پر.چنانچہ اسی بناء پر اس فرانسیسی بغاوت کے لیڈر نے بھی ایک طرف سزا کا حکم دیا کیونکہ قضاء کا یہی فیصلہ تھا کہ جو شخص اپنے ملک سے ایسی غداری کرے، اُسے ایسی ہی سزا ملنی چاہئیے.دوسری طرف چونکہ اس نے اسے ایک بچے کی طرح پالا تھا اور اُس کے ساتھ اُس کی امیدیں وابستہ تھیں جب اس نے دیکھا کہ وہ ایک خطا کی وجہ سے مارا گیا ہے تو چونکہ ان کے مذہب میں خود کشی نا جائز نہیں اس لئے اس نے بھی خودکشی کر لی.غرض تاریخی واقعات اور روز مرہ کے واقعات سے یہ امر پوری طرح ظاہر ہو جاتا ہے.کہ انسانی روح بعض افعال سے دو طرح متاثر ہوتی ہے.ایک قضائی طور پر اور ایک جذباتی طور پر.بعض دفعہ قضائی فیصلہ بالکل اور ہوتا ہے اور جذباتی فیصلہ بالکل اور ہوتا ہے.اور کبھی یہ دونوں فیصلے موافق بھی ہوتے ہیں مگر بہر حال دیانت دار انسان وہ ہوتا ہے جو قضائی حصہ کو جذباتی حصہ سے مغلوب نہ ہونے دے.بے شک جذباتی حصہ پیدا ہوگا اور ضرور ہو گا مگر انسان کا کام یہ ہے کہ اس سے مغلوب نہ ہو.ایک حج کے سامنے اگر اس کا بیٹا ملزم کی کی حیثیت میں پیش ہوگا تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے دل میں رحم پیدا نہیں ہو گا مگر بطور حج کے اس کا فرض ہے کہ اسے سزا دے.مگر کیا جب وہ سزا دے گا اسے غم نہیں ہوگا، ہو گا اور ضرور ہو گا مگر کیا
خطبات محمود ۳۷۱ سال ۱۹۳۸ء غم بھی کوئی جرم ہے.ہر شخص تسلیم کرے گا کہ جب اس نے اپنے قضائی فرض کو ادا کر دیا تو اب اس کا اظہار غم کوئی ناجائز امر نہیں پس جب ایک حج قضائی طور پر اپنا فرض ادا کر لیتا ہے اور نا جائز طور پر دوسرے کے حقوق کو چھینے کی کوشش نہیں کرتا.مثلاً یہ نہیں کرتا کہ اسے قید سے چھڑا لے ( مقدمہ لڑنا نا جائز نہیں کیونکہ جرم کا اثبات فیصلہ کے بعد ہوتا ہے پہلے نہیں ) تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرے.بشرطیکہ وہ جذبات جادہ اعتدال اور صداقت پر ہوں.صداقت پر اس طرح کہ جن جذبات سے وہ نتیجہ نکالتا ہے وہ صحیح ہوں اور جادہ اعتدال پر اس طرح کہ جذبات حد سے آگے نہ نکل جائیں اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اُس کا یہ فعل انسانیت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہوگا.اگر ایک باپ قاضی ہے اور اس کا بیٹا مجرم کی حیثیت میں اُس کے سامنے پیش ہے اور وہ اسے قانون کے مقتضی کو پورا کرنے کے لئے سزا دیتا ہے مگر اُس کا دل زخمی ہے تو جب اُس نے قانون کو پورا کر دیا تو اُس کا رنج اس کی نیکی کے منافی نہیں بلکہ عین مطابق ہے کیونکہ اُس نے ثابت کر دیا کہ وہ حج بھی ہے اور انسان بھی.اور اگر کوئی شخص جذباتی حصہ کو ظاہر کرنا بھی نیکی کے منافی سمجھتا ہے تو وہ احمق اور بے وقوف ہے اور کی اس بات کو ثابت کرنے والا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو پڑھنے کے قابل نہیں.اگر دُنیا کے سارے مجسٹریٹ بھی مل کر یہ کہیں کہ اگر ان جوں کے بیٹوں میں سے کسی سے کوئی جرم سرزد ہو اور فیصلہ کرتے وقت سزا بھی دیتے ہیں اور ان کے دل میں یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوتا کہ کاش ! ہمارا بیٹا بچ جاتا ، کاش وہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرتا.یا یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ کاش! اسے تو بہ کی توفیق مل جائے تا اگر اس کی دنیا نہیں سنور سکی تو آخرت ہی سنور جائے.یا اگر سزا مل جاتی ہے تو ان کے دلوں میں یہ حسرت پیدا نہیں ہوتی کہ آہ افسوس ہمارا بچہ گناہ سے نہ بچ سکا تو میں ان سے یہ کہوں گا کہ تم اپنے دماغ کو خود پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا تم انسان نہیں بلکہ انسانیت سے بالا کوئی اور ہستی ہو.مگر میں نہیں سمجھ سکتا دنیا میں دل اور دماغ رکھنے والے ایسے مجسٹریٹ بھی ہو سکتے ہوں جو قضاء سے اپنے جذبات کو چل دیں اور ان کے دلوں میں کوئی رحم پیدا نہ ہو، میں اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.یہ ایک قانون ہے جس سے باہر کوئی نہیں جا سکتا.ہزارہا مثالیں روزانہ اس کی ملتی ہیں.صحابہ کا ہی واقعہ ہے.مقداد ایک بہت بڑے صحابی تھے
خطبات محمود ۳۷۲ سال ۱۹۳۸ء وہ ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا اور کہنے لگا.میں قربان کی جاؤں ان آنکھوں کے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.میں قربان جاؤں ان ہاتھوں کے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی.کاش! ہم بھی اُس زمانہ کو دیکھتے.مقداد یہ سن کر غصہ میں آگئے اور ان کا چہرہ کا رنگ سرخ ہو گیا.راوی کہتے ہیں.ہم نے دل میں کہا آپ کا یہ غصہ اس وقت کیسا نا واجب ہے مگر اتنے میں مقداد بولے تم کیا بات کرتے ہو.تمہارے جیسے ہی انسان تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رڈ کیا.انہوں نے آپ کی باتیں سنیں مگر کہا تو جھوٹا ہے ، مکار ہے.پس تم میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہوتا تو ضرور آپ پر ایمان لاتا اور ابو جہل یا ابولہب کے چیلوں میں شامل نہ ہوتا.پس تم کیوں کہتے ہو کہ کاش ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوتے.تمہیں کیا معلوم ہے کہ اگر اُس وقت تم پیدا ہوتے تو تمہارا کیا حال ہوتا.تم شکر کرو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ایسے وقت میں پیدا کیا ہے جب تمہارے ماں باپ ایماندار تھے اور اس طرح تمہیں اس امتحان میں سے گزرنا نہیں پڑا جس امتحان میں سے تمہارے ماں باپ کو گزرنا پڑا.پھر وہ کہنے لگے کہ تم ہمارے زمانہ کا کیا پوچھتے ہو.ہمارے دل بھی تھے ، ہمارے بھی پیارے سے پیارے وجود تھے.ہمارے بھی دنیا میں وہ لوگ تھے جو ہمارے حبیب اور محبوب تھے مگر جب خدا نے ہمیں ایمان دے دیا اور وہ دولت ایمان سے محروم رہے اور جنگیں ہوئیں تو ہم ان سے لڑائی کرتے تھے مگر بخدا جب ہم تلوار چلاتے تو تی ہمارے دل یہ تصور کر کے خون ہو جاتے کہ قیامت کے دن ہمارے یہ حبیب دوزخ کی طرف لے جائے جار ہے ہوں گے اور ہم جنت کی طرف جا رہے ہوں گے.یہ وہ نمونہ ہے جو صحابہؓ نے کی دکھایا اور یہی وہ نمونہ ہے جو قضاء کے وقت ایک شریف اور ہمدر دانسان دکھا سکتا ہے انہوں نے ایک طرف تلوار لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو کاٹ ڈالا مگر دوسری طرف ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے دل کڑھ رہے اور رو رہے تھے کہ ہمارا یہ پیارا جہنم کی طرف جا رہا ہے اور ہم جنت کی طرف.تو جذباتی قضاء کا معاملہ نہایت پیچدار ہوتا ہے جس کو صرف عالم اور فہیم آدمی ہی سمجھ سکتے ہیں.صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سوچنے والا دماغ اور فکر کرنے والی روح عطا فرمائی ہے.عام لوگ نہ ان باتوں کو سمجھتے ہیں اور نہ وہ ان کو سمجھنے کے
خطبات محمود ۳۷۳ سال ۱۹۳۸ء اہل ہوتے ہیں.غرض دیانت دار انسان وہ ہوتا ہے جو قضائی حصے کو جذ باقی حصہ سے مغلوب نہ ہونے دے لیکن جب وہ یہ مطالبہ پورا کر دے تو اور اس پر کوئی بوجھ نہیں بشرطیکہ اس کے جذبات جادہ اعتدال اور صداقت پر ہوں.اگر وہ جذبات صداقت پر مبنی ہوں اور اگر وہ جادہ اعتدال پر قائم ہوں تو نہ صرف یہ کہ وہ خلاف انسانیت نہیں بلکہ وہ عین انسانیت ہیں.یہ تین اصل ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے تب وہ جواب سمجھ آئے گا جو ان سوالات کا میں دینا چاہتا ہوں.مگر چونکہ آج بہت دیر ہو گئی ہے اس لئے اسی پر اپنا خطبہ ختم کرتا ہوں دوسرا حصہ جو جواب پر مشتمل ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.“ ا الدخان: ۵۰ 66 بخارى كتاب الادب باب مَا يُنْهَى عَنِ التَّحَاسُدِ (الخ) ( الفضل ۳۰ر جون ۱۹۳۸ء) س وَالَّذِينَ يَرْمُونَ ازْوَاجَهُمْ وَ لَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةً آخر هم اربع شهد الله انه لمن الصُّدِقِينَ ( النور : )
خطبات محمود ۳۷۴ ۲۰ سال ۱۹۳۸ میاں عزیز احمد صاحب مرحوم سے متعلق اپنوں کے خیالات اور معاندین کے اعتراضات (فرمودہ یکم جولائی ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - دو میں نے پچھلے جمعہ میں پشاور سے آئے ہوئے دو اعتراض بیان کئے تھے اور اسی طرح دو اعتراض بیان کئے تھے جو مجھے احرار کے خطبات یا ان کی گفتگوؤں سے اخذ کر کے دوستوں نے پہنچائے تھے.ان کے جوابوں کے سمجھانے سے پہلے میں نے چند اصول بیان کئے تھے کہ ان اصول کا سمجھ لینا ان جوابوں کے سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے.گزشتہ جمعہ میں وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا کی تھی اصلی اور تفصیلی جواب بعد کے لئے چھوڑ دیئے تھے.آج میں ان اعتراضات کو ان کے تفصیلی جواب کے لئے لیتا ہوں.پہلا اعتراض یہ ہے کہ قادیان کے لوگ بے غیرت ہیں.جب ان کے ماں باپ کو کوئی گالی دے تو جوش میں آجاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خاندان کو اگر گالیاں دی جائیں تو صبر کی تلقین کرتے ہیں.اور یہ کہ ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ قادیان میں اسی فیصدی لوگ ایسے ہیں حالانکہ گالی دینے والے کا علاج سوائے سختی کے کچھ نہیں.
خطبات محمود ۳۷۵ سال ۱۹۳۸ء اس سوال کے دو حصے ہیں.پہلا حصہ یہ ہے کہ قادیان کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے اہل کے متعلق گالیاں برداشت کر لیتے ہیں یہ بے غیرتی ہے اور جواب کے لئے پہلے میں اسی حصہ کو لیتا ہوں.بے غیرتی اور اس کے مقابل کا لفظ غیرت جو ہے اس کا ماً خذ عربی زبان ہے.بے غیرتی کی ترکیب ہم نے فارسی طرز پر بنالی ہے.مگر دراصل یہ عربی لفظ ہی ہے اور اس کے معنے وہی ہیں.یعنی عدم غیرت یا فقدانِ غیرت.یا قلت غیرت.غیرت کا نہ پایا جانا یا جاتے رہنا یا کم ہونا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ غیرت عربی زبان کا لفظ ہے اور ہماری زبان میں اس کا غلط استعمال ہونے لگا ہے.عربی میں اس کے وہ معنی نہیں جن معنوں میں ہم اسے استعمال کرتے ہیں.عربی میں غیرت کے معنی یہ ہیں کہ کسی اپنی چیز کا جائز یا ناجائز طور پر دوسرے کے قبضہ یا استعمال میں آنا اور اس استعمال کی برداشت نہ کر سکنا، لیکن ہم لوگ جب بے غیرتی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو بعض ناجائز افعال کے لئے کرتے ہیں.بے شک ان معنوں کی رو سے بھی کرتے ہیں جو عربی میں ہیں لیکن زیادہ تر یہی معنی لئے جاتے ہیں کہ کوئی ناجائز فعل ہو رہا ہو اور اس پر اظہار نفرت یا غضب نہ کیا جائے اور جب ایسے فعل پر اظہار نفرت یا غضب کیا جائے تو اسے غیرت کہتے ہیں.بعض دفعہ لفظوں کے غلط استعمال سے بھی حقیقت پوشیدہ ہو جاتی ہے.ہم ایک غلط لفظ بولتے ہیں اور ہماری مراد اور مطلوب نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اگر صحیح لفظ بولیں تو اصل مقصد سامنے رہتا ہے اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنے مقصد اور مطلب کو صحیح طور پر ادا کر رہے ہیں یا غلط.اور اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ لفظ غیرت کی وضاحت کر دوں اور بتا دوں کہ عربی میں غیرت سے کیا مراد ہوتی ہے اور جن معنوں میں ہم اس کا استعمال کرتے ہیں ، ان کے لئے صحیح لفظ کیا ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں عربی میں غیرت کے معنی یہ ہیں کہ اپنی کوئی محبوب چیز جائز یا ناجائز طور پر کسی دوسرے کے پاس چلی جائے اور اس کے خلاف دل میں غصہ، نفرت اور بے چینی پیدا ہو.عام استعمال اس کا یہ ہے کہ مثلاً کہیں گے مرد کو اپنی بیوی کے لئے غیرت پیدا ہوئی.یا بیوی کو اپنے خاوند کے لئے غیرت پیدا ہوئی.اور جب ہم یہ کہتے ہیں کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ کہ مرد کو اپنی بیوی کے لئے غیرت پیدا ہوئی تو بیوی کے لفظ سے مراد اس کی موجودہ بیوی اور سابقہ بیوی دونوں ہو سکتی ہیں اور اس طرح یہ غیرت جائز بھی ہو سکتی ہے اور نا جائز بھی.اگر تو اس کی بیوی ناجائز طور پر کسی غیر مرد کے پاس بیٹھی ہو تو یہ غیرت ایک ناجائز فعل کے لئے ہے لیکن اگر وہ بیوی مطلقہ ہو اور اس نے دوسرے سے شادی کر لی ہو اور سابق خاوند کو اس پر طیش آیا ہو تو اس صورت میں یہ غیرت ایک جائز فعل کے خلاف ہوگی.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عورت کو خاوند پر غیرت پیدا ہوئی.یہ بھی بعض دفعہ جائز فعل پر ہوتی ہے اور بعض دفعہ ناجائز پر اگر تو بدی کی سی نیت سے کسی غیر عورت کے پاس بیٹھا ہوتو یہ غیرت ناجائز فعل کے لئے ہوگی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویاں ہیں اور جب وہ اپنی ایک بیوی کے پاس بیٹھا ہو، دوسری پر یہ گراں گزرے یہ بھی غیرت کہلاتی ہے مگر یہ غیرت جائز فعل کے خلاف ہوتی ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا.لیکن حدیثوں میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ ناجائز محبت پر اظہار نا پسندیدگی کے معنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے سب سے زیادہ غیرت والا ہے.اس امر میں کہ وہ اس کی محبت کو چھوڑ کر کسی اور سے لو لگا لیں یا گویا وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندے کسی دوسری طرف جائیں.چاہے وہ جانا شرک کے رنگ میں ہو یا فسق و فجور کے رنگ میں.اور پھر ایک اور جگہ حدیث میں یہ جائز فعل کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.حضرت اُم سلمہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی خواہش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رَسُول اللہ ! میرے کئی بچے ہیں جن کے پالنے کا مجھے خیال ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ میں غیرت والی ہوں ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ نَعُوذُ بِاللَّه رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی نا جائز فعل کا انہیں خیال تھا بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی اور بھی بیویاں ہیں اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرا خاوند کسی اور عورت کے پاس بیٹھے.اس حدیث میں یہ لفظ ایسے موقع پر استعمال ہوا ہے کہ ناجائز فعل کا کوئی امکان ہو ہی نہیں سکتا مگر یہ لفظ اردو میں ان معنوں سے بہت کم استعمال ہوتا ہے.زیادہ تر انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ مثلاً کہتے ہیں تمہارے باپ کو گالیاں دی جا رہی تھیں تمہیں غیرت نہ
خطبات محمود ۳۷۷ سال ۱۹۳۸ء آئی.لیکن عربی میں گالی پر غصہ ہونے کے معنوں میں غیرت کا لفظ استعمال نہیں ہوگا بلکہ انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ اپنی چیز کسی دوسرے کے پاس چلی جائے.جائز ذریعہ سے یا نا جائز سے اور انسان اسے نا پسند کرے.پس جن معنوں میں غیرت کا لفظ ہم استعمال کرتے ہیں کہ بُرے فعل کو دیکھ کر اسے نا پسند کرنا اور فیصلہ کر لینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو میں اس کا مقابلہ کروں گا اور یہ برائی نہیں ہونے دوں گا.عربی میں اس کے لئے غیرت کا لفظ نہیں بولا جاتا.کی قرآن کریم نے اس کے لئے اباء کا لفظ استعمال کیا ہے.گویا جن معنوں میں ہم غیرت کا لفظ کی بولتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ابی کا لفظ استعمال کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ يُريدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ يا فَوَاهِهِمْ وَ يَا بَيَ اللَّهُ إِلَّا آن ييم نُورة وتؤكرة الغفِرُونَ سے یعنی کفار ہمارے رسول کو مٹانا چاہتے ہیں مگر وہ کیا تج سمجھتے ہیں کہ ہم اس بات کو برداشت کر لیں گے.ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اس بات کو کبھی برداشت نہیں کرے گا.اور ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہونے دے گا.خواہ کا فرکتنا زور لگائیں.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يأتي الله إلا ان يتم نُورة یہاں غیرت کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ اباء کا ہوا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہرگز اس بات کو برداشت نہیں کریں گے اور دشمن کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے.حدیثوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر انکار یا کراہت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جن امور پر غیرت آئے انہیں منکرات کہا جاتا ہے.قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے.خطبہ جمعہ کے دوسرے حصے میں جو آیت پڑھی جاتی ہے اس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں وَ يَنْعَى عَنِ الْفَحْشَاء والمُنكَر و البغي : " کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام بری باتوں سے روکتا ہے وَالْمُنكَرِ کے معنی ہیں کہ ایسے امور سے خصوصاً جن کے متعلق طبیعت میں غیرت پیدا ہو ( یہاں غیرت کا لفظ اردو کے محاورہ کے مطابق استعمال کیا گیا ہے ) بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق کوئی کی غیرت پیدا نہیں ہوتی مثلاً ایک شخص جھوٹ بول رہا ہے لیکن اس کے جھوٹ سے کسی کا کوئی تعلق کی نہیں ہے.تو انسان اسے گناہ تو سمجھے گا لیکن طبیعت میں غیرت پیدا نہیں ہوگی.مگر ایک شخص بازار میں کھڑا ہو کر گندی گالیاں بک رہا ہے تو جو بھی شریف الطبع آدمی سنے گا اس کے دل میں ہے
خطبات محمود ۳۷۸ سال ۱۹۳۸ء غیرت پیدا ہوگی کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ ہمارے گھر نزدیک ہیں، بیوی بچوں تک اس کی آواز کی پہنچے گی تو ان کے اخلاق پر بُرا اثر پڑے گا.پس اسے منگر کہیں گے گویا وہ الفاظ یا اعمال کی جن کی نسبت طبیعت میں غیرت پیدا ہوتی ہے ، وہ منکر ہیں اور جن کو ہم صرف بُرا سمجھتے ہیں مگران سے غیرت کا سوال وابستہ نہیں ہوتا ان کو فحشاء کہتے ہیں.اور بغی وہ ہیں جن کو مٹانے کے لئے ہمیں اجازت ہے اور ہر صورت میں ان کا مقابلہ کرنا ہمارے لئے جائز ہے.اس کے مقابلہ میں انکار یا کراہت کا لفظ بھی ہے.حدیث میں ہے.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا مَنْ رَى مِنْكُمُ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرُهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعُ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَالِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ یعنی تم میں سے اعلیٰ درجہ کا مؤمن وہ ہے کہ جب وہ کسی بدی کو دیکھے تو فلیغیرُهُ بِيَدِہ اسے اپنے ہاتھوں سے مٹا دے فَاِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ یعنی اگر وہ ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو فَبِلِسَانِہ اسے چاہئے کہ وہ زبان سے مٹا دے یعنی تبلیغ کرے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ بری بات ہے، اس کو ترک کرنا چاہئے لیکن اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکتا ہو.کوئی وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ زبان سے بھی مٹا نہ سکتا ہو.ظالم لوگوں کے قبضہ میں ہے یا مثلاً آجکل ہمارے ملک میں پریس ایکٹ ہے.بعض باتیں اگر کی لکھی جائیں تو ضمانت ضبط ہو جاتی ہے.یا نئی ضمانت طلب کر لی جاتی ہے تو فرمایا ، اگر یہ صورت ہو تو دل میں ہی برا سمجھ لیا جائے اور یہ قلیل ترین ایمان ہے جس کے بعد کوئی ایمان نہیں.مقدم بات تو یہ ہے کہ ہاتھ سے دور کر دے، نہیں تو زبان سے مقابلہ کرے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل میں ہی بُرا منائے اور جو یہ بھی نہیں کر سکتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں.قرآن کریم میں یہ متینوں باتیں بیان ہیں.مگر چونکہ مختلف جگہوں سے لینی پڑتی تھیں.اس لئے میں نے اس حدیث کو لے لیا ہے جس میں یہ سب باتیں ایک ہی جگہ ہیں.قرآن کریم میں ایک چوتھا طریق اظہار غیرت کا بھی بیان کیا گیا ہے.جو زبان سے روکنے اور دل میں بُرا منانے کے درمیان ہے اور وہ یہ کہ جب تمہاری محبوب اور بزرگ ہستیوں کی کی ہتک کی جارہی ہو تو اس مجلس سے اٹھ جاؤ اور یہ طریق دل میں برا منانے اور زبان سے مٹانے کے درمیان ہے.بعض دفعہ ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ اٹھا نہ جا سکے.مثلاً قیدی - ہے
خطبات محمود ۳۷۹ سال ۱۹۳۸ء اس وقت پھر یہی حکم ہے کہ دل میں بُرا منا چھوڑے، لیکن اگر وہاں سے اٹھ سکتا ہے تو پھر دل میں بُرا منانا کافی نہیں ہو سکتا.اس وقت اسے یہی چاہئے کہ اٹھ جائے.وہ اگر نہیں اٹھے گا تو دل میں بُر امنا نا اس کے لئے کافی نہیں ہوگا.پس جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جس فعل پر انسان کو غیرت آئے وہ منگر ہے اور اظہارِ غیرت کے لئے اباء، انکار، کراہت وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں.انہی الفاظ میں قرآن کریم کی اور حدیث میں غیرت کے مفہوم کا اظہار کیا گیا ہے.اباء کا لفظ غیرت کے لئے اور مواقعہ غیرت کی کے لئے منکر کا لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور حدیث میں منگو انکار یا کراہت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہ سب لفظ در حقیقت ہم معنی ہیں اور یہی اصل غرض کو واضح کرتے ہیں کیونکہ ہر درجہ کی غیرت کے وقت جو انسان کی ذمہ داری ہے اسے بھی ظاہر کرتے ہیں.مثلاً جب عمل کی طاقت ہو تو اس چیز کا ہٹا دینا ہی اباء و انکار کہلا سکتا ہے اور اگر عمل کی طاقت نہ ہو لیکن کی منہ سے تردید کرنے کی طاقت ہو تو پھر منہ سے یہ بتانا کہ یہ بات جھوٹ ہے ، غلط ہے اور اس کے جھوٹ ہونے کے دلائل یہ یہ ہیں.یہی مناسب صورت انکار کی ہے.تیسری انکار کی صورت یہ ہے کہ اگر ہاتھ یا زبان سے روکنے کی طاقت نہیں مگر انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ اس مجلس میں شریک نہ ہو تو وہ اس مجلس سے جس میں بری بات ہو رہی ہو اٹھ کر چلا جائے لیکن جب ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت سے انکار نہ ہو سکے ، پھر چوتھا انکار یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کہے کہ بہت اچھا ہم نہ ہاتھ سے روک سکتے ہیں ، نہ زبان سے تردید کر سکتے ہیں ، نہ اٹھ کر جا سکتے ہیں مگر ہمارا دل تو کسی کے قبضہ میں نہیں ہم اسے دل سے برا مناتے ہیں.اور یہ چاروں ذرائع انکار کے اس لفظ کے اندر ہی پائے جاتے ہیں.انکار علمی بھی ہوتا ہے لسانی بھی.انکا را اجتنابی کی بھی اور انکار قلبی بھی.قرآن و حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ نہ صرف نام ہیں بلکہ حقیقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں.زبان عربی کی یہ خوبی ہے کہ جو نام کسی چیز کا ہو وہ نہ صرف یہ کہ اس چیز کو بتا تا ہے بلکہ اس کے استعمال کے مواقع یا اس کی علت یا اس کے خواص پر بھی روشنی ڈالتا ہے.اس حدیث کے مطابق ہمارے بزرگوں نے ایک واقعہ بھی لکھا ہے جس سے معلوم ہو سکتا
خطبات محمود ۳۸۰ سال ۱۹۳۸ ہے کہ مومن کی غیرت کس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے.وہ بازار میں سے گزر رہے تھے انہوں نے دیکھا بادشاہ کا ایک درباری اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہو اسارنگی بجا رہا ہے.اس بزرگ نے اُسے منع کیا مگر وہ باز نہ آیا اور وہ آگے چلے گئے.اگلے روز یہ پھر گزرے تو پھر وہیں بیٹھا سارنگی بجا رہا تھا.انہوں نے اس کے ہاتھ سے سارنگی پکڑ لی اور توڑ پھوڑ کر پھینک دی.اس بزرگ کا چونکہ اثر لوگوں پر تھا اور لوگ ان کی طرف بہت رغبت رکھتے تھے اس درباری نے ان سے مقابلہ مناسب نہ سمجھا مگر جا کر بادشاہ سے شکایت کی اور اسے کہا کہ اگر آپ کے درباریوں کی یوں ہتک ہونے لگی تو رُعب جاتا رہے گا.بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں بلوایا.دربار لگا ہوا تھا، فوجی پہرہ موجود تھا ، بادشاہ نے سارنگی اپنے ہاتھ میں لی اور تخت پر بیٹھ کر اُس کی تاروں سے کھیلنے لگا.وہ بزرگ بھی خاموش بیٹھے رہے اور کچھ نہ کہا.جب بادشاہ نے دیکھا کہ وہ بزرگ خاموش ہیں تو اُس نے پوچھا کہ کل کیا واقعہ ہو ا تھا.بزرگ نے دریافت کیا کہ کونسا واقعہ؟ تو بادشاہ نے کہا کہ فلاں شخص سارنگی بجا رہا تھا اور تم نے اُسے لے کر توڑ دیا.بزرگ نے کہا کہ ہاں حضور ! میں نے تو ڑ دیا تھا.بادشاہ نے پوچھا.کیوں؟ تو اس بزرگ نے جواب دیا اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم کسی بدی کو اُسے دیکھو تو ہاتھ سے مٹا دو.اس پر بادشاہ نے کہا کہ اب میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس بزرگ نے جواب دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روک دو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی بُرا منا لو اس وقت مجھے اس تیسرے حکم پر ہی عمل کی طاقت ہے سو میں کر رہا ہوں.تو اسلام نے غیرت کے مفہوم کا اظہار انکار، استکراہ، کراہت یا را باء کے الفاظ میں کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی مواقع بھی بتا دیئے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ قرآن وحدیث میں غیرت کے مفہوم کے ادا کرنے کے لئے جو الفا ظ ر کھے گئے ہیں ان کو سننے کے بعد آپ لوگ سمجھ گئے ہوں کی گے کہ جس مفہوم کو اردو میں لفظ غیرت ادا کرتا ہے اس کے متعلق یہ شرط ہے کہ وہ فعل جس کے لئے غیرت پیدا ہو برا ہونا چاہئے کیونکہ مومن کا دل اچھی چیز کا انکار نہیں کیا کرتا.نیز اس سے
خطبات محمود ۳۸۱ سال ۱۹۳۸ء ثابت ہے کہ غیرت چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ظاہر ہونی چاہئے.اگر جائز ہو اور طاقت ہو تو ہاتھوں سے اس فعل کو مٹا دیا جائے لیکن اگر طاقت نہ ہو یا مقابلہ کی اجازت نہ ہو تو زبان سے اردگرد کے لوگوں کو صداقت سے آگاہ کر دیا جائے اور اگر ایسا کرنے کی بھی طاقت نہ ہو تو اس مجلس سے اٹھ کر چلے جانا چاہئے جس میں شعائر اللہ کی ہتک ہو رہی ہوا اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کم سے کم نیکی یہ ہے کہ دل میں ہی نفرت کا اظہار کیا جائے.یہ چار مواقع ہیں جو اسلام نے غیرت دکھانے کے لئے بیان کئے ہیں اب اس تفصیل کے بعد صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ قادیان کے لوگوں پر اس وجہ سے جو پشاور کے دوست نے بیان کی ہے بے غیرتی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا.یعنی اس وجہ سے کہ انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ان کو بے غیرت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ میں نے بے غیرتی کی جو تفصیل بیان کی ہے اس میں بتا چکا ہوں کہ اسلامی اصول کے ماتحت جس چیز کو مٹانے کی طاقت ہو یا اس کا مٹانا جائز ہوا سے بیشک مٹادینا چاہئے لیکن اگر طاقت نہ ہو یا جائز نہ ہو تو اس کے لئے دوسرا حکم ہے.اب سوال یہ ہے کہ کیا قانون کو ہاتھ میں لینا جائز ہے اور کی کیا اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ قانون کو اگر اپنی مرضی کے خلاف پاؤ تو اسے توڑ دو.اگر تو یہی تعلیم ہے تو بے شک قادیان کے لوگوں پر بے غیرتی کا الزام لگایا جا سکتا ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لو.تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کو بے غیرتی کہنا درست نہیں اور جس نے اس تعلیم کو درست سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا.اسے بے غیرت قرار دینا بڑا ظلم ہے.میں مانتا ہوں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ ایسے موقع پر قانون کو توڑ دینا جائز ہے.ایسے لوگ شریعت اور احمدیت کی رو سے غلط عقیدہ رکھنے والے ہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کی رو سے بے غیرت ہیں.غرض چونکہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں مت لو اور ہاتھ مت اٹھاؤ.جو اس پر عمل کرتا ہے وہ بے غیرت نہیں کہلا سکتا لیکن جو ہاتھ اٹھانے کو جائز سمجھتا ہے اور نہیں اٹھاتا ، وہ اپنے عقیدہ کی رو سے بے شک بے غیرت ہے لیکن شریعت کی رو سے پھر بھی بے غیرت نہیں.کیونکہ شریعت
خطبات محمود ۳۸۲ سال ۱۹۳۸ نے اس موقع پر ہاتھ سے مقابلہ کرنے کا حکم ہی نہیں دیا.اگر شریعت پر عمل کرنے کا نام بے غیرتی رکھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے بے غیرتی سکھائی ہے.پس اگر قانون کی پابندی کی وجہ سے قادیان کے احمدیوں کو بے غیرت کہا جائے تو یہ صرف قادیان کے احمدیوں پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر بھی الزام ہوگا کیونکہ بے غیرتی کی تعلیم دینے والا بھی بے غیرت ہی ہوتا ہے.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر کسی کا عقیدہ یہ ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا چاہئے وہ چاہے قادیان میں ہو یا پشاور میں اگر ہاتھ نہیں اٹھاتا تو وہ اپنے عقیدہ کی رو سے بے غیرت ہے کیونکہ غیرت کا حکم صرف قادیان والوں کے لئے ہی تو نہیں ، یہ تو سب کے لئے ہے.خواہ کوئی پشاور کا ہو یا راولپنڈی کا ، لاہور کا ہو یا کراچی کا ، کلکتہ کا ہو یا بمبئی کا ، خواہ کوئی انگلینڈ کا ہو یا کی امریکہ کا ، چین کا ہو یا جاپان کا ، سماٹرا کا ہو یا جاوا کا.پس جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ شریعت کا یہی حکم یا ہے کہ ایسے موقع پر قانون کو ہاتھ میں لو اور بدی کرنے والے کو مٹا دو تو جس نے بدی کو نہیں مٹایا وہ بے غیرت ہے خواہ وہ کہیں رہتا ہو لیکن اگر شریعت یہ کہتی ہے کہ مت مٹاؤ اور قانون کو ہاتھ میں مت لو.جیسا کہ میرا عقیدہ ہے اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے اور جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث اور کلام مسیح موعود سے ثابت ہے تو جس نے اس پر عمل کیا وہ باغیرت ہے.کیونکہ اصل غیرت یہی ہے کہ انسان خدا تعالی اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرے.خواہ اپنے نفس کے جوشوں کو کتنا ہی مارنا کیوں نہ پڑے.میں نہیں سمجھ سکتا پشاور کے اس دوست کو یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ قادیان میں ایسے دوستوں کی تعدا داشتی فیصدی ہے کہ جن کا خیال ہے کہ بدی کو ہاتھ سے مٹانا چاہئے اور جہاں تک میراعلم ہے اور میرا اس کے متعلق سب سے زیادہ علم ہے ایسے لوگ دس فیصدی بھی نہیں ہیں.ہم ایسے لوگوں کو جانتے ہیں اور اُن کو بھی جانتے ہیں جو بظاہر ہم سے ملے ہوئے ہیں مگر اصل میں ہمارے دشمنوں سے ان کو ہمدردی ہے.جن دنوں ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بعض ایسے ریمارک ہوئے جن کی بناء پر ان کا غلط مفہوم لے کر مخالفوں کو اعتراض کا موقع مل گیا تو ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں فلاں شخص کے ساتھ مل کر امتحان کی تیاری کیا کرتا تھا.وہ کہنے لگا کہ
خطبات محمود ۳۸۳ سال ۱۹۳۸ء ہے.حضرت خلیفہ مسیح کو ( نَعُوذُ بِالله ) ضرور سزا ہونی چاہئے.اس میں کیا شک ہے کہ وہ لوگوں کو جوش تو دلاتے رہتے ہیں.وہ شخص انجمن کا ملازم ہے، قادیان میں رہتا ہے اور بظاہر ہمارے ساتھ ہے مگر دل اس کا آتش کینہ سے پکھل رہا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح ان کو سزا ہو تو میرا دل ٹھنڈا ہو.یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا.پس ایسے لوگ بھی جماعت میں ہیں جن کو ہماری ہر کامیابی تیر کی طرح لگتی ہے لیکن جب کوئی ابتلاء کا موقع آتا ہے تو وہ آنکھیں کھول کھول کر دیکھتے ہیں کہ کہیں سے روشنی نظر آتی ہے کی یا نہیں ، یعنی جماعت تباہ ہوتی ہے کہ نہیں، مگر یہ کہنا کہ ایسے لوگ اسی فیصدی ہیں بالکل غلط نے میرے علم میں ایسے لوگ دو درجن سے زیادہ نہیں ہوں گے جو مخر جین سے چھپ چھپ کر ملتے ہیں اور گلیوں میں ان کو سلام کہتے ہیں بلکہ اپنا راستہ چھوڑ کر ان سے ملنے کے لئے دوسری گلیوں میں پہنچتے ہیں.ہمیں ان کا بھی علم ہے جو انہیں بٹالہ، امرتسر یا لاہور میں ملتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں.ہم ان کو بھی جانتے ہیں جو ان کو غیرت دلاتے اور کہتے ہیں کہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا.ہمیں تو تم لوگوں سے بہت امیدیں تھیں گو مجھے اس بے شرمی کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کس منہ سے ان کو یہ کہتے ہیں کہ تم نے کچھ نہ کیا.جن لوگوں سے یہ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہوں گے کہ یہ شخص کیسا بے حیا ہے.خود تو ان کے ساتھ بیٹھ کر روٹیاں تو ڑ رہا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کیا.گویا خود بڑا تھیں مار خان ہے.یاد رکھو کہ ہمارے حکم کے خلاف ان سے ملنا ہمارے ساتھ غداری ہے.بظاہر ہمارے ساتھ مگر دل سے ان کے ساتھ رہنا خدا تعالیٰ سے غداری ہے اور ان لوگوں سے جو کم سے کم منہ سے تو ہمارا مقابلہ کرتے ہیں کہنا کہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا ، ان لوگوں کے ساتھ بھی غداری ہے.گویا ایسے لوگ انسانوں کے بھی ، خدا تعالیٰ کے بھی اور احمدیت کی مخالف طاقتوں کے بھی غدار ہیں.یہ تینوں طرف سے لعنت کا مارا ہوا جسے جنت تو الگ دوزخ بھی حقارت سے دیکھتی ہے ، ہمارے مخالفوں سے مل کر کہتا ہے.کہ تم نے تو کی کچھ بھی نہیں کیا.گویا یہ خود بھی رستم کو شکست دے کر آیا ہے.یہاں میں ایک اور غلطی کا ازالہ بھی ضروری سمجھتا ہوں.بعض لوگوں نے میری طرف بات منسوب کی ہے کہ میں نے کہا ہے کہ قادیان میں پانسو منافق ہیں حقیقت یہ ہے کہ میں نے
خطبات محمود ۳۸۴ سال ۱۹۳۸ء کبھی ایسا نہیں کہا.جہاں تک میر اعلم ہے میری طرف یہ بات منسوب کرنا جھوٹ ہے.یا پھر ممکن ہے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو.بعض اوقات ایسا فقرہ بولا جاتا ہے کہ اگر پانسو منافقین بھی قادیان میں ہوں تو کیا ڈر ہے اور ممکن ہے کسی کو کسی ایسے فقرہ سے غلط فہمی ہوگئی ہو.پس اگر یہ غلط فہمی نہیں تو مجھ پر افتراء اور بہتان ہے.میرے علم میں ایسے لوگوں کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں بلکہ اس سے کم ہی ہوگی.اپنے دوسرا حصہ اس سوال کا یہ ہے کہ قادیان میں اسی فیصدی احمدی ایسے ہیں کہ جوا.ماں باپ کے متعلق گالی نہ سن سکیں گے اور گالی دینے والے سے جھٹ لڑ پڑیں گے پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے متعلق گالیاں سن کر خاموش کیوں رہتے ہیں.اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے علم سے یہ بات باہر ہے کہ اسی فیصدی لوگ کی ایسے ہیں میں یہ جانتا ہوں کہ ایسے احمدی بے شک ہیں.جو منہ سے تو صبر صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں مگر جب ان کو یا ان کے ماں باپ کو یا ان کی بیوی یا ان کی بیٹی کو کوئی بات کہی جائے تو تھی ان کو طیش آ جاتا ہے.ایسی روایتیں تو میرے علم میں سات آٹھ ہی ہیں مگر عام انسانی کمزوری اور پھر انسانی نفس کے جوش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ اور بھی ہو نگے لیکن اس دوست کا پشاور میں بیٹھے ہوئے اسی فیصدی پر الزام لگانا درست نہیں.میں اس امر کی تو تصدیق کرتا ہوں کہ ایسے لوگ ہیں اور جتنے میرے علم میں ہیں ان سے بھی زیادہ ہو نگے لیکن اس بات کو ماننے کے لئے میرا انفس تیار نہیں کہ اسی فیصدی ایسے ہیں.لیکن اگر زیادہ بھی ہوں تو چونکہ ہمیں علم نہیں اور قرآن کریم کا حکم ہے لا تقفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم، یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو.ہمیں کوئی حق نہیں کہ ایسی بات کہیں.میں اس بات سے بھی متفق نہیں ہوں کہ جو لوگ ایسے ہوں ان کے متعلق بھی یہ کہا جاسکتا ہو کہ وہ لوگ بے غیرت ہیں.ہم صرف اس قدر کہنے کے حقدار ہوں گے کہ ان میں ایک گناہ پایا نی جاتا ہے لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت نہیں.اس حقیقت کی کے ہوتے ہوئے بھی کہ اگر ان کے ماں باپ کو گالی دی جائے تو ان کو غصہ آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالی دی جائے تو نہیں آتا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ماں باپ کو گالی ملنے پر
خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۳۸ء غصہ کا آنا محبت کا مقام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالی ملنے پر غصہ نہ آنا عدم محبت کا مقام ہے کیونکہ اگر کوئی شخص دو موقعوں میں سے ایک موقع پر کمزوری دکھاتا ہے تو ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم اس کمزوری والے موقع کو تو اس کی اصل حالت سمجھیں اور دوسری کو بناوٹ کہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بات اس کے الٹ ہو.کوئی شخص کبھی جھوٹ بولتا ہے اور کبھی سچ.تو ہمارا یہ حق نہیں کہ اس کے جھوٹ کو اس کی اصلی حالت قرار دیں.اور سچ کو بناوٹ کہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی اصلی حالت سچ بولنے کی ہی ہو اور جھوٹ وہ کبھی گھبراہٹ میں بول دیتا کج ہو اور جب یہ دونوں صورتیں ممکن ہیں تو ہمارا حق کیا ہے کہ اس کی گناہ والی حالت کو اصل قرار دیں.زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پتہ نہیں اس کی اصل حالت کیا ہے.مزید دلائل ملیں تو پتہ لگے لیکن یہ حق ہمارا نہیں کہ اس کی کمزوری والی حالت کو درست سمجھیں اور اس سے مطالبہ کریں کہ فلاں موقع پر جو کمزوری تم نے دکھائی تھی.وہی اب دکھاؤ.ایک موقع پر ایک شخص چوری کرتا ہے اور دوسرے موقع پر نہیں کرتا تو کیا ہمارا حق یہ ہے کہ اسے کہیں دوسرے موقع پر بھی چوری کرو.یا یہ حق ہے کہ ہم اسے یہ کہیں کسی موقع پر بھی چوری نہ کرو.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک شخص دو فعل کرتا ہے جن میں سے ایک شریعت کے خلاف ہے اور دوسرا مطابق.تو ہم پر یہی واجب ہے کہ ہم اس سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ ہر موقع پر ہی شریعت کے مطابق کام کیا کرے.سو ہماری نصیحت ایسے لوگوں کے لئے یہ ہوگی کہ اپنے کی اور اپنے رشتہ داروں کے متعلق گالیاں سن کر بھی صبر کرو جس طرح تم ان سے زیادہ محبوب حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو گالیاں سن کر کرتے ہو.اور ہم ان سے یہ نہیں کہیں گے کہ جس طرح ماں باپ کو گالی سن کر تمہیں غصہ آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوسن کر بھی اسی طرح کیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گالی سن کر اس کا صبر کرنا نیکی ہے اور ماں باپ کے متعلق گالی سن کر لڑ پڑنا گناہ ہے اور ہمارا اس سے یہ مطالبہ کسی طرح جائز نہیں کہ دونوں موقعوں پر گناہ کرو بلکہ ہم یہی کہیں گے کہ دوسرے موقع پر صبر کرو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ماں باپ کے لئے تم کو غصہ آیا تھا.تو حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے لئے کیوں نہیں آتا بلکہ اس کی غیرت کو چی
خطبات محمود ۳۸۶ سال ۱۹۳۸ء اس طرح بھڑ کا ئیں گے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے متعلق گالی سن کر تم نے صبر کیا تھا ج اپنے ماں باپ کے متعلق گالی سن کر بھی ویسا ہی صبر کرو.لیکن جو ہماری اس نصیحت کو نہ مانیں انہیں بھی ہم بے غیرت نہیں کہیں گے.کیونکہ گوممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق گالی سن کر بعض لوگ بے غیرتی کی وجہ سے ہی چُپ رہتے ہوں.مگر بعض کے لئے اور وجوہ بھی ہو سکتی ہیں اور ہمیں ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.جب نیک اور بد دونوں وجوہ ہو سکتی ہیں تو ہم کیوں نہ نیک وجہ لیں.یا د رکھنا چاہئے کہ دنیا میں بہت سے کام عادتوں سے تعلق رکھتے ہیں.ایک شخص کے سامنے دونوں مواقع آتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی گالی دی جاتی ہے اور اس کے باپ کو بھی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق گالی سنتا اور صبر کرتا ہے لیکن جب اس کے باپ کو گالی دی جاتی ہے تو وہ لڑ پڑتا ہے اور صبر نہیں کرتا.اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ یہی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ گالیوں کو سن کر صبر کرو اور چُپ رہو.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک شخص کے سامنے آپ کو گالی دی جاتی ہے تو اسے فورا آپ کی یہ تعلیم یاد آ جاتی ہے اور وہ خاموش ہو جاتا ہے لیکن اس کے باپ نے کبھی اسے ایسی نصیحت نہیں کی اس لئے جب باپ کو گالی ملتی ہے تو چونکہ صبر کے متعلق اس کی کوئی تعلیم بیٹے کو یاد نہیں آتی وہ لڑ پڑتا ہے.پس ہم بجائے یہ نتیجہ نکالنے کے کہ اس نے بے غیرتی دکھائی یہ کیوں نہ نکالیں.کہ یہ بے غیرتی سے نہیں بلکہ اس کے باپ کی طرف سے تربیت میں کمی کی وجہ سے ہے.تعلیم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا حق ادا کر دیا کہ گالیاں سنو اور صبر کرو ، چپ رہو اور جب ایسا موقع آیا ، یہ تعلیم اسے یاد آ گئی.فوراً اس کے لئے روشنی پیدا ہوئی اور اندھیرا جاتا رہا.باپ نے اسے ایسی تعلیم نہ دی تھی.اسی لئے اندھیرا ہی رہا اور اندھیرے میں ہی وہ لڑ پڑا.میں نے گزشتہ خطبہ میں اس امر پر زور دیا تھا کہ جذباتی فیصلے بسیط اور مرکب ہوتے ہیں.آج میں بتاتا ہوں کہ اسی طرح نیکیاں اور بدیاں بھی بسیط اور مرکب ہوتی ہیں.محض کسی نام کو لے کر ہم فتوے نہیں لگا سکتے کہ ان کے ماتحت کیفیت بھی ایک ہی ہے کیونکہ ایک نام کے
خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۸ء ما تحت بھی کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں مثلاً چوری ہے.چوری کا لفظ ہر چوری کی نسبت بولا جائے گا مگر اس لفظ کا اطلاق اتنے کاموں کے لئے کیا جاتا ہے کہ بعض بعض سے بہت ہی مختلف ہوتے ہیں.چونکہ چوری کا ہمارے ملک میں عام رواج ہے.میں اسی کی وضاحت کر دیتا ہوں کیونکہ دوستوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی.ہمارے زیادہ تر دوست زمیندار ہیں اور انہی ہی کے ذہن نشین کی کرانے کی زیادہ ضرورت ہے.وہ اس مثال سے میرے مطلب کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے.بوجہ اس کے کہ ان کے ارد گرد کثرت سے یہ فعل کیا جاتا ہے.چوری کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی ربچا کر اس کی چیز کو لے لینا مگر اس کی آگے کئی اقسام ہیں.جانورں کی چوری ، روپیہ کی چوری کھیتی کی چوری ، جوتیوں کی چوری، رومالوں وغیرہ کی چوری.مگر رومالوں اور جوتیوں وغیرہ کی چوری تو تعلیم یافتہ لوگوں کی چوری ہے.زمیندار تو شاید اسے سمجھ بھی نہ سکیں.لیکن پہلی تین قسموں کی چوریوں کو وہ خوب سمجھتے ہیں کوئی شخص رو پیدا اور مال کا چور ہوتا ہے کوئی کھیتی کا کوئی جانوروں کا ، پھر آگے چوری کرنے کے کئی طریقے ہیں.اُچک کر لے جانا ، بھگا کر لے جانا ، باہر سے کسی کا مال اٹھا کر لے جانا ، سیندھ لگانا ، اب میں چوری کی جنس کے لحاظ سے تقسیم بتا تا ہوں.اور ہمارے دوست سمجھ جائیں گے.ایک ہی لفظ میں بیسیوں معنے ہوتے ہیں.ایک شخص جو جانوروں کی چوری کرتا ہے.وہ بالعموم سیندھ لگا کر چوری نہیں کرے گا، خواہ کچھ بھی ہو جائے.وہ اسے اپنے لئے ذلت قرار دے گا اور کہے گا کہ چوہڑوں کے ساتھ مل کر سیندھ لگانا بڑی ذلت کا کام ہے.اضلاع گوجرانوالہ ، شیخو پورہ اور گجرات میں جانوروں کی چوری بہت ہے.حتی کہ ان اضلاع میں اس چیز کو عیب نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہاں تک کہ کچھ عرصہ ہوا گوجرانوالہ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے اپنے ایک فیصلہ میں لکھا تھا.چوری کے الزام میں میں ملزم کو سزا تو دیتا ہوں.کیونکہ قانون کا منشاء یہی ہے.لیکن میں اسے چوری نہیں سمجھتا کیونکہ یہ چیز تو ان لوگوں کے لئے معمولی بات ہے اور ایک دوسرے سے انتقام لینے کا ذریعہ ہے.حق یہ ہے کہ اس چوری کا بعض قبائل میں تو اس قدر رواج ہے کہ لڑکے کو پگڑی نہیں باندھی جاتی جب تک وہ گائے یا بھینس چرا کر اپنی بہن کو نہ لا دے.یہ بات ہمارے نانا جان صاحب مرحوم و مغفور.کسی نے کہہ دی اور یہ ان کے دل میں میسیج کی طرح گڑ گئی کہ ان اضلاع کے سب لوگ چور
خطبات محمود ۳۸۸ سال ۱۹۳۸ء ہوتے ہیں.چنانچہ وہ ایک دن مسجد میں فرمانے لگے کہ ضلع گجرات کے سب لوگ چور ہوتے ہیں.میرا طریق یہی ہے اور یہی درست ہے.نہ کوئی قوم ساری کی ساری بُری ہوتی ہے اور نہ اچھی.اس لئے میں نے ان کی تردید کی اور کہا کہ سارے تو چور نہیں ہوتے.ہاں میں یہ مان لیتا ہوں کہ بعض قوموں میں چوری کی عادت بہت زیادہ ہوگی مگر ان کے دل میں یہ خیال اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ کہنے لگے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کوئی شخص ضلع گجرات کا ہو اور پھر چور نہ ہو.میں نے خیال کیا کہ اس مجلس میں اس ضلع کے بھی کوئی دوست بیٹھے ہوں گے اور ان کو اس بات سے تکلیف ہوگی اس لئے زیادہ زور کے ساتھ ان کے اس خیال کی تردید کی مگر انہوں نے اور زیادہ وثوق کے ساتھ اپنی بات پر اصرار کیا.آخر میں نے سمجھا کہ اس بات کے ازالہ کا طریق یہی ہے کہ کہ میں جماعت کے کسی بڑے اور معزز آدمی کا نام لوں اس کا نام سن کر یہ خاموش ہو جائیں گے اور میں نے سوچ کر حافظ روشن علی صاحب مرحوم کا نام لیا کہ وہ بھی گجرات کے ہیں.مجھے معلوم تھا کہ میر صاحب مرحوم حافظ صاحب کے علم اور تقوی کے قائل تھے.میر صاحب مرحوم نے جب ان کا نام سنا تو تھوڑی دیر خاموش رہے اور میں نے سمجھا کہ میری تدبیر کارگر ہوگئی مگر وہ ذرا سی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر بولے اور کہا کہ حافظ صاحب گجرات کے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں کی تو وہ فرمانے لگے تو پھر وہ بھی ضرور چور ہوں گے.میں نے آخر کہا کہ آپ اس امر پر اس قدر زور کیوں دے رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس ضلع میں یہ رسم ہے.کہ جب تک کوئی کی جانور چرا کر اپنی بہن کو نہ دے اُس کے سر پر پگڑی نہیں رکھی جاتی.ان کا جواب سن کر مجھے خیال ہوا کہ حافظ صاحب کا نام سننے پر جو وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہے تھے.تو شاید یہ یاد کر نے کے لئے خاموش ہوئے تھے کہ حافظ صاحب پگڑی باندھتے ہیں.یا نہیں.اب یہ بات جس نے میر صاحب کو بتائی کہ ہر گجرات کے آدمی کو اک دفعہ ضرور گائے یا بھینس چرانی پڑتی ہے.ہے تو غلط لیکن یہ مثال اس حقیقت کا ایک مبالغہ آمیز نقشہ ضرور ہے.جو گجرات ، گوجرانوالہ ، شیخو پورہ کے اضلاع کے بعض قبائل میں بدقسمتی سے پائی جاتی ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اضلاع میں یہ مرض وسیع ہے کہ جانوروں کی چوری کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا.بلکہ جو زیادہ نامی چور ہو اتنا ہی معزز سمجھا جاتا ہے.ایک الیکشن کے موقع پر ان اضلاع میں سے ایک ضلع میں ہے
خطبات محمود ۳۸۹ سال ۱۹۳۸ ایک رئیس کونسل کی امیدواری کے لئے کھڑے ہوئے.ان کی طرف سے سب ووٹروں کو پیغام بھیج دیا گیا.یا تو ووٹ رکھ لو اور یا بھینس دونوں میں سے ایک چیز تو ہمیں دینی پڑے گی.مطلب یہ تھا کی کہ اگر مجھے ووٹ نہ دیئے گئے تو تمہاری سب بھینسیں چوری ہو جائیں گی.زمینداروں کے نزدیک ووٹ کی کیا قیمت ہوسکتی ہے.بھینس کی قیمت تو ان کے نزدیک بہت ہے.خود دودھ گھی کھاتے اور بچوں کو کھلاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوا.کہ وہ الیکشن میں جیت گئے.مگر دوسرے فریق نے شکایت کر دی کہ یہ الیکشن تو پہلے ہی ہو چکا تھا.آخر وہ الیکشن ناجائز قرار پایا اور اس رئیس کو امیدوار کھڑا ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا.دوبارہ الیکشن ہوا تو اس کا دوسرا بھائی کھڑا ہو گیا اور پھر یہی پیغام ووٹروں کو بھیج دیا گیا اور زمینداروں نے چُپ کر کے ووٹ دے دیئے اور پھر کسی نے شکایت بھی نہ کی کہ اگر اس کا انتخاب ناجائز ہو گیا تو تیسرا کھڑا ہو جائے گا.مگران جانوروں کی چوری کروانے والوں کو اگر تم قتل بھی کر دو تو وہ سیندھ کبھی بھی نہیں لگائیں گے.نہ ایسے فعل میں اور نہ کسی اور رنگ میں شرکت کریں گے.اور صاف کہہ دیں گے.ہم شریف لوگ ہیں ذلیل نہیں کہ ایسے کام کریں.پھر ایک چوری کھیتی کی ہے ہمارے ضلع میں دریا کے کنارے یہ بہت ہے تم بسا اوقات دیکھو گے کہ ایک راہ گیر اپنے گھوڑے سے اتر کر اسے پاس کے کھیت میں چھوڑ دیتا ہے اور خود نماز میں مشغول ہو جاتا ہے.اس کے خیال میں اس سے اس کی عبادت میں کوئی نقص نہیں آتا.گویا حسن ہی باقی نہیں رہی کہ یہ بھی چوری ہے.پھر تعلیم یافتہ لوگوں میں ایک چوری ریل کی کے کرایہ کی ہوتی ہے.ریل میں مفت سفر کریں گے.یا تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لے کر انٹر یا سیکنڈ میں بیٹھ جائیں گے اور وہ اسے چوری نہیں.بلکہ اپنی زیر کی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں.مجھے یا د ہے میں چھوٹا ہی تھا اور نانا جان مرحوم کے ساتھ سفر کر رہا تھا نانا جان مرحوم بات کرنا خوب جانتے تھے.مجھے تو اب تک یہ نہیں آتا.میں خود بات نہیں کر سکتا کوئی کرے تو کر سکتا ہوں مگر نانا جان مرحوم کو اس کا خوب ملکہ تھا.وہ بات کہیں سے شروع کر کے کہیں لے آتے اور پھر تبلیغ کر دیتے تھے.تو اس سفر میں میر صاحب نے دنیا کی عام اخلاقی حالت کا تذکرہ شروع کر دیا.کہ ایسی ایسی بدیاں دنیا میں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں اور کہ ان کا تقاضا ہے
خطبات محمود ۳۹۰ سال ۱۹۳۸ء کہ کوئی ما مور مبعوث ہو.اس مجلس میں ایک بڑھا شخص بیٹھا ہوا تھا.میر صاحب کی بات سن کر وہ کہنے لگا.کہ جی دنیا کی خرابی کے متعلق آپ کو کیا معلوم ہے.میں جانتا ہوں کہ دنیا میں کیا کیا خرابیاں ہیں اور بدیاں پیدا ہو چکی ہیں.آپ تقویٰ کو رو رہے ہیں حالانکہ دنیا میں انسانیت کا بھی نام باقی نہیں رہا.میں جیل کا داروغہ ہوں ، میرا ملزموں سے واسطہ رہتا ہے اور میں ان برائیوں سے خوب واقف ہوں.غرض کہ وہ مجلس پر ایسا چھا گیا کہ میر صاحب کو بات کا موقع تک نہ مل سکا.اس کی گفتگو سن کر یہ عام اثر تھا کہ وہ بہت اچھا پڑھا لکھا آدمی ہے اور اخلاق کا ماہر ، اتنے میں ایک سٹیشن آیا جہاں ٹکٹ چیک ہوتے تھے چنانچہ ہمارے کمرہ میں بھی جو انٹر کلاس تھا ایک ٹکٹ چیک کرنے والا آ گیا.اس نے ٹکٹ دیکھنے شروع کئے تو ہوا تھا.یہ معلوم ہو ا کہ ان صاحب کا ٹکٹ تھرڈ کلاس کا تھا.بابو نے کہا کہ یہ ٹکٹ تو تھر ڈ کا ہے اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص جلدی میں یا تھرڈ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ کر بیٹھ جائے کہ آگے چل کر زائد کرایہ دے دوں گا لیکن اس سے جب بابو نے سوال کیا تو بجائے اس کے کہ وہ اس قسم کا جواب دیتا اس کے چہرہ کا نقشہ ہی بالکل بدل گیا اور ایک ہوشیار جہاں دیدہ کی جگہ چہرہ پر سے حمق اور سادگی کے آثار نظر آنے لگے اور وہ نہایت ہی سادگی سے کہنے لگا کہ کیوں صاحب! یہ انٹر کیا ہوتا ہے؟ اور سب وہ لوگ جو ابھی اس کی تقریر سن رہے تھے.اور یوں محسوس کر رہے تھے کہ وہ گویا دنیا کی انسائیکلو پیڈیا ہے حیران رہ گئے.بابو نے اسے ایک بیوقوف بڑھا سمجھ کر کہا اچھا میں تم سے کوئی زائد کرایہ وصول نہیں کرتا تم اب اٹھ کر تھرڈ میں چلے جاؤ اور اس نے اسے تھرڈ کے کمرہ کا رنگ بتایا کہ اس رنگ کا کمرہ ہے.اس پر وہ کہنے لگا کہ میں تو بوڑھا آدمی ہوں کس طرح سامان اٹھاؤں آپ یہ دو پیسے لے لیں اور وہاں میرا اسباب چھوڑ آئیں.گویا وہ اتنا سادہ آدمی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ریلوے کا با بو ہے یا قلمی.اور گویا یہ پہلی دفعہ ہی سفر کرنے لگا ہے.تو ایسے لوگ بھی ہیں جو ریل کی چوری کو چوری نہیں سمجھتے.جس طرح قادیان میں ایک ایسا طبقہ ہے جو لنگر کی روٹی کی چوری کو چوری نہیں سمجھتا.یا جیسے میرے پاس اکثر شکائتیں پہنچا کرتی تھیں کہ مقبرہ بہشتی میں درختوں کے پھول یا پھل لوگ تو ڑ لیتے ہیں اور جن لوگوں نے باغ خریدا ہوا ہوتا ہے ان سے لڑائی ہو جاتی ہے اور جب کسی کو
خطبات محمود ۳۹۱ سال ۱۹۳۸ء منع کیا جائے تو وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ صرف برکت کے لئے یہاں کی چیز لی ہے.آخر میں نے انجمن والوں کو حکم دیا کہ یہاں کے پھول اور پھل آئندہ فروخت نہ کئے جائیں کیونکہ اس طرح مہمانوں کی ہتک بھی ہوتی ہے اور خواہ مخواہ لوگوں کو مصیبت میں ڈالا جاتا ہے کیونکہ لوگ برکت کی چیز خیال کر کے ہاتھ ڈال ہی دیتے ہیں.تو چوری بُری چیز ہے.مگر بعض لوگوں کے لئے بعض مواقع پر یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں کام بھی چوری ہے.ہاں ایک دوسرے فعل کو وہ فورا چوری قرار د دے دیں گے اور انہیں غصہ آجائے گا کہ یہ ایسا گندہ شخص ہے جو چوری کرتا ہے.اب آپ لوگ خیال کر لیں کہ چوری کی بھی کئی اقسام ہیں اور صرف چوری کے نام سے یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ سب چوریاں ایک ہی قسم کی ہوتی ہیں.ٹکٹ کی چوری کرنے والا بھی چور ہے مگر وہ کسی کی بھینس یا روپیہ نہیں چرائے گا بلکہ اسے بہت بُرا سمجھے گا.بعض بڑے بڑے معززائی.اے سی اور ڈپٹی کمشنر کے مرتبہ کے لوگ پلا ٹکٹ سفر کرتے ہیں.کچھ عرصہ ہوا ایک ڈپٹی کمشنر کو سزا ہوئی تھی کہ وہ ہمیشہ پلیٹ فارم کی ٹکٹکی لے کر ریل میں سوار ہو جاتا تھا اور جہاں پہنچنا ہوتا وہاں کسی دوست کو لکھ دیتا کہ میرے لئے ایک پلیٹ فارم ٹکٹ لیتے آنا اور وہی دکھا کر باہر چلا جاتا.وہ خود منہ میں جھاگ لا لا کر چوروں کی کو سزا دیتا ہوگا.کہ خبیثو اور بے حیا کا تمہیں شرم نہیں آتی چوری کرتے ہومگر خود اسے احساس تک نہیں تھا.مختصر یہ کہ نیکیوں اور جرائم کی اقسام ہوتی ہیں.یہ نہیں جو ایک قسم کی چوری کرتا ہے وہ دوسری قسم کی بھی کر سکتا ہے.نہ صرف یہ کہ وہ اسے کر نہیں سکتا بلکہ بہت بُراسمجھتا ہے.پس جو شخص ایک جگہ جوش دکھاتا ہے ضروری نہیں کہ دوسری جگہ ایسا کرتا ہو اور دوسری جگہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے دکھانا بے غیرتی کی وجہ سے ہو.عین ممکن ہے ایک جگہ وہ عادت کی وجہ سے اور پھر ایک جگہ غلطی دیکھ کر ہمارا یہ فرض نہیں کہ دوسری جگہ بھی غلطی کرا ئیں بلکہ چاہئے کہ اس جگہ بھی صحیح کرا ئیں.یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اے بے غیر تو ! اپنے ماں باپ کے لئے گالی سن کر تم جوش میں آجاتے ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے سن کر کیوں جوش میں نہیں آتے بلکہ ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ اے عزیزو! اپنے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے جوش دکھا کر
خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۸ء تم اپنی حالت کو کیوں مشتبہ کرتے ہو.ہمت کرو اور جس طرح حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوة والسلام کے متعلق گالی سن کر تم صبر دکھاتے ہو اسی طرح اپنے اور اپنے ماں باپ کے متعلق سن کر صبر دکھاؤ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اِتَّقُوا مَوَاقِعَ الْفِتَنِ 2 لوگوں کو اپنے اوپر اعتراض کا موقع نہ دو.پس یہ میچ نہیں کہ ایک جگہ اگر کوئی غلطی کرے تو دوسری جگہ بھی اسے غلطی کرنے کے لئے کہیں بلکہ کوشش یہ کرنی چاہئے کہ دونوں موقعوں پر غلطی سے بچنے کے لئے کہیں.قادیان کے ایک معزز دوست کا خیال تھا کہ ممکن ہے مصری اور اس کے ساتھی جو الزام خلیفہ المسیح اور خاندان مسیح موعود پر لگاتے ہیں یہ غلط فہمی ہے اور وہ نیک نیتی سے ایسا سمجھتے ہیں اس لئے ان پر اظہار ناراضگی نہیں کرنا چاہئے.انہیں ایام میں احتیاطا ریل پر بٹالہ آنے اور جانے والے آدمیوں کے نام لکھے جاتے تھے تا یہ معلوم ہو سکے کہ ان لوگوں سے ملنے کے لئے منافق لوگ کیا کیا تدبیریں کرتے ہیں لا زما ان ایام میں ہر شخص کا نام لکھا جاتا تھا ں ہر شخص کا نام لکھا جاتا تھا حتی کہ خود ناظروں کا نام بھی لکھا جاتا تھا انہیں کسی طرح معلوم ہوا کہ ان کا نام بھی بعض دفعہ لکھ کر فہرست میں پیش ہوا ہے انہیں اس پر بہت جوش آ گیا اور اس پہرہ دار سے لڑ پڑے کہ میں تجھے سیدھا کر دوں گا.جب ذمہ دار کارکنوں تک یہ رپورٹ پہنچی تو انہوں نے ان کی اس حرکت کو بہت بُرا منایا اور بعض نے اسے منافقت کا نتیجہ قرار دیا.جب میرے پاس یہ رپورٹ آئی تو میں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان صاحب نے اپنے آپ کو خود ایک الزام کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے اور کہنے والا سکتا ہے کہ صاحب مصری پر اظہار ناراضگی ان تمام الزامات کے باوجود جو وہ خلیفہ پر لگا تا تھا آپ کے نزدیک قابل رنج نہ تھا مگر آپ کا محض نام لکھ دینا ایک نا قابلِ معافی گناہ بن گیا ہے لیکن پھر بھی ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ یہ ان کا غصہ عادت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے.ممکن ہے کہ ان کو اپنے متعلق غصہ آنے کی عادت پڑی ہو اور ہم چونکہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ دشمنوں کی گالیوں پر صبر سے کام لو، اس موقع پر ان کے خیالات دیانتداری سے یہی ہوں لیکن اپنے متعلق شبہ کے وقت چونکہ کوئی ایسی تعلیم سامنے نہ تھی ان کو غصہ آ گیا.پس چونکہ ان کے فعل کی ایک کی دوسری تو جیہہ ہوسکتی ہے اس لئے بدظنی کرنے یا ان کو منافق سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں.تو ایسے واقعات کثرت سے پیش آتے رہتے ہیں اور مومن کا یہی کام ہے کہ وہ نیکی والا پہلو لے.
خطبات محمود ۳۹۳ سال ۱۹۳۸ء دوسرا اعتراض یہ ہے کہ میاں عزیز احمد صاحب کی پہلے کوئی مدد نہیں کی گئی جب خلیفتہ اسیح کی پر اعتراض ہوئے تب خیال آیا.سو یہ بھی غلط فہمی ہے.گوداسپور میں جو وکیل ان کی طرف سے پیش ہوا وہ فوجداری میں اس علاقہ کا بہترین وکیل ہے مگر ہماری طرف سے جیسا کہ ایسے ہر موقع پر نصیحت ہوتی ہے میاں عزیز احمد کو یہی نصیحت تھی کہ سچ بولیں.اگر غلطی ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ اس کی سزا اسی دنیا میں بھگت لیں.قاضی محمد علی صاحب مرحوم کو بھی میں نے یہی نصیحت کی تھی اور ان کو بھی یہی پیغام پہنچایا تھا کہ اگر قصور ہے تو اس کا اقرار کرلو.چنانچہ انہوں نے اقرار کر لیا اور اقراری ملزم کو لائق سے لائق وکیل بھی نہیں چھڑا سکتا.تاہم وکیل نے دیانتداری کے ساتھ دفاع کیا اور اس کی بحث کو سن کر عدالت میں موجود لوگوں میں سے اسی فیصدی کا یہی خیال تھا کہ پھانسی کی سزا نہیں ہو سکتی بلکہ بعض سرکاری افسروں نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ معاملہ اتنا واضح ہے کہ پھانسی کی سزا نہیں ہو سکتی مگر مجسٹریٹ کا نقطہ نگاہ اور ہوتا ہے اور وکیل کا اور لائق سے لائق وکیل آتے ہیں مگر مجسٹریٹ ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا.ہائی کورٹ میں ان کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے.وہ بھی نوجوانوں میں ترقی کرنے والے ہیں اور ایسے نوجوان طبقہ میں سے ایسے وکیل ہیں جن پر لوگوں کی نظریں ہیں کہ کبھی بہت ترقی کر جائیں گے.وہ بھی جب بحث ختم کر کے آئے تو تمام وکلا ء نے ان کو مبارک باد دی کہ تم کیس جیت گئے ہو مگر جوں نے اور فیصلہ کر دیا اور اس فیصلہ میں کوشش یا عدم کوشش کا کوئی سوال نہیں.فیصلہ تو آخر جج نے کرنا ہوتا ہے وکیل نے نہیں.پھر یہ بھی غلط ہے کہ جماعت میں جوش پیدا ہوا تو خرچ بھی کیا گیا.جماعت میں جوش اس لئے پیدا ہوا کہ فیصلہ میں بعض ریمارک نا مناسب تھے.مجھے ذاتی طور پر پورا پورا علم تو نہیں مگر جہاں تک میرا خیال ہے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپیل کے لئے جو وکیل ہماری طرف سے کیا گیا تھا ان کے خرچ سے گورداسپور کے وکیل کا خرچ غالباً کم نہ تھا.پھر جیسا کہ میں بتا آیا ہوں.جذبات کا فیصلہ صرف فعل سے نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جس پر حملہ ہوا ہے اُس کی اہمیت کیا ہے.ایک حملہ ایک عام احمدی پر ہو اور ایک خلیفہ وقت پر ہو اور پھر یہ خیال کیا جائے کہ دونوں کے متعلق ایک سے جذبات جماعت میں پیدا ہوں.
خطبات محمود ۳۹۴ سال ۱۹۳۸ء حماقت کی بات ہے.ماں باپ پر حملہ کے وقت انسان کے اندر اور قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور محلہ کے کسی آدمی پر حملہ کی صورت میں اور قسم کے.پھر الزام کی حقیقت بھی دیکھی جاتی ہے.عزیز احمد صاحب پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ایک شخص پر حملہ کیا اور وہ اس کو تسلیم کرتے تھے لیکن جو الزام مجھ پر سمجھا گیا تھا اسے نہ میں تسلیم کرتا ہوں اور نہ جماعت.چنانچہ ہائی کورٹ کے پہلے فیصلہ کے وقت یہ خیال کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ نے یہ کہا ہے کہ میں نے قتل کی تحریک کی.نہ میں اسے تسلیم کرتا تھا کہ میں نے ایسی تحریک کی تھی اور نہ جماعت اس کو صحیح سمجھتی تھی.پس جہاں الزام غلط سمجھا جائے وہاں یقینا زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے.میں نے کہا ہے کہ جو الزام مجھ پر سمجھا گیا تھا.یہ الفاظ میں نے اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ہائی کورٹ نے بعد میں فیصلہ کیا کہ جو معنے جوں کے فیصلہ کے کئے گئے ، وہ غلط تھے اور وہ ان کے خیال میں بھی کبھی نہ تھے.میرے کان میں مصری پارٹی کی یہ آواز بھی پہنچی ہے کہ ہم پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم ہائی کورٹ کی فیصلہ کے یہ معنی کیوں کرتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطبوں میں قتل کی تحریک کی یا انگیخت کی.حالانکہ خود ہی اس پر پہلے شور کیا تھا اور اشتہار شائع کیا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے قبل لوگوں نے وہ معنے سمجھے تھے اور اس وجہ سے ہمیں تکلیف ہوئی اور ہم نے ان معنوں کو مد نظر رکھ کر اظہار رنج کیا اور اس وقت تک ہم کسی پر ان معنوں کی وجہ سے بددیانتی کا الزام نہیں لگاتے تھے لیکن ہائی کورٹ کے دوسرے فیصلہ کے کی بعد بھی جو وہ معنے لیتا ہے ہم مجبور ہیں کہ اسے بددیانت کہیں.پہلے مصری پارٹی اور احراری دونوں غلط معنے کرتے تھے مگر ہم نے کسی کو بددیانت نہیں کہا حالانکہ حقیقتا جوں کے نزدیک وہ بات نہ تھی جو یہ لوگ پیش کرتے تھے کشتی کہ ایک جج نے دوسرے مقدمہ کی سماعت کے دوران میں کہا کہ جب ہمارا یہ مطلب ہی نہیں تو اگر کوئی بے وقوف یہ معنے لیتا ہے تو ہمیں کیا لیکن پھر انہوں نے فیصلہ بھی لکھ دیا کہ ان کا یہ مطلب نہیں تھا.اور اگر اب کوئی پہلے فیصلے کے وہ معنے کرتا ہے جو دوسرے فیصلے سے قبل کئے جاتے تھے تو وہ یقیناً بد دیانتی کرتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانا شرک ہے بھی لیکن پہلے براہین احمدیہ میں خود یہ عقیدہ بیان کر چکے ہیں.اب اگر
خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۳۸ کوئی شخص کہے کہ پھر آپ بھی شرک کے مرتکب ہوئے ہیں تو ہمارا یہی جواب ہوگا کہ ہرگز نہیں.آپ نے اُس وقت یہ خیال ظاہر کیا تھا جب قرآن کریم اور الہام الہی سے وضاحت نہیں ہوئی تھی.شرک کے مرتکب وہ ہیں جو اس وضاحت کے بعد ایسا کرتے ہیں.غرض جس طرح براہین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ لکھنے کی وجہ سے نہ غیر احمدی بری ہوتے ہیں نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض پڑتا ہے.اسی طرح پہلے فیصلہ کے وقت میں ہمارا رنج کرنا دوسرے فیصلہ کے بعد بھی الزام لگانے والوں کو نہ بری کرتا ہے اور نہ اس سے ہم پر کوئی الزام آتا ہے.بعض لوگ ہمارے مخالفوں میں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لوگ یونہی جھوٹی خوشی کر رہے ہیں.ہائی کورٹ نے تو ان کی اپیل مسترد کر دی ہے اس لئے ہم جو کہتے ہیں وہی درست ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ درست ہے تو اس فیصلہ کو جو فخر الدین صاحب کے لڑکے نے شائع کی کیا حکومت نے ضبط کیوں کر لیا حالانکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کوئی ضبط نہیں کر سکتا.یہ حق حکومت کی کو اسی وجہ سے حاصل ہوا کہ اسے غلط معنوں میں پیش کیا جاتا تھا پس ضبطی نے بتا دیا کہ جو معنے اس کے پہلے سمجھے گئے تھے وہ صحیح نہ تھے.اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت اسے ہرگز ضبط نہ کر سکتی تھی کیونکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو اسی صوبہ کی حکومت ضبط نہیں کر سکتی لیکن اب تو باقی حکومتیں بھی کی اسے ضبط کر رہی ہیں.چنانچہ کشمیر گورنمنٹ نے بھی اسے ضبط کر لیا ہے.اس پر ایک مسلمان اخبار نے لطیفہ کے رنگ میں لکھا ہے کہ حکومت کشمیر اتنی پاگل ہے کہ اسے اتنا بھی علم نہیں کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ضبط نہیں کر سکتی.اس اخبار کو علم نہیں کہ کشمیر گورنمنٹ پنجاب ہائی کورٹ کے ماتحت نہیں.وہ تو اگر چاہے تو اپنے علاقہ میں اصل فیصلہ کو بھی ضبط کر سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو کتاب ضبط کی گئی ہے وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں.بلکہ وہ کتاب ہے جس کا نام ہائی کورٹ کاج فیصلہ رکھ کر اس کے اندر ہائی کورٹ کے فیصلہ کی غلط تشریح کر دی گئی ہے.غرض جب تک دوسرا فیصلہ نہیں ہوا اُس وقت تک ہم خود غلط فہمی میں تھے مگر دوسرے فیصلے نے حقیقت کھول دی اور اب جو بھی یہ کہتا ہے کہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ امام جماعت احمد یہ نے میاں فخر الدین کے قتل کی انگیخت کی تھی وہ جھوٹ بولتا ہے اور اگر وہ دیانتدار ہے تو
خطبات محمود ۳۹۶ سال ۱۹۳۸ء اسے چاہئے کہ لوگوں میں بیٹھ کر ایسے خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے انہیں شائع کرے پھر اسے بھی اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے.“ (الفضل و ر جولائی ۱۹۳۸ء) لمسلم كتاب التوبة باب غَيْرَةُ الله تعالى (الخ) مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۲۷، ۲۸ - المكتب الاسلامي بيروت التوبة:٣٢ النحل: ٩١ مسلم کتاب الایمان باب بيان كون النّهى عن المنكر من الايمان (الخ) ل وَقَدْ نَزِّلَ عَلَيْكُمْ في الكتب أن إذَا سَمِعْتُمْ أَيْتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَ يستهزا بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ (النساء: ۱۴۱) کے بنی اسرائیل: ۳۷ موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۱۶ مطبوعہ دھلی ۱۳۴۶ ھ میں یہ الفاظ ہیں اِتَّقُوا مَوَاقِعَ التُّهَم
خطبات محمود ۳۹۷ ۲۱ سال ۱۹۳۸ میاں عزیز احمد صاحب مرحوم سے متعلق اپنوں کے خیالات اور معاندین کے اعتراضات ( فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - د میں گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں اب وہ اعتراضات لیتا ہوں جو ہمارے اندر سے بعض نکل جانے والے آدمیوں کی طرف سے یا ان کے بھائی احرار کی طرف سے اپنے خطبوں یا پرائیویٹ مجالس میں بیان کئے گئے ہیں.ان دو اعتراضوں میں سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کی حالانکہ ان کے مقدمات پر ہزاروں روپیہ خرچ کر دیا گیا ہے.ورنہ وہ غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک مقد مہ کیونکر لڑ سکتا تھا ، گویا یہ جو مرکز کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کی یہ درست نہیں ور نہ ہائیکورٹ اور پر یوی کونسل تک مقدمہ میاں عزیز احمد صاحب جیسا غریب آدمی کیونکر لڑسکتا تھا.پہلے تو میں اصولی طور پر اس امر کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی شخص کا مجرم انکشاف کے بعد ثابت ہوتا ہے نہ کہ پہلے.خالی الزام کسی کے مجرم کو ثابت نہیں کیا کرتا.( میں زیادہ تر
خطبات محمود ۳۹۸ سال ۱۹۳۸ء اس مضمون میں اصول کے لحاظ سے ہی بحث کروں گا کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے کارآمد ہوتے ہیں ور نہ اعتراض تو لوگ کرتے رہتے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے ) تو رائج شدہ اصل دنیا میں یہی کی ہے اور یہ اسلام کا اور باقی تمام مذاہب کا بھی مسلمہ اصل ہے اگر بعض مسلمان کہلانے والے یا یہودیت کو سچا سمجھنے والے یا عیسائیت کو اختیار کرنے والے غلطی کریں تو یہ اور بات ہے ورنہ قومی طور پر یہی مسلمہ اصل ہے کہ محض الزام لگا دینا کسی مجرم کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتا.ہاں جب ثبوت مہیا کیا جائے اور جب انسان ان شواہد کو دیکھ کر یہ قطعی نتیجہ نکالے کہ اب جرم ثابت ہو گیا ہے تو پھر اس کا حق ہے کہ ملزم کو مجرم کہے اس سے پہلے وہ مجرم نہیں ہوتا.تو جرم انکشاف حقیقت کے بعد ثابت ہوتا ہے چاہے یہ انکشاف عدالت میں مقدمہ کئے جانے کے بعد ہو.یعنی کوئی باقاعدہ عدالت اس مقدمہ کو سنے اور پھر فیصلہ کر دے.کہ اب مجرم ثابت ہو گیا ہے اور چاہے ذہنی اور عقلی طور پر کوئی شخص مختلف امور پر غور کر کے ایک نتیجہ قائم کردے کیونکہ ہر انسان کے اندر خواہ وہ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ، خدا تعالیٰ نے جی کی قابلیت رکھی ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانی آنکھوں کے سامنے سے کوئی چیز گزرے یا کسی تی اور جس کے ذریعہ سے ایک امر کا اسے علم ہو اور اس کے متعلق انسان کوئی فیصلہ نہ کرے.پس چونکہ ہر انسان حج ہے اس لئے اگر پورے طور پر سوچنے اور غور کرنے کے بعد کسی شخص پر انکشاف حقیقت ہو جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں مجرم ہے لیکن بہر حال جُرم انکشاف کے بعد ثابت ہوگا نہ کہ پہلے.اگر مجرم محض مقدمہ دائر کر دینے سے ثابت ہو جا تا ہوتو پھر ہر وہ وکیل جو مدعا علیہ کی طرف سے پیش ہوتا ہے ، مجرم اور گنہ گار ہے کیونکہ وہ مجرم کی امداد کرتا ہے لیکن یہ اصل دنیا میں رائج ہو جائے تو پھر خود ہی سوچو کہاں امن باقی رہ سکتا ہے.اس قسم کا اعتراض کرنے والے چونکہ نہ صرف عام مسلمان ہیں بلکہ بعض احمدی کہلانے والے بھی ہیں اس لئے کی میں انہیں سمجھانے کے لئے کہتا ہوں کہ فرض کرو کسی جگہ احمدی یا اسلامی حکومت قائم ہو اور وہاں یہ قانون نافذ ہو کہ ملزم کی طرف سے پیش ہونے والا وکیل گنہگار ہوتا ہے تو کیا ایسی کی حکومت سے لوگ ایک دن بھی خوش رہ سکتے ہیں اور کیا ایسی حکومت دنیا میں امن قائم کر سکتی ہے.آخر عدالت میں مقدمہ تبھی آئے گا جب کسی پر الزام لگے گا کہ اس نے فلاں خلاف قانون
خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۸ء فعل کا ارتکاب کیا ہے.اب اگر الزام کے لگنے کے ساتھ ہی وہ مجرم بھی بن جاتا ہے تو لازماً ہر وہ وکیل جو اس کی طرف سے عدالت میں پیش ہو گا گنہگار ہوگا.اب تم ایسی گورنمنٹ فرض کر کے خود ہی سوچ لو کہ کیا اس سے امن قائم ہو جائے گا یا فساد ہی فساد بڑھتا چلا جائے گا.فرض کرو تم ایک دن خاموشی کے ساتھ بازار سے گزر رہے ہو اور کوئی بدمعاش دکاندار تمہیں سادہ لوح سمجھ کر شور مچا دیتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ تم نے اس کی دکان سے مال اٹھایا ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ ڈر کر تم اسے کچھ روپے دے دو مگر تم اسے روپیہ نہیں دیتے اور مقدمہ عدالت میں چلا جاتا ہے.تو اب بجائے اس کے کہ اس ظلم کا ازالہ کیا جائے جو تم پر کیا گیا ہے اور تمہاری شرافت کی تائید کی جائے اگر اس اصل کے تحت کہ مُجرم محض مقدمہ کر دینے سے ثابت ہو جاتا ہے تمہاری مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے اور کہنا شروع کر دیا جائے کہ جو وکیل بھی تمہاری طرف سے پیش ہوگا کی وہ گنہگار ہوگا کیونکہ وہ ایک ملزم کی حمایت کرتا ہے تو کیا یہ درست طریق عمل ہوگا اور کیا تمہارا کی جی چاہے گا کہ یہی اصل تمام دنیا میں رائج ہو جائے.اور اگر کوئی شخص اپنی نادانی سے سمجھتا ہے کہ اسلام کا یہی منشاء ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ نَعُوذُ بِاللہ اسلام ہر شریف آدمی کی پگڑی اچھال لینے کی تائید کرتا اور مظلوموں کی امداد کو گناہ قرار دیتا ہے.تو کسی ملزم کو مجرم قرار دینا حماقت کی بات ہوتی ہے.ملزم کے معنی صرف اتنے ہیں کہ اس پر کوئی الزام لگایا گیا ہے ، آگے وہ الزام سچا ہے یا جھوٹا ، یہ بعد میں ثابت ہوگا.اسی لئے قانونی کی طور پر مجرم اور ہوتا ہے اور ملزم اور ، جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا.اور جب اس کے خلاف فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ مجرم ہوتا ہے.عربی میں بھی یہ دونوں اصطلاحیں رائج ہیں.چنانچہ ملزم اسے کہتے ہیں جس پر الزام لگایا گیا ہو اور مجرم اسے کہتے ہیں جس کے متعلق کسی جرم کا اثبات ہو چکا ہو.تو جب تک عدالت مقدمہ کا فیصلہ نہیں کرتی یا کسی اور ذریعہ سے انکشاف حقیقت نہیں ہوتا اس وقت تک ملزم مجرم نہیں ہو سکتا.اور جس کی مدد سے اسلام روکتا ہے اور جس کی تائید سے ہر شریف آدمی بچتا ہے اور وہ ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے.اگر ملزموں کی مدد سے اسلام روکتا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مظلوموں کی مدد کرنے سے روکتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں.یہ تو اصولی جواب ہے جو میں نے دیا.لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ معترض اپنے گھر کی بات بھی تو
خطبات محمود ۴۰۰ سال ۱۹۳۸ء بیان کریں.کیا ان کے آدمیوں پر جب مقدمات دائر ہوتے ہیں وہ ان کی مدد کرتے ہیں یا نہیں ؟ مثلاً مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری پر اس وجہ سے مقدمہ ہوا کہ انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کو اپنی تقریر میں گالیاں دی تھیں.اب گالیاں دینا اپنی ذات میں ایک جرم ہے.اخلاقی طور پر بھی اور مذہبی طور پر بھی اور قانونی طور پر بھی لیکن جب وہ مقدمہ ہوا احرار نے ان کے لئے چندے بھی جمع کئے ، وہ وکیل بھی لائے اور وہ جمع ہو کر اور پارٹیاں بن بن کر عدالتوں میں بھی جاتے رہے.اب سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں.اگر کسی ملزم کی مدد کرنا گناہ ہے تو یہ گناہ خود ان کے گھروں میں بھی ہوتا چلا آیا ہے اور جو مقدمات احرار پر ہوئے ہیں ان سب میں ان کی طرف سے ڈیفنس پیش کیا گیا ہے.انہوں نے چندے بھی اکٹھے کئے ہیں.انہوں نے مدد کے لئے بھی لوگوں سے اپیلیں کی ہیں اور سب نے قومی طور پر ان میں حصہ لیا ہے مگر ہماری طرف سے کبھی ان پر یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ وہ ملزم کی کیوں امداد کرتے ہیں؟ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اس حصہ میں ہم ملزم کو مجرم نہیں سمجھتے.تو پھر اگر کوئی دوسرا بھی ملزم کی کسی ایسی بات میں مدد کرتا ہے جس میں وہ اسے مجرم نہیں سمجھتا تو اس پر انہیں اعتراض کرنے کا کیا حق ہے.بلکہ مشتبہ بات تو الگ رہی ایسے کیسز موجود ہیں جن میں مُجرم نہایت واضح تھا اور مشبہ والی کوئی بات نہیں تھی مگر پھر بھی ان کی مدد کی گئی.مثلاً میاں عبدالرشید دہلوی نے جب شردھانند جی پر حملہ کیا.یا میاں علم الدین لاہوری کی نے لاہور کے ایک ہندو مصنف پر حملہ کیا.یا میاں عبدالکریم نے کراچی میں ایک ہندو یا سکھ کی پر ( مجھے صحیح یاد نہیں ) حملہ کیا.تو تمام مسلمانوں نے ان کے لئے چندے بھی کئے ، ان کی طرف سے وکیل بھی مقرر کئے گئے اور ان کی ہر رنگ میں امداد بھی کی.حالانکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا کی ہے ان میں سے دوا قراری مجرم تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہم نے واقع میں قتل کیا ہے اور جب وہ اقراری مجرم تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی امداد کی.پس بفرض محال اگر یہ اعتراض سچا بھی ہو ( ابھی میں اس اعتراض کو تسلیم نہیں کر رہا.میں صرف فرض کے طور پر امکانی رنگ میں یہ گفتگو کر رہا ہوں ) اور فرض کرلو کہ جماعت نے میاں عزیز احمد صاحب کی مدد کی اور اس مدد کے معنے یہ تھے کہ ہم نے قتل پر انگیخت کی تو پھر ماننا
خطبات محمود ۴۰۱ سال ۱۹۳۸ پڑے گا کہ احرار اور مسلمانوں نے بھی میاں عبد الرشید دہلوی ، میاں علم دین لاہوری اور میاں عبد الکریم کراچی والے کی مدد کر کے قتل پر انگیخت کی ہے.آخر یہ ایسے ہی مقدمات تھے جیسے میاں عزیز احمد پر مقدمہ دائر ہوا.پھر جب ان مقدمات کے دوران میں انہوں نے ملزمین کی مدد کی ہے، ان کے لئے لوگوں سے چندے لئے ہیں اور ان کے مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے میں سے وکیل مقرر کئے ہیں اور اس کے معنی قتل کی انگیخت کے ہوتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ اس مجرم کا ارتکاب وہ بھی کرتے رہے ہیں.پس جو کام وہ خود بھی کرتے رہے ہیں اگر اسی قسم کا کام بفرض محال کوئی دوسرا بھی کرلے تو اس پر انہیں اعتراض کا کیا حق ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے محض الزام سے ملزم مجرم نہیں بن جاتا.اسی اصل کے ماتحت اب میں وہ حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے بعد ہر منصف مزاج شخص یہ سمجھ جائے گا کہ یہ اعتراض کس قدر غلط ہے.جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا ہے اور اس کی ہمیں کی پہلے پہلے اطلاع ملی ہے تو وہ ایسی شکل میں تھی جس سے اندازہ یہ کیا گیا کہ یہ ایک باہمی لڑائی تھی جس میں غالبا حملہ میاں فخر الدین صاحب کی پارٹی نے کیا تھا اور اس کی بناء بعض ایسے گواہوں کی شہادت پر تھی جنہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے پہلے دو شخصوں کو میاں عزیز احمد صاحب پر حملہ کرتے دیکھا جس کے بعد انہوں نے اُٹھ کر ان میں سے ایک پر حملہ کیا.(اس کی تشریح اخبار الفضل ۲۰ را گست ۱۹۳۷ ء میں ہو چکی ہے ) اس صورت میں ہم سمجھتے ہیں کہ میاں عزیز احمد صاحب پر قتل کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ غلط ہے اور لازمی طور پر ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنے آدمی کی مدد کرتے جب بعض افراد ایک جماعت کی باگ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کو بچانے کے لئے ہر جائز کوشش کریں.پس بحیثیت خلیفہ ہونے کے میرا اور بحیثیت ناظر ہونے کے ناظروں کا اور بحیثیت پریذیڈنٹ ہونے کے پریذیڈنٹوں کا اور بحیثیت سیکرٹری یا کوئی اور عہدیدار ہونے کے سیکرٹریوں اور باقی تمام عہدیداروں اور بحیثیت احمدی ہونے کے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اگر وہ دیکھے کہ کوئی احمدی کسی ایسے الزام میں ماً خوذ ہے جو درست نہیں تو اس کی ہر جائز اور ممکن امداد کرے.پس اس وقت بحیثیت جماعت ان کی امداد کا فیصلہ کیا گیا.یعنی وکلاء کو ناظروں نے بلایا اور
خطبات محمود ۴۰۲ سال ۱۹۳۸ء ان سے مشورہ لیا اور انہیں مناسب ہدایتیں دیں.غالبا مرزا عبدالحق صاحب اور مولوی فضل الدین کی صاحب وکیل سے کہا گیا کہ وہ لوگوں سے گواہیاں لیں چنانچہ انہوں نے مقدمہ کی تیاری شروع کر دی لیکن دو تین دن کے بعد جبکہ مختلف بیانات اکٹھے ہوئے اور ان کا مجھ سے ذکر کیا گیا تو مختلف شہادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمارا پہلا علم غلط فہمی پر مبنی تھا.حقیقت یہ ہے کہ میاں عزیز احمد صاحب کی طرف سے پہلا حملہ ہوا ہے ، دفاع نہیں ہوا.مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میری طرف سے اسی وقت ہدایت کر دی گئی کہ جماعت اس بارہ میں بحیثیت جماعت ان کی مدد نہ کرے.چنانچہ مرکز سلسلہ نے اپنی مددوا پس لے لی.در حقیقت مرزا عبد الحق صاحب نے جب مختلف بیانات آکر مجھے سنائے تو اس وقت میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب پر نہیں بلکہ میاں فخر الدین صاحب پر تھا.چنانچہ میں نے انہیں کہہ دیا کہ اس تحقیق کے بعد ہمارا حق نہیں کہ ہم ملزم کی براءت ثابت کریں.مرزا صاحب میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہی تھے کہ چند منٹ بعد ناظر صاحب امور عامہ آئے.انہوں نے بیان کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب کا خیال ہے کہ اس وقت تک جس نتیجہ پر ہمارے دوست پہنچے ہیں وہ غلط ہے کیونکہ بعد میں بعض گواہیاں ایسی ملی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے کیا ہے.اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی ابھی میں بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں اور میں ہدایت دے چکا ہوں کہ ہماری طرف سے جماعتی طور پر ان کے لئے کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے.یہ غلط نہی کیونکر ہوئی ؟ اس کے متعلق پہلے بھی شائع ہو چکا ہے.اصل بات یہ ہوئی کہ لڑائی دو جگہ پر ہوئی تھی.یعنی پہلے بازار کے اُس حصہ میں جہاں نسبتا ہندو سکھ اور غیر احمدی دکاندار زیادہ ہیں اور یہاں میاں عزیز احمد صاحب نے پہلا حملہ کیا پھر چند گز ہٹ کر اس جگہ پر جہاں احمدی دکاندار زیادہ ہیں.یہاں میاں فخر الدین صاحب کے ساتھیوں نے ہا کی مار کر اسے گرایا اور چوٹیں کھانے کے بعد میاں عزیز احمد صاحب نے مدافعانہ حملہ کیا.پس وہ گواہ جن کی گواہی سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے نہیں کیا
خطبات محمود ۴۰۳ سال ۱۹۳۸ بلکہ میاں فخر الدین صاحب کے ساتھیوں نے کیا ہے.اس وقوعہ کے گواہ تھے جو ان کی دکانوں کی کے سامنے پہلے حملہ کے بعد ہوا تھا.اس جگہ یہی نظر آتا تھا کہ میاں عزیز احمد صاحب بھاگ رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے میاں فخر الدین صاحب کے ساتھی ہا کی اٹھائے دوڑ رہے ہیں اور اس جگہ کی گواہی واقعی یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا حملہ صرف مدافعا نہ تھا اور اس میں کوئی جھوٹ نہ تھا.مگر دوسری طرف ہندو اور سکھ گواہوں میں سے بعض ایسے تھے جن کی گواہی کو گلتی طور پر ر ڈ نہیں کیا جا سکتا تھا اور ان کا یہ بیان تھا کہ بازار کے شروع میں پہلے میاں عزیز احمد صاحب نے حملہ کیا ہے.پس جب یہ دونوں حصے مل گئے تب یہ بات ہماری سمجھ میں آئی کہ پہلا حملہ میاں فخر الدین صاحب پر تھا اور اس کے بعد دوسرا تتمہ وہ لڑائی تھی جو چند گز ہٹ کر ہوئی.بہر حال جب ہماری غلط فہمی دور ہو گئی اور اصل حقیقت ہم پر واضح ہوگئی تو میں نے اسی وقت سلسلہ کے ذمہ دار ارکان سے کہہ دیا کہ اس صورت میں میاں عزیز احمد صاحب کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی گی.دوسری طرف میں نے میاں عزیز احمد صاحب کو یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہماری تحقیق یہی ہے کہ تمہاری طرف سے پہلا حملہ ہوا اور اگر تمہارا علم بھی یہی کہتا ہے تو تمہیں کم سے کم اپنی عاقبت کی خراب نہیں کرنی چاہئے اور جو سچی بات ہے اس کا اقرار کر لینا چاہئے کیونکہ جسم کی حفاظت کی نسبت ایمان کی حفاظت زیادہ مقدم ہے.اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس دن مسٹرانز ڈپٹی کمشنر گورداسپور یہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے دورانِ گفتگو میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سے ذکر کیا کہ مخالفین احمدیت کہتے ہیں جماعت احمد یہ اب اسے قومی ہیرو بنادے گی اور اس طرح دوسرے نو جوانوں میں قتل کے جذبات پیدا ہو جائیں گے اس لئے ہم یہ خواہش کرتے ہیں کہ قومی طور پر جماعت اس مقدمہ میں حصہ نہ لے.خان صاحب فرزند علی صاحب کی اس وقت ناظر امور عامہ نہیں تھے انہوں نے جب مجھ سے اس کا ذکر کیا تو میں نے انہیں بتایا کہ کی مجھے جس وقت سے اس بات کا علم ہوا ہے کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے کیا ہے میں نے کی اسی وقت یہ ہدایت کر دی ہے کہ جماعت بحیثیت جماعت اس کی کوئی مدد نہ کرے اور اسے بھی نصیحت کر دی ہے کہ جو کچھ سچی بات ہے وہ بلا کم و کاست بیان کر دے.آج اس کی پیشی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ سچا احمدی ہے تو وہ ضرور اپنے جرم کا اقرار کرے گا.چنانچہ اتفاق کی کی
خطبات محمود ۴۰۴ سال ۱۹۳۸ء بات یہ ہے کہ جس وقت ڈپٹی کمشنر صاحب کہہ رہے تھے کہ جماعت اب اسے قومی ہیرو بنادے گی.عین اُسی وقت کمرہ عدالت میں میاں عزیز احمد صاحب یہ بیان دے رہے تھے کہ میں نے خود میاں فخر الدین صاحب کے پوسٹر کی وجہ سے اشتعال میں آکر ان پر حملہ کیا ہے.جب اس قسم کی حرکت قاضی محمد علی صاحب سے ہوئی تھی اُس وقت میں نے بھی انہیں یہی نصیحت کی تھی کہ اگر آپ سے پہلے کوئی قصور ہوا ہے تو اس کا اقرار کر لیں.اس کے مقابلہ میں ذرا یہ معترض بھی بتائیں کہ ان کے آدمی کس طرح اقرار کیا کرتے ہیں.ان کی طرف سے اکثر مقدمات میں کی واقعات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں مگر احمدی کیسز میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں واقعات کو چھپانے اور اصلیت پر پردہ کی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو یہ واقعہ بھی ایک ایسے بازار میں ہوتا ہے جس میں کثرت سے احمدیوں کی دکانیں ہیں مگر ایک احمدی بھی جھوٹی گواہی نہیں دیتا.کیا یہ سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا ثبوت نہیں.اگر دوسرے لوگ مقدمات میں جھوٹ بول سکتے ہیں تو کیا احمدی اگر ان میں ایمان نہ کی ہوتا جھوٹ نہیں بول سکتے تھے.وہ بھی بول سکتے تھے مگر اسی ایمان نے انہیں جھوٹ بولنے سے باز رکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے.پس یہ واقعہ بذات خود جماعت احمدیہ کی راستبازی کا ایک ثبوت ہے.اور اس واقعہ نے اور اسی قسم کے بعض اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر احمدی جھوٹ بولنے والے ہوتے تو مقدمات ضرور مشتبہ ہو جاتے.مگر آج تک جتنے مقدمات میں ہماری جماعت کے افراد کو بظاہر نقصان پہنچا ہے محض جرم کا اقرار کرنے اور سچ بولنے کی وجہ سے پہنچا ہے.مجھے خوب یاد ہے کہ قاضی محمد علی صاحب پر جن دنوں مقدمہ چل رہا تھا ، ایک افسر سے ایک احمدی نے اس کا ذکر کیا اور اس نے دریافت کیا کہ کیا ان حالات میں وہ پھانسی کا مستحق ہے.اس افسر نے جواب دیا کہ اگر وہ انکار کرتے تو ان حالات میں پھانسی کیا وہ تو شاید کسی سزا کے بھی مستحق نہ ہوتے.مگر جو شخص خود اقرار کر لے اور کہے کہ میں نے قتل کیا ہے، اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے.تو احمد یہ جماعت کی سچائی ہی ہے جس نے دشمنوں کے لئے ایک فتح کی صورت پیدا کی اور وہ ہماری جماعت کے بعض افراد کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے ورنہ اور کسی صورت میں وہ سزا
خطبات محمود ۴۰۵ سال ۱۹۳۸ء نہیں دلوا سکتے تھے.غرض ایک طرف مرکز سلسلہ نے اپنی مدد واپس لے لی اور دوسری طرف انہیں نصیحت کر دی گئی کہ وہ سچائی کو نہ چھوڑیں اور اگر یہ قصور ان سے سرزد ہوا ہے تو اس کا اقرار کر لیں.بلکہ مزید غلط فہمی دور کرنے کے لئے چونکہ مرزا عبد الحق صاحب اکثر سلسلہ کے مقدمات لڑتے ہیں ان کو بھی روک دیا گیا.صرف یہ ہدایت دے دی گئی کہ وہ حالات مقدمہ کی نگرانی رکھیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ مقدمات میں کوئی ایسی بات تو نہیں کی جاتی جو سلسلہ کی بدنامی کا موجب ہوتا کہ دشمنوں کی شرارتوں کا علم رہے اس سے زیادہ اس مقدمہ میں جماعت نے کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ سلسلہ کی کوششیں محد و در ہیں.اسی عرصہ میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حکومت کی طرف سے شکایت ہوئی کہ احمدیت کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ اسے قومی ہیرو بنادے گی اور یہ کہنے لگ جائے گی کہ وہ بڑا نیک ، بڑا قربانی والا اور سلسلہ کا بڑا خدمت گزار تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی یہی خیال پیدا ہو گا کہ آؤ ہم بھی کسی کو قتل کریں اور شہادت کا درجہ پائیں.چنانچہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے خواہش کی کہ آپ اس مقدمہ میں قومی طور پر حصہ نہ لیں.چونکہ ہمارا اپنا بھی یہی فیصلہ تھا اس لئے خان صاحب نے ان سے اقرار کیا کہ ہماری جماعت بحیثیت جماعت اس میں حصہ نہیں لے گی اور کہا کہ ہم آپ کی مشکلات کو سمجھتے ہیں.ہم پر حقیقت چونکہ کھل چکی ہے اس لئے ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ جماعت قومی طور پر میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کرے گی.حکومت کا یہ مطالبہ جیسا کہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا نا جائز تھا اور ہمارا اس سے یہ اقرار کر لینا بھی کہ ہم بحیثیت جماعت ملزم کی مدد نہیں کریں گے ، جیسا کہ میں بعد میں ذکر کروں گا نقصان دہ تھا.مگر بہر حال ہم نے اقرار کیا اور بعد میں اس سے ہمیں نقصان پہنچا لیکن سلسلہ نے اسے قبول کر لیا.یہ مطالبہ نقصان دہ اس لئے تھا کہ ایسے مقدمات میں قتل کے واقعات کو بالعموم سازش کا رنگ دے دیا جاتا ہے اور فریق مخالف صرف یہ ثابت نہیں کرتا کہ فلاں نے اسے مارا ہے بلکہ وہ کی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسے مروایا گیا ہے اور یہ طریق ہمارے ملک میں اتنی کثرت سے رائج ہے کہ انگریز مصنف جو قانون کے ماہر ہیں انہوں نے متعدد مقامات پر
خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۸ء اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں قتل صرف منفر د فعل کی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی قتلوں کو کسی سازش کا نتیجہ قرار دے دیا جاتا ہے.چنانچہ حال ہی میں ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کا فیصلہ ہوا ہے جس میں یہ سوال در پیش تھا کہ مرنے والے نے بہت سے آدمیوں کا نام لے دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے قتل کرنے میں یہ یہ شریک ہیں.پرانے زمانے میں یہ دستور تھا کہ وہ مرنے والے کے بیان کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور مقتول مرتے ہوئے جب بھی کسی کا نام لے دیتا اسے ضرور گرفتار کر لیا کرتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ مرنے والا جھوٹ نہیں بول سکتا.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حاضر ہونے والا ہوتا ہے.وہ مرتے وقت بھلا جھوٹ کس طرح بول سکتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا کہ مقتول مرتے وقت جو بیان بھی دے دیتا.اُسے سچا سمجھ لیا جاتا اور اس کے مطابق ملزموں کو سزا دے دی جاتی.لیکن آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر بھی بڑے بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں اور اب عدالتوں کا رُجحان اس طرف ہو گیا ہے کہ ان گواہیوں کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے تین چار دن ہوئے ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ شائع ہوا ہے جس میں بڑے بڑے ججوں اور وکلاء کی کتابوں کے حوالہ جات سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ ہندوستان میں کثرت سے یہ رواج ہے کہ مرنے والا بہت سے آدمیوں کے نام لے دیتا ہے کیونکہ اس کے کی رشتہ دار اُسے کہتے ہیں کہ اب تو تو مر چلا ہے کوئی بیان ایسا دے جا جس کے نتیجہ میں ہمارے فلاں فلاں دشمن پھنس جائیں چنانچہ وہ ان کے حسب منشاء بیان دے دیتا ہے.در حقیقت ہمارے ملک کے لوگوں کے دلوں میں یہ ایک غلط خیال بیٹھ چکا ہے کہ مرنے والا جھوٹ نہیں بول سکتا.مرتے وقت وہی جھوٹ نہیں بولا کرتا جسے قیامت پر یقین ہوتا ہے مگر جو قیامت اور بعث بعد الموت پر یقین ہی نہ رکھتا ہو وہ اس موقع پر جھوٹ بولنے سے نہیں رہ سکتا بلکہ زیادہ جھوٹ بولتا ہے اور عقلاً بھی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا مشکل ہو.اگر اسے خدا کی ہستی پر یقین ہوتا اگر وہ سمجھتا کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے تو اس کی ساری عمر بدکاری میں کیوں گزرتی.اس کا تمام عمر بدیاں کرتے چلے جانا بتا تا ہے کہ وہ عالم آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا اور جب وہ دوسرے عالم پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا تو اس کا موت کے وقت
خطبات محمود ۴۰۷ سال ۱۹۳۸ء کا بیان کیونکر قابلِ تسلیم ہو سکتا ہے تو اس قسم کے واقعات ہمارے ملک میں ہوتے رہتے ہیں لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور اس طرح فریق مخالف کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں.یا مرنے والا بعض آدمیوں کے جھوٹ موٹ کے نام لے دیتا ہے اور اس طرح انہیں پکڑوانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یا پھر پولیس پر یہ زور دیا جاتا ہے کہ یہ منفر د فعل نہیں بلکہ کسی گہری سازش کا نتیجہ ہے.اس واقعہ میں بھی سنا گیا ہے ایسا ہی ہوا اور بیان کیا جاتا ہے کہ میاں فخر الدین صاحب.نے مرتے وقت میرا نام بھی لیا.سید ولی اللہ شاہ صاحب کا نام بھی لیا اور اسی طرح اور کئی آدمیوں کا نام لیا اور کہا کہ یہ مجھے مروانے والے ہیں.اس طرح ان کی پارٹی نے بھی ان مقدمات میں یہ کوشش کی کہ یہ واقعہ قتل سازش کا نتیجہ ثابت ہو.اب قانون انگریزی کی رو سے ایسے فوجداری مقدمات میں ایک طرف گورنمنٹ ہوتی ہے اور دوسری طرف مدعا علیہ اور اگر کسی دوسرے نے کوئی بات اپنی بریت کے لئے پیش کرنیکی ہو تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا گورنمنٹ کو قابو کرے یا مد علیہ کی امداد کرے اور اس کے دفاع کے ساتھ اپنا دفاع ملا کر پیش کرے.اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہوتی.پس اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو مد عاعلیہ سے دوستانہ تعلقات پیدا کرے اور اس ذریعہ سے اپنا ڈیفنس پیش کرے یا حکومت سے دوستانہ تعلقات پیدا کرے.یہاں جب مقدمہ شروع ہوا تو چونکہ گورنمنٹ کی طرف سے یہ مقدمہ چلایا گیا تھا اس لئے کی لازمی طور پر دوسری پارٹی جو اصل مدعی تھی اس نے حکومت کی مقامی مشینری سے وابستگی اختیار کی اور چونکہ بعض مقامی پولیس افسر ہمارے دشمن تھے اس لئے خود گورنمنٹ کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ اس میں سازش تھی اور ایسے کئی امور مسل پر آگئے جن کا سلسلہ پر بُرا اثر پڑتا تھا اور کہا جانے لگا کہ صرف یہی قتل نہیں بلکہ اور لوگ بھی قتل کی اس سازش میں شریک ہیں.اب جبکہ حکومت کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ یہ قتل سازش کا ایک نتیجہ ہے، ہماری جماعت کے لئے اپنی بریت کی صرف ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ میاں عزیز احمد صاحب کے ڈیفنس میں ایسی باتیں مسل پر لاتی جن سے ان امور کی تردید ہوتی کی لیکن چونکہ ہم عہد کر چکے تھے کہ ہم میاں عزیز احمد صاحب کی جماعتی طور پر کوئی مدد نہیں کریں گے کی
خطبات محمود ۴۰۸ سال ۱۹۳۸ء اس لئے اس اقرار کے ذریعہ دفاع کا صرف ایک ہی دروازہ جو ہمارے لئے کھلا تھا وہ ہم نے کی اپنے اوپر بند کر لیا.جس کے نتیجہ میں مسل پر کئی ایسے امور آ گئے جو سلسلہ پر ایک حملہ تھے اور ہمیں دفاع کا کوئی موقع نہ ملا.غرض حکومت کا یہ مطالبہ کہ قومی طور پر جماعت احمد یہ اس مقدمہ میں حصہ نہ لے یقینا ہمارے لئے نقصان دہ تھا کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایسے مقدمہ میں دوہی فریق ہوتے ہیں یا حکومت یا ملزم.دوسری کسی پارٹی کو خواہ اس کے حقوق پر کس قدر ہی اثر کی کیوں نہ پڑ رہا ہو براہ راست دخل دینے کی اجازت نہیں ہوتی.فریق مخالف تو حکومت کے ذریعہ سے اپنا کام کر سکتا تھا کیونکہ وہ حکومت کی طرح مدعی تھا اور اس نے ایسا کیا بھی.چنانچہ پراسیکیوشن نے مقدمہ میں زور لگایا کہ یہ سازش کا نتیجہ ہے.سلسلہ اگر ایسے حملوں کا دفاع کر سکتا تھا تو محض اسی طور پر کہ وہ مدعا علیہ کی امداد کرتا اور اس کے دفاع کے ساتھ ملا کر اپنا دفاع کرتا لیکن مذکورہ بالا وعدہ کی وجہ سے یہ راستہ سلسلہ کے لئے بند ہو چکا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے کئی امور جن کا سلسلہ پر بُرا اثر پڑتا تھا مسل پر آگئے لیکن ان کے دفاع کا سلسلہ کو کوئی موقع نہ ملا.جھوٹ پھیلتا گیا لیکن اس جھوٹ کا ازالہ نہ ہوسکا.حقیقت یہ ہے کہ جب جھوٹ اور فریب سے کام لے کر ایک منفر د فعل کو سازش قرار دیا جائے تو قا نو نا اور شرعاً ملزم کی مدد کرنے والے کبھی بھی مجرم نہیں کہلا سکتے کیونکہ گوملزم مجرم ہومگر جس پر سازش کا الزام لگایا گیا ہے اس کے پاس سوائے اس کے اور کون سا ذریعہ ہے کہ وہ کی ملزم کی جائز حد تک امداد کرے اور اس کے دفاع کے ساتھ اپنا دفاع ملا کر مسل پر وہ باتیں لے آئے جن کا لا نا ضروری ہے.اس صورت میں وہ مجرم نہیں کہلا سکتے کیونکہ انہیں اس کام پر مجبور کرنے والے سازش کا الزام لگانے والے ہوتے ہیں.اگر دوسرا فریق ایک بے گناہ جماعت کو موردِ الزام نہ بنائے تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اس میں دخل دے اور اگر مدعی فریق ایک کی بے گناہ جماعت کو موردِ الزام بنا تا ہے تو اس فریق کے پاس قانونی طور پر سوائے اس کے اور کونسا ذریعہ ہے کہ وہ ملزم کی مدد کرے اور اس کی مدد کرتے ہوئے اپنا دفاع پیش کر دے پس یا تو ہندوستان میں قانون کی اصلاح کی جائے اور ایسے لوگوں کے ذکر کو قطعی طور پر روک دیا جائے جو فریق مقدمہ نہیں ہوتے.یا پھر انہیں فریق مقدمہ کے طور پر پیش ہونے کی
خطبات محمود ۴۰۹ سال ۱۹۳۸ء قانون اجازت دے دے.یعنی یا تو یہ قانون کر دیا جائے کہ جو فریق مقدمہ نہیں اُس کا مقدمہ کی سماعت کے دوران میں مخالفانہ طور پر ذکر ہی نہ آئے اور یا پھر یہ قانون کر دیا جائے کہ اگر کسی فریق کا اس رنگ میں ذکر آجائے تو پھر اُس فریق کو حق ہوگا کہ وہ اپنے وکلاء کے ذریعہ مجسٹریٹ کے سامنے اپنا دفاع پیش کرے مگر موجودہ قانون نہ تو ان لوگوں کے مخالفانہ ذکر کو قطعی کی طور پر روکتا ہے جو فریق مقدمہ نہ ہوں اور نہ انہیں فریق مقدمہ کے طور پر پیش ہونے کی اجازت دیتا ہے.جیسے مولوی عطاء اللہ صاحب پر جب مقدمہ ہوا تو ہماری جماعت پر اس مقدمہ کے دوران خطرناک حملے کئے گئے.ہم نے گورنمنٹ کو بہتیرا کہا کہ آخر یہ مقدمہ ہم پر تو نہیں چل رہا کہ ہمارے مخالفانہ ذکر کو گورنمنٹ مسلوں پر لا رہی ہے اس ذکر کو روک لینا چاہئے.نہیں تو ہمیں اپنے دفاع کو پیش کرنے کا موقع ملنا چاہئے مگر وہ یہی کہتی کہ کوئی قانون نہیں ،کوئی قانون نہیں.پس آئندہ یا تو قانون کی یہ اصلاح کی جائے کہ ایسے لوگ جو فریق مقدمہ نہیں ان کی کا مخالفانہ ذکر قطعاً درمیان میں نہ آئے اور یا پھر دوسرے کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنا وکیل لائے اور کہے کہ مجھ پر جب الزام لگاتے ہو تو میرا جواب بھی سن لو.اگر یہ دونوں امر نہ ہوں تو جس قدر مذہبی قتل ہندوستان میں ہوں گے ان میں ملزم کی قوم اس بات پر مجبور ہوگی کہ ملزم کا ساتھ دے اور اس کی مدد کرے کیونکہ اس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر وہ اپنا دفاع پیش نہیں کر سکتی.آخر ایک قوم کی عزت پر جب حملے کئے جائیں اور بلا وجہ اسے لوگوں کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی جائے تو اپنی عزت اور وقار قائم رکھنے اور عائد کردہ الزامات سے اپنی بریت ثابت کرنے کے لئے کیا طریق عمل اختیار کرے؟ اس کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ملزم کے ساتھ مل جائے کیونکہ وہ اس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر دفاع نہیں کر سکتی.وہ قانون جس کا فرض ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرے وہ ان حالات میں ظالم کی طرف چلا جاتا ہے اور مقدمہ کی صورت اس طرح بدل جاتی ہے کہ منفرد فعل کو سازش قرار دے دیا جاتا ہے اور جو بالکل بری الذمہ قوم ہوتی ہے اس پر بلا وجہ حملے شروع کر دیئے جاتے ہیں اور اسے اپنی براءت پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا اور وہ اس طرح الگ بیٹھی رہتی ہے جیسے اس پر کوئی کی
خطبات محمود ۴۱۰ سال ۱۹۳۸ء حملہ ہی نہیں ہوا.اور اگر وہ بولتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تمہیں اس مقدمہ میں بولنے کا کوئی حق کی نہیں تم کوئی فریق مقدمہ نہیں کہ اس میں حصہ لے سکو.لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ فریق مقدمہ نہیں تو مقدمہ میں اس کا ذکر کیوں کرتے ہو.پس اگر کسی مجرم کی مدد کر نائجرم ہے تو اس کا الزام قانون کے نقص پر آتا ہے نہ کہ اس قوم پر کیونکہ موجودہ قانون اس قوم کو اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ کی مجرم سے مل جائے کیونکہ بغیر اس کے وہ اپنا دفاع پیش کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی.مگر یہ میں نے عام قانون بتایا ہے کہ ہندوستان میں ایسا ہوتا ہے ورنہ ہماری طرف سے ایسا نہیں ہوا.ہم نے غلطی سے ابتداء میں جب یہ اقرار کیا ہے اُس وقت ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ بعد میں ہمارے ساتھ مخالف پارٹی کے لوگ ایسی شرارت کریں گے کیونکہ ابھی جماعت احمدیہ سے ان کا تعلق قریب ہی میں ٹوٹا تھا اور ہم یہ خیال نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ایسا جھوٹ بولیں گے اور پراسیکیوشن کو ایسے راستہ پر چلا ئیں گے کہ وہ کہیں گے کہ یہ قتل کسی سازش کا نتیجہ ہے.بعد میں جب ہمیں حالات کے اس طرح بدل جانے کا علم ہو گیا اور معلوم ہو گیا کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا ہمارے لئے نقصان دہ ہے تب بھی ہم نے اپنے وعدہ کو کامل طور پر پورا کرنے کا فیصلہ کیا.پس اس موقع پر جو بد دیانتی ہوئی ہماری طرف سے نہیں ہوئی بلکہ حکومت کے بعض لوکل نمائندوں نے فرض شناسی سے کام نہیں لیا.حکومت کی طرف سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی غیر متعلق باتوں کو قانون کوئی وقعت نہیں دیتا لیکن یہ درست نہیں آخر مسٹر کھوسلہ نے اور کئی مجسٹریٹوں نے پچھلے چند ہی سالوں میں یہ غلطیاں کی ہیں یا نہیں.جب ایسی غلطیاں ہوئی ہیں تو لازماً اس قوم کو غصہ آئے گا جس کے اخلاق کو زیر بحث تو لایا جاتا ہے مگر اسے دفاع کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حکومت ایک طرف تو ایک ایسی جماعت کا جو فریق مقدمہ نہیں اپنے مقدمات میں بار بار ذکر کرتی ہے، اس کے اخلاق کو زیر بحث لاتی ہے.اور اس کے خلاف معاندانہ ریمارکس مسلوں میں درج کرتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ اس کی پرواہ نہ کرو.آخر جو چیز ریکارڈ پر آجائے گی ، اس کی پرواہ کیوں نہ کی جائے گی.وہ شائع بھی ہو سکتی ہے، اس سے استدلال بھی کیا جا سکتا ہے، اسے مخالفانہ رنگ میں پیش بھی کیا جاسکتا ہے پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بھی درست نہیں کہ یہ
خطبات محمود ۴۱۱ سال ۱۹۳۸ غیر متعلق باتیں ہیں جنہیں قانون کوئی وقعت نہیں دیتا.اگر حکومت کا یہ قول درست ہے تو وہ بتائے کہ اس نے مسٹر کھوسلہ کو کیا سزا دی تھی.کیا مسٹر کھوسلہ نے ہماری جماعت کے خلاف ریمارکس نہیں کئے تھے؟ اگر کئے تھے تو اس قسم کے مجسٹر بیٹوں کو روکنے کا کوئی ذریعہ بھی تو ہونا چاہئے اور اگر کوئی ذریعہ نہیں ہوگا تو وہ ایسے ریمارک کرتے جائیں گے اور جماعت حق دفاع سے محروم رہے گی.چنانچہ مسٹر کھوسلہ نے ہی ہماری جماعت کے خلاف سخت ریمارکس کئے اور جب اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو تھی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ بعض جگہ مسٹر کھوسلہ مسل سے بالکل باہر چلے گئے ہیں اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ فاضل جج نے اس وقت کہا یا شاید فیصلہ میں لکھا کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا کہ ہے کہ مقدمہ مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہو رہا تھا.مگر باوجود اس کے گورنمنٹ نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کچ قانون ایسا موجود نہیں جو مجسٹریٹوں کو ایسی غیر متعلق باتوں سے روکتا ہو اور یہ صرف مسٹر کھوسلہ پر ہی منحصر نہیں اور بھی کئی مجسٹریٹوں نے پچھلے چند سالوں میں یہ غلطیاں کی ہیں اور قادیان کے احمدیوں کے متعلق نا واجب ریمارکس کئے ہیں.ان حالات میں لازماً اس قوم کو غصہ آئے گا جس کے خلاف مسلوں میں مصالحہ جمع کیا جاتا ہے مگر اسے دفاع کا موقع نہیں دیا جاتا اور وہ یا تو کسی فریق سے مل کر اپنے حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گی یا پھر حکومت کے خلاف اس کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا ہوگا.یعنی یا تو اس کا غصہ اس طرح فرو ہو سکتا ہے کہ اسے دفاع کرنے کا موقع مل جائے جس کا طریق سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کسی ایک فریق سے مل جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کے دل میں حکومت کے خلاف غصہ کے جذبات پیدا ہونگے کہ اس نے عدالتیں تو بنا ئیں مگر وہ ایک تیسرے فریق پر جس کا مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.نہ وہ مدعی ہوتا ہے نہ مدعا علیہ ہوتا ہے بلا وجہ حملے شروع کر دیتی ہے اور وہ قانون کو نہیں بدلتی.پس چاہئے کہ حکومت قانون کے ذریعہ سے جلد اس نقص کا ازالہ کرے.تا مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذاہب کی حفاظت کے لئے خواہ مخواہ مجرم کے ساتھ تعاون نہ کرنا پڑے اور فردی جُرم قومی کشمکشوں کا ذریعہ نہ بن جایا کرے.اگر وہ ایسا کر دے تو بین الا قوامی جھگڑو
خطبات محمود ۴۱۲ سال ۱۹۳۸ کی بہت سی سختی دور ہو جائے گی.غرض یہ صورتِ حالات قانون کے نقص سے پیدا ہوتی ہے یا پھر بے تعلق فریق کو بلا وجہ ملزم گرداننے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے.پس یا تو گورنمنٹ پر الزام آتا ہے.یا مخالف فریق پر الزام آتا ہے جو بلا وجہ ایک تیسرے فریق کو درمیان میں گھسیٹ لاتا ہے.پس ان حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ ہم سے یہ مطالبہ کرتی اور اگر اس نے یہ مطالبہ ہم سے کیا تھا تو پھر اس کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ ایسے امور کو بیچ میں نہ کی آنے دیتی جس سے جماعت پر حرف آتا ہو اور صرف انہی باتوں کے بیان کرنے کی اجازت کی دیتی جن کا اثر صرف ملزم تک رہتا لیکن اس نے اپنا یہ فرض ادا نہیں کیا بلکہ خود پراسیکیوشن کے بعض افسروں کی طرف سے فریق مخالف کے اثر کے ماتحت بعض ایسے امور زیر بحث لائے گئے جو اگر نہ آتے تو انصاف کے زیادہ مطابق ہوتا چنانچہ یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس قتل کی تہہ میں سازش معلوم ہوتی ہے.گوسیشن جج صاحب نے اسے رد کر دیا.پس اس موقع پر جو غلطی ہوئی وہ حکومت کی طرف سے ہوئی ہم سے نہیں ہوئی.ہم نے اس کے مطالبہ کو امن میں مُمد سمجھتے ہوئے مان لیا مگر اس نے فرض شناسی سے کام نہیں لیا اور اپنے ماتحت افسروں کو اس نے یہ ہدایت نہیں دی کہ ہم نے اس فریق سے چونکہ وعدہ لے لیا ہے کہ وہ بحیثیت جماعت ملزم کی مدد نہیں کرے گا اس لئے اب تمہیں خیال رکھنا چاہئے کہ ملزم کے علاوہ اس کی جماعت کا ذکر مخالفانہ طور پر درمیان میں نہ آئے.پس ہم نے جو وعدہ کیا تھا اسے کامل طور پر پورا کر دیا.ہاں ہمارا قصور یہ ضرور ہے کہ ہم نے حکومت کو وعدہ دیتے ہوئے خود اس سے بھی وعدہ نہ لے لیا کہ سازش کا سوال درمیان کی میں نہیں آئے گاور نہ ہمیں ملزم کے ساتھ ملنے کی آزادی ہوگی.یہ ہماری ناتجربہ کاری تھی کہ ہم نے اپنے وعدہ کے مقابلہ میں ایک وعدہ اس سے نہ لے لیا کیونکہ ایسا پہلے ہمارے ساتھ کبھی نہیں ہو ا تھا.اگر ہمیں پہلے معلوم ہوتا کہ سازش کا سوال درمیان میں اٹھا دیا جائے گا تو اسی وقت ہم کہہ دیتے کہ اگر دوسرے فریق کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ یہ قتل سازش کے نتیجہ میں ہوا ہے تو پھر ہمارا حق ہوگا کہ ہم ملزم کے ساتھ مل جائیں کیونکہ اپنی براء ت پیش کرنے کا
خطبات محمود ۴۱۳ سال ۱۹۳۸ء سوائے اس کے کوئی اور طریق نہیں کہ مدعا علیہ سے ہم مل جائیں اور اس کے دفاع کے ساتھ اپنا دفاع بھی پیش کر دیں اور مدعا علیہ کا وکیل تب ہی ہماری بات سنے گا جب اس کے موکل کا ہمارے ساتھ تعلق ہوگا.یونہی وہ ہماری بات کس طرح سن سکتا ہے.مگر خیر یہ ایک تجربہ تھا جو اس دفعہ ہمیں حاصل ہوا اور جس سے خدا ہمیں تو بچائے مگر دوسری قومیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور جب حکومت ان سے یہ مطالبہ کرے کہ فلاں معاملہ میں بحیثیت جماعت تم مددمت کرو تو وہ کہہ سکتی ہیں کہ بہت اچھا ہم مدد تو نہیں کریں گی مگر ساتھ ہی آپ کا بھی یہ اخلاقی فرض ہو گا کہ بات صرف مجرم تک رہے اور ایسے لوگوں کا نام لینے کا افسر ہرگز مجاز نہ ہوں جو فریق مقدمہ نہیں اور اگر وہ لیں تو حکومت کی طرف سے انہیں سزا دی جائے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دفاع کے سامان کس طرح مہیا ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب میاں عزیز احمد صاحب کے ہم وطنوں کو جو کافی تعداد میں قادیان میں ہیں یہ معلوم ہوا کہ جماعت بحیثیت جماعت اب ان کی مدد نہیں کرے گی تو ان میں سے بعض مجھ سے ملے اور اس امر کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ ملزم کو بغیر امداد کے چھوڑ نا جائز نہیں.جب میں نے انہیں کہا کہ ملزم نے حملہ خود تسلیم کیا ہے.اس صورت میں ہم اس کی کیا مددکر سکتے ہیں تو اس پر بعض نے کہا کہ بے شک ملزم نے حملہ تسلیم کیا ہے لیکن ہر حملہ کی سزا تو نہیں ہوتی.بعض حملوں کی سزا عبور دریائے شور ہوتی ہے، بعض حملوں کی سزا دس سال قید ہوتی ہے اور بعض حملوں کی سزا پھانسی ہوتی ہے اس صورت میں کیا اگر اس کا جرم پھانسی کے قابل نہیں بلکہ قید کے قابل ہے تو ہما را حق نہیں کہ اس کو دفاع میں مدد دیں تا وہ اپنا حق حاصل کرے اور اسے اپنے مُجرم سے زیادہ سزا نہ ملے.آخر مجرم کے ثابت ہونے سے پہلے اس کے جرم کی نوعیت کیونکر معلوم ہو گئی.اور کیا کی اگر اس کا مجرم دس سال قید کی سزا والا ہے تو ہمارا فرض نہیں کہ اس کو دفاع میں مدد دیں تا غلطی سے مجسٹریٹ اسے پھانسی کی سزا نہ دے دے.یہ تو مجرم کی نہیں بلکہ حق کی مدد ہو گی اگر اس قسم کی کج کوشش کی جائے.پس انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم دفاع میں اس کی جائز حد تک مدد کریں تا اسے جُرم سے زیادہ سزا نہ ملے.آخر بجرم کے ثابت ہونے سے پہلے ہمیں جرم کی کی ،
خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۳۸ء نوعیت کیونکر معلوم ہوگئی اور ہمیں کیونکر پتہ لگ گیا کہ یہ جرم اس قسم کا ہے جس کی سزا پھانسی ہے.یا اس قسم کا ہے جس کی سزا عبور دریائے شور ہے.یا اس قسم کا ہے جس کی سزا دس سال قید ہے.یہ جرح ان کی معقول تھی.میں نے ان کو جواب دیا کہ ہم یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ بحیثیت جماعت ان کی مدد نہ کریں گے.آپ لوگوں کو انفرادی طور پر امداد کی اجازت دینا میرے نزدیک اس وعدہ سے باہر ہے لیکن بہتر ہوگا کہ ہم حکومت کا خیال معلوم کر لیں کہ وہ ہمارے کی وعدہ کے کیا معنی لیتی ہے.چنانچہ مکمہ امور عامہ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھی لکھی گئی کہ میاں عزیز احمد صاحب کے بعض ہم وطنوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہمیں اس کی مدد سے کیوں روکا جاتا ہے.ابھی تو اس کا جرم ثابت ہی نہیں ہوا اور نہ مُجرم کی نوعیت کا علم ہوا ہے تو جس حد تک اس کی مدد کرنے کا ہمیں اور قانون سے فائدہ اٹھانے کا انہیں حق حاصل ہے اس سے ہمیں اور انہیں کیوں محروم کیا جاتا ہے.اس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے ہمیں تحریری جواب دیا کہ کسی ملزم کو دفاع سے ہم محروم نہیں کرنا چاہتے.جماعت اگر بحیثیت جماعت مدد نہ کرے اور انفرادی طور پر ملزم کے ہم وطن یا دوست یا تعلق والے کوئی چندہ کرنا چاہیں تو ان کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں.چنانچہ اس چٹھی کے مطابق جو اب تک ہمارے پاس موجود ہے انہیں اجازت دے دی گئی کہ وہ چندہ کریں اور جائز حد تک مدد کریں یعنی مدعی کو جھوٹ بولنے سے روکیں یہ نہ ہو کہ وہ کہہ دے کہ میں نے کوئی حملہ نہیں کیا جس پر ان لوگوں نے اس غرض سے لوگوں سے چندہ کر کے وکیل کیا.ان میں سے بعض لوگ مجھ سے بھی چندہ لینے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ میں اس میں چندہ نہیں دے سکتا بلکہ ناظروں کو بھی چندہ دینے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ہمارا وجو د سلسلہ سے ایسا وابستہ ہے کہ ایسے امور میں ہماری کوئی منفر د ذات نہیں ہوتی.ایک عام احمدی کی حیثیت اور ہے اور ہماری اور.ہم مرکز کو کی چلانے والے ہیں مگر ایک عام احمدی مرکز کو چلانے والا نہیں پس اس میں نہ میں نے چندہ دیا اور نہ ناظروں کو میں نے اس میں حصہ لینے یا کام کرنے کی اجازت دی.پس یہ جو کچھ ہوا اسی حکومت کی اجازت سے ہوا جس کے ساتھ ہم نے وعدہ کیا تھا.احرار یا مصریوں سے تو ہمارا کوئی وعدہ تھا ہی نہیں پھر ہمارے قول میں اختلاف انہیں
خطبات محمود ۴۱۵ سال ۱۹۳۸ کہاں سے نظر آ گیا ہم نے جس سے وعدہ کیا تھا وہ سمجھتا تھا کہ ہم نے کیا وعدہ کیا ہے اور ہم بھی اپنے دلوں میں سمجھتے تھے کہ ہم نے کیا وعدہ کیا ہے چنانچہ حکومت کی چٹھی موجود ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ ہماری یہ مراد نہیں کہ ملزم کو دفاع سے محروم کر دیا جائے.جماعت اگر بحیثیت جماعت مدد نہ دے اور انفرادی طور پر ملزم کے ہم وطن یا دوست وغیرہ کوئی چندہ دینا چاہیں تو ہم ان کو نہیں روک سکتے وہ بے شک چندہ کر لیں.پس جن سے ہم نے کہا تھا کہ ہم جماعتی طور پر کوئی مدد نہیں کریں گے.ان پر واضح کر کے اور ان سے پوچھ کر ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کے دوستوں اور ہم وطنوں کو چندہ کرنے کی اجازت دی اور مزید احتیاط یہ کی کہ نہ خود چندہ دیا نہ ناظروں کو دینے دیا تو یہ تیسرا فریق اعتراض کرنے والا کون ہے.نہ جس سے ہمارا کوئی وعدہ تھا اور نہ اسے ہمارے وعدہ کی حقیقت معلوم ہے.پنجابی مثل ہے تو کون ؟ میں خواہ مخواہ.یہی مثال احرار اور مصریوں پر چسپاں ہوتی ہے.ہم ان سے کب کہنے گئے تھے کہ ہم میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کریں گے.اگر اعتراض ہو سکتا ہے تو حکومت کو.اور اس حکومت کا اجازت نامہ ہمارے پاس اس بارے میں موجود ہے.ان احراریوں کو تو کوئی حق ہی نہیں کہ وہ ایسا اعتراض کریں یہ تو ہمیشہ ایسے مواقع پر قومی طور پر ملزموں بلکہ مجرموں تک کی امداد کیا کرتے ہیں.پس اس معاملہ میں احرار کا کوئی حق نہیں کہ وہ دخل دیں.یہ ہمارا اور گورنمنٹ کا ایک باہمی معاملہ تھا گورنمنٹ نے ہم سے ایک خواہش کی اور ہم نے اسے تسلیم کر لیا اور گو ہم سے اس کی کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں غلطی ہوئی مگر خیر ہم بھول گئے اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ گورنمنٹ کی کے اس افسر نے جس نے ہم سے یہ مطالبہ کیا تھا ہم سے دھو کا کیا.اس نے بھی نیک نیتی سے یہ مطالبہ کیا گوافسوس ہے کہ بعد میں حکومت کے بعض لوکل نمائندوں کی طرف سے فرض شناسی میں کوتا ہی ہوئی.مگر بہر حال جس نے وعدہ کیا تھا اس نے اپنے وعدہ کو پورا کر دیا.جس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ اسی افسر سے پوچھ کر کی گئی جس نے وعدہ لیا تھا.اب یہ درمیان میں دخل دینے والا تیسرا فریق کون ہے.اس کو تو ہم منہ لگانے کے قابل ہی نہیں سمجھتے اگر اعتراض ہو سکتا تھا تو کی حکومت کو مگر اس نے نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں کیا بلکہ تحریری طور پر لکھا کہ ہمارا ہرگز یہ منشاء نہیں کی
خطبات محمود ۴۱۶ سال ۱۹۳۸ء کہ ملزم کو دفاع سے محروم کیا جائے.اس صورت حالات میں احرار کا جو ہمیشہ ملزموں بلکہ مجرموں کی بھی قومی طور پر امداد کیا کرتے ہیں کوئی حق نہیں کہ وہ ہم پر اعتراض کریں.میں اس موقع پر جماعت کے اندرونی جھگڑوں کے بارہ میں بھی کچھ راہنمائی کر دینا چاہتا ہوں.ہماری جماعت کی طرف سے بھی بعض دفعہ ایسے لوگوں پر اظہار ناراضگی ہوتا ہے جو ملزموں کا ساتھ دیتے ہیں اور ایسے موقعوں پر چونکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ کے مسلمہ اصل کے مطابق ملزم کی مدد کرنا جائز ہے تو ہم پر اظہار ناراضگی کی کیا وجہ ہے اور چونکہ یہ کسی قدر بار یک سوال ہے اور چونکہ میری اصل غرض اس مضمون کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ اصولی طور پر بعض مسائل حل کر دوں اس لئے اس امر پر بھی میں کچھ روشنی ڈال دینا چاہتا ہوں کہ یہ امرا چھی طرح یا د رکھنا چاہئے کہ جب کبھی مرکز کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے اور مرکز سے مراد میں خود ہوں یا وہ لوگ ہیں جو میرے کہنے پر ناراض ہوتے ہیں.(ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ناظر کسی پر بذات خود ناراض ہو اور غلط طور پر ناراض ہو یا ایک ماتحت افسر کسی پر ناراض ہو اور غلط طور پر ناراض ہوا اور انہیں وہ مسئلہ معلوم نہ ہو جو میں بتانا چاہتا ہوں ) تو یہ ملزم کے دفاع یا امداد کی کی وجہ سے اظہار ناراضگی نہیں ہوتا بلکہ غلط امداد یا غلط دفاع کی وجہ سے ہوتا ہے.پس میں جب بھی ناراض ہوتا ہوں یا میرے کہنے کی وجہ سے ناظر ناراض ہوتے ہیں تو ملزم کے دفاع یا اس کی امداد کرنے کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتے ہم کبھی اس وجہ سے ناراض نہیں ہوتے کہ ملزم کی طرف سے دفاع کیوں نہیں کیا گیا ہے.اسی طرح ہم کبھی اس وجہ سے ناراض نہیں ہوتے کہ ملزم کی امداد کیوں کی گئی ہے بلکہ ہم جب بھی ناراض ہوں گے اس وجہ سے ہو نگے کہ ہمارے خیال میں ملزم کی غلط امداد یا اس کی طرف سے غلط دفاع کیا گیا ہوگا لیکن جب غلط دفاع نہ ہو یا امداد نہ ہو تو ہم کبھی ناراض نہیں ہوتے.پس ہم کسی پر ناراض نہیں ہوتے بلکہ کسی پر اس امر کی وجہ سے ناراض ہو نہیں سکتے کہ کیوں کسی ملزم کو مجرم ثابت نہیں ہونے دیا جا تا اور یہ تو بڑے اندھیر کی بات ہے کہ ایک شخص پر الزام لگے اور اسے فوراً مجرم قرار دے دیا جائے بلکہ ناراضگی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ کیوں کسی مجرم کو مجرم ثابت نہیں ہونے دیا جا تا یعنی یہ جانتے ہوئے کہ وہ مجرم ہے جولوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ وہ مجرم نہیں.ان پر ہم ناراض ہوتے ہیں کیونکہ ہم کہتے ہیں
خطبات محمود ۴۱۷ سال ۱۹۳۸ء کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم چاہتے ہو کہ دنیا میں جھوٹ پھیلے مثلاً میاں عزیز احمد صاحب کے مقدمہ میں اگر ہم کوئی وعدہ نہ کرتے اور ان کی مدد کرتے تو گو ہمارے لئے جائز ہوتا کہ ثابت کرتے کہ واقعہ ایسا نہیں کہ اس پر پھانسی کی سزا ملے لیکن یہ جائز نہ ہوتا کہ ہم ملزم سے یہ کہلواتے کہ اس نے کوئی حملہ ہی نہیں کیا.یا یہ کہ اس دن وہ قادیان میں تھا ہی نہیں.اگر ہم ایسا کہتے تو ہم دنیا کے بھی مجرم ہوتے اور اپنے نفس کے بھی مجرم ہوتے اور خدا تعالیٰ کے بھی مجرم کی ہوتے.جب ایک واقعہ ہوا ہے تو دیانتداری سے سزا کی نوعیت میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر حملے میں اختلاف کرنا جھوٹ اور فریب ہوگا.پس جس چیز میں ہم اختلاف کر سکتے تھے وہ یہ تھا کہ حملہ کی نوعیت پھانسی والی تھی یا عبور دریائے شور والی یا دس سال قید والی.کیونکہ قتل کے بارہ میں یہ اختلاف ہوا ہی کرتے ہیں اور قتلوں میں سے کسی قتل کی سزا پھانسی ہوتی ہے، کسی کی عبور دریائے شور ہوتی ہے اور کسی کی دس سال قید ہوتی ہے.پس ہم جب کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو اسی وقت جبکہ اس کی نوعیت کی نسبت ثابت ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے ساتھ امداد کر رہا ہے یا جھوٹ بلوا رہا ہے.یا سلسلہ کے وہ کارکن جو اس کے دوست یا رشتہ داروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں انہیں بدنام کرتا ہے لیکن جو سچ سمجھ کر اور سچ کے ساتھ امداد کرے جب تک اس کے رشتہ دار یا دوست کے خلاف فیصلہ نہ ہو جائے ہم اسے حق بجانب سمجھتے ہیں.ایک شخص کے بیٹے کے خلاف اگر سلسلہ کے محکمہ قضاء میں مقدمہ چلتا ہے اور اس کا باپ دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ اس کا بیٹا مجرم نہیں تو میں اسے انتہائی سنگ دل اور شقی القلب سمجھوں گا اگر وہ اپنے بیٹے کی مدد نہ کرے لیکن فیصلہ ہونے کے بعد ہم اس کا فرض سمجھتے ہیں کہ فیصلے کے خلاف منہ سے کچھ نہ کہے اور قاضی پر الزام نہ لگائے کہ اس نے بددیانتی کی.اگر وہ خود یا اس کا بیٹا دیانتدار ہے تو سلسلہ کے کارکنوں کے متعلق وہ کیوں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بھی دیانتداری سے کام کر رہے ہیں.پس اسے یہ تو حق حاصل ہے کہ جب تک اس کے خلاف فیصلہ نہیں ہوتا ملزم کی مدد کرے مگر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غلط امدا د یا غلط دفاع کرے.مثلاً اسے یہ تو حق حاصل ہے کہ وہ سچائی سے کام لے مگر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ مقدمے میں جھوٹ بلوانے کی کوشش کرے -
خطبات محمود ۴۱۸ سال ۱۹۳۸ء جیسے گزشتہ سے پیوستہ سال جب ایک لڑکے نے چوری کی اور اس پر فتنہ اٹھا تو اُس وقت اس چورلڑکے کے رشتہ داروں کے خلاف ہمیں یہ غصہ نہیں تھا کہ وہ اس کی مدد کیوں کرتے ہیں بلکہ ہم ان پر اس لئے ناراض تھے کہ ان میں سے بعض اس سے جھوٹ بلوانا چاہتے تھے حالانکہ ہمارے سامنے وہ چوری کا اقرار کر چکا تھا.تو جس چیز کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا وہ کی جھوٹ اور فریب ہے.اگر یہ نہ ہو تو سچائی اور دیانت سے ہر شخص کو ملزم کی امداد کرنے کا حق حاصل ہے.ہاں فیصلہ ہو جانے کے بعد ہم اس کا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ فیصلہ کے خلاف منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالے اور قاضی پر کوئی الزام نہ لگائے.البتہ اسے یہ حق ہے کہ قضاء کے ذریعہ سے قاضی کے فیصلہ کو غلط ثابت کرے یا اگر قاضی کی بددیانتی ثابت ہو تو اس کے خلاف با قاعدہ دعوی کرے مگر یہ حق نہیں کہ پبلک میں اس کے خلاف شور مچاتا پھرے.مجھے یاد ہے کہ ایک عورت سال بھر ہمارے گھر میں آتی رہی اور بار بار مجھ سے کہتی کہ میرے مقدمہ کا قضاء والے فیصلہ نہیں کرتے.میں نے کئی دفعہ دفتر والوں کو توجہ دلائی اور وہ کی ہمیشہ مجھے یہ کھیں کہ ہم نے فیصلہ کر دیا ہے مگر جب اس عورت سے ذکر کیا جا تا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مقدمہ کا فیصلہ کر دیا ہے تو وہ کہتی کہ بالکل جھوٹ ہے.کوئی فیصلہ نہیں ہوا.آخر جب متواتر اس نے یہی کہا کہ کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور دفتر والے جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت میں نے کی سمجھا کہ اب یہ اختلاف اس قدر واضح ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے اور کوئی کہے کہ ابھی رات ہے.چنانچہ میں نے دفتر سے مسل منگوائی.جب مسل آئی تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہر جھگڑے کا فیصلہ اس میں موجود ہے.میں اس وقت حیران رہ گیا کہ یہ عورت سال بھر مجھ سے اتنا جھوٹ بولتی رہی حالانکہ اس کی کوئی بات نہیں تھی جس کا دفتر والوں نے کوئی فیصلہ نہ کیا ہوا ہو.پھر ایک دن وہ آئی تو میں نے اسے کہا.میں نے مسل منگوا کر دیکھی ہے اور شروع سے لے کر آخر تک دیکھی ہے اس پر تمہارے مقدمہ کا فیصلہ ہر مرحلہ پر فیصلہ ہو چکا ہے اور تم کہتی ہو کہ دفتر والوں نے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا.وہ کہنے لگی کہ یہ بھی کوئی فیصلے ہیں یہ تو میرے خلاف ہیں.میں نے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے چونکہ یہ فیصلے تمہارے خلاف ہیں اس لئے تمہارے نزدیک یہ کوئی فیصلے ہی نہیں ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس وقت بھی وہ اپنی ذہنیت کے لحاظ سے
خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۸ء جھوٹ نہیں بول رہی تھی کیونکہ وہ خیال کرتی تھی کہ فیصلہ وہ ہوتا ہے جو منشاء کے مطابق ہو، جو منشاء کے مطابق نہ ہو وہ فیصلہ نہیں ہوتا.غرض یہ طریق جائز نہیں کہ باہر دکانوں پر بیٹھ کر یا گلی کو چہ میں کھڑے ہو کر قاضیوں پر نکتہ چینی شروع کر دی جائے.ہاں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ہر فریق مقدمہ کو حق حاصل ہے کہ وہ قاضی کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرے اور اس پر ہم کبھی ناراض نہیں ہوتے.البتہ اگر وہ یہ لکھے کہ قاضی جھوٹا اور فریبی ہے تو ہم وہ مسل واپس کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک تم یہ الفاظ کاٹو گے نہیں اس وقت تک ہم اس اپیل پر غور نہیں کریں کی گے کیونکہ ہم جماعت کے اندر یہ معیار اخلاق قائم کرنا چاہتے ہیں کہ جب کسی کے خلاف کوئی کچ فیصلہ ہوتو وہ اسے بد دیانتی پر محمول نہ کرے.پس ہم یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی شخص قاضیوں کے خلاف لوگوں میں شور مچاتا پھرے ہاں یہ جائز ہے کہ وہ اپیل کرے اور ہم نے کئی دفعہ اپیلوں میں قاضیوں کے خلاف سخت ریمارکس کئے ہیں مگر یہ میرا یا دوسری عدالت ہائے مرافعہ کا حق ہے کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں.پس آج میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں.کہ ایسے موقع پر بعض دفعہ جماعت کی طرف سے جو ا ظہا ر نا راضگی ہوتا ہے وہ ملزموں کا ساتھ دینے کی وجہ سے نہیں ہوتا.ہم کسی ملزم کی امداد کرنا ہرگز نا جائز نہیں سمجھتے بلکہ اگر کوئی شخص اس ڈر کے مارے کہ اگر میں نے ملزم کی مدد کی تو لوگ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے اس کی جائز امداد بھی نہیں کرتا تو میں اسے شقی القلب اور ناقص مؤمن کہوں گا.ہاں اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو مجرم سمجھ کر اس کی مدد سے دستکش ہو جاتا ہے تو وہ واقع میں مؤمن ہے مگر جو مُجرم کے ثابت ہوئے بغیر جائز دفاع اور جائز مدد سے بھی اسے محروم کر دیتا ہے وہ شقی القلب ہے اور ہر گز کامل مومن نہیں.غرض ہم جس بات پر ناراض ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ جھوٹ کے ساتھ ملزم کی مدد کی جائے.یہ امر ہمارے لئے قطعاً قابل برداشت نہیں ہے.میں نے اس امر کو تفصیل سے اس لئے بیان کیا ہے کہ ہمارے اندر بھی سلسلہ کی قضاء کے بارہ میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں.بعض لوگ ملزم کی امداد کو غداری قرار دیتے ہیں.چنانچہ ذرا امور عامہ کسی کے خلاف نوٹس لے تو بعض حلقوں میں اس کی امداد کرنے والوں کو بلا دریغ غدار کی
خطبات محمود ۴۲۰ سال ۱۹۳۸ء قرار دے دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ صرف یہی ایسا نہیں بلکہ اس کا باپ اور اس کے بھائی کی بھی سلسلہ کے غدار ہیں کیونکہ وہ اس کی مدد کرتے ہیں حالانکہ امور عامہ بھی ابتداء میں الزام لگاتا ہے اور جب تک وہ الزام پایہ ثبوت تک نہیں پہنچ جاتا اُس وقت تک ملزم ہرگز مجرم نہیں بن سکتا اور نہ اس کی مدد کرنے والا غدار کہلا سکتا ہے.جب شریعت ملزم کی مدد کو غداری قرار نہیں دیتی تو کسی اور کا کیا حق ہے کہ اسے غداری قرار دے دے.اس کے مقابلہ میں بعض لوگ اس پر چڑتے ہیں کہ انہیں جائز و نا جائز وسائل سے ملزم کی امداد کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے.یہ دونوں غلطی پر ہیں ملزم کی جائز امداد ہر گز غداری نہیں.اگر امور عامہ کی ہر بات درست ہو تو پھر قضاء کا دروازہ شریعت نے کیوں کھولا ہے.قضاء کے محکمہ کا قیام شریعت کی طرف سے اسی لئے کیا گیا ہے کہ جب تک قاضی کوئی فیصلہ نہ کر دے شریعت ملزم کو مجرم قرار نہیں دیتی اور جب شریعت اسے مجرم نہیں سمجھتی تو اس کی امداد کرنا غداری کس طرح ہوسکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے جُرم کا ذاتی علم ہو.مثلاً اگر کسی کو ذاتی طور پر علم ہو کہ فلاں نے چوری کی ہے اور پھر وہ اس کی مدد کرتا ہے تو وہ مجرم ہے لیکن ملزم کی امداد جس کا مجرم قضاء یا علماً ثابت نہیں بہر صورت جائز ہے.پھر جو لوگ اس بات پر چڑتے ہیں کہ انہیں جائز و نا جائز وسائل سے ملزم کی امداد کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے وہ بھی غلطی پر ہیں کیونکہ نا جائز امداد ہرگز قابل برداشت نہیں جس طرح اوّل الذکر کو غدار کہنا غلط ہے اسی طرح ثانی الذکر کو محض ملزم کی امداد کرنے والا بھی کہنا کی دھوکا ہے.اس سوال کا جواب میں نے تفصیل سے اس لئے بیان کیا ہے تا جماعت کی بعض اصول میں راہنمائی ہو جائے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اصل اعتراض کا جواب بہت مختصر ہے.اصل اعتراض صرف یہ ہے کہ ایک غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک کس طرح پہنچ سکتا تھا.ضرور ہے کہ جماعت نے اس کی مدد کی ہو.اس کا اصولی جواب تو وہی ہے کہ جو میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ اعتراض محض نا واقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ قانون ملزم کی امداد کرنے سے نہیں روکتا.دوسرا جواب واقعات کی بناء پر ہے کہ یہ اعتراض محض واقعات سے بے خبری کے سبب سے ہے.ہم نے نہ ہائی کورٹ میں نہ پر یوی کونسل میں روپیہ خرچ کیا ہے.
خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۳۸ء اصل بات یہ ہے کہ قانونِ انگریزی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر کوئی ملزم نہایت غریب ہو اور وہ خود یا اس کے رشتہ دار یہ طاقت نہ رکھتے ہوں کہ مقدمہ لڑ سکیں اور مجرم سنگین ہو تو ملزم کو سرکاری وکیل مہیا کیا جاتا ہے اور سر کاراپنے خرچ پر وہ مقدمہ لڑتی ہے.چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا.ہائی کورٹ میں شیخ بشیر احمد صاحب کو حکومت نے خود فیس دے کر کھڑا کیا اور پریوی کونسل میں بھی گورنمنٹ کی طرف سے وکیل مقرر ہوا.پس یہ کہنا کہ ایک غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک کس طرح پہنچ گیا.یہ ہم پر اعتراض نہیں کی بلکہ اپنے علم پر اعتراض ہے اور اس امر کا اظہار ہے کہ اپنے ملکی قانون کو بھی وہ نہیں جانتے جس نے یہ دستور مقرر کر رکھا ہے کہ جب کسی ملزم کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ غریب ہے تو گورنمنٹ خود روپیہ دے کر اس کی طرف سے وکیل کھڑا کر دے اور ملزم کو پوری طرح اپنی بریت پیش کرنے کا موقع دے چنانچہ سرکاری طور پر ہمیشہ ایک لسٹ ایسے وکلاء کی تیار رہتی ہے اور ان کی فیسیں بھی اس کی طرف سے مقرر ہوتی ہیں.جب کوئی ایسا غریب شخص ملزم ہو جو کی مقدمہ چلانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس وقت ان وکلاء میں سے کسی ایک کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تم اس ملزم کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرو اور فیس ہم سے لو.جب اس مقدمے کا پہلی دفعہ فیصلہ ہوا ہے تو چونکہ افسروں کو علم تھا کہ لوگوں سے چندہ جمع کر کے اس مقدمہ کے اخراجات پورے کئے گئے ہیں اس لئے جیل خانے والوں نے میاں عزیز احمد صاحب سے پوچھا کہ تم اپیل کرنا چاہتے ہو یا نہیں.انہوں نے کہا کہ اب تک اس مقدمہ پر جتنا روپیہ خرچ ہوا ہے یہ بھی بعض دوستوں نے میرے ہم وطنوں اور تعلق رکھنے والوں سے چندہ کے طور پر جمع کیا تھا اور اب تو وہ روپیہ بھی خرچ ہو چکا ہے اور میرے پاس ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے کوئی خرچ نہیں.انہوں نے کہا.تم حکومت کو ایک درخواست دو جس میں لکھو کہ میں غریب آدمی ہوں اور میرے پاس مقدمہ چلانے کے لئے کوئی روپیہ نہیں میری مدد کی جائے اور میری اپیل کے لئے اخراجات کا انتظام فرمایا جاوے ہم اس پر تحقیقات کریں گے اور اگر کسی واقعہ میں ثابت ہو گیا کہ تم غریب آدمی ہو اور مقدمہ چلانے کے لئے تمہارے پاس روپیہ نہیں ہے تو حکومت اپنے پاس سے ان اخراجات کا انتظام کر دے گی.
خطبات محمود ۴۲۲ سال ۱۹۳۸ء چنانچہ انہوں نے درخواست دے دی.سرکا ر نے یہ معلوم کر کے کہ واقع میں یہ غریب آدمی ہے اور اپنے مقدمہ کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا سرکاری وکیل کی امداد کا فیصلہ کیا اور چونکہ ملزم کی طرف سے خواہش تھی کہ اس کی جماعت کا وکیل ہوا اور بہتر ہو تو شیخ بشیر احمد صاحب ہوں جن پر میں زیادہ اعتبار کر سکتا ہوں ہائی کورٹ نے مقدمہ شیخ بشیر احمد صاحب کے سپرد کر دیا اور خود انہیں نہیں ادا کی.چنانچہ شیخ بشیر احمد صاحب ہائی کورٹ کے حکم سے سرکاری روپیہ پر اس کی طرف سے پیش ہوئے.اسی طرح جب ہائی کورٹ میں بھی فیصلہ ہو گیا تو اب کی صرف پر یوی کونسل کا مرحلہ باقی تھا.حکومت کے افسروں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنا کیس پر یوی کونسل تک لے جانا چاہتے ہیں انہوں نے پہلے تو کہا کہ نہیں مگر بعد میں کہ دیا کہ ہاں میں لے جانا چاہتا ہوں.گورنمنٹ نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ اگر کسی کی (غالباً ) چالیس پاؤنڈ سے کم جائداد ہو تو اس کی اپیل حکومت خود کرتی ہے اور چونکہ ملزم کی اس قدر جائداد نہ تھی حکومت نے خود ہی ان کی طرف سے پریوی کونسل میں اپیل کی.آپ ہی وہاں کا غذات بھیجے اور آپ ہی وہاں مقدمہ لڑا.پس جو اصل اعتراض ہے.کہ میاں عزیز احمد صاحب جیسا غریب کی آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک کس طرح پہنچا تو اس کا نہایت مختصر مگر حقیقت پر مبنی جواب یہ ہے کہ وہ غریب آدمی سرکار کے کندھوں پر چڑھ کر پہنچا.کہتے ہیں ایک پاؤں کٹا شخص تھا.اس پر ایک دفعہ یہ الزام لگا کہ اس نے باغ کے پھل چرا لئے ہیں.اب باغ کے ارد گرد کی بڑی بھاری دیوار تھی اور بظاہر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ایک پاؤں کٹا شخص اس دیوار پر کیسے چڑھ گیا اور اس نے درختوں پر سے پھل کس طرح اُتار لئے مگر سوائے اس کے اور کوئی مجرم مالتا بھی نہیں تھا.آخر ایک ہوشیار افسر آیا اور اس نے اس اپاہج کے ساتھ ایک اندھے شخص کو بھی دیکھا.یہ دیکھتے ہی اس پر تمام معاملہ کھل گیا اور وہ کہنے لگا اب میں بتا تا ہوں کہ اس نے باغ سے پھل کس طرح چرایا ہے.بات یہ ہے کہ یہ اپاہی شخص اس اندھے کی کمر پر چڑھا اور پھر وہاں سے دیوار پر چڑھ کر اس نے پھل تو ڑلیا.اسی طرح بے شک میاں عزیز احمد صاحب پر یوی کونسل تک پہنچے مگر حکومت کے پروں پر سوار ہو کر اور اگر یہ نا جائز ہے اور اس طرح پر یوی کونسل تک
خطبات محمود ۴۲۳ سال ۱۹۳۸ء اپنے مقدمہ کو لے جانا قابلِ اعتراض عمل ہے تو احرار کو چاہئے کہ وہ کسی غریب مسلمان ملزم کی ج طرف سے گورنمنٹ کو اپنا وکیل مقرر کرنے نہ دیں اور اگر کرے تو اس کے خلاف سخت شور مچائیں.اس کے بعد ان کا حق ہوگا کہ وہ ہم پر اعتراض کریں مگر اس سے پہلے ان کا ( الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۸ء) اعتراض کرنا محض حماقت اور نادانی ہے.66
خطبات محمود ۴۲۴ ۲۲ سال ۱۹۳۸ تشهد میاں عزیز احمد صاحب مرحوم سے متعلق معاندین کے اعتراضات (فرموده ۱۵ / جولائی ۱۹۳۸ء) تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - گوانفلوئنزا کے حملہ کی وجہ سے جو اس ہفتہ میں مجھ پر ہو اتھا میں خطبہ کے بوجھ کو اپنے جسم کی طاقت سے بہت زیادہ پاتا ہوں لیکن چونکہ ایک مضمون میں نے شروع کیا ہوا ہے میں نے کی مناسب سمجھا کہ اس کا بقیہ حصہ آج ختم کر دوں اور گو جسمانی طاقت کے لحاظ سے مجھے چاہئے تھا میں نہایت مختصر طور پر خطبہ دے کر بیٹھ جاتا لیکن مضمون کو ختم کرنے کی نیت سے میں کوشش کروں گا کہ جس طرح ہو یہ مضمون آج ختم ہو جائے.میں نے بیان کیا تھا کہ احرار کی طرف سے بھی دو اعتراض مجھے پہنچے ہیں.جن میں سے پہلے اعتراض کا جواب میں نے گزشتہ خطبہ میں دے دیا تھا اب ان اعتراضوں میں سے صرف ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور میں آج اس کا جواب دینا چاہتا ہوں.وہ اعتراض یہ تھا کہ میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں ہزاروں آدمی شامل ہوئے.کیا یہ ہمدردی نہیں اور کیا یہ بغیر حکم کے ہو سکتا تھا.اگر ان کو بُرا کہتے ہیں تو ان کا جنازہ کیوں پڑھا گیا اور اگر جنازہ میں شمولیت بری نہیں تھی تو خود کیوں جنازہ میں شامل نہیں ہوئے.
خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۳۸ء پہلے میں اعتراض کے اس حصے کو لیتا ہوں جو میری ذات سے تعلق رکھتا ہے.یعنی یہ کہ میں جنازہ میں شامل کیوں نہیں ہوا سو یا د رکھنا چاہئے کہ میں اس لئے جنازہ میں شامل نہیں ہوا کہ بوجہ امام جماعت ہونے کے اگر میں جنازے میں شامل ہوتا تو خطرہ تھا کہ بعض نوجوان یہ سمجھ لیتے کہ چلو خلیفہ جنازہ تو پڑھا دیتا ہے اور اگر ایسا فعل کر لیا تو ان کا جنازہ تو نصیب ہو ہی جائے گا.پس آئندہ فتنہ کا سد باب کرنے کے لئے میں نے ایسا کیا اور ان لوگوں کی خیر خواہی کے لئے کی کیا جو کوئی ہفتہ نہیں جاتا کہ نا قابل برداشت گالیاں نہیں دیتے.میں اس وقت ان لوگوں کا ذکر کی نہیں کرتا جو ہمارے مخالف ہیں اور احمدیت میں شامل نہیں ہیں میں ان لوگوں کا بھی ذکر نہیں کرتا کی جو گو جماعت احمدیہ میں شامل ہیں لیکن شروع سے ہی خلافت کے متعلق ہم سے اختلاف رکھتے ہیں ، میں ان لوگوں کا بھی ذکر نہیں کرتا جو جماعت سے قریب زمانہ میں علیحدہ ہوئے ہیں اور گو وہ خلافت کے قائل ہیں مگر اس رنگ میں نہیں جس رنگ میں ہم قائل ہیں ، میں ان لوگوں کا بھی ذکر نہیں کرتا جن کے مونہوں پر خلافت کا عقیدہ ہے مگر ان کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا ہے.اور گوا ایسے لوگ تھوڑے ہی ہیں مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے لوگ موجود ہیں اور ان کے دلوں میں احمدیت اور خلافت کے متعلق ویسا ہی بغض ہے جیسے مخر جین یا پیغامیوں کے دلوں میں ہے بلکہ یہ منافق لوگ ان سے بھی زیادہ بغض اور عداوت اپنے اندر رکھتے ہیں کیونکہ وہ تو گالیاں دے کر اپنے غصہ کو ٹھنڈا کر لیتے ہیں مگر ان کو چاپلوسیاں بھی کرنی پڑتی ہیں ان کو خوشامد میں بھی کرنی پڑتی ہیں.ان کو نتیں بھی کرنی پڑتی ہیں اور ان کو اپنی زبان سے اپنی محبت کا اظہار بھی کرنا پڑتا ہے.مگر جس وقت ان کی زبان تعریف کر رہی ہوتی ہے ان کا دل کڑھ رہا اور خون ہورہا ہوتا ہے اور ان کا نفس انہیں لعنتیں ڈال رہا ہوتا ہے اور کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے کمبخت اور لعین ! تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اپنے عقیدہ کے خلاف کسی دنیوی مفاد یا چند پیسوں کے لئے ان کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے، پس ان کا غصہ اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کا بغض اور بھی ترقی کر جاتا ہے.غرض میں ان لوگوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کر رہا بلکہ میں ان لوگوں کا ذکر کر رہا تچ ہوں جنہیں تم ایک آدمی کہہ لو تم دو آدمی کہہ لو تم سو آدمی کہہ لو تم ہزار آدمی کہہ لو تم دس ہزار آدمی کہ لو تم لاکھ آدمی کہہ لو مگر بہر حال تمہیں ماننا پڑے گا کہ ایک ایسی جماعت ضرور ہے جو
خطبات محمود ۴۲۶ سال ۱۹۳۸ یقین او ر وثوق سے خلافت کے ساتھ وابستہ ہے جس کے افراد خلیفہ کی حکومت تسلیم کرنا اپنے کی ایمان کا جز و قرار دیتے ہیں، جو اس کے ہر قول اور فعل پر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ، جو اس میں خدا کے وجود کو دیکھتے اور خدا کے وجود میں اسے دیکھتے ہیں، جو اس بات پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ اگر خلیفہ وقت کی دعا اور اس کی برکت ہمیں حاصل ہو جائے تو یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہو گا.ان لوگوں کے خیالات کو یکسور کھنے اور انہیں غلط راستہ پر پڑنے سے بچانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ اس موقع پر کوئی ایسا طریق عمل اختیار کیا جاتا جس کے نتیجہ میں وہ اس غلط نہمی میں مبتلا نہ ہو جاتے کہ اگر ہم نے ناجائز طور پر کسی کو قتل بھی کر دیا تو خلیفہ وقت کی برکت اور اس کی دعا ہمیں حاصل ہو جائے گی.پس آئندہ فتنہ کا سد باب کرنے اور اپنی جماعت کے نوجوانوں کے ایمانوں کو بچانے کے لئے میں نے میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ نہیں پڑھایا تا میرے جنازہ پڑھانے کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں غلط خیال پیدا نہ ہو جائے کہ چلو خلیفہ جنازہ تو پڑھا دیتا ہے اگر ہم نے کوئی ایسی حرکت کر لی تو ان کا جنازہ تو بہر حال ہمیں نصیب ہو جائے گا:.پس میرا جنازہ نہ پڑھنا آئندہ فتنہ کے سدباب کے لئے تھا اور درحقیقت میں نے ان معترضین کی خاطر ایسا کیا.مگر میں نے تو ان پر اتنا بڑا احسان کیا اور وہ اُلٹا مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ میں نے میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ کیوں نہ پڑھا.حالانکہ میرا مقصد اس سے یہ تھا کہ احرار اور مخرجین میں سے جو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور جو کوئی ہفتہ نہیں جاتا کہ نا قابل برداشت الفاظ ہمارے متعلق استعمال نہیں کرتے ، ان پر آئندہ ہماری جماعت کا کوئی جوشیلا شخص محض اس خیال کے ماتحت حملہ نہ کر دے کہ اگر میں نے کسی کو قتل بھی کر دیا تو کم از کم خلیفہ کی دعا اور اُس کا جنازہ مجھے نصیب ہو جائے گا.پس میں نے میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ نہیں پڑھایا اور اس لئے نہیں پڑھایا کہ دوسرے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا اور انتہائی اشتعال کی حالت میں بھی کسی کو قتل کر دیتا ہے خلیفہ وقت اُس کا جنازہ پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.اگر کوئی کہے کہ پھر قاضی محمد علی صاحب سرحدی کا جنازہ کیوں پڑھا یا حالانکہ وہ بھی ایسے ہی
خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۳۸ فعل کے مرتکب ہوئے تھے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جماعت کے ایک فرد کا پہلا فعل تھا اور کی قدرتی طور پر جو پہلی دفعہ غلطی کرتا ہے اس کا زیادہ لحاظ رکھنا پڑتا ہے کیونکہ جس راستہ پر انسان کبھی نہ چلا ہو اس میں انسان سے کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں.پس لازما جب کوئی شخص پہلی دفعہ غلطی کرے گا وہ زیادہ قابل معافی ہو گا جس طرح وہ شخص جو پہلی نیکی کرے گا وہ زیادہ قابلِ انعام ہوگا.بہر حال پہلے اور پچھلے میں فرق ضرور ہوگا.جو شخص پہلی نیکی کرتا ہے وہ زیادہ قابل انعام سمجھا جائے گا کیونکہ اس نے بغیر نمونہ کے نیکی کی لیکن دوسرا نیکی کرنے والا نقال بھی ہو سکتا ہے.اسی طرح جو پہلی غلطی کرے اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ یوں نہیں کرنا چاہئے اور چونکہ ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اس لئے وہ غلطی کھا گیا.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے اس وقت تعلیم زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے مگر پہلے نہیں کی ہوتی.پہلے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو اشتعال میں آکر کسی پر حملہ کر دے لیکن جب کوئی پر جوش شخص ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو پھر خیال آتا ہے کہ ایسے آدمی کی تو ہم میں موجود ہیں اور پھر زور دیا جاتا ہے کہ اس طرح نہیں کرنا چاہئے.پس جو پہلی غلطی کرتا ہے وہ کم مجرم ہوتا ہے لیکن جو بعد میں پہلی غلطی کے نتائج کو دیکھنے کے باوجود اسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے وہ زیادہ مجرم ہوتا ہے جس طرح پہلی نیکی کرنے والا بعد میں نیکی کرنے والے سے زیادہ قابل انعام ہوتا ہے.مثال کے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ لے لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کے ارد گر دصحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہ ذکر کرنا شروع کر دیا کہ جنت میں یوں ہوگا یوں ہوگا اور پھر ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مقدر فرمائے ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو کی فرمانے لگے.یا رَسُول اللہ ! دعا کیجئے کہ جنت میں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ( بعض روایتوں میں ایک اور صحابی کا نام آتا ہے اور بعض روایتوں میں حضرت ابوبکر کا نام آتا ہے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم میرے ساتھ ہو گے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہو.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو کی
خطبات محمود ۴۲۸ سال ۱۹۳۸ء قدرتی طور پر باقی صحابہ کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ ہمارے لئے بھی یہی دعا کی جائے.پہلے تو وہ اس خیال میں تھے کہ ہمارے یہ کہاں نصیب ہیں کہ ہم جنت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں مگر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یا بعض روایتوں کے مطابق کسی اور صحابی نے یہ بات کہہ دی اور کی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی تو اب انہیں نمونہ مل گیا اور انہیں کی پتہ لگ گیا کہ یہ عمل ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے.چنانچہ ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا.یا رَسُول اللہ ! میرے لئے بھی دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ جنت میں مجھے آپ کے ساتھ رکھے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ تم پر بھی فضل کرے مگر جس نے پہلے کہا تھا اب تو وہ دعا لے گیا ہے اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے بھی دعا فرما دیتے تو پھر تیسرا شخص کھڑا ہو جاتا.اس کے بعد چوتھا اور پھر پانچواں اور سب یہی کہتے.نتیجہ یہ ہوتا کہ سارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ میں ہی آ جاتے باقی جنت تو خالی ہی رہ جاتا کیونکہ بعد میں آنے والے بھی کہہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بعد میں پیدا کر دیا ورنہ ہمارا بھی یہی جی چاہتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں اور اس خواہش میں ہم کسی سے پیچھے نہیں اور یقیناً اس لحاظ سے انہیں بھی یہ حق حاصل ہو جاتا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں.اس کی طرح امت محمدیہ میں صرف محمدی مقام ہی رہ جاتا اور کوئی مقام نہ رہتا.تو یہ قدرتی بات ہے کہ جو پہلی نیکی کرے گا وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوگا کیونکہ اس نے بغیر نمونہ کے نیکی کی اور دوسروں نے اس کی نقل میں نیکی کی.یہی حال گناہ کا ہے.جو شخص پہلا گناہ کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اس گناہ کو ایجا د بھی کرتا ہے، شریعت کے مطابق اسے زیادہ سزا دی جائے گی کیونکہ اسے کہا جائے گا کہ تمہارا یہی قصور نہیں کہ تم نے پہلا گناہ کیا بلکہ تمہارا قصور یہ بھی ہے کہ تم نے اس گناہ کو ایجاد کیا لیکن اگر اس نے کی غفلت یا نا واقعی سے یا شریعت اور سلسلہ کی تعلیم سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ایک گناہ کیا ہو جس سے پہلے وہ قوم روشناس نہ ہو، یہ نہیں کہ اس گناہ کو اس نے ایجاد کیا ہو تو اس مجرم کی سزا اسے کم ملے گی لیکن جب اسے تنبیہہ ہو جائے اور سب لوگوں پر مسئلہ واضح ہو جائے تو اس کے بعد جو شخص
خطبات محمود ۴۲۹ سال ۱۹۳۸ دوبارہ گناہ کرے تو وہ زیادہ سزا کا مستحق ہوگا.پس قاضی محمد علی صاحب نے جس فعل کا ارتکاب کیا چونکہ وہ ہمارے سلسلہ میں پہلا فعل تھا اور اس سے پہلے زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا، اس لئے ہم نے قاضی محمد علی صاحب سے اور سلوک کیا اور جب انہوں نے تو بہ کر لی اور ساتھ ہی قانون کا منشاء بھی پورا ہو گیا اور انہیں پھانسی مل گئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں معافی دے دی ہے اور جوز جر ہوگئی ہے وہ آئندہ کے لئے کافی ہے.مگر جب دوسرا واقعہ ہوا تو یہ سمجھتے ہوئے کہ پہلی تنبیہہ کافی نہیں ہوئی مزید سختی کی کی ضرورت سمجھی گئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ جس سے یہ واقعہ ہوا ہے اس کا جنازہ میں نہ پڑھوں اور ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ اگر آئندہ کسی شخص نے مشتعل ہو کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.جس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے شخص کا جنازہ خلیفہ وقت ہی نہیں باقی جماعت بھی نہیں پڑھے گی کیونکہ جسے ہم جماعت سے خارج کر دیتے ہیں وہ اگر مر جائے تو جماعت اس کا جنازہ نہیں پڑھتی.اور در حقیقت یہ ایک رنگ میں مقاطعہ کا فیصلہ ہے ورنہ اگر کوئی کی واقع میں احمدی ہو تو اسے احمدیت سے کوئی خارج نہیں کر سکتا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہم جب کسی کو خارج کرتے ہیں تو جماعت سے کرتے ہیں ، احمدیت سے نہیں.احمدیت سے خارج تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نہیں کر سکتے اور چونکہ احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے اس لئے اسلام کے متعلق بھی یہی کی اصل ہے کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی انسان کو خارج نہیں کر سکتے.آپ اسے مسلمین سے خارج کر سکتے ہیں مگر اسلام سے خارج نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خدا کا کام ہے اور وہی جانتا ہے کہ واقع میں کوئی شخص دل سے اسلام سے نکل گیا ہے.یا نہیں.جن باتوں سے اسلام روکتا ہے اگر کوئی شخص ان کا مرتکب ہوتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں لیکن بعض لوگ با وجود ظاہری طور پر اسلامی احکام پر عمل کرنے کے پھر بھی مسلمان نہیں ہوتے کیونکہ گو وہ بظاہر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے قائل ہوں ، نمازیں پڑھتے ہوں، روزے رکھتے ہوں، حج کرتے ہوں ، زکوۃ دیتے ہوں ، پھر بھی ممکن ہے کہ ان کے دل میں اسلام نہ پایا جاتا ہو.ایسے لوگوں کو گو ہم ظاہر میں مسلمان ہی کہیں گے مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان جماعت
خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۳۸ء نہیں ہوں گے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک جنگ کے موقع پر ایک شخص نے اتنی جرات اور دلیری سے جہاد میں حصہ لیا کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اسے دیکھ کر بے اختیار کہتے کی تھے.خدا اسے جزائے خیر دے کہ یہ آج ہم سب میں سے زیادہ کام کر رہا ہے یہ شخص یقینی جنتی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اگر صفحہ دنیا پر کسی نے چلتا پھر تا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس کو دیکھ لے.اب وہ شخص بظاہر مسلمان تھا نہیں تو صحابہ اسے جنتی قرار نہ دیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوزخی قرار دے دیا.سے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کے ذریعے بتا دیا ہو گا کہ یہ دوزخی ہے لیکن کوئی دوسرا شخص ایسے آدمی کو کا فرقرار نہیں دے سکتا.تو در حقیقت اسلام سے نکالنے کا کام اللہ تعالیٰ کا ہے ، ہمارا نہیں.ہم بعض دفعہ ظاہر میں کسی کے متعلق فتوی دے دیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے حالانکہ وہ کافر ہوتا ہے اور بعض دفعہ کسی کو نظام کے توڑنے کے باعث جماعت سے خارج کر دیتے ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ احمدی نہیں رہا.بعض دفعہ وہ جماعت سے خارج ہونے پر بھی احمدی رہتا ہے اور بعض دفعہ نہیں رہتا.ہر شخص کے ایمانی حالات کے مطابق اس کی احمدیت باقی رہتی ہے یا جاتی رہتی ہے.غرض ہم جس کو بھی خارج کرتے ہیں احمدیت یا اسلام سے خارج نہیں کرتے ،سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کے فتویٰ کے مطابق ایسا کریں.اگر خدا تعالیٰ کا فتویٰ موجود ہو تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدی نہیں.ورنہ اس کے بغیر ہمارا تو یہ حق ہے کہ ہم کہیں اس کا ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ حق نہیں کہ اس کے متعلق یہ کہیں کہ وہ احمدی نہیں.اصل بات یہ ہے کہ گناہ تو بہ سے معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ اس نیت سے کوئی گناہ نہ کرے کہ بعد میں معافی لے لوں گا.جو شخص اس نیت سے گناہ کرتا ہے کہ میں بعد میں تو بہ کرلوں گا اس کی تو بہ چونکہ بناوٹی ہوتی ہے اس لئے وہ قبول نہیں ہو سکتی إِلَّا مَا شَاءَ اللہ اس لئے نہیں کہ تو بہ سے گناہ معاف نہیں ہو سکتے بلکہ اس لئے کہ وہ تو بہ حقیقی نہیں ہوتی.اگر حقیقی تو بہ ہوتی تو وہ گناہ کے ارتکاب کے بعد کی ہوتی.جو شخص گناہ سے پہلے یہ خیال کرتا ہے کہ میں گناہ کر لیتا ہوں پھر تو بہ کرلوں گا اس کی وہ تو بہ پہلے کی ہے اور اس کا گناہ اس کی تو بہ کو مٹا دیتا ہے.
خطبات محمود ۴۳۱ سال ۱۹۳۸ لیکن جو ایسی صورت میں گناہ نہ کرے بلکہ جذبات سے متاثر ہوکر بجَهَالَةٍ کرے تو تمام اہل السنت کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ امر ثا بت ہے کہ ایسی تو بہ قبول کر لی جاتی ہے اور تائب کا گناہ معاف ہو جاتا ہے چاہے کتنا بڑا گناہ کیوں نہ ہو.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک شخص کو حد لگائی گئی تو آپ نے فرمایا.حدود تو بہ کے ساتھ انسانی گناہ معاف کرا دیتی ہیں.اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ حد ہمیشہ بڑے گناہ میں لگائی جاتی ہے.مثلاً قتل ہے یا زنا ہے یا قذف ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ ہے.کہ ان حدود کے ساتھ جب تو بہ مل جائے تو گناہ معاف ہو جاتا ہے.پس جب کوئی شخص اصول دین پر ایمان رکھتا ہو اور کسی اعتقادی مسئلہ کا انکار نہ کرتا ہو اور نہ منصوص احکام کا انکار کرتا ہو.مثلاً نماز، زکوۃ وغیرہ یعنی وہ یہ نہ کہتا ہو کہ نماز نہیں پڑھنی چاہئے؟ یا روزہ نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ نماز کا حکم منصوص احکام میں سے ہے.اس کے متعلق قرآن کریم میں بھی تاکید پائی جاتی ہے ، سنت سے بھی یہ ثابت ہے اور حدیث سے بھی یہ ثابت ہے اور کسی عمل کو ثابت کرنے کے لئے انہی تین شاہدوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اختلاف کا سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص کہے کہ قرآن سے یہ ثابت نہیں یا سنت اس کے خلاف ہے یا حدیث اس کی تائید میں نہیں لیکن جب قرآن، سنت اور حدیث تینوں ایک بات پر متفق ہوں تو وہ تین طرح منصوص حکم ہے اور اگر کوئی شخص اس کا انکار کرتا ہے تو وہ یقیناً کافر ہے.مثلاً اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا لیکن نماز کا قائل ہے تو یہ دوسری صورت ہوگی لیکن اگر کوئی کہے کہ نماز پڑھنی ہی نہیں چاہئے تو وہ کافر ہو جائے گا.تو اگر وہ کسی اعتقادی مسئلہ کا انکار نہ کرتا ہو اور نہ منصوص احکام کا انکار کرتا ہو بلکہ محض جوش نفسانی سے کوئی کام کر بیٹھے یعنی اس کے نفس کو اتنا جوش آجائے کہ اس کی دینی طاقت کمزور ہو جائے اور وہ جذبات کی رو میں بہہ جائے تو وہ حقیقتاً مذہب سے باہر نہیں ہو جا تا بلکہ مسلمان ہی کہلائے گا مثلاً کوئی شخص چوری کرتا ہے.اب اگر وہ یہ کہے کہ گوخدا نے یہ کہا ہے کہ چوری مت کرو مگر میں ضرور کروں گا تو وہ کافر ہو جائے گا.لیکن اگر کی وہ یہ کہے کہ خدا نے تو یہ کہا ہے کہ چوری نہ کرو اور میں بھی مانتا ہوں کہ چوری بہت بُری چیز ہے مگر میرا نفس ایسا کمزور ہے کہ وقت پر یہ بات مجھے بھول جاتی ہے اور بے اختیار چوری کر لیتا ہوں تو وہ
خطبات محمود ۴۳۲ سال ۱۹۳۸ء کا فرنہیں کہلائے گا.ہم ایسے شخص کو بعض دفعہ سزا کے طور پر جماعت سے الگ کر سکتے ہیں مگر احمدیت یا اسلام سے الگ نہیں کر سکتے.اپنی جماعت کے نظام کی درستی ، اسے لوگوں کے اعتراضات سے محفوظ رکھنے اور خود اسے آئندہ کے لئے سبق دینے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہیں، مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ احمدیت سے خارج ہو گیا.یا کچ اسلام سے خارج ہو گیا.ایسی صورت میں اگر وہ عقائد اور اعمال کو تسلیم کرنے میں ہمارے کی ساتھ متفق ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ نماز پڑھنی چاہئے وہ کہتا ہے کہ زکوۃ دینی چاہئے ، وہ کہتا ہے کہ حج کرنا چاہئے ، وہ کہتا ہے کہ چوری نہیں کرنی چاہئے ، مگر بعض دفعہ وہ نمازیں نہیں پڑھتا ، بعض دفعہ وہ روزے نہیں رکھتا ، بعض دفعہ وہ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا یا بعض دفعہ چوری کر لیتا ہے تو ہم اسے ناقص مسلمان تو کہہ سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیر مسلم ہے یہی حالت قصہ زیر بحث کی ہے.جس شخص نے اس فعل کا ارتکاب کیا اس کے عقائد وہی ہیں جو ہمارے ہیں.اعمال کے متعلق وہ تسلیم کرتا ہے کہ قرآن نے جو کچھ کہا ہے اس کا حرف حرف قابل عمل ہے.پھر وہ منافقت کی وجہ سے اس فعل کا مرتکب نہیں ہوا بلکہ جوش کی حالت میں اس سے یہ فعل سرزد ہو ا ہے.یعنی یہ نہیں ہوا کہ اس نے یہ کہا ہو کہ میں خدا کے اس حکم کو رڈ کرتا ہوں اور اسے کی ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ جوش کی حالت میں جبکہ ممکن ہے وہ خدا کے اس حکم کو بھول گیا ہو یا اس کے نفس نے اس کی کوئی اور تاویل کر لی ہو اس نے اس فعل کا ارتکاب کیا.پس ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ مذہب سے باہر ہو گیا.ہم آئندہ زیادہ سختی سے روکنے کی خاطر ایسے شخص کو (اگر خدانخواستہ کوئی ایسا فعل کرے) جماعت سے نکال تو دیں گے مگر جب کہ وہ سب عقائد کو مانتا ہو ، جماعت سے عملاً جدا نہ ہوتا ہو یا اس میں تفرقہ نہ ڈالتا ہو اور صرف کسی عمل کا باوجود اس کو نا جائز سمجھنے کے غلطی سے مرتکب ہو جاتا ہو.یا حکم تو درست سمجھتا ہو لیکن اس کا اطلاق غلط کر لیتا ہو تو اسے ہم احمدیت سے الگ نہیں سمجھ سکتے.مثلاً قتل ہے یہ ایک ناجائز فعل ہے مگر مسلمان عام طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جوش میں کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کر دینا جائز ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کی ہو.اب ایسے شخص کے متعلق ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناقص مسلمان ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف اس وجہ سے وہ اسلام سے نکل گیا..
خطبات محمود ۴۳۳ سال ۱۹۳۸ء اسی طرح جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے خدانخواستہ کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے کی جب کہ وہ سب عقائد کو مانتا ہو صرف کسی فعل کو نا جائز سمجھنے کے باوجود غلطی سے اس کا مرتکب ہو جا تا ہو.یا حکم کو درست سمجھنے کے باوجود اس کا اطلاق غلط کر لیتا ہوتو اسے گو ہم جماعت سے نکال دیں گے مگر احمدیت سے الگ نہیں سمجھ سکتے ، اور ہمارا یہ حکم محض تعزیری ہوگا اور ایسے افعال کو روکنے کی خاطر ہوگا اور ضروریات دینی کی غرض سے اس قسم کے تعزیری احکام دینے کی خلفاء کو کی اجازت ہے.اب رہا یہ سوال کہ پھر اوروں کو میں نے کیوں نہ روکا جبکہ خود جنازہ نہ پڑھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جبکہ ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کو جماعت سے خارج نہیں کیا تھا تو ان کا جنازہ جائز تھا اور گو اس نے جو فعل کیا وہ جائز نہیں تھا لیکن اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ احمدی نہیں رہا تھا.اگر وہ یہ کہتا کہ میں قرآن کو نہیں مانتا.میں احمدیت کو سچا نہیں سمجھتا ، میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے دعاوی میں صادق اور راستبا زنہیں مانتا تو پھر وہ حملہ ہی کیوں کرتا.میاں فخر الدین نے اس کے باپ کو تو نہیں مارا ہو ا تھا کہ اسے کوئی نفسانی جوش تھا جس کی وجہ سے اُس نے اُسے قتل کر دیا.اس نے غلطی سے یا صحت سے اپنے ذہن میں اس فعل کا ارتکاب محض خدا کے لئے کیا اور میں بتا چکا ہوں کہ جب کوئی شخص عقائد کا انکار نہ کرتا ہو اور صرف کسی عمل کا باوجود اس کو نا جائز سمجھنے کے غلطی سے اس کا مرتکب ہو جاتا ہوا سے ہم احمدیت سے الگ نہیں سمجھتے زیادہ سے زیادہ اُسے جماعت سے خارج کر سکتے ہیں اور جبکہ ہم نے اُسے جماعت سے بھی خارج نہیں کیا تھا تو اُس کا جنازہ پڑھنے میں کیا حرج تھا اور جس شخص کا جنازہ ہی جائز ہو اُس کا جنازہ فرضِ کفایہ ہوتا ہے.یعنی اگر چند لوگ جنازہ پڑھ لیں تو ساری قوم الزام کی سے بری ہو جاتی ہے اور اگر کوئی بھی نہ پڑھے تو ساری قوم زیر الزام آجاتی ہے.ایک مسلمان اگر مر جائے اور دس ہیں اس کا جنازہ پڑھ دیں تو باقی سب مسلمانوں پر جو فرض عائد ہوتا تھا وہ ادا ہو جائے گا لیکن اگر کوئی بھی جنازہ نہ پڑھے تو جو اس مقام کے لوگ ہونگے وہ سب گنہ گار ہونگے.تو جس شخص کا جنازہ جائز ہو اس کا جنازہ کچھ نہ کچھ افراد پر واجب ہوتا ہے اگر وہ نہ پڑھیں تو ساری قوم مجرم ہو جاتی ہے اور اگر کچھ لوگ پڑھ لیں تو ساری قوم کی
خطبات محمود ۴۳۴ سال ۱۹۳۸ عہدہ برا ہو جاتی ہے.پس ہم دوسروں کو جنازہ پڑھنے سے کسی صورت میں روک نہیں سکتے تھے اگر کہا جائے کہ تم نے پندرہ ہیں آدمی جنازہ پر بھیج دینے تھے باقیوں کو کیوں جانے دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ صورت اختیار کی جاتی تو پھر اور زیادہ اعتراض ہوتا اور اس صورت میں معترض یہ نہ کہتے کہ عام لوگوں کو جنازہ پڑھنے سے روکا گیا ہے بلکہ وہ کہتے کہ بعض لوگوں کو خود حکم دے کر جنازہ کی پڑھوایا گیا ہے.تو بہتر طریق یہی تھا کہ اس بارے میں کچھ نہ کہا جاتا اور جس کا جی چاہتا جنازہ پڑھ آتا اور جس کا جی چاہتا نہ پڑھتا اور یہی طریق ہم نے اختیار کیا.پھر یہ اعتراض کہ اگر امام جنازہ نہ پڑھے تو دوسروں کو بھی رو کے.محض دینِ اسلام کی ناواقفیت سے پیدا ہوا ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے کہ جن کی لوگوں کو حدود لگی ہوں اُن کا جنازہ امام تو نہ پڑھے لیکن دوسرے مسلمان پڑھ لیں.چنانچہ ابوداؤد میں روایت ہے کہ ماعز ایک شخص تھے.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بدکاری کا اقرار کیا، یہ واقعہ تفصیل سے احادیث میں آتا ہے، انہوں نے کئی دفعہ قسم کھائی اور بار بار کہا کہ میں نے بدکاری کی ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فیصلہ کیا کہ انہیں حد لگائی جائے اور سنگسار کیا جائے.جب وہ سنگسار کر دیئے گئے تو ان کا جنازہ کی خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا لیکن دوسروں کو آپ نے اس کا جنازہ پڑھنے سے منع بھی نہیں کیا ہے اسی طرح ایک قرضدار تھا.جب وہ فوت ہوا تو آپ نے فرمایا میں قرضدار کا جنازہ نہیں پڑھتا لیکن دوسروں کو آپ نے جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا.شے یہاں بھی یہی ہوا.ایک طرف میں نے جماعت کو ان کا جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا اور دوسری طرف میں نے خود ان کا جنازہ نہ پڑھا.تا نوجوان آئندہ محتاط رہیں اور وہ یہ خیال کر کے کہ چلو خلیفہ وقت جنازہ تو پڑھا دیتا ہے آئندہ کسی ایسے فعل کے مرتکب نہ ہو جائیں :- پس لوگوں کو جنازہ پڑھنے سے روکنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کی سنت سے ثابت نہیں.اور اگر لوگوں کو جنازہ پڑھنے دینا بُری بات ہے تو اس پٹھان کی طرح جس نے کی
خطبات محمود ۴۳۵ سال ۱۹۳۸ء کہا تھا ”خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا ان معترضین کا اصل اعتراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر پڑتا ہے.کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا.ایک دفعہ جب وہ حدیث کا سبق پڑھ رہا تھا.تو وہاں یہ ذکر آ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک بچہ کو اٹھا کر نماز پڑھنی شروع کر دی.جب آپ سجدہ میں جاتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُسے اُٹھا لیتے ، وہ پڑھتے ہی کہنے لگا ”خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.اس نالائق نے یہ نہ سمجھا کہ نماز تو خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہے.اگر نماز کے قواعد وہ نہیں جانتے تو اور کون جان سکتا ہے.کسی نے اسے کہا یہ کیا بے ہودہ بات کرتے ہو.تو اس نے جواب دیا کہ میں ٹھیک کہتا ہوں کنز میں لکھا ہے کہ خارجی حرکت سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.اسی طرح یہ لوگ بھی مسئلہ اپنے پاس سے بناتے اور پھر اسے منسوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دیتے ہیں.حالانکہ یہ بات احادیث سے ، فقہاء کے اقوال سے اور ائمہ اربعہ کے فتاویٰ سے ثابت ہے.آخر یہ جو اعتراض کرتے ہیں.یہ یا تو اہلحدیث ہونگے یا حنفی ہو نگے یا شافعی ہونگے یا مالکی ہونگے یا حنبلی ہو نگے اور اگر یہ اہلحدیث ہیں تو حدیثیں موجود ہیں ،حنفی ہیں تو حنفیوں میں بحث پائی جاتی ہے، شافعی ہیں تو شافعیوں میں بھی یہ مسئلہ پایا جاتا ہے اور اگر مالکی یا حنبلی ہیں تو ان میں بھی یہ مسئلہ پایا جاتا ہے.غرض کوئی ایک بھی محدث ، یا فقیہہ ، یا امام ایسا نہیں جو کہتا ہو کہ اس قسم کے گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے مجرم کو جنازہ سے محروم کر دینا اہئے.چنانچہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تمام ائمہ خواہ حنفی ہوں ، خواہ شافعی ، خواہ حنبلی ، خواہ مالکی اس امر کا فتویٰ دیتے ہیں کہ اہلِ کبائر کا جنازہ جائز ہے.صرف امام مالک ان سے اختلاف کرتے ہیں مگر وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ جنازہ جائز نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ امام کو ان اہلِ حدود کا کی جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے جن کو اس نے خود حد لگوائی ہو.یعنی امام کسی کے متعلق یہ فتویٰ دے چکا کی ہو کہ فلاں شخص حد کے نیچے آ گیا ہے.اس فتویٰ کے بعد اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ خود اس کا کی جنازہ پڑھے.مثلا کسی پر زنا کا الزام ثابت ہو چکا ہے یا قتل کا الزام ثابت ہو چکا ہے یا چوری کا الزام ثابت ہو چکا ہے اور وہ حکم دے چکا ہے کہ اس پر زنا، یا قتل ، یا چوری کی حد قائم کر دی جائے
خطبات محمود ۴۳۶ سال ۱۹۳۸ء تو جس کے متعلق امام نے خود حد لگوائی ہو اس کا جنازہ پڑھنا اس کے لئے جائز نہیں لیکن وہ کہتے ہیں امام کے علاوہ دوسروں کو پھر بھی جائز ہے کہ اس کا جنازہ پڑھیں.پس میں نے جو کیا وہ احوط سے احوط مذہب ہے.اور میں نے تو اس بات پر عمل کیا جو سب سے زیادہ سخت ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہر صورت میں نماز جنازہ جائز ہے، خواہ امام نے حد لگوائی ہو یا نہ لگوائی ہو.شوافع کا مذہب بھی یہی ہے.اسی طرح حنبلیوں اور مالکیوں کا بھی یہی مذہب ہے کہ اہل کبائر کا جنازہ جائز ہے.صرف امام مالک نے ان سے اختلاف کیا ہے اور امام مالک نے اپنے اس اختلاف کی بنیا د اسی حدیث پر رکھی ہے.جو ماعز کے متعلق میں بیان کر چکا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے البتہ آپ نے دوسروں کو روکا بھی نہیں.پس وہ کہتے ہیں کہ جب امام خود حد لگوائے تو وہ جنازہ نہ پڑھے مگر دوسروں کو جنازہ پڑھنے سے وہ بھی نہیں روکتے.اب بتاؤ جس امر کے متعلق تمام اہلحدیثوں ، تمام حنفیوں ، تمام شافیوں، تمام مالکیوں اور تمام حنبلیوں کا فتویٰ ہے کہ وہ جائز ہے اس پر یہ احرار کیا اعتراض کر سکتے ہیں اور یہ کونسے نئے صحابی پیدا ہو گئے ہیں کہ اسلام اور قرآن کی پر اپنی حکومت جتانے لگ گئے ہیں.اس پٹھان کے متعلق تو کہہ سکتے تھے کہ کم از کم کوئی فقہ کی کتاب اس کی تائید میں تھی مگر ان کی تائید تو کسی حدیث اور کسی فقہ کی کتاب سے نہیں ہوتی بلکہ حق یہ ہے کہ میں نے امام مالک سے بھی زیادہ احتیاط اس بارے میں کی ہے اور وہ اس طرح کی کہ امام مالک یہ کہتے ہیں کہ جس کو امام شریعت کے احکام کے مطابق حد لگوائے اس کا وہ جنازہ نہ پڑھے لیکن میں نے اس شخص کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جسے میں نے حد نہیں بلکہ انگریزی حکومت نے جو کا فر ہے حد لگائی تھی.پس امام مالک کے فتویٰ کے مطابق اگر میں میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ پڑھا دیتا تب بھی میرے لئے جائز تھا کیونکہ ان پر کسی اسلامی حکومت نے حد قائم نہیں کی.بلکہ ان سے قصاص انگریزی حکومت نے لیا جو غیر اسلامی حکومت ہے مگر میں نے اتنا بھی نہ کیا.پس امام مالک جنہوں نے اس بارہ میں سب سے زیادہ سخت پہلولیا ہے میں نے ان سے بھی سخت تر پہلو لیا اور ایک کا فر گورنمنٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا جنازہ نہیں پڑھا.
خطبات محمود ۴۳۷ سال ۱۹۳۸ء اگر احرار کو اس پر اعتراض ہے تو پہلے سب حدیثوں اور فقہ کی کتابوں کو رد کر دیں اور کہہ یں کہ یہ سب جھوٹی ہیں ، اب ہم نئے مولوی پیدا ہو گئے ہیں اور ہم بتا ئیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرنا چاہئے تھا.اس طرح پہلے وہ ایک نیا دین ایجاد کریں پھر جو لوگ اس دین کو مان کر اس پر عمل نہ کریں تو ان پر اعتراض کریں.ہم تو ان کے اس دین پر ہیں ہی نہیں.وہ ہم پر کیوں اعتراض کرتے ہیں.ہم تو اہلِ سنت ہیں اور سب سے پہلے قرآن کو مانتے ہیں پھر سنت کو مانتے ہیں، پھر حدیثوں کو مانتے ہیں.اس مسئلہ کے متعلق قرآن کریم میں کی بالبداہت کوئی آیت موجود نہیں ممکن ہے اگر غور کیا جائے تو کوئی اشارہ مل جائے مگر نص موجود نہیں لیکن سنت موجود ہے اور حدیثیں بھی موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کا جنازہ پڑھنا جائز ہے.اس کے بعد جیسا کہ میں نے بتایا ہے.چاروں امام جو اس وقت گویا روئے زمین کے تمام مسلمانوں کے اعتقادات پر چھائے ہوئے ہیں.یعنی امام ابو حنیفہ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل سب ہمارے ساتھ متفق ہیں ان سب کا وہی مذہب ہے جس پر ہم نے عمل کیا بلکہ میں نے تو احوط سے احوط مذہب پر عمل کیا.اب رہا یہ سوال کہ اگر فعل کو بُرا سمجھا جاتا تھا تو اس قدر لوگ کیوں جنازہ میں شامل ہوئے.کیا ہر جنازے میں اتنے ہی لوگ ہوتے ہیں اور اگر نہیں تو اس جنازہ میں اتنے آدمی کیوں شامل ہوئے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حکم کے نتیجہ میں ہوا ہے.اس بارہ میں میں پہلے حکم کے متعلق جواب دیتا ہوں.(۱) میرا پہلا جواب یہ ہے کہ میں نے کسی کو جنازہ کے لئے نہیں کہا ، نہ کسی کو یہ کہا کہ وہ دوسروں کو جنازہ کے لئے کہے بلکہ میرے لئے حیرت کی بات تھی.جب میں نے سنا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جنازہ میں شامل ہوئے.پس جب ایسا کوئی حکم دیا ہی نہیں گیا تو لوگوں کی کی کثرت کو دیکھ کر خود بخود یہ نتیجہ نکال لینا کہ ضرور حکم دیا گیا ہوگا یہ کہاں تک درست ہو سکتا ہے.یہ تو قیاسی بات ہے اور قیاس غلط بھی ہوا کرتے ہیں.جیسے تمہید میں میں نے تمہیں بتایا تھائی کہ جب ہندوؤں نے دیکھا کہ دنیا میں کوئی امیر ہے، کوئی غریب ہے، کوئی تندرست ہے، کوئی بیمار، کوئی معزز ہے اور کوئی ذلیل ، تو یہ قیاس کر لیا کہ یہ تناسخ کا نتیجہ ہے.یا عیسائیوں نے
خطبات محمود ۴۳۸ سال ۱۹۳۸ء قیاسی طور پر کفارے کا مسئلہ ایجاد کر لیا.حالانکہ ایسی باتیں قیاس سے نہیں بلکہ واقعات سے ثابت ہو ا کرتی ہیں.واقعہ یہ ہے کہ میں نے کسی کو حکم نہیں دیا کہ وہ جنازہ میں شامل ہو اور کیا جب تک میں حکم نہ دوں لوگ جنازہ میں شامل نہیں ہوا کرتے.کیا میاں عبد الرشید نے شردھانند جی پر حملہ کیا ، یا میاں علم الدین نے لاہور میں راجپال پر حملہ کیا ، یا میاں عبد القیوم نے کراچی میں ایک ہندو پر حملہ کیا اور پھر انہیں پھانسی دی گئی ہزار ہا آدمی ان کے جنازوں میں شامل نہیں ہوئے بلکہ ایک جگہ تو ایک لاکھ آدمی جنازہ میں شامل ہوا.اب کیا میں انہیں یہ کہنے کی کے لئے گیا تھا کہ ضرور جنازہ میں شامل ہونا.اگر نہیں تو پھر یہاں زیادہ آدمیوں کے اکٹھا ہونے سے یہ کس طرح نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ میں نے انہیں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تھا.(۲) میرا دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر میں نے ایسا حکم دیا ہے تو احرار اور ان کے معاون مخرجین جن کو دعوی ہے کہ ہماری ہر بات انہیں پہنچتی رہتی ہے وہ گواہ پیش کریں ، پھر خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ یہ بات کہاں تک صحیح ہے.آخر وہ جو یہ دعوی کیا کرتے ہیں کہ ہمارے گھر کی کی ایک ایک بات کا انہیں پتہ ہے کیوں وہ ان لوگوں کے نام پیش نہیں کر دیتے جن کو میں نے یہ حکم دیا ہو.وہ ایسے لوگوں کے نام بتائیں پھر لوگ ان سے خود بخود پوچھ لیں گے کہ آیا واقع میں تمہیں کوئی حکم دیا گیا تھا یا نہیں اور اگر وہ گواہ پیش نہ کریں.تو یا درکھیں کہ یہ میرا فتویٰ نہیں بلکہ اس کا فتویٰ ہے جس کو میں بھی مانتا ہوں اور وہ بھی کہ اِيَّاكَ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ.کے کہ اے انسان! تو خیال اور تخمینے سے آپ ہی قیاسات نہ کر لیا کر کیونکہ اگر تو ایسا کرے گا تو سب سے زیادہ جھوٹا اور کذاب قرار پائے گا.تمہارا فرض یہ ہے کہ تم واقعات کی شہادت کو دیکھو اور پھر کوئی نتیجہ اخذ کرو.ایسا نہ کرو کہ تم قیاس کرو اور قیاس کے بعد ایک واقعہ فرض کرلو کہ یوں ہوا ہوگا کیونکہ یاد رکھو کہ یہ گمان تمہیں جھوٹوں کی صف میں کھڑا کر دے گا.گواس جواب کے بعد مجھے اس بارہ میں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ لوگ کیوں زیادہ تعداد میں شامل ہوئے کیونکہ یہ تو ان میں سے ہر ایک سے پوچھنا چاہئے کہ وہ جنازہ میں کیوں شامل ہو ا.مجھ سے اس سوال کے پوچھنے کا کیا مطلب ہے.وہ اگر دریافت کرنا چاہتے ہیں تو کی
خطبات محمود ۴۳۹ سال ۱۹۳۸ء پہلے کسی ایک احمدی کے پاس جائیں اور اس سے پوچھیں کہ تو جنازہ میں کیوں شامل ہوا تھا، پھر دوسرے کے پاس جائیں اور اس سے پوچھیں کہ تو کیوں شامل ہوا تھا، پھر تیسرے کے پاس جائیں پھر چوتھے کے پاس جائیں اور اس طرح ہر ایک سے دریافت کریں کہ تو جنازہ میں کیوں شامل ہو ا تھا جو جواب وہ دینگے ، وہی اصل جواب ہوگا.مگر میں کہتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں کا میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں بکثرت شامل ہونا احرار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی دودھاری حملہ ہے.وہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر جنازہ جائز تھا تو کیوں تم نے نہ پڑھا اور اگر نا جائز تھا تو کیوں جماعت نے پڑھا گویا ایک دو دھاری تلوار انہوں نے چلائی ہے.میں کہتا ہوں.اس کا جواب تو میں دے چکا ہوں کہ یہ فتویٰ سنت سے ثابت ہے.مگر تم بتاؤ کہ تم اور تمہارے ساتھی تو کہتے ہیں کہ قادیان کے اسی فیصدی لوگ اندر سے ہمارے ساتھ ہیں.گوی اوپر سے خلافت کی تائید کرتے ہیں.چنانچہ اسی فیصدی یا اکثر جماعت کا لفظ بار بار میرے کانوں میں پڑا ہے.جب پیغامی الگ ہوئے تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ۸۰ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے.جب مستری الگ ہوئے تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ۸۰ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور جب مصری الگ ہوئے ہیں تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ۸۰ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر واقع میں ۸۰ فیصدی لوگ تمہارے ساتھ ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ میاں فخر الدین کے قاتل کے جنازہ میں کس طرح شامل ہو گئے.ہزاروں کی تعداد اسی صورت میں بن سکتی ہے جب وہاں قادیان کے پچاس ساٹھ فیصدی لوگ جمع ہوئے ہوں اور گو میں نے وہ اجتماع نہیں دیکھا اور نہ میں نے تعداد کے متعلق تحقیقات کی لیکن بہر حال اتنی بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ تعداد اسی کی صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ پچاس ساٹھ فیصدی لوگ وہاں جمع تھے اب اگر یہ لوگ جنازہ میں اخلاص اور قلبی جوش سے شامل ہوئے تھے.تو کیا تم جو یہ شور مچاتے رہتے ہو کہ قادیان کے اسی فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں یہ جھوٹ ثابت ہو یا نہیں.اور کیا تمہارے ساتھ کے لوگوں کو میاں فخر الدین کے قاتل کے خلاف نفرت ہونی چاہئے تھی.یا اس سے ہمدردی ہونی چاہئے تھی.پس جنازہ میں اتنی کثرت سے لوگوں کی شمولیت بتاتی ہے کہ تمہارا کی
خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۸ء نہ صرف وہ دعویٰ غلط ہے کہ اسی فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں بلکہ جماعت کے ایک کثیر حصہ کو کی تمہارے افعال سے اتنا بغض ہے کہ وہ تمہارے ایک ساتھی کے قاتل کے جنازہ میں ہجوم کر کے شامل ہو جاتے ہیں.ورنہ کیا وجہ ہے کہ اسی فیصدی لوگ تو ان کے ساتھ ہوں اور ہزارہا آدمی میاں فخر الدین کے قاتل کا جنازہ پڑھ رہے ہوں.اگر واقع میں اسی فیصدی ان کے ساتھ تھے تو یہ ہزار ہا آدمی کہاں سے آگئے.پس ہزار ہا لوگوں کا میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں شامل ہونا بتاتا ہے کہ یہ بات کی بالکل جھوٹ ہے کہ اسی فیصدی آدمی ان کے ساتھ ہیں اور اگر وہ یہ کہیں کہ ہماری بات بالکل ٹھیک ہے واقعہ میں ۸۰ فیصدی ہمارے ساتھ ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ جو لوگ جنازہ میں شامل ہوئے ان میں ہمارے آدمی بہت تھوڑے تھے اور باقی جس قدر تھے وہ منافقین تھے جو انہوں نے خود بھجوائے تا کہ ہم بدنام ہوں اور اس صورت میں بھی ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.غرض ی اس کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ جو جنازہ میں شامل ہوئے منافقانہ طور پر شامل ہوئے تھے اور وہ دل سے احرار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تھے.تو پھر میرا جواب یہ ہے.کہ یہ کام تو آپ لوگوں نے خود کرایا ہے.کہ نَعُوذُ بِاللہ اسی فیصدی لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں ان کو آپ نے جنازہ پڑھنے کے لئے بجھوا دیا تا جماعت بدنام ہو.پس اگر جنازہ میں شامل ہونے والے مخلص تھے تو یہ جھوٹ ہے جو کہتے ہیں کہ جماعت کے ۸۰ فیصدی آدمیوں کا خلیفہ سے کوئی تعلق نہیں ، وہ دل میں بغض رکھتے ہیں مگر زبان سے اظہار محبت کرتے ہیں اور اگر وہ مخلص نہیں تھے بلکہ منافق تھے تو اس کا مجھ پر کیا اعتراض ہے.ہم کہتے ہیں وہ تمہارے آدمی تھے جو تم نے خود وہاں بھجوا دئے تا جماعت کو بد نام کرو اور اسے الزام کے نیچے لاؤ.اس صوت میں بھی نہ صرف یہ کہ میں بری ہوا بلکہ مجھ پر ظلم ہوا کہ مجھے بلا وجہ بد نام کیا گیا.غرض اگر جماعت نَعُوذُ بِالله مِنْ ذلِكَ منافق ہے اور ان کے ساتھ ہے تو پھر یہ کام شرارت سے ہوا.مجھ پر کیا اعتراض ہے اور اگر لوگوں نے اخلاص سے کیا ہے تو یہ جھوٹ ہؤا کہ جماعت احمد یہ اندر سے مخلص نہیں اور اسی فیصدی لوگ ان کے ساتھ ہیں.پھر تو معلوم ہوا کہ جماعت چند منافقین کو چھوڑ کر گلی طور پر خلیفہ کے ساتھ ہے.
خطبات محمود ۴۴۱ سال ۱۹۳۸ اب میں اصل جواب کی طرف آتا ہوں.میں تمہید میں کہہ آیا ہوں کہ جب قضاء اپنا منشاء پورا کرلے تو پھر جذبات اپنی قضاء کا کام شروع کرتے ہیں.چنانچہ میں بتا آیا ہوں کہ انسانی روح افعال سے دو طرح سے متاثر ہوتی ہے.ایک قضائی طور پر اور ایک جذباتی طور پر.بعض دفعہ قضائی فیصلہ اور ہوتا ہے اور جذباتی فیصلہ اور، اور کبھی یہ دونوں فیصلے مطابق بھی ہوتے ہیں.مگر بہر حال قضائی فیصلہ کے بعد جذباتی قضاء اپنا کام شروع کرتی ہے.مثلاً ایک حج کا بیٹا اگر قاتل ہے تو جج اسے اسی طرح پھانسی کی سزا کا حکم سنائے گا جس طرح وہ ایک غیر کو پھانسی کی سزا سناتا ہے مگر غیر کو پھانسی کا حکم دیتے ہوئے اس کے دل کی کیفیت وہ کیفیت نہیں ہوگی ، جو اپنے بیٹے کو پھانسی کا فیصلہ سناتے وقت ہوگی.، بیشک قضائی فیصلہ میں اس کا معاملہ اپنے بیٹے سے اور ایک غیر شخص سے بالکل یکساں ہوگا مگر جب جذباتی قضاء کا فیصلہ آئے گا تو اپنے بیٹے کو پھانسی ملنے کا تصور کر کے اس کا دل خون ہو جائے گا اور اس کی حالت بالکل غیر ہو جائے گی.تو جذبات کی قضاء اور اصول پر مبنی ہوتی ہے اور قانون کی قضاء اور اصول پر مبنی ہوتی ہے.اس تمہید کو میں پھر یاد دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ بے شک میاں عزیز احمد صاحب نے جو فعل کیا وہ خلاف شریعت تھا اور ہم اسے برا ہی قرار دیتے ہیں اور قانون نے جو ان کو سزا دی ہم اس پر معترض نہیں گو ہم میں سے بعض کہتے ہیں کہ انہیں پھانسی کی سزا نہیں ملنی چاہئے تھی مگر بہر حال ہم انہیں سزا دینے کو بُرا نہیں کہتے.ہم کہتے ہیں جب ہائی کورٹ اور پریوی کونسل نے ایک فیصلہ کر دیا تو وہی ٹھیک ہے بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ خودان کا اقرار تھا کہ میں نے قتل کیا ہے.پس قانون نے ان کو جو سزا دی اس پر ہم معترض نہیں اور ہم نے ان کو سچ بولنے کا مشورہ دے کر قضاء کا حق ادا کر دیا چنانچہ ہم نے خود اپنے آدمی سے کہا کہ سچ بولو اور اگر اس کے بدلہ کی میں تمہیں پھانسی ملتی ہے تو بے شک پھانسی پر لٹک جاؤ.پس دیکھو ہم نے قانون کا منشا پورا کر دیا اور قانون نے جب سزا دی تو ہم نے اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ہم نے ان کے فعل کو عَلَى الْإِعْلَان بُرا کہا.اخبارات میں لکھا کہ انہوں نے ناجائز کام کیا ہے اور بار بار کہا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے.پس ہم نے تینوں حق ادا کر دیئے جو شریعت کا حق تھا وہ بھی ادا کر دیا،
خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۳۸ء جو قانون کا حق تھا وہ بھی ادا کر دیا اور جو اخلاقی لحاظ سے سچ بولنے کے متعلق حق تھا وہ بھی ہم نے ادا کر دیا.گویا شرعی ، قانونی اور انسانی تینوں حقوق ہم نے ادا کر دیئے.میاں عزیز احمد صاحب نے ایک جان لی.قانون نے اس کے بدلے میں ان کی جان لے لی.انہوں نے جان بھی دی اور اپنی غلطی کا اقرار بھی کیا چنانچہ انہوں نے مجھے متواتر خطوط لکھے کہ سلسلہ کی ی تعلیم میرے ذہن میں اس وقت نہیں تھی اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسی حالت میں بھی انسان کو صبر سے کام لینا تم چاہئے چونکہ وہ ناتعلیم یافتہ آدمی تھے اس لئے سمجھا جا سکتا ہے کہ واقع میں انہیں سلسلہ کی تعلیم کا اس حد تک علم نہیں ہو گا جس حد تک علم انسان کی صحیح راہنمائی کرتا ہے.پس انہوں نے مجھے بار بار لکھا کہ میرے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ ایسے شدید اشتعال کے موقع پر بھی انسان کو ضبط سے کام لینا چاہئے اور چونکہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اس لئے میں تو بہ کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے قصور کو معاف کرے اور انہوں نے مجھے ایک بار بلکہ بار بار ایسے خط لکھے.پس جب قانونی قضاء کا فیصلہ ہو چکا اور جذباتی قضاء کا موقع کی آیا تو اس نے دوسرے ضروری امور کو بھی دیکھا.قانونی قضاء کا منشا صرف اتنا تھا کہ وہ ہمارے آدمی کی جان لے لے ہم نے کہا بہت اچھا جان لے لو.پس ہم نے قانون کے منشا کو پورا کر کے قانون کا حق اسے ادا کر دیا.پھر شریعت نے کہا کہ میرا حق بھی مجھے ادا کر دو اور کہو کہ اس نے بہت بُر افعل کیا ہے.ہم نے کہا بہت اچھا آپ بھی اپنا حق لے لیں چنانچہ ہم نے عَلَى الْإِغلان کہا کہ میاں عزیز احمد صاحب نے خلاف شریعت فعل کیا ہے اور اخباروں میں اس پر مضامین لکھے.پھر انسانیت ہمارے سامنے آئی اور کہا کہ اگر ایسے افعال چھپ کر کئے جائیں تو خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں پس تم اس سے اقرار کراؤ کہ واقع میں میں نے قتل کیا ہے اور اس طرح انسانی حق ادا کروتا دوسروں کو عبرت ہو اور وہ ایسے افعال کا ارتکاب نہ کریں ہم نے کہا بہت اچھا چنانچہ ہم نے ان سے اقرار کروایا اور کہا کہ تم جو کچھ واقعہ ہوا ہے، سچ سچ کہہ دو.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.پس ہم نے شریعت کی طرف سے بھی برات حاصل کر لی ، ہم نے قانون کی طرف سے بھی براءت حاصل کر لی اور ہم نے انسانیت کی طرف سے بھی براءت حاصل کر لی.اس کے بعد جذبات کا سوال آیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارا بھی کوئی حق ہے یا نہیں.
خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۸ چنا نچہ جذباتی قضاء نے اُس وقت کئی ضروری امور کو دیکھا اس نے دیکھا کہ: (۱) میاں فخر الدین اور ان کے ساتھیوں نے سخت اشتعال انگیزی سے کام لیا تھا اس حد تک کہ کمزور انسان کے لئے برداشت نا ممکن تھی اور بعض دفعہ تو مضبوط کے لئے بھی ایسے حالات میں برداشت ناممکن ہو جاتی ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام میں بڑے بلند پایہ بزرگ ہوئے ہیں وہ سب صحابہ سے بڑھ کرشان رکھتے ہیں مگر دیکھو کہ ایک موقع ایسا آیا کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اشتعال میں آگئے.ایک دفعہ ایک یہودی نے بازار میں چڑانے کی کے لئے کہہ دیا کہ مجھے اُس خدا کی قسم ہے کہ جس نے موسیٰ کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر فضیلت دی ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آکر اس یہودی کو تھپڑ مار دیا حالانکہ اس نے کوئی گالی نہیں دی تھی.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آیا آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر ناراض ہوئے مگر انہیں کوئی سزا نہ دی کیونکہ سمجھا کہ ضرر زیادہ نہیں اور اشتعال نا قابل برداشت تھا.اب حضرت ابو بکر کمزور مومن نہیں تھے مگر چونکہ انہوں نے جو فقرہ سنا گووہ گالیوں والا نہیں تھا مگر ان کے لئے ناقابل برداشت تھا اس لئے انہوں نے تھپڑ مار دیا.پس ان حالات کو کونسی جذباتی قضاء نظر انداز کر سکتی ہے.(۲) دوسرے ان کا مُجرم مذہب کے خلاف نہ تھا بلکہ مذہبی محبت کی وجہ سے تھا.مذہب کے خلاف نہ ہونے سے میری یہ مراد نہیں کہ وہ مذہبی تعلیم کے خلاف نہیں تھا بلکہ یہ مراد ہے کہ وہ مذہب کو نقصان پہنچانے والا نہیں تھا.یا خدا اور اس کے رسول پر حملہ نہیں تھا ) اپنی بڑھیا اور معذور ماں کی محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے ، اپنی جوانی کو قربان کرتے ہوئے کسی دنیوی غرض سے نہیں صرف دینی جوش کے ماتحت جو اپنی جان قربان کرتا ہے اگر وہ مجرم ہے تو ہم اس کی کے فعل کو برا کہہ سکتے ہیں اور کہیں گے اسے جرم کی سزا پانے کے لئے تیار کریں گے، ایسے افعال کی کے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرینگے لیکن ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کرنے والے نے جو کچھ کیا غلط کیا یا صحیح کیا.صرف دین کی محبت کے لئے کیا ، اس کو ورغلایا گیا ، اس کی ماں کو ورغلایا گیا، چنانچہ اس کو ورغلایا جانا اس کے بیانات سے ثابت ہے اور اس کی ماں کو ورغلایا جانا اس طرح ثابت ہے کہ وہ منٹگمری اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گئی جب وہاں سے واپس آئی تو کی
خطبات محمود ۴۴۴ سال ۱۹۳۸ء بعض عورتوں کے پاس اس نے اپنے بیٹے کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتا ہے.میرا جرم یہی ہے کہ میں نے سچ بول دیا، اگر میں جھوٹ بول دیتا تو پھر تو میری امداد کے لئے بڑے بڑے وکیل پہنچ جاتے.جب مجھے یہ خبر پہنچی تو میں نے وہاں کی جماعت کو لکھا کہ دریافت کیا جائے کہ کیا بات ہے.انہوں نے میاں عزیز احمد صاحب کے متعلق لکھا ہے وہ تو کی ہرگز کوئی شکایت بیان نہیں کرتے.آخر ان کی ماں نے بھی اقرار کیا کہ میں نے یہ بات اپنے کی بیٹے کی طرف غلطی سے منسوب کر دی تھی.اصل بات یہ تھی کہ جب میں وہاں اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گئی تو چوہدری محمد شریف صاحب وکیل میرے ساتھ تھے.وہ ایک وقت میرے بیٹے سے باتیں کر رہے تھے تو بعض مسلمان ملزم جیل کے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ تم اس اس طرح جا کر باتیں کر و تو تمہارے بیٹے کی مدد کرنے پر یہ لوگ مجبور ہوں گے.غرض جبکہ ہم ان سے بیچ بلوا ر ہے تھے احرار کے ہمدردانہیں جھوٹ بولنے کی تلقین کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم اس اس طرح بیان دے دو کہ میں نے خود اسے نہیں مارا بلکہ مجھے کہا گیا تھا کہ تو میاں فخر الدین کو مار دے لیکن اس نے ایک ہی بات رکھی کہ جو گناہ ہو گیا سو ہو گیا میں اور گناہ کرنے کو تیار نہیں.میں پہلے گناہ سے بھی تائب ہوں.چنانچہ جب ان کو اپنی ماں کی کی کمزوری کا علم ہوا تو انہوں نے سختی سے اسے سمجھایا اور کہا ماں میری عاقبت مت بگاڑ اور سنا ہے کہ اس کی نصیحت اپنی ماں کو یہی تھی کہ میں نے گناہ کیا.اور اس سے توبہ کی اور میں اپنے قصور کی سزا پالوں گا.اب تو بہ اور دعاؤں کے بعد میرے دل کو تسلی ہے کہ میرا گناہ معاف ہو جائیگا اور میں خوشی سے اس سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.پھر جب پر یوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کا سوال آیا.تو انہوں نے اپنی ماں سے کہا ہونا ہوانا کچھ نہیں.مجھے پھانسی پر ضرور لٹکایا جائے گا اور میں اس سے گھبرا تا نہیں.اے ماں تم بھی میرے بعد گبھرائیو نہیں.پھر سنا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی ماں سے کہا.ماں میں نے جو کچھ کیا تھا اپنے ذہن میں خدا کے لئے کیا تھا اس لئے میری نیت کو خراب نہ کیجیو اور میری لاش پر روئیو نہیں بلکہ اس پر پھول ڈالیوتا د نیا سمجھ لے کہ میں اپنے گناہ پر تو افسوس کرتا ہوں مگر میں اپنی سزا سے ڈرتا نہیں.چنانچہ اس کی ماں نے سنایا
خطبات محمود ۴۴۵ سال ۱۹۳۸ء کہ میرا بیٹا مجھ سے منتیں کرتا تھا اور کہتا تھا ماں میری لاش پر روئیو نہیں.میں نے جو گناہ کیا تھا اس کی تی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں اب تم دشمن کو خوشی کا موقع نہ دینا.ان واقعات کے ہوتے ہوئے جذباتی قضاء کب غیر متاثرہ رہ سکتی ہے فتح مکہ کے وقت ایک انصاری نے جو ایک دستہ فوج کے افسر تھے اور جن کا نام غالباً عبادہ بن صامت تھا ابو سفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب دیکھو مکہ میں چل کر ہم تمہاری کیسی خبر لیتے ہیں اور جو جو تکلیفیں تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو پہنچائی ہیں ان کا کس طرح انتقام لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اسے فوج کی کمانڈ سے علیحدہ کر کے معمولی سپاہی بنا دیا اور اس کے بیٹے کو اس کی جگہ افسر مقرر کر دیا.2 لیکن کیا تم سمجھتے ہو یہ الفاظ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت عبادہ کے متعلق نفرت کا جذبہ پیدا ہوا ہوگا.آخر عبادہ کو ابوسفیان سے کیا عداوت تھی.وہ کفر کے زمانہ میں شائد ابوسفیان کا نام بھی نہ جانتے ہوں گے مگر جب اسلام لانے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو کیا کیا اذیتیں پہنچائی ہیں تو ان کا دل جوش سے بھر گیا اور فتح مکہ کے وقت غلطی سے ان کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اب دیکھو گے ہم تم سے کس طرح انتقام لیتے ہیں.پس گو انہوں نے یہ الفاظ کہے اور غلط طور پر کہے.مگر کون شخص کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ اپنی ذات کے لئے کہے.انہوں نے یہ الفاظ محض اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جوش میں کہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں سزا دی اور اتنی سخت سزا دی کہ انہیں افسری سے ہٹا کر سپاہی بنا دیا.آج اگر کسی جرنیل کو سپاہی بنا دیا جائے تو وہ فوراً استعفیٰ دیکر بھاگ جائے مگر انہوں نے خوشی سے اس سزا کو قبول کیا ج لیکن تم کیا سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہونگے ؟ یا کوئی بھی مسلمان ہے جو یہ واقعہ پڑھ کر عبادہ بن صامت سے نفرت کر سکے؟ وہ ان کے فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا.وہ ان کے فعل کو روکنے کی کوشش کرے گا مگر وہ اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنے لئے نہیں بلکہ گو نادانی سے کیا مگر پھر بھی خدا کے لئے فعل کیا.اسی طرح احمدی جب میاں عزیز احمد صاحب کا خیال کرتے ہونگے تو لازماً ان کے دل
خطبات محمود ۴۴۶ سال ۱۹۳۸ء میں یہ خیال آتا ہوگا.کہ اس نوجوان نے اپنی جان ضائع کی اور سلسلہ کو بدنام کیا لیکن جو کام کیا اپنے نفس کے لئے نہیں کیا بلکہ اس غلط خیال کے ماتحت کیا کہ میں سلسلہ کی خدمت کر رہا ہوں اس لئے خدا تعالیٰ اس کی تو بہ کو قبول ہی کرے.حق یہ ہے کہ اگر ہمارے نو جوانوں کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ جب کسی کو گالیاں دیتے سنیں تو اُٹھ کر اُس پر حملہ کر دیں تو اس کا دوسرے لوگوں کو اتنا نقصان نہیں ہو سکتا جتنا ہمیں نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو کروڑوں ہیں اگر ان میں سے دو چار مر جائیں تو انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن ہمیں ایسے واقعات سے شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے کیونکہ ہماری بدنامی ہوگی، ہماری دینی روح کمزور ہوگی اور نو جوانوں کا ایک حصہ ضائع ہو گا.پس ہمارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکیں اور اگر کوئی کسی کو قتل کی انگیخت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دوسرے کو مار دینے میں کوئی حرج نہیں تو ہم یقیناً اسے قومی دشمن کہیں گے.چاہے اس نے کی دانستہ ایسا کہا ہو یا نا دانستہ جو شخص بھی کہتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوانوں نے یہ اچھا فعل کیا وہ یقیناً ہمارے سلسلہ کا دشمن ہے کیونکہ اس سے دشمن کو اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا جتنا ہمیں پہنچ سکتا ہے.اگر ہمارے دلوں میں سلسلہ کی ایک ذرہ بھر بھی محبت ہو تو ہمارا فرض ہے کہ ہمارے بڑے بھی اور چھوٹے بھی ، عالم بھی اور جاہل بھی ، مرد بھی اور عورتیں بھی یہ پختہ عہد کر لیں کہ وہ ایسے افعال کو روکنے کی انتہائی کوشش کریں گے اور اس بات کی جد و جہد کریں گے کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو.لیکن باوجود اس ضرورت کو سمجھنے کے میاں عزیز احمد سے احمدی نفرت نہیں کر سکتے تھے ان کے دماغ کے پس پردہ یہ خیالات موجزن ہونگے کہ انہوں نے گوا یک ناجائز فعل کیا مگر خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا، کسی ذاتی غرض یا د نیوی فائدہ کے لئے نہیں کیا.ان کی ماں کمزور اور بوڑھی تھی وہ اس کی تکلیف کو سمجھ سکتے تھے.چنانچہ اب ان کی موت کے بعد جو اس غریب کی کیفیت ہے، اسے دیکھ کر ہر شخص کو رحم آتا ہے.بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب میاں عزیز احمد صاحب کا وہ ذکر کرتی ہے تو اپنی مٹھیاں بھینچ لیتی ہے منہ سے لفظ نکلنے بند ہو جاتے ہیں اور سر سے لے کر پیر تک تھر تھر کانپنے لگ جاتی ہے.غرض اسے دیکھ کر دل رحم سے بھر جاتا ہے مگر عزیز احمد کو یہ کوئی خیال نہیں آیا کہ اُس کے اس کی
خطبات محمود ۴۴۷ سال ۱۹۳۸ء فعل کے نتیجہ میں اُس کی ماں کا کیا حال ہوگا ؟ اُس کے بھائی کا کیا حال ہو گا ؟ وہ جذبات کی رو میں بہہ گیا اور وہ دنیا کا مجرم ، قانون کا مجرم اور خدا کا مجرم بن گیا لیکن بہر حال اس نے یہ فعل کسی دنیوی غرض سے نہیں کیا بلکہ محض اس لئے کیا کہ اپنے مذہب کے خلاف گالیاں سننا میری برداشت سے باہر ہے.پس ان خیالاات کا احمدیوں کی طبیعت پر اثر ہوگا جو ان کو جنازہ پر لے گیا.یہ کہ ہر شخص کے کیا خیالات تھے یہ تو اسی سے پوچھ کر معلوم ہو سکتے ہیں لیکن میں یہی سمجھتا ہوں کہ اکثر احمدیوں کے دلوں پر مذکورہ بالا خیالات کا اثر ہو گا اور گومعین صورت میں یہ خیالات ان کے دماغ میں نہ آئے ہوں.مگر جب وہ جنازے پر گئے تو ان کے سبجیکٹو مائنڈ ( SUBJECTIVE MIND) میں ضرور یہ خیالات پیدا ہورہے ہونگے کہ میاں عزیز احمد نے بُرا فعل کیا، ان کے فعل کی وجہ سے جماعت بدنام ہوئی مگر انہوں نے اپنے نفس کی وجہ سے یا جماعت کو بد نام کرنے کے خیال سے ایسا نہیں کیا بلکہ محبت کے غلط جوش میں ایسا کیا.ہمارے مخالفوں نے اپنا حق لے لیا اور جان کے بدلے جان دے دی گئی ، قانون نے اپنا حق لے لیا کہ مجرم کو پھانسی پر لٹکا دیا، اب ہمارے دلوں کی باری ہے کہ انہیں بھی ان کا حق دیا جائے اور انہوں نے زبانِ حال سے ان کی نعش کو کہا کہ اے بھائی ! تو نے قانون کا قصور کیا ،تو نے شریعت کا قصور کیا ، تو نے نادانی سے جماعت کو بدنام کیا لیکن کسی ذلیل خواہش سے ایسا نہیں کیا بلکہ تو نے نادانی سے یہ خیال کیا کہ میں اس طرح دین کی خدمت کر رہا ہوں.ہم تیرے اس فعل کو بُرا کہہ چکے ہیں کہ تو نے دین اور قانون کے خلاف فعل کیا مگر اب جب کہ تو اپنی سزا بھگت چکا ہے ہم تیرے دین کی خاطر قربانی کرنے کے جذبہ پر عقیدت کے پھول چڑھانے آئے ہیں کیونکہ ہر ایک کا حق اسے ملنا چاہئے.ہمارا دماغ تیری پھانسی سے اپنا حق لے چکا.اب ہمارا دل تیرے لئے مغفرت کی دعا کر کے اپنا حق لینا چاہتا ہے.میں سمجھتا ہوں اسی قسم کے جذبات تھے جو لوگوں کو کھینچ کر لائے اور اگر وہ اپنے دلوں میں ایسے افعال کو بُرا سمجھتے تھے، اگر وہ ارادہ رکھتے تھے کہ ایسے افعال آئندہ کبھی نہیں ہونے دیں گے تو وہ ہرگز مجرم نہیں تھے بلکہ وہ کامل انصاف چاہتے تھے کیونکہ وہ قانونی قضاء کا حق دینے
خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۸ء کے بعد اب جذباتی قضا کا حق ادا کر رہے تھے.“ (الفضل ۲۲ / جولائی ۱۹۳۸ء) ا بخاری کتاب الصوم باب الرَّيانُ لِلصَّائِمينَ بخارى كتاب الطب باب مَنِ اكْتَوى أَوْ كَوَى غَيْرَهُ ك بخاری کتاب القدر باب الْعَمَلُ بِالْخَوَاتِيم ابو داؤد كتاب الجنائز باب الصلواةُ عَلى مَن قتلته الحدود، ابو داؤد كتاب الحدود باب رجم ما عزبن مالک بخاری کتاب الكفالة باب الدين احوط زیادہ موزوں.مناسب.زیادہ احتیاط کرنے والا بخاری كتاب الادب باب مَا يُنهى عَنِ التَّحَاسَد وَالتَّدَابُر السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء کے مطابق یہ صحابی سعد بن عبادہ تھے.
خطبات محمود ۲۳ L ۴۴۹ تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف توجہ دیں (فرموده ۲۲ / جولائی ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ایسے بارش کے دنوں میں جبکہ دُور دُور کے لوگوں کے لئے آنا مشکل ہوتا ہے اور جبکہ مسجد بھی لوگوں کے لئے کافی نہیں ہو سکتی ، شرعی طریق یہ ہے کہ منتظمین کی طرف سے اعلان ہو جانا چاہئے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تھا کہ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ یعنی اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لیں.اس زمانہ میں جو سہولتیں میسر ہیں ان کے لحاظ سے ایسی بارش کے موقع پر اگر ایسا اعلان ہو جائے کہ جو لوگ محلوں میں جمعہ کی نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں تو اس طرح بہت سے لوگوں کو جمعہ میسر آسکتا ہے، اس کے بغیر وہ لوگ جو نہیں آسکیں گے جمعہ سے بالکل محروم رہ جائیں گے.اگر قبل از وقت اعلان ہو جائے کہ جولوگ چاہیں اپنی اپنی مساجد میں جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں تو جمعہ کے ثواب سے ساری جماعت متمتع ہوسکتی ہے.پس آئندہ کے لئے منتظمین کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ جب کبھی ایسا دن ہو، بارش زیادہ ہو، آنے والوں کے لئے جگہ تھوڑی ہو اور تکلیف کا احتمال ہو تو خلیفہ وقت سے اجازت لے کر محلوں میں جمعہ کی اجازت کا قبل از وقت اعلان کرا دیا کریں کہ آج سوائے اُن لوگوں کے جو اسی مسجد میں آنا چاہیں باقی لوگ اپنے اپنے محلوں کی مساجد میں نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں.اس کے بعد میں جماعت قادیان کو بھی اور بیرونی جماعتوں کو بھی الفضل“ کے ذریعہ سال ۱۹۳۸
خطبات محمود ۴۵۰ سال ۱۹۳۸ء اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کا دن بہت قریب آ رہا ہے.میں نے اعلان کیا تھا کہ تحریک جدید کے سیکرٹریوں کو چاہئے کہ کوشش کریں کہ اُس دن سے پہلے سارا یا کی بہت سا حصہ موعودہ چندوں کا ادا ہو جائے.اس اعلان کے بعد پہلے مہینہ میں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس مہینہ میں وصولی کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ رہی ہے مگر بعد میں جیسا کہ ہمارے ملک میں عام طور پر ہوتا ہے کہ رفتار پھر سُست ہوگئی ہے.ہندوستان میں یہ مرض عام ہے کہ کچھ دنوں تک کام کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہی عادت دراصل ہندوستان کی تباہی کا موجب ہے.یہاں انجمنیں بنتی ہیں سال دو سال کام کرتی اور پھر ختم ہو جاتی ہیں حالانکہ یورپ میں بعض انجمنیں سو سو اور دو دوسو سال سے کام کر رہی ہیں اور ہمیشہ مضبوط تر ہوتی رہتی ہیں مگر ہندوستان میں ایسا نہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملیریا کا اثر ہے اس کی سے طاقتِ عمل میں کمی واقع ہو جاتی ہے ، بعض اسے گرمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ تنزل کا اثر ہے.جب قو میں گرا کرتی ہیں تو پھر یہ سب خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اسی کی ملیر یا اور گرمی کے باوجود ہندوستان نے ترقی بھی کی ہے.ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب انگلستان کی عورتوں کے پہنے کے کپڑے ہندوستان میں بنتے تھے اور اہل انگلستان کی بیٹھکوں کے لئے زیبائش کی چیزیں بھی یا تو ہندوستان سے جاتی تھیں یا شام سے.گویا اُس وقت ہندوستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا تھا بلکہ دوسرے ممالک کی بھی.اُس وقت بھی یہاں گرمی اسی طرح پڑتی تھی اور ملیر یا پیدا کرنے والے مچھر موجود تھے.یہ سب کچھ تھا مگر اس کے ساتھ ہمت بھی تھی.اب بھی وہ چیزیں ہیں مگر ہمت نہیں.اس کے نہ ہونے سے اب ہندوستانی کچھ روز کام کرتے ہیں اور پھر سُست ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے کوئی بڑا مقصود نہیں ہوتا.لیکن ہماری جماعت کو تو غور کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا مقصود پیدا کیا ہے.زمین و آسمان میں تغیر پیدا کر دینا کوئی معمولی بات نہیں.دنیا میں دس ہیں یا سو پچاس آدمیوں سے مل کر بھی کوئی شخص بڑا بنتا ہے تو اس کی بہت قدر کی جاتی ہے.کسی کو حکومت کی کی طرف سے خانصاحب کا خطاب مل جائے تو وہ اس کے بغیر اپنا نام نہیں لکھتا.میں نے دیکھا ہے کہ لوگ آپ اپنے دستخط کرتے ہیں تو نیچے خانصاحب لکھ دیتے ہیں اور اگر کسی کو خان بہادر
خطبات محمود ۴۵۱ سال ۱۹۳۸ کا خطاب مل جائے تو پھر وہ ہندوستان کی بزعم خود نا پاک زمین پر قدم رکھنا مناسب نہیں سمجھتا اور چاہتا ہے کہ اس کے بس میں ہو تو ہوا میں چلے اور کوئی سی.آئی.ای بن جائے تو پھر وہ ہندوستانیوں سے زیادہ ملاقات کو بھی اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتا اور سمجھتا ہے کہ اب تو میں انگریز بن گیا ہوں.اور اگر کوئی سر ہو جائے تو وہ کبھی الیکشن کے موقع پر مدد لینے کے لئے جائے تو کی جائے ورنہ ہندوستانیوں کی شکل دیکھنا بھی ان کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے حالانکہ ہندوستان میں ہزاروں خانصاحب موجود ہیں.بعض چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی جہاں لوگوں نے فوجی خدمات کی کیں ، خانصاحب آپ کو ملیں گے.تو اس قدر کثرت سے خانصاحب کا خطاب رکھنے والے لوگ ہیں کہ بعض شہروں میں تو ان کی کئی ٹیمیں بن سکتی ہیں.اور یہی حال خان بہادروں کا ہے سال میں دو دفعہ اس خطاب والوں کی فہرستیں چھپتی ہیں جو اتنی لمبی ہوتی ہیں کہ کوئی کام والا آدمی ساری کی ساری پڑھ بھی نہیں سکتا.ہر سال سو دو سو آدمی خان صاحب اور خان بہادر بن جاتے ہیں اور دس بیس سر بھی ہو جاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں برٹش ایمپائر میں ہزاروں سر ہوں گے لیکن باوجود اس کے کہ اس کثرت کے ساتھ یہ خطاب لوگوں کو ملتے ہیں ، پھر بھی جسے مل جائے اُس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے.پھر سر سے اوپر لارڈ کا درجہ ہے یہ بھی ہزار بارہ سو سے کیا کم ہوں گے.پانچ چھ سو تو پارلیمنٹ کے ممبر ہی ہیں.پھر کئی لارڈوں کی اولادیں ہیں جن کو لارڈ کا خطاب ملا ہے گو وہ ہاؤس آف لارڈز کے ممبر نہیں.اور آئر لینڈ کے لارڈ استحقاق کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز کے ممبر بھی نہیں ہوتے.لارڈ ز میں سے پھر مارکوٹس اور ڈیوک ہیں اور سب سے اوپر بادشاہ کا رتبہ ہے.بادشاہ بھی ایک وقت میں دنیا میں چالیس پچاس بلکہ سو بھی کی موجود ہوتے ہیں.اسی زمانہ میں جب کہ پارلیمنٹوں کا زمانہ ہے جاپان کا بادشاہ ہے.مانچو کوٹ (MANCHUKU) کا بادشاہ ہے، پھر ایران ، عراق ، نجد ، افغانستان کے بادشاہ ہیں.گویا یہ چھ تو اسی کے حصہ کے ہیں.ان کے علاوہ مصر کا بادشاہ ہے، ٹرانس جارڈ ینیا سے کا ہے، آٹھ ہو گئے.پھر یمن کا ہے.گل نو ہو گئے.پھر یورپ میں بھی آٹھ دس ہیں ، اٹلی کا ہے، یوگوسلاویہ کا ، رومانیہ، بلغاریہ، یونان ، انگلستان، ڈنمارک، ناروے،سویڈن کے بادشاہ ہیں.تو اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جب بادشاہتیں بالکل مٹائی جا رہی ہیں ، ہمیں چھپیں بادشاہ کی.
خطبات محمود ۴۵۲ سال ۱۹۳۸ء موجود ہیں.اور جب پارلیمنٹوں کا دستور نہیں تھا اُس وقت تو ایک ایک ملک میں کئی کئی سو بادشاہ کی ہوتے تھے مگر پھر بھی جب کوئی بادشاہ بنتا ہے تو سمجھنے لگتا ہے کہ خبر نہیں کہ میں کیا بن گیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ امیر عبدا لرحمان خان کا باپ افغانستان سے بھاگ گیا تھا اور امیر عبدالرحمان نے خود یہ بات واپس آکر سنائی کہ روس کو جاتے ہوئے جب وہ بخارا میں سے گزرے تو ایک گاؤں میں کسی بات پر گاؤں والوں نے بتایا کہ یہ بات تو بادشاہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی.اُنہوں نے پوچھا کہ بادشاہ کہاں ہیں ؟ تو گاؤں کی والوں نے بتایا کہ گھاس لینے گئے ہیں.وہ اُسی گاؤں کا بادشاہ تھا.تھوڑی دیر میں لوگوں نے بتایا کہ وہ بادشاہ سلامت آرہے ہیں.وہ ایک دبلے پتلے گھوڑے پر سوار تھا.ادھر سے امیر عبدالرحمان خان کے والد اپنے گھوڑے پر سوار اُس کی طرف گئے تو با وجود موٹا تازہ ہونے کے امیر کا گھوڑا ڈر گیا.اُس نے آواز دی کہ عبدالرحمان ذرا ادھر آنا.مگر امیر عبدالرحمان نے کہا کہ میں دو بادشاہوں کی لڑائی میں دخل دینا نہیں چاہتا.تو ایک صوبہ ، ایک ضلع اور ایک تحصیلی کا چھوڑ کر ایک گاؤں کے بادشاہ بھی ہوتے ہیں مگر پھر بھی وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم بادشاہ ہیں.بادشاہ سے اوپر شہنشاہ ہوتا ہے وہ بھی دنیا میں کئی کئی ہوتے ہیں.پچھلے زمانہ میں انگلستان، روس، جرمن اور ایسے سینیا کے بادشاہ شہنشاہ کہلاتے تھے اور اس طرح چارشهنشاه به یک وقت دنیا میں موجود تھے.جنگ کے بعد دومٹ گئے اور طاقتور شہنشاہ ایک رہا.دوسرا ایسے سینیا کا شہنشاہ تھا جو بیچارہ کسی حساب میں نہ تھا.خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا کہ حقیقی شہنشاہ ایک ہی رہے اس لئے اٹلی نے حبشہ کو فتح کر کے اپنے بادشاہ کا نام شہنشاہ رکھ دیا ج اور اس طرح اب پھر دو شہنشاہ ہو گئے ہیں.تو دیکھو یہ کتنی چھوٹی چیزیں ہیں مگر دنیا ان پر کتنا فخر کرتی ہے.مگر تم لوگوں نے بھی کبھی غور کیا ہے کہ تمہارے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ صرف ایک قوم کو تم سے پہلے جب سے کہ آدم پیدا ہو اسپر د کیا گیا تھا.حضرت نوح علیہ السلام آئے مگر اُن کی تبلیغ کا دائرہ بہت محدود تھا ، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے وہ بڑے عظیم الشان نبی تھے مگر صرف بنی اسرائیل کے لئے.ہم داؤ داور سلیمان علیہما السلام کا ذکر کس عظمت کے ساتھ پڑھتے ہیں مگر وہ بھی محدود دائرہ کے لئے مبعوث
خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۸ ہوئے تھے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی ہم کس قدر عزت کرتے ہیں مگر ان کا دائرہ بھی کتنا محدود تھا.پھر ہم حضرت کرشن اور رام چندر کی کتنی عزت کرتے ہیں مگر وہ بھی صرف ہندوستان کے لئے ہادی بن کر آئے تھے.صرف ایک قوم ہے جسے ساری دنیا کی ہدایت سپر دہوئی اور وہ صحابہ ہیں اور ان کے بعد تم ہو.اور اگر تم اس بات کو محسوس کرو اور اس عظمت کا خیال کرو کہ تم کو وہ فخر دیا گیا ہے کہ جو صرف ایک قوم کو پہلے ملا ہے تو تمہارے اندر ایسی آگ پیدا ہو جائے جو تمہیں رات دن بے چین رکھے اور کبھی سستی نہ پیدا ہونے دے مگر مشکل یہ ہے کہ حقیقت کو سمجھنے والے بہت کم ہیں.بہت لوگوں نے احمدیت کو مان تو لیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی عظمت کا احساس اُن کے اندر پیدا نہیں ہوا.وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑتے ہیں ، لڑتے ہیں ذرا ذرا سی باتوں پر ٹھوکریں کھاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اُن کو تخت پر بٹھایا مگر وہ اُس تختہ کے ساتھ چھٹے بیٹھے ہیں جس پر مُردہ کی لاش قبرستان کو لے جائی جاتی ہے.میں پھر ایک دفعہ جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ نہ صرف تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف توجہ کریں ، بے شک وہ بھی بہت ضروری ہے ، مگر دوسرے مطالبات پر عمل کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے.جب تک سب دوست ذاتی اصلاح کے علاوہ نظام کو مضبوط کرنے میں نہ لگی جائیں اور تمام افراد اپنے آپ کو ایک عضو سمجھیں مستقل وجود نہ سمجھیں ، شرعی احکام کی پوری کی طرح پابندی نہ کریں اور نہ کرنے والوں کے خلاف ایسا اقدام نہ کریں کہ آئندہ کسی کو جرات نہ کی ہواُس وقت تک جماعت وہ فرض ادا نہیں کر سکتی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قائم کیا ہے.پس میں مختصر الفاظ میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف بھی اور دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کریں اور اپنے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کریں کی کہ بار بار یاد دہانی کی ضرورت نہ رہے.جو شخص یاد دہانی کا محتاج ہو اُس کا ایمان ہر وقت خطرہ میں ہے.کیا خبر ہے کہ یاد کرانے والا کس وقت اُس سے جُدا ہو جائے اور اس صورت میں جس وقت یاد کرانے والا گیا اُس کا ایمان بھی ساتھ ہی جائیگا.وہی ایمان وقت پر کام آ سکتا ہے جس کے لئے کسی بیرونی یاددہانی کی ضرورت نہ ہو اور جو اپنے آپ کو بیدار کرنے والا ہو.
خطبات محمود ۴۵۴ سال ۱۹۳۸ء جو دوسرے کے سہارے کا محتاج ہے وہ ہر وقت خطرہ میں ہے.اصل سہارا اللہ تعالیٰ کا ہی ہے جو کام آسکتا ہے.پس ہر فردِ جماعت اپنے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ سلسلہ کی ترقی مجھ پر منحصر ہے.اور جب بچوں ، جوانوں، بوڑھوں اور مردوں وعورتوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو پھر تمہیں کوئی قوم ہلاک نہیں کر سکتی اور شیطان تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا.جب انسان کے اندر غیرت پیدا ہو جائے تو وہ بڑے سے بڑے دشمن کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اس کے دل سے ڈرمٹ جاتا ہے یہی حال محبت کا ہے.ان دونوں کے ہوتے ہوئے خوف کبھی انسان کے پاس نہیں آسکتا.چھوٹے بچوں کو دیکھ لو، کوئی مضبوط جوان آدمی ان پر حملہ کرتا ہے تو وہ ڈر کر بھاگتے ہیں مگر کبھی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مقابلہ کر لیتے ہیں.اس لئے وہ ارادہ کر لیتے ہیں.اور ارادہ کی مضبوطی سے قومی کی مضبوطی بھی حاصل ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یا آپ کے قریب کے زمانہ میں ہی یہاں ایک استانی پاگل ہو گئی.حضرت خلیفہ اصبح الا ول درس دے رہے تھے اور ہمارے مکان کی جو مشرقی ڈیوڑھی ہے کی اُس کی طرف جو گلی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کی طرف جاتی ہے اُس کی کھڑکی کھول کر اس میں گودنا چاہتی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کی نظر پڑ گئی اور آپ نے جھٹ اسے پکڑ لیا.حضرت خلیفہ اول کو اپنی طاقت اور زور کا دعوی ہوا کرتا تھا.بعض اوقات آپ اپنا ہاتھ آگے پھیلا دیتے تھے اور کسی بڑے مضبوط آدمی سے فرماتے کہ اسے ذرا ٹیڑھا تو کرو.مگر اپنی اس طاقت اور زور کے دعوئی کے باوجود جب آپ نے اس پاگل عورت کو پکڑا تو باوجود یکہ وہ دبلی پتلی تھی اُس نے ایسا زور کیا کہ آپ کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ میں بھی ساتھ نہ گر جاؤں اور آپ نے درس والی عورتوں کو مدد کے لئے بلایا.چنا نچہ آٹھ دس عورتوں نے مل کر آدھ گھنٹے میں اُسے باندھا.اس عورت کی تندرستی کی حالت میں حضرت خلیفہ اول اگر اُس عورت کو ہاتھ سے ذرا سا بھی جھٹکا دیتے تو کتنے ہی فاصلہ پر جا کر گرتی لیکن جنون کی حالت میں خوف چونکہ ڈب گیا تھا اور وہ اپنی طاقت کو انتہائی طور پر استعمال کرنے پر آمادہ تھی اس لئے آٹھ دس عقلمندوں نے مل کر بمشکل اُس پر قابو پایا.ایمان بھی ایک قسم کا جنون ہوتا ہے.کوئی نبی ایسا نہیں آیا جسے مجنون نہ کہا گیا ہو اور اس کی
خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۸ وجہ یہی ہے کہ جس طرح مجنون ہلاکت کی پرواہ نہیں کرتا اسی طرح ایمان والا بھی نہیں کرتا اور ہر خطرہ میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے اس لئے لوگ اسے بھی پاگل سمجھتے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی طاقتوں کو نڈر اور بے پرواہ ہو کر استعمال کرنے میں مجنون اور مؤمن میں کوئی فرق نہیں ہوتا.اور اس طرح ان کی طاقت میں بھی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے.جس طرح پاگل پر جب جنون کا دورہ ہو تو اُسے آٹھ دس آدمی بمشکل قابو کر سکتے ہیں اسی طرح مؤمن کو بھی جب کی وہ جوش کی حالت میں ہو اُس کے مخالف دبا نہیں سکتے اور جتنا کسی کا ایمان مضبوط ہو اتنی ہی کی زیادہ طاقت اس کے اندر ہوتی ہے.حتی کہ جب وہ نبی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو ساری دنیا مل کر اسے پکڑنا چاہتی ہے مگر نہیں پکڑ سکتی.پس اپنے اندر یہ ایمان پیدا کرو پھر کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا.تحریک جدید کے لئے علیحدہ سیکرٹری مقرر کرنے کے لئے جو میں نے کہا تھا اُس کی غرض یہ تھی کہ ایسے آدمی ہوں جو مستقل مزاج ہوں اور رات دن اپنے آپ کو اس کام میں لگائے رکھیں لیکن افسوس ہے کہ بعض سیکرٹری صرف نام کے لئے بن گئے ہیں اور کام کچھ نہیں کرتے.ان کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خالی نام خدا تعالیٰ کے حضور کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ نام حاصل کرنے سے پہلے ان پر کوئی الزام نہ تھا لیکن نام لینے کے بعد اگر وہ کام نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی کی لعنت کے مستحق ہونگے اس لئے ہر سیکرٹری کو چاہئے کہ تن دہی سے کام کرے.پہلے خود تحریک جدید اور اس کی ہدایتوں کا مطالعہ کرے اور پھر اس کے مطابق جماعت سے کام لے.دیکھو یہ کتنا اہم کام ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر دوستوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ورثہ کی تقسیم شریعت کے مطابق کیا کریں گے اور عورتوں کو حصہ دیا کریں گے مگر منہ سے کہنا آسان ہے اور عمل کرنا مشکل ہے.سیکرٹریوں کو دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا اس کے مطابق کام ہوا اور اس عرصہ میں جو لوگ فوت ہوئے اُن کا ورثہ مطابق شریعت تقسیم ہوا ؟ اگر نہیں تو انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اتنی وسیع ہے کہ اس عرصہ میں پچاس ساٹھ بلکہ سو ایسے دوست ضرور فوت ہو چکے ہوں گے جن کے ورثہ کے متعلق سوال پیدا ہو ا ہو گا مگر میرے پاس ایک مثال بھی ایسی نہیں آئی کہ کوئی زمیندار فوت ہوا ہو اور اُس کا ترکہ
خطبات محمود ۴۵۶ سال ۱۹۳۸ء شرع کے مطابق تقسیم ہوا ہو.تو تحریک جدید کے کارکن جب تک اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں گے خالی نام ان کو کچھ فائدہ نہ دے سکے گا.انہیں چاہئے کہ اپنے کام کاج کا حرج کر کے بھی اس طرف متوجہ ہوں.اپنے اندر ایک جنون پیدا کریں.مجنون کو بعض اوقات وہ چیز میں نظر آجاتی ہیں جو دوسروں کو نہیں آتیں.جس طرح نبی کو بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو دوسری دنیا نہیں دیکھ سکتی.یہی وجہ ہے کہ لوگ کئی مجنون لوگوں کو مجذوب قرار دے کر ولی اللہ بنا دیتے ہیں.لیکن کی بات صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کی مخفی دماغی قوتیں بعض اوقات نمایاں ہو جاتی ہیں اور وہ شاذ و نادر طور پر غیر معمولی باتیں معلوم کر لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ لا ہور تشریف لے گئے.بعض دوستوں نے تحریک کی کہ شاہدرہ میں ایک مجذوب رہتا ہے اُس کے پاس جانا چاہئے مگر بعض دوسرے دوستوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ نہائت گندی گالیاں بکتا ہے اُس کے پاس نہیں جانا چاہئے مگر جو جانے کے حق میں تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو الہام ہوتا ہے دیکھنا چاہئے وہ کیا کہتا ہے.آپ خود بھی انکار کرتے رہے مگر دوست اصرار کر کے لے گئے.آپ نے فرمایا کہ جب ہم وہاں پہنچے وہ کی گالیاں دیتے دیتے یکدم خاموش ہو گیا.اس کے پاس ایک خربوزہ رکھا تھا اُسے اُٹھا کر میرے پیش کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کی نذر ہے دیکھنے والے اُس کے اور بھی معتقد ہو گئے مگر آپ نے فرمایا کہ وہ پاگل تھا.تو بعض اوقات پاگل کو بھی ایسی باتیں نظر آ جاتی ہیں جو عظمند نہیں دیکھ سکتے.وہ چونکہ دنیا سے منقطع ہو چکا ہوتا ہے اس لحاظ سے اُسے بھی کسی وقت غیب کی باتیں نظر آجاتی ہیں.مؤمن کا تعلق پاللہ شریعت کے مطابق ہوتا ہے اس لئے جب وہ کشف کی حالت میں ہوتا ہے نیکی کا نمونہ ہوتا ہے اور جب کشف سے باہر ہوتا ہے تب بھی نیکی اور عقل کا نمونہ ہوتا ہے کہ لیکن پاگل جب اپنی حالت میں ہوتا ہے عقل سے بے بہرہ ہوتا ہے اور جب اسے افاقہ ہومحض دنیا کا ایک کیڑا ہوتا ہے.صرف دماغ کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کی مخفی طاقتیں بیدار ہو جاتی ہیں لیکن ولی اللہ کی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے بیدار ہوتی ہیں.نیز پاگل کو تو اتفاقی طور پر کبھی کوئی بات معلوم ہوتی ہے لیکن مؤمن پر اللہ تعالیٰ کا نور ہر وقت نازل ہورہا ہوتا ہے ج
خطبات محمود ۴۵۷ سال ۱۹۳۸ء اور اس پر جب کبھی بھی کوئی مصیبت آنے لگتی ہے اللہ تعالیٰ اُسے قبل از وقت خبر دے دیتا ہے اور اُس کی تائید میں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہتے ہیں.پس ہمارے سیکرٹری اگر اخلاص اور مذہبی جنون سے کام کریں تو یہی عہدے انکو ولی اللہ بنا سکتے ہیں اور ان پر رؤیا وکشوف کے دروازے کھل سکتے ہیں لیکن اگر وہ صرف دفتری طور پر کام کریں جوش اور جنون سے نہیں تو اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان کے ساتھ ویسا ہی ہوگا.اگر وہ سمجھیں کہ سلسلہ کی ذمہ داری ہم پر ہے اور محنت سے کام کریں تو یقیناً یہی کام ان کے لئے بڑا مجاہدہ بن سکتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.مجاہدات بھی ہر زمانہ کے لئے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں.اس زمانہ میں تبلیغ اور نظام جماعت کی تکمیل کے مجاہدے زیادہ مقبول ہیں اور اگر ہمارے سیکرٹری تند ہی سے کام کریں تو اسی میں وہ خدا تعالیٰ کے قرب حاصل کر سکتے ہیں.اب کہ وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے.میں ایک بار پھر توجہ دلاتا ہوں کہ عہد یدار سُستیاں چھوڑ کر کام کریں اور نہ صرف مالی مطالبات پورے کرائیں بلکہ دوسرے بھی.اس میں شک نہیں کہ ان تین سالوں کے اندر قربانیوں کا بوجھ جماعت پر بڑھا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی زیادہ فضل نہیں آنے والا.ل بخاری کتاب الاذان باب الاذان للمسافرين (الخ) (الفضل ۲۸ / جولائی ۱۹۳۸ ء ) مانچو کو (MANCHUKU) سابق مملکت جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد چین کو واپس دے دی گئی.سے ٹرانس جارڈ ینیا TRANSJORDANIA) موجودہ اُردن کا قدیم نام
خطبات محمود ۴۵۸ ۲۴ سال ۱۹۳۸ الہی جماعتوں میں منافقین کا پیدا ہونا سنت اللہ ہے ( فرموده ۲۹ / جولائی ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - و گزشتہ ایام میں یہاں ایک واقعہ ہوا ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ پھر مجھے منافقین کے متعلق جماعت کو اچھی طرح واقفیت بہم پہنچا دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم جیسی کتاب بھی بعض لوگوں کے لئے ہدایت کا مگر بعض کے لئے گمراہی کا موجب بھی ہو جاتی ہے.اس لئے مجھے اس سے غرض نہیں کہ جماعت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے یا نہیں، میرے لئے یہی کافی ہے کہ میں ایک بات کو کھول کر پہنچا دوں آگے احباب جماعت اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں میرے لئے یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا.ہر ایک کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جو لوگ میری بات کو سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے ، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ اور ان کی اولادوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا لیکن جورڈ کر دیں گے ان کے اور ان کی اولا دوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی ویسا ہی ہوگا.ہر شخص کا انعام اس کی ذات سے وابستہ ہے مجھے اس سے واسطہ نہیں کہ لوگ کن کانوں سے سنتے ہیں.میرا فرض صرف یہ ہے کہ جماعت کو آگاہ کر دوں اور مخلصین کے طبقہ تک اسے پہنچا دوں.چند روز ہوئے ناظر صاحب امور عامہ میرے پاس آئے اور اپنی ڈائری میں نوٹ کردہ واقعہ مجھے سنایا کہ یہاں کے ایک دکانداری چوہدری حاکم دین صاحب اور ایک اور دکاندار کے نمائندے محمد سعید صاحب ان کے پاس کی
خطبات محمود ۴۵۹ سال ۱۹۳۸ء آئے اور اجازت طلب کی کہ ہم نے مصری صاحب کے ساتھ حساب کرنا ہے ان سے ملنے کی اجازت دی جائے اور چونکہ ہم نے یہ قانون مقرر کیا ہوا ہے کہ ایسی صورت میں تین آدمیوں کو اکٹھا ملنے کی اجازت دی جایا کرے کیونکہ حساب کتاب کا معاملہ ایسا ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس غرض سے اجازت حاصل کرنے والا بہانا کرتا ہے یا واقعہ اس نے کچھ لینا ہے.ناظر صاحب امور عامہ نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مرزا مہتاب بیگ صاحب کو ساتھ لے جائیں دو آپ میں تیسرے وہ ہو جائیں گے اور تینوں اکٹھے جا کر مل آئیں لیکن کی انہوں نے واپس آکر کہا کہ ہم مل تو آئے ہیں مگر ایک غلطی ہوگئی مرزا مہتاب بیگ صاحب ملے نہیں تھے اس لئے ہم ان کے بغیر ہی چلے گئے تھے.ان کا یہ ایسا نا معقول عُذر تھا کہ کوئی معقول آدمی اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا اس لئے جس حساب پر پہلے سوا سال گزر چکا ہے یہ حساب ان کے اخراج کے بعد کا تو ہو نہیں سکتا اس لئے لازماً یہ سوا سال سے پہلے کا ماننا پڑے گا.اس پر اگر چند گھنٹے اور انتظار کرنا پڑتا حتی کہ وہ تیسرا آدمی مل جاتا اور وہ اسے ساتھ لے جا سکتے تو اس میں کیا حرج تھا.کیا اسی دن کوئی خاص مہورت تھا اور کسی جوتشی نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم چند گھنٹوں کے اندر اندر نہ پہنچے تو تمہارا روپیہ مارا جائے گا.یا گورنمنٹ کا کوئی حکم تھا کہ اس وقت تک کے بعد تمہارا روپیہ ضبط ہو جائے گا.یا کیا قرآن کریم کا کوئی ایسا حکم ہے کہ اگر اتنے عرصہ کے اندر اندر قرضہ نہ مانگا جائے تو وہ تلف ہو جاتا ہے.آخر کیا وجہ تھی؟ کہ وہ دو تین گھنٹے یا اگر تیسرا آدمی اس روز نہیں مل سکتا تھا تو دوسرے روز جا کر نہیں مل سکتے تھے اور ان کے لئے فوراً ہی وہاں پہنچنا ضروری تھا یا انہیں اس بات سے کس نے منع کیا تھا کہ اگر مرزا مہتاب بیگ صاحب نہیں مل سکے تھے تو دوبارہ ناظر امور عامہ کے پاس آکر انہیں کہتے کہ کوئی اور آدمی مقرر کر دیا جائے.خیر تو ناظر صاحب نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ انہوں نے کل پھر جانا ہے اور میں نے ان کو تاکیداً کہہ دیا ہے کہ کل ضرور مرزا صاحب کو ساتھ کی لے جائیں.یہ سنتے ہی میرے منہ سے فوراً نکلا کہ وہ کل بھی نہیں لے جائیں گے اور اگلے دن کی وہ پھر میرے پاس آئے اور شرمندگی سے کہا کہ وہ آج پھر کسی کو ساتھ لے کر نہیں گئے.گو ضروری نہیں کہ ایسے قیاسات جو ان حالات میں کئے جاسکتے ہیں صحیح ہوں بعض اوقات اور وجوہ
خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۸ء بھی ہو سکتے ہیں.مگر جب پہلے روز میں نے سنتے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ کل بھی کسی کو ساتھ نہیں لے جائیں گے تو قدرتاً دوسرے روز کی بات طبیعت پر زیادہ گراں گزری.اس وجہ سے میرے مشورہ کے ساتھ ان کے متعلق ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کچھ عرصہ کے لئے جماعت ان کا مقاطعہ کرے یہ عرصہ پہلے پندرہ دن کا تھا مگر بعد میں سات دن کر دیا گیا اس لئے کہ ان کا بعد کا جور و یہ تھا وہ اچھا تھا.میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میعاد میں یہ کی ان سفارشوں کی وجہ سے نہ تھی جو ان کے لئے کی گئیں کیونکہ ایسے موقع پر سفارش کرنا ملزم کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے خود سفارش کرنے والے کی منافقت کی علامت ہوتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ سفارش کرنے والوں میں میرے رشتہ دار بھی تھے اور دوسرے لوگ بھی اور انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ ایسی سفارش اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.تم ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا صحابہ کے وقت میں کسی کو سزا دی گئی ہو اور اس مسئلہ کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی سفارش آئی ہو.پھر میں نہیں سمجھتا کہ تم ان مسائل کو کیوں یاد نہیں رکھتے.کیا اس وجہ سے کہ کوئی شخص میرا رشتہ دار ہے یا پریذیڈنٹ ہے، وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اسے شریعت کو توڑنے کا حق ہے.میں یہ امر بھی صاف طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا ان لوگوں کا فعل منافقانہ تھا ویسا ہی سفارش کرنے والوں کا ہے.مجھے کسی کا مطلقا ڈر نہیں.خواہ کوئی میرا رشتہ دار ہو یا جماعت میں سے بڑا آدمی ہو.جو بھی خلاف شریعت فعل کا مرتکب ہوگا اسے یہ بات سننی پڑے گی.مجھے افسوس ہے کہ میرے ایک رشتہ دار نے یہاں تک کہا کہ میں چوہدری حاکم دین کے متعلق مسجد اقصیٰ میں قسم کھانے کو تیار ہوں حالانکہ قرآن کریم نے منافقوں کی ایک یہ علامت بھی قرار دی ہے کہ وہ بلا شرعی حق یا ضرورت کے قسمیں کھانے لگ جاتے ہیں کے اور جو شخص ایسی بات کے متعلق قسم کھانے کو تیار ہو جاتا ہے جس کی صداقت کا شرعی ثبوت اس کے پاس نہیں ، اس کا فعل یقیناً منافقانہ ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کی قسم کو اتنا کمزور سمجھتا ہے کہ ذاتی علم کے نہ ہونے کے باوجود اس کے لئے تیار ہو جاتا ہے اس کے اندر ضرور کمزوری ہے.میں نے ان میں سے کسی کو بھی منافق قرار نہیں دیا.ان لوگوں کو بھی نہیں جو علیحدہ جا کر ملے تھے اور سفارش کرنے والوں کو بھی نہیں اور جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق ہونا اور منافقت کی رگ کا ہونا
خطبات محمود ۴۶۱ سال ۱۹۳۸ء دونوں میں بڑا فرق ہے بعض اوقات مخلص مسلمانوں سے بھی شریعت کے کسی حصہ کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے مگر اس وجہ سے ہم انہیں کا فرنہیں کہتے.نماز کے متعلق میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ جو شخص اسے چھوڑتا ہے وہ مسلمان نہیں مگر ایک گروہ ایسا ہے جو تارک نماز کو کا فرنہیں کہتا.اب دیکھو مسلمانوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو نمازوں میں سُست ہے، ہزاروں ہیں جو روزے با قاعدہ نہیں رکھتے اور شریعت کے دوسرے احکام بھی توڑتے رہتے ہیں مگر ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایک بات کو پیشہ کے طور پر اختیار کر لینا اور بات ہے اور غفلت یا غلطی ہو جانا اور ہے.ابوالدرداء ایک بڑے صحابی گزرے ہیں وہ اتنے پائیڈ کے صحابی تھے کہ ان کی موجودگی میں صحابہ کوئی کام ان کے مشورہ کے بغیر نہ کرتے تھے.ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہارے اندر جاہلیت کی رگ ہے.انہوں نے پوچھا کہ جاہلیت کفر والی یا اسلام والی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر والی.تو بعض دفعہ مخلص آدمی بھی منافقانہ فعل کر دیتا ہے.وہ خود منافق نہیں ہوتا ہاں اس کا فعل منافقانہ ہوتا ہے.جن کو سزادی گئی تھی منافق سمجھ کر نہیں بلکہ منافقانہ فعل پر سزا دی گئی تھی اور جن لوگوں نے سفارشیں کیں انہوں نے اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کی اس لئے ان کا فعل بھی منافقانہ ہے گو وہ خود منافق نہیں ہیں.بعض امور میں شریعت نے سفارش کی اجازت دی ہے مگر وہ ایسے امور ہیں جو سیاسی اور حکومت کے متعلق نہ ہوں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو جس نے چوری کی تھی سزا دی.اس پر بعض لوگ سفارشیں کرنے آئے کیونکہ اس وقت تک اسلامی تعلیم پوری طرح قائم نہیں ہوئی تھی مگر سفارش سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا خدا کی قسم اگر فاطمہ چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا.سے تو ایسی باتوں میں سفارش کرنا سخت نادانی کی بات ہے.اس کے معنے نظام کو درہم برہم کرنے کے ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ کوئی شخص کسی ناظر کے پاس انتظامی کام کے متعلق کوئی سفارش نہ کرے اور اگر اس اعلان کے بعد بھی کرے گا تو میں اسے منافق سمجھوں گا.کسی قاضی یا تو ناظر کے پاس کسی ایسے معاملہ میں سفارش منافقانہ فعل ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے اپنے فرض کی ادائیگی سے روکا جائے.نظام سلسلہ میں ہر شخص یکساں حیثیت رکھتا ہے.یہ لوگ
خطبات محمود ۴۶۲ سال ۱۹۳۸ء جو سفارشیں کرنے جاتے ہیں آخر اسی برتے پر جاتے ہیں کہ ہم جماعت میں بڑے سمجھے جاتے ہیں ج یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کسی تعلق کی وجہ سے ہمیں رسوخ حاصل ہے.اور یا درکھو جب کسی جماعت میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہم بڑے آدمی ہیں ہماری بات سُنی جانی چاہئے تو یہ اس کی تباہی کا پہلا قدم ہوتا ہے.نظام سلسلہ کا جہاں تک تعلق ہے، کوئی بڑا نہیں اور کوئی چھوٹا نہیں.دارالصحت کے آدمی سفارشیں لے کر کیوں نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کی غریب ہیں ہماری بات کون سنے گا اور جو آئے وہ یہی سمجھ کر آئے کہ ہمیں ایک عزت اور رسوخ حاصل ہے اور ہم بڑے آدمی ہیں لیکن میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نظامِ سلسلہ میں ان کی بھی اتنی عزت ہے جتنی دارالصحت کے رہنے والوں کی اور جو اس سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے ، وہ کی آج بھی گیا اور کل بھی.اچھی طرح سن لو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولا د اور پوتے یا داما دسب کی جہاں تک نظام کا تعلق ہے ان کی ویسی ہی حیثیت ہے جیسی ایک ادنیٰ خادم کی اور جو اس سے زیادہ سمجھتا ہے اسے ارتداد، کفر اور یا پھر خدا تعالیٰ کے عذاب کے لئے تیار ہونا چاہئے.اور جو ناظروں میں سے سفارش سنتا ہے وہ بھی تیار ہو جائے کہ یا تو اسے ٹھوکر لگے گی اور یا پھر وہ عذاب میں مبتلا ہو گا.ناظر یا جسے کوئی اور عہدہ ملے اس کے کان اس معاملہ میں بہرے ہونے چاہئیں اور کسی کی بات کی اسے کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ جب کوئی اس کے پاس ایسی سفارش لے کر آئے اسے کہنا چاہئے کہ نکل جاؤ یہاں سے.گو مجھے اس بات کے کہنے سے شرم آتی ہے اور حجاب محسوس ہوتا ہے مگر کہنے سے رہ نہیں سکتا کہ شروع ایامِ خلافت میں ایک دو دفعہ ایسا ہوا.بعض عورتیں حضرت اماں جان کے پاس پہنچیں اور ان سے سفارش کرانے کی کوشش کی.وہ میری والدہ ہیں.اماں جان ہیں اور ان کا پایہ سلسلہ میں بہت بلند ہے مگر میں نے ان کی سفارش کو بھی کبھی برداشت نہیں کیا اور صاف کہہ دیا ہے کہ میں اسے سننے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ان سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے.جب سلسلہ کے نظام میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ سفارش کریں تو پھر کسی اور کی سفارش کو کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے.سفارش کرنے کی والے امور اور ہوتے ہیں.مثلاً میں نے کسی سے روپیہ لینا ہے اور تقاضا کر رہا ہوں.کسی کو علم ہے کہ اس کی مالی حالت اچھی نہیں وہ سفارش کر سکتا ہے کہ اس کی مالی حالت کا مجھے علم ہے
خطبات محمود ۴۶۳ سال ۱۹۳۸ء بہت خراب ہے، ابھی اسے مہلت دی جائے.ایسی سفارش ثواب ہے مگر نظام کے بارہ میں سفارش کی جائز نہیں.ہاں واقعات کا اگر کسی کو علم ہو تو بتا سکتا ہے.مثلاً یہی معاملہ تھا اگر کوئی عینی شاہد ہوتا اور پھر وہ دیکھتا کہ تحقیقات غلط ہوئی ہے تو وہ بتا سکتا تھا کہ میں خود وہاں موجود تھا بات یوں کی نہیں یوں ہوئی تھی.یہ سفارش نہیں بلکہ شہادت ہے جو واجب اور فرض ہے.مگر اس کیس میں تو ایسی صورت نہ تھی.انہوں نے خود اقرار کیا کہ وہ تیسرے آدمی کے بغیر گئے اور مصری صاحب نے ان سے الگ الگ باتیں کیں.میں تو حیران ہوں کہ یہ حساب فہمی ہو رہی تھی یا رشتہ ناطہ کی بات چیت تھی جو کسی دوسرے کے سامنے نہ کی جاسکتی تھی.جب ان کے سامنے علیحدہ علیحدہ ملنے کا کی سوال پیش کیا گیا.تو ان کو اسی وقت سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اب ہمارے ایمان کے امتحان کا موقع ہے.پھر یہ کیا ضروری ہے کہ قرض خواہ مقروض کے مکان پر ہی جا کر مطالبہ کرے.قانون نے اور ذرائع بھی رکھے ہیں ، ان کو استعمال کیا جا سکتا تھا.آئندہ کے لئے میں ناظروں پر بھی یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی ایسے معاملہ میں کوئی شخص ان کے پاس سفارش لے کر آئے تو ان کا فرض ہے کہ فوراً میرے پاس اس کی رپورٹ کریں.صرف ر ڈ کر دینا ہی کافی نہیں.اگر مجھے معلوم ہوا کہ ان کے پاس کسی نے سفارش کی اور انہوں نے ر ڈ کر دی مگر مجھے رپورٹ نہیں کی تو میں سمجھوں گا کہ منافقت کی رگ ان کے اندر بھی ہے.متواتر شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ سفارشیں کی جاتی ہیں.میرے اسی عزیز کے متعلق پہلے بھی ایک دفعہ شکایت آئی تھی کہ دو شخصوں کا آپس میں مقدمہ تھا اور ایک کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ بڑا نیک آدمی ہے، اس کا خیال رکھیں.دوسرے فریق کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے میرے پاس شکایت کر دی.میں نہیں سمجھتا کہ انہیں کس نے داروغہ بنایا ہے کہ اس کی طرح سفارشیں کرتے پھریں.ہر شخص اپنے دوستوں کو نیک سمجھتا ہے تو کیا صرف اس وجہ سے کہ کوئی شخص اپنے دوست کے نزدیک نیک ہے ، ضروری ہے کہ مقدمہ بھی اس کے حق میں ہو جائے.اگر اس سلسلہ کو جاری رہنے دیا جائے تو ہر فریق کے متعلق اس کے دوست آ آ کر کہہ دیا کریں گے کہ وہ نیک آدمی ہے.دن اسے اچھا کہیں گے اور دن اُسے.تو کیا اس صورت میں قاضی کسی کے خلاف بھی فیصلہ نہ کرے اور اندھے راجہ کی طرح اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکا لیا
خطبات محمود ۴۶۴ سال ۱۹۳۸ء کرے؟ یہ طریق نہایت غلط ہے اور منافقانہ ہے.میں ان لوگوں کو تو منافق نہیں کہتا مگر ان کا یہ فعل ضرور منافقانہ ہے.اسی طرح میں قاضیوں اور ناظروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بہت احتیاط سے کام لیا کریں.اگر کوئی ان کے پاس کسی کی سفارش کرے تو ہرگز پرواہ نہ کیا کریں خواہ وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو.میں جانتا ہوں کہ غلطیاں ہو جاتی ہیں بعض اوقات ہمارے گھروں میں بھی عورتیں آجاتی ہیں اور میری بیویوں سے کہتی ہیں.بعض دفعہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری بیویوں کی میں سے کسی نے کوئی سفارش اپنے کسی رشتہ دار ناظر یا افسر سے کر دی لیکن جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ہمیشہ گھر میں ڈانٹا کہ کیوں ایسا کیا گیا.کیا ناظر بد دیانت ہے.اگر بددیانت ہے تو اسے علیحدہ کر دینا چاہئے لیکن اگر نہیں تو پھر کہنے کا کیا فائدہ؟ دوسرے اداروں میں سفارشیں ہوتی رہتی ہیں اور چونکہ وہاں سارا نظام ہی اس طرح چل رہا ہے اس لئے بعض اوقات ہم بھی کی سفارش کر دیتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا میں اس کی وقت چونکہ پیسہ کے بغیر کام نہیں چلتا اس لئے اپنا حق لینے کے لئے کسی کو کچھ دے دینا جائز ہے ہاں کسی کا حق لینے کے لئے ایسا کرنا نا جائز ہے یہی حال سفارش کا ہے.جہاں یہ چل رہی ہے وہاں اپنا حق لینے کے لئے سفارش کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن دوسرے کا حق مارنے کے لئے سفارش جائز نہیں لیکن سلسلہ کے نظام میں اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا.ناظروں کو یہ بھی کی چاہئے کہ اپنی بیویوں پر دباؤ رکھیں اور ان کو سختی سے روک دیں کہ ایسی باتوں میں دخل نہ دیا کریں.میری خلافت کا پچیسواں سال اب ختم ہونے کو ہے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی اپنی بیویوں سے ایسی باتیں کی ہوں.بلکہ بعض اوقات لطیفہ ہو جاتا ہے.میں ناظروں کی سے کوئی بات کرتا ہوں وہ اپنی بیویوں سے کر دیتے ہیں وہ میری بیویوں سے کرتی ہیں اور پھر وہ مجھ سے کرتی ہیں کہ سنا ہے یوں ہوا.تو یہ طریق بھی غلط ہے.میں نے سلسلہ کی ایسی بات اپنی بیویوں سے کبھی کی ہی نہیں اور افسروں کا بھی فرض ہے کہ اس کا خیال رکھیں.ہم نے انہیں مقرر کی کیا ہو ا ہے ان کی بیویوں کو نہیں.انہیں اگر اپنی بیویوں پر اعتماد ہے تو اپنے راز بے شک ظاہر کر دیں مگر سلسلہ کے نہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء پس جس فعل پر ان دو آدمیوں کو سزا دی گئی وہ یقیناً منافقانہ ہے.ایک شخص کا مسجد اقصٰی میں قسم کھانا تو الگ رہا اگر تم سارے کے سارے بھی قسم کھاؤ تو میں کہوں گا تم غلط کہتے ہو.یہ فعل واقعی منافقانہ ہے.ان میں سے ایک نے عجیب لطیفہ مجھے لکھا کہ میں نے سلسلہ کا کیا قصور کیا ہے.ستر روپے گئے تو میرے گئے.سلسلہ کو کیا نقصان ہوا.یہ تو ایسی بات ہے کہ کوئی احرار کو چندہ دے کر کہے کہ روپیہ تو میرا گیا سلسلہ کو کیا نقصان پہنچا.تم جو ستر روپے ایک مخالف کو دے کی آئے کیا یہ سلسلہ کا نقصان نہیں.ستر چھوڑ اگر تم سات روپے بھی دے آتے ، سات آنے بلکہ سات دمڑی بلکہ ایک دمڑی بھی دیتے تو بھی سلسلہ کا نقصان تھا.اس طرح تو ایک کا فر بھی کہہ کی سکتا ہے کہ ابو جہل کے ساتھ مل کر جان تو میں نے اپنی دی خدا تعالیٰ کا اس سے کیا نقصان ہوا.تو یہ جواب خود کمزوری ایمان کی دلالت کرتا ہے.اگر اس کے اندر غیرت ہوتی تو اسے خود معلوم ہو جا تا کہ اس سے سلسلہ پر حرف آتا ہے.کیا یہ سلسلہ کی ہتک نہیں کہ اس کے دو افراد نے اس کے نظام کو توڑا.اگر وہ سمجھتا ہے کہ جماعت کے افراد کا روپیہ مخالف کے پاس جانا سلسلہ کا نقصان نہیں تو یہ دوسری رگ منافقت کی ہے مگر میں اسے بھی منافق نہیں کہتا.اگر وہ اپنے آئندہ طرز عمل سے ثابت کر دیں گے کہ وہ منافق نہیں ہیں تو ہمارے بھائی ہیں اور اگر ان کا آئندہ طرز عمل ان کو منا فق ثابت کرے گا تو خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.اس کی کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی پیدا نہیں ہوئی کہ جس میں منافق نہ پیدا ہوئے ہوں.میں حیران ہوں کہ آپ لوگوں کے دماغ میں یہ بات کیوں نہیں گھستی.بعض دفعہ آپ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ منافق کہاں سے آ جاتے ہیں.مگر یاد رکھو کہ یہ سُنت اللہ ہے.آج تک کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس میں منافق نہ ہوئے ہوں.جب بھی کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوتی ہے اس میں منافق بھی ضرور ہوتے ہیں.مشہور انبیاء جن کے حالات معلوم ہیں، تین ہیں.سب سے زیادہ حالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہیں اور ان سے اتر کر حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام کے ہیں اور زمانہ کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے پہلے گزرے ہیں.ان کے زمانہ میں
خطبات محمود ۴۶۶ سال ۱۹۳۸ ہم دیکھتے ہیں کہ منافق تھے یا نہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانہ میں منافقوں کی نے تین مرتبہ بڑا زور پکڑا ہے.ایک قصہ تو سامری کا مشہور ہی ہے.یہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا تھا اور آپ کے ساتھ ہجرت کر کے آیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ طور پر آؤ ہم تم سے باتیں کریں گے.آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے وہاں پہنچے اور وہاں عبادت کی اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی بہت جدوجہد کی جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی اور اس نے آپ کو الہام کیا.کہ اس مدت میں ہم دس دن اور بڑھاتے ہیں اور دس دن آپ کو اور الہام ہوں گے.پہلے تمیں دن تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اتممتها بعشر ؟ مگر جب تمہیں دن گزر گئے اور لوگ حیران ہوئے کہ موسیٰ واپس کیوں نہیں آئے تو سامری جھٹ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ تو گیا ہے مر.اور جس سے وہ باتیں کیا کرتا تھا اس کا مجھے پتہ ہے.لوگوں سے جھٹ وہ سونا لیا جو بنی اسرائیل نے فرعونیوں سے قرض لیا ہوا تھا اور ایک کی بچھڑے کی شکل بنادی.اس کے اندر ایک خلا رکھا جس سے آواز نکلتی تھی.ہے جیسے آجکل مکینک کی وغیرہ بنا لیتے ہیں.یہ دیکھ کر بنی اسرائیل کو وہی عقیدت یاد آ گئی جو مصر میں ان کو بچھڑے سے تھی اور جب اس میں سے آواز نکلی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ واقعی خدا ہے.فوراً ایک جماعت اس کے ساتھ شامل ہو گئی اور آناً فاناً اس کا اتنا رسوخ بڑھ گیا کہ حضرت ہارون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلق اخلاص رکھنے والے دوسرے لوگ ان کو کچھ نہ کہہ سکے.ان کو خیال تھا کہ ایسا نہ ہو کہ باہم تلوار چل جائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام آکر ناراض ہوں.انہیں یقین کی تھا کہ حضرت موسیٰ فوت نہیں ہوئے.اللہ تعالیٰ کے حکم سے گئے ہوئے ہیں اور ضرور واپس آئینگے کیونکہ ابھی وہ پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں جو آپ کی زندگی میں ہوتی ہیں اس لئے اگر ہم نے کچھ کہا اور فساد پیدا ہو گیا تو ایسا نہ ہو کہ حضرت موسیٰ آ کر ناراض ہوں.اور کہیں کہ تمہیں سمجھانا نہیں آیا.پس وہ اسی وہم میں کہ ایسا نہ ہو حضرت موسیٰ آکر کہیں کہ تم نے لوگوں کو کی مرتذ کر دیا.خاموش رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ان منافقوں کی حکومت ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بھی الہاماً بتا دیا کہ پتہ بھی ہے پیچھے کیا ہوا ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام غصہ میں واپس آئے اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار منافق قتل کئے گئے.تمہیں تو بعض دفعہ یہ
خطبات محمود ۴۶۷ سال ۱۹۳۸ء سن کر کہ دو چار آدمی منافق ہو گئے ہیں گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے کہ اب کیا ہو گا لیکن وہاں تین ہزار کو ایک دن میں سزادی گئی.میں نے کہا ہے کہ قتل کئے گئے.بائیل میں بھی یہی لفظ کی ہے.کے قرآن کریم میں بھی قتل کا لفظ آیا ہے.قتل بعض دفعہ اور طریق سے بھی ہوتا ہے.ممکن ہے یہ قتل بائیکاٹ کی صورت میں ہی ہو جیسا کہ احادیث سے پتہ لگتا ہے.یا ممکن ہے ان کی شریعت میں ہر منافق کی سزا قتل ہی ہو.بہر حال تین ہزار منافق تھے.ذرا اندازہ کرو کتنی بڑی کی تعداد ہے.دوسرا واقعہ قارون کا ہے.سامری کو تو صرف پڑھے لکھے لوگ ہی جانتے ہیں مگر قارون سے ہمارے زمیندار بھائی بھی واقف ہیں.کہتے ہیں بڑا قارون کا خزانہ دے دیا ہے.یا کسی سے مانگتے ہی جاؤ تو وہ کہتا کہ کہ کیا میرے پاس قارون کا خزانہ ہے.تو یہ شخص بہت مالدار تھا.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھا مگر اندر ہی اندر آپ کے خلاف کوششیں کرتا رہتا تھا.آخر اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا.گویا اسے آسمانی سزا ملی.تیسرا واقعہ وہ ہے.جس کی طرف قرآن کریم نے اذوا مؤسی والی آیت میں اشارہ کیا ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں سے ایک جماعت یہ کہنے لگ گئی تھی کہ آپ کو کوڑھ ہو گیا ہے.بعض کا خیال تھا کہ آپ کے خصیوں میں پانی بھر گیا ہے اور اسے بھی وہ لوگ عیب سمجھتے تھے.بعض کا خیال تھا کہ خصیوں پر کوڑھ ہے.بعض لوگوں کو بوجہ اس کے کہ ان کا چمڑا نرم ہوتا ہے بعض دفعہ کھجلی کی ضرورت پیش آتی ہے ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ تکلیف ہو اور وہ اس سے سمجھتے ہوں کہ کوڑھ ہے.حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس کی میں تو اور تاویل کیا کرتا ہوں مگر بہر حال آتا یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ نہانے لگے تو ایک پتھر پر کپڑے رکھے اور وہ پتھر کپڑے لے کر بھاگ گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے بھاگے اور ان لوگوں نے دیکھ لیا کہ آپ کے اندام نہانی پر داغ نہیں تھے.وہاں حجر کا لفظ ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ اسی طرح ہے تو حجر کسی شخص کا نام ہوگا یہ نام ہوتا ہے.ابن حجر ایک بہت بلند پایہ امام گزرے ہیں.گزشتہ تیرہ سوسال میں جو چند ایک ممتاز علماء پیدا ہوئے ہیں ان میں سے ایک ہیں.وہ پتھر کے بیٹے تو نہیں تھے یا تو کسی وجہ سے یہ ان کی کنیت تھی اور یا پھر ان کے باپ کا نام حجر ہوگا.
خطبات محمود ۴۶۸ سال ۱۹۳۸ اس کے علاوہ ایک اور واقعہ بھی ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن مریم اور خاندان کے بعض اور افراد بھی شامل تھے.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زنا کے الزام کا واقعہ ہے.قارون کے واقعہ اور اس واقعہ کو اگر اکٹھا ہی سمجھ لیا جائے تو یہ تین واقعات منافقوں کی کے ہیں اور اگر یہ علیحدہ ہے تو چار ہیں لیکن اگر اسے علیحدہ نہ بھی سمجھا جائے تو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کم سے کم تین مرتبہ منافقوں نے بغاوت کی ہے.ان کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام آئے ہیں اور ان کے بارہ حواریوں میں سے ایک جوسب سے زیادہ آپ کا مقرب تھا.اور جس کا دعویٰ تھا کہ خواہ ساری دنیا چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا اور جوان کے ساتھ ایک تھالی میں کھانا کھایا کرتا تھا آخر اسی نے آپ کو پکڑوا دیا.واقعات اس قسم کے ہیں کہ اگر اس وقت آپ نہ پکڑے جاتے تو شاید بچ جاتے.حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ پتہ لگ گیا تھا وہ چھپ گئے تھے اور بھیس بدل لیا تھا جس سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا.یہودا اسکر یوطی کو چونکہ علم تھا کہ کیا بھیس بدلا ہوا ہے اس نے سرکاری افسروں سے ساز باز کی اور کہا کہ میں جا کر جسے پکڑ کر پیار کروں گا سمجھنا وہی عیسی ہے.چنانچہ وہ گیا اور جا کر آپ کو چوما.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی الہام سے علم ہو چکا تھا اور آپ نے فرمایا کہ میں نے جو بات کہی تھی وہ پوری ہوگئی.میں نے کہا تھا کہ ” جس نے طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائے گا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا.آپ کا حال بھی ظاہر ہے.ایک دو نہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا آیا کہ آپ کو ماننے والوں کا قریباً تیسرا حصہ منافق ثابت ہوا.اُحد کی جنگ کے موقع پر جتنے مسلمان تھے سب کے سب شامل ہوئے حتی کہ بچے بھی شریک ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پندرہ سال سے کم عمر کے بچے واپس چلے جائیں.ایک لڑکے نے کہا یا رَسُول اللہ ! میں تیر بہت اچھا چلانا جانتا ہوں دوسروں نے بھی کہا کہ واقعی اس کا نشانہ بہت اچھا ہے خطا نہیں جاتا.آپ نے فرمایا اسے رہنے دو مگر اس کا مد مقابل ایک اور ساتھی تھا وہ بھی پندرہ سال سے کم عمر کا تھا.وہ رونے لگ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے شاید اس کا کوئی رشتہ تھا یا کوئی رضاعی رشتہ ہوگا اس نے ان سے جا کر کہا کہ
خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۳۸ اس طرح فلاں لڑکے کو شامل کر لیا گیا ہے حالانکہ میں تو اسے گرالیتا ہوں.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ لڑکا اس طرح کہتا ہے.آپ کو اس بات کا لطف آیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اچھا آؤ دونوں کی کشتی کراتے ہیں.یہ لڑکا طاقتور تھا یا نہ تھا مگر چونکہ اس کے دل میں جوش تھا کہ کسی نہ کسی طرح شامل ہو جاؤں اس لئے ایسا زور لگایا کہ اسے گرا کر سینہ پر بیٹھ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہارا حق ہو گیا.اے اب چلو.تو پندرہ پندرہ برس کے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا بتا تا ہے کہ وہ وقت مسلمانوں کے لئے کس قدر خطر ناک تھا مگر سب کو ملا کر مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور مقابل پر مکہ کے کفار کا لشکر تین ہزار تھا اور کچھ لوگ دوسری قوموں کے بھی تھے لیکن جب یہ ایک ہزار کا لشکر مدینہ سے تین چار میل باہر آیا تو عبداللہ بن ابی کے ساتھ تین سو مسلمان واپس ہو گئے کہ ہم نہیں جا سکتے ذرا اس حالت کا اندازہ کرو کہ ایک ہزار میں سے تین سوکوٹ پڑتے ہیں اور اس جگہ سے لوٹتے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کا رسول خود موجود ہے.اس کی نظروں کے سامنے اٹھتے اور واپس ہو جاتے ہیں.اور تین سو ہزار میں سے تمیں فیصدی ہے.قادیان میں دس ہزار احمدی آباد ہیں.اس نسبت سے تین ہزار بنتا ہے مگر وہاں تین سو آدمی ایسے نازک موقع پر چلے جاتے ہیں اور صحابہ ذرا بھر پر واہ نہیں کرتے.مگر تم ہو کہ تین آدمیوں کے منافق ہونے کا علم ہونے سے گھبرا جاتے ہو حالانکہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ میں تین نہیں ، تین سو ، تین ہزار بلکہ تین لاکھ بھی منافق ہوں اور کامل مؤمن ان کے مقابلہ میں ایک ہی ہو تو بھی وہ نہیں ڈرے گا.اور کہے گا کہ تم شیطان کے ساتھی ہو اس کی لئے بے شک اس کی طرف چلے جاؤ لیکن میں خدا تعالیٰ کا ہوں اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا.حضرت انس بن نضر ایک صحابی تھے جو جنگ بدر میں شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ اس وقت کوئی عام احساس نہ تھا کہ لڑائی ہوگی اس لئے خصوصاً انصار میں سے بہت سے لوگ رہ گئے تھے.جب انہوں نے جنگ کی خبر سنی تو دل میں غصہ آتا تھا اور کہتے تھے کہ اگر پھر کبھی جنگ ہوئی تو میں اللہ تعالیٰ کو بتاؤں گا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ مؤمن کسی طرح لڑتے ہیں.یہ گو جہالت کی بات تھی مگر چونکہ وہ اخلاص سے کہتے تھے اور ایسی ہی بات تھی
خطبات محمود ۴۷۰ سال ۱۹۳۸ء جیسے حضرت موسیٰ اور گڈریے کا واقعہ ہے اور گو یہ ایسی بات تھی جو معمولی ایمان والے شخص کو مرتد کرنے کے لئے کافی تھی مگر چونکہ وہ کمال اخلاص اور دین کی خدمت کی حسرت سے کہہ رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا اور کچھ عرصہ بعد اُحد کی جنگ پیش آگئی جس میں پہلے مسلمانوں کو فتح ہو گئی.بعض مستغنی المزاج لوگوں نے کہا کہ فتح تو ہوگئی مال کیا کرنا ہے اس لئے ادھر ادھر پھیل گئے لیکن بعد میں فتح شکست سے بدل گئی.ابو عامر ایک شخص کفار کے لشکر میں تھا اس کی یہودیوں کے ساتھ رشتہ داری تھی مگر وہ مکہ چلا گیا تھا ہوشیار آدمی تھا.اسے معلوم تھا کہ مسلمان جیت جایا کرتے ہیں اس لئے اس نے گڑھے کھود کر اوپر تنکے وغیرہ ڈال دیئے تھے تا مسلمان فتح پانے کے بعد جب آگے بڑھیں گے تو ان میں گر جائیں گے.انہی گڑھوں کی میں سے ایک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے.آپ کے اوپر کئی اور صحابہ شہید اور زخمی ہو کر گرے.اور یہ خیال ہو گیا.کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.یہی حضرت انس بن نضر کھجور میں کی کھاتے پھرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کو ایک پتھر پر سر جھکائے نہایت دلگیر دیکھا تو پوچھا کہ پریشانی کی کیا وجہ ہے.مسلمانوں کو فتح ہوئی یہ خوش ہونے کی بات ہے یا غمگین ہونے کی.حضرت عمرؓ نے کہا نضر تمہیں پتا نہیں کیا ہو گیا؟ دشمن نے پھر حملہ کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.حضرت نضر کھجوریں کھا رہے تھے صرف ایک کھجور باقی تھی وہ بھی پھینک دی اور کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان کیا ہے صرف ایک کھجور ہے.اور حضرت عمرؓ سے کہا کہ جب کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں رہے تو ہم نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے.تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ کی پڑے اور آخر شہادت پائی.جب لاش دیکھی گئی تو اسی زخم تھے.آپ کی انگلی پر ایک نشان تھا اور اسی سے آپ کی بہن نے لاش کو شناخت کیا ور نہ پہچاننا مشکل تھا.یہ وہ شخص تھا کہ جس نے جب سنا کہ لوگ بھاگ گئے ہیں تو اس نے کہا کہ انہوں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور میں نے اپنے کا.مجھے کیا اگر دوسرے بھاگ گئے ہیں ، میں تو وہیں جاؤ نگا جہاں رسولِ خدا کی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.تو دیکھو ایسے نازک موقع پر تین سو آدمی ہزار میں سے کوٹ جاتا ہے مگر صحابہ بھی کس دل گردے کے آدمی تھے کہ پرواہ نہیں کرتے.اسی طرح ایک اور مخلص صحابی کا واقعہ ایسا رقت انگیز ہے کہ کوئی شخص بغیر رقت اسے
خطبات محمود ۴۷۱ سال ۱۹۳۸ء پڑھ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ بیان کر سکے.جب یہ تین سو آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کوٹ گئے تو عبد اللہ بن عمر و جو انصار میں سے تھے، مسلمان اور خصوصاً احمدی ان کو جانتے ہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا وہ یہ برداشت نہ کر سکے.اور انہیں سمجھانے کے لئے یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس وقت تین سو کے کوٹنے سے ان کا مؤمنانہ استغناء بھی متزلزل ہو گیا تھا، خیر تو حضرت عبد اللہ بن عمروان کے پاس گئے اور جو الفاظ انہوں نے کہے وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کی وہی حالت تھی جو ہمارے ملک میں ایک مصیبت زدہ کی ہوتی ہے جو شدت غم اور بے بسی کی کی حالت میں اپنے پر رحم دلانے کے لئے ہاتھ باندھ باندھ کر اپنے مخاطب سے التجا کرتا ہے کہ وہ الفاظ جن میں انہوں نے ان منافقوں کو مخاطب کیا وہ یہ ہیں.اے میری قوم! میں تمہیں خدا تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اس طرح اپنے نبی کو چھوڑ کر نہ جاؤ سے ان کی یہ بات بتاتی ہے کہ اُس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لئے ایسا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ عبد اللہ جیسے بہادر کے مؤمنانہ استغناء میں بھی تزلزل آگیا مگر ان ظالموں نے آگے سے یہ جواب دیا کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ضرور لڑتے.یعنی یہ تو لڑائی نہیں خود کشی کی ہے.ایک دوست نے کچھ عرصہ ہوا میرے ایک خطبہ میں یہ معنی سن کر مجھے لکھا تھا کہ اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہمیں لڑنا آتا تو ہم کبھی واپس نہ کو ٹتے لیکن اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ معنی وہی صحیح ہیں جو میں کرتا ہوں.عبداللہ بن اُبی ایک جرنیل تھا اُسے کیا لڑنا نہیں آتا تھا ؟ یہاں کی نَعْلَمُ کے معنے نَعْرِف ہیں.یعنی اگر ہم اسے قتال قرار دیتے ، اگر اسے لڑائی سمجھتے تو یہ تو خود کشی ہے.جب اُنہوں نے یہ جواب دیا تو حضرت عبداللہ نے کہا کہ اچھا اگر جاتے ہو تو جاؤ پر واہ کی نہیں ہم تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں.وہ ( حضرت عبداللہ بن عمرو ) بھی شہید ہوئے اور ان کی لاش پر بھی بہت زخم تھے.غریب آدمی تھے اور خاندان بڑا تھا اس لئے مقروض بھی رہتے تھے.ان کے لڑکے حضرت جابر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سر نیچے ڈالے بیٹھے ہیں تو دریافت فرمایا کہ جابر کیوں کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! آپ جانتے ہیں باپ مر گیا ہے.عیالداری ہے، قرضہ بھی بہت ہے اور یہ سب بوجھ مجھ پر آپڑا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں علم ہو کہ تمہارے باپ کے ساتھ
خطبات محمود ۴۷۲ سال ۱۹۳۸ء اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا تو تم ہرگز ملول نہ ہو.دوسروں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ حجاب کے پیچھے سے بات کرتا ہے مگر تمہارے والد کو بالمشافہ بلایا اور فرمایا عبداللہ مانگ جو مانگنا ہے، میں دوں گا.اس پر عبداللہ نے کہا کہ اے اللہ ! میرا مطالبہ یہی ہے کہ مجھے پھر زندہ کرتا میں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں.اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر میں نے اپنی ذات کی قسم نہ کھائی ہوتی کہ مُردے دنیا میں واپس نہیں لوٹائے جائیں گے.۱۵ تو میں ضرور تجھے واپس کر دیتا.یہی وہ حدیث ہے جسے ہم حضرت عیسی علیہ السلام کے جسمانی مُردوں کے زندہ نہ کر سکنے کے متعلق ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیں اور اس وجہ سے اکثر احمدی ان کے نام سے واقف ہیں.جب ان عبداللہ بن عمرو کی وفات کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ انصار پر فضل کرے ان میں سے عبداللہ نے ہماری بہت خدمت کی ہے.تو یہ کتنا نازک موقع تھا کی مگر تمہیں فیصدی لوگ واپس ہو گئے اور اس سے صحابہ کو قطعاً کوئی ابتلاء نہیں آیا.مگر تمہارے لئے کیا کبھی اس کا دسواں حصہ بھی ابتلاء آیا ہے؟ تمہارے لئے تو اس کا سواں حصہ بھی نہیں آیا.اس کے بعد اسلام کو شوکت حاصل ہوتی گئی اور جوں جوں مسلمان بڑھتے گئے منافقوں کی نسبت بھی کم ہوتی گئی.جب مسلمان دو ہزار ہو گئے تو منافق جو تین سو تھے لازماً پندرہ فیصدی ہو گئے.جب مؤمن پانچ ہزار ہوئے تو منافق چھ فیصدی رہ گئے ، جب مؤمن دس ہزار ہوئے تو منافق تین فیصدی باقی رہ گئے.چاہے تعداد ان کی اس وقت بھی تین سو ہی ہو مگر نسبت کم ہوگئی.اس طرح ان کی تعداد کم ہو گئی اور یہ ابھرنے سے رہ گئے مگر جب اسلام دوسرے ملکوں میں پھیلا تو ان علاقوں میں جہاں تربیت مکمل نہ ہوئی تھی ان لوگوں نے پھر زور پکڑ ا خصوصاً جب غیر قوموں سے مقابلہ ہوتا تو ان میں بھی جوش پیدا ہوتا.جیسا کہ پچھلے دنوں جب حکومت سے ہمیں بعض اختلافات ہوئے تھے تو منافق کہتے تھے کہ اب کام بن گیا.اب انگریزوں سے لڑائی کی شروع ہو گئی ہے.ذرا کسی سپاہی نے سلام کر دیا.کہ اس طرح واقفیت پیدا کر کے کچھ باتیں کی معلوم کرے تو ان کا دماغ عرش پر پہنچ گیا کہ سپاہی نے ہم سے بات کی.منافقوں کے دماغ کی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ ایک چوہڑے کا تھا.جب مہاراجہ رنجیب سنگھ فوت ہوئے تو چونکہ ان کی حکومت کے زمانہ میں ایک نظام قائم ہوا تھا اور عدل بھی ہونے لگا تھا اس لئے لوگوں کو کی
خطبات محمود ۴۷۳ سال ۱۹۳۸ بہت صدمہ ہوا.وہ بہت رور ہے تھے کہ ایک چوہڑا ادھر سے گزرا.پوچھنے لگا کہ کیا ہوا لوگ اتنا رور ہے ہیں؟ کسی نے بتایا کہ مہاراجہ کا انتقال ہو گیا ہے.سن کر کہنے لگا کہ میں نے سمجھا خبر نہیں کیا ہو گیا ہے کہ لوگ ایسے بے تاب ہیں.جب باپو یعنی میرے باپ جیسے لوگ مر گئے تو مہا راجہ رنجیت سنگھ بے چارہ کس حساب میں تھا کہ وہ نہ مرتا.اس طرح ان کے نزدیک بھی سپاہی یا تھا نہ دار کا سلام بڑی چیز ہے.گھر پہنچتے ہیں تو پیر زمین پر نہیں لگتے کہ سرکاری افسر نے ہمیں سلام کر دیا.حالانکہ سمجھتے نہیں کہ اس نے تمہارے چہرہ پر نفاق دیکھا اور سلام کر دیا کہ اس سے کام لیں گے.اس طرح مسلمانوں کی جب روم والوں سے لڑائی شروع ہوئی تو منافقوں نے کہا کہ اب گئے.چنانچہ منافقوں نے ابو عامر راہب کی مدد سے پھر آپس کی تنظیم کی اور ایک بستی الگ بسائی اور اس میں علیحدہ مسجد بنائی اور علیحدہ گاؤں بنالیا.ابو عامر راہب بھیس بدل کر آیا کی اور صوفی بن کر مسجد میں رہنے لگا.ان لوگوں نے یہ تجویز میں کرنا شروع کر دیں کہ کسی طرح رومی کی حکومت سے مسلمانوں کی لڑائی کرائی جائے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر جائیں تو مدینہ میں بغاوت کر دی جائے اس لئے انہوں نے مشہور کرنا شروع کیا کہ رومیوں کا لشکر مدینہ پر حملہ کے لئے آ رہا ہے.اس خبر سے مسلمانوں میں شور پیدا ہوا کیونکہ ان کے لئے یہ ایسی ہی خبر تھی جیسے کوئی کہے کہ ریاست کپورتھلہ یا مالیر کوٹلہ پر انگریز فوج کشی کر رہے ہیں.گجادہ کی سلطنت جو یورپ سے شروع ہو کر ایران تک آتی تھی اور مصر بھی اس کے ماتحت تھا اور کئی ممالک اس کے باجگزار تھے اور جو بیک وقت چار پانچ لاکھ کا لشکر میدان میں لا سکتی تھی بلکہ بعض جنگوں میں تو رومی آٹھ دس لاکھ آدمی بھی لائے ہیں اور کجا دہ لوگ جن کا سارا لشکر ہی دس پندرہ ہزار تھا.چنانچہ ان لوگوں نے مشہور کر دیا کہ رومی حملہ کر رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بہتر ہوگا ہم باہر جا کر مقابلہ کریں.چنانچہ آپ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چل پڑے.رستہ میں جب پوچھنا شروع کیا کہ یہ خبر کہاں سے نکلی ہے تو اس کی کی حقیقت کھلی.کسی نے بھی یہ اقرار نہ کیا کہ ہم نے لشکر کو آتے دیکھا ہے.آپ کو شبہ ہوا کہ یہ منافقوں کی شرارت ہے اور آپ تھوڑی دور سے ہی واپس آگئے.منافق بہانوں سے پہلے ہی ساتھ نہ گئے تھے ان کو خیال تھا کہ اس خبر کے زیر اثر مسلمان جاتے ہی رومی علاقہ پر حملہ کر دیں گے
خطبات محمود ۴۷۴ سال ۱۹۳۸ء اور پھر رومی خود بخود ان کے مقابلہ پر آئیں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ طریق ہی نہ تھا دشمن اگر حملہ کرے تو آپ کرتے تھے ورنہ نہیں.جب مسلمان واپس آگئے تو ان کی امیدیں نا کام ہو گئیں.آخر آپ نے اس مسجد کو مسمار کرایا اور اس کی جگہ میلہ کا ڈھیر بنایا گیا بلکہ اس محلہ کو ہی آپ نے گروا دیا.پھر آپ کی وفات کے بعد تو یہ فتنہ اس طرح اٹھا کہ صرف اڑھائی شہر ایسے رہ گئے جہاں نماز با جماعت ہوتی تھی ورنہ سب جگہ آگ لگ گئی تھی.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یہ انکاؤ کا ر ہے مگر حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانہ میں پھر زور پکڑا.تو منافقوں کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ضروری ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ شیطان سو جائے گا اگر رحمانی فوجیں کام کرتی رہتی ہیں تو شیطانی بھی غافل نہیں رہ سکتیں.یہ شیطان کا دستور ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے آدمی کھڑا کرتا رہتا ہے جن سے اسلام کو نقصان پہنچے اس لئے ہماری جماعت اگر یہ خیال کرتی ہے کہ کسی وقت منافق باقی نہیں رہیں گے تو یہ اس کی غلطی ہے.کوئی قوم ایسی نہیں کی ہوئی کہ جس کے سو فیصدی افراد مؤمن اور مخلص ہوں.یہ خدا تعالیٰ کے نظام کو باطل کرنے والی بات ہے.یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا.پس یہ امید ہرگز نہیں کرنی چاہئے کہ منا فق ختم ہو جائیں گے.اب چونکہ سوا تین بج چکے ہیں اس لئے باقی باتیں آئندہ میں انشاء اللہ بیان کروں گا.اس کی وقت صرف یہی کہہ کر ختم کرتا ہوں کہ منافق ہر جماعت میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے ہمیں یہ خیال کبھی نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہم میں کس طرح پیدا ہو گئے.تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تو نہیں ہو سکتے.اگر آپ کے ایک ہزار ساتھیوں میں سے تین سو آدمی منافق ہو سکتے کی ہیں تو تم میں سے اگر دو، چار، دس یا زیادہ منافق نکل کھڑے ہوں تو گھبرانے کی کونسی بات ہے.“ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًاء (البقرة: ٢٧) الفضل ۵/اگست ۱۹۳۸ء) ل إذا جَاءَكَ المُنفِقُونَ قَالُوا تَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهم (المنافقون: ٢) بخاری کتاب الحدود باب كَرَاهِيَة الشَّفَاعَة فِي الحَدِ (الخ) الاعراف: ۱۴۳
خطبات محمود ۴۷۵ وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُليّهِمْ عِجْلًا جَسَد اله خُوار، (الاعراف: ۱۴۹) ولما رجع مُوسَى إِلى قَوْمِهِ غَضْبَان آسفا (الاعراف: ۱۵۱) کے خروج باب ۳۲ آیت ۲۸.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۷ ۱۸۸ء الاحزاب:۷۰ بخاری کتاب الغسل باب مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا (الخ) ۱۰ متی باب ۲۶ آیت ۲۰ تا ۲۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ال اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۴ ۳۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۱۲ ۱۳ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۸ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء ابن ماجه كتاب الجهاد باب فضل الشهادة في سبيل الله - ۱۵ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۲۳۳ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ رت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۱۷۴،۱۷۳.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۱۶ سیرد سال ۱۹۳۸
خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۸ منافقین کی قسمیں اور اُن کی علامتیں (فرموده ۵ /اگست ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ” میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں منافقین کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں اور بتایا تھا کہ منافق ہر جماعت میں ہونے ضروری ہوتے ہیں.کبھی کوئی جماعت آج تک دُنیا میں ایسی نہیں بنی جس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہو اور اُس میں منافق پیدا نہ ہوئے ہوں.بعض لوگ نادانی سے یہ کہا کرتے ہیں کہ منافقت حکومت میں ہوتی ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور روزانہ تجربہ کے بھی کچ خلاف ہے.مذہبی جماعتوں کو جانے دو تم افراد کی دوستیوں کو لے لو.کیا کوئی بھی شخص ایسا ہے جو یہ کہہ سکے کہ اُس کے کسی دوست نے اس سے کبھی دھوکا بازی نہیں کی اور دوست کی دھوکا بازی کو ہی منافقت کہا کرتے ہیں.یعنی یوں ظاہر میں دوست ہو مگر اندر سے دشمنی اور شرارت کرتا ہو.میں سمجھتا ہوں سوائے ایسے بے وقوف کے جو انسان کی حقیقت سمجھنے سے عاری ہو اور جس میں قوت فیصلہ نہ ہو ہر انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے بعض سے حُسنِ سلوک کیا ، ان کی وقتاً فوقتاً امداد کی اور ان سے ہر رنگ میں اچھا معاملہ کیا مگر وہ اندر ہی اندر سے اُس کے خلاف کوئی منصوبہ یا شرارت کرتے رہے.بچوں میں یہی ہوتا ہے.سکول کے لڑکے آپس میں دوستانہ تعلقات پیدا کرتے ہیں مگر ان میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض دفعہ ظاہر میں ایک دوست بنا ہوا ہوتا ہے مگر باطن میں وہ مخالف ہوتا ہے.وہاں کونسی حکومت ہوتی ہے ؟ ہاں نظام
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء میں یہ بات زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کہیں نظام ہوگا وہاں یہ بات نمایاں نظر آ جائے گی اس لئے کہ نظام ہر شخص کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سپرد اس نظام کی نگرانی ہوتی ہے اور چونکہ وہ نگرانی کرتے ہیں اس لئے جب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص منافق ہے تو اسے بلایا جاتا ہے، اُس پر جرح کی جاتی ہے، اس کے متعلق گواہیاں لی جاتی ہیں اور اس طرح تمام باتیں ریکارڈ اور شہادتوں میں آجاتی ہیں.پس چونکہ ایک نظام کے نتیجہ میں اس قسم کی باتیں ریکارڈ میں آجاتی ہیں اور منافقوں کو بلا بلا کر ان سے سوالات کئے جاتے ہیں کی لئے یہ بات نمایاں طور پر نظر آجاتی ہے لیکن جب ایک دوست دوسرے دوست سے غداری کرتا ہے تو وہ صرف اتنا ہی کرتا ہے کہ اُس سے قطع تعلق کر لیتا ہے.اس کے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اُسے بلائے ، اُس کے متعلق شہادتیں لے اور جرح کر کے اُس کی منافقت کو ثابت کرے اور اگر وہ اسے بلائے بھی تو وہ آئے گا کیوں؟ کہے گا تم گھر بیٹھو میں تمہارا کوئی نوکر نہیں کہ تمہارے بلانے پر آجاؤں.مگر جہاں نظام ہوتا ہے وہاں چونکہ ایک قسم کی طاقت ہوتی ہے اس لئے جن پر منافقت کا الزام ہو اُنہیں بلایا بھی جاتا ہے اُن کے متعلق گواہیاں بھی لی جاتی ہیں ، اُن پر جرح بھی کی جاتی ہے اور اس طرح یہ تمام چیز میں ریکارڈ میں آجاتی اور لوگوں کو نمایاں طور پر نظر آنے لگ جاتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ کہنا کہ حکومت کے ساتھ منافقت ہوتی ہے، یہ حکومت کے مفہوم کے کی سمجھنے میں غلطی کھانے کا نتیجہ ہے اور اگر یہ صحیح ہو کہ حکومت کے ساتھ ہی منافقت ہوتی ہے تو اس حکومت سے مراد وہی حکومت ہوگی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ کہ تم میں سے ہر شخص بادشاہ، چرواہا یا نگران ہے اور ہر شخص سے اپنی اپنی رعیت یا گلے کے متعلق سوال کیا جائے گا.تو کی کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں جس کو کچھ نہ کچھ حکومت نہ ملی ہو.اگر اس کی بیوی ہے تو الرجال قوامُونَ عَلَى النِّسَاء کے ماتحت وہ اپنی بیوی کی نگرانی کرتا ہے.اگر اس کے کی بچے ہیں تو وہ اپنے بچوں کا نگران ہے.پھر یہ دنیا سینکڑوں یا ہزاروں افراد پر مشتمل نہیں بلکہ اربوں کی دنیا ہے اس دنیا میں ہزاروں ایسے آدمی ملیں گے جن کی بیویاں منافق ہوتی ہیں.
خطبات محمود ۴۷۸ سال ۱۹۳۸ء وہ بظا ہر اپنے خاوندوں کے ساتھ رہتی ہیں مگر در پردہ بدکاری اور فسق و فجور اُن میں پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں سے تعلقات رکھتی ہیں ، پھر ہزاروں ایسی ہیں جو بد کار تو نہیں لیکن انہیں اپنے خاوندوں سے دشمنی ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے خاوندوں کے خلاف بھی منصو بے کرتی رہتی ہیں ، پھر ہزاروں ایسی ملیں گی جو خاوندوں کے حُسنِ سلوک میں کمی ہونے کی وجہ سے اُن کے خلاف فتنہ وفساد بپا رکھتی ہیں اور اسی کا نام منافقت ہے.پھر جو دوست ہوتے ہیں ان میں بھی ایک رنگ کی حکومت ہوتی ہے.تم کبھی دو دوست مساوی نہیں دیکھو گے.جب بھی دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک غالب دوست ہے اور ایک مغلوب دوست ہے.یعنی ایک دوست دوسرے دوست کے پیچھے چلنے والا ہوگا اور دوسرا اُسے مشورہ دینے والا اور اُسے چلانے والا ہوگا.دو برابر کے دوست تمہیں کبھی نظر نہیں آئیں گے کیونکہ یہ فطرت کے ہی خلاف ہے کہ انسانوں میں گلی طور پر مساوات ہو.وہ ضرور اپنے میں سے ایک کی قابلیت اور برتری کو تسلیم کرتے اور اُس کے پیچھے چلتے ہیں چاہے وہ منہ سے نہ کہتے ہوں کہ تو ہمارا بادشاہ ہے.جہاں بھی چار پانچ دوست ہوں گے تم دیکھو گے کہ ان میں سے ایک دومشورہ دینے والے ہوں گے اور باقی مشورہ لینے والے، ایک دو حکم دینے والے ہوں گے اور باقی حکم سُننے والے تو دوستوں میں بھی حکومت کا ایک رنگ پایا جاتا ہے.اسی طرح مدرسے ہیں، مساجد کے اجتماع ہیں ،تجارتیں ہیں ، زراعتیں ہیں ، ان سب میں ایک رنگ حکومت کا پایا جاتا ہے.بازار کا سوال ہو تو ایک چودھری ہوتا ہے جسے اپنے حلقہ میں ایک رنگ کی حکومت حاصل ہوتی ہے.غرض تھوڑی یا بہت حکومت ہر شخص کو حاصل ہے اور اس کے بغیر دنیا کا کام نہیں چلتا.چوروں اور ڈاکوؤں تک کو لے لیں ان کے سردار ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ چور چوریاں کریں اور وہ کسی کو اپنا افسر نہ بنائیں ، ڈاکو ڈاکے ڈالیں اور کسی کو اپنا لیڈر تجویز نہ کریں، فقیر اور سادھو بھی اپنے میں سے ایک کو افسر بنا لیتے ہیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ کوئی دو مؤمن ایسے نہ ہوں جو اپنے میں سے ایک شخص کو امیر نہ بنا لیں.سے تو اب ایک رنگ کی حکومت تمام دنیا میں ہو گئی.ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه اور دوسری طرف یہ فرما دیا کہ
خطبات محمود ۴۷۹ سال ۱۹۳۸ء جب بھی دو مؤمن اکٹھے ہوں اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں.ادھر دنیا کا قاعدہ بتا رہا ہے کہ یہ صیح اصل ہے ہم کسی کو اپنا حاکم یا افسر نہ بھی بنا ئیں جس کے ذہن میں جدت اور تیزی ہوگی وہ تی آپ ہی آپ ہمارا افسر بن جائے گا.چاہے اُسے منہ سے نہ کہا جائے کہ آپ ہمارے افسر اور حاکم ہیں مر عملاً یہی ہوگا کہ دوست اُسی سے مشورہ لیں گے اور اسی کے پیچھے اپنے آپ کو چلائیں گے چاہے یہ برتری اور فوقیت عقل کی وجہ سے ہو، چاہے مال کی وجہ سے.اگر چار پانچ دوست ہوں اور ان میں سے ایک دولت مند ہو تو گو بظاہر وہ اُس دولت مند کو کسی میٹنگ میں اپنا بادشاہ یا افسر مقرر نہیں کریں گے مگر عملاً یہی ہوگا کہ وہ اُسی دوست کے گھر میں جمع ہوں گے جو انہیں کی کھانا کھلائے یا چائے پلائے یا مٹھائی کھلائے.اب یہ برتری مال کی وجہ سے ہوگی کسی طاقت کی کی وجہ سے نہیں ہوگی.اسی طرح چار پانچ اور دوست ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک پہلوان ہوتا ہے دوسرے جانتے ہیں کہ اگر اس نے کسی کو ایک تھپڑ بھی مارا تو وہ کئی گز تک لڑھکتا چلا جائے گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باقی کمز ورلڈ کے اُس کے ارد گرد اکٹھے رہتے ہیں تا اگر دوسرے لڑکے ہمیں دِق کریں تو ہم اس کی پناہ میں محفوظ رہیں.اب وہ بادشاہ نہیں ہوتا انہوں نے کسی میٹنگ یا مجلس میں اُس کی افسری کو تسلیم کرنے کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس نہیں کیا ہوتا، کو ئی کمیٹی نہیں کی ہوتی مگر فطرت خود بخود بہادر انسان کی فوقیت کو تسلیم کر لیتی ہے.اسی طرح منافقوں کو دیکھ لوقرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بھی لیڈر ہوتے ہیں ، کفار کے بھی لیڈر ہوتے ہیں حتی کہ که قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو وہ کہیں گے یا اللہ ! ہمارے کچھ سردار بھی تھے انہیں بھی سزادی جائے اور ہم سے زیادہ دی جائے کیونکہ انہوں نے ہی ہم کو گمراہ کیا کے منافقوں کا بھی یہی حال ہے.عام طور پر کہا جاتا ہے کہ منافقوں کا لیڈر عبد اللہ بن اُبی بن سلول تھا.اب اس کے یہ معنے نہیں کہ انہوں نے اس کی لیڈری کے متعلق کوئی کی ریز ولیوشن پاس کیا تھایا کو ئی کمیٹی ہوئی تھی جس میں یہ پاس ہوا تھا کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو اپنا لیڈر منتخب کیا جائے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ چونکہ منافقت میں دوسروں سے بڑھا ہوا تھا اس لئے خود بخود منافقوں کا لیڈر بن گیا.چوروں کا لیڈر بڑا چور ہوتا ہے ، ڈاکوؤں کا لیڈر بڑا ڈا کو ہوتا ہے، بدکاروں کا لیڈر بڑا بدکار ہوتا ہے، سپاہیوں کا لیڈر بڑا لڑنے والا ہوتا ہے،
خطبات محمود ۴۸۰ سال ۱۹۳۸ء حساب دانوں کی اگر ایک مجلس ہو تو وہ اُسی کو اپنا لیڈر منتخب کریں گے جو سب سے زیادہ حساب دان ہو اور اگر اسے منتخب نہ بھی کریں تو بھی اگر کوئی بات کریں گے تو اُس سے پوچھ کر اور اگر کوئی فیصلہ کریں گے تو اس کی رائے لے کر.اسی طرح پانچ سات ڈاکٹر جمع ہوں ، دو تین سب اسسٹنٹ سرجن ہوں دو اسسٹنٹ سرجن ہوں اور ایک سول سرجن ہو تو جب بھی کوئی بات ہوگی تو وہ رسول سرجن کی طرف منہ کر کے کہیں گے کیوں جی ! یہ بات اسی طرح ہے نا.یا سول سرجن کوئی نہ بھی ہواگر ایک ڈاکٹر اپنے اندر غیر معمولی لیاقت رکھتا ہے تو ہر ڈاکٹر اُس کی بات پر مجبور ہوگا کہ اُس کی طرف منہ کر کے پوچھے کہ کیوں جی ! یہ درست ہے؟ کیونکہ فطرت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ قابلیت والے کی طرف جھکے اور اسی کا نام حکومت ہے.ایسی مجالس میں جب بھی کسی کو شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اندر ہی اندر منصو بے کرنے لگ جاتا ہے تو اس کی کو منافقت کہا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوستیاں دشمنیوں سے اور رفاقتیں اختلاف سے بدل جاتی ہیں.میاں بیوی ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں مگر پھر کوئی ایسا اختلاف ان میں پیدا ہو جاتا ہے کہ کہتے ہیں اب طلاق کے سوا کوئی علاج ہی نہیں مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں دیکھا جاتا ہے تو ان میں اس قدر محبت ہوتی ہے گویا عاشق و معشوق ہیں.میرے سامنے چونکہ جماعت کے مقدمات آتے رہتے ہیں اس لئے مجھے ایسی بہت سی مثالیں معلوم ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی ہوئی اور وہ لڑائی بڑھتی چلی گئی اور جب صلح کی کوشش کی گئی تو کی انہوں نے کہا اب رہنے دیجئے ہمارے دل پھٹ چکے ہیں اور پھٹا ہو ا دل کسی صورت میں نہیں جا سکتا.پھر اس پر زور دینے کے لئے کوئی پنجابی کی مثالیں دے گا، کوئی اردو کی مثالیں دے گا، کوئی انگریزی کی مثالیں دے گا اور جیسی جیسی لیاقت ہوگی اس کے مطابق اس بات پر زور دیا جائے گا کہ اب صلح بالکل ناممکن ہے دل ٹوٹ چکے ہیں اور سارے بزرگ یہ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ ٹوٹا ہو ا دل نہیں جُڑ سکتا مگر سال بھر کے بعد اُن کو دیکھا جائے تو یک جان و دو قالب ہوتے ہیں.پھر اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہوا ؟ تم تو کہا کرتے تھے کہ صلح بالکل ناممکن ہے اور ٹوٹا ہوا دل جو نہیں سکتا !! تو وہ کہتے ہیں کہ جی ! اللہ نے بڑا فضل کر دیا اب تو ہماری آپس میں بڑی محبت ہے.پھر وہ تمام مثالیں بھول جاتے ہیں جو اختلاف کے موقع پر اُن کی زبانوں سے
خطبات محمود ۴۸۱ سال ۱۹۳۸ سنی جاتی ہیں.ایک میاں بیوی کا جھگڑا ایک دفعہ میرے پاس آیا.میں نے دونوں کے رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور چاہا کہ وہ آپس میں صلح کر لیں مگر اُس وقت صلح تو ایک طرف رہی اُنہوں نے میرے سامنے ایسی لڑائی کی ، ایسی لڑائی کی کہ اس کی کوئی حد نہ رہی.میں نے بہتیری کوشش کی اور کہا کہ جھگڑا جانے دو اور صلح کر لو مگر وہ کہیں اب صلح کہاں ہو سکتی ہے ، اب ایک کے رشتہ داروں کے دل دوسرے کے رشتہ داروں سے کٹ چکے ہیں اور میاں کا دل بیوی سے بھر چکا ہے اب صلح کی کوشش بالکل عبث ہے مگر اب اُنہی میاں بیوی کے درمیان اتنی محبت ہے کہ اس کی کوئی حدی نہیں.میں اکثر اُن سے پوچھا کرتا ہوں بتا ؤ صلح ہو سکتی تھی کہ نہیں ؟ وہ کہتے ہیں جانے بھی دیجیئے وہ تو ہماری بے وقوفی کی بات تھی.تو ایک وقت ایسا آیا جب کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے درمیان صلح بالکل ناممکن ہے مگر اب وہ دنیا کے اچھے خوش جوڑوں میں سے ہیں اور ان کے درمیان اچھی محبت اور پیار ہے اور ان کی دینی حالت بھی بہت کچھ سدھر گئی ہے.مگر وہ بھی اور ان کے کی رشتہ دار بھی اُس مجلس میں یہی کہتے تھے کہ اب دل پھٹ چکے ہیں صلح کی کوششیں سب عبث ہیں اور اب دوبارہ محبت کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتی.تو ایسے کیس میں نے بہت دیکھے ہیں جہاں دوستیاں دشمنیوں سے اور دشمنیاں دوستی سے بدل جاتی ہیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی سے محبت کرو تو حد کے اندر کرو کیا معلوم کل تم آپس میں دشمن بن جاؤ اور کی جب کسی سے دشمنی کرو تو حد کے اندر کرو کیا معلوم کل تم آپس میں دوست بن جاؤ.ھے تو یہ جنہوں نے کہا ہے کہ منافقت حکومت کی وجہ سے ہوتی ہے ، بالکل غلط ہے اور اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو حکومت سے مراد فوجوں والی حکومت نہیں ہوگی بلکہ اس سے مراد نظام ہو گا.چاہے وہ ایک آئینی نظام ہو اور چاہے وہ ایک طبعی نظام ہو جیسے دوستوں میں ایک رنگ کی حکومت ہوتی ہے.یا جیسے چور اور ڈا کو اپنے میں سے ایک کو سردار سمجھ کر اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں.بے شک وہ بعض دفعہ با قاعدہ طور پر بھی اپنا لیڈر چن لیتے ہیں لیکن بعض دفعہ آپ ہی آپ ایک کی برتری اور فوقیت کو تسلیم کر لیتے ہیں.چاہے یہ برتری عقل کی وجہ سے ہو، چاہے علم کی وجہ سے ہو ، چاہے مال کی وجہ سے ہو اور باقی آپ ہی آپ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں.
خطبات محمود ۴۸۲ سال ۱۹۳۸ء میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ انسانی طبیعت ان امور سے قطع نظر کرتے ہوئے جو انسانوں سے ہی مخصوص ہیں اس معاملہ میں بعض جانوروں سے مشابہت رکھتی ہے.آجکل تو یہاں گنتے بہت کم نظر آتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بڑی کثرت سے گتے ہوتے تھے اور جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ گتے مار دیئے جائیں.نے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہر چھٹے ماہ یہ حکم دیا کی کرتے تھے کہ آوارہ گتے مار دیئے جائیں مگر اب ہمارے گھروں میں بہت کم گتا دکھائی دیتا کی ہے.میں نے بچپن میں گتوں کو کئی دفعہ آپس میں لڑتے دیکھا ہے، اسی طرح بلیوں کو دیکھا کی ہے، جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو اپنی ڈموں کو عجیب طرح حرکت دیتے اور انہیں اوپر اٹھا لیتے ہیں.آنکھیں ان کی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھوں بھوں یا غرغر کرتے رہتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک گتا دم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے.یا یکی دوسری کے مقابلہ سے ہٹ کر ایک طرف کو چل دیتی کی ہے.جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُس نے اپنی ہار تسلیم کر لی.اب نہ اُن میں لڑائی ہوتی ہے نہ فساد ہوتا ہے.نہ ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں محض آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر کی بھوں بھوں کرنے کے بعد ایک ان میں سے مقابلہ سے ہٹ جاتا ہے.اسی طرح بلیاں کرتی ہی ہیں.بلیاں حقیقی طور پر بہت کم لڑتی ہیں.اکثر وہ پیار سے ایک دوسری سے لڑتی ہیں.دشمنی کی کچ لڑائی بلیوں میں بہت کم ہوتی ہے اور گتوں میں بھی بہت کم ہوتی ہے.جب وہ پیار سے لڑتے ہیں تو بظاہر ایک دوسرے کو گراتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو پیار بھی کرتے جاتے ہیں اور چاہتے جاتے ہیں مگر جب حقیقی طور پر کوئی لڑنے کا ارادہ کرے تو بہت کم لڑائی ہوتی ہے.ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک زبر دست گتا اچانک کمزور کتے پر پیچھے سے حملہ کر کے اُسے زخمی کر دے مگر مقابل میں ٹک کر ان میں لڑائی بہت شاذ ہوتی ہے اوہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں تاڑ جاتے ہیں کہ کون کمزور ہے اور کون طاقت ور.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے.یہی حالت انسان کی ہے مگر انسان کی عقلِ طبعی بہت کمزور ہو چکی ہے.اس کا علم ظاہری زیادہ ہے مگر جس طبعی بہت کمزور ہو گئی ہے.اس لئے جن چیزوں کو جانور پہچان لیتا ہے
خطبات محمود ۴۸۳ سال ۱۹۳۸ء انسان ان کو نہیں پہچان سکتا.جانوروں میں چونکہ علم اندرونی ہے اس لئے ان کی اندرونی حسّ بہت تیز ہوتی ہے.بیماریاں اور وبائیں آنے والی ہوتی ہیں تو کتے کئی کئی دن پہلے رونے لگ جاتے ہیں نہ معلوم اُنہیں وبا کے کیڑے نظر آ جاتے ہیں یا سونگھنے سے اُنہیں پتہ لگ جاتا ہے کہ اب و با پھوٹنے والی ہے.اللہ ہی جانے مگر بہر حال اس مطالعہ میں ان کی عقل بڑی تیز ہوتی ہے اسی طرح وہ تو میں جن کا ظاہری علم کم ہے ، اُن کی بھی باطنی حسن بہت تیز ہوتی ہے.امریکہ کے ریڈ انڈینز کئی کئی میل سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سن لیتے ہیں اور یہ بتادیتے ہیں کہ کوئی سوار آ رہا ہے حالانکہ اُن کے پاس کوئی دور بین نہیں ہوتی.وہ زمین کے ساتھ اپنا کان لگا دیتے اور دو دو تین میل سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سُن لیتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ کوئی لشکر آرہا ہے اور وہ اتنے فاصلہ پر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں زمین کے ساتھ کان لگا دینے سے کوئی ایسی حرکت محسوس ہوتی ہے جسے دوسرے لوگ محسوس نہیں کر سکتے.تو ظاہری علم کی وجہ سے کی انسان کی باطنی حسن بہت کم ہو گئی ہے مگر پھر بھی ہے گو اتنی نمایاں نہیں جتنی جانوروں میں ہے یہی کہ جہ ہے کہ ایک کمزور انسان زبردست کی حکومت کو آپ ہی تسلیم کر لیتا ہے مگر اس حکومت میں کبھی کوئی ایسی بات بھی ہو جاتی ہے جو اُس کی طبیعت کے خلاف ہوتی ہے اور جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ شریف ہو تو الگ ہو جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کی حضرت خضر علیہ السلام سے اختلاف ہوا تو آپ نے کہہ دیا - هذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ؟ كي حضرت موسی نے یہ نہیں کیا کہ انہوں نے اوپر سے دوستی رکھتے ہوئے حضرت خضر کے تبر میں فتنہ وفساد پھیلانا شروع کر دیا ہو بلکہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ جب ہماری آپس میں نہیں نبھ سکتی تو بہتر ہے ہم الگ الگ ہو جائیں.پس جب تک وہ اکٹھے رہے وفا دار ر ہے اور جب جُدا ہوئے تو جو شریف آدمی ہوتے ہیں وہ تو یہ طریق اختیار کرتے ہیں مگر جو کمینے ہوتے ہیں وہ اندر ہی اندر منصو بے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہیں یہ ویسے ہیں.تو منافقوں کا ہونا ہر قوم اور سوسائٹی میں ممکن ہے لیکن نبیوں کی جماعتوں میں منافقوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ منافقت شیطان کا حربہ ہے اور شیطان سے بڑھ کر بھلا نبیوں کی جماعت کا اور کون دشمن ہوسکتا ہے اور جب وہ نبیوں کی جماعت کا سب سے بڑا دشمن ہے تو یہ کس طرح کی
خطبات محمود ۴۸۴ سال ۱۹۳۸ء ممکن ہے کہ وہ اور حربے تو استعمال کرے مگر منافقت کے حربہ کو استعمال نہ کرے.یہ حربہ تو ضرور استعمال کرے گا اور اگر دوسری جگہ وہ اس حربہ کو اتفاقی چلاتا ہے تو نبیوں کی جماعت میں منظم طور پر چلاتا ہے.اس تمہید کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ منافق کئی قسم کے ہوتے ہیں.ہماری جماعت کو منافقین کے متعلق جو دھوکا لگا ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ منافق کی تعریف نہیں سمجھتے.بسا اوقات جو تعریف ان کے ذہن میں ہوتی ہے وہ اور ہوتی ہے اور منافق کی تعریف اور ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دھوکا کھا جاتے ہیں اور منافق کو پہچان نہیں سکتے.کئی لوگ خیال کرتے ہیں کہ منافق شائد نمازیں نہیں پڑھتے اور اسی وجہ سے جب کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ منافق ہے تو کہتے ہیں وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے وہ تو بڑی نمازیں اور تہجد پڑھا کرتا ہے.حالانکہ یہ تو کوئی بات نہیں.ایک نمازیں پڑھنے والا بھی منافق ہوسکتا ہے.ایک تہجد پڑھنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے، اور ایک ذکر الہی کرنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے.پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ منافق شاید چندے نہیں دیتے اور اس وجہ سے جب انہیں کہا جائے کہ فلاں منافق ہے تو کہتے ہیں وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے معلوم ہوتا ہے تمہیں غلطی لگی ہے وہ تو بڑے چندے دیا کرتا ہے.حالانکہ منافق کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ نفاق کے ساتھ ساتھ چندے بھی دیتا ہے تا اُس کے افعال پر پردہ پڑا رہے اور اگر کوئی اعتراض کرے تو دوسرا اُسے یہ کہہ کر خاموش کرا سکے کہ یہ تو چندے دیا کرتا ہے، یہ کس طرح منافق ہو سکتا ہے.حالانکہ ایمان کسی ایک عمل کا نام نہیں بلکہ مجموعہ اعمال کا نام ایمان ہے.مگر تم ایک بات دیکھتے ہو اور کہتے ہو چونکہ وہ نمازیں پڑھتا ہے یا چونکہ وہ سچ بولتا ہے اس لئے وہ منافق نہیں ہوسکتا حالانکہ اول تو تمہیں کیا پستہ وہ بیچ بول رہا ہے یا جھوٹ.دوسرے بعض ہوشیار لوگ ہوتے ہیں جو کئی موقعوں پر سچ بول کر کے اپنی صداقت کا لوگوں پر اثر ڈالتے ہیں اور پھر در پردہ فتنہ وفساد بھی کرتے رہتے ہیں.وہ بیچ اس لئے نہیں بولتے کہ انہیں سچ سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے سچ بولتے ہیں کہ ان کے اور جھوٹوں پر پردہ پڑا ر ہے.تو ایمان اس بات کا نام نہیں کہ نمازیں پڑھ لیں یا روزے رکھ لئے یا حج کر لیا یا زکوۃ دے دی یا سچ بول لیا بلکہ چاروں جہت سے اپنے ایمان کے محل کو
خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۸ء ہر قسم کے رخنوں سے محفوظ رکھنے کا نام ایمان ہے.بے شک مؤمنوں میں بھی بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر وہ ان کی نیکیوں کے مقابلہ میں نہایت قلیل ہوتی ہیں اور ان کے صدق کے اعمال بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن منافق اگر چندے بھی دے گا تو منافقانہ طور پر اور اگر نمازیں بھی پڑھے گا تو منافقانہ طور پر جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فويل للمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونن کہ ان نماز پڑھنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جو حقیقت نماز سے غافل رہتے ہیں اور صرف دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں.اب اس جگہ یہ مراد نہیں کہ وہ نماز چھوڑ دیتے ہیں بلکہ الَّذِينَ هُمْ يُرَارُونَ کہہ کر بتا دیا کہ ہماری یہ مراد ہے کہ وہ دکھلاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں.یعنی اُن کا نمازوں سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ لوگ اُنہیں نمازی سمجھیں اور اُن کی شرارتوں پر پردہ پڑا ر ہے.تم بیشک بعض دفعہ یہ سمجھ لیتے ہو کہ یہ تو بڑی لمبی نمازیں پڑھنے والے ہیں یہ منافق کس طرح ہو سکتے ہیں مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ بے شک یہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں کا اُن کے دلوں پر کوئی اثر نہیں.یہ محض دکھاوے کی نمازیں ہیں اور غفلت سے مراد بھی نماز کو چھوڑ دینا نہیں بلکہ حقیقت نماز سے عاری ہو کر نماز پڑھنا ہے.یہی حال چندے کا ہے.بے شک چندہ دینا ایمان کی ایک علامت ہے.مگر سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ چندے دیتے ہیں مگر ریاء کے لئے اور وہ چندہ دینے کے باوجود منافق ہوتے ہیں.اگر چندہ کا دینا ہی ایمان ہوتا ، اگر نمازیں پڑھنا ہی انسانی ایمان کی علامت ہوتی تو قرآن کیوں کہتا کہ بعض نمازیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اور بعض چندہ دینے کے با وجود منافق ہوتے ہیں.صاف معلوم ہوا کہ بعض چندہ دینے والے بھی منافق ہوتے ہیں اور بعض نمازیں پڑھنے والے بھی منافق ہوتے ہیں.چندے دینے والے بھی منافق ہوتے ہیں جو ریاء کے لئے چندہ دیتے ہیں اور نمازیں پڑھنے والے وہ منافق ہوتے ہیں جو کسی دُنیوی مفاد یا عزت و مرتبت کے حصول کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں.میں نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہیں خفا ہو کر اگر ذرا ڈانٹا جائے تو وہ باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے لگ جائیں گے، زیادہ چندے دینے شروع کر دیں گے اور یوں معلوم ہوگا کہ وہ بڑے مخلص ہیں مگر جب دیکھیں گے کہ اب
خطبات محمود ۴۸۶ سال ۱۹۳۸ ہماری طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے تو پھر اپنی اصلی حالت پر آجائیں گے.غرض منافقوں کی کی کئی اقسام ہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے دوست ان اقسام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کرتے اور اسی لئے بعض دفعہ دھو کا کھا جاتے اور منافق کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے دل میں کبھی ایمان نہیں آتا وہ کسی ڈر یا لالچ کے اثر کے ماتحت ایک مذہب میں داخل ہو جاتے ہیں ورنہ ایمان ایک دن بھی ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوتا.مثلاً فرض کرو کسی کے تمام رشتے دار احمدی ہو گئے ہیں اور صرف اکیلا وہی غیر احمدی رہ گیا ہے یا کوئی گاؤں ہے وہاں سب کے سب احمدی ہو گئے ہیں اور صرف ایک یا دو آدمی علیحدہ ہیں.اب جس خاندان کے تمام افراد احمدی ہو چکے ہیں ،صرف ایک ان سے علیحدہ ہے وہ دل میں خیال کرتا ہے کہ اگر میں علیحدہ رہا تو کیا فائدہ میرے تمام رشتے دار مجھے بُرا بھلا کہیں گے اور ہر وقت لڑائی جھگڑا رہے گا، آؤ اوپر سے احمدی ہو جاتے ہیں.چنانچہ وہ ڈر کر احمدی ہو جاتا ہے ورنہ ایمان اُس کے اندر نہیں ہوتا.یا دیکھتا ہے بیوی بھی ادھر چلی گئی ، باپ بھی ادھر چلا گیا ، بچے بھی ادھر چلے گئے ، اب میں اکیلا ایک طرف کیا اچھا لگتا ہوں اور چونکہ منافق دل کا کمزور ہوتا ہے اور وہ مقابلہ کی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ بجائے مخالفت کے یہی بہتر ہے کہ میں بھی اوپر سے احمدیت میں شامل ہو جاؤں اور دل میں جو چاہے عقیدہ رکھوں.یا بعض دفعہ مثلاً احمدیت کا ایسا غلبہ ہوا کہ گاؤں کا گاؤں احمدی ہو گیا.اب یہ سمجھتا ہے گاؤں میں مجھ اکیلے کی کیا حیثیت ہوگی اور مجھے ضرورت کیا ت ہے کہ میں خواہ مخواہ سب سے لڑائی کرتا پھروں چنا نچہ وہ اس ڈر کے مارے احمدیت قبول کر لیتا کی ہے.مگر اندر سے وہ ویسا ہی بے ایمان ہوتا ہے جیسے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے تھا.یا بعض دفعہ لالچ کے ماتحت بھی ایک انسان دوسرا مذہب اختیار کر لیتا ہے.مثلاً کوئی امیر احمدی کی زیادہ پُر جوش ہوا اور اُس نے چاہا کہ وہ اپنے تمام نو کر احمدی ہی رکھے.اس پر ایک مخالف کو جو کی بھو کا مر رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی احمدی کو نو کر رکھنا چاہتا ہے.یہ دیکھ کر وہ جھٹ مرکز میں بیعت کی ایک چٹھی لکھ دیتا ہے اور جب ہماری طرف سے اُسے جواب جاتا ہے تو وہ اُس خط کو سنبھال کر رکھ لیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے احمدیت کی وجہ سے لوگوں نے مجھے سخت تنگ کرنا شروع کی
خطبات محمود ۴۸۷ سال ۱۹۳۸ء کر دیا ہے پہلے میرا اچھا گزارہ تھا مگر احمدی ہو جانے کی وجہ سے کاروبار کو سخت نقصان پہنچا ہے اور میں بھوکا مر رہا ہوں حالانکہ اُس کا گزارہ پہلے بھی ویسا ہی ہوتا ہے اور پہلے بھی وہ بھوکا ہی مرر ہا ہوتا ہے مگر ہمیں دھوکا دینے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ پہلے میرا بڑا اچھا گزارہ تھا مگر اب کی قبول احمدیت کی وجہ سے پھو کا مرنے لگا ہوں میرے لئے کسی نوکری کا انتظام کر دیں.ہم اُسے لکھتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں تو اس وقت کوئی جگہ نہیں اگر کوئی جگہ نکلی تو آپ کا خیال رکھا جائے گا.اس پر وہ لکھتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں احمدی اپنے ہاں ایک نو کر رکھنا چاہتا ہے آپ اُسے سفارشی و چٹھی لکھ دیں اور میں آپ کا بڑا ممنون ہوں گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کے دھوکا میں آجاتے اور اس احمدی کے پاس اس کی سفارش کر دیتے ہیں اور وہ اسے ملازم رکھ لیتا ہے حالانکہ دل میں وہ پکا غیر احمدی ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک طبقہ ایسا تھا جو قبیلے کے ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی وجہ سے اسلام قبول کر لیتا.مثلاً یہی لالچ ہوا کہ اسلام ترقی کر رہا ہے اگر ہم اس مذہب میں شامل ہو گئے تو ہمیں عزت مل جائے گی.یا یہ دیکھائی کہ اپنے خاندان کا کوئی امیر آدمی جو پہلے ان سے حُسنِ سلوک کیا کرتا تھا مسلمان ہو گیا ہے تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تا وہ حسن سلوک کو بند نہ کر دے.تو ڈر اور لالچ دونوں کی وجہ سے لوگ منافق بن جاتے ہیں لیکن یہ ایسا طبقہ ہے جس کے اندر ایمان ہوتا ہی نہیں.وہ داخل ہوتا ہے خوف یا لالچ کی وجہ سے ورنہ اس کے دل میں کفر ہوتا ہے وہ کفر کی حالت میں پیدا ہوتا کفر کی حالت میں کی ہی اسلام میں داخل ہوتا اور کفر کی حالت میں ہی مرجاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی طبقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے دمِن النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنين ؟ کہ اے ہمارے رسول ! کچھ لوگ تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم خدا اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایمان نصیب ہو گیا اور سمجھ آگئی کہ سچا راستہ کونسا ہے.فرماتا ہے وہ دعوے تو یہ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنین ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے وہ صرف لالچ یا خوف کی وجہ سے آگئے ہیں اس کے علاوہ ان کے آنے کی اور کوئی غرض نہیں.تو یہ منافق طبقہ آتا ہی اسی وجہ سے ہے کہ یا اسے کسی چیز کی لالچ ہوتی ہے یا کسی چیز کا خوف ہوتا ہے.اگر چندے دے گا تو ڈر سے بہ
خطبات محمود ۴۸۸ سال ۱۹۳۸ء لالچ سے، اگر نمازیں پڑھے گا تو بھی ڈر سے یا لالچ سے.فرض کرو اسے کسی احمدی کے پاس میں روپے کی ملازمت مل گئی ہے تو اب اگر یہ سو ایا ڈیرھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے تو دل میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ پھر بھی میرے پاس ساڑھے اٹھارہ یا پونے انہیں رو پے تو بچ گئے.پس وہ چندہ اس لئے نہیں دیتا کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے بلکہ اس لئے دیتا ہے کہ اسے اٹھارہ یا اُنیس روپے تو مل رہے ہیں.گویا وہ احمدیت میں داخل ہو کر کوئی دین کی خدمت نہیں کرتا بلکہ اٹھارہ یا انیس روپے کماتا ہے.جیسے زمیندار جب زمین میں بیج ڈالتا ہے تو اس سے کئی گنا فصل کاٹتا ہے اسی طرح وہ روپیہ یا سوار و پیہ چندہ دیتا اور ۱۸ یا ۱۹ روپے خود وصول کرتا ہے.پس وہ سمجھتا ہے کہ یہ چندہ دینا میرے لئے کوئی گراں نہیں کیونکہ اگر میں چندہ نہیں دوں گا تو مجھے ملازمت سے الگ کر دیا جائیگا.اسی طرح منافق بعض دفعہ ڈر کی وجہ سے نماز پڑھتا.یا روزے رکھتا یا حج کرتا یا زکوۃ دیتا ہے.مثلا فرض کرو وہ کسی کا نوکر نہیں بلکہ آزاد ہے لیکن اسکے تمام رشتے دار احمدی ہو چکے ہیں تو اب اگر وہ نمازیں نہیں پڑھتا یا روزے نہیں رکھتا تو سمجھتا ہے کہ یہ میری شکائت کریں گے، اور کہیں گے بے دین ہو گیا.پس وہ ان کے ڈر کی وجہ سے نمازیں بھی پڑھ لیتا ہے اور روزے بھی رکھ لیتا ہے تا اس کی کمزور حالت پر پردہ پڑا ر ہے.اسی طرح وہ چندے دیتا ہے تا اس کے دوسرے بھائی بند جوش میں نہ آئیں اور وہ یہ نہ کہیں کہ یہ ایماندار نہیں مگر میں یہ اسی شخص کی نسبت کہتا ہوں جس کے اندر اخلاص نہیں ہوتا.بعض لوگ یوں مخلص ہوتے ہیں.مگر کسی سُستی کی وجہ سے چندہ نہیں دیتے.ان لوگوں کا بیان نہیں ہے کیونکہ میں ان کی لوگوں کو منافق نہیں سمجھتا.جیسے ایک گزشتہ خطبہ میں میں نے مثال دی تھی کہ ایک جگہ جہاں بعض لوگ چندے میں سُست تھے ہم نے تحریک کی کہ بجائے مردوں کو کہنے کے اُن کی عورتوں سے جا کر کہو کہ وہ اپنے مردوں کو چندہ دینے کے لئے آمادہ کریں.چنانچہ ایک عورت کو جب ایسی تحریک کی گئی تو اُس کے بعد ایک دن جب اس کا خاوند گھر میں تنخواہ لایا تو وہ کہنے لگی میں یوں کی روپیہ نہیں لیتی یہ حرام کا روپیہ ہے.وہ کہنے لگا حرام کا روپیہ کس طرح ہو گیا میں صبح سے شام تک کام کرتا ہوں پھر کہیں مہینے کے بعد جا کر روپیہ ملتا ہے یہ حرام کیونکر ہوا ؟ وہ کہنے لگی جب تک خدا کا حق اس میں سے ادا نہیں کرو گے میں اسے استعمال نہیں کروں گی اگر چاہتے ہو کہ میں
خطبات محمود ۴۸۹ سال ۱۹۳۸ء گھر کے اخراجات کے لئے اس روپیہ کو استعمال کروں تو پہلے چندہ دے کر آؤ مجھے رسید دکھاؤ.چنانچہ وہ گیا اور چندہ دے آیا.اُس کے بعد اس کی ایسی عادت ہو گئی کہ وہ تنخواہ گھر میں اُس وقت تک نہ لا تا جب تک کہ چندہ ادا نہ کر لیتا.تو یہ منافقت کی علامت نہیں کمزوری کی علامت کی ہے.ایسے آدمی کو کوئی دوسرا نصیحت کرے گا تو وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ثواب کے مستحق ہوں گے.میری مراد اس جگہ منافق سے ایسے شخص سے ہے جو دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں روپیہ خرچ کرنا پسند نہیں کرتا وہ ست نہیں ہے بلکہ دل میں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے لئے چندہ دینا کی بے فائدہ ہے.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے اُس کو میں منافق کہتا ہوں ورنہ کمزور ہونا اور چیز ہے آخر سارے مؤمن ایک درجہ کے تو نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کم سے کم حصہ وصیت کا 1/1 قرار دیا ہے اب جو شخص 1/10 حصہ کی وصیت کرتا ہے ہم اُسے منافق نہیں کہتے.ہم سمجھتے ہیں کسی کا کم ایمان ہے اور کسی کا زیادہ.جس کے اندر تھوڑا ایمان ہے اس نے کی دسویں حصہ کی وصیت کر دی اور جس کے اندر زیادہ ایمان ہے اُس نے زیادہ کی وصیت کر دی.تو جس کو میں منافق کہتا ہوں وہ تو وہی شخص ہے جو دل سے چندہ دینا نا پسند کرتا اور جس مذہب میں بھی وہ شامل ہے اُس کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.میرا ان کی الفاظ کے کہنے سے یہ مطلب ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ منافق صرف بچے مذہب میں پائے جائیں بلکہ ایک ہندو بھی منافق ہو سکتا ہے، ایک سکھ بھی منافق ہو سکتا ہے اور ایک عیسائی بھی منافق ہو تی سکتا ہے.ہند و منافق وہ ہوگا جو ہندوؤں سے غداری کرے ، سکھ منافق وہ ہوگا جو سکھوں سے منافقت کرے اور عیسائی منافق وہ ہوگا جو عیسائیوں سے غداری کرے.ہاں جو بچے دین سے منافقت کرے گا اُس سے خدا بھی ناراض ہوگا اور جو دوسروں سے منافقت کرے گا اُسے اس منافقت کا صرف دنیوی نقصان ہوگا اور یوں اُس کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑے گا.اللہ تعالیٰ کی کی ناراضگی صرف اس کے اتنے فعل سے اسے نہیں ہو سکتی کیونکہ اُس کا امتحان اصولی سچائیوں کی بناء پر ہوگا نہ کہ تفصیلی احکام کی بناء پر.دوسری قسم کے منافق قرآن کریم سے وہ معلوم ہوتے ہیں جو اسلام کو سچا سمجھ کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور انہیں ابتداء میں یہی یقین ہوتا ہے کہ یہ مذہب سچا ہے مگر بعد میں ان کے دلوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے.پہلی قسم کے منافق جو میں نے بتائے ہیں
خطبات محمود ۴۹۰ سال ۱۹۳۸ء ہماری جماعت کے بعض لوگ غلطی سے صرف انہی کو منافق سمجھتے ہیں کسی اور کو نہیں اسی لئے جب کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ منافق ہے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں اُس نے تو فلاں وقت اتنی کی قربانی کی تھی وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے مطلب ان کا یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اُس نے فلاں وقت قربانی کی اس لئے وہ منافق نہیں حالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم منافقوں کی ایسی بھی ہے جو ایمان اور اخلاص سے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ، سلسلہ کے لئے مختلف رنگوں کی میں قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر پھر گر جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان منافقوں کا ذکر سورۃ توبہ میں کرتا ہے.فرماتا ہے لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ لا فرماتا ہے.تم ہمارے سامنے غذ رمت کرو.قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ ايْمَانِكُمْ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ پہلے تم بھی مومن تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد بعض رنجشوں ، بدگمانیوں اور کمزوری اعمال کی وجہ سے تمہارے دل پر زنگ لگتے لگتے آخر ایمان بالکل جاتا رہا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی ہی کہ اب تمہارے دل میں کوئی ایمان نہیں.یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ ایمان تم یقیناً لائے تھے اور جس وقت تم خدا تعالیٰ کے سلسلہ میں داخل ہوئے تھے اخلاص اور محبت سے داخل ہوئے تھے اور اسی ایمان کے باعث تم نے نمازیں بھی پڑھیں، روزے بھی رکھے ، چندے بھی دیئے ، زکوۃ بھی دی ، حج بھی کیا ، قربانیاں کی بھی کیں ، یہ ٹھیک بات ہے.ایمان جو تم لائے تھے ایمان لانے کے بعد انسان ایسا ہی کیا کرتا ہے مگر کسی وجہ سے ( یہاں وجہ نہیں بتائی وہ وجوہات اور جگہ بیان ہیں ) ایمان لانے کے کچھ عرصہ بعد تم میں کفر پیدا ہونا شروع ہوا اور ہوتے ہوتے تم منافق ہو گئے.اگر تم اُسی وقت جب سے تمہارے دل میں کفر پیدا ہونا شروع ہوا تھا کہہ دیتے کہ ہم تم میں شامل نہیں رہنا کی چاہتے ہمیں اب شبہات پیدا ہو گئے ہیں مگر چونکہ تم نے کفر کو ظاہر نہیں کیا تم نے اپنے دلوں میں کہا کہ اب جس فرقہ میں ہم مل گئے ہیں اسی میں ملے رہیں اگر ہم علیحدہ ہوئے تو ہماری سبکی اور کی ذلّت ہوگی اور تم ایک طرف تو یہ کہتے رہے کہ ہم جماعت میں فتنہ نہیں ڈالنا چاہتے اور دوسری طرف جب کوئی ملتا تو اُسے کہتے کہ جماعت میں یہ یہ خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں، اس کے افراد نہایت گندے ہو گئے ہیں ، ان کے اخلاق نہایت خراب ہو گئے ہیں ، روحانیت اور ایمان
خطبات محمود ۴۹۱ سال ۱۹۳۸ء ان سے بالکل جاتا رہا ہے اس لئے اب ہمارا حق ہو گیا ہے کہ ہم تمہیں منافق کہیں.تو یہ دوسری قسم کی منافقوں کی ہے یہ ایسے احمق ہوتے ہیں کہ ایک طرف اپنی مجالس میں جماعت اور نظام کی خرابیاں بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف جب کوئی مؤمن ان سے ملے اور کہے کہ آپ خلیفہ اسیح تک بات کیوں نہیں پہنچاتے تو وہ کہہ دیتے ہیں ہم خواہ مخواہ بات بڑھانا نہیں چاہتے.ان کی مثال بالکل اُس بے وقوف کی سی ہوتی ہے جو ایک قتل کے مقدمہ کے سلسلہ میں ایک - دفعہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا تو مجسٹریٹ نے مقدمہ سننے کے بعد اسے پھانسی کی سزا کا حکم دے دیا.اس نے لوگوں سے پوچھا کہ میرے متعلق کیا فیصلہ ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ تجھے پھانسی کی سزا کا حکم ملا ہے.یہ سن کر وہ بولا کہ اس سے تو موت کی سزا اچھی تھی.اسی طرح یہ لوگ کرتے ہیں ایک طرف تو فتنہ کرتے جاتے ہیں دوسری طرف فتنہ کے خلاف اظہار نفرت بھی کرتے جاتے ہیں حالانکہ جس رنگ میں وہ کمائیاں بیان کرتے ہیں اسی کا نام تو فتنہ ہے.مگر جب ان سے کہا جائے کہ خلیفہ امسیح سے ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے تو بڑے مصلح بن جائیں گے اور کہیں گے ہم کوئی فتنہ پیدا کرنا نہیں چاہتے اگر شکایت کی تو وہ کیا کہیں گے.ہماری جماعت میں بھی ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ فتنہ پیدا کرنا ہوتا ہے اور اندر ہی اندر وہ اس لئے شرارتیں کرتے رہتے ہیں کہ اگر عَلَی الْإِعْلَان غیروں سے مل گئے تو وہ کہیں گے کہ اب جھک مار کر واپس آیا ہے پہلے خیال نہ آیا تھا کہ ایسے لوگوں میں نہیں ملنا کی چاہئے.پس وہ خدا کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت کے خیال سے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں یا اس وجہ سے شامل رہتے ہیں کہ انہیں ایک سوسائٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے دوستوں کا ایک حلقہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم علیحدہ ہوئے تو یہ سوسائٹی ہمارے ہاتھ سے جاتی رہے گی.یہ قدرتی بات ہے کہ جب انسان پہلوں سے قطع تعلق کر کے آتا ہے تو اسے نئی جماعت میں نئی سوسائٹی ملی جاتی ہے ، نئے محبت کرنے والے مل جاتے ہیں ، نئے پیار کرنے والے مل جاتے ہیں اور چونکہ ان کا چھوڑ نا مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ظاہری طور پر ملے رہیں اور اندرونی طور پر شرارتیں کرتے رہیں.پہلوں سے اگر انہوں نے قطع تعلق کیا تھا تو اس لئے کہ اُس وقت ان میں ایمان کی کشش تھی اور اب اگر یہ قطع تعلق کرنے سے ڈرتے ہیں تو اس لئے کہ ان میں نفاق
خطبات محمود ۴۹۲ سال ۱۹۳۸ء ہوتا ہے اور نفاق میں کوئی کشش نہیں ہوتی.جس شخص کے اندر ایمان پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائیوں کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے عزیزوں کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیتا ہے اور اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اس قطع تعلق کا اس پر کیا اثر پڑے گا.مگر جس کے اندر نفاق پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ وہ گناہ کی حالت میں ہوتا ہے.میں نے یہ بات اس لئے بیان کی ہے تا کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ انہوں نے پہلے بھی تو کی اپنے قرابتیوں اور دوستوں کو چھوڑا تھا پھر اب یہ کیوں چھوڑ نہیں سکتے.میں نے بتایا ہے کہ پہلے انہوں نے اس لئے چھوڑا تھا کہ ان کے اندر ایمان کی طاقت پائی جاتی تھی مگر اب جو ان کے اندر تغیر پیدا ہوا ہے وہ نفاق کا تغیر ہے.پس چونکہ اب ان کے اندر ایمان والی حالت نہیں ہوتی اس لئے نئے دوست ، نئی برادری اور نئے رشتہ داران کو چھوڑ نے بہت مشکل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اسی طرح رہنے دو.اوپر سے ہم ملے رہتے ہیں اور اندر سے منصوبے کرتے رہیں گے.تو فرماتا ہے.لا تعتذ رُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ - تم عذرمت کرو بے شک کسی وقت تم مؤمن تھے مگر اب تمہیں اسلام میں سو سو کیڑے نظر آتے ہیں اور پہلے جن باتوں کو خو بیاں سمجھتے تھے انہی کو اب عیب قرار دینے لگ گئے ہو.میں اس تغیر کی جو ایمان لانے کے بعد بعض لوگوں میں پیدا ہوتا ہے ایک وجہ بھی بتا دیتا ہوں اور گو اور بھی اس کی وجوہ ہیں مگر جو سب سے اقرب وجہ ہے اور جو میرے اس مضمون کو بالکل واضح کر دیتی ہے میں وہ بیان کر دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ اسی سورۃ تو بہ میں فرماتا ہے.تو كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَ سَفَرًا قاصدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشقة، لے اس کے ایک ظاہری معنی یہ بھی ہیں کہ چونکہ سفر لمبا تھا اس لئے تم کی جہاد میں جانے سے رُک گئے مگر اس کے باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ ایمان لائے جب اس قسم کی پیشگوئیاں سنتے ہیں کہ عنقریب اسلام تمام دنیا کو فتح کرلے گا، سب بادشاہتیں مغلوب ہو جائیں گی اور بڑے بڑے بادشاہ حلقہ بگوش اسلام بن جائیں گے، ہر طرف اسلامی پھریرا لہرائے گا، کفر پر موت آجائیگی اور فقر وفاقہ میں مبتلا رہنے والے مسلمان بڑی بڑی عزتوں کے
خطبات محمود ۴۹۳ سال ۱۹۳۸ - مالک بن جائیں گے تو چونکہ طبیعت میں حرص ہوتی ہے اس لئے ان پیشگوئیوں کو تسلیم کر کے اور یہ دیکھ کر کہ بعض پیشگوئیاں تو پوری بھی ہو چکی ہیں کیا تعجب کہ دوسری پیشگوئیاں بھی ابھی پوری ہو جائیں اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں.مگر چونکہ یہ مذہب میں داخل کامل ایمان کی وجہ سے نہیں کی ہوتے بلکہ لالچ کی وجہ سے ہوتے ہیں اور دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ہمیں بڑے بڑے عہدے مل جائیں گے اور خبر نہیں ہم کیا سے کیا ہو جائیں گے اس لئے ان کے ایمان کے ساتھ مخفی طور پر دل کا لالچ اور کبر اور غرور بھی شامل ہوتا ہے.پس ان کا ایمان مخلوط ہوتا ہے نفسانی حرص اور لالچ سے یہ پیشگوئیاں سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے اور پیشگوئیاں اپنی آنکھوں کے سامنے پوری ہوتی دیکھی ہیں تو یہ پیشگوئیاں بھی بہر حال پوری ہوں گی.پھر جب وہ انبیاء اور ان کے خلفاء کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ بس عنقریب ترقی ہو جائے گی ، بڑی بڑی حکومتیں اسلام میں آملیں گی اور قرآن میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ ساعت قریب آگئی ، بس تم اسے آئی سمجھو تو یہ منافق بھی آملتے ہیں اور کہتے ہیں جب آئی سمجھو کی تو ہم بھی اپنا حصہ لینے کے لئے آگئے ہیں.پھر چھ مہینے ، سال، دو سال ، چار سال، پانچ سال، دس سال ہیں سال گزرتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت تو کوئی آئی نہیں بس آئے روز یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ قربانی کرو قربانی کرو دین خطرے میں ہے اس کے لئے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دو.تو ان کے قدم ڈگمگانے شروع ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ وعدے کہاں کی گئے جو فتوحات اور ترقیات کے متعلق ہم سے کئے گئے تھے.پہلے تو انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ ادھر اسلام قبول کیا اور ادھر ہمیں افغانستان یا ایران کی حکومت مل جائے گی.یا اگر نہ ہوا تو کسی مہا جن کا خزانہ ضرور مل جائے گا اور اگر یہ بھی نہ ہوا تو کوئی عہدہ تو ہاتھ سے جاتا ہی نہیں.ان کی امیدوں اور خیالوں کی وجہ سے وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں، وہ مال بھی دیتے ہیں ، وہ وقت بھی کی خرچ کرتے ہیں ، وہ جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیا ہوا آج اگر ہم نے دس روپے دیئے تو کل دس ہزار مل بھی جائیں گے.مگر جب دو سال، چار سال، دس سال ، پندره سال، ہیں سال گزر جاتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی حکومت نہیں ملی بلکہ جو کچھ پہلے ہمارے پاس تھا وہ بھی خرچ ہو گیا تو کہتے ہیں ہمارے ساتھ مکر اور فریب کیا گیا.جو مؤمن ہوتا ہے وہ تو یہ دیکھتا ہے
خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۸ء کہ کل جو اسلام کی طاقت تھی آج اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے.پہلے اسلام کمزور تھا پھر طاقتور ہو گیا اور اب ہر روز اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے.پس اس کا ایمان اسلام کی طاقت بڑھتے دیکھ کر تازہ ہو جاتا اور اس کا دل مسرت و انبساط سے بھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اسلام کو ہر روز غلبہ عطا فرما رہا ہے.اسی طرح جو بچے دل سے احمدی ہوتا ہے وہ ہر سال کے خاتمہ پر دسمبر کے مہینہ میں یہی دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے کہ اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار آدمی اور احمدی ہو گئے ہیں اور اس طرح اس کا ایمان لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور چونکہ اس نے احمدیت کو احمدیت کی خاطر قبول کیا ہوتا ہے، کسی لالچ یا حرص کے ماتحت قبول نہیں کیا ہوتا اس لئے وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ پچھلے سال اتنے احمدی تھے اور اس سال اس سے بھی پانچ دس ہزار زیادہ ہو گئے ہیں تو وہ سمجھتا ہے کہ اسلام جیت گیا مگر جو منافق ہوتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ پہلے سال میں نے اتنا چندہ دیا.دوسرے سال اس سے بڑھ کر کچ دینا پڑا، تیسرے سال اس سے بھی زیادہ دینا پڑا، چوتھے سال اس سے زیادہ یہ حساب کر کے وہ کہتا ہے او ہو! میں تو نقصان اور گھاٹے کی طرف جا رہا ہوں.میں نے سمجھا تھا تھیلیوں کے منہ میرے لئے کھل جائیں گے مگر یہاں تو اپنی جیب سے روپے خرچ کرنے پڑے اور پھر بھی کچھ نہ بنا.پس منافق اپنی جیب کی طرف دیکھتا ہے اور چونکہ اس میں کمی ہورہی ہوتی ہے اس لئے اس کی کا ایمان جاتارہتا ہے لیکن مؤمن جماعت کی طرف دیکھتا ہے اور چونکہ اُس میں زیادتی ہو رہی ہوتی ہے اس لئے اُس کا ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے فتح تو آرہی ہے مگر یہ کہتا ہے فتح نہیں آ رہی اور دونوں اپنی اپنی جگہ بچے ہوتے ہیں.یہ جب کہتا ہے فتح نہیں آ رہی تو اس وجہ سے کہتا ہے کہ یہ فتح مال کی زیادتی کو سمجھتا ہے اور چونکہ اس کا مال کم ہورہا ہوتا ہے اس لئے یہ مایوس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم سے جھوٹے وعدے کئے جاتے رہے ہیں لیکن مؤمن فتح اسلام کی ترقی کو سمجھتا ہے اور چونکہ اُس کی ترقی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اس لئے وہ خوش ہوتا کی ہے اور کہتا ہے اَلْحَمُدُ اللہ خدا کی باتیں پوری ہو رہی ہیں.تو یہ دو مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں جن کی کے ماتحت مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں.وہ جو خدا کی رضا اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ تو جماعت کی ترقی کو دیکھ کر یقین کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل
خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۸ء آ رہا ہے مگر وہ جو اپنے نفس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے الہی سلسلہ میں داخل ہوتا ہے ہے.وہ پہلے قربانیوں میں شریک رہتا ہے اور دو، چار، پانچ ، دس، پندرہ ، ہیں سال جتنا جتنا ایمان ہوتا ہے اتنا عرصہ چلتا چلا جاتا ہے مگر آخر حوصلہ ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے سب جھوٹ اور فریب ہے تو فرماتا ہے.لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا جس کام کے لئے تو کھڑا ہے اس میں کئی آدمی لالچ اور حرص کے خیالات کے ماتحت شامل ہو گئے تھے ، اب اگر ان کا مقصود نہیں جلدی حاصل ہو جاتا (عَرَضًا کے معنی مطلب اور فائدہ کے ہیں ) یعنی اگر ان کا وہ فائدہ اور مطلب جس کے لئے وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے سہل الحصول اور بالکل قریب ہوتا وَ سَفَراً فَاصِدًا اور سفر چھوٹا ہوتا کئی سالوں کے بعد اسلام کی ترقی نہ آنیوالی ہوتی لَا تُبَعُوک تو وہ آخر تک تیرے ساتھ چلتے اور اپنے عہد نبھا دیتے وَلكِنُ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشَّقَّةُ لیکن چونکہ سفر لمبا ہے اور ابھی ختم نہیں ہوا اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ جھوٹ ہی ہے اور پھر مرتد ہو جاتے ہیں.یعنی اگر وہ ظاہر میں بھی مرتد ہو جائیں تو کافر ہو جاتے ہیں اور اگر اندر ملے رہیں تو منافق کی بن جاتے ہیں.منافقوں کی تیسری قسم وہ ہے جن کے اندر ایمان تو ہوتا ہے مگر ساتھ ہی کفر بھی ہوتا ہے اور اس ایمان اور کفر کے اُن پر دورے آتے رہتے ہیں.کبھی ایمان کا دورہ آجاتا ہے اور کبھی کفر کا دورہ آجاتا ہے یہ عملی منافق ہوتے ہیں.انہیں عقائد کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہوتا.وہ ج منافق ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مسیح موعود بھی مانیں گے.گویا اُن کا دماغ کہتا ہے کہ عقائد وہی درست ہیں جو اس جماعت کے ہیں مگر چونکہ اُن کے دل کا لگاؤ اور محبت کم ہو جاتی ہے، اس وجہ سے اُن پر کفر اور ایمان کا دورہ آتا رہتا ہے.کبھی کہتے ہیں یہ جماعت بہت بُری ہے اس میں شامل رہنے سے کیا فائدہ.اور کبھی کہتے ہیں اچھے لوگ ہیں، عقائد ان کے خوب ہیں صرف فلاں فلاں باتیں اگر ان میں نہ پائی جائیں تو پھر ٹھیک ہے.ایسے منافقوں کا ذکر اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں ان الفاظ میں فرماتا ہے كلما أَضَاءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيهِ ، وَإِذَا اظلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۱۲ چونکہ ان کے دل میں کفر اور ایمان ملا ہوا ہوتا ہے اس لئے گو یہ خدا کو مانتے ، اُس کے رسول کو مانتے اور باقی ارکانِ اسلام کو بھی درست تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا ،
خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۸ ایمان سرحد پر ہوتا ہے کبھی اُنہیں ایسا دھکا لگتا ہے کہ وہ کفر کی طرف جا پڑتے ہیں اور کبھی ایسا کی دھکا لگتا ہے کہ ایمان کی طرف آجاتے ہیں.چونکہ اُن کا ایمان صرف ذہنی ایمان رہ جاتا ہے محبت کا ایمان جاتا رہتا ہے اس لئے اُن کی یہ حالت ہو جاتی ہے.حالانکہ اصل خوبی محبت کے ایمان میں ہی ہے ذہنی ایمان میں نہیں.محبت کی مثال میں ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ کوئی بادشاہ تھا.ایک دن وہ اپنے دربار میں ایک نہایت قیمتی ٹوپی لایا اور کہنے لگا آج ہم یہ ٹوپی اُس بچے کو دیں گے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہوگا.یہ کہہ کر وہ ٹوپی اُس نے اپنے ایک حبشی غلام کو دی اور کہا جولڑ کا سب سے زیادہ خوبصورت ہو اُس کے سر پر رکھ دو.اب ان لڑکوں میں حبشی کا اپنا لڑ کا بھی تھا اور امراء اور وزراء کے بھی لڑکے تھے.حبشیوں کی شکل یوں بھی خراب ہوتی ہے مگر اُس کا بچہ تو بہت ہی غلیظ اور گندہ تھا، ناک بہ رہا تھا ، آنکھوں میں سید لگی ہوئی تھی اور مکھیاں اس پر بھنبھنا رہی تھیں وہ حبشی کی نہایت بے تکلفی کے ساتھ اس ٹوپی کو اٹھائے سیدھا اپنے لڑکے کی طرف گیا اور اُس کے سر پر ٹوپی رکھ دی.یہ دیکھ کر سارے دربار میں قہقہہ لگا اور خوب اس سے جنسی کی گئی اور کہا گیا کیا سب بچوں سے زیادہ خوبصورت تجھے اپنا بچہ ہی نظر آیا ہے؟ وہ کہنے لگا.بادشاہ سلامت ! آپ نے میرے ہاتھ میں ٹوپی دی تھی اور مجھے تو سب سے زیادہ یہی خوبصورت نظر آتا ہے.تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں عیوب بھی خوبیاں دکھائی دیتے ہیں اور جہاں نفرت ہوتی ہے وہاں عیوب تو الگ کی رہے خوبیاں بھی عیب بن کر نظر آنے لگ جاتی ہیں.اب قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی انسان بے عیب نہیں حتی کہ بشریت کی کمزوریاں انبیاء میں بھی پائی جاتی ہیں.پس جب کوئی بھی بے عیب نہیں تو کیا یہ جائز ہوگا کہ سوائے خدا کے ہر ایک کی عیب چینی اور نکتہ چینی کی جائے.اگر نہیں تو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں پر نکتہ چینی کرنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا.حقیقت یہ ہے کہ جب کسی کے دل میں محبت والا ایمان نہیں ہوگا تو اسے خوبیاں بھی عیب نظر آئیں گے لیکن جب کسی کا ایمان کامل ہوگا تو معمولی عیوب کو دیکھ کر سمجھے گا کہ یہ لوگ قابل تحسین ہیں نہ کہ لائق ملامت کیونکہ یہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان عیوب سے پاک ہو جائیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک استاد بچے کو کی
خطبات محمود ۴۹۷ سال ۱۹۳۸ء پڑھاتا ہے تو بچہ کئی دفعہ غلطیاں بھی کرتا ہے مگر وہ اسے سمجھاتا ہے اور بار بار سمجھا تا ہے اور جب سبق کا زیادہ حصہ وہ یاد کر لیتا ہے اور ایک آدھ بات اُسے یاد نہیں رہتی تو اس پر خوش ہوتا ہے ناراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے بچہ کوشش کر رہا ہے کہ مجھے سبق یاد ہو جائے اگر ایک آدھ اس سے غلطی ہو گئی ہے تو اس کی وجہ سے اس کی محنت کو باطل اور رائیگاں نہیں سمجھا جاسکتا.یہی حال خدمت دین کا ہے اگر باوجود نیکی اور تقویٰ کے میدان میں آگے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنے کے بعض سے غلطیاں ہو جاتی ہیں تو کامل مؤمن تو سمجھتا ہے کیا ہوا جب یہ چوبیس گھنٹے خدمت دین میں لگے رہتے ہیں تو ایک آدھ غلطی اگر ان سے سرزد ہو جاتی ہے تو اس سے کون سی قیامت آجاتی ہے خصوصا اس صورت میں جب کہ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ اتنی غلطی بھی آئندہ ہم سے سرزد نہ ہو.آخر ساری جماعت نمازیں پڑھتی ہے ، روزے رکھتی ہے، زکوۃ دیتی ہے، چندے دیتی ہے تبلیغ کرتی ہے، غریبوں کی مدد کرتی ہے، اتنی نیکیوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی کی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ سمجھتا ہے یہ ایسی ہی غلطی ہے جیسے بچہ سے تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں ہو جاتی ہے.ایسے مواقع پر عقلمند استاد ہمیشہ اُس کی حوصلہ افزائی کرتا اور کہتا ہے تو خوب ہوشیار ہے اور اگر اس لڑکے کا باپ اُسے مل جائے تو اُسے بھی وہ یہی کہتا ہے کہ آپ کا لڑکا بڑا ہونہار ہے یہ نہیں کہتا کہ آپ کا لڑکا بڑا نالائق ہے.میں نے اسے سوال دیئے تھے ان میں سے نو اس نے حل کر لئے مگر ایک حل نہ کر سکا.وہ سمجھتا ہے جب اس نے نو سوال حل کر لئے ہیں تو یہی اس کی کی بڑی ذہانت ہے بقیہ ایک سوال بھی آہستہ آہستہ حل کر لے گا.اسی طرح جو مؤمن ہوتا ہے اُسے تو یہ نظر آتا ہے کہ جماعت نیکی اور تقویٰ اور قربانیوں اور دین کی خدمت میں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جا رہی ہے اور جو کمزور ہیں وہ بھی اپنی کمزوری کو نا پسند کرتے اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ کسی طرح یہ کمزوریاں ان سے دور ہو جائیں.یہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہیں جو اس کی راہ میں لڑ رہے ہیں.سپاہی کا کام یہ ہے کہ وہ لڑے اگر کوئی دشمن اُسے قتل کر دیتا ہے تو اس میں سپاہی کا کی کیا قصور ہے.اس کا زیادہ سے زیادہ یہی کام تھا کہ مرتے دم تک دشمن سے لڑائی کرتا.سو جب اس نے مرتے دم تک دشمن سے لڑائی رکھی اور آخر اسی لڑائی میں اپنی جان دے دی تو اب وہ عزت کا مستحق ہو گیا.یہ نہیں ہوگا کہ افسر ا سے بُرا بھلا کہیں کہ یہ دشمن کے مقابلہ میں مرکیوں گیا ؟
خطبات محمود ۴۹۸ سال ۱۹۳۸ء اسی طرح مؤمن جب دیکھتا ہے کہ جماعت کے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں ، قربانیاں کرتے ہیں، استغفار پڑھتے ہیں ، دعائیں کرتے کی ہیں اور باوجود اس کے کوئی خطا بھی ان سے سرزد ہو جاتی ہے اور وہ اس خطا کا ازالہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے تو وہ ان خطاؤں کو ایسا ہی سمجھتا ہے جیسے میدانِ جنگ میں لڑنے والا سپاہی بعض دفعہ دشمن کے مقابلہ میں مارا جاتا ہے.اب یہ نہیں ہوتا کہ جو سپاہی دشمن سے لڑتا ہو ا مارا جائے اُسے فوج والے کوڑے لگانے شروع کر دیں اور کہیں کہ اس نے ہماری ہتک کی بلکہ وہ اس کی کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ کر سکتا تھا اُس نے کر دیا.اگر دشمن اس پر وار کرنے میں ایک کی دفعہ کا میاب ہو گیا ہے تو اس میں اُس کا کیا قصور ہے.اُس کا کام صرف اتنا تھا کہ بیچنے کی کوشش کرتا اور دشمن پر غالب آنے کی جدو جہد کرتا.جب اُس نے یہ دونوں کام کر لئے تو نتیجہ کا وہ حج ذمہ دار نہیں.اسی طرح جب کوئی قوم رات دن دین کی خدمت میں مشغول رہتی ہے ، رات دن بنی نوع انسان کی بہبودی کے کاموں میں مصروف رہتی ہے ، رات دن اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور اُس کا جلال دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے ، تو اگر ان سب کوششوں کے ساتھ کوئی غلطی بھی کسی مؤمن سے ہو جاتی ہے تو وہ جماعت کی جد و جہد اور قربانیوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کمزوری کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے.جیسے اگر کوئی بیمار ہوا اور لڑائی کی خبر سن کر وہ بیماری کے باوجود چار پائی سے اُٹھ کر میدان میں چلا جائے اور لڑ نا شروع کر دے تو چاہے وہ ایک گھنٹہ میں ایک ہی گولی چلائے تب بھی تم سب اُس کی تعریف کرو گے اور کہو گے یہ بیمار تھا مگر پھر بھی اس نے اس موقع سے پیچھے ہٹنا مناسب خیال نہ کیا.تو مؤمن نگاہ تو یہ کہتی ہے کہ میرے بھائی میں اگر ایک عیب ہے تو سو خو بیاں بھی تو ہیں.اس ایک کمزوری کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے شیطان سے جنگ کر رہا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے سراہا جائے اور اس کی خدمات کی تعریف کی جائے مگر جو منافق ہوتا ہے اُس کا قلبی لگاؤ چونکہ نہیں ہوتا اور محبت کا تعلق اُسے سلسلہ سے نہیں رہتا اس لئے وہ اس قسم کی بعض کمزوریوں کو دیکھ کر یہ کہنے لگ جاتا ہے اب پتہ لگا ان میں بھی فلاں فلاں عیب ہیں ، ان میں بھی یہ یہ نقص پایا جاتا ہے اور چونکہ اب اس میں کچھ غیریت آنے لگ جاتی ہے اس لئے اب وہ
خطبات محمود ۴۹۹ سال ۱۹۳۸ اپنی جماعت کا ذکر ان ان کے الفاظ میں کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے ان میں یہ نقص ہے، ان میں وہ عیب ہے.لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے، ترقیات ملنی شروع ہو جاتی ہیں ، طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور جماعت کی کمزوریاں دب جاتی ہیں ایسی حالت میں منافق بھی ساتھ چل پڑتے ہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے جلسوں میں بعض دفعہ جب نعرے لگائے جاتے ہیں تو چونکہ ایک رو جاری ہوتی ہے اس لئے جب اللہ اکبر کا نعرہ لگے گا تو ایک منافق بھی زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگا دے گا مگر جب اپنے گھر میں جائے گا تو چونکہ کی وہاں وہ رو نہیں ہوگی اس لئے وہ اپنے دل کو جذبات محبت سے بالکل خالی پائے گا.مجھے ان کی منافقین کی مجالس کی باتوں کا علم ہے.مجھے معلوم ہے کئی دفعہ ان میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں یہ عجیب قسم کا آدمی ہے.ہے تو بالکل بر امگر جب تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو ایسی تقریر کرتا ہے کہ ہمیں بھی اس کی باتیں کچی معلوم ہونے لگتی ہیں مگر جب ہم اپنے گھر میں آکر ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹی ہیں.یہی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مِّشَوْا فِيهِ، وَإِذَا اظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا، جب دین اُن پر زور سے حملہ کرتا ہے تو انہیں بھی کچھ روشنی نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ یہ باتیں جو پیش کی جاتی ہیں سچی ہیں.واِذَا اظْلَمَ عَلَيْهِمْ.مگر جب وہ خدا کے نور اور اس کے خلیفہ سے دور ہو جاتے ہیں تو قاموا پھر منافقت اُن میں آجاتی ہے.یا اس کی کے یہ معنے بھی ہیں کہ ترقی اور آرام کا زمانہ آئے تو ساتھ شامل رہتے ہیں مگر جب قربانیوں کا وقت آ جائے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں مگر اُن کے دلوں میں ایک حد تک ایمان ضرور ہوتا ہے.انہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ.ان کے دلوں میں ایمان بھی ہے مگر ساتھ ہی ایک مرض بھی ہے یعنی گوان کے اندر ایمان پایا جاتا ہے مگر ان کے دل مریض ہیں.عربی زبان کے لحاظ سے فی قلوبھم کے یہ معنے نہیں گے کہ یوں کی ایمان ان کے دلوں میں ہے مگر ایک مرض بھی ہے.ایمان گلیبتہ اُن کے دلوں سے گیا نہیں.چوتھی قسم کا منافق وہ ہوتا ہے جو یوں تو پکا مؤمن ہوتا ہے مگر اس کے اندر یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ نا واجب دوستی کرتا ہے.یوں وہ مؤمن ہوتا ہے پکا مؤمن مگر نا واجب دوستی کے مرض
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء میں وہ مبتلا ہوتا اور اپنے منافق دوست کو نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس محبت کے جوش میں اُسے اپنے کی دوست کا عیب بھی نظر نہیں آتا.ممکن ہے اسے عیب نظر آ جائے تو وہ اُسے چھوڑ دے مگر اُس کا دل کی ایسی غلط محبت کا شکار ہو چکا ہوتا ہے جیسے عشق کا جنون بعض لوگوں کو ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے منافق دوست کے عیب کو نہیں دیکھ سکتا بلکہ اس سے بڑھ کر وہ یہ کرتا ہے کہ اُس کے عیب کو خو بیاں سمجھتا ہے.جیسے سورۃ تو بہ رکوع ۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تو خَرَجُوا فِيكُمْ مَّا زَادُ وكُمْ إلا بالا ولا أو ضَعُوا خِلْلّكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ = وَفِيكُمْ سمعُون لهُم ، والله Y TO DOWNLOADULT KNET فرماتا ہے اگر یہ منافق لوگ ط تیرے ساتھ چلے بھی جاتے تو فساد پیدار کرنے کے سوا اور کیا کرتے ان کا بڑا کارنامہ یہی ہوتا کہ کسی کے آگے کچھ کہہ دیتے اور کسی کے آگے کچھ اور اس طرح ان میں لڑائی اور پھوٹ ڈال دیتے یا اگرلڑائی میں جاتے تو دشمن کو خبریں پہنچاتے رہتے.تو فرمایا اگر منافق نہیں گئے تو اس کی سے نقصان کیا ہوا.یہ تو اچھا ہوا کہ نہیں گئے.یہ جاتے بھی تو یہی کرتے کہ ایک کی چغلی دوسرے کی کے پاس اور دوسرے کی چغلی تیسرے کے پاس کرتے.ایک کے پاس جاتے اور اسے کہتے کہ تیری نسبت فلاں شخص یوں کہتا ہے اور اُس کے پاس جا کر کہتے کہ تیری نسبت فلاں یہ کہہ رہا تھا اور اس طرح آپس میں لڑائیاں کرا دیتے پس اچھا ہی ہوا جو یہ نہیں گئے.اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافق کوئی باہر کے نہیں بلکہ مدینہ کے رہنے والے ہی تھے.چنانچہ آیتوں کا مضمون صاف بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو مدینہ سے کچھ لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہوئے انہی کا خدا تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر کیا ہے ا اور کی انہی کو منافق قرار دیا ہے، پس یہ منافق وہی تھے جو مدینہ میں رہتے تھے.مسلمانوں کی کمیٹیوں کے ممبر تھے اور محلوں میں ان کے ساتھ رہتے تھے.اس کے بعد فرماتا ہے یہ منافق تو ہیں ہی مگر کی ان کے علاوہ بھی ایک اور جماعت ہے وَ فِيكُمْ سَمْعُونَ لَهُمْ تم میں ایک جماعت ہے جو تمہاری باتیں اُن تک پہنچاتی ہے.جب ذکر ہوتا ہے کہ فلاں شخص منافق ہے تو وہ جھٹ دوڑ کر اس کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ تم تو اتنے مخلص ہومگر دیکھو فلاں مجلس میں تمہاری نسبت لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ تم منافق ہو.ایسا شخص منافق نہیں ہوتا مگر منافق کی سواری ضرور ہوتا ہے.
خطبات محمود ۵۰۱ سال ۱۹۳۸ء اور منافق اس کے ذریعہ اپنے مقصود کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.یا جیسا کہ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ان کا نام الْمُرْجِفُونَ فِي المَدِينَة هلا رکھا ہے کہ منافق بات کرتا ہے اور یہ اس کی بات کو پھیلا دیتا ہے اور اگر مؤمن کوئی بات کریں تو ان کی بات منافقوں تک پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے تم تو بڑے اچھے ہو مگر ان لوگوں کو نہ معلوم کیا ہو گیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ تمہیں بدنام کرتے پھرتے ہیں.یہ آپ منافق نہیں ہوتا مگر منافق تک خبریں پہنچائے بغیر بھی نہیں کی رہتا.دوسری بات اس میں یہ پائی جاتی ہے کہ منافقوں کے اعتراضات کو پھیلاتا رہتا ہے.منافق کہتا ہے جماعت خراب ہوگئی ، اور یہ طوطے کی طرح اس فقرہ کو رٹنا شروع کر دیتا ہے اور جہاں بیٹھتا ہے کہتا ہے جماعت خراب ہو گئی جماعت خراب ہوگئی.پس یہ مؤمن تو ہے مگر بے وقوف اور جاہل مؤمن ہے.ایسا مؤمن ہے جو منافقوں کا ہتھیار ہے جب اس قسم کی باتیں کی کرنے کے نتیجہ میں گرفت کی جاتی ہے تو پکڑا یہ بے وقوف مؤمن جاتا ہے جو منافق کی بات کی طوطے کی طرح آرٹ کر ہر شخص کے آگے بیان کر رہا ہوتا ہے اور منافق دندناتا پھرتا ہے کیونکہ منافق کا یہی کام ہے کہ يُوَسْوِسُ فِي صُدُور النا میں لے وہ سینہ میں وسوسہ ڈال دیتا اور آپ پیچھے ہٹ جاتا ہے تو یہ چوتھی قسم کا منافق ہے اور گو یہ اصل میں مؤمن ہوتا ہے مگر اس کے اندر نفاق سے ہمدردی اور منافقوں کی دوستی پائی جاتی ہے.اس وجہ سے یہ بالکل ایمان کے کنارے پر کھڑا ہوتا ہے.بالکل ممکن ہے یہ مؤمن ہی رہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کوئی ایسا دھکا لگے کہ خود بھی نفاق کے گڑھے میں گر جائے اور اگر خود منافق نہ بھی بنے تب بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ منافقوں کی سزا پالیتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے لا تركنوا إلى الذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ، کلے دیکھو ظالموں کی طرف مت جھکو ور نہ تمہیں بھی آگ چھو جائے گی.یہ آیت بتاتی ہے کہ وہ جو ظالم نہیں وہ بھی بعض دفعہ ظالم کی دوستی کی وجہ سے جہنم میں چلے جاتے ہیں.پس یہ گروہ ایمان کے لحاظ سے منافق نہیں ہوتا مگر منافقوں کی دوستی اِس کا شعار ہوتا ہے اور اس وجہ سے زمرہ منافقین میں شمار کیا جاتا ہے.یہ وہ چار قسم کے منافق ہیں جن کا قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے.اب اگر تم ان چاروں کو مدنظر رکھو تو تمہیں کبھی دھوکا نہیں لگ سکتا.بسا اوقات صرف اتنا سمجھا جاتا ہے کہ منافق وہ ہوتا ہے
خطبات محمود ۵۰۲ سال ۱۹۳۸ء جوایمان کے بغیر داخل ہوتا ہے.یا منافق وہ ہوتا ہے جو گوایمان کے ساتھ ہی سلسلہ میں داخل ہوا ہوتا ہے مگر بعد میں گلی طور پر اس کے دل سے ایمان نکل جاتا ہے حالانکہ یہ صرف منافقوں کی دو قسمیں ہیں ورنہ ان کے علاوہ بھی منافقوں کی اور قسمیں ہیں.مثلاً ایک تو وہ منافق ہے جو عقائد میں ہمارے ساتھ متحد ہوتا ہے مگر اس کے دل میں بشاشت ایمان باقی نہیں رہتی اب اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ اعتراض کرتا رہتا ہے.جب اسے فائدہ پہنچے گا ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا اور جب اسے کوئی نقصان پہنچے گا وہ اعتراض کرنے لگ جائے گا.قرآن کریم کی میں ان کا بڑا لطیف نقشہ کھنچا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب لڑائی میں نقصان ہوتا ہے تو منافق کہتے ہیں ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے مگر ہماری بات تو کوئی سنتات ہی نہیں.ہم بہتیرے چینے چلائے کہ دیکھولڑائی کے لئے مت جاؤ مگر ہماری ایک بھی نہ سنی گئی.اس پر کمزور دل مؤمن سمجھتا ہے انہوں نے کہا تو تھا؟ معلوم ہوتا ہے یہ سچ کہتے ہیں.اور وہ یہ کی نہیں جانتا کہ انہوں نے محض مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے ارادوں کو پست کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے تھے خیر خواہی اور محبت کے لئے نہیں کہے تھے.تو کمزور ایمان والے منافقوں کی ایسی کی باتوں میں آجاتے ہیں اور اُن کو مخلص سمجھ کر اُن سے تعلقات رکھنے شروع کر دیتے ہیں حالانکہ منافق عملی طور پر سخت کمزور ہوتے ہیں اور اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے ہی جماعت کی ترقی میں ہمیشہ روکیں ڈالتے رہے ہیں.جہاں قربانی کا سوال آتا ہے وہاں یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ قربانیوں سے جماعت کی طاقت کو برباد کیا جا رہا ہے اور کمزور لوگ سمجھتے ہیں ان کے دل میں سلسلہ کا کس قدر درد ہے اور اگر کبھی کوئی قربانی نتیجہ خیز نہ ہو بلکہ جماعت کو اس کی وجہ سے کچھ نقصان پہنچے تو پھر تو پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں ہم نے نہیں کہا تھا اس قسم کی قربانیاں بے فائدہ ہیں حالانکہ جہاں جماعت کو دس بیس کا میابیاں ہوئی تھیں وہاں انہوں نے کونسا مشورہ دیا تھا.مگر جب کامیابی ہو تو اُس وقت تو منافق بالکل خاموش رہتا ہے اور جب کوئی نا کا می ہو تو کی بڑھ بڑھ کر باتیں شروع کر دیتا ہے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کی غرض محض جماعت کو بدنام کرنا ہے اور کوئی نہیں.اور اگر فرض بھی کرو کہ ایک کام کا نتیجہ اتنا اچھا نہیں نکلا جس قدرا چھے نتیجہ کی ہمیں توقع تھی تو اس سے حرج کونسا ہوا.کیا وہ یہ نہیں دیکھتا کہ رات دن جماعت ترقی کر رہی ہے
خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۳۸ء اور ہر روز اس کا قدم عزت اور شرف کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے.اس جن باتوں میں ہمیں کامیابی ہو رہی ہے کیا وہ باتیں ہم نے منافقوں سے پوچھ کر کی تھیں کہ نقصان کے موقع پر وہ اپنی ہمدردی جتانے کے لئے آگے آجاتا ہے.مگر اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ جب کوئی نقصان ہو تو پھر اپنی خیر خواہی جتانے لگ جاتا ہے اور جب کامیابیاں ہی کامیابیاں حاصل ہوں تو دل ہی دل میں جل بھن کر خاموش رہتا ہے.اسی طرح کی جن جن امور میں اس کی باتیں غلط ثابت ہوتیں اور جن قربانیوں کے متعلق اس کی رائے بالکل جی بیہودہ ثابت ہوتی ہے، انہیں تو کھا جاتا ہے مگر جب کوئی ایک آدھ بات درست نکلے تو اسے لے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے میں نے نہیں کہا تھا کہ اس سے نقصان ہوگا.تو چوتھی قسم کا منافق وہ ہے جو پورا مؤمن ہوتا ہے مگر منافق اُس کے دوست ہوتے ہیں اور ان کی غلط دوستی اختیار کر لینے کی وجہ سے سلسلہ کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور اُسے اپنے کی منافق دوست کی غلطی محسوس تک نہیں ہوتی اور وہ با وجود مؤمن ہونے کے مؤمنوں پر عیب لگاتا ہے.مؤمن خدا کی بات کہتا ہے تو وہ جھوٹ بول اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو کسی پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے.اس کے مقابلہ میں منافق اعتراض کرتا ہے تو وہ بیٹھا ہوا کہہ رہا ہوتا ہے سُبْحَانَ الله کیسا مخلص ہے سلسلہ کا اِس کے اندر کتنا درد ہے.تو دوستی کی وجہ سے منافق کی بُری بات بھی اُسے اچھی لگتی ہے اور مؤمن کی اچھی بات بھی اُسے بُری لگتی ہے.وہ ہوتا مؤمن ہے مگر نام اس کا منافقوں میں ہوتا ہے اور لا تركنوا إلى الذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَتَكُمُ النَّارُه کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کبھی کبھی وہ اس کی سزا بھی پالیتا ہے.اگر آپ لوگ میری اس تشریح کے بعد سمجھ لیں کہ منافقین کے چار گروہ ہوتے ہیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ بہت حد تک آپ غلط فہمیوں سے بچ جائیں.اب کئی دوستوں کو محض اس وجہ سے دھوکا لگ جاتا ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے فلاں شخص منافق ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا وہ وفات مسیح کا قائل ہے یا نہیں ، یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مانتا ہے یا نہیں، یا خلافت کا قائل ہے یا نہیں اور جب وہ دیکھیں کہ وہ وفات مسیح کا بھی قائل ہے، وہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی تسلیم کرتا ہے،
خطبات محمود ۵۰۴ سال ۱۹۳۸ء وہ خلافت کا بھی قائل ہے تو کہتے ہیں ہمارے بھائیوں کو غلطی لگی ہے وہ منافق نہیں ہے وہ تو تمام عقائد کو تسلیم کرتا ہے حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے فِي قُلُوبِهِمْ قَرَضٌ ہوں تو وہ مؤمن ہی ہیں مگر ان کے دلوں میں ایک مرض ہے.كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مِّشَوْا فِيهِ جِب کبھی سہولت اور آرام کا زمانہ ہوتا ہے تو آگے آگے چل دیتے ہیں.نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں.وإذا أظلم عَلَيْهِمْ قَامُوا ، مگر جہاں کوئی امتحان کا وقت آیا اور انہوں نے پیچھے ہٹنا کی شروع کر دیا قاموا وہ اُس وقت کھڑے ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمارا دل نہیں مانتا کہ ان قربانیوں سے کوئی فائدہ ہو.ایسے انسان کو اگر عقائد کے لحاظ سے تم دیکھو گے تو ضرور دھوکا کھاؤ گے اور دوسرں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنو گے بلکہ میں کہتا ہوں ایمان ہی نہیں عمل کو بھی اگر دیکھو گے تو تم یہ اندازہ نہیں لگا سکو گے کہ یہ منافق ہے.وہ نمازیں بھی پڑھے گا ، وہ روزے بھی رکھے گا ، وہ زکوۃ بھی دے گا ، وہ حج بھی کرے گا ، وہ چندے بھی دے گا ، وہ تبلیغ بھی کرے گا، وہ قربانیوں کے مطالبات میں بھی شامل ہوگا ، وہ جلسوں میں تقریریں بھی کرے گا ، اسی طرح وہ عقائد میں ہمارے ساتھ متحد ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کاماً مور سمجھے گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرے گا ، قرآن کریم کو سچا سمجھے گا ، خدا کو واحد اور لاشریک تسلیم کرے گا.غرض عقیدہ بھی اُس کا وہی ہو گا جو تمہارا ہے اُس کا عمل بھی وہی ہوگا جو تمہارا ہے مگر جو چیز اُس کے اندر منافقت ثابت کر رہی ہوگی وہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا دوست ہوتا ہے، وہ منافقوں سے محبت اور پیار رکھتا ہے اور اُن کی عزت اُسے اِس قدر منظور ہوتی ہے کہ وہ مؤمنوں کے تریاق کو پاخانہ سمجھتا مگر منافقوں کے پاخانہ کو تریاق سمجھتا ہے.ایسے منافق کو اگر تم عقائد سے پرکھنا چاہو تو کیا تم پر کھ سکتے ہو؟ یا ایسے منافق کو تم اعمال سے پرکھنا چا ہو تو کیا تم اُس کی منافقت کو پرکھ سکتے ہو؟ سوائے اس کے اور کسی چیز سے معلوم نہیں کر سکتے کہ وہ منافقوں کی حمایت کرتا ہے، وہ منافقوں کا دوست ہوتا ہے اور منافقوں کی بُری باتیں مؤمنوں میں پھیلا تا اور مؤمنوں کی آراء منافقوں تک پہنچاتا ہے ایسا شخص عقیدے کے لحاظ سے منافق نہیں مگر لا تركنوا إلى الذينَ ظَلَمُوا والا منافق ضرور ہے.وہ خود ظالم نہیں مگر ظالم کا معین اور مددگار ہے.اُن ظالموں کا معین و مددگار جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء کہ انہیں دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں ڈالا جائے گا اور چونکہ اُس نے اس جماعت کے لوگوں سے دوستی ترک کر دی جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید تھی اور ان کے ساتھ اُس کی دلی وابستگی نہ رہی اور بد قسمتی سے اُس کی دوستی اُن لوگوں کے ساتھ ہو گئی جو منافق تھے اور جن کے دلوں میں مرض پایا جاتا تھا اس لئے اب وہ اس دوستی کی وجہ سے ہمیشہ ان کا ساتھ دیتا ہے انہیں بڑا مخلص اور نیک قرار دیتا ہے اور اگر وہ کوئی اعتراض کریں تو کہتا ہے یہ تو اصلاح کی تی خاطر اعتراض کر رہے ہیں ان کی غرض کوئی فتنہ و فساد پیدا کرنا تھوڑا ہے.پس وہ اعتراض کا نام اصلاح رکھتے ، بد گوئی کا نام خیر خواہی رکھتے اور عیب چینی کا نام نصیحت رکھتے ہیں اور اسی کو قرآن کریم نے منافقت قرار دیا ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے منافقوں کو جب پکڑا جاتا ہے تو کہتے ہیں إنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ١٨ ہم تو صرف اصلاح کی نیت سے یہ باتیں کر رہے تھے حالانکہ اگر ان کا مقصد محض اصلاح ہوتا تو انہیں چاہئے تھا کہ نظام سلسلہ کے ذمہ داروں کے نوٹس میں وہ امر لاتے نہ یہ کہ الگ تھلگ بیٹھ کر اپنی مجالس میں ان باتوں کو بیان کرتے اور اس طرح لوگوں کے قلوب میں مختلف قسم کے وساوس پیدا کرتے.اگر ہماری جماعت کے دوست ان چاروں قسم کے منافقین کو اچھی طرح سمجھ لیں تو بہت سے فتنوں کا سدِ باب ہو سکتا ہے.مجھے ہمیشہ یہ حیرت ہوتی ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے جب بعض کو معلوم ہوتا ہے فلاں منافق ہے تو وہ اُس کے پاس جاتے اور اُس سے کسی مسئلہ کے متعلق کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسائل میں اُسے کوئی اختلاف نہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کو غلطی لگی ہے یہ تو حضرت مسیح موعود کو نبی مانتا ہے.پھر وہ دیکھتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ نمازوں میں بھی باقاعدہ ہے تو کہتے ہیں کہ اب یقین ہو گیا کہ ہمارے بھائیوں کو اس کے متعلق ضرور غلط نہی ہوئی ہے.پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ چندے دیتا ہے یا نہیں اور جب اُنہیں معلوم ہو کہ چندے بھی دیتا ہے تو پھر انہیں حق الیقین ہو جاتا ہے کہ وہ منافق نہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایک منافق ایسا بھی ہوتا ہے جو اعمال کے لحاظ سے ویسے ہی عمل کرتا ہے جیسے مؤمن اور عقائد کے لحاظ سے ویسے ہی عقائد رکھتا ہے جیسے مؤمن مگر پھر بھی منافق ہوتا ہے.آخر جب خدا نے یہ کہا ہے کہ وَ فِيْكُمْ سَمْعُونَ لَهُمْ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُن تک خبریں پہنچاتے ہیں تو اس فیکم کے یہ معنے تو نہیں ہیں کہ وہ مدینہ میں رہنے والے ہیں ، فیکم کے یہ معنی بھی نہیں کہ وہ تمہارے ساتھ لڑائیوں میں شامل ہونے والے ہیں بلکہ فیکفر کے یہ معنی ہیں کہ وہ بظا ہر تمہاری طرح نہایت پکے مسلمان ہیں ، وہ تمہاری طرح نمازیں پڑھتے ، تمہاری طرح روزے رکھتے ، تمہاری طرح زکوتیں دیتے ، تمہاری طرح حج کرتے اور تمہاری طرح جہاد میں شامل ہوتے ہیں.اگر اس ایک بات کی کو نکال دیا جائے جو اُن میں پائی جاتی ہے تو تم میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں ہوگا مگر لا تَرْكَنُوا إِلَى الّذینَ ظَلَمُوا کے حکم کی خلاف ورزی نے باوجود تم میں سے ہونے کے اُنہیں منافقوں میں شامل کر دیا ہے ورنہ عمل اُن کا وہی ہے جو تمہارا ہے، عقیدہ اُن کا وہی ہے جو تمہارا ہے.بعض نے کہا ہے چونکہ یہ آیت رستہ میں نازل ہوئی تھی اِس لئے اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر منافقوں تک پہنچا دیتے تھے.ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان معنوں کو لیا جائے تب بھی وہی بات آجائے گی جو میں نے بیان کی ہے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوئے ، انہوں نے جہاد میں حصہ لیا، وہ مسلمانوں کے دوش بدوش لڑے اور سب جانتے تھے کہ وہ منافق نہیں بلکہ مخلص ہیں سوائے اُن چندلوگوں کے جن کے متعلق یہ آیت نہیں اور جو درمیان میں ایک جگہ شرارتا بیٹھ گئے تھے باقی سب مخلص تھے قرآن کریم خود اس امر کی وضاحت کرتا اور فرماتا ہے تو خرجوا فيكُمْ مَّا زَادُوكُمْ إِلا خَبَالا کہ اگر منافق نکلتے تو تمہیں فائدہ تو کوئی نہیں پہنچتا البتہ نقصان ضرور ہو جاتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر منافق لڑائی میں شامل نہ ہوئے تھے پس فیكُمْ سَمْعُونَ لَهُمْ میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ منافق نہیں بلکہ مومن ہیں اور اگر ان میں نفاق ہے تو اتنا کہ وہ بدقسمتی منافقوں سے دوستی رکھتے ہیں.اُن تک مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے اور اُن کے اعتراضات طوطے کی طرح رٹ کر عام لوگوں میں پھیلاتے ہیں لیکن عام تعلقات منافقوں سے رکھنے کے باوجود وہ نمازیں پڑھتے ، وہ روزے رکھتے ، وہ زکوۃ دیتے ، وہ حج کرتے اور باقی تمام احکام اسلام کو بجالاتے ہیں لیکن باوجود ان احکام کی بجا آوری کے وہ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ
خطبات محمود ۵۰۷ سال ۱۹۳۸ منافقوں کی تائید کرتے اور اس طرح جماعت میں فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں.یہ منافق نہیں کی ہوتے مگر اس وجہ سے کہ منافقوں سے تعلقات رکھتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں منافقوں میں شامل کر دے یا وہی سزا ان پر بھی وارد کر دے جو اُس کے حضور منافقوں کے لئے مقدر ہے.پس میں منافقوں کی ان چاروں اقسام کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تم پہلی دو قسموں کے منافقوں کو پہچانتے ہو تو باقی دو کو بھی تلاش کرو.پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کس سُرعت سے تم پر نازل ہوتے اور تمہارے قدم کو کتنی جلدی میدان ترقی میں آگے سے آگے بڑھا دیتے ہیں.ایسے لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں اور وہ طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب ہمیشہ الہی سلسلہ ہوتا ہے اور اب بھی اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہی کامیاب ہوگا.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ منافقوں کی رُکاوٹوں کی وجہ سے وہ فتح جو احمدیت کو بیس سال میں ہوتی ہے وہ بجائے ہیں سال کے تئیں سالوں میں ہو مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ فتح نہ آئے لیکن کیا تم یہ پسند کرو گے کہ خدا تعالیٰ کا نور دس سال اور پیچھے جا پڑے؟ مجھے افسوس ہے کہ کئی نادان ہماری جماعت میں ایسے بھی ہیں جو یہ کہا کرتے ہیں کہ ان کی منافقوں کی ریشہ دوانیوں سے حرج کیا ہے جبکہ ہماری فتح یقینی ہے حالانکہ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ بے شک ہماری فتح یقینی ہے مگر ان کی کوششوں اور فتنوں کے نتیجہ میں یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ فتح جو دس سالوں میں ہونی ہے وہ بجائے دس سالوں کے بیس سالوں میں ہو اور اس طرح دس سال فتح میں دیر ہو جائے حالانکہ مؤمن تو ایک منٹ کی دیر بھی پسند نہیں کرتا کجا یہ کہ وہ دس یا بیس سال کی دیر کو پسند کرے.کیا اگر کسی کا اکلوتا بیٹا بیمار ہو اور ڈاکٹر اُس سے یہ کہے کہ وہ ہیں دنوں میں اچھا ہو جائے گا لیکن اسی دوران میں ایک اور ڈاکٹر آجائے اور کہے تم میرے ساتھ ٹھیکہ کر لو.اتنی فیس میں لوں گا اور اسے دس دن میں اچھا کر دوں گا تو کیا کوئی ایک باپ بھی ایسا ہو سکتا ہے جس کے پاس روپیہ ہو اور وہ پھر یہ پسند نہ کرے کہ اُس کا اکلوتا بیٹا بیس دنوں کی بجائے دس دنوں میں اچھا ہو جائے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر کسی شخص کے پاس روپیہ ہوگا تو وہ سینکڑوں روپے دے کر بھی یہ چاہے گا کہ اس کا بیٹا ہیں دن کی بجائے دس دن میں اچھا ہو جائے.مگر کیا تمہاری
خطبات محمود ۵۰۸ سال ۱۹۳۸ء یہ تمام سخاوت دین کے معاملہ میں بھی آکر یہی ظاہر ہوتی ہے اور تم کہتے ہو کہ اگر دس سال کی کی بجائے بیس سال میں اسلام کو فتح ہو جائے تو کیا حرج ہے.گویا تمہارے نزدیک دس سال کی دیری کوئی دیر نہیں.کہتے ہیں حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ تم اپنے معاملہ میں تو یہ پسند نہیں کرتے کہ ایک یا دو دن کی دیر بھی ہو مگر جب خدا تعالیٰ کے دین کا معاملہ آجائے تو کہنے لگ جاتے ہو کیا حرج ہے دس سال نہ سہی میں سال میں فتح ہو جائے گی.تم اپنے معاملات میں تو ہمیشہ نتائج کو پہلے دیکھنے کی کوشش کیا کرتے ہو، پھر تمہیں کیا ہو گیا کہ تم یہ نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ کا ور دنیا میں جلد سے جلد پھیلے اور درمیان میں جس قدر روکیں ہیں وہ دور ہو جائیں.ایک زمیندار کو اگر کوئی شخص کہے کہ تمہاری کھیتی چھ ماہ کی بجائے تین ماہ میں پک کر تیار ہو سکتی ہے اور میں اس کا ذمہ لیتا ہوں تو تم دیکھو گے کہ وہ فوراً اس کوشش میں لگ جائے گا کہ اُس وہ کی کھیتی کسی طرح جلدی پک کر تیار ہو جائے.پس ذاتی امور میں تو تم نتائج کو جلد سے جلد دیکھنے کے متمنی ہوتے ہو مگر جب خدا تعالیٰ کا معاملہ آجائے تو اُسے آخر سے آخر وقت تک ڈالنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو.یہ کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بے دینی کی کی رگ ہے جو تمہارے اندر پائی جاتی ہے.ورنہ جو شخص دین سے محبت کرتا ہے وہ تو کہے گا کہ میرا کام بے شک پیچھے پڑا ر ہے مگر خدا تعالیٰ کے دین کا کام نہ رُکے.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر تم اپنے ارد گرد نظر ڈالو تو تمہیں منافق بھی نظر آنے لگ جائیں گے.اور پھر تم منافقین کے کی فتنہ کی اہمیت کو بھی سمجھ سکو گے.تم ہمیشہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھا کرتے ہو کہ یہ خدا کا دین ہے اور آخر یہ کامیاب ہو کر رہے گا.بیشک یہ کامیاب ہو گا مگر کیا تم یہ پسند کرو گے کہ اس کی ترقی دس یا کچ میں سال اور پیچھے جاپڑے؟ اور اگر تم کہو کہ ہاں ہم یہ پسند کرتے ہیں تو تم مجھے معاف کرو مجھے تمہارے دین اور ایمان کے متعلق مشبہ پیدا ہو گیا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہے بغیر کی نہیں رہ سکتا کہ وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو منافقوں سے گھبرا جاتے ہیں.گھبرانے کی کوئی بات نہیں.منافق ہر الہی سلسلہ میں پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے رہیں گے اور منافقوں کو ظاہر کرنا اور منافقت کو کچلنا ہر مؤمن کا فرض ہے.نفاق کا مرض کوڑھ کی طرح ہوتا ہے.جس طرح کوڑھ پہلے تھوڑا ہوتا ہے اور پھر پھیلتے پھیلتے تمام جسم کو ماؤف کر دیتا ہے اسی طرح نفاق بھی کی
خطبات محمود ۵۰۹ سال ۱۹۳۸ آہستہ آہستہ انسانی قلب کو بالکل سیاہ کر دیتا اور اُس کے نور ایمان کو سلب کر لیتا ہے.پس نفاق کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود نفاق سے بچے بلکہ دوسروں کو بھی نفاق سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے اور کی منافقوں کو اُن کی تدابیر اور منصوبوں میں پوری طرح ناکام کر دے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو منافقوں کے پہچاننے اور اُن کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی طاقت اُنہیں بخشے کہ وہ منافقوں کا پوری طرح مقابلہ کریں تا دین اسلام کو جلد سے جلد فتح حاصل ہو اور خود اُن کے اندر ایسی یک جہتی اور اتحاد پیدا ہو جائے کہ دشمن ہزار وسو سے ڈالے وہ ان کے اتحاد اور یک جہتی کو توڑ نہ سکے وہ بُنیان مرصوص ہو کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوں اور ہر کمزوری اور ہر رخنہ اُس کے فضل سے دور ہو جائے.الفضل ۱۲ / اگست ۱۹۳۸ء) وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ 66 لبخارى كتاب النكاح باب المَرْوَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَبْتِ زَوْجِهَا النساء: ۳۵ بخارى كتاب الاذان باب الاذان لِلْمُسَافِرِينَ ( مفهواً).كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةً لَعَنَتْ اخْتَهَا، حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا، قَالَتْ أُخْرَيهُمْ لأوليهُمْ رَبِّنَا هَؤُلاء أَضَلُّونَا فَاتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ : (الاعراف: ۳۹) ترمذى كتاب البر والصلة باب مَا جَاءَ فى الْإِقْتِصَادِ فِي الْحُبّ وَ الْبُغْضِ مسلم كتاب المساقاة باب الأمرُ بِقَتْلِ الْكِلاب ك الكهف:٧٩ الماعون: ۵ تا ۷ البقرة:9 ١٠ التوبة: ٦٦ ال التوبة :٤٢ ٢ البقرة: ٢١ البقرة: التوبة: ۴۷ ۱۵ الاحزاب: ۶۱ الناس : ٦ ک هود : ۱۱۴ البقرة : ١٢
خطبات محمود ۵۱۰ ۲۶ سال ۱۹۳۸ خالق و مخلوق دونوں کے کامل مظہر بنو (فرموده ۱۲ اگست ۱۹۳۸ ء ) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ”ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے حواس رکھے ہیں.ایک وہ حواس ہیں جو اس کے تعلقات کو بیرونی دنیا سے قائم کرتے ہیں اور ایک وہ حواس ہیں جو اس کے تعلقات کو خو داس کے جسم کے اندرونی حصوں سے قائم کرتے ہیں.یہ دونوں قسم کے حواس اپنی اپنی جگہ پر نہایت ہی ضروری ہیں.جو حواس انسان کے اپنے نفس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ قائم مقام ہیں مخلوق کے اور جو حواس بیرونی دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ قائم مقام ہیں خالق کے.گویا انسان ایک مرکزی نقطہ ہے جس پر خالق کی طرف سے ایک وتر آکر گرتا ہے اور ایک مخلوق کی طرف سے آ کر گرتا ہے.وہ اپنے اندر الہی صفات کو بھی پیدا کرتا ہے اور عبودیت کرنے والے وجود جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دال ہیں ان کو بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جو شہہی یا تنز کی صفات کہلاتی ہیں وہ وہی ہیں جن سے خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے درمیان واسطہ ہوتا ہے اور خدائی صفات ان کے اندر آ کر اپنی قوتوں اور کی طاقتوں کو ظاہر کرتی ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور رحم کا وجود چاہتا ہے کہ کوئی اور ہستیاں ہوں جن پر رحم کرے اور جبکہ وہ رحم کرتا ہے تو ضروری ہے کہ رحم کے دو مقتضیات اس کے اندر پائے جائیں.یعنی وہ سننے والا بھی ہو اور دیکھنے والا بھی.تا اس کے رحم کی مستحق جو مخلوق فریاد
خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۳۸ء کر سکتی ہے اسے سن کر رحم کرے اور جو فریاد نہیں کر سکتی ان کی کسی فریاد کے بغیر ہی ان کی حالت کو دیکھ کر ان پر رحم کرے.پھر اس رحم کے تقاضا کے ساتھ رحم کا انتہائی حصہ ہدایت ہوتی ہے.یعنی جبکہ ایک ہستی یہ چاہتی ہے کہ دوسری کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اوپر لے جائے.رحمت کا ادنی مفہوم شفقت ہے یعنی تکلیف کو دور کرنا اور اس کے اعلیٰ حصہ میں ترقی دینے کی خواہش ہوتی ہے.ایک تندرست بچہ جسے کوئی بیماری نہیں اس کا معدہ بھی اچھا ہے، اسے کھانے کو بھی مل جاتا ہے ، دیکھنے کے لئے آنکھیں موجود ہیں اور نظارے بھی مہیا ہیں کان ہیں اور اس کے ایسے کی رشتہ دار بھی موجود ہیں جن کی باتیں وہ سن سکے اس کے لئے جسمانی طور پر کسی شفقت کا موقع نہیں کیونکہ اس کی ہر طبیعی ضرورت پوری ہے لیکن اس کی طبعی ضرورتوں کا پورا ہو جانا اسے کسی بلند مقام پر کھڑا نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے اور چیزوں کی ضرورت ہے جو اسے دوسری اشیاء سے ممتاز کر دیں ، اس کے طبعی مقام کو بلند کر کے اسے اوپر لے جائیں جسے دیکھ کر ہر شخص کہے کہ یہ اپنے طبعی مقام سے اوپر پہنچ گیا ہے اور اس طرح اس نے ایک امتیاز حاصل کر لیا ہے اور اس کے لئے تعلیم اور ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے.پس رحم کا آخری حصہ ہدایت ہے اور اس کا ادنیٰ مقام شفقت ہے.دوسرے کی کمزوری کو محسوس کرنا اور اسے دور کرنا یہ تو شفقت ہے لیکن جب کوئی کمزوری اور تکلیف نہ ہو تو اسے بلند مقام پر لے جانے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ احسان ہے اور اسے مکمل کرنے کے لئے کی صفت ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے.جس طرح شفقت کے پورا ہونے کے لئے سمع و بصر کی صفات ضروری ہیں ، اسی طرح احسان کے مکمل ہونے کے لئے ہادی ہونا ضروری ہے اور خدا ہادی ہے ، وہ ہادی بھیجتا بھی ہے اور خود بھی رہنما کی صورت اختیار کرتا ہے اور انسان کے آگے آگے چلتا ہے حتی کہ اسے وہ مقام حاصل ہو جاتا ہے کہ جس کے پانے سے وہ دوسروں سے ممتاز نظر آنے لگ جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ اُسے دوسری مخلوق سے کچھ امتیاز حاصل تھا اور وہ اپنے اندر کچھ الوہیت کی صفات بھی رکھتا ہے.ہدایت کا ظاہری نمونہ زبان ہے.زبان کی گفتگو سے انسان دوسرے کو ہدایت دیتا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے حرکت کی ضرورت ہے.عربی میں ہدایت کے تعین معنے ہیں.رستہ بتانا،
خطبات محمود ۵۱۲ سال ۱۹۳۸ء رستہ دکھانا.اور رستہ پر لیتے چلے جانا لے کبھی کوئی شخص تم سے رستہ پوچھتا ہے تم کسی کام میں مشغول ہوتے ہو یا طبیعت میں بخل کا مادہ ہوتا ہے یا احسان کا مادہ نہیں ہوتا.تم ہل چلا رہے ہوتے ہو یا لکڑیاں کاٹتے ہو تو وہیں سے منہ اٹھا کر کہہ دیتے ہو کہ اس طرف چلے جاؤ آگے دو رستے ہوں گے وہاں سے اس طرف ہو جانا.تم اسے رستہ تو بتا دیتے ہو مگر اپنی جگہ سے ہلتے نہیں ہو.اس سے ایک اجنبی آدمی جسے رستہ پانے کی مشکلات ہونگی اور جو اس علاقہ کا واقف نہ ہوگا اس کے دل کی گھبراہٹ دور نہ ہو سکے گی گوہ تمہارا ممنون ہوگا اسے خدشہ ہوگا کہ شاید کہیں بھول جاؤں اور وہ تسلی کے لئے بعد میں اگر کوئی اور شخص اسے ملے تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے کہ فلاں مقام کو کونسا رستہ جاتا ہے.لیکن اگر تمہارے اندر احسان کا مادہ زیادہ ہے یا تمہیں فرصت ہے اور نیکی کی طرف تمہاری طبیعت راغب ہے تو تم اسے کہتے ہو کہ بھائی جی آؤ میں رستہ دکھاؤں اور اس کے ساتھ جا کر عین اس جگہ اسے چھوڑ آتے ہو جہاں سے دھوکا لگ سکتا تھا اور پھر ا سے بتا دیتے ہو کہ سیدھے چلے جاؤ لیکن اگر منزل دور اور رستہ پیچیدہ ہے تو کچھ دور تک جا کر اسے پھر مشکل پیدا ہوگی اور وہ پھر پوچھے گا.اور تیسری صورت یہ ہے کہ اگر تمہیں مقدرت اور توفیق ہے طبیعت میں نیکی اور احسان کا مادہ بہت زیادہ ہے تو تم اس کے ساتھ ہو جاتے ہو اور گھر پہنچا آتے ہو اور دکھا آتے ہو کہ یہ جگہ ہے.مجھے یاد ہے جب ہم ولائت گئے تو ہم ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جہاں سے مسجد احمد یہ دس بارہ میں تھی.منتظمین کو بھی اس کا خیال نہ آیا کہ ممکن ہے ان کو یہاں پہنچنے میں دقت ہو.چنانچہ پہلی دفعہ جب ہم مسجد کی طرف چلے تو اتفاق کی بات ہے کہ ٹیکسی والا بھی وہ ملا جولنڈن کا نہیں بلکہ اور علاقہ کا رہنے والا تھا اور بڑے بڑے رستوں کے سوا چھوٹی گلیوں کا واقف نہ تھا.لنڈن کے رہنے والے ڈرائیور تو عام طور پر واقف ہوتے ہیں لیکن کی وہ نہ تھا اس لئے بڑی بڑی گلیوں تک وہ آ گیا لیکن جب مسجد دو تین میل کے فاصلہ پر رہ گئی تو وہ کی رستہ بھول گیا اب ادھر مسجد میں ہمارا انتظار ہو رہا تھا اور ادھر ہم ادھر اُدھر چکر لگا رہے تھے.کئی کی جگہ سے پوچھا مگر رستہ نہ ملا.ایک جگہ ایک شخص موٹر میں بیٹھا تھا اور اس کے پاس ایک شخص موٹر سائیکل پر سوار کھڑا اس سے باتیں کر رہا تھا.ٹیکسی کھڑی کر کے ڈرائیور نے اس موٹر والے سے رستہ دریافت کیا لیکن اسے معلوم نہ تھا موٹر سائیکل والا جانتا تھا اس لئے اس نے اسے تفصیل
خطبات محمود ۵۱۳ سال ۱۹۳۸ء کے ساتھ رستہ بتایا.مگر ڈرائیور چونکہ ناواقف تھا اس نے پھر جرح کی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ لنڈن کا ج رہنے والا نہیں معلوم ہوتا ہے اسے موٹر والے سے کوئی ضروری کام تھا کیونکہ اس نے اس سے کہا کہ آپ میرا انتظار کریں میں رستہ بتا آؤں.چنانچہ وہ دو تین میل تک ہمارے ساتھ آیا اور مسجد کے سامنے پہنچ کر اس نے بتایا کہ یہ ہے.تو تیسری شق اس کی یہ ہے کہ منزلِ مقصود پر پہنچا دیا جائے.پہلی شق میں تو صرف زبان ہی کام کرتی ہے مگر دوسری اور تیسری میں صرف زبان کام نہیں دے سکتی بلکہ اس کے ساتھ حرکت کی قابلیت بھی ضروری ہے.اگر پاؤں نہ ہوں تو صرف پہلی قسم ہدایت کی ہی ہے جو ہم اختیار کر سکتے ہیں.یہ نہیں کر سکتے کہ رستہ دکھاویں.یا رستہ پر لیتے چلیں کیونکہ ان دونوں شقوں کے لئے حرکت کی قابلیت درکار ہے جو انسان کے اندر لاتوں کے ساتھ ہوتی ہے.یہ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر فضل کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور یہ اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی تھ ہیں.وہ سمیع ہے یعنی سنتا ہے مگر کانوں سے نہیں ، وہ بصیر ہے یعنی دیکھتا ہے مگر آنکھوں سے نہیں ، وہ متکلم ہے یعنی بولتا ہے مگر زبان سے نہیں ، وہ حرکت کرتا ہے مگر پاؤں سے نہیں ، وہ پکڑتا ہے اور دیتا ہے گرفت کی طاقت رکھتا ہے مگر ہاتھوں سے نہیں.وہ اگر سننے والا نہ ہوتا تو فریا دکس طرح سنتا ، وہ اگر دیکھنے والا نہ ہوتا تو جمادات اور حیوانات کی حالت سے کس طرح آگاہ ہوتا ، اگر بولنے والا نہ ہوتا تو ہدایت کس طرح دیتا ، اگر چلنے والا نہ ہوتا تو ہدایت کے مقام پر کس طرح پہنچا تا ، اگر اس کے ہاتھ نہ ہوتے تو وہ مشکل کے وقت مدد کس طرح کرتا.جب ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ تمام وہ کام کر دیتا ہے جس کے لئے انسان کو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے.یہی وہ صفات الوہیت کی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ تعلق پیدا کر دیتا ہے اور یہ سب کامل طور پر انسان میں ہی پائی جاتی ہیں.باقی حیوانات میں سے بعض چلتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہوتے.جیسے بعض بندر، پکڑتے ہیں اور اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاتھ ہیں مگر ان کی زبان نہیں وہ چیز کو پکڑ تو لیں گے مگر اپنے خیالات تفصیلی طور پر بیان نہیں کر سکتے.یہ سب باتیں انسان ہی میں پائی جاتی ہیں تا وہ الوہیت کا مرکز ہو جائے اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنی قوتوں کو ظاہر کرتا ہے ، یہ بھی کرے.ورنہ ای
خطبات محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۸ء تھوڑی تھوڑی یہ طاقتیں تو سب میں ہیں.قرآن کریم نے سب سے پہلے بتایا کہ نباتات میں حسن ہے اور اب سائنس نے بھی اس کو تسلیم کر لیا ہے.قرآن کریم ہی سب سے پہلا کلام ہے جس نے یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں اور جوڑا ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حس موجود ہے.قرآن کریم نے ہر چیز کا جوڑا بتایا ہے گویا نہ صرف نباتات بلکہ جمادات میں بھی حسن ہے.اور اب سائنس کے بعض ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں اور بعض دھاتوں کے متعلق وہ مانتے ہیں کہ ان میں حسن ہوتی ہے.مثلاً ٹین کے متعلق مجھے یاد ہے میں نے پڑھا ہے کی کہ اس میں حسن کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے.امید ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ ان علوم کو پالے گی.تو بیرونی حواس کامل طور پر انسان میں پائے جاتے ہیں اور اگر غور سے دیکھیں تو اندرونی حصے بھی بیرونی میں موجود ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ تبلیغ کرو، چندہ دو یا بنی نوع انسان کی خدمت کرو تو سارا زور ہمارا ان صفات کے متعلق ہوتا ہے جو الوہیت کی ہیں یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کرتا کی ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ چندے دو تو گویا ہم یہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفت رزاق کے مظہر بنو اور جب کہتے ہیں تبلیغ کرو تو منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہادی بن جاؤ ، جب کہتے ہیں لوگوں کی خدمت کی کرو تو رحمن اور رحیم بناتے ہیں یہ سارے کام الوہیت کے ہیں اور یہ سب اچھے کام ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے کہ ہمارے یہ سارے کام الوہیت کے ہوں اور اپنے مقام کو ہم بھول ہی جائیں ہمیں یہ کبھی یاد بھی نہ آئے کہ ہم مخلوق ہیں.خدا تعالی خالق اور اللہ ہے اس لحاظ سے اس کی ذاتی صفات از لی طور پر کامل ہیں اور ان کی تکمیل کا بار اس پر نہیں لیکن ہم تو مخلوق ہیں ی اس لئے اپنی تکمیل کی طرف بھی ہماری توجہ ہونی چاہئے.خدا تعالیٰ تو آپ ہی آپ کامل ہے اسے تو یہ ضرورت نہیں کہ کہے میرے اندر کی فلاں چیز خراب ہے اسے درست کروں.وہ ازلی طور پر کامل ہے.لیکن ہمارے اندر تو مخلوق کی صفات بھی ہیں اور مخلوق کا انجن بگڑتا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندرونی حصوں کے مقابلہ پر بعض بیرونی حصے ایسے رکھے ہیں کہ جن سے یہ علم ہوتا ہے کہ جسم کے اندرونی حصہ میں کیا خرابی ہے.مثلاً ہماری زبان ہے یہ میٹھا بھی چکھتی ہے اور کڑوا بھی ، ترش بھی اور نمکین بھی لیکن بعض اوقات یہ آپ ہی آپ ہر چیز کو کڑ وا چکھنے لگتی ہے.یہ حالت بتاتی ہے کہ جسم کے اندر کوئی خرابی ہے اور یہ اندرونی حسن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.
خطبات محمود ۵۱۵ سال ۱۹۳۸ گویا ہماری زبان صرف باہر کی چیزوں کو ہی نہیں چکھتی بلکہ اندر کی حالت کو بھی محسوس کرتی ہے.زبان کے یہ مزے اپنی ذات میں بعض قوتوں پر دلالت کرتے ہیں.اگر یہ مزے قائم نہ رہیں تو ہم دوسرے لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیں گے کیونکہ جہاں میٹھا دینے کی ضرورت ہے نمکین دے دیں گے اور جہاں کڑوے کی ضرورت ہو ترش دے دینگے.تو یہ مزے خالی منہ کے مزے نہیں بلکہ انسان کے جسم کی اندرونی جتوں سے ان کا تعلق ہے.ذیا بیطیس کے مریض کو ہم شکر نہیں دیتے تو کیا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہے.یہ وجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ اس کی اندرونی خرابی ہے یا خون کی خرابی کی صورت میں ہم نمک نہیں دیتے ، یا نزلہ میں ترشی سے پر ہیز ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ زبان خواہش نہیں کرتی بلکہ زبان تو ایسی حالت میں زیادہ خواہش کرتی ہے ہم اس لئے نہیں دیتے کہ جسم میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی.تو مزے دراصل انسان کی اندرونی قوتوں پر دلالت کرتے ہیں.یہ بھی رنگوں کی طرح کی ہیں کبھی ہمیں سرخ رنگ پسند ہوتا ہے اور کبھی سبز.اسی طرح ان ذائقوں کا حال ہے.ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھ کچھ تاثیر میں رکھتا ہے.میٹھا اپنے ساتھ کچھ تاثیریں رکھتا ہے.جو کبھی اچھی اور کبھی بُری ہوتی ہیں.اسی طرح کڑواہٹ کی بعض تاثیریں ہیں.زبان کے ذائقہ کا کڑوا ہونا بتا تا ہے کہ معدہ میں نقص ہے اور کہ اسے کڑوی چیزوں کی ضرورت ہے.ڈاکٹری تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کڑوی اشیاء خون کی صفائی اور معدہ کی تقویت کا موجب ہوتی ہیں.اسی طرح میٹھا دل کی تقویت کا موجب ہے.جب ہم کسی چیز کو چکھتے ہیں اور اسے میٹھی پاتے ہیں تو ہمیں خیال ہوتا ہے کہ یہ دل کے لئے مفید ہوگی.تو اللہ تعالیٰ نے یہ ٹیسٹ TASTED) بتا دیئے ہیں اور مختلف چیزوں میں مختلف ذائقے رکھ کر ہماری اس طرف را ہنمائی کی ہے کہ ہم ان اشیاء کی تا شیروں کی سے فائدہ اٹھا ئیں.میٹھا کیا ہے یہ گویا ایک ٹریکٹ ہے، اشتہار ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں چیز میں یہ فائدہ ہے.کرواہٹ ایک ٹریکٹ ہے جو بتاتا ہے کہ اس چیز میں یہ خاصیت ہے اور ہماری زبان ان ٹریکٹوں کو پڑھنے والی آنکھ ہے.جس طرح حرفوں کو پڑھنے کے لئے آنکھ میں ڈیلا ہوتا ہے اسی طرح ہماری زبان مختلف اشیاء کی خاصیتوں کو پڑھنے کی آنکھ ہے.تو یہ خاصیتوں کو بتانے کی
خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۸ء کا ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.زبان کے ذائقوں میں تبدیلی سے ڈاکٹر اور اطباء کی اندرونی نقائص کا پتہ لگاتے ہیں.طبیبوں نے اس کے ماتحت انسانی طبائع کو کئی اقسام میں تقسیم کی کر رکھا ہے.دموی بلغمی سوداوی ، صفراوی وغیرہ.ڈاکٹروں نے ان کے اور نام رکھے ہیں مگر در حقیقت یہ انڈیکس ہیں جو مختصر طور پر انسان کی حالت کو بتاتے ہیں.آنکھ بیرونی اشیاء کو دیکھتی ہے مگر ساتھ ہی وہ اندر کی حالت کو بھی ظاہر کر رہی ہوتی ہے.کسی شخص کی آنکھیں سرخ ہوں تو ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ اس کے سر کی طرف دورانِ خون زیادہ ہے.بعض آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ اس شخص میں سل کا مادہ ہے.حضرت خلیفہ اول کی شناخت اس بارے میں قریباً سو فیصدی درست ہوتی تھی اور ہم جنہوں نے آپ سے طب پڑھی ہے اسے پہچانتے ہیں اور بہت حد تک اس بارہ میں ہماری تشخیص درست ہوتی ہے.تو آنکھ گو بظاہر بھی دیکھتی ہے مگر اندرونی حالت کا بھی پتہ دیتی ہے.جس طرح انسان کے ان حصوں کے سپرد بیرونی طور پر کچھ کام ہیں، کوئی دیکھتا ہے، کوئی سنتا ہے، کوئی سونگھتا ہے ، اسی طرح کی اندرونی طور پر بھی ان چیزوں کے سپر دمختلف کام ہیں اور وہ جسم کے بعض نقائص کو ظاہر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو فہرست مضامین کے طور پر بنایا ہے تا ان کو پڑھ کر پتہ لگایا جا سکے کہ اندر کیا نقص ہے.فرق صرف اس قدر ہے کہ کتابوں کی فہرست مضامین تو ہمیشہ یکساں حالت پر رہتی ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اس کتاب کے صفحہ ۱۹ پر فلاں مضمون ہے.اب خواہ اس صفحہ کو دیمک چاٹ لے، بیچ میں سے کوئی پھاڑ لے، وہ وہاں رہے یا نہ رہے فہرست میں یہ بات برابر درج رہے گی لیکن یہ ایسی فہرست ہے کہ جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے.انسان کی اندرونی کتاب کا ورق جو نہی الٹتا ہے فہرست بھی اس تبدیلی کو بتا دیتی ہے اور پھر یہ پہلے سے انسان کو آگاہ کرتا رہتا ہے کہ یہ خرابی ہونے والی ہے.انسان امراض سینہ کا شکار ہونے والا ہو تو بعض شخصوں پر مہینوں بلکہ سالوں پہلے نزلہ گرنا شروع ہو جاتا ہے جو اسے آئندہ آنے والے خطرہ سے آگاہ کرتا رہتا ہے.ایک قطرہ گرتا اور اسے بتاتا ہے کہ اندر کوئی خرابی ہو رہی ہے، دوسرا گرتا ہے اور بتاتا ہے.اسی طرح اگر جنون ہونا ہو تو بعض لوگوں کے پہلے ہی سے کان بہرے ہونے لگتے ہیں.اور گھوں گھوں ہوتی رہتی ہے.انسان سمجھتا ہے کہ کانوں میں خرابی ہے
خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۸ء حالانکہ یہ دماغ میں گھوں گھوں ہو رہی ہوتی ہے.تو یہ سب اعضاء ایسی فہرست ہائے مضامین ہیں جو اندر کا حال بتاتی رہتی ہیں.طب نے ابھی تک پوری ترقی نہیں کی ورنہ حواس خمسہ انسان کے اندر کی سب چیزوں کو دکھا دیتے.بخار کیا ہے جس طرح باہر کی چیزوں کو چھو کر ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ نرم یا سخت ہے، اسی طرح بخار یہ بتاتا ہے کہ اندر فلاں قسم کی خرابی ہوگئی ہے.کبھی ٹائیفائڈ اور کبھی ملیر یا کبھی کچھ، کبھی کچھ تو مخلوق کے اندرونی حواس بہت اہمیت رکھتے ہیں اس لئے میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اندرونی حواس بھی کچھ کم ذمہ داری والے نہیں کی ہیں اور ان کی طرف توجہ بھی ضروری ہے.ہم بیرونی حواس سے تعلق رکھنے والی باتوں پر بہت زور دیتے ہیں.بیشک ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دوسروں سے کہیں نماز پڑھو مگر اس کے ساتھ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ دیکھیں کہ ہمارا نفس بھی نماز پڑھتا ہے یا نہیں.اور دراصل مخلوق کا حصہ تو یہی ہے.ہم خالقیت کی جو چادر اوڑھتے ہیں وہ تو مانگی ہوئی ہے.جب ہم دوسرے سے کہتے کی ہیں کہ نماز پڑھو تو خدا تعالیٰ کا کام کرتے ہیں اور ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ بندہ ہونے کے لحاظ سے جو کام ہمارے ذمہ ہے وہ بھی ہوتا ہے یا نہیں.جو یہ ہے کہ دیکھیں ہمارا نفس بھی نماز کی پڑھتا ہے یا نہیں.ہم لوگوں سے کہتے ہیں چندہ دو یا خود دیتے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.کہ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ.اس لئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے نفس کو بھی چندہ دیتے ہیں یا نہیں.ظاہر ہے کہ نفس کو ہم روپیہ تو نہیں دے سکتے بیرونی دنیا کا چندہ روپیہ ہے لیکن اندرونی دنیا کا یہ نہیں ہو سکتا.اس کا خزانہ دل و دماغ میں ہے اور اس لئے نفس کا چندہ صحیح علم اور صحیح فکر ہے.جس طرح بیرونی دنیا کی تربیت کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے.اندرونی دنیا کے لئے صحیح فکر کی ضرورت ہے.منافقت بالعموم صحیح فکر نہ ہونے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کسی سے دوستی ہوئی اور اس کی نیکی کو دیکھ کر اس سے تعلق پیدا کر لیا اور اس طرح اپنے لئے ایک رستہ مقرر کر لیا جاتا ہے.اس کے بعد حالات میں خواہ کتنی تبدیلی کیوں نہ پیدا ہو جائے یہ اس رستہ پر ہی چلیں گے.اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم کسی شخص کو پکڑنے کے لئے دوڑتے ہیں.وہ شمال کی طرف بھاگ رہا ہے اور اس لئے اس کے پیچھے ہم بھی شمال کی طرف بھاگیں گے لیکن جب وہ اپنا رخ بدل کر
خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۳۸ مشرق کی طرف بھاگنے لگے تو ہمیں بھی چاہئے کہ اپنا رُخ بدل لیں اور اگر نہ بدلیں گے تو تمام دوڑ دھوپ رائیگاں جائے گی.تو انسانی حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور جب دوست کی حالت کی میں تبدیلی ہو گئی تو اسے چاہئے کہ اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی کرے اور اگر یہ نہیں بدلتا تو یہ اس کی بیماری کی علامت ہے.منافقت میں ترقی اور منافقت کی ترقی بھی صحیح فکر نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے.منافق اس سے فائدہ اٹھاتا اور دوسروں کو بھی اس مرض میں مبتلا کر دیتا ہے.یہ شکار ایسے ہی لوگ بنتے ہیں جو کسی کو اس کی نیکی کی وجہ سے دوست بناتے ہیں اور پھر کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس کی نیکی میں کوئی فرق آیا ہے یا نہیں حالانکہ کسی کے متعلق کبھی یہ اطمینان نہیں ہو سکتا کہ اُس کی حالت یکساں رہے گی.جس چیز کے متعلق ہم مطمئن ہو سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے لئے اس نے فرما دیا ہے کہ یہ نہیں بدلتا اور اس کے بغیر اگر کسی کے متعلق کوئی شخص مطمئن ہے تو ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ خود بھی کسی مرض میں مبتلا ہو جائے.پس نفس انسانی کا چندہ صحیح فکر ہے.ہر چیز کو اس ذریعہ سے دیکھو جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے.تمام علوم کی ترقی صحیح فکر سے ہوتی ہے.جو لوگ صحیح فکر کے عادی نہیں ہوتے وہ خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.کل ہی ایک نو جوان مبلغ میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں.میں نے کہا کہ میری نصیحت یہی ہے کہ صحیح فکر کی عادت ڈالو.میری ذاتی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دشمن کی بات کو یونہی غلط نہ قرار دے دوں بلکہ اگر وہ سچی ہو تو اسے سچی کہ دیتا کہوں اور غلط ہو تو اسے غلط اور اس وجہ سے جب میں غور کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے یہ توفیق دی ہے کہ اس کی تہہ کو پہنچوں اور بسا اوقات میں دیکھتا ہوں کہ وہ اتنی بُری نہیں ہوتی یا اتنی بے وقوفی کی نہیں ہوتی جتنی بظاہر نظر آتی ہو.جب میں فلسفیانہ رنگ میں اس پر غور کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہوں تو اس کی اہمیت مجھے نظر آجاتی ہے اس لئے میں اسے ٹالنے والا جواب نہیں دیتا بلکہ اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب دیتا ہوں اور یہ بات میری علمی ترقی کا موجب ہوتی ہے.جو شخص دشمن کی بات کو جھوٹا قرار دے کر اس کو ٹال دیتا ہے اس کے لئے قرآن کریم بھی نہیں گھل سکتا اس لئے کہ اس نے سوال کی صورت کو بگاڑ دیا اور بگڑ.ہوئے سوالات کا جواب قرآن کریم نہیں دیتا لیکن جب وہ اس پر غور کرتا ، سوچتا اور دیکھتا ہے کہ
خطبات محمود ۵۱۹ سال ۱۹۳۸ء اس کے اندر کیا باریکیاں ہیں اور پھر اگر دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ ایسا ہے جس کا جواب کوئی نہیں اور وہ سچ ہے تو اسے مان لیتا ہے ، تو اس سوال کا جواب اسے ضرور قرآن کریم سے مل جائے گا.پس صحیح فکر نہایت ضروری چیز ہے.اسی سے صحیح ہدایت پیدا ہوتی ہے اور یہی نفس کا چندہ ہے اور جو اس کی عادت نہیں ڈالتا وہ اپنے نفس کو بھوکا مارتا ہے.اسی طرح روزہ انسان کے نفس کو ترقی دینے والی چیز ہے اور ہما را صرف یہ فرض نہیں کہ دوسروں سے کہیں روزے رکھو بلکہ یہ ہے کہ خود بھی رکھیں مگر بہت کم لوگ ہوں گے جو روزے کی فرضیت کے قائل ہوں گے.تم کہو گے کہ یہ بات صحیح نہیں.اکثر لوگ اس کی فرضیت کے قائل ہی ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں کے روزے رمضان میں رہ جائیں ،ان میں سے کتنے پھر سال کے دوران بقیہ روزے رکھتے ہیں.یقیناً ایک بڑی تعداد نہیں رکھتی.خصوصاً عورتیں جو رمضان میں خاص ایام یا خاص حالات کی وجہ سے روزے نہیں رکھتیں وہ بہت کم بعد میں ان کی روزوں کو پورا کرتی ہیں.بدقسمتی سے مسلمانوں میں یہ خیال ہے کہ روزہ کی فرضیت صرف رمضان میں ہے ، حالانکہ یہ صحیح نہیں یہ سارے سال میں ہے.اور جو لوگ کسی وجہ سے رمضان میں روزے نہ رکھ سکیں ان کو سال کے دوسرے دنوں میں پورے کرنے چاہئیں لیکن بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں حالانکہ نفس کی اصلاح بہت ضروری ہے.اور ایک اہم فرض بلکہ عبودیت کے لحاظ سے نہایت ہی اہم فرض ہے.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تبلیغ بہت ضروری چیز ہے مگر یہ الوہیت کا فرض ہے ، عبودیت کا فرض وہ ہے جو انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہو مگر لوگ الوہیت کے اس فرض یعنی تبلیغ کو تو ادا کریں گے لیکن عبودیت کا فرض نظر انداز کر دیں گے.نمازوں میں سُستی کرتے ہیں، ذکر الہی کا رواج بھی لوگوں میں بہت کم ہے، جو دوست مسجد میں پہلے آ جاتے ہیں وہ لغو باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور اس طرح مل کر وقت ضائع کرتے ہیں اور اسی کے نہ ہونے سے طبائع میں شوخی ہوتی ہے.میرا تجربہ ہے کہ ذکر الہی نفس کی شوخی کو دور کرتا ہے اور اس کی کثرت تمسخر اور استہزاء سے بچاتی ہے.بعض لوگوں میں یہ عادت بد ہوتی ہے کہ وہ تمسخر کے رنگ میں قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ دیتے ہیں.یا دین کے کسی معاملہ میں جنسی کر دیتے ہیں، یا کسی بزرگِ دین کے ذکر پر استہزاء سے کام لیتے ہیں یہ سب باتیں ذکر الہی
خطبات محمود ۵۲۰ سال ۱۹۳۸ء کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور منافقت کی بنیاد ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَقْشَعِرُ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ لا ذكرِ الہی انسان کے اندر بری باتوں سے ڈر پیدا کرتا ہے ذکر الہی کرنے والا ہمیشہ بیہودہ اور لغو مذاق سے بچتا ہے.پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں نہ صرف الوہیت کے بلکہ وہ فرائض بھی ادا کرنے کا پورا پورا احساس ہونا چاہئے جو مخلوق ہونے کی حیثیت میں ہم پر عائد ہوتے ہیں.انسان کو اللہ تعالیٰ نے مرکب بنایا ہے اس پر ربوبیت کی چادر بھی ڈالی گئی ہے اور یہ مخلوق بھی ہے ربوبیت کی چادر اسے اعلی کمالات پر لے جانے کے لئے ہے لیکن جب تک نقائص دور نہ ہوں، ترقی ممکن نہیں.اعلیٰ مقام پر پہنچنا کیسے ہوسکتا ہے.تم میلوں لمبا غبارہ بنا دو اور اس میں گیس بھی بھر دو لیکن اس میں دو چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی اگر کر دو تو وہ اوپر نہیں جاتی سکے گا.اسی طرح جس شخص کی ذات میں کمزوریاں اور نقائص ہیں، وہ تو چھاج ہے، غربال شے ہے جس میں سے روحانیت نکل جائے گی.روحانی چیزیں تو ایسی باریک اور لطیف ہوتی ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے سوراخ سے بھی بہہ جاتی ہیں.پس جب تک ان سوراخوں کو بند نہ کیا جائے کوئی فائدہ نہیں.مخلوق ہونے کے لحاظ سے جو باتیں ہم پر فرض ہیں تکمیل کے لئے ان کا پورا کرنا بھی اشد ضروری ہے.بیہودہ جنسی مخول اور نمازوں میں ستی کو ترک کر دو ، پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھو ، ذکر الہی کرو، روزے با قاعدہ رکھو، پھر طوعی روزے بھی رکھو ، اپنے نفس کی اصلاح کے لئے جاگنے کی عادت ڈالو اور اس پر بوجھ ڈالو.ان باتوں سے صحیح تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے ربوبیت کا مقام آتا ہے اور یہی صحیح طریق ترقی کرنے کا ہے.ورنہ جو شخص سوراخ بند کرنے کے بغیر غبارہ میں گیس بھرتا ہے وہ اسے بلندی پر پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کی گیس باہر نکل جائے گی.پس ان دونوں حصوں کو مکمل کرو تا تمہارا نفس مکمل ہو اور تا تمہیں روحانی گیس اوپر اٹھا سکے.اسی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے کہ والعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه ل عمل صالح یعنی بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی نیکیاں اسے اوپر اٹھاتی ہیں اور گیس کا کام دیتی ہیں جو عمل بیرونی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں وہ الوہیت کا چندہ ہیں اور جو اپنی ذات کے لئے ہیں کی
خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۸ء وہ نفس کا چندہ ہیں اور جب تک یہ دونوں حواس مکمل نہ ہوں ترقی نہیں ہو سکتی.بعض لوگوں کی آنکھیں بیمار ہوتی ہیں وہ دیکھ تو سکتی ہیں مگر رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتیں.ریلوے کے امتحانات کے وقت یہ امر خاص طور پر دیکھا جاتا ہے کہ رنگ صحیح نظر آتا ہے یا نہیں.پہلے تو اس بیماری کا علم ہی نہ تھا یا علم تو تھا مگر یہ علم نہ تھا کہ کثرت سے لوگ اس میں مبتلا ہوتے ہیں.جب سے ریلوے کے امتحانات شروع ہوئے ہیں اس کی اہمیت ظاہر ہو گئی ہے.ریلوے میں اس کا خاص خیال کی رکھا جاتا ہے.تا ایسا نہ ہو کہ سرخ جھنڈی دکھائی جائے اور وہ اسے سبنر سمجھ لے اور اس طرح گاڑی کو ہی کہیں ٹکرا دے.چنانچہ ان امتحانوں کے بعد پتہ لگا ہے.کہ ایک خاصی تعدا دلوگوں کی ایسی ہے جو رنگوں کے پہچاننے میں غلطی کر جاتی ہے.اس طرح بعض دفعہ کانوں میں نقص ہو جاتا ہے.کسی اندرونی نقص کی وجہ سے جس کمزور ہو جاتی ہے اور انسان کا جسم بیمار ہوتا کی ہے.پس ان دونوں جنوں کی درستی جس طرح ظاہری جسم کے لئے ضروری ہے اسی طرح روحانی جسم کے لئے بھی ضروری ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے بیرونی حواس الوہیت والے افعال ہیں ان سے انسان کبھی رحمن بنتا ہے، کبھی رحیم کبھی مالک.بعض صفات اللہ تعالیٰ کی ایسی ہیں جو اپنی ذات میں مکمل ہیں.جیسے اللہ تعالی محی ہے اس کے زندہ ہونے کا مخلوق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اور بھی ایسی صفات ہیں جن کی حقیقت انسان پر نہیں کھولی جاتی اس لئے کہ ان کا واسطہ انسان کے ساتھ نہیں ہوتا.ان کو قرآن کریم نے مجمل الفاظ میں یہ کہہ کر بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر استویٰ کیا.اس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ایسی بالا طاقت ہے کہ اس حد تک ہی انسان کی نظر جاسکتی ہے اس سے اوپر نہیں.عرش ایک واسطہ ہے جس طرح انسان مخلوق اور خدا تعالیٰ کے درمیان واسطہ ہے اسی طرح عرش واسطہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذاتی کج صفات اور افادہ والی صفات کے درمیان.وہ جو صفات ہیں.ان کا رحمانیت اور رحیمیت کے ساتھ کیا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ کس طرح ازلی ابدی ہے.یہ ایسی باتیں ہیں جن کو انسان سمجھ کی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کا علم نہ انسان کو ہے نہ ہو سکتا ہے.ہاں جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کا مظہر انسان کو بنایا گیا ہے اور تکمیل کے لئے ہم سے دونوں باتوں کی امید رکھی گئی ہے.یعنی اپنی ذات کو بھی نقائص سے پاک کیا جائے اور دوسروں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک
خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۸ کرنے والے ہوں.چندہ دینا، تبلیغ کرنا، یہ ایسی نیکیاں ہیں جو الوہیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور نمازوں کو سنوار کر پڑھنا، ذکر الہی کرنا ہنسی ٹھٹھے سے بچنا ، روزہ رکھنا ، حج کرنا یہ ایسی نیکیاں ہیں جو نفس انسانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان کی تکمیل کئے بغیر انسان کبھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچ سکتا اور یہ ایسی عبادات ہیں جن میں دوسروں کا کوئی فائدہ نہیں.فکر کی صحت، خیالات کی پاکیزگی وغیرہ باتوں کی طرف بھی دوستوں کو ایسی ہی توجہ کرنی اہئے جیسی چندہ کی طرف.جو شخص صرف ان باتوں کی طرف توجہ رکھتا ہے جو دوسروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور اندرونی اصلاح کا فکر نہیں کرتا.اس کی مثال اس شخص کی ہے جو دوسرے کے گھر کی حفاظت کے لئے تو جائے مگر اپنے گھر کی فکر نہ کرے.دوسرے کے گھر کی حفاظت بھی اچھی بات ہے لیکن اپنے گھر کو تباہ کر لینا بھی درست نہیں.اگر انسان کا اپنا نفس خراب رہے اور بیرونی دنیا اچھی ہو جائے تو اسے کیا.جب نفس کی حالت درست نہ ہو تو سب سے پہلے اسے درست کرنا چاہئے اور پھر دوسروں کی اصلاح سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے.اگر تمہارے اندر الوہیت کا جلوہ نہیں یعنے تم دوسروں کو نہیں بچا سکتے یا دوسروں کا خیال تو رکھتے ہولیکن تمہارا اپنا نفس تباہی کی طرف جا رہا ہے تو تمہارا وجود ایک کافر کے وجود کی طرح ہے جو نہ اپنے کام آ سکتا ہے اور نہ دوسروں کے.مومن وہی ہے جو اپنی جان کو بھی بچاتا ہے اور دوسروں کو بھی.وہ الوہیت کا بھی مظہر ہوتا ہے اور عبودیت کا بھی.یہی اصل غرض ہے دنیا کے پیدا کرنے کی کہ ایسی مخلوق پیدا کی جائے جو ایک طرف خدا تعالیٰ کی مظہر ہو اور دوسری طرف عبود بیت کی.خدا تعالیٰ اپنی باریک مصلحتوں کے ماتحت چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جو الوہیت کی چادر اوڑھنے والے ہوں اور دوسری طرف مخلوق کا بھی کامل مظہر ہوں.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس امر کی طرف خصوصیت سے توجہ کریں کہ خالی چندے دے دینا یا تبلیغ کر دینا کافی نہیں.ہنسی اور ٹھٹھے کی عادت چھوڑ دو، نماز اور روزہ کو با قاعدگی کے ساتھ ادا کرو، جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لئے حج بھی ضروری کی ہے.بیسیوں ایسے ہیں جن کو حج کی توفیق ہے مگر وہ خیال نہیں کرتے.کئی ملازم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پنشن لے کر حج کو جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ پنشن پانے کے بعد زندگی پائیں کی
خطبات محمود ۵۲۳ سال ۱۹۳۸ء گے بھی یا نہیں.اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ پنشن کے بعد ایسے بیمار پڑتے ہیں کہ اس قابل کی ہی نہیں رہتے.یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے گا.اپنی نیت کا بدلہ وہ ضرور پائیں گے مگر ترقیات سے محروم تو رہ ہی جائیں گے.پنشن تو گورنمنٹ اسی وقت دیتی ہے جب اچھی طرح نچوڑ لیتی ہے اور بجھتی ہے کہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا.پھر بعض لوگ کاروبار کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال جائیں گے، پھر اس سے اگلے سال کا ارادہ کر لیتے ہیں حالانکہ دنیا کے کام تو ختم ہوتے ہی نہیں.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہو تو کر ہی لینا چاہئے.میں جب تعلیم کے لئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آؤں گا مگر یہ پختہ ارادہ نہ تھا کہ اسی سال حج کروں گا.یہ بھی خیال آتا تھا کہ واپسی پر حج کرلوں گا جب میں ممبئی پہنچا تو وہاں نا نا جان صاحب مرحوم بھی آملے وہ براہِ راست حج کو جا رہے تھے اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہو گیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کرلوں.جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز میں سوار ہو جاؤ کیونکہ یہ آخری جہاز ہے.گوج میں ابھی دس پندرہ روز کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے اس لئے خیال کیا جا تا تھا کہ ابھی کئی جہاز حاجیوں کے مصر سے جدہ جائیں گے.میرے ساتھ عبدالحئی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے مگر مجھے چونکہ حضرت کی مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز سے جاؤ ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہو جائے گی اس لئے میں نے پختہ ارادہ کر لیا.وہاں جو ایک دو اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہاز جائیں گے قاہرہ اور اسکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں اتنی دور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج سے رہ جانے کا خطرہ ہے اس لئے میں تو ضرور جاؤں گا.چنانچہ اس جہاز ران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اور اس نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ وہ جہاز کی آخری ثابت ہوا اور کمپنی والے اس سال اور جہاز حاجیوں کے نہ لے گئے.حج کے بعد جب میری نیت ہوئی کہ مصر چل کر عربی پڑھوں تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ قانون کے مطابق اب تین ماہ تک آپ مصر میں داخل نہیں ہو سکتے.اتنے میں مکہ میں ایسا ہیضہ پھیلا کہ ایسا نظارہ بہت
خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۸ کم لوگوں نے دیکھا ہوگا.انتہاء درجہ کی تباہی ہوئی.میں نے انفلوئنزا کی تباہی بھی دیکھی ہے.آپ بھی کئی بار بیمار ہوا ہوں مگر ایسا تکلیف دہ نظارہ کبھی نہیں دیکھا.ہاں تو مکہ پہنچ کر اس خیال سے کہ یہ مواقع کہاں ملتے ہیں میں نے وہاں تبلیغ شروع کر دی.مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی وہاں تھے مجھے اطلاع ملی کہ وہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ مباحثہ کیا جائے.ہمارے ایک رشتہ دار تھے جو نانا جان مرحوم کی ہمشیرہ کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے ماموں تھے وہ بھی اہلحدیث خیال کے تھے اور مولوی ابراہیم صاحب کے مداحوں میں سے تھے.وہ بھی کوشش کرتے تھے کہ مناظرہ ہو جائے.ان کا خیال تھا کہ یہاں با قاعدہ حکومت کوئی نہیں اگر مباحثہ ہوا تو لوگ انہیں مار ڈالیں گے اور اس طرح ایک کانٹا نکل جائے گا لیکن وہاں اہلحدیثوں کو لوگ سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.جب مولوی ابراہیم صاحب کی آمد کا چرچا ہوا تو انہیں خود وہاں سے جلد بھا گنا پڑا.شریف کے بیٹوں کے ایک استاد تھے جن کا نام عبد الستار تھا بہت شریف آدمی تھے.میں ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ میں خود بھی اہلحدیث ہوں اور یہ تعلیم کا کام میں اس لئے کرتا ہوں کہ چھپا رہوں اس پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے میرے خلاف کوئی شخص شرارت کرنے کی جرات نہیں کرتا.میری باتیں سن کر کہنے لگے کہ باتیں تو بہت معقول ہیں لیکن میرے سوا کسی اور سے یہ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں.میں نے ان سے کہا کہ آپ کسی کے ساتھ یہ باتیں کرنے میں ہمارے لئے زیادہ خطرہ سمجھتے ہیں اور اس لئے چاہتے ہیں کہ اس سے ہرگز یہ باتیں نہ کریں.وہ کہنے لگے کہ فلاں شخص سے ہرگز نہ کرنا.میں نے کہا کہ اسے میں تو پورا ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آیا ہوں.پوچھنے لگے.پھر کیا ہوا میں نے کہا کہ میں تبلیغ کرتا رہا اور وہ غصہ کا اظہار کرتا رہا.کبھی کبھی جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیتا کہ افسوس نہ ہوئی تلوار ور نہ سر اُڑا دیتا.اپنے جس رشتہ دار کا میں نے ذکر کیا وہ خوب شور مچاتے پھرتے تھے کہ یہ واجب القتل ہیں.یہ بھو پال کے رہنے والے تھے.ان کے ساتھ وہاں کے ایک اور شخص بھی جو بھو پال ہی کے رہنے والے اور نواب صدیق حسن خاں کے نواسے تھے شامل تھے.لیکن اُدھر ج ختم ہوا اور ادھر ہیضہ پھوٹ پڑا.ہمارا بھی ارادہ ہو گیا کہ جدہ چلے جائیں اور آخری ملاقات کے لئے ان سے ملنے کے لئے گئے.جب مکان پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ مکان پر لوگ جمع
خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۸ء ہیں ہنسل وغیرہ کا سامان ہو رہا ہے، افسردگی طاری ہے، پتہ کیا کہ کیا بات ہے تو معلوم ہوا کہ ان کو ہیضہ ہوا اور فوت ہو گئے.اور انہی دنوں ایک اور دوست سے ملنے گئے تو میں نے دیکھا کہ ایک ہندوستانی کو بعض لوگ کو ٹھے سے اٹھا کر نیچے گلی میں چھوڑ گئے.وہ تڑپ رہا تھا اس نے بتایا کہ میرے پاس کچھ روپیہ تھا جو ان لوگوں نے نکال لیا اور مجھے یہاں پھینک گئے ہیں.جہاں کی تک یاد ہے تھوڑی ہی دیر میں فوت ہو گیا.میں نے خود لاشوں کو کتوں کو چاٹتے دیکھا ہے.غرض کہ ایسی تباہی تھی جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حج کرانا تھا اس لئے یہ موقع مل گیا.ادھر ہیضہ پھوٹا اور اُدھر مصر جانے میں رُکاوٹ پیدا ہو گئی.اس پر میں نے واپسی کا ارادہ کر لیا.جدہ کے انگریزی قونصل خانہ میں بھی ہمارے ننھیال کے ایک رشتہ دار میر منشی تھے.بھوپال کے جس رشتہ دار کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تو نا نا جان مرحوم کی کے رشتہ داروں میں تھے اور یہ نانی اماں صاحبہ مرحومہ کے رشتہ داروں میں تھے.یہ ایک عجیب کی بات ہے کہ ہمارے جتنے رشتہ دار نانا جان مرحوم کی طرف سے تھے.وہ بالعموم مخالف تھے اور جتنے نانی اماں صاحبہ کی طرف سے تھے وہ بالعموم محبت کرنے والے تھے یہ غالباً ان کی خالہ کے لڑکے تھے اور بہت محبت کرتے تھے.جہاز چونکہ کم تھے اور لوگ جلدی واپس ہونا چاہتے تھے اس لئے ٹکٹ ملنے میں سخت دشواری تھی.ہم جب جدہ پہنچے تو ان سے کہا کہ جلد ٹکٹوں کا انتظام کر دیں تا پہلے جہاز میں واپس ہو سکیں.انہوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر میں بٹھا دیا یہ کمرہ بہت اونچا تھا.اتنے میں ایک دبلا پتلا آدمی نیچے آیا.میں کھڑکی میں بیٹھا تھا اور وہاں ہاتھ بمشکل اونچا کر کے پہنچ سکتا تھا ہجوم اور شور بہت تھا اور ہر طرف سے ٹکٹ ٹکٹ کا شور بلند ہو رہا تھا مگر وہ مجمع کو چیر تا پھاند تا کھڑکی کے نیچے پہنچا اس نے خیال کیا کہ شاید میں کمپنی کا ملازم ہوں.مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کمپنی میں کام کرتے ہیں.میں نے کہا میں تو مسافر ہوں تو پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں.میں نے کہا میرے ایک عزیز یہاں بٹھا گئے ہیں اور ٹکٹوں کی خرید کا انتظام کر رہے ہیں.اس پر وہ کہنے لگے کہ ہما را چالیس، پینتالیس عورت اور مردوں کا قافلہ ہے، بڑی مصیبت کا سامنا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کی ہے.اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عورتوں کو یہاں سے نکال دیں اور مردوں کے ساتھ جو گزرے گی کاٹیں گے.میں نے کہا کہ
خطبات محمود ۵۲۶ سال ۱۹۳۸ء عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی.اس پر وہ کہنے لگا کہ اگر دو چارا اور ٹکٹ لے دیں تو کچھ مرد بھی ان کے ساتھ جاسکیں گے اور آپ کی بڑی مہربانی ہوگی.ہمارے وہ جو رشتہ دار تھے ہم انہیں ماموں کہا کرتے تھے.میں نے ان سے کہا کہ ماموں ان لوگوں کی حالت قابلِ رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لا دیں.انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل ہے مگر میں نے اصرار کیا کہ وہ ضرور لا دیں اور میری خاطر لا دیں وہ گئے اور سترہ ٹکٹ لا کر دیئے میں نے وہ ٹکٹ کھڑکی میں سے انہیں پکڑا دیئے اور انہوں نے کھڑکی میں سے روپیہ پکڑا دیا.جب ہم جہاز پر سوار ہونے کے لئے گئے تو وہ دروازہ پر ملے بہت ممنونیت کا اظہار کیا اور بڑی تعریف کی اور جب میں نے ان کی تعریف پوچھی تو معلوم ہوا کہ یہ وہ دوسرے شخص تھے جنہوں نے ہمیں مروانے کی کوشش کی تھی اور جو کہتے تھے کہ ان کا یہاں آنے کا کیا حق ہے اس پر وہ بھی بہت شرمندہ ہوئے.غرضیکہ ہم حج کر کے واپس ہندوستان آگئے.مصر جانا محض ایک بہانا ہی ہوا اور اگر اس کی وقت حج نہ ہو جاتا تو اب جس قسم کے انتظامات کی ضرورت ہے نہ اتنا روپیہ ہوتا کہ یہ انتظامات ہو سکتے اور نہ حج ہوتا اور اب تو ممکن ہے اس ملک کی حکومت ہی اجازت نہ دے.تو کئی لوگ کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر وقت پر اسے پورا نہیں کرتے اور اس طرح ان کا نفس لنگڑا ہی رہ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وہ اس کی تعمیل نہیں کر سکتے.بہت لوگ گناہوں میں اس لئے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کے نفس میں قوت پیدا نہیں ہوئی ہوتی وہ الوہیت کے کام کرتے ہیں مگر اپنے نفس کو بھول جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے گڑھے میں گرتے ہیں کہ نکلا نہیں جاتا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں توفیق دے کہ ہم خالق کے بھی اور مخلوق کے بھی کامل مظہر بن سکیں.آمین‘ (الفضل ۲۵ را گست ۱۹۳۸ء) اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۳۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء وَ مِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ (الذريت:۵۰) مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء الزمر : ٢٤ غربال: چھاج.پیٹ کا ہلکا.کم ظرف فاطر:اا
خطبات محمود ۵۲۷ ۲۷ سال ۱۹۳۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک واضح پیشگوئی اور اس کا ظہور فرموده ۱۹ راگست ۱۹۳۸ ء ) * تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے تو وہ لازما آہستہ آہستہ دوسری صداقتوں پر بھی اعتراض کرنے پر مجبور ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جس قدر اعتراضات لوگوں نے کئے وہ سارے ایسے ہی تھے جو دوسرے انبیاء پر بھی پڑتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثال دیتے اور فرماتے کہ دیکھو یہ اعتراض تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتا ہے یا حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی پڑتا ہے یا حضرت موسیٰ علیہ السلام پڑتا ہے.تو وہ لوگ گالیوں پر اتر آتے اور کہتے کہ آپ انبیاء کی ہتک کرتے ہیں حالانکہ جب ایک شخص ایک صداقت کا مدعی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس کی کڑی کے طور پر پیش کرتا ہے تو لازماً حمد اس خطبہ کے متعلق بعض دوستوں کے خطوط مجھے ملے ہیں جن میں سے ایک نے یہ شکوہ کیا ہے کہ منافق تو جماعت میں بہت کم ہیں.کوئی ایک دو ہوں گے پھر آپ ایسے خطبے کیوں پڑھتے ہیں.اس طرح لوگوں کو خیال ہوتا ہے شاید بہت سے لوگ ہوں گے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو میں خود کہہ چکا ہوں کہ چند ہی لوگ ہیں لیکن کسی گندے خیال کی نسبت یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ایک کا ہے.اس کا رڈ کرنا آئندہ نسلوں کے لئے مفید ہوسکتا ہے اس لئے
خطبات محمود ۵۲۸ سال ۱۹۳۸ اسے دوسروں کی مثالوں کو پیش کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر اس کا فعل قابلِ اعتراض ہوگا تو دوسروں کی کے افعال کو بھی قابلِ اعتراض قرار دینا پڑے گا اور اگر دوسروں کے افعال کو درست سمجھا جائے گا تو اس کے کسی ویسے ہی فعل پر اعتراض کرنا بھی ناجائز ہوگا.بہر حال جن اصول کو وہاں تسلیم کیا جائے گا ان اصول کو یہاں بھی تسلیم کیا جائے گا مگر ان کا جواب یہ ہوتا کہ عوام الناس کو بھڑ کا دیتے اور کہتے مرزا صاحب انبیاء کی ہتک کرتے ہیں.آتھم کا جن دنوں مباحثہ تھا عیسائی کی ایک دن شرارت کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو جوش دلانے اور ہنسی مذاق کی ایک صورت پیدا کرنے کے لئے کچھ اندھے ، ٹولے اور لنگڑے جمع کر کے لے آئے اور انہیں ایک گوشہ میں چھپا کر بٹھا دیا اور تجویز یہ کی کہ ہم مرزا صاحب سے کہیں گے کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے لنگڑوں اور ٹولوں پر ہاتھ پھیر تے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے.اب ہم نے آپ کو تکلیف سے بچالیا ہے اور یہ کچھ کو لے لنگڑے اور اندھے جمع کر کے لے آئے ہیں آپ بھی ان پر ہاتھ پھیریں اور انہیں اچھا کر کے دکھا ئیں ، اگر آپ کے معجزہ سے یہ اچھے ہو جائیں گے تو ہم آپ کو اپنے دعوی میں سچا مان لیں گے.میں تو اس وقت بچہ تھا شاید پانچ یا چھ سال میری عمر ہوگی مگر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل سے اور بعض دوسروں سے بھی جو اس واقعہ کے عینی شاہد تھے میں نے تمام باتیں سنی ہیں.آپ فرماتے جب ہم نے یہ بات سنی تو ہم سخت گھبرائے اور ہم نے کہا بس اب بڑی ہنسی ہوگی ، جواب تو خیر د یا ہی جائے گا مگر عوام الناس میں اس کی وجہ سے بڑا جوش پیدا ہو جائے گا لیکن جس وقت انہوں نے اس امر کو پیش کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو دیکھنے والے (بقیہ حاشیہ: - ) میں جن باتوں کے متعلق ضروری سمجھتا ہوں خطبہ پڑھ دیتا ہوں.آخران چند منافقوں کے لئے قرآن کریم میں کثیر آیات اُتری ہیں میرے تو سارے خطبے ایک آیت کی برابری نہیں کر سکتے.ایک صاحب نے یہ لکھا ہے کہ لوگوں کو شبہ پیدا ہوا ہے کہ یہ خط صلاح الدین رشید کا اپنا ہے اس کا ازالہ کیا جائے.میں اس کا بھی ازالہ کرتا ہوں کہ یہ صلاح الدین صاحب رشید کا خط نہیں.کیونکہ جب وہ قادیان سے باہر تھے تب بھی ایسے خط قادیان کی مہر سے ملتے رہتے تھے.ان کے دوستوں میں سے کوئی ہو یا نہ ہو یہ تو اللہ تعالیٰ جانے مگر ان کا خط یہ ہرگز نہیں ہوسکتا.منہ
خطبات محمود ۵۲۹ سال ۱۹۳۸ء جو اس وقت موجود تھے سناتے ہیں کہ عیسائیوں کے لئے سخت مشکل پیش آگئی اور انہوں نے چوری چھپے ان اندھوں ، ٹولوں اور لنگڑوں کو ایک ایک کر کے غائب کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ایک بھی ان میں سے باقی نہ رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے جواب میں لکھوایا کہ یہ دعوی کہ حضرت مسیح اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے،ٹولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے ان معنوں میں کہ وہ ظاہری اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے یا ظاہری ٹولوں اور لنگڑوں کو تندرست کر دیا کرتے تھے عیسائی دنیا کا ہے اور حضرت مسیح انجیل میں کی یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ تمام وہ معجزے دکھا سکے گا جو میں دکھاتا ہوں یا پس آپ نے فرمایا تم لوگ جو اس وقت مسیح کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے ہو تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر تو ضرور ایمان ہونا چاہئے ورنہ تم نمائندے کیسے ہو سکتے ہو بلکہ حق یہ ہے کہ تم میں ایک رائی کے دانہ سے بہت زیادہ ایمان ہوگا کیونکہ تم معمولی عیسائی نہیں بلکہ عیسائیوں کے پادری ہو اور اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برا بر بھی ایمان نہیں تو تم مسیح کے نمائندے نہیں ہو سکتے ، اس صورت میں تو تم بے ایمان ہو گے اور اگر تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر ایمان موجود ہے تو ہم آپ کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں اس تکلیف سے بچا لیا کہ ہم خودان اندھوں ، کولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر کے لاتے اور آپ سے کہتے ہیں کہ انہیں اچھا کر دیں ، اب یہ آپ کی کوشش سے خود ہی حاضر ہیں آپ ان پر ہاتھ پھیریں، یا پھونک ماریں اور انہیں اچھا کر کے دکھا دیں.دنیا کو خود بخو د معلوم ہو جائے گا کہ واقع میں آپ مسیح کے بچے پیرو ہیں اور انجیل میں ایمان اور صداقت کا جو معیار بتایا گیا تھا اس پر آپ پورے اُترتے ہیں کہتے ہیں.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جواب لکھوانا شروع کیا تو عیسائیوں نے ان اندھوں کولوں اور لنگڑوں کو کھسکا نا شروع کر دیا یہاں تک کہ اس پر چہ کے سناتے وقت وہ سب اندھے، کو لے اور لنگڑے غائب ہو گئے حالانکہ یہ صاف بات ہے اور انجیل میں بھی موجود ہے کہ حضرت مسیح سے یہود ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ.اگر واقع میں وہ اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے ، کولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو
خطبات محمود ۵۳۰ سال ۱۹۳۸ء دشمنوں کے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ.خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مطالبہ حضرت مسیح سے انہوں نے آخری زمانہ میں کیا ہے.اگر واقع میں وہ ایسے ہی معجزے دکھایا کرتے تھے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ تم مجھ سے یہ معجزات کا بار بار کیوں مطالبہ کرتے ہو میں نے اتنے اندھوں کو آنکھیں دیں، اتنے لنگڑوں کو تندرست کیا ، اتنے گولوں کو اچھا کیا اس کی سے بڑھ کر تمہیں اور کیا معجزہ چاہئے مگر وہ یہ جواب نہیں دیتے بلکہ جواب یہ دیتے ہیں کہ اس زمانہ کے بُرے اور حرام کارلوگ مجھے سے نشان طلب کرتے ہیں مگر وہ یا درکھیں کہ انہیں یونس نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.ہے یعنی اب تمہارے لئے یہی معجزہ ہوگا کہ تم میرے قتل کی تدبیریں کرو گے ، مجھے صلیب پر لٹکا کر مجھے ملعون ثابت کرنا چاہو گے ، مگر میرا خدا مجھے صلیب سے بچالے گا اور جس طرح یونس مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا اسی طرح میں بھی صلیب پر سے زندہ اُتروں گا اور یہی تمہارے لئے معجزہ ہو گا اس کے سوا اور کوئی نشان تمہیں نہیں دکھایا جائے گا.اگر واقع میں وہ اندھوں کو ظاہری آنکھیں دے دیا کرتے تھے ، کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے تھے ، کولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو وہ ہزاروں آدمیوں کو اپنے معجزات کے ثبوت میں پیش کر سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ اتنے ہزار اندھوں کو میں نے بینا بنایا، اتنے ہزا ر کولوں کو میں نے تندرست کیا ، اتنے ہزا رلنگڑوں کو میں نے اچھا کر کے کام کے قابل بنایا.مگر ا نا جیل میں باوجود ایسی عبارتوں کے موجود ہونے کے جن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت مسیح نے اندھوں کو بینا کیا ، کولوں اور لنگڑوں کو اچھا کیا، پھر وہ یہودی پوچھتے اور کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ دکھاؤ.جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ظاہری اندھوں کو بینا کرنے یا ظاہری مُردوں کو زندہ کرنے یا ظاہری کولوں اور لنگڑوں کو اچھا کرنے کا ذکر نہیں بلکہ روحانی مُردوں کے احیاء اور روحانی بیماروں کے اچھا ہونے کا بیان ہے اور روحانی مُردہ کے زندہ ہونے یا روحانی اندھے کے بینا ہونے کو کون تسلیم کرتا ہے.صرف وہی لوگ جن کے اندر ایمان ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ ایک شخص پہلے روحانی لحاظ سے مُردہ تھا مگر پھر زندہ ہو گیا ، پہلے روحانی لحاظ کی سے اندھا تھا مگر پھر بینا ہو گیا، مگر دشمن تو اس امر کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ دشمن تو یہ کہتا ہے کہ پہلے زندہ تھے اب مر گئے ہیں، پہلے یہ بینا تھے اور اب اندھے ہو گئے ہیں.پہلے یہ تندرست تھے
خطبات محمود ۵۳۱ سال ۱۹۳۸ء مگر اب کو لے اور لنگڑے ہو گئے ہیں.ہمارے نزدیک جب ایک غیر احمدی احمدی بنتا ہے تو پہلے وہ نابینا ہوتا ہے مگر پھر بینا ہو جاتا ہے مگر غیر احمدیوں کے نزدیک پہلے وہ بینا ہوتا ہے اور احمدی بن کر نا بینا ہو جاتا ہے.اسی وجہ سے ہم تو کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے لاکھوں روحانی مُردے زندہ ہو گئے مگر ایک غیر احمدی جب ہماری اس بات کو سنے گا تو وہ ہنس کر کہہ دے گا مرزا صاحب نے لاکھوں کو کافر مرتد اور دجال بنا دیا.پس ایسے معجزات سے ایک مؤمن تو فائدہ اٹھا لیتا ہے مگر غیر مؤمن فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اسی لئے حضرت مسیح علیہ السلام سے یہود کہا کرتے تھے کہ تم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا.آپ ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں تمہیں ہمیشہ یہی نظر آئے گا کہ میں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا اور تم میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ ایک دن تم مجھے مارنا چاہو گے تب خدا مجھے بچائے گا اور یہی کی تمہارے لئے میری صداقت کا ایک نشان ہوگا.تو ہر نبی پر یا راست باز پر یا ہر راستبازی پر جو بھی اعتراضات ہوں لازماً اُسی قسم کے اعتراضات دوسرے نبیوں ، دوسرے راستبازوں اور دوسری راستبازیوں پر بھی پڑتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ اس صداقت کو تسلیم نہیں کرتے حالانکہ الہی سنت یہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس قسم کا بنایا ہے کہ اس کا ہر دن پہلے دن کے مشابہہ ہے.حضرت آدم علیہ السلام پہلے نبی تھے جو آئے ، پھر حضرت نوح آئے ، پھر حضرت ابراہیم آئے ، پھر حضرت موسیٰ اور پھر حضرت عیسی آئے اور اسی طرح اور بہت سے انبیاء درمیانی زمانوں میں آتے رہے، یہ صرف چند معروف نام ہیں جو میں نے لئے ، اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور دوسرے ملکوں میں حضرت کرشن آئے ، حضرت رام چندر آئے ، حضرت زرتشت آئے لیکن ان سب کے حالات یکساں ملتے چلے جاتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کی کے دشمنوں کے حالات بھی آپس میں بالکل یکساں ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ کی یہ فرماتا ہے کہ انبیاء ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں ، وہاں یہ بھی فرماتا ہے کہ کفار بھی ایک کی دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.آ تواصوا بہ " کیا یہ کفار وصیت نامہ لکھتے چلے گئے تھے کہ جب اگلا نبی آئے تو اس پر بھی تم ایسا ہی اعتراض کرنا.پھر اگر کفار ایک.چلے جاتے ہیں تو منافق بھی ایک سے چلے جاتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ނ
خطبات محمود ۵۳۲ سال ۱۹۳۸ء نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اس طرح نفاق نہ کرو جس طرح موسیٰ کے زمانہ میں بعض لوگوں نے نفاق کیا اور آپ کو ان کے افعال سے اذیت پہنچی ہے مگر کر نے والوں نے اسی طرح نفاق کیا.پھر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ آیا تو وہی کچھ جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں ہوتا رہا اب ہو رہا ہے اور جس طرح پہلے منافق اعتراض کیا کرتے تھے اسی طرح موجودہ زمانہ کے منافق اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں.66 میں نے ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں منافقوں کی بعض علامات بتائی تھیں اور جماعت کے دوستوں کو سمجھایا تھا کہ منافق کون ہوتا ہے اور اس کی کیا کیا علامتیں ہوتی ہیں.اس پر مجھے ایک منافق کا ایک گمنام خط آیا.یہ شخص پہلے بھی کئی دفعہ ایسے خط لکھ چکا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ یہ مصری پارٹی کا کوئی فرد ہے مگر خطوں میں ہمیشہ مصری صاحب کو کمبخت مصری “ لکھا کرتا ہے لیکن بات وہی کرتا ہے جو مصری پارٹی کرتی ہے.پھر نہ معلوم اس کا کم بخت“ کہنا کیا معنے رکھتا ہے اگر تو وہ انہی میں سے ہے تو یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ ان میں سے ہوتے ہوئے کمبخت مصری لکھتا ہے.اور اگر ان میں سے نہیں تو یہ اول درجہ کا پاگل ہے کہ بات تو وہی کہتا ہے جو مصری پارٹی کہہ رہی ہے مگر پھر انہیں ”کم بخت کہتا ہے.تو کئی خطوط اس گمنام خط بھیجنے والے کے میرے نام آئے ہیں.میں کئی خطوط اس لئے کہتا ہوں کہ یہ خود بھی اپنے اس خط کی میں تسلیم کرتا ہے کہ پہلے جو خط آپ کو ملے ہیں وہ بھی میرے ہی ہیں.دوسرے ان تمام خطوط کا طرز تحریر آپس میں ملتا ہے.وہ اس خط میں اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے.دیکھو تم نے منافقوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا مگر تم نے یہ نہ سمجھا کہ منافقت کا دائرہ تم نے اتنا وسیع کر دیا ہے کہ اب کوئی مومن رہ ہی نہیں سکتا بلکہ ہر شخص پر نفاق کا شبہ ہوسکتا ہے.حالانکہ میرا مضمون کیا تھا ؟ میرا مضمون یہ تھا کہ منافق چار قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ ہوتے ہیں جو کسی ڈر یا لالچ کے ماتحت ایک مذہب میں داخل ہو جاتے ہیں ورنہ ایمان ایک دن بھی اُن کے دلوں میں داخل نہیں کی ہوتا وہ کفر کی حالت میں پیدا ہوتے ، کفر کی حالت میں اسلام میں داخل ہوتے اور کفر کی حالت میں ہی مر جاتے ہیں.اب بتایا جائے وہ کون سے مؤمن اور مخلص ہیں جو اس تعریف کے اندر آجاتے ہیں.آیا بعض مؤمن اور مخلص بھی ذاتی فوائد کے لئے الہی سلسلہ میں داخل ہو ا کرتے ہیں
خطبات محمود ۵۳۳ سال ۱۹۳۸ء اور آیا ان کے دلوں میں ایک دن بھی ایمان کبھی داخل نہیں ہوتا.پھر دوسری قسم منافقوں کی میں کی نے یہ بیان کی تھی کہ بعض لوگ ایمان کی حالت میں ایک مذہب قبول کرتے ہیں مگر بعد میں ان کی کے دلوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مرتد ہو جاتے ہیں.اس تعریف کے ماتحت بھی بھلا کونسا مخلص ہے جو آ سکے اور کونسے مخلصوں کو میں نے یہ تعریف کر کے منافق بنا دیا ہے.کیا مخلص بھی کبھی مرتد ہو ا کرتے ہیں یا وہ جو ایمان سے داخل ہوتے اور بعد میں مرتد ہو جاتے ہیں.انہیں منافقین کی بجائے سابقون الاولون اور انصار اور مہاجر کہنا چاہئے.پھر میں نے کہا تھا کہ منافقوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے اندر ایمان تو ہوتا ہے مگر ساتھ کفر بھی ہوتا ہے اور اس ایمان اور کفر کے ان پر دورے آتے رہتے ہیں.کبھی قربانیاں کرنے لگ جائیں گے اور کبھی ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے اور سلسلہ اور نظام پر اعتراض کرنے لگ جائیں گے.اس تعریف کے ماتحت بھی کوئی مخلص نہیں آ سکتا کیونکہ مخلص اور مؤمن کبھی ہمت نہیں ہارا کرتے اور ان پر انکار اور بُزدلی کا دورہ کبھی نہیں آیا کرتا.پھر منافقوں کا چوتھا گروہ میں نے اُسے قرار دیا تھا جو مؤمن کی بات کو بُراسمجھتا اور منافق کی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے تائید کرتا رہتا ہے.اب بتاؤ اس دائرہ میں بھی کو نسے مخلص آسکتے ہیں یا کونسے ایسے مؤمن ہیں جو اس تعریف کی زد میں آسکتے ہیں.اگر واقع میں کوئی مخلص ہے تو می وہ مخلصوں کی تائید کرے گا منافقوں کی تائید کس طرح کرے گا.اور اگر وہ منافقوں کی کی تائید کرے گا تو اُسے مخلص اور مؤمن سمجھنا غلطی ہوگا.غرض منافقین کی جو علامتیں میں نے بتائی تھیں ان میں سے کوئی بھی ایسی علامت نہیں جس سے مخلصین کے اخلاص اور مؤمنین کے ایمان کو اشتباہ کی نگاہوں سے دیکھا جا سکے.پھر جو کچھ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم سے بیان کیا تھا اگر اسے یہ باتیں بُری معلوم ہوتی ہیں تو وہ کی قرآن کریم سے یہ آیتیں نکال کر پھینک دے اور کوئی ایسا قرآن چھاپے جس میں یہ آیتیں موجود نہ ہوں.جس دن وہ ایسا قرآن چھاپ دے گا ہم سمجھ لیں گے کہ اب ہمیں منافقوں کی یہ تعریف نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر یہ آیتیں قرآن کریم میں رہیں گی اور ہمیشہ رہیں گی اور قیامت تک کوئی کافر اور منافق ان کو قرآن کریم سے نکال نہیں سکتا تو جب تک یہ آیتیں موجود ہیں،
خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۳۸ء ایسے لوگ منافق ہی رہیں گے اور کسی صورت میں منافقت کا داغ ان کے چہروں سے مٹ ط نہیں سکتا.آخر و رفیكُمْ سَمْعُونَ لَهُمُ ، ۵ قرآن کریم میں میں نے نہیں لکھ دیا.منافق قرآن کریم کے تمام نسخوں کو دیکھ لیں ان نسخوں کو بھی دیکھ لیں جو میری اس بیان کردہ تعریف کی سے پہلے کے چھپے ہوئے ہیں اور پھر دیکھیں کہ آیا ان نسخوں میں یہ آیت ہے یا نہیں اور جب ہے تو وہ خود ہی سوچیں کہ اس میں میرا کیا دخل ہوا.انہیں اگر اعتراض کا شوق ہے تو وہ خدا پر کریں کی کہ اس نے کیوں نَعُوذُ بالله ایسی جھوٹی بات قرآن کریم میں لکھ دی جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور جسے موجودہ منافق غلط قرار دے رہے ہیں.اس نے آپ ہی آپ ایک بات قرآن کریم میں لکھ دی حالانکہ اسے چاہئے تھا کہ وہ پہلے ان منافقوں سے مشورہ لیتا اور پوچھتا کہ منافق کون کی ہوتا ہے پھر جو تعریف یہ بتاتے اسے قرآن کریم میں نازل کرتا.لیکن اس قدر اعتراضات کی کرنے کے باوجود ہر خط میں بڑا اخلاص بھی ظاہر کیا ہوا ہوتا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ ہم سلسلہ کے کی خادم ہیں مگر اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہوا ہے اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں، اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا.پھر لکھا ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض نہیں کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے جو ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے.اس اعتراض سے پتا لگتا ہے کہ یہ شخص پیغا می طبع ہے اس لئے کہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں.تو جب کوئی شخص ایک سچائی پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً دوسری سچائیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے.مثلاً مصری صاحب کو سب سے پہلے میری خلافت میں نقائص نظر آئے.اب اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل پر بھی ان کا حملہ ہو کیونکہ جس طرح میں خلیفہ ہوں اسی طرح وہ بھی خلیفہ تھے ، جس طرح میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے کسی انسان نے نہیں بنایا اسی طرح آپ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے.اور کسی
خطبات محمود ۵۳۵ سال ۱۹۳۸ء انسان کی یہ طاقت نہیں کہ مجھے خلافت سے معزول کرے.پھر آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میری خلافت پر اعتراض کرے گا وہ ابلیس بن جائے گا اور جب میں مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اُس کو آپ کھڑا کرے گا.پس جب انہوں نے بھی یہی باتیں کہی ہیں تو معترض اپنے دل میں سوچتا اور کہتا ہے اگر حضرت خلیفہ اول کی باتیں صحیح تھیں تو موجودہ خلافت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اگر موجودہ کی خلافت قابلِ اعتراض ہے تو حضرت خلیفہ اول کی خلافت بھی باطل ہے اور چونکہ اس کے دل کی میں بغض ہوتا ہے اس لئے وہی اعتراض جو وہ مجھ پر کرتا ہے حضرت خلیفہ اول پر بھی کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی خلات کا بھی منکر ہو جاتا ہے.پھر اس سے اوپر جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں کو دیکھتا ہے جو آپ نے میرے متعلق فرمائیں ، آپ کی ان دعاؤں کی کو پڑھتا ہے جو آپ نے میرے لئے اور اپنی باقی اولاد کے لئے کیں ، تو اسے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بھی غلط ہی ہیں.وہ پیشگوئیاں سنتا اور کہتا ہے کہ یہ پوری نہیں ہوئیں اور دعاؤں کا ذکر سنتا ہے تو کہتا ہے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں بیشک کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں.ان کم بختوں کی دعائیں تو قبول ہو جائیں لیکن اگر دعائیں قبول نہ ہوں تو خدا کے مسیحی اور اس کے نبی کی ! اپنے متعلق تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بار بار کہتے ہیں ہم دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غلبہ دے گا اللہ بچوں کی سنتا ہے.مگر کیا مسیح موعود ہی نَعُوذُ بِالله احرار کے اقوال کے مطابق کذاب اور دجال تھا کہ خدا نے اس کی دعاؤں کو نہ سنا.وہ سنتا ہے تو انہی منافقوں کی اور بد باطنوں کی.پھر لکھنے والا مجھے لکھتا ہے تم نے جماعت سے نذرانے وصول کر کے اسے غریب کر دیا.تم اس وقت یہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو ، کیا تم میں سے کوئی ایک شخص بھی قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ میں نے کبھی ایک پیسے کا بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہو.میرا طریق ہمیشہ یہ ہے کہ بعض دوست میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم فلاں چیز آپ کے لئے لانا چاہتے ہیں وہ کس سائز کی ہو.مثلاً بوٹ کا کیا سائز ہو، یا جرا میں کس سائز کی ہوں مگر میں کبھی انہیں جواب نہیں دیتا سوائے اس کے کہ بعض دفعہ کوئی پیچھے پڑ کر پاؤں کا ناپ لے لے تو میہ دوسری بات ہے.ورنہ میں نے کبھی کسی کو بھی ایسی باتوں کا جواب نہیں دیا بلکہ بعض تو کئی کئی
خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۳۸ء خط لکھتے ہیں اور جب میں جواب نہیں دیتا تو وہ شکایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں شاید میں ان کے خطوں کا اس لئے جواب نہیں دیتا کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہوں حالانکہ میں جواب اس لئے نہیں دیتا کہ یہ بات میری طبیعت کے خلاف ہے اور میں اسے بھی سوال کا ایک رنگ سمجھتا ہوں.ہاں اگر کی کوئی دوست خود بخود کوئی تحفہ دے جائے تو میں اسے رد بھی نہیں کرتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ایسے تحائف قبول فرمالیا کرتے تھے.آپ نے فرمایا بھی ہے کہ بِغَيْرِ اَشْرَافِ نَفْسٍ بغیر نفس کی خواہش کے اگر کوئی شخص تحفہ دے تو اُسے قبول کر لو بَارَكَ الله لكَ فِیهِ اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے اور رسول کریم صلی اللہ کی علیہ وسلم خود بھی ایسے تحائف قبول کر لیا کرتے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت نہیں کیا کرتے تھے آپ کی کوئی جائداد نہیں تھی.پھر آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں کوئی اجر نہیں مانگتا.ایسی صورت میں صحابہ میں سے اگر کوئی اپنی مرضی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حج خدمت میں ہدیہ کچھ پیش کرتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے کے اور اگر کوئی آپ ہی اپنی مرضی سے خدمت کرتا اور پھر اس کا احسان جتاتا ہے تو اس سے زیادہ گندہ اور کمینہ شخص اور کون ہوسکتا ہے اور کب اسے کہا گیا تھا کہ کچھ دو.اسی طرح میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ مجھے کچھ مت دو اور اگر کوئی مجھ سے کچھ لانے کے لئے پوچھتا بھی ہے تو میں اس کا جواب نہیں دیتا.ایسی حالت میں بغیر میری خواہش کے اگر کوئی شخص مجھے نذرانہ دیتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے دیتا ہے میں نے کبھی کسی سے نذار نہ نہیں مانگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں سیالکوٹ کے ایک زمیندار دوست نے میرے ہاتھ پر چونی رکھ دی مجھے یاد ہے کہ اس وقت شرم کے مارے میرا جسم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میں اس مجلس سے بھا گا اور سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی خدمت میں پہنچا اور وہ چونی آپ کے سامنے پیش کر دی اور شکوہ کی کیا کہ ایک شخص نے آج میرے ہاتھ پر یہ چونی رکھ دی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مجھے اس کا فعل اچھا نہیں لگا.فرمایا تمہیں اس کی کے جذبے کی قدر کرنی چاہیئے اس نے جو کچھ کیا ہے محبت کے ماتحت کیا ہے، تمہاری ہتک کرنے کے خیال سے نہیں کیا.حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے کچھ دے تو وہ لے لو.
خطبات محمود ۵۳۷ سال ۱۹۳۸ء چنانچہ اب اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے مجھے کچھ دے دے تو میں لے لیتا ہوں ورنہ مانگنے کے لحاظ سے کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا ہو.باقی رہے چندے سواگر میں نے اپنے لئے جماعت سے نذرانے لینے ہوتے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں چندے کم لگا تا تا جماعت کے پاس روپیہ رہے اور وہ نذرانوں میں مجھے دیتی رہے.کیونکہ میں خیال کرتا ہے اگر تمام روپیہ سلسلہ کے خزانہ میں چلا گیا تو جماعت غریب ہو جائے گی اور وہ مجھے نذرانے نہیں دے سکے گی.پس اس نقطہ نگاہ کے ماتحت مجھے چندے کم لگانے چاہئیں تھے مگر میرا زیادہ کی چندے مانگنا ہی بتاتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں سلسلہ کی خیر خواہی کے لئے کر رہا ہوں.پھر میں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض صرف مجھ پر ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام پر بھی اعتراض پڑتا ہے.دشمنوں کی تمام کتابیں اس قسم کے اعتراضات سے بھری پڑی ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کے زمانہ میں بعض منافق بھی اس قسم کے اعتراض کر دیا کہ کرتے تھے.لدھیانہ کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کے سامنے کہا کہ جماعت مقروض ہو کر اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتی ہے مگر یہاں بیوی صاحبہ کے زیورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتا ہی کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے کی فرمایا اس پر حرام ہے کہ وہ ایک جب بھی کبھی سلسلہ کے لئے بھیجے اور پھر دیکھے کہ خدا کے سلسلہ کا کیا بگاڑ سکتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس سے کبھی چندہ نہ لیا جائے حالانکہ وہ پرانا احمدی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے دعوئی سے پہلے بھی آپ سے تعلق رکھتا تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے زمانہ میں تو ایک بے دین اور بے ایمان شخص کے لئے اشتباہ کا موقع کسی حد تک پیدا ہو سکتا تھا کیونکہ نذرانہ کا رو پید اور لنگر خانہ کا رو پیدا کٹھا کی آتا تھا مگر ہمارے زمانہ میں ہر بات بھی نہیں.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے زمانہ میں میں لنگر کا افسر تھا اور یہ بات میں بھی جانتا ہوں اور دوسرے سب دوست بھی جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے گھر ہمیشہ لنگر.
خطبات محمود ۵۳۸ سال ۱۹۳۸ کھا نا جایا کرتا تھا مگر ہمارے گھر میں تو کبھی لنگر کا کھانا نہیں آیا.میری خلافت پر ابھی دو چار دن کی ہی گزرے تھے کہ میں نے اپنے گھر والوں کو نہایت سختی سے روک دیا اور کہا کہ لنگر سے کھانا کبھی نہیں منگوا نا لنگر تمہارا ذمہ دار نہیں.تم چاہو تو پہرے لگا کر دیکھ سکتے ہو کہ آیا یہ بات درست ہے یا نہیں اور آیا کبھی بھی ہمارے گھر لنگر خانہ سے کھانا آیا حالانکہ حضرت خلیفہ اول کے گھر ہمیشہ لنگر کا کھانا جایا کرتا تھا.صدر انجمن احمدیہ کے جو کارکن ہیں ان میں بھی بعض منافق ہیں وہ اور دوسرے منافق ہمت کر کے ایک لسٹ کیوں شائع نہیں کرتے جس سے ہر شخص کو یہ معلوم ہو سکے کہ میں جماعت کا کتنا روپیہ کھا گیا ہوں.اگر ان میں ہمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا دعویٰ درست ہے تو وہ ایسی لسٹ شائع کر دیں پھر لوگوں کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون درست بات کہہ رہا ہے اور کی کون غلط.میری تو یہ حالت ہے کہ میں سوائے اس رقم میں سے جس کے متعلق مجلس شوری نے میری عدم موجودگی میں فیصلہ کیا تھا قرض کے طور پر اخراجات لینے کے بطور امدا د انجمن سے ایک کی پیسہ بھی نہیں لیتا ، بلکہ کئی دفعہ میرے چندے ان رقموں سے بڑھ جاتے ہیں جو جماعت کے دوستوں کی طرف سے بطور نذرانہ وغیرہ ملتی ہیں.اسی طرح اُس نے لکھا ہے کہ آپ کو روپیہ دیتے دیتے جماعت غریب ہو گئی.چنانچہ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے حکیم نظام الدین صاحب کا لڑکا صلاح الدین رشید تو تعلیم سے محروم رہے مگر تمہارے لڑکے ولایت تک تعلیم حاصل کر آئیں یہ کونسا انصاف ہے حالانکہ ہمارے لڑکے اگر ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہیں تو اس کے خرچ کا بار جماعت ر جماعت پر نہیں پڑا بلکہ ہم نے اپنی زمینیں فروخت کر کے انہیں ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا ہے.پس میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے لڑکوں کے پڑھنے سے جماعت کیونکر غریب ہو گئی.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارے لڑکے پڑھیں اپنے خرچ پر اور غریب جماعت ہو جائے.ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہمارے تین لڑکے گئے ہیں اور تینوں کے لئے ہم نے اپنی زمینیں فروخت کیں.مرزا عزیز احمد صاحب کا لڑکا تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا تھا ت جو بے چارہ فوت بھی ہو گیا اس کے لئے انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی تھی.
خطبات محمود ۵۳۹ سال ۱۹۳۸ء میاں شریف احمد صاحب نے اپنے لڑکے کو بھیجا تو انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی اور میاں بشیر احمد صاحب نے اپنا لڑ کا بھیجا تو انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی صرف میں نے اپنے لڑکے کے لئے کوئی زمین نہیں بیچی مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس پر جماعت کا خرچ ہوا.اس پر بھی جماعت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا بلکہ بات یہ ہوئی کہ جب میرے بھائیوں نے اپنے لڑکوں کو ولایت بھیجنے کے خیال کا اظہار کیا تو ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست نے مجھے میرے لڑکے کے متعلق لکھا کہ چونکہ بڑے ہو کر اس نے دین کی خدمت کرنی ہے اس لئے میرا ارادہ کی ہے کہ اسے اپنے خرچ پر ولایت بھجوا دوں تا کہ اسے تجربہ حاصل ہو جائے.چونکہ پہلے لڑکوں کے لئے تو ہم نے زمینیں فروخت کرنی تھیں اگر اس کے لئے بھی کوئی زمین فروخت کی جاتی تو یہ بار مشکل سے سہارا جا سکتا اس لئے میں نے اپنے بچہ کو سمجھا دیا تھا کہ تم دل میں کوئی اور خیال نہ کی لا نا کہ اوروں کو تو ولایت بھیجا جا رہا ہے مگر مجھے نہیں بھیجا جاتا کیونکہ تمہارے بھائیوں کے جانے کی صورت میں ایک وقت اس قدر رو پیہ جمع نہیں کیا جاسکتا اور وہ بالکل اس پر خوش تھا.لیکن اس دوست نے لکھا کہ میری نیت یہ ہے کہ میں اپنا روپیہ خرچ کر کے آپ کے بچہ کو ولایت تعلیم دلاؤں اور اسے ولایت بھیجوں.تب میں نے انہیں لکھا کہ میری غیرت اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بچہ کے اخراجات آپ برداشت کریں.انہوں نے اصرار کیا اور کی بہت اصرار کیا جس پر آخر میں نے انہیں لکھا کہ اس شرط پر میں آپ کی تجویز مان سکتا ہوں کہ آپ کا جس قدر روپیہ خرچ ہو وہ آپ میرے ذمہ اپنا قرض سمجھیں جب خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا تو میں اسے اتار دوں گا.انہوں نے کہا بہت اچھا مجھے یہ بات منظور ہے.چنانچہ وہ ان کے خرچ پر ولایت گیا اور انہی کے خرچ پر تعلیم پاتا رہا.مجھے اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس پر ان کا کیا خرچ ہوا اور کس قدر وہ رقم اسے دیتے رہے پس میرے بچہ کے اخراجات وہی دوست برداشت کر رہے ہیں.انجمن کا تو ایک پیسہ بھی ہم پر حرام ہے.باقی اخراجات کے متعلق رجسٹرات موجود ہیں.وہ زمینیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کو ہم نے فروخت کیا ہے اپنے بچہ کے متعلق اس دوست کا نام میں ابھی ظاہر نہیں کرتا جنہوں نے اس کے تمام اخراجات برداشت کئے ہوئے ہیں.اگر کوئی شخص قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میں نے جو بات بیان کی ہے وہ غلط ہے
خطبات محمود ۵۴۰ سال ۱۹۳۸ء اور اس پر صدر انجمن کا روپیہ خرچ ہوا ہے تو میں اُس دوست سے کہوں گا کہ اب اگر آپ کا نام ظاہر کر دیا جائے تو اس میں آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.ان بینکوں کے نام جن کی معرفت اسے روپیہ جاتا رہا.روپیہ بھیجنے والے دوست کا نام اور اسی طرح کی اور تمام باتیں ہمارے علم میں ہیں اور ہم بوقت ضرورت ان کا اظہار کرنے کے لئے تیار ہیں.پس میں نہیں سمجھتا کہ جماعت اس وجہ سے غریب کس طرح ہو گئی اور اگر سلسلہ کے لئے چندہ لینے کی وجہ سے جماعت غریب ہو گئی ہے تو جیسے دوسروں سے میں نے چندہ لیا ہے اسی طرح خود بھی چندہ دیا کی ہے پس وہ غریب ہو گئے اور میں بھی غریب ہو گیا مگر دنیا کی نظر میں ہم غریب ہوئے خدا کی نگاہ میں غریب نہیں ہوئے بلکہ ہم میں سے ہر شخص جو مؤمن ہے سمجھتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کر کے مالدار بن گیا ہوں کیونکہ جب ہمیں اس کے رستہ میں اپنے اموال قربانی کرنے کی توفیق مل گئی تو یہی بڑی سعادت اور بڑی عزت ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان باتوں کے کہتے ہوئے شرم آتی ہے اور محض منافقوں کے کی اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کہنی پڑتی ہیں.ورنہ ہم نے جو کچھ دیا ہے اپنے خدا کے لئے دیا ہے، کسی بندہ کے لئے تھوڑا دیا ہے.میں نے اگر اس کی راہ میں کچھ روپیہ دیا ہے تو وہ میرے رب کی ایک چیز تھی اس نے مطالبہ کیا اور میں نے اس کا ایک حصہ دے دیا میں شرمندہ ہوں کہ میں نے سارا نہیں دیا اور جو حصہ دیا ہے اُس کا ذکر بھی میں کبھی نہ کرتا اگر منافق مجھ پر اعتراض نہ کرتے.تو وہ کہتے ہیں اور بار بار اپنے خطوں میں لکھتے ہیں کہ میں جماعت کا روپیہ کھا گیا.میں ان سے کہتا ہوں انجمن کے رجسٹر موجود ہیں کیا کوئی شخص ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے ایک پیسہ بھی کھایا ہے.کہا جاتا ہے کہ تم سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنی بیویوں کے لئے اور ہزاروں روپیہ ماہوار اپنے بچوں کے لئے لیتے ہو جماعت یہ روپیہ دیتی دیتی کنگال ہوگئی حالانکہ میں نہ سینکڑوں روپیہ بیویوں کے لئے لیتا ہوں نہ ہزاروں روپیہ بچوں کے لئے اور یہ جو کچھ کہا گیا ہے بالکل جھوٹ اور افتراء ہے.ہمارے چار بچے بیشک ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین کے لئے ہم نے اپنی زمینیں فروخت کیں اور ایک کو ایک دوست نے اپنے خرچ پر بھیجا.
خطبات محمود ۵۴۱ سال ۱۹۳۸ء پھر بعض لوگ ہم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے اپنے نفع کے لئے قادیان میں زمینوں کی قیمتیں بہت بڑھا رکھیں ہیں حالانکہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم نے زمین کی قیمتیں گرائی ہوئی ہیں، بڑھائی ہوئی نہیں.۱۹۱۴ء میں جب پہلی دفعہ محلہ دار الفضل کے لئے ہم نے اپنی زمین فروخت کی تو وہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے لئے کی تھی اور کی تین ہزار روپیہ اس طرح جمع کیا تھا.چنانچہ وہ زمین فروخت کر کے ہم نے پہلے پارے کا ترجمہ چھپوایا اور صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا.اس وقت بعضوں نے کہا بھی کہ آپ ابھی یہ زمین نہ بیچیں کچھ عرصہ کے بعد زمین کی قیمت بہت بڑھ جائے گی اس وقت فروخت کر دیں لیکن میں نے کہا کہ اول اس وقت قرآن کریم کی اشاعت کی ضرورت ہے اس کے لئے ہر قربانی کرنا ہمارا کی فرض ہے اور دوسرے قیمت کے زیادہ ہونے کا انتظار کرتے رہیں گے تو قادیان کی ترقی کس طرح ہو گی.چنانچہ اس وقت نہایت سستے داموں پر ہم نے یہ زمین فروخت کر دی.پھر لوگ کہتے ہیں زمینوں کے بارہ میں غیروں سے سختی کی جاتی ہے حالانکہ قادیان میں جس قد ر آبادی ہے اتنی آبادی اور کسی شہر میں ہو تو وہاں کبھی اس قیمت پر زمینیں نہ ملیں جس قیمت پر ہم یہاں دیتے ہیں.اور شہروں میں پھر کر دیکھ لیا جائے جتنی بستی قادیان کی ہے اتنی بستی اگر کوئی اور ہوگی تو وہاں یہاں کی نسبت بہت زیادہ زمین کی قیمت ہوگی.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ہندو چلے جاتے ہیں اور منڈیوں اور تجارت کی وجہ سے زمینوں کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے.ہم اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو قادیان میں زمینیں نہیں لینے دیتے حالانکہ اگر ہم اس پابندی کو اڑا دیں اور ہندوؤں کے لئے بھی زمین خریدنے کا رستہ کھول دیں تو دو سال کے اندر اندر موجودہ قیمتوں سے چار پانچ گنا قیمت بڑھ جائے.قادیان ایک بڑھتا ہو ا شہر ہے اگر ہم اجازت دے دیں تو سینکڑوں ہندو یہاں آکر آباد ہو جائیں.چنانچہ بیسیوں دفعہ سری گوبند پور اور بٹالہ وغیرہ کے سیٹھ اِس امر کی کوشش کر چکے ہیں کہ اُنہیں یہاں زمین مل جائے.ہندوؤں کے پاس روپیہ ہوتا ہے اس لئے وہ جہاں جائیں گے زمین کی قیمت بڑھ جائے گی.منٹگمری میں بعض چھوٹی چھوٹی جگہیں ہیں جیسے عارف والا مگر ان کی قیمتیں قادیان سے بہت زیادہ ہیں اور اگر ہم سلسلہ کے نظام اور احمدیت کے قیام کی خاطر یہ شرط نہ رکھیں کہ یہاں صرف احمدی ہی
خطبات محمود ۵۴۲ سال ۱۹۳۸ء.زمین خرید سکتے ہیں غیروں کو زمین نہیں دی جا سکتی تو جس ایکڑ کا آج ہمیں ہزار دو ہزار روپیہ ملتانی ہے اسی ایکڑ سے ہمیں دس ہیں ہزار روپیل جائے.یہ ایک ایسی سیدھی سادی بات ہے کہ جسے ذرا بھی تجربہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ صحیح ہے.یہاں منڈی کے لئے ہم نے تجویز کی تو پانچ سات ہندو ہم سے کہتے تھے کہ ہمیں یہاں کی زمین کا حق ملکیت دے دیا جائے ہم یہاں آنے کے لئے تیار ہیں مگر ہم نے دیکھا کہ اس میں سلسلہ کا نقصان ہے اس لئے انہیں کہا تم اگر چاہو تو کرایہ دار کی کی حیثیت سے رہو.حقوق مالکانہ ہم تمہیں نہیں دیں گے مگر وہ حق ملکیت لینے پر اصرار کرتے تھے اور اس طرح بات رہ گئی.حالانکہ اگر ہم سلسلہ کے مفاد اور اس کی ترقی کا خیال نہ رکھیں تو ہمیں بہت زیادہ قیمتیں ہندوؤں اور سکھوں سے مل سکتی ہیں تو ہمارے اس فعل کی وجہ سے ہماری زمینوں کی قیمتیں بہت گری ہوئی ہیں.ورنہ اگر دو سال کے لئے ہی ہم اس شرط کو اُڑا دیں اور کی ہندوؤں اور سکھوں کو زمینیں دینی شروع کر دیں تو قادیان کی زمینوں کی چار یا پانچ گنا قیمت بڑھ جائے.قادیان تو بہت بڑھتی ہوئی جگہ ہے.تم و ڈالہ گرنتھیاں کو ہی دیکھ لو پہلے وہ بھاں بھاں کرتا ہوا ایک گاؤں تھا مگر اب وہاں کارخانے کھل گئے ہیں اور کئی ہندو اور سکھ وہاں آ کر آباد ہو گئے ہیں.اب تو ریل یہاں آکر ختم ہو گئی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی تجارت کی مار میں ہیں میل پر پڑتی ہے.مشرق اور شمال کی طرف اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں منڈی بن سکے.پس یہاں کی تجارت کا ہیں ہیں میل پر اثر پڑ سکتا ہے اور کروڑوں کی تجارت یہاں ہوسکتی ہی ہے.بٹالہ کے کئی ہندوؤں نے ہم سے خواہش کی کہ ہمیں قادیان میں زمین دی جائے ہم وہاں اپنے کارخانے کھولنا چاہتے ہیں مگر ہم نے سوچا کہ اس میں گو ہمارا ذاتی فائدہ ہے مگر احمدیت کا نقصان ہے اور ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ احمدیت کو نقصان ہو اس لئے انکار کر دیا.اگر ہم انہیں آنے کی اجازت دے دیتے تو جس زمین کی قیمت آج سو روپے ہے اس کی ہزار روپیہ ہوتی اور دس دس میل تک جس قدر ہندو ساہوکار تا جر اور کارخانہ دار ہیں وہ یہاں جمع ہو جاتے.میرا خیال ہے کہ اگر اس کی اجازت دی جاتی تو چار پانچ سو ہندو تاجر اس وقت تک قادیان میں جمع ہو چکا ہوتا اور ان کی وجہ سے ہماری زمینیں نہایت گراں قیمت پر فروخت ہوتیں.پس گو ہمیں اس کا فائدہ رہتا مگر یہ ضرور ہوتا کہ احمدیت کو جو یہاں غلبہ حاصل ہے
خطبات محمود ۵۴۳ سال ۱۹۳۸ء وہ جاتا رہتا اور کئی احمدی ان مالدار ہندوؤں کے دست نگر ہو جاتے.پھر احمدی قانون جس رنگ میں ہم اپنی جماعت پر اس وقت جاری کر رہے ہیں وہ دوسری صورت میں نہ کر سکتے اس لئے کہ احمدیوں میں سے بہت سے لوگ ان کے دست نگر ہو جاتے مگر ذاتی فائدہ یقینا ہمیں بہت زیادہ ہوتا.غرض اپنی زمینوں کو فروخت کر کے ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ہے اور جب زمینیں ہم نے اپنی فروخت کی ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ جماعت کیونکر غریب ہوگئی.دنیا میں ہر شخص اپنی جائداد میں فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے اور کئی لوگ ہیں جو جائداد میں فروخت کر کے اپنے ہوں کو تعلیم دلاتے ہیں.پس اگر ہم نے بھی اپنے بچوں کو جائداد کا ایک حصہ فروخت کر کے تعلیم دلا دی تو اس سے ان کا نقصان کیا ہوا.مگر ان کا اعتراض کرنا بتاتا ہے کہ در پردہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد سے بغض ہے اور وہ اتنا بھی پسند نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی پوتا تعلیم حاصل کرے خواہ اپنے خرچ پر ہی کرے حالانکہ صحابہ کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں جب گزارے مقرر ہوئے اور یہ سوال پیدا ہوا کہ گزاروں کی تعیین کس رنگ میں ہونی چاہئے تو انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ الْأَقْرَبُ فَالْاَ قْرَبُ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص جتنا زیادہ قریب ہے اُتنا ہی اُسے زیادہ دیا جائے.چنانچہ بارہ ہزار دینار سالانہ حضرت عباس کا مقرر ہوا، دس دس ہزار وظیفہ امہات المؤمنین کا مقرر ہوا پھر سات سات ہزار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے قریبی رشتہ داروں کا، پھر پانچ پانچ ہزار بدری صحابہ کا، پھر چار چار ہزار دینار فی کس ان صحابہ کا مقرر ہوا جو فتح مکہ تک مسلمان ہو چکے تھے ، پھر تین تین ہزار وظیفہ ان کا مقرر ہوا جو جنگ یرموک تک مسلمان ہوئے تھے، اس طرح کم ہوتے ہوتے آخری فتوحات میں جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے ان کی کا سوسو اور دو دو سو سالانہ وظیفہ مقرر کیا گیا.2 حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ تحائف کے طور پر باہر سے بہت سے کپڑے آئے آپ نے وہ تقسیم کئے.مگر فرمایا حسن اور حسین کے لئے ان میں سے کوئی ایسا کپڑا اچھا نہیں جو انہیں دے کر میرا دل خوش ہو چنانچہ آپ نے گورنر یمن کو خاص طور پر لکھا کہ
خطبات محمود ۵۴۴ سال ۱۹۳۸ء ہے نہایت خوبصورت چادر میں حضرت حسن اور حسین کے لئے بنوا کر بھیجی جائیں.چنانچہ گورنر یمن نے جب چادر میں بھیجیں تو حضرت عمرؓ نے وہ حضرت حسن اور حسین کو پہنائیں اور فرمایا آج میرا دل ٹھنڈا ہوا ہے شے مدینہ سے یمن سات سو میل پر ہے اور اُن دنوں گھوڑوں کی سواری ہوا کرتی تھی مگر میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتوں کے لئے تم سے سات میل سے بھی کبھی کوئی چیز نہیں منگوائی.پھر اس شخص نے اپنی گندی فطرت کا اظہار ایک اور رنگ میں بھی کیا ہے.( معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ شخص ہمارے خاندان کی دوسری شاخ کے بعض لوگوں کے پاس جا کر بیٹھتا ہے، لکھتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب جیسا زانی جس مقبرہ میں داخل ہو جائے اُس مقبرہ کو کون کہہ سکتا.کہ وہ بہشتی مقبرہ ہے.ہم کہتے ہیں تم کچھ کہو جسے خدا نے تو بہ کی توفیق عطا فرما دی ہو اس کے خواہ کتنے بڑے گناہ ہوں خدا اُن سب کو معاف کر دیتا ہے.ایک صحابی کہتے ہیں ہم اسلام لانے سے پہلے رات دن زنا کرتے اور شراب نوشی میں مشغول رہتے تھے تو جب تک وہ سلسلہ سے باہر تھے ہم ان کے افعال کے ذمہ دار نہیں تھے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات سے کچھ عرصہ قبل سلسلہ میں داخل ہونے اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما دی تو ہم کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بخشش کو محدود قرار دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں بندہ کی تو بہ اللہ تعالیٰ اُس کی وقت تک قبول کرتا ہے مَالَمْ يُغَرُ غِرُ جب تک اسے غرغرہ شروع نہ ہو.اگر غرغرہ موت کی سے ایک منٹ پہلے بھی وہ تو بہ کر لیتا ہے تو جنتی ہو جاتا ہے.مرزا سلطان احمد صاحب کو تو غرغرہ موت سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے تو بہ نصیب کر دی تھی.پھر میں کہتا ہوں زنا کیا اگر ساری دنیا کے گناہ بھی کوئی شخص کرے اور پھر بچے دل سے تو بہ کرے تب بھی اُس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حد بست نہیں.پس ہمیں کسی کے اعمال میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمیں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جب کوئی شخص تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے.پھر وہ لکھتا ہے وہ تو پنجتن میں نہیں.میں کہتا ہوں کہ جو پختن ہیں تم نے اُن کی کون سی عزت کی ہے.تم ہی ایک خط میں پہلے لکھ چکے ہو کہ ہم تمہاری قبریں بہشتی مقبرہ سے اُکھیڑ کر نعشوں کو باہر پھینک دیں گے.
خطبات محمود ۵۴۵ سال ۱۹۳۸ء پس تم نے پنجتن کا کونسا ادب کیا ہے جو کہتے ہو کہ مرزا سلطان احمد صاحب چونکہ پنجتن میں نہیں اس لئے ان کی نسبت اس قسم کی بات کہنے میں کوئی حرج نہیں.اس کا بغض میری ذات کی نسبت اس طرح ظاہر ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے کہیں خلافت جو بلی فنڈ کی تحریک کر دی اب اس دن سے وہ بے چارے بھی تختہ مشق بنے ہوئے ہیں اور ہر خط میں مجھے پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان میں چوہدری صاحب بھی شامل ہوتے ہیں اور کئی خطوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مرزا سلطان احمد اور چوہدری ظفر اللہ خاں جیسے گندے آدمی جس مقبرہ میں دفن ہو سکیں وہ مقبرہ بہشتی مقبرہ کہاں کہلا سکتا ہے.اسی طرح اور بھی کئی قسم کے اعتراض چوہدری صاحب پر کئے جاتے ہیں.خلافت جو بلی فنڈ کی تحریک سے پہلے تو اسے چوہدری صاحب میں کوئی عیب نظر نہ آیا مگر ادھر انہوں نے تحریک کی اور ادھر سے ان میں سو سو کیڑے نظر آنے لگ گئے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے تو پھر اس کا قدم ٹھہرتا نہیں بلکہ اور دوسری صداقت پر بھی اس کے اعتراض کی زد پڑنی شروع ہو جاتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ روپے کے بارے میں اگر مجھ پر اعتراض کیا جاتا ہے تو یہ مجھ پر ہی نہیں بلکہ پہلوں پر بھی پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی ہو بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوا.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم کرنے لگے ایک شخص آپ کے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا اور آپ کو غنائم کے اموال تقسیم کرتے دیکھتا رہا.جب آپ تمام اموال تقسیم فرما کی چکے تو کہنے لگا.یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں خدا تعالیٰ کی رضامندی مد نظر نہیں رکھی گئی - هذه قِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجُهُ الله لا تقسیم ایسی ہوئی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر نہیں رکھا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ نے اسے فرمایا.افسوس تیری حالت پراگر میں انصاف کو مد نظر نہیں رکھوں گا تو پھر اور کون انصاف کرے گا.پھر آپ نے فرمایا.اس شخص کی نسل اور ہم خیالوں میں سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کی کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ، وہ نمازیں پڑھیں گے مگر ان کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، وہ کچ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار میں سے نکل جاتا ہے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ اعتراض ہوا اور تاریخوں میں تو صرف ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے.
خطبات محمود ۵۴۶ سال ۱۹۳۸ قرآن کریم کی شہادت یہ ہے کہ منافق ہمیشہ اس قسم کے اعتراضات کیا کرتے تھے چنانچہ فرماتا ت ب و مِنْهُمْ مِّن يَلْمِزُكَ في الصدقت : ١٣ کہ منافق ہمیشہ صدقات کے بارے میں اعتراضات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی تقسیم درست نہیں ہوتی.تو اگر محض اعتراض کرنے سے بات بن سکتی ہے اور کسی ثبوت کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ مجھے پر ہی یہ اعتراض نہیں پڑتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتا ہے.حضرت خلیفہ المسح الا ول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں لا ہور گیا.اس وقت تک ابھی نمازیں علیحدہ نہیں ہوئی تھیں آپ فرماتے ہیں ایک مسجد میں بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آگئے اور بڑے غصہ سے کہنے لگے تم لوگ دینِ اسلام سے مرتد ہو تم کہتے ہو قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور اس کی ہر آیت قابل عمل ہے یہ کیسا بیہودہ اور خلاف قرآن عقیدہ ہے.آپ فرماتے میں چپکے سے سنتا جاؤں مگر وہ برابر گالیاں دیتا چلا گیا اور کی کہنے لگا تم بڑے بے دین کا فر اور مرتد ہو.پھر کہنے لگا.دیکھو سرسید جو نیچری خیالات کا تھا اس کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں.فرماتے تھے اس پر میں نے ہنس کر کہا چلو ہم دو ہو گئے.پھر کچھ دیر وہ گالیاں دیتا رہا اور آخر میں کہنے لگا ابو مسلم خراسانی کو جانتے ہو وہ کی بھی یہی عقیدہ رکھتا تھا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں.میں نے کہا بہت اچھا مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا بھی یہی عقیدہ تھا خیر تو پہلے ہم دو تھے اب تین ہو گئے ہیں.میں بھی کہتا ہوں کہ ہم بھی تین ہو گئے پہلے مجھ پر اعتراض ہوا ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض ہوا، پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض ہو گیا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر شرافت کا ایک شمہ بھی ان میں باقی ہے اور کوئی بھی تخم دیانت ان میں پایا جاتا ہے تو وہ ثبوت پیش کریں.وہ ایک ایک سور و پیہ جو میں نے کھایا ہے ثابت کرتے چلے جائیں اور میں چار چار ، پانچ پانچ سو کی جائداد ان کو اس جرمانہ میں دیتا چلا جاؤں گا.بعض کہتے ہیں تمہارے پاس روپیہ تو ہے مگر وہ تم نے بنکوں میں رکھوا دیا ہوا ہے.احرار نے بھی ایک دفعہ اعتراض کیا تھا کہ ولایت کے بنکوں میں تین لاکھ روپیہ ان کا جمع ہے.
خطبات محمود ۵۴۷ سال ۱۹۳۸ء میں نے اُس وقت انہیں جواب دیا تھا کہ تم جو اپنے گزارہ کے لئے لوگوں سے چندے جمع کرتے رہتے ہو ، اب اس اعتراض کے بعد تمہیں وہ چندے جمع کرنے کی ضرورت نہیں تم ثابت کر دو کہ فلاں بنک میں میرا تین لاکھ روپیہ جمع ہے میں فوراً چیک تمہارے نام بھجوا دوں گا تم تم وہاں سے روپیہ نکلوا لینا.باقی ہماری زمینیں ہیں اور میں لوگوں سے قرضہ بھی لیا کرتا ہوں، بعض زمینیں میں نے خریدی بھی ہیں مگر اسی طرح کہ بعض مکان گرور کھ کر یا بعض دوستوں سے قرض لے کر.اگر اللہ تعالیٰ کی میری ان زمینوں میں برکت ڈال دے تو یہ اس کا فضل ہوگا مگر اس میں کسی کا کیا دخل ہے.دنیا کا یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے حساب مانگے اور یقیناً جماعت کا حق ہے کہ وہ ایک ایک پیسے کا مجھ سے حساب لے.وہ مجھ سے پوچھ سکتی ہے کہ یہ مکان تم نے کہاں سے روپیہ لے کر بنوایا ، یہ کپڑا تم نے کہاں سے خریدا ، یہ جائداد تم نے کس طرح بنائی.یقیناً یہ سلسلہ کا حق ہے اور میں ہر وقت حساب دینے کے لئے تیار ہوں.وہ دوست موجود ہیں جن سے میں نے قرض لئے ، وہ تحریر میں کی موجود ہیں جو اس ضمن میں لکھی گئی ہیں سندھ میں جو زمین حکومت سے خریدی گئی.اس میں بھی کچ پہلا حق میں نے جماعت کو ہی دیا تھا.چنانچہ ” الفضل‘ کے فائل اور ہماری چٹھیاں گواہ ہیں کہ جب سندھ میں زمینیں ملنے لگیں تو ہم نے دوستوں کو توجہ دلائی کہ وہ انہیں خرید لیں مگر انہوں نے سمجھا جس طرح سٹور میں ہمارا روپیہ برباد ہوا تھا اس طرح یہاں بھی برباد ہو جائے گا.اور جب انہوں نے کوئی توجہ نہ کی تو چونکہ ہم سودا کر چکے تھے اس لئے یہ زمین زیادہ تر انجمن نے لے لی اور باقی مختلف دوستوں کے ذمہ لگائی گئی.مگر جب فائدے کی امید نظر نہیں آتی تھی اس وقت تو ہمیں کہا گیا کہ ہمیں دھوکا دیا جاتا اور ہمارے روپیہ کو برباد کیا جاتا ہے اور جب یہ نظر آیا کہ اس زمین میں شاید نفع آنے لگ جائے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ سلسلہ کا روپیہ کھا گئے ہیں.ہم کہتے ہیں ان زمینوں پر سلسلہ کا جس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے وہ ہم سے لے لو.اس سے ڈگنے داموں کی زمین ہم سے لے لو، چار گھنے کی زمین لے لو، پانچ گنے کی زمین لے لو، ( کیونکہ نقد ہمارے پاس بالکل نہیں ہے ) یقیناً جو شخص سلسلہ کا روپیہ کھا تا ہے وہ اس بات کا سزا وار نہیں کہ اس سے وہ روپیہ واپس لیا جائے بلکہ اس بات کا بھی مستحق ہے کہ اس پر بڑا بھاری جرمانہ کیا جائے.
خطبات محمود ۵۴۸ سال ۱۹۳۸ء بیشک میں صدر انجمن احمدیہ سے گزارے کے لئے روپیہ قرض لے لیتا ہوں مگر اسی طرح کی قرض کے طور پر حضرت عمرؓ بھی لے لیتے تھے.جب حضرت عمر فوت ہوئے ہیں تو بیت المال کا چھتر ہزار رو پیدان کے ذمہ قرض تھا.اے حالانکہ اس زمانہ میں غنائم کے اموال بھی آیا کرتے تھے.اور حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ کا حصہ ایک سا ہوتا تھا کیونکہ دونوں ہی بدری صحابہ میں سے تھے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ قالین کا ایک حصہ ملا جس کی ہیں ہزار روپیہ قیمت تھی پس یقیناً میں ہزار کا حصہ حضرت عمرؓ کو بھی ملا ہوگا حضرت عمرؓ اور حضرت علی ایک طرف بیت المال سے اپنا گزارہ لیتے تھے اور دوسری طرف غنائم کے اموال میں سے بھی باقی مسلمانوں کی طرح حصہ لیتے تھے.مگر میں تو گزارہ بھی نہیں لیتا اور جو کچھ میں لیتا ہوں قرض کے طور پر لیتا ہوں.میری کوشش یہی ہوگی کہ میں اپنی زندگی میں اس قرض کو ادا کروں ورنہ میری جائداد اس قرض کو ادا کی کرے گی.شروع شروع میں تو میں نے صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ سے کچھ بھی نہیں لیا.نہ قرض کے کی طور پر اور نہ گزارہ کے طور پر اور اس طرح آٹھ دس سال گزر گئے مگر اس کے بعد جب بچے زیادہ ہو گئے اور کام بھی وسیع ہو گیا تو میں نے صدرانجمن سے قرضہ لینا شروع کر دیا.اس سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو بعض بڑی بڑی رقمیں میں نے ادا بھی کی ہیں.چنانچہ ۱۹۲۹ء میں ایک غیر احمدی نے مجھ سے ایک دعا کرائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اس پر اس نے مجھے کی ہیں ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر بھیجا.جس میں سے گیارہ ہزار میں نے اپنے قرض کے سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا اور باقی اور قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات پر خرچ کیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اموال جو غیر احمدیوں سے مجھے نذرانہ کے طور پر ملے ہیں وہ احمدیوں کے نذرانہ سے بہت زیادہ ہیں.اس غیر احمدی کا ایک کام تھا اور اس نے مجھے لکھا کہ اگر مجھے اس میں کامیابی ہوگئی تو جو کچھ مجھے نفع ملے گا اس کا دس فیصد آپ کو دوں گا.چنانچہ اسے دولاکھ کا نفع ہوا جس میں سے ہیں ہزار اس نے مجھے بھیج دیا.میں نے گیارہ ہزار صدر انجمن احمدیہ کو کی قرضہ میں دے دیا، باقی کچھ رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا، کچھ دیگر قرضوں میں ادا کیا اور کچھ اور اخراجات میں لگا دیا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس حد تک میں بوجھ اٹھا سکتا ہوں اٹھاتا ہوں
خطبات محمود ۵۴۹ سال ۱۹۳۸ء اور اب بھی قرض کے طور پر صدرانجمن احمدیہ سے جو کچھ لیتا ہوں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ چاہے گا تو وہ میری زندگی میں ہی ادا ہو جائے گا.ورنہ میں ہمیشہ حساب رکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا قرض جائداد سے نہ بڑھے تا اگر جائداد سے قرض ادا کرنا پڑے تو تمام قرض ادا ہو جائے اور کسی کو کوئی دقت پیش نہ آئے.سو جس قدر اعتراض دشمن نے کی مجھ پر کئے ہیں سب پہلے موجود ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مجھ پر وہی اعتراض دشمن کی طرف سے ہوتے ہیں جو پہلوں پر ہو چکے ہیں بلکہ کل اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ایک بہت بڑی خوشی کا کی سامان کیا اور مجھ پر اس امر کا انکشاف کیا کہ آج کل دشمن جو مجھ پر حملہ کر رہا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک واضح پیشگوئی موجود ہے.خواب میں کپڑوں کو آگ لگنے کے معنی بالعموم اعتراض ہونے اور دشمن کے حملہ کرنے کے ہوتے ہیں.اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس کے خلاف کی سخت فساد ہوگا اور دشمن اس پر کئی قسم کے اعتراض کرے گا.کل اتفاقا میں بعض شہادتوں کے متعلق پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ کا غذات کی پڑتال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی ایک کاپی آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی مجھے مل گئی اس میں ۱۸۹۴ء کے الہامات درج ہیں، گویا آج سے ۴۴ سال پہلے کی یہ کاپی مکمل ہوئی ہے.جبکہ میری کی عمر چھ سال کی تھی.( جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ الہامات چھپے ہوئے نہیں اور چونکہ یہ تمام کا پی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اس لئے یہ سوال پیدا نہیں ہوسکتا کہ یہ بعد میں بنالی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خط کو پہچاننے والے سینکڑوں دوست اب بھی موجود ہیں اور وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ تمام کاپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و والسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.اس میں ۱۷ اگست ۱۸۹۴ ء سے لے کر ۲۱ دسمبر ۱۸۹۴ء تک کے الہامات درج ہیں.اس کا پی میں ۵/ دسمبر ۱۸۹۴ ء کی تاریخ کے نیچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ اول گویا محمود کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے اور
خطبات محمود ۵۵۰ سال ۱۹۳۸ میں نے بجھا دی ہے“ یہ پیشگوئی بتاتی تھی کہ ایک زمانہ میں میرے اوپر دشمن کی طرف سے اعتراضات ہونے والے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں نے اس آگ کو جومحمود کے کپڑوں کو لگی ہے بجھا دیا ہے.یعنی میری پیشگوئیوں اور میری دعاؤں کی وجہ سے خدا تعالی دشمن کو نا کام کرے گا اور اسے اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد رکھے گا.دشمن بے شک آگ لگائے گا مگر انجام کار وہ آگ بجھا دی جائے گی.اگر خالی بجھ گئی کے الفاظ ہوتے تب بھی دشمن کہہ سکتا تھا کہ انہوں نے اپنی تدبیروں اور عقلوں سے کامیابی حاصل کر لی.یہاں بجھ گئی“ کے الفاظ نہیں بلکہ یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بجھا دی ہے.اس سے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ آگ کسی تدبیر یا کسی عقل کی وجہ سے نہیں بجھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور آپ کی پیشگوئیوں نے اس آگ کو بجھایا ہے.پس یقیناً جو شخص آگ لگانے والا ہے وہ سلسلہ کا دشمن ہے.اگر یہ آگ سلسلہ کے مفاد اور اس کی ترقی کے لئے ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آگ کو بجھا دیتے.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے سلسلہ کی خیر خواہی مد نظر نہیں تھی ؟ مگر آپ کا اس آگ کا بجھا نا بتاتا ہے کہ آگ لگانے والے سلسلہ کے دشمن ہیں.پس اگر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں وہ حق پر ہوتے اور جنہوں نے میرے خلاف فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کا رکھی ہے وہ صداقت پر ہوتے تو بجائے یہ الفاظ ہونے کے کہ ”میں نے بجھا دی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے کہ میں نے اٹھ کر محمود کے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے.مگر آپ یہ نہیں فرماتے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ آگ لگانے والے اور ہیں اور بجھانے والا میں ہوں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے فعل کو مٹانے والے ہیں اور جس فعل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مٹانے والے ہوں وہ یقیناً سلسلہ کے خلاف ہوگا.مگر جو مضمون میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ جو شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً دوسری صداقتوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے اور جو ایک راستباز پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً
خطبات محمود ۵۵۱ سال ۱۹۳۸ء - دوسرے راستبازوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے وہ بھی اس رویا میں نہائت عمدگی کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے.میں نے بتایا تھا کہ جب ان اعتراض کرنے والوں کو اپنے مقصد میں کا میابی نہ ہوئی اور وہ جماعت کو خلافت سے الگ نہ کر سکے تو انہوں نے کہا.اوہو! بات ہماری سمجھ میں اب آئی.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ یہ خلیفہ ہیں اور چونکہ یہ خیال ان کے دلوں میں بیٹھ چکا ہے اس لئے وہ اس کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے پس آؤ ہم خلافت کا ہی انکار کر دیں.چنانچہ پھر وہ خلافت کو اڑانے لگ گئے جس کے معنے یہ تھے کہ اب ان کا حملہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل پر بھی جا پڑا کیونکہ جس طرح میں خلیفہ ہوں اسی طرح آپ بھی خلیفہ تھے.اگر میں خلیفہ نہیں تو وہ بھی خلیفہ نہیں تھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرا دشمن ابلیس ہے اور میرے بعد بھی اللہ تعالیٰ خلفاء کھڑے کرے گا جنہیں وہ آپ کھڑا کرے گا تم نے نہ مجھے خلیفہ بنایا ہے اور نہ ان کو بناؤ گے ہم سب کو خدا نے کی خلیفہ بنایا ہے.پس وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ خلیفہ کہلاتا ہے اس لئے لوگ اس کی باتیں سنتے ہیں ج اور ہماری طرف توجہ نہیں کرتے.چنانچہ پھر وہ کہتے ہیں آؤ ہم خلافت کا ہی انکار کر دیں اور کی لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیں کہ خلافت اسلام کا کوئی مسئلہ نہیں سب کو مل کر اسلام کی خدمت کی کرنی چاہئے.تب وہ دوسرا حملہ کرتے اور ایک بار پھر آگ لگانا چاہتے ہیں مگر وہ حملہ حضرت خلیفہ اول پر جا پڑتا ہے کیونکہ آپ یہی فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کوئی کیسری کی دکان کا کی سوڈا واٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے جا کر پی لے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جو بعض مخصوص لوگوں کو ملا کرتا ہے پس مجھ پر حملہ کرنے کے بعد ان کا دوسرا حملہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل پر ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رویا میں اس کا بھی ذکر ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: پھر ایک اور شخص کے آگ لگی ہے اور اس کو بھی میں نے بجھا دیا ہے“ یہاں حضرت خلیفہ اول کا نام آپ نے نہیں لیا.چاہے جان کر نام نہیں لیا اور چاہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا نہیں.بہر حال اس خواب سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ یہ آگ میرے وقت میں لگے گی اور اس کی ابتداء مجھ سے ہوگی اور جب یہ آگ بجھ جائے گی اور مجھے کوئی ضرر
خطبات محمود ۵۵۲ سال ۱۹۳۸ء نہیں پہنچا سکے گی تو وہ کہیں گے کہ اوہو! ہم جماعت کو اس لئے بگاڑ نہیں سکے کہ وہ خلافت کی وجہ سے متحد ہے.اگر ہم خلافت کا انکار کر دیں تو اس کا منتشر ہونا بالکل آسان بات ہے.پس وہ خلافت مٹانے کے درپے ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے حضرت خلیفہ اول کی خلافت پر بھی حملہ کرتے ہیں اور اس طرح میرے کپڑوں کو آگ لگنے کے بعد آپ کے کپڑوں کو بھی آگ لگ جاتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے اس آگ کو بھی بجھا دیا.یعنی آپ کی خلافت سے بھی وہ لوگوں کو منحرف نہیں کر سکیں گے.تب وہ ایک اور قدم آگے بڑھیں گے اور کہیں گے اصل میں محض خلیفہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے ساتھ نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان کے دلوں میں یہ غلط خیال بیٹھ چکا ہے کہ یہ مصلح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان کے متعلق کئی پیشگوئیاں ہیں.پس آؤ ہم ان تمام پیشگوئیوں کا ہی انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ ان کا مصداق ابھی پیدا ہی نہیں ہوا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں جن کے متعلق میں نہ ہاں کرتا ہوں نہ نہ کرتا ہوں مگر جو پیشگوئیاں مجھ پر چسپاں ہوتی ہیں اُن کا انکار کی کرنا بھی دیانت اور انصاف کے قطعاً خلاف ہے مگر وہ سرے سے تمام پیشگوئیوں کا انکار کر یتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی پیشگوئی ہے ہی نہیں.اس طرح ان کے حملہ کی زدحضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی جا پڑتی ہے اور انہیں کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے جس قدر میرے متعلق پیشگوئیاں کیں وہ نعوذ باللہ جھوٹی نکلیں، اس طرح جو دعائیں کیں وہ پوری نہ ہوئیں اور آپ نے غلط لکھی دیا کہ میری دعائیں اللہ تعالیٰ نے سن لی ہیں.پس وہ مجھ پر حملہ کرتے مگر اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور اس طرح میری ہتک کرتے کرتے ان کی بھی ہتک کر دیتے ہیں جن کو یہ اپنا پیشوا ما نا کرتے ہیں.یہ ایسی ہی بات کی ہے جیسے پیغامیوں نے جب مجھ پر اعتراض کرنے شروع کئے تو رفتہ رفتہ ان کے اعتراضات کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ہونے لگے.چنانچہ ایک دفعہ ایک پیغامی نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو جو ظلی نبی کہا ہے اس کے معنے کوئی اصلی نبی کے تھوڑے ہی ہیں ظل کا کیا ہوتا ہے ظل پر تو ( نَعُوذُ بِالله ) جوتے مارنے بھی جائز ہوتے ہیں.پھر یہاں تک کہہ دیا کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت بن باپ کو تسلیم کرتا ہے وہ مشرک اور بے وقوف.
خطبات محمود ۵۵۳ سال ۱۹۳۸ء جب میری خلافت کے شروع ایام تھے تو ایک شخص نے حضرت مسیح موعود السلام کے متعلق ایسے ہی الفاظ استعمال کئے.میں نے اسے کہا اب تم دہر یہ ہوئے بغیر نہیں رہو گے.چنانچہ ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ اس کے دل میں احمدیت کے متعلق شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے اور اس کی پر بھی ایک مہینہ اور نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اس کے دل میں شکوک پیدا ہو گئے.تو لازماً جو شخص ایک سچائی پر اعتراض کرتا ہے اسے دوسری سچائیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے اور جو شخص ایک صداقت کو چھوڑتا ہے اسے دوسری صداقتوں کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے.چنانچہ یہی خبر اس رویا میں بھی دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کا پہلا حملہ مجھ پر ہوگا ، دوسرا حملہ حضرت خلیفہ اول پر ہوگا اور جب وہ ان دونوں حملوں میں ناکام ہوں گے تو تیسرا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کر دیں گے اور آپ کی پیشگوئیوں اور الہامات کے بھی منکر ہو جائیں گے.چنانچہ آخری حصہ رؤیا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ تحریر فرماتے ہیں: پھر میرے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے اور میں نے اپنے اوپر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بجھ گئی ہے.“ اس میں اسی سلسلہ اعتراض کی خبر دی گئی ہے جس کو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ پہلے وہ مجھ پر اعتراض کریں گے اور جب اس میں خدا تعالیٰ ان کو نا کام کرے گا تو وہ کہیں گے او ہو ہم نے ہاتھ ذرا نیچے ڈالا ہے آؤ ذرا اوپر ہاتھ ڈالیں.چنانچہ پھر وہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت پر اعتراض کرنا شروع کر دیں گے اور جب وہاں سے بھی کام نہیں بنے گا تو کہیں گے یہ سلسلہ ہی ایسا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر دعائیں کی تھیں سب جھوٹی نکلیں اور جس قدر پیشگوئیاں آپ نے کی تھیں وہ باطل ثابت ہوئیں.پس ان کا آخری حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوگا جیسا کہ اس شخص نے لکھ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیتے ہیں.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ گوی آگیں سب بجھ گئیں ہیں مگر کچھ سیاہ داغ سا باز و پر نمودار ہے اور خیر ہے“.باز و پر داغ رہنے کے معنی یہ تھے کہ یہ حملہ جماعت کے منافقین کی طرف سے ہو گا غیروں کی طرف سے نہیں ہو گا.پھر فرماتے ہیں اور خیر ہے وَأفَوِّضُ أَمْرِى إِلَى الله - و يا أُفَوِّضُ
خطبات محمود ۵۵۴ سال ۱۹۳۸ امرِى إِلَى الله کے الفاظ میں یہ بھی بتا دیا کہ جس وقت یہ اعتراض ہوں گے اُس وقت میں دنیا میں نہیں ہوں گا مگر چونکہ میرا خدا زندہ خدا ہے اس لئے میں اپنا معاملہ اُس کے سپر د کرتا ہوں.میں نہ ہو ا تو کیا ہو اوہ تو ہوگا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کاپی ہے جو کل پہلی دفعہ مجھے دیکھنے کا موقع ملا.اب تک میں سمجھتا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا حافظ ہوں اور آپ کا کوئی بھی ایسا الہام یا ایسا رویا نہیں جو میری نظر سے نہ گزرا ہو مگر کل اتفاقاً بعض کا غذات کی تلاش کرتے ہوئے مجھے پہلی دفعہ یہ کاپی ملی اور مجھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نئی پیشگوئی کا انکشاف ہوا.پھر ایک اور لطیفہ ہے جو بھی خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا ہے اور یہ کہ وہ یہ کاپی اسی سبز کاغذ کی بنی ہوئی ہے جس سبز کاغذ پر حضرت مسیح موعود السلام نے ”سبز اشتہار شائع فرمایا تھا معلوم ہوتا ہے اس زمانہ کے بعض بچے ہوئے کاغذ آپ کے پاس موجود تھے اور انہی سبز کاغذوں کی آپ نے یہ کاپی بنا کر اس پر اپنے الہامات اور رؤیا وکشوف درج کر دیے.پس دشمن جو چاہے اعتراض کرے ہمیں اس کا اعتراض کر نابر انہیں لگتا.ہمیں افسوس آتا ہے تو اس بات پر کہ وہ ظاہر کچھ کرتے ہیں اور ان کا باطن کچھ اور ہے.وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام ہیں مگر کام وہ کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کو آگ لگانے والا ہے مگر وہ یا درکھیں نہ پہلے کوئی دشمن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوا اور نہ وہ کامیاب ہوں گے.آگیں بجھائی جائیں گی اور صرف داغ باقی رہ جائیں گے مگر وہ کی داغ انہی منافقین کا وجود ہو گا.“ الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۳۸ء) 66 اس خطبہ کے بعد اسی منافق کا ایک اور خط ملا اس میں اس نے سخت واویلا کیا ہے کہ مجھ پر بدظنی کی گئی ہے اور مجھے منافق قرار دیا گیا ہے اور پھر لکھا ہے کہ اس خواب کی تعبیر یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ تمہاری آگ بجھائی اور یہ فعل خدا کو پسند نہ آیا اس لئے ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی کیونکہ انہوں نے تمہاری رعایت کی اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اس تعبیر سے اس شخص کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو عقیدت ہے، اس کی وضاحت ہو جاتی ہے اور اب مجھے اور کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.مجھے یقین ہے کہ یہ مصری پارٹی کا شخص ہے اور اندرونی طور پر پیغامی ہو چکا ہے.
خطبات محمود ۵۵۵ لامتی باب ۱۷ آیت ۲۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۷ ۱۸۸ء متنی باب ۱۶ آیت ۴ (مفہوماً) الذريت: ۵۴ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ اذوا موسى (الاحزاب : ۷۰ ) ه التوبة: ۴۷ ، ك بخاری کتاب الهبة ـ باب فَضْل الْهِبَة سال ۱۹۳۸ ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل التوبة البخارى كتاب فرض الخمس باب مَا كانَ النبي صلى الله عليه وسلم يُعطى الْمُوَّ لَفَةَ قُلُو بهم ( مفهوم ) بخارى كتاب المناقب باب علامات النبوَّة في الاسلام التوبة : ۵۸ الطبقات الكبرى - لا بُنِ سعد جلد ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ ء میں ۸۰ ہزار درہم قرض کا ذکر ہے.
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصوص صریحہ سے ثابت شدہ مسئلہ کہ حضرت یحی علیہ السلام شہید کئے گئے تھے (فرموده ۲۶ /اگست ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ حجرات کی آیت ناتها الذين امَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِي کی تلاوت کی.اس کے بعد فرمایا:- انبیاء کی بعثت کی غرض دُنیا سے اختلافات کو مٹانا اور صحیح عقائد لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے.دُنیا کبھی افراط کی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی تفریط کی طرف ، کبھی بغض ان کی گمراہی کا تج موجب ہو جاتا ہے اور کبھی حد سے زیادہ محبت خواہ وہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے ہی ہو.ان کی کچ گمراہی کا موجب ہو جاتی ہے.مثلاً چکڑالوی فرقہ کے لوگ ہیں یہ بظاہر خدا تعالیٰ سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے بعد کسی نبی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے اپنی باتیں منوائے.وہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے جیسے ہی ایک آدمی تھے.ان کی باتیں اگر ہم نہ مانیں تو اس میں کیا حرج ہے.اس طرح وہ ساری حدیثوں کو رڈ کر دیتے اور کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس طرح نماز پڑھی ہے تو غلط پڑھی.قرآن کریم میں اس طرح نماز پڑھنے کا حکم ہے.اب بظاہر اس عقیدہ کی تہہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کام کرتی نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ اللہ تعالیٰ
خطبات محمود ۵۵۷ سال ۱۹۳۸ کی حقیقی محبت نہیں بلکہ غلط محبت ہے اور اس کی وجہ سے کئی انسان ٹھو کر کھا گئے ہیں.اسی طرح بعض لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلط محبت اختیار کی اور انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کی کیا ضرورت ہے اب بظاہر اس عقیدہ کا منبع اور مبدا محبتِ رسول ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہی کی انہوں نے یہ قرار دے دیا کہ اب کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں.مگر اس کا کیسا خطر ناک نتیجہ نکلا کہ تیرہ سو سال گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی مشیت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دُنیا کی ہدایت کے لئے اپنا ایک نبی بھیجے اور اس نے بنی نوع انسان کی حالت پر رحم فرماتے ہوئے اپنا نبی بھیج دیا تو لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ محض اس عقیدہ کی وجہ سے اسے قبول کرنے سے محروم رہ گئے.حالانکہ بظاہر یہ عقیدہ محبتِ رسول کی وجہ سے اختیار کیا گیا تھا لیکن اگر وہ غلط محبت اختیار نہ کی کرتے تو انہیں وقت پر ٹھوکر ن لگتی.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے مریدوں نے ان سے غلط محبت کی اور وہ ٹھوکر کھا کر کہیں کے کہیں چلے گئے.انہوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اب حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.دوسری طرف انہوں نے یہ غلط رویہ اختیار کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام تو ساری عمر یہ کہتے رہے کہ مجھے نیک مت کہو نیک ایک ہی ہے جو آسمان پر ہے.میں آدم کا بیٹا ہوں اور میں ویسا ہی بشر ہوں جیسے تم مگر باوجود ان کے یہ بار بار کہنے کے ان کی جماعت نے کہہ دیا کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں غلط کہتے ہیں.اصل میں یہ آدم کے بیٹے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں.تو صحیح رویہ یہ ہوا کرتا ہے کہ جو بات جس رنگ میں ہو انسان اسے اس رنگ میں ہی رکھے اور حد سے آگے نہ بڑھائے.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی غلط محبت پیدا ہو گی اس کے متعلق غلط اصول قرار دے دیئے جائیں گے اور وہ غلط اصول دُنیا کو کوئی فائدہ تو نہیں پہنچا ئیں گے البتہ یہ ضرور ہوسکتا.کہ وہ کسی وقت خطر ناک نقصان پہنچا دیں مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب تک خدا تعالیٰ کا کوئی سچا نبی نہیں آیا تھا اس عقیدہ نے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی نبی نہیں آسکتا دُنیا کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا.جو جھوٹے نبی آئے ان کے رڈ کرنے کے تو اور سامان
خطبات محمود ۵۵۸ سال ۱۹۳۸ء قرآن و حدیث میں موجود ہی تھے مگر باوجود حضرت عائشہ اور دوسرے مجتہد صحابہ کے روکنے کے جب لوگ اس بارہ میں غلط عقیدہ پر مصر رہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب جو شخص بھی دعوی نبوت کرے گا وہ دجال اور کذاب ہوگا اور اس کا یہ نقصان ہو ا کہ جب خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا تو ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اس غلط عقیدہ کی وجہ سے اس کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط محبت اختیار نہ کی جاتی ، اگر غلط اصول لوگوں کے دلوں میں قائم نہ کر دئیے جاتے تو یقیناً وہ ہدایت پا جاتے مگر چونکہ ان کے کانوں میں كَذَّابُونَ، دَجَّالُوْنَ، كَذَّابُونَ، دَجَّالُونَ کے الفاظ گونج رہے تھے.اس لئے جب خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا تو انہوں نے اسے رڈ کر دیا اور اس طرح وہ خود کذاب اور دجال بن گئے اور بجائے اس کے کہ کذابون دجالون کے الفاظ انہیں کسی کا ذب مدعی نبوت پر ایمان لانے سے بچاتے یہی الفاظ ان کے لئے ایک سچے مدعی کو کذاب اور دجال قرار دینے کے محرک ہو گئے اس میں کوئی محبہ نہیں کہ یہ الفاظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمائے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور بھی تو الفاظ ہیں ان سب کو اکٹھا اپنے سامنے رکھ کر موازنہ کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث سے بحیثیت مجموعی کیا نتیجہ نکلتا ہے مگر انہوں نے ایک حدیث کو لے لیا اور اس پر اتنا زور دینا شروع کر دیا کہ وہ لاکھوں کی گمراہی کا موجب ہو گئے.حدیثوں میں آتا ہے ایک صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر چیز کو تم اس کے مقام پر رکھو کے پس مؤمن کا فرض یہ ہے کہ وہ غلو نہ کرے کیونکہ جب کبھی کسی بات میں غلو کیا جائے گا اس کا آخری نتیجہ خرابی اور گمراہی ہوگا.اصل سچائی وہی ہوتی ہے جو خدا اور اس کا کی رسول بتا تا ہے اور کسی کا یہ ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک رسول کے فیصلہ کے خلاف کوئی بات کہے یا ایک بات کو جس حد تک اس نے محدود قرار دیا ہے اس کو اس حد سے آگے نکال دے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف یہ فرمایا تھا کہ میرے بعد چھیں یا تھیں دنبال ہوں گے.آپ نے یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ میرے بعد قیامت تک جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ دجال ہو گا.آپ نے جو کچھ فرمایا وہ یہ ہے کہ میرے بعد جھوٹے نبی بھی ہوں گے.
خطبات محمود ۵۵۹ سال ۱۹۳۸ بعض حدیثوں میں آپ نے چھبیس کی تعداد بتائی اور بعض میں تھیں کی اور فرمایا کہ یہ دقبال اور کذاب ہوں گے.پس ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص بھی جھوٹا دعوی نبوت کرے گا وہ کذاب اور دجال ہو گا مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب کوئی سچا نبی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بچے نبی کے آنے کی نفی نہیں فرمائی بلکہ بعض جھوٹے مدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی اس میں خبر دی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حد مقرر کر دی کی اور فرمایا کہ میرے بعد بعض جھوٹے نبی بھی پیدا ہوں گے.بعض احادیث میں چھیں جھوٹے کی مدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے اور بعض میں آتا ہے کہ تمیں جھوٹے مدعی پیدا ہوں گے سے مگر بہر حال آپ نے فرمایا کہ وہ جھوٹے مدعی ہوں گے اور کذاب اور دجال ہوں گے اور اس میں کیا طبہ ہے کہ جو شخص جھوٹا دعویٰ نبوت کرے گا وہ ضرور کذاب اور دقبال ہوگا.تو ہم اس کا انکار تو نہیں کرتے.ہم تو تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹا دعوی نبوت کرنے والا کذاب ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا دعویٰ کرتا ہے جس کی خدا تعالیٰ نے اسے اجازت نہیں دی.پس وہ جھوٹ بولتا ہے اور جو شخص جھوٹ بولتا ہو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سے نہیں ہوسکتا کی اور جو اُمتِ محمدیہ میں سے ہی نہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ پر افترا بھی کرتا ہے وہ اگر کذاب اور دجال نہیں تو کذاب اور دجال اور کون ہو گا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے که من أَظْلَمُ مِمَّن افترى على الله كَذِبًا ہے کہ اس شخص سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرے.پس جو شخص دعوی کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے الہام ہوتا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے کوئی الہام نہیں ہوتا اور دعوی کرتا ہے کہ میں نبی ہوں.حالانکہ خدا نے اُسے نہیں کہا کہ تو نبی ہے وہ مسلمان کیا وہ تو ایک ہندو سے بھی بدتر ہے، ایک کی عیسائی سے بھی بدتر ہے، ایک یہودی سے بھی بدتر ہے بلکہ ایک دہریہ سے بھی بدتر ہے.وہ کی اُمت محمدیہ میں کہاں ہو سکتا ہے؟ تو اُمت محمدیہ سے خارج ہو کر دعویٰ نبوت کرنے والے ضرور کذابون دجالون ہوں گے مگر اس سے یہ کہاں سے نکلا کہ کوئی سچائد عی بھی نہیں ہوسکتا اور اگر تمہیں کوئی سچا مدعی ملے تو اسے بھی کذاب اور دجال قرار دے دو لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ی نقص اسی لئے پیدا ہوا کہ مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات اس حد کے
خطبات محمود ۵۶۰ سال ۱۹۳۸ء اندر نہ رکھی جس حد کے اندر رکھنی چاہئے تھی.اگر مسلمان اس کو اس کی حد کے اندر رکھتے اور سمجھتے کہ اس میں محض جھوٹے مدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے.کسی ایسے مدعی کے آنے کے راستہ کو مسدود قرار نہیں دیا گیا جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت کی بنا دے تو کبھی وہ فتنہ پیدا نہ ہوتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر پیدا ہوا اور جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمان خدا تعالیٰ کے ایک نبی کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے.یہی غلطی ہمیشہ ٹھوکر کا موجب ہو ا کرتی ہے اور اسی وجہ سے خلفاء اربعہ کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ مسائل کے متعلق جب آپس میں گفتگو ہوتی تو وہ صحابہ کی رائے معلوم کیا کرتے اور اُن سے دریافت کیا کرتے کہ انہوں نے اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سُنا ہوا ہے تا خالی رائے اور عقلی قیاسات پر لوگ نہ جائیں بلکہ اس لمبے تجربہ پر جائیں جو انہوں کی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.پھر جب بہت سے صحابہ کی را ئیں مل جاتیں اور وہ متفقہ طور پر یا ان کی اکثریت یہ بتاتی کہ انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فلاں مسئلہ اس طرح سُنا ہوا ہے تو اس پر متحد ہو جاتے اور اُن کے آپس کے اختلافات سب دُور ہو جاتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میں بھی بعض دفعہ غلط نہی ہو جاتی ہے مگر جب مختلف روایات جمع ہو جائیں تو فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے اور انسان دیکھ سکتا ہے کہ اکثر روایات کا اتحاد کس بات پر ہے.ور نہ ایک آدمی بعض دفعہ سمجھنے میں غلطی بھی کر جاتا ہے.بیسیوں مثالیں تاریخ میں ایسی ملتی ہیں کہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں صحابہ جمع ہوتے.زیر بحث مسائل پر تبادلۂ خیالات کرتے اور بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ کی علیہ وآلہ وسلم سے اس بارہ میں کیا سنا ہوا ہے.ان روایات پر جو مختلف ہوتیں وہ تنقید کرتے کی اور اس تبادلۂ خیالات کے نتیجہ میں آخر صحابہ کی اکثریت تسلیم کر لیتی کہ فلاں بات صحیح ہے اور دوسرے کو غلطی لگی ہے یا بعض دفعہ وہ مختلف روایات سُن کر یہ کہتے کہ روائتیں تو دونوں درست ہیں مگر پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں کہا اور بعد میں آپ نے یوں فرمایا.تو ماب کی موجودگی میں اگر صحابہ کی گواہیوں پر مسائل مختلفہ کے تصفیہ کی بنیاد نہ اُٹھائی جائے تو انبیاء کی صحبت میں اُن کے ایک لمبا عرصہ رہنے کی کوئی غرض ہی نہیں رہتی.پھر تو چاہئے تھا
خطبات محمود ۵۶۱ سال ۱۹۳۸ء ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے لوگوں کے لئے نازل ہو جاتی.نہ کوئی نبی آتا ، نہ اس کا کوئی صحابی بنتا مگر جب ایک نبی آتا ہے اُس کے زمانہ میں لوگ اس پر ایمان لاتے ، اس کی صحبت کی میں اپنی عمروں کا ایک لمبا عرصہ گزارتے ، اس کی باتیں سنتے اور اس کے فیوض سے مستفیض ہوتے ہیں تو اسی لئے کہ وہ آئندہ زمانہ میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کرسکیں اور بتا سکیں کہ وہ نبی جس کی صحبت میں وہ رہے اس کا فلاں مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ تھا اس طریق پر جب کوئی نتیجہ نکالا کی جائے گا تو وہ بہت زیادہ سلجھا ہوا ہو گا.اگر تو کسی مسئلہ کے متعلق صحابہ کا اتفاق ہوگا تو وہ تو بہر حال صحیح ہوگا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اجماع امت کبھی غلط نہیں کی ہوسکتا اور اگر ان کا کسی بات پر اتفاق نہیں ہوگا تو بھی ان کی روایات سُن کر لوگوں کے لئے اصل بات کا سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا کیونکہ ان کے صرف الفاظ نہیں ہوں گے بلکہ اپنا ایک تاثر بھی ہوگا اور تاثر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم بعض الفاظ سُنتے ہیں اور ان سے ہمیں غلطی لگ جاتی ہے مگر کی ہماری طبیعت پر جو مجموعی اثر نبی کی صحبت کا ہوتا ہے وہ غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ تاثر سُنت کا رنگ رکھتا ہے اور سنت حدیث پر غالب ہے.مجھے اس مضمون کے بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ آج کے الفضل میں ایک ایسا مضمون شائع ہوا ہے جو قطعی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کے خلاف اور آپ کی تحریرات کے یقیناً مخالف ہے اور ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ ہیں ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں اپنے کانوں سے سنی ہیں اور ہم جو ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے ہمارے علم بلکہ متواتر علم کے خلاف ہے اور اسی قسم کی باتیں ہیں جو آئندہ زمانہ میں خطرناک فتن پیدا کرنے کا موجب بن جاتی ہیں مثلاً دیکھ لو ہم مسئلہ اجرائے نبوت کے قائل ہیں.اب بالکل ممکن ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت آئندہ بھی دُنیا میں کوئی ایسا نبی بھیجے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہو.جب ایسا ممکن ہے تو جو معیار نبوت پہلے انبیاء کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے وہی اس کے لئے بھی ہوگا کیونکہ معیار کے لحاظ سے تمام انبیاء برا بر ہوتے ہیں ا
خطبات محمود ۵۶۲ سال ۱۹۳۸ء بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امتی نبی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام امتی نبی نہیں تھے مگر معیارِ نبوت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی تھا اور جن دلائل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بچے ثابت ہو سکتے تھے انہی دلائل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچے ثابت ہو سکتے ہیں اور اگر کسی معیار پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے نہیں اُتریں گے تو اس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی پورے نہیں اتر سکیں گے.یہی وہ مسئلہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا مجھے منہاج نبوت پر پرکھو.اگر میں اس منہاج پر سچا ہوں تو مجھے سچا قرار دو اور اگر میں اس منہاج پر پورا نہیں اُتر تا تو بے شک مجھے جھوٹا قرار دے دو.آپ نے یہ نہیں کیا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی بات کرتا تو آپ فرماتے کہ موسی" تو پہلے نبی تھے ؟ میں امتی نبی ہوں یا حضرت داؤ د اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی کوئی مثال دیتا تو آپ فرماتے تھ کہ وہ تو پہلے نبی ہوئے ہیں ان کا کیا ذکر کرتے ہو بلکہ آپ نے تسلیم کیا کہ چونکہ وہ نبی تھے اس کی لئے جو معیار نبوت ان پر چسپاں ہوتا ہے وہی مجھ پر بھی چسپاں کر کے دیکھ لو.بے شک آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ، آپ کی شریعت کی تشریح کرنے والے ، آپ کے شاگرد اور آپ کے کامل غلام ہیں اور ایک قدم بھی آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے اور نبوت بھی آپ کو براہ راست نہیں ملی بلکہ رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ملی مگر نبوت کے منہاج کے لحاظ سے آپ میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں یا آپ میں اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام میں یا کج آپ میں اور دوسرے انبیاء میں کوئی فرق نہیں.اگر ایک بات پہلے کسی نبی کو جھوٹا قرار دیتی ہے تو وہی بات آپ کو بھی جھوٹا قرار دے گی اور اگر ایک بات پہلے کسی نبی کی سچائی کی دلیل قرار پاتی ہے تو وہی بات آپ کی سچائی کی بھی دلیل قرار پائے گی چنانچہ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام وہ دلائل جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کے طور پر پیش کئے تھے اپنے اوپر چسپاں کئے ہیں.اب اگر آئندہ زمانہ میں بھی کوئی نبی آئے اور ہم اس کے آنے سے پہلے ایک غلط معیار قائم کر کے
خطبات محمود ۵۶۳ سال ۱۹۳۸ء لوگوں کے قلوب میں راسخ کر دیں تو یقینا ہم ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی ٹھوکر کا موجب بن جائیں گے مثلاً کوئی شخص آج بیان کر دے کہ آئندہ ہندوستان میں کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور کل ہندوستان میں کوئی نبی آجائے تو یقیناً اس نبی کے جتنے منکر ہوں گے ان تمام کا بارِ گناہ اس شخص کی پر ہو گا جس نے یہ کہا تھا کہ آئندہ ہندوستان میں کوئی نبی نہیں آ سکتا.کیونکہ اس نے ایک ایسی علامت بیان کر دی تھی جو صحیح نہیں تھی اور جس سے لوگوں کو غلطی لگ گئی.پس اس وجہ سے آئندہ جو بھی ٹھو کر کھائے گا اس کی ذمہ داری اس پر عائد ہوگی جس نے ایک غلط بات لوگوں کے سامنے بیان کی ہوگی.وہ مضمون جس کے متعلق میں نے اشارہ کیا ہے وہ حضرت بیجی علیہ السلام کے متعلق ہے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے.یہ مولوی ابوالعطاء صاحب کا مضمون ہے اور چونکہ وہ صحابی نہیں ہیں اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سننے کا موقع نہیں ملا اس لئے ان کی طبیعت پر وہ اثر نہیں ہوسکتا جو اُن لوگوں کی طبائع پر اثر ہے جنہوں نے اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنیں.یقیناً بعد میں آنے والوں کا فرض ہے کہ خواہ وہ سلسلہ کے علماء میں سے ہی کیوں نہ ہوں ایسے مسائل کے متعلق سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کی تحریرات کو دیکھیں پھر آپ کے صحابہ سے ملیں اور ان سے دریافت کریں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے اس مسئلہ کے متعلق اپنی طبائع پر کیا اثر رکھتے ہیں.یہ نہیں کہ وہ کہیں فلاں مسئلہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کیونکہ رائے کے لحاظ سے ان کی بھی الصلوة ایک الگ رائے ہوسکتی ہے.پس ان کا یہ فرض نہیں کہ وہ صحابہ کی رائے دریافت کریں بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ پوچھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں اُنہوں نے فلاں مسئلہ کے متعلق کیا بات سنی ہے اور ان مجالس کے ماتحت اُنہوں نے کیا اثر قبول کیا ہے.اگر بعد میں پیدا ہونے والے لوگ صحابہ سے فائدہ نہیں اُٹھا ئیں گے تو ایک ایسی غلط بنیاد قائم ہو جائے گی جو سلسلہ کے لئے آئندہ زمانہ میں نہایت خطرناک اور تباہ کن نتائج کی حامل ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے زمانہ مین ایسا ہی ہوا کرتا تھا اور میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود ۵۶۴ سال ۱۹۳۸ کے صحابہ کا بھی یہ فرض ہے کہ جب وہ کوئی ایسی بات دیکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کے خلاف ہو تو وہ اس کی تردید کریں اور اس بات پر زور دیں کہ اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فلاں بات اس طرح سنی ہوئی ہے اور اب جو بات اس کے خلاف پیش کی جارہی ہے وہ غلط ہے.بے شک بعض دفعہ کسی ایک صحابی کی رائے رڈ بھی کی جاسکتی ہے.مثلاً ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی بات کہی تو ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ بات اس طرح نہیں اس طرح ہے کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا سنا ہے.آپ نے فرمایا اگر تم نے یہ بات آئندہ کسی کے سامنے بیان کی تو میں تجھے کوڑے ماروں گا.اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقع میں یہ بات سنی ہے تو کوئی گواہ لا.وہ اُس وقت تو خاموش رہے مگر دوسرے موقع پر وہ ایک اور صحابی کو بطور گواہ کی لائے اور اُنہوں نے بھی یہی بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے سُنا ہے.تب آپ نے فرمایا اچھا اب میں تمہاری بات مان لیتا ہوں نے مگر جب تک وہ کوئی گواہ کی نہیں لا سکا تھا آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ ہم تمہاری بات ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ تمہاری اس بیان کردہ روایت کا کوئی اور گواہ نہیں مگر میں کہتا ہوں کیا اس وجہ سے صحابہ کو ڈر جانا چاہئے اور انہیں وہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے جو اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے خود سنی ہے.کوئی مانے یا نہ مانے یقیناً صحابہ کا فرض ہے کہ جب وہ کوئی ایسی بات سنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے خلاف ہو تو وہ کھڑے ہو جائیں اور اپنی روایات بیان کرنا شروع کر دیں مگر وہ یا درکھیں کہ اس کے بعد ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جائے گی اور ان کا یہ حق ہر گز نہیں ہو گا کہ وہ اپنا خیال پیش کریں بلکہ ان کا فرض ہوگا کہ وہ وہی بات بیان کریں جو اُنہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنی ہو اور جس پر انہیں کامل یقین ہو.میرے پاس ایک دفعہ ایک دوست آئے اور اُنہوں نے علیحدہ مجلس میں قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر بیان کرنی شروع کر دی اور کہا کہ ان آیات کی یہ تفسیر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنی ہے.وہ آدھ گھنٹہ تک بیان کرتے رہے.کسی موقع پر میں نے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ان سے کہا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ بات آپ نے اسی طرح سُنی ہے میرا یہ کہنا تھا کہ وہ رونے لگ گئے اور روتے چلے گئے یہاں تک کہ پانچ سات منٹ گزر گئے اس کے بعد بڑی مشکل سے وہ کہنے لگے میرا حافظہ خراب ہے اور میں عالم نہیں ہوں.شائد مجھ سے ان باتوں کے سمجھنے یا بیان کرنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو.اس لئے اب میں آگے آپ کو کوئی بات نہیں سنا تا.مبادا میں کوئی غلط بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی کر دوں.بات ان کی معقول تھی اور پھر ان کا جو تقویٰ تھا وہ بھی مجھے پسند آیا کہ محض اتنی بات کی کا کہ کیا فلاں بات آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اسی طرح سُنی ہے اُن پر اس قدراثر ہوا کہ روتے روتے ان کی گھیگی بندھ گئی اور انہوں نے مزید تفسیر بیان کرنی بند کر دی اور کہا کہ میرا حافظہ خراب ہے اور علم زیادہ نہیں.کہیں میں کوئی غلط بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب نہ کر دوں.اُنہوں نے جو باتیں بیان کیں وہ بڑی معقول تھیں اور چونکہ بات لمبی تھی اس لئے ممکن ہے بعض باتیں انہیں بھول بھی گئی ہوں کیونکہ پون گھنٹہ یا گھنٹہ کی تقریر زبانی یاد نہیں رہ سکتی لیکن میری ایک ذراسی جرح پر وہ اتنے ڈر گئے کہ اُن کی گھگی بندھ گئی اور انہوں نے کہا کہ میرے لئے خدا تعالیٰ سے معافی طلب کریں.خبرے کے میں کوئی کی غلط بات آپ کی طرف منسوب کر گیا ہوں.پھر میں نے بہتیرا زور لگایا اور کہا کہ آپ کوئی اور بات بھی سُنا ئیں مگر اُنہوں نے کہا بات لمبی ہے کیا پتہ ہے میں صحیح طور پر اُسے یاد نہ رکھ سکا ہوں.غرض اُنہوں نے پھر مجھے کوئی بات نہ سُنائی اور اُٹھ کر چلے گئے.یہ ان کی احتیاط تھی جو اُنہوں نے اختیار کی ورنہ اصولی طور پر جس قدر باتیں تھیں وہ بیان کر چکے تھے اور اس میں بعض باتیں واقع میں نہایت پر معارف تھیں اور قرآن کریم کے نئے نکات ان میں بیان کئے گئے تھے.تو احتیاط ضرور چاہیئے مگر احتیاط کے یہ معنے نہیں کہ یقینی طور پر انسان کو ایک بات معلوم ہو اور پھر وہ چپ کر جائے.محض اس لئے کہ وہ پڑھا ہو انہیں آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنہوں نے روایتیں بیان کی ہیں وہ کوئی بی.اے یا ایم.اے تو نہیں تھے.یقیناً ابو ہریرہ کو اتنا علم نہیں تھا جتنا میر مہدی حسین صاحب کو ہے مگر احادیث کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو.ابو ہریرہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء کی اتنی روایتیں آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.تو ہماری جماعت میں صحابہ کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم پڑھے ہوئے نہیں.بے شک ہم انہیں قرآن کریم کا درس دینے کے لئے نہیں کہتے کیونکہ ہم جانتے ہیں اگر وہ درس دیں گے تو کئی جگہ غلطی کر جائیں گے.ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جتنی بات انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنی ہوا سے دھڑنے سے بیان کر دیں اور کسی شخص سے نہ ڈریں.اگر کوئی دوسرا صحابی اس کے مقابلہ میں کوئی اور بات بیان کر دے تو اس میں ان کا کیا حرج ہے.وہ خدا تعالیٰ کے حضور بری الذمہ ہو جائیں گے اور دوسرے لوگ موازنہ کر کے ایک صحیح رائے پر پہنچ سکیں گے.حدیثوں میں ایسی کئی کی مثالیں ملتی ہیں ایک صحابی کہتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فلاں بات اس طرح سُنی ہے دوسرا کہتا ہے اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے.اب خود ہی سوچو اس میں کسی کی کیا ہتک ہو گئی.دونوں نے اپنا فرض ادا کر دیا.اُس نے بھی اور اس نے بھی بلکہ عقلمند کے کی نزدیک ان کی عزت بڑھ جائے گی کیونکہ وہ کہے گا انہوں نے دین پر اپنی عزت کو مقدم نہیں سمجھا بلکہ اسے صحیح بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے اپنی ایک رنگ کی ہتک کو بھی گوارا کر لیا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے صحابہ کا بھی یہی طریق عمل ہونا چاہئے.اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک واضح تعلیم کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ بتادیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا سنا ہوا ہے تا جماعت کسی غلطی کا شکار نہ ہو جائے.اگر وہ ایک متفقہ بات جماعت کے سامنے پیش کریں گے یا ایک ایسی بات پیش کریں گے جس پر ان کی اکثریت متفق ہوگی تو خدا تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اجر پائیں گے اور اگر اُن میں سے کوئی شخص حافظہ کی کمزوری یا علم کی کمی یا کسی اور نقص کی وجہ سے کوئی بات صحیح طور پر بیان نہیں کرے گا اور صحابہ کی اکثریت اس کی بات کو رڈ کر دے گی تب بھی وہ کی خدا تعالیٰ سے کہہ سکے گا کہ اے خدا میں نے تیرے مسیح سے جس رنگ میں بات سُنی اور جس کی رنگ میں میرے حافظہ میں محفوظ تھی وہ میں نے لوگوں تک پہنچادی تھی اور یقیناً ایسی حالت میں اگر وہ غلط بات بھی کہے گا تب بھی اسے ثواب ملے گا.کیونکہ خدا کہے گا تم نے میرے دین کے جھنڈا کو اونچا رکھنے کی کوشش کی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ایک امت کو اس کی
خطبات محمود ۵۶۷ سال ۱۹۳۸ء کے قریب ترین عہد میں غلط راستہ پر جانے دے.یقیناً اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے گا جو صحیح نہیں ہوگی تو خدا تعالیٰ دو اور صحابیوں کو کھڑا کر دے گا جو صحیح بات بیان کر کے اس کی غلطی کو واضح کر دیں گے.پھر مجھے ”الفضل“ پر بھی تعجب آتا ہے’الفضل‘سلسلہ کا آرگن ہے اور ”الفضل“ کے ایڈیٹر گو عالم نہ ہوں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو دماغ دیا ہوا ہے.کیا اُن کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ اس کی مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصوص صریحہ پیش ہو جانے کے بعد کسی شخص کا مضمون نہ لیں.چاہے وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو’الفضل“ کے ۲۶ جون کے پرچہ میں نصوص صریحہ کے ساتھ یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قتل بچی کے قائل تھے مگر اُن نصوص کے شائع ہونے کے دو ماہ بعد ایڈیٹر اٹھتا ہے اور ایک اور مضمون شائع کر دیتا ہے جو صرا حنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے خلاف ہے.محض اس لئے کہ وہ مولوی ابو العطاء صاحب کا ہے جو سلسلہ کے نوجوان علماء میں سے سابقون میں نظر آ رہے ہیں.حالانکہ مولوی ابو العطاء کیا اگر اُس مضمون پر مولوی سید سرور شاہ صاحب یا میر محمد اسحاق صاحب یا مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا نام بھی لکھا ہوا ہوتا تو الفضل والوں کا فرض تھا کہ وہ کہتے تم سب شاگر داور تابع ہو اپنے آقا کے.جب تمہارا آقا اور مطاع یہ کہتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے تو تمہارا کیا حق ہے کہ اس کے خلاف 66 لب کشائی کرو.الفضل‘ سلسلہ کا اخبار ہے.وہ اس لئے جاری نہیں کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کی تردید کی جائے بلکہ اس لئے جاری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی تعلیم اس کے ذریعہ دُنیا میں پھیلائی جائے اور گو یہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو دُنیا میں پھیلائے مگر جو شخص اسی بات کی تنخواہ لیتا ہو اس کی تو یہ انتہائی بددیانتی ہوگی اگر وہ دیدہ و دانستہ ایسا کرے اور سلسلہ کا کارکن ہوتا ہو ا کام وہ کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو ر ڈ کرنے والا ہو.ان کو تو مقر ر اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ان باتوں کو شائع رڈ کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی اشاعت کرنے والی ہوں مگر وہ اپنے اخبار میں
خطبات محمود ۵۶۸ سال ۱۹۳۸ء ان باتوں کو بھی لے آتے ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد کی تردید ہوتی کی ہے.مولوی ابوالعطاء الگ رہے اگر میں بھی کوئی مضمون بھیجوں اور الفضل والوں کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی نص صریح اس کے خلاف ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں سے وہ حوالہ نکال کر مجھے بھیج دیں اور کہیں کہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے اور آپ کا مضمون یہ ہے.اب کیا کیا جائے ؟ اس حوالہ کو دیکھنے کے بعد بھی اگر میں یہ کہوں کہ مضمون بیشک شائع کر دیا جائے اس کی حوالہ کا وہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا تو بیشک وہ مضمون شائع کر دیں.اس صورت میں وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بری ہو جائیں گے اور اسے کہ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتابوں مین سے ایک حوالہ نکال کر انہیں بتا دیا تھا.پس اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ان پر ہے.ایسی حالت میں اگر اس حوالہ کے معنے کرنے میں میں غلطی کرتا ہوں تو میں ذمہ دار ہوں گا وہ نہیں ہوں گے لیکن اگر انہیں میرے مضمون کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کی والسلام کی کوئی نص صریح معلوم ہو اور وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں اور مضمون شائع کر دیں تو میں بھی مجرم ہوں گا اور وہ بھی مجرم ہوں گے کیونکہ انہوں نے میری غفلت کو دور نہ کیا اور میرے علم میں وہ بات نہ لائے جو ان کے علم میں تھی.آخر یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اسی اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصوص چھپتی ہیں.ایسی نصوص جو بالکل واضح ہیں اور جن سے کی علی وجہ البصیرت یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے لیکن دو مہینہ کا وقفہ دے کر اخبار والے ایک اور مضمون چھاپ دیتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے صریح خلاف ہے.اگر یہ طریق ہمارے سلسلہ میں جاری ہو جائے تو وہ فتنے جنہوں نے صدیوں کے بعد پیدا ہونا ہے آج ہی اُٹھنے شروع ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام کتابیں پارہ پارہ ہو کر رہ جائیں اور جیسے یہود کے متعلق اللہ تعالیٰ کی فرماتا ہے تجعلونه قراطيس A کہ تم نے خدا تعالیٰ کی کتاب کو ورق ورق کر دیا.ویسے ہی آدمی ہم میں بھی پیدا ہو جائیں.ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں ایک لمبا عرصہ رہے اور ہم آپ کے پاس بیٹھنے والے ہیں.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود ۵۶۹ سال ۱۹۳۸ء کی زبان مبارک سے باتیں سنیں اور بار ہائنیں.پس میرے لئے کسی کی زبان سے یہ سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے ایسا ہی قابل تعجب ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ حضرت یحیی علیہ السلام زندہ ہیں اور بجسد عصری آسمان پر بیٹھے ہیں.ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے ہم نے یہ سنا اور ایک رنگی میں نہیں بلکہ مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں سُنا اور اب ہمارے لئے یہ بات ماننی بالکل کی نا ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قتل یحیی کے قائل نہیں تھے.پھر صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سننے کا سوال نہیں بلکہ ہم میں اس بات پر بخشیں ہؤا کرتی تھیں اور ہم ہمیشہ اُس وقت کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے مثلاً حضرت خلیفہ امسیح الاوّل اس بات کے قائل تھے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی قتل نہیں ہو سکتا اور ہم ہمیشہ آپ سے اس معاملہ میں بحث کیا کرتے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر کی دکھایا کرتے.آخر ۱۹۱۰ ء کے قریب انہوں نے اقرار کیا کہ اب آئندہ کے لئے میں اس مسئلہ کو بیان نہیں کروں گا ورنہ پہلے آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خطا بیات ہیں جیسے علی گڑھ کے سید احمد خان صاحب کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں بہت جگہ خطابیات کے طور پر باتیں بیان کی کی گئی ہیں مگر جب ہم نے متواتر حوالہ جات کو نکال نکال کر آپ کے سامنے رکھا اور کئی شہادتیں آپ کے سامنے اس امر کے متعلق پیش کیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو آپ نے اُس وقت فرمایا میں سمجھتا ہوں اب مجھے آئندہ کے لئے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے مگر حضرت خلیفہ اول نے بھی اپنے دلائل کے ضمن میں یہ کبھی نہیں فرمایا تھا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسا سُنا ہے.آپ فرماتے میر اعلم یوں کہتا ہے مگر جب ہم نے ان پر یہ بات ثابت کر دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ بعض انبیا ء شہید ہوئے ہیں تو پھر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا اب میں خاموش ہو جاتا ہوں اور آئندہ اس کے متعلق کبھی
خطبات محمود ۵۷۰ سال ۱۹۳۸ کوئی بات نہیں کروں گا.محمد لیکن اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول ہمیشہ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انبیاء قتل نہیں ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں ان کا یا کسی اور عالم کا پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک پٹھان نے کہ دیا تھا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.پہلے اس نے کہیں کنز میں پڑھ لیا تھا کہ حرکت کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک حدیث ایسی آگئی جس میں یہ لکھا تھا کہ نماز پڑھتے پڑھتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرکت کی.اپنا ایک نواسہ آپ نے اُٹھالیا.جب سجدہ میں جاتے تو اُسے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُسے پھر اُٹھا لیتے.یہ پڑھتے ہی وہ کہنے لگا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.کنز میں لکھا ہے کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.اب نمازیں لانے کی والے محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے مگر آپ کی نمازیں توڑنے والا وہ پٹھان بن گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں کسی کے قول کی کیا حیثیت ہے.قول کی وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا ہوا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس میں متواتر یہ ذکر آتا رہا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے.آج ہی میں نے میر محمد اسحق صاحب کو بلایا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک روایت یاد ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بارہا یہ ذکر ہوتا تھا کہ آپ سے پہلے ارہاص کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کو بھیجا کی اور یہ کہ مسیح اول اور مسیح موعود میں یہ بھی باہمی مشابہت ہے کہ جیسے حضرت مسیح کی خبر دینے والے میں خطبہ کے بعد آیا تو میری چھوٹی ممانی جو حضرت خلیفہ اول سے قرآن کریم پڑھتی رہی ہیں اُنہوں نے کہا کہ مرد تو مر در ہے ہم عورتیں حضرت خلیفہ اول سے جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل نہ ہونے کا مسئلہ سُنا کرتی تھیں تو مجھے یاد ہے کہ ہم یہ کہا کرتی تھیں یہ مولوی صاحب کا عقیدہ ہے ہمارا عقیدہ نہیں.وہ کہتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی روایت تو مجھے یاد نہیں مگر یہ اثر ہمارا تھا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت یحی قتل ہوئے.
خطبات محمود ۵۷۱ سال ۱۹۳۸ء حضرت یحیی علیہ السلام شہید کئے گئے تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر دینے والے حضرت سید احمد صاحب بریلوی بھی شہید ہوئے اب یہ روایت مجھے اچھی طرح یاد ہے اور یہ صرف میری روایت ہی نہیں بلکہ بعض اور صحابہ کی بھی ہے.چنانچہ ابھی جبکہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے آ رہا تھا ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالند ہری نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں مجھے ایک رقعہ دیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں اللہ جَلَّ شَأْنُه کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو مرتبہ مسجد مبارک میں فرمایا ( گویا کہ میں اب بھی آپ کو بولتے سنتا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ محمدیہ کو سلسلہ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے.سلسلہ موسویہ کے اوّل نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.اسی طرح سلسلہ محمدیہ کے بانی حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا کی آخری خلیفہ (حضرت) مسیح موعود ہے.پس ایسے سلسلہ کا اول نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہو سکتا ورنہ حق مُشتبہ ہو جائے.ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو بھی جائے تو اس سے لو تقول 2 کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہوسکتاز دنہیں پڑتی.اور فرمایا کہ ایک امر تشبیہ کا یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ حضرت عیسی سے پیشتر قتل ہوئے اسی طرح میری بعثت یا آمد سے پیشتر حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے.پھر فرمایا کہ حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور اسمعیل شہید میرے لئے بطور ا رہاص تھے.سے حضرت یحیی حضرت عیسی" کے لئے بطور ا رہاص تھے.یہ بعینہ وہی روایت ہے جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سنی اور یہ بھی میرے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر اُنہوں نے لکھ کر مجھے بھیجی ہے.جب صبح میں نے میر محمد الحق صاحب سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے مجھے روایت تو کوئی یاد نہیں لیکن یہ میں کہہ سکتا ہے ہوں کہ شروع سے یہی عقیدہ سمجھتے آئے ہیں.حضرت خلیفہ اول کا بیشک پہلے یہ خیال تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے اور آپ اپنی مجالس میں بھی یہ بات بیان کیا کرتے تھے مگر بعد میں آپ نے اس سے رجوع کر لیا تھا.یہ عجیب بات ہے کہ حضرت خلیفہ اول وہی دلائل
خطبات محمود ۵۷۲ سال ۱۹۳۸ء دیا کرتے تھے جو مولوی ابو العطاء صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں پیش کئے ہیں.آپ بھی فرمایا کرتے تھے دیکھو حضرت یحیی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَسلم عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيَّان لے کہ اس پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور سلامتی ہے جس دن فوت ہوا اور سلامتی ہے جس دن دوبارہ اُٹھایا جائے گا.اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ آپ شہید ہوئے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اول نے یہی دلیل پیش فرمائی تو مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی جب موقع لگے یہ آیت پوچھنا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے یہ آیت جا کر پیش کر دی اور عرض کیا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے.مجھے اس وقت یہ یاد نہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہا کہ اس بارہ میں مجھے حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ہے یا یہ نہیں کہا مگر ایک دوسری روایت جو اصحاب الکہف کے متعلق میں بیان کیا کرتا ہوں اس کے متعلق تو مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کر دیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ سے اس کے متعلق پوچھوں مگر آپ نے سُن کر فرمایا مولوی صاحب کی غلطی ہے.اصحاب الکہف تو میری جماعت کا نام بھی رکھا گیا ہے.اس لئے اس سے مراد کوئی مشرک جماعت نہیں ہو سکتی.( بعد میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے معنے سمجھا دیئے جن سے دونوں معنے باہم مطابق ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی اور حضرت خلیفہ اول کے بھی ) غرض مجھے یقینی طور پر یہ یاد نہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس اس دوسرے حوالہ کے بارہ میں یہ ذکر کیا یا نہیں کہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے اس کے دریافت کرنے کے لئے کہا تھا.بہر حال میں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے میں نے یہ آیت پیش کی اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں یا میں نے یہ کہا کہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید نہیں ہوئے اس پر آپ نے قرآن کریم منگوایا.یا قرآن کریم اس وقت میں ہی ساتھ لے کر گیا تھا اور اسے آپ نے کھولا اور سورۃ مریم میں سے یہ آیت نکال کر اس کے دوسرے حصے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.
خطبات محمود ۵۷۳ سال ۱۹۳۸.اگر اس کے یہی معنے ہیں تو اس دوسرے حصہ کے کیا معنے ہوں گے.وہ حصہ کونسا تھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ہاتھ رکھا، یہ مجھے یاد نہیں رہا.میں قیاساً کہہ سکتا ہوں کہ غالباً کی وہ آیت کا وہ آخری حصہ ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت بیبی" پر اس دن بھی سلامتی ہوگى يوم يبعث حیا جس دن وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا.مطلب یہ کہ اگر آپ پر سلامتی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی ہونے کے کیا معنے ہیں.کیا قیامت کے دن بھی آپ کے قتل کی کوئی دشمن تدبیر کرے گا کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی.آخر اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ دشمن کی تدابیر قتل کا اس میں رڈ ہے تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت بیچی پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے.جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن جی اُٹھیں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے.اب کیا قیامت کی کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے متعلق یومَ يُبْعَثُ حَيًّا پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان معنوں کو ر ڈ کیا اور فرمایا کہ اس کی کے یہ معنے غلط ہیں.پس گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت جو دلیل بیان فرمائی وہ مجھے یاد نہیں مگر میں قیاساً کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا اشارہ وَسَلْمُ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيَّان کے آخری حصہ کی طرف تھا.سلم عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِد کے متعلق تو پھر بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام پیدا ہوتے ہی نہیں مر جائیں گے بلکہ کچھ عرصہ دنیا میں زندہ رہیں گے.مگر يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا کے کیا معنے بنیں گے.کیا اس دن اور لوگ مارے جائیں گے کہ حضرت یحیی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ خاص طور پر بچائے گا.جب اور لوگ بھی اس دن زندہ ہوں گے تو حضرت یحیی علیہ السلام کی زندگی اور آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی خاص ندرت اپنے اندر کیا رکھتی ہے.در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ مین تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کا کچھ سمجھ لیا.دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں.ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش سے اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر.اس زندگی کو حیاة الدنیا کی
خطبات محمود ۵۷۴ سال ۱۹۳۸ء کہا جاتا ہے.دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے.اس زندگی کو کی برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق حدیثوں میں خبر دی گئی ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوتی جاتا ہے تو اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت کی طرف سے اس کے لئے ایک کھڑ کی کھول دی جاتی ہے اور اگر دوزخی ہوتا ہے تو دوزخ کی طرف سے اس کے لئے ایک کھڑ کی کھول دی جاتی ہے.گویا مرتے ہی انسان کو آرام یا عذاب ملنا شروع ہو جاتا ہے.اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مختلف قسم کی رحمتیں اور فضل اس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں اور اگر دوزخی ہوتا ہے تو مختلف قسم کے عذاب اس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں.مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دیئے جائیں گے یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے.پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حیاة الدنیا کی کا.موت ابتدائی نقطہ ہے حیات برزخی کا اور یوم البعث ابتدائی نقطہ ہے اُخروی حیاۃ کا.یہ تین ابتدائی نقطے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحیی کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے.اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہوگی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا.پھر جب اس نے وفات پائی تو پھر بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ کی عالم برزخ میں بھی سلامتی سے حصہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن پھر اس پر سلامتی نازل ہوگی اور وہ اخروی حیاۃ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا.یہ تین ابتدائی مرتبے انسانی زندگی کے ہیں جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں.قتل کا یہاں ذکر ہی کہاں ہے.اگر کہیں قتل کی نفی ہو سکتی ہے تو وہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام نے اسی قسم کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں اور فرمایا ہے وَالسَّلَمُ عَلَي يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ آمُوْتُ وَيَوْمَ ابْعَثُ حَيًّا لے مگر وہاں بھی یہ معنے ہم اسی لئے لیتے ہیں کہ یہود ان کے متعلق یہ کی کہا کرتے تھے کہ وہ لعنتی موت مرے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ تو رات میں لکھا ہے جو صلیب پر لٹک کر وفات پاتا ہے وہ لعنتی ہوتا ہے.پس چونکہ یہود ان کے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ وہ لعنت کی موت مرے ہیں اور عالم برزخ میں عذاب دیئے جارہے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان یہود کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ صلیب پر
خطبات محمود ۵۷۵ سال ۱۹۳۸ء نہیں مرے.پس اگر ہم وہاں یہ معنے کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے تو اس کی ہمارے پاس دلیل ہوتی ہے اور ہم کہتے ہیں چونکہ یہود کا یہ اعتقاد تھا کہ صلیب پر مر نے والا لعنتی ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم نے مسیح کو مصلوب کر دیا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی مگر یہاں تو اس قسم کا کوئی اعتراض نظر نہیں آتا.پس کوئی وجہ نہیں کہ اس آیت کے ایسے معنے کئے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہیں.میں جیسا کہ بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہم نے ہمیشہ یہ بات سُنی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے.ممکن ہے حضرت خلیفہ اول کی شاگردی کے لحاظ سے ابتدائی ایام میں میں نے بھی کبھی کہہ دیا ہو کہ حضرت یحیی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے کیونکہ قرآن کریم میں نے حضرت خلیفہ اول سے ہی پڑھا ہے.گو مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی کچ ایسا کہا ہو لیکن یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ آیت رکھی تو آپ نے ان معنوں کو غلط قرار دیا جو عام طور پر کئے جاتے ہیں اور فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے.آپ نے اس کے متعلق مجھے یہ دلیل بتائی تھی.وہ جیسا کی کہ میں بتا چکا ہوں مجھے یاد نہیں مگر میں اس وقت اس آیت کی تشریح کر کے بتا چکا ہوں کہ اس کی میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں.اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک وہ زندگی ہے جس کی کی پیدائش سے ابتداء ہوتی ہے، دوسری وہ زندگی ہے جس کی موت سے ابتداء ہوتی ہے اور تیسری وہ زندگی ہے جس کی یوم البعث سے ابتداء ہوتی ہے.پیدائش سے ابتداء دُنیوی زندگی کی ہوتی ہے.موت سے ابتداء برزخی زندگی کی ہوتی ہے اور یوم البعث سے ابتداء اخروی زندگی کی ہوتی ہے اور قرآن کریم سے یہ تینوں زندگیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا کہ حضرت یحیی علیہ السلام ان سب زندگیوں میں خدا تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے ہیں.وہ دنیوی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مور در ہے ، وہ برزخی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورد ہیں اور وہ اُخروی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورد ہوں گے اور یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کی حضرت یحیی کے لئے نہیں آیا بلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے.چنانچہ سورہ انعام میں آتا ہے کہ
خطبات محمود ۵۷۶ سال ۱۹۳۸ء وإذا جاءَكَ الذِينَ يُؤْمِنُونَ بِايَتِنَا فَقُلْ سَلْمُ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلى نفسه الرحمة ۱۲ یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو اور تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کر لی ہے.یہ سلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے.پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے کہ الذِينَ تَتَوَقِّهُمُ الْمَلَيْكَةُ طَيْبِينَ يَقُولُونَ سَلمُ عَلَيْكُمُ ، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ١٣ یعنی جن لوگوں کی روح فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں.فرشتے انہیں اس وقت یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو.جاؤ اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاؤ.اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں.بعض کی شہادت کے ذریعہ سے نکالتے کی ہیں تو کیا اگر سلامتی کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ سلام سلام بھی کرتے جارہے ہوں گے.گویا جو بات ہو رہی ہو گی اسی کی تردید کر رہے ہوں گے.اسی طرح سورۃ طہ میں آتا ہے والسلم على مَنِ اتَّبَعَ الهُدی سے جو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے.اگر سلام کے معنے دشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا پھر سورہ مائدہ میں مومنوں کی نسبت فرماتا ہے يَهْدِي بو الله مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُل ۱۵ یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے.اب اگر سلام کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے.جو بالبداہت غلط ہیں.اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا لفظ ہے.بعض موقعوں پر یقیناً اس کے یہ معنی بھی ہوں گے کہ دشمن کے کسی حملے سے بچالے ، بعض جگہ بیماری سے بچانے کے ، بعض جگہ نا کا می سے بچانے کے معنے ہوں گے لیکن بغیر کسی زبر دست قرینے کے ایک خاص معنے ایک عام لفظ کے کرنے اور اسے نص قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو اس کے ماتحت کرنے کی
خطبات محمود ۵۷۷ سال ۱۹۳۸ء کوشش کرنا یہ درست نہیں ہے.غرض میری مراد یہ نہیں کہ سلامتی کے معنے قتل سے بچنے کے نہیں ہو سکتے.یقیناً ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اور بھی بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اس کے وہی معنے لئے کی جائیں گے جو خدا تعالیٰ کے نبی کے قول کے خلاف نہ ہوں گے.اس آیت میں نص سلامتی ہے نہ کہ قتل سے بچنا.اگر سلامتی کے معنے نص قتل سے بچنے کے ہوں تو پھر لازماً اوپر کی آیات کے مخاطبین کو بھی قتل سے بچنا چاہئے اور لازماً قیامت کے دن بھی قتل کی کوئی صورتیں ممکن ہونی چ چاہئیں بلکہ جنت میں بھی کیونکہ اس کے لئے بھی سلامتی کا لفظ آتا ہے لیکن اگر جیسا کہ میں کہتا ہی ہوں سلام کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور ہر موقع کے مناسب معنے اس کے کئے جانے ضروری ہیں.تب کسی آیت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.ہر جگہ کے مناسب حال سلام کے معنے کئے جائیں اور جب کسی لفظ کے کئی معنے ہوں تو ایک معنی کو لے کر اسے نص قرار دینا جائز نہیں اور جب کئی معنے ہوتے ہوں تو نبی کے ادنیٰ سے اشارہ کے بعد بھی ایسے معنے کرنے درست نہ ہوں گے جو نبی کے معنوں کو ر ڈ کر دیتے ہوں.ہاں وہ معنے درست ہوں گے جن کی موجودگی میں نبی کے معنے بھی قائم رہتے ہوں کیونکہ قرآن غیر محدود معارف رکھتا ہے اور نبیوں اور ان کی اُمتوں پر ہمیشہ اس کے وسیع معنے کھلتے رہیں گے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ - پھر یہ بات بھی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے متواتر سنی ہے کہ دو قسم کے نبی کبھی قتل نہیں ہوا کرتے.ایک وہ جو سلسلہ کے اول پر آتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ایک وہ جو سلسلہ کے آخر میں آتے ہیں جیسے سلسلہ موسویہ میں حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.باقیوں کے متعلق یہ کوئی شرط نہیں کہ وہ قتل نہیں ہو سکتے.یہ نہیں کہ وہ ضرور مارے جاتے ہیں.مطلب یہ کہ اگر ان میں سے کوئی مارا جائے تو اس سے اُسے جھوٹا قرار نہیں دیا جا سکتا.میں نے بھی متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ بات سنی ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری بھی یہی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سلسلہ محمدیہ کو سلسلہ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے.سلسلۂ موسویہ کا اول نبی حضرت موسی" ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسی“ ہیں.اسی طرح سلسلہ محمدیہ کے بانی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا آخری خلیفہ (حضرت) مسیح موعود ہے.
خطبات محمود ۵۷۸ سال ۱۹۳۸ء پس ایسے سلسلہ کا اول نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہو سکتا ورنہ حق مشتبہ ہو جائے.ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو جائے تو اس سے لَو تَقَوَّل کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہوسکتا زد نہیں پڑتی.یہی مضمون میں نے بارہا سنا ہے ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة في والسلام کے زمانہ میں جب اپنی تقاریر یا بحث مباحثہ میں ہم نے لَو تَقَوَّلَ والی آیت پیش کرنیکی ہوتی تو ہمیں متواتر یہ سبق دیا جاتا کہ یہ مت کہنا کہ جو نبی قتل ہو جائیں وہ جھوٹے ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا کہ جس مدعی کو دعوی نبوت کے بعد اتنی مہلت ملے جتنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تھی ج وہ ضرور سچا ہوتا ہے.یہ معنے ہیں جو ہمیں متواتر بتائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ لَوْ تَقَوَّل کے یہ معنے نہ کرنا کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا کہ جو اتنی عمر پائے جتنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی نبوت کے بعد پائی یا اس سے بھی زیادہ بی عمر پائے وہ کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا.گویا لبی عمر پانا بچے ہونے کی دلیل ہے.کسی نبی کا قتل ہو جانا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں جس طرح انگریزی میں ہیمر (HAMMER) کرنا یعنی ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر کسی چیز کو اندر داخل کرنا بولا جاتا ہے.اسی طرح بار بار ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی تھی اور ہمیں کہا جاتا تھا کہ اس سے یہ استدلال نہ کرنا کہ کوئی سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کرنا کہ دعوی نبوت کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم جتنی عمر اگر کوئی مدعی نبوت پالے تو وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا.گویا کسی مدعی کا لمبی عمر پانا اس کے بچے ہونے کی دلیل ہے.کسی کا مارا جانا اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں.میر مهدی حسین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں وہ بھی لکھتے ہیں: میں یہ بیان مؤکد بہ قسم حضرت بیٹی علیہ السلام کے قتل کی نسبت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی مجلس میں سُنا ہے لکھ کر دیتا ہوں.آپ نے فرمایا: بی علیہ السلام کے قتل کی بابت یہ سمجھنا چاہئے کہ سلسلہ کا اوّل اور آخر نبی قتل نہیں ہوتا.اگر ایسا ہو تو کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور مصیبت حد سے بڑھ جاتی ہے.درمیانی انبیاء اور خلفاءاگر قتل ہوں تو اس قدر نقصان نہیں ہوتا.ابھی بعض اور گواہیاں بھی میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے لے رہا ہوں کی
خطبات محمود ۵۷۹ سال ۱۹۳۸ء مگر یہ بات بہر حال یقینی ہے کہ ہم نے اس بات کو اتنے تو اتر کے ساتھ سُنا ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوسکتی.مولوی ابو العطاء صاحب نے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کی ایک شہادت بھی اپنے مضمون میں درج کی ہے.وہ لکھتے ہیں : بالآ خر میں جناب مولوی علام رسول صاحب را جیکی کے ایک تازہ خط کے مندرجہ ذیل اقتباس پر مضمون کو ختم کرتا ہوں جو یہ ہے: حضرت خلیفہ اول کا یہی عقیدہ تھا کہ کوئی نبی قتل نہیں کیا گیا.بلکہ میں شہادۃ باللہ لکھتا ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے ان کی زبانِ مبارک سے سُنا ہے کہ میں چونکہ نبیوں سے بہت محبت رکھتا ہوں اس لئے میں بھی قتل سے محفوظ رہوں گا.شاید یہ بات انہوں نے کسی الہامی بشارت کی بنا پر کہی ہو یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مماثلت حفاظت پر قیاس فرماتے ہوئے “.میں خود بتا چکا ہوں کہ حضرت خلیفہ اُمسیح الاوّل کا یہی خیال تھا مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر آپ کو بتائے تو آپ نے فرمایا اب کی میں آئندہ کے لئے اس بات کو بیان نہیں کروں گا.مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے حضرت خلیفہ اول کو وہ روایت سنائی تھی یا نہیں جو ابھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بیان کی ہے اور جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اس آیت کا یہی مطلب ہے تو اس کے آخری کی حصہ کا کیا مطلب ہوا ؟ ممکن ہے شرم کے مارے میں نے آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کا ذکر نہ کیا ہو مگر یہ مجھے یقینی طور پر یاد ہے کہ میں اور حافظ صاحب مرحوم متواتر کی آپ کو اس بارہ میں توجہ دلاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالہ جات دکھاتے کی اور روایات سُناتے تھے.یہاں تک کہ آپ نے اپنے سابقہ عقیدہ سے رجوع کیا اور فرمایا آئندہ میں یہ بات بیان نہیں کیا کروں گا.پس یہ شہادت کسی پر محبت نہیں ہوسکتی.ایک شخص کو جمعہ کے بعد اس بارہ میں حافظ صوفی غلام محمد صاحب نے بھی اپنی شہادت بیان کی جو دوسری شہادتوں کے ساتھ الگ شائع کی جائے گی.
خطبات محمود ۵۸۰ سال ۱۹۳۸ء اگر علم ہی نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فلاں مسئلہ کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ای ہے یا آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے تو وہ اگر لاعلمی میں کوئی بات کہہ دے تو اس سے اور لوگ استدلال نہیں کر سکتے.جاننے والے جانتے ہیں کہ نبوت اور کفر و اسلام وغیرہ مسائل کے متعلق بھی بعض بجوئیات کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسیح الاول کو پوری واقفیت نہیں تھی.پیغامیوں کا جب فتنہ اُٹھا اور اُنہوں نے ان مسائل کو غلط رنگ میں بیان کرنا شروع کیا تو بعض اجزاء کے متعلق بعض دفعہ آپ فرما دیتے ممکن ہے یہ بات یوں ہی ہو.مگر جب حوالہ جات نکال کر دکھائے جاتے تو آپ فرماتے ہاں اب بات میری سمجھ میں آ گئی ہے لیکن اس مسئلہ کے متعلق جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے صاف طور پر فرمایا تھا کہ اب میں آئندہ ایسی بات نہیں کہوں گا لیکن اگر بفرض محال ان کا یہ عقیدہ ہمیشہ رہا ہو تو بھی ان کی بات کو پیش کرتی کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی بات کو رڈ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اس پٹھان نے کہا تھا خومحمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.حضرت خلیفہ اول چاہے کتنی بڑی حیثیت رکھتے ہوں.کی ایک نبی کے مقابلہ میں ان کی بات کوئی وقعت نہیں رکھتی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر مؤمنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ کہ اے ایمانداروں تم اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو.پس اس آیت کے ماتحت تو ہم سمجھتے ہیں اگر حضرت خلیفہ اول بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی بات کی کا انکار کر دیتے تو وہ ویسے ہی مجرم ہوتے جیسے دوسرے لوگ ہوتے مگر ہم جانتے ہیں انہوں نے انکار نہیں کیا اور اوّل المؤمنین ہوئے لیکن نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ اگر وہ منکر ہوتے تو پھر کیا ان کی کوئی حیثیت ہماری جماعت میں ہوتی.آخر خلیفہ کی نبی کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوتی ہے.خلیفہ تابع ہوتا ہے اور نبی متبوع.ہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اسلام میں بہت بلند مقام تسلیم کرتے ہیں مگر اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے رہے.اکر کل کو کوئی کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں بات غلط ہے کیونکہ حضرت ابو بکر نے یوں کہا تھا تو یہ بات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان کو بلند کرنے والی نہیں بلکہ آپ کی شان کو گرانے والی ہو گی.خلفاء کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی متولع کے تابع ہو کر چلیں.اگر وہ ان کی تعلیم.ނ
خطبات محمود ۵۸۱ سال ۱۹۳۸ء باہر ہو کر کوئی بات کرتے ہیں تو ان کی کوئی ہستی ہی نہیں سمجھی جاسکتی.پس اللہ تعالیٰ کے نبی کے مقابلہ میں کسی کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام کتنا بلند ہے مگر آپ فرماتے ہیں اگر میرا الہام رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کے خلاف ہوتا تو میں اسے تھوک کی طرح اُٹھا کر پھینک دیتا اور اس کی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی قدر نہ کرتا.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ پر کوئی خلاف قرآن الہام نازل ہوتا.پیغامی اس سے غلطی سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے الہامات کو کوئی وقعت نہیں دی اور آپ کے الہامات پر ایک ضعیف سے ضعیف حدیث بھی فوقیت رکھتی ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ اپنے الہامات کا غلط ہونا بیان نہیں کر رہے بلکہ قرآنی الہامات کی عظمت اور برتری کا ذکر فرمارہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ رسول کریمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ عظمت اور شان ہے کہ اگر میرے الہام خلاف قرآن ہوتے تو میں انہیں تھوک کی طرح پھینک دیتا یعنی کبھی ان کی بناء پر دعوی نہ کرتا اور اسے بلغم جتنی حیثیت بھی نہ دیتا.مولوی ابوالعطاء صاحب نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کی ایک روایت کا بھی اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے.مولوی صاحب لکھتے ہیں: میں نے مندرجہ بالا مضمون بمبئی سے لکھا تھا.میرے ذہن میں فولادی میخ کی طرح یہ بات قائم تھی کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قتل انبیاء کے متعلق سوال کیا گیا تو حضور نے فرمایا کہ سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی تو بہر حال قتل نہیں ہو سکتا.درمیانی انبیاء میرے راستہ میں نہیں آئے اس لئے ان کا حال مجھ پر نہیں کھولا گیا.(ملخصاً) اس روایت کا صاف مطلب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قتل یحیی علیہ السلام وغیرہ کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں فرمایا لہذا اس سلسلہ میں تحقیق سے اگر یہ ثابت ہو کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے تو اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعی فیصلہ کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا.یہ روایت میں نے بار ہاسنی مگر یاد نہ رہا تھا کہ اس کے راوی کون بزرگ تھے.قادیان آنے پر معلوم ہوا کہ استاذی المکرم دو
خطبات محمود ۵۸۲ سال ۱۹۳۸ء حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ سے میں نے یہ روایت سنی تھی.انہوں نے دریافت کرنے پر فرمایا کہ ہاں میری موجودگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ یہی جواب دیا ہے.یہ قطعی اور یقینی بات ہے اور میں نے خودا سے بار ہا بیان کیا ہے“.میں نہیں جانتا یہ روایت کیا ہے مگر کم سے کم چالیس پچاس لوگ ایسے گواہ ضرور ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ مولوی ابوالعطاء صاحب کا یہ مضمون چھپا کہ حضرت یحیی علیہ السلام کی قتل نہیں کئے گئے تو میں نے ایک دن عصر کے بعد مولوی سید سرور شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا ”الفضل ، میں مولوی ابوالعطاء صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے.حالانکہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بار ہائنا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے.اس پر مولوی سید سرور شاہ صاحب نے فرمایا میں نے بھی متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے یہی بات سُنی ہے.یہ بات کہیں علیحدہ نہیں ہوئی مجلس میں ہوئی.اُس وقت چالیس پچاس آدمی موجود تھے.اس کے بعد جب مولوی محمد اسمعیل صاحب نے مولوی ابو العطاء صاحب کے مضمون کی تردید میں بعض مضامین لکھے تو ایک دن عصر کے بعد مسجد میں ہی میں نے مولوی محمد اسمعیل صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اپنے مضامین کی آخری قسط میں جو یہ لکھا ہے کہ بعض کی لوگ اس قسم کے بے ہودہ خیالات رکھنے والے بھی دیکھے گئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پر اپنے اوہام کو مقدم رکھتے ہیں اور عذر یہ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی شارع نبی نہیں تھے اور اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ آپ شارع نبی کی نہیں تھے مگر جو لوگ اپنے اجتہادات کو حضور کے ارشادات پر ترجیح دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے وہ خود کیا شارع نبی ہوتے ہیں.یہ آپ نے کیوں لکھا اور آپ کو کیونکر پتہ لگ گیا کہ جمعہ کے بعد چوہدری محمد شریف صاحب ایم اے اور چوہدری غلام حسین صاحب آباد کارسرگودھا دو صاحبان نے گواہی دی کہ ہم اس مجلس میں موجود تھے.خود مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نے یہ بھی کہ دیا تھا کہ عقیدہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت بی قتل ہوئے ہیں.
خطبات محمود ۵۸۳ سال ۱۹۳۸ء مولوی ابوالعطاء صاحب کو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم وضاحت سے بتائی ج جائے تو پھر بھی وہ آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار نہیں.ممکن ہے انہوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے عدم قتل کے متعلق جو کچھ لکھا ہو عدم علم کی وجہ سے لکھا ہو.پس آپ کو محض اصولی طور پر جواب لکھنا چاہئے تھا.یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کو نہیں مانتا وہ ایسا ہوتا ہے پھر میں نے اس مجلس میں بھی ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہم نے بار ہاسنا ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے تھے.اس پر مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے پھر کہا کہ واقع میں یہی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہا فرما یا کرتے تھے کہ حضرت یحیی علیہ السلام قتل ہوئے ہیں.باقی رہی مولوی صاحب کی روایت.سو اس کا اصل مضمون سے کوئی بھی تعلق نہیں.اوّل تو ممکن ہے مولوی صاحب کو خلط ہو گیا ہو کیونکہ یہ بات حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ممکن ہے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرانی تحقیق کی بنا پر فرمائی ہو.اس کی وضاحت آپ پر نہ ہوئی ہو مگر یہ اس سے پہلے کا واقعہ ہے کہ جب ہم نے حوالہ جات نکال کر دکھائے تھے پھر سوال یہ ہے کہ جن امور کے متعلق حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام کو انکشاف ہوا ہے وہ تو پھر وفات مسیح وغیرہ چند ہی ہیں.اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو حق ہونا چاہئے کہ جس مضمون میں چاہیں آپ سے اختلاف کریں.حکماً عدلاً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت آپ کا نام رکھا ہے.ہمارا تو نام نہیں رکھا.حق یہ ہے کہ ہر دینی مسئلہ کے متعلق جس کا ذکر قرآن وحدیث میں آیا ہو.آپ کا ہر قول حجت ہے اور اس قول کو تو آپ خود حجت قرار دے رہے ہیں.چنانچہ جو حوالے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے دیئے گئے ہیں ان میں تو بالوضاحت یہ بات پائی جاتی ہے اور وہاں شک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.روایات میں تو پھر بھی کسی حد تک محبہ کا امکان ہو سکتا ہے مگر تحریرات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پالوضاحت اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے اور ان کے ہوتے ہوئے کسی کے کی لئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے.خدا کرے غلط ہی ہومگر مجھ پر مولوی صاحب کا مضمون پڑھ کر یہ اثر ہوا ہے کہ گویا انہیں اس بات کا غصہ ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب نے ان کے مضمون کی تردید کیوں کی ہے اور اسی وجہ سے
خطبات محمود ۵۸۴ سال ۱۹۳۸ء انہوں نے بعض جگہ پر حوالہ جات پر بھی غور نہیں کیا.چنانچہ انہوں نے ایک حوالہ میری کی طرف اور علماء سلسلہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے درج کیا ہے جو اگر وہ غور کرتے تو ہر گز اس قابل نہ تھا کہ اس موقع پر اور اس طرح اسے درج کیا جاتا.مولوی ابو العطاء صاحب مولوی محمد اسماعیل صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ” جناب مولوی صاحب کے نزدیک کامیابی سے پہلے تو کوئی نبی قتل نہیں ہوسکتا.ہاں یہ کہنا کہ کوئی سچا نبی مطلق طور پر قتل ہو ہی نہیں سکتا یہ کلیہ درست نہیں.کیونکہ قرآن مجید ن وَيَقْتُلُون النبین کلا میں یہ بتایا ہے کہ نبی قتل ہو سکتے ہیں اور في الواقع قتل ہوئے ہیں.میں نہایت ادب سے اپنے محسن اُستاد کی خدمت میں عرض پرداز ہوں کہ شاید جناب کی نظر سے يَقْتُلُونَ النّبیین کے وہ معنے اوجھل ہو گئے جو اس آیت کے احمدی علماء کی طرف سے سید نا حضرت....خلیفہ اسیح الثانی ايَّدَهُ الله بِنَصْرِہ کی زیر نگرانی شائع ہو چکے ہیں.لکھا ہے: يَقْتُلُونَ النّبين اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کرتے تھے...پس يَقْتُلُون النبین سے یہ مراد نہیں کہ وہ في الواقع نبیوں کو قتل کرتے تھے کبھی قتل کا لفظ صرف کوشش قتل یا ارادہ قتل پر بھی بولا جاتا ہے.مولوی ابو العطاء صاحب نے اس حوالہ کو نقل کر کے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولوی صاحب كا يقتلون النبتين سے یہ استدلال کہ نبی قتل نہیں ہو سکتے درست نہیں.کیونکہ علمائے سلسلہ احمدیہ نے خلیفہ ثانی کی نگرانی میں جو ترجمہ کیا ہے.اس میں ان معنوں کو ر ڈ کیا ہے اور یہ درست.کہ سلسلہ کے علماء نے ان معنوں کو اس آیت میں رڈ کیا ہے لیکن جب احقاق حق کی کوشش کی جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس یا اس حوالہ سے کیا نکلتا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اصل مضمون کیا ہے اور اسی حوالہ سے جو مولوی صاحب نے درج کیا ہے اصل مضمون پر بھی روشنی پڑتی ہے.چنانچہ لکھا ہے: اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کرتے تھے کیونکہ حضرت موسیٰ کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں“.19
خطبات محمود ۵۸۵ سال ۱۹۳۸ء اس دوسرے حصہ سے ثابت ہے کہ علماء کے نزدیک صرف تاریخی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ اس میں نبیوں کو قتل کرنا مراد نہیں بلکہ ان کے قتل کی کوشش مراد ہے کیونکہ اس کی آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے جو قتل نہیں کئے گئے اور اس سے اگلی عبارت میں گونص نہیں لیکن اس طرف اشارہ ضرور موجود ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کے نزدیک انبیاء کا مجرد قتل ناممکن نہیں ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل ثابت نہیں.پس مولوی صاحب کا فرض تھا کہ اس حصہ کو بھی آپ بیان کرتے کی کیونکہ یہ میدان مباحثہ نہ تھا جہاں کبھی دشمن کو خاموش کرانا مقصود ہوتا ہے بلکہ اپنے اخبار میں احقاق حق کی کوشش ہو رہی تھی.اگر مولوی صاحب کو کسی اور نے اس طرح قطع و برید کر کے یہ حوالہ نہیں دیا تو یقیناً اس رنگ میں حوالہ نقل کرنا جائز نہ تھا.اگر علماء کا قول کوئی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے مولوی محمد اسمعیل صاحب کو خاموش کرایا جاسکتا ہے تو پھر ان کا وہ خیال بھی تو سامنے آنا چاہئے تھا جو زیر بحث مسئلہ کے بارہ میں تھا.اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب نے بغیر قرآن نکال کہ دیکھے عام تفسیری معنوں پر انحصار کر لیا اور یہ آیت بیان کر دی لیکن جیسا کہ ہم نے لکھا ہے اس جگہ قتل کے معنے قتل کے نہیں ہو سکتے.کیونکہ مُشَارٌ عَلَیهِمُ حضرت موسیٰ اور ہارون یا ان سے پہلے کے نبی ہیں اور وہ پا لا تفاق قتل نہیں ہوئے.مفسرین نے اس امر پر غور نہیں کیا اور عام عقیدہ کے مطابق یہاں بھی لکھ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی کو قتل کرتے تھے.ہم نے اس فرق کو ظاہر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس آیت میں یہ معنے نہیں ہو سکتے کیونکہ اس وقت تک کسی نبی کا قتل ثابت نہیں مگر اس آیت کے علاوہ اور آیات ہیں جن پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا مثلاً آل عمران میں لکھا ہے ذلِكَ بِانَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِايَتِ اللهِ و يَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍ ، ذلِكَ بِمَا عَصَوْا كَانُوا يَعْتَدُونَ " اسی طرح اور مقامات میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ نبیوں کا قتل ایک اہم امر ہے اور عام طور پر ہم ایسے معنے کرنے کی طرف راغب رہتے ہیں جن سے اس مضمون کی وسعت کو محدود کیا جائے مگر جہاں خدا تعالیٰ کی گواہی ہواُسے کیونکر رڈ کیا جاسکتا ہے.غرضیکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں“
خطبات محمود ۵۸۶ سال ۱۹۳۸ء کا صاف مطلب یہ تھا کہ بعد میں ایسے قتل ہوتے رہے ہیں مگر انہوں نے صرف وہ حصہ نقل کر دیا کہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس آیت میں قتل سے مراد حقیقی قتل نہیں.حالانکہ عبارت میں اشارہ موجود ہے کہ اس کے بعد کے زمانہ میں قبل انبیاء ثابت ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی امتی نبی نہیں ہوا تو کوئی شخص ہمارے ان الفاظ کو لے اڑے اور کہنا شروع کر دے کہ صاف اقرار کر لیا گیا ہے کہ کبھی کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا.ہر شخص اسے کہے گا کہ یہاں تو یہ ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی امتی نبی کی نہیں ہوا.یہ تم نے کہاں سے نکال لیا کہ بعد میں بھی کوئی امتی نبی نہیں ہوگا.اسی طرح یہاں یہ لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں اور کی النبین سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام ہی ہو سکتے ہیں اور ان دونوں کی نبیوں کو بنی اسرائیل نے قتل نہیں کیا مگر اسے ایسے رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ طبیعت پر یہ اثر ہو کہ بنی اسرائیل نے کبھی کسی نبی کو قتل نہیں کیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے یہ لکھا ہے کہ کبھی قتل کا لفظ صرف کوشش قتل یا ارادہ قتل پر بھی بولا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا قتل کا لفظ واقعی قتل پر نہیں بولا جاتا.یقیناً قتل پر بھی یہی لفظ بولا جائے گا.مگر یہاں جو ہم نے اس کے معنے کوشش قتل یا ارادہ قتل کے کئے ہیں تو اس لئے کہ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر تھا اور تاریخوں سے یہ امرثابت ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کر سکے.پس چونکہ یہود اس وقت اپنے ارادہ قتل میں ناکام رہے تھے اور اس آیت میں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے متعلق ہے.يَقْتُلُون کے الفاظ آتے تھے اس لئے ہم نے اس کے معنے کوشش قتل یا ارادہ قتل کے کئے لیکن یہ بات تو اُس وقت کے علم کی بنا پر لکھی گئی تھی.( حقیقت یہ ہے کہ ترجمہ قرآن کا یہ نوٹ اور یہ استدلال میرا ہی لکھا ہوا ہے ) اب جو میرا علم ہے اس کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ممکن ہے اس وقت بھی یہود نے بعض انبیاء کو قتل کیا ہو کیونکہ تاریخ سے بعض شہادتیں اس امر کے متعلق ملتی ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی شہید کئے گئے تھے اور یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ہارون کی ترقی سے جل کر اسے قتل کر ڈالا ہے.پس اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس وقت کے لحاظ سے بھی
خطبات محمود ۵۸۷ سال ۱۹۳۸ء يَقْتُلُون النبيتن کے یہی معنے ہوں کے کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے.یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ کوشش قتل یا ارادہ قتل کرتے تھے.ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری اور میر مهدی حسین صاحب کے علاوہ حافظ محمد ابراہیم صاحب امام مسجد محلہ دارالفضل کی بھی یہ شہادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح سے اپنی مماثلت کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے.اس موقع پر حضور کے ارشاد پر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے حافظ محمد ابراہیم صاحب کی حسب ذیل شہادت بیان کی : " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی مشابہتیں پہلے مسیح کے ساتھ بیان فرما رہے تھے جس میں آپ نے فرمایا کہ گورنمنٹ برطانیہ بھی اسی طرح ہے جس طرح روما کی سلطنت حضرت مسیح کے زمانہ میں تھی.اسی ضمن میں آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کی گواہی کے لئے بھیجا.وہ بھی شہید کئے گئے.مجھ سے پہلے حضرت سید احمد صاحب بریلوی جو حضرت یحیی علیہ السلام نبی کے ہم شکل تھے ان کو خدا نے میری گواہی کے لئے بھیجا اور وہ بھی شہید کئے گئے.یہ بھی ایک مماثلت میری مسیح کے ساتھ ہے“.پھر اسی ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ سلسلہ کا پہلا نبی اور آخری نبی لوگوں کے ہاتھ سے بچایا جاتا ہے.درمیان میں اگر کوئی شہید بھی ہو جائے تو سلسلہ کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا.) میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بار ہائسُنا ہے کہ سلسلہ موسویہ میں حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے بطور ا رہاص حضرت یحیی علیہ السلام آئے اور وہ شہید کئے گئے.اسی طرح سلسلہ محمدیہ میں مجھ سے پہلے حضرت سید احمد صاحب بریلوی بطور ا رہاص آئے اور وہ بھی شہید کئے گئے.یہ بھی میری حضرت مسیح ناصری سے ایک مماثلت ہے.* خطبہ درست کرتے ہوئے مجھے ایک اور روایت یاد آ گئی ہے جسے میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے بد بخت دو آدمی ہوتے ہیں ایک وہ جو نبی کو ☆
خطبات محمود ۵۸۸ سال ۱۹۳۸ء اِس وقت تو میں صرف انہی روایتوں پر اکتفا کرتا ہوں.ایک میں نے اپنی روایت کا ذکر کیا ہے ایک ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی روایت کا، ایک میر مہدی حسین صاحب کی روایت کا اور ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب کی روایت کا.میرا مقصد ان روایات کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ نوجوان علماء کا خواہ وہ علم میں کتنے ہی بڑھ جائیں ہر گز حق نہیں کہ وہ ایسے وسائل کے بارہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچتے ہوں انہیں بغیر ان لوگوں سے رائے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں ایک لمبا عرصہ ہے کوئی رائے قائم کریں اور اس پر لوگوں کو لانے کی کوشش کریں.ابھی ہمارا زمانہ ہے اور ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے تمام باتیں سنیں.پس یہ ہمارا حق ہے کہ ہم کی جماعت احمدیہ کو یہ بتائیں کہ وہ کون سے امور ہیں جن پر انہیں اپنے عقائد کی بنیا د رکھنی چاہئے.دوسروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ہمارے تابع ہو کر چلیں اور اگر کسی بات میں انہیں اختلاف ہو تو اس کو اسی رنگ میں دور کرنے کی کوشش کریں کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمع کیا جائے اور ان سے دریافت کیا جائے کہ انہوں نے فلاں مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے کیا سنا ہے تا کہ اگر آیت کے معنوں میں اختلاف ہو تو صحابہ کی روایتوں سے فیصلہ کیا جائے اور جہاں کتابوں میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو پھر صرف صحابہ کی روایات اور ان کے تاثرات کو دیکھا جائے اور تحقیق کی جائے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں کیا سُنا کی ہوا ہے.مولوی ابوالعطاء صاحب نے اپنے مضمون میں ایسے حوالہ جات پر بنیا درکھی ہے جن میں صرف اصولی طور پر ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے اور انہوں نے ان اصولی امور کو لے کر یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے حالانکہ اصولی باتوں سے نتیجہ اخذ کرنا کبھی درست نہیں ہوتا اور اگر یہ درست طریق ہو تو پھر حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.(بقیہ حاشیہ) قتل کرے اور دوسرا وہ جو نبی کے ہاتھ سے مارا جائے اور اگر میرا حافظہ خلط نہیں کرتا تو یہ بات بھی میں نے اسی کے ساتھ سنی ہے کہ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو اپنے ہاتھ سے قتل نہیں کیا تا آپ کسی کی بد بختی کا موجب نہ ہوں.سوائے ایک موقع کے جب آپ نے صرف نیزہ چھوا دیا تھا.گو خدا نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ شخص مر گیا.
خطبات محمود ۵۸۹ سال ۱۹۳۸ء کہ کوئی نماز سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوتی اس کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر جماعت میں شامل ہو جائے تو اس کی وہ رکعت نہ ہو کیونکہ اس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ہوگی.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ موجود ہے کہ با جماعت نماز میں رکوع میں شامل ہونے والے کی رکعت ہو جاتی ہے.اسی طرح قرآن کریم میں لکھا ہے لا بيع فيه وَلَا خُلة ولا شفاعة ۲۲ کہ قیامت کے روز نہ کوئی بیع ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ شفاعت ہوگی.حالانکہ قرآن کریم کے بعض اور مقامات میں اور احادیث میں بھی شفاعت کا ذکر آتا ہے تو بعض دفعہ ایک بات عام قاعدہ کے رنگ میں بیان کی جاتی ہے حالانکہ اس میں مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور جب عام قاعدہ کے علاوہ کسی استثنیٰ کا بھی صراحنا ذکر موجود ہو تو پھر قیاس کے کیا معنے ہو سکتے ہیں.اس طرح تو پیغامی بھی استدلال کر لیا کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْتُكُمْ مِّن ذَكَرٍةٌ أنثى - ۲۳ اے لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے.اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص بن باپ پیدا ہو سکے.ہم جب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو وہ کہتے ہیں دیکھو قرآن کریم میں صراحتاً یہ آیت موجود ہے کہ ہم مرد اور عورت سے انسان کو پیدا کیا کرتے ہیں.پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بغیر باپ کے پیدا ہو جائے.ہم اس کے جواب میں یہی کہا کرتے ہیں کہ عام اصول تو یہی کی ہے مگر جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کا استثناء بھی کر دیا اور اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو بن باپ تسلیم کیا تو وہ استثناء اس عام گلیہ میں شامل کس طرح ہو سکتا ہے.ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کی دو آنکھیں اور دو ہاتھ ہوتے ہیں.اب کو ئی شخص کسی اندھے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دے اور کہے تم جھوٹ بولتے ہو اس کی تو دو آنکھیں نہیں یا کسی لنجے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لے آئے اور کہے تم کس طرح کہتے ہو ہر انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں.اس کے تو کوئی ہاتھ نہیں.تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ جب ہم نے یہ کہا تھا کہ ہر انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں یا ہر انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں تو یہ فقرہ ہم نے اس استثناء کو تسلیم کر کے کہا تھا.تو اگر بعض مستثنیات ثابت ہوں تو کلیہ ہمیشہ مستثنیٰ کے تابع ہوگا نہ کہ متقی گلیہ کے تابع ہوگا.
خطبات محمود ۵۹۰ سال ۱۹۳۸ء یہی غلطی کھا کر پیغامیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بن باپ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.وہ کہتے ہیں قرآن کریم میں صاف لکھا ہے.اِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِّن ذَكَرٍو انْثَى ہم نے تم سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے.جب ہر ایک کو مرد اور عورت سے پیدا کیا گیا ہے تو حضرت مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے کس طرح پیدا ہو گئے.ہم ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی استثناء ثابت ہو جائے تو پھر کلیہ اس مستثنیٰ کے تابع ہوگا اور وہ گلیہ اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھے گا بلکہ وہ گلیہ مستثنیات کے ساتھ ثابت ہوگا اور اگر کوئی استثناء نہ ہو تو پھر بیشک گلیہ اپنی کی اصلی حالت پر قائم رہے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لَا نَبِيَّ بَعْدِی - ۲۴ اب یہ بالکل درست ہے اور ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں مگر ہم غیر احمدیوں سے کہتے ہیں تم یہ بھی تو دیکھو کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی استثناء بھی کیا ہے یا نہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نبی کی آمد کا استثناء کیا ہوا ہے جو آپ کی شریعت کا تابع ہو تو لَا نَبِيَّ بَعْدِ ی سے مطلقا ہر قسم کی نبوت کے بند ہونے کا استدلال کرنا کیونکر درست ہو سکتا ہے.تو خالی گلیے کوئی چیز نہیں ہو ا کرتے بلکہ ان کے ساتھ مستثنیات کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اگر مستثنیات ثابت ہوں تو پھر مستثنیات مقدم ہوں گے اور گیے مؤخر ہوں گے.یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ گلیات دو قسم کے ہو ا کرتے ہیں.ایک گلیہ سُنت اللہ کا ہوتا ہے اس میں اگر کوئی استثناء سمجھا جائے تو وہ کلیہ کے کی تابع کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ لن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا - ۲۵ سنت الله میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی.پس اگر سنت اللہ کا کسی اور بات سے اختلاف ہو جائے تو ہم کہیں گے استثناء کے اور معنے کرو اور سنت اللہ کو اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے دو کیونکہ سنٹ اللہ کبھی نہیں بدلتی لیکن جہاں سنت اللہ نہ ہو وہاں استثناء مقدم ہوگا اور گلیہ مؤخر.اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ سارے انسان دو ہاتھ رکھتے ہیں اور پھر کہتا ہے کہ بعض اندھے بھی ہوتے ہیں ، بعض لنجے بھی ہوتے ہیں تو پہلے گلیہ کو استثناء کے ساتھ ملا کر ہمیں پڑھنا پڑے گا اور اگر ہم اس اصل کو مد نظر نہ رکھیں تو لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ کے ماتحت یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر شامل ہو جائے اور سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی رکعت ہو جاتی ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فتوی موجود ہے کہ اس شخص کی جو رکوع میں شامل ہو رکعت
خطبات محمود ۵۹۱ سال ۱۹۳۸ء ہو جاتی ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر رکعت نہیں ہوتی مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ نے یہ سنا کہ رکعت ہو جاتی ہے تو آپ نے فرمایا اب میں نے اپنی رائے بدل لی ہے.پھر فرمایا کہ اب میں اس حدیث کے یہ معنے لے لوں گا کہ اگر کوئی شخص عمداً سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا یا نماز میں شامل نہیں ہوتا اور اس انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ امام رکوع میں گیا تو میں شامل ہو جاؤں گا اس کی وہ رکعت نہیں ہو گی مگر جو شخص اتفاق سے ایسے وقت پہنچتا ہے جب کہ امام رکوع میں ہے تو چونکہ اس کی نیت یہی تھی کہ میں سورۂ فاتحہ پڑھوں اس لئے جب وہ رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی نیت اور مجبوری کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ وہ رکعت اس کے نام لکھ دے گا اور وہ ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسے دوسرے جنہوں نے سورہ فاتحہ پڑھی.تو اگر کوئی گلیہ بیان ہو اور دوسری جگہ بعض مستثنیات کا ذکر ہو تو مستثنیات کو شامل کر کے اس گلیہ کو بیان کرنا پڑے گا جیسے میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ کہ قیامت کے دن نہ بیج ہوگی نہ دوستی ہوگی نہ شفاعت ہوگی.حالانکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ شفاعت کا مسئلہ درست ہے اور جاہل سے جاہل مسلمان بھی اس کی بات پر ایمان رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شفیع ہوں گے.حتی کہ قرآن کریم بھی دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ وہاں شفاعت تو ہو گی مگر باذن اللہ ہو گی ۳۶ اور حدیثوں میں تو نہایت تفصیل سے واقعہ شفاعت کو بیان کیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا ، اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ باقی انبیاء بھی اور ملائکہ بھی بلکہ مؤمن بھی شفاعت کریں گے اور جب سب شفاعت کر کے فارغ ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے نبیوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا ، میرے صدیقوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا، میرے شہیدوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق کی لے لیا اور میرے نیک اور پاک بندوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا.اب صرف میں رہ گیا ہوں.آؤ میں بھی اپنے علم اور رحمت سے کام لوں اور وہ اپنا ہاتھ ڈال کر دوزخ سے نکال لے گا اور اس کے نکالے ہوئے باقی سب کی شفاعت والے لوگوں سے کئی گنے زیادہ ہوں گے.
خطبات محمود ۵۹۲ سال ۱۹۳۸ء یہ بھی آتا ہے کہ اس کا ذکر کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا دیکھو اللہ تعالیٰ کی کی مٹھی کے بعد اور کیا رہ جائے گا.۲۸ تو شفاعت جو اتنا یقینی اور قطعی مسئلہ ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ لَا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ کہ اس دن نہ کوئی بیع ہوگی نہ دوستی ہوگی نہ شفاعت.اس کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شفاعت کو رڈ کر دے گا جو بغیر اذن کے کی جائے گی مگر جو شفاعت باذن اللہ ہوگی اس کو وہ قبول کرے گا کیونکہ اور مقامات پر اس کا ذکر آتا ہے.اسی طرح جہاں انبیاء کا قتل ممکن ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی تحریرات اسے رد نہیں کرتیں مگر جہاں وہ قتل ناممکن ہے جیسے سلسلہ کے اول یا آخر نبی کا قتل وہاں وہ کی تحریرات اسے رڈ کر دیں گی.بظاہر ہم دو ہی سلسلے سمجھتے ہیں ایک سلسلہ موسویہ اور ایک سلسلہ محمد یہ لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء آچکے ہیں تو ممکن ہے پچاس ساٹھ سو یا دو سو مختلف سلسلے چل کر ختم ہو چکے ہوں اور چونکہ الہی سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہوتا اس لئے دو سو یا چار سو انبیاء ایسے نکل آئیں گے جو کسی صورت میں قتل نہیں ہو سکتے تھے.رہ گئے درمیانی انبیاء سو ان کے متعلق بھی یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو درمیان میں نبی آئے وہ ضرور قتل ہو.مطلب صرف یہ ہے کہ اگر درمیانی انبیاء میں سے کوئی قتل ہو جائے تو وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے.حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق بھی ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے اسی طرح دوسری قوموں میں جو انبیاء آئے ہیں ان میں سے بھی بعض کے متعلق ان کی قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ قتل ہوئے ہیں.ہندوؤں میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی یہ دو نبی ہوئے ہیں.مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں مگر ان میں سے بھی ایک کے متعلق بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے.حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق بہت سے زرتشتی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے اور یہ امر تاریخ سے بھی ثابت ہے.پھر اگر سقراط کو اپنے وقت کا نبی سمجھا جائے جیسا کہ اس کے دعوؤں میں الہامی رنگ نظر آتا ہے تو وہ بھی قتل ہوا ہے.سقراط نے اپنے زمانہ میں شرک کے خلاف آواز اُٹھائی تھی اور اس نے ایسے ہی دعوے کئے تھے جیسے نبی دعوے کیا کرتے ہیں.جب اُسے کہا گیا کہ ان دعوؤں کو چھوڑ دو تو اُس نے جواب دیا اگر یہ عقلی بات ہوتی تو میں اسے رڈ کر دیتا
خطبات محمود ۵۹۳ سال ۱۹۳۸ء مجھے تو آسمان سے خدا تعالیٰ کی یہ آواز سُنائی دیتی ہے کہ بتوں میں کوئی طاقت نہیں اور تو اس کے خلاف آواز اُٹھا اور تو ایک خدا کی پرستش کی لوگوں کو تعلیم دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی نبی تھے.بہر حال ایسے لوگ گزرے ہیں جنہیں ان کی قوموں نے نبی یقین کیا مگر تاریخیں کی کہتی ہیں کہ وہ قتل ہوئے.حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق تو یہ یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ایران کا ملک فتح ہوا اور بہت سے ایرانی قید ہو کر آئے تو اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ ایرانیوں سے کیسا سلوک کرنا چاہئے ؟ کیا ان سے مشرکوں کی جیسا معاملہ کرنا چاہئے یا اہلِ کتاب جیسا.اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایرانیوں سے اہلِ کتاب جیسا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مقام پر جنگ تبوک پر جاتے ہوئے بعض ایرانیوں سے ویسا ہی سلوک کیا تھا جیسے اہلِ کتاب سے کیا جاتا ہے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اہلِ کتاب جیسا سلوک کیا تو اس کا صاف یہ مطلب تھا کہ آپ نے حضرت زرتشت علیہ السلام کو نبی تسلیم کیا اور حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ ان کی وفات قتل سے ہوئی ہے.در حقیقت ہم حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اگر یہ زور دیتے ہیں کہ وہ قتل نہیں ہوئے تو دو وجہ سے.اوّل یہ کہ وہ سلسلۂ موسویہ کے آخری نبی تھے اور اس وجہ سے قتل ہو ہی نہیں سکتے تھے.دوسرے یہود یہ چاہتے تھے کہ صلیب پر مار کر انہیں لعنتی ثابت کریں اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی لعنتی ثابت ہو.پس اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے ور نہ درمیانی انبیاء میں سے بعض قتل ہوئے ہیں اور کسی نبی کا قتل ہونا ہر گز اس کے جھوٹے ہونے کی علامت نہیں ہوسکتی.مولوی ابوالعطاء صاحب کے تمام حوالے قریباً ایسے ہی ہیں جن میں اصولی رنگ میں بات بیان کی گئی ہے.صرف ایک حوالہ ایسا ہے جس میں ” اور “ کا لفظ آتا ہے اور اس سے شبہ پڑسکتا ہے کہ شاید حضرت یحیی علیہ السلام شہید نہیں ہوئے مگر جب قطعی اور یقینی حوالے ایسے موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو ہمیں اس حوالہ کو ان کے تابع کرنا پڑے گا اور سمجھنا پڑے گا کہ ممکن ہے اور کتابت کی غلطی سے لکھا گیا ہو یا یہ کہ اس کا کوئی
خطبات محمود ۵۹۴ سال ۱۹۳۸ء ایسا مطلب ہو جو ہم نہیں سمجھے ( میں نے ابھی اصل کتاب نکال کر حوالہ نہیں دیکھا ممکن ہے اس کے دیکھنے سے مطلب حل ہو جائے ) آخر کتابوں اور اخباروں میں کتابت کی بیسیوں غلطیاں ہوتی ہیں.اگر چند غلطیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی ہوگئی ہوں تو ان سے قطعی اور یقینی حوالوں کو کس طرح رڈ کیا جا سکتا ہے.میں نے تو دیکھا ہے خطبہ جمعہ میں آپ درست کرتا ہے ہوں مگر جب اخبار میں چھپ کر آتا ہے تو کتابت کی بیسیوں غلطیاں اس میں ہوتی ہیں.ایک دولتی غلطیاں تو ہمیشہ ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ہیں ہیں غلطیاں بھی ہوتی ہیں.شاید اخبار والے خطبہ پڑھتے نہیں کہ باوجود میری اصلاح کے ان کے کا تب اس قدر غلطیاں کر جاتے ہیں یا پڑھتے تو ہیں مگر غلطیاں درست نہیں کی جاتیں.بہر حال کتابت کی کئی غلطیاں میرے خطبات میں بھی ہوتی ہیں.حالانکہ وہ میری نظر سے گزر چکا ہوتا ہے اسی طرح ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر میں بھی کتاب کی غلطی ہوگئی ہو کیونکہ جب دوسرے یقینی اور قطعی حوالے ہمارے پاس موجود ہیں تو ہم اس ایک کی وجہ سے ان تمام حوالوں کو ر ڈ نہیں کر سکتے.بہر صورت جو حوالہ نہ سمجھ میں آئے اسے اکثریت کے تابع کرنا ہوگا.پھر صرف حوالوں کا سوال نہیں بلکہ ہم نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُنا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے نہ ایک دفعہ بلکہ بار بار اور اب یہ بات ہمارے اس قدر ذہن نشین ہو چکی ہے کہ کسی صورت میں نہیں نکل سکتی.اگر ہم اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واضح ارشادات کے خلاف چلنے لگیں تو اور مسائل میں بھی تفسیر بالرائے کا غلبہ - ہو جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا کام مخفی ہو جائے گا.کوئی ایک دفعہ کی بات ہو تو شبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے مگر یہ بات تو ہم مسلسل اور متواتر سُنتے رہے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کے واضح ارشادات کو ہم اپنی قوت استدلال سے رڈ کرنے لگ گئے تو پھر احمد یت کا کیا باقی رہے گا.پس میں نے مناسب سمجھا کہ اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دوں.اصل مضمون کے متعلق بھی میں انشاء اللہ روشنی ڈالوں گا.فی الحال میں نے ایک تو اپنی گواہی پیش کر
خطبات محمود ۵۹۵ سال ۱۹۳۸ء دی ہے دوسری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ کی گواہیاں پیش کی ہیں.ان تحریروں اور شہادتوں کے بعد کسی کا اپنے قیاس سے باتیں کرنا ہرگز درست نہیں ہوسکتا اور میرے نزدیک الفضل والوں نے قطعا فرض شناسی سے کام نہیں لیا.ان کو چاہئے تھا کہ وہ اس مضمون کو ذکر کی دیتے یا کم سے کم نظارت دعوۃ و تبلیغ کے پیش کرتے یا میرے پاس بھجوا دیتے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعی اور یقینی حوالے انہی کے اخبار میں شائع ہو چکے تھے تو اس کے بعد کسی مخالف مضمون کے درج کرنے کے معنے ہی کیا تھے.بیشک مولوی ابو العطاء صاحب کے مضمون میں بھی بعض حوالے ہیں مگر وہ سب قیاسات اور استدلالات ہیں لیکن مولوی محمد اسمعیلی صاحب کے مضمون میں اس کے متعلق نصوص درج ہیں اور نصوص بینہ کے شائع ہو جانے کے بعد ہرگز الفضل کا حق نہ تھا کہ بغیر مشورہ کے اس مضمون کو شائع کرتا اور ادارہ الفضل کو چاہئے تھا کہ ایسا مضمون میرے سامنے پیش کرتا اور اگر میرے سامنے انہوں نے پیش نہیں کیا تھا تو خود ہی رڈ کر دیتے مگر انہوں نے قطعاً فرض شناسی سے کام نہیں لیا.پس میں اس موقع پر یہ امر واضح کر دیتا ہوں کہ صحابہ کی موجودگی میں نئے علماء کو یہ ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے استنباط اور اجتہاد کریں.اگر دنیا نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے یہ کام لینا تھا تو کسی نبی کے آنے کی کیا ضرورت تھی.یہ ہمارا حق ہے کہ اگر کوئی اختلاف ہو تو کی ہم اس کو نپٹا ئیں اور صحیح طریق جماعت کے سامنے پیش کریں اور نئے علماء کا بھی یہ فرض ہے کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آ جائے تو وہ اسے مجلس صحابہ کے سامنے پیش کریں.بیشک وہ خود اس امر کا اختیار نہیں رکھتے کہ صحابہ کی ایک مجلس قائم کریں مگر وہ سلسلہ کی وساطت سے ایسا کر سکتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اختلافی مسئلہ میرے سامنے رکھیں.اگر میں اس کے متعلق ضرورت سمجھوں گا تو خود بخو دصحابہ کو جمع کرلوں گا اور اس طرح جو بات طے ہوگی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا کے عین مطابق ہوگی.اگر ہم یہ طریق اختیار کریں تو آئندہ کے لئے بالکل امن ہو جائے گا اور کوئی ایسا اختلاف پیدا نہیں ہوگا جو جماعت کی گمراہی کا موجب ہولیکن اگر ہر شخص اپنے طور پر ایسے مسائل پر رائے زنی کرنا شروع کر دے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھلے حوالے موجود ہوں اور ایسا استدلال پیش کرے جو ان کو رڈ کرتا ہو تو
خطبات محمود ۵۹۶ سال ۱۹۳۸ آئندہ نسلوں کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی اور وہ حیران ہوں گی کہ ہم کون سا مسلک اختیار کریں لیکن اگر نئے مسائل یا اختلافی مسائل ہمارے سامنے پیش کئے جائیں اور ہم اس بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ کریں تو اگلے لوگ بہت سی گمراہیوں سے بچ جائیں گے کیونکہ ان کے سامنے وہ فیصلے ہوں گے جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متفقہ ہوں گے یا ایسے فیصلے ہوں گے جن پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثریت کا اتفاق ہوگا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی کتابوں سے کوئی مسئلہ صاف ہو جائے تو پھر صحابہ کے فیصلوں کی ضرورت نہیں لیکن اگر کتابوں میں کوئی بات وضاحت سے نہ ملے یا اختلاف ہو جائے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات اور ان کے ان تاثرات کو دیکھنا پڑے گا جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے رکھتے چلے آ رہے ہیں اور جو سنت کے قائمقام ہیں.روایات میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ الفاظ یاد نہیں رہتے مثلاً مجھے یہ تو یاد ہے کہ میں نے قرآن کریم کی یہ آیت حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام کے سامنے رکھی کہ وسلم عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا } اور میں نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے مگر آپ نے ان معنوں کو غلط قرار دیا اور فرمایا کہ حضرت بیٹی علیہ السلام شہید ہوئے تھے مگر مجھے دلیل جو آپ نے بتائی یاد نہیں رہی.دوسری روایت مجھے یہ یاد ہے کہ آپ نے فرمایا سلسلہ کا صرف پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہوسکتا درمیانی انبیاء میں سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو اس سے اس سلسلہ کی صداقت مشتبہ نہیں ہو سکتی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلسلہ موسویہ کی سلسلہ محمدیہ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ جس طرح سلسلہ موسویہ کے آخر میں حضرت عیسی علیہ السلام آئے اور ان سے پہلے بطور ا رہاص کی حضرت یحیی آئے اس طرح سلسلہ محمدیہ کے آخر میں میں آیا اور مجھ سے پہلے بطور ا رہاص کی حضرت سید احمد صاحب بریلوی آئے اور یہ کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام جو حضرت مسیح سے پہلے آئے شہید ہوئے تھے اسی طرح سید احمد صاحب بریلوی جو مجھ سے پہلے آئے تھے شہید وئے.یہ دور وائتیں مجھے یقینی طور پر یاد ہیں.اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے بتلایا ہے میری طبیعت پر اس زمانہ سے یہ اثر چلا آتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اور یہ اثر اتنا
خطبات محمود ۵۹۷ سال ۱۹۳۸ پختہ ہے کہ اب کسی کی زبان سے یہ سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت بی کی علیہ السلام شہید نہیں ہوئے ایسا ہی قابل تعجب ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا باپ موجود تھا.یہ میرا اثر کوئی معمولی نہیں بلکہ نہایت ہی زبردست ہے کیونکہ میں نے قرآن اُس استاد سے پڑھا ہے جس کا یہ عقیدہ تھا کہ انبیاء قتل نہیں ہو سکتے.پس اگر یہ اثر مجھے پر نہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو لازماً میں بھی اسی بات کا قائل ہوتا کہ کوئی نبی قتل نہیں ہوا کیونکہ مجھے حضرت خلیفہ اول جیسا استاد ملا تھا اور یہ قدرتی بات ہے کہ ایسے ماہر قرآن کی طرف سے جو سبق ملے وہ طبیعت سے نہیں اُتر سکتا مگر باوجود اس کے وہ کون سی چیز تھی جس نے مجھے اس عقیدہ کا قائل نہ ہونے دیا.وہ یہی چیز تھی کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ کی حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو اگر ہمیں ایک اشارہ بھی نظر آ جاتا تو حضرت خلیفہ اول کی سو دلیلیں بھی ہمارے لئے بیکار ہو جاتی تھیں بلکہ سو کیا ہم کہا تج کرتے تھے حضرت خلیفہ اول اگر دس ہزار دلیلیں بھی کیوں نہ دیتے چلے جائیں ہمیں پرواہ نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب ہمیں ایک ارشاد مل گیا تو اب ہمارا عقیدہ تو وہی ہو گا اس کے خلاف نہیں ہوسکتا.حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کم پڑھی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے پاس بعض کتب کے پروف پڑھنے کے لئے بھجوا دیا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے کہا حضور ! مولوی صاحب تو یہ کام اچھی طرح نہیں کر سکتے.میر مهدی حسین صاحب یہ کام خوب کرتے ہیں ان کا دیکھنا کافی ہے.تو آپ نے فرمایا ہم تو اس لئے بھجواتے ہیں کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے.کتاب پڑھنی مشکل ہوتی ہے.آپ کی اسی طرح ہماری تحریرات سے واقف ہوتے جائیں گے.اور اس وجہ سے بعض دفعہ پرانی تحقیق کو آپ پیش کر دیا کرتے تھے اور بعض دفعہ آپ اجتہاد سے کام لے کر ایک فلسفیانہ رنگ اختیار کر لیتے تھے.مثلاً آپ نے ایک دفعہ ایک شخص کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت
خطبات محمود ۵۹۸ سال ۱۹۳۸ء دے دی تھی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فتوی موجود ہے کہ کسی مکفر ، مکذب یا متردد کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ اپنی اجازت کی تشریح بھی کر دیا کرتے.چنانچہ اس اجازت کے بعد اس شخص کا بھائی بھی آیا کہ مجھے بھی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے.اُس وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھا تھا.آپ نے میری طرف دیکھ کر اُسے فرمایا تمہارے بھائی کو تو ہم نے اس لئے اجازت دی تھی کہ وہ نماز پڑھتا ہی نہیں تھا.پس میں نے کہا جب وہ نماز پڑھتا ہی نہیں تو چلو اس اجازت کے ماتحت کم از کم اسے نماز پڑھنے کی عادت تو ہو جائے گی مگر ہم تمہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتے.اگر اجازت لینا چاہتے ہو تو تم پہلے اپنے بھائی کی طرح بن جاؤ پھر ہم تمہیں بھی اجازت دے دیں گے تو یہ ایک حکیمانہ رنگ تھا اسے فتویٰ نہیں کہا جا سکتا.میں نے ابھی مولوی ابو العطاء صاحب کے پیش کردہ تمام حوالوں کو نہیں دیکھا مگر انہوں نے جو میرا حوالہ پیش کیا ہے اس میں چونکہ غلطی رہ گئی ہے ممکن ہے ان کے دیکھنے سے مضمون کی زیادہ گھل جاتا.میں نے آج اس بارہ میں کئی اور صحابہ سے بھی پوچھا ہے کہ انہیں اس مسئلہ کے متعلق کیا یا د ہے.میاں بشیر احمد صاحب نے یہ جواب دیا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی روایت تو یاد نہیں مگر اتنا یقینی طور پر یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہمارا یہی عقیدہ ہوا کرتا تھا کہ بعض انبیاء قتل بھی ہوئے ہیں مگر یہ مجھے یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے ایسا سنا ہو.میر محمد اسحاق صاحب نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کوئی حوالہ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ ہمارا عقیدہ یہی ہوا کرتا تھا کہ بعض انبیا قتل بھی ہوئے ہیں.پھر میں نے اپنی شہادت پیش کی ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب ، میر مہدی حسین صاحب اور حافظ محمد ابراہیم صاحب کی گواہیوں سے بھی یہی ثابت ہے.بعض اور صحابہ کو بھی میں نے خطوط لکھوائے ہوئے ہیں اور میرا منشاء ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق صحابہ کی روایتوں اور ان کے تاثرات کو جمع کر دوں کیونکہ صحابہ کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم نے جلدی توجہ نہ کی تو بعد میں کسی قیمت پر بھی ان باتوں کو حاصل نہیں کر سکیں گے.۲۹ مگر بہر حال جب تک ہم لوگ زندہ خطبہ کے بعد اور شہادات بھی ملی ہیں جو الگ شائع کی جارہی ہیں.منہ
خطبات محمود ۵۹۹ سال ۱۹۳۸ ہیں یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان مضامین کے متعلق اُس علم کو پیش کریں جو ہم نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا اور نئے علماء کا خواہ وہ علم میں ہم سے ہزاروں گنے زیادہ ہوں، یہ حق نہیں کہ وہ اس حصہ میں اپنے علم کو پیش کریں.ان تمام باتوں میں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات ثابت ہو ہما را حق اور ہمارا کام ہے کہ ہم جماعت کی راہبری کریں اور دُنیا کا کوئی شخص ہمارے اس مقام کو ہم سے چھین نہیں سکتا اور اگر کوئی شخص یہ حق صحابہ مسیح موعود علیہ السلام سے چھینے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا.صداقت ہمارے پاس ہے اور ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں.میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھارہتا اور آپ کی باتیں سنتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام کتابیں اب بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے پڑھی ہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست ہم نے اس قدر مسائل سنے ہوئے کی ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان کی مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق کی ہوں.بیشک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.تفصیلات کا ان میں ذکر نہیں اور اُن باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت اُٹھائی ہے اور اگر ان سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگر مجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی تحریر اس کے خلاف ہے تو میں فوراً اپنی بات کو ر ڈ کر دیتا ہوں.اسی مسجد میں ۱۹۲۲ ء یا ۱۹۲۸ء کے درس القرآن کے موقع پر میں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا مگر جب میں وہ تمام نوٹ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء لکھوا چکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا کی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے میں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اُسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ میں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کا پیوں میں سے کاٹ ڈالیں.چنانچہ جو لوگ اُس وقت میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی دے سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اُس وقت کی کا پیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے عرش کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ اس کے خلاف ہے اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوراق کو پھاڑ ڈالو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے خلاف لکھا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا.پس یا د رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکم عدل ہیں اور آپ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں.ہم آپ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کر سکتے ہیں مگر اسی صورت میں کہ ان میں اور ہمارے معافی میں تناقض نہ ہو.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لئے نئے معافی کرنے نا جائز ہیں بے شک تم قرآن کریم کے معارف بیان کرو اور ایک ایک آیت کے ہزاروں نہیں کی لاکھوں معارف بیان کرو.یہ سب تمہارے لئے جائز ہوگا اور ہمارے لئے خوشی کا موجب بلکہ اگر تم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو سو سو جزو کی تفسیر بھی بنا ڈالو تو اگر وہ قابل قدر ہوگی ہمارے دل اس پر فخر محسوس کریں گے کیونکہ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑھ کر عالم کی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوگا کہ تمہارا کوئی استدلال اور تمہارا کوئی نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہومگر کی بیان فرمودہ تعلیم کے خلاف نہ ہو اور اگر تم کسی آیت کے کوئی ایسے معنے کرتے ہو جنہیں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے رد کیا ہے تو وہ معنے رڈ کئے جائیں گے لیکن آپ کی تعلیم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر تم بعض زائد مطالب قرآنی آیات کے بیان کر دیتے ہو تو وہ کی
خطبات محمود ۶۰۱ سال ۱۹۳۸ء مسیح موعود کا طفیل ہو گا اور آپ کی خوشہ چینی اور آپ کی متابعت کی برکت ہوگی جیسا کہ ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور آپ کی برکت سے ہے.آخر اللہ تعالیٰ کے انبیاء جو آتے ہیں وہ کتاب اللہ کی ساری تفسیر خود تو نہیں کر جاتے وہ اپنے ماننے والوں کے اندر ایسا ملکہ پیدا کر دیتے ہیں کہ جس سے فائدہ اُٹھاتے اور اسے ترقی دیتے ہوئے وہ نئی سے نئی تفسیریں کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی بہت کم قرآنی آیات ہیں جن کی آپ نے تفسیر کی ہے اور جن آیات کی آپ نے تفسیر فرمائی بھی ہے ان میں سے بھی چند آیات ہی ایسی ہیں جن کے ایک سے زیادہ معارف آپ نے بیان کئے ہیں.ورنہ عام طور پر ایک آیت کے ایک معنے ہی آپ نے کئے ہیں.اب اگر ہم کسی آیت کے پانچ یا سات یا دس معنے بھی کر دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نَعُوذُ بِالله بڑھ گئے یا آپ کے معانی کو ہم نے رڈ کر دیا کیونکہ ہم جو کچھ بیان کریں گے آپ سے فیض حاصل کی کر کے کریں گے اور ہم جس قدر معارف لوگوں پر ظاہر کریں گے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کے طفیل کریں گے.پس چونکہ ہمارے معانی آپ کی شان کو بلند کرنے والے ہوں گے اور وہ اس صداقت کا ایک زندہ نشان ہوں گے جو آپ نے ہمارے سامنے رکھی که قرآن کریم غیر محدود معارف کا خزانہ ہے اس لئے ان کے بیان کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ ان کے بیان کرنے سے اسلام اور احمدیت کی عظمت ظاہر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی کی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کردہ معنوں کے خلاف قرآن کریم کی کسی آیت کے کوئی اور معنے کرے تو ہم وہ معنے اسے نہیں کرنے دیں گے.بے شک بعض دفعہ انسان بجائے اپنا عقیدہ یا اپنا مذہب بیان کرنے کے دوسروں کے عقیدہ کو بھی اپنے الفاظ میں بیان کرج دیتا ہے مگر اس وقت وہ اس سے اپنی صداقت کا استدلال نہیں کرتا مگر یہاں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زور دیتے اور فرماتے ہیں کہ میری حضرت مسیح سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان سے پہلے حضرت یحیی علیہ السلام بطور ارہاص آئے جو شہید ہوئے اور مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ا رہاص آئے جو شہید ہوئے.اس روایت کا ایک تو میں گواہ ہوں ، ایک ماسٹر عبدالرحمن صاحب گواہ ہیں اور ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب گواہ ہیں اور کی
خطبات محمود ۶۰۲ سال ۱۹۳۸ء ہم تینوں کی یہ گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ سلسلہ محمدیہ کی تی سلسلۂ موسویہ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ جس طرح وہاں حضرت بیٹی شہید ہوئے اسی طرح کی یہاں سید احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے.اب اس دلیل کو خطابیات میں کس طرح شمار کیا جاسکتا ہے.خطابیات کے لئے تو زبر دست قرائن اور وجوہ چاہئیں اور اگر وہ قرائن اور وجوہ نہ پائے جائیں تو اسے خطابیات بھی قرار نہیں دیا جا سکتا.شاید عام لوگ خطا بیات کے معنے نہ سمجھتے ہوں اس لئے میں انہیں سمجھانے کے لئے بتا دیتا ہوں کہ خطا بیات اسے کہا جاتا ہے کہ کسی دوسری قوم کے عقیدہ کو نقل کر لیا جائے اور کہا جائے کہ چونکہ تم فلاں بات اس طرح مانتے ہو اس لئے تم پر یہ حجت ہے اب اس تعریف کے ماتحت خود ہی غور کرو کہ یہ بات خطا بیات میں کس طرح کی شمار کی جاسکتی ہے.دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس طرح حضرت بیٹی شہید ہوئے جو حضرت مسیح سے پہلے ان کی خبر دینے کے لئے آئے اسی طرح حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید کئے گئے جو مجھ سے پہلے آپ کی بعثت کی خبر دینے کے لئے آئے.اب اگر یہ بات خطا بیات میں سے ہے تو یہ کس پر محبت ہو سکتی ہے؟ کیا غیر احمدی حضرت سید احمد بریلوی کو حضرت بیچی علیہ السلام کا مثیل مانتے ہیں یا عیسائی ان کو حضرت بیٹی علیہ السلام کا مثیل مانتے ہیں؟ جو بات خطا بیات میں سے ہو وہ تو وہ دلیل ہوا کرتی ہے جو غیر قوموں کے لئے حجت ہو.مثلاً اگر ہم کہیں کہ انجیل میں یوں لکھا ہے تو یہ امر عیسائیوں پر تو محبت ہو سکتا ہے مگر ایک مسلمان پر کس طرح محبت ہو سکتا ہے جبکہ وہ کی انجیل کو الہامی کتاب مانتا ہی نہیں.مثال کے طور پر دیکھ لو انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری نے شراب پی.اب اس بناء پر ہم عیسائیوں کو تو ملزم کر سکتے ہیں مگر کیا ہم مسلمانوں کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ اے مسلمانو! حضرت مسیح نے شراب پی تھی اور جب ہم پر اعتراض ہو تو ہم کہہ دیں یہ خطا بیات میں سے تھا.جب ہم مسلمانوں کے سامنے مسیح کے ایسے واقعات پیش کریں گے جن کو وہ نہیں مانتے تو وہ خطابیات نہیں کہلائیں گے بلکہ ایسے حقائق کہلائیں گے جن کو ہم تسلیم کرتے ہیں.غرض خطا بیات وہی باتیں ہوتی ہیں جہاں ایسے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہو جن پر ان باتوں کی وجہ سے اتمام مُحبت ہو سکتا ہو مگر جب اپنی جماعت کے سامنے کسی بات کا ذکر ہو رہا ہو اور دوسری کسی قوم پر وہ بات مُحبت بھی نہ ہو تو اُسے خطا بیات میں شمار نہیں کیا جاسکتا.
خطبات محمود ۶۰۳ سال ۱۹۳۸ء خطابیہ کے معنے اپنے مخاطب کے عقیدہ کے بیان کو اس پر حجت کرنے کی غرض سے بیان کرنے کے ہیں مگر اپنی جماعت کو چُپ کرانا تو مد نظر نہیں ہوتا.اپنی جماعت کو تو ہدایت دینا مد نظر ہوتا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی دلیل دے کر ایک عیسائی کو چُپ کرا دیں یا ایک یہودی کو چُپ کرا دیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ انجیل کا حوالہ دے کر اپنی جماعت سے کوئی بات منوانے اور اسے چپ کرانے کی کوشش کریں.غرض اگر ہم غیروں کی کتب سے کوئی ایسا استدلال کریں گے جس سے ہم ان پر حجت نہیں کرتے بلکہ اپنی قوم یا اس قوم کے سوا دوسری کسی اور قوم کو کوئی علم دیتے ہیں تو ہمارا ایسا استدلال خطابیات میں شمار نہیں ہو گا.ہاں اگر وہ استدلال جس کتاب سے کیا گیا ہے دلیل بھی اسی کے ماننے والوں کے خلاف ہے تو پھر قرائن اگر موجود ہوں تو وہ خطا بیات میں سے کہلا سکتا ہے.“ ( الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۸ء) الحجرات: ٣ 66 کنز العمال جلد 2 صفحہ ۱۷ ۱۷۱ مطبوعہ حیدر آباد ۱۳۱۴ھ ابو داؤد کتاب الملاحم باب خبر ابن الصائد الانعام:۲۲ ضمیمہ تحفہ گولڑ و یه صفحه ۱۳ روحانی خزائن جلد ۷ا صفحه ۴۹ ے خبرے: شاید.کیا پتہ الانعام: ٩٢ ا مریم: ۳۴ طه : ۴۸ الحاقة: ۴۵ ۱۲ الانعام: ۵۵ ا مریم ۱۶ النحل : ٣٣ ها المائدة : عا ۱۲ الفضل ۲۷ / اگست ك البقرة: ٦٢ ۱۸ ۱۹ تفسیر کبیر جلدا صفحه ۴۸۱،۴۸ ( مفهوماً) ۲۰ ال عمران ۱۱۳
خطبات محمود ۶۰۴ سال ۱۹۳۸ء وو ال بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءة للامام (الخ) میں یہ الفاظ ہیں ” لَا صَلوةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَاب“ ۲۲ البقرة: ۲۵۵ ٢٣ الحجرات: ۱۴ ۲۴ بخاری کتاب احاديث الانبياء باب ما ذكر عن بنى اسرائيل ۲۵ الاحزاب : ۶۳ ٢٦ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَة الا باذنه (البقرة: ۲۵۶) بخاری کتاب احادیث الانبياء باب قول الله عزّوجلّ و لقد ارسلنا نوحاً الى قومه مسلم کتاب الایمان باب معرفة طريق الرؤية ۲۹ یہ شہادات الفضل ۳ ستمبر اور ارنومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئیں.
خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۸ استثنائی طور پر انبیا قتل ہو سکتے ہیں (فرموده ۲ ستمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں نے پچھلے خطبہ میں حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور میں نے اس بارہ میں الفضل کے عملے پر بھی اظہار نا پسندیدگی کیا تھا کہ انہوں نے کیوں ایک ایسی بات بغیر پوچھے اور بغیر مشورہ لینے کے شائع کر دی جس کے متعلق خود ان کے اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالہ جات بالتفصیل چھپ چکے تھے.ایڈیٹر صاحب الفضل نے اس کی ایک معذرت کی ہے وہ تو میرے نزدیک درست نہیں ہے مگر اس نے کی مضمون میں سے ایک اور شاخسانہ پیدا کر دیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یہ دوسرا مضمون شائع کیا ہے اس سے پہلے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا مضمون آیا تھا جو ہم نے شائع نہیں کیا.اسے تو میں سمجھ نہیں سکا کہ اگر ایک کی بجائے دو مضمون آجائیں تو انسان مجبور ہو جاتا ہے مگر بہر حال ایڈیٹر صاحب نے وہ مضمون مجھے بھیج دیا ہے اور اسے پڑھنے کے بعد میں اس امر کی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ اس کے متعلق بھی بعض باتیں کہہ دوں.گو وہ مضمون شائع نہیں ہوا کی مگر چونکہ شائع ہونے کے لئے آیا تھا اس لئے اسے شائع شدہ سمجھنا چاہئے.انبیاء کی جماعتوں کے لئے روحانیت کا معیار بلند رکھنا نہائت ضروری ہوتا ہے ساری ہی دنیا انبیاء کی جماعتوں پر پھٹکار ڈالتی ہے.اگر ان کے مخالفوں کی زبان میں تاثیر ہو اور اگر ان کی لعنتیں کچھ اثر کر سکتی ہوں
خطبات محمود ۶۰۶ سال ۱۹۳۸ تو شاید ان کا نام و نشان بھی مٹ جائے.ہر طرف سے ان پر لعنت و پھٹکار پڑتی ہے اور ایک ہی چیز ان کے لئے موجب تسکین و تسلی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں.باپ بیٹے پر لعنت کرتا ہے ، بھائی بھائی پر ، بیوی خاوند پر اور خاوند بیوی پر ، دوست دوست پر ، غرض اس قدر گالیاں ان کو دی جاتی ہیں، اس قدر بد دعا ئیں ان کے لئے کی جاتی ہیں ، اس قدر بُرا کہا جاتا ہے اور ان کو اس قدر حقیر سمجھا جاتا ہے کہ اگر انسانوں کی زبانوں میں تاثیر ہوتی تو وہ جل کر راکھ ہو جاتے مگر ان کا اللہ تعالی پر توکل ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ اگر بھائی گیا ہے تو جائے ، بیوی گئی ہے تو جائے ، اگر ماں باپ گئے ہیں تو جائیں، دوست جاتے ہیں تو جائیں، ایک ہی چیز ان کے پاس ہوتی ہے اور وہ ان کا خدا ہوتا ہے.پس اگر ہم روحانیت کو پورے طور پر اور ایسے طور پر نہ پکڑیں جیسے انسان ڈوبتے وقت کسی سہارے کو پکڑتا ہے اور کسی صورت میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو پھر ہماری بدبختی کی کوئی حد نہیں ہوگی اور ہماری مثال وہی ہوگی : نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ہم چونکہ اللہ تعالی کے مامور کی جماعت ہیں اور یہ سب باتیں ہم نے دیکھی اور دیکھ رہے ہیں سنی اور سن رہے ہیں محسوس کی ہیں اور محسوس کر رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ہمارا تو کل نہ ہوتا تو جس قسم کا گند ہمارے خلاف اچھالا جا رہا ہے اس کا سواں حصہ بھی اگر ایسے شخص کے متعلق اچھالا جائے جس کا تو کل اللہ تعالیٰ پر نہ ہو تو وہ مرجائے.اگر نہ مرے تو جنگلوں اور غاروں میں چلا جائے تاکہ کسی کو منہ نہ دکھا سکے اور محض اللہ تعالی پر تو کل ہی ہے جو ہمیں دنیا کو منہ دکھانے کی طاقت دیتا ہے اور اس کی آواز ہمارے کانوں میں آتی اور کہتی ہے کہ تم یہ گالیاں میری خاطر سنتے ہو پس سنو اور برداشت کرو اور صبر کرو.ورنہ جو کچھ ہمیں کہا جاتا ہے اسے کوئی چوہڑا اور سانسی بھی برداشت نہیں کر سکتا.یہ تو نہیں کہ ہمارے دل نہیں.ہمارے بھی دل ہیں، ہمارے بھی جذبات ہیں، ہم بھی غیر تیں رکھتے ہیں اور ہمارے اندر بھی شرم و حیا کا مادہ ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات محمود ۶۰۷ سال ۱۹۳۸ء اور آپ کے صحابہ میں بھی یہ باتیں تھیں اور آپ سے پہلے انبیاء اور ان کی جماعتوں میں بھی مگر وہ سنتے تھے اور چُپ رہتے تھے کیونکہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں ہے اور یہی چیز ہے جو ان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیارا اور محبوب بنا دیتی ہے اور جو مرنے کے بعد ان کے کام آئے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت دیکھیں گے کہ جسے دیکھ کر ان کو گالیاں دینے والے اگلے جہان میں کٹ کٹ کر مریں گے جب خدا تعالیٰ ان کو پیار کرے گا ، جب وہ محبت کے تمام ظہور ان کے لئے ظاہر کرے گا تو ان کو گالیاں دینے والے کہیں گے کہ کاش! دنیا کی بیسیوں سالوں کی تج خوشیاں نہ ہوتیں اور اس جہان کی ایک منٹ کی خوشی حاصل ہو جاتی.اور یہی وہ چیز ہے جس کے لئے مؤمن یہ ساری باتیں برداشت کرتے ہیں ورنہ اور کیا چیز ان کی ڈھارس بندھاتی ہے پس اس ایک ہی چیز کو سنبھالنا نہایت ہی ضروری ہے.ہمارے سب کاموں کی بنیا د تقوی اللہ پر ہونی چاہئے اور ہمارے تعلقات بھی خدا تعالیٰ کے لئے ہونے چاہئیں کسی سے دوستی یا دشمنی کے لئے نہیں.مجھے یہ مضمون دیکھ کر نہایت تعجب ہوا اور میں نے چاہا کہ دوستوں کو پھر ایک دفعہ نصیحت کروں کہ اپنے معاملات اور تعلقات کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رکھا کرو اور ان کی بنیاد کسی قسم کی نفرت یا محبت پر نہ رکھو.میں نے بعض اپنے گزشتہ خطبات میں ہی بیان کیا ہے کہ بعض لوگ کسی سے محبت یا نفرت کی وجہ سے ٹھو کر کھا جاتے ہیں وہ کسی سچی بات کو نفرت کی وجہ سے قبول نہیں کرتے.اور دوست کی جھوٹی بات کو بھی سچ سمجھ لیتے ہیں.مولوی غلام رسول صاحب نے یہ مضمون اخبار میں اشاعت کے لئے بھیجا ہے اور گو وہ شائع نہیں ہوا مگر وہ اس کی اشاعت کی اجازت دے چکے ہیں بلکہ وہ خوش ہوتے اگر یہ شائع ہو جاتا.اس لئے اس کو شائع شدہ سمجھ کر اس کے متعلق بعض باتیں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.مولوی صاحب لکھتے ہیں وہ پاک نیت کے ساتھ اپنے اپنے معلومات کے دائرہ کے اندر صداقت کی تائید میں قلم کو جنبش دینا خواہ حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے مضمون کی نوعیت کی صداقت سے مختلف نظر آئے ، پھر بھی موجب ثواب ہے.ہاں بعد انکشاف حقیقت وا تمام محبت ضد کے ساتھ قبول حق سے اعراض اختیار کرنا سخت عیب اور غیر مناسب ہے.ہمیں تعلیم احمدیت
خطبات محمود ۶۰۸ سال ۱۹۳۸ کی بناء پر باوجود دونوں فاضلوں کے اختلاف مضمون کے دونوں کے متعلق حسنِ ظن ہے.مولوی ابوالعطاء صاحب کا مضمون اور طرح کے نظریہ کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور مولا نامولوی محمد اسماعیل صاحب کا مضمون اور طرح کے نظریہ کے لحاظ سے.مولانا محمد اسمعیل صاحب کا مضمون اس لحاظ سے کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کردہ حوالہ جات سے مولوی ابولعطا ء صاحب کا مضمون مخالف جہت پر محسوس ہوتا ہے تردید میں لکھنا جماعت احمدیہ کے لئے ایک قابل قدر امر ہے بشرطیکہ علم تنقید صحیح حاصل ہو.اور اگر مولا نا محمد اسمعیل صاحب کا یہ قابل قدر طرز عمل ہر مخالف مضمون کے مقابل جو سید نا حضرت اقدس کے حوالہ جات سے مخالف جہت پر بصورت تعارض و تخالف پایا جاتا ہو بغرض تنبیہہ مضمون نگار کو متنبہ اور جماعت کے افراد کو علمی مفاد کے لحاظ سے مستفید فرماتے رہا کریں تو یہ بھی ایک فائدہ بخش خدمت ہے گو اس کے متعلق یہ بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ افراد جماعت کی خداداد علمی طاقتیں بجائے اس کے کہ مخالفین کے محاذ میں صرف کی جائیں خانہ جنگی کے طور پر اپنے ہی نقصان کا موجب نہ بن جائیں چنانچہ کئی احباب نے مجھ سے ذکر کیا اور تعجب کرتے ہوئے ذکر کیا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا مضمون جو یکم جون کے 'الفضل' میں شائع ہوا ہے اس میں حضرت یونس علیہ اسلام کے متعلق جو کچھ مچھلی کا واقعہ لکھا ہے حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں داخل نہیں کئے گئے تھے اور نہ وہ مچھلی کے پیٹ کے اندر ر ہے یہ نہ صرف قرآن کریم کی نص صریح لَلَبِثَ فِي بَطَنِ کے ہی خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کی تحریروں میں بھی جس قدر حوالے پائے جاتے ہیں سب کے خلاف ہے اور کسی ایک حوالے سے بھی حضرت ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بات کی تصدیق نہیں ہوتی اور مولا نا محمد اسماعیل صاحب جنہوں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اسلام کے پیش کردہ حوالہ جات کے خلاف پا کر فوراً تر دید میں مضمون لکھ دیا.کیوں انہوں نے حضرت ڈاکٹر صاحب کے مضمون کی تردید میں حضرت اقدس کے حوالہ جات پیش نہیں کئے اور کیوں خاموشی اختیار کر لی.میں نے یہی عرض کیا کہ ممکن ہے مولانا صاحب حضرت ڈاکٹر صاحب کے خلاف حضرت اقدس کی تحریروں سے حوالہ جات نکالنے کے لئے کوشش کر رہے ہوں اور پھر حسب دستوران حوالہ جات
خطبات محمود ۶۰۹ سال ۱۹۳۸ کو بھی ”الفضل کی کسی اشاعت میں شائع کرا دیں.ہاں بعض حوالہ جات جو یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ کے اندر داخل ہونے کے متعلق پائے جاتے ہیں کتاب مسیح ہندستان میں“ اور کتاب راز حقیقت ”کشف الغطاء اور نور القرآن حصہ دوئم سے مل سکتے ہیں اور حقیقۃ الوحی“ کے تتمہ کے صفہ ۳۱ پر حضور اقدس فرماتے ہیں: قوم کی تفرع اور زاری سے یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی جس سے یونس نبی کو بڑا ابتلا پیش آیا اور وہ پیشگوئی کے ٹل جانے سے رنجیدہ ہوا اس لئے خدا نے اُس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا 66 ایسا بہت سی کتب مسیح موعود علیہ السلام میں اس طرح کا حوالہ مل سکتا ہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں داخل کئے گئے تھے اور پھر مسیح علیہ السلام کا زندہ قبر میں داخل ہونا اور زندہ تین دن تک رہنا اور زندہ نکلنا یونس علیہ السلام کے واقعہ حوت کی مماثلت میں پیش کیا گیا اور کی جنین کا رحم مادہ میں زندہ رکھنا اور ہزار ہا جراثیم کا دوسری ہستیوں میں زندگی کے ساتھ قائم رکھنا جس خدا کا قانون ہے اُس کا کسی مناسب مچھلی کے پیٹ میں یونس کا زندہ رکھنا خواہ وہ غشی کی کچ حالت میں ہو تصرفات قدرت سے مستبعد نہیں.گو مولوی غلام رسول راجیکی صاحب نے آگے چل کر مولوی محمد اسماعیل صاحب کے مضمون کی تردید میں بعض حوالے درج کئے ہیں اور اپنے درجہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے الفاظ بھی بہت احتیاط سے استعمال کئے ہیں مگر جیسا کہ ہر پڑھنے والا سمجھ سکتا ہے ان کے مضمون میں اس قسم کا اشارہ ضرور ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کے مضمون کی تردید کیوں نہیں کی.جو مضمون میر صاحب کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ اگر اِسی طرز پر ہے تو یقیناً غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متواتر احکام اور ارشادات کے خلاف ہے اور اس وجہ سے اس کی غلطی واضح ہے.مگر مولوی صاحب کے اس مضمون میں سے جس چیز نے مجھ پر اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ اس نے فلاں مضمون کا جواب دیا ہے اور فلاں کا نہیں دیا چاہے اسی رنگ میں کہہ دیا ہو کہ حوالے نکال رہے ہوں گے یہ طریق صحیح نہیں.کیا یہ فرض ہے کہ ہر ایسے مضمون کا جواب مولوی محمد اسمعیل صاحب ہی دیا کریں؟
خطبات محمود ۶۱۰ سال ۱۹۳۸ء کیا یہ بھی کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے؟ مولوی راجیکی صاحب کے مضمون میں اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میر صاحب کے مضمون کا جواب کسی اور وجہ سے نہیں دیا گیا حالانکہ یہ بات تقویٰ اللہ اور عقل دونوں کے خلاف ہے.جو اعتراض مولوی را جیکی صاحب نے اپنے مضمون میں مولوی محمد اسمعیل صاحب پر کیا ہے وہ خود ان پر بھی پڑتا ہے.انہوں نے مولوی محمد اسمعیل صاحب پر اعتراض کیا ہے کہ کل انہوں نے حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کرنے والے ایک مضمون کا جواب دیا ہے، دوسرے کا کیوں نہیں دیا لیکن یہی اعتراض مولوی راجیکی صاحب پر پڑتا ہے بلکہ زیادہ سخت صورت میں پڑتا ہے کہ انہوں نے اس مضمون کا جواب تو دیا جو مولوی ابو اعطاء صاحب کے مضمون کی تردید میں لکھا گیا تھا مگر اُس کا کیوں نہ دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو رڈ کرنے والا تھا.جب میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کی تو وہ منتظر رہے کہ کوئی اور ان کا رڈ کرے لیکن جب مولوی ابوالعطاء کی تردید ہوئی کی تو انہوں نے فوراً اس کے رد میں مضمون لکھنا ضروری سمجھا.پھر میں نے تو میر صاحب کا یہ مضمون نہیں پڑھا اگر پڑھتا تو یقیناً اس کا رڈ کرا دیتا اور اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب نے بھی وہ نہ پڑھا ہو مگر مولوی راجیکی صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے دونوں مضمون پڑھے ہیں لیکن چونکہ مولوی محمد اسمعیل صاحب نے کہیں بیان نہیں کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا مضمون پڑھا ہے اس لئے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ شاید مولوی محمد اسمعیل صاحب نے میر صاحب کا مضمون نہ پڑھا ہو.یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ آدمی الفضل میں جو کچھ چھپا ہو سارے کا سارا پڑھے.میں نے میر صاحب کے کئی مضمون پڑھے ہیں مگر یہ میری نظر سے نہیں گزرا.اسی طرح مولوی غلام رسول راجیکی صاحب کے مضامین چھپتے رہتے ہیں ان میں سے بعض میں نے پڑھے ہیں بعض نہیں پڑھے.جس دن زیادہ فرصت ہوگی سارا اخبار پڑھ لیتا ہوں ، جس دن کم ہو اُس دن ضروری ضروری حصے پڑھ لیتا ہوں اور باقی عنوان دیکھ لیتا ہوں.اسی طرح دوسرے لوگ بھی کرتے ہوں گے، پس یہ کہاں سے ثابت ہو گیا کہ میر صاحب کا مضمون جو مولوی محمد اسمعیل صاحب نے بھی ضرور پڑھا ہوگا.لیکن وہ
خطبات محمود ۶۱۱ سال ۱۹۳۸ء مولوی محمد اسمعیل صاحب پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا مگر خود تسلیم کرتے ہیں کہ پڑھا اور پھر اس کا رڈ نہیں کیا.اس کا جواب دینا جیسا مولوی محمد اسمعیل صاحب کا فرض تھا ویسا ہی مولوی راجیکی صاحب کا بھی تھا لیکن انہوں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کے رڈ کا جواب تو جھٹ دیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ردکا نہیں دیا.پس ان پر یہ شدید اعتراض پڑتا ہے کہ انہوں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کے لئے تو غیرت دکھائی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اس کی ضرورت نہیں سمجھی.یہ دیکھ کر میرے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ کہیں ہمارے علماء میں پارٹی بازی کا رنگ تو نہیں پیدا ہو رہا.خدا نہ کرے کہ ایسا ہولیکن اگر سلسلہ میں کسی قسم کی بھی کوئی پارٹی بازی کی روح پیدا ہوئی تو إِنْشَاءَ اللہ اللہ تعالیٰ کی ہی توفیق سے میں اس کو اپنی زندگی میں کبھی برداشت نہیں کروں گا.مولوی محمد اسماعیل صاحب اور مولوی راجیکی صاحب صحابہ میں سے اور مولوی ابوالعطاء صاحب تابعین کی میں سے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور انہوں نے سلسلہ کی مشکلات کے وقت میں میری اعانت بھی کی ہے اور اخلاص کے ساتھ سلسلہ کے کام کرتے رہے ہیں جن کے لئے میں جَزَاكُمُ الله کہتا ہوں اور میرے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے مگر ان باتوں کے باوجود اگر خدانخواستہ کوئی ایسی صورت ہو تو میں قطعاً اس طرف راغب نہیں ہوں کہ ان کی اس قسم کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جائے.صاف بات یہ ہے کہ ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کے ارشادات کی تردید کی گئی مولوی را جیکی صاحب نے اُس مضمون کو پڑھا انکا فرض تھا کہ اُس کا جواب دیتے مگر انہوں نے نہ دیا.مجھے ان کے اس قول پر تعجب ہے کہ لوگ ان کے پاس گئے اور کہا کہ میر صاحب کے مضمون کا جواب مولوی محمد اسمعیل صاحب کیوں نہیں دیتے.ان لوگوں نے مولوی صاحب سے یہ کیوں نہ کہا کہ مولانا آپ اس مضمون کا جواب کیوں نہیں دیتے.انہیں یہ کیونکر خیال پیدا ہوا کہ وہ مولوی راجیکی صاحب کے پاس جا کر یہ شکائت کریں کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب جواب کیوں نہیں دیتے جبکہ ایک عالم ان کے سامنے تھا جسے اس مضمون کا بھی علم تھا پھر بھی اس نے جواب نہیں دیا.مولوی محمد اسمعیل صاحب تو ممکن ہے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کا بھی جواب نہ دیتے.
خطبات محمود ۶۱۲ سال ۱۹۳۸ اس کا محرک تو یہ امر ہے کہ جب یہ مضمون نکلا ہے تو میں نے مولوی محمد اسمعیل صاحب کو لکھا کی یا زبانی کہا کہ زبانی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کے خلاف سُنا ہوا ہے اور کتابوں میں بھی اس کے خلاف پڑھا ہوا ہے لیکن حوالے مجھے یاد نہیں آپ کو مشق ہے آپ قتل یحیی کے بارے میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے بھجوا دیں.چنانچہ انہوں نے حوالے نکال کر مجھے بھیج دیئے.معلوم ہوتا ہے جب مولوی صاحب نے حوالے نکالے تو ساتھ ہی انہیں یہ خیال بھی آگیا کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے ان کو شائع بھی کرا دوں کی تو مولوی محمد اسمعیل صاحب نے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کی اصلاح کے لئے جو مضمون کی لکھا کسی مخالفت کی وجہ سے نہیں لکھا بلکہ میرا حوالے طلب کرنا اس کا موجب ہو گیا اور نہ انہوں نے یہ مضمون اس لئے لکھا کہ ان کا خیال تھا یا جماعت کا خیال تھا کہ سب مضمونوں کا رڈ کرنا انہی کا ہی کا م تھا لیکن مولوی راجیکی صاحب کے مضمون میں اس قسم کا مخفی اشارہ پایا جاتا ہے کہ مولوی محمد اسمعیل صاحب کو چونکہ مولوی ابوالعطاء صاحب سے کینہ تھا اس لئے ان کا رڈ کیا اور میر صاحب سے چونکہ ان کی دوستی تھی اس لئے ان کی تردید نہ کی اور اگر مولوی صاحب سے غلطی کی سے ایسا نہیں لکھا گیا تو یہ صریح ظلم ہے.میرا تو خیال ہے کہ میں اگر ان کو حوالے نکالنے کو نہ کہتا تو ممکن ہے اس مضمون کا بھی ان کو پتہ نہ لگتا اور وہ جواب نہ دیتے یا شاید سمجھ لیتے کہ کوئی اور اس کا جواب دیدے گا.دراصل نیکی کے مختلف مواقع ہوتے ہیں جو مختلف لوگوں کو مل جاتے ہیں.ہر نیکی حضرت ابوبکر نے ہی نہیں کی بلکہ بعض حضرت عمرؓ نے بھی کیں، پھر بعض کا موقع حضرت عمرؓ کو نہیں ملا اور وہ حضرت عثمان نے کیں ، پھر بعض کا حضرت عثمان کو نہیں ملا اور حضرت علی کو موقع ملا، بعض حضرت طلحہ نے کیں ، بعض حضرت زبیر نے کیں تو نیکی کے مواقع ہوتے ہیں اور اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے کسی کو تحریک ہو جاتی ہے.اسی طرح کوئی مضمون کسی کو کی سوجھ جاتا ہے اور کسی کی تحریک کسی اور کو ہو جاتی ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہر نیکی کی تحریک کسی ایک ہی انسان کو ہو اور ہر مضمون لکھنے کا خیال ایک ہی شخص کو آئے یہ انسانی فطرت ہے کہ کبھی مولوی راجیکی صاحب کا خط آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ انہیں مولوی صاحب سے کوئی رنج نہیں.انہوں نے پالا رادہ ایسی کوئی بات نہیں لکھی اور ان کے عذر کو میں تسلیم کرتا ہوں.
خطبات محمود ۶۱۳ سال ۱۹۳۸ء کسی کو خیال آ جاتا ہے اور کبھی کسی کو.ہم روز دیکھتے ہیں کے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک کام کہتے ہیں اور زید خیال کرتا ہے کہ بکر کرے گا اور وہ سمجھتا ہے کہ عمر کرے گا اور کبھی کوئی کر دیتا ہے اور کبھی کوئی اور اس بات کو کسی کی نیت سے وابستہ کر دینا نہایت خطرناک امر ہے.اگر ہر نیکی کے موقع پر حضرت ابو بکر کو ہی خیال آتا تو باقی سب صحابہ خالی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے.بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو نیکیوں کے بہت سے مواقع عطاء کئے مگر بعض دفعہ حضرت عمرؓ کو بھی دیئے اور بعض مواقع پر حضرت عمر کو ایسی سُوجھی جو حضرت ابو بکر یا کسی اور صحابی کو نہیں سو جھی.پس اگر ہر نیکی کا خیال حضرت ابوبکر کو ہی آجاتا تو حضرت عمرؓ کہاں جاتے اور اگر انہیں ہی خیال آتا تو حضرت عثمان اور حضرت علی اور دوسرے صحابہ کہاں جاتے.پس یہ بات انسانی فطرت میں ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف تحریکات دل میں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح مضامین کا حال ہے.کوئی مضمون کسی کے خیال میں آتا ہے اور کوئی کسی کے خیال کی میں.’الفضل کو پڑھو.بعض دفعہ بچے ایسے مضمون لکھتے ہیں جو نہ علماء کے خیال میں آتے ہیں اور نہ میرے دل میں.اللہ تعالی ہمیں اُس کی تحریک نہیں کرتا اور کسی بچے کو کر دیتا ہے کیونکہ اُسے ثواب دینا ہوتا ہے.پس یہ خیال کرنا کہ ایک ہی شخص کا فرض ہے کہ جواب دے بالکل عقل کے خلاف ہے.یہ اللہ تعالی کی دین ہے کبھی وہ کسی کو تحریک کر کے موقع عطا کر دیتا ہے اور کبھی کسی کو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل کر مدینہ آئے تو حضرت ابو بکر کو موقع ملا اور وہ ساتھ رہے اور ہر رنگ میں خدمت کا ثواب حاصل کیا لیکن احد کی جنگ میں جب چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی تو طلحہ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اپنا سینہ آگے کر دیا.جب چاروں طرف سے شور کی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھنا چاہتے کہ کیا ہے تو حضرت طلحہ عرض کرتے کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں ایسا نہ ہو کوئی تیر لگ جائے.میں سامنے کھڑا ہوں.اب کوئی کہے کہ احد کے دن حضرت ابوبکر کیوں آگے کھڑے نہ ہوئے ، دراصل مکہ سے ساتھ آنے میں بھی ان کی بد نیتی تھی تو یہ درست نہ ہوگا.بیشک احد کے دن حضرت ابو بکر کو اللہ تعالیٰ نے موقع نہیں دیا مگر اس میں حضرت ابو بکر کا کوئی نقص نہیں.حضرت طلحہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ تھا اور اسے بھی اللہ تعالی نے کوئی
خطبات محمود ۶۱۴ سال ۱۹۳۸ء فخر کی بات عطاء کرنی تھی.پس یہ موقع بھی اگر حضرت ابو بکر کو ہی مل جاتا تو حضرت طلحہ کیا کہتے.پھر خیبر کے دن حضرت علی کو موقع ملا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج میں اسے موقع دوں گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور جس سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے اور تلوار اس کے سپرد کروں گا جسے خدا تعالیٰ نے فضیلت دی ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اس مجلس میں موجود تھا اور اپنا سر اونچا کرتا تھا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں اور مجھے دیدیں.مگر آپ دیکھتے اور چپ رہتے میں پھر سر اونچا کرتا اور آپ پھر دیکھتے اور چپ رہتے حتی کہ علی آئے اُن کی آنکھیں سخت دُکھتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.علی ! آگے آؤ.وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے لعاب دہن اُن کی آنکھوں پر لگایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو شفاء دے، یہ تلوار لو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے یہ اب اگر کوئی کہے کہ یہ موقع نہ تو حضرت ابو بکر کو ملا اور نہ حضرت عمرؓ کو اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی سے محبت نہیں کرتا تو یہ درست نہیں.حضرت علی کو یہ موقع نہ ملتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر کیا کہتے.حضرت ابو بکر ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت طلحہ تو اپنی خدمات پیش کر دیتے مگر حضرت علی کیا کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی موقع دیا.اسی طرح حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو بھی کئی مواقع ملے بلکہ حضرت عمرؓ کو پہلے دن ہی موقع ملا جب وہ مسلمان ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکان کے اندر تشریف فرما تھے.صحابہ" بھی پاس تھے.دروازہ بند تھا.آپ نے آکر کہا دروازہ کھولو.صحابہ نے کہا کہ عمر کی آواز ہے مت کھولو مگر حضرت حمزہ پہرے پر تھے انہوں نے کہا، عمر کی ایسی تیسی آئے تو سہی میں اس کا سر نہ پھوڑ دوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو.دروازہ کھلا اور حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر ا تم کبھی ہمارا پیچھا چھوڑو گے بھی یا نہیں؟ ہم الگ مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تم وہاں بھی ہم کو دق کرتے ہو.حضرت عمر رو پڑے اور عرض کیا کی يَا رَسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو بیعت کرنے آیا ہوں.یہ سن کر آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا تج اور سب صحابہؓ نے بھی سکے صحابہ بیان کرتے ہیں کہ وہ پہلا نعرہ تکبیر تھا جو مکہ میں بلند کیا گیا.حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! چلیے کعبہ میں نماز پڑھیں.حضرت حمزہ کو ساتھ لیا اور کی ย
خطبات محمود ۶۱۵ سال ۱۹۳۸ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ میں لے گئے.یہ دونوں تلوار میں لے کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی آگے آیا تو ہم اسے فنا کر دیں گے یا خود مرمٹیں گے.دیکھو یہ کتنی بڑی فضیلت ہے مگر کیا ہر فضیلت حضرت عمرؓ کے لئے ہی ضروری ہے.اگر حضرت عمر کی اس فضیلت کو دیکھ کر دوسرے مواقع پر صحابہ کہہ دیتے کہ اب وہ کہاں ہیں.اب آگے کیوں نہیں آتے؟ تو یہ اعتراض صحیح نہ ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو نیکی کرنے کا موقع دیتا ہے وہ کر لیتا ہے اور جس کو موقع ملے وہ کیوں کی چھوڑے.اگر مولوی راجیکی صاحب کو یہ خیال آیا تھا کہ میر صاحب نے ایسا مضمون لکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے خلاف ہے تو انہوں نے کیوں اس کا جواب نہ دیا اور انہوں نے یہ کیوں فرض کر لیا کہ اس کا جواب دینا بھی مولوی محمد اسمعیل صاحب کا فرض ہے.وہ بھی آدمی ہیں اور یہ بھی اور جسے نیکی کی تحریک ہوتی اسے چاہئے تھا کرتا.پس ج مولوی محمد اسمعیل صاحب پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں.اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنا کہ ایک ہی شخص کے ذمہ ہے کہ وہ سلسلہ کی اصلاح کرے نہایت ہی خطرناک رو ہے اور ضروری ہے کہ میں اس کے خلاف اظہار نا راضگی کروں.میں تو خلیفہ وقت کے متعلق ایسا خیال کرنا بھی شرک کی سمجھتا ہوں گجا یہ کہ کسی اور مولوی کے متعلق یہ امید رکھی جائے کہ ہر مضمون کا جواب دینا اس کا ہی فرض ہے.اگر ان کو علم ہوا تھا کہ میر صاحب نے کوئی ایسا مضمون شائع کرایا ہے تو ان کا فرض تھا کی کہ اس کی تردید کرتے اور اگر اس سے جھجکتے تھے کیونکہ بعض وقت آدمی خیال کرتا ہے کہ شاید میرا کی ہی خیال غلط ہو تو ان کو چاہئے تھا مجھے توجہ دلاتے.معلوم ہوتا ہے انہوں نے خیال کر لیا کہ مجھے علم ہو چکا ہو گا.مگر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ میں عالم الغیب ہوں اور ہر بات کو جانتا ہوں.اس وقت جو لوگ میری آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے بیسیوں بعض حرکتیں کر رہے ہوں گے مگر مجھے سامنے کھڑے ہوئے ان کا علم نہیں.”الفضل میں بیسیوں مضمون ایسے چھپتے ہیں جو میں نہیں پڑھتا.اگر ان کو خیال آیا تھا تو ، ان مفروضات کی بناء پر وہ کیوں نیکی سے محروم رہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو نیکی کا ایک موقع دیا تھا جود وسروں کو نہیں ملا مگر انہوں نے گنوادیا اور اب وہ موقع مجھے مل گیا ہے اور میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر میر صاحب نے ایسا مضمون لکھا ہے تو وہ غلط ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود ۶۱۶ سال ۱۹۳۸ء کی تعلیم کے خلاف ہے.یہی نیکی کا موقع مولوی راجیکی صاحب کو ملا لیکن وہ مولوی محمد اسمعیل صاحب سے انقباض رکھنے یا ان کو سلسلہ کا واحد ذمہ دار سمجھنے کی وجہ سے اس ثواب سے محروم رہ گئے.اس جگہ ایک لطیفہ بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا.وہ لطیفہ یہ ہے کہ مولوی را جیکی صاحب نے مولوی محمد اسمعیل صاحب کے مضمون کے رڈ میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اول اس کے خلاف کہا کرتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت یحی قتل نہیں ہوئے.( حالا نکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں پہلے آپ کا یہ عقید ہ تھا بعد میں آپ نے غلطی تسلیم کر لی ) لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ جس دوسرے مضمون کی تردید وہ کرنا چاہتے ہیں اُس میں بھی حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا خیال یہی تھا کہ یونس کو مچھلی نے نہیں نگلا بلکہ مچھلی کو یونس نے نگلا تھا.جن لوگوں نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن شریف پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ عربی زبان میں کی بعض جگہ نسبت بدل جاتی ہے اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ حوت حضرت یونس کے پیٹ کی میں چلی گئی تھی.علاوہ عربی مثالوں کے حضرت خلیفہ اول اردو کی بھی یہ مثال دیا کرتے تھے کہ جیسے کہتے ہیں کہ پر نالہ چلتا ہے حالانکہ پر نالہ نہیں چلتا بلکہ پانی چل رہا ہوتا ہے.تو حضرت خلیفہ اول عربی کی بہت سی مثالیں پیش کر کے کہا کرتے تھے کہ حوت حضرت یونس کے پیٹ میں گئی تھی اور پھر وہ بیمار ہو گئے للبت في بطن اس کے معنی آپ یہی فرمایا کرتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو مچھلی حضرت یونس کے پیٹ سے نہ نکلتی اور ان کی ہلاکت کا موجب ہو جاتی مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مچھلی کو آپ کے پیٹ سے نکال دیا.آپ فرماتے تھے معلوم ہوتا ہے مچھلی کھا کر تمہ ہوا آخر اللہ تعالیٰ نے زہر خارج کر دیا اور آپ بچ گئے.پس اس بارہ میں بھی حضرت خلیفہ اول کا عقیدہ یہی تھا جو ڈا کٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا ہے.لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس خیال کو بھی آپ نے بعد میں بدلا کیونکہ مجھے خطبہ کے بعد میر صاحب کا خط ملا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میں اپنے مضمون پر نادم ہوں اور مجھے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے عقیدہ کے خلاف کچھ بھی لکھنا گناہ ہے اس لئے میں اس پر ندامت کا اظہار کرتا ہوں.
خطبات محمود ۶۱۷ سال ۱۹۳۸ پھر آپ نے ہمیں حضرت مسیح کی وفات کے ثبوت میں یونس نبی والی پیش گوئی بھی دکھائی ) لیکن ایسے امور میں نبیوں ہی کی بات پر انحصار کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ معجزے ہیں اور معجزوں کو انبیاء ہی زیادہ جان سکتے ہیں.ہم میں سے بیسیوں اشخاص اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ حضرت خلیفہ اول جب کتاب نورالدین لکھ رہے تھے تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد لڑائی کی آگ ہے.آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو بہت مشکل ہے اس لئے آگ سے مراد لڑائی کی آگ لی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ فی والسلام ان دنوں بسر اواں کی طرف سیر کو جایا کرتے تھے مجھے یاد ہے میں بھی ساتھ تھا کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نقطہ بیان کیا ہے ( جو لوگ عام طور پر عقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں وہ ایسی باتوں کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً ساری سیر میں اس بات کا رد کرتے رہے اور فرمایا کہ میری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں.ہمیں الہام ہوا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے تو حضرت ابراہیم سے اگر اللہ تعالے نے ایسا سلوک کیا تو کیا بعید ہے.کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم معجزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالی نے اس سے محفوظ رکھا.پس اگر حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچا لیا ہو تو کیا بعید ہے.ہماری طرف سے مولوی صاحب سے کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں کی چنانچہ آپ نے کاٹ دیا.تو معجزات کے بارہ میں انبیاء کی ہی رائے سہی سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ان کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں.جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے، سوال کرتا اور جواب پاتا ہے، اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے کجا یہ کہ عوام الناس کی جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تر و درہتا ہے کہ شاید یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے.جو کہتے ہیں کہ ادھر ہم نے سونے کے لئے تکیہ پر سر رکھا اور ادھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن کی میں تمہیں بہت گالیاں لوگوں نے دی ہیں مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تکیہ پر سر رکھنے سے لے کر اُٹھنے تک اللہ تعالیٰ اسی طرح تسلیاں دیتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی
خطبات محمود ۶۱۸ سال ۱۹۳۸ فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ساری ساری رات یہی الہام ہوتا رہا ہے کہ اِنّى مَعَ الرَّسُولِ اقوم میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.ہاں اللہ تعالیٰ کے کی بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے.نبی نبی ہی ہے.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے کہ جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل سکتی.میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد تک پہنچ چکے ہوں گے مگر اُس شخص کی ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے جسے شام سے لے کر صبح تک انسی مَعَ الرَّسُولِ اَقُوْمُ کا الہام ہوتا رہا ہے.پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں کی لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلہ پر کھڑا کرتے ہیں تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں.ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چر چہ رہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے.بعض لوگ کہتے تھے بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام لیتے تھے.ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اول کو زیادہ محبوب سمجھتی تھی.مجھے یاد ہے ایک دفعہ دو پہر کے قریب کا وقت تھا، کیا موقع تھا یہ یاد نہیں ، پہلے میں کبھی شاید یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس میں موقع بھی بیان کیا ہو مگر اس وقت یاد نہیں ، میں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان بھی شاید وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے.آپ بالعموم حضرت خلیفہ اول کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے.کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نورالدین صاحب بھی کہا کرتے تھے.آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور فرمایا کہ ان کی ذات بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے اور یہ ہمارا نا شکرا پن ہوگا اگر اس کو تسلیم نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے جو سارا دن درس دیتا ہے پھر طب بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعہ ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں.اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے.
خطبات محمود ۶۱۹ سال ۱۹۳۸ء پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں پیش کیا ج جائے یا مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں میرا نام لے لیا جائے تو اس کی کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں.خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں اور اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو جسے اس کا علم ہوا سے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے.شاید آپ کو اس کا ج علم نہ ہو.فقہ کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں.پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو لوگ لیتے ہیں اور یقیناً فقہ کے بعد ہم اس کو حل کر لیں گے اور وہ حل نانوے فیصد صحیح ہو گا لیکن اس کو حل کرنے کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں کی گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلہ میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے.کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ پیش کرے تو آگے سے دوسرا میرا نام لے دے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائی.پس خواہ حضرت خلیفہ اول ہوں ، یا میں ہوں ، یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ جب یہ بات پیش کر دی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے تو آگے سے یہ کہنا کی کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے غلطی ہے، جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سند نہیں ہوسکتی اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اسکے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے.ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالہ کی تشریح خلیفہ نے کی ہے تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے یہ معنی کرتے ہیں لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے یہ معنی کئے ہیں اس طرح خلیفہ نبی کے مقابلہ پر نہیں کھڑا ہوتا بلکہ اس شخص کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیں معلوم ہوں کیا حضرت ابو بکر کی اور حضرت عمرؓ کو ساری احادیث یاد تھیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کی بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو ہم کو یاد نہیں اور دوسرے آکر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں جن کے پاس یہ باتیں ہیں وہ اگر سنا ئیں تو بڑا احسان ہے یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہو.
خطبات محمود ۶۲۰ سال ۱۹۳۸ء اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کتابیں بہت کم پڑھا کرتے تھے.میرے سامنے یہ واقعہ ہوا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں بعض لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں.میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھپ جاتی ہیں.آج ہی جو خطبہ چھپا ہے اس میں ایک سخت غلطی ہو گئی ہے.میں نے اصلاح تو کی تھی مگر اصلاح کرتے وقت پہلے فقرہ کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا وہ دراصل نہ تھا.میں نے سمجھا کہ اس سے پہلے یہ فقرہ ہے کہ صرف ان نبیوں کا رستہ مسد و دقرار دیا گیا ہے اور میں نے اس کے بعد کے فقرہ کو جس میں کچھ غلطی رہ گئی تھی یوں درست کر دیا کہ ”جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے مگر چھپنے کے بعد میں نے پڑھا تو پہلا فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا.جو میں نے سمجھا تھا اور ” الفضل میں یہ فقرہ پڑھ کر میں حیران ہو گیا ؟ کہ کسی ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدود قرار نہیں دیا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے.اور اس طرح گویا اس کے یہ معنی ہو گئے کہ شرعی نبی تو آ سکتا ہے مگر غیر شرعی نہیں حالانکہ مراد یہ تھی کہ صرف ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدود قرار دیا گیا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے.یعنی صرف شرعی نبی کی اور مستقل نبی کی روک کی گئی ہے.تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں.میر مهدی حسین صاحب اس کے ماہر ہیں اور وہ ایسی باریک غلطیاں بھی پکڑ لیتے ہیں جو دوسرے سے یقینا رہ جائیں.تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیمار وغیرہ رہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں کی تا کہ ہمارے خیالات سے واقفیت رہے اور پھر پڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد ہو.مثلاً حضرت یحی کے قتل کے متعلق ہی حوالے میں نہیں نکال سکا اور مولوی محمد اسمعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں.میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو میں روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا.لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو خواہ کتنا ہی
خطبات محمود ۶۲۱ سال ۱۹۳۸ء عرصہ گزر جائے مجھے یا د رہتی ہے.جن باتوں کا یا درکھنا میرے کام سے تعلق نہ ہو وہ مجھے یاد نہیں رہتیں.حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوالوں گا اس لئے یاد نہیں رکھ سکتا اور جو سورتیں میں روز پڑھتا ہوں ان کی آیت سن کر بھی فوراً نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سورۃ کی ہے.ہاں بسم الله سے شروع کر کے ساری سورۃ پڑھوں تو پڑھ لوں گا لیکن ایک آیت کے متعلق پتہ نہیں لگا سکتا کہ کہاں سے ہے.سوائے پانچ سات چھوٹی سورتوں کے یا سورہ فاتحہ کے.بڑی بڑی سورتیں جو یاد ہیں ان سے درمیان کا ٹکڑہ سن کر حوالہ نہیں نکال سکتا لیکن یوں بات یاد رکھنے میں میرا حافظہ ایسا ہے کہ بعض خطوط جب پرائیویٹ سیکرٹری دو دو ماہ بعد پیش کرتا اور کہتا ہے کہ فلاں نے یہ لکھا ہے اور اگر ان کی غلطی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ اس نے یہ تو نہیں بلکہ یہ لکھا ہے.جب میں ڈاک کے جواب مسجد میں لکھوایا کرتا تھا تو بعض لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ بات کی وہی صحیح ہوتی تھی جو میں کہتا تھا حالانکہ خط سیکرٹری کے ہاتھ میں ہوتا تھا.تو میرا حافظہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایساز بر دست ہے کہ بہت کم لوگوں کا ایسا ہوگا.مضمون کے لحاظ سے حوالہ ایسا یاد رہتا ہے کہ کوئی حافظ اس طرح نہیں رکھ سکتا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ لاہور میں مجھے اچانک تقریر کرنی پڑی حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے جو آیات کا حوالہ نکالنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ان کو میں نے پیچھے بٹھا لیا اور مضمون بیان کرنا شروع کر دیا جب ضرورت ہوتی ان سے حوالہ دریافت کر لیتا.اگلے دن ایک ہندو اخبار نے لکھا کہ تقریر تو بہت اچھی تھی لیکن ایک بات قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ موقع پا کر میں سٹیج کی پچھلی طرف چلا گیا تو معلوم ہوا کہ پیچھے ایک شخص بیٹھا ہو ابتا تا جاتا ہے اور یہ آگے بیان کرتے جاتے تھے.حافظ صاحب کے حوالے بتانے سے اس نے سمجھا شاید مضمون بھی وہی بتا رہے ہیں.تو مضمون کے لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے القاء کے طور پر حوالے ملتے جاتے ہیں حالانکہ اس کا خیال اور واہمہ بھی نہیں ہوتا یونہی لفظ کی سامنے آجاتا ہے اور پھر میں حافظہ سے آیت پوچھ لیتا ہوں مگر یہ پتہ نہیں لگتا فلاں آیت کس سورۃ میں ہے.تو گو حا فظوں کی بھی کئی کمزوریاں ہوتی ہیں مگر جب نص موجود ہے تو خواہ دوسری بات کو حافظہ کی کمزوری سمجھو، خواہ نامنہمی بہر حال مقدم وہی بات ہوگی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات محمود نے کہی ہے.۶۲۲ سال ۱۹۳۸ اس کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور پہلے بائبل کو لیتا ہوں اور دیکھتا ت ہوں کہ وہ اصولی طور پر اس معاملے میں کیا کہتی ہے.سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری صلیب پر لٹکائے گئے اور اس وجہ سے یہود نے کہا کہ وہ لعنتی ہو گئے اور انہوں نے اسی نیت سے ایسا کیا وہ سمجھتے تھے کہ بائبل کی رو سے جو نبی بھی قتل ہوتا ہے لعنتی ہو جاتا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ مضمون واقعی بائبل میں درج ہے یا صرف یہ مضمون ہے کہ جھوٹا نبی ضرور سزا پاتا ہے.گویا وہی بات ہے جو قرآن کریم نے آیت لو تقول عَلَيْنَا بَعْض الأقاويلن میں کہی ہے یعنی جو کوئی نبوت کا جھوٹا دعوی کرے اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر ہم اس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے ہیں اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹا ہوتا تو ہم اسے یہ سزا کیوں نہ دیتے ؟ پس یہ اصول ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا ،اسکے معنی یہ نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا نبی ضرور قتل کیا جاتا ہے.یہی مضمون ہمیں بائبل میں بھی نظر آتا ہے.چنانچہ استثناء باب ۱۳ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ ” اور وہ نبی جس کی خواب پوری ہو جاتی مگر شرک کی تعلیم دیتا ہے، یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے گا، یعنی کسی کے ایک خواب پورا ہونے سے یہ مت یقین کر لو کہ وہ نبی ہو گیا ہے.اگر وہ شرک کی تعلیم دیتا ہے تو اسے جھوٹا ہی سمجھو.پس اس کے یہ معنی نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا قتل ضرور کیا جاتا ہے اور دونوں باتوں میں بہت فرق ہے.ہماری جماعت میں بھی اس کی مثال موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہؤا کہ تیری مخالفت کی وجہ سے طاعون سے لوگ ہلاک ہوں گے.اور گویا وہ دشمن کے لئے عذاب ہے.مگر جب کوئی احمدی بھی کبھی اس کا شکار ہو جا تا تو مخالف مضحکہ اڑاتے.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا مسلمان جنگوں میں شہید نہ ہوتے تھے.وہ جنگیں کفار کے لئے تو عذاب ہوتی تھیں.مگر مسلمانوں کے لئے شہادت کا موجب.تو استثنائی طور پر اللہ تعالی کبھی کبھار دشمنوں کو بھی ہنسی کا موقع دے دیتا ہے.پس اس کے معنی یہ نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا نبی ضرور قتل ہوتا ہے اور دوسرے الفاظ میں اسکے یہ
خطبات محمود ۶۲۳ سال ۱۹۳۸ء معنی بھی ہیں کہ یہود کی شریعت کا یہی حکم ہے کہ جھوٹے نبی کو ضر ورقتل کرو.چنانچہ اسی باب کی آیت ۱۵ میں لکھا ہے کہ تو تو اس شہر کے باشندوں کو تلوار کی دھار سے ضرور قتل کرے گا، جس سے مراد یہ ہے کہ تجھے چاہئے کہ اسے قتل کر دے.پس جبر اسی باب میں کرے گا بمعنے کرئے“ استعمال ہوا ہے تو مذکورہ بالا حوالہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ بائبل کا حکم ہے کہ اس شخص کو جو شرک کی تعلیم دیتا ہو اور ساتھ نبوت کا مدعی ہو بنی اسرائیل قتل کر دیا کریں.پھر زکریا باب ۱۳ آیت ۳ میں لکھا ہے کہ جھوٹا نبی جلد ہلاک ہوتا ہے (قتل کا ذکر نہیں ) اس کے ماں باپ جن سے وہ پیدا ہوا ہے اسے کہیں گے کہ تو نہ جئے گا.یہاں جینے کا لفظ ہے جس میں موت بھی قتل بھی اور ہلاکت بھی ہوسکتی ہے قتل کا لفظ یہاں نہیں ہے.استثناء باب ۲۱ آیت ۲۲ ،۲۳ میں ہے کہ اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اور وہ مارا جائے تو اسے درخت میں لٹکا دے.اس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ کی رہے بلکہ تو اُسی دن اُسے گاڑ دے کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے وہ خدا کا ملعون ہے اس لئے چاہئے کہ تیری زمین جس کا وارث خداوند تیرا خدا تجھے کرتا ہے نا پاک نہ کی جائے“.یہاں پھانسی پر لٹکائے جانے والے کے متعلق ایک حکم بیان کیا ہے اور الفاظ سے پتہ لگتا ہے کہ ایسا پھانسی پانے والا جسے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پھانسی دی جائے ملعون ہوتا ہے یعنی جب خدا تعالیٰ کی شریعت کے مطابق اس کا قتل واجب ہو تب لعنتی ہوتا ہے محض پھانسی پانے کی وجہ سے کو ئی لعنتی نہیں ہو سکتا بلکہ وہ لعنتی ہو گا جو کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے پھانسی دیا جائے.جس کے متعلق تو رات کہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے اور جسے خدا تعالی بسبب ناراضگی کے پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے اس کے ملعون ہونے پر کیا شبہ ہوسکتا ؟ ہے.یہود کے اندرا حساس تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جسے ہم پھانسی دیں وہ لعنتی ہوتا ہے.اس کی وجہ سے لازمی طور پر ان کے اندر یہ احساس بھی تھا کہ جسے پھانسی پر لٹکایا جائے اس کا دعوی تسلیم نہیں کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبیوں کو ایسی باتوں سے بچاتا ہے جن سے لوگ نفرت کریں.یوں تو نبی ہر ایک ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی چوہڑا یا چمار نبی ہو جائے تو طبائع میں اتنی نفرت پیدا ہو گی کہ لوگ اس ( نفرت ) پر غالب
خطبات محمود ۶۲۴ سال ۱۹۳۸ء نہ آسکیں گے اور اس وجہ سے اُس کی طرف توجہ ہی نہیں کریں گے تو اللہ تعالی ان باتوں کا بھی خیال کی رکھتا ہے تا لوگ ضد نہ کریں کیونکہ یہ ضروری ہے ورنہ نفرت کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت سے محروم رہ جائیں.پس صلیب پر لٹکانے سے حضرت مسیح ناصری کا بچانا اس نفرت کو دور کر نے کے لئے تھا نہ اس لئے کہ واقع میں صلیب پر لٹک کر انسان لعنتی ہو جاتا ہے خواہ مجرم ہو یا نہ ہو.ہر نظمند سمجھ سکتا ہے کہ یونہی اگر کسی کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو وہ ملعون نہیں ہوسکتا.کوئی شخص شریف ہے، بے گناہ ہے، خدمت خلق کرتا ہے، نیکی کے دوسرے کام کرتا ہے لیکن چور اور ظالم لوگ آ کر اسے پھانسی دیتے ہیں تو کیا وہ ملعون ہو جائے گا ؟ انسانی فطرت اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اگر کسی بے گناہ کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو وہ ملعون ہو جائے گا.پس یا تو یہ مانو کہ کوئی بے گناہ پھانسی پر لٹکایا جا ہی نہیں جا سکتا جو نبی کوئی چورا سے پکڑ کر پھانسی پر لٹکانے لگے تو فرشتے جھٹ سے آکر اسے اتار دیں گے اور چھین کر لے جائیں گے اور اس طرح صلیب پر کوئی غیر مجرم لٹکایا ہی نہیں جا سکتا یا پھر یہ مانو کہ محض پھانسی پر لٹکانے سے کوئی شخص ملعون نہیں ہوسکتا.غرض یا تو مج یہ ماننا پڑے گا کہ کسی یہودی مؤمن کو کوئی صلیب پر لٹکا سکتا ہی نہیں جس طرح دعائے گنج العرش کے متعلق مشہور ہے جو اسے پڑھے نہ تو اس کو آگ جلا سکتی ہے ، نہ اس کو سمندر ڈبو سکتا ہے، نہ پہاڑ پر سے وہ گر سکتا ہے.چنانچہ دعائے گنج العرش کی بابت لکھا ہے کہ کسی چور کو بادشاہ نے پھانسی دیے جانے کا حکم دیا مگر رسی کھنچتے ہیں تو وہ کھنچتی ہی نہیں.بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ وہ کی پھانسی سے نہیں مرتا اس کی گردن ہی نہیں دیتی تو اس نے اسے آگ میں ڈالنے کا حکم دیا مگر جب آگ میں ڈالا تو دیکھا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے.جب اس کی بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس کی نے سمندر میں پھینک دینے کا حکم دیا مگر جب پتھروں سے باندھ کر اسے سمندر میں پھینکا گیا تو وہ کارک کی طرح تیرنے لگا، آخر اسے پہاڑ سے گرانے کا حکم دیا گیا مگر جب پہاڑ سے گرایا گیا تو کی یوں معلوم ہوا کہ کسی نے اسے پکڑ کر آرام سے زمین پر رکھ دیا ہے اور اسے ذرہ بھی چوٹ نہ آئی.بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ تو کوئی ولی اللہ ہے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں آپ کو چور سمجھا ، آپ تو ولی اللہ ہیں مگر اس نے کہا کہ نہیں میں ولی اللہ نہیں چور ہی ہوں صرف بات یہ ہے کہ دعا گنج العرش پڑھتا ہوں.تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ
خطبات محمود ۶۲۵ سال ۱۹۳۸ء یہودی مؤمنوں کی مثال ایسی ہوئی جیسی دعا گنج العرش پڑھنے والوں کی بیان کی جاتی ہے.اگر بائبل کی اس آیت میں انبیاء کا ذکر ہوتا تو اور بات تھی مگر یہاں تو مؤمنوں کو بھی شامل کیا گیا ہے.انبیاء کے ساتھ اللہ تعالی کا خاص سلوک ہوتا ہے وہ ان کے لئے نشان دکھاتا ہے مگر عام مومنوں کے ساتھ ویسا نہیں ہوتا.وہ مارے بھی جاتے ہیں، ان کو شیر بھی کھا جاتے ہیں ، پھانسی بھی پا جاتے ہیں اور صحابہ کرام کے ساتھ یہ سب باتیں گزریں تو کیا تو رات کے ماننے والے مؤمنوں میں ہی کوئی خاص خوبی تھی کہ خواہ سارے بادشاہ مل کر انہیں پھانسی دینا چاہیں کیل تک نہ گا ڑسکیں اور یا پھر یہ سمجھو کہ یہود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ ان میں سے کسی ولی اللہ کو اٹھا کر پھانسی پر لٹکا دو اسی وقت لعنتی ہو جائے گا.گویا باقی دنیا کے لئے تو لعنت اس کے اپنے افعال سے پیدا ہوتی ہے لیکن یہود کے متعلق خدا تعالیٰ کی لعنت ڈالنے کا حق دشمنانِ دین کے سپرد کر دیا گیا کی تھا.پس یا تو یہ دونوں خلاف عقل و ایمان باتیں ماننی پڑیں گی اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ دونوں امرنا قابل قبول ہیں.ایک کو عقل نہیں مانتی اور دوسرے کو ایمان.اور اس طرح ماننا پڑے گا کہ جیسا کہ اصل حوالہ میں ذکر ہے.صرف وہ پھانسی پانے والا ملعون ہے جو خدا کے حکم کے مطابق پھانسی دیا جائے اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایسا گناہ کرنے والا جس سے اس کا قتل واجب ہو جائے لعنتی ہوتا ہے چونکہ خدا کی شریعت کہتی ہے کہ اسے مارڈالو اس لئے وہ لعنتی ہے.پس یہ حوالہ واضح ہے اور اس میں صرف نبوت کے مدعیوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ ہر مجرم کا ذکر ہے.حضرت موسی اصل شریعت لانے والے تھے باقی نبی ان کے تابع تھے اس لئے باقی بھی کی یہی بات بیان کرتے گئے.آہستہ آہستہ یہود میں جب یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم خدا تعالیٰ کے جانشین ہیں تو ساتھ ہی انہیں یہ وہم بھی پیدا ہو گیا کہ جسے وہ پھانسی پر لٹکا دیں وہ ملعون ہے.اس کے علاوہ اور حوالے بھی ہیں.یرمیاہ باب ۱۴ آیت ۱۵ میں ہے ( جھوٹے نبیوں کی نسبت ) اُس کی لئے خدا وند یوں کہتا ہے کہ ان نبیوں کی بابت جو میرا نام لے کر نبوت کرتے ہیں جنہیں میں نے نہیں بھیجا اور جو کہتے ہیں کہ تلوار اور کال اس سرزمین پر نہ ہو گا یہ نبی تلوار اور کال سے ہلاک کئے جائیں گے.یرمیاہ باب ۲۲ آیت ۱۵ سے آخر تک جھوٹے نبیوں کی سزا اور ان کی ناکامی کا ذکر ہے
خطبات محمود ۶۲۶ سال ۱۹۳۸ء کوقتل کا ذکر نہیں.سلاطین ا باب ۱۸، ۱۹ میں ذکر ہے کہ پچاس نبیوں کو بنی اسرائیل نے قتل کیا.متی باب ۲۳ آیت ۲۹ تا ۳۱ میں ہے کہ ”اے ریا کا رفقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کیونکہ نبیوں کی قبریں بناتے ہو اور راست بازوں کی گوریں سنوارتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے دادوں کے دنوں میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں ان کے شریک ہوتے.اسی طرح تم اپنے پر گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو.پھر باب ۲۳ آیت ۳۷ میں لکھا ہے کہ ”اے یروشلم اے یروشلم جو نبیوں کو مار ڈالتی ہے.ان تمام حوالوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور ہلاک ہوتا ہے مگر ان کے یہ معنی نہیں کہ سچا قتل نہیں ہوتا.بائبل کے علاوہ احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے.میں نے گزشتہ خطبہ کو دیکھتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہوا ایک واقعہ لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ دنیا میں دو شخص سب سے زیادہ بد بخت ہوتے ہیں.ایک وہ حج جو نبی کو قتل کرے اور دوسرا وہ جسے نبی قتل کرے.مجھے اس وقت خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حدیث میں بھی یہ ذکر ہے مگر میں نے چونکہ وہ حدیث پڑھی نہ تھی یا مجھے یاد نہ تھی.یہ حصہ میں نے نہ لکھا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ آج اس بارہ میں احادیث دیکھنے پر یہی حوالہ میرے سامنے آ گیا.چنانچہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے عن ابن مسعودان رسول الله الله ﷺ قَالَ اَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيمَةِ رَجُلٌ قَتَلَ نَبِيًّا أَوْ قَتَلَهُ نَبِی یعنی ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس کو ملے گا جس نے نبی کو قتل کیا ہو یا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو.اس حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نبی کا قتل ممکن ہے.اسی طرح ابن جریر اور ابن ابی حاتم یعنی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یا اَبا عُبَيْدَةَ قَتَلَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ ثَلَاثَةٌ وَارْبَعَيْنَ نَبِيًّا أَوَّلَ النَّهَارِ فِى سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ ك يعنی بنی اسرائیل نے ایک دفعہ گھنٹے میں ۴۳ نبیوں کو قتل کیا تھا.یہ دراصل وہی مضمون ہے جو سلاطین ا باب ۱۸ میں بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے
خطبات محمود ۶۲۷ سال ۱۹۳۸ الہام پا کر ان نبیوں کی صحیح تعداد بھی بتا دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے ایک وقت میں کئی کئی نبی معبوث ہوتے تھے اور بائبل سے ثابت ہے کہ جب کوئی بادشاہ خراب ہوتا تو کئی کئی نبی اکٹھے ہو کر اس کے خلاف فیصلہ کرتے تھے.اصل واقع میں بعد میں بیان کروں گا.اس وقت صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اصولی طور پر بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور مارا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہے.اس کے متعلق اگر کوئی مشتبہ حوالہ ہو تو اس وقت میرے ذہن میں نہیں لیکن واضح حوالہ کوئی نہیں کی اصل حوالہ لعنتی والا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس میں نبی کی شرط نہیں بلکہ وہاں یہ لکھا ہے کہ جو لٹکا یا جائے وہ ملعون ہو گا اور بات چونکہ عقل کے خلاف ہے.اس لئے وضاحت کر دی گئی ہے.جو خدا کے حکم سے پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے لیکن بنی اسرائیل کا چونکہ خیال تھا کہ ہم خدا کے جانشین ہیں اس لئے انہیں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جسے ہم لٹکا دیں وہ ملعون ہو جائے گا اسی کی لئے وہ حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکا کر مارنا چاہتے تھے تا انہیں بھی لعنتی ثابت کر دیں مگر خدا نے آپ کو زندہ بچالیا تا کہ دشمنوں کو جھوٹی خوشی بھی نصیب نہ ہو.پھر اس کے علاوہ جیسا میں نے بیان کیا ہے احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے که شدید ترین عذاب اُس شخص کو دیا جائے گا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو گا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک گھنٹہ میں ۴۳ نبی قتل ہوئے اور بائبل میں بھی اس امر کی شہادت موجود ہے کہ ایک وقت میں یہودی بادشاہوں نے کئی انبیاء کو قتل کیا.پھر قاعدہ کے طور پر قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تقْتُلُون نيز يَقْتُلُو ا ر ا ، پس اصولی طور پر قرآن کریم ، احادیث اور بائبل متینوں متفق ہیں اس امر پر کہ انبیا قتل ہو سکتے ہیں اگر چہ ایسا بہت شاذ ہوتا ہے.ایسا ہی شاذ جیسا کہ اس قاعدہ کے متعلق شاذ ہے کہ بالعموم دنیا میں ہی اللہ تعالی انبیاء کی نصرت کرتا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ صرف ایک ہی ماننے والا ہو گا مگر یہ استثنائی حالت ہے.اسی طرح عام قاعدہ کی
خطبات محمود ۶۲۸ سال ۱۹۳۸ء یہی ہے کہ اللہ تعالی انبیاء کو قتل ہونے سے بچاتا ہے مگر استثنائی طور پر بعض قتل کر بھی دیئے جاتے ہی ہیں اور اس میں بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے.پس قرآن، حدیث اور بائبل متینوں اس مسئلہ میں متفق ہیں اور ایسی متفقہ گواہی کی تردید کے لئے بھی کوئی زبر دست وجہ ہونی چاہئے بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی تاویل نہیں کی جاسکتی قرآن کریم نے فرشتوں کے وجود کا ذکر کیا ہے مگر سر سید احمد صاحب نے کہا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالی کی طاقتیں ہیں اور یہ تاویل بعض حوالوں کو مد نظر رکھ کر بیشک ہو سکتی ہے لیکن جس وضاحت سے فرشتوں کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان سب کو مد نظر رکھ کر یہ تاویل کسی صورت میں نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ایسی تاویل کرے تو ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی زبر دست ثبوت ہو.اسی طرح ان تینوں بیانات کی تاویل کرنے کے لئے کوئی زبردست شہادت چاہئے کیونکہ جب بائبل ، قرآن اور حدیث تینوں قتل کے جواز کو مانتے ہیں تو اصولی طور پر اس کی تردید کے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ بیشک نبی قتل ہوسکتا ہے لیکن حضرت سکی کا قتل تاریخ و کتب دینیہ سے ثابت نہیں لیکن اس معاملے میں یہ صورت بھی موجود نہیں.اب چونکہ دیر ہو گئی ہے میں اِس مضمون کو اگلے خطبہ میں اِنشَاءَ اللہ بیان کروں گا.“ ( الفضل ، ار ستمبر ۱۹۳۸ء) اس خطبہ کے بعد مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی راجیکی صاحب دونوں کے خطوط ملے ہیں جن میں اُنہوں نے اپنی براءت کی ہے.میں ان کی براءت کو تسلیم کرتا ہوں.میری ہر گز یہ غرض نہیں کہ اُن کی تنقیص ہو میں ان کو مخلص اور سلسلہ کا خادم سمجھتا ہوں ، میری غرض صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ صاف اور واضح ہو جائے اور میں سمجھتا ہوں ان دوستوں کی بھی یہی خواہش ہو گی.ایسے امور میں تردید کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور نہ اس کی کہ نادان لوگ دھوکا کھا کر ہنسی مذاق کریں.وہ جو ایسے امور میں ہنسی کرتا ہے اُس کی روحانیت مُردہ ہے اُس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے یہ تو بڑے خوف کا مقام ہے.خاکسار.مرزا محمود احمد“ (الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۳۸ ء صفحه ۱ )
خطبات محمود الصفت : ۱۴۵ ۶۲۹ سال ۱۹۳۸ بخاری کتاب المغازى باب غزوة خيبر اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۵۵ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۶ء تذکرہ صفحہ ۴۶۲.ایڈیشن چہارم الحاقة: ۴۵ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۹۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ ء کے الفاظ یہ ہیں.اشتدَّ غَضب الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَجُلٍ قتل نبيه تفسیر در منثور للسیوطی جلد ۲ صفحه ۲۳ مطبوع ۱۹۹۰ء البقرة : ٨٨ البقرة :٢٢
خطبات محمود ۶۳۰ 7 سال ۱۹۳۸ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق شہادت (فرموده ۹ رستمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ” میرا آج کا خطبہ بھی گزشتہ دونوں خطبات کے تسلسل میں ہی ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے اس امر پر بحث کی تھی کہ اصولی طور پر بائیبل قرآن اور احادیث سے انبیاء کے متعلق کیا معلوم ہوتا ہے کہ آیا وہ قتل ہو سکتے ہیں یا نہیں.آج میں حضرت یحیی علیہ السلام کے متعلق خصوصیت کے ساتھ جو باتیں تاریخ یا احادیث یا بائیل سے ثابت ہیں ان کو بیان کرنا چاہتا ہوں.حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مقام ایسا مقام نہیں ہے جو شبہات پیدا کرنے والا ہو کیونکہ حضرت یحیی علیہ السلام ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوئے جبکہ تاریخ مدون ہونی شروع ہوگئی تھی.بعض انبیاء بے شک ایسے زمانوں میں ہوئے ہیں جبکہ تاریخ ابھی مدون ہونی شروع نہیں ہوئی تھی اور اُس وقت کے انبیاء کی نسبت حقیقت کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے مثلاً حضرت شیث علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں.حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق بڑے ہیں.اختلافات ہیں.حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں.کیونکہ یہ لوگ ایسے کی زمانوں میں ہوئے ہیں جبکہ تاریخ کی تدوین ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور چونکہ ان انبیاء کے کی حالات کا مدار زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر تھا.اس لئے ان کے متعلق بہت سے اختلافات ہو گئے مگر حضرت یحیی علیہ السلام ایک ایسے نبی ہیں جن کے زمانے سے تاریخ کی تدوین کی
خطبات محمود ۶۳۱ سال ۱۹۳۸ء شروع ہوئی تھی.گو تاریخ کی اصل تدوین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے شروع ہوئی کی ہے.مگر بہر حال حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ سے اس کی بنیاد پڑنی شروع ہو گئی تھی.پس جبکہ حضرت یوحنا یا حضرت یحی" جیسا کہ قرآن کریم میں ان کا نام آتا ہے.ایک تاریخی آدمی ہیں.تو ان کے متعلق تاریخی شہادتیں ہمارے لئے بہت کچھ روشنی کا موجب ہو سکتی ہیں.کیونکہ ایک نبی کی اپنی جماعت ممکن ہے کسی ایسے معاملہ میں جوان کے مفید پڑتا ہو مبالغہ سے کام لے ممکن ہے دشمن بھی ایسے معاملہ میں جو اس کے حق میں ہو مبالغہ سے کام لے مگر جب دوست دشمن متفق ہوں اور جب ایک تیسرا بے تعلق شخص بھی وہی بات کہے اور پھر وہ اس بات کو تاریخ میں اسی وقت لکھ دے اور وہ تاریخ محفوظ چلی آئے تو اس کے متعلق اگر شکوک وشبہات شروع کر دیئے جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمیں ہر بات میں شک کرنا پڑے گا.یہی وجہ ہے کہ جب بعض لوگوں نے شک کرنا شروع کر دیا تو انہوں نے اس حد تک لکھ دیا.کہ حضرت موسیٰ کی علیہ السلام کا وجود ہی نہ تھا.اور بعض نے لکھ دیا کہ حضرت عیسی کا وجود وہمی وجود ہے اور بعض نے یہ لکھ دیا ہے کہ بدھ کوئی آدمی ہی نہیں ہوئے تو اگر ان صداقتوں کا انکار کیا جائے جو تاریخی ہوں اور جن کا مخالف و موافق اقرار کرتے ہوں.تو پھر کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہتا.چنانچہ دیکھ لو چکڑالوی فرقہ کے لوگوں نے جب شک کیا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ نماز نہیں پڑھتے تھے جو آجکل لوگ پڑھتے ہیں.یہ نماز لوگوں نے بعد میں بنالی ہے کیونکہ اس کا ذکر بقول ان کے قرآن میں نہیں ہے.اسی طرح بیسیوں واقعات وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے تاریخوں میں پڑھتے ہیں.مگر چونکہ وہ انہیں اپنے فہم قرآن کے رو سے قرآن کریم کے احکام کے مطابق نہیں سمجھتے.اس لئے تاریخی شہادتوں کا بالکل انکار کر دیتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ تاریخ بھی غلطی کر جاتی ہے مگر جب تاریخ اور مذہب اور قومی روایات تینوں باتیں جمع ہوں تو پھر ان کو رڈ کرنا انسان کو ایسے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ اس کے لئے کوئی چیز ثابت کرنی ممکن ہی نہیں رہتی اور دنیا کی نگاہوں میں بھی اس کی عزت جاتی رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے یہ واقعہ سنا ہوا ہے.آپ فرمایا کرتے کہ کوئی شخص تھا
خطبات محمود ۶۳۲ سال ۱۹۳۸ء جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا کسی بادشاہ کا وزیر اتفاقاً اس کا معتقد ہو گیا اور اس نے ہر جگہ اس کی کی بزرگی اور ولایت کا پروپیگینڈا شروع کر دیا.اور کہنا شروع کر دیا.کہ وہ بڑے بزرگ اور کی خدارسیدہ انسان ہیں.یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرورت زیارت کریں چنانچہ بادشاہ نے کہا اچھا میں فلاں دن اس کے پاس چلوں گا.وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کے پاس پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا آپ اس کی سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہو جائے.اور وہ بھی آپ کا معتقد ہو جائے.معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر بے وقوف ضرور تھا.جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں.اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو وہ کہنے لگا.با دشاہ سلامت آپ کو انصاف کرنا چاہیے دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ کیسا عادل اور منصف تھا اور اس کا آج تک کتنا شہرہ ہے.حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے ہو چکا تھا مگر اس نے سکندر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہو ا تھا.کیونکہ سکندر خلافت اربعہ کے زمانہ میں تو ہو نہیں سکتا تھا.کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی.حضرت معاویہ کے زمانہ میں بھی نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے.بنو عباس کے ابتدائی ایام خلافت میں بھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت وہی روئے زمین کے حکمران تھے پس اگر سکندر مسلمان تھا تو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہو سکتا ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے.تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کا بادشاہ تھا اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی امت میں سے قرار دے دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو کر فوراً اُٹھ کر چلا گیا.تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں مگر یہ مصیبت تو اس نے آپ سہیڑی.اسے کس نے کہا تھا تی
خطبات محمود ۶۳۳ سال ۱۹۳۸ء کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کر دے.تو تاریخ کا انکار اور ایسی تاریخ کا انکار جس کو غلط کی کہنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو لوگوں کی نگاہ میں انسان کو گرا دیتا ہے.حضرت یحیی علیہ السلام بھی ایک ایسے زمانہ میں ہوئے ہیں جو تاریخی زمانہ ہے اور اسی وقت سے کچھ نہ کچھ عیسائیت کی اور کی کچھ نہ کچھ یہودیت کی تاریخ مدون ہوتی نظر آتی ہے.چنانچہ یہودیوں کا ایک ہی مؤرخ جو دنیا کے بڑے مؤرخین میں سے سمجھا جاتا ہے واقعہ صلیب کے بالکل قریب زمانہ میں پیدا ہوا ہے یعنی کی واقعہ صلیب کے ۲۶، ۲۷ سال بعد.اس کا نام جوزیفس تھا اور چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ۳۳ سال کی عمر میں صلیب پر لٹکائے گئے تھے.اس لئے ہمارے عقیدہ کے رو سے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر کے ۶۹ ویں یا سترھویں سال میں پیدا ہو ا تھا.اور چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ہمارے نزدیک ایک سو بیس سال کی ہوئی ہے.اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت جوزیفس کی عمر پچاس یا ۱ ۵ سال کی کی تھی.اور وہ اس وقت تک بہت بڑا مؤرخ بہت بڑا گورنر اور بہت بڑا جرنیل کہلا چکا تھا کیونکہ جو زیفس صرف مؤرخ ہی نہیں تھا بلکہ جرنیل بھی تھا اور گورنر بھی رہا ہے.اور اسے صحیح واقعات معلوم کرنے کا پورا موقع حاصل تھا.چونکہ وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے صرف ۳۷ یا ۳۸ سال بعد پیدا ہوا ہے.اس کے بلوغ اور جوانی کے وقت تک یقینا ابھی سینکڑوں ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے خود حضرت یحیی علیہ السلام سے بپتسمہ لیا ہوگا اور لاکھوں اس وقت کے حالات جاننے والے اور عینی شاہدوں سے سننے والے موجود ہوں گے.آج غدر پر ۸۲ سال گزر چکے ہیں.مگر کیا ۸۲ سال کے واقعہ پر کوئی شبہ کر سکتا ہے اور کہ سکتا ہے کہ غدر ہوا ہی نہیں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے غدر میں شمولیت کی اور وہ اُس وقت کے چشم دید واقعات بیان کرتے ہیں.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص میری بیعت کے لئے آئے ان کی باتوں سے مجھے یوں کی محسوس ہوا کہ وہ بہت بڑی عمر کے ہیں.کیونکہ وہ پرانی پرانی باتیں بیان کرتے تھے.میں نے ان سے کہا معلوم ہوتا ہے آپ کی عمر بہت بڑی ہے اور غالباً آپ اسی نوے سال کے ہوں گے وہ کہنے لگا.اسی نوے سال؟ میری عمر تو ۱۴۱ سال کی ہے دس بارہ سال ہوئے گجرات سے
خطبات محمود ۶۳۴ سال ۱۹۳۸ء ایک دوست بیعت کے لئے آئے تھے.انہوں نے اپنی عمر ایک سو بیس سال بتائی تھی اگر وہ زندہ ہیں کی تو گویا یہ دونوں ہم عمر ہیں.انہوں نے بیان کیا کہ غدر میں انہوں نے بھی حصہ لیا تھا.اور وہ اُس وقت کی باتیں اس طرح بیان کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا قبروں میں سے کوئی آدمی اٹھ کر آ گیا ہے.اور وہ باتیں بیان کر رہا ہے اور ابھی ماشاء اللہ ان کے قومی اچھے خاصے ہیں ان سے معلوم ہوا کہ وہ حضرت خلیفہ اول کے استاد کے استاد کے مرید اور شاگرد ہیں اور ان کے پیر اور مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسه دارلعلوم دیو بند کے پیر ایک ہی شخص تھے.کئی واقعات جو ہم حضرت خلیفہ اول سے سنا کرتے تھے وہ انہوں نے اس مجلس میں بیٹھے بیٹھے سنائے.اور وہ اسی طرح تھے جس طرح ہم نے حضرت خلیفہ اول سے سنے تھے.وہ سرساوہ کے رہنے والے ہیں جہاں کے شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی ہیں.میں نے جب تعجب سے ان سے پوچھا کہ آپ تو شیخ اسماعیل صاحب سرساوی سے بہت بڑے ہوں گے تو وہ کہنے لگے آپ ان سے کہتے ہیں.میں تو ان کے والد جن کا یہ نام تھا اُن سے بھی عمر میں بہت بڑا تھا.پھر کہنے لگے.پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو تو میں نے گودی میں کھلایا ہے تو ایسے آدمی دنیا میں آجکل بھی پائے جاتے ہیں جن کی عمریں بہت بڑی ہیں اور وہ سو سو سو سال کے واقعات کے عینی شاہد ہیں.گزشتہ سال مجھے ایک بوڑھے آدمی ملے.ان کی شکل حافظ غلام رسول صاحب کی وزیر آبادی سے اس قدر ملتی جلتی تھی.کہ میں نے دیکھتے ہی کہا.آپ ان کے رشتہ دار ہیں.انہوں نے کہا.میں ان کا چچا ہوں.اور ان کی عیادت کے لئے آیا ہوں ان کے چہرے سے جس قسم کی طاقت ظاہر ہوتی تھی اس سے اندازہ کر کے میں نے قیاس کیا کہ یہ غالبا ان سے چھوٹے ہیں کیونکہ بعض اوقات بھتیجے کی عمر چا سے زیادہ بھی ہوتی ہے اس لئے میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ حافظ صاحب سے چھوٹے ہیں.اس پر انہوں نے جواب دیا.وو جدوں اس دی ماؤ دا ویاہ ہو یا سی اودوں میں اٹھارہ دریاں دا ساں“ یعنی جب ان کی والدہ کی شادی میرے بھائی سے ہوئی تھی اس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی.حافظ صاحب کے قومی بھی مضبوط تھے گواب بیماری کی وجہ سے وہ کمزور ہو گئے ہوں.مگر کی پھر بھی ان کا اپنے چچا سے کوئی جوڑ ہی نہیں.پھر انہوں نے کہا.اس وقت میری عمر ۹۹،۹۸ سال
خطبات محمود ۶۳۵ سال ۱۹۳۸ء کی ہے.اور چونکہ یہ گزشتہ سال کا واقعہ ہے اس لئے اب وہ۹۹ سال یا سو سال کے ہوں گے.تو ایسے آدمی بھی ہوتے ہیں جو خاص طور پر لمبی عمر رکھنے والے ہوتے ہیں.میں نے اپنے تجربہ میں ہی ایسے کئی آدمی دیکھتے ہیں.ہماری تائی صاحبہ تھیں وہ بھی سو سال کی تھیں.اسی طرح کی اور کئی لوگ ہوتے ہیں قادیان کے ایک نائی تھے جو قریباً سو سال کی عمر میں فوت ہوئے.گویا قادیان میں ہی تین چار آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں.جنہوں نے سوسال یا اس سے زیادہ عمر پائی.تو اگر چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی تین چار ایسے آدمی مل سکتے ہیں جو اتنی لمبی عمر پانے والے ہوں تو ایک قوم میں تو یقیناً سینکڑوں ایسے آدمی ہوتے ہوں گے جن کی عمر سو سال کے قریب ہوتی ہوگی.پس جو زیفس کی جوانی کے وقت جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ سے ستاون اٹھاون سال بعد کا زمانہ ہے.یقیناً سینکڑوں آدمی موجود ہوں گے جو اس وقت کے عینی شاہد یا صحیح حالات جاننے والے ہوں گے کیونکہ جوزیفس کے متعلق اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے بیس بائیس کی سال کی عمر میں حالات جمع کرنے شروع کئے.تو جو لوگ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے وقت ہیں سال کی عمر کے ہوں.ان کی عمر جو ز یفس کی بیس سال کی عمر کے وقت چھہتر ستتر سال کی ہوتی ہے.پس یقیناً ان کے خاص مریدوں یا ان کے حالات کو دیکھنے والے غیر جانبداری لوگوں سے واقعات سن کر جو ز یفس نے اپنی تاریخ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی وفات کے کی واقعات لکھے تھے.اس کے علاوہ حضرت یحیی علیہ السلام کے مریدوں میں سے ایسے لاکھوں آدمی اس وقت موجود تھے جو گو یا تابعی تھے.اور جنہوں نے اس وقت کے حالات دیکھنے والوں کی سے حالات سنے تھے.ان سب سے معلوم ہو سکتا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں یا شہید کئے گئے ہیں.بس جو زیفس کی گواہی نہایت ہی زبر دست گواہی ہے یہ ۳۶.۳۷ء میں پیدا ہوا.گویا اس وقت پیدا ہوا.جب حضرت یحیی علیہ السلام کے واقعہ پر ابھی صرف ۳۷ سال گزرے تھے.اور اگر تاریخ کی تدوین کے وقت اس کی عمر میں سال سمجھی جائے کی تو گویا جس وقت اس نے تاریخ لکھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ قتل پر صرف ۵۷ سال گزرے تھے یہ شخص حضرت بیجی علیہ السلام کا مرید نہیں نہ عیسائی اور رومی ہے.بلکہ یہودی ہے اور
خطبات محمود ۶۳۶ سال ۱۹۳۸ اس وجہ سے اس کی گواہی بالکل غیر جانبدارانہ ہے اس نے اپنی تاریخ میں حضرت بیجی علیہ السلام کے قتل کے واقعات نہایت تفصیل سے لکھے ہیں.وہ لکھتا ہے بادشاہ ہیرو ڈانٹی ایس نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا رسوخ دیکھ کر اس ڈر سے کہ زور پکڑ کر بغاوت نہ کر دیں مینجرس کے قلعہ میں ان کو قید کر دیا اور بعد میں مروا دیا ( ہیروڈ انٹی ایس گورنر تھا.مگر چونکہ پرانے زمانہ میں گورنروں کو بادشاہ کہہ دیا جاتا تھا اس لئے جو زیفس نے بھی ہیرو کو بادشاہ قرار دیا ہے ، ورنہ درحقیقت وہ بادشاہ نہیں بلکہ گورنر تھا ایشیا میں پرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا چنانچہ الف لیلیٰ میں نہایت کثرت سے گورنروں کو بادشاہ کے نام سے پکارا گیا ہے ) اس واقعہ شہادت کی تفصیلات تاریخ میں اس طرح آتی ہے کہ ہیروڈ انٹی ایس کا ایک بھائی فیلبوس نامی تھا.جب وہ مرا.تو ہیرو ڈانٹی ایس نے چاہا کہ اس کی بیوی ہیرو د یاس سے شادی کر لے.اس کے خلاف حضرت یحیی علیہ السلام نے بعض اخلاقی وجوہ سے اعتراض کیا.محبہ یہ کی کیا جاتا ہے کہ ہیروڈ انٹی ایس کا پہلے سے اس عورت کے ساتھ ناجائز تعلق تھا.اور اسی نے اپنے بھائی کو مروا ڈالا تھا.بعض یہ کہتے ہیں کہ عورت خود خراب اور بدچلن تھی اور اس نے اپنے خاوند کو مروا دیا.بہر حال حضرت یحیی علیہ السلام کا اعتراض تاریخی طور پر ثابت ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ شادی مناسب نہیں کیونکہ اس طرح قوم کے اخلاق پر بُرا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے چونکہ وہ یہودیوں کا علاقہ تھا اور گورنر کو یہودیوں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا اس لئے اس نے شادی تو نہ کی مگر دل میں اس نے اس بات کو بہت بُرا محسوس کیا.اور اس عورت کو بھی لازما بر امحسوس ہوا.کہ میں ملکہ بننے والی تھی.مگر حضرت بیٹی کی وجہ سے نہ بن سکی.چنانچہ اس نے اندر ہی اندر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خلاف سازش شروع کر دی بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے اس عورت سے شادی کر لی تھی.اور اپنے گھر میں رکھ لیا تھا.بہر حال ہیروڈ انٹی الیس اور اس عورت کو اس بات کا غصہ تھا کہ حضرت یحیی نے ان کے رستہ میں رکاوٹ کیوں ڈالی.ایک دفعہ جب کہ ہیروڈ انٹی ایس کی سالگرہ کا دن تھا تو ہیرود یاس کی بیٹی جو ہیرو ڈانٹی ایس کی بھیجی تھی اس کی کے سامنے ناچی.
خطبات محمود ۶۳۷ سال ۱۹۳۸ء (ہمارے دوستوں کو اس موقع پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ایک بھتیجی چچا کے سامنے کس طرح کی ناچ سکتی ہے.یہ رومیوں کی بات ہے اور ان میں شراب پینا اور ناچ کرنا دونوں باتیں جائز کبھی جاتی تھیں) بہر حال جب وہ ناچی تو ہیرو ڈانٹی ایس بہت ہی خوش ہوا اور اس نے کہا مانگ جو کچھ مانگتی ہے.اس پر جیسا کہ اس کی ماں ہیرو د یاس نے اُسے سکھا رکھا تھا کہا کہ میں بیٹی کا سر مانگتی ہوں.بادشاہ نے کہا.اگر میں نے بیٹی کو قتل کرایا تو بغاوت ہو جائے گی.وہ کہنے لگی کچھ ہو آپ نے وعدہ کیا ہے کہ میں جو کچھ مانگوں گی آپ دیں گے.پس آپ اپنے وعدے کا پاس کریں.اس پر بادشاہ نے اپنے آدمی بھجوا کر قید خانہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کرا دیا کی اور ان کا سرلڑکی کے سامنے رکھ دیا.اب یہ واقعہ ایک غیر جانبدار مؤرخ لکھتا ہے کوئی عیسائی نہیں لکھتا.کوئی یہودی نہیں لکھتا ( یعنی ایسا یہودی نہیں لکھتا جو مذہبی آدمی ہو اور نہ یہ واقعہ وہ کسی مذہبی بناء پر لکھ رہا ہے.بلکہ ایک مؤرخ ہونے کی حیثیت میں تاریخی بنا پر یہ واقعہ لکھ رہا ہے ) اور ایسی حالت میں لکھتا ہے.جبکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل پر ابھی صرف پچاس ساٹھ سال کا عرصہ گزرا اور اس وقت کے واقعات کو جاننے والے سینکڑوں زندہ ہوتے ہیں.اور کوئی جھوٹ اور غلط بات نہیں لکھی جاسکتی.پھر یہ مؤرخ کوئی معمولی نہیں.بلکہ ایسا سچ بولنے والا مؤرخ ہے کہ عیسائی بھی اس کی باتیں تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو زیفس نہایت راستباز مؤرخ تھا.وہ جان بوجھ کر کی غلط بیانی کبھی نہیں کرتا.ہاں اتفاق سے کوئی غلطی کر جائے تو اور بات ہے.اسی وجہ سے عیسائی مورخ اس کی بڑی قدر کرتے ہیں.اور یہودی بھی بڑی قدر کرتے ہیں.راستباز اور مشہور مؤرخ حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کے صرف پچاس ساٹھ سال بعد لکھتا ہے کہ ہیرڈ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کرایا.اور جب لڑکی نے بیٹی کا سر مانگا تو اس نے کہا.کہ حضرت یحییٰ کو ماننے والے بہت ہیں اگر میں نے انہیں قتل کرایا تو بغاوت ہو جائے گی.جس پر لڑکی نے کہا.کہ آپ نے جب وعدہ کیا ہے تو اسے پورا کریں.خواہ کچھ ہو.چنانچہ اس نے قید خانہ میں آپ کو قتل کرایا.اور آپ کا سر منگوا کر اپنی بھتیجی کے سامنے پیش کیا.اگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مریدوں اور انجیلوں کے بیانوں کے ساتھ ایک ایسے مشہور او
خطبات محمود ۶۳۸ سال ۱۹۳۸ء راستباز مؤرخ کا بیان بھی مل جاتا ہے جو حضرت یحیی علیہ السلام کے صرف پچاس سال بعد آپ کی کا واقعہ لکھ رہا ہے اور پھر بھی ہم اسے درست تسلیم نہ کریں تو ہم کسی بات کو بھی یقینی نہیں کہہ سکتے.پھر تو غدر کے متعلق بھی محبہ کیا جاسکتا ہے.کہ ہوا یا نہیں یہ بھی محبہ ہوسکتا ہے.کہ انگریز کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ ہندوستان ہی کی ایک قوم ہیں.یہ بھی محبہ ہوسکتا ہے کہ شاید مولوی اسماعیل صاحب شہید کوئی آدمی ہی نہیں گزرے.ابوظفر بادشاہ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کوئی تاریخی وجود نہ تھا.کیونکہ ان کی موت پر ۸۲ سال گزر چکے ہیں.اور اتنی دیر کی بات صحیح نہیں سمجھی جاسکتی سید احمد صاحب بریلوی پر سو سال سے اوپر گزر چکے ہیں ان کے وجود میں بھی محبہ کیا جاسکتا ہے پھر مہا راجہ رنجیت سنگھ کی موت پر قریباً نوے سال گزر چکے ہیں ان کے وجود کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے مگر کیا ان تمام واقعات میں سے کسی ایک کے متعلق بھی ہمیں شبہ ہوا ہے.ہم کہتے ہیں کہ ان میں محبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہی قریب کے واقعات ہیں.اور ہزاروں لوگ جانتے ہیں کہ یہ باتیں ہوئی ہیں.اسی طرح یہ ناممکن ہے کہ جوزیفس کی شہادت کو رڈ کیا جاسکے.کیونکہ وہ ایک ایسے زمانہ میں ہوا ہے جبکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ابھی صرف پچاس ساٹھ سال گزرے تھے.اور ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی ان کے مریدوں میں سے زندہ تھے.اور اسوقت کے حالات کو دیکھنے والے یا دیکھنے والوں سے سننے والے موجود تھے.ایسے زمانہ میں ایسا مشہور مؤرخ یہ نہیں لکھتا.کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام فوت ہوئے ہیں بلکہ یہ لکھتا ہے کہ وہ قتل کئے گئے.پس ان کا قتل تاریخی طور پر یقیناً ثابت ہے.پھر تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت صدیوں تک قائم رہی ہے اور صدیوں تک ان پر ایمان لانے والے دنیا میں موجود رہے ہیں.اور ان تمام کا یہی کی عقیدہ تھا کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے ہیں عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے یہودی بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے.مؤرخ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے.اب یہ عجیب بات ہے کہ اُس وقت حضرت بیٹی کے ملک میں تین قومیں موجود تھیں اور تینوں کی متفقہ شہادت یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے.یہودی کہتے ہیں کہ حضرت بیچی علیہ السلام قتل ہوئے ،
خطبات محمود ۶۳۹ سال ۱۹۳۸ء عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے.حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مرید کہتے ہیں ج حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے پھر ان تینوں قوموں کی شہادت کے ساتھ مؤرخوں کی شہادت بھی مل جاتی ہے اور وہ بھی کہتے ہیں.حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے.ان تمام واقعات کی کی موجودگی میں اگر ہم انہیں سو سال کے بعد آج اُٹھ کر یہ کہہ دیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو دنیا کس طرح ہماری اس بات کو مان سکتی ہے.یا خود ہماری عقلیں کس طرح اس عقیدہ کو تسلیم کر سکتی ہیں ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ کیا انہیں سو سال تک لوگ یہ نہیں کہتے رہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے ہیں اور کیا انہیں سو سال کے بعد جماعت احمدیہ نے اس نظریہ کو نہیں بدلا ؟ پھر اگر یہ کہہ دیا جائے کہ انہیں سو سال تک عیسائی، یہودی اور مؤرخ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہتے رہے وہ غلط ہے تو اس میں عجیب بات کون سی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم واقعہ صلیب کے متعلق عیسائیوں اور یہودیوں کی گواہی اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کی خود غرضی ہے.اور وہ اگر کچی بات بیان کریں تو ان کے اپنے مذہب پر پانی پھرتا ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے.اور اس میں یقیناً عیسائیوں کا فائدہ ہے کیونکہ ان کے کفارہ کی بنیاداسی امر پر ہے کہ مسیح نے ان کے گناہ اٹھالئے.اور ان کے بدلہ میں خود جان کی دے دی.یہودی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر مرے.مگر اس لئے کہ وہ چاہتے ہیں حضرت مسیح کو ملعون ثابت کریں چونکہ وہ حضرت مسیح کو مانا نہیں چاہتے.بلکہ چاہتے ہیں انہیں ملعون ثابت کریں.اس لئے وہ کہتے ہیں مسیح صلیب پر لٹکا اور پھر وہاں سے زندہ نہیں اترا بلکہ صلیب پر لٹک کر مر گیا.اور تورات کے مطابق نعوذ باللہ ملعون ثابت ہوا.اسی طرح رومی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے مگر اس لئے کہ رومی گورنر پیلاطس پر جو ہیرو ڈانٹی ایس کے ماتحت تھا یہ الزام آتا تھا کہ اس پر حضرت مسیح کو بچانے کی کوشش کی.پس چونکہ اس پر بھی الزام آتا تھا اس لئے لازماً اس نے بھی حقیقت پر پردہ ڈالنا تھا پس چونکہ وہاں تینوں قوموں کا مفاد اسی امر میں تھا کہ یہ مشہور کریں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہو گئے ہیں.اسی لئے ان کی کی
خطبات محمود ۶۴۰ سال ۱۹۳۸ء شہادت مخدوش تھی مگر حضرت یحیی علیہ السلام کے متعلق یہ کہتے میں کہ وہ شہید ہو گئے ہیں ان کی قوم کو کیا فائدہ تھا وہ تو اس امر کی قائل نہیں کہ حضرت یحییٰ ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر ان کے لئے کفارہ بن گئے.پھر انہیں اپنے پیر کے شہید ہونے کی خبر دینے کا کیا فائدہ تھا.خصوصاً جب کہ اس وقت بعض یہود کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے وہ اپنے پیر کو جھوٹا کس طرح بنا سکتے تھے اسی طرح یہودی جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے تو ہر شخص کو نظر آرہا ہوتا ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح کو ملعون ثابت کریں مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کو مقتول قرار دیتے ہیں ان کی یہ غرض تو نہیں ہوسکتی کیونکہ جو یہود ان کے مرید نہ تھے وہ بھی انہیں برگزیدہ انسان تسلیم کرتے تھے اسی طرح عیسائی بھی یہی مانتے ہیں کہ حضرت یحیی علیہ السلام قتل ہوئے تھے حالانکہ ان کو شہید ماننے میں نہ صرف یہ کہ عیسائیوں کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ان پر بہت بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے.وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بے گناہ مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی حضرت بیٹی علیہ السلام کو بھی راستباز مانتے ہیں.پس جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ہمارے گناہوں کے بدلہ میں کفارہ ہو گئے تو ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس میں مسیح کی کیا خصوصیت ہے بیٹی نبی کے متعلق بھی تم تسلیم کرتے ہو کہ وہ راستباز اور بے عیب تھا.پس اگر وہ بھی مارا گیا تو اس کی نسبت بھی کہنا چاہیے کہ لوگوں کے گناہ اٹھا کر لے گیا.اس صورت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی جو منفردانہ حیثیت ہے وہ بالکل جاتی رہتی ہے.پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید تسلیم کرنے میں عیسائیوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں.بلکہ الٹا اُن پر اعتراض وارد ہوتا ہے.اور کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یوحنا بھی کفارہ ہو گیا.اور تم اپنے مسیح کی کی جو خصوصیت پیش کرتے ہو وہ جاتی رہی.پس حقیقت یہ ہے کہ گو حضرت بیچی قتل ہوئے تھے مگر عیسائی یہی کہتے کہ وہ کوئی قتل نہیں ہوئے تا حضرت مسیح کی اس منفردانہ حیثیت پر حملہ نہ ہو جو وہ پیش کرتے ہیں.مگر باوجود اس اعتراض کے وارد ہونے کے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت بیٹی علیہ السلام شہید ہوئے.پس
خطبات محمود ۶۴۱ سال ۱۹۳۸ء اس میں کسی کا فائدہ نہ تھا.بلکہ ان کا قتل تسلیم کرنے میں عیسائیوں کا نقصان تھا.کیونکہ اس طرح انہیں مانا پڑتا تھا کہ صرف حضرت عیسی علیہ السلام ہی بے گناہوں کے لئے کفارہ نہیں ہوئے بلکہ ایک اور بے گناہ بھی گنہگاروں کے لئے کفارہ ہوا.اور دشمنوں کی شرارت سے مارا گیا.اور اس کی کو تسلیم کرنا عیسائیوں کے لئے سخت گراں ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں ایک حضرت عیسی علیہ السلام ہی ہیں جولوگوں کے لئے کفارہ ہوئے.ممکن ہے کوئی کہے کہ عیسائی پہلے بھی بعض نبیوں کے قتل کے قائل ہیں.پس حضرت یحی کی علیہ السلام کا قتل ماننے سے ان پر زیادہ اعتراض کس طرح آسکتا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک وہ بعض اور انبیاء کے قتل کے بھی قائل ہیں.مگر حضرت یحیی علیہ السلام وہ ہیں جنہیں وہ بے گناہ قرار دیتے ہیں اور جن کی حضرت عیسی علیہ السلام نے بیعت کی تھی.اور جن کے متعلق ایک راستباز اور بے عیب کے الفاظ انا جیل میں آتے ہیں.پس حضرت یحیی علیہ السلام کے واقعہ قتل اور دوسرے بعض انبیاء کے واقعہ قتل میں بہت بڑا فرق ہے.دوسرے انبیاء پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں گناہ کئے.مگر حضرت بیٹی علیہ السلام کی انا جیل میں تعریفیں کی گئی ہیں.پس حضرت یحیی علیہ السلام کا قتل تو عیسائیوں کے خلاف حربہ قرار پاسکتا ہے.مگر اور انبیاء کا قتل ان کے خلاف حربہ قرار نہیں پاسکتا.ان کے متعلق کہنے والا کہہ سکتا ہے.کہ جیسی قربانی حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ویسی ہی قربانی حضرت یحیی علیہ السلام نے کی تی دونوں میں کونسا فرق ہے.وہ بھی کفارہ ہوئے اور یہ بھی.غرض عیسائیوں کا فائدہ اسی میں تھا کہ گو حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے.وہ یہی کہتے.کہ وہ شہید نہیں ہوئے.مگر باجود اس کے کہ ان کا اپنا مفادان کو شہید تسلیم نہ کرنے میں تھا.پھر بھی وہ اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے.دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق باوجود یکہ رومیوں ، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کا فائدہ اسی امر میں تھا کہ آپ کو صلیب پر فوت شدہ ثابت کریں.پھر بھی کس طرح حق پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو گیا.رومی اور یہودی کہتے تھے کہ آپ صلیب پر فوت ہو گئے مگر انہیں دنوں یہودیوں نے روم کے گورنر کے پاس شکایت کی کہ مسیح کے مرید یہ کہتے پھرتے کی
خطبات محمود ۶۴۲ سال ۱۹۳۸ء ہیں کہ مسیح زندہ ہو گیا ہے پس اس کی قبر پر پہرہ لگایا جائے.چنانچہ گورنر نے یہود کے کہنے پر حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر پر پہرے لگا دیئے.گویا یہودیوں نے بھی حضرت مسیح کے زندہ کی ہونے کی خبر تسلیم کر لی.اور گورنر روم نے بھی ان کی بات پر اعتبار کر لیا.اور اس نے ضروری سمجھا کہ آپ کی قبر پر پہرہ لگائے پھر عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے.مگر انجیل میں صاف لکھا ہے کہ قبر میں سے نکل کر حضرت مسیح لوگوں سے چھپ کر یروشلم میں پھرتے رہے.انہوں نے اپنے حواریوں کو اپنے زخم دکھائے.اور کہا کہ میرے ہاتھ پاؤں کو دیکھو کہ میں ہی ہوں اور مجھے چھوڑ اور دیکھو.کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں.جیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر انہیں اپنے ہاتھ پاؤں دکھائے.اور پھر بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ لے کران سے کھایا.بلکہ اس کے بعد انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ پھر وہ انہیں ایک پہاڑ پر لے گیا اور برکت دے کر غائب ہو گیا.پس اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر سے زندہ اترے تو تاریخ ہمیں یہ کہنے کا حق دیتی ہے اور ہم صرف یہیں تک بس نہیں کر دیتے کہ ثابت کر دیں وہ مج صلیب پر سے زندہ اُتر آئے بلکہ ہم پھر ان کی بعد کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہیں.اور کرتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ آخر میں کشمیر میں لا کر ان کی قبر بھی دکھا دیتے ہیں.اور یہ کی سب کچھ تاریخی شواہد سے ثابت کرتے ہیں.پس چونکہ اس بحث میں ہم تاریخی تائید اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ہمارے مخالف تاریخی پہلو کو ترک کرتے ہیں اس لئے ہم غالب رہتے ہیں اور وہ مغلوب.لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام مقتل نہیں ہوئے بلکہ زندہ رہے تھے تو اس سوال کا جواب ہمارے پاس کوئی نہیں کہ پھر ان کے قتل کی خبر کیونکر مشہور ہوئی اور کس طرح ان کے مریدوں ، عیسائیوں اور دوسرے یہود نے اسے صحیح تسلیم کر لیا.اور یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے ان کی لاش خود دفن کی ہے اور کس طرح اس واقعہ پر پردہ پڑا رہا.حتی کہ قریب زمانہ بعد میں آنے والے بھی یہی قصہ لکھنے پر مجبور ہوئے.اور پھر یہ کہ اگر حضرت یحی مارے نہیں گئے تھے کی تو انہوں نے بقیہ زندگی کہاں گزاری اور کہاں چھپے رہے اور کیوں چھپے رہے اور ان کے مرید کیوں ان سے نہ ملتے تھے اور گورنر کو یہ دھو کا کس طرح لگا کہ میرے آدمیوں نے حضرت یحی کو قتل کر دیا ہے.اور سر جولا یا گیا وہ کس کا تھا.اور اسے دیکھ کر کیوں نہ ہیرود یاس جو اُن کی دشمن تھی
خطبات محمود ۶۴۳ سال ۱۹۳۸ء اس نے نہ پہنچانا کہ یہ تو یکی نہیں ہیں.غرض ان کے قتل کے واقعات کی تشریح کرنی اور قتل کی سے بچ جانے کے بعد کے واقعات کا معلوم کرنا ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی حیثیت ایک مزدور کی سی نہ تھی کہ جو مر جائے تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہو.وہ ایک قوم کے نبی تھے.لاکھوں ان کے اتباع تھے.بلکہ اُس زمانہ میں ان کے مرید حضرت عیسی علیہ السلام کے مریدوں سے بہت زیادہ تھے.سارے یہودی ان کا ادب کرتے تھے.اور بادشاہ ہیرڈ بھی اس قدر ڈرتا تھا کہ وہ سمجھتا تھا اگر میں نے انہیں قتل کر دیا تو تمام ملک میں بغاوت ہو جائے گی.ایسا عظیم الشان شخص اگر اس وقت دشمن کے حملہ سے بچ گیا تھا.تو سوال یہ ہے کہ پھر گیا کہاں.آخر کوئی پتہ نشان تو ملنا چاہیے.حضرت عیسی علیہ السلام جب صلیب سے زندہ اُترے تو ان کے متعلق تو یہ معلوم ہو گیا کہ وہ وہاں سے ہجرت کر گئے.اور آخر کشمیر میں آکر ایک لمبا عرصہ زندہ رہنے کے بعد فوت ہوئے.مگر حضرت یوحنا کچھ ایسے بچے کہ غائب ہی ہو گئے اور پتہ ہی نہیں لگتا کہ بیچ کر وہ کہاں گئے تمام تاریخیں خاموش ہیں.تمام لوگ ساکت ہیں نہ دشمن کہتا تج ہے کہ جس کو ہم نے قتل کرنا چاہا تھا وہ تو فلاں ملک میں بیٹھا ہے نہ کوئی مرید ان کے پیچھے جاتا ہے اور ان کا پتہ لگاتا ہے.گویا نہ دشمن کہتا ہے کہ وہ زندہ ہیں نہ دوست اور مرید کہتے ہیں کہ زندہ ہیں.تاریخیں خاموش ہیں اس کے بعد ان کی زندگی کا کوئی کام بھی نظر نہیں آتا.ایسی صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تھے.تو یقیناً ایک ایسی بات ہوگی جس کی تائید کسی ایک کی تاریخی ثبوت سے بھی نہیں ہو گی.مگر حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق جب ہم کہتے ہیں کہ وہ صلیب سے زندہ اترے تو تاریخ ہمارا ساتھ دیتی ہے.اور وہ ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے.یہاں تک کہ ہمیں آپ کی قبر تک پہنچا دیتی ہے.پس چونکہ اس قسم کے تاریخی شواہد حضرت یحییٰ ا علیہ السلام کے ساتھ نہیں.اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تھے.میں نے بتایا ہے کہ انجیل بھی یہی شہادت دیتی ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے چنانچہ متی بات ۱۴ میں لکھا ہے کہ حضرت بیٹی علیہ السلام حضرت مسیح کی فلسطینی زندگی میں ہی کی وفات پاگئے تھے ان کے قتل کا واقعہ متی میں اس طرح لکھا ہے کہ ہیرود لیس نے اپنے بھائی فیلبوس کی بیوی کو گھر میں ڈالنا چاہا یوحنا نے روکا.ہیرودیس نے آپ کو مارنا چاہا مگر لوگ
خطبات محمود ۶۴۴ سال ۱۹۳۸ نبی مانتے تھے اس لئے رُک گیا ایک دن سالگرہ میں ہیرو د یاس کی بیٹی (فیلبوس سے ) ناچی اور کچھ ہیرودیس نے کہا.جو مانگے دوں گا.اس پر اس نے اپنی ماں کے سکھانے کے مطابق یوحنا کا سرما نگا.بادشاہ خائف تو ہو مگر وعدہ پورا کیا.اور قید خانہ میں قتل کرا دیا.شاگردوں نے لاش کی دفن کی اور یسوع کو آکر اطلاع دی ہے یہ انجیل کی روایت ہے ادھر حضرت بیچی علیہ السلام کے مرید کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت دیر تک قائم رہی حتی کہ ان کے بعض مرید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھی رہے ہیں وہ صابی کہلاتے تھے.اور تو حید کے قائل ہی تھے بعد میں آہستہ آہستہ عیسائیوں میں شامل ہو گئے.قرآن مجید میں بھی ان کا ذکر آتا ہے.پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت سینکڑوں سال تک قائم رہی ہے.اور یہ سب اسی بات کے دعویدار تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں.ان کو بھلا یہ کہنے میں کہ ان کا پیر شہید ہو ا ہے کیا فائدہ تھا.وہ کفارہ کے قائل نہیں تھے.کہ عیسائیوں کی طرح یہ کہتے کہ حضرت یحیی علیہ السلام ان کے گناہوں کے بدلہ میں مارے گئے ہیں.وہ موحد تھے اور اسلامی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک موحد رہے ہیں.اب ایک موحد قوم کا بھلا اس میں کیا فائدہ تھا کہ وہ اپنے پیر کے متعلق یہ کہے کہ وہ قتل ہوئے تھے.وہ تو اسی لئے انہیں شہید کہے گی جبکہ واقعات یہی کہتے ہوں گے.کہ وہ شہید ہوئے تھے پھر ہم دیکھتے ہیں علاوہ تینوں قوموں یعنی رومیوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ کے احادیث بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے.ابن عسا کرنے روایت کی ہے کہ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى أَصْحَابِهِ يَوْمًا وَهُمْ يَتَذَا كَرُوْنَ فِى فَضْلِ الْأَنْبِيَاءِ کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے دیکھا کہ صحابہ مسجد میں بیٹھے آپس میں انبیاء کی فضیلتوں کے بارہ میں گفتگو کر رہے ہیں.کوئی کہتا مجھے فلاں نبی کی فلاں بات پسند ہے کوئی کہتا فلاں نبی کی یہ بات بڑی اچھی تھی غرض اسی طرح آپس میں باتیں کر رہے تھے فَقَالَ قَائِلٌ مُوسَى كَلَّمَهُ اللَّهُ تَكْلِيمًا کی کہنے والے نے کہا موسیٰ بڑا نبی تھا کیونکہ خدا نے اُس سے بالمشافہ گفتگو کی.قَالَ قَائِلٌ
خطبات محمود ۶۴۵ سال ۱۹۳۸ء عِيسَى رُوحُ اللہ وَكَلِمَتُهُ کسی نے کہا عیسی بڑا نبی تھا وہ اللہ کی روح اور اُس کا کلمہ تھا.قَالَ قَائِلٌ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللہ کسی نے کہا ابراہیم بڑا نبی تھا.وہ خدا کا خلیل اور دوست تھا.فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَيْنَ الشَّهِيدُبُنَ الشَّهِيدِ يَلْتَبِسُ الْوَبَرَوَ يَأْكُلُ الشَّجَرَ مَخَافَةَ الذَّنْب.يَحْيَى بْنَ زَكَرِیا ہے یعنی یہ ذکر سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ میں بیٹھ گئے اور آپ نے فرمایا تم ان انبیاء کی فضیلتوں کا ذکر کرتے ہو مگر تم اس شہید کے شہید بیٹے کا کیوں ذکر نہیں کرتے جو ساری عمر گناہ کے خوف سے صوف کے کپڑے پہنتا رہا اور جنگلوں میں رہتا اور پتے کھا کھا کر گزارہ کرتا.جس کا نام بیچی تھا اور جو ز کریا کا بیٹا تھا.اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات صحابہ میں بیٹھ کر فرماتے ہیں اسے کون خطا بیات میں سے قرار دے سکتا ہے.یہاں تو کی نبیوں کی خوبیوں کا بیان ہو رہا تھا.کوئی حضرت موسیٰ کی خوبیاں بیان کر رہا تھا کوئی حضرت عیسی کی اور کوئی حضرت ابرا ہیم کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یحیی بن زکریا کا کیوں ذکر نہیں کرتے جو شہیدا بن شہید تھا.آپ نے اس طرح فرما کر یہ مسئلہ بالکل صاف کر دیا ہے کہ حضرت بیخی واقعہ میں شہید ہوئے تھے.پھر بیہقی اور ابن عساکر میں حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ان من هوان الدنيا على الله ان يحيى بن زكريا قَتَلَتْهُ امْرَأَةٌ سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ دنیا حقیر ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس وجہ سے کہ بیچی زکریا کے بیٹے کو ایک فاحشہ اور بد کار عورت نے قتل کرایا.یہاں قتل کا لفظ آتا ہے مگر مطلب خود قتل کرنا نہیں بلکہ قتل کرانا ہے.اسی طرح حاکم میں حضرت عبداللہ بن زیبر سے ایک اسی قسم کی روایت آتی ہے حضرت عبداللہ بن زبیر اپنے وقت کے بعض ظالم بادشاہوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے.اور وہ اسلام میں پہلے مجدد مانے جاتے ہیں.انہوں نے یزید کا بھی مقابلہ کیا اور اسی طرح بعض اور مظالم کے خلاف بھی آواز بلند کی.اس مقابلہ میں انہیں بڑے بڑے مصائب پہنچے.یہاں تک کہ ان کے اپنے کی ساتھی انہیں چھوڑ کر الگ ہو گئے.اور آخر میں تو یہ صرف اکیلے رہ گئے تھے اور دشمن نے انہیں مار کر پھانسی پر لٹکا دیا تھا جب لوگوں نے انہیں کہا کہ اب تو آپ کے ساتھی بھی آپ کو چھوڑتے
خطبات محمود ۶۴۶ سال ۱۹۳۸ چلے جا رہے ہیں.بہتر یہی ہے کہ آپ بھی مقابلہ چھوڑ دیں تو انہوں نے کہا مَنْ اَنْكَرَ الْبَلاءَ فَإِنِّي لَا أُنْكِرُهُ لَقَدْ ذَكَرَمِنِى إِنَّمَا قُتِلَ يَحْى بُنُ زَكَرِيَّا فِي زَانِيَةٍ کے جو شخص مصیبتوں کو نا پسند کرتا ہے وہ بے شک کرے میں تو انہیں نا پسند نہیں کرتا اور مجھے تو یہی بتایا گیا ہے کہ یحیی بن زکریا کو ایک زانیہ عورت کی وجہ سے مارا گیا تھا اگر میں بھی مارا جاؤں تو میرے لئے یہ کون سی بڑی بات ہے..پھر ابن عساکر اور حاکم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی.کہ حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کے وقت ستر ہزار آدمی مارا گیا تھا.اور تیرا ایک بیٹا مارا جائے گا جس کے بدلہ میں ایک لاکھ چالیس ہزار آدمی مرے گا.۵ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل پر ہیرڈ کے خلاف خطرناک بغاوت ہوگئی تھی اور فلسطین کی رومی فوج کا ایک بہت بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا اور یہودیوں کا یہ عام عقیدہ تھا کہ کی یہ ہیرڈ کو حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کی سزا ملی ہے اب اس حدیث میں محض خبر نہیں بلکہ حضرت کی ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وحی کی.کہ حضرت بیٹی علیہ السلام کے قتل کے وقت ستر ہزار آدمی مارا گیا تھا.پھر ابن عساکر کی روایت ہے کہ صخرہ بیت المقدس میں ستر نبی مارا گیا ہے.' جن میں سے ایک حضرت یحیی بن زکریا بھی ہیں میرے نزدیک صخرہ پر مارے جانے کے معنے یہ ہیں کہ بیت المقدس کی تطہیر کی کوشش میں وہ انبیاء مارے گئے تھے.یہ احادیث صرف حضرت بیٹی علیہ السلام کی شہادت کا ثبوت نہیں بلکہ ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام بھی شہید ہوئے تھے.گویا تاریخ جو اس وقت لکھی گئی.حضرت بیٹی کی قوم کا اپنا بیان، یہود کا بیان، عیسائیوں کا بیان اور احادیث سب ایک طرف ہیں اتنے بڑے مجموعہ کو کس طرح رڈ کیا جا سکتا ہے جب تک گل ان دلائل کو رد نہ کیا جائے جن سے دنیا صیح نتیجہ پر پہنچی ہے اور اگر ہم انہیں رد کر دیں.تو پھر دنیا میں نفلی طور پر کسی ایک بات کی کا ثابت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور پھر ہماری مثال دیسی ہی ہو جائے گی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بز دل شخص تھا وہ ایک دفعہ کسی لڑائی میں شامل ہوا اور اتفاقاً ایک تیرا سے آلگا.تیر کی وجہ سے
خطبات محمود ۶۴۷ سال ۱۹۳۸ء خون بہنے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ میدان جنگ سے بھاگ پڑا مگر ادھر بھاگتا جائے اور اُدھر ساتھ ساتھ کہتا جائے یا اللہ یہ خواب ہی ہو یا اللہ یہ خواب ہی ہو.تو دنیا میں کسی امر کو ثابت کرنے والی یہی چیزیں ہوا کرتی ہیں ایک تاریخ ہوتی ہے جو کسی امر کو ثابت کرتی ہے پھر کسی قوم کا اپنا بیان ނ ہوتا ہے پھر اردگرد کی قوموں کا بیان ہوتا ہے.پھر بعد میں آنے والے بزرگ جو خدا تعالیٰ.خبریں پاتے ہیں ان کی باتیں ہوتی ہیں.یہاں یہ سب باتیں جمع ہیں.تاریخ بھی کہتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے یہودی جو حضرت یحیی علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں وہ بھی یہی کی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے.اور جو آپ کو نبی نہیں مانتے مگر آپ کو بزرگ تسلیم کرتے اور آپ کے حالات سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ مارے گئے عیسائی جن کے لئے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں.یقیناً نقصان رساں ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے.ان تمام کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو صحابہ کہتے ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتایا کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے تھے اور پھر بغیر وحی کی خبر بھی احادیث میں موجود ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اگر اتنی بڑی شہادتوں کے باوجود اس میں شبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے تو پھر ہمیں اپنے وجود کے بارے میں بھی شبہ کرنا چاہیے.قرآن کریم میں بھی يَقْتُلُونَ الأنْبِيَاء بِغَيْرِ حَق کے کے الفاظ آتے ہیں تم اس کی کوئی تشریح کر و لفظی طور پر تمہیں ماننا پڑے گا کہ اس میں قتل کے معنے بھی شامل ہیں اور اگر ہم ان کی تمام دلائل کو رد کر دیں تو پھر کوئی ایک سچائی بھی ایسی نہیں رہتی جس کو ہم ثابت کر سکیں یا جس کو اطمینان کے ساتھ اپنے عقائد میں شامل کر سکیں.سچائی اسی طرح ثابت ہوتی ہے کہ یا تاریخ سے کوئی بات ثابت ہوتی ہے.یا کوئی قوم دعوی کرتی ہے کہ فلاں واقعہ اس طرح ہو ایا بعد کے نبیوں اور خدارسیدہ لوگوں کی گواہی ہوتی ہے کہ ایسا ہوا.اور اگر ہم ان تمام شواہد کو دیکھیں اور رد کر دیں تو دنیا میں کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں رہ سکتا جو ثابت شدہ ہو.پھر دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کیسا مشتبہ تھا.مگر اس میں سے بھی ثبوت نکل آئے کہ وہ قتل نہیں ہوئے.اور وہاں تو ان کے صلیب پر مرنے کا فائدہ تینوں جماعتوں کو تھا.
خطبات محمود ۶۴۸ سال ۱۹۳۸ء رومیوں کو کیونکہ گورنر بچانے میں شامل تھا اگر ان کا بچ جانا ثابت ہوتا تو اس کی بدنامی ہوتی تھی یہود کو کیونکہ وہ اس طرح مسیحیت کا خاتمہ کرتے تھے.مسیحیوں کو کیونکہ پہلے زمانہ میں وہ مسیح کی دوسری زندگی پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے اور بعد میں اپنے گناہ ان کے ذمہ ڈالنے کے لئے.لیکن باوجود اس کے حق پھوٹ پھوٹ پڑا ہے اور حضرت مسیح دوبارہ زندہ ہو گئے کا شور پڑ گیا ہے.مگر اس کے خلاف حضرت بیٹی کی نسبت کسی کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا.نہ رومیوں کو چھپانے کی کوئی ضرورت تھی نہ مریدوں کو.نہ عام یہود کو نہ مسیحیوں کو بلکہ مسیحیوں کے لئے تو مضر تھا.کیونکہ اس طرح یوحنا بھی کفارہ قرار پا سکتے تھے.مگر انہوں نے بھی ایسا ہی کیا.ان چار زبر دست تاریخی شاہدوں اور حدیث اور اقوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسے مذہبی شاہدوں کے بعد کسی تاویل کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی.رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ کہا وہ خطابیات کی قسم سے تھا سو اس کا مجمل جواب میں پہلے دے آیا ہوں.اب میں بتا تا ہوں کہ ان کا خطابیات میں سے ہونا بالکل ناممکن ہے مثلاً ایک حوالہ جو حمامۃ البشریٰ سے پیش کیا گیا ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وَالْعَجَبُ مِنْهُمْ أَنَّهُمْ يُؤْمِنُونَ بِاَنَّ الله اَنْزَلَ فِي الْقُرْآنِ آيَاتٍ فِيهَا ذِكْرُ وَفَاةِ الْمَسِيحَ ثُمَّ يَظُنُّونَ أَنَّهُ حَيٌّ جَالِسٌ فِى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ مَعَ ابْنِ خَالَتِهِ يَحْيَى النَّبِيُّ الشَّهِيد عَلى نَبِيِّنَا وَعَلَيْهِمُ السَّلَامُ وَلَا يَتَفَكَّرُونَ وَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى أَنَّ يَحْيِي قَدْ قُتِلَ وَلَحِقَ بِالْمَوْتِى فَكَيْفَ جَمَعَ اللهُ الْحَيَّ بِالْمَيِّتِ وَمَا لِلْمَوْتِى وَالْأَحْيَاءِ فَالْعَجَبُ كُلَّ الْعَجَبِ أَنَّهُمْ يَجْمَعُوْنَ فِى عَقَائِدِ هِمْ اِخْتِلَافَاتٍ كَثِيرَةً وَلَا يَتَنَبَّهُوْنَ عَلَى ذَالِكَ یعنی غیر احمد یوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو وہ ایمان رکھتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسی آیات نازل کی ہیں جن میں وفات مسیح کا ذکر ہے.دوسری طرف وہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح زندہ ہی دوسرے آسمان میں حضرت بیٹی شہید کے پاس بیٹھے ہیں.وہ اس بات پر غور و تدبر نہیں کرتے کہ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہو کر مُردوں سے جاملے تو اب خدا تعالیٰ نے زندہ کو فوت شدہ کے ساتھ کیونکر جمع کر دیا مر دوں اور زندہ میں کیا تعلق.
خطبات محمود ۶۴۹ سال ۱۹۳۸ء پس تعجب یہ ہے کہ غیر احمدی لوگ اپنے عقائد میں بہت سے تناقضات جمع کر رہے ہیں اور اس پر آگاہ نہیں ہوتے.اس حوالہ سے یہ خیال کیا گیا ہے کہ یہاں خطابیات کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اور غیر احمدیوں کا عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نقل کر دیا ہے.کہ چونکہ غیر احمدی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے تھے اس کی لئے ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ملزم کرنے کے لئے اس عقیدہ کا ذکر کر دیا گیا حالانکہ اس کی میں غیر احمدیوں کا کیا قصور ہے یہ امر تو احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور چار پانچ حدیثیں میں ایسی بیان کر چکا ہوں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے.اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں چار پانچ ابھی اور بھی ایسی حدیثیں ہوں گی جن میں قتل یحییٰ کا ذکر ہے.پس جب ہر جگہ حدیثوں میں بلا استثناء حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کا ذکر آتا ہے تو اس عقیدہ کے رکھنے میں غیر احمدیوں کا کیا قصور ہو گیا.کہ ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ملزم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کر دیا.حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا جب ذکر آتا ہے تو غیر احمدی بعض ایسی حدیثیں بھی پیش کر دیتے ہیں جن سے وہ سمجھتے ہیں ان کے دعوی کی تصدیق ہوتی ہے.مگر ہم ایسی حدیثیں پیش کرتے ہیں جن میں آپ کی وفات کا ذکر ہے مثلا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر پائی یا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَو كَانَ سَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِی که اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے بغیر اور کوئی چارہ نہ تھا.پس وہاں چونکہ دونوں قسم کے اقوال موجود ہوتے ہیں اس لئے ہم غیر احمدیوں سے کہتے ہیں تم ان احادیث کو دیکھو جو قرآن کے مطابق ہیں اور ان کو ترک کر دو جو اس کے مطابق نہیں مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو حدیث نکلتی ہے اس میں یہی بیان ہوتا ہے کہ وہ شہید ہوئے.پس اس عقیدہ کا احترام غیر احمدیوں پر کس طرح دیا جا سکتا ہے.یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ پر اعتراض ہو گا.کہ حضرت بیٹی شہید نہیں ہوئے تھے.کیونکہ آپ نے بار بار فر مایا کہ وہ شہید ہوئے ہیں.اور کسی ایک حدیث میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ انہوں نے اپنی طبعی موت سے وفات پائی ہے.پس اول تو یہ حوالہ خطابیات میں اس لئے شمار نہیں ہوسکتا.کہ جو عقیدہ غیر احمدی رکھتے ہیں وہ احادیث میں بیان ہو چکا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق فرما چکے ہیں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کر دی تو لازما یہ ہمارا عقیدہ بھی کی بن گیا.اور جو ہمارا اپنا عقیدہ ہو وہ خطابیات میں شمار نہیں ہو سکتا.کیونکہ خطا بیات انہی دلائل کو کہتے ہیں جو صرف مخالف کے مسلمہ ہوں اور اس پر اتمام حجت کرنے کے لئے اس کے سامنے پیش کئے جار ہے ہوں.پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہاں قد قتل کے الفاظ نہ ہوتے.تو کیا جو دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرمارہے ہیں.وہ کمزور ہو جاتی.اگر تو قتل کے لفظ سے ہی دلیل بنتی تب تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ خطا بیات میں سے ہے.مگر ہم تو دیکھتے ہیں.کہ بغیر قتل مانے کے بھی یہ دلیل پوری کی طرح قائم رہتی ہے.در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام کے پاس کی دیکھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی فوت ہو چکے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کیا بیٹی مُردہ کے کی پاس حضرت عیسی علیہ السلام دیکھے جانے سے تو زندہ ثابت ہو سکتے تھے لیکن بیٹی مقتول کے پاس دیکھے جانے سے وفات ثابت ہوتی تھی؟ اگر تو دلیل یہ ہوتی کہ کسی مقتول کے پاس جب عالم مکاشفات میں کسی شخص کو دیکھا جائے تو یہ اُس کی وفات کی دلیل ہوتی ہے تب تو ہم کہہ سکتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح ثابت کرنے کے لئے حضرت یحیی کے متعلق قد قتل کے الفاظ غیر احمدیوں کے عقیدہ کے مطابق اور ان پر حجت پوری کرنے کے لئے بڑھا دئیے.لیکن اگر کسی مُردہ کی روح کے پاس کسی دوسرے کی روح دیکھے جانے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دونوں فوت شدہ ہیں تو صاف معلوم ہو گیا کہ یہاں قد قتل کے الفاظ خطابیات کے طور پر استعمال نہیں کئے گئے بلکہ امر واقع کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں.
خطبات محمود ۶۵۱ سال ۱۹۳۸ وو پس قَدْ قُتِلَ میں جو دلیل پیش کی گئی ہے یہ خطابیات میں سے ہو ہی نہیں سکتی.کیونکہ بغیر قتل کہنے کے بھی اصل دلیل ثابت ہو سکتی تھی.دوسرے مخاطب مسلمان ہیں ان پر بائیبل کے حوالوں کی کا کیا الزام تھا کہ ان کے سامنے یہ بات خطابی طور پر پیش کی جاتی.پس یہ حوالہ ہرگز ایسا نہیں جس سے یہ استدلال کیا جا سکے کہ اس میں خطابیات کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا واقعہ قتل بیان کیا گیا ہے.اس کی تائید میں ایک اور حوالہ تحفہ گولڑویہ سے بھی پیش کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنتوں اور عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب مخالف اس کے نبیوں اور ماموروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ان کے ہاتھ سے اس طرح بھی بچالیتا ہے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو ہلاک کر دیا.حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی اور یا وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا حالانکہ وہیں چھپا ہوا ہوتا ہے.اور ان کے شر سے بچ جاتا ہے.اے کہتے ہیں اس سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے ہاتھ سے انہیں اس طرح بھی بچا لیتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم نے اسے ہلاک کر دیا.حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی.یا سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.حالانکہ وہ وہیں چھپا ہوا ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت یحیی علیہ السلام انہی انبیاء میں سے ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے.آخر اللہ تعالیٰ جب کسی کو دشمن کے ہاتھ سے بچاتا ہے تو لوگوں کو بتا تا بھی ہے کہ دیکھو میں نے اسے دشمن کے ہاتھ سے بچالیا.مثلاً ہم کہتے ہیں دشمن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں غار ثور تک پہنچے.مگر خدا تعالیٰ نے ان پر ایسا تصرف کر دیا کہ وہ آگے جھک کر نہ دیکھ سکے اور خائب و خاسر واپس لوٹ آئے.لا اب جب ہم یہ کہتے ہیں.کہ غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے حملہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچایا.تو اس بچانے کی دلیل یہ دیتے ہیں.کہ پھر کہتے ہیں وہ وہاں سے نکلے اور سلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے.اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلیبی موت سے بچایا.تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ پھر وہاں سے بچ کر وہ تبلیغ کرتے کرتے کشمیر آگئے اور یہیں ایک لمبا عرصہ رہ کر انہوں نے ی
خطبات محمود ۶۵۲ سال ۱۹۳۸ء وفات پائی لیکن اگر ہم یہ ثبوت تو پیش نہ کریں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر مدینہ پہنچے اور حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے زندہ اتر کر کشمیر چلے گئے اور یونہی کہنا شروع کر دیں.کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا.تو کیا دنیا کا کوئی بھی شخص ہماری اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہوگا.اسی طرح ہم کہتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بعض انبیاء کو اسی طرح بچاتا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر کیا.اور یہ بالکل درست ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدہ کے رو سے حضرت یحیی انہی میں سے ہیں اگر نہیں کی تو پھر آپ کا صریح فیصلہ موجود ہوتے ہوئے ہم حضرت بیجی علیہ السلام کو اس قانون کے نیچے کس طرح لا سکتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ یہاں آپ تمام انبیاء کا ذکر نہیں کر رہے.بلکہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کر رہے ہیں.کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی وہ تھے جن کے متعلق دشمنوں نے سمجھا کہ انہوں نے آپ کو ہلاک کر دیا ہے حالانکہ موت تک ان کی نوبت نہیں پہنچی تھی.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ نبی ہوئے ہیں جن کے متعلق دشمنوں نے یہ خیال کیا کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئے ہیں.حالانکہ آپ وہیں غار ثور میں چھپے بیٹھے تھے.تو یہ دونوں مثالیں صرف دونبیوں کے متعلق ہیں.جن میں سے ایک اپنے سلسلہ کا آخری نبی تھا.اور دوسرا اپنے سلسلہ کا پہلا نبی اور یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فتویٰ کے مطابق قتل نہیں ہو سکتے تھے.پس یہ دونوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ان میں محض دونوں نبیوں یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے اگر درمیانی انبیاء کے متعلق بھی یہی اصول ہوتا تو ان کی بھی کوئی مثال آپ کیوں پیش نہ فرماتے.دوسرا حوالہ اعجاز اسیح سے یہ پیش کیا گیا ہے کہ وَلَمَّا جَاءَ هُمْ إِمَامٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ اَنْفُسُهُمْ أَرَادُوا اَنْ يَقْتُلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يَمُوتُ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَكَيْفَ الْمُرْسَلُونَ أَنَّهُ يَعْصِمُ عِبَادَهِ مِنْ عِنْدِهِ وَلَوْمَكَرَ الْمَاكِرُونَ ) کہ جب ان لوگوں کے پاس امام وہ تعلیم لایا جسے ان کے نفس پسند نہ کرتے تھے تو انہوں نے دیدہ دانستہ اس کے قتل کا ارادہ کیا.
خطبات محمود ۶۵۳ سال ۱۹۳۸ء حالانکہ کوئی انسان بھی بجز اذنِ الہی فوت نہیں ہو سکتا.چہ جائیکہ اس کے مُرسلوں کو قتل کیا جاسکے یقیناً اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خاص سامانوں کے ذریعہ اپنے رسولوں کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے خواہ مکر کرنے والے ہزار مکر کریں یہ حوالہ بتاتا ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام صرف یہ بیان فرما رہے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص فوت نہیں ہوسکتا.کجا یہ کہ اس کے رسول اور نبی بغیر اذن کے فوت ہوسکیں سو یہ بالکل درست ہے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوتا کہ وہ قتل نہیں ہو سکتے کی تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہلاک نہ کر سکتی جیسے سلسلہ کے اول اور آخری نبی کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فیصلہ ہے اور بڑے سے بڑا دشمن بھی کسی سلسلہ کے پہلے اور پچھلے نبی کو نہیں مار سکتا.چنا نچہ دیکھ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دشمنوں نے بڑا زور لگایا.کہ آپ کو قتل کریں.مگر وہ آپ کو قتل نہ کر سکے.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا.کہ وہ آپ کو قتل کریں مگر قتل نہ کر سکے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کو قتل کر دیں مگر قتل نہ کر سکے گی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں.مگر قتل نہ کر سکے.حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں مگر قتل نہ کر سکے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق دشمنوں نے بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں.مگر قتل نہ کر سکے.کیونکہ سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہوسکتا.اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فیصلہ موجود ہے.یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ بیان فرمار ہے ہیں کہ جب عام انسان بھی بغیر اذنِ الہی کے نہیں مر سکتے.تو رسول اور نبی کس طرح مر سکتے ہیں گویا یہ دلیل بالا ولی ہے جو پیش کی گئی ہے.ورنہ بغیر اذن کے نہ مرنے میں تو نبی اور غیر نبی سب شامل ہیں.حتی کہ ابو جہل بھی بغیر اذنِ الہی کے نہیں مرسکتا تھا.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی بغیر اذن الہی کے نہیں مرسکتا تھا اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری بھی بغیر اذنِ الہی کے نہیں مر سکتے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلیل صرف یہ دی ہے کہ جب بغیر اذنِ الہی کے کا فربھی نہیں مر سکتے تو خدا تعالیٰ کے نبی کس طرح مر سکتے ہیں.گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر انسان کی موت کی
خطبات محمود ۶۵۴ سال ۱۹۳۸ء اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اگر وہ بچانا چاہے تو کون مارسکتا ہے اور نبیوں کا حال تو بالکل بالا ہے.جب عام مومن حتی کہ ایک کا فربھی بغیر اذنِ الہی کے نہیں مرسکتا.تو نبی کس طرح بغیر اذنِ الہی کے مر سکتے ہیں.پس اس حوالہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی یا غیر نبی بغیر اذنِ الہی کے نہیں کی مر سکتے.اس لئے تم لوگ مجھے نہیں مار سکتے.کیونکہ میرے متعلق اللہ تعالیٰ کا اذن نہیں ہے کہ مجھے کوئی مار سکے.اور اس حوالہ کا مضمون زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے.تیسرا حوالہ تذکرۃ الشہادتین سے یہ پیش کیا گیا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ لَا يَكُونُ لَهُمْ خَيْر الْعَاقِبَةِ وَيُعَادِيهِمُ الله فَيَقْتَلُوْنَ تَقْتِيلًا - ويطوى أَمْرَهُمْ بِاَسْرَ.حِيْنِ فَلَا تَسْمَعُ ذِكْرَهُمْ إِلَّا قَلِيْلًا وَأَمَّا الَّذِيْنَ صَدَقُوا وَجَاؤُوا مِنْ رَبَّهِمْ فَمَنْ ذَالَّذِي يُقْتُلُهُمْ اَوْ يَجْعَلَهُمْ ذَلِيْلًا - إِنَّ رَبَّهُمْ مَعَهُمْ فِي صَبَاحِهِمْ وَضَحَاهِمُ وَهَجِيْرِهِمْ وَإِذَا دَخَلُوا أَصِيلًا.١٣ کہ جولوگ افتراء علی اللہ کرتے ہوئے مدعی نبوت بنتے ہیں.ان کا انجام ہر گز اچھا نہیں ہوتا.بلکہ خدا ان کا دشمن ہو جاتا ہے.اور وہ بُری طرح قتل کئے جاتے ہیں ان کی صف جلد لپیٹ دی جاتی ہے.تجھے تھوڑے دنوں تک ہی ان کا نام سنائی دے گا.ہاں جو لوگ اپنے دعوی نبوت میں بچے ہوتے ہیں.اور اپنے رب کی طرف سے ہوتے ہیں.کون ہے جو ان کو قتل کر سکے یا ان کو ذلیل ورسوا کر سکے.ان کا خدا ہر وقت اور ہر گھڑی ان کے ساتھ ہوتا ہے.اس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے.کہ اس سے ثابت ہوتا ہے جو شخص سچا نبی ہوا سے کوئی قتل نہیں کرسکتا.اس کا جواب یہ ہے کہ صریح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور مقامات پر یہ فرما دیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی الہامی طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے.پھر تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے.پھر حضرت یحیی علیہ السلام کی خود اپنی قوم اور دوسری اقوام یعنی رومیوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کا جو آر کو نبی نہیں مانتے صرف بزرگ مانتے ہیں یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء تو بہر حال صریح حوالجات کی موجودگی میں اور حدیث اور تاریخ اور اقوام عالم کی گواہی کی موجودگی میں ہمیں اس کی کوئی تاویل کرنی پڑے گی.اور اس حوالہ کے کوئی ایسے معنے کرنے پڑیں گے جو خلاف عقل نہ ہوں اور وہ معنے یہی ہیں کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انہی نبیوں کا ذکر کر رہے ہیں جن کے متعلق یہ الہی فیصلہ ہو کہ وہ قتل نہیں ہو سکتے.سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی تو بہر حال قتل نہیں ہو سکتا.درمیانی انبیاء میں سے بھی ضروری نہیں کہ سب قتل ہوں.بلکہ یہ ممکن ہے کہ درمیانی انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نبی ہو جسے اللہ تعالیٰ یہ الہام کر دے کہ تجھے دشمن قتل نہیں کرسکتا.پس اگر درمیانی انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نبی ہو.جسے الہاماً اللہ تعالیٰ عصمت کا وعدہ دیدے اور کہہ دے.کہ دشمن تجھے قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکتے.تو پھر وہ بھی ان انبیاء میں شامل ہو جائے گا.اس کے علاوہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف اپنا ذ کر کر رہے ہیں.عام قاعدہ بیان نہیں فرما ر ہے.اور اپنے متعلق یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے دشمن کبھی قتل نہیں کر سکتا.خواہ کس قد ر کوشش کرے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے فارسی قصیدہ میں جو علامات مقربین کے بارہ میں ہیں.اور جس کا ایک مصرعہ علی الخصوص اگر آه میرزا باشد ہے گو بظا ہر سب مقربین کی علامات بیان کی ہیں.مگر بعض اشعار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے مقام کے متعلق ہیں اور دوسروں پر اس کی بعض علامات چسپاں نہیں ہو سکتیں.اسی طرح حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسی سے حاملہ ہو گئی، ۱۴ حالانکہ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ : اس امت میں بجز میرے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا.اور پھر اس مریم میں عیسی کی روح پھونک دی ہے، ۱۵
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ اور پھر فرماتے ہیں کہ ”میرے سوا تیرہ سو برس میں کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا ۱۶۴ حالانکہ پہلے آپ نے بعض افراد کے الفاظ استعمال کئے تھے.پس جس طرح آپ نے وہاں گو بعض افراد کے الفاظ استعمال کئے.مگر مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو لیا.اسی طرح اس جگہ بھی صرف اپنا وجود مراد ہے اور فرماتے ہیں کہ دشمن کہتا ہے کہ میں تجھے قتل کر دوں گا.حالانکہ خدا نے مجھے مارنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے اور کوئی نہیں جو میرے قتل پر قادر ہو سکے.اسی طرح کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ کسی نبی کا قتل ہونا اس کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے اور اس کے ثبوت میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کا حوالہ پیش کیا گیا ہے کہ:- "یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسی کو قتل کر دیا.اس قول سے یہودیوں کا مطلب یہ تھا.کہ عیسی کا مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا.کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا پیغمبر قتل کیا جاتا ہے پس خدا نے اس کا جواب دیا ہے کہ عیسی قتل نہیں ہوا بلکہ ایمانداروں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف اُس کا رفع ہو ا کلے اسی طرح یہ حوالہ پیش کیا گیا ہے کہ :- اصل بات تو یہ تھی کہ توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعوی کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچا نبی نہیں ہوتا.اور اگر کوئی صلیب دیا جائے تو وہ لعنتی ہوتا ہے‘۱۸ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں قتل سے مراد در حقیقت صلیب ہی ہے.عام قتل نہیں ہے چونکہ قتل عام لفظ ہے.اور صلیب خاص اس لئے قتل کا لفظ جس طرح قتل پر بولا جاتا ہے خواہ کوئی تلوار سے مارے یا گلا گھونٹ کر مارے اسی طرح صلیب کے لئے بھی قتل کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جگہ قتل کا جو لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد در اصل صلیب والا قتل ہی ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے یہود کے اس طریق کو نہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء سمجھا.کہ وہ خالی صلیب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ یا تو انسان کو قتل کر کے صلیب پر لٹکاتے تھے یا صلیب پر لٹکانے کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے اور اسے مارتے تھے اور ان دونوں باتوں کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے بھی ملتا ہے اُردوانا جیل میں گو عام طور پر اسی قسم کے الفاظ ہوتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا.مگر انگریزی انا جیل میں اس مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے."They killed him and hanged him on the tree" کہ انہوں نے مسیح کو قتل کیا.اور پھر صلیب پر لٹکا دیا کیونکہ یہودیوں میں طریق یہی تھا کہ یا تو وہ پہلے مار کر صلیب پر لٹکاتے تھے یا جسم کو صلیب پر سے اتار کر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے خالی صلیب پر لٹکا کر مارنا اصل طریق نہیں تھا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود کے اس دعوی کی کہ انہوں نے آپ کو مصلوب کر دیا ہے تردید کی تو کی فرما يَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ " کہ انہوں نے نہ آپ کو قتل کیا ہے.نہ صلیب دیا ہے گویا قتل اور صلیب دونوں لفظ قرآن کریم نے اکٹھے استعمال کئے ہیں کیونکہ ان میں خالی صلیب دینے کا دستور نہیں تھا.بلکہ وہ یا تو پہلے مارتے اور پھر صلیب دیتے یا پہلے صلیب پر لٹکاتے اور بعد میں ہڈیاں توڑتے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ حوالہ میں بھی قتل سے مراد صلیب ہی ہے.کیونکہ یہود یا تو قتل کر کے صلیب پر لٹکاتے تھے یا صلیب پر لٹکانے کے بعد ہڈیاں تو ڑ کر قتل کرتے تھے.ایک اور حوالہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ: - توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہو جائے.تو وہ مفتری ہوتا ہے.سچا نبی نہیں ہوتا“.یہ حوالہ جیسا کہ ظاہر ہے یہود کے متعلق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ عقیدہ تمام یہود کا نہیں بلکہ یہود میں سے اکثر کا یہ عقیدہ ہے کہ خالی مارے جانے سے کوئی نبی لعنتی نہیں ہوسکتا.بلکہ لعنتی اس وقت ہوتا ہے جب وہ صلیب پر لٹکایا جائے.بائیبل کا بھی صرف یہ منشاء ہے کہ جھوٹا ضرور ہلاک ہوتا ہے.اس کے برعکس نہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء پس بعض یہود کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حوالہ میں جو ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کی کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ :- اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچا نبی نہیں ہوتا“ اس کے متعلق ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض حوالے بتائے گئے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی بناء پر یہ بات لکھی.لیکن یہ یقینی بات ہے کہ یہ ساری قوم کا عقیدہ نہیں ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ ساری قوم کا عقیدہ نہیں.بلکہ بعض یہود کا یہ عقیدہ ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کیوں کیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے ذکر کی قرآن کریم میں بھی مثال پائی جاتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کو خدا مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی سورہ مائدہ میں یہ بیان فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں حضرت مسیح سے یہ سوال کروں گا کہ کیا کی تو نے یہ لوگوں سے کہا تھا.کہ مجھے اور میری والدہ کو خدا سمجھو اور ہماری پرستش کیا کرو اسے اب تم عیسائیوں سے پوچھ دیکھو ان میں سے کتنے ہیں.جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کے قائل ہیں.یقینا اگر تم تحقیق کرو گے تو تمہیں سو میں سے ایک نہیں ہزار میں سے ایک نہیں.لاکھ میں سے ایک نہیں.کروڑ میں سے بھی ایک عیسائی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کہ وہ حضرت مریم صدیقہ کو خدا سمجھتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج روئے زمین پر ایک شخص بھی ایسا نہیں جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کا قائل ہو.جب ہمیں موجودہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو حضرت مریم کی خدائی کا قائل ہو تو ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے.اور بڑی بڑی پرانی تاریخوں کی چھان بین کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا ایک چھوٹا سا فرقہ تھا جو یہ کہا کرتا تھا کہ حضرت مریم صدیقہ بھی خدا ہیں مگر قرآن نے تو یہ نہیں کہا گی کہ یہ ایک چھوٹا سا فرقہ ہے اس نے عام رنگ میں ذکر کیا ہے اسی طرح یہ حوالہ ہے.بعض کی یہود کاممکن ہے یہ خیال ہو کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ مفتری ہوتا ہے.سچا نبی نہیں ہوتا مگر مجھے کوئی حوالہ یاد نہیں اور نہ ایسے یہود کا علم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالے بالعموم مفتی محمد صادق صاحب نکال کر دیا کرتے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء تھے.اور یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوئی ایسا حوالہ بتایا گیا ہو گا جس کی بناء پر آپ نے کی یہ لکھا گو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسا حوالہ نہیں گزرا.بہر حال اگر بعض یہود کا بھی یہ عقیدہ ہو تو بھی اس عقیدہ کو ہم ساری قوم کی طرف منسوب کر سکتے ہیں؟ گومراد اس سے بعض یہود ہی ہوں گے اکثر یہود کا جو عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ نبی جو صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے.نہ یہ کہ جو نبی قتل ہو جائے وہ بھی لعنتی ہوتا ہے گو یا قتل ہونا یا مارا جانا جھوٹے ہونے کی علامت نہیں.بلکہ صلیب پر مارا جانا جھوٹے ہونے کی علامت ہے.اور اس کی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہود کی طرف جو امر منسوب فرمایا ہے یہ تمام یہود کا نہیں بلکہ بعض یہود کا ہے اور میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا اسی طرح ذکر کیا ہے.جس طرح قرآن کریم نے کہہ دیا کہ عیسائی حضرت مریم صدیقہ کو خدا مانتے ہیں.حالانکہ آج انہیں خدا ماننے والا ایک عیسائی بھی نہیں.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ عزیر اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے.اب تم تمام یہودیوں سے پوچھ دیکھو.وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے.اس کے متعلق بھی ہمیں پرانی تاریخوں کی چھان بین کرنی پڑتی ہے اور ایک لمبی تلاش کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہود کے بعض قبائل یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر عام رنگ میں کر دیا ہے جی یہ نہیں کیا کہ عام یہود ایسا نہیں مانتے صرف بعض یہود کا یہ خیال ہے کیونکہ اگر ساری قوم میں سے کچھ لوگ بھی غلط راستے پر ہوں.اور قوم ان کا رد نہ کرے.تو ساری قوم پر اعتراض عائد ہوتا ہے.اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں قوم ایسا کہتی ہے.ہمارے دعوی کا ایک اور ثبوت بھی موجود ہے.اور وہ یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر یہود نے جب یہ الزام لگایا کہ وہ صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے ہیں اور انہوں نے دعوی کیا کہ وہ کی لعنتی موت مرے ہیں.تو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اس کی کتنی تردید کی اور کس طرح بار بار کہا کہ یہود اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں.اگر اس کی وجہ محض یہود کا یہ عقیدہ رکھنا ہوتی.کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے.اور محض قتل کی وجہ سے وہ سمجھتے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جھوٹے ہیں تو
خطبات محمود ۶۶۰ سال ۱۹۳۸ جب انہوں نے کہا تھا کہ حضرت بیٹی علیہ السلام بھی قتل ہوئے ہیں تو چاہیے تھا کہ قرآن کریم اس کا بھی رد کرتا.مگر قرآن کریم بیٹی علیہ السلام کی برکت نہیں کرتا نہ یہود اس پر لعنت کا الزام لگاتے ہیں نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تردید کرتے ہیں.مگر مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کی قرآن بار بار تردید کرتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تردید کرتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عیسی علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کی کوئی خاص رشتہ داری ہے.کہ جب ان پر کوئی الزام لگتا ہے اس وقت تو وہ تردید کرنے لگ جاتا ہے.لیکن اگر اسی قسم کا الزام بیٹی پر لگے.تو وہ تردید کی ضرورت محسوس نہیں کرتا.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق تو وہ بار بار کہتا ہے کہ یہود بالکل جھوٹ کہتے ہیں.عیسی ہرگز صلیب پر نہیں مرا.بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ۲۳ خدا نے اسے عزت دی.اسی طرح اِنّى مُتَوَفِّيكَ ۲۴ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ۲۵ اور دوسری آیتوں میں خدا اس کی تردید کرتا ہے.اور کہتا ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب پر موت نہیں ہوئی.مگر اسی قسم کی موت یعنی جھوٹوں والی موت کا الزام یہود حضرت بیچی پر بھی لگاتے ہیں اور وہ کوئی بھی تردید نہیں کرتا.پھر اگر یہود کا واقعہ میں یہ عقیدہ ہوتا کہ اگر نبوت کا دعوی کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ کی مفتری ہوتا ہے تو انہیں چاہیے تھا وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جھوٹا نبی سمجھتے حالانکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہود کی اکثریت انہیں بزرگ تسلیم کرتی ہے اور ان کا ایک حصہ انہیں نبی مانتا ہے اگر ان کی کا یہ عقیدہ ہوتا کہ جو نبی بھی قتل ہو جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے تو وہ حضرت یحییٰ کو مقتول ماننے کے با وجود بزرگ کس طرح تسلیم کرتے کیا کوئی جھوٹا شخص بھی بزرگ ہوا کرتا ہے.مگر ایک واقعہ ہے کہ آج تک یہودی انہیں بزرگ مانتے چلے آتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مسیح کے صلیب کے واقعہ کی تو بار بار تردید کرتے ہیں.مگر قتل یی کی کوئی تردید نہیں کرتے.اور اگر ذکر کرتے ہیں تو اس طرح کہ بیچی قتل ہوا.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی صداقت کے لئے اس امر کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی کہ بار بار اس امر پر زور دیا جاتا.کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے دعوی کی صداقت کے لئے صرف اتنی بات
خطبات محمود ۶۶۱ سال ۱۹۳۸ء ثابت کر دینی کافی تھی.کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں.چاہے وہ صلیب پر فوت ہوئے ہوں یا طبعی موت سے مرے ہوں.کیونکہ اگر ان کی وفات ثابت نہ ہوتی تو آپ کا دعویٰ ثابت نہ ہوسکتا.اور ایک کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ جب مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور اسی نے آخری زمانہ میں آنا ہے تو آپ کو ہم کیوں مانیں.پس ضرورت صرف اس امر کی تھی کہ حضرت مسیح کی وفات ثابت کر دی جاتی اس امر کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ یہ ثابت کیا جا تا مسیح صلیب پر لٹک کر فوت نہیں ہوا وہ چاہے صلیب پر مرتے یا طبعی موت سے وفات پاتے بات ایک ہی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ ہر صورت میں ثابت تھا مگر آپ نے اس کی تروید کی اور اس لئے کی کہ اس سے قرآن اور روحانیت پر ضرب پڑتی تھی پس آپ نے اس پر اپنے لئے زور نہیں دیا.بلکہ قرآن کریم کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے دیا.ورنہ آپ کا دعویٰ ہر صورت میں ثابت تھا.چاہے یہ کہا جاتا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے ہیں چاہے یہ کہا جاتا کہ وہ می کسی مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے ہیں.بہر حال جب یہ ثابت ہو جاتا کہ وہ مر گئے ہیں اور اب دنیا میں واپس نہیں آسکتے.تو ایک عقلمند شخص یہ سوچ سکتا تھا کہ جب پہلا مسیح مر چکا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں یہ ہیں.کہ ایک مسیح آنے والا ہے تو ضرور اس سے مراد اس کا کوئی بروز اور مثیل ہے اور اس کے بعد وہ اس بات پر مجبور ہوتا کہ آپ کے دعویٰ پر غور کرے.پس آپ کو اپنے دعوی کی کے ثبوت میں حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر سے زندہ اتارنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی.مگر سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے اس پر بڑا زور دیا ہے اور بار بار فرمایا ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے.پس سوال یہ ہے کہ آپ نے اس پر کیوں زور دیا.جب کہ آپ کے دعوئی کے ساتھ براہ راست اس امر کا کوئی تعلق نہیں تھا.اس کا جواب یہی ہے کہ آپ نے اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ قرآنی صداقت کے اظہار کے لئے اس پر زور دیا ہے اور اس لئے زور دیا کہ اس سے قرآن اور روحانیت پر ضرب پڑتی تھی.لیکن جب بیٹی علیہ السلام کا ذکر آتا ہے تو وہاں ایک دفعہ بھی یہ نہیں فرماتے.کہ وہ قتل نہیں ہوئے.بلکہ جہاں کہتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحی قتل ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ
خطبات محمود ۶۶۲ سال ۱۹۳۸ء قتل بیمٹی سے آپ کے نزدیک کسی قرآنی صداقت پر زد نہیں پڑتی تھی.ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ عام حوالوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے یہ چونکہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا.کہ انبیاء قتل سے محفوظ رہتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا الگ ذکر نہیں فرمایا.ہم کہتے ہیں اگر عام حوالے ہی کافی ہو سکتے تھے تو پھر حضرت مسیح کے واقعہ کے متعلق زور دینے اور بار بار بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کے متعلق بھی سمجھ لیتے کہ وہ عام حوالوں سے اس کی تردید ہو چکی ہے اور خاص طور پر زور نہ دیتے.اور دونوں سے یکساں سلوک کرتے اگر ایک کا ذکر چھوڑا تھا تو دوسرے کا ذکر بھی چھوڑ دیتے اور اگر ایک کے متعلق زور دیا تھا تو دوسرے کے متعلق بھی زور دے دیتے.مگر آپ نے حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کی تو بار بار تر وید فرمائی.مگر حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل ہونے کی ایک جگہ بھی تردید نہیں فرمائی.بلکہ جہاں لکھا ہے یہی لکھا ہے کہ وہ قتل ہوئے.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یجی کے واقعہ قتل کی آپ نے اس لئے تردید نہیں کی.کہ وہ واقعہ میں قتل ہوئے اور حضرت مسیح کے مصلوب نہ ہونے پر اس لئے زور دیا.کہ وہ واقعہ میں صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.بعضوں نے لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو حوالجات ہیں یہ پہلے کے ہیں اور جن حوالوں میں آپ نے یہ فرمایا ہے.کہ انبیا ء قتل سے محفوظ رہتے ہیں.جیسا کہ تحفہ گولڑویہ وغیرہ میں وہ بعد کے ہیں اور بعض ایسی کتابوں کے ہیں جو ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھیں.اس لئے بعد کے حوالے زیادہ یقینی ہیں بہ نسبت پہلے حوالوں کے.اس کا جواب یہ ہے کہ اول میری جس قدر روایتیں ہیں.وہ سب بعد کے زمانہ کی ہیں.تحفہ گولڑویہ کی اشاعت کے وقت میں بالکل بچہ تھا.پس میں نے جو روایتیں بیان کی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دو تین سالوں کی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت میری عمر انہیں 19 سال کی تھی.اور وہ عمر جس میں میں مسائل سمجھ سکتا تھا اور روایت یا درکھ سکتا تھا اور پیش کر سکتا تھا وہ سولہ سترہ سال کی ہی ہو سکتی ہے.پس میں کی
خطبات محمود ۶۶۳ سال ۱۹۳۸ء نے جو روایتیں بیان کی ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری تین چار سال سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ بہر حال بعد کا زمانہ ہے پہلا نہیں پھر میں نے پچھلی دفعہ بیان کیا تھا کہ میں نے مفتی محمد صادق صاحب سے دریافت کرایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارہ میں کچھ یاد نہیں مگر اس کے بعد مفتی صاحب کی پرانی ڈائریوں میں سے وہی بات نکل آئی جو میں نے بیان کی تھی.اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ ڈائری آج سے سال دو سال پہلے کی ان کتاب میں چھپی ہوئی موجود ہے.اور اس کے اندر وہ تاریخ تک محفوظ ہے جس تاریخ کو حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام نے یہ بات فرمائی چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ ۷ نومبر ۱۹۰۷ء کو گو یا اپنی وفات سے صرف چھ ماہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.و جس طرح کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے یوحنا نبی خدا تعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے.اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سید احمد صاحب تو حید کا وعظ کرتے ہوئے سکھوں کے زمانہ میں شہید ہو گئے.یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری کر دی۲۶ یہ وفات سے صرف چھ مہینے پہلے کی بات ہے اور کے نومبر ۱۹۰۷ء کو ایسا فرماتے ہیں.اس کی کے بعد کا حوالہ تو اس ضمن میں کوئی مل ہی نہیں سکتا.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ حقیقۃ الوحی میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا ہی تحریر فرمایا ہے.اور حقیقۃ الوحی بھی حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام کی آخری تصانیف میں سے ہے اور ۱۹۰۷ ء میں چھپی ہے.گویا ایک طرف مفتی محمد صادق صاحب کی ڈائری ہے.جو ے نومبر ۱۹۰۷ ء کی ہے.دوسری طرف حقیقۃ الوحی کی شہادت ہے.جو ۱۹۰۷ ء کی ہے.تیسری طرف میری روایتیں ہیں جو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہے پھر ہمارے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت زیادہ روایات جمع کی کرنے والے دو شخص ہیں.مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب مفتی محمد صادق صاحب کی روایت میں بتا چکا ہوں.رہے شیخ یعقوب علی صاحب سو میں نے ان کی طرف بھی خط لکھا تھا کی کہ اس بارہ میں آپ کی کیا گواہی ہے.اس کے جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ آپ میری کی
خطبات محمود ۶۶۴ سال ۱۹۳۸ء گواہی تو حیدر آباد کے دوستوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے ان کے سامنے اس بارہ میں کیا کہا ہے.میری یہ حالت تھی کہ جس دن الفضل میں میں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کا یہ مضمون پڑھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو ایک شخص بشیر کنجاہی کو میں نے مخاطب کر کے کہا.جماعت میں ایک اور بڑا فتنہ پیدا کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے گویا وہ کہتے ہیں میں نے مضمون پڑھتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری ساری عمر کے علم کے خلاف ہے ہم ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنتے آئے ہیں کہ حضرت بیٹی علیہ السلام شہید کئے گئے تھے.مگر آج یہ بیان کیا جارہا ہے کہ وہ شہید نہیں ہوئے یہ وہ دو شخص ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا منکر نکیر کہا کرتے تھے.فرماتے تھے.ادھر ہم بات کرتے ہیں اور اُدھر یہ کی اخباروں میں شائع کر دیتے ہیں میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے آپ فرمایا کرتے یہ ہمارے دو بازو بھی ہیں اور منکر نکیر بھی ہیں.باز و تو اس لئے کہ ان کے اخبارات کی کے ذریعہ دشمنوں کے حملہ کا ر ڈ ہو رہا ہے اور منکر نکیر اس لئے کہ کوئی بات ادھر ہمارے منہ سے نکلتی ہے اور اُدھر یہ اپنے اخباروں میں شائع کر دیتے ہیں جس سے دشمن بعض دفعہ فائدہ بھی اُٹھالیتا ہے اور جب وہ اعتراض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے فلاں بات یوں کہی ہے تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ اسے کس طرح پتہ لگ گیا اور وہ جھٹ ڈائری نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ فلاں وقت فلاں مجلس میں آپ نے یہ بات کہی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں کا نام منکر نکیر رکھا ہو ا تھا.اب بھلا منکر نکیر سے زیادہ قابلِ اعتبار گواہی اور کس کی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ میں نے اپنی گواہی بھی دی ہے اور بتایا ہے کہ وفات تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید ہوئے ہیں وہ حوالے جو اپنے اندر عمومیت رکھتے ہیں.ان سے مراد بعض جگہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا وجود ہے جیسے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نے قرآن کریم میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہہ دی ہے اور پھر کہا ہے کہ وہ مریم عیسی سے حاملہ ہوگئی حالانکہ اس سے مراد آپ کی ذات ہی تھی.
خطبات محمود ܬ ܖ ܖ سال ۱۹۳۸ء پس ایسے حوالوں میں یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اپنا ذکر کیا ہے.یا اُن کی انبیاء کا ذکر کیا ہے جو کبھی قتل نہیں ہو سکتے جیسے سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی اور یا پھر اس سے مراد وہ انبیاء ہوں گے جو خواہ درمیانی زمانہ میں آئیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کر دے.اور میں بتا آیا ہوں کہ ایسا وعدہ اگر کسی مومن سے ہو جائے تو اسے بھی کوئی قتل نہیں کر سکتا.آخر نہ مارا کی جانا انبیاء کے لئے شرط نہیں.کئی مومن بھی ایسے ہو سکتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہی وعدہ کی کر دے اور اگر کسی مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسا وعدہ کر دے تو پھر اسے بھی کوئی قتل نہیں کی کرسکتا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قادیان میں طاعون کی بعض وارداتیں ہوئیں.مجھے بھی اتفاقاً بخار ہو گیا.اور اس کے ساتھ ہی ران میں درد محسوس ہونے کی لگا.میں نے سمجھا شاید طاعون ہونے لگا ہے.یہ خیال آتے ہی میرا وہم بڑھنا شروع ہوا اور مجھے سخت فکر اور قلق محسوس ہوا اور میں نے اپنے کمرہ کے دروازے بند کر دئے اور سجدہ میں اور اللہ تعالیٰ کے حضور گر کر دعا کر رہا تھا میری آنکھیں کھلی تھیں اور میں کامل بیداری کی حالت میں تھا میں نے کیا دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے جو نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلا جاتا ہے وہ نو ر ایک گول ستون کی شکل میں ہے.جیسے اس مسجد اقصیٰ ) میں گول ستون ہیں اسی کی طرح وہ نور کا ایک ستون ہے جو نہایت ہی براق اور سفید ہے اس نور کے ستون نے اوپر کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چھت پھاڑ کر باہر نکل گیا.پھر اور زیادہ اوپر کی طرف بڑھاتی یہاں تک کہ بالا خانہ کی چھت کو پھاڑ کر بھی نکل گیا.اسی طرح وہ نور کا ستون اونچا ہوتا چلا گیا.یہاں تک کہ میں نے سمجھا اب یہ غیر محدود فاصلہ تک پہنچ گیا ہے.پھر جب میں نے نیچے کی طرف خیال کیا تو اس کی ابتداء کا بھی کوئی پتہ نہ چلتا تھا گویا وہ ایک ایسا نور تھا جس کی نہ ابتدا تھی نہ انتہاء جب اس طرح وہ زمین کی پاتال سے لے کر آسمان کی انتہاء تک پہنچ گیا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس نور میں سے ایک نہایت سفید اور نورانی ہاتھ نکلا ہے اور اس نورانی اور سفید ہاتھ میں ایک سفید اور براق پیالہ ہے اور اس سفید اور براق پیالہ میں نہایت سفید اور براق دودھ ہے اور مجھے کسی نے کہا کہ اسے پی لو.چنانچہ میں اس دودھ کو پی گیا.
خطبات محمود ۶۶۶ سال ۱۹۳۸ء جب میں نے تمام دودھ پی لیا تو معاً میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہو گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ معراج کی رات آپ کے سامنے ایک شراب کا پیالہ اور ایک دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ پی لیا اور شراب کا پیالہ رڈ کر دیا.اس پر جبرائیل نے کہا آپ نے اچھا کیا جو دودھ کا پیالہ لیا اور شراب کا پیالہ نہ لیا.کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی امت کبھی گمراہ نہیں ہوگی..اسی طرح میں نے اس وقت دودھ کا پیالہ پی کر کہا اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہوگی.یہ استعارہ ہے جو میری زبان پر جاری ہو ا.اس کے یہ معنے نہیں کہ میں نبی بن گیا.مطلب یہ ہے کہ میرے شاگرد، میرے مرید اور میرے اتباع بھی کبھی گمراہ نہیں ہوں گے.اور یہ مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خلی طور پر مجھے حاصل ہوا ہے یہ نظارہ دیکھنے کے معا بعد مجھے آرام ہو گیا.اور میں نے دیکھا کہ نہ مجھے بخار ہے اور نہ کہیں درد کی شکایت.ہے تو اس وقت اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہی بات بتائی کہ تمہیں طاعون نہیں.اور تم اس سے محفوظ رہو گے.حالانکہ یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ کسی مومن کو بھی طاعون نہ ہو گئی مومن ہیں جو طاعون سے شہید ہوتے ہیں.لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا کہ تمہیں طاعون نہیں کی ہے کہ تم اس سے بفضلہ محفوظ ہو.اسی طرح بعض دفعہ مومن بھی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی بناء پر کہہ سکتا ہے کہ مجھے کوئی قتل نہیں کرسکتا.اور پھر واقع میں کوئی دشمن اسے قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.مگر یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ انبیاء کا قتل شاذ و نادر ہوتا ہے اسی لئے میرا طریق اور علماء سلسلہ کا بھی یہی طریق رہا ہے کہ قرآن کریم میں انبیاء کے متعلق جب قتل وغیرہ کے الفاظ آئیں تو ہم ان کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قتل سے مراد کوشش قتل یا ارادہ قتل ہے کیونکہ وہاں عام لفظ ہیں اور خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کے مضمون کو عام نہ کر دیں.لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم انبیاء کے متعلق قتل کی کلیتہ نفی کر دیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بھی بعض دفعہ شکست ہوئی ہے مثلاً اُحد کے موقع پر.گو میرا احساس یہی ہے کہ میں اُحد کی شکست کو بھی فتح ہی سمجھتا ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے مگر پھر بھی اس وقت
خطبات محمود ۶۶۷ سال ۱۹۳۸ حالات ایسا رنگ پکڑ گئے تھے کہ تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی تھی لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اس واقعہ پر زور دینے لگ جائیں.استثنائی حالات اور ہوتے ہیں.اور قاعدہ کلیہ اور ہوتا ہے.اسی طرح عام قاعدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کرتا اور انہیں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے لیکن استثنائی طور پر بعض انبیاء قتل بھی ہو جاتے ہیں.پس چونکہ انبیاء کا قتل نہایت ہی شاذ ہوتا ہے اور دشمن کو اس طرح بہت بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے اس لئے ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ شاذ کو شاذ ہی رہنے دیں اور اسے وسیع نہ کریں.ایک دوست نے لکھا ہے يَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ ۲۸ کہ وہ نبیوں سے لڑتے ہیں مگر آج یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ وہ نبیوں کو قتل کرتے تھے.اس کا جواب یہی ہے کہ جس طرح پہلے یہ معنے پڑھائے گئے تھے اسی طرح اب بھی یہی پڑھائے جاتے ہیں اور آئندہ بھی یہی پڑھائے جائیں گے مگر جب حضرت یحیی علیہ السلام کا ذکر آئے گا.تو پہلے بھی یہی کہتے تھے اور اب بھی یہی کہیں گے کہ وہ شہید ہوئے ہیں مگر بایں ہمہ ہم اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق کوئی ایسی بات گوارا نہیں کر سکتے جس سے ان کی تو ہین ہو یا جس میں ان کی سبکی ہو.چونکہ قتل میں انبیاء کی ایک طرح کی تی سبکی ہوتی ہے اور دشمن کو خوشی کا سامان ہاتھ آتا ہے اس لئے ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جہاں نبیوں کے عام ذکر کے ساتھ قتل کا لفظ آئے وہاں اس کے معنے ارادہ قتل یا کوشش قتل یا لڑائی جھگڑے کے کریں تا کہ شاگرد پر یہ اثر نہ ہو کہ شاید نبیوں کا قتل کوئی معمولی بات ہے.مگر مومن کا یہ بھی کام ہے کہ جہاں خدا اسے کہے کہ فلاں نبی قتل ہوا ہے وہاں اس حقیقت کا بھی اظہار کر دے.پس میں نے ضروری سمجھا کہ اس حقیقت کو واضح طور پر احباب کے سامنے رکھ دوں میں نے اس ضمن میں بہت سی شہادتیں بیان کی ہیں.صحابہ میں سے ماسٹر عبدالرحمن صاحب.میر مہدی حسین صاحب.حافظ محمد ابراہیم صاحب مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کی شہادتیں بیان کی ہیں اپنی شہادت بھی بیان کی ہے.اور پھر بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی یہی مسئلہ بیان ہوا ہے حتی کہ حقیقتہ الوحی میں بھی جیسا کہ ایک دوست نے لکھا ہے کہ یہی بات بیان کی گئی ہے.پھر تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے احادیث میں
خطبات محمود ۶۶۸ سال ۱۹۳۸ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جیوش انسائیکلو پیڈیا میں جوزیفس نامی مشہور مؤرخ کے حوالہ سے بھی اسی حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے.اسی طرح یہودیوں مسیحیوں اور رومیوں تینوں قوموں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل کئے گئے.اتنی بڑی شہادتوں کے بعد یہ بالکل ناممکن ہے کہ قتلِ بیٹی کا انکار کی کیا جاسکے.اور اگر کوئی شخص اتنی بڑی شہادتوں کے بعد بھی شبہ کی گنجائش نکالتا ہے تو اس کے لئے دنیا میں کسی ایک صداقت کا معلوم کرنا بھی ناممکن ہے کیونکہ ہر صداقت انہی ذرائع سے کی ثابت ہوتی ہے.اور اگر ان ذرائع اور شواہد کا انکار کر دیا جائے تو پھر کوئی صداقت ثابت نہیں ( الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۳۸ء) ہوسکتی.“ متنی باب ۱۴ آیت ۱ تا ۱۲.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء ( مفہوماً ) شعب الايمان للبيهقى ج۷ صفحه ۳۱۸ دار الكتب العلمية بيروت لبنان مطبوع ۱۹۹۰ء مستدرک حاکم ج ۳ صفحه ۵۵۵ کتاب معرفة الصحابة باب ذكر عبدالله بن زبير Po ك ال عمران: ۱۱۳ حمامة البشریٰ صفحہ ۴۸ ۴۹.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۴، ۲۱۵ ے تحفہ گولڑو یه صفحه۲ ۲۵ روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۳۸ ۱۲ اعجاز اسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۵ ۱۶۰.ایڈیشن ۲۰۰۸ء تذكرة الشهادتین صفحه ۹۴ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹۴ ۱۴ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲.حاشیہ صفحہ، ۳۵
خطبات محمود ۶۶۹ سال ۱۹۳۸ ۱۵ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ حاشیه صفحه ۳۵۱٬۳۵ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ حاشیہ صفحہ ۳۵۱ کلی ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد۲۱ حاشیہ صفحہ ۳۳۷ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۴۵ 19 ۲۰ النساء: ۱۵۸ ال وإذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوني وارتي الْهَيْنِ من دُونِ الله (المائده: ۱۱۷) وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزِّيرُ ابْنُ الله (التوبة: ٣٠) ۲۳ النساء : ۱۵۹ ۲۴ ال عمران : ۵۶ ۲۶ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۱۵۰،۱۴۹ بخاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج ٢٨ البقرة : ٦٢ ۲۵ المائده: ۱۱۸
خطبات محمود ۶۷۰ ۳۱ سال ۱۹۳۸ الہبی جماعتیں دین پر عمل کر کے ہی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں (فرموده ۱۶ رستمبر ۱۹۳۸ء) تشهد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں : " يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا ارْكَعُوا اسْجُدُوا وَاعْبُدُوا ريكُمْ وَافْعَلُوا الخير لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ ، هُوَ اجْتَبكُمْ b ومَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرّج ملة ابنكُمْ إِبْراهِيمَ، هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ : مِن قَبْلُ وَفي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ سَشْكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَ في هذا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا علَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلى النَّاسِ فَاقِيمُوا الصَّلوة وأتُوا الزَّعُوة واعْتَصِمُوا بِاللهِ ، هُو مؤليكُمْ : فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُنا اس کے بعد فرمایا:- یہ آیتیں جو میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں مومنوں کو اُن کے ان فرائض کی طرف توجہ دلاتی ہیں جو الہی جماعتوں کو کامیاب بنانے میں مد ہوتے ہیں اور جن کے بغیر غلبے کا حصول بالکل ناممکن ہوتا ہے.دنیوی جماعتوں کا طریق کار بالکل علیحدہ ہوتا ہے ان پر دینی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دنیوی جماعتوں کا دارومدار خالص طور پر ان کی اپنی سعی اور کوشش پر ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کے اُن کے لئے کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سچ سے کام لیں.
خطبات محمود ۶۷۱ سال ۱۹۳۸ وہ جھوٹ ، فریب اور دغا بازی ، ان سارے ہتھیاروں کو استعمال کر سکتے ہیں مگر یہ ہتھیار جو عام طور پر دُنیا میں کامیابی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں دین میں ان کو بالکل حرام قرار دیا گیا ہے.ڈ نیوی امور میں لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں ، وہ فریب سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فریب کے بغیر گزارہ نہیں ، وہ منافقت سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کے منافقت کے بغیر گزارہ نہیں.جب ایک قوم دوسری قوم کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، جب اس کی ساری قوتیں دوسری قوم پر حملہ کرنے کے لیے مجتمع ہو رہی ہوتی ہیں، جب اس کی کے سارے محلے اپنے کیل کانٹے درست کر رہے ہوتے ہیں اس وقت دنیا دار حکومتیں بڑے زور سے یہ اعلان کرتی سُنائی دیتی ہیں کہ ہمارے تعلقات اس حکومت سے بڑے اچھے ہیں اور جب وہ جنگ کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں اُن کے مدبر بڑے زور شور سے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم صلح کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کریں گے مگر اُن کی غرض اِن اعلانات سے یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارا دشمن بیوقوف بنایا جا سکے تو اسے بیوقوف بنا ئیں.اس کے مقابلہ میں ان کا دشمن بھی کی اسی طرح کر رہا ہوتا ہے جس طرح وہ کر رہے ہوتے ہیں.وہ بھی دھوکا اور فریب اور جھوٹ استعمال کر رہا ہوتا ہے مگر دین کے ساتھ تعلق رکھنے والی قوموں کو اس قسم کے طریق اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.انہیں اگر کہا جاتا ہے تو یہ کہ تمہیں اچانک حملہ کرنے کی اجازت نہیں اور اگر تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہے اور تم دیکھتے ہو کہ دوسرا فریق اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو ایک لمبا عرصہ قبل یہ اعلان کر دو کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے.اس کے بعد اگر تم چا ہو تو دوسری قوم سے لڑ سکتے ہو.پس دینی کاموں کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ جن تذ ا بیر کو نیا اختیار کرسکتی ہے ان کو ان تدابیر کے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.اس لئے کوئی ایسا قائمقام ہونا چاہئے جو جھوٹ اور فریب اور دغا کے مقابلہ میں نیکی کا سہارا ہو.اس سہارے کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو ابھی میں نے تلاوت کی ہیں ذکر کیا ہے فرماتا ہے یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا الحعُوا.اے مومنو! تم رکوع کرو اور رکوع سے مراد اس جگہ نماز والا رکوع نہیں بلکہ رکوع کے معنی نماز کے علاوہ بھی ایک ہوتے ہیں اور وہ معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان کی
خطبات محمود ۶۷۲ سال ۱۹۳۸ رکھتے ہوئے اس کی طرف جھک جانا اور ماسوی اللہ کا خیال اپنے دل سے بکلی نکال دینا.گویا کی کامل توحید کے خیالات دل میں پیدا کر لینا اور ما سوئی اللہ کی عبادت ، اس پر انحصار، تو کل اور امید کا دل سے نکال دینا.اس کا نام عربی زبان میں رکوع ہے.چنانچہ عربی کا محاورہ ہے کہ فُلانٌ رَكَعَ إِلَى الله.کہ فلاں شخص ہر ایک دُنیوی چیز کا خیال اپنے دل سے نکال کر خدا تعالی کی طرف جُھک گیا.پس اس جگہ رکوع سے مراد وہ رکوع نہیں جو نماز میں کیا جاتا ہے.کیونکہ وہ رکوع ہم علیحدہ نہیں کرتے بلکہ نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے.خالی رکوع اسلام میں کہیں ثابت نہیں اور ی خالی سجدہ اسلام میں شکریہ یا تلاوت قرآن کریم کے سوا عبادت کے طور پر ثابت نہیں ہے بلکہ خالی سجدہ دُعا کے موقع پر کر بھی لیا جاتا ہے.خالی رکوع کا رسماً بھی اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ملتا.پس رکوع سے مراد یہاں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا نہیں بلکہ ماسوی اللہ کا خیال اپنے دل سے نکال کر کامل تو حید پر ایمان رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا نام رکوع ہے یہ گویا کی قائمقام ہو جاتا ہے مومن کے لیے ان چیزوں کا جن کو چھوڑنے کا اسے حکم ہے.رکوع کا لفظ اصل میں اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ایک چیز ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور سہارا ہمیشہ ٹیڑھا ہو کر لیا جاتا ہے.جو شخص سیدھا کھڑا ہو گا وہ سہارا نہیں لے سکتا اور اگر وہ سہارا لینا چاہے گا تو اسی وقت لے سکے گا جب وہ ٹیڑھا ہوگا تو و از تحعُوا کے معنی دراصل خدا تعالی پر سہارا لینا کی اور اس کے اوپر جھک جانا ہے.جھوٹ ، فریب اور منافقت یہ دنیا کے سہارے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو بڑے گندے سہارے ہیں ، ان کو چھوڑو اور ان کے قریب بھی مت پھٹکو.جب دنیا کے سہارے ایک انسان سے لے لئے جائیں تو لازماً وہ کسی اور سہارے کا محتاج ہوگا کیونکہ انسان سخت کمزور اور بے بس ہے.ایک کمزور انسان جو بیمار بھی ہو کر چ: CRUTCHES) پر چلتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے تو دیوار کی ٹیک لگا لیتا ہے یا دم لینے کے لئے کرسی پر جا بیٹھتا ہے یا اگر لیٹے لیٹے سر اُٹھاتا ہے تو کہنی کا سہارا لے لیتا ہے یا گاؤ تکیہ اپنے پیچھے رکھ لیتا ہے تو کمزوری اور کی بیماری کے وقت انسان کو دوسری چیزوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے.چونکہ انسان روحانی عالم میں سخت کمزور ہے اور ہزاروں خفیہ باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں روک بن کر حائل ہو جاتی ہیں اس لئے اس عالم میں بھی وہ کسی نہ کسی سہارے کا محتاج ہوتا ہے.
خطبات محمود ۶۷۳ سال ۱۹۳۸ء دنیا دار شخص ایسے موقع پر دعا ، فریب ، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لے لیتا ہے مگر مومن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان امور سے بچو.تم نہ فریب سے کام لو، نہ جھوٹ سے کام لو ، نہ دھوکا سے کام لو اور نہ اور کسی نا جائز ہتھیار کو استعمال کرو.اب جبکہ ایک کمزور انسان کے تمام دنیوی سہارے شریعت نے لے لئے تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ کیا کرے؟ سہارا تو ایک کمزور انسان کے لئے ضروری تھا اور اس سے سہارے کو لے لینا ایسا ہی ہے جیسے ایک لجے کی سوئیاں لے لی جائیں یا بیمار کے نیچے سے گاؤ تکیہ نکال لیا جائے یا ایک کمزور انسان جب کرسی پر بیٹھنے لگے تو اس کے نیچے سے کرسی نکال لی جائے.ایسی حالت میں اسے لازماً کسی اور سہارے کی ضرورت پیش کی آئے گی اور وہ کہے گا میں کس پر سہارا لوں ، میں تو گر جاؤں گا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا جواب دیا ہے.فرمایا ہے از حعُوا تم ہمارے اوپر سہارا لے لو اور ہم پر جھک جاؤ یہ ایسی کی بات ہے جیسے کوئی انسان دوسرے کمزور انسان کی سوئی تو لے لے مگر اپنا کندھا اس کے سامنے پیش کر دے اور کہے کہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلو.اسی طرح جب اور نا جائز ہتھیاروں اور ناجائز سہاروں سے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا تو فرمایا چونکہ تمہیں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہے اس لیے ہم تمہیں کہتے ہیں تم ہم پر جھک جاؤ اور ہمارا سہارا لے لو.توارُ كَعُوا کا لفظ توکل علی اللہ پر دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کرنا اور سمجھ لینا چاہئے کہ میرے کاموں میں جو نقص ہے خدا تعالیٰ اس کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ جب کامیابی کے حصول کی دُنیوی تدابیر سے اس نے منع کر دیا تو اب وہ ہمارا خود ذمہ دار ہے اور وہ آپ ہمارے نقصوں اور ہماری خامیوں کو پورا کرے گا.پھر فرماتا ہے واسْجُدُوا د اعبدوا ربكم یہاں واسْجُدُوا میں جو سجدہ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد بھی نماز والا سجدہ نہیں ہے اس لئے کہ آگے واعبدوا ربکم کے الفاظ آتے ہیں جس میں سجدہ بھی شامل ہے.پس اس جگہ سجدہ سے مراد بھی وہ سجدہ نہیں جو ہم زمین پر کرتے ہیں بلکہ و اسجدوا کے معنی ہیں.اے مومنو! تم کامل فرمانبرداری سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری اتباع کرو اور جس کی طرح وہ حکم دیتا ہے اسی طرح کرو.چاہے وہ حکم تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے.بسا اوقات انسان ایک چیز کے متعلق جانتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کی گئی ہے مگر اپنی نادانی سے
خطبات محمود ۶۷۴ سال ۱۹۳۸ء سمجھتا ہے کہ اس میں میری تباہی اور بربادی ہے لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس چیز کو اختیار کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت کرتا اور بجائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اس پر انعامات کا نزول شروع ہو جاتا ہے.حدیثوں میں اس کی ایک نہایت ہی لطیف مثال بیان کی گئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیفیں اُٹھاتے اور بظاہر اپنے آپ کو کی ہلاکت کے گڑھوں میں گراتے چلے جاتے ہیں انجام کار اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے اور تباہی کے سامانوں میں ان کے لئے برکت کے سامان پیدا کر دئے جاتے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے ایک بندے سے کہے گا کہ دوزخ میں گو د، بندہ بے دھڑک دوزخ میں کو دجائے گا اور کہے گا کہ جب مجھے میرے رب کا یہی حکم ہے کہ میں دوزخ میں گو د جاؤں تو مجھے دوزخ ہی منظور ہے مگر جب وہ اس میں گو دے گا تو دوزخ اس کے لیے نہایت آرام دہ جنت بن جائے گی اور وہ آگ سے کھیلنے لگ جائے گا.اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا دیکھو میرا بندہ آگ سے کیسا خوش ہو رہا ہے.یہ مثال در حقیقت اسی بات کی ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کر کے بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اللہ تعالی انہیں ہلاکت کے سامانوں میں ان کے لئے ترقی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.بظاہر دنیا سمجھتی ہے کہ وہ آگ میں گودے ہیں مگر جب وہ اس آگ میں کود جاتے ہیں تو وہی آگ ان کے لئے جنت بن جاتی ہے.صحابہ کو دیکھیں اُنہوں نے کیسی خطر ناک آگ اپنے لئے قبول کی مگر وہی آگ ان کے لئے کیسی جنت بن گئی کہ دُنیا پر اس زمانے سے لے کر آج تک تیرہ سو سال گزر چکے اور نا معلوم ابھی کتنے سو سال یا کتنے ہزار سال یا کتنے لاکھ سال یا کتنے کروڑ سال یا کتنے ارب سال اور کی گزرنے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی اس کو بہتر جانتا ہے مگر آج بھی جب صحابہ کا کوئی ذکر کرتا ہے تو ایک مخلص کا دل محبت سے بھر جاتا ہے اور وہ رضي الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ے کہے بغیر نہیں رہتا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا.یہ کوئی معمولی بات نہیں دُنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.بعض آدمیوں کو میں نے دیکھا ہے ان کی ساری عمر خان صاحب کے خطاب کے حصول کے لئے ہی گزر جاتی ہے.حالانکہ خان صاحب“ 66
خطبات محمود ۶۷۵ سال ۱۹۳۸ کے خطاب میں کیا رکھا ہے؟ دو لفظ ہی ہیں ورنہ ان کی کیا حقیقت ہے؟ پھر ان کا یہ اپنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنا نام ” خان صاحب“ رکھ لیں.چنانچہ کئی لوگ اپنے بچوں کا نام خان صاحب یا خان بہادر “ رکھ دیتے ہیں.پس اگر وہ چاہیں تو یہ نام آپ بھی اپنا رکھ سکتے ہیں مگر اس لئے کہ گورنمنٹ کی طرف سے ان کو یہ نام ملے وہ اپنی ساری عمر اسی کوشش میں گزار دیتے اور اس کے لئے بڑی بڑی غلامیاں کرتے ہیں، کہیں انہیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، کہیں فریب سے کام لینا پڑتا ہے، کہیں عیاری اور مکاری کرنی پڑتی ہے، کہیں قوم کو قربان کرتے ہیں اور اس تمام مکر و فریب اور تمام چاپلوسی غلامی اور لجاجت میں ایک ہی بات اُن کے مد نظر ہوتی ہے کہ کسی دن صاحب بہادر خوش ہو جائے تو وہ ہمارے متعلق خان صاحب یا خان بہادر کے خطاب کی سفارش کر دے.اگر انسانی فطرت کی اس کمزوری کا خیال نہ رکھا جائے تو ایسے انسان کا تصور کر کے ہی شرم سے انسان پانی پانی ہو جاتا ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ ان الفاظ میں آخر رکھا ہی کیا ہے اور خان صاحب یا خان بہادر کا خطاب ملنے سے ہو کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے لئے اتنی جدو جہد کرتا ہے سوائے اس کے کہ اُسے افسروں کو سلام کرنے پڑتے ہیں اور دربار میں اسے جھکنا پڑتا ہے اور اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور ان عزتوں سے تو شریف آدمی بعض دفعہ بڑے گھبراتے ہیں.ہمارے ہی عزیزوں میں سے ایک کٹر دُنیا دار تھے وہ احمدی نہیں تھے.انہوں نے ایک دفعہ کوشش کی اور وہ سفید پوش ہو گئے.اس زمانے میں ڈاک کے متعلق سرکاری انتظام چونکہ ابھی اعلیٰ پیمانہ پر نہیں تھا اس لئے جو ذیلدار یا سفید پوش ہوتے ، انہیں بعض دفعہ ضروری چٹھیاں بھیجی جاتی تھیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو پہنچا آئیں.اتفاق ایسا ہوا کہ ادھر وہ کوشش کر کے سفید پوشی بنے اور اُدھر ایک سرکاری آفیسر نے اُنہیں بلایا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر آجکل دورہ پر ہے اور فلاں جگہ ہے، ایک اہم سرکاری پروا نہ لیفٹینٹ گورنر صاحب کی طرف سے آیا ہے ، آپ یہ جا کر اُنہیں پہنچا دیں.وہ تو خیر حکم حاکم مرگِ مفاجات اُنہوں نے جوں توں کر کے پہنچا دیا مگر گھر واپس آتے ہی استعفیٰ دے دیا اور کہا مجھے سفید پوشی منظور نہیں.میں سفید پوشی عزت کی چیز سمجھا تھا
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سفید پوشی انسان کو ہر کارہ بناتی ہے.مگر دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کے لئے ہر قسم کی تکلیف گوارہ کرتے اور خواہش رکھتے ہیں کہ کسی طرح وہ ذیلدار یا سفید پوش بن جائیں.قادیان ایک چھوٹا سا قصبہ ہے.دُنیا جہان سے الگ ایک کونہ میں واقع ہے ساری دُنیا ہماری دشمن ہے.قادیان کا نام سُن کر مخالف لوگ کوسوں بھاگتے ہیں.مگر میں نے دیکھا ہے جہاں کوئی احمدی افسر ہوتا ہے وہاں کے بڑے بڑے زمیندار جو بعض دفعہ چار چار، پانچ پانچ ، چھ چھ یا دس دس ہزار ایکٹر زمین کے مالک ہوتے ہیں.باوجود مخالفت کے ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں احمدی افسر کو ہمارے متعلق کوئی چٹھی لکھ دیں کیونکہ ہمارا اُن کے پاس سفید پوشی یا ذیلداری کا مقدمہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ سفید پوشی یا ذیلداری ہمیں مل جائے.میں جب ان کو دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گھر بیٹھے دولت و ثروت دی تھی اور یہ باپ دادا سے ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک چلے آتے تھے اگر یہ ولایت میں ہوتے تو لارڈ اور ڈیوک اور مارکوئیس اور ارل اور کیا کیا ہوتے مگر یہ سفید پوشی یا ذیلداری کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں.یوں شاید وہ مذہبی تعصب کی بناء پر ہم سے بات کرنا بھی اپنی ہتک کی سمجھیں مگر سفارش کرانے کے لئے ہمارے پاس آ موجود ہوتے ہیں.تو ان کی حالت دیکھ کر مجھے نہایت ہی تعجب آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ الہی یہ کیسی ذلت کو پہنچ گئے ہیں؟ اگر یہ اسی کی عزت پر قناعت کرتے جو خدا تعالیٰ نے ان کو دی تھی تو ذیلدار یا سفید پوش ہونے کی جد و جہد میں انہیں کئی قسم کی ذلتیں برداشت نہ کرنا پڑتیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنی عزت پر قناعت کرتا ہے اس کی ساری دنیا عزت کرتی ہے اور عزت تو اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے.دنیا داروں میں سے بھی جو شریف لوگ ہوتے ہیں چاہے دین ان میں نہ ہو وہ اپنی عزت کے کی متعلق غیرت رکھتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.ہمارے دادا صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ بڑے دُنیا دار تھے اور ہمیشہ دُنیا کے خیالات میں منہمک رہتے لیکن شرافت خاندانی کی جس اُن میں اس قدر تھی کہ پرانے لوگوں سے میں نے سُنا ہے کہ وہ ایک دفعہ کمشنر سے ملنے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ کے لئے گئے.دورانِ گفتگو میں کمشنر پوچھ بیٹھا کہ میں دورہ پر جانے والا ہوں یہ بتائیں کہ قادیانی سے سری گو بند پور کتنے میل ہے؟ اُس نے جونہی یہ سوال کیا ہمارے دادا صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے میں اپنی ہتک کرانے کے لئے یہاں نہیں آیا میں کوئی ہرکارہ نہیں کہ ایسا سوال مجھ سے کیا جائے.نتیجہ یہ ہوا کہ کمشنر ان کی منتیں کرنے لگا اور کہنے لگا آپ ناراض نہ ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے.ہے وہ دُنیا دار تھے مگر یہ جس اُن میں بھی تھی کہ میں عزت رکھتا ہوں اور اگر تم میری عزت کا پاس نہیں کر سکتے تو میں جاتا ہوں.تو انسان کی حقیقی عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے ملتی ہے.وہ عزت جتنی بھی ہو خواہ تھوڑی ہو یا بہت انسان کے لئے کافی ہوتی ہے مگر جب وہ خیالی عزتوں کے پیچھے پڑتا ہے تو اسے ایسی ایسی غلامیاں اور ایسی ایسی فرمانبرداریاں کرنی پڑتی ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی اور پھر اسے جو چیز ملتی ہے وہ نہایت ہی حقیر ہوتی ہے.ہمارے صوفیاء کی تاریخ میں ایک مشہور واقعہ آتا ہے.شبلی اسلام میں ایک بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ گزرے ہیں.ان کا نام اتنا مشہور ہے کہ گاؤں کے لوگ بھی انہیں جانتے ہیں اور اشعار میں اُن کا ذکر کرتے ہیں.وہ اسلام میں چوٹی کے بزرگ ہوئے ہیں.وہ اسلامی بادشاہت میں پہلے گورنر تھے اور اس قدر ظالم اور جابر تھے کہ حجاج بن یوسف کی طرح ان کا بھی رُعب تھا اور لوگ اُن سے بڑے ڈرتے تھے.ذرہ سی بات پر بھی لوگوں کو سخت سزائیں دیتے اور انہیں مارتے یا قتل کرا دیتے.ایک دن بغداد میں بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا وہ بھی اس دربار میں موجود تھے کہ ایک فاتح جرنیل بادشاہ کے سامنے پیش ہوا.اس جرنیل نے بعض مخالف افواج کو جن سے باشاہ بھی گھبراتا تھا شکست فاش دی تھی اور بادشاہ نے یہ دربار اسی لئے لگایا تھا کہ خلعت اپنے ہاتھ سے اس جرنیل کو خلعت فاخرہ دے اور اس طرح سب کے سامنے اس کی قدر افزائی کی کرے.چنانچہ وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوا اور اُس نے نہایت ہی اعزاز کے ساتھ اسے پہنایا مگر وہ بیچارہ شاید اس دن شامت اعمال سے رومال لا نا بھول گیا تھا.عام طور پر درباری اپنی آستینوں میں رو مال چھپا کر رکھتے ہیں یا ممکن ہے وہ رومال تو لایا ہو مگر اس کے پہلے کوٹ میں ہو جو اُس نے خلعت پہننے کے لئے اُتارا ہو.بہر حال اُس وقت رو مال اس کے پاس کی
خطبات محمود ۶۷۸ سال ۱۹۳۸ء نہیں تھا جب وہ خلعت پہن چکا تو اتفاقاً اُسے چھینک آئی جس سے اُس کا ناک بہہ پڑا.شاید اُسے نزلہ کی شکایت تھی.یہ دیکھ کر وہ سخت گھبرایا اور اُس نے بادشاہ کی بے ادبی کے ڈر سے جیب پر ہاتھ جو مارا تو دیکھا کے رومال نہیں.اسے اور زیادہ فکر لاحق ہوا اور اب وہ سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ آخر اس مصیبت سے بچنے کے لئے اُس نے ایک طرف منہ کر کے اسی خلعت کے ایک کو نہ سے اپنا ناک پونچھ لیا.اتفاقاً بادشاہ کی بھی اُس پر نظر پڑ گئی.بس یہ دیکھتے ہی اسے قہر آگیا.بادشاہ نے بے تحاشہ اُسے گالیاں دینی شروع کر دیں کہ بڑے بے حیا اور کمینہ ہو، ہم نے تمہاری عزت افزائی کی اور تم نے ہمارے خلعت کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اس سے اپنا ناک پونچھ لیا.پھر اُس نے حکم دیا کہ اس کا خلعت اُتار لیا جائے ، اس سے تمام عہدے چھین لئے جائیں اور اسے ذلیل کر کے دربار میں سے نکال دیا جائے.ادھر بادشاہ نے یہ حکم دیا اور اُدھر شبلی رونے لگ گئے اور روتے ہی چلے گئے.بادشاہ نے اُن کی طرف دیکھا اور کہا شبلی تمہیں کیا تج ہو گیا ؟ کیا تم پاگل ہو گئے ہو جو روتے ہو؟ شیلی کہنے لگے حضور میرا استعفیٰ منظور کیجئے.وہ کہنے لگا کیوں ؟ معلوم ہوتا ہے کہ شبلی کے دل میں کوئی نیکی اور تقویٰ تھا جو اُن کے کام آ گیا اور وہ کہنے لگے حضور ! آپ نے اس جرنیل کو خلعت دیا اور اس کی عزت افزائی فرمائی مگر یہ خلعت اس کی قر بانیوں کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتا تھا ؟ کچھ بھی نہیں.وہ سال دو سال آپ کے دشمن کے مقابلہ میں برسر پر کا ررہا.وہ ہر روز اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم بنا دینے کے ارادہ سے نکلتا اور گھمسان کی لڑائیوں میں آپ کی عزت اور آپ کی حکومت کی وسعت کے لئے گھس جا تا.ہر روز اس کی جان خطرے میں تھی ، ہر روز اس پر ایک موت آتی تھی.کوئی دن نہ تھا جس میں وہ آپ کی عزت کے لئے اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم بنانے کا تہیہ نہ کرتا مگر اتنی بڑی قربانیوں کے بعد آپ نے اسے جو خلعت دیا وہ گو اُس کی قر بانیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا مگر آپ نے اتنا بھی گوارہ نہ کیا کہ اس نے آپ کے عطا کردہ خلعت سے ناک کیوں پونچھ لیا اور آپ نے اسے اپنے خلعت کی بے حرمتی قرار دیا.حضور اس سے بہت زیادہ قیمتی خلعت وہ ہے جو خدا نے مجھے دیا ہوا ہے.یہ ناک ، یہ کان ، یہ منہ، یہ آنکھیں ، یہ زبان یہ ہاتھ ، یہ پاؤں ، یہ دماغ ، یہ اعضاء اور یہ تمام طاقتیں اللہ تعالیٰ کا خلعت ہیں.میں آپ کی خاطر
خطبات محمود ۶۷۹ سال ۱۹۳۸ء ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کے اس خلعت کو خراب کر رہا ہوں.میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن جب میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں گا تو اُس کو کیا جواب دوں گا اور اپنی براءت میں کونسی بات پیش کر سکوں گا ؟ پس میرا استعفیٰ منظور کیجئے میں اب اور زیادہ اس الہی خلعت کی بے حرمتی کرنا نہیں چاہتا.بادشاہ نے انہیں بہتیر اسمجھایا مگر وہ نہ مانے اور استعفیٰ دے کر الگ ہو گئے ، وہ اتنے ظالم مشہور تھے کہ اس کے بعد وہ مختلف علماء کے پاس جب تو بہ کے لئے گئے تو کوئی اُن کی توبہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا اور ہر ایک کہتا کہ تیرے جیسے آدمی کو تو اللہ تعالیٰ سیدھا جہنم میں جھونکے گا.آخر وہ حضرت جنید بغدادی کے پاس گئے اور جا کر کہنے لگے کہ چاہے کوئی شرط آپ رکھیں میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں میری بیعت آپ قبول فرما ئیں.کہنے لگے اچھا اگر تمہیں ہر شرط منظور ہے تو پھر تم اس شہر میں جاؤ جہاں کے تم گورنر رہ چکے ہو اور کی اس شہر کے ہر گھر کے دروازہ پر دستک دو اور وہاں کے لوگوں سے معافی مانگو.چاہے معافی کی مانگنے میں تمہیں کتنا عرصہ لگ جائے.چنانچہ وہ اُس شہر میں گئے اور چھ مہینے یا سال یا جتنا عرصہ لگا کی وہ اس شہر میں رہے اور اُنہوں نے ہر دروازہ پر دستک دے کر لوگوں سے اپنے گناہوں کی معافی چاہی اور جب سب سے معافی مانگ چکے تو پھر حضرت جنید کے پاس آئے اور انہوں نے اپنی بیعت میں انہیں شامل کر لیا.شے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں خود بھی بہت بڑا رتبہ دے دیا.وہ چنانچہ وہ اسلام کے صوفیاء کے ایک ستون سمجھے جاتے ہیں.تو انسان چھوٹی چھوٹی عزتوں کے حصول کے لئے بڑی بڑی فقر بانیاں کرتا ہے اور پھر ان کی قُر بانیوں کے بعد جو چیز اسے ملتی ہے وہ نہایت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کی ہوتی ہے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے فضل اتنے اہم ہوتے ہیں کہ ان فضلوں کے مقابلہ میں دُنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.جیسے میں نے بتایا ہے کہ صحابہ کا جب بھی کوئی ذکر کرے ہم رضي الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کہے بغیر نہیں رہتے.اب یہ ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا.ایسا ہی جیسا خان صاحب یا خان بہادر یا سر یا ڈیوک یا مارکوئس یا ارل وغیرہ ہیں.مگر سو چو تو سہی کتنے خان بہا دریا سر یا ڈیوک یا مار کوئٹس یا ارل ہیں جن کا نام دُنیا جانتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام لوگ جانتے ہیں یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دنیا خطاب سمیت لیتی ہے.
خطبات محمود ۶۸۰ سال ۱۹۳۸ء بڑے بڑے بادشاہ دُنیا میں گزرے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہایت بے پروائی سے لے دیتے ہیں.سکندر کتنا بڑا بادشاہ تھا یونان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور بڑی زبر دست حکومتوں کو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی جو ایک انگریز سپاہی سے بھی ڈر جاتا ہے سکندر کا نام نہایت بے پروائی سے لے لیتا ہے.بچے بھی کی سکندر سکندر کہتے پھرتے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اس کے لئے استعمال نہیں کرتے.دارات بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گوا سے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس کی میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بھی زبر دست سلطنت کا مالک تھا اور چین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لوگ اُسے دارا دارا کہتے پھرتے ہیں.بادشاہ کا لفظ بھی اس کے متعلق استعمال نہیں کرتے.تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیامت بن گیا تھا.آج اُسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے.اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو گشتوں کے پشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لوگوں کو مار مار کر اُن کی لاشوں کو جمع کرتا اور ایک مینار کھڑا کر دیتا.بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اس نے کئی لاکھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے لنگڑا تیمور.حالانکہ اس کے زمانہ میں کسی کو یہ جرات نہیں تھی کہ وہ اُسے لنگڑا تیمور کہے بلکہ بادشاہ کیا وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اس کے خوف سے کانپتے تھے.تو وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت تھی جن کا نام سُن کر ہزاروں میل پر لوگ کانپ اٹھتے تھے اُن کا نام آج انتہائی لا پروائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کا نام بھی آج کوئی نہیں جانتا مگر وہ غریب بکریاں اور کی اونٹ چرانے والے صحابہ جنہوں نے غربت میں اپنی عمریں گزار دیں آج اُن کا نام آتا ہے تو رضي اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کے بغیر ایک مسلمان کا دل مطمئن نہیں ہوتا.حضرت ابو ہریرہ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور
خطبات محمود ۶۸۱ سال ۱۹۳۸ء جب میں شدت ضعف سے بیہوش ہو جاتا تھا تو لوگ میرے سر پر جوتیاں مارنے لگ جاتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے.کے پھر حضرت ابو ہریرہا کسی اعلیٰ خاندان میں سے نہ تھے، کوئی دولت مند نہ تھے ، کوئی پڑھے لکھے نہ تھے.پھر ہمارا بھی ان سے کوئی رشتہ داری کا تعلق نہیں.نہ ملک کا تعلق ہے نا خاندان کا تعلق ہے نہ زبان کا تعلق ہے.دُنیوی لحاظ سے وہ نہایت ہی ادنیٰ حالت کے تھے مگر آج ہماری یہ حالت ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہے بغیر دل کو چین آتا ہی نہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جو حالت تھی وہ خود ان کے باپ کی شہادت سے ظاہر ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا جب حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکہ میں تھے.کسی شخص نے وہاں جا کر ذکر کیا کہ ابوبکر عرب کا بادشاہ ہو گیا ہے.ابوقحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کون سا ابو بکر ؟ اس نے کہا وہی ابوبکر قریشی.وہ کہنے لگے کون سا قریشی ؟ اس نے کہا وہی جو تمہارا بیٹا ہے اور کون.وہ کہنے لگے واہ ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، تو بھی عجیب باتیں کرتا ہے.غرض ابو قحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ کی اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیں سکتے تھے کہ سارا عرب انہیں اپنا بادشاہ تسلیم کر لے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو کی عظمت حاصل ہے وہ کیا دُنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے؟ آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابو بکر کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابو بکڑ تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک حضرت ابوبکر کے نوکروں کو حاصل ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیں حضر ابوبکر کا کتا بھی بڑی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے.اس لئے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا خادم ہو گیا.اس لئے کہ اس نے ہمارے رب کے دروازہ پر سجدہ کیا.جب اس نے ہمارے رب کے دروازے پر سجدہ کیا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا غلام ہو گیا تو اس کی ہر کی چیز ہمیں پیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تاجر آدمی تھے اور تاجر کولڑائی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا.وہ مال و اسباب کی گٹھڑی اُٹھا کر ارد گرد کے دیہات میں چلے جاتے اور اسے فروخت کرتے.
خطبات محمود ۶۸۲ سال ۱۹۳۸ء بیشک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دولت مند تھے مگر آپ کا خاندان کوئی بڑا خاندان نہیں تھا صرف ایک عام شریف قریشی خاندان تھا اور کام آپ کا تجارت تھا.مال و اسباب ارد گرد کے گاؤں میں لے جاتے اور پھیری کے طور پر بیچ دیتے اور چونکہ آپ ذہین اور ہوشیار تھے اس لئے اُن کی تجارت میں برکت تھی اور وہ کافی روپیہ کما لیتے تھے.پھر جب اللہ تعالی نے ان کو اسلام نصیب کیا تو اُس تاجر کے دل میں وہ جرات اور بہادری پیدا ہوگئی جو بڑے بڑے فوجیوں کے دلوں میں بھی نہیں ہوتی.ایک دفعہ صحابہ کی مجلس میں کسی نے کہا کہ ابو بکر لڑنے والے آدمی نہیں تھے.خبر نہیں جنگوں کی میں ان کا کیا حال ہوتا ہو گا.اس پر ایک صحابی کہنے لگے ہم میں سے سب سے زیادہ بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.اس لئے کہ دشمن کا سارا حملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو مار دیا تو باقی مسلمانوں کی ہمتیں پست ہو جائیں گی اور ان کو ختم کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں رہے گا اور ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے پر حضرت ابو بکر ہی کھڑے ہوتے تھے.^ قربانی کا یہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ان کے بڑے بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہوئے اور جو بدریا اُحد کی جنگ میں ( مجھے صحیح یاد نہیں ) کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے.کھانا کھاتے ہوئے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ ابا جان اُس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گزرے تھے تو میں ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر کھڑا تھا اور میں اگر چاہتا تو آپ کو مار دیتا مگر میں نے کہا باپ کو تو نہیں مارنا.حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تو بچ گیا.خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا.شے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ہیں تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمر اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے.وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور اسامہ کو اس کا ج افسر مقرر کیا تھا مگر ابھی وہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی.آپ کی وفات پر جب قریباً سارا عرب مرتد ہو گیا تو صحا بہ گھبرا گئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر
خطبات محمود ۶۸۳ سال ۱۹۳۸ء ایسی بغاوت کے وقت اُسامہ کا لشکر بھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے ، مرد، بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا.چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ ا کا بر صحابہؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جائے اور اُن سے درخواست کرے کہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمرؓ اورا کا بر صحابہؓ مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور اُن سے کی عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس لشکر کو روک لیا جائے.جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک کی اسے بھیج دیا جائے.جب حضرت ابو بکر کے پاس یہ وفد پہنچا تو آپ نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا یہ کام کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اسے روک لے.( حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے باپ کا نام لیتے.یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میری کیا حیثیت ہے کہ میں ایسا کروں.اس موقع پر بھی آپ نے اپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اسے وہ روک لے.پھر آپ نے فرمایا گھبرانے کی کوئی بات نہیں اگر سارا عرب باغی ہو گیا ہے تو بیشک ہو جائے ، خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا ہے.اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بیشک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کروں گا.یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکر میں کہاں سے پیدا ہو گئی ؟ یہ وہی از تعُوا اسْجُدُوا والے حکم کی تعمیل کا نتیجہ ہے جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جاتی ہے تو اس تار میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو دُنیا کی کوئی طاقت کی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.بجلی سے علیحدہ کر لوتو تار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر اسی تار میں جب بجلی کی رو آئی ہوئی ہو اور تار کے اوپر سے اتفاقاً ربڑ اُترا ہوا ہو تو اگر ایک قوی سے قوی
خطبات محمود ۶۸۴ سال ۱۹۳۸ء پہلوان بھی اسے چھوئے گا تو مُردہ چوہے کی طرح گر جائے گا اور اس کی طاقت اسے کوئی نفعی نہیں پہنچا سکے گی.تو دنیوی عزتوں کے حصول کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی موقع پر اسی امر کا ذکر کرتا اور فرماتا ہے کہ اے مومنو! جب تم ہمارے پاس آئے ہو تو تمہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر از عواد اسْجُدُوا وَ اعْبُدُوا رَكُمْ کے احکام پر عمل کرنے کے تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.ہاں اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ، ہمارے احکام کی فرمانبرداری کا عہد کرو اور ہماری عبادت میں لگ جاؤ تو ہم تمہیں کا میاب کر دیں گے مگر دنیا ان باتوں پر عمل اپنے اوقات کا ضیاع سمجھتی ہے.وہ کہتی ہے ہم پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں تو کیوں پڑھیں.اس سے ہمیں کوئی فائدہ تو نہیں ہوتا یونہی وقت ضائع ہوتا ہے اور اگر ہم پنجوقتہ نمازیں پڑھنے لگیں تو باقی کام کب کریں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے یہاں ایک زمیندار آیا.اس کو کسی شخص نے کہا تھا کہ قادیان جا کر دیکھو اور کی مرزا صاحب کی زیارت کرو تب تمہیں وہاں کی قدر و منزلت معلوم ہوگی.مخالفوں کی باتوں پر اعتبار کرنا درست نہیں.چنانچہ وہ اس تحریک پر قادیان آیا جب وہ واپس گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ سناؤ قادیان گئے تھے تم نے کیا دیکھا ؟ وہ کہنے لگا واہ قادیان کی بڑی تعریفیں سنی تھیں میں تو دیکھ آیا ہوں وہ تو آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہی نہیں.لوگوں نے اُس سے پوچھا آخر بتاؤ تو سہی ہؤا کیا ؟ کہنے لگا کیا بتاوں ، وہ بھی کوئی جگہ ہے.جب میں وہاں یکہ پر پہنچا تو نو دس بجے کا وقت تھا.میں نے چاہا کہ مہمان خانہ میں ذرا آرام کریں گے کہ کسی نے کہا چلو جی کی مولوی صاحب قرآن اور حدیث پڑھا رہے ہیں وہ سنیں.میں نے کہا اچھا آرام پھر کریں گے.جب قادیان آئے ہیں تو قرآن اور حدیث سُن لیں چنانچہ میں وہاں گیا وہ مطب میں بیٹھے تھے، بڑی دیر بیماروں کو دیکھتے رہے، پھر انہوں نے قرآن پڑھایا ، پھر حدیث پڑھائی اور اسی طرح کی اور دینی باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ بارہ بج گئے وہاں سے واپس آئے تو میں نے کہا چلواب آرام سے حقہ پیتے ہیں مگر ابھی حقہ تیار ہی کرنے لگا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا چوہدری صاحب کھانا تیار ہے پہلے یہ کھا لیں.میں نے کہا اچھا کھانا کھالیں پھر حقہ پی لیں گے.
خطبات محمود ۶۸۵ سال ۱۹۳۸ء چنانچہ کھانا کھایا اور حقہ تیار کرنا شروع کیا مگر ابھی چلم سلگی نہیں تھی کہ ظہر کی اذان ہوگئی اور ایک شخص مجھے کہنے لگا مسجد چلو وہاں مرزا صاحب آئیں گے ان کی زیارت کرنا.چنانچہ میں حقہ کو و ہیں چھوڑ کر مسجد چلا گیا اور نماز پڑھی.نماز کے بعد مرزا صاحب وہیں بیٹھ گئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے.جب وہ اُٹھ کر اندر گئے تو میں نے کہا چلو اب چل کر حقہ پئیں.چنانچہ میں نے پھر چلم سلگائی اور حقہ تیار کیا مگر ابھی دو تین کش ہی لگائے تھے کہ عصر کی اذان ہوگئی.لوگ مجھے کہنے لگے کہ چلو عصر کی نماز پڑھو.میں حقہ کو وہیں چھوڑ کر عصر کی نماز پڑھنے چلا گیا.جب میں عصر کی نماز پڑھ چکا تو میں سمجھا کہ اب میں جا کر آرام سے حقہ پیوں گا مگرا بھی بیٹھا ہی تھا کہ لوگ کہنے لگے مولوی صاحب بڑی مسجد میں درس دینے چلے گئے ہیں ، وہاں چلو.چنانچہ میں اُٹھ کر بڑی مسجد چلا گیا.وہاں شام تک درس ہوتا رہا.وہاں سے ابھی اُٹھا ہی تھا کہ مغرب کی اذان ہوگئی.چنانچہ مغرب کی نماز پڑھنے چلا گیا.مغرب کے بعد مرزا صاحب پھر بیٹھ گئے اور کی باتیں کرنے لگ گئے.وہاں سے جب میں اُٹھا تو میں نے کہا اب تو چلم سُلگا کر آرام سے حقہ پیوں گا مگر ابھی چلم سلگا نے بھی نہیں پایا تھا کہ عشاء کی اذان ہوگئی میں عشاء پڑھنے چلا گیا.وہاں سے واپس آیا تو کہنے لگے کھانا کھا لو.چنانچہ کھانا کھایا اور میں نے سمجھا کہ اب تو کی فراغت ہوئی مگر کھانا کھا کر میں فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک مولوی صاحب کا مہمان خانہ میں ہی درس شروع ہو گیا میں وہ سننے لگ گیا اور سُنتے سنتے ہی نیند آ گئی اور اُٹھ کر سو گیا اور حقہ پینے کا موقع نہ ملا.جب صبح آنکھ کھلی تو بستر اُٹھا کر میں وہاں سے نکل کھڑا ہوا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ آدمیوں کے رہنے کی جگہ نہیں.تو دنیا کے لوگ جو ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھنی اور روزے رکھنے ، دین کی خدمت کرنا سب وقت کا ضیاع ہے.چنانچہ کئی مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ بھلا آج کل پانچ وقت نماز پڑھ کر بھی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور اس کی میں کوئی شبہ نہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم اس رنگ میں ترقی نہیں کر سکتی مگر جس نے خدا تعالیٰ کی مدد کی سے ترقی کرنی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پنجوقتہ نماز پڑھے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے رکھے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدمت دین کرے خواہ دُنیا اسے وقت اور مال کا ضیاع ہی قرار دے.پس فرماتا ہے واعبدوا ربكم تم اپنے رب کی عبادت کروی
خطبات محمود ۶۸۶ سال ۱۹۳۸ء وافعلوا الخير جب تم یہ باتیں کر لو یعنی جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرو.جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر اُٹھا لو ، جب تم اس کی شب و روز عبادت کرو تو پھر چوتھا فرض تمہارا کی یہ ہے کہ وافعلوا الخير تم بنی نوع انسان کی بھلائی کی کوشش کرو تم قتیموں کی خبر گیری کرو، تم بیواؤں کی نگہداشت کرو، تم مساکین سے شفقت اور رافت کے ساتھ پیش آو ہتم ہمسائیوں سے نیک سلوک کرو، تم دین اسلام کو ان لوگوں میں پھیلا ؤ جو اسلامی تعلیم سے نا آشنا ہیں.غرض جس قدر اچھے کام ہیں وہ سب کرو تعلكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ وافعلوا الخیر کو تو لوگ کسی حد تک مانتے ہیں مگر باقی جس قدر احکام ہیں ان کو دُنیا اپنی تباہی کی علامت سمجھتی ہے.وہ کہتے ہیں جو تو کل کرے گا اس کا بیڑا غرق نہیں ہو گا تو اور کس کا ہوگا ؟ پھر وہ کہتے ہیں جو احکام مذہبی پر چلے گا اور دین کی ترقی کے لئے چندہ دے گا وہ غریب نہیں ہوگا تو اور کیا ہو گا؟ اسی طرح وہ کہتے ہیں جو پانچ وقت نماز پڑھے گا وہ تین چار گھنٹہ ضرور ضائع کر دے گا اور جس نے اپنے اوقات کا اتنا بڑا حصہ اس طرح رائیگاں کر دیا وہ دُنیا میں کامیاب کس طرح ہو سکتا ہے ؟ غرض دُنیا ان تمام باتوں کو تباہی کا موجب سمجھتی ہے مگر جن امور کو دُنیا تباہی کا موجب سمجھتی ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ وہی تم کرو کیونکہ دنیوی ترقی اور دینی ترقی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اس کے ذرائع اور ہوتے ہیں اور اُس کے ذرائع اور.ہماری جماعت بھی ایک دینی جماعت ہے اور ہماری ترقیات بھی دین سے ہی وابستہ ہیں دُنیوی ذرائع کی سے نہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے بار ہا سُنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں.ایک تو وہ ہیں جو میرے دعوی کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ میری بعثت کی کیا غرض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس رنگ میں پہلے انبیاء کی جماعتوں نے قربانیاں کی ہیں اسی رنگ میں ہمیں بھی قربانیاں کرنی چاہئیں مگر کی ایک اور جماعت ایسی ہے جو صرف حضرت مولوی نور الدین صاحب کی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئی ہے وہ اُن کے استاد تھے ، انہیں معزز اور عقلمند سمجھتے تھے.انہوں نے کہا جب مولوی صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو آؤ ہم بھی احمدی ہو جائیں.پس اُن کا تعلق ہمارے سلسلہ سے
خطبات محمود ۶۸۷ سال ۱۹۳۸ء مولوی صاحب کی وجہ سے ہے.سلسلہ کی غرض اور میری بعثت کی حکمت اور غایت کو انہوں کی نے نہیں سمجھا.اس کے علاوہ ایک تیسری جماعت بعض نو جوانوں کی ہے جن کے دل میں گوئی مسلمانوں کا درد تھا مگر قومی طور پر نہ کہ مذہبی طور پر.وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی جتھا ہوان میں کچھ تنظیم ہو ، ان میں انجمنیں قائم ہوں اور مدر سے جاری ہوں مگر چونکہ عام مسلمانوں کا کوئی جتھا بنانا ان کے لئے ناممکن تھا اس لئے جب انہوں نے ہماری طرف ایک جتھا دیکھا تو وہ ہم میں آگئے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مدر سے قائم کریں اور لوگ ڈگریاں حاصل کریں.اسی وجہ سے وہ ہمارے سلسلہ کو ایک انجمن سمجھتے ہیں ، مذہب نہیں سمجھتے.تو دُنیا میں ترقیات کے جو ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اور ہیں اور دین میں جو ترقی کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اور ہیں.انجمنیں اور طرح ترقی کرتی ہیں اور دین اور طرح.دین کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اخلاق کی درستگی کی جائے ، قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے ، نمازیں پڑھی جائیں روزے رکھے جائیں ، اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا کیا جائے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ج جائے.اگر ہم یہ تمام باتیں کریں تو گو دُنیا کی نگاہوں میں ہم پاگل قرار پائیں گے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں ہوگا.قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان جب مالی قربانیاں کرتے تو منافق کہا کرتے کہ یہ مسلمان تو احمق ہیں بس روپیہ برباد کئے چلے جا رہے ہیں.انہیں کوئی ہوش نہیں کہ اپنے روپیہ کو کسی اچھے کام پر لگائیں.اسی طرح جب وہ اوقات کی قربانی کرتے تو پھر وہ کہتے یہ تو پاگل ہیں، اپنا وقت برباد کر رہے ہیں.انہوں نے ترقی خاک کرنی ہے.گویا مسلمانوں کو یا وہ احمق قرار دیتے یا ان کا نام مجنوں رکھتے.یہی دو نام اُنہوں نے مسلمانوں کے رکھے ہوئے تھے مگر دیکھو پھر وہی احمق اور مجنوں دُنیا کے عقلمندوں کے استاد قرار پائے.پس ہماری جماعت جب تک وہی احمقانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق کی احمقانہ قرار دیتے تھے اور ہماری جماعت جب تک وہی مجنونانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کا فر اور منافق مجنونانہ رویہ قرار دیتے تھے اس وقت تک اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر جھوٹ بھی بول لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے
خطبات محمود ۶۸۸ سال ۱۹۳۸ء موقع پر دھوکا فریب بھی کر لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر چالبازی سے بھی کام لیا ج کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر غیبت اور چغلی سے بھی کبھی کبھی فائدہ اُٹھا لیا کرو اور ج پھر یہ امید رکھو کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو یا درکھو تمہیں ہرگز وہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی جس کا وعدہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.یہ چیزیں دُنیا کی انجمنوں میں بیشک کام آیا کرتی ہیں مگر دین میں ان کی وجہ سے برکت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت اُتر ا کرتی ہے.چند دن ہوئے ہمارے سلسلہ کے ایک آدمی نے کسی موقع پر مجھ سے ایک بات کا ذکر کیا جس سے میں یہ سمجھا کہ کسی اور شخص کو جھوٹ بولنے کے لئے کہا گیا تھا.یہ سن کر میری حیرت کی کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ پچاس سال آج ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ہورہے ہیں اور پچاس سال سے یہ تعلیم ہماری جماعت کے کانوں میں ڈالی جارہی ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا.مگر با وجود اس کے میرے سامنے نہایت صفائی سے کہہ دیا گیا کہ فلاں احمدی سے اتنے جھوٹ کی اُمید کی گئی تھی مگر اس نے اتنا جھوٹ بھی نہ بولا.مجھے طبعاً اس پر غصہ آنا چاہئے تھا اور آیا.چنانچہ میں نے کہا احمدیت اور جھوٹ نہایت متضاد چیزیں ہیں.تم اس پر الزام لگاتے ہو اور کہتے ہو کہ اس نے جھوٹ کیوں نہ بولا.حالانکہ میرے نزدیک اس نے بہت بڑی نیکی کا کام کیا ؟ کہ باوجود تحریک کے اس نے جھوٹ نہ بولا.میرے اس کہنے پر وہ نہایت سادگی سے کہنے لگاتی اچھا اگر کوئی غیر احمدی جھوٹ بول دے؟ میں نے کہا اگر کوئی غیر احمدی ہمارے علم کے بغیر ہزاری دفعہ بھی جھوٹ بولتا ہے تو بیشک بول دے لیکن اگر وہ ہمارے اشارہ سے جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ بولنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو لعنت اُترے گی وہ اُس پر پڑے گی اور ہم پر بھی پڑے گی.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر تو کل کوئی آسان نہیں بلکہ بہت بڑا مشکل کام ہے.یہ ایک موت ہے جو انسان کو قبول کرنی پڑتی ہے اور جب تک کوئی شخص موت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس وقت تک اسے تو کل کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا.جب تک انسان کے لئے سہولت اور آرام کا زمانہ رہتا ہے وہ بڑے بڑے دعوے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا کی چاہئے ، جھوٹ نہیں بولنا چاہئے.مگر جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو جھوٹ بول لیتا ہے
خطبات محمود ۶۸۹ سال ۱۹۳۸ء کیونکہ گو وہ مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچا سکتا ہے مگر اسے اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ واقع میں اللہ تعالیٰ اسے بچا سکتا ہے.وہ صرف ایک بات پر عقیدہ رکھتا ہے.اس بارے میں اسے یقین حاصل نہیں ہوتا اور عقیدہ اور چیز ہے اور یقین اور چیز.عقیدہ ایک رسمی چیز ہوتا ہے مگر ایمان اور یقین ذاتی فعل ہیں یہ جو ماں باپ سے لوگ دین سیکھتے ہیں ، یہ صرف عقیدہ ان سے لیتے ہیں، ایمان ان سے نہیں لیتے.ایمان ہر انسان کو خود حاصل کرنا پڑتا ہے.یہ کوئی جائداد نہیں جو انسان کو اپنے ماں باپ سے ورثہ میں مل جائے.دولت ورثہ میں مل سکتی ہے ، مکان ورثہ میں مل سکتا تی ہے، جائداد ورثہ میں مل سکتی ہے مگر ایمان ورثہ میں نہیں مل سکتا.ایمان ہر انسان کو خود کما نا پڑتا ہے چاہے ہزار پشت سے کوئی مؤمن خاندان چلا آ رہا ہو پھر بھی ہزارویں پشت میں جولڑ کا ہوگا اس کو خود ایمان کمانا پڑے گا ورثہ میں اسے نہیں ملے گا.ورثہ میں اسے صرف عقیدہ ملے گا نہ کہ ایمان.ایک مسلمان کا بچہ عقیدہ یہی کہے گا کہ خدا ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں مگر اسے ایمان نہیں کہا جائے گا.ایمان اُس میں تبھی پیدا ہو گا جب وہ کی اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور کر کے اور اس کے نشانات پر تدبر کر کے یہ کہے گا کہ ہاں واقع میں اللہ ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.میں گیارہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ تو فیق عطا فرمائی کہ میں اپنے عقیدہ کو ایمان سے بدل لوں.مغرب کے بعد کا وقت تھا ، ہمیں اپنے مکان میں کھڑا تھا کہ یکدم مجھے خیال آیا.کیا میں اس لئے احمدی ہوں کہ بانی سلسلہ احمد یہ میرے باپ ہیں یا اس لئے احمدی ہوں کہ احمدیت سچی ہے اور یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے.یہ خیال آنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس بات پر غور کر کے یہاں سے ہٹوں گا اور اگر مجھے پتہ لگ گیا کہ احمدیت کچی نہیں تو میں اپنے کمرے میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ یہیں صحن سے باہر نکل جاؤں گا.یہ فیصلہ کر کے میں نے غور کرنا شروع کیا اور قدرتی طور پر اس کے نتیجہ میں بعض دلائل کی میرے سامنے آئے جن پر میں نے جرح کی.کبھی ایک دلیل دوں اور اُسے تو ڑوں پھر دوسری دلیل دوں اور اسے رڈ کروں پھر تیسری دلیل دوں اور اسے توڑوں.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ سوال میرے سامنے آیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے ؟ اور کیا کی
خطبات محمود ۶۹۰ سال ۱۹۳۸ء میں ان کو سچا مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بچے ہیں ؟ یا میں ان کو اس لئے سچا مانتا ہوں کہ مجھ پر دلائل و براہین کی رو سے یہ روشن ہو چکا ہے کہ واقع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم راستباز رسول ہیں ؟ جب یہ سوال میرے سامنے آیا تو میرے دل نے کہا کہ اب میں اس امر کا بھی فیصلہ کر کے ہٹوں گا.اس کے بعد قدرتی طور پر خدا تعالیٰ کے متعلق میرے دل میں سوال پیدا ہوا اور میں نے کہا یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آیا میں خدا تعالیٰ کو یونہی عقیدہ کے طور پر مانتا ہوں یا سچ مچ یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہو چکی ہے کہ دُنیا کا ایک خدا ہے.تب اللہ تعالیٰ کے سوال پر بھی میں نے غور کرنا شروع کیا اور میرے دل نے کہا اگر خدا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچے رسول ہیں اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بچے ہیں تو پھر احمدیت بھی یقیناً کچی ہے اور اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں تو پھر ان میں سے کوئی بھی سچا نہیں اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج میں اس سوال کو حل کر کے رہوں گا اور اگر میرے دل نے کی یہی فیصلہ کیا کہ کوئی خدا نہیں تو پھر میں اپنے گھر میں نہیں رہوں گا بلکہ فوراً با ہر نکل جاؤں گا.یہ فیصلہ کر کے میں نے سوچنا شروع کر دیا اور سوچتا چلا گیا.اپنی عمر کے لحاظ سے میں اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا مگر پھر بھی میں غور کرتا چلا گیا.یہاں تک کہ میرا دماغ تھک گیا.اُس وقت میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اس دن بادل نہیں تھے.آسمان کا جو نہایت ہی مصفی تھا اور ستارے نہایت خوشنمائی کے ساتھ آسمان پر چمک رہے تھے.ایک تھکے ہوئے دماغ کے لئے اس سے زیادہ فرحت افزا اور کونسا نظارہ ہو سکتا تھا.میں نے بھی ان کی ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیا.یہاں تک کہ میں انہی ستاروں میں کھویا گیا.تھوڑی دیر بعد جب پھر میرے دماغ کو ترو تازگی حاصل ہوئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کیسے اچھے ستارے ہیں مگر ان ستاروں کے بعد کیا ہوگا؟ میرے دماغ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ان کے بعد اور ستارے ہوں گے.پھر میں نے کہا ان کے بعد کیا ہوگا ؟ اس کا جواب بھی مجھے میرے دل نے یہی دیا کہ ان کے بعد اور ستارے ہوں گے.پھر میرے دل نے کہا اچھا تو پھر ان کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے پھر یہی جواب دیا کہ اُن کے بعد اور ستارے ہوں گے.میں نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا بھی پھر وہی جواب میرے دل اور دماغ نے دیا کہ کچھ اور
خطبات محمود ۶۹۱ سال ۱۹۳۸ء ستارے ہوں گے.تب میرے دل نے کہا کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے ستارے ہوں.کیا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہو گا ؟ اگر ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا ؟ یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق اکثر لوگ حیران رہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم جو کہتے ہیں کہ خدا غیر محدود ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ اور ہم جو کہتے ہیں خدا ابدی ہے اس کے کیا معنی ہیں ؟ آخر کوئی نہ کوئی حد ہونی چاہئے.یہی سوال میرے دل میں ستاروں کے متعلق پیدا ہوا اور میں نے کہا آخر یہ کہیں ختم بھی ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر ختم نہیں ہوتے تو یہ کیا سلسلہ ہے جس کا کوئی انتہاء نہیں.جب میرا دماغ یہاں تک پہنچا تو میں نے کہا خدا کی ہستی کے متعلق محدود اور غیر محدود کا سوال بالکل لغو ہے.تم خدا تعالیٰ کو جانے دو تم ان ستاروں کے متعلق کیا کہو گے.میری آنکھوں کے سامنے یہ پڑے ہیں اگر ہم ان کو محدود کہتے ہیں تو محدود وہ ہوتا ہے جس کے بعد دوسری چیز شروع ہو جائے.پس سوال یہ ہے کہ اگر یہ محدود ہیں تو ان کے بعد کیا ہے؟ اور پھر اگر وہ بھی محمد ودر ہے تو اس کے بعد کیا ہے؟ اور اگر کہو کہ یہ غیر محدود ہیں تو اگر ستاروں کی غیر محدودیت کا انسان قائل ہوسکتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کا کیوں قائل نہیں ہوسکتا.تب میرے دل نے کہا کہ ہاں واقع میں خدا موجود ہے کیونکہ اس نے قانونِ قدرت میں وہی اعتراض رکھ دیا ہے جو اس کی ذات پر پیدا ہوتا ہے اور اس نے بتا دیا ہے کہ تم مجھے غیر مرئی چیز سمجھ کر اگر یہ اعتراض کرتے ہو تو پھر وہ چیزیں جو تمہیں نظر آ رہی ہیں ان کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے؟ جبکہ وہی اعتراض جو تم مجھ پر کرتے ہو ان پر بھی عائد ہوتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں.تم خدا تعالیٰ کے متعلق تو بے تکلفی سے یہ کہہ دو گے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ غیر محدود ہے؟ مگر کیا یہ ستارے غیر محدود نہیں؟ اگر ہیں تو غیر محدود کی تمہیں سمجھ آگئی اور اگر محدود ہیں تو پھر ان کے بعد کیا ہے؟ اور اس کے بعد کیا ہے؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ فضائے آسمانی میں غیر محدو د سیارے اور ستارے ہیں تو خدا تعالیٰ پر سے اعتراض دور ہو گیا اور اگر یہ محدود ہیں تو اس محدود کا مُحمّد کون ہے؟ اور جب اس کا مُحدّد خدا ہے تو خدا کا وجود ثابت ہو گیا.تب میں نے سمجھا کہ وہ اعتراض ہی غلط ہے جو خدا تعالیٰ کے متعلق کیا جاتا ہے اور میں نے یقین کیا کہ وہ
خطبات محمود ۶۹۲ سال ۱۹۳۸ء موجود ہے اور جب مجھے یہ یقین حاصل ہو گیا کہ وہ موجود ہے تو میں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خدا کے رسول ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ ان کی اتباع کئے بغیر کوئی شخص نجات حاصل کر سکے اور کی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر مجھے یقین پیدا ہوا تو میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بچے ہیں اور یقیناً ہمارا سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے.تب اس فیصلہ کے بعد گیارہ ساڑھے گیارہ بجے میں اپنے بستر پر لیٹا.تو ایمان انسان کو خود حاصل کرنا می پڑتا ہے مگر عقیدہ انسان کو ورثہ میں بھی مل جاتا ہے لیکن عقیدہ نفع نہیں دیتا.اگر دیتا ہے تو ایمان ہی دیتا ہے.یہی وجہ ہے کے جو لوگ اپنے بچوں کے اندر ایمان پیدا نہیں کرتے محض عقا ئد سکھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں ان کی نسلوں میں سے دین آخر مٹ جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں چونکہ ان کو یہ رٹا دیا گیا ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.اس لئے دین ان کی کے اندر داخل ہو گیا.حالانکہ یہ عقیدہ ہے جو وہ انہیں سکھاتے ہیں ایمان تب ہی پیدا ہو سکتا ہے جب وہ خود غور کریں اور اپنے طور پر فیصلہ کریں کہ واقع میں یہ باتیں صحیح ہیں.کئی لوگ میرے جی پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے اپنی اولا د خدمت دین کے لئے وقف کر دی ہے.میں انہیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ جَزَاكُمُ الله آپ کو اس کا ثواب ہو گیا مگر اپنے آپ کو وقف کرنا بیٹے کا کی کام ہے باپ کا نہیں.باپ اگر کہہ بھی دے کہ میں اپنے بیٹے کی زندگی وقف کرتا ہوں مگر بیٹا یہ کہے کہ میں دُنیا کماؤں گا تو ہم ایسے وقف سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اگر ایسے شخص کو زبر دستی دین کے کام پر لگایا بھی جائے گا تو دین میں رخنہ پیدا ہونے کے سوا اور کیا ہوگا.تو اگر کوئی شخص کی اپنے بچہ کے متعلق یہ کہے کہ میں اسے وقف کرتا ہوں تو میں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ جَزَاک اللہ مگر وقف کا زمانہ اس کا اسی وقت سے شروع ہو گا جب یہ خود جوان ہو کر کہے گا کہ میں اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرتا ہوں.تو ایمان اور ذاتی طور پر کسب کئے ہوئے یقین کے بغیر دُنیا میں کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ رسمی طور پر جو باتیں عقائد میں شامل ہوتی ہیں وہ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں.پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کرے اور ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھے کہ اس نے اپنی اولادوں کے اندر یقین اور وثوق پیدا کرنا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کی
خطبات محمود ۶۹۳ سال ۱۹۳۸ ہماری جماعت میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو عقائد بھی پوری طرح اپنی اولا دکو نہیں سکھاتے اور جب انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ اُن کے عقائد کیا ہیں تو انہوں نے دنیا میں کرنا کیا ہے؟ اس میں کوئی طبہ نہیں کہ عقیدہ خود اپنی ذات میں کوئی بڑی چیز نہیں مگر کم سے کم وہ ایک چھوٹا سہارا ضرور ہے اور ایمان کے حصول کا پہلا زینہ ہے تو دینی معاملات میں ترقیات ان ذرائع کو اختیار کئے بغیر نہیں ہوسکتیں جو اللہ تعالیٰ نے دینی ترقی کے لئے ضروری قرار دیئے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے پورے طور پر اس نقطہ کو نہیں سمجھا.حالانکہ جب تک ہماری جماعت پورے طور پر اس امر پر قائم نہیں ہو جاتی کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم نے جھوٹ نہیں بولنا ، ہم نے دھوکا اور فریب سے کام نہیں لینا.ہم نے کامل طور پر خدا تعالیٰ پر توکل کرنا اور اسی کے احکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا ہے اس وقت تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.میں کئی سال کی سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بولتے یا بلواتے ہیں.اگر ہماری جماعت جھوٹ کو ہی کلیہ چھوڑ دے تو یہ ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہو کہ دشمن سے دشمن بھی ہمارے اخلاق کی فوقیت کو تسلیم کئے بغیر نہ رہے.اسی طرح فریب، دغا، منافقت یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو قوم کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیتی ہیں لیکن اگر ہم قربانی اور ایثار سے کام لیں اور ہمارے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں تو یقیناً ہماری جماعت کی عظمت تمام لوگوں کے دلوں میں قائم ہو جائے کیونکہ سچی قربانی اور نیک اخلاق ہی ہیں جو کسی قوم کی عظمت کو دُنیا میں قائم کیا کرتے ہیں.ورنہ خالی منظم ہونا اور ایک جماعت میں شامل ہونا کوئی بڑی بات نہیں.یہ تو دُنیا دار انجمنوں میں بھی ہوتا ہے.وہ بھی منتظم ہوتی ہیں اور وہ بھی ایک جماعتی رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں.پس روحانی سلسلہ کے قیام کی اصل غرض تنظیم نہیں ہوتی بلکہ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اس جماعت کے افراد سلسلہ کی تعلیم کے زیر اثر جھوٹ سے بچیں، فریب سے کام نہ لیں ، دعا اور منافرت کو چھوڑ دیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ، اسی پر توکل کریں ، اس کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اگر یہ باتیں لوگوں میں پیدا نہیں ہوتیں تو محض تنظیم اور نظام اور خلافت پر ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ اس تنظیم کا وہ روحانی نتیجہ نکل سکتا ہے جو
خطبات محمود ۶۹۴ سال ۱۹۳۸ء نماز ، روزہ اور دوسرے احکام شرعیہ کا روحانی نتیجہ ہے.روحانی نتیجہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب نظام کو خادم سمجھا جائے.دُنیا اور دین میں یہی فرق ہے کہ دُنیا کے لوگ نظام کو اصل چیز قرار دیتے ہیں اور دیندار لوگ نظام کو اصل چیز کے حصول کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں.چونکہ دُنیا خالص نظام سے مل جاتی ہے اس لئے نظام ان کی نظروں میں بہت بھاری ہوتا ہے اور اس کی وقعت ان کے دلوں پر غالب ہوتی ہے لیکن روحانی انعامات محض نظام کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکتے بلکہ ان انعامات کے حصول کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اُن روحانی ہتھیاروں کو استعمال کرے جو خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں.میں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آ گیا ہے جب اسے اپنی نیند چھوڑ دینی چاہئے اور غفلت اور سستی کو ترک کر کے پوری ہوشیاری اور بیداری سے کام کرنا چاہئے کیونکہ دُنیا میں پھر تباہی کے آثار نظر آ رہے ہیں.لوگ پھر لڑنے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں.حکومتیں پھر جنگوں کے میدان میں گودنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں اور ہم جن کے لئے خدا تعالیٰ یہ تمام میدان صاف کر رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کر رہے.اگر دُنیا میں اب دوبارہ کوئی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتائج بنی نوع انسان کے لئے نہایت ہی خطرناک ہوں گے.تباہی کے سامان جو آج پیدا ہیں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئے.بیشک آج کل بھی بعض جنگیں ہو رہی ہیں اور لوگ ان پر قیاس کرتے ہوئے مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جنگوں سے تو کوئی زیادہ تباہی کی نہیں ہوتی لیکن زیادہ تباہی نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ابھی تک حکومتیں اپنے سامانِ حرب کو چھپائے ہوئے ہیں.اگر آج وہ اپنے تمام سامانوں کو ظاہر کر دیں تو ان کے دشمن اس کوشش میں لگ جائیں کہ ان کا کیا علاج ہے.مثلاً اگر سپین کی جنگ میں ہی اٹلی اور جرمن والے اپنے تمام ہتھیار ظاہر کر دیتے تو دوسری قومیں یکدم سپین کے معاملہ میں دخل دے دیتیں اور کہتیں کہ اتناظلم مت کرو اور ان کے موجد اس بات میں مشغول ہو جاتے تاکہ ان ہتھیاروں کے مقابلہ میں انہیں کون سے ہتھیار تیار کرنے چاہئیں اور اس طرح اصل جنگ سے سال دو سال پہلے وہ ان کا توڑ تجویز کر لیتے یا مثلاً فرانسیسیوں نے تباہی کی جو جو چیزیں ایجاد کی ہوئی ہیں اگر وہ ی معمولی معمولی جنگوں میں ان کو ظاہر کر دیں تو دشمن ضرور ہوشیار ہو جائے اور وہ ان کا علاج
خطبات محمود ۶۹۵ سال ۱۹۳۸ء سوچنے میں مشغول ہو جائے یا انگریز اگر ان چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر جو سرحد میں لڑی جاتی ہیں کہ اپنے تمام ہتھیاروں کو ظاہر کر دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ سب دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ انگریزوں نے کون کون سی تباہی بر پا کرنے والی چیزیں ایجاد کی ہوئی ہیں اور اس طرح انگریزوں کے دشمن ان کا علاج سوچنے میں مصروف ہو جائیں.پس تباہی کے سامان تو نکلے ہوتے ہیں مگر اس وقت حکومتیں ان سامانوں کو چھپائے ہوئے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ ان سامانوں کو اسی دن ظاہر کریں جس دن ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ایسے خطرناک سامان تیار ہو چکے ہیں کہ ان کا خیال کر کے ہی انسان کانپ اُٹھتا ہے.ایسے سینیا میں ایک جگہ اٹلی والوں نے ذراسی اس کی نمائش کی تھی اور مسٹر ڈ گیس MUSTARD GAS) ایسے سینیا کی فوج پر پھینکی تھی.اس وقت اٹلی کی فوج ایسے سینیا کی فوج سے شکست کھا رہی تھی مگر مسٹر ڈ گیس پھینک کر انہوں نے جنگ کی کایا پلٹ دی.ہمارا ایک احمدی ڈاکٹر ان دنوں وہیں موجود تھا.اُس نے وہاں کے چشم دید حالات لکھ کر بھیجے تھے جنہیں پڑھ کر دل رحم سے بھر جاتا تھا.جس وقت ایسے سینیا کی فوج غلبہ کے خیال میں مست ہو کر آگے کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی یکدم اٹلی والوں نے مسٹر ڈ گیس پھینکنی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ پاگلوں کی طرف ادھر اُدھر بھاگنے لگ گئے.خود ایسے سینیا کا بادشاہ بھی پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگتا پھرتا تھا اور اس کا تمام جسم چھالے چھالے ہو گیا.مسٹر ڈ گیس ایک نہایت ہی زہریلی گیس ہوتی ہے.واللہ اَعْلَمُ.ابھی اور کتنی زہریلی گیسیں ہیں جو ان لوگوں نے تیار کر رکھی تج ہیں.کتابوں میں تو اس گیس کے متعلق میں نے پڑھا ہی تھا.تھوڑے دن ہوئے ایک دوست نے جنہیں اس گیس کا اچھی طرح علم تھا سنا یا کہ یہ گیس اس قسم کی ہوتی ہے کہ اس کے گرتے وقت یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ گیس گر رہی ہے مگر جسم کے اندر معا گھس جاتی ہے، تمام بدن پر چھالے پڑ جاتے ہیں ، کھانسی ہو جاتی ہے ، سینہ میں زخم پڑ جاتے ہیں اور انسان کے اندر آگ بھی لگ جاتی ہے.ایک ایک فٹ کی موٹی چھت بھی اگر ہو تو یہ گیس اس کے اندر گھس جاتی ہے اور چھت پھاڑ کر اندر آ جاتی ہے اور اس سے بچنے کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ انسان اپنے تمام جسم پر ربڑ لپیٹ لے اور چونکہ یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس وقت گیس گر رہی ہے یا نہیں اس لئے اس کا علم
خطبات محمود ۶۹۶ سال ۱۹۳۸ء اُسی وقت ہوتا ہے جب انسان اس گیس کے زہریلے اثر کے نتیجہ میں مرنے لگتا ہے.پھر یہ گیس سیال ہے اُڑتی نہیں.اگر کسی کمرے میں پڑی ہو تو بعض دفعہ سال سال پڑی رہتی ہے.انسان یہ سمجھتا ہے کہ کمرہ بالکل صاف ہے اور سمجھتا ہے کہ پچھلے سال دشمن نے اس علاقہ میں یہ گیس پھینکی تھی اب وہ گیس کہاں باقی ہے مگر جونہی وہ اس کمرہ میں داخل ہوتا ہے اس کا شکار ہو جاتا ہے.اسی طرح گڑھوں اور تالابوں میں یہ گیس ایک مدت دراز تک پڑی رہتی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ اس علاقہ میں مسٹر ڈگیں نہیں مگر اتفاقاً جب اس گڑھے سے کوئی جانور پانی پینے لگتا ہے یا انسان اس میں گھستا ہے تو گیس اس پر اپنا اثر پیدا کر کے اسے پاگل بنا دیتی اور بالآخر بلاک کر دیتی ہے.غرض یہ ایک نہایت ہی خطر ناک گیس ہے.اگر یہی گیس ہوائی جہاز سپرے (Spray) کرتے چلے جائیں تو ملکوں کے مُلک وہ اسی ایک گیس سے تباہ کر سکتے ہیں اور کوئی کچ اس کا علاج نہیں کر سکتا.گاؤں والے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں اور ہوائی جہاز ان کے اوپر سے اس گیس کو سپرے کرتے چلے جائیں تو آدمی اور جانور سب کھانس کھانس کر مر جائیں گی گے اور ان کے جسم پر آبلے ہی آبلے اُٹھ آئیں گے.اسی طرح ایسی شعاعیں ایجاد ہوئی ہیں جن کی مدد سے دور بیٹھے ہی ہوائی جہازوں اور تو پوں کو چلا یا جا سکتا ہے.ایسی شعاعیں ایجاد ہوئی ہیں جن کو پھینک کر دور بیٹھے ہی انسان ہوائی کی جہازوں کو گرا سکتا ہے.ایسے ایسے گولے نکلے ہیں جنہیں اگر ہوائی جہازوں کے ذریعہ شہروں اور دیہات پر گرا دیا جائے اور ان کے کنوؤں میں انہیں پھینک دیا جائے تو یکدم ٹائیفائیڈ اور ہیضہ تمام ملک میں پھیل جائے.غرض ایسی ایسی خطر ناک تباہی کے سامان ایجاد ہو چکے ہیں کہ جس وقت بڑی قوموں میں لڑائی شروع ہوئی اس وقت لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کا ایک ایک دن میں مر جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی بلکہ انہی سامانوں سے اگر کوئی حکومت چاہے تو سارے ہندوستان کا دو تین دن میں صفایا کر سکتی ہے.اس قدر خطر ناک سامانوں کی موجودگی کیا تعجب ہے کہ ہماری ان دعاؤں کا ہی نتیجہ ہو جو ہم نے گزشتہ سالوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور کیں مگر سوال یہ ہے کہ اس تباہی کے نتیجہ میں اسلام کی شوکت اور عظمت کے جو سامان پیدا ہوں گے ان سے فائدہ اُٹھانے کی ہم کیا کوششیں کر رہے ہیں.میرے سامنے اس وقت دو تین ہزار
خطبات محمود ۶۹۷ سال ۱۹۳۸ء مرد اور عورت بیٹھے ہیں.مرد میرے سامنے ہیں اور عورتیں پردہ کے پیچھے.تم میں سے کتنے ہی ہیں جنہیں جب کہا جاتا ہے کہ تبلیغ کرو تو وہ آگے سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم غیر تعلیم یافتہ ہیں.تم کی مجھے بتاؤ کہ صحابہ میں سے کتنے تعلیم یافتہ تھے.سارے مکہ میں صرف سات پڑھے لکھے شخص تھے مگر اب جو دین نظر آ رہا ہے یہ انہی ان پڑھوں کی کوششوں اور مساعی کا نتیجہ ہے اور وں کو جانے دو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود ان پڑھ تھے پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم اَن پڑھ ہیں اس لئے دین کو سمجھنے اور اس کو پھیلانے کی طرف توجہ نہیں کر سکتے.پھرمیں باہر کی جماعتوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ مجھے جواب دیں کہ وہ کیا قربانیاں کر رہے ہیں.ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں سہارا دینا پڑتا ہے مثلاً چندے کا سوال آئے گا تو ایک دفعہ تو چندہ دیں گے مگر پھر دو تین سال بالکل خاموش رہیں گے اور دو تین سال گزرنے کی کے بعد ہمارے پاس آ کر کہیں گے میری توبہ میری تو بہ.گزشتہ بقایا مجھے معاف کیا جائے آئندہ کی میں با قاعدہ چندہ دیا کروں گا.پھر انہیں بقایا معاف کر دیا جاتا ہے تو ایک دفعہ چندہ دے دیں گے اور پھر تین چار سال تک کچھ نہیں دیں گے اور جب ان پر اسی طرح تین چار سال اور گزر جائیں گے تو پھر ہمارے پاس آجائیں گے اور کہیں گے میری تو بہ میری تو بہ.میں بڑا جاہل تھا بڑا بیوقوف تھا، بڑا احمق تھا.میں نے اتنے عرصہ تک کوئی چندہ نہ دیا.اب خدا کے لئے مجھے کی پچھلا چندہ معاف کیا جائے.آئندہ انشاء اللہ اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہو گی.پھر ہم انہیں کی معاف کرتے ہیں تو وہ پھر غافل اور سُست ہو جاتے ہیں.یہی نمازوں کا حال ہے.کچھ دن درد سے نمازیں پڑھیں گے مگر پھر ان میں سستی پیدا ہو جائے گی اور بعض تو بالکل نماز ترک کر بیٹھیں گے اور بعض جو پڑھیں گے وہ چٹی سمجھ کر پڑھیں گے.یہی سچ کا حال ہے.خطبہ سنیں گے تو کہیں گے لو جی اب ہم ہمیشہ سچ بولیں گے اور کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں جائیں گے چنانچہ اس کے مطابق وہ دو تین دن سچ کا چوغہ پہن کر پھرتے رہیں گے مگر اس کے بعد وہ سچ کا چوغہ اُتار کر بکس میں بند کر کے رکھ دیں گے.گویا وہ ڈرتے ہیں کہ یہ اچھا لباس کہیں پہن پہن کر تی خراب ہی نہ ہو جائے.تو دین کے معاملہ میں استقلال جو کامیابی کی ایک بھاری شرط ہے وہ جماعت میں مفقود
خطبات محمود ۶۹۸ سال ۱۹۳۸ء ہے إِلَّا مَا شَاءَ اللہ.پھر ایک اور طبقہ ہے جو افیم کھائے ہوئے مریض کی طرح ہے جسے ہر وقت جگانا پڑتا ہے.تحریک جدید کا کام عارضی اور مجموعی ہے مگر اس میں بھی سستی پیدا ہو گئی ہے.میں نے اس تحریک کے ابتداء میں یہ شرط کر دی تھی کہ اس میں وہی شخص حصہ لے جو اپنی خوشی اور مرضی سے اس میں شامل ہونا چاہے.کسی پر اس کے متعلق جبر نہیں کیا گیا مگر میں دیکھتا ہوں تین سال تو دوستوں کا جوش قائم رہا مگر اب چوتھے سال اس میں بھی کمزوری نظر آ رہی ہے.حالانکہ اس سال تیسرے سال سے کم چندہ دوستوں کے ذمہ لگایا گیا ہے مگر پھر بھی پچپن ہزار کے قریب رو پیدا بھی وصول ہونا باقی ہے.گویا ساٹھ فیصدی چندہ تو وصول ہو ا ہے مگر چالیس فیصدی چندہ ابھی وصول ہونا باقی ہے.یہ امر بتا رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے طوعی طور پر اس چندہ میں شرکت کی تھی اور باوجود اس کے کہ ان پر کوئی جبر نہیں کیا گیا پھر بھی وہ ایسے تھے جن کے بدن میں اپنے قول کو پورا کرنے کی ہمت نہیں تھی.گویا ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں سوگز واروں دس گز نہ پھاڑوں یعنی جب نام لکھانا پڑے تو اس وقت کہہ دیا کہ میں سو گز کپڑا قربان کر دوں گا مگر جب دینا پڑے تو ایک گز بھی نہیں دیتے حالانکہ تین سال یا سات سال انسانی عمر کے مقابلہ میں چیز ہی کیا ہیں.معمولی معمولی بنوں پر زمیندار آپس میں لڑ پڑتے اور دس دس سال کی قید کاٹ کر آ جاتے ہیں.پس اگر زمیندار ایک کھیت کی منڈیر پر دس سال کی قید بخوشی برداشت کر لیتے ہیں اور وہ ان سالوں کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے تو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے دس سال قربانی کرنا کون سی بڑی بات ہے.بالخصوص جب کہ میں نے بارہا کہہ دیا ہے کہ یہ طوعی قربانی ہے اور اس میں وہی حصہ لے جو اس کی ادائیگی کا اپنی خوشی سے اقرار کرے.یہ کوئی جبری سکیم نہیں کہ ہر شخص کو ہم اس میں حصہ لینے پر مجبور کریں.ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ جس میں اسے برداشت کرنے کی ہمت نہیں وہ مت آئے.صرف وہی آگے بڑھے جو اپنی مرضی سے اس میں حصہ لے مگر افسوس ہے کہ اس میں بھی سُستی آ گئی.میں نے اس کے لئے سیکرٹری بھی مقرر کئے تھے مگر وہ بھی افیمی طرز کے سیکرٹری معلوم ہوتے ہیں کہ سیکرٹری تو بن گئے ہیں مگر کام کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں.یہی حال دوسرے کاموں کا ہے.حالانکہ اب دُنیا پر ایک ایسا نازک وقت آچکا ہے کہ دُنیا میں عنقریب بہت بڑا تغیر ہونے والا ہے.تین سال
خطبات محمود ۶۹۹ سال ۱۹۳۸ء ہوئے میں نے کہا تھا کہ دس سال کے اندر دُنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہوگا اور ابھی میری کی اس بات پر صرف تین سال گزرے ہیں کہ اس تغیر کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہیں.اب اگر دُنیا میں لڑائی شروع ہوئی تو یقینا سمجھ لو کہ اس لڑائی کے بعد کی دُنیا وہ دُنیا نہیں ہوگی جواب ہے بلکہ بالکل بدلی ہوئی دُنیا ہو گی.ہزاروں ایجاد میں ممکن ہے دُنیا سے مٹ جائیں کیونکہ ان ایجادات کے موجد دُنیا سے مٹ جائیں گے.ہزاروں کارخانے ممکن ہے دُنیا سے مٹ جائیں کیونکہ ان کارخانوں کو چلانے والے دُنیا سے مٹ جائیں گے.دُنیا کے سامنے ایک ایسی کی خطر ناک تباہی نظر آ رہی ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگی نہ انفلوائنزا اس تباہی کا مقابلہ کر سکتا ہے، نہ طاعون اس تباہی کا مقابلہ کر سکتی ہے، نہ گزشتہ جنگ عظیم اس تباہی کا مقابلہ کر سکتی ہے کیونکہ طاعون اور انفلوائنزا ایک ایک آدمی کو پکڑتے ہیں مگر اس جنگ کے ذریعہ ایک کو نہیں بلکہ شہروں کے شہروں کو یکدم برباد کیا جاسکتا ہے.بالکل ممکن ہے وہ بڑے بڑے شہر جن میں تمھیں تمھیں ، کی چالیس چالیس لاکھ کی آبادی ہے، ایک دن آدمیوں سے بھرے ہوئے ہوں مگر دوسرے دن تمہیں یہ اطلاع ملے کہ اس شہر میں ایک آدمی بھی باقی نہیں رہا سب مار دیئے گئے ہیں.گویا ملک الموت کی حکومت دنیا میں ہونے والی ہے اور خدا اُسے کھلی ڈھیل دینے والا ہے.دُنیا کے بعید ترین علاقوں کے لوگ بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں.تم خیال کرتے ہو کہ ہم ہندوستان کے کی رہنے والے ان حملوں سے محفوظ ہیں مگر یہ درست نہیں.دو دو، تین تین ہزار میل کی پرواز کرنے والے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں.اٹلی اور ایسے سینیا سے ہوائی جہاز آ کر پنجاب اور سندھ پر گولہ باری کر سکتے ہیں اور جاپان کے ہوائی جہاز چین کے راستوں سے آ کر مدراس، بنگال اور برما کو تباہ کر سکتے ہیں.پس مت سمجھو کہ تم محفوظ جگہوں میں ہو.اس وقت ایسی زبر دست تباہی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ کسی انسان کی زندگی بھی محفوظ نہیں.جب انسانی زندگی کے خون کی اس قدر ارزانی ہو رہی ہے اور جب زندگی کا کوئی اعتبار ہی نہیں رہا تو کیوں نہ اس زندگی کو ی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے خرچ کیا جائے.اگر آج تم اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرو گے تو کل کی والی دُنیا کو خدا تمہارے سپر د کر دے گا لیکن اگر آج تم نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کی تو نہ معلوم تمہاری جگہ کل خدا تعالیٰ کس قوم کو کھڑا کر دے گا جو ان سامانوں سے فائدہ اُٹھائے گی جو ا
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کئے تھے.بیشک خدا تعالیٰ کے کام ہو کر رہیں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے مگر کیسا بد قسمت ہے وہ شخص جس کی خدا تعالیٰ دعوت کرے مگر کوئی اور اس کو آ کر کھا جائے اور وہ اس سے محروم رہے.پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور اس کے لئے ایثار اور قربانی کر کے العواد اسْجُدُوا وَاعْبُدُوا ربکم کے مقام پر کھڑے ہو جاؤ اور وافعلوا الخير کا جامہ پہن لو تعلّكُمْ تُفْلِحُونَ تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ مگر یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اپنی پہلی زندگی پر ایک موت وارد نہ کرو.پس اپنے اخلاق میں انتہاء درجہ کی تبدیلی پیدا کرو، اپنے افکار میں انتہاء درجہ کی تبدیلی پیدا کرو ، اپنے اموال کی انتہاء درجہ کی قربانی کرو، اپنے اوقات کی انتہاء درجہ کی قربانی کرو تب تم یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکو گے.باتیں تو میں بتا سکتا ہوں مگر عمل کرنا تمہارا کام ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے قرآن سمجھایا ج ہے اور میں وہ تمہیں سُنا دیتا ہوں مگر یہ میرے بس کی بات نہیں کہ میں ان باتوں پر تم سے عمل بھی کی کر والوں.یہ خدا نے تمہارے اختیار میں رکھا ہے کہ تم ان باتوں سے فائدہ اُٹھاؤ.اگر تم ان باتوں سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو خدا تعالیٰ تمہارے لئے ترقیات کے سامان پیدا کر دے گا اور وہ تم پر رحم کرے گا اور اگر تم ان باتوں پر عمل نہیں کرو گے تو باقی دنیا پر اگر ایک جرم ثابت کیا جائے گا تو تم پر دو جرم ثابت کئے جائیں گے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر تم عمل کرو گے تو خدا تعالیٰ کے کی فضل کے دروازے بھی تم پر دوہرے طور پر کھولے جائیں گے.بعد میں جو لوگ آئیں گے انہیں ایک ثواب ملے گا مگر تمہیں دو ہرا ثواب ملے گا کیونکہ وہ اس وقت آئیں گے جب دین ترقی کر چکا ہوگا اور تم اس وقت دین کی خدمت کر رہے ہو جب ہزاروں گالیاں تمہیں دشمنوں کی طرف سے سننی پڑتی ہیں.پس تمہارے لئے برکتوں کے دروازے بھی کھلے ہیں اور لعنتوں کی کے دروازے بھی کھلے ہیں.تمہارے سامنے تریاق کا پیالہ بھی پڑا ہے اور تمہارے سامنے زہر کا پیالہ بھی پڑا ہے.اگر تم چاہتے ہو تو قر بانیوں کے میدان میں اپنا قدم آگے سے آگے بڑھا کر کی تریاق کے پیالہ کو پی جاؤ اور ابدی زندگی کے وارث بن جاؤ اور اگر چاہتے ہو تو زہر کا پیالہ پی کر اس کی ابدی لعنت اور عذاب کے مورد بن جاؤ اور اس کی برکتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاؤ.پس یہ تمہارے اپنے اختیار کی بات ہے اس میں نہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اور نہ کوئی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ اور مدد کر سکتا ہے.خدا بیشک مدد کر سکتا ہے مگر وہ کرتا نہیں اس کا فیصلہ یہی ہے کہ بندہ خود اپنا کی راستہ پچھنے.پھر جس راستہ کو وہ چن لیتا ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس سے سلوک کرتا ہے.“ الحج: ۷۹،۷۸ الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۳۸ء ) ترمذی ابواب صفة جهنم باب ماجاء ان......نفسين التوبة: ١٠٠ کتاب البریہ صفحہ ۱۷ حاشیہ نیا تذکرۃ الاولیاء از رئیس احمد جعفری صفحه ۳۵ دارا: اصل نام دار پوس.ایران کا عظیم شہنشاہ اور فاتح.دور حکومت ۴۸۶ تا ۲۱ ۵ ق م.ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء فى اصحاب النبی صلی الله عليه وسلم و ابواب شمائل ترمذی باب ماجاء في عيش النبي صلى الله عليه وسلم تاريخ الخلفاء السیوطی صفحه ۸ مستدرک حاکم جلد ۳ صفحه ۴۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء 1 تاريخ الخلفاء للسیوطی صفحه ۱ ۵ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
خطبات محمود ۷۰۲ ٣٢ سال ۱۹۳۸ سچائی اور خلوص سے شہرت دوام اور کامیابی حاصل ہوتی ہے (فرموده ۲۳ /ستمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ایک مسلمان دن میں چالیس پچاس مرتبہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) صِرَاطَ الّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لے کہتا ہے.جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ابھی مجھے سیدھے رستہ کی ضرورت ہے اے خدا! تو مجھے سیدھا رستہ دکھا یعنی وہ اقرار کرتا ہے اور اظہار کرتا ہے اور اصرار سے اظہار کرتا اور بار بار اقرار کرتا ہے کہ اسے سیدھے رستہ سے محبت ہے ، وہ سیدھا رستہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اسے مل جائے تو اسے قبول کرے گا.یہ کتنی پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی خواہش ہے اگر یہ سچی ہو.دنیا کی ساری خوبیاں اور بھلائیاں اور اچھائیاں اس کے اندر آ جاتی ہیں اور اس میں کیا محبہ ہے کہ جو شخص سچے دل کے ساتھ یہ خواہش رکھتا ہے وہ دنیا میں چلتا پھرتا جنتی اور ولی اللہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کچی خواہش رکھتا ہے یا نہیں.کو نسا شخص دنیا میں ہے اور کس مذہب کا ہے کہ جو اس قسم کی سچی خواہش کو سن کر متاثر نہ ہو گا.مسلمانوں کو جانے دو یہ فقرہ کسی ہندو، سکھ ، عیسائی ، یہودی کے سامنے رکھ دو کہ ایک شخص دن رات اس خواہش میں تڑپ رہا ہے اور دعائیں کرتا ہے کہ اے خدا ! مجھے سیدھا رستہ دکھا اور وہ اس سیدھے راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو پھر بغیر اس بات کا انتظار کئے کہ اسے یہ رستہ مل گیا ہے یا نہیں ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ شخص بڑا نیک اور
خطبات محمود ۷۰۳ سال ۱۹۳۸ بڑا بزرگ ہے.تو اس قسم کی مجرد خواہش ہی اعلیٰ چیز سمجھی جاتی ہے گجا یہ کہ وہ پوری بھی ہو جائے.تڑپ اور جوش اپنی ذات میں ہی نیکی ہوتے ہیں.محبوب اپنے محب کی بات سنے یا نہ سنے ، مطلوب ملے یا نہ ملے، طالب کے دل میں اسے پانے کی تڑپ کا موجود ہونا اپنی ذات میں بہت اعلیٰ اور مبارک بات ہے.جس طرح دنیا میں بڑے بڑے کامیاب آدمی مشہور ہوتے ہیں ہزاروں سال ان کا نام دنیا میں چلتا ہے اسی طرح کچی تڑپ رکھنے والے نا کام بھی مشہور ہوتے ہیں.سکندر دنیا میں مشہور ہے اس نے معلومہ دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا ہزار ہا سال گزر چکے ہیں.دو ہزار سے زیادہ لیکن آج تک اس کا نام دلوں سے محو نہیں ہوا.رستم ایک پہلوان تھا بادشاہ نہ تھا مگر کامیاب زندگی بسر کرنے اور دشمنوں کو مغلوب کرنے کی وجہ سے جو لوگ اس کی حقیقت سے قطعاً واقف نہیں وہ بھی اس کا نام لیتے ہیں.جب کوئی بڑے دعوے کرے تو کہتے ہیں بڑا رستم آیا ہے حالانکہ کہنے والے کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ رستم کون تھا اور کہاں کا رہنے والا تھا.حاتم نیک کاموں کی وجہ سے اتنا مشہور ہے کہ مخلوق میں سے ایک بڑے حصہ کی زبان پر اس کا نام ہے کوئی بڑا سخی ہو تو کہتے ہیں یہ تو حاتم زماں ہے اور اگر کوئی تھوڑی سی سخاوت کے بعد بڑے بڑے دعوے کرنے لگے اور اس پر فخر کرے تو کہتے ہیں کہ اس نے حاتم کی قبر پر لات ماری ہے.تو یہ لوگ کامیاب تھے اور اپنے اپنے خاص فن یعنی کوئی بہادری، کوئی سخاوت اور کوئی فتوحات میں نمایاں تھے اور اس وجہ سے مشہور ہیں مگر جس طرح یہ مشہور ہیں اسی طرح بعض نا کام بھی مشہور ہیں.جس طرح دنیا رستم ، سکندر اور حاتم کا نام لیتی ہے اسی طرح بلکہ شاید اس سے زیادہ مجنوں کا نام لیتی ہے گوی وہ کامیاب نہیں تھا.وہ ایک عورت کی وجہ سے دیوانہ ہوا اور اسی وجہ سے مجنوں کہلایا.اس کا نام قیس تھا اس نے ایک عورت کی خواہش کی مگر اسے حاصل کئے بغیر ہی مر گیا اور اپنی معشوقہ سے شادی کا موقع اسے نہ مل سکا مگر دنیا میں جس طرح سکندر کا نام مشہور ہے اسی طرح قیس کا ہے بلکہ ہندوستان میں سکندر کا نام جاننے والے کم اور قیس کا عرف جاننے والے زیادہ ملیں گے.اپنے صوبہ میں دیکھ لو کتنے لوگ سکندر کا نام جانتے ہیں اور کتنے رانجھا کا حالانکہ وہ کامیاب
خطبات محمود ۷۰۴ سال ۱۹۳۸ء نہ تھا.اس کی کہانی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وہ نا کام تھا مگر باوجود اس ناکامی کے اس کا نام آج تک قائم ہے.یہی حال فرہاد کا ہے اس کا نام غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ مشہور نہیں مگر تعلیم یافتہ طبقہ میں وہ ایسا ہی مشہور ہے جیسا سکندر، رستم یا مجنوں.حالانکہ وہ بھی نا کام تھا.ان لوگوں کے نام کا میاب لوگوں کی طرح کیوں مشہور ہیں اسی لئے کہ انہوں نے اپنے دل میں سچی تڑپ پیدا کی گوا سے پورا کرنے کے قابل نہ ہو سکے مگر انہوں نے اپنی تڑپ کو نہ چھوڑا.تو استقلال کے ساتھ مقصود کی طلب میں لگے رہنا اپنی ذات میں کامیابی ہے اور ایسی ہی کامیابی ہے جیسے فتوحات حاصل کرنا.اگر یہ بڑی چیز نہ ہوتی تو کامیاب لوگوں کے ساتھ ان ناکاموں کے نام مشہور نہ ہوتے مگر بنی نوع انسان کا یہ فیصلہ ہے اور متفقہ فیصلہ کہ جس مقام پر کامیاب لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے اسی پر سچی تڑپ رکھنے والے نا کام بھی بٹھائے جاتے ہیں اور صحیح فیصلہ وہی ہوتا ہے جو لوگ کرتے ہیں ، اپنے متعلق اپنا فیصلہ صحیح نہیں سمجھا جاتا.ہر ڈاکٹر یہی سمجھتا ہے کہ وہ بڑا قابل ہے، ہر وکیل یہی خیال کرتا ہے کہ وہ بہت لائق ہے لیکن دراصل بڑا ڈاکٹر اور بڑا وکیل کی وہی ہوتا ہے جس کے متعلق لوگ فیصلہ کریں کہ وہ بڑا ہے.عوام قانون نہیں جانتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ایسی حسن رکھی ہے کہ وہ اچھی چیز کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں نا کام وکیل شور مچاتے ہی رہتے ہیں کہ فلاں وکیل کچھ نہیں جانتا یونہی مشہور ہو گیا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیوں مشہور ہو گیا ہے.پبلک اپنے فیصلوں میں غلطی نہیں کرتی.ہمارے سامنے آ کر ایک شخص کام شروع کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ آگے بڑھ جاتا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ لائق ہے.کامیاب ڈاکٹروں کے متعلق کوئی طبی مجلس فیصلہ نہیں کیا کرتی کہ فلاں قابل ہے اور فلاں نا قابل بلکہ جاہل عوام ہی کیا کرتے ہیں.نا کام شور مچاتے رہتے ہیں کہ اس کے نسخہ میں تو صرف فلاں دوائی ہوتی ہے وہ جس پر ہاتھ ڈالتا ہے وہی مر جاتا ہے مگر پبلک ہے کہ اس کی طرف چلی جارہی ہے وہ اپنی فیس پانچ سے دس، دس سے سولہ سولہ سے بہتیں اور بتیس سے چونسٹھ کر دیتا ہے، ادھر ملک غریب اور کنگال ہے مگر لوگ قرضہ لیں یا کچھ کریں بیماری کے وقت کسی نہ کسی طرح چونسٹھ روپے منہیا کر کے اس کے پاس پہنچ جائیں گے.
خطبات محمود ۷۰۵ سال ۱۹۳۸ بسا اوقات وہ توجہ نہیں کرے گا کہہ دے گا مجھے فرصت نہیں مگر لوگ اسی کے پیچھے چلے جار ہے ہوں گے جہاں دوسرا اپنی قابلیت پر فخر کرنے والا ڈاکٹر سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا ہے وہ جسے بد نام کیا جاتا ہے انتہا درجہ مشغول رہتا ہے.میرا اپنا تجربہ ہے.۱۹۱۸ء میں جب میں بیمار ہو ا تو ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ ڈاکٹر سدر لینڈ سے مشورہ کیا جائے.میں نے انہیں مشورہ کے لئے وقت دینے کے لئے لکھوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیں اور پندرہ دن یا شاید ہیں دن کے بعد کہا کہ دیکھ سکوں گا.چنانچہ ہم اتنے ہی دن کے بعد گئے تو انہوں نے معذرت کی اور نوٹ بک نکال کر دکھائی اور بتایا کہ میں روزانہ ہی مریض دیکھتا ہوں اور آج تک کے نام پہلے ہی مقرر تھے.لیکن لاہور میں دوسرے ڈاکٹروں کی عام طور پر یہی رائے تھی کہ وہ B.Coli لے کے سوا کچھ جانتا ہی نہیں وہ اس کے خلاف شور مچاتے تھے مگر لوگ پھر اس کے پاس پہنچتے تھے حالانکہ وہ دیکھنے سے انکار کرتا تھا اور ظاہر ہے کہ جس وکیل یا ڈاکٹر کے پاس لوگ جائیں گے کمائی بھی وہی کی کرے گا اور عزت وشہرت بھی اسے ہی حاصل ہوگی اور دوسرا اسے بد نام کرنے والا صرف گڑھتا اور دل میں جلتا رہے گا.تو پبلک جس کے متعلق فیصلہ کرے کہ وہ اچھا ہے اسے ہی روپیہ کی اور شہرت اور عزت حاصل ہوتی ہے.پبلک کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ وہ محسوس کر لیتی ہے کہ قابلیت کس کے پاس ہے اور اس لئے اس کا فیصلہ قابل قدر ہوتا ہے بشرطیکہ اس کا فیصلہ ورثہ میں نہ ملا ہو بلکہ اس نے خود تجربہ کے بعد حاصل کیا ہو اور پبلک کا فیصلہ یہی ہے کہ جو عزت وہ کامیاب وجودوں کو دیتی ہے وہی ایسے نا کام وجودوں کو دیتی ہے جو استقلال کے ساتھ اپنے مقصود کے پیچھے پڑے رہے.پبلک نے جس مقام پر سکندر اور رستم کو بٹھایا ہے اسی پر مجنوں ، فرہاد اور پنجاب میں رانجھے کو بٹھایا ہے.یہ پبلک کا فیصلہ بتا تا ہے کہ انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اس کے نزدیک استقلال کے ساتھ کسی چیز کے پیچھے چلے جانا بڑی خوبی ہے.تو جو شخص دن میں چالیس پچاس مرتبہ عاجزانہ طور پر یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! مجھے سیدھا راستہ دکھا اور کہتا چلا جاتا ہے کئی کہ اسے موت آجاتی ہے تو اگر وہ یہ دعا اسی اخلاص سے کرتا ہے
خطبات محمود 2.4 سال ۱۹۳۸ء جس طرح قیس نے لیلیٰ کے حصول کے لئے کوشش کی ، اسی محبت سے اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے جس کی طرح فرہاد شیر میں کو کرتا تھا، اسی خلوص کے ساتھ اپنے اندر تڑپ پیدا کرتا ہے جو ہیر کے لئے رانجھا کے دل میں تھی تو گو وہ ناکام ہی رہے.اگر چہ الہی محبت کے رستہ میں انسان نا کام نہیں رہا کرتا لیکن فرض کر لو وہ کامیاب نہ ہو تو بھی اسی ٹھہرت کا مستحق ہوگا جو سکندر کو حاصل ہے، رستم اور حاتم کو حاصل ہے.مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں لوگ روزانہ یہ دعا مانگتے ہیں انہیں کی شہرتِ دوام کیوں حاصل نہیں ہوتی.ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں ہیں کہ جو دن رات یہی رٹ لگاتے ہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی شہرتِ دوام کا مقام حاصل نہیں ہوا.بڑے بڑے لوگوں کو تو کی جانے دو ان کو رانجھے والا مقام بھی حاصل نہیں جو صرف پنجاب کا ہیرو تھا.اب غور کرو کہ کیوں ایسا نہیں ہوتا ، دنیا کیوں فیصلہ نہیں کرتی کہ یہ شخص بھی فرہاد اور رانجھے کے مقام پر ہے.کیا پہلوں نے دنیا کو کوئی رشوت دی ہوئی تھی کہ ان کا نام تو مشہور ہو گیا اور ان کا نہیں ہوتا.ان کی کے واقعات سن کر لوگ رونے لگ جاتے ہیں.اچھے اچھے ثقہ آدمی وہ شعر گنگناتے ہیں جن میں ان کے حالات بیان ہیں مگر یہ ان کے دروازہ پر بیٹھا ہوا انسان جو دن رات اهدنا الصراط المستقيم کہ رہا ہے اور وہی نقل کر رہا ہے جو قیس ، فرہاد اور رانجھے نے کی تھی مگر لوگ اُنہیں تو یاد کرتے ہیں لیکن اس کا نام کوئی نہیں لیتا اور پھر کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ میاں تم قیس کو تو یا دکرتے ہو فرہاد کی قدر کرتے ہومگر یہ کیا اُن سے کم ہے کہ جو دن میں چالیس پچاس مرتبہ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ كُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ كُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : کہتا رہتا ہے.تم پرانے کی قیں ، فرہاد اور رانجھے کو یاد کرتے ہو اور اس نئے قیس، فرہاد اور رانجھے کا ذکر تک نہیں کرتے حالانکہ وہ تو عورتوں کے عاشق تھے مگر یہ خدا کا عاشق ہے.تم میں سے ہر ایک شخص اپنے نفس کو ٹولے کہ وہ اس کا کیا جواب دے گا.وہ یہی کہے گا کہ ایک چھوٹا سا ہیرا شیشے کے بہت بڑے ٹکڑے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے.بے شک یہ شخص کہتا ہے کہ میں عاشق ہوں مگر اس کے چہرے پر عشق کے وہ آثار نظر نہیں آتے جو قیس اور رانجھا میں دکھائی دیتے ہیں.میں کیا کروں میرے اندر جو دماغی قابلیتیں ہیں جب قیس کے واقعات
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء سامنے آئیں تو ان سے آواز آتی ہے کہ یہ سچا ہے جب فرہاد کا ذکر آئے تو آواز آتی ہے کہ وہ سچا ہے، خواہ وہ عورتوں کے عاشق تھے مگر عشق میں بچے تھے مگر جب خدا کے اس عاشق کا ذکر ہو تو میرے دل میں اس کے لئے کوئی عزت پیدا نہیں ہوتی.اگر واقع میں یہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہوتا تو کی دنیا کو اس سے متاثر ہونے میں کیونکر انکار ہو سکتا تھا.لیلی سے ہماری کوئی رشتہ داری نہ تھی ، شیریں سے کوئی واسطہ نہ تھا پھر کیا وجہ ہے کہ قیس اور فرہاد کے حالات پڑھ کر تو دل پر اثر ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ تو ہمارا ہے مگر اپنے اس خدا سے محبت کرنے والے کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی ٹیں نہیں اُٹھتی اسی وجہ سے کہ اس کی محبت بناوٹی ہے اور حقیقت کے سامنے بناوٹ ٹھہر نہیں سکتی.شیشہ خواہ کتنا بڑا ہو چھوٹے سے چھوٹا ہیرا جو قلم کی نوک پر لگا ہو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے لیکن سچے دل سے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقيم کہنے والا فرض کر لو نا کام بھی رہے تو بھی وہ بڑی بھاری چیز ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ جو سچائی اسے ملی ہوئی ہے اس سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے.آخر کوئی نہ کوئی سچائی خدا تعالیٰ نے اسے بتائی بھی کی تو ہوتی ہے.جب ہم خدا تعالیٰ سے یہ کہتے ہیں کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تو کیا اس وقت تک ہمیں کسی سچائی کا پتہ بھی ہوتا ہے یا نہیں.تو دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دعا کے مانگنے والے کے پاس جو سچائی ہے اس سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ اور مانگنے کا مستحق ٹھہر سکے.جو شخص پہلی عطا کردہ سچائی سے تو فائدہ نہیں اٹھا تا اور مزید مانگتا رہتا ہے اس کی مثال اس بچہ کی سی ہے جس کی جھولی میں پھل پڑے ہیں اور انہیں وہ کھا نہیں سکتا مگر اور مانگتا جاتا ہے.اس کا پیٹ تو اتنا چھوٹا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسے بھی نہیں کھا سکتا لیکن حرص کی وجہ سے اس کا مطالبہ بڑھتا جاتا ہے مگر کیا یہ کبھی ہوا ہے کہ بچہ اس طرح مانگتا جائے اور ماں تھالیاں اس کے سامنے رکھتی جائے.وہ اسے اور نہیں دیتی وہ جانتی ہے کہ اس کی خواہش جھوٹی ہے ورنہ جو کچھ اسے دیا جاچکا ہے پہلے اسے کیوں نہیں کھاتا.اسی طرح سوال یہ ہے کہ جو شخص اهدنا الصراط المستقيم کہتا ہے اس کے پاس پہلے سے کوئی صداقت موجود ہے یا نہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ سب مذاہب نے سچ بولنے کا حکم دیا ہے پھر کیا وہ سچ بولتا ہے اگر نہیں تو اس کا اور مانگنا فضول ہے، اور تو اسے ملتا ہے جو پہلی چیز کو ختم کرے، جو پہلی نعمت کو
خطبات محمود 2.1 سال ۱۹۳۸ء استعمال کرے خدا تعالیٰ اسے اور دیتا ہے لیکن جس کی یہ حالت ہو کہ جو کچھ اسے ملے اس کو تو ی پیچھے پھینک دیتا اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا تا لیکن اور مانگتا جاتا ہے.تو وہ نادان بچہ کی طرح ہے جسے یا تو بہلا دیا جائیگا اور یا اگر وہ زیادہ شور کرے گا تو ماں ایک تھپڑر اس کے لگا دے گی.بیمار، جاہل اور ضدی بچے ہمیشہ ایسا کرتے ہیں چیز مانگتے ہیں اور اسے پھینک کر اور مانگنے لگتے ہیں.ایسا بچہ اگر تو بیمار ہو تو ماں اسے بہلاتی ہے اور اگر ضدی ہو تو تھپڑ رسید کر دیتی ہے.اسی طرح جو شخص پہلی سچائیوں پر عمل کئے بغیر اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے جاتا ہے وہ اگر تو بیمار ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہلا دیگا لیکن اگر بیمار نہیں تو بجائے صراط مستقیم کے اسے تھپڑ بھیجے گا اور کہے گا کہ نالائق تجھے اتنی چیزیں میں نے دے رکھی ہیں ان کو تو استعمال کرتا نہیں اور مزید مانگتا جاتا ہے.مگر جو پہلی ملی ہوئی سچائی سے فائدہ اٹھا کر اور مانگتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی سچائی بھیجی جاتی ہے جس طرح ہمارا خدا غیر محدود ہے اسی طرح صراط مستقیم غیر محدود ہے اور خدا تعالیٰ کا وصال غیر محدود ہے جو شخص کسی بھی مقام پر پہنچ کر یہ کہتا ہے کہ میں کی نے خدا تعالیٰ کو ایسا پالیا کہ اب آگے قدم اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں وہ جھوٹا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَنَا سَیدُ وُلدِادَ م کے یعنی میں سب انسانوں کا سردار ہوں.آپ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنا فتدتی کے یعنی وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہوا.اور اس نے انتہائی قرب کو پالیا.اور پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله ہے کہ اے رسول ! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے غلام بن جاؤ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے.اس انسان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ آپ زدني علمات کی دعا مانگا کرو.یعنی اے اللہ ! مجھے اپنا قرب اور عرفان اور زیادہ بخش تو انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ کسی بھی مقام پر پہنچ کر یہ مت سمجھو کہ سب کچھ مل گیا بلکہ دت زدني علما کہو اور یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! مجھے علم دین اور عرفان میں اور بڑھا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ترقی کی گنجائش باقی ہے تو اور کون ایسا انسان ہے جس کے لئے کوئی مقام بھی باقی نہ رہا ہو.ہر انسان کے لئے خواہ وہ کسی مقام پر ہو مزید مانگنے کی گنجائش باقی رہتی ہے کی
خطبات محمود 2.9 سال ۱۹۳۸ء اور جب تک انسان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے کوئی انتہا نہیں تب تک وہ نیکی کے مقام کو نہیں پاسکتا جس نے یہ گمان کیا کہ خدا تعالیٰ سے ملنے کی کوئی حد ہے وہ یا تو پاگل ہے یا خدا تعالیٰ کا منکر ہے.ایک دفعہ اسی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک صاحب نے جو باہر سے آئے ہوئے تھے مجھ سے بات کرنے کی خواہش کی میں بیٹھ گیا تو انہوں نے سوال کیا کہ جب کوئی شخص کسی دوست سے ملنے جائے تو اس کے پاس پہنچ کر اسے گھوڑے سے اتر جانا چاہئے یا سوار ہی رہنا چاہئے یا اگر وہ دریا میں جارہا ہو تو دوست کو کنارہ پر پا کرکشتی سے اتر پڑے یا اسی میں بیٹھا ر ہے.میں ان کا مطلب سمجھ گیا اور مجھے پتہ لگ گیا کہ یہ اباحتی آدمی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز ، روزہ وغیرہ عبادتیں سواری ہیں خدا تعالیٰ تک پہنچانے کی اور جب وہ مل جائے تو پھر ان کی کیا تج ضرورت ہے.وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہم لوگ جب نمازیں پڑھتے اور دعائیں مانگتے جاتے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ کبھی ملتا ہی نہیں ؟ اگر نہیں ملتا تو ان عبادتوں کا کیا فائدہ.اور اگر ان کے نتیجہ میں وہ مل جاتا ہے تو پھر ان کی کیا ضرورت باقی رہ سکتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کا نام ان لوگوں نے کی طریقت رکھا ہوا ہے.خیر میں اس کا مطلب سمجھ گیا اور میں نے جواب دیا اگر تو دریا محدود ہے تو کی کنارہ آنے پر کشتی سے اتر جانا چاہئے لیکن اگر در یا غیر محدود ہے تو جس وقت اُتر ا اسی وقت ڈوبا اس کی نجات کشتی میں ہی ہے اس پر وہ خاموش ہو گیا اور کہنے لگا کہ اچھا یہ بات ہے.میں نے کہا ہاں یہی ہے میں نے اسے بتایا کہ ہم خدا تعالیٰ کو غیر محدود مانتے ہیں اور اس لئے اس کا کی وصال بھی غیر محدود ہے دریا میں چلنے والا پہلے قدم میں اور جگہ ہوتا ہے، دوسرے قدم میں اور جگہ ہوتا ہے.تیسرے پر اور جگہ اور چوتھے پر اور جگہ.اگر اس کا مقصد دریا ہی کی سیر ہے تو وہ کی شروع سے آخر تک دریا کی سیر میں مشغول رہے گو اس کا ہر دوسرا لمحہ پہلے سے مختلف ہے لیکن بڑھتا ہی چلا جائے تو آخر دریا ختم ہو جائے گا لیکن اگر دریا کا پاٹ غیر محدود ہے تو گوشتی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی دریا کی سیر شروع ہو جائے گی مگر وہ ختم کبھی نہ ہوگی اور اترنے کا وقت کبھی نہ آئے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت میں ترقی کر نیوالا بھی آگے ہی بڑھتا جاتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی غیر محدود ہے اُس کا وصال بھی غیر محدود ہے جو شخص دریا میں ایک فٹ بڑھا ہو.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اس کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ دریا میں ہے اور جو وسط میں ہو اس کے متعلق بھی ، اسی طرح جو وصالِ الہی کی پہلی منزل پر ہی ہے اسے وصال تو حاصل ہے لیکن اگر وہ اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا ہے تو وہ عاشق نہیں کہلا سکتا.عاشق وہی ہے جو لیتا جائے اور مانگتا جائے.اور جو اسے ملے اسے دل میں جگہ دے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور پھر اور مانگتا چلا جائے.عشق الہی کی یہی پرکھ ہے کہ پہلی حاصل کر دہ چیز کو اپنے دل میں جگہ دے اور پھر زائد کی درخواست کرے.جو شخص پہلی حاصل شدہ سچائی کو اپنے دل میں محبت سے جگہ دیتا ہے اس کا حق ہے کہ اس کے بعد اور ہدایت کی درخواست کرے حتی کہ ہر روز مانگتا جائے.بلکہ ہر لمحہ مانگتا جائے.ایسا شخص اس زیادہ طلبی کی وجہ سے روز بروز خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جائے گا لیکن اگر پہلی کو پھینک کر اور مانگتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے تھپڑ رسید کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کہے گا کہ نالائق پہلے جو کچھ تجھے دیا گیا ہے اسے تو استعمال کرتا نہیں اور اور مانگتا ہے.پس مؤمن کا فرض ہے کہ وہ دیکھے پہلی سچائی جو اسے ملی ہوئی ہے اسے وہ استعمال کر رہا ہے یا نہیں.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ایک ادنی نیکی سچ بولنا ہے مگر تم میں سے کتنے ہیں کہ جنہوں نے اس کو اختیار کیا ہوا ہے اور جو اسے بھی اختیار نہیں کرتے اور اھدنا الصراط المُسْتَقِيمَ کہتے رہتے ہیں.کیا ان کی مثال اس بچہ کی نہیں جو پہلی حاصل شدہ چیز کو تو پھینک کی دیتا ہے مگر اور مانگنے لگ جاتا ہے وہ اس نیکی کوتو چھوڑتا ہے اور خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ مجھے اور دے.میں نے کئی بار بتایا ہے کہ سچ بولنا چھوٹی سے چھوٹی نیکی ہے اور اگر ہماری جماعت اسے ہی اختیار کر لے حتی کہ دنیا میں ہر شخص یہ اقرار کرے کہ یہ جماعت سچی ہے اور کوئی احمدی جھوٹ نہیں بول سکتا تو ہمارا یہ ایک عمل ہی دوسرے ہزاروں عیوب کی پردہ پوشی کر سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی یہ بھی تو حاصل نہیں کی.ہزاروں آدمی ابھی ایسے ہیں جو سچ کی تعریف بھی نہیں سمجھتے.پچھلے ہی دنوں میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جو شاید ابھی چھپا ہے یا نہیں مگر ابھی جو میں لا ہور گیا تو وہاں ایک دوست ایک واقعہ سنانے لگے کہ فلاں شخص نے یوں جھوٹ بولا گویا یہ کوئی بڑے فخر کی بات تھی.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ پچاس سال سے جماعت کو یہ سبق دیا جارہا ہے کہ سچائی ایک قیمتی جو ہر ہے جس کے بغیر کوئی نیکی نہیں.کوئی شخص صبح سے شام تک روزہ رکھے
خطبات محمود 211 سال ۱۹۳۸ء اور ساری رات تہجد میں لگا ر ہے اور ذکر الہی میں مشغول رہے لیکن اگر اس میں سچائی نہیں تو اس کی کی یہ ساری عبادتیں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں.تم چندے دے دے کر کنگال ہو جاؤ تمہارے بیوی بچوں کے تن پر کپڑا نہ رہے اور کھانے کو نہ ملے.پچاس سال سے تم نے اس نیکی میں بھی ناغہ نہ کیا ہو لیکن اگر تمہارے اندر سچائی پیدا نہیں ہوئی تو تمہارے دل میں احمدیت کا ایک ذرہ بھی نہیں.سچائی پہلی سیڑھی ہے اور جو شخص پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھتا وہ دوسری پر نہیں پہنچ سکتا.یا درکھو کہ چند نیکیاں ابتدائی ہیں جب تک وہ حاصل نہ ہوں کچھ نہیں مل سکتا اور ان کے بغیر جو ملے گا وہ ریا، مکر ، فریب، دغا اور دھوکا ہوگا اور سچائی ابتدائی نیکیوں میں سے ہے جب تک یہ حاصل نہیں ہوتی تم اور کوئی نیکی حاصل نہیں کر سکتے جس طرح خدا تعالیٰ پر ایمان کا ہونا نیکی کے لئے ضروری ہے اسی طرح سچائی بھی ضروری ہے.مؤمن اور غیر مؤمن میں یہی فرق ہوتا ہے کہ مؤمن سچا ہوتا ہے.کوئی شخص خواہ کتنی نمازیں پڑھے نیکی کی ہر آواز پر فوراً لبیک کہے لیکن اگر وہ سچائی پر قائم نہیں تو اس کی نمازیں بے سود ہیں اور اس کا خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنا فریب ہے کیونکہ دوسری سیڑھی پر وہی چڑھ سکتا ہے جو پہلی پر چڑھے.جو پہلی سیڑھی پر قدم رکھے بغیر سمجھتا ہے کہ میں آخری پر پہنچ گیا ہوں وہ پاگل ہے اور اس کا یہ دعوئی ایسا ہی ہے جیسا بعض پاگل بادشاہ کی ہونے کا دعوی کیا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بادشاہ ہیں.پاگلوں میں اپنے آپ کو بادشاہ کی سمجھنے والے بھی ہوتے ہیں اور ولی اللہ اور فلاسفر بھی.میں نے پاگل خانہ دیکھا ہے بعض وہاں ایسے تھے جو مہدی ہونے کے مدعی تھے، بعض اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے تھے.میں جب پاگل خانہ دیکھنے گیا تو ایک پاگل نے میرے کان میں آکر کہا کہ میں ایڈورڈ ہفتم ہوں یہاں سیر کے لئے آیا ہوا ہوں مگر آپ یہ بات کسی کو بتا ئیں نہیں جو ڈاکٹر میرے ساتھ تھا اس نے بتایا کہ یہ ہر شخص کو اسی طرح کہتا ہے.تو کئی پاگل بادشاہ ہونے کے مدعی ہوتے ہیں مگر ہم چونکہ جانتے ہیں کہ یہ پہلی سیڑھی ہی نہیں چڑھا اس لئے اُسے پاگل قرار دیتے ہیں اگر پہلی منازل وہ طے کر چکا ہوتا تو ہم اسے پاگل نہ کہتے.بادشاہ کے لئے یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ وہ بادشاہ کا ہی بیٹا ہو آخر عوام میں سے بھی تو بادشاہ ہوئے ہیں.نادر شاہ کسی بادشاہ کا بیٹا نہیں تھا بلکہ اس کا باپ گڈریا تھا جب
خطبات محمود ۷۱۲ سال ۱۹۳۸ء اس نے ہندوستان کو فتح کیا تو ایک روز دربار لگا ہوا تھا درباریوں نے مشورہ کیا کہ مختلف خاندانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر نادرشاہ سے اس کے خاندان کے متعلق پوچھا جائے اور چونکہ وہ کسی اعلیٰ خاندان سے نہیں اس لئے بہت نادم ہو گا.چنانچہ اسی رنگ میں گفتگو شروع کی ہوگئی نادرشاہ سمجھ گیا کہ مقصد کیا ہے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ترقی دیتا ہے انہیں ذہن رسا بھی حاصل ہوتا ہے.چنانچہ وہ بیٹھا مسکراتا رہا.آخر بات ہوتے ہوتے اس تک پہنچی اور اس سے پوچھا گیا کہ جناب کے باپ کا نام اور خاندانی حالات کیا ہیں.اس نے تلوار نکال کر کہا کہ میرے باپ کا نام یہی ہے.یعنی تم میری تلوار کو دیکھ چکے ہو تمہیں میرے باپ کے نام سے کیا غرض.میں تمہیں فتح کر کے یہاں بیٹھا ہوں اور جسے ذاتی جو ہر حاصل ہو اُسے والد کے جو ہر کی کیا ضرورت.بھلا اس بادشاہ کو جو اس وقت نادرشاہ کے غلام کی حیثیت رکھتا تھا.بابر اور کی ہمایوں کی اولاد میں سے ہونے کا کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا اور نادر شاہ کو جس نے تلوار سے فتح حاصل کی کی تھی اس بات سے کیا نقصان ہو سکتا تھا کہ اس کا باپ گڈریا تھا.تو انسان ذاتی جوہر سے بھی ترقی کر سکتا ہے اس لئے اگر بادشاہ ہونے کا مدعی پہلی سیڑھی طے نہ کر چکا ہو تو اسے پاگل کہا جائے گا لیکن اگر وہ پہلے فتوحات حاصل کرے اور پھر کہے کہ میں بادشاہ ہوں تو سب کہیں گے کہ ہاں حضور بے شک بادشاہ ہیں تو پہلی سیڑھی کے بغیر دوسری کا خیال کرنا جنون ہے.اسی طرح سچائی پر قائم ہوئے بغیر جو شخص سمجھتا ہے کہ میں مسلمان احمدی ، نیک اور ولی اللہ بن گیا ہوں وہ پاگل ہے کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا جب تک سچائی کو اختیار نہیں کرتا اور اس کے بغیر اگر کوئی روحانی دعوی کرتا ہے وہ یا تو پاگل ہے اور یا پھر دنیا کو دھوکا دیتا ہے.سچائی ابتدائی نیکی ہے اس کی تعلیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع نہیں ہوئی بلکہ آپ سے پہلے اس کی تعلیم حضرت عیسی دے چکے تھے اور وہ بھی یہ تعلیم دینے نہیں آئے تھے کیونکہ یہ بات اس سے بھی پہلے حضرت موسیٰ " کہہ چکے تھے اور وہ بھی یہ سکھانے نہیں آئے تھے بلکہ ان سے بھی پہلے حضرت ابرا ہیم یہ بات کہہ چکے تھے اور وہ بھی اس لئے نہیں آئے تھے بلکہ یہ حکم اس سے پہلے حضرت نوح“ بتا چکے تھے اور حضرت نوح بھی یہ بات بتانے کے لئے نہیں آئے تھے کیونکہ ان سے پہلے حضرت آدم اس کا اعلان کر چکے تھے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء گویا انسان کی پیدائش کے وقت سے اسے سچ بولنے کی تعلیم دی گئی ہے اور جو سچائی اس کی طرح سب دنیا میں متفقہ ہو وہ روحانیت کے لئے بطور بنیاد کے ہوتی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ نے روحانیت کے لئے ایسا ہی ضروری قرار دیا ہوتا ہے جیسا کہ جسم کے لئے ناک، کان وغیرہ.ہندوستانی، افغانی ، عرب اور مغربی لوگوں کے لباس میں تو فرق ہوسکتا ہے، زبانوں میں فرق ہوسکتا ہے مگر ناک، کان ، آنکھوں میں کوئی فرق نہ ہوگا.یہ تو ہوسکتا ہے کہ یورپ کے رہنے والوں کے رنگ گورے ہوں مگر آنکھیں ان کی بھی دو ہی ہوں گی ، ان کے بال بھورے ہوں گے مگر یہ نہیں ہوگا کہ ناک سر کے پیچھے ہو یہی چیزیں انسان کی شکل کہلاتی ہیں اسی طرح کی روحانیت میں بھی بعض باتیں اس کی شکل میں شامل ہیں.جو چیز حضرت آدم کے وقت انسان کو نہیں ملی وہ روحانی جسم کا حصہ نہیں بلکہ زائد نیکی ہے.روحانی جسم کو مکمل کرنے والی وہی چیزیں ہیں جو آدم سے لے کر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی رہیں اور ان میں سے ایک سچائی کی ہے.جس طرح آدم سے لے کر اس وقت تک انسانوں نے بہت ترقیات کیں مگر آنکھیں اب بھی دو ہی ہیں اسی طرح کئی عبادات قائم ہوئیں اور کئی منسوخ ہوئیں، کسی نبی نے شراب کو جائز کی رکھا اور کسی نے حرام کر دیا، کسی نے نماز کا طریق کوئی بتا یا اور کسی نے کوئی مگر اس میں کبھی کوئی کی تبدیلی نہیں ہوئی کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہیئے ہر نبی یہی کہتا آیا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو.پس جو چیز روحانیت کے لئے بمنزلہ آنکھ کے ہے اسے ترک کر کے انسان کبھی روحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتا.جس کی آنکھیں نہ ہوں وہ جنرل نہیں بن سکتا گشتی تو شاید وہ کچھ نہ کچھ کر ہی لے مگر جرنیلی نہیں کر سکے گا.اسی طرح روحانیت کے میدان کا شہسوار لولا لنگڑایا اندھا نہیں ہوسکتا.سچائی روحانیت کے جسم کا حصہ ہے جو اسے چھوڑتا ہے وہ روحانیت کو حاصل نہیں کر سکتا اور جو الیسا سمجھتا ہے وہ فریب خوردہ ہے اور بے وقوفوں کی جنت میں آباد ہے.ہماری جماعت کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسا وقت آئے گا جب وہ یہ خیال کریں گے کہ ہم اب بیچ پر قائم ہو جائیں گی گے.بے شک بعض تم میں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا یا بعض کہہ سکتے ہیں کہ ہم جب سے احمدی ہوئے ہیں اس وقت سے ہمیشہ سچ بولتے ہیں مگر یہ تو کافی نہیں.سوال تو یہ ہے کہ جماعت میں سچائی کے قیام کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے.اگر ہمارے دوست سچائی پر قائم
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ہو جائیں تو قضاء میں کوئی مقدمہ آئے ہی نہیں اور کوئی آئے بھی تو ایسا کہ جس میں کوئی غلط نہیں کی ہوگئی ہو اور ایسے معاملہ کا فیصلہ کر نا قاضی کے لئے بالکل آسان ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ بات نہیں.مقدمات میں ایسے ایسے گواہ پیش ہوتے ہیں جن کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ.وہ جھوٹ بول رہے ہیں گو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو غلط فہمی کی وجہ سے غلط بات کہہ دیتے ہیں لیکن اگر ہم میں ایک شخص بھی ایسا ہے کہ جو جھوٹ بولتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو سرطان کی بیماری ہوا اور اس کا مقابلہ کرنا تمہارا فرض ہے.پس یہ وعدہ کرو کہ آئندہ نہ تو خود جھوٹ بولو گے اور نہ ہی اپنی اولا دوں اور محلہ والوں کو بولنے دو گے اور جب تم اپنی اولادوں کو جھوٹ سیکھنے ہی کا موقعہ نہ دو گے تو جھوٹ کہاں رہ جائیگا.بعض بچوں کو جوئیں پڑ جاتی ہیں تو سارا گھر باری باری نکالنے بیٹھتا ہے حتی کہ چن چن کر سب کو مار دیتے ہیں بلکہ لیکھیں بھی تلاش کر کے ختم کر دیتے ہیں اسی طرح تم جھوٹ کو بھی ختم کرو.جس طرح دیوانے کتنے کو تلاش کر کے اسے ہلاک کیا جاتا ہے اسی طرح تم جھوٹ کو مٹاؤ.سانپ اور بچھو کو اتنا زہریلا نہ سمجھو جتنا جھوٹ کو اگر تم ایسا کرو تو چھ ماہ کے اندر اندر جماعت سے جھوٹ کا خاتمہ ہو سکتا ہے.اس صورت میں ہر شخص یہ سمجھ لے گا کہ اگر اس جماعت میں رہنا ہے تو جھوٹ چھوڑنا پڑے گا اور جب جھوٹ گیا تو باقی گناہ بھی نہیں رہ سکیں گے.یعنی تمہارے اندر طاقت پیدا ہو جائے گی کہ دوسرے گناہوں کو بھی دبا دو.انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ وہ سچائی کی مدد سے ہر گناہ کا مقابلہ کر سکتا ہے پھر ایک دفعہ توجہ کر کے ہماری جماعت جھوٹ کا کیوں خاتمہ نہیں کر دیتی.تحریک جدید کے اصول میں سے ایک یہ تھا کہ سچ بولومگر افسوس که خود تحریک جدید کے متعلق بھی سچ نہیں بولا جاتا.میں نے بار بار کہا ہے کہ یہ چندہ مجبوری کا نہیں تم وہی لکھواؤ جو دے سکتے ہو اور اگر نہیں دے سکتے تو مت لکھواؤ.مگر کئی لوگ ہیں جو محض اس وجہ سے نام لکھوا دیتے ہیں کہ اس وقت مجلس میں ان کا نام بھی آجائے ، کئی ایسے ہیں کہ وہ ہر سال چندہ لکھوا دیتے ہیں مگر ادا نہیں کرتے اور پھر اگلے سال وہ لکھتے ہیں اس سال جی ہمارا وعدہ ضرور قبول کر لیا جائے اور ہم پچھلے سال کا بھی اس سال میں ادا کریں گے مگر کچھ نہیں ادا کرتے اور تیسرے سال پھر لکھتے ہیں کہ وعدہ ضرور لے لیا جائے ورنہ بڑی ذلت ہوگی اور ہم
خطبات محمود ۷۱۵ سال ۱۹۳۸ء تو بس مر ہی جائیں گے اور جب یہ سال بھی گزر گیا تو چٹھی آجائیگی کہ فلاں مصیبت کی وجہ سے ہم چندہ ادا نہ کر سکے.اب کے سال ہمیں ضرور اجازت دی جائے ورنہ غم کی وجہ سے ہم مر جائینگے.اس سال تو ضرور ادا کریں گے اور پھر کچھ ادا نہیں کرینگے.یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان سے کس نے کہا تھا کہ ضرور چندہ دوا گر وہ دے نہیں سکتے تھے تو انہیں نام لکھوا نا کیا ضروری تھا کیا پہلے ہی ان کے گناہ کم تھے کہ دین کے معاملہ میں بھی جھوٹ بولنا ضروری سمجھا.میں نے کئی بار کہا ہے کہ نام لکھوانے کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ چندہ نہیں دے سکے کی گا تو اسے چاہئے کہ معاف کرالے اور یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کوئی معاف کرانا چاہے اور میں معاف نہ کروں.جو کہے گا میں نہیں دے سکتا اسے معاف کر دیا جائے گا یا جو دے تو سکتا ہے مگر کہتا ہے کہ مجھ میں ہمت نہیں یا میں دینا نہیں چاہتا یا اگر ہمت تو ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو تکالیف میں ڈالنا نہیں چاہتا.ان سب کو بھی میں معاف کرنے کو تیار ہوں بلکہ بغیر کسی عذر کے بھی معاف کرنے پر آمادہ ہوں تا تم گنہگار نہ بنو اور جھوٹے نہ کہلاؤ.مگر بعض ہیں کہ وہ نہ تو معاف کراتے ہیں اور نہ ادا کرتے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کے معاملہ میں بھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور جو دین کے معاملہ میں جھوٹ بول لیتا ہے وہ دنیا کے معاملہ میں کہاں کمی کرتا ہوگا.اچھی طرح کی یا درکھو کہ جب تک ہمارے اندر جھوٹ موجود ہے ہم فتح کا وہ دن جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کبھی نہیں دیکھ سکتے اگر اسے دیکھنے کی تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہو تو ان گندوں اور خرابیوں کو دور کرو.اگر تم چاہتے ہو کہ اسلام کی اس وقت جو ہتک ہو رہی ہے یہ دُور ہوا اور خدا تعالیٰ کے نام کو غلبہ حاصل ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اپنے دلوں سے جھوٹ نکال دو اگر تم ایسا کر لو تو اس بات کا یقین رکھو کہ وہ دن قریب سے قریب تر ہوتا جائیگا.فتوحات کے لئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کسی قوم کے لیڈر کو یہ معلوم ہو کہ میرے پیچھے جو جماعت ہے وہ کس قدر قربانی کر سکتی ہے اور میرے ہاتھ میں کیا چیز ہے جو میں دشمن پر پھینک سکتا ہوں.اسے علم ہونا چاہئے کہ وہ کتنے آدمیوں کے ساتھ لڑ سکے گا.اگر جماعت سچ بولنے والی ہے اور اس کی آواز پر پچاس آدمی لبیک کہتے ہیں تو اسے یقین ہوگا کہ میرے ساتھ پچاس آدمی ضرور ہوں گے اور وہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھے گا
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء لیکن اگر صورت یہ ہو کہ لبیک کہتے وقت تو چاروں طرف سے لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہوں لیکن میدان میں نکلتے وقت معلوم ہو کہ یہ لبیک لبیک کہنے والے دراصل گوہ کھانے والی بھیڑیں اور بکریاں تھیں تو وہ کس طرح یقین کر سکتا ہے کہ اس دفعہ لبیک کہنے والے جھوٹ نہیں بول رہے اور وہ کس طرح اپنی طاقت کا اندازہ کر سکتا ہے.سوال تھوڑ وں یا بہتوں کا نہیں ہوتا.بعض اوقات ایک آدمی کام کر جاتا ہے.آخر حضرت ابو بکر نے کیا تھا یا نہیں جب ان سے کہا گیا کہ مدینہ میں خطرہ ہے اس لئے اسامہ والے لشکر کو روک لیا جائے اس پر آپ نے فرمایا جو ڈرتا ہے وہ یہاں سے چلا جائے میں اکیلا ہی مقابلہ کرونگا کے تو تھوڑے ہونے کی وجہ سے دینی جنگ کبھی نہیں رک سکتی لیکن اس وجہ سے رک جاتی ہے کہ اپنی طاقت کا صحیح اندازہ نہ ہو سکے.اگر امام لبیک کہنے والوں پر قیاس کر کے کوئی ایسی پالیسی اختیار کرتا ہے جس کے لئے ایک ہزار آدمی درکار ہوں گے لیکن عمل کے وقت صرف نو سو آدمی ساتھ آتے ہیں تو اس کی شکست دنیوی لحاظ سے یقینی ہوگی یا نہیں؟ اور اگر وہ نو سو آدمیوں کا اندازہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا ہے اور آتا آٹھ سو ہے تو بھی وہ دنیوی لحاظ سے ضرور شکست کھائے گا اس لئے امام کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے کہ میں کس قدر قربانی کی امید کر سکتا ہوں اور یہ بات سچائی کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی.مؤمن کا کام یہ ہونا چاہئے کہ جب وہ ایک دفعہ لبیک کہہ دے تو پھر خواہ کچھ ہوا سے پورا کرے تا امام یقین کے ساتھ یہ فیصلہ کر سکے کہ میرے پاس اتنی طاقت ہے اور اس سے میں نے مقابلہ کرنا ہے ، وہ کم ہوں یا زیادہ اس کا سوال نہیں کیونکہ دینی کام میں کمی کی وجہ سے حرج نہیں ہے ہوتا لیکن دھو کے سے بڑا ہوتا ہے دین کا کوئی کام بغیر سچ کے نہیں چل سکتا.کئی ضروری کام ایسے ہیں جو محض اس وجہ سے چھوڑنے پڑتے ہیں کہ شاید لبیک کہنے والوں میں سے ایک گروہ گوہ کی کھانے والی بھیڑیں ثابت ہو.ایسا طبقہ گو تھوڑا ہو ایک کثیر جماعت کی قربانیوں کو جو مخلص اور سچی عاشق اللہ تعالی کی ہوتی ہے خراب کر دیتا ہے یا کم سے کم جماعت کی طاقت کو کمزور کر دیتا کی ہے.پس یہ ایک چیز ہے جو اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہوئے میری مان لو پھر دیکھو تھوڑے ہی عرصہ میں کس طرح تمام نقشہ بدل جاتا ہے.اپنے اندر سیچ قائم کرو باقی عیوب تمہارے خود بخود مٹ جائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کو باقی نہیں رہنے دے گا.پس میں آپ لوگوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں
خطبات محمود 212 سال ۱۹۳۸ کہ اس مسئلہ کو معمولی نہ سمجھتے ہوئے اس پر غور کرو.تحریک جدید کے چوتھے سال کے اختتام کے قریب میں پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہو اور اگر اپنے اندر طاقت محسوس نہیں کرتے تو سچائی سے کہہ دو کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے اس سے دین کے کام کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن تم اپنی جان کو ضرور بچالو کی گے.دین کے لئے خدا تعالیٰ کوئی اور رستہ کھول دے گا لیکن جب منہ سے وعدہ کر لو تو پھر خواہ کی کچھ ہوا سے پورا کرو اور اسے پورا کرنے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے کی سے دریغ نہ کرو پھر دیکھو دنیا کا نقشہ کس طرح بدلتا ہے.اسی طرح واقعات میں بھی سچائی اختیار کرو کیونکہ اس کے بغیر بھی دین کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.فرض کرو ایک شخص تبلیغ کے لئے باہر جانا چاہتا ہے.اسے جب تک یقین نہ ہو کہ میرے محلہ والے اور میرے پڑوسی راست گو ہیں اسے ایک قسم کا خطرہ رہے گا کہ یہ لوگ میری اولاد کو بھی خراب کریں گے، یا جھوٹے کی مقدمات وغیرہ بنا کر ان کو پریشان کریں گے لیکن اگر وہ جانتا ہے کہ اس کے محلہ کا ہر شخص سچ بولنے والا ہے تو وہ ڈرے گا نہیں اسے خواہ تم دنیا کے کناروں تک بھیج دووہ بے خوف و خطر چلا جائے گا وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہمسایوں سے محفوظ سمجھے گا.اسے اطمینان ہوگا کہ اگر کوئی واقعہ ہو ا تو میرے بیوی بچے بھی مجھے اصل واقعات لکھ دیں گے اور مد مقابل بھی سچ سچ لکھ دے گا اور اس طرح وہاں بیٹھے ہوئے بھی اس کے سامنے قادیان کے حالات ایسے ہی روشن ہو نگے جیسے یہاں رہ کر ہو سکتے تھے اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے بھی فیصلہ کر سکے گا اور اگر اس کے بیوی بچوں کی کی غلطی ہو گی تو ان کو لکھ دے گا کہ تمہاری غلطی ہے.تو دنیا میں شہادتوں کے وقت سچ بولنا ہمسایوں کو طاقت اور اہلِ محلہ کو برکت دیتا ہے اور دین کے معاملہ میں سچ بولنا انتظام کو وسیع اور مضبوط کرتا ہے.پس یہ گر ایک دفعہ اختیار کر لو اور دوسروں کو اختیار کرنے میں مدد دو یعنی وعدہ کرو کہ اپنے محلہ میں اور ارد گرد رہنے والوں کو جھوٹ نہیں بولنے دو گے اور فیصلہ کر لو کہ خواہ انجام کچھ ہو جھوٹا آدمی کوئی بھی اس جماعت میں نہ رہنے دیں گے.تو اس طرح خواہ آدھے لوگوں کو بھی نکالنا پڑے کوئی نقصان نہیں ہوگا.جھوٹا آدمی اگر ایک بھی ہے تو وہ سخت خطرناک ہے مگر اس وقت تو بہت سے ہیں، کئی ہیں جو دوست کی خاطر جھوٹ بول دیتے ہیں حالانکہ یہ
خطبات محمود ZIA سال ۱۹۳۸ دوست کی خیر خواہی نہیں بلکہ اس سے دشمنی کے مترادف ہے.دوست کے ساتھ سچی ہمدردی یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ غلطی پر ہو تو اسے یہ مشورہ دیا جائے کہ اپنی غلطی کا اقرار کر لو.یہ قدم اٹھاؤ تو تم دیکھو گے کہ تمہارے لئے دنیا کی کوئی مصیبت باقی نہیں رہے گی اور تمہارے اندر ایسی دلیری پیدا ہو جائے گی جو ہر مخالفت کو ایک زبردست دریا کی طاقت کے ساتھ کس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گی.جھوٹ ہمیشہ بزدلی پیدا کرتا ہے.اگر تم نے کسی کو پیٹا ہے تو بعد میں جھوٹ سے کام نہ لو.اگر شریعت تمہیں اس کو پیٹنے کا حق دیتی ہے تو اس کا اقرار کرو بلکہ یہ بھی کہو کہ میں پھر بھی ایسا ہی کروں گا لیکن اگر شریعت اجازت نہیں دیتی تو اقرار کرو کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے خواہ اس کا انجام کچھ ہو.زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ تم قید ہو جاؤ گے لیکن تم اس زندگی میں قید سے ڈرتے ہو اور خدا تعالیٰ کی قید کا تمہیں کوئی خوف نہیں.غرض تم سے جو فعل بھی سرزد ہو اس کا صاف طور پر اقرار کرو اور اگر شریعت تمہیں اس کا حق کی دیتی ہے تو کہہ دو کہ ہم آئندہ بھی اس حق کو استعمال کریں گے لیکن اگر ایسا کرنے کا تمہیں حق نہیں کی تو اپنی غلطی کا اقرار کرو.قضاء میں کئی مقدمات آتے ہیں.ایک احمدی احمدی سے لڑتا ہے یا اسے گالی دیتا ہے.اسے چاہئے تو یہ کہ جس قدر قصور ہوا ہے اس کا اقرار کرے لیکن کئی احمدی اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انہیں سمجھنا چاہئے کہ اقرار جرم کے نتیجہ میں اگر کچھ جرمانہ ہو جائے گا یا چند روز کے لئے مقاطعہ ہو جائے گا تو کیا ہے.کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں تھوڑے سے جرمانے یا چند روز کے مقاطعہ سے دوزخ میں جانا زیادہ آسان ہے.اگر وہ غور کریں تو یہاں کی سزا تو عین رحمت ہے وہ اسے کیوں عذاب سمجھتے ہیں.اگر وہ خیال کرتے کی ہیں کہ مقاطعہ کی وجہ سے لوگوں میں ان کی سبکی ہوگی تو کیا اس وقت ان کی سبکی نہ ہوگی جب ان کے آباء واجداد اور ان کے بیٹوں، پوتوں اور پڑپوتوں کے سامنے انہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا.اگر وہ غور کریں تو یہ دنیوی سزا ایک نہایت حقیر سزا ہے آخرت کی سزا کے مقابلہ میں اور انہیں اسے اپنے لئے رحمت سمجھنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک روز
خطبات محمود ۷۱۹ سال ۱۹۳۸ء مجلس لگی ہوئی تھی اور آپ اپنی وفات کے متعلق ہی ارشاد فرمارہے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ہر انسان جو اس دنیا میں کسی کو دکھ دیتا ہے اس کی سزا خدا تعالیٰ کے حضور پائے گا اور میں نہیں چاہتا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں اس لئے میری خواہش ہے کہ جسے مجھ سے کوئی تکلیف کی پہنچی ہو وہ اس کا بدلہ آج ہی مجھ سے لے لے.اس بات کا صحابہ پر جو اثر ہوسکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس کا قیاس وہی کر سکتا ہے جسے کسی سے سچی محبت ہو.یہ بات سن کر ان کو ایسا معلوم ہو ا جیسا کہ کسی نے ان کے سینوں میں خنجر گھونپ دیا ہو اور وہ بے تاب ہو کر رونے لگے لیکن ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! فلاں موقع پر آپ نے مجھے گہنی ماری تھی آپ جنگ کے لئے صفیں درست کی کر رہے تھے راستہ تنگ تھا اور گزرتے ہوئے آپ کی گھنی مجھے لگی تھی.آپ نے فرمایا تم مجھے کہنی مارلو.اس صحابی نے کہا کہ یا رَسُول اللہ ! میں اس وقت ننگے بدن تھا اور آپ نے کر نہ پہن رکھا تی ہے.اس پر آپ نے اپنا گر نہ اٹھا دیا.اس وقت صحابہ کی جو حالت ہوگی وہ ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اُدھر ہو تو اس شخص کو ٹکڑے کر دوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب ایسا تھا کہ کسی کو بولنے کی جرات نہ تھی.جب آپ نے گرتہ اوپر اٹھایا تو وہ صحابی آگے بڑھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر اس جگہ بوسہ دیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ اب ہم سے جُدا ہونے والے ہیں.یہ آخری موقع تھا میں نے چاہا کہ اس سے فائدہ اٹھا کر آپ کے جسم کو چھو تو لوں لے پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخرت کی سزا سے ڈرتے ہیں تو پھر اور کون ہے جو یہاں کی سزا کو سخت کہہ سکے.پس ہمیشہ سچ بولو اور اگر اس کے نتیجہ میں کوئی سزا بھی ملے وہ تمہارے لئے رحمت کا موجب ہوگی.دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو سزا سے بچنے کے لئے رشوتیں دیتے ہیں.آخر وہ بھی تو ایک سزا ہے کیونکہ اس کی میں بھی روپیہ جاتا ہے تو لوگ رشوتیں دے کر گورنمنٹ کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں اور یہاں خدا تعالیٰ نے خود تمہارے لئے انتظام کر دیا ہے کہ دنیا میں قضاء مقرر کر دی تا تم آخرت کی سزا کی سے بچ جاؤ مگر تم اس سے بچنا چاہتے ہو حالانکہ رشوت کی نسبت یہ کتنا آسان علاج اور پھر طیب علاج ہے.پس میں پھر ایک دفعہ آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنی جانوں پر رحم کرو ، اولا دوں پر رحم کرو ، سلسلہ پر رحم کرو اور میں یہ تو نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں پر رحم کر ولیکن یہ کہتا ہوں کہ
خطبات محمود ۷۲۰ سال ۱۹۳۸ء ان کی محبت کو یاد کر کے ان کی روحوں کو خوش کرنے کے لئے اور ان کے کام کو تباہی سے بچانے کی کے لئے ہمیشہ کے لئے سچائی کو اختیار کر لو.خود سچ بولو اور اپنی اولا دوں کو اور اہلِ محلہ کو بیچ کا پابند کرو اور اگر تم ایسا کرنے کا وعدہ کر لو تو ایک سال کے اندراندر تمہارے حالات اس قدر بدل جائیں گے کہ موجودہ اور آئندہ حالات میں تمہیں زمین اور آسمان کا فرق نظر آئے گا.تم جدھر قدم اٹھاؤ گے خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں برکت ملے گی اور ہر میدان میں دشمن تمہیں پیٹھ دکھائے گا کیونکہ سچ کی تلوار کے آگے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی.“ 66 الفاتحة: ٦، الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۳۸ء) Balantidium: A genus of protozoa with cilia that includes Balantidium ✓ coli (B.coli).B.coli is the largest protozoan and the only ciliate parasite to infect humans.The disease that B.coli causes is called balantidiasis Clinical features, when present, include persistent diarrhea, occasionally dysentery, abdominal pain, and weight loss.Symptoms can be severe in debilitated persons.B.coli is found worldwide.Because pigs are an animal reservoir for B.coli, human infections occur more frequently in arease where pigs are raised.Other potential animal reservoirs include rodents and nonhuman primates.Humans most often acquire the disease through ingestion of contaminated food or water.ابن ماجه كتاب الزهد باب ذكر الشفاعَةِ النجم: ٩ ه ال عمران:۳۲ کی تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۷۹،۲۷۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء طه: ۱۱۵
خطبات محمود ۷۲۱ ۳۳ سال ۱۹۳۸ قرآن کے بیان کردہ طریق سے ہی امن قائم ہوسکتا ہے (فرموده ۳۰ ستمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ”ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور ہمیں بحیثیت جماعت براہِ راست سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں لیکن بعض موقعوں پر سیاسیات اخلاق کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہیں اور ان سے وابستہ ہو کر مذہب کا بھی جزو ہو جاتی ہیں.گو یہ جائز نہیں جیسا کہ ہمارے ملک میں مولویوں اور ملانوں کا قاعدہ ہے کہ ہر چیز کو کھینچ تان کر مذہب کا جزو بنا دیتے ہیں گورنمنٹ نے کوئی رستہ سیدھا کرنے یا سڑک صاف کرنے کے لئے کسی مسجد کے غسل خانہ یا طہارت خانہ کو اپنی جگہ سے ہلا یا تو سارے ملک میں شور بپا کر دیا کہ مداخلت فی الدین ہو گئی.یہ مذہب نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تمسخر ہے کیونکہ کم سے کم انگریزی گورنمنٹ ایسے تغیرات کسی مذہبی غرض کے ماتحت نہیں کرتی بلکہ تمدنی اغراض کے ماتحت کرتی ہے.ہندوؤں مسلمانوں غرضیکہ سب پبلک کے مفاد کے لئے سڑک چوڑی کرنے کی غرض سے پاخانہ کی جگہ کو اگر ہٹا کر وہاں کر دیا گیا تو یہ مداخلت فی الدین نہیں ہو سکتی، یہ تو اگر کوئی عقلمند مسلمان حکومت ہو تو وہ بھی کر لے گی مگر یہ لوگ ہر چیز کو مذہب میں داخل کر دیتے ہیں.ٹی کہ کبھی تو یہ فتوی دے دیتے ہیں کہ کانگرس میں شریک ہونا کفر ہے اور کبھی یہ کہ کانگرس میں شریک ہوئے بغیر اسلام باقی نہیں رہ سکتا ، یہ طریق بالکل ناجائز ہے.گو بعض مواقع پر سیاست اور مذہب ایک ہو جاتا ہے
خطبات محمود ۷۲۲ سال ۱۹۳۸ اس صورت میں سیاست کی طرف توجہ کرنا اسلام کے لئے مفید ہوتا ہے اور ایسے ہی مواقع میں سے ایک کے متعلق میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.آج صبح کی خبروں سے جو وائرلیس کے ذریعہ موصول ہوئی ہیں پتہ لگتا ہے کہ یورپ میں جنگ کے جو آثار نظر آرہے تھے اور جن کو دور رکھنے کے لئے برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چیمبرلین کوشش کر رہے تھے ان کی کوشش کامیاب ہو گئی ہے.بظاہر یہ ایک سیاسی چیز ہے مگر جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اس میں اسلام کی عظیم الشان فتح ہے.فیصلہ ان اصول پر ہوا ہے کہ یکم اکتوبرکوز یکوسلواکیہ کا جرمن علاقہ جرمنی کے سپر د کر دیا جائے گا تا اس کا چیلنج پورا ہو جائے اور بقیہ حصہ دس اکتوبر تک آہستہ آہستہ دیا جاتا رہے گا مگر یہ علاقہ اس سے کچھ کم ہے جو جرمن ما نگتے تھے.باقی جو جھگڑے والا علاقہ ہے یا جو دوسرے ضمنی سوالات یعنی جنگی اور اقتصادی امور حل طلب ہیں مثلاً یہ کہ جو زیک اس علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جائیں گے یا جو جرمن کسی دوسرے علاقہ سے یہاں آئیں گے ان کی جائدادوں وغیرہ کا کیا بنے گا ، ان کا ایک کمیشن کے کی ذریعہ جس میں برطانیہ، فرانس، اٹلی اور زیکو سلواکیہ کا ایک ایک نمائندہ ہوگا فیصلہ کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ اکتوبر کے آخر تک یہ سب فیصلہ کر دیا جائے اور ۲۵ نومبر تک گل جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے گا.یہ یورپ کی جنگ کا سوال تھا جو اس وقت ساری دنیا کا مالک سمجھا جاتا ہے اور خالص جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایشیا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی.ایشیا قومی لحاظ سے سیاسی رنگ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے.ایشیا کا سب سے بڑا ملک چین ہے جو اس وقت فٹ بال کی گراؤنڈ بنا ہوا ہے، دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستان اس وقت یورپ کی ایک بڑی قوم کے ماتحت ہے گویا ایشیائی آبادی کا بیشتر حصہ یا تو طاقت سے محروم ہے یا کی دوسروں کے ماتحت ہے.ایشیاء میں اگر کوئی طاقت ہے تو وہ جاپان کی ہے، اس کے علاوہ ایران ،افغانستان اور ٹرکی وغیرہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیں جو اگر اپنی جان بھی بچا سکیں تو غنیمت ہے.سائبیریا کا رقبہ بہت بڑا ہے مگر وہ روس کے ماتحت ہے.گویا ایشیا کی زمین میں سے ۴٫۵ حصہ دوسروں کے ماتحت ہے یا اگر آزاد ہے تو اس کی آزادی برائے نام ہے.جیسے چین ہے اسے اگر چہ آزادی حاصل ہے مگر ایسی ہی جیسی بلی چوہے کو آزادی دیتی ہے وہ اسے پکڑتی ہے
خطبات محمود ۷۲۳ سال ۱۹۳۸ء اور پھر چھوڑ دیتی ہے مگر جب وہ بھاگنے لگتا ہے تو پھر پکڑ کر ایک چپت رسید کر دیتی ہے.تو چین بظاہر تو آزاد ہے مگر مختلف اقوام کے معاہدات کے رو سے وہ کئی ممالک کا غلام ہے اور اس لحاظ سے اس کی حالت ہندوستان سے بھی بدتر ہے.ہندوستان میں تو پھر بھی ایک منظم حکومت ہے مگر وہاں اس سے بدتر حالت ہے.اب تو خیر اس پر جاپان نے حملہ کر رکھا ہے مگر اس سے پہلے بھی وہ آزاد طاقت نہ تھی.ایشیا والے ان چیزوں سے فارغ ہیں اور ایسی ہی حالت کو دیکھتے ہوئے کسی دہریہ مزاج دل جلے نے کسی مجلس میں جہاں یہ بات ہو رہی تھی کہ یورپ بہت ترقی کر رہا ہے مگر ایشیا کو ترقی کا کوئی موقع نہیں ملتا یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یورپ ہی سے فرصت نہیں ملتی ایشیا کی طرف کیسے دھیان دے سکتا ہے.اسے یہ خیال نہ آیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کو یورپ سے فرصت نہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ دنیوی طور پر اس کے قانون کی پابندی کرتا ہے اور ایشیا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو ہمارے قانون کی پابندی نہیں کرتے انہوں نے ہم کو بھلا دیا اس لئے ہم نے ان کو بھلا دیا.اللہ تعالیٰ کو بھلانا صرف دینی لحاظ سے ہی نہیں کی ہوتا بلکہ دنیوی لحاظ سے بھی ہوتا ہے اور دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کو نہ بھلانے والا ہی دنیوی رنگ میں کامیاب ہو سکتا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو روٹی کھاتا ہے اسی کا پیٹ بھرے گا اور جو نہیں کھاتا اس کا پیٹ نہیں بھرتا ، اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے.اب ایک شخص بہت نمازیں پڑھے، روزے رکھے زکوۃ دے، حج کرے لیکن روٹی نہ کھائے اور کہے کہ خدا تعالیٰ میری طرف توجہ نہیں کرتا اور میرا پیٹ نہیں بھرتا یا پڑھائی تو نہ کرے لیکن شکوہ یہ کرے کہ دیکھو فلاں شخص نے میٹرک یا بی.اے یا ایم.اے پاس کر لیا ہے اور میں کو دن ہی ہوں.تو ہم اسے کہیں گے کہ تم احمق نمازی ہو، احمق روزہ دار ہو، احمق حاجی اور احمق خیرات دینے والے ہو کیا تم کبھی مدر سے گئے یا تعلیم پر کوئی وقت صرف کیا کہ میٹرک یا بی.اے یا ایم.اے پاس کر سکتے.اگر تم نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی تو علم حاصل کیسے کر سکتے تھے.تو اللہ تعالیٰ نے دنیوی ترقی کے جو ذرائع مقرر کئے ہیں ایشیا ان کو بھول چکا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو بھلا دیا.اس کے برعکس یورپ نے جب خدا تعالیٰ کے قانون کی طرف توجہ کی تو خدا تعالیٰ نے بھی اس کو یاد کیا لیکن اس نے دین کے معاملہ میں خدا تعالیٰ کو بھلا دیا پس اس بارہ میں
خطبات محمود ۷۲۴ سال ۱۹۳۸ء خدا تعالیٰ نے بھی اسے بھلا دیا.بہر حال ایشیا اس وقت سیاسی لحاظ سے خدائی قانون کو توڑ کر اس کی نظروں سے گرا ہوا ہے اور یورپ خدا تعالیٰ کے دنیوی قانون کو پورا کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے اس کی نظروں میں پسندیدہ ہے اس لئے اس کی شان وشوکت کے مقابلہ میں ایشیا کی حیثیت کچھ نہیں.زیکوسلواکیہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جو چین کے ایک صوبہ کے برابر بھی نہیں مگر چونکہ یورپ میں ہے اس لئے یورپین حکومتوں کے خون میں فوراً جوش پیدا ہوا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو ہم جنگ کریں گے لیکن چین ایشیا میں ہے.وہاں عرصہ سے جنگ جاری ہے.اگر اس میں زیکو سلواکیہ کی ساری آبادی کے برابر لوگ ایک دن میں بھی قتل ہو جائیں تو کسی کو فکر نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے.کیا یورپ والوں نے ایشیائیوں سے کہا تھا کہ تم اپنی ہمتوں کو پست اور ارادوں کو کمزور کرلو.بہر حال زیکوسلواکیہ چونکہ یورپ میں تھا اس لئے یورپین حکومتوں میں جوش پیدا ہوا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو لڑائی ہوگی.ایک طرف زیکوسلواکیہ کی امداد کے لئے روس اور فرانس نے اعلان کیا تو دوسری طرف اٹلی جرمنی کی امداد کے لئے تیار ہو گیا.انگلینڈ نے صلح کرانے کی کوشش کی مگر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر فرانس کو جنگ میں شامل ہونا پڑا تو ہم لازماً اپنے کی دوست کی امداد کریں گے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.اس معاملہ میں انگریزی حکومت بالخصوص وزیر اعظم نے جو کوشش کی ہے اس کے متعلق عام طور پر یہی احساس ہے کہ اس نے کمزوری اور بز دلی دکھائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب اس جھگڑے کی ساری تاریخ پڑھی جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی کمزوری یا بز دلی نہیں دکھائی.اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زیکو سلواکیہ کی حکومت بنانے میں انگریزی قوم کا کوئی دخل نہ تھا زیک بڑی جنگجو قوم ہے کسی زمانہ میں اس نے وسطی یورپ میں زبر دست حکومت قائم کی تھی اور کئی سو سال تک ان کی بادشاہت رہی لیکن بعد میں آسٹرین حکومت نے اسے فتح کر لیا اور آہستہ آہستہ اس کا کچھ حصہ آسٹریا کچھ جرمنی اور کچھ ہنگری نے ملا لیا اور اس طرح یہ لوگ قریباً ایک ہزار سال تک غلام رہے.اٹھارویں صدی میں انہوں نے تعلیم کی طرف توجہ کی اور علم
خطبات محمود ۷۲۵ سال ۱۹۳۸ء کی وجہ سے ان میں بیداری پیدا ہونے لگی اور اس وجہ سے انہوں نے حقوق مانگنے شروع کئے کی اور اس کے لئے جد و جہد کرنے لگے اور اس طرح سو سال تک لڑتے جھگڑتے رہے.اتنے میں ان کی خوش قسمتی سے جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈاکٹر بینر اور بعض دوسرے لیڈروں نے اپنے اہلِ ملک کو اُکسایا اور انہوں نے مزید جوش کے ساتھ جد و جہد جاری کی نتیجہ یہ ہوا کہ صلح کے معاہدہ کے وقت فرانس وغیرہ کی مدد سے وہ ایک علیحدہ حکومت قرار دے دی گئی.امریکہ کے پریذیڈنٹ ولسن نے جنگ کو ختم کرنے کے لئے یہ اصول قائم کیا تھا کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسری قوم پر حکومت کرے ہر قوم کو اس کا علاقہ دے دیا جائے لیکن صلح کے وقت اس اصول پر عمل نہیں ہوا.فرانس اور برطانیہ نے افریقہ کے سارے علاقے آپس میں بانٹ لئے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک ایشیائی انسان ہی نہیں ہیں.پھر بعض ملکوں میں وہ مربی بن گئے ،عراق کے مربی انگریز اور شام کے فرانسیسی ہو گئے گویا یہ ممالک یتیم تھے جن کے لئے کسی نہ کج کسی مربی کی ضرورت تھی.جو ان کی نگہداشت کرے.فلسطین والے یتیم رہ گئے تھے ان کے مربی بھی انگریز بن گئے تو گویا کچھ ممالک کو تو یتیم قرار دے کر ان کے لئے مربی مقرر ہو گئے اور کچھ ایسے تھے جن میں رہنے والوں کو آدمی نہیں بلکہ جانور سمجھا گیا اور ان کے متعلق یہی فیصلہ ہوا کہ ان کو با ہم بانٹ لیا جائے.چنانچہ افریقہ کے کچھ علاقے برطانیہ نے اور کچھ فرانس نے لے لئے اور یہ ایک نہایت ظالمانہ فعل تھا جو ان حکومتوں سے سرزد ہوا.دیانت داری کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ لڑے بھڑے بغیر کوئی کسی کو اپنے ماتحت نہیں کر سکتا.افریقہ کے حبشی تو کسی سے لڑے نہیں تھے وہاں سے اگر جرمنوں کو نکالنا تھا تو چاہئے تھا کہ ان کو آزاد کر دیا جاتا.یہ عذر کہ وہ حکومت کے قابل نہ تھے بالکل غلط ہے.جرمن ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ انگریزی حکومت کے نا اہل ہیں اور اس طرح ہر قوم اپنے آپ کو ہی سلطنت کا اہل سمجھتی ہے.اگر اس بناء پر کہ دوسرے کے نزدیک وہ حکومت کے اہل نہیں کسی قوم کو حکومت سے محروم کر دینے کا اصول مان لیا جائے تو چاہئے کہ انگریز بھی حکومت سے دست بردار ہو جائیں کیونکہ جرمنوں کی رائے میں وہ اس کے قابل نہیں.کیا انگریز اس کے لئے تیار ہیں کہ اہلِ جرمنی ان پر حکومت کریں.یا جرمن اس کے لئے تیار ہے کہ انگریز ان پر حکومت کریں، کیا فرانسیسی اسے پسند کریں گے کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ان پر جرمن حکمران ہوں اور اسی طرح کیا یہ سب ممالک اس بات کو مان لیں گے کہ ان پر ی امریکہ کی حکومت ہو.ہر قوم اپنا قومی غرور رکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ میں دوسرے سے برتر ہوں تو کیا اس وہم کی بناء پر اسے دوسروں پر حکومت کا حق حاصل ہو جاتا ہے.اگر تو سوال یہ ہوتا کہ افریقہ کے لوگ جرمنی یا انگلستان پر حکومت کریں تب تو بے شک یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ جاہل ہیں لیکن ان کو اپنے ملک میں اور اپنے جیسوں پر حکومت کرنے دینے میں کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ جن پر حکومت کی جاتی ہے وہ بھی تو کوئی تعلیم یافتہ نہیں بلکہ جاہل ہی ہیں.جب تعلیم یافتہ اقوام کو اپنے ملک پر حکومت کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جاہلوں کو اپنے ملک میں حکومت کے نا قابل قرار دیا جائے.کیا یہ کبھی ہوتا ہے کہ جو حقوق عورتوں کو حاصل ہیں ان سے زمینداروں کو اس بناء پر محروم کر دیا جائے کہ وہ جاہل ہیں قانون اور شریعت ہر خاوند اور ہر بیوی کو یکساں حقوق دیتے ہیں.ایک مزدور کی بیوی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک عالم یا جرنیل یا بادشاہ کی بیوی کو دیئے جاتے ہیں اور اسی طرح جاہل خاوند اور عالم خاوند کو اپنی اپنی بیوی پر یکساں حقوق دیئے جاتے ہیں کیونکہ اگر زمیندار ان پڑھ ہے تو اس نے معاملہ بھی تو اپنی ان پڑھ بیوی کے ساتھ ہی کرنا ہے.اسی طرح افریقہ کے لوگ جاہل ہی سہی مگر کیا وہ اپنے اوپر حکومت کے بھی کی اہل نہیں.آخر جب یورپ کے لوگ وہاں نہیں پہنچے تھے تو وہ اپنا گزارہ کرتے ہی تھے وہی صورت اب بھی ہو سکتی تھی.کسی دوسری قوم کو کیا حق ہے کہ کسی دوسرے ملک میں جا کر بزور قوت نو آبادیاں قائم کرے.تو یہ نہایت ظالمانہ فعل تھا جو یورپ نے غرور کے نشہ میں کیا اس نے بعض اقوام کو تو آدمیوں میں شمار نہیں کیا بلکہ جانور سمجھ کر آپس میں بانٹ لیا بعض کو آدمی تو قرار دیا مگر یتیم جن کے لئے مربیوں کی ضرورت تھی جو ان کو کھلائیں پلائیں اور ان کی جائدادوں کا انتظام کریں.یہ تو ایشیا کے ساتھ سلوک ہوا لیکن یورپ والوں کو آدمی سمجھ کر حقوق دے دیئے گئے اور اس طرح عملاً اس اصول کی خلاف ورزی ہوئی جو مسٹر ولسن نے صلح کے لئے تجویز کیا تھا کی اور اسی کے نتیجہ میں جرمنی کا کچھ علاقہ چھین کر زیکو سلواکیہ کے ساتھ ملا دیا گیا.اس حکومت کے بنانے میں دراصل فرانسیسیوں کا دخل تھا.وہ یہ سمجھتے تھے کہ جرمنی ہمارا پرانا دشمن ہے اس لئے
خطبات محمود ۷۲۷ سال ۱۹۳۸ء اس کے پہلو میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی جائے جو ہماری دوست ہو تو جب جرمنی کے ساتھ جنگ ہو تو وہ حکومت ایک طرف سے حملہ کر دے اور ہم دوسری طرف سے کریں.اسی طرح کی ایک پولش حکومت بھی بنائی گئی لیکن مثل مشہور ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ، جرمن قوم کے متعلق خدائی فیصلہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رکھے گا اور اس لئے یہ کس طرح ممکن تھا کہ کوئی اسے چکھ سکتا.پہلے اٹلی میں مسولینی پیدا ہوا، اس کے بعد جرمنی میں ایک شخص آگے آیا جسے اس کی قوم فیو ہر ریعنی لیڈ رکہتی ہے.یہ شخص پہلے فوج میں دفعدار کی حیثیت رکھتا تھا اور جنگ عظیم سے پہلے یہ ایک معمولی ڈرانسمین تھا اور انجینئر کے زیر ہدایت نقشے تیار کیا کرتا تھا.جنگ کے بعد اس کے دل میں خیال کی آیا کہ پریذیڈنٹ ولسن نے تو تحریک کی تھی کہ اگر جرمنی لڑائی چھوڑ دے تو صلح ان اصول کے ماتحت کی جائے گی کہ کوئی قوم دوسری قوم کو اپنے ماتحت نہ رکھے لیکن ہمارے ملک کا ایک حصہ تو زیکوسلواکیہ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے حالانکہ اس کا کسی کو حق نہیں تھا اور اسنے اعلان کیا کہ ہم اسے واپس لیں گے ، اسی طرح اس نے بعض اور باتیں بھی سوچیں.پھر اس نے اس سوال پر غور کرنا شروع کیا کہ لڑائی میں ہمیں شکست کیوں ہوئی اور آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یورپین اقوام نے جو ہمارے خلاف لڑ رہی تھیں یہودیوں کو رشوت دے کر ملک کے اندر فساد بر پا کرا دیا تھا.انہوں نے یہودیوں کو اُکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ تمہیں فلسطین میں آباد کیا جائے گا تم کوشش کرو کہ جرمنی کی طاقت کمزور ہو جائے.چنانچہ وہ روپے والے لوگ تھے ، جس طرح کی یہاں سا ہو کا رجس طرف چاہیں زمینداروں کو ہانک کر لے جاتے ہیں انہوں نے جرمنی میں فساد پیدا کر دیا اور ایجی ٹیشن شروع کرا دی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ جنگ میں ہماری کمزوری کا موجب دراصل یہودی تھے اور اس لئے اس نے اپنی انجمن کے مقاصد میں سے ایک مقصد بھی رکھا کہ ہم کسی غیر ملکی کو اپنے ملک میں نہیں رہنے دیں گے.مہمان کے طور پر تو رہ سکتا ہے لیکن مستقل طور پر یہاں سکونت اختیار نہیں کرسکتا ، ووٹ نہیں دے سکتا ، حکومت میں کوئی حصہ نہیں لے سکتا اور نوکری وغیرہ حاصل نہیں کر سکتا.اس نے اپنی انجمن کے لئے پچیس نکات مقرر کئے جن میں سے کئی ایسے ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں اور وہی دراصل اس کی برکت کا موجب
خطبات محمود ۷۲۸ سال ۱۹۳۸ء ہوئے ہیں.مثلاً فیو ہر رنے ایک مقصد اپنا یہ بھی رکھا کہ ہم سود کی لعنت کو ملک سے دور کریں گے اور اس یورپ میں جس کا تمام کا روبار ہی سود پر چل رہا ہے اس نے بنکوں وغیرہ پر ایسا تصرف قائم کیا ہے کہ سود کو بہت محدود اور کم کر دیا ہے اگر چہ گلی طور پر دور کرنے کی توفیق اسے تا حال نہیں ملی.جب فیو ہر ان خیالات کو لے کر کھڑا ہوا تو چونکہ جرمن قوم میں ابھی بیداری موجود تھی ، وہ ایک زندہ قوم تھی، تعلیم بھی موجود تھی.اس لئے لوگ آنا فانا اس کے ساتھ شامل ہو گئے.جبکہ بویریا میں ان کی تعداد بھی سو کے قریب ہی تھی وہ ان کو لے کر برلن کی طرف چل پڑا.اسے اس قدر وثوق تھا کہ لوگ اس کے ساتھ خود بخود شامل ہو جائیں گے کہ تعداد کی اس کی قدر کمی کے باوجود وہ ڈرا نہیں لیکن پولیس نے آکر اسے گرفتار کر لیا.غالبا ۱۹۲۳ ء یا ۱۹۲۴ء میں وہ قید ہوا اور اس سے اگلے سال معافی کا اعلان ہو گیا.قید سے نکل کر اس نے پھر کوشش شروع کی.قوم زندہ اور بیدار تھی اور گو اس کی باتیں نئی تھیں مگر مذہب نہیں بدلا گیا تھا کہ لوگوں کو یہ جدت ناگوار گزرتی.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی.۱۹۲۶ء میں اس کی پارٹی کے دو آدمی پارلیمنٹ میں آئے.۱۹۲۹ ء میں بارہ اور ۱۹۳۲ء میں بائیس اور ۱۹۳۳ء میں حکومت ہی ان کے قبضہ میں آگئی.اس کے پچیس نکات میں سے ایک یہ تھا کہ ہم آسٹریا کا الحاق کریں گے.چنانچہ وہ اس میں کامیاب ہو گیا اور اس کے بعد اس نے اپنے ملک کے دوسرے حصوں کو واپس لینے کی طرف توجہ کی.میں بتا یہ رہا تھا کہ فیو ہر ر کے نکات میں سے بعض اسلام کی تعلیم کے مطابق ہیں.ایک تو یہی کہ اس نے سود کو کم کیا ہے اور اسے دور کرنے کی فکر میں ہے.اس کی یہ بات اسلامی تعلیم کے قریب لانے والی ہے اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ انہی قوموں کو برکت دے رہا ہے جو اسلامی کی تعلیم کے قریب آرہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیو ہر رکو برکت مل رہی ہے.پھر اس نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا ہے کہ ان کو گھروں میں بٹھاؤ اور اگر چہ اسلامی پر دہ تو اس نے قائم نہیں کیا مگر ان کا مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط ناچ گانوں میں شامل ہونا وغیرہ باتوں کی ممانعت کر دی ہے اور حکم دیا ہے کہ عورتیں گھروں میں بیٹھیں شادیاں کریں اور بچے جنیں.جو مرد عورت شادی کریں ان پر ٹیکس میں کمی کر دی جاتی ہے اور جب بچوں کی ایک خاص تعداد ہو جائے
خطبات محمود ۷۲۹ سال ۱۹۳۸ء تو خاص انعام دیا جاتا ہے اور یہ بھی اسلامی اصول کے مطابق ہے کیونکہ اسلام رہبانیت کو دور کرنے کا حکم دیتا ہے پھر اس نے یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ عیسائی مذہب نے ہم کو کمزور کر دیا ہے.ہب دنیا کی نجات کا موجب نہیں ہو سکتا اور اس لئے ہم اسے مٹائیں گے چنانچہ جرمنی میں عیسائیت پر سختیاں کی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پوپ ہمیشہ فیو ہرر کے خلاف اعلان کرتا رہتا ہے، تو اسلام کی کئی باتیں اس کے اندر پائی جاتی ہیں.میں سمجھتا ہوں یہودیوں نے جو جرمنی کو تباہ کیا تھا اس وعدہ پر کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا اللہ تعالیٰ نے اس کا زبر دست بدلہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو جرمنی سے نکلوایا اور جرمن قوم کو پھر ایک زبر دست سلطنت عطا کر دی.فیو ہر ر کی تحریک کو کئی رنگ میں اسلامی تعلیم کے ساتھ تعلق تھا اور اس نے جو کام کیا ہے وہ اسلام کی تعلیم کو دنیا کے زیادہ قریب کرنے کا موجب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے طاقت دی.اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دجال آپ ہی آپ گھلتا جائے گا اور اس کا یہی مطلب ہے کہ عیسائیت سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں سے اس کی عظمت اُٹھ جائے گی.یہ ساری علامتیں وہی پیشگوئیاں ہیں جو احادیث میں موجود ہیں اور پوری ہو رہی ہیں.فلسطین میں یہودیوں کو جگہ ملنا بھی حدیث کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجال کے ساتھ یہودی پھر فلسطین میں داخل ہوں گے.اب ج دیکھ لو یہودی داخل ہو رہے ہیں یا نہیں، پھر دیکھ لوکن کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں ، صاف ظاہر ہے کہ عیسائی حکومتوں کے ساتھ ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے دجال کے ساتھ فلسطین میں داخلہ کی پیشگوئی صاف الفاظ میں فرما دی تھی.اب میں وہ اصل مضمون بیان کرتا ہوں جس کی طرف آج کے خطبہ میں توجہ دلانا چاہتا ہی ہوں.۱۹۲۴ء میں میں نے جو کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام لکھی تھی اس میں میں نے بالوضاحت بتایا تھا کہ لیگ آف نیشنز کا قیام غلط اصول پر ہے.قرآن کریم نے جو لیگ پیش کی ہے یہ لیگ اس کے خلاف بنائی جا رہی ہے اور جب تک اس میں اصلاح کر کے قرآن کریم کی بتائی ج ہوئی لیگ قائم نہیں ہوگی دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا.قرآن کریم نے لیگ کے لئے جو اصول رکھے ہیں ان میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ جب کوئی ظالم ظلم کرے تو اس کا ہاتھ روکو،
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء مظلوم کی مدد کرو اور دوسرا یہ کہ یہ نہ کرو کہ ظالم پر فتح پانے کے بعد تم اسے لوٹنے لگو ،صرف اتنا کرو کہ مظلوم کا حق اسے دلواؤ.میں نے اپنی اس کتاب میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ لیگ آف نیشنز نے قرآن کریم کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے.یعنی جرمنی کے بعض علاقے اس سے چھین کر دوسروں کو دے دیئے گئے ہیں اور میں نے وضاحت سے یہ لکھ دیا تھا کہ چونکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف کیا گیا ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں دنیا میں امن نہیں ہو گا.پھر یہ شرط رکھی گئی ہے کہ لیگ کی کے کاموں میں فوج استعمال نہیں کی جائے گی میں نے لکھا تھا کہ یہ اصول بھی غلط ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ فوج کے بغیر لیگ کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور آج چودہ سال بعد واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ قرآن کریم نے جو بات پیش کی تھی اور جس کے متعلق مجھے یہ فخر ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ستر قرآنی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مجھ پر کھولا ہے ، آخر کچی ثابت ہوئی.آج جو امن قائم ہوا ہے وہ اسی وجہ سے ہوا ہے کہ فرانس اور برطانیہ نے اپنی افواج کو تیاری کا حکم دے دیا اور ان کو باہر نکالا جس سے فیو ہر رکو یہ خیال ہوا کہ اب سنبھل کر چلنا چاہئے ورنہ لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی.پس آج وہ لیگ کامیاب ہوئی ہے جو قرآن کریم نے پیش کی تھی اور جسے بیان کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی تھی ، نہ وہ جو یورپ والوں نے بنائی تھی اور چونکہ قرآن کریم کا یہ اصول برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چیمبرلین کے ذریعہ پورا ہوا ہے اس لئے انہیں بزدل کہنا غلطی کی ہے.اگر تو انگریزوں نے زیک حکومت کی بنیا د رکھی ہوتی تو یہ اعتراض ان پر ہوسکتا تھا کہ اسے چھوڑتے کیوں ہو.مگر انگریزوں نے تو اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ غیر طبعی تقسیم ہے جن لوگوں سے یہ علاقے چھینے گئے ہیں انہوں نے اگر لڑائی کی تو ہم ذمہ دار نہیں ہونگے اور جو ذمہ دار نہیں اس پر اعتراض کیسا.ہاں اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو فرانس پر کہ جس نے کی یہ حکومت بنوائی تھی.اگر بزدلی ہے تو اس کی جس نے پہلے حکومت قائم کرائی اور جب اس کے لئے مصیبت کے دن آئے تو پیچھے ہٹ گیا.اس کی مثال تو وہی ہے کہ کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا جس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں جیسے فوجی لوگ او پر اٹھا کر رکھتے ہیں وہ بھی رکھتا تھا اور اس
خطبات محمود ۷۳۱ سال ۱۹۳۸ء وجہ سے اس کے دل میں خیال پیدا ہونا شروع ہوا کہ میرے سوا کسی کو مونچھیں اونچی کرنے کا حق ہی نہیں.بازار میں چلتے چلتے ذرا کسی کے بال کھڑے دیکھے خواہ کپڑا لگنے سے ہی ہو گئے ہوں تو جھٹ اسے ڈانٹنا شروع کر دیا کہ کم بخت مونچھیں نیچی کرتا ہے یا نہیں.شہر والے اس کی ان حرکات سے سخت تنگ تھے مگر جرات نہیں کرتے تھے کہ اسے کچھ کہیں.ایک شخص نے ارادہ کیا کہ میں اسے سیدھا کروں گا چنانچہ اس نے گھر میں بیٹھ کر مونچھوں کے بالوں کو خوب پالنا شروع کیا تج اور خوب موم لگا لگا کر انکو اونچا کرتا رہا اور پھر ایک روز خوب اکڑ کر اور تلوار وغیرہ لگا کر بازار میں آیا.کسی نے خان صاحب کو بھی خبر کر دی وہ بہت جزبز ہوئے اور اسے کہا کہ کم بخت مونچھیں نیچی کرتا ہے کہ نہیں، تجھے معلوم نہیں کہ یہاں سوائے میرے کوئی مونچھیں اونچی نہیں رکھ سکتا.اس کی نے جواب دیا کہ تم کون ہو؟ میرا حق ہے کہ مونچھیں اونچی رکھوں بلکہ میں تم کو کہتا ہوں کہ تم فوراً مونچھیں نیچی کر لو نہیں تو تمہاری میری جنگ ہوگی اور فیصلہ تلوار سے ہوگا.اس پر خان صاحب نے بھی تلوار سنبھالی لیکن قبل اس کے کہ لڑائی شروع ہو اس شخص نے کہا کہ خان صاحب مجھے ایک خیال آیا ہے.لڑائی میں اگر آپ مارے گئے تو آپ کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے اور پھر طرح طرح کے مصائب اٹھائیں گے اور اگر میں مارا گیا تو میرے، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپس میں لڑنے سے قبل پہلے اپنی اپنی بیوی اور بچوں کا صفایا کر دیا جائے تا ہماری وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو.خان صاحب فوراً آمادہ ہو گئے ، گھر میں گئے اور سب کو ہلاک کر کے آئے.ہاتھ میں تلوار تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا اور آتے ہی اس سے کہا کہ آؤ اب فیصلہ کر لیں لیکن اس کی نے جواب دیا کہ نہیں خان صاحب میں نے سوچنے کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھے اپنی مونچھیں نیچی کر لینی چاہیں آپ ہی اونچی رکھیں میری رائے اب بدل گئی ہے.تو وہی کام فرانس نے کیا ہے.پہلے تو ایک قوم بنوائی حالانکہ اس وقت انگریز اور امریکہ سب اس بات کے خلاف تھے لیکن جب وہ قوم تیار ہوگئی اور ادھر سے جرمن تیار ہوئے کہ ہم لڑتے ہیں تو فرانس نے جھٹ مونچھیں نیچی کر لیں اور بیچ میں آکر کہ دیا کہ نہ لڑو.مگر اتنی کسر رہ گئی کہ اس شخص نے تو دشمن کو اپنی کچ تدبیر سے نقصان پہنچایا تھا فرانس نے خود اپنے دوستوں کو نقصان پہنچایا ہے.پس اگر اس میں کسی پر الزام آ سکتا ہے تو فرانس پر انگریزوں پر نہیں.اس میں شک نہیں کہ
خطبات محمود ۷۳۲ سال ۱۹۳۸ء گزشتہ چند سالوں میں پنجاب میں بعض انگریزوں نے ہمارے ساتھ نہایت ہی گندہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے اور بہت بری فطرت کا ثبوت پیش کیا ہے اور اسکی سزا ان لوگوں کو مل بھی رہی ہے اور انشاء اللہ اور بھی ملتی رہے گی اور اس امر کا ثبوت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے زمینی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ خود آسمانی حربوں سے ان کا بدلہ لیتا ہے مگر باوجود ان حالات کے ہم یہ نہیں کر سکتے کہ سب انگریزی قوم کو بُرا کہیں اور ان کے اچھے افراد کی خوبیوں کا اعتراف نہ کریں مسٹر چیمبر لین نے ستر سال کی عمر میں جس درد کی کے ساتھ تکلیف کو برداشت کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کی ہے وہ انگریزی قوم کے لئے باعث فخر ہے اور مسٹر چیمبر لین کی عزت کو بڑھانے کا باعث.انہوں نے قطعاً کوئی بزدلی نہیں دکھائی ، پارلیمنٹ میں انہوں نے جو تقریر کی وہ بہت ہی شریفانہ تھی ، آپ نے کہا کہ ہمیں آج سے بیس سال قبل چاہئے تھا کہ ایک قوم کو دوسری کے ماتحت نہ کرنے دیتے ، پھر اس میں سال کے عرصہ میں کئی مواقع آئے مگر ہم نے اس کا ازالہ نہ کیا اور اس ظلم کو یونہی رہنے دیا.یہ ایک ایسی بات ہے جو با اخلاق آدمی کے منہ سے ہی نکل سکتی ہے اور گو وہ سچے مذہب پر قائم نہیں ہیں لیکن ان کی اس تقریر سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ ان کے اندر شرافت اور خوف خدا ضرور ہے آج ہی میں نے ان کی تقریر کا ایک اور فقرہ سنا.ان کے ملک میں بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بڑھا بزدل ہے بلکہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسے الگ کر دیا جائے لیکن آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ لوگ مجھ پر اعتراض کر رہے ہیں اور میرا اعمل یہ ہے کہ میں نے سخت مصیبت اٹھا کر آگ میں سے ایک چیز نکالی ہے اور وہ دنیا کا امن ہے.تم مجھے بیشک گالیاں دے لو مگر میں نے یہ کام کیا کی ہے کہ دنیا میں امن قائم کر دیا ہے اور دنیا کو بہت بڑی تباہی سے بچالیا ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ اگر اب جنگ ہوئی تو نہایت خطرناک ہوگی اور عین ممکن ہے کہ ایک دو سال میں ہی دس ہیں بلکہ پچاس کروڑ آدمی مارا جائے اور گو یہ جنگ ہو کر تو رہے گی کیونکہ پیشگوئیوں سے یہی ثابت ہوتا ہے مگر اسے بھڑ کانے والے خطر ناک مجرم ہونگے اور اگر اس کے آثار دیکھتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے کوشش کی کہ یہ جنگ ٹل جائے اور اس بناء پر کی کہ ایک قوم کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو اس کی یہ کوشش بہت قابل قدر ہے
خطبات محمود ۷۳۳ سال ۱۹۳۸ء اور اس کے ذریعہ قرآن کریم کے اصول غالب آئے ہیں اور ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم یورپ سے کہیں کہ تم نے سینکڑوں سال کے تجربہ کے بعد ایک لیگ قائم کی لیکن غلام ہندوستان کے شہروں سے دور ایک گاؤں سے جہاں گواب گاڑی آچکی ہے مگر اس وقت نہیں تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام نے یہ آواز اٹھائی کہ میرے آقا نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر جو تعلیم دی تھی تم اس کے خلاف چل رہے ہو اس لئے اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور اس آواز کے چودہ سال بعد تم نے اپنے عمل سے تسلیم کر لیا ہے کہ تمہارا فیصلہ غلط تھا اور امن قائم کرنے کا وہی طریق ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور جسے اسکے ایک خادم نے چودہ سال پہلے پیش کیا تھا.یعنی یہ کہ جب تم ظالم کو دبا لوتو یہ نیت مت کرو کہ اب موقع ہے اسے مٹا دیں صرف مظلوم کا حق اسے دلوا دو اور بس.اگر جنگِ عظیم کے بعد اس تعلیم پر عمل کیا جاتا تو نہ زیکوسلواکیہ کی یہ حکومت قائم ہوتی نہ مسولینی اور نہ فیو ہرر پیدا ہوتے اور نہ نئی جرمنی معرض وجود میں آتی اور نہ اس جنگ کے آثار نمودار ہوتے جو بظاہر ایک دن واقع ہو کر ہی رہے گی اور جس کی تباہی کا خیال کر کے بھی الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۸ ء ) انسان کا دل کانپ جاتا ہے.66
خطبات محمود ۷۳۴ ۳۴ سال ۱۹۳۸ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے آئندہ نسلوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے فرموده ۲۸ /اکتوبر ۱۹۳۸ء بمقام دہلی ) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ہر ایک قوم کے کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو اگر وہ ملحوظ نہ رکھے تو اپنے ماحول کو کبھی درست نہیں کر سکتی.میں آج کا مضمون بیان کرنے سے قبل یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں ایسے مواقع پر جب کہ خطبہ ہورہا ہو یا کوئی تقریر کی جارہی ہو چھوٹے بچوں کو پیچھے بٹھانے کا ارشاد فرمایا ہے تا کہ ان کے شور وغل سے وہ مقصد ضائع نہ ہو جائے جس کو کی حاصل کرنے کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہماری عبادتیں میلہ نہیں ہیں اور نہ ان کی یہ غرض ہے کہ محض ان سے وقتی سُرور حاصل کیا جائے.بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عُرسوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ ایسے موقعوں کو کھیل اور تماشہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے نہ کہ کسی سنجیدگی کی نظر سے اور جب بچپن سے ہی ان اجتماعات کے متعلق یہ خیالات دلوں میں راسخ ہو جا ئیں کہ وہ تماشہ ہیں تو پھر ایسے موقعوں سے سنجیدگی اور پوری توجہ کے ساتھ کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب ایسی مجالس ہوں تو بچے پیچھے رکھے جائیں کیونکہ اگر وہ لوگ جن کے مشوروں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا.ہے
خطبات محمود ۷۳۵ سال ۱۹۳۸ء پیچھے رہیں گے تو جماعت ان کے مشوروں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی.پس ضروری ہے کہ آگے بڑے آدمی ہوں ، پھر بچے ہوں اور پھر عورتیں.عورتوں کو سب سے پیچھے اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ وہ ادنی ہیں بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ ان کے آگے پردہ کی دیوار کے طور پر کھڑے ہوسکیں.اس مختصر سی نصیحت کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ قومی تربیت کے ہمیشہ دو دور ہوتے ہیں جس طرح جسمانی تربیت کے بھی دو دور ہوتے ہیں اور یہ دونوں دور متقابل چلتے ہیں گویا افراد کی ترقی اور قوم کی ترقی ایک ہی اصول پر مبنی کی ہے.اس نقطہ نگاہ کے ماتحت جب ہم افراد کی حالت کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تربیت کا ایک دور وہ ہوتا ہے.جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور دوسرا دور اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے.پہلے دور میں بچہ کی غذا و غیرہ کا انتظام خود خدا تعالیٰ کی کرتا ہے لیکن دوسرے دور میں ان امور کو صرف خدا تعالیٰ پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ماں باپ بچہ کی جسمانی تربیت اور کھانے پینے کی طرف خود توجہ کرتے ہیں اور اس کی خوراک اور لباس وغیرہ کی میں ان کا بہت دخل ہوتا ہے.اس دوسرے دور میں بچہ کی تربیت کا کام اس کی پیدائش سے ہی تی شروع ہو جاتا ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے یہ اب دیکھو اذان عربی زبان میں ہے اور بچہ اسے نہیں سمجھ سکتا مگر با وجود اس کے شریعت نے حکم دیا ہے کہ اس کے کان میں اذان دی جائے اور یہ خالی از حکمت نہیں بلکہ جبکہ علم النفس کے رو سے اب ثابت ہو چکا ہے اس وقت کی باتوں کا بچہ کے دل و دماغ پر خاص اثر ہوتا ہے اور وہ نقوش اس کے دل و دماغ پر پیدا ہو جاتے ہیں جو مٹتے نہیں.فرانس میں ایک لڑکی تھی جو جرمن زبان میں سرمن پڑھتی تھی حالانکہ اسے کسی نے جرمن زبان سکھائی نہیں تھی.لوگ سمجھتے تھے کہ اس لڑکی پر جن بھوت کا اثر ہے مگر جب تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ جب وہ ابھی ایک سال کی تھی اُس وقت اس کی والدہ ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی اور اس پادری کی عادت تھی کہ سرمن بلند آواز میں پڑھتا تھا چنانچہ وہی سرمن اس لڑکی کے دماغ میں بھی نقش ہو گئے اور وہ دورے کی حالت میں انہیں دُہراتی رہتی.غرض بچہ کے کان میں اذان دینے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ اس طرح بچہ کو بڑے ہونے کے بعد عربی زبان کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء سے وابستگی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اسے خیال ہوتا ہے کہ اس زبان کی آواز پہلے بھی کبھی میرے کان میں پڑ چکی ہے.اس کے علاوہ دوسری حکمت بچہ کے کان میں اذان کہنے کی یہ ہے کہ ماں باپ یہ سمجھ لیں کہ بچہ کی تربیت کا زمانہ شروع ہو گیا ہے.کئی ماں باپ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر تربیت حاصل کرلے گا حالانکہ وہ سخت غلطی پر ہوتے ہیں.جب بچے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تو کئی لڑکے اپنے ان پڑھ ماں باپ کو پاگل سمجھنے لگتے ہیں اور بسا اوقات ان کی والدہ اگر کوئی بات کہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اماں تم نہیں جانتیں کہ یہ علمی بات ہے، پس بچے کی تربیت کا زمانہ اس کا بچپن ہی ہے ، حضرت امام شافعی نے 9 سال کی عمر میں تمام دینی تعلیم کی تکمیل کر لی تھی.پس اذان یہ بتاتی ہے کہ تربیت کا کام بچہ کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور حقیقت میں وہی وقت ہوتا ہے جب ماں باپ اپنے خیالات کا اثر بچہ پر ڈال سکتے ہیں.غرض پہلے دور میں جبکہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود بچہ کی تربیت کرتا ہے مگر دوسرے دور میں اسے تربیت کے لئے انسان کے سپرد کیا جاتا ہے.یہی دور قوموں پر بھی آتے ہیں جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا می میں آتا ہے تو اس وقت اس کی قوم کا ابتدائی دور بچہ کے اس پہلے دور سے مشابہت رکھتا ہے.جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت خدا تعالیٰ خود تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، معجزات اور نشانات کے ذریعہ قوم کی تربیت ہوتی ہے اور وہ بمنزلہ ان غذاؤں کے ہوتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں بچہ کو پہنچتی ہیں.بے شک مامورانِ الہی بھی ان کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں کی لیکن ان کا اس میں اتنا ہی دخل ہوتا ہے جتنا ماں کی خوراک کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو.خدا بھی اپنے رسول کی خود تربیت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ امت کو خوراک مل جاتی ہے.پھر جسمانی تربیت میں دوسرا دور جس طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ پیدا ہواسی طرح قوموں پر ان کی تربیت کا دوسرا دور جب نبی کی وفات کے بعد آتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ کمزور لوگوں کی ایک نظام کے ماتحت تربیت کی جائے.جس طرح بچہ کے پہلے دور پر قیاس کر کے کہ جب خدا تعالیٰ اسے پہلے دور میں خود رزق دیتا رہا ہے کسی نادان کا یہ خیال کر لینا کہ دوسرے دور میں بھی خدا تعالیٰ اس طریق پر اس کے رزق کا انتظام کرے گا اور اس کی کی
خطبات محمود ۷۳۷ سال ۱۹۳۸ء مزید تربیت کی ضرورت نہیں بے وقوفی ہے.اسی طرح قوموں کی ترقی کے ابتدائی دور کی تربیت پر قیاس کر کے یہ نتیجہ نکالنا کہ دوسرے دور میں بھی مزید عمل کی ضرورت نہیں نادانی ہے.نبی کے زمانہ میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نلکی لگا دی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ معجزات و نشانات کی خوراک قوم کو اس طرح مل جاتی ہے جس طرح بچہ کو ماں کے پیٹ میں خوراک ملتی ہے لیکن اگر بچہ کے دوسرے دور میں بھی ہم پہلی مثال پر قائم رہیں گے اور کہیں گے کہ جس طرح پہلے خدا تعالیٰ بچے کو کھلاتا رہا اسی طرح اب بھی کھلائے اور جس طرح پہلے سردی کی گرمی سے بچاتا رہا اسی طرح اب بھی بچائے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی غذا کا فکر کریں یا اسے کپڑے بنا کر دیں تو یقینا ہم اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے.دیکھو ماں جب تک بچہ اس کے پیٹ میں ہو تو براہ راست کوئی تربیت بچہ کی نہیں کر سکتی مگر دوسرے دور میں کر سکتی ہے.اسی کی طرح قوم جب دوسرے دور میں آتی ہے تو سخت قوانین اور کڑوی دوائیوں کی اس کے لئے کی ضرورت ہوتی ہے.جب تک بچہ ماں کے پیٹ میں تھا جہاں وہ کسی چیز کا انکار نہیں کر سکتا ہی تھا) وہاں وہ اپنی مرض سے کسی چیز کو اختیار نہیں کر سکتا تھا لیکن پیدائش کے بعد اس میں تغیر آتا تج ہے اور کسی بات کو رد کرنا یا اختیار کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہوتا چلا جاتا ہے.یہی حال قوم کا ہوتا ہے اسے بھی دوسرے دور میں نئے عمل اور نئی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے.یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ قوم کی پہلی سی تربیت کیوں نہ ہو کیونکہ یہ ایک طبعی تغیر ہے.اگر بچہ کی پیدائش کے بعد کی اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ اسے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں تو وہ ضرور مرے گا.پس یا د رکھو کہ وہ تغیرات جن پر میں اس وقت زور دے رہا ہوں وہ ضروری ہیں کیونکہ اب ہماری جماعت پر وہ پہلا دور نہیں.جبکہ تواتر سے معجزات اور نشانات کا سلسلہ جاری تھا اور نہ اب وہ زمانہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے لیلۃ القدر قرار دیا ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہزار ماہ سے بہتر ہے، اب وہ زمانہ واپس نہیں آسکتا.اس زمانہ میں تربیت خدا خود کرتا تھا اور کھلی طور پر باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھی مگر اب دوسرے دور میں وہ انسان کو سکھانا چاہتا ہے کہ وہ اپنی تربیت اپنے ہاتھ میں لے ، اگر یہ زمانہ نہ آئے تو انسانی پیدائش کی غرض یقیناً باطل ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا خَلقت الجن والانس إلا لِيَعْبُدُون لا يعنى فى
خطبات محمود ۷۳۸ سال ۱۹۳۸ء انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ اپنی جدو جہد کے ساتھ میرا مظہر کامل بنے نہ یہ کہ میں اسے بنا دوں.گویا اس آیت میں ایک طرف انسان کو اپنا مظہر بتایا ہے اور دوسری طرف فرمایا ہے کہ یہ مظہر بیت قبول کرنا تمہارے اپنے اختیار میں ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس امر کو انسان کی اپنی مرضی پر چھوڑا ہے کہ وہ طوعی طور پر نہ کہ جبری طور پر اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرے.یہی انسانی جد و جہد کا وقت ہوتا ہے جس میں اسے اپنے علم اور تجربہ سے فائدہ اٹھا کر کام کرنا پڑتا ہے.وہ شاگرد جو استاد کے پاس بیٹھا ہو اور وہ جو اپنے طور پر مطالعہ کرے دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے.پہلا اپنی ہر مشکل استاد کے سامنے پیش کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن دوسرے کی کو اس غرض کے لئے کتابوں اور لغات کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے.پس تغیرات ضروری ہیں اور انہی تغیرات کا نام تحریک جدید ہے.اس تحریک کے تین بڑے حصے ہیں.اول مردوں کی کی اصلاح، دوسرے عورتوں کی اصلاح اور تیسرے بچوں کی اصلاح.دنیا میں کوئی قوم کامیابی کی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کوئی مقصد اس کے سامنے نہ ہو اور اس کے لئے مرد عورت اور بچے سب مل کر کام نہ کریں.پس ہر جماعت کا فرض ہے کہ اپنے ہاں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اصلاح کرے.عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ کا قیام نہایت ضروری ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے فرض کفا یہ سمجھ لیا گیا ہے.چند عورتیں لجنہ میں شامل ہو جاتی ہیں اور باقی اپنے لئے اس میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتیں.پس ضرورت ہے کہ ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام ہو اور سب بالغ عورتیں اس میں شامل ہوں اور کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جو اس سے باہر ہو.یہی ایک ذریعہ ہے جس سے عورتوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.دہلی کے متعلق مجھے رپورٹوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ یہاں صرف دس بارہ عورتیں جمع ہوتی ہیں اور وہی لیکچر دے لیتی ہیں حالانکہ جب تک ایک عورت بھی باہر رہے اس وقت تک ہماری تنظیم مکمل نہیں ہوسکتی.لجنہ میں داخلہ کو اگر ہم نے ضروری قرار نہیں دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتیں اس میں شمولیت کی کو غیر ضروری سمجھ لیں بلکہ ہمارا مقصد ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں شامل ہوں اور اس طرح انہیں ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل کو قرب الہی کا ذریعہ بتایا ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم نوافل
خطبات محمود ۷۳۹ سال ۱۹۳۸ء کے متعلق کوئی پابندی نہیں عائد کرتے.اسی طرح مثلاً میری خواہش یہی ہے کہ میرے بچے کی سرکاری ملازمت اختیار نہ کریں لیکن میں نے ان سے کبھی ایسا کہا نہیں کیونکہ اگر وہ میرے کہنے سے ایسا کریں گے تو اس کا ثواب مجھے ملے گا نہ کہ ان کو.یہی فائدہ اپنی امت کو پہچانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر تھا اور اسی لئے آپ نے نوافل کے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کی.دوسری ضروری چیز مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اور اس میں شمولیت ہے.میں نے اس کی بارہ میں ابھی تک کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن اگر کوئی باہر رہ جاتا ہے اور خدام الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے.ہمیں نوجوانوں کو ایسے رنگ میں سمجھانا چاہئے کہ کوئی نوجوان اس میں شامل ہونے سے نہ رہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ جو بڑے کام ہوتے ہیں ان کی تکمیل کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان انعامات جن کے مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ بغیر بڑی قربانیوں کے نہیں مل سکتے.یہ بھی ایک غلطی تھی جس نے مسلمانوں کو تباہ کیا کہ انہوں نے سمجھ لیا صحابہ پر تمام ترقی ختم ہوگئی ہے حالانکہ اگر یہ صحیح ہو تو پھر ہمیں کیا ملے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس عقیدہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے.خدا تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں اهدنا الصراط الْمُسْتَقِيمَن صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے کہہ کر یہ دعا سکھائی ہے کہ تم بڑے سے بڑے انعام طلب کرو.پس جب دعا سکھانے والے نے بخل سے کام نہیں لیا ، دینے والے کے ہاں کمی نہیں ، تو مانگنے والا کیوں مایوس ہو.صحابہ کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی جب تک کہ لوگ اس بات کو سمجھتے رہے ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے رتبے دیئے اور انہوں نے لوگوں کے سامنے دعوے بھی کئے لیکن جب ان کے دماغ چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی ہونے لگ گئے تو وہ تنزل میں گر گئے.ہمیں مسلمانوں کے اس تنزل سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے اس کی بڑی سے بڑی نعمت طلب کرنی چاہئے.ہاں روحانی نعمتوں کو معین طور پر مانگنا نادانی ہوتا ہے.طبیب کو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بہتر سے بہتر نسخہ دے مگر یہ کہنا کہ معجون فلاسفہ دو یا ایسٹرن سیرپ و بے وقوفی ہے.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مانگنے والے کے لئے کونسی روحانی نعمت بہتر ہو گی.مثلاً ایک شخص نفلوں کی توفیق اور اس کے ذریعہ قرب الہی مانگتا ہے حالانکہ ہوسکتا ہے کہ
خطبات محمود ۷۴۰ سال ۱۹۳۸ء اس کے لئے روزوں سے ترقی مقدر ہو.پس روحانی انعامات کو معین طور پر مانگنا قرب الہی کے کی دروازہ کو اپنے اوپر بند کرنا ہے.ہاں جسمانی طور پر اولا د وغیرہ کے لئے کسی معین نعمت کا طلب کرنا منع نہیں لیکن روحانی لحاظ سے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات طلب کرنے کی چاہئیں اور اس امر کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کون سا انعام ہمیں دیتا ہے کیونکہ وہی اس امر کو بہتر سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے قومی اور ہماری دماغی بناوٹ کے مناسب حال کو نسا روحانی انعام کی ہے.غرض نسلوں کو درست رکھنا اعلیٰ مقاصد کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے کی ایک نظام کی ضرورت ہے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لئے مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں.وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ یہ نئی چیزیں ہیں وہ غلطی پر ہیں اگر حالات کے مطابق ہم تبدیلی اختیار نہیں کریں گے تو عقل مندی سے بعید ہوگا.جیسے اگر کوئی شخص موٹر کو تعیش کی چیز سمجھ کر اس سے کام نہ لے یا ریل کے ہوتے ہوئے پیدل سفر کرنے پر اصرار کرے تو یہ اس کی کی نادانی ہو گی.پس ضروری ہے کہ انعامات کے حصول کے لئے مقررہ نظام کے ماتحت سب دوست مل کر کام کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دہلی تشریف لائے اور آپ یہاں کے بزرگوں کے مزارات پر تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا یہاں اتنے اولیاء اللہ دفن ہیں کہ اگر یہاں کے زندے توجہ نہ کریں گے تو ان بزرگوں کی روحیں تڑپ تڑپ کر فریاد کریں گی اور خدا تعالیٰ کا کی کام پورا ہو کر رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ دہلی احمد بیت کو قبول کرنے سے محروم نہ رہے.پس سمجھ لو کہ آپ کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی عظیم الشان کوششوں کی ضرورت ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میں جب لکھنو طب پڑھنے کے لئے گیا تو مجھ سے میرے استاد نے پوچھا کہ تمہارا کہاں تک طب پڑھنے کا ارادہ ہے.مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ سب سے بڑا طبیب کون گزرا ہے مگر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ افلاطون کے برابر.افلاطون اگر چہ فلاسفر تھا مگر استاد نے ان سے کہا شاباش تم نے بڑے آدمی کا نام لیا ہے اس سے تمہارا ارادہ بہت بلند معلوم ہوتا ہے تم کی کچھ نہ کچھ ضرور بن جاؤ گے.ایسا عزم اور ارادہ رکھنے والے نو جوانوں کی اب بھی ضرورت ہے ،
خطبات محمود ۷۴۱ سال ۱۹۳۸ء یا درکھو حقیقی انسان وہی ہے جس کے مرنے پر لوگوں کو یہ خیال ہو کہ آج فلاں کی موت سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کو پُر کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا.میں نے دیکھا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت میں ابھی بہت نقص ہے اور اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.مجھے اکثر بچیوں کی پیشانی پر ابھی وہ بات نظر نہیں آتی جو ان کے نو را ایمان کو کامل طور پر ظاہر کرنے والی ہو.بہت تھوڑے بچے اور نو جوان میں نے ایسے دیکھے ہیں کہ جن کی پیشانی پر میں نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لکھا ہوا دیکھا ہو اور وہ می خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے پوری جد و جہد کرتے ہوں.اسی طرح میں بڑوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ وہ رات دن کے اوقات میں سے کتنا وقت خدا کے لئے خرچ کرتے ہیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت یہ عزم کرلے کہ اگلے سال وہ دگنی ہو جائے گی تو یدخلون في دين الله افواجا کا زمانہ بہت جلد آ سکتا ہے.اگر جماعت متحدہ طور پر ہمت نہیں کرتی تو کم از کم افراد یہ عہد کر لیں کہ وہ ایک ایک آدمی کو احمدی بناتی کر دم لیں گے.یاد رکھو ایک ہی چیز ہے جس سے زندگی ملتی ہے اور وہ موت ہے.جب تک انسان موت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک وہ حقیقی زندگی نہیں پاسکتا.نطفہ کا کیڑا بھی زندہ ہی ہوتا ہے لیکن جب وہ ماں کے پیٹ میں موت قبول کر کے ایک دوسری زندگی حاصل کرتا ہے تو اس کی وہ زندگی پہلی زندگی سے کتنی اعلیٰ اور کتنی بلند ہوتی ہے.کچھ عرصہ ہو ا جب میں یہاں آیا تھا تو جماعت میں اس وقت صرف ہیں پچپیں دوست تھے میں نے نماز جمعہ پڑھائی تو میر قاسم علی صاحب ( مرحوم ) بڑے خوش تھے اور کہتے تھے اب تو ہم بچھپیں ہو گئے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ڈیڑھ دو سو کے قریب یہاں ہماری جماعت کے آدمی ہیں اور اگر ہماری جماعت دعاؤں ، اچھے نمونہ اور اصلاح وارشاد کے ذریعہ سے کوشش کرے تو ایک سال کے اندر اندر اپنی تعداد سے دُگنی ہو سکتی ہے.بعض لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں ان کی دعوت قبول نہیں کر سکا لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ ایک آدمی آخر کہاں تک کھا سکتا ہے.میرا اصل کام خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت ہے اور جو شخص اس کام میں میری مدد کرتا ہے وہی میرا دوست ہے.یہی وہ مہمان نوازی ہے جو ہر شخص کر سکتا ہے.پس میری اگر خواہش ہے
خطبات محمود ۷۴۲ سال ۱۹۳۸ء تو یہ کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے پھر یہاں آنے کا موقع عطا فرمائے تو میں دیکھوں کہ سب عورتیں لجنہ میں شامل ہیں، سب نوجوان خدام الاحمدیہ کے پروگرام پر کار بند ہیں اور سب لوگ سرگرمی سے 66 اصلاح وارشاد کے کام میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.آمین.“ (الفضل ۱۵ جون ۱۹۶۰ء) کنز العمال جلد ۱۶ صفحه ۵۹۹.مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء الذريت: ۵۷ الفاتحة:۷،۶ النصر : ٣
خطبات محمود ۷۴۳ ۳۵ سال ۱۹۳۸ رمضان میں تحریک جدید اور تحریک جدید میں رمضان سے فائدہ اٹھاؤ (فرموده ۴ /نومبر ۱۹۳۸ء) تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اللہ تعالیٰ کے فضل نے پھر ہمیں وہ بابرکت مہینہ دکھایا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ لے کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا ہے یا جس کے بارہ میں قرآن اترا ہے.حدیثوں سے یہ امر ثابت ہے کہ ہر سال رمضان میں جبریل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور آپ کے کی ساتھ تلاوت قرآن کیا کرتے تھے چنانچہ جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ جبریل رمضان میں ایک دفعہ میرے ساتھ تلاوت کیا کرتا تھا مگر اس دفعہ دو دفعہ اُس نے تلاوت کی ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب ہے سے تو جب تک دنیا میں قرآن کریم کی خوبیوں کو تسلیم کرنے والے لوگ باقی ہیں ، جب تک قرآن کریم کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم ہے اس وقت تک رمضان کی عظمت بھی لازمی طور پر قائم ہے اور دراصل جو مہینہ قرآنی برکات کے نزول کا موجب ہوا ہے اُس کی قدر اور اُس کی عظمت کا اندازہ ہمارے دل لگا ہی نہیں سکتے.معمولی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لوگ
خطبات محمود ۷۴۴ سال ۱۹۳۸ء عرصہ دراز تک یاد رکھتے ہیں.عورتوں کو میں نے دیکھا ہے کہ ان کی ساری تاریخ بچوں کی پیدائش پر ختم ہو جاتی ہے، جب پوچھا جائے فلاں واقعہ کب ہوا ؟ تو کہیں گی فلاں بچہ کی پیدائش سے چار ماہ پہلے یا چار ماہ بعد.گویا ان کے لئے دنیا کی تاریخ کا اندازہ ان کے بچوں کی پیدائش سے ہوتا ہے.وہ بچے آگے کس حیثیت کے ہوتے ہیں یہ دوسرا امر ہے.بعض دفعہ وہ اچھی حیثیت کے بھی مالک بن جاتے ہیں مگر بعض اوقات وہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوتے ہیں ، بھوکے مر رہے ہوتے ہیں، ان کی اولا د بھی بھوکی مر رہی ہوتی ہے، ان کی بیوی کو تن ڈھانکنے کی کے لئے کافی کپڑا بھی نہیں ملتا.ان کے پاس کوئی مکان نہیں ہوتا جس میں وہ رہائش اختیار کی کر سکیں.انہیں کوئی کام نہیں ملتا جس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں.اور اگر کام ملتا ہے تو گزارے کے مطابق تنخواہ نہیں ملتی.اور اگر کام کے لحاظ سے تنخواہ معقول ملتی ہے تو کھانے والے زیادہ کی ہوتے ہیں.غرض ان کی زندگی تکلیف اور مصیبت کا ایک غیر متناہی سلسلہ ہوتی ہے مگر ایک ماں دنیا کے سارے کاموں کی بنیاد انہی کی پیدائش پر رکھتی ہے.چاند گرہن اور سورج گرہن عالم سفلی کے ادوار کا ایک عجیب کرشمہ ہیں اور اس عالم کے بڑے بڑے گل پرزوں کی رفتار سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ سورج گرہن اور چاند گرہن کو بھی اپنے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ملا دیتی ہیں.کہیں گی فلاں سورج گرہن اُس وقت ہوا جب فلاں بچہ میرے پیٹ میں تھا یا فلاں چاند گرہن اُس وقت ہوا جب میرا فلاں بچہ پیدا ہوا تھا یا اتنے مہینے اس کی پیدائش میں باقی تھے.تو ان کی ساری دنیا ان کے بچوں میں ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے ان کے ہوتے ہیں.پس اگر ایک عورت تمام دنیا کی تاریخ اپنے بچوں کے ذریعہ یا درکھتی ہے تو ہمیں جس مہینے سے قرآن کا نور ملا اس کی عظمت اور شان کو پہچاننا اور اس کے انوار اور برکات کے حصول کے لئے بے تاب ہو جانا ہمارے لئے جس قدرضروری ہے وہ ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے.غرض رمضان اسلام اور ایمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور جس شخص کے دل میں بھی اسلام اور ایمان کی قدر ہوگی وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان گزر جائیں، کتنے ہی سال ہمیں اور کی
خطبات محمود ۷۴۵ سال ۱۹۳۸ ان کو آپس میں جُدا کرتے چلے جائیں، کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہوتا چلا جائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان صدیوں اور ان سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیا ہے اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے.وہ بعد جو ایک انسان کو خدا سے ہوتا ہے، وہ بعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے، وہ بعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین اور آسمان کے پیدا کرنے والے خدا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے اور وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا.یہی وہ حالت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کی وإذا سألكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قَرِيب ، جب رمضان کا مہینہ آئے اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ میں انہیں کس طرح مل سکتا ہوں تو تو انہیں کہہ دے رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں.یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہوا اور اس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے اس کلام کے ذریعہ سے جو حبل اللہ ہے.جو خدا کا وہ رستہ ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اس رستہ پر چڑھ کر اپنے خدا کے پاس پہنچ جائیں.شاید عام طور پر رستے پر چڑھنے کی قیمت کا اندازہ ہم لوگ نہیں کر سکتے لیکن جہازوں میں یہ اندازہ بہت اچھی طرح ہو سکتا ہے.جہازوں میں رستی کی سیڑھیاں ایک لازمی چیز ہیں.جب جہاز کسی بندرگاہ پر پہنچتا ہے تو قانون کے مطابق جہاز کے کپتان کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ بندرگاہ تک اس جہاز کو لے جائے وہ چند میل بندرگاہ کی حدود سے باہر جہاز کو کھڑا کر دیتا ہے اور بندرگاہ سے ایک پائلٹ آتا ہے جو بندرگاہ کے رازوں سے واقف ہوتا ہے.جب اس کی کشتی جہاز کے قریب پہنچتی ہے تو اوپر سے ایک رستہ لڑکا یا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک سیڑھی ہوتی ہے وہ رستہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے اوپر چڑھ جاتا ہے.تو راستے کا صحیح مفہوم جو وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ الله جَمِيعًا ت میں بیان کیا گیا ہے اسے انسان جہاز میں اچھی طرح
خطبات محمود ۷۴۶ سال ۱۹۳۸ء سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح رہتے وہاں سیڑھیوں کا کام دیتے ہیں.سو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے رستے کے طور پر لٹکایا اور فرمایا تم اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ آؤ مگر دیکھنا ! اکیلے نہ آنا بلکہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا باقیوں کو بھی لپیٹ لپٹ کر اپنے ساتھ شامل کر لینا اور سب کی گٹھڑی باندھ کر ہمارے پاس لے آنا.گویا یہ ایک ایسا دعوت نامہ ہے جو کسی فرد سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے.جیسے ایک دعوت نامہ تو یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور کھانا تناول فرمائیں اور ایک دعوت نامہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت صرف آپ کی ہی نہیں بلکہ آپ کے بیوی بچوں اور ملازموں کی بھی دعوت کی ہے.سوقرآن وہ دعوت نامہ ہے کہ جس نے بھی اسے کھولا اس نے اس میں یہ لکھا ہو انہیں دیکھا کہ صرف تمہاری دعوت ہے بلکہ اس نے یہ لکھا ہوا دیکھا کہ تمہاری اور تمہارے سب جاننے والوں کی دعوت ہے.غرض رمضان آتے ہی اللہ تعالیٰ کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ کر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری طرف ایک رستہ پھینکا گیا ہے جو آج بھی لٹک رہا ہے اور آج بھی کی اس بات کا موقع ہے کہ تم اس رستہ کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاؤ.ابھی ایک دو دن ہوئے مجھے اس کے متعلق ایک عجیب کشفی نظارہ نظر آیا.میں سحری کے انتظار میں لیٹا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا جیسے پہاڑوں میں ثنلز ہوتی ہیں اور ان میں بورنگ کر کے اندرونی طور پر ایک گول سا رستہ تیار کیا جاتا ہے اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ جو میں ایک گول رستہ بنا ہوا ہے کہ جو تاگے کی ریل کے اندرونی سوراخ سے مشابہہ ہے.فرق صرف یہ ہے کہ یہ تاگے کی ریل کا سوراخ چھوٹا ہوتا ہے مگر وہ سوراخ بڑا تھا.یا یوں سمجھ لو کہ جیسے آگ جلانے والی پھنکنی ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک گول سا سوراخ ہوتا ہے جس سے آر پار نظر آ جاتا ہے اس کی طرح جو میں ایک گول رستہ بنا ہوا ہے اور اس کے ایک طرف خدا تعالیٰ کی ذات بیٹھی ہے اور دوسری طرف میں بیٹھا ہوں اور اس میں مجھے اللہ تعالیٰ کا اس قدر قرب معلوم ہوتا ہے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے راز آپ ہی آپ کھلتے چلے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اس کے
خطبات محمود ۷۴۷ سال ۱۹۳۸ مقابلہ میں مشکوک اور مشتبہ نظر آتی ہیں.کئی منٹ تک برابر یہی کیفیت مجھ پر طاری رہی اور اس ٹنل کے ایک سرے پر بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ سے جو اُس کے دوسرے سرے پر بیٹھا تھا دل ہی دل میں میں باتیں کرتا رہا.اُس وقت کی کیفیت ایسی ہی تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ سورج کی ذات میں شبہ ہو سکتا ہے، زمین کے وجود میں شبہ ہوسکتا ہے، ہمیں اپنے وجود میں محبہ ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات میں محبہ نہیں ہو سکتا.اسی قسم کی باتیں میں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے کیں اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیرا وجود ایسا یقینی کی ہے اور ایسا شکوک کو دور کرنے والا.پھر تو کیوں چھپا ہوا ہے اور کیوں میرے لئے اور اپنے دوسرے بندوں کے لئے کامل تجلی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کشف کا مفہوم وہی تھا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے واذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قَرِيب، کہ دیکھو رمضان میں اللہ تعالیٰ بندے کے کتنے قریب ہو جاتا ہے.بہت دفعہ انسان غلطی سے اس قرب کو محسوس نہیں کرتا جیسے پیٹھ کے پیچھے اگر بالکل قریب آ کر بھی کوئی شخص بیٹھ جائے تو انسان معلوم نہیں کر سکتا کہ میرے پیچھے کوئی بیٹھا ہوا ہے لیکن اگر اس کا منہ اس کی طرف پھیر دیا جائے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ کوئی شخص میرے کتنے قریب بیٹھا ہوا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے ٹنل کا نظارہ دکھا کر مجھ پر ظاہر فرمایا کہ اگر ہم پر دہ دُور کر دیں تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو کہ ہم تمہارے کتنے قریب ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ پڑا ہوا ہے لوگ اس لئے اس بات کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو محسوس نہیں کرتے.تو رمضان اپنے ساتھ بہت سی برکات لاتا ہے اور اس میں خدا اپنے بندے کے قریب آجاتا ہے اور گو وہ برکات جو رمضان اپنے ساتھ لاتا ہے بہت سی ہیں مگر میں اس وقت چار امور کی طرف احباب کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں.اول رمضان میں انسان کو نیکی کی مشقت کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.دنیا میں انسان محنتیں کرتا ہے اور آوارگی بھی کرتا ہے.جو آوارہ لوگ ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.چاہے وہ کہیں ہانکتے ہوں پھر بھی یہ ایک کام تو ہے.چاہے وہ ج
خطبات محمود ۷۴۸ سال ۱۹۳۸ اِدھر اُدھر پھرتے ہوں پھر بھی وہ ایک کام تو کر رہے ہوتے ہیں بالکل فارغ نہ انسانی دماغ رہتا کی ہے اور نہ جسم ، کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے.مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں ، بعض مضر ، بعض مفید کام ہوتے ہیں اور بعض بہت ہی اچھے.تو رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت کی ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں نیک کاموں میں مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزیں کیا ہوتی ہیں یہی کھانا ، پینا سونا اور ، جنسی تعلقات.تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیں جس میں دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے گفتگو کر نا بھی شامل ہے مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاں بیوی کا ہے.پس انسانی آرام انہی چند باتوں پر منحصر ہے کہ وہ کھاتا ہے، پیتا ہے ، سوتا ہے اور جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے.کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑا اپنے اندر رکھتا ہے.کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے کیونکہ ہر شخص کو تہجد کے لئے اٹھنا پڑتا ہے، کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارا دن فاقہ کرنا پڑتا ہے اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر بات ہے، پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا، روزہ یہ نہیں کہ تو اپنا منہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ تو لغو باتیں بھی نہ کرے ہے پس روزہ دار کے لئے بے ہودہ بکواس سے بچنا، لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اس طرح کی لغو باتوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے اور اس طرح کی کم بولنا بھی رمضان میں آگیا.گو یا کم کھانا ، کم بولنا ، کم سونا اور کم جنسی تعلقات کرنا یہ چاروں با تیں رمضان میں آگئی ہیں اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں اور انسانی زندگی کا ان سے ، گہرا تعلق ہے.پس جب ایک روزہ دار ان چاروں آرام و آسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ رمضان ہم سے قربانی کی کرا تا ہے نیند کی ، رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے باتوں کی ، رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے کھانے کی ، رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے جنسی تعلقات کی اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ہیں اس بات کی عادت ڈالتا ہے کہ ہم نیکی کے کاموں میں مشقت برداشت کریں.حضرت خلیفتہ امسیح الا قول اپنے کسی استاد یا کسی سابق بزرگ کا یہ قول بیان فرمایا کرتے تھے
خطبات محمود ۷۴۹ سال ۱۹۳۸ء کہ گیارہ مہینے انسان حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویں مہینے میں وہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے.یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے ہم کس طرح حرام چھوڑ سکتے ہیں مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اکثر فساد اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو نا جائز طور پر کسی کا حق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کر لیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے.وہ کہیں گے یہ ہمارا حق ہے ہم اسے کیوں چھوڑیں.سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا میں عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کی کر دیتے ہیں اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو دنیا سے جھگڑا اور فساد مٹ جائے اور نہائت خوشگوار امن قائم ہو جائے.تو رمضان آکر ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپنا حق بھی چھوڑ دو تا دنیا میں نیکی قائم ہو اور خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو.اس لحاظ سے رمضان کو تحریک جدید سے ایک گہری مناسبت ہے.میں نے صرف ایک کی کھانا کھانے کا اصل تحریک جدید میں شامل کیا ہے.اب دیکھو دو کھانے حرام تو نہیں ہیں لیکن میں نے تم کو کہا کہ جو چیز حلال ہے اس کو بھی تم چھوڑ دو تا کہ امیر اور غریب کا فرق دور ہو اور تا خدا ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے روپیہ کو بچاتے ہوئے اسے خدمت دین کیلئے خرچ کر سکیں اور تا ہمیں توفیق ملے کہ ہم اپنے نفس کو عیاشی اور آرام طلبی سے بچا سکیں.یہی کچ رمضان کی غرض ہے.رمضان بھی یہی کہتا ہے کہ آؤ تم اب خدا تعالیٰ کی خاطر حلال چیز میں چھوڑ دو.بے شک دوسرا کھانا حرام نہیں ہے مگر ہم نے اسے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ تا اس کے ذریعہ ہم بہت بڑا دینی اور دنیوی فائدہ حاصل کر سکیں.سادہ غذا کے استعمال کرنے میں نہ صرف دنیوی لحاظ سے فائدہ ہے بلکہ ہماری روح کا بھی اس میں فائدہ ہے اور وہ خلیج جوغر باء اور امراء میں
خطبات محمود ۷۵۰ سال ۱۹۳۸ حائل ہے وہ اس کے ذریعہ سے بالکل پائی جاتی ہے.دوسرا فائدہ رمضان کا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو استقلال کی عادت ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک مہینہ تک چلتی ہے.غذا انسان کے ساتھ اس طرح لگی ہوئی ہے کہ اگر ہر انسان کھانے پینے کا اندازہ لگائے تو دیکھ سکتا ہے کہ وہ دن بھر میں دس بارہ دفعہ ضرور کھاتا پیتا ہے.دو دفعہ کھانا تو ہمارے ملک میں عام ہے لیکن اس کے علاوہ غرباء اور امراء دونوں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر انہیں میسر آسکے تو تیسرے وقت کا کھانا بھی کھائیں.یعنی صبح کا کی ناشتہ کر لیں کیونکہ اطباء کے تجربے نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ صبح کچھ نہ کچھ کھانا صحت کے لئے مفید ہوتا ہے.پنجابی میں شاید اسے شاہ ویلا کہتے ہیں.ایک زمیندار بھی اگر اور نہیں تو چھاچھ ہی پی لے گا یا باسی روٹی ہی کھا لے گا.اور اگر کسی کو زیادہ تو فیق ہوگی تو باسی روٹی اور مکھن کھائے گا.ہماری زبان کی کئی ضرب الامثال اس وقت کے کھانے کی تائید میں ملتی ہیں اور جسے میسر آتا ہے وہ علاوہ دو وقت کھانے کے صبح کا ناشتہ ضرور کرتا ہے.پس اس طرح تین وقت کھانا ہو گیا اور جو لوگ انگریزی طریق پر زندگی بسر کرتے ہیں یا شہری زندگی کے عادی ہو چکے ہیں وہ تین وقت کی بجائے چار وقت کھانا کھاتے ہیں ، یعنی شام کو بھی ناشتہ کرتے ہیں.زمینداروں میں سے بھی بعض چار دفعہ کھاتے ہیں یعنی عصر کے وقت دانے بھنوا کر چبا لیتے ہیں.پھر ایک اور کھانا ہے جس کا استعمال انگریزی طرز کے عادی لوگوں میں اور بعض زمینداروں کی میں بھی پایا جاتا ہے.انگریزوں میں وہ سپر (SUPPER) کہلاتا ہے یعنی رات کو زیادہ جاگنے پر وہ پہلی شب کے کھانے کے بعد ایک اور ہلکا سا کھانا کھاتے ہیں.بعض زمینداروں میں اس کھانے کا رواج اس رنگ میں ہے کہ وہ روزانہ رات کو سوتے وقت دودھ کا ایک گلاس پی لیتے ہیں اور اسے طاقت کے قیام کے لئے ضروری سمجھتے ہیں.اس طرح دن رات کے پانچ کھانے ہو جاتے ہیں.خالص انگریزی تمدن میں تو چھ کھانے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں.چنانچہ انگریزوں میں یہ رواج ہے کہ علی اصبح چائے بسکٹ استعمال کرتے ہیں اور پھر چائے پی کر سو جاتے ہیں.گویا چائے وہ قریباً سحری کے وقت استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد صبح کا ناشتہ کرتے ہیں، پھر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں، پھر شام کی چائے پیتے ہیں، پھر شام کا کھانا کھاتے ہیں ،
خطبات محمود ۷۵۱ سال ۱۹۳۸ء اور سوتے وقت طعام شب کا استعمال کرتے ہیں.اس کے علاوہ چار پانچ دفعہ انسان کو پانی کی بھی پینا پڑتا ہے.اس طرح دس گیارہ دفعہ انسان کھاتا پیتا ہے.زمیندار بھی اگر زیادہ اعلیٰ کھانا کی استعمال نہیں کر سکتے تو اپنی حیثیت کے مطابق مختلف کھانے ضرور استعمال کرتے ہیں.پہلے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں، اس کے بعد دو پہر کا کھانا کھاتے ہیں ، پھر عصر کے وقت بعض زمینداروں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ دانے بھنا لیتے ہیں یا دو پہر کی بچی ہوئی روٹی ہو تو وہی کھا لیتے ہیں ، شام کی کو پھر کھانا کھاتے ہیں اور سوتے وقت دودھ پیتے ہیں.چھاچھ یا پانی جو درمیان میں پیتے رہتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے.گویا غرباء اور امراء ، شہری اور دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں دس بارہ دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں.اسی طرح پانی میں بہت کچھ کمی آجاتی ہے.یعنی اس کے پینے کے اوقات بہت کم ہو جاتے ہیں.گو بعض لوگ روزہ کی افطاری کے وقت اکٹھا ہی اتنا پانی پی لیتے ہیں جتنا وہ دن بھر میں پیا کرتے ہیں لیکن پھر بھی پانی پینے کا عرصہ بہت کم ہو جاتا ہے.یہ کھانے پینے کی جو تنگی ہے باقی زندگی کے دنوں سے بالکل نرالی ہوتی ہے.پہلے بھی بے شک کھانے پینے میں وقفے ہوتے ہیں مگر وہ اتنے لمبے نہیں ہوتے جتنے رمضان میں ہوتے ہیں.کھانے پینے کا وقفہ عام طور پر دو تین کی گھنٹے کا ہوتا ہے مگر رمضان میں اول تو تمام کھانے سمٹ سمٹا کر دو کھانوں پر آجاتے ہیں اور پھر وقفہ بھی کافی لمبا ہو جاتا ہے.پس رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو نہیں ، تین نہیں ، ایک مہینہ تک بغیر کسی ناغہ کے کرنی پڑتی ہے.بے شک شام کو انسان روزہ کھول لیتا ہے مگر دراصل شام کو روزہ کھولنا دوسرے دن کے روزہ کی تیاری ہوتا ہے کیونکہ ادھر انسان روزہ کھولتا اور کھانا کھاتا ہے اور اُدھر نمازیں پڑھ کر اس نیت سے سو جاتا ہے کہ میں نے پچھلی رات تہجد کے لئے اٹھنا اور پھر روزہ رکھنا ہے اور یہ طبعی بات ہے کہ کوئی احساس نیند کے وقت میں نہیں ہوتا.کہتے ہیں سویا ہوا اور مُردہ برابر ہیں.پس جو اس کے سونے کا وقت ہے وہ احساس کا نہیں اور جو اس کے احساس کا وقت ہے اُسے وہ کلی طور پر روزہ کے لئے وقف کر دیتا ہے.کچھ روزہ رکھتے ہوئے اور کچھ روزہ کی نیت کی کرتے ہوئے.اور اگر اسے کوئی سفر پیش نہ آجائے یا اتفاقیہ طور پر بیمار نہ ہو جائے تو اس کی
خطبات محمود ۷۵۲ سال ۱۹۳۸ء مہینہ یه قربانی مسلسل ۲۹ یا ۳۰ دن چلتی ہے اور اس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اگر روزے رکھنا انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا تو آدمی دو دن روزے رکھتا اور پھر سانس لینے کی کوشش کرتا مگر اللہ تعالیٰ نے سانس لینے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایک مین مسلسل مقرر فرما دیا اور کہہ دیا کہ سانس نہیں لینا لگا تا ر روزے رکھتے چلے جانا ہے.پس روزوں سے دوسرا عظیم الشان سبق استقلال کا ملتا ہے اور یہ بھی تحریک جدید سے ایک گہراتعلق رکھتا ہے.تحریک جدید میں میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ہماری قربانیاں عارضی نہیں بلکہ مستقل ہیں.بے شک قربانیوں کی شکلیں بدل سکتی ہیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی وقت یہ کہا جائے کہ اب قربانیوں کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خدا تعالیٰ کو نہیں پاسکتا.جس شخص کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ میں سانس لے لوں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہو گیا.تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے بڑی دیانت داری سے قربانیاں کیں ، تم میں سے کئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور چلائے اور انہوں نے آہ وزاری کی ہم میں سے کئی ہیں کی جنہوں نے روزے رکھے ، تہجد پڑھی نوافل ادا کئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور روئے اور گڑ گڑائے تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے چندے دیئے اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کاٹ کر دیئے، تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے خود بھوکے اور ننگے رہ کر ز کو تیں دیں اور دوسرے فرائض ادا کئے مگر انہوں نے دیکھا کہ ان قربانیوں کے وہ نتائج انہیں حاصل نہیں ہوئے جو ایسی قربانیوں کے نتیجہ میں ملا کرتے ہیں اور جن کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے قربانی تو کی مگر استقلال سے قربانی نہیں کی.ان کا جوش ایسا ہی تھا جیسے عوام الناس جب کوئی پر جوش تقریر سنتے ہیں تو لڑنے مرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی جب دیکھا جائے تو ان کے دل بالکل ٹھنڈے ہو چکے ہوتے ہیں اور ان میں کوئی گرمی نہیں ہوتی.اگر ان قربانیوں کا محرک حقیقی اخلاص اور حقیقی جوش ہوتا تو چاہئے تھا کہ وہ اپنی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے اور کسی واعظ اور کسی یاد دلانے والے کی ضرورت محسوس نہ کرتے کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے.تم اپنے بچہ سے محبت کرتے ہو مگر کیا تم بچوں سے محبت کرنے کے لئے کسی کے
خطبات محمود ۷۵۳ سال ۱۹۳۸ء یاد دلانے کی ضرورت محسوس کیا کرتے ہو؟ کیا تم نے کبھی محسوس کیا کہ سال دو سال گزرنے کے بعد اپنے بچہ کی محبت تمہارے دل میں کم ہونی شروع ہوگئی ہو اور تمہیں اس بات کی ضرورت کی محسوس ہوئی ہو کہ کوئی واعظ آئے اور تمہیں جگائے اور کہے کہ اپنے بچہ سے محبت کرو؟ آخر دنیا میں اسی نوے فیصدی لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی ہوتی ہیں.بعض مریض اخلاقی یا مریض جسمانی شادی بھی نہیں کرتے مگر وہ بہت کم ہیں.مریض اخلاقی سے میری مراد وہ بدکار لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں شادی کی کیا ضرورت ہے ہم بغیر شادی کے اپنا تج گزارہ کر لیتے ہیں اور مریض جسمانی وہ لوگ ہیں جن کی جسمانی طاقت شادی کی متحمل نہیں کی ہوتی ان کو اگر مستثنیٰ بھی کر دیا جائے تو اسی نوے فیصدی لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں کیا اتنی بڑی اکثریت کو کبھی تم نے دیکھا کہ ان میں بچوں کی محبت کبھی کم ہوگئی ہو اور وہ اس بات کے محتاج ہوئے ہوں کہ انہیں یاد دہانی کرائی جائے اور کہا جائے کہ اپنے کی بچوں سے محبت کرو تمہاری ان سے محبت کم ہو گئی ہے.اگر ایک بھی مثال ہمیں ملتی تو ہمارے نفس کی بہانہ کر سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے اور اس کے دین کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے بھی ہمیں یاد دہانی کی ضرورت ہے مگر ہمیں تو ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی.کیا تم نے کبھی کوئی ماں دیکھی جس کو اپنے بچہ سے محبت نہ ہو اور اسے کسی مولوی یا پنڈت یا پادری کے واعظ کی ضرورت ہو؟ کبھی تم نے دیکھا کہ ماؤں کے سامنے مولوی یہ لیکچر دے رہے ہوں کہ اے مسلمان ماؤ! اپنے بچوں سے محبت کر دیا پنڈت ہندو عورتوں کے سامنے یہ تقریریں کر رہے ہوں کہ ماؤں کو اپنے بچوں سے محبت کرنی چاہئے؟ یا پادری عیسائی عورتوں کو تلقین کر رہے ہوں کہ اے ماؤ! اپنے بچوں سے محبت کرو؟ یا کبھی تم نے دیکھا کہ قومی تحریک کے نام سے یہ تحریک اٹھی ہو کہ ماؤں کے دلوں میں بچوں کی محبت پیدا کی جائے ؟ یا کبھی تم نے دیکھا کہ گورنمنٹ نے ایسی کتابیں تصنیف کی ہوں جن میں یہ لکھا ہو کہ ماؤں کو بچوں سے محبت کرنی چاہئیے ؟ تم نے دنیا میں ایسا کبھی نہیں دیکھا اس لئے کہ ایسے وعظ کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی.بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں اسے اپنے گلے سے چمٹا لیتی ہے اور پھر اسے چمٹائے چلی جاتی ہے.وہ بعض دفعہ ناراض بھی ہوتی ہے اور ناراض ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر اس کی ناراضگی بھی اس کی محبت کو نہیں چھڑا سکتی.
خطبات محمود ۷۵۴ سال ۱۹۳۸ء سوائے اس کے کہ کوئی دوسرا از بر دست جذبہ محبت اس محبت کے مقابلہ میں آجائے.جیسے کوئی دیندار باپ اپنے اس بیٹے سے جو خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہو قطع تعلق کر لیتا ہے اور وہ کی خدا کی محبت کے لئے اپنے دل کے ٹکڑے کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے مگر باوجود اس کے یہ غیرت کا جذبہ اُس کی محبت کو مٹاتا نہیں ، وہ اس جذبہ کو چھپا دیتا ہے، انسانی نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے مگر ا سے جڑ سے اکھیڑ نہیں سکتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک دیندار باپ اپنے بے دین بچہ سے محبت کا اظہار خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے چھوڑ دے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ محبت کا جذ بہ گلیہ مفقود ہو جائے.باوجود اس کے کہ وہ ظاہری طور پر اس سے محبت نہیں کرتا ، اس کا دل کڑھتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ دعا کرتا رہتا ہے کہ اے خدا! تو میرے بچہ کو بچا.وہ بعض دفعہ اسے دیکھنا بند کر دیتا ہے، اس سے ملنا جلنا بند کر دیتا ہے، اس کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیتا ہے، اسے خرچ دینا بند کر دیتا ہے، اس کے گھر میں رہنا بند کر دیتا ہے ، یا اسے اپنے گھر میں رہنے دینے سے انکار کر دیتا ہے ، مگر اس کے دل کا زخم ایک ناسور کی طرح رستا رہتا ہے اور اس کی موت تک یہی حالت رہتی ہے.اور وہ خدا تعالیٰ سے رو رو کر کہتا رہتا ہے کہ اے خدا ! میں نے تیرے لئے اپنے بچہ کو چھوڑ دیا ہے تو اپنے فضل سے اسے پھر مجھے واپس دلا دے.تو حقیقی نفرت ایک باپ کو اپنے بچہ سے یا ایک ماں کو اپنے بیٹے سے کبھی نہیں ہو سکتی.جب ماں باپ غصے بھی ہوں گے تب بھی اُس کی تبہ میں محب کا جلوہ کارفرما ہوگا اور زیادہ سے زیادہ اگر ہوگا تو ہی ہوگا کہ ایک بڑی محبت چھوٹی محبت کو دبا دے گی مگر وہ اسے مار نہیں سکتی ، اسے کچل نہیں سکتی ، اسے مٹا نہیں سکتی.تو جہاں حقیقی تعلق ہوتا ہے وہاں وقفہ نہیں پڑتا بلکہ دائمی محبت اور دائمی قربانی کی روح کام کرتی نظر آتی ہے مگر جہاں محبت کی کمی ہوتی ہے وہاں قربانیوں میں وقفے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں.پس اگر تمہاری قربانیوں نے کوئی نیک نتائج پیدا نہیں کئے تو سمجھ لو کہ تمہارا خدا تعالیٰ سے عارضی تعلق تھا اور جب تم نے کسی عارضی تحریک کے ماتحت قربانی کی تو اس کا وہ نتیجہ کس طرح پیدا ہوسکتا تھا جو دائمی قربانی کے نتیجہ میں پیدا ہو ا کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا کہ فلاں شخص بڑا عبادت گزار ہے کیونکہ اس نے
خطبات محمود ۷۵۵ سال ۱۹۳۸ء چھت میں ایک رستہ لٹکا رکھا ہے جب نماز پڑھتے پڑھتے اسے نیند آنے لگتی ہے تو رسہ پکڑ کر کھڑا کی ہو جا تا ہے.تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں.عبادت وہی ہے جس میں انسان کو دوام اور استقلال نصیب ہو تے پس بے شک تم میں سے بعض نے بڑی بڑی قربانیاں کیں مگر جب تم نے ان قربانیوں کے بڑے بڑے نتائج نہیں دیکھے تو سمجھ لو کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ تم میں استقلال نہیں تھا جس کے معنی یہی ہیں کہ تم میں حقیقی محبت نہ تھی.ورنہ اگر تمہارے اندر حقیقی محبت ہوتی تو یقیناً تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے اور تمہاری زکوتیں کی اور تمہارے حج اور تمہارے چندے بہت زیادہ شاندار اور اعلی نتائج پیدا کرتے اور تم اپنی موت سے پہلے اپنے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتے اور تمہاری موت شبہ کی موت نہ ہوتی بلکہ مرتے وقت انتہائی راحت اور آرام کی گھڑی تمہیں نصیب ہوتی.موت کیا ہے؟ ایک نہایت ہی خطرناک راہ.جس طرح ایک اندھیرے کنویں میں چھلانگ لگانے والا یہ نہیں جانتا کہ اس کنویں کی تہہ میں سانپ یا بچھو ہیں یا آراستہ و پیراستہ محلات.اسی طرح مرنے والا نہیں جانتا کہ موت کے بعد اس کے لئے آرام دہ زندگی اس کا انتظار کر رہی ہے یا تکلیف اور مصیبت کی گھڑیاں اسے اپنی طرف بلا رہی ہیں.وہ چھلانگ لگاتا ہے مگر ایک گھنٹہ کے لئے نہیں ایک دن کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے.وہ جانتا ہے کہ اس موت کے بعد اس کے لئے کوئی کو ٹنا نہیں.وہ جانتا ہے کہ پھر کبھی وہ اِس جہان میں واپس نہیں آسکتا.پس اگر اس موت کے بعد عذاب ہے تو ہمیشہ کے لئے عذاب ہے اور اگر اس موت کے بعد راحت ہے تو ہمیشہ کے لئے راحت ہے.اس بات کو جانتے ہوئے وہ چھلانگ لگاتا ہے اور وہ بھی خود نہیں بلکہ اُسے مجبور کیا جاتا ہے کہ اس میں گو دے.پس جب وہ انسانی نظروں سے ہمیشہ کے لئے پوشیدہ ہو رہا ہوتا ہے، جب وہ اس جہان کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہا ہوتا ہے اگر اُس وقت جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے فرشتے آئیں اور اسے کہیں کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ تمہارا انتظار کر رہا ہے تو دیکھو اس کی موت کی گھڑی کی خوشی سے کس قدر لبریز ہو جائے گی.یقیناً اُس وقت کی خوشی کے مقابلہ میں اگر سارے جہان کی خوشیاں بھی ملا کر رکھ دی جائیں تو وہ بالکل بے حقیقت ہوں گی کیونکہ دنیا میں ہر خوشی کے ساتھ یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ خوشی جلد ہی زائل ہو جائے گی مگر وہ خوشی ایسی ہے جس کے متعلق ا.ނ
خطبات محمود ۷۵۶ سال ۱۹۳۸ء یہ یقین ہوگا کہ وہ کبھی زائل نہیں ہو سکتی.پس موت کے وقت کی ایک منٹ کی خوشی بھی ساری زندگی کی خوشیوں سے ہزاروں گنے زیادہ خوشی کا موجب ہے اور اگر یہ خوشی کسی کو نصیب ہو جائے تو وہ نہایت اطمینان سے اپنی جان اپنے خدا کے سپر د کرے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہے.مگر اس کے مقابلہ میں کس قدر تکلیف اور دُکھ کی وہ موت ہے جس میں ایک طرف انسان اپنے بیوی بچوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ انہیں وہ اکیلا چھوڑے جا رہا ہے اور ان کا کوئی نگران و پُرسانِ حال نہیں اور دوسری طرف اسے خود یہ پتہ نہیں ہوتا کہ نہ معلوم میرے لئے دائمی آرام اور راحت کا سامان تیار ہے یا دائمی دُکھ اور عذاب کا سامان تیار ہے.اس کی وہ گھڑیاں کتنے شک اور شبہ کی گھڑیاں ہوں گی اور وہ کس قدر دُکھ اور تکلیف محسوس کر رہا ہو گا.جو شخص اس دُبد ہا اور شک کو دُور کر لے اُس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ خوش نصیب کی اور کوئی نہیں ہوسکتا.تو تحریک جدید بھی استقلال سکھانے کیلئے ہے اور رمضان بھی لوگوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرتا ہے.پس تم رمضان سے سبق حاصل کرتے ہوئے استقلال والی نیکی اختیار کرو اور اپنی وہ حالت نہ بناؤ کہ کبھی کھڑے ہو گئے اور کبھی گر گئے.کم سے کم چند نیکیاں تو اپنے اندر ایسی پیدا کرو جن میں تم مستقل ہو اور جن کو تم کسی صورت چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو.بے شک انسان کیلئے ہر وقت نیکی کے قدم مختلف ہوتے ہیں اور ہر لحظہ اسے نیکی کرنی چاہئے مگر کم سے کم کچھ نیکیاں کی ایسی ضرور ہونی چاہئیں جن کے متعلق انسان یہ کہہ سکے کہ میں نے جب سے انہیں کرنا شروع کیا ہے کبھی انہیں نہیں چھوڑا.ایک مؤمن کو کم سے کم یہ ضرور کہنا چاہئے کہ میں نے جب سے نماز پڑھنی شروع کی ہے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی ، میں نے جب سے روزے رکھنے شروع کئے ہیں کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑا جو شرعی طور پر میرے لئے رکھنا ضروری تھا اور کبھی مالی قربانی کی سے احتراز نہیں کیا جس کا پیش کرنا میرے لئے ضروری تھا.اسی طرح عورتیں بھی اپنے اندر کی استقلال والی نیکی پیدا کر کے کہہ سکتی ہیں کہ ہم نے ان دنوں کو مستثنی کرتے ہوئے جن میں شریعت نے ہمیں رخصت دی ہوئی ہے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی یا کبھی کوئی مالی قربانی کا موقع ایسا نہیں نکلا جس میں ہم نے حصہ نہ لیا ہو.اگر کم سے کم یہ تین نیکیاں ہی انسان میں پیدا ہو جائیں
خطبات محمود ۷۵۷ سال ۱۹۳۸ء مثلاً عبادت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھنا ، مالی خدمات کے ذریعہ مخلوق خدا کو ی نفع پہنچانا اور روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی کرنا تو وہ کہ سکتا ہے کہ تین ایسی عظیم الشان نیکیاں مستقل طور پر میرے اندر پائی جاتی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میرے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں.میں نے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی ، میں نے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑا اور کبھی کوئی چندہ کا ایسا موقع نہیں نکلا جس میں میں نے حصہ نہیں لیا.اگر ان تینوں نیکیوں پر کسی شخص کا کی قدم مضبوطی سے قائم ہو اور باقی نیکیوں میں اس کا قدم کبھی ڈگمگا بھی جائے تو کم سے کم وہ یہ کی ضرور یقین رکھے گا کہ میرا ان تین نیکیوں کے عوض جنت میں مکان ضروری ہے اور کوئی نہ کوئی ٹھکانہ میرا وہاں موجود ہے کیونکہ ہر مستقل نیکی جنت کا ایک مکان ہے.بے شک وہ شخص بہت زیادہ خوش قسمت ہے جس کے جنت میں کئی محل ہوں مگر جس کا ایک محل ہو وہ بھی تو خوش قسمت کی ہے.دنیا میں ہزار ہا نیکیاں ہیں جن کا استقلال سے بجالا نا جنت میں مختلف محلات تیار کر دیتا ہے مگر ادنی نیکی یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات کا ہد یہ اللہ تعالی کے حضور پیش کیا جائے ، نماز کے ذریعہ اس کے قُرب کو تلاش کیا جائے اور مالی قربانیوں کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق ادا کئے جائیں.اگر کوئی شخص استقلال کے ساتھ بغیر ناغہ، بغیر وقفہ، بغیر تنزل اور بغیر قدم ڈگمگانے کے یہ نیکیاں کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے تو ہم اس کے متعلق یقین کر سکتے ہیں کہ اس کے نفس کی کو اطمینان حاصل ہو گیا اور اس کی موت کی گھڑیاں دُبر ہا اور شک کی گھڑیاں نہیں ہونگی.یہ تین زبر دست شاہد ہیں جو ایک انسان کے ایمان کی شہادت دینے کیلئے کافی ہیں.دُنیوی عدالتوں میں بعض جگہ دو اور بعض جگہ چار گواہ کافی سمجھے جاتے ہیں، الہی عدالت میں بھی ان تین گواہوں کی گواہی رد نہیں کی جاسکتی بلکہ اگر ان کے ساتھ کوئی چوتھی نیکی بھی ملالی جائے تو یقیناً وہ کی اللہ تعالیٰ کی محبت کا وہ بہترین ثبوت پیش کرے گا جو کسی قضاء میں خطا نہیں جاتا اور کہیں نا کام کی نہیں ہوتا.تیسر اسبق ہمیں رمضان سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر مشقت برداشت کئے حاصل نہیں ہو سکتی.جس کا اظہار تعلّكم تتقون کے میں کیا گیا ہے.گویا رمضان جہاں
خطبات محمود ۷۵۸ سال ۱۹۳۸ء ہمیں یہ بتا تا ہے کہ کوئی قربانی استقلال کے بغیر قبول نہیں ہوتی تو وہاں ہمیں وہ یہ بھی بتا تا ہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور وہ شخص جو چاہتا ہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرلے وہ پاگل اور احمق ہے اور اسے کسی جگہ بھی کی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.آج ہمارے سامنے دنیا کی تین قو میں موجود ہیں جن میں سے دو ہمارے سامنے گریں اور کی پھر ہمارے سامنے ہی بلند ہوئیں اور ایک جو پہلے کمزور تھی مگر ہماری زندگیوں میں بیدار ہوئی اور کی اس نے ترقی کی.ہم میں سے وہ لوگ جو میں چالیس سال کی عمر کے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ تو میں ان کی آنکھوں کے سامنے گریں اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے ہی اٹھیں.وہ اٹلی اور جرمنی ہیں اور جو پہلے کمزور تھی اور دیکھتے دیکھتے بڑھ گئی وہ جاپان ہے.جرمنی قوم ہماری آنکھوں کے سامنے ۱۹۱۸ء میں گری ۱۹۲۸ ء میں اس نے اٹھنا شروع کیا اور ۱۹۳۵ ء یا ۱۹۳۸ء میں وہ منتھا ئے طاقت کو جا پہنچی لیکن کن قربانیوں کے ساتھ ؟ ایسی قربانیوں کے ساتھ جو ایک یا دو نے نہیں بلکہ سارے ملک نے کیں.ہماری جماعت بھی قربانیاں کرتی ہے لیکن اُن قربانیوں کی کو اگر دیکھا جائے جو جرمن قوم نے کیں تو ایک نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہو جاتی ہیں.گو ایک دوسرے نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان سے بڑھی ہوئی ہیں.اخلاقی لحاظ سے ہماری قربانیاں بڑی ہیں اور عملی لحاظ سے اُن کی قربانیاں بڑی ہیں.انہوں نے اپنے کھانے ، پینے، پہننے اور قریباً زندگی کے ہر عمل پر ایسی حد بندیاں لگائی ہوئی ہیں جن کو سنج کر حیرت ہوتی ہے اور کوئی شخص ان حد بندیوں کو نہیں تو ڑ سکتا.گورنمنٹ ایک قانون بنا دیتی ہے ہے اور تمام لوگوں کو کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے اس قانون کی اتباع کرنی پڑتی.اور رات دن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں اس لحاظ سے یقیناً ان کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں.لیکن ایک لحاظ سے ہماری قربانیاں اُن سے بڑھی ہوئی ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کو طاقت کے زور سے چلایا جاتا ہے اور ہم میں سے ہر شخص اخلاص اور اپنی مرضی سے قربانی میں حصہ لیتا ہے اور اصل قربانی دراصل وہی ہوتی ہے جو اپنی رضا اور اپنی مرضی سے کی جائے.پس اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے ہماری قربانی اُن سے بہت زیادہ ہے کیونکہ مرضی سے قربانی کرنا ہی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اصل قربانی ہے وہ قربانی جو جبر اور زور سے کرائی جائے وہ قربانی نہیں کہلا سکتی.پس جرمن قوم کی قربانی جرمن قوم کی نہیں کہلا سکتی وہ دراصل اُن افراد کی قربانی ہے جو تمام ملک کو بعض خاص اصول کے ماتحت چلا رہے ہیں.پس وہ جرمن قوم کی قربانی نہیں بلکہ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی ہے جو اپنی قوم سے زور اور جبر سے قربانی کرا رہے ہیں اور خود قربانیاں کر رہے ہیں.پہلے وہ کسی نہ کسی بہانہ سے آگے آگئے اور جب انہیں حکومت پر تصرف حاصل ہو گیا تو انہوں نے جبر سے ایسی طرز پر قوم کو چلانا شروع کیا جس کے نتیجہ میں ان کی قوم کو بہت بڑی ترقی حاصل ہو گئی.پس اس میں جرمن قوم کی اتنی قربانی نہیں جتنی ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی ہے مگر عملی لحاظ سے جو تکلیفیں انہوں نے اٹھائی ہیں وہ ہماری جماعت نے بالکل نہیں اٹھا ئیں.انہیں کھانے اور پینے کے متعلق بھی اس قدر پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں جس قدر کہ ہم لوگوں کو سارے شعبہ ہائے زندگی میں برداشت نہیں کرنی پڑتیں.کبھی شکر پر پابندی لگتی ہے، کبھی گھی پر کبھی ترکاریوں پر ، کبھی گوشت پر، کبھی آئے پر اور انہیں وہ پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں.یہاں تک کہ بعض ایام میں ان پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ خالص آٹا نہ کھائیں بلکہ اس کے اندر ایک خاص مقدار میں لکڑی کا برادہ ملا کر کھائیں.انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور بہتوں نے خوشی سے برداشت کیا.اسی طرح لباس پر پابندیاں عائد ہیں.حکم دیا جاتا ہے کہ فلاں کپڑا پہننا ہے کہ اور فلاں نہیں پہنا کیونکہ فلاں ملک سے جہاں ممنوع کپڑا بنتا ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں اور معاً تمام ملک کے کپڑے تبدیل ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب مکان تعمیر ہوتے ہیں تو سامانوں کی پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ فلاں سامان استعمال کیا جائے اور فلاں سامان استعمال نہ کیا جائے.غرض رات دن ان کے کھانے پینے ، پہنے اور سونے پر پابندیاں عائد رہتی ہیں.حتی کہ جرمن حکومت نے کتابوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں کہ فلاں کتابیں پڑھنی ہیں اور فلاں نہیں پڑھنیں اور تمام قوم چُپ چاپ ان پابندیوں کو قبول کرتی چلی جاتی ہے.پس عملی لحاظ سے ان کی تکلیف بہت زیادہ ہے مگر ان کی مشکلات ایسی ہی ہیں جیسے ایک قیدی کو مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے.اب ایک قیدی بھی سادہ غذا کھاتا ہے مگر تم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قیدی نے بڑا ایثار کیا وہ سادہ غذا کھاتا ہے کیونکہ قیدی کو مجبور کر کے سادہ کھانا کھلایا جاتا ہے.اسی طرح کی
خطبات محمود ۷۶۰ سال ۱۹۳۸ جرمن قوم کی تعریف نہیں کی جائے گی کیونکہ جبر سے اس سے قربانیاں کروائی جاتی ہیں لیکن تمہاری تعریف کی جائے گی کیونکہ تم نے خدا تعالیٰ کیلئے اپنے نفس پر پابندیاں عائد کیں.پس گوان کی تکلیف زیادہ ہے مگر ان کا ثواب کم ہے کیونکہ طاقت اور قانون کے زور سے ان سے یہ قربانیاں کرائی جارہی ہیں اور گو تمہاری قربانیاں اور تکلیف کم ہے مگر تمہارا ثواب زیادہ ہے کیونکہ تم اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کر رہے ہولیکن بہر حال اس کا فائدہ انہیں پہنچ گیا اور گو طاقت اور قانونِ حکومت کے ڈر سے انہوں نے قربانیاں کیں لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس سال کے اندر ایک مُردہ قوم ترقی کر کے معراج کمال تک پہنچ گئی.یہی حال اٹلی کا ہے.اٹلی کی قوم بھی مُردہ تھی ،مگر اس نے بھی مشقتوں کا اپنے آپ کو عادی بنا کر اور متواتر قربانیاں کر کے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ کی دبد بہ اور رُعب حاصل کر لیا.اسی طرح جاپان بھی مُردہ تھا مگر جب ان میں قربانی کی روح پیدا ہو گئی تو وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا.تو رمضان میں قربانی اور استقلال کے ساتھ قربانی کا سبق مؤمنوں کو سکھایا جاتا ہے اور انہیں مشقت برداشت کرنے کا عادی بنایا جاتا ہے.اگر اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تحریک جدید کے مطالبات کو عملی جامہ پہنایا جائے تو یقیناً وہ اہم ثمرات پیدا ہونگے جو الہی قوموں کی جد و جہد کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتے ہیں.ہمارے ثمرات یقیناً دیر کے بعد آنے والے ہیں اور ہماری مثال اٹلی ، جرمن اور جاپان کی نہیں.وجہ یہ کہ اٹلی، جرمن اور جاپان نے ملکوں کو فتح کیا مگر ہم نے دلوں کو فتح کرنا ہے اور دلوں کو فتح کرنا ملکوں کے فتح کرنے سے زیادہ مشکل ہوا کرتا ہے.پس ہماری فتح کویقینی ہے مگر وہ کچھ دیر کے بعد دیر آید درست آید کے مقولہ کے مطابق آنے والی ہے.اس کے علاوہ ہم میں اور ان میں ایک اور فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر جرمنی نے ترقی کی تو کی صرف جرمنی کی قوم کو اس نے عروج پر پہنچایا ، اگر اٹلی نے ترقی کی تو صرف اٹلی کی قوم کو اس نے کی عزت کا مستحق بنایا اور اگر جاپان نے ترقی کی تو صرف جاپانیوں کو اس نے معراج کمال تک پہنچایا لیکن اگر ہماری کوششوں کو اللہ تعالیٰ بار آور فرمائے تو وہ صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ
خطبات محمود ۷۶۱ سال ۱۹۳۸ء ساری دنیا کو فائدہ پہنچا ئیں گی اور ہماری فتح جسموں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہوگی اور ہماری فتح انسانوں کی پر نہیں بلکہ فرشتوں پر ہوگی بلکہ اگر بے ادبی نہ ہو تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خدا بھی ہمارے قبضہ میں آجائے گا.پس ہماری کوششوں کے نتائج بہت اہم ہیں اور ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اور ہماری منزل بہت دور ہے.کئی بیوقوف نو جوان ہیں جو کہہ دیا کرتے ہیں کہ جاپان نے تمہیں سال میں ترقی کر لی ، اٹلی نے ہمیں سال میں ترقی کرلی اور جرمنی نے دس سال میں ترقی کی کر لی مگر ہم نے ان کے مقابلے میں کچھ بھی ترقی حاصل نہیں کی.وہ بیوقوف یہ نہیں جانتے کہ وہاں قوم کی قوم ایک مقصد کیلئے کھڑی تھی اور یہاں صرف ایک آدمی سے جد و جہد شروع ہوئی.جاپان نے جب دوڑ شروع کی تو اس نے چار کروڑ لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر دوڑ لگائی اور تمیں سال کی جدو جہد کے بعد اس نے چار کروڑ کو چھ کروڑ بنایا.اٹلی نے جب دوڑ شروع کی تو اس نے بھی چار پانچ کروڑ لوگوں کو ساتھ لے کر دوڑ شروع کی اور بیس سال کے عرصہ کے بعد انہیں چار سے پانچ کروڑ یا پانچ سے چھ کروڑ بنا دیا.اسی طرح جرمنی نے جب دوڑ شروع کی تو اس نے سات کروڑ لوگوں کے ساتھ شروع کی اور دس سال بعد انہیں آٹھ کروڑ بنادیا.گویا وہ اس جد و جہد میں صرف چودہ فیصدی سے لے کر پچاس فیصدی تک بڑھے حالانکہ کروڑوں لوگ کی ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا کو لے کر کھڑے ہوئے تھے.اس کے مقابلہ میں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہماری دوڑ صرف ایک شخص سے شروع ہوئی.ایک کی شخص نے قادیان میں کھڑے ہو کر جو تمام متمدن دنیا سے الگ ایک گوشہ میں پڑا ہوا گاؤں تھا ساری دنیا کے مقابلہ میں لڑائی شروع کر دی اور پھر وہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ پہلے وہ ایک تھا مگر آج کئی لاکھ آدمی اس کے ساتھ ہیں.پس اٹلی اور جرمنی اور جاپان نے پچاس فیصدی ترقی کی لیکن یہاں ایک سے کئی لاکھ بن گئے.اب پچاس فیصدی اور لاکھ فیصدی میں بھلا کوئی نسبت ہے؟ پھر جس جس میدان میں قربانی کی ضرورت تھی ان تمام میدانوں میں جماعت احمدیہ نے قربانی کی.پس ہماری جماعت نے بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن چونکہ ہماری جدوجہد کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لئے گو ہماری موجودہ کامیابی بھی بہت بڑی ہے مگر ہمارا اصل مقصدا بھی دور ہے اور گووہ دیر میں آنے والا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے مقابلہ میں تمام دنیا کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ فتوحات بھی بیچ ہیں کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا حلقہ اثر عالمگیر ہے.چوتھا سبق رمضان سے ہمیں یہ حاصل ہوتا ہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر دعا کے حاصل نہیں ہوسکتی بالخصوص دین میں تو کوئی کامیابی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک دعا نہ کی جائے دُنیا بغیر دعا کے حاصل ہو جائے تو ہو جائے دین حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ حقیقت ، ہے کہ دنیوی کامیابیوں کے لئے بھی عملی دعا ضروری ہوتی ہے جسے دوسرے لفظوں میں قوت ارادی کہتے ہیں.قوت ارادی اور عزم در اصل دعا ہی کا ایک نام ہے.دعا کیا ہے؟ اپنے عزم اور ارادہ کا لفظوں میں اظہار.بہر حال کوئی دینی جماعت بغیر دعا کے ترقی نہیں کر سکتی ہی یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں روزوں کے احکام کے ذکر میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ، ٥ جب مؤمن روزے رکھیں ، قربانیاں کریں اور استقلال سے قربانیاں کرتے چلے جائیں اور اس کے بعد دعاؤں سے کام لیں تو وہ دعا خالی نہیں کی جاتی بلکہ ضرور ان کو ان کے مقاصد میں کامیاب کرتی ہے مگر فرمایا جب استقلال اور قربانیوں کی کے بعد دعا کریں گے تب ان کی دعاسنی جائے گی یونہی نہیں.گو یا اللہ تعالیٰ نے استقلال، قربانیوں اور دعا کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے بغیر دعا کے استقلال کے ساتھ قربانی کرنا دینی عالم میں بیج ہے اور بغیر استقلال والی قربانیوں کے دعا انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی.وہ فرماتا ہے أجِيبُ دَعْوَةٌ الداعر اِذا دَعَانِ جو اس رنگ میں دعا کرنے والے ہوں میں ان کی کی دعاؤں کو سنا کرتا ہوں یعنی جو استقلال کے ساتھ قربانیاں کریں اور پھر کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کامیابی کیلئے دعائیں بھی کریں ان کی دعا ضرور قبول ہو کر رہتی ہے.بعض لوگ غلطی سے اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا کی ہے اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ جب خدا کا یہ وعدہ ہے تو پھر ان کی بعض دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں مگر یہ استدلال درست نہیں.اس جگہ تمام دعاؤں کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ نہیں کی کیا بلکہ فرمایا ہے اُجیب دعوة الداع میں اس دعا کرنے والے کی دعا کوئنتا ہوں جس کی کا ذکر اوپر ہوا ہے.اور اس سے پہلے رمضان اور روزوں کا ذکر ہے جو استقلال سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے کا سبق دیتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان شرائط کو
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء ملحوظ رکھتے ہوئے جن کا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کوئی شخص دعا کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے.اگر کوئی مجھے مقدس سے مقدس مقام میں بھی کھڑا کر دے تو میں وہاں کھڑا ہو کر یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہوں کہ اس قسم کی دعا ہر گز رد نہیں ہوتی.کوئی قوم جو خدا تعالیٰ کے لئے مستقل قربانیاں کرنے کے ارادہ سے کھڑی ہو جائے اور پھر قربانیاں کرتی چلی جائے اور دعا سے بھی کام لے وہ ضرور کامیاب ہو جاتی ہے.سابق انبیاء علیھم السلام کی جماعت کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کیا دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا گزرا ہے جو نا کام ہوا ہو؟ تاریخ سے کوئی ایک نبی ایسا ثابت نہیں کیا جا سکتا جو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا.دعویٰ نبوت کے بعد نا کام وہی رہا ہو گا جس نے جھوٹا دعوی کیا ہوگا سچا دعوی کرنے والا کبھی نا کام نہیں ہوا.یہ الگ امر ہے کہ کامیابی جلد آئے یا دیر سے.بہر حال سچے نبی کو کامیابی ہوتی ضرور ہے اور پھر وہ کی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ان کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے.تم نے دیکھا کہ گزشتہ سالوں میں جماعت پر کیسے کیسے فتنے آئے.ہر دفعہ لوگوں نے یہی سمجھا کہ اب یہ سلسلہ مٹ جائے گا مگر ہر دفعہ تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی معجزانہ رنگ میں حفاظت کی اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھا جس میں پہلے سے زیادہ جماعت نے ترقی نہیں کی.مختلف ممالک میں احمدیت پھیلتی جارہی ہے اور اسی طرح پھیلتی پھیلتی انشاء اللہ ساری دنیا کو ایک دن ادھر کھینچ لائے گی.یہ چوتھا سبق جو رمضان سے حاصل ہوتا ہے اس کا تعلق بھی تحریک جدید کے ساتھ ہے کیونکہ میں نے اُنیسواں مطالبہ یہی رکھا ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کو ترقی دے.دعا کے بغیر ہماری قربانیوں کے وہ نتائج پیدا نہیں ہو سکتے جو ہم دیکھنے کے خواہش مند ہیں کیونکہ ان کی نتائج کا پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.ایک ملک جو بارش کی کا محتاج ہو تم اگر محنت کر کے اس کی زمین میں ہل بھی چلا دو، عمدہ بیج بھی ڈال دو لیکن آسمان سے بارش نہ اُترے تو تمہاری محنت کیا نتیجہ پیدا کر سکتی ہے.اسی طرح جس نتیجہ کے ہم امید وار ہیں وہ آسمانی بارش چاہتا ہے اور وہ آسمانی بارش دعاؤں سے ہی نازل ہوسکتی ہے.پس وہ رمضان میں نازل ہوسکتی ہے.پس رمضان میں تحریک جدید سے اور تحریک جدید میں رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ چار بڑی بڑی مناسبتیں رمضان کی تحریک جدید سے ہیں اور یہ چار مناسبتیں
خطبات محمود ۷۶۴ سال ۱۹۳۸ تحریک جدید کی رمضان سے ہیں پس اگر تم رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو تحریک جدید پر عمل کرو اور اگر تحریک جدید کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہوتو روزوں سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھاؤ.تحریک جدید یہی ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو اور محنت ومشقت اور قربانی کا اپنے آپ کو عادی بناؤ.یہی سبق رمضان تمہیں سکھانے آتا ہے پس جس غرض کے لئے رمضان آیا ہے اس غرض کے حاصل کرنے کی جدو جہد کر وایسا نہ ہو کہ اپنی زندگی ایسی طرز میں گزار دو کہ رمضان کا آنا نہ آنا تمہارے لئے برابر ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں روزے خوید کا کام دیتے ہیں جس طرح گھوڑے کو خوید دی جاتی ہے جس سے وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح رمضان میں بعض لوگ غذا کا خاص اہتمام رکھتے ہیں.رات اور دن گھی اور پر اٹھے کھاتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزے رکھ کر وہ پہلے سے بھی موٹے ہو جاتے ہیں.یہ طریق دراصل اس روح کے خلاف ہے جس کو پیدا کرنے کے لئے روزے مقرر کئے گئے ہیں.پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کا رمضان تحریک جدید والا ہو اور تحریک جدید رمضان والی ہو.رمضان ہمارے نفس کو مارنے والا ہو اور تحریک جدید ہماری روح کو تازگی بخشنے والی ہو.پس جب میں نے کہا ہے کہ رمضان سے فائدہ اٹھاؤ تو دراصل میں نے تمہیں یہ سمجھایا ہے کہ تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد کو رمضان کی روشنی میں سمجھو اور جب میں نے کہا کہ تحریک جدید کی طرف توجہ کرو تو دوسرے لفظوں میں میں نے تمہیں یہ کہا ہے کہ تم ہر حالت میں رمضان کی کیفیت اپنے اوپر وار د رکھو اور صحیح قربانی اور مسلسل قربانی کی اپنے اندر عادت ڈالوجو رمضان بغیر کچی قربانی کے گزر جاتا ہے وہ رمضان نہیں اور جو تحریک جدید بغیر روح کی تازگی کے گزر جاتی ہے وہ تحریک جدید نہیں.اگر کوئی شخص سالہا سال سے قربانیاں کر رہا ہے مگر اس کے اندر بشاشت ایمانی پیدا نہیں ہوتی تو اس کو اس کی قربانیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.وہ محض سر پھوڑنے والی بات ہے اور کچھ نہیں.اب پھر وہ وقت آگیا ہے جبکہ تحریک جدید کے پانچویں سال کی مجھے تحریک کرنی چاہئے مگر اس وقت میں صرف اصولی رنگ میں اس طرف توجہ دلا دیتا ہوں.آج میں نے چاہا کہ.-
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء تمہیں تحریک جدید کے اصول کی طرف توجہ دلا دوں اور بتا دوں کہ بغیر ان اصول کو اختیار کئے وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جن فوائد کو حاصل کرنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں.دراصل جب تک انسان کسی امر کی حکمت سے واقف نہیں ہوتا اُس وقت تک باوجود اس کے کہ اس کا کام اچھا ہو، اچھے نتائج پیدا نہیں ہوا کرتے.اب نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج سب کام اچھے ہیں اور سب مؤمن ان احکام کو بجالاتے ہیں مگر سارے یکساں فائدہ نہیں اٹھاتے.ساروں کی نمازیں وہ نتیجہ پیدا نہیں کرتیں جو نمازوں سے مقصود ہے، نہ ساروں کے روزے وہ نتیجہ پیدا کرتے ہیں جوروزوں کا مقصود ہے اور نہ ساروں کی زکوتیں وہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں جو ز کوۃ کا مقصد ہے.بعض لوگ بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت کم نکلتا ہے اور بعض لوگ تھوڑا چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت زیادہ نکلتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سنی کہ ابو بکر کو ہم پر کونسی زیادہ فضیلت حاصل ہے.جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اُسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! کی ابو بکر کو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے.پس نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کی بظاہر ایک ہی شکل ہے اور جس طرح ایک شخص ان احکام پر عمل کرتا ہے اُسی طرح دوسرا عمل کرتا ہے مگر پیچھے جو محبت ہوتی ہے وہ نتائج کو بدل کر کہیں کا کہیں لے جاتی ہے.اسی طرح نماز ، روزہ کا فائدہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اٹھاتا ہے.ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور اسے نماز کا بدلہ بھی مل جاتا ہے لیکن اگر اس کے دل کا ظرف چھوٹا ہے تو جتنا نور اس کے دل میں سما سکتا ہے اتنا سما جائے گا اور باقی بہہ کر ضائع ہو جائے گا جیسے اگر کوئی ساقی دودھ تقسیم کر رہا ہو اور اس کے ہاتھ میں ایک گلاس ہو جس کے مطابق اس نے سب کو یکساں دودھ دینا ہو تو وہ شخص جس کے پاس بڑا کٹورا ہو گا وہ تمام دودھ کٹورے میں ڈلوالے گا اور پھر بھی اس کا کٹورا کچھ خالی رہے گا.دوسرے کے پاس فرض کرو اتنا ہی پیالہ ہے جتنے میں گلاس بھر دودھ آ سکتا ہے تو جب وہ دودھ پیالہ میں ڈلوا لے گا تو گو اس کا پیالہ بھر جائے گا مگر اور دودھ کے لئے اس کے پاس کوئی گنجائش نہیں رہے گی.اسی طرح اگر کسی کے پاس تین چوتھائی جگہ ہوگی تو ہم / حصہ تو پڑ جائے گا مگر باقی چوتھائی ادھر ادھر کناروں سے بہہ جائے گا.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اور اگر کسی کے پاس نصف گلاس دودھ کی گنجائش ہے تو نصف گلاس دودھ لے لے گا اور باقی دودھ زمین پر گر جائے گا.اور اگر کسی کے پاس بہت ہی چھوٹی کٹوری ہے تو اس میں چند گھونٹ کی دودھ پڑ جائے گا اور باقی ضائع ہو جائے گا.اسی طرح بے شک نماز یکساں فائدہ لاتی ہے، روزہ یکساں فائدہ لاتا ہے، حج اور زکوۃ یکساں فائدہ لاتے ہیں لیکن اگر کسی کا ظرف چھوٹا ہو اور دل ان انوار کو سمیٹ نہ سکے جو نماز روزہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترتے ہیں تو وہ ضائع کی چلے جائیں گے.تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا حصول بھی ظرف کے مطابق ہوتا ہے جتنا ظرف کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اتنی چیز اس کے ظرف میں پڑ جاتی ہے اور جو زائد ہوتی ہے وہ بہہ جاتی ہے.یہ ظرف کی وسعت اور تنگی کی حکمت کو سمجھنے اور جڑ کو پکڑنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جیسے جیسے انسان احکام کی حکمت سمجھتا جاتا ہے اس کے دل کا پیالہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنا جتنا وہ احکام کی جڑ کو پکڑتا ہے اتنا ہی اس کے پیالہ میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے گویا پیالے کی وسعت حکمت کو سمجھنے اور اس کی مضبوطی جڑ کو پکڑنے سے پیدا ہوتی ہے.حکمت کے سمجھنے سے ظرف وسیع ہوتا ہے اور جڑ کے پکڑنے سے اس میں دوام اور استقلال پیدا ہو جاتا ہے.جو لوگ احکام کی جڑ کو پکڑ لیتے اور حکمت کو سمجھ لیتے ہیں ان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ واعظوں کے وعظ سے مستغنی ہو جاتے ہیں.انہیں ضرورت نہیں ہوتی کہ واعظ آئیں اور انہیں جگائیں یا حادثات آئیں تو انہیں بیدار کریں وہ بغیر واعظوں کے جگانے کے خود ہی ہوشیار ہوتے ہیں اور بغیر حادثات کے بیدار کرنے کے خود ہی بیدار ہوتے ہیں.تو حکمتوں کو جاننا اور جڑ کو پکڑنا کامیابی کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے.جب تک انسان کسی کام کی حکمت نہیں سمجھتا اس کے دل میں بشاشت پیدا نہیں ہوتی اور جب تک بشاشت پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک انسان اللہ تعالیٰ کے انوار کو جذب نہیں کر سکتا.بشاشت در اصل بھوک کا نام ہے اب اگر کسی کا معدہ ضعیف ہو اور اس کے سامنے بہت سا کھانا رکھا ہوا ہو تو چونکہ اس کے اندر کھانے کے لئے بشاشت نہیں ہوگی اس لئے خواہ اس کے سامنے دو چار سیر کھانا پڑا ہوا ہو جب کھانے لگے گا تو چند لقمے کھا کر ہاتھ کھینچ لے گا لیکن ایک دوسر اشخص جسے بھوک لگی ہوئی ہو اس کے سامنے خواہ تھوڑا ہی کھانا پڑا ہوا ہو سب کھانا اس کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ پیٹ میں چلا جائے گا.اگر پاؤ پڑا ہوا ہوگا تو پاؤ ہی کھا جائے گا اور اگر ڈیڑھ پاؤ پڑا ہو گا تو ڈیڑھ پاؤ کھا جائے گا لیکن دوسرے شخص کے سامنے اگر دوسیر بھی کھانا پڑا ہوا ہوگا تو وہ چند لقموں سے زیادہ کھانا نہیں کھا سکے گا.اگر زیادہ کھائے گا تو اسے لئے آجائے گی اور پہلا کھانا بھی اس کے اندر سے نکل جائے گا.تو حکمتوں کے جاننے کے ساتھ بشاشت اور رغبت پیدا ہوتی اور اس طرح روحانی لحاظ سے ایسی بھوک پیدا ہو جاتی ہے جس سے معنوی طور پر انسان کا ظرف بڑا ہو جاتا ہے.جس طرح انسان کو جتنی زیادہ بھوک لگتی چلی جاتی ہے اُتنا ہی اُس کا معدہ بڑھتا چلا جاتا ہے اسی طرح جن لوگوں کے اندر بشاشت ایمانی پیدا ہو جاتی ہے اُن کا دل وسیع ہو جاتا ہے اور اس میں ربڑ کی سی لچک پیدا ہو جاتی ہے.اور جتنا زیادہ اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقام ملتا جاتا ہے اُتنا زیادہ اُس کا دل پھیلتا چلا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے انوار کو جذب کرتا چلا جاتا ہے.اور جڑ کو پکڑ لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی تھیلی میں کوئی چیز ڈال کر اوپر سے تسمہ باندھ لیا جائے.اس طرح نیکی میں دوام پیدا ہو جاتا ہے اور اس دوام کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان ایسا تعلق پیدا کر لیتا ہے کہ پھر اس کا قدم کبھی لڑکھڑاتا نہیں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جب ہم دین کی طرف توجہ کریں تو ان مسئلوں کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جب تک بشاشت ایمانی ہمیں حاصل نہیں اور جب تک ہم احکام کی جڑ کو نہیں پکڑتے اُس وقت تک نہ نیکیوں میں دوام پیدا ہوسکتا ہے اور نہ قربانیوں کے نیک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.بیشک کچھ فضل ضرور نازل ہوں گے مگر وہ اتنے اہم نہیں ہونگے کیونکہ خدا تعالیٰ تو کج انعامات دے گا لیکن ظرف چھوٹا ہوگا اور اس وجہ سے انعامات سے انسان پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے گا.جیسے اگر کوئی میزبان مہمان کے سامنے کھا نا ر کھے تو اب یہ مہمان کا کام ہے کہ وہ کھانا کھائے لیکن اگر اسے پیٹ درد شروع ہو جائے یا متلی ہو جائے تو وہ کس طرح کھا سکتا ہے.پس بے شک جب ہم نمازیں پڑھتے ہیں، جب ہم روزے رکھتے ہیں، جب ہم زکو تیں دیتے ہیں ، جب ہم تو فیق ملنے پر حج کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل بھی نازل ہوتے ہیں مگر چونکہ دل چھوٹا ہوتا ہے اس لئے وہ فضل اِدھر اُدھر بہہ جاتے ہیں یعنی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں مگر ہمارے اپنے نفس فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں لیکن جب
خطبات محمود ۷۶۸ سال ۱۹۳۸ء ہمارے اندر بشاشت ہو تو ہمارا ظرف وسیع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جس قد ر فضل اللہ تعالیٰ کی کی طرف سے نازل ہوتے چلے جاتے ہیں ان تمام فضلوں کو ہمارا دل جذب کرتا چلا جاتا ہے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ فضلوں کا اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے خدایا! مجھے اور دے اور جب خدا تعالیٰ اور فضل نازل کرتا ہے تو وہ اس کو بھی سمیٹ لیتا ہے اور کہتا ہے خدایا! اور دے.اور چونکہ وہ احکام کی حکمتوں کو ساتھ ساتھ سمجھتا جاتا ہے اس لئے اس کا دل وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے تمام فضلوں کو سمیٹ لیتا ہے.گویا جس شخص کے اندر بشاشت ایمانی نہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے ہی ہیں جیسے امتلاء کے مریض کے منہ میں روٹی ڈالی دی جائے اور اسے قے ہو جائے لیکن جس شخص کے دل میں بشاشت ایمانی موجود ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل ایسے ہی ہیں جیسے ہائیڈروکلورک ایسڈ ڈل کی ایک ڈوز یا چورن کی ایک چٹکی.اب چورن کی چٹکی بھوک بڑھا یا کرتی ہے گھٹایا نہیں کرتی.اسی طرح جس شخص کے دل میں بشاشت ہوتی ہے اُس کے اعمال اُس کے لئے چورن بنتے چلے جاتے ہیں مگر جس شخص کے دل میں بشاشت نہیں ہوتی اُس پر خدا تعالیٰ کے فضل ایسے ہی آتے ہیں جیسے امتلاء کے مریض کو کوئی شخص روٹی دے دے ایسے مریض کی روٹی کے کھانے سے بھوک بڑھتی نہیں بلکہ متلی ہو جاتی اور پہلا کھایا پیا بھی باہر آجاتا ہے.پس اپنے اندر بشاشت ایمانی پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے انعامات کو اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کے لئے تیار رہو.اگر تم دیکھتے ہو کہ تم نے پچھلے سال قربانیاں بھی کیں، تم نے نمازیں بھی پڑھیں ،تم نے روزے بھی رکھے تم نے چندے بھی دیئے تم نے حج بھی کیا تم نے زکوۃ بھی دی لیکن باوجود ان کی تمام نیکیوں کے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا تو یقینا تمہیں امتلاء کی تکلیف ہے اور تم میں بشاشت ایمانی نہیں تبھی تمہارا دل شکرہ جاتا ہے اور اسی کے سکڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے کمال کے ساتھ تم پر نازل نہیں ہوتی اور جو نازل ہوتی ہے وہ تمہارے انگ نہیں لگتی.لیکن اگر تمہارے اندر بشاشت ایمانی پیدا ہو جائے تو پھر جتنی زیادہ بشاشت ہوتی چلی جائے گی اتنا ہی تمہارا دل وسیع ہوتا چلا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فضل نازل ہونگے وہ تمہارے انگ بھی لگیں گے اور تمہیں اپنی نیکیوں کا صریح فائدہ بھی دکھائی دینے لگ جائے گا.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء چونکہ اب تین بج چکے ہیں اس لئے میں خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں.اس مضمون کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں بیان کر دوں گا مگر اس وقت میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں نے گزشتہ سالوں میں بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں لیکن چونکہ ابھی ہماری جدو جہد کا زمانہ ختم نہیں ہوا اس لئے ان قربانیوں کے بعد ہماری حالت اُس عورت کی طرح نہیں ہونی چاہئے جس کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ وہ سوت کا نتی اور پھر اسے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی کہ نہ ان ٹکڑوں کا اسے خود کوئی فائدہ ہوتا اور نہ دوسرے لوگ ان سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے.اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری گزشتہ قربانیاں ہمارے لئے سستی کا موجب نہ ہوں بلکہ زیادہ پستی اور زیادہ بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوں تا پچھلی قربانیوں کے نتائج سے بھی ہم فائدہ اُٹھا سکیں اور آئندہ کی برکات بھی ہمیں حاصل ہوں.آمین.“ ( الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۳۸ء) البقرة: ١٨٦ بخاری کتاب فضائل القرآن باب كانَ جِبْرِيلُ يَعْرِضُ الْقُرآنَ (الخ) البقرة: ۱۸۷ ال عمران : ۱۰۴ بخاری کتاب الصوم باب مَنْ لَّمْ يَدَعَ قول الزور (الخ) ابن ماجه كتاب الزهد باب المُدَاوَمَةُ عَلَى الْعَمَل ك البقرة : ١٨٤ البقرة: ١٨٧
خطبات محمود.۳۶ سال ۱۹۳۸ خالص اللہ تعالیٰ کی محبت میں قربانیاں کریں اور تحریک جدید کو کامیاب بنائیں (فرموده ۱۱ رنومبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میں نے گزشتہ جمعہ میں اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان اپنے اندر خاص برکات رکھتا ہے اور ان برکات سے فائدہ حاصل کرنا مؤمن کا کام ہے اور میں نے کی بتایا تھا کہ رمضان بہت سے ایسے فوائد اپنے اندر رکھتا ہے جو ہمیں ان اغراض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جن کی طرف تحریک جدید جماعت کو متوجہ کرتی ہے اور کہ معنوی طور پر تحریک جدید رمضان کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے.وہ مشقت اور قربانی کی روح اور وہ استقلال اور خدا تعالیٰ کے قرب کی جستجو جو رمضان سے وابستہ ہے وہی تحریک جدید کا مقصود ہے.پس جب اس تحریک کا بھی جو شروع کی گئی ہے واحد مقصد اسلام کا قیام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت ہے تو اس کیلئے جماعت جتنی بھی جد و جہد کرے تھوڑی ہے.ہمارا پہلے دور کوکی کامیاب بنانا ایسا ہی تھا جیسا کہ کوئی شخص کسی جگہ کوئی عمارت تیار کرنا چاہے اور اس جگہ کوئی کھنڈر ہو تو اس کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے صاف کرے وہ اینٹیں یا ملبہ جو وہاں پڑا ہوا ہو اُسے وہاں سے ہٹا دے یا وہ بوسیدہ خراب اور کمز ور دیوار میں جو وہاں کھڑی ہوں ان کو توڑ کر
خطبات محمود 221 سال ۱۹۳۸ء گرا دے تا نئی عمارت کے لئے جگہ صاف ہو سکے.تحریک جدید کے پہلے دور کی غرض یہ تھی کہ دشمنانِ احمدیت کے اس حملہ کو توڑا جائے جو انہوں نے احمدیت کو تباہ کرنے کی نیت سے کیا تھا تو مگر صرف میدان کو صاف کر لینا کوئی بڑی چیز نہیں.جب میدان صاف ہو جائے تو اصل غرض اس پر عمارت کا قیام ہوتا ہے سواگر ہم صرف پرانی عمارت کو صاف کر کے اس کی جگہ نئی عمارت کے قیام سے غافل رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.کھنڈر کو صاف کرنا کوئی بڑا کام نہیں بلکہ بعض اوقات نقصان دہ ہوتا ہے اس لئے کہ کھنڈر بھی اپنے اندر سامان عبرت رکھتے ہیں.ایک نئے نظام کیلئے پرانے عبرت کے سامان کو اگر ہم مٹا دیں تو یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اگر کوئی نیا نظام تو قائم نہ کریں اور پرانے عبرت کے سامان کو مٹا دیں تو اس کے بہ معنی ہونگے کہ ہم نے دنیا کو ہدایت کے ایک رستے سے خواہ وہ کتنا ہی مخفی کیوں نہ ہو محروم کر دیا.غرض خالی کھنڈر کو مٹا دینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو گزشتہ خطبہ کے سلسلہ میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر د عظیم الشان امانت کی ہے ایسی عظیم الشان کہ جو بہت ہی کم لوگوں کو دی گئی ہے.وہ امانت صرف یہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو احمدی کہہ لیتے ہیں یا وفات مسیح علیہ السلام وغیرہ چند عقائد کو تسلیم کر لیتے ہیں یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کھنڈروں کو گرانا.حیات مسیح کا عقیدہ دراصل ایک کھنڈر تھا جو اسلامی زمین پر موجود تھا اور وفات مسیح کو تسلیم کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے اس کھنڈر کو ہٹا دیا.کسی کھنڈر کو اگر ہٹا دیا جائے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہاں نئی کی عمارت بنائی جائے اور اگر یہ غرض ہماری نظر کے سامنے نہیں یا ہم نے اسے پورا نہیں کیا تو ملبہ یا اینٹوں یا مٹی کے ڈھیر کو ہٹا دینے سے کیا فائدہ اگر دنیا میں وہ نیا نظام قائم نہیں ہوتا جس کے رستہ میں حیات مسیح روک ہے؟ تو اس کو ہٹانے پر اتنی طاقت اور قوت صرف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.یہ خرابی کوئی نئی نہیں.معا صحابہ کی وفات کے بعد کیونکہ ان کی زندگی میں کسی غلط عقیدہ کی اشاعت کا کوئی امکان نہ تھا.لیکن ان کی وفات کے معاً بعد بلکہ ابھی ان میں سے بعض زندہ ہی تھے یعنی پہلی صدی میں ہی مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ حضرت عیسی زندہ ہیں اور دوبارہ دنیا میں آئیں گے.دوسری صدی میں یہ خیال اور قوی ہو گیا اور تیسری صدی میں قوی تر.
خطبات محمود ۷۷۲ سال ۱۹۳۸ء پہلی اور دوسری صدی میں ہمیں ایسے علماء نظر آتے ہیں جو بالوضاحت اور بالبداہت اس عقیدہ کے خلاف اعلان کرتے ہیں مگر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ایسے لوگ کم ہوتے گئے.حتی کہ آخری زمانہ یعنی پانچویں اور چھٹی صدی سے یہ مسلمانوں کے اندر ایسے طور پر قائم ہو گیا کہ گویا اسلام کا جزو ہے.کیا مصر اور کیا سپین ، کیا مراکش اور کیا الجزائر ، کیا شام اور کیا اناطولیہ اور کیا فلسطین، عرب، عراق، ایران، بخارا، افغانستان ، ہندوستان، فلپائن ، سماٹرا اور جاوا میں کوئی اسلامی ملک ایسا نظر نہیں آتا جس میں یہ مسئلہ پورے طور پر قائم نہ ہو دنیا کا ہر مسلمان اس میں مبتلا دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور شرک ہے.مگر سوال یہ ہے کہ جو شرک چھ سو سال تک اسلامی دنیا پر اس طرح چھایا رہا جس نے پہلی ہی صدی میں اپنی شکل دکھانی شروع کی اور برابر زور پکڑتا گیا اللہ تعالیٰ کیوں اس کے مٹانے سے غافل رہا ؟ کیوں نہ اسے دور کیا گیا اور کیوں اس کی اہمیت کو اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے منہ سے ہی ظاہر کرایا اور کیوں وہ دلائل جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی ثابت ہوتی ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر فرمائے ؟ ذرا سی عقل اور سمجھ رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں اس مسئلہ پر بحث کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ اس کھنڈر کے گرانے کے بعد نئی عمارت بنانے کا کوئی موقع نہ تھا.حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے ساتھ جو اصل مقصود وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ اس امت میں پیدا ہونے والے مسیح کے لئے راستہ صاف کیا جائے اور چونکہ اس کا موقع نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی غلطی کو چھوڑ دیا اور اس کا علاج اپنے ہاتھ میں نہ لیا بلکہ انسانوں کے دماغ پر اسے چھوڑ دیا کہ خود سوچیں.قرآن کریم میں ایسی آیات جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے موجود تھیں ، اسی طرح ایسی احادیث بھی موجود تھیں جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی تھی ، وہ آثار صحا بہ موجود تھے جن کی سے حیات مسیح کا مسئلہ باطل ہوتا تھا، اسی طرح عقل جو اس کو رد کرتی ہے وہ بھی انسانی دماغوں کی میں موجود تھی اور اگر انسان چاہتا تو اس کا رد کر سکتا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں خود اس کا رڈ نہیں کیا اس نے کہا کہ ہم نے قرآن کریم میں اس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کر دیا کہ ہے.آیات قرآنیہ پر غور کرو، اپنے رسول سے اس کی حقیقت کو ظاہر کر وا دیا ہے اس کی احادیث کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء کو دیکھ لو، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ بالخصوص خلیفہ اول نے اسے حل کر دیا ہوا ہے ان کے واقعات کو پڑھ لو، پھر تمہارے دماغوں میں عقل موجود ہے اس سے مدد لو لیکن اگر تم نہ عقل سے فائدہ اٹھاؤ اور نہ صحابہ کے طریق اور آثار سے نہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فائدہ اٹھاؤ اور نہ قرآن کریم سے تو ہم بھی چُپ ہیں.مگر وہی مسئلہ جس پر اللہ تعالیٰ تیرہ سو سال تک چُپ رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس پر اتنا زور دیا گیا کہ گویا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے.یہ خرابی تو تیرہ سو سال سے موجود تھی مگر اس کی جڑ اکھیڑنے کیلئے کوئی انتظام اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا.قرآن کریم کی جو آیات پکار پکا ر کر وفات مسیح کا اعلان کر رہی ہیں وہ پہلے بھی موجود تھیں لیکن بالکل خاموش تھیں لیکن اب سامنے آکر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہی کی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہماری موجودگی میں تم کس طرح حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے ہو.اسی طرح کی وہ احادیث بھی جو وفات مسیح پر شاہد ناطق ہیں تیرہ سو سال سے موجود تھیں لیکن خاموش تھیں آج کی کس طرح حقیقت حال کو ظاہر کر رہی ہیں.صحابہ کرام کا اجماع جو بچپکے سے ایک گوشہ میں پڑا تھا اور اس غلط عقیدہ کو ر ڈ کرنے میں کوئی حصہ نہ لے رہا تھا مگر آج چلا چلا کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا اور کہہ رہا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان صحابہ کا فیصلہ ہوں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو قائم کیا تم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے.وہ عقل جو پہلے بھی ہر انسان میں موجود تھی خاموش تھی مگر آج اس خیال کو دھکے دیتی اور اس پر قہقہے لگا رہی ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایسی بات پر ایمان رکھتے ہیں مگر یہ نظارہ ہمیں تیرہ سو سال کے بعد آج نظر آتا ہے پہلے نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ نے ایک نئی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا تھا.وہ عمارت بن نہیں سکتی تھی جب تک اس کھنڈر کو صاف نہ کیا جا تا.پس اس نے حکم دیا کہ اس ملبہ کو اٹھاؤ تا نئی عمارت تیار ہو سکے.مرض ، ضر ر اور نقصان پہلے بھی موجود تھا مگر تیرہ سو سال تک آسمان سے اس کا علاج نہ کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اسے دور کرنے کی طرف توجہ نہ کی جس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی نئی عمارت وہاں بنانے کا موقع نہ تھا مگر کی جب نئی عمارت بنانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا تو اس نے فوراً اپنے کھنڈر کو مٹا دیا اور اس کی شناخت کو پورے زور کے ساتھ اور کھلے الفاظ میں بیان کیا.
خطبات محمود ۷۷۴ سال ۱۹۳۸ء غرض حیات مسیح کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے ، مگر اس کی حیثیت ایک کھنڈر سے زائد نہیں.اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس ملبہ کو ہٹا کر خاموش ہو جائیں اور اس کی جگہ پر نئی عمارت نہ بنائیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ الزام آتا ہے کہ اس نے صرف ملبہ کو ہی ہٹانا تھا تو پھر تیرہ سو سال میں کیوں نہ کی ہٹایا.اللہ تعالیٰ کے اتنا عرصہ خاموش رہنے میں ایک ہی حکمت تھی کہ اس جگہ پر نئی عمارت کی تعمیر کا وقت ابھی نہ آیا تھا لیکن اب اگر ہم اس نئی عمارت کی تعمیر کو نظر انداز کر دیں تو اللہ تعالیٰ پر ضرور یہ الزام آئے گا کہ وہ اتنا عرصہ کیوں خاموش رہا.پس نئی عمارت کا بنایا جانا زیادہ اہم ہے اور وہی دین در اصل مقصود ہے.وفات مسیح کا مسئلہ گواہم ہے مگر یہ ضمنی ہے.یہ ہمارے راستے میں آ گیا اس لئے اسے حل کر لیا گیا ورنہ شاید اتنی توجہ اس کی طرف نہ کی جاتی.اصل مسائل اور ہیں اور وہی امانتیں ہیں جو ہمارے سپرد کی گئیں.وہ ان مسائل میں سے ایک تو فہم قرآن ہے.جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا اور وہ قرآن کریم جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: شهرُ رَمَضَات الذي انزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَتِن مِّنَ الهُدى وَالْفُرْقَانِ جاوه قرآن جو ہدایتوں اور نشانات کا مجموعہ ہے، جو جھوٹ اور سچ میں فرق اور امتیاز کر دینے والا ہے، جو نور اور تاریکی میں فرق کر دینے کا واحد ذریعہ ہے ، وہ جو خدا تعالیٰ تک انسان کو پہنچاتا ہے اس کا علم اور فہم مٹ گیا تھا مسلمان اسے بھلا چکے تھے.اس کا کچھ درجہ تو احادیث کو دے کی دیا گیا تھا.ان احادیث کو جو اگر کچی ہوں تو بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کلام ہیں مگر موجودہ وقت میں ان میں وضعی بھی ہیں ، ان میں انسانی خیالات کا اثر بھی ہے.ایک بات کو دس آدمی سنتے اور نوٹ کرتے ہیں مگر سب میں کچھ نہ کچھ اختلاف ہو جاتا ہے.نوٹ کرتے وقت انسان پوری احتیاط کے باوجود بھی غلطی کر جاتا ہے.راوی خواہ کتنے بچے ہوں لیکن اگر بات سنتے سنتے کسی کا خیال کسی اور طرف چلا جائے اور کوئی حصہ رہ جائے تو غلطی کا ہو جانا بعید نہیں.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض راوی بات کو سمجھ ہی نہ سکے ہوں ، پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سننے والے آگے جن سے بیان کریں وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکے ہوں یا کسی وقت ان کا دماغ کسی اور طرف متوجہ ہو جائے اور یہی سلسلہ پانچ سات آدمیوں تک چلتا جائے تو اس کے نتیجہ میں کی
خطبات محمود ۷۷۵ سال ۱۹۳۸ء جو بات بن جائے گی اس میں غلطی کا کس قدر امکان ہوگا اور مفہوم کس قدر بدل جائے گا.پس ی احادیث خواہ وضعی نہ ہوں سچی ہی ہوں پھر بھی ان میں کئی وجوہ سے غلطیوں کا امکان ہے اور وہ اس طرح ہدایت کا موجب نہیں ہو سکتیں جس طرح قرآن جس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک شوشہ محفوظ ہے.مگر قرآن کی کچھ جگہ تو ان احادیث کو دے دی گئی کچھ اپنے فلسفہ کو اور کچھ رسوم و رواجات کو اور کچھ اپنی ہوا اور خواہشات کو حتی کہ قرآن کے لئے کوئی جگہ ہی باقی نہ رہی اور وہ اُڑ کر آسمان پر چلا گیا.اس واقعہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے.لَا يَبْقَى مِنَ الْقُران إِلَّا رَسْمُهُ له یعنی قرآن باقی نہیں رہے گا صرف اس کے الفاظ رہ جائیں گے.اور لا یبقی مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسم سے اسلام باقی نہیں رہے گا صرف اس کا نام رہ جائے گا.قرآن کریم کی صرف سیاہی باقی رہ جائے گی گویا وہ بالکل ایک مُردہ جسم ہوگا اور ظاہر ہے کہ مُردہ جسم کسی کام کا نہیں ہوسکتا.کسی شخص کے ماں باپ مر جائیں تو کیا وہ اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ ان کا جسم اس کے پاس ہے جب تک وہ بات نہ کریں ، مشورہ نہ دیں ، اگر وہ مذہبی خیالات رکھتے ہیں تو اس کے لئے دعا ئیں نہ کریں اور اگر دنیوی خیالات رکھتے ہیں تو اس کی دنیوی ترقی کے لئے کی کوئی سعی اور کوشش نہ کریں ، اسی طرح جب قرآن کریم کی روح باقی نہ رہی تو وہ جسم بے جان تھا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکتا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کے ذریعہ اس میں پھر روح قائم کی اور قرآن کریم کا وہ علم بخشا جس کی مثال آنحضرت صلی اللہ کی علیہ وآلہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں نہیں ملتی.آج جو فہم قرآن کریم کا ہمیں حاصل ہے اس کے مقابلہ میں پچھلی تمام تفاسیر بیچ ہیں.جو علوم خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں انکو پڑھنے والے پرانی تفاسیر کو بغدادی قاعدہ سے زیادہ نہیں سمجھتے.ابھی جو بچے ہمارے باہر سے آئے ہیں ان میں سے عزیزم ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ مغرب میں جو لوگ احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں ان پر صرف یہ اثر ہے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر ہماری طرف سے شائع ہوتی ہے اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے.پہلے جو لوگ عیسائیت یا دہریت کی طرف مائل تھے وہ جب ہماری پیش کردہ تفسیر دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اوہو! یہ تو
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء بہت بڑا خزانہ ہے اس لئے وہ واپس اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں.ان پر نہ کوئی وفات کے دلائل کا اثر ہوتا ہے اور نہ ختم نبوت کا بلکہ صرف ہماری تفسیر کا.جب وہ اسے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اب ہمیں معلوم ہوا کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے.ہم بے وقوفی سے اسے چھوڑ رہے تھے تو جو فہم قرآن کریم کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے دیا ہے اور اصولی طور پر آپ نے ہمیں جس کی تعلیم دی ہے وہ اتنا بڑا خزانہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی تج ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ درمیان کے تیرہ سوسال کے تمام علوم اس کے سامنے بیچ ہیں.پھر دوسری چیز حقیقت احکامِ اسلام ہے.اس سے بھی مسلمان غافل تھے.صحابہ کرام کے معاً بعد مسلمانوں نے اسلام کے احکام کی حقیقت سمجھنے سے غفلت برتنی شروع کر دی تھی.صرف انہیں احکام قرار دے کر ان پر عمل ہونے لگا.نماز کو ایک حکم سمجھ کر نماز ادا کی جاتی تھی اور روزہ کو ایک حکم سمجھ کر روزہ رکھا جاتا تھا مگر یہ بات کہ ان احکام کی حکمت کیا ہے اس طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ احکام اسلام پر عمل کی رغبت نہ رہی.یہاں تک کہ چوتھی صدی میں امام غزالی نے اسکے خلاف احتجاج کیا اور احکام کی حکمتیں بتا کر ان کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی.ان کے لٹریچر کے نتیجہ میں کچھ توجہ اس طرف ہوئی اور اس نے مسلمانوں کو کچھ فائدہ بخشا مگر پھر نیند کا غلبہ ہوا اور احکام اسلام کے صرف لفظ رہ گئے اور روح مٹ گئی.حتی کہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی کا زمانہ آیا انہوں نے بعض کرتا ہیں لکھیں جن میں احکام اسلام کی حکمت بیان کی مگر ان کا دائرہ اثر بالکل محدود تھا اور صرف چند لوگ ہندوستان میں ایسے تھے جن پر ان کا اثر ہوا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص قریب میں آنے والا تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کو ظاہر کرنا تھا.جب سورج چڑھنے والا ہو تو صبح کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرف نظر نہیں اُٹھا کرتی.پس مسلمان غافل ہی رہے حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کی زمانہ آگیا اور آپ نے اسلام کے احکام کی حکمت ایسے رنگ میں بیان کی کہ ہر ایک شخص کی سمجھ میں آگئی کہ یہ احکام ہمارے ہی نفع کے لئے ہیں اور دنیا پر یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ دنیا کی نجات ان قوانین میں نہیں جو نئے نئے بنائے ہیں بلکہ قرآن کی طرف جانے میں ہی ہے.آپ نے کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء اسلام کے وہ احکام جن کے متعلق مسلمان بھی معذرتیں پیش کرتے اور کہتے تھے کہ یہ خاص کی اوقات کیلئے ہیں نہایت جرات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے اور ابھی زیادہ دن نہیں کی گزرے تھے کہ یورپ میں زلزلے آنے لگے اور بڑے بڑے فلاسفر اس طرف آنے پر مجبور ہو گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ نئے مسائل ان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں.شراب اور سود میں حد بندیاں ہونے لگیں ، طلاق کے مسئلہ میں آزادی ہوئی اور کثرت ازدواج میں جو سختی سے کام لیا جارہا تھا اس میں نرمی کی تحریک یورپ کے لوگوں میں شروع ہوگئی ، عریانی کے معاملہ میں بھی آزادی کی بڑھتی ہوئی رو میں کمی آنے لگی.ان مسائل میں می اسلام کی تعلیم کو پہلے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے اولڈ فیشن OLD FASHION) اور پرانے زمانہ کی تعلیم کہا جاتا تھا مگر اسکے بعد یورپ میں بھی جو زلزلے آئے اور جو حرکتیں ہوئیں انہوں نے نئے قوانین کی عمارتوں کو گرا کر لوگوں کو پھر اس تعلیم کی طرف آنے پر مجبور کیا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پرانی تعلیم بنا کر پیش کیا تھا.طلاق کے بارہ میں وسعت پیدا ہو رہی ہے یورپ میں ایک زبر دست جماعت پیدا ہو رہی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ کثرت ازدواج میں آزادی ہونی چاہئے ، سود کے بارہ میں حد بندیوں کی حامی بھی زبر دست جماعت پیدا ہوگئی ہے، جن میں سے ہٹلر اور جرمن کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر پیش پیش ہیں.چند سال ہوئے برلن کی یونیورسٹیوں کے بعض پر فیسروں نے اپنی چھٹیاں اس لئے وقف کی تھیں کی کہ لوگوں کو جا کر سود کی برائیوں سے آگاہ کریں.پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ جو ان بیماریوں کا پیدا کرنے والا ہے وہی ان کے علاج کی طرف متوجہ ہو گا.یہ تغیرات آج سب لوگوں کو نظر نہیں آتے جو مجھے آتے ہیں.بے شک یورپ ابھی شراب کو چھوڑ نہیں سکا ، طلاق میں بھی اسلامی تعلیم کو قائم نہیں کر سکا اور یہی حال دوسرے مسائل کا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان کا مزاج کی کس طرف مائل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج اور اصل چیز یہی ہے کہ یورپ کا مزاج اس طرف آرہا ہے اور جب اس طرف میلان ہو رہا ہے تو ایک نہ ایک دن ان احکام پر عمل بھی ہو کر رہے گا.تمام قوم کو ایک ہی دن میں کسی بات پر کی
خطبات محمود 227 سال ۱۹۳۸ قائم نہیں کیا جاسکتا.ہماری جماعت جو خدا تعالیٰ کو مانتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا نبی یقین کرتی ہے وہ کونسی ہر بات پر پوری طرح فورا عمل کرتی ہے.بے شک بعض لوگ ایسے ہیں جو ہر اس بات پر جو پیش کی جاتی ہے فوراً عمل شروع کر دیتے ہیں مگر کئی ایسے ہیں جن کو ہموار کرنا پڑ تا ہے.جس طرح کوئی کیل موٹا ہو تو اسے رگڑ رگڑ کر ٹھیک کرنا پڑتا ہے.پھر یورپ کے لوگ جن کی کھٹی میں یہ چیزیں داخل ہیں ان کو ایک دن میں کس طرح چھوڑ سکتے ہیں کہ مگر یہ سب باتیں احمدیت میں ہی مل سکتی ہیں.اگر یہ مٹ جائے تو قرآن بھی ساتھ ہی مٹ کی جاتا ہے، اگر یہ مٹ جائے تو اسلام کے احکام کی حکمت بھی ساتھ ہی مٹ جاتی ہے.پھر جماعت احمد یہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خدا تعالیٰ کیلئے اپنی تمام طاقتوں کو لگا دیا ہے.اس کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کیلئے کوئی کام کرتی ہو.مصر، فلسطین، عرب، افغانستان، ترکی اور خود ہندوستان میں نئی نئی ترقیات ہو رہی ہیں.مگر ان کا محور کہیں بھی خدا تعالیٰ کی ذات نہیں.سب تحریکات وطنی اور قومی ہیں اور خدا تعالیٰ کا خانہ سب جگہ خالی ہے.اگر کوئی جماعت دعوی کے لحاظ سے بھی ایسی ہے تو وہ صرف ایک احمد یہ جماعت ہے.یہ کوئی سوچنے والی بات نہیں اس میں کسی غور اور فکر کی ضرورت نہیں دنیا میں کوئی اور جماعت ایسی پیش کرو جو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کیلئے کام کر رہی ہو.یقیناً ایسا نہ کرسکو گے.مصری ، ترکی ، عربی اور ہندوستان کی سب مذہبی اور سیاسی تحریکات میں سے کوئی ایسی نہیں جس کی غرض یہ ہو.ہندوستان کی جمعیۃ العلماء بھی آج یہ کہہ رہی ہے کہ کانگرس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتا اور ظاہر ہے کہ جس اسلام کو زندہ رہنے کے لئے کانگرس کی مدد درکار ہے اس کی حقیقت ہر مسلمان خود سمجھ سکتا ہے.غرضیکہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں نہ چھوٹی نہ بڑی جو خدا تعالیٰ کیلئے کام کرتی ہو صرف یہی ایک جماعت احمد یہ ہے جو محبت الہی کے محور کے گرد گھومتی ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو کھینچ کر خدا تعالیٰ کے پاس لایا ج جائے.دنیا میں لوگ مال کی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور جذبات کی بھی مگر ان میں سے کوئی بھی کی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتی سب ذاتی یا قومی یا خاندانی اغراض کے ماتحت ہوتی ہیں خدا تعالیٰ کیلئے کوئی نہیں ہوتی.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مرتبہ اور درجہ کی صحیح شناخت
خطبات محمود 229 سال ۱۹۳۸ء بھی احمدیت سے باہر نظر نہیں آتی.منہ سے کہنا کہ ہم آپ کے عاشق ہیں اور بات ہے لیکن ان کی لوگوں کی تقریروں کو اگر سنو تو اگر وہ ہمارے دلائل کی خوشہ چینی نہیں کرتے اور حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام کی نقل نہیں کرتے تو ان میں سوائے اس کے کچھ نہیں ہو گا کہ آپ کملی والے ہیں آپ کی زلفیں ایسی تھیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہی خوبیاں تھیں جن کیلئے اللہ تعالیٰ تیرہ سو سال سے دنیا میں لڑائیاں ، جھگڑے اور خونریزیاں کراتا رہا ، ان کے ذہن اس سے آگے نہیں جاتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خلق ، انسانی روح کی ترقی کے مدارج کا بیان اور اس کی ترقی کیلئے روحانی نور کا مہیا کرنا یہ ساری خوبیاں ان کی نظر سے پوشیدہ ہیں.اگر یہ خوبیاں کسی کے سامنے آئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور اگر آج یہ خزانہ کہیں موجود ہے تو جماعت احمدیہ میں.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے روحانی ترقیات کا جو دروازہ کھول دیا ہے امید کے دودھ سے لبریز پیالہ جو دیا ہے وہ بھی ہمارے سوا کسی کے پاس نہیں.تمام مسلمان آپ کی ذات کو مایوس اور افسردگی کا پیغام قرار دیتے ہیں اور ایک ایسی دیوار ظاہر کرتے ہیں جو افضال الہی کے دروازہ کے آگے کھڑی ہے.صرف ایک ہی شخص ہے جس نے بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دروازہ کو بند کرنے والی دیوار نہیں ہیں بلکہ ایک بند دیوار کا دروازہ ہیں جو خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان حائل تھی.ختم نبوت بند کرنے والی دیوار نہیں بلکہ ایک وسیع دروازہ ہے جس سے ہو کر بندہ خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ خدا تعالیٰ اور بندے کے تعلقات منقطع ہو گئے ہیں بلکہ یہ ہیں کہ زیادہ کثرت اور وسعت کے ساتھ خدا تعالیٰ آپ کے وجود میں سے ہو کر بندے تک پہنچے گا.یہ وہ عظیم الشان امید کا دروازہ ہے اور امنگیں پیدا کرنے والی تعلیم ہے جو احمدیت سے باہر نظر نہیں آسکتی.اگر احمدیت نہ ہو تو یہ خزانہ پھر مٹ جاتا ہے.یہ امور دنیا سے مخفی تھے اور صرف احمدیت کے ذریعہ ہی ظاہر ہوئے.بے شک ظاہری علماء کی دنیا میں کمی نہ تھی اور نہ ہے، عربی کے ایسے بڑے بڑے عالم دنیا میں موجود ہیں جو ہمارے بڑے بڑے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں، روایات حدیث کی چھان بین کے ایسے ایسے ماہر دنیا میں موجود ہیں ، صرف و نحو
خطبات محمود ۷۸۰ سال ۱۹۳۸ء کے ایسے ایسے ماہر دنیا میں موجود ہیں جو ہمارے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں لیکن یہ ایک قشر ہیں.ایک مکان جب تیار کیا جاتا ہے تو اس کے باہر سفیدی کرنے اور پھول اور بیل بوٹے بنانے والے بھی مفید کام کرنے والے ہوتے ہیں لیکن اگر عمارت بنانے کے بعد اس میں رہنے والے میسر نہ ہوں تو وہ عمارت کسی کام کی نہیں.تغلق خاندان کے ایک بادشاہ نے ایک نیا شہر آباد کیا تھا اور وہ لوگوں کو جبراً وہاں لے گیا مگر دوسرے سال لوگ پھر وہاں سے بھاگ آئے اور وہ اُجاڑ ہو گیا.تو جب تک قرآن کریم کا مغز اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حقیقی روح نہ ہو کسی کی میں خالی علم کا ہونا کسی کام کا نہیں.جہاں تک عرفان کا تعلق ہے وہ جاہل ہیں اور ہمارے جاہل بھی ان سے زیادہ عالم ہیں.اگر دولت صرف روپوں اور پونڈوں کا نام نہیں اور یقینا نہیں تو کی ہمیں وہ خزانہ ملا ہے جس کے مقابل میں دنیا کے سب خزانے بیچ ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اس خزانہ کو محفوظ رکھیں.کسی شخص کی جیب میں اگر دس بیس روپیہ کے نوٹ ہوں تو وہ بار بار جیب پر ہاتھ مارتا ہے.دو چار سو روپیہ ہو تو بڑی احتیاط سے اس کی نگرانی کرتا ہے، پچاس ساٹھ ہزار یا لاکھ دو لاکھ ہو تو اسے بنکوں میں محفوظ کرتا ہے.جس کے پاس لاکھوں روپیہ ہو اس کی نیند بھی حرام ہو جاتی ہے اور کروڑوں کا مالک تو تو اپنی زندگی کا مقصد اس کی حفاظت ہی سمجھتا ہے.کہنے کو تو وہ اس کا مالک ہوتا ہے لیکن حقیقتاً وہ اس دولت کا چوکیدار ہوتا ہے.تو جس قوم کو ایسی عظیم الشان دولت ملی ہو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری کتنی بڑی ہے.اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے دو اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے.اول تو جگہ کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ اسے پھیلا دیں کیونکہ اس کا ایک جگہ رہنا بہت خطرناک ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو کوئی ایسی حکومت نہیں آئے گی جو اسے مٹانے کے درپے ہو اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اسے اس طرح پھیلا دیں کہ اگر دس ہیں، چالیس، پچاس ، نوے، پچانوے بلکہ نناوے فیصدی حکومتیں بھی اسے مٹانا چاہیں تو ایک نہ ایک ٹھکانہ ضرور ایسا ہو جہاں احمدیت آزادی کے ساتھ اپنے خیالات پھیلا رہی ہو.سچائی کبھی مخالفت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور اس لئے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہم مخالفت کے بغیر ہی کامیاب ہو جائیں گے وہ غلطی خوردہ ہے.اگر یہ صحیح ہے کہ احمدیت ایک روحانی طاقت ہے
خطبات محمود ۷۸۱ سال ۱۹۳۸ تو جوں جوں یہ طاقت میں بڑھتی جائے گی اس کی مخالفت بھی بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ وہ دن آجائے گا کہ دنیا کی آخری لڑائی اس سوال پر لڑی جائے گی کہ دنیا میں احمدیت رہنی چاہئے یا دوسرے خیالات.پس اس کی حفاظت کیلئے پہلی ضروری چیز تو یہ ہے کہ ہم اسے پھیلا دیں تا اگر اکثر حکومتیں بھی اسے مٹا دیں تب بھی ایسی جگہیں باقی رہ جائیں جہاں احمدیت پوری شان کے ساتھ قائم ہو اور ترقی کی طرف قدم اٹھا سکے.دوسرے اسے زمانہ کے لحاظ سے قائم کرنا ضروری ہے اگر ہم اسے ساری دنیا میں پھیلا دیں لیکن ہماری آئندہ نسلیں احمدیت پر مضبوط نہ ہوں تو ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی.پس صرف دنیا تک اس کو پہنچا دینا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ آئندہ نسلوں میں اس کا قائم کرنا چ بھی ہے.ہمارا ایک حملہ مقام پر ہونا چاہئے اور دوسرا زمانہ پر.مقام کے لحاظ سے اسے گوشہ گوشہ میں پہنچا دینا ضروری ہے اور زمانہ کے لحاظ سے آئندہ نسلوں تک.اگر ہم اسے ساری دنیا میں پہنچا دیں مگر آئندہ نسلوں میں اسے مضبوطی سے قائم نہ کریں تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص قطب صاحب کے مینار سے بھی دس گنا اونچا مینار بنالے لیکن جس دن وہ کھڑا ہو اس سے اگلے روز وہ گر جائے.پس ہمارا فرض ہے کہ اسے نہ صرف مقام کے لحاظ سے بلکہ زمانہ کے لحاظ سے بھی مضبوط کریں اور اسے سینکڑوں ہزاروں سالوں تک پھیلانے کا انتظام کریں اور اس عظیم الشان کام کو دیکھتے ہوئے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کیلئے عظیم الشان جد و جہد کی ضرورت ہے جو بیدار کرنے والوں سے مستغنی ہو، جو بیداری دھماکوں سے پیدا ہو وہ بھی کیا بیداری ہے جا گنا وہی مفید ہوتا ہے جو انسان جاگتا اور پھر جاگتا ہی رہتا ہے.جو بیدار ہوتا اور پھر سو جاتا ہے، وہ افیونی کی طرح ہے.دھماکوں سے بیدار ہونا اور پھر سو جانا بہت بڑا مرض ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کی بیداری اس وقت تک دھماکوں کی بیداری ہے.تحریک جدید کے شروع میں میں نے جماعت کو اس طرف خاص طور پر متوجہ کیا تھا.مگر افسوس ہے کہ اس سبق کو جماعت نے یاد نہیں کیا.جب تحریک جدید کا اعلان کیا گیا ہے اس وقت جماعت میں ایسی بیداری پیدا ہو چکی تھی کہ میں نے حالات کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے
خطبات محمود ۷۸۲ سال ۱۹۳۸ء جب اپنے محدود علم کے مطابق جماعت سے ستائیس ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ تین سال کیلئے یہ رقم درکار ہے تو جماعت نے ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے کئے حالانکہ وعدے کرنے والوں میں سے بہتوں نے ابھی صرف پہلے ہی سال کا حصہ دیا تھا.کتنی عظیم الشان بیداری تھی مگر یہ دھماکے کی بیداری تھی.دشمن نے ایک تھپڑ رسید کیا تھا جس سے جماعت میں ایک سنسنی پیدا ہوئی لرزہ پیدا ہوا اور وہ بیدار ہو گئی.میں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جو بیداری مار سے پیدا ہو وہ کوئی بیداری نہیں ، وہ خدا تعالیٰ کیلئے نہیں بلکہ دشمن کیلئے ہوتی ہے اور اس کا ثواب اگر دشمن کو مل سکتا تو اسے ملتا.غرض ۱۹۳۴ ء کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اسکے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے، کمزور قوموں سے مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں.یہ قربانی زندہ قوموں کے مقابل پر بھی کی فخر کے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے مگر وہ تھپڑ اور مار کے نتیجہ میں تھی.دشمن کے تھپڑ سے دوست یک دم گھبرا گئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ ہم پیسے جانے لگے ہیں.تب خیال کیا کہ موت سے پہلے کچھ خرچ کر لو اس کے بعد دوسرا اور تیسرا سال آیا اور میں نے ہر موقع پر سمجھایا کہ حقیقی قربانی دائگی قربانی کا نام ہے مگر تھپڑ کی چوٹ اور صدمہ جوں جوں کم ہوتا گیا، جوں جوں دشمن کو ذلت نصیب ہوتی گئی.جماعت کے لوگ بھی لیٹنے لگے اور بعض تو غفلت کی نیند سو گئے.حتی کہ جب میں نے دوسرے دور کی تحریک کی تو بعض لوگوں نے خیال کر لیا کہ ہم اپنا فرض ادا کر چکے ہیں اور اب ہمیں کسی اور آواز کے سننے کی ضرورت نہیں.میں مانتا ہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم اسے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں.مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی کی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں.حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مٹانے کے درپے تھا متواتر ذلّت ہوئی ،اس نے جھوٹ اور فریب سے کام لیا ، جھوٹی مسلیں تک بنا ئیں مگر اللہ تعالیٰ نے اسے نا کام کیا اور ہم اندر بھی اور باہر بھی ہر جگہ اس قابل ہوئے کہ اعلیٰ حکام کو بتا سکیں کہ وہ ان کو بھی دھوکا دیتے رہے ہیں اور دنیا کو بھی حتی کہ گورنمنٹ کو بھی محسوس کر نا پڑا اور اس نے پہلے نوٹس کے
خطبات محمود ۷۸۳ سال ۱۹۳۸ء متعلق اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور تسلیم کیا کہ اس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے.مگر فتنہ پرداز حکام نے پھر کوشش کی کہ ایسی صورت پیدا کر دیں جس سے وہ اپنی شکست کو چھپا سکیں مگر انہیں پھر نا کا می ہوئی.کچھ عرصہ ہوا اس ضلع میں مسٹرائر ڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تھے انہوں نے مجھ سے گفتگو کی اور کہا کیوں نہ جماعت احمدیہ اور گورنمنٹ میں صلح ہو جائے.میں نے انہیں کہا کہ ہم صلح کے لئے تو ہر وقت تیار ہیں مگر دب کر صلح نہیں کریں گے.انہوں نے ایک سکیم پیش کی اور کہا کہ اس کی سے جماعت کی عزت بھی قائم رہے گی اور گورنمنٹ کی بھی.میں نے ان سے کہا کہ گورنمنٹ کو ذلیل کرنا تو ہمارا مقصد ہی نہیں.افسوس ہے کہ وہ جلد یہاں سے چلے گئے.اگر چہ انہوں نے کہا تو یہ تھا کہ میں اس وعدہ پر اس ضلع میں آیا ہوں کہ مجھے کم سے کم تین سال تک رہنے کا موقع دیا جائے گا مگر وہ جلد رخصت پر گئے اور پھر غالباً پنجاب سے ہی بدل دیئے گئے.انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں پچھلی تمام مسلیں پڑھوں گا اور پھر سب واقعات پر غور کر کے اس امر کے متعلق کوئی رائے قائم کروں گا کہ جماعت احمد یہ پر کہاں تک سختی ہوئی ہے.اس کے بعد وہ جلد یہاں سے چلے گئے لیکن جانے سے کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ خان صاحب مولوی فرزند علی ان سے ملے تو انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ اس وقت تک میں نے تین مسلیں پڑھی ہیں اور میری یہی رائے ہے کہ ان معاملات میں آپ حق پر تھے اور آپ پر نا واجب سختی کی گئی تھی.افسوس کہ انہیں موقع نہ ملاور نہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جاتی دفعہ میں کی ایک ایسا تفصیلی نوٹ چھوڑ کر جاؤں گا جس میں ان تمام امور کے متعلق جن میں آپ حق پر ثابت نگے آپ کی برأت کر دی جائے گی.تو یہ موقع بھلا دوسری کمیونٹی کو کہاں مل سکتا ہے کہ وہ ثابت کر دے کہ حکام نے غلطی کی تھی اور وہ حق پر تھی.ایک دفعہ یہاں ایک مار پیٹ کا کیس ہو گیا اور ایک شخص نے بعض احمدیوں کے نام یونہی کی لکھوا دیئے کہ انہوں نے مجھے مارا ہے.بعد میں اس سے کسی نے کہا کہ تم نے غلطی کی بڑے بڑے آدمیوں کے نام لکھوانے چاہئیں تھے چنانچہ اس نے بعد میں بڑے بڑے احمدیوں کے نام لکھوا دیئے.مقدمہ پولیس نے شروع کیا ہمیں معلوم تھا کہ اس کے پہلے بیان میں اور نام تھے.چنانچہ جماعت نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو گواہی میں بلایا کہ ڈائریاں لے کر آئے اور
خطبات محمود ۷۸۴ سال ۱۹۳۸ء بتائے کہ شکایت کرنے والے کا پہلا بیان کیا تھا مگر گورنمنٹ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سرکاری راز ہیں جن کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ بالکل نا معقول بات ہے.زید اور بکر کی لڑائی ہو اور زید ایک رپورٹ لکھوائے تو اس میں سرکار کا کیا تعلق ہے اور زید کی رپورٹ سرکاری را ز کس طرح کہلا سکتا ہے سوائے اس صورت کے کہ سرکاری افسروں کی طرف سے اسے شرارت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہو.آخر اپیل میں اوپر کے مجسٹریٹ نے ان کا غذات کا مطالبہ کیا اور کا غذات پیش ہوئے اور سارا فریب کھل گیا.اس قسم کے بیسیوں واقعات گزشتہ چار سالوں میں ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے متواتر ان افسروں کو جو احمدیوں سے بلا وجہ دشمنی رکھتے تھے بُری طرح ذلیل کیا ہے اور اسی طرح ہمارے دوسرے دشمنوں کو بُری طرح ذلیل کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ہر میدان میں کامیابی اور دشمنوں کو ذلت نصیب ہوئی اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کی کے سٹیج پر کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے.کجا تو یہ کہ وہ وزارت کے خواب دیکھ رہے تھے اور وزارتیں تقسیم کر رہے تھے اور کجا یہ کہ اسمبلی میں ان کا صرف ایک ہی ممبر ہے.اور لطف یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے احمد یہ جماعت کو کچل دیا ہے حالانکہ اسمبلی میں ایک ہی ممبران کا اور ایک ہی ہمارا ہے اور وہ تو سو فیصدی مسلمانوں کے نمائندہ ہونے کے مدعی ہیں مگر ہم ایک کی فیصدی ہیں مگر اسمبلی میں سو فیصدی والوں کے برابر ہیں.اب ملتان میں انہوں نے پھر ایک کونسل کی ممبری کے حصول کی کوشش کی تھی مگر نہایت سخت شکست کھائی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے.کئی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوششیں ہوئیں حتی کہ عدالتوں کو بھی متاثر کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اس صورت میں بھی ہائی کورٹ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری برات کرائی.اس کے علاوہ جو جماعت میں تبدیلی ہوئی وہ بہت ہی شاندار ہے.ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے جس میں امیر غریب ہر طبقہ کے لوگ ہیں بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو سات سات اور آٹھ آٹھ کھانے کھانے کی عادت تھی اور جن کے دستر خوان پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانے ہی کھانے پڑے ہوتے تھے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ مجھے عربی مدارس کے کی
خطبات محمود ۷۸۵ سال ۱۹۳۸ء معائنہ کے لئے ایک سفر کرنا پڑا راستہ میں ایک جگہ احباب نے دعوت کی.میں نے دیکھا کہ اس کی قد ر کھانے سامنے پڑے ہوئے تھے کہ اگر میں اپنا ہاتھ پھیلا تا تب بھی سب پلیٹوں تک نہیں کی پہنچ سکتا تھائی کہ اگر لیٹ جاتا تب بھی بعض تھالیاں مجھ سے دور رہتیں.کوئی چالیس قسم کے کھانے تھے.میں نے دبی زبان سے اس کا شکوہ بھی کیا مگر ایک دوست نے جو ساتھ تھے مجھے روکا اور کہا کہ ایسانہ کریں، صاحب خانہ کی دل شکنی ہوگی.ابھی تو بہت سادگی سے کام لیا گیا ہے ور نہ یہاں معززین کی دعوت میں اس سے بہت زیادہ کھانے ہوتے ہیں.تو اس قسم کے لوگ بھی جماعت میں موجود تھے مگر تحریک جدید کے ماتحت سب نے ایک ہی کھانا کھانا شروع کر دیا اور نہ صرف احمدیوں نے بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں غیر احمدیوں نے بھی اس طریق کو اختیار کر لیا.میری ایک ہمشیرہ شملہ گئی تھیں انہوں نے بتایا کہ وہاں بہت سے رؤساء کی بیویوں نے مانگ مانگ کر تحریک جدید کی کا پیاں لیں اور کہا کہ کھانے کے متعلق ان کی ہدایات بہت اعلیٰ ہیں ہم انہیں اپنے گھروں میں رائج کریں گی.ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بعض کی غیر احمدیوں کے ساتھ ایک میس میں شریک تھے تحریک جدید کے بعد جب انہوں نے دوسرا کھانا چ کھانے سے احتراز کیا اور دوسرے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس کی وجہ ان کو بتائی تو انہوں نے بھی وعدہ کیا کہ یہ بہت اچھی تحریک ہے ہم بھی آئندہ اس پر عمل کریں گے.پھر میں نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی تھی اس بات کو ہمارے زمیندار دوست نہیں سمجھ سکتے کہ شہریوں کے لئے اس ہدایت پر عمل کرنا کتنا مشکل تھا شہر والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں.ان میں سے بعض کے لئے سینما کو چھوڑ نا ایسا ہی مشکل تھا جیسے موت قبول کرنا جن کو سینما جانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اسے زندگی کا جزو سمجھتے ہیں مگر ادھر میں نے مطالبہ کیا کہ اسے چھوڑ دو اور اُدھر نانوے فیصدی لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اور پھر نہایت دیانتداری سے اس عہد کو نبھایا اور عورت مرد سب نے اس پر ایسا عمل کیا کہ جو دنیا کے لئے رشک کا موجب ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے لاکھوں روپیہ بیچ کی گیا ہو گا.سینما دیکھنے والے عموماً روزانہ دیکھتے ہیں اگر مہینہ میں دس دن بھی سینما کے شمار کئے جائیں اور صرف چار آنہ والے ٹکٹ کا اندازہ کیا جائے تب بھی سال میں تھیں روپے فی کس کا خرچ ہے اور اگر جماعت کے سینما جانے والوں کی تعداد ایک ہزار سمجھی جائے تو تمیں ہزار سالانہ
خطبات محمود ZAY سال ۱۹۳۸ء کی بچت جماعت کو ہو گئی جور تم کہ چار سال کے حساب سے سوالاکھ بنتی ہے.مگر سارے چار آنہ میں ہی دیکھنے والے نہیں ہوتے بعض روپیہ دو روپیہ کا ٹکٹ لیتے ہیں.پھر اس سے جو وقت بچا اس کی قیمت کا اندازہ کرو گھر سے سینما آنے جانے ، تماشہ کا انتظار خود تماشہ کا وقت اگر اندازہ لگایا جائے تو تین چار گھنٹہ سے کم نہ ہوتا ہوگا یہ وقت بھی بچ گیا.پھر گھروں میں اس سے امن قائم ہو ا.جو لوگ سینما دیکھنے جاتے تھے ان کی بیویوں کو واپسی تک جا گنا پڑتا ہوگا.جس سے بعض اوقات لڑائی بھی ہو جاتی ہوگی.اب ایسے لوگ جلدی گھر آ جاتے ہوں گے اور میاں بیوی کی کو باہم دُکھ سکھ کی بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ہو گا، کسی کی نیند خراب نہیں ہوتی کی ہوگی.پس یہ مطالبہ معمولی نہ تھا لیکن جماعت نے اسے سنا اور پورا کر دیا اور اس سے فوائد بھی حاصل کئے.اس کے علاوہ کون نہیں جانتا کہ عورت کپڑوں پر مرتی ہے مگر ہزار ہا عورتوں نے دیانتداری سے لباس میں سادگی پیدا کرنے کے حکم پر عمل کیا.یہ باتیں انفرادی قربانی اور قومی فتح کا ایک ایسا شاندار نمونہ ہیں جس کی مثال کم ملتی ہے.یہ قربانی معمولی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کی قربانی ہے اور دیکھنے والی آنکھ کیلئے اس میں فتوحات کا لمبا سلسلہ ہے.پھر کتنے نئے ممالک میں احمدیت روشناس ہوئی.کم سے کم دس پندرہ ممالک ایسے ہیں.کئی علاقوں میں گو احمدیت پہلے سے تھی مگر تحریک جدید کی جدو جہد کے نتیجہ میں اس کا اثر پہلے سے بہت وسیع ہو گیا ہے.اس کے علاوہ ایک یہ نتیجہ نکلا کہ اس سے پہلے دنیوی لحاظ سے جماعت کو صرف ایک دستہ فوج سمجھا جاتا تھا اور اس کی حیثیت مسلمانوں کے ایک بازو کی تھی لیکن احرار اور بعض حکام نے ہمارے خلاف جو شورش پیدا کی اس سے ڈر کر سارے مسلمانوں نے ہم کو علیحدہ کر دیا.خود گورنر پنجاب نے ایک دفعہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے مخالف صرف احرار ہیں سب قوموں اور فرقوں کے لوگ میرے پاس آ آ کر آ پکی شکایتیں ہی کرتے ہیں.ممکن ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو لوگ ہمارے مؤید تھے انہوں نے کبھی ان کے سامنے اپنے خیالات ظاہر نہ کئے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مخالفت بہت عام ہو گئی تھی.حتی کہ وہ مسلم لیگ جس کے اجلاس بعض دفعہ نہ ہو سکتے تھے
خطبات محمود 2A2 سال ۱۹۳۸ء اور وہ مجھ سے روپیہ لے کر اجلاس کرتی تھی اسے بھی زکام ہوا اور اس کی پنجاب کی شاخ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ احمدی اس کے ممبر نہیں ہو سکتے یہ کفرانِ نعمت کی انتہا تھی لیکن اس کی وجہ یہی تھی کہ کی اس وقت ہمارے خلاف لوگوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے خیال کیا کہ اگر ہم نے احمدیوں کو شامل رکھا تو لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی بھی ایک ہی نشست ہے گویا وہ بھی ہمارے برابر ہیں جو یقیناً ہماری فتح ہے.ہماری جماعت تو کی مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی ہے اگر ایک ہی ضلع میں ہوں تو ہم دوممبران بھی لے سکتے ہیں مگر ہم پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ایک ممبر کا حصول بھی ہمارے لئے ناممکن ہے.پس ایک نشست کا حاصل کر لینا بھی ہماری بہت بڑی فتح ہے لیکن ان کا صرف ایک نشست حاصل کرنا ان کی سخت شکست.بہر حال اس وقت تک ہم مسلمانوں کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے مگر مسلمانوں نے گزشتہ فتنہ سے مرعوب ہو کر ہمیں اس طرح الگ کرنے کی کوشش کی جس طرح دودھ سے مکھی نکال دی جاتی ہے اور اس طرح ہمیں تن تنہا سب دشمنوں سے لڑنے کا موقع ملا اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس لڑائی میں کامیاب ہوئے اور دنیا نے محسوس کر لیا کہ جماعت احمد یہ صرف مسلمانوں کے لشکر کا ایک بازو ہی نہیں بلکہ وہ اپنی منفردانہ حیثیت بھی رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے.پہلے ہماری اس حیثیت سے دنیا واقف نہ تھی تحریک جدید کے نتیجہ میں ہی وہ اس سے آشنا ہوئی ہے مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں کی حاصل ہوئیں ہمارا مقصد نہیں.ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے اور اس میں کامیابی کیلئے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے.دنیا کا کوئی ملک ایسا نہ ہونا چاہئے جہاں احمدیت قائم نہ ہو.اس وقت تک جماعت حقیقی طور پر صرف ہندوستان میں ہے اور یہاں اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں مضبوطی حاصل ہے کہ اور کہیں نہیں.ہندوستان سے اتر کر وہ ملک جہاں احمدیت کو مضبوطی حاصل ہو رہی ہے اور جہاں لوگ اسے سمجھنے اور اسے اپنی عملی زندگی کا جز و بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سماٹرا اور جاوا ہیں.وہاں سے طالب علم بھی دین سیکھنے کیلئے یہاں آتے رہتے ہیں اور جب تاریخ عالم میں احمدیت کی تاریخ لکھی جائے گی تو ہندوستان کے بعد ان جزائر کا ذکر نمایاں طور پر ہو گا.
خطبات محمود ۷۸۸ سال ۱۹۳۸ء.تیسرا مقام جہاں احمدیت ترقی کر رہی ہے اور جہاں اسے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے عرب ہے.جس کے ساتھ فلسطین بھی شامل ہے.فلسطین میں ایک گاؤں احمد یہ جماعت کا مرکزی ہے یعنی وہ قریباً سب کا سب احمدی ہو چکا ہے.اس کے علاوہ احمدی جماعتیں مصر اور شام میں ہیں.فلسطین کے جس گاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی جماعت ہے جو عملی طور پر احمدیت کو اپنی زندگی میں داخل کر رہی ہے.انہوں نے اپنے مدر سے بھی جاری کر رکھے ہیں، لٹریچر بھی شائع کرتے ہیں، روپیہ خرچ کرتے ہیں ، گویا تیسرا ملک عرب ہے.جس میں شام اور فلسطین وغیرہ بھی شامل ہیں جو احمد بیت کی روح کو اپنے اندر داخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پھر تعداد کے لحاظ سے گوا بھی علمی لحاظ سے نہیں مغربی افریقہ کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہاں اس وقت تک پچاس ساٹھ ہزار احمدی ہو چکا ہے اور احمدیت وہاں وسیع طور پر پھیل رہی ہے اور یہ صرف ہمارے مبلغین کے ذریعہ نہیں بلکہ خودان میں سے جو احمدی ہوئے ہیں وہ آگے جا کر دوسروں کو تبلیغ کرتے ہیں.ان لوگوں میں کی تعلیم بہت کم ہے اور ایسے لوگوں کو ٹھو کر بھی لگ سکتی ہے بعض کو دوسرے لوگ دھوکا بھی دے سکتے ہیں مگر باوجود تعلیم کی کمی کے وہ لوگ بہت کام کر رہے ہیں.ان کے مدر سے جاری ہیں ، اشتہارات شائع ہوتے ہیں، کئی نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں، کئی ایسے ہیں کہ جنہوں نے چھ چھ ماہ تبلیغ کے لئے وقف کئے اور سینکڑوں میلوں کے پیدل سفر کر کے تبلیغ کیلئے گئے اور نئی جماعتیں قائم کیں.ہندوستان میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ غیر ممالک میں کیا کام ہو رہا ہے یہاں تو بعض لوگ احمد یہ جماعتیں قادیان منگل اور بھینی میں ہی کی سمجھتے ہیں.ان کی آنکھوں کے سامنے وہ لڑائی نہیں جو غیر ممالک میں لڑی جا رہی ہے اور جس میں ہمارے مجاہد نو جوان اپنا خون اور پانی ایک کر رہے ہیں اور احمدیت کے جھنڈے کو بلند کر رہے ہیں.بے شک ان ممالک میں سے کوئی روپیہ یہاں نہیں آتا یا کم آتا ہے.مگر اس کی کی یہ ہے کہ میں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے چندہ کا ۷۵ فیصدی امی طور پر خرچ کیا جائے اور صرف ۲۵ فیصدی یہاں آئے اور جہاں ضرورت ہوسو فیصدی ہی وہاں خرچ کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن اس لڑائی میں ہمیں یہاں سے روپیہ نہیں
خطبات محمود ۷۸۹ سال ۱۹۳۸ء بھیجنا پڑتا.کیا یہ کم آرام کی بات ہے، بے شک ان کا روپیہ یہاں خزانہ میں جمع نہیں ہوتا اور جو لوگ کامیابی کا اندازہ روپیہ سے کرنے کے عادی ہوئے ہیں وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ کوئی کام کی نہیں ہو رہا مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جماعتیں اپنے اپنے طور پر کافی خرچ کر رہی ہیں اور بعض جماعتوں کے بجٹ دس دس اور پندرہ پندرہ ہزار کے ہوتے ہیں.اگر وہ ساری رقمیں یہاں آئیں تو ہمارا بجٹ دُگنا نہیں تو ڈیوڑھا تو ضرور ہو جائے گا مگر وہاں بھی ایک لڑائی کی جاری ہے اور ایسی صورت میں ہمارا وہاں سے روپیہ منگوانا بہت بڑی حماقت ہوگی.گوکئی نادان کی وہاں سے روپیہ نہ آنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہو رہا حالانکہ ان کے بجٹ ہزاروں کے ہوتے ہیں.پھر تحریک جدید میں انہوں نے بھی پورے شوق سے حصہ لیا ہے اور بعض ممالک سے ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو دو ہزار روپے بھی آتے رہے ہیں.پس میں اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ عظیم الشان کام ہمارے سامنے ہے.اگر وہ اس امر کے منتظر ہیں کہ تھپڑ پڑے تو اٹھیں.تو یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تھپڑوں کی کمی نہیں مگر یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان تھپڑ کھا کر بیدار ہو.یہ نمونہ تو ہم نے دکھا دیا کہ کوئی ضرب لگائے تو بیدار ہو کر ہم ایسا مقابلہ کرتے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور اب تحریک جدید کے دور ثانی میں ہم نے یہ دکھانا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بغیر مار کھائے بھی ہم ویسی ہی قربانی کرنے کو تیار ہیں اور اس دور کی کامیابی پر اس سوال کا فیصلہ ہوگا کہ احرار کی مار کی ہمارے دلوں میں زیاد ہ عظمت ہے یا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس سوال کا آپ جو بھی جواب دیں گے اس سے آپ کی قیمت کا اندازہ ہوگا.دور ثانی ایسی حالت میں شروع کیا گیا ہے کہ جب بظا ہر سامنے کوئی خطرہ نہ تھا اور یہ اس لئے ہوا کہ تا اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر فخر کا موقع دے اور ہم بتا سکیں کہ جس طرح اگر دشمن ہمیں ذلیل کرنا چاہے تو ہم ایسی قربانی کرتے ہیں جس سے وہ نا کام ہو جائے اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی اگر ہمیں قربانی کرنا پڑے تو پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں.مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے ایک حصہ نے دور ثانی کی اہمیت کو نہیں سمجھا.دور اول میں تو دشمن گھونسے تانے ہمارے سروں پر کھڑا تھا اُس وقت ہم میں جو بیداری پیدا ہوئی وہ اپنی جان بچانے کیلئے تھی مگر آج کوئی دشمن سامنے نہیں کھڑا اور اس طرح حملہ آور
خطبات محمود 49.سال ۱۹۳۸ء نہیں، گواندر ہی اندر آگ سلگائی جارہی ہے اور ایک لاوا ہے جو پک رہا ہے مگر وہ تمہاری کی نظروں سے پوشیدہ ہے اسلئے آج کی قربانی دشمن کی مار کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.اس کی وقت قربانی خالص خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے ہوگی ، اس وقت ہمارے مد نظر صرف خدا تعالیٰ کی کے دین کو پھیلانے کیلئے مستقل کام کی بنیاد رکھنا ہے اور اس کے لئے میں چاہتا ہوں کہ ایک مستقل ریز رو فنڈ قائم کر دوں جس سے یہ کام سہولت کے ساتھ چلتا رہے اور اس کے ساتھ نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کروں جو اسلام کو صحیح معنوں میں قائم کرنے والی ہو.یہ دونوں کام پہلے سے بہت زیادہ خرچ چاہتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں نے کہہ دیا ہے کہ جو دوست زیادہ بوجھ نہ اٹھا سکیں ہر سال دس فیصدی چندہ تحریک میں سے کم کرتے جائیں گو میں نے اپنا چندہ گزشتہ سال بھی تیسرے سال کی نسبت دس فیصدی بڑھا دیا تھا.بہر حال یہ دوسرا دور تحریک جدید کا آپ کے سامنے ہے.مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں اگر آپ اس پر عمل نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کامیابی کا کوئی اور رستہ کھول دے گا مگر میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ دو مواقع قربانی کے آئے ہیں ایک وہ جب دشمن مار رہا تھا اور ایک خالص خدا تعالیٰ کی محبت میں قربانی کرنے کا.اگر اس دوسرے وقت میں ہم نے سستی دکھائی تو آئندہ زمانہ کے لوگ ہمارے متعلق کیا فیصلہ کریں گے وہ ظاہر ہی ہے.آپ میں سے ہر ایک کی نے اپنی قبر میں جانا ہے اور میں نے اپنی میں.میرے اچھے عملوں سے آپ لوگوں کو کوئی فائدہ نہ ہو گا اور آپ کے اچھے عملوں سے مجھے نہیں ہو گا.ہر ایک اپنے اپنے اعمال کا خدا تعالیٰ کے سامنے خود جواب دہ ہے.اگر وہ مجھے پوچھے گا کہ تم نے کیا قربانی کی تو اس کے جواب کا میں ذمہ دار ہوں تم اپنے لئے آپ سوچ لو کہ تم کیا جواب دو گے یا دے سکو گے.میں جانتا ہوں کہ کل کو اگر کوئی اور قوم ہمارے مقابلہ کیلئے کھڑی ہو جائے تو ست دوست بھی قربانیاں کرنے لگیں گے مگر قیامت کے روز خدا تعالیٰ ان سے کہے گا بے شک تم نے قربانیاں کیں مگر میرے لئے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے.اس وقت میں نے آپ لوگوں کے سامنے چند اصول رکھ دیئے ہیں اور ان پر تبصرہ کر دیا ہے اس وقت میں کوئی تحریک نہیں کرتا.صرف ایک تحریک کرتا ہوں کہ رمضان کا آخری عشرہ جو آنے والا ہے اس کو تحریک جدید کے متعلق سابق قربانیوں
خطبات محمود 291 سال ۱۹۳۸ء کے لئے شکریہ اور آئندہ کیلئے طاقت کے حصول کیلئے خرچ کرو.جن کو گزشتہ سالوں میں قربانیوں کی توفیق ملی ہے وہ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کریں اور ہر ایک دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ سے ہر قربانی کرنے والے کے لئے دعا کرے کہ اس نے شوکت دین اور مضبوطی سلسلہ کے لئے جو قربانی کی ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کرے کی اور اس کیلئے اپنی محبت اور برکات کا نزول فرمائے اس محبت اور اخلاص کے مطابق جس کے ساتھ اس نے خدا کی راہ میں قربانی کی تھی.پھر تم میں سے ہر شخص یہ دعا کرے کہ اللہ تعالی است دور ثانی کو پہلے دور سے بھی زیادہ کامیاب بنائے.بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں چندہ کہاں سے دیں لیکن میں نے تو اس تحریک کے شروع میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ غریب سے غریب بلکہ معذور سے معذور بھی حتی کہ جس کی زبان بھی نہ ہو وہ بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے یعنی وہ دعا کے ذریعہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور یہی انیسواں مطالبہ ہے جس میں وہ شخص بھی جو چار پائی پر پڑا ہوا ہوتی کہ ہاتھ بھی نہ ہلا سکے ، زبان سے بول بھی نہ سکے، وہ بھی اس میں شریک ہوسکتا ہے اس طرح تم میں سے ہر وہ شخص خواہ وہ کتنا ہی جاہل اور ان پڑھ کیوں نہ ہو تحریک جدید میں حصہ لے سکتا ہے.پس اس عشرہ میں خصوصیت سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ دور ثانی کو پہلے سے بھی زیادہ کامیاب بنائے اور جماعت کے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کر دے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت کی میں بھی ویسی ہی قربانیاں کر سکے جیسی کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور اگر آپ لوگ سارے کے سارے میرے ساتھ دعاؤں میں شامل ہو جائیں تو یقیناً نتائج نہایت شاندار نکلیں گے ( آخری عشرہ کے انتظار کی ہی کوئی خاص ضرورت نہیں.آج سے ہی دعائیں شروع کر دینی چاہئیں اس طرح تیرہ یا بارہ دن دُعا کے لئے مل جائیں گے.خطبہ چھاپنے والوں کو بھی چاہئے کہ جلدی کریں تا پیر کے روز خطبہ یہاں سے جاسکے.اس کے یہ معنے ہوں گے.کہ باہر کی جماعتوں کو بیسویں روز خطبہ پہنچے گا اور اس طرح نو دن ان کو مل سکیں گے.گو قادیان کے لوگوں کو زیادہ موقع مل سکے گا ) خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ہمارا کام بہت بڑا ہے.دین کو ہمیشہ کے لئے ساری دنیا میں قائم کر دینا کوئی آسان بات نہیں اور اس کیلئے
خطبات محمود ۷۹۲ سال ۱۹۳۸ء بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے، لیکن اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو اتنا تو کرو کہ دعائیں کرو اور اگر اور رنگ میں بھی قربانی کر سکو اور پھر ساتھ دعائیں کرو تو دُہرا ثواب حاصل کر سکو گے.پس اس رمضان میں خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کیلئے دعائیں کرو جنہوں نے مال سے یا وقت سے یا اولاد کے ذریعہ سے قربانیاں کی ہیں یا دعاؤں سے مدد کی ہے اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو سکون اور برکت سے بھر دے، انکی قربانیاں دائمی صدقہ کا کام دینے والی ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں اور ان کی غلطیوں کو معاف کرے اور انہیں گناہوں کی عادت سے بچائے.ان کے قلوب میں اپنی محبت اور عرفان کے چشمے پھوڑے اور انہیں نیک نسلیں عطا کرے جو راستی پر قائم رہنے والی ہوں.پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس دور ثانی کو کہ جس کا محرک اس کی محبت ہے کامیاب کرے اور جماعت کو قربانیوں کی توفیق دے کہ دراصل یہی اصل قربانی ہے.اللہ تعالی مالی قربانی کرنے والوں کو بچے معیار کے مطابق قربانی کی توفیق عطا فرمائے.جن کو توفیق نہیں انہیں توفیق دے اور جنہیں توفیق ہے مگر وہ کمزوری دکھا رہے ہیں ان کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے.جن لوگوں کو مالی قربانی کی توفیق کی نہیں ان پر بھی بڑی ذمہ داری ہے.وہ رات دن دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ غیب سے راستے کی کھول دے اور ان کی دعاؤں کی وجہ سے دوسروں کو قربانی کی توفیق دے اور اگر سچے دل سے دعائیں کی جائیں تو یقیناً ہم کامیاب ہونگے کیونکہ الہی سلسلوں کی بنیاد ہمیشہ الہی فضلوں پر ہوتی کج ہے اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیاں کرنے کی ایک ایسی رفتار بخش دے گا جس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ ہم اور ہماری نسلیں ان کے ذریعہ اپنے اس مقصود کو پالیں گی جس کیلئے ہم پیدا کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس قدر نزدیک ہو جائیں گے اور قرب کا وہ مقام حاصل کر لیں گے جس پر دوسری برگزیدہ جماعتوں کو رشک پیدا ہوگا اور ہمارے مخالف حسد کی آگ میں جل جائیں گے.“ (الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۳۸ء) البقرة : ١٨٦ ٣٠٢ شعب الايمان لِلْبَيْهَقِى الجزء الثاني صفحه ۳۱۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۰ء
خطبات محمود ۷۹۳ ۳۷ سال ۱۹۳۸ تحریک جدید کے دور ثانی میں زیادہ جدو جہد کی ضرورت ہے (فرموده ۱۸ / نومبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - جیسا کہ میں گزشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں تحریک جدید کا دور اول صفائی کی مثال رکھتا تھا.اس کی غرض یہ تھی کہ دشمنوں نے احمدیت پر جو حملہ کیا تھا اس کا ازالہ کیا جائے اور دشمن کی حقیقت کو دنیا پر ظاہر کیا جائے.واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کوشش میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے.اس وقت ہماری سب سے بڑی مخالفت دو گروہوں کی طرف سے ہو رہی تھی ، گو شامل سارے ہی تھے مگر خصوصیت کے ساتھ ایک تو احرار مخالفت کر رہے تھے اور دوسرے حکومت کا وہ حصہ جو اندرونی طور پر برطانیہ کے دشمنوں کا ہمدرد تھا وہ اپنے عہدوں کی آڑ لے کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا تھا اس کوشش میں اس نے حکومت کے بعض ہندوستانی یا انگریز افسروں کو بھی جھوٹی سچی شکا یتیں کر کے اپنے ساتھ ملا لیا تھا.احرار کا انجام جو ہو اوہ سب پر ظاہر ہے.خدا تعالیٰ نے ان کی ذلت کے ایسے سامان مہیا کر دیئے کہ اب وہ مسلمانوں میں خود آزادی سے تقریر بھی نہیں کر سکتے.کئی سال تو ایسی حالت رہی کہ لاہور میں احرار کا جلسہ ہونا ناممکن ہو گیا وہ جلسہ کرتے اور لوگ شور مچادیتے ابھی تک بہت جگہ ان کی یہی حالت ہے گو وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس لینے کے لئے اب کئی قسم کے بہانے بنانے لگ گئے ہیں.کہیں فلسطین کے مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں
خطبات محمود ۷۹۴ سال ۱۹۳۸ء اور کہیں کشمیر ایجی ٹیشن شروع کرتے ہیں مگر ابھی تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو حافظہ دیا ہے اور وسیع حافظہ دیا ہے.تم میں سے وہ لوگ جو مایوس تھے اور ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مایوسی کی عادت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذرا اپنے حافظہ پر زور ڈال کر احرار کی اس طاقت کا جواُنہیں آج سے ساڑھے تین سال پہلے پنجاب میں حاصل تھی اندازہ لگائیں اور جو آج ان کی حالت ہے اس کا بھی اندازہ لگائیں ، پھر جو اُس وقت ان کے روپیہ کی آمد کا حال تھا اس کا بھی اندازہ لگائیں اور جو آج ان کے کی روپیہ کی آمد کا حال ہے اس کا بھی اندازہ لگائیں.گورنر پنجاب نے خود ہمارے آدمیوں سے ان دنوں بیان کیا کہ سینکڑوں روپیہ روزانہ ان کو منی آرڈروں کے ذریعہ آتا ہے اور یہ ہمارے محکمہ کی رپورٹ ہے.میں اگر غلطی نہیں کرتا تو شاید انہوں نے پانچ سو روپیہ روزانہ کی تج آمد بتائی تھی.گویا ان دنوں پندرہ بیس ہزار روپیہ ماہوار ان کی آمد تھی لیکن آج یہ حالت ہے کہ متواتر ان کی طرف سے اپنے لوگوں کے نام یہ اعلان ہوتے ہیں کہ دس روپے ہی بھجوادیں ، دس نہیں تو پانچ ہی سہی ، میں جب اس کیفیت کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہی نظارہ یاد آ جاتا ہے جو بچپن میں میرے دیکھنے میں آیا کرتا تھا.یہاں ایک معذور فقیر ہوا کرتا تھا.اس کی عادت یہ تھی کہ اس کے پاس سے جو شخص بھی گزرتا اس سے ضرور کچھ نہ کچھ مانگتا وہ ہمیشہ اپنا سوال روپیہ سے شروع کرتا اور کہتا کہ ایک روپیہ دیتے جاؤ مگر یہ الفاظ کہتے ہی معاً اس کی طبیعت کہتی کہ یہ روپیہ نہیں دے گا اس لئے وہ اس کے ساتھ کہہ دیتا کہ اچھا اٹھنی ہی سہی اور بغیر وقفہ کے اس کے ساتھ زائد کر دیتا اچھا دوئی ہی دے دو، پھر کہتا کہ چلو ایک آنہ ہی سہی اتنے میں گزرنے والا اس کے پاس پہنچ جاتا اور وہ کہتا کہ دو پیسے ہی دے دو، اچھا ایک پیسہ ہی سہی جب وہ آدمی اسے چھوڑ کر آگے گزر جاتا تو کہتا کہ دھیلہ ہی دیتے جاؤ.ایک پکوڑا ہی سہی اور جب وہ دور چلا جاتا تو زور سے آواز دیتا کہ ایک مرچ ہی دیتے جاؤ.یہی حالت ان لوگوں کی آج ہو رہی ہے.مگر وہ وقت ایسا تھا کہ ان سے گورنمنٹ بھی ڈرتی تھی.چنانچہ گورنمنٹ پنجاب کے بعض
خطبات محمود ۷۹۵ سال ۱۹۳۸ء ذمہ دار افسروں نے اس وقت ہمارے آدمیوں سے کہا تھا کہ بعض موقعوں پر ہم سمجھتے ہیں کہ احرار زیادتی کر رہے ہیں.مگر کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہمارے لئے یہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے کہ ہمارے اقدام کے نتیجہ میں عام مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا.تو یہ ایسی چیز ہے جس کا انکار دشمن بھی نہیں کر سکتا.لاہور کے تمام مسلمان اخبارات باقاعدہ اس بات کو پیش کرتے اور اس کے متعلق مضامین لکھتے رہتے ہیں بلکہ ہمارے صوبہ کی سب سے بڑی طاقت یعنی یونینسٹ پارٹی جو بر سر حکومت ہے اور جسے قانون کے لحاظ سے حاکم اور بادشاہ کہنا چاہئے وہ خود اسی نتیجہ کی سب سے بڑی شاہد ہے گو مجھ سے ایک ڈپٹی کمشنر نے بات کرتے وقت کہا کہ برطانوی گورنمنٹ فلاں چیز کی برداشت نہیں کر سکتی مگر یہ کہتے ہوئے معاً انہیں خیال آیا کہ ہم دعوے تو اور کرتے رہتے ہیں اور میں نے اس موقع پر کیا کہہ دیا ہے اس لئے وہ یہ فقرہ کہتے ہی کہنے لگے آپ اس کو سلف گورنمنٹ کہہ لیں.یعنے موجودہ سلف گورنمنٹ برطانوی حکومت ہی ہے صرف اس کا نام بدل دیا گیا ہے.یہ اس ڈپٹی کمشنر کے قول کا مطلب واقع میں ہے یا نہیں ، یہ یونینسٹ گورنمنٹ کی جانے.بہر حال ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ اس وقت یونینسٹ گورنمنٹ حکومت کر رہی ہے اور یہی یونینسٹ گورنمنٹ اس نتیجہ کی سب سے بڑی شاہد ہے.کیونکہ اسے شکست دینے کے لئے احرار نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس کے کم سے کم دو درجن ممبر ایسے ہیں جو ہماری مدد سے باوجود احرار کی مخالفت کے کامیاب ہوئے تھے.دوسری شکست احرار کو نمایاں طور پر یہ ملی کہ قادیانی کے متعلق انہوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیا ہے اور قادیان کے علاقہ میں احمد یوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تردید کا بھی سامان مہیا کر دیا.گو ہمارے بعض آدمی اس حکمت کو نہیں سمجھے اور انہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ اعتراض کی کر دیا کہ جماعت کا روپیہ برباد کیا گیا ہے حالانکہ روپیہ تو آنے جانے والی چیز ہے.آج آتا ہے اور کل ہاتھ سے نکل جاتا ہے.یہ نہ کسی انسان کے پاس رہا ، نہ کسی قوم کے پاس رہا ، نہ کسی ملک کے پاس رہا، ایک زمانہ میں ایک قوم دولت مند ہوتی ہے اور دوسرے زمانہ میں دوسری قوم دولت مند ہو جاتی ہے.ایک زمانہ میں ایک ملک دولت مند ہوتا ہے اور دوسرے زمانہ میں دوسرا ملک دولت مند ہوتا ہے.پس روپیہ آتا اور چلا جاتا ہے مگر جو چیز رہ جاتی ہے وہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء نام اور شہرت ہوتی ہے.آخر غور کرو کہ وہ ساری دنیا کی حکومت جو مسلمانوں کے پاس تھی وہ اب کہاں ہے ، وہ خلافت جس کے ذریعہ حضرت ابو بکر حکومت کرتے تھے کہاں ہے ، وہ حکومت جو حضرت عمرؓ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے.وہ شوکت اور عظمت جو حضرت عثمان اور حضرت علی کو حاصل تھی وہ کہاں ہے، وہ دبدبہ اور وہ رعب جو صحابہ کو حاصل تھا وہ اب کہاں ہے، وہ ملک چلے گئے ،حکومت جاتی رہی مگر جو چیز آج بھی موجود ہے وہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ کا سرٹیفکیٹ ہے تو ملکوں کے ہاتھ سے نکل جانے نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ جو ان کی عزت کی تھی وہ آج بھی قائم ہے جب ملک ان کے پاس تھا تب بھی وہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کے القاب کے مستحق تھے اور جب ملک نہیں رہا تب بھی انہیں رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کہا جاتا ہے.گویا اصل قیمتی چیز رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کا خطاب ہی ہے نہ کہ روپیہ یا جائداد یا حکومت اور بادشاہت.تو روپیہ کی ایک آنی جانی چیز ہے مگر بعض لوگ حکمتوں کو نہیں سمجھتے اور چونکہ ان کے دماغ چھوٹے ہوتے ہیں کہ اس لئے وہ بعض دفعہ کسی روپیہ کے خرچ کر دیئے جانے پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتیجہ میں جماعت کی عزت کس قدر قائم ہو گئی.اب جو چیز میرے سامنے تھی وہ یہ تھی کہ قادیان کے متعلق دشمن نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیا ہے اور احمدیوں کو بالکل کچل کر رکھ دیا گیا ہے.یہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص اس اعتراض کو معمولی خیال کرتا ہے مگر سارے ہندوستان کو مدنظر رکھتے ہوئے بنگال ، بمبئی ، مدراس، یوپی، بہار، سندھ، صوبہ سرحد میں جو احراری پرو پیگنڈا جماعت احمدیہ کی موت کی نسبت کیا جا رہا تھا وہ ہماری تبلیغ کے راستہ میں بہت بڑی روک بن رہا تھا بلکہ دور کیوں جاؤ خود پنجاب کے دوسرے علاقوں میں یہ بُرا اثر پیدا کر رہا تھا اور لوگ خیال کرنے لگے تھے کہ شاید یہ لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں اور اب جماعت احمد یہ ختم ہو رہی ہے اور اس اثر کا دور کرنا نہایت ضروری تھا.پس میں نے چاہا کہ اس علاقہ میں احرار کا ممبری کیلئے کھڑا ہونا ایک خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ موقع ہے جسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس موقع پر دنیا کو بتا دیں کہ اس علاقہ میں ہماری طاقت با وجود اقلیت ہونے کے ان سے زیادہ ہے اور اس خیال سے میں نے احمدی امیدوار، باوجود ہمارے بعض دوستوں کے شدید اصرار کے کہ ایسا نہ کیا جائے کھڑا کیا اور یہی جواب دیا کہ اس وقت ہمارے لئے
خطبات محمود ۷۹۷ سال ۱۹۳۸ء یہ ایک اصولی سوال ہے اور ہم اس ذریعہ سے احرار کے جھوٹے پروپیگنڈا کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں اس لئے باوجود آپ لوگوں کے اصرار کے ہم اپنے آدمی کو نہیں بٹھا سکتے.جب الیکشن کا نتیجہ نکلا تو بیشک اہل سنت و الجماعت کا ایک نمائندہ کامیاب ہو گیا مگر دوسرے نمبر پر احمدی نمائندہ تھا.تیسرے نمبر پر احراری اور چوتھے نمبر پر دوسراستی اب اس نتیجہ کو احرار کہاں چھپا سکتے تھے.یہ پلک کی آواز تھی جو ووٹوں کے ذریعہ ظاہر ہوئی اور اس نے دنیا پر ثا بت کر دیا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو قادیان کے علاقہ میں کچل دیا گیا ہے بالکل بے معنی دعوی ہے.حقیقت اس میں کچھ نہیں.پس اس نتیجہ نے احرار کی آواز کو بالکل مدھم کر دیا اور اس کے بعد قادیان کی فتح کا نقارہ بجتے کم از کم میں نے نہیں سنا اس لئے کہ یہ نتیجہ سرکاری افسروں کے سامنے نکلا اور انہوں نے بھی دیکھ لیا کہ احرار کی نسبت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کو ووٹ زیادہ ملے ہیں.ایسے تین اور کھلے نتیجہ کو کوئی کہاں چھپا سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے کی دور میں زمین صاف کرنے کا موقع دیا اور ادھر تو حکام پر حقیقت کھل گئی اور ادھر پبلک پر حقیقت کھل گئی ہمیں جو خدشہ تھا کہ جماعت کی سبکی اور بدنامی نہ ہو وہ جاتا رہا.دوسری طرف ہمیں حکومت کے بعض افسروں سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا.ہمیں ان پر بھی غصہ تھا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم باغی ہو اور حکومت کا تختہ الٹنے والے ہو حالانکہ ہم ایسے نہیں.ہم نے اس الزام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں غلط ثابت کیا کہ گورنمنٹ کو تقریراً اور تحریراً تسلیم کرنا پڑا کہ ہم جماعت پر ایسا کوئی الزام نہیں لگاتے اور یہ کہ اس نوٹس سے جو اس نے دیا یہ مراد ہر گز نہیں تھی کہ حکومت کے نزدیک جماعت احمدیہ نے سول نافرمانی یا کسی خلاف امن فعل کے ارتکاب کا ارادہ کیا ہے.چنانچہ حکومت پنجاب کی چٹھیوں کے علاوہ جب نائب وزیر ہند کے پاس شکایت کرتے ہوئے انہیں اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کی کے افسروں نے اس معاملہ میں جو کچھ بھی کیا ہے اس کے کرتے وقت ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے جماعت احمدیہ کے جذبات کو جس کی وفاداری پورے طور پر مسلم ہے کسی طرح ٹھیس لگے.حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے
خطبات محمود ۷۹۸ سال ۱۹۳۸ ں ہے انہوں نے ہم پر بغاوت اور سول نافرمانی کا الزام لگا یا تھا.پھر ایک واقعہ ایسا ہے کہ جسے گورنمنٹ کسی صورت میں بھی چھپا نہیں سکتی.میں نے کئی انگریز افسروں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ واقعہ ان کے سامنے رکھا ہے اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ بعض حکام سے اس بارہ میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے گویا وہ ایک ایسی واضح غلطی.جس کو تسلیم کئے بغیر گورنمنٹ کے افسروں کیلئے کوئی چارہ ہی نہیں اور وہ یہ کہ گورنمنٹ کے کسی افسر نے ایک دفعہ ایک خفیہ سرکلر جاری کیا جو غالباً کئی ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کے نام بھیجا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی حالت گورنمنٹ کی نگاہ میں مشتبہ ہے اس لئے اس کے افراد کا خیال رکھنا چاہئے ، اب یہ ذرائد سے نکل چکے ہیں اور ان کے خیالات باغیانہ ہو گئے ہیں.یہ سرکلر تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں یا بعض اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو بھیجا گیا اور ہمیں بھی کسی طرح اس چٹھی کا پتہ لگ گیا.جب ہم نے گورنمنٹ سے اس چٹھی کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کی بالکل انکار کر دیا اور کہا کہ ایسی کوئی دیکھی نہیں بھیجی گئی حالانکہ ہمیں خبر دینے والے نے یہ بتایا تھا کہ یہ معتبر خبر ہے.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے اس وقت کی گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی.اس وقت تک موجودہ حکومت کا زمانہ نہ آیا تھا) گورنمنٹ نے ایسے سرکلر سے لاعلمی ظاہر کی اور بالکل ممکن تھا کہ ہم اپنی اطلاع کو کسی غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تازہ بتازہ ثبوت بہم پہنچا دیا اور وہ اس طرح کہ اِ دھر گورنمنٹ نے انکار کیا کہ ہم نے کوئی ایسی چٹھی نہیں بھیجی اور ادھر راولپنڈی کا ایک ہیڈ کانسٹیبل جلسہ سالانہ یا مجلس شوری کے موقع پر (اس کی مجھے یاد نہیں رہا ) ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں میں گیا اور اس نے احمدیوں سے کہا کہ تم مجھے اپنے نام لکھاؤ تم میں سے کون کون قادیان جائے گا کیونکہ سرکاری حکم آیا ہے کہ احمدیوں کی نگرانی رکھو.غرض اس نے وہاں کے احمدیوں سے اقرار لیا کہ وہ اس موقع پر بغیر پولیس کو اطلاع کئے نہیں جائیں گے.جب انہوں نے اس بات کی اطلاع ہمیں دی تو ہماری طرف سے مقامی کارکنان کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس واقعہ کی تحقیق کریں اور افسرانِ بالا سے مل کر معلوم کریں کہ اصل بات کیا ہے.جب انہوں نے تحقیق کی اور وہ افسرانِ بالا سے ملے تو پولیس کے افسروں نے انہیں یہ جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک خفیہ ٹھی آئی
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء تھی کہ اس امر کی نگرانی رکھی جائے مگر اس ہیڈ کانسٹیبل نے شراب پی ہوئی تھی جس کے نشہ میں اس نے بات کہہ دی اور بجائے مخفی رکھنے کے اس نے خود احمدیوں سے اس کا ذکر کر دیا ورنہ ہمیں تو مخفی حکم ملا تھا اور اب بہتر ہے کہ آپ اس معاملہ کو دبا دیں اور زیادہ شور نہ کریں کیونکہ ہماری بدنامی ہوتی ہے اور اگر یہ راز کھلا تو اس ہیڈ کانسٹیبل کی شامت آجائے گی.اب یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ جس کا گورنمنٹ انکار کر ہی نہیں سکتی تھی اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ کوئی غلط فہمی اس بارہ میں ہو گئی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ غلط فہمی ہو کس طرح گئی.اگر گورنمنٹ یا گورنمنٹ کے کی کسی ذمہ دار افسر کا کوئی آرڈر نہیں تھا تو یہ کس طرح ممکن ہو گیا کہ راولپنڈی کے ایک ہیڈ کانسٹیبل نے ایک دور دراز کے گاؤں میں جا کر احمدیوں کے نام لکھنے شروع کر دیئے اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ بغیر پولیس میں اطلاع دیئے تم قادیان نہیں جاسکتے مگر خیر ہم کو ان بحثوں سے غرض نہیں.حکومت پنجاب نے علی الاعلان تسلیم کیا کہ وہ کوئی ایسا الزام جماعت احمدیہ پر نہیں لگاتی اور بالا گورنمنٹ نے بھی یقین دلایا کہ جماعت احمدیہ کی وفاداری اس کے نزدیک کی مسلم ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حکومت کے مقابلہ میں بھی ہمیں فتح دی گو مخالفت کا سلسلہ ابھی تک اندرونی طور پر افسروں میں جاری ہے کیونکہ حکومت میں یہ مرض ہے کہ اس کا کی ایک معمولی سے معمولی افسر بھی کوئی بات کہہ دے تو وہ اسے سچ تسلیم کرلے گی اور یہ گورنمنٹ کی کے تنزل اور بعض دفعہ اس کے لئے ندامت کے موجبات میں سے ایک بہت بڑا موجب ہے.ممکن ہے اب جبکہ گورنمنٹ میں ہندوستانی عنصر زیادہ ہو رہا ہے یہ مرض کم ہونا شروع ہو جائے مگر ابھی تک پرانی روایات چلتی چلی جاتی ہیں اور حالت یہ ہے کہ چاہے کوئی افسر کتنا جھوٹا، کتنا فریبی اور کتنا ہی مکار کیوں نہ ہو جو بات بھی وہ کہہ دے سارے اس کے پیچھے چل پڑیں گے اور کہیں گے کہ یہ بات بالکل سچی ہے کیونکہ فلاں افسر نے یہ بات کہی ہے اور ابھی تک ان کی کی طبیعت پر یہ اثر چلتا چلا جاتا ہے خصوصا لوکل افسر تو اس مرض میں بہت حد تک مبتلا ہیں اور وہ حقیقت کو سمجھ جانے کے باوجو دسچائی اور دیانت کا طریق بعض دفعہ اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ اگر ہم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو گورنمنٹ کے پر سٹیج کو نقصان پہنچے گا.بہر حال ان دنوں میں اور آج کے ایام میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پہلے وہ دھڑلے سے ہماری جماعت کو
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء دبانے کیلئے تیار ہو جاتے تھے مگر اب وہ سوچ لیتے ہیں کہ اس دبانے کا نتیجہ کیا ہو گا پھر اللہ تعالیٰ کی نے اپنے فضل سے جماعت کو جس رنگ میں بڑھایا ہے وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں.چاروں طرف ترقی کے آثار نظر آرہے ہیں کئی نئے ممالک ہیں جن میں احمدیت قائم ہوئی ، ہزاروں لوگ جو اس دوران احمدیت میں داخل ہوئے بلکہ قریب کے علاقہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل احمدیت نے ترقی کرنی شروع کر دی ہے اور بعض جگہ بالکل نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں اور بعض جگہ پہلے چھوٹی جماعتیں تھیں مگر اب بہت بڑی جماعتیں ہو گئی ہیں.چنانچہ ابھی ایک صاحب کی نے جو آ کر کہا ہے کہ انتظام ہو گیا ہے.وہ اسی امر کے متعلق تھا کہ ایک جگہ کی نئی جماعت نے خواہش کی تھی کہ انہیں جمعہ پڑھانے کے لئے کوئی آدمی بھجوایا جائے.ہمارے افسر انتظام کرنا بھول گئے اور جمعہ کو آتے ہوئے مجھے شاہ صاحب سے اس کا علم ہوا اور میں نے آدمی بھیجوایا کی کہ ابھی خطیب کا انتظام کر کے مجھے اطلاع دی جائے تا ان لوگوں کی دل شکنی نہ ہو.اس جگہ بھی میں سال سے نہایت مختصر جماعت تھی مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعت ہوگئی ہے.آج میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میرے دل پر ان گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگوار اثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ہمیں ملتی رہی ہیں اور اب بھی مل رہی ہیں کیونکہ گالیاں فتح اور کی شکست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ گرا ہوا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتا ہے.بہر حال میری طبیعت کی پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوں نے اس موقع پر ہمارے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اور مجھے ان کی طرف سے رنج تھا.شاید میرا گزشتہ سفر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کیلئے تھا کہ تا میری طبیعت پر جو اثر ہے وہ دور ہو جائے.میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثر کہ مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلا ہیں اس حد تک صحیح نہیں جس حد تک میرے دل پر یہ اثر تھا.مجھے اس سفر میں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے.پہلے میں سندھ گیا ، وہاں سے بمبئی گیا، بمبئی سے حیدر آباد چلا گیا اور پھر حیدر آباد سے واپسی پر دہلی سے ہوتے ہوئے قادیان آ گیا.اس طرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے.اس سفر کے دوران شرفاء کے طبقہ کے اندر جو بات میں نے دیکھی ہے اس سے جو میرے دل میں مسلمانوں کے متعلق رنج تھا وہ بہت کچھ دور ہو گیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے کی
خطبات محمود ۸۰۱ سال ۱۹۳۸ء رکھا کرتا تھا اور ان خیالات سے جو احرار نے پیدا کرنے چاہے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتے ہیں.اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتا تو شاید یہ اثر دیر تک میرے دل پر رہتا اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس کی سفر کا موقع دیا اور وہ اثر جو میرے دل پر تھا کہ اتنے گند میں مسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہو گیا وہ اس سفر کی وجہ سے دور ہو گیا.حیدرآباد میں میں نے دیکھا کہ جس قدر بھی بڑے آدمی تھے.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ تھوڑے سے باہر بھی رہے ہوں گے اور وہ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے جو میرے اعزاز میں وہاں دی گئی تھیں.ان لوگوں میں وزراء بھی تھے ، امراء بھی تھے اور نواب بھی تھے.چنانچہ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے جو پارٹی دی اس میں بہت سے نواب شامل ہوئے اور سارے سو دو سو کے قریب معززین ہوں گے اور جوان کی پارٹی میں شامل ہوئے.اسی طرح دوسری جگہوں میں بھی میں نے دیکھا کہ شرفاء، آفیسرز ، ججز اور بڑے بڑے امراء ان دعوتوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور میں دیکھتا رہا کہ ان کے دلوں کی میں یہ احساس ہے کہ احرار کی طرف سے ہم پر سخت مظالم توڑے گئے ہیں بلکہ بہتوں نے بیان بھی کیا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں جماعت احمدیہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے.اسی طرح دہلی میں جو ایک دو تقریبات ہوئیں ان میں میں نے دیکھا کہ شہر کے ہر طبقہ کے لوگ اور بڑے بڑے روساء شامل ہوتے رہے.مسلمانوں میں سے زیادہ اور ہندوؤں اور سکھوں میں سے قلیل اور قدرتی بات ہے کہ جس شخص کے اعزاز میں یہ تقریب پیدا کی جائے گی اس میں وہی لوگ زیادہ بلائے جائیں گے جو اس کے ہم مذہب ہوں گے.پس ان دعوتوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور ان کی باتوں میں سے میں نے یہ معلوم کیا کہ در حقیقت احرار کا یہ دعویٰ کہ ان کا مسلمانوں پر بہت بڑا اثر ہے اور یہ کہ وہ گند جسے شرافت برداشت نہیں کر سکتی مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے، یہ بالکل غلط ہے اور اس طرح میرے ان خیالات کا ازالہ ہوا جو شرفا کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکے تھے اور میں نے سمجھا کہ اگر ان ایام میں مسلمان خاموش رہے تھے تو محض مخالفت کی ہیبت کی وجہ سے کہ احرار کا ان کے دلوں پر کوئی اثر ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بدظنی کے گناہ سے بچا لیا.مجھے پرسوں ترسوں ہی حیدر آباد سے
خطبات محمود ۸۰۲ سال ۱۹۳۸ء ایک معزز آدمی کا خط ملا ہے.وہ لکھتا ہے میں خود آپ سے ملنا چاہتا تھا تا دیکھوں کہ جس شخص کی اس قدر تعریف اور اس قدر مذمت ہوتی ہے وہ ہیں کیسے؟ خیالات ہر شخص کے مختلف ہوتے ہیں اس کے لحاظ سے جو چاہے آپ کے متعلق کہہ لیا جائے مگر اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت نا قابلِ اعتراض اور قابلِ تقلید ہے.یہی اثر میں سمجھتا ہوں عام طور پر دوسرے لوگوں کے دلوں پر بھی تھا اور بجائے اس کے کہ وہ اس گند سے متاثر ہوتے سوائے چند لوگوں کے باقی تمام شرفاء صورت حالات کو حیرت سے دیکھتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ ہم معلوم کریں یہ کیسی جماعت ہے اور اس کا امام کیسا شخص ہے.پس احرار کے گند سے مسلمانوں کے شریف طبقہ میں صرف تجسس پیدا ہوا، ایک رو تحقیق کی پیدا ہوئی ،اس سے زیادہ انہوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا.اسی طرح میرے یہاں پہنچنے پر دو چار دن کے بعد ایک مشہور مسلمان لیڈر نے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے سر کا خطاب بھی ملا ہوا ہے مجھے لکھا کہ میں آپ کے سفر کے حالات اخبار میں غور سے پڑھتا رہا ہوں اور میں اس دورہ کی کامیابی پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں حالانکہ ان کا اس سفر سے کوئی واسطہ نہ تھا نہ وہ ان شہروں میں سے کسی ایک میں رہتے تھے جہاں میں گیا.نہ وہ ان علاقوں کے باشندے ہیں ، ایک دُور دراز کے علاقہ میں وہ رہتے ہیں کہ اور مسلمانوں کے مشہور لیڈر ہیں مگر انہوں نے بھی اس دورہ کی کامیابی پر مبارک باد کا خط لکھنا ضروری سمجھا جس سے معلوم ہوتا ہے.کہ شرفاء کے دلوں میں ایک گرید تھی اور بجائے اس گندی سے متاثر ہونے کے شریف طبقہ ایک تجس کی نگاہ سے تمام حالات کو دیکھ رہا تھا اور اندرونی طور پر وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا.میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں مسلمانوں کے متعلق میری بدظنی گناہ کا موجب تھی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقع دے دیا تا وہ خیال جو ایک شکوہ کے رنگ میں مسلمان شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکا تھا کہ انہوں نے وہ امید پوری نہیں کی جو ان پر مجھے تھی وہ دور ہو جائے.چنانچہ مجھ پر اس سفر نے یہ ثابت کر دیا کہ میرا پہلا خیال غلط تھا اور در حقیقت ان کی خاموشی صرف ہیبت کی وجہ سے تھی ورنہ شریف ، دل میں شریف ہی تھے اور وہ اس گند کو پسند نہیں کرتے تھے جو احرار کی طرف سے اچھالا گیا.مگر میں نے بتایا ہے کہ دور اول کے بعد دورِ ثانی کی ضرورت ہے.دور اول زمین کی کی
خطبات محمود ۸۰۳ سال ۱۹۳۸ صفائی کیلئے تھا اب دور ثانی میں تعمیر کی ضرورت ہے اور تعمیر کا کام تخریب سے بہت زیادہ اہم ہوتا ہے.پس جو تخر یہی حصہ تھا یعنی دشمنوں کی کوششوں کو باطل کرنا اور انکو ان کے منصوبوں میں ناکام و نامراد کرنا ، یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا ہو چکا ہے اور تعمیری دور کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں ایسی فضا اور ایسا رنگ پیدا کر دے جو ان مقاصد کو پورا کرنے میں محمد ہو جن مقاصد کو پورا کرنے کیلئے احمدیت قائم ہوئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مقاصد کا پورا ہونا صرف احمدیت کیلئے ہی خاص طور پر مفید نہیں بلکہ اسلام کیلئے بھی مفید اور بابرکت ہے اور پھر صرف اسلام کیلئے ہی ان مقاصد کا پورا ہونا مفید نہیں بلکہ جس قسم کا مذہبی ، سیاسی ، تعلیمی، تمدنی کی اور اقتصادی ماحول ہم پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ دنیا کیلئے بھی مفید اور ضروری ہے.یہ عظیم الشان کی ماحول ہم نے پیدا کرنا ہے مگر ہماری موجودہ حالت تو ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کیا پڑی کی اور کیا پڑی کا شوربہ.ہماری تعداد نہایت قلیل ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں ایسا انقلاب پیدا کر کے رہیں گے تو دنیا ہم پر ہنستی ہے اور کہتی ہے کہ یہ پاگل ہو گئے ہیں.مگر آج تک دنیا میں جس قدر عظیم الشان کام ہوئے ہیں وہ ایسے ہی لوگوں سے ہوئے ہیں جنہیں پاگل کہا گیا اور ایسی ہی جماعتوں نے انقلاب برپا کیا ہے جنہیں مجنون قرار دیا گیا.پس پاگل کا لقب ہمارے لئے کوئی گالی نہیں بلکہ خوشی کا موجب ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری انبیاء سابقین کی جماعتوں سے ضرور ایک گہری مشابہت ہے کیونکہ جس طرح انہیں پاگل کہا گیا اسی طرح لوگ آج ہماری جماعت کو پاگل کہتے ہیں.لیکن بہر حال ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت کی ترقی کیلئے ہمیں ایک عظیم الشان جد و جہد کی ضرورت ہے اور جیسے جیسے احمدیت کو ترقی ہو گی ویسے ویسے اسلام بھی ترقی کرتا چلا جائے گا اور جوں جوں اسلام دنیا میں ترقی کرے گا توں توں کی دنیا بھی مذہبی اور سیاسی اور تمدنی اور اقتصادی پہلوؤں سے ترقی کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلام کی باقی اقوام کو مٹا کر مسلمانوں کو نہیں بڑھا تا بلکہ باقی اقوام کو بڑھا کر مسلمانوں کو اور آگے لے جاتا ہے.چنانچہ جب کبھی دنیا میں اسلامی اصول پر ترقی ہو گی ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں کی بھی ترقی ہوگی بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے مبیع کیلئے ترقی کے راستے کھولے جائیں گے اور ہر شخص کیلئے خواہ وہ کسی مذہب وملت کا پابند ہو ترقی کی طرف قدم بڑھانے کی گنجائش رکھی جائے گی.
خطبات محمود ۸۰۴ سال ۱۹۳۸ء بعض نادان اپنی جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ہمیشہ ایسے موقع پر قادیان کا حوالہ دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں آئندہ تو جو ہو گا سو ہو گا ابھی آپ کو قادیان میں تھوڑا سا غلبہ حاصل ہے اور آپ نے اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں اور سکھوں سے لین دین پر پابندی عائد کر رکھی ہے حالانکہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ یہ پابندی محض بعض فسادات سے بچنے کی وجہ سے عائد کی گئی ہے ورنہ ہم قادیان سے باہر ہر جگہ ہندوؤں اور سکھوں سے لین دین رکھتے ہیں.گو یہ قدرتی بات ہے کہ انسان اپنی قوم کو ترجیح دیتا ہے اور ہم بھی تجارتی لین دین میں ایک مسلمان کہلانے والے کو فائدہ پہنچا نا پسند کرتے ہیں لیکن بہر حال ہمارا ہندوؤں اور سکھوں سے کوئی مقاطعہ نہیں ہوتا اور ہم ان سے کھلے طور پر لین دین رکھتے ہیں.قادیان میں اگر یہ پابندی عائد ہے تو صرف دفاعی طور پر ورنہ ہم نے ان کا مقاطعہ اب بھی نہیں کیا ہوا بلکہ ایسے ہندو اور سکھ جو ہماری ناواجب مخالفت نہیں کرتے ان سے ہمارا لین دین قادیان میں بھی جاری ہے اور میں قادیان کی حالت کو بھی جیسا کہ اشارہ کر چکا ہوں جلد سے جلد بدلنا چاہتا ہوں اور یہاں کے قوانین میں بھی اصلاح کرنا چاہتا ہوں.لیکن میری عادت ہے کہ جب دشمن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو اس وقت میں اس کی بات نہیں مانا کرتا اور مجھے افسوس ہے کہ جب کبھی یہاں کے بزرگوں نے مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیشہ ایسی صورت میں کہ پہلے کوئی ہم پر مقدمہ کرا دیا یا فساد کھڑا کرا دیا اور پھر چاہا کہ سے سمجھوتہ کر لیں حالانکہ میں ایسے مواقع پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتا میں ہمیشہ ایسے موقع پر ہی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہوا کرتا ہوں جب میرا ہاتھ دینے والا ہو اور ان کا ہاتھ لینے والا ہولیکن جب کوئی ڈنڈا لے کر میرے سر پر آچڑھے اور کہے کہ مجھ سے صلح کرو تو پھر میں اس کی بات نہیں ما نا کرتا.مجھے تعجب آتا ہے کہ میری عمر پچاس سال کے قریب ہونے کو آ گئی ،صرف چند ماہ اس میں باقی ہیں اور میں تمام عمر اس قادیان میں رہا ، یہیں پیدا ہوا، یہیں بڑھا، یہیں جوان ہوا اور یہیں پچاس سال کی عمر تک پہنچا مگر اب تک یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں نے میری طبیعت کو نہیں سمجھا.میری طبیعت یہ ہے اور یہی طبیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی تھی بلکہ دینی لحاظ.
خطبات محمود ۸۰۵ سال ۱۹۳۸ گو حالت کچھ ہی ہو یہی طبیعت ہمارے دادا صاحب کی بھی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ دب کر صلح نہیں کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان نے دو حکومتوں کے تغیر کے وقت سخت نقصان اٹھایا ہے جب سکھ آئے تب بھی اور جب انگریز آئے تب بھی کیونکہ یہ ہماری طبیعت کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوں اس لئے جب سکھ آئے تو نہ سکھوں کے آگے ہم جی حضور کرتے رہے اور نہ جب انگریز آئے تو انگریزوں کے آگے ہم نے جی حضور کیا ، گو ہمارے خاندان نے سکھوں اور انگریزوں دونوں سے تعاون بھی کیا اور ان کی مدد بھی کی اور کی ان لوگوں سے زیادہ مدد کی جو جی حضور کرتے رہتے تھے مگر پھر بھی کبھی انگریزوں کے آگے گردن کی جھکا کر کھڑے نہیں ہوئے.یہ ایک خاندانی اثر ہے جو میرے اندر پایا جاتا ہے اور مذہب نے اسے اور زیادہ رنگ دے دیا ہے.تو اگر یہاں کے ہندو اور سکھ درست طریق عمل اختیار کرتے تو یقیناً با ہمی جھگڑے اس حد تک نہ پہنچتے جس حد تک اب پہنچے ہوئے ہیں.انہوں نے ہمیشہ پہلے کی دھمکی دی اور پھر صلح کرنے کی خواہش کی اور دھمکی سننے کے بعد فطرتا میں صلح کرنے سے انکار پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں.پس گومیں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ہم میں صلح ہو جائے.مگر حالات ہمیشہ اس رنگ میں بدلتے رہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی دھمکی میرے سامنے آگئی اور میں اپنا قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو گیا.مثلاً جب مدیح کا سوال اٹھا اس وقت میری نیت یہی تھی کہ میں قادیانی میں مدیح جاری نہیں ہونے دوں گا مگر بغیر میری اجازت کے بعض لوگوں نے مذبح کھلوانے کے کی متعلق درخواستیں دے دیں اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ سکھ لوگ جھٹکا کی دکان کھولنے کی کوشش کر رہے تھے.میں نے اس وقت صلح کی کوشش کی.لیکن ابھی میری کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا کہ میں چند روز کے لئے لاہور چلا گیا.وہاں قادیان کے بعض ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے شکایت کی کہ قادیان میں مدیح کھلنے والا ہے میں اس کا تدارک کروں.میں نے ان سے کہا کہ ایک طرف آپ لوگ اپنی مشکلات کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف کی سکھوں نے جھٹکا کا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے.ان حالات میں میں قادیان جا کر اور فریقین کے حالات سن کر ہی کوئی فیصلہ کر سکتا ہوں اور انہیں تسلی دلائی کہ جس حد تک ممکن ہوگا میں ایسی صورت اختیار کروں گا کہ طرفین کی ضروریات اور احساسات کا لحاظ رکھا جائے
خطبات محمود ۸۰۶ سال ۱۹۳۸ء پس آپ قادیان میں مجھ سے ملیں.چنانچہ میں اپنا سفر منقطع کر کے دوسرے ہی دن قادیان آگیا حالانکہ میرے برادر نسبتی میجر تقی الدین احمد صاحب انہی دنوں ولایت سے پڑھ کر آئے تھے اور قدرتی طور پر ان کی ہمشیرہ کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وہ اپنے بھائی کے پاس چند دن رہیں مگر معاً وہاں کی اقامت کو قطع کر کے میں واپس آ گیا مگر انہیں نہ معلوم کس نے ورغلا دیا کہ باوجوداس کے کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ قادیان میں مجھ سے ملیں اور باوجود یکہ میں ان کی خاطر سفر منقطع کر کے واپس آ گیا تھا ، وہ مجھ سے ملنے نہ آئے.اس کے کچھ عرصہ بعد جب بات اور زیادہ پختہ ہوگئی تو پھر ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا.میں نے ان سے کہا کہ اب کئی قوموں کا سوال پیدا ہو چکا ہے.ایک طرف غیر احمد یوں نے اس معاملہ میں ہمارا ساتھ دیا ہے دوسری طرف سکھوں نے جھٹکہ کا سوال چھیڑ کر میری پوزیشن نازک کر دی ہے کیونکہ ذبیحہ گائے کا روکنا احساسات کے احترام پر مبنی ہے اور مسلمانوں میں یہ شکایت پیدا ہو چکی ہے کہ جب کی دوسرا فریق ہمارے احساسات کا خیال نہیں رکھتا تو ہمیں اس کے احساسات کے لئے اس قدر بڑی قربانی کرنے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے.پس میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے سکھوں سے اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع دیں میں دونوں فریقوں کو سمجھا کر ایسی صورت پیدا کروں گا کہ آپ لوگوں کی دل شکنی نہ ہو.میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے ذہن میں ایسی سکیم سوچ بھی لی ہے جس سے احمدیوں اور غیر احمدیوں کی بھی دل جوئی ہو جائے گی اور سکھ بھی مان جائیں گے مگر میں نے کہا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ سکھ مجھ سے الگ ملیں اور آپ الگ ، اگر آپ اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے تو معاملہ بگڑ جائے گا کیونکہ سکھوں میں سے کچھ لوگ آپ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر مذبح نہیں بننے دیں گے.جب وہ آپ لوگوں کے سامنے ہوں گے تو انہیں وہ باتیں یاد آجائیں گی اور وہ اپنی زبان بدلنے میں شرم محسوس کریں گے.پس مناسب ہے کہ میں ان سے الگ بات کروں.چنانچہ اس پر وہ لوگ چلے گئے اور میں نے اپنے ذہن میں ایک سکیم سوچ لی جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں میں سمجھتا تھا کہ تینوں قوموں کی دل جوئی ہو جائے گی لیکن میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب دوسرے تیسرے دن ایک آریہ صاحب دو سکھوں کو لے کر میرے پاس کی
خطبات محمود ۸۰۷ سال ۱۹۳۸ء آئے اور کہنے لگے آپ سکھوں سے بات کرنا چاہتے تھے سو یہ لوگ آگئے ہیں.میں نے کہا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود قادیان کے سکھوں کو بلواؤں گا ، یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ انہیں لے آئیں لیکن بہر حال میں نے اُن سے گفتگو شروع کر دی اور میں نے کہہ دیا کہ اب اس گفت وشنید کا جو نتیجہ نکلے اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہوگی کیونکہ میری ہدایت کے خلاف کام کیا گیا ہے.مجھے یقین ہے کہ جو صاحب سکھوں کو میرے پاس لائے تھے وہ ایسے ہی تھے جو صلح نہیں کرنا چاہتے تھے اور وہ لڑائی جھگڑے کے متعلق متہم تھے.چنانچہ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا.میں ان سے گفتگو کے دوران یہ ذکر کر رہا تھا کہ میرے دادا صاحب نے اور بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے بھی قادیان میں گائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے رو کے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت معلوم نہیں ہوتی تھی اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کا دل دُکھایا جائے.چنانچہ ایک دفعہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ایک ملحقہ گاؤں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے خود ڈپٹی کمشنر صاحب کو کہلوا کر مذبح کو رکوا دیا تھا.اس پر ایک سکھ صاحب بولے آپ بالکل غلط کہتے ہیں آپ نے ہمیشہ مذبح کے کھولے جانے پر زور دیا ہے مگر جب چاروں طرف سے ناکامی ہوئی تو آپ نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ میں نے خود مدیح کو رکوایا تھا.میں نے ان ہندو صاحب کی طرف دیکھا اور کہا دیکھ لیا میں نہ کہتا تھا کہ آپ مجھے اکٹھے نہ ملیں ورنہ صلح کی گفتگو درمیان میں ہی رہ جائے گی.اس پر دوسرے سکھ صاحب جو جتھے دار تھے وہ کہنے لگے ان کی بات جانے دیجئے یہ بڑی جلدی غصہ میں آجاتے ہیں اور بات کو سمجھتے نہیں.اب میں آپ سے گفتگو کرتا ہوں.چنانچہ وہ غصہ میں آنے والے احباب فرمانے لگے صلح بڑی اچھی چیز ہے.میں نے کہا یقیناً.وہ کہنے لگے پھر کوئی ایسی کوشش ہونی چاہئے جس سے یہ مذبح کا سوال جاتا رہے.یہاں تک تو بڑی اچھی گفتگو تھی مگر اس کے معاً بعد وہ کہنے لگے ورنہ یاد رکھئے سکھ یات مر جائیں گے یا مار دیں گے اور خون کی ندیاں بہا دیں گے.میں نے کہا بس پہلے آپ اس فقرہ کو پورا کر لیں.آپ نے جتنی ندیاں بہانی ہیں وہ بہالیں اور اگر ایسی دھمکیوں سے ہی مذیج کو روکنا چاہتے ہیں تو روک کر دیکھ لیں میں اس سے ہر گز نہیں رکوں گا.چنانچہ وہ اٹھ کر چلے گئے
خطبات محمود ۸۰۸ سال ۱۹۳۸ء اور پھر جیسا کہ ساری دنیا کو معلوم ہے مذبح بنا اور اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے.اب دیکھ لوکس طرح بات کو بدل کر کچھ کا کچھ بنا دیا گیا.اس کے بعد میں نے پھر بھی کوشش جاری رکھی اور ایک اشتہار شائع کیا جس میں ہندوؤں اور سکھوں کو مخاطب کر کے لکھا کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے جس سے مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کرسکیں ، ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے اور ان کے ہمسایوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں مجھے اس سے مطلع کیا جائے میں ہر وہ تجویز جس سے ہندوؤں اور سکھوں کے احساسات کا ممکن سے ممکن حد تک خیال رکھ کر مذبیح کو جاری کیا جا سکے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس پر جہاں تک میرا اختیار اور میری طاقت ہے عمل کرنے کا میں ذمہ دار ہوں گا مگر ضروری ہے کہ ایسا قاعدہ صرف قادیان کے لئے نہ ہو بلکہ ہر جگہ کے لئے ہو کیونکہ اگر قادیان میں امن ہو جائے لیکن باقی ملک میں فسادات ہوتے رہیں تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا.پس چاہئے کہ ہم ایک عام قاعدہ بنالیں اور اس کے مطابق قادیان میں بھی عمل ہو اور دوسری جگہوں میں بھی.میں نے انہیں یہ بھی لکھا کہ اگر فلاں تاریخ تک اس کا جواب مجھے نہ ملا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلح کی خواہش نہیں رکھتے.میرے اس خط پر دوسکھ لیڈوں نے اور ایک بہت بڑے ہندو لیڈر نے جواب دیا، میں ان صاحبان کا نام نہیں لیتا کہ تا ان کی پوزیشن خراب نہ ہو، ہندو لیڈر صاحب نے جو اس وقت ہندوستان کے چوٹی کے لیڈروں میں سے ہیں لکھا کہ مجھے معلوم ہے آپ ہمیشہ ہندوؤں سے نیک سلوک کرتے چلے آئے ہیں اور میں آپ سے اپیل کرتا تی ہوں کہ اس موقع پر بھی آپ ہی صلح کی کوشش کریں اور ہندوؤں نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو معاف کر دیں.سکھ لیڈروں میں سے ایک سکھ لیڈر نے جو بہت بڑے زمیندار ہیں اور سر کا خطاب بھی رکھتے ہیں انہوں نے یہ جواب دیا کہ آج کل میں شملہ میں ہوں.میں پنجاب میں آکر اس جھگڑے کا کوئی نہ کوئی فیصلہ کروں گا آپ مجھے کچھ مزید مہلت دیں.دوسرے سکھ لیڈر نے جو سکھوں کے مذہبی لیڈر اور ایک بڑی تعلیم گاہ کے ایک بہت بڑے عہد یدار ہیں مجھے لکھا کہ ہم کو گائے سے کوئی تعلق نہیں ، یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ وہ ذبیحہ گائے کو نا پسند کرتے ہیں سکھوں کا ایسی باتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہمارے نزدیک چاہے مذبح گھلے یا نہ کھلے یکساں بات ہے.
خطبات محمود 1 +9 سال ۱۹۳۸ء یہ سکھوں کے ایک بہت بڑے مذہبی لیڈر کے خیالات تھے مگر میں نے اس خط کو شائع نہیں کیا کی تاکہ سکھوں میں ان کی پوزیشن کمزور نہ ہو جائے.بہر حال ان خطوط میں سے صرف ایک خط ہی ایسا تھا جس کے جواب کا مجھے مزید انتظار کرنا چاہئے تھا چنانچہ میں نے ایک لمبے عرصے تک انتظار بھی کیا مگر ان صاحب نے سمجھوتہ کی کوئی کوشش نہ کی.غالباً انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب کی معاملہ دب گیا ہو گا کیونکہ شملہ سے نیچے اتر کر انہوں نے پھر بھی خبر نہ دی کہ میں پنجاب آ گیا ہوں کی اور اس جھگڑے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.اس کے بعد پھر میرے پاس ہندوؤں کے وفود آئے مگر میں نے انہیں یہی کہا کہ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو اکٹھا کر لو.یعنی یہ نہ ہو کہ وہ صرف قادیان کے متعلق ہو بلکہ وہ فیصلہ ہر جگہ کے متعلق ہونا چاہیئے اگر یہ فیصلہ ہو کہ مذبح نہیں کھلنا چاہئے تو ہم اپنا بنا بنا یا منبج بند کرا دیں گے اور اگر بعض شرائط کے ساتھ مذبح کے کھلنے کا فیصلہ ہو تو ان شرائط کا لحاظ رکھیں گے.مگر جس رنگ میں آپ لوگوں کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے یہ سیج نہیں اور میں اس طرح ماننے کے لئے تیار نہیں.یہی حال لین دین کے معاملات کا بھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کی یہ پابندی ہندوؤں پر اتنی گراں نہیں گزرتی جتنی مجھ پر گزرتی ہے.مجھ سے کئی ہندو لیڈروں نے کی جب اس کے متعلق گفتگو کی ہے تو میں نے انہیں کہا ہے کہ آپ قادیان آئیں اور قومیت کے خیال کو نظر انداز کرتے ہوئے دیانت داری اور انصاف کے ساتھ تمام حالات کو دیکھ کر فیصلہ کی کریں.پھر آپ پر خود بخود روشن ہو جائے گا کہ ہماری زیادتی ہے یا نہیں مگر کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ قادیان آئے اور بچشم خود حالات دیکھ کر اور تمام واقعات سن کر رائے قائم کرے.اور اگر کسی نے حالات سنے ہیں تو اس نے اقرار کیا ہے کہ ان حالات میں آپ نے جو پابندی عائد کی ہے اس میں آپ حق بجانب ہیں.تو یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کی جو مثال ہے وہ بالکل اور رنگ رکھتی ہے.ورنہ حقیقت یہی ہے کہ احمدیت کی ترقی سے دوسری قوموں کا تنزل نہیں بلکہ ان کی ترقی ہے اور احمدیت کی ترقی میں اسلام کی ترقی ہے اور اسلام کی ترقی میں کی دنیا کی ترقی ہے.تیرہ سو سال کے واقعات اس پر شاہد ہیں کہ اسلام نے جب بھی ترقی کی دوسری اقوام کو بھی اس نے ترقی کی شاہراہ پر لا ڈالا اور کسی قوم کو اس نے نہیں گرایا.آج دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لو یہود کا کیسا عبرت ناک حال ہے مگر تیرہ سو سال تک مسلمانوں نے اس قوم کو کی
خطبات محمود ۸۱۰ سال ۱۹۳۸ اپنے ممالک میں آباد رکھا ہے.اس کے مقابلہ میں جرمنی ایک سوسال تک بھی یہود کا اپنے اندر رہنا برداشت نہیں کر سکا اور آج بھی اگر عرب فسلطین میں یہود کے داخلہ کے خلاف ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہود کو فلسطین میں بسایا کیوں جاتا ہے بلکہ اس لئے کہ انہیں اس رنگ میں بسایا جاتا ہے کہ یہود کی آبادی بڑھ جائے اور مسلمانوں کی آبادی کم ہو جائے اور یہ واقع میں ایک ایسا امر ہے جسے کوئی قوم برداشت نہیں کر سکتی.ورنہ رہنے کے متعلق جھگڑا نہیں یہود پہلے بھی فلسطین میں رہتے تھے.اب اگر جھگڑا ہے تو یہ کہ انہیں ایسے رنگ میں بسایا جاتا ہے کہ چند سال میں مسلمان جو پچاسی فیصدی تھے اقلیت میں بدل جائیں اور یہودا اکثریت میں ہو جائیں اور کسی قوم کے لئے یہ برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ جہاں وہ طاقتور ہو وہاں اسے کمزور کر دیا جائے اور کمزور کو طاقتور بنا دیا جائے.غرض احمدیت کی ترقی کے ساتھ اسلام کی ترقی اور اسلام کی ترقی کے ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے اور احمدیت کی ترقی کیلئے دو کام کرنے نہایت ضروری ہیں.ایک تعلیم و تربیت کا اور دوسرا تبلیغ واشاعت کا ، ان کے بغیر جماعت نہ پھیل سکتی ہے اور نہ اس کے پھیلنے کا کوئی کچ فائدہ ہے.یعنی تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی اور صحیح تربیت کے بغیر احمدیت کا پھیلنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.فرض کرو احمدی ساری دنیا میں پھیل جائیں مگر مذہبی، سیاسی، اقتصادی، تمدنی اور تعلیمی ماحول وہی رہے جو پہلے تھے تو ایسی احمدیت کے پھیلنے کا کیا فائدہ اور اگر احمدیوں میں وہ روح نہ ہو جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور ایک ظالم کی بجائے اگر دوسرا ظالم کھڑا ہو گیا تو اس سے بنی نوع انسان کو کیا فائدہ پہنچے گا.پس تبلیغ اور تعلیم و تربیت دوہی نہایت ہی اہم کام ہیں اور انہی دونوں کاموں کو تحریک جدید میں مد نظر رکھا گیا ہے.تعلیم و تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ غذا، سادہ لباس، خود ہاتھ سے کام کرنا ہسینما کا ترک ، غریبوں کی امداد، بورڈ نگ تحریک جدید اور ورثہ وغیرہ کام تجویز کئے گئے ہیں اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کی کو کسی وقت بھی ترک نہیں کیا جا سکتا.بعض تو موجودہ صورت میں ہی ہر وقت قابل عمل رہیں گی اور انہیں کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جا سکے گا لیکن بعض میں حالات کے ماتحت کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں.عملی طور پر بعض حصوں کے متعلق مجلس خدام الاحمدیہ جد و جہد کر رہی ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ اور جہاں تک اس کے ایک سال کے کام کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس نے نہایت شاندار کام کیا ہے اور اگر وہ اسی طرح استقلال سے کام جاری رکھے اور نہ صرف اپنے موجودہ معیار کو قائم رکھے بلکہ اسے بڑھاتی چلی جائے تو وہ ایک عمدہ نمونہ قائم کر سکتی ہے.مجالس خدام الاحمدیہ کے نو جوانوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ ان کے کام کے اثرات صرف موجودہ زمانہ کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگر وہ اسی خوش دلی اور اخلاص سے کام جاری رکھیں گے تو آئندہ نسلوں تک ان کے نیک اثرات جائیں گے اور جس طرح آج صحابہ کا ذکر آنے پر بے اختیار رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا فقرہ زبان سے نکل جاتا ہے اسی طرح ان کا نام لے کر آئندہ آنے والی نسلوں کا دل خوشی سے بھر جائے گا اور وہ ان کی ترقی مدارج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جس کام کو شروع کریں اسے استقلال سے کرتے چلے جائیں.جو شخص بھی اس جدو جہد میں کھڑا ہو گا وہ گر جائے گا اور سلامت وہی رہے گا جو اپنے قدم کی تیزی میں کمی نہیں آنے دے گا.مجلس خدام الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میں داخل ہو نگے اور اپنی عملی جد و جہد سے ثابت کر دیں گے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہوا ہے.اس کے مقابلہ میں دوسرا پہلو تبلیغ واشاعت کا ہے اور اس کیلئے وقف زندگی ، وقف رخصت اور دوسرے ممالک میں احمدیوں کے پھیل جانے اور چندہ جمع کرنے کی تحریک کی گئی ہے.چندے کی تحریک گو جماعت کی تعلیم کی و تربیت کے لحاظ سے بھی ضروری ہے مگر اس کو زیادہ تر تبلیغ کے لئے جاری کیا گیا ہے.ان میں سے ہر ایک تحریک اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اور ضروری ہے اور میں اپنے اپنے موقع پر پھر دوبارہ ان تمام مطالبات کی طرف جماعت کو توجہ دلانے کا ارادہ رکھتا ہوں.تیسری چیز جو ان دو مقاصد کے علاوہ ہے اور جو تبلیغ و اشاعت اور تعلیم و تربیت کیلئے مُمد - وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ سب کام خدا تعالیٰ کیلئے ہیں اس لئے اس سے دعائیں کی جائیں کہ وہ ہمیں کامیابی عطا فرمائے اور چونکہ بعض دفعہ انسان اپنے جوش میں اور فتح کے نشہ میں اس امر کو بھول جاتا ہے کہ تمام کامیابی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے اور اس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ فتح شاید میری جدو جہد کا نتیجہ ہے اسلئے روزوں کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے
خطبات محمود ۸۱۲ سال ۱۹۳۸ء تا ہماری جماعت کے دوست یہ سمجھیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہؤا ہے اور جو کچھ آئندہ ہو گا وہ بھی اُسی کے فضل سے ہوگا تا ایک طرف فتح کے نتیجہ میں جو بعض دفعہ کبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے وہ پیدا نہ ہو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے احسانات کے متعلق شکر کا جذبہ دل میں موجزن ہو.یہ تحریک جدید کا مکمل ڈھانچہ ہے جس کا ایک پہلو تعلیم وتربیت ہے دوسرا پہلو تبلیغ واشاعت اور تیسرا پہلو دعا اور روزے ہیں تا جتنا کام بھی ہو اس یقین اور وثوق کے ساتھ ہو کہ یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے اور ہم آئندہ کی کامیابیوں کے لئے بھی اسی کی طرف اپنی توجہ رکھیں اور اس سے دعا کرتے رہیں کہ وہ ہماری مددفرمائے.میں گزشتہ خطبات میں بتا چکا ہوں کہ پہلے دور میں ہماری جماعت نے بے مثل نمونہ دکھایا ہے اور اس نے ایسی غیر معمولی قربانی اور جوش کا ثبوت دیا ہے کہ جس کا دشمن کو بھی اقرار ہے مگر میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ یہ کام زمین صاف کرنے کا تھا.اتنے کام پر ہی خوش ہو جانا اور اپنی تمام جد و جہد کو ختم کر دینا اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں کسی نیک نامی کا مستحق نہیں بلکہ التي نقضت غزلها مِنْ بَعْدِقُوةٍ انْكَانَاء کا مصداق بنانے والا ہے.وہ عورت بھی آخر کچھ نہ کچھ کام کیا ہی کرتی تھی اور محنت کر کے سوت کا تا کرتی تھی مگر چونکہ جب کام کی کا وقت آتا تو وہ اپنے سوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی اس لئے اس کی محنت اس کے کسی کام نہیں آتی تھی.ہم نے بھی پہلے دور میں سوت کاتا ہے لیکن دوسرے دور میں ہم نے اس سوت کے کپڑے بنے اور نہ صرف خود پہنے بلکہ دوسروں کو بھی پہنانے ہیں اگر اس دور میں ہم نے سستی دکھائی تو یقیناً ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی اور ہمیں جس قدر نیک نامی حاصل ہو چکی ہے وہ سب بد نامی سے بدل جائے گی.اس دوسرے دور میں مجھے بعض لوگ سُست نظر آتے ہیں مگر میرے لئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں.میں نے اس تحریک کے شروع میں ہی بتایا تھا کہ کچھ لوگ وقتی مؤمن ہو ا کرتے ہیں اور ایسے وقتی مؤمن ہر جماعت میں ہوا کرتے ہیں اور وقتی مؤمن سے میری مراد وہ لوگ ہیں جولڑائی جھگڑے کے وقت تو آگے آجاتے ہیں مگر جب مستقل اور لمبی قربانیوں کا موقع آتا ہے
خطبات محمود ۸۱۳ سال ۱۹۳۸ء تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں.وہ جان دینے کیلئے تو فوراً تیار ہو جائیں گے اور اگر جنگ ہو اور انہیں کہا جائے کہ فوج میں بھرتی ہو جاؤ اور ملک کی عزت کیلئے جان دے دو تو وہ بالکل نڈر ہو کر کی فوج میں شامل ہو جائیں گے اور دشمن سے لڑ کر اپنی جان دے دیں گے لیکن اگر انہیں کہا جائے کہ پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ روزانہ فلاں کام کیلئے وقت دو تو چند دنوں کے بعد ہی وہ عذرات پیش کر دیں گے کہ آج ہماری بیوی بیمار ہے، آج بچے اچھے نہیں ، آج اپنی طبیعت ناساز ہے اور اس طرح وہ کام سے بچنا شروع کر دیں گے.یہ وقتی اور ہنگامی مؤمن ہوتے ہیں اور یہ ہنگامی مؤمن ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی یہ ہنگامی مؤمن تھے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی یہ ہنگامی مؤمن تھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو اُن کے ساتھ بھی کچھ ہنگامی مؤمن تھے ، حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی کچھ ہنگامی مؤمن تھے پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے ساتھ بھی بعض ہنگامی مؤمن تھے.یہی ہنگامی مؤمن کبھی کبھی منافق بھی بن جاتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ ایک تو مستقل منافق ہوتا ہے اور ایک یہ ہنگامی مؤمن ہوتا ہے جو بعض دفعہ جوش میں آکر مؤمنانہ کام کر لیتا ہے اور بعض دفعہ ایسی حرکات کا ارتکاب کر لیتا ہے جن سے خدا تعالیٰ کو اپنے کی او پر ناراض کر لیتا ہے اور منافق بن جاتا ہے.پس ہنگامی مؤمن کا انجام محفوظ نہیں ہوتا لیکن جو مستقل مؤمن ہوں ان کا انجام خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور انہیں ہر قسم کے بدانجام سے بچالیتا ہے.ستوں کا ہر جماعت میں ہونا لازمی ہوتا ہے مگر ان کی وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچنے کی دینا ہمارا فرض ہے اور ان لوگوں کی اصلاح ہم پر لازمی ہے اور ہم یہ کہہ کر ہر گز بری نہیں ہو سکتے کہ ہم نے قربانی کر دی ہے ، اگر چند لوگوں نے قربانی نہیں کی تو ہم کیا کریں.ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں بیدار کرتے رہیں، ان کی نیند اور غفلت کو دور کریں اور انہیں پچست اور ہوشیار بنائیں اگر ہم اپنی اس ڈیوٹی کو چھوڑ دیں تو ہم خدا تعالیٰ کے بھی مجرم ہونگے اور اپنی قوم اور اپنے نفس کے بھی مجرم ہو نگے اس لئے میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو چست کرتا رہتا ہوں اور جو پہلے ہی
خطبات محمود ۸۱۴ سال ۱۹۳۸ء بیدار ہوں انہیں اور زیادہ بیدار کرتا رہتا ہوں تا کہ وہ بھی کسی وقت سست نہ ہو جائیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کو جوست ہیں چست اور ہوشیار بنائیں اور جو چست ہیں انہیں وقتی مؤمنوں کی صف سے نکال کر کامل الایمان لوگوں کے ساتھ شامل کریں اور اگر ہم ایسا کریں تو کی یقیناً ہم دوہرے ثواب اور دوہرے اجر کے مستحق ہونگے لیکن اگر ہم اپنے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ہم یہ کہہ کر ہرگز بری نہیں ہو سکتے کہ ہم تو بچ گئے ہیں.خدا تعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ تم تو بے شک بچ گئے لیکن جن اور لوگوں کو بچانا تمہاری طاقت میں تھا ان کو تم نے کیوں نہیں بچایا.میں تحریک جدید کے دور ثانی میں مستقل کام کی داغ بیل ڈالنے کیلئے مالی تحریک کے علاوہ کہ وہ بھی مستقل ہے ایک مستقل جماعت واقفین کی تیار کر رہا ہوں.دور اول میں میں نے کہا تھا کہ نو جوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دور ثانی میں وقف عمر بھر کیلئے ہے کی اور اب یہ واقفین کا ہر گز حق نہیں کہ وہ خود بخود کام چھوڑ کر چلے جائیں ہاں ہمیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم انہیں کام کے نا قابل جانیں تو انہیں الگ کر دیں.پس یہ سہ سالہ واقفین نہیں بلکہ جس طرح یہ دور مستقل ہے اسی طرح یہ وقف بھی مستقل ہے.اس دور میں کام کی اہمیت کے پیش نظر میں نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ صرف وہی نوجوان لئے جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں اور جو نہ گریجوایٹ ہوں اور نہ مولوی فاضل انہیں نہیں لیا ج ائے گا کیونکہ ان لوگوں نے علمی کام کرنے ہیں اور اس کے لئے یا تو دینی علم کی ضرورت ہے یا د نیوی علم کی.اس دور میں تین چار آدمیوں کو منہا کر کے کہ وہ گریجوایٹ نہیں کیونکہ وہ پہلے دور کے بقیہ واقفین میں سے ہیں باقی سب یا تو گریجوایٹ ہیں یا مولوی فاضل ہیں.چنانچہ اس کی وقت چار گریجوایٹ ہیں اور چا ر ہی مولوی فاضل ہیں.کل غالباً بارہ نوجوان ہیں.چاران میں سے غیر گریجوایٹ ہیں مگر ہیں سب ایسے ہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محنت سے کام کرنے والے اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جس رنگ میں یہ کام کر رہے ہیں.اس کے ماتحت یہ ان علمی کاموں کو سرانجام دے دیں گے جو علمی کام میرے مدنظر ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس جماعت کا پہلا دور 24 نوجوانوں پر مشتمل ہو کیونکہ کام کے لحاظ سے
خطبات محمود ۸۱۵ سال ۱۹۳۸ء اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا اس کیلئے میں عنقریب تحریک کرنے والا ہوں بلکہ اس کی خطبہ کے ذریعہ میں تحریک کر دیتا ہوں کہ جو نوجوان گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل وہ اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرنے کے ارادہ سے میرے سامنے اپنے نام پیش کریں اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی گریجوایٹ یا مولوی فاضل ہو گا اسے ہم بہر حال لے لیں گے کیونکہ انتخاب ہماری مرضی پر ہے.ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کا تقویٰ کیسا ہے، خدمت دین کا جذبہ کس حد تک ہے، علم کیسا ہے، صحت کیسی ہے، ان کے حالات کس قسم کے ہیں اور آیا جو کام ہمارے مد نظر ہے اسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں یا نہیں.غرض تمام باتیں دیکھنی پڑیں گی اور اس طرح انتخاب کا معاملہ کلیہ ہماری مرضی پر منحصر ہو گا لیکن لئے وہی جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں.اس طرح وہ لوگ بھی لئے جاسکیں گے جو دوسرے فنون کے گریجوایٹ ہوں.مثلاً ایک ڈاکٹر ہے وہ خواہ، بی.اے نہ ہولیکن اسے گریجوایٹ ہی سمجھا جائے گا.میرا منشاء یہ ہے کہ ان میں سے بعض کو مرکز کے علاوہ باہر بھجوا کر اعلی تعلیم دلوائی جائے اور علمی اور عملی لحاظ سے اس پایہ کے نوجوان تیار کئے جائیں جو تبلیغ تعلیم اور تربیت کے کام میں دنیا کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کر سکیں بلکہ ان سے فائق ہوں.صرف انہیں مذہبی تعلیم ہی دینا میرے مدنظر نہیں بلکہ میرا منشاء ہے کہ انہیں ہر قسم کی دنیوی معلومات بہم کی پہنچائی جائیں اور دنیا کے تمام علوم انہیں سکھائے جائیں تا دنیا کے ہر کام کو سنبھالنے کی اہلیت ان کی کے اندر پیدا ہو جائے.ان نوجوانوں کے متعلق میری سکیم جیسا کہ میں گزشتہ مجلس شوری کے موقع پر بیان کر چکا ہوں یہ ہے کہ اُنہیں یورپین ممالک میں بھیج کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور جب یہ ہر قسم کے علوم میں ماہر ہو جائیں تو انہیں تنخواہیں نہ دی جائیں بلکہ صرف گزارے دیئے جائیں اور ان کے گزارہ کی رقم کا انحصار علمی قابلیت کی بجائے گھر کے آدمیوں پر ہو جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور یوں انتظام ہو کہ جس کی بیوی ہوئی یا بچے ہوئے اسے زیادہ الاؤنس دے دیا اور جس کے بیوی ، بچے نہ ہوئے اُسے کم گزارہ دے دیا یا کسی نو جو ان کی کی شادی ہونے لگی تو اسے تھوڑی سی امداد دے دی.یہ نہیں ہو گا کہ چونکہ فلاں ولایت سے پاس شدہ ہے اس لئے اسے زیادہ تنخواہ دی جائے اور فلاں چونکہ ولایت کا پاس شدہ نہیں اس لئے کی
خطبات محمود ۸۱۶ سال ۱۹۳۸ء.اسے کم تنخواہ دے دی جائے.سب کو یکساں گزارے ملیں گے خواہ کوئی ولایت کا پاس شدہ ہو یا کی یہاں کا.ہاں گزارے میں زیادتی شادی ہونے پر یا بچے پیدا ہونے پر ہو سکے گی.مثلاً اگر ایک ولایت کا پاس شدہ نو جوان بھی ہمارے پاس ہو گا تو ہم اسے پندرہ روپے ہی دیں گے اس کے مقابلہ میں اگر کوئی ایسا ہے جو ولایت کا پاس شدہ نہیں تو اسے بھی پندرہ روپے ہی ملیں گے.ہاں اگر شادی ہو جائے اور پھر بچے پیدا ہونے لگ جائیں تو اس صورت میں اس گزارہ میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا رہے گا کیونکہ بچوں نے تو کھانا ہے مگر علم نے نہیں کھانا.میں نے دیکھا ہے کہ اگر اس لحاظ سے تقسیم کی جائے تو دولت مند غریب ہو جاتے ہیں اور غریب دولت مند.بعض لوگ صرف میاں بیوی ہوتے ہیں ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی لیکن وہ پچاس روپیہ ماہوار کما رہے ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے اسکے آٹھ بچے ہوتے ہیں اور وہ سو روپیہ ماہوار کماتا ہے.اب پچاس روپے والا یہ نہیں دیکھے گا کہ مجھے پچاس روپے ملتے ہیں اور ہم کھانے والے صرف دومیاں بیوی ہیں اور اسے گوسور و پیہ ملتے ہیں مگر اس کے گھر کھانے والے دس افراد ہیں بلکہ وہ پچاس اور سو کو دیکھ کر شور مچانے لگ جائے گا کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں امیروں کو سب پوچھتے ہیں حالانکہ یہ پچاس روپے کما کر ۲۵ روپے خود رکھتا اور ۲۵ روپے کی اپنی بیوی کو دیتا ہے اورسور و پیہ کمانے والا ہر ایک کو دس دس روپے دیتا ہے بلکہ یہ ۲۵ روپے لے کر بھی اپنے آپ کو غریب کہتا ہے اور دوسرے کو باوجود دس روپیہ کی آمد کے امیر قرار دیتا ہے اور اسکی زبان یہ کہتے ہوئے گھس جاتی ہے کہ غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا امیروں کو ہی سب پوچھتے ہیں.تو میں نے تحریک جدید میں یہ اصل رکھا ہے کہ علم پر گزارہ مقرر نہ کیا جائے بلکہ کھانے پینے والوں کی تعداد کو دیکھ کر گزارہ مقرر کیا جائے.میں نے تحریک جدید کے ماتحت جو گزارے کے نئے اصول مقرر کئے ہیں وہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اسی اصل کے ماتحت ہیں.میں نے ہدایت دے دی ہے کہ اگر کوئی مجرد ہو تو اسے کی اتنے روپے دیئے جائیں گے ، شادی ہو جائے تو اتنے اور بچے پیدا ہو جائیں تو فی بچہ اتنا الاؤنس بڑھایا جائے اور اگر کسی کے بچے نہ ہوں خواہ وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو وہ ہم سے اس شخص کی نسبت کم ہی گزارہ لے گا جو گواتنا تعلیم یافتہ نہیں مگر اس کے بچے زیادہ ہیں اس لئے
خطبات محمود ۸۱۷ سال ۱۹۳۸ء کہ اس کے کھانے والے کم ہیں اور اُس کے کھانے والے زیادہ اور اگر ہم اس کے گزارہ میں کی ترقی کریں گے تو اسی حساب سے.مثلاً فرض کرو ہم نے تین روپیہ فی بچہ گزارہ مقرر کیا ہوا ہے اب جب بھی ہم کسی کا گزارہ بڑھائیں گے اسی اصل پر بڑھا ئیں گے کہ فی بچہ اتنے روپے زائد کر دو یہ نہیں کہ یونہی سالوں کی زیادتی پر رقمیں بڑھاتے چلے جائیں.تو میری غرض یہ ہے کہ میں تحریک جدید کے واقفین کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاؤں وہ اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کی کریں اور ہم اس قربانی کے معاوضہ میں انہیں وہ تعلیم دلائیں جو ان کا سارا خاندان مل کر بھی کی انہیں تعلیم نہیں دلا سکتا.گویا ان کا معاوضہ انہیں روپیہ کی صورت میں نہیں بلکہ تعلیم کی صورت میں کی ملے لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہم سے وہی گزارہ لیں جو اس وقت لے رہے ہیں اور اس میں زیادتی انہی اصول پر ہو جو میں نے بیان کئے ہیں.ان نو جوانوں میں بعض اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں وہ اگر اپنی زندگی وقف نہ کرتے اور یوں کو شش کرتے تو انہیں کی اچھی اچھی ملازمتیں مل جاتیں.پس چونکہ انہوں نے ایک قربانی کی ہے اس لئے میری تجویز ہے کہ انہیں ایسی اعلیٰ تعلیم دلاؤں کہ نہ صرف دینی طور پر بلکہ دنیوی طور پر بھی وہ ہر جگہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں.اگر مالی لحاظ سے وہ غریب ہوں تو علم اور عقل اور تجربہ کے لحاظ سے اتنی دولت ان کے پاس ہو کہ وہ کسی جگہ ذلیل نہ ہو سکیں.اگر کسی انسان کے پاس نہ تو علم ہو اور نہ دولت ہو تو وہ ذلیل ہو جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے اگر ایک چیز بھی ہو تو کسی جگہ وہ ذلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا.پس میں نہیں چاہتا کہ تحریک جدید کے واقفین ذلیل ہوں.میں یہی چاہتا ہوں کہ انہیں عزت حاصل ہو مگر ان کی عزت دولت کی وجہ سے نہ ہو بلکہ علم کی وجہ سے ہو اور انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مقام حاصل ہو کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دولت مند بھی انہیں ذلیل نہ سمجھ سکے.میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین زندگی تیار ہو جائیں جو علا وہ مذہبی علم رکھنے کے ظاہری علوم کے بھی ماہر اور سلسلہ کے تمام کاموں کو حزم اور احتیاط سے کرنے والے اور قربانی وایثار کا نمونہ دکھانے والے ہوں.اس غرض کے لئے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ہمیں ان لوگوں کو گزارے بھی دینے پڑیں گے اور یہ گزارہ پندرہ روپے فی کس مقرر ہے.اگر ا یک
خطبات محمود ΔΙΑ سال ۱۹۳۸ء گریجوایٹ بھی ہو تو اسے بھی ہم پندرہ روپے ہی دیتے ہیں زیادہ نہیں اور یہ اتنا قلیل گزارہ ہے کہ بعض یتامیٰ اور مساکین کے وظائف اس کے لگ بھگ ہیں مگر باوجود اس کے کہ گزارہ انہیں اتنا تھوڑا دیا جاتا ہے جتنا بعض یتامیٰ اور مساکین کو بھی ملتا ہے وہ کام بھی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تمام زندگی خدمت دین کیلئے وقف کی ہوئی ہے.سر دست ہمارا قانون یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی شادی ہو جائے تو اسے ہیں روپے دیئے جائیں اور پھر بچے پیدا ہوں تو فی بچہ تین روپے زیادہ کئے جائیں اور اسی طرح چار بچوں تک یہی نسبت قائم رہے گویا ان کے گزارہ کی کچ آخری حد بتیس روپے ہے مگر یہ بھی اس وقت ملیں گے جب ان کے گھروں میں چھ کھانے والے ہو جائیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ گزارہ کم ہے اسی طرح بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں اور اسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئے.مگر فی الحال ہماری مالی حالت چونکہ اس سے زیادہ گزارہ دینے کی متحمل نہیں اس لئے ہم اس سے زیادہ گزارہ نہیں دے سکتے اور انہوں نے بھی خوشی سے اس گزارہ کو قبول کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ بیوی کے لحاظ سے بھی پانچ روپے الاؤنس کم ہے اور اسے بڑھانے کی ضرورت ہے بچوں کے لحاظ سے بھی فی بچہ تین روپیہ گزارہ تھوڑا ہے اور اس میں زیادتی ہوئی چاہئے مگر یہ سب کچھ مالی حالت کے سدھرنے پر موقوف ہے.اسی طرح میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں کیونکہ نسل کا بڑھنا قومی لحاظ سے مفید ہوتا ہے لیکن بہر حال ابھی مالی دقتوں کی وجہ سے ہر عورت کے پانچ روپے اور فی بچہ تین روپے ہی مقرر کر سکے ہیں لیکن اگر ہم کسی وقت اس میں زیادتی بھی کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ سے اعلی تعلیم یافتہ کے لئے شاید ہمیں پچاس روپیہ سے زائد گزارہ مقرر نہیں کرنا پڑے گا حالانکہ جس قسم کی اعلی تعلیم میں انہیں دلانا چاہتا ہوں اس کے بعد اگر یہ کہیں ملازمت کرلیں تو تین چارسور و پیہ ماہوار سے ان کی تنخواہ شروع ہو لیکن پھر بھی خواہ ہم انہیں کس قدر قلیل گزارہ دیں جو کام یہ لوگ کریں گے آخر وہ روپیہ کا محتاج ہے.ہم سے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ عملہ کا بل سائر سے زیادہ ہو گیا ہے یعنی صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کی تنخواہوں کا بجٹ سائز کے بجٹ سے بہت زیادہ ہے
خطبات محمود ۸۱۹ سال ۱۹۳۸ء حالانکہ کام کو مفید بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سائز کا بجٹ تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہو.شاید یہ مجبوری تھی لیکن اس غلطی سے تحریک جدید کے کام میں اجتناب ضروری ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تحریک جدید کو اس رنگ میں چلایا جائے کہ اس کے سائز کا بجٹ زیادہ ہو اور کارکنان کے گزارہ کا بجٹ کم ہو.میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ سائز کا بجٹ کئی گنے زیادہ ہونا چاہئے ، کم از کم تین گنا ضرور ہونا چاہئے.یعنی اگر سوروپے پاس ہوں تو ان میں سے بچھپیں روپے آدمیوں پر خرچ ہونے چاہئیں اور ۷۵ روپے اشاعت لٹریچر اور کرایوں وغیرہ پر.اگر اس طریق کوملحوظ نہ رکھا جائے تو کئی قسم کی قباحتیں پیدا ہوسکتی ہیں.مثلاً اگر لٹریچر موجود نہیں ، کرایہ کیلئے کوئی رقم پاس نہیں، اشتہارات چھپوانے کیلئے کوئی روپیہ پاس نہیں کہیں دوا خانے وغیرہ کھولنے کیلئے مالی گنجائش نہیں تو صرف آدمیوں کو ہم نے کیا کرنا ہے.وہ تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے اور جو کام ہے وہ رُکا ر ہے گا.پس ضروری ہے کہ جو خرچ آدمیوں پر ہواس سے کئی گنے زیادہ اشاعت وغیرہ کے اخراجات کیلئے روپیہ ہو.مثلاً اشتہارات چھپوانے کیلئے لٹریچر کی اشاعت کیلئے ، دوا خانے کھولنے کیلئے آمد ورفت کے کرایوں کیلئے ، مدرسوں کے اجراء کیلئے ، غریب بچوں کو کتابیں مہیا کر کے دینے کیلئے اور اسی طرح کے اور بہت سے کاموں کیلئے.فرض کرو ہم کسی جگہ مدرسہ کھولتے ہیں وہاں تمام لڑکے غریب ہیں.اب سکول چلانے کیلئے ضروری ہوگا کہ بچوں کو کتب اور دوسرا سامان بھی دیا جائے.ورنہ خالی مدرس بیٹھا ہوا وہاں کیا کرسکتا ہے.پس میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر آدمیوں کی تنخواہوں پر ۲۵ روپے خرچ ہوا کریں تو سائز کیلئے ۷۵ روپے ہونے چاہئیں اور یہ کم سے کم اندازہ ہے اور میری کوشش ہے کہ اسی اصل پر تحریک جدید کے کام کو منظم کیا جائے.پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ نو جوان جو بغیر روپیہ کے کام کرنے کو تیار ہوں وہ اپنی زندگیاں وقف کریں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بعض نوجوان ہمیں ایسی ہی روح رکھنے والے دیئے ہوئے ہیں.چنانچہ ان واقفین زندگی میں کی ایک وکیل ہیں، ان کے والد کئی مربعوں کے مالک ہیں اور وہ اپنے علاقہ کے رئیس اور مرکزی اسمبلی کے ووٹروں میں سے ہیں، وہ شادی شدہ ہیں مگر ہم انہیں میں روپے ہی دیتے ہیں اور وہ خوشی سے اسے قبول کرتے ہیں حالانکہ زمیندار ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اپنے علاقہ میں
خطبات محمود ۸۲۰ سال ۱۹۳۸ء انہیں اچھا رسوخ حاصل ہے اگر وہ وکالت کرتے تو سو ڈیڑھ سوروپیہ ضرور کما لیتے.بلکہ ہوشیار آدمی تو آجکل کے گرے ہوئے زمانہ میں بھی دواڑھائی سور و پیہ کما لیتا ہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا اور قلیل گزارے پر ہی وقف کیا اور میں تو اس قسم کے وقف کو بغیر روپیہ کے کام کرنا ہی قرار دیتا ہوں کیونکہ جو کچھ ہماری طرف سے دیا جاتا ہے وہ نہ دیئے جانے کے برابر ہے.اسی طرح اور کئی گریجوایٹ ہیں جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اگر باہر کہیں کام کرتے تو کی بہت زیادہ کما لیتے مگر ان سب نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کی ہے.پس گو تحریک جدید کے واقفین ایک قلیل گزارہ لے رہے ہیں مگر عقلاً انہیں بغیر گزارہ کے ہی کام کی کرنے والے سمجھنا چاہئے کیونکہ ان کے گزارے انکی لیاقتوں اور ضرورتوں سے بہت کم ہیں.مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اگر بغیر گزارہ کے کام کرنے والے آدمی بھی ہمیں ملیں تو بھی اس کام کیلئے جو ان سے لیا جانا ہے سرمایہ کی ضرورت ہے.کچھ ان کے قلیل گزارہ کیلئے اور کچھ غیر ممالک میں تبلیغ اسلام اور لٹریچر وغیرہ کی اشاعت کیلئے.اگر ہماری جماعت کے آدمی کتابیں نہیں لکھتے یا اگر لکھتے ہیں تو شائع نہیں ہوتیں تو محض اس لئے کہ روپیہ نہیں ہوتا.پس میرا منشاء یہ ہے کہ جہاں نو جوان بغیر روپیہ کے کام کرنے والے ہوں وہاں روز مرہ کے کاموں کیلئے روپیہ کا ایک ریز روفنڈ جائیداد کی صورت میں ہوتا.اگر کسی وقت جماعت سے چندہ نہ ملے یا چندہ لیا نہ جا سکے تو تبلیغ کے کام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور مستقل آمد ایسی ہو جس سے تمام کام بخوبی چلتا چلا جائے.میں نے آج سے کچھ سال پہلے پچیس لاکھ ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی مگر وہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریزروفنڈ کے جمع کرنے کا موقع بہم پہنچایا ہے اور ایسی جائیدادوں پر یہ روپیہ لگایا جا چکا ہے اور لگایا جا رہا ہے جس کی مستقل آمد پچیس تیس ہزار روپیہ سالا نہ ہو سکتی ہے تا تبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے.اگر ہم کو واقفین رکھیں جو میرا مقصود ہے اور جن کو میں دوسرے دور میں تیار کرنا چاہتا ہوں اوران میں سے ہر ایک کے اخراجات کی اوسط پچاس روپیہ ماہوار رکھیں تو پانچ ہزار روپیہ ماہوار.
خطبات محمود ۸۲۱ سال ۱۹۳۸ - اور ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ بنتا ہے مگر یہ عملہ کا خرچ ہے اور میں بتا چکا ہوں کہ سائز کے اخراجات کم از کم تین گنے زیادہ ہونے چاہئیں جو لٹریچر کی مفت تقسیم یا دواؤں کی مفت تقسیم یا سفر خرچ کی وغیرہ پر خرچ ہونا چاہئے.اس لحاظ سے دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ بنتا ہے جس کی سالانہ ہمیں ضرورت ہوگی گوسر دست یہ ایک واہمہ اور خیال ہے مگر جس رنگ میں تحریک جدید کے سرمایہ سے مستقل جائیدادیں تیار ہو رہی ہیں اس سے میں چالیس ہزار روپیہ سالانہ تک آمد ہو سکتی ہے بلکہ انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ اور چونکہ اگر ۲۴ نو جوان ہوں تو ان کے لحاظ سے ساٹھ ہزار روپیہ کا سالانہ بجٹ بن جاتا ہے اس لئے ۲۴ نو جوانوں کے اخراجات کا بجٹ قریباً قریباً اس جائیداد سے پورا ہو سکتا ہے اور چونکہ دور ثانی میں ابھی چھ سال باقی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کوشش کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی کے ساتھ ایسی جائیدادیں پیدا کی جاسکتی ہیں جن سے تبلیغ کا کام بسہولت ہوتا رہے اور اس کیلئے بعد میں کسی خاص جد و جہد کی کی ضرورت نہ رہے.مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ جماعت اپنی قربانی کو اس اعلی معیار پر قائم رکھے جو گزشتہ سالوں میں اس نے قائم کیا تھا بلکہ کوشش کرے کہ پہلے معیار سے بھی وہ آگے بڑھ جائے.دنیا میں لوگ کنوئیں کھدواتے ہیں ، سرا ئیں بنواتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا نام باقی رہے.وہ بالکل بے دین ہوتے ہیں مگر ان کے دل میں یہ جذ بہ ہوتا ہے کہ ہمارا کی نام کسی طرح باقی رہے لیکن کنوؤں اور سراؤں کی کیا حیثیت ہوتی ہے پچاس، ساٹھ یا سوسال کے بعد ویران اور غیر آباد ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے مقابلہ میں تحریک جدید کا دور ثانی مستقل صدقے کا کام ہے اور جو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ اس تبلیغ دین کے ذریعہ جو ، ان کے روپیہ سے ہوتی رہے گی اپنی موت کے ہزاروں سال بعد بھی ثواب حاصل کرتے چلے جائیں گے.دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں اور عام طور پر جو وقف ہوتے ہیں وہ بھی کی دو دو، تین تین، چار چار سو سال سے زیادہ دیر تک نہیں رہتے.لوگ کنوئیں کھدواتے ہیں تو وہ کی پچاس، ساٹھ یا سوسال کے بعد ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں لیکن دینی جماعتوں کا وقف اس سے بہت زیادہ لمبے عرصہ تک قائم رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں سے ہمیں بہت بہتر مقام عطا فرمایا ہے کیونکہ ان کے مسیح سے ہمارا مسیح اپنی ہر شان میں بلند اور بالا ہے لیکن عیسائیوں کے
خطبات محمود ۸۲۲ سال ۱۹۳۸ء بعض وقف بھی ہزار سال سے چلے آتے ہیں.پس اگر عیسائیوں کے بعض وقف ہزار ہزار سال تک قائم رہ سکتے ہیں تو کیا تعجب ہے کہ تمہارا وقف ڈیڑھ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے مسیح پر فضیلت دی ہے.اب خود ہی غور کرو کہ یہ کتنا عظیم الشان ثواب کا موقع ہے جو تمہارے سامنے ہے.تم تحریک جدید کے دور ثانی میں غالباً چھ سال تک اور مالی قربانی کرو گے مگر سینکڑوں ہزاروں سال تک انشاء اللہ تمہارے روپیہ سے تبلیغ اسلام ہوتی رہے گی اور تمہارے مرنے کے بعد بھی کی تمہیں تو اب پہنچتارہے گا.میں کہتا ہوں کہ ہزاروں سال کو جانے دوا گرسو، دوسوسال تک بھی تمہیں مستقل ثواب پہنچتا چلا جائے تو یہ کتنی عظیم الشان کامیابی ہے اور اس کامیابی کے مقابلہ میں دس سال کی قربانی کی حقیقت ہی کیا ہے.میں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ تحریک جدید کے دور اول کے پہلے سال میں جس نے جس قدر چندہ دیا ہو وہ اگر چاہے تو اسی قدر چندہ دور ثانی کے پہلے سال دے سکتا ہے اور پھر ہر سال اسے اپنے چندہ میں دس فیصدی کمی کرنے کی اجازت ہے.میں آج دور ثانی کے سال دوم کے چندہ کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے پھر اس بات کو دُہرا دیتا ہوں کہ عام قانون یہی ہے کہ دوستوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ پچھلے سال انہوں نے تحریک جدید میں جس قدر چندہ دیا کی تھا اس سال اگر چاہیں تو اس سے دس فیصدی کم چندہ دے دیں، یعنی اگر کسی نے سو روپے دیئے تھے تو وہ نوے روپے دے سکتا ہے، ہزار روپے دیئے تھے تو نو سو روپے دے سکتا ہے، پچاس روپے دیئے تھے تو ۲۵ روپے دے سکتا ہے ،۲۰ روپے دیئے تھے تو ۱۸ روپے دے سکتا ہے اور دس روپے دیئے تھے تو نو روپے دے سکتا ہے لیکن میں اس کے ساتھ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو شخص توفیق کے ہوتے ہوئے اپنے چندہ میں کمی کرتا ہے وہ اپنے ایمان کو اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتا ہے.یہ اجازت جو میں نے دی ہے یہ صرف اس لئے ہے کہ میں جانتا ہوں کہ کی ابتداء میں بعض لوگوں نے جوش میں آکر اپنی طاقت سے بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا.پس ان کے لئے بغیر اس کمی کے چارہ نہیں اور انکے لئے بھی یہ کی اس لئے ہے تا پہلے سالوں سے کم چندہ دینے کی وجہ سے ان کا دل میلا نہ ہو اور وہ کہہ سکیں کہ گو ہمیں مالی مشکلات درپیش ہیں مگر پھر بھی
خطبات محمود ۸۲۳ سال ۱۹۳۸ء قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم نے مالی قربانی میں حصہ لے لیا ہے.بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ اگر ایک شخص مجبور اور معذور ہے اور اس نے اپنی معذوری کی وجہ سے تحریک میں پہلے جتنا حصہ نہیں لیا تو اس میں کیا حرج ہے مگر تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اگر اس کی اجازت میں قانون کے رنگ میں نہ دوں تو اس کا دل ضرور میلا ہوگا اور وہ کہے گا کہ افسوس کہ میں پہلے جتنا حصہ اب کی دفعہ نہ لے سکا.پس میری غرض اس کمی سے یہ ہے کہ اگر کوئی واقع میں مجبور ہو اور اپنی مجبوری کی وجہ سے پہلے جتنا حصہ نہ لے سکتا ہو تو اس کا دل بھی میلا نہ ہو اور وہ یہ نہ کہے کہ افسوس میں اتنی قربانی نہیں کر سکا بلکہ وہ پھر بھی خوش ہو اور کہے کہ باوجود مجبوری کے میں نے اس قدر قربانی کر لی ہے جس قدر قربانی کا سلسلہ نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا.پس یہ صرف دل کے میلا نہ ہونے کیلئے میں نے شرط رکھی ہے ورنہ میرا ارادہ یہی ہے کہ ہر سال میں اپنا چندہ کچھ نہ کچھ بڑھاتا چلا جاؤں اور کئی دوسرے دوست بھی ہیں جنہوں نے ہر سال اپنا چندہ بڑھایا ہی ہے گھٹا یا نہیں.پس مجھے چندہ میں دس فیصدی کمی کی اجازت دینے کا قانون بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے پہلے سال جوش میں بہت کچھ چندہ دے دیا تھائی کہ اپنی طاقت سے بھی زیادہ دے دیا تھا ان کے دل بھی میلے نہ ہوں یا وہ لوگ جن کی مالی حالت بعد میں واقع میں کمزور ہو گئی ہے ان کا دل بھی میلا نہ ہو ورنہ میں جانتا ہوں کہ جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے جس نے ہر سال اپنے چندہ میں زیادتی کی ہے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی طاقت سے کم حصہ لیا ہے.میں اس موقع پر ان تمام لوگوں کو جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا ، یا ان لوگوں کو جو اپنی قربانی کے سابقہ معیار کو قائم رکھ سکتے ہیں اور اسی طرح ان لوگوں کو جو اپنی قربانی کے کی معیار کو بڑھا سکتے ہیں کہتا ہوں کہ تم میں سے وہ جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا وہ اپنی سستی کا ازالہ کریں اور خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کا جو ایک اور موقع پیدا کر دیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور وہ جو اپنی سابقہ قربانیوں کے معیار کو قائم رکھ سکتے ہیں وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں اور جو اس معیار کو بڑھا کر زیادہ قربانی کر سکتے ہیں وہ زیادہ قربانی کریں.اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کمی نہیں اگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ اجر
خطبات محمود ۸۲۴ سال ۱۹۳۸ء پاؤ گے اور اگر کم قربانی کرو گے تو بالکل ممکن ہے کہ قیامت کے دن تم جو اپنے آپ کو ایم.اے سمجھ رہے ہو انٹرنس پاس ثابت ہو اور ایک انٹرنس پاس خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایم.اے ثابت ہو.پس وہ لوگ جنہوں نے کمزوری دکھائی تھی ان کیلئے اس بات کا موقع ہے کہ وہ اپنی پچھلی کمزوریوں کا اس رنگ میں کفارہ ادا کریں کہ تحریک جدید کے اس سال میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لیں تا خدا تعالیٰ کے حضور ان لوگوں کا نام کمزور لوگوں میں نہ لکھا جائے بلکہ ان لوگوں میں لکھا جائے جنہوں نے اس کے دین کے جھنڈا کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ بلند رکھا.اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت خدا تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ مضبوط کر دی ہے.آج سے چار سال پہلے ان کی حالت سخت کمزور تھی مگر آج خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا ہے ایسے لوگوں کی یہ بے وقوفی ہوگی اگر وہ اپنے چندوں میں کمی کی کریں.جب خدا تعالیٰ نے ان سے خاص سلوک کیا ہے تو ان کا بھی فرض ہے کہ وہ خاص کی جواب دیں.پس وہ لوگ جن کی مالی حالت کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط بنایا ہے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے چندہ میں کمی کرنے کی بجائے اسے بڑھاتے چلے جانا چاہئے اور وہ جن کی مالی حالت تو اللہ تعالیٰ نے اچھی رکھی ہو مگر وہ چندے کو بڑھا نہ سکتے ہوں انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں.پس گو قانون یہی ہے کہ چندہ میں ہر سال دس فیصدی کمی کی اجازت ہے مگر اس سے فائدہ اس کو اٹھانا چاہئے جو واقع میں معذور اور مجبور ہو اور جو واقع میں مجبور اور معذور نہ ہو اسے اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.میں نے خود گزشتہ سال پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیا تھا اور با وجود سخت مقروض ہونے کے اب بھی زیادہ ہی دینے کا ارادہ ہے اور بھی کئی دوست ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے زیادہ چندہ پیش کر دیا کی ہے اور بعض مخلصین نے تو ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ ان پر رشک آتا ہے.ایک دوست ہیں وہ اپنی کچ ملا زمت سے ریٹائر ہوئے تو انہیں گورنمنٹ کی طرف سے پراویڈنٹ فنڈ ملا.وہ اب بوڑھے اور کمزور ہو چکے ہیں اور کوئی تجارت وغیرہ کا کام نہیں کر سکتے ، ان کا گزارہ جو کچھ ہے اسی پراویڈنٹ فنڈ پر ہے مگر انہوں نے پراویڈنٹ فنڈ ملتے ہی تحریک جدید کے دوسرے سات سالہ دور کا چندہ اکٹھا ہی بھجوا دیا اور لکھ دیا کہ میری طرف سے یہ دفتر میں بطور امانت رکھ لیا جائے کی
خطبات محمود ۸۲۵ سال ۱۹۳۸ اور ہر سال اتنا چندہ تحریک جدید میری طرف سے منتقل کر لیا جایا کرے میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور نہ معلوم کب مر جاؤں یا کیا خبر ہے پھر چندہ دینے کی توفیق ملے نہ ملے اسلئے میں آئندہ سات سال کا چندہ اکٹھا بھجوا دیتا ہوں.یہ کیسا اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور کس قدر خوش کن نمونہ ہے.جماعت کے دوست ایسے لوگوں پر جس قدر فخر کریں کم ہے.اسی طرح اور کئی دوست ہیں جنہوں نے گوسات سال کا نہیں مگر دو دو تین تین سال کا چندہ اکٹھا جمع کرا دیا ہے کہ ممکن ہے مالی لحاظ سے ہم پر کوئی کمزوری آجائے اور ہم اس ثواب میں شریک ہونے سے محروم رہیں اس لئے کی بہتر ہے کہ ابھی سے آئندہ سالوں کا چندہ بھی جمع کرا دیا جائے.یہی وہ لوگ ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مِّن يَنْتَظِرُ یہ کام ایسا شاندار ہے کہ میں سمجھتا ہوں جو لوگ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں مدد دیں گے ان کا نام کی اللہ تعالیٰ خاص لوگوں میں لکھے گا کیونکہ اس چندے میں جن لوگوں نے بھی حصہ لیا ہے ان کے کی چندوں سے اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل ریز روفنڈ قائم کیا جائے گا.پس اس کیلئے کی جتنی قربانی کی جائے تھوڑی ہے اور جس قدر ثواب کی امید رکھی جائے وہ بھی تھوڑی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام ان مستقل تحریکات میں سے ہے جن میں حصہ لینے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح مستحق ہوں گے جس طرح بدر کی جنگ میں شریک ہونے والے صحابہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے مورد ہوئے.جنگ بدر میں جو صحابہ شامل ہوئے کی تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا تھا کہ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَإِنِّى قَدْ غَفَرْتُ لَكُم سے یعنی جو جی میں آئے کرو میں نے تم کو معاف کر دیا.اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب تمہارے لئے چوری، ڈاکہ اور شراب کی اور دوسرے ناروا افعال سب جائز ہو گئے ہیں بلکہ یہ مطلب تھا کہ تم نے ایک ایسی نیکی میں حصہ لیا ہے کہ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود تمہارے اعمال کا ذمہ دار ہو گیا ہے اور وہ تمہیں ہر قسم کے بُرے انجام سے محفوظ رکھے گا.انہی بدری صحابہ میں سے ایک دفعہ ایک صحابی سے ایک سخت غلطی ہوگئی.انہوں نے مکہ والوں کو یہ خبر لکھ دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چڑھائی کرتے ہوئے آرہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات مخفی رکھنا چاہتے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ
خطبات محمود ۸۲۶ سال ۱۹۳۸ء نے الہاماً اس واقعہ کی خبر دے دی اور وہ رقعہ جو اس صحابی نے اہل مکہ کی طرف لکھا تھا وہ پکڑا تھ گیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار جوش میں اپنی تلوار پر ہاتھ مارتے اور کہتے یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کا سرکاٹ دوں.آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فر ما یا عمر ! تم کو معلوم ہے یہ بدری صحابی ہے.اور بدری صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرما چکا ہے کہ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَكُمُ شاید اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا دل پڑھ کر یہ بات کہی تھی اور بتایا تھا کہ ان سے کی غلطیاں سرزد ہی نہ ہوں گی.پس جن کو اللہ تعالیٰ نے بری قرار دیا ہے تم ان کو منافق کس طرح ہے قرار دے سکتے ہو.اللہ ! اللہ.یہ کس قدر اعلیٰ مقام ہے جس کے لئے مال تو کیا جان دینا بھی انسان پر گراں نہیں گزرتا.غرض بعض کام اتنے اہم ہوتے ہیں کہ دنیا میں بطور یادگار قائم رہتے ہیں اور صدیوں تک آنے والی نسلیں اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہتیں.مثلاً یہی منارة امسیح.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ جو لوگ اس میں ایک سو روپیہ چندہ دیں گے ان کے نام اس پر کندہ کئے جائیں گے.اب وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیا ان کے نام دنیا میں ہمیشہ بطور یادگار قائم رہیں گے اور آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں گی.اسی طرح بعض ابتدائی جلسوں پر آنے والے مہمانوں کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھ دیئے ہیں.اب خواہ کس قدر صدیاں گزر جائیں ان کے نام ان کتابوں کی میں موجود رہیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام بھی اسی قسم کا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ جماعت کے مخلصین کی ایک مستقل یادگار قائم کرنا چاہتا ہے اور ان کی روحوں کو ان کی ج وفات کے بعد بھی مستقل طور پر ثواب پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ اس چندے کے ذریعہ اشاعت اسلام کی ایک مستقل بنیاد پڑنے والی ہے.پس تحریک جدید اپنے اندر اس قسم کی برکات رکھتی ہے اور اس قسم کے انوار اترتے محسوس ہو رہے ہیں کہ یہ امر صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ جولوگ اس میں حصہ لیں گے انہیں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا کوئی خاص مقام عطا فرمائے گا.دو چار دن ہوئے الفضل میں قاضی اکمل صاحب کا ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہوا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ پوری ہوئی.وہ دراصل
خطبات محمود ۸۲۷ سال ۱۹۳۸ ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعود نے دیکھا.آپ فرماتے ہیں کہ:- ایک دفعہ کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں.ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب.پہلے میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ چپ رہا.پھر میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.اس نے کہا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپا ہی دیا جائے گا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اس کا یہ جواب سن کر کشفی حالت میں ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ :- اگر چہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بیھوں پر فتح پاسکتے ہیں.اُس وقت میں نے کشفی حالت میں ہی یہ آیت پڑھی کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ؟ قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ اس رؤیا کے متعلق میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ تحریک جدید میں قربانیاں کرنے والوں کے ذریعہ پورا ہو رہا ہے.چنانچہ میں نے منشی برکت علی صاحب کی فنانشل سیکرٹری سے پوچھا کہ تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینے والوں کی کس قدر تعداد ہے تو انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار چار سو بائیں.چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ نا د ہند ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پانچ ہزا ر ہی تعدا د بنتی ہے.علاوہ از میں کسور بالعموم تعداد میں شمار نہیں کئے جاتے پس پانچ ہزار چار سو در اصل پانچ ہزا ر ہی ہیں.لیکن اگر کسور کو بھی شامل کر لیا جائے تو میں نے بتایا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگوں کی تعداد بھی ہوتی ہے جو وعدہ تو کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے ، پس ایسے نادہندہ اگر تعداد میں سے نکال دیئے جائیں تو پانچ ہزار کی ہی وہ لوگ رہ جاتے ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا.مجھے خود بھی دو تین سال ہوئے یہی خیال آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی تحریک جدید میں حصہ لینے والوں پر ہی چسپاں ہوتی ہے اور ان دنوں میں نے چوہدری برکت علی صاحب کو ایک دفعہ بُلا کر پوچھا بھی کہ
خطبات محمود ۸۲۸ سال ۱۹۳۸ء اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی تعداد کتنی ہے تو انہوں نے کہا کہ میں زبانی نہیں بتا سکتا دیکھ کر بتاؤں گا.میں نے کہا اندازاً آپ بتائیں کہ کس قدر لوگ ہونگے.انہوں نے اس وقت بتلایا کہ شاید سات ہزار کے قریب ہیں.ان کے اس جواب سے میرے ذہن میں جو یہ خیال تھا کہ شاید تحریک جدید میں حصہ لینے والے پانچ ہزار ہوں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف اسی کے متعلق ہو جاتا رہا اور گو ایک حصہ نادہندوں کا بھی ہوتا ہے اور ایک حصہ ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جنہیں جس قد رحصہ لینا چاہئے اس قدر وہ حصہ نہیں لیتے اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سپاہیوں میں شامل نہیں کرتا مگر چونکہ انہوں نے جو ظنی تخمینہ بتایا وہ بہت زیادہ تھا اس لئے یہ خیال میرے ذہن سے اتر گیا.مگر اب قاضی صاحب کے مضمون سے جو اعداد و شمار سے مرتب کیا گیا ہے مجھے وہ پرانا خیال یاد آ گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ در حقیقت انہی لوگوں کے متعلق یہ کشف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کئی سال سے میرا یہ خیال ہے کہ یہی وہ فوج ہے جس کے ملنے کی حضرت مسیح موعود کو خبر دی گئی تھی اور اسی فوج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی فتح کے لئے ایک مستقل اور پائیدار بنیاد قائم کر دے اور یہ فوج اپنا ایک ایسا نشان چھوڑ جائے جس کے ذریعہ ہمیشہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ ہوتی رہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ ادھر الفضل میں یہ مضمون شائع ہوا اور ادھر چند دن پہلے میں ” یہ سوچ رہا تھا کہ تحریک جدید میں آخر تک قربانی کرنے والوں کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور یادگار بنانے کیلئے کوئی تجویز کروں.جب یہ کشف میرے سامنے آیا تو اس نے میرے اس خیال کو اور زیادہ مضبوط کر دیا اور میں نے چاہا کہ وہ لوگ جو اس تحریک میں آخر تک استقلال کے ساتھ حصہ لیں ان کے ناموں کو محفوظ رکھنے کیلئے اور اس غرض کے لئے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں.کوئی یادگار قائم کروں.لوگ اولاد کے لئے کتنا تڑپتے ہیں محض اس لئے کہ دنیا میں ان کا نام قائم رہے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ وہ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء اور اس کے جھنڈے کو بلند رکھنے کیلئے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ان کے نام آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ رکھنے کی خاطر کیوں نہ کوئی تجویز کی جائے.چنانچہ اس کیلئے میں نے ایک نہایت موزوں تجویز سوچی ہے جسے اپنے وقت پر ظاہر کیا جائے گا.غرض اس مضمون کو
خطبات محمود ۸۲۹ سال ۱۹۳۸ء پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جسے خدا نے اپنا لشکر قرار دیا ہے اور جس کے ذریعہ اسلام کی فتح کا سامان دنیا میں ہونے والا ہے اس جماعت کو کون مٹا سکتا ہے.یقیناً کوئی نہیں جو اسے مٹا سکے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ان پانچ ہزار سپاہیوں کی کوئی مستقل یادگار قائم کریں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس جہاد کبیر میں آخر تک ثابت قدم رہیں گے ان کا حق ہے کہ اگلی نسلوں میں ان کا نام عزت سے لیا جائے اور ان کا حق ہے کہ ان کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے اور اس کیلئے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایک نہایت موزوں تجویز میں نے سوچ لی ہے.پس میں آج اس تمہید کے ساتھ تحریک جدید کے سال پنجم کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ بننے کی کوشش کریں.میں نے تحریک جدید کے پانچویں سال کے چندہ کی شرائط بیان کر دی ہیں.میں نے بتایا ہے کہ قانون یہی ہے کہ دس فیصدی پچھلے سال سے کم چندہ دیا جا سکتا ہے مگر ایک سچے مومن کو اس اجازت سے اسی صورت میں فائدہ اٹھانا چاہئے جبکہ وہ واقع میں مجبور اور معذور ہو اور اگر وہ واقع میں معذور اور مجبور نہیں یا مجبور اور معذور تو ہے مگر اس کا ایمان اور اخلاص اسے پیچھے ہٹنے نہیں دیتا تو میں اسے کہوں گا کہ تم کوشش کرو کہ اپنی پہلی جگہ پر کھڑے رہو بلکہ اگر ہو سکے تو آگے بڑھنے کی کوشش کر و.بے شک اس سال چندوں کی بھر مار ہے مگر جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بھی بہت بڑا ہے اور وہ اشاعت اسلام کے لئے مستقل جائداد کا پیدا کرنا ہے.جو لوگ اس راستہ میں مشکلات کی پرواہ نہیں کریں گے اور مصیبتوں پر ثابت قدم رہیں گے وہی لوگ ہیں جو اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ وہ آئندہ نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد کئے جانے کے مستحق ہیں مجبوریاں سب کیلئے ہوتی ہیں.اگر ایک شخص پیچھے ہٹے اور دوسرا انہی حالات میں سے گزرتے ہوئے ثابت کر دے کہ اس نے قدم پیچھے نہیں ہٹایا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم مجبور ہیں انہوں نے غلط کہا تھا کیونکہ انہی حالات میں دوسروں نے قربانی کی اور وہ کامیاب تج ہوئے.اس طرح ہر وہ شخص جو نیا احمدی ہوا ہے اس کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا افضل کیا ہے کہ اپنے بچے دین کا راستہ اسے دکھا دیا یا بالفاظ دیگر اس کا خدا اسے مل گیا.
خطبات محمود ۸۳۰ سال ۱۹۳۸ء.اب اس پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی کی نسبت آگے بڑھنے کی کوشش کرے بلکہ جو نیا احمدی ہو اسے اس بات کی اجازت ہے کہ اگر وہ کی چاہے تو گزشتہ سالوں کے چندہ میں بھی شامل ہو جائے.پس ہر نئے احمدی سے گزشتہ سالوں کا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے.اس طرح وہ جسے پہلے اس تحریک کا علم نہ تھا یا جو پہلے کی طور پر نا دار تھا اس سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کیا جا سکتا ہے مثلاً فرض کرو ایک شخص پہلے طالبعلم تھا مگر بعد میں ملازم ہو گیا یا پہلے بریکا رتھا مگر بعد میں اسے کوئی ملازمت مل گئی ایسے تمام لوگوں سے ہی پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کر لیا جائے گا کیونکہ پہلے انہوں نے مجبوری سے اس میں حصہ لینے سے اجتناب کیا تھا جان بوجھ کر حصہ لینے سے انکار نہیں کیا تھا.ہاں جنہیں گزشتہ سالوں کے چندہ میں شریک ہونے کی توفیق تھی اور وہ ان دنوں بر سر کار بھی تھے مگر انہوں نے جان بوجھ کر حصہ نہیں لیا انہیں اجازت نہیں.وہ صرف نئے سال میں شامل ہو سکتے ہیں پچھلے سالوں میں نہیں.یا د رکھو ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے، بہت بڑی مشکلات ہیں جنہیں میں اپنے سامنے دیکھتا ہوں ، ایک عظیم الشان جنگ ہے جو شیطان سے لڑی جانے والی ہے.جو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کریں گے اور جولوگ حصہ نہیں لیں گے وہ اپنے اعراض سے خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس نے بہر حال ہو کر رہنا ہے.قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا پس یہ کام ہو کر رہے گا اور اگر تم نہیں کرو تو تمہارا ہمسایہ کرے گا اور اگر وہ نہیں کرے گا تو کوئی اور کرے گا، بہر حال غیب سے اس کی ترقی کے سامان ہو نگے.پچھلا پچاس سالہ تجربہ تمہارے سامنے ہے دشمن نے لاکھ رکاوٹیں ڈالیں ، اس نے کروڑ حیلے کئے ، اس نے طعنے بھی دیئے ، اس نے گالیاں بھی دیں، اس نے بُرا بھلا بھی کہا ، بڑے بڑے لوگ مخالفت کے لئے بھی اٹھے اور انہوں نے چاہا کہ اس سلسلہ کی ترقی کو روک دیں مگر خدا تعالیٰ کا کام ہو کر رہا اور اس کی نے الہام کر کے ایسے لوگ کھڑے کر دیئے جو اس کے دین کے انصار بنے اور یقیناً اب بھی ایسا ہی ہوگا لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی کمزور ثابت نہ ہو بلکہ تم میں سے ہر شخص اپنے عمل سے
خطبات محمود ۸۳۱ سال ۱۹۳۸ء ثابت کر دے کہ جب امتحان کا وقت آیا تو تم نے اسلام اور احمدیت کے لئے وہ قربانی کی جس قربانی کا اسلام تم سے مطالبہ کرتا تھا اور تم اپنے ایمان اور اپنے عمل اور اپنی قربانیوں کے لحاظ سے گزشتہ جماعتوں سے پیچھے نہیں رہے بلکہ ان سے آگے بڑھے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دلوں کو کھولے تا وہ اس پانچ ہزار سپاہیوں کے لشکر میں شمولیت کا فخر حاصل کر سکیں جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک کشف کے ذریعہ دے چکے ہیں.اللَّهُمَ امِینَ.“ 66 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۸ء) النحل: ٩٣ الاحزاب : ۲۴ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الممتحنة تذکرہ صفحہ ۷ ۱۷ ، ۱۷۸.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۸۳۲ * ۳۸ سال ۱۹۳۸ سادہ زندگی کے مطالبہ کی غرض فرموده ۲۵ /نومبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے تحریک جدید کے سال پنجم کے چندے کے حصہ کے متعلق اعلان کیا تھا اور آج میں اُسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک اور مطالبہ کی طرف جماعت کو توجہ کی دلاتا ہوں اور وہ سادہ زندگی کا مطالبہ ہے.سادہ زندگی کا مطالبہ اپنے اندر دو شقیں رکھتا ہے، ایک شق تو اسکی سیاسی مگر سیاسی مذہبی ہے ( حکومتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست مراد ہے.) ہر تحریک جو کی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی قانون کے ماتحت ہوتی ہے اور جس قانون کے ماتحت وہ کام کر رہی ہوتی ہے اسے اس کی سیاست کہتے ہیں.سیاست کے معنی در اصل ایک مکمل نظام اور ایسے اصول کے ماتحت کسی چیز کو چلانے کے ہیں جو بدلنے والے حالات کا لحاظ رکھتا چلا جائے.آج کل لوگوں نے سیاست کے معنی یا تو جھوٹ سمجھ رکھے ہیں یا پھر اس کے معنی حکومت کے سمجھ لئے ہیں اس لئے کئی نادان مخالف ہمارے متعلق بھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ دیکھو جی یہ سیاست میں پڑ گئے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی معقول چیز اپنی ذاتی سیاست کے بغیر چل سکتی ہی نہیں.کونسا وہ معقول کام ہے جو بغیر کسی خاص انتظام کے چل سکے اور اسی چیز کا نام سیاست ہے.حکومتوں کو حکومت کے چلانے کے لئے سیاست کی ضرورت ہوتی ہے، مذاہب کو مذاہب کے چلانے کیلئے تعلیمی محکموں کو تعلیم کی ترقی کیلئے ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح ہر محکمہ میں ایک علیحدہ سیاست کی ضرورت
خطبات محمود ۸۳۳ سال ۱۹۳۸ء ہوتی ہے اور اس وجہ سے جب حکومت کیلئے سیاست کا لفظ بولا جائے تو اسکے اور معنی ہونگے ، مذہب کیلئے اور ، اور تعلیم کیلئے اور معنے ہوں گے.نادان نادانی یا دشمن دشمنی کی وجہ سے اس کے کوئی اور معنی سمجھ لیتا اور پھر ہم پر اعتراض کرتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر نظام ایک سیاست کا محتاج ہوتا ہے اور سیاست کے معنی حکمت کے ہوتے ہیں.جو نظام کے پیچھے عمل کر رہی ہوتی ہے اور یہ معنی میں آج نہیں کر رہا بلکہ آج سے سینکڑوں سال پہلے مسلمان علماء نے ایسی کتابیں کی لکھی ہیں جن میں اس موضوع پر بڑی بڑی بحثیں کی ہیں کہ مذہب میں کس حد تک سیاست کا دخل ہوسکتا ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کتابوں کا مقصد یہ ہے کہ مذہب میں جھوٹ کا استعمال جائز ہے یا یہ کہ حکومت میں مذہب کس طرح دخل دے سکتا ہے بلکہ ان کتابوں میں مضمون صرف فقہ کے بیان ہیں اور فقہی بحثوں کے سوا کچھ نہیں حتی کہ امام ابن قیم نے بھی جو صوفیاء میں بھی اور فقہاء میں بھی چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے ہیں اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں لیکن بحث ان میں صرف اس قدر ہے کہ فقہ کی بنیاد کن حکمتوں پر ہے اور کس طرح تبدیل کی ہونے والے حالات کے ماتحت فقہ کے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے.ان باتوں پر بحث کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام میں سیاست ضروری ہے کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو یکساں ہی چلتا جائے.مختلف حالات پیش آمدہ کے ماتحت ان کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور اسی کو کی سیاست کہتے ہیں.نماز کیلئے وضو کا حکم ہے لیکن اگر کوئی بیمار ہو یا پانی میسر نہ آسکے تو تیم بھی جائز ہے.اور اگر نہ پانی مل سکے اور نہ مٹی (ایسے بھی مواقع آسکتے ہیں ) تو وہ تیم کے بغیر ہی نماز پڑھ سکتا ہے.فرض کرو کوئی شخص قید ہے اور کسی نئی بنی ہوئی کشتی میں سمندر میں اسے لے جایا جارہا ہے تو اسے پانی نہیں مل سکتا کیونکہ بڑی کشتیاں بہت اونچی ہوتی ہیں اور ان میں بیٹھ کر سمندر میں وضو نہیں کیا جاسکتا اور مٹی بھی نہیں مل سکتی تو اسے نماز معاف تو نہیں ہوسکتی اس کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ بغیر وضوا اور بغیر تیم کے ہی نماز پڑھ لے.یا کسی کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہوں.یوں تو پانی بھی موجود ہو اور مٹی بھی مگر وہ نہ وضو کر سکے نہ تیم تو وہ بغیر اس کے بلکہ سجدہ اور رکوع کے بغیر بھی نماز ادا کر سکتا ہے اور دل ہی دل میں نماز ادا کر سکتا ہے.تو یہ احکام حالات کے ماتحت متغیر ہوتے رہتے ہیں.پھر بعض اوقات بعض احکام میں لوگ خرابی پیدا کر دیتے ہیں اور
خطبات محمود ۸۳۴ سال ۱۹۳۸ - اس وقت حاکم یا قاضی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ دخل دے کر اس خرابی کو دور کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلاقیں الگ الگ وقتوں میں دیئے جانے کی شرط رکھی ہے مگر آپ کی زندگی کے بعد جب لوگوں میں یہ رواج بکثرت ہونے لگا کہ بیوی پر ناراض ہوئے اور کہہ دیا کہ تجھے طلاقیں ہیں.تو پہلے علماء نے ایسی طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیا لیکن جب یہ رواج کی ترقی پکڑتا گیا تو شریعت کی بے حرمتی کی روح کو دور کرنے کیلئے حضرت عمر نے اعلان کر دیا کہ اگر کوئی ایک دفعہ ہی بہت سی طلاقیں دے گا تو میں اسے تین ہی سمجھوں گا تو جس حد تک اسلام کے احکام میں متغیر حالات میں تبدیلی کی اجازت ہے ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، اسی کا نام حکمت اور اسی کا نام فلسفہ ہے.پس مذہب کیلئے بھی ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ جو سادہ زندگی کی تحریک میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں کی تھی اس کا ایک حصہ مذہبی سیاست کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یعنی اس زمانہ میں چونکہ اسلامی حکومت نہیں کی ہے اس لئے وہ مساوات جسے حکومتیں ہی قائم کر سکتی ہیں اس زمانہ میں قائم نہیں ہو سکتی اور آجکل مسلمان بھی امیر و غریب میں ویسا ہی امتیاز کرنے لگے ہیں جیسا ہندو یا عیسائی کرتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی اپنی حکومت نہیں اور ان کے سامنے کوئی نمونہ نہیں.میری خلافت پر اب چھپیں سال پورے ہونے کو آئے ہیں اور میں شروع سے ہی یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش کرتا آیا ہوں مگر اب تک جماعت میں یہ قائم نہیں ہو سکا کہ ایسا ادب جو شرک کے مشابہ ہو یا جو ادب کا اظہار کرنے والے کو انسانیت کے مقام سے گرانے والا ہونا جائز ہے.مثلاً یہاں کے لوگوں کی میں دستور ہے کہ جب کسی بڑے آدمی یا بزرگ کو ملنے کیلئے آتے ہیں تو جوتی اتار لیتے ہیں، بات کی کرنے لگیں تو ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اور بیٹھنے کو کہا جائے تو نیچے بیٹھ جاتے ہیں.اسلامی آداب کے لحاظ سے اسے ادب نہیں بلکہ انسانیت کی ہتک سمجھا جائے گا اور اسے نا پسندیدہ قرار دیا جائے گا.چھپیں سال سے یہ بات میں سکھا رہا ہوں مگر ابھی تک اس پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا.اب تک یہی حالت ہے کہ بعض لوگ ملاقات کیلئے آتے ہیں تو جوتیاں اُتار دیتے ہیں اور جب اصرار کیا جائے کہ جوتیاں پہن کر آئیں تو پھر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور پکڑ پکڑ کر اور اٹھا اٹھا کر انہیں کرسی یا فرش پر جیسی بھی صورت پر بٹھانا پڑتا ہے لیکن بیٹھنے کے بعد جب
خطبات محمود ۸۳۵ سال ۱۹۳۸ء بات شروع کرتے ہیں تو ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اور اب تک ایسا ہو رہا ہے.اسی ہفتہ ایک دوست ملنے آئے.پہلی ملاقات ختم ہونے پر میں گھنٹی بجادیتا ہوں کہ تا دوسرے دوست آجائیں.میں نے گھنٹی بجائی مگر کوئی نہ آیا پھر گھنٹی بجائی تو دفتر کا آدمی آگے آیا اور میرے پوچھنے پر کہ اگلے ملاقاتی کیوں نہیں آئے بتایا کہ وہ نیچے ہی جوتا اُتار کر آئے تھے اس لئے میں نے انہیں کہا کہ یہ درست نہیں.آپ جوتا پہن کر تشریف لائیں.آخر وہ صاحب تشریف لائے اور آتے ہی زمین پر بیٹھ گئے اور مجھے باصرار ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھانا پڑا اس کے بعد جب انہوں نے بات شروع کی تو کی ہاتھ باندھ لئے اور جب بڑے اصرار کے ساتھ انہیں کہا گیا کہ ہاتھ کھول دیں تو انہوں نے کھولے.وہ ہیں احمدی اور آٹھ دس سال سے احمدی ہیں وہ سمجھدار آدمی ہیں کیونکہ جب انہوں نے میرے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو بولے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں نوکریوں میں ایسا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے.افسر توقع رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے اسی طرح کیا جائے آپ بے شک ایسا نہ کرنے کو کہتے رہتے ہیں مگر ہمیں چونکہ عمل اس کے خلاف کرنا پڑتا ہے اس لئے آپ کی بات ذہن سے نکل جاتی ہے.تو غیر مذاہب کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو مسلمان بھی اسلامی سمجھنے لگ گئے ہیں حالانکہ وہ بالکل غیر اسلامی ہیں.اسلام نے جو مساوات سکھائی ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی مگر ہمارا ماحول چونکہ ہندوانہ ہے اور اوپر عیسائی حکومت ہے اور ان دونوں میں مساوات نہیں.ہندوؤں میں تو چھوٹائی بڑائی کا فرق اتنا نمایاں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.اسی کی طرح عیسائیوں میں ہے انکے تو گرجوں میں بھی علیحدہ علیحدہ سیٹیں علیحدہ علیحدہ لوگوں کیلئے مخصوص ہوتی ہیں.بعض گر جاؤں میں مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ اس طرح کہ یہ سیٹ پندرہ روپیہ کرایہ کی ہے ، یا دس روپیہ کی اور یہ پانچ روپیہ کی ہے اور یہ دو روپیہ کی ہے اور جو یہ کرایہ ادا کر سکے وہاں بیٹھ سکتا ہے.مجھ سے ایک عیسائی نے کہا کہ ہمارے گر جا میں تو کی مساوات ہے میں نے کہا کہ اس مساوات سے تو وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے پاس پندرہ روپے ہوں جس کے پاس کھانے کو بھی نہ ہو وہ وہاں کیسے بیٹھ سکتا ہے اور یہ چیزیں کوئی اس طرح تو مسلمانوں میں داخل نہیں ہوئیں کہ مصلے پکنے لگیں کہ امام کے پیچھے کے مصلی کی یہ قیمت ہے
خطبات محمود ۸۳۶ سال ۱۹۳۸ء اور دائیں بائیں کھڑے ہونے کی اتنی اور یہ تو نہیں ہوا کہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کرایہ پانچ رو پید اور دوسری کا چار یا تین مگر اور شکلوں میں عدم مساوات مسلمانوں میں بھی آگئی ہے.اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ماحول ہی ایسا ہوتا کہ یہ چیزیں پیدا نہ ہو سکتیں مگر چونکہ اسلامی حکومت قائم نہیں اس لئے ماحول کے مطابق مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ رنگ دوسروں کا آ گیا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ تحریک جدید میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ مساوات کا احساس جماعت میں قائم اور زندہ رہے اور مر نہ جائے اور اس کیلئے سادہ زندگی کی تجویز میں نے کی اور اس کا ج ایک حصہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے، تا کہ امیر اور غریب کا نمایاں امتیاز مٹ جائے ، جس حد تک اس کو قائم رکھنے کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے تو ہم نہیں مٹاتے.شریعت نے یہ نہیں کہا کہ کوئی شخص اگر دس روپے کما کر لائے تو اس سے چھین لو اس لئے ہم یہ نہیں کر سکتے ہاں روپیہ کمانے والوں پر جو پابندیاں اس نے عائد کی ہیں.مثلاً یہ کہ ان سے زکوۃ لو، چندے لو، یہ کر لیتے ہیں.ہاں مساوات قائم کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالی جائے.سب امیر غریب اکٹھے ہو کر ٹوکریاں اٹھا ئیں اور مٹی ڈھو ئیں تا اخوت اور مساوات کی روح زندہ رہے.اسی طرح کھانے پینے کے متعلق پابندیاں ہیں.جمعہ کے روز کیلئے بے شک میں نے پابندیوں کو ایک حد تک کم کر دیا ہوا ہے تا جو دوست اپنے احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر کھانا پینا چاہیں وہ ایسا کر سکیں مگر نسبتا اس دن بھی تنگی رکھی ہے.باقی ایام کیلئے سب کو ایک ہی کھانے کا حکم ہے تا امیر غریب میں کوئی امتیاز نہ رہے.اگر دوست اس پر پوری طرح عمل کریں تو امیر کو اپنے غریب بھائی کی دعوت پر کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی اور اسی طرح دعوتوں میں زیادہ دوستوں کو بلانے کا موقع مل سکے گا.پہلے اگر دس دوستوں کو بلا سکتے تھے تو سادگی کی صورت میں تمہیں چالیس کو بلا سکیں گے.اس کے برعکس امیر جب دعوت کرتے تھے تو پانچ دس کھانے پکانا ضروری سمجھتے تھے اور چونکہ کسی کے پاس لا محدود دولت تو ہوتی نہیں، اسلئے مجبوراً صرف چند امیر ا حباب کو بلا لیتے تھے لیکن کھانے میں سادگی کی وجہ سے اتنی گنجائش ہوسکتی ہے کہ غریبوں کو بھی بلا لیں اور اس طرح دونوں کیلئے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا راستہ کھل گیا ہے.
خطبات محمود ۸۳۷ سال ۱۹۳۸ء گوامیر وغریب کے ہاں کھانے میں گھی یا مصالحہ اور خوشبو کی کمی بیشی کا امتیاز رہ جائے لیکن کھانا تی ایک ہی نظر آئے گا اور یہ اس مطالبہ کا مذہبی سیاسی پہلو تھا کہ دوئی کی روح کو مٹایا جائے اور یہ احساس نہ رہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ طبقے ہیں اور گو یکجہتی ، اتحاد اور مساوات کی حقیقی روح حکومت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی مگر اس تحریک کے ذریعہ میں نے کوشش کی ہے کہ وہ زندہ رہے تا جب بھی مسلمان حکومت آئے تو ہم اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہوں اور یہ نہ متحد ہو کر لڑنے لگیں کہ ہم یہ نہ ہونے دیں گے کہ چھوٹائی بڑائی کے امتیاز کو مٹا دیا جائے.آج اگر ہندوؤں کی حکومت قائم ہو جائے تو بجائے اس کے کہ مساوات قائم ہوان میں جو امتیازات ہیں وہ زیادہ شدت اختیار کریں گے لیکن اسلامی حکومت کا قیام مساوات کو صحیح رنگ میں قائم کرے گا اور میری غرض یہ ہے کہ جب تک اسلام کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہو مساوات کی روح زندہ رہے.دوسرا پہلو اس مطالبہ کا اقتصادی تھا.اس میں میرے مدنظر یہ بات تھی کہ اگر جماعت بغیر بچت کرنے کے چندوں میں زیادتی کرتی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ کمزور ہوتی جائے گی گی یٹی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی قربانی کرنے کی طاقت ہی نہ رہے گی اس لئے میں نے سوچا کہ ان میں کفایت شعاری کا مادہ پیدا ہو اور جب کفایت کی عادت ہو گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کر کے چندے دیں گے اور چندوں کیلئے ان کو قرض لینے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ جب یہ روح ان میں پیدا ہو گی تو وہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کی کریں گے.امانت فنڈ کی مضبوطی کا مطالبہ دراصل پس انداز کرانے کے لئے ہی تھا مگر افسوس کی ہے کہ دوستوں نے اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا، حالانکہ اس کی اصل غرض صرف یہ تھی کہ جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو ، وہ اقتصادی لحاظ سے ترقی کرتی جائے اور فضول اخراجات کو محدود کرتی جائے یہ نہ ہو کہ اخراجات کو بدستور رکھے اور جب چندہ کا وقت آئے تو بوجھ محسوس کرے اور جائدادیں فروخت کر کے دے.اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگ بھی ہو تے ہیں ، جن کیلئے جائدادیں فروخت کر کے بھی چندوں کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یہ وہ لوگ کی ہوتے ہیں جن کی طرف دوسروں کی نگاہیں اٹھتی ہیں اور جنہیں دوسروں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کرناضروری ہوتا ہے.باقی لوگوں کیلئے اخراجات کو کم کر کے ہی دین کی مددکرنا ضروری ہوتا ہے
خطبات محمود ۸۳۸ سال ۱۹۳۸ اور یہی مدد ہے جو ان کیلئے بھی اور دین کیلئے بھی زیادہ ثواب کا مستحق ہو سکتی ہے اور اخراجات میں کمی کرنا انسان کے بس کی بات ہوتی ہے.جو لوگ پینشن لیتے ہیں وہ فوراً اپنے اخراجات کی کو کم کر دیتے ہیں یا نہیں.اگر ہزار تنخواہ ملتی تھی تو پینشن پانچ سو رہ جاتی ہے، پانچ سو ہو تو اڑھائی سو اور سو ہو تو پچاس اور پینشن لینے والا اس کے مطابق اپنے اخراجات میں بھی کمی کر دیتا ہے اور جب دنیوی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے تو دین کیلئے ایسا کرنا کیا مشکل ہے حالانکہ ایسا کرنے میں سراسر ہمارا اپنا فائدہ ہے کیونکہ جو بچت ہو گی وہ ہمارے ہی کام آئے گی.شادی بیاہ اور دوسری ایسی ضروریات کے موقع پر قرض نہ لینا پڑے گا یا اگر اس بچت سے ان کی جائیداد میں بڑھیں گی تو ان سے ان کی آمد میں اضافہ ہو گا اور وہ ان کے اور ان کی اولادوں کے کام آئیں گی.تو بہت سے فوائد اس کے نتیجہ میں پیدا ہونگے اور سادہ زندگی کے فوائد کا یہ اقتصادی پہلو ہے.خلاصہ یہ کہ ایک پہلو اس تحریک کا مذہبی سیاسی تھا تا کہ جماعت میں ایسی روح پیدا ہو جائے کہ مساوات قائم رہے اور چھوٹے بڑے کا امتیاز مٹ جائے اور یہ تفرقہ آگے جا کر دوسرے بڑے تفرقوں کا موجب نہ ہو.بے شک عادتوں کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اس کیلئے یہ بہت.مشکل ہوتا ہے کہ کھانے اور کپڑے میں تبدیلی کرے اسے اس میں شرم محسوس ہوتی ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور اس وجہ سے یہ بہت بڑی قربانی ہے مگر قربانی کے بغیر قومی ترقی ہو ہی نہیں سکتی.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ سادہ زندگی کا مطالبہ صرف امراء کیلئے ہے.غریب کا تو پہلے ہی بمشکل گزارہ ہوتا ہے.وہ بچت کس طرح کر سکتا ہے کیونکہ امیر کوا گر ضرورت کے وقت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے تو غریب کو اسی نسبت سے کم رقم کی ضرورت ہوتی ہے.امیر کہتا ہے کہ اس وقت اگر دس ہزار روپیہ ہو تو کام چل سکتا ہے مگر غریب کہتا ہے کہ اگر پانچ روپے ہوں تو کام چل سکتا ہے.کام دونوں کے رکے ہوئے ہوتے ہیں امیر کا دس ہزار کیلئے اور غریب کا پانچ کیلئے.میں نے بعض سوالی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک روپیہ فلاں ضرورت کیلئے درکار ہے اس میں سے آٹھ آنے تو مہیا ہو گئے ہیں باقی صرف آٹھ آنے کی اور ضرورت ہے.پس اگر غریب بھی
خطبات محمود ۸۳۹ سال ۱۹۳۸ء بچت کا خیال کریں اور اتنی تبدیلی اخراجات میں کر لیں کہ ایک آنہ ماہوار ہی بچا لیں تو انہیں بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ایسے غریب لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا آٹھ آنے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام رکا رہتا ہے.ایسے غریب بھی ہوتے ہیں جن کا کام کسی وقت بارہ آنے یا روپیہ پاس نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتا ہے اور جو شخص روپیہ یا دور و پیہ ماہوار کی بچت کر سکے وہ بھی اس کے لئے بہت مفید ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دس، بارہ یا میں پچیس روپے نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہیں چلا سکتے اور اگر وہ روپیہ دو روپیہ ماہوار بچاتے جائیں تو چونکہ ان کی ضرورتیں بھی اسی کے مطابق ہوتی ہیں اس لئے یہ بچت بھی ان کے لئے مفید ہوتی ہے.ہر شخص کے کام اور اسکی ضرورت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے.کسی کا کام آٹھ آنے نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتا ہے تو کسی کا دس ہزار نہ ہونے کی وجہ سے.پھر ایسے غرباء بھی ہوتے ہیں جو ایک پیسہ کے محتاج ہوتے ہیں ان کیلئے بظاہر ا قتصادی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک پیسہ ہو تو کیا اچھا ہو.تو ہر شخص کی کی ضرورت اور اقتصادی پہلو برابر برابر چلتے ہیں.بے شک ایک غریب آدمی کہہ سکتا ہے کہ اگر میں نے دو چار روپے جمع کر بھی لئے تو ان سے کیا ہوتا ہے لیکن اسے خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ضرورتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں.کئی دفعہ ایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ انسان کہتا ہے اس وقت اگر دس روپے پاس ہوتے تو بہت اچھا ہوتا اور اگر وہ بارہ آنہ یا روپیہ ہر مہینہ جمع کرتا رہے تو دوسرے سال دس روپے والی ضرورت جب اسے پیش آئے گی تو اس کا کام چل جائے گا اور اسے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی.یہ صحیح ہے کہ غریب آدمی اپنی حالت کے مطابق بہت قلیل رقم پس انداز کر سکتا ہے مگر اس کی ضرورتیں بھی تو قلیل ہی ہوتی ہیں.تھوڑا تھوڑا کر کے وہ سال میں جس قدر پس انداز کرتا ہے اس کا نہ ہونا کسی وقت اس کی تباہی کا موجب ہوسکتا ہے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا فیروز پور کا ایک واقعہ اخبارات میں شائع ہوا ہے.کسی زمیندار نے سا ہو کار سے پچاس روپے قرض لئے چونکہ اسے ضرورت سخت تھی اس وقت رو پیدا سے ۶۰،۵۰ فیصدی شرح سود پر ملا.اس کے بعد اس نے اس قرض کو ادا کرنے کی بہت کوشش کی.مگر چونکہ سُود کی شرح بہت زیادہ تھی اس لئے تمہیں روپے بطور سود دینے پڑتے تھے لیکن اس کی آمد اتنی تھی
خطبات محمود ۸۴۰ سال ۱۹۳۸ء کہ وہ صرف پندرہ روپے ہی ادا کر سکتا تھا چنانچہ اس نے پندرہ روپے ادا کر دیئے.تو چونکہ سود میں تھا اس لئے پندرہ روپے اس میں سے بھی باقی رہ گئے اس کے ذمہ بجائے پچاس کے پندرہ ادا کرنے کے بعد بھی پینسٹھ رہ گئے.اس پر ساٹھ فیصدی سود ۳۹ روپے بنا ، جن میں سے پھر اس نے پندرہ روپے ادا کر دیئے.تو باقی ۲۴ اصل میں جمع ہو کر نا نوے ہو گئے.نتیجہ یہ ہوا کہ اب چالیس پچاس سال کے بعد جبکہ وہ خاندان ہزاروں رو پید ا دا بھی کر چکا تھا اس کے ذمہ ایک لاکھ سے زائد رقم بقایا تھی.اب دیکھو ا سے قرض لینے کے وقت ضرورت تو پچاس کی ہی کی تھی اور وہ پندرہ روپے سالانہ بچت کر کے بعد میں ادا بھی کرتا رہا لیکن پندرہ روپیہ سالانہ بچت کرنے کی مصیبت اگر وہ تین سال پہلے اٹھا لیتا تو اس کے پاس ضرورت کے وقت ۴۵ روپے اپنے جمع ہوتے اور اسے قرضہ لینے کی ضرورت پیش نہ آتی لیکن اس نے تین سال پہلے یہ تکلیف نہ اٹھائی مگر بعد میں پچاس سال برابر اٹھاتا رہا.بعد میں غلہ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا رہا، زمینوں کی حیثیت بھی بڑھتی گئی اس لئے وہ یا اس کا خاندان اس قرضہ میں زیادہ رقوم بھی ادا کرتا کی رہا مگر جتنا اضافہ ان کی ادائیگی کی اقساط میں ہوتا دوسری طرف اتنا ہی قرضہ کی رقم بڑھتی چلی کی جاتی تھی.تو انسان کو کسی نہ کسی وقت مصیبت تو آہی جاتی ہے اور اگر انسان سمجھے کہ مصیبت کے بعد جو تکلیف اٹھانی ہے وہ پہلے ہی اٹھالوں تو بہت فائدہ میں رہتا ہے لیکن لوگ مصیبت تو اٹھاتے ہیں مگر بعد میں پہلے نہیں.اگر کسی سے کہو کہ کچھ نہ کچھ پس انداز کیا کرو تو وہ یہی جواب دے گا کہ کھانے کو تو ملتا نہیں جمع کہاں سے کریں لیکن اگر پوچھو کہ قرض لیا ہوا ہے یا نہیں تو جواب اثبات میں ملے گا.اس قرض کا ئو د تو ادا کرتے جائیں گے لیکن پہلے کچھ جمع نہیں کر سکتے حالانکہ پہلے اگر کچھ جمع کرتے جائیں تو نہ قرض لینے کی نوبت آئے اور نہ سود دینے کی.بات ایک ہی ہے.اگر پچاس روپیہ آدمی پہلے جمع کرلے تو بھی اور اگر بنٹے سے روپیہ لے کر بعد میں سو دسمیت رقم ادا کر دے تو بھی.ہاں دوسری صورت میں تکلیف زیادہ اٹھانی پڑتی ہے اور روپیہ بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ قرض بڑھتا چلا جاتا ہے.یہ اتنی موٹی بات ہے کہ معمولی سے معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے مگر مصیبت کے وقت تو لوگ بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن
خطبات محمود ۸۴۱ سال ۱۹۳۸ء آرام کے وقت عقل سے کام نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدت العمر مقروض رہتے ہیں اور فصل پکنے کے بعد بنیا آتا ہے اور غلہ اٹھا کر لے جاتا ہے حالانکہ اگر اس مصیبت کے آنے سے پہلے وہ آدھی مصیبت بھی اٹھا لیتے تو نہ قرض لینے کی نوبت آتی اور نہ بنیا آکر اس طرح سب کچھ لے جاتا.پس یہ تحریک صرف امراء کیلئے ہی نہیں بلکہ غریبوں کیلئے بھی تھی لیکن امراء تو خیال کرتے ہیں کہ ہمارا گزارہ تو اچھا چل رہا ہے ہمیں پس انداز کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ آمد کافی ہے ہے حالانکہ وہ بھی حادثات کا شکار ہو سکتے ہیں اور غریب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جمع کیا کرنا ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ہی نہیں مگر یہ وہ کر لیتے ہیں کہ پہلے قرض لے لیا اور پھر جمع کی کر کے اسے ادا کر دیا.گویا وہ جمع تو کرتے ہیں مگر ایک ایسے صندوق میں جس کے نیچے سوراخ کی ہوا اور جو کچھ اس میں ڈالیں وہ دوسرے رستے سے نکلتا جائے.وہ جو کچھ اس میں ڈالتے ہیں وہ کی اسی سوراخ کے رستے بنٹے کے گھر میں گرتا جاتا ہے.عقلمندی یہ نہیں کہ جسے دو روٹیاں نہیں ملتیں ہی وہ ڈیڑھ ہی کھائے ، بلکہ عقلمندی یہ ہے کہ جب اسے دو ملتی ہیں اس وقت بھی وہ ڈیڑھ کھائے اور نصف ضرورت کیلئے اٹھا ر کھے اور جسے دو بھی نہیں ملتیں وہ بھی جو ملے اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرے تا مصیبت کے وقت اس سے فائدہ اٹھا سکے کیونکہ جب تک ایسی حکومت موجود نہ ہو جو ہر شخص کے کھانے کی ذمہ دار ہو اس وقت تک یہ فکر نہ کر نا عاقبت نا اندیشی ہے.پس میری تجویز یہ ہے کہ آدھی روٹی گھر میں رکھوتا جب نہ ملے تو اسے کھا سکو اور اسی غرض سے میں نے تحریک جدید امانت فنڈ قائم کیا تھا.جو شخص اس تجویز پر عمل کرتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اور باقی ماندہ روٹی اس کے کام آتی ہے لیکن جو عمل نہیں کرتا کھا تا تو وہ بھی ڈیڑھ ہی ہے، مگر آدھی بنے کو دیتا ہے.پس کوئی شخص خواہ کتنا غریب ہوا سے چاہئے کہ کچھ نہ کچھ ضرور جمع کرتا رہے خواہ پیسہ یا دو پیسے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ بعض اوقات پیسہ دو پیسہ کا ہی خرچ آپڑتا ہے جس کے پورا کرنے کی کوئی اور صورت نہیں ہوتی اور اس وقت جمع شدہ پیسہ کام آتا ہے.بعض اوقات غریب لوگ فوت ہو جاتے ہیں تو کفن کیلئے بھی گھر میں کچھ نہیں ہوتا.اور اگر ایک دو آنہ ما ہوا ر بھی انسان بچاتا رہے
خطبات محمود ۸۴۲ سال ۱۹۳۸ تو بھی مرنے کے بعد گھر کے برتن یا دوسرا سامان گرو رکھ کر کفن کا انتظام نہ کرنا پڑے گا.یہ اتنی موٹی بات ہے.مگر شاید میرے بیان میں کوئی نقص ہے یا جماعت کے سمجھنے میں کہ ابھی تک جماعت میں یہ بات پیدا نہیں ہوسکی.اچھی طرح یاد رکھو کہ سادہ زندگی اس تحریک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اس میں غریبوں کا امیروں کی نسبت زیادہ فائدہ ہے کیونکہ وہ جو کچھ جمع کریں گے اپنی ضرورت کیلئے کریں گے اور اسی طرح امراء کو بھی اس سے فائدہ ہے اگر کوئی مصیبت کا وقت آ جائے تو اس کی وقت پس انداز کیا ہو اسرمایہ ان کے کام آئے گا.پس میں آج پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ سادہ زندگی کا مطالبہ تحریک جدید کے اہم مطالبات میں سے ایک ہے.اس کا اقتصادی پہلو اور مذہبی سیاسی پہلو دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں.اگر ہم اس کے ذریعہ غریب اور امیر کے فرق کو کسی حد تک مٹانے اور مساوات کی اس کی روح کو جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ایک عظیم الشان کام کی ہوگا ، جو لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے، بلکہ دنیا کی تمام دولت سے زیادہ بیش قیمت ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کھانے کے متعلق بالعموم احباب جماعت نے پابندی کی ہے، لباس کی کے متعلق کچھ حصہ نے کی ہے مگر کچھ حصہ نے نہیں کی.بعض کے متعلق تو مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے چندے زیادہ لکھوا دئے اور پھر دو دو تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے.خود میرا بھی یہی حال ہے کہ کل ہی ایک عجیب اتفاق ہوا.جس پر مجھے حیرت بھی آئی.ایک دوست ملنے آئے اور انہوں نے ایک تحفہ دیا کہ فلاں دوست نے بھیجا ہے وہ ایک کپڑے کا تھان تھا اس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ آئے کی ہیں اور کہا ہے کہ قمیضوں کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے بازار سے لا دو.اس پر میں نے دریافت کیا کہ آپ صاف کپڑا پسند کرتے ہیں یا دھاری دار؟ آپ نے اس کا کوئی جواب لفظوں میں تو نہیں دیا، لیکن میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ دھاری دار آپ کی پسند نہیں اور اس خواب کو پورا کرنے کے لئے میں یہ کپڑا بھیجتا ہوں.میں نے وہ تھان لا کر گھر میں دیا کہ کسی نے بھیجا ہے
خطبات محمود ۸۴۳ سال ۱۹۳۸ء اور اس سے قمیضیں بنوائی جائیں.انہوں نے لے کر کہا کہ الحمد للہ چار سال کے عرصہ میں آپ نے قمیضوں کیلئے کپڑا نہیں خریدا تھا اور آپ کی پہلی قمیضیں ہی سنبھال سنبھال کر اب تک کام چلایا جا رہا تھا یا ایک دو قمیضوں کے کپڑوں سے جو کوئی تحفہ کے طور پر دے جاتا تھا ، اب یہ مشکل دور ہوئی تو خود میں نے کپڑوں میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے.میں ضمناً یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس دوست کے خط کو پڑھ کر معاً میرے دل میں خیال آیا کہ پچاس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے ، جاگتے ہوئے تو میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں مگر خواب میں جا مانگا اور گو یہ میں نے نہیں مانگا تھا بلکہ فرشتوں نے مانگا تھا ، لیکن یہ امر واقع ہے کہ پھر بھی مجھے شرم محسوس ہوئی اور میں نے اس وقت دعا کی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اپنے فضل سے جاگتے ہوئے مانگنے سے اب تک بچایا ہے خواب کے سوال سے بھی بچائے رکھ.اور اگر خواب میں کسی کو تحریک کرنی ہو تو میرے منہ سے نہ کروا.اور یہ خواب میں مانگنے کا بھی میری یاد کے مطابق پہلا ہی واقعہ ہے.ورنہ خواب میں بھی میں نے کسی سے کبھی نہیں مانگا.ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اتنے روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے اتنا پورا ہو گیا ہے اور اتنا ابھی باقی ہے جو تم قرض دے دو.سو میرے پاس اس قدر رقم ہے، اگر خواب ظاہری تعبیر کے مطابق درست ہے تو اطلاع ملنے پر روپیہ بھجوا دوں گا.یہ خواب بالکل بچی تھی بعینہ حالات اسی طرح تھے مجھے اس وقت کچھ ضرورت تھی، اس میں سے اسی قدر رقم کا جو خواب میں اس دوست کو بتائی گئی تھی انتظام ہو گیا تھا اور اس قدر رقم جو ان سے طلب کی گئی تھی مہیا ہوئی باقی تھی.میں نے انہیں کی اطلاع دی اور انہوں نے وہ رقم بھجوا دی.فَجَزَاهُ الله اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.خیر تو اس شخص کا خط پڑھ کر جنہوں نے کپڑا بھجوایا تھا بے اختیار میرے منہ سے دعا نکلی کہ خدا وندا ! خواب میں بھی میں مانگنا پسند نہیں کرتا آئندہ اپنے فضل سے ایسا خواب بھی کسی کو نہ دکھا ، جس میں سوال میرے منہ سے ہو.مجھے تو تو اپنے ہی درکا سوالی بنارہنے دے.ہاں میں کہ رہا تھا کہ کھانے کے متعلق پا بندی دوستوں نے کی ہے مگر لباس کے متعلق ایک حصے نے کی ہے اور ایک نے نہیں کی.میرے لئے تو اس پابندی کا سوال اکثر پیدا ہی
خطبات محمود ۸۴۴ سال ۱۹۳۸ء نہیں ہوسکتا، کیونکہ بعض دوست میرے لئے کوٹ وغیرہ لباس بنوا کر بھیج دیتے ہیں اس لئے میں خود ہی تو وہ بنواتا ہی نہیں کرتہ یا پاجامہ عام طور پر بنواتا ہوں مگر وہ بھی گھر والوں نے بتایا ہے کہ چار سال سے نہیں بنے.کوٹ بھی میں تھوڑا تھوڑا عرصہ پہن کر دوستوں کو دے دیتا ہوں مگر بعض دوست اور بھیج دیتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے.مجھے اور بھی ایسے لوگ معلوم ہیں جنہوں نے دو دو چار چار سال سے کپڑے نہیں بنوائے اور اس میں سراسر انہی کا فائدہ ہے.اگر اس کی بچت سے وہ چندہ دیتے ہیں تو بھی ان کا فائدہ ہے اور اگر جمع کرتے ہیں تو بھی ان کا یا ان کی کی اولا دوں کا.تو یہ تحریک جدید کا بہت ضروری حصہ ہے، جس کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.لباس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس قدر سادگی پسند فرماتے تھے کہ در حقیقت آج آپ کے حالات پڑھ کر مجھے تو شرم آجاتی ہے.گو آجکل حالات بدل گئے ہیں اور حالات کی کے ماتحت تبدیلیاں بھی کرنی پڑتی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ جو محبت ہے اس کی وجہ سے حالات کی تبدیلی کے باوجود شرم آنے لگتی ہے.حضرت عمررؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک کی دفعہ مجھے ایک چغہ پسند آیا جو کوئی شخص بیچنے کیلئے لایا تھا میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! اسے خرید لیجئے ، عید وغیرہ کے موقع پر پہننے کے کام آئے گا اور اچھا لگے گا.حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے منہ پر سرخی آگئی، گویا آپ نے اسے بہت نا پسند فرمایا اور فرمایا یہ تو قیصر و کسری والی باتیں ہیں عمرا یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہیں رکھیں یا شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیال آیا کہ عمر کو یہ چغہ پسند آیا ہے کیونکہ بعد میں جب کسی شخص نے ویسا چغہ بطور ہدیہ آپ کو بھجوایا تو آپ نے وہ چغہ حضرت عمرؓ کے پاس بھیجوا دیا.حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ یا رَسُول اللہ ! آپ کو یاد ہو گا.میں نے ایک دفعہ آپ سے ایسے ہی چغہ کو خریدنے کو کہا تھا تو آپ نے سخت نا پسند فرمایا تھا مگر اب آپ نے اسی قسم کا چغہ میرے پاس بھیج دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے پہنے کیلئے نہیں بھیجا اسے پھاڑ پھوڑ کر عورتوں کے کپڑے بنوالو سے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کپڑوں میں جس قدر سادگی اختیار کرتے تھے اس میں سے تغیر زمانہ کے حصہ کو اگر منہا بھی کر دیا جائے تب بھی وہ بہت بڑی سادگی ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ اس زمانہ میں کپڑا بہت کم ہوتا تھا
خطبات محمود ۸۴۵ سال ۱۹۳۸ء اور اس لئے قیمتیں زیادہ تھیں اور اب بہت سستا ہے.اُس زمانہ میں جو کپڑا امراء پہنتے تھے وہ آج غریبوں کو بھی میسر ہے یہی گبرون اور لدھیانہ اُس زمانہ میں بہت قیمتی اور امراء کے پہننے کا کپڑ سمجھا جاتا تھا مگر اب یہی غریبوں کا عام لباس ہے تو آج کپڑا بہت سستا ہو گیا ہے.جو آج غرباء کا لباس ہے وہ اُس زمانہ میں امارت کی نشانی سمجھا جاتا تھا.یہ سوسیاں سے وغیرہ بہت قیمت پاتی تھیں جن میں کوئی کوئی تار ریشم کا ہوتا تھا اور اسے معیار امارت سمجھا جاتا تھا.تو یہ فرق بے شک دونوں زمانوں میں ہے لیکن اس فرق کو منہا کر کے بھی دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی بہت سادہ تھی اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر ساری دنیا کی ترقی کا سامان ہو ہی نہیں سکتا.اسلام بے شک اس کی اجازت دیتا ہے کہ روپیہ کماؤ مگرا سے خرچ اس طرح کرنے کا حکم دیتا ہے کہ سب بنی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکیں.سادہ زندگی.صرف بچت ہی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں.مہمان نوازی میں مدد ملتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ایک ہے اور جسے حضرت خدیجہ نے نبوت کی تصدیق میں بطور ثبوت پیش کیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اس وقت حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ آپ میں یہ یہ خوبیاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا اور ان خوبیوں میں سے ایک آپ نے مہمان نوازی بیان کی ہے پُر تکلف کھانوں کا رواج ہو تو انسان کو مہمان نوازی میں بہت سخت دقت پیش آتی ہے ایک روپیہ میں ایک شخص کیلئے کھانا بمشکل تیار ہو سکتا ہے اس لئے مہمان نوازی نہیں کی ہو سکتی لیکن اس طرح ایک دوانہ میں گزارہ ہو جاتا ہے اور ایک روپیہ کے صرف سے دس ہیں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاسکتا ہے.تو سادہ زندگی میں مہمان نوازی بڑھ جاتی ہے.مہمان سمجھتا ہے کہ میرا دوست تکلف نہیں کرے گا اس لئے دلیری سے وہاں چلا جاتا ہے اور میزبان بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا کیونکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو لا کر رکھ سکتا ہے.کسی کی دعوت کا مفہوم آجکل یہی سمجھا جاتا ہے کہ بہت پر تکلف کھانے تیار کروائے جائیں اور ذہنیت بھی ایسی ہو گئی ہے کہ اگر کسی کو بلاؤ اور پلاؤ تیار نہ ہو تو اس کے ماتھے پر سلوٹیں پڑنے لگتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گو یا کسی نے جوتیاں ماری ہیں.دل میں کڑھتا اور کہتا ہے کہ دیکھو خبیث نے بلا کر میرا وقت
خطبات محمود ۸۴۶ سال ۱۹۳۸ء ضائع کیا حالانکہ اس غریب نے محبت کی وجہ سے کہیں سے قرض لے کر یا کئی روز کا فاقہ کر کے کے دعوت کی اور اس کے گلے میں کھانا اس لئے پھنس رہا ہے کہ پلاؤ نہیں اس لئے غریب آدمی مہمان نوازی سے ڈرتے ہیں لیکن اگر اسی طرح مہمان نوازی ہو کہ جس طرح گھر میں کھانا پکتا اور کھایا جاتا ہے اسی طرح مہمان کے بھی پیش کر دیا جائے تو کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی اور پیسہ کی بھی خرچ نہ ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک مؤمن کا کھانا دو کیلئے کافی ہوتا ہے.کل ہی جب میں عید پڑھ کر آیا تو معلوم ہوا کہ چھ سات ہندو دوست آئے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ولایت کے سفر میں ہم سفر تھے.میں نے پہلے ان سے دریافت کرایا کہ مسلمانوں کے ہاں کھا لیتے ہیں یا نہیں تا اگر نہ کھائیں تو ہندوؤں کے ہاں ان کیلئے انتظام کرایا جائے مگر انہوں نے کہا کہ ہم تو کھا لیتے ہیں.اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ان کو لے آئیں اور سب بیویوں سے کہا کہ اپنے کھانے بھجوا دیں گو اس میں شک نہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے روز آتے تو مجھے ان کیلئے خاص کھانا تیار کرانا پڑتا لیکن عید کی وجہ سے چونکہ نسبتا ہی اچھا کھانا تھا میں نے سب گھروں سے کھانا جمع کر لیا اور نہ ہمیں کوئی تکلیف ہوئی اور نہ مہمانوں کو.اگر سادہ زندگی کے لوگ عادی ہوں تو ہر روز کی دعوت بھی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر دوستوں میں سادہ زندگی کی روح قائم ہو جائے تو لنگر خانہ کی ضرورت بھی نہیں رہتی اور مہمان نوازی میں بھی کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو.آنے والا مہمان بھی یہ سمجھے گا کہ جو موجو د ہو گا کھالوں گا اس لئے اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی اور میزبان یہ سمجھے گا کہ جو ہو گا وہ پیش کر دونگا اس لئے اسے بھی کوئی تکلیف نہ ہوگی.انسان کیلئے بعض اوقات پیسہ مہیا کر کے خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن خود فاقہ کر لینا مشکل نہیں ہوتا.کسی شخص کے گھر کے دس آدمی ہیں تو اگر اس کے پاس سو مہمان آجائے اور اگر اس کے پاس طاقت نہ ہو تو اسے ضرور قرض لے کر مہمان نوازی کرنی پڑے گی لیکن اگر پانچ آجائیں تو گھر کے پانچ افراد فاقہ کر کے ان کو کھلا سکتے ہیں.فاقہ اختیار کرنا اختیاری امر ہے.آخر روزے بھی تو رکھے ہی جاتے ہیں مگر روپیہ لانا اختیاری امر نہیں اسلئے سادہ زندگی میں انسان بغیر کسی بوجھ کے اپنا فرض ادا کر سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا.ایک دفعہ ایک مہمان آیا کی
خطبات محمود ۸۴۷ سال ۱۹۳۸ء آپ نے ایک صحابی سے فرمایا تم اسے اپنے گھر لے جاؤ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے.شاید کسی وقت ان کی حالت اچھی ہوگی اسلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے سپر دمہمان کر دیا مگر ان دنوں ان کی حالت اچھی نہ تھی گھر پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھانا صرف ایک آدمی کا ہے اور صرف بچوں کیلئے کفایت کر سکتا ہے.میاں بیوی نے یہ تجویز کی کہ بچوں کو تو بھوکا ہی سلا دو اور مہمان کو کھانا کھلا دو.اب یہ بات ان کی طاقت میں تھی ، لیکن اس وقت اگر ان کو پیسہ مہیا کرنا پڑتا تو یہ مشکل تھا اور وہ مہمان کی خدمت میں ناکام رہتے یا پھر اگر یہ ضروری ہوتا کہ مہمان کو پلا ؤ ہی کھلانا ہے.تو اُس صحابی کو کہنا پڑتا کہ یا رسول اللہ ! میں نہیں لے جاسکتا ،لیکن صحابہ کا یہی طریق تھا کہ جو موجود ہوتا لا کر پیش کر دیتے.یہ بات ان کے بس کی تھی کہ بچوں کو سلا دیں اور ان کا کھانا مہمان کو کھلا دیں.اس پر عمل کرنے کیلئے وہ تیار ہو گئے لیکن اس کے علاوہ ایک مشکل اور تھی کہ مہمان کھانے میں ساتھ شامل ہونے پر اصرار کرے گا اور کھانا تھوڑا ہے آخر اس کا بھی حل سوچ لیا گیا.اس زمانہ میں وہ دئے جلائے جاتے تھے جن میں روئی کی بتی کی ڈالی جاتی تھی.تجویز یہ ہوئی کہ جب مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو میاں بیوی سے کہیں کہ روشنی تیز کر دو اور بیوی تیز کرنے کے بہانے بتی کو اس طرح انگلیوں سے پکڑ کر باہر کر دے کہ وہ بجھ جائے اور جب پھر جلانے کو کہا جائے تو کہہ دے کہ آگ نہیں اور اب ہمسایوں کے ہاں آگ کی لینے کیا جانا ہے ان کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی.اس پر مہمان خود ہی کہہ دے گا کہ نہیں رہنے دو روشنی کی کی کیا ضرورت ہے اور اس طرح دونوں مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ کر اندھیرے میں یونہی کی مچاکے مارتے جائیں گے اور مہمان کھانا کھا لے گا.اس وقت تک پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ بغیر کھانا کھانے کے ہی بڑے زور کے ساتھ مچاکے کی مارتے رہے.مہمان بے چارہ بھی حیران ہو گا کہ کھانا تو اس قدر لذیذ نہیں ، معلوم نہیں کہ یہ اتنے مچاکے کیوں مارتے ہیں.بہر حال مہمان نے کھانا کھا لیا اور یہ سب بھو کے ہی رات سو رہے.صبح رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو بلوایا اور پوچھا رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا ؟ انہوں نے شرمندہ ہو کر عرض کیا یا رَسُول اللہ ! کیا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو کچھ کیا مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے اور آپ ہنس پڑے اور فرمایا کہ تمہارے فعل پر خدا تعالیٰ بھی کی
خطبات محمود ۸۴۸ سال ۱۹۳۸ء عرش پر ہنساتے اور میں بھی اس لئے ہنسا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہنسا تھا.تو یہ ذاتی قربانی کا سوال تھا جو جی انہوں نے کر دی اگر مالی قربانی کا سوال ہوتا تو وہ کیا کر سکتے تھے.اگر تمام کام ذاتی قربانی کی طرز پر ہوں تو کام بہت وسیع ہو سکتا ہے اور دنیا میں فوراً امن قائم ہو سکتا لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ سارے کام اس طرز پر چلائے جائیں.اگر آج اس طرح چلایا جائے تو جماعت کے لئے یہ امر تباہی کا موجب ہوگا.زمانہ کے حالات ایسے ہیں کہ بعض باتوں کو مجبوراً ترک کرنا پڑتا ہے.مثلاً اسلام کا حکم ہے کہ آگ کا عذاب نہ دیا جائے لیکن اگر آج اسے جاری کر دیا کی جائے تو مسلمان حکومتوں کا بندوقوں ، تو پوں سے کس طرح بچاؤ ہو سکے ہاں جب ساری دنیا میں اسلامی حکومت اور غلبہ ہو تو اس وقت یہی حکم ہے.اسی طرح اسلامی اصول یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے روپیہ کے استعمال کو کم کیا جائے لیکن اگر آج اس پر عمل کر دیا جائے تو اس کا کی لازمی نتیجہ تبا ہی ہو گا اس لئے ہمیں درمیانی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے، جس سے دشمن کے حملہ کو بھی بچایا جائے اور اسلامی روح کو بھی قائم رکھا جائے.بعض نادان یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام کے فلاں حکم پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا حالانکہ حالات ایسے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے کی دونوں پر لعنت کی ہے کے اور اسلام نے اس کو حرام قرار دیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو ایک جگہ سود دینا پڑتا ہو اور دوسری جگہ اس کا روپیہ کسی ایسی جگہ ہواور پر لگا ہوا ہو جہاں سے اسے سو دمل سکتا ہو تو اسے چاہئے کہ لے لے اور جہاں دینا ہو وہاں دے دے.اب بظاہر تو یہ دو لعنتوں کا جمع ہونا ہے لیکن کافر سے لے کر کا فرکو ہی دے دینے سے مسلمان نقصان سے بچ جائے گا اور اسی کو مذہبی سیاست کہتے ہیں.نادان ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سیاسی آدمی بن رہے ہیں حالانکہ ہماری سیاست یہ نہیں کہ جرمن یا اٹلی سے کوئی معاہدہ کی کرتے ہیں بلکہ ایسی ہی مذہبی سیاست ہے.تو سادہ زندگی کا مطالبہ نہایت اہم ہے مذہبی سیاسی لحاظ سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی کی اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کی اہمیت پر غور کریں امیر بھی اور غریب بھی.آج میں نے پھر اچھی طرح اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ دونوں کیلئے یہ مطالبہ یکساں طور پر
خطبات محمود ۸۴۹ سال ۱۹۳۸ء ضروری ہے اور دونوں کے لئے مفید ہے، اس کے بغیر نہ ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکتی کی ہے اور نہ مذہبی جدو جہد وسیع ہو سکتی ہے.اگر میں دیکھتا کہ جماعت نے پہلا قدم پوری طرح اٹھایا ہے تو دوسرا مضبوطی کے ساتھ اٹھاتا ، لیکن ابھی میں دیکھتا ہوں کہ بہت اصلاح کی ضرورت ہے اس لئے دوسرا قدم نہیں اٹھا سکتا.کھانے کے معاملہ میں بے شک دوستوں نے اصلاح کی ہے مگر دوسرے معاملات میں نہیں بلکہ مجھے اس کا بھی اعتراف ہے کہ ابھی تک خود ہمارے گھروں میں بھی کھانے اور لباس کو چھوڑ کر باقی امور میں اس کی پوری طرح پابندی نہیں کی جاسکی.اور جب تک پہلا قدم صحیح طور پر نہ اٹھا لیا جائے دوسرا نہیں اٹھایا جاسکتا اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ سادہ زندگی کے سب پہلوؤں پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکے اور ہم اس قابل ہوسکیں کہ اپنے مالوں سے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر سکیں.جماعت اگر اس کی اہمیت کو سمجھے تو چند سالوں میں ہی اہم دینی اور دنیوی تغیر پیدا ہوسکتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس بارہ میں ہمیں صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق دے جماعت میں بھی اور ہمارے گھروں میں بھی.اس مطالبہ کی اہمیت پوری طرح سمجھ میں آجائے کیونکہ ہمارے گھروں کو نمونہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جتنا اس نے ہمیں موقع دیا ہے اس کے مطابق اسلامی ماحول پیدا کر سکیں تا خدا تعالیٰ کے حضور ہم یہ کہہ سکیں کہ جتنا تو نے اختیار دیا تھا اتنا ہم نے کر دیا اور باقی اس لئے نہ کر سکے کہ وہ ہمارے بس میں نہ تھا.“ (الفضل ۲ / دسمبر ۱۹۳۸ء) مسلم كتاب اللباس والزينة باب تحريم لبس الحرير (الخ) سے سوسیاں: سوسی.ایک قسم کا رنگین دھاری دار کپڑا بخاری کتاب بدء الوحى باب كَيْفَ كَانَ بدء الوحى إِلى رَسُولِ اللَّهِ صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ه مسلم كتاب الاشربة باب فضيلة المؤاساة (الخ) بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله عَزَّوَ جَلَّ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ (الخ) بخاری کتاب الطلاق باب مهر البَغْى (الخ)
خطبات محمود ۸۵۰ ۳۹ سال ۱۹۳۸ دشمن کی گالیوں کا جواب شرافت اور احسان سے دو نیز خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرو ( فرموده ۲ / دسمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ” میرے پاس گزشتہ ایام میں ان اشتہارات کے خلاف نفرت کے اظہار کے خطوط آئے ہیں جو کچھ عرصہ ہو ا مصری صاحب کے ساتھ تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں اور احرار کے ساتھ تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں کی طرف سے اس علاقہ میں اور باہر پنجاب میں بھی تقسیم کئے گئے کی ہیں.میں اُس غیرت کی قدر کرتا ہوں جس کا اظہار ان دوستوں یا جماعتوں نے کیا ہے.مگر میں سمجھتا ہوں ان اشتہارات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک فائدہ مخفی رکھا ہوا ہے.شروع شروع میں جب مصری صاحب نے خط و کتابت شروع کی ہے تو انہوں نے بہت ہی غصہ کا اظہار اس امر پر کیا تھا کہ مجھے کہا جاتا ہے تم گالیاں دیتے ہو حالانکہ میں تو کوئی گالی نہیں دیتا اور ہماری جماعت کے کئی دوست جو ایسے امور میں مذبذب ہو جانے کے عادی ہیں وہ بھی کہنے لگی گئے تھے کہ آخر وہ کیا گالیاں ہیں جو وہ دیتے ہیں اور جب کہ وہ گالیاں دینے سے انکار کرتے ہیں تو یہ کیونکر تسلیم کیا جائے کہ واقع میں اُنہوں نے کوئی گالی دی ہے.مگر اب ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ میں وہ الفاظ نفل ہو گئے ہیں جو میرے متعلق انہوں نے عدالت میں کہے اور اب
خطبات محمود ۸۵۱ سال ۱۹۳۸ء ہر شریف انسان ان الفاظ کو پڑھ کر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا وہ گالیاں دیتے ہیں یا نہیں اور آیا وہ بات جو میں نے کہی تھی وہ صحیح تھی یا نہیں.بھلا گالیوں سے کسی کا کیا بگڑتا ہے.ان کی گالیوں سے ہمارا تو کوئی نقصان نہیں چاہے وہ گالیاں کو ٹیشن Quotation) کے طور پر ہائی کورٹ کے کسی فیصلہ میں ہی کیوں نہ آگئی ہوں.ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کسی کی گالیاں نقل ہو جانا گالیاں دینے والے کی حقیقت واضح کرتا ہے.اس کی بات کو تقویت نہیں دے دیتا.اوّل تو مذہبی معاملات میں حکومتوں یا ہائیکورٹوں کے فیصلوں کا کوئی دخل ہی نہیں ہوتا.لیکن جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اور اس میں جو فیصلہ درج کیا گیا ہے ( گوسارا فیصلہ میں نے ابھی نہیں پڑھا ) اسی سے ظاہر ہے کہ اس میں ان کی کوئی کامیابی نہیں کیونکہ ہائیکورٹ کا حج اس فیصلہ میں یہ لکھتا ہے کہ چونکہ انہوں نے ایسے ایسے فقرات استعمال کئے ہیں اور ان سے اشتعال اور نقص امن کا اندیشہ ہے اس لئے مقامی حکام نے مصری صاحب کے خلاف جو کارروائی حفظ امن کی ضمانت کے متعلق کی تھی وہ مناسب تھی اور ان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے.حج یہ نہیں کہتا کہ میں نے تحقیقات کی ہے اور تحقیق کے بعد میرا یہ فیصلہ ہے کہ واقع میں وہ الزامات درست ہیں جو عائد کئے گئے ہیں بلکہ وہ کہتا ہے کہ چونکہ انہوں نے ایسے الفاظ کہے ہیں اور یہ سخت اشتعال انگیز ہیں.اس لئے میں ان کی ضمانت لینے کو درست قرار دیتا ہوں اس پر خوش ہوتے پھرنا اور کہنا کہ دیکھو ہائی کورٹ کے ایک جج کے فیصلہ میں یہ بات آگئی ہے یہ تو انتہا درجہ کی حماقت اور نادانی ہے.حج تو یہ فیصلہ کی کرتا ہے کہ انہوں نے واقع میں اشتعال انگیزی سے کام لیا ہے.یہ تو نہیں کہتا کہ اس نے ان الزامات کی تحقیق کی ہے اور انہیں درست پایا ہے.وہ صرف یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان وجوہ سے میرے نزدیک انہوں نے اشتعال انگیزی سے کام لیا ہے.یہ علیحدہ سوال ہے کہ ایسے فیصلوں کی اشاعت ملک کا امن قائم کرنے میں ممد ہے یا اس کے مخالف.یہ سوال گورنمنٹ سے تعلق رکھتا ہے.ان لوگوں سے محض اس حصہ کا تعلق ہے جس حصہ کی میں انہوں نے ہم کو گالیاں دیں اور جج نے ان کی گالیوں کو ان پر حجت تمام کرنے کے لئے اور کی ان کی اشتعال انگیزی ثابت کرنے کے لئے اپنے فیصلہ میں نقل کر دیا اور میں سمجھتا ہوں اس فیصلہ سے جماعت پر یہ امر واضح ہو گیا ہو گا کہ یہ نہ صرف گالیاں دیتے ہیں بلکہ ایسی گندی گالیاں
خطبات محمود ۸۵۲ سال ۱۹۳۸ء دیتے ہیں جو دوسری جگہوں میں ایسے لوگوں کو ہر گز نہیں دی جاسکتیں جو اس جگہ کی اکثریت کے نزدیک واجب الاحترام ہوں بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ فقرات جو انہوں نے ہمارے متعلق استعمال کئے ہیں وہ اس قسم کی گالیوں پر مشتمل ہیں کہ ادنیٰ سے ادنی اقوام کے لوگ بھی کی ایسی گندی گالیاں نہیں دیا کرتے.پس یہ گالیاں گورنج کا موجب بھی ہوں مگر ایک لحاظ سے یہ ہماری فتح کی علامت بھی ہیں کیونکہ جو لوگ اخلاق کے ذریعہ فتح حاصل کیا کرتے ہیں ان کے لئے یہ کامیابی اور خوشی کی بات ہے کہ دشمن اب ننگا ہو گیا ہے اور اس نے اپنے اندرونی گند کو بالکل ظاہر کر کے رکھ دیا ہے اور پہلے جو بات مخفی تھی وہ اب سب کو معلوم ہوگئی ہے اور ہر ایک کو طر آ گیا ہے کہ ان کے اصل خیالات کیا ہیں.پھر جن حکام نے ایسا جلسہ کروا کے اس قسم کے اشتہار بانٹنے میں مدد کی ہے.میں سمجھتا ہوں وہ بھی ایک حد تک ننگے ہو گئے ہیں اور اب گورنمنٹ کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ اس قسم کے الفاظ ہم دوسری جماعتوں کے لیڈروں اور اماموں کی نسبت استعمال نہ کریں.اگر عیسائیوں کے یسوع کی نسبت کی ( جو اُن حضرت عیسی علیہ السلام سے بالکل مختلف وجود ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اور جو ہمارے نزدیک واجب الاحترام ہستی ہیں ) ہماری طرف سے وہی الفاظ استعمال کئے گئے جو ہمارا دشمن ہمارے متعلق استعمال کرتا ہے تو یقیناً گورنمنٹ کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کہے تم اشتعال انگیزی سے کام لیتے ہو.کیونکہ اس نے اپنے قانون اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ کہ یہ بات جائز ہے.باقی میں نے بتایا ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کسی کو ٹیشن کا آ جانا اسے کوئی اہمیت نہیں دے دیتا.آخر جج نے جب الزام ثابت کرنا تھا تو اس کے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت تھی کہ وہ ان کی کچھ گالیاں اپنے فیصلہ میں نقل کر دیتا اور کہ دیتا کہ چونکہ یہ الفاظ اشتعال انگیز ہیں اس لئے تم مجرم ہو اور تم سے جو ضمانت طلب کی گئی تھی وہ بالکل درست ہے اس کو ٹیشن پر خوش ہو جانا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی جج اپنے فیصلہ میں لکھے کہ چونکہ فلاں کی نے قتل کیا ہے اس لئے اسے پھانسی کی سزا دی جاتی ہے.اب کوئی اور شخص اس فیصلہ کو لے لے اور کہے چونکہ حج نے اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کر دیا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ قتل جائز ہے.حج تو ان کے فقرات کو معیوب قرار دیتا ہے اور ان کے کچھ الفاظ اپنے فیصلہ میں نقل کر کے بتاتا ہے کہ -
خطبات محمود ۸۵۳ سال ۱۹۳۸.دیکھو انہوں نے یہ یہ الفاظ کہے ہیں اور کہتا ہے میری رائے میں یہ امر قابلِ اعتراض اور حفظ امن کی ضمانت طلبی کا متقاضی ہے.مگر وہ اس سے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے الزامات کو کی بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئی جج اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کرے تو اس سے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے الزامات کو بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئی جج اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کرے تو اس سے یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ اب قتل جائز ہو گیا.کوئی عقل کا اندھا ہی ایسا نتیجہ نکالے تو نکالے کوئی عقلمند ایسا نتیجہ نہیں نکال سکتا.بہر حال میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ہمارے لئے دوراستے کھولے ہیں.ایک تو ہمارے لئے یہ راستہ کھولا ہے کہ ہمیں لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کرنے کا موقع حاصل ہو گیا ہے کہ ہم جو کہتے تھے یہ ہم پر ظالمانہ الزام لگاتے ہیں ہمیں کی گالیاں دیتے ہیں اور ہمیں بُرا بھلا کہتے ہیں یہ بالکل درست تھا اور اس کا ثبوت ان کا یہ تازہ اشتہار ہے.چنانچہ یہ اشتہار کسی شریف ہندو، کسی شریف عیسائی ، کسی شریف سکھ اور کسی شریف مسلمان کے سامنے رکھ دو اور کہو کہ یہ اشتہار ہے اسے پڑھ کر آپ بتائیں کہ ظالم یہ ہیں یا ہم، تو ہر شریف انسان ( اور شریف انسان کی رائے ہی وقعت رکھتی ہے ) یہی کہے گا کہ تم مظلوم ہو اور یہ ظالم ہیں.اور جو غیر شریف ہیں ان کی رائے کی کوئی قدر ہی نہیں ہوتی وہ ہمیشہ گند اُچھالتے رہتے ہیں اور گند میں ہی ان کو لذت آتی ہے.تو خدا تعالیٰ نے ہمارے دشمن کے مقابلہ میں خود دشمن کے منہ سے ہی ہماری مظلومیت کو ثابت کرا دیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے گورنمنٹ پر مجبت قائم کرنے کے لئے بھی ایک راستہ کھول دیا ہے.اب اگر ہم یہی الفاظ دوسری قوموں کے لیڈروں کے متعلق استعمال کریں اور ہماری جماعت کے کسی فرد پر گورنمنٹ ان الفاظ کے استعمال کی وجہ سے مقدمہ چلا دے تو اس کا حق ہوگا کہ وہ اپنے مقدمہ کے دوران میں یہی اشتہار عدالت میں پیش کر دے اور کہے صاحب گورنمنٹ نے ان الفاظ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور باوجود اس کے کہ گورنمنٹ نے یہ قانون مقرر کیا ہوا تھا کہ فلاں شخص کو قادیان کی حدود کے دومیل کے اندر اندر جلسہ کرنے یا تقریر کرنے کی اجازت نہیں.پھر بھی اُس سے قادیان کی حدود کے دومیل کے اندر جلسہ کرایا گیا
خطبات محمود ۸۵۴ سال ۱۹۳۸ء اور اس موقع پر یہ اشتہا ر لوگوں میں بانٹا گیا.اب بتائیے جب گورنمنٹ ان الفاظ کو قدر کی نگاہ سے دیکھ چکی ہے تو اگر میں نے ایسے ہی بعض الفاظ کسی اور قوم کے لیڈر کی نسبت استعمال کر لئے تو اس میں حرج کونسا ہو گیا.تو اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے گورنمنٹ پر حجت تمام کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ راستہ کھول دیا ہے اور دو باتوں میں سے ایک بات گورنمنٹ کو ضرور ماننی پڑے گی.یا تو اُسے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ الفاظ بہت اعلیٰ درجہ کے ہیں.ان سے کوئی فساد کی نہیں ہوتا اور نہ کسی کا دل دُکھتا ہے لیکن اگر کسی غیر مسلم قوم کے بزرگ کو مسلمان کہہ دیا جائے تو کی اس سے اس قوم کا دل بہت دُکھتا ہے یا اسے تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ احمدیوں کے لئے اور قانون چلانا چاہتی ہے اور دوسری اقوام کے لئے اور.گویا گورنمنٹ اگر خاموش رہے گی جیسا کہ وہ اب تک خاموش ہے تو وہ اپنی خاموشی سے یہ اعلان کر دے گی کہ کسی کو مسلمان کہنا تو گالی ہے لیکن وہ الفاظ استعمال کرنے جو اس اشتہار میں استعمال کئے گئے ہیں گالی نہیں.پس ہمیں گورنمنٹ پر بھی حجت کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک دلیل دے دی ہے اور اب دنیا کی تمام قوموں کے سامنے تم یہ معاملہ رکھ سکتے ہو.ایک طرف وہ الفاظ لکھ دو جو اس اشتہار میں ہمارے متعلق لکھے گئے ہیں اور دوسری طرف باوا نانک صاحب کے متعلق مسلمان کا لفظ لکھ دو اور اس کی کے نیچے تحریر کر دو کہ گورنمنٹ پنجاب کا یہ فیصلہ ہے کہ ان الفاظ کا استعمال تو گالی نہیں مگر مسلمان کہنا گالی ہے.پھر خود بخود دیکھ لو گے کہ دنیا کا عظمند اور شریف طبقہ تمہاری تائید کرتا ہے یا گورنمنٹ کی ، تو اگر گورنمنٹ نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہ کی تو ہمارے ہاتھ میں وہ اپنے خلاف ایک اور ہتھیار دے گی.پس ہمارے لئے اس میں رنج کی کوئی بات نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ایک اور دلیل ہمیں مل جائے گی غرض دونوں اطراف کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں دلیل مہیا کر دی ہے.ہمارے مخالف کے خلاف بھی کہ وہ یہ الفاظ استعمال کرتا ہے اور ابھی اپنے آپ کی کو مظلوم کہتا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف بھی کہ یہ الفاظ گورنمنٹ کے نزدیک گالی نہیں.مگر غیر مسلم اقوام کے کسی بزرگ کو مسلمان کہنا سخت گالی ہے اور اس سے اس قوم کا دل بُری طرح دُکھ جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ جو لوگ اس قسم کے دشمنوں کا جواب دینا چاہیں گے وہ یہ الفاظ کی
خطبات محمود ۸۵۵ سال ۱۹۳۸ء اس کے بزرگوں کی نسبت استعمال کر دیں گے اور کہیں گے کہ یہ لفظ ہم اس لئے استعمال کر رہے ہیں تا دوسرے کا دل بھی نہ دکھے اور ہماری طرف سے جواب بھی ہو جائے.بہر حال تھوڑے کی ہی دنوں میں گورنمنٹ کے رویہ سے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ آیا یہ اشتہارات اُس کی مرضی اور خوشی سے بانٹے گئے تھے یا اس کے علم کے بغیر بانٹ دیئے گئے تھے اور واقع میں اُس نے انہیں ایسا ہی بُرا سمجھا ہے جیسے ہر شریف آدمی انہیں بُراسمجھتا ہے.دو چار ہفتوں میں یہ بات کھل جائے گی اگر گورنمنٹ نے ان الفاظ کو کوئی اشتعال انگیز بات قرار نہ دیا تو آپ لوگوں کے ہاتھ قانون کے ماتحت ایک نیا حربہ آجائے گا ( اور ہماری تعلیم بھی یہی ہے کہ قانون کے ماتحت چلا جائے ) اور اگر گورنمنٹ نے اپنے ان اختیارات کو استعمال کیا جن اختیارات کو وہ سنبھال سنبھال کر رکھتی ہے اور جنہیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تو گورنمنٹ کے متعلق ہمیں جو شکوہ ہے وہ آپ ہی دور ہو جائے گا.اس کے بعد میں اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہوں کہ حسب عادت اس موقع پر مولوی محمد علی صاحب نے بھی اظہارِ خیالات کیا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقی جماعت کونسی ہے تو اس کے لئے چند خصوصیات کا دیکھنا ضروری ہے.”سب سے پہلی چیز نیکی اور بلند اخلاقی ہے....ذرا غور کرو.وہ شہرت قادیان کی جو نیکی اور راستبازی سے حاصل ہوئی تھی کیا وہ اب باقی ہے.شاید کوئی کہے کہ حضرت مسیح موعود کو بھی کی لوگ گالیاں دیتے تھے اور بُرا بھلا کہتے تھے.شاید کوئی ناپاک الزام بھی لگاتے ہوں لیکن یہ سب دشمن اور مخالف تھے.دشمن ایسا کیا ہی کرتے ہیں.کیا دشمن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ اور ناپاک الزام نہیں لگاتے لیکن رنجیدہ بات یہ ہے کہ قادیان میں دشمن نہیں بلکہ مرید کہلانے والے ، زندگیاں وقف کرنے والے ، جان و مال فدا کرنے والے آج کیا کہتے ہیں.میرا دل تو کانپ اُٹھا آج ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ پڑھ کر جس میں ایک مرید کی شہادت درج ہے یعنی مولوی شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے ایک عدالتی بیان کو اس فیصلہ میں نقل کیا گیا ہے.وہ بیان کیا ہے؟ وہ اس قدر افسوسناک ہے کہ میں اس کو اپنی زبان سے بیان کرنا بھی پسند نہیں کرتا.اس قدر بُرے واقعات اور حالات قادیان کے اس میں بتائے گئے ہیں کہ دل ان کو
خطبات محمود ۸۵۶ سال ۱۹۳۸ء پڑھ کر کانپ اُٹھتا ہے.اب یہ باتیں ہائیکورٹ کے فیصلہ میں آگئی ہیں اور ساری دنیا میں پھیل جائیں گی....وہ قادیان جو کبھی نیکی ، اعلیٰ اخلاق اور راستبازی کی وجہ سے دنیا میں مشہور تھا آج بُری باتوں کے لئے دنیا میں مشہور ہو رہا ہے.پھر لکھتے ہیں: وو دوسری چیز علم ہے حضرت مسیح موعود نے تمام مذاہب پر اتمام حجت کیا، ایک نیا علم الکلام کی پیدا کیا ، اسلام کی حقانیت پر کتابوں اور مضامین کے انبار لگا دیئے، قرآن کو ساری دنیا میں پھیلانے کی بنیاد رکھی ، آج ذرا دیکھو کہ قادیان میں کس قدر علم رہ گیا ہے.کل ہی کی بات ہے دورانِ سفر میں ایک قادیانی بزرگ سے ملاقات ہوئی.میں نے اُن سے کہا کہ آخر یہ کیا ہو گیا ہے آپ کا انگریزی ترجمہ قرآن چھپنے ہی میں نہیں آتا.آج چھپیں سال ہو گئے.انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور بات ٹال گئے.تیری بات ہے کام.سواب قادیانی جماعت کی تمام طاقت سیاست پر صرف ہو رہی ہے اسلام کی حفاظت اور تبلیغ کا خیال انہیں بھولتا جا رہا ہے.یہ تقریر اُنہوں نے بھی کی.گویا ان کے نزدیک جب کوئی دشمن اعتراض کر دے خصوصاً جو اس کی جماعت میں شامل ہو تو ضرور تہہ میں کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو تقوی وطہارت سے کوسوں دور ثابت کرنے والی ہوتی ہے اور اگر ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کوئی گالی نقل ہو جائے تو پھر تو اس کے سچا ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا.چاہے صرف حوالہ کے طور پر ہی ان گالیوں کو نقل کیا گیا ہے.اگر یہی بات ہے تو کیا کہیں گے مولوی محمد علی صاحب ان کیسز کے متعلق جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دشمنانِ اسلام کی گالیاں نقل کی گئی ہیں اور ہائیکورٹ کے فیصلوں میں نقل کی گئی ہیں.کیا وہ اسی اصل کے مطابق جو انہوں نے یہاں اختیار کی کیا ہے ان گالیوں کو بھی سچا سمجھنے کے لئے تیار ہیں.معلوم ہوتا ہے وہیں سے مولوی صاحب کے دل میں مرض پیدا ہونا شروع ہوا ہے اور جب کسی کو آقا کے متعلق شبہات پیدا ہو جا ئیں تو اس کا کی غلاموں کے متعلق شک کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہو سکتا.مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اس بات کو کسی قسم کی اہمیت دینا نادانی ہے جب بھی کوئی حج کسی پر الزام قائم کرے گا اس کے لئے کی
خطبات محمود ۸۵۷ سال ۱۹۳۸ ضروری ہوگا کہ وہ اس کا جُرم بیان کرے.مثلاً بزرگوں کو گالیاں دینا ایک مجرم ہے اب کوئی بھی حج حج جب کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرے گا کہ اس نے دوسری قوم کے بزرگوں کو گالیاں دیں تو وہ اُس کی گالیوں میں سے کچھ گالیاں اپنے فیصلہ میں نقل بھی کرے گا.بغیر اس کے اس کا فیصلہ مکمل کس طرح ہوسکتا ہے.پس مصری صاحب کی چند گالیوں کے نقل ہو جانے سے اس میں طاقت کونسی پیدا ہوگئی کہ مولوی صاحب کو یہ فکر لاحق ہو گیا کہ اب یہ باتیں ساری دنیا میں پھیل جائیں گی اور کج لوگ نہ معلوم کیا کچھ کہیں حالانکہ اس قسم کے ٹریکٹ اور اشتہارات شائع بھی وہیں سے ہوتے ہیں اور وہ ان کی اشاعت کے لئے روپے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے کہ اب یہ لوگوں میں پھیلیں گی اور وہ بُرا اثر قبول کریں گے.مولوی صاحب کو یا د رکھنا چاہیے کہ برابر ان کی طرف سے ہم پر گندے حملے ہوتے جا رہے ہیں اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ گالیاں ہم کو ہی دی جاتی ہیں اور ہمارے متعلق ہی ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کسی اور کے متعلق ایسی باتیں نہیں کہی جاتیں حالانکہ کہنے والوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ ان کے مرید تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ ان کے مرید تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور کہنے والے آپ کے مرید کہلاتے تھے.پس جب اس قدر عظیم الشان ہستیوں پر ان کے مرید کہلانے والوں نے الزام لگائے تو میری یا اور کسی کی کیا ہستی ہے کہ ہم ایسے الزاموں سے بچ جائیں.خود مولوی محمد علی صاحب اور ان کے خاندان کے متعلق بھی ایسی کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ میرے پاس جب وہ باتیں پہنچتی ہیں تو میں انہیں دبا دیتا ہوں.مگر مولوی صاحب کے پاس جب ہمارے متعلق کوئی اس قسم کی بات پہنچتی ہے تو وہ خوشی سے اچھل پڑتے ہیں اور اس کی اشاعت اور ترویج میں حصہ لینے لگ جاتے ہیں لیکن ان کا کی یہ سلسلہ مخالفت کا اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرنا جہاں کھڑے ہونے کا شریعت انہیں حق نہیں دیتی لمبا ہوتا چلا جاتا ہے اور میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ان کا یہ سلسلہ لمبا چلتا چلا گیا اور ہماری جماعت کے آدمیوں نے بھی ان باتوں کو دہرانا شروع کر دیا جو ان کی جماعت کے ہی بعض افراد جن کی پوزیشن مصری صاحب سے ملتی ہے ان کے متعلق کہتے ہیں تو پھر
خطبات محمود ۸۵۸ سال ۱۹۳۸ء انہیں ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے.میں جانتا ہوں کہ اگر ہماری طرف سے اس قسم کے جواب دیئے گئے تو تھوڑے ہی دنوں میں ان کی جماعت چیخ پڑے گی.یہ محض میری شرافت ہے کہ بیس سال سے جو باتیں میں ان کے متعلق ان کے خاندان کے متعلق اور ان کی جماعت کے متعلق سنتا چلا آ رہا ہوں انہیں میں نے کبھی ظاہر نہیں کیا.کیونکہ میں کہتا ہوں کہ جس بات کو میں اپنے متعلق ناجائز سمجھتا ہوں میرا کوئی حق نہیں کہ میں اسے دوسروں کے متعلق جائز قرار دوں.کی یہی اسلام نے ہمیں سبق سکھایا ہے اور اس سبق کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کی ہمیں تعلیم دی ہے.پس میں ایسی باتوں کو نہ اپنے متعلق جائز سمجھتا ہوں اور نہ ان کے متعلق جائز سمجھتا ہوں مگر چونکہ وہ متواتر اس قسم کے حملے ہم پر کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں.اس لئے میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ خود شیشے کے محل میں بیٹھے ہیں.کہتے ہیں شیش محل میں بیٹھ کر دوسرے پر پتھر مارنا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی کیونکہ اگر دوسرے نے بھی پتھر مارنے کی شروع کر دیئے تو اس کا شیش محل چکنا چو رہو جائے گا.پس اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مخالف یا مرید کہلانے والے یا ہم عقیدہ کا کوئی اعتراض بیان کرنا جائز ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کا حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے درست سمجھتے ہوئے پھیلائیں اور یہ کہنا شروع کر دیں کہ تمام جماعت بگڑ گئی ہے اب نیکی اور تقویٰ کا تو نام و نشان تک نہیں رہا تو پھر مہربانی کر کے وہ چھینیں نہیں اگر ان کے متعلق ایسی ہی باتیں ہماری طرف سے شائع کر دی جائیں.باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ مرید ایسی باتیں کہتے ہیں سو مولوی صاحب نے اس امر کے بیان کرنے میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ مولوی صاحب کو معلوم ہے کہ مصری صاحب خلافت کے اس رنگ میں منکر ہیں جس رنگ میں ہم قائل ہیں اور جب انہیں ہم سے اختلاف مذہبی پیدا ہو چکا ہے تو ان کی ظاہری بیعت جو ارتداد سے پہلے تھی بیعت نہیں کہلا سکتی.باقی رہا کام تو ان کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا ایک مبلغ ہندوستان سے باہر کام کر رہا ہے تو ہمارے تمیں چالیس مبلغ کام کر رہے ہیں.رہا قرآن مجید کا ترجمہ تو اس کے متعلق میں اُن سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ترجمہ کی تاریخ کو دنیا کے سامنے لانے سے نہیں شرماتے تو ہم اس سوال کو بھی دینا کے سامنے لانے کے لئے تیار ہیں.ہمارے ترجمہ میں
خطبات محمود ۸۵۹ سال ۱۹۳۸ء بے شک دیر ہو گئی ہے مگر اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مولوی شیر علی صاحب کی صحت ایسی نہ تھی کہ وہ اس کام کو جلد کر سکتے اور ترجمہ کا شائع کرنا ہی اصل کام نہیں ترجمہ تو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی شائع نہیں کیا.ہاں علم قرآن کے بارے میں مولوی صاحب کو بار بار مقابلہ کا چیلنج دے چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ اگر انہیں علم قرآن کا دعوی ہے تو وہ میرے سامنے بیٹھ جائیں اور تفسیر نویسی میں مجھ سے مقابلہ کر لیں لیکن وہ کبھی بھی اس طرف نہیں آتے اور مجھے یقین ہے کہ اب بھی نہ آئیں گے وہ ہمیشہ ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بالکل سیدھی سادی بات ہے ایک رکوع یا ایک سورۃ قرعہ کے ذریعہ نکال لی جائے.پھر اس کی تفسیر وہ بھی لکھیں اور میں بھی لکھتا ہوں.اس تفسیر کو شائع کر دیا جائے پھر دنیا کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ علم کے دروازے کس پر کھولے گئے ہیں اس میں زیادہ شرائط کی بھی ضرورت نہیں.امن کے قیام کی ایک شرط رکھ لی جائے اور بالمقابل بیٹھ کر کسی کی رکوع یا کسی سورۃ کی تفسیر لھنی شروع کر دی جائے.بعد میں وہ دونوں شائع کر دی جائیں لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں گے کہ معارف قرآن کس پر کھولے گئے ہیں.مگر سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی تفسیر نویسی میں مقابلہ کا ذکر شروع ہو وہ ایسی شرائط پیش کرنے لگتے ہیں جن کا تفسیر نویسی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا بلکہ محض ایک اکھاڑہ جمانا مقصود ہوتا ہے حالانکہ تفسیر نویسی کے کام میں زیادہ تر آسانی انہیں حاصل ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کی ایک تفسیر پہلے سے لکھ چکے ہیں مگر میں نے کوئی تفسیر نہیں لکھی.پس وہ ظاہری حالات کے مطابق تفسیر کے لکھنے پر زیادہ قادر ہیں.ایسی ، تفسیر دنیا میں جب شائع ہو جائے گی لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں گے کہ زیادہ معارف کس نے بیان کئے ہیں اور دنیا کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ انبیاء بھی بوجہ مبلغ سماوی کی ہونے کے دنیا ہی کو مخاطب کرتے چلے آئے ہیں خلفاء بھی اسی کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوتے ہیں.علماء بھی دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے میں کوشاں رہتے ہیں.میرا کام بھی یہی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس صداقت کا قائل کروں جس کو میں صداقت سمجھتا ہوں اور مولوی صاحب کا بھی یہی کام ہے.پس بہترین فیصلہ کرنے والے وہی لوگ ہیں.ہماری تفسیر میں شائع ہو کر لوگوں میں پھیل جائیں گی لوگ خود فیصلہ کر لیں گے اگر ان کی تفسیر بہتر ہوئی کی
خطبات محمود ۸۶۰ سال ۱۹۳۸ء تو خود بخو دلوگوں کی رغبت ان کی طرف ہو جائے گی اور اگر میری تفسیر اعلیٰ ہوئی تو لوگوں کی رغبت میری طرف بڑھ جائے گی.اس کام کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ دونوں تفسیر میں ایک کی جلد میں چھپ جائیں.اس کے لئے ہمارے اکٹھا بیٹھنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ دونوں طرف کے نمائندے اکٹھے ہو کر قرعہ ڈال لیں اور ایک وقت مقرر ہو جائے کہ فلاں ٹکڑہ کی اتنے دنوں کے اندر تفسیر لکھی جائے پھر وقت مقررہ پر دونوں طرف کے نمائندے تفاسیر پیش کر دیں اور ہر فریق دوسرے کو کاپی دے دے جو بعد ازاں اکٹھی چھپ جائیں اور دونوں فریق اس کا خرچ برداشت کریں اور چھپنے پر برا بر برابر کا پہیاں لے لیں.66 ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اعجاز مسیح کے وقت اسی رنگ میں تفسیر لکھی ہے.اس مقابلہ میں یہ تو سوال ہی نہیں کہ الگ تفسیر لکھی گئی تو دوسرے لوگ مدد دے دیں گے کیونکہ اول تو یہ سہولت مولوی صاحب کو بھی حاصل ہوگی.دوسرے اس قسم کی تفسیر کی خوبی تو نئے معارف سے ظاہر ہوگی اور یہ معارف تو بہر حال عارف ہی بیان کر سکتا ہے.ورنہ ظاہری علم تو کی یقیناً مولوی صاحب کا مجھ سے زیادہ ہے اس کا تو انکار میں نے کبھی کیا ہی نہیں وہ ایم.اے ہیں اور میں پرائمری پاس بھی نہیں ہوں.میں ان کی اس فوقیت کا مقر ہوں مجھے تو جس امر میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ میری مدد کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ میری مدد کرتا ہے گویا الہی مدد اور نصرت کا سوال ہے کسی ذاتی علم کا سوال نہیں.پس وہ اس طریق کو اختیار کر کے دیکھ لیں جو میں نے تجویز کیا ہے.پھر خود بخودان پر واضح ہو جائے گا کہ اس میں مجھے ان پر فوقیت حاصل ہے لیکن اگر باوجود میرے اس طریق کو پیش کر دینے کے مولوی صاحب نے اپنے طریق کو نہ بدلا تو میں انہیں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں.لوگ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں اور وہ اس کو ناراض کرنے کے حیلے ڈھونڈ رہے ہیں اگر وہ اس کی طریق سے باز نہیں آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کے سامان کرے گا.وہ ہمارے متعلق بے شک جو چاہیں کہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ گو اقلیت میں ہیں مگر انہوں نے ایک بڑی اکثریت سے جو ہماری مخالف ہے صلح کی ہوئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک
خطبات محمود ۸۶۱ سال ۱۹۳۸ء بڑی اکثریت کو اُن سے ہمدردی ہے اور وہ انہیں مسلمان کہہ کہہ کر خوش کرتے رہتے ہیں.پس ی دنیوی طاقت کے لحاظ سے بے شک وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں مگر ہمارا اور ان کا مقابلہ دُنیوی طاقت سے نہیں یہ کوئی جسمانی لڑائی بھڑائی نہیں جس میں عدد اور شمار کا سوال زیادہ اہمیت رکھ سکتا ہو.یہ الہی مدد اور الہی گرفت کا سوال ہے.وہ جانتے ہیں کہ جو باتیں آج مصری صاحب میرے متعلق کہہ رہے ہیں ایسی ہی باتیں اُن کی پارٹی کے بعض آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا کرتے تھے.پس اگر ایسی باتیں کہنا کوئی ثبوت ہوتا ہے تو پھر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی چھوڑ دینا چاہیے اور ان کو معلوم ہے کہ ایسی ہی باتیں پہلے انبیاء وخلفاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک لوگوں کے متعلق ان کے دشمن کہتے چلے آئے ہیں.وہ مبالغہ سے بھی کام لیتے رہے ہیں، وہ جھوٹ سے بھی کام لیتے رہے ہیں ، وہ دھوکا اور فریب بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہزاروں ترکیبیں اپنی فتح کی ایجاد کرتے رہے ہیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے.اسی طرح اب انشاء اللہ دنیا دیکھ لے گی کہ میرے مخالف کا میاب نہ ہوں گے اور کی اللہ تعالی با وجود ان باتوں کے انہیں میری طرف کھینچ کھینچ کر لاتا جائے گا اور میرے ذریعہ سے انشاء اللہ احمدیت اور اسلام کی ترقی دنیا کے چاروں گوشوں میں ہوتی جائے گی اور دشمن حسد کی آگ میں جلتا چلا جائے گا.مجھے افسوس ہے کہ پہلے لوگوں کے حالات مولوی صاحب کے سامنے ہیں مگر باوجود اس کی کے وہ گند میں پتھر مارنے سے باز نہیں آتے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے یہ باتیں مشہور نہ ہو جائیں.حالانکہ ان کیچڑ اچھالنے والوں کو چندہ دینے والے بالعموم پیغامی ہی ہوتے ہیں.چند سال پہلے جب مستریوں کی طرف سے شورش اُٹھی تھی تو اس وقت بھی ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم نے ان کے لٹریچر کی اشاعت میں کوئی حصہ نہیں لیا.کی مگر بغداد سے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے.خو د احمد یہ بلڈنگز سے ایک غیر مبائع کو ایسا لٹریچر آتا رہا ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس غیر مبائع نے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی.میرا خیال ہے کہ یہ شہادت اُنہی دنوں الفضل میں بھی شائع کرا دی گئی تھی.اسی طرح ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ان کی انجمن کے بعض افسروں نے اپنے کلرکوں کو
خطبات محمود ۸۶۲ سال ۱۹۳۸ء.رفعے لکھے ہیں کہ فلاں شخص مثلاً مستری عبد الکریم کو اتنے روپے دے دو.ایک شخص ان لوگوں کی میں سے باغی ہو کر الگ ہو گیا تھا.اس نے ان کی انجمن کے تمام ریزولیوشنوں کی نقل اور اُن کی چٹھیوں کی کا پیاں تک مجھے بھجوا دیں وہ غالباً محاسب کے عہدہ پر کام کر چکا تھا.تو یہ درست نہیں کہ یہ لوگ ہمارے مخالفوں کی مدد نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ یہ خود انہیں اُکتاتے ہیں.خود ان کی مدد کرتے ہیں خود ان کی باتوں کو پھیلاتے ہیں اور روپے والے ان کی روپوں سے مدد کرتے ہیں.چنانچہ پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی لائل پور کا ایک پیغامی یہاں آیا اور اس نے ایک معقول رقم انہیں مدد کے طور پر دی اور وعدہ کیا کہ اگر ان کا کوئی آدمی لائل پور آئے تو وہ اور بھی مدد کر دیں گے.اسی طرح اور لوگ بھی ان کی مدد کرتے رہتے ہیں اور جب یہ معترض وہاں جاتے ہیں تو وہ ان کی کافی مدد کرتے رہتے ہیں.پس یہ غلط ہے کہ ان باتوں کے پھیلنے سے ان کو رنج ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں کے پھیلانے میں ان کا حصہ ہوتا ہے.لیکن ہمیں ان باتوں پر کوئی غصہ نہیں.کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس قسم کی باتیں کرنے والا زیادہ دیر تک لوگوں میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتا.آخر کب تک یہ حقیقت لوگوں کی نظر سے مخفی رہ سکتی ہے کہ ایک طرف تو یہ خود فتنہ کھڑا کر یں.خود اس فتنہ کی آگ کو ہوا دیں خود فتنہ پردازوں کی مدد کریں، خود ان کی باتوں کو لوگوں میں پھیلائیں اور پھر بڑے ناصح اور مشفق بن کر کہنے لگ جائیں کہ ہمیں ان باتوں کا سخت صدمہ ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ باتیں کہیں پھیل نہ جائیں تو یہ بات دنیا کے علم سے زیادہ دیر با ہر نہیں رہ سکتی لیکن میں سمجھتا ہوں کوئی وقت ایسا بھی آ جایا کرتا ہے جب کہ عفو کرنا جائز نہیں ہوتا.پس ممکن ہے ہم پر بھی کبھی وہ وقت آ جائے جب کہ ہمارے لئے عفو اور خاموشی نا جائز ہو جائے اور ہم کو بھی اُن کے مقابلہ میں ان کی باتوں کی تشہیر کرنی پڑے اور اگر ایسا موقع پیش آیا تو یقیناً اس کی ذمہ داری پیغامیوں کی جماعت پر ہی ہوگی اور پھر کوئی پیغامی ہم پر ناراض نہ ہو بلکہ تج اپنے امیر پر ناراض ہو کیونکہ وہ متواتر اس طریق کو اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں جو شرافت اور تہذیب کے بالکل خلاف ہے.لاہور کے ایک ہندو جو ہندوؤں کے مشہور لیڈر ہیں ان کی لڑکی کے متعلق کئی سال ہوئے
خطبات محمود ۸۶۳ سال ۱۹۳۸ء اخبارات میں بڑا شور اٹھا کہ اس کی خط و کتابت کسی شخص سے پکڑی گئی ہے.الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ فلاں ہندو کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں.یہ واقعہ ایسا مشہور ہے کہ باوجود اس کے کہ کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب تک بھی کبھی کبھی اخبارات میں اس کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے چنانچہ آٹھ دس دن ہوئے ایک ہندو اخبار میں نے کھولا تو کی اس میں ایک مقام پر اس لڑکی کا ذکر تھا اور لکھا تھا کہ اس کے فلاں سے تعلقات تھے اور گواس نے نام بھی لکھ دیئے اور بیسیوں اخبارات میں بھی یہ بات آ چکی ہے مگر میں اب بھی یہ پسند نہیں کی کرتا کہ ان کے نام لوں، تو الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یہ شخص سلسلہ کا سخت مخالف ہے.اب خدا نے ہمیں ایک موقع عطا کیا ہے اس کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں بہتر ہے کہ ہم بھی اس واقعہ کا اپنے اخبار میں ذکر کر دیں.میں نے اسے کہا بیشک خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ موقع دیا ہے مگر یہ موقع خدا تعالیٰ نے تمہیں اپنی شرافت کے اظہار کا دیا ہے تمہیں چاہئے کہ تم اس کے خلاف پروٹسٹ کرو کہ ایک مسکین اور بے کس لڑکی کے خلاف اخبارات میں جو پراپیگنڈا کیا جارہا ہے یہ نہایت ہی کمبینہ پن اور اخلاق سے گرا ہوا فعل ہے.چنانچہ ہمارے اخبار میں عام اخبارات کے رویہ کے خلاف پروٹسٹ کیا گیا مگر اس ہندو لیڈر نے ہمیں اس کا یہ بدلہ دیا کہ جب مستریوں کا فتنہ اُٹھا تو اس نے ہمارے خلاف خوب لکھا.مجھے جب اس کا علم ہوا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے سمجھا اب کسی شریف آدمی کے سامنے بھی یہ دونوں باتیں رکھ دی جائیں کہ ہم نے اس سے کیا سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تو یقیناً ہماری ہی فتح ہوگی اور ہر شریف انسان کے دل میں ہماری عزت اور عظمت بیٹھ جائے گی.آجکل بھی اس کے بیٹے کے متعلق اخبارات میں بعض حملے ہوئے تو ہمارے اخبار نے میرے اسی حکم کے مطابق جو میں نے اس وقت دیا تھا اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا حالانکہ جس طرح وہ ہمارے خلاف ہمیشہ لکھتا رہتا ہے، اس کے لحاظ سے اگر وہ چاہتے تو وہ خود بھی اس واقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے خلاف لکھ سکتے تھے مگر انہیں چونکہ میری پالیسی کا علم تھا اس لئے انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور میں سمجھتا ہوں اگر پھر بھی کبھی اس پر یا اس کے خاندان کے کسی فرد پر کوئی غیر شریفانہ حملے ہوئے تو ہم کبھی حملہ کرنے والوں کی حمایت نہیں کریں گے اور کبھی
خطبات محمود ۸۶۴ سال ۱۹۳۸ء وہ طریق اختیار نہیں کریں گے جو وہ ہمارے متعلق اختیار کرتا رہا ہے کیونکہ شریف شرافت سے بدلہ لیا کرتا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک افسر تھا جسے اپنے ماتحت سے ضد تھی اور وہ کبھی کبھی اس پر سختی کر لیا کرتا تھا.ایک دفعہ اس نے اسے گالی دے دی وہ ماتحت بہت با غیرت نو جوان تھا اسے یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی مگر چونکہ وہ افسر کے مقابلہ میں کچھ کر نہیں سکتا تھا اس لئے خاموش ہورہا.کچھ عرصہ کے بعد جنگ چھڑ گئی اور اسی افسر کو ایک بالا افسر کی طرف سے کی ایک پہاڑی فتح کرنے کا حکم دیا گیا اور اسے تاکید کی گئی کہ جس طرح بھی ہو یہ پہاڑی ضرور فتحی کی جائے اس نے بہت زور لگایا مگر وہ اس پہاڑی کو فتح نہ کر سکا.جب وہ عاجز آ گیا تو اس نے کی تمام سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور کہا آج میری اور تمہاری عزت کا سوال ہے اور مجھے ایسے نوجوان کی درکار ہیں جو اپنی جان قربان کرنے اور موت کو قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.چونکہ ی اس پہاڑی کو فتح کرنا یقینی موت تھا اس لئے اس نے جبری حکم نہ دیا بلکہ کہا کہ جو شخص خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہے وہ آگے آئے یہ سن کر وہی نو جوان جسے اس نے گالی دی تھی آگے بڑھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیا.اسے دیکھ کر اور نو جوان بھی آگے بڑھے اور انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا.چنانچہ ان سب نے پہاڑی پر دھاوا بول دیا اور اس نوجوان نے تو ایسی بے جگری سے حملہ کیا کہ اپنی طرف سے موت قبول کرنے میں اس نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.جہاں گھمسان کی لڑائی ہوتی وہاں وہ پہنچ جاتا اور جہاں زیادہ خطرہ ہوتا کی اس میں بے دھڑک گو دجا تا.آخر یہ جد و جہد نتیجہ خیز ہوئی اور وہ پہاڑی فتح ہو گئی.فتح کے بعد نام چونکہ افسر کا ہی ہونا تھا اور اعزاز افسر کو ہی ملنا تھا اس لئے وہ بڑی خوشی کے ساتھ نیچے کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہا تھا.جب فتح کے بعد وہ نو جوان واپس آیا تو افسر نے آگے بڑھ کر اس کی کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں مگر جب اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو نو جوان نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا.آپ کو یاد ہے آپ نے فلاں وقت مجھے گالی دی تھی.میرے دل میں اس گالی کا احساس تھا اور میں نے آج اس گالی کا آپ سے اسی طرح بدلہ لے لیا ہے جس طرح ایک شریف بدلہ لیا کرتا ہے.کیونکہ میری اس قربانی کی وجہ سے آپ کا نام مشہور ہوگا.آپ کو رتبہ میں ترقی ملے گی اور آپ کو اعزازی خطاب مل جائیں گے.
خطبات محمود ۸۶۵ سال ۱۹۳۸ء شریف اسی رنگ میں بدلے لیا کرتے ہیں مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض دفعہ جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر کسی حد تک ان باتوں کا جواب بھی دینا پڑتا ہے.عیسائی ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کیا کرتے تھے اور مسلمان چونکہ ان کے حملوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے.اس لئے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے بانی میں عیب ہی عیب ہیں اگر کسی میں عیب نہیں تو وہ کی یسوع کی ذات ہے وہ مسلمانوں کی شرافت کے غلط معنی لیتے تھے.وہ سمجھتے تھے چونکہ ہم گند اُچھالتے ہیں اور یہ نہیں اُچھالتے اس لئے معلوم ہوا کہ واقع میں ان کے سردار میں یہ باتیں کی پائی جاتی ہیں.دنوں کے بعد دن گزرے، ہفتوں کے بعد ہفتے ، سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں سات آٹھ سو سال تک عیسائی متواتر گند اچھالتے رہے اور مسلمان انہیں معاف کرتے رہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اب ذرا تم بھی ہاتھ دکھاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہمیں تم میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا نہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یسوع کو مخاطب کرتے ہوئے وہ باتیں لکھنی شروع کیں کی جو یہودی آپ کے متعلق کہا کرتے تھے یا خود مسیحیوں کی کتابوں میں لکھی تھیں.ابھی اس قسم کی دو چار کتابیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے لکھی تھیں کہ ساری عیسائی دنیا میں شور مچ گیا کہ یہ طریق اچھا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی ہم نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا طریق اچھا نہیں مگر تم نے ہماری بات کو نہ سمجھا.آخر جب خود تم پر زد پڑنے لگی تو تمہیں ہوش آگیا اور تم کہنے لگ گئے کہ یہ طریق درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض دفعہ اس کے متعلق ایک لطیفہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض دفعہ حقیقت معلوم کرنے اور دوسرے کا جائزہ لینے کے لئے انسان کو ایسا طریق بھی اختیار کرنا پڑتا ہے جو عام طریق کے مخالف ہوتا ہے.چنانچہ آپ فرماتے کہ کوئی سکھ صاحب تھے ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں ، داڑھی بھی ان کی بڑی لمبی تھی اور چہرے پر قدرتی طور پر بال بھی بہت زیادہ تھے.سکھوں میں چونکہ مذہباً بال کٹوانے منع ہیں اس لئے ان کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے وہ ایک دن اپنے چبوترہ پر بیٹھے تھے اور بالوں کی کثرت کی وجہ سے حال یہ تھا کہ ان کے ہونٹ بالکل چھپے ہوئے تھے مسلمان چونکہ مونچھیں کتر واتے رہتے ہیں اس لئے ان کے ہونٹ
خطبات محمود ۸۶۶ سال ۱۹۳۸ء صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں مگر ان سکھ صاحب کے بال چونکہ قدرتاً بہت بڑے بڑے تھے اور پھر انہوں نے مذہبی لحاظ سے ان بالوں کو کبھی تر شوایا بھی نہیں تھا اس لئے مونچھوں اور کی چہرے اور داڑھی کے بالوں سے ان کے ہونٹ بالکل چھپ گئے تھے اتفاقاً ان کے پاس سے کوئی مسلمان گزرا اور وہ کھڑا ہو کر حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگ گیا.مزید ا تفاق یہ ہوا کہ اس وقت وہ سکھ صاحب کسی فکر میں خاموش بیٹھے تھے ، اب یہ دیکھ دیکھ کر حیران تھا کہ یہ کیا تماشہ بنا ہوا ہے مگر اسے کچھ سمجھ نہ آئی.آخر قریب آ کر اس نے ان سکھ صاحب کے ہونٹوں کے قریب ہاتھ مارا یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کے ہونٹ بھی ہیں یا نہیں.اب ایک بھلا مانس بیٹھا ہوا ہو اور کوئی گزرنے والا اس کے منہ پر ہاتھ مارنا شروع کر دے تو اسے لازماً غصہ آئے گا.سردار صاحب نے بھی آنکھیں کھول کر اسے سخت سست کہنا شروع کر دیا اور کہا نا معقول یہ کیا حرکت کرتا ہے وہ کہنے لگا سردار جی معاف کرو اتنا ہی دیکھنا تھا کہ آپ بولتے کس طرح ہیں.تو بعض دفعہ کسی کی دوسرے پر اس کی حقیقت واضح کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ خود کو ئی مخفی حقیقت معلوم کرنے کی تڑپ ہوتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں بعض دفعہ ایسے امور بھی زیر بحث لانے پڑتے ہیں جن کو عام حالات میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا.میرا طریق یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس سے بچا جائے لیکن اگر کوئی شخص ہمیں اس پر مجبور کر دے یا ضرورت ہمیں یہ طریق اختیار کرنے پر مجبور کر دے تو پھر اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہو سکتی.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو عیسائیوں نے اس امر پر مجبور کر دیا تھا کہ آپ یسوع کے حالات بے نقاب کریں.مگر جب کی آپ نے انہی کی کتابوں میں سے حالات بیان کرنے شروع کر دیئے تو عیسائی گھبرائے اور انہوں نے رفتہ رفتہ اس طریق کو ترک کر دیا جس طریق کو وہ پہلے بڑی شد و مد کے ساتھ استعمال ، کیا کرتے تھے.چنانچہ پہلے تو ان کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پے در پے ایسے رسائل نکلتے تھے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی تھی مگر اب ہندوستان میں عام طو پر عیسائی ایسا نہیں کرتے یورپ میں ابھی ویلز اور فشر جیسے عیسائی مصنفین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بعض اس قسم کے توہین آمیز کلمات لکھ دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ابھی ان کو اس رنگ میں جواب نہیں دیا گیا جس رنگ میں جواب دینا ایسے.
خطبات محمود ۸۶۷ سال ۱۹۳۸ء عیسائیوں کو ساکت کر سکتا ہے لیکن اگر ہم نے یورپ میں اس قسم کے جوابات شائع کرنے شروع کی کر دیئے تو پھر عیسائی ہماری منتیں کرنے لگ جائیں گے کہ ایسا نہیں چاہیے اور میرا ارادہ ہے کہ اگر یورپ کے عیسائی اس طریق سے باز نہ آئے تو انگلستان میں بھی اپنے مبلغین کو اسی قسم کا جواب دینے کی ہدایت کر دوں پھر انہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ یہ طریق کہاں تک پُر امن ہے.اب تو وہاں کی گورنمنٹ یہ کہہ دیا کرتی ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے مصنفین کے خلاف کا رروائی کرنے کے لئے کوئی قانون نہیں لیکن جب ہم بھی ایسی باتوں کو شائع کریں گے تو اس کی وقت دیکھیں گے کہ وہاں کوئی قانون بنتا ہے یا نہیں.تو اس قسم کی مجبوریاں بعض دفعہ انسان کو اپنا کی طریق بدلنے پر مجبور کر دیا کرتی ہیں لیکن جب تک مجبوریاں نہ ہوں ہم اپنا پہلا طریق عمل ہی جاری رکھیں گے اور کہیں گے کہ ان باتوں کا خدا خود فیصلہ کرے گا ہمیں جواب دینے کی کیا ضرورت ہے ہاں جب الہی قانون ہمیں اس بات کی ہدایت کرے کہ تم جواب دو تو پھر ہم کی جواب دینے پر مجبور ہو نگے اور میں جانتا ہوں کہ پھر یہی لوگ ہمارے آگے ہاتھ جوڑیں گے اور کی کہیں گے یوں نہیں کرنا چاہیے.مجھے مجبوراً آج ان امور کے متعلق کچھ کہنا پڑا ور نہ ان دنوں میں تحریک جدید کے متعلق خطبوں میں مشغول ہوں اور آج بھی کچھ نہ کچھ اس موضوع کے متعلق کہنا چاہتا ہوں گواب تین کی بجنے والے ہیں اور وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے مگر پھر بھی میں دو چار منٹ میں ایک اہم امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دیتا ہوں.میں بتا چکا ہوں کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے اور اس ملک میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور سلسلہ کے کاموں کو مضبوطی سے چلانے کے لئے مجھے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.میں شروع سے بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ تحریک جدید کا کام وسیع کرنے کے لئے ہماے پاس روپیہ نہیں.اگر ساری جماعت اپنی ساری دولت بھی دے دے تب بھی اتنا روپیہ ہمارے ہاتھ میں نہیں آ سکتا جس کے ذریعہ سے ہم اس کام کو سرانجام دے سکیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے.اگر ہم کام کر سکتے ہیں تو اسی طرح کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور وہ قلیل گزاروں پر جو ان کی حیثیت کے لحاظ سے قلیل ہوں کام کریں.چونکہ حقیقت بھی یہی ہے کی
خطبات محمود ۸۶۸ سال ۱۹۳۸ء اور تجربہ سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ جب تک مبلغ اعلیٰ پایہ کی علمی قابلیت نہ رکھتے ہوں ، اس وقت تک تبلیغ سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم ان نو جوانوں کو تعلیم دلائیں.نہ صرف دینی بلکہ دنیوی بھی تا کہ بیرونی ممالک میں جب وہ کام کرنے کے لئے نکلیں تو ان کی راہ میں کوئی روک واقع نہ ہو.پس ہر نو جوان کو دو تین سال تک تعلیم دینے کے بعد پھر کام پر لگایا جائے گا بلکہ ڈیڑھ دو سال تو قادیان کی تعلیم پر ہی جو مذہبی اور دینی تعلیم ہے خرچ ہو جائیں گے اور ڈیڑھ دو سال انہیں بیرونی ممالک میں سے کسی ملک میں کی انگریزی یا عربی کی تعلیم دلانی پڑے گی تب کہیں جا کر وہ کام کے قابل بن سکیں گے.پس اس کی کے لئے آج ہی تیاری کی ضرورت ہے.میں نے بتایا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس ۱۲ نوجوان کی ہیں جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہیں یا عربی کے گریجوایٹ ہیں لیکن ابھی اور بہت سے نو جوانوں کی ضرورت ہے.پہلے کام کو شروع کرنے کے لئے بھی اور آئندہ کام کو وسیع کرنے کے لئے بھی.پس میں آج پھر اپنی جماعت کے نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے آگے آئیں اور اس جوش کا ثبوت دیں جس کا اظہار وہ اس طرح کیا کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں احمدیت کی عزت کی حفاظت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.آجکل اسلام کو اس کی ضرورت نہیں کہ تلوار اور بندوق سے جنگ کر کے جان قربان کی جائے بلکہ آجکل اپنی کی جان قربان کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ نوجوان اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کی کے لئے صرف کر دیں اگر ہماری جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیں تو وہ دشمن کو کہہ سکتے ہیں کہ تم تو کہتے ہو یہ جماعت گندی ہوگئی ، اس جماعت میں کوئی قربانی کی روح نہیں رہی، یہ دین سے غافل اور لا پروا ہو چکی ہے پھر اگر یہ جماعت ایسی ہی ہے تو ہم لوگ کہاں سے پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنی زندگی کی ہر گھڑی خدا تعالیٰ کے دین کے اغلاء کے لئے وقف کر دی ہے.یہ بہترین جواب ہوگا جو ہمارے نوجوان اپنے عمل سے دشمنوں کو کی دے سکتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقف کی شرائط وہی ہیں جو شائع ہو چکی ہیں بعض لوگ یونہی اپنے نام پیش کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ مجبوریاں اور کچھ شرطیں بھی لکھ دیتے ہیں.یہ بالکل نادرست طریق ہے ہماری طرف سے جس قدر شرائط ہیں وہ چھپی ہوئی موجود ہیں.
خطبات محمود ۸۶۹ سال ۱۹۳۸ وہ دیکھ لی جائیں اور ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی شخص تیار ہو تو وہ ہماری طرف آئے.یونہی اپنا نام پیش کر دینا اور پھر عذرات بیان کرنے لگ جانا مومنانہ طریق نہیں بلکہ اس طرح اپنے آپ کی کو پیش کرنا گناہ کا موجب ہے کیونکہ اس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص جھوٹی شہرت چاہتا ہے.میں بتا چکا ہوں کہ اب کی دفعہ صرف ایسے ہی لوگ لئے جائیں گے جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہوں یا عربی کے.اگر کوئی نوجوان اپنی تعلیم کے ایسے حصہ میں ہو جس سے وہ عنقریب فارغ ہونے والا ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے.گو فیصلہ اسی وقت ہوگا جب ہ اپنی تعلیم سے فارغ ہو جائے گا مثلاً وہ نوجوان جنہوں نے اب کی دفعہ بی.اے کا امتحان دینا ہے یا جو وکالت یا ڈاکٹری کی تیاری کر رہے ہیں وہ اگر چاہیں تو اپنے آپ کو وقف کر سکتے ہیں.ان کے بقیہ زمانہ تعلیم میں ہمیں بھی علم ہو جائے گا کہ ہم انہیں لے سکتے ہیں یا نہیں اور انہیں خود بھی علم ہو جائے گا کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں.اس زمانہ میں نوکریوں کا ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور اگر کسی کو نوکری ملتی بھی ہے تو معاوضہ اتنا قلیل ملتا ہے کہ گزارہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے.پس اگر انسان نے تعلیم سے فارغ ہو کر گھر میں بیٹھ کر ہی روٹی کھانی ہے تو کیوں کی نہیں وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتا اور سمجھ لیتا کہ گھر میں بیکار بیٹھنے سے یہ کروڑ درجے بہتر ہے کہ انسان دین کی خدمت کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کرے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی دعا کی حاصل کرتا رہے.یہ کتنا بڑا اعزاز ہے جوا سے حاصل ہو سکتا ہے.مگر کئی آدمی گھر میں بیٹھے مکھیاں نی مارتے رہیں گے اور ہر روز اخبارات دیکھتے رہیں گے کہ کہیں اس میں کوئی ملازمت کا اعلان تو نہیں اور جب انہیں کوئی اعلان نظر آئے گا تو فوراً درخواست بھیج دیں گے.چند دن بعد جواب آ جائے گا کہ جگہ پر ہو گئی ہے یا ہمیں جس لیاقت کا آدمی چاہیے تھا وہ تم میں نہیں.یا انٹرویو کے لئے آجاؤ مگر آنے جانے کا خرچ تمہارا ہو گا.یہ پندرہ بیس روپے خرچ کر کے وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہاں چار پانچ سو امیدوار ہیں جو ان سے لیاقت میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں اور یہ ان میں ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں جیسے اونٹوں میں بنی.چنانچہ یہ وہاں سے ناکام و نامراد گھر واپس آئیں گے ماں باپ گالیاں دیں گے کہ بے حیا ہمیں تجھ سے امید تھی کہ تو ہماری مدد کرے گا
خطبات محمود ۸۷۰ سال ۱۹۳۸ء ނ مگر تو نے اُلٹا ہم پر دس پندرہ روپے کا مزید قرض چڑھا دیا.یہ حالات ہیں جو آ جکل عام طور پر کچھ نو جوانوں کو پیش آتے رہتے ہیں.پھر کیوں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ جب خدا نے ہمیں ایک ایسی جماعت میں پیدا کیا ہے جو دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہے تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ اعزاز حاصل کیا جائے.جس.بڑا اور کوئی اعزاز نہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ایسے ہی لوگ لیں گے جو ہمارے معیار پر پورے اُتریں گے اور جن کے متعلق ہمیں یہ یقین ہوگا کہ وہ ہمارے کام کے اہل ہیں.بعض ممکن ہے محنتی نہ ہوں بعض ممکن ہے اچھی تقریر نہ کر سکتے ہوں.اسی طرح ممکن ہے بعض میں دین کی محبت اور اخلاص کم ہو.بعض کے متعلق شبہ ہو کہ وہ سچائی کے معیار پر پورے نہیں اتریں گے بعض علوم میں ترقی کی قابلیت نہ رکھتے ہوں اور چونکہ اس قسم کے تمام امکانات ہو سکتے ہیں.اس لئے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں گے اُن میں سے ہم مناسب حال نوجوانوں کو چُنیں گے.مگر بہر حال جو اپنے آپ کو پیش کریں گے انہی میں سے ہم چنیں گے جو اپنے آپ کو پیش ہی نہیں کریں گے ان کا انتخاب ہم کس طرح کر سکتے ہیں.پس میں آج کے خطبہ کے ذریعہ پھر اعلان کرتا ہوں کہ جو دوست گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں یا فنون عالیہ سیکھ رہے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں تا ہم انتخاب کر کے اُس تعداد کو پورا کر سکیں جس تعداد کو پورا کرنا اس کی دوسرے دور میں میرا منشاء ہے.اگر ایسے نوجوان ہمیں جلد میسر آجائیں تو وہ موجودہ نو جوانوں کے ساتھ ہی تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے.گو ان کی نو ماہ سے پڑھائی شروع ہے مگر نو ماہ کی کی پڑھائی کی کمی کو پورا کرنا ان کے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا.اگر وہ توجہ اور محنت سے کام کریں گے تو امید ہے کہ یہ کمی بہت جلد پوری کر لیں گے اور اس طرح ہمارے لئے بھی آسانی رہے گی کہ ہمیں دو دفعہ سکول نہیں کھولنا پڑے گا اور نہ دو دفعہ مدرسوں کو ان کی تعلیم کے لئے مقرر کرنا پڑے گا لیکن اگر جلد یہ تعداد پوری نہ ہوئی تو دو سال ان کی تعلیم اور پیچھے جا پڑے گی.اور کی اس کام میں زیادہ وقفہ پڑ جائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح پہلے نو جوانوں نے دلیری کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا ہوا ہے اسی طرح اور نوجوان بھی اپنے آپ کو پیش کریں گے.میرے پہلے اعلان کے بعد اس وقت تک پانچ سات درخواستیں آچکی ہیں مگر یہ تعداد کافی نہیں
خطبات محمود ۸۷۱ سال ۱۹۳۸ء اور انتخاب کے لئے تو اس سے بہت زیادہ تعداد کی ضرورت ہے.پس دوست اپنے آپ کو وقف کریں مگر یہ ضروری ہوگا کہ وہ بلا شرط اپنی زندگی وقف کریں.جو شخص کسی شرط کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اس کا وقف بالکل فضول ہے.یہ ساری عمر کا وقف ہوگا اور ان کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ پیچھے ہیں.ہاں ہمیں یہ اختیار ہر وقت حاصل رہے گا کہ ہم چاہیں تو انہیں شروع میں ہی رڈ کر دیں اور چاہیں تو کام کے دوران میں ان کو فارغ کر دیں.ہم ایسے نوجوانوں کو پہلے دین کی تعلیم دلائیں گے اور صحیح اسلامی تمدن انہیں بتائیں گے اس کے بعد انہیں د نیوی تعلیم دلائیں گے اور پھر ہم ان سے یہ امید رکھیں گے کہ وہ اپنی زندگی اسلام اور احمدیت کی اشاعت بنی نوع انسان کی ہمدردی اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے صرف کر دیں ہمیں ایسے نوجوان نہیں چاہئیں جو حکومت کے طالب ہوں بلکہ ہمیں وہ نو جوان چاہئیں جو بچے طور پر غرباء کی خدمت اور اپنے سلسلہ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.میں ان واقفین کے ذریعہ وہ جماعت تیار نہیں کرنا چاہتا جو افسروں کی جماعت ہو بلکہ وہ جماعت تیار کرنا چاہتا ہوں جس کے ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ میں نے جماعت احمدیہ کی خصوصاً اور بنی نوع انسان کی عموماً خدمت کرنی کی ہے.جب تک اس رنگ میں کام کرنے والے ہمیں نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ تمدن قائم نہیں ہوسکتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں قائم کیا تھا اور جس کے قائم کرنے کی کی آپ نے تعلیم دی ہے.ہاں یہ یاد رکھو کہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے لئے ذلت اختیار کرتا ہے وہ بہت زیادہ عزت حاصل کرتا ہے.کوئی تم میں سے یہ خیال نہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر کے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کی کرلے گا.ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں دوغلی حکومت ہوتی ہے.آدھی خدا کی اور آدھی شیطان کی.ایسا شخص کبھی ذلت بھی دیکھ لیتا ہے مگر وہ جس کے دل پر خالص خدا تعالیٰ کی حکومت ہو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ غرباء کی کوئی قدر نہیں.بے شک دنیا میں غرباء کی کی کوئی قدر نہیں مگر وہ جو خالص خدا تعالیٰ کے لئے غریب ہو اس کی پھر بھی عزت ہوتی ہے مگر وہ جو دوغلی چال چلے وہ اگر کسی وقت عزت پالیتا ہے تو دوسرے وقت ذلیل بھی ہو جاتا ہے.آخر خود ہی غور کر وحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کون سے امیر تھے.حضرت خلیفہ اول کا اتنا
خطبات محمود ۸۷۲ سال ۱۹۳۸ء سادہ لباس ہوا کرتا تھا کہ اس کی کوئی حد نہیں.مگر باوجود اس کے بڑے سے بڑا آدمی آپ کی عزت کی کرنے پر مجبور ہوتا تھا.اسی طرح مجھے دنیوی لحاظ سے کونسی دولت حاصل ہے مگر دنیا میں کون ہے جو مجھے ذلیل سمجھ سکے.کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسے شکست ہی کھانی پڑتی ہے تو عزت کے مختلف موجبات ہوا کرتے ہیں کبھی دولت عزت کا موجب ہوتی ہے اور کبھی علم عزت کا موجب ہوتا ہے اور کبھی عرفان عزت کا موجب ہوتا ہے.دولت ہمارے پاس نہیں مگر علم روحانی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے.اگر ہماے پاس امراء آتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ ہم سے کسی جائیداد کے طالب ہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ روحانی فائدہ حاصل کریں.اگر نواب آتے ہیں تو وہ بھی اسی لئے اور یہ خزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے.اسی طرح اگر کوئی عالم ہمارے پاس آئے گا تو اس لئے نہیں کہ ہم اس کا کوئی وظیفہ مقرر کر دیں بلکہ وہ کوئی علمی فائدہ ہم سے اُٹھانا چاہے گا یا اپنے علمی خیالات کے متعلق ہم سے تبادلہ خیالات کرنا چاہے گا اور یہ ذخیرہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت دیا ہوا ہے اس کے مقابلہ میں ہم کسی کے دروازے پر جاتے ہی نہیں.پس اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ وہ کی کیا سمجھے گا.وہ جو جی میں آئے سمجھے مگر جو ہمارے پاس آئے گا وہ وہی چیز لینے آئے گا جو علمی رنگ میں ہمارے پاس ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہے اسی لئے صوفیاء نے کہا ہے سالکین کو امراء کے دروازوں پر نہیں جانا چاہیے.چنانچہ وہ کہتے ہیں بِئْسَ الْفَقِيرُ عَلَى بَابِ الْاَمِيْرِ وہ فقیر جو کسی امیر کے دروازے پر جاتا ہے وہ بہت ہی ذلیل ہوتا ہے.اسے کس نے کہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑے اور دوسرے کے دروازے پر جا کر بھیک مانگے.پس اگر یہ دوسرے کے دروازے پر جاتا نہیں اور خود اس کے پاس دولت نہیں تو جو شخص اس کے پاس آئے گا روحانی علم سیکھنے ہی آئے گا اور جب وہ علم سیکھنے کے لئے آئے گا تو لازماً عزت کرنے پر بھی مجبور ہوگا.کہتے ہیں ایک فلسفی غالباً دیو جانس اس کا نام تھا.سکندر نے اس کی شہرت سنی تو اس نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا چلو دیو جانس کی چل کر زیارت کریں.لوگوں نے کہا وہ سخت مزاج آدمی ہے آپ کی کوئی ہتک کر بیٹھے گا آپ اس کے پاس نہ جائیں.وہ کہنے لگا کیا حرج ہے.
خطبات محمود ۸۷۳ سال ۱۹۳۸ء ہم نے اس سے اپنی عزت کروانے تھوڑا جانا ہے ہم تو اس سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں چنا نچہ سکندر وہاں گیا وہ اپنے مکان کے صحن میں لیٹا ہوا تھا دیو جانس دراصل ان لوگوں میں سے تھا جو دنیا کو بالکل چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے سادھو ہوتے ہیں.پس وہ بھی ایک سادھو تھا اسلامی صوفیوں کی طرح نہیں تھا.سکندر اس کے پاس کھڑا رہا مگر دیو جانس نے اس کی طرف منہ پھیر کر بھی نہ دیکھا.تھوڑی دیر کھڑا رہنے کے بعد سکندر اسے کہنے لگا کوئی میرے لائق خدمت.دیو جانس اُس وقت دھوپ سینک رہا تھا وہ کہنے لگا میں دھوپ سینک رہا تھا آپ نے آ کر دھوپ روک لی ہے.بس آپ کے لئے اتنی خدمت ہی کافی ہے کہ سامنے سے ہٹ جائیے اور مجھے دھوپ سینکنے دیجئے.سکندر اس کی اس بات کو سن کر حیران ہو گیا اور خاموشی سے واپس چلا آیا.اب دیکھو اس فلسفی نے دنیا سے چونکہ اپنی کوئی غرض نہیں رکھی تھی اس لئے سکندر جیسا بادشاہ بھی اس کے پاس جانے اور اس کی عزت کرنے پر مجبور ہو گیا.تو ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں کچھ نہ کچھ دنیا رہ جاتی ہے اور چونکہ اس کے دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے وہ محبت اسے ذلیل کر دیتی ہے.اگر یہ دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دے اور اس کے تن پر کپڑا بھی نہ ہو تو پھر بھی کون ہے جو اسے ذلیل سمجھ سکے.پس یہ مت خیال کرو کہ دنیوی دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے تم ذلیل ہو جاؤ گے.ذلیل وہی ہوتا ہے جو آدھا خدا کا ہوتا ہے اور آدھا شیطان کا اور آدھا تیتر آدھا بٹیر خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا.یہ ادھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اُدھر بندوں کے آگے اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ مجھ پر رحم کرو.مگر وہ جو دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دیتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے بادشاہت ملی تو میں بادشاہت لے لوں گا اور اگر فقیری ملی تو فقیری قبول کرلوں گا.اگر تخت ملا تو تخت پر بیٹھ جاؤں گا اور اگر پھانسی کا تختہ ملا تو اس پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاؤں گا.ایسے شخص کو کوئی نہیں جو ذلیل سمجھ سکے.یہ خود کسی کے پاس اپنی کوئی تج غرض لے کر جائے گا نہیں اور جو اس کے پاس آئے گا وہ اس سے کوئی علمی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہی آئے گا اور اگر یہ سچا مومن ہے تو یہ خزانہ اس کے پاس اس کثرت سے ہوگا کہ باوجود خرچ کرنے کے ختم ہونے میں نہیں آئے گا.پس دین کی خدمت اور خدا تعالیٰ کی محبت میں ہر قسم کی عزت ہے بشرطیکہ دنیا کا رُعب دل سے مٹ جائے اور خدا تعالیٰ کا رُعب دل پر
خطبات محمود ۸۷۴ سال ۱۹۳۸ چھا جائے اور دراصل ایسے شخص کا وقف ہی حقیقی وقف ہے.پس میں آج پھر جماعت کے نوجوانوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو اور اپنے عمل سے دشمن کو یہ جواب دو کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی خدمت میں تم سے ہزاروں گنے بڑھ کر ہیں.اس وقت تک ہی جس قد ر نو جوانوں نے ہماری جماعت میں سے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اگر مولوی محمد علی صاحب جو یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی جماعت شب و روز تبلیغ اسلام کر رہی ہے ان کا مقابلہ اپنی جماعت کے نو جوانوں سے کریں تو انہیں پتہ لگ جائے کہ کونسی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور کونسی جماعت ہے جس میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے.اگر ان میں ہمت ہے تو وہ کی بتائیں کہ ان کی جماعت کے کتنے گریجوایٹ اور مولوی فاضل ہیں جنہوں نے ان شرطوں پر اپنے آپ کو وقف کیا ہے جن شرائط پر ہماری جماعت کے نو جوانوں نے اپنے آپ کو وقف کیا کی ہوا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں بھی ہماری جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن میں کہتا ہوں جتنا کام ہو چکا ہے تم اس سے بھی زیادہ شاندار نمونہ دکھاؤ.پس میں پھر جماعت کے نو جوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار قربانیوں کی کے ذریعہ اس امر کو ثابت کر دیں گے کہ ہماری جماعت دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہے اور جھوٹا ہے کی وہ شخص جو کہتا ہے کہ تقویٰ اس جماعت کے دلوں میں سے نکل گیا.تقویٰ کا نمونہ اگر اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت دکھا رہی ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت ہے وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ لَا رَادَّ لِفَضْلِهِ إِلَّا هُوَ يُعِزُّ مَنْ يَّشَاءُ وَيُذِلُّ مَنْ يَّشَاءُ وَبِيَدِهِ الْخَيْرُ (الفضل ۸/ دسمبر ۱۹۳۸ء) پیغام صلح ۳۰ / نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۸
خطبات محمود ۸۷۵ ۴۰ سال ۱۹۳۸ جلسہ سالانہ کے متعلق احباب جماعت کو ضروری ہدایات (فرموده ۹ / دسمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ میری طبیعت کچھ خراب ہے میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن اس کے ساتھ چونکہ میں جمعہ ہی کی خاطر لا ہور سے چل کر یہاں پہنچا ہوں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خود ہی جمعہ پڑھاؤں.دوستوں کو معلوم ہے کہ جلسہ سالانہ اب قریب آ رہا ہے جلسہ سالانہ ہم سے خاص طور پر مالی و جانی قربانیاں چاہتا ہے.جو لوگ جلسہ کے لئے یہاں آتے ہیں ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا ہوتا ہے اور پھر مہمان نوازی اور خدمت کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے.میں نے بار ہا بیان کیا ہے کہ ہونا یہ چاہئے کہ اگر مقدرت ہو تو جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کا بوجھ صرف قادیان کے لوگ برداشت کریں اور یا پھر زیادہ سے زیادہ ضلع گورداسپور کے لوگ مگر چونکہ ابھی ہماری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ صرف قادیان کے لوگ ہی یہ بوجھ اٹھا سکیں اس لئے کم سے کم انہیں یہ تو کرنا چاہئے کہ بیرونی جماعتوں کی نسبت زیادہ حصہ لیں تا میز بانی کا کی جو حق اللہ تعالیٰ نے انہیں بخشا ہے اس سے فائدہ اٹھا سکیں.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے سامنے بعض چھوٹے چھوٹے موانع پیش آ کر انہیں قربانی سے روک دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے دین کے سب پہلوؤں پر غور نہیں کیا ہوتا اور موت ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتی.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء چھوٹی چھوٹی روکیں بھی ان کے لئے پہاڑ بن جاتی ہیں حالانکہ ویسے ہی موانع اور ویسی ہی روکیں ان کے ہمسائے کے لئے بھی پیش آئیں مگر اس نے ان کے باوجود قربانیوں میں کوئی کمی نہیں کی ہوتی بلکہ زیادتی کر کے اور ثواب حاصل کیا ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مؤمنوں کو دوسروں پر گواہ بنایا ہے یہ اس کے معنی میں تو یہی کیا کرتا ہوں کہ قیامت کے روز لوگ آکر اپنے موانع پیش کریں گے اور کہیں گے ہماری راہ میں یہ مشکلات تھیں اس لئے ہم قربانی نہ کر سکے تب اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو پیش کرے گا اور کہے گا کہ یہ بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے، ان کو بھی ضرورتیں تھیں ، ان کے لئے بھی مشکلات تھیں لیکن ان سب کی موجودگی میں یہ قربانیاں کرتے رہے، تو پھر تمہارے عذر کس طرح قابل اعتناء ہو سکتے ہیں.جب تک انسان کے سامنے نمونہ نہ ہو اس پر حجت نہیں ہو سکتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے لئے گواہ بنایا ہے اور مسلمانوں کو بحیثیت کی جماعت دوسری قوموں پر گواہ بنایا ہے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لئے حجت ہیں تا ان میں سے کمزور اور بزدل جب اپنے عذرات پیش کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے کہے کہ ڈ نیوی سامانوں کے لحاظ سے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کمزور نہ تھے اگر انہوں نے ان بےسامانیوں کے باوجود قربانیاں کیں تو کیا وجہ ہے کہ تم نہ کر سکے اور اسی طرح دوسری قوموں کے کی عذرات کے جواب میں اللہ تعالیٰ کہے گا کہ مسلمان بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے ، ان کی کی راہ میں بھی اسی طرح رکاوٹیں اور مشکلات تھیں اور جب ان کے باوجود انہوں نے قربانیاں کیں تو تم کیوں نہ کر سکتے تھے.ہر جماعت میں کوئی گروہ ایسا ہوتا ہے جو نمونہ ہوتا ہے، اور وہ مشکلات ، رکاوٹوں اور موانع کے باوجود قربانی کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ دوسروں پر بطور شہید کی کھڑا کرتا ہے کہ یہ بھی تمہارے ہی جیسے انسان ہیں اور جب انہوں نے تکالیف اور اپنی ضرورتوں کے باوجو د کو تا ہی نہیں کی اور انہی حالات میں آگے بڑھے ہیں تو تم کیوں نہیں کر سکتے تھے.بازار میں ایک دکاندار نماز کے وقت اٹھ کر چلا جاتا ہے اور دوسرا نہیں جاتا اور وہیں بیٹھا رہتا ہے اور اگر پوچھا جائے تو کہتا ہے کہ دکان اکیلی ہے کس طرح جاؤں تو دوسرے کا نمونہ اس کے سامنے پیش کر کے اسے کہا جاسکتا ہے کہ دکان دوسرے کی بھی اکیلی تھی اور جب وہ
خطبات محمود ALL سال ۱۹۳۸ چلا گیا تو تم یہ عذر کیسے کر سکتے ہو.یا اگر دوسرا دکاندار کہے کہ یہی بکری کا وقت ہے چھوڑ کر جانا مشکل ہے تو دوسرے کی مثال اس کے سامنے اس پر بطور حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ جب بکری کا وقت ہونے کے باوجود وہ چلا گیا تو تم بھی جاسکتے تھے.اسی طرح بعض کہہ دیتے ہیں کہ وقت کا پتہ نہیں لگا ، اذان سنائی نہیں دی تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے کے کان بھی ویسے ہی تھے جیسے تمہارے اگر وہ اذان سن سکتا تھا تو یقیناً تم بھی سن سکتے تھے.تو جو عذر بھی انسان کرے اس کے توڑنے والے اس کے ہمسایہ میں ہی مل جاتے ہیں اور یہی قیامت کے روز اس پر گواہ کی ہوں گے.ایک شخص کہتا ہے کہ میرے بچے زیادہ تھے اس لئے میں قربانی نہیں کر سکا تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو جو اس سے زیادہ بچوں والا ہے پیش کر کے کہے گا کہ جب اس نے اتنے بچوں کے با وجود قربانی کی تو تم کیوں نہ کر سکے.ایک شخص کہے گا مالی تنگی بہت تھی اس لئے قربانی نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ دوسرے مالی تنگی والے کو پیش کر دے گا کہ اس کے لئے مالی تنگی تم سے زیادہ تھی پھر کوئی کی وجہ نہیں کہ جب اس نے قربانی کی تو تم اگر چاہتے تو نہ کر سکتے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان قربانی کرنا چاہے تو مشکلات پر غالب آ سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی.ایک صحابی کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا لیکن دل میں شوق تھا کہ حصہ لیں ، ایک شخص کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ مجھ سے سارا دن کام لو اور کم سے کم مزدوری دے دینا.چنانچہ دو مٹھی جو مزدوری مقرر ہوئی آپ نے تمام دن کام کیا اور شام کو جو جو ملے وہ لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیئے.ضرورت ہزاروں روپے کی تھی کیونکہ ایک لڑائی کا سامان کیا جارہا تھا.مگر انہوں نے لا کر دو مٹھی کو دیئے تو بجائے اس کے کہ منافقین کے دل میں غیرت پیدا ہوتی اور وہ کہتے کہ یہ غریب محنت و مشقت کر کے جو کچھ حاصل کر سکالے آیا ہے انہوں نے طنزیہ رنگ میں کہنا شروع کیا کہ لوجی دو مٹھی جو سے اب دنیا فتح ہوگی سے اور اس طرح اس قربانی پر ہنسی اور تمسخر کرنے لگے.انہوں نے اس مخلص کی نیکی سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ اسے اپنے مرض میں اضافہ کا موجب بنالیا.قیامت کے روز جب منافق اس موقع پر قربانی نہ کر سکنے کے عذرات پیش کریں گے اور اپنی مشکلات بتائیں گے اور ان سب کے جواب میں اللہ تعالیٰ اس دو مٹھی جو پیش کرنے والے کو پیش کر دے گا تو ان کی کیا عزت رہ جائے گی.
خطبات محمود ۸۷۸ سال ۱۹۳۸ء اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تمہارے پاس تو روپے موجود تھے مگر تم نے قربانی نہ کی لیکن اس کے پاس کچھ نہ تھا پھر بھی یہ پیچھے نہ رہا اس نے سمجھا کہ اگر میں نے عام مزدوری کے اصول پر مزدوری تلاش کی تو شاید کوئی کام نہ ملے اس لئے کسی کے آگے یہ تجویز رکھ دی کہ مجھ سے کام لے لو اور جو دینا چاہو دے دینا اور ظاہر ہے کہ ایسا نوکر جسے مل جائے وہ کیوں اس سے کام نہ لے گا.ہمارے ملک کے چھوٹے قصبات میں چپڑاسی کی تنخواہ عام طور پر دس بارہ روپے ماہوار ہے.شہروں میں پندرہ بیس بھی ہوتی ہے.خاص قسم کے نوکر مثلاً میرے وغیرہ چھپیں تھیں بھی لیتے ہیں لیکن اگر کسی کو کوئی ایسا چپڑاسی مل جائے جو کہے کہ مجھے کھانا دے دیا کریں اور ساتھ صرف ایک دو روپے ہی دے دیں تو کئی لوگ جو عام طور پر نو کر نہیں رکھتے اسے رکھنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.پوری تنخواہ پر ملازمت تلاش کرو تو شاید ہی مل سکے لیکن اس طرح اگر کہا جائے کہ جو مرضی ہو دے دیں تو کئی لوگ آمادہ ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ چلو اسے ملازم رکھنے کی وجہ سے جو وقت ہمارا بچے گا اس میں ہم اپنے کام کو وسعت دے لیں گے.تو اسی طرح اس صحابی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے پوری مزدوری دو کیونکہ اس طرح ممکن تھا کہ کام مل ہی نہ سکتا بلکہ تھوڑی سی مزدوری پر راضی ہو گئے تا ثواب سے محروم نہ رہیں اور کام لینے والے کو بھی اگر چہ ضرورت نہ تھی لیکن سستا مزدور مل گیا اس لئے اس نے کام لے لیا اور اس طرح مزدوری کر کے اس صحابی نے اُجرت لا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کر دی اور اس طرح ایک اعلیٰ نمونہ کی دوسرے ہزاروں ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو نا دار قرار دے کر قربانی سے گریز کرتے ہیں پیش کر دیا.پس ہر شخص کو عذر کرتے وقت غور کر لینا چاہئے کہ اسی جیسے حالات میں بعض دوسرے لوگ قربانی پیش کر رہے ہیں پھر کیا اس کا عذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں قابل سماعت ہوگا اور جلسہ کی کی امداد کے بارہ میں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اپنے نفس کا محاسبہ کر لینا چاہئے کیونکہ جیسا میں نے بتایا ہے جلسہ کے اخراجات کے مہیا کرنے کے متعلق قادیان کے لوگوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے بلکہ گوا بھی ہماری مالی حالت ایسی ہے کہ بیرونی جماعت کو بھی اس بوجھ کے اٹھانے میں مدد دینی پڑتی ہے لیکن اصل میں قادیان کے لوگوں کا ہی حق ہے کہ وہ یہ بوجھ کی
خطبات محمود 729 سال ۱۹۳۸ء اٹھا ئیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال جلسہ سالانہ کی آمد کم ہوتی ہے اور اس پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے حالانکہ جلسہ سالانہ ایک اہم صیغہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی اہمیت پر خاص زور دیا ہے.پس میں دوستوں کو پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کریں.قادیان اور ضلع گورداسپور کی جماعتوں کو بالخصوص اور باہر کی جماعتوں کو بالعموم اس طرف توجہ کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ اگر چہ میں نے بارہا کہا ہے محکمہ والے بھی اس صیغہ کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے.اگر وقت پر اجناس وغیرہ لے لی جائیں تو زمیندار احباب کی بھی پورے جوش کے ساتھ اس میں حصہ لے سکتے ہیں.جلسہ کے قرب کے ایام میں ان کے لئے حصہ لینا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ وقت زمینداروں کے لئے سب سے زیادہ تنگی کا ہوتا ہے.غلہ اور چارہ وغیرہ دونوں قریباً ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ قرض لے لے کر گزارہ کی کرتے ہیں اور اس وقت ان کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ قرض لے کر چندہ دیں لیکن کی جب گیہوں کی فصل تیار ہو اس وقت اگر ان سے جلسہ کے لئے غلہ لے لیا جائے تو وہ بڑی آسانی کی سے دے سکتے ہیں.اسی طرح دوسری چیزیں مثلاً گھی وغیرہ بھی اگر اسی طرح جمع کی جائیں تو کی آسانی سے جمع ہو سکتی ہیں ہاں ان کے محفوظ رکھنے کا سوال حل طلب ہے.جو میرے نزدیک اس کی طرح حل ہو جاتا ہے کہ جو غلہ یا دوسری جنس وصول ہود کا نداروں کو اس شرط پر دے دی جائے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر وہ ایسی ہی جنس اسی مقدار میں مہیا کر دیں.کوئی بدنیت دکاندار ہی ہوگا جو اس سمجھوتا کے لئے تیار نہ ہو اور مزید شرطیں لگا کر سلسلہ کو لوٹنا چاہے کیونکہ اس تجویز میں دکاندار کو بھی فائدہ ہے اسے کئی ماہ کے لئے مفت میں سرمایہ مل جاتا ہے.پس یہ انتظام نہایت آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن افسوس کہ محکمہ والے توجہ نہیں کرتے.میں نے کئی زمینداروں سے باتیں کی ہیں بالخصوص بار کے زمینداروں سے اور انہوں نے یہی کہانی ہے کہ گھی وغیرہ جمع کر دینا بشر طیکہ مناسب اوقات میں اگر کوشش کی جائے ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں.ایک ایک ضلع کے زمیندار کافی گھی جمع کر سکتے ہیں.یہی حال غلہ کا ہے.اگر غلہ کی صورت میں تھوڑا تھوڑا بھی چندہ ان سے بروقت وصول کرنے کا انتظام کر لیا جائے تو بہت مقدار جمع ہو سکتی ہے.اسی طرح دالیں وغیرہ بھی جمع کی جاسکتی ہیں اور انہی چیزوں کا زیادہ خرچ کی
خطبات محمود ۸۸۰ سال ۱۹۳۸ء ہوتا ہے.باقی گوشت وغیرہ رہ جاتا ہے وہ بیشک اس طرح جمع نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا زیادہ خرچ نہیں ہوتا.ایسے علاقے بھی ہیں جن سے چاول وغیرہ بھی جمع کئے جا سکتے ہیں مگر افسوس کی ہے کہ محکمہ والے توجہ نہیں کرتے.بہر حال اس سال بھی وہی دقت در پیش ہے اور محکمہ والے شور کر رہے ہیں کہ روپیہ نہیں کام کس طرح چلایا جائے اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.بے شک اس وقت ہماری جماعت کے لئے بہت سی مشکلات ہیں یہ سال مالی لحاظ سے بہت تنگی کا سال ہے اور شاید اسکے نتیجہ میں اگلا سال بھی کسی قدر مشکلات رکھتا ہو.مگر مومنوں کے لئے یہ باتیں پر واہ کے قابل نہیں جن کے ایمان کمزور ہیں ان کے لئے سکھ کے دن بھی کمزوری کے دن ہوتے ہیں.جن کے دل میں مرض ہو ان کے پاس اگر کروڑوں روپیہ ہو تب بھی وہ یہی کہیں گے کہ کھانے کو نہیں ملتا.چندے کہاں سے دیں لیکن مؤمن کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو بھی وہ یہی کہے گا کہ بسم اللہ میں حاضر ہوں.یہ بچے اور جھوٹے دوست کے فرق کا وقت ہے.اس سال صحیح یا غلط طور پر ایک مقابلہ کا رنگ پیدا ہو گیا ہے یا پیدا کر دیا گیا ہے.کیونکہ جو بلی کی تحریک دراصل چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے پہلے سے کی ہوئی تھی مگر ہمارے قدیم معاندین یعنی اہل پیغام نے بھی اسے شروع کر دیا ہے اور ان کے لئے یہ آسانی ہے کہ وہ غیر احمدیوں سے بھی مانگ لیتے ہیں اور پھر دنیا کی کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ دیکھو ہماری چھوٹی سی جماعت کس قدرقربانی کر رہی ہے تو کی یہ تحریک بھی ہمارے سامنے ہے.اس کے علاوہ تحریک جدید کے چندے ہیں.جن کی طرف میں جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ ان سے ایک مستقل فنڈ کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے.پس جو ان میں حصہ لے گا اُس کا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ہو جائیگا.پھر عام چندوں کا مطالبہ بدستور ہے یہاں کے کارکنوں کی تنخواہوں میں بھی کمی کر دی گئی ہے اور پھر اس کے ساتھ بیرونی جماعتوں کو تحریک کی گئی ہے کہ وہ اپنے چندوں میں اضافہ کریں.پس یہ دن غیر معمولی مالی قربانی کے ہیں مگر مؤمن کا ایمان اور اخلاص ایسے ہی وقت میں پر کھا جاتا ہے اور حقیقی دوست کی پہچان کا یہی وقت ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک امیر کا نوجوان بیٹا سارا سارا دن اپنے دوستوں میں بیٹھا وقت ضائع کرتا
خطبات محمود ۸۸۱ سال ۱۹۳۸ء رہتا تھا.باپ اسے نصیحت کرتا کہ اس طرح ان لوگوں میں بیٹھ کر وقت ضائع نہ کیا کرو یہ کی تمہارے دوست نہیں ہیں بلکہ سب کھانے پینے کے یار ہیں انہیں تمہارے ساتھ کوئی اخلاص نہیں مگر بیٹا کہتا کہ ابا جی آپ کو پتہ نہیں آپ نے ان کی باتیں کبھی نہیں سنیں یہ میرے بہت وفادار دوست ہیں.باپ کہتا کہ باتیں کر لینا تو بالکل آسان ہے.آخر ایک دن باپ نے بیٹے سے کہا کہ اچھا میں تمہیں تجربہ کر دیتا ہوں.باپ کا بھی ایک دوست تھا جو سپا ہی تھا ، وہ پہلے زمانہ کا دوست تھا جبکہ یہ امیر بھی معمولی حیثیت رکھتا تھا مگر بعد میں اسے ترقی حاصل ہو گئی مگر اس کے ساتھ دوستی بدستور رہی.لڑکا اسے حقیر سمجھتا اور دل میں کہتا کہ میرا باپ خود ایسے ذلیل لوگوں ہ ނ سے دوستی رکھتا ہے اور میرے دوستوں کو جو اچھے لوگ اور معزز آدمی ہیں پسندیدگی کی نظر نہیں دیکھتا.باپ نے اسی دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آؤ دیکھیں کہ میرے اور تمہارے دوستوں میں سے سچا مخلص کون ہے اور لڑکے سے کہا کہ میں تمہیں دوستوں کا تجربہ کرانے کے لئے گھر سے نکال دیتا ہوں اور تم جا کر اپنے دوستوں سے مدد مانگنا.بیٹے نے کہا بیشک نکال کر دیکھ لیں میرے دوست ایسے نہیں ہیں وہ مجھے سر آنکھوں پر بٹھا ئیں گے.چنانچہ باپ نے اسے گھر سے نکال دیا اور وہ اپنے دوستوں کے ہاں چکر لگانے لگا.اسے نکالنے کی خبر مشہور ہوگئی اور اس کے جن دوستوں کو اس کی اطلاع ہو گئی ان میں سے کئی ایک نے دروازہ پر آکر اس سے ملنا بھی گوارا نہ کیا.کسی نے کہلوا دیا کہ میں بیمار ہوں، کسی نے کہلوا دیا کہ گھر پر نہیں ہیں اور بعض جن کو علم نہ ہوا تھا وہ آکر مل تو لیتے مگر جب وہ یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے آپ میری امداد کریں تا میں تجارت وغیرہ کا کام کرلوں.تو بعض تو کہہ دیتے کہ افسوس اس وقت ہمارا روپیہ فلاں جگہ لگا ہوا ہے ورنہ ہم ضرور مددکرتے اور بعض کوئی اور بہانہ بنا دیتے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے کہ جب تمہارے باپ کو تم پر اعتماد نہیں تو ہم کس طرح کر سکتے ہیں.آخر وہ سب طرف سے ذلیل ہو کر باپ کے پاس آیا اور کہا کہ واقعی آپ کا کہنا سچ تھا کی میرے سب دوست مطلب کے دوست تھے.تب باپ نے کہا کہ آؤ اب میں تمہیں اپنے دوست کا تجربہ کراتا ہوں.وہ بیٹے کو ساتھ لے کر رات کے بارہ ایک بجے اپنے اس دوست کے مکان پر پہنچا اور دستک دی اور کہا کہ جلدی باہر آؤ.اس نے جواب دیا کہ کون ہے اور جب
خطبات محمود ۸۸۲ سال ۱۹۳۸ء اپنے دوست کی آواز پہچانی تو کہا بہت اچھا آتا ہوں.باپ بیٹا با ہرا نتظار کرنے لگے مگر وہ دس پندرہ منٹ تک باہر نہ آیا.بیٹے نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوست بھی ویسا ہی نکلا اور جب اسے شبہ ہوا کہ کسی غرض سے آئے ہیں تو چھپ کر اندر بیٹھ رہا ہے.باپ نے کہا کہ تھوڑی دیر اور انتظار کرو.آخر پندرہ بیس منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور دوست اس حالت میں باہر آیا کہ اس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی ، دوسرے میں ایک تھیلی اور ساتھ بیوی تھی.اس نے پوچھا کہ آپ نے نکلنے میں بہت دیر کر دی.تو اس نے کہا کہ یہ ساری عمر میں پہلا موقع ہے کہ آپ اس وقت آئے ہیں اور اس وجہ سے میں نے خیال کیا کہ ضرور کوئی تکلیف کا وقت آپ پر آیا ہو گا اور دنیا میں تین ہی قسم کی مشکلات ہو سکتی ہیں.یا تو آدمی کے گھر میں بیماری وغیرہ ہو، یا اس کے لئے مالی مشکلات ہوں اور یا پھر اس کی عزت خطرہ میں ہو.عزت کے خطرہ کے خیال سے میں نے تلوار لی ، تا اگر اس کا موقع ہو تو اس سے آپ کی امداد کروں اور بیماری وغیرہ کا خیال کر کے میں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے لیا کہ عورتیں تیمار داری اچھی کرتی ہیں ، پھر مجھے خیال آیا کہ مالی مشکل بھی پیش آسکتی ہے اور بعض اوقات بڑے بڑے مالداروں کے دیوالے نکل جاتے ہیں جس سے ان کی حالت خطرناک ہو جاتی ہے اور وہ معمولی امداد کے بھی محتاج ہو جاتے ہیں اور گو میں کوئی مالدار آدمی نہیں پھر بھی ساری عمر تھوڑا تھوڑا کر کے بیوی بچوں کے لئے کچھ جوڑ تا رہا ہوں اسے میں نے برتن میں ڈال کر زمین میں گاڑ رکھا تھا سو میں نے کہا اسے بھی نکال لوں کہ شاید میرے دوست کو آج میرے اس روپیہ ہی کی ضرورت پیش آگئی ہو اور اسی وجہ سے میرے نکلنے میں دیر ہو گئی سواب میں حاضر ہوں اگر آپ کی عزت خطرہ میں ہے تو میری تلوار اور میری جان موجود ہے، اگر کوئی گھر میں بیمار ہے تو میری بیوی موجود ہے ، اگر روپیہ کی حاجت ہے تو یہ میری ساری عمر کا اندوختہ موجود ہے.اس کی باتیں سن کر بیٹے نے باپ سے کہا کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ بچے دوست کون ہوتے ہیں واقع میں سچے دوست کا ملنا بہت مشکل ہے.اس پر باپ نے اپنے دوست کو بتایا کہ میرالڑ کا گمراہ ہورہا تھا میں نے اسے سبق دینے کے لئے آپ کو بے وقت تکلیف دی.آپ معاف فرما ئیں اور گھر تشریف لے جائیں.تو جو سچا دوست ہو مشکلات کے وقت میں اس کا اخلاص بڑھ جاتا ہے اور وہ دوست کی امداد کے لئے سب قسم کی کی
خطبات محمود ۸۸۳ سال ۱۹۳۸ء مشکلات برداشت کرنے پر تیار ہوتا ہے.قرآن کریم میں ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطرناک جنگوں کے لئے باہر نکلتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اسلام بڑی مصیبت میں مبتلا ہے، مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، اور دشمن اتنا زبردست ہے کہ اس پر غالب آنے کی توقع نہیں تو بعض لوگ آ کر کہتے کہ ہم آپ کے ساتھ تو چلیں مگر ہمارے گھر بے پناہ ہیں ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں حقیقتاً کوئی خطرہ کی ان کے لئے نہیں ہے ان کے پاس دوسروں سے زیادہ سامان ہیں اور ان کے گھر دوسروں سے کی زیادہ محفوظ ہیں.صرف بہانے بناتے ہیں مگر دوسرے جو سب مشکلات کو نظر انداز کر کے شامل ہو جاتے تھے ان کے متعلق فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مِّن يَنْتَظِرُ کہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے وعدے پورے کر دیئے اور بعض ایسے ہیں کہ جوانتظار میں ہیں کہ موقع ملے تو پورا کریں، ایسے ہی لوگوں میں سے ایک انصاری صحابی تھے.مفسرین نے تو لکھا ہے کہ یہ آیت ان ہی کے متعلق تھی مگر اس آیت کا مضمون ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی خاص فرد کے لئے نہیں بلکہ ایسے سب لوگوں پر چسپاں ہوسکتی ہے جو اس نمونہ کو پیش کر نے والے ہوں اور درحقیقت ایسے صحابی کئی تھے.وہ انصاری صحابی جن کا میں نے ذکر کیا حضرت کی انس کے چچا تھے.ان کو جنگ بدر میں شامل ہونے کا موقع نہ مل سکا تھا.جب لوگ ان کے سامنے بدر کے واقعات بیان کرتے اور کہتے کہ فلاں بات یوں ہوئی اور ہم نے یوں کیا تو ان کو کی بہت غصہ آتا لیکن غصہ نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی اس لئے وہ ان باتوں کو سن کر یہ کہنے لگی جاتے کہ بے شک تم لوگوں نے جو کچھ کیا خوب کیا لیکن اگر میں ہوتا تو دکھا تا کہ لڑائی کس طرح کی کی جاتی ہے.ان کی یہ بات ایک قسم کا لطیفہ بن گئی تھی جہاں دو چار آدمی بیٹھے بدر کی باتیں کر رہے ہوتے تھے وہ وہاں پہنچ کر اپنے دل کی حسرت اس طرح نکالنا شروع کر دیتے کہ دوستو ! میں بدر میں موجود ہوتا تو تم کو بتاتا کہ خدا کی راہ میں کس طرح لڑا کرتے ہیں.کئی لوگ تو یونہی لاف زنی کر دیا کرتے ہیں مگر یہ صحابی جو کچھ کہتے تھے اخلاص سے کہتے تھے اور دراصل ان کی کا دل خون ہو رہا ہوتا تھا کہ مجھے کیوں بدر میں شمولیت کا موقع نہ ملا اور وہ ان الفاظ سے اپنے در د دل کا اظہار کیا کرتے.آخر اللہ تعالیٰ کی حکمت اُحد کا دن لے آئی اور یہ ایسے لوگوں کے لئے
خطبات محمود ۸۸۴ سال ۱۹۳۸ء دلی حسرت نکالنے کا ایک بے نظیر موقع تھا.چنانچہ یہ صحابی جنگ اُحد میں شریک ہوئے اور جو قربانی کر سکتے تھے کی اور جب دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گیا تو انہوں نے چونکہ کھانا نہیں کھایا ہوا تھا کچھ کھجوریں پاس تھیں، میدان سے ایک طرف ہٹ کر کھجوریں کھانے لگے اتنے میں وہ واقعہ ہوا کہ جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے ، دشمن نے پیچھے سے حملہ کر دیا اور مسلمان چونکہ فتح کے خیال میں ادھر اُدھر منتشر ہو چکے تھے سنبھل نہ سکے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے اور صحابہ کو خیال آیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.یہ صحابی اپنے خیال میں مست کھجوریں کھا رہے تھے اور بالکل مطمئن تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے میدان جنگ کے قریب آئے اور دیکھا کہ ایک پتھر پر حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے باوجود نہایت جری اور دلیر ہونے کے بچوں کی طرح رو ر ہے ہیں.انہوں نے حضرت عمر کو اس حال میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا کہ عمر یہ رونے کا کون سا وقت ہے یہ تو خوش ہونے کا وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح کی دی ہے.حضرت عمر نے کہا کہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ فتح کے بعد کیا ہو گیا ہے اور پھر بتا یا کہ اس طرح دشمن نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور مسلمان پراگندہ ہونے کی وجہ سے سنبھل نہ سکے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.اس وقت ان صحابی کے ہاتھ میں صرف ایک کھجور باقی رہ گئی تھی انہوں نے فوراً اسے پھینک دیا اور کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان اس کے سوا اور ہے کیا اور پھر حیرت سے حضرت عمرؓ کو مخاطب ہو کر کہا کہ عمرؓ اگر یہ خبر سچی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو تم یہاں کیوں بیٹھے ہو جس طرف خدا کا رسول گیا ہم بھی وہیں جائیں گے.یہ کہہ کر تلوار نیام سے نکال لی اور دشمن کے لشکر کی طرف دوڑ پڑے اور جا کر لڑائی شروع کر دی اور نہ معلوم کتنوں کو اپنے خیال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لینے کے لئے جہنم واصل کر کے یہ خدا کا جری شہید ہو گیا.رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَرَضِيَ هُوَ عَنِ اللَّهِ - جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دوبارہ فتح دی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میدان میں جا کر دیکھو کہ ہمارے ساتھیوں میں سے کون کون شہید ہوئے ہیں اور کون کون زخمی پڑے ہیں تا زخمیوں کی امدار کی جائے اور شہیدوں کی تکفین کا انتظام کیا جائے.صحابہ میدانِ جنگ میں پھیل گئے اور زخمیوں کی تیمار داری شروع ہوئی اور شہیدوں کی لاشیں جمع کی جانے لگیں.جب وہ
خطبات محمود ۸۸۵ سال ۱۹۳۸ء لاشیں جمع کر رہے تھے تو انہوں نے ایک لاش کو دیکھا کہ وہ پہچانی نہ جاتی تھی اس کے ٹکڑے ادھر اُدھر پھیلے ہوئے تھے اور چہرہ زخموں سے بالکل چھلنی ہو رہا تھا ایسا کہ مُردہ کی شناخت ناممکن تھی.انہوں نے سب ٹکڑے جمع کر کے اکٹھے رکھے تو نضر جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ان کی ہمشیرہ نے ایک انگلی سے پہچانا کہ یہ تو میرا بھائی ہے.صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے گنا تو ان کے جسم کے ستر ٹکڑے الگ الگ پڑے تھے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَمِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ د مِنْهُم مَّن يَنتظر.فتح دراصل ایسے ہی لوگوں سے ہوتی ہے ان سے نہیں جو محض ایک نام کے ماتحت جمع ہو جاتے ہیں تم اس وقت جو ہزاروں یہاں بیٹھے ہو یا جو لاکھوں دنیا میں پھیلے ہوئے ہو سارے کے سارے وہ نہیں ہو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں احمدی ہیں.یا جن کے ذریعہ سے اسلام کو فتح حاصل ہوگی.جن کے ذریعہ سے یہ فتح حاصل ہوگی وہ وہی ہیں جن کے دل ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور جو مشکلات اور تکالیف میں زیادہ قربانی کرتے ہیں کہ انہی لوگوں کی کوشش سے فتح آتی ہے اور انہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک جماعت احمدیہ کو قائم رکھنے والے بھی وہی لوگ ہیں.بسا اوقات یہ صرف کی چند آدمی ہوتے ہیں ، لاکھوں میں سے ہزاروں، ہزاروں میں سے سینکڑوں اور سینکڑوں میں سے دسیوں بظاہر لاکھوں ، ہزاروں اور سینکڑوں ہوتے ہیں مگر جن کی قربانی کی وجہ سے فتح کی حاصل ہوتی ہے وہ بہت کم ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَمِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ من يَنتَظِرُ.جو ہر مصیبت میں قدم آگے بڑھاتے ہیں اور کسی صورت میں بھی پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتے.دنیا کے دیئے ہوئے ناموں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، مسلمان، احمدی خواہ کوئی کچھ کہلائے فائدہ اسی نام سے حاصل ہوگا جو نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جائے.ہزاروں عبدالرحمن کہلاتے ہیں مگر دراصل عبدالشیطان ہوتے ہیں اور ہزاروں ہیں جن کا نام عبدالرحیم ہے مگر دراصل وہ عبدالرحیم ہوتے ہیں، ہزاروں کے نام عبد الحلیم ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ عبدالغضب ہوتے ہیں اور ہر ایک کو کتے کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں.پس اصل نام وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملتا ہے.
خطبات محمود ۸۸۶ سال ۱۹۳۸ صحابہ کے نام دیکھو بعض بالکل ادنیٰ قسم کے تھے.مثلاً کسی کا نام جریر تھا مگر ہم جب ان کا نام لیں گے تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہیں گے.جریر کے معنی پنجابی زبان میں گھسیٹا کے ہیں ہم یہ نہیں کی دیکھتے کہ ان کا نام گھسیٹا تھا بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کیا ہیں.گھسیٹا ہیں یا تخت پر بیٹھنے والے ہیں.ہماری جماعت میں بھی بعض نام ایسے ہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کی والسلام کے ایک مخلص صحابی کا نام اروڑہ تھا بعض لوگ جن کے بچے عام طور پر فوت ہو جاتے ہیں وہ بچہ کو میلے کے ڈھیر پر گھسیٹتے ہیں کہ شاید وہ اس طرح بچ جائے اور پھر ان کا نام اروڑہ رکھ کی دیا جاتا ہے.ان منشی صاحب کا نام بھی اسی طرح ان کے والدین نے اروڑہ رکھا تھا مگر وہ خدا تعالی کی نگاہ میں اروڑہ نہ تھے.ماں باپ نے ان کا نام اس لئے رکھا تھا کہ شاید میلے کے ڈھیر پر پڑ کر ہی یہ بچہ زندہ رہے مگر اللہ تعالیٰ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا.ماں باپ نے اسے گند کی نذر کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے پاک دل کو دیکھا اور اسے اپنے لئے قبول کیا چنانچہ اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی بنے اور ایسے مخلص کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے.ان لوگوں نے اپنے اخلاص کا ثبوت ایسے رنگ میں پیش کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ لوگ محبت پیار کے مجسمے تھے.منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے مجھے خود ایک واقعہ سنایا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ لیا تھا کہ آپ کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں.اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ابتدائی زمانہ میں دوریاستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت کا خاص موقع نصیب ہوا.ایک کپورتھلہ اور دوسری پٹیالہ.مجھے افسوس ہے کہ پٹیالہ نے اپنا معیار قائم نہ رکھا، بعد میں کئی فتنوں میں پٹیالہ کا کوئی نہ کوئی حصہ ہوتا رہا ہے.( یہ یمنی بات میں نے اس لئے کہہ دی ہے کہ پٹیالہ کی جماعت کو توجہ ہو اور وہ اپنے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ محض ماں باپ کی وجہ سے کوئی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا ) تو کپورتھلہ کی جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے خواہش کی کہ حضور وہاں تشریف لائیں اور آپ نے وعدہ فرمایا منشی اروڑہ صاحب مرحوم
خطبات محمود ۸۸۷ سال ۱۹۳۸ نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ ایک دکان پر بیٹھے تھے ، اس زمانہ میں کپورتھلہ میں ریل نہ جاتی تھی شاید پھگواڑہ سے تانگوں پر لوگ جاتے تھے ہمنشی صاحب مرحوم ایک دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شدید دشمن سلسلہ جو ہمیشہ احمدیوں کے ساتھ بُرائی کیا کرتا تھا آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام ) آئے ہیں اور اڈے پر کھڑے ہیں.منشی صاحب اس وقت دکان پر بیٹھے آرام سے باتیں کر رہے تھے، پگڑی اور جوتی اُتاری ہوئی تھی ، جب اس دشمن نے یہ خبر سنائی تو اسی طرح اٹھ کر دوڑ پڑے.تھوڑی دور گئے تو خیال آیا کہ یہ شخص ہمیشہ ہمیں چڑایا کرتا ہے یہ بھی اس نے تمسخر نہ کیا ہو اس لئے پندرہ ہیں قدم دوڑنے کے بعد ٹھہر گئے اور اسے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ تو بڑا خبیث ہے ہمیشہ ستاتا ہے.یہ بھی تو نے جھوٹ بولا ہوگا ، ورنہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں مگر اس نے کہا کہ نہیں میں جھوٹ نہیں بولتا.میں انہیں اکوں کے اڈے پر کھڑا چھوڑ کر آیا ہوں یہ پھر دوڑ پڑے مگر پھر پندرہ ہیں قدم دوڑ کر کی کھڑے ہو گئے اور پھر اسے بُرا بھلا کہنے لگے اور آخر میں کہا کہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور کی تشریف لائیں اور اسی طرح تین چار مرتبہ کیا.تھوڑی دور بھاگتے اور پھر کھڑے ہو کر اسے کو سنے لگتے کہ اتنے میں سامنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے ہوئے دکھائی دیئے.منشی صاحب مرحوم شاید مجسٹریٹ یا سیشن حج کی پیشی میں تھے.مہینہ میں ایک بار ضرور قادیان آجاتے تھے اور چونکہ ایک چھٹی سے فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے جب تک ساتھ ہفتہ کا کچھ ک وقت نہ ملے اس لئے جس دن ان کے قادیان آنے کا موقع ہوتا ان کا افسر دفتر والوں سے کہہ دیتا کہ آج کام جلدی ختم ہونا چاہئے کیونکہ منشی جی نے قادیان جانا ہے اگر وہ نہ جاسکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں برباد ہو جاؤں گا اور اس طرح ہمیشہ ان کو ٹھیک وقت پر فارغ کر دیتا.افسر گو ہندو تھا مگر آپ کی نیکی ، تقویٰ اور قبولیت دعا کا اس پر ایسا اثر تھا کہ وہ آپ ہی آپ انکے لئے قادیان آنے کا وقت نکال دیتا اور کہتا کہ اگر یہ قادیان نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں نہیں بچ سکوں گا.تو انسان جیسا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرتا ہے ویسا ہی وہ اس سے کرتا ہے.جس جس رنگ میں انسان اپنے دل کو اس کے لئے پگھلاتا ہے اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ
خطبات محمود ۸۸۸ سال ۱۹۳۸ء سلوک کرتا ہے.دنیا اسے مارتی ہے ، گالیاں دیتی ہے، اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ ہر دفعہ گرائے جانے کے بعد گیند کی طرح پھر اُبھرتا ہے.ایسے مؤمنوں کو ہر قسم کی روکوں کے باوجود کی اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور یہی حقیقی جماعت ہوتی ہے جو ترقی کرتی ہے.پس اپنے دلوں کو ایسا ہی بناؤ اور ایسی محبت سلسلہ کے لئے پیدا کرو پھر دیکھو تمہیں اللہ تعالیٰ کس طرح بڑھاتا ہے.جولوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو تو مانگنا بھی نہیں پڑتا بعض وقت وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانگیں گے اور اللہ تعالیٰ خود بخود ان کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود السلام سے ہی میں نے یہ واقعہ بھی سنا ہے کہ ایک بزرگ تھے ایک دفعہ ان پر ایسی حالت آئی کہ وہ سخت مصیبت میں تھے کسی نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میرا رب مجھے نہیں دینا چاہتا تو میرا دعا کرنا گستاخی ہے جب اس کی مرضی نہیں تو کی میں کیوں مانگوں.اس صورت میں تو میں یہی کہوں گا کہ مجھے نہ ملے اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو میرا مانگنا بے صبری ہے.یہ مطلب نہیں کہ وہ دعا کرتے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی کامل مؤمنوں پر ایسی کیفیات آتی ہیں اور وہ کہتے ہیں اچھا ہم مانگیں گے نہیں اللہ تعالیٰ خود ہماری ضرورت کو پورا کرے گا مگر یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا.یہ مت خیال کرو کہ تم یونہی بیٹھے رہو، اپنے قلوب میں محبت پیدا نہ کرو، نمازوں میں خشوع خضوع پیدا نہ کرو، صدقہ و خیرات اور چندوں میں غفلت کرو، جھوٹ اور فریب سے کام لیتے رہو اور پھر بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے وارث ہو جاؤ یہ بھی نہیں ہوسکتا.ابھی لاہور میں مجھے ایک بوہرہ صاحب ملنے آئے.انہوں نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں ، خدا تعالیٰ سے ملنے کی خواہش بھی ہے مگر خدا تعالیٰ ملتا نہیں.میں نے کہا کہ خواہش کا تو پتہ نہیں یہ تو خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ دودھ یا شہد کے لئے پیالہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر پیالہ نہ ہو تو اسے رکھا کہاں جائے گا لیکن دودھ اور کی شہد کے بغیر پیالہ کی بھی کوئی قیمت نہیں دونوں چیزیں ضروری ہیں آپ کے پاس پیالہ تو بے شک ہے مگر دودھ یا شہر نہیں اور ظاہر ہے کہ خالی پیالہ کو کوئی کیا کرے گا ، دونوں چیز میں ضروری ہیں.کئی دل درست نہیں ہوتے اس لئے خدا تعالیٰ انہیں نہیں ملتا، کئی ایک جھوٹی قسم کی محبت تو رکھتے ہیں
خطبات محمود ۸۸۹ سال ۱۹۳۸ء لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے ہوئے ظاہری احکام کی پیروی نہیں کرتے ، انہیں بھی خدا تعالیٰ کی نہیں ملتا.پس خالی نماز ، روزہ کافی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ملنے کے لئے عاشقانہ قلبی کیفیت کی ضرورت ہے اور ایسے دل کی ضرورت ہوتی جو تمام عذروں اور بہانوں سے خالی ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف مُجھک جائے اور اگر کوئی کہے کہ ہمارے دل میں اخلاص موجود ہے تو ظاہری احکام کی کیا ضرورت ہے تو یہ بھی درست نہیں ظاہری احکام پر عمل بھی ضروری چیز ہے.میں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ قاضی امیرحسین صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی تھے احمدی ہونے سے قبل وہ کٹر وہابی تھے اور اس وجہ سے کئی باتیں ظاہری آداب کی وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب حضور باہر تشریف لاتے تو دوست کھڑے ہو جاتے تھے.قاضی صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ یہ جائزہ نہیں بلکہ شرک ہے اور اس بارہ میں ہمیشہ بحث کیا کرتے تھے کہ اگر آج ہم میں ایسی باتیں موجود ہیں تو آئندہ کیا ہوگا.وہ میرے استاد تھے میری خلافت کا زمانہ آیا تو ایک دفعہ میں باہر آیا تو وہ معاً کھڑے ہو گئے میں نے کہا قاضی صاحب یہ تو آپ کے نزدیک شرک ہے اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ خیال تو میرا یہی ہے مگر کیا کروں رُکا نہیں جاتا، اس وقت بغیر خیال کے کھڑا ہو جاتا ہوں.میں نے کہا بس یہی جواب ہے آپ کے تمام اعتراضات کا.جہاں بناوٹ سے کوئی کھڑا ہو تو یہ بے شک شرک ہے مگر جب آدمی بے تاب ہو کر کھڑا ہو جائے تو یہ شرک نہیں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض امور ایسے ہیں جنہیں تکلف اور بناوٹ شرک بنا دیتے ہیں، فرماتے تھے اپنے ایک بھائی کی وفات پر حضرت عائشہ نے بے اختیار چیخ ماری اور منہ پر ہاتھ مار لئے.کسی نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بے اختیاری میں ایسا ہو گیا.میں نے جان کر نہیں کیا.تو قاضی صاحب کی یہ بات مجھے ہمیشہ یا درہتی ہے کہ یا تو وہ بحث کیا کرتے تھے اور یا خود کھڑے ہو گئے.یہ قلبی حالت ہی اصل حالت ہے جو بات بے ساختگی میں آپ ہی آپ ہو جائے وہی اصل نیکی ہے، اس سے نیچے جو نیکی ہے وہ نیکی تو ہے مگر سہارے کی محتاج ہے.اصل نیکی وہی ہے جو آپ ہی آپ ہوا اور ارادہ سے بھی پہلے کام ہو جائے.بچوں کو دیکھو وہ سوتے سوتے یوں منہ مارتے ہیں کہ گویا دودھ
خطبات محمود ۸۹۰ سال ۱۹۳۸ء پی رہے ہیں یا بعض مائیں جن کے بچے فوت ہو جاتے ہیں وہ نیند میں اپنے پستان پکڑ کر اس طرح دودھ پلاتی ہیں کہ گویا ان کا بچہ ساتھ سویا ہوا ہے، انہیں دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طبعی محبت کیا ہے.اس میں کسی کوشش کا دخل نہیں ہوتا اور یہی محبت اور تعلق ہے جو سچی قربانی کراتا ہے اور کچی قربانی ہی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بنا دیتی ہے.بعض اوقات جاہل اور ان پڑھ لوگ بھی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پالیتے ہیں.میں نے منشی اروڑہ صاحب کا ذکر کیا ہے وہ بالکل معمولی تعلیم رکھتے تھے مگر انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص تھا اور اسی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظروں میں ان کی بڑی قدر تھی ان کی کمی علم کو دیکھ کر ایک دفعہ لوگ ان کو مولوی ثناء اللہ صاحب کے لیکچر میں لے گئے.وہ تقریر کرتے رہے اور یہ بیٹھے رہے.لوگوں نے پوچھا کچھ اثر ہؤا اگر نہیں ہوا تو جواب دو.کہنے لگے یہاں تو جواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں نے تو مرزا صاحب (علیہ السلام) کا منہ دیکھا ہوا ہے کوئی خواہ سال بھر بیٹھا ان کے خلاف تقریریں کرتا رہے میں تو ان سب کے جواب میں صرف یہی کہوں گا کہ وہ منہ جھوٹوں والا نہیں تھا.مجھ پر کسی تقریر کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا کیونکہ میں نے خود ان کو دیکھ لیا تی ہے.آفتاب آمد دلیل آفتاب.سورج آپ اپنی سچائی کی دلیل ہوتا ہے.اس کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی.مرزا صاحب کو دیکھنے کے بعد ان کی صداقت کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں.سب تقریریں سن کر میں زیادہ سے زیادہ یہ کہوں گا کہ تم بڑے لستان ہو.باتیں خوب بنا لیتے ہو مگر میں نے جب اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ لیا تو کس طرح جھٹلا سکتا ہوں.تو جہاں دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص پایا جاتا ہو وہاں وہ آپ ہی آپ ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ غالباً ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بزرگ جو اہلِ بیت میں سے تھے اور جن کا نام موسی رضا تھا.اس بہانہ سے قید کر دیئے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنہ کے پیدا ہونے کا احتمال ہے.ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ایک شخص ان کے پاس قید خانہ میں رہائی کا حکم لے کر پہنچا.وہ بہت حیران ہوئے کہ میں تو سیاسی قیدی تھا پھر اس طرح میری فوری رہائی کس طرح ہو گئی.وہ بادشاہ سے ملے تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح یکا یک رہا کر دیا.اس نے کہا کہ کی
خطبات محمود ۸۹۱ سال ۱۹۳۸ء وجہ یہ ہوئی کہ میں سو رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کسی نے آکر مجھے جگایا ہے.خواب میں کی ہی میری آنکھ کھلی تو پوچھا آپ کون ہیں تو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.میں نے عرض کیا کہ کیا حکم ہے تو آپ نے فرمایا.ہارون الرشید یہ کیا بات ہے کہ تم آرام سے سو رہے ہو اور ہمارا بیٹا قید خانہ میں ہے یہ سن کر مجھے پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اسی وقت رہائی کے احکام بھجوائے انہوں نے کہا کہ اس روز مجھے بھی قید خانہ میں بڑا کرب تھا ، اس سے پہلے مجھے بھی کبھی رہائی کی خواہش نہ پیدا ہوئی تھی.تو ہم ایسے ہزاروں لاکھوں بیانوں کو کس طرح جھٹلا سکتے کی ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کی قدرت کے متعلق کس طرح شبہ کر سکتے ہیں.وہ ضرور قادر ہے مگر ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرت کو جنبش دینے والے اور اس کی رحمت کو اپنے اندر جذب کرنے والے بنیں.پس میں احباب کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ان اہم ایام کی قدر کر و مصائب اور فتن جتنے زیادہ کی ہوں گے اتنے ہی قرب الہی کے رستے نزدیک ہوں گے اور میں توجہ دلاتا ہوں کہ دوست ایک طرف تو مالی طور پر قربانی کریں اور دوسری طرف جسمانی لحاظ سے اور مکانوں کو دینے کے لحاظ سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں تم میں سے بیسیوں شریف الطبع ایسے ہوں گے کہ گزشتہ سالوں میں پہلے تو انہوں نے چندہ دینے یا مکانات دینے میں بخل سے کام لیا ہوگا مگر جلسہ کے ایام گزرنے کے بعد ان کے دل میں ایک ٹیس اٹھی ہوگی اور انہیں احساس ہوا ہوگا کہ اگر ہم یہ معمولی سی قربانی کر دیتے تو کیا اچھا ہوتا آخر یہ تین چار روز گزر ہی گئے.میں مان نہیں سکتا کے تم میں سے جس سے کوتاہی ہوئی ہو اور اس کے اندر شرافت موجود ہو اس کے دل میں یہ درد نہ اٹھا ہو.ضرور اس کے دل میں بعد میں کرب پیدا ہوا ہوگا.ایسے لوگوں کے لئے اپنی حسرتیں پوری کرنے کا آج موقع ہے اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پھر انہیں کی موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں.اسی طرح میں بیرونی جماعتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بوجھوں کی وجہ سے وہ کمزوری محسوس نہ کریں اور اس وجہ سے یہاں آنے یا مالی بوجھ اٹھانے میں کوئی کمی نہ کریں.کون کہہ سکتا ہے کہ اسے یہ دن دیکھنے نصیب ہوں گے یا نہیں اور اگر اس دفعہ ہوئے تو آئندہ ہوں گے یا نہیں کی
خطبات محمود ۸۹۲ سال ۱۹۳۸ء اس لئے ثواب حاصل کرنے کا جو موقع بھی انہیں ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسی طرح کی قادیان کے لوگوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ مالی لحاظ سے بھی ، مکانات دینے کے لحاظ سے بھی اور خدمات بجالانے کے لحاظ سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں ، اسی طرح دوسری تحریکات میں بھی حصہ لیں.بے شک بوجھ زیادہ ہیں مگر ہماری ہی کوتاہیوں کے نتیجہ میں یہ فتنے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں روکنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں اور باہر کے دوستوں کی سے بھی یہ کہتا ہوں کہ ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں ، وہ ہوشیار ہو جائیں اور اپنی کمریں کس کی لیں.اس وقت دنیا کی نگاہیں ہم پر پڑ رہی ہیں اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے سپاہی کیا قربانیاں پیش کرتے ہیں اس لئے دوستوں کو خدا تعالیٰ کے سپاہیوں جیسا نمونہ پیش کرنا چاہئے اور یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کا جذبہ اس سے بہت زیادہ ہے جو د نیوی سپاہی اپنے ملک کے لئے کرتے ہیں.اگر انہوں نے یہ ثابت نہ کر دیا کہ ان کے دلوں میں قربانی کا بے انتہا جذبہ موجود ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ہتک کرانیوالے ہوں گے کیونکہ دنیا کہے گی کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی اتنی بھی قدر نہیں جتنی جاپان، جرمنی اور اٹلی کے سپاہیوں کے دلوں میں اپنے وطن کی قدر ہے.“ الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۳۸ء) ، وكذلك جعلتكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرة : ۱۴۴) بخاری کتاب التفسير باب قولهِ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِعِيْنَ (الخ) يَقُولُوت انّ بُيُوتِنَا عَوْرَةً ، وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ان يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا (الاحزاب : ۱۴) ه الاحزاب : ۲۴ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۸ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء
خطبات محمود ۸۹۳ ۴۱ سال ۱۹۳۸ (۱) قادیان کے غیر احمد یوں، ہندوؤں اور سکھوں کے حقوق اور کی حفاظت کی جائے.(۲) قادیان ہجرت کر کے آنے سے قبل اجازت لینی چاہئے.(۳) احمدی نوجوانوں سے وقف زندگی کا مطالبہ.(فرموده ۱۶ / دسمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - (1) دد بعض ہمارے دوست اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ بعض دفعہ میں اپنی تقریروں یا خطبات میں بعض ایسی باتیں کہہ جاتا ہوں جن سے بعض دفعہ مخالف لوگ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.کی میں ان دوستوں کے نقطۂ نگاہ کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن اصلاح کے کام میں بعض دفعہ ایسی باتیں کہنی ضروری ہوتی ہیں خواہ دشمن اُن پر خوش ہی کیوں نہ ہو.ہم نے جو اخلاقی معیار دُنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اس کی بنیاد ہمیں آج سے ہی رکھنی ہوگی اور جب تک ہم اس کی بنیادی
خطبات محمود ۸۹۴ سال ۱۹۳۸ نہیں رکھیں گے اُس وقت تک اس پر عمارت بھی کھڑی نہیں کی جاسکے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ میں جیسا کہ بڑھنے والی قوموں کی مخالفت ہوا کرتی ہے ہماری بھی مخالفت ہے اور اس میں بھی کوئی مجبہ نہیں کہ ہم دُنیا کی بہتری کا خواہ کوئی کام کریں معترض ہم پر اعتراض کرتے چلے جائیں گے اور ہم پر الزام لگانے والے الزام لگاتے ہی رہیں گے اور ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ ان فضول اور لغو اعتراضات کی پرواہ نہ کریں جو حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ تعصب حسد یا ضد کی وجہ سے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی بہ نہیں کہ ہمیں اپنے اخلاق اور اپنے معاملات ہر وقت درست رکھنے چاہئیں.یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب کسی قوم پر نا جائز اعتراضات ہوتے ہوں تو بعض دفعہ آہستہ آہستہ اس کے اندر یہ مرض پیدا ہو جاتا ہے کہ دشمن کے اعتراض کو وہ ہمیشہ ہی بے قدری کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتی ہے جبکہ اس کے بعض اعتراض کی صحیح اور درست بھی ہوتے ہیں.انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ جو چیز کثرت سے اس پر وارد ہو اس کا وہ عادی ہو جاتا ہے اور چونکہ اس پر کثرت سے دُشمنوں کی طرف سے کی نا واجب اعتراضات ہوتے ہیں اس لئے وہ قوم ایسی عادی ہو جاتی ہے کہ صحیح اعتراض کی طرف بھی اُس کی پوری توجہ نہیں ہوتی.ان دنوں قادیان میں ایک سوال ایسا پیش ہے کہ جس سوال کی اہمیت ایک حد تک میں خود بھی تسلیم کرتا ہوں اور دیر سے اس کو تسلیم کرتا چلا آیا ہوں لیکن وہ سوال ایسا سلجھا ہوا نہیں ہے جیسا کہ اس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ ایک پیچیدہ سوال ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے بعض غلطیوں نے اس میں اور زیادہ پیچیدگی پیدا کر دی ہے اور وہ سوال قادیان کی ٹاؤن کمیٹی کا ہے.جو دوست میرے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں قریباً آٹھ دس سال سے یہ سوال اُٹھا رہا ہوں کہ قادیان میں ہندوؤں کی نمائندگی موجود ہے ، سکھوں کی نمائندگی موجود ہے لیکن غیر احمدی عصر جو ان دونوں سے زیادہ ہے اس کی نمائندگی موجود نہیں اور یہ کہ صحیح طریق کار چلانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نمائندگی بھی ہو لیکن گورنمنٹ نے جس رنگ میں یہاں وارڈ بنائے ہیں اس کے ماتحت ایک کثیر اکثریت کو قانونی جبر کے ساتھ ایسے حالات میں رکھ دیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنی اکثریت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے اور یا پھر اقلیت میں تبدیل ہو جائے.چنانچہ قادیان جیسی
خطبات محمود ۸۹۵ سال ۱۹۳۸ء جگہ میں جہاں کی آبادی اپنے ساتھ خاص نوعیت رکھتی ہے گل چھ وارڈ بنائے گئے ہیں جن میں کی سے چار شہر میں رکھ دیئے گئے ہیں جس کی آبادی باہر کی آبادی کے مقابلہ میں کم ہے.مردم شماری کے رو سے شہر کی آبادی تین ہزار کے قریب ہے لیکن قادیان کی کل آبادی دس ہزار کے قریب ہے.تو تین ہزار یا اب وہ ترقی کر کے اور مہمانخانہ وغیرہ ڈال کر ساڑھے تین ہزار ہو گی.بہر حال وہ کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہے.اس کے تو گورنمنٹ نے چار بلکہ شاید پانچ وارڈ بنا دیئے ہیں لیکن بیرونی آبادی کے لئے دو یا تین وارڈ رکھے ہیں.حالانکہ احمدی آبادی قدرتی طور پر باہر زیادہ بڑھ رہی ہے کیونکہ اب زیادہ تر ایسے لوگ آتے ہیں جو زیادہ آسودہ حال اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور وہ شہر سے باہر کھلی ہوا میں اپنے مکان بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں.گورنمنٹ کی اپنی مردم شماری کے رو سے قادیان میں احمدی ۷۵ فیصدی سے زیادہ ہیں.اب ۷۵ فیصدی کے لحاظ سے اگر آٹھ ممبریاں ہوں تو چھ نمبر یاں احمد یوں کو ملنی چاہئیں اور دو ممبریاں دوسری قوموں کو ملنی چاہئیں لیکن ممبریاں ہیں سات جن میں سے پانچ احمدیوں کے پاس ہیں اور دو غیروں کے پاس.ان دو میں سے ایک ممبر ایسی آبادی کی طرف سے جو ڈیڑھ دوسو کی تعداد رکھتی ہے باقاعدہ طور پر نامزد ہوتا چلا آ رہا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک دوسری جماعت جن کے ساتھ آٹھ سو آدمی ہیں ان کو گورنمنٹ ہمیشہ نظر انداز کرتی چلی آئی ہے.ادھر ا کثریت قدرتی طور پر یہ جدو جہد کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کو پورے طور پر حاصل کرے اور کسی لحاظ سے اسے نقصان نہ رہے اور آخر ۷۵ فیصدی آبادی رکھنے والے کب یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ انہیں پچاس یا چالیس فیصدی بنا دیا جائے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس میں مشکلات گورنمنٹ کی طرف سے ہیں.اگر وہ زیادہ وارڈ بناتی اور صحیح طور پر بناتی تو یقیناً یہ دقت پیش نہ آتی اور جیسا کہ میرے ساتھ کام کرنے والے واقف ہیں میں موجودہ حالات میں بھی کہتا رہتا ہوں کہ ان کے لئے نمائندگی کی کوئی نہ کوئی صورت ہونی چاہئے.مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر ان کی نمائندگی کی کوئی صورت پیدا کی جائے تو ۷۵ فیصدی آبادی کے حقوق تلف ہو جائیں گے اور میرے نزدیک یہ بات بھی ایسی ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.پس جب تک گورنمنٹ پر زور دے کر اس نقص کی اصلاح نہ کرالی جائے اُس وقت تک
خطبات محمود ۸۹۶ سال ۱۹۳۸ء میرے نزدیک کم سے کم یہ ضرور ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جن کی کمیٹی میں نمائندگی نہ ہو اُن کے حقوق پورے طور پر ادا کئے جائیں.ابھی جبکہ میں جمعہ کے لئے آنے والا تھا مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہاں ڈیفنس کمیٹی کے نام سے ایک جلسہ ہوا ہے اس میں بہت کچھ جھوٹ بولے گئے ہیں لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جو میرے نزدیک قابل توجہ ہیں اور میں عام طور پر اس کا اظہار اس لئے کر رہا ہوں تا جماعت کی عام رائے کی اصلاح کروں ورنہ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ میں ٹاؤن کمیٹی کے ممبروں کو اس کی طرف توجہ دلا دیتا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ لوگوں میں یہ شکایت ہے کہ وہ محلے جو شہروں کی قدیم کی آبادی کے ہیں ان میں روشنی اور صفائی کا پورا انتظام نہیں.اگر یہ بات درست ہے تو یہ مطالبات نہ صرف ان کے ہیں بلکہ میں بھی اپنے آپ کو ان مطالبات میں شریک سمجھوں گا.یہ قطعی طور پر دیانتداری کے خلاف ہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس میں کسی فریق کے حقوق کو کی نظر انداز کر دیا جائے.میں مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ دیکھیں کہ ان کے جماعتی حقوق کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے تو سب مل کر اس کا ازالہ کریں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں لیکن میرے نزدیک کی احمدیوں کو اپنا معیار بہت بلند رکھنا چاہئے اور انہیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کے حقوق بھی تلف نہ ہوں.شہریوں کو یہ باتیں بالعموم سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن قادیانی چونکہ قریب زمانہ میں گاؤں تھا اس لئے میں دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ جھگڑے معمولی معمولی باتوں پر پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً اگر کمیٹی سڑکیں چوڑی کرنے کے لئے بعض تھر ے گرا دے تو قدیم آبادی کے نا تعلیم یافتہ لوگ حتی کہ بعض احمدی بھی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں.انہیں اُس کی وقت صرف یہ خیال آتا ہے کہ ہمارا تھڑ اگر جائے گا.یہ خیال نہیں آتا کہ اگر تھڑا نہ گرا تو گلیاں چلنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہو جائیں گی اور راستے کھلے نہ کئے گئے تو لوگوں کی صحت پر برا اثر پڑے گا.اس میں جہاں تک مجھے علم ہے غیر احمدی عصر کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے ، ہندو سکھ عنصر کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے اور کچھ احمدی عنصر بھی اس کی مخالفت کرتا ہے اور یہ ایک نہایت ہی نا پسندیدہ فعل ہے اور ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے تعلیم یافتہ لوگ
خطبات محمود ۸۹۷ سال ۱۹۳۸ انہیں سمجھا ئیں اور بتائیں کہ یہ اقدام تمہارے فائدہ کے لئے ہے، تمہیں نقصان پہنچانے کے لئے نہیں.پس اگر اس قسم کے تعلقات غیروں سے رکھے جائیں اور ان کے حقوق کی ویسی ہی نگہداشت کی جائے جیسے اپنے حقوق کی کی جاتی ہے تو یقیناً نتیجہ پہلے سے بہتر ہوگا.میں مانتا ہوں کہ ہماری جماعت کی مخالفت ہے اور وہ مخالفت ایسے رنگ میں ہے کہ اب وہ اُس وقت تک مٹ نہیں سکتی جب تک دُنیا ہماری طرف سے نا اُمید نہ ہو جائے اور اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب یہ جماعت کسی صوت میں بھی مٹائے مٹ نہیں سکتی بلکہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے لیکن بہر حال جب تک یہ حالت پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم پر مخالفوں کی طرف سے ناجائز اعتراضات ہونے ضروری ہیں مگر اس وجہ سے اُن کے کسی جائز اعتراض کو ہم نظرا نداز نہیں کر سکتے.میں جانتا ہوں کہ مخالف لوگ میرے اس خطبہ سے فائدہ اُٹھا ئیں گے اور وہ کہیں گے کہ جماعت احمدیہ کے امام نے اپنی جماعت کے لوگوں کو جھاڑا لیکن مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں.مجھے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اخلاق ایسے اعلیٰ ہوں کہ ہم خدا کے نزدیک بالکل بری الذمہ ہوں اور ہم پر یہ الزام عائد نہ ہو سکے کہ ہم نے کسی کے حقوق کو تلف کر دیا.پس با وجود اس علم کے کہ یقیناً میری اس بات سے دشمن ناجائز فائدہ اُٹھائے گا میں کہنے سے رک نہیں سکتا کہ میرے لئے یہ بات نا قابل برداشت ہے کہ ہمارے سپر د ایک کام کیا ج جائے اور ہم اس میں کوئی جنبہ داری یا غفلت کا پہلو اختیار کریں.ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمت خلق کے لئے کھڑا کیا ہے اور یہ خدمت خلق ہمارے لئے ایسی ہی ضروری ہے جیسے دوسروں کے لئے.بلکہ چونکہ وہ ہم پر شک کرتے ہیں کہ ہم اپنی اکثریت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اس لئے اگر ہم اُن کا کچھ لحاظ کر دیا کریں تو یہ نہ صرف ہمارے لئے ضروری ہے بلکہ واجب ہے کہ ہم ایسا کریں.پس ان معاملات میں ممبران کمیٹی جس جس وارڈ کی طرف سے منتخب ہوں ان کا کی فرض ہے کہ وہ اپنے وارڈ کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کریں.یقینا تمام گلیوں کی پوری صفائی ہونی چاہئے خواہ وہ گلی ہندوؤں کی ہو یا سکھوں کی ہو یا غیر احمدیوں کی ہو اور میں سمجھتا ہوں ایک وارڈ کی طرف سے جو نمبر بھی منتخب ہو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے وارڈ کے لوگوں کے جائز حقوق کی حفاظت کرے.تہ
خطبات محمود ۸۹۸ سال ۱۹۳۸ء میونسپل کمیٹیوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ روشنی کا معقول انتظام کریں.میونسپل کمیٹیوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ گلیوں اور سڑکوں کو صاف رکھیں اور میونسپل کمیٹیوں کا فرض ہو ا کرتا ہے کہ وہ سڑکیں کھلی اور چوڑی رکھیں.اگر یہاں کی ٹاؤن کمیٹی کے ممبران امور کی طرف توجہ نہیں کرتے تو یقیناً وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیتے ہیں.مثال کے طور پر انہوں نے جلسہ میں کہا ہے کہ آرائیوں کی جو مسجد ہے جہاں احرار کا جمعہ ہوتا ہے وہاں پوری صفائی نہیں کی جاتی اور گند پڑا رہتا ہے.اگر یہ بات واقعی صحیح ہے تو یہ اس وارڈ کے ممبر کی غلطی ہے کہ اس کی نے اپنے وارڈ کی صفائی کا خیال نہیں رکھا.ایسے معاملات میں ہمیں قطعا یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کی طرف سے ہماری مخالفت کی جاتی ہے بلکہ ہمیں ان کے حقوق کی کامل حفاظت کرنی چاہئے اور ہماری جماعت کے ممبروں کا فرض ہے کہ خواہ کسی وارڈ میں احمدی رہتے ہوں یا غیر احمدی ،سب کے حقوق کا خیال رکھیں.روشنی کا معقول انتظام کرنا، گلیوں کی صفائی ، سڑکوں کی صفائی اور اسی طرح اور رفاہ عام کے کام میونسپل کمیٹیوں کے فرائض میں شامل ہیں اور ممبران کا کی فرض ہے کہ وہ یہ دیکھتے رہیں کہ یہ حقوق سب کو ملے ہیں یا نہیں اور اگر کسی جگہ یہ حق ادا نہ کیا کی جار ہا ہو تو اس جگہ فوری طور پر مناسب انتظام کیا جائے تا کہ کسی کوکوئی شکوہ نہ رہے.باقی رہا ان کا اور ہمارا مقابلہ یا اُن کی گالیاں اور دھمکیاں.سو یہ ایسی چیز نہیں جس کی ہم پرواہ کریں یا جس کی وجہ سے ہم گھبرا جائیں.بہر حال ان کا راستہ الگ ہے اور ہمارا الگ.انہوں نے جب اپنے لئے یہ رستہ تجویز کیا ہوا ہے کہ وہ ہماری مخالفت کریں تو وہ اس کے اچھے یا بُرے پہلو کو خود سمجھ سکتے ہیں.ہمارا فرض یہی ہونا چاہئے کہ ہم ان کے مقابلہ میں اپنی حفاظت اور بچاؤ کے تمام جائز ذرائع اختیار کرتے ہوئے اپنی برتری اور اپنے حقوق کی فوقیت کو قائم رکھیں اور چونکہ ہماری یہاں تعداد زیادہ ہے، ہم یہاں کے مالک ہیں اور قادیان ہمارا ایک علمی اور مذہبی مرکز ہے اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قادیان کی امتیازی شان کو بھی برقراری رکھیں لیکن اس کے مقابلہ میں جو شہری حقوق ہیں وہ سب کو یکساں ملنے چاہئیں اور سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے.مثلاً ہمارے مرکز کی گلیاں ہیں.اب مذہبی لحاظ سے چاہے یہ ہمارا مرکز ہی ہے اور چاہے ہم کتنی ہی خواہش رکھتے ہوں کہ ہمارے مرکز کی گلیاں زیادہ پاکیزہ اور
خطبات محمود ۸۹۹ سال ۱۹۳۸ زیادہ صاف ستھری ہوں پھر بھی کمیٹی کے قانون کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام گلیوں کا کی یکساں خیال رکھیں.خواہ وہ گلیاں احمدیوں کے محلہ کی ہوں یا ہندوؤں اور سکھوں کے محلہ کی.ہاں اگر مذہبی مرکز ہونے کے لحاظ سے ہم اپنی گلیوں کو عام گلیوں سے زیادہ مصفی اور زیادہ اعلیٰ بنانا چاہیں تو ہمیں ان گلیوں کی صفائی پر اپنا ذاتی روپیہ خرچ کرنا چاہئے.ہمیں قطعا یہ حق حاصل نہیں کہ ہم کمیٹی کا روپیہا اپنی گلیوں پر زیادہ صرف کر لیں اور اس کے فنڈ سے زیادہ حصہ اپنے لئے لے لیں.دوسری جگہوں میں بے شک ایسا ہی ہوتا ہے.مثلاً لاہور میں جتنا روپیہ مال روڈ پر خرچ کی کیا جاتا ہے اتنا روپیہ دوسری سڑکوں یا عام گلیوں پر صرف نہیں کیا جا تا مگر وہ انگریزی اخلاق ہیں ، اسلامی اخلاق نہیں اور ہم یقیناً اسلامی تعلیم کے ماتحت انگریزوں کے اس فعل کو بھی نا پسند کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں مال روڈ پر بھی اتنا ہی روپیہ خرچ کرنا چاہئے جتنا روپیہ وہ باقی سڑکوں پر خرچ کرتے ہیں.اسی طرح گلیوں کی صفائی پر بھی ایک جیسا خرچ ہونا چاہئے اور یہ صرف لاہور کی بات نہیں اور شہروں میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی کی میں سب سے یکساں سلوک نہیں کرتے.مگر ہمیں ان باتوں میں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے بلکہ شہر کا روپیہ سارے شہر پر یکساں خرچ کرنا چاہئے اور اگر کوئی چیز ایسی ہو جسے جماعت کے لحاظ سے کوئی فوقیت حاصل ہو تو ہمیں یہ امر ضرور مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس کے اخراجات ہم آپ برداشت کریں.بجائے اس کے کہ شہر کے روپیہ کو اس پر صرف کیا جائے.یہ کم سے کم انصاف کی ہے جو لوگوں سے کیا جا سکتا ہے کہ جس جس جماعت کا جتنا روپیہ آئے اس قد ر روپیہ سے اس جماعت کو فائدہ پہنچ جائے ورنہ جو زیادہ لوگ ہوں اور اکثریت میں ہوں اُن کا تو اخلاقی لحاظ کی سے یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے روپیہ میں سے کچھ حصہ بچا کر غریبوں پر خرچ کیا کریں.کیونکہ اصل اسلامی اخلاق یہی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مخالفت اور گالیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور ان ناجائز ذرائع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو دشمن ہمارے مقابلہ میں اختیار کرتا ہے صبر اور اسلامی علو حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ہماری جماعت کے احمدی ممبر نہ صرف احمدی حقوق کی حفاظت کریں گے بلکہ وہ غیر احمدیوں ، سکھوں اور ہندوؤں کے حقوق کی بھی حفاظت کریں گے اور جہاں کہیں انہیں نقصان پہنچ رہا ہو وہاں وہ ان کی جائز مدد سے دریغ نہیں کریں گے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ زیادہ حوصلہ دکھا ئیں اور بہر حال ان کی رعایت رکھیں.کیونکہ وہ خود ہی اکثریت میں ہیں اور دوسرے اقلیت میں اور میرے نزدیک ٹاؤن کمیٹی کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے حلقوں کو اس طرح تبدیل کرے کہ غیر احمدیوں کا بھی ایک نمائندہ ضرور آ جائے.اس احساس میں میں خود بھی شریک ہوں مگر موجودہ حالات میں گورنمنٹ نے وارڈ ایسے رنگ میں تقسیم کر رکھے ہیں کہ احمدی باوجود اکثریت میں ہونے کے اقلیت میں بدل سکتے ہیں اور یہ کی بات قطعاً برداشت نہیں کی جاسکتی.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم ۷۵ فیصدی ہونے کے باوجود ۶۰ یا ۶۵ فیصدی نیابت قبول کر لیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ۴۰ یا ۵۰ فیصدی نیابت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.(۲) اس کے بعد میں جماعت کے دوستوں کو ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ ہجرت کا مسئلہ ہے.ہجرت کے معاملہ میں ہماری جماعت سے بہت کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں حالانکہ میں نے ایک دفعہ پہلے بھی اس کی طرف توجہ دلائی تھی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ بیرونی جماعتیں اس کی طرف توجہ کر رہی ہیں اور نہ قادیان کی جماعت اس کی طرف کی متوجہ ہے.یہ مسئلہ بھی نہایت پیچیدہ ہے اور جب تک خاص غور اور فکر سے اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی اس وقت تک ہم اسے کبھی بھی حل نہیں کر سکیں گے.اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ قادیان ترقی کرے گا اور آپ نے خود یہ تحریر فرمایا ہے کہ وہ شخص جو قادیان آ کر رہائش اختیار نہیں کرتا یا کم سے کم یہاں رہائش اختیار کرنے کی دل میں تمنا اور خواہش نہیں رکھتا اس کی نسبت مجھے اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے.پس اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر احمدی کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ یہاں آ کر رہائش اختیار کرے اور ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں آ کر رہیں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو.کیونکہ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی
خطبات محمود ۹۰۱ سال ۱۹۳۸ء خواہش ایک قدرتی خواہش ہے اور ہم اس خواہش میں کہ قادیان کی احمدی آبادی جلد سے جلد بڑھے کسی سے پیچھے نہیں لیکن دوسری طرف ہماری یہ خواہش بھی رہتی ہے کہ قادیان میں ایسی آبادی نہ بڑھے جو دینی لحاظ سے کمزور ہو اور ایسا نہ ہو کہ قادیان کی ترقی کے ساتھ ہی ہم پر یہ مثل صادق آ جائے کہ سرمنڈواتے ہی اولے پڑے اور تعداد کی ترقی کے ساتھ ہم میں اخلاقی تنزل شروع ہو جائے.اب جو دشمن بعض دفعہ ہماری جماعت پر اعتراض کرتا اور شور مچانے لگی جاتا ہے اس کی زیادہ تر وجہ یہی ہے کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ ہجرت کر کے آ جاتے ہیں جو اخلاقی معیار پر پورے نہیں اتر تے.پہلے زمانہ میں قادیان میں مشکلات باہر سے زیادہ تھیں اور ی اُس وقت وہی لوگ یہاں آ کر بستے تھے جو اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے.دین کے لئے قربانیاں کرنے کی کا جذبہ اپنے دل میں رکھتے تھے اور محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے فضل کی تلاش کے لئے وہ قادیان آ کر ڈیرہ جما دیتے تھے.مگر اب قادیان میں احمدی آبادی کی زیادتی کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ہم ہجرت کر کے قادیان گئے تو ہماری تجارت میں ترقی ہو جائے گی یا کوئی ملازمت ہی مل جائے گی یا امداد کے لئے کوئی وظیفہ ہی مقرر ہو جائے گی گا.اس وجہ سے وہ کمزور اور بُزدل لوگ جو اپنی جگہوں پر مخالفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے وہ ہجرت کا نام لے کر قادیان آجاتے ہیں.پس ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سلسلہ کے نظام کی پابندی کریں گے، احکام سلسلہ کی فرمانبرداری کریں گے ، قربانی کے موقعوں پر قربانی اور ایثار کا شاندار نمونہ دکھائیں گے اور جماعتی کاموں میں بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ حصہ لیں گے، بالکل غلط ہوتا ہے.وہ حاجتمند ہوتے ہیں ، وہ طالب امداد ہوتے ہیں ، وہ ایک قسم کے سائل ہوتے ہیں.پس ان سائلوں یا بُزدلوں اور کمزوروں کی جماعت کے بڑھنے سے ہمارے اخلاق ترقی نہیں کریں گے بلکہ تباہ ہوں گے اور جماعت کی ترقی نہیں ہوگی بلکہ تنزّل ہوگا اور اس کی شان می بلند نہیں ہوگی بلکہ گرے گی.پس ہجرت محدود ہونی چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے ہجرت کی ہونی چاہئے جو سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والے ہوں نہ وہ جو کہ سائل کی حیثیت رکھتے ہوں یا بھگوڑوں اور بزدلوں کی جماعت ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ
خطبات محمود ۹۰۲ سال ۱۹۳۸ء مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهَجْرَتُهُ إِلى اللهِ وَرَسُولِهِ لے کہ جو شخص اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ میں خدا اور اس کے رسول کا قرب حاصل کروں تو اسے واقع میں خدا اور اس کے رسول کا قرب حاصل ہو جاتا ہے مگر فرمایا مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ہے جو شخص اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ مجھے کوئی دنیاوی فائدہ پہنچ جائے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے وہ ہجرت کرتا ہے تو فرمایا اس کی کچ ہجرت تو اسی کے لئے ہو گی.وہ عورت کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ دُنیا کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ تجارت کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ امن کا مہاجر کہلا سکتا ہے مگر وہ خدا اور اس کے رسول کا مہاجر نہیں کہلا سکتا.یہ ہجرت کا فرق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ میں ہی بیان فرما دیا کی تھا ، آج کا ایجاد کردہ نہیں.پس ہمیں تو اس ہجرت کی ضرورت ہے جو خدا اور اس کے رسول کے لئے ہو اس ہجرت کی ضرورت نہیں جو دنیوی اغراض کے ماتحت ہو مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے جو محض اس لئے ہجرت کا نام لے کر قادیان آگئے ہیں کہ باہر وہ دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.پس وہ ڈر کر اور مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں.اس لئے قادیان نہیں آئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو.چنانچہ جب بھی ان سے پوچھا جائے کہ تم کیوں قادیان آئے ہو تو وہ یہی جواب دیں گے کہ باہر ہمارے لئے مشکلات بڑی تھیں.گویا وہ کی خدا کے لئے نہیں آئے بلکہ اپنے آپ کو امن پہنچانے کے لئے یہاں آئے ہیں.پس وہ خدا کے مہاجر نہیں بلکہ دنیا کے مہاجر ہیں ، وہ امن کے مہاجر ہیں وہ تجارت کے مہاجر ہیں مگر انہیں خدا اور اس کے رسول کا مہاجر نہیں کہا جا سکتا.یہی وجہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے قادیان میں کیوں بیٹھے ہو، باہر جاؤ اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم کہاں جائیں ، باہر دشمن تو ہمیں آرام نہیں لینے دیتا.جس کا صاف طور پر یہی مطلب ہے کہ وہ آرام طلبی کے لئے قادیان آئے ہیں.حالانکہ ہجرت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی خاطر تکلیف اُٹھانے کے لئے آئے نہ یہ کہ اپنے آپ کو آرام پہنچانے یا دنیوی اغراض و مقاصد میں ترقی حاصل کرنے کے لئے آ جائے اور آرام سے مہاجر بن جائے.اگر ان کے دل میں ہجرت کی عظمت ہوتی اور اگر انہوں نے.
خطبات محمود ۹۰۳ سال ۱۹۳۸ء خدا اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہوتی تو جب بھی ان سے کہا جاتا کہ جاؤ اور باہر نکل کر اسلام پھیلاؤ تو وہ خوشی سے اُٹھ کھڑے ہوتے اور کہتے کہ الحمد للہ، ہماری ہجرت کا مقصد پورا ہو گیا.ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی تھی اور خدا نے ہم سے اپنا کام لے لیا مگر ہوتا یہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے باہر جاؤ تو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں ہم جائیں کہاں اور اگر جائیں تو کھا ئیں کیا ؟ پس ان کی ہجرت إِلَى اللَّهِ وَإِلَى الرَّسُولِ نہیں بلکہ ان کی ہجرت إِلَى الطَّعَامِ يَا إِلَى الرِّبَاس ہے.یعنی یا تو وہ کھانے پینے کے لئے قادیان آئے ہیں یا تجارت کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں یا دشمن کے شر سے بچنے کے لئے قادیان آئے ہیں.دین کا کوئی حصہ اور ہجرت کا کوئی حقیقی رنگ ان میں نہیں پایا جا تا.حالانکہ ہجرت ہمیشہ دین کی خدمت کے لئے ہوتی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لئے نہیں ہوتی.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ مکہ سے جو مسلمان ہجرت کرتے وہ اسی لئے ہجرت کرتے تھے کہ باہر نکل کر اسلام کی کو چار دانگ عالم میں پھیلائیں گے اسی وجہ سے جب وہ مکہ سے ہجرت کرتے تو کفار ان کا پیچھا کرتے ، انہیں پکڑ پکڑ کر واپس لاتے اور اگر کوئی نہ پکڑا جاتا تو اس کے لئے انعام مقرر کرتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے اگر یہ ہجرت کر کے چلے گئے تو اسلام پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ پھیلنا شروع ہو جائے گا اور اس کی ترقی جو پہلے صرف مکہ تک محدود ہے ارد گرد کے علاقوں کو بھی کی اپنے اندر شامل کرے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.صحابہ جب مکہ سے ہجرت کر کے گئے تو مدینہ میں وہ روٹیاں کھانے کے لئے نہیں بیٹھ گئے کی بلکہ انہوں نے اسلام کی فتح کے لئے لڑائیوں میں حصہ لیا اور اپنی جانیں خُدا اور اس کے رسول کے لئے قربان کر دیں.پس وہ قربانی کرنے اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے ہجرت کرتے تھے.اس لئے ہجرت نہیں کرتے تھے کہ مدینہ جا کر انہیں آرام سے روٹی مل جائے گی اور دشمن کے کی حملوں سے ان کی جان بچ جائے گی.یہی وجہ ہے کہ جو نہی اسلامی حکومت قائم ہوئی رسولِ کریمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ اب کوئی ہجرت نہیں سکے کیونکہ ہجرت تکلیف اُٹھانے کے لئے تھی اور چونکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد قربانیوں کا کوئی موقع نہیں تھا اس لئے کی
خطبات محمود ۹۰۴ سال ۱۹۳۸ء آپ نے فرما دیا کہ اب کوئی ہجرت نہیں.جو باہر آرام اور سہولت سے رہتے ہوں ، ان کے کام چلتے ہوں، انہیں ملازمتیں حاصل ہوں ، ان کی تجارتیں اعلیٰ پیمانہ پر ہوں اور ہر طرح کی فارغ البالی اور اطمینان انہیں نصیب ہو مگر پھر بھی وہ اپنے آرام و آسائش کو قربان کر کے محض خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لئے قادیان آ کر رہائش اختیار کر لیں اور کہیں کہ ہم اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرتے ہیں.روپیہ ہمارے پاس کافی ہے.جائداد ہمارے پاس وافر ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے خدا تعالیٰ کے دین کا بھی کوئی کام ہو جائے اور ہم اپنی تمام زندگی اب اشاعت اسلام اور اشاعتِ احمدیت کے لئے صرف کر دیں گے.یا وہ دوست سچے مہاجر ہیں کہ جن کے پاس مال اور روپیہ تو نہ ہو مگر وہ اپنے جسموں اور وقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت سے گھر سے نکلیں اور اپنی زندگیوں کو اشاعتِ اسلام و احمدیت کے لئے سلسلہ کی راہ میں اُسی طرح خرچ کریں اور کرنے کے لئے تیار رہیں جس طرح کہ صحابہ نے کیا.یہی اصل مہاجر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کی ان کا قادیان میں آنا ضروری ہے مگر وہ جو باہر کی مشکلات سے ڈر کر قادیان آتا ہے یا اس لئے آتا ہے کہ باہر اس کا کام نہیں چلتا تھا مگر یہاں احمدیوں کی کثرت کی وجہ سے اُسے اپنی تجارت میں ترقی کی اُمید ہوتی ہے وہ مہاجر نہیں بلکہ وہ بزدل اور بھگوڑا ہے.وہ لڑائی کے میدان سے بھاگنے والا انسان ہے.اس کے ٹھہرنے کا مقام بھلا قادیان کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیا قادیان بھگوڑوں اور بزدلوں کی رہائش کی جگہ ہے؟ ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں چاروں طرف ارتداد کا طوفان پھیل گیا اور صرف تین جگہ اسلامی حکومت رہ گئی باقی تمام مقامات میں بغاوت رونما ہو گئی اور مرتدین نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تو اس وقت بڑی خطرناک جنگ ہوئی.اس جنگ میں سے بعض مسلمان دشمن کے حملہ کی تاب نہ لا کر بھاگے اور مدینہ آگئے.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ مدینہ سے چلے جائیں اور یہ اعلان فرما دیا کہ آئندہ ان کو کی مدینہ میں داخل ہونے کی کبھی اجازت نہ ہو گی.حالانکہ وہ میدانِ جنگ سے عارضی طور پر بھاگ کر آئے تھے مستقل طور پر بھاگ کر نہیں آئے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ تھوڑی دیر کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء لئے دشمن کے مقابلہ سے ہٹ کر مدینہ میں آکر پناہ گزین ہو گئے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان پر سخت اظہار ناراضگی کیا اور فرمایا کہ مدینہ میں صرف ان لوگوں کی جگہ ہے جو یہاں سے نکل کر دنیا کا مقابلہ کریں.ان لوگوں کے لئے جگہ نہیں جو ڈر کر یہاں آجائیں.پس ایسی ہجرت قطعاً کوئی ہجرت نہیں اور اسی وجہ سے بار ہا یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی ہجرت کرنا چاہے تو ی پہلے وہ ہجرت کی مرکز سے اجازت حاصل کرے اور بغیر اجازت حاصل کرنے کے کوئی ہجرت کر کے قادیان آیا تو اُسے واپس جانے پر مجبور کیا جائے گا اور یہ کہ جماعتیں ہمیشہ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق ہجرت کی سفارش کیا کریں جو واقع میں اخلاص اور تقویٰ رکھتے ہوں اور خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آنا چاہتے ہوں.اپنی دنیوی ضرورتوں کی وجہ سے یہاں نہ آ رہے ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیرونی جماعتوں نے بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کو بالکل نہیں سمجھا.انہیں جب کسی کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو فوراً اس کی سفارش کر دیتی ہیں کہ فلاں بڑا مخلص ہے اس کے گزارہ کی یہاں کوئی کی صورت نہیں ، اسے قادیان میں آنے کی اجازت دے دی جائے یا فلاں کو احمدیت کی وجہ سے سخت تکلیف ہے ہم بڑے زور سے سفارش کرتے ہیں کہ اسے قادیان آنے کی اجازت دے کی دی جائے تاکہ وہ آرام کا سانس لے سکے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ دوحکومتوں میں جنگ ہو رہا ہو، ملک کی عزت خطرہ میں ہو ، قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہو اور کوئی شخص میدان سے بھاگنا چاہتا ہو تو اس کے متعلق بڑے زور سے سفارش کی جائے کہ یہ شخص میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتا ہے اس کے لئے مرکز میں فوراً جگہ نکالی جائے.کیا انگریزی گورنمنٹ یا دُنیا کی کوئی عقلمند اور دوراندیش گورنمنٹ ایسا ہی کیا کرتی ہے.کیا تم نے کبھی سُنا ہے کہ میدانِ جنگ سے کوئی برطانوی سپاہی بھاگ آیا ہو اور اسے لنڈن میں شاہی محلات کے قریب جگہ دی گئی ہو.وہاں تو اسے فوراً گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے مگر یہاں جماعتیں ہیں کہ سفارش کر رہی ہوتی ہیں کہ فلاں کو قادیان میں بلا لیا جائے کیونکہ باہر دُشمنوں کا وہ مقابلہ نہیں کر سکتا.میں حیران ہوں کہ جماعتیں بار بار میرے خطبات سننے کے باوجود کیوں ایسی جرات کرتی ہیں اور کس طرح یہ سفارش کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں کہ فلاں سخت مصیبت میں ہے اسے قادیان میں ہجرت کی اجازت
خطبات محمود ۹۰۶ سال ۱۹۳۸ء دی جائے.ایسے شخص کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ دشمنوں کا مقابلہ کرے اور اس وقت تک اپنے مقام کو مت چھوڑے جب تک وہاں احمدیت قائم نہیں ہو جاتی.وہاں تو ایک لڑائی دُشمنوں سے کی لڑی جارہی ہوتی ہے.ایک تلوار ہے جو سر پر لٹک رہی ہوتی ہے.احمدیت نرغہ اعداء میں گھری ہوئی ہوتی ہے.ایمان اور کفر آپس میں مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں مگر جماعتیں لکھ رہی ہوتی ہیں کہ اُسے فوراً ہجرت کی اجازت دینی چاہئے.حالانکہ جہاں احمدیت کے لئے مشکلات ہوں وہاں تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جگہ سے اس وقت تک ہلے نہیں جب تک احمدیت کی بنیادیں مضبوط طور پر اُس زمین میں گڑ نہ جائیں مگر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ جماعتیں اب تک اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھیں اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ہم تحقیقات کر کے آپ کے خط کا جواب کی دیں گے تو وہ لکھتی ہیں تحقیقات بعد میں کر لیں سر دست اس کو اجازت دے دیں کیونکہ وہ بہت ہی تکلیف میں ہے.اس سے زیادہ ایک اسلامی اصل کی تضحیک اور کیا ہوسکتی ہے؟ گویا قادیان کی اسلامی جنگ کا مرکز نہیں بلکہ اسلامی بھگوڑوں کا مرکز ہے.ایسی جماعتیں یقیناً اپنے عمل سے احمدیت کی ہتک کرتی ہیں ، اسلام کی ہتک کرتی ہیں اور سلسلہ کے نظام کی ہتک کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ انہیں قادیان میں ہجرت کی اجازت دے دی جائے.یہ ہجرت کی انتہائی تک ہے.اگر کسی جگہ بعض لوگوں کو احمدیت کی وجہ سے مشکلات در پیش ہوں تو انہیں اس وقت تک اپنے مقام سے نہیں ہلنا چاہئے جب تک وہ مخالفت احمدیت کے لئے امن کی صورت میں تبدیل نہیں ہو جاتی.اگر اس طریق پر سختی سے عمل کیا جائے تو یقیناً امن قائم ہو جانے کے بعد وہی لوگ ہجرت کی خواہش رکھیں گے جو بچے دل سے دین کی خدمت کرنے کی تڑپ رکھتے ہوں گے مگر اب جو سینکڑوں لوگ مہاجر بن کر قادیان آئے ہوئے ہیں ان کو دیکھو تو وہ کیا دین کی خدمت کر رہے ہیں ؟ رات دن لون (نمک) تیل اور ترکاری بیچنے میں مشغول ہیں.اس کے سوا وہ اور کیا کر رہے ہیں مگر کیا اسی کے لئے انہوں نے ہجرت کی تھی ؟ اور کیا یہی ہجرت کی غرض اور اس کی کا مفہوم ہوتا ہے؟ یہی لوگ ہیں جو جماعت کے لئے گلے کا پتھر بنے ہوئے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن میں مستفتی پیدا ہوتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن میں سے منافق پیدا ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو احمدیت کو بدنام کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں.نہ عبادات میں چست ہیں ، نہ چندے
خطبات محمود 9+2 سال ۱۹۳۸ء دیتے ہیں، نہ قربانیاں کرتے ہیں، نہ تبلیغ میں حصہ لیتے ہیں.سال میں ایک یا دو دن یوم التبلیغ آتا ہی ہے مگر اس روز بھی انہیں اپنے گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے باہر نکلنا موت دکھائی دیتا کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں.لعنت ہے ایسی ہجرت پر کہ سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے انہیں دو دن بھی تبلیغ کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور جب بھی انہیں دین کی خدمت کے لئے بلایا جاتا ہے تو اس کے جواب میں ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں.مجھے ناظر دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ہمیشہ یہ شکایت پہنچتی ہے کہ جب بھی لوگوں کو تبلیغ کے لئے کہا جاتا ہے ایک جماعت جی پچرانے لگ جاتی ہے.اس وقت قادیان کی احمدی آبادی سات ہزار ہے اور اگر صرف مردوں کا حساب کیا جائے تو وہ تین ہزار بنتے ہیں بلکہ میں نے ابھی چند دن ہوئے کی قادیان کی مردم شماری کرائی تو پانچ سال سے اوپر کی عمر کے۳۳ئو ذکور نکلے.اس میں سے اگر آٹھ سو ایسے بچے فرض کر لیں جو پانچ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے ہیں اور انہیں اس تعداد میں کی سے نکال دیا جائے تو بھی اڑھائی ہزار عاقل بالغ مر درہ جاتے ہیں.اگر یہ اڑھائی ہزار آدمی کی ۱۵ ، ۱۵ دن بھی سال میں تبلیغ کے لئے دیں تو قریباً ایک سو آدمی روزانہ تبلیغ پر رہ سکتے ہیں.اب اگر سو گاؤں میں ہر وقت تبلیغ ہو رہی ہو اور ہر وقت ان گاؤں میں ہمارا ایک ایک آدمی بیٹھا انہیں تبلیغ کر رہا ہو تو ایک سال کے اندر ہی عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے مگر وہ جو ہجرت کر کے آئے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے کیا ہجرت کی ہے اور کس چیز کا نام انہوں نے ہجرت رکھا ہوا ہے.یہ تو شریعت کی ایک تو اصطلاح کی شدید ہتک ہے کہ کام اپنا کیا جائے اور مفاد ذاتی سوچا جائے مگر نام اس کا ہجرت رکھ لیا جائے.آخر تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے دُنیا کے لئے ہجرت کی یا تی تجارت کے لئے ہجرت کی یا امن تلاش کرنے کے لئے ہجرت کی مگر اُس کا نام انہوں نے دین رکھ لیا ہے اور منہ سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے خدا اور اُس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہے.کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ہجرت ان کو کوئی فائدہ دیتی ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں سُرخرو ہو جائیں گے؟ یہ ہجرت تو ایسی ہی ہے جیسے میں جب طالبعلم تھا اور سکول میں پڑھا کرتا کی تھا تو میں نے ایک طالبعلم کو ایک دفعہ دیکھا کہ وہ بڑے زور شور سے ریوڑیاں کھا رہا ہے.ریوڑیاں تو لوگ کھایا ہی کرتے ہیں مگر اُس کے کھانے کا طریق ایسا تھا جس میں شدید حرص پائی
خطبات محمود ۹۰۸ سال ۱۹۳۸ء جاتی تھی.میں نے انہیں کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کے دل میں ریوڑیوں کی بہت زیادہ خواہش پائی جاتی ہے.وہ کہنے لگے ہاں ! خواہش کیوں نہ ہوئیں نے سُنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ریوڑیوں کو بہت پسند فرمایا کرتے ہیں.میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو کو نین کو بھی کھایا کرتے ہیں، ایسٹرن سیرپ بھی پیا کرتے ہیں اور چرائتہ وغیرہ کے مرکبات بھی استعمال کر لیا کرتے ہیں.آپ وہ کیوں نہیں کھاتے ؟ وہ کہنے لگے یہ چیزیں تو کڑوی ہو ئیں میں کی نے کہا بس ٹھیک ہے.آپ کی مثال تو وہی ہوئی کہ کڑوا کر وا تھو اور میٹھا میٹھا ہپ.یہی ان لوگوں کی ہجرت کا معاملہ ہے.یہ ظاہری طور پر نقل مکانی کر لیتے ہیں اور اس سے ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جب قربانی اور ایثار اور تبلیغ کا سوال پیدا ہو تو عذر تراشنے لگ جاتے ہیں اور باوجود اس کے فخر سے اپنے آپ کو مہاجر قرار دیتے ہیں.اگر وہ کہتے کہ ہم دُنیا کمانے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں، ہم اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں روٹی ملے اور ہمارے روزگار میں ترقی ہو تو ہم ان پر کبھی اعتراض نہ کرتے.ہم کہتے جو کچھ یہ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں.ان کا کی عمل بالکل قول کے مطابق ہے مگر ہمیں ان پر اگر گلہ ہے تو یہ کہ وہ اپنے ترک وطن کا نام ہجرت رکھتے ہیں اور کام وہ کرتے ہیں جو ہجرت کے مخالف ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ آئندہ کسی کو ہجرت کی اجازت نہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت کے دوستوں کو بے شک ہجرت کی تحریک کریں مگر ہجرت کے اصول کو بھی مد نظر رکھیں.جو شخص صحیح طور پر ہجرت کر کے کی یہاں آنا چاہے ہم اس کے راستہ میں ہر گز روک نہیں بنیں گے بلکہ ہم تو اس کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک حد تک مستحق مہاجرین کی مدد کیا کریں.چنانچہ صحابہ جب ہجرت کر کے مدینہ گئے تو انصار نے اپنی جائدادوں میں سے ان کے لئے ایک حصہ الگ کر دیا اور اپنے کھانے پینے میں ان کو شریک کر لیا.پھر جب مہاجرین کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے تو اس طریق کو منسوخ کر دیا گیا اور میں سمجھتا ہوں یہی حق ہر سچے مہاجر کا ہے.بشرطیکہ اس کی ہجرت خدا کے لئے ہو ، اس کی ہجرت رسول کے لئے ہو، اس کی ہجرت دُنیا کے لئے یا آرام طلبی کے لئے نہ ہو مگر اب جو ہجرت کے نام سے
خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء قادیان آئے ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھتا نہیں مگر سوال یہ ہے کہ تمہیں کیوں پوچھا جائے.تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے ہجرت کی کیوں ؟ اور تمہاری ہجرت کے معنے کیا ہیں ؟ آخر کہاں سے ہمارا فرض آگیا کہ ہم ان لوگوں کے لئے قربانیاں کریں جو بھگوڑے ہوں اور دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کر آگئے ہوں.ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا اگر خدا اور اس کے رسول نے کہیں حکم دیا ہو تو وہ حکم ہمیں دکھاؤ مگر جہاں تک میں نے قرآن اور احادیث کو دیکھا ہے مجھے یہی نظر آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاتی کی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو فوراً انہیں اپنے ارد گرد سے دور پھینکو کیونکہ وہ منافق ہیں اور اپنی عملی حالت سے اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہیں.پس ایسے لوگوں کی مدد کرنا تو اسلام اور احمدیت پر سخت ظلم کرنا ہے.پھر کئی لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ قادیان آتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ جاتے ہیں اور خود کہیں باہر بھاگ جاتے ہیں.اب ان کے بیوی بچوں کے مجھے رقعوں پر رُفعے آنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے اور ہمارا کوئی وظیفہ مقرر کیا جائے.میں ہمیشہ ان سے کہا کرتا ہوں کہ تمہاری وہ جائداد کہاں گئی جس کے بھروسہ پر تم قادیان آئے تھے اور اگر تمہارے گزارہ کا کوئی سامان نہ تھا تو تم قادیان کیوں آگئے اور اب تمہارے لئے وظیفہ کیوں مقرر کیا جائے ؟ اگر اس قسم کے لوگوں کے کی لئے وظائف مقرر کئے جائیں تو دس دن کے اندر ہی اندر سلسلہ کے تمام کام بند ہو جائیں کیونکہ جس دن انہیں پتہ لگے گا کہ اس طرح بے کاروں ، ناداروں اور بھگوڑوں کے لئے وظائف مقرر کئے جانے لگے ہیں تو سینکڑوں بے کار اور اخلاق میں گرے ہوئے لوگ قادیان آجائیں گے اور سب اپنے لئے وظائف کی درخواستیں دے دیں گے اور جب ان کو وظیفہ دے دیا گیا تو ہے باقی کام کس طرح چل سکتے ہیں.پس اصولی طور پر علاج یہی ہے کہ ایسے آدمی کو آتے ہی قادیان سے رخصت کر دیا جائے.ہمیں یہ تو منظور ہے کہ ہم ایسے آدمی کو واپسی کا کرایہ اپنی گرہ کی سے دے دیں مگر ہم ایسے آدمی کو قادیان میں ایک دن رہنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ وہ سلسلہ پر ایک ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جو بالکل ناواجب ہوتا ہے اور چونکہ نہ تو بیرونی جماعتیں اس طرف صحیح طور پر توجہ کرتی ہیں اور نہ یہاں کے محلوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری
خطبات محمود 910 سال ۱۹۳۸ء ایسے لوگوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں.اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے وظائف مقرر کئے جانے کے متعلق دھڑا دھڑ درخواستیں موصول ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور اگر ہم یہ وظائف جاری کر دیں جیسا کہ بعض نادان اس قسم کے وظائف جاری کرنے کا نام ہی قومی خدمت رکھتے ہیں تو سال بھر میں ایک ہزار فیملی قادیان آ کر بس جائے اور نتیجہ یہ ہو کہ تمام تبلیغ بند ہو جائے ، مدر سے بند ہو جائیں، اخبارات اور رسالے بند ہو جائیں ، دفاتر بند ہو جائیں اور جب کوئی پوچھے کہ کیا ہوا؟ نہ سکول جاری ہیں، نہ اخبارات نکلتے ہیں، نہ دفاتر کھلتے ہیں، نہ تبلیغ کی ہوتی ہے، نہ کسی سرگرمی اور عملی روح کا اظہار ہوتا ہے تو کہا جائے کہ ہم بڑی قومی خدمت کر رہے ہیں.ایک ہزار نادار مفلس اور قلاش لوگوں کے لئے جو روحانی جنگ کے میدان سے بھاگ کر قادیان آئے تھے وظیفے مقرر کر دیئے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر دن رات روٹیاں توڑتے رہتے ہیں.کیا دُنیا کا کوئی بھی شخص ہو گا جو یہ بات سُن کر ہماری تعریف کرے؟ وہ تو یہ سنتے ہی کہہ دے گا کہ تم پاگل ہو گئے ہو اور تمہارے علاج کی یہی صورت کی ہے کہ تمہیں کسی پاگل خانہ میں بھیج دیا جائے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہاں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بھی ہمیشہ ایسے موقعوں پر سفارش کرتے رہتے ہیں.حالانکہ ان کا فرض ہے کہ جب بھی انہیں کسی ایسے آدمی کا علم ہوا سے پکڑ کر ہمارے پاس اس کی رپورٹ کریں اور اسے جلد سے جلد یہاں سے نکالیں کیونکہ وہ دھوکا کے طور پر یہاں آگیا ہے اور ہجرت کے بہانہ سے وہ یہاں کے لوگوں پر اور خو د سلسلہ پر ایک بار بننا چاہتا ہے.پس ان لوگوں کے لئے ہجرت نہیں بلکہ ہجرت ان مخلصین کے لئے ہے جو باہر دشمنوں کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرتے ہیں، جو احمدیت کے فدائی کی ہیں ، جن کے باہر مکان بھی ہیں، زمینیں بھی ہیں، جائداد بھی ہے یا اگر یہ نہیں تو وہ اپنے جسم کو سلسلہ کی خدمات میں لگانے کی خواہش رکھتے ہیں اور عملاً دین کے سپاہی ہیں اور ان کے اوقات، ان کے اوقات نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے اوقات ہیں، سلسلہ کے اوقات ہیں.ایسے لوگ اگر قادیان کی آجائیں تو یقیناً اس میں سلسلہ کا فائدہ ہے کیونکہ ہم انہیں کہہ دیں گے کہ جب تم خدمت دین کے لئے ہی قادیان آئے تھے تو جاؤ اور فلاں گاؤں میں بیٹھ کر دین کی خدمت کرو، تمہاری ہجرت کا مقصد پورا ہو جائے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کو بعض دفعہ تبلیغ
خطبات محمود ۹۱۱ سال ۱۹۳۸ء کے لئے اور بعض دفعہ لڑائی کے لئے ادھر اُدھر بھیج دیتے اور مہاجر نہایت خوشی کے ساتھ وہاں چلے جاتے مگر وہ جو دکان کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں ان کو جب کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ تبلیغ کے کی لئے جاؤ تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم کس طرح جائیں ہماری تو دکان کا نقصان ہوگا.پس ان کی ہجرت کوئی ہجرت نہیں اور نہ ایسے مہاجرین کی ہمیں کوئی ضرورت ہے.ہمیں ایسے ہی کی مہاجرین درکار ہیں جو خدا اور اُس کے رسول کے لئے آئیں اور جب بھی ان کے کانوں میں یہ آواز پڑے کہ دین کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور کی خدا اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہیں اور میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کرنے کی تحریک کریں.اگر ایسے لوگ قادیان آجائیں تو عارضی طور پر ہم ان کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جیسے اگر ان کے باہر مکان ہوں یا اور کوئی جائداد ہو جس کا فوری طور پر فروخت ہونا مشکل ہو تو ہم ایسا انتظام کر سکتے ہیں کہ انہیں کچھ قرضہ دے دیں اور اس طرح ان کے مکان کی تعمیر کرا دیں اور جب ان کی باہر کی جائدادفروخت ہو جائے تو وہ بیچ کر ہمارا روپیہ ہمیں واپس دے دیں.پس اگر ایسے لوگ آئیں تو ہم حتی المقدور اُن کی مدد بھی کر سکتے ہیں اور در حقیقت یہی لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں قادیان میں رکھا جائے اور جو کی آبادی ان لوگوں سے بڑھے گی وہی اصل اور نیک آبادی ہو گی مگر وہ جواب قادیان آچکے ہیں میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں.تم اپنی نیتوں کو بدل لو اور اپنی پہلی فاسد نیتوں کو تبدیل کرتے ہوئے عہد کر لو کہ آئندہ کے لئے تم خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی کے لئے قادیان میں رہو گے فتنوں سے ہمیشہ بچتے رہو گے اور دین کے لئے جب بھی قربانی کی کی آواز تمہارے کانوں میں پڑے گی تم اُس آواز پر فور البیک کہو گے اور تمہیں جہاں کہیں بھی تبلیغی کے لئے جانا پڑے گا تم اپنا سو حرج کر کے بھی وہاں پہنچو گے.تو یقینا تم دیکھو گے کہ تم پر وہ فضل نازل ہونے شروع ہو جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہاجرین پر نازل ہو ا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک منافق طبع شخص تھا اُسے ایک دفعہ خیال آیا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے بڑے عابد ، زاہد مشہور ہو جاتے ہیں اور دُنیا ان کی عزت کرتی ہے.آؤ میں بھی عبادت کروں تاکہ لوگ میری عزت کریں اور وہ مجھے بڑا معزز اور
خطبات محمود ۹۱۲ سال ۱۹۳۸ خدا رسیدہ انسان سمجھیں.چنانچہ وہ مسجد میں بیٹھ گیا اور لگاتسبیحیں پھیر نے اور نفل پڑھنے اور کی خشوع و خضوع ظاہر کرنے اور ذکر الہی کرنے اور یہ امید رکھنے کہ اب لوگ میری تعریفیں کریں گی گے اور کہیں گے کہ یہ بڑا نیک اور پاک انسان ہے.سات سال تک وہ ایسا ہی کرتا رہا مگر لوگ کی جہاں اسے دیکھتے کہتے یہ بڑا منافق ہے، اس کا ہر کام ریاء کے لئے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اس کے مد نظر نہیں.بچے تک اسے دیکھتے تو کہتے کہ یہ بڑا دھو کے باز ہے.سب کام منافقت سے کرتا ہے.ایسے دھو کے باز بعض دفعہ لوگوں میں مقبول بھی ہو جاتے ہیں اور گو خدائی فضل ان پر نازل نہیں ہوتے مگر بندوں میں ایک حد تک انہیں شہرت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ تو انسان کے قلب کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے مگر انسان دوسرے انسان کے اندرونی حالات سے ناواقف ہوتا ہے اس لئے ایسے دھوکا باز بعض دفعہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں اور لوگ انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں مگر اس پر چونکہ خدا تعالیٰ اپنا کی فضل کرنا چاہتا تھا اور اسے منافقت سے نکال کر حقیقی ایمان نصیب کرنا چاہتا تھا اس لئے اس کی مقبولیت نہ ہوئی بلکہ الٹا لوگ اس کے متعلق یہی کہنے لگے کہ وہ بڑا منافق ہے.ایک دفعہ وہ پاخانہ پھرنے جارہا تھا کہ راستہ میں چند بچے اس نے کھیلتے ہوئے دیکھے.بچوں نے جونہی اسے کی دیکھا آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کر دیا کہ یہ بڑا منافق ہے ہر وقت لوگوں کے دکھاوے کے لئے نیکی کا کام کرتا ہے.بچوں کی نظریوں بھی وسیع ہوتی ہے اور وہ بات کو فوراً تاڑتی جاتے ہیں.چنانچہ میں نے ایک دفعہ یورپ کے ایک مشہور ہتھکنڈے دکھانے والے کی کتاب پڑھی وہ ایک مشہور پروفیسر ہے.اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ بچوں کے سامنے تماشہ کرتے وقت ہوتا ہے کیونکہ بڑے بڑے پروفیسروں، وزیروں اور امیروں کو تو ہم جھٹ دھوکا دے لیتے ہیں مگر بچے ہماری کوئی چالا کی چلنے نہیں دیتے اور وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیتے ہیں کہ تم نے یوں کیا تھا.بچہ چونکہ تکلفات سے بالا ہوتا ہے اس لئے وہ حرکتوں کو خوب پہچان جاتا ہے اس موقع پر بھی بچوں نے اس کے متعلق ایک دوسرے سے کہا کہ یہ بڑا منافق ہے، اس نے جب یہ بات سنی تو اس کے دل میں سخت ندامت پیدا ہوئی اور اس نے خیال کیا کہ میں نے اپنی عمر کے سات سال یونہی ضائع کر دیئے اور مجھے نہ تو خدا ملا اور نہ ہی دُنیا ملی.
خطبات محمود ۹۱۳ سال ۱۹۳۸ء آداب میں خالص خدا کے لئے عبادت کروں.اگر دُنیا مجھے نہیں ملتی تو بے شک نہ ملے مجھے اس کی کی پرواہ نہیں.میں اپنے رب کو راضی کرنے کی اب سچے دل سے کوشش کروں گا.چنانچہ اس نے پیشاب وغیرہ سے فارغ ہو کر وضو کیا اور جنگل میں ایک طرف سجدہ میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنی شروع کر دی کہ خدایا اب میں بندوں کی واہ واہ کی کبھی خواہش نہیں کروں گا.میں مجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں صرف تیری رضا کے لئے ہی عبادت کیا کروں گا.پس تو مجھ سے راضی ہو جا.اگر بندے مجھے بُرا بھلا کہتے ہیں تو بے شک کہیں مجھے ان کی پرواہ نہیں.معلوم ہوتا ہے اس نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ یہ دُعا کی تھی کہ معانیت کے بدلتے ہی اس کے اعمال اور کی اس کی حرکات اور سکنات میں بھی تبدیلی آگئی اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس نے لوگوں میں یہ چر چاپایا کہ ہم نے اس شخص پر خواہ مخواہ اتنا عرصہ بدظنی کی ہے.یہ آدمی تو واقع میں نیک اور خدا رسیدہ معلوم ہوتا ہے.یہ باتیں سُن کر اس کے نفس میں بہت ہی شرمندگی کی پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ اگر میں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سات سال عبادت کی کرتا تو آج تک خدا تعالیٰ کے حضور میں مجھے کتنا قرب حاصل ہو چُکا ہوتا.میں نے تو اتنے سال فضول ضائع کر دیئے.تو خدا تعالیٰ کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور ہر شخص پر وہ رحم کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی شخص رحم کا طالب بن کر اس کے دربار میں حاضر ہو.پس تم میں سے وہ لوگ جو دُنیا کے لئے یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں اور جو یہاں بیٹھ کر محض روٹی کما رہے ہیں دین کا کوئی کام نہیں کر رہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی مایوس ہونے کی کی کوئی وجہ نہیں.وہ اپنے دلوں کی اصلاح کر لیں اور سچی توبہ اللہ تعالیٰ کے حضور کریں تو آج سے ہی وہ حقیقی مہاجر بن سکتے ہیں بلکہ ممکن ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا ئیں اور روئیں تو خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں وہ اسی دن سے مہاجر لکھے جائیں جس دن سے وہ قادیان میں آئے ہیں.پس آج میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ہجرت کے مسئلہ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھاتی جائے اور ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کے طور پر قادیان آنے کے لئے بھیجا جائے جو ہجرت کے اصول کے مطابق آنے کے لئے تیار ہوں اور جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اگر ایسے لوگ ہجرت
خطبات محمود ۹۱۴ سال ۱۹۳۸ء کر کے آئیں تو ہم اس وقت تک ان کی امداد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جب تک کہ عارضی وقتیں ان کے راستہ سے دور نہ ہو جائیں اور یہ ہجرت کا معاملہ میری تحریک جدید کے مطالبات میں شامل ہے.چنانچہ میں نے جماعت سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ لوگ یہاں رہائش کے لئے مکان بنائیں اور اسی جگہ رہائش اختیار کریں.بعض لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ ادھر تو آپ نے یہ کہا کہ قادیان میں رہائش اختیار کرو اور اُدھر ہجرت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں.میں نے اس خطبہ میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ہجرت کا مخالف نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ اس بات کی تحریک کرتا ہوں کہ قادیان میں اپنے مکان بناؤ اور یہیں کی رہائش اختیار کر و مگر میں کہتا ہوں محض خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آؤ، نفسانی اغراض اور دنیوی لالچوں کے لئے یہاں مت آؤ.اگر تم خدا تعالیٰ کے لئے یہاں آکر مکان بناؤ گے تو تم کو بھی فائدہ ہوگا اور دین کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کی محبت کو ضائع نہیں کرتا اور نہ اس کی خاطر قربانی کرنے والے رڈ کئے جاتے ہیں.ایسا شخص اگر جنگل میں بھی ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے گا اور لوگ آپ ہی آپ اس کی طرف کھینچے چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیکھو، آپ ایک گوشہ میں پڑے ہوئے تھے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ خلوت میں سے نکل کر جلوت میں آئیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا اور کہا فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرِفَ بَيْنَ النَّاسِ ہے کہ اے شخص اب وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تیری نصرت کرے اور تیرے نام کو دُنیا میں پھیلائے.پس اب تو گوشے میں نہیں بیٹھ سکتا بلکہ اب تجھے نکلنا پڑے گا اور لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا پڑے گا.تو جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جائے خدا تعالیٰ خود اس کا حافظ و ناصر ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے لئے ہجرت کرو اور یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہجرت کرتا ہے اُسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا.وہ قادیان میں رہے تب بھی اس کی ترقی ہوگی اور اگر وہ شیروں کی کچ کچھار میں رہے تب بھی خدا اس کی حفاظت کرے گا.ہاں یہ بالکل ممکن ہے کہ شیر اس کے جسم کو پھاڑ دیں مگر اس طرح پھاڑے جانا کوئی بڑی بات نہیں.اس کا جسم بے شک پھاڑا جائے گا مگر اس کی روح اللہ تعالیٰ کے ابدی انعامات کی وارث ہو جائے گی.پس ایسے شخص کے لئے اگر
خطبات محمود ۹۱۵ سال ۱۹۳۸ء موت مقدر ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو یا اس کی اولاد کی اولاد کو اپنے دُنیوی انعامات سے محروم نہیں رکھے گا اور آخرت میں جو اسے انعامات ملیں گے وہ اس کے علاوہ ہیں.پس آج میں تحریک جدید کے اس حصہ کو پھر دُہراتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہر کام میں عقل سے کام لو.دیکھو ہماری شریعت نے نماز کا حکم دیا ہے مگر بعض دفعہ نماز پڑھنی بھی منع ہے.ہماری شریعت نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے مگر بعض دفعہ روزہ رکھنا بھی منع ہے.اسی طرح میں کہتا ؟ ہوں تم بے شک ہجرت کرو بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ میں تحریک کرتا ہوں کہ تم ہجرت کر کے یہاں آؤ مگر میں کہتا ہوں وہ ہجرت کرو جو خدا اور اُس کے رسول کے لئے ہو ، وہ ہجرت کرو جس میں یہ عہد مصمم ہو کہ ہم دین کی خدمت کریں گے اور اپنی عمر میں سے ایک کافی حصہ خدمت خلق اور خدمتِ اسلام کے لئے خرچ کریں گے.میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ جب بعض لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں گاؤں میں جا کر بیٹھ رہو اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم وہاں نہیں جا سکتے ، ہمیں وہاں تکلیف ہوگی یا ہمارے کاروبار کو نقصان ہو گا.حالانکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جن صحابہ نے مدینہ میں ہجرتیں کی تھیں وہ سارے مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ اردگرد کے گاؤں میں بھی رہتے تھے.حضرت عمر بھی مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ سے قریب ایک گاؤں تھا جہاں وہ رہتے تھے مگر یہاں کے لوگ تو بھینی اور منگل کا نام سُن کر کانپ اُٹھتے ہیں.حالانکہ اگر انسان خدا تعالیٰ کو روزی رساں سمجھے تو اس قسم کے وساوس اس کی کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتے.پس ان معمولی معمولی باتوں کی طرف مت دیکھو بلکہ جب بھی تمہیں کہا جائے کہ تم تبلیغ کے لئے باہر جاؤ تو فوراً نکل کھڑے ہو اور وہیں اپنا کام کرو اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے، دین کا بھی فائدہ ہے اور لوگوں کا بھی فائدہ ہے.(۳) اسی سلسلہ میں میں آج یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وقف زندگی کے متعلق میں نے اپنی جماعت کے نوجوانوں سے جو یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں.اس کے ماتحت
خطبات محمود ۹۱۶ سال ۱۹۳۸ء.بہت سی درخواستیں مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کی آرہی ہیں مگر ابھی اور بھی بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے.اس لئے جو دوست مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہوں اور وہ بلا شرط اپنی تمام زندگی خدمت اسلام اور خدمتِ احمدیت کے لئے وقف کرنے کی خواہش رکھتے ہوں، وہ اپنے نام جلد سے جلد پیش کریں.درخواستوں کی ایک کافی تعداد جب ہمارے پاس پہنچ جائے گی تو اس کے بعد اُن میں سے مناسب نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے گا لیکن اس دوران کی میں ایک اور تجویز میرے ذہن میں آئی ہے اور میں اُس کا بھی آج اعلان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ تجویز یہ ہے کہ ان مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے علاوہ چند ایسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جو عمر کے لحاظ سے میں سے چالیس سال تک کے ہوں.مڈل پاس ہوں اور شادی شدہ ہوں یا اُن کی شادی کی کہیں تجویز ہو چکی ہو اور چھ ماہ یا سال میں ان کی شادی ہو جانے والی ہو یہ جو واقفین زندگی ہوں گے ان کو گاؤں میں رکھا جائے گا.پس یہ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو محنت کرنے اور ہاتھ سے کام کرانے کے لئے تیار ہوں.ان سے کام زیادہ تر مدر سی کا لیا جائے گا لیکن ان کو جو ٹرینگ اور تربیت دی جائے گی اُس میں زراعت کا سب قسم کا کام جیسے ہل چلانا، نلا ئی کرنی ، فصل کاٹنی نیز اس کے علاوہ لوہارہ اور بڑھئی کا کام بھی ان کو سکھایا جائے گا اور جب ٹریننگ کے بعد ان کو کہیں کام پر مقرر کیا جائے گا تو اس وقت بھی یہ کام بدستور جاری رہیں گے اور بعد میں بھی ہل چلانے کا کام اور لوہارے اور ترکھانے کا کام ان کے ساتھ لگا رہے گا.فی الحال ایسے چھ آدمیوں کی ضرورت ہے.ہماری جماعت میں بہت سے دوست ایسے ہیں جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہماری تعلیم مڈل یا انٹرنس تک ہے مگر ہمیں بھی دین کی خدمت کا شوق ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اگر خدمت دین کا کوئی موقع ہو تو ہمیں اس سے محروم نہ رکھا جائے.ایسے لوگوں کے لئے اب موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیش ریں.چاہے وہ مڈل پاس ہوں اور چاہے انٹرنس پاس دونوں صورتوں میں وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں مگر کم سے کم انہیں مڈل پاس ضرور ہونا چاہئے کیونکہ اُن کا ایک کام مدرسی بھی ہوگا.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تجویز کے مطابق ایک ایسی سکیم سوچ لی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئی تو ہم بہت قلیل عرصہ میں تعلیم و تربیت کا ایک وسیع جال دُنیا میں پھیلا سکتے ہیں.
خطبات محمود ۹۱۷ سال ۱۹۳۸ء ایسے لوگوں کو تحریک جدید کے ماتحت ہی ٹریننگ دی جائے گی اور تحریک جدید کے ماتحت ہی انہیں تعلیم دی جائے گی اور جب وہ ٹریننگ حاصل کر لیں گے تو انہیں مختلف گاؤں میں مقرر کر دیا کی جائے گا.اُن کے وہاں کیا کام ہوں گے؟ یہ بعد میں بتایا جائے گا.سر دست میں اسی قدر بتا سکتا ہوں کہ اُن سے زیادہ تر ایسا کام لیا جائے گا جو ہاتھ سے کرنے والا ہوگا کیونکہ گاؤں میں ایسے لوگ کبھی مفید نہیں ہو سکتے جو صرف کتابی حد تک اپنی کوششوں کو محد و در کھنے والے ہوں بلکہ کتابی حد تک کام کرنے والے بالعموم گاؤں والوں کے کیریکٹر کو بگاڑ دیتے ہیں.گاؤں والوں کی ترقی اس شخص کے ذریعہ ہو سکتی ہے جو انہی میں سے ہو ان کے ساتھ مل کر ہل چلائے ، ان کے ساتھ مل کر بڑھئی کا کام کرے اور اُن کے ساتھ مل کر لوہارہ کا کام کرے اور پھر اس کے ساتھ ہی انہیں تعلیم بھی دیتا چلا جائے اور انہیں تبلیغ بھی کرتا چلا جائے.جب تک گاؤں والوں کے سامنے اس رنگ میں کام نہ کیا جائے اُس وقت تک نہ صرف ان کی ترقی نہیں ہو سکتی بلکہ اُن میں پستی رونما ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے مثلاً مدرسہ لگا ہو اور اُستاد کے منہ میں حقہ کی نالی ہوا ور وہ بیٹھا گئیں ہانکتا چلا جارہا ہو تو ایسے شخص کے نمونہ کو دیکھ کر لوگوں نے کیا ترقی کرنی ہے.وہ تو اُس کے بُرے نمونہ کو دیکھ کر اپنی اچھی عادتوں کو بھی ترک کر دیں گے لیکن اگر یہ اُن کے ساتھ ہی ہل چلا رہا ہو اور ساتھ ہی یہ بتاتا جاتا ہو کہ تمہارے بیچ میں یہ نقص ہے مگر میرے بیج میں یہ خوبی ہے یا میرا بل اچھا ہے اور تمہارے بل میں وہ نقص ہے.تو یہ مدرس پہلے مدارس سے زیادہ مفید اور زیادہ نفع بخش ثابت ہو گا.پس میری اس تحریک پر جو لوگ اپنے آپ کو پیش کرنے والے ہوں وہ بیس سے چالیس سال تک کی عمر کے ہوں ، ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں اور محنت کے لئے تیار ہوں ہم ایسے لوگوں کو گزارہ بھی اسی صورت میں دیں گے یعنی ہم روپیہ کی صورت میں انہیں تنخواہ نہیں دیں گے بلکہ کام کی صورت میں دیں گے تا کہ وہ گاؤں والوں کے لئے نیک نمونہ بنیں اور ان کی ترقی اور اقبال مندی کا موجب ہوں.اسی طرح ان کے ذریعہ گاؤں والوں کو اصلاح دیہات کے طریق بتاتے جائیں گے.کئی پیشے سکھائے جائیں تی گے اور کئی ترقی کی تدابیر بتائی جائیں گی.غرض یہ گاؤں میں اس طرح رہیں گے جس طرح باپ اپنے بچوں میں رہتا ہے اور یہ اپنا بھی گزارہ کریں گے اور دوسروں کو بھی ایسے پیشے
خطبات محمود ۹۱۸ سال ۱۹۳۸ سکھائیں گے جن کے ذریعہ وہ روزی کما سکیں گے.گویا یہ زمینداروں کے لڑکوں کو صرف کتابی تعلیم دے کر آرام طلب نہیں بنائیں گے بلکہ انہیں زیادہ محنتی زیادہ کمانے والا اور زیادہ ہوشیار بنائیں گے.یہ سکیم اگر کامیاب ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے قدم دیہات میں نہایت مضبوط ہو جائیں گے.اب تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں میں بعض احمدی ہوتے ہیں تو چونکہ وہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف رہتے ہیں.کچھ عرصہ کے بعد ان کے دلوں پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ پھر احمدیت سے ارتداد اختیار کر لیتے ہیں بے شک جومخلص ہوں وہ اپنے اخلاص میں ترقی کرتے رہتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایک حصہ ایسے کمزوروں کا بھی ہوتا ہے اور وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزل میں گر جاتے ہیں ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے درختوں پر جب آم کا بُو رلگتا ہے تو اس کا اکثر حصہ آندھیوں اور بارشوں کی وجہ سے گر کر ضائع ہو جاتا ہے اسی طرح بہت سے آدمی احمدی ہوتے ہیں مگر پھر مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے گر جاتے ہیں کیونکہ وہ بُو ر کی طرز پر ہوتے ہیں اور جس طرح بُو ر کا ایک حصہ آندھیوں وغیرہ کی وجہ سے گر جاتا ہے اسی طرح وہ بھی پکنے نہیں پاتے اور گر جاتے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس سکیم کے ذریعہ ایسا سامان ہو جائے کہ بُور کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو اور سب پکے ہوئے پھل کی شکل اختیار کرلے مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں احمدیت کا مرکز نہ ہو بلکہ ہر جگہ ایسے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوں جو اپنی روزی بھی کمائیں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو تعلیم بھی کچ دیتے چلے جائیں اس غرض کے لئے پہلی جماعت چھ آدمیوں پر مشتمل ہو گی پس وہ دوست جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے ہوں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی زندگی وقف کریں اور اپنے نام میرے سامنے پیش کریں اور یا درکھیں کہ مُنہ سے خدمت کرنے کا دعوی کرنا اور عملی رنگ میں کوئی کام کرنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے مُنہ سے دعوی کرنا آسان ہوتا ہے لیکن عمل کرنا مشکل ہوتا ہے اور در حقیقت عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ میں اس طرح ان لوگوں کی خواہشات کو بھی کی ایک حد تک پورا کر سکوں گا جو کہتے رہتے ہیں کہ مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے لئے تو خدمت دین کا موقع نکالا جاتا ہے مگر ہم جو کم تعلیم یافتہ ہیں ہمارے لئے کیوں کوئی راستہ
خطبات محمود ۹۱۹ سال ۱۹۳۸ء نہیں نکالا جاتا.اگر یہ سکیم کامیاب ہو گئی تو میں سمجھتا ہوں کہ تربیت کے لحاظ سے جماعت میں ایک تغیر پیدا ہو جائے گا.باقی کام تو سب اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں.ہم ہزاروں کام کرتے ہیں مگر اپنی شستی اور غفلت کی وجہ سے ان کے نیک نتائج حاصل نہیں کر سکتے.پس یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور میں اس سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس سکیم کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر گاؤں میں ہمارا کوئی نہ کوئی مبلغ کام کر رہا ہو اور اس کے فضل ہم پر نازل ہوں اور اس سکیم میں ہماری دینی اور دنیوی دونوں قسم کی بہتری کے سامان پوشیدہ ہوں.“ الفضل ۲۴ / دسمبر ۱۹۳۸ء) بخاری کتاب الایمان باب ماجاء ان الاعمال بالنية (الخ) بخاری کتاب بدء الوحی باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صلى الله عليه وسلم بخارى كتاب الجهاد و السير باب فضل الجهاد و السير ۴ تذکره صفحه ۶۴۲.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۹۲۰ ۴۲ سال ۱۹۳۸ (۱) مسجد اقصیٰ کی توسیع میں حصہ لے کر ہر احمدی دائمی ثواب حاصل کر سکتا ہے (۲) جلسہ سالانہ کے لئے تشریف لانے والے احباب سے خطاب فرموده ۲۳ / دسمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سابق دستور کے مطابق آج کا جمعہ مسجد نور میں ہونا چاہئے تھا کیونکہ اس کے اردگر دمیدان زیادہ ہے اور صفیں دور تک پھیلائی جاسکتیں ہیں لیکن مسجد نور میں آج لاؤڈ سپیکر کا انتظام نہیں تھا.اس لئے میں نے دونوں امور میں موازنہ کر کے یہی مناسب سمجھا کہ جمعہ اسی جگہ (مسجد اقصیٰ میں ) ہو.کیونکہ جگہ کے متعلق شریعت کا حکم موجود ہے کہ تنگ ہونے کی صورت میں لوگ ایک کی دوسرے کی پیٹھوں پر سجدہ کر سکتے ہیں لیکن خطبہ کی آواز نہ پہنچنے کا دوسرا کوئی قائم مقام نہیں.مگر میں سمجھتا ہوں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت تھی.اس مسجد میں جو نیا تغیر ہوا ہے اسے دیکھنے اور عملی طور پر دیکھنے کا موقع دوستوں کومل گیا.اگر یہ تغیر نہ ہوتا تو آج اس میں اتنے لوگ
خطبات محمود ۹۲۱ سال ۱۹۳۸ء سمانہ سکتے.قریب قریب بیٹھ کر بھی نہ سما سکتے.دوستوں نے دیکھا ہوگا کہ مسجد کا ایک حصہ نا مکمل کی پڑا ہے.جب اس کے متعلق میں نے سوال کیا کہ کیوں نامکمل ہے تو اس کا جواب مجھے یہ دیا گیا کہ اس کے لئے روپیہ نہیں تھا.جو چندہ جمع ہوا تھا وہ ختم ہو گیا اور چونکہ مزید گنجائش نہ تھی اس لئے باقی حصہ نامکمل رہ گیا.میں سمجھتا ہوں کہ مسجد نور میں لاؤڈ سپیکر کا آج نہ لگنا اس لحاظ سے مفید ہو گیا کہ دوستوں کو اس جگہ آنے اور جگہ میں دقت کو محسوس کرنے کا موقع مل گیا.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت جس سُرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے اس مسجد کو ابھی بہت زیادہ پھیلنے کی ضرورت ہے.جلسہ کے ایام کے سوا بھی جمعہ کے دن بہت سے مہمان باہر سے آجاتے ہیں اردگرد کے دیہات سے تو دوست کثرت سے آتے ہیں.پھر قادیان کی آبادی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نماز پڑھا کر جب میں باہر جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ لوگ دور دور تک گلیوں میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں.گلیوں میں نماز پڑھنا مناسب نہیں اس لحاظ سے بھی کہ مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے.اس لحاظ سے بھی کہ یہ بات نماز کے آداب کے خلاف ہے اور اسی دقت کو دیکھتے ہوئے حال میں مسجد بڑھائی گئی ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ اب بھی لوگ گلیوں میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اس لئے ابھی ضرورت ہے کہ اس مسجد کو اور زیادہ بڑھایا جائے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب اس کے اور بڑھانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں کیونکہ دائیں بائیں روکیں ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بلند حوصلہ لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے اور مومن کا ایمان تو بہت ہی بڑا ہوتا ہے.انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں ارادہ پیدا ہو جائے وہاں رستہ بھی نکل آیا کرتا ہے تو جب کسی بات کا ارادہ کر لیا جائے تو اس کے لئے آپ ہی آپ کی رستہ بھی نکل آیا کرتا ہے.جب یہ مکان لیا گیا ہے جس میں اب صدر انجمن کے دفاتر ہیں تو میں نے یہی کہا تھا کہ یہاں دفاتر تو عارضی ہیں کسی وقت یہ مکان بھی مسجد کے کام آجائے گا.اس کی کے ساتھ ہی ایک اور مکان بھی ہے جس میں پہلے ڈاکخانہ تھا وہ بھی مسجد کے کام آ سکتا ہے اور کی میں سمجھتا ہوں اگر ارادہ کر لیا جائے تو اس مسجد کے چاروں طرف بڑھنے کا موقع اللہ تعالیٰ کے
خطبات محمود ۹۲۲ سال ۱۹۳۸ فضل سے ابھی موجود ہے.اب بھی میں سمجھتا ہوں ہندوستان کے بہت بڑے بڑے شہروں مثلاً لا ہور ، دہلی ، حیدر آباد اور لکھنؤ وغیرہ کو چھوڑ کر جن کی آبادی تین تین چار چار لاکھ اور بعض صورتوں میں دس دس اور پندرہ پندرہ لاکھ ہے، جو چھوٹے شہر ہیں اور جو قادیان سے دس دس بلکہ ہیں میں گنا بڑے ہیں ، ان کی جامع مسجد میں ہماری اس مسجد کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.نمازیوں کے لحاظ سے تو وہ بالکل ہی مقابلہ نہیں کر سکتیں.کیونکہ وہ تو نمازیوں سے بالکل خالی ہوتی ہیں.۱۹۲۴ ء میں جب میں ولایت گیا تو رستہ میں قاہرہ کی مسجد دیکھنے کا اتفاق ہوا.غالباً ظہر یا عصر کی نماز کا وقت تھا اور میں نے دیکھا کہ ایک کونے کی محراب میں ایک شخص نماز پڑھا رہا تھا تی اور پیچھے چار پانچ آدمی کھڑے تھے اور کونے کے محراب میں نماز پڑھنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ شرم آتی ہے کہ اتنی بڑی مسجد میں چار پانچ آدمی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.وہ مسجد بنانے والے نے تو اتنی شاندار بنائی کہ اسے دیکھ کر پرانے زمانہ کے لوگوں کی عظمت یاد آ جاتی ہے اور کچھ عرصہ تک ممکن ہے اس میں رونق بھی رہتی رہی ہو.مگر موجودہ نسلوں نے نماز کی طرف سے اپنی توجہ ہٹالی ہے اور اس کی پابندی کو بالکل بھلا دیا ہے لیکن ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کی پابندی زیادہ ہے گو وہ معیار تو نہیں جو میں دیکھنا چاہتا ہوں.یعنی یہ کہ جماعت میں کوئی ایک بھی سست نہ رہے اور ابھی ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو موقع کی بے موقع نماز کا ناغہ کرنے کے عادی ہیں حالانکہ جہاں تک میں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور قرآن کریم پر غور کیا ہے.اگر کوئی شخص دس سال با قاعدہ نمازیں پڑھتا اور صرف ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو وہ ایماندار نہیں بلکہ جو کچھ میں نے قرآن کریم سے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ساری عمر میں ایک بھی نما ز عمداً چھوڑتا ہے تو وہ مسلمان نہیں.ہاں بعض دفعہ بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ جائے تو اور بات ہے یا بعض دفعہ سوتے ہوئے دیر ہو جائے تو اس کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جس وقت جاگ آجائے اسی وقت پڑھ لے اور اس طرح اگر دیر سے اٹھ کر بھی کسی نے نماز ادا کر لی تو اس کی نماز ہوگئی اور اس کا وقت کی وہی تھا جب وہ بیدار ہوا.یا جب اسے ہوش آئی.مگر جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس علم کے باوجود کہ نماز کا وقت ہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ ابھی میں دوسرا کام کر رہا ہوں اسے ختم کرلوں تو کی
خطبات محمود ۹۲۳ سال ۱۹۳۸ء نماز پڑھ لوں گا.یا وہ کام تو نہیں کر رہا مگر دوستوں کی مجلس میں بیٹھا باتیں کر رہا ہے اور خیال کرتا ہی ہے کہ اس مجلس کو چھوڑ کر کیا جانا ہے پھر پڑھ لوں گا تو اس قسم کے حالات کے ماتحت نماز کو ترک کرنے والا ہرگز مؤمن کہلانے کا مستحق نہیں.ہاں اس کے بعد اگر اس کے دل میں ندامت محسوس ہو، حسرت پیدا ہو اور وہ سچے دل سے تو بہ کر کے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کرے کہ میرا ایمان ضائع ہو چکا ، میں اسلام سے نکل گیا مگر اب دوبارہ داخل ہوتا ہوں تو پھر وہ دوبارہ داخل اسلام سمجھا جائے گا لیکن اس کی پہلی حالت غیر مومن کی سمجھی جائے گی مگر نماز کی اس اہمیت کا احساس بھی ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہوا ، گو میں سمجھتا ہوں کہ اکثر دوست ایسے ہیں جن کے دلوں میں یہ احساس ہے کیونکہ غیر لوگ جو طرح طرح کے اعتراضات احمدیوں پر کرتے رہتے ہیں وہ یہ اعتراض نہیں کرتے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے بلکہ اکثر معترض تسلیم کرتے ہیں کہ نمازیں تو یہ ضرور پڑھتے ہیں مگر ہیں کا فر.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی احمدیوں کے متعلق کی لوگوں کا یہی تجربہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں.ورنہ جہاں دشمن اور اعتراض کرتے ہیں وہاں یہ بھی ضرور کرتے.احمدیوں کے معاملات کی خرابی کے متعلق اعتراضات میں نے سنے ہیں.کسی ایک احمدی نے کسی کے ساتھ بد معاملگی کی تو وہ ساری جماعت کو ہی بد معاملہ قرار دے دیتا ہے یا کسی نے جھوٹ بول دیا تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ احمدی جھوٹ بولتے ہیں لیکن یہ اعتراض نہیں کرتے کہ احمدی نماز نہیں پڑھتے.نا واقعی سے یا جھوٹ بول کر بعض لوگ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ قادیان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں مگر نماز نہ پڑھنے کی کوئی شکایت نہیں کرتا بلکہ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ احمدی نمازی ہوتے ہیں.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میرے ایک عزیز کے متعلق ایک دوست نے لکھا کہ ایک جگہ بعض افسروں میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ فلاں نوجوان ہے مگر داڑھی رکھی ہوئی ہے.ایک افسر نے کہا کہ یہ قادیان کا ہے اور پھر میرے ساتھ اس کا رشتہ بتایا اس پر ایک افسر نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی نو جوان داڑھی رکھتا ہے تو میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ یا تو یوپی سے آیا ہے اور یا پھر قادیانی ہے.پھر اس نے ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ قادیانی لوگ نمازیں باقاعدہ پڑھتے ہیں، دین کے دوسرے احکام پر بھی عمل کرتے ہیں مگر
خطبات محمود ۹۲۴ سال ۱۹۳۸ء افسوس کہ ہیں دین سے خارج اور کافر حالانکہ اس آخری فقرہ کے کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے کہ سورج کی ٹکیا تو سر پر نظر آتی ہے ، دھوپ بھی نکلی ہوئی ہے، گرمی بھی محسوس ہوتی ہے، تاریکی کا کہیں نام نہیں مگر عجیب بات ہے کہ ہے ابھی رات.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے منہ سے صرف یہ کہہ دینے سے کہ ابھی رات ہے کون مانتا ہے کہ یہ سچ کہہ رہا ہے یہ بات تو کوئی شخص سارا دن کہتا رہے پھر بھی کوئی نہیں مانے گا.تو احمد یوں میں نماز کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی حد تک احساس ہے مگر ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو نماز کے نیم تارکی ہیں اپنے نزدیک اور کھی تارک ہیں میرے نزدیک کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر ساری عمر میں چھوڑتا ہے وہ کافر ہے.چاہے وہ دس سال یا بیس سال مسلسل نمازیں پڑھنے کے بعد ہی کیوں نہ ایک نماز چھوڑے اور اپنے دل میں یہ سمجھ رہا ہو کہ میں نمازی ہوں میرے نزدیک ایسا شخص بالکل احمق ہے.نماز کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ بٹیرے پکڑتے ہیں اور پکڑنے کے بعد جو بٹیروں کے شکاری ہوتے ہیں وہ ان کو پنجروں میں بند رکھتے ہیں.جب اس پنجرہ کا دروازہ کھل جائے اور ان میں سے ایک کو نکلنے کا موقع ملے تو باقی بھی سب نکل جائیں گے.یہی حال نماز کا ہے، ایک نماز کے نکل جانے کا یہ مطلب ہے کہ دل کی کھڑ کی کھلی رہ گئی اور جب ایک کو نکلنے کا موقع ملا تو سب پھر کر کے نکل جائیں گے جس دن دروازہ کھلا رہ گیا اس دن یہ خیال کرنا کہ صرف ایک ہی نماز گئی ہے باقی سب موجود ہیں بالکل احمقانہ خیال ہے اسی دن سب اُڑ جائیں گی اور واپس نہیں آسکیں گی.ہاں تو بہ ان کو واپس لاسکتی ہے.بٹیرے تو نکل جانے کے بعد بعض اوقات پکڑے بھی جاتے ہیں مگر نماز جب ایک گئی سب جائیں گی اور پھر خدا تعالیٰ ہی واپس دے تو آسکتی ہیں ورنہ نہیں اور اگر انسان صدق دل سے تو بہ کرے تو خدا تعالیٰ واپس دے دیتا ہے بغیر تو بہ کئے واپس نہیں آسکتیں.تو نماز ایک نہایت اہم چیز ہے اور اس لئے ہمارے نزدیک کی مساجد بہت زیادہ اہم ہونی چاہئیں.بعض لوگوں نے مسجد میں نمائش کے لئے بنائی ہیں اور آج کی وہ اسی کام آ رہی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ چھ سات فٹ کی نہایت چھوٹی گلیوں میں ایک مسجد گلی کے ایک طرف ہے اور دوسری دوسری طرف حالانکہ جہاں تک اذان کی آواز جائے تو
خطبات محمود ۹۲۵ سال ۱۹۳۸ء دوسری مسجد نہیں ہونی چاہئے سوائے اس کے کہ دوسرے حصہ کے لوگوں کے لئے ہو مگر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے فلاں رشتہ دار نے مسجد بنائی ہے تو ہم کیوں نہ بنائیں اور ایسی نمائشی مسجد پہلی مسجد کے پاس ہی بنے تو ان کی غرض پوری ہوتی ہے اس لئے اپنا مکان گرا کر وہاں مسجد بنا دیتے ہیں مگر یہ دکھاوے کی مسجدیں ہیں ، اخلاص سے بنائی ہوئی مسجد میں بہت کم ہیں اور آباد بھی ایسی ہی مسجد میں رہتی ہیں جو اخلاص سے بنائی جائیں.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ اور ایسی مسجد میں بہت تھوڑی ہیں ان میں سے جامع مسجد دہلی کی میں نے یہ خصوصیت دیکھی ہے گو اس کی پہلی شان و شوکت تو مٹ چکی ہے مگر جب بھی مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا وہاں چہل پہل ضرور دیکھی ہے اور باقی مساجد سے زیادہ لوگ وہاں نماز پڑھتے ہیں اور لوگوں کی رغبت زیادہ نظر آتی ہے.خاص دنوں میں تو رونق بہت زیادہ ہوتی ہے مگر عام طور پر بھی اچھی رونق ہوتی ہے.گوشاہ جہاں جس کی نے وہ مسجد بنائی کوئی مذہبی آدمی نہ تھا مگر معلوم ہوتا ہے مسجد بنانے کے وقت اس میں ریاء نہیں تھا اور اس نے اسی خیال سے اسے بنوایا کہ میں نے گناہ بہت کئے ہیں شاید یہی میری بخشش کا کی باعث ہو جائے کیونکہ اتنا لمبا عرصہ گزر گیا مسلمانوں میں نماز کی عادت بھی نہ رہی مگر آج تک کی اس میں کثرت سے نمازیں پڑھی جاتی ہیں.میں ذکر کر رہا تھا کہ نماز ہمارے لئے بہت اہم چیز ہے.پس جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ بھی ہمارے نزدیک بہت اہم ہونی چاہئے اور یہ مسجد تو الہی پیشگوئی کی مصداق ہے جس کا قرآن شریف اور احادیث میں بھی ذکر ہے.قرآن کریم میں مسجد اقصی کا ذکر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسجد کو مسجد اقصیٰ قرار دیا ہے اور پیشگوئیوں سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مسیح موعود آنے والا ہے وہ اسی کے قریب پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نے یہ منارہ تعمیر کرایا کیونکہ احادیث کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود نے سفید مینارہ کے قریب یا اس کے مشرق میں اُترنا تھالے اور یہی وہ مینارہ ہے جس کے مشرق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مکان ہے پس یہ مسجد خاص اہمیت رکھتی ہے اور اس کی وسعت اور آبادی کے لئے جتنی بھی ہم کوشش کریں
خطبات محمود ۹۲۶ سال ۱۹۳۸ء کم ہے اور اس اجتماع سے آج ایک یہ فائدہ ہو گیا ہے کہ دوستوں کو یہ دیکھنے کا موقع مل گیا کی ہے.باقی مساجد کے متعلق تو یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کب تک ان کی آبادی رہے لیکن یہ تو پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور جس طرح خانہ کعبہ کے متعلق یہ کبھی خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کبھی غیر آباد ہو اسی طرح اس کے متعلق بھی یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی اس کی آبادی میں فرق آ جائے گا اور اس طرح جن لوگوں کا روپیہ اس کی تعمیر پر خرچ ہوگا وہ دائمی ثواب کے مستحق ہوں گے اور اس طرح یہ خاص طور پر ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے اور موجودہ ضرورت کے لئے تو چند ہزار روپیہ بھی کافی تھا اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ اس میں کمی رہ جاتی اور عمارت بیچ ہی میں چھوڑنی پڑتی.میرا خیال ہے کہ کارکنوں نے اس بات کو اچھی طرح جماعت کے سامنے رکھا نہیں کہ یہ ایک دائمی ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے اور اس میں جو ایک پیسہ بھی لگایا جائے گا وہ قیامت تک کے لئے ثواب کا موجب ہوگا.باقی کسی مسجد میں دس ہزار روپیہ لگا کر بھی کوئی شخص یہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بنی ہوئی مسجد میں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہوتی رہے گی.بعض مساجد کو دشمن مٹا دیتے ہیں.لوگ اس جگہ مکان بنا لیتے ہیں مگر یہ مسجد جسے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اہمیت دی گئی اور جس کے ساتھ لہی تعلق رکھنے والی ایک ایسی جماعت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے تمام دنیا میں غلبہ حاصل ہوگا اور جس کی تعداد آج لاکھوں ہے مگر کسی وقت کروڑوں اور اربوں ہوگی اور جو اپنے خون کا آخری قطرہ اس کی حفاظت کے لئے گرا دینے پر ہمیشہ تیار رہے گی.آج بھی گو ہم کمزور ہیں مگر کوئی طاقت ور سے طاقت ورحکومت بھی بغیر اس کے کہ اس کا دل دھڑ کے یہ خیال بھی نہیں کر سکتی کہ اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھے.احمدی جماعت کا بچہ بچہ قربان ہو جائے گا مگر اس مسجد کی تقدیس میں فرق نہ آنے دے گا اور کبھی وہ زمانہ آنے والا ہے کہ کوئی غیر مسلم حکومت بھی اس علاقہ پر اگر حملہ کرنے لگے گی تو اس سے پہلے یہ اعلان کرنا پڑیگا کہ جماعت احمدیہ کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور ایسے اعلان کے بغیر اسے علاقہ کی طرف بڑھنے کی جرات نہ ہو گی.بچپن میں بوڑھی عورتیں قصے سنایا کرتی تھیں جن میں سے ایک فقرہ مجھے اب تک یاد ہے کہ
خطبات محمود ۹۲۷ سال ۱۹۳۸ء کوئی دیوکسی پر خوش ہو گیا اور اس نے کہا کہ میں آج ٹھٹھا ہوا ہوں مانگ جو مانگتا ہے مجھے یہی لفظ یا د ہے گو ممکن ہے بوجہ اس کے کہ میں ٹھیٹھ پنجابی نہیں جانتا اس کے تلفظ میں کوئی غلطی ہو مگر جہاں تک مجھے یاد ہے یہی لفظ تھا ، قربانی کا یہ موقع بھی ایسا ہی ہے آج اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی کہا ج جا سکتا ہے کہ وہ انعام دینے پر تلا ہوا ہے.جو مانگنا چاہے مانگ لے اور ایسی حالت میں کوئی کی بے وقوف یا نا واقف ہی ہو گا جو مانگنے میں کوتاہی کرے.یہ تو ایسا موقع ہے کہ پیسہ پیسہ دے کر بھی لوگ بڑے ثواب میں شامل ہو سکتے ہیں بسا اوقات لوگ اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ کی سمجھتے ہیں کہ سینکڑوں ، ہزاروں روپے ہوں تبھی شمولیت ممکن ہے حالانکہ ایسے چندوں کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہوتی.بے شک بعض تحریکوں میں حد بندی ہوتی ہے.جیسے تحریک جدید میں بعض مصلحتوں کے ماتحت میں نے پانچ یا دس روپیہ کی حد بندی کی ہے مگر اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں اور اس میں غریب سے غریب آدمی بھی حصہ لے سکتا ہے حتی کہ ایک اپاہج اور ٹو لالنگڑا آدمی بھی اپنی بچی ہوئی روٹی کا ٹکڑا بھی دے سکتا ہے کہ اسے بیچ کر خرچ کر لیا جائے.اور ہم اس کے لینے سے انکار نہیں کر سکتے یہ ایک غلطی ہے کہ لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ سینکڑوں، ہزاروں روپے دیکر ہی شمولیت کی جاسکتی ہے اگر پیسہ پیسہ بھی دیا جائے تو ثواب میں شمولیت ہو سکتی ہے.پس بجائے اس کے کہ اس مسجد کی تعمیر اس لئے رُکی رہے کہ روپیہ نہیں یہ ایسا اہم کام ہے کہ چاہئے اس کے لئے فنڈ ہمیشہ جمع رہے تا جب بھی موقع ملے اس کو اور زیادہ وسیع کیا جاسکے.یہ مسجد تو انشاء اللہ دنیا میں تیسرے نمبر پر شمار ہوگی اول خانہ کعبہ دوم مسجد نبوی اور سوم یہ مسجد ہوگی اور اس لحاظ سے اس کی وسعت کا بھی خیال رکھنا چاہئے تا جب اس میں ہزاروں لاکھوں لوگ کی نماز پڑھنے کے لئے آئیں تو بھی یہ مسجد ان کے لئے کافی ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی اس ثواب میں اپنا حق لینے کی کوشش کرے گا اور جو چاہے وہ پیسہ دو پیسہ دے کر بھی مدد کر سکتا ہے.قادیان کی آبادی اس وقت دس ہزار کے قریب ہے جس میں سے قریباً آٹھ ہزار احمدی ہیں اور اگر ایک آنہ فی کس بھی سمجھا جائے تو پانسور و پیہ تو فوراً یہاں سے ہی مل سکتا ہے اس لئے میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اس عمارت کو روکا جائے.کارکنوں نے معلوم ہوتا ہے اس بات کو اچھی طرح جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا اگر وہ کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ روپیہ کافی نہ آ جاتا.
خطبات محمود ۹۲۸ سال ۱۹۳۸ء اگر ایک شاعر نے اپنے شعروں سے ایک تاجر کی کالی اوڑھنیاں بکوا دی تھیں تو اس الہی وعدہ کی والی مسجد کے لئے روپیہ فراہم کرنا کیا مشکل کام ہے.کہتے ہیں کسی شخص کو مالی تنگی تھی اور روپیہ ملنے میں دقت پیش آ رہی تھی ایک شاعر نے جو اس کا دوست تھا اس سے کہا کہ تم شہر کی سب کالی اوڑھنیاں خرید لو.جب وہ خرید چکا تو اس شاعر نے کچھ شعر کہہ دیئے جن میں کالی اوڑھنی کی تعریف کر دی شاعر مشہور تھا جب اس کی طرف سے کالی اوڑھنیوں کی تعریف ہوئی تو عورتوں کی کی طرف سے کالی اوڑھنیوں کے لئے مطالبات ہونے لگے اور اس طرح ان کی قیمت بڑھ گئی اور کی اس نے ہزاروں روپیہ کما لیا.پس جب ایک شاعر نے کالی اوڑھنیوں کی تعریف کر کے اپنے کی دوست کے لئے روپیہ جمع کروادیا تو میں کس طرح مان لوں کہ ہمارے کارکنوں نے اس مسجد کی اہمیت کو دوستوں پر ظاہر کیا ہوتا تو روپیہ جمع نہ ہوتا.بڑے آدمی تو الگ رہے میں سمجھتا ہوں اگر حیح طور پر جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کیا جاتا تو پندرہ سال تک کے بچے بھی اسے پورا کی کر سکتے تھے اور اس وجہ سے میرا آج یہاں خطبہ پڑھنا مفید ہو گیا ہے کہ یہ حالات میرے سامنے بھی اور جماعت کے سامنے بھی آگئے ہیں.اس کے بعد میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہیں جو انشاء اللہ دو روز کے بعد شروع ہوگا.یہ جلسہ جیسا کہ بار بار جماعت کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور حکم کے ما تحت قائم کیا ہے اور اس لحاظ سے دنیا کے تمام جلسوں میں منفر د حیثیت رکھتا ہے.یہ جلسہ خالص مذہبی اغراض کے ماتحت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور شان کو بلند کرنے کے لئے ہر قسم کے مسائل پر اس میں تقریریں ہوتی ہیں اور اس میں شمولیت کے لئے آنے والے ہر قسم کی دنیوی اغراض کو پیچھے ڈال کر یہاں آتے ہیں.یہاں کوئی تجارت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کسی نے پیسہ پیسہ کی کوئی کتاب بیچ لی اور چند پیسے کما لئے.یہ کوئی تجارت نہیں اتنے پیسے تو آدمی مانگ کر بھی لے لیتا ہے.اس کے سوا یہاں دنیوی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جولوگ اپنے گھروں میں آرام و آسائش کے ساتھ رہتے ہیں وہ بھی یہاں آکر ایسی تکلیف اٹھاتے ہیں جو گھروں میں عام آدمی بھی برداشت نہیں کر سکتے.یہاں بیشتر حصہ کو کھوری یا کسیر ملتی ہے جس پر انہیں سونا پڑتا ہے.
خطبات محمود ۹۲۹ سال ۱۹۳۸ء جگہ کی تنگی کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کمروں میں اس طرح آدمی ٹھونسے ہوئے ہوتے ہیں.جس طرح ڈبے میں مرغیاں.مجھے ایک دفعہ کسی غرض سے سیالکوٹ کی جماعت کے کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا پڑا اور اتنے میں ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ گویا میرے پاؤں جل کر گوشت اتر جائے گا باوجود یکہ شدید سردی کے دن تھے.آج کل کتنی کی سخت سردی پڑ رہی ہے آج ہی خبر آئی ہے کہ انگلستان میں نو آدمی سردی کی وجہ سے مر گئے اور کی گو ہندوستان میں اتنی سردی تو نہیں ہوتی مگر پھر بھی بہت کافی ہوتی ہے لیکن جن کمروں میں لوگ کی سوئے ہوتے ہیں ان میں ان کی سانسوں کی وجہ سے اتنی گرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تنور ہے کمرہ نہیں.عام حالتوں میں ان باتوں کی برداشت انسان کیسے کرسکتا ہے.پھر جو کھانا ملتا ہے وہ بھی ظاہر ہے میں منتظمین کی برائی نہیں کرتا.وہ تو رات دن ایک کر کے انتظام کرتے ہیں اور ان کی حالت دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے کہ وہ یہ ہفتہ کس طرح تکلیف سے گزارتے ہیں.رات دن کام میں لگے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کس وقت سوتے ہیں.یہ سب تکلیف وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی کوشش وسعی ، محنت ، جفاکشی اور نیک نیتی کے باوجود جو کھانا تیار ہوتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پر گھر میں لوگ اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.پھر اتنی بڑی جماعت جو ہر قوم اور ہری ملک وصو بہ کے لوگوں پر مشتمل ہو اسے خوش کرنا کتنا مشکل ہے.بعض ایسے علاقوں کے ہوتے ہیں جو گائے کے گوشت کے بغیر کھانا کھاتے ہی نہیں اور ان کے ہاں اگر کوئی بکرے کا گوشت لینے جا رہا ہو تو بڑی فکر مندی کے ساتھ اس سے دریافت کرتے ہیں کہ کیوں خیر ہے گھر میں کوئی بیمار تو نہیں جو آپ بکرے کا گوشت خرید نے جارہے ہیں لیکن بعض علاقوں میں گائے کے گوشت سے اتنا شدید پر ہیز کیا جاتا ہے جتنا سور کے گوشت سے.خاص کر ہندو ریاستوں کے باشندے تو اس سے بہت پر ہیز کرتے ہیں اور اگر ان کو شک بھی ہو جائے کہ گائے کا گوشت کھایا گیا ہے تو خیالی طور پر ہی اتنا نفخ ہو جاتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے عادی نہیں ہوتے ان کو یہ وہم ہوتا ہے کہ گائے کا گوشت نفاخ ہے ادھر کھایا اور ادھر پیٹ پھولنا شروع ہوا.
خطبات محمود ۹۳۰ سال ۱۹۳۸ء پھر ہمارے مہمانوں میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو چاول کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہوں نے سارا سال گھر میں دال کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی بلکہ جن کے نوکر بھی دال نہیں کھاتے.اس کے علاوہ دیہات کے لوگ گھر کا خالص گھی کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور بازاری گھی کھانے سے فوراً ان کا گلا خراب اور کھانسی شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایسے علاقوں کے بھی لوگ ہوتے ہیں جو تیل کھانے کے عادی ہیں اور جب گھی کھاتے ہیں تو ان کا گلا کی خراب ہو جاتا ہے یو.پی اور بہار وغیرہ میں تیل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے.مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی میں ان علاقوں کے طلباء یہاں پڑھا کرتے تھے وہ بعض اوقات کھانستے ہوئے آتے اور کھانسی کی وجہ یہ بتاتے کہ گھی کھانے سے ہو گئی ہے لیکن کچھ عرصہ یہاں رہ کر ان کو گھی کی عادت ہو جاتی ہے اور جب رخصتوں میں پھر گھر جا کر تیل کھانا پڑتا تو پھر اس سے کھانسی ہو جاتی اور ظاہر ہے کہ اتنے طبقوں اور اتنی نوعیت کے لوگوں کو کون خوش کر سکتا ہے اور کس طرح کر سکتا ہے ہے جو مخلص یہاں آتے ہیں ان کو خوش کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہوتا.ان کو تو یہاں کا کوئی آدمی کی چیں بجبیں ہو کر بھی دیکھے تو وہ اس پر بھی مسکراتے ہیں کہ یہ چیں بجبیں بھی قادیان کی ہے اور اس لئے ان کو خوش کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ان کی عادتوں یا صحت کی کمزوری کی وجہ سے جو تکلیف ہوتی ہے اس کو کون دور کر سکتا ہے.جہاں تک تو خوشی کا تعلق ہے وہ ہر چیز کھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور ایسا مزہ لے لے کر کھا سکتے ہیں کہ گویا دنیا جہاں کی نعمتیں حاصل کی ہو گئیں مگر ان سے وہ بعد میں اگر بیمار ہو جائیں تو اس میں تو ان کا کوئی قصور نہیں.تو ایسی مشکلات میں یہ جلسہ ہوتا ہے اور ان سب کے باوجود اس لئے لوگ یہاں آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کریں مگر کئی ہیں جو عدم علم اور نا واقعی کی وجہ سے ان ایام سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے حالانکہ جتنی قربانی کسی چیز کے لئے کی جائے اتنی ہی اس کی قدر ہونی چاہئے اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان دنوں کو نمازوں ، دعاؤں اور ذکر الہی میں صرف کریں، جماعتیں باہمی ملاقاتوں میں صرف کریں.یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب باہمی واقفیت آسانی سے کی پیدا ہوسکتی ہے.اسلام اور احمدیت نے ( کہ یہی حقیقی اسلام ہے ) اب جس قسم کی مساوات کو قائم کرنا ہے وہ با ہم کثیر تعارف اور ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ واقفیت کے بغیر نہیں
خطبات محمود ۹۳۱ سال ۱۹۳۸ء ہو سکتی.وہ حد فاصل جو اس وقت مختلف طبقات اور مختلف ممالک کے لوگوں کے درمیان قائم ہے جب تک اسے دور نہ کیا جائے کامیابی محال ہے اور اسے دور کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ کثرت سے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کی جائیں تا کہ آہستہ آہستہ پنجابی ، بنگالی ، بہاری ، مدراسی اور پھر ہندوستانی ، چینی ، جاپانی، انگریز اور مصری کا امتیاز مٹ کر سب ایسے ہی انسان نظر آنے لگیں جیسا خدا تعالیٰ نے ان کو بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تو ہم سب کو انسان ہی پیدا کیا ہے آگے انگریز ، اور ہندی اور چینی وغیرہ کا فرق تو انسان نے خود بنالیا ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ پھر اسی کی طرح کے انسان بن جائیں جیسا کہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے اور اس وقت با ہمی بُعد پیدا ہو کر جو غیریت نظر آتی ہے وہ مٹ جائے.بے شک ابتداء میں ملاقات ہو تو بجائے محبت کے ایک قسم کا تنفر ہوتا ہے مگر وہ آہستہ آہستہ ملتے رہنے سے دور ہو جاتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی جنگلی طوطا یا بے سدھا گھوڑالا یا جائے تو پہلے پہل وہ خوب شور کرتا ہے مگر آہستہ آہستہ وہی طوطا ہاتھ پر کھانا کھانے لگتا ہے اور گھوڑا سواری کے کام آتا ہے.پس ان امتیازات کو مٹانے کی کے لئے ضروری ہے کہ باہم ملاقاتیں کی جائیں.اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ اختلافات تو رہتے ہیں مگر یہ ایسے اختلاف ہوتے ہین جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِی رَحْمَةٌ کے لیکن جب یہ اختلافات لڑائی کا موجب ہو جائیں تو سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اُمت سے نکل گئے.پس ان ایام کو زیادہ سے زیادہ عمدہ کاموں میں صرف کر وسلسلہ کی مشکلات کو دیکھو.ناظروں کو چاہئے کہ ان ایام میں اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ فارغ رکھیں اور کثرت سے کی ملاقاتیں کریں، دوستوں سے مشورے کریں، ان کے سامنے اپنی مشکلات رکھیں اور دوست دیکھیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کہاں تک مدد کر سکتے ہیں اور اس طرح یہ ایام ناظروں کی کا نفرنس کے ایام ہونے چاہئیں مگر شاید کارکنوں کی کمی یا اپنی بزدلی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے نہیں.بزدلی کی وجہ سے میں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض ناداں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ناظر خود تو کوئی کام کرتے نہیں دوسروں سے ہی لیتے ہیں اور اس لئے وہ بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم کام کرنے میں دوسروں کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو لوگ اعتراض کریں گے اور اس لئے کی
خطبات محمود ۹۳۲ سال ۱۹۳۸ء ایسے بیوقوفوں کی وجہ سے وہ زیادہ ضروری کام چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ایسے بے وقوف تو ہمیشہ ہوتے آئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے اور آپ سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی تھے اور ہمیشہ باقی رہیں گے.جس طرح کی پاگلوں کو دنیا سے نہیں مٹایا جا سکتا ایسے لوگوں کا مٹایا جانا بھی ناممکن ہے اور اس لئے کہ ایسے بے وقوف اعتراض نہ کریں ناظروں کو بہتر کام چھوڑ کر اپنے لئے نسبتاً معمولی کام تجویز نہیں کرنا چاہئے.اس وقت تک وہ ایسا نہیں کرتے رہے اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خیال نہ آیا ہو اور یہ بھی کہ کام کے لئے آدمی نہ مل سکتے ہوں لیکن اب ایسا کرنے کی کوشش انہیں کرنی چاہیے.جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ دفاتر میں جا جا کر ناظروں سے ملیں اور دیکھیں کہ کام کس طرح ہورہا ہے، کام کی نوعیت کیا ہے ، عملہ کتنا ہے اگر دوستوں کو یہ علم ہو کہ کام زیادہ اور کا رکن تھوڑے ہیں تو ان کے دل میں یہ تحریک ہو سکتی ہے کہ پنشن لے کر یہاں آئیں گی اور کام کریں.اس کے علاوہ بعض وسو سے بھی دور ہو سکتے ہیں.بعض لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ہم نے فلاں کام کہا تھا مگر وہ اب تک نہیں ہوا اور حالات کو دیکھ کر ان کا شکوہ دور ہوسکتا ہے اور ناظروں کو بھی چاہئے کہ دن رات کا زیادہ سے زیادہ حصہ ملاقاتوں کے لئے فارغ رکھیں.اگر اس کے ساتھ اور کام بھی وہ اپنے ذمہ رکھیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ طبیعت میں چڑ چڑا پن پیدا ہو جائے گا.اگر کوئی کہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو میں اس بات کو صحیح ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں.ایسے حالات میں چڑ چڑا پن پیدا ہونا ضروری ہے.ایک شخص آ کر بات کرے گا یہ اسے مختصر جواب دیں گے وہ اس کی مزید وضاحت چاہے گا اور یہ کثرت کا ر کی وجہ سے یہ کہہ دیں گے کہ آپ تو خواہ مخواہ مغز چاٹ رہے ہیں اور وہ ناراض ہو کر چلا جائے گا.پس چاہئے کہ ناظر دس بارہ گھنٹہ ضرور اپنے دفاتر میں بیٹھے رہیں اور دوستوں کو دعوت دیں کہ آئیں اور ان سے ملاقاتیں کریں اور اس طرح رات دن کا نفرنس میں شریک رہیں ان کو اپنی مشکلات بتا ئیں تاج ان کے اندر زیادہ سے زیادہ تعاون کی روح پیدا ہو.پس میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے اور ناظر بھی ایسے رنگ میں اپنے اوقات صرف کریں گے جو جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا موجب ہوسکیں.
خطبات محمود ۹۳۳ سال ۱۹۳۸ء مگر چونکہ سب کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے میں اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کو اس رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے نزدیک زیادہ مناسب اور بہتر ہو اور ہمارے قلوب سے ایسے خیالات جو مختلف قوموں اور طبقوں میں جھگڑے پیدا کر دیتے ہیں نکال دے.ہمارے اندر اتحاد اور یک جہتی پیدا کر دے اور ہم سب کا ایک ہی مقصود اور قبلہ ہو یعنی اسلام اور احمدیت کی ترقی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے تقویٰ کا دلوں میں قائم ہونا.“ الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۹ء ) لمسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۱۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
خطبات محمود ۹۳۴ ۴۳ سال ۱۹۳۸ (۱) تحریک جدید سال پنجم کے وعدوں کی آخری میعاد دس فروری ہے (۲) آئندہ سال خصوصیت سے ہندو دوستوں کو جلسہ پر لانے کی کوشش کی جائے (فرموده ۳۰ / دسمبر ۱۹۳۸ء) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - پہلے تو میں تحریک جدید سال پنجم کی میعاد کے متعلق آج یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال کا چندہ لکھوانے کی آخری تاریخ دس فروری ہے (میں نے خطبہ میں 31 جنوری کہا تھا مگر خطبہ دیر سے شائع ہو رہا ہے دس فروری آخری میعاد کر دی ہے ) اس وقت تک میں یہ اعلان نہیں کر سکا تھا.کیونکہ پہلے خطبہ میں تو یہ بات مجھ سے نظر انداز ہوگئی اور بعد میں میں نے سمجھا اب تو دوست جلسہ سالانہ پر آنے ہی والے ہیں اب اگر اس چندہ کی میعاد کے متعلق اعلان کیا گیا تو کی اس کا چنداں فائدہ نہ ہو گا سو آج میں اعلان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے پانچویں سال کا چندہ لکھوانے کی آخری تاریخ ہندوستان میں رہنے والوں کے لئے ، بنگال اور مدراس کے
خطبات محمود ۹۳۵ سال ۱۹۳۸ء اصل باشندوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ وہاں کی زبان مختلف ہے اور ہم ہمیشہ وہاں کے رہنے والوں کو زیادہ عرصہ دیا کرتے ہیں ، دس فروری ہے.پس دوستوں کی طرف سے وہی وعدے قبول کئے جائیں گے جو یا تو اس عرصہ میں دفتر پہنچ جائیں گے یا جن پر ڈاکخانہ کی مہرا 1 فروری کی ہوگی کیونکہ دس فروری جو آخری تاریخ ہے اسلئے شام کو اگر کوئی وعدہ لکھوانا چاہے تو اسی روز کی اس کا خط ڈاکخانہ سے روانہ نہیں ہو سکتا اس کا خط بہر حال گیارہ فروری کو روانہ ہو سکے گا.پس گیارہ فروری کی مہر جس خط پر ہوگی اسکے وعدہ کو بھی قبول کر لیا جائے گا ہاں ہندوستان کے صوبوں میں سے بنگال اور مدراس کی جماعتوں کے وعدے اور اسکے علاوہ ان تمام جماعتوں کے وعدے جو ایشیا اور افریقہ میں ہیں.30 اپریل تک قبول کیے ، جاسکتے ہیں جیسے ایسٹ افریقہ ہے ، عراق ہے، یوگنڈا ہے ، ٹانگا نیکا ہے، اسی طرح دوسری طرف سماٹرا اور جاوا وغیرہ ہیں کہ مغربی ممالک کیلئے جو زیادہ فاصلہ پر ہیں آخری میعاد ۳۰ / جون ہو گی.جیسا کہ گزشتہ سالوں سے ہوتا چلا آیا ہے یہ رعایت اس لئے ہے کہ وہاں خطبوں کے پہنچنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں پھر ان کی زبان اور ہے اور ان تک بات پہنچانے میں وہاں کے کارکنوں کو تحریک کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے.اس سلسلہ میں میں بعض اور باتیں بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں جو ملاقات کے ایام میں چندہ تحریک جدید کے متعلق میرے سامنے آئیں اور جلسہ سالانہ کے ایام میں لوگ ان کے متعلق مجھ سے پوچھتے رہے ہیں.یہ سوالات میرے اس اعلان کے متعلق ہیں جو میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کیا تھا کہ چندہ تحریک جدید میں آخر تک حصہ لینے والوں کی جولسٹ بنائی جائے گی وہ دو حصوں میں منقسم ہو گی ، ایک تو ان لوگوں کی فہرست ہوگی جنہوں نے اس تحریک میں قانون کے مطابق کمی کر کے باقاعدہ دس سال تک چندہ دیا ہوگا یا یکساں دیتے چلے گئے ہوں گے.اپنے چندہ میں کمی کر نیوالوں کی وجہ میری سمجھ میں آجاتی ہے مگر ہر سال یکساں چندہ دینے والوں کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی.مثلاً یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک شخص جسے پانچ روپے چندہ ینے کی توفیق نہ تھی اس نے دوسرے دور کے دوسرے سال میں ساڑھے چار کر دیئے اور اس سے اگلے سال قانون کے مطابق اس کے ذمہ چار روپے رہ گئے اور پھر اس سے اگلے سال
خطبات محمود ۹۳۶ سال ۱۹۳۸ء ساڑھے تین رہ گئے اور پھر تین تین روپے وہ تین سال متواتر دیتا رہا یا دوسرے دور کے پہلے سال اس نے دس روپے دیئے تو اگلے سال نو روپے رہ گے، پھر نو کے آٹھ رہ گئے ، پھر آٹھ کے سات رہ گئے ، سات کے چھو رہ گئے ، چھ چھ روپے وہ با قاعدہ تین سال تک دیتا رہا لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ شخص جو السَّابِقُونَ الاَوَّلون میں نہایت معمولی زیادتی کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے وہ چندہ ہر سال برابر کیوں دیتا رہا مثلاً وہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے چندہ میں دیئے اور پھر ہر سال وہ پانچ روپے ہی دیتا رہا اس نے یقیناً اس بات کو نہیں سمجھا کہ وہ بہت ہی معمولی قربانی کے ساتھ اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُون میں شامل ہو سکتا تھا مگر اس نے اس طرف توجہ نہیں کی مثلاً وہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے دیئے جبکہ وہ دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دے کر، تیسرے سال پانچ روپے دو آنہ دے کر ، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے دے کر، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے دے کر، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے دے کر، ساتویں سال پانچ روپے چھ آنے دے کر ، السابقون اور ہر سال قدم آگے بڑھانیوالوں میں شامل ہوسکتا تھا تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں وہ چند آنوں کی زیادتی میں بخل سے کام لے کرسابقون کے درجہ میں شامل نہ ہوا اور ہر سال پانچ روپے ہی دیتا چلا گیا.جب ہر سال کے چندہ میں محض ایک آنہ کی زیادتی اسے اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُون میں شامل کر سکتی ہے تو یقیناً اگر کوئی کی شخص یہ زیادتی نہیں کریگا تو اس کے متعلق یہ سمجھا جائیگا کہ یا تو اس نے ناواقفیت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہیں کیا اور یا پھر اسکے دل میں سابق ہونے کی ایسی قدر نہیں ہے.تو قاعدہ کے مطابق جن دوستوں نے اپنے چندہ میں کمی کی ہے ان کی اس کمی کی حکمت تو میری سمجھ میں آ سکتی ہے اور میں مان سکتا ہوں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے وہ کمی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں مگر وہ لوگ کی جو ہر سال برابر چندہ دیتے رہے ہیں ان کے اس یکساں چندہ دینے کی حکمت میری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ وہ بلا وجہ ایک عظیم الشان ثواب کے حصول سے محروم رہتے ہیں.بیشک ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ پچھلے سال میں نے پانچ روپے چندہ میں دیئے تھے اس سال چھ روپے چندہ دینے کی مجھے تو فیق نہیں مگر ہم کب کہتے ہیں کہ زیادتی ضرور ایک روپیہ ہی کی ہونی چاہئے.ہم نے زیادتی کے متعلق کوئی تعیین نہیں کی اور جب زیادتی کے متعلق ہماری طرف سے کوئی تعیین نہیں تو یہ زیادتی
خطبات محمود ۹۳۷ سال ۱۹۳۸ء پانچ روپے ایک آنہ دے کر بھی ہو سکتی ہے بلکہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ہو سکتی ہے اور اگر صرف ایک پیسہ کو زیادتی کی وجہ سے کوئی شخص اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُون میں شامل ہو سکتا ہو تو کیا ی یہ نادانی نہیں ہوگی کہ دس روپے چندہ دینے والا ہمیشہ دس روپے ہی دیتا رہے یا سو روپے چندہ دینے والا ہمیشہ سور و پیہ ہی دیتا ر ہے اور نہایت معمولی سی زیادتی کر کے وہ اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُون میں شامل نہ ہو جائے.ہماری جماعت کے ایک دوست ہیں جو نہایت ہی مخلص اور سادہ طبیعت کے ہیں کئی موقعوں پر میں نے ان میں سلسلہ سے اخلاص اور محبت کا تجربہ کیا ہے انہوں نے گزشتہ سال کی ۱۱۵ روپے چندہ میں دیئے اس سال پھر انہوں نے ۱۱۵ روپے کا وعدہ کیا اس پر میں نے انہیں کی لکھا کہ آپ بڑی آسانی سے اس سال ۱۱۶ روپے دے کر السَّابِقُونَ الْاَوَّلُون میں شامل ہو سکتے ہیں چنانچہ گو میں نے انہیں ایک روپیہ کی زیادتی کیلئے ہی مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے جوش اخلاص میں اپنے وعدہ کو اور زیادہ بڑھا دیا.تو بعض لوگ اصل حقیقت کو سمجھے نہیں وہ سمجھتے ہیں شاید اگر ہم نے ایک سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں تو دوسرے سال جب تک دس روپے نہیں دیں گے زیادتی نہیں سمجھی جائے گی حالانکہ ہمیں تو ایمان کی زیادتی کا ثبوت چاہئے خواہ وہ ایک پیسہ سے ہو خواہ ایک آنہ سے ہو، خواہ دو آنہ سے ہو، خواہ تین آنہ سے ہو، خواہ چار آنہ سے ہوا اور خواہ وہ دس ہیں یا سود و سو روپیہ کے ذریعہ سے ہو.تو کمی کرنے والوں کی حکمت میری سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور ہماری مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم زیادتی کریں مگر جو ہر سال یکساں چندہ دیتے ہیں ان کے اس فعل کی حکمت میری سمجھ سے بالا ہے جبکہ وہ نہایت ہی معمولی زیادتی کر کے السَّابِقُونَ الْأَوَّلُون میں شامل ہو سکتے ہیں مثلاً وہ شخص جس نے سات سالہ دور میں سے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیا ہے وہ اگر ہر سال قاعدہ کے مطابق دس فی صدی کمی کرتا اور آخری تین سالوں میں چالیس کی فیصدی کمی پر ٹھہر کر دو سال مسلسل چندہ دیتا تو وہ نو روپے بچاتا ہے دس روپے دینے والا سات سال میں اس کمی کے نتیجہ میں اٹھارہ روپے بچاتا ہے، ہمیں روپے دینے والا چھتیس روپے بچاتا ہے اور اگر کوئی سوروپے دینے والا تھا تو وہ سات سال میں ایک سواسی روپے بچاتا ہے.
خطبات محمود ۹۳۸ سال ۱۹۳۸ء پس اس کے فعل کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے مگر یہ جو برابر چندہ دیتے چلے جاتے ہیں کی اور ہر سال مثلاً پانچ روپے یا دس روپے ہی چندہ دے دیتے ہیں انکا یہ طریق میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ محض پیسے کی زیادتی سے بھی یا ایک آنہ یا چار آنہ یا ایک روپیہ کی زیادتی سے بھی سابقون میں شامل ہو سکتے تھے.اگر وہ ہر سال ایک پیسہ کی ہی زیادتی کریں تو سات سال میں سوا پانچ آنے کی زیادتی بنتی ہے.اب میرے لئے یہ تسلیم کرنا بالکل ناممکن ہے کہ وہ شخص جو سات سال میں ۳۵ روپے چندہ دے دیتا ہے وہ سو پانچ آنے زائد چندہ نہیں دے سکتا تھا یقینا سات سال میں ۳۵ روپے چندہ دینے والوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو سات سال میں سوا پانچ آنے زائد نہ دے سکتا ہو مگر افسوس ہے کہ معمولی سی غفلت کی وجہ سے لوگ اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ کے ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص ایک پیسے کی بجائے ایک آنہ کی زیادتی کرے تو وہ یوں کر سکتا ہے کہ اگر اس نے پہلے سال پانچ روپے دیئے ہیں تو دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دیدے، تیسرے سال پانچ روپے دو آنے ، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے ، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے ، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے ، ساتویں سال پانچ روپے چھ آنے ، اس طرح سات سالوں میں ایک روپیہ پانچ آنہ کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ زیادتی کوئی ایسی نہیں جو نا قابل برداشت ہو بلکہ جو شخص سات سال میں ستر روپے چندہ دے سکتا ہے وہ آسانی سے ایک روپیہ نو آ نہ سات سال میں اور بھی ادا کر سکتا ہے.پس میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست یکساں چندہ دے رہے ہوں وہ ذراسی زیادتی کر کے السَّابِقُونَ الاَوَّلُون میں شامل ہو سکتے ہیں اگر انہوں نے پچھلے سال پانچ روپے دیئے تھے تو اس سال وہ اپنے چندہ کو پانچ روپے ایک آنہ بنا سکتے ہیں یا اگر اتنی زیادتی بھی وہ ج نہیں کر سکتے تو پانچ روپے ایک پیسہ کر دیں کیونکہ سابقون کیلئے محض زیادتی کی شرط ہے مقدار کی تج تعین نہیں.بعض لوگ الفاظ غور سے نہیں سنتے اور اس وجہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں جیسے امانت فنڈ میں حصہ لینے والے اب شور مچارہے ہیں کہ ہمیں ہمارا روپیہ واپس کیا جائے حالانکہ اگر وہ غور سے میرے خطبات کو پڑھتے تو متواتر کئی خطبات میں میں نے بتایا تھا کہ یہ میرا اختیار ہوگا کہ
خطبات محمود ۹۳۹ سال ۱۹۳۸ء میں اگر چاہوں تو امانت روپیہ کی صورت میں ہی انہیں واپس کروں اور چاہوں تو جائیداد کی کی صورت میں واپس کروں مگر انہوں نے اس بات کو نہ سمجھا اور اب شور مچارہے ہیں کہ ہمیں روپیہ ہی دیا جائے جائیداد ہم لینے کیلئے تیار نہیں.اسی طرح چندہ میں زیادتی کے متعلق بھی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید سابقون میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انہوں نے اگر پہلے پانچ روپے چندہ دیا ہے تو اب چھ دیں یا سات دیں حالانکہ سابقون میں شامل ہونے کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں صرف زیادتی کی شرط ہے خواہ وہ پیسے سے ہو یا آنہ سے ہو یا زیادہ سے ہو بلکہ پیسہ سے کم ہمارے ہاں کوئی سکہ استعمال نہیں ہوتا ور نہ میں تو کہتا کہ ایک آدھی یا ایک پائی سے بھی زیادتی کی جاسکتی ہے.پرانے زمانہ میں کوڑیاں استعمال ہوا کرتی تھیں آجکل انکا رواج نہیں لیکن اگر ان کا رواج ہوتا تو السَّابِقُونَ الاَوَّلون میں شامل ہونے کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ ایک کوڑی زائد دے دیتے مقصد یہ ہے کہ چندہ کی پہلے سے زیادہ دیا جائے خواہ یہ زیادتی ایک آدھی سے ہو خواہ پائی سے خواہ ایک کوڑی سے ہو یہ انسان کے اپنے حالات پر منحصر ہے کہ وہ جس قسم کی چاہے زیادتی اختیار کر سکتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ چندہ میں زیادتی کے متعلق وہ میرا نقطہ نگاہ سمجھ لیں اور جن دوستوں سے اپنے گزشتہ سالوں کے چندہ میں غلطی ہوئی ہے وہ اس کی اصلاح کرلیں.میں نے بتایا ہے کہ یہ اصلاح اتنی آسان ہے کہ بغیر کسی بوجھ کے اسے اختیار کر سکتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اپنے حالات کی وجہ سے کمی کرنے پر مجبور ہیں باقی سب دوست چند پیسوں یا چند آنوں کے ساتھ ہی اپنی غلطی کو دور کر سکتے ہیں اور اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّ لُو ن میں شامل ہو سکتے ہیں تو یہ بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں تا کہ جو دوست غلطی کی وجہ سے السَّابِقُونَ الأَوَّلُون میں شامل ہونے سے محروم رہے ہیں وہ اب اپنی غلطی کا ازالہ کر کے سابقون میں شامل ہو جائیں.دوسری بات اس سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زیادتی بھی دو قسم کی ہے ایک تو وہ دوست ہیں جنہوں نے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے دوسرے سال دیا اور دوسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے تیسرے سال دیا اور کی
خطبات محمود ۹۴۰ سال ۱۹۳۸ء ނ تیسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے چوتھے سال دیا اور چوتھے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ انہوں نے پانچویں سال دیا ان کے لئے اگر وہ سابقون میں شامل ہونا چاہیں تو یہی قاعدہ ہے کہ وہ اب دسویں سال تک اپنے چندہ کو پہلے سالوں.بڑھاتے چلے جائیں کیونکہ انہوں نے چوتھے سال میں آکر تیسرے سال سے کم چندہ نہیں دیا تھا بلکہ زیادہ دیا تھا.پس چونکہ انہوں نے ایک حلقہ اپنے لئے پسند کر لیا ہے اسلئے اب ان کی زیادتی اس کی ا صورت میں زیادتی متصور ہوگی کہ جب وہ ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیں گے.لیکن ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے تین سالوں میں تو اپنے چندوں میں زیادتی کی لیکن چوتھے ا سال آکر میری رعایت سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اتنا ہی چندہ دیا جتنا انہوں نے تحریک جدید کے سال اول میں دیا تھا.مثلاً پہلے سال انہوں نے پانچ روپے دیئے تھے، دوسرے سال کی انہوں نے دس روپے دیئے اور تیسرے سال پندرہ لیکن چوتھے سال آکر پھر انہوں نے پہلے سال کے چندہ کے مطابق میری رعایت سے فائدہ اٹھا کر صرف پانچ روپے ہی چندہ دیا ایسے لوگوں نے چونکہ میری مقرر کردہ رعایت اور قانون کے مطابق چوتھے سال اپنے چندہ میں کمی کی اس لئے اب انکی زیادتی پانچویں سال سے شمار ہوگی اور وہ اگر چاہیں تو اب کے پانچ روپے کی جگہ پانچ روپے ایک آنہ دے کر یا پانچ روپے چار آنے دے کر یا چھ روپے دے کر یا سات روپے کی دے کر یا آٹھ روپے دے کر اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُون میں شامل ہو سکتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ایک شخص اپنے چندہ میں اضافہ کر سکتا ہے اور ایسا شخص زیادتی کرنے والوں میں ہی شمار ہو گا بشرطیکہ اب وہ آئندہ سالوں میں کمی نہ کرے بلکہ ہر سال اپنے چوتھے سال کے چندہ پر اضافہ کرتا چلا جائے.غرض شرط یہ نہیں کہ تیسرے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اس پر اضافہ کرے بلکہ چوتھے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اگر آئندہ سالوں میں وہ اس پر زیادتی کرتا رہتا ہے تو وہ بھی سابقون میں ہی شمار کیا جائے گا.پس ایسے لوگوں کے لئے اصل زیادتی تیسرے سال پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر سمجھی جائے گی مثلاً اگر کسی شخص نے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیا تھا دوسرے سال اس نے دس روپے دیئے اور ی
خطبات محمود ۹۴۱ سال ۱۹۳۸ء تیسرے سال ہیں لیکن چوتھے سال پھر اس نے پانچ دے دیئے تو اب اگر وہ زیادتی کرنا چاہے تو پانچ پر ہی کر سکتا ہے اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہیں پر زیادتی کرے کیونکہ اس نے چوتھے سال اپنے چندہ میں جو کمی کی تھی وہ اجازت اور قانون کے ماتحت کی تھی.میں نے ج اس امر کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کو فکر لگ گیا ہے کہ ہم نے جو چوتھے سال چندہ دیا تھا وہ تیسرے سال سے بہت کم ہے اب اگر ہم تیسرے سال کے چندہ پر زیادتی کریں تو ہم پر بہت زیادہ بار پڑ جائیگا.میں ایسے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے چوتھے سال کم چندہ دیا ہے تو یہ ان کی زیادتی میں حارج نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے یہ کمی میری دی ہوئی رعایت کے مطابق کی تھی پس وہ اب تیسرے سال کے چندہ پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر اگر دسویں سال تک زیادتی کرتے چلے جائیں گے تو السَّابِقُونَ الْأَوَّلُون کی فہرست میں آجائیں گے بشرطیکہ پہلے تین سالوں میں بھی ہر سال زیادتی ہوتی چلی گئی ہو.یا اب وہ زیادتی کر دیں مگر شرط یہی ہے کہ انہوں نے چوتھے سال قانون کے مطابق کمی کی ہو.کی لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ جس نے چوتھے سال بھی کمی نہیں کی تو ا سے اجازت نہیں کہ وہ پیچھے ہے بلکہ اب وہ اس صورت میں اَلسَّابِقُونَ الأَوَّلُون میں شامل رہ سکتا ہے کہ جب ہر سال وہ اپنے چندہ میں اضافہ کرتا چلا جائے.جیسے میں نے دوسرے سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیا تھا ، تیسرے سال دوسرے سال سے زیادہ چندہ دیا، چوتھے سال تیسرے سال سے زیادہ چندہ دیا اور پانچویں سال چوتھے سال سے زیادہ چندہ لکھایا ہے.پس میں اور میری قسم کے دوسرے دوست جنہوں نے چوتھے سال بھی کمی نہیں کی بلکہ تیسرے سال کے چندہ پر زیادتی کی تھی وہ اس کی بات پر مجبور ہیں کہ اب آئندہ ہر سال اضافہ ہی کرتے چلے جائیں اور پانچویں سال میں چوتھے سے اور چھٹے سال میں پانچویں سے اور ساتویں سال میں چھٹے سے اور آٹھویں سال میں ساتویں سے اور نویں سال میں آٹھویں سے اور دسویں سال میں نویں سے زیادہ چندہ دیں خواہ کی زیادتی کتنی ہی قلیل ہو.لیکن جنہوں نے چوتھے سال اپنا چندہ پہلے سال کے برابر کر دیا تھا لیکن دوسرے اور تیسرے سال بڑھتے چلے گئے تھے ان کی راہ میں چوتھے سال کے چندہ کی کمی کوئی روک نہیں ہوگی بلکہ چوتھے سال سے انکا نیا دور شروع ہوگا اور انکی زیادتی ، زیادتی ہی تصور ہوگی
خطبات محمود ۹۴۲ سال ۱۹۳۸ اگر انہوں نے چوتھے سال کے چندہ سے پانچویں سال میں کچھ زیادہ چندہ دیا ہو.یہ دو تنشر تکیں ہیں جو آج میں کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سے دوستوں نے ملاقات کے وقت مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا ہے اور بعض نے رقعے لکھ کر بھی سوالات کئے ہیں اور چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تحریک جدید کی اہمیت معلوم ہونے کے بعد بہت سے دوستوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ بھی اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُون میں شامل ہوں اسلئے میں نے یہ تشریحات کر دی ہیں اور ان کی راہ میں جو روکیں حائل تھیں انہیں دور کر دیا ہے.میں ان دونوں قسم کی زیادتی کو ایک نقشہ کے ذریعہ سے بھی حل کر دیتا ہوں اور پانچ روپے چندہ دینے والوں کی مثال کی دونوں صورتیں بیان کر دیتا ہوں.اول نقشہ یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال پانچ روپے دئیے ، دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ یا دو آنہ یا چار آنہ زیادتی کی ، تیسرے سال پھر زیادتی کی مگر چوتھے سال پھر پانچ روپے چندہ دیا چھٹے سال پانچ روپے ایک آنہ یا دو آنہ یا چار آنه چندہ دیا اور پانچویں سال اس سے زیادہ اور آخر تک پھر بڑھاتے چلے گئے انکا چوتھے سال کا چندہ گو تیسرے سال سے کم ہے لیکن چونکہ یہ پہلے تین سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیں اور دوسرے سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیں باوجود چوتھے سال کی میں کمی کر دینے کے یہ لوگ سابقون میں شمار ہونگے کیونکہ دونوں دور مستقل صورت رکھتے ہیں اور دونوں دور میں وہ چندہ بڑھاتے چلے گئے ہیں.دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال میں پانچ روپے چندہ دیا دوسرے میں پانچ روپے ایک آنہ تیسرے میں پانچ روپے ۲ آنے ، چوتھے میں پانچ روپے تین آنے اور پانچویں میں پانچ روپے ۴ آنے اور آخر دور تک وہ کچھ نہ کچھ زیادتی پہلے سال کے چندہ میں کرتے چلے گئے یہ بھی سابقون میں سمجھے جائیں گے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اس امر کو اچھی طرح جماعت کے ذہن نشین کر دیں تا کہ عدم علم کی وجہ سے وہ دوست جو زیادہ ثواب میں حصہ لینا چاہیں اس سے محروم نہ رہ جائیں.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست اس دوران میں فوت ہو جائیں انکی نسبت سمجھا جائے گا کہ وہ آخر تک چندہ دیتے رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں جس قسم کے چندہ دہندوں کی قسم میں آرہے تھے اسی قسم میں ان کا نام شامل کیا جائے گا اور یہ نہ کہا جائے گا کہ انہوں نے
خطبات محمود ۹۴۳ سال ۱۹۳۸ پورے دس سال چندہ نہیں دیا.کیونکہ ثواب نیت پر ہوتا ہے نہ کہ اس عمل پر جو انسان کے اختیار میں نہ ہو.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ اس سال کے جلسہ ہیں ایک غیر معمولی تبلیغ ہوئی ہے جو پہلے سالوں میں نہیں ہوا کرتی تھی اور وہ ہندوؤں اور سکھوں کو تبلیغ ہے.اس سال ہمارے جلسہ میں ہندوؤں اور سکھوں میں سے ایک معقول تعداد شامل ہوئی ہے.معقول کا لفظ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے استعمال نہیں کی کر رہا.بلکہ پہلے زمانہ کے لحاظ سے استعمال کر رہا ہوں.پندرہ ہیں ہندو اور سکھ دوست اس کی دفعہ ہمارے اس جلسہ میں شامل ہوئے اور وہ مجھ سے بھی ملے اور لیکچروں میں بھی شامل ہوتے رہے.ان میں سے بعض تو درمیان میں چلے گئے مگر بعض آخر تک ٹھہرے رہے.ان ہندوؤں اور سکھوں میں بیرسٹر بھی تھے ، وکلا بھی تھے ، انجینئر بھی تھے ، ڈاکٹر بھی تھے ، زمیندار بھی تھے ، غرض کی ہر قسم کے لوگ ان میں شامل تھے.ہندوؤں میں چونکہ ایک لمبا عرصہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں سے وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اس لئے ہند و تعلیم یافتہ طبقہ مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ سے زیادہ سنجیدہ ہے.مسلمانوں میں ابھی چھچھورا پن پایا جاتا ہے لیکن ہندوؤں میں چونکہ دیر سے تعلیم میں ترقی ہو رہی ہے اس لئے اس تعلیم کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان میں ایک ایسا وقار پیدا ہو گیا ہے جو بالعموم مسلمانوں میں نظر نہیں آتا.ہندوؤں میں اس روح کا پیدا ہو جانا اور پھر ان کا ہمارے پاس ہی ٹھہر نا ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے.ایک ہندو صاحب کو تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا وہ میری تقریر کے با قاعدہ اسی طرح نوٹ لیتے رہے جس طرح باقی احمدی دوست نوٹ لیتے رہے تھے.پس یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جسے میرے نزدیک زیادہ سے زیادہ ترقی دیتے چلے جانا چاہئے.پچھلے آٹھ دس سال میں ہم نے غیر احمدی اصحاب کو یہاں لانے کی کوشش شروع کی ہے اور اس میں ہمیں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے.چنانچہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں غیر احمدی آتے اور سینکڑوں ہی بیعت کر کے جاتے ہیں.نصف کے قریب تو ضرور ہی بیعت کر کے جاتے ہیں.گو اگر صحیح کوشش کی جائے تو میرے نز دیک اس سے بھی زیادہ لوگ
خطبات محمود ۹۴۴ سال ۱۹۳۸ء بیعت کر سکتے ہیں.مگر نقص یہ ہے کہ جو دوست انہیں اپنے ہمراہ لاتے ہیں وہ ان کی نگرانی نہیں کی کرتے.اگر وہ نگرانی رکھیں اور انہیں جلسوں اور لیکچروں میں توجہ سے بٹھا ئیں تو اسی توے فیصدی بلکہ سو فیصدی کی بیعت کی امید کرنا بے جا نہ ہوگا.مگر ابھی ان غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے والے اس امر کی طرف صحیح متوجہ نہیں ہوئے کہ ان کا کوئی وقت ضائع نہ ہونے دیں اور کوشش کریں کہ وہ جلسہ سے پورا فائدہ اٹھائیں لیکن پھر بھی میں نے دیکھا ہے کہ پچاس کی فیصدی لوگ بیعت کر کے ہی واپس جاتے ہیں.بعض لوگ پہلے دن سے ہی شکایت کرتے ہیں کی کہ ہم فلاں غیر احمدی دوست کو اپنے ہمراہ لائے تھے مگر وہ متاثر نہیں ہوا لیکن دوسرے ہی دن وہ پھر آجاتے ہیں اور کہتے ہیں آج آپ کی تقریرین کر یا دوسرے دوستوں کی تقریریں سن کر ان کی کا سینہ کھل گیا ہے.ان کی بیعت لی جائے اور جو دوسرے دن بھی رہ جاتا ہے اس کا تیسرے دن سینہ کھل جاتا ہے اور وہ بیعت کر لیتا ہے.پس یہاں آنے کے بعد بہت سے لوگوں کے دل کھل جاتے ہیں اور سوائے ان کے جو بھاگ جائیں.باقیوں میں سے اکثر بیعت کر کے ہی واپس لوٹتے ہیں لیکن کئی ایسے ہوتے ہیں جو سالہا سال آتے رہتے ہیں اور بیعت نہیں کرتے آخر کئی سالوں کے بعد وہ بیعت میں شامل ہوتے ہیں.چنانچہ اسی سال ایک صاحب نے بتایا کہ میں آٹھ سال سے جلسہ سالانہ پر آ رہا ہوں مگر بیعت کی مجھے آج توفیق ملی ہے.ایک اور صاحب نے بتایا کہ میں تین چار سال سے آ رہا ہوں اور باقاعدہ ہر جلسہ میں شامل ہوتا رہا ہوں لیکن بیعت میں آج کر رہا ہوں.تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال آتے رہتے ہیں اور بیعت میں شامل نہیں ہوتے لیکن ایسے لوگوں کو بھی دراصل بیعت میں ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ جب وہ ایک دفعہ یہاں آئے تو پھر وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ یہاں بار بار آئیں اور وہ ہر دفعہ ہم سے کچھ لینے کے لئے آموجود ہوئے.پس گو وہ بیعت میں شامل نہ تھے مگر ان کا معاملہ ایسا ہی تھا جیسے بیعت والوں کا ہوتا ہے انہوں نے بھی جب قادیان کو دیکھا تو پھر وہ اسے چھوڑ نہ سکے اور اس بات پر مجبور ہوئے کہ بار بار یہاں آئیں.تو یہ تجربہ جو اس دفعہ ہندوؤں اور سکھوں کے متعلق ہوا ہے نہایت ہی کامیاب رہا ہے اور ضرورت ہے کہ اس پر زیادہ زور دیا جائے.یہ ایک نیا تجربہ ہے اور اس
خطبات محمود ۹۴۵ سال ۱۹۳۸ء بات کا متقاضی ہے کہ ہم لوگ اس کی طرف زیادہ توجہ کریں.سب سے پہلے صرف ایک ہندو دوست ہمارے جلسہ پر آئے تھے.جس پر ہم نے بڑی خوشی کا اظہار کیا وہ دوست اب ہیں تو احمدی لیکن ان کا نام ہندوانہ ہی ہے.اسی طرح ایک اور ہندو دوست ہیں وہ ابھی احمدی نہیں کی ہوئے لیکن انہیں احمدیت کی سچائی کا احساس شروع ہو گیا ہے.چنانچہ اُس نے مجھے ایسے خط لکھنے شروع کر دیئے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ مجھے آپ کی بیعت کر لینی چاہئے.ایک اور اسی قسم کے صاحب دہلی میں ہیں.انہوں نے ذکر کیا کہ فلاں فلاں روک میرے رستہ میں حائل ہے اگر یہ دور ہو جائے تو میں آپ کی ضرور بیعت کرلوں.ایک روک انہوں نے کی یہ بتائی کہ میری والدہ زندہ ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں نے احمدیت قبول کی تو انہیں صدمہ ہوگا.پس ایک طرف میرا جی چاہتا ہے کہ وہ زندہ رہیں اور دوسری طرف میں یہ بھی دیکھ رہا تی ہوں.کہ وہ ایک صداقت کے قبول کرنے میں روک بن رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوؤں میں ایک تغیر محسوس کرتا ہوں.بعض ہندو دوست ہمارے جلسہ پر چار چار پانچ پانچ سال آتے رہے اور آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں صداقت قبول کرنے کی توفیق دے دی یا صداقت قبول کرنے کے لئے وہ بہت حد تک تیار ہو گئے مگر تبلیغ کے صرف یہ معنی نہیں ہوتے کہ کوئی مسلمان ہو جائے.ہماری جماعت میں سے کئی ایسے دوست ہیں جو ہندو اور سکھ صاحبان کو اپنے کی ہمراہ لانے میں اس لئے کوتاہی کر جاتے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے کونسا مسلمان ہو جانا ہے حالانکہ ہر تبلیغ میں ایک تعلیمی پہلو بھی ہوتا ہے جسے مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.آخر اس ملک میں ہندو بھی رہتے ہیں، مسلمان بھی رہتے ہیں اور دوسری قو میں بھی رہتی ہیں اب اگر تمام قوموں کے افراد ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں تو انہیں ایک دوسرے کے حالات کا کیونکر علم ہو گا اور ایک دوسرے کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں وہ دور کس طرح ہونگی.قادیان کی کو ہی دیکھ لو یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں میں سے بعض ہمارے خلاف جھوٹ بولتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پر ہماری طرف سے مظالم توڑے جاتے ہیں اس طرح وہ اپنی تمام قوم کے لوگوں میں ہمارے خلاف اشتعال پیدا کرتے ہیں.اب قدرتی طور پر اس پرو پیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناواقف لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ واقعی میں قادیان میں جماعت احمد یہ
خطبات محمود ۹۴۶ سال ۱۹۳۸ء کی طرف سے ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن اگر انہی کے ہم مذہب آدمی یہاں آئیں اور وہ ہمارے سلوک کو دیکھیں تو وہ خود بخو د حقیقت حال سے آگاہ ہو جائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ وہ لوگ جو خود اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر رہے ہیں، ظالم ہیں اور جن کو ظالم کہا جاتا ہے وہ مظلوم ہیں.تو صرف یہی نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی احمدی ہوتا ہے یا نہیں بلکہ یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان تعلقات کے نتیجہ میں ملک کے امن میں ترقی ہوتی ہے اور وہ تنافر دور ہو جاتا ہے جو ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق پایا جاتا ہے.پچھلی دفعہ ایک ہندو اخبار کے ایڈیٹر ہمارے جلسہ پر آئے اور انہوں نے واپس جا کر اپنے اخبار میں لکھا کہ ہمیں تو یہ بتایا جاتا تھا کہ احمدی بڑے وحشی ہوتے ہیں مگر ان کا جلسہ دیکھنے کے بعد میری یہ رائے ہے کہ یہ درست نہیں.احمدی بڑے اچھے ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہے دنیا میں نیکی ترقی کرے اور ملک میں امن قائم ہو.اب چاہے وہ کتنے ہی متعصب ہوں کسی مجلس میں جب یہ کہا جائے گا کہ احمدی ظالم اور بد اخلاق ہوتے ہیں تو وہ کہیں گے بالکل غلط ہے.میں خود ان کے جلسہ میں شامل ہوا اور میں اپنے مشاہدہ کے رو سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے جو ان کے متعلق کہا جاتا ہے.تو یہ بھی ہندوؤں اور سکھوں کے یہاں آنے کا ایک فائدہ ہے اور درحقیقت بہت بڑا فائدہ ہے.پس اس بات سے گھبرانا نہیں چاہئے کہ اگر ہم انہیں ہمراہ لائے تو وہ احمدی نہیں ہونگے.بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن یہ ضرور فائدہ حاصل ہوگا کہ ہماری جماعت کے متعلق ان کی رائے بدل جائے گی اور وہ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہونگے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق مخالف جو کچھ کہتے ہیں وہ غلط ہے.پھر ایک اور بات بھی ہے جس کا ہمارے احمدی دوست اگر چاہیں تو تجربہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جب وہ غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لاتے کی ہیں تو ان میں سے اکثر کا کرایہ انہیں خود ادا کرنا پڑتا ہے لیکن ہندو ا کثر اپنے کرایہ پر آتے ہیں اور اپنے کرایہ پر ہی جاتے ہیں چونکہ انہیں علم کی قدر ہے اس لئے وہ ایسے موقعوں پر اپنی گرہ کی سے روپیہ خرچ کر کے نئے علوم حاصل کرنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں مگر مسلمانوں میں چونکہ تعلیم کی کمی ہے.اس لئے انہیں کرایہ دے دے کر ساتھ لانا پڑتا ہے.تو ہندو اور سکھ دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے میں بہت بڑا فائدہ ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع
خطبات محمود ۹۴۷ سال ۱۹۳۸ء پر یہاں آنے کی تحریک کی جائے.غیر احمدیوں میں اپنا کرایہ خرچ کر کے آنے والوں کی تعداد کم کی ہوتی ہے اور ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو دوسروں کے کرایہ پر یہاں آتے ہیں مگر ہندوؤں میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے کرایہ پر یہاں آتے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد کم ہے جو دوسروں کے کرایہ پر یہاں آتے ہیں.پس اگر ہند و دوستوں کو آئندہ کوشش کر کے اپنے ہمراہ لایا جائے تو وہ ہماری جماعت کے دوستوں پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے اور فائدہ بھی زیادہ ہوگا.بے شک وہ مسلمان نہ ہوں لیکن اگر } وہ یہ سمجھ کر یہاں سے جائیں کہ احمدی ایسے برے نہیں ہوتے جیسا کہ ان کو سمجھا جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں یہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے.ایسا شخص ہر جگہ ہمارا ایک قسم کا مبلغ ہوتا ہے اور جب بھی جماعت پر کوئی اعتراض ہو رہا ہو تو وہ اس کا رد کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.ایک ہند و صاحب اسی جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے ، دوستوں نے سنایا کہ یہ ہر وقت ہماری ہی تبلیغی کرتے رہتے ہیں.انہوں نے وہ دلائل یا د کر لئے ہیں جو وفات مسیح وغیرہ کے ثبوت میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور جب کوئی ایسا موقع پیش آتا ہے جب کسی غیر احمدی مولوی سے وفات مسیح پر بحث کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں مرکز سے مبلغ کیا منگوانا ہے میں اس سے بحث کرتا ہوں.چنانچہ وہ قرآن کریم کے رو سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے لگ جاتے ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی بحث کرتے ہیں کہ مخالف مولوی لا جواب ہوتے ہیں.دوستوں نے سنایا کہ ان میں تبلیغ کا ایسا اعلی ملکہ پیدا ہو گیا ہے کہ مخالف مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں.اسی طرح سیالکوٹ کے ضلع میں ایک ہند و صاحب ہیں اُن کے متعلق بھی دوستوں نے بتایا کہ انہوں نے اسلامی مسائل خوب یاد کر لئے ہیں اور مخالفوں سے ہماری جگہ بخشیں کرتے رہتے ہیں.تو یہ ایک بھاری فائدہ ہے جو اس دفعہ ہمیں حاصل ہوا ہے اور میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ آئندہ ہند و صاحبان کو بہت کثرت کے ساتھ اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کریں.ہم ان کے کھانے کا الگ انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں.ایک ہندو باور چی رکھ کر ان کے لئے کھانا تیار کیا جا سکتا ہے.گواب ہندوؤں کا تعلیم یافتہ طبقہ مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے لگ گیا ہے لیکن پھر بھی ان کے لئے الگ انتظام کیا جاسکتا ہے.گو اس دفعہ
خطبات محمود ۹۴۸ سال ۱۹۳۸ء ہندو دوستوں کے لئے جب الگ انتظام کیا گیا تو ان میں سے بعض نے انکار کر دیا اور کہا کہ جس طرح باقی لوگ رہتے ہیں ہم اسی طرح رہیں گے ہمارے لئے کسی الگ انتظام کی ضرورت نہیں.درحقیقت اس قوم میں دیر سے تعلیم ہونے کی وجہ سے وقار پیدا ہو گیا ہے اور ایسی سعادت کے آثاران میں پائے جاتے ہیں جو بہت ہی قابل تعریف ہیں لیکن پھر بھی ہم ہندو دوستوں کے لئے الگ انتظام کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ آئندہ سال خصوصیت کے ساتھ ہندو دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کریں.غرض تبدیلی مذہب کے نقطہ نگاہ سے ہر بات کو نہیں دیکھنا چاہئے اور محض اس وجہ سے ان کو اپنے ہمراہ لانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے کہ انہوں نے کونسا مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ ان کو یہاں لانے کی غرض صرف یہی نہیں کہ وہ مسلمان ہو جائیں بلکہ ہماری غرض یہ بھی ہے کہ وہ احمدیت کا نقطہ نگاہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور انہیں پتہ لگ جائے کہ ہم کیا کہتے ہیں.پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں اور چونکہ آج بہت سے دوستوں نے ساڑھے تین بجے کی گاڑی سے واپس جانا ہے اس لئے خطبہ کو ختم کرتا ہوں.ہاں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ میں جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز جمع کر کے پڑھاؤں گا تا کہ وہ دوست جنہوں نے جانا ہے جاسکیں.(الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۹ ء )