Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات محمود 0 سال ۱۹۳۷ء اپنے مقصود کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو (فرموده یکم جنوری ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - مجھے پرسوں سے نزلہ اور کھانسی اور بخار کی شکایت ہے اس وجہ سے میں اونچی آواز سے بول نہیں سکتا اور دوسرے دوستوں کے ذریعہ سے اپنی آواز پہنچانے پر مجبور ہوں.آج کا جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اور پہلا دن بھی ہے.پس ہمیں اس جمعہ میں آئندہ کیلئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو اس نئے سال میں ہمارے لئے چستی اور محنت کا سامان پیدا کرتے رہیں.بہت سے انسان اس لئے نیک کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے فارغ اور زائد وقت کو کہاں صرف کریں اور اس وجہ سے جب کبھی ان کو فارغ وقت ملتا ہے وہ اسے سستی میں ضائع کر دیتے ہیں.لیکن اگر کوئی شخص اپنے لئے نیک ارادوں کی ایک فہرست بنالے اور اسے اپنے ذہن میں رکھے تو اسے فارغ اوقات میں اُن ارادوں کو پورا کرنے کی طرف تحریک ہوتی رہتی ہے اور وہ بہت سے ایسے کام کر لیتا ہے جن سے اس کا دوسرا بھائی جس نے پہلے سے اپنے لئے کوئی مقصود قرار دیا ہو انہیں ہو تا محروم رہ جاتا ہے.پس میں آج کے دن تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں یہ پختہ عہد کر لیں کہ احمدیت کی طرف سے جو اُن کے سامنے مطالبہ پیش کیا گیا ہے وہ اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں گے اور اپنی زندگی کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء یا درکھنا چاہئے کہ احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے اور اسلام ایک وسیع تعلیم کے مجموعہ کا نام ہے جو مذہب کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور اخلاق کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور تمدن کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور سیاست کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور معاملات باہمی کے متعلق بھی ہدا یتیں دیتی ہے اور اقتصادیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور ی نفسیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی دماغ کے رُجحانات کے متعلق بھی ہدا یتیں دیتی ہے اور انسانی جذبات کے اُتار چڑھاؤ کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے.غرض آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپری کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام کوئی نہ کوئی ہدایت نہ دیتا ہو.پھر جو شخص احمدیت کو قبول کر کے اس امر پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں وفات مسیح کا قائل ہو گیا ہوں یا آنے والے مسیح پر ایمان لے آیا ہوں یا میں نمازیں با قاعدہ پڑھنے لگا ہوں یا میں روزے باقاعدہ رکھتا ہوں یا میں زکوۃ دیتا ہوں یا میں حج اگر مجھے توفیق ہے تو بجالا چکا ہوں اور یہ خیال کرتا ہے کہ گویا اُس نے احمدیت پر عمل کر لیا تو اُس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں سے پانی کا ایک گلاس نکال لے اور خیال کرے کہ سمندر میرے قبضہ میں آ گیا ہے.اگر صرف یہی پانچ سات مسائل اسلام کہلاتے ہیں تو اتنے بڑے قرآن کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی یہ باتیں تو دو تین رکوع میں آسکتی تھیں.پس جو شخص ان احکام پر قانع ہو جاتا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کچھ حصہ قرآن پر ایمان لائے اور کچھ حصہ کا انکار کرتے ہوئے آخر وہ وسیع تعلیمیں جو اللہ تعالیٰ نے تو حید کے کی بار یک مسائل کے متعلق قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں یا محبت الہی اور توکل کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا وہ تفصیلات جو اُس نے اخلاق کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا تمدن یا سیاست یا اقتصادیات یا معاملات کے متعلق بیان فرمائی ہیں، اُن پر کون عمل کرے گا.کیا قرآن کریم کے یہ حصے بیکا ر پڑے رہیں گے؟ کیا ان کی کی طرف توجہ کرنے والے مسلمانوں سے باہر کوئی اور لوگ ہوں گے؟ پس جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کے تمام مطالب اور اس کی تمام تعلیمات کو زندہ کرے خواہ وہ مذہب اور عقیدہ کے متعلق ہوں یا اخلاق کے متعلق ہوں یا اصولِ تمدن اور سیاسیات کے متعلق ہوں یا اقتصادیات کے اور معاملات کے متعلق ہوں.کیونکہ دنیا ان سارے امور کے لئے پیاسی ہے اور بغیر اس معرفت کے پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی.خدا نے اسی موت کو دیکھ کر اپنا مامور بھیجا ہے اور وہ امید رکھتا ہے کہ اس مامور کی جماعت
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیم کو قائم کرے گی اور جس حد تک اُسے عمل کرنے کا موقع ہے وہ خود عمل کرے گی اور جن امور پر اسے ابھی قبضہ اور تصرف حاصل نہیں ان کو اپنے اختیار میں لانے کی سعی اور کوشش کرے گی.یا درکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی اُمور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں.پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں، ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے.پس اس پر خوش مت ہو کہ تلوار سے جہاد آجکل جائز نہیں یا یہ کہ دینی لڑائیاں بند کر دی گئی ہیں.لڑائیاں بند نہیں کی گئیں ، لڑائی کا طریقہ بدلا گیا ہے اور شاید موجودہ طریقہ پہلے طریق سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ تلوار سے ملک کا فتح کرنا آسان ہے لیکن دلیل سے دل کا فتح کرنا مشکل ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا بند کر دیا گیا ہے بلکہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کے لئے ضروری تھا صرف فرق ذریعے کا ہے.وہ لوہے کی تلوار سے یہ کام کرتے تھے اور ہمیں دلائل کی تلوار سے یہ کام کرنا ہوگا.پس آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دُور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذمہ واریاں بہت بھاری ہیں.تم ایک خطر ناک صورتِ حالات میں سے گزر رہے ہو کہ باوجود تمہاری کمزوری کے خدا تعالیٰ نے تم پر وہ بوجھ لادا ہے کہ جس کے اُٹھانے سے زمین اور آسمان بھی کانپتے ہیں.دنیا کی حکومتیں صرف ایک ایک قوم سے لڑائی کے موقع پر خائف ہو جاتی ہیں اور انجام سے ڈرتی ہیں.لیکن آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ قرآن کی تلوار لے کر دنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کر دیں اور یا اس میدان میں جان دے دیں یا اُن ملکوں کو خدا اور اس کے رسول کیلئے فتح کریں.پس چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو.اور ہر احمدی خواہ کسی شعبۂ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو اُس کو اپنی کوششوں اور سعیوں کا مرجع صرف ایک ہی نقطہ رکھنا چاہئے کہ اُس نے دُنیا کو اسلام کیلئے فتح کرنا ہے.ہمارا ایک تاجر اپنی تجارت کے تمام کاموں کی میں اسی امر کو مدنظر رکھے اور ایک صناع بھی اپنے تمام کاموں میں اسی امر کو مد نظر رکھے اور ایک معلم بھی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اپنی تعلیم میں اسی امر کو مدنظر رکھے اور ایک قاضی بھی اپنے فیصلوں میں اسی امر کو مد نظر رکھے.غرض جس جس کام میں کوئی احمدی مشغول ہے وہ یہ یاد رکھے کہ اس کے کام کا آخری نتیجہ اسی صورت میں ظاہر ہو کہ دُنیا ، خدا اور اس کے رسول کیلئے فتح کرتا جائے.اگر ہمارے تمام دوست اس مقصود کو اپنے سامنے رکھیں تو اُن کو ذہنی طور پر اتنی بلندی حاصل ہو کہ جو دُنیا میں کسی قوم کو حاصل نہیں ہوئی.آج تو ان کی مثال ایک کنویں کے مینڈک کی سی ہے کہ ایک نہایت چھوٹی سی منزلِ مقصود ان کے سامنے ہے اور وہ اتنا بھی تو نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کام ان کے سپرد کیا ہے.حالانکہ کام کرنے سے پہلے خود کام کی مقدار کا جاننا ضروری ہوتا ہے.جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں کہ ان میں سے بعض چندہ دیتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں اور بعض نمازیں پڑھتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں اور بعض روزے رکھتے ہیں اور خوش ہوتی جاتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ تعلیمیں تو اسلامی تعلیم کے سمندر کا ایک قطرہ ہیں.پس چاہئے کہ ہمارے دوست سلسلہ کے قیام کی اہمیت کو سمجھیں اور اسلام کی وسیع تعلیم کو اپنے سامنے رکھیں اور دنیا میں جس قدر خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور صرف ایک محدود خیال کے اندر اپنے آپ کو مقید نہ کریں.قرآن شریف میں بھی آتا ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ مومن کا ادنی بدلہ آسمان اور زمین ہوں گے.اب سوچو تو سہی کہ آسمان اور زمین مومن کو مل کیونکر سکتے ہیں جب تک اس کے اعمال آسمان اور زمین پر پورے طور پر حاوی نہ ہوں.در حقیقت قرآن کریم اور حدیث کا یہی منشاء ہے کہ مومن کے خیالات اور اُس کے اعمال آسمان اور زمین کی تمام باتوں پر حاوی ہوتے ہیں اور چونکہ وہ آسمان اور زمین کی تمام چیزوں کی اصلاح کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے انعام میں اس کو آسمان اور زمین بخش دیتا ہے.ورنہ جو شخص زمین کی ایک بالشت کی اصلاح میں لگا ر ہے اُس کو حق کی ہی کہاں حاصل ہوسکتا ہے کہ آسمان اور زمین اسے بخش دیئے جائیں.وہ تو اس بالشت بھر زمین کا ہی حقدار ہوسکتا ہے.پس اگر تم چاہتے ہو کہ کامل مومن تصور کئے جاؤ اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق زمین اور آسمان تمہیں انعام کے طور پر بخش دیئے جائیں تو زمین اور آسمان کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور اس کا کوئی گوشہ باقی نہ رہے جس کی اصلاح کا ارادہ یا جس کی اصلاح کیلئے کوشش تمہاری نیتوں اور کوششوں سے باہر ہو.ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ بعض انسانوں کیلئے باوجود کوشش کے بعض کاموں کا پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے لیکن ارادہ کرنا تو ناممکن نہیں ہوتا.پس عمل بے شک گلی طور پر آپ کے اختیار میں نہیں لیکن ارادہ
خطبات محمود 3 سال ۱۹۳۷ء تو گلی طور پر خدا تعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھا ہے.پس پہلے اُس چیز کو کر میں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھی ہے پھر امید رکھیں کہ خدا تعالیٰ اس چیز کا بھی اختیار آپ کو دے دے گا جو اُس نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی تھی.کیونکہ جب خادم ایک کام کر لیتا ہے تو آقا اُسے دوسرا کام سپرد کر دیتا ہے.پس ارادہ جو آپ کے اختیار میں ہے آپ اُس کی اصلاح کریں پھر خدا تعالیٰ عمل کو جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے خود درست کر دے گا اور اُس کو بجالانے کی آپ کو طاقت دے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے اذہان میں روشنی پیدا کرے اور وہ محدودیت اور مقید یت جو اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کی فرمائے اور اسلام کی تعلیم کی وسعت کے سمجھنے کی انہیں توفیق بخشے اور جس طرح خدا کی قدرت نے انہیں اس زمانہ کا روحانی بادشاہ بنایا ہے ، وہ خود بھی اپنی بادشاہت کو محسوس کرتے ہوئے روحانی عالم کے تمام محکموں کے سمجھنے اور ان کو درست رکھنے کی کوشش کریں.اے خدا تو ایسا ہی کر.افَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ (البقرة: (۸۶) الفضل ۸/جنوری ۱۹۳۷ ء )
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء دُنیا ایک بار پھر عظیم الشان جنگ کے ذریعہ قیامت کا نظارہ دیکھنے والی ہے فرموده ۸/جنوری ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - انسانی عقل ایک ایسے مقام پر کھڑی رہتی ہے کہ جس سے ذرا اِدھر اُدھر ہو کر انسانی تباہی و بربادی کے گڑھے میں گر جاتا ہے.گویا انسانی ارادہ ہر وقت پل صراط پر رہتا ہے کہ جس کے اندر ذرا سا تغیر یا تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے نہایت خطرناک نتائج نکل آتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے سمجھدار اور معقول انسان ان غفلت کی گھڑیوں میں جبکہ وہ عقل و فہم کو قابو میں نہیں رکھ سکتے ، ایسی ایسی حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ دوسرے تو الگ رہے وہ خود بھی اپنی عقل کی گھڑیوں میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں اور اگر ان پر وہ ساعتیں ملامت کی نہ آئیں تو کم سے کم دنیا ان پر ہمیشہ کیلئے ملامت کرتی رہتی ہے.وہ جابر بادشاہ جنہوں نے اپنی طاقت کے اوقات میں کئی شہروں اور ملکوں کیلئے قتل عام کے حکم دیئے تھے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان پر ندامت کے ساعات آئیں یا نہ آئیں لیکن اس میں شبہ نہیں کہ تاریخ میں ان واقعات کو پڑھ کر سینکڑوں ہزاروں سال بعد بھی لوگ ان پر لعنتیں بھیجتے ہیں اور ی ان کے افعال کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.ہلاکو خان اے نے جب بغداد تباہ کیا یا نادر شاہ نے جب دلی کے قتل عام کا حکم دیا اُس وقت
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کے حالات کے مطابق وہ یہی سمجھتے ہوں کہ دیکھو ہم کتنے طاقتور ہیں.لیکن ان کے بعد آنے والی نسلیں جن کی تعریف یا مذمت کوئی قیمت رکھتی ہے وہ بغداد کی تباہی یا دتی کے قتل عام کے حالات پڑھ کر جس نفرت و حقارت سے ان افعال کو دیکھتی ہیں اس کا اندازہ اگر اُس وقت ہلا کو یا نادر شاہ کو ہوجاتا تو میں کی سمجھتا ہوں باوجود بڑے بڑے طاقتور بادشاہ ہونے کے وہ ان افعال سے باز رہتے.وہ بیوقوف لوگ نہیں تھے، سمجھدار اور عقلمند لوگ تھے.ایک بیوقوف آدمی کس طرح ہزاروں لاکھوں کی کمان کر سکتا ہے اور کس طرح اتنے وسیع رقبوں پر حکمرانی کر سکتا ہے.ان کی فتوحات اور حکمرانیاں بتاتی ہیں کہ وہ سمجھدار تھے.مگر یہ افعال بتاتے ہیں کہ اتنے سمجھدار لوگوں پر بھی کسی وقت کمزوری اور ضعف کا وقت آجاتا ہے.تو یہ جابر بادشاہ جنہوں نے بڑے بڑے رقبوں اور علاقوں پر حکومتیں کیں اپنے دوسرے اعمال سے عقل اور سمجھ کا ثبوت دیتے ہیں مگر ان سے ایسے افعال بھی سرزد ہوئے جنہیں دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید وہ پاگل تھے.انسانی جان کی قیمت کتنی بڑی ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جس نے ایک شخص کو مار دیا اُس نے گویا سارے جہان کو مار دیا.فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا سے یعنی ایک شخص کے قاتل کی مثال لی ایسی ہی ہے جیسے وہ سارے جہان کا قاتل ہے اور اگر ایک شخص کا قتل ایسا بھیا نک فعل ہے تو جنہوں نے کی شہروں میں قتل عام کر دیا اور حکم دے دیا کہ گلیوں میں چلتا، بازاروں میں پھرتا یا دروازوں میں کھڑا جونی شخص بھی ملے اُسے قتل کر دیا جائے ، وہ کتنے خوفناک جرم کے مرتکب تھے.مگر اس کے ارتکاب کی اُن کی ج عقلوں نے اجازت دی.حالانکہ وہ لوگ بڑے بڑے سمجھدار تھے.اس زمانہ کے لوگ اپنے بزرگوں پر حرف گیری کے بڑے عادی ہیں.ایک بچہ بھی جب تاریخ میں ان واقعات کو پڑھتا ہے تو کہ اُٹھتا ہے کہ وہ لوگ بڑے وحشی تھے ، بڑے غیر مہذب اور بڑے غیر متمدن تھے کیونکہ انہوں نے ہزاروں اشخاص کو مروا دیا اور دل میں ایک فخر محسوس کرتا ہے کہ اسے خدا نے ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے یا اگر وہ خدا کا قائل نہیں تو اتفاقی طور پر وہ ایسے زمانہ میں پیدا ہوا ہے جب کہ لوگ بہت مہذب اور بہت متمدن ہیں اور جبکہ ایسی حرکات کو بالکل ناجائز سمجھا جاتا ہے.مگر غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ خیالات درست ہیں؟ کیا واقعہ میں آج انسان ایسا مہذب و متمدن ہو گیا ہے کہ انسانی جان کی قیمت بڑھ گئی ہے ؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ بیسیوں ڈاکٹر اپنے گھروں کو چھوڑ کر
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء غیر ممالک کو جاتے ہیں اور اس لئے تکالیف اُٹھاتے ہیں کہ بیماروں کا علاج کریں.کوئی انگلستان کو چھوڑ کر چین چلا جاتا ہے، کوئی افریقہ کے جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہے ، کوئی ہندوستان میں آکر کوڑھیوں کے علاج میں مصروف ہے تو دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ آجکل کے لوگ بہت متمدن ہیں اور دوسرے کی جان لینے کی بجائے اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن اگر اس کے بالمقابل ہم یہ دیکھیں کہ ہزاروں لوگ ایسی ایجادیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایک حملہ سے سینکڑوں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں یا عمر بھر کیلئے بیکار ہو جاتے ہیں تو عقل یہ تسلیم کرنے سے عاجز آجاتی ہے کہ بچانے والے افعال انسانیت اور تمدن کا نتیجہ تھے.اگر اُس زمانہ کا انسان ترقی کر چکا ہوتا ، زیادہ متمدن ہو چکا ہوتا ، پہلوں سے زیادہ مہذب ہوتا، انسانیت کے زیادہ قریب ہو چکا ہوتا تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ ایک بھائی کی تو ایک جان کو بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑتا اور دوسرا بھائی جس سے پہلے کو بھی پوری ہمدردی ہے اس لئے گھر سے نکلتا کہ نہتے اور کمزور ہزاروں انسانوں کو ایک ہی بم سے اڑا دے.اگر تہذیب نے ترقی کی ہوتی تو لوگوں کا اکثر حصہ ہمیں ایسا نظر آتا جو ایسے جان لینے کے ذرائع کو حقارت کی نظر سے دیکھتا لیکن ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ انسان کی جان لینے کیلئے اور ایسی ایجادیں کرنے کیلئے کہ کس طرح مخالف کو آسانی سے اپاہج اور بیکا ر کیا جاسکتا ہے، اتنے آدمی مصروف ہیں کہ جان بچانے کی فکر کرنے والے اتنے نہیں.پھر جو جان بچانے کی فکر میں ہیں ان کے دل بھی ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو جان لینے والی ایجادات کرنے میں منہمک ہیں.جب جرمنی سے جنگ ہو رہی تھی کیا انگلستان کے وہ ڈاکٹر جو اپنی رحم دلی کا الی ثبوت دینے کیلئے ہندوستان میں کوڑھیوں کے علاج میں مصروف تھے یا ملیریا کے ازالہ کیلئے کام کر رہے تھے، اُن کے دلوں سے ہر وقت یہ آواز نہیں اُٹھ رہی تھی کہ خدا ہمارے بھائی کو طاقت دے تا وہ زیادہ سے زیادہ جرمنوں کے سرکاٹ سکے اور کیا وہ درخواستیں نہیں کر رہے تھے کہ انہیں بھی جنگ میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے تا وہ اپنے جان بچانے والے کام کو چھوڑ کر جان لینے کا کام کر کے راحت حاصل کرسکیں اور پھر کیا یہی حال آسٹرین اور جرمنوں کا بھی نہیں تھا ؟ ہزاروں ڈاکٹر جو ہمیشہ مریضوں کو تسلی دیتے تھے کہ ہم ہر قربانی کر کے تمہاری جان بچا ئیں گے کیا اُس وقت سارا زور نہیں لگا رہے تھے کہ جس طرح بھی ہو سکے اپنے مخالفوں کی جانیں زیادہ سے زیادہ نکال سکیں.پس اس نظارہ کو دیکھ کر کون کہ سکتا ہے کہ انسان نے تہذیب و تمدن میں ترقی کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان نے تہذیب و تمدن میں نہیں ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء بلکہ فریب اور دھوکا دینے میں ، ظاہر داری میں اور جھوٹ میں ترقی کی ہے.ہلا کولوگوں کو مروا تا تھا اور کہتا تھا کہ میں مارنے کیلئے آیا ہوں مگر آج کے ہلا کو جب مارتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم خدمت کیلئے آئے ہیں.نادر نے یہ کہہ کر قتل عام کرایا تھا کہ میں اسے جائز سمجھتا ہوں مگر اس زمانہ کے کتنے نادر ہیں جو شہروں کو اُجاڑتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم اس قوم کی آزادی اور برتری کیلئے کی آئے ہیں.ذرا غور کرو نادر نے دتی میں جو قتل عام کیا اس کی کیا حقیقت تھی اس خونریزی کے مقابلہ میں جو ایسے سینیا میں اٹلی نے کی ہے.ابی سینیا میں معمولی آدمی تو الگ رہے خود باشاہ بھی زہر یلے بموں کے اثر سے بچ نہیں سکا اور سر سے پیر تک زخمی ہو گیا.اچھے اچھے سمجھدار آدمی ، مدبرین اور جرنیل پاگلوں کی کی طرح چیچنیں مارتے پھرتے تھے.جتنی تباہی حبشہ میں اٹلی کی بمباری نے کی اتنی تو دتی میں نہیں ہوئی ہوگی.مگر نادر نے یہ ہر گز نہیں کہا تھا کہ میں دلی کی اصلاح کیلئے آیا ہوں بلکہ اس نے یہی کہا تھا کہ میں قتل کیلئے آیا ہوں.وہ قاتل بیشک تھا مگر جھوٹا نہیں تھا مگر آجکل کے قاتل اپنے فائدہ کیلئے غریبوں کی کھالیں اُدھیڑتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم رفاہ عام کر رہے ہیں، ملک کی ترقی کیلئے آئے ہیں یہ لوگ پہلوں سے زیادہ قاتل ہیں اور پھر ساتھ جھوٹے بھی ہیں.ان حالات میں ہماری جماعت جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جماعت میں شامل ہیں وہ کنویں کے مینڈک نہیں.جو سمجھتے ہیں چندہ دے دینا اور نمازیں پڑھ چھوڑنا کافی ہے ) کے وہ دوست جو قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الہاموں پر غور کرتے ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی جماعتیں دنیا کو بدلنے کیلئے آتی ہے ہیں.جن میں سے ایک معمولی زمیندار جب اپنے کھیت میں ہل چلا رہا ہوتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ مجھے غلہ کتنا آئے گا، بلکہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ امریکہ اور جاپان کی اصلاح کس طرح ہو گی.ایک درزی جب پاجامہ ہی رہا ہوتا ہے تو اُس کا خیال اس طرف نہیں ہوتا کہ مجھے اس کی کتنی اجرت ملے گی بلکہ وہ یہ خیال کی کر رہا ہوتا کہ فلپائن اور امریکہ میں کس طرح پاک انقلاب پیدا کیا جا سکتا ہے.ایک بڑھئی جب لکڑی صاف کر رہا ہوتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ اس سے تیار شدہ میز یا کرسی کتنے میں بکے گی بلکہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دنیا کی اقتصادیات اور تہذیب و تمدن کی اصلاح کیلئے کیا ذرائع اختیار کرنے چاہئیں.یہ وہ جماعت ہے جو حقیقتاً خدا کی جماعت ہے کنویں کے وہ مینڈک جماعت نہیں جو محض اس لئے کہ اس وقت کی اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہت نہیں دی، سمجھتے ہیں کہ دنیا سے ہمیں کیا سروکار اور ہمیں ان باتوں پر غور
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں اس دوسری قسم کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ اُن کو کرتا ہوں جو خدا کے نزدیک بھی جماعت میں شامل ہیں.بابر نے اپنے دشمنوں سے گیارہ مرتبہ شکست کھائی اور اس کے بعد وہ بیان کرتا ہے کہ میں پاخانہ بیٹھا ہو ابھی ملکوں کی فتوحات کے متعلق سوچا کرتا تھا اور میری ترقی کا ذریعہ ہی یہ ہوا کہ ایک مرتبہ کی پاخانہ بیٹھے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک چیونٹی ایک دانہ کو دیوار پر چڑھانا چاہتی ہے دانہ بڑا اور وہ چھوٹی تھی بار بار چڑھتی اور پھر گر جاتی تھی اور اسی طرح وہ ہیں سے زیادہ بارگری لیکن آخر کار کامیاب ہوگئی.یہ دیکھ کر مجھے استنجے کی بھی ہوش نہ رہی اور میں نے خیال کیا کہ کیا میں اس چیونٹی سے بھی گیا گزرا ہوں کہ گیارہ شکستوں سے ڈر جاؤں.چنانچہ اُس نے پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی دی اور آج دُنیا کے بڑے بڑے بادشا ہوں میں اس کا شمار ہوتا ہے.پھر کیا ہماری جماعت کیلئے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ فتوحات پر فتوحات دی ہیں اور جس نے شکست کا نام بھی نہیں سنا، مناسب ہے کہ خیال کرے ہمیں دنیا سے کیا ؟ ہمارے ایک غریب زمیندار کو جود و یا چار کنال زمین پر گزراوقات کرتا ہے، یہ ہرگز ہرگز خیال نہیں کرنا چاہئے کہ مجھے دُنیا کی سیاست سے کیا سروکار.ایک غریب تاجر جو چار یا چھ آنے یومیہ کماتا ہے اسے یہ خیال کر لینا مناسب نہیں کہ مجھے غیر ممالک میں پیدا ہونے والے انقلابات سے کیا واسطہ.اسی طرح ایک چھوٹے مدرس کو جو الف.ب پڑھاتا ہے یہ ہرگز سمجھنا نہیں چاہئے کہ مجھے دُنیوی علوم سے کیا تعلق.اسی طرح ہمارے بڑھئی ، درزی اور دھوبی کو یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں جو کماتا ہوں اس میں سے حسب حیثیت چندہ دے دیتا ہوں مجھے اس سے کیا مطلب کہ دنیا کی اقتصادی حالت کیسی ہے.بلکہ ان میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دنیا کوالٹ دے.جو شخص بھی اس جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ گویا اقرار کرتا ہے کہ اس جماعت کی ذمہ وار یوں کو وہ قبول کرتا ہے.اور اگر ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ وہ باہر نکلے تو کم سے کم اسے یہ خیال تو کرنا چاہئے کہ وہ کس غرض کیلئے پیدا کیا گیا ہے.کیا فوجی سپاہی ہر روز لڑائی کرتے ہیں؟ یا کیا پولیس والے ہر روز چوروں کو پکڑا کرتے ہیں؟ مگر کیا کبھی کسی سپاہی کے دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ میں لڑنے کیلئے نہیں ہوں؟ ایک پولیس مین خواہ دس سال تک کسی چور کو نہ پکڑ سکے اس کے مد نظر یہی ہوگا کہ جب بھی موقع
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ملے، اسے پکڑوں.اور اگر وہ بددیانت ہے تو یہ خیال آئے گا کہ روپیہ لے کر اسے چھوڑ دوں مگر روپیہ بھی تو اسی حالت میں لے گا جب اسے پکڑے گا.بہر حال چور کو پکڑنے کا خیال اس کے مد نظر ہوگا.ایک سپاہی کے سامنے بھی ہمیشہ لڑائی ہوگی.اگر وہ بہادر ہے تو وہ خیال کرے گا کہ اگر لڑائی ہوئی تو میں اپنے کی ملک کیلئے یوں جان قربان کردوں گا اور دشمن کو شکست دوں گا.اگر کم بہادر ہے تو وہ خیال کرے گا کہ خدا کرے لڑائی نہ ہو.کیونکہ اگر ہوئی تو مجھے لڑنا پڑے گا.اور اگر وہ بُز دل ہے تو خیال کر رہا ہو گا کہ اگر لڑائی کی ہوئی تو میں بھاگوں گا کس طرح.پس خواہ اپنی بہادری دکھانے کیلئے ہو خواہ لڑائی سے بچنے کیلئے اور خواہ کی بھاگنے کی تجاویز سوچنے کیلئے، بہر حال سپاہی کے مدنظر لڑائی ضروری ہوگی.اسی طرح تم میں سے خواہ کوئی بڑھتی ہے یا دھوبی یا جولاہا، معمولی زمیندار ہے یا ادنی تاجر ، اگر اپنا اپنا کام کرتے وقت اُس کے ذہن میں دُنیا کی اصلاح کی تجاویز نہیں آتیں تو گویا اُس نے اپنی پیدائش کی غرض نہیں سمجھی.میں تو حیران ہوتا ہوں کہ بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ الفضل میں سیاسی مضامین شائع ہوتے ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ دنیا کی سیاسیات سے واقف نہیں ہوں گے تو اس کی اصلاح کیسے کریں گے.کیا سیاست قرآن کریم کا حصہ نہیں ؟ ہاں اگر کوئی بات غلط شائع ہو تو اعتراض ہو سکتا ہے.ایک دوست کو شکایت ہے کہ جاپان کے حالات اخبار الفضل میں کیوں درج ہوتے ہیں.اور یہی لوگ ی ہیں جن کو میں کنویں کے مینڈک کہتا ہوں.فکر تو یہ ہونی چاہئے کہ جاپان کے حالات تو شائع ہوتے ہیں فلپائن کے کیوں نہیں ہوتے ؟ روس کے کیوں نہیں ہوتے ؟ ی غم تمہیں کھائے جانا چاہئے کہ کیا یہی ہماری پہنچ ہے کہ ہمارے اخبار میں صرف جاپان کے حالات ہی شائع ہوتے ہیں.ہمارے دوستوں کو اس پر گلہ ہونا چاہئے کہ جو نہیں چھپا نہ کہ اُس پر جو چھپ رہا ہے.انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا جاپان کی اصلاح ہمارا فرض نہیں ؟ اگر ہے تو اس کے حالات کا علم نہ ہوگا تو ہمارے دل میں اس کیلئے درد کس طرح پیدا ہوگا اور ہم اس کی اصلاح کس طرح کر سکتے ہیں.پس ہماری جماعت کو اپنے فرائض کو سمجھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی اصلاح کیلئے پیدا کیا ہے.خاص کر ایسے وقت میں جبکہ دنیا میں اس قدر خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں.کیا ایک طبیب کہ سکتا ہے کہ لوگ آکر مجھے تنگ کرتے ہیں جو اپنی بیماریاں مجھے بتاتے ہیں؟ اگر وہ ان بیماریوں سے آگاہ نہ ہو تو علاج کس طرح کر سکتا ہے.اسی طرح جب تک تم دنیا کے حالات سے واقف
خطبات محمود ۱۲ سال ۱۹۳۷ء نہ ہواس کی اصلاح کیسے کر سکتے ہو.ہم نے اپنے زور سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑا کا کیا ہے.حیات مسیح کے عقیدہ کو بدل دیا ہے، قرآن کریم کے نسخ کے خیالات کو بدل دیا ہے.عیسائی ممالک میں بائبل کے متعلق عیسائیوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کر دی ہے مگر ابھی یہ کام ایسا ہی ہے جی جیسے سمندر کے مقابلہ میں کنواں.ہمارا تعلق ساری دنیا سے ہے اس لئے ہمیں سوچنا چاہئے کہ دنیا کو ان مختلف بلاؤں سے کس طرح نجات دلائی جاسکتی ہے جو اس پر نازل ہورہی ہیں.اگر اس خیال سے کہ ی ہمارے پاس طاقت نہیں بیٹھ جائیں تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک میراثی بریکا ررہنے کا عادی تھا.اُس کی بیوی ہمیشہ اُسے کہتی کہ کوئی کام کرو مگر وہ جواب دیتا کہ کام ملتا نہیں.آخر جنگ شروع ہوئی اور لوگ بھرتی ہونے لگے.اُس کی بیوی اوی نے کہا کہ جاؤ تم بھی فوج میں بھرتی ہو جاؤ.وہ کہنے لگا کہ بیویاں تو اپنے خاوندوں کی خیر خواہ ہوتی ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ تم میری دشمن ہو اور چاہتی ہو کہ میں لڑائی میں شامل ہوں اور مارا جاؤں.اُس کی بیوی نے کچھ چنے لئے اور انہیں چکی میں پینے لگی.بعض اوقات چکی میں کسی جگہ آتا جمع ہو جائے تو سل اونچی ہو جاتی ہے اس لئے بعض دانے ثابت ہی نکل آتے ہیں.میراشن نے اپنے خاوند کو بلایا اور کہا کہ دیکھو جسے خدا بچانا چاہے وہ چکی کے پاٹ میں سے بھی سلامت نکل آتا ہے اس لئے تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ ضرور مارے جاؤ گے؟ اس پر میراثی نے جواب دیا کہ ” تو مینوں دلیاں ہویاں وچه ای سمجھ لئے، یعنی تو میرا شمارا نہی دانوں میں کر جو پیسے جاچکے ہیں.تو اس قسم کے خیال وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنا شمار پہلے ہی پسے ہوؤں میں کر لیتے ہیں.جنگ عظیم میں بعض انگریزی فوجوں کے آدمی وسط جرمنی میں جا کر قید ہوئے اور پھر ساری فوجوں اور حفاظتوں سے بچتے ہوئے بھاگے اور اپنے ملک میں سلامت پہنچ گئے.ایمڈن جرمنی کا ایک چھوٹا سا جہاز تھا جس نے مدراس پر آکر گولہ باری کی.ہندوستانی چونکہ جنگی فنون سے بالکل نا واقف ہیں اس لئے جب ایمڈن نے مدراس پر گولہ باری کی تو باوجود یکہ مدراس یہاں سے بارہ سو میل دور ہے، پنجاب کی عورتوں کے دل دھڑ کنے لگے تھے.اس جہاز کو آسٹریلیا کے قریب جا کر انگریزی علاقہ میں اور انگریزی جزیرہ میں انگریزی فوجوں نے تباہ کیا.وہ ملک انگریزوں کا تھا.اس کے ایک طرف جاپان تھا تی جو انگریزوں سے ہمدردی رکھتا تھا دوسری طرف روس تھا جو خود جنگ میں شامل تھا مگر پھر بھی ایمڈن
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء والوں کا ایک حصہ وہاں سے بھاگ کر نکل گیا اور کم سے کم ایک شخص تو جاپانی ، انگریزی اور روسی فوجوں سے بچتا ہو اجرمنی جا پہنچا اور پھر جنگ میں شریک ہو گیا جو ابھی جاری تھی.جس وقت جہاز تباہ ہوا وہ اگر پیشاب خطا کر کے بیٹھ جاتے تو پکڑے جاتے مگر انہوں نے جرات کی اور بیچ کر نکل گئے.انہوں نے اپنے حیرت انگیز حالات بیان کئے ہیں کہ وہ کس طرح بچ کر نکل گئے اور پھر لڑائی میں شامل ہو گئے.فرانس اور اٹلی وغیرہ سب ممالک کے لوگوں نے ایسے کارنامے دکھائے.بعض قید ہو گئے اور سات سات سال قید رہے.اب بھی کئی قیدی ہیں جو جیل خانوں میں ہی مر جاتے ہیں مگر کئی ہیں جو دو چار ماہ بعد ہی بھاگ نکلتے ہیں.پس اگر انسان حوصلہ نہ ہارے تو سو راہیں نکل آتی ہیں اور ہمارے لئے تو ایک راستہ بناتی بنایا ہے ہم دعا تو کر سکتے ہیں.میں اس وقت جماعت کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں پھر دنیا میں شدید تغیرات پیدا ہورہے ہیں اور عنقریب شدید لڑائی لڑی جانے والی ہے جو انگریزوں و جرمنوں کی گزشتہ جنگ سے بھی سخت ہوگی.یہ اس وقت تک اس وجہ سے رُکی ہوئی ہے کہ انگریز ابھی تیار نہیں.اگر تیار ہوتے تو اٹلی نے جس وقت حبشہ پر حملہ کیا تھا اُسی وقت جنگ چھڑ جاتی.جنگ عظیم کے بعد انگریز بیچارے تو صلح صلح پکارتے رہے اور یورپ کی دوسری قومیں اپنی فوجی طاقت کو بڑھاتی رہیں اور اب نتیجہ یہ ہے کہ اٹلی جو چھوٹا سا ملک ہے خم ٹھونک کر چیلنج دے رہا ہے اور انگریز خاموش ہیں.اس کی یہ وجہ نہیں کہ انگریزی لڑنا نہیں چاہتے.بیشک انگریزوں میں بعض ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر جرمنی انگلستان پر بھی قبضہ کرے تو کیا.ایک اور لیبر لیڈر نے تو اس قسم کی ایک تقریر حال میں ہی کی ہے مگر بعض ایسے بھی تھے جو محسوس کر رہے تھے کہ ہماری ذلت ہو رہی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر لڑائی ہوئی تو اس سے بھی زیادہ ذلت ہوگی.اُس وقت سے انگریز بھی برابر سامان جنگ بڑھا رہے ہیں مگر جرمنی اور اٹلی بھی اب بہت ج سمجھدار ہورہے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ انگریز ۱۹۳۷ء کے آخر تک نہیں لڑ سکتے اس لئے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں.گو یہ بھی ممکن ہے کہ اگر بہت زیادہ مجبور کیا جائے تو برطانوی حکومت ۱۹۳۷ ء میں ہی لڑ پڑے لیکن یوں حکومت کا پروگرام ۱۹۳۸ء میں پورا ہو گا.اب سینیا کے بعد اٹلی نے سپین میں سوال اُٹھا دیا ہے.انگریزی اخبارات کے بیان کے مطابق اٹلی والوں کا ڈھنگ عجیب ہے.وہ ایک کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ صلح کی ہر مجلس میں بھی شریک ہوتے ہیں اور جب صلح کی تجاویز ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو
خطبات محمود ۱۴ سال ۱۹۳۷ء کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہم سوچ کر جواب دیں گے.اس سوچنے کے دوران میں حملہ بھی جاری رکھتے ہیں اور جب وہ علاقہ فتح ہو جاتا ہے یا کام ختم ہو جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو صلح پر تیار تھے مگر افسوس اب تو وہ علاقہ فتح ہی ہو گیا اور پھر کسی اور جگہ پر اپنا رسوخ بڑھانے لگ جاتے ہیں.اور پھر جب انگریز اور فرانسیسی سوال اُٹھاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے سوچ سمجھ کر جواب دیں گے.ادھر برطانیہ اور فرانس بھی جانتے ہیں کہ اس سوچنے کا کیا مطلب ہے مگر کر کچھ نہیں سکتے.مثلاً آجکل والنٹیئر وں کا سوال ہے.اٹلی اور جرمنی سے برابر والنٹیئر سپین جارہے ہیں.انگریز اور فرانسیسی کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں.اٹلی اور جرمن والے کہتے ہیں کہ اچھا ہم غور کر کے جواب دیں گے.مگر ساتھ ہی ۲۲ / دسمبر ۱۹۳۶ ء ۲ جنوری ۱۹۳۷ ء تک دس ہزار والنٹیئر ز اٹلی سے اور دس ہزار جرمنی سے پین پہنچ گئے ہیں.باغیوں نے ساٹھ ہزار کا مطالبہ کیا تھا.اگر یہ درست ہے تو غالبا جب ساٹھ ہزار آدمی پہنچ جائے گا پھر یہ اقوام کہہ دیں کی گی کہ اچھا اب والنٹیئر روانہ نہ کئے جائیں.ء سے اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہ قصور دونوں کا ہے.اٹلی والے دیکھتے ہیں کہ فرانس اور انگلستان کے پاس بہت سی نو آبادیات ہیں اور ہمارے پاس کوئی نہیں.وہ سمجھتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ یہ دوسرے ملکوں کی سے فائدہ اُٹھا ئیں اور ہم نہ اُٹھا ئیں.چونکہ انگلستان کے بعض مقتدر مصنف اور سیاست دان غلطی.یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کو تہذیب اور شائستگی سکھانے جاتے ہیں جو غلط بات ہے اور میں بار بار اس کے متعلق انگریز کو توجہ دلا چکا ہوں کہ اِس دلیل کا خود ان کو نقصان پہنچے گا.ان کو صاف کہنا چاہئے کہ ہندوستان کو اُس وقت کے رائج الوقت قوانین ملک بازی کے مطابق ہم نے لیا تھا اور اب ہم عدل اور انصاف سے اس پر حکومت کرنا چاہتے ہیں.خلاصہ یہ کہ انگریز سیاستدانوں کی اس غلط دلیل سے اٹلی اور جرمنی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے ملکوں کو تہذیب اور شائستگی سکھائیں گے چنانچہ اٹلی والوں نے یہی دلیل ابی سینیا کی جنگ کی تائید میں دی تھی.یہ ظاہر ہے کہ ایک مدرس دوسرے کو کس طرح منع کر سکتا ہے کہ وہ علم نہ پڑھائے.اس دلیل کے نئے استعمال کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب بعض قو میں صاف کہ رہیں کہ رفاہِ عام نہیں ہم اپنے فائدہ کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں اور ہم اپنا فائدہ چھوڑنے کیلئے کسی صورت میں تیار نہیں ہیں.اب تو بعض انگریز مدبرین نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ ہم نے ی ہندوستان پر اپنے فائدہ کیلئے قبضہ کر رکھا ہے مگر اٹلی والوں نے ان باتوں سے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی
خطبات محمود ۱۵ سال ۱۹۳۷ء ہے.وہ برابر یہی کہے جا رہے ہیں کہ ہم بھی رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لیں گے اور ثواب میں شریک ہوں گے.پس غلطیاں دونوں طرف ہیں اور حالت وہی ہو رہی ہے کہ ” جو گی جو گی لڑیں اور کھپروں کا نقصان.جو گی آپس میں لڑنے لگے تو چھپروں کی چھتوں کو تو ڑ کر لکڑیاں اور سلیں ایک دوسرے کو مارنے ی کیلئے اُتار لیں.ان لڑائیوں کے نتیجہ میں وہ قومیں جن کے پاس لڑائی یا حفاظت کیلئے سامان نہیں ہیں، تباہی ہو رہی ہیں.پس یہ صحیح نہیں کہ ہم ان باتوں سے بے دخل ہو سکتے ہیں.انگلستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ جس چیز سے اُسے نقصان پہنچے اس سے ہندوستان کو بھی پہنچے گا خواہ کی ہندوستانی انگریزوں سے بے تعلقی ہی ظاہر کریں.مثلاً اگر اٹلی والے ابی سینیا میں فوجی مرکز قائم کر کے ہندوستان پر حملہ کریں تو اس سے ہندوستانی ہی مریں گے.پس ہمارے لئے خاص کر ان قوموں کیلئے جو انگریزوں سے تعلقات رکھتی ہیں بہت خطرات کی ہیں.حالات ایسے ہیں کہ انگریز اس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے.چین اور افغانستان وغیرہ ممالک ممکن ہے بچ جائیں مگر انگلستان کا ان اثرات سے محفوظ رہنا محال ہے اس لئے دوستوں کو خصوصیت.دعائیں کرنی چاہئیں کہ آئندہ جو سامان لڑائی یا فتنہ کے ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والی اقوام کیلئے ان سے بچنے کے سامان بھی کر دے.بیشک تم مسولینی ۵ کی طرح گھونسہ نہیں کی دکھا سکتے ، ہٹلر کی طرح تلوار نہیں چکا سکتے مگر دعا ئیں تو کر سکتے ہو اور پھر اپنے آپ کو منظم کر سکتے ہو کیونکہ منتظم قوم کو ہر ایک اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں کے بعض افراد سے ہمیں شکوہ ہے اور جب تک ازالہ نہ ہو جائے وہ دور نہیں ہو سکتا.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ انگریز قوم کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ اس کی تباہی کے بعد ہم نقصان سے نہیں بچ سکتے اس لئے یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی انگریزوں کو ایسے رستہ پر چلائے جو انہیں تباہی کی طرف لے جانے والا نہ ہو.پھر فرانس اور ترکی کا جھگڑا ہو رہا ہے.شام کے بعض علاقے فرانس نے لے لئے تھے.پہلے اس نے وعدہ کیا تھا کہ بعد میں ان کو چھوڑ دے گا مگر اب وہ انہیں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں.ترک ان علاقوں کو مانگ رہے ہیں اور بظاہر جنگ پر آمادہ لیکن حالات بظاہر ترکوں کے سخت خلاف ہیں.کیونکہ چند
خطبات محمود ۱۶ سال ۱۹۳۷ء ماہ پہلے ترکوں کے بچے دوست صرف روسی تھے.جرمن بھی پہلے ان کے ساتھ تھے مگر اب چونکہ جرمنی کا اٹلی سے دوستانہ ہے اور اٹلی ترکی کے ایک علاقہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ترکی سے اسے مخالفت ہوگئی ہے اس وجہ سے جرمنی بھی ترکی سے دور چلا گیا ہے.روس کا فرانس سے معاہدہ ہو چکا ہے اس لئے روس بھی کی کا چکا اب ترکی کی مدد نہیں کر سکتا.پس اس وقت ترکی کی حکومت بالکل بے یار و مددگار ہے ہم یہاں دور بیٹھے ہوئے حالات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکتے مگر جہاں تک علم ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تر کی حکومت یہ کام سال بھر بعد شروع کرتی یا سال بھر پہلے کرتی تو زیادہ اچھا ہوتا.اگر وہ حبشہ کی جنگ کے موقع پر کرتی یا پھر ۱۹۳۸ء میں کرتی تو زیادہ فائدہ میں رہتی.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.بہر حال ترکی حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر فرانس وہ علاقے واپس نہیں کرے گا یا لیگ کی معرفت کوئی مناسب سمجھوتا نہیں ہوگا تو ی ہم بزور شمشیر یہ علاقے لے لیں گے.ترک ایک ایسی قوم ہے جس نے اسلام کے کئی پہلوؤں کو ترک کر دیا ہے مگر باوجود اس کے لا الہ الا اللہ کی صدائیں اب بھی ان کی مسجدوں سے آتی ہیں ، اب بھی ان کی کی نمازوں میں خدا تعالی کا کلام پڑھا جاتا ہے.اب بھی وہ سُبحانَ اللهِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، اِنْشَاءَ الله اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہتے ہیں.اگر بعض باتوں میں وہ غلطی پر ہیں تو اسلام کی بعض باتوں پر وہ قائم بھی ہیں اس لئے ان کے دُکھوں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.تمام اختلافات کے باوجود یہ ہو نہیں سکتا کہ ترک دُکھ میں ہوں اور ایک مسلمان کہلانے والا تکلیف محسوس نہ کرے.اس لئے ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اگر ترک بہر حال لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور انہیں طاقت دے.ان کی کی مثال یورپین حکومتوں میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان کی.اور ایک بالشتیئے کی جو پہلوان سے لڑائی پر آمادہ ہو.اس لئے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اول تو انہیں لڑائے سے بچائے اور اگر وہ لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو ان کی مدد کرے.ایک فرانسیسی محمد رسول اللہ ﷺ کا منکر ہے اور ترک قائل ہے.بیشک ترک کی حکومت سے محمد رسول اللہ ﷺ کی پوری حکومت قائم نہ ہولیکن ادھوری حکومت بھی بالکل نہ ہونے سے بہتر ہے.پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اگر لڑائی سے انہیں نقصان پہنچنا ہوتو اللہ تعالیٰ اس سے ان کو بچائے اور اگر اسی طرح ان کے حقوق حاصل ہو سکتے ہوں تو انہیں ہمت دے اور نہیں تو ہم ان کی دعا سے تو مدد کر سکتے ہیں.اس کے علاوہ ضرورت کے موقع پر چندے وغیرہ بھی دے سکتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے بعض کنویں کے مینڈک زلزلہ کے مصیبت زدگان کیلئے چندہ پر بھی
خطبات محمود لا سال ۱۹۳۷ء اعتراض کرتے تھے.گویا وہ اس دنیا میں نہیں بلکہ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں ایسے لوگ شاید اس خیال پر بھی نکتہ چین ہوں مگر مجھے ان کی پرواہ نہیں.پس یہ بالکل غلط ہے کہ دنیا سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہمارا ہی تو واسطہ دنیا سے ہے.جب خدا تعالیٰ نے دنیا ہمیں دے دی ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ میں دنیا دوسروں سے چھین کر تمہارے حوالے کر دوں گا تو پھر اگر چہ اس وقت وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہم اس سے کس طرح غافل رہ سکتے ہیں.ہمیں حضرت سلیمان کے زمانہ کے ایک واقعہ سے سبق لینا چاہئے.کہتے ہیں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں.دونوں کے ہاں لڑکے تولد ہوئے اور وہ زچگی کے معا بعد دور دراز مقام پر اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلی گئیں.کئی مہینوں کے بعد جب واپس آرہی تھیں تو ایک کے بچہ کو بھیڑیے نے کھا لیا.دوسری نے کی خیال کیا کہ اس کا خاوند اب اسے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اس کے بچہ نہیں اس لئے اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دوسری کے پاس جو لڑ کا ہے وہ دراصل میرا ہے.یہ جھگڑا حضرت سلیمان کے پاس پہنچا.آپ نے بچہ کو ہاتھ میں لے لیا اور کہا کہ اس امر کا فیصلہ مشکل ہے کہ دراصل یہ کس کا بچہ ہے میں اسے آدھا آدھا کر کے بانٹ دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ چھری لاؤ اور چھری منگوا کر بچہ کے پیٹ پر رکھ دی گویا کاٹنے لگے ہیں.یہ دیکھ کر جس کا بچہ مر چکا تھا اُس نے کہا کہ یہ بالکل انصاف ہے پس آپ آدھا کی آدھا بانٹ دیں.اس نے خیال کیا کہ اس طرح اس کا بچہ بھی مر جائے گا اور ہم دونوں برابر ہو جائیں گی.مگر ماں کی مامتا جوش میں آئی اور اُس نے کہا حضور ! بچہ در اصل اسی کا ہے میرا نہیں آپ اسے ہی دے دیں.کیونکہ اُس نے خیال کیا کہ بچہ خواہ اس کے پاس ہی رہے مگر بچ جائے.اس سے سبق ملتا ہے کہ جس کی چیز ہو وہ اُس کی تباہی کبھی برداشت نہیں کر سکتا.پس جبکہ ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ زمین و آسمان تمہارے لئے ہیں.پھر وہ لوگ کتنے پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ مصیبت زدگان زلزلہ کے لئے چندہ مت کرو اور ان باتوں پر کہنے لگ جاتے ہیں کہ خلیفہ سیاسی کاموں میں حصہ لیتا ہے.اگر تمہیں ان کاموں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں تو تم دنیا کی ملکیت سے دستبردار ہو چکے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ آپ ایک دفعہ بیت الدعا میں دعا کر رہے تھے اوپر مولوی صاحب نے اپنے لئے دعا کا کمرہ بنواب ہو ا تھا.مولوی صاحب کہتے ہیں مجھے ایسی آواز نیچے سے آئی جس طرح کوئی عورت دردِ زہ میں مبتلا ہو
خطبات محمود ΙΔ سال ۱۹۳۷ء اور آہ وزاری کر رہی ہو.میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہو ا حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کر رہے ہیں اور یہ فقرہ بار بار آپ کی زبان پر آتا ہے کہ الہی ! اگر مخلوق اسی طرح طاعون سے تباہ ہوتی گئی تو تیرے پیغاموں پر ایمان کون لائے گا؟ یہ ہے ہمارا امام مگر تم ہو کہ ہر نیکی کے کام پر بعض منافق شرارت سے اور بعض کمزور بیوقوفی سے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ کام نہ کریں، ہمارا کیا واسطہ ہے.حالانکہ دنیا سے واسطہ ہمارا ہی ہے.لوگ اگر ڈو میں تو بہچانا ہمارا فرض ہے، اگر قحط سے مریں تو کھلانا ہمارا فرض ہے، اگر لڑ نے تو صلح کرانا ہمارا فرض ہے اور اگر لڑ پڑیں تو حقدار کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے اور اگر ابھی مادی طور پر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو کم سے کم ہمیں دعا تو ضرور کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے.ہاں یہ یاد رکھو کہ جب تک امام نہ کہے کہ کیا دعا کرنی ہے اُس وقت تک یہی دعا کرتے رہو کہ الہی ! جس میں تیرے دین اور اسلام کی خیر ہو وہی کر دے.پس زمانہ سخت نازک ہے.پھر بھائی بھائی کا گلا کاٹنے کو تیار ہے.دنیا پھر ایک بار قیامت کا نظارہ دیکھنے کیلئے بیتاب ہے اور اگر ہمارے ہاتھوں میں نہیں تو ہمارے دل میں طاقت ضرور ہے اس لئے ہمیں اپنے قوی دل لے کر خدا تعالیٰ کے پاس جانا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کو سمجھ دے اور وہ لڑائی سے بچ جائیں اور اگر لڑائی ہو تو غلبہ اُسے عطا کرے جس کا جیتنا اسلام کیلئے مفید ہو.اور اللہ تعالیٰ برطانوی حکومت کو بھی صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دے اور اسے ایسے نقصان سے بچائے جو سلسلہ اور اسلام کیلئے نقصان کا موجب ہو.پھر ہمیں ترکوں کیلئے بھی دعا کرنی چاہئے آخر وہ اسلام کے نام لیوا ہیں.اگر لڑ نا ان کیلئے مضر ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لڑائی سے بچالے.اور اگر مفید ہو تو ان کے ہاتھوں میں طاقت وقوت عطا کرے اور ان کے دشمنوں کے ہاتھوں کوشل کر دے تا یہ بہادر قوم جو سینکڑوں سال سے مسیحی دنیا کے تعصب کا شکار ہو رہی ہے، اسلام کے نام کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا نہ ہو.( الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۳۷ء ) ہلاکو خان اس کا دور حکومت ۱۲۵۱ ء تا ۱۲۶۴ ء ہے.یہ ایران کے اہل خانی خاندان کا بانی اور چنگیز خان کا پوتا تھا.باپ کا نام تولی خان تھا.اس نے ایران کے مختلف حصوں کو یکجا کر کے ایران میں ایل خانی سلطنت کی بنیاد رکھی.اپنے بھائی منگو قآن کی ہدایت پر ۱۲۵۱ء میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اسمعیلیوں کے مشہور قلعہ الموت کو فتح کیا.۱۲۵۸ ء میں بغداد پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا اور لاکھوں افراد قتل کئے.موصل کے حکمران کو سفا کی سے قتل کیا.( اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ ، صفحہ ۱۸۵۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) نادر شاہ (۱۶۸۸ء.۱۷۴۷ء): ۱۷۳۶ ء تا ۱۷۴۷ ء شاہ ایران رہا.یہ خاندان افشار کا بانی تھا.صفوی خاندان کی حکومت میں افغانوں اور ترکوں پر فتح حاصل کر کے طاقتور ہو گیا.صفوی خاندان کو ختم کر کے خود بادشاہ بن گیا.۱۷۳۹ ء کے کامیاب حملے میں ہندوستان سے بہت کچھ مال و متاع بالخصوص کو ونور ہیرا اور تخت طاؤس اپنے ہمراہ لے گیا.اس کی فتوحات سے ایران کو بہت وسعت حاصل ہوگئی لیکن اس کے مرتے ہی شیرازہ بکھر گیا اور دولت لٹ گئی یہاں تک کہ کوہ نور بھی افغانستان پہنچ گیا.ہندوستان سے واپسی پر خیوا اور بخارا فتح کئے.گردوں کی بغاوت فرو کرنے کے دوران افشار قبیلے کے ہاتھوں اپنے خیمے میں ہی مارا گیا.المائده: ۳۳ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۹۹۲ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) بابر: ظہیر الدین محمد بن عمر شیخ مرز ۱۴ / فروری ۱۴۸۳ء میں پیدا ہوئے.۲۶ دسمبر ۱۵۳۰ء میں وفات پائی.باپ کی طرف سے تیموری اور ماں کی طرف سے چغتائی چنگیزی.۸/ جون ۱۴۹۴ء کو سوا گیارہ برس کی عمر میں بمقام فرغانہ تخت نشین ہوا.بابر کو دس برس تک فتح و شکست کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد وطن چھوڑنا پڑا.۱۵۰۴ء میں باہر کابل پہنچ کر بادشاہ بن گیا.۱۵۲۶ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی و آگرہ پر قابض ہوا.۱۵۲۷ء میں راجپوتوں کو شکست دی.دوسری طرف سلطنت کی مشرقی سرحد بنگال تک پہنچا دی.۴۹ برس کی عمر میں بمقام آگرہ وفات پائی اور اسے ”باغ بابر کابل میں دفن کیا گیا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اوّل صفحہ ۱۹۷، مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ ء ) مسولینی (Mussolini Benito).اطالوی آمر.ایک لوہار کا بیٹا تھا.( پیدائش ۱۸۸۳ ء.وفات ۱۹۴۵ ء ) اس نے ابتدائی برسوں میں ایک اُستاد اور صحافی کی حیثیت سے کام کیا.سوشلسٹ تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا اور ۱۹۰۵ء میں فوج میں بھرتی ہوا.پہلی جنگ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء مداخلت کی وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا.1919ء میں اس نے اپنی جماعت بنائی.اس نے سوشلسٹوں کے خلاف دہشت کا بازار گرم کر دیا.اکتو بر ۱۹۲۲ ء میں اس کو شاہ اٹلی اور فوج نے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا.۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھالا لئے.۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلاف قانون قرار دیا.۳۶ - ۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر حملہ کی کر کے اس پر قبضہ کر لیا.۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کر لیا.۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم میں شامل ہوا.اتحادیوں کے سلی پر قبضہ سے اس کی ساکھ ختم ہوگئی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا.جلد ۲ صفحہ ۱۵۶۵.مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۸ء) ہٹلر (Hitler Adolf) (۱۸۸۹ء.۱۹۴۵ء) جرمنی کا آمر مطلق.نازی پارٹی کا بانی اور رہنمائے اعظم.ایک آسٹر وی عہدہ دار محصولات کا بیٹا تھا.میونخ میں تعلیم پائی.۱۹۰۷ء میں وی آنا چلا گیا.اس نے انتہائی غریبی میں دن گزارے.۱۹۱۳ء میں وہ میونخ چلا گیا.پہلی عالمی جنگ میں فوج میں بھرتی کی ہوا.کارپورل بنا ، شجاعت کا تمغہ اپنی صلیب (Iron Cross) حاصل کیا.جنگ کے بعد اس نے نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی.مارچ ۱۹۳۳ء میں اسے آمریت کے اختیارات سونپے گئے جس کے نتیجہ میں جرمنی پر نازیوں کی مطلق العنانی قائم ہوگئی.ہٹلر جرمنوں کی زندگی کے تمام شعبوں کا مختاری بن گیا.۱۹۳۴ء میں مخالفین کو کچل دیا.اس نے جرمنی کو دوسری عالمی جنگ کی راہ پر ڈالا.۱۹۴۱ء میں روس کے محاذ پر اس نے جنگ کی کمان خود سنبھالی جس کا نتیجہ تباہی خیز ہوا.۳۰/اپریل ۱۹۴۵ء میں جبکہ اتحادی فوجیں چاروں طرف سے بڑھتی چلی آرہی تھیں، ہٹلر نے ایوا براؤن کے ساتھ چند گھنٹے پہلے شادی کر لی.برلن میں خود کشی کر لی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا.جلد ۲ صفحہ ۱۸۴۶ء مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
خطبات محمود ۲۱ C سال ۱۹۳۷ء تشهد تحریک جدید اور جماعت احمدیہ فرموده ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ء) ر تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سب سے پہلے تو میں دوستوں کو اس امر کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب ایسے کام پیش ہوں جن کیلئے جماعتی مدد کی ضرورت ہو تو اُس وقت دوستوں کو اپنے ذاتی کام اور ذاتی اغراض بالکل بھلا دینی کی چاہئیں.اس وقت بھی ہمارے سامنے بعض ایسے کام ہیں جن کیلئے سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آئندہ دو ہفتے نہایت ہی مشغول ہوتے نظر آتے ہیں.نظارت اعلیٰ کی طرف سے بورڈوں پر اعلان ہو رہا ہی ہے.لیکن اس اعلان کے علاوہ جو سائیکلسٹوں کے متعلق ہے ایسے افراد کی بھی ضرورت ہوگی جو سائیکل چلانا نہیں جانتے اور پیدل یا کسی اور سواری پر دوسری جگہ جاسکتے اور کام کر سکتے ہیں.ان کاموں کیلئے ایسے لوگوں کی فہرست مہیا کرنے کیلئے جو اس خدمت کیلئے اپنے آپ کو خوشی سے پیش کریں میں ہدایت کرتا ہوں کہ تمام مساجد میں ایسے لوگوں کی لسٹیں تیار کر کے ناظر صاحب اعلیٰ کے پاس بھجوا دی جائیں.پھر جس جس عرصہ اور جس جس مقام کیلئے نظارت انہیں کام پر لگانا چاہے اُس کی ہدایت کے مطابق اور اُن ذرائع کے ماتحت جو ان کیلئے تجویز کئے جائیں ، وہ چلے جائیں.میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے آپ کو یہ کہ کر پیش کیا کرتے ہیں کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہیں وہ اس موقع کو جو خدا تعالیٰ نے انہیں دیا ہے رائیگاں نہیں جانے دیں گے.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں.قادیان میں اس دفعہ بوجہ
خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۷ء اس کے کہ تحریک کچھ پیچھے ہوئی اور بوجہ اس کے کہ جلسے کا زور عین تحریک جدید کے زور کے زمانہ میں آیا، مردوں میں پورے طور پر اس تحریک کو مکمل نہیں کیا گیا اور عورتوں میں بھی اس وجہ سے کہ میری وہ بیوی جو لجنہ کی سیکرٹری ہیں بیمار ہیں اور کام نہیں کرسکیں ، گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں بہت کم کام ہوا ہے.اس لئے میں پھر دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بیرونی جماعتوں کیلئے ایک نمونہ اور اُسوہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادیان کی جماعت مالی تنگی کی وجہ سے اور تنخواہوں کے بر وقت نہ ملنے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ تکلیف اور ابتلاء میں ہے مگر وہ لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے قیامت کی اہمیت کو سمجھتے اور قادیان کے وجود کی برکات جانتے ہیں ، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ دینی خدمات کے لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ داری قادیان کے لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے.خانہ کعبہ کی حفاظت اور تطہیر ہر ایک مسلمان کے ذمہ ہے مگر قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس نسل کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے جو مکہ میں رہنے والی تھی اور اُسے کہا گیا کہ تمہارے لئے خانہ کعبہ کی تطہیر فرض مقرر کی جاتی ہے.چنانچہ فرما یا ان طَهَرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ گو طائف یعنی جو مکہ میں طواف کرنے والے تھے ان کے لئے بھی خانہ کعبہ کی تطہیر ضروری تھی مگر خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے اُن لوگوں کو مخاطب فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے مکہ میں رہتے تھے کیونکہ اُس وقت وہی نسل تھی دوسرے لوگ مکہ میں نہیں تھے.اسی طرح جو لوگ قادیان میں رہتے ہیں یا کسی اور جگہ رہتے ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے مقدس قرار دیا یا جہاں کے لوگوں نے دوسروں سے زیادہ ذمہ داری اُٹھائی ہوئی ہوتی ہے وہاں کے رہنے والوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں.اور ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ خواہ وہ بوجھ سے دوسروں سے زیادہ دبے ہوئے ہوں، پھر بھی وہ زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثار کے نمونے دکھا ئیں.پس میں تمام مساجد کے ائمہ، پریذیڈنٹوں اور کی سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد چندہ تحریک جدید کے متعلق اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کر کے دفتر میں بھجوا دیں مگر اس کیلئے کسی پر جبر نہ کیا جائے بلکہ اُنہی لوگوں کا نام لکھا جائے جو خوشی سے اپنے نام پیش کریں.میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک میں دوسرے پر جبر کرنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی کے ذمہ کوئی رقم مقرر کر دی جائے اور کہہ دیا جائے کہ اتنے روپوں کی ادائیگی اس پر فرض ہے.پس وہ ان بغیر لوگوں کو مجبور کرنے کے اپنے اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کر کے جلد سے جلد بھجوا دیں.بعض محلوں نے ی
خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۷ء غالباً فہرستیں مکمل کر لی ہوں گی مگر بعض محلے ابھی ایسے باقی ہیں جنہوں نے فہرستیں مکمل کر کے نہیں بھجوا ئیں.اسی طرح میں لجنہ اماءاللہ کو پھر تحریک کرتا ہوں کہ جو کمیٹیاں صرف ایک آدمی پر مبنی ہوں اور وہ ان آدمی جب بیمار ہو تو کام رُک جائے وہ کمیٹیاں دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتیں.کامیاب ہونے والی وہی کمیٹیاں ہوتی ہیں جن کا انحصار آدمیوں پر نہیں ہوتا بلکہ ایک آدمی اگر مرجائے یا کام سے علیحدہ ہو جائے تو فوراً دوسرا آدمی اُس کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو جائے.اور اگر دوسرا آدمی بھی مر جائے یا کام سے علیحدہ ہو جائے تو اُس کی جگہ لینے کیلئے ایک تیسرا آدمی تیار ہو.غرض زندہ قومیں اور محنت سے کام کرنے الے لوگ کسی ایک انسان سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں رکھتے.صحابہ کو دیکھو جب رسول کریم ﷺ فوت ہوئے تو بعض صحابہ کو خیال آیا کہ اسلام کی اشاعت کا کام اب کس طرح چلے گا ؟ اور بعض تو یہاں تک کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہوں ، وہ زندہ ہیں اور نہیں فوت ہو سکتے جب تک اسلام کامل طور پر دنیا نی میں نہ پھیل جائے.اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو مخاطب کر کے یہی کہا کہ اے مسلمانو ! اسلام کا کام خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ ـ یا درکھو جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے اُسے یہ سن کر خوش ہو جانا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے.محمد علی ہے گوفوت ہو گئے ہیں لیکن ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی فوت نہیں ہوسکتا.وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ سے لیکن جو اسلام سے اس لئے تعلق رکھتا تھا کہ گویا رسول کریم ﷺ کی وجہ سے ہی تمام زندگی ہے آپ فوت ہوئے تو یہ زندگی بھی جاتی رہے گی اُسے سن لینا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے اور اُس کا اسلام بھی ختم ہو گیا.تو انسانوں کے ساتھ کام کو وابستہ رکھنا بیوقوفی اور حماقت کی بات ہوتی ہے.آدمی پیدا ہوتے اور مرتے ہی رہتے ہیں مگر خدا تعالی کے کام برابر چلتے چلے جاتے ہیں.اور ی دراصل ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے سیاستدان ہیں ، ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے جرنیل ہیں.ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے ڈاکٹر یا حکیم ہیں یہ مسیح الزمان ہو گئے ہیں.مگر پھر وہ سیاستدان بھی مرتے چلے جاتے ہیں ، وہ جرنیل بھی مرتے چلے جاتے ہیں ، وہ ڈاکٹر اور حکیم بھی جو مسیح الزماں کہلاتے ہیں مرتے چلے جاتے ہیں مگر سیاستوں کے اُلجھے ہوئے
خطبات محمود ۲۴ سال ۱۹۳۷ء مسائل پھر بھی حل ہوتے رہتے ہیں، فتوحات پھر بھی ہوتی رہتی ہیں، بیمار پھر بھی اچھے ہوتے رہتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی بڑے سیاستدان کے مرجانے کے بعد سیاست کی پیچیدہ گتھیاں سمجھنے سے رہ جائیں یا کسی بڑے جرنیل کے مرجانے کے بعد لڑائی میں ہمیشہ شکست ہوتی چلی جائے یا کسی مسیح الزمان کے مرجانے کے بعد بیمارا چھے نہ ہوتے ہوں بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسیح الزمان مرتا ہے تو دوسرا مسیح الزمان پیدا ہو جاتا ہے.ایک بادشاہ مرتا ہے تو دوسرا با دشاہ پیدا ہو جاتا ہے ایک سیاستدان مرتا ہے تو دوسرا سیاستدان پیدا ہو جاتا ہے.صرف قوم میں بیداری اور اپنے فرض کو پورا کرنے کا احساس ہونا چاہئے.پس انسانوں پر اپنے کاموں کا انحصار نہیں رکھنا چاہئے.میں دیکھتا ہوں اسی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے باہر کی جماعتوں کو بھی غلطی لگ رہی ہے.چنانچہ بعض جماعتوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری جوئست ہوتے ہیں یا خود اُن کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں ہوتی کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے خاموش بیٹھے رہنے کی وجہ سے ساری جماعت خاموش رہتی ہے اور نیک تحریکات میں حصہ لینے سے محروم رہتی ہے.لیکن جہاں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چست ہوں وہاں کی جماعت کے افراد کی رلسٹیں فوراً مکمل ہو کر پہنچ جاتی ہیں.چنانچہ اسی چندہ تحریک جدید کے متعلق گزشتہ دنوں میں نے بعض جماعتوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ جلد بازی میں نامکمل فہرستیں نہ بھیجیں.ان جماعتوں سے میری مراد وہی جماعتیں تھیں جو ہوشیاری اور تیزی میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتی تھیں.چنانچہ میں دیکھتا تھا ہوں کہ ان جماعتوں کے چندہ میں ۲۵ فیصدی کی زیادتی ہوئی ہے.لیکن اب وہ جماعتیں رہ گئی ہیں جن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری سست ہیں.دفتر والے کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں تحریکیں بھیج دیں مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا.میں نے گزشتہ سال بھی بتایا تھا کہ جس جگہ کی جماعت کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سست ہوں وہ مرکز سے جو تحریکات جائیں یا تو انہیں پڑھتے ہی نہیں اور اگر پڑھیں تو چُھپا دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر جماعت کے دوسرے افراد کو بھی ان تحریکات کا علم ہو گیا تو ہمارے حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہمیں شرمندگی ہوگی.حالانکہ تحریک جدید کوئی جبری تحریک نہیں کہ اس میں شرمندگی کا سوال ہو.مگر پھر بھی بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو اپنی کمزوری کو چھپا کر جماعت کو بد نام کرنا چاہتی ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ میں نے خود یکھا کہ پیکٹ کے پیکٹ قادیان سے باہر کی بعض جماعتوں کو بھیجے
خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۷ء جاتے اور وہاں بند کے بند ہی پڑے رہتے.ایسی جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو گو پہلی دفعہ اوی مخاطب کر لینا چاہئے مگر جب معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے کام میں سُست ہیں تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو چھوڑتے ہوئے جماعت کے جو دوسرے افراد ہوں ان کو مخاطب کیا جائے.چنانچہ اب بھی بعض مقامات سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں.اُن میں یہی لکھا ہے کہ ہمارے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں نے ہمیں کوئی تحریک نہیں کی ہمیں دوسرے ذرائع سے تحریک کا علم ہوا اور اب ہم اس تحریک میں جو حصہ لے رہے ہیں یہ منفردانہ حصہ ہے.گویا ان پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی مکان کی بدر رو بند ہو جائے.جب کسی مکان کی بدر رو بند ہو جائے گی تو تو پھر اس کے اندر جتنا پانی آئے گا اندر ہی رہے گا اور آہستہ آہستہ دیوار کو گرا دے گا.غرض پریذیڈنٹ اور سیکرٹری جو درمیانی واسطہ ہیں جب ان پر غفلت اور سستی چھائی ہوئی ہوتی ہے تو جماعت کے دوسرے افراد پر بھی سستی اور غفلت چھا جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بسا اوقات جو پچست لوگ ہوتے ہیں اُن کے دلوں پر بھی زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے ایک طرف تو میں عہد یداروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جن پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے انہیں جواب نہیں دیا اب دوبارہ وہ انہیں مخاطب نہ کریں بلکہ جماعت کے دوسرے افراد کو مخاطب کریں اور لکھیں کہ آپ کی جماعت کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چونکہ خاموش ہیں اور انہوں نے اس تحریک کا کوئی جواب نہیں دیا اس لئے ہم آپ کو مخاطب کرتے ہیں.لیکن ساتھ ہی اس امر کی تصریح کر دیں کہ اس چندہ کیلئے ہر گز کسی کو مجبور نہ کیا تو جائے.ہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ہر مرد اور عورت تک یہ تحریک پہنچاؤ.اس تحریک کے اغراض و مقاصد انہیں بتاؤ ، اس کی اہمیت اور ضرورت ان کے ذہن نشین کرو اور پھر تمام حالات بتانے کے بعد ان سے پوچھو کہ آیا وہ اس میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں اگر کوئی شخص حصہ نہیں لے سکتا یا نہیں لیتا تو اس پر اصرار نہ کی کرو کہ تم اس میں ضرور حصہ لو.اور جو لوگ خوشی سے اپنا نام لکھا ئیں ان کے ناموں کی فہرست جلد سے جلد مکمل کر کے دفتر کو بھجوا دی جائے.اس کے ساتھ ہی میں جماعتوں کے افراد کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سست ہوں وہاں کی جماعت کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں.خدا تعالیٰ کے کام پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں سے وابستہ نہیں ہوتے اور نہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کسی جماعت سے یہ پوچھے گا کہ تمہارا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کیسا تھا بلکہ وہ افراد
خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۷ء سے پوچھے گا کہ تم کیسے تھے.اگر کسی جگہ کا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سست ہوگا اور اُن کی سستی کی وجہ سے جماعت کے لوگ تحریک میں حصہ لینے سے محروم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں کرے گا بلکہ کہے گا کہ تم میں سے ہر شخص پریذیڈنٹ اور سیکرٹری تھا اور تمہارا فرض تھا کہ جب کوئی پریذیڈنٹ یا سیکرٹری ستی میں مبتلا تھا تو تم خو داس کی جگہ کام کرتے.پس جہاں جہاں میرا یہ خطبہ پہنچے اور جہاں جہاں جماعتوں کے پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے تحریک جدید کو ہر مرد اور ہر عورت تک نہ پہنچایا ہو وہاں کی جماعت کے جس بندے کو بھی خدا تعالی توفیقی دے وہی کام شروع کر دے.خدا تعالیٰ کے حضور وہی پریذیڈنٹ اور وہی سیکرٹری شمار کیا جائے گا.پھر جن جماعتوں پرشستی چھائی ہوئی ہے وہاں کی قریب جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ان کی سستی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اس تحریک میں حصہ لینے پر آمادہ کریں.مثلاً اگر لاہور والے دیکھیں کہ قصور، امرتسر، شیخو پوره یا فیروز پور کی جماعت چندوں کی ادائیگی میں سستی دکھاتی ہے اور وہ اپنا کام کر کے وہاں جائیں تو وہ دُہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے.یا شیخو پورہ، قصور، امرتسر اور فیروز پور کی جماعتوں کو معلوم ہو کہ لاہور اور گوجرانوالہ کی جماعتیں سُست ہیں اور وہ اپنی جماعت کے آدمی بھیج کر اُن کو چُست کریں تو یقینا وہ دُہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ جماعتیں سُستی کرتی ہیں میں نے صرف مثال کے طور پر چند نام لے دیئے ہیں.پس ہر جماعت کوی چاہئے کہ وہ اپنی جماعت سے قریب تر جماعت کو اگر سستی اور غفلت میں مبتلا پائے تو اُس کی سستی اور ی غفلت کو دور کرنے کی کوشش کرے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ کوئی گھر اپنے ہمسایہ گھر کو آگ لگنے کے بعد محفوظ نہیں ہوتا.پھر جب رسول کریم ﷺ نے فرما دیا کہ تمام مومن آپس میں ایسے ہی ہیں جیسے ایک جسم کے مختلف اعضاء تو کیسے ممکن ہے کہ ایک عضو میں بیماری ہو اور باقی جسم اس بیماری کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھائے.اگر زید، بکر، عمر اور خالد ہاتھ ، کان ، ناک اور پاؤں کی حیثیت رکھتے ہیں تو اسی طرح گوجرانوالہ، شیخو پورہ ، قصور، دہلی اور راولپنڈی کی جماعتیں بھی ہاتھ ، پاؤں، ناک، کان اور اُنگلیوں کی حیثیت رکھیں گی.پس یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ جسم کا پاؤں یا ہاتھ یا کوئی اور عضو بیمار ہو اور سارا جسم اذیت نہ اُٹھائے.یقیناً جو بیماری ایک جگہ ہے وہ اپنا اثر دوسرے اعضاء پر بھی ڈالے گی.اسی لئے مومن کی صرف اس بات پر تسلی نہیں ہوتی کہ
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۷ء فلاں کام میں نے کر لیا بلکہ وہ یہ بھی دیکھا کرتا ہے کہ آیا میرے دوسرے بھائی نے بھی وہ کام کیا ہے یا نہیں اور وہ تسلی سے نہیں بیٹھتا جب تک سارے لوگ وہی کام نہ کر لیں.اسی طرح کسی ایک جماعت کو اس بات پر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے کہ اُس نے تحریک جدید میں حصہ لے لیا.بلکہ اسے اُس وقت تک اطمینان کا سانس نہیں لینا چاہئے جب تک ساری جماعتیں اس میں حصہ نہ لے لیں.پس میں تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد وقتِ مقررہ کے اندر اپنی لسٹیں تیار کر کے بھجوا دیں اور اگر انہوں نے اپنی لسٹیں مکمل کر لی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنی ہمسایہ جماعتوں کی لسٹوں کو مکمل کریں.اسی طرح جس شخص نے خود تو چندہ لکھوا دیا ہے مگر اُس کے علم میں یہ بات ہو کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں مگر انہوں نے حصہ نہیں لیا خواہ اپنی غفلت کی وجہ سے یا پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کی سستی کی وجہ سے تو وہ اخبار الفضل کے وہ پرچے جن میں تحریک جدید کے متعلق خطبات چھپے ہیں لے لے اور خود ایسے دوستوں کے گھروں میں جا کر انہیں سنائے تا کہ اگر کسی نے اپنی بیماری کی وجہ سے نہ کہ معذوری کی وجہ سے چندہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا تو وہ اب حصہ لے لے تا اس کی بیماری میں کمی آجائے اور اس کا بدن تندرست ہو جائے.کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب ایمانی جسم کا ایک حصہ ہیں.اس کے بعد میں تحریک جدید کے ایک اور پہلو کے متعلق جس پر مولوی محمد علی صاحب نے گزشتہ ایام میں بعض اعتراضات کئے ہیں، کچھ کہنا چاہتا ہوں.وہ پہلو تحریک جدید کے کارخانہ جات کا ہے جو بیکاروں اور یتیموں کو کام پر لگانے کے متعلق جاری کئے گئے ہیں.ان کارخانوں کے اجراء اور یتیموں اور غریبوں کو کام پر لگانے سے مولوی محمد علی صاحب کی رگِ حمیت اتنے جوش میں آئی ہے کہ ان کو یتیموں اور غریبوں کو کام سکھانا بے دینی نظر آنے لگ گئی ہے اور وہ کہتے ہیں اب قادیان میں دین کونسا باقی رہ گیا ہے.ان کے نزدیک جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم قیموں اور بیکاروں کو کام سکھائیں گے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ عام دنیا داروں کی طرح لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے اس لئے وہ کہتے ہیں جب لوگ لو ہار ، ترکھان اور موچی بن جائیں گے تو دین کی اشاعت کون کرے گا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھانے اور لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام بنانے والا کون رہے گا.
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۷ء میں سمجھتا ہوں اوّل تو یہ اعتراض اس لحاظ سے غلط ہے کہ ان کے نزدیک ہم اپنی تبلیغ اور جد و جہد سے لوگوں کو محمد ﷺ سے دور کر رہے اور اصل اسلام سے لوگوں کو منحرف کر رہے ہیں.پس اگر وہ لوگ جو محمد اللہ کے دین سے لوگوں کو پھیرنے والے ہوں ، دنیوی کاموں میں مشغول ہو جائیں تو اس نے میں انہی کا فائدہ ہے اور اس پر انہیں تکلیف محسوس ہونے کی بجائے خوشی منانی چاہئے تھی.کیونکہ اگر یہ صحیح ہے کہ ہماری تبلیغی کوششیں دین اسلام پر حملہ ہیں ختم نبوت کی تشریح جو ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے اور ہمارا لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا انہیں اصل اسلام سے منحرف کرنا ہے تو پھر تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ اب اسلام کی ترقی کا ان کیلئے راستہ کھل گیا ہے اور ہمارے دنیا میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے اسلام پر جو پہلے حملے ہوا کرتے تھے اور ختم نبوت کو مٹانے کی جو کوششیں پہلے کی جاتی تھیں وہ اب نہیں ہوا کریں گی اور اب بجائے تبلیغ کے ہم ترکھانے اور لو ہارے کے کام میں مشغول رہا کریں گے.پس ہمارے ان کارخانوں کے اجراء اور یتیموں اور بیکاروں کے کام پر لگ جانے سے اول تو انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ اب ان کا راستہ صاف ہو گیا.لیکن تعجب یہ ہے کہ اس پر انہیں تکلیف ہوئی.پس اول تو وہ ہمارے متعلق جو پُرانے زمانہ میں یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے دین اسلام میں رخنہ ڈال دیا اور ان کی کوششوں نے لوگوں کو اسلام سے منحرف کر دیا اس کے مدنظر اب ہمارے کارخانوں کے اجراء اور بقول ان کے دنیا میں مشغول ہو جانے پر ان کا اعتراض کرنا درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ فکر دور ہو گیا اور اب اسلام پر ایک جماعت جو حملہ کر رہی تھی اس میں کمی آنے کی امید ہوگئی.لیکن اگر حقیقت یہ نہیں بلکہ دل میں وہ یہی مانتے تھے کہ احمدی تبلیغ اسلام کرتے ہیں صرف ظاہر میں وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور ہماری طرف سے دنیا کو بدظن کرنے کیلئے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اسلام کے راستہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں تو پھر بھی ان کا یہ اعتراض ان کے قلتِ تدبر اور دین اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے.ان کا اعتراض یہ ہے کہ ان کارخانوں کے جاری کرنے کی وجہ سے کی قادیان کے لوگ بے دین ہو گئے ہیں اسلام سے غافل ہو گئے ہیں اور اشاعت اسلام کا کام انہوں نے چھوڑ دیا ہے.اس اعتراض پر میں جب بھی غور کرتا ہوں حیران ہوتا ہوں کہ کسی معقول انسان کی زبان پر یہ فقرہ آ کس طرح سکتا ہے.کیا کبھی بھی کوئی ایسی جماعت ہوئی ہے جس کے تمام افراد ہر قسم کے دنیوی
خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۷ء کاموں سے الگ ہو کر صرف اشاعتِ اسلام میں لگے ہوئے ہوں.یا کوئی ایسا انتظام ہوا ہے جو دنیا کی اصلاح کے تمام کاموں سے جُدا ہو کر صرف تبلیغ میں لگا ہوا ہو.ہر واقف کار آدمی جانتا ہے کہ ایسا کبھی کچ صلى الله نہیں ہوا.رسول کریم ﷺ کے صحابہ بھی اپنی روٹی کمانے کیلئے کام کیا کرتے تھے اور خود رسول کریم ﷺ انہیں محنت سے روزی کمانے کی تلقین کرتے رہتے تھے.ان میں تاجر بھی تھے ، صناع بھی تھے ، پیشہ ور بھی تھے ، اہل حرفہ بھی تھے ، ہر قسم کے لوگ تھے جو محنت کرتے تھے ، مزدوری کرتے تھے اور اپنے پیٹ پالتے صلى الله تھے اور اپنی آمد سے دین کی خدمت کرتے تھے.اور خود رسول کریم وہ نہ صرف یہ کہ ان کے اس طرح کی دنیوی کاموں میں مشغول ہونے کو برا نہ مناتے تھے بلکہ اس طرح رزق حلال کمانے کو پسند فرماتے اور اس کی طرف انہیں رغبت دلاتے رہتے تھے.پھر اسلامی نظام صرف لوگوں کو کلمہ ہی نہیں پڑھاتا تھا بلکہ دُنیوی کام بھی سکھاتا تھا.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے بدر کے کفار قیدیوں میں سے بعض کیلئے آزادی کا فدیہ ہی یہ مقرر کیا تھا کہ مدینہ کے لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں.یہ ظاہر بات ہے کہ ملکہ کے کفار سے آنحضرت ﷺ نے یہ تو کہا نہیں ہوگا کہ اسلام کے معارف لوگوں کو پڑھاؤ.وہ کمبخت جو خود اسلام نہ جانتے تھے مدینہ کے لوگوں کو اسلام کیا سکھاتے.اُن سے آخر یہی مطالبہ ہوگا کہ دُنیوی علوم اور ظاہری لکھنا پڑھنا سکھا دیں.پس نظام اسلامی بھی اس قسم کے کاموں سے بے رغبتی نہیں برت سکا.ہم لوگ جن کی بے رغبتی کا ماتم کرنے کیلئے مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے ہیں ، اس سے پہلے ہماری جماعت بھی تو ساری کی ساری دن رات اشاعت دین میں مشغول نہ رہتی تھی.کیا ہم میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے کالجوں میں پروفیسر یا سکولوں میں اساتذہ تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے لوہارے کا کام کیا کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے درزی کا کام کرتے تھے ؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں جو اپنی روٹی کمانے کیلئے ڈاکٹری کا پیشہ کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں جو اپنی روٹی کمانے کیلئے انجینئر نگ کا کام ان کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جن میں سے کوئی اپنی روٹی کمانے کیلئے پٹوار کی ملازمت اختیار کئے ہوئے تھا، کوئی تحصیلدار تھا ، کوئی ای.اے سی تھا ، کوئی زمیندارہ پر گزارہ کرتا تھا؟ پھر کونسا معقول انسان ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم میں لاکھوں آدمی اپنی روٹی کمانے کیلئے مختلف کام کرتے ہی رہے لیکن ہماری دین سے بھی بے رغبتی ثابت نہ ہوئی.لیکن جونہی سلسلہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت کے
سال ۱۹۳۷ء خطبات محمود م اور مسکین بچوں کو بھی مختلف پیشے سکھائے جائیں تا کہ وہ آوارہ نہ پھر میں اور بیروز گار رہ کر تکلیف نہ اُٹھائیں ہماری جماعت فوراً بے دین بے رغبت ہوگئی اور ہمارے دین کا ذخیرہ ختم ہو گیا.گو یا جب تک ہم میں سے بعض اپنے نفس کیلئے روٹی کماتے رہے اُس وقت تک تو مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک ہم دین دار تھے لیکن جب ہم نے یہ کوشش شروع کی کہ ہم اپنے ہنر یتیموں اور مسکینوں کو بھی سکھائیں تو فوراً بقول مولوی محمد علی صاحب ہمارے ایمان کا دیوالیہ نکل گیا اور ہم دنیا میں مشغول ہو گئے اور وہ شکایت کرنے لگ گئے کہ اب قادیان میں دین کہاں رہ گیا ، اب تو بے دینی آگئی ہے.گویا ان کے نزدیک دین اسلام نام ہے یتیموں کو ٹھو کا مارنے اور بیکاروں کو ہمیشہ بیکار رکھنے کا.اور جب کسی قوم میں یتیموں کو کام پر لگانے کا جذبہ پیدا ہو جائے یا بیکاری کو دور کرنے اور غریبوں کو ہنر سکھانے کا اسے خیال آئے، اُسی دن سے وہ بے دین بن جائے گی.ایک زمیندا را گر سارا دن اپنے زمیندارہ کے کام میں لگا رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ کسی غریب لڑکے کو زمیندارہ کا کام سکھا دیتا ہے تو بے دین بن جاتا عظمند ہے.یہ دین کی ایک ایسی اصطلاح ہے کہ غالباً مولوی محمد علی صاحب ہی اس کے موجد ہیں.نہ کسی عق آدمی کو اس سے پہلے یہ اصطلاح سو جبھی ہے اور نہ شاید اب کسی عقلمند آدمی کی سمجھ میں یہ اصطلاح آئے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب سے تعلق رکھنے والے لائل پور میں بعض کارخانہ دار ہیں جنہیں اپنی قسم کے کارخانہ والوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے.مولوی محمد علی صاحب ان سے چندے بھی وصول کرتے ہیں ان کی بڑی بڑی رقموں پر انہیں شاباش بھی دیتے ہیں مگر ان کے کارخانوں میں بے دینی کی کوئی علامت انہیں نظر نہیں آتی غالبا اس لئے کہ لائل پور کے لوگ اپنی ذات کیلئے کماتے ہیں.پس مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک اپنی ذات کیلئے کمانے میں کوئی حرج نہیں لیکن جب ہم کسی یتیم ، غریب اور بے کس کیلئے کمائیں تو دین میں فتور آ جاتا ہے.ہمارے کارخانے چونکہ اپنے ذاتی.مفاد کیلئے نہیں بلکہ ان کے قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ تیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کی جائے اور انہیں کام مہیا کر کے دیا جائے جس سے وہ اپنی روزی کما سکیں اس لئے ان کے نزدیک قادیان کی جماعت احمد یہ دین اسلام سے بالکل بے رغبت ہوتی چلی جاتی ہے اور اشاعتِ اسلام کا کام اس نے بند کر رکھا ہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور مربعے خریدتی اور انہیں اپنے استعمال میں لاتی ہے اور اس سے دین کی اشاعت میں فرق نہیں آتا.لیکن اگر غریب کو پیشہ سکھا دیا
خطبات محمود ۳۱ سال ۱۹۳۷ء جائے تو اس سے دین کی طرف سے پوری بے رغبتی ہو جاتی ہے اور اشاعت اسلام میں فوراً فرق آجاتا ہے.اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھیں، انہیں بچیں اور ان کی آمد اپنی ذات پر خرچ کریں تو یہ عین دین ہے.لیکن اگر میاں نذر محمد مستری غریبوں اور قیموں کو کام سکھلائیں اور میری یا کسی اور کی نگرانی میں کام ہو تو یہ بے دینی ہے.گویا جب کارخانوں کی آمد یا کتابوں کی آمد یا بعض اور آمد نیاں مولوی محمد علی صاحب کے پاس جائیں تو یہ دین ہے لیکن جس دن وہ آمد کسی بیوہ کو ملنے لگے اُسی دن سے اشاعت اسلام کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.میں اگر کتا بیں لکھ کر سلسلہ کو دے دوں اور اس کی آمد بھی سلسلہ کے مفاد کیلئے ہی خرچ ہو تو یہ میری غفلت اور بے ایمانی لیکن اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھ کر خود نفع کمائیں تو یہ دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت.لائل پور والے اگر کارخانے کی جاری کریں اور بڑی بڑی رقمیں مولوی محمد علی صاحب کو بھجوائیں تو یہ جائز لیکن اگر قادیان میں غرباء کیلئے کارخانے جاری کر دئیے جائیں تو دین میں فرق آجاتا ہے، حالانکہ اسلام نام ہی ہے ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا.جیسا کہ میں اوپر اشارہ کر آیا ہوں بدر کی جنگ کے بعد جب قیدی آئے تو رسول کریم یا یا اس کی نے اُن قیدیوں سے فرمایا کہ ہم تم سے کوئی فدیہ نہیں لیتے تم مدینہ کے بچوں کو پڑھا دیا کرو.وہ قیدی آخر انہیں قرآن نہیں پڑھاتے تھے، یہی لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے اور لکھنا پڑھنا بھی ویسا ہی کام ہے جیسے لوہارا یا ترکھانا.پھر اگر اپنے سکول جاری کرنے سے دین کی خدمت کا جذبہ کم نہیں ہوتا تو ترکھانے یا لو ہارے کا کام سکھانے سے دین کی خدمت کا جذبہ کیوں کم ہو جاتا ہے.اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہم اگر کسی کو الف ب پڑھا ئیں تو یہ دین کی اشاعت ہے اور اس سے اسلام میں کوئی فرق نہیں آسکتا لیکن اگر ہم کسی یتیم کو پیشہ سکھا دیں تو اس سے دین میں فرق آ جاتا ہے.چند دن سے غیر احمدی اخباروں میں شائع ہو رہا ہے کہ جرمن کی غیر مبائعین کی مسجد میں بعض دفعہ ٹکٹ کے ذریعہ سے داخلہ ہوتا ہے اس بارہ میں غیر احمدی اخباروں میں بار بار چیلنج شائع ہوتے رہے ہیں لیکن غیر مبائعین نے اس کی کوئی تردید نہیں کی.پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایک مذہبی لیکچر کے بدلہ میں پیسے وصول کرنے سے اشاعتِ اسلام میں فرق نہیں آتا تو بُوٹ یا گرسی بنا کر اگر پیسے لئے جائیں اور وہ غرباء پر خرچ کئے جائیں یا اشاعتِ اسلام پر خرچ کئے جائیں تو اس سے اشاعت اسلام میں فرق کیوں آجاتا ہے.پھر یا د رکھو کہ اسلام نام ہے زندگی کے تمام شعبوں کو درست رکھنے کا.رسول کریم ہے.
خطبات محمود ۳۲ سال ۱۹۳۷ء یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص سڑک پر چلتے ہوئے راستہ سے کنکر، پتھر اور کانٹے وغیرہ ہٹا کر ایک طرف کر دیتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ثواب کا مستحق ہوتا ہے ہے.مگر اس حدیث کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ صلى الله رسول کریم ﷺ نے لوگوں کو صفائیوں میں لگادیا اور اشاعت اسلام کی طرف سے ان کی توجہ کو پھرا لیا.پھر رسول کریم له بعض دفعہ صحابہ کو حکم دیتے کہ گتے مارو.چونکہ آوارہ کتوں کی کثرت کی وجہ سے خدشہ ہوتا ہے ہے کہ وہ دیوانے ہو جائیں اور لوگوں کو نقصان پہنچے اس لئے رسول کریم ہے بعض دفعہ صحابہ کو گتے مارنے نا حکم دے دیتے مگر کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اشاعت اسلام سے اس طرح لوگوں کی توجہ پھرالی گئی ہے.جو وقت کتوں کے مارنے پر صرف ہوگا وہی وقت تبلیغ میں کیوں نہ صرف کریں.پھر حدیثوں میں اور صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ صحابہ کو تیر اندازی اور نیزہ بازی کی مشق کراتے اور بعض دفعہ خود بھی اس میں شامل ہوتے.اگر یہی بات درست ہے کہ جماعت کے کسی فرد کو لو ہارے یا تر کھانے کا کام کی سکھانے سے دین میں فرق آجاتا ہے تو کیوں یہ نہ سمجھا جائے کہ جتنی دیر رسول کریم ﷺ صحابہ کو نیزہ بازی یا تیراندازی کراتے ، اتنی دیر دین میں فرق آیا رہتا تھا.بلکہ بخاری میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے فرمایا ، عائشہ ! آٹو بھی نیزہ بازی کے کرتب دیکھے؟ ی یہ نہیں کہا کہ میں تو نیزہ بازی کے کرتب دیکھتا ہوں اور تم ذرا تبلیغ کر آؤ.پھر کیا مولوی محمد علی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی چائے کی پارٹی یا دعوت میں کبھی شامل نہیں ہوئے؟ یا کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی دوست سے کبھی ملنے نہیں گئے یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بیمار کی عیادت کیلئے کبھی نہیں گئے یا کیا وہ کہہ سکتے ہی ہیں کہ وہ کہیں سیر کیلئے کبھی نہیں گئے اگر نہیں کہہ سکتے تو انہوں نے ان وقتوں کو تبلیغ اسلام میں کیوں صرف نہیں کیا اگر کسی دعوت میں ایک اور پیسٹری اُڑانے اور پلاؤ اور زردہ کھانے کے باوجود ان کی اشاعت کی اسلام میں فرق نہیں آتا تو چند یتیموں اور نادار بچوں کو نجاری یا آہن گری کا کام سکھلانے پر ہمارے دین میں کس طرح فرق آجاتا ہے اور ہم ان کی نگاہ میں کیوں بے دین بن جاتے ہیں.یہ تو اصل میں کھو کھٹے والی بات ہے.ہر کام جو میں نے آج تک کیا اُس پر انہوں نے اعتراض کیا مگر پانچ دس سال کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ ہمارا اعتراض لوگوں کو بھول گیا ہوگا تو وہی کام خود شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہے ہماری قوم کی ترقی جو اس نے تھوڑی سی مدت میں کر لی.بلکہ ایک مدت کے بعد تو الفاظ بھی وہی لکھنے لگ
خطبات محمود ۳۳ سال ۱۹۳۷ء جاتے ہیں جن پر پہلے اعتراض کیا کرتے ہیں.چنانچہ ان کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہم لوگ خلافت کے قائل ہیں.مگر اب ایک دوست نے ان کا ایک خط بھجوایا ہے جو غیر علاقہ کے کسی آدمی کو ان کی انجمن کے سیکرٹری نے لکھا اور جس میں مولوی محمد علی صاحب کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح امیر ایدہ اللہ کے الفاظ تحریر کئے ہیں.دیکھو! یا تو بھی خلافت پر اعتراض کئے جاتے تھے یا اپنے خطوط پر چوری چھپے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق خلیفتہ امسیح لکھا جانے لگ گیا ہے.یہ خط جو غیر مبائعین کا پکڑا گیا ہے، اس کے نیچے سیکرٹری کے طور پر غلام نبی مسلم کا نام لکھا ہؤا ہے.غرض جو کام میں کرتا ہوں اس پر یہ لوگ پہلے اعتراض کرتے ہیں مگر پانچ دس سال کے بعد انہی کاموں کی نقل شروع کر دیتے ہیں.ایک زمانہ تھا جب یہ کہتے تھے کہ وصیت میں کیا رکھا ہے، کیا اسی زمین میں داخل ہو کر انسان جنتی بن سکتا ہے، اس کے علاوہ جنتی نہیں بن سکتا.وہ زمانہ میں نہیں بھول سکتا جب ان لوگوں نے بہشتی مقبرہ کے پاس کچھ زمین خریدی تو کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ تو بہشتی مقبرہ پر اعتراض کیا کرتے تھے اور اب خود بہشتی مقبرہ کے طور پر ایک زمین خرید لی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے یہ اتو ؤں کو تسلی دینے کیلئے خریدی گئی ہے یعنی بعض اتو ایسے بھی ہیں کہ جب تک بہشتی مقبرہ کے پاس قبروں کیلئے کوئی جگہ نہ ہوا نہیں تسلی نہیں ہوتی.اس دوست نے وہ بات آگے بیان کی پھر اور لوگوں میں مشہور ہوئی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہماری جماعت میں پیغامیوں کے مقبرہ کا نام ہی اُلّو ؤں کا مقبرہ ہو گیا.غرض انہوں نے وصیتوں پر تمسخر اڑا دیا، اپنی وصیتیں واپس لے لیں حتی کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی وصیت منسوخ کرائی.مگر آج ہیں بائیس سال کے بعد اپنے جلسہ سالانہ میں مولوی محمد علی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا میں اپنے گناہ کا نہایت ندامت کے ساتھ اقرار کرتے ہوئے اشاعت اسلام کیلئے وصیت کرتا ہوں گویا اب وصیت کرنا نیک کام بن گیا.فرق صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرر کردہ بہشتی مقبرہ کیلئے وصیت کرنے والا ان الفاظ کا مستحق ہے جوانہوں نے کہے لیکن جو لاہور کی انجمن اشاعت اسلام کیلئے وصیت کرے وہ بڑی نیکی کا کام کرتا ہے.مجھے حیرت آتی ہے کہ ایک معقول انسان، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صحبت میں رہنے والا انسان ، اسلام پر کتا میں لکھنے والا انسان ، ایک انجمن کا پریذیڈنٹ کہلانے والا انسان جس کے خطوں میں اب چوری چھپے خلیفہ امسیح کے الفاظ بھی لکھے جا رہے ہیں ، اُس نے یہ کیونکر کہہ دیا کہ چونکہ
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۷ء قادیان میں اب بعض ایسے کارخانے گھل گئے ہیں جن میں یتیموں اور غربیوں کو کام کرنا سکھلایا جاتا ہے.اس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قادیان کے لوگ بے دین ہو گئے.گویا جو بیواؤں کو کھو کا رکھیں ، جو قتیموں کو ٹھو کا ماریں، جو غریبوں کو ٹھو کا ماریں وہ تو دین دار مگر جو ان کی آسائش اور سہولت کیلئے کوئی کام نکالیں وہ بے ایمان اور اشاعت اسلام کے کام سے منحرف.مگر میں مولوی محمد علی صاحب سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ وہ خود اسی قسم کے کام کرنے پر مجبور ہوں گے.یہ ایام خواہ ان کی زندگی میں آئیں یا ان کی اولادوں کی زندگی میں بہر حال زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ خود اسی قسم کے کام کریں گے جس قسم کے کاموں پر وہ آج ہم پر اعتراض کر رہے ہیں.وہ بیشک میرا یہ خطبہ اپنے اخبار میں چھاپ دیں تا آئندہ نسلوں کیلئے سند رہے کہ میں نے یہ دعوی کیا ہے کی کہ ایک دن ان کی انجمن یہی کام کرنے پر مجبور ہوگی.اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو ان کی نامنہمی ان کی نسلوں پر ثابت ہوگی اور اگر درست نہ نکلی تو میرا جھوٹ ثابت ہوگا.ایک دوسری صورت بھی میں ان کے سامنے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ اعتراض دیانت داری سے کر رہے ہیں تو وہ اپنی طرف سے چوکھٹوں میں یہ الفاظ لکھ کر شائع کر دیں کہ اگر کبھی ہماری جماعت نے صنعتی مدر سے جاری کئے یا بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کی اور انہیں کوئی ہنر اور پیشہ و سکھانے کے لئے کوشش کی تو یہ سخت بے دینی ہوگی پھر وہ خود بخود دیکھ لیں گے کہ اگلی نسلیں ان پر لعنتیں کرتی ہیں یا نہیں کرتیں.اور اگر وہ کہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اور بھی بیسیوں کام ہیں وہ تم کیوں کی نہیں کرتے یا اس سے پہلے کیوں ایسے کام جاری نہیں کئے تھے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے جب تک ہمارے آدمی تھوڑے تھے اور اُن کو کام پر لگانے کیلئے ایسے اخراجات اسراف میں داخل تھے ہم نے یہ کام شروع نہیں کئے اور جب ہماری تعداد زیادہ ہوگئی اور بیکاری بڑھ گئی اور سکھانے کا خرچ اسراف نہ رہا، ہم نے یہ کام جاری کر دئیے.اب اگر ہمارے پاس مزید طاقت ہو تو ہم یقیناً اور پیشے بھی سکھانے کیلئے جماعت میں کارخانے جاری کر دیں گے.بلکہ اگر ہمارے اندر طاقت ہو تو میں تو اپنی جماعت کے افراد سے یہی کہوں گا کہ ہو سکے تو ہوائی جہاز بنانے سیکھو، جہاز بنانے سیکھو، کشتیاں بنانی سیکھو اور ان کے ذریعہ اگر غریبوں اور یتیموں کی امداد کر سکتے ہو تو کرو اور بیکاروں کو کام پر لگاؤ.کام کرنا انا بے دینی نہیں دین چھوڑ کر کام کرنا بے دینی ہوتا ہے یا اپنی آمد کو عیاشی پر خرچ کرنا بے دینی ہوتا ہے ورنہ
خطبات محمود ۳۵ سال ۱۹۳۷ء کام کرنا جبکہ اس کے ساتھ دین کی محبت اور دین کیلئے قربانی شامل ہو خود دین ہے.پس ایسے کارخانے کی جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے ذریعہ غرباء کی امداد کی جا سکے.ہاں اگر ہم کارخانے اس لئے جاری کریں کہ امراء اپنی دولت میں بڑھ جائیں تو یہ بیشک نا جائز کام ہو گا لیکن ہمارا مقصد تو ان کا رخانوں کے اجراء سے دولتمندوں کو دولت میں بڑھانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یتیم اور غریب لڑ کے ہنر سیکھ جائیں اور وہ کی اپنی روزی خود کما سکیں.یا مثلاً لجنہ اماء اللہ کو ہم نے روپیہ دیا کہ غریب عورتوں کو اس سے سوت وغیرہ لے دے تا کہ وہ کام کریں اور اس کام کے بدلے میں انہیں ضروریات کیلئے مناسب معاوضہ دیا جائے تو اس قسم کے کام نہ صرف یہ کہ ناجائز نہیں بلکہ عین دین ہیں اور قومی ترقی کیلئے ضروری ہیں.پھر ان کارخانوں کے اجراء سے جن میں یتیم بچوں کو تر کھانے اور لوہارے کا کام سکھایا جاتا ہے یہ بھی غرض ہے کہ ان بچوں کو ساتھ کے ساتھ دین کی تعلیم بھی ملے.چنانچہ ان صنعتی سکولوں میں دینیات کی تعلیم بھی شامل کی گئی ہے.پس یہ تو عین خیر خواہی اور اسلام ہے اور اگر ہم نے اب تک اس کام کو شروع نہیں کیا تھا تو اس لئے نہیں کہ ہمیں یہ کام پسند نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ ہم میں طاقت نہیں تھی.اور جن کاموں کو ہم اب نہیں کر رہے وہ بھی اس لئے نہیں چھوڑے ہوئے کہ ہم انہیں پسند نہیں کرتے بلکہ اس لئے چھوڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں ان کے کرنے کی طاقت نہیں.اور ان کے سکھانے پر جو خرچ ہوگا وہ فائدہ سے زیادہ ہوگا.ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر ہم ایسے کارخانے جاری کریں جن کی غرض یہ ہو کہ امراء کی دولت بڑھتی چلی جائے تو یہ نا جائز ہوگا.لیکن یہ کارخانے تو محض غرباء کی ہمدری اور ان کی آئندہ زندگی کو سنوارنے کیلئے جاری کئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑے ثواب کا موجب اور عین دینِ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے.سارا قرآن کریم انہی باتوں سے بھرا پڑا ہے کہ غریبوں کی مدد کرو اور اُن کی ہمدردی اور خیر خواہی کرو.کیا دنیا میں ہزاروں دفعہ ہم ایسا نہیں کرتے کہ ہمارے سامنے کوئی غریب آتا ہے اور ہم اُسے پیسہ نکال کر دیتے ہیں.اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک غریب شخص کو پیسہ دے دینا تو دینداری کی اور نیکی ہو لیکن اگر ہم اسے کوئی پیشہ سکھا دیں جس سے وہ ہمیشہ روٹی کھا سکے تو یہ نا جائز ہو جائے.ہمارے گھر میں اگر سال بھر کا غلہ پڑا ہوا ہے اور غریب کھو کا مر رہا ہے تو یہ جائز لیکن اگر ہم غریب کو کوئی ایسا ہنر و سکھا دیں جس سے وہ ہمیشہ کیلئے اپنی روزی آپ پیدا کر سکے تو یہ بے دینی بن جائے !! اصل بات یہ ہے کہ یہ اعتراض محض حسد کا نتیجہ ہے اور اس کی وجہ ان کی یہ جلن ہے کہ خود
خطبات محمود ۳۶ سال ۱۹۳۷ء انہوں نے اس کام کو پہلے شروع کیوں نہیں کیا.اب چونکہ وہ ان کاموں کو خود ہم سے پہلے شروع نہیں کر سکے اس لئے حسد میں آکر ہمارے کاموں کو بے دینی پرمحمول کرنے لگ گئے ہیں.لیکن پانچ دس سال نہیں گزریں گے کہ وہ خود یہی کام کرنے لگ جائیں گے اور اُس وقت اِس کا نام ایمانداری اور نہایت اعلیٰ درجہ کی اسلامی خدمت رکھیں گے اور اگر انہوں نے پانچ دس سال کے بعد کوئی ایسا کارخانہ جاری کر دیا جو ہمارے ہاں نہ ہوا تو پھر تو وہ ہمیشہ ہماری جماعت کے افراد پر یہ طنز کرتے رہیں گے کہ دیکھا ہم کیسے منظم ہیں ہم نے وہ کارخانے جاری کر رکھے ہیں جو تمہارے ہاں جاری ہی نہیں.پس یہ محض تھو کھٹے والی بات ہے چونکہ انہوں نے آپ اس کام کو ابھی تک شروع نہیں کیا اس لئے یہ بات بُری ہوگئی.مگر مومن اعتراضات سے نہیں ڈرا کرتا.مومن کا کام یہ ہے کہ وہ بیکا ر نہ رہے اور ی جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیکاری اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرے.ہم اپنے کی اندر سے جتنی بیکاری اس وقت معذوری کی وجہ سے دور نہیں کر سکتے اس کے متعلق ہم خدا تعالیٰ کے حضور بری ہیں لیکن اگر ہم بریکاری کو دور کر سکتے ہوں اور پھر اپنی غفلت کی وجہ سے بریکاری دور نہ کر سکیں تو یقینا ہم خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہوں گے.کیونکہ مومن کا بیکار رہنا خدا تعالیٰ کبھی پسند نہیں کرتا.لیکن چونکہ تمام لوگ صرف ایک ہی کام یعنی دین کی خدمت نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ دنیا کے کاموں کی پر لگا ہوا ہو.قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ تم سارے کے سارے دین کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کر سکو اس لئے ہر جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کلی طور پر دین کی خدمت کیلئے وقف ہوں اور جو باقی رہ جائیں وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تبلیغ کرتے جائیں.اگر کوئی ترکھان ہو تو وہ ترکھانے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے اگر لو ہار ہو تو لوہارے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے ، اگر درزی ہو تو درزی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے اور اگر موچی ہوتو موچی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے.پس ساری جماعت کبھی بھی تبلیغ میں نہیں لگ سکتی اور اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو گلی طور پر دین کیلئے وقف ہوں اور جو باقی ہوں وہ روپیہ کمائیں اور زائد وقت تبلیغ اسلام پر صرف کریں.اگر خدا تعالیٰ ہمیں اس کام میں جو ہم نے شروع کیا ہے کامیاب کر دے تو غریبوں اور یتیموں کی کتنی بڑی مدد ہو سکتی ہے.اگر اس کے نتیجہ میں سو پچاس یتیم اور غریب بھی فاقہ زدگی
خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۷ء سے بچ جائیں اور اپنی بچی ہوئی کمائی چندوں کیلئے دے دیں تو کتنی بڑی دین کی خدمت ہوگی.اگر ایک یتیم کو روٹی دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے، اگر ایک یتیم کو پیسے دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے تو ایک یتیم اور بیکس کو ہنر سکھا دینا جس سے وہ ساری عمر روٹی کما سکے کیوں نیکی کی بات نہیں.اور اگر کام سیکھ کر وہی اس قابل بن جائے کہ نہ صرف خود اپنا پیٹ پالے بلکہ چندہ بھی دے تو یہ اور بھی زیادہ اچھی بات ہے اور ی میں نے تو سکیم ہی ایسی رکھی ہے کہ دین سیکھنے کے کام بھی اس میں شامل ہیں.چنانچہ ان سکولوں میں قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے اور دین کی بعض اور کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں تا کہ جب یہاں ترکھان نکلیں تو صرف ترکھان نہ ہوں بلکہ مولوی ترکھان ہوں اور یہاں سے لو ہار نکلیں تو صرف لوہار نہ ہوں بلکہ مولوی لوہار ہوں اور موچی نکلیں تو صرف موچی نہ ہوں بلکہ مولوی موچی ہوں.پس یہ تو نُورٌ عَلی نُورٍ والی بات ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ ساری عمر کیلئے روٹی کما سکتے ہیں بلکہ وہ دینی معلومات بھی رکھتے ہوں گے اور مخالفین کو تبلیغ بھی کرسکیں گے.ایسے مفت کے مولوی مل جانا اور ایسے مفت کے مولوی تیار کرنا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے.بھلا کونسی ایسی جماعت ہے جو ہماری جماعت کی طرح غریب ہو اور پھر وہ ہزاروں مبلغ رکھ سکے.زیادہ سے زیادہ پچاس سو کو ملازم رکھا جا سکتا ہے مگر تبلیغ کیلئے تو ہزاروں مبلغ چاہئیں اور وہ ہزاروں اسی طرح میسر آ سکتے ہیں کہ پیشے سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی بھی واقفیت کرائی جائے تا جب وہ مسجد میں جائیں تو واعظ بن جائیں ، جلسوں میں جائیں تو مبلغ بن جائیں اور دُکان میں جائیں تو لوہار اور ترکھان بن جائیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کی آج کی دین کو ضرورت ہے.اگر یہ بے دینی ہے تو خدا کرے یہ بے دینی اور بھی ہمیں میسر آئے اور مولوی محمد علی صاحب دعا کریں کہ یہ بے دینی اُن کی قوم کو کبھی میسر نہ آئے.پس میں دوستوں کو مولوی محمد علی صاحب کے اس اعتراض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پھر کہتا ہوں کہ اپنے اندر سے بیکاری دُور کرو.ہم نے یہاں جو کام شروع کیا ہے وہ محدود پیمانہ پر شروع کیا ہے لیکن اگر مختلف پیشہ ور قربانی کریں اور وہ اپنے اپنے گاؤں کے غریبوں ، تیموں اور ناداروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے انہیں پیشہ سکھا دیں یا کسی نادار بیوہ یا بیکار بوڑھے کے بچے کو لے لیں اور اُسے ہٹنر سکھائیں اور ثواب کی نیت سے کام کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی باتیں بھی سکھلاتے رہیں تو اس ذریعہ ی سے بھی وہ سلسلہ سے بیکاری دور کر کے بہت بڑا ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جن کے
خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۷ء بچے اس وقت بریکار ہیں وہ کوشش کر کے اگر انہیں کسی نہ کسی کام پر لگادیں تو یقیناً سلسلہ اور اسلام کی وہ بہت بڑی مدد کر نے والے ہوں گے.ان کے اس فعل کو جو شخص بے دینی قرار دے وہ آپ اپنے دین کا پردہ چاک کرتا ہے لیکن وہ یقینا دیندار اور دین کی خدمت کرنے والے ہوں گے.پس اگر تمہارے اپنے بچے بریکا ر نہیں لیکن تمہیں کوئی ہنر اور پیشہ آتا ہے تو تمہارا اُس ہنر اور پیشہ کو اپنے اردگرد کے قیموں اور کی بریکاروں کو سکھانا بھی دین کی خدمت ہے اور اگر اس کے ساتھ تم انہیں دینی تعلیم بھی دیتے ہو تو یہ زیادہ ثواب کا موجب ہے.کیونکہ اس طرح وہ مبلغ بھی بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.( الفضل ۱۹ رفروری ۱۹۳۷ ء ) دم البقرة: ١٢٦ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم ووفاته بخاری کتاب المظالم باب من اخذ الغصن (الخ) بخارى كتاب الجهاد باب الدرق
خطبات محمود ۳۹ ۴ سال ۱۹۳۷ء محنت اور قربانی کی عادت ڈالو (فرموده ۲۲ جنوری ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے تحریک جدید میں خاص طور پر کام کرنے اور محنت کرنے اور سادہ زندگی بسر کرنے کی تحریک کی تھی.دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نسبتی پہلو غالب ہوتا ہے اس لئے ان کی حقیقت کا پتہ کی لگانا مشکل ہوتا ہے.اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں نسبت کا اصول اتنا زیادہ عمل نہیں کرتا اس نے لئے ان کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے.مثلاً روپیہ کی قربانی ہوتی ہے ایک شخص لکھ پتی اور ایک کنگال ہے.ان دونوں کی قربانیوں کا امتیاز اور فرق بہت مشکل ہے اور اسی طرح ان کے کھانے پینے اور پہننے کی تی ضرورتوں کے فرق کا پتہ لگانا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے.کیونکہ تکلیف صرف غذا کی کمی یا زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ عادت کے پورا ہونے یا نہ ہونے سے بھی ہوتی ہے.افیون کتنی چھوٹی سی چیز ہے.حقہ کا دھواں کتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے.سال بھر حقہ پینے سے جو دھواں حاصل ہوتا ہے اُس کا وزن اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا ایک وقت کے کھانے کا.بعض لوگ بھنگ کے عادی ہوتے ہیں مگر ظاہر ہے بھنگ کو غذا سے کیا نسبت ، مگر ان چیزوں کے چھوڑنے کی تکلیف غذا سے بہت زیادہ ہوتی ہے.تم بغیر کسی زیادہ تکلیف کے دو وقت کا فاقہ کر سکتے ہومگر ایک افیونی اس ذراسی گولی کا دو وقت ناغہ نہیں کر سکتا.جو شخص تھے کا عادی ہے اس سے دریافت کرو کہ روٹی نہ ملنے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے یا حقہ نہ ملنے سے.وہ یہی جواب دے گا کہ وہ ان بُھوکا رہ سکتا ہے مگر حقہ کے بغیر نہیں.حالانکہ مادی لحاظ سے حقہ کا دھواں بالکل ہلکا ہوتا ہے اور روٹی
خطبات محمود ۴۰ سال ۱۹۳۷ء بھاری ہوتی ہے.پھر روٹی کے ساتھ زندگی وابستہ ہے اور حقہ کی عادت جو ڈالے اسے ہی ہوتی ہے.افیون جو نہیں کھاتا اسے کوئی تکلیف نہیں دے سکتی مگر روٹی ہر انسان کیلئے ضروری ہے.مگر باوجود اس کے روٹی چھوڑنے سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی افیون، گانجہ، چرس، بھنگ، شراب، حقہ اور نسوار وغیرہ کو چھوڑنے سے ہوتی ہے.دنیا میں لوگ بُھو کے رہ کر اپنے بچوں کو کھانا دیتے ہیں مگر ایک نشہ کا عادی اپنے نشہ کی عادت کو پورا کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کی بھوک کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا.ایک شخص بہ نسبت کی اپنے بچوں کے ایک وقت کھو کا رہنے کے خود تین وقت کھو کا رہنا زیادہ پسند کرے گا.مگر ایک افیونی یہ پسند کرے گا کہ اس کے بچے تین وقت فاقہ سے رہیں بہ نسبت اس کے کہ اُسے ایک وقت کی گولی نہ ای ملے.پس عادتوں کی قربانی بھی بڑی قربانی ہے مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا.امراء کو جن کو کھانوں کی یا جن کپڑوں کے پہننے کی عادت ہوتی ہے ، ان کیلئے ان کی قربانی بڑی چیز ہے لیکن دوسرا اسے دیکھ نہیں سکتا.ایک امیر دس جوڑے کپڑے استعمال کرنے کا عادی تھا اور اب اُس نے پانچ کرلئے ہیں.اس کے متعلق ایک دوسرا شخص بے شک کہے گا کہ اس کے دس جوڑے ہوتے تھے.بیشک اس نے پانچ کر لئے ہیں لیکن میرے دو ہی تھے اور دو ہی ہیں پس میری نسبت اس کے اب بھی تین زیادہ ہیں.مگر سوال تو عادت کا ہے.امیر کو دس کے استعمال کی عادت تھی جس میں اُس نے کمی کر دی ہے اور یہ اپنی پہلی عادت پر ہی قائم ہے.اگر چہ اس کے تین جوڑے اس کی نسبت اب بھی کم ہیں لیکن دو کی عادت ہونے کی کی وجہ سے یہ تکلیف نہیں محسوس کرتا جبکہ دس جوڑوں والا پانچ جوڑے کر کے تکلیف محسوس کر رہا ہے.میں نے حلقہ ، افیون، بھنگ، چرس اور نسوار وغیرہ کی مثال اس لئے دی ہے کہ پنجاب میں غرباء عام طور پر حقہ کے عادی ہوتے ہیں اور سرحدی صوبہ افغانستان وغیرہ میں نسوار کے استعمال کا رواج زیادہ ہے.کوئی ناک کے ذریعہ اسے استعمال کرتا ہے اور کوئی منہ میں ڈال کر اور ان مثالوں سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ عادت کا چھوڑ نا بھی بڑی قربانی ہے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امیر کے پاس پانچ جوڑے زائد تھے ، کیا ہوا اگر اس نے کم کر دیئے.کیا حقہ زائد نہیں ؟ جس طرح اس کے پاس کپڑے زائد تھے اسی طرح حقہ بھی زائد ہے.زمیندار کے حقہ کی قیمت اس کے کپڑوں سے زیادہ ہوتی ہے.جتنی مالیت کا وہ تمبا کو جلاتا ہے اتنی کے کپڑے استعمال نہیں
خطبات محمود ۴۱ سال ۱۹۳۷ء کرتا.وہ سردی سے ٹھٹھرتا پھرے گا، نمونیہ کی تکالیف اُٹھائے گا، اپنی صحت کو برباد کرے گا مگر حقہ نہیں چھوڑے گا.حقہ کی عادت کی زیادتی کی وجہ سے اس نے کپڑے کی عادت کو کم کر دیا ہے.ہماری جماعت میں کم سے کم بیس ہزار لوگ ایسے ہوں گے جن کے دُھوں کا خرچ ان کے چندوں سے زیادہ ہے.کم سے کم ہیں ہزار زمیندار ایسے ہوں گے جن کا سالانہ چندہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ بلکہ بارہ آنہ ہی ہوگا اور اس قدر خرچ میں وہ سال بھر حقہ نہیں پی سکتے.اگر وہ دھیلا روز کا بھی تمباکو پیتے ہوں تو تین روپیہ سالانہ خرچ ہوتے ہیں مگر وہ کہیں نہ کہیں سے اس خرچ کو پورا کرتے ہیں کیونکہ وہ اس عادت کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.پس اگر ہم عادت کا اندازہ کر سکتے تو صحیح نتیجہ معلوم ہوسکتا کہ کون کچی قربانی کرتا ہے اور کون نہیں.مگر اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے کہ ایک فرد کو ایک چیز کے چھوڑنے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے.ہم تو صرف ظاہر کو ہی دیکھ سکتے ہیں اور ظاہر کی بناء پر بڑی غلطی بھی کر سکتے ہیں.لیکن میں نے بتایا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا اندازہ انسان زیادہ صحیح طور پر کر سکتا ہے اور ان میں سے پہلی چیز محنت اور کام ہے.امراء پر غرباء مالی قربانی کے سلسلہ میں طنز کر سکتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ گو وہ ایک کھانا کھانے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی نہایت پر تکلف ہوتا ہے اور ہم تو پہلے بھی روکھی روٹی کھا لیتے تھے یا اچاری کے ساتھ کھا لیتے تھے اور اب بھی ہماری یہی حالت ہے.یا وہ پانچ جوڑے کپڑوں کے استعمال کرتے ہیں اور ہم ایک ہی.اس لئے کہ وہ اس عادت کی قیمت نہیں لگا سکتے جسے امراء نے تبدیل کیا ہے.جسے دس جوڑوں کے استعمال کی عادت تھی اس کا اسے چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا حقہ پینے والے کا حقہ کو چھوڑ دینا.مگر عادت کی قربانی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے.اس لئے امراء وغرباء جھگڑتے ہی رہتے ہیں.مگر وقت کی قربانی ایسی نہیں جس میں فرق کیا جا سکے.میں نے بارہا کہا ہے کہ بیکا رمت رہو اور کام کرو اور اس میں امیر وغریب سب مساوی ہیں.بلکہ غریب کو جس کا پیٹ خالی ہے کام اور محنت کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ بھی چھ چھ گھنٹے تھے پینے میں ہی گزار دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جو لوگ اپنے چھ گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں اگر ان کے چھ گھنٹے ان کے مخالف نے ضائع کر دیئے تو انہیں شکوہ کا کیا حق ہے.وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نے مزدوری کی مگر چھ آنے ہی ملے حالانکہ ہمارا گزارہ بارہ آنے میں ہوتا ہے.مگر یہ
خطبات محمود ۴۲ سال ۱۹۳۷ء نہیں سوچتے کہ اگر اپنی آدھی عمر وہ رائیگاں گنواتے ہیں تو چوتھائی.اگر دوسرے نے گنوادی تو اس پر کیا الزام.جتنا وقت وہ حقہ پینے اور فضول بکو اس میں گزارتے ہیں اتنا اگر کام کرنے اور محنت کرنے میں گزارتے تو تنگدستی نہ ہو.سیر کو جاتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ جہاں کوئی اچھا کھیت ہوتا ہے وہ سکھوں کا ہوتا ہے اور جس کھیت کی فصل ناقص ہو وہ مسلمان کی ہوتی ہے.اور اب لمبے تجربہ کے بعد میں تو ی اچھی فصل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتا ہو کہ یہ کسی سکھ کی ہوگی اور خراب فصل کو دیکھ کر کہ دیا کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کی ہوگی اور بالعموم یہ قیاس درست نکلتا ہے.سکھوں کو ایک نمایاں برتری تو یہ حاصل ہے کہ وہ حقہ نہیں پیتے اس لئے ان کا وقت بچ جاتا ہے.مگر مسلمان زمیندار تھوڑی دیر کام کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آؤ کہ پی لیں.حصہ کی عادت زمینداروں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت کی سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک زمیندار یہاں مہمان آیا.جب واپس گیا تو دوستوں نے اس سے پوچھا سناؤ کیا دیکھا.اس نے جواب دیا کہ قادیان سے خدا بچائے ، کوئی بھلا مانس وہاں رہا سکتا ہے؟ وہ بھی کوئی آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہے.ہمارے دوست ڈر گئے کہ شاید قادیان میں کسی نے اس سے بدسلوکی کی یا مہمان خانہ میں کسی سے اس کی لڑائی ہو گئی ہے.اس لئے پوچھا کہ بتاؤ تو سہی ہوا کیا وہ سنانے لگا کہ میں یکہ میں دس بجے کے قریب وہاں پہنچا ( اس زمانے میں یہاں ریل گاڑی نہیں تھی).سفر کی تھکان تھی ، میں نے خیال کیا کہ آرام سے بیٹھ کر حقہ پئیں.مگر آگ لینے گیا تو کسی نے کہا کہ حدیث کا درس ہونے لگا ہے.میں نے کہا نیا نیا آیا ہوں چلو چل کر درس سن لو پھر حقہ پیوں گا.بارہ بجے وہاں سے واپس آیا تو روٹی کھا کر آگ لینے گیا معلوم ہوا کہ حضرت صاحب نماز کیلئے باہر آنیوالے ہیں اور زیارت کا موقعہ ہے اس لئے چھوڑ کر مسجد کو چلا گیا.وہاں سے واپس آیا آگ وغیرہ سلگائی حلقہ تیار کیا گیا مگر ابھی دو چار ہی کش لگائے تھے کہ عصر کی نماز کو لوگ لے گئے.میں نے سوچا واپس آکر آرام سے ہے پیوں گا.مگر آتے ہی معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیں گے.اس لئے ادھر جانا پڑا.واپس آیا تو مغرب کا وقت تھا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھا رہا.وہاں سے آیا تو خیال کیا کہ اب آرام سے حقہ پیوں گا مگر آگ ہی سلگا رہا تھا کہ لوگوں نے کہا عشاء کی اذان ہوگئی ہے ، چلو نماز پڑھو.غرض سارا دن آرام سے حقہ پینے کا موقعہ نہیں ملا.اس لئے میں نے تو سویرے اُٹھتے ہی وہاں سے بھاگا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ جگہ آدمیوں کے رہنے کی نہیں.اس مثال کے
خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۳۷ء سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں وقت کو ضائع کرنے کا مرض کس حد تک پہنچ گیا ہے اور اس میں غریب اور امیر میں فرق نہیں.خواہ ضائع کرنے کے طریقوں میں فرق ہو مگر ضائع سب کرتے ہیں.سب ہی محنت سے جی چراتے ہیں اور اس امر میں ہم دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کر سکتے.دونوں وقت کی کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے.کل ہی ایک نو جوان کو میں نے دیکھا جو مبلغین کلاس میں پڑھتا ہے.وہ پرسوں رات باہر سے جہاں اسے کسی کام پر بھیجا گیا تھا واپس آیا اور کل شام کو اس نے رپورٹ کی.میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ اطلاع کل ہی واپسی پر کیوں نہ دی.تو اس نے جواب دیا کہ میں نو بجے کی گاڑی سے آیا تھا اور خیال کیا کہ اب نو بج چکے ہیں.اس نے خیال کیا کہ جس طرح نو بجے جانا اس کیلئے بڑی بات ہے ، سب کیلئے اسی طرح ہے.اس نے چونکہ پہلے میاں بشیر احمد صاحب کو رپورٹ دینی تھی.میں نے پوچھا کہ پھر صبح میاں صاحب کو کیوں نہ ملے؟ تو جواب دیا کہ میں آیا تھا مگر منتظمین نے ان سے ملا یا نہیں.اس لئے واپس چلا گیا اور اس طرح چار مرتبہ آیا مگر ملنے کا موقعہ نہ ملا.میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے چار مرتبہ اپنے آپ کو ملزم بنایا.اگر تم پکے مومن ہوتے تو اس وقت تک دہلیز نہ چھوڑتے جب تک مل کر کام نہ کر لیتے.آپ لوگوں کو اچھی طرح اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ جو اہم کام ہوتے ہیں، ان میں چاہے جان بھی چلی جائے ملنا نہیں چاہئے.اس میں امیر اور غریب کا کوئی سوال نہیں ، دونوں کیلئے اس کی کی پابندی ضروری ہے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ نہ امیر اس کے پابند ہیں نہ غریب.حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے.اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا میابیاں انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جو کام کے عادی ہوں.جیتنے والے محنتوں سے نہیں گھبرایا کرتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنَّشِطَتِ نَشَطًا.والشحَاتِ سَبْحًا لے یعنی ہمیشہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو گرہ کشائی میں لگے رہتے ہیں.وہ ای چھوڑتے نہیں جب تک گرہ کو کھول نہیں لیتے اور کام کو پورا نہیں کر لیتے اور پھر وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ اس پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے کی آٹھ گھنٹے کام کیا ہے.حالانکہ وہ تو تندرست ہوتے ہیں اور میرے جیسے بیمار کو سال میں بہت دفعہ ۲۲-۲۲ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے.میں نے کئی دفعہ اپنے معترضین سے کہا ہے کہ میرے ساتھ دس دن اگر کام
۴۴ سال ۱۹۳۷ء خطبات محمود کرو تو تمہیں پتہ لگ جائے کہ کتنا کام کرنا پڑتا ہے.کام کا ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ اس میں عادت کا کوئی سوال نہیں ہوتا.ایک امیر شخص یہ تو کہہ سکتا ہے کہ أَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ زیادہ کپڑے پہن لوں.مگر خدا نے یہ کہاں کہا ہے کہ وقت ضائع کرو.وقت ضائع کرنے کیلئے کوئی عذر نہیں پیش کیا جا سکتا.سوائے اس کے کہ کوئی شخص کہے مجھے اس کی عادت پڑ گئی ہے.مگر اس طرح تو کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ خدا اور رسول کے انکار کی مجھے عادت ہو گئی ہے.میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید تمہیں اس وقت تک کامیاب نہیں کر سکتی جب تک رات دن ایک کر کے کام نہ کرو.اپنی راتوں اور دنوں پر قبضہ نہ کر لو اور ایسی عادت ڈال لو کہ جس کام کو اختیار کر وایسی طرح کرو جس طرح ہمارے ملک میں کہتے ہیں تخت یا تختہ.جب تک یہ روح پیدا نہ کی ہو، جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو فنا کرنے کیلئے تیار نہ ہو، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.تم لاکھ ایڑیاں رگڑ و مگر اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.جب تک اس طریق پر کام نہ کر وجو اللہ تعالیٰ نے کامیاب ہونے کیلئے مقرر کیا ہے.اس وقت بورڈ نگ تحریک جدید کے لڑکے میرے سامنے بیٹھے ہیں.میں ان کو بھی اور ان کے استادوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اس بورڈنگ کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ نو جوانوں میں محنت کی عادت پیدا ہو.تم بارہ گھنٹے بھی سو سکتے ہو مگر پانچ ، چھ گھنٹے سو کر بھی گزارہ کر سکتے ہو.سالہا سال تک جب میری صحت اچھی تھی باوجود یکہ حضرت خلیفہ المسح الاول مجھے سختی سے منع ا کیا کرتے تھے، میں پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا.کئی دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ طبی نقطہ نگاہ سے میرا مشورہ ہے کہ سات گھنٹے سے کم نیند کی صورت میں آپ کی صحت ٹھیک نہیں رہ سکتی.مگر میں پانچ ساڑھے پانچ گھنٹہ سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا.اب تو صحت اس قدر برداشت نہیں کر سکتی.مگر اب بھی سوائے بیماری کے سات گھنٹے میں کبھی نہیں سو یا.بیماری میں تو بعض وقت آدمی دس گھنٹے بھی لیٹا رہتا ہے مگر ایسی حالت تو سال میں دو چار دفعہ ہی ہوتی ہے.عام حالات میں میں اب بھی چھ پونے چھ گھنٹے سوتا ہوں.گوسخت کام کے وقت اب بھی بعض دفعہ تین چار گھنٹوں پر اکتفاء کرنی پڑتی ہے.
خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۷ء تو دنیا میں کامیابی محنت اور کام کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.محنت کے بغیر نیکی کی مشق بھی نہیں ہوسکتی.بورڈنگ تحریک جدید کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ چند نوجوان ایسے پیدا ہوں جو محنت کے عادی ہوں اور پھر وہ بیج کا کام دیں اور ان کے ذریعہ ساری قوم میں یہ عادت پیدا کی جاسکے.اس لئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ محنت کی عادت ڈالو بیکاری کی عادت کو ترک کر دو.فضول مجلسیں بنا کر کمہپیں ہانکنا اور بکواس کرنا چھوڑ دو.حقہ اور دیگر ایسی لغو عادتوں میں وقت ضائع نہ کرو اور کوشش کرو کہ ی زیادہ سے زیادہ کام کر سکو.یا درکھو کہ ہمارے لئے بہت نازک وقت آ رہا ہے.اس وقت ہندوستان میں نیا آئین نافذ ہو رہا ہے جس کے نتیجہ میں انگریزی اثر ملک سے کم ہو جائے گا اور تم جانتے ہو کہ دیہات میں اب بھی تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے.جن لوگوں پر احمدیوں کے احسان ہوتے ہیں اور جو احمد یوں پر احسان کرتے ہیں اور با ہم بہت اچھا سلوک ایک دوسرے سے کرتے ہیں ، وہاں ایک مولوی آکر تقریر کر دیتا ہے اور وہی لوگ بھڑک اٹھتے ہیں.پس ان حالات کے آنے سے پہلے اپنی اصلاح کر لو.محنت اور قربانی کی عادت ڈالو.ورنہ تمہاری حالت اس بھیڑ کی سی ہوگی جو ہر وقت بھیڑئیے کے رحم پر ہے.جب تک ہمت کوشش اور کی استقلال سے اپنے آپ کو شیروں میں تبدیل نہیں کر لیتے ، اس وقت تک تم بھیڑیں ہو جن کی جانیں ہری وقت غیر محفوظ ہیں.خدا تعالیٰ نے تمہیں اختیار دے دیا ہے کہ اگر چاہو تو شیر بن جاؤ جو جنگل میں اکیلا بھی محفوظ ہوتا ہے لیکن بھیڑیں دس ہیں بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں.پس اس کیلئے کوشش کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں لغو عادتوں کو دور کرنے کی توفیق دے اور توفیق دے کہ تم محنتی اور بہت کام کرنے والے بن جاؤ.اپنے اوقات کو خدا تعالیٰ کے دین کیلئے خرچ کرنے والے ہو جاؤ تا تھوڑے ہو کر بہتوں پر غلبہ حاصل کرنے والے بن سکو.( الفضل ۳ فروری ۱۹۳۷ء ) ل النزعت : ۴۳ الضُّحى: ۱۲
خطبات محمود ۵ ۴۶ र سال ۱۹۳۷ء فتح و نصرت جماعت احمدیہ کیلئے مقدر ہے فرموده ۲۹ جنوری ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو بڑھانا چاہتا ہے تو اس کے خیالات اور افکار کو بھی بڑھا دیتا ہے اور جب کسی قوم کو گھٹانا چاہتا ہے تو اس کے خیالات اور افکار کو بھی گرا دیتا ہے.چنانچہ تمام قوموں کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم قطعی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ کسی قوم کے تنزل سے پہلے اس کے خیالات میں تنزل پیدا ہو جاتا ہے اور کسی قوم کی ترقی سے پہلے اس کے خیالات میں ترقی پیدا ہو جاتی ہے.چھوٹی چھوٹی تو میں اور ذلیل تو میں معمولی معمولی باتوں پر تسلی پا جاتی ہیں مگر بڑھنے والی تو میں ہمیشہ اپنے حوصلوں کو بلند رکھا کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک چوہڑا تھا جو اصطبل وغیرہ میں اور ہمارے گھر میں کام کرتا تھا.فرماتے تھے ایک دفعہ بچپن میں ہم نے کھیلتے ہوئے ہمجولیوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ پھر اسی بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس سے بھی ہم نے دریافت کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے اور کس چیز کو سب سے زیادہ تمہارا دل چاہتا ہے اس نے جواب دیا کہ کہ میرا دل اس بات کو چاہتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا بخار چڑھا ہوا ہو، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو، سردی کا موسم ہو، میں لحاف اوڑھے چار پائی پر لیٹا ہوا ہوں اور دو تین سیر بھنے ہوئے چنے میرے سامنے رکھے ہوں اور میں انہیں ٹھونکتا جاؤں یعنی ایک ایک کر کے کھاتا جاؤں.یہ تھی اُس کی زندگی کی سب سے بڑی
خطبات محمود ۴۷ سال ۱۹۳۷ء خواہش کسی سننے والے نے کہا تم نے اس میں بخار کی شرط کیوں لگائی ہے؟ تو اس نے کہا اس لئے کہ پھر مجھے کوئی کام کیلئے نہیں بلائے گا.کسی فارسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ.فکر ہر کس بقدر ہمت اوست جتنی ہمت کسی فرد میں ہوتی ہے اتنے ہی بلند اس کے خیالات ہوتے ہیں.کچھ عرصہ کی بات ہے ایک دفعہ ایک ہند و دوست میرے ہم سفر تھے.باتوں باتوں میں وہ مجھ سے کہنے لگے آپ تو قادیان کے بادشاہ ہوئے.میں نے کہا میں تو کوئی بادشاہ نہیں ، بادشاہ تو انگریز ہیں.وہ کہنے لگا ہاں ! مگر پھر بھی آپ کو وہاں ایک قسم کی بادشاہت حاصل ہے.میں نے کہا تو پھر اس میں قادیان کی کیا شرط ہے اس قسم کی بادشاہت تو مجھے ساری دنیا کی حاصل ہے.اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکا ہے کہ احمدی جماعت کو دنیا میں بلندی، طاقت اور شوکت عطا فرمائے.وہ جب بھی حاصل ہو ، ہو کر رہے گی.اس کی ابتداء چھوٹی نظر آتی ہوگی اور سنت اللہ کے مطابق ایسا ہی ہونا چاہئے مگر وہ چھوٹی چیز بڑی چیز کا ایسا ہی پیش خیمہ ہے جیسے ایک بیج ڈالا ہوا آئندہ بہت سے دانوں کے اُگنے کا موجب ہوتا ہے.انگریزی حکومت اس زمانہ میں فوج کے لحاظ سے سب سے چھوٹی سجھی جاتی ہے باقی یورپین حکومتیں جو ہیں ان میں جبری بھرتی کا دستور ہے اور ہر نوجوان کو سال دو سال کے لئے فوج میں ضرور کام کرنا پڑتا ہے لیکن انگریزوں میں جبری بھرتی کا دستور نہیں بلکہ یہ لوگوں کو نوکر رکھتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ن ہے کہ جرمن ، اٹلی اور فرانس کی جہاں اتنی اتنی اور نوے نوے لاکھ فوج ہے وہاں انگریزی فوج تین لاکھ کے قریب ہے.گویا یہ بڑی سلطنتوں میں سے سب سے چھوٹی فوج رکھنے والی حکومت ہے.پھر ان کا کیا کہنا ہے جن کی فوجیں اتنی اتنی لاکھ اور نوے نوے لاکھ اور کروڑ کروڑ کی ہیں.مگر اس کے مقابلہ میں ذرا ان لوگوں کا بھی اندازہ کرو جو بدر کے موقع پر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے نکلے تھے.وہ گل ۳۱۳ آدمی تھے یہ فوج تھی جو کفار سے لڑنے کیلئے نکلی تھی ، یہ فوج تھی جو ملک نے اپنا سارا زور صرف کرنے کے بعد مہیا کی تھی.ہم اسے اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ دنیا کی سب جنگوں سے اس کو بڑا سمجھتے ہیں مگر سرحدی قبائل کی معمولی معمولی جنگوں کے برابر بھی اس میں فوج نہیں تھی.کوئی انگریزی فوج کا جرنیل اگر اس لڑائی کو دیکھتا یا روسی فوج کا جرنیل اس لڑائی کو دیکھتا.یا جرمن فوج کا جرنیل اس لڑائی کو دیکھتا تو شاید نہایت حقارت سے مُسکر اکر کہہ دیتا یہ بھی ایک بچوں کا کھیل ہے، بھلا تین سو آدمی کی فوج بھی کوئی فوج ہوا کرتی تھ
خطبات محمود ۴۸ سال ۱۹۳۷ء ہے.مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ تین سو آدمی کی لڑائی دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی لڑائی تھی.وہی تین سو بڑھ کر ہزار ہو گئے اور ہزار بڑھ کر دو ہزار ہو گئے اور دو ہزار بڑھ کر دس ہزار ہو گئے اور دس ہزار بڑھ کر ہیں ہزار ہو گئے اور میں ہزار بڑھ کر ایک لاکھ ہو گئے اور ایک لاکھ پھر کروڑوں کروڑ بن کر ساری دنیا پر چھا گئے.اس کے دشمنوں کی مثال اُس پھیلے ہوئے بادل کی سی تھی جو سارے اُفق پر پھیلا کی ہوا ہو لیکن جس کا پانی نکل چکا ہو سب دنیا پر اس نے سایہ تو کیا ہوا ہوتا ہے مگر برسنے کی قابلیت اس میں نہیں ہوتی.اور اس چھوٹے سے لشکر کی مثال اس چھوٹی سی کالی بدلی کی سی تھی جو شدید گرمی اور دیر تک بارش نہ ہونے کے بعد صبح ہی صبح اُفق پر اُٹھتی ہے.بظاہر وہ چند گز کا ٹکڑا نظر آتا ہے لیکن پانچ دس منٹ کے اندراندر اس طرح آسمان پر پھیل جاتا ہے کہ تمام دنیا پر سایہ کرنے کے بعد روئے زمین کو پانی سے بھر دیتا ہے.وہ پہلا بادل جو تمام دنیا پر چھایا ہو الیکن پانی سے خالی تھا.ہوائیں آتیں اور اُسے اُڑا کر لے جاتی تھیں.لیکن دوسری چھوٹی سی بدلی جو ایک کونے سے اٹھتی ہوئی نظر آتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کر سکتی ، سارے عالم کو ڈھانک لیتی ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں زمین کو جل تھل کر دیتی ہے.یہی حالت ہماری ہے بعض نادان ہم پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ " کیا پدی اور کیا پدی کا ی شور بہ.یہ دنیا میں کیسی ایک قوم اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور بعض اپنے بیوقوف بھی حیران ہوتے ہیں کہ ہم کو بھلا دنیا کی فتوحات سے کیا تعلق.حالانکہ ہمارے اندر کوئی ذرہ بھی ایمان کا باقی ہو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کی فتوحات کا تعلق ہم سے ہی ہے.جنہیں خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ ہم تمہیں فتوحات دیں گے ان کا اگر فتوحات سے تعلق نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا.جس قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہو کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ! جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہو کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ،ہے جس قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہو کہ وہ دنیا پر چھا جائے گی اور باقی قو میں اُس کے مقابلہ میں بالکل چھوٹی چھوٹی رہ جائیں گی.اُس کے حو صلے اور اُس کی ہمتیں کتنی بلند ہونی چاہئیں، اُس کی قربانیاں کتنی بڑھی ہوئی ہونی چاہئیں اور اُس کا ایثار کتنا زیادہ ہونا چاہئے.دوسری قو میں جب قربانی کرتی ہیں تو وہ جانتی ہیں کہ ان کا مرنے والا سپاہی ان کی قوم کے کام نہیں آیا.مگر جس قوم کیلئے فتح و نصرت خدا تعالیٰ کے حضور لکھی جا چکی ہو وہ جانتی ہے کہ مرنے والا سپاہی اس کے کام آ گیا.گویا جیتنے والی قوم کی مثال اُس اینٹ کی سی ہے جو عمارت پر لگائی جاتی ہے اور ہارنے
خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۷ء والی قوم کی مثال اُس اینٹ کی سی ہے جو سمندر میں ڈبودی جاتی ہے.یہ سمندر میں ڈوبتی اور گھل جاتی ہے اور دنیا کی تعمیر کے کام میں نہیں آتی لیکن وہ دیوار پر لگتی اور اُسے پہلے سے بھی زیادہ اونچا کر دیتی ہی ہے.پس مومن کی قربانی ضائع نہیں ہوتی.وہ کم عقلوں کی نظر میں شکست ہوتی ہے مگر حقیقت بین نگاہ میں وہ عظیم الشان فتح ہوتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر ایثار کے نتیجہ میں ایک نیا درخت پیدا کر دیتا ہے.جیسے کھیت میں غلہ بونے والے زمیندار کو جب ایک بچہ دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے یہ زمیندار بیج ضائع کر رہا ہے.مگر دنیا جانتی ہے کہ وہ بیچ ضائع نہیں ہو رہا بلکہ وہ آگے گا اور پہلے سے سینکڑوں گنے زیادہ دانے پیدا کر دے گا.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کے مطابق اپنے اعمال کو بنائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں پائی جاتی ہیں.میں نے دو تین سال سے متواتر توجہ دلائی ہے کہ دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پڑھتے رہنا چاہئے تا انہیں معلوم ہوتا رہے کہ ان کا کیا انجام مقدر ہے.بہت سے لوگ اپنے انجام سے ناواقف ہوتے ہیں اور نا واقف ہونے کی وجہ سے بہت سی مستیاں اور غفلتیں کر جاتے ہیں.پس ان الہامات کو پڑھو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوئے ہیں.پھر دیکھو اور سوچو کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کیلئے کیا مقدر کیا ہوا ہے اور پھر اپنے آپ کو اس درجہ پر لانے کی کوشش کرو جس درجہ کی خدا آپ سے امید کرتا ہے.کیا اس سے زیادہ بد قسمت شخص کوئی اور بھی ہو گا جو نور کے نیچے کھڑا ہو اور پھر بھی اُس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی ہو.جس کے سامنے ہر قسم کی نعمتیں چنی ہوئی ہوں اور اسے کھانے کی توفیق نہ ہو.یہی حال اُس شخص کا ہے، اُس بد قسمت شخص کا ہے جس کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئیاں اور الہامات موجود ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے ایسی حالت میں بیان کئے گئے تھے جب اس جماعت کا نام ونشان بھی نہ تھا.پھر وہ ان پیشگوئیوں کو بڑی حد تک پورا ہوتے دیکھتا ہے.مگر جو پیشگوئیاں پوری ہو چکیں انہی پر کھڑا ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ پیشگوئیاں جو بہت زیادہ شاندار نتائج کی حامل ہیں انہیں نظر انداز کر دیتا ہے.کھول جاتا ہے ، غافل ہو جاتا ہے اور کنویں کے مینڈک کی طرح اس تھوڑی سی چیز پر ہی قانع ہو جاتا ہے اور کہتا ہے جو ملنا تھا وہ مل چکا.بد قسمت ہے وہ انسان.کاش! اُس کی ماں اُسے نہ جنتی تا وہ خدا تعالیٰ کی باتوں کی ( الفضل ۱۲ رفروری ۱۹۳۷ء ) کا انکار کرنے والا نہ بنتا.النصر: ٣،٢ تذکرہ صفحہ ۱۰.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اپنے آپ کو نڈر اور صادق القول بناؤ فرموده ۵ فروری ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں پیدا کر کے کچھ تو اس کو قو تیں اور طاقتیں دی ہیں جن سے ی وہ کام کر سکتا ہے اور کچھ سامان مہیا فرمائے ہیں جو وہ استعمال کر سکتا ہے اور کچھ طریقے مقرر فرمائے ہیں جن کے ذریعہ سے نتائج پیدا ہوتے ہیں.مثلا اگر انسان کو اُس نے کام کرنے کی طاقت دی ہے، سوچنے کے لئے دماغ دیا ہے، کام میں تنوع پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے ذوق بخشے ہیں اور رغبت پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی امنگیں اس کے دل میں پیدا کی ہیں.غیرت پیدا کی ہے، جوش اور غضب پیدا کیا ہے، محبت پیدا کی ہے.اس کے بعد پھر اُس نے عورت اور مرد کا فرق رکھا ہے تا ان طاقتوں کے استعمال کرنے کیلئے اُس کیلئے میدان کھل جائے.بچے پیدا کئے ہیں، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ دار بنائے ہیں.پھر اُس نے اس سے بھی زیادہ تنوع پیدا کرنے کیلئے حیوانات پیدا کئے ہیں.پھر اس کے کام کو اور وسیع کرنے کی کیلئے قسم قسم کے غلے، میوے، ترکاریاں، سبزیاں اور پھل پھول وغیرہ پیدا کئے ہیں.پھر اس کی بادشاہت کو اور زیادہ وسیع کرنے کیلئے لکڑی، لوہا، آگ اور پانی وغیرہ اشیاء بنائی ہیں جن پر انسان کا عمل وارد ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ انسان نئی اشیاء بنا کر اپنے لئے نئی دنیا بناتا ہے.پھر فطرتا نسانی میں کی مدنیت کا مادہ رکھا ہے اور حکومت و اقتصادیات کے رستے کھولے ہیں.پھر سونا، چاندی اور جواہرات
خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۳۷ء وغیرہ پیدا کئے ہیں جو اقتصادی دنیا کو بسانے کے سامان ہیں.گویا اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انسان کے اندر بنائی ہے جو باہر نکلنا چاہتی ہے اور ایک باہر بنائی ہے جو انسان کے اندر آنا چاہتی ہے.ایک طرف دل میں محبت کا جذبہ اور شہوت پیدا کی ہے تو دوسری طرف بیوی اور خاوند ، بچے ، بہن بھائی ، ماں باپ بنائے ہیں کہ بعض محبت کا اور بعض شہوات کا محل بنتے ہے ہیں.اور بعض کی محبت اور شہوات کا یہ حل بنتا ہے.باہر کی دنیا اس کے اندر آنا چاہتی ہے اور اس کے اندر کی دنیا باہر جانا چاہتی ہے.اس کے اندر کی محبت بیوی بچوں اور ماں باپ پر چھا جاتی ہے اور بیوی بچے ، ماں باپ، بہن بھائی کہلانے والے انسان جو اس کیلئے بیرونی دنیا تھی اس کے دل میں آکر بس جاتی ہے اور اس کیلئے ایک نیا عالم تیار ہوتا ہے اور اس کیلئے اس دنیا میں وابستگی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے.پھر جہاں انسان کے اندر بھوک رکھی ہے زبان کو مزے اور چکھنے کی خواہش دی ہے ، لذت اور ذائقہ کا ذوق پیدا کیا ہے وہاں باہر مختلف قسم کے جانور اور قسم قسم کے مزوں والے گوشت بھی پیدا کئے ہیں.زبان کا چسکا اور پیٹ کی بھوک ان جانوروں پر چھا جاتی ہے اور وہ جانور گوشت بن کر اس کے پیٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح یہ بیرونی دنیا پر غالب آ جاتا ہے اور بیرونی دنیا اس کے اندر داخل ہو جاتی ہے اور اس طرح ایک نیا عالم پیدا ہوتا ہے.اسی طرح بھوک اور چکھنے کی خواہش قسم قسم کی سبزیوں پر چھا جاتی ہے اور دوسری طرف وہ تڑپ رہی ہوتی ہیں کہ کسی طرح انسان کے جسم میں داخل ہو جائیں اور اندر جا کر ایک نیا عالم پیدا کر دیتی ہیں.یہی حال پھلوں اور میووں کے متعلق ہے.پھر جہاں اس کی آنکھ کو ذوق نظارہ بخشا ہے ، جہاں ناک میں خوشبو سونگھنے کی طاقت رکھی ہے وہاں باہر خوبصورت نظارے اور رنگا رنگ کے پھول پیدا کئے ہیں اور نہایت خوشبودار مادے بنائے ہیں.آنکھ اور ناک کی جس جستجو کرتی ہوئی باہر آتی ہے اور باہر کی خوشبوئیں اور خوبصورتیاں اس کی ناک اور آنکھ میں گھس جاتی ہیں اور اس طرح پھر یہ ایک نیا عالم پیدا ہوتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انسان کے اندر اور ایک اس کے باہر پیدا کی ہے مگر دونوں میں صحیح جوڑ پیدا کرنے کیلئے کچھ طریقے مقرر کئے ہیں.مثلاً یہ طریق مقرر کیا ہے کہ گوشت کھانے کیلئے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لوتا جو خشونت اور سختی تمہارے دل میں دوسری جان کو مارنے سے پیدا ہوسکتی ہے وہ دور ہو جائے.تم ذبح کرنے سے پہلے خدا کا نام لے کر اقرار کرتے ہو کہ اس بکرے یا
خطبات محمود ۵۲ سال ۱۹۳۷ء مرغ یا کبوتر کو ذبح کرنے کا تمہیں کوئی حق نہ تھا مگر جو اس جان کا مالک و خالق ہے اُس کے نام پر اور اُس کی اجازت سے تم ایسا کرتے ہو اور اُس کے دیئے ہوئے حق کو استعمال کرتے ہو اس لئے تم ظالم نہیں کی ہو.پھر کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو.کیونکہ کئی کی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.ان میں گندہ خون یا تو ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے.مثلاً مچھلی میں خون بہت ہی کم ہوتا ہے جس کے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی.سبزیوں اور ترکاریوں میں خون بالکل ہوتا ہی نہیں اس لئے کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اقرار کرتے ہو کہ تمہیں ان کے استعمال کا حق نہیں تھا مگر مالک کا حکم ہے.اس طرح انسان کے اخلاق سدھارنے کا حکم دے دیا اور تمہارے نفس میں سے جبر اور ظلم و تعدی کے خیالات کو دور کر دیا.پھر یہ بھی بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں چیز کھاؤ اور فلاں فلاں نہ کھاؤ.کیونکہ ان میں سے بعض کے اندر بداخلاقیاں ہیں ، بعض کے اندر بے دینی اور بے غیرتی ہے اور بعض میں زہر ہیں.اب جو شخص اس طریق پر خوراک استعمال کرتا ہے وہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ نقصان اُٹھاتا ہے.پھر حقوق اور ملکیت کے ذرائع بھی بتا دیئے ہیں.ایک ملکیت ورثہ سے ملتی ہے ایک محنت اور مزدوری سے بطور بدلہ اور جزا کے اور ایک ایسی چیز کے حصول کے ساتھ جس کا اور کوئی مالک نہیں جسے لفظہ کہتے ہیں یعنی بے مالک پڑی تھی چیز کو پڑا پانا.یہی تین صورتیں ملکیت کی ہیں.آگے ورثہ دو قسم کا ہوتا ہے.ایک جو ماں باپ یا رشتہ داروں سے ملتا ہے اور ایک تحفہ.ورثہ تحفہ کے معنوں میں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو اپنی نعمتوں کا وارث کیا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ نَعُوذُ بِاللهِ اللہ تعالیٰ فوت ہو جاتا ہے اور انسان اس کے وارث ہوتے ہیں بلکہ اس کے معنی تحفہ کے ہیں.پس ملکیت دنیا میں تین طرح ہی قائم ہوتی ہے.اول ماں باپ یا بزرگوں سے ورثہ یا تحفہ کے طور پر یا محنت ومزدوری کے ذریعہ.اس کی ایک صورت وہ بھی ہے جو اب تو نہیں مگر پہلے ہمارے ملک میں رواج تھا کہ ایک چیز کے کی بدلہ میں دوسری لے لی جاتی تھی.مثلاً ساگ پات کے بدلہ میں عورتیں دانے لے لیتی تھیں تو محنت مزدوری خواه رو پید کی صورت میں وصول کی جائے یا ادل بدل کی صورت میں ، اس طرح بھی ملکیت قائم کی ہو جاتی ہے.تیسری صورت ملکیت کی لقطہ ہے یعنی کوئی ایسی چیز مل جائے جس کا انسانوں میں سے کوئی مالک نہ ملے.مثلاً کوئی قوم کسی ایسے جنگل میں جا پڑے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ اس کی مالک ہو جائے
خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۷ء گی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر جنگل میں کوئی بھیٹر اکیلی پھر رہی ہو جہاں بھیڑئیے بھی ہوں تو تم اُس کے مالک کو آواز دے کر اور تلاش کرنے کے بعد اُسے لے سکتے ہو آخر اسے بھیڑئیے نے ہی کھا جانا ہے.پس کیوں نہ تم ہی کھا لو.تو دنیا میں یہ تینوں ذرائع جائز ملکیت کے ہیں.اگر کوئی شخص ان کو استعمال نہ کرے تو یا تو وہ مالک ہی نہ بن سکے گا یا پھر اُس کی ملکیت نا جائز ہو گی.جیسے کوئی چوری کر کے کسی کی چیز لے لے یا جبراً چھین لے.پس وراثت، محنت یا لقطہ کے سوایا تو انسان محروم رہے گا اور یا نا جائز طور پر مالک بنے گا.محروم کی مثال تو یہ ہے کہ کوئی انسان محنت نہ کرے اور ہاتھ پیر تو ڑ کر گھر میں پڑا رہے تو وہ ضرور فاقوں مرے گا.مگر جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع استعمال کرے گا اُسے ملکیت حاصل ہو جائے گی.جائدادی کا ورثہ میں ملنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں.اسی طرح لقطہ بھی اس کے اختیار میں نہیں مگر محنت اس کی کے اختیار میں ہے اور محنت کر کے وہ ملکیت حاصل کر سکتا ہے.اس کے سوا اتفاقی طور پر ملے تو ملے ورنہ محروم ہی رہے گا اور اس کی مثال ایسی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے روٹی کھانے کیلئے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی انسان محمدہ پلاؤ پکا کر کان میں ڈالنے لگ جائے تو اُس کا پیٹ نہیں بھرے گا.یا نہایت خوشبو دار گلاب کا پھول لے کر اسے سونگھنے کی بجائے پاؤں کے نیچے جراب کے اندر رکھ لے یا کسی عمدہ نظارہ کو دیکھنے کے بجائے اُس پر منہ مارنا شروع کر دے یا کسی چیز کی ملائمت کو محسوس کرنے کیلئے اُس پر ناک رگڑنے لگے تو تھی ایسا انسان احمق کہلانے کے علاوہ محروم بھی رہے گا.میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے بہت سے ان باتوں کو سنکر مسکرائیں گے کہ ایسا بیوقوف کون ہو سکتا ہے.مگر تم میں سے بہت سے ہیں جو ایسے ہی بیوقوف ہیں.انسان کی عادت ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اُن پر ہنستا ہے.مگر اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ معاملہ دراصل اُس کا اپنا ہی ہوتا ہے.مثال تو بُری ہے جنہوں نے یہ کام کیا اچھا نہ کیا لیکن مثال کے طور پر بیان کرتا ہوں.میں نے سنا ہے بعض لوگوں نے کسی اپنے دوست سے مذاق کیا اور چمگادڑیا ایسا ہی کوئی جانور پکا کر کھلا دیا.اُسے معلوم تھا کہ ایسا گوشت پکایا گیا ہے مگر وہ سمجھتا تھا کہ یہ اُسے نہیں بلکہ دوسرے شخص کو دیا گیا ہے اس لئے وہ خود وہی گوشت کھاتا بھی جاتا تھا مگر یہ سمجھ کر کہ وہ اس کے ساتھی کے آگے ہے ، اُسے مذاق بھی کرتا جاتا تھا کہ کیسا اچھا اور لذیذ گوشت ہے، کیسا عمدہ پلاؤ ہے.حالانکہ جس چیز پر وہ اپنے ساتھی کو مذاق کر ہا تھا وہ دراصل
خطبات محمود ۵۴ سال ۱۹۳۷ء خود کھا رہا تھا.تو دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسرے کی بات پر ہنستے ہیں مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ خود اس کے زیادہ مرتکب ہورہے ہیں.اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اگر تم کسی شخص کو تصویر کو دیکھنے کے بجائے سُونگھتا ہوا دیکھو اور آواز کو سننے کی بجائے اسے سونگھنے کی کوشش کرتا ہوا پاؤ اور خوشبو کوسونگھنے کی بجائے دیکھنے کی کوشش کرتے دیکھو اور ملائمت کو زبان سے چکھنے کی کوشش میں پاؤ اور مٹھاس یا کھٹاس کا پتہ لگانے کیلئے ہاتھ کا استعمال کرتے دیکھو تو فورا قہقہہ لگا کر کہہ دو گے کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے.مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ تم میں.اکثر اس چیز کو جسے وہ کسی کھانے والی یا سونگھنے والی یا دیکھنے والی چیز سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں اور جس کیلئے کئی ایک نے اپنی جائدادیں چھوڑ دی ہیں.ماں باپ، بھائی بہن اور رشتہ داروں کو ترک کر دیا ہے اور وہ ظاہری قربانیاں جو انسان پر گراں گزرتی ہیں وہ اس چیز کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ان پر آسان کی ہو گئیں اور اس کے لئے ان کی قربانیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی قیمت ان کے دلوں میں بہت زیادہ ہے اور بظاہر وہ اس کے حصول کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کو نہیں ملتی.لیکن وہ یہ معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے کہ کیوں نہیں ملتی.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو تو میں دوں گا.مگر تم مانگتے بھی ہو، اس کیلئے قربانی کرتے بھی نظر آتے ہو مگر وہ ملتی نہیں اور اگر تم قرآن کریم ، حدیث اور عقل و علم کے ماتحت غور کرو تو اس سوال کا ایک ہی جواب تمہیں ملے گا کہ تمہاری کوشش غلط طور پر ہو رہی ہے.دنیا میں انسان کو ناکامی ہمیشہ یا تو اس لئے ہوتی ہے کہ اس کے اندر خواہش نہیں ہوتی یا اس لئے کہ وہ جد و جہد نہیں کرتا اور یا پھر اس لئے کہ وہ چیز ہی نہیں ہوتی.لیکن اگر یہ تینوں باتیں ہوں تو جی ناکامی کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ جد و جہد غلط طور پر ہورہی ہے.جب پانی بھی موجود ہو، اُس پر کی قبضہ بھی ہو اور پیاس بھی لگی ہو تو پھر بھی اگر پیاس نہ بجھے تو اس کے صاف معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ جد و جہد غلط ہے.اور ممکن ہے پیاس بجھانے کی کوشش کرنے والا بجائے منہ میں پانی ڈالنے کے ناک یا کان میں ڈال رہا ہو.میں نے تم کو تحریک جدید کی شروع کی تحریکوں میں یہ بتایا تھا کہ صحیح مذہبی ترقی کیلئے سچائی ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل اور نڈر ہو جانا بھی بہت ہی ضروری ہے.اور میرے نقطہ نگاہ سے تو سچائی اور بے خوفی ایک ہی چیز ہے.جو بے خوف ہو وہ ضرور سچا ہوگا اور جو سچا ہو وہ کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ڈر نہیں سکتا.سچ کو چھوڑتا ہی انسان ڈر کی وجہ سے ہے خواہ وہ جان کا ڈر ہو یا مال کا یا عزت کا.جو انسان ڈرتا نہیں وہ جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا اور جو جھوٹ نہیں بولتا وہ ضرور نڈر ہوگا.سچائی ہمیشہ امن کا موجب ہی نہیں ہو ا کرتی بلکہ بیسیوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ سچائی مال و جان کیلئے ، وطن کیلئے ، رشتہ داروں کیلئے کی اور عزت کیلئے خطرہ کا موجب ہو جاتی ہے اور جو ان حالات میں سچائی پر قائم رہتا ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بُز دل ہے.سچائی اور بے خوفی اگر چہ دو علیحدہ علیحدہ خلق ہیں مگر ان کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے.جہاں سچ ہوگا وہیں بے خوفی ہوگی اور جہاں بے خوفی ہوگی وہیں سچ ہوگا.بے شک تم ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہو کہ جن میں بظاہر بے خوفی ہے مگر سچ نہیں.لیکن اگر ذرا گہرا غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہاں حقیقی بے خوفی نہ تھی.جہو رتھا مگر جرات نہ تھی.ڈاکو اور چور ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں، قاتل قتل کرنے کے بعد جھوٹ بولتے ہیں.بظاہر وہ بہادر نظر آتے ہیں لیکن اگر تم غور کر و تو درحقیقت وہ بہادر نہیں ہوتے ، بزدل ہوتے ہیں.کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک ڈاکو یہ قاتل ڈا کہ یا قتل سے انکار کر رہا ہوتا ہے، اُس وقت وہ یقیناً ڈر رہا ہوتا ہے.جب ایک ڈا کو کہتا ہے میں نے ڈاکہ نہیں مارا یا چور کہتا ہے میں نے چوری نہیں کی ، یا قاتل قتل سے انکار کرتا ہے تو اسی لئے تو کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ میں پکڑا نہ جاؤں اور اس صورت میں تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ نڈر تھا.کیونکہ جب ڈرنے کا موقع آیا وہ ڈر گیا.پس گو بظاہر بعض مواقع پر یہ دونوں چیزیں اکٹھی نظر آتی ہیں مگر حقیقتا یہ ظاہر بین نگاہ کی غلطی ہوتی ہے.حقیقت یہی ہے کہ بے خوفی اور جھوٹ کبھی جمع نہیں ہو سکتے اور سچ اور بے خوفی کبھی جد انہیں ہو سکتے.میں نے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کی ہے کہ سچائی کی طرف زیادہ توجہ کریں مگر مجھے افسوس ہے کہ جو لوگ میرے مخاطب تھے انہوں نے ابھی تک اپنی اصلاح نہیں کی.یاد رکھو کہ سچ کے معنے یہی نہیں ہوتے کہ ہر بات دوسروں کو کہتے پھر وہ ایسا کرنا تو بعض دفعہ بے حیائی ہو جاتی ہے.سچ کے معنے یہ ہیں کہ جو کہو درست اور صحیح کہو.اگر تم کسی بات کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تو کہہ دو کہ میں یہ ظاہر نہیں کرسکتا لیکن جب کوئی بات بتا دو تو پھر اس حقیقت کے مطابق بتاؤ جو خدا تعالیٰ سکھاتا ہے.مثلاً ایک شخص لڑنے کا عادی ہے اور جھوٹ بولنے کا بھی.وہ تم سے جھگڑتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا میں جھوٹ بولتا ہوں.تو تم اگر اسے کہتے ہو کہ نہیں تم تو بڑے بچے آدمی ہو ، تو تم جھوٹ بولتے ہو.اور اگر کہہ دو کہ ہاں واقعی تم جھوٹے
خطبات محمود ۵۶ سال ۱۹۳۷ء ہو تو لڑائی ہوتی ہے اس لئے تم اسے کہ سکتے ہو کہ بیچ یا جھوٹ بولنا تمہارا اپنا فعل ہے اس لئے تم خود جان سکتے ہو کہ تم جھوٹ بولتے ہو یا سچ ، میں اس کے متعلق کوئی رائے ظاہر نہیں کر سکتا اور اس طرح تم اس مرحلہ سے صاف نکل سکتے ہو بغیر جھوٹ بولنے اور بغیر فساد کرانے کے.پس سچ کے معنے یہ ہیں کہ جو کہو ٹھیک کہو اور جس چیز کے ظاہر کرنے کی تمہیں شریعت یا مصلحت اجازت نہیں دیتی اس کے متعلق تم صاف کہہ سکتے ہو کہ اس کے متعلق تمہیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں.بعض جگہ انکار بھی انسان کو جھوٹ بلو ادیتا ہے یا مصیبت میں پھنسا دیتا ہے.بچے کھیلتے ہیں اور چھپتے ہیں.تلاش کرنے والا کسی سے پوچھتا ہے کہ کہاں چھپے ہوئے ہیں؟ اس کے جواب کے دو ہی طریق ہیں کہ وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نہیں بتا تا.پھر وہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ ہیں.وہ کہتا ہے کہ نہیں.پھر وہ پوچھتا ہے کہ اچھا فلاں جگہ ہیں؟ پھر بھی وہ کہہ دیتا ہے نہیں.پھر وہ تیسری جگہ کے متعلق پوچھتا ہے کہ وہاں ہیں ؟ وہ کہ دیتا ہے نہیں.پھر وہ ایک جگہ کے متعلق چھتا ہے کہ کیا وہ وہاں ہیں ؟ اور وہ خاموش ہو جاتا ہے تو پوچھنے والا سمجھ لیتا ہے کہ بس وہ اسی جگہ ہوں گے.پس نہ کہہ کر بھی تم ہاں کر سکتے ہو.ایک شخص کی تین جیبیں ہیں.ایک چیز کے متعلق وہ کہہ دیتا ہے کہ اس جیب میں نہیں.پھر دوسری کے متعلق کہتا ہے کہ اس میں بھی نہیں.اس پر بھی اگر دوسرا نہیں سمجھتا کہ وہ تیسری جیب میں ہے تو وہ بڑا ہی بیوقوف ہے.ایک قصہ مشہور ہے کہ دو بیوقوف کہیں جمع ہو گئے.ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم یہ بتا دو کہ میری جھولی میں کیا ہے تو میں ایک انڈا تم کو دے دوں گا.اور اگر یہ بتا دو کہ کتنے ہیں تو دس کے دس ہی تمہیں دے دوں گا.آگے سننے والا بھی ویسا ہی تھا.اُس نے کہا کہ کوئی اتا پتا بتاؤ تو میں کچھ سمجھ سکتا ہوں.یوں میں کوئی عالم الغیب نہیں ہوں کہ سمجھ سکوں.اس پر پہلے نے کہا کہ کچھ زرد زرد اور کچھ کچ سفید سفید چیز اس کے اندر ہے.اس کا مطلب انڈے کی زردی اور سفیدی سے تھا مگر دوسرے نے جھٹ کی جواب دیا کہ کچھ گا جریں اور کچھ مولیاں ہوں گی.تو بسا اوقات انسان انکار بھی نہیں کرتا مگر بتا بھی جاتا ج ہے.گویا زیادہ نہیں مل کر ایک ہاں بن جاتی ہے.پس تم موقع پر ”نہیں“ اور ”ہاں“ دونوں کے کہنے سے انکار کر سکتے ہو.کیونکہ جس کو خدا تعالیٰ نے پوچھنے کا حق نہیں دیا تمہارا حق ہے کہ اس کے سوال کا جواب نہ دو لیکن اگر جواب دو تو پھر سچا ہی جواب دو.میں نے کئی بار بتایا ہے کہ سچ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.مگر تم اپنے نفسوں کو ٹو لو کہ کیا تم
خطبات محمود ۵۷ سال ۱۹۳۷ء نے سچ بولنے کی عادت پیدا کر لی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ میرے پاس آکر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس اس طرح کہا.تو ہم نے آگے اس سے اس اس طرح بات بنا کر جواب دے دیا.گویا ہ بے تکلفی سے میرے ہی سامنے اپنے جھوٹ کا اقرار کر جاتے ہیں اور میں خاموشی سے ان کا منہ دیکھتا رہتا ہوں.کیونکہ گو انہیں اپنے جھوٹ کے اظہار سے شرم نہیں آتی مگر مجھے یہ کہنے سے شرم آ جاتی ہے کہ ނ پھر تو آپ اقراری جھوٹے ہوئے.ہاں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ میں اس بے شرم کو کیا کہوں.پس یا د رکھو کہ سچائی اور بے خوفی قومی ترقی کیلئے ضروری چیزیں ہیں.جس قوم میں ڈر ہے وہ کبھی نہیں جیت سکتی کیونکہ اس میں سچائی اور تو کل نہیں ہو سکتا.اس لئے سچائی اور بے خوفی کی عادت ڈالو اور یا درکھو کہ کوئی انسان دنیا میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا.خدا اور اس کے دین کیلئے کسی انسان کی جان جانے کا موقع ہو لیکن وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرے تو اسے کیا معلوم کہ آگے جاتے ہی خود بخود اس کی جان نکل جائے.ایک انسان کو شہادت کا موقع تو اللہ تعالیٰ دے مگر وہ اس سے بھاگے تو کیا معلوم کہ وہاں.ہٹتے ہی اس کا ہارٹ فیل ہو جائے اور وہ مرجائے.خدا تو اسے ایک قیمتی چیز بنانا چاہے مگر وہ اس سے تو اپنے آپ کو بچالے لیکن آگے جا کر مُردہ گدھے کی طرح گر پڑے.اسی طرح مالی قربانی کے متعلق بھی ہے.ہر شخص اپنی زندگی میں دیکھ سکتا ہے اور ہر ایک نے دیکھا ہے کہ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا روپیہ بھی ضائع نہیں ہوا.بسا اوقات خرید و فروخت میں نقصان ہو جاتا ہے، بعض اوقات کوئی جائداد تباہ ہو جاتی ہے اور بعض اوقات فصلیں خراب ہو جاتی ہیں اس لئے اگر موقع ملے تو کیوں نہ اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا جائے تا اللہ تعالیٰ کی رضا تو حاصل ہو جائے.ہندوستان میں مسلمان بادشاہ رہے ہیں.آج تک کنگال سہی ، غریب سہی ، بے کس اور بے بس سہی مگر یہ خیال تو دماغوں سے نہیں مٹ سکتا کہ دو چار سو سال قبل تمہارے باپ دادا بحیثیت قوم بادشاہ تھے.بحیثیت افراد نہ سہی آخر قوم میں سے ایک ہی بادشاہ ہوتا ہے.آج انگریزوں میں سے بھی ایک ہی بادشاہ ہے پھر بھی ساری قوم شاہی قوم کبھی جاتی ہے.مگر مسلمانوں کی بادشاہت آج کہاں ہے.جب وہ مٹنے پر آئی تو کوئی چیز اسے نہ سنبھال سکی اور وہ اسی طرح مٹی تھی کہ جن کے پاس تھی وہ اپنی جانوں اور مالوں کی بہت بڑی قیمت سمجھنے لگے تھے.غدر کے واقعات میں لکھا ہے کہ زینت محل سے جو بہادرشاہ کی چہیتی بیوی تھی ، وہ انگریزوں سے ملی ہوئی تھی.وہ چاہتی تھی کہ اس کا لڑکا جو چھوٹا تھا اور رواج کے مطابق باپ کے بعد بادشاہ نہ ہو سکتا تھا
خطبات محمود ۵۸ سال ۱۹۳۷ء انگریزوں کی مدد سے اسے بادشاہ بنوائے.ایک موقع پر باغیوں نے ایک ایسی جگہ توپ نصب کی کہ انگریزی فوج بالکل قابو آ گئی.اسے سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا.انگریزوں نے زینت محل کو کہلا بھیجا کہ آج مدد کا وقت ہے.اُس نے جھٹ شور مچانا شروع کر دیا کہ میرا دل دھڑکتا ہے اور اگر یہاں سے توپ چلائی گئی تو میں مر جاؤں گی.بادشاہ نے بہت منت سماجت کی اور اُسے سمجھایا مگر وہ نہ مانی.ادھر بادشاہ بھی انہی لوگوں میں سے تھا جن کے نزدیک عورت کی قیمت حکومت سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس نے توپ کو وہاں سے اٹھوادیا.زینت محل اس خوف کے اظہار میں جھوٹی تھی تو بھی اور اگر سچی تھی تو بھی، بہر حال باشاہ کے اس کی جان بچانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اٹھارہ نو جوان شہزادوں کے سرخوان پوشوں میں رکھ کر اُس کے سامنے پیش کئے گئے اور پیش کرنے والے سروں کو سوٹیوں سے ہلا ہلا کر اسے بتاتے تھے کہ یہ تمہارے فلاں شہزادے کا سر ہے اور یہ فلاں کا.اگر اس وقت بہادر شاہ نظام اور حکومت کے مقابلہ میں بیوی کی جان کی پرواہ نہ کرتا تو کون کہہ سکتا ہے کہ آج ہندوستان کا نقشہ کیا ہوتا.پس جو تو میں اپنی جان بچانا چاہتی ہیں وہی مرتی ہیں اور جو اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے پھرتی ہیں وہی ہمیشہ زندہ رہتی ہیں.اسی طرح جو تو میں اپنے مال چھپاتی ہیں وہی لوٹی جاتی ہیں اور جو اپنے مال کی ہتھیلی پر لئے پھرتی ہیں ان سے کوئی نہیں چھین سکتا.ہر ایک تم میں سے سمجھ سکتا ہے کہ کونسا زمیندار کماتا ہے ہے.وہ جو اپنا غلہ اٹھا کر کھیت میں پھینک آتا ہے یا وہ جو گھڑوں اور مٹکوں میں اسے محفوظ رکھتا ہے.جو تی گھڑوں میں بند کر کے رکھا جاتا ہے اسے یا تو وہ خود کھا لیتا ہے یا کیڑا کھا جاتا ہے.مگر جو کھیت میں ڈالا کی جاتا ہے باوجود یکہ لوگ اسے پاؤں تلے روندتے ہیں، پرند اور چرند بھی اسے کھاتے ہیں مگر پھر بھی سینکڑوں گنا ہو کر گھر میں آتا ہے.پس اپنے آپ کو نڈر بناؤ اگر تحریک جدید سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو، اور اپنے آپ کو صادق القول بناؤ اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو.اگر تم نڈر ہو جاؤ تو دنیا تم سے ڈرے گی اور اگر تم صادق القول بن جاؤ تو منافق تم سے ڈریں گے.منافق اسی لئے دلیر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میرا دوست جھوٹ بول کر مجھے بچالے گا اور اگر تم یہ دونوں صفات اپنے اندر پیدا کر لو تو نہ بیرونی دشمن اور نہ اندرونی تم پر قابو پاسکتا ہے.لیکن اگر یہ باتیں تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتیں تو تمہاری مثال اُس شخص کی ہوگی جو گلاب کی خوشبو کو دیکھنا چاہتا ہے، جو ترنم کی خوش آواز کو چُھو نا چاہتا ہے.جو مخمل کی ملائمت کو چکھنا چاہتا
خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۷ء ہے، تم ایسے شخص پر بنتے ہو مگر یہ نہیں جانتے کہ تم خود ایسے ہی ہو.تم اسی دروازے سے داخل ہو کر ترقی کر سکتے ہو جو خدا نے کھولا ہے اور جسے خدا نے بند کیا ہے تم اسے نہیں کھول سکتے.اچھی طرح یا د رکھو کہ تم خدا کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہو کر اور اُس کے بند کئے ہوئے دروازے سے مُڑ کر ہی کامیاب ہو سکتے ہو.اگر تم اُس کے بند کئے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو ی تمہارے لئے سوائے رونے اور دانت پیسنے کے کچھ نہ ہوگا اور اگر اُس کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو بیشک اس میں تلواریں لٹک رہی ہیں ، بھیا نک نظارے اور خونخوار درندے ہیں مگر جو نہی تم قدم رکھو گے وہ جادو کی طرح اُڑ جائیں گے.خدا تعالیٰ نے اپنی جنت کو دوزخ کے نیچے چُھپایا ہے اور دوزخ کو دنیا کی جنت کے نیچے چھپایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیت وَ اِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۵ کے یہی معنے کئے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ جہنم سے نہ گزرے.بعض مفسرین کی نے لکھا ہے کہ اس میں صرف کفار کا ذکر ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے مراد سب انسان ہی لئے ہیں لیکن معنوں سے دوسرے مفسرین سے اختلاف کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ کافر اگلے جہاں کی جہنم سے گزر کر جنت میں داخل ہوتا ہے لیکن مومن اس دنیا کی جہنم سے گزر کر جنت میں کی داخل ہوتا ہے.اور کوئی مومن جنت میں نہیں جاسکتا جب تک وہ دوزخ میں سے نہ گزرے یعنی اس کی دوزخ سے جو اس دنیا میں ہے.پس یا د رکھو کہ ہر وہ شخص جو خدا کیلئے دوزخ میں گو دتا ہے وہ آنکھیں کھولے گا تو خدا تعالیٰ کی گود میں ہوگا.وہ اپنے آپ کو مرنے کیلئے پیش کرے گا مگر اُسے ابدی زندگی دی جائے گی.وہ اپنے آپ کو مٹانے کیلئے آگے بڑھتا ہے مگر اسے بقا کا مقام حاصل ہوتا ہے.یہی رستہ ہے جس پر چل کر تم کامیاب ہو سکتے ہو اور جو اس کے بغیر کسی اور رستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے وہ پہاڑ سے ٹکراتا ہے.وہ اپنا سر تو چکنا چور کر لے گا مگر کامیابی کا رستہ ہر گز نہیں پاسکے گا.الفضل ۲۷ فروری ۱۹۳۷ ء ) بخارى كتاب في اللقطة باب ضالة الغنيم ٣ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : ٢٠)
خطبات محمود ۶۰ سال ۱۹۳۷ء زینت محل بیگم : (۱۸۱۷ء.۱۸۸۶ء) صمصام الدولہ نواب احمد قلی خان بہادر کی صاحبزادی جس سے مغلوں کے آخری بادشاہ بہادرشاہ ثانی نے مسند نشینی کے بعد شادی کی اسی کا بیٹا جواں بخت تھا بیگم کی کوشش تھی کہ جواں بخت ولی عہد قرار پائے مگر انگریزوں نے ایسا نہ ہونے دیا.بیگم بہادر شاہ کی رنگون جلا وطنی کے ساتھ زینت محل بیگم بھی جلا وطن ہوئیں بادشاہ کی وفات سے ۲۴ سال بعد و ہیں وفات ہوئی اور بادشاہ کے پہلو میں تدفین ہوئی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۷۱۶ مطبوعہ لاہور۷ ۱۹۸ ء ) بہادر شاہ ظفر : (۱۷۷۵ء.نومبر ۱۸۶۲ء) ابوظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تخلص ظفر تھا.دلی کے آخری مغل تاجدار سالِ جلوس ۱۸۳۷ء تحریک آزادی ۱۸۵۷ء میں ماخوذ ہوئے اور جلاوطن کر کے رنگون بھیج دیئے گئے.قید میں ان سے بہت نامناسب سلوک ہوا.رنگون میں ہی انتقال ہوا.زمانہ ولی عہدی سے شعر گوئی کا شوق تھا.پہلے ذوق سے اور اس کے بعد غالب سے تلمذ رہا.ان کی حج تصانیف چار دیوان، شرح گلستان سعدی اور رسالہ سراج المعرفت ہیں.مریم ۷۲ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۹۴۵ مطبوعہ لاہور۷ ۱۹۸ ء )
خطبات محمود ۶۱ L سال ۱۹۳۷ء رب العلمین کے مظہر بنو فرموده ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض جو قرآن کریم کی میں عبودیت کا مقام حاصل کرنا بیان کی گئی ہے ، اس کی تشریح دوسرے لفظوں میں تَخَلَّقُوا بِاَخلاق الله ال ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنے اندر اختیار کرے اور اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوں.اسی غرض کی طرف اشارہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ان چار جامع صفات کے ساتھ شروع کیا ہے جن کے ماتحت باقی سب صفات آجاتی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں کہ : اول خدا تعالی ہے.دوم وہ الرَّحمن ہے.سوم وہ رَحِیم ہے اور چہارم وہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے.یہ چار صفات بندے کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں تب جا کر وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے.یعنی اس کیلئے ضروری ہے کہ جس حد تک انسان رب العلمین کی صفت کا مظہر ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا ظلت ثابت کرے اور جس حد تک انسان رحمانیت کا مظہر ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو رحمانیت کا نمائندہ ثابت کر.
خطبات محمود ۶۲ سال ۱۹۳۷ء اور جس حد تک انسان الرّحیم کے جلوہ کو ظاہر کر سکتا ہے وہ رحیمیت کی روشنی کو دنیا میں پھیلائے اور جس حد تک وہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين کا نمونہ قائم کر سکتا ہے وہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کی شکل دنیا کو دکھائے.اور ان اگر ہم غور کریں تو یہی ذریعہ توحید کامل کے قائم کرنے کا ہے کیونکہ شرک تو در حقیقت دوئی سے پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے کہ انسان کے سوا دنیا کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی صفات کو کی ظاہر کرتا اور اس کی سبوحیت کو بیان کر رہا ہے پس اگر کوئی شرک کی چیز باقی رہ گئی تو وہ صرف انسان کا وجود ہی ہے.یہی چیز ہے جو کبھی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں دوسرے خدا قرار دیتی ہے، کبھی خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق دوسری چیزوں کو دے دیتی ہے، کبھی خدا تعالیٰ کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھتی ہے.کبھی اس کی صفات میں نقائص پیدا کرتی ہے، کبھی بری چیزیں اس کی طرف منسوب کرنے لگ جاتی ہے.کبھی ان چیزوں کو خدا بنا دیتی ہے جن کو خدا نے اس کے تابع بنایا ہے اور کبھی اپنے میں سے کسی آدمی کو خدا تعالیٰ کی صفات دے دیتی ہے.باوجود ایک کمزور مخلوق ہونے کے یہ عجوبہ چیز خدا تعالیٰ سے بھی بڑھ کر کام کر کے دکھانا چاہتی ہے.یعنی صفات کا وہ کامل ظہور جو خدا تعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص کر دیا ہے، یہ ان کا خلعت بھی دوسرے لوگوں کو بخش دیتی ہے.گویا انسان کہلاتے ہوئے خدا گر بنا چاہتی ہے.اس مخلوق میں اگر فی الحقیقت خدائی صفات جلوہ گر ہوجائیں، اگر تمام انسان اپنے اندر ربوبیت عالمین اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیتِ يَوْمِ الدِین کی صفات کا پرتو پیدا کر لیں تو پھر دنیا میں سوائے خدا کے اور کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے.انسانوں کے سوا تو باقی چیزیں پہلے ہی سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہیں.انسان ہی ہے جو اس میں رخنہ ڈالتا ہے اگر وہ بھی ان صفات کا حامل ہو جائے اور بجائے ایک علیحدہ وجود رکھنے کے صرف خدا تعالیٰ کیلئے ایک آئینہ بن جائے جس میں دنیا خدا تعالیٰ کی صورت دیکھے تو بتاؤ شرک کیلئے کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے.سب جگہ پر خدا ہی خدا کا جلوہ نظر آ جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی.یہی مقام توحید ہے جس کے قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے اور انہیں حکم دیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ خود تو حید کے مقام پر کھڑے ہوں بلکہ دوسروں کو بھی اس مقام کی دعوت دیتے چلے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تو حید دنیا میں قائم ہوتی چلی جائے اور شرک مٹتا چلا جائے ، نہ صرف زبانوں کے ذریعہ سے بلکہ اعمال کے ذریعہ سے بھی اور نہ صرف دعوی کے ساتھ بلکہ حقیقت کے ساتھ بھی.
خطبات محمود ۶۳ سال ۱۹۳۷ء پس مومن کو ہمیشہ ان چار صفات کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ کس حد تک ان صفات کا مظہر بننے میں کامیاب ہو سکا ہے.میں صرف پہلی صفت کو ہی اس وقت لیتا ہوں اور اس کے بھی صرف چند پہلو بیان کر کے اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کیا واقعہ میں ربوبیت عالمین کی صفت ان میں پیدا ہو چکی ہے.ربوبیت عالمین میں جن باتوں کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سے ایک دوام ہے.رب العلمین بتاتا ہے کہ وہ رب تھا اور ربّ ہے اور وہ رب رہے گا.جو چیز کسی وقت بھی ربوبیت کی میں ناغہ کرتی ہے وہ رَبِّ العلمین نہیں کہلا سکتی کیونکہ ناغہ کا وقت اُس کی ربوبیت سے خارج ہو جاتا ہے اور رب العلمین ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کوئی چیز اور کوئی وقت بھی اس کی ربوبیت سے خالی نہ ہو.پس رَبِّ العالمین کی صفت ہم کو اپنے اعمال میں دوام کی طرف توجہ دلاتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی ایک بیوی سے فرمایا کہ اچھی عبادت وہ ہے جو اَدْوَمُهَا ہے ہو یعنی نیکیوں میں سے اور عبادتوں میں سے پائیدار ہو ، جس میں ناغہ نہ کیا جائے اور جسے چھوڑا نہ جائے الله اور جو ہمیشہ کیلئے انسان کے اعمال کا نجو و ہو جائے.یہ در حقیقت رسول کریم ﷺ نے رَبّ العالمین کی صفت کی ایک تشریح فرمائی اور متوجہ کیا کہ عبادت اور نیکی بھی نیکی ہوسکتی ہے جبکہ انسان اُس کو دائمی طور پر اختیار کرے اور گویا اس طرح آپ نے ربوبیت عالمین کی صفت پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس کی میں کیا شبہ ہے کہ جس چیز کو انسان کبھی لے لیتا ہے اور کبھی چھوڑ دیتا ہے ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ اس کو اچھا سمجھتا ہے.کیونکہ اگر وہ اسے فی الحقیقت اچھا سمجھتا تو اسے چھوڑتا کیوں.جس وقت کیلئے وہ اسے اختیار کرتا ہے اس کے متعلق ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نقل کر رہا تھا یا ایک عارضی جذ بہ کے نیچے اس کی روح دب گئی تھی یا یہ کہ وہ نفاق کے طور پر ایسا کام کر رہا تھا.لیکن جب کوئی شخص ایک چیز کو کلی طور پر اختیار کر لیتا ہے اور اسے کبھی نہیں چھوڑتا تو اس چیز کے متعلق ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ یا تو اسے نیکی سمجھ کر اختیار کر رہا ہے یا عادتوں کے ماتحت اس کے ظلم کا شکار ہو رہا ہے اور اس کے مقابلہ کی اس میں طاقت نہیں ہے.غرض یا تو وہ اسے نیکی سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے یا اس چیز کا قیدی ہے کہ باوجود آزادی کی خواہش کے آزاد نہیں ہو سکتا اور یہ آخری بات ایسی نہیں کہ اس کا اس شخص یا دوسروں کو پتہ نہ لگ سکے.پس ربوبیت عالمین انسان کی انہی صفات سے ظاہر ہوتی ہے جن کو وہ دائمی طور پر اختیار کر لیتا ہے اور جن میں وہ کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتا.ایک شخص جو نماز کا پابند ہوتا ہے اگر وہ کبھی کبھی بیچ میں ناغہ.
خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۷ء کر دے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ نماز کا پابند ہے اور اس نیکی کے ذریعہ ربوبیت عالمین کی صفت ظاہر کر رہا ہے.یا مثلاً ایک شخص کسی کسی وقت غریبوں پر رحم کر دیتا ہے اور کبھی اس بات کو چھوڑ بھی دیتا ہے، کبھی لوگوں کی مصیبتیں اُس کے دل میں درد پیدا کرتی ہیں اور کبھی وہ اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے ربوبیت عالمین کی صفت ظاہر کی ہے.اس کے رحم کو ہم کمزوری سمجھیں گے اور ی نیکی قرار نہیں دیں گے.لیکن اگر ایک شخص ہمیشہ اپنے دل میں لوگوں کیلئے رحم محسوس کرتا ہے اور دوسروں کیلئے قربانی کی روح اس میں کبھی سرد نہیں ہوتی تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شخص واقعہ میں نیک ہے اور رَبِّ العلمین کی صفت کا مظہر ہے.یا مثلاً ایک شخص ایک وقت میں دین کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور زمانہ ، جہاد میں جہاد کے ذریعہ اور زمانہ تبلیغ میں تبلیغ کے ذریعہ اپنی جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہلکان کرنے کیلئے آمادہ رہتا ہے.کبھی تو اس کے اعمال میں ایک جوش اور فدائیت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی وہ ان کاموں کو چھوڑ کر خاموشی سے اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے.خدا کی آواز بلند ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے فرشتوں کی پکار اونچی ہوتی چلی جاتی ہے اور اُس کے بندوں کی ندا ئیں جو کو بھر دیتی ہیں مگر اس کے دل میں کوئی حرکت ہی پیدا نہیں ہوتی.گویا اس کیلئے جہاد اور تبلیغ بے معنے الفاظ ہیں اور اس کو ان میں کوئی لذت ہی نہیں ملتی تو ہی کس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے شخص نے جب جہاد کے وقت میں جہاد کیا تھا یا تبلیغ عام کے وقت میں تبلیغ کی تھی اُس وقت اس نے یہ کام نیکی سمجھ کر کئے تھے.کیونکہ اگر واقعہ میں وہ انہیں نیکی سمجھتا تو اب کیوں خاموش رہتا اور کیوں اس کے دل میں آج وہی آوازیں سن کر پھر جوش نہ پیدا ہو جاتا.ہم تو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ جس وقت اُس نے وہ کام کئے تھے کسی عارضی جوش یا خود غرضی یا کسی دھوکا کے کی ماتحت کئے تھے.لیکن اگر اس کے خلاف ایک دوسرا شخص ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر حالت میں جب خدا اور اس کے مقرر کردہ بندوں کی آواز سنتا ہے تو فوراً قربانی اور ایثار کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر جہاد کا وقت ہو تو امام کے آگے پیچھے، دائیں بائیں لڑنے کیلئے تیار رہتا ہے.اور اگر تبلیغ کا وقت ہو تو نکل کھڑا ہوتا ہے.تو ایسے شخص کے متعلق ہم مجبور ہوں گے کہ ایمان رکھیں اور یقین کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین کا مظہر ہے اور ہر زمانہ میں بادی ہونا اُس کی روح کی غذا بن گیا ہے اور اسی طرح اور نیکیوں کا حال ہے کہ ان کے متعلق اگر استقلال کے ساتھ کوئی شخص قائم ہوتا ہے تو ہم اُس کو واقعہ میں نیک کہہ سکتے ہیں.لیکن اگر استقلال کے ساتھ ان پر قائم نہیں ہوتا یا لوگوں کو دھوکا دیتا ہے تو ایسا شخص ہرگز
خطبات محمود 13 سال ۱۹۳۷ء صفات الہیہ کا مظہر نہیں.پس ہمارے دوستوں کو دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعہ میں انہوں نے اپنے نیک اعمال میں دوام حاصل کر لیا ہے.اگر ایسا نہیں تو ان کیلئے خوف کا مقام ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی بہت سے کاموں میں ہماری جماعت نے دوام کا مقام حاصل نہیں کیا.ان کی مثال اُس سوئے ہوئے بچے کی طرح ہے جسے صبح کے وقت ایک متقی ماں نماز کیلئے جگا دیتی ہے.جب اُس کی ماں اُس کو بستر پر بٹھا دیتی ہے تو ماں کے سہارے وہ بیٹھ جاتا ہے لیکن پھر بیٹھا بیٹھا ہی سو جاتا ہے.جب ماں اس کو اس غفلت میں دیکھتی ہے تو پکڑ کر وضو کرنے کی جگہ پر لے جاتی ہے پھر وہاں جا کر بیٹھ جاتا ہے اور وہیں سو جاتا ہے.پھر کی ماں اُسے جھنجھوڑتی ہے اور وضو کراتی ہے.وضو کرنے کے بعد جب جسم کے سُوکھنے کا یہ کچھ دیر انتظار کرتا ہے تو پھر سو جاتا ہے اور ماں پھر آ کر اُسے اُٹھاتی اور سنتیں پڑھواتی ہے اور پھر اُسے نماز کیلئے باہر بھیج دیتی ہے.وہ مسجد میں پہنچتا اور نماز شروع کر دیتا ہے مگر کبھی سجدہ میں سو جاتا ہے اور کبھی تشہد میں.کبھی ساتھ والے نمازیوں کی حرکت سے اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور کبھی وہ خواب غفلت میں پڑا ہی رہ جاتا ہے.خدا کی عبادت کرنے والے عبادت کر کے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور وہ بیچارا وہیں نیند کا شکار ہوا پڑا رہتا ہے.بہت سے دوستوں کی حالت میں دیکھتا ہوں ایسی ہی ہے.جب انہیں کہا جاتا ہے کہ نمازیں پڑھو تو وہ نمازوں میں مشغول ہو جاتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے چندے دو تو وہ چندے دینے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں میں ڈھیلے ہو جاتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے کہ تبلیغ کرو تو وہ تبلیغ کرنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں میں سست ہو جاتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے روزے رکھو تو روزے رکھنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں اور تبلیغ میں سستی آجاتی ہے.غرض جس طرح ایک چھوٹا بچہ ہر وقت سہارے کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی توجہ صرف ایک ہی چیز کی طرف رکھ سکتا ہے ان کی توجہ محدود رہتی ہے اور پھر اس میں بھی سہارے کی محتاج.اگر تحریک جدید پر ہمارے دوست غور کریں تو وہ اُنہیں مسائل جو میں نے اس میں بیان کئے تھے.اول تو وہ دیکھیں گے کہ ان کو سارے یاد بھی نہیں اور پھر وہ محسوس کریں گے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کی طرف وہ ایک ایک وقت میں متوجہ رہے ہیں.جب چندے کا زور ہوا تو چندہ دینے لگے اور
خطبات محمود ۶۶ سال ۱۹۳۷ء جب تبلیغ کا زور ہوا تو تبلیغ میں مشغول ہو گئے اور جب دعا کی تحریک ہوئی تو دعاؤں میں لگ گئے اور جب سادہ زندگی پر زور دیا گیا تو اُس کی طرف توجہ کرنی شروع کر دی.جب ہاتھ سے کام کرنے پر زور دیا تو کی ہاتھ سے کام کرنے لگ گئے اور پھر آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے.لیکن انہیں یا د رکھنا چاہئے کہ اس کی تحریک کی تکمیل تو اس کی چھ جہات کی تکمیل کے ساتھ ہی ہو سکتی تھی.اگر مکان کی ایک وقت میں ایک ہی دیوار قائم رہے تو وہ مکان حفاظت کا کس طرح موجب ہوسکتا ہے.اگر انسان ایک طرف توجہ کرے اور دوسری کو چھوڑ دے تو اسکے یہی معنے ہوں گے کہ جب وہ اپنے مکان کی دوسری دیوار کو کھڑا کرے تو پہلی کو گرادے.ایسا شخص کبھی بھی اپنے مکان کو مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.وہ تو گرا تا اور بناتا ہی رہے گا.نہ کبھی چھت پڑے گی اور نہ اس کا مکان رہائش کے قابل ہوگا.ایسا شخص تو بہت ہی قابلِ رحم ہے ورسب سے زیادہ رحم اسے اپنی جان پر آنا چاہئے.مگر کتنے ہیں جو اپنی جانوں پر رحم کر کے اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کرتے ہیں کہ نیکیوں میں دوام پیدا کریں اور یہ نہ ہو کہ ایک کو اختیار کرتے وقت دوسری کو چھوڑ بیٹھیں.اسی طرح ربوبیت عالمین میں ایک موٹی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کا فرو مومن کی طرف یکساں ہے یعنی وہ عالم کفار کی بھی پرورش کر رہا ہے اور عالم مومنین کی بھی پرورش کر رہا ہے.گو عالم مومنین کی پرورش عالم کفار کی پرورش سے مختلف ہے مگر دونوں جگہ پر پرورش کا کام جاری ہے.کسی جگہ پر تو تبلیغ کے ذریعہ سے اس کی ربوبیت ظاہر ہوتی ہے لیکن کسی جگہ پر تربیت کے ذریعہ سے.کہیں وہ انذار کو ذریعہ ء ہدایت بناتا ہے تو کہیں انعام کو باعث ترقی بنادیتا ہے.غرض کسی کو ڈرا کر کسی کی ہمت بلند کر کے کسی کو خوف دلا کر کسی کو انعام اور عطیہ کے ساتھ وہ کھینچے ہوئے لئے چلا جاتا ہے اور یہی سبق مومن کو بھی حاصل کرنا چاہئے.اس کی توجہ کا فرو مومن کیلئے یکساں ہونی چاہئے ، گمراہ اور ہدایت یافتہ کیلئے یکساں ہونی چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اس دقت نظر سے ابھی وابستگی پیدا نہیں ہوئی.زیادہ تر ان میں سے وہی ہیں جو غیروں میں تبلیغ تو کر دیتے ہیں مگر اپنی جماعت کی تربیت کی طرف ان کی توجہ نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض نئے پیدا ہونے والے بچے سلسلہ کی تعلیموں اور سلسلہ کی اغراض سے بالکل ناواقف ہیں اور ان کا مذہب صرف ورثہ کا مذہب ہے اور وہ اسی طرح گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں جس طرح دوسرے فرقوں اور دوسری قوموں کے لوگ.
خطبات محمود ۶۷ سال ۱۹۳۷ء حالانکہ اللہ تعالیٰ مومن اور کا فردونوں کی طرف یکساں اپنے فضل کو بڑھاتا ہے.گوجیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ فضل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تعلیم اور تربیت کو مدنظر رکھیں اور ہمیشہ ایک بھائی دوسرے کیلئے مشعلِ راہ بنار ہے اور ماں اور باپ اپنے بچوں کی دینی تربیت ایسے طور پر کریں کہ آئندہ نسلیں اخلاص میں پچھلوں سے کم نہ ہوں بلکہ زیادہ ہوں اور نہ صرف اپنے بچوں کی خبر گیری کریں بلکہ اپنے ہمسایوں اور محلہ کے بچوں کی بھی خبر گیری رکھیں.کیونکہ کئی ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور وہ تربیت کر ہی نہیں سکتے اور کئی ماں باپ دوسرے کاموں میں ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ وہ تربیت کیلئے وقت بھی نہیں نکال سکتے.پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے رب العلمین کی صفت کا ہم کو مظہر بنایا ہے تو پھر ہمارا فرض بھی تو ہے کہ ہم صرف اپنی نگاہ کو ایک محدود دائرہ میں مقید نہ رکھیں بلکہ ہماری نگاہ وسیع ہو اور ہمارے ہمسایوں اور محلے والوں کو بھی ہماری ان خوبیوں سے حصہ ملے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں عطا ہوئی ہوں.اگر ہمارے دوست اِن دو نکتوں کو یا درکھیں اور اپنی نیکیوں کو بے استقلالی کا شکار نہ ہونے دیں اور اپنی نظروں کو مقید ہونے سے بچائیں بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات وسیع ہیں ان کی نیکیاں بھی وسیع ہوں تو یقیناً ہماری جماعت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہو جائے کہ جس کے بعد کوئی تنزیل نہیں اور انہیں ایک ایسی فتح حاصل ہو جس کے بعد کوئی شکست نہیں.لیکن اگر یہی جگانے اور سونے کا ہی سلسلہ چلتا گیا تو ای انہیں یا درکھنا چاہئے کہ یہ دنیا فانی ہے اور کبھی اس دنیا سے جگانے والے بھی اُٹھ جاتے ہیں.پھر وہ ایسے سوئیں گے کہ جاگنا مشکل ہوگا اور ایسی غفلت کا شکار ہوں گے کہ جس کے آخر میں ہوشیاری کا پتہ نہ چلے گا.پس انہیں خدا تعالیٰ کی سنتوں کو کھولنا نہیں چاہئے اور اپنے اندر مومن والا استقلال اور مومن والی وسعتِ نظر پیدا کرنی چاہئے تا وہ خدا تعالیٰ کا مظہر اپنی ذات میں ہو جائیں اور خدا تعالیٰ براہ راست خودان پر اپنی نگاہ ڈالے.میں نے خطبہ کے شروع میں مومن کی مثال ایک آئینہ سے دی تھی.یہ مجھے خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ایک دفعہ رویا میں سمجھائی گئی تھی.ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں کھڑا ہوں اور میرے سامنے حکیم غلام محمد صاحب مرحوم کھڑے ہیں.نظر تو وہی اکیلے آتے ہیں مگر خیال ہے
خطبات محمود ۶۸ سال ۱۹۳۷ء یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں اور میں ان میں تقریر کر رہا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوں کہ دیکھو! ایک حسین انسان اپنے حسن کو آئینہ میں دیکھتا ہے اور اس آئینہ کو بڑا قیمتی سمجھتا ہے اور سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ سے اس کا حُسن اُسے نظر آتا ہے.لیکن اگر آئینہ میلا ہو جائے اور اس میں حسن پوری طرح نظر نہ آئے تو پہلے تو مالک اُسے صاف کر کے کام چلاتا ہے لیکن اگر وہ زیادہ میلا ہوتا چلا جائے تو ایک دن پھر ایسا آجاتا ہے کہ اس میں مالک کی شکل اچھی طرح نظر نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ میرے لئے بیکار ہے اور وہ اُٹھا کر اُسے پھینک دیتا ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے.یہ کہ کر میں نے شیشہ اُٹھایا اور زور سے زمین پر پھینک دیا اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور اس کے ٹوٹنے سے آواز پیدا ہوئی.میں نے کہا دیکھو! خدا تعالیٰ بھی بندوں سے ایسا ہی سلوک کرتا ہے.جس طرح اس خراب اور گندے شیشے کے ٹوٹنے سے ہمارے دلوں کو رنج نہیں ہوتا اُسی طرح خدا تعالیٰ بھی ایسے شخص کی پرواہ نہیں کرتا جو اُس کے حُسن اور چہرے کو دکھانے کے قابل نہیں رہتا.پس میں جماعت کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کیلئے آئینہ بناؤ.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے آئینے بھی میلے ہو جاتے ہیں، تم اپنے آپ کو صاف بھی کرتے رہو.بعض دفعہ صفائی دوسرے ہاتھ کی محتاج ہوتی ہے، انسان خود صفائی نہیں کر سکتا.ایسی صورتوں میں اپنے بھائی کی امداد کرو.اس کے متعلق بھی مجھے ایک رؤیا یا د آیا ہے جو بچپن کے زمانہ کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں زندہ تھے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُس وقت میں سکول میں پڑھا کرتا تھا اور میں نے سکول ۱۹۰۵ ء میں چھوڑا ہے.اس لحاظ سے یہ رویا ۱۹۰۳ ء یا ۱۹۰۴ ء کا ہے جبکہ میری عمر قریباً پندرہ سولہ سال کی تھی.میں نے دیکھا کہ ان کمروں میں سے ایک میں کہ جن میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکے آجکل پڑھتے ہیں یعنی وہ کمرے کہ جو کنویں کے سامنے ہیں.ان میں سے درمیانی کمرہ میں ہم کچھ لوگ بیٹھے ہیں گو وہ آدمی جو نظر آتے ہیں تھوڑے ہیں مگر خیال ہے کہ یہاں ساری دنیا کے لوگ جمع ہیں.ماضی کی حال اور مستقبل کے بھی.گویا وہ محشر کا دن ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی انتظار میں ہیں کہ آئے حساب لے اور فیصلہ فرمائے.ایک میز لگی ہوئی ہے جس کے سامنے ایک گری پڑی ہے اور چند فرشتے دائیں بائیں کھڑے ہیں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ ایک نہایت حسین نوجوان اُس کرسی پر آکر بیٹھ گیا اور رویا میں نے میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے اور ہم سب اس گھبراہٹ اور پریشانی میں حیران ہیں کہ کیا انجام ہوگا کہ
خطبات محمود ۶۹ سال ۱۹۳۷ء اتنے میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے سامنے کئے جانے کا حکم دیا اور اُس پر نگاہ ڈال کر فرمایا کہ اس شخص کو لے جاؤ اور جنت میں داخل کر دو.پھر ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے آگے لانے کا حکم دیا جو بظاہر نہایت حسین اور خوبصورت نوجوان تھا.جب وہ سامنے لایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی طرف دیکھا مگر اُس سے کوئی چی سوال نہیں کیا.گویا اس کی نظروں میں ہی سارے سوال ہو گئے.میں نے دیکھا کہ اس کا گوشت ، اس کی ہڈیاں اور اس کے تمام عضلے کھال کے اندر یوں نرم ہونے شروع ہوئے جیسے کوئی موم وغیرہ پگھل کر کی سیال ہو جاتی ہے.ہم نے محسوس کیا کہ اُس کی کھال کے نیچے کی ہر چیز پیپ بن گئی ہے اور وہ سر سے پیر تک پیپ کا تھیلا بن کر رہ گیا ہے.تب خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور جہنم میں داخل کر دو.اُس وقت میں نے ایک نہایت عجیب رحمت کا نظارہ دیکھا.فرشتوں نے جس وقت جنتی کو جنت کی میں داخل کیا تو دروازے کھول کر کیا اور جنت کی ہوائیں باہر والوں کو لگیں لیکن جس وقت دوزخی کوکی دوزخ میں داخل کیا تو دروازے کو نہایت تھوڑا سا کھولا اور آگے خود کھڑے ہو گئے اور اسے دھکیل کر اندر کر کے دروازہ فوراً ہی بند کر دیا تا وہاں کی مسموم ہوا ئیں دوسروں کو نہ چھوئیں.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کھڑا ہو گیا اور فرمایا کہ اس وقت بس اتنا ہی حساب لینا تھا.ابھی حشر کا دن نہیں آیا مگر شاید تم میں سے بعض لوگ اپنا انجام دیکھنا چاہتے ہوں.وہ اپنی پیٹھ کی طرف دیکھیں جس کی پیٹھ کی طرف کی کی دیوار کی کچھ اینٹیں پکی ہوئی ہوں گی وہ جنتی ہے اور جس کی کچی ہوں گی وہ دوزخی ہے.یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ چلا گیا اور ہم لوگ جو وہاں بیٹھے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے.کسی کو یہ جرات نہ تھی کہ مُڑ کر پیٹھ کی طرف دیکھے.ہم بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور وقت گزرتا گیا ، گزرتا گیا اور گزرتا گیا.جب ایک کافی عرصہ گزر گیا تو میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا.میں نے دیکھا کہ میرے دائیں طرف حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل بیٹھے ہیں.میں ان کی طرف جھکا اور کہا کہ مجھ سے تو پیچھے مڑ کر دیکھا نہیں جاتا.انہوں نے فرمایا میری بھی یہی حالت ہے.میں نے کہا مجھے ایک خیال آیا ہے میں آپ کی پیٹھ کے پیچھے دیکھتا ہوں اور آپ میری پیٹھ کے پیچھے دیکھیں.اس پر انہوں نے میری پیٹھ کے پیچھے دیکھا اور میں نے اُن کی پیٹھ کے پیچھے اور ایک ہی وقت میں ہم دونوں چلائے کہ پیچھے اینٹیں پکتی ہیں اور جیسا کہ شدید خوشی کی حالت میں جب وہ شدید مایوسی کے بعد پیدا ہوا انسان کے قومی مضمحل ہو جاتے ہیں ہمارے جسم ڈھیلے ہوکر زمین پر گر گئے اور میری آنکھ کھل گئی.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء میں آج کہ اس پر قریباً ۳۳ سال گزر گئے ہیں اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے اُسی طرح دیکھ رہا ہوں جس طرح کہ اُس وقت دیکھا تھا.یہ واقعات گہرے طور پر میرے دماغ میں منقش ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ اُس وقت کے جذبات آج کے جذبات نہیں ہو سکتے اور اُس وقت کی گھبراہٹ کا ن اندازہ تو آج لگایا ہی نہیں جاسکتا لیکن پھر بھی ظاہری نظارے بہت حد تک میرے دماغ میں مرسوم ہیں اور یہ رویا میں نے اس لئے سنایا ہے کہ کبھی کبھی انسان اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا اور شک وشبہ کی حالت میں پڑا رہتا ہے.اُس وقت بہترین تجویز یہی ہوتی ہے کہ تم اپنے بھائی کی پیٹھ کی طرف دیکھو اور وہ تمہاری پیٹھ کی طرف دیکھے.تم اس کی صفائی کرو اور وہ تمہاری صفائی کرے.یہ ایک بہترین طریق ہے اور كُونُوا مَعَ الصَّادِقِین سے کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے.دیکھو جھوٹا دوست جھوٹ بول کرتم کو تباہ اور انجام سے بے فکر کر دیتا ہے لیکن جب سچا دوست کچی بات تمہارے سامنے رکھتا ہے تو گودہ گراں گزرتی ہے مگر تمہارے انجام کو درست کرنے والی ہوتی ہے اور تمہاری عاقبت کو ٹھیک کر دیتی ہے.پس كُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ کے یہی معنی نہیں کہ بزرگوں اور ولیوں کی تلاش کرو.وہ معنی بھی ہیں اور میں انکار نہیں کرتا مگر یہ معنی بھی ہیں کہ قومی اصلاح کیلئے اس کے ساتھ تعاون کیا کرو جو تمہارے اور تمہارے متعلقین کے عیوب سے تمہیں واقف کرے اور ایسے دوست نہ بنا کر و جو جھوٹ بول کر تمہیں دھوکے میں رکھیں یہاں تک کہ وقت آجائے اور خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہیں دوزخ میں دھکیل دیں اور تمہارے لئے تو بہ کا وقت بھی نہ رہے.الْعِيَاذُ بِاللهِ الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۳۷ ء ) i بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل - التوبة: ١١٩
خطبات محمود اے Λ سال ۱۹۳۷ء سلسلہ احمدیہ میں نظام خلافت خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے تنئیس سالہ واقعات کی شہادت (فرموده ۲۶ / مارچ ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج سے ۲۳ سال قبل اس مقام پر اسی مسجد میں ہمارے سامنے ایک ایسا سوال پیش ہو ا تھا جو ہماری جماعت کیلئے زندگی اور موت کا سوال تھا.تاریخ آج کی نہ تھی لیکن مہینہ یہی تھا جبکہ جماعت کے مختلف نمائندوں اور احباب کے سامنے یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ آیا ہماری جماعت کا نظام اسلامی طریق کے مطابق خلافت کے ماتحت ہوگا یا مغربی طریق پر ایک انجمن کے ماتحت.میری عمر اس وقت پچیس سال دو ماہ تھی.دنیوی تجربہ کے لحاظ سے میں کوئی کام ایسا پیش نہیں کر سکتا تھا اور نہیں کر سکتا کہ جس کی بناء پر یہ کہا جا سکے کہ مجھے دنیا کے کاموں کا کوئی تجربہ حاصل تھا.سلسلہ کے تمام کام ایک ایسی جماعت کے سپر د تھے جو اُس وقت نظام خلافت کی شدید مخالف تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ نظام جماعت ایک انجمن کے ماتحت چاہئے جس کے پریذیڈنٹ کو کسی قدر اختیارات تو دے دیئے جائیں لیکن وہ کثرتِ رائے کا پابند ہو اور خلافت کا نظام چونکہ اس زمانہ کے طریق اور اس زمانہ کی رو کے خلاف ہے اور اس نظام میں بہت سے نقائص ہیں اس لئے اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ اول کی بیعت ایک پریشانی ،گھبراہٹ اور صدمہ کے ماتحت ہوئی تھی اور ضروری نہیں کہ جماعت پھر
خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۷ء اسی غلطی کا اعادہ کرے.اس کے برخلاف میں اور بعض میرے احباب اس بات پر قائم تھے کہ خلافت شریعت اسلامیہ کا ایک اہم مسئلہ ہے اور یہ کہ بغیر خلافت کے صحیح طریق کے اختیار کرنے کے جماعت اور سلسلہ کو کوئی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی.ہمارے متعلق کہا جاتا تھا کہ ہم لوگ صرف خلافت کے حصول کیلئے اس مسئلہ کو پیش کر رہے تھے اور اپنی حکومت اور طاقت کے بڑھانے کا ذریعہ اسے بنارہے تھے.جب میں نے دیکھا کہ اس تائید کو ایک غلط رنگ دیا جاتا ہے اور غلط پیرا یہ میں اسے پیش کیا جاتا ہے تو میں نے سمجھا کہ خدا تعالی کے فیصلہ کو کسی ایسے امر سے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے جس کا ازالہ ہمارے امکان میں ہو اور اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب کو جو اُس وقت اس تحریک کے لیڈر تھے اس غرض سے بلوایا تا ان کے ساتھ کوئی مناسب گفتگو کی جاسکے.اس مسجد کے دائیں جانب نواب محمد علی خان صاحب کا مکان ہے جہاں حضرت خلیفہ امسیح الاول نے وفات پائی تھی اس کے ایک کمرہ میں میں نے مولوی محمد علی صاحب کو بلوا کر کہا کہ خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں اور اپنے خیالات کو صرف اس حد تک محدود رکھیں کہ ایسا خلیفہ منتخب ہو جس کے ہاتھ میں جماعت کے مفاد محفوظ ہوں اور جو اسلام کی ترقی کی کوشش کر سکے.چونکہ صلح ایسے ہی امور میں ممکن ہوتی ہے جن میں قربانی ممکن ہو میں نے مولوی صاحب سے کہا جہاں تک ذاتیات کا سوال ہے میں اپنے جذبات کو آپ کی خاطر قربان کر سکتا ہوں لیکن اگر ی اصول کا سوال آیا تو مجبوری ہوگی کیونکہ اصول کا ترک کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.ہمارے اور ا آپ کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہم خلافت کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور خلافت کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں مگر آپ خلافت کے وجود کو نا جائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی ابھی ایک خلیفہ کی بیعت سے آپ کو آزادی ملی ہے اور چھ سال تک آپ نے بیعت کئے رکھی ہے اور جو چیز چھ سال تک جائز تھی وہ ج آئندہ بھی حرام نہیں ہو سکتی.آپ کی اور ہماری پوزیشن میں یہ ایک فرق ہے کہ آپ اگر اپنی بات کو چھوڑ دیں تو آپ کو وہی چیز اختیار کرنی پڑے گی جسے آپ نے آج تک اختیار کئے رکھا.لیکن ہم اگر اپنی بات چھوڑیں تو وہ چیز چھوڑنی پڑتی ہے جسے چھوڑنا ہمارے عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہے اور جس کے خلاف ہم نے کبھی عمل نہیں کیا.پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ وہ راہ اختیار کر لیں جو آپ نے آج تک اختیار کر رکھی تھی اور ہمیں ہمارے مذہب اور اصول کے خلاف مجبور نہ کریں.باقی رہا یہ سوال کہ جماعت کی ترقی اور اسلام کے قیام کیلئے کون مفید ہو سکتا ہے، سو جس شخص پر آپ متفق ہوں گے اُسے ہی ہم خلیفہ
خطبات محمود مان لیں گے.۷۳ سال ۱۹۳۷ء کسی غیر جانبدار شخص کے سامنے اگر یہ باتیں پیش کر دی جائیں تو وہ تسلیم کرے گا کہ میرا نقطہ نگاہ صیح تھا مگر مولوی صاحب یہی کہتے رہے کہ ہم کسی واجب الاطاعت خلیفہ کو ماننانا جائز سمجھتے ہیں اور جب میں نے کہا کہ آپ لوگ حضرت خلیفہ اول کو چھ سال تک مانتے آئے ہیں تو کہا کہ ایک بزرگ سمجھ کر ہم نے ان کی بیعت کر لی تھی.اس پر میں نے کہا کہ اب بھی کسی بزرگ کو خلیفہ مان لیں میں تیار ہوں کہ اُس کی بیعت کرلوں.مگر وہ کسی بات پر رضامند نہ ہوئے اور جب بحث لمبی ہوگئی تو طبائع میں سخت اشتعال پیدا ہوگیا کہ جماعت کسی فیصلہ پر کیوں نہیں پہنچتی.لوگوں نے کمرہ کا احاطہ کر لیا اور بعض نے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دیے اور اس میں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ بعض شیشے ٹوٹ گئے.جماعت کے افراد کہہ رہے تھے کہ باہر آ کر فیصلہ کریں یا ہم خود فیصلہ کرلیں گے.اُس وقت میں نے پھر مولوی صاحب سے کہا کہ دیکھئے ! یہ بہت نازک وقت ہے اور شدید تفرقہ کا خطرہ ہے میں آپ سے اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہوں جو آپ آج تک خود کرتے آئے ہیں اور آپ اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک جائز ہی نہیں.آپ کے خدشات کا میں نے ازالہ کر دیا ہے اس لئے آپ کے سامنے اب یہ سوال ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟ یہ نہیں کہ خلیفہ ہونا نہیں چاہئے.لیکن اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیوں اس قدر زور دے رہے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ لوگ کسے خلیفہ منتخب کریں گے.میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں کہ کے منتخب کریں گے لیکن میں خود اُس کی بیعت کرلوں گا جسے آپ چنیں گے.اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ لوگ ہم میں سے کسی کو منتخب کریں گے تو جب میں آپ کے تجویز کردہ کی بیعت کرلوں گا تو پھر چونکہ خلافت کے مؤید میری بات مانتے ہیں مخالفت کا خدشہ ہی پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں زور دے رہے ہیں.میں نے اُن سے کہا کہ میں اپنا دل چیر کر آپ کو کس طرح دکھاؤں.میں تو جو قربانی میرے امکان میں ہے کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن پھر بھی اگر آپ نہیں مانتے تو اختلاف کی ذمہ واری آپ پر ہوگی نہ کہ مجھ پر.یہ کہہ کر ہم وہاں سے اُٹھے اور اسی مسجد نور میں آگئے جہاں لوگ جمع تھے.بعض لوگوں کی رائے تھی کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کا نام تجویز کریں اور اس کیلئے وہ تیار تھے.مگر ابھی وہ لوگ اُٹھ ہی رہے تھے کہ مولوی محمد احسن صاحب نے خود کھڑے ہو کر میرا نام تجویز کر دیا.اُس وقت جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کیونکہ
خطبات محمود ۷۴ سال ۱۹۳۷ء بہت گھبراہٹ اور شور تھا اور سارا مجمع مجھے نظر بھی نہ آتا تھا مولوی محمد علی صاحب نے کچھ کہنا چاہا مگر لوگوں نے اُن کو روک دیا.میں نے بعد میں سنا کہ انہوں نے یہی کہنے کی کوشش کی تھی کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خلیفہ ہو مگر ان لوگوں نے جو اُن کے قریب بیٹھے تھے ان سے کہہ دیا کہ ہم آپ کی بات سنے کیلئے تیار نہیں ہیں.اس پر مولوی صاحب مجمع سے اُٹھ کر اپنی کوٹھی میں جہاں اب جامعہ احمد یہ ہے چلے گئے اور ی ان کے جانے کے بعد تمام جماعت کا رحجان میری طرف ہو گیا.حالانکہ جیسا مجھے بعض دوستوں نے بعد میں بتایا اُس وقت تک وہ اس کیلئے تیار تھے کہ مولوی صاحب کی بیعت کر لیں.خدا کی قدرت ہے مجھے بیعت کے الفاظ بھی یاد نہ تھے اور جب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو چونکہ میں چاہتا تھا کہ ابھی ٹھہر جائیں شاید صلح کی کوئی صورت نکل آئے.میں نے کہا کہ مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں ہیں لیکن مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی وہاں موجود تھے.وہ اُٹھ کر میرے قریب آگئے اور کہا کہ مجھے کی بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں کہتا جاتا ہوں آپ دُہراتے جائیں.میں نے اس پر بھی کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی لیکن لوگوں نے شور مچادیا کہ فوراً بیعت لی جائے.چونکہ میرا عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے، میں نے سمجھ لیا کہ اب یہ خدائی فیصلہ ہے اور میں نے بیعت لینی شروع کر دی اور اُس وقت بیعت لی جبکہ جماعت پراگندگی کی حالت میں تھی ، جبکہ تمام لیڈ ر مخالف تھے اور جب کہ وہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر یہ طریق اختیار کیا گیا تو ہم اُسے کچلنے کیلئے تمام ذرائع اختیار کریں گے.ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم جنہوں نے قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا وہ پہلے ان لوگوں کے ساتھ تھے مگر بعد میں بیعت میں شامل ہو گئے.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہاں سے جا کر مولوی صدر دین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس پر چالیس مومن اتفاق کریں وہ بیعت لے سکتا ہے.(حالانکہ اس سے مراد جماعت میں شامل کرنے کی بیعت ہے ( اطاعت کی نہیں ) ہم یہ کیوں نہ کریں کہ چالیس لوگوں کو جمع کر کے سید عابد علی شاہ صاحب کو خلیفہ بنادیں تا لوگوں کی توجہ ادھر سے ہٹ جائے.عابد علی شاہ صاحب کو الہام الہی کا دعوی تھا.اُن کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں کوئی عہدہ ملنے والا ہے چنانچہ انہوں نے عابد علی شاہ صاحب کو منوا بھی لیا لیکن لالٹین لے کر وہ ساری رات در بدر پھرتے رہے مگر انہیں چالیس آدمی بھی میسر نہ آئے.حالانکہ آبادی بہت کافی تھی اور ہزاروں اشخاص باہر سے بھی آئے ہوئے تھے.خدا کی قدرت
خطبات محمود ۷۵ سال ۱۹۳۷ء ہے اگر ان کو چالیس آدمی مل جاتے تو ممکن ہے اُسی وقت خلافت کا ڈھونگ رچاتے.لیکن اتنے آدمی بھی ہ ملے اور ادھر عابد علی شاہ صاحب کو دوسرے دن رؤیا ہوا اور انہوں نے آکر میری بیعت کرلی واللَّهُ أَعْلَمُ.یہ ان کی کوئی خیالی بات تھی یا اللہ تعالیٰ کا انہیں ہدایت دینے کا منشاء تھا.انہوں نے دوسرے روز آکر بیعت کر لی.لیکن پہلے چونکہ انہوں نے خلیفہ بننے کیلئے رضامندی کا اظہار کر دیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کی انہیں بڑی سخت سزا دی.بیعت کے کچھ عرصہ بعد وہ کہنے لگے کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ منتخب کیا ہے.میں نے کہا کہ آپ کا خدا بھی عجیب ہے کبھی تو آپ کو خلیفہ مقرر کرتا ہے اور کبھی بیعت کرنے کا حکم دیتا ہے.مگر وہ آہستہ آہستہ اس دعوی میں بڑھتے گئے اور آخر جماعت سے الگ ہو کر بیعت لینے لگ گئے.چند سالوں کے بعد جب طاعون پھیلی تو انہوں نے کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میرا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی الہام تھا.مگر دیکھو دونوں میں کتنا فرق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کے شائع ہونے کے بعد پانچ سات سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی بلکہ اس محلہ میں جس میں آپ کا گھر تھا پھیلتی رہی اور ان گھروں میں پھیلتی رہی جو آپ کے مکان کے دائیں بائیں واقع تھے اور پھر معمولی حالت میں نہیں بلکہ ایسی شدید تھی کہ تین تین، چار چار اموات ان گھروں میں ہوئیں مگر آپ کے مکان میں ایک چو ہا تک نہ مرا.لیکن سید عابد علی صاحب کے الہام کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کے گھر میں آنے والے بعض لوگ طاعون سے ہلاک ہوئے بلکہ وہ خود بھی اور اُن کی بیوی بھی اسی سال طاعون سے فوت ہو گئے.بیشک و ظاہری نماز روزہ کے پابند اور صوفی منش آدمی تھے مگر بعض لوگوں کے اندر ایک مخفی رنگ کا کبر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کی راہیں دکھا کر ہی قابو کرتا ہے اور بعد میں خدا تعالیٰ وه کا سلوک یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ الہام شیطانی تھا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ان کا تو یہ حال ہوا.ادھر وہ لوگ جو اپنے آپ کو جماعت کا لیڈر اور رئیس سمجھتے تھے اور جن میں سے ایک نے اس سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ اس پر آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہو گا مگر آج ہم دیکھ رہے ہی کہ دس سال گزرے پھر دس سال گزرے اور پھر تیسرے دس سالوں میں سے بھی تین سال گزر گئے.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس عمارت پر کسی عیسائی یا آریہ کا قبضہ نہیں بلکہ عیسائیوں اور آریوں کا مقابلہ کرنے والے احمدیوں کا ہی قبضہ ہے.اور جن کی
خطبات محمود ۷۶ سال ۱۹۳۷ء احمدیوں کا قبضہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتے اور طاقتور ہوتے جا رہے ہیں اور وہ شخص جس نے اسی مسجد میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنا چاہا تھا کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اس سال ان کے اخبار میں اعلان کیا جا رہا ہے کہ ہم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک کوئی واجب الا طاعت خلیفہ مقرر نہ کریں اور ہمیں چاہئے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو ایسا مان لیں.جس شخص کو میرے مقابلہ پر کھڑا کی کرنا چاہتے تھے وہ طاعون کا مارا ہوا اپنے گاؤں میں پڑا ہے اور جولوگ میرے مقابل پر یہ کہہ رہے تھے کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں وہ آج نا کام ہو کر اس مسئلہ کی طرف آرہے ہیں اور ۲۳ سال بعد پھر اسی نکتہ کی طرف کوٹتے ہیں.یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ صدر انجمن کا پریذیڈنٹ بھی ایسا ہونا چاہئے جو کم سے کم چالیس سال کی عمر کا ہو کیونکہ اس سے کم عمر میں عقل اور تجربہ پختہ نہیں ہو سکتا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ۲۵ سال عمر والے کو تو یہ نکتہ اسی وقت معلوم ہو گیا اور چالیس سال والے کو آج جبکہ وہ پینسٹھ سال کو پہنچ چکا ہے کی معلوم ہوا.مگر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے خلیفے بھی خلیفے ہوتے ہیں.ہمارا اور ان کا ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اب شاید اللہ تعالیٰ انہیں یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خلیفے وہی بناتا ہے.انسانوں کے بنانے سے کوئی واجب الاطاعت خلیفہ نہیں بن سکتا.الله دیکھو جماعت کتنے خطرات میں سے گزر رہی ہے اور غور کرو ان کو دبانا کس انسان کی طاقت میں تھا.کم سے کم وہ انسان تو نہیں دبا سکتا تھا جس کے متعلق دوست دشمن سب کی یہی رائے تھی کہ یہ ان نا تجربہ کار نو جوان ہے.پھر سوچو کہ اس قدر شدید خطرات کے باوجود کون جماعت کو ترقی پر لے گیا ؟ کیا وہی خدا نہیں جس نے کہا ہوا ہے کہ خلیفے ہم بناتے ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ کام ایسے ہی لوگوں سے لیتا ہے جنہیں دنیا نالائق سمجھتی ہے.محمد رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کام کرنے والا کون ہو سکتا ہے.نہ آپ سے پہلے کوئی ایسا تھا نہ اب تک ہوا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہوگا.مگر دنیا نے آپ کی جوی قیمت سمجھی تھی وہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ بتا دی تھی یعنی وہ پتھر جسے معماروں نے رد کر دیا.بائبل میں یہ بتا دیا گیا تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کارخانہ عالم کے انجینئر (ARCHITECT) سمجھتے ہیں اور دنیا کی عام اصلاح کے مدعی ہیں جب محمد رسول اللہ ﷺ کا جو ہر اُن کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ ہمارے مطلب کا نہیں، مگر دنیا کے قیام اور زینت کا موجب وہی بنا.پھر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کام لیا.آج دشمن کہتے ہیں کہ آپ پاگل تھے مگر خدا کی
خطبات محمود LL سال ۱۹۳۷ء شان دیکھو کہ اُس نے آپ سے کتنا کام لیا.سب نبیوں کو اُن کے مخالف پاگل کہتے آئے ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ بہت اچھا پاگل ہی سہی مگر ہمیں تو اُس شخص کی ضرورت ہے جو ہمیں خدا سے ملا دے اور اسلام کو دنیا میں قائم کر دے.اگر پاگل سے یہ امور سرزد ہوں تو ہم نے فلسفیوں کو کیا کرنا ہے؟ بلکہ میں کہوں گا کہ لاکھوں فلسفیوں کو اُس کی جوتی کی نوک پر قربان کیا جاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے ابتدائی زمانہ میں لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب تو نَعوذُ بِاللهِ جاہل ہیں.سارا کام تو نور الدین“ کرتا ہے.زمانہ گزرتا گیا گزرتا گیا اور گزرتا گیا.پھر کہا گیا کہ نہیں ہماری غلطی تھی نورالدین صرف مضامین بتا تا ہے لکھنا اور بولنا نہیں جانتا.مرزا صاحب کی تحریر اور تقریر میں بجلیاں ہیں جس دن آپ فوت ہوئے یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.تب اللہ تعالیٰ نے نورالدین کو خلیفہ مقرر کیا جن کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ لکھنا اور بولنا نہیں جانتے.اس وقت تو لوگوں نے بیعت کر لی مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بعض نے کہا یہ ستر ا بہتر ہے، لائی لگ ہے، کمز ور طبیعت ہے اور اگر اس مسئلہ کا فیصلہ اس کے زمانہ میں نہ کرایا گیا تو پھر نہ ہو سکے گا کیونکہ یہ تو ڈر جاتا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت خلیفہ اول نے مسجد مبارک کے اوپر ان کو بلایا.مولوی محمد علی صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب کے علاوہ جماعت کے دوسرے دوست بھی بکثرت تھے.آپ نے فرمایا کہا جاتا ہے کہ تمہارا کام صرف نمازیں پڑھانا، درس دینا اور نکاح پڑھانا ہے مگر میں نے کسی کو نہیں کہا تھا کہ میری بیعت کرو تم خود اس کی کی ضرورت سمجھ کر میرے پاس آئے.مجھے خلافت کی ضرورت نہ تھی لیکن جب دیکھا کہ میرا خدا مجھے بلا رہا ہے تو میں نے انکار مناسب نہ سمجھا.اب تم کہتے ہو کہ میری اطاعت تمہیں منظور نہیں.لیکن یاد رکھو اب میں خدا کا بنایا ہو ا خلیفہ ہوں اب تمہاری یہ باتیں مجھ پر کوئی اثر نہیں کر سکتیں.یا درکھو خلفاء کے دشمن کا نام قرآن کریم نے ابلیس رکھا ہے.اگر تم میرے مقابل پر آؤ گے تو ابلیس بن جاؤ گے آگے تمہاری مرضی کی ہے چاہے انیس بنو اور چاہے مومن.اس پر میری آنکھوں نے ان لوگوں کے چہرے زرد دیکھے ہیں.جماعت میں اس قدر جوش تھا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اگر حضرت خلیفہ اول نہ ہوتے تو لوگ شاید ان کو جان سے مار ڈالتے.پھر میری آنکھوں نے وہ نظارہ بھی دیکھا ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الا قول کے حکم سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب آگے بڑھے اور دوبارہ بیعت کی.گویا جسے وہ کہتے تھے کہ کمزور
خطبات محمود ۷۸ سال ۱۹۳۷ء دل ہے خدا تعالیٰ نے طاقتوروں کو اُس کے مقابل پر کھڑا کیا ، پھر اُس کمزور دل سے اُن کو شکست دلوائی اور دنیا پر ظاہر کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی وہ خود ہی کام کرنے والا تھا.پھر ان لوگوں نے کہا کہ بڑھا تجربہ کار اور خرانٹ تھا.تھا تو نرم دل مگر تجربہ کا راور عالم تھا.تب کی اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو چنا جو پرائمری میں بھی فیل ہوتا رہا تھا.جس نے کبھی کسی دینی مدرسہ میں بھی پڑھائی نہ کی تھی.صحت کمزور تھی اور عمر صرف ۲۵ سال تھی.جسے کبھی کوئی بڑا کام کرنے کا موقع نہ ملا تھا اور کوئی تجربہ کار نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم کہتے تھے نور الدین بڑھا، تجربہ کار اور علم والا تھا آؤ ہم اب اس سے کام لے کر دکھاتے ہیں جو نہ عمر رسیدہ ہے اور نہ عالم.میرے خلاف تو سب سے بڑا اعتراض ہی یہ تھا کہ بچہ ہے ، نا تجربہ کار ہے.پھر اس بچہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جس طرح شکستیں دی ہیں اور جس طرح ہر میدان میں ذلیل کیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے.اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اہم اسلامی مسائل کا فیصلہ میرے ذریعہ سے کرایا ہے وہ سب کے سامنے ہے.وہ کونسا مسئلہ ہے جو پوشیدہ تھا اور خدا نے میرے ذریعہ سے اسے صاف نہیں کرایا.کئی معارف چھپے ہوئے موتیوں کی طرح پوشیدہ پڑے تھے.جنہیں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ نکلوایا ہے.ایک طرف جماعت کی ترقی اور دوسری طرف اسلام کی ترقی کا کام اللہ تعالیٰ نے اس بچہ سے لیا اور اُن مطالب کا اظہار کیا جن سے دنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے اور کی اُٹھاتی رہے گی.مخالفوں نے کہا دراصل پیچھے اور لوگ کام کر رہے ہیں اور بعض نے کہا کہ مولوی محمد احسن کا جماعت میں رسوخ تھا ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ سب کارخانہ چل رہا ہے.اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب کو ایسا ابتلا آیا کہ وہ لاہور چلے گئے اور جا کر اعلان کیا کہ میں نے ہی اسے خلیفہ بنایا تھا اور میں ہی اسے معزول کرتا ہوں.مگر خدا تعالیٰ نے کہا کہ تم کون ہو خلیفہ بنانے والے؟ اور چونکہ تم نے ایسا دعویٰ کیا ہے اس لئے ہم تمہیں قوت عمل سے ہی محروم کرتے ہیں.چنانچہ اُن پر فالج گراپھر وہ کی قادیان آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اور روروکر کہا کہ میرے بیوی بچوں نے مجھے گمراہ کیا ورنہ دل سے تو میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں.سید حامد شاہ صاحب پُرانے آدمیوں میں سے تھے اور بہت کام کرنے والے، خدا تعالیٰ کی حکمت ہے وہ جلد فوت ہو گئے اُن کو بھی پہلے ابتلا آیا تھا مگر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہدایت کی دے دی اور وہ بیعت میں شامل ہو گئے.ان کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں جو ابتلا میں ہیں اور بجائے سلسلہ کی
خطبات محمود ۷۹ سال ۱۹۳۷ء ترقی کا موجب ہونے کے وہ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں.تا خدا تعالیٰ کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور وہ بتا دے کہ وہ خود کام کر رہا ہے میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور یہ ایک سچائی ہے جس کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان یا قلم سے قرآن کریم کے جو معارف بیان کرائے ہیں یا جو اور کوئی کام مجھے کی سے لیا ہے مجھ سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نہ ہوگا اگر میں کہوں کہ یہ میرا کام ہے.میں جب بھی بولنے کیلئے کھڑا ہوا ہوں یا قلم پکڑا ہے میرا دماغ بالکل خالی ہوتا ہے.شاید سو میں سے ایک آدھ دفعہ ہی ہو جب کوئی مضمون میر ا سوچا ہو ا ہوتا ہے ورنہ میرا ذہن بالکل خالی ہوتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ سب کچھ اُسی کا ہے جس کا یہ سلسلہ ہے.اگر میں اس پر اتراؤں تو یہ جھوٹی بات ہوگی ہاں جو غلطی ہو وہ بے شک مجھ سے ہے.بھلا ایک انسان جو ظاہری علوم سے بالکل ناواقف اور بے بہرہ ہو وہ ان باتوں کو کیسے نکال ہے.جو شاید آئندہ صدیوں تک اسلام کی ترقی کیلئے بطور دلیل کام دیں گی جیسے تعزیرات ہند ہندوستان کے لئے کام دیتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ غیر احمدی بھی اُن دلائل کو استعمال کر رہے ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں.تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم یعنی ترک سود، زکوۃ اور وراثت کا قیام یہ تین نکات والی سہ پہلو عمارت کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ پچھلی صدیوں میں کسی نے تیار کی ہو.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی توفیق دی ہے اور میں نے ان مسائل کو بیان کیا.پھر اور سینکڑوں مسائل ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے سکھائے.سکتا.پس یہ سلسلہ خدا کا ہے آدمیوں کا نہیں.اللہ تعالیٰ ہی اسے بڑھائے گا.انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں.صرف ایک بات ہے جسے تمہیں یاد رکھنا چاہئے.جب تک تمہارے اندر اطاعت اور فرمانبرداری رہے گی وہ نور تم کو ملتا رہے گا.لیکن جب اطاعت سے منہ موڑو گے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جاؤ اب تو جوان ہو گئے ہو، اپنی جائداد سنبھالو.تب تم محسوس کرو گے کہ تم سے زیادہ کمزور اور کوئی نہیں.حضرت علیؓ کے بعد بھی مسلمانوں نے فتوحات حاصل کیں.ملک فتح کئے علمی تمدن اور سیاسی غلبے پائے.مگر جو برکت ، جوڑ عب، جو دبدبہ اور جو شوکت حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت على رَضْوَانَ اللَّهِ عَلَيْهِمْ کے زمانہ میں تھی وہ تیرہ سو سال میں پھر حاصل نہیں ہوئی.اُس وقت تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے سر پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کوئی ہے جو ہمار- ہمارے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء مقابل پر آئے.گویا خدا تعالیٰ کے فرشتے اُن کے رگر دکھڑے پہرہ دے رہے تھے.حضرت علیؓ کے وقت میں بعض بدبختوں نے اختلاف کیا جس سے ایسا تفرقہ پیدا ہوا کہ جو تیرہ سو سال میں بھی نہیں مٹا.اب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اتحاد کی بنیاد رکھی ہے اور آپ سے خدا تعالیٰ نے دوبارہ وعدہ کیا ہے کہ نصرت بالرغب، اور یہ رعب چلتا جائے گا.جب تک تم اس فیصلہ کا احترام کرو گے جو ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء کو اس مسجد میں تم نے کیا تھا.لیکن جب اس میں تزلزل آیا اللہ تعالیٰ بھی اپنی نصرت کو کھینچ لے گا جو اُس نے اس مسجد میں تمہارے فیصلہ کے بعد نازل کی تھی.جب تک تم اس فیصلہ میں تبدیلی نہ کرو گے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيرُوا مَا بِأَنفُسِهِم لے وہ بھی نصرت کو واپس نہیں لے گا.اُس وقت تک تمام حکومتیں اور تمام طاقتیں تم سے ڈریں گی اور ہر ترقی پر تمہارا قدم ہوگا.دنیا کی تمام اقوام تمہارے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کریں گی اور تمہارا سرسب سے اونچا ہوگا.ابھی تو یہ ایک پیج ہے ، ایک کونپل پھوٹی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک مضبوط درخت بنے گا جس پر دنیا کے بڑے بڑے حاکم آرام کیلئے گھونسلے بنائیں گے.لیکن جس دن تم اس فیصلہ کو بُھول جاؤ گے خدا نہ کرے اُس دن کے تصور سے بھی دل کانپ اُٹھتا ہے جب تم کہو گے کہ خدا نے کی خلیفہ کیا بنانا ہے ہم خود بنائیں گے.تب فرشتے تبر لے کر آئیں گے کہ لو ہم اس درخت کو کاٹتے ہیں جسے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے لگایا تھا مگر تم نے اس کی قدر نہ کی.اب تم اپنے باغ لگاؤ اور مزے اُڑاؤ.پچھلوں کی نے اس غلطی کا تجربہ کیا خدا نہ کرے کہ تم بھی کرو لیکن خدا نخواستہ اگر کبھی ایسی غلطی کی گئی تو دنیا دیکھ لے گی کہ تم صدیوں میں ایک درخت بھی نہ لگا سکو گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ پھر کوئی ما مور مبعوث کرے.(الفضل ۳ اپریل ۱۹۳۷ء) تذکرہ صفحہ ۶۶۹.ایڈیشن چہارم الرعد: ۱۲
خطبات محمود ΔΙ سال ۱۹۳۷ء شکر الہی اور انسداد رفتن کیلئے روزے رکھے جائیں (فرموده ۲ را پریل ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں پاؤں کے درد کی وجہ سے آج جمعہ میں آتو نہیں سکتا تھا لیکن چونکہ اس دفعہ روزوں کے متعلق اور ششماہی جلسوں کے متعلق جن میں تحریک جدید کے بارہ میں احباب کو یاد دہانیاں کرائی جاتی ہے ہیں اور ان کو ان کے فرائض کی طرف جو انہوں نے خوشی سے اپنے نفس پر عائد کئے ہوئے ہیں توجہ دلائی جاتی ہے ، ابھی تک میں تحریک نہیں کر سکا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مختصر الفاظ میں ان امور کے متعلق اعلان کر دوں تا کہ دیر ہو جانے کی وجہ سے بات اور زیادہ دُور نہ جاپڑے.روزوں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے سالوں میں ہم پیر اور جمعرات کے روزے رکھ چکے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض فتنے اپنے فضل سے دور کر دیئے لیکن بعض فتنے ابھی باقی ہیں.اس لئے اس سال ہم پر دوہری ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور ہمیں کچھ تو شکریہ کے روزے رکھنے کی چاہئیں اور کچھ بقیہ ابتلاؤں کے دور ہونے کیلئے روزے رکھنے چاہئیں.اس لئے اس سال میری تجویز یہی ہے کہ بجائے اس کے کہ چالیس یا بیالیس دنوں کے اندر ہم سات روزے پورے کریں ہم ایسا طریق اختیار کریں کہ جو رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے.وہ بھی ایک رنگ میں پورا ہو جائے اور ہمارے شکریہ کے بھی روزے ہو جائیں اور دعاؤں کے بھی روز- ہو جائیں اس لئے اس سال میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اپریل سے لے کر اکتوبر تک جو سات مہینے بنتے
خطبات محمود ۸۲ سال ۱۹۳۷ء ہیں ان میں ہم ہر مہینہ کے پہلے ہفتہ میں پیر کا اور ہر مہینہ کے آخری ہفتہ میں جمعرات کا روزہ رکھیں.اس کی طرح چودہ روزے ہو جائیں گے اور گو ہر ہفتہ کے پیر اور جمعرات کا روزہ نہیں ہوگا مگر ہر مہینہ میں ایک پیر اور ایک جمعرات کا روزہ ہو جائے گا اور ہماری دعائیں سات مہینوں میں پھیل جائیں گی.ان چودہ روزوں میں سے سات روزے تو شکریہ کے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض فتنے دور کر دیئے اور سات روزے اُن ابتلاؤں کیلئے ہوں گے جو ابھی قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دور کرے اور ان کے بداثرات سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے.وہ لوگ جن کی آنکھیں ہیں، جو واقعات کو دیکھ سکتے ہیں اور جن کی روحانی بینائی ماری ہوئی نہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے گزشتہ سالوں کے روزے دنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے والے ہوئے ہیں.اگر دنیا کی ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۴ ء کی تاریخ انسان اپنے سامنے رکھے اور پھر ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۳۶ء کی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالے تو وہ حیران ہو جائے گا کہ ان سالوں کی تاریخ میں کتنا عظیم الشان تغییر پیدا ہوا ہے.ان دوسالوں میں اللہ تعالیٰ نے یکدم ایسے تغیرات پیدا کئے اور دشمنانِ احمدیت پر ایسی تباہی ڈالی اور احمدیت کی ترقی کے ایسے سامان کئے اور ہمارے مذہبی اور سیاسی دشمنوں کو مغلوب کرنے کیلئے ایسے فوق العادت نشانات دکھلائے جو بالکل غیر معمولی اور حیرت ناک نظر آتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ابھی ہمارے لئے فتنوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں احرار کے فتنہ کا سر کچل دیا اور سیاسی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئے مگر مذہبی لحاظ سے وہ ابھی ڈینگیں مار رہے ہیں اور ان کے وہ زہر یلے دانت جو ان کے فاسد عقائد کے سر میں پائے جاتے ہیں گو کند تو ہو گئے ہیں مگر ٹوٹے نہیں.اسی وجہ سے ان کے کسی ایجنٹ نے بعض اخبارات میں اب یہ اعلان کرایا ہے کہ آئندہ احرار سیاسی کاموں سے اجتناب کریں گے اور خالص مذہبی کاموں تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں گے.غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسیات کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسی زک حاصل کر چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب اس میدان میں ان کیلئے کامیابی کا میسر آنا بالکل محال ہے.پس انہوں نے اپنی عقلوں سے کام لیتے ہوئے سمجھا ہے کہ دو جنگیں انہیں ایک وقت میں نہیں لڑنی چاہئیں.کیونکہ جب وہ سیاسی میدان میں کو دتے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی میدان میں بھی تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں اس لئے اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن سے مذہبی مخالفت ہوا نہی کے خلاف شور ،
خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۷ء کیا جائے تا کہ سیاسی لوگوں کی امداد اور ان کی تائید میسر رہے اور ساتھ ہی مذہب سے دلچپسی رکھنے والوں کا ایک حصہ بھی ان کی تائید میں کھڑا رہے.بیشک دنیوی نقطہ نگاہ سے یہ بات ٹھیک ہے مگر روحانی نقطۂ نگاہ سے یہ تجویز اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی معرفت کی ان کی قوم کو کہلوایا تھا کہ جاؤ اور اپنے ساتھیوں کو جمع کرو.یہاں بھی وہ اپنے ساتھیوں کو ہمارے خلاف جمع کرنے لگے ہیں.کیونکہ جب وہ سیاسی اختلافات کو ترک کر دیں گے اور خالص مذہبی اختلاف کا سوال رہ جائے گا تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے.پس اگر ان وہ سیاسی نقطہ نگاہ سے یہ طریق اختیار کریں اور اس پروگرام پر عمل کریں جس کا اخبارات میں ذکر آیا ہے تو تی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیوی نقطہ نظر سے اُن کی پارٹی مضبوط ہو جائے گی.کیونکہ پہلے وہ اپنی طاقت کا کچھ حصہ سیاست میں خرچ کرتے تھے اور کچھ مذہبی معاملات میں.لیکن اب ایک ہی طرف اپنی تمام طاقتوں کا رحجان رکھیں گے.گویا اجمعُوا أَمْرَكُم لے بھی ہو جائے گا.اب صرف ایک تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے جو میں انہیں یاد دلا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ اُن کی قوم کو یہ بھی توجہ دلائی تھی کہ نہ صرف تم اپنے سارے شرکاء کو جمع کرو اور نہ صرف ایک خاص پالیسی اپنے لئے تجویز کرلو بلکہ تمہارے سامنے ایک تفصیلی پروگرام بھی ہونا چاہئے تا مقابلہ کا کوئی طریق باقی نہ رہی جائے.سواگر یہ تیسری بات احرار کو یاد نہ ہو تو میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ قرآن کریم نے دُنیوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کا تیسرا طریق یہ بتایا ہے کہ نہ صرف تمہارے سامنے ایک پالیسی ہو بلکہ ایک مفصل پروگرام بھی ہونا چاہئے.جس پر گلی طور پر نظر ڈال کر اور عواقب اور انجام سوچ کر دیکھ لو کہ اگر دشمن نے یوں کیا تو ہم یوں کریں گے.اور اگر ہماری تدابیر کو اُس نے اس طرح باطل کیا تو ہم اس طرح کام کریں گے.گویا ضرر اور نقصان پہنچانے کے جس قد ر طریق ممکن ہیں وہ سب سوچ رکھیں اور پھر چوتھی بات یہ بھی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے کہلوائی کہ اچانک حملہ کر دو اور ہمیں ذرہ بھر بھی ڈھیل نہ دو پھر دیکھو کہ کون کامیاب ہوتا ہے.میں بھی احرار سے وہی کہتا ہوں جو حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا.مگر وہ یا درکھیں وہ افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سلسلہ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے.ان کے تمام اتحاد، ان کی تمام پالیسیاں اور ان کے تمام پروگرام هَبَاءً مَنْشُورًا کے ہوکر رہ جائیں گے اور انہیں اپنے مقصد میں ذرہ بھر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی.
خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۷ء ممکن ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری پالیسی اختیار کریں جس کا گوا بھی ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان نہیں ہو ا مگر مجھے اس کے آثار نظر آرہے ہیں.یعنی یہ کہ وہ فی الحال مذہبی جھگڑے چھوڑ دیں اور کانگرس کے ساتھ اتحاد کر لیں.ہماری کانگرس سے کوئی لڑائی نہیں.ملک کی آزادی کے متعلق است کے جو مقاصد ہیں اس سے ہم پوری طرح متفق ہیں.گو ان کے طریق کار اور ہمارے طریق کار میں اختلاف ہے اور ہم کانگرس میں کام کرنے والوں کے ایثار اور ان کی قربانیوں کے بھی قائل ہیں.مگر وہ ہمیں معاف رکھیں ، مذہبی معاملہ میں کسی کی رعایت نہیں کی جاسکتی.اگر احرار اس تدبیر کو بھی اختیار کریں اور وہ چاہیں کہ کانگرس سے مل کر جماعت احمدیہ کو کچل دیں تو گو یہ منظم پالیسی ہوگی لیکن جس طرح احرار کا حکومت سے اتحاد کامیاب نہیں ہوا کانگرس سے ان کا اتحاد بھی کامیاب نہیں ہوگا اور یا تو یہ اتحاد ٹوٹ جائے گا اور کانگرس ان کی خود غرضیوں پر آگاہ ہو کر ان سے الگ ہو جائے گی یا پھر دونوں ہی تباہی ہو جائیں گے.اور میں سمجھتا ہوں احرار جیسی بے اصول جماعت کسی جماعت سے اتحاد نہیں رکھ سکتی.میرا غالب گمان یہی ہے کہ جس طرح گورنمنٹ پر احرار کی حقیقت کھل گئی ہے اسی طرح کانگرس پر بھی یہ حقیقت کھل جائے گی کہ احرار ایک زرطلب جماعت ہے جس کا کوئی اصول نہیں ، اس کے ارکان اپنی ذاتی ترقی اور جاہ کے بھوکے ہیں اس کے علاوہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں.جس دن کا نگرس پر یہ تی حقیقت ظاہر ہوگئی اُس دن وہ کانگرس کی امداد سے بھی محروم ہو جائیں گے جس طرح ان حکام کی امداد سے یہ محروم ہو چکے ہیں جو پہلے ان کی پیٹھ ٹھونکتے اور انہیں بڑی بڑی امید میں دلاتے تھے.مگر یہ سب کچھ خدائی ہاتھوں سے ہوگا نہ کہ انسانی ہاتھوں سے.کیونکہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ایک کا دو سے مقابلہ ہو سکتا ہے، تین سے مقابلہ ہو سکتا ہے، دس بیس سے مقابلہ ہو سکتا ہے لیکن چند لاکھ کا کروڑوں سے کس طرح مقابلہ ہو سکتا ہے.پس ضروری ہے کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان فضلوں کا شکر ادا کریں جو اس کی نے ہماری سابقہ دعاؤں کو قبول کر کے نازل فرمائے وہاں ہم عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر پھر اس سے دعا کریں کہ اے خدا! تیرے فضلوں نے ہمارے بہت سے مصائب کو ٹال دیا ہے لیکن بہت سے مصائب ابھی باقی ہیں ، حکومت کی طرف سے بھی اور افراد کی طرف سے بھی ، منظم پارٹیوں کی طرف سے بھی اور متفرق لوگوں کی طرف سے بھی.پس تو آپ ہی ہم پر فضل فرما اور ہماری عاجزانہ التجاؤں کوسن.ہمیں
خطبات محمود ۸۵ سال ۱۹۳۷ء اپنے پاس سے وہ طاقت بخش جس سے ہم اسلام اور احمدیت کو تمام دنیا پر غالب کر سکیں اور ہمیں اس کی ہے اشاعت کی توفیق دے.ہماری زبانوں میں اثر اور ہمارے دماغوں میں روشنی پیدا کرتا کہ ہم وہی باتیں کہیں اور سوچیں اور سمجھیں جن سے دنیا میں تیرا جلال ظاہر ہو.ہمارے دلوں میں جذب پیدا کرتا کہ ہم ان تیری محبت اور پیار کو بھی جذب کریں اور تیرے ان بندوں کو بھی تیرے دین کی طرف کھینچیں جو تجھ سے برگشتہ ہو کر دنیا میں بھٹک رہے ہیں.اے خدا جس طرح مقنا طیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے ، اسی طرح مقناطیس ہم تیری محبت اور تیرے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں اور ہم وہ نقطہ مرکزی ہو جائیں جس پر خدا اور بندہ آپس میں مل جاتے ہیں اور ہمارا دل وہ گھر بن جائے جس میں خدا اور انسان کی محبت جاگزیں ہو جاتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جو ہم پر سابقہ سالوں میں فضل نازل ہوئے ان کا شکر ادا ہو نا گو محال ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کے معمولی شکر کو بھی قبول فرماتا اور اس کے عوض اپنی اور زیادہ برکات نازل کرتا ہے، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم سات روزے اس کے احسانات کے شکر میں رکھیں.گویا ی اپریل سے لے کر اکتوبر تک چودہ روزے ہماری جماعت کے احباب کو رکھنے چاہئیں.چونکہ میری یہ تحریک باہر دیر سے پہنچ سکے گی اس لئے اُن جماعتوں کیلئے جن تک یہ تحریر دیر سے پہنچے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جس جس ہفتہ میں بھی انہیں اطلاع پہنچے ، اس ہفتہ کے پہلے پیر کے دن وہ پیر کا روزہ رکھ لیں اور دوسرا روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کے دن رکھیں اور اگر بعض ایسے علاقے کی ہوں جہاں تحریک اس سے بھی دیر میں پہنچے تو وہ ایک روزہ تو اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں اور کی پھر اگلے مہینہ میں دو پیروں کے روزے رکھ لیں.ایک پہلے ہفتہ کے پیر کے دن اور ایک درمیانی ہفتہ کے پیر کے دن اور پھر چوتھا روزہ حسب معمول مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں.لیکن اگر بعض لوگ ہوتی ایسے ہوں کہ اُن کے ہاتھ سے اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کا روزہ بھی نکل جائے اور بعد میں انہیں اطلاع ہو تو وہ مئی کے مہینہ کے پہلے دو ہفتوں میں ہر پیر کے دن اور آخری دو ہفتوں میں ہر جمعرات کے دن روزہ رکھ لیں.اور اگر کوئی جماعت ایسی ہو کہ جسے دوسرے مہینہ میں بھی اطلاع نہ پہنچے تو وہ ان روزوں کو تیسرے مہینہ میں ڈال لے.بہر حال اکتوبر ہمارے روزوں کا آخری مہینہ ہوگا اور اس مہینہ تک ہمیں اپنے چودہ روزے ختم کر دینے چاہئیں.اس کوشش کے ساتھ کہ سات روزے ہم پیر کے دن رکھیں اور سات جمعرات کے دن.اس کے بعد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مئی کے دوسرے ہفتہ میں جو
خطبات محمود ۸۶ سال ۱۹۳۷ء اتوار 9 تاریخ کو ہے.اُس دن تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پر تحریک جدید کے متعلق جلسے منعقد کریں ، اور کوشش کریں کہ ان جلسوں سے پہلے پہلے تحریک جدید کے چندوں کا معتد بہ حصہ ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے ادا ہو جائے.مجھے افسوس ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ جمع کرنے میں بہت سستی دکھائی گئی ہے.گو پچھلے سال سے اس سال اس وقت تک دو تین ہزار کی زیادتی ہے.چنانچہ پچھلے سال اس وقت تک غالباً ۳۱ ہزار روپیہ آیا تھا اور اس سال ۳۴ ہزار آچکا ہے.مگر دراصل حساب کی رو سے چالیس ہزار سے اوپر آجانا چاہئے تھا.بلکہ اس لئے کہ میں نے خاص طور پر یہ تحریک کی تھی کہ اس سال تحریک جدید کے چندے کے مصرف ایسے ہیں کہ پہلی ششماہی پر اس کا زیادہ اثر پڑے گا اور اکثر جماعتوں اور افراد نے یہ اقرار بھی کیا تھا کہ وہ اپریل مئی تک اپنے اپنے وعدوں کی رقوم ادا کر دیں گے اس لئے دراصل موعودہ رقوم کے لحاظ سے اس وقت تک ساٹھ ہزار روپیہ آ جانا چاہئے تھا.میں جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں بیرونی تبلیغ اور وقتی تبلیغ کے اخراجات کے سلسلہ میں جو کمی صدرانجمن احمدیہ کے بجٹ میں ہوتی ہے، کیونکہ عملہ کے کثیر خرچ کی وجہ سے سائز کے لئے نسبتا کم رقم بچتی ہے.اس کمی کو میں مستقل جائدادوں کے ذریعہ پورا کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ تحریک جدید کی بہت سی جائدادیں میں نے صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خرید کی ہیں.ان جائدادوں کی قیمتوں کے لئے بھی ہمیں بہت بڑی رقوم کی ضرورت ہوگی.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس تحریک میں کسی رقم می کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے وہ اپنے وعدوں کو خصوصیت سے جلد پورا کریں.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صدر انجمن احمدیہ کے مستقل چندوں میں سستی کر کے اس طرف توجہ کی جائے.وہ چندے واجب ہیں اور تحریک جدید کا چندہ نفلی ہے اور گونفل کے پورا کرنے کے متعلق بھی انسان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو بوجھ تم نے اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے نفس کیلئے برداشت کیا تھا اُس کو کیوں نہیں اُٹھایا.لیکن بہر حال اس چندے کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں سستی نہیں ہونی چاہئے.ان جلسوں میں جو تحریک جدید کے متعلق منعقد کئے جائیں گے، تحریک جدید کے تمام شعبوں اور اس کے تمام مطالبات پر تقریریں کی جائیں اور دوستوں میں ہوشیاری اور بیداری پیدا کی جائے.انہیں سادہ زندگی کے متعلق بھی توجہ دلائی جائے.شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف
خطبات محمود AL سال ۱۹۳۷ء بھی توجہ دلائی جائے.امانت فنڈ کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.قادیان میں مکانات بنانے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.بیکاری سے بچنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی طرف کی بھی توجہ دلائی جائے.وقف زندگی کی تحریک کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.غیر ممالک میں نکل جانے کی کی تحریک کی اہمیت بھی ان پر واضح کی جائے اور دعاؤں سے کام لینے کی بھی تاکید کی جائے.غرض تحریک جدید کے جس قدر حصے ہیں اُن سب کی طرف جماعت کے احباب کو توجہ دلائی جائے اور چاہئے کہ وہ دوست جو اخلاص رکھتے ہیں آج ہی سے تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ تمام خطبات نکال کر اپنے سامنے رکھ لیں اور ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں انفرادی اور اجتماعی طور پر دوستوں تک پہنچا نا شروع کی کر دیں اور ابھی سے تحریک جاری کر دیں یہاں تک کہ جب جلسوں کا دن آئے تو اُس دن تک جماعت کے خفتہ اصحاب بھی بیدار ہو چکے ہوں اور وہ تحریک جدید کے مطالبات میں عملی سرگرمی سے حصہ لینے کیلئے تیار ہوں.پھر اس سال چونکہ تحریک جدید کا تیسرا سال ختم ہو رہا ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ ہماری ان تین سالہ قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے مزید قربانیوں کی توفیق دے میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ عقائد کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اپنے اشد معاندین سے بھی تسلیم کرالیا ہے اور دشمن بھی رفتہ رفتہ وہی عقائد اختیار کر رہے ہیں جو ہمارے ہیں.لیکن عملی حصہ ہما را کمزور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اعمال کے لحاظ سے بھی دنیا کیلئے نمونہ ہوں اور ہم ساری دنیا پر ثا بت کر سکیں کہ تمام مذاہب میں سے اسلام کی تعلیم ہی قابل عمل ہے.وہ ایک مضبوط چٹان ہے جسے کوئی ہلا نہیں سکتا.وہ ایک برسنے اور دنیا پر چھا جانے والا بادل ہے جس کی زد سے دنیا کی کوئی زمین نہیں بچ سکتی اور ود سورج ہے جس کی شعاعیں ساری دنیا میں پھیل جاتی اور سوائے ان گھروں کے جن کے رہنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے اُس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کر رکھے ہوں سب کو روشن کر دیتی ہیں.حتی کہ بار یک سوراخ بھی ہو تو وہاں اس کی روشنی پہنچ جاتی ہے.لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے جب ہم ا.اپنے
خطبات محمود ۸۸ سال ۱۹۳۷ء عملی نمونہ سے اسلامی تعلیم کی برتری ثابت کریں، خالی تقریر میں کوئی اثر نہیں کرتیں.ایک انسان اگر تقریریں اسلامی تعلیم کی فضیلت پر کرتا ہے لیکن وہ یا اُس کا ہمسایہ مغربی اثرات اور مغربی رو میں بہا چلا جاتا ہے تو اس کی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا اور اُس کی کوششیں سب بیکار ہو جائیں گی.کوشش وہی کامیاب ہوتی ہے جو عملی رنگ میں کی جائے.کیونکہ اس کا دوسرے کے دل پری گہرا اثر ہوتا ہے اور دشمن بھی اسلامی تعلیم کی عظمت کا اظہار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.پس دعاؤں میں اپنی توجہ اس طرف بھی مبذول کرو اور یاد رکھو کوئی دین کا قدم ایسا نہیں ہوسکتا جو تین سال کے بعد ہٹالیا جائے.یہ پہلا قدم ہے جو اُٹھایا گیا اور یہ پہلا زینہ ہے جس پر پاؤں رکھا گیا اور اس کے بعد اور قدم اور ان زینے ہیں.پس کوئی دینی تحریک ایسی نہیں ہو سکتی جو تین سال کے بعد ختم ہو جائے.ہاں اس کی شکلیں کی بدل جاتی ہیں.کبھی اُن حصوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جن پر پہلے کم دیا جا تا تھا اور کبھی ان حصوں پر کم زور دیا جاتا ہے جن پر پہلے زیادہ زور دیا جاتا تھا.پھر کبھی اور انواع پر زور دیا جاتا ہے اور کبھی اور انواع پر.بہر حال دین کی ترقی کیلئے مومن کی کوشش اُس کی موت تک ختم نہیں ہوتی.بلکہ دین کی ترقی کیلئے کوشش کسی قوم کی موت تک بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ گو قوم مر جائے گی جس نے دین اور اصلاح عالم کیلئے کی جد و جہد چھوڑ دی.لیکن اُس کی قبر پر خدا تعالیٰ ایک اور قوم کا درخت اُگا دے گا جو نئے سرے سے اور نئے جوش سے اس کام میں لگ جائے گی.یہی اُس کی قدیم سے سنت ہے اور یہی سنت دنیا کے آخر تک رہے گی.(الفضل ۹ را پریل ۱۹۳۷ء ) یونس :۷۲ الفرقان: ۲۴
خطبات محمود ۸۹ 1.سال ۱۹۳۷ء رشتوں ناطوں کی مشکلات کاحل (فرموده ۱٫۹ پریل ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں پچھلے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کی وجہ سے جاتے ہی پھر بیمار ہو گیا تھا جس کی وجہ سے آج تک باہر نہیں آسکا.آج بھی اسی وجہ سے میں نے پاؤں میں جو میں لگوائی تھیں اور خطرہ ہے کہ اگر زیادہ کھڑا ہو ا تو ان کے زخموں سے پھر خون جاری ہو جائے گا.لیکن میں نے خیال کیا کہ ان دنوں پانچوں نمازوں میں تو میں آنہیں سکتا اس لئے کم سے کم جمعہ میں تو شریک ہونا چاہئے.پس اس وقت میں کوئی لمبا خطبہ تو ہو نہیں دے سکتا صرف اختصار کے ساتھ ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کیلئے میں نے جو ۹ رمئی ۱۹۳۷ء کی تاریخ مقرر کی تھی اب اسے بدلنا چاہتا ہوں کیونکہ اس تاریخ کی بیرونی جماعتوں کو وقت پر اطلاع نہیں ہو سکتی اور وہ اچھی طرح جلسہ کی تیاری نہیں کر سکتیں.نیز میں خود بھی چند دن سفر پر جانے والا ہوں اور شاید میں بھی اس تاریخ تک واپس قادیان نہ پہنچ سکوں.اس لئے اب میں ۳۰ مئی تحریک جدید کے جلسوں کی تاریخ مقرر کرتا ہوں.اس دن اتوار ہوگا اور چھٹی کی وجہ سے سب دوست جلسوں میں حصہ لے سکیں گے.میں اُمید کرتا ہوں کہ اُس وقت تک تمام جماعتوں کو اطلاع ہو جائے گی اور اتنا وقت بھی مل جائے گا کہ وہ جلسوں کی تیاری کر سکیں.دفتر تحریک جدید کو چاہئے کہ جس وقت میرا یہ خطبہ اخبار میں چھپے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء فوراً اب ایک پر چہ تمام بیرونی جماعتوں کو بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال کر دے تا اُن کو بھی کافی وقت جلسہ کی تیاری کیلئے مل جائے.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت میں رشتوں ناطوں کے متعلق بہت سی وقتیں پیش آرہی ہیں.یہ مضمون بہت لمبا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس وقت میں اس کے متعلق کما حقہ بول نہیں سکتا.لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ مشکلات اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ مجھے اس کے متعلق اجمالاً کچھ نہ کچھ باتیں ضرور کہہ دینی چاہئیں.تفصیلات إِنْشَاءَ اللَّهِ الْعَزِيزِ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو کسی آئندہ خطبہ میں بیان کر دوں گا.اس مسئلہ پر جہاں تک میں نے غور کیا ہے ہمارے لئے ی اس میں چند ایک مشکلات ہیں.اوّل یہ کہ دوسرے مسلمانوں میں عام طور پر پرانے خاندانوں کی کثرت کی ہے.ان میں باہم بیسیوں رشتے ہوتے ہیں اور وہ ان کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قربانی کرنے کو تیار رہتے ہیں.ان حالات میں بعض اوقات رشتہ داریاں ایسے غریب لوگوں سے بھی ہو جاتی ہیں جن سے عام حالات میں نہیں ہوسکتیں.بعض جگہ بعض امراء اور نواب دیکھے گئے ہیں جنہوں نے بعض غریب لوگوں کو لڑ کیاں دے رکھی ہیں محض اس لئے کہ ان کے ساتھ پرانی رشتہ داریاں تھیں اور اس وجہ سے وہ ان کو ممنون کرنا چاہتے تھے.یہ صورت بھی رشتہ داری کی مشکلات کو حل کرنے والی ہے اس لئے کہ امراء کو جب کوئی رشتہ اپنے سے بڑا یا اپنا ہم مرتبہ نہ ملے تو وہ غریب کو بھی لڑکی دے دیتے ہیں.مگر ہماری جماعت میں یہ دقت ہے کہ کسی خاندان کا ایک فرد احمدی ہو گیا، کسی کے دو اور کسی کے چار.نئے خاندان جن سے ان کا جوڑ ہو سکتا ہے یعنی احمدی ان کے ساتھ ایک دوسرے کا خونی تعلق کوئی نہیں ہوتا.پچھلے حالات میں اپنے خاندان کے اندر تو وہ کسی غریب کو بھی رشتہ دینے کیلئے تیار ہو سکتے تھے مگر یہاں آکر وہ ضرور اپنے سے بالا رشتہ ہی تلاش کرتے ہیں.وہ رشتہ داریوں کا تعلق یا آپس کا دباؤ جن کی وجہ سے لڑکیوں کے حقوق محفوظ سمجھتے جاتے ہیں یہاں نہیں.اس لئے یہاں ایسی باتوں کا خیال کیا جاتا ہے جن کا عام طور پر خاندانی رشتوں کے وقت نہیں کیا جاتا.دوسری وقت یہ ہے کہ مختلف خاندانوں کے افراد جماعت میں داخل ہوتے ہیں.ہندوستان میں ہزار ہا قبائل اور بیسیوں اقوام ہیں اور اگر ساری دنیا کی اقوام کو لے لیا جائے تو وہ سینکڑوں ہزاروں ہوں گی.پس یہ جو ہزاروں قبائل اور سینکڑوں اقوام اس ملک میں آباد ہیں ، ان سب میں سے تھوڑ.
خطبات محمود ۹۱ سال ۱۹۳۷ء تھوڑے لوگ جماعت میں داخل ہیں اور وہ بھی تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے.اس وجہ سے ان میں باہم جوڑ ہونا مشکل ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت اس مقام پر نہیں پہنچی کہ قومیت کی پابندیوں سے آزادی حاصل کر سکے.جب بھی رشتہ کا سوال پیدا ہوتا ہے یہی کہا جاتا ہے کہ ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ ی سیدوں میں ہی رشتہ کریں گے یا ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم رشتہ جائوں میں کریں گے یا ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم رشتہ راجپوتوں میں کریں گے یا قریشیوں میں کریں گے یا پٹھانوں میں کریں گے اور بہت ہی کم لوگ اس و پابندی کو توڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں.میں نے خود اپنی قوم کو چھوڑ دیا کیونکہ اول تو مغل جماعت احمدیہ میں بہت ہی کم داخل ہیں.دوسرے ہمارا خاندان جو احمدیت میں قدرتاً ایک نمایاں حصہ رکھتا ہے.ہماری وہ لڑکیاں جو غیر رشتہ داروں سے بیاہی گئی ہیں وہ سب غیر مغلوں سے ہی بیاہی گئی ہیں اس لئے ہم کی پر یہ اعتراض نہیں پڑتا.غرض اب تک ہماری جماعت کے اکثر افراد اسی مرض میں مبتلا ہیں کہ اپنی قوم میں ہی رشتہ ہو.اور یا پھر کسی ایسی قوم میں ہو جو ان کے خیال میں ان کی قوم کی ہم رتبہ ہو.مگر چونکہ احمدیت میں قو میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آئی ہیں، اس لئے مشکلات پیش آتی ہیں.فرض کر ولدھیانہ کا ایک پٹھان سلسلہ میں داخل ہوا ہے، ایک پٹھان گجرات کا اور پانچ سات پشاور کے احمدی ہو گئے ہیں.اب فرض کرو پشاور کے دوست تو باہم رشتہ داریاں قائم کر لیتے ہیں.گجرات والا پٹھان کہتا ہے کہ چلو جب احمدی ہو گئے تو قومیت کی پابندی کیسی.اگر اپنی قوم میں رشتہ نہیں ملتا تو نہ سہی کسی اور قوم میں کر لیتے ہیں.اب لدھیانہ والا اکیلا رہ گیا اگر وہ اپنی ضد پر قائم رہے گا تو یقیناً مشکلات میں پھنسے گا.تیسری وقت میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ہماری جماعت میں اُمنگ بڑھانے کی جو تحریک کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم دنیا کے راہنما ہو، مصلح ہو ، ہادی ہو، معلم ہو، دنیا کی تمام بادشاہتیں تمہارے قبضہ میں آئیں گی ، اس سے جو تو دیندار ہوتے ہیں اور روحانیت بھی ان میں غالب ہوتی ہے وہ اس کا مطلب کی یہ لیتے ہیں کہ ہمیں قربانیاں زیادہ کرنی چاہئیں.لیکن جن لوگوں کو روحانیت کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا ہے وہ ان باتوں کوسن کر کبر کی روح لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم اتنے بڑے ہیں تو اور بڑے لوگوں کے ساتھ رشتہ داریاں کر کے ہمیں اپنے آپ کو اور بھی بڑا بنانا چاہئے.چنانچہ اگر اپنی سو روپیہ نخواہ ہو تو لڑکی کیلئے ایسے خاوند کی خواہش کرتے ہیں جو ۳ ۴ سو لینے والا ہو اور اگر خود ۳ ، ۴ سو لے رہے ہوں تو پھر کمی سے کم ایک ہزار والے کی جستجو کرتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو تو مخلص ہے وہ جب کوئی بڑا رشتہ
خطبات محمود ۹۲ سال ۱۹۳۷ء حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تو اُس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ چلو جو رشتہ بھی ملتا ہے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے اور آخر اسے وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک میراثی نے کیا تھا.کہتے ہیں کسی میراثی نے خواب میں دیکھا کہ اسے کسی نے گائے انعام کے طور پر دی ہے.اسے لے کر جب وہ گھر کو چلنے لگا تو راستہ میں اُسے ایک شخص ملا جس نے اُسے کہا کہ یہ گائے میرے پاس فروخت کر دو.میراثی نے کہا اچھا لاؤ تمہیں روپے.اُس نے کہا تم نے تو مفت ہی لی ہے.تمہیں روپے کیسے چار آنے لے لو.میراثی نے کہا نہیں چار آنے تو نہیں البتہ ۲۵ روپے لے لوں گا.ادھر وہ چھ آنے تک بڑھا.حتی کہ ہوتے ہوتے میراثی پانچ روپے پر پہنچا اور دوسرا دوروپے تک بڑھا.اتنے میں میراثی کی آنکھ کھل گئی تو وہاں نہ گائے تھی نہ کوئی خریدار اور نہ روپیہ.اس پر میراثی نے جھٹ آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ بڑھا کر کہنے لگا اچھا جمان لاؤ دو روپے ہی دے دو.تو جومخلص ہوتے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ ان کے اس رویہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یالڑ کی بیٹھی رہے گی یا پھر ہمیں دین چھوڑنا پڑے گا تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس طریق کو اختیار کرنے میں ہم نے غلطی کی اور وہ جھٹ جیسا رشتہ ملے اُس پر راضی ہو جاتے ہیں.لیکن جو دنیا دار ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں جماعت میں نہیں ملتا نہ سہی باہر کر لیں گے اور شیطان باہر سے رشتہ اُنہیں دلا بھی دیتا ہے.چوتھی دقت یہ ہے کہ ہماری جماعت میں تعلیم پر چونکہ زیادہ زور دیا جاتا ہے اس لئے دوستوں کو لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے.خصوصاً قادیان میں تو لڑکیوں کی تعلیم پر بہت ہی زوری دیا جا رہا ہے اور ایک طبقہ تو اس میں اس قدر منہمک ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ ایک وقت ایسا منہ کے بل گرے گا کہ اس کے لئے چوٹوں کی برداشت مشکل ہو جائے گی.تعلیم لڑکیوں کو ایسے رنگ میں دلائی جاتی ہے کہ انہیں نوکری مل جائے.لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ جولڑ کی ملازم ہوگی وہ بیوی بھی بن سکتی ہے یا نہیں؟ جو لڑکی پشاور میں ملازم ہوا اور لڑکا لکھنو میں اُن کے میاں بیوی والے تعلقات کیسے ہوں گے ، ہر شخص سمجھ سکتا ہی ہے.میرے نزدیک تو ایسی شادی محض ایک دکھاوا ہے.ایسی شادی کی ضرورت ہی کوئی نہیں.بہت ہی احمق ہوں گے جو ان حالات میں شادی کریں گے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری شریعت بغیر شادی کے رہنے کی اجازت ہی نہیں دیتی اور ایسی شادیاں صرف دکھاوے کی شادیاں ہوتی ہیں اور شرعاً ایسے لوگ کی مجرم ہیں.پھر لڑکیوں کو جوں جوں تعلیم ملتی ہے ان کیلئے خاوندوں کا معیار بھی بڑھتا جاتا ہے.
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۷ء انٹرنس پاس ہو تو سو ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ کا گریجوایٹ تلاش کیا جاتا ہے.اگر ایف.اے ہو تو اڑھائی تین سو کا گریجوایٹ اور بی.اے پاس کر لینے کے بعد تو سات آٹھ سو کا ای.اے سی تلاش کیا جاتا ہے اور اگر لڑ کی ایم.اے ہو تو ولایت کا پاس شدہ تلاش کیا جاتا ہے اور یہ نہیں خیال کیا جاتا کہ جماعت میں ایسے کتنے لوگ ہیں.کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ آپ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے.ایسے لوگ مجھے بتائیں کہ آخر ہمارے گھروں میں بھی تو لڑکیاں ہیں.کیا جماعت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوانوں کو ہم نے اپنے لئے چن لیا ہے کہ انہیں شکایت پیدا ہوتی ہے.ہاں غیر مبائعین کے متعلق یہ شکایت ہو تو ہو.انہوں نے تو رشتوں کی خاطر بعض غیر احمدی اور بعض کمزور مبائع تک سمیٹ لئے ہیں.اس کے برخلاف ہم نے با وجود اس کے کہ چھوٹی بڑی لڑکیاں ملا کر ہمارے گھر میں چالیس کے قریب لڑکیاں ہیں ، ان اعلیٰ تعلیم یافتوں میں سے یا اعلیٰ عہدیداروں میں سے کسی کو بھی اپنے لئے نہیں بچنا اور باقی جماعت کیلئے ان کو چھوڑ دیا ہے.اگر ایسے اعلی تنخواہوں والے رشتے ہم نے سنبھال لئے ہوتے تو ہم پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ اپنے رسوخ کی وجہ سے یہ رشتے خود سنبھال لئے ہیں اب ہم لوگ کیا کریں.لیکن جب معاملہ اس کی کے برخلاف ہے تو پھر مجھ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور اگر جماعت میں دس بیس کی جگہ سو دوسو ولایت کے پاس شد و یا اعلی تنخواہوں والے نوجوان نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے.یہ تونَعُوذُ بِاللهِ اللہ تعالیٰ پر اعتراض پڑتا ہے کہ اس نے آپ لوگوں کے مناسب حال رشتے مہیا نہیں کئے.میرے بس میں نہ تو یہ ہے کہ ولایت بھجوا بھجوا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوان پیدا کروں اور نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ جب کسی کی جوان لڑکی اتنی تعلیم حاصل کر جائے کہ اُس کیلئے ولایت پاس رشتہ ہی موزوں ہو تو میں لاہور، امرتسر یا کسی اور بڑے شہر میں جاؤں اور وہاں کے ولایت پاس ہندوؤں ، سکھوں یا غیر احمدی مسلمانوں پر ہاتھ پھیروں اور کہوں کہ ہو جاؤ احمدی اور وہ احمدی ہو جائیں.اگر میں ایسا کر سکتا تو پھر بھی میرا قصور ہو سکتا تھا لیکن جب ایسا نہیں تو پھر مجھ سے کیا شکایت ہے.خلاصہ یہ ہے کہ کئی وجوہ سے جماعت میں رشتوں ناطوں کی دقتیں پیدا ہورہی ہیں.ان میں سے ہر ایک کے متعلق تفصیلی ہدایات بلکہ راہنمائی کی ضرورت ہے.مگر اس وقت میں تفصیلات کے بیان کرنے کی طاقت اپنے آپ میں نہیں پاتا اس لئے مختصراً جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان باتوں پر غور کی
خطبات محمود ۹۴ سال ۱۹۳۷ء کرے اور سوچے کہ کیا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی یہی راہ ہے کہ اگر تو کوئی بڑا اعلیٰ رشتہ مل جائے تو تی احمدیوں میں کر لیا جائے لیکن اگر نہ ملے تو غیر احمدیوں میں ہی سہی.ایسی تعلیم سے بہتر تھا کہ لڑکی کو تعلیم دلائی ہی نہ جاتی ، یہ تو بالکل دنیا داری ہے.جو شخص ایسی تعلیم کو دین کہتا ہے وہ بالکل جھوٹا ہے.اگر وہ دین کو حقیقتا مقدم کرنے والا ہوتا تو خواہ لڑکی چھ سو روپیہ تنخواہ کی حیثیت ہی رکھتی وہ کہتا کہ تعلیم تو ہم نے کی اللہ تعالیٰ کے لئے دلائی ہے اگر زیادہ تنخواہ کا رشتہ نہیں ملتا نہ سہی ، کسی تھوڑی تنخواہ والے سے ہی کر دیتے ہی ہیں.یا اگر سید نہیں ملتا تو مغل سے ، راجپوت سے، پٹھان سے، جاٹ سے ہی سہی.یہ تو بے شک دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے لیکن جب رشتہ نہ ملے تو غیر احمد یوں میں کر دینا خالصہ دنیا داری ہے.بعض لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ فلاں عہدہ دار سے ہمارا رشتہ کیوں نہیں کرا دیا گیا.مگر یہ نہیں سوچتے کہ دو احمد یوں میں سے ایک کو ہم ترجیح کیوں دیں.ہم نوجوانوں کو یہ تو ضرور کہیں گے کہ کی احمدیوں میں شادی کرو اور مجبور کریں گے کہ غیر احمد یوں میں نہ کرو.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں جگہ کرو اور فلاں جگہ نہ کرو.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی کیلئے اگر دور شتے ہوں ایک تعلیم یافتہ اور ایک غیر تعلیم یافتہ تو ہم اسے بھی یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کر لو.کیونکہ اُس کیلئے اور جوڑ ملنا مشکل ہوگا اور قوم کی خاطر قربانی کر لو.لیکن اگر دونوں تعلیم یافتہ ہوں تو پھر اس خوف سے کہ ایک مُرتد ہو جائے گی ہم اسے اس کے ساتھ رشتہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے.اگر ان میں سے ایک نے مرتد ہونا ہی ہے تو ہم کیوں اُس کے ارتداد کی ذمہ واری اپنے اوپر لیں.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جسے وہ چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کر دے.اگر ہم اسے کہیں کہ الف سے شادی کرے کیونکہ اس کے مرتد ہونے کا خطرہ ہے اور دراصل اللہ تعالیٰ کے علم میں سب نے مُرتد ہونا ہو تو اس کی ذمہ واری ہم پری ہوگی.اس لئے ہم اسے چھوڑ دیں گے کہ الف اور ب میں سے جس کے ساتھ مناسب سمجھے شادی کرے.ہاں اگر وہ مشورہ مانگے تو دے دیں گے.پھر خدا کی مشیت میں جس کیلئے ہدایت ہے وہ اس کا انتظام کرا دے گا.اور اگر الف اور ب دونوں کیلئے ہدایت مقدر ہے تو ایک کو وہ شادی کے ذریعہ ہدایت دے دے گا اور دوسری کو قربانی کرا کے.پس میں جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ماحول کو ایسے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرے کہ ایک دن دین کو دنیا پر مقدم کروں گا“ کا عہد سے توڑنا نہ پڑے.
خطبات محمود ۹۵ سال ۱۹۳۷ء میں قادیان والوں کو خصوصیت سے تنبیہ کرتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ پانچ سات سال کے عرصہ میں ان کیلئے سخت مشکلات پیدا ہوں گی.لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور تعلیم بھی ایسے رنگ میں دلائی جارہی ہے کہ وہ نوکریاں حاصل کر سکیں.اس کے نتیجہ میں یا خاندانوں کی بربادی ہوگی اور یا پھر ایسی شادیاں ہوں گی جن کا باہم نباہ نہ ہو سکے گا.کل میرے سامنے ایک واقعہ آیا ہے.ایک غریب ماں ہے جو محنت کر کے پیٹ پالتی ہے.اس کی لڑکی نے میں نے سنا ہے اُس سے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ میرے معاملہ میں تم کوئی دخل نہ دو.سوچنا چاہئے کہ یہ باتیں کیوں پیدا ہورہی ہیں؟ صرف اس لئے کہ غلط تعلیم دی گئی.اگر ان کو قرآن شریف پڑھا یا جا تا ، حدیث پڑھائی جاتی تو کیا یہ کم علم تھا؟ اگر اس علم کی طرف لگایا جائے تو اس میں بھی دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اور گویا وقت کے لحاظ سے ایم.اے تک کی تعلیم ہو جاتی ہے.مگر کیا اس تعلیم کے نتیجہ میں ایسے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں؟ پس یہ سب اس غلط تعلیم کا نتیجہ ہے جسے یورپ نے پھیلایا ہے اور وہ لوگ اندھے ہیں جو اس کے پیچھے چل رہے ہیں اور پھر اعتراضات مجھ پر کرتے ہیں.حالانکہ اگر تو ہم ان لڑکوں کو جو ولایت سے پاس کر کے آتے ہیں اپنے خاندان کی لڑکیوں کیلئے سنبھال لیتے تو البتہ یہ ای اعتراض کیا جاسکتا تھا کہ آپ سنبھال لیتے ہیں.ایسے لوگ جماعت میں پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہیں.اب ان پندرہ بیس میں سے اگر ایک بھی ہم لے لیتے تو پھر بھی کہا جا سکتا تھا.لیکن جب ایسا نہیں تو مجھے پر الزام کیسا.میں پندرہ ہیں کو چالیس پچاس تو بنا نہیں سکتا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے خاندان کی کسی لڑکی کیلئے نہ لیتا اور یہ میں نے کر دیا.اب آگے جو بات خدا تعالیٰ کے اختیار کی ہے وہ تو میں کرنے سے رہا.دراصل یہ اعتراض بھی مغربیت کے ماتحت ہے.مغربیت کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ شور مچاتے رہو کہ ہم مظلوم ہیں.یورپ میں امراء کے پاس کی کروڑوں روپیہ ہے پھر بھی وہ شور مچاتے رہتے ہیں اور حکومت سے لڑتے رہتے ہیں کہ ٹیکس بہت زیادہ ہیں ، ہم مرے جارہے ہیں.ہندوستان کا زمیندار ایک وقت بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھا سکتا لیکن وہاں کا مزدور تین سو روپیہ ماہوار کما لیتا ہے جو یہاں کے ای.اے سی کی تنخواہ ہے.مگر پھر بھی شور مچاتا رہے گا کہ بھوکے مر گئے.تو مغربیت کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ہم مر گئے.آخر خدا تعالیٰ ایک روز کہے گا کہ مرجاؤ.اب تم بھی اُن کی نقل کرتے ہو کہ ہم مر گئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ کس کے فعل کی وجہ سے.اگر یہ مرنا اپنے
خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۷ء سے ہی فعل سے ہے تو اس کا علاج کرو، تو بہ کرو اور ان باتوں کو دور کرو.اگر قومیت کی پابندی کی وجہ.دقت ہورہی ہے تو دیکھو جب دوسرے احمدی اسے ترک کر چکے ہیں تو تم بھی کر دو.اگر تنخواہ کی کمی کی وجہ سے ہے تو دیکھو جب دوسرے احمدیوں نے اس کا خیال نہیں کیا تو تم بھی اسے چھوڑ دو.دیکھو میری ایک ہی لڑکی بیاہی گئی ہے اور اُس وقت لڑکا کوئی کام بھی نہ کرتا تھا اور اب بھی وہ کام کرنے کی کوشش ہی کر رہا ت ہے آمدن کی صورت نہیں پیدا ہوئی.بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ وہ آپ کا عزیز ہے لیکن تم بھی اپنے غریب عزیزوں میں شادیاں کر لو اور اگر احمدی عزیز نہ ملیں تو پھر اس قربانی کو وسیع کر کے دوسرے احمدیوں سے جو بھی مل سکیں رشتے کرلو.میں نے اگر اپنے ایک ایسے عزیز کو جس کیلئے دنیوی طور پر کوئی ترقی کا راستہ گھلا نہ تھا چنا ہے تو اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے ہی اگر دونوں فریق ہوں تو دوہری برکت ملے گی.دوسرے لوگ بھی اپنے احمدی عزیزوں میں شادی کریں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں.سوال تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ رشتوں کی دقتوں کو دیکھ کر غیر احمدی عزیزوں کی طرف جھکتے ہیں.ان لوگوں کے لئے بہتر تھا کہ اگر ان کی خواہش کے مطابق رشتہ نہ ملتا تو اپنی خواہشوں کو قربان کرتے نہ کہ دین کو قربان کرتے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حکم دیں تو ی چوہڑے سے بھی اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کو تیار ہوں.اس کا مطلب یہی تھا کہ حضور کی تعلیم کے مطابق اگر ایسا کرنا پڑے تو عذر نہ ہوگا فرض کرو ایک وقت ایسا آئے کہ سیدوں ، مغلوں، پٹھانوں وغیرہ قوموں میں کی کوئی احمدی رشتہ نہ ملے تو اگر ایک چوہڑا احمدی ہی میسر ہو تو اس سے رشتہ کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا کیونکہ بہر حال اسے دین حاصل ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے معنے ہی یہی ہیں کہ اگر کسی کو کوئی بی.اے پاس رشتہ ملتا ہو تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ اس کے ساتھ رشتہ نہ کرے.لیکن اگر نہ ملے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آنکھیں نیچی کرے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنے کو اتنی اہمیت تو دے جتنی میراثی نے دورویے کو دی تھی.اگر خدا تعالیٰ سارے ہندو، مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوں کو احمدی بنادے تو ہماری تو خواہش ہے کہ ایک غریب سے غریب اور کنگال سے کنگال احمدی کی لڑکی بھی کسی گورنر یا وائسرائے کے بیٹے سے بیاہی جائے.مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر ایسا رشتہ نہ ملے تو کیا یہ بہتر ہے کہ کسی گورنر کے لڑکے کے
خطبات محمود ۹۷ سال ۱۹۳۷ء ملنے کی امید میں لڑکی کو بٹھا رکھو یا یہ کہ جو رشتہ ملے کر دو.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی نہیں مانتی تو سوال یہ ہے کہ لڑکی کو اس نہ ماننے کے مقام پر کس نے کھڑا کیا ہے؟ اگر ہم نے کیا ہے تو بیشک اس کی سزا ہمیں ملنی چاہئے.لیکن اگر اس کی ذمہ واری تم پر ہے تو پھر اس سزا کے مستحق تم خود ہو.یہ مضمون تو بہت وسیع ہے اور کئی باتیں اس کے متعلق بیان کرنے والی ہیں لیکن اتنا ہی کھڑا ہونے سے میں محسوس کرتا ہوں کہ پاؤں میں سے خون رسنے لگا ہے اس لئے اسی پر خطبہ کو ختم کر کے جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ماحول کو بدلے ورنہ اس کیلئے ایک ایسی بلا تیار ہورہی ہے جس.بچنا بہت ہی مشکل ہوگا.الفضل ۱۳ را پریل ۹۳۷
خطبات محمود ۹۸ 11 سال ۱۹۳۷ء عرش الہی کو ہلا دینے والی دعائیں (فرموده ۱۶ را پریل ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے گزشتہ جمعہ اور اس سے پہلے جمعہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے علاوہ اکتو بر تک ہر مہینہ میں دودو روزے بھی رکھیں یہاں تک کہ گزشتہ دوسالوں کے برابر ہمارے چودہ روزے ہو جائیں.ایک ہر مہینہ کے پہلے پیر کو اور دوسرا ہر مہینہ کی آخری جمعرات کو.اور یہ کہ اگر کسی شخص سے اس پیر کا جمعرات کا روزہ رہ جائے تو وہ اسی مہینہ کے کسی دوسرے پیر یا کسی دوسری جمعرات کو روزہ رکھ لے.اور اگر یہ بھی نہ کی ہو سکے تو کسی اور دن کے روزہ سے ان روزوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے.اس کے علاوہ میں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ مئی کے آخری ہفتہ کے اتوار کو ہر جماعت اپنے اپنے مقام پر جلسے منعقد کرے اور ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی جائے.بظاہر عقلمند کہلانے والے لوگوں کی نگاہ میں ان مطالبات میں سے میرا ایک مطالبہ شاید بالکل بے معنی اور تو ہم پرستی کا اظہار سمجھا جائے.کیونکہ اس مادیت کے زمانہ میں دُعا کرنا اور پھر دعا سے کسی
خطبات محمود ۹۹ سال ۱۹۳۷ء نتیجہ کی امید رکھنا نہایت بیوقوفی اور حماقت خیال کیا جاتا ہے.اور بہت سے لوگ جو دعاؤں کے قائل ہیں اور دعائیں کرتے ہیں وہ بھی درحقیقت دعا کو ایک تمسخر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے اور ان میں.ننانوے فیصدی بلکہ ہزار میں سے ۹۹۹ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اُن کی دعائیں ایک تو ہم ، ایک تخیل ، ایک تمسخر، ایک تک بندی اور اندھیرے میں تیر چلانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں.ہزار ہا دعا ئیں کرنے کی والے یا دوسروں کو اپنے لئے دعاؤں کی تحریک کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیز واقارب سے دعا کا ذکر سنا ہو ا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ دوسروں کو دعا کیلئے کہنا سوسائٹی کا ایک فیشن سمجھتے ہیں.اور جو نبی کسی دسرے سے ملتے ہیں بغیر دعا کی حقیقت کو سمجھنے کے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی دعا کیجئے.ہزاروں آدمی احمد یوں ، غیر احمد یوں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں میں سے بھی جب مجھے ملتے ہیں تو جاتے ہوئے بے ساختہ کہہ دیتے ہیں ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے مگر جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یادر کھیئے تو میں انفس محسوس کرتا ہے کہ ان کا دل دعاؤں کی عظمت سے واقف نہیں.وہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیئے.مگر ان کا دل کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ محض ان کو خوش کرنے کیلئے ہم کہہ رہے ہیں ورنہ دعا کوئی چیز نہیں اور نہ اسے کسی قسم کی اہمیت حاصل ہے.ہزاروں ہیں جو رسماً اسلام کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یا رسما ہندو مذہب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یا رسما سکھ مذہب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے دعائیں کرتے ہیں.کبھی ہاتھ اُٹھا کر کبھی سر جھکا کر کبھی کھڑے ہو کر کبھی بیٹھ کر کبھی آگ کے آگے ہاتھ پھیلا کر، کبھی سمندر کی طرف منہ کر کے اور کبھی سورج کی طرف آنکھیں اٹھا کر.مگر جب دعا کے الفاظ اُن کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عبادت ہے جو ہم بجالا رہے ہیں.ایک فرض ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں.اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں کچھ نہ کچھ مل جائے گا لیکن انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ دعا کی کیا حقیقت ہے اور دعازمین و آسمان میں تغیر پیدا کرنے میں کس قدر عظیم الشان اثر رکھتی ہے.پس ی دنیا میں دعا کرنے والے بہت مل جائیں گے مگر دعاؤں پر یقین رکھنے والے اور دعاؤں کی حقیقت سمجھنے والے بہت ہی کم لوگ ملیں گے.پھر وہ لوگ جود عا پر یقین رکھتے ہیں ان میں بھی سنجیدہ طبقہ بہت کم نظر آتا ہے اور ان قلیل لوگوں میں سے کثیر حصہ ایسا ہوتا ہے جو دعا خدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کے طور پر کرتا ہے.مجھے چونکہ سینکڑوں نہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ہزاروں لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، ان لوگوں سے بھی جو دعائیں کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی کی جو دوسروں کو اپنے لئے دعا کی تحریک کرتے ہیں اس لئے میں اپنے تجربہ کی بناء پر جانتا ہوں کہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جو دعا خدا تعالیٰ کا امتحان لینے اور یہ دیکھنے کیلئے کرتے ہیں کہ آیا خدا ہماری کی بات سنتا ہے یا نہیں سنتا.پس گو وہ ظاہر ادعاؤں پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کا یقین کسی یقین کی بنیاد پر نہیں بلکہ شک پر ہوتا ہے.جاؤ اور اپنے ہمسایوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں سے پوچھ دیکھو کہ کیا آپ دعائیں کرتے ہیں؟ وہ یہی کہیں گے کہ بہت کیں بہت ہی کیں مگر آخر معلوم ہوا کہ خدا ہی کوئی نہیں جو دعائیں سنتا ہو یا کہیں گے کہ خدا بھی کوئی دعا نہیں سنتا.حالانکہ دعا کے معنے اس کامل تعلق ، اس کامل محبت اور اُس کامل اخلاص کے ہیں جو بندہ کو خدا تعالیٰ سے پیدا ہو جاتا ہے.پھر جب دعا اُس تعلق کا نام ہے جو بندہ کا اپنے رب سے ہوتا ہے تو کوئی شخص کس طرح کہہ سکتا ہے میں نے دعائیں کیں مگر ان کا کوئی فائدہ نہ دیکھا.کیا تم نے کبھی کسی آنکھوں والے انسان کو دیکھا ہے کہ وہ کہتا ہو میں نے سورج کو دیکھا، بہت دیکھا اور بہت ہی دیکھا مگر آخر معلوم ہوا کہ سورج میں بھی روشنی نہیں.کیا تم نے کسی عورت سے سنا کہ وہ کہتی ہو میں نے آگئیں جلائیں ، بہت جلائیں اور بہت ہی جلائیں مگر آخر معلوم ہوا کہ آگ میں بھی گرمی نہیں.کیا تم نے کسی پیاسے کے منہ سے کبھی یہ کلمات سنے کی ہیں کہ میں نے پانی پیا، بہت پیا اور بہت ہی پیا مگر آخر معلوم ہوا کہ پانی بھی پیاس نہیں بجھا تا.تم کیوں یہ فقرے لوگوں کی زبان سے نہیں سنتے.اس لئے کہ جس شخص نے پانی کا تجربہ کیا وہ پانی کا انکار نہیں کرسکتا.جس نے سورج کو دیکھا وہ سورج کا انکار نہیں کر سکتا.اور جس نے آگ کو جلتے دیکھا وہ اُس کی گرمی کا انکار نہیں کر سکتا.پھر اگر دعا نام ہے اُس مقام کا جس مقام پر کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ سے انسان کا انتہائی تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو کیا اس سے زیادہ احمقانہ بات بھی کوئی ہوگی کہ کہا جائے میں نے دعا ئیں کیں، بہت کیں اور بہت ہی کیں مگر آخر معلوم ہوا کہ کوئی خدا نہیں جو دعائیں سنے.کیا ان الفاظ کا مفہوم کی اگر سیدھی سادی عبارت میں بیان کیا جائے تو یہ نہیں ہوگا کہ ہم نے خدا سے دوستی کی ، دوستی کی اور بہت ہی کی مگر آخر معلوم ہوا کہ خدا کوئی نہیں.اگر اُس نے دعا سے قبل خدا تعالی کو پالیا تھا جس کو دیکھتے ہوئے اُس نے اُس سے دوستی کی تھی اور اُس سے دعائیں کیں تو دعا کے قبول ہونے یا نہ ہونے سے اُسے اُس کے وجود میں شک کیونکر پیدا ہو گیا.اور اگر اُس نے خدا تعالیٰ کو پایا ہی نہیں تھا تو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے
خطبات محمود 1+1 سال ۱۹۳۷ء میں نے خدا تعالیٰ سے دوستی کی ، دوستی کی اور بہت ہی دوستی کی.تو دعا کا اصل مقام وہی ہے جب بندہ اپنے خدا کو پالیتا ہے کیونکہ دعا اسی صورت میں کی جاسکتی ہے جب بندہ کا اپنے خدا کی ہستی اور اس کی قدرتوں پر کامل یقین ہو.جب تم دنیا میں ایک معین در مشخص وجود کو آواز دیتے اور اسے اپنی طرف بلاتے ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم اسے جانتے اور پہچانتے ہو.لیکن اگر ایک شخص کو تم دیکھو کہ وہ کہ رہا ہواے زید ! آؤ مجھ سے مصافحہ کرو اور میرے پاس بیٹھو اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ یہ کہے کہ زید تو دنیا میں ہے ہی نہیں تو تم ایسے شخص کو پاگل کہو گے یا نہیں ؟ کیونکہ اگر زید دنیا میں تھا ہی نہیں تو اس نے کس طرح کہہ دیا تھا کہ آؤ زید مجھ سے مصافحہ کرو.تو وہ مقام تر و دجوار ہاص کا مقام کہلاتا ہے ، جب انسان دعا کرتا ہے اور اُس کی دعا قبول کی جاتی ہے وہ اصل مقام نہیں بلکہ غیریت کا مقام ہے.وہ ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں سے گزرنے والا شخص کسی کو پکارتا اور کہتا ہے او بھائی ! میری مدد کرو.اُسے اُس وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی بھائی ہے بھی یا نہیں.بلکہ وہ صرف اس لئے بھائی بھائی کہ رہا ہوتا ہے کہ شاید کوئی بھائی ہو اور وہ مدد کیلئے آ جائے.چنانچہ ایسا کی ہی ہوتا ہے.کبھی تو کوئی شخص اُس کی آواز سُن رہا ہوتا ہے اور وہ آواز سُن کر اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے اور کبھی وہ یونہی اندھیرے میں سے آواز دیتے گزر جاتا ہے.اسی طرح وہ شخص جو دعا کے مقام پر کھڑا نہیں وہ اگر کہتا ہے اے خدا میری مدد کر تو اُس کی اِس دعا کی وہی کیفیت ہے جو اندھیرے میں سے گزرنے والے شخص کی پکار کی ہوا کرتی ہے.اس کی دعا کے جواب میں بھی اگر خدا تعالیٰ کی مدد اس کی مصلحت کے ماتحت آجاتی ہے تو کہہ دیتا ہے خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور بعض دفعہ یہ بھی نہیں کہتا بلکہ اتنا کہنا ہی کافی سمجھتا ہے کہ اتفاقِ حسنہ ایسا ہوا کہ میرا کام بن گیا.لیکن اگر کبھی ایسا ہو کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت کے ماتحت اُس کی مدد اس کو نہ پہنچے تو یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ ہم نے بہت دیکھ لیا، خدا کا وجود ہی کوئی نہیں.حالانکہ اس نے دیکھا ہی کیا تھا.اگر وہ دیکھ لیتا تو انکار کس طرح کرتا.دیکھنے والا تو کبھی انکار نہیں کیا کرتا.ہاں اندھیرے والا کہہ سکتا ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آیا.لیکن اس صورت میں بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ کوئی خدا نہیں بلکہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اندھیرے میں رہا اور مجھے اس کی مدد نہ پہنچی.ایک باپ اگر اپنے بچے کی کسی ضرورت کو بعض دفعہ پورا نہیں کرتا تو کیا بچہ کہ سکتا ہے کہ میرا باپ کوئی نہیں یا اگر تمہاری ماں تمہاری کسی ضرورت کو پورا نہ کرے تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہماری ماں ہی کوئی نہیں.تم یہ تو ی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ نے بھی ہماری خواہش پوری نہ کی ، ہماری ماں نے بھی ہماری ضروریات کی طرف توجہ نہ کی مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا باپ اور ہماری ماں کوئی نہیں.اسی طرح اگر کسی شخص کی دعا قبول نہ ہو تو وہ یہ تو کہ سکتا ہے کہ آہ! میرے خدا نے بھی میری دعا نہ سنی.گو یہ بھی بے ادبی ہوگی ، گو یہ بھی گستاخی ہوگی ، گو یہ بھی بے دینی ہوگی ، مگر یہ معقول بے دینی ہوگی.لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میری دعا نہیں سنی گئی اس لئے کوئی خدا ہی نہیں.اگر ایک شخص کسی کو آواز دیتا اور بلاتا ہے لیکن وہ کسی مصلحت کے ماتحت نہیں آتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس کو میں نے بلایا تھا وہ ایک فرضی وجو د تھا، حقیقت میں اس کا کی کوئی وجود نہیں.اسی طرح اگر دعا کے بعد کسی کی مرضی کے مطابق نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ میں نے بہت دیکھ لیا خدا کا بھی کوئی پتہ نہیں چلا.اگر اس نے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیا تھا تو اُس کا انکار کس طرح کی کرسکتا ہے.اور اگر نہیں دیکھا تھا تو اس سے زیادہ جھوٹ اور کیا ہوگا کہ کہا جائے میں نے خدا کو دیکھا حالانکہ اس نے اسے نہیں دیکھا.تو جو لوگ دعائیں کرنے والے ہیں ان میں سے بھی ایک حصہ ایسا نکلے گا بلکہ ایک حصہ یقیناً ایسا ہے جو اندھرے والی دعا کرتا اور اس کے بعد رؤیت والی دعا کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے.گویا وہ اپنی نا بینائی کو خدا کی طرف منسوب کرتے اور اس کی ہستی کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں.ان کی مثال ہے اس نابینا کی سی ہوتی ہے جس سے کسی شخص نے سورج کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگا سورج کی کیا دلیل ہے؟ اس کی نے کہا سورج کی دلیل روشنی ہے جس سے ہر چیز کا اصلی رنگ نظر آ جاتا ہے ، سفید چیز سفید نظر آتی ہے اور ی سیاہ چیز سیاہ.وہ نابینا کہنے لگا رنگوں کا فرق بھی تو بے دلیل بات ہے، دنیا میں کوئی رنگ نہیں.یہ بھی اپنی نابینائی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کرتے اور اندھیرے میں ہو کر روشنی میں دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں.پھر وہ جو دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اُن کو بھی اگر دیکھاتی جائے تو ان میں کمزوروں کا ایک گروہ نظر آتا ہے.یعنی خدا انہیں دے دے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ، نہ دے تو ناراض ہو جاتے ہیں.گویا پہلا گر وہ تو وہ تھا جس نے دعا کی اور اتفاق سے جو پہلی دعا اُس نے کی وہی قبول نہ ہوئی اور وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا منکر ہو گیا.اور یہ وہ گروہ ہے جو دعائیں کرتا رہا اور خدا کی قبول کرتا رہا لیکن جونہی کوئی ایسی دعا آئی جسے خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے قبول نہ کیا تو یہ بھی کہنے لگی
۱۰۳ خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء گیا کہ ہم نے دیکھ لیا خدا سے دعائیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے اردگرد کے کی طبیبوں اور ڈاکٹروں کو دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ بڑے بڑے ڈاکٹر اور طبیب مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور پھر علاج میں بُری طرح ناکام ہوتے ہیں مگر باوجود اس ناکامی کے لوگ پھر بھی ان کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں.وہ انہیں روپیہ بھی دیتے ہیں ، ان سے دوائیں بھی لیتے ہیں.ان کے کی نخرے بھی برداشت کرتے ہیں اور کبھی انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارے دائیں بائیں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انہی ڈاکٹروں اور طبیبوں نے بعض مریضوں کا علاج کیا اور وہ یا تو مر گئے یا اُن کی بیماری طول پکڑ گئی.غرض علاج میں انہیں کئی جگہ نا کام دیکھنے کے باوجو دلوگ اُن سے علاج کرائیں گے.انہیں فیسیں دیں گے اور اُن کی طرف دوڑے چلے جائیں گے.لیکن دعا جس پر کچھ بھی مال خرچ نہیں ہوتا.وہ اگر قبول ہو جائے تو کہہ دیں گے خدا نے فضل کر دیا.لیکن اگر کوئی دعا قبول نہ ہو تو کہہ دیں گے بس جی دیکھ لیا، دعا کا بھی کوئی فائدہ نہیں.ایسے لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ سے سودا کر نیوالے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کبھی سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.بلکہ خدا تو الگ رہا خدا تعالیٰ کے بندے بھی دوسروں سے سو دانہیں کرتے.میرے پاس ہر سال بیسیوں درخواستیں اچھے اچھے تعلیم یافتہ ہندوؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کی ہے آتی رہتی ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں بی.اے ہوں ، میں ایم.اے ہوں ، میں ای.اے سی ہوں ، میں فلاں معزز خاندان میں سے ہوں میرے دل پر اسلام کی حقیقت کھل گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ احمدیت میں داخل ہو جاؤں لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں احمدیت کی سخت مخالفت ہے پس اگر میں احمدی ہو جاؤں تو آپ میری کیا امداد کریں گے؟ میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو یہ لکھوایا کرتا ہوں کہ مالی امداد دینے والے دنیا میں اور بہت سے ہیں.اگر تم پر اسلام کی سچائی کھل گئی ہے تو اس بارہ میں تمہیں مجھ سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں تم اس سچائی کا اظہار کرو اور اس کے بدلہ میں کسی مادی فائدہ کی امید مت رکھو.کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص کہ رہا ہو میں نے فلاں لڑکی سے شادی کی تجویز کی ہے.وہ بہت نیک اور اچھے خاندان کی ہے اگر میں وہاں شادی کرلوں تو اے لوگو! تم مجھے کیا دو گے؟ کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص سخت پیاس کی حالت میں میلوں میں چکر کاٹ کر ایک چشمہ کے پاس پہنچے اور وہاں یہ کہنا شروع کر دے کہ اے دوستو! بتاؤ اگر میں اس چشمہ سے اپنی تین دن کی پیاس بجھالوں تو تم
خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۷ء مجھے کیا دو گے؟ اگر ان چھوٹے چھوٹے فوائد کے حاصل ہونے پر بھی دنیا میں کوئی دوسرے سے ایسے بیہودہ سوال نہیں کرتا بلکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانے کو ہی اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتا ہے تو ی خدا تعالیٰ کی ملاقات اور اُس کے وصال کا راستہ میسر آجانے پر اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس راستہ پر چلا تو مجھے کیا دو گے؟ تو وہ پاگل نہیں تو اور کون ہے.مذہب کے معنے تو اُس راستہ کے ہیں جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچا دے.پس اگر اس نے ی ایسا راستہ پالیا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے خدا کو پالیا.پھر جب اس نے خدا کو پالیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ مجھے کیا دو گے، بیوقوفی اور حماقت ہے.جو شخص کچھ پالیتا ہے اس سے لوگ لیا کرتے ہیں یا وہ لوگوں سے لیتا ہے.کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی طالب علم آئے اور کہے اے بھائیو! میں امتحان میں پاس ہو گیا ہوں اب بتاؤ تم مجھے کیا کھلاؤ گے؟ جو لڑ کا امتحان میں کامیاب ہوتا ہے وہ دوسروں سے مانگا نہیں کرتا بلکہ اُستاد اور ہم سبق دونوں اُس کے پاس جاتے اور کہتے ہیں ہمیں مٹھائی کھلاؤ کیونکہ تم کامیاب ہوئے ہو.پس اگر یہ سچ ہے کہ انہوں نے سچا مذ ہب پالیا ہے تو پھر دنیا کا حق ہے کہ وہ ان سے قربانی کا مطالبہ کرے.ان کا حق نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنے لئے مانگیں.دیکھ محمد اللہ نے اپنے خدا کو پالیا.پھر انہوں نے لوگوں سے کچھ مانگا نہیں بلکہ دنیا کی بھلائی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا.حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح علیہم السلام نے خدا تعالیٰ کو پالیا پھر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں کیا دو گے بلکہ انہوں نے کہا ہم نے پالیا ہے آؤ ہم تم کو بھی دیں.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دور سے خدا تعالیٰ کا نور آگ کی شکل میں دیکھا تو انہوں نے یہی کہا کہ ٹھہرو میں وہاں جاتا ہوں اور وہاں سے کوئی انگارا تمہارے لئے بھی لاؤں گا.تو جو لوگ کچھ پالیتے ہیں وہ لوگوں سے یہ نہیں کہا کرتے کہ ہمیں کیا دو گے؟ بلکہ وہ کہتے ہیں ہم سے کیا قربانی لو گے.تو میں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ پھر وہ سب کے سب خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں حقیقت میں خدا نہیں ملا ہوتا بلکہ وہ دنیا کے کے ہوتے ہیں اور چونکہ وہ چیز جس کی انہیں تلاش ہوتی ہے میرے پاس نہیں ہوتی اس لئے وہ مایوس ہو کر کسی اور طرف کا رُخ کر لیتے ہیں.ھو تو جب خدا تعالیٰ کے بندے بھی سودا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت
خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۷ء پڑی ہے کہ وہ لوگوں سے سودا کرتا پھرے.یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی طبیعت کے لوگ گرتے ہیں اور آخر دعا کے مقام پر وہی قائم رہتے ہیں جو اس مقولہ پر عمل کرتے ہیں کہ ؎ کھو جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جائے یعنے مانگنا ایک قسم کی موت ہے لیکن اگر کوئی مانگتا ہی چاہے تو پھر وہ دروازہ سے پہلے نہیں بلکہ بیٹھا رہے ، بیٹھا رہے اور بیٹھا رہے یہاں تک کہ مرجائے.بیشک دُنیوی لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ بندوں سے مانگنا موت ہوتا ہے.لیکن روحانی لحاظ سے اس کے یہ معنی ہیں کہ دعا اُس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک انسان اپنے آپ پر ایک جسمانی موت وارد نہیں کر لیتا.وہ دعا کرتا ہے اور دعا میں اس قدر محو ہو جاتا ہے اور اتنے تضرع، اتنے درد، اتنے سوز ، اتنے گریہ، اتنے قلق اور اتنے اضطراب کے ساتھ دعا مانگتا ہے کہ وہ بُھول جاتا ہے اپنے ماحول کو ، وہ بُھول جاتا ہے اپنے گردو پیش رہنے والے لوگوں کو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے عزیزوں ، دوستوں رشتہ داروں کو ، وہ بُھول جاتا ہے اپنے بیوی بچوں کو اور وہ ول جاتا ہے اپنے آپ کو یہاں تک کہ سب کچھ بھول کر وہ خدا کے پاس چلا جاتا اور اُس کے حضور اپنی حاجات پیش کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ساری خیر خدا میں ہی ہے.تب جس طرح ایک پیاسا شدت پیاس سے دور سے چشمے کو دیکھ کر دوڑ کر اُس کی طرف جاتا اور ضعف و ناطاقتی کی وجہ سے چشمہ کے قریب جا کر گر جاتا اور نہایت حریص اور للچائی ہوئی نگاہوں سے چشمہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے کہ کاش! چشمہ حرکت میں آئے اور اس کے منہ میں خود بخود اُس کا پانی پہنچ جائے اسی طرح دعا کرنے والے کی کیفیت ہوتی ہے.وہ بھی بے حس ہو کر آستانہ الوہیت پر گر جاتا ہے اور اپنے رب کی طرف کی دیکھنا شروع کر دیتا ہے.بے شک جسمانی چشمے ایسی حالتوں میں چل کر انسان کے پاس نہیں آتے مگر کی روحانی چشمے ایسی حالت میں خود بخود چل کر انسان کے پاس پہنچ جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو قرآن مجید میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ.اے محمد یا یہ کوئی مانگنے والا ایسا بھی ہوگا جو دعائیں کرتا چلا جائے گا، کرتا چلا جائے گا اور کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اُس کے پیر تھک جائیں گے، اُس کے ہاتھ شل ہو جائیں گے، اُس کا دماغ پر یشان ہو جائے گا ، اس کے قومی مضمحل ہو جائیں گے اور وہ بے اختیار ہو کر کہے گا میرا خدا کہاں ہے؟ فرمایا اسے کہہ دو اِنِّی قَرِيبٌ میں دوڑا ہی آرہا ہوں.اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب بندہ ایسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتا چلا جاتا ہے جب
خطبات محمود 1+7 سال ۱۹۳۷ء وہ تھک جاتا اور اُس کے قومی مشتعل ہو جاتے ہیں تو فرمایا ایسی حالت میں پھر وہ نہیں پکارتا بلکہ میں اُسے پکارنا شروع کر دیتا ہوں.فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی اُسے چاہئے کہ اب میری آواز کا جواب دے اور اُسے سنے.گویا پہلے فقرہ میں تو یہ مضمون تھا کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو بلاتا ہے اور اس میں یہ بیان کیا کہ پھر خدا اپنے بندے کو بلاتا ہے اور جونہی اُس کی قوتیں رہ جاتی ہیں خدا خود دوڑ کر اُس کی طرف آتا اور اُس وقت وہ طالب اور بندہ مطلوب ، خدا محب اور بندہ محبوب بن جاتا ہے.یہ دعا کا مقام ایسا بلند مقام ہے جو زمین اور آسمان کو ہلا دیتا ہے.جہاں قبولیت اور عدم قبولیت کا کوئی سوال نہیں ہوتا.قبولیت ہوتی اور بہت ہوتی ہے مگر اس شخص کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی وہ صرف ایک ہی بات جانتا ہے اور وہ یہ کہ میرا کام یہ ان ہے کہ میں اپنے رب سے مانگتا رہوں.تم اگر سچی محبت کے انسانی نظائر پر ہی غور کرو تو تمہیں یہ مثال وہاں بھی نظر آ جائے گی.ہاں حقیقت کی آنکھیں کھول کر دیکھو پھر تمہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی عظیم الشان سبق پنہاں نظر آئیں کی گے.تم نے بچہ کو اپنی ماں سے چھٹتے کئی دفعہ دیکھا ہوگا.تم دیکھتے ہو کہ بچہ کی با ہیں اس کی ماں کے گلے میں ہوتی ہیں، اُس کا سینہ اپنی ماں کے سینہ سے لگا ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے اتنازیادہ قریب ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ قریب ہونا ناممکن ہوتا ہے.مگر پھر بھی وہ کہتا جاتا ہے کہ اماں ! اماں.وہ کیوں اماں ! اماں! کہہ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ ماں کے پاس ہی ہوتا ہے.وہ اسی لئے باوجود قریب ہونے کے اماں ! اماں! کہتا ہے کہ ماں کو پکارنا اب اُس کی غذا بن گیا ہے اور اسی پکار میں اُس کی تمام راحت ہوتی ہے.یہی حال ایک سچے سالک کا بھی ہوتا ہے.جس شخص کو خدا تعالیٰ سے حقیقی محبت ہوتی ہے وہ ضرورت کیلئے خدا تعالیٰ سے نہیں مانگتا بلکہ مانگنے کیلئے مانگتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کا سائل ہی بنا رہے.تم نے اپنے گھروں میں اور ی خود اپنی ذات میں اس بات کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہو گا کہ جب کوئی فقیر تمہارے دروازے پر آتا اور کہتا ہے مجھے کچھ خیرات دو تو تم اُسے کچھ دے دیتے ہو.اس کے بعد وہ چلا جاتا ہے اور تم اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہو.لیکن اگر وہ نہ جائے اور دروازہ پر کھڑا رہے تو تم اُسے کہتے ہو اب جاتے کیوں نہیں میں نے تمہیں خیرات دے دی ہے.یہی روحانی خلش اور یہی روحانی خوف ایک خدا کے مُحبّ کے دل میں بھی ہر وقت رہتا ہے کہ اگر میری ایک ضرورت پوری ہوگئی اور دوسری دفعہ میں نے خدا تعالیٰ سے نہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء مانگا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے کہا جائے گا کہ اب کیوں کھڑے ہو، ہمارے دربار سے چلے جاؤ اور چونکہ اس کی اصل غرض مانگنا نہیں بلکہ اپنے محبوب کے دربار میں کھڑا رہنا ہوتی ہے اس لئے وہ مانگتا ہے اور مانگتا چلا جاتا ہے.اس لئے نہیں کہ اسے ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سائل بنا رہے اور اسے یہ نہ کہا جائے کہ اب چلے جاؤ، تمہاری ضرورت پوری ہو گئی.پس ہر وقت ہی وہ کوئی نہ کوئی ہے ضرورت پیش کرتا رہتا ہے تا ہر وقت اسے اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑے رہنے کا حق حاصل رہے.یہ حقیقی محبت کا ایک نظارہ ہوتا ہے مگر لوگ اس کو فلسفیانہ رنگ میں حل کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ ایک جنس کو دوسری جنس سے نا پا نہیں جاسکتا.تم ہوا اور پانی کو اگر ترازو میں تو لنا چاہو تو یہ تل نہیں سکیں گے.اسی طرح عشق اور محبت کے جذبات کو تم فلسفہ کے ترازو میں نہیں تول سکتے اور اگر تو لو گے تو یہ اس تر از و نکل بھاگیں گے.لیکن ہوا کو اگر ان آلات سے تو لو جو سائنس نے گیسوں کے متعلق ایجاد کئے ہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان چیزوں کا بھی وزن ہے اور ان میں بھی طاقت اور قوت ہے حتی کہ سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ جب کسی چیز میں بالکل خلاء کر دیا جائے تو ہوا کا بیرونی دباؤ اُس چیز کو توڑ دیتا ہے.گویا جس چیز کو ہم خالی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ خالی نہیں ہوتی بلکہ اُس میں جو ہوا ہوتی ہے وہ ہمارے سامانوں کی کی حفاظت کر رہی ہوتی ہے لیکن ہماری ظاہری نظر اس کو خالی کہہ دیتی ہے.دعا ایک ایسا حربہ ہے جس کا مقابلہ کوئی چیز نہیں کر سکتی.اور دعا اظہارِ عشق کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.شاید تم میں سے وہ لوگ جو بڑی عمر کے ہیں وہ اپنے بچپن کی باتیں کھول چکے ہوں لیکن مجھے تو ابھی تک بہت سی باتیں یاد ہیں.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتے تھے " آؤ اماں اماں کر لیے.آؤ ابا ابا کریے ( پنجابی ).اس کا مطلب کیا ہوتا تھا ؟ شاید ایک فلسفی یہ نظارہ دیکھ کر کہے کہ بچے کیسے پاگل ہیں کہ ماں باپ کے پاس رہتے ہوئے اس قسم کے فقرے کہتے ہیں.مگر حقیقتا وہ پاگل پن کا اظہار نہیں بلکہ اپنے بڑوں کو یہ نصیحت کرنا ہے کہ دیکھو ہمیں اپنی ماں سے محبت ہے اور ہم کہتے ہیں ” آؤ اماں اماں کریئے.ہمیں اپنے باپ سے محبت ہے اور ہم کہتے ہیں ' آؤ ابا ابا کریے.پھر جبکہ تمہیں دعویٰ ہے کہ تم می اپنے باپ اور اپنی ماں سے بہت زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ تم اس کو یاد کرو اور اُس کے اور زیادہ قریب ہونے کی کوشش کرو.جس وقت ایک فلسفی اپنے سامنے میز لگائے گرسی
خطبات محمود ۱۰۸ سال ۱۹۳۷ء پر بیٹھ کر نہایت ہی رعونت اور تکبر کے ساتھ یہ فقرے لکھتا ہے کہ کیسا ہی بیوقوفی کا وہ مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاؤ اور کہو اے اللہ ! اے اللہ !.بھلا ان الفاظ کے دہرانے سے اس کا کیا فائدہ اور خدا کا کیا فائدہ؟ اُسی وقت اُس کی میز کے نیچے اُس کا بچہ اُسے بیوقوف بنا رہا اور اُس کی حماقت کی اُس پر ظاہر کر رہا ہوتا ہے.جب وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہتا ہے ابا ابا.اس طرح وہ جاہل اپنے علم کے گھمنڈ میں اسی فلسفہ کو ڈ کر رہا ہوتا ہے جس فلسفہ کو اُس کا بچہ اپنے عمل سے ثابت کر رہا ہوتا ہے.مگر چونکہ محبت کا فلسفہ عقل کے فلسفہ سے بالکل جدا ہے اس لئے فلسفی اس راز سے آگاہ نہیں ہوتا.غرض جب میں نے کہا کہ آؤ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں تو میں نے ایک رسمی چیز تمہارے سامنے پیش نہیں کی بلکہ جب میں نے کہا کہ دعائیں کرو تو یہ جانتے ہوئے کہا کہ تم میں سے بہت ہیں جو عرشِ الہی کو ہلا دینے والی دعائیں نہیں کرتے.اور یہ جانتے ہوئے کہا ہے کہ دعا کوئی معمولی چیز نہیں.پس میں نے رسما نہیں کہا، میں نے عادتا نہیں کہا مگر میں نے یہ بھی جانتے ہوئے کہا ہے کہ دعا کیلئے ہزار، دس ہزار یا ایک لاکھ آدمیوں کی ضرورت نہیں.اگر لاکھوں کی جماعت میں سے دس آدمی بھی یسے نکل آئیں جن کے دل حقیقی دعا کرنے والے ہوں تو وہ زمین اور آسمان کو ہلانے کیلئے کافی ہیں.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یتیم کی دعا عرش کو ہلا دیتی ہے اور رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جماعت کی متحدہ دعا قبول کی جاتی ہے.پس جب میں نے کہا کہ آؤ ہم دعا کریں تو اس وقت یہ دونوں باتیں مجھے نظر آ رہی تھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری مثال اُس شخص کی سی تھی جس کا دایاں بھی برکت والا ہو اور جس کا بایاں بھی برکت والا ہو.میں سمجھتا تھا اگر مجھے ایک جماعت مل گئی تو رسول کریم ﷺ کا یہ قول بھی پورا ہو جائے گا کہ جماعت کی متحدہ دعا قبول کی جاتی ہے اور اگر مجھے کوئی ساتھی نہ ملا اور میں اکیلا رہا تو رسول کریم ﷺ کے اس دوسرے قول کی سچائی ثابت ہو جائے گی کہ یتیم کی دعا عرش کو ہلا دیتی ہے.پس اگر مجھے جماعت حاصل ہو گئی تب بھی میرا مقصد پورا ہو گیا اور اگر میں اکیلا رہا تب بھی میرا مقصد مجھے حاصل ہو گیا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ان دونوں حالتوں میں قبولیت دعا کی ہے بشارت دی ہوئی ہے.جماعت ہونے کی صورت میں بھی اور یتیم ہونے کی صورت میں بھی.اور یتیم سے صرف وہی مراد نہیں جس کے ماں باپ نہ ہوں بلکہ جو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں اکیلا رہ جائے وہ یتیم ہے اور جو اپنے ساتھی پالے وہ جماعت ہے.ہمارے خدا نے بھی قرآن مجید میں اس بات کا اظہار فرمایا ہے الله
خطبات محمود 1+9 سال ۱۹۳۷ء چنانچہ ایک نبی کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ امہ تھا گے.یعنی ایک جماعت اس کو حاصل تھی اور ایک کی دوسرے نبی کے متعلق فرمایا کہ وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا تو سب منتشر ہو جاتے اور وہ نبی اکیلا کی رہ جاتا.گویا ایک نبی وہ تھا جس نے جماعت بن کر خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کی اور دوسرا وہ تھا جس نے یتیم بن کر خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل کی.یہ مت خیال کرو کہ تم اِس وقت امن کی حالت میں ہو اور تمہیں دشمن کی طرف سے کسی حملے کا خوف نہیں.اپنے آپ کو امن کی حالت میں کہنا اور دشمن کے حملہ سے بے خوف ہو جانا حماقت ہوتی ہے.کیونکہ بسا اوقات جب انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مصیبت ٹل گئی وہ پہلے سے بھی زیادہ مصیبت کا شکار ہو جاتا ہے.گزشتہ سال حبشہ اور اٹلی والوں کے درمیان جو جنگ ہوئی اور جس میں حبشہ نے شکست کھائی اس کے متعلق جن محققین نے اس نقطہ نگاہ سے غور کیا ہے کہ حبشہ والے کیوں ہارے؟ حالانکہ ابتداء میں انہوں نے اٹلی کو خطر ناک شکست دی تھی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حبشہ والے ہار گئے کیونکہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ہم جیت گئے ہیں.گویا جب انہوں نے شروع میں اٹلی کی فوجوں کو شکست دے دی تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اٹلی نے حبشہ کو غافل یا کر پھر حملہ کر دیا اور اُسے شکست دے دی.میں دیکھتا ہوں یہی حال اس وقت ہماری جماعت کے افراد کا ہے.جب دشمن کا حملہ تھوڑی دیر کیلئے ہٹ جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں اب ہم بچ گئے.میں پوچھتا ہوں تم کیونکر سمجھتے ہو کہ اب ہم بچ گئے.کیا احرار سے ہمارا فیصلہ ہو گیا ہے یا کیا گورنمنٹ سے ہمارا تصفیہ ہو گیا ہے؟ اگر دشمن اس وقت خاموش ہوگیا ہے تو اُس کی خاموشی کے یہ معنے کس طرح ہو گئے کہ ہماری لڑائی ختم ہو گئی ہے.کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ انتظار کر رہا ہو کہ تم سو جاؤ اور مطمئن ہو جاؤ تو پھر وہ تم پر حملہ کرے.پس جب تک ہماری گورنمنٹ سے با قاعدہ صلح نہیں ہو جاتی یا جب تک احرار سے ہمارا ایسا تصفیہ نہیں ہو جاتا جس کے بعد احرار کے لئے ہمارے مقابلہ میں سر اُٹھانا ناممکن ہو جائے ، اُس وقت تک اگر ہماری جماعت میں سے ایک آدمی بھی خاموش ہو کر بیٹھ رہتا ہے تو اس کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ احمق اور بیوقوف ہے.یا د رکھو مومن کی کے دل پر جو زخم لگتے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوتے اور اُس وقت تک ہرے رہتے ہیں جب تک دوسرے کی زخموں کے لگنے کا احتمال باقی رہتا ہے.حضرت نوح کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی ؟ اس لئے ہے
خطبات محمود +11 سال ۱۹۳۷ء کہ ان زخموں کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ مٹ گئے.حضرت موسیٰ کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی.اس لئے کہ موسیٰ کو جو زخم لگے ان کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ دنیا میں نہ رہے.تم کیوں کہتے ہو کہ محمد خاتم النتہین ہیں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ نہیں سکتی ؟ اسی لئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ ہمیشہ آتے رہیں گے جو ان زخموں کو گرید تے رہیں گے.اگر اس اُمت میں بھی زخم کریدنے کی والے نہ آتے تو آپ کی لائی ہوئی تعلیم بھی مٹ جاتی کیونکہ تعلیم کبھی کتابوں کے ذریعہ قائم نہیں رہتی بلکہ ماننے والوں کے ذریعہ قائم رہتی ہے.پس جبکہ خدا نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پاؤں کو باندھ رکھا ہے اور ہماری زبانوں کو اُس نے بند کیا ہوا ہے.جب ایک طرف وہ یہ کہتا ہے کہ جاؤ اور حکومت وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اور دوسری طرف یہ حکم دیتا ہے کہ گالیاں سنو اور چُپ رہو.سوائے ایسے خاص حالات کے جن میں وہ دفاع کی اجازت دیتا ہے مگر اس صورت میں بھی اعتداء سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے تو ان حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت رہ جاتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اس سے کہیں اے ہمارے ہاتھوں کو روکنے والے اور اے ہماری زبانوں کو بند کرنے والے خدا! تو آپ ہماری طرف سے اپنے ہاتھ اور اپنی زبان چلا.پھر ނ کون کہہ سکتا ہے کہ اُس کے ہاتھوں سے زیادہ طاقتور ہاتھ بھی دنیا میں کوئی ہے اور اُس کی زبان.زیادہ مؤثر زبان بھی کوئی ہوسکتی ہے.تم نے خدا تعالیٰ کی قدرت کے کئی نظارے پچھلے دو سالوں میں دیکھے.اب تیسرا سال جارہا ہے اگر تم اس سال پہلے دو سالوں سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے شاندار نظارے دیکھنا چاہتے ہو تو گزشتہ سالوں کے چالیس دنوں کے مقابلہ میں اس سال سات ماہ تک مسلسل دعائیں کرو اور خصوصیت سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِم - یعنی اے خدا! ہم دشمنوں کی گردنوں پر تیرے ہی ہتھیار چلانا چاہتے ہیں اور ان کے شرور اور فتن سے تیری ہی حفاظت چاہتے ہیں.نحر اُس گڑھے کو کہتے ہیں جو اُس جگہ پر واقعہ ہو جہاں گردن اور سینہ باہم ملتے ہیں.یہیں سے بڑی رگیں سر کی طرف جاتیں اور دل سے دماغ کو خون پہنچاتی ہیں.سو نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ان کا گلی طور پر استیصال کرد.اور شرارت اس طرح نہ مٹا کہ وہ بار بار زندہ ہوتی رہے بلکہ اس طرح مٹا کہ وہ کبھی ظاہر نہ ہو سکے.پھر احرار کے علاوہ ہمارے اندر بعض منافق بھی پائے جاتے ہیں جن کا وجود ہمارے لئے سخت
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء مضر ہے.گزشتہ دنوں گورنمنٹ کے بعض حکام کی طرف سے ہم پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کی وجہ سے منافقوں نے بھی گردنیں اُٹھالی ہیں.منافق ایک حد تک ہی چل سکتا ہے زیادہ نہیں چل سکتا.پھر وہ ڈرپوک اور بزدل ہوتا ہے، اُس کے سارے کام مخفی ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایسی صورت ہوتی ہے کہ شریعت اجازت نہیں دیتی کہ اُسے ننگا کیا جائے.پس اس کے شر سے بچنے کا ذریعہ بھی دعاؤں کے سوا اور کوئی نہیں.پھر علاوہ ان واقعات کے جو ہمارے سامنے ہیں اُن عظیم الشان مقاصد کیلئے جن کو سرانجام ینے کیلئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے اگر ہم خاص وقتوں میں دعائیں کریں تو یہ دعائیں ضرورت.زیادہ نہیں بلکہ کم ہی رہیں گی.دنیا کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں.چاروں طرف لوگ ہمارے مخالف ہیں اور ہر جگہ ایسی روکیں پیدا کی جارہی ہیں جن کو دور کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے اور جن مشکلات اور روکوں کو دور کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی نصرت کے سوا اور کوئی ہمارے کام نہیں آسکتا.پس آؤ کہ ہم کی خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کاموں کے پورا کرنے میں ہماری امداد فرمائے جن کیلئے سلسلہ احمد دنیا میں قائم ہوا ہے.اور لوگوں کے قلوب کی اصلاح کرے بلکہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح کا کیا ذکر ابھی ہمارے اپنے نفس ہی بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں.پس خدا اپنے فضل سے ہمارے دلوں کی بھی اصلاح فرمائے، ہمیں اپنے نفس پر غالب آنے کی توفیق دے اور ہمیں وہ طاقتیں عطا فرمائے جن.اس کے دین کا جلال ظاہر ہو اور اُس کا قرب اور وصال ہمیں میسر ہو.غرض مت خیال کرو کہ یہ ایک رسمی بات ہے جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں.یہ ایک کی نہایت ہی اہم مطالبہ ہے جس کو پورا کرنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے.چاہئے کہ جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنی اپنی جماعتوں کو یہ مطالبہ یاد دلاتے رہیں اور روزوں کے متعلق بھی یاد دہانی کراتے رہیں.کیونکہ جو چیز بار بار سامنے آتی رہے اُس کی طرف دل متوجہ ہو جاتے ہیں اور کئی کمزور بھی جو پہلے حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے حصہ لینے لگ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی اسی نکتہ کی طرف راہبری کرتے ہوئے فرماتا ہے فَذَكِّرُ إِنْ نَفَعَتِ الذِكری ۵ کہ تُو لوگوں کو نصیحت کرتا چلا جات کیونکہ نصیحت بہت دفعہ فائدہ دے جایا کرتی ہے.پس میں کہتا ہوں کہ ان دنوں کو خاموشی سے مت گزارو بلکہ روزے رکھو اور دعائیں کرو اور کی
رح 3) 2 خطبات محمود ۱۱۲ سال ۱۹۳۷ء لوگوں سے کہو کہ وہ روزے رکھیں اور دعائیں کریں.جماعتوں کے پریذیڈنٹوں کو چاہئے کہ وہ مساجد میں بار بارلوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ ان ایام میں ان فتنوں کے دور ہونے کیلئے دعائیں کی جائیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں.ان مقاصد کیلئے دعائیں کی جائیں جو سلسلہ احمدیہ کے قیام سے تعلق رکھتی ہیں.اور ان کمزوریوں کیلئے دعائیں کی جائیں جو خواہ ہم میں پائی جاتی ہیں یا دنیا کے اور افراد میں.تا اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے رنگ میں نازل ہوں کہ وہ مصائب کے پہاڑ جو دشمنوں کی طرف سے ہمارے راستہ میں رگرائے گئے ہیں پاش پاش ہو جائیں اور ہمیں کامیابی ، ترقی ، نیکی اور تقویٰ کے سامان زیادہ سے زیادہ عطا ہوں.پس دعا کے متعلق تمہاری کوشش اور ہمت دوسری کوششوں اور ہمتوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہونی چاہئے.کیونکہ یہ مطالبہ بھی دوسرے مطالبات سے کم نہیں بلکہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے.پس روزوں کو یا د رکھو اور دوسروں کو یاد دلاتے رہو اور دعاؤں کو یاد رکھو اور دوسروں کو دعاؤں کیلئے کہتے رہو کیونکہ کام بہت بڑا ہے اور مشکلات بہت زیادہ.ہم کمزور اور بے بس ہیں.ہماری کمزوریاں ہم پر عیاں ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی کمزوریوں سے اتنے واقف نہیں جتنا ہمارا خدا.پس ہم اُسی سے مدد طلب کرتے اور اُسی کی نصرت اور تائید اپنے ہر کام میں چاہتے ہیں.الفضل ۲۴ را پریل ۱۹۳۷ء) البقرة: ۱۸۷ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً....(النحل : ١٢١) الاعلى: ١٠
خطبات محمود ۱۱۳ ۱۲ سال ۱۹۳۷ء مومن خدا کیلئے کا م کرتا ہے فرموده ۲۳ را پریل ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسانی کمزوری ایسے موقع پر جا کر کھلتی ہے جبکہ وہ دیکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے ایک غلط اقدام کر بیٹھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی ہوشیار، چالاک اور دانا ہے حالانکہ وہ اپنے پاؤں پر ان آپ کلہاڑی ماررہا ہوتا ہے.منافق کی حالت بالکل ایسی ہوتی ہے.وہ خیال یہ کرتا ہے کہ میرے جیسا چالاک اور ہوشیار کوئی نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی بیوقوفی کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تم یہ کیا حرکتیں کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ.ہم تو صرف اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ - خوب کان کھول کر سُن لو کہ یہی منافق فتنہ فساد پیدا کرنے والے لوگ ہیں ہاں وہ اپنے فتنہ وفساد والے کاموں کی حقیقت کو سمجھتے نہیں.بسا اوقات وہ ایک فتنہ انگیز حرکت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا ز دلگائی ہے.بسا اوقات خیال کرتے ہیں کہ کیا دھوکا دیا.بسا اوقات یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے کیسی تدابیر اختیار کر رکھی ہیں کہ ہماری حقیقت کو کوئی معلوم نہیں کرسکتا.حالانکہ ان کی مثال اس اندھے اور سو جا کھے کی ہوتی ہے جن کے متعلق یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک اندھا اور سوجا کھا اکٹھے کھانے بیٹھے.سو جا کھے نے تو جس طرح انسان کھاتے ہیں کھانا شروع کر دیا لیکن اندھے کو خیال ہوا کہ یہ ضرور جلدی جلدی کھا رہا ہوگا، اِس لئے اُس نے بھی جلدی
خطبات محمود ۱۱۴ سال ۱۹۳۷ء جلدی ہاتھ مارنا شروع کیا.پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ اس نے مجھے جلدی جلدی کھاتے دیکھ لیا.اس لئے اب یہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگا ہوگا لہذا مجھے اور جلدی کھانا چاہئے اور اُس نے لقمے آدھے ہی چبا چبا کر نگلنے شروع کئے.پھر اُسے خیال آیا کہ میری اس حرکت کو بھی اس نے دیکھ تو لیا ہی ہے اس لئے ضرور اس نے کوئی اور تدبیر زیادہ سے زیادہ کھانے کی کرلی ہوگی اس لئے مجھے بھی اور زیادہ کھانا تی چاہئے اور اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر اسے خیال آیا کہ اب آنکھوں والے نے بھی کوئی اور تدبیر نکال لی ہوگی اور اس کے مقابلہ میں اس نے ایک ہاتھ سے منہ میں اور دوسرے سے جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا.پھر خیال کیا کہ ضرور ہے اس کے مقابلہ میں بھی اس نے کوئی اور تجویز نکالی جی ہو اور چونکہ اس کے ذہن میں کوئی اور صورت نہ آسکی، اس نے تھالی کو اُٹھاتے ہوئے کہا کہ بس جی ! اب یہ میرا ہی حصہ ہے.حالانکہ آنکھوں والے نے اُسی وقت سے کھانے سے ہاتھ اٹھالیا تھا جب سے اندھے نے جلدی جلدی کھانا شروع کیا تھا اور اس دوران میں وہ دیکھتا رہا تھا کہ اندھا کیا کرر ہے.یہی حال منافقوں کا ہوتا ہے.مومن دیکھتا ہے کہ وہ کیا بیوقوفی کر رہا ہے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کرتا.مگر منافق خیال کرتا ہے کہ اب یہ تدبیریں کرتے ہوں گے اور اس کے مقابلہ میں مجھے یوں کرنا چاہئے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس کے چہرے سے نقاب اُٹھا دیتا ہے اور وہ تھالی اُٹھا کر کہتا ہے کہ یہ میرا حصہ ہے اور دنیا کو پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ منافق ہے.مومن اُس سے رعایت کرتا ہے اور منافق سمجھتا ہے یہ میری چالا کی ہے.مومن عفو سے کام لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے میں نے ڈرا دیا.مومن چشم پوشی کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے میں نے خوب دھوکا دیا.تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن کے متعلق میں دس دس اور پندرہ پندرہ سال سے جانتا ہوں کہ وہ منافق ہیں.اتنے سالوں سے وہ جو جو کارروائیاں اور جو جو بکواس اس سلسلہ کے اور میرے خلاف کرتے رہے ہیں میں جانتا اور سنتا ہوں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت چالاک ہیں اور ہماری ان باتوں کا کسی و علم بھی نہیں ہو سکتا اور اگر کبھی پتہ لگ جائے کہ ان کی کسی بات کا مجھے علم ہو گیا ہے اور میں خاموش رہوں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ڈر گیا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اِن سے ڈرتا نہیں ہوں اور ان کے پاس ہے ہی کیا جس سے میں ڈروں.کیا ان کے پاس پیغامیوں سے زیادہ طاقت ہے؟ اور پیغامیوں سے نہ ڈرا تو ان کی ذریت سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں.پھر میرا خاموش رہنا عدم علم کی و
خطبات محمود ۱۱۵ سال ۱۹۳۷ء بھی نہیں ہوتا.مجھے ایک ایک بات کی رپورٹ پہنچتی ہے اور جن کے سامنے وہ باتیں کرتے ہیں وہ کون سے چھپاتے ہیں.مثلاً پیغامی ہی ہیں وہ ایسے لوگوں کی باتوں کو کب چھپاتے ہیں.پرسوں ہی ایک عزیز کا خط مجھے آیا.وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں ریل میں سوار تھا اور فلاں پیغامی بھی وہیں بیٹھے تھے.اس پیغامی کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کون ہوں وہ کہنے لگا دیکھو قادیان کے فلاں فلاں آدمی کتنے مخلص سمجھے جاتے ہیں مگر ہم لوگ جب جاتے ہیں تو وہ ہم سے ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں.اس عزیز کیلئے یہی بات اچنبھا تھی مگر میرے لئے نہیں.میں ان میں سے بعض کے متعلق دس دس سال.جانتا ہوں.بعض کے متعلق دو سال اور بعض کے متعلق ایک سال سے مجھے علم ہے.مگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی چالا کی سے گزارہ کر رہے ہیں حالانکہ ان کا گزارہ صرف مومنانہ عفو اور درگزر سے ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے آج سے دس سال ، چار سال، دو سال، ایک سال اور اگر وہ حدیث العہد ہیں تو چھ ماہ کی قبل بھی تو فیق تھی کہ ان کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دوں اور آج بھی اگر وہ پکڑے جائیں تو قسمیں کھائیں گے کہ یہ سرا سرا تہام ہے ، بہتان ہے.مگر اب وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے بہادر ہیں اور میں ان سے ڈرتا ہوں یا وہ بڑے چالاک اور ہوشیار ہیں اور مجھے ان کا علم نہیں.ان کی مثال اُس کبوتر کی سی ہے جس پر جب بلی حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا اور سمجھتا ہے کہ اب وہ مجھے دیکھ نہیں سکتی.یہاں ایک بیچارہ آدمی تھا جس کی عقل میں فتور آگیا تھا اور چونکہ ہم زمانہ الہام کے بالکل قریب ہیں اس لئے احمدیوں میں سے اگر کسی کا دماغ خراب ہو تو وہ نبوت یا ماموریت کا دعوی کرتا ہے.جیسے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بہت سے جھوٹے مدعیانِ نبوت کھڑے ہوئے تھے.آجکل غیر احمدی اعتراض کرتے ہیں کہ مدعیان نبوت و ماموریت احمدیوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں.مگر نادانوں کی کو نظر نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مسلمانوں میں سے ہی ایسے لوگ پیدا ہوتے تھے.یہ تو ہماری صداقت کی علامت ہے.قرآن کریم بتا تا ہے کہ جب بارش کا پانی اترتا ہے تو اچھے اور بُرے دونوں قسم کے پودے اس سے نشو و نما پاتے ہیں.اسی طرح جب الہام کا پانی اترتا ہے تو آسمانی ترقی کے متعلق جو حرصیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں وہ دعوؤں کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں.ایک ہی پانی سے انگور میٹھا اور نظل کڑوا ہوتا ہے.اسی سے کھمب تریاقی صفت ہوتی ہے اور پر بھیڑ ا زہریلا.الہی کلام بھی پانی کی حیثیت رکھتا ہے.
خطبات محمود ١١٦ سال ۱۹۳۷ء وہ جس پر گرتا ہے اُس کی مخفی استعدادوں کو ظاہر کر دیتا ہے.جس طرح بارش کا پانی جب انگور پر پڑتا ہے تو اسے زیادہ میٹھا کر دیتا ہے اور کھٹے پر پڑتا ہے تو اسے زیادہ کھٹا بنا دیتا ہے.وہ گیہوں پر گرتا ہے تو اسے زیادہ موٹا کرتا ہے اور جو پر گرتا ہے تو اسے بھی موٹا کرتا ہے.وہ صرف نشو ونما دیتا اور خفیہ طاقتوں کو بیدار کرتا ہے.جہاں خفیہ طاقتیں بُری ہوں وہاں وہ اُن کو اُبھارتا ہے اور جہاں اچھی ہوں وہاں اُن کو اُبھارتا ت ہے.اس میں شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ قرآن کریم کا نتیجہ تھے.مگر کیا اس میں بھی کوئی شبہ ہے کہ ابو جہل بھی قرآن کریم کا ہی نتیجہ تھا.اگر قرآن کریم نے ایک طرف محمد رسول اللہ اللہ کی طاقتوں کو ابھارا کر آپ کو خاتم النبین بناد یا تو دوسری طرف بُری طاقتوں کو ابھار کر ابو الحکم کو ابوجہل بنادیا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَّ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا.اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کریم بری باتیں سکھاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کی مثال پانی کی ہے جو تھوہر کو بھی اور انگور کو بھی نشو و نما بخشتا ہے.پانی تو صاف ہوتا ہے مگر اس کا کام خفیہ طاقتوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے جو اندر ہو وہ باہر آ جاتا ہے.اسی لئے قرآن کریم کا نام البیان بھی رکھا گیا ہے؟.کیونکہ وہ ظاہر کر دیتا ہے.تو رسول کریم اللہ کے زمانہ میں بھی ایسی مخفی طاقتوں والے لوگ مدعی بن کر کھڑے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی جن کے دلوں میں مخفی کبریا دریا تھا ان پر جب الہام کا ی پانی گرا تو وہ دعوے کرنے لگے.اسی قسم کا ایک مریض یہاں پچھلے دنوں آیا تھا.میں نے سنا ہے بعض لوگ اس کی طرف منسوب کر کے باتیں میرے متعلق کہتے تھے جو مجھ تک پہنچتی تھیں.میں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بات ہے اور شاید یہی لوگ اُس کو یوں کہتے ہیں.آخر اس کا ایک بھائی میرے پاس آیا اور اُس نے بتایا کہ میں نے اسے کہا تھا کہ تمہارے دماغ میں نقص ہے تمہیں چاہئے کہ سوچو اور غور کرو اور ایسی باتیں نہ کرو.تو اُس نے جواب دیا کہ تم تو مجھے یہ کہتے ہو مگر قادیان کے بعض بڑے بڑے آدمی مجھے یوں کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی جنون وغیرہ نہیں تم بالکل ٹھیک کہتے ہو.میں نے کہا اس نے ایک فلاں شخص کا نی نام لیا ہوگا اور اُس نے اقرار کیا کہ ہاں.دوسرا نام بھی میں لینا چاہتا تھا مگر اخفاء سے کام لیا اور وہ اس نے خود ہی لے دیا.تب میں نے کہا کہ میں یہ نام لینا چاہتا تھا مگر مصلحتاً خاموش رہا تھا سو یہ نہیں کہ مجھے علم نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو اس لئے خاموش ہو جاتا ہوں کہ ثبوت اس حد تک نہیں ہوتا کہ جس کی موجودگی میں شریعت گرفت کی اجازت دیتی ہے اور بعض دفعہ اس لئے خاموش رہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالی ہدایت کی
خطبات محمود لا سال ۱۹۳۷ء دے دے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ منافق کو ہدایت بہت کم ملتی ہے مگر پھر بھی سو میں سے دس ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جن کو ہدایت نصیب ہو گئی.گو اب میری رائے یہی ہوتی جارہی ہے کہ منافقوں کو زیادہ ڈھیل دینا شاید اور منافق پیدا کرنے کا موجب ہو.کیونکہ جب ایک منافق نکلتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی بیجی چھوڑ جاتا ہے جو اپنے وقت پر پودا پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے.لیکن اس کا علاج میں اب تک نہیں سوچ کی سکا کہ شریعت جب تک سزا کی اجازت نہیں دیتی اُس وقت تک کیا کیا جائے.کیونکہ ایسے ثبوت سے سزا پہلے اگر سزا دی جائے تو ظلم کا راستہ کھل جاتا ہے.بہر حال ایسے لوگ مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتے اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ رویا میں ان کی شکلیں بھی دکھا دیتا ہے.ایک دفعہ میں اپنے بڑے گھر میں تھا یعنی جہاں میری بڑی بیوی رہتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی صحن میں رہا کرتے تھے.مجھے نیچے گلی میں کچھ کھڑ کا معلوم ہوا اور ایسا القاء ہوا کہ گویا نیچے منافقین ہیں.میں نے نالی کے سوراخ میں سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ دیواروں سے لگے کھڑے ہیں اور اندر جھانک کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں یا کان لگا کر سننا چاہتے ہیں.جب انہیں معلوم ہوا کہ میں دیکھ رہا ہوں تو وہ بھاگے.وہ تعداد میں جہاں تک یاد ہے نو تھے.بھاگتے ہوئے ان میں سے بعض کو میں نے پہچان بھی لیا اور ایک کا علم تو اب تک ہے.مگر بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عفو سے کام لیا اور میں اُن کو دیکھ نہ سکا.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی کرتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص میرے سامنے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر اُس کا اندرونہ کھول دیتا ہے اور مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس پر ان دنوں نفاق کی حالت طاری ہے.مگر میں خاموش رہتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے دے.لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ منافقوں پر نصیحت کا اثر کم ہی ہوتا ہے.کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہوشیار اور ہم کو بیوقوف ، ہمیں مفسد اور اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں.ایسی صورت میں ہماری نصیحت اُن پر کیا اثر کر سکتی ہے.پھر وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ان سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فی الواقعہ ہمارے متعلق علم ہے تو ہمیں نکالتے کیوں نہیں اور جب کسی منافق کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ چونکہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ اپنے دل میں کہتے ہیں وہ کوئی اور بیوقوف ہوگا جس کا علم ہو گیا ہم ایسی ہوشیاری سے کام کرتے ہیں کہ ہمیں پکڑ نا آسان نہیں.پس میں اُن سے نہیں بلکہ تم لوگوں سے جو مخلص ہو کہتا ہوں کہ غور کرو کیا منافق کوئی نئی قسم کا سر
خطبات محمود ۱۱۸ سال ۱۹۳۷ء اور نئی قسم کا دل و دماغ لے کر آتا ہے؟ جسمانی لحاظ سے مومن اور منافق میں کوئی فرق نہیں ہوتا بالکل باریک فرق ہے پلِ صراط کی طرح.جب انسان ایمان سے ذرا ادھر ہو تو منافق بن جاتا ہے.اچھی طرح یا درکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے کام کرتا ہے وہ مومن ہے اور جس کے کام میں نفس کی ملونی ہے وہ منافق ہے.ایک شخص بہت عبادت گزار اور نیک کام کرنے والا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کی ڈیوڑھی پر پہنچ جاتا ہے مگر منافقت اُس کے دل کے پردوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے.یہاں تک کہ اُسے کوئی کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے بڑی خدمت کی مگر میری کوئی قدر نہیں کی گئی اور اُس کی منافقت ظاہر ہو جاتی ہے.وہ اپنی پہلی حالت میں بھی منافق تھا اور اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ منافق ہے.مگر پہلے اُس کا نفاق ایمان کے لباس میں چھپا ہو ا تھا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک جنگ میں ایک شخص بڑے جوش اور زور کے ساتھ اسلامی لشکر کی طرف سے لڑ رہا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی جہنمی کو روئے زمین پر چلتے پھرتے دیکھنا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے.صحابہ اس بات کو سُن کر حیرت میں پڑ گئے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اتنی قربانی کرنے والا بھی جہنمی ہے تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا.بعض نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کو غلط رپورٹیں پہنچائی گئی ہیں.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا افسوس ہے لوگ رسول کریم ہے کی بات میں شک کرتے ہیں اور میں اس شخص کے ساتھ رہوں گا تا اس کا انجام دیکھ سکوں.وہ اس کے ساتھ ساتھ رہے اور بیان کرتے ہیں کہ اس نے اس قدر شدید لڑائی کی کہ دشمن کے چھکے چھڑا دیئے.آخر وہ زخمی ہو کر گرا اور شدت درد سے کراہ رہا تھا.کئی صحابہ جو نہ جانتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق کیا فرمایا ہے یا جانتے تو تھے مگر سمجھتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کو غلط رپورٹیں پہنچائی گئی ہیں ، وہ آتے اور اُسے کہتے ابشر بالجَنَّةِ تمہیں جنت کی بشارت ہو.مگر وہ جواب دیتا کہ ابشِرُونِی بِالنَّارِ مجھے دوزخ کی خبر دو.اس پر وہ صحابہ حیران ہوتے اور کہتے کہ یہ کیا کہ رہے ہو تم نے اسلام کیلئے اتنی قربانیاں کی ہیں.مگر وہ جواب دیتا کہ میں نے اسلام کیلئے کوئی قربانی نہیں کی.ان لوگوں نے میرے بعض رشتہ داروں کو مارا ہو ا تھا اور میں نے ان سے محض ان کا انتقام لیا ہے.گویا اُس نے اقرار کر لیا کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق جوفر مایا تھا وہ صحیح تھا.وہ خدا کیلئے نہیں لڑ رہا تھا اور اس نے خود اقرار کر لیا کہ میں جہنمی ہوں.
خطبات محمود ۱۱۹ سال ۱۹۳۷ء اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کیلئے لڑنے والے اور جنتی کی مثال یہ ہے کہ غزوہ خیبر میں حضرت علی نے ایک بڑے جنگجو اور زبردست دشمن کو جب زمین پر گرا لیا اور اُسے مارنے لگے تو اُس نے آپ کے منہ پر ٹھوک دیا.اس پر آپ فوراً الگ ہو کر کھڑے ہو گئے.اُس نے کہا آپ نے مجھے اس قدر کوشش سے گرایا اور جب مجھے مارنے کا وقت آیا تو اُٹھ کر علیحدہ کھڑے ہو گئے.آپ پر میری تلوار نے تو کوئی اثر نہ کیا، یہ کیا بات ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ جب میں تم سے لڑ رہا تھا تو تمہیں اسلام کا دشمن سمجھ کر لڑتا تھا لیکن جب تم نے مجھ پر تھوکا تو چونکہ مجھے یہ حرکت بُری معلوم ہوئی اور میرے دل میں بغض پیدا ہو گیا.میں نے نے سمجھا کہ اگر اب میں نے تمہیں مارا تو میں خدا کے نزدیک قاتل ٹھہروں گا کیونکہ میرا تم کو قتل کرنا اپنے غصہ کی وجہ سے ہوگا..تو جن لوگوں کے اندر نفاق ہوتا ہے ان کے دل کے اندر ایک چھوٹی سی رگ ہوتی ہے جو دھڑکتی رہتی اور موٹی ہوتی رہتی ہے.وہ اس کے کان میں کہتی رہتی ہے کہ تو بڑا آدمی ہے تو نے بہت قربانیاں کی ہیں مگر تیری قدرنہیں کی جاتی.مگر مومن کے اندر ایک رگ ہوتی ہے.جو اُسے کہتی رہتی ہے کہ دیکھ تو کتنا ذلیل تھا، کمزور تھا، بے سروسامان تھا مگر اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اُس نے تجھے بھی خدمت کا موقع دے دیا.اور جب لوگ اُسے آگے کرتے ہیں تو وہ شرمندہ ہو کر جھک جاتا اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی کیا جو کچھ کیا یہ میرا کام نہیں ہے.پھر لوگ مجھے کیوں آگے کرتے ہیں ، میں نے تو کوئی کام نہیں کیا.پس مومن اور منافق میں نمایاں فرق یہی ہوتا ہے ورنہ منافق کے سر پر سینگ نہیں ہوتے.منافق اگر کوئی کام کرتا ہے تو اُسے خیال ہوتا ہے کہ میری قدر ہونی چاہیے مگر مومن کوئی کام کرے تو اس کی کی ندامت بڑھتی اور شرمندگی ترقی کرتی ہے.وہ جوں جوں اُونچا ہوتا ہے خدا کا جلال اسے زیادہ نظر آتا ہے مگر منافق اپنے آپ کو بڑا اور خدا کے جلال کو چھوٹا سمجھتا ہے.منافق اور مومن کی مثال یوں سمجھ لو کہ دو شخص ہوائی جہاز میں بیٹھے ہیں.مومن اونچا ہوتا جاتا ہے اور اسے سورج بڑا اور زمین چھوٹی نظر آتی ہے مگر منافق نیچا ہوتا جاتا اور اسے سورج چھوٹا اور زمین بڑی نظر آتی ہے.بس یہی فرق دونوں میں ہوتا ہے.ورنہ نمازیں منافق بھی پڑھتا ہے اور مومن بھی.روزے دونوں رکھتے ہیں ، حج دونوں کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت دونوں کرتے ہیں ، صدقہ و خیرات بھی دونوں کرتے ہیں.فرق صرف یہ ہوتا.
خطبات محمود ۱۲۰ سال ۱۹۳۷ء کہ منافق کے اندر بڑائی اور کبر ہوتا ہے.وہ سمجھتا ہے میں ہی بڑا ہوں، وہ اپنی عزت چاہتا ہے.لیکن مومن خدا کی عزت چاہتا ہے.خدا تعالیٰ بھی منافق کی نظروں میں ہی اس کے نفس کو بڑا اور مومن کی نگاہی میں اس کے نفس کو چھوٹا کر کے دکھاتا ہے.خدا تعالیٰ پر کامل ایمان روشنی ہے اور نفس ایک سیا ہی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دل پر ایک سیاہ داغ ہوتا ہے جو شخص نیک کام کرے اُس کی سیاہی گھٹتی اور سفیدی بڑھتی جاتی ہے حتی کہ سارا دل اُس کا سفید ہو جاتا ہے.لیکن جو ریاء سے کام لیتا ہے اور کبری پسند ہوتا ہے، اُس کے دل کی سفیدی کم ہوتی اور سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتی کہ اس کا تمام دل سیاہ ہو جاتا ہے.کے تم جو منافق نہیں ہو یہ مت سمجھو کہ تم نفاق کے خطرہ سے محفوظ ہو.مسلمانوں پر زوال اسی وجہ سے آیا کہ ان میں کروڑوں منافق بن گئے.وہ اسلام کا دعویٰ تو بے شک کرتے تھے مگر حقیقی محبت اسلامی باقی نہیں رہی تھی.وہ اپنے نفسوں کو مقدم کرنے لگے اور اُن کے دلوں میں عجب اور کبر آ گیا.ایسے لوگ اپنے آپ کو خواہ کتنا بڑا کیوں نہ سمجھیں اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے.آپ فرماتے ہیں مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ کی ایک بڑی لمبی نالی ہے جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے اور اس نالی پر ہزارہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں.اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے ، اس غرض سے کہ تا ذبح کرتے وقت ان کا خون نالی میں پڑے اور باقی حصہ ان کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور نالی شرقاً غر با واقع ہے اور بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف رکھے گئے ہیں اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے.اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں اور میں اس میدان میں شمال کی طرف پھر رہا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ ان لوگ جو دراصل فرشتے ہیں ، بھیڑوں کو ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے اور تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعاءُ كُم یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پر واہ کیا رکھتا ہے.اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت ہوگئی.گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے.تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فی الفور اپنی بھیڑوں پر ھریاں پھیر دیں اور پھر یوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک دردناک طور پر تڑپنا شرور تب ان
خطبات محمود ۱۲۱ سال ۱۹۳۷ء وہ فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.2 جو شخص خود بجز اور انکساری دکھاتا ہے اور خدا کیلئے بڑی سے بڑی ذلت برداشت کرنے کیلئے تیار رہتا ہے، اُس کیلئے دنیا بھی موتی اور ہیرے بن جاتی ہے.مگر جو اپنے لئے دنیا کی طرف جھکتا اور ان بڑائی دکھاتا ہے وہ اس کیلئے گوہ بن جاتی ہے اس لئے کہ وہ خدا کا مال ہے اور جو خدا کا نہیں ، خدا کے مال پر اس کا کوئی حق نہیں.دنیا اگر مومن کے پاس ہو تو وہ چونکہ خدا کا بندہ ہے وہ اس کیلئے حلال طیب بن جاتی ہے اور منافق کے پاس ہو تو چونکہ اس کیلئے حرام ہوتی ہے وہ اس کیلئے نجاست بن جاتی ہے کیونکہ و خدا کا مال ہے جس پر منافق کا کوئی حق نہیں ہوتا.وہ ایک کو انسان بنادیتی ہے اور دوسرے کو گوہ کھانے والی بھیڑ.جب وہ سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں اُس وقت وہ گوہ کھانے والی بھیڑ ہے اور جب اپنے نفس کو مٹادیتا ہے اُس وقت وہ خدا کا سپاہی بنتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کے ہاتھ پاؤں ، آنکھ ، کان ، ناک ہو جاتا ہے.وہ خدا کا مظہر ہے اس لئے خدا کی چیزیں اُس کیلئے حلال اور طیب ہو جاتی ہیں لیکن جس اپنا ایک الگ وجود بتا تا ہے تو وہ غیر ہو جاتا ہے اور غیر کو خدا تعالیٰ کے مال پر کوئی حق نہیں.پس اپنے نفسوں کو ٹولو اور دیکھو کہ تمہاری قربانیاں اپنے نفس کیلئے تو نہیں.اگر تم کسی عزت کے طالب ہو ، اگر معاوضہ کے خواہاں ہو تو تم گوہ کھانے والی بھیڑیں ہو.لیکن اگر تم نمازیں پڑھتے ، چندے دیتے اور قومی کام کرتے ہو اور ہر کام کے بعد تم دیکھتے ہو کہ تمہارا نفس اور بھی چھوٹا ہو گیا ہے یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دیکھ ہی نہیں سکتے، تمہارا وجود مٹ جاتا ہے تو تم بیشک مومن ہو.بعض لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا عالم ہے، نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہے وہ منافق کیسے ہو سکتا ہے.حالانکہ منافق اُسے نہیں کہتے جو نمازیں نہ پڑھے یا روزے نہ رکھے بلکہ منافق وہ ہے جو کام اپنے نفس کیلئے کرتا ہے اور پھر چینی اور شور مچاتا ہے کہ میری قدر نہیں کی گئی.اگر کہو کہ کس طرح پتہ لگے کہ کوئی شخص ذاتی عزت کا خواہاں ہے تو اس کا طریق آسان ہے.تم دیکھو کہ جب وہ ایک جماعت میں شامل ہے اور پھر اس پر اعتراض بھی کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ ذاتی عزت چاہتا ہے.دراصل جماعت میں خرابی نہیں.اگر فی الواقعہ جماعت میں خرابی ہوتی تو وہ اس میں شامل ہی کیوں رہتا.اگر جماعت کو ہی وہ بُراسمجھتا ہے تو اس سے الگ کیوں نہیں ہو جاتا.شامل رہنے اور پھر اعتراض کرنے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کا مطلب یہی ہے کہ اگر میں لیڈر ہوتا تو پھر یہ جماعت اچھی تھی.اس کا فعل ہی دلالت کرتا ہے کہ وہ عزت کا بھوکا ہے اور اگر وہ کہتا ہے کہ مجھے عزت کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے.کیونکہ اُس کا عمل اُس کے قول کو رڈ کر رہا ہوتا ہے.وہ یقیناً عزت کا خواہشمند ہے اور یہی خواہش اسے ذلیل کرتی جاتی ہے.پس میں نے ایک گھلا معیار بتا دیا ہے.اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قربانی کی پرواہ نہیں کی گئی تو یا د رکھو کہ جس دن تمہارے اندر یہ خیال پیدا ہوا اُسی دن سے تمہارے اندر نفاق کی رگ پیدا ہو گئی.ایسے شخص کو میں منافق تو نہیں کہتا لیکن نفاق کی رگ اس میں ضرور ہے.کئی ہیں جو کسی سے لڑتے ہیں تو شکایت کرتے ہیں کہ جماعت ہماری مدد نہیں کرتی.وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے سلسلہ کی کوئی خدمت کی تھی.لیکن اگر تم اسے خدا کا کام سمجھتے ہو تو پھر تمہارا کیا حق ہے کہ اس کے معاوضہ کی اُمید رکھو.کئی لوگوں کو اس بات پر ابتلاء آجاتا ہے کہ فلاں شخص کو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری یا امام الصلوۃ کیوں بنا دیا گیا.میں نے یہ ایک ایسا معیار بتا دیا ہے کہ اگر تم اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نفسوں کو ٹو لتے رہو تو نفاق سے بچ سکتے ہو.جب تمہارے دل میں عجب ، بڑائی اور کبر پیدا ہو، جب یہ خیال پیدا ہو کہ تمہارے ساتھ ، تمہاری اولاد کے ساتھ ، تمہارے بھائیوں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا تو سمجھ لو کہ یہ نفاق ہے.جب اِس سلسلہ کو خدائی سلسلہ سمجھتے ہو اور جماعت میں کوئی نقص دیکھتے ہو تو سمجھ لو کہ خدا خود ذمہ دار ہے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.جو فعل بادشاہ کے سامنے ہو اہو کیا اُس کی طرف بادشاہ کو توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے ؟ وہ اگر ضرورت سمجھے تو خود ہی دخل دیتا ہے.پس تم بھی یہی سمجھو کہ اگر کوئی بات دخل دینے کے قابل ہے تو ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ سب کچھ دیکھتا ہے وہ خود دخل دے گا.اگر نہیں دیتا تو سمجھ لو کہ دخل دینے کی ضرورت نہ تھی.پس ایمان کے ساتھ زندگی بسر کرو.یہ زندگی ہے کتنے دن کی.اگر کوئی شخص یہ چند روز بھی صبر کے ساتھ نہیں گزار سکتا تو وہ کس طرح توقع کر سکتا ہے کہ اسے ایک نہ ختم ہو نیوالی زندگی دے دی جائے.وہ ان گنت سالوں کی زندگی حاصل کرنا چاہتا ہے مگر دو یا چار سال صبر سے نہیں گزار سکتا.
خطبات محمود ۱۲۳ سال ۱۹۳۷ء میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر انسانی زندگی پانچ ، سات سو بلکہ ہزار سال کی بھی ہوتی اور یہ تکالیف میں بسر ہوتی تو وہ تکالیف بھی آخرت کے آرام کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ رکھتیں.لیکن یہ زندگی تو ہے ہی بہت محدود.اس کی تکالیف اور بے عزتی کی حقیقت ہی کیا ہے اصل عزت خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی ہے.اگر اس کیلئے ہمیں اپنی عزت کی قربانی کرنی پڑے تو ہمیں اپنی عزت اسی میں سمجھنی چاہئے اور سلسلہ کیلئے ہر قربانی پیش کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے.خصوصیت سے اس وقت یہ بات میں نے اس لئے کہی ہے کہ چند دنوں میں دور دیا ایسے ہوئے ہیں جو جماعت کو اس طرف توجہ دلانے والے ہیں.ایک رؤیا تو ہمارے خاندان سے باہر کے ایک دوست نے دیکھا ہے.اس نے رویا میں رسول کریم ﷺ کو دیکھا ہے.آپ لوگوں سے کچھ فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی تم کو نصیحت کی گئی تھی.دوسرا رویا میری ہمشیرہ نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک تخت پر کھڑے ہیں جو کانپ رہا ہے اور آپ لوگوں سے فرماتے ہیں کہ پندرہ میں روز یہ دعا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا اور متفرق مقامات کے متفرق اشخاص کے یہ خواب بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ایمانوں کو صدمہ سے بچانا چاہتا ہے اور بعض کے ایمانوں کو خطرہ سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور یہ تینوں مقام ایسے نہیں کہ ان کو غفلت سے گزار دیا جائے.اس لئے میں نے ضروری سمجھاتی کہ مومن اور منافق کا فرق دوستوں کو بتا دوں.تا اگر وہ اپنے ایمانوں کو بچانا چاہیں تو بچالیں ورنہ ایمان اور نفاق میں بال سے بھی زیادہ بار یک فرق ہے جسے انسان سمجھ بھی نہیں سکتا.خصوصاً اس زمانہ کیلئے تو پیشگوئیاں بھی بہت سی ہیں.مثلاً ایک پیشگوئی یہ ہے کہ یمسى مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا - یعنی بعض انسان رات کو مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور صبح اُٹھے گا تو کافر ہوگا.یہ زمانہ اس قدر وساوس اور شبہات کا ہے کہ ایمان کو بچانا بہت مشکل ہے.بیشک قرآن کریم نے اس زمانہ کی نسبت فرمایا ہے کہ وَإِذَا الْجَنَّةُ ازْلِفَت نے جنت قریب کر دی جائے گی.لیکن ساتھ ہی قرآن کریم سے اس زمانہ کا زمانہ ابتلا ء ہونا بھی ثابت ہے.پس یہ جو آزادی کا زمانہ ہے اس میں ہر وقت تم نفاق کے دروازہ پر کھڑے ہو.تمہیں چاہئے کہ ہر وقت اپنے ایمان کی فکر کرتے رہو اور اس کا طریق بھی میں نے بتا دیا ہے.اگر چاہو تو اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ایمانوں کو بچا سکتے ہو ورنہ منافقت کا دروازہ بالکل قریب ہے اور ایک ہی دھکے میں تم
خطبات محمود اس کے اندر جاسکتے ہو.۱۲۴ سال ۱۹۳۷ء البقرة : ١٢ ٢ البقرة: ١٣ البقرة: ۲۷ الفضل ۲۸ را پریل ۱۹۳۷ ء ) ال عمران: ۱۳۹ ۵ الرحمن بخارى كتاب القدر باب العمل بالجواتيم (مفهوم ) کے ابن ماجه کتاب الزهد.باب ذكر الذنوب تذکرہ صفحہ ۱۸ ،۱۹.ایڈیشن چہارم مسلم كتاب الايمان باب الحث على المبادرة بالاعمال التكوير: ۱۴
خطبات محمود ۱۲۵ سال ۱۹۳۷ء جھوٹ اور نفاق کے تمام شعبوں سے پر ہیز رکھنا چاہئے (فرموده ۳۰ اپریل ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسانی زندگی میں یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ ایک طرف تو انسان بڑے دعوے سے یہ بات پیش کرتا ہے کہ بھلا میں بیوقوف یا پاگل تھا کہ فلاں بات کرتا.جس کے معنے یہ ہیں کہ جان بوجھ کر کوئی شخص غلط طریق اختیار نہیں کرتا.دوسری طرف وہی انسان بعض دفعہ غلط طریقہ اختیار کرتا ہے اور اقرار کی کرتا ہے کہ اُس کا طریق غلط ہے.کیونکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بے بس تھا اور اس کا بس نہ چلتا تھا اس نے واسطے اس نے ایسا کیا.وہی آدمی ہوتا ہے ، وہی اُس کی طاقتیں ہوتی ہیں، وہی اس کے حالات ہوتے ہیں لیکن اُس کی زبان پر ایک وقت یہ فقرہ ہوتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا.اور پھر اُس کی زبان پر یہ فقرہ ہوتا ہے کہ وہ بے بس تھا اِس واسطے ایسا ہو گیا.اب ان دونوں باتوں میں سے ایک ضرور غلط ہوتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی غلط ہوں.جب وہ یہ کہتا تھا کہ اس کے بس میں نہ تھا حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے بس کو اور طاقت کو استعمال کرنا پسند نہ کیا تھا.یا جب وہ یہ کہتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا ، اُس وقت وہ اپنے علم کا غلط فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے.درحقیقت وہ جانتا ہے کہ میں نے ایسا کام کیا ہے لیکن اپنے سمجھدار ہونے کی چادر میں اپنے عیب کو چُھپانے لگ جاتا ہے.گویا وہ جب کہتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا اُس وقت بھی جھوٹ بولتا ہے اور جب کہتا ہے کہ میں بے بس تھا اُس وقت بھی بے بس نہیں ہوتا.جب ہم انسانی اعمال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں باتیں غلط کہہ رہا ہوتا ہے
خطبات محمود ۱۲۶ سال ۱۹۳۷ء ہے.یا کم سے کم ایک آسان طریق اس کو مجرم بنانے کا یہ ہوتا ہے کہ اُس کے دعوے کو ہی اُس کے سامنے پیش کر دیا جائے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے.اب اسی سے پوچھنا چاہئے کہ فلاں موقع پر تو تم نے کہا تھا کہ کیا میں پاگل تھا یا بے بس تھا کہ ایسا کرتا اور اب کہتے ہو کہ بے بس تھا.ان دونوں میں سے کونسا دعویٰ صحیح تھا ؟ اگر یہ فقرہ درست ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جب تک کہ اس کا علم اور عقل تسلی نہیں پائیں گے تو پھر یہ درست نہیں کہ وہ بعض افعال کے ارتکاب میں بے بس تھا.کیونکہ بے بس ہونے کے یہ معنے ہیں کہ یہ جانتا تو تھا لیکن رُک نہیں سکتا تھا.پس دونوں چیزیں ایک وقت میں جمع نہیں ہوسکتیں.جو شخص ایمان اور عقل کے خلاف نہیں کرتا وہ بے بس نہیں ہو جاتا اور جو بے بس ہو جاتا ہے وہ اپنے ایمان اور عقل کے خلاف باتیں بھی کر لیتا ہے.جو کہتا ہے کہ میں بے بس تھا وہ اقرار کرتا ہے کہ میں کبھی علم ، ایمان اور عقل کے خلاف بھی باتیں کر سکتا ہوں کیونکہ مجبور ہو جاتا ہوں.اور جو یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی عقل اور ایمان کے خلاف بات نہیں کر سکتا اُس کا اپنے آپ کو بے بس کہنا جھوٹ ہوتا ہے.کیونکہ جب وہ اپنی مرضی کے خلاف کام نہ کرنے پر قادر ہے تو بے بس کس طرح ہوسکتا ہے.اصل میں یہ دو بہانے ہیں جن سے انسان اپنے جرم کو چھپاتا ہے.جب یہ تی خدا کے ، اپنے ملک کے اور اپنے نفس کے فرائض کو ادا نہیں کرتا لیکن ساتھ ہی سمجھتا ہے کہ کوئی میرا جرم ثابت نہیں کرسکتا تو کہہ دیتا ہے کیا میں پاگل تھا کہ یہ کام کرتا اور جب وہ سمجھتا ہے کہ میرا جرم نا قابل انکار حد تک ثابت ہے اور میں بہانوں سے اسے چُھپا نہیں سکتا تو کہتا ہے کہ میں کیا کروں، میں بے بس تھا.غرض دونوں عذر مختلف جگہوں پر استعمال کئے جاتے ہیں.جب جرم ثابت ہو تو بے بس ہونے کا اور جب ثبوت مشکل ہو تو کہتا تھا کہ میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا.ان دونوں غذروں کی وجہ سے ہم سستی اور غفلت میں روز بروز بڑھتے جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس میں کئی عیب تھے.اس نے آپ سے درخواست کی اور نجات کا طریق دریافت کیا.اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کچھ تم کوشش کرو کچھ میں دعا کرتا ہوں.تم یہ کرو کہ اپنے پانچ عیوب میں سے ایک کو چھوڑ دو.اور میں دعا کروں گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تمہیں باقیوں کے چھوڑنے کی بھی توفیق دے دے گا.اُس نے دریافت کیا کہ وہ کس کو چھوڑ دے؟ صلى الله حضور ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو اور ساتھ ہی اسے فرمایا کہ وہ حضور ﷺ سے ملتا ہے.اُس شخص نے
خطبات محمود ۱۲۷ سال ۱۹۳۷ء وعدہ کیا اور چلا گیا.کچھ عرصہ بعد جب اُس کے دل میں ایک عیب کے ارتکاب کی خواہش پیدا ہوئی تو تو جھٹ اسے خیال آیا کہ رسول کریم ﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا.لہذا اُس کا ارادہ ترک کر دیا.کچھ وقفہ کے بعد دوسرے عیب کا خیال پیدا ہوا.پھر جھٹ یہ امر سامنے آ گیا کہ اگر ی رسول کریم ﷺ یا کسی دوست نے دریافت کیا تو کیا جواب دوں گا کیونکہ جھوٹ تو بولنا نہیں.بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ اس عیب کا ارتکاب نہیں کروں گا.حتی کہ چاروں عیبوں کے کرنے کا باری باری خیال پیدا ہوا اور اسی خیال کے آنے سے کہ اگر رسول کریم ﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا ، سب کا ارادہ ترک کر دیا اور اُسی دن وہ اِن عیبوں سے محفوظ رہا.اسی طرح کئی دن گزر گئے اور ہر روز اُس کی ان عیوب سے بچنے کی طاقت بڑھتی گئی اور جب رسول کریم ﷺ نے اس کو بلایا تو اس نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ يَارَسُولَ اللَّهِ اس خیال سے کہ کسی کے دریافت کرنے پر اپنے عیب کا اقرار کرتے ہوئے سچ بولنے میں شرمندگی ہوگی میں نے اس وقت تک یہ عیب نہیں کئے اور اب میں پانچوں عیبوں کی کے چھوڑنے پر قادر ہوں لے غرض جھوٹ کے چھوڑنے سے یہ طاقت اس کے اندر پیدا ہوگئی.یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مُجرم کو چھپاتا ہے یا دوسرے کو مرعوب کرنا چاہتا ہے تو جیسے عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی ایسے امر کے متعلق دریافت کیا جائے جس میں ان کی کا قصور ہو تو جھٹ شور مچادیتی ہیں، رونے لگ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان پر یونہی بدظنی کی جاتی ہے.یہی حالت چالاک مردوں کی بھی ہوتی ہے.وہ اس بات کی طرف آتے ہی نہیں.یہ طریق ایسے لوگوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے جو دل میں سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بُرا ہے لیکن سچ بولنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی.وہ ج ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں تا کہ ان سے اس بارہ میں دریافت نہ کیا جائے لیکن جب اُن کو اس بات کی کے بتلانے پر مجبور کیا جائے تو آخر وہ جھوٹ بول دیتے ہیں.بچوں کا بھی قاعدہ ہے کہ جب ان سے کوئی بات دریافت کی جائے تو جھٹ وہ اور سوال شروع کر دیتے ہیں.مثلاً اگر یہ دریافت کیا جائے کہ وہ کیوں مٹی میں کھیلتے رہے؟ تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ بُھوک لگی ہے.گویا وہ چاہتے ہیں کہ بات کو دوسری طرف پلٹا کر جرم پر پردہ ڈال دیں.جب کوئی انسان یہ ارادہ کرے کہ اُس نے ہمت سے کام کرنا ہے اور اپنے فرائض کو سمجھنا ہے تو ایسے انسان کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی.کیونکہ جو کام کرتا ہے اُسے بہانوں کی ضرورت نہیں
خطبات محمود ۱۲۸ سال ۱۹۳۷ء ا ہوا کرتی.اس قسم کے عذرات کی عادت جرائم کی محبت سے پیدا ہوتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ ان جرائم میں روک نہ پیدا ہو.ہاں کچھ ایمان کی چاشنی بھی ہوتی ہے.کیونکہ اگر ایمان کی چاشنی نہ ہو تو دھڑلے سے جھوٹ بولے.ایمان اس سے یہ کہتا ہے کہ اگر سچ بولنے سے بچ سکو تو فیہا اور کفر کہتا ہے کہ نہ بچ سکو تو پھر جھوٹ ہی بول دو.ہمارے بعض آدمی چائے میں میٹھا اور نمک ڈال لیتے ہیں اور اس کا نام سنگترہ چائے رکھتے ہیں.میں تو اسے منافق چائے کہا کرتا ہوں.ایسے لوگوں کی حالت بھی اس ملی ہوئی مٹھاس اور نمک کی سی ہوتی ہے.عام طور پر یہ مرض ایسا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ احمدیوں کو چھوڑ کر باقی لوں میں ننانوے فیصدی پایا جاتا ہے.احمدی جو غیر تعلیم یافتہ ہیں ان میں بھی کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے.وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہی چیز قومی تباہی کا موجب ہوا کرتی ہے.وہ اپنے آپ کو کامل بنانے کی کوشش نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ بغیر کامل بننے کے بری ہو جائیں.لیکن جب کوئی شخص اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ سچ بولے تو وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اسے کہیں جھوٹ نہ بولنا پڑے وہ اپنے کیریکٹر کو مضبوط کرتا ہے اور اعزازی کاموں کو بھی خوب تندہی اور کوشش سے کرتا ہے.اپنی ہر غلطی کو محسوس کر کے اس پر پچھتاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ آئندہ وہ غلطی اس سے سرزد نہ ہو.جھوٹے انسان میں اصلاح کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی جو شخص کامل مومن بننا چاہے اُسے چاہئے کہ جھوٹ اور نفاق سے پر ہیز کرے.اس طرح اُس کے تمام عیوب اُس شخص کی طرح آپ ہی کی آپ دور ہو جائیں گے جو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تھا اور جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں.ایک آدمی کا ذکر ہے وہ بازار میں سے گزررہا تھا کہ کیچڑ میں اُس کا پاؤں پھسلا تو اُس نے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کیلئے بہانہ بنایا اور اونچی آواز سے پکارا کہ ہائے جوانی ! لیکن جب اُس نے ار در گرد دیکھا کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا تو اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے کہا جوانی میں تو کونسا بہادر ہوتا تھا.محض ظاہری اخلاق والا انسان ایک اجنبی کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن واقف کا رکو دھوکا نہیں دے سکتا.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نانا جان کے ساتھ ریل میں انٹر کلاس میں سفر کر رہا تھا.اُن کا طریق تبلیغ کا یہ ہوتا تھا کہ دنیا کے اخلاق کے بگڑ جانے کے واقعات بیان کر کے نصیحت کرتے اور بالآخر ضرورت مصلح کی طرف آجاتے اور گفتگو اِس طور پر کرتے کہ مجلس پر چھا جاتے اور کسی کو یہ جرات نہ ہوتی
خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۷ء کہ اُن کی تردید کر سکے یا بات کاٹ سکے.اُس وقت بھی انہوں نے اس طریق پر باتیں شروع کیں.اس پر ایک بوڑھے نے جو ہمارے پاس ہی بیٹھا تھا جھٹ کہنا شروع کر دیا کہ ہاں حالات واقعی خراب ہیں اور خود تقریر کرنی شروع کر دی اور اس زور شور سے کی کہ ساری مجلس پر سناٹا چھا گیا اور ہر ایک نے کی اُس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا.اس اثناء میں اُس نے جیل کے قیدیوں کی بے شمار مثالیں پیش کیں کیونکہ وہ داروغہ جیل تھا.اتنے میں ٹکٹ کلکٹر اس کمرہ میں داخل ہوا.جب اُس نے اِس سے ٹکٹ طلب کیا تو تو اُس نے فوراً ادھر اُدھر جیبوں میں تلاش کرنا شروع کر دیا اور آخر کہہ دیا کہ ٹکٹ تو تھا معلوم نہیں کدھر گیا.مگر ٹکٹ کلکٹر وہاں نہ ٹلا اور اسے ٹکٹ نکالنا ہی پڑا جو تھرڈ کلاس کا تھا اس پر بھولی سی شکل بنا کر کہنے لگا لیجئے ٹکٹ.میں جھوٹ تو نہیں کہتا تھا.ٹکٹ کلکٹر نے کہا یہ تو تیسرے درجے کا ٹکٹ ہے اور آپ ڈیوڑھے میں بیٹھے ہیں.کہنے لگا اچھا ؟ ڈیوڑھا کیا ہوتا ہے؟ گویا وہ یہ جانتا ہی نہیں تھا.پھر کہنے لگا کہ وہ درجہ کہاں ہے ہے؟ پھر بھولا بنتے ہوئے ٹکٹ کلکٹر سے کہنے لگا کہ اچھا پھر میرا ٹرنک اُٹھالو اور مجھے وہاں لے چلو.اس پر ٹکٹ کلکٹر نے خیال کیا کہ بوڑھا بالکل ناواقف ہے اور ایک قلی سے کہا کہ اس بوڑھے کا ٹرنک اُٹھاؤ اور تیسرے درجے میں بٹھا دو.اس شخص نے ٹکٹ کلکٹر کو دھوکا دے دیا لیکن ہم کو تو دھوکا نہ دے سکتا تھا.اس قسم کا شخص ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے نزدیک لوگوں کو دھوکا دینے کا نام کمال ہوتا ہے.اگر کوئی شخص لوگوں میں دیانتدار مشہور ہو جائے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ اچھی بات ہے، میری خواہش پوری ہوگئی اب وہ مزید کوئی جد و جہد نہیں کرتا.اگر کسی کولوگ پارسا سمجھ لیں تو وہ سمجھتا ہے کہ بس اتنا ہی کافی ہے کیونکہ اس کے نزدیک ذلت سے محفوظ رہنا ہی اصل مقصود ہوتا ہے اور وہ اپنے لئے نیکی کا راستہ بند کر لیتا ہے.حالانکہ چاہئے یہ کہ وہ خواہ لوگوں میں نیک نام مشہور نہ ہو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نیک ہو.کیونکہ نیک نامی بڑی نہیں ہوتی بلکہ نیکی بڑی ہوتی ہے.اگر پچاس باتوں میں ایک شخص نیک نام پیدا کرے تو یہ کوئی قابل فخر امر نہیں ہے.لیکن اگر اسے پانچ نیکیاں حاصل ہو گئیں تو یہ افضل ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا ہے اگر کوئی شخص دوسروں کو کھول کر اور صرف ہمیں یادرکھ کر نیکیاں کرتا ہے تو خدا اس کی امداد کرتا ہے.لیکن جو محض نیک نام بننا چاہے خدا اُس کی امداد نہیں کرتا.پس حقیقی نیکی کی خواہش رکھنی چاہئے کہ خدا کی نظر میں انسان نیک ہے اور اگر ایسی کوشش نہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کرے گا تو اگر چہ لوگوں میں نیک نام ہوگا لیکن اُس کی بدیاں روز بروز بڑھتی چلی جائیں گی.الفضل ۲۰ رمئی ۱۹۳۷ء) العنكبوت: ۷۰
خطبات محمود ۱۳۱ ۱۴ سال ۱۹۳۷ء اپنی تمام حرکات خلیفہ وقت کے احکام کے تابع رکھو (فرموده ۷ رمئی ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جو کچھ میں آج جمعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں شاید وہ اس اجتماع کے مناسب حال نہیں اور کی وہ وقت جو اس وقت میرے پاس ہے وہ بھی اس مضمون کیلئے کافی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم میں سے بعضوں نے ریل کے ذریعہ واپس جانا ہے.مگر چونکہ سفر میں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ مضمون کے ذریعہ قادیان کی جماعت اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاؤں اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خطبہ کے ذریعہ بیان کر دوں اور زود نویں جہاں تک اِن سے ہو سکے خطبہ لکھ کر الفضل کو بھجوا دیں تا کہ قادیان اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع ہو جائے.جماعت کے دوستوں کو معلوم ہے کہ ایک عرصہ سے کچھ افراد قادیان میں ایسے ایسے ہیں جن کی غرض محض یہ ہے کہ جماعت میں فتنہ پیدا کریں اور انہوں نے قسم قسم کی تدابیر سے بعض مقامی ہندوؤں اور سکھوں کو بھی ملا لیا ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ قادیان کے سارے کے سارے ہندو اور سکھ اس میں شامل ہیں.ان میں سے بعض اچھے بھی ہیں اور وہ ہم سے تعلقات بھی رکھتے ہیں اور ان کی ایسی حرکات پر اظہار نا پسندیدگی کرتے ہیں.اس کے علاوہ ان کو اس بات سے بھی تقویت پہنچ گئی کہ ضلع کے بعض حکام کے مذہبی تعصب ب
خطبات محمود ۱۳۲ سال ۱۹۳۷ء سیاسی اختلاف یا کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے جو بعض طبائع میں پائی جاتی ہے ان کو ایسی فضا میسر آگئی ہے کہ ایسے حکام کو اپنے ساتھ شامل کر کے جماعت کے راستے میں مشکلات پیدا کریں.دو اڑھائی سال کے اختلاف کے بعد کسی قدر کمی پیدا ہوئی تھی لیکن مہینہ دو مہینہ سے اس میں پھر کسی قدر حرکت معلوم ہوتی ہے.میں نے بارہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ امام کے بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اور جماعت اس کے پیچھے لڑتی ہے.یہ جائز نہیں کہ جماعت کے لوگ خود لڑائی چھیڑ دیں.اعلانِ جنگ امام کا کام ہے اور وہ جس امر کے متعلق اعلان کرے جماعت اُس طرف متوجہ ہو.مگر کئی دوست نہیں سمجھتے اور جھٹ ہر امر پر اظہار خیال کرنے لگ جاتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات دشمن اس سے کی چڑ کر شدت سے گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور چھوٹی سی بات بہت بڑی بن جاتی ہے اور پھر ساری جماعت اس میں ملوث ہو جاتی ہے.ایک عام آدمی جس کو خدا تعالیٰ نے اختیار نہیں دیا ہوتا نہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ کی ضرورتیں کیا ہیں نہ اُس کو کسی سکیم کا پتہ ہوتا ہے ، نہ دشمن کی چالوں کو سمجھتا ہے، نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ طاقت کہاں کہاں خرچ کرنی ہے، نہ جماعت کی ضرورتیں اور ترقی کی سکیمیں اُس کے ذہن میں ہوتی ہیں ، نہ اس کے علم میں ہوتا ہے کہ خلیفہ کی اس امر کے متعلق کیا تجویز میں ہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی رپورٹیں نہیں پہنچتیں اور نہ حالات کا اُس کو علم ہوتا ہے.وہ اپنی حماقت سے ایک چنگاری چھوڑ دیتا یا دشمن کی لگائی ہوئی آگ کو اپنی پھونکوں سے روشن کر دیتا ہے اور پھر ساری جماعت کو اسے بجھانا پڑتا ہے.خلیفہ کو اپنی سکیمیں پیچھے ڈالنی پڑتی ہیں اور جماعت کی ساری طاقت اس شخص کی بھڑ کائی ہوئی آگ کے بجھانے میں صرف ہو جاتی ہے..میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے امور میں قطعی طور پر امام کی اتباع کی جائے.اب کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو لوگ بیعت میں اقرار کریں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور دوسری طرف اپنی جھوٹی عزت کا خیال کرتے ہوئے اور امام کے اعمال کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے یہ خیال کریں کہ اگر امام گالی کا جواب نہیں دیتا تو اُس کی بے غیرتی ہے.حالانکہ امام خوب سمجھتا ہے کہ فلاں جگہ کی
خطبات محمود ۱۳۳ سال ۱۹۳۷ء خاموش رہنا مناسب ہے یا جواب دینا اور وہی خوب سمجھتا ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے.ہر گالی جواب کے قابل نہیں ہوتی.بچپن میں لوگ ہمیں میاں صاحب اور قادیان کے محاورہ کے مطابق میاں جی بھی کہا کرتے تھے.پنجاب کے بعض دوسرے علاقوں میں میاں جی کو ملا بھی کہتے ہیں.پنجاب کی اردو ریڈروں میں لکھا ہے ہوا ہے کہ میاں جی گھوڑے پر سوار ہیں.اُستاد کو بھی میاں جی کہتے ہیں.بعض طالب علموں نے جو استادوں کے خلاف ہوتے ہیں انہوں نے ان کے متعلق بعض فقرے بنائے ہوئے ہوتے ہیں.جیسے ”میاں جی سلام تہاڈی گھوڑی نوں لگام اسی طرح مجھے بھی بعض لڑکے چھیڑا کرتے.عمر کے لحاظ سے بعض دفعہ مجھے اس پر غصہ بھی آتا لیکن خاموش رہتا.ایک دفعہ میں گزر رہا تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے دیکھ کر یہ فقرہ کہا.اس پر مجھے اشتعال آیا لیکن معا خیال آیا کہ یہ بچے ہیں میرے اشتعال سے ان کو کیا ی فائدہ.اگر میں نے اشتعال دکھایا تو یہی فقرہ دُہرایا جائے گا اور بچے یاد رکھیں گے اور ایسا کہہ کر بھاگ جایا کریں گے.پس میں نے اپنے نفس کو روکا حتی کہ ایک دو دن کے بعد وہ بھول گئے.پس ہر گالی قابل جواب نہیں ہوتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ کہ ان مشرکوں کی طرف سے گالیاں دی جائیں گی تو ان کی طرف توجہ نہ کرنا اور تبلیغ کی طرف لگے رہنا تا ایسا نہ ہو کہ اصل مقصود بُھول جائے اور ایسے کام کی طرف لگ جاؤ جس کا کچھ فائدہ یہ ایک عظیم الشان اور اخلاقی فلسفہ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ.یا درکھنا چاہئے کہ مخالف دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو کوئی اہمیت ذاتی یا پوزیشن رکھتے ہیں ان کو صداقت کی جاذبیت دیکھ کر غصہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سخت کلامی کرتے ہیں.اور ایک اوباش ہوتا ت ہے کہ اس کے مقابلہ میں سخت الفاظ کہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.کیونکہ اس کی تو عزت کوئی نہیں ، اس کی ایک گالی کے جواب میں اگر تم بھی گالی دو گے تو اس کے جواب میں وہ پانچ دے گا اور تمہاری دس گالیوں کے مقابلہ میں پچاس دے گا پھر مقابلہ کیا رہا.وہ معزز شخص جس کے پیچھے ایک قوم ہوتی ہے اگر اُس کو اُس کی سخت کلامی کا جواب دیا جائے تو مفید ہوسکتا ہے.کیونکہ اُس کے ساتھی اُس کو ملزم کریں گے اور اُس کو کہیں گے کہ غلطی تمہاری تھی، کیوں تم نے ابتداء کی اور وہ اپنی پردہ دری کے خوف سے چُپ ہو جائے گا.مگر او باش کو کون بتلائے اور اسے کون سمجھائے.وہ بتلانے والے کو بھی دس ہیں سُنا دے گا.پس
خطبات محمود ۱۳۴ سال ۱۹۳۷ء اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ استہزاء کرنے والوں کو جواب نہ دینا ، ہم خود جواب دیں گے کیونکہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں کے مقابلہ کیلئے کافی ہیں جو حقارت اور تذلیل کے ذریعہ مخالفت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے مقابلہ میں تمہیں نہ ہمت ہے نہ طاقت نہ ہی دُنیوی ڈھنگ آتے ہیں.ان لوگوں کی اپنی کوئی عزت نہیں ، وہ اس سے بڑھ کر گالیاں دیں گے اور بجائے اس کے کہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں دشمن بدگوئی میں بڑھتا چلا جائے گا.ایسے انسان کی زبان کو لگام نہ عزت دے سکتی ہے نہ رتبہ نہ شرافت.کیونکہ یہ باتیں اسے میسر نہیں ہوتیں.اگر یہ چیزیں اسے حاصل ہوں تو جواب کی اہمیت اُس کی سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ میری بھی عزت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کے بعض دشمنوں میں سے ایسے ہی بعض لوگوں کو جواب دیا جو مثلاً پادری تھے اور اپنی قوم میں معزز تھے.جبکہ وہ اسلام کے متعلق بدگوئی میں انتہا درجہ پر پہنچ گئے تا ان کو احساس ہو اور ان کی پوزیشن ان پر ظاہر ہو جائے.چنانچہ ایسے لوگوں کے پاس ایک جماعت متفرق لوگوں کی گئی جنہوں نے ان کو کہا کہ اگر تم ایسی سختی نہ کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تم کو ایسی باتیں نہ منی پڑتیں.جس سے ان کو شرم محسوس ہوئی اور وہ رُک گئے.حتی کہ بعضوں نے عَلَى الْإِعْلَان کہنا شروع کیا کہ کسی مذہب کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کیلئے رسول کریم ﷺ کے خلاف دشمنوں کی کی بدگوئی بہت حد تک رُک گئی.لیکن اگر آپ بعض اوباش عیسائیوں کے خلاف لکھتے تو کسی شریف نے اُن کو روکنا نہیں تھا نہ خود اُن کو اپنی عزت کا پاس ہوتا اور اِس طرح وہ گالیوں میں بڑھ جاتے.ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کی نسبت فرمایا کہ ان کی گالیاں سن کر ان کو دعا دو.خدا تعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ إِنَّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ سے کہ جو تمسخر کرتے ہیں ان میں علم اور عقل نہیں ہوتی ان کے جواب کی تم میں ہمت نہیں ہم ان کو خود جواب دیں گے.پس ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا بے فائدہ ہے.اب قادیان کے ہندو مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہے.وہ قوم میں معزز نہیں.وہ اگر گالیاں دیں تو وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ کے مطابق ایسے مشرکین سے اعراض کرنا چاہئے.ایسے شخصوں کا مقابلہ کرنے والا در حقیقت پاگل ہے اور وہ خود زیادہ گالیاں دلاتا ہے بلکہ سلسلہ کا دشمن ہے کیونکہ آپ گالیاں
خطبات محمود 오 سال ۱۹۳۷ء دلاتا اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے تم ان کے بڑوں نے کو گالیاں مت دو کہ پھر یہ بغیر علم کے تمہارے خدا کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.کیونکہ دشمنی کے ساتھ بعض دفعہ عقل بھی ماری جاتی ہے اور حملہ کرتے وقت صرف یہی احساس دل میں ہوتا ہے کہ دوسرے کے نقصان کی خاطر اگر اپنا نقصان بھی ہو جائے تو کوئی پرواہ نہیں.بیسیوں لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے مکان کو آگ لگا دیتے ہیں تا کہ دوسرے کو مقدمہ میں پھنسا دیں.کئی کی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو مار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے مار دیا.پس پاگلوں کو چھیڑنا خود پاگل پن ہے.ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایک امام کے تابع کیا ہے اور امام خوب سمجھتا ہے کہ کہاں جواب دینا مناسب ہے اور کہاں نہیں.ہر جگہ جواب دینے والے کی مثال گتے کی سی ہوتی ہے جو بغیر امتیاز کے بُھونکتا ہے.ایک شریف انسان کو بھی جواب دیتا ہے لیکن وہ یہ دیکھتا ہے کہ کس کو جواب دیا جائے اور کیا جواب دیا جائے.پس یہ امام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سے دشمن اسلام ایسے ہیں جن کو جواب دیا جائے اور کون سے دشمن ایسے ہیں جن کے اعتراضات سننے کے باوجود خاموشی اختیار کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایسے گالیاں دینے والے لوگ موجود تھے.لیکن حضرت کی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو کبھی جواب نہیں دیا.آخر جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے جواب دیا اور قادیان کے آریہ اور ہم کتاب لکھی.تو دیکھو ان میں سے کون باقی رہا.سب طاعون سے فنا ہو گئے.پس اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا.اس سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ اگر تمہارا جواب خدا کے حکم سے ہو تو اس کے نتیجہ میں بھی وہ بات پیدا ہو جائے.لیکن جب پیدا نہیں ہوتی تو معلوم ہوا کہ تمہارا جواب خدا کے حکم کے خلاف ہے ورنہ چاہئے تھا کہ خدا کے فرشتے تمہاری مدد کرتے اور اس کا جواب دیتے.آسمان و زمین میں ایسے سامان پیدا ہو جاتے کہ وہ باتیں پوری ہو جائیں.اگر تم ان کو ذلیل و بے شرم کہتے تو خدا کے فرشتے بھی ان الفاظ کو دُہراتے اور ان کے دوست بھی انہیں ایسا ہی کہتے.لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہو ا کہ تمہارے سخت الفاظ محض الفاظ ہی ہیں ان میں حقائق نہیں.اس کے مقابلہ میں رسول کریم نے حقائق پیش کئے.دشمنوں نے آپ کو ابو کہا.رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے دشمنوں کو ابتر کہا.ان کی اولادیں موجود تھیں لیکن خدا نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ بعضوں کی اولا د کو لڑائیوں میں
خطبات محمود ۱۳۶ سال ۱۹۳۷ء ختم کر دیا اور بعض رسول کریم ﷺ کی اولاد بن گئے اور ان لوگوں کی اولا د نہ رہے.پنجابی میں اوتر بھی ابتر کو ہی کہتے ہیں.پنجابی عورتیں بھی یہ گالیاں دیتی ہیں کہ تم او تر ہو جاؤ.صلى الله لیکن وہ محض گالی ہوتی ہے.ان عورتوں کی اس گالی سے کسی کے بچے نہیں مرتے.لیکن رسول کریم میلہ نے جن دشمنوں کو او تر کہا تو ان کی اولادیں واقعہ میں فنا ہو گئیں.پس معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ کا ابتر کہنا گالی نہ تھی بلکہ واقعہ تھا جو پورا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض سخت اقوال سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انہوں نے خدا کے حکم سے وہ الفاظ کہے اور زمین و آسمان ان کے ساتھ ہو گئے.میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے بعض لوگ جب جواب دینے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن اس کے جواب میں اس سے بڑھ کر گالیاں دیتا ہے تو بے غیرت بن کر اپنے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں.حالانکہ ان کو چاہئے تھا کہ یا تو دشمن کا منہ بند کرتے یا گالی کا جواب دینے میں ابتداء نہ کرتے.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے اخلاق دوسروں سے اعلیٰ ہونے چاہئیں.پیغام حق پہنچانا اخلاق فاضلہ پیدا کر کے دین و دنیا کی بہتری کی تجاویز سوچنا نیکی اور علم کی وسعت دینا اور دنیا کی تکالیف دور کرنا ان کا مقصود ہو ، تا کہ جو خدا کا مقصد سلسلہ احمدیہ کے قیام سے ہے وہ پورا ہو.یہ سنت ہے کہ جب خدا کا کام بندہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے.حضرت ابوبکر ایک مجلس میں بیٹھے تھے.نبی کریم سے بھی اس جگہ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آپ کو گالیاں دینے لگا.آپ خاموش رہے.جب اُس نے زیادہ بختی کی تو حضرت ابو بکر نے بھی اُس کو جواب دیا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تک آپ خاموش رہے، خدا کے فرشتے اسے جواب دیتے رہے.لیکن جب آپ نے خود جواب دینا شروع کیا تو وہ چلے گئے.ہے پس جس کام کو خدا نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہوتا ہے اگر بندہ اس میں دخل دے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے.لیکن اگر بندہ صبر کرے اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ جلد یا بدیر اس کا بدلہ لے لے گا تو خدا اس کا بدلہ لے لیتا ہے.رسول کریم ﷺ کو مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں جا کر بھی دشمن نے گالیاں دیں اور تنگ کیا.نہ صرف ایک دن نہ صرف ایک ماہ نہ صرف ایک سال بلکہ اس وقت تک مخالفین آپ کو گالیاں دے رہے ہیں اور تورات کی پیشگوئی کے مطابق کہ حضرت اسماعیل جو رسول کریم ﷺ کے جد امجد تھے ، ان کے خلاف ان کے بھائیوں کی تلوار ہمیشہ اُٹھی رہے گی.آپ کو لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن خدا نے اس کا علاج اپنے ذمہ لے رکھا
خطبات محمود ۱۳۷ سال ۱۹۳۷ء ہے اور اس سے بہتر علاج اس کا کیا ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام میں داخل کر دے لیکن اسلام میں داخل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں.مجھے ایک دفعہ ایک یہودی نے پکھی لکھی کہ میں وہ شخص تھا کہ شاید ہی کسی کے دل میں میرے دل سے بڑھ کر محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق دشمنی ہو بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام سنتے ہی مجھے اشتعال پیدا ہو جاتا تھا.لیکن آپ کے مبلغوں سے اسلام کی خوبیاں سن کر اب میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میں رات کو نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیج لوں.بھلا ہماری گالیوں سے سلسلہ کی کیا خدمت ہوسکتی ہے.اگر ہم دعا کریں کہ اے خدا ! تیرا وعدہ إِنَّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِعِینَ سچا ہے تو آپ اس کا علاج کر اور اس وعدہ پر اعتماد رکھ کر چُپ رہیں تو خدا خود ہی انتظام کرے گا.اور اگر تم نے خود اس میں دخل دینا شروع کر دیا تو تم بیعت میں رخنہ ڈالنے والے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے وعدہ کو پس پشت ڈالنے والے اور سلسلہ کو بدنام کرنے والے ہو گے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امام کی اطاعت کرو اور امام کے پیچھے ہو کر لڑو.پس لڑائی کا اعلان کرنا امام کا کام ہے تمہاری غرض محض اس کی اطاعت ہے.اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اس تعلیم کو خود ہی رڈ کرنے والے ٹھہرو گے.دنیا میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے عظیم الشان لڑائیاں ہو جاتی ہیں.جیسے آسٹریا کے شہزادہ کے قتل سے عظیم الشان جنگ ہوئی جس میں دو کروڑ سے زیادہ انسان قتل ہوئے.ہی امام جب چاہے اعلانِ جنگ کرے جب چاہے چُپ رہے.لوگوں کو چاہئے کہ اس کے پیچھے رہیں اور خود بخو دکوئی حرکت نہ کریں.پس میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوگی.میں مصلحت کو سمجھتا ہوں.ہر بات کی دلیل بیان کرنا امام کیلئے ضروری نہیں.جرنیل اور کمانڈر کے کی ہاتھ میں سارا راز ہوتا ہے.وہ جانتا ہے کہ کہاں اور کس طرح حملہ کیا جائے.اگر وہ راز کھول دے تو دشمن اس کا تو سوچ لے اور ساری سکیم باطل ہو جائے.اگر کوئی شخص بچے طور پر بیعت کرتا ہے اور اتباع کا اقرار کرتا ہے تو اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے اعتراض نہیں کرنا چاہئے ورنہ بیعت چھوڑ دے کیونکہ وہ منافق ہے.پس گالیوں کا جواب نہیں دینا چاہئے ورنہ آہستہ آہستہ بڑی لڑائی شروع ہو جائے گی گی اور پھر امام بھی مجبور ہوگا کہ اس میں شامل ہو اور اپنی طاقت ایسی جگہ خرچ کرے جہاں وہ مناسہ
خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۷ء نہیں سمجھتا.میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان باتوں کی اہمیت کو سمجھیں گے.کوئی مومن اس قدر بیوقوف نہیں ہوتا کہ اس کے غصے سے ساری جماعت کو نقصان پہنچے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں اور امام کے حکم کے منتظر ر ہیں.قرآن کریم میں جب لڑائی کا حکم آیا تو بعض لوگوں نے لڑنے سے انکار کر دیا اور کہا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنَكُمْ کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ہم ضرور شامل ہوتے.مگر یہ تو خود کشی ہے اور یہ وہی لوگ تھے جو لڑائی کیلئے زیادہ شور مچاتے تھے.پس زیادہ شور مچانا بسا اوقات نفاق کی علامت ہوتی ہے.ایسے لوگ جماعت کو لڑائی میں ڈال کر آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور بعض بالکل خاموش رہنے والے بعض دفعہ زیادہ مومن اور بہادر ہوتے ہیں.حضرت ابوبکر صدیق خاموش طبیعت تھے لیکن لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ پر صلى الله موجود رہتے تھے یعنی رسول کریم ہے کے ساتھ.کیونکہ لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ وہی ہوتی کی تھی جہاں رسول کریم ﷺ ہوتے تھے.کیونکہ دشمن کا سارا زور وہیں ہوتا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ یوں تو صلى الله یہ بڑھا بہت نرم دل ہے لیکن لڑائی میں سب سے آگے رہتا ہے.پس خاموشی سے اخلاص میں فرق نہیں پڑتا بلکہ ممکن ہے جو زیادہ خاموش رہنے والا ہے خدا کے نزدیک زیادہ مخلص ہو اور وہ جو زیادہ شور مچانے کی والا ہے وہ منافق ہو.کیونکہ خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ مومن کون ہے اور منافق کون ہے.الفضل ۱۳ مئی ۱۹۳۷ ء ) بخاری كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به الحجر: ۹۵ الحجر ۹۶ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء دم ال عمران (۱۶۸
خطبات محمود ۱۳۹ ۱۵ سال ۱۹۳۷ء انسان کو اپنے نفس کے محاسبہ میں لگے رہنا چاہئے فرموده ۲۱ رمئی ۱۹۳۷ء بمقام کراچی) لے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے زیادہ بول نہیں سکتا مگر جماعت کے دوستوں کو اس تی امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھائی ہے یہ دو باتوں پر دلالت کرتی ہے.اس کا ایک تعلق اعلیٰ مدارج کے لوگوں کے ساتھ ہے جسے یہاں اس طرح پر بیان کیا گیا ہے کہ جوں جوں کوئی انسان ترقی کرتا ہے اور کسی بڑے رتبے پر پہنچنا چاہتا ہے وہ دعائیں کرتا جاتا ہے.مگر چونکہ تمام انسان ایک حالت پر نہیں ہوتے کوئی روحانیت کے اعلیٰ مقام پر ہوتا ہے ہے تو کوئی اس جنگ میں مشغول ہوتا ہے جو شیطان کے ساتھ لڑی جارہی ہو.پس اگر قسم اول کوملحوظ رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ الہی ! ہمیں اعلیٰ مقام تک پہنچا دے تو یہ بے معنی فقرہ ہوتا ج کیونکہ ایسے شخص کے نزدیک اس آیت کا مفہوم اُس وقت شروع ہو جاتا ہے جبکہ جملہ معلومہ مقامات ختم ہو جاتے ہیں.جب تک معلومہ مقامات موجود ہوتے ہیں اُس وقت تک مقصود اُس کے سامنے ہوتا ہے جس کیلئے وہ دعائیں کرتا ہے.جب انسان اخلاق کو حاصل کر لیتا ہے جن کو وہ جانتا ہے اور ان علوم اور عرفان کی باتوں کو حاصل کر لیتا ہے جن کو لوگ علمی طور پر جانتے ہوتے ہیں تو وہ نام لے لے کر دعائیں کرتا ہے.لیکن جب وہ نہیں جانتا کہ اُس سے آگے کیا ہے تب وہ دعا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا ! جو کچھ مجھے نہیں معلوم وہ بھی دے.
خطبات محمود ۱۴۰ سال ۱۹۳۷ء دوسرا مقام بعض انسانوں کا وہ ہوتا ہے جبکہ وہ شیطان سے لڑائی کر رہا ہوتا ہے.اُس وقت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خدایا ! مجھے صراط مستقیم پر قائم رکھ.وہ ان خطرات کو محسوس کرتا ہے جو اُسے روز پیش آتے ہیں.لہذا اِس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ہر وقت انسان کے ساتھ ایسی چیزیں لگی ہوئی ہیں جو اس کے ایمان ، تقومی، دین کی خدمت کی خواہش اور محبت الہی کو کم کر رہی ہیں لہذا اسے ان سے محفوظ رہنے کیلئے دعا کی ضرورت ہے.بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس بات میں مارے جاتے ہیں کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ ان کو کوئی مستقل چیز مل گئی ہے.یا کم سے کم وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کو اطمینان کی حالت حاصل ہو گئی ہے اور وہ اپنی تمام جد و جہد چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جملہ خطرات سے محفوظ ہو گئے ہیں.حالانکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بڑے مقام پر پہنچ کر بھی نیچے گر جاتا ہے.جیسے عبداللہ بن ابی کاتب وحی حضرت رسول کریم ﷺ کا ہی واقعہ ہے کہ آپ نے اسے اپنا سیکرٹری بنایا اور وحی الہی کے لکھنے کا کام سپر د کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسے قابلِ اعتبار سمجھا تھا اور اسے متقی خیال فرماتے تھے.علاوہ ازیں اس کے ذاتی حالات بھی اس کی تائید کرتے تھے مگر دیکھ لو کہ کس حالت تک پہنچ گیا.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کو ہی دیکھتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں کئی ایمان لانے والے مقربین ایسے ہیں جو اب آپ کے درجے کو کم کر رہے ہیں.کئی ہیں جو دُنیوی عزت کی خاطر سلسلے کی عزت کا خیال نہیں کرتے.کئی ہیں جو غیر احمدی ہو گئے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں بتایا ہے کہ مومن کو ہمیشہ خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے نفس کے محاسبہ میں لگے رہنا چاہئے کہ کہیں اس میں کوئی نقص تو جی نہیں پیدا ہو گیا.یہ بیشک درست ہے کہ اپنی غلطی کا اجمالی احساس تو ہر ایک کو ہوتا ہے لیکن تفصیلی احساس ہر ایک کو نہیں ہوتا.مگر صرف اجمالی احساس کوئی نفع نہیں پہنچا تا.اجمالی احساس یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کسی درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ وہ بہت کمزور ہے حالانکہ خود اس پر اس کے اس قول کا کوئی اثر نہیں ہوتا.عام طور پر یہ کہنا کہ کمزور ہوں ، گنہگار ہوں یہ فقرے تو متکبر اور کا فر بھی کہتے ہیں.مثلاً جب کوئی ان ان کی تعریف کرے تو انکسار سے وہ بھی ایسے فقرے کہہ دیتے ہیں لیکن دل سے اسے محسوس نہیں کرتے.پس
خطبات محمود ۱۴۱ سال ۱۹۳۷ء اجمالی نقص کا اظہار کوئی چیز نہیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کا اظہار کرتے ہیں لیکن تفصیلی طور پر وہ اپنے آپ کو بے گناہ سمجھتے ہیں.جب وہ سچائی ، فرمانبرداری ، امانت، دیانت میں سستی کریں اور کوئی ان سے ہی سوال کرے تو جھٹ اپنے نفس کی حمایت کرتے ہیں اور بے عیب ہونے کے دلائل دے کر اپنے نفس کو بھی تسلی دے دیں گے.یوں چاہے سارا دن ان سے کہلوالو کہ وہ خطا کار ہیں، گنہ گار ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہی شخص عیب کرتا ہے اور دریافت کرنے پر چڑتا ہے.اگر وہ بے عیب نہ تھا تو چڑا کیوں تھا.سوائے ایسے حالات کے کہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے کہا ہو کہ تو بے عیب ہے.اُس وقت اس کا چڑنا اپنے لئے نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کیلئے ہوتا ہے اور وہ خدا کے حکم کی وجہ سے مقابلہ کرتا تج ہے.اگر انبیاء پر اعتراض کیا جاوے تو وہ اپنی ذات کے بچاؤ کے لئے ایسا نہیں کرتے کیونکہ اپنی ذات میں تو وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہوتا ہے کہ وہ بے عیب ہیں لہذا خدا کو الزام سے بچانے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ کا قول صحیح ہو نہ کہ اپنی ذات کے واسطے وہ اس کی تردید کرتے ہیں.جیسے حضرت رسول کریم ﷺ پر الزام لگانا حقیقتا اس ہستی پر الزام لگانا ہے جس نے کہا تھا کہ ہم نے تم کو کچن کی لیا اور اسی لئے لوگ آپ کی حفاظت کرتے تھے.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ خدا کیلئے ایسا کرتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک خدا کی ذات کا سوال نہ تھا آپ نے ہر ایک حملہ برداشت کیا.چنانچہ بادشاہ ہونے کی حیثیت میں مدینہ میں جب ایک یہودی نے آپ کو کہا یا محمدی حالانکہ ایک بڑے آدمی کا اس طرح بلا نا یقینا قابلِ اعتراض تھا ) اس پر صحابہ کو بہت طیش آیا اور قریب تھا کہ اُس کو سزا دیں.لیکن آپ نے تحمل سے فرمایا کہ اس نے ٹھیک کہا ہے.سے کیا میرے ماں باپ نے کی میرا نام محمد نہیں رکھا ہے؟ تم غصے کیوں ہوتے ہو؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں خدا کے نام کا سوال نہ تھا بلکہ محض اپنی ذات کا سوال تھا وہاں آپ نے اپنی عزت کو پسند نہ فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا آپ گر گئے جس سے آپ کے ساتھی جوش میں آگئے اور قریب تھا کہ اُسے مارتے.لیکن آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے اسے کچھ نہ کہو.پس انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ خدا کی عزت کے قیام کیلئے بولتے ہیں.تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں.ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے.وہ خدا
خطبات محمود ۱۴۲ سال ۱۹۳۷ء کیلئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں.پس اگر کسی شخص کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میں واقعہ میں کمزور ہوں تو ایسا انسان گمراہ ہو نہیں سکتا.انسان گمراہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ یقین رکھتا ہے کہ میں حق پر ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضا ہو گئی لیکن وہ اس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گرے بلکہ ترقی کی.پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے.جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس مومن کو اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہوا.صرف اُسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے کہ جبکہ خدا کی آواز اُسے کہہ دے.پس انسان کو اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ کرنا چاہئے.ایسے شخص کیلئے روحانیت کے راستے کھل جاتے ہیں.جو ایسا نہیں کرتا اُس کیلئے روحانیت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور ایسا انسان گمراہ ہو جاتا ہے.(ماخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) یہ غیر مطبوعہ خطبہ ہے.الفاتحه : ۶
خطبات محمود ۱۴۳ ۱۶ سال ۱۹۳۷ء امام اور ماموم کا مقام اور اس کے تقاضے (فرموده ۲۸ رمئی ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- غالباً دو جمعے گزرے ہیں کہ میں نے ایک خطبہ اپنے سفر کے دوران میں پڑھا تھا اور ہدایت کی کی تھی کہ اسے فوراً’ الفضل میں چھپنے کیلئے بھجوا دیا جائے.کیونکہ وہ خطبہ موجودہ فتنوں کے متعلق تھا اور گوی وہ پڑھا سفر میں گیا تھا اور جو لوگ اُس وقت سامنے بیٹھے تھے ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی جو ای قادیان میں نہیں رہتے تھے مگر اُس خطبہ کے پہلے مخاطب قادیان میں رہنے والے لوگ ہی تھے اور میں چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ہو سکے اسے قادیان میں رہنے والے لوگوں تک پہنچا دیا جائے تاکہ کم سے کم خدا تعالیٰ کے سامنے میں بری الذمہ ہوسکوں اور اُسے کہہ سکوں کہ میں نے ان کے سامنے ہدایت اور راستی پیش کر دی تھی.اگر باوجود میرے ہدایت پیش کر دینے کے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو اس کی کی ذمہ واری مجھ پر نہیں ان پر ہے.میں آج پھر اُسی مضمون کے متعلق آپ لوگوں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں اور نہ صرف آپ لوگوں سے بلکہ باہر کی جماعتوں سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات سے بری الذمہ ہوتا ہوں کہ میں نے وہ صداقت آپ لوگوں تک پہنچادی ہے جو میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کا منشاء اور قرآنی تعلیم ہے.میں نے اُس خطبہ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ جو
خطبات محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۷ء جماعتیں منظم ہوتی ہیں اُن پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کیلئے لازمی ہوتی ہے جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے.اور سلسلہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ ان شرائط اور ذمہ واریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ واری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اُٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے.اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آکر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہتی.اگر ایک شخص اپنے طور پر دوسری قوموں سے لڑائی مول لے لیتا ہے اور ایسا فتنہ یا جوش پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ساری جماعت مجبور ہو جاتی ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو تو اس کے متعلق یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے امام اور خلیفہ کے منصب کو چھین لیا اور خود امام اور خلیفہ بن بیٹھا اور وہ فیصلہ جس کا اجراء خلیفہ اور امام کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے تھا خود ہی صادر کر دیا.اگر ہر شخص کو یہ اجازت ہو تو تم ہی بتاؤ پھر امن کہاں رہ سکتا ہے.ایسی صورت میں جماعت کے نظام کی مثالی اُس ٹین کی سی ہوگی جو گتے کی دُم سے باندھ دیا جاتا ہے اور جدھر جاتا ہے ساتھ ساتھ ٹین بھی حرکت کرتا جاتا ہے.امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوستوں نے باوجود بیعت کر لینے کے ابھی تک بیعت کا مفہوم نہیں سمجھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی ذمہ واری جماعت کے علماء پر ہے.وہ خلافت اور اس کی اہمیت پر تقریر میں کرنے سے ساکت رہتے ہیں اور ان کے لیکچر ہمیشہ اور اور مضامین پر ہوتے ہیں.اس امر کے متعلق بہت ہی کم دلائل قرآن مجید یا احادیث یا عقل سے دیئے جائیں گے کہ خلافت سے وابستگی کتنی اہم چیز ہے.وہ سمجھتے ہیں شاید لوگ ان مسائل کو جانتے ہی ہیں اس لئے ان مسائل پر ور دینے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ یہی وہ خیال تھا جس نے پہلے مسلمانوں کو تباہ کر دیا.گزشتہ علماء نے خیال کر لیا کہ توحید پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے.بھلا کوئی کی
خطبات محمود ۱۴۵ سال ۱۹۳۷ء مسلمان ایسا بھی ہوسکتا ہے جو تو حید کو نہ مانے.نتیجہ یہ ہوا کہ تو حید اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی.انہوں نے خیال کر لیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی اہمیت واضح کرنے کی کیا حاجت ہے یہ تو ایک صاف اور واضح مسئلہ ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ رسالت پر ایمان بھی جاتا رہا.انہوں نے خیال کر لیا کہ نظام کی ضرورت پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے سب کو معلوم ہی ہے کہ نظام میں سب برکت ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا نظام بھی ٹوٹ گیا.انہوں نے خیال کرلیا کہ نماز اور روزہ کی تاکید کرنے کی بار بار کیا ضرورت ہے سب لوگ نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہی ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ نمازوں میں بھی سستی آگئی اور روزے بھی ہاتھ سے جاتے رہے.اسی طرح انہوں نے خیال کر لیا کہ حج کا مسئلہ بھی کوئی ایسا مسئلہ ہے جس سے کوئی نا واقف ہو اور نتیجہ یہ ہوا کہ حج کے مسائل بھی لوگوں کے ذہن سے اُتر گئے اور استطاعت کے باوجود انہوں نے حج کرنا چھوڑ دیا.تو جب کسی قوم کے علماء یہ خیال کر لیتے ہیں کہ فلاں فلاں مسائل لوگ جانتے ہی ہیں اس قوم میں آہستہ آہستہ ان مسائل سے ناواقفیت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور آخر اس نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں ایک حد تک اس کی ذمہ واری جماعت کے علماء پر ہے لیکن ایک حد تک اس کی ذمہ واری جماعت کے افراد پر بھی ہے.کیونکہ ان کے سامنے یہ مسائل بالکل تازہ ہیں اور وہ خلافت کی اہمیت سے پورے طور پر آگاہ کئے کی جاچکے ہیں اور گو آج اس پر بخشیں نہیں ہوتیں مگر آج سے بیس سال پہلے اس پر خوب بخشیں ہو چکی ہیں اور خود جماعت کے افراد اس میں حصہ لیتے رہے ہیں.پھر آج وہ ان مسائل کو کیوں بُھول گئے.میں نے اس امر کی طرف توجہ ان واقعات کی وجہ سے دلائی تھی جو قادیان میں حال ہی میں ظاہر ہوئے.ނ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ فتنہ و فساد کی نیت سے کوئی بات چھیڑ دیتے ہیں اور ہماری جماعت کے دوست فوراً اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ دشمن کی تو غرض ہی یہ تھی کہ وہ کوئی فتنہ وفساد پیدا کرے اور انہیں زیر الزام لائے.ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس کا دشمن اس کیلئے گڑھا کھودتا اور اُس پر گھاس پھونس ڈال دیتا ہے.اور وہ اپنی بیوقوفی سے گھاس پر پاؤں رکھتا ہے
خطبات محمود ۱۴۶ سال ۱۹۳۷ء اور گڑھے میں جا پڑتا ہے.بلکہ میں کہتا ہوں خیالی مثال کی کیا ضرورت ہے.شیر کے شکاریوں کی مثال لے لو جو پہلے زمانہ میں شیر کا شکار اس طرح کرتے تھے کہ گھاس کے نیچے بانس کی کھپچیوں کے اوپر خاص طور پر سریش تیار کر کے چپکا دیتے اور گھاس پر بکرا باندھ دیتے.شیر خیال کرتا کہ بکرا میرا شکار ہے اور وہ اُس پر حملہ کر دیتا.لیکن جب بکرے کے پاس پہنچتا تو پھپچیوں میں لپٹ جاتا.اسی طرح دشمن بعض دفعہ ایسی حرکات کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے مخالف کو بہلا تا ہے کہ آؤ اور مجھ پر حملہ کر و عظمند آدمی موقع کو خوب سمجھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ حملے کا کونسا موقع ہے.لیکن نادان آدمی ان باتوں کو نہیں سمجھتا وہ حملہ کر دیتا ہے اور پھیچیوں میں پھنس جاتا ہے.پھر شور مچاتا ہے کہ آؤ آؤا اور مجھے اس مصیبت سے بچاؤ.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی آواز سُن کر دو چار آدمی اور دشمن پر حملہ کر دیتے ہیں اور وہ بھی انہی کھپچیوں میں پھنس جاتے ہیں اور اسی طرح یہ معاملہ بڑھتا جاتا ہے.انگریزوں میں ایک کہانی مشہور ہے جو اسی قسم کے فتنوں پر چسپاں ہوتی ہے.کہتے ہیں کسی کے پاس کوئی بطخ تھی.جب وہ کسی شخص پر ناراض ہوتا تو کسی طرح اُس کا ہاتھ بلخ کو لگوا دیتا.نتیجہ یہ ہوتا کہ اس بطبخ سے اُس کا ہاتھ چمٹ جاتا اور وہ چھوٹ نہ سکتا.یہ دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار اُسے چھڑانے کیلئے آتے اور جو بھی بلخ پر ہاتھ ڈالتا اُس کے ساتھ چمٹا جاتا.یہی حال ایسی لڑائی کا ہوتا تھی ہے.جب ایک شخص لڑائی میں شامل ہوتا اور دشمن کی گرفت میں آجاتا ہے تو شکوہ کرتا اور شور مچانے لگی جاتا ہے کہ میں جماعت کا ممبر ہوں ، میری مدد کیوں نہیں کی جاتی.میرے ساتھ ہمدردی اور محبت کا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا.اس شخص کو جواب تو یہ ملنا چاہئے کہ تمہارے ساتھ ہمدردی کیا کی جائے تم نے نظام کو تو ڑا اور سلسلہ کی ہتک کی لڑائی کرنا امام کا کام تھا، تمہارا کام نہیں تھا.لیکن اُس کی آواز سُن کر کئی رحم دل یا یوں کہو کہ کمزور دل کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آؤ اس کی مدد کریں.چنانچہ وہ اس کی مدد کیلئے اس کے پیچھے جاتے ہیں اور وہی لڑائی جو پہلے ایک شخص کی تھی اب میں آدمیوں کی لڑائی بن جاتی ہے اور پھر ایک کی بجائے ہیں آواز میں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں کہ آنا آنا، بچانا بچانا.اس پر وہ لوگ بھی جو پہلے اس خیال سے خاموش ہوتے ہیں کہ یہ انفرادی فعل ہے اس میں ہمیں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے، جوش سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ایک کا سوال نہیں ہیں کا سوال ہے اور وہ بھی لڑائی میں شامل ہے ہو جاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اب لڑائی میں چالیس آدمی شامل ہو جاتے ہیں.پھر وہ چالیس اپنے کی
خطبات محمود ۱۴۷ سال ۱۹۳۷ء ساتھ اوروں کو ملاتے اور ساٹھ بن جاتے ہیں.ساٹھ ایک سو بیس کی کشش کا موجب بنتے ہیں اور ایک سو بیس کے شور مچانے پر دو سو چالیس کی تعداد ہو جاتی ہے.یہ دوسو چالیس پھر چار سو اتنی ہو جاتے ہیں جو بڑھ کر نو سو ساٹھ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ساری جماعت ایک معمولی وجہ سے ایسی لڑائی میں شامل ہو جاتی ہے جس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں ہوتا اور دشمن دل میں ہنستا ہے کہ جو میری غرض تھی وہ پوری ہوگئی.ایک مشہور واقعہ پنجاب کے ایک رئیس کا ہے جو اس مقام پر خوب چسپاں ہوتا ہے.پنجاب کے ایک مشہور راجہ گزرے ہیں جن کا نام لینے کی ضرورت نہیں ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی.ان کے دربار میں دو پارٹیاں تھیں.ایک وزیر اعظم کی اور ایک اور وزیر کی اور یہ دونوں پارٹیاں روزانہ آپس میں لڑتیں اور راجہ کے پاس شکایتیں ہوتیں.ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف شکایت کرتی اور دوسری کی پہلی کے خلاف راجہ کے کان بھرتی اور ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ راجہ صاحب ہمارے ساتھ مل جائیں اور دوسری پارٹی پر ناراض ہو جائیں.اس لڑائی نے ترقی کرتے کرتے سخت بھیانک شکل اختیار کر لی.ایک دن ایک پارٹی نے تجویز کی کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے مخالف پارٹی کو بالکل کچل دیا جائے.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا جائے اور یہ مشہور کر دیا جائے کہ اُس کے ہاں اولاد ہونے والی ہے.چنانچہ انہوں نے ایک رانی کو اپنے ساتھ ملالیا اور اُسے کہ دیا کہ عین وقت پر ہم تمہیں ایک بچہ لا کر دے دیں گے اس سے راجہ کی نگاہ میں تمہاری عزت بھی قائم ہو جائے گی اور اس کے بعد گدی پر بیٹھنے کا بھی وہی حقدار ہوگا.جب یہ خبر عام لوگوں میں مشہور ہو گئی تو دوسرے فریق نے راجہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.مہارانی حاملہ نہیں بلکہ شرارت سے مخالف پارٹی نے اسے حاملہ مشہور کر دیا ہے.اب مہاراجہ صاحب نے بیوی کی نگرانی شروع کر دی اور کچھ عرصہ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ یہ محض فریب کیا جا رہا ہے ، رانی حاملہ نہیں ہے.اس پر انہوں نے گورنمنٹ کے پاس اس امر کے متعلق کوشش شروع کر دی کہ جس بچہ کے متعلق مشہور کیا جا رہا ہے کہ وہ پیدا ہونے والا ہے وہ میرا نہیں ہوگا اور نہ تخت کا وارث ہوگا.یہ بات دوسرے فریق پر بھی گھل گئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ اب کوئی ایسی چال چلنی چاہئے جس کے نتیجہ میں ہماری سکیم فیل نہ ہو.چنانچہ انہوں نے مختلف لوگوں سے گورنمنٹ کے پاس چٹھیاں لکھوانی شروع کر دیں کہ مہاراجہ صاح
خطبات محمود ۱۴۸ سال ۱۹۳۷ء پاگل ہو گئے ہیں اور وہ گدی کا انتظام نہیں کر سکتے.ذرا ذراسی بات پر لڑتے اور جوش میں آکر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور ان کا غصہ حد اعتدال سے بالکل باہر نکل گیا ہے.مہا راجہ بیچارے کو پتہ بھی نہیں اور گورنمنٹ کے پاس شکایتیں ہو رہی ہیں کہ مہاراجہ صاحب پاگل ہو گئے ہیں.پہلے چھوٹوں کی طرف سے گورنمنٹ کو لکھا گیا.پھر بڑے بڑے افسروں کی طرف سے اور پھر ان سے بھی بڑے عہدہ داروں کی طرف سے.جب شکایتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور بڑے بڑے افسروں نے خو دل کر بھی گورنمنٹ کی کے پاس شکایت کرنی شروع کر دی تو گورنمنٹ کو خیال پیدا ہوا کہ تحقیقات کرنی چاہئے.چنانچہ اس نے مخفی طور پر کمشن کو بھجوایا کہ وہ مہا راجہ سے باتیں کر کے رپورٹ کرے کہ یہ شکایتیں کس حد تک صحیح ہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ ڈاکٹر کو بھی ساتھ لیتے جاؤ اور باتوں باتوں میں اندازہ کر کے رپورٹ کرو کہ ان شکایتوں میں کس حد تک معقولیت ہے.فریق مخالف جس نے شکایت کی تھی وہ چونکہ ہر تدبیر سے اپنی بات کو منوانا چاہتا تھا اس لئے اس نے سرکاری دفاتر میں بھی بعض آدمی خریدے ہوئے تھے.جس وقت کمشنر صاحب تحقیقات کیلئے جانے لگے، ان سرکاری آدمیوں نے اطلاع کر دی کہ کمشنر صاحب آرہے ہیں.چنانچہ جونہی انہوں نے سمجھا کہ اب کمشنر صاحب کے آنے کا وقت بالکل قریب آ پہنچا ہے اور ایک آدھ منٹ میں کی ہی وہ دربار میں داخل ہو جائیں گے.انہوں نے ایک پوری جھلنے والے کو اشارہ کر دیا جسے انہوں نے ی پہلے سے اپنے ساتھ ملایا ہو ا تھا اور اُس نے جھک کر مہا راجہ کے کان میں دو تین گالیاں ماں اور بہن کی تی دے دیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ مہاراجہ تخت پر بیٹھا ہوا ہو ، دربار لگا ہوا ہو اور پوری جھلنے والا مہا راجہ کو اُس کے کان میں ماں کی گالیاں دے دے تو اُس کی کیا کیفیت ہو سکتی ہے.مہاراجہ جوش سے اُٹھا اور اس نے بے تحاشہ اُسے مارنا شروع کر دیا.اب غصہ سے اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور کی وہ اسے ٹھڈے پر ٹھڈے مارتا چلا جارہا تھا کہ اتنے میں کمشنر صاحب اندر داخل ہو گئے اور وہ پارٹی کی پارٹی کھڑی ہو کر کہنے لگی ” حضور! روز ساڈے نال اسے طرح ہوندا ہے.یعنی حضور ! ہمارے ساتھ روزانہ یہی سلوک ہوتا ہے.کمشنر صاحب کی رپورٹ پر گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ مہاراجہ واقعہ میں حواس باختہ ہے نتیجہ یہ ہوا کہ مہا راجہ صاحب کے اختیارات محدود کر دیئے گئے اور وہ لڑکا جسے رانی نے گود میں ڈال لیا تھا اور جو ایک ملازم سرکار کا لڑکا تھا جسے بعد میں حج بنادیا گیا ، جوان ہو کر گدی پر بٹھایا گیا اور خوش قسمتی سے نہایت شریف اور کامیاب راجہ ثابت ہو رہا ہے.
خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۷ء ↓ تو بعض دفعہ دشمن اس قسم کی چالا کی بھی کرتا ہے.سمجھنے والے تو بچ جاتے ہیں لیکن جو اندھا دھند کام کرنے والے ہوں وہ پھنس جاتے اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اسی وجہ سے اسلام نے حکم دیا كه الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ کہ امام کو ہم نے تمہارے لئے ڈھال کے طور پر بنایا ہے.اگر ی اس کے پیچھے ہو کر لڑو گے تو زخموں سے بچ جاؤ گے.لیکن اگر آگے ہو کر حملہ کرو گے تو مارے جاؤ گے کیونکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ کیا حالات ہیں.کس وقت اعلانِ جنگ ہونا چاہئے اور کس وقت دشمن کے فریب سے بچنا چاہئے.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا.رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بھی بعض دفعہ لوگ آتے اور گھنٹوں آپ سے مخفی باتیں کرتے.قرآن کریم میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے هُوَ أُذُنٌ ! کہ منافق کہتے ہیں کہ محمدی تو کان ہی کان ہیں.ہر وقت لوگ آتے اور انہیں رپورٹیں پہنچاتے رہتے ہیں.تو رسول کریم کی کو بھی کئی مخفی باتوں کا علم ہوا کرتا تھا.بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ آپ فرماتے میرے پاس رپورٹ آئی ہے کہ آج فلاں جگہ یہ کام ہو رہا ہے.تو امام کو وہ معلومات ہوتی ہیں جو اور لوگوں کو نہیں ہوتیں.اس لئے وہ جانتا ہے کہ فلاں کام جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور کس طرح ہو رہا ہے اور اس کی کوشش یہ ہوتی کی ہے کہ جماعت سے اُسی وقت لڑائی کرائی جائے جب لڑائی کا کوئی فائدہ ہو.ورنہ یہ تو نہیں کہ لڑائی کی کرنے میں تم مجھ سے زیادہ بہادر ہو.پچھلے دو سال میں میں نے ایک ہی وقت میں گورنمنٹ سے اور دوسرے مخالف اقوام.لڑائی لڑی ہے یا نہیں.تم میں سے کئی لوگ تھے جو اُس وقت کہتے تھے کہ ہمیں کسی مصیبت میں پھنسا دیا.مگر میں جانتا تھا کہ وہ وقت لڑنے کا تھا.پس ہم لڑے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے فتح پائی.لیکن اب جماعت کو ایک ایسے فتنہ میں مبتلا کیا جا رہا ہے جس میں میں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو دکھا دیں کہ ہم مظلوم اور ہمارا دشمن ظالم ہے اور شرارت کی تمام تر ذمہ واری ہمارے دشمن پر ہے ہم پر نہیں.پس جبکہ ہم کو معلوم ہے کہ اس لڑائی کی وجہ لڑائی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نے پچھلے دنوں جو حکومت پر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہیں اور ہما را دشمن مظلوم نہیں بلکہ ظالم ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ اس خیال کو مٹایا جائے اور بعض اور ذرائع سے اپنی مظلومیت حکومت پر ظاہر کریں.اگر تم ذرا بھی سوچ سمجھ سے کام لو تو یہ موٹی بات تو تمہیں بھی نظر آسکتی ہے کہ قادیان میں بلا وجہ فتنے مختلف شکلیں بدلتے
خطبات محمود.ܙ سال ۱۹۳۷ء رہتے ہیں.ایک وقت مسلمانوں کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے اور پھر یک دم اس میں تغیر آ جاتا ہے اور ی پولیس کی طرف سے شور اٹھنا شروع ہو جاتا ہے.پھر یکدم یہ حالت بھی بدل جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری لڑائی نہ مسلمانوں سے ہے نہ پولیس سے بلکہ سکھوں سے ہے.پھر سکھوں سے لڑتے لڑتے یکدم تغیر آجاتا ہے اور سکھ تو بالکل خاموش ہو جاتے ہیں اور ہند و شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور ان لڑائیوں میں سے کسی لڑائی کے پیدا کرنے میں بھی ہمارا دخل نہیں ہوتا.جس وقت مسلمان شور مچار ہے ہوتے ہیں اُس وقت کوئی ایسی حرکت ہم نے نہیں کی ہوتی جو پندرہ بیس سال پہلے ہم نے نہ کی ہو.گویا کوئی تازہ حرکت ایسی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم سمجھیں کہ ان کا شور مچانا حق بجانب ہے.اسی طرح جب پولیس کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے تو ہماری کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اشتعال میں آئے.پھر جب سکھ اور ہند و شور مچاتے ہیں اُس وقت بھی کوئی ایسا نیا فعل ہم سے صادر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سمجھا جائے کہ ان کا شور اور فتنہ وفساد کی بنیاد پر ہے.پس کیا اس محاذ کی تبدیلی سے تمہاری سمجھ میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ یہ کسی سازش اور چالا کی کا نتیجہ ہے.اگر تم بات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ تمہیں وسیع علم ہے اور نہ وسیع معلومات کے ذرائع تمہیں حاصل ہیں تو کم سے کم اتنی بات تو تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ کیوں بلا وجہ ایک وقت مسلمانوں کو جوش آتا ہے تو دوسرے وقت پولیس والوں کو.کبھی سکھوں کو جوش آجاتا ہے تو کبھی ہندوؤں کو.کم سے کم اتنی موٹی بات تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ یہ تغیرات جو پیدا ہوئے ان کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا ورنہ بلا سبب تو یہ نہیں ہو سکتے اور جب یہ بلا سبب نہیں ہو سکتے اور تمہیں ان کا سبب معلوم نہیں تو تم کیوں اندھیرے میں چھلانگ لگاتے اور سلسلہ کی بدنامی اور ہتک کا موجب بنتے ہو.یہ معاملات اُن لوگوں کے ہاتھ میں چھوڑ دو جو ان تغییرات کا سبب جانتے اور اس کی وجہ کو خوب پہچانتے ہیں.وہ جب دیکھیں گے کہ سلسلہ کی عظمت لڑائی کرنے میں ہے تو ی اُس وقت وہ بغیر کسی قسم کے خطرہ کے لڑائی کریں گے اور اُس وقت تم میں سے وہ لوگ جو اس وقت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور کہتے ہیں ہم صبر نہیں کر سکتے ، ہم دشمن سے لڑیں گے اور مر جائیں گے وہ لڑائی کرنے سے انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ ہم ہلاکت کے منہ میں اپنے آپ کو نہیں ڈال سکتے.گویا جس وقت ہم کہتے ہیں ہمیں صلح رکھنی چاہئے اور بلا وجہ دشمن سے لڑائی نہیں لڑنی چاہئے اُس وقت وہ بُزدل اور منافق جو اگر لڑائی ہو تو سب سے پہلے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلیں گے.کہتے ہیں ہم بے غیرت نہیں ، ج
خطبات محمود ۱۵۱ سال ۱۹۳۷ء ہم دشمن سے ضرور لڑیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں اب کسی نے لڑنا نہیں اور جب لڑائی ضروری ہو جائے تو کہہ دیتے ہیں صلح رکھنی چاہئے ، آپس کے تعلقات کو خراب کر لینے سے کیا فائدہ.آخر کیا تم خیال کرتے ہو کہ ایک شخص کے ہاتھ پر تم بیعت کرتے ہو اور پھر یہ سمجھتے ہو کہ اس کی کے دل میں سلسلہ کے متعلق اتنی بھی غیرت نہیں جتنی تمہارے دلوں میں ہے.حالانکہ اس نے اپنی غیرت کا عملی ثبوت بھی تمہارے سامنے پیش کیا ہوا ہے.میں ہمیشہ اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ جماعت کا بیشتر حصہ بچے مخلصوں اور باتیں بنانے والوں میں فرق کیوں نہیں کرتا.گزشتہ دو سال میں تم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کر نیوالے تھے جب اُن پر مقدمے ہوئے تو انہوں نے کیسی بُزدلی اور دوں ہمتی دکھائی.جماعت کا ان مقدموں اور سیاسی شرارتوں کے مقابلہ کیلئے تمہیں چالیس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہو چکا ہے.حالانکہ ان لوگوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ہماری حرکات سے اگر سلسلہ کیلئے مشکلات پیش آئیں گی اور سلسلہ کا روپیہ خرچ ہو گا تو اس کا کون ذمہ وار ہوگا.اور پھر جب بعض حالات میں مقدمات چلائے گئے تو کیوں یہ لوگ گھبرا گھبرا کر اچھے سے اچھے وکیلوں اور اچھے سے اچھے سامانوں کے طالب ہوئے.جن لوگوں کے افعال کی وجہ سے یہ صورتِ حالات پیدا ہوئی تھی انہیں چاہئے تھا کہ یا وہ خود مقدمہ چلاتے یا کانگرس والوں کی طرح ڈیفنس پیش کرنے سے انکار کر دیتے اور قید ہو جاتے.مگر انہیں شرم نہیں آتی کہ کہتے تو وہ یہ تھے کہ ہم سلسلہ کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں گے مگر جماعت کا پندرہ ہیں ہزار روپیہ انہوں نے مقدمات پر خرچ کرا دیا اور پھر بھی وہ مخلص کے مخلص بنے ہوئے ہیں.ان میں سے بعض کے کھانوں اور سفر خرچ کے بل جا کر دیکھو تو تم کو تعجب ہوگا کہ یہ کیا ہوا ہے.لیکن حقیقت یہ تھی کہ دشمن جھوٹ بول رہا تھا اور سلسلہ کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹے مقدمات کر رہا تھا.ہم ان کی مدد کیلئے مجبور تھے گوہم جانتے تھے کہ بعض جگہ دشمن کو موقع دینے والے خود ہمارے اپنے آدمی تھے.اگر ہمارے آدمی میری تلقین کے مطابق صبر سے کام لیتے اور گالی کا جواب نہ دیتے تو اتنا فتنہ نہ بڑھتا.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے لڑائی کرنا دین کیلئے ضروری ہی سمجھا تھا تو ان کا فرض تھا کہ یا تو مقدمہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے اور کہتے کہ ہماری جماعت کی مالی حالت کمزور ہے ، ہم اس پر اپنا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے اور یا جواب دعوئی سے دستبردار ہو کر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتے.مگر یہ کی جماعت کا تمیں چالیس ہزار روپیہ خرچ کر ا دینے کے باوجود مخلص کے مخلص بنے پھرتے ہیں ( میں سہ
خطبات محمود ۱۵۲ سال ۱۹۳۷ء مقدمات کے بارہ میں نہیں کہتا.بعض مقدمات سلسلہ کی ضروریات کیلئے خود کئے گئے ہیں اور نہ سب کی آدمیوں کے متعلق کہتا ہوں جو ان میں مبتلا تھے.مگر چونکہ اصل لوگوں کو ظا ہر نہیں کرنا چاہتا میں نے بات کو عام رکھا ہے تا کسی خاص شخص پر الزام نہ آئے اور اس نوٹ کے ذریعہ سے میں نے اس کا بھی ازالہ کر دیا ہے کہ نا کردہ گناہ لوگوں پر کوئی بدظنی کرے ).میں پوچھتا ہوں بھلا گالیاں دینے یا بے فائدہ جوش دکھانے میں کونسی خوبی اور کمال ہے.کیا موچی دروازہ کے غنڈے گالیاں نہیں دیتے ؟ اگر تم بھی دشمن کے جواب میں زبان سے گالیاں دیتے چلے جاتے ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ تم نے وہ کام کیا جو حق کے دشمن کر رہے ہیں مگر تمہاری اس حرکت کو قربانی قرار نہیں دیا جائے گا.قربانی وہ ہوتی ہے جسے عام آدمی پیش نہ کر سکے.مگر تقریر کیلئے کھڑے ہو جانا اور اس میں پندرہ ہیں گالیاں دے دینا یہ تو ہر شخص کر سکتا ہے اور کرتا ہے.پس صرف اس لئے کہ کوئی شخص بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے، مخلص اور مومن نہیں کہلا سکتا.کیونکہ مخلص وہ ہے جو اس چیز کو پیش کرے جسے عام لوگ پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں.تم چلے جاؤ لا ہور میں یا اور کسی شہر میں اور چلے جاؤ بداخلاق نمائندگان مذاہب کی مجالس میں تمہیں یہی نظر آئے گا کہ جو شیلے اور فسادی لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے ، پتھر پھینکتے اور تالیاں پیٹتے ہیں.مگر مخلص وہ قربانی کرتے ہیں جو دوسرے نہیں کرتے.لاہور میں ہی جب کوئی فساد ہو، کمزور اخلاق کے لوگ ہمیشہ بڑھ بڑھ کر لاٹھی چلائیں گے.لیکن جب اسلام کیلئے مال کی قربانی کا سوال ہو تو پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ ہم گالیاں دیں، اٹھ ماریں اور پھر پلاؤ زردہ کھائیں.پس گالیاں دینا تو کمزور طبع لوگوں کا کام ہے کامل مومنوں والا کام نہیں اور اگر واقعہ میں ان میں اخلاص ہوتا تو جن لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا تھا وہ کہتے ہم جماعت کا ایک پیسہ بھی اس پر خرچ نہیں ہونے دیں گے ہم نے اپنی ذمہ واری سے کام کیا ہے اور اب اس بوجھ کو بھی یا خود برداشت کریں گے یا برداشت نہ کر سکنے کی صورت میں قید ہو جائیں گے.جماعت کے پاس آگے ہی روپیہ کونسا زیادہ ہے ہم اس پر مزید اپنے مقدمات کا بوجھ کیوں ڈالیں.کیا یہ اتنی موٹی بات نہیں جو ی تمہاری سمجھ میں آسکے.تو تمہیں چاہئے کہ تم مخلص اور کمزور طبع انسانوں میں فرق کرو.میں انہیں منافق نہیں کہتا.بعض کمزور طبائع ہوتی ہیں ان کا دل ایسا کمزور ہوتا ہے کہ وہ نتائج کی برداشت نہیں کر سکتے.ہوتے مومن ہی ہیں مگر دل کی کمزوری کی وجہ سے نتائج برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.یہی حال
خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۷ء ان لوگوں کا ہے انہوں نے بھی بڑھ بڑھ کر باتیں کیں اور جماعت کو مزید مشکلات میں مبتلا کر دیا اور ی جب کبھی ان کی مدافعت کی غلط تدبیروں سے فساد اور بڑھ گیا اور اس کے نتائج کو برداشت کرنے کا وقت آیا تو کمزوری دکھا دی اور مقدمہ لڑ کر اِس امر کی کوشش شروع کر دی کہ ان کی بریت ہو جائے.حالانکہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں ضرور اسے سزا دوں گا.تو اگر اس کا یہ مقولہ صحیح ہے تو سزا دینے کے بعد اسے دلیری سے اپنے جرم کا اقرار کرنا چاہئے اور اسے ی کہنا چاہئے مجھے جہاں چاہتے ہو لے جاؤ.میں نے اس کے منہ سے گالی سنی اور میں اسے برداشت نہیں کر سکا.فرض کرو کوئی شخص کہتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں اُسے جُھوٹی ماروں گا.اگر اسے ہماری تعلیم سے اتفاق نہیں تو جائے اور اُسے جوتی مارے اور پھر نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہے.مگر ادھر تو وہ ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرتا اُدھر جب دوسرے کو مار کر آتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے فعل کے جواب دہ تم ہو.یا درکھو دنیا میں قیام امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے ، درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں.اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں مار کھانے کی طاقت ہونی چاہئے.بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا یہ خیال ہو کہ ہم میں مارنے کی کی طاقت ہونی چاہئے.میں اسے غیر معقول نہیں کہتا ہاں غلط ضرور کہتا ہوں.یہ ضرور کہتا ہوں کہ اُس نے قرآن کریم کو نہیں سمجھا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کونہیں سمجھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اس وقت ہمیں میسر نہیں.پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اُس کی ایک رائے ہے جو میری رائے سے مختلف ہے.لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اور پھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بچانا مجھے بچانا.آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے؟ کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا ؟ اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے.تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھاؤ اور اپنے جُرم کا اقرار کرو.اگر ان دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی
خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۷ء میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.اگر چالیس آدمی ایسے مل جائیں جو مار کھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈرا سکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈرا سکتے ہیں.مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ میں جھاگ بھر آتی ہے اور وہ گو ذکر اُس پر حملہ کر دیتے ہیں.لیکن اُسی وقت کی ان کے پیر پیچھے کی طرف پڑ رہے ہوتے ہیں.تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہ کریں گے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائیو! کچھ روپے ہیں جن سے مقدمہ لڑا جائے ، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے؟ بھلا ایسے خانوں نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے؟ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے.اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابورکھتا ہے.پس اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو.جو کچھ میں سمجھتا ہوں ، وہ بہ ہے کہ بہادر بن مگر اس طرح کہ مار کھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہو کر دشمن سے جنگ کرو.ہاں جب وہ کہے کہ اب لڑ و اُس وقت بیشک لڑو.لیکن جب تک تمہیں امام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت کی تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں.لاٹھی اور سوٹے سے ہی نہیں بلکہ ایک ہلکا ساتھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں.بلکہ میں کہتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس کی وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے.لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیں تب بھی میں شریف انسان تمہیں تب ہی سمجھوں گا کہ اگر تمہارا یہ دعوی ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہوا اور اُس سے جوش میں آکر وہ پھر اور بد کلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جاؤ اور اپنے آپ کو فنا کر دو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیلئے گالی کی تھی.اُس کو خاموش کرانا تمہارا ہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں.کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدل گام دشمن کا ނ جواب دے کر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی.گھروں میں بیٹھ رہتے ہو! اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ سچ یہ عقیدہ ہے
خطبات محمود ۱۵۵ سال ۱۹۳۷ء کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جاؤ یا گالیاں دینے والوں کو مٹا ڈالو.مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو.میں تو ایسے لوگوں کے متعلق بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ سلسلہ کے دشمن اور خطر ناک ہیں.اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں تو کہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کر کے انہیں خوب پیٹنا ہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ گالیاں دلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں.میں اس موقع پر ان لوگوں کو بھی جو انہیں اعلیٰ مخلص سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ مومن بیوقوف نہیں ہوتا.کیا تم سمجھتے ہو کہ گالیاں دینا کوئی بہادری ہے؟ تم کسی چوہڑے کو دوروپے دے کر دیکھ لو وہ تم سے زیادہ گالیاں دے دے گا.پس تم بھی اگر گالیاں دیتے ہو تو زیادہ سے زیادہ چوڑھوں والا کام کرتے ہو.یہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں جو تمہیں سمجھ میں نہ آسکے.مگر میں متواتر تین سال سے سمجھ رہا ہوں اور تم ابھی تک سمجھنے میں نہیں آتے.میرے سامنے کوئی آٹھ دس برس کا بچہ لے آؤ، میں یہ باتیں اُس کے سامنے دُہرا دیتا ہوں تمہیں خود بخو د معلوم ہو جائے گا کہ وہ بچہ میری بات کو کتنی جلدی سمجھ لیتا ہے مگر کیا میرے تین سالہ خطبات بھی تمہیں میرے منشاء سے آگاہ نہیں کر سکے.پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتا دیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں.یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو.ہمارا طریقہ مرنے کا ہے مارنے کا نہیں.ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اس مقام پر رکھا ہوا ہے کہ مر جاؤ مگر اپنی زبان نہ کھولو.کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی ؟ اس میں کسی وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے کہ اگر جہاد کا موقع ہوتا تو خدا تعالیٰ تمہیں تلوار کیوں نہ دیتا.اُس کا تلوار نہ دینا بتا تا ہ ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں.اسی طرح اگر تمہارے لئے مارنے کا مقام ہوتا تو تمہیں اس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں.مگر تمہیں اس کی توفیق نہیں دی گئی اور وہ سامان نہیں دیئے گئے.پس معلوم ہوا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنو اور صبر کرو.اور اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا اے بے شرم ! تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں توڑی
خطبات محمود ۱۵۶ سال ۱۹۳۷ء نہیں دیتا جس منہ سے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں.گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں.تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اور پھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آکر ختم ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو کہ وہ تمہاری مدد کرے.گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے.کیا اُس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے؟ یا اس کی اور تمہاری سیاست ایک ہے؟ یا اس کا نظام تمہارے نظام سے ملتا ہے؟ پھر گورنمنٹ تمہاری کیوں مدد کرے.گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو اُن لوگوں سے جو تمہارے دشمن ہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں اور گورنمنٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے.پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہو سکتی ہے.اُس کو تو اُسی وقت تک تمہارے ساتھ ہمدردی ہو سکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اور دشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اس صورت میں بھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ و فساد سے بچا لیا.مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو نادانی ہے.اُس کی وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہوگی کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کر سکتی.پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کر سکتے ہو جب خود قربانی کر کے لڑائی اور جھگڑے سے بچو اور اُس کی وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کر کے فتنہ وفساد کو بڑھنے نہ دیا مگر رذیل حکام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہوا اگر دشمن کا تھپڑ اُنہوں نے کھا لیا.وہ زیادہ تھے اور یہ تھوڑے.اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھالیا ہے تو یہ کوئی خوبی نہیں.پس وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پرمحمول کریں گے اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کی کا نتیجہ قرار دیں گے.پس تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سود ہے اور مجھے تمہاری مثالی ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے پہلے زمانہ میں جب یہ معلوم نہ تھا کہ کشمیری فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہیں.ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور حکومت انگریزی نے مہا راجہ صاحب جموں سے کہا کہ اپنی فوج میں سے ایک دستہ ہماری فوج کے ساتھ روانہ کر دیں.اُنہوں نے ایک کشمیری دستہ کو تیار ہو جانے کا حکم دے دیا جب وہ تیار ہو گئے تو کشمیری افسر ایک وفد کی صورت میں مہا راجہ صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے اتنی مدت تک آپ کا نمک کھایا ہے ہمیں لڑائی سے ہرگز انکار نہیں ، ہم ہر وقت کی
خطبات محمود.سال ۱۹۳۷ء جانے کیلئے تیار ہیں صرف ایک ہماری عاجزانہ التماس ہے اور وہ یہ کہ سُنا ہے پٹھان سخت وحشی ہوتے ہیں آپ ہمارے ساتھ کچھ سپاہی کر دیں جو ہماری جانوں کی حفاظت کریں.تم بھی خدا کے سپاہی کہلاتے ہو مگر انگریزی سپاہیوں کے پہرے میں کام کرنا چاہتے ہو.پھر تم سے زیادہ بے غیرت اور کون ہوسکتا ہے.اس وقت تم سب اس مثال کے سننے پر ہنس پڑے ہو مگر کیا تمہاری بھی یہی حالت نہیں.تم کہتے ہو دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں مگر انگریزی سپاہیوں کی حفاظت میں.اگر ی واقعہ میں تم خدا تعالیٰ کے سپاہی ہو اور اُس کے دشمن کے مقابل پر کھڑے ہو تو پھر تمہیں کسی حفاظت کی ضرورت ہی کیا ہے.تم میرے بتائے ہوئے طریق کے ماتحت صبر اور شکر کرو پھر خدا تعالیٰ کے سپاہی آپ تمہاری مدد کیلئے آسمان سے اُتریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک دفعہ ایک مقدمہ ہوا.جس مجسٹریٹ کے پاس وہ کی مقدمہ تھا اُس پر لاہور کے بعض آریوں نے سخت زور ڈالا کہ جس طرح بھی ہو سکے تم کسی نہ کسی طرح کی مرزا صاحب کو سزا دے دو اور اس قدر اصرار کیا کہ آخر اس نے وعدہ کرلیا کہ میں کچھ نہ کچھ سزا انہیں ضرور دے دوں گا.ایک ہندو دوست جو اس مجلس میں موجود تھے انہوں نے یہ تمام حالات ایک احمدی وکیل کے پاس بیان کئے اور کہا کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا آریوں نے بہت اصرار کیا اور آخر مجسٹریٹ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں ضرور حضرت مرزا صاحب کو کچھ نہ کچھ سزا دے دوں گا.وہ احمدی وکیل گھبرائے ہوئے گورداسپور آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُن دنوں گورداسپوری میں ہی تھے میں وہاں موجود نہیں تھا لیکن جو دوست وہاں موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اُس دوست نے آکر ذکر کیا کہ حضور ! ہمیں کوئی فکر کرنا چاہئے اس مجسٹریٹ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ کو ضروری سزا دے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی.آخر انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی بات دہرائی اور کچھ اور دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور سب نے کہا کہ کی اب ضرور کوئی فکر کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت لیٹے ہوئے تھے.آپ نے جب متواتر یہ بات سنی تو آپ نے چار پائی سے سر اٹھایا اور لیٹے لیٹے گھنی پر ٹیک دے کر بڑے جلال سے فرمایا وہ مجسٹریٹ ہوتا کیا چیز ہے وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.پس کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ ہو تو یہ مجسٹریٹ اور افسر اور پولیس کے آدمی تمہیں
خطبات محمود ۱۵۸ سال ۱۹۳۷ء کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ کبھی نہیں.ہاں تمہیں اُس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے جو خدا تعالیٰ کے مامور نے تمہیں دی اور جو یہ ہے کہ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام رو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار اور جو تعلیم قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے دی ہے کہ جب کسی مجلس میں خدا اور اُس کے رسول کو گالیاں دی جاتی ہوں تو وہاں سے اُٹھ کر چلے آؤ اور بے غیرت مت بنو.مگر تمہاری غیرت کا یہ حال ہے کہ ادھر ہم منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کے جلسہ میں کوئی نہ جائے اور اُدھر تم میں سے کوئی کونوں میں چھپ کر ان کی تقریر میں سنتا ہے، کوئی کسی ہمسایہ کے مکان پر چڑھ کر وہاں سے تقریریں سنتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں یہ گد گدی اُٹھ رہی ہوتی ہے کہ کسی طرح جائیں اور گالیاں سنیں.کیا تم نے کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں ان جلسوں میں گیا ہوں ؟ پھر کیا تمہارے سینہ میں ہی دل ہے میرے سینہ میں نہیں.پھر تم کو کیوں شوق آتا ہے کہ جاؤ اور گالیاں سنو.اسی وجہ سے کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیں تو اس سے مراد وہی خاص لوگ ہیں جو بڑھ بڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پھر قابل شرم بے غیرتی کا نمونہ دکھاتے ہیں.پس تمہارا گالیاں سننا بتاتا ہے کہ تمہارے دل مردہ ہو چکے ہیں.تم بے ایمانی کے ساتھ ایمان کا جبہ پہن کر نکلے ہو اور تمہاری غرض محض تماش بینی ہے.ایسے لوگ اُس وقت بھی تماش بین ہوتے ہیں جب وہ ہماری مجلسوں میں شور مچارہے ہوتے ہیں اور کہتے ہی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کی حفاظت ہونی چاہئے.اور جب وہ اُس مجلس میں جاتے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں تو وہاں بھی ان کی حیثیت ایک تماش بین کی سی ہوتی ہے اور یقیناً ایسے لوگ اپنی قوم کیلئے عارا اور ننگ کا باعث ہوتے ہیں.پھر میں تمہیں کہتا ہوں تم اپنے آپ کو باغیرت کہتے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تم سلسلہ کیلئے قربانی دینے کی والے ہو گر تمہارے پاس اس الزام کا کیا جواب ہے کہ جب آریوں کا پروسیشن نکل رہا تھا تو تم میں.ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا.اس میں غیرت کا کونسا سوال تھا ؟ کیا دوسری قوموں کا حق نہیں کہ وہ بھی اپنے بزرگوں کے حق میں نعرے لگا ئیں ؟ تم کہتے ہو لوگ ہم پر جھوٹا الزام لگاتے ہی ހނ ہیں کہ ہم میں سے کسی نے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگا یا تھا.میں کہتا ہوں یہ درست ہے کہ تم میں سے کسی نے
خطبات محمود ۱۵۹ سال ۱۹۳۷ء ایسا نہیں کیا مگر تم انصافا آپ ہی بتاؤ کہ جس وقت تمہارا پروسیشن نکل رہا ہوا اور تم محمد زندہ باد کے نعرے رہے ہو تو اُس وقت اگر کوئی شخص ابو جہل زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو تمہارے تن بدن میں آگ لگ جائے گی یا نہیں؟ اگر لگ جائے گی تو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارے دشمن کے سینہ میں بھی دل ہے.اور اُس کا دل بھی اُس وقت دکھتا ہے جب تم اُس کے مظاہرہ کے وقت میں مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہو.پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے مُردہ باد نہیں کہا تھا ، زندہ با دکہا تھا.سوال یہ نہیں کہ تم نے کیا کہا بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر زندہ باد کا نعرہ لگانا بھی دوسرے کو چڑانا اور اسے تکلیف دینا ہوتا ہے.جس وقت تم اپنا پر وسیشن نکال رہے ہو اور سلسلہ کی تعریف میں نعرے لگا رہے ہو اس وقت اگر کوئی شخص سیکھرام زندہ باد یا ثناء اللہ زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو ایمان سے کہو کہ تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں ؟ آئے گا اور ضرور آئے گا.پھر کیا تمہارے ہی سینہ میں دل ہیں اور تمہارے دشمن کے سینہ میں دل نہیں کہ تمہیں تو ایسے نعرے بُرے لگ سکتے ہیں مگر انہیں بُرے نہیں لگ سکتے ہیں.میں تو حیران ہوتا ہوں جب میں یہ بحث سنتا ہوں کہ ہم نے مرزا غلام احمد زندہ باد کہا تھا لیکھرام مُردہ باد تو نہیں کہا تھا حالانکہ سوال زندہ باد کہنے کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ زندہ باد کا نعرہ کس موقع پر لگایا تھا.کیا وہ تمہارا جلسہ تھا؟ اگر تم اپنے جلسہ میں اس قسم کا نعرہ لگاتے تو یہ ایک معقول بات سمجھی جا سکتی تھی مگر غیر کے جلسہ یا جلوس میں نعرے لگا نا صریح اشتعال دلانے والی حرکت تھی.پس یہ بحث ہی کیا ہوئی کہ ہم نے لیکھرام مُردہ باد نہیں کہا ، مرزا غلام احمد زندہ باد کہا.اُس وقت مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی لیکھرام مُردہ باد کہنے کے مترادف تھا.یا درکھو جب کوئی قوم اپنے کسی لیڈر کے اعزاز میں پر وسیشن نکال رہی ہو تو اس وقت تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُس میں دخل دو اور اگر تم اپنے لئے یہ بات جائز سمجھتے ہو تو پھر دشمن کا بھی حق ہوگا کہ وہ تمہارے پر وسیشن میں لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائے.میں یہ مانتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا تھا انہوں نے جھوٹ بولا.کیونکہ اس وقت تک کوئی گواہی ایسی نہیں ملی جس سے کی یہ الزام ثابت ہوا ہو.علاوہ ازیں جب وہ شخص جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے قسم کھا کر کہہ چکا ہے کہ میں نے اس قسم کا نعرہ نہیں لگایا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی قسم کو تسلیم کریں.پس یہ جو کہا گیا کہ احمدیوں کی طرف سے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا یہ جھوٹ کہا گیا اور اس میں کسی قسم کی سچائی نہیں.یہ کہنا کہ پولیس کی ڈائری میں یہ لکھا ہوا ہے یہ بھی کوئی معقول ثبوت نہیں.پولیس والے بیسیوں جھوٹ بول لیتے ہیں
خطبات محمود 17.سال ۱۹۳۷ء اور جب وہ انہی کے چٹے بٹے ہیں تو ان سے ہم سچائی کی تو قع کس طرح رکھ سکتے ہیں.پھر جس شخص کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا جب وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے ایسا نعرہ نہیں لگایا تو اب اس کے بعد تصفیہ کی صورت یہی رہ جاتی ہے کہ پولیس والے قسم اٹھا لیں کہ واقعہ میں سیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا تھا پھر خدا خود فیصلہ کر دے گا کہ کس نے سچ بولا اور کس نے جھوٹ.پولیس کی ڈائریوں کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ سالوں میں جب یہ الزام لگایا گیا کہ احمدی لیکچراروں نے ڈپٹی کمشنر کو حرامزادہ کہا ہے تو پولیس کے جس آدمی نے یہ رپورٹ کی تھی اُسے جب کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر چھوڑ کسی کو بھی کسی احمدی لیکچرار نے حرامزادہ نہیں کہا پھر تم نے ایسا کیوں لکھا ؟ تو وہ کہنے لگا ایک راز کی بات ہے میں اس کا جواب نہیں دے سکتا.پھر کم سے کم ہیں فیصلے ہائی کورٹ کے میں ایسے پیش کر سکتا ہوں جن میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پولیس والوں نے جھوٹ بولا.پس ہم کہتے ہیں یہ الزام کی بالکل جھوٹا ہے.جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے وہ قسم اور غلیظ قسم کھا کر اپنے کو بری ثابت کر چکا ہے.اور اگر یہ جھوٹی قسم ہے تو اس کے مقابلے میں دوسر اشخص جسے یہ یقین ہے کہ واقعہ میں لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا کیوں ایسی ہی قسم نہیں کھا لیتا.پھر یہ بھی تو غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی مخالف نے خود اس قسم کا نعرہ لگا دیا ہو تا کہ فتنہ پیدا ہو جائے.پس قسمیہ طور پر اس بات کو بیان کر دینے کے بعد کہ لیکھر ام مُردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا گیا ہم اس کی امر کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ یہ الزام درست ہے.ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اس موقع پر مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی فتنہ پیدا کرنے کا موجب تھا.ہماری جماعت بھی اپنے جلوسوں میں زندہ باد کے نعر لگایا کرتی ہے.ایسے مواقع پر اگر مقابل کا فریق بھی نعرے لگانا شروع کر دے تو فساد ہوگا یا نہیں.پس میں تو ہر گز نہیں سمجھتا کہ جس چیز کو ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے وہ دوسروں کیلئے جائز سمجھیں.بحیثیت انسان ہونے کے ہندو بھی وہی حق رکھتے ہیں جو ہم رکھتے ہیں بلکہ سکھوں اور ہندوؤں کو جانے دو چوڑھوں کا بھی انسان ہونے کے لحاظ سے وہ حق ہے جو ایک مسلمان یا سکھ یا ہندو کا ہے.اور ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہمیں تو فلاں حق حاصل ہے مگر ہندوؤں یا سکھوں یا چوڑھوں کو حاصل نہیں.جو حق ہمیں حاصل ہوگا وہ دوسروں کو بھی حاصل ہوگا اور جو بات ہمیں بُری معلوم ہوتی ہو ہم کو چاہئے کہ کی دوسرے کے حق میں بھی اس طرح نہ کریں.آج ہی اگر میں ایک میٹنگ کر کے لوگوں کے سامنے یہ بات
خطبات محمود ۱۶۱ سال ۱۹۳۷ء پیش کروں کہ جب آپ لوگ کہتے ہیں ”محمد زندہ باد یا غلام احمد کی جے تو کیا آپ اُس وقت برداشت کریں گے کہ آپ کے جلوس میں ہی مخالف ابو جہل زندہ باد یا لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگا ئیے تو میں سمجھتا ہوں کہ سو فیصدی لوگ اشتعال میں آجائیں گے اور وہ کہیں گے کہ ہم اپنے جلسہ یا جلوس میں اس قسم کے نعرے ہر گز نہیں سنیں گے.پس اگر تم اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ان نعروں کو سننے کیلئے تیار نہیں تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ دوسروں کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی تم اپنی زبانوں کو روکو اور ا.جذبات پر قابورکھو.پھر ایک اور موٹی بات ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ کہ تم میں سے ایک شخص ایک مجرمانہ فعل کرتا ہے تو تم سب کو کیوں فکر پڑ جاتی ہے حالانکہ تمہارا فرض صرف اتنا ہے کہ تم مجرم کو مجرم قرار دے دو اور اس کے فعل سے اپنی بے تعلقی اور براءت کا اظہار کر دو.آج ہندوستان میں جس قدر فسادات ہیں ان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص مجرم کرتا ہے اور اُس کی ساری قوم سمجھ لیتی ہے کہ شاید ہم پر الزام لگا ہے اور زخم کردہ قوم واقعہ میں بھی اس ساری قوم کو مجرم سمجھنے لگتی ہے.اگر تم بھی ایسا ہی کرو تو تم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے.اگر کسی نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تو بیشک یہ فقرہ بالکل سچ ہے تھا مگر بچے فقرے بھی بعض دفعہ فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتے ہیں.قرآن کریم میں ہی آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول ! لبعض منافق تیرے پاس آتے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ کی کا رسول ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے مگر اے ہمارے رسول منافق اس وقت جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں.پس بعض لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کو رسول کہنا بھی جھوٹ تھا حالانکہ اس سے بڑھ کر سچی بات اور کیا ہو سکتی ہے.اسی طرح حضرت علیؓ کے زمانہ میں کچھ لوگ تھے جنہوں نے ایک دفعہ کہا بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، سے مسلمانوں کے کام باہمی مشورہ سے ہونے چاہئیں.حضرت علی سے کسی نے یہ بات کہی تو آپ نے فرمایا كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ أُرِيدَ بِهَا الْبَاطِلُ ہے کہ یہ بات تو سچی ہے مگر اس سے فساد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تو ہر سچی بات موقع ومحل کو مدنظر رکھے بغیر بیان کرنی جائز نہیں ہوتی.میاں اور بیوی کے تعلقات سے زیادہ حلال اور کونسا تعلق ہو سکتا ہے مگر کیا جائز ہے کہ انسان مخصوص تعلقات کا ذکر کرے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اُس عورت پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جو اپنے خاوند صلى الله
خطبات محمود ۱۶۲ سال ۱۹۳۷ء کے پاس جاتی اور پھر باہر جا کر اُس کے متعلق باتیں کرتی ہے مگر کیا وہ سچ نہیں ہوتا.غرض سچائی کے اظہار کیلئے بھی شرائط ہوتی ہیں اور ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ہر شخص جس بات کو سچائی سمجھتا ہے وہ اس سچائی کے اظہار کا حق تو رکھتا ہے لیکن دشمن کی مجلس میں جب طبائع میں جوش ہوا سے اس کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے.جب لوگ جلوس نکال رہے ہوتے ہی ہیں اُس وقت ان کی ساری عقیدت جو اپنے پیشواؤں کے ساتھ وہ رکھتے ہیں پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے.محرم میں جب شیعہ لوگ روتے پیٹتے ہیں ، سنی بھی شیعہ ہو جاتے اور ان میں سے اکثر ان میں شامل ہو جاتے ہیں.کسی عقلمند کا مقولہ ہے کہ مسلمان گیارہ مہینے سنی رہتے ہیں اور بارہویں مہینہ سب شیعہ بن جاتے ہیں.در حقیقت یہ بات بالکل درست ہے.جس وقت شیعہ لوگ یا حسین یا حسین“ کے نعرے لگاتے ہیں تو واقعات کربلا کی یاد میں سنیوں کی عقلوں پر بھی پردہ ڈال کر انہیں شیعہ بنا دیتی ہے اور اپنی سنیت انہیں بھول جاتی اور شیعیت ان پر غالب آجاتی ہے.اسی طرح جس وقت ہندو یا سکھ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں ان کی عقیدت کا جوش انتہاء تک پہنچا ہو ا ہوتا ہے.اُس وقت اگر کوئی مخالف اپنے عقیدہ کا اظہار کرتا ہے تو گو وہ ایک سچائی ہی ہو مگر چونکہ اس سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اس لئے وہ مجرم ہے اور اس کی جماعت کا کوئی حق نہیں کہ اس سے ہمدردی کرے.در حقیقت میں تو اب کچھ مدت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ تمام جلوسوں کی کو بند کر دے.جلوسوں کی وجہ سے ہندوستان میں بڑے بڑے فساد ہوتے ہیں.جب جلوس نکلتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک آفت آگئی.ادھر جلوس والوں میں جوش ہوتا ہے اُدھر جلوس کو دیکھ کر مخالفوں کے دلوں میں غیظ و غضب بھڑک اُٹھتا ہے اور بسا اوقات فساد اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جاتی ہے.پس ہندوستان کے امن کی راہ میں جلوس ایک خطر ناک روک ہیں اور گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ ان جلوسوں کو بند کر دے.اگر گورنمنٹ جلوسوں کے متعلق کوئی ایسا عام فیصلہ صادر کر دے کہ کسی کو بھی جلوس نکالنے کی اجازت نہ ہوگی تو میں اپنی جماعت کی طرف سے حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے خلاف نہ صرف کوئی پروٹسٹ نہیں کریں گے بلکہ حتی الامکان اس کی مدد کریں گے.کیونکہ اس زمانہ میں جلوس سخت فسادات کا موجب بنے ہوئے ہیں.پس تم میں سے جس شخص نے بھی یہ نعرہ لگایا اس نے سخت غلطی کی اور ایک مجرمانہ فعل کا ارتکاب
خطبات محمود ۱۶۳ سال ۱۹۳۷ء کیا.میں بتا چکا ہوں کہ یہ کوئی سوال نہیں کہ نعرہ کیا لگایا گیا اور میں تو یہاں کے لوگوں کے خطوں کو پڑھ پڑھ کر سفر میں حیران ہوتا رہا کہ یہ کیا لکھا ہوتا ہے کہ پولیس کا الزام غلط ہے.ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ اس نے نہیں لگایا ، مجھے ان دونوں فقرات میں فرق تو نظر آتا ہے مگر مجھے ان میں سے کسی کے جواز کی بھی دلیل نظر نہیں آتی.میرے نزدیک تو یہ کہنا کہ لیکھر ام مُردہ باد ہم نے نہیں کہا مرزا غلام احمد زندہ باد ہم نے کہا.ویسی ہی بات ہے جیسے میری ایک بھانجی کو ایک اُستادی پڑھایا کرتا تھا.بچی بہت چھوٹی تھی.اُسے آداب کا کوئی پتہ نہ تھا.ایک دن اس نے کسی لڑکی کے منہ سے گدھی کا لفظ سنا اسے یہ لفظ بہت پسند آیا اور جب اُستاد سے پڑھانے آیا اور کسی بات پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی ددھی ، یعنی تو گدھی ہے بوجہ زبان کے صاف نہ ہونے کے گدھی کی جگہ اُس نے ددھی“ کہا.اُستاد نے اس کے والد کے پاس شکایت کی کہ آپ کی لڑکی نے آج مجھے گدھی کہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کی اس نے کہیں سے گدھی کا لفظ سنا ہے اور اب یہ گالی اس کی زبان پر چڑھ گئی ہے.باپ نے لڑکی کو بلا یا.چونکہ واقعہ تازہ ہی تھا اس لئے وہ سمجھ گئی کہ ضرور اس بات کی وجہ سے مجھے بلایا گیا ہے.وہ ڈرتی ڈرتی اور کانپتی کانپتی آئی اور کہنے لگی ددھی نہیں ددھا یعنی میں نے گدھی کہنے میں غلطی کی اصل میں مجھے گدھا کہنا چاہئے تھا.اُس نے سمجھا شاید غلطی اس میں ہوئی ہے کہ میں نے مرد کو گدھی کہ دیا حالانکہ اسے گدھا کہنا ہی چاہئے تھا اور اسے یہ خیال ہی نہ آیا کہ مجھے ان میں سے ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے تھا.یہی مثال اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے.اس موقع کے لحاظ سے یہ دونوں فقرے جو زیر بحث ہیں نامناسب تھے اور نہیں کہنے چاہئیں تھے.پس تم اپنے جذبات کو روکنے کی عادت ڈالو اور لوگوں کے احساسات کا خیال رکھو.اب یہ ہوتا ہے کہ ہم انتہائی کوشش کر کے دشمن کو جب اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ مجرم ثابت ہونے والا ہوتا ہے اور اس کی سو گالیاں پکڑ لیتے ہیں تو جھٹ تم میں سے ایک شخص کوئی سخت لفظ کہ دیتا ہے اور خواہ وہ گالی نہ ہو حض ایک سخت لفظ ہو حکومت ان کی سو گالیوں کو پرے پھینک کر کہہ دیتی ہے کہ آپ کے آدمی نے بھی یہ گالی دی ہے.پس تمہارے اس ایک آدمی کی غلطی کی وجہ سے کی حکام ایک عرصہ تک یہی دُہراتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے آدمی نے بھی یہی بات کہی تھی اور اس طرح ہماری ساری سکیم تم میں سے ایک شخص جوش میں آکر تباہ کر دیتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں اب ضرب لگانے کا وقت ہے، ہماری جماعت کا کوئی شخص اپنی بیوقوفی سے اُس ضرب کو اپنے
خطبات محمود ۱۶۴ سال ۱۹۳۷ء او پر لے لیتا اور بنی بنائی سکیم کو بگاڑ دیتا ہے.پس میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری یہ باتیں سمجھنی مشکل نہیں.تم میں سے جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ یہ باتیں مشکل ہیں اور جلدی سمجھ میں نہیں آسکتیں وہ کوئی آٹھ دس سال کا بچہ میرے سامنے لے آئے ، میں اُسے یہ تمام باتیں سمجھا کر بتا دیتا ہوں.پھر اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر تم لوگ نہ سمجھو تو سوائے اس کے اور کیا معنے ہوں گے کہ تم چاہتے ہی نہیں کہ سمجھو اور میری باتوں پر عمل کرو.میں سوئے ہوئے کو تو جگا سکتا ہوں مگر جو جاگ رہا ہو اور یونہی آنکھیں بند کر کے پڑا ہوا ہو، اُسے کس طرح جگا سکتا ہوں.اس کے متعلق تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ میں خدا سے ہی کہوں کہ خدایا! مجھے اس نادان دوست سے بچا کہ یہ میرے کام میں روک بنا ہوا ہے.الفضل ۵ جون ۱۹۳۷ء) بخارى كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به التوبة: ٦١ ۴۳، تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
خطبات محمود ܬܪܙ سال ۱۹۳۷ء ۱۷ سب سے بڑا حربہ دُعا ہے فرموده اارجون ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں تحریک جدید کے گزشتہ جلسہ کے موقع پر بوجہ بیماری کے شامل نہیں ہو سکا تھا اور گواب بھی اس بیماری کے اثر کے ماتحت میں اس قابل نہیں ہوں کہ زیادہ بول سکوں بلکہ اس بیماری کے بعد اب تک یہ حالت ہے کہ اگر مجھے کھڑا ہونا پڑے تو سر میں ایسا شدید چکر آتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں شاید گر جاؤں گا اس لئے صحت کے لحاظ سے زیادہ کھڑا ہونے کی طاقت اب بھی نہیں رکھتا مگر چونکہ اس وقت میں حصہ نہ لے سکا تھا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کی بجائے آج اختصار کے ساتھ کوئی بات کہہ دوں تا اس ثواب میں میں بھی شریک ہو سکوں اور وہ بات جو میں کہنی چاہتا ہوں انہی روزوں اور دعاؤں کے متعلق ہے جن کی تحریک کوئی دو ماہ ہوئے میں نے کی تھی.تحریک جدید کا اُنیسواں مطالبہ یہ ہے کہ دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور اس کیلئے میں نے یہ طریق اختیار کر رکھا ہے کہ ہر سال کچھ روزے رکھے جائیں اور دعائیں کی جائیں.اور ج یہ روزے جہاں تک ممکن ہو مقررہ دنوں میں ہی رکھے جائیں سوائے اس کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اور وجہ پیش آ جائے.اس دفعہ میری تجویز کے مطابق سات ماہ میں چودہ روزے مخلصین جماعت رکھیں گے اور رکھ رہے ہیں.میں نے نصیحت کی تھی اور اب پھر اُسے دُہراتا ہوں کہ اِن دنوں میں دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان بعض رفتن کو جو خواہ احرار کی طرف سے ہوں یا بعض
خطبات محمود ۱۶۶ سال ۱۹۳۷ء حکام کی طرف سے ، اپنے فضل سے دور کر دے..اس کے علاوہ ایک زائد بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو منافقین کا رنگ رکھتے ہیں یا تو ہدایت دے دے یا ان کو الگ کر دے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عاجزانہ دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور اب ایسے لوگ یا تو ظاہر ہو جائیں گے اور یا تو بہ کر لیں گے.ہماری ذاتی خواہش تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے اور ہدایت نصیب کرے.لیکن اگر مشیت الہی یہی ہو کہ جہاں بیرونی فتنوں میں جماعت کی آزمائش ہوئی ہے اندرونی فتنوں میں بھی ان کی آزمائش کرے اور منافقوں کو بھی زور لگانے کا موقع دے تو جو اس کی مرضی اور مشیت ہے ہم بھی اُسی پر رضامند ہیں.پس دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور جن کیلئے ممکن ہو روزے رکھیں اور کوشش کریں کہ سوائے بیماری کے یا کسی اور وجہ سے انہی ایام میں رکھیں تا دعا ئیں کثیر تعداد میں ہوں اور اکٹھی آسمان کو جائیں.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری جنگ ہے جو اسلام کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کیلئے لڑی جاری ہے.افتراء کی جتنی صورتیں انسانی ذہن میں آسکتی ہیں، فریب اور دغا کے جتنے طریق انسانی دماغ ایجاد کر سکتا ہے اور گمراہ کرنے ورغلانے کیلئے شیطان جتنی تدابیر اختیار کر سکتا ہے وہ سب احمدیت کے خلاف اختیار کی گئیں اور اختیار کی جارہی ہیں.مگر با وجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی حفاظت کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا.نہ دشمنوں کی طاقت اس وعدہ کے پورا ہونے میں روک ہو سکتی ہے اور نہ ہمارے ضعف یا کمزوری سے اس کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی ترقی کے وعدے کئے تو یہ جانتے ہوئے کئے تھے کہ جماعت کتنی کمزور ہے اور اس علم کے ساتھ کئے تھے کہ ہمارے دشمن کتنے طاقتور ہیں.وہ عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اس جماعت پر کتنے حملے ہونے والے ہیں اور کہ وہ ان کے دفاع کی کس قدر طاقت رکھتی ہے.مگر اس مالی نے باوجود یہ جاننے کے کہ جماعت میں کتنی طاقت ہے اور کہ دشمن اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہر وہ طریق اختیار کرے گا جو پہلے انبیاء کے سلسلوں کے مقابل پر اختیار کئے گئے ، اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے جو پورا ہوکر رہے گا اور خدا کی نصرت تمام تاریکیوں کو پھاڑ کر اور اس کا نور ہزار ہا با دلوں کو چیرتا ہوا ظاہر ہوگا.دشمن کی تخویف ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی اور اس کے تمام مکر و فریب ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں
خطبات محمود ۱۶۷ سال ۱۹۳۷ء گے.یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو پورا ہو کر رہے گا.یہ کلام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پری نازل کیا.پھر ہزاروں احمدیوں اور غیر احمدیوں پر اس کی تصدیق کیلئے اس کا کلام نازل ہوا.ہم اگر دعا کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہمیں خدا کی نصرت پر شبہ ہے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت جلد آئے تا اس میں ہمارا بھی ہاتھ ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں شامل ہونے کا موقع ہمیں بھی عطا کر دے.ہماری یہ دعا ئیں اس خوف سے نہیں کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا اور اس شبہ سے نہیں کہ سلسلے کی ترقی کس طرح ہوگی بلکہ اس یقین کے ساتھ ہیں کہ ترقی ضرور ہوگی.پس آؤ ہم سب مل کر وہ سب سے بڑا حربہ اور سب سے زبردست ہتھیار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے استعمال کریں اور اپنی کمزوریوں کو اُس کے حضور پیش کر کے اُس کے فضلوں کو ڈھونڈیں تا وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کر دے اور سلسلہ کا مؤید و ناصر ہو اور ہر اس کمزوری کو جو جماعت میں پائی جاتی ہے دور کرے اور منافقین کو یا تو ہدایت دے اور یا انہیں ظاہر کر دے تا سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں ہر قسم کی روکیں دور ہوں.اسی طرح کی بیرونی دشمنوں کیلئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت نصیب کرے اور اُن کی گالیوں کو دعاؤں میں بدل دے اور اگر ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے وہ ان کی تباہی کا ہی فیصلہ کر چکا ہے تو پھر ہماری دعا یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے تباہ ہوں اور ہماری زندگیوں میں ہوں تا ہم اس کے ثواب میں حصہ دار ہوسکیں.الفضل ۱۹ / جون ۱۹۳۷ ء )
خطبات محمود ۱۶۸ ΙΔ سال ۱۹۳۷ء نماز با جماعت پڑھنے کی سخت تاکید ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہو سکتا چندوں کے متعلق ایک اعتراض کا جواب فرموده ۱۸ جون ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- دو تین سال ہوئے میں نے قادیان کی تنظیم مساجد کے مطابق کرنے کے متعلق بعض ہدایات دی تھیں اور میری غرض اس تنظیم سے یہ تھی کہ ایک تو نماز با جماعت جو اسلام کا نہایت ہی اہم اصل ہے اور جس کے بغیر انسان مومن ہی نہیں ہو سکتا اس کی طرف جماعت کو زیادہ توجہ ہو جائے.اور دوسرے لوگوں کا اجتماع خدا کے گھر میں پانچ اوقات میں ایسی طرز پر ہو کہ سلسلہ کے کارکن انہیں دین کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتے ہوئے ضروری مسائل سے آگاہ رکھ سکیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں پہلے زمانہ کی نسبت تو اس انتظام کے بعد نماز باجماعت کی ادائیگی میں ترقی نظر آتی ہے لیکن جو دوسری غرض تھی کہ اس کی اجتماع کو دینی واقفیت اور تربیت کا ذریعہ بنایا جائے ، مجھے اس میں بہت سی کمی دکھائی دیتی ہے اور مساجد کے اجتماع سے محلے والے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو انہیں اُٹھانا چاہئے اور نہ وہ نفع حاصل کرتے ہیں جس
خطبات محمود ۱۶۹ سال ۱۹۳۷ء نفع کا حاصل کرنا خدا تعالیٰ کا منشاء ہے.بلکہ میں یہ بھی کہ سکتا ہوں کہ گو پہلے زمانہ کی نسبت نماز با جماعت کی کی پابندی اب زیادہ ہے مگر جب میں نے ابتدا میں یہ ہدایت کی تھی تو جس زور وشور سے لوگ با جماعت نماز میں شامل ہوا کرتے تھے وہ زور وشور مجھے اب نظر نہیں آتا.میں نے تاکید کی تھی کہ خصوصیت سے بچوں اور نو جوانوں کو مساجد میں لایا جائے.کیونکہ اسی عمر میں انہیں باجماعت نماز کی عادت پڑ سکتی ہے.چنانچہ اس کے مطابق کثرت سے بچے اور نوجوان مساجد میں آتے اور چھوٹی مسجد کے متعلق تو مجھے معلوم ہے کہ وہ بالکل پر ہو جاتی تھی اور دوسرے حصہ مسجد میں بعض کو نماز پڑھنی پڑی تھی.مجھے یاد ہے اُس وقت نہایت کثرت سے بچے آتے مگر اب وہ شکلیں مجھے کم نظر آتی ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگوں میں نماز باجماعت کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے اور نماز کے فوائد اُن کے کانوں تک نہیں پہنچتے تو ی آہستہ آہستہ لوگ ان مسائل سے غافل ہو جاتے ہیں اور دین میں بہت بڑا رخنہ واقعہ ہو جاتا ہے.حالانکہ نماز با جماعت کے کئی فائدے ہیں.اول تو نماز با جماعت کی پابندی سے اسلام اور ایمان مضبوط ہوتا ہے.گویا یہ پہلا فائدہ ہے جو نماز با جماعت سے حاصل ہوتا ہے.دوسرے نماز با جماعت کی ادائیگی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے.تیسرے جماعت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے.چوتھے لوگوں کو ایک دوسرے کے حالات کا علم ہوتا رہتا ہے.پانچویں جب بغیر کسی خاص تحریک کے پانچ وقت اجتماع ہو تو اس اجتماع سے یہ فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے که ضروری مسائل سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ضروری تقاریر کی کرائی جائیں.ان فوائد میں سے آخری فائدہ ایسا ہے جو خود توجہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے.اگر توجہ نہ کی جائے تو یہ حاصل نہیں ہو سکتا.مگر چونکہ ہماری جماعت نے پانچ وقتوں کے اجتماعات سے اس لحاظ سے فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ نہیں کی اس لئے میں دیکھتا ہوں کہ کی قادیان میں بعض دفعہ معمولی دینی مسائل سے بھی لوگ ناواقف رہتے ہیں.پس آج ایک تو میں تمام محلوں والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک کو نماز با جماعت کی میں شامل ہونا چاہئے سوائے اس کے جو اتنی دور کام پر گیا ہوا ہو کہ وہاں سے مسجد میں نماز با جماعت کیلئے
خطبات محمود ۱۷۰ سال ۱۹۳۷ء نہ آسکتا ہو یا بیمار اور معذور ہو.اس قسم کی مستثنیات ہمیشہ موجود ہوتی ہیں.دیکھو اللہ تعالیٰ نے بھی مستثنیات کا سلسلہ کیسا شروع کیا ہے.ہماری شریعت کا حکم ہے اگر انسان کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھا جائے.بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے اور اگر لیٹ کر اشاروں سے بھی نہ پڑھ سکے تو دل میں ہی جی پڑھ لے.پھر وضو کیلئے کس طرح مستقلی مقرر کر دیا کہ پانی سے وضو کرو اور اگر پانی نہ ملے تو تیم کرلو.غرض ہر حالت کیلئے ہماری شریعت نے مستثنیات رکھی ہیں.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ خواہ کیسی ہی حالت ہو نماز کیلئے مسجد میں آنا چاہئے.ایک شخص بیمار ہو تو وہ بیماری کی حالت میں مسجد میں نہیں آسکتا.ایک شخص اپنے کاروبار کے لئے دو تین میل دور جاتا ہے تو اس کیلئے سوائے اس کے کہ کوئی صورت نہیں کہ یا اکیلے کی نماز پڑھے یا کسی اور کو اپنے ساتھ شامل کر کے جماعت کرالے.تو ان مستثنیات کو علیحدہ کر کے کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے تمام دوست نماز با جماعت میں شامل ہوں.بعض افسر شکوہ کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں مگر وہ پھر بھی نماز با جماعت کیلئے نہیں آتے.میرے نزدیک اتنی مایوسی کی حالت نہیں ہوتی جتنی وہ ظاہر کرتے ہیں.آخر جو شخص خدا اور اس کی کے رسول پر ایمان لاتا ہے اُس کے سامنے اگر کھول کر بیان کیا جائے کہ اسلام نے نماز با جماعت کی کتنی تاکید کی ہے اور اس کے کیا کیا فوائد ہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کوئی شخص با جماعت نماز میں شامل ہونے میں تا مل کرے سوائے ایسے شخص کے جس کے ایمان میں خلل واقع ہو چکا ہو.تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو ی پورے طور پر سمجھایا نہیں جاتا.اس وجہ سے وہ چھوٹے چھوٹے حرج کے خوف سے نماز با جماعت میں شامل ہونے سے کوتاہی کر جاتے ہیں.لیکن اگر سلسلہ کے علماء اس طرف توجہ کریں اور وہ گھروں پر پہنچ کر لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں تو میں سمجھتا ہوں بہت سے لوگوں کی اصلاح ہو جائے اور جو با وجود سمجھانے کے اپنی اصلاح نہیں کرے گا اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ مومن نہیں کیونکہ اس نے اپنے نفاق پر خود مُہر لگا دی.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو نماز با جماعت کی پابندی نہیں کرتا وہ منافق ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے ، میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں کے ظہر، عصر اور شام کی نمازوں میں زمیندار اپنے کھیتوں میں کام کر رہے ہی ނ ہوتے ہیں یا کام ختم کر کے واپس آنے کی تیاری میں ہوتے ہیں اس لئے اُس وقت سب مسلمانوں نے یہ امید کرنا کہ وہ مسجد میں آئیں ایک ناواجب مطالبہ ہے.اس لئے رسول کریم ﷺ نے ان نمازوں کا
خطبات محمود لا سال ۱۹۳۷ء ذکر نہیں کیا ورنہ جماعت کے ساتھ تو سب نمازیں ہی ضروری ہیں.پس اُس وقت ہمارا بھی ان سے یہی مطالبہ ہو گا کہ اگر وہ اکیلے ہیں تو اکیلے نماز پڑھ لیں اور اگر کوئی دوسرامل سکے تو اُس سے مل کر جماعت کرالیں.لیکن عشاء اور فجر دو وقت ایسے ہیں جب لوگ بالعموم اپنے گھروں پر ہوتے ہیں.زمینداروں میں سے ایک حصہ گو ایسا بھی ہوتا ہے جو فجر سے پہلے اپنے کھیتوں میں چلا جاتا ہے لیکن زیادہ تر گھروں پر ہی موجود ہوتے ہیں.پس چونکہ یہ ایسے وقت ہیں جن میں غذر بہت کم اور شاذ ہوتا ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز میں نہیں آتے ، میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اور کو امام بناؤں جو لوگوں کو نماز پڑھائے اور کچھ لوگ اپنے ساتھ لوں اور ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھوا دوں اور ان لوگوں کے مکانوں پر جا کر جو عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے آگ لگا دوں اور انہیں گھروں سمیت جلا ڈالوں سے دیکھو ہماری شریعت میں نماز باجماعت نہ پڑھنے کے متعلق کتنا شدید حکم ہے اور وہ بھی ایسے انسان کی طرف سے جو رحم مجسم تھا.جس نے شدید ترین دشمنوں سے عفو کا سلوک کیا.وہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ نماز با جماعت میں شامل نہیں ہوتے وہ اس قابل ہیں کہ زندہ جلا دیئے جائیں.کیونکہ ان میں انسانیت کا شائبہ تک باقی نہیں رہا.اگر شریعت کے یہ احکام لوگوں کو بتائے جائیں اور رسول کریم ﷺ کی احادیث سے انہیں مسائل سمجھائے جائیں تو میں سمجھتا ہوں جو مومن ہیں وہ اپنی اصلاح ضرور کر لیں گے.پس محلہ کے افسروں پر اس کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اسی طرح سلسلہ کے علماء پر بھی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے.اول تو ہر محلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ان لوگوں کو سمجھائیں جو نماز با جماعت میں شامل نہیں ہوتے اگر ان کے سمجھانے سے نہ سمجھیں تو سلسلہ کے علماء کو ان کے پاس لے جائیں اور سمجھانے کی کوشش کریں.اور اگر کوئی ایسا ہو جس کی پھر بھی اصلاح نہ ہو تو اُس کی شکایت کی میرے پاس کی جائے.لیکن میرے پاس شکایت کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس پر خود حجت تمام کر لو.یہ نہیں کہ مسجد میں وعظ کیا اور سمجھ لیا کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا.بلکہ جو لوگ نہیں آتے ان کے گھروں پر پہنچ کر انہیں سمجھایا جائے.اُن کی بیویوں اور بچوں کو بھی سمجھایا جائے تا کہ اگر ان میں سے کوئی غلطی کرے تو دوسرا اُسے ہوشیار کر سکے.اسی طرح چاہئے کہ علماء کو گھروں پر لے جایا جائے اور ان کے ذریعہ سمجھایا جاوے اور اگر ان دو صورتوں کے بعد بھی کسی شخص کی اصلاح نہ ہو تو پھر مجھے لکھو.میں ایے
خطبات محمود ۱۷۲ سال ۱۹۳۷ء شخص کو سمجھانے کی کوشش کروں گا اور اگر وہ نہیں مانے گا تو میں سمجھوں گا ایسا شخص صرف نام کے طور پر احمدیت میں شامل ہے، دل اس کا احمدیت کی صداقت پر ایمان نہیں رکھتا.پھر ایسے لوگوں کا ہماری جماعت میں شامل رہنا زیادہ مضر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ نکل جائیں.اسی طرح نماز با جماعت کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہر محلے والوں کو چاہئے کہ وہ ہفتہ میں ایک دفعہ علماء سلسلہ کو لے جایا کریں اور ان روزمرہ کام آنے والے مسائل کے متعلق جن کا جانا ہر شخص کیلئے ضروری ہے ، ان سے فظ کرایا کریں.مثلاً جن محلوں میں تاجر زیادہ ہیں اُن میں تاجرانہ ایمانداری کے متعلق وعظ ہونے چاہئیں، جن میں زمیندار زیادہ ہیں ان میں انہی عیبوں کے متعلق لیکچر دلانے چاہئیں جن میں بالعموم زمیندار مبتلا ہوتے ہیں.مثلاً لڑکیوں کو ورثہ نہ دینا ، سودی قرض لینا اور اسی طرح کے اور معاملات جو عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں ہزاروں مسائل ایسے ہیں جن سے عوام الناس واقف نہیں ہوتے.بیشک جب وہ ان عیوب کا ارتکاب کریں گے ہم انہیں مجرم قرار دیں گے لیکن ان کا جرم غفلت کی وجہ سے ہوگا شرارت کی وجہ سے نہیں.پس یہ ایک عظیم الشان فائدہ ہے جو نماز با جماعت سے حاصل ہو سکتا ہے.لیکن نماز با جماعت کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے لوگ ان فوائد سے محروم رہتے ہیں اور وہ بعض دفعہ ایسی حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.میں قادیان میں دو تین سال سے ایسے حالات دیکھ رہا ہوں کہ اگر میری ہدایات کی پابندی کی جاتی اور محلوں میں علمائے سلسلہ کے وعظ ہوتے رہتے تو وہ واقعات یا تو بالکل نمودار نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو بہت کم.ہمارے زمینداروں میں سکھوں کے ساتھ رہائش رکھنے کی وجہ سے مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم سے بہت حد تک غفلت پیدا ہوگئی ہے.سکھوں میں عام طور پر شادی کے طریق اسلامی طریق کے بالکل خلاف ہیں.مثلاً چادر ڈال دیتے ہیں یا اگر لڑ کی راضی ہو تو ماں باپ کی مرضی کے بغیر اُس سے شادی کر لیتے ہیں.ان کی دیکھا دیکھی یہ رسوم مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئی ہیں.حالانکہ اسلام کی تعلیم اس کے بالکل الٹ ہے.اسلام میں عورت سے برابر کا سلوک کیا جاتا ہے.جیسے حق مردوں کے رکھے گئے ہیں اسی طرح عورت کے بھی رکھے گئے ہیں اور نکاح کے متعلق تو خصوصیت.اسلام نے بعض قوانین مقرر کئے ہیں.جب تک ان قوانین کی پابندی نہ کی جائے اُس وقت تک انسان
خطبات محمود ۱۷۳ سال ۱۹۳۷ء گناہ سے بچ نہیں سکتا.لیکن متواتر میرے پاس ایسے کیس آئے ہیں اور گو عام طور پر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں قادیان سے باہر رہنے والے لوگ مبتلا ہوتے ہیں یا بعض دفعہ قادیان کا کیس ہوتا ہے لیکن اس کی ابتدا باہر کی زندگی سے ہوئی ہوتی ہے لیکن بہر حال وہ قادیان کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ بعض لوگ عورتوں سے بغیر ان کے ماں باپ یا بھائیوں یا چھاؤں کی رضامندی کے محض عورت کی رضامندی دیکھ کر شادی کر لیتے ہیں اور اسے بالکل جائز سمجھتے ہیں.چونکہ عام طور پر زمینداروں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے اور کسی جگہ وہ اپنی رضامندی کا اظہار کر دے تو ماں باپ یا بھائیوں یا چوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی اس لئے وہ ایسی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں میں بسا لیتے ہیں حالانکہ اسلام نے ایسے نکاحوں کی ہرگز اجازت نہیں دی.اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِي کے ولی کی رضا مندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوسکتا.اول ولی جو شریعت نے مقرر کیا باپ ہے، باپ نہ ہو تو پھر بھائی ولی ہیں اور اگر بھائی نہ ہوں تو چچے ولی ہیں.غرض قریب اور بعید کے جدی رشتے دار ایک دوسرے کے بعد ولی ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر کسی لڑکی کا باپ موجود ہو تو اُس کی اجازت کے بغیر سوائے مذہبی تبائن اور پھر قضا کی اجازت کے بغیر ہرگز نکاح جائز نہیں.اگر باپ نہ ہو تو بھائیوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں.اگر بھائی نہ ہوں تو چوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں.ہاں اگر کوئی بھی جدی رشتہ دار موجود نہ ہو تو قاضی یا عدالت کی اجازت سے اُس لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے لیکن اس کے بغیر جو نکاح ہواگر مسلمانوں نے کیا ہو تو اس کا نام اسلام نے نکاح نہیں بلکہ اُدھالا رکھا ہے.ابھی چند دن ہوئے میرے پاس ایک کیس آیا.چند غیر احمدی میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہماری لڑکی آپ کا ایک احمدی نکال کر لے آیا ہے.اوّل تو میرے لئے یہی سننا سخت شرمندگی کا موجب تھا کہ ایک احمدی کسی کی لڑکی نکال لائے.لیکن جب ایسے واقعات ہوں تو سننے ہی پڑتے ہیں.میں نے بھی ان کے واقعات سنے اور ناظر صاحب امور عامہ کو چٹھی لکھی کہ اس لڑکی اور لڑکے کا پتہ لگایا جائے کہ آیا وہ یہاں ہیں یا نہیں.تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ لڑکی یہاں ہے لیکن کسی گھر میں پوشیدہ ہے.پرسوں رات میں سو چکا تھا بارہ ایک بجے کا وقت تھا چونکہ ہم گیارہ بارہ بجے کے درمیان سوتے ہیں اس لئے گو بارہ بجے کے بعد کا وقت ہوگا کہ کسی نے آکر مجھے جگایا اور کہا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے جو ناظر
خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۷ء امور عامہ ہیں رقعہ بھیجا ہے.میں نے وہ رقعہ کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ لڑکی مل گئی ہے اور وہ فلاں گھر میں کی موجود ہے اور محلے والوں نے مکان پر پہرہ لگا دیا ہے تا وہ کہیں نکل نہ جائے.اب آپ بتائیں کہ کیا کریں.میں نے انہیں لکھا کہ جن کے مکان میں وہ رہتی ہے ہمیں معلوم نہیں کہ انہیں سارے حالات کا علم ہے یا نہیں اس لئے آپ انہیں سمجھا دیں کہ یہ شریعت کے خلاف بات ہے اور کسی غیر لڑکی کو اس طرح نکاح میں لے آنا ہرگز جائز نہیں چاہے وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو.پس آپ کو چاہئے کہ لڑکی رشتہ داروں کے سپر د کرا دیں اور اگر وہ لڑکی رشتہ داروں کے سپرد نہ کریں اور معاملہ پولیس کے سپر د ہوسکتا ہوتو پولیس کے پاس پہنچا دیا جائے اور انہیں ہماری طرف سے اچھی طرح سے بتادیا جائے کہ اسلامی شریعت کی رو سے یہ بات جائز نہیں.اس کے بعد مجھے رات کو کچھ معلوم نہیں ہوا.البتہ صبح کو ایک عورت میرے پاس آئی جو اس کی لڑکے کی والدہ تھی جس پر یہ الزام لگا کہ اُس نے لڑکی نکالی.مجھے کہنے لگی میرا خسر پر انا احمدی تھا اور اس نے احمدیت کی خاطر بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا ئیں.اس لڑکی کے متعلق اس کے رشتہ داروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ میرے لڑکے سے بیاہ دیں گے لیکن بعد میں ان کی نیت بدل گئی اور انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا.لڑکی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ بھاگ کر قادیان آ گئی.اس کے رشتہ دار اس کے پاس پہنچ گئے.ہم نے انہیں کہا کہ اپنی لڑکی بے شک لے جاؤ مگر وہ لڑکی گئی نہیں.محلہ کے جو افسر تھے انہیں جب یہ ان معلوم ہو ا تو انہوں نے کہا تم قادیان سے چلے جاؤ.چنانچہ ہم باہر گئے اور ایک جگہ اس لڑکی سے نکاح پڑھوا کے واپس آگئے.میں نے اُس عورت کو سمجھایا کہ دیکھو سوال یہ نہیں کہ تمہارے لڑکے نے اب اس لڑکی سے نکاح کر لیا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا شریعت نے اس نکاح کی اجازت دی ہے یا نہیں.میں نے کہا تم کہتی ہو کہ ہم نے احمدیت کی خاطر بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا ئیں.اگر یہ بات درست ہے تو تم خود ہی بتاؤ کہ تم اپنی اس حرکت سے اسلام اور احمدیت کی بدنامی کا موجب بن جاؤ تو کتنے افسوس کی بات ہوگی.تمہاری تمام تکلیفیں جو تم نے احمدیت کی خاطر برداشت کیں رائیگاں چلی جائیں گی اور تمہاری عاقبت خراب ہو جائے گی.وہ کہنے لگی لڑکی کہتی تھی کہ میں مر جاؤں گی لیکن کسی اور جگہ نہیں جاؤں گی.میں نے کہا کہ اگر وہ مرتی تو اُس کا گناہ اُس پر ہوتا تم پر نہ ہوتا یا گورنمنٹ پر اس کی زمہ داری عائد ہوتی تمہارا کام یہی تھا کہ تم اُسے رُخصت کر دیتے اور کہہ دیتے کہ جب تک تمہارا ولی راضی
خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۷ء نہ ہو جائے اُس وقت تک تم ہمارے ہاں نہ آؤ.پھر میں نے کہا کہ تمہارے لئے اب بھی یہی مناسب ہے کہ لڑکی واپس کر دو اور پھر اُس کے رشتہ داروں کی منت سماجت کرو کہ اب تمہاری بھی ذلت ہے اور ہماری بھی ذلت ، بہتر ہے یہی نکاح قائم رکھا جائے.اس کے بعد مجھے معلوم نہیں ہوا کہ کیا ہوا.لیکن آج مجھے پھر ایک چٹھی ملی اور وہ چٹھی ان لوگوں کی طرف سے ہے جن کا اصل مکان ہے.وہ شکایت کرتے ہیں کہ محلے والے انہیں دق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لڑکی یہاں کیوں رہتی ہے.جس سے میں سمجھتا ہوں کہ اس کا معاملہ ابھی تک تصفیہ نہیں ہوا مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ معاملہ پولیس کے دخل دینے والا نہیں.لڑکی جوان ہے اور وہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے چکی ہے کہ میں اسی لڑکے کے جی ساتھ رہنا چاہتی ہوں.لیکن خواہ مجسٹریٹ کے سامنے وہ لڑکی جواب دے چکی ہو کسی مجسٹریٹ کسی قاضی اور کسی حکومت کے کہنے سے یہ نکاح جائز نہیں ہوسکتا.ނ جس بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجائز قرار دیا ہے اگر اس بات کو ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی جائز قرار دیں تو وہ جائز نہیں ہوسکتی.ایک غیر احمدی کیلئے ، ایک ہندو کیلئے اور ایک عیسائی کیلئے حکومت کا قانون تسلی کا موجب ہو سکتا ہے.کیونکہ غیر احمدیوں کے پاس گو ایک سچاند ہب ہے لیکن وہ اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے.قرآن مجید ان کے پاس ہے لیکن وہ اسے بھول چکے ہیں.عیسائی شریعت کو لعنت قرار دیتے ہیں اور ان کے ہاں شریعت دستور اور رسم و رواج کا نام ہے.ہندو بھی مذہب.بیگا نہ ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں معزز وہ ہے جو شریعت پر عمل کرتا ہے اور اسی شریعت اسلامی کو دنیا میں صحیح طور پر قائم کرنا احمدیت کی غرض ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے اور واقعہ میں آپ اُسی کی طرف سے ہیں تو ہماری شریعت یہی کہتی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر سوائے ان مستثنیات کے جن کا استثناء خود شریعت نے رکھا ہے، کوئی نکاح جائز نہیں اور اگر ہوگا تو نا جائز نکاح ہو گا اور ادھالا ہوگا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سمجھا ئیں اور اگر نہ سمجھیں تو ان سے قطع نی تعلق کر لیں.اس قسم کے واقعات بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہوئے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایک لڑکی نے جو ، جوان تھی ایک شخص سے شادی کی خواہش کی مگر اس کے باپ نے نہ مانا.وہ دونوں منگل چلے گئے اور جا کر کسی ملانے سے نکاح پڑھوا لیا اور کہنا شروع کر دیا کہ ان کی
خطبات محمود KY سال ۱۹۳۷ء شادی ہوگئی ہے.پھر وہ قادیان آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہو ا تو آپ نے ان دونوں کو قادیان سے نکال دیا اور فرمایا یہ شریعت کے خلاف فعل ہے کہ محض لڑکی کی رضامندی دیکھ کر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے.وہاں بھی لڑکی راضی تھی اور کہتی تھی کہ میں اس مرد سے شادی کروں گی لیکن چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر انہوں نے نکاح پڑھوایا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں قادیان سے نکال دیا.اسیطرح یہ جو نکاح ہوا یہ بھی نا جائز ہے اور یہی وہ بات ہے جو میں نے اس مائی سے کہی.میں نے اسے کہا دیکھو اس وقت تمہارے بیٹے کو رشتہ مل رہا ہے اس لئے تم کہتی ہو جب لڑکی راضی ہے تو کسی ولی کی رضا مندی کی کیا ضرورت ہے لیکن تمہاری بھی لڑکیاں ہیں اور اگر وہ بیا ہی جا چکی ہیں تو ان کی بھی لڑکیاں ہوں گی کیا تم پسند کرتی ہو کہ ان میں سے کوئی لڑکی اسی طرح نکل کر کسی غیر مرد کے ساتھ چلی جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے کہ قیموں کے ساتھ بدسلوکی نہ کرو.ہے کیونکہ اگر آج کوئی یتیم ہے تو کل تمہارے گھر میں بھی یتیم بن سکتے ہیں.اسی طرح میں نے اسے کہا تم سوچوا گر کل تمہاری بیٹی یا نواسی اُدھل کر چلی جائے تو کیا تم ٹھنڈے دل سے یہ کہنے کے لئے تیار ہوگی کہ ہم اس کی کے جانے پر خوش ہیں.کیا ہوا اگر ہم ناراض ہیں.وہ تو جس جگہ گئی اس جگہ جانے پر راضی تھی.اگر کوئی ای شریف گھرانہ اپنی لڑکیوں کے متعلق اس قسم کی بات برداشت نہیں کر سکتا تو دوسروں کی لڑکیوں کے متعلق بھی یہ بات برداشت نہیں کرنی چاہئے.لیکن ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی اور کی لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر آ جائے تو کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں لڑ کی کی مرضی یہی تھی.اور جب ان کی اپنی لڑکی کسی غیر مرد کے ساتھ نکل جائے تو کہتے ہیں کہ اس بے حیا کا سرکاٹ دینا چاہئے.جس سے معلوم ہوا کہ نفس اندر سے انہیں بھی مجرم قرار دے رہا ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ امیج الاول نے ایک دفعہ ایک چور سے کہا دیکھو تم لوگوں پر کتنا ظلم کرتے ہو.ان کی محنت تم جا کر چرا لاتے ہو.کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ وہ کہنے لگا واہ مولوی صاحب ! آپ نے بھی عجیب بات کہی بھلا ہمارے جیسی بھی کوئی شخص محنت کرتا ہے.لوگ دن کو محنت کرتے ہیں اور ہم رات کو کی جب تمام لوگ آرام سے سوئے ہوئے ہوتے ہیں، روزی کمانے کیلئے نکلتے اور اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں کیا اس سے زیادہ بھی کوئی حلال کی روزی ہے؟ آپ فرماتے ہیں میں نے سمجھا یہ اس طرح
خطبات محمود ۱۷۷ سال ۱۹۳۷ء قابو نہیں آئے گا کسی اور طرح اسے سمجھانا چاہئے.چنانچہ آپ نے اُس سے ادھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں اور پوچھا تم چوری کس طرح کرتے ہو.کہنے لگا چوری کیلئے پانچ آدمی ہونے ضروری ہیں.ایک تو گھر کا راز دان ہوتا ہے وہ بتاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہ سے راستہ ہے.فلاں جگہ اتنا مال پڑا ہے.گھری والے باہر سوتے ہیں یا اندر ہوشیار رہتے ہیں یا غافل.پھر ایک سیندھ لگانے کا مشاق ہوتا ہے.ایک کی آدمی اندر جاتا ہے ایک دُور کھڑا پہرہ دیتا رہتا ہے اور ایک سنار ہوتا ہے.جب ہم زیور چرا کر لاتے ہیں تو اس کو سنار کے پاس لے جاتے ہیں وہ فوراً گلا دیتا ہے اور پھر کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ کس کا زیور ہے.آپ فرماتے تھے کہ میں نے اس پر اُسے کہا.اگر وہ سنا ر کچھ سونا رکھ لے تو تم کیا کرو؟ تم کوئی نالش تو کر نہیں سکتے.وہ بڑے غصے سے کہنے لگا کیا وہ اتنا بے ایمان ہو جائے گا کہ ہم اُسے سونا دیں اور وہ رکھ لے؟ میں نے کہا تم ابھی تو یہ کہ رہے تھے کہ اصل حلال روزی ہماری ہی ہے اور ابھی سنار کو سونا چرانے پر تم بے ایمان بتا رہے ہو، یہ کیا بات ہے.تو اصل بات یہ ہے جب دوسروں کے مال کی چوری ہو تو انسان کی کہتا ہے یہ چوری نہیں کسب ہے اور جب اپنے مال کا سوال آجائے تو کہنے لگ جاتا ہے کیا کوئی اتنا بھی بے ایمان ہو گیا ہے کہ ہمارا مال چرا لے.تو شریعت نے اچھے بُرے فعل کے پہچانے کا یہ ایک نہایت ہی آسان گر بتا دیا ہے.وہ کہتی ہے جب تم کسی سے کوئی معاملہ کرو تو یہ سوچ لیا کرو کہ اگر وہی معاملہ تم سے کیا جائے تو تم خوش ہو یا ناراض.اسی طرح سوچ لو اگر تمہاری لڑکیاں کسی جگہ راضی ہوں اور تم ناراضی اور پھر وہ تمہاری رضامندی کے خلاف گھر سے باہر جا کر کسی سے نکاح پڑھوا لیں تو کیا تم ہنستے ہو.لوگوں سے یہ ذکر کرو گے کہ آج ہماری لڑکی اپنی مرضی سے فلاں مرد کے ساتھ نکل گئی یا شرم محسوس کرو گے ؟ اگر تم اپنے متعلق اس قسم کے واقعات کو پسند کرو اور کہو کہ خدا کرے کہ ہماری لڑکیوں کے ساتھ بھی یہ واقعات پیش آئیں تب تو میں مان لوں گا کہ تمہاری فطرت اسے جائز قرار دیتی ہے لیکن اگر تم اس کیلئے تیار نہ ہوتو سمجھ لو کہ محمد ﷺ نے جو تعلیم دی ہے وہی پاک اور بچی تعلیم ہے اور اگر ہم اس بات کی اجازت دے دیں کہ جہاں لڑکی کا جی چاہے وہاں چلی جائے تو قوم کے اخلاق تباہ ہو جائیں.حالانکہ ہمارا قیام لڑکیاں لینے کیلئے نہیں بلکہ روحانیت قائم کرنے کے لئے ہے.اگر اس کے نتیجہ میں دس ہزار آدمی بھی ہم میں سے مرتد ہوتا ہو تو اس کا برداشت کرنا ہمارے لئے اس بات سے زیادہ آسان ہے کہ ہم قومی اخلاق کی تباہ کر کے دس بیس ہزار لڑکیاں لے آئیں.
خطبات محمود KA سال ۱۹۳۷ء پس میں پھر اس بات کو کھول کر خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں کہ ولی کی رضامندی کے بغیر لڑکی کی رضا مندی کوئی چیز نہیں.بے شک گورنمنٹ کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بالغ لڑکی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن گورنمنٹ کا قانون سود لینا بھی جائز سمجھتا ہے.گورنمنٹ کا قانون سؤ رکھانا بھی درست قرار دیتا ہے.گورنمنٹ کا قانون شراب پینا بھی درست سمجھتا ہے.مگر کیا اس وجہ سے گورنمنٹ کے قانون میں اس کی اجازت ہے ہمارے لئے سود لینا یاسؤ رکھانا یا شراب پینا جائز ہے؟ پھر صرف اس کی وجہ سے کہ لڑ کی مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے چکی ہے یہ نکاح کس طرح جائز سمجھا جاسکتا ہے.بیشک اس فعل پر گورنمنٹ انہیں قید نہیں کرے گی.لیکن اگر وہ اس فعل سے باز نہ آئے اور انہوں نے بچی تو بہ نہ کی تو یا درکھیں ان کے ہاں بھی بیٹیاں ہونے والی ہیں اور خدا کا قانون دنیا میں ایسا جاری ہے کہ اگر سچی تو بہ نہ کی جائے تو کوئی گناہ بدلہ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اگر اگلی نسل سے بدلہ نہ لیا جائے.میں سمجھتا ہوں جن کی بیٹی بھاگی ہے دو چار پشت پہلے انہوں بھی کسی کی بیٹی کو بھگایا ہو گا اور اب جو اس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں انہوں نے توبہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے انہیں بھی بدلہ مل جائے گا.پس بہتر ہے کہ وہ تو بہ کریں اور اپنے اس فعل سے باز آئیں.مگر تو بہ یہ نہیں کہ تم کسی کا روپیہ اُٹھا لو اور اُسے گھر میں رکھ لو، کسی کی بھینس چرالو اور اسے گھر میں رکھ کر صبح و شام اس کا دودھ پیؤ.کسی کے گھوڑے پر الو اور دن رات ان پر سواری کرو اور منہ سے اَسْتَغْفِرُ اللهَ اَسْتَغْفِرُ الله کہتے پھر وہ تمہارا لی اَسْتَغْفِرُ الله کہنا بالکل جھوٹا اور بناوٹی ہو گا.اور خدا اُس وقت تک تمہاری توبہ قبول نہیں کرے گا جب تک تم وہ روپے، وہ بھینس اور وہ گھوڑے ان کے مالکوں کے حوالے نہ کرو.ہاں جب تم یہ چیز میں اصل مالکوں کو دے دیتے ہوا اور پھر اَسْتَغْفِرُ الله کہتے ہو تو اس حالت میں تمہارا اَسْتَغْفِرُ الله کہنا قبول ہوسکتا ہے ورنہ اور کسی صورت میں تو بہ قبول نہیں ہوسکتی.اسی طرح یہ لوگ جس عورت کو نکال کر لائے ہیں اسے واپس کر دیں اور سچی توبہ کریں تب تو اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے گا.ورنہ یا درکھیں کسی نہ کسی رنگ میں بدلہ انہیں مل کر رہے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں ذلت پہنچا کر چھوڑے گا.میں اس موقع پر دوسروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ جب وہ کسی سے معاملہ کیا کریں تو دیکھ لیا کریں کہ اگر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو تو وہ رنج محسوس کریں گے یا خوشی.اگر تمہاری فطرت اپنے متعلق اس قسم کے واقعات کو ناجی پسند کرے تو دوسروں کے ساتھ بھی ویسا معاملہ نہ کرو اور یہ یاد رکھو کہ تمہاری اپنی خواہشات پر خدا تعالیٰ کا
خطبات محمود ۱۷۹ سال ۱۹۳۷ء وہ قانون بہر حال مقدم ہے.تم نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا استاد مانا ہے.اب یہ بھی کیا ہو ا تم منہ سے تو کہتے ہو لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مَحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ مگر اعتقاد یہ رکھتے ہو کہ محمد علیہ نے جو بات بھی کہی ہے ه نَعُوذُ بِاللہ غلط ہے.نمازوں کے متعلق حکم دیتے ہیں تو تم نمازیں نہیں پڑھتے ، نکاحوں کے متعلق حکم دیتے ہیں کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہوتا تو تم یہ بات نہیں مانتے لیکن زبان سے دن رات کہتے جاتے ہو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مَحَمَّدُ رَّسُولُ اللهِ.جب انسان سچے دل سے کوئی بات کہتا ہے تو اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہے لیکن جب عمل کی نیت نہ ہو تو منہ سے کچھ اور کہتا ہے اور عمل سے کچھ اور ظاہر کرتا ہے.پس ج میں ان تمام رقعے لکھنے والوں کو جو بار بار لکھتے ہیں کہ لڑکی کی مرضی اسی جگہ تھی ، عَلَى الْإِعْلان سمجھا دیتا ہوں کہ ولی کی مرضی کے بغیر ہماری شریعت کوئی نکاح تسلیم نہیں کرتی.اور اگر ایسا کوئی نکاح ہو تو وہ ی نکاح نہیں ادھالا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ کہنے کے بعد اب وہ لوگ سمجھ گئے ہوں گے لیکن اگر اب بھی نہ سمجھیں تو میں ان کو بتا دیتا ہوں کہ ایسے لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں جو اس قسم کی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں بلکہ ہماری ہمدردی ان غیر احمد یوں اور ان سکھوں سے ہوگی جن کی بیٹیوں کو وہ اپنے گھر میں لے آتے ہیں چاہے وہ لڑکیاں راضی ہی کیوں نہ ہوں.میں نے دیکھا ہے اس قسم کے نقائص کی وجہ سے بعض دفعہ عورت کو یہ سکھا دیا جاتا ہے کہ تم کہہ دو میں احمدی ہوں اور فلاں شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں.تین چار سال ہوئے امرتسر سے ایک لڑکی یہاں آئی اور کہنے لگی میں احمدی ہونا چاہتی ہوں.میرا باپ سلسلہ کا شدید مخالف ہے اور میں برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ سلسلہ کو گالیاں دے.اب میں وہاں سے آگئی ہوں آپ فلاں شخص سے میری شادی کرا دیں میں نے کہا اگر تم سچ سچ احمدی ہوئی ہو تو پہلے تم یہ اقرار کرو کہ تم اس شخص سے شادی نہیں کرو گی بلکہ کسی اور شریف انسان سے شادی کرو گی.ورنہ اگر کسی خاص شخص کو تم معین کرتی ہو تو اس سے شادی کرنے کے معانی یہ ہیں کہ تم خدا اور اس کے رسول کے لئے احمدی نہیں ہوئی بلکہ اس شخص کے لئے احمدی بنی ہو.وہ کہنے لگی کہ سچی بات تو یہی ہے کہ میں اسی کی خاطر احمدی ہوئی ہوں.میں نے کہا تو پھر میں اس شخص سے تمہاری شادی نہیں کر سکتا.آخر وہ یہاں سے چلی گئی اور اسی شخص کے پاس جا پہنچی.پھر اس سے اس نے شادی بھی کر لی لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اس مرد کا ایمان بھی خراب ہوا اور چوری کے الزام میں وہ ی بعد میں قید بھی ہو گیا.گویا نقد بہ نقد سزا اُسے مل گئی.اس نے دوسرے کی لڑکی چرائی تھی خدا نے اُسے
خطبات محمود ۱۸۰ سال ۱۹۳۷ء روپیہ کی چوری کے الزام میں ماخوذ کرا دیا اور وہ قید ہو گیا اور احمدیت بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہی.تو میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں تا آئندہ ہماری جماعت میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں.اس امر کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ لڑکی کی رضامندی محض کوئی چیز نہیں.جولڑ کیا ولی کی رضامندی کے بغیر کسی خاص شخص پر نظر رکھ کر اُس سے شادی کر لیتی ہے، اسی کا نام ادھالا اپنے ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر کوئی غیر احمدی لڑکی اس طرح احمدیوں کے پاس آ جائے اور وہ کسی خاص آدمی کو مد نظر رکھ کر اس سے شادی کرنے کیلئے آئے تو ہماری جماعت کے دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایسی شادی ہرگز نہ ہو، تا ہماری جماعت میں ادھالے کی رسم نہ جاری ہو.میں نے یہ مسئلہ اس لئے بتایا ہے تا کہ وہ لوگ جو اس فعل کے ذمہ وار ہیں اور زمیندار بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ جہاں جہاں ایسے واقعات رونما ہوں وہاں ان لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہوگی جو ولی کی رضا مندی کے بغیر کسی لڑکی.نکاح کر لیں.بلکہ ہماری ہمدردی ان لوگوں سے ہوگی جن کی لڑکیوں سے ایسا سلوک کیا گیا.اگر ہماری جماعت نے اس طریق کار کو اختیار کیا تو وہ اخلاق قائم کرنے والے نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والے ہوں گے.حالانکہ احمدیت اخلاق سنوار نے کیلئے آئی ہے اور میں جیسا کہ بتا چکا ہوں اس قسم کے واقعات کی ذمہ واری بہت حد تک محلوں کے عہدے داروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مساجد کے اجتماع سے صحیح فائدہ نہیں اُٹھاتے.اگر مساجد میں ہمیشہ وعظ ہوتے رہیں لوگوں کو بتایا جائے کہ شادی بیاہ کے کیا تو مسائل ہیں.کونسی رسوم منع ہیں.کون سے اخلاق احمد یت قائم کرنا چاہتی ہے اور کونسی بُری باتیں وہ دنیا سے دور کرنا چاہتی ہے.تو محلے والے ان امور سے آگاہ ہوتے اور گھر والے کبھی یہ شور نہ مچاتے کہ جب لڑکی راضی ہے تو پھر اس نکاح میں کیا حرج ہے.ان بیچاروں کو چونکہ یہ مسئلہ معلوم ہی نہ تھا.اس لئے وہ اس کی تائید کرنے لگ گئے.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے مسلمان کسی کے گھر سے سور کا گوشت چرا کر کھالے.تو وہ کہے میں نے سور کا گوشت چرا کر نہیں کھایا مالک مکان کی اجازت لے کر کھایا ہے پھر مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو.حالانکہ مسلمانوں کا اعتراض اُس پر یہی نہیں ہوگا کہ تم نے سو رکا گوشت چرا کر کھایا بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی ہوگا کہ تم نے کھایا کیوں.اسی واقعہ کے متعلق میں نے دیکھا ہے کئی لوگ شور مچارہے ہیں کہ جی اس کی مرضی تھی.حالانکہ شریعت یہی کہتی ہے کہ اگر ولی کی اجازت نہ ہو تو لڑکی کی ایک مرضی نہیں ، ہزار مرضی نہیں ، لاکھ مرضی ہو تب بھی کسی شخص کا اسے اپنے نکاح میں لانا نکاح نہیں بلکہ
خطبات محمود ۱۸۱ سال ۱۹۳۷ء ادھا لا ہے.مگر دینی مسائل سے ناواقفیت کی حالت یہ ہے کہ وہ ادھالے کو بُرا سمجھتے ہیں مگر خیال کرتے ہیں جب ہم یہ کہہ دیں گے کہ لڑکی کی مرضی یہی تھی تو بات صاف ہو جائے گی.حالانکہ اس طرح بات صاف نہیں ہوتی بلکہ اور زیادہ پختہ ہو جاتی ہے.پس اگر ان مسائل سے لوگوں کو واقف رکھا جاتا تو نہ انہیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی اور نہ ان جرائم کا ارتکاب وہ کرتے اور اگر باوجود علم کے وہ ایسے افعال کے مرتکب ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ہماری جماعت سے نکلومگر اب چونکہ لوگوں کو ان مسائل کا علم نہیں اس لئے یہی صورت ہے کہ ہم ان کو سمجھائیں اور انہیں ان مسائل سے واقف کریں پس میں پھر ہر محلہ کے عہدے داروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی مسجدوں کو آباد کریں اور محلہ میں کم سے کم ہفتہ میں ایک دفعہ سلسلہ کے کسی عالم سے شادی بیاہ ، معاملات اور اخلاق وغیرہ جیسے مسائل پر لیکچر دلائے جائیں تا جماعت کے لوگ اُس تعلیم سے فائدہ اُٹھا سکیں جو رسول کریم ﷺ نے ایک اچھے شہری کے متعلق دی ہے.مثال کے طور پر ایک موٹی بات بیان کر دیتا ہوں.پرانے بازار کے آگے جب نیا بازار بنا تو میں بہت خوش ہوا کہ رسول کریم ﷺ کی اس تعلیم پر عمل ہونے لگا ہے کہ بازار چوڑے ہونے چاہئیں تا لوگوں اور سواریوں کو گزرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو.لیکن اب مجھے کبھی بازار سے گزرنے کا اتفاق ہو تو ای میں دیکھتا ہوں کسی نے دوفٹ آگے بڑھا کر تھڑا بنایا ہوا ہے اور کسی نے تین فٹ.پھر چھ مہینے کے بعد گزریں تو وہی تھڑے چار چارفٹ کے بن چکے ہوتے ہیں.اس طرح تھڑے بازار میں بن بن کر گزرنے کا راستہ پھر ذرا سا رہ گیا ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ راستے میں ذرا سی روک ڈالنے والے پر بھی فرشتے لعنت بھیجتے ہیں لیے جب ذراسی روک کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رُکاوٹ کی برستی ہے تو راستے پر قبضہ کرنا کیسا لعنتی کام ہے.مگر لوگ یہ کام کرتے ہیں حالانکہ انہیں اگر رسول کریم کے ارشادات کا علم ہوتا تو وہ کبھی اس طرح راستوں پر قبضہ نہ جماتے.اور اگر مساجد میں ان امور کے متعلق با قاعدہ وعظ اور لیکچر ہوتے رہتے تو بد عمل بھی اصلاح کر لیتے مگر اس معمولی سے حکم کی نا واقفیت کی کا نتیجہ یہ ہے کہ گلیوں میں چلے جاؤ تمہیں تھڑے بنے ہوئے نظر آئیں گے.اور ہر شخص یہی چاہے گا کہ تھوڑا سا وہ آگے بڑھا ہے تو تھوڑا سا میں بھی آگے بڑھ جاؤں.ان مسائل سے ناواقف رہنے کی وجہ ی سیمعلوم نہیں کتنی لعنتیں پڑتی رہتی ہوں گی.پس جماعت کے ایمان کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ
خطبات محمود ۱۸۲ سال ۱۹۳۷ء صلى الله جماعت کو ان مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ کونسے امور ایسے ہیں جو رسول کریم کیا ہے نے پسند کئے اور کونسے امور ایسے ہیں جن پر آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا.کن باتوں کا آپ نے حکم دیا اور کن باتوں سے آپ نے لوگوں کو منع فرمایا.اس کے بعد ایک اور امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کل مجھے ایک رقعہ ملالی ہے.میں لکھنے والے کا نام ظاہر نہیں کرتا.اُس نے ایک شخص کی شکایت میرے پاس کی ہے لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ میں ڈرتا ہوں اگر تحقیقات کی گئیں تو چونکہ یہ لوگ ہمارے افسر بنتے ہیں، اس لئے مجھے دق کریں گے اور اس طرح مجھے تکلیف ہو گی.اس کے متعلق پہلے تو میں یہی نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ جو کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جارہا ہو اُس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہمیں اس کے نتیجہ میں تکلیف ہوگی.کیا جب رسول کریم ﷺ کے صحابہ احد کی جنگ میں شامل ہوئے تھے تو وہ اپنے ساتھ یہ دکھی لکھوا کر لے گئے تھے کہ انہیں کوئی زخم نہیں لگے گا اور نہ ان میں سے کسی شخص کو دشمن مار سکے گا یا اس نیت سے گئے تھے کہ ہم خدا کیلئے لڑنے جارہے ہیں چاہے مارے جائیں، چاہے زخمی ہوں.اگر بعض افسر لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں تو اس لئے دیتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں دوسروں میں بُزدلی پائی جاتی ہے.لیکن اگر تمہارے اندر بُزدلی نہیں اور تمہارا اپنے خدا پر ایمان ہے تو دنیا کا ظلم حقیقت ہی کیا رکھتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان سچی بات کو چھپائے.میں اپنی زندگی کی مثال پیش کرتا ہوں.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کے چھ سالہ عہد خلافت میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب انجمن پر قابض تھے.یہ بسا اوقات خلیفتہ امسیح الاوّل کے خلاف باتیں کرتے.اور جب وہ آپ کے لئے یا سلسلہ کے لئے نقصان دہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا دیتا.اس پر چہ مگوئیاں بھی ہوتیں.میرے خلاف منصوبے بھی ہوتے.پھر میں اکیلا تھا اور ان کا ایک جھا تھا مگر اس چھ سال کے عرصہ میں کبھی ایک منٹ کیلئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میں ان باتوں کو چُھپاؤں.پھر میں اگر وہ باتیں بتاتا تھا تو اس لئے نہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل پر احسان کی جتاؤں بلکہ اس لئے کہ میں اخلاق اور روحانیت کے قیام کیلئے ان باتوں کے انسداد کی ضرورت سمجھتا تھا.اس دوران میں بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کو میرے متعلق دھوکا اور فریب دیا اور آپ مجھ پر ناراض ہو گئے.لیکن میں پھر بھی اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہ آیا.ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل بیمار تھے جلسہ کے ایام تھے اور آپ کو جلسہ گاہ میں جانے
خطبات محمود ۱۸۳ سال ۱۹۳۷ء ایک کے لئے سواری کی ضرورت تھی.آپ نے مجھے فرمایا تم نواب صاحب سے میرے لئے گاڑی منگوا دو میں مصلحت سے خود گاڑی نہیں منگوا سکتا.خیر میں نے انہیں کہا اور فوراً گاڑی آگئی.حضرت خلیفتہ المسیح الاول اس میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے اور آپ نے تقریر شروع کر دی.چونکہ عام طور پر اسی آپ کی تقریر دواڑھائی گھنٹہ کی ہوا کرتی تھی اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا کہ گاڑی والا ٹھہرا رہے یا چلا جائے ؟ وہ کہنے لگے تقریر لمبی ہو جائے گی اس لئے گاڑی والے کے ٹھہرنے کی تی ضرورت نہیں اسے بھجوا دیا جائے.جب تقریر ختم ہونے والی ہوئی تو گاڑی منگوالی جائے گی.چنانچہ میں نے اسے کہہ دیا کہ چلے جاؤ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد آ جانا وہ چلا گیا.ادھر حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے ابھی چند منٹ ہی تقریر فرمائی تھی کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور آپ نے فرمایا اب ہم چلتے ہیں گاڑی لاؤ.میں نے فوراً آدمی دوڑایا کہ جلدی گاڑی لائی جائے مگر اسے آنے میں کچھ دیر لگی.اس پر حضرت خلیفہ اول کو ناراضگی پیدا ہوئی اور آپ پیدل ہی چل پڑے.مولوی محمد علی صاحب بھی ساتھ ساتھ تھے.راستہ میں آپ فرمانے لگے یہ کیسی سخت غلطی کی گئی ہے.سب کو پتہ تھا میں بیمار ہوں مگر پھر بھی گاڑی کو نہیں ٹھہرایا گیا.مولوی محمد علی صاحب بھی ہاں میں ہاں ملاتے گئے اور کہنے لگے واقعہ میں ان سے ی سخت غلطی ہوئی ہے.میں نے کہا حضور کی تقریر عام طور پر لمبی ہوا کرتی ہے اس لئے میں نے سمجھا کہ ڈیڑھ دو گھنٹہ تقریر ہوگی اور گاڑی والے کو بھی میں نے اس عرصہ کے اندر آنے کو کہہ دیا تھا.حضرت خلیفہ اول نے ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا عذر تو ہر شخص کر لیتا ہے ہماری پنجابی میں مثل مشہور ہے ، من حرامی حجتاں ڈھیر، یعنی جب کسی کام کو انسان کا دل نہ چاہے تو وہ کئی غذر بنا لیتا ہے.میں یہ سن کر خاموش رہا اور میں نے یہ نہیں کہا کہ مولوی محمد علی صاحب جو اس وقت ساری غلطی میرے سر ڈال رہے ہیں ، انہوں نے ہی یہ مشورہ دیا تھا اور انہی کے مشورہ پر گاڑی والے کو بھیجا گیا تھا.تو جب ہمارے کام محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوں تو ان باتوں کی ہمیں پرواہ ہی کیا ہو سکتی ہے.پس اس قسم کی باتوں سے ڈرنا اور کہنا کہ جب تحقیقات ہوں گی تو افسر آئندہ ہمیں دِق کیا کریں گے ،سخت کمزوری کی علامت ہے اور اس بات کا ثبوت کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل نہیں.اب جو باتیں اس نے لکھیں ہیں ان کے متعلق تحقیق تو میں بعد میں کروں گا لیکن ان میں سے ایک بات ایسی ہے جس کے متعلق میں آج ہی کچھ کہنا چاہتا ہوں کیونکہ ممکن ہے وہ بات کسی اور کے کان میں بھی
خطبات محمود ۱۸۴ سال ۱۹۳۷ء ڈالی گئی ہو.وہ یہ کہ کسی کہنے والے نے کہا کہ خلیفتہ امسیح نے جو تحریک جدید جاری کی ہے یہ اپنے لئے روپیہ جمع کرنے کیلئے جاری کی ہے اور انہوں نے اس ذریعہ سے جماعت سے بہت سا رو پیدا کٹھا کر لیا ہے.مجھ پر خلافت سے پہلے بھی کئی قسم کے اعتراضات ہوتے چلے آئے ہیں اور اب بھی کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں اور بہت سے اعتراض ایسے ہوتے ہیں جو معترض پوشیدہ طور پر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید ان پر پردہ پڑا رہے مگر مالی معاملات میں شروع سے ہی میں نے ایسی احتیاط رکھی ہوئی ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے سامنے بھی اعتراضات کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے.مثلاً بعض لوگ مجھ کو ہدیہ کے طور پر رقم بھجواتے ہیں.ایسی رقوم کے متعلق بھی میں نے یہ اصل مقرر کیا ہوا ہے کہ وہ پہلے محاسب کے دفتر میں درج ہو کر پھر میرے نام آتی ہیں تا کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو دفتر کے رجسٹر کھول کر اس کے کی سامنے رکھ دئے جائیں کہ دیکھو کتنار و پیر آیا.اسی طرح تحریک جدید کے تمام اموال صدر انجمن احمدیہ کے رجسٹرات میں درج ہوتے اور خزانہ میں داخل ہوکر بلوں کے ذریعہ نکلتے ہیں.غرض تحریک جدید کے تمام روپیہ کے متعلق میرا انتظام یہی ہے کہ جو رقم بھی تحریک جدید کی خرچ ہو وہ پہلے صدر انجمن احمدیہ کی طرف منتقل ہوا اور اس کی وساطت سے خرچ ہو اور اس سب کا تفصیلی حساب رکھا جاتا ہے.صرف ایک مد خاص ایسی ہے جس کے اخراجات مخفی ہوتے ہیں مگر میں اس کے متعلق بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان مخفی اخراجات کی مد میں سے جو بعض دفعہ خبر رسانیوں اور ایسی ہی اور ضروریات پر جو ہر شخص کو بتائی نہیں جاسکتیں خرچ ہوتی ہیں.تین سال کے عرصہ میں صرف چار ہزار کے قریب روپیہ ایسا ہے جو میرے توسط سے خرچ ہوا.اس کا باقی تمام روپیہ دفتر کی وساطت سے خرچ ہوا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں تین سال کے عرصہ میں چھ ہزار ایک سو ستانوے روپیہ چندہ تحریک جدید میں میں نے اور میری بیویوں اور بچوں نے دیا ہے.اور اس تین سال کے عرصہ میں آٹھ ہزار روپیہ کے قریب وہ چندہ ہے جو صدر انجمن احمدیہ کو دیا گیا یا جس کا وعدہ ہے.اب تم اس اعتراض کی معقولیت کو خود سمجھ لو کہ میں نے تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ چار ہزار روپیہ لوں اور چودہ ہزار روپیہ اپنے پاس سے دے دوں؟ بھلا چار ہزار روپیہ کمانے کیلئے مجھے اتنی بڑی تحریک کی کیا ضرورت تھی.تحریک جدید کے رجسٹرات گھلے ہیں.وہاں سے ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ چار ہزار کے لگ بھگ رقم میرے تو سط سے خرچ ہوئی ہے.یہ نہیں کہ اس چار ہزار کا حساب نہیں.حساب اس کا بھی ہے مگر
خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۷ء و مخفی ہے.اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے آگے بات بیان کرنے کی عادت نہ ہو تو یہ حساب بھی اس شخص کو بتایا جاسکتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ چار ہزار روپیہ میں نے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کیا تو جب یہ دیکھا جائے کہ اس عرصہ میں صرف تحریک جدید میں میں نے چونتیس سو چورانوے روپے چندہ دیا ہے.پہلے سال سات سو میں دیا تھا.دوسرے سال ایک ہزار چونتیس روپیہ اور اس دفعہ سترہ سو ساٹھ روپیہ.گویا چونتیس سو چورانوے خالص میرا ذاتی چندہ ہے جو میں نے تحریک جدید میں دیا.بیویوں بچوں کا چندہ ستائیس سو روپیہ کے قریب اس سے الگ ہے.یہ گل رقم چندہ کی میری اور میرے بیوی بچوں کی چھ ہزار ایک سو ستاون بنتی ہے.اس کے مقابل پر چار ہزار کے قریب کی رقم میرے تو سط سے خرچ ہوئی ہے اور گو حساب اس کا موجود ہے مگر عام حساب سے مخفی نہیں.لیکن کیا میرے چندہ کو دیکھ کر اور مجھ پر جو اعتراض کیا گیا ہے اُسے دیکھ کر کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ تحریک جدید کے نام پر میں نے اپنے لئے روپیہ بٹورنے کی کوشش کی.اس اعتراض کو درست تسلیم کر لینے کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں نے چار ہزار کمانے کیلئے چھ ہزار ایک سو ستاون روپیہ خرچ کیا.پھر میں ان لوگوں کو جنہوں نے یہ اعتراض کیا کہتا ہوں کہ ہمارے سارے خاندان کا صرف تحریک جدید کا چندہ اس عرصہ کا بیس ہزار سات سو پچانوے روپیہ بنتا ہے.اب اگر یہ درست ہے کہ ہم نے اس چندہ سے چار ہزار روپیہ پھر الیا تو ایسی چوری یہ معترض خود کیوں نہیں کرتے.اس چوری میں میں ان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہوں.وہ اکیس اکیس ہزار کی رقم دیتے جائیں اور چار چار ہزار کی تھیلیاں نکال کر ہم باہر رکھ دیں گے وہ انہیں چرا کر لیتے جائیں اور خوب مزے اُڑائیں.پھر تین سال میں چار ہزار روپیہ لینے کے معنے یہ بنتے ہیں کہ میں نے قریباً سوا سو روپیہ ماہوار اس تحریک سے لیا مگر کیا تم سمجھتے ہو تم نے ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کی ہے جو سوا سو روپیہ ماہوار کھانے کیلئے ساری جماعت میں ایک شور پیدا کر دیتا ہے.پس ایسا اعتراض کرنا اس کی ذلت نہیں تمہاری اپنی ذلت ہے کہ تم نے ایک ایسے شخص کو اپنا امام بنا جس نے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) سوا سو روپیہ ماہوار کھانے کیلئے اتنا بڑا ہنگامہ برپا کر دیا.پھر رجسٹرات موجود ہیں وہ جا کر دیکھو تمہیں معلوم ہوگا کہ سوا سو روپیہ ماہوار سے زیادہ تو میں نے چندہ ہی دیا ہے.اب اگر اسی کا نام لوٹ ہے تو یہ لوٹ تم بھی کی شروع کر دو ہمیں منظور ہے.تم بھی چار چار ہزار روپیہ لوٹ کر لیتے جاؤ اور اکیس اکیس ہزار روپیہ دیتے
خطبات محمود ۱۸۶ سال ۱۹۳۷ء جاؤ.اگر معترض اسی طرح کرنے لگیں تو ہمیں فی ایسی چوری میں جوسترہ سترہ ہزار کا نفع ہوگا اور اگر ایک ہزار آدمی کا ہمیں ایسا مل جائے تو کئی لاکھ روپے سالانہ کی بچت ہو جائے.میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس الزام کی تحقیقات تو بعد میں کروں گاممکن ہے یوں ہی دوسرے پر اتہام لگا دیا گیا ہے اور اس نے یہ بات نہ کہی ہو.لیکن چونکہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے دل میں ایسا خیال کی موجود ہو اور اس نے کسی سے اس کا ذکر کیا ہو اس لئے ایسے لوگوں کے پراپیگنڈا کو رد کرنے کیلئے میں ان نے بتایا ہے کہ تحریک جدید کا تمام روپیہ صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتا اور اسی کی معرفت خرچ ہوتا ہے اور وہ رقم جو خفیہ اخراجات کے لئے رکھی گئی ہے وہ البتہ میرے ذریعہ سے خرچ ہوتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ساری رقم تین سال میں چار ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے.حالانکہ تین سالہ میرا چندہ قریباً ساڑھے تین ہزار اور میرے بیوی بچوں کا ملا کر چھ ہزار ایک سو ستاون کے قریب ہے اور اگر اپنے بھائیوں بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں کا چندہ ملا لیا جائے تو ہم نے ان تین سالوں میں اکیس کی ہزار کے قریب چندہ دیا ہے اور میرے ذمہ جو روپیہ آتا ہے وہ چار ہزار ہے.اب تم خود ہی اس اعتراض کی معقولیت سوچ لو کہ میں نے یہ تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ میں نے چاہا کہ ہم اکیس ہزار دے کر سلسلہ کا چار ہزار روپیہ لوٹ لیں گے؟ اگر کہو کہ بیوی بچوں کا چندہ اس میں کیوں ملاتے ہو انہوں نے ی اپنے اخلاص سے الگ دیا تھا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہر حال میں نے بھی تو ساڑھے تین ہزار چندہ دیا ہے.اب اگر میں نے چار ہزار روپیہ کھا لیا ہے اور جو کچھ کام ہوا ہے وہ سب معترضین کی توجہ سے ہوا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ چار ہزار میں نے کھایا اور ساڑھے تین ہزار دیا.یعنی تین سال میں میں.پورے پانچ سو روپے زائد وصول کئے جو سالانہ ایک سو چھیاسٹھ روپے ہوتے ہیں اور ماہوار کے حساب سے پونے چودہ روپے ماہوار بنتے ہیں.گویا تحریک جدید کے متعلق میں نے جس قدر خطبات پڑھے، جتنی تقریریں کیں ، جتنی سکیمیں سوچیں، جتنا شور اور ہنگامہ برپا کیا وہ محض اس لئے تھا کہ کسی طرح میں پونے چودہ روپے ماہوار سلسلہ کے کھا جاؤں.حالانکہ اگر میں خطبے اور تقریریں نہ کرتا اور صرف ایک کتاب لکھ دیتا تب بھی اس سے دوگنی بلکہ چوگنی رقم ماہوار کما سکتا تھا.مگر میں نے تو یہ بھی کبھی نہیں کیا اور کتابیں لکھ کر سلسلہ کو دے دیتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں کماتا ہوں اور خدا نے مجھے عقل اور فہم دیا ہے.ابھی پچھلے سال میں
خطبات محمود ۱۸۷ سال ۱۹۳۷ء نے تحریک جدید کا گیارہ ہزار روپیہ ایک نفع مند کام پر لگایا اور سات مہینوں میں دو ہزار روپیہ نفع کا ان کو دلا دیا.جو سال بھر میں تین ہزار بن جاتا ہے اور تمیں فیصدی کے قریب نفع بنتا ہے.جب ایک شخص ان کو کی اس قدر کما کر دے سکتا ہے تو وہ خود بھی روپیہ کما سکتا ہے.اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ کماتا ہوں مگر یہ اعتراض جو کیا گیا اس میں معقولیت کا شائبہ تک نہیں اور اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں بنتا کہ میں نے پونے چودہ روپے ماہانہ کیلئے یہ تمام پاکھنڈ مچایا.غرض ان لوگوں کو جو اس قسم کے اخلاقی حملے کرتے ہیں میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ شاید وہ اس قسم کے اعتراضات سے کسی نا واقف کو دھوکا دے لیں مگر مالی معاملات کے متعلق میں جو بھی کام کرتا ہوں رجسٹروں کے ذریعہ کرتا ہوں.اس لئے جب بھی کوئی شخص حملہ کرے اسے وہ رجسٹرات دکھائے جاسکتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ میرا ہی دینا نکلے گا میرے ذمہ کسی کا کچھ نہیں نکلے گا.پس اس قسم کے حملہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب ان کے اعتراضات کی حقیقت لوگوں پر کھل گئی ان کیلئے سخت ذلت ورسوائی ہوگی.باقی میں کبھی لوگوں کے پاس مانگنے نہیں گیا اور میں نے جب بھی کوئی تحریک کی ہے مرضی کی کی ہے.اگر کسی کا جی چاہتا ہے تو وہ میری تحریکات میں شامل ہوا اور اگر نہیں چاہتا تو نہ ہو.لیکن اگر کوئی روپیہ دیتا اور پھر اعتراض کرتا ہے تو میں اُس شخص سے کہوں گا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ تو روپیہ دے.میں تو اُس سے روپیہ مانگتا ہوں جو اگر مجھے دس کروڑ روپیہ بھی دے تو وہ یہ سمجھ کر دے کہ یہ کی رو پیدا اس کے اپنے پاس اتنا محفوظ نہیں جتنا میرے پاس محفوظ ہے.میں تو کچھ عرصہ سے امانت بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ میں رکھواتا ہوں.اسی طرح جس قدر چندے آتے ہیں صدر انجمن احمدیہ کے پاس جاتے ہیں.تحریک جدید کا روپیہ بھی اسی کے خزانہ میں ہے اور اسی کے ذریعہ خرچ ہوتا ہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ تحریک جدید کا روپیہ صدر انجمن میں نہیں کی جاتا ، کہیں الگ چُھپا کر رکھ لیا جاتا ہے.حالانکہ تحریک جدید کی تمام رقوم پہلے صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ کی میں جاتی اور پھر بلوں کے ذریعہ دفتروں میں جاتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مہ خاص کے اخراجات عام لوگوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں.لیکن اس مد میں جو میرے ذریعہ سے خرچ ہو ا وہ تین سال میں صرف چار ہزار روپیہ کی رقم ہے اور اس کے مقابل پر اکیس ہزار کی رقم ہمارا خاندان دے چکا ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان معترضوں کی وجہ سے مجھے ان حقائق کو ظاہر کرنا پڑا اور نہ مجھے تو دینی خدمات کا ذکر کر.
خطبات محمود ۱۸۸ سال ۱۹۳۷ء ہوئے بھی شرم آتی ہے.میں آخر میں ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کا مجھ پر اس قسم کے حملے کرنا کوئی معمولی بات نہیں وہ مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر حملے کر رہے ہیں.مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور اُسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شاملِ حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادرزاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اس بات سے انکار کر سکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کیلئے اپنے کی فرشتے نازل کئے.پس تم اب بھی اعتراض کر کے دیکھ لو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.اس قسم کے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلے کیلئے ایک حسبہ بھی بھیجو.پھر دیکھو کہ خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کی کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کیلئے دو.اور گومیری عادت نہیں کہ میں سخت لفظ استعمال کروں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمڑی تک سلسلہ کیلئے نہ دو اور پھر دیکھو سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا.اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کیلئے اپنے اموال قربان کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں گے.کیا تمہیں معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقبرہ میں دفن ہونے کے بارہ میں میرے اہل وعیال کی نسبت خدا تعالیٰ نے استثناء رکھا ہے اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرہ میں داخل ہوں گے اور جو شخص اس پر اعتراض کرے گا وہ منافق ہو گا.اگر ہم لوگوں کا روپیہ کھانے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایک امتیازی نشان کیوں قائم فرما تا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا.پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبر میں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل وعیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کیلئے مخصوص کیا گیا ہے.گو یہ خواب اس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فرمایا.پس خدا نے کی
خطبات محمود ۱۸۹ سال ۱۹۳۷ء ہماری قبریں بھی چاندی کی کر کے دکھا دیں اور لوگوں کو بتا دیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے.پس اللہ تعالیٰ ہماری مٹی کو بھی چاندی بنارہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنا رہے ہو.چونکہ منافق عام طور پر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کیلئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیا ہے.مگر چونکہ یہ ایک سوال اُٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبور بتا نا ہے پڑا کہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملا لیا جائے تو اس رقم سے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھالی، پانچ گنا زیادہ رقم ہم چندہ میں دے چکے ہیں اور جو ر تم صرف میرے اہل وعیال کی طرف سے خزانہ میں داخل ہوئی ہے ، وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گنے زیادہ رقم اس لئے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھا جائیں.پس ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اُس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اُڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہو کر مریں.۲۱، بخاری کتاب الاذان باب فضل صلوة العشاء في الجماعة دار قطنی کتاب النکاح جلد ۲ صفحه ۱۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۴ء ه فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ الْضُّحَى : (١٠) ابوداؤد كتاب الطهارة باب المواضع التي نهى عن البول فيها الفضل ۲ جولائی ۱۹۳۷ ء )
خطبات محمود 190 ۱۹ سال ۱۹۳۷ء ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ذلیل ورسوا ہوگا فرموده ۲۵ جون ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی آیت وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ تک کی تلاوت کر کے فرمایا : - آخری زمانہ کے مصلح کی بعثت خدا تعالیٰ کی نگاہوں میں ایسی اہم ہے کہ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر رسول کریم ﷺ کے زمانہ تک کے تمام انبیاء نے اس بعثت کی خبر دی ہے اور آسمانی صحیفوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں شیطان اور فرشتوں کی آخری جنگ ہوگی اور آخر اپنا سارا زور لگا لینے کے بعد شیطان کا سر کچلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم کر دی جائے گی.ایک مومن کا خواب اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے ، ایک مجدد کا خواب اپنے اندر ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، ایک نبی کا خواب اپنے اندر اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور دو تین نبیوں کے خواب تو اس سے بھی زیادہ شان اور اہمیت رکھتے ہیں.مگر جس خبر پر تمام انبیاء متفق ہوں اور حضرت کی نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر خاتم النبین محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ تک تمام انبیاء اس کی خبر د.چلے آرہے ہوں ، وہ کتنی بڑی اہم ہوگی.حضرت نوح کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت نوح علیہ السلام کا مقابلہ کیا، اُس کا ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے.حضرت ابراہیم کے زمانہ میں شیطان نے جس جس
خطبات محمود ۱۹۱ سال ۱۹۳۷ء رنگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقابلہ کیا، اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے.حضرت موسیٰ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے.حضرت داؤڈ اور حضرت سلیمان کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت عیسی علیہ السلام کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے اور پھر محمد رسول اللہ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں محمد ﷺ کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک اجمالی نقشہ قرآن کریم میں موجود ہے.ان میں سے ہر جنگ جو اپنے اپنے زمانہ میں ہوئی وہ انسان کا دل دہلا دینے کیلئے کافی ہے.مخالفت میں ایسے ایسے ذرائع کو استعمال کیا گیا اور ایسے ایسے طریق اختیار کئے گئے کہ مومنوں کیلئے زلزلہ آ گیا اور لوگوں نے سمجھا اب یہ جماعت بالکل تباہ ہو جائے گی.مگر پھر خدا تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہوئی اور وہ طوفان اور وہ آندھیاں جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ انبیاء علیہم السلام کی بنائی ہوئی عمارتوں کو زمین سے پیوست کر دیں گی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گی ہوا کی طرح اس عمارت.ٹکرا کر اس طرح اُڑ گئیں جس طرح پانی کا بلبلہ پھٹ جاتا ہے اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی.پھر جب ایک ایک جنگ میں شیطان نے اس طرح زور لگایا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ آخری جنگ میں وہ ا.تمام ذرائع کو مجموعی طور پر استعمال نہ کرے.شیطان خود دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا بلکہ انسانوں میں سے ہی بعض کو اپنا آلہ کار بناتا اور ان کے ذریعہ الہی جماعتوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے.پس ضروری ہے کہ اس زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے شیطان کی طرف سے وہ تمام ہتھیار استعمال کئے جائیں جو نوح کے زمانہ میں استعمال کئے گئے ، جو موسیٰ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے ، جو لوظ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے ، جو اسحق کے زمانہ میں استعمال کئے گئے ، جو یعقوب کے زمانہ میں استعمال کئے گئے ، جو یوسف کے زمانہ میں استعمال کئے گئے ، جو داؤڈ اور سلیمان اور الیسع اور زکریا اور کی یحیی اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں استعمال کئے گئے.جو عیسی کے زمانہ میں استعمال کئے گئے اور جو سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے.کیونکہ شیطان جانتا ہے کہ یہ اس کی آخری جنگ ہے اور اسی جنگ پر اس کی زندگی یا موت کا انحصار ہے.پس میں ان لوگوں کو جو میرے نقطہ نگاہ
خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۷ء میں مومن ہیں ( چونکہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے اپنے نقطۂ نگاہ میں مومن ہوں لیکن میرے نقطہ نگاہ میں مومن نہ ہوں اس لئے اُن لوگوں سے میرا خطاب نہیں.کیونکہ وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں.میں ذمہ وار صرف ان لوگوں کا ہوں جو میرے نقطہ نگاہ میں مومن ہیں اور میرے نقطہ نگاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر سچا ایمان لائے ہوئے ہیں ) کہتا ہوں کہ انہیں محسوس کرنا چاہئے کہ وہ تمام ہتھیار جو شیطان نے پہلے زمانوں میں استعمال کئے اُنہیں اِس زمانہ میں بھی استعمال کیا جائے گا اور ان کی آرزوئیں اور خواہشیں اسے ان ہتھیاروں کے استعمال سے باز نہیں رکھ سکتیں.یہ خدائی خبر ہے جو تمام انبیاء نے دی اور ضروری ہے کہ پوری ہو.اگر یہ خبر پوری نہ ہو تو نوع بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، موسیٰ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں ، داؤڈ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں ، سلیمان بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، عیسی بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں.اور پھر راستبازوں کے راستباز اور بچوں کے بچے اور صادقوں کے سردار حضرت محمد ﷺ بھی نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹے قرار پاتے ہیں اور کہنا پڑے گا کہ جو خبر انہوں نے دی وہ پوری نہ ہوئی.پس گوہم میں سے ہر شخص کی خواہش یہی ہونی چاہئے اور ہے کہ شیطانی حملے کم ہوں مگر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتی.یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا حملے پر حملے ہوں گے اور ابتلا پر ابتلا آئیں گے اور آخر وہی راستباز ٹھہرے گا جو آخر تک اپنے ایمان پر قائم رہے گا اور اس کے اندر اس قدر طاقت ہوگی کہ وہ شیطانی حملوں کا مقابلہ کر سکے.پس اپنی جماعت کو یعنی ان مخلصین کو جو صرف منہ سے احمدی نہیں کہلاتے بلکہ واقعی سلسلہ سے انس رکھتے ہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہیں فتنوں سے ڈرنا نہیں چاہئے.کئی لوگ سچے مومن ہوتے ہیں لیکن جب بھی کوئی فتنہ اُٹھتا ہے وہ گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب کیا ہوگا اور ہر فتنہ کے موقع پر جب بھی گھبرا کر انہوں نے یہ کہا کہ اب کیا ہوگا میں نے انہیں کہا کہ یہی ہوگا کہ تم جیتے اور فتح کے جھنڈے اڑاتے ہوئے نکلو گے.زمین بدل سکتی ہے ، آسمان بدل سکتا ہے، سمند رخشک ہو سکتے ہیں، پہاڑ اڑ سکتے ہیں مگر جو بات نہیں مل سکتی اور کبھی نہیں مل سکتی وہ یہ ہے کہ ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ہمیشہ ذلیل اور رسوا ہوگا.بظاہر حالات حملے کتنے ہی سخت ہوں، بظاہر حالات شیطانی طاقتیں کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہوں یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہوکر رہے گی
خطبات محمود ۱۹۳ سال ۱۹۳۷ء قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا یہ خدائی تقدیر ہے جو ہر حالت میں ظاہر ہوگی اور کوئی انسانی تد بیرا سے غلط قرار نہیں دے سکتی.ہوسکتا ہے کہ تم یا میں یا کوئی اور اس لڑائی میں رُخصت ہو جائیں یا رخصت کر دیئے جائیں.مگر جس تعلیم پر ہم قائم ہیں اور جن باتوں کو ہم دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں انہیں کسی قسم کی زک پہنچ جائے یا ان میں ضعف اور کمزوری پیدا ہو جائے ، یہ ناممکن اور بالکل ناممکن ہے." نوش کا ذکر تو ہم کیا کریں، وہ ایک بہت بڑا اور خدا کا برگزیدہ رسول تھا.ابراہیم کا ذکر ہم کیا کریں کہ و خدا کا بہت پیارا اور اُس کا برگزیدہ رسول تھا.موسیٰ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا ایک اولوالعزم نبی اور صلى الله اس کا برگزیدہ بندہ تھا.عیسی کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا ایک بہت بڑا رسول تھا اور رسول اللہ ہے تو تمام نبیوں کے سردار تھے ان کی باتوں کا کیا کہنا.خود ہمارے اندر خدا تعالیٰ نے ایسے نشانات قائم کر دیئے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایک لمحہ کیلئے بھی ہم خدا تعالیٰ کی باتوں کا انکار نہیں کر سکتے.میں ابھی سترہ سال کا تھا جو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے کہ اس سترہ سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے الہاماً میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھوں سے ایک کاپی پر لکھا لئے کہ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت تک اُن لوگوں پر فوقیت اور غلبہ دے گا جو تیرے منکر ہوں گے.اس سترہ سال کی عمر میں کس کو معلوم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات تک زندہ رہوں گا.پھر کون کہہ سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کے بعد سلسلہ کے متعلق کیا انتظام ہوگا.کیونکہ نبیوں کے زمانہ میں انبیاء کی محبت دلوں پر اس قدر غالب ہوتی ہے کہ ان کی وفات کا خیال تک بھی کی دل میں نہیں لایا جاسکتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو خلیفہ بنایا اور جماعت میں سلسلہ خلافت قائم کیا تو کون اس مخالفت کو دیکھ کر جو سلسلہ کے لیڈروں کی طرف سے کی جاتی تھی، جبکہ علی الاعلان یہ کہا جاتا تھا کہ اس بڑھے کو مرنے دو اس کے بعد خلافت کے انتظام کو ہم باطل کر کے رکھ دیں گے، کہ سکتا تھا کہ خلافت کا سلسلہ چلے گا اور پھر کی کون کہ سکتا تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ میں ہی بنوں گا کیونکہ میں اس بات کیلئے بالکل تیار تھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے بعد خود مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کرلوں تا جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہو.کہہ
خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۷ء ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی سے ملنے کیلئے گیا تو انہوں نے روتے ہوئے کہا مجھے خوب یاد ہے جب حضرت خلیفہ اول کے آخری ایام میں عظیم الشان فتنہ اُٹھا اور میں نے آپ سے گھبراہٹ کا اظہار کیا تو آپ نے مجھے کہا مولوی صاحب ا گھبرائیں نہیں میں فتنہ پیدا ہونے نہ دوں گا.میں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی بیعت کرنے کیلئے تیار ہوں.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ اُس نے مجھے جماعت کا خلیفہ بنادیا اور اُس دن اس الہام کی صداقت کی بنیاد پڑی.إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ اور وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اُن لوگوں پر قیامت تک غالب رہیں گے جو تیرے منکر ہوں گے.پھر دیکھ لو دشمن کتنی بڑی طاقت لے کر اُٹھا اور اُس کا کیسا عبرتناک انجام ہو ا.اُس وقت کہا جا تا اور متواتر کہا جاتا تھا کہ یہ بچہ ہے اور ہم بڑی عمر کے ہیں.یہ جاہل ہے اور ہم عالم ور مفسر قرآن ہیں.یہ کمزور ہے اور ہمارے ہاتھوں میں سب طاقتیں ہیں.یہ نادار ہے اور ہمارے پاس روپیہ ہے.یہ بیوقوف ہے اور ہم عقلمند ہیں.یہ لوگوں کے قبضہ میں ہے اور ہم صاحب تدبیر ہیں.غرض یہ تمام حملے ایک طرف تھے اور دوسری طرف ایک چھبیس سالہ نوجوان.بلکہ اُس وقت میری عمر چھپیں سال بھی پوری نہیں تھی ، ۲۵ برس اور دو مہینہ کی عمر تھی.پس پچیس برس کا ایک نوجوان ایسی حالت میں کھڑا ہوا جبکہ سلسلہ کے تمام بڑے بڑے لوگ دوسری طرف تھے.جب جماعت کا خزانہ بالکل خالی تھا صرف چند آنے کے پیسے اُس میں موجود تھے اور اٹھارہ ہزار کا قرضہ صدر انجمن پر تھا.اُس وقت ی خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا اور بتایا کہ کوئی نہیں جو خدا کے کاموں کو روک سکے اور فرمایا وَلَنُمَزِ قَنَّهُمُ اللہ تعالیٰ تیرے مخالفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور ان کی جمعیت کو پراگندہ کر دے گا.چنانچہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ ایسا ہی ہوا.پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس خدا نے سترہ سال کی عمر میں مجھے خبر میں بتا ئیں اور پھر مخالف کی حالات میں ان باتوں کو پورا کر کے دکھا دیا اور میری نصرت اور تائید کیلئے آسمان سے فرشتے اُتارے اُس خدا کے فضل سے میں کسی وقت مایوس ہو جاؤں.میں تو ایک اکفر انسان ہوں گا.ایک نہایت ہی اشقی انسان ہوں گا اگر ایک منٹ کیلئے بھی میں خدا تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید کے متعلق شبہ کروں.سترہ سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے مجھے وہ الہام کیا اور آج میری عمر سے اڑتالیسواں سال گزر رہا ہے.
خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۷ء اس گزشتہ میں اکتیس سال کے عرصہ میں دنیا نے اس الہام کی صداقت میں جو کچھ دیکھا وہ اتنا واضح اور اتنا مبرہن لے ہے کہ اس کے بعد خدا تعالیٰ کی نصرت کے متعلق مجھے ایک منٹ کیلئے بھی شبہ نہیں ہو سکتا اور میں واضح سے واضح الفاظ میں دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اگر ان مقابلوں میں مجھے زک پہنچ جائے یا میری قائم کی ہوئی باتیں فیل ہو جا ئیں تو یقیناً میں جھوٹا ہوں گا.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے فتنے آنے ضروری ہیں اور بڑے بڑے فتنے ہیں جن کا آنا مقدر ہے مگر تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت نامہ موجود ہے.اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے کہ جو لوگ کمزور دل ہوتے ہیں وہ فتنوں سے گھبرا جاتے ہیں مگر یا درکھنا چاہئے الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ سے تمہارے لئے فیصلہ کی ایک راہ ہم نے رکھی ہوئی ہے اور وہ خدا کی کتاب ہے.اس میں کوئی جھوٹی بات نہیں.انسانی بتائے ہوئے اصول جھوٹے ہو سکتے ہیں.انسانی بتائی ہوئی تدابیر غلط کی ہو سکتی ہیں مگر خدا کی کتاب لَا رَيْبَ فِيهِ ہے.کوئی مشکوک یا جھوٹی بات اس میں نہیں.پھر فرماتا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ سے اگر تم خدا تعالیٰ پر توکل کرنے اور اس کی طرف توجہ رکھنے والے ہو تو یہ کتاب تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوگی اور تمہیں بچے راستہ پر قائم کر دے گی ہاں تمہارے لئے بھی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر تمہیں کامل یقین ہونا چاہئے.اگر ی یہ یقین تمہیں حاصل نہیں تو ہدایت بھی میسر نہیں آسکتی.دنیا کے جس قدر علوم ہیں وہ ایمان کے بغیر بھی ہے.حاصل ہو سکتے ہیں.ایک بڑا ڈاکٹر بغیر ایمان کے ہو سکتا ہے.ایک بڑا وکیل بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے ایک بڑا انجینئر بغیر ایمان کے ہو سکتا ہے، ایک بڑا سیاستدان بغیر ایمان کے ہو سکتا ہے، ایک بڑا ہیئت دان بغیر ایمان کے ہو سکتا ہے، ایک بڑا بادشاہ بغیر ایمان کے ہو سکتا ہے، ایک بڑا علم النفس کا ماہر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے ، ایک بڑا تاریخ دان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے مگر فرمایا قرآن کریم سے ہدایت انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو متقی ہوں اور يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کے مصداق ہوں.کوئی سیاستدان کوئی ادیب، کوئی بیرسٹری، کوئی ڈاکٹر اور کوئی انجینئر دنیوی علوم کے ذریعہ خدائی ہدایت کا مستحق نہیں ہوسکتا.پس متقیوں کیلئے ہی قرآنی ہدایت ہے دوسروں کیلئے نہیں.اور متقی وہ ہیں جو الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کا نمونہ ہوں.یعنی خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھیں اور مصائب و مشکلات سے نہ ڈریں بلکہ یقین رکھیں کہ جب ہم خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک شخص پر ایمان لے آئے ہیں تو خدا تعالیٰ خود ہماری نصرت اور
خطبات محمود ۱۹۶ سال ۱۹۳۷ء تائید کرے گا.وہ آپ مشکلات میں ہماری راہنمائی کرے گا اور قرآن ہماری تائید کیلئے اُٹھے گا.پھر فرمایا وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مغرور نہ ہو.یعنی یہ نہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے ان سے اپنی نصرت اور مدد کا وعدہ کیا ہے اس لئے وہ اس وعدہ کی وجہ سے مغرور ہو جائیں بلکہ جیسے جیسے خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ان کا یقین بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی ان میں عجز ، انکسار اور دعاؤں کا مادہ بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے.ایک طرف ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو للکارتے ہیں اور کہتے ہیں کون ہے جو ہمارا بال بیکا کر سکے کیونکہ خدا نے اُن کو یہی کہا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف جب وہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں تو گریہ وزاری ان کا شیوہ ہوتا ہے اور کہتے ہیں اے خدا! تیری مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے.یہی وہ کیفیت ہے جو رسول کریم نے بدر کے موقع پر دکھائی.بدر کی الله جنگ کے شروع ہونے سے پہلے جب رسول کریم ﷺ مدینہ سے باہر نکلے تو آپ نے فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہم کو فتح حاصل ہوگی اور دشمنوں کو شکست.بلکہ مدینہ سے نکلنے سے پہلے آپ کو بشارتیں ملنی شروع ہو گئیں اور آپ نے صحابہ سے کہنا شروع کر دیا کہ گھبراؤ نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے.ہم اس کے فضل سے فتح پائیں گے اور ہمارا دشمن ناکام ہو گا.لیکن ادھر صحابہ کو آپ نے یہ خبریں دیں اور اُدھر جب جنگ شروع ہوئی تو آپ نے نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ اس قدر گڑ گڑا کر دعائیں مانگنی شروع کر دیں کی کہ بعض صحابہ کو حیرت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا يَا رَسُولَ الله ایک طرف خدا کہتا ہے کہ ہمیں فتحی حاصل ہوگی اور دوسری طرف آپ اس قدر رو رو کر دعائیں کر رہے ہیں کہ گویا اس کا فتح کے متعلق کوئی وعدہ نہیں یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا یہی مومن کا مقام ہے کہ وہ خدا کے وعدوں کے ہوتے ہوئے اس کے حضور عجز اور انکسار سے کام لیتا ہے.پس فرمایا.الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ متقی ایک طرف خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کے حضور عجز وانکسار اور دعاؤں کی طرف مائل رہتے ہیں.اس کے بعد ایک تیسری چیز کا ذکر کیا اور فرمایا وَمِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ کے دعاؤں کے ساتھ ان کو وہ تمام تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں جو خدا تعالیٰ نے اس عالم اسباب میں پیدا کی ہیں.یہ بھی مومن کا کام ہے کہ وہ خیالی دعاؤں سے کام نہیں لیتا بلکہ ظاہری تدابیر سے بھی کام لیتا تای ہے.کیونکہ اگر دعا کی جائے لیکن ظاہری تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو یہ خدا تعالیٰ کا امتحان لینا ہوتا ہے جو
خطبات محمود ۱۹۷ سال ۱۹۳۷ء ایک مومن کی شان سے بعید ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ انسان جو خالی دعا کرتا اور تدبیر سے کام نہیں لیتا وہ خدا تعالیٰ کا امتحان لیتا ہے اور یہ سخت گستاخی ہے جس کی اُس کو سزا ملتی ہے.پس مِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ ان پر فرض ہوتا ہے کہ وہ تمام ذرائع کو خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی استعمال کریں.پھر فرمایا وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمُ يُوقِنُونَ اس سے پہلے وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ میں یہ بتایا تھا کہ جو کچھ مومنوں کو حاصل ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے اور تمام تدابیر سے کام لیتے ہیں اور اس آیت میں ان کو تدبیر بتاتا ہے ނ یعنی یہ کہ وہ کن اصول پر خرچ کرتے ہیں.اس کے متعلق فرمایا یہ ذرائع ان کو خدا تعالیٰ کے الہاموں سے ملتے ہیں اور اس کیلئے سب سے پہلے وہ تیری وحی کو دیکھتے ہیں.وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ اور پھر اس وحی پر غور کرتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہو چکی ہے اور اس کے بعد اگر خودان پر کوئی وحی نازل ہوئی ہو یا ج کوئی خواب آیا ہو یا ان کے زمانہ کے کسی مرسل پر وحی نازل ہوئی ہو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ی اس زمانہ میں وحی نازل ہوئی تو وہ اس وحی پر بھی غور کرتے ہیں اور اس طرح تینوں وحیوں میں یہ تلاش کرتے ہیں کہ ایسے مواقع پر ان کیلئے کیا ہدایات ہیں اور کن ذرائع کو انہیں اختیار کرنا چاہئے.أُولئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ فرماتا ہے جو لوگ اس قسم کے ہوں ان کیلئے قرآن کریم ہدایت کا موجب ہو جاتا ہے.اس رکوع کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ قرآن كريم متقیوں کیلئے ہدایت کا موجب ہے اور اس آیت میں یہ بتایا کہ جولوگ قرآن کریم کے اصول اور اس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ان کو یہ ہدایت مل جاتی ہے اور خالی انہیں ہدایت ہی نہیں ملتی ج بلکہ عَلى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمُ ہدایت سے ان کا اس طرح تعلق ہو جاتا ہے جس طرح گھوڑے پر انسان سوار ہوتا ہے.گویا اس کے بعد ہدایت سے ان کا عارضی تعلق نہیں رہتا بلکہ وہ ہدایت پر سوار کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور خدا کا کلام انہیں کامیابیوں کی طرف لئے چلا جاتا ہے.وَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کے کلام پر عمل کرتے اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں ان کو کون نا کام کر سکتا ہے.وہ بہر حال کامیاب ہوتے ہیں اور کوئی
خطبات محمود ۱۹۸ سال ۱۹۳۷ء طاقت انہیں نا کا م نہیں بنا سکتی.غرض ہمارے لئے ہر جھگڑے کو دور کرنے کیلئے ایک چیز موجود ہے اور وہ خدا کا کلام ہے.ہم میں آپس میں اختلاف ہو سکتا ہے، ہم میں آپس میں تفرقہ ہو سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے کلام میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا.پس جس کے ساتھ قرآن ہے وہ سچا ہے اور جس کے ساتھ قرآن نہیں وہ جھوٹا ہے.اگر تمہارا میرے ساتھ تعلق ہے تو تم قرآن کی وجہ سے اور اگر میرا تمہارے ساتھ تعلق ہے تو قرآن کی وجہ ی سے اور اگر کوئی احمدی کہلا کر مقابلہ کیلئے نکلتا ہے تو قرآن کے ذریعہ ہی اس جھگڑے کا بھی فیصلہ ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا اُس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے کی تشریف لائیں گے.میں نے بارہا سنایا ہے کہ لدھیانہ کے ایک مولوی صاحب تھے انہوں نے حج بھی کیا کی ہو ا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ان کا تعلق تھا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بھی ملتے رہتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی پر زیادہ شور اُٹھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے سخت مخالفت کرنی شروع کر دی تو انہوں نے خیال کیا کہ مرزا صاحب صوفی مزاج آدمی ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی تیز طبیعت کے انسان ہیں.مرزا صاحب نے صوفیانہ رنگ میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کوئی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی نے نہ سمجھا اور اس نے مخالفت شروع کر دی ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف بات کہہ دیں.وہ بڑے نیک آدمی ہیں، قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتے مولوی محمد حسین کو ضرور کوئی غلطی لگی ہوگی.چنانچہ اس کے بعد وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے اعلان کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں کی یہ درست ہے.انہوں نے کہا آپ تو بزرگ آدمی ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہنا سخت نا جائز ہے.جب قرآن کریم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہے تو آپ قرآن کے خلاف ان کی وفات پر کیوں زور دیتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اگر قرآن کریم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ثابت ہو جائے تو اور کیا چاہئے.میں فوراً اپنے اس کی دعوی کو واپس لینے کیلئے تیار ہوں اور میں کہہ دوں گا کہ میرا عقیدہ غلط ہے، دراصل قرآن کریم سے یہی کی
خطبات محمود ۱۹۹ سال ۱۹۳۷ء ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.وہ کہنے لگا میں پہلے ہی کہتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں وہ کبھی غلط طریق اختیار نہیں کرتے.اب آپ یہ بتائیں کہ اگر میں آپ کے پاس قرآن کریم کی ایک سو آیتیں ایسی لے آؤں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو تو کیا آپ ان کی حیات کے قائل ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سو آیتوں کا سوال نہیں قرآن کریم کی ایک آیت ہی محبت ہے.اگر آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں جس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو تو میں ان کی زندگی تسلیم کرلوں گا.اس پر انہیں خیال آیا کہ شاید سو آیتیں قرآن کریم سے ایسی نہ مل سکیں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو اس لئے پچاس آیتوں تک قائل کر لینا چاہئے اور کہنے لگے اگر سو آیتیں نہ مل سکیں صرف پچاس آیتیں مل جائیں تو کیا ی پچاس آیتیں دیکھ کر آپ اپنے عقیدہ سے تو بہ کر لیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں تو پہلے کہہ چکا ہوں کہ سو پچاس آیتوں کی قید کی کوئی ضرورت نہیں قرآن کریم کی ایک آیت بھی کافی ہے.خیر آہستہ آہستہ وہ دس آیتوں پر آگئے اور کہنے لگے کہ دس آیتیں تو میں ضرور لے آؤں گا.چنانچہ اس گفتگو کے بعد وہ خوشی خوشی لاہور گئے.اُن دنوں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل لاہور میں تھے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہیں تھے اور آپس میں بڑی بحثیں ہورہی تھیں.مولوی محمد حسین بٹالوی یہ کہتے تھے کہ آؤ حضرت مرزا صاحب کے دعوی کا ہم حدیثوں کی رو سے فیصلہ کریں کیونکہ یہی قرآن کریم کی شارح ہیں اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل فرماتے کہ قرآن اصل چیز ہے ہمیں قرآن کریم کی رو سے آپ کے دعوی کوی یکھنا چاہئے.آخر بہت بڑی رڈو کر اور بحث مباحثہ کے بعد جب لوگوں میں بددلی اور بے اطمینانی پیدا ہونے لگی تو حضرت خلیفہ اول نے کہہ دیا کہ اچھا ہم بخاری مان لیتے ہیں اسے تم اپنے دعوے میں پیش کی کر سکتے ہو.مولوی محمد حسین بٹالوی اس پر بہت خوش تھے کہ میں نے کچھ تو اپنی بات منوالی.چنانچہ ایک کی مجلس میں بیٹھ کر وہ ڈینگیں مار رہے تھے کہ اتنے میں لدھیانہ والے مولوی نظام الدین صاحب بھی جا پہنچے اور کہنے لگے بس اب سب جھگڑوں کا فیصلہ ہو گیا.آپ بحث مباحثہ ایک طرف رکھئے اور مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیجئے جن سے یہ ثابت ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں.میں وہ آیتیں لے لی کر حضرت مرز اصاحب کے پاس جاؤں گا اور انہیں یہیں آپ کے پاس لے آؤں گا اور آپ کے سامنے انہیں اپنے عقیدہ سے تو بہ کراؤں گا.مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہا بات کیا ہے کچھ تفصیل تو بتاؤ.
خطبات محمود ۲۰۰ سال ۱۹۳۷ء انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ سے بھی عقیدت ہے اور حضرت مرزا صاحب سے بھی عقیدت ہے.میں یہ پہلے ہی سمجھتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نیک آدمی ہیں وہ قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتے.میں ان کے پاس گیا تھا اور میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر قرآن کریم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو جائے تو کیا آپ یہ دعوئی چھوڑنے کیلئے تیار ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں؟ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ اگر قرآن کریم سے ایسا ثابت ہو جائے تو میں اپنے اس دعویٰ کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوں اور وہ تو ایک آیت ہی کافی سمجھتے تھے مگر میں ان سے دس آیتوں کا وعدہ کی کر آیا ہوں پس آپ جلدی سے مجھے ایسی دس آیتیں لکھ دیں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو ، تا کہ میں انہیں جا کر دکھا دوں.مولوی محمد حسین صاحب یہ گفتگو سُن کر بڑے جوش سے بول اُٹھے تجھ بیوقوف سے کس نے کہا تھا کہ تو اس بحث میں کود پڑے.میں دو مہینے بحث کر کر کے انہیں کی حدیث کی طرف لایا تھا اور تو پھر قرآن کی طرف لے گیا.وہ آدمی نیک تھے یہ سنتے ہی کہنے لگے مولوی ان صاحب ! اچھا یہ بات ہے! اچھا! تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں.چنانچہ اس کے بعد وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.غرض قرآن ہمارے لئے محبت ہے اور جب قرآن کریم ہمارے لئے حجت ہو تو ہمیں کسی تی جھگڑے میں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.اگر قرآن کریم ہمیں جھوٹا کہتا ہو تو ہمیں اس بات کا اقرار کی کر لینا چاہئے کہ ہم جھوٹے ہیں اور اگر قرآن کریم ہمیں سچا قرار دیتا ہو تو پھر کون ہے جو ہم پر فتح پا سکے.قرآن کریم کیلئے دنیا میں غلبہ مقدر ہے اور قرآن کریم کے پہلے رکوع میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ قرآن تو الگ رہا قرآن کریم پر عمل کرنے والے بھی مصلح ہیں.یعنی جس طرح قرآن کیلئے غلبہ مقدر ہے اسی طرح قرآن کریم پر عمل کرنے والوں کیلئے بھی غلبہ مقدر ہے.پس جو قر آنی ہتھیار چلاتا ہے وہی دشمن پر غالب رہتا ہے.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.یعنی صداقت کا راستہ تلاش کرنے کیلئے سب پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے کیونکہ قرآنی الہام باقی تمام الہامات پر مقدم ہے.اس کے بعد اس کے سوا دوسری وحیوں پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کیا بتاتی ہیں.پس جس بات کی تائید قرآن کریم کی وحی اور پہلی اور پچھلی وحیاں کریں اس کے سچا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا.کیونکہ یہ کسی انسان کی
خطبات محمود ۲۰۱ سال ۱۹۳۷ء طاقت میں نہیں کہ وہ مثلاً حضرت موسیٰ کی زبان سے اپنی تائید میں ایک بات نکلوائے.حالانکہ وہ پیدا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دو ہزار سال بعد ہوا ہو.یہی دلیل قرآن کریم میں رسول کریم علی اللہ کی صداقت کے ثبوت میں بھی پیش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اے محمد ! تیری بعثت کی خبر تو موسیٰ نے بھی اپنی کی کتاب میں دی ہے اگر تو راستباز نہیں تو کیا تو حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھا یا کیا حضرت موسیٰ تیرے زمانہ میں ہوئے ہیں کہ تو نے ان سے مشورہ کر کے یہ پیشگوئی ان سے لکھوالی.جب یہ دونوں صورتیں نہیں تو صاف معلوم ہوا کہ یہ خبر خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی.تو قرآن کریم اور پہلی اور پچھلی وحیاں ایک مومن کیلئے مشعل راہ ہیں.جدھر یہ تینوں وحیاں لے جاتی ہوں گی وہی سچا راستہ ہوگا اور جس کے خلاف یہ تینوں وحیاں ہوں اُس کے جھوٹا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا.پس اس اصل کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے کسی ذاتیت کا سوال درمیان میں حائل نہیں رہتا.اگر خدا کا کلام ہمارے خلاف پڑتا ہوتو اس میں کیا شبہ ہے کہ ہماری شکست یقینی ہے.لیکن اگر خدا کا کلام ہمارے ساتھ ہو تو چونکہ خدا کے کلام کے لئے فتح اور غلبہ مقدر ہے اس لئے ہمارے لئے بھی فتح اور غلبہ مقدر ہے.پھر اسی صورت میں دشمن سے ڈرنے کے کوئی معنے ہی نہیں.ایک بچہ اگر کسی پہلوان پر حملہ کرے تو وہ پہلوان اس کے حملہ سے نہیں ڈرتا بلکہ سمجھتا ہے کہ یہ میری ایک ٹھوکر کی مار ہے.اسی طرح جس کے ساتھ قرآن ہو، جس کے ساتھ اگلی پچھلی وحیاں ہوں اس کے ڈرنے اور خائف ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کو دیکھیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کو سمجھ کر مانا ہے تو پھر انہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں.ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو کون ہے جو اُس پر ہاتھ ڈال سکے.دنیا مل سکتی ہے لیکن خدا کی باتیں کبھی نہیں ٹلتیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے متعلق بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت ایسے ایسے ابتلا آئے کہ مومنون کی بنیاد میں ہل گئیں اور وہ زُلْزِلُوا زِلْزَالَا شَدِيدًا لے کے مصداق بن گئے.ان کی ہستیوں پر ایک شدید زلزلہ آیا اور لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے یثرب کے رہنے والو اب تمہاری شکست میں کوئی شبہ نہیں، اب تم یقینی طور پر مارے گئے.مگر پھر وہی جو یہ کہتے تھے کہ تم مارے گئے بلوں میں چھپتے پھرتے اور ایسے بھاگے کہ انہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملی.پس خدا تعالی کی باتوں پر یقین رکھو اور اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ہمارا کوئی مقابلہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء بھی نفسانیت کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے.ہمارا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے مقابلہ ہواس میں اگر ہماری شکست میں اللہ تعالیٰ کے دین کی فتح ہو تو ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہمیں شکست ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو فتح.لیکن اگر ہماری فتح میں اس کی فتح ہے تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہماری فتح کو شکست میں تبدیل نہیں کر سکتی.میں تمہارے ایمانوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.لیکن جو ایمان خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جو خبر میں خدا تعالیٰ نے مجھے دیں اور اپنے وقت پر پوری کی ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کیلئے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ کسی میدان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے شکست نہیں ہو سکتی.میں نے خدا تعالیٰ کی باتوں کا اتنا تجربہ کیا ہے کہ میں اس یقین پر پورے طور پر قائم ہوں اور یہ یقین مجھے آج حاصل نہیں ہوا کہ لوگ کہیں چونکہ تمہارے ساتھ بہت لوگ ہیں اس لئے ان کو دیکھ کر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے.میں نے اُس وقت بھی اپنے دشمنوں سے مقابلہ کیا جب میرے ساتھ بہت تھوڑے لوگ تھے اور اُس وقت بھی اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا جب میں اکیلا تھا اور کوئی میرے ساتھ نہ تھا.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں لوگ مجھے ستاتے ، دکھ دیتے ، مجھ پر الزامات اور بہتا نات لگاتے اور کہتے کہ یہ خلافت کا مؤید اس لئے نہیں کہ سمجھتا ہے کہ خلافت کوئی ضروری چیز ہے بلکہ خلافت کا اس لئے مؤید ہے کہ خود خلیفہ بنا چاہتا ہے.میں ان تمام باتوں کو سنتا اور برداشت کرتا تھا تی اور خدا شاہد ہے کہ بسا اوقات میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کی کہ خدایا ! اگر میرا وجو د سلسلہ کیلئے کی کسی لحاظ سے مضر ہے اور میں کوئی ایسا کام کر رہا ہوں جس سے سلسلہ کو نقصان پہنچنے والا ہے تو میرا وجود درمیان سے ہٹا دے.مگر باوجود میری ان دعاؤں کے میرے خدا نے مجھے ہر میدان میں فتح دی.پس یہ مت خیال کرو کہ کسی قسم کا حملہ چاہے وہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے.اگر تم سچے مومن ہو تو کوئی حملہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا اور دشمن خواہ کسی راہ سے آئے وہ دیکھے گا کہ خدا کے فرشتے ہماری راہ میں کھڑے ہیں اور ان کی تلواروں کا مقابلہ کرنے کی وہ اپنے اندر تاب نہیں رکھتا.آج ہی جب کہ میں تازہ فتنوں کے متعلق غور کر رہا اور ان کے مقابلہ کی تجاویز سوچ رہا تھا تو خدا تعالیٰ نے علوم کا ایک دریا مجھے عطا فرمایا اور ایسا وسیع علم دیا جو میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھا اور ان میں سمجھتا ہوں اگر دشمن نے ہمارا مقابلہ کیا تو خدا تعالیٰ کی کتاب اُس کے منہ پر ایسا تھپڑ مارے گی کہ اُس کے دانت توڑ کر رکھ دے گی اور وہی حملے جو وہ ہم پر کرنا چاہتا ہے، اُس کی اپنی ہلاکت اور بربادی کا
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء موجب بن جائیں گے.لیکن مومن کبھی پہلے حملہ نہیں کرتا وہ انتظار کرتا ہے کہ دشمن حملہ کرے.اور دشمن اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ بزدل ہے مگر وہ انتظار کرتا ہے اور انتظار کرتا چلا جاتا ہے تا کہ انتہائی کوشش جو اس کے ایمان کے بچاؤ کیلئے کی جاسکتی ہے وہ کر لی جائے اور اس کیلئے کسی قسم کے عذر کا موقع باقی نہ رہے.اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو اس کی ذمہ داری خود اس پر عائد ہوتی ہے کسی اور پر عائد نہیں ہوتی.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اُڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے گا.مبرهن : دلیل سے ثابت کیا ہوا.ثابت.مضبوط ٢ البقرة ٢٣:٢ البقرة: ۴ البقرة: ۴ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۷۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ك البقرة : البقرة : ۵ البقرة : 10 الاحزاب : ١٢ الفضل ۹ جولائی ۱۹۳۷ ء )
خطبات محمود ۲۰۴ سال ۱۹۳۷ء فتنوں کا دروازہ بند کرنے کے اصول (فرموده ۲ جولائی ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اس وقت جو فتنہ جماعت کے سامنے ہے قدرتی طور پر جماعت کے دوستوں کی طبائع میں اس کے متعلق ہیجان ہے.بعض طبائع اپنے اخلاص اور تقویٰ کی وجہ سے اس بات پر حیران ہیں کہ یہ لوگ جو ی بظاہر احمدیت کی خدمت کر رہے تھے کس طرح احمدیت کے فوائد کے مخالف کھڑے ہو گئے اور کیونکر وہ ان اس ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کی امید جماعت کے دوست ان پر رکھتے تھے.بعض طبائع ہیں جو اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں ان میں سے بعض کے حالات پہلے معلوم تھے اور ان کی بناء پر وہ یہ امید رکھتے تھے کہ کسی نہ کسی دن یہ لوگ ٹھو کر کھا جائیں گے.بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس فکر اور خیال میں پڑے ہیں کہ ان لوگوں کو جماعت سے خارج کرنا دوسرے لوگوں کیلئے ٹھوکر کا موجب تو نہیں ہوگا اور کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ان کے مقابلہ میں کچھ نرمی کی جاتی اور ان کو تو بہ کا موقع دیا جاتا.غرض مختلف قسم کے خیالات ہیں جو جماعت میں پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر حصہ جماعت کا وہی ہے جو سمجھتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کا اخراج بہر حال جماعت کیلئے مفید ہے اور یہ کہ رہے ہیں کہ گوی ان لوگوں نے جماعت کی امیدوں کے خلاف نمونہ دکھایا ہے مگر جب ان کا نمونہ ظاہر ہو گیا تو ان کے کی خلاف اس قسم کا سلوک ضروری تھا اور اگر کوئی اور بھی ایسے لوگ ہوں تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے.جماعت کی طرف سے کثرت کے ساتھ اس قسم کے پیغام آئے ہیں کہ یہ وقت ہے کہ اگر اور کوئی
خطبات محمود ۲۰۵ سال ۱۹۳۷ء یسے لوگ ہوں تو ان کو بھی خارج کر دیا جائے اور اس پھوڑے کو لمبے عرصے تک نہ پکنے دیا جائے.جو لوگ ان لوگوں کی طرف سے بعض باتیں ایسی جانتے ہیں جو ان کی نگاہ میں انہیں سلسلہ کے مناسب حال قرار نہ دیتی تھیں، وہ اس نقطہ نگاہ سے مطمئن بھی ہیں کہ ہم پہلے ہی جانتے تھے یہ نکل جائیں گے.تیسرا گر وہ جو با وجودا خلاص کے بوجہ نرم طبیعت یا بوجہ اپنی منافقت کے ان سے ہمدردی رکھتا ہے یہ کہتا ہے کہ کیوں نہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا گیا جس سے یہ نتیجہ نکلتا اور یہ لوگ رُک جاتے.ان میں سے ایک حصہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، مخلص لوگوں کا ہے.وہ اپنی افتاد طبیعت کی وجہ سے ایسے خیالات ظاہر کرنے پر مجبور ہے.بعض طبائع قدرتی طور پر ایسی نرم اور ڈرپوک ہوتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں نہ معلوم کیا ہو جائے گا.بسا اوقات ان کی یہ رائے بوجہ ناواقفیت کے ہوتی ہے.وہ حالات کی اہمیت کو نہیں جانتے ہوتے.اور نہیں جانتے کہ سوائے اس رستہ کے جو اختیار کیا گیا کوئی اور باقی ہی نہ تھا.لیکن ایک حصہ ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جن کی طبیعت میں شبہ اور شک ہوتا ہے.وہ شک میں ہی پیدا ہوتے ہیں ، شک میں ہی جوان ، اور پھر شک میں ہی بوڑھے اور شک میں ہی مرجاتے ہیں.ایسے لوگ اگر شادی کیلئے آپ سے مشورہ کرنا چاہیں اور جو حالات وہ بیان کریں ان سے پتہ لگے کہ سوائے شادی کرنے کے ان کے لئے کوئی چارہ کا رہی نہیں اور سوائے اس رشتہ کے جو اُن کے سامنے ہے اور کوئی رشتہ اُن کو مل ہی نہیں سکتا ہے اور آپ کہہ دیں کہ بہت اچھا شادی کر لیں تو یہ فقرہ سنتے ہیں ان کی طبیعت بدل جائے گی اور وہ کہنا ہی شروع کر دیں گے کہ جی اس میں فلاں خطرہ بھی تو ہے، فلاں نقصان کا بھی تو احتمال ہے اور ان کی یہ باتیں سن کر اگر آپ خیال کریں کہ شاید میں نے ان کے حالات سمجھنے میں غلطی کی ہے اور وہ کہہ دیں کہ اچھا آپ وہاں شادی نہ کریں تو وہ معا کہیں گے کہ جی! آپ نے میری یہ مجبوری تو سنی ہی نہیں اور فلاں معذوری پر غور ہی نہیں کیا، ان کے ہوتے ہوئے میں رشتہ سے انکار کیونکر کر سکتا ہوں.گویا جب بھی آپ کی کوئی رائے ظاہر کریں وہ جھٹ اس کے الٹ ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں شک پیدا کیا ہوتا ہے.وہ شک میں ہی زندگی بسر کرتے اور شک میں ہی مر جاتے ہیں اور ایسی مشکوک طبائع کا کوئی علاج نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ان کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمز ور طبیعت کی وجہ سے ان کو ایمان سے محروم نہ کر دے.منافق طبع ان ایمانداروں کے پردے کے پیچھے لڑتے ہیں اور جب بعض مومن بھی ایسی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ منافق کو ایسی باتوں کیلئے
خطبات محمود ۲۰۶ سال ۱۹۳۷ء منافق کہہ سکے.یہ کمز ور طبع لوگ گو یا منافقوں کے امام ہوتے ہیں.الْإِمَامُ جُنةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ منافق کیلئے یہ ڈھال کا کام دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے کوئی کسی منافق پر اعتراض نہیں کر سکتا.یہ لوگ اپنی بدقسمتی کی وجہ سے منافق کیلئے ڈھال بن جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی لوگ فتنوں کولمبا کرنے کا موجب ہوا کرتے ہیں.بظاہر یہ نرم دل اور رحم دل مصلح سمجھے جاتے ہیں.حالانکہ یہ ان کی کمزوری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے میں نے بار ہاسنا ہے اور سینکڑوں صحابہ ابھی ہم میں ایسے زندہ ہیں جنہوں نے سنا ہوگا کہ آپ فرمایا کرتے تھے بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی طبیعت کی افتاد کی وجہ سے کوئی صحیح طریق اختیار نہیں کر سکتیں.باوجود اپنی نیک نیتی اور نیک ارادوں کے آپ فرما یا کرتے تھے کہ ایک شخص تھا اُس نے کسی دوست سے کہا کہ میری لڑکی کیلئے کوئی رشتہ تلاش کرو.کچھ روز کے بعد اُس کا دوست آیا اور کہا میں نے موزوں رشتہ تلاش کر لیا ہے.اُس نے پوچھا لڑکے کی کیا تعریف ہے؟ وہ کہنے لگا لڑکا بڑا ہی شریف اور بھلا مانس ہے.اس نے کہا کوئی اور حالات اس کے بیان کرو.اس نے جواب دیا بس جی اور حالات کیا ہیں، بے انتہا بھلا مانس ہے.پھر اس نے کہا کہ کوئی اور بات اس کی بتاؤ.اس نے جواب دیا کہ اور کیا بتاؤں بس کہ جود یا کہ وہ انتہا درجہ کا بھلا مانس ہے.اس پر لڑ کی والے نے کہا میں اس سے رشتہ نہیں کر سکتا جس کی تعریف سوائے بھلا مانس ہونے کے اور ہے ہی نہیں.کل کو اگر کوئی میری لڑکی کو ہی لے جائے تو وہ اپنی بھلا مانسی میں ہی پچر کا بیٹھا رہے گا.تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں صرف بھلے مانسی ہی ہوتی ہے، غیرت اور دین کا جوش نہیں پایا جاتا.وہ بوجہ نیک نیت ہونے کے مومن تو ضرور کہلاتے ہیں مگر ان کی بھلے مانسی خودان کے لئے اور جماعت کیلئے بھی مُضر پڑا کرتی ہے.ان مختلف الخیال لوگوں میں سے جن میں سے پہلے خیال کے لوگ جماعت میں بہت زیادہ ہیں اور جن کی طرف سے درخواستیں آرہی ہیں کہ ایسے لوگ اگر جماعت میں اور بھی ہوں تو ان کو بھی نکال دیا جائے ، ان کو میں مطلع کرتا ہوں کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میں ایسے سب لوگوں کو جن کا جرم ثابت ہو نکالتا جاؤں گا اب ان پر رحم کرنا جماعت کے ساتھ دشمنی ہے مگر ایسے لوگوں کے خلاف ثبوت ضرور چاہئے.وہ دوست جو مجھے ایسے مشورے لکھ کر بھیجتے ہیں انہیں چاہئے کہ ایسے امور مجھ تک پہنچا ئیں.ثبوت کے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا کیونکہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی.
خطبات محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۷ء ساری برکت خدا تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی اطاعت میں ہے.ہاں اگر مجھے ثبوت مل جائے تو امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا کہ اس کے اور اس کے رسول کیلئے نڈر ہو کر میں ان کو قربان کر دوں اور ذرا بھی پرواہ نہ کروں.اس فتنہ کے متعلق جو تفاصیل ظاہر ہو رہی ہیں ان پر سلسلہ کے علماء تقریر میں کر رہے اور مضامین لکھ رہے ہیں.یہ کام بھی اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور جماعت کے علماء کا فرض ہونا چاہئے کہ اس قسم کے فتنوں کی ہوا پاتے ہی مقابلے کے لئے تیار ہو جائیں.کیونکہ یہ سلسلہ نہ میرا ہے اور نہ ان کا ، یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اور خدا کا ہونے کے لحاظ سے ہم سب کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں.اس کے خدائی سلسلہ ہونے کا ثبوت اس کثرت اور تواتر سے ہمارے سامنے آچکا ہے کہ وہ جس نے احمدیت کو سوچ سمجھ کر مانا ہے اپنے رشتہ داروں کی خاطر نہیں ، یا وہ احمدی والدین کا غافل بچہ نہیں ، اس کے سامنے اس کے لاکھوں ثبوت ہیں کہ یہ خدائی سلسلہ ہے اور اسی کے ہاتھوں سے چل رہا ہے.انسانوں نے لاکھوں کوششیں اسے مٹانے کی کیس مگر خدا نے اسے مٹانے سے انکار کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ يُرِيدُونَ اَنْ لَّا يَتِمَّ اَمْرُكَ وَاللهُ يَأْبَى إِلَّا اَنْ يُتِمَّ اَمْرَكَ ل يعنى لوگ آئے اور چاہا کہ تیرے اس سلسلہ کو مٹادیں مگر خدا نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور وہ اس کام کو ضرور پورا کرے گا.پس ہم نے اپنی جانوں میں ، اپنے دوستوں میں ، اپنے محلہ والوں ، گاؤں والوں کی جانوں میں اور ساری دنیا کے نفوس میں اور زمین میں اور آسمان میں ایسے تواتر سے نشان دیکھے ہیں کہ شیطان ہی ان کا انکار کر سکتا ہے.یا پھر وہ ازلی نابینا جسے سچائی نظر ہی نہیں آسکتی.ہم نے صرف و ہی نشان نہیں دیکھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر ہوئے بلکہ وہ بھی جو ہمارے لئے اور ہمارے دوستوں کیلئے ظاہر ہوئے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے ہم کسی تر ڈ دیا شک میں نہیں پڑ سکتے ہمیں جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ اسی ایمان کی وجہ سے ہے جو ہمیں اپنے خدا پر حاصل ہے.دشمن اس چیز کیلئے لڑتا ہے جس پر اسے یقین نہیں لیکن ہم اُس چیز کیلئے لڑتے ہیں جو ہمیں سورج سے بھی زیادہ نمایاں نظر آتی ہے.یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ہمارے ساتھ لڑنے لگتا ہے تو اُس کا دل کا نپتا ہے مگر جب ہم لڑنے لگتے ہیں تو ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے گرنے لگے تو خدا تعالیٰ خود کھڑا کر دے گا اور اُس کی تائید ہمیں قوت اور طاقت عطا کر دے گی.
خطبات محمود ۲۰۸ سال ۱۹۳۷ء بچہ اپنی ماں کی گود میں دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی دھمکی دیتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس کی ماں ہی سب سے بڑی ہوتی ہے اور ہم تو ہیں ہی اُس کی گود میں جس سے بڑا فی الواقعہ کوئی نہیں.پس ہم اور کس طرح کسی سے ڈر سکتے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے آنحضرت ما حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل زمین و آسمان ہماری خدمت کیلئے لگا دیئے گئے ہیں اور کوئی دنیوی چیز ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی.دنیا میں سب سے زیادہ تباہ کن چیز آگ ہی ہے مگر خدا تعالیٰ کے کلام میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اس سے ظاہر ہے کہ آگ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی نہیں بلکہ حضور کے غلاموں کی بھی غلام ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صرف تو ہی ابرا ہیمی نہیں بلکہ ابراہیمی نور تیری جماعت کے اندر بھی داخل کیا گیا ہے اور وہ بھی ظلمی طور پر ابراہیم ہوگئی ہے.پھر یہ نشانات کا سلسلہ بند نہیں ہو گیا بلکہ اب بھی اس کثرت اور تواتر سے جاری ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ فتنہ آج ظاہر ہوا ہے مگر قبل از وقت دُور دراز علاقوں میں احمدیوں کو ایسی خوا ہیں آنی شروع ہوگئی تھیں.میں سندھ میں تھا کہ ڈیرہ دون یا منصوری سے ایک دوست کی چٹھی آئی جس میں ایک خواب درج تھی اُس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں تا کہ آپ کا لیکچر سنیں.جس کے معنے یہ تھے کہ قریب کے زمانہ میں مجھے دین اسلام اور سلسلہ کی حفاظت کیلئے بولنا پڑے گا اور گویا اُس وقت ان دونوں کی روحیں میری مدد کیلئے نازل ہوں گی.پھر ایک اور دوست کی سینکڑوں میل سے پکھی آئی تھی ان کے رویا کو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا مگر تفصیلاً نہیں کیونکہ مصلحت نہ تھی.انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھا آنحضرت علیہ، حضرت مسیح صلى الله نے موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ ہیں اور جماعت کے بعض دوست بھی ساتھ ہیں.آنحضرت می سب کو کھڑا کیا اور فرمایا کیا میں نے جتا سہ سے پناہ مانگنے کیلئے نہیں کہا تھا (جستا سہ دجال ہی کا ایک نام ہے کہ جس کا احادیث میں ذکر ہے ).پھر آپ فرماتے ہیں کہ سب کہو ہاں آپ نے فرمایا تھا.جتا سہ اسے کہتے ہیں جو تجس کر کے عیب نکالتا ہے.پھر میں نے اپنے اپریل ۱۹۳۷ء کے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ میری ہمشیرہ عزیزہ مبارکہ بیگم
خطبات محمود ۲۰۹ سال ۱۹۳۷ء نے ایک رؤیا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک تخت پر کھڑے ہیں جو کانپ رہا ہے اور آپ لوگوں سے فرما رہے ہیں کہ پندرہ میں روز یہ دعا کرو ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ.کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کے موجودہ طریق کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بعض وہ لوگ جو جماعت کو دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.کیونکہ آپ نے فرمایا کہ دعا کر والے اللہ ! ہمیں اس ہدایت پر قائم رکھ اور بہکانے والوں سے بچا.۴/جنوری ۱۹۳۵ء کے خطبہ میں میں نے اپنا ایک رؤیا بیان کیا تھا جو ”الفضل میں چھپ چکا ہے اور جو اس طرح ہے کہ میں نے دیکھا ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں.میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں.وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں.جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہوا کہ انہوں نے یہ شرط با ندھی ہے کہ جو جیت جائے گا خلافت کے متعلق اُس کا خیال قائم کیا جائے گا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہوگا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہوگا.بہر حال جب میں نے یہ بات سنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو ای کبڈی کھیلنے کیلئے بنائے جاتے ہیں مٹا دیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل نا جائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ اکثریت پہلے صرف تلعب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتا ہے اور خلیفہ کی تعیین کرتا ہے مگر میرے دخل دینے پر پہلے جو لوگ خلافت کے مؤید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا.نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ دو سو.اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خونریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتا اس لئے آؤ ہم ان پر حملہ کرتے ہیں.وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے.مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہتھیار تھے یا نہیں.بہر حال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی زخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے.اب مجھے خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ
خطبات محمود ۲۱۰ سال ۱۹۳۷ء گئے ہیں.ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے اور اگر یہاں کھڑے رہتے ہیں تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں، ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پشت سے آکر ہم پر حملہ کر دیں گے.پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں.کی میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگر چہ یہ یاد نہیں کہ کونسی ہیں اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اب وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا.میں نے اسے کہا کہ تم نے یہ کیا غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کر لی.مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے.مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیا.مگر جواب میں اُس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا.اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور کی ایسا معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں.میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیں.ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہو رہی ہے تو وہ آپ کی مدد کیلئے آئے ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں کے ساتھ فریب کیا گیا ہے.انہیں کسی نے اشارہ کر دیا ہے کہ اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں.مجھے کوئی مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہوں گے کہ ہماری مدد کر سکیں.چنانچہ میں نیچے اترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جائیں.تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو بہ حفاظت لے آؤ.اس پر وہ جاتے ہیں اور اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اترتے ہیں پھر عورتیں لیکن میرالر کا انور احمد نہیں آیا.پھر ایک شخص آیا اور میں نے اُسے کہا کہ انور احمد کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ بھی آ گیا ہے.پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے.چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں.ان جمع ہونے والے لوگوں میں سے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے.ان کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی.اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہوکر ذلیل ہو جاؤ گے.کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور
خطبات محمود ۲۱۱ سال ۱۹۳۷ء یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ وار ہو گے.اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں مگر دوسرے پھر ان کو ورغلا دیتے ہیں اور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اس فتنہ کی جو خلافت کے متعلق اٹھایا جانے والا تھا ، اطلاع دے دی تھی.مگر یہ پرانے خواب ہیں.میں ایک تازہ خواب سناتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت ایک رنگ میں چل رہی ہے.مصری صاحب کے اعلان کے بعد پانچ دن کی بات ہے یعنی اتوار اور ہفتہ کی درمیانی شب کی کہ میں جاگ رہا تھا اور گائی طور پر بیدا ر تھا کہ یکدم ربودگی کی حالت طاری ہوئی اور الہی تصرف کے ماتحت کچھ فقرے میرے دماغ پر نازل ہونے شروع ہوئے.پہلے ایک دو تو جلدی اوی گزر گئے مگر تیسرا یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور بے اختیار زبان سے نکلا مبارک ہو، مبارک ہو اور میرے دل پر یہ اثر ہے کہ یہ مبارک ہو، مبارک ہو میرے نفس کی طرف سے ہے اور پہلا حصہ الہامی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کی رُوح اس فتنہ کو دبانے کیلئے آ رہی ہے.اس کی کے بعد میں سو گیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دشمن نے مجھ پر حملہ کیا ہے اور میں نے اُس کا گلا گھونٹ دیا ہے اور وہ بیہوش ہو کر گر گیا ہے.یہ معلوم نہیں مر گیا ہے یا زندہ ہے.پھر تیسرا نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ کوئی شخص ہمارے مکان میں کھس آیا ہے اور میں اُسے پکڑنے کیلئے اُٹھا ہوں.مگر میری تو آنکھوں پر کنٹوپ پڑا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہ ہو وہ مجھ پر حملہ کر دے کیونکہ میری آنکھوں پر تو کنٹوپ ہے.اس پر میں نے کنٹوپ اُتارنا شروع کیا حتی کہ میری آنکھیں بالکل ننگی ہوگئیں.مگر اتنے میں وہ بھاگ گیا.اس میں بتایا گیا ہے کہ ابھی کچھ مخفی مخالف ہیں اور ۱۹۳۵ ء والے رویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بعض مخالف بلوں میں چُھپ جائیں گے اور بعض کے زخمی ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ظاہر ہو جائیں گے.بہر حال وہ چھپ جائیں یا ظاہر ہوں ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کا وعدہ ہے.ہمارا خدا دیکھنے والا ہے وہ اگر چھپیں بھی تو کہاں چُھپ سکتے ہیں.انہیں ظاہر کرا کے یا تو وہ انہیں ہمارے ہاتھوں سے سزا دے گا یا اندر ہی اندر طاعون کے چوہوں کی طرح انہیں مار دے گا اور کسی کو پتہ تک نہیں ہو گا.سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے.وہ اگر چاہے تو ان کے ایمانوں کو سلب کر لے ، ان پر روحانی موت وارد کر دے اور وہ خود ہی بیعت توڑنے کا اعلان کر دیں یا ان کو ذلت دے کر ضرر پہنچانے کے
خطبات محمود ۲۱۲ سال ۱۹۳۷ء کے قابل ہی نہ رہنے دے.غرضیکہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے.بہر حال یہ فتنہ ایک تو عارضی اور مقامی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقابلہ ہمارے علماء کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب تک ان کو کرنا پڑے گا.مگر ہر عارضی اور مقامی فساد کا ایک حصہ مستقل بھی ہوتا ہے.مثلاً کھانسی ہے جب بھی کسی کو کھانسی ہو یہ خیال نہیں کر لینا چاہئے کہ گلے کی سوزش سے ہے بلکہ بعض اوقات جسم کی بناوٹ میں ہی کوئی ایسا نقص ہوتا ہے جس سے کھانسی دور نہیں ہوتی.پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس فتنہ کا کوئی مستقل اور وسیع پہلو بھی ہے یا نہیں اور اگر کوئی ہو تو اس کا بھی علاج کرنا چاہئے.جس طرح کسی شخص کے مکان کی چھت ٹپکے تو اس کا عارضی علاج تو یہ ہے کہ نیچے بالٹیاں رکھ دی جائیں اور سامان وہاں سے ہٹا لیا جائے یا پھر چھت پر مٹی ڈال دی جائے.مگر بعض اوقات بعض کڑیاں نی ہی گل چکی ہوتی ہیں اور چوہوں نے چھت کے اندر ایسے سوراخ بنالئے ہوتے ہیں جو او پر مٹی ڈالنے سے بند نہیں ہو سکتے اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ چھت کو درست کیا جائے.اسی طرح اس فتنہ کے متعلق بھی چاہئے کہ ہم وسیع نظر ڈالیں اور حقیقی مرض کو معلوم کر کے اس کا علاج کریں اور میں چاہتا ہوں کہ اس کا جو وسیع اور مستقل سبب ہو سکتا ہے اس پر بھی نظر ڈالوں تا جو مخلص دوست چاہتے ہیں کہ اس قسم کی خرابیاں پیدا نہ ہوں اس پر غور کر کے انہیں دور کرنے کیلئے تعاون کریں.شریعت کے کئی احکامات ایسے ہوتے ہیں جن کی تفاصیل سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں اور ان پر جب عمل کرتے ہیں تو بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے اور ی پھر کہتے ہیں کہ شریعت کے احکام میں نقص ہے.ہمارا صرف یہی فرض نہیں کہ بتائیں شریعت کا یہ حکم ہے بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تفاصیل میں جائیں اور بتائیں کہ اور کیا احتیاطیں شریعت نے بتائی ہیں.اگر ان سے واقف نہ کریں تو لوگ اس حکم کو غلط سمجھیں گے اور شریعت پر ان کو حسن ظن نہ رہے گی.پس چیزوں کی حکمت کے ساتھ ان کی پیچیدگیاں بھی بیان کرنی ضروری ہیں اور علماء کا سب سے بڑا کام یہی ہے.قرآن کریم نے علماء کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ كُونُوا رَبَّانِینَ یعنی تم کو مبلغ اور عالم ہی نہیں بلکہ ربانی بننا چاہئے.یعنی ہر چیز کی ادنی سے لے کر اعلیٰ تک پیچیدگیاں ، خطرات ، اس کی خوبیاں اور نقصانات بیان کرو تا لوگوں کو روزِ روشن کی طرح معلوم ہو سکے کہ شریعت کا یہ منشا ہے.مثلاً قرآن کریم نے لین دین کے متعلق کھول کھول کر احکام بیان کئے ہیں مگر ہماری جماعت کے نوے فیصدی لوگ ان تمام تفاصیل سے واقف نہیں ہیں اور یہ علماء کا فرض ہے کہ ان کو واقف کریں تا وہ دیکھ سکیں کہ قرآن کریم کے
خطبات محمود ۲۱۳ سال ۱۹۳۷ء خلاف عمل کر رہے ہیں یا اس کے مطابق.پس ایسے فتنوں کے مستقل اور حقیقی اسباب کے متعلق میں جو کچھ بیان کروں گا جماعت کے علماء کو چاہئے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر اسے جماعت کے افراد کے اچھی طرح ذہن نشین کریں.یہ مت خیال کرو کہ میرے سامنے اس وقت ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں اور میں جو کہوں گا اسے خود ہی سن لیں گے.ان میں سے کچھ تو سورہے ہیں.پھر یہ خیال مت کرو کہ جو جاگتے ہیں وہ سب سنتے ہیں.کئی ایک سوچ رہے ہوں گے کہ میں اپنے بیمار بچے کو چھوڑ کر آیا ہوں ، خطبہ جلدی ختم ہو تو میں اسے جا کر دوائی دوں، کئی سوچتے ہوں گے کہ آج فلاں فصل کو گوڈی کرنی ہے یا فلاں کھیت میں ہل چلانا ہے یہاں سے جاؤں تو جا کر یہ کام کروں.پس یہاں مختلف خیالات کے لوگ آ بیٹھے ہیں.پھر کافی لوگ ایسے ہیں جو جاگتے تو ہیں مگر روحانی طور پر سوتے ہیں.پھر جو توجہ سے سن بھی رہے ہیں وہ سب کے سب اس قابل نہیں کہ بات کو سمجھ سکیں یا توجہ دے سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور وفات مسیح ، آمد مسیح اور نبوت وغیرہ مسائل پر بہت سے لیکچر دیئے.مجھے یہ اس وقت یاد نہیں کہ یہ لیکچر روزانہ ہوتے تھے یا ہفتہ میں تین دن یا ہفتہ وار.مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ نے بہت سے لیکچر دیئے.ایک دن ایک عورت سے آپ نے دریافت فرمایا کہ تم لیکچروں میں شامل ہوتی ہو یا نہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں شامل ہوتی ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں نے کیا بیان کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ بس یہی نماز روزہ کی باتیں ہوتی ہیں اور کیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سلسلہ بند کر دیا.تو بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بات کو سُن کر بھی نہیں سمجھ سکتیں.وہ بڑی مخلص عورت تھی مگر جب آپ تقریر کرتے وہ سُبحَانَ اللهِ ، واری جاواں صدقے جاواں ہی کرتی رہتی.وہ اپنے اخلاص میں کی یہی دیکھتی رہتی کہ خدا کا مسیح با تیں کر رہا ہے.آگے یہ کہ بات کیا ہے اس کے متعلق جاننے کی اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی اور سمجھ لیا کہ بس روزے نماز کی باتیں ہی ہوں گی کوئی چوری وغیرہ کی باتیں تو ہوں گی نہیں.اس طرح مردوں میں بھی ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو میری باتوں پر سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ ہی کہتا رہتا ہے اور بجائے سمجھنے کے یہی کہتا جاتا ہے کہ کیا اچھی بات کی ہے، خلیفہ امی جو ہوئے.ایسے لوگ محتاج ہوتے ہیں کہ انفرادی طور پر انہیں سامنے بٹھا کر بات ان کے ذہن نشین کرائی ہے ،
خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱۹۳۷ء جائے.پھر سننے والوں میں ایک حصہ ”سترے بہترے لوگوں کا ہے جو بات کو سمجھ سکتے ہی نہیں.کچھ حصہ بچوں کا ہے جو ا بھی اس عمر کو ہی نہیں پہنچے کہ سمجھ سکیں.ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ سننے کے بعد بات کو سمجھ سکتے ہیں.ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو بوجہ حافظہ کمزور ہونے کے مسجد سے نکلتے ہی بات کو بھول جاتے ہیں.اگر آجکل کے لیکچروں میں شامل ہوتے ہیں تو باہر جا کر کہتے ہیں کی کہ میر صاحب نے بہت اچھا لیکچر دیا.کوئی پوچھے کیا تھا ؟ تو کہیں گے یاد تو نہیں مگر تھا بہت اعلیٰ.کوئی کہے گا کہ آپ کو اطلاع ملی ہو گی آج مولوی ابوالعطاء صاحب کا لیکچر بہت اعلیٰ تھا.آگے پوچھا جائے کیا تھا! تو والعطاءصاحب بس جواب ہوگا کہ یاد نہیں.وہ مسجد سے نکلتے ہی بھول جاتے ہیں.صرف ان کے دماغ پر اتنا اثر رہتا ہے کہ بات بڑی اچھی تھی.ایسے طبقہ کے سامنے جب تک دس میں دفعہ ایک بات کو دُہرایا نہ جائے اُن کے ذہن نشین ہو ہی نہیں سکتی.ہمارے ہاں ایک خادمہ تھی وہ بڑی عمر میں آئی تھی.حضرت اماں جان نے کی اُسے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھا کرو.کہنے لگی مجھے یاد نہیں رہتا.آپ نے فرمایا کوشش کر و آخر اس نے پڑھنا شروع کیا.ایک آدھ جملہ سبق لیتی اور پھر اُسے سارا دن رہتی رہتی.اس طرح دس پندرہ سال میں اس نے سیپارہ ڈیڑھ سیپارہ پڑھا.ایک دن ہم نے دیکھا کہ وہ کام کرتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ جا بھانوں آبہناں.جا بھانوں آبہنا.اُس سے دریافت کیا گیا کہ یہ کیا کہتی ہو؟ تو کہنے لگی قرآن کی شریف کا سبق یاد کرتی ہوں.اسے کہا گیا یہ تو قرآن شریف میں نہیں ہے.کہنے لگی ہے کیوں نہیں ، مجھے فلاں عورت بتا کر گئی ہے اور جب پڑھانے والے سے پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ میں تو اسے يَعْلَمُ مَا بَيْنَ بتا آئی تھی.تو کئی دماغ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سنتے کچھ ہیں اور یا دان کو کچھ ہوتا ہے.ان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ خطبہ سن چکے ہیں، اس لئے علماء کی ذمہ داری پوری ہو چکی ہے غلط ہے.جب تک علماء جو خلیفہ کے بازو اور کان ہوتے ہیں، اُس کے ساتھ پورا پورا تعاون نہ کریں ان کا فرض ادا نہیں ہوتا.علماء سے کی میری مرا دصرف مبلغ ہی نہیں بلکہ وہ طبقہ بھی علماء میں شامل ہے جو بات کو سمجھ سکتا اور یاد رکھ سکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا " کہ خدا سے ڈرنے والے علماء ہیں.پس ہر مومن جو دین کا درد اور سلسلہ سے اخلاص رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا سلسلہ
خطبات محمود ۲۱۵ سال ۱۹۳۷ء نیک نامی کے ساتھ دنیا میں قائم رہے اور اسلام کو وہی عزت پھر حاصل ہو جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئی تھی اور اس کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوششیں باطل اور رائیگاں نہ جائیں اس کا فرض ہے کہ خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ جائے کہ ذہنی طور پر بھی جماعت کی اصلاح ہو جائے.ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ جس طرح شادی کے موقع پر لوگ اپنی جھولیاں پھیلا دیتے ہی ہیں کہ ان میں چھوہارے گریں اسی طرح جب خلیفہ جماعت کی اصلاح کیلئے کچھ کہے تو اسے لیں اور افراد جماعت کے سامنے اسے دُہرائیں اور دُہرائیں اور دُہرائیں حتی کہ گند ذہن سے گند ذہن آدمی بھی سمجھ جائے اور دین پر صحیح طور پر چلنے کیلئے رستہ پالے.میں نے علماء کو پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور ان میں خوشی کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ ایک مثال ایسی ہے کہ جس نے اس طرف توجہ کی اور وہ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل ہیں جو گرلز سکول میں پڑھاتے ہیں.انہوں نے ان مسائل کو بار بار اور عمدگی کے ساتھ طالبات کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے.پس اس مضمون کے شروع کرنے سے قبل کہ اس قسم کے فتنوں کے وسیع اور مستقل اسباب کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ ہر سمجھدار اور دیانت دار اور مومن جو سمجھنے سمجھانے کی قابلیت رکھتا ہے، اپنے آپ کو تیار کرے کہ اسے سن کر اور سمجھ کر دوسروں کو سمجھائے.بعض چھوٹے چھوٹے اصول دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو انسانی اعمال پر بہت لمبا اثر ڈالتے ہیں.لوگ ای خیال کرتے ہیں کہ ہر فرد کا ہر فعل منفردانہ حیثیت رکھتا ہے.مثلاً کوئی شخص چوری کرتا ہے تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس نے مال دیکھا اور لالچ میں آگیا.حالانکہ بسا اوقات وہ چوری نتیجہ ہوتی ہے ان اثرات کا جو بچپن یا جوانی میں پڑے ہوتے ہیں.وہ منفرد فعل نہیں ہوتا بلکہ بیماری ہوتی ہے جو اندر ہی اندر ترقی کر رہی ہوتی ہے اور آخر ایک دن گرفتار کرا دیتی ہے.بعض لوگ جھوٹ بولتے ہیں.لوگ کہتے ہیں اسے عادت ہے یا بیچارا ایسی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے کہ اس کے سوا چارہ نہیں تھا.حالانکہ وہ ایسے اثر کے ماتحت جھوٹ بول رہا ہوتا ہے جو بچپن یا جوانی میں اس پر پڑا تھا.پس جب تک ہر مربی اس نکتہ کو نہ سمجھ لے کہ بعض اصول انسانی افکار کو بدل دیتے ہیں لاکھ سمجھاؤ دوسرے کی سمجھ میں بات آہی نہیں سکتی.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انفرادی طور پر سمجھا نا کسی کام نہیں آتا جب تک اس کے مطابق ماحول میں بھی تبدیلی نہ کی جائے.اس کے بغیر عارضی طور پر تو اصلاح ہو جاتی ہے مگر اس عارضی نصیحت کا اثر دور ہوتے ہی
خطبات محمود ۲۱۶ سال ۱۹۳۷ء ہی پھر وہی حالت ہو جاتی ہے.میں اس بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں.بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے ایک ہوائی بندوق لے دی اور میں چند اور بچوں کے ساتھ موضع ناتھ پور کی طرف شکار کرنے چلا گیا.کھیتوں میں ایک سکھ لڑکا ہمیں ملا اور کہنے لگا یہ کیا ہے ؟ ہم نے بتایا کہ بندوق ہے.وہ پوچھنے لگا اس سے کیا کرتے ہو؟ ہم نے بتایا کہ شکار مارتے ہیں.اس نے کہا کچھ کی مارا بھی ہے.ہم نے کہا ہاں ایک فاختہ ماری ہے.وہ کہنے لگا ہمارے گاؤں میں چلو وہاں بہت سی فاختائیں ملیں گی جو بیر یوں وغیرہ پر بیٹھی رہتی ہیں.ہم نے اسے کہا کہ گاؤں کے لوگ ناراض تو نہ ہوں گے؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں ناراض کیوں ہوں گے تم لوگوں نے فاختہ ہی مارنی ہے ان کو اس سے کیا.خیر وہ ہمیں ساتھ لے کر گاؤں میں پہنچا اور ایک درخت پر کچھ فاختائیں بیٹھی ہوئی دیکھ کر کہنے لگا کہ وہ ہیں مارو.میں نے بندوق چلائی اور غالبا ایک کو مار لیا.پھر وہ ہمیں آگے ایک اور درخت کے پاس لے گیا اس پر بھی فاختہ بیٹھی تھیں.وہ کہنے لگا کہ لواب ان کو مارو.اتنے میں ایک بڑھیا نکلی اور کہنے لگی کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی جیو ہتیا کے کرتے ہو.اور اپنے گاؤں کے لڑکوں کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ تم بڑے شرم ہو جو د یکھتے ہو اور منع نہیں کرتے.اس کا یہ کہنا تھا کہ وہی لڑکا جو ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا فوراً بگڑ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ہمیں کہنے لگا تم کیوں ہمارے گاؤں میں شکار کرتے ہو؟ ہمیں ساتھ لانا اس کا ایک عارضی اثر کے ماتحت تھا مگر جیو ہتیا کی مخالفت ایک پرانا اثر تھا اور اس کے رونما ہوتے ہی وہ عارضی اثر بالکل زائل ہو گیا اور قطعاً بُھول گیا کہ خود ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا.ہم آنے میں متامل تھے کہ لوگ ناراض نہ ہوں مگر اس نے ہمیں یہ یقین دلایا تھا کہ نہیں کوئی ناراض نہیں ہوگا.تو بعض مسائل کا اثر دماغ پر بہت گہرا ہوتا ہے اور جب تک دماغ کی اصلاح اس کے مطابق نہ کی جائے یا پھر جب تک اس اصل کی غلطی اس پر پوری طرح واضح نہ کر دی جائے منفر داعمال میں انسان کی اصلاح ناممکن ہوتی ہے.فرض کرو ایک شخص چوری کرتا ہے مگر کسی ایسے خیال کے ماتحت کہ وہ چوری کو جائز سمجھتا ہے.اب اس کے اس خیال کو ہم جب تک نہ تو ڑ دیں وہ چوری نہیں چھوڑے گا.یا ایک شخص کے بیوی بچے بھو کے مررہے ہیں گاؤں والے سنگدل ہیں اور اس کی کوئی مدد نہیں کرتے اس لئے وہ ان کی جان بچانے کی کیلئے چوری کرتا ہے اس کے چوری کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ چوری کو جائز سمجھتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر وہ چوری نہ کرے تو اس کے بیوی بچے بھوکوں مر جائیں.اب اگر اسے کہا جائے کہ چوری بُری چیز ہے ، خدا
خطبات محمود ۲۱۷ سال ۱۹۳۷ء اور رسول نے اس سے منع کیا ہے تو ممکن ہے عارضی طور پر اس پر کوئی اثر ہو لیکن جب وہ اپنے بیوی بچوں کو فاقے مرتا دیکھے گا چوری کیلئے تیار ہو جائے گا اور ہماری نصیحت بالکل رائیگاں جائے گی.کیونکہ ہم نے وہ اسباب تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی کہ وہ چوری کیوں کرتا ہے.اسے ہم دو طرح ہی چوری سے روک سکتے ہیں.اوّل تو اس طرح کہ اس پر ثابت کر دیں کہ فاقوں سے مرجانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ چوری یا بددیانتی کی جائے.یا پھر اس طرح کہ اس کے گھر روٹی بھیجنا شروع کر دیں.جب تک ہم یہ نہ کریں گے وہ چوری نہیں چھوڑ سکتا.تو بعض اصول ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان کی اصلاح نہ کی جائے اور نقطہ نگاہ کو نہ بدل دیا جائے اثر نہیں ہو سکتا.اور اگر ہو بھی تو عارضی ہوتا ہے جو کچھ روز کے بعد زائل ہو جاتا ہے.اب میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ کس طرح بعض خیالی اصول انسانی اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں.ہندو قوم میں بہت سے اختلاف ہیں.بعض فرقے ویدوں کو مانتے ہیں بعض نہیں.بعض گائے کا گوشت کھاتے ہیں بعض نہیں.بعض پرانوں کے کو مانتے ہیں اور بعض نہیں.بعض ذات پات کے قائل ہیں اور بعض نہیں.سادھوؤں کے بعض فرقے ذات پات کو نہیں مانتے.اسی طرح سادھوؤں کے کے بعض فرقے مُردہ کو جلاتے یا دریا میں پھینک دیتے ہیں اور بعض دفن کرتے ہیں.مگر ایک اصولی بات کی ان سب میں موجود ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ گناہ معاف نہیں کر سکتا.وہ کہتے ہیں کہ یہ گناہ خدا کا قرض ہیں جسے ادا کر کے ہی انسان نجات پاسکتا ہے اور چونکہ انسانی زندگی اتنی لمبی نہیں کہ سب قرض ادا ہو سکے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انسان جو نہیں بدلتا رہتا ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کا قرض ادا نہیں ہو جاتا اسے نجات حاصل نہیں ہو سکتی.یہ خیال ان کے اندر بہت راسخ ہے اور اسے ہی تناسخ کہتے ہیں.بظاہر یہ ایک فلسفہ ہے، ایک نظریہ ہے جسے عملی زندگی سے تعلق نہیں.لیکن اگر ہند و قوم کی عملی حالت دیکھی جائے تو وہ ہے ساری کی ساری اسی نظریہ کے ماتحت ہے.ان میں سود خوری اور پیچھے پڑ کر قرض وصول کرنا اسی کے نتیجہ میں ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جب خدا قرضہ معاف نہیں کر سکتا تو ہم کیونکر معاف کر دیں اور جس طرح خدا جونوں میں بھیجتا ہے اسی طرح باپ مر جائے تو بیٹے سے اور ، بیٹے کے بعد پوتے سے وصول کرتے ہیں.تمام ہند و قوم کا ذہنی نظریہ اسی تناسخ کے عقیدہ کے ماتحت ہے.مسلمان چونکہ ہندوؤں سے کم میل جول رکھتے ہیں اس لئے بوجہ نا واقفیت سمجھتے ہیں کہ ہند و بخیل ہوتے ہیں ، حالانکہ یہ بات نہیں.اخباروں کی
خطبات محمود ۲۱۸ سال ۱۹۳۷ء کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہند وصدقہ و خیرات کے کاموں میں مسلمانوں سے کم نہیں.کنویں بنواتے اور دوسرے رفاہ عام کے کام وہ بہت کرتے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں.مگر ایک مقروض آتا ہے اور کہتا ہے کہ لالہ جی! میرے بیوی بچے بھوکے مر رہے ہیں، مجھ پر رحم کریں اور پانچ روپیہ مجھے چھوڑ دیں میں ادا نہیں کر سکتا تو وہ انکار کر دیتا ہے.مگر اس کا یہ انکار بخل کی وجہ سے نہیں.اس کے ذہن میں یہ نظریہ ہے کہ خدا تعالیٰ بہت دینے والا ہے.اس نے ہمارے لئے سورج چاند پیدا کئے ہیں اور مفت دے دیئے ہیں.وہ دیا لو کر پالو ہے مگر قرضہ معاف نہیں کرسکتا، یہ انسان کو بہر حال ادا کرنا پڑے گا.اور یہی چیز اس کے کریکٹر میں داخل ہوگئی ہے.وہ لاکھوں روپیہ خرچ کر دے گا مگر قرض پانچ روپیہ کا بھی معاف نہیں کرے گا.اس نظریہ کے ماتحت ہندو قوم میں تجارتی ترقی ہوئی ہے.وہ بختی سے قرض وصول کرتی ہے اور چونکہ بہت سے لوگ دے نہیں سکتے اس کا قرض پھیلتا ہے اور اس طرح ساری دنیا اس کی مقروض ہوتی جاتی ہے اور اس وجہ سے تجارت پر اس کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے.اس کے برعکس مسلمان قوم کا عمل یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان سے کوئی پیسہ مانگے تو وہ کہے گا کہ جا جا کام کر ، ہم خود کھا ئیں یا تم جیسوں کو دیں.لیکن اگر کسی پر قرض ہوگا تو قرض خواہ سے کہے گا چھوڑ دو جانے دو.وہ پیسہ دینے میں بخل کرے گا مگر قرض کے معاملہ میں نہیں بلکہ کہہ دے گا چھوڑ و جانے دو، ریب آدمی ہے.کیونکہ اس کے ذہن میں بخشش کا اصل ، گھر کر چکا ہے.اور وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے.کوئی کتنا بڑا قصور کرے مسلمان کہہ دے گا جانے دو.اللہ تعالیٰ غفار ستار ہے.قوم تباہ ہو جائے ، ملک اور جماعت تباہ ہو جائے ، وہ غفار تو ، ستار تو کی رٹ لگاتا جائے گا اور یہی کہتا رہے گا کہ بس جانے دو، معمولی بات ہے.تو تناسخ کے عقیدہ نے ہندو قوم کی عملی زندگی بدل دی ہے.آج ہندو قوم تجارت پر ظا ہرا اور زراعت پر باطناً قابض ہے.سا ہو کار زیادہ تر جینی ہیں اور یہی قوم تناسخ کی زیادہ بختی سے قائل ہے.ایسے جینی عام ہندوؤں سے بھی زیادہ بھی ہوتے ہیں اور اعداد و شمار اس پر شاہد ہیں مگر وصولی میں وہ دوسروں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں.آپ غور کریں اسی قسم کا عقیدہ کسی اور قوم میں بھی پایا جاتا ہے یا نہیں اور اگر پایا جاتا ہے تو اس کی حالت کیا ہے.دنیا میں ایسی صرف ایک اور قوم ہے اور وہ یہودی قوم ہے.ان کو حکم دیا گیا تھا کہ تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان ، آنکھ کا بدلہ آنکھ ، دانت کا بدلہ دانت ، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ ، پاؤں کا بدلہ پاؤں ہوگا.
خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۷ء یعنی تمہارے لئے بدلہ لینا ضروری ہے.دیکھنا کبھی رحم نہ کرنا.چنانچہ ان کا کریکٹر بھی وہی ہے جو ہندوؤں کا ہے.بلکہ یہودیوں کی اس معاملہ میں سختی کے متعلق تو شیکسپیئر نے ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے کہ ایک یہودی نے اپنے کسی مقروض سے لکھوایا ہوا تھا کہ اگر بر وقت رو پیدا دا نہ کیا گیا تو آدھ سیر گوشت تمہارے جسم سے کاٹ لوں گا.چنانچہ جب روپیہ ادا نہ ہو سکا تو اس نے گوشت کاٹنے پر اصرار کیا.مقروض کے رشتہ دار بہت روئے ، پیٹے اور منت خوشامد کی کہ اتنا ظلم نہ کرو.مگر اس نے ایک نہ مانی اور ان اپنی بات پر مصر رہا.آخر ایک عقلمند بیچ میں آگیا اور اس نے کہا کہ اچھا گوشت کاٹ لو مگر خون کا ایک قطرہ نہ گرے.کیونکہ یہ تحریر میں نہیں ہے کہ خون بھی گرایا جائے گا اور گوشت بھی آدھا سیر سے بال بھر کم و بیش نہ ہوگا اور چونکہ یہ باتیں اس کے بس میں نہ تھیں اسے دینا پڑا.اب آجکل جس طرح ہمارے ہاں قرضہ بل اور ساہوکارہ بل بن رہے ہیں، اسی یورپ میں یہودیوں سے سختی ہورہی ہے جرمنی نے یہودیوں کو اپنے ملک سے بالکل ہی نکال دیا ہے.انگلینڈ میں بھی ایک ایسی پارٹی بن گئی ہے جو ان کے سخت خلاف ہے.اٹلی میں بھی ان پر سختی کی جارہی ہے.ہنگری اور بعض اور ممالک میں بھی یہی حالت ہے.سپین میں بھی ان پر سختی ہوئی ہے.کیونکہ جس طرح ہندوستان میں سا ہو کار معاف نہیں کر سکتا اسی طرح یورپ میں یہودیوں کا حال ہے.اور اسی نظریہ کے ماتحت یہودی قوم بھی تجارت میں ترقی کر گئی ہے.کیونکہ وہ بھی لین دین میں سختی کرتی ہے اور تجارت ایسی سختی سے ہی چل سکتی ہے خواہ یہ بختی بُری ہو.یہ دونوں قومیں جن کا نظریہ، یہ ہے کہ قرضہ معاف نہیں ہو سکتا دونوں نے تجارت میں ترقی کی ہے.ایک نے مغرب میں اور دوسرے نے مشرق میں اور دونوں کی ترقی اور تنزل اس نظریہ کی طرف منسوب ہوتا ہے.ہندوؤں نے اسی کی بدولت تجارت پر قبضہ کیا ہے اور اگر ان کے خلاف زمینداروں میں جوش ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے.اسی طرح یہود کا اگر یورپ کی سیاست پر قبضہ ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے اور اگر جرمن نے ان کو ملک سے نکال دیا ہے تو اسی کے باعث.اب ان لوگوں سے لاکھ بحث کرو کہ شو د بُری چیز ہے، تجارت میں سختی نہیں کرنی چاہئے اور اس کیلئے لاکھ دلائل دو کبھی نہیں مانیں گے.لیکن جس دن ان کے یہ بات ذہن نشین کر دو کہ اللہ میاں بھی معاف کرتا ہے اور تم بھی معافی کرو تو فوراً ان کا نظریہ بدل جائے گا.یہی حال یہود کا ہے، جرمنی لاکھ ملتے دکھائے جب تک وہ نظریہ نہ بدلے جو استثناء باب ۱۹ آیت ۲۱ کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے.اُس وقت تک ممکن نہی کہ یہودی سودیا
خطبات محمود ۲۲۰ سال ۱۹۳۷ء لین دین کے معاملہ میں سختی چھوڑ دے.کیونکہ جو عقیدہ بچپن سے دل میں ڈالا جاتا ہے اس کا اثر لازمی طور پر چاہئے.اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جن حالات میں سے جماعت گزر رہی ہے وہ بعض اصول کے ماتحت ہیں یا انفرادی ہیں اور پھر اس کے مطابق جب ہم اصلاح کی کوشش کریں گے اور ذہنیتوں کو بدل کی ڈالیں گے تو پھر ایسے فتنوں کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا.کیونکہ جب پانی پیچھے سے ہی نہیں آئے گا تو اگلے سوراخ خود بخود بند ہو جائیں گے.اس لئے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کون سے ایسے حالات ہیں جن کے ماتحت بعض لوگوں میں ایسی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں اور ان کو معلوم کر کے یا ان کی غلطی کو دور کریں.اگر ان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کریں اور اگر وہ بات محرف و مبدل ہو چکی ہو تو بھی اسے ی ٹھیک کریں.یہ تمہید چونکہ بہت لمبی ہوگئی ہے اس لئے اس مضمون کو کہ کیا چیزیں ہیں جو اس قسم کے حالات کی پیدا کرتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.میں چاہتا ہوں کہ یہ باتیں اچھی طرح آپ لوگوں کے ذہن نشین کرا دوں کہ وہ کیا کیا با تیں ہیں جو مسلمانوں اور ان سے نکلے ہوئے احمدیوں میں پیدا ہو کر ایسے فتنوں کا موجب ہوتی ہیں اور جب تک اہل علم اور سمجھدارا فرادان باتوں کو ایک ایک شخص کے ذہن نشین کرنے کیلئے تعاون نہ کریں اور کوٹ کوٹ کر ان کے دماغوں میں یہ باتیں داخل نہ کریں جسے انگریزی میں Hammering کہتے ہیں، اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا.پس ان باتوں کو سن کر بار بار لوگوں کے سامنے دہراؤ.یہاں تک کہ ایک گودن ما سے کو دن شخص کے دماغ میں بھی یہ بات بیٹھ جائے.پھر جب یہ کریکٹر بن جائے گا تو ہر شخص ان.فائدہ اٹھا سکے گا اور آئندہ نسلوں میں خود بخود یہ باتیں آتی جائیں گی کیونکہ یہی اصول ہیں جن کو بدلے بغیر ہم کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.ان کے بغیر جو اصلاح ہوگی عارضی ہو گی.لوگوں کو مجھ پر اعتماد ہے کہ جب میں نے سمجھا دیا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں.مگر یہ درست نہیں.سمجھنا ایسا آسان کام نہیں.ذہنیت میں تبدیلی بہت بڑی محنت چاہتی ہے.ہاں جب ذہنیت تبدیل ہو جائے تب بیشک حقیقی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور ایک نسل ہی نہیں کئی نسلوں کی اصلاح ہو جاتی ہے اور یہ نیکی کا سلسلہ جاری رہتا ہے حتی کہ جماعت میں پھر بگاڑ پیدا ہو جائے جسے خدا تعالیٰ کا دوسرا مامور آ کر دور کرے.اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کے کی دلوں میں بھی ان باتوں کو بٹھایا جائے.اسی غرض سے میں نے بورڈ نگ تحریک جدید قائم کیا تھا کہ
خطبات محمود ۲۲۱ سال ۱۹۳۷ء اخلاق فاضلہ بچوں کے اندر قائم کئے جائیں جو ماں باپ قائم نہیں کر سکتے.مگر افسوس ہے کہ اس بورڈنگ کے افسروں نے ابھی تک تقسیم عمل کا فیصلہ ہی نہیں کیا اور وہ ابھی انہی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ سپرنٹنڈنٹ کے فرائض کیا ہیں اور ٹیوٹروں کے کیا.اصل کام کی طرف ابھی پوری توجہ نہیں ہوئی.میری غرض اس بورڈنگ کے قیام سے یہ ہے کہ اسلامی اخلاق کی تفاصیل بچوں کو سمجھائی جائیں.سچ کی تعریف بیان کرو.سچ بولنے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں اور پھر شریعت نے ان کے کیا کیا علاج رکھے ہیں.یہ باتیں سکھائی جانی چاہئیں ورنہ صرف سچ بولنے کی تعلیم تو ہندو اور سکھ بھی دیتے ہیں.اسی طرح سب کہتے ہیں کہ شرک نہ کرو.مگر اسلام بتا تا ہے کہ شرک ہوتا کیا ہے ، وہ کیونکر پیدا ہوتا ہے، کیونکر ترقی کرتا ہے اور کون کون سی مشکلات میں طبیعت اسے قبول کرنے کی طرف مائل ہوتی ہے اور پھر اس کے علاج کیا ہیں.جب اس طرح بچہ کے دل میں بات بٹھائی جائے تو وہ پھر نہیں نکل سکتی اور جب تک ہم اس طرح نہ کریں کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی.پس اگر ہم موجودہ لوگوں اور آئندہ اولادوں کی درستی کر لیں تو ہمیشہ کیلئے اس قسم کے فتنوں کا رستہ بند ہوسکتا ہے.ورنہ شکی طبائع کا وساوس کا شکار ہو جانے کا احتمال باقی رہے گا.مثلاً میں نے سنا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصری صاحب نے لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کی وعید کے ساتھ لکھا ہے کہ میں نے یہ بات نہیں لکھی اس لئے ان کا یہ قول صحیح ہوگا.لیکن جب میر صاحب نے مصری صاحب کے الفاظ نقل کر کے لکھا اب کہو لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ تو وہ چپ ہو گئے اور ایسے لوگوں نے کہ دیا کہ یہ ٹھیک ہے.گویا وہ خدا کے ساتھ نہیں لعنت کے ساتھ ہیں.اگر ان کا معیار یہی رہے تو دنیا میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا.دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ یہ لعنت پڑتی کس پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے دشمنوں لعنتیں ڈالیں اور مخالفوں نے بھی تو اس صورت میں انہیں چاہئے کہ دونوں کی طرف ہو جائیں.دیکھنے والی بات تو یہ ہوتی ہے کہ لعنت پڑی کس پر ہے.لعنت ڈالنے کا کیا ہے.کیا ابو جہل نے ی بدر کے دن نہیں کہا تھا کہ اے خدا! اگر محمد ﷺہ سچا ہے تو ہم پر پتھر برسا لے اور محمد ﷺ نے بھی کفار پر لعنت ڈالی.اب دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ کس پر پڑی.تو بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہیں جو دوستوں کے ذہن نشین کرنی ضروری ہیں.ہمارے اکثر دوست صرف چند مسائل سے واقف ہیں مگر ان کی تفاصیل نہیں جانتے.پس اس موقع پر اس فتنہ کے متعلق میں بعض اصول بیان کروں گا.اور علماء اور
۱۲ = خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۷ء سمجھدارلوگوں کو چاہئے کہ انہیں سمجھیں اور جماعت کے افراد کے قلوب میں ان کو داخل کریں حتیٰ کہ ہر ایک ہم میں سے قرآن کریم کے مطابق اور رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے والا ہو جائے اور ہمارا جینا مرنا اس کی اطاعت میں ہو.بخاری کتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام....الخ (الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۳۷ ء ) تذکرہ صفحہ ۴۶۶.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۳۹۶.ایڈیشن چہارم V مسلم کتاب الفتن باب قصة الجساسة ال عمران: ۸۰ فاطر: ۲۹ جیو ہتیا: پرانوں پر ان کی جمع.ہندوؤں کی مذہبی کتابیں استثناء باب ۱۹.آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ا گودن گند ذهن سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۸۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
خطبات محمود ۲۲۳ ۲۱ سال ۱۹۳۷ء شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا خلاف تقومی رویہ اور جھوٹے الزامات (فرموده ۹ جولائی ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ایک مضمون بیان کرنا شروع کیا تھا جس سے میری غرض یہ تھی کہ میں جماعت کو بتاؤں کہ وہ موجبات کیا ہیں جو مختلف اوقات میں فتنے پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں تا جماعت ان کا ازالہ کر کے جس حد تک انسانی کوششیں ان فتنوں کو رونما ہونے سے روک سکتی ہیں رو کے اور پھر دعاؤں کے ذریعہ ان بقیہ حصوں کو روکنے کی کوشش کرے جو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.لیکن اس دوران میں بعض ایسی باتیں پیدا ہو گئی ہیں کہ جن کی وجہ سے مجھے خوف ہے کہ عارضی ضرورتوں کی کیلئے مجھے کچھ عرصہ کیلئے اس سلسلہ مضمون کو معطل کرنا پڑے گا سو اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس کی مضمون کو پھر کسی وقت بیان کروں گا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ مصری صاحب نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ یہ جو اعلان کیا گیا ہے کہ ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے، یہ غلط ہے وہ تو خود ہی بیعت سے الگ ہوئے ہیں.اور یہ بھی میں کی نے سنا ہے کہ ایک صاحب نے کسی دوسرے دوست کے سامنے بیان کیا کہ مصری صاحب نے خط مجھے
خطبات محمود ۲۲۴ سال ۱۹۳۷ء دکھایا تھا یا یہ کہا کہ مجھے اس کا مضمون بتایا تھا.اس خط میں تو انہوں نے آپ ہی بیعت توڑنے کا اظہار کیا تھا پھر یہ کہنا کہ انہیں جماعت سے الگ کیا جاتا ہے کیونکر درست ہوسکتا ہے.و شخص جن کے پاس انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں نے مجھے تحریراً بھی اس امر کی اطلاع دے دی ہے.لیکن میں اس کے متعلق افسوس سے کہتا ہوں کہ اگر وہ بات جو مصری صاحب کی طرف منسوب کر کے مجھے پہنچائی گئی ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ میری نسبت کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے نکالا گیا ہوں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے نکالا نہیں گیا بلکہ میں خود نکلا ہوں درست ہے، یا کسی اور دوست اور ہمدرد کا خیال ہے تو میرے لئے یہ بات سخت حیرت کا موجب ہے.کیونکہ یہ تمام باتیں تحریروں میں آچکی ہیں، زبانی نہیں.پس اگر یہ باتیں درست ہیں تو بہت ہی قابلِ تعجب ہیں.جو خط مصری صاحب نے مجھے لکھا وہ بھی میرے پاس موجود ہے اور جو میں نے اعلان کیا وہ بھی اخبار میں چھپ چکا ہے کوئی زبانی بات نہیں کہ جس میں رد و بدل ہو سکے بلکہ دونوں چیزیں تحریری ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی قسم کی غلط فہمی کا واقع ہو جانا بہت ہی بعید از عقل ہے.مصری صاحب نے ی مجھے تین خط میرے اعلان سے پہلے لکھے تھے.ان میں سے جو آخری خط انہوں نے لکھا اس میں یہ مضمون تھا کہ چوبیس گھنٹہ کے اندراندرا گر فلاں امر نہ ہو جائے تو مجھے اپنی بیعت سے خارج سمجھیں.یہ خط جسے اُن کا نوٹس سمجھنا چاہئے ایک لڑکا جو غالباً مدرسہ احمدیہ کا ہے میرے پاس لایا.مجھے اس کی شکل دیکھ کر شبہ ہوا کہ وہ مصری صاحب کا لڑکا ہے مگر جب میں نے اس سے نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ مصری صاحب کا لڑکا نہیں اس نے اپنا نام بشارت الرحمن یا بشارت احمد بتایا تھا، مجھے صحیح یاد نہیں.بہر حال اس کے نام میں بشارت کا لفظ آتا یہ خط مجھے ظہر کی نماز کے بعد تین بجے کے قریب ملا.اس کے اندر جو مضمون ہے وہ محفوظ ہے اور جب وقت آئے گا اس کے مضمون کو اِنشَاءَ اللہ ظاہر کر دیا جائے گا.ابھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ظاہر کرنا ان کا کام ہے ہمارا نہیں.اس خط میں منجملہ اور باتوں کے ایک بات یہ کبھی تھی کہ اگر فلاں فلاں امور آپ چوبیس گھنٹے کے اندر نہ کر دیں تو آپ مجھے اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھیں.اب ہر اُردو دان جو معمولی عقل و سمجھ بھی رکھتا ہو جانتا ہے کہ جو شخص یہ لکھتا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر فلاں امور نہ ہوئے تو مجھے اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھیں وہ دوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ ۲۴ گھنٹوں کے ختم ہونے تک میں آپ کی جماعت میں ہی شامل ہوں.اگر ۲۴ گھنٹوں سے پہلے ہی وہ جماعت سے نکل چکا
خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۷ء.تھا تو پھر۲۴ گھنٹوں کے بعد بیعت سے نکلنے کے کیا معنے تھے.جو شخص کسی معین وقت کا نوٹس دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو فلاں وقت سے مجھے علیحدہ سمجھیں وہ دوسرے لفظوں میں یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ اُس وقت تک میں آپ کی جماعت میں ہی شامل ہوں.اب یہ خط مجھے تین بجے ملا اور میرا جو اعلان شائع ہوا ہے وہ دوسرے دن ساڑھے گیارہ بجے کے قریب لکھا گیا.گو اس قسم کا اعلان کرنے کے متعلق میں پہلے دن ہی جب مجھے وہ خط ملا فیصلہ کر چکا تھا لیکن پھر دل نے تسلیم نہ کیا کہ یونہی اعلان کر دیا جائے کی بلکہ میں نے چاہا کہ اس بارہ میں استخارہ اور مشورہ کر لیا جائے.چنانچہ رات کو استخارہ کیا گیا اور پھر صبح دس بجے کے قریب مختلف دوستوں کو میں نے بلایا اور ان سے مشورہ لیا.اس کے بعد ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ اعلان لکھا گیا اور بارہ ساڑھے بارہ بجے بورڈ پر لکھ دیا گیا.غرض تین بجے جو خط مجھے ملا اُس کے مطابق دوسرے دن تین بجے تک مصری صاحب میری بیعت میں شامل تھے.جب ۲۴ گھنٹے ختم ہو جاتے تب وہ وقت شروع ہوتا جب اپنے نوٹس کے مطابق وہ جماعت سے الگ ہونے والے تھے.پس اگر اس نوٹس کے دوران میں میں مصری صاحب کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کرتا تو بھی ان کا یہ اعتراض درست نہ ہوتا کہ نکلے تو ہم خود ہیں، یہ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم نے نکالا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسا اعلان بھی کوئی نہیں کیا.پس سارا اعتراض بنائے فَاسِد عَلَى الْفَاسِدِ کی قسم کا ہے اور جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ میں نے انہیں جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے میں اسے انعام دینے کیلئے تیار ہوں اگر وہ میرے اعلان میں اس قسم کے الفاظ دکھا دے.میری طرف سے اس بارہ میں جو اعلان ہو ا وہ یہ ہے: و مکرم شیخ صاحب! السَّلَامُ عَلَيْكُمُ وَرَحَمَةُ اللهِ آپ کے تین خط ملے.پہلے خط کا مضمون اس قدر گندہ اور گالیوں سے پُر تھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمد یہ میں داخل ہیں بالکل خلاف عقل تھا.پس میں اس فکر میں تھا کہ آپ کو توجہ دلاؤں کہ آپ خدا تعالیٰ سے استخارہ کریں کہ اس عرصہ میں آپ کا دوسرا خط ملا جس میں فخر الدین ملتانی صاحب کی طرف سے معافی نامہ بھجوانے کا ذکر تھا.میں اس معافی نامہ کی انتظار میں رہا مگر وہ ایک غلطی کی وجہ سے میری نظر سے نہیں گزرا اور کل دس گیارہ بجے اس کا علم ہوا اور اُسی وقت اُن کو اس کی اطلاع کر دی گئی.اس کے چند گھنٹہ بعد آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چو ہمیں
خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۷ء گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں گے.سو میں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے“.دیکھ لو اس جگہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ میں آپ کو جماعت سے علیحدہ کرتا ہوں بلکہ میں نے یہ لکھا ہے کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے.اور یہ بات خود ان کے خط سے ظاہر ہے.کیونکہ انہوں نے لکھا تھا کہ اگر چومیں گھنٹہ تک ان کی تسلی نہ کی گئی تو انہیں جماعت سے علیحدہ سمجھا جائے.اس کے بعد میں نے لکھا:.” جب سے آپ کے دل میں وہ گند پیدا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے آپ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں“.یعنی کسی کے خارج کرنے کا سوال ہی نہیں بلکہ آپ اپنے عمل سے خود جماعت سے علیحدہ ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مسلمان کے میں محمد ﷺ کو نَعُوذُ باللهِ جھوٹا سمجھتا ہوں لیکن میں اُس وقت مسلمان ہی رہوں گا جب تک مسلمان مجھے اسلام سے خارج نہیں کرتے.حالانکہ اس امر میں کسی کے خارج کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.جب وہ کہتا ہے کہ میں محمد ﷺ کو نَعُوذُ بِاللهِ ) جھوٹا سمجھتا ہوں تو جس دن سے وہ آپ کو جھوٹا سمجھنے لگے اُسی دن سے وہ اسلام سے الگ ہو جائے گا.میں نے بھی انہیں یہی لکھا کہ جب سے آپ کے دل میں گندے خیالات پیدا ہوئے ہیں آپ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں.کیونکہ خدا عالم الغیب ہے وہی سمجھ سکتا ہے کہ آپ کے دل میں ایسے خیالات کب سے پیدا ہوئے.لیکن بہر حال جب سے وہ خیالات آپ کے دل میں آئے اُسی وقت سے آ خدا تعالیٰ کے نزدیک جماعت سے علیحدہ ہیں.اس کے آگے میرے اعلان کی عبارت یہ ہے ” خدا تعالیٰ اب بھی آپ کو تو بہ کی توفیق دے.پھر جب سے آپ نے میرے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے اُسی وقت سے آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں.یعنی میں چونکہ بندہ ہوں اور مجھے علم غیب نہیں.مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کے دل میں کیا خیالات پیدا ہورہے ہیں لیکن جب سے مجھے ان خیالات کا علم ہوا ہے ” آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ کی ، ہیں.یعنی آپ کو خارج کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.جب آپ کے خیالات ایسے ہو چکے ہیں کہ
خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۷ء میری مریدی کا تعلق ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تو آپ کو خارج کرنے کے کوئی معنے نہیں.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے میں آپ کے عقائد کو تسلیم نہیں کرتا یا آپ کی بیعت میں رہنے کیلئے تیار نہیں اور ہم یہ کہیں کہ نہیں تم ایک دفعہ بیعت کر چکے ہو اب ہم تمہیں الگ نہیں ہونے دیں گے.ایمان کے معاملہ اور دنیوی سو دوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.دُنیوی سو دوں میں تو ایک شخص جب اپنی چیز بیچی دیتا ہے تو پھر واپس نہیں لے سکتا.دوسرا کہتا ہے میں اتنی سائی کے دے چکا ہوں یا فلاں معاہدہ ہو چکا ہے اب تم اس معاہدہ سے نہیں پھر سکتے.لیکن دینی معاملات میں جب کوئی شخص کہے کہ میں نظام جماعت سے بیزار ہوں یا فلاں عقائد ترک کرتا ہوں تو وہ اُسی وقت الگ ہو جائے گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کہے میں اسلام کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور ہم کہیں کہ تم ایک دفعہ اس کی سچائی کا اقرار کر چکے ہو اس لئے اب ہم تجھے جھوٹا نہیں سمجھنے دیں گے.پس میں نے انہیں جو کچھ لکھا اس کا مطلب یہی تھا کہ چونکہ یہ دینی معاملہ ہے اور اس میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہوسکتا آپ کے دل میں جب سے وہ گند پیدا ہوا ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اور جب.آپ نے اسے مجھ پر ظاہر کیا ہے آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں.لیکن اگر آپ کو میری نان تحریر کی ہی ضرورت ہے تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک تو ان خیالات کے کی پیدا ہونے کے دن سے ہی جماعت احمدیہ سے خارج ہیں.یعنی جب آپ نے مجھے پہلا خط لکھا تھا اُس کی وقت سے نہیں بلکہ جب سے آپ کے دل میں وہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے ، آپ جماعت احمدیہ سے خارج ہیں.اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا ایک مولوی اور ایک عالم کہلانے والے کیلئے کوئی مشکل ہو.انہیں بہر حال پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اب میری بیعت کوئی بیعت نہیں.لیکن وہ پہلا خط لکھتے ہیں اور اس کے بعد دوسرا خط لکھتے ہیں اور میرے سامنے شرطیں پیش کئے جاتے ہیں اور پھر دوسرے کے بعد تیسر ا خط لکھتے ہیں اور اس میں بھی شرطیں پیش کر دیتے ہیں.جس کے سوائے اس کے کی اور کوئی معنے نہیں تھے کہ وہ میرے منہ سے کہلوانا چاہتے تھے کہ میں انہیں جماعت سے علیحدہ سمجھتا ہوں.اسی لئے میں نے لکھا کہ اگر آپ کو میری تحریر کی ہی ضرورت ہے تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ کی خدا تعالیٰ کے نزدیک تو اُسی وقت سے جماعت سے خارج ہیں جب سے آپ کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوئے.” اور ان خطوط کے بعد جو حال میں آپ نے مجھے لکھے ہیں میں بھی آپ کو جماعت.
خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۷ء خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں“.اب میرے الفاظ کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ آپ کو میں جماعت سے خارج کرتا ہوں بلکہ یہ لکھا کہ آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں.پس میں نے ان کے خروج کا صرف اعلان کیا ہے ورنہ وہ اُس وقت سے جماعت سے خارج تھے جب سے ان کے دل میں وہ خیالات پیدا ہوئے جن کا انہوں نے اپنے خطوط میں اظہار کیا ہے.اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا کسی کیلئے مشکل ہو.ایک شخص ہمارے پاس آئے اور کہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے تھے ، ان پر وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ افترا کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے اور پھر کہے خدا کے فضل سے میں احمدی ہوں تو اُس کا یہ دعوی کس قدر جھوٹا ہوگا.اسی طرح ایک شخص جو جماعت کے امام اور خلیفہ کی نسبت نا پاک خیالات کی اپنے دل میں رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں جماعت میں شامل ہوں وہ اپنے دعوی میں یقینا جھوٹا ہے بلکہ وہ اُسی وقت سے جماعت سے علیحدہ ہے جب سے اس نے ایسے خیالات اپنے دل میں رکھنے شروع کئے.اب ایک طرف انہیں علم کا دعوی ہے اور دوسری طرف اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جب وہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ میں آپ کی بجائے کوئی اور خلیفہ جماعت سے منتخب کراؤں گا تو اس کی کے بعد ایک منٹ کیلئے بھی انہیں یہ خیال کس طرح پیدا ہوا کہ میں ابھی جماعت میں شامل ہوں.پس ۲۱ میں میرے نکالنے یا نہ نکالنے کا کوئی سوال نہیں.جب میری نسبت انہوں نے اس قسم کے خیالات ظاہر کرنے شروع کر دیئے تو میری نگاہ میں وہ اُسی وقت میری بیعت سے نکل گئے تھے.اگر محمد اللہ اپنے کی آپ کو سچا سمجھتے ہیں اور یقینا بچے ہیں تو جس وقت کوئی شخص کہے گا آپ جھوٹے ہیں وہ اُسی وقت ان کی کی نگاہ میں اور ہر مومن کی نگاہ میں مسلمان نہیں رہے گا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آپ کی کو سچا سمجھتے ہیں اور وہ یقینا سچے ہیں تو جس وقت کوئی شخص کہے گا کہ آپ جھوٹے ہیں وہ اُسی وقت آپ کی نگاہ میں اور ہر مومن کی نگاہ میں احمدیت سے نکل جائے گا.اسی طرح اگر ایک امام اور خلیفہ اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے تو جس وقت کوئی شخص اس امام اور خلیفہ کی نسبت کہے گا کہ وہ خلافت کا اہل نہیں تو وہ اسی وقت اس کی بیعت سے الگ ہو جائے گا.پس اول تو اس میں اعلان کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال ہی ہے نہیں تھا مجھے خود اعلان کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جو اعلان میں نے کیا ہے اس کا بھی ہرگز وہ مفہوم نہیں
خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۷ء جو کہا جا تا ہے.اعلان میں خارج کرنے کے الفاظ کہیں درج نہیں ہیں.میں نے انہیں صرف یہ لکھا ہے کہ آپ یہ کیا کہتے ہیں کہ میں ۲۴ گھنٹے کے بعد آپ کی بیعت سے نکلوں گا آپ تو اُسی وقت سے جماعت سے علیحدہ ہیں جب سے آپ کے دل میں وہ خیالات پیدا ہوئے.پس جھوٹ میں نے نہیں بولا بلکہ جھوٹ اُن معترضین نے بولا ہے جنہوں نے یہ کہا کہ میں نے مصری صاحب کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ میں نے انہیں خارج نہیں کیا بلکہ ان کو جماعت سے خارج سمجھتے ہوئے ان کے خروج کا اعلان کیا ہے.اور اگر کوئی احمدی یہ کہے کہ مصری صاحب کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے تو ی اس کے بھی یقیناً یہی معنے ہیں، اس سے زیادہ نہیں.یہ طریقہ صرف اختصار سے بات کرنے کا ہے اس کی سے زیادہ کچھ نہیں.غرض میری طرف سے صرف اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ مصری صاحب جماعت سے دیر سے نکل چکے ہیں اور آپ کا اپنے گندے خیالات کے باوجود یہ کہنا کہ ابھی تک آپ جماعت سے نہیں نکلے درست نہیں.حقیقت یہ ہے کہ آپ گزشتہ ایام میں منافقت کا پردہ اوڑھ کر ہمارے اندر شامل رہے ہیں ور یہ واقعہ میں بہت بڑی شرمناک بات ہے کہ ایک شخص در حقیقت جماعت سے نکلا ہوا ہو لیکن اس کے باوجود وہ سلسلہ کا تنخواہ دار کارکن ہو اور اپنی پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں میں پرا گندگی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور ان کے قلوب میں زہر بھرنا شروع کر دے.اسی کا نام منافقت ہے اور یہی ہے میں نے انہیں بتایا کہ خدا کے نزدیک تو آپ اُسی وقت سے جماعت سے خارج ہیں جب سے آپ کے دل میں یہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور میرے نزدیک اسی وقت سے جب سے آپ نے ان خیالات کو مجھ پر ظاہر کیا پس آپ یہ کیا کہتے ہیں کہ ۲۴ گھنٹے کے بعد میں آپ کی بیعت سے نکلوں گا.دوسرے میں نے سُنا ہے کہ ان کے بعض ہم خیال یا ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ مصری صاحب جماعت سے نکل گئے ہیں مصری صاحب جماعت سے نہیں نکلے انہوں نے صرف بیعت سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے خط میں بیعت سے علیحدگی کے ہی الفاظ ہیں جماعت سے الگ ہونے کے الفاظ نہیں.مگر سوال یہ ہے کہ جماعت کسے کہتے ہیں.جماعت تو کہتے ہی اسے ہیں کہ چند آدمی اکٹھے ہوں.اور وہ اکٹھے مذہبی اور روحانی لحاظ سے بیعت کے ذریعہ ہی ہو سکتے ہیں، کسی اور طرح نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات محمود ۲۳۰ سال ۱۹۳۷ء پیغام صلح میں غیر احمدیوں کے متعلق یہی تحریر فرمایا ہے کہ وہ پرا گندہ طبع اور پراگندہ خیال ہیں.کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیں جو ان کے نزدیک واجب الاطاعت ہو اور یہ کہ جماعت صرف میری ہی ہے جو ایک ہاتھ پر جمع ہے.تو جماعت اور بیعت لازم و ملزوم ہیں اور دنیا میں وہ کون سا دستور ہے جس کے ماتحت جماعت تو ہو مگر بیعت نہ ہو.یہ الگ بات ہے کہ وہ بیعت روحانی ہو یا جسمانی.مگر بہر حال کوئی جماعت بیعت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی.مثلاً حکومتیں بیعت نہیں لیتیں لیکن وہ اپنے کی افسروں سے اطاعت کیلئے قسمیں لیتی ہیں.اسی طرح بادشاہ اور پریذیڈنٹ لوگوں سے قسمیں لیتے ہیں کہ وہ ان کے فرمانبردار ہیں گے.ابھی گزشتہ دنوں ہمارے نئے بادشاہ کی رسم تاجپوشی منائی گئی ہے اس موقع پر سب افسروں سے قسمیں لی گئی ہیں اور یہ قسمیں لینا بھی بیعت کی ایک قسم ہے ورنہ اگر بیعت نہ ہوتی یا قسم نہ ہو یا آپس میں کوئی عہد و پیمان نہ ہوتو وہ جماعت نہیں بلکہ افراد ہیں.جماعت کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ چند افراد جو ایک نظام کی پابندی کرنے والے ہوں اور کہتے ہوں کہ ہمیں جو بھی حکم ملے گا ہم اُس کی پابندی کریں گے.یہ اطاعت کا عہد ہمارے ہاں بیعت کے ذریعہ ہوتا ہے.بعض قوموں میں اس کی ظاہری علامت قسم ہے اور بعض قوموں میں اور علامات ہیں.بہر حال جماعتیں کسی نہ کسی علامت کے ذریعہ اقرار کرتی ہیں کہ ہم حکومت یا نظام کی پابندی کریں گی.ان حالات میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہوتا ہوں تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے اس نظام سے الگ ہوتا ہے جس میں وہ پہلے شامل تھا ہی اور یہی ہم کہتے ہیں.ہم جب کہتے ہیں کہ فلاں شخص جماعت سے نکل گیا تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ ہمارے نظام سے وہ الگ ہو گیا اور ہماری اطاعت کے عہد کو اس نے توڑ دیا ہے.یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ پیغامیوں میں سے نکل گیا یا اگر مصری صاحب نے کوئی اپنا مخفی بیعت نامہ جاری کیا ہوا ہے تو اس بیعت سے الگ ہو گیا ہے.ہم جب بھی یہ کہیں گے کہ فلاں شخص جماعت سے الگ ہو گیا تو اس کے نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ انگریزی حکومت سے نکل گیا نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ جرمنی حکومت سے نکل گیا.نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ پیغا میوں میں سے نکل گیا بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ وہ ہماری جماعت کے خلیفہ اور امام کی بیعت سے نکل گیا.یہی بات ہے جو میں اپنے خطبوں میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے نکل جائے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ احمدیت سے نکل گیا.
خطبات محمود ۲۳۱ سال ۱۹۳۷ء چنانچہ میں نے اپنے بعض خطبوں میں بھی یہ بیان کیا ہوا ہے کہ احمدیت سے نکالنا میرا کام نہیں.ہاں جماعت سے نکالنا میرا اختیار ہے اور یہ کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو احمدی کہے گا ہم بہر حال اسے احمدی کہیں گے بشرطیکہ کوئی وجہ اس میں ایسی نہ پائی جائے جو مذ ہبا اسے احمدیت سے نکال دیتی ہو.پھر میں نے یہاں تک کہا ہوا ہے کہ احمدیت سے نکالنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی کام نہیں بلکہ اپنے مذہب سے خارج کرنا کسی نبی کا بھی کام نہیں.مذہب سے خدا ہی نکال سکتا ہے، نبی بھی نہیں نکال سکتا.پس جماعت سے نکالا جانا ایک اصطلاح ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص ہمارے نظام سے الگ ہو گیا.باقی یہ کہ اس کے بعد اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی ایمان رہا ہے یا نہیں ، اس کے متعلق فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی کام نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی احمدیت سے اُسے ہی خارج سمجھیں گے جو وہ امور کرے جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے مذہب سے خارج ہو جانے کا فیصلہ فرمایا ہو.ہم بھی ایسے ہی شخص کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدیت سے نکل گیا ہے.اور جب ہم کسی شخص کو جماعت سے خارج کرتے ہیں تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ نظام سلسلہ سے اس کے خروج کے متعلق ہم اعلان کرتے ہیں.اگر جماعت سے الگ ہونے کے بعد وہ احمدیت ترک نہ کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کامل ایمان رکھیں تو ہم کون ہیں جو انہیں احمدیت سے نکال سکیں.پس مصری صاحب کا یہ اعتراض کہ میں نے تو کہا تھا میں آپ کی بیعت سے الگ ہوتا ہوں اور ی میرے متعلق کہا یہ جا رہا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہو گیا ہوں ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے میں نے فلاں شخص کو اپنی چار دیواری سے نکلنے کو کہا تھا ، گھر سے نکلنے کیلئے تو نہیں کہا تھا.جب چار دیواری کا نام ہی گھر ہے تو جب کوئی شخص چار دیواری میں سے نگل گیا وہ گھر میں سے بھی نکل گیا.اسی طرح کی جماعت جب نام ہے اُس نظام کا جو بیعت کے ذریعہ قائم ہے تو جب ایک شخص بیعت سے نکل گیا تو اُسی وقت وہ جماعت سے بھی علیحدہ ہو گیا.ہاں اگر وہ اپنی جماعت بنالیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نیا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں خوارج کی جماعت میں شامل سمجھ لیا جائے گا.ہماری جماعت سے تو وہ یقیناً نکل چکے ہیں.ہاں اگر خدانخواستہ جماعت احمدیہ کسی وقت سب کی سب ان کے ساتھ شامل ہو جائے تو پھر چونکہ اور کوئی جماعت نہیں رہے گی اس لئے انہی کی جماعت جماعت کہلا سکے گی.لیکن اگر خدا تعالیٰ کے
خطبات محمود ۲۳۲ سال ۱۹۳۷ء سے.فضل سے ہماری جماعت قائم رہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں.معلوم ہوتا ہے یہ جماعت بہر حال صداقت پر قائم رہے گی اور بڑھے گی اور بڑھتی چلی جائے گی اور اس کی کے تمام دشمن ناکام و نامرادر ہیں گے تو ان کا یہ کہنا کہ میں بیعت سے نکلا ہوں جماعت سے نہیں نکلا ، اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت کی بات اور کم ہی ہوگی.خود رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے اسلام اور جماعت میں فرق کیا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانا اسلام پر ایمان لانا ہے اور جو شخص آپ پر ایمان نہیں لاتا وہ مومن نہیں کہلا سکتا.لیکن آپ فرماتے ہیں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَلَيْسَ مِنَّا ہے کہ جوشخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں.اب یہاں رسول کریم ﷺ نے دو چیزیں علیحدہ علیحدہ بیان فرمائی ہیں.ایک اسلام اور ایک جماعت.اگر فَلَيْسَ مِنَّا سے مراد صرف جماعت ہی لی جائے تو یہ کہنا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ جماعت سے علیحدہ ہوگیا، بے معنی فقرہ ہو جاتا ہے.جو شخص جماعت سے بالشت بھر الگ ہو جائے وہ بہر حال الگ ہو جاتا ہے اس کیلئے فَلَيْسَ مِنَّا کہنے کی کیا ضرورت ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ جو مر گیا سو مر گیا.جو مر جاتا ہے وہ بہر حال مر جاتا ہے.اس کیلئے سومر گیا“ کہنا بے معنی ہے.یا کہا جائے جس نے روٹی کھالی سوکھالی.جو سو گیا سو سو گیا.جس طرح ان فقروں کا کوئی مفہوم نہیں.اسی طرح اگر فَلَيْسَ مِنَّا کے یہی معنے سمجھے جائیں کہ وہ جماعت سے الگ ہو گیا تو فقرہ یوں بن جاتا ہے کہ جو جماعت سے الگ ہو گیا وہ جماعت نے سے الگ ہو گیا.لیکن میں جیسا کہ بتا چکا ہوں یہ بے معنی فقرہ ہو جاتا ہے.پس حقیقتا اس کے معنے یہی ہیں کہ وہ شخص جو جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کا وجود ایمانیات میں شامل ہے سے علیحدہ ہوتا ہے.پس جماعت اور اسلام کو کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ بیان کیا ہے مگر ساتھ ہی فرما دیا کہ جماعت سے الگ ہونا کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی جُدا ہو جاتا ہے.کیونکہ اسلام تمدنی مذہب ہے اور اس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.اور اگر کوئی شخص جماعت سے الگ ہو جائے تو وہ ان احکام کی پابندی نہیں کر سکتا.یہی دیکھ لو اس زمانہ میں ہمیں حکم ہے کہ ہم احمدیت کی تبلیغ دنیا کے
خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۷ء کناروں تک پہنچائیں.اب یہ تبلیغ ایک جماعت ہونے کی وجہ سے ہم کر رہے ہیں مگر یہ تین آدمی جو ہم سے الگ ہوئے ہیں کونسی تبلیغ کر رہے ہیں.پس یہ ان کاموں سے محروم ہو گئے ہیں جو بحیثیت جماعت کئے جاتے ہیں اور جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے.اسی طرح اور بیسیوں کام ہیں جو جماعت سے الگ ہو کر نہیں کئے جاسکتے اور وہ ان تمام کاموں کے ثواب سے محروم رہیں گے.پس جب انسان جماعت سے الگ ہوتا ہے تو بیسیوں نیکی کے کاموں سے وہ محروم ہو جاتا ہے.بیشک جو انفرادی کی کام ہوں وہ الگ بھی کر سکتا ہے مگر جو جماعتی کام ہوں اور جن میں ایک جتھے اور نظام کی ضرورت ہو وہ بغیر جماعت کے نہیں کئے جاسکتے.مثلاً نماز وہ الگ پڑھ سکتے ہیں ، زکوۃ وہ الگ دے سکتے ہیں، گو ز کوۃ کی تقسیم جس رنگ میں اسلام چاہتا ہے وہ انفرادی طور پر نہیں کر سکتے کیونکہ اس کیلئے بھی ایک جماعت اور نظام کی ضرورت ہے.اسی طرح وہ اکیلے اکیلے جہاد نہیں کر سکتے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے بھی ایک جماعت اور نظام کی ضرورت ہے.تعلیم و تربیت بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہے.تبلیغ بھی جماعت کے ذریعہ ہوسکتی ہے اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ جب بھی کوئی شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ ان کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتا ہے اور اس طرح نہ صرف وہ جماعت سے الگ ہوتا ہے بلکہ اس کی کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے.اس کیلئے موقع تھا کہ وہ جماعت کے ساتھ شامل ہو کر خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں حصہ لیتا مگر اس نے الگ ہو کر ثواب کے دروازہ کو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کر لیا.اب جب سے یہ تینوں آدمی الگ ہوئے ہیں اور ان کے دلوں کا گند ظا ہر ہوا ہے اُس وقت سے ہماری طرف سے جو تبلیغ بیرون ہند اور اندرونِ ہند میں ہورہی ہے اس کا ثواب ان لوگوں کو تو پہنچتا ہے جو ہماری جماعت میں شامل ہیں مگر ان کو نہیں پہنچ سکتا جو جماعت سے الگ ہو گئے ہیں.پس وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں لندن میں ہوئی ، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں بوڈا پسٹ کے میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں امریکہ کی میں ہوئی ، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں جاپان میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں چین میں ہوئی ، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں فلسطین میں ہوئی ، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں شام اور مصر میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں مشرقی افریقہ ، ماریشس، سیلون اور سٹریٹ سیٹلمنٹس میں ہوئی ، وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں جاوا اور سماٹرا میں ہوئی اور وہ تبلیغ جو اس زمانہ میں روم اور میں یوگوسلاویہ میں ہوئی ان تمام تبلیغوں کے ثواب میں ہر وہ شخص حصہ دار ہے جو ہماری جماعت میں شامل
خطبات محمود ۲۳۴ سال ۱۹۳۷ء ہے مگر یہ تین شخص اس تبلیغ کے ثواب میں شریک نہیں.پس جو ثواب جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب انسان جماعت کے ساتھ شامل ہو.لیکن جب کوئی جماعت سے الگ ہو جاتا ہے تو وہ ان نیکیوں اور ثواب کے ان تمام کاموں سے محروم ہو جاتا ہے.اور اس طرح اس کے اسلام میں بھی رخنہ واقع ہو جاتا ہے.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شبُرًا فَلَيْسَ مِنَّا جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اُس کے اسلام میں رخنہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہمارا نہیں رہتا.اور جب رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ وہ ہمارا نہیں رہتا تو ہمارے سے مراد آپ کی یقیناً اسلام ہے یعنی اس کے نتیجہ میں اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے.الله مجھے افسوس ہے کہ مصری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جو قدم اٹھایا تھا وہ ایسا اہم تھا کہ اس کے بعد چاہئے تھا وہ خشیت اللہ سے لبریز ہو جاتے ، توبہ و استغفار میں لگ جاتے ، دعاؤں سے کام لیتے اور اللہ تعالیٰ سے استخارہ کر کے اس کی مدد چاہتے.مگر مجھے تعجب اور افسوس ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میں خشیت اللہ پیدا ہوتی وہ ایسے کاموں میں لگ گئے جو عام نیکی اور تقویٰ کے بھی خلاف ہیں اور اس قسم کے غلط واقعات شائع کر رہے ہیں کہ جسے کوئی ایماندار شخص جائز نہیں سمجھ سکتا.چنانچہ جماعت اور اس کے نظام پر وہ بے بنیاد الزام لگا رہے ہیں اور جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اس کا کیا کی ثبوت ہے تو وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے.مثلاً شروع میں ہی انہوں نے کہہ دیا کہ جماعت کے اندر ایک بہت بڑا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے جو بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے اور بیعتوں کو لے کی جانے والا ہے.اب یہ کتنا بڑا اتہام ہے جو جماعت احمدیہ پر لگایا گیا.دہریہ کے معنے یہ ہیں کہ ایسان شخص جو خدا تعالیٰ کی ذات کا منکر ہے.اگر مصری صاحب کے منہ پر انہیں جا کر کوئی شخص بے ایمان کہہ دے تو وہ شور مچادیں گے یا نہیں ؟ اگر مصری صاحب کو کوئی منافق کہہ دے تو وہ کہیں گے یا نہیں کہ مجھے گالیاں دی جارہی ہیں.اگر مصری صاحب کے متعلق کوئی شخص کہہ دے کہ وہ وفات مسیح کے قائل نہیں رہے تو وہ اس شور سے آسمان سر پر اٹھا لیں گے کہ نہیں کہ دیکھو یہ جماعت تقویٰ سے کس قدر گر گئی.مجھے کہا جاتا ہے کہ میں وفات مسیح کا قائل نہیں حالانکہ میں قائل ہوں.اسی طرح اگر کوئی کہہ دے کہ مصری صاحب نماز پڑھنے کے قائل نہیں تو وہ جھٹ شور مچا دیں گے اور کہیں گے دیکھا یہ کیسے بُرے لوگ ہیں مجھ پر سراسر جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نمازوں کا قائل نہیں رہا حالانکہ میں قائل ہوں.غرض جو جوانی "
خطبات محمود ۲۳۵ سال ۱۹۳۷ء تفصیلات عقائد یا جزئیات اعمالِ صالحہ ہیں ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہی یہ کہنے پر کہ وہ اس کے قائل نہیں رہے وہ طیش میں آجائیں گے.مگر جماعت احمدیہ کے متعلق سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزام شائع کرنے اور اس کی طرف بالکل غلط باتیں منسوب کرنے کے باوجود بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ جماعت کی احمدیہ کو ان کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور طیش میں نہیں آنا چاہئے.ان کو یہ جھوٹی خبر اور بے بنیاد خبرسن کر تو سخت تکلیف ہوئی کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے لاہور میں کہا ہے کہ مصری صاحب کو اس لئے ٹھوکر لگی کہ انہوں نے اپنی لڑکی خاندانِ نبوت میں رشتہ کیلئے پیش کی تھی ،مگر رشتہ نہ لیا گیا.حالانکہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اس بات سے انکار کرتے اور لکھتے ہیں کہ ”میں نے یہ الفاظ ہر گز نہیں کہے شیخ صاحب نے بے احتیاطی سے کام لیتے ہوئے میری نسبت غلط طور پر راوی کی غلطی بیانی کی بناء پر کہہ دیئے ہیں جو محض تہمت اور بہتان ہے.لیکن میرا تقویٰ دیکھو میں نے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کولکھوایا کہ بعض دفعہ انسان بات کہہ کر بھول بھی جاتا ہے آپ اچھی طرح سوچ لیں اور جماعت سے بھی دریافت کر لیں کہ ان میں سے کسی شخص کے سامنے آپ نے یہ بات تو نہیں کہی مگر انہوں نے پھر بھی یہی لکھا کہ میں نے کسی شخص کے سامنے یہ بات نہیں کہی.پس انہیں اپنے متعلق ایک چھوٹی سی بات سُن کر تو طیش آ گیا اور فوراً ایک اشتہار شائع کر دیا.مگر جماعت احمد یہ جو خدا تعالیٰ کی آخری جماعت ہے، جو خدا تعالیٰ کے آخری مامور کو ماننے والی جماعت ہے، جو اصحاب الصفہ کی جماعت ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہامات فرماتا ہے کہ تجھے کیا معلوم یہ پاکباز غریب جو تیری جماعت میں شامل ہیں ان کی خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا شان ہے وہ اس جماعت کے متعلق یہ نہیں کہتے وہ نماز کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ روزے کی منکر ہے ، یہ نہیں کہتے وہ حج کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ زکوۃ کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ دیانت وامانت کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ مسیح موعود کی منکر ہے یہ نہیں کہتے وہ محمد ﷺ کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیھما السلام کی منکر ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی منکر ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِہم کے بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلی.اب کیا یہ معمولی بات ہے جو انہوں نے کہی کہ بہت سے لوگ جماعت احمدیہ میں سے دہر یہ ہو چکے ہیں اور بہت سے دہر یہ ہونے کی تیاری کی کر رہے ہیں.کیا یہ ایک معمولی سا الزام ہے کہ اس پر ہم خاموش ہو کر بیٹھ جائیں اور اس کے خلاف
خطبات محمود ۲۳۶ سال ۱۹۳۷ء اظہار نفرت نہ کریں یا ان سے اس الزام کا ثبوت طلب نہ کریں.مگر باوجود اس کے کہ ان سے بار بار یہ مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو جماعت میں سے دہر یہ ہو چکے ہیں ہمارے سامنے پیش کریں اور ان کے نام بتائیں وہ بالکل خاموش ہیں.ان کی بیٹی کی شادی کا معاملہ آجائے تو وہ اشتہار دینے لگی جاتے ہیں مگر دوسروں کے ایمان پر وہ تبر چلا رہے ہیں.انہیں نہ صرف تمام صداقتوں کے منکر بلکہ خدا تعالیٰ کا منکر قرار دے رہے ہیں اور پھر جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.کیا یہی تقویٰ اور دیانت ہے؟ اور کیا ان کی پوتی کا دودھ اس سے زیادہ قیمتی ہے جتنا جماعت کے ایمان کا معاملہ قیمتی ہے.کیا پہرے کا سوال زیادہ قابل ذکر ہے اور جماعت کے دہریہ ہونے کا سوال قابل ذکر نہیں ؟ کیا ان کے گھر میں کسی کا دور بین سے دیکھ لینا زیادہ قابل توجہ فعل ہے اور جماعت کے کی ایمان کا سوال قابل توجہ نہیں ؟ مگر وہ کہتے ہیں چھوڑ دو اس سوال کو کہ جماعت دہر یہ ہوگئی ہے یا نہیں ، آؤ ان باتوں کا فیصلہ کریں کہ ان کی پوتی کا دودھ کس نے بند کیا.کیونکہ ان کی خاموشی کے سوا اس کے اور کچھ معنے نہیں کہ وہ اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ اس سوال کو جانے دو اور ان باتوں کی طرف توجہ کرو جو میں نے پیش کیں.آخر جب کوئی دوسرے پر اتنا بڑا الزام لگاتا ہے تو کیسی بے ایمانی ہے کہ اس الزام کوی ثابت نہیں کیا جاتا اور معمولی معمولی باتوں کو پیش کیا جاتا ہے.وہ ان لوگوں پر جو خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لائے جو دنیا میں ایمان قائم کرنے کیلئے کھڑے ہوئے یہ الزام لگاتے اور نہایت ہی جھوٹا اور ناپاکی بہتان باندھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر دہر یہ ہو چکے ہیں اور بہت سے دہر یہ ہونے کی تیاری کر رہے ہیں.مگر جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس ناپاک الزام کو ثابت کریں تو کہتے ہیں اس سوال کو رہنے دو اور آؤ اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ میری پوتی کا دودھ کس نے بند کیا.اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت اور کیا ہوگی.وہ ایک گھر کو آگ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اس آگ کو نہ بجھاؤ آؤ اور یہ دیکھو کہ میرا سگریٹ کس نے جلایا.وہ ایک کو قتل کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس قتل کی کیا تحقیق کرنی ہے مجھے آج چھینکیں آئی ہیں ان چھینکوں کے آنے کی وجہ دریافت کرو.وہ ایسا خطرناک الزام جماعت پر لگاتے ہیں کہ جس الزام سے بڑھ کر اور کوئی الزام نہیں ہو سکتا، وہ جماعت کے سینہ میں ناسور ڈالتے اور پھر کہتے ہیں جماعت ٹھنڈے دل سے غور کرے اور بتائے کہ وہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں انہیں کیوں پہنچیں.یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہیں وہ تکلیفیں پہنچیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد ان کا یہ خیال کرنا کہ پہلے کی
خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۷ء ان امور کی تو تحقیق ہو اور جماعت پر دہریت کا الزام لگا کر وہ خاموش ہو جائیں یا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خودد ہر یہ ہیں اور اس الزام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور یا یہ کہ ان کے دماغ میں نقص ہے.بہر حال ایک مومن جو اپنے ایمان کی قدر کو جانتا اور جو حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی قیمت کو پہچانتا ہے وہ تو کبھی اس الزام کو سُن کر خاموش نہیں ہوسکتا اور وہ تو اس کے ثبوت کا ان سے مطالبہ کرتا رہے گا کیونکہ یہ الزام کسی فرد پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مقدس جماعت پر ہے اور بیچ یہ ہے کہ اگر یہ الزام ان کا درست ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ہی مشکوک ہو جاتی ہے.پس ایک سچا احمدی اس الزام کے بعد تسلی نہیں پاسکتا جب تک اسے دور نہ کر لے اور مصری صاحب کو جھوٹا نہ ثابت کرے.بہر حال وہ خواہ خاموش رہیں مگر میں ان کے دوسرے الزامات کے متعلق بھی خاموش نہیں رہنا چاہتا.مصری صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے گھر کی ناکہ بندی کی گئی ہے ، ضرویات زندگی کے حصول میں روکیں پیدا کی جارہی ہیں ، دُکانداروں کو سو دا دینے سے روکا جاتا ہے، بھنگن کو کام کرنے سے منع کیا گیا ہے، غیر احمدی مزدوروں کو کام کرنے سے روکا گیا ہے، اُن کی پوتی کا دودھ بند کیا گیا ہے، غیر احمدی ملازمہ کو گھر میں کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور یہ کہ جب وہ باہر نکلتے ہیں تو ان پر چند لونڈے مسلط ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں.پھر ۴ جولائی کو ۱۵ ، ۱۶ نو جوان جو لاٹھیوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے آئے اور ان کے گھر کی ناکہ بندی کرلی اور گھر کو ڈور بین لگا کر اندر سے دیکھا.یہ وہ الزامات کی ہیں جو جماعت احمدیہ کے خلاف انہوں نے شائع کیے.میں سمجھتا ہوں ان حالات میں جبکہ وہ ہماری جماعت پر یہ خطر ناک الزام لگا رہے ہیں کہ یہ جماعت دہر یہ ہوگئی اور وہ ہمارے مطالبات کا جواب تک دینے کیلئے تیار نہیں ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ ہم سے اپنی تکلیفوں کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کریں.ہماری جماعت لاکھوں کی جماعت ہے.لیکن اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو گورنمنٹ کی مردم شماری کے رُو سے ہی ۱۹۳۰ء میں صرف پنجاب میں ہماری جماعت چھپن ہزار تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سارے ہندوستان میں کم از کم ہماری جماعت ایک لاکھ ہے.اب ایک لاکھ میں بہت سے لوگوں کے دہریہ ہو جانے کا مطلب تو یہ ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار ایسے لوگ ہیں جو د ہر یہ ہو چکے ہیں.لیکن اگر پچاس ساٹھ ہزار نہ سہی تو کم از کم دو چار ہزار ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو دہر یہ ہو چکے ہوں.کیونکہ اگر خالی
خطبات محمود ۲۳۸ سال ۱۹۳۷ء بہت کا لفظ استعمال کیا جائے تو اور بات ہوتی ہے اور ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے ہزاروں لوگ مراد ہوں لیکن جب ایک ایسی جماعت کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے گا جو کئی لاکھ افراد پر مشتمل ہے تو اس سے یقیناً ہزاروں لوگ ہی مراد ہو سکتے ہیں.ہمارے اندازہ میں ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے.گولڈ کوسٹ میں ہی گورنمنٹ کی مردم شماری کے مطابق ہمارے چوبیس ہزار احمدی ہیں.پس اگر گولڈ کوسٹ میں چوبیس ہزار احمدی ہو سکتے ہیں تو یقیناً ساری دنیا کے احمدی دس لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں.لیکن اگر دس لاکھ نہ مانو اور صرف ایک لاکھ لے لوتب بھی پچاس ساٹھ ہزار اور کم از کم دو چار ہزار ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو ان کے نقطۂ نگاہ میں دہر یہ ہو چکے ہیں.لیکن اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ان تمام لوگوں کے نام بتائیں تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں.جس سے ہر حق پسند انسان یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور دیانت کو ترک کرتے ہوئے صرف جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے.اب جبکہ ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یونہی لوگوں کے نام لینے شروع کر دیئے تو وہ ہم پر ناشیں کریں گے ، مقدمے چلائیں گے اور کہیں گے انہوں نے ہماری عزت پر حملہ کر دیا.ورنہ اگر سچ سچ جماعت میں سے اکثر لوگ دہر یہ ہو چکے ہوتے تو کیا ان کے نام بتانے میں انہیں کوئی ڈر ہو سکتا تھا ؟ اگر میاں فخر الدین اور امی عبدالعزیز کو جو باوجود ایک عرصہ سے شکوک و شبہات پیدا ہونے کے ظاہر ہونے کی جرات نہیں کر سکے ڈر نہیں آیا تو جو لوگ دہر یہ ہو چکے ہوں انہیں کس بات سے ڈر آ سکتا ہے.مگر واقعہ یہی ہے کہ انہوں نے جماعت پر جھوٹا الزام لگایا اور اب اس ڈر کے مارے نام نہیں بتاتے کہ اگر کسی کا نام لیں گے تو پھنس جائیں گے لیکن ایک طرف اس قدر خاموشی اور دوسری طرف یہ شور مچائے جارہے ہیں کہ ان کی پوتی کا دودھ بند کر دیا گیا.حالانکہ قادیان میں جتنی گائیں بھینسیں احمدیوں کے پاس ہیں اس سے دگنی ، تگنی گا ئیں بھینسیں غیر احمدیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے پاس ہیں.پس جو چیز نہایت آسانی سے انہیں قادیان سے میسر آسکتی ہے بلکہ اگر کئی من دودھ چاہیں تو بھی انہیں مل سکتا ہے وہ اس کی تحقیقات تو کرانا چاہتے ہیں مگر جماعت پر اتنا بڑاحملہ کر کے اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتے.اب جو واقعات انہوں نے مظالم کے نام سے شائع کئے ہیں، میرے نزدیک ان کے متعلق تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.کیونکہ ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ جماعت پر اتنا بڑا اتہام لگا کر
خطبات محمود ۲۳۹ سال ۱۹۳۷ء جماعت سے ہی کہتے کہ وہ ان کی تکلیفوں کے متعلق تحقیق کرے.انہوں نے جماعت کے دلوں میں ایک آگ لگادی ہے، ان کے سینوں میں یہ کہہ کر نا سور ڈال دیئے ہیں کہ جماعت کا اکثر حصہ دہر یہ ہو گیا ہے.مگر دوسروں کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں بلاتے اور کہتے ہیں آؤ اور میرے چولہے میں پانی ڈالو.پس اس الزام کے بعد ہرگز ان کا کوئی حق نہ تھا کہ میں تحقیقات کرتا اور دریافت کرتا کہ مصری صاحب جو کچھ کہہ رہے تھے وہ کہاں تک درست ہے.مگر جب میرے پاس رپورٹ پہنچی تو میں نے تَرَحُمًا ناظر صاحب امور عامہ کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ تحقیقات کریں اور ر پورٹ کریں کہ ان واقعات میں کس حد تک اصلیت ہے.اور اگر کسی کی غلطی معلوم ہو تو اُس کا معاملہ پیش کریں.اس پر انہوں نے مصری صاحب کو دکھی لکھی کہ آپ اُن مزدوروں کے نام بتائیں جنہیں کام کرنے سے روکا گیا اور اُن دُکانداروں کے نام بتائیں جنہوں نے سو داد دینے سے انکار کیا تا اس کے متعلق تحقیقات کی جائے اور اگر کی کسی شخص کا قصور ثابت ہو تو اسے مناسب سزا دی جائے.اس کا جو جواب مصری صاحب نے دیا اس کے متعلق میں نے ہدایت کر دی تھی کہ وہ تمام مساجد میں سنا دیا جائے.اور میں بھی تفصیل سے ابھی اس کا ذکر کروں گا.فی الحال میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مصری صاحب نے نام پیش کرنے سے انکار کر دیا.آخر مجبوراً ناظر صاحب امور عامہ کو خود تحقیقات کرنی پڑی اور انہوں نے تحقیق کر کے جور پورٹ کی وہ یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ان کے گھر کی ناکہ بندی کی گئی یہ بالکل غلط ہے.ناکہ بندی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ نہ گھر سے کسی شخص کو نکلنے دیا جائے اور نہ باہر سے کسی شخص کو گھر میں داخل ہونے دیا جائے.مصری کہلا کر اگر اب وہ اردو بھول گئے ہوں اور ناکہ بندی کی جو اصطلاح ہے اس کے معنے اُن کے ذہن سے اُتر گئے ہوں تو یہ اور بات ہے لیکن یہ بات معمولی علم رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ ناکہ بندی کیسے کہتے ہیں.یہاں پولیس کے سپاہی موجود ہیں ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ناکہ بندی کسے کہتے ہیں.ہر شخص کہے گا کہ ناکہ بندی اسی کا نام ہے کہ نہ کسی کو گھر کے اندر جانے دیا جائے اور نہ کسی کو گھر سے باہر نکلنے دیا جائے.اب اگر یہ صحیح ہے کہ ان کی ناکہ بندی کی گئی تو ان کا یہ اگلا فقرہ کس طرح ان درست ہے کہ ” میرے اوپر چند لونڈے مسلط کئے ہوئے ہیں کہ جدھر میں جاؤں وہ سایہ کی طرح نان میرے پیچھے آئیں“.جب ان کے مکان کی ناکہ بندی کی جاچکی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ گھر سے باہر کس طرح
خطبات محمود ۲۴۰ سال ۱۹۳۷ء آجاتے ہیں اور اگر واقعہ میں ناکہ بندی ہے تو میاں فخر الدین اور حکیم عبدالعزیز ان کے مکان پر کس طرح پہنچ جاتے ہیں.ناکہ بندی کی صورت میں تو کوئی شخص مکان کے اندر داخل نہیں ہوسکتا اور نہ باہر نکل سکتا ہے.ہاں اس سے ہمیں انکار نہیں کہ بعض پہرہ دار امور عامہ نے یہ دیکھنے کیلئے مقرر کئے ہوئے ہیں کہ وہ منافقین جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں، کون کون ہیں.یہی وہ بات ہے جس کی کا انہیں دراصل شکوہ ہے اور کہتے ہیں ہمارے دوستوں کو ہم سے ملنے کیوں نہیں دیتے.حالانکہ کوئی شخص کی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں ان سے ملنے جارہا تھا مگر مجھے ملنے سے روک دیا گیا.ہم تو چاہتے ہیں کہ جانے والے جائیں تا ہمیں پتہ لگے کہ کون لوگ دل سے ان کے ساتھ ہیں اور ہمیں دھوکا دے رہے ہیں تا انہیں بھی ہم جماعت سے نکال دیں.پس ہماری غرض یہ نہیں کہ کوئی شخص ان سے بات نہ کرے بلکہ ہماری غرض یہ ہے کہ اگر کوئی ان سے بات کرنے والا ہے تو اس کا ہمیں علم ہو جائے اور وہ ہمارے اندر سے نکل جائے.پس ہمارے آدمی پہرہ پر اس لئے مقررنہیں کہ کسی کو روکیں بلکہ اس لئے مقرر ہیں کہ جب کوئی وہاں جائے تو اس کی خدمت میں یہ عرض کر دیں کہ اب آپ یہیں تشریف رکھیں ہمارے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں.اسی طرح اگر مصری صاحب کی حرکات کی کوئی شخص نگرانی کرتا ہے تو یقیناً اس لئے کہ ی اسے معلوم ہو جائے کہ مصری صاحب کس کس شخص کے ہاں جاتے ہیں تا جماعت ان لوگوں.درخواست کرے کہ منافقت کی کیا ضرورت ہے تم دلیری سے ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ.اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو قانوناً ، اخلاقاً یا مذہباً معیوب اور نا روا ہو.ہر مذہبی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کے لوگوں کی نگرانی کرے اور ہم بھی ان کی اسی لئے نگرانی کرتے ہیں تا ہمارے اندر وہی رہے جو ہمارا ہم خیال ہو اور جو ہمارا ہم خیال نہیں وہ ہم سے علیحدہ ہو جائے.یہ حق ہر مذہبی جماعت کو حاصل ہے اور اسی حق کا ہم استعمال کر رہے ہیں.اس کا نام ناکہ بندی رکھنا بتاتا ہے کہ مصری صاحب گویا اس ملک کے باشندے ہی نہیں اور وہ عربی ہی جانتے ہیں ، اُردو سمجھ ہی نہیں سکتے.پس جو پہرہ ہے وہ مصری صاحب پر نہیں بلکہ اپنے لوگوں پر ہے، یہ دیکھنے کیلئے کہ ان سے کون ملتا ہے.پس پہرہ دار اس لئے کھڑے نہیں کئے گئے کہ مصری صاحب کسی سے نہ ملیں بلکہ اس لئے کھڑے کئے گئے ہیں کہ جو ہماری جماعت میں سے ان سے ملتا ہو اُس کا پتہ لگا ئیں.اور یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے مکانوں اور گھروں
خطبات محمود ۲۴۱ سال ۱۹۳۷ء میں بیٹھ کر دوسروں کو دیکھے.کیا مصری صاحب اگر اپنے گھر بیٹھ کر کسی کو دیکھیں تو ہم انہیں روک سکتے ؟ ہیں؟ اگر اسی قسم کے تمسخر کو ہم بھی کام میں لانے والے ہوتے تو ہم شور مچا دیتے کہ مصری صاحب اور ان کے دوست برآمدہ میں بیٹھے رہتے اور ہمارے آدمیوں کی نقل وحرکت کا پتہ لگاتے رہتے ہیں.کیونکہ جس طرح ہمارے آدمی انہیں دیکھتے ہیں اسی طرح وہ ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیں ان دونوں میں فرق کو نسا نی ہے.اگر ہمارے آدمیوں کا دیکھنا منع ہے تو ان کے آدمیوں کا ہمارے آدمیوں کو دیکھنا بھی منع ہونا چاہئے اور کیا لوگ ہنسیں گے نہیں اگر ناظر صاحب امور عامہ ایک بڑا سا اشتہار شائع کر دیں جس پر موٹے حروف میں لکھا ہوا ہو کہ مصری صاحب کے تازہ مظالم اور نیچے یہ درج ہو کہ مصری صاحب اور فخر الدین اور عبدالعزیز اپنے مکان کے برآمدہ میں بیٹھ کر ہمارے آدمیوں کو دیکھتے اور ہر وقت ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں پھر اسی رنگ میں ان کا شور مچانا کیا حقیقت رکھتا ہے.جس طرح ہمارے آدمی انہیں دیکھتے ہیں اسی طرح ان کے آدمی ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیں.اس میں حرج کی کونسی بات ہے.پھر یہ کہنا کہ ضروریات زندگی کے حصول میں روکیں ڈالی جارہی ہیں یہ بھی بالکل غلط ہے.میرا حکم تھا کہ جو چیزیں ضروریات زندگی میں سے ہیں ان کے حصول میں ہرگز روکیں نہ ڈالی جائیں اور یہی محکمہ کی رپورٹ ہے کہ ضروریات زندگی کے حصول میں کوئی روک نہیں ڈالی گئی.علاوہ ازیں یہ امر قابلِ غور ہے کہ جس قدر احمدیوں کی یہاں دُکانیں ہیں قریباً اتنی ہی دکانیں سکھوں ، ہندوؤں اور ނ غیر احمد یوں کی ہیں اور وہ ان سے ہر وقت اشیاء خرید سکتے ہیں.اگر کہیں کہ ہم سکھوں اور ہندوؤں.نہیں خرید سکتے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے خریدنے کی ممانعت کا باعث جماعت کا ایک باہمی سمجھوتہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم اس بارہ میں کوئی نہیں ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ حکم ہوتا تب تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتے ہیں.مگر جب کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم ہی نہیں بلکہ میرا حکم ہے جو بعض فسادات کی کے رونما ہونے پر جماعت کے مشورہ سے صرف ان لوگوں کو جو خود اس کا عہد باندھنے کا اقرار کرتے تھے دیا گیا تو مصری صاحب کیلئے اس کی تعمیل ضروری نہیں.وہ تو میری بیعت میں سے نکل گئے اور تمام عہد و پیمان جو انہوں نے مجھ سے کئے تھے ان سے آزاد ہو گئے.اب وہ بالکل آزاد ہیں اور ہندوؤں اور سکھوں سے چیزیں خرید سکتے ہیں.پھر ان کا یہ شور مچانا کس طرح حق بجانب سمجھا جا سکتا ہے کہ قادیان.
خطبات محمود ۲۴۲ سال ۱۹۳۷ء میں انہیں ضروریات زندگی تک حاصل نہیں ہوتیں.ہاں اگر وہ اسی پر اصرار کریں کہ ہم نے ضرور احمدی دُکانداروں سے سو دا خریدنا ہے تو یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ہمارا شدید مخالف دھوپ کے وقت کی دوسرے مکانات کو چھوڑ کر ہماری ڈیوڑھی میں آبیٹھے اور اصرار کرے کہ میں نے اسی ڈیوڑھی میں بیٹھنا کی ہے.ہر شخص اس بھلے مانس سے کہے گا کہ کیا تجھے اس ڈیوڑھی کے سوا کہیں سایہ نظر نہیں آتا.اگر اور بھی سائے کی جگہیں ہیں تو سب جگہوں کو چھوڑ کر اس ڈیوڑھی میں آنے کا مطلب سوائے فساد کے اور کیا ہے.اسی طرح جب آٹا غیروں سے مل جاتا ہے ، گوشت غیروں سے مل جاتا ہے، کپڑا غیروں سے مل جاتا ہے، کھانے پینے کی تمام چیزیں غیروں سے مل جاتی ہیں تو آخر کچھ نہ کچھ بھی تو ہے جو تم ان سب کو چھوڑ کر ایک احمدی سے سودا خریدنا چاہتے ہو.پس ان کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو یہاں غیروں کے ذریعہ پوری نہ ہو سکتی ہو.غیر احمدی مزدور یہاں کثرت سے ملتے ہیں ، لوہار اور ترکھان احمدیوں کے علاوہ سکھوں اور ہندوؤں میں بھی موجود ہیں ، دودھ دینے والے کثرت سے مل سکتے ہیں بلکہ جتنی گائیں اور بھینسیں سکھوں ، ہندوؤں اور غیر احمدیوں کے پاس ہیں اس سے آدھی بھی احمدیوں کے پاس نہیں پھر ان کا یہ شور مچانا کہ ضروریات زندگی ان تک پہنچنے سے روک لی گئیں ہیں کس قدر جھوٹ اور دُور از حقیقت ت ہے.ایک دوست نے یہاں چند دن ہوئے تقریر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ صرف احمد یہ لٹریچر ایسی کی چیز ہے جو غیر احمد یوں یا ہندوؤں اور سکھوں سے نہیں مل سکتا.مگر یہ لٹریچر خود میاں فخر الدین صاحب کے گھر میں بکثرت موجود ہے.میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے وہ کہیں کہ ہمیں کوئی یونانی طبیب چاہئے ہم ڈاکٹروں سے علاج نہیں کراتے.اور غالباً غیر احمدیوں یا سکھوں اور ہندوؤں میں یہاں کوئی یونانی طبیب نہیں.مگر اس ضرورت کیلئے بھی انہیں احمدی طبیبوں کی ضرورت نہیں یونانی طبیب خود ان کے پاس کی حکیم عبدالعزیز موجود ہے.اسی طرح شاید وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے بچوں کو دینیات پڑھانا چاہتے ہیں مگر یہاں ہندوؤں ،سکھوں اور غیر احمدیوں میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو د مینیات پڑھا سکے.سو اس ضرورت کیلئے بھی انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں خود مصری صاحب موجود ہیں وہ دینیات پڑھا سکتے ہیں.غرض احمد یہ لٹریچر غیر احمدیوں اور سکھوں اور ہندوؤں کے پاس نہیں مل سکتا وہ میاں فخر الدین صاحب کے پاس موجود ہے.دیسی طبیب یہاں غیر احمدیوں اور سکھوں اور ہندوؤں میں کوئی نہیں یا کم از کم جہاں تک مجھے علم ہے کوئی نہیں لیکن وہ ان کے پاس حکیم عبد العزیز کی صورت میں موجود ہے.اسی طرح
خطبات محمود ۲۴۳ سال ۱۹۳۷ء اہے دینیات پڑھانے والا انہیں اور کوئی نظر آئے لیکن ان کی یہ ضرورت بھی خود اپنے اندر سے پوری ہو سکتی ہے یعنی مصری صاحب یہ کام کر سکتے ہیں.پس صرف تین چیزیں ایسی تھیں جو یہاں انہیں غیروں سے نہیں مل سکتی تھیں مگر یہ تینوں چیزیں خودان کے پاس موجود ہیں.طبیب ان کا اپنا ہے.احمد یہ لٹریچر ان کے پاس ہے اور دینیات کا مدرس ان میں موجود ہے گویا وہ Self-Contained ہیں پھر انہیں شکوہ کس بات کا ہے.اگر باوجود اس کے وہ ہماری جماعت کے کسی فرد کی دُکان سے سو دا خریدنا چاہتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں تو یہ تو ویسی ہی تہی بات ہے جیسے ہمارا کوئی دشمن کہے کہ میں دھوپ سے بچنا چاہتا ہوں اور اس کیلئے سب گھر چھوڑ کر تمہاری ہی ڈیوڑھی میں آکر بیٹھوں گا.ہر شخص اس خرید و فروخت کو دیکھ کر کہے گا کہ کسی خاص احمدی دکاندار سے سو دا خرید نے پر اصرار کرنا بھید سے خالی نہیں.اور وہ بھید سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں اپنے ہم خیال لوگوں کی خفیہ پارٹی بناتے جائیں.چنانچہ اشتہار میں بھی انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ سے لوگوں کو ملنے نہیں دیا جا تا تا کہ کوئی شخص مجھ سے مل کر اصل حقیقت سے واقف نہ ہو جائے.حالانکہ اصل حقیقت سے وہ اشتہاروں سے واقف کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں.پس ان کا اصل شکوہ یہ نہیں کہ ی دُکانداروں سے سو دا دینے سے کسی نے منع کیا ہے یا ضروریات زندگی کے حصول سے وہ محروم ہو گئے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس طریق پر ان لوگوں سے جو ابھی خفیہ ہیں اپنی ملاقات کا جی راستہ کھولیں اور ایک خفیہ جماعت قائم کریں.پھر انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بھنگن کو ان کے گھر کام کرنے سے روک دیا گیا.اس کے متعلق ناظر صاحب امور عامہ نے سپرنٹنڈنٹ بورڈ نگ کو بلایا اور اس کے ذریعہ بھنگن کے خاوند کو بلایا گیا اور پھر بھنگن کو بلا کر سب کی موجودگی میں پوچھا گیا کہ تجھے کس نے کام کرنے سے روکا تھا ؟ تو اس نے ایک لڑکے کا نام لیا کہ اس نے مجھے روکا تھا.اب وہ لڑکا کوئی افسر نہ تھا کہ اس کے روکنے پر وہ رُک جاتی.وہ ناظر نہ تھا ، وہ خلیفہ نہ تھا، وہ محض ایک لڑکا تھا.اس کے منع کرنے سے اُس کا رُک جانا اول تو خود غلطی ہے دوسرے اس لڑکے کو بلا کر جب دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میں نے اسے روکا نہیں تھا میں نے اسے یہ کہا تھا کہ کیا تم اب تک ان کا کام کرتی ہو؟ بیشک یہ فقرہ ایسا تھا جس سے یہ استنباط ہو سکتا تھا کہ کی اسے یہاں کام نہیں کرنا چاہئے مگر یہ کسی ذمہ دار کا حکم نہیں تھا کہ وہ رُک جاتی بلکہ صرف ایک طالب علم
خطبات محمود ۲۴۴ سال ۱۹۳۷ء کے جوش کا اظہار تھا.پس اگر وہ رُکی ہوگی تو اپنی مرضی سے یا مصری صاحب کے روک دینے کی وجہ سے.چنانچہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ بعض دکانداروں کو انہیں سو دا دینے کی اجازت ہے پھر بھی وہ انہیں سو دانہیں دیتے کیونکہ ان کی ایمانی غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ ایسے شخص کو سودا دیں جو خلافت سے غداری کا مرتکب ہوا ہے.لیکن باوجود اس کے اگر کوئی دکاندار انہیں کوئی ایسا سودا نہ دے جس کے متعلق مجھے یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ وہ قادیان میں کسی اور جگہ سے نہیں مل سکتا تھا تو یقیناً میں ایسے دکاندار کو سزا دوں گا.پس ان کا تمام غیر احمدیوں ، سکھوں اور ہندوؤں کو چھوڑ کر صرف احمدی دکانداروں سے سو دا کرنے کی کوشش کرنا سوائے اس کے کوئی معنے نہیں رکھتا کہ وہ ان میں سے کسی منافق کے ذریعہ سے دوسرے ان لوگوں سے جن کے بارہ میں انہیں دعوئی ہے کہ ہمارے ساتھ ہیں تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں.اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پوشیدہ لوگ اگر کوئی ہیں تو ظاہر ہو جائیں.اسی طرح وہ کہتے ہیں مزدوروں کو کام کرنے سے روکا گیا.لیکن ناظر صاحب امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ انہیں تحقیق کے باوجود اس میں صداقت معلوم نہیں ہوئی.اسی طرح کہتے ہیں میری پوتی کا دودھ بند کر دیا گیا.اس کے متعلق ناظر صاحب نے انہیں لکھا کہ آپ بتائیں آپ کے ہاں کون عورت دودھ لایا کرتی تھی تاہم اس سے دریافت کر سکیں کہ اسے دودھ دینے سے کس نے روکا.مگر انہوں نے اس عورت کا نام بتانے سے انکار کر دیا ہے.ہاں میر محمد الحق صاحب نے بیان کیا ہے کہ جو عورت ان کے ر دودھ دیتی ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ وہی مصری صاحب کے ہاں دودھ دیتی رہی ہے اور وہ کہتی ہے کہ مجھے کسی نے دودھ دینے سے نہیں روکا بلکہ ایک دوست نے بتایا ہے کہ وہ اب تک انہیں دودھ دیتی ہے.غیر احمدی ملازمہ کو کام سے روکنا بھی ہماری تحقیق میں بالکل غلط ہے.بایں ہمہ میں سمجھتا ہوں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی شخص نے غیر احمدی ملازمہ کو ان کے ہاں کام کرنے سے روکا تو میں یقیناً اسے سزا دوں گا کیونکہ غیر احمد یوں کو روکنے کا ہمیں کوئی حق نہیں مگر اس کیلئے ثبوت چاہئے جو ابھی تک میرے سامنے پیش نہیں ہوا.یہ کہنا کہ ” میرے اوپر چند لونڈے مسلط کئے ہوئے ہیں کہ جدھر میں جاؤں وہ سایہ کی طرح کی میرے پیچھے جائیں.اس کے متعلق دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلط کے کیا معنے ہیں.کیا وہ ڈنڈے مارتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں یا کہیں جانے نہیں دیتے ؟ اگر کچھ بھی نہیں کرتے صرف انہیں
خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۷ء یکھتے ہیں تو دیکھنے پر انہیں کیا اعتراض ہے.کیا مصری صاحب انہیں نہیں دیکھتے ؟ اگر تو وہ شیخ صاحب کو کہیں جانے سے روکیں تب تو وہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ مجھے چلنے پھرنے بھی نہیں دیا جاتا لیکن جبکہ وہ آزاد ہیں، وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تو محض دیکھنے سے انہیں کیوں تکلیف ہوتی ہے.مگر اس بارہ میں کی بھی میں نے امور عامہ کو نصیحت کی ہے کہ کوئی شخص ایسی حرکت نہ کرے جو فی الواقعہ تکلیف کا موجب ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس بارہ میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے گا.غرض جو لوگ مقرر ہیں وہ اس لئے مقرر نہیں کہ شیخ صاحب کو کوئی تکلیف ہو بلکہ اس لئے مقرر ہیں کہ تا وہ لوگ جو بقول شیخ صاحب اور ان کے ساتھیوں کے ظاہر میں ہمارے ساتھ ہیں اور باطن میں ان کے ساتھ ، منافقت کو ترک کر کے ظاہر ہو جائیں اور گھلے بندوں شیخ صاحب کے ساتھ جا ملیں اور ہمیں دھوکے میں نہ رکھیں کہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے.ہم تو خود ان لوگوں کو ان کی طرف بھیج رہے ہیں پھر نہ معلوم شیخ صاحب اور وہ لوگ کیوں خواہ مخواہ ناراض ہیں.آخر فخر الدین ان سے ملتا ہے یا نہیں ؟ پھر کیا کبھی ہم نے اس کے ملنے پر اعتراض کیا ؟ یا عبدالعزیز ان سے ملتا ہے تو ہم نے کبھی اعتراض کیا ؟ اسی طرح اگر کوئی اور ان سے ملنا چاہتا ہے تو وہ بھی آزاد ہے ہم صرف اسے کہہ دیں گے کہ اب ہمارے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں تم انہی کے پاس رہو.وہ کہتے ہیں کہ ۴ جولائی کو پندرہ سولہ نوجوان جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاں تھیں ان کی کے مکان کی ناکہ بندی کرنے کیلئے آموجود ہوئے.ان میں سے چند ایک اس مکان میں جو ان کے مکان کے قریب جانب شمال نیا بنا ہے، چلے گئے اور اس کے ایک حصہ پر چڑھ کر جہاں سے ان کے مکان کی بے پردگی ہوسکتی ہے ڈور بین کے ساتھ مکان کے کمروں پر نظر ڈالنے لگ گئے.اس کے متعلق تحقیقات کر کے ناظر صاحب امور عامہ نے یہ رپورٹ کی ہے کہ اُس دن صرف چار طالب علم مقرر تھے اور ان کے نام یہ ہیں.عبدالرشید، عبدالشکور، محمد حنیف، ناصر احمد.میں نے نام اس لئے لے دیئے ہیں که اگر کسی دوست کو شبہ ہو تو وہ ان لڑکوں سے حالات دریافت کر کے حقیقت معلوم کر لے.پھر یہ کہنا کہ پندرہ سولہ نوجوان مسلح ہو کر وہاں گئے کیسا خلاف واقعہ بیان ہے.باقی رہا یہ کہ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاں تھیں سو یہ کوئی قابل اعتراض امر نہیں.میں نے آج لاٹھیاں رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ میں ۱۹۲۷ ء سے لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھوں میں لاٹھی رکھا کریں.پس لاٹھی
خطبات محمود ۲۴۶ سال ۱۹۳۷ء رکھنا ہر گز مسلح ہونے کی کوئی علامت نہیں اور اگر لاٹھی رکھنا مسلح ہونا ہے تو بالکل ممکن ہے کل میں سوئی لے کر اس طرف سیر کو نکلوں تو وہ کہہ دیں یہ مسلح ہو کر مجھ پر حملہ کرنے کیلئے آئے ہیں.اس طرح تو کل اگر ہم میں سے کوئی جوتی پہنے پھر رہا ہوگا تو کہہ دیں گے یہ ہمیں جوتیاں مارنے آئے ہیں.پھر اگر کسی دن ہمارے نوجوان وہاں سے پگڑیاں باندھے گزریں تو کہہ دیں گے کہ یہ پگڑیوں کے کوڑے بنا کر ہمیں ماریں گے یا یہ کہہ دیں گے کہ یہ پگڑیوں کے رستے بنا کر ہمارے گلوں کو گھونٹ دیں گے.بلکہ ممکن ہے اگر ی کوئی ہم میں سے کوٹ پہن کر اُدھر جا نکلے تو وہ یہ شبہ کرنے لگیں کہ یہ کوٹ اس نے اس لئے پہنا ہے تاتی ے مروڑ کر کوڑا بنائے اور ہمیں مارے.اس طرح تو اصل علاج ان کی تکلیف کا یہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے آدمی اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں.پس لاٹھی رکھنا ہر گز مسلح ہونا نہیں بلکہ ہماری جماعت میں بھی کی اور دوسرے لوگوں میں بھی اس کا عام رواج ہے اور میں نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ جماعت کے مخلص احباب کوشش کریں کہ وہ اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکھا کریں.مسلح ہونے کے معنے تو یہ ہیں کہ ان کے ہاتھ میں تلواریں ہوتیں یا بندوقیں اُٹھائے ہوئے ہوتے تب ہم بیشک کہہ سکتے کہ وہ مسلح تھے لیکن ہاتھ میں سوٹی ہونا تو مسلح ہونے کی کوئی علامت نہیں.اور اگر وہ محض کسی کے ہاتھ میں سونٹا دیکھ کر اتنی جلدی بدظنی پر اتر سکتے ہیں تو ممکن ہے کل اگر کوئی شخص کلہاڑی لے کر صبح مسواک کاٹنے کیلئے کسی سڑک پر سے نکلے تو وہی یہ شور مچانے لگ جائیں کہ یہ شخص مجھ پر حملہ کرنے کی نیت سے گھر سے نکلا ہے.اگر اسی طرح بدظنی کا سلسلہ دراز کیا جائے تو دنیا پاگل ہو جائے.اور یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے تاریخوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دفعہ مدینہ میں بعض کفار آئے.انہوں نے دھوکا و فریب سے کام لیتے ہوئے آپ سے کہا کہ ہماری ساری قوم اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے.آپ ہمارے ساتھ چند آدمی بھیج دیں جو ہمیں اسلام سکھائیں.آپ نے چند صحابہ اُن کے ہمراہ بھیج دیئے.جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو ان کفار نے اور بہت سے کفار اپنے ساتھ شامل کر کے ان کا محاصرہ کر لیا اور لڑائی شروع کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے دو کے باقی تمام صحابہ شہید ہو گئے شے پھر ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے اور قریش نے گرفتار کرنے والوں کو انعام دے کر انہی کو قید کر لیا.اسلام میں چونکہ زیر ناف بالوں کی صفائی کا حکم ہے اس لئے ان میں سے ایک صحابی نے ایک دن کسی سے اُسترا مانگا.ابھی اُسترا ان کے ہاتھ میں ہی تھا کہ گھر والوں کا بچہ کھیلتا ہوا ان کے پاس چلا گیا.انہوں نے پیار سے اسے اپنے زانو پر بٹھا لیا.بچے کی و
خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۷ء ماں نے جب یہ دیکھا کہ اس صحابہ کے ایک ہاتھ میں اُسترا ہے اور زانو پر ہی بچہ بٹھایا ہوا ہے تو وہ چیچنیں مار کر کہنے لگی خدا کے واسطے میرے بچہ پر رحم کرو اور اسے قتل نہ کرو.حالانکہ انہوں نے استرا صفائی کیلئے لیا تھا.قتل کرنے کیلئے نہیں لیا تھا.تو اس قسم کی بدظنیاں اگر انسان کرے تو ان کی کوئی حد ہی نہیں ہوسکتی.باقی رہا یہ کہ ان کا گھر دُوربین سے دیکھا گیا اس بارہ میں امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جس کی مکان اور جس جگہ سے دیکھنے کا الزام ہے وہ درست نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ پہرہ دارلڑکوں میں سے ایک اپنے گھر سے دور بین لا یا ہوا تھا مگر وہ بند تھی اُس نے کھولی نہیں اور ان کے گھر کے اندر جہاں سے نظر پڑ سکتی ہے وہ اس مکان کی ایک دیوار ہے جس پر کسی لڑکے کا چڑھنا ثابت نہیں ہوا.ہاں امور عامہ کی تحقیق یہ ہے کہ قاضی عبدالمجید صاحب امرتسری کے مکان سے بعض دفعہ دور بین سے دیکھا گیا ہے لیکن اس مکان کے سامنے مصری صاحب کا زنانہ حصہ نہیں بلکہ مردانہ برآمدہ ہے اور اس جگہ کے لوگ ہر چلنے پھرنے والے کو نظر آتے ہیں.چونکہ قاضی صاحب کا مکان فاصلہ پر ہے اس لئے شکل پہچاننے کیلئے اس کی مردانہ حصہ کو بعض لوگوں نے دُور بین سے دیکھا ہے.اب جو ڈور بین کو جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو ی چیز بغیر ڈور بین کے دیکھنی جائز ہو، دور بین سے اس کا دیکھنا اسے کوئی ناجائز شکل نہیں دے دیتا.پس یہ کہنا کہ بڑا غضب ہو گیا دُور بین سے مکان دیکھ لیا بیوقوفی ہے.ہاں اگر زنانہ میں نظر پڑے تو یہ یقیناً بُرا فعل ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کسی نے اس طرح کیا ہے تو میں اسے یقیناً سزا دوں گا.مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں امور عامہ کی رپورٹ کے مطابق دور بین سے گھر میں نہیں دیکھا گیا بلکہ مردانہ حصہ جو برلپ سڑک ہے دیکھا گیا.یا د رکھنا چاہئے کہ مصری صاحب سے سلوک کے متعلق اعلان میری اجازت بلکہ ہدایت کے ماتحت عمل میں لایا گیا ہے.اسی طرح ان کے گھر کے ارد گرد جو آدمی مقرر کئے گئے ہیں وہ مجھ سے اجازت لے کر مقرر کئے گئے ہیں.پس ان دونوں امور کی ذمہ داری اس حد تک مجھ پر ہے جس حد تک میں نے ان کا حکم دیا ہے یا ان کی اجازت دی ہے.ہاں عملی تفصیلات امور عامہ اپنے طور پر طے کرتا ہے.سودا سلف کے معاملہ میں میری ہدایت یہ تھی کہ جو ضروریات زندگی سکھوں ، ہندوؤں اور غیر احمدی دکانداروں سے میسر آسکتی ہوں ، وہ احمدی دُکان داروں کی طرف سے نہ دی جائیں لیکن جو
خطبات محمود ۲۴۸ سال ۱۹۳۷ء ان سے نہ مل سکتی ہوں وہ ضرور دی جائیں.اصل بات یہ ہے کہ گزشتہ احراری فسادات کے تجربہ سے یہ امر ظا ہر ہے کہ احمدیوں سے سودا خریدنے میں ہمارے مخالفین کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ وہ ان سے سو دا خریدیں بلکہ وہ کمز ور طبع دُکانداروں کو اپنے ساتھ ملاتے اور ان کے ذریعہ اپنے تعلقات دوسرے منافق کی کواپ طبع لوگوں سے قائم کرتے ہیں اور اس لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ جن دکانداروں کے متعلق ہمیں شبہ ہو کہ وہ ان کے دلال بن سکتے ہیں ان دکانداروں کو نگرانی میں رکھیں.یوں ان پر کوئی جبر نہیں کرتا وہ دکاندار اگر چاہیں تو الگ ہو سکتے ہیں پھر وہ کسی قاعدہ کے پابند نہ ہوں گے.پس جماعت نے ایسا ہی انتظام کیا ہے اور حکم دے دیا ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز جو ہندوؤں ،سکھوں اور غیر احمد یوں سے نہ مل سکتی ہوا نہیں احمدی دکانداروں سے خریدنی پڑے تو احمدی دکاندار محکمہ کی اجازت سے انہیں سو دا دیں تا ایسے لوگوں سے وہ نہ مل سکیں جو ہمارے اندر رہ کر ہم سے دشمنی کرتے ہیں.اگر وہ ہمارے اندر سے نکل جائیں تو ہمیں ان کے متعلق کوئی شکوہ نہیں ہو گا لیکن جب وہ ہمارے اندر رہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی تدابیر کو نا کام کریں اور فتنہ کو جس حد تک روک سکتے ہیں روکیں.اور چونکہ احمدی دکانداروں.سے سودا خریدنے میں ان کی یہی غرض مخفی تھی جو میں نے بیان کی ہے اور وہ ہمارے انتظام کے ماتحت پوری نہ ہوسکی اس لئے انہوں نے یہ شور مچادیا کہ احمدی دکانداروں کو سو دا دینے سے روکا جاتا ہے حالانکہ یہ کی بالکل جھوٹ ہے.پھر یہ بھی تو سوچو کہ جو لوگ اتنی بدظنی کر سکتے ہیں کہ بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ کہتے جاتے ہیں کہ فلاں نے یہ ظلم کیا اور فلاں نے یہ.ان سے یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ وہ کسی احمدی دکانداری سے دودھ لے جائیں اور اتفاقاً اس دن ان کے کسی بچہ کو ذرا سا قراقر کے ہو جائے تو وہ یہ شور مچا دیں کہ کی دودھ میں زہر ملا کر دیا گیا ہے.یا کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی احمدی دُکاندار سے مٹھائی لے جائیں اور اتفاقاً اُسی دن ان کے پیٹ میں بھی درد ہو تو وہ یہ شور مچانا شروع کر دیں کہ ہمیں مٹھائی میں زہر ملا کر دیا گیا ہے.پس چونکہ وہ باطنی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اس لئے جھگڑے سے بچنے کیلئے خود ان کیلئے یہ بہتر طریق تھا کہ وہ علیحدہ رہتے اور غیروں کی دُکانوں سے سو دامنگواتے تا انہیں کسی قسم کا شکوہ پیدا نہ ہوتا مگر جب ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اب بھی باوجود یکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا یہ کہتے ہیں کہ میرے خلاف جماعت کو بھڑکا دیا گیا ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ میری جان و مال پر کسی وقت حملہ ہو جائے تو ان حالات میں ان کا احمدی دکانداروں سے ہی سو دا خریدنے پر اصرار کرنا جماعت کو بعض الزامات کے
خطبات محمود ۲۴۹ سال ۱۹۳۷ء نیچے لانا ہے.چنانچہ وہ اپنے اس خط میں جو ناظر صاحب امور عامہ کے جواب میں انہوں نے لکھا تحریر کرتے ہیں ” پہرہ داروں پر مجھے کوئی رنج نہیں ان کو ملزم گردانا غلطی ہے وہ تو ان کا موں کو کارِ ثواب سمجھ کر کر رہے ہیں.عوام کو مذہب کی آڑ میں بھڑ کانے والا ان تمام افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے جو عوام اس کے کی بھڑ کنے کے نتیجہ میں مشتعل ہو کر کرتے ہیں ان کے لیڈ رجس فعل کو مذہبی فعل قرار دے دیں اس فعل کو وہ عین ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں.دوسرے لوگوں پر مخفی ہو تو ہولیکن ایک ناظر پر تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی.ان الفاظ میں وہ یہ کہ رہے ہیں کہ میرے خلاف مذہب کی آڑ میں جماعت کو بھڑ کا دیا گیا ہے اور اگر اس سے مشتعل ہو کر کسی نے مجھ پر حملہ کر دیا تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی جو عوام کے جذبات کو بھڑکا رہا ہے.پس جب اس قدر وہ جماعت احمدیہ کے افراد سے بدظن ہو چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ افراد جماعت سے ان کی جان محفوظ نہیں تو اگر ہماری طرف سے یہ اجازت ہو جائے کہ احمدی دکاندار انہیں سودا دے دیا کریں تو کیا وہ الزامات نہیں لگا سکتے کہ مجھے دودھ میں زہر ملا کر دیا گیا ہے ، مٹھائی میں سنکھیا ڈال دیا گیا ہے اور آٹے میں زہر ملا دیا گیا ہے تا کہ اس کے کھانے سے میں ہلاک ہو جاؤں.یہ وہ جی نتیجہ نہیں جو فرضی ہو بلکہ ان کے خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: آخر میں یہ بات بھی میں کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو کارروائیاں آپ میرے خلاف کر رہے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید کسی دن میرے یا میرے اہل وعیال کی جان و مال پر حملہ ہو جائے.اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری خود خلیفہ صاحب اور ان کے کارکنوں پر ہوگی کیونکہ عوام کے اندر جو نفرت اور اشتعال میرے خلاف میری طرف بے بنیاد اور غلط باتیں منسوب کر کے پیدا کیا جارہا ہے ، اس کے اصل محرک یا بانی یہی وجود ہیں.پس اگر خود خلیفہ صاحب کی طرف سے اس بارہ میں مجھے تسلی نہ دلائی گئی تو میں مجبور ہوں گا کہ گزشتہ تمام واقعات کو حکام کے سامنے رکھ کر ان سے اپنی جان و مال کی حفاظت کا مطالبہ کروں اور ان کے علم میں لے آؤں کہ اگر مجھے یا میرے اہل و عیال کو کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری جناب خلیفہ صاحب اور ان کے کارکنوں پر ہوگی.اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے ذہن میں آئندہ ایسے الزام لگانے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ قادیان کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ انہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں اور وہ آزادی سے اکیلے گلیوں کی
خطبات محمود ۲۵۰ سال ۱۹۳۷ء میں چلتے پھرتے ہیں بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے تک آزادی سے پھرتے ہیں.پس جب حالات یہ ہوں تو کیا یہ احتیاط کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں کہ جب سو دا انہیں دوسرے دکانداروں سے مل سکتا ہے ہم احمدی دکانداروں کو اس مصیبت میں پڑنے سے بچائیں اور جماعت کو الزام سے بچانے کی کوش کریں.اور کیا ہم یہ شک نہ کریں کہ وہ احمدی دکانداروں سے سو دا خریدنے پر اس لئے اصرار کرتے ہیں تا کوئی الزام لگا کر فساد کھڑا کریں اور جماعت کو مشکلات میں ڈالیں.پھر خط میں صاف طور پر لکھا ہے کہ خواہ جماعت کے کسی فرد کی طرف سے کوئی حرکت سرزد ہوئی اس کا ذمہ وار خلیفہ ہو گا.اب یہ عجیب بات ہے کہ آٹا تو انہیں چوہدری حاکم دین دے لیکن اگر اس آئے کے کھانے سے انہیں پیٹ درد ہو جائے یا اسہال آجائیں تو اس کی ذمہ واری خلیفہ پر ہو.کیا اس قسم کی دماغی حالت کو دیکھتے ہوئے میرا فرض نہیں تھا کہ میں اپنی عزت کی حفاظت اور بچاؤ کیلئے کہہ دوں کہ کوئی احمدی دکاندار انہیں سودا نہ دے تا ایسا نہ ہو کہ کل وہ مجھ پر کوئی الزام لگا دیں اور انہیں شور مچانے کا موقع مل جائے.وہ خود کہہ رہے ہیں کہ حالات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید کسی دن میرے یا میرے اہل وعیال کی جان و مال پر حملہ ہو جائے اور پھر صاف طور پر لکھتے ہیں کہ جب ایسا حملہ ہوا تو اس کا ذمہ دار وہ شخص نہیں ہو گا جس نے حملہ کیا بلکہ خلیفہ ہوگا.جس شخص کا دماغ اپنی جگہ سے اس قدر ہل چکا ہو کیا وہ کل کو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے زہر دیا گیا ہے، مجھے آٹے میں اور مٹھائی میں اور گھی میں اور دودھ میں سنکھیا ملا کر دیا گیا ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ عوام میرے خلاف اتنے بھڑک چکے ہیں کہ اب میری جان اور میرا مال ان سے محفوظ نہیں تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ان حالات میں وہ انہی لوگوں سے سو دا خریدنے کی کوشش کریں گے جن سے انہیں خوف ہے.ظاہر ہے کہ اگر وہ ان سے سودا خریدنے کی کوشش کریں تو یا تو ان کی نیت فساد کی ہوگی یا ثابت ہوگا کہ وہ الزام افترا کے طور پر لگاتے ہیں اور جان بوجھ کر لگاتے ہیں.پس اگر ان کا الزام درست ہے تو اس صورت میں تو انہیں احمدیوں سے دُور بھاگنا چاہئے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں مصری صاحب وغیرہ سے قطع تعلق کی ضرورت کیوں پیش آئی.جماعت کے لوگ جانتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص کو جماعت سے خارج کرتے ہیں تو ہر ایک سے قطع تعلق نہیں کرتے بلکہ بعض با وجود اس کے کہ ہماری جماعت سے خارج ہو چکے ہوتے ہیں لوگ ان ان سے ملتے رہتے ہیں لیکن بعض سے ہم بالکل قطع تعلق کر لیتے ہیں اور بعض سے ایک حد تک قطع تعلق کرتے
خطبات محمود ۲۵۱ سال ۱۹۳۷ء ہیں.قادیان سے باہر جو لوگ جماعت سے خارج کئے جاتے ہیں ان سے بالعموم ملنا جلنا منع ہوتا ہے.مگر قادیان میں ہی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو جماعت سے خارج ہیں مگر لوگ ان سے ملتے ہیں.تو یہ جو مقاطعہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو ملنے سے روکا جاتا ہے یہ ایسے ہی مقامات پر کیا جاتا ہے جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ اس شخص نے جماعت کے خلاف خفیہ کارروائیاں کیں.پس جو لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں سازش کا دخل ہوتا ہے ان سے قطع تعلق کا حکم دیا جاتا ہے.لیکن وہ شخص جس کا فعل انفرادی حیثیت رکھتا ہو اس کے متعلق سلسلہ بھی ایسا حکم نہیں دیتا.غرض قطع تعلق کا اعلان انہی لوگوں کے متعلق کیا جاتا ہے جن کے فعل میں سازش پائی جاتی ہو اور یہ ثابت ہو کہ وہ خفیہ طور پر لوگوں کو اپنے ی ساتھ ملا کر جماعت میں فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں.جیسے ۱۹۲۴ء میں بعض لوگوں کے بہائی ہونے پر ہم نے ان کے ساتھ تعلقات قطع کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ان کے متعلق یہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ظاہر میں کی ہمارے ہم خیال تھے مگر اندر اندر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے تھے.چنانچہ دو تین آدمی انہوں نے اپنے ساتھ ملا بھی لئے تھے.اسی طرح ہماری اور سزاؤں میں بھی فرق ہے.مثلاً بعض کو جماعت سے خارج نہیں کیا جاتا صرف اُن سے مقاطعہ کا حکم دیا جاتا ہے جیسے در د صاحب جب لندن گئے اور اُس موقع پر بعض لڑکوں نے خلاف شریعت حرکات کیں تو اُن سے بولنا منع کر دیا گیا تھا مگر انہیں جماعت سے خارج نہیں کیا گیا اور اس قسم کا مقاطعہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے.چنانچہ وہ لوگ جن کا وَعَلَى التَّلثَةِ الَّذِينَ خُلِفُوا میں ذکر کیا گیا ہے ان سے بولنا رسول کریم یا اللہ نے منع کر دیا تھا.غرض نہ بولنے کی سزا اخراج از جماعت سے لازم ملزوم نہیں.یہ اُسی وقت سزا دی جاتی ہے جب اختلاف کی تہہ میں خفیہ سازشیں کام کر رہی ہوں.اب مصری صاحب نے مجھے جو خطوط لکھے ہیں ان میں صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ وہ لوگوں سے مل مل کر میرے خلاف مواد جمع کرتے رہے ہیں اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ کیس فخردین کے متعلق چلایا جاتا ہے اور نوٹس مصری صاحب دے کر بیعت سے الگ ہو جاتے ہیں.ادھر مصری صاحب الگ ہوتے ہیں تو حکیم عبدالعزیز کہتا ہے میری بیعت بھی فتح سمجھیں.صاف پتہ لگتا ہے کہ اندر ہی اندر کوئی سازش تھی جس کی وجہ سے جب ایک شخص جماعت سے الگ ہوا تو دوسروں نے بھی الگ ہونا ضروری سمجھا.پھر کیا وہ باتیں جن کی وجہ سے وہ ایک عرصہ سے میرے پیچھے نماز بھی نہیں پڑتے تھے انہیں اُسی وقت معلوم ہوئیں جب میاں فخر دین ملتانی جماعت سے الگ ہوئے.اگر نہیں بلکہ
خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۷ء وہ باتیں پہلے بھی انہیں معلوم تھیں تو سوال یہ ہے کہ وہ ان کے نکلنے تک خاموش کیوں رہے اور کیوں جب تک میاں فخر دین ملتانی جماعت سے خارج نہیں ہوئے انہوں نے ان خیالات کا اظہار نہیں کیا.اس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں میں اندر ہی اندر کوئی معاہدہ تھا اور جب ان میں سے ایک شخص جماعت سے نکل گیا تو دوسروں نے سمجھا اب اگر ہم بھی بیعت سے الگ نہ ہونگے تو یہ غداری کی ہوگی.اگر انہیں کوئی ایسی ہی باتیں معلوم تھیں جن کی وجہ سے ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ بیعت کا عہد فسخ کر دیتے تو اس سے بہت پہلے وہ اپنے عہد کو فسخ کر چکتے لیکن ان تینوں کا ایک ہی موقع پر ظاہر ہونا بتا تا ہے کہ اندر ہی اندر ان تینوں میں کوئی کھچڑی پک رہی تھی.جب اس حد تک انہوں نے سازشیں کیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مرنے جینے کا اقرار کر لیا اور جماعت کو تفرقہ میں ڈال دینا چاہا تو ہما را حق تھا کہ ان کے جماعت سے الگ ہونے کا اعلان کر کے جماعت کے لوگوں کو ان سے ملنے کی ممانعت کر دیتے تا وہ اپناز ہر نہ پھیلا سکیں اور تا اگر ان کا کوئی اور ہم خیال ابھی ہم میں موجود ہو تو وہ ظاہر ہو جائے اور اسے بھی ہم اپنے اندر سے نکال کر ان کے ساتھ شامل کر دیں.مجھے افسوس ہے کہ مصری صاحب کا طریق بالکل مستریوں کے طریق سے ملتا جلتا ہے.انہوں نے بھی مفروضہ مظالم کا شور مچا دیا تھا اور پھر ثبوت پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی ذمہ داری مالی کسی اور پر نہیں صرف خلیفہ پر ہے.یہ بھی شور مچارہے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے مگر بتاتے نہیں کہ ان پر کون ظلم کر رہا ہے.ہاں اتنا ضرور کہے جاتے ہیں کہ یہ سب ظلم خلیفہ کر رہا ہے.ہم ان سے کہتے ہیں آؤ ہم ان امور کی جنہیں تم مظالم کہتے ہو تحقیق کریں مگر وہ اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے.نہ یہ بتاتے ہیں کہ کس نے ان کے مزدوروں کو روکا ، نہ یہ بتاتے ہیں کہ کس نے سودا دینے سے انکار کیا.ہاں کہتے ہیں ہم اتنا بتائے دیتے ہیں کہ یہ سب ظلم خلیفہ کروا رہا ہے جس سے ان کا منشاء یہ ہے کہ جماعت کے جو منافقین ہیں وہ یہ سن کر شور مچادیں کہ ہاں واقعی بڑا ظلم ہورہا ہے.حالانکہ اگر ان کا منشاء یہ تھا کہ ان کی شکایات دور ہوں تو انہیں چاہئے تھا کہ ہمیں وہ لوگ بتاتے جن سے انہیں شکوہ پیدا ہو مگر جب وہ بتاتے ہی نہیں تو اصلاح کس طرح ہو.ابھی تھوڑے دن ہوئے میرے پاس ایک غیر احمدی دوست تشریف لائے اور کہنے لگے آپ ان کی شکایات کا ازالہ کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے کہا میں نے تو نظارت امور عامہ کو ہدایت کی تھی کہ ان
خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۷ء سے دریافت کرے کہ کس نے انہیں تکالیف پہنچائیں اور اس نے انہیں چٹھی بھی لکھی مگر انہوں بتانے سے انکار کر دیا ہے.وہ کہنے لگے پھر کیا ہوا، آپ خود پتہ لگا لیں کہ کس کس نے انہیں سو دا د ینے یا دودھ دینے سے انکار کیا ہے.میں نے کہا آپ ذرا سوچیں مجھے کیا معلوم ہے کہ مصری صاحب کے ہاں کونسی عورت دودھ دینے جایا کرتی ہے.کیا مجھے روزانہ اطلاع ملا کرتی ہے کہ آج انہوں نے مائی عمراں کی سے سیر بھر دودھ لیا اور کل کسی مائی گھسیٹی ہے.ان باتوں کا ہمیں کیا پتہ لگ سکتا ہے جب تک وہ خود ہی نہ بتائیں کہ انہیں کونسی عورت دودھ دیا کرتی تھی تا کہ ہم اس سے دریافت کر سکیں کہ اسے کس نے روکا.اب قادیان میں دس ہزار آبادی ہے اور مجھے کوئی علم نہیں ہو سکتا کہ ہر شخص دودھ کس سے لیتا ہے، گوشت کہاں سے خریدتا ہے اور سبزی کس سے لیتا ہے.کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس دن مجھے رپورٹ ملے کہ مصری صاحب کے ہاں آج دودھ نہیں پہنچا اُس دن میں ڈھنڈورا پٹوا نا شروع کر دوں کہ مصری صاحب کے ہاں کونسی عورت دودھ دینے جایا کرتی تھی.اور جب مجھے معلوم ہو کہ فلاں عورت تھی تو اس سے وجہ دریافت کروں کہ وہ آج کیوں نہیں گئی.یہ سن کر وہ کہنے لگے بیشک ان باتوں کے بتانے کی ذمہ داری تو خود مصری صاحب پر عائد ہوتی ہے.میں نے کہا یہی بات ہم پیش کر رہے ہیں کہ اگر ی شکایات کو انہوں نے نیک نیتی سے پیش کیا تھا تو ان کا فرض تھا کہ وہ بتاتے ہمارے ہاں فلاں فلاں عورت دودھ دے جایا کرتی تھی مگر اُسے اب فلاں نے روک دیا ہے.مگر وہ یہ باتیں تو بتاتے نہیں اور یونہی کہتے پھرتے ہیں کہ میری پوتی کا دودھ بند کر دیا گیا.ہمیں کیا معلوم کہ ان کی پوتی کو کون عورت کی دودھ دیا کرتی تھی.ہمسائیوں کو پھر بھی بعض باتیں معلوم ہو سکتی ہیں مگر وہ بھی ہر بات کا علم نہیں رکھ سکتے.مثلاً آج ہی جو چیزیں میں نے دکان سے منگوائی ہیں ان کی اگر لسٹ سناؤں تو دکاندار تو بتا سکتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز ان کے ہاں سے آئی لیکن جو چیز میں عورتیں گھروں میں لاتی ہیں ان کا کسی کو کیا پتہ ہوسکتا ہے.اب اگر کوئی عورت ہمارے گھر میں کدو دے گئی ہو اور میں دریافت کروں بتاؤ ہمارے ہاں کون عورت کدو دے گئی ہے اور وہ جنگل کی تھی یا بھینی کی تو کیا آپ لوگ جو اس وقت جمعہ کے لئے جمع ہیں اس کا جواب دے سکیں گے؟ یہ تو میرے گھر کے لوگوں کا کام ہوگا کہ وہ بتائیں کہ فلاں عورت آج کدو دے گئی ہے.اسی طرح یہ مصری صاحب کا کام ہے کہ وہ بتائیں کہ کس سے دودھ لیا کرتے تھے تا اس سے دریافت کر کے ان کی شکایت کی حقیقت معلوم کی جا سکے.مگر جب وہ بتاتے ہی نہیں اور شور مچائے کی
خطبات محمود ۲۵۴ سال ۱۹۳۷ء جاتے ہیں تو ہر شخص بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس شور مچانے سے ان کی کیا غرض ہے.خیر میری یہ باتیں اس دوست کی سمجھ میں آگئیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ محض لوگوں کو اشتعال دلانے کے کیلئے کارروائی کی جارہی ہے، نیک نیتی پر مبنی نہیں.بعینہ یہی طریق مستریوں کا تھا وہ بھی شور مچاتے کہ ہم کی پر ظلم کیا جارہا ہے مگر جب دریافت کیا جاتا کہ کون کر رہا ہے تو کہتے یہ تو نہیں بتا سکتے ، ہاں اس کی ذمہ واری خلیفہ پر ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ رات کے وقت میاں عبدالوہاب صاحب عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے محمد امین خان اور زاہد کی لڑائی ہوگئی ہے اور زاہد کو مارا ہے.میں نے اُسی وقت زاہد کی طرف آدمی دوڑایا اور کہا کہ اسے میرے پاس بلا لاؤ تا میں اس سے لڑائی کا حال دریافت کروں.جب وہ آدمی اسے بلانے کیلئے گیا تو اس نے بتایا کہ فضل کریم ، عبد الکریم اور زاہد تینوں گھر میں بیٹھے تھے.میں نے کی جب کہا کہ حضرت صاحب آپ کو بلاتے ہیں تا تحقیق کی جائے اور جس کا قصور ثابت ہو اُسے سزا دی جائے تو وہ کہنے لگے جاؤ جاؤ ہم تحقیقات نہیں کراتے.ہمیں پتہ ہے کہ کس حرامزادے نے یہ کام کیا ہے.آپ ہی کام کراتے ہیں اور آپ ہی اس کی تحقیق کرنے لگ جاتے ہیں.یہی جواب ہے جو مصری صاحب نے ہمیں دیا.فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے حرامزادے کا لفظ استعمال نہیں کیا.چنانچہ لکھتے ہیں ' آپ لوگوں پر اس تحریر کے ذریعہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو گویا ان مظالم کا علم ہی نہیں جو مجھے پر آپ لوگوں کی طرف سے کئے جارہے ہیں اور گویا آپ تھرڈ پرسن (Third Person) ہیں.مظالم کرنے والا کوئی اور ہے.اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں مؤمنا نہ صداقت سے کام لیتا ہوا یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ جو مظالم مجھ پر کئے جارہے ہیں یا آئندہ کئے جائیں گے، ان سب کی ذمہ داری خود خلیفہ صاحب اور ان کے رفقاء کار پر ہے“.پھر لکھتے ہیں.چونکہ میرے نزدیک میرے گھر کا دودھ بند کرانے والے، میرے مزدوروں کو رکوانے والے، میرے گھر کی بے پردگی کرانے والے، میرے گھر کی بھنگن کو بند کرانے والے، دکانداروں کو مجھے اور میرے بچوں کو سو دا د ینے سے منع کرنے والے ، میرے مکان کی ناکہ بندی کرانے والے، مجھے ذلیل کرانے کی کوشش کرنے والے، میرے ساتھ میرے دوستوں، عزیزوں کو ملنے سے روکنے والے
خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۷ء در حقیقت خود خلیفہ صاحب اور ان کے ناظر صاحبان ہیں اس لئے میں ان کی تحقیق سے مطمئن نہیں ہو سکتا اور نہ موجودہ حالات میں مجھے ان سے کسی انصاف کی توقع ہے اور نہ ملزم کو حج بنایا جاسکتا ہے.میں اپنے دلائل یا اُس آزاد کمیشن کے سامنے رکھوں گا جو جماعت کی طرف سے مقرر ہو یا اگر جماعت نے توجہ نہ کی کی تو حکام کے سامنے رکھوں گا“.میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا جو ایسے ہی تلخ موقعوں پر کہا جاتا ہے ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.مصری صاحب بھی اگر ہمت رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ یہ تمام مظالم جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان پر ہوئے میری ہی انگیخت اور علم سے ہوئے ہیں اور یہ کہ اگر وہ اس بات میں جھوٹے ہوں تو لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کی وعید کے مورد ان بنیں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود فیصلہ کر دے گا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ بول کر حق کو چھپا رہا ہے.میں جیسا کہ بتا چکا ہوں ہم نے ان سے کہا کہ وہ ان لوگوں کے نام بتائیں جن کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مظالم کئے مگر وہ ان کے نام تک بتانے کیلئے تیار نہیں.اب سوال یہ ہے کہ اس پردہ داری سے ان کی غرض کیا ہے.اگر وہ بچے تھے تو ان لوگوں کے نام لے دیتے اس صورت میں بہت حد تک یہ معاملہ صاف ہو جاتا.مثلاً اگر وہ کہہ دیتے کہ میاں محمد یوسف صاحب شیر فروش نے دودھ د.سے انکار کر دیا تھا تو ہم ان سے دریافت کرتے اور اگر وہ انکار کر دیتے اور کہتے کہ میں نے ہر گز دودھ کی دینے سے انکار نہیں کیا تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ڈر کر اس نے جھوٹ بول دیا.لیکن اس کا فائدہ یہ ہو جاتا کہ اس کے بعد میاں محمد یوسف صاحب سے دوسرا آدمی ملتا، پھر تیسرا ملتا پھر چوتھا اور جب ہر ایک کے سامنے وہ یہی بیان دیتے کہ مجھے کسی نے نہیں روکا تو معلوم ہو جاتا کہ مصری صاحب جھوٹ بول رہے ہیں.اور اگر کسی کے پاس کہہ دیتے کہ اصل میں تو مجھے روکا گیا تھا لیکن میں نے ڈر کے مارے یہ بات نہیں کی تو لوگ سمجھ جاتے کہ ناظر صاحب امور عامہ نے اپنے اعلان میں جھوٹ سے کام لیا.پس یقین کی اگر شیخ صاحب لوگوں کے نام بتادیتے تو انہیں فائدہ ہوتا اور لوگ ان لوگوں سے مل مل کر اور کرید کرید کر حالات دریافت کر کے حقیقت تک پہنچ جاتے.اس صورت میں انہیں لوگوں کے پاس جا کر اپنی شکایات پہنچانے کی ضرورت نہ رہتی خود بخو دلوگ شیر فروشوں اور آرد فروشوں سے مل کر دریافت کر لیتے کہ بات کیا ہوئی.مگر انہوں نے یہ طریق اختیار نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد محض اشتعال
خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۷ء دلانا اور احمدیوں سے سودا لے کر انہیں کسی نہ کسی الزام کے نیچے لانا ہے.ابھی چند دن ہوئے میرے علم میں یہ بات لائی گئی کہ میاں فخر دین نے فلاں احمدی قصاب سے گوشت لیا ہے.ناظر ( امور عامہ ) نے اس قصاب سے جواب طلبی کی اور اُسے جرمانہ کیا.مجھے جب معلوم ہوا تو میں نے ناظر صاحب کو روکا اور میں نے کہا جرمانہ جانے دیں، آپ صرف نگرانی کریں.باقی اس ہدایت کی لفظی پابندی کا تعہد نہ کریں، حالانکہ یہ جرمانہ بالکل جائز تھا کیونکہ جب غیر احمدی قصاب موجود ہیں اور وہ اس سے گوشت خرید سکتا ہے تو احمدی قصاب سے گوشت خریدنے کے کیا معنے ہیں.اگر غیر احمدی قصاب جھٹکا کرتے تب تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم جھٹ کا نہیں کھا سکتے ، ہمیں حلال گوشت چاہئے.لیکن جب وہ بھی اسی طرح حلال کرتے ہیں جس طرح احمدی ، تو پھر کیوں وہ غیر احمدی قصاب سے گوشت نہیں لے سکتے.پس چونکہ مصری صاحب ہمیں ان لوگوں کے نام نہیں بتاتے اس لئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے کسی کا نام لے دیا تو اس سے دریافت کرنے پر پتہ لگ جائے گا کہ میں نے غلط بیانی کی ہے.اس لئے وہ ان کے نام چھپاتے ہیں اور تحقیقات سے بھی اسی لئے گریز کرتے ہیں تا حقیقت نہ کھل جائے اور تا جو کمزور دل لوگ ہیں وہ اس شور و سے یہ نتیجہ نکالیں کہ کچھ نہ کچھ ظلم تو ہوا ہی ہوگا جس کی بناء پر یہ شور مچایا گیا ہے.دنیا میں بعض کمزور دل ہوتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی شور مچائے خواہ اُس کا شور کس قدر بے بنیاد باتوں پر مبنی ہو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات تو ضرور ہوئی ہوگی.بغیر کسی بنیاد کے بات تو نہیں اُٹھائی جاسکتی اور بعض کمزور ایمان ہوتے ہیں وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے اور یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہوئی ہوگی.چنانچہ ایک مولوی صاحب کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بھی ایک دوست کے سامنے ذکر کیا کہ شیخ مصری صاحب نے جن مظالم کا ذکر کیا ہے، ان میں کوئی بات تو ضرور ہوگی.دراصل جب بھی کوئی شخص کمزور ہو خواہ اس کی کمزوری ایمانی ہو یا جسمانی ، اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اور یہی طبائع ہوتی ہیں جو منافقین کا اثر قبول کر لیتی ہیں اور انہی لوگوں کی طبائع کو دیکھ کر وہ جھوٹ بولنے میں دلیر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے شور مچانے کو ضرور کسی نہ کسی حقیقت پر محمول کریں گے اور کسی حد تک ہمارے پروپیگینڈا سے متاثر ہو جائیں گے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء جب لوط کے متعلق لوگوں نے یہ کہا کہ انہوں نے اپنی بیٹیاں زنا کیلئے کفار کے سامنے پیش کر دی تھیں ، جب نوح کے متعلق لوگوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی لڑکیوں سے بدکاری کی ، جب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہا السلام پر لوگوں نے بہتان لگائے اور کہا کہ وہ لوگوں کا مال کھاتے اور حرام کاری میں مبتلا رہتے ہیں تو انہوں نے ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے یہ باتیں کیں جو اپنی کمزوری طبع کی وجہ سے یہ ان خیال کرتے تھے کہ دشمن جو بات کہ رہا ہے اُن کی تہہ میں کچھ نہ کچھ بات ضرور ہوگی اور میں جانتا ہوں کہ اسی قسم کی کمزور طبائع کو اُکسانے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں.لیکن بہر حال اگر وہ حق پر تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ نام بتاتے لیکن جب وہ نام بتانے کیلئے تیار نہیں تو ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ مظالم کے متعلق ان کے جس قدر الزامات ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور امور عامہ کی تحقیقات کی رو سے بھی درست ثابت نہیں ہوئے لیکن پھر بھی میرا ارادہ ہے کہ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کیلئے باہر کی جماعتوں سے ایک کمیشن مقرر کروں جو یہ تحقیقات کرے کہ کیا امور عامہ نے جو میرے پاس رپورٹ کی ہے وہ غلط ہے اور کیا فی الواقعہ محکمہ والوں نے ضروریات زندگی کے حصول سے جو دوسری جگہ سے بآسانی میسر نہیں آسکتی تھیں ان لوگوں کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے؟ یا اور کسی طرح کوئی نا واجب دکھ دیا ہے یا واقعہ میں ان کے غیر احمدی مزدوروں کو کام کی کرنے سے منع کیا گیا اور کیا واقعہ میں ڈور بین سے ان کے مکان کے زنانہ حصہ کو دیکھا گیا ؟ مگر اس موقع پر میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سچائی کو اختیار کرے اور جھوٹ بول کر اپنے ایمان کو تباہ نہ کرے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت طبائع میں اشتعال ہے مگر یاد رکھو اشتعال کی حالت میں بھی کبھی کوئی ایسا کام نہ کرو جو تقویٰ کے خلاف ہو.میں ایسے شخص کو ہرگز احمدی نہیں سمجھ سکتا جو یہ کہتا ہو کہ یہ جماعت بگڑ گئی اور اس کی اکثریت خراب اور گندی ہوگئی اور میں اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے والا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب ڈاکٹر عبد الحکیم نے لکھا کہ آپ کی جماعت میں سوائے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے اور کوئی نیک اور خدارسیدہ انسان نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے لکھا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہے اور اس میں ہے ہزاروں ایسے بندے موجود ہیں جن کی پیشانیوں پر وہی نور چمک رہا تھا جو صحابہ کی پیشانیوں پر تھا.پس
خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۷ء باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہے میں سمجھتا ہوں کہ بوجہ عدم علم یا عدم تربیت دانستہ طور پر نہیں بلکہ نا دانستہ طور پر ممکن ہے کسی سے کوئی کمزوری سرزد ہو جائے اور بعض دفعہ کچھ لوگ جو منافق ہوتے ہیں خود ہی کوئی شرارت کھڑی کر دیتے ہیں.اور پھر کچھ لوگ حالات سے نا واقف ہوتے ہیں وہ اپنی نا واقفیت کی وجہ سے ٹھو کر کھا جاتے ہیں.لیکن بہر حال میں دعوئی سے کہتا - ہوں کہ یہ جماعت صداقت پر قائم ہے اور اس کی اکثریت نیک اور متقی لوگوں پر مشتمل ہے.پھر بھی چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ کمز ور لوگ ہوتے ہیں اور وہ غلطی کر سکتے ہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے ہی اشتعال کے موقع پر انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے.پس اپنے ایمانوں کو درست رکھو اور کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو اسلام اور شریعت کے خلاف ہو.تم کو اس بات کا احساس ہو یا نہ ہولیکن میرے دل میں خلافت کی ایک بکری کی مینگن کے برابر بھی قیمت نہیں ہو سکتی اگر اس کی تائید کیلئے جھوٹ اور فریب سے کام لیا جائے.خلافت اُسی وقت تک قابل قدر ہے جب تک صداقت کی تلوار سے اس پر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جائے اور انصاف کے تیروں سے اس کی حفاظت کی جائے.پس یا درکھو کہ خواہ کیسی ہی حالت پیش آئے تم عدل و انصاف کو نہ چھوڑو اور جو سچائی ہوا سے ہے اختیار کرو تا دشمن کو تمہارے متعلق کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہ ملے.اور یا د رکھو کہ اگر کوئی شخص تمہیں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے تو خواہ وہ ناظر ہی کیوں نہ ہو تم فوراً اُس کی رپورٹ میرے پاس کروانی کیونکہ ہمارے پاس ایمان کے سوا اور کوئی چیز نہیں ، ہم کنگال اور خالی ہاتھ ہیں.اگر ایمان کی دولت بھی ہمارے ہاتھ میں نہ رہی اور اگر ہم نے اسے بھی چھوڑ دیا تو پھر ہماری جماعت کی حالت وہی ہوگی جو کسی شاعر نے یوں کھینچی ہے کہ ے خدا ہی ملا وصالِ صنم ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے پس صداقت اور انصاف سے کام لو اور غیرت، قربانی اور ایثار کا مظاہر ہ کرو مگر یا در کھوتم نے ظلم نہیں کرنا اور جھوٹ نہیں بولنا اور اگر کوئی شخص تمہیں ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے کی تعلیم دیتا ہے تمہیں کہتا ہے ہے جاؤ اور اپنے دشمن کو مار آدیا جاؤ اور اسے پیٹو ، تو تم فوراً سمجھ جاؤ کہ تمہارے سامنے ایمان کا جبہ پہنے.
خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۷ء ایک شیطان کھڑا ہے اور تم فوراً سمجھ لو کہ وہ میری نافرمانی کرنے والا اور میری اطاعت سے منہ موڑنے والا انسان ہے.تم فورا میرے پاس آؤ اور ایسے شخص کی شکایت کرو اور اس گندے وجود کو کاٹنے کی جلد تر کوشش کرو.ایسا نہ ہو کہ وہ باقی قوم کو بھی گندہ کر دے.اس کے بعد میں مصری صاحب کے ایک تازہ خط کا ذکر کرتا ہوں جو انہوں نے حال ہی میں مجھے لکھا ہے اور جس سے ان کی دماغی اور علمی کیفیت بے نقاب ہورہی ہے.اس خط کا پہلا جملہ یہ ہے آپ بڑے خوش ہوں گے کہ کس طرح آپ نے اپنی چالا کی اور ہوشیاری کے ساتھ جماعت کی مخالفت کی رو اپنے وجود سے ہٹا کر میری طرف پھیر دی ہے اور آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے کہ ریزولیوشنز اور خطوط کی بھر مارنے آپ کی پوزیشن کو محفوظ کر دیا ہے اور میں بھی خوش ہوں کہ آپ نے اپنی ای کامیابی کی بنیاد محض دنیا داروں کی طرح چالا کیوں وغیرہ پر رکھی ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ کو قریب بھی نہیں آنے دیا.پھر لکھتے ہیں :- کاش! آپ ملک غلام فرید صاحب کے خواب سے ہی فائدہ اٹھاتے.وہ خواب کیسا واضح ہے کس طرح اس میں آپ کی موجودہ چالا کی کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس سے کام لے کر آپ نے جماعت کو میرے خلاف بھڑ کا دیا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں میری کامیابی کی بھی بشارت ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا.شروع ہی میں آپ کو بتا دیا گیا ہے کہ جو آواز میں آپ کے خلاف اُٹھاؤں گا ، اُس کو جماعت دیکھے گی مگر بُر انہیں منائے گی اور پھر ساتھ ہی مجھے خواب میں دائیں طرف دکھلایا گیا ہے اور آپ کو بائیں طرف.اب سورۃ الواقعہ میں اصحاب الشمال کا حال پڑھ لیں.وہاں صاف لکھا ہے إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُتْرَفِيْنَ – وَ كَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ " اب دیکھیں کیا یہ دونوں حالتیں آپ میں نہیں پائی جاتیں؟ کیا آپ اپنے مال، اقتدار، وسائل پر اترا نہیں رہے؟ اور کیا اپنے عظیم الشان مَيْل عَنِ الْحَقِّ إِلَى الْبَاطِلِ پر اصرار نہیں کر رہے“.یہ وہ خط ہے جو شیخ مصری صاحب نے مجھے لکھا اور جس سے ظاہر ہے کہ ان کی علمیت کس حد تک ہے.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک شخص علم کا دعویٰ کرتا ہے مگر اسے اتنی موٹی بات بھی معلوم نہیں کہ کن اصول پر خواب کی تعبیر کی جاتی ہے.اب جو خواب ملک غلام فرید صاحب نے دیکھا اور جس کے متعلق کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء مصری صاحب یہ کہتے ہیں کہ کاش! آپ نے اس پر غور کیا ہوتا وہ یہ ہے ملک صاحب لکھتے ہیں :- میں نے دیکھا کہ سالانہ جلسہ کا موقع ہے حضور شیخ پر کھڑے تقریر فرما رہے ہیں.آپ کے دائیں طرف شیخ عبد الرحمن صاحب مصری بیٹھے ہوئے ہیں اور جوں جوں حضور تقریر فرماتے ہیں وہ آپ کا کی منہ چڑا رہے ہیں.سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو دیکھ ا رہے ہیں.اتنے میں حضور نے تقریر ختم کی اور مصری صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضور سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.خواب میں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حضور کو معلوم ہے اور دوسرے دوستوں کو بھی معلوم ہے کہ مصری صاحب کیا کہیں گے.لیکن حضور نے پھر بھی ان کو اجازت دے دی کہ آپ کہہ لیں.ان کے ہاتھ میں ایک اچھا خاصہ لمبا چوڑا کاغذ کا ٹکڑا ہے اُس کو انہوں نے ی پڑھنا شروع کر دیا.اُس میں لکھا ہوا تھا کہ ان وجوہات کی وجہ سے میں جماعت سے علیحدہ ہورہا ہوں بعینہ یہ الفاظ انہوں نے کہے اور اس کا غذ سے وہ وجوہات پڑھ رہے ہیں.اُس وقت کوئی بات جو انہوں نے پڑھی مجھے یاد نہیں.ابھی وہ کھڑے ہوئے اپنا کاغذ پڑھ ہی رہے تھے کہ حضور کرسی سے اُٹھ کر روانہ ہو گئے اور دوسرے دوست بھی ساتھ ہی چلے گئے اور مصری صاحب کو چھوڑ گئے.پھر معلوم نہیں ہوا کہ مصری صاحب کا کیا حشر ہوا.اب وہ کہتے ہیں دیکھو! اس خواب سے میری کیسی زبر دست تائید ہوتی ہے حالانکہ اس خواب میں صاف بتایا گیا ہے کہ مصری صاحب منہ چڑا رہے ہیں اور منہ چڑانا کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ غیر مومنانہ فعل ہے.مگر وہ اِس امر کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں صاف لکھا ہے میں منہ چڑا رہا ہوں اور جماعت مجھے کچھ نہیں کہتی اور یہی میری کامیابی کی بشارت ہے.گویا منہ چڑا نا خاص مؤمنوں کی علامت ہے جو شیخ صاحب میں پائی جاتی ہے.حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ تالیاں پیٹنے اور ان سیٹیاں بجانے والے بھی مؤمن نہیں.پھر جو شخص دوسرے کا منہ چڑاتا ہے وہ کس طرح مومن سمجھا جا سکتا ہے.پھر خواب میں جو یہ دکھایا گیا کہ سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو دیکھ بھی رہے ہیں“.یہ حصہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ باوجود ان کی طرف سے ایسی حرکات صادر ہونے کے جن سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو جماعت صبر سے کام لے گی اور انہیں کچھ نہیں کہے گی.وہ دیکھے گی کہ مصری صاحب کیا کر رہے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ وہ گند ظاہر کرتے چلے
خطبات محمود ۲۶۱ سال ۱۹۳۷ء جائیں گے جماعت ان پر کوئی ظلم نہیں کرے گی.یہ وہ امر ہے جو خواب میں پہلے سے بتایا گیا اور جس سے لا ز ما یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب جو اپنے مظالم کا وہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں یہ جھوٹا ہے.اگر یہ خواب ان کا تسلیم شدہ خواب نہ ہوتا تب تو اس خواب کے مضامین ان پر حجت نہیں ہو سکتے تھے مگر جب وہ اس خواب کو سچا تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خواب میرے حالات پر چسپاں ہو رہی ہے تو خواب تو یہ بتاتی ہے کہ با وجود اس کے کہ وہ گندی حرکات کے مرتکب ہوں گے، جماعت احمدیہ کے مومن اپنے نفوس پر قابو رکھیں گے اور انہیں کچھ نہیں کہیں گے.مگر وہ جھوٹ بولتے ہوئے جماعت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ان پر کئی مظالم ڈھائے حالانکہ خواب بتا رہی ہے کہ ظلم جماعت کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ مصری صاحب کی طرف سے ہوگا.پھر وہ لکھتے ہیں اس میں میری کامیابی کی بھی بشارت ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا.حالانکہ خواب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ساری جماعت میرے ساتھ آگئی اور مصری صاحب اکیلے پیچھے رہ گئے.پس جب ساری جماعت خواب میں میرے ساتھ آگئی تو معلوم ہوا کہ جماعت ان کے ساتھ نہیں اور نہ اس میں ان کی کسی کامیابی کی بشارت ہے.بلکہ یہ ان کے تنزّل اور ادبار کی خبر ہے اور پہلے سے بتا دیا گیا ہے کہ ان کا کیا انجام ہوگا.غرض جیسا کہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا انہوں نے منہ چڑایا مگر اس کے ساتھ ہی ملک غلام فرید صاحب کے خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کو بھی دور کر دیا اور بتا دیا تا کہ باوجود اس کے کہ مصری صاحب منہ چڑا ئیں گے جماعت ان کا سختی سے جواب نہیں دے گی.پس ان ان کا اس خواب کو سچا تسلیم کرتے ہوئے یہ شور مچانا کہ مجھ پر ظلم کیا گیا بالکل جھوٹ اور بہتان ثابت ہوتا ہے.پھر یہ کہنا کہ چونکہ دائیں طرف مصری صاحب کو دیکھا گیا ہے اور بائیں طرف مجھ کو اس لئے ان کو اصحاب الیمن میں شمار ہو گیا اور میرا اصحاب الشمال میں.یہ اتنی احمقانہ بات ہے کہ اس سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی.خواب میں جب بھی کوئی شخص دو آدمیوں کو دیکھے گا.لازماً ان میں ہے سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف.اگر خواب میں کو ئی شخص دیکھے کہ اس کے ماں باپ اس سے ملنے آرہے ہیں تو یہ ضروری امر ہے کہ ان میں سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف.اب اگر باپ دائیں طرف ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ باپ جنتی ہے اور ماں دوزخی.اور اگر ماں کی دائیں طرف ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ ماں جنتی ہے اور باپ دوزخی.پھر اگر کوئی شخص خواب میں ایک
خطبات محمود ۲۶۲ سال ۱۹۳۷ء مجمع دیکھے تو لازماً کچھ لوگ دائیں طرف ہوں گے اور کچھ بائیں طرف.پھر کیا یہ کہا جا سکے گا کہ ان میں سے آدھے جنتی ہیں اور آدھے دوزخی.حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ علم تعبیر سے ناواقفیت اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان اتنی معمولی بات کو بھی نہ سمجھے کہ دایاں اور بایاں ایک نسبتی امر ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی دو شخص خواب میں دیکھے جائیں ان میں سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف اور جو چیز لازمی ہو اُس کی تعبیر نہیں کی جاتی.مثلاً یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان اگر کسی کا صرف ایک پیر دیکھے تو اُس کی تعبیر کرے سر دیکھے تو اُس کی تعبیر کرے لیکن اگر کوئی خواب میں ایک آدمی دیکھے تو اس وقت یہ نہیں کہیں گے کہ اُس کے سر کی بھی تعبیر کرو اور ہاتھ کی بھی تعبیر کرو اور پاؤں کی بھی تعبیر کرو.ایسی حالت میں تو اگر کوئی خاص نظارہ ہو تو صرف اسی کی تعبیر کی جائے گی.عام چیزوں کی جن کا تعلق انسان کے ساتھ لازمی ہے ان کی تعبیر نہیں کی جائے گی.اگر اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے اور محض خواب میں دو شخصوں کو آتے دیکھ کر جن میں سے ضروری ہے کہ ایک دائیں طرف ہو اور دوسرا بائیں طرف یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ایک جنتی ہے اور دوسرا دوزخی تو اس صورت میں اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہما السلام آرہے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مثلاً دائیں طرف ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام بائیں طرف تو نَعُوذُ بِاللهِ کہنا پڑے گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جنتی ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام دوزخی ، کیونکہ یہ شیخ صاحب کی بیان کردہ تعبیر ہے.مگر کیا کوئی بھی عقلمند اس تعبیر کو ماننے کیلئے تیار ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس سے زیادہ کوئی احمقانہ بات بھی اور کوئی ہوگی؟ اگر دائیں اور بائیں میں نمایاں فاصلہ ہو تب بیشک دائیں کی بھی الگ تعبیر ہوتی ہے اور بائیں کی بھی الگ.مثلاً کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ ایک جماعت دائیں طرف بیٹھی اور دوسری جماعت کچھ فاصلہ پر بائیں طرف ، تو اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ اصحاب الیمین ہیں اور ی کچھ لوگ اصحاب الشمال.لیکن جب سب لوگ اکٹھے بیٹھے ہوں اُس وقت یہ کہنا کہ ایک حصہ اصحاب الشمال میں سے ہے اور دوسرا اصحاب الیمین میں سے اور اس لئے کچھ دوزخی ہیں اور کچھ جنتی ، احمقانہ بات ہے.پھر دائیں بائیں کا جو مفہوم مصری صاحب بتاتے ہیں وہ بھی درست نہیں.حدیث میں آتا ہے کہ جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ اُس کے دائیں طرف کھڑا ہو جس کے یہ معنے ہیں کہ مقتدی دائیں طرف ہو اور امام بائیں طرف.کیا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ شریعت کے مطابق امام
خطبات محمود ۲۶۳ سال ۱۹۳۷ء ہمیشہ ادنی درجہ کا ہوتا ہے اور مقتدی اعلیٰ درجہ کا ؟ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے مصری صاحب کے اعتراض کا قلع قمع خود ملک غلام فرید صاحب کی ہی ایک اور خواب سے کر چھوڑا ہے جو مصری صاحب کی تسلیم کردہ خواب سے پہلے کی خواب کی ہے.انہوں نے کے رمئی کو ڈیرہ دون سے جہاں وہ تبدیلی آب و ہوا کیلئے گئے ہوئے تھے مجھے ایک خط لکھاتی جو ۸ مئی کو قادیان پہنچا اور قادیان سے ہوتے ہوئے ۱۲ رمئی کو مجھے سندھ میں ملا.اس خط میں ملک غلام فرید صاحب لکھتے ہیں: سیدی ! حضرت امیر المومنین أَيَّدَكُمُ اللهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ صلى الله صلى الله پچھلے دنوں میں نے ایک عجیب خواب دیکھا جو حضور کی خدمت میں عرض ہے.میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان ) کے اُس کمرہ میں جس میں بیت الدعا واقع ہے، پانچ کرسیوں پر آنحضرت میری ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت نواب صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیٹھے ہیں.مجھے اب ان کرسیوں کی ترتیب یاد نہیں رہی.صرف اتنا یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھے ہیں.اس طرح پر کہ حضرت مسیح کی موعودعلیہ السلام کا منہ بالکل قبلہ کی طرف ہے اور آنحضرت ﷺ کا کچھ منہ قبلہ کی طرف اور کچھ حضرت مسیح کی موعود علیہ السلام کی طرف.باہر صحن میں بہت سے لوگ جمع ہیں.میں اپنے متعلق کہ نہیں سکتا کہ میں بھی اُس کمرہ سے باہر ہوں یا اندر ہوں لیکن غالبا با ہر ہی ہوں لیکن اندر بیٹھنے والے با برکت وجودوں کے بالکل ہی قریب کہ مجھے سب کچھ ان کا نظر آرہا ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے پاس ہی ایسا یاد ہے کہ بالکل ساتھ ملا ہوا) دائیں بازو پر کھڑا ہوں.لیکن حضرت صاحب کا چہرہ مجھے نظر نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارالباس سفید ہے یہاں تک کہ کوٹ بھی لٹھے کا سفید پہنا ہوا ہے.آنحضرت ﷺ کی پگڑی ہرے رنگ کی ہے اور آنحضور ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کا رنگ ایسا ہے جیسے حضور یعنی آپ کی ڈاڑھی کا.جبکہ اُس کو مہندی لگائے آٹھ دس دن گزر چکے ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ڈاڑھی کی کا قد بھی آپ کی داڑھی کے قد کے برابر ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی بالکل حضور کیوان ڈاڑھی جیسی ہے.خواب میں ایسا معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی دوسرے کمرہ میں کسی تقریر کی تیاری میں
خطبات محمود ۲۶۴ صلى الله سال ۱۹۳۷ء مشغول ہیں اور کوئی بہت بڑی تقریب ہے جس پر آپ نے تقریر کرنی ہے اور آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تقریر کے سننے کی خاطر تشریف لائے ہوئے ہیں اور صحن میں جو بہت سے لوگ ہیں وہ بھی اسی لئے آئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ حضور کے روحانی مراتب میں بہت بہت ترقی دے اور مجھے حضور کا سچا اور پکا خادم بنائے اور ہمیشہ حضور کے دامن کے ساتھ وابستہ رکھے“.اس خواب میں ملک غلام فرید صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت کے بائیں طرف بیٹھے دیکھا ہے اور صاف طور پر لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضر کے بائیں طرف بیٹھے ہیں.اب یہاں اگر وہی تعبیر لگائی جائے جو مصری صاحب نے کی تو نَعُوذُ بِاللهِ کہنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کو خواب میں دائیں طرف دکھلایا گیا ہے اور آپ کو بائیں طرف.اب سورۃ الواقعہ میں اصحاب الشمال کا حال پڑھ لیں وہاں صاف لکھا ہے وَإِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذلِكَ مُتْرَفِينَ - وَ كَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيم.کیا ایسی گندی اور نا پاک تعبیر جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوذُ بِاللهِ جہنمی قرار دینا پڑے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اسے صحیح تصور کیا جائے.اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تعبیر کس قدر غلط ہے.اس تعبیر کو اگر درست سمجھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ جہنمی ماننا پڑتا ہے.کیونکہ ملک غلام فرید کی صاحب نے انہیں آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف دیکھا.مگر ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو ایسی گندی اور نا پاک تعبیر اس خواب کی کر سکے.پس ان کی یہ تعبیر ان کے نفس کا اختراع ہے.حقیقت.اس کا دور کا بھی تعلق نہیں.پھر وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ خواب میں ان کے متعلق بین طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ منہ چڑا رہے ނ ہیں اب کیا منہ چڑانا مؤمنانہ شیوہ ہے؟ جب نہیں تو انہیں خود اپنے ایمان کا فکر کرنا چاہئے اور بجائے اس کے کہ دوسروں کو سمجھا ئیں انہیں خود سوچنا چاہئے کہ ان کا انجام خواب سے کیا ظاہر ہو رہا ہے.اگر ان کی میں کچھ بھی عقل و فہم ہوتی تو وہ اپنے آپ کو دائیں طرف اور مجھے بائیں طرف خواب میں معلوم کر کے اس نتیجہ پر پہنچتے کہ دائیں طرف ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ میرے احسانات کے نیچے دبے ہوئے ہیں.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم صدقہ کرو تو دائیں طرف سے شروع کرو.لے پس اس خواب کے یہ معنے تھے کہ میں نے اس شخص سے کئی دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حسنِ سلوک کیا اور متواتر
خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۷ء اس سے احسانات کئے مگر یہ ایسا احسان فراموش نکلا کہ میرے حُسنِ سلوک کے باوجود میرا منہ چڑاتا رہا.پس ان کے دائیں طرف ہونے میں ان کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ انہیں میرے احسانات کا زیر بار دکھایا گیا ہے.چنانچہ اس کی مثال حدیثوں سے بھی ملتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں مجلس میں دودھ پیش کیا گیا.آپ نے اس میں سے کچھ تھوڑا سا دودھ پینے کے بعد اپنے دائیں بائیں دیکھا.حضرت ابو بکر اُس وقت آپ کے بائیں طرف تھے اور آپ کے دائیں طرف ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا.آپ نے اُس لڑکے کی طرف دیکھا اور فرمایا میرے اس تحفہ پر حق تمہارا ہی ہے کیونکہ تم دائیں طرف ہوتی مگر کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ دودھ ابو بکر کو دے دوں؟ وہ لڑکا کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ میں اپنا حق چھوڑ نے کیلئے تیار نہیں.اس مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے خواب پر غور کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ خواب میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے مصری صاحب سے ہمیشہ دائیں والا سلوک کیا مگر یہ میرا منہ چڑاتے رہے.مصری صاحب کا یہ کہنا کہ خواب میں بتایا گیا ہے کہ میری کارروائیوں کو جماعت دیکھے گی اور بُرا نہیں منائے گی ، بتاتا ہے کہ میں کامیاب ہوں گا ، صریح غلط بیانی ہے.خواب کے الفاظ یہ ہیں سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو بھی دیکھ رہے ہیں.اس بعض کے لفظ کو اڑا دینا مصری صاحب کی اس ذہنیت کو آشکارا کرتا ہے جو ان میں اب جماعت سے علیحدہ ہو کر پیدا ہوگئی ہے.ہم تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ بعض لوگ ان کے ہم خیال ہیں لیکن بعض کا لفظ اڑا کر جماعت کا لفظ اختیار کرنا اور اس سے کامیابی کا نتیجہ نکا لنا دھوکا نہیں تو اور کیا ہے.خواب میں صاف بتایا گیا ہے کہ جماعت کی اکثریت میرے ساتھ ہے تبھی تو جب میں اُٹھا تو وہ ساتھ اُٹھ کر چلے آئے ورنہ وہ مجھے چھوڑ کر مصری صاحب کے ساتھ رہتے اور سب کے سب مل کر گیدڑوں کی طرح منہ چڑانے لگتے.در حقیقت انہوں نے اس خواب کی جو تعبیر کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا علم محض سطحی ہے تعبیر کے علم سے انہیں کوئی مناسبت نہیں.کیونکہ تعبیر ایک روحانی علم ہے اور وہ روحانی کو چہ سے بالکل نا آشنا ہو چکے ہیں اور مجھ پر اعتراض کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کر رہے ہیں.جو دوسری خواب میں نے ملک صاحب کی بتائی اس میں رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک ملک صاحب کو بالکل و میری ڈاڑھی کے مطابق اور ہم شکل دکھائی گئی ہے.جس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ جو مجھ پر حملہ کرے گا
خطبات محمود ۲۶۶ سال ۱۹۳۷ء وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ کرے گا.کیا مصری صاحب یا ان کے ساتھی اس سے فائدہ کی اُٹھا ئیں گے؟ ا پھر یہی ملک غلام فرید صاحب اپنے اس خط میں لکھتے ہیں ” ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد مبارک کی وہ چھوٹی کھڑ کی جو بیت الفکر میں کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر خدا کے مسیح پاک مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے، اُس کے پاس آپ کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنا ہو وہ اس کھڑکی میں سے گزر جائے.لوگ ایک ایک کر کے اندر جار ہے ہیں.میں بھی اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آپ ہی اندر بیٹھے ہوئے ہیں.میں خواب میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کو تو ( یعنی حضور کو ) میں باہر کھڑکی کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں اور اندر بھی خود ہی بیٹھے ہیں.اس خواب نے بتا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور میرا حال ایک ہی ہے اور جو اعتراض کی مجھ پر کیا جاتا ہے وہی اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی عائد ہوتا ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا تھا کہ ایک اعتراض محمود پر یہ پڑنے والا ہے کہ خواب میں اسے بائیں طرف دکھایا گیا ہے جو اس کے اصحاب الشمال میں سے ہونے کا ثبوت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بائیں طرف دکھا دیا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں پر ظاہر کر دیا کہ اگر تم اپنے علم تعبیر کو صیح قرار دو گے اور اگر ایسی ناپاک اور گندی تعبیر کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو یاد رکھو تمہیں محمود پر حملہ کرنے کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوذُ بِاللهِ جہنمی قرار دینا پڑے گا.اب یہ تمہارے اختیار میں ہے کہ چاہو تو صحیح راستہ اختیار کرو اور چاہو تو ٹیڑھا راستہ اختیار کر کے اپنے آپ کو ابدی ہلاکت میں ڈال لو.M الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۷ ء ) سائی: وہ تھوڑی سی رقم جو معاملہ طے ہو جانے کے بعد پیشگی دی جائے.مسلم كتاب الامارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين....الخ بوڈاپسٹ (BUDAPEST): ہنگری کا دارالحکومت.یہاں پہلے دو رومی شہر آباد تھے جنہیں تاتاریوں نے تباہ کر دیا.پہلی عالمی جنگ تک یورپ میں غلے کی اہم منڈی تھا.جنگ کے بعد
خطبات محمود ۲۶۷ سال ۱۹۳۷ء بعض صنعتوں کے فروغ سے یورپ کا ایک نفیس شہر بن گیا.دوسری عالمی جنگ میں اس کا ۷۵ فیصد حصہ تباہ ہو گیا.الهكف: ۶ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ا صفحہ ۲۶۷.مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ ء ) ۵، بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجيع (الخ) ک قراقر: پیٹ بولنا التوبة: ١١٨ آرد فروش: آٹا بیچنے والا الواقعة ۴۶ ، ۴۷ ۱۲۱ بخاری کتاب المساقاة باب من رأى صدقة الماء (مفهوماً)
خطبات محمود ۲۶۸ ٢٢ سال ۱۹۳۷ء شیخ عبدالرحمن مصری کے ایک اشتہار کا جواب (فرموده ۱۶ جولائی ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- کل مجھے ایک اشتہار ملا ہے جو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے شائع ہوا ہے.اس میں جماعت احمدیہ کو خطاب کیا ہے اور اس اشتہار کی ابتدا قرآن کریم کی ایک آیت سے کرتے ہیں جو یہ کی ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى یعنی کسی قوم کی دشمنی اون اور عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے اور نہ اکسائے کہ تم عدل کو چھوڑ دو.چاہئے کہ عدل کرو یہ تقویٰ کے بہت قریب ہے.اس کے بعد جماعت احمدیہ سے گلہ کیا ہے کہ کیوں بغیر تحقیق کے شیخ صاحب کے خلاف اس نے ریزولیوشنز پاس کرنے شروع کر دیئے ہیں.جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا پہلے تحقیقات کرتے اور پھر کوئی رائے قائم کرتے.اور پھر بتایا کہ جماعت کو دھوکا دیا گیا ہے کہ گویا مصری صاحب اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر خلیفہ کو دھمکی دیتے ہیں اور اس طرح جماعت میں اشتعال پیدا کر دیا گیا ہے اور ان کو مرتد ، منافق ، فاسق ، فتنہ پرداز، بد باطن وغیرہ الفاظ سے یاد کیا جانے لگا ہے.پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے بڑائی کا کوئی دعوی نہیں کیا میرے تینوں خطوط اس قسم کے دعوئی سے خالی ہیں بلکہ میرے خطوط میں تو بجز و انکسار کا اظہار ہے.اور پھر اپنے وہ الفاظ نقل کئے ہیں جو الفضل میں درج ہو چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے غلط نتیجہ نکالا گیا ہے.میں نے ان الفاظ میں اپنی کسی شان کا اظہار نہیں کیا بلکہ عاجزی کا اظہار کیا
خطبات محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۷ء ہے.اور پھر وہی شکایت کرتے ہیں جس کا ازالہ میں پچھلے خطبہ میں کر چکا ہوں.یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے لکھا تھا کہ میں جماعت سے علیحدہ ہو جاؤں گا.حالانکہ میں نے جماعت سے نہیں بلکہ بیعت سے الگ ہونے کا لکھا تھا.اور پھر اس امر پر بحث کرتے ہیں کہ بیعت سے خارج ہونا جماعت سے خارج ہونا نہیں اور اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ حضرت علی نے چھ ماہ تک حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی تھی.مگر کون کہ سکتا ہے کہ اُس وقت وہ مسلمان نہیں رہے تھے.اسی طرح بعض اور صحابہ کی مثالیں دی ہیں.پھر جماعت سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ پر فریب طریقہ خلیفہ نے اس لئے اختیار کیا ہے کہ لوگوں کی توجہ مصری صاحب کی طرف نہ ہو سکے اور جماعت ان کے براہین پر غور نہ کرے.اور پھر لکھتے ہیں کہ صحیح طریق یہ تھا کہ جب میں نے الزام لگائے تھے تو خلیفہ کو لازم تھا کہ ایک آزاد کمیشن بٹھاتے مگر اس کی بجائے جماعت سے میرے اخراج کا اعلان کر دیا گیا.پھر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا طریق یہ تھا کہ جب انہیں کوئی شکایت ہوتی کی وہ خلیفہ کے پاس جاتے اور اپنی شکایات پیش کرتے اور خلیفہ عَلَی الْإِعْلان اپنی غلطی کا اعتراف کرتا اور آئندہ کیلئے اس سے رجوع کرتا تھا.اور پھر آخر میں یہی لکھتے ہیں کہ ایک آزاد کمیشن مقرر ہونا چاہئے جو تحقیقات کرے اور اپیل کرتے ہیں کہ دوستو! اٹھو اور مومنانہ حجرات سے کام لو، اس میں خلیفہ کی اجازت کی ضرورت نہیں.یہ خلاصہ ہے ان کے اشتہار کا اور جنہوں نے پڑھا ہے، پڑھا ہی ہو گا.عجیب بات یہ ہے کہ اس سارے اشتہار میں یا اس سے کسی پہلے اشتہار میں یہ نہیں بتایا کہ میں الزام کیا لگاتا ہوں.یہ تو ہے کہ اٹھو، دوڑ و، فکر کرو، سب ہی کچھ کرومگر الزام تم خود ہی دریافت کرو اور تحقیقات بھی خود ہی کرو.کیا کوئی عقلمند مصری صاحب کی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں الزام تو ایسے لگا تا ہوں کہ جن کی موجودگی میں انسان بیعت میں نہیں رہ سکتا اور انہی کی وجہ سے میں جماعت سے نکل گیا ہوں مگر میں ان کا ذکر نہیں کرتا، تم لوگ خودان الزامات کی تحقیق کرو.میں الزام خود نہیں بتاؤں گا تمہیں چاہئے کہ خود تلاش کرو.بھلا کون ایسا پاگل ہو گا کہ الزام لگانے والا تو کوئی بیان نہیں دیتا، کوئی ثبوت نہیں دیتا اور یہ خود سب باتوں کی تحقیقات کرتا پھرے.تحقیقات کرنا تو انسانی فطرت میں داخل ہے.ہر انسان حج ہے.جب وہ کوئی بات سنتا ہے تو اس کی تحقیقات میں لگ جاتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی بناء قائم کرتا ہے اور پھر اس کے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتا ہے اور یہ روز مرہ ہوتا ہے.ہر انسان کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے ایک حج بٹھا دیا
خطبات محمود ۲۷۰ سال ۱۹۳۷ء ہے مگر مصری صاحب کا طریق بالکل نرالا ہے جو حضرت آدم سے لے کر آج تک کسی نے اختیار نہ کیا ہوگا.وہ کہتے ہیں کہ الزام بھی خود ہی دریافت کرو اور تحقیقات بھی خود ہی کرو.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ الزامات بیان کرتے وقت ان کو کوئی معتین کہانی بیان کرنی پڑے گی.ممکن ہے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو تو پھر اس کہانی میں کسی تبدیلی کی ضرورت پیش آئے.یا اس کو بالکل چھوڑ دینا مناسب ہو یا جو گواہ پیش کرنے ہوں وہ میسر نہ ہوں یا ان میں تبدیلی کی ضرورت ہو یا ان پر کوئی اعتراض ہو یا حملہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو.تو انہوں نے آسان راہ یہ سوچی کہ میں صرف یہ شور مچاتا رہوں کہ کچھ الزام ہیں، کچھ الزام ہیں.جماعت تحقیق کرے تاکہ لوگ اپنے طور پر جو الزام معلوم کریں اگر وہ ان کو غلط ثابت کر دیں تو میں کہہ دوں کہ میں نے تو یہ الزام نہیں لگائے ، یہ تو آپ خود لگا رہے ہیں.یا تفصیلات جرح میں غلط ثابت کر دی جائیں تو میں کہ دوں کہ میں نے تو یہ نہیں کہا تھا اور پھر اپنے مطلب کے مطابق تفصیلات گھڑ لوں.حالانکہ جو لوگ ان کے ساتھ متفق ہیں وہ برا بر لوگوں سے کہے جا رہے ہیں کہ ہمیں الزامات معلوم ہیں اور خفیہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں.حتی کہ دور دراز کے پیغامی بھی نہایت گندہ پرو پیگنڈا کر رہے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے سامنے انہیں وہ باتیں بیان کرنے سے ہچکچاہٹ ہے جن باتوں کو وہ میاں ملتانی اور میاں عبدالعزیز اور اور پیغامیوں سے مزے لے لے کر بیان کر رہے ہیں وہ مبائعین سے کیوں نہیں کہتے ، وہاں خالی تحقیق کی تکرار کیوں کر رہے ہیں.غرض مصری صاحب کی حرکت ایک ایسی حرکت ہے کہ دنیا کا کوئی معقول آدمی اسے سمجھ نہیں سکتا.میں نے دنیا میں عجیب عجیب لوگ دیکھے ہیں مگر ایسا شخص کو ئی نہیں دیکھا.ایک دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ نے اتنے محکمے بنائے ہوئے ہیں قضا ہے، امور عامہ ہے، لوکل کمیٹی ہے مگر میرا مقدمہ اتنی مدت سے دائر ہے، اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتا.میں نے کہا تم تسلی رکھو میں اس کی تحقیقات کراؤں گا.چنانچہ میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے ، وہ جب پھر آئی تو میں نے کہا کہ تمہارا فیصلہ تو ہو چکا ہے شکایت کس بات کی ہے.تو کہنے لگی کہ وہ بھی کوئی فیصلہ ہے ، وہ تو میرے خلاف ہے، فیصلہ کرنا ہے تو سیدھی طرح کیا جائے یہ ای کیا فیصلہ ہے کہ مجھے کہہ دیا تم غلطی پر ہو.تو میں نے دنیا میں ایسے ایسے بیوقوف بھی دیکھے ہیں مگر ایسا کی بیوقوف کوئی نہیں دیکھا کہ جو کہے کہ الزامات میں لگاتا ہوں مگر انہیں میں بیان نہیں کرتا تم خود ہی معلوم کرواتی
خطبات محمود ۲۷۱ سال ۱۹۳۷ء اور پھر خود ہی تحقیقات کرو.یہ عقل و خرد سے کلی طور پر آزاد نظریہ میں نے صرف مصری صاحب سے ہی سنا ہے.آخر کوئی تو وجہ ہے جو وہ اپنے عائد کر دہ الزامات کو بیان نہیں کرتے.یا تو وہ قانون کی گرفت سے ڈرتے ہیں یا اخلاق سے اور یا پھر شریعت سے.وہ لوگوں کو تو کہتے ہیں کہ بے خوف ہو جاؤ مگر خود ڈرتے ہیں.اور جب بے خوف ہو جانے کا وعظ کرنے والا خود بے خوف نہ ہو تو دوسرے کس طرح کی ہو سکتے ہیں.انگریزوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی اور سالی کے ساتھ تماشہ دیکھنے گیا.مگر جاتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کرنا ھول گیا.واپسی پر دروازہ کھلا دیکھا تو خیال کیا کہ کسی نے بعد میں کھولا ہے اور سمجھا کہ ضرور کوئی چور اندر چھپا بیٹھا ہے.مغربی تمدن میں یہ بات داخل ہے کہ عورت کو اعزاز کا مقام دینے کیلئے دعوت وغیرہ کے موقع پر پہلے اسے اندر داخل کرتے ہیں اور پھر خود ہوتے ہیں.اب یہ تینوں ڈرتے تھے اس لئے باہر ہی کھڑے ہو گئے.مرد ڈرتا تھا کہ اگر میں پہلے داخل ہوا تو ایسا نہ ہو کہ اندھیرے میں چور مجھ پر حملہ کر دے اس لئے پیچھے ہٹ کر کہنے لگا Ladies First یعنی عورتیں پہلے کی داخل ہوں اور اس طرح اپنی طرف سے اخلاق کا اظہار کیا حالانکہ وہ بُزدلی کا اظہار کر رہا تھا.جب اُس کی نے یہ کہا تو اُس کی سالی جھٹ بولی میں تو جا کر پولیس میں پہلے اطلاع دیتی ہوں اور دراصل اس کا مقصد یہ تھا کہ میں یہاں سے بھاگوں.اس کی بہن کہنے لگی کہ یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں اس وقت تمہیں اکیلی کی جانے دوں میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی اور وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی.مرد نے یہ دیکھا تو جھٹ بول اُٹھا کہ بیشک چور کا معاملہ بہت اہم ہے مگر تم دونوں کا اکیلے جانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور یہ کہہ کر وہ خود بھی ان کے ساتھ چل پڑا.یہی حال شیخ مصری صاحب کا ہے.عجیب بات ہے کہ یہ شخص عَلَى الْإِعْلان الزام لگاتا ہے، اس وقت تک چھ اشتہار شائع کر چکا ہے اور دستی اشتہار ملائے جائیں تو سترہ اٹھارہ بن جاتے ہیں اور شور مچا رہا ہے کہ لوگو! ظلم ہو گیا میں نے بیعت چھوڑ دی.مگر اس کی سوال کا جواب کہ کیوں؟ میں نہیں دیتا تم خود تحقیقات کرو.حالانکہ جو الزام لگا تا ہے اس کا فرض ہے کہ بتائے اور ثبوت پیش کرے.نہ یہ کہ جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ تلاش کرتا پھرے.ایک شخص کسی کے کان میں کہہ دے کہ تو چور ہے اور پھر کہے کہ یہ بتاتا کیوں نہیں کہ میں نے اس پر کیا الزام لگایا ہے تو یہ الزام لگانے والے کا کام ہوتا ہے کہ بتائے کیا الزام ہے اور اس کے کیا ثبوت ہیں.مگر مصری صاح
خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۳۷ء ساری دنیا کو تحقیقات کیلئے بلاتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ میں بتاتا کچھ نہیں یہ بھی تم خود ہی معلوم کرو کہ الزام کیا ہیں.یہ کہنا بھی درست نہیں کہ کمیشن بٹھایا جائے تو ثبوت پیش کروں گا.کیونکہ اگر ان کو یہ امید ہے کہ جماعت خلیفہ پر کمیشن بٹھائے گی تو اس کیلئے بھی تو ان کو کوئی الزام معلوم ہو گا.کوئی ابتدائی ثبوت ملیں گے تو اسے ایسی تحریک ہو سکتی ہے بغیر اس کے کس طرح ہو سکتی ہے.آخر ایک جماعت کو بے ایمان بنانا کوئی ایسا آسان امر تو نہیں کہ مصری صاحب کہیں گے کہ چھوڑ دو خلیفہ کو اور وہ چھوڑ دیں گے.اگر جماعت احمدیہ کے ایمان سے مصری صاحب کو اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے واقفیت نہیں تو انسانی فطرت سے تو کچھ آگا ہی ہونی چاہئے.مومن تو الگ رہے کا فر بھی محض یہ سن کر اپنے پیاروں کو نہیں چھوڑی دیتے کہ ان پر کوئی الزام لگایا گیا ہے.پس اگر مصری صاحب دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کوئی کمیشن بٹھائے گی تو بھی انہیں الزام اور بعض ثبوت دے کر جماعت میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کہ فی الواقع معاملہ اہم ہے.لیکن اگر وہ خود ان الزامات کو پیش کرنا بے حیائی خیال کرتے ہیں تو دوسرے ان کی جگہ پر کیوں بے حیا بنیں.یا اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت پر تو ان کی باتوں کا اثر نہ ہوگا.میں احرار اور پیغامیوں میں پرو پیگنڈا کروں تو پھر انہیں یہ جھوٹ کا ڈھونگ نہیں کی رچانا چاہئے تھا اور کھلے طور پر اپنے نئے دوستوں میں شامل ہو جانا چاہئے تھا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں ان باتوں کی شہرت نہ ہو اور جماعت کی بدنامی نہ ہو.مگر لطیفہ یہ ہے کہ یہ اشتہارات احرار اور پیغامیوں کے ذریعہ چھپتے اور تقسیم ہوتے ہیں.پھر میں نے اخبار ” احسان میں ایک نوٹ پڑھا جو اسی مضمون پر مشتمل ہے جو مصری صاحب کے خطوں سے ملتا جلتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ احسان میں یہ نوٹ کیسے چھپا.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے تعلقات ان لوگوں سے ہیں اور انہی کی شہ پر یہ کھڑے ہیں اور ساری دنیا میں ان کے اشتہار پہنچے ہیں مگر ابھی ان کو ڈر ہے کہ جماعت کی بدنامی نہ ہو.فخر الدین صاحب نے ایک اشتہار دیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ اس کے اخراج کے متعلق جو تقریر میں نے کی تھی ، اس موقع پر بہت سے ہندو اور سکھ بھی موجود تھے.اور یہ کہ جب میں نے اس کے متعلق کم بخت وغیرہ لفظ استعمال کئے تو وہ شرم سے پانی پانی ہو ا جاتا تھا اور خیال کر رہا تھا کہ یہ لوگ احمدی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء نہیں یہ کیا خیال کرتے ہوں گے کہ احمدیوں کے خلیفہ کے اخلاق ایسے ہیں.انہیں میرے کسی موقع پر کم بخت کا لفظ چند ہندوؤں اور سکھوں کے سامنے کہہ دینے سے تو شرم آتی تھی کہ احمدیت بد نام ہو جائے گی لیکن وہ اس بات کو چھپوا کر سارے ہندوستان میں شائع کرتے ہیں اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ شرم کا اظہار صرف طعن کے طور پر ہے اور یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ی انہیں احمدیت کے بدنام ہونے کا ڈر تھا.ورنہ جس امر کا چھ سات آدمیوں کے سامنے بیان ہونا قابل شرم تھا وہ اسے لاکھوں کے سامنے پیش کرنے پر کس طرح راضی ہو گئے.مگر اللہ تعالیٰ کا تصرف دیکھو کہ اس نے اس اشتہار میں ان کو ملزم بنادیا ہے.میری نسبت تو یہ لکھتے ہیں کہ چند ہندوؤں اور سکھوں کے سامنے میں نے انہیں اور ان کے بعض ساتھیوں کو کم بخت کہا مگر لکھتے ہیں کہ مجھے شرم آتی تھی یہ ہندو اور کی سکھ کم بخت اپنے دل میں کیا کہتے ہوں گے.پھر کم بخت کا لفظ سیا ہی سے مٹایا ہے مگر چھپا ہوا کہاں مٹتا ہے.اب اگر ان صاحب کو واقعہ میں اس پر شرم محسوس ہورہی تھی تو اول اسے چھاپا کیوں ؟ اور پھر خود اپنے ہی قلم سے ہندوؤں اور سکھوں کی نسبت جن کا کوئی قصور نہ تھا کم بخت کا لفظ ان کے قلم سے نکل گیا ؟ کس قدر عجیب بات ہے کہ پانچ دس ہندوؤں سے تو انہیں شرم آرہی تھی مگر اشتہار شائع کر کے اس کو ساری دنیا میں پھیلا دیتے ہیں اور شرم نہیں آتی اور سمجھتے ہیں کہ اب کوئی حرج نہیں.دنیا میں بیوقوفی کے نی قصے جو مشہور ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بیوقوف نے یہ ڈھنڈورا پٹوایا تھا کہ ہم سے فلاں بیہودہ حرکت ہوگئی ہے مہربانی کر کے کوئی کسی کو بتائے نہیں.یہی حال میاں فخر الدین صاحب کا ہے.اگر پانچ چھ ہندوؤں تک اس لفظ کے پہنچ جانے سے انہیں شرم آ رہی تھی تو اشتہار شائع کر کے سارے ملک میں اس کی اشاعت کرتے ہوئے شرم کیوں نہ آئی.پس یا تو شرم کا دعوی جھوٹا ہے یا پھر وہ ویسے ہی عقلمند ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا قصہ والا شخص عقلمند تھا.اس کے بعد میں مصری صاحب کے اشتہار میں درج محمدہ باتوں میں سے بعض کے متعلق کچھ کی کہنا چاہتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ جماعت نے بلا تحقیق میرے خلاف جذ بہ نفرت کا اظہار کر دیا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں کہ مصری صاحب نے اپنے خطوں میں لکھا ہے کہ اگر مجھ سے فلاں بات نہ کی جائے تو میں جماعت سے نکل جاؤں گا.اور جب وہ مانتے ہیں کہ یہ ان درست ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کوئی دُنیوی معاملہ تو ہو نہیں سکتا تھا.جیسے مثلا کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کئے
خطبات محمود ۲۷۴ سال ۱۹۳۷ء جانے کا فیصلہ ہو.یہ بات تو ایسی ہی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ بیعت میں رہ ہی نہیں سکتے تھے.پس انہوں نے اپنے اقرار سے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ انہوں نے خلیفہ وقت پر کوئی شدید ترین الزام لگائے ہیں.اور جب یہ امران کا مسلمہ ہے تو وہ کس طرح یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ مجھے سچا سمجھتے ہیں وہ ان سے اظہار نفرت نہ کریں گے.انہوں نے اگر چہ تا حال وہ الزام بیان نہیں کئے بلکہ مجھے بھی تفصیلاً نہیں لکھے اشارات ہیں جن کے پیچھے خدا جانے کیا تفصیلات ہیں.مگر یہ تو وہ تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ ایسے ہی الزام ہیں کہ ان کے بعد وہ بیعت میں نہیں رہ سکتے.اس لئے یقیناً وہ معمولی نہیں بلکہ خطرناک خطر ناک ہوں گے.اس کے بعد وہ کس طرح توقع کر سکتے ہیں کہ وہ دوست جو مجھ سے مخلصانہ تعلق رکھتے ہیں ، ان سے اظہار نفرت نہ کریں.جب وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ میں ایسے الزام لگاتا ہوں کہ جن کی موجودگی میں بیعت میں رہ ہی نہیں سکتا تو اس سے زیادہ تحقیق کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے.اس میں کی شبہ نہیں کہ ایک غیر آدمی جسے مجھ سے اخلاص نہ ہو ایسے الزامات کو اور رنگ میں لے گا مگر جو شخص مجھے سچائی سمجھتا ہے جب تک وہ دلائل کے ساتھ اسے اپنا ہم خیال نہ بنالیں وہ اگر سُنے گا کہ جسے وہ سچا اور راستباز سمجھتا ہے ، اس پر کوئی شخص ایسے ایسے الزام لگاتا ہے وہ فوراً الزام لگانے والے کو جھوٹا کہے گا اور اس کا یہ کہنا بلا تحقیق نہیں ہوگا کیونکہ اُس نے جب مجھے مانا تھا تو تحقیق کر کے مانا تھا.پس جو شخص اس پہلی تحقیق کی کے خلاف کہے گا اور مجھ پر الزام لگائے گا وہ اسے جھوٹا کہنے پر مجبور ہوگا.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی آیا اور کہا کہ آپ نے میرے اتنے روپے دینے ہیں وہ اب تک دیے نہیں.آپ نے فرمایا میں تو دے چکا ہوں.اس نے کہا نہیں.اس پر آپ سوچنے لگے کہ اس پر واقعہ کو کس طرح ثابت کروں.ایک صحابی نے کہا يَا رَسُولَ الله ! آپ نے روپے دے دیئے تھے.اس صحابی نے چونکہ دلیری اور وثوق سے کہا کہ آپ نے روپے دے دیئے تھے اور یہودی چونکہ جھوٹا تھا ، گھبرا گیا اور اس نے مان لیا کہ ہاں آپ نے روپے دے دیئے تھے، مجھے یاد آ گیا پہلے میں بُھول گیا تھا اور اُٹھ کر چلا گیا.رسول کریم ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں نے روپے دے دیئے تھے تم تو وہاں نہیں تھے.اس نے کہا يَارَسُولَ اللہ ! آپ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ کہا ہے اور ہم مان لیتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ آپ راستباز ہیں، تو پھر اس معاملہ میں آپ کی بات کے صحیح ہونے میں شک کس طرح ہو سکتا تھا.آپ نے فرمایا آئند ہ اس شخص
خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۷ء کی ایک کے بجائے دو گواہیاں سمجھی جائیں ہے اب دیکھو اس صحابی نے بغیر موجود ہونے کے رسول کریم ﷺ کی بات کی شہادت دی اور رسول کریم ﷺ نے سرزنش کی جگہ اس کی تعریف کی.گو اس میں کوئی شک نہیں کہ اصولِ شہادت کے کی مطابق اگر یہودی مصر رہتا تو آپ اس کی شہادت کو تسلیم نہ فرماتے مگر وہ جھوٹا تھا گھبرا گیا اور دعوئی ترک کر دیا.مگر اتنا تو ثابت ہوا کہ جب ایک شخص نے پہلے اس امر کی تحقیق کر لی ہو تو اس کے خلاف جو بات وہ سُنے اُس کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے رد کر دے.پس اصل سوال اس جگہ یہ ہے کہ مذہبی معاملہ میں کیا انسان بے دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے ہی مان لیا کرتا ہے؟ اگر نہیں تو جماعت کا فعل قابلِ اعتراض کیونکر ہوا.انہوں نے میری خلافت کو بلکہ خلافت موعودہ کو اگر دلائل اور براہین سے مانا ہے تو شیخ صاحب یا اور کسی شخص کے دعویٰ کو وہ قابل قبول کس طرح سمجھ سکتے ہیں.جماعت کے لوگوں کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ہم نے سوچ سمجھ کر ایک شخص کو امام مانا ہے.جو اس کی نفی کرتا ہے ہم اپنی پہلی تحقیق کے مطابق اسے سچا نہیں سمجھتے.شیخ صاحب کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ جو میں کہتا ہوں اُس کو وزن دو اور اس کی تحقیق کرو.آخر یہ دنیوی دعویٰ تو ہے نہیں کہ اس کی لازماً تحقیق کی جائے دینی دعوئی ہے جس کی تحقیق جماعت پہلے کر چکی ہے اور اس کی بناء پر وہ مجھے خلیفہ مان چکی ہے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں کا مورد مان چکی ہے.اس تحقیق کے خلاف جو شخص بات کرتا ہے جب تک وہ اپنا دعویٰ ثابت نہ کر دے، ی جماعت مجبور ہے کہ اسے جھوٹا سمجھے.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جماعت اپنے ایمان کو مصری صاحب کے ہاتھ میں دے دے اور اپنی تحقیق کو مصری صاحب کی تحقیق کے تابع کر دے.حضرت خلیفہ اول کو یہ لوگ بھی اور ہم بھی خلیفہ مانتے ہیں.ان کی زندگی میں ہم عملا مانتے تھے اور اب ایما نا مانتے ہیں.اب اگر کوئی آکر کہے کہ حضرت خلیفہ اول نے نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹ بولا تھا تو کیا ہمارا فرض ہے کہ فوراً تحقیقات کرنے لگ جائیں؟ ہر گز نہیں.کیونکہ ہم نے جب آپ کو مانا تھا تو تحقیقات کر کے ہی مانا تھا اور اب الزام لگانے والے کو ہم جھوٹا کہیں گے.ہاں جب وہ دلائل کے ساتھ ہمیں اپنا ہم خیال بنالے تو اسے سچا کہہ سکتے ہیں ورنہ جھوٹا ہی کہیں گے اور اس کا یہ کہنا کہ مجھے بلا تحقیقی جھوٹا کہا جاتا ہے، غلط ہے.کیا جماعت بغیر تحقیق ہی میری بیعت میں شامل ہوگئی تھی اور ہر سال جو ہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں بغیر تحقیق کے ہی ہو جاتے ہیں.جب انہوں نے تحقیق کر لی تو اب ج
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء شخص مجھ پر کوئی الزام لگائے میرے ماننے والے اسے جھوٹا یا فاسق یا منافق کہہ دیں تو یہ بلا تحقیق نہیں ہوگا.ہاں جب وہ اپنی بات کو ثابت کر کے کسی کو اپنا ہم خیال بنالے تو پھر اس کا معاملہ دوسرا ہو گا.پھر عجیب بات یہ ہے کہ ادھر تو مصری صاحب مانتے ہیں کہ انہوں نے مجھ پر ایسے الزام لگائے ہیں جن کی وجہ سے میں خلیفہ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت میں بہت لوگ دہر یہ ہو گئے ہیں اور بہت ہورہے ہیں.لیکن دوسری طرف اپنے متعلق مرتد یا منافق یا فاسق کے الفاظ بھی انہیں گوارا نہیں ہیں.سوال یہ ہے کہ دہر یہ بڑی گالی ہے یا منافق اور فاسق وغیرہ؟ وہ اپنا حق تو سمجھتے ہیں کہ جماعت کے بہت سے حصہ کو دہریہ قرار دیں اور بہت سے حصہ کو دہریت کی طرف مائل بتا ئیں.مگر اس نے کے جواب میں اگر جماعت کہے کہ تمہاری اپنی بینائی میں فرق آ گیا ہے اور تم خود مرتد ، منافق اور فاسق ہو چکے ہوا اور تمہیں اچھی چیز بھی بُری نظر آنے لگی ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کر سکتے.ڈاکٹر عبد الحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا تھا کہ سوائے مولوی نور الدین اوی صاحب کے باقی سب جماعت گندی ہے اور کوئی ان میں سے اعلی نمونہ پر نہیں پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ آؤ تحقیقات کریں بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میری جماعت بالکل ٹھیک ہے اور اگر اس میں تمہیں کوئی عیب نظر آتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تم خود عیب دار ہو اس لئے میں تمہیں جماعت سے خارج کرتا ہوں.بیشک میں خود بھی بعض اوقات جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ بعض دوستوں میں کمزوریاں ہیں اور انہیں چاہئے کہ ان کو دور کریں مگر بعض دوستوں میں کمزوریوں کا ہونا اور بات ہے اور بہت سے لوگوں کا دہر یہ ہونا اور.دہریت کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے.پس بعض احباب میں ایسی عملی کمزوریوں کے باوجود جو ایمان کے ہوتے ہوئے بھی پائی جاسکتی ہیں یہ کہنا کہ دہریت جماعت کے اندر پیدا ہو چکی ہے، اتنی بڑی گالی اور اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے زیادہ ظلم اور بڑی گالی ہو ہی نہیں سکتی.معلوم ہوتا ہے شاید خود ان کے دل میں ایمان نہ تھا ورنہ وہ دہریت کو اتنی ہی معمولی بات نہ سمجھتے مگر عجیب بات ہے کہ وہ فاسق اور منافق کے الفاظ کو تو بڑی گالی سمجھتے ہیں مگر دوسروں کیلئے دہریہ کا لفظ بلا تکلف استعمال کرتے ہیں.اس کے معنی یہی ہیں کہ ان کے نزدیک دہریت بالکل معمولی چیز ہے.ایک مسلمان کو کہو کہ تم تناسخ کے قائل ہو تو وہ اسے بڑی گالی سمجھے گا.لیکن اگر کسی ہندو کو کہو تو وہ بُر انہیں منائے گا کیونکہ وہ اس کا قائل ہے.اسی طرح ان کا دوسروں کو اس بے تکلفی سے دہریہ
خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۳۷ء کہنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دہریت کوئی بُری چیز نہیں.تو شیخ صاحب خود تو جماعت کو دہریہ کہتے ہیں مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ مجھے منافق یا فاسق کہو.اگر وہ کہیں کہ میں نے ساری جماعت کو تو نہیں کہا مگر جب وہ کہتے ہیں بہت سارے دہر یہ ہو چکے ہیں تو جو باقی رہ گئے وہ کیا ہوئے.و جب جماعت کے اندر ایک گندی رو پیدا ہو چکی ہو تو پھر اچھا کون رہ سکتا ہے.عبد الحکیم نے بھی تو ساری کی جماعت کے متعلق یہ نہیں کہا تھا اس نے بھی یہی کہا تھا کہ مولوی صاحب کامل مومن ہیں اور مصری صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں.ان کے نزدیک کامل تو وہ خود، فخر الدین صاحب اور حکیم عبد العزیز ہیں اور باقی جماعت ابھی ضلالت پر ہی قائم ہے.ایک شخص جماعت سے نکلتا اور جماعت پر اور خلیفہ پر اتہام لگا تان اور پھر کہتا ہے کہ مجھے جھوٹا نہ کہو بلکہ خلیفہ کو بُرا کہو، میں نہیں سمجھتا ایک عقلمند کی عقل اور محب کی محبت پر اس کی سے زیادہ حملہ اور کیا ہو سکتا ہے.انہوں نے جماعت پر دہریت کا الزام لگایا.مولوی ابوالعطاء صاحب نے انہیں چیلنج دیا کہ سو ایسے لوگوں کے نام جو د ہر یہ ہو گئے ہوں اور سو ان کے جو دہریت کی طرف جارہے ہوں بتا دیں اور باوجود اس چیلنج کے کئی بارڈ ہرائے جانے کے وہ ایسے نام پیش نہیں کرتے.تو ہم انہیں جھوٹا نہیں تو اور کیا کہیں گے.اب میں بتا تا ہوں کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ الزام لگانے والا ثبوت دے.شریعت اُس کا جس پر الزام لگایا جائے ، ساتھ دیتی ہے اور ثبوت کا بار الزام لگانے والے پر ڈالتی ہے.یہ نہیں کہتی کہ ثبوت لوگ تلاش کرتے پھریں.مثلاً کوئی شخص زید یا بکر کے پاس آئے اور کہے کہ فلاں شخص حرامزا رامزادہ ہے اور جب آگے سے کہا جائے کہ ثبوت لاؤ تو کہے کہ میں نے بتادیا ، اب ثبوت تم خود تلاش کرتے پھرو.ایسے موقع پر مومنوں کو تو شریعت کا یہ حکم ہے کہ فوراً کہہ دیں سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ - اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَ قَالُوا هذَا افَضٌ مُّبِينٌ ٣- پھر فرمایا وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَّايَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هذَا بُهْتَانٌ عَظِیم ہے یعنی جب کوئی شخص دوسرے مومن کے متعلق کوئی عیب کی بات کہے تو وہ آگے سے فوراً جواب دے کہ سُبحَانَكَ هذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ - اے میرے رب ! تو پاک ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے.پھر فرمایا کیوں نہ مومنوں نے افک کا الزام سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ بنایا گیا
خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۷ء ہے.اور جب یہ کہا جائے کہ یہ بڑا جھوٹ بنایا گیا ہے تو کیا اس کے یہ معنے نہیں کہ اس الزام کا لگانے والا جھوٹا ہے.تو اب بتاؤ کہ جب قرآنی تعلیم کے مطابق کوئی شخص ایسے موقع پر کہے کہ یہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے تو وہ آگے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ کس قدر ظلم ہے.مجھے بلا تحقیق ہی جھوٹا کہہ دیا گیا ہے.مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی شان یہی ہے کہ فوراً کہہ دے هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ.اور یہ اگلے کا فرض ہے کہ دلیل لائے.مگر یہاں دلیل لانا تو الگ رہا الزام تک بیان نہیں کیا جاتا.حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر یہ اصول بتایا ہے کہ دلیل اور ثبوت الزام لگانے والے کے ذمہ ہے.اسے چاہئے کہ اپنے ثبوت پیش کرے اور پھر اگر وہ شریعت کے مطابق ہوں تو مومن مان لے.اور اگر کوئی دلائل بیان نہیں کرتا تو قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ تم کہہ دو هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ يعنى شخص جھوٹ بھی معمولی نہیں بول رہا بلکہ کذاب ہے.کا ذب خالی بہتان کا ترجمہ ہے اور بُهْتَان عَظِيمٌ ترجمہ کذاب ہے.قرآن کریم کی یہ تعلیم ہی ہے جو دنیا میں امن قائم رکھ سکتی ہے ورنہ کسی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں.فرض کرو کوئی شخص شیخ صاحب کی بیوی یا بیٹی پر کوئی الزام لگائے تو کیا وہ اُس کے ہاتھ پھو میں گے اور کہیں گے جزاک اللہ آپ نے بہت اچھا کیا جو مجھے بتا دیا میں اس کی تحقیقات کروں گا.کیا ہی جن لوگوں نے حضرت عائشہ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا پر الزام لگا یا رسول کریم ﷺ نے اُن کو بلا کر اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ تم لوگوں نے بڑا احسان کیا ہے؟ یا یہ کیا کہ آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ایک شخص نے میرے اہل کے متعلق مجھے بہت دکھ پہنچایا ہے، کون ہے جو میری مدد کرے.اس پر قبیلہ اوس کے ایک شخص نے کہا کہ يَارَسُولَ اللهِ ! اگر وہ ہمارے قبیلہ میں سے ہے تو ہم اس کو سزا دیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے.آپ نے یہ تو نہیں کیا تھا کہ الزام لگانے والے پر دست شفقت پھیرا اور کہا ہو کہ اچھا میں تحقیق کروں گا.تو قرآن کریم کا یہی فیصلہ ہے کہ ایسی بات سنتے ہی کہہ دو کہ هَذَا بُهْتَانَ عَظِيمٌ اور یہ حکم تو ایک معمولی مومن کے متعلق ہے اور خلیفہ سے تو بیعت کا بھی تعلق ہوتا ہے.اگر یہ لوگ کسی ادنیٰ مومن پر بھی کوئی الزام لگاتے تو شریعت کا یہی حکم ہے کہ مومن سنتے ہی کہہ دے کہ یہ شخص کذاب ہے.شیخ مصری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے دو سال سے ان باتوں کا علم تھا اور پھر کہتے ہیں کہ مجھے ج منافق نہ کہو مگر سوال یہ ہے کہ منافق کسے کہتے ہیں؟ وہی جو ظاہراً جماعت کے ساتھ شامل ہو مگر اندر سے
خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۷ء مخالف ہو.وہ کہتے ہیں کہ انہیں دو سال سے علم تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میری بیعت کی جائے.مگر پھر بھی جماعت میں شامل تھے اور اسی کو منافق کہتے ہیں.منافق صرف دینی امور میں ہی نہیں دُنیوی امور میں بھی کوئی شخص منافق ہو سکتا ہے.جو شخص کسی کارخانہ میں ملازم ہے اور تنخواہ لیتا ہے اور پھر اس کارخانہ کے راز بھی دوسروں کو بتاتا ہے ، اسے بھی ہم منافق ہی کہیں گے.منافق وہ نہیں ہوتا جو اسلام سے نکل جائے بلکہ منافق جماعت کے اندر شامل ہوتا ہے اور شامل ہوتے ہوئے مخالفت کرتا ہے.تو ی مصری صاحب اپنی منافقت کا اقرار کرتے ہیں مگر پھر بھی چاہتے ہیں کہ جماعت منافق کو منافق نہ کہے.وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دو سال سے مجھے ان باتوں کا علم تھا.اور منافق کیلئے کسی معیاد کی شرط نہیں خواہ کسی کے خیالات بگڑ جائیں اور وہ دو روز ہی ان کو چھپا کر اس جماعت سے فائدہ اٹھاتا رہے وہ منافق ہے.اور خیالاگ بگڑنے کی صورت میں اس کا فرض ہے کہ اُسی وقت فیصلہ کرے.یا تو تسلی کرلے اور یا پھر جماعت سے الگ ہو جائے.مگر جو شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کی حالت دو سال سے ایسی تھی اور ہماری تحقیقات یہ ہے کہ ان کی یہ حالت اس سے بھی بہت پرانی تھی مگر چونکہ ہماری تحقیقات تابع ہے ان الزامات کے اس لئے جب وہ ان کو ظاہر کریں گے اُسی وقت ہم بھی کریں گے.پھر مصری صاحب لکھتے ہیں کہ آپ اس بھائی کو جو محض آپ لوگوں کو ایک خطر ناک ظلم سے جس سے آپ میں سے اکثر بے خبر ہیں کے پنجہ سے چھڑانے کیلئے اپنی عزت، اپنا مال ، اپنی سبیلِ معاش ، اپنا آرام ، اپنے اہل وعیال کا آرام، اپنے عزیز بچوں کی تعلیم سب کچھ قربان کر کے نکلا ہے.گویا تمہیں ایسا گندہ خلیفہ ملا ہوا تھا جو جماعت کو تباہ کر رہا اور دہریت کی طرف لے جا رہا تھا.میں نے تمہاری خیر خواہی کی اور تمہاری خاطر اس قدر قربانی کی اور پھر تم میرے دشمن ہو گئے.مگر میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں نے قربانی نہ کی تھی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِيْنَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلَيَصْفَحُوا ل حضرت عائشہ پر الزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کو کوڑے لگے تھے جن میں سے ایک حسان بن ثابت تھے جو آنحضر کا شاعر اعظم تھا اور ایک مسطح تھا جو حضرت عائشہ کا چچا اور حضرت ابو بکر کا خالہ زاد بھائی تھا.وہ اس قدر غریب آدمی تھا کہ حضرت ابو بکر کے گھر میں ہی رہتا ، وہیں کھانا کھاتا اور آپ ہی اس کیلئے کپڑ.
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۷ء بنواتے تھے اور ایک اور عورت ان کے ساتھ تھی ان تینوں کو سزا ہوئی تھی ہے.تو کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کو نقصان کا کوئی احتمال نہ تھا کون نہیں جانتا کہ عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے لوگ خود نقصان اٹھا کر بھی دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کو نقصان کا کوئی احتمال نہ تھا.کون نہیں جانتا کہ کی عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے لوگ خود نقصان اُٹھا کر بھی دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں.کیا مصری کی صاحب کی قربانی حسان اور مسطح سے زیادہ ہے؟ خود قرآن کریم گواہ ہے کہ حضرت ابو بکر نے قسم کھائی تھی کہ اب میں مسطح کی مدد نہیں کروں گا.2 مگر چونکہ یہ جرم حکم قرآنی کے نازل ہونے سے پہلے کا تھا اس کی لئے اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا.وہ تو معذور تھے مگر تیرہ سو سال تک یہ قرآنی حکم سننے کے بعد جو مجرم بنے وہ کس طرح اپنی بریت کر سکتا ہے.جو قربانی مصری صاحب نے کی ہے اس سے بڑھ کر مسطح نے کی تھی.اس کے کھانے اور کپڑے تک کا کوئی انتظام نہ تھا حتی کہ اس کے پاس رہنے کیلئے کوئی مکان تک نہ تھا وہ بدری صحابی بھی تھا.پس اس سے بڑھ کر مصری صاحب میں کون سی چیز ہے.اسی طرح حسان بھی صحابی کی تھے اور شاعر اسلام تھے.کیا یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جب ہم حضرت عائشہ پر الزام لگائیں گے تو ہماری بڑی عزت ہوگی اور حضرت ابو بکر بلا کر ہمارا وظیفہ مقرر کر دیں گے؟ نہیں بلکہ انہیں خوب علم تھا کہ کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا.مسطح اچھی طرح جانتا تھا کہ حضرت ابو بکر روٹی کپڑا بند کر دیں گے اور مکان.بھی نکال دیں گے اور حستان پر تو ایک صحابی نے تلوار سے حملہ کر دیا تھا اور ایک دوسرے صحابی نے بچایا کہ سزا دینا رسول کریم ﷺ کا کام ہے تمہارا نہیں.جس طرح کہ آج میں شریعت کا واسطہ دے کر احباب جماعت کو روکتا رہتا ہوں کہ دیکھنا جماعت کو بدنام نہ کرنا.یہ لوگ ہمارے محلوں میں جاتے اور احمد یوں کے مکانوں کے اندر اشتہار پھینک کر آتے ہیں اور اس طرح اشتعال دلاتے ہیں.ان کی طرف سے فساد انگیزی میں کوئی کسر باقی نہیں.یہ میری اس تعلیم کی وجہ سے ہی ہے کہ اپنے جوشوں کو قابو میں رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے احمدیت بدنام ہو.یہ لوگ یہاں اس قدر اشتعال انگیزی کے باوجود امن سے رہ رہے ہیں ان دنوں ان کی زندگیوں کی ایک ایک گھڑی میرے احسان کے نیچے ہے.میں ہی ہوں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی طبائع کو ٹھنڈا کرتا ہوں اور میری ہی متواتر ہدایات کی وجہ سے لوگ اپنے جوشوں کو دبائے ہوئے ہیں.ورنہ کسی ادنیٰ سے ادنی آدمی کے متعلق بھی کوئی اس قسم کی باتیں کر سکتا ہے؟
خطبات محمود ۲۸۱ سال ۱۹۳۷ء مستریوں نے جب اس قسم کے الزام لگائے تو میں نے اُن کو بلا یا تھا اور دریافت کیا تھا کہ سنا ہے تم ایسی باتیں کرتے ہو.پہلے تو بیٹا کہنے لگا کہ نہیں میں نے تو آپ کے متعلق یہ خواب دیکھا تھا، بھلا میں ایسی باتیں کر سکتا ہوں؟ اور باپ نے کہا کہ یہ تو مجھے سمجھاتا رہتا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے کی اقرار کر لیا.اس پر میں نے انہیں کہا کہ جانے دو اس بات کو کہ میں خلیفہ ہوں ، جانے دو احمدیت کے جتنے کو تم جانتے ہو فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا اور فلاں شخص شراب پیتا ہے اور ان کی حیثیت گاؤں میں وہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حاصل ہے مگر تمہاری جرات ہے کہ بازار میں جا کر کہو کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے یا فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا ؟ تم ہر گز یہ جرات نہیں کر سکتے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کہا تو اس قدر جوتے پڑیں گے کہ سر پر ایک بال نہیں رہے گا.پھر قادیان میں مجھے جو مالکانہ حیثیت حاصل ہے اسے بھی جانے دو.تم کسی گاؤں میں دو گھماؤں ملکیت رکھنے والے کسی شخص کے متعلق ہرگز ایسی باتیں کرنے کی جرات نہیں کر سکتے اور اس طرح گویا تم اپنے فعل سے شہادت دیتے ہو کہ میں شریف ہوں اور پُر امن ہوں.ورنہ جو باتیں تم میرے متعلق کہتے ہو ان کا سوواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی کسی اور کے متعلق تم نہیں کہہ سکتے.اور اب یہی بات میں اِن لوگوں سے کہتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ جماعت کے ۸۰ فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اسی فیصدی نہیں نوے پچانوے بلکہ ننانوے فیصدی سہی بلکہ ۳/۴ ۹۹ فی صدی سہی.قادیان میں اس وقت آٹھ ہزار احمدی ہیں.ان میں سے ۳/۴-۹۹ فی صدی بھی اگر ان کے ساتھ ہوں اور صرف ۲۴ ہی میرے ساتھ.مگر کیا جس کے واسطے ۲۴ آدمی بھی جان دینے کو تیار ہوں اُس کے متعلق کوئی ایسی باتیں کر سکتا ہے؟ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ جس کے ساتھ ایک بھی آدمی نہ ہو اُس کے متعلق بھی کوئی نہیں کہہ سکتا.کیا دنیا میں لوگ اشتعال میں آکر خود بدلہ نہیں لے لیتے ؟ آخر ہم لوگ ایسے خاندان سے تو تعلق نہیں رکھتے جس نے کبھی لڑائی میں ہاتھ نہ ڈالا ہو.ہمارے خاندان کی تاریخ جنگی تاریخ ہے اور اب بھی ہمارا فوج کے ساتھ تعلق ہے.میں نے خود میرزا شریف احمد صاحب کو فوج میں داخل کرایا ہے اور اب ان کا ایک لڑکا فوج میں شامل ہو رہا ہے.ہمارے تایا صاحب نے غدر کے موقع پر جنگ میں نمایاں حصہ لیا.ہمارے دادا فوجی جرنیل تھے.دلی کے بادشاہوں کی چٹھیاں ہمارے پاس محفوظ ہیں جن میں اس امر کا اعتراف ہے کہ ہمارا خاندان ہی
خطبات محمود ۲۸۲ سال ۱۹۳۷ء تھا جس نے سکھوں کے زمانہ میں اسلام کی حفاظت کے لئے قربانیاں کیں.پس ان کا مجھ پر حملہ اس لئے نہیں کہ میں بُزدل ہوں یا میرا خاندان جرات نہیں رکھتا بلکہ صرف اس لئے ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی کی شرارتوں کا جواب میں شرارت سے نہیں دوں گا اور صبر سے ان کے ظلموں اور شرارتوں کو برداشت کروں گا.ایسے لوگ اور کسی پر اعتراض نہیں کرتے ، صرف مجھ پر ہی کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ی وہ جانتے ہیں کہ وہ مجھ پر اعتراض کریں گے اور میں ان کی حفاظت کروں گا.وہ مجھے گالیاں دیں گے اور میں اس امر کا خاص خیال رکھوں گا کہ انہیں کوئی تکلیف اور دُکھ نہ پہنچے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ دوسروں پر حملہ نہیں کرتے.مؤمن ربانی ہوتا ہے.پہلے وہ چھوٹی اصلاح شروع کرتا ہے.بیسیوں عیوب ان کے ارد گرد موجود ہیں ان کے گھروں میں اور ان کے دوستوں میں پائے جاتے ہیں یہ لوگ کیوں ان کی اصلاح کی کیلئے کھڑے نہیں ہوتے ؟ کیوں ان کے متعلق اشتہار شائع نہیں کرتے ؟ مجھ پر ان کا حملہ بتاتا ہے کہ وہ کی یقین رکھتے ہیں کہ میں پر امن ہوں ورنہ دنیا میں کسی ادنیٰ سے ادنی آدمی پر بھی کوئی شخص اس طرح حملہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا جس طرح مجھ پر حملہ کیا جاتا ہے.گویا میں اس وسیع دنیا میں ایک ہی یتیم اور کی بے کس ہوں جس کی عزت پر حملہ کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا.مگر دشمن نادان ہے، بیشک بظاہر میں ایک ہی یتیم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوانسان مجھے چھوڑ دیں مگر خدا تعالیٰ مجھے نہیں چھوڑے گا.میں نے اس دنیا میں ان لوگوں سے جو میری محبت کا دم بھرتے تھے، ظلم پر ظلم دیکھے ہیں مگر ایک ہے جس نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور اُسی کے منہ کیلئے میں یہ سب ظلم برداشت کر رہا ہوں.یہ خلافت میرے لئے پھانسی سے کم ثابت نہیں ہوئی.لوگوں نے مجھے تختہ دار پر کھینچا اور فخر کرنے لگے کہ انہوں نے مجھے تخت بخش دیا ہے مگر میرے خدا نے مجھے کہا کہ یہ تو سب کچھ برداشت کر اور اُف نہ کر کیونکہ تیرے دکھ میرے لئے ہیں نہ کہ بندوں کیلئے.پس جن کیلئے تیرے دُکھ نہیں تیرا حق نہیں کہ ان سے صلہ کا امیدوار ہو.تیرا کام بندوں کیلئے بغیر اجرت کے ہے مگر تو بے اجرت نہیں چھوڑا جائے گا.میں خود تیرے زخموں پر مرہم رکھوں گا اور تیری ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑ دوں گا.انسانوں نے بیشک تیرے ساتھ ظلم کیا ہے مگر کیا میری محبت اس ظلم کا کافی سے زیادہ بدلہ نہیں ؟ اور کیا میری محبت کا دعوی کرتے ہوئے اس کے سوا تجھے اور کسی چیز کی خواہش ہو سکتی کی ہے؟ میرے رب کی یہی آواز ہے جس نے تاریکی کے وقتوں میں میرا ساتھ دیا ہے اور جب میرا دل
خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۷ء بیٹھنے کو ہوتا تھا تو اُس نے میرے دل کو سہارا دیا ہے ورنہ مجھ پر ہزاروں گھڑیاں آئی ہیں کہ موت مجھے حیات سے زیادہ عزیز تھی اور قبر کا کونہ گھر کے کمروں سے مجھے زیادہ پیارا تھا.میں باتوں باتوں میں دور نکل گیا.میں ذکر یہ کر رہا تھا کہ حسان اور مسطح بھی اپنا نقصان کر کے کی کھڑے ہوئے تھے.ان کی روٹیاں اور کپڑے، ان کے مکان ، ان کی عزتیں ، غرضیکہ ہر چیز خطرہ میں نے تھی.تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت عائشہ پر ان کا الزام صحیح تھا؟ اگر یہ دلیل کوئی قیمت رکھتی ہے کہ انہوں نے اپنا نقصان کر کے یہ فتنہ شروع کیا ہے اس لئے وہ جو کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ پہلوں نے بھی نقصان اُٹھا کر ہی ایسا کیا تھا مگر ان کے متعلق قرآن کریم کا صاف حکم ہے کہ وہ کذاب تھے.پس ان لوگوں کو کونسی زائد پوزیشن حاصل ہے کہ ان کو کذاب نہ کہا جائے.پھر یہ بھی درست نہیں کہ مصری صاحب نے کوئی قربانی کی ہے.انہوں نے پہلا خط فخر دین صاحب کے اخراج کے بعد لکھا ہے.اگر وہ کسی قربانی کیلئے تیار تھے تو چاہئے تھا کہ پہلے لکھتے.لیکن جب دیکھا کہ پارٹی ٹوٹنے لگی ہے تو خط میں مجھے دھمکی دی کہ فخر دین صاحب کو معافی دے دو ورنہ پر دے فاش ہو جائیں گے.وہ سمجھتے تھے کہ میں ڈر جاؤں گا اور معاف کر دوں گا.تو اس خط سے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ ڈرا کر فخر دین صاحب کیلئے معافی حاصل کی جائے.یہ بھی کوئی قربانی ہے کہ کوئی شخص کسی سے آکر کہے کہ یہ کام کردو ورنہ تمہارا گھر لوٹا جائے گا.پہلے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ فخر دین صاحب کو معاف کر دیں ورنہ بڑی بدنامی ہوگی.تو یہ خط کسی قربانی کیلئے نہیں بلکہ فائدہ اُٹھانے کیلئے لکھا گیا ہے.یہ اس غرض سے لکھا گیا تھا کہ ان کی کا جو دوست جماعت سے باہر کر دیا گیا ہے اُسے پھر شامل کر لیا جائے.پس یہ خط فائدہ اٹھانے کیلئے لکھا گیا تھا نہ کہ کسی قربانی کیلئے.اگر یہ فخر دین صاحب کی خاطر نہیں لکھا گیا تھا تو جب وہ کہتے ہیں ان باتوں کا دو سال سے مجھے علم تھا تو فخر دین صاحب کے اخراج کا انتظار کیوں کرتے رہے.اس مرحلہ پر خط لکھنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مزعومہ اعتراضات کا اظہار خود الزامات کا باعث نہ تھا بلکہ میاں فخر دینی صاحب کو بچانے کیلئے تھا.مصری صاحب بتا ئیں تو سہی کہ فخر دین صاحب کے اخراج کے بعد کونسے ایسے نئے حالات پیدا ہو گئے تھے جن کی وجہ سے وہ مجبور ہو گئے کہ وہ ان الزامات کا اظہار کریں.اگر تو کوئی نئے حالات پیدا ہو گئے ہوتے تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ خط ان حالات کی وجہ سے لکھا گیا لیکن ایسا نہیں ہے.پس واقعہ یہی ہے کہ اگر فخر دین صاحب جماعت میں رہتے تو با وجود مصری صاحب کو میرے مزعومہ عیور
خطبات محمود ۲۸۴ سال ۱۹۳۷ء کا علم ہونے کے وہ بھی جماعت میں رہتے اور میاں فخر دین صاحب بھی اور میاں عبد العزیز بھی.گویا میرے عیوب مستقل وجود نہیں رکھتے وہ صرف فخر دین صاحب کے اخراج کے ساتھ مل کر مکمل ہوتے ہی ہیں.پس اس سے صاف ثابت ہے کہ ان خطوط کے لکھنے کا محرک پارٹی کے ٹوٹنے کا خدشہ یا غصہ تھا.تیسرے خط میں شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہو چکا ہے اب آپ سے نرمی کرنا سلسلہ کے ساتھ غداری ہے.مگر سوال یہ ہے کہ دو سال تک یہ مسئلہ کیوں نہ سُوجھا.۱۳ روز کے اندر اندر ہی یہ رموز ان پر گھلے ، دو سال پہلے کیوں نہ کھلے.اس الزاموں والے خط میں بعض جگہ تو الزام نمایاں ہیں گو مجمل اور تشنہ تفصیل اور بعض جگہ یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہتے کیا ہیں.ان دونوں طریقوں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلا خط اس غرض سے تھا کہ دھمکیوں سے ڈر کر میں ان کی بات مان لوں اور وہ جو چاہیں مجھ کو سے کراسکیں.جیسے دلی میں بادشاہ گر ہوتے تھے یہ خلیفہ گر بننا چاہتے تھے.وہ چاہتے تھے کہ ظاہر میں تو میں لیکن باطن میں وہ خلیفہ ہوں.مگر انہیں کیا معلوم کہ خدا اور انسان کے بنائے ہوئے خلفاء میں کیا فرق ہوتا ہے.خدا کا بنایا ہو اخلیفہ کبھی کسی سے نہیں ڈرتا.کیا میں اس بات سے ڈر جاؤں گا کہ لوگ مرتد ہو جائیں گے؟ جس کے لئے ارتداد مقدر ہے وہ کل کی بجائے بیشک آج ہی مرتد ہو جائے ، مجھے کیا فکری ہے.میں جب جانتا ہوں کہ میں خدا کا بنایا ہو ا خلیفہ ہوں تو خواہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ ہو تو بھی مجھے کیا ڈر ہے.جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں انسانوں سے کیوں ڈروں.ادھر یہ لوگ مجھے ڈراتے اور اُدھر خدا تعالیٰ مجھے تسلیاں دیتا ہے.ان چند روز میں اس کثرت سے مجھے الہام اور رویا ہوئے ہیں کہ گزشتہ دوسال میں اتنے نہ ہوئے ہوں گے.ابھی چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہو ا جو اپنے کی اندر دعا کا رنگ رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اے خدا ! میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں تو میری مددفر ما“.اور پھر اس کے تین چار روز بعد الہام ہو ا جو گویا اس کا جواب ہے کہ ” میں تیری مشکلات کوڈ ورکروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا.آخری الفاظ ” تباہ کر دوں گا یا بر باد کروں گا یا مٹا دوں گا “ تھے، صیح طور پر یاد نہیں رہے.تو جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں بندوں سے کیوں ڈروں.اور کیا ان واقعات کے بعد میں کسی بندے پر اعتماد کر سکتا ہوں ؟ شیخ عبد الرحمن مصری میرے بچپن کے دوست تھے مگر آج ان کے اقرار کے بموجب وہ دو سال سے میر خلاف مواد جمع کر رہے تھے مگر ہماری تازہ تحقیق کے مطابق اس سے بھی بہت پہلے سے کینہ دل میں
خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۷ء چھپائے بیٹھے تھے.پھر میں کسی انسان پر کس طرح بھروسہ کر سکتا ہوں.فتح مکہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے پانچ اشخاص کے متعلق حکم دیا تھا کہ جہاں بھی ملیں مار دئیے جائیں.ان میں سے ایک ہندہ بھی تھی مگر وہ چادر اوڑھ کر دوسری عورتوں کے ساتھ بیعت کرنے آگئی.رسول کریم ﷺ نے جب بیعت لیتے لیتے کہا کہ کہو ہم شرک نہ کریں گی تو چونکہ وہ بڑی دلیر عورت تھی اس سے نہ رہا گیا.کہنے لگی کیا ہم لوگ ایسے ہی بیوقوف ہیں کہ اب بھی شرک کریں گے.آپ اکیلے تھے اور ی ہم سارے تھے ، ہم نے مخالفت کی مگر آپ ہم میں سے ایک ایک کر کے سب کو چھین کر لے گئے آخر آپ جیتے اور ہم ہارے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتے ہیں؟ رسولکر یم ﷺ نے فرمایا کون ہے ؟ ہندہ؟.مطلب یہ تھا کہ میں نے تو اس کے قتل کا حکم دیا تھا.وہ کہنے لگی کہ اب تو میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آپ مجھے نئے گناہ پر سزا دے سکتے ہیں پرانے پر نہیں ، وہ معاف ہو گئے.یہی حال میرا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار انسانوں کی کمزوری پر آگاہ کر دیا ہے پھر کیا میں اب بھی بندوں پر بھروسہ کر سکتا ہوں.میں نہ آدمیوں سے خوش ہوں اور نہ ان کے ریزولیوشنز سے.میں تو صرف اس لئے خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں.وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کی طرح سارے سانپ لا کر رکھ دیں میرے خدا کا سانپ ان سب کو نگل جائے گا.اگر ایک شخص بھی تم میں سے میرے ساتھ نہ رہے تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں.کیونکہ میرا خدا مجھ سے کہتا ہے کہ میں تیرا ساتھ دوں گا پھر مجھے کسی اور کی کیا ضرورت ہے.انہی دنوں میں میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے وہ بھی مخالفوں کے تباہ ہونے پر دلالت کرتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک درختوں کا چھوٹا سا جنگل ہے جس میں کچھ درخت ہیں اور کچھ کھلا میدان.اور تین چار پائیاں پڑی ہیں.دوشرقاً غرباً اور ایک شمالاً جنوباً.ان میں سے ایک پر میں بیٹھا ہوں اور ایک پر ایک بچہ اور ایک عورت بیٹھے ہیں.وہ عورت اگر چہ محرم معلوم ہوتی ہے مگر اُس وقت اُس کا نام ذہن میں نہیں آتا.میں نے یکدم دیکھا کہ بھورے رنگ کا ایک سانپ جو قریباً ڈیڑھ گز لمبا ہے چار پائی کے نیچے سے نکلا ہے.میرے پاس چھوٹی سی سوٹی ہے میں نے دوڑ کر اُ سے مارا ، سوئی اُس کی کمر میں لگی اور وہ دوٹکڑے ہو گیا.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو مونہی ہے اور اُس کی دُم اور سر دونوں ہی میں زندگی کی کے آثار معلوم ہوتے ہیں (جیسا کہ عوام میں مشہور ہے کہ دو مونہی سانپ میں دو زندگیاں ہوتی ہیں سرکی
خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۷ء طرف بھی اور دم کی طرف بھی ) مگر اب اس میں بھاگنے اور حملہ کرنے کی طاقت نہیں رہی.وہ کھسکتا ہے.عورت اس کے پاس آئی مگر بچہ وہیں بیٹھا رہا.وہ لکڑی کے ساتھ اُسے ہلاتی ہے.میں بھی ایک سرا ہلا رہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ سانپ چھوٹا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ڈیڑھ بالشت کے قریب رہ گیا تی اور ساتھ ہی پتلا بھی ہوتا گیا.پھر دائیں طرف ایک درخت کے نیچے آگ جلتی ہوئی نظر آئی.میں نے اس عورت سے کہا کہ اس کا ایک ٹکڑ اکٹڑی سے کم اٹھاؤ اور ایک میں اُٹھاتا ہوں اور اسے آگ میں ڈال دیں تا جل جائے.میں نے تو ایک ٹکڑا آگ میں ڈال کر او پر بوجھ رکھ دیا اور وہ جل کر راکھ ہو گیا.دوسرا حصہ جو اس عورت کو میں سمجھتا ہوں ہماری رشتہ دار ہے مگر خیال نہیں کہ کون ہے ، آگ میں ڈالنے کیلئے کہا تھا وہ اس نے پھینکا تو بجائے آگ کے وسط میں گرنے کے آگ کے آخری حصہ میں جا گرا.اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ آگے نکل نہ جائے اس لئے میں نے ایک اینٹ اُٹھا کر اُس کے اوپر پھینک دی تا وہ اچھی طرح جل جائے پھر اُسے آگ لگ گئی اور وہ جل گیا.مگر اس کا سر ایک چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور کے برابر آگ سے نکل کر جھاڑی کی جڑ کی طرف چلا گیا.میں اسے بھی مارنا چاہتا ہوں مگر وہ چھوٹا ہونے کی وجہ ی سے نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے.اب اس کی یہ تعبیر بھی ہو سکتی ہے کہ اس فتنہ کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ جائے گا اور یہ بھی کہ بالکل تباہ ہو جائے گا.کیونکہ کہتے ہیں کہ سانپ جب زخمی ہو جائے تو پھر بچ نہیں سکتا.پس اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ اس طرح ذلیل ہوں گے کہ کوئی اثر ان کا جماعت میں نہ رہے گا.اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کچھ لوگ ذلیل ہو کر مخفی مخفی جماعت میں شامل رہیں جس طرح رسول کریم ے کے زمانہ میں بعض منافق رہ گئے تھے.جنہوں نے بعد میں بہت سی گندی روایات تاریخ اسلامی میں داخل کر دیں یہ بھی اندر رہ کر فتنہ پیدا کرتے رہیں.پس میں نہ بندوں پر اعتماد کرتا ہوں اور نہ ریزولیوشنز پر.میرا بھروسہ تو اپنے خدا پر ہے.میں بتا رہا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ مصری صاحب نے کوئی قربانی کی ہے.پہلے انہوں نے مجھے ڈرا کر فائدہ حاصل کرنا چاہا اور اسی کوشش میں جب ان کا اندرونہ ظاہر ہو گیا تو وہ سمجھ گئے کہ اب تو مجھے نکال ہی دیں گے.اس لئے خود ہی لکھ دیا کہ اگر چوبیس گھنٹے تک میری تسلی نہ کی گئی تو میں جماعت ނ سے علیحدہ ہو جاؤں گا.حالانکہ پہلے خط میں صاف لکھا تھا کہ فخر دین صاحب کو معاف کرد و تو بدنامی سے بچ جاؤ گے.بیشک انہوں نے ایک جواری کی طرح ایک ہی دفعہ بازی لگا دی تھی کہ اگر ڈر گئے تو ہم
خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۷ء ساری عمر کیلئے سر پر سوار ہو جائیں گے اور اگر نہ ڈرے تو جو ہوگا دیکھا جائے گا.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ڈر سے محفوظ رکھا اور وہ چونکہ اپنے اندرونہ کو ظاہر کر چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب ہم جماعت میں نہیں ہے رہ سکتے اس لئے آخری خط میں نوٹس دے دیا.اسی قسم کا ایک خط مجھے ایک عورت نے ایک دفعہ لکھا تھا جو یہیں قادیان میں رہتی ہے.ان کے کی خاوند یہاں کارکن ہیں.بیوی کو شکایت پیدا ہوئی کہ یہاں کام زیادہ ہے اور دیر تک ان کا خاوند گھر پر نہیں آسکتا.اس غصہ میں مجھے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند کو کہا ہے کہ یہاں کی نوکری چھوڑ کر باہر چلے چلو لیکن وہ نہیں مانتے اس لئے اب آپ کو لکھتی ہوں کہ انہیں مجبور کریں کہ یہاں سے استعفیٰ دے کر باہر چلیں.اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو پھر یا درکھیں کہ میں اب زندگی سے تنگ آگئی ہوں میں آپ کا مقابلہ کروں گی اور مجھے آپ کے بہت سے راز معلوم ہو گئے ہیں.آپ مجھے مستریوں کی طرح نہ سمجھیں وہ ای کمزور تھے مگر میرے ساتھ بڑے بڑے آدمی ہیں.میں نے صرف اُس کے خاوند کو اس خط کا علم دے دیا اور کچھ نہ کیا.وہ تو عورت تھی اور میں نے اس کی ان باتوں کو پاگلا نہ باتیں سمجھ کر کچھ بھی نہیں کہا.مگر مصری صاحب تو تعلیم یافتہ آدمی ہیں ہیڈ ماسٹر تھے ، معزز عہدوں پر رہ چکے تھے ، مصری کہلاتے تھے، کوئی نادان عورت تو نہ تھے.انہوں نے پھر کیسے خیال کر لیا کہ میں ان باتوں سے ڈر جاؤں گا.ان کا تیسر ا خط بعد میں آیا.اس سے پہلے میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو میں ان کے خط کا بتای چکا تھا.انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا کوئی صورت نہیں کہ جس سے معافی ہو جائے.میں نے ان سے کہا کہ میں یہی سوچ رہا ہوں.مگر انہوں نے کوئی رستہ بھی میرے لئے نہیں چھوڑا اور میرے لئے کوئی اور کی چارہ کار رہنے ہی نہیں دیا سوائے اس کے کہ میں بے غیرت بنوں.بہر حال وہ سمجھدار آدمی تھے اور جانتے تھے کہ ان خطوط کے بعد معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا اور چونکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اس حرکت کی وجہ سے ضرور نکالا جاؤں گا اس لئے انہوں نے سوچا کہ میں خود ہی کیوں نہ یہ بات لکھ دوں تالہو لگا کر شہیدوں میں تو مل جاؤں اور یہ تو کہ سکوں کہ میں نے قربانی کی ہے.ان کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کے مکان پر جا کر قبضہ کر لے اور سامان وغیرہ اکٹھا کر لے کہ اتنے میں جب گھر والے دس بارہ آدمی آکر اسے پکڑیں تو کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑا ہو اور کہہ دے کہ اچھا میں قبضہ چھوڑتا ہوں.اور پھر دعوی کرے کہ میں نے بڑی قربانی کی ہے.وہ اپنے عمل کے خمیازہ میں جماعت سے نکلے ہیں،
خطبات محمود ۲۸۸ سال ۱۹۳۷ء اس میں قربانی کونسی ہے.قربانی تو جب تھی کہ پہلے ہی خط میں یہ لکھتے مگر اس میں تو صرف اس پر زور ہے کہ فخر دین کو معاف کر دیں اور میری جو بد نامی آپ کر چکے ہیں اس کا ازالہ کریں.بلکہ ایک جگہ تو صرف یہی مطالبہ ہے کہ فخر دین صاحب کو معاف کر دیں.اس میں قربانی کی کونسی بات ہے.ہاں جب وہ اپنا اندرونہ ظاہر کر چکے اور انہیں اچھی طرح علم ہو گیا کہ اب جماعت میں مجھے نہیں رہنے دیا جائے گا تو تیسرے خط میں یہ فقرہ لکھ دیا کہ میں بیعت سے علیحدہ ہو جاؤں گا.مجھے افسوس ہے کہ باقی مضامین کے متعلق میں آج کچھ بیان نہیں کر سکا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کبھی باقی باتوں کے متعلق بیان کر دوں گا.بہر حال یہ بالکل غلط ہے کہ انہوں نے کوئی قربانی کی.انہوں نے سو دا کرنا چاہا اور جواری کی طرح بازی لگا دی مگر ہار گئے.وہ مجھے نہ ڈرا سکے تو کہا اچھا میں جماعت سے نکلتا ہوں.ورنہ نہ ان پر کوئی ظلم ہوا اور نہ انہوں نے کوئی قربانی کی.بلکہ انہوں نے خود ظلم کیا ہے کہ جماعت کے امام پر درندوں کی طرح حملہ کیا اور خدا کی مقدس جماعت کو دہر یہ کہا.اس کے مقابلہ میں جماعت نے ان کو جو کچھ کہا وہ اس سے بہت کم ہے.المائدة: 9 (الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ ء ) ابوداؤد كتاب القضاء باب اذا علم الحاكم صدق شهادة الواحد (الخ) النور : ١٣ النور : ۷ بخاری کتاب التفسير باب لولا اذ سمعتموه.....الخ النور : ٢٣ >
خطبات محمود ۲۸۹ ۲۳ سال ۱۹۳۷ء جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ اسلام کی عملی زندگی پر تبر چلاتا ہے (فرموده ۲۳ / جولائی ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں آج بہت زیادہ دیر سے آسکا ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ کل مجھے شدید سر درد کا دورہ ہوا اور اس کی وجہ سے میں رات بھر جاگتا رہا.صبح اُٹھ کر میں نے برومائیڈ پیا اور تھوڑی دیر کے لئے سو گیا.پھر کی میں دفتر میں آیا اور کچھ دوست جو مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے ، اُن سے ملا.اس کے بعد چونکہ بعض حوالے تاریخی کتب سے میں نے نکالنے تھے اس لئے وہ حوالہ جات تلاش کرتا رہا اور ان سے ایسے وقت میں فارغ ہوا جبکہ فسل اور کھانے کے بعد نماز کو بہت دیر ہو جاتی تھی.چنانچہ میں نے جلدی جلدی ان دونوں کاموں سے فراغت پائی مگر پھر دیر ہوگئی.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مصری صاحب کے بعض ان اعتراضات کے جوابات دیئے تھے جو انہوں نے اپنے ایک اشتہار میں شائع کئے ہیں اور وہ اعتراض دو تھے.ایک تو یہ کہ جماعت نے بغیر تحقیق کئے انہیں گالیاں دی ہیں اور دوسرا یہ کہ جماعت نے ایک ایسے آدمی کو گالیاں دی ہیں جس نے جماعت کے مفاد کیلئے قربانی کی ہے.میں نے بتایا تھا کہ ان کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں.جماعت نے ان کو کوئی گالیاں نہیں دیں بلکہ انہوں نے جماعت کو گالیاں دیں اور
خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۷ء جماعت نے جو کچھ جواباً کہا وہ اس سے بہت کم ہے جو انہوں نے ہمارے متعلق کہا.اسی طرح ان کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں نے جماعت کیلئے قربانی کی.وہ حالات سے مجبور ہو گئے تھے اس لئے وہ ہم سے علیحدہ ہوئے ورنہ انہوں نے پہلا خط جو مجھے لکھا اس سے ان کا مقصد ہرگز جماعت سے علیحد گی نہیں تھا بلکہ مجھے ڈرانا اور بعض باتیں مجھ سے منوانا تھا.لیکن جب ان کی وہ غرض پوری نہ ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ اب میرا اندرونہ بھی ظاہر ہو چکا ہے جس کے بعد میرا اس جماعت میں رہنا ناممکن ہے تو انہوں نے خود ہی اپنے تیسرے خط میں جماعت سے علیحدہ ہونے کا وقت مقرر کر دیا.اسی اشتہار میں انہوں نے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ میرے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہو گیا ہوں حالانکہ میں جماعت سے الگ نہیں ہوا، صرف بیعت سے الگ ہوا ہوں.میں نے اس سوال کے اصولی حصہ کا جواب پہلے دے دیا ہے بلکہ ان کے اشتہار کے شائع ہونے سے بھی پہلے میرے ایک خطبہ میں ان کے اس اعتراض کا جواب آپ کا ہے اور وہ خطبہ آج کے الفضل میں چھپ بھی گیا ہے.آج میں ان کے بعض اُن دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس بارہ میں اپنے اشتہار میں دیئے ہیں.وہ لکھتے ہیں ” میں اس جگہ بعض دوستوں کے اس خیال کے متعلق بھی کہ خلیفہ سے ی علیحدگی جماعت سے علیحدگی کے ہی مترادف ہے کچھ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.یہ بات بالکل غلط ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت نہیں کرتا یا بیعت سے علیحدگی اختیار کرتا ہے وہ اصل سلسلہ سے بھی الگ کی ہو جاتا ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضرت ابو بکر کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی تو کیا کوئی ان کے کی متعلق یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ وہ اُس وقت تک اسلام سے خارج تھے؟ حضرت علی کی بیعت مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ نے نہیں کی تھی تو کیا وہ سب اسلام سے خارج تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی تو کیا انہیں اسلام سے خارج سمجھتے ہو؟ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علی کی بیعت کر لینے کے بعد بیعت کو فسخ کر لیا مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.دوستو! یہ خیال کسی مصلحت کے ماتحت آج پیدا کیا جارہا ہے ورنہ قرآن کریم ، احادیث نبوی، عمل صحابہ کرام میں اس کا نام ونشان بھی نہیں ملتا“.یہ گویا انہوں نے اس بات کی تائید میں اپنی طرف سے دلائل دیئے ہیں کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہوا ہوں جماعت سے الگ نہیں ہوا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مصری صاحب نے اس
خطبات محمود ۲۹۱ 호 سال ۱۹۳۷ء جگہ دیدہ دانستہ غلط بیانی سے کام لیا ہے.مجھے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ باوجود اس تمام مخالفت کے جو انہوں نے اختیار کی ہے، باوجود اس تمام عناد کے جو انہوں نے ظاہر کیا ہے اور باوجود اس شدید دشمنی کے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں، وہ احمدیت سے اتنے بے بہرہ ہو جائیں گے کہ چند دنوں کے اندر ہی اندر دیدہ دانستہ خلاف بیانی کے مرتکب ہونے لگ جائیں گے.چنانچہ میں ابھی ثابت کر دوں گا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا ثابت کر دوں گا کہ ایک جاہل سے جاہل اور ان پڑھ سے ان پڑھ انسان بھی یقینی طور پر سمجھ جائے گا کہ مصری صاحب نے قطعی طور پر جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لیا ہے.میرے اعلان کا مضمون یہ تھا کہ مصری صاحب ہماری جماعت سے الگ ہیں میں انہیں اپنی جماعت سے خارج سمجھتا اور ان کے خروج کا اعلان کرتا ہوں.مصری صاحب اس پر اعتراض یہ کرتے ہی ہیں کہ میں نے جماعت سے نہیں بلکہ بیعت سے الگ ہونے کو کہا تھا.پس یہ مجھ پر غلط الزام ہے کہ میں نے نے جماعت چھوڑ دی ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر الگ ہو گئے تھے مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.اب اس امر کود یکھو کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ جماعت سے الگ ہو گئے اور وہ مثال میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر کو پیش کرتے ہوئے دریافت یہ کرتے ہیں کہ کیا وہ اسلام سے نکل گئے تھے؟ یہ وہ دیدہ دانستہ دھوکا ہے جو انہوں نے لوگوں کو دیا.کیا ہماری جماعت آج قائم ہوئی ہے کہ ابھی تک اہم اپنی اصطلاحات کے مفہوم کو واضح نہیں کر سکے یا کیا مصری صاحب نئے آدمی ہیں کہ انہیں آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ خلیفہ وقت کی بیعت سے جب کوئی کی شخص الگ ہوتا ہے تو وہ احمدیت یا اسلام سے خارج نہیں سمجھا جاتا بلکہ جماعت سے علیحدہ سمجھا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کے سلسلہ میں منسلک ہوئے قریباً تمہیں سال گزر چکے ہیں.مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات پائی اور آج جولائی ۱۹۳۷ ء ہے گویا ۲۹ سال اور کچھ مہینے سلسلۂ خلافت کو شروع ہوئے ہو چکے ہیں.اس تمہیں سال کے عرصہ میں ان اصطلاحات کے متعلق ہماری جماعت کے خیالات بار بارظاہر ہو چکے ہیں.اگر کوئی نئی بات ہو تو انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھے معاف فرمائیے مجھے چونکہ علم نہیں تھا اس لئے دھوکا کھایا.مگر جس امر کے متعلق ۳۰ سال تک ہر ادنی اعلیٰ، چھوٹا بڑا ، عالم جاہل گفتگو کرتے چلے آئے ہوں اور بار بار اس کے متعلق جماعت کے خیالات ظاہر ہو چکے ہوں، اس کے متعلق ایک عالم کہلانے والا ، ایک مولوی کہلانے
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۷ء والا ، ایک تبلیغیں کرنے والا ، ایک مناظرے کرنے والا ، ایک بخشیں کرنے والا اور ایک مدرسہ دینیہ کا لمبے عرصہ تک ہیڈ ماسٹر رہنے والا اگر یہ کہے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا ، دراصل مجھے دھوکا لگ گیا تھا ، تو کیا کوئی بھی عقلمند اس کے اس عذر کو تسلیم کرے گا ؟ اگر مصری صاحب جب میری بیعت سے الگ ہوئے تھے، ہم ان کی نسبت کہتے کہ مصری صاحب غیر احمدی ہو گئے ہیں تب بیشک وہ کہہ سکتے تھے کہ میں نے تو صرف خلیفہ وقت کی بیعت چھوڑی ہے اور آپ لوگ مجھے احمدیت سے ہی خارج سمجھنے لگ گئے ہیں.اگر میں نے اپنی کسی تحریر یا تقریر میں ایک جگہ بھی یہ الفاظ استعمال کئے ہوں کہ مصری صاحب غیر احمدی ہو گئے ہیں تب تو بے شک وہ یہ مثال پیش کر سکتے اور کہہ سکتے تھے کہ جب حضرت طلحہ اور حضرت زبیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے الگ ہوئے تھے تو کیا وہ اسلام سے خارج ہو گئے تھے ؟ اگر نہیں تو پھر مجھے کیوں غیر احمدی کہا جاتا ہے.لیکن ہم نے ایسا نہیں کہا.اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر سے اشارۃ یا وضاحنا ظاہراً یا باطناً یہ ثابت کر دے کہ میں نے کہا ہو مصری صاحب احمدیت سے علیحدہ ہو گئے ہیں اور اب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بھی ایمان نہیں رکھتے تب بیشک یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بیعت سے علیحدگی اختیار کی ہے، احمدیت سے علیحدگی تو اختیار نہیں کی اور تب بیشک وہ خود بھی سوال کر سکتے تھے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے بھی حضرت علی کی بیعت کو فسخ کر لیا تھا مگر کیا کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.لیکن جب میں نے ایک دفعہ بھی یہ الفاظ استعمال نہیں کئے اور نہ ہماری جماعت نے انہیں غیر احمدی کہا تو ان کا اپنے دعوی کے ثبوت میں حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو پیش کرنا اور یہ دریافت کرنا کہ کیا وہ بیعت سے علیحدہ ہو کر اسلام سے نکل گئے تھے صریح دھوکا اور فریب نہیں تو اور کیا ہے.میں نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ جماعت سے الگ ہو چکے ہیں نہ یہ کہ وہ احمدیت یا اسلام سے علیحدہ ہو گئے ہیں.اب دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اگر ہماری جماعت کا یہ محاورہ ہوتا کہ جو شخص بھی ہماری وی جماعت میں نہیں وہ احمدی نہیں.تب بھی وہ کہہ سکتے تھے کہ گوتم نے یہ الفاظ نہ کہے ہوں کہ میں احمدیت سے خارج ہوں مگر چونکہ جماعت میں عام محاورہ یہی ہے کہ جو شخص جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے اسے احمدی نہیں سمجھا جاتا ، اس لئے میں نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ آپ مجھے احمدی نہیں سمجھتے.گو ہم پھر بھی کی مصری صاحب کو غلطی پر سمجھتے.کیونکہ جب ہم نے انہیں غیر احمدی نہ کہا ہوتا تو انکا کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ ا
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۷ء خود بخود یہ قیاس کر لیتے کہ مجھے احمدی نہیں سمجھا جاتا.لیکن بہر حال اس صورت میں کسی حد تک ہم سمجھ سکتے تھے کہ انہوں نے دھوکا کھایا.مگر واقعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں نہ صرف یہ کہ یہ محاورہ نہیں بلکہ اس کے بالکل الٹ محاورہ رائج ہے.آپ لوگوں میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ۲۳ سال حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو وفات پائے گزرچکے ہیں.اس ۲۳ سال کے عرصہ میں احمدیوں میں سے جن لوگوں نے میری بیعت نہیں کی وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور گو ہم ان کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ وہ احمدی نہیں.ہم یہ تو کہا کرتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں نہیں یا یہ تو ہم کہا کرتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت میں نہیں مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ مولوی محمدی علی صاحب احمدی نہیں یا خواجہ کمال الدین صاحب احمدی نہیں.چنانچہ اگر کوئی شخص ہماری جماعت کے کسی آدمی سے کہے کہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس میری سفارش کر دیں تو وہ یہی کہے گا کہ مولوی محمد علی صاحب سے ہمارا کیا تعلق، وہ ہماری جماعت میں نہیں.لیکن کیا آج تک ہم میں سے کسی شخص نے یہ کہا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب غیر احمدی ہیں؟ یقیناً ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ ہم میں سے کسی عالم دین نے اُن کو غیر احمدی کہا ہو.پس ۲۳ سال کے عرصہ میں سینکڑوں ہیں جو ہماری جماعت میں سے نکلے مگر کیا ہم ان کو بیعت نہ کرنے کی وجہ سے یا بعض کو بیعت توڑ دینے کی وجہ سے غیر احمدی کہتے ہیں ؟ ہم انہیں احمدی ہی کہتے ہیں.گو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ متفرق گروہ ہے.مگر بہر حال کہتے ہیں ہم انہیں کی احمدی ہی ہیں اور آج تک کسی ایک شخص نے بھی میرے منہ سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ میں نے کہا ہو مولوی محمد علی صاحب غیر احمدی ہیں، خواجہ کمال الدین صاحب غیر احمدی تھے یا شیخ رحمت اللہ صاحب غیر احمدی تھے.پس ہم ۲۳ سال سے برابر یہ اقرار کرتے چلے آئے ہیں کہ گو بعض لوگ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہیں وہ احمدی ہی.پس یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں تھا جو آج پیدا ہوا.اگر مصری صاحب پہلے احمدی ہوتے جس نے خلیفہ وقت کی بیعت کو تو ڑا ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ انہیں دھوکا لگ گیا مگر وہ بیعت توڑنے والوں میں سے پہلے نہیں بیسیوں احمدی ان سے پہلے بیعت توڑ چکے ہیں مگر ان کو اگر وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہے ہوں ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر احمدی ہو گئے تو آج مصری صاحب کو یہ شبہ کس طرح پڑ گیا کہ انہیں غیر احمدی کہا جاتا ہے.جب وہ ہم میں شامل تھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں نہیں ، خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت میں نہیں مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہا کرتے تھے
خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۳۷ء کہ گو وہ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہیں وہ احمدی ہی.اسی طرح شیخ رحمت اللہ صاحب اور سید محمد احسن صاحب امروہی کے متعلق بھی باوجود یہ کہنے کے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں وہ یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ غیر احمدی ہیں.جو شخص ۲۳ سال خود یہ محاورہ استعمال کرتا رہا ہو اُس کا بیعت سے الگ ہوتے ہی یہ کہنا شروع کر دینا کہ مجھے جماعت سے الگ قرار دے کر غیر احمدی سمجھا جاتا ہے، سراسر دنیا داری اور چالا کی ہے.یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا کسی کیلئے مشکل ہو.تم کسی احمدی بچے کے پاس چلے جاؤ.ایک سکول کے احمدی طالب علم سے ہی دریافت کر لو کہ کیا مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں ہیں؟ وہ کہے گا نہیں پھر اس سے پوچھو کیا مولوی محمد علی صاحب احمدی ہیں؟ وہ کہے گا ہاں.بلکہ وہی طالب علم جنہیں وہ پڑھایا کرتے تھے ان سے سوال کر کے دیکھ لو کہ کیا مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں ہیں وہ کہیں گے نہیں پھر ان سے سوال کرو کہ کیا وہ احمدی ہیں وہ کہیں گے ہاں.اب دوسری موٹی مثال اس کی میں یہ دیتا ہوں کہ اسی منبر پر کھڑے ہو کر میں نے مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی وفات پر اُن کا جنازہ پڑھنے کا علان کیا اور ساری جماعت کے ساتھ ان کا جنازہ پڑھا.لیکن اس کے مقابلہ میں کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی غیر احمدی کا بھی کبھی جنازہ پڑھا.ہم غیر احمدیوں کا جنازہ کبھی نہیں پڑھتے صرف احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں.پس میرا مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کا جنازہ پڑھنا بتاتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو جو خلیفہ وقت کی بیعت سے الگ ہو جائیں یا تی احمدی کہلا کر بیعت نہ کریں احمدی ہی سمجھتا ہوں.اور مصری صاحب تو میرے متعلق یہ اعلان کر رہے ہیں کہ میں انہیں معزول کراؤں گا.لیکن مولوی سید محمد احسن صاحب وہ تھے جنہوں نے میرے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ میں نے انہیں خلافت سے معزول کر دیا.پس وہ ہماری جماعت سے الگ ہو چکے تھے.مگر با وجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت سے الگ تھے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے میرے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ میں انہیں خلافت سے معزول کرتا ہوں، اُن کی وفات پر میں نے اُن کا جنازہ پڑھا اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر ہم انہیں غیر احمدی سمجھتے تو کبھی ان کا جنازہ نہ پڑھتے.لیکن جب میں نے مولوی سید محمد احسن صاحب کا جنازہ پڑھا تو اس کے معنے یہی تھے کہ میں ان کو احمدی سمجھتا ہوں.پھر شیخ رحمت اللہ کی صاحب فوت ہوئے تو میں نے اُن کا جنازہ پڑھا، وہ بھی مبائع نہیں تھے.مگر باوجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہ تھے میں نے ان کا جنازہ پڑھا.جس کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص کے جماعت میں نہ ای
خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۷ء ہونے کا ہم یہ مفہوم نہیں لیتے کہ وہ احمدی نہیں.بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ مبائع احمدی نہیں.یعنی خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی جماعت کا وہ حصہ نہیں وہ بیشک پہلے ہمارے ساتھ تھا مگر اب و کٹ گیا اور ہماری جماعت سے الگ ہو گیا ہے.تو یہ کتنا بڑا دھوکا ہے کہ ایک شخص ۲۳ سال ہمارے اندر رہتا ہے، جماعت کی اصطلاحات اور محاورات سے واقف ہے خود بھی یہ محاورہ استعمال کرتا رہتا ہے مگر جونہی وہ جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے کہتا ہے مجھ پر اتہام لگایا جاتا ہے کہ میں احمدی نہیں رہا.سوال یہ ہے کہ کس نے تمہیں کہا کہ تم احمدی نہیں رہے.جب کسی نے بھی ایسا نہیں کہا تو تمہارا جماعت پر یہ الزام لگانا بتا تا ہے کہ خود تمہارے دل میں کوئی شکوک پیدا ہوئے ہیں جن کو تم دوسروں کی کی طرف منسوب کرتے ہو.ہمارا تو یہ طریق ہی نہیں کہ جب کو ئی شخص ہماری جماعت میں سے الگ ہو تو اُس کے متعلق ہم یہ کہنا شروع کر دیں کہ وہ احمدی نہیں رہا.خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق بھی ہم یہی کہتے تھے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کے متعلق بھی یہی کہتے تھے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.مولوی محمد علی صاحب کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.اسی طرح باقی تمام غیر مبائعین کے متعلق ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں.ہاں نی ساتھ ہی ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سب احمدی ہیں اور ہم انہیں احمدی ہی سمجھتے ہیں گواحد یہ جماعت میں نہیں سمجھتے.چنانچہ جب کبھی پیغامیوں اور ہماری جماعت میں مباحثہ ہو تو ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ جماعت تو ہماری ہی ہے جو ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکی ہے تم لوگ پراگندہ اور متفرق ہو.تمہارا حق نہیں کہ تم اپنے آپ کو جماعت کہو.پھر میرے متعد د فتوے موجود ہیں جن میں دوستوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ کیا غیر مبائعین کے پیچھے نماز جائز ہے؟ اور میں نے ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کہ جائز تو ہے مگر مگر وہ ہے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم امام اُس شخص کو بناؤ جو تم میں سے اتقی اور معزز ہو.وہ لوگ چونکہ خلیفہ وقت کا انکار کر کے وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ کے ماتحت آچکے ہیں اس لئے ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا.ہاں اگر کسی موقع پر مجبور ہو جاؤ تو نماز کے ادب کے لحاظ سے یہ جائز ہے کہ تم کسی غیر مبائع کے پیچھے نماز پڑھ لو.لیکن کیا یہی فتوی ہم نے کبھی غیر احمدیوں کے متعلق بھی دیا ہے کہ اگر مجبور ہو جاؤ تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لو.جب نہیں تو صاف معلوم ہوا کہ ہمارے
خطبات محمود ۲۹۶ سال ۱۹۳۷ء نزدیک بیعت سے الگ ہونا اور چیز ہے اور احمدیت سے الگ ہونا اور چیز.اب با وجود یکہ پیغامیوں کو ہم اپنی جماعت میں نہیں سمجھتے ، پھر بھی ہم انہیں احمدی ہی کہتے ہیں.کیونکہ جماعت اور چیز ہے اور احمدیت اور چیز.جماعت متفرق ہو جاتی ہے مگر مذہب دنیا میں باقی رہتا ہے.خلافت راشدہ جب دنیا سے مٹی تو جماعت بھی ساتھ ہی مٹ گئی مگر اس کے ساتھ مذہب نہیں مٹا.بلکہ مسلمانوں کی کئی جماعتیں بن کر کوئی افغانستان میں قائم ہوگئی ، کوئی ایران میں ، کوئی عرب میں ان قائم ہوگئی اور کوئی سپین میں.پس با وجود اس کے کہ مسلمان دنیا میں متفرق ہو گئے مذہب ان کے پاس تی رہا.اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت موجود نہ ہو تو بیعت میں نہ شامل ہونے والے کا اور حال ہوتا ہے اور جب موجود ہو تو اور ہوتا ہے.جس طرح پانی کی موجودگی میں تیم کرنے والے اور عدم موجودگی میں تیم کرنے والے میں فرق ہے.لیکن پھر بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ جس نے بیعت توڑ دی وہ مسلمان نہیں ہے رہا.ہاں اُس شخص کو گنہگار اور روحانیت سے دور ہو جانے والا ضرور قرار دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس کے نفس میں شرارت ہے تو وہ ایمان سے کسی دن محروم ہو جائے گا.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء ہمارے ساتھ عقائد میں بھی اختلاف رکھتے ہیں.مثلاً وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے قائل نہیں.وہ آپ کے کی منکروں کے متعلق یقین رکھتے ہیں کہ ان میں بھی بزرگ اور نیک ہو سکتے ہیں.لیکن اس وقت تک کی شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے کوئی ایسا علان نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے قائل نہیں.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کے متعلق تو یہ کہیں کہ وہ احمدی ہیں اور مصری صاحب کے متعلق یہ کہیں کہ وہ احمدی نہیں.جنہوں نے عقائد میں ہم سے بہت زیادہ اختلاف کیا جب ہم انہیں بھی آج تک احمدی کہتے رہے اور کہتے ہیں تو مصری صاحب کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ چونکہ انہوں نے بیعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اس لئے وہ احمدی نہیں رہے.پس یہ کیسی چالبازی ہے کہ کہا جاتا ہے ” حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علی کی بیعت کر لینے کے بعد بیعت کو فسخ کر لیا.مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.یہ سوال تو تب ہوتا جب ہم کہتے کہ چونکہ مصری صاحب نے بیعت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اس لئے وہ غیر احمدی ہو گئے ہیں.لیکن جب ہم نے یہ کہا ہی نہیں تو ایک جھوٹی ہے
خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۷ء بنیاد پر لوگوں کو اشتعال دلانا صریح دھوکا دہی ہے جو انہوں نے اختیار کی.غرض یہ بات جو کہی گئی ہے اس میں دیدہ دانستہ اور جانتے کو جھتے ہوئے انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے.اگر غیر مبائعین کو ہم غیر احمدی کہا کرتے تب تو انہیں شبہ ہوسکتا تھا اور وہ کہہ سکتے تھے کہ مجھے بھی ان کی طرح غیر احمدی کہا جاتا ہے ہے.مگر غیر مبائعین جو نہ صرف خلافت بلکہ نبوت میں بھی ہم سے اختلاف رکھتے ہیں ، جب ہم نے انہیں بھی آج تک غیر احمدی نہیں کہا تو ان کو کس طرح احمدیت سے خارج قرار دے سکتے تھے اور جب ہم نے کی انہیں احمدیت سے خارج قرار نہیں دیا تو ان کا یہ کہنا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے الگ ہو گئے تھے تو کیا وہ اسلام سے نکل گئے تھے ، صریح غلط بیانی ہے جو انہوں نے ی لوگوں کو جوش دلانے کیلئے کی ہے.پس نہ کبھی ہم نے ان کو غیر احمدی کہا اور نہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق ہم نے کہا کہ وہ اسلام سے نکل گئے تھے.بلکہ مصری صاحب سے زیادہ اختلاف رکھنے والوں یعنی غیر مبائعین کے متعلق می ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر احمدی ہو گئے ہیں.باوجود یکہ وہ ہم سے خلافت میں اختلاف رکھتے ہیں ، امامت میں اختلاف رکھتے ہیں، نبوت میں اختلاف رکھتے ہیں، غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنے اور ان سے رشتہ داری تعلقات قائم کرنے میں اختلاف رکھتے ہیں، کفر و اسلام میں اختلاف رکھتے ہیں پھر بھی ہم نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ وہ غیر احمدی ہو گئے بلکہ ان کے پیچھے اشد ضرورت کے موقع پر نماز پڑھ لینے کے جواز کے متعلق میرے فتوے شائع شدہ موجود ہیں.اور ان میں سے بعض کے جنازے پڑھنا میرے عمل اور طریق سے ثابت ہے.تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ مصری صاحب کی موجودہ حالت میں ہم انہیں غیر احمدی کہتے.اب میں ان روایات کو لیتا ہوں جو انہوں نے بیان کی ہیں.پہلی روایت انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضرت ابو بکر کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی لیے یہ روایت صحیح ہے.چنانچہ بعض روایتوں میں اس قسم کا ذکر آتا ہے مگر ساتھ ہی یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ مختلف فیہ روایت ہے یعنی یہ بھی روایت آتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت فوراً کر لی تھی سے اور یہ بھی روایت آتی ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی.پس ایک روایت کو قائم کرنے اور اسے درست قرار دینے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے.پھر جن روایات میں یہ آتا
خطبات محمود ۲۹۸ سال ۱۹۳۷ء ہے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی انہی میں سے بعض میں (میں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا ہے ) یہ بھی آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دستی بیعت میں نے ابتدائی چھ ماہ میں اس لئے نہ کی کہ حضرت فاطمہ اتنی شدید بیمار تھیں کہ میں انہیں چھوڑ کر نہیں آسکتا تھا.کے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا یہی مذہب تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر کی بیعت فوراً ہی کر لی تھی.پس یہ دلیل کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی ، اول تو یہ کمل دلیل نہیں کیونکہ اس کے خلاف بھی روایات پائی جاتی ہیں.اور اگر بفرض محال دوسری روایت درست ہو تو پھر بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت سے کبھی انکار نہیں کیا.صرف حضرت فاطمہ کی شدید بیماری کی وجہ ی سے تیمارداری میں مشغول رہنے کے باعث وہ فوراً دستی بیعت نہیں کر سکے.اور یہ تو ایسی ہی بات ہے کی جیسے کوئی شخص باہر ہو اور وہ کسی اشد مجبوری کی وجہ سے نہ آسکے.ایسی حالت میں اگر وہ اپنے دل میں خلیفہ وقت کی بیعت کا اقرار کر چکا ہے تو وہ بیعت میں ہی شامل سمجھا جائے گا.دوسری دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی.مگر حضرت عائشہ کے متعلق یہ کہنا کہ انہوں نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی ، اول تو تاریخی طور پر ثابت نہیں اور میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی.لیکن اگر بفرض محال اس امر کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ثابت کریں کہ اُس زمانہ میں ہر فرد واحد خلیفہ وقت کی اصالتاً دوبارہ بیعت کیا کرتا تھا.ہمیں تو تاریخی کتب کے مطالعہ سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں بڑے بڑے آدمی خلیفہ وقت کی بیعت کرلیا کرتے تھے اور اُن کے بیعت کر لینے کی وجہ سے سارے علاقوں کی بیعت سمجھی جاتی تھی.صرف وہ لوگ خارج از بیعت سمجھے جاتے تھے جو خود بیعت کا انکار کریں ورنہ خاموشی اقرار بیعت قرار دی جاتی تھی.خصوصاً عورتوں کا خلفاء کی بیعت کرنا یہ تفصیلاً ثابت نہیں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ مذہب کے بدلنے کا سوال ہوتا تھا اس لئے ہر فرد واحد آپ کی بیعت کرتا تھا.لیکن رسول کریم ﷺ کے بعد جہاں تک تو میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ نے خلفاء کی دوبارہ بیعت کی ہو بلکہ جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ شہر کے معزز مرد بیعت کر لیا کرتے تھے اور انہی کی تی
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۷ء بیعت میں عورتوں اور بچوں کی بیعت بھی شامل سمجھی جاتی تھی.یا ممکن ہے بعض عورتیں شوقیہ طور پر یا بعض مصالح کے ماتحت بیعت میں شامل ہو جاتی ہوں لیکن ملک کے تمام مردوں ، تمام عورتوں اور تمام بچوں کی کے بیعت کرنے کا ثبوت کم از کم میری نگاہ سے کوئی نہیں گزرا.پس حضرت عائشہ کا بیعت نہ کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا.عورتوں سے بلکہ دُور دراز کے مردوں سے بھی بیعت کا خاص تعہد نہ ہوتا تھا.جب عام بیعت ہو جاتی تو باقی توابع اور عورتوں کی بیعت بیچ میں ہی شامل سمجھی جاتی تھی.ان حالات میں جب تک کوئی یہ ثابت نہ کر دے کہ اُس زمانہ میں تمام عورتیں خلفاء کی بیعت کیا کرتی تھیں اور حضرت عائشہ نے بیعت نہ کی تھی اُس وقت تک حضرت عائشہؓ عنہا کے بیعت کا ثبوت تاریخ میں نہ ملنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا.پھر صریح طور پر تاریخوں میں آتا ہے کہ گو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابتدا میں مقابلہ کرنا چاہا تھا مگر جس وقت حضرت علیؓ کے لشکر اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں لڑائی کی ہوئی ہے، اُس وقت وہ لڑائی کیلئے نہیں بلہ صلح کیلئے نکلی تھیں.چنانچہ جتنے معتبر راوی ہیں وہ تو اتر اور تسلسل سے یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ اسی لئے نکلی تھیں کہ وہ دونوں لشکروں میں صلح کرائیں.اصل بات یہ ہے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے حضرت علی کی اس شرط پر بیعت کی تھی کہ وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے.یہ شرط ان کے خیال میں چونکہ حضرت علیؓ نے کی پوری نہ کی اِس لئے شرعاً وہ اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس سے قبل حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے جہاد کا اعلان کر چکی تھیں اور صحابہ کو اُنہوں نے کی اپنی مدد کیلئے طلب کیا تھا.اس پر لوگوں کا ایک حصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے ساتھ ہو گیا اور انہوں نے جنگ کیلئے ایک لشکر تیار کیا.حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا.لیکن جب دونوں لشکر اکٹھے ہوئے تو دوسرے صحابہ نے دونوں فریقی کو سمجھانا شروع کیا اور آخر صلح کا فیصلہ ہو گیا.جب یہ خبر اس فتنہ کے بانیوں کو پہنچی تو انہیں سخت گھبراہٹ کی ہوئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ جس طرح بھی ہو صلح نہ ہونے دو کیونکہ اگر صلح ہو گئی تو ہمارے بھانڈے پھوٹ جائیں گے.چنانچہ جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کیلئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہ و زبیر کے لشکر پر اور جو ان کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شبخون مار دیا اور ہر فریق نے یہ خیال کیا کہ دوسرے فریق
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء نے اس سے دھوکا کیا ہے.اس پر جنگ شروع ہوگئی اور دونوں فریق کے سرداروں کو میدان میں نکلنا پڑا.یہ دیکھ کر بعض صحابہ اور روسا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ اے عائشہ ؟ آپ کے سوا آج اسلامی لشکر میں کوئی صلح نہیں کر اسکتا.آپ تشریف لائیں اور صلح کرا ئیں.چنانچہ وہ صلح کی کیلئے باہر نکلیں.یہ دیکھ کر اُن شریروں اور فتنہ پردازوں نے جو یہ چاہتے تھے کہ صلح نہ ہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ اور ہودج پر تیر مارنے شروع کر دیئے.اس پر وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ کی محبت میں سرشار تھے، آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے اردگرد حلقہ باندھ لیا اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر چلا رہے تھے.یہ دیکھ کر ایک شخص ان لوگوں میں سے ایک شخص کے پاس گیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے ارد گر د حلقہ باندھے ہوئے تھا اور کہا کہ کیا تو مسلمانوں کے اوپر تیر چلائے گا ؟ وہ کہنے لگا خدا کی گواہ ہے میں مسلمانوں کے اوپر تیر نہیں چلانا چاہتا مگر میں اپنے آقا کی بیوی کو بھی یونہی نہیں چھوڑ سکتا.پس شرارتیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر چلائے اور بعض صحابہ نے دفاع کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے دشمنوں کا مقابلہ کیا.ورنہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کیلئے نہیں نکلی تھیں بلکہ آپس میں صلح کرانے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کرنے والے لشکر کو سمجھانے کیلئے نکلی تھیں اور ان کا وہی فعل بیعت تھا.باقی رہا یہ کہنا کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لینے کے بعد بیعت کو فتح کر لیا.مگر کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.میں اس کے متعلق بتا چکا ہوں کہ ہم نہ انہیں غیر مسلم کہتے ہیں اور نہ مصری صاحب کو غیر احمدی کہتے ہیں.ہاں اس سے یہ معلوم ضرور ہوتا ہے کہ انہیں غیر احمدی کہلانے کا شوق ہے اور شاید یہ پیش خیمہ ہے ان کے غیر احمدی بننے کا.چنانچہ کچھ تعجب نہیں کہ وہ تھوڑے دنوں کے بعد ہی یہ کہنے لگ جائیں کہ چلو جب جماعت مجھے غیر احمدی سمجھتی ہے تو میں غیر احمدی ہی ہو جاتا ہوں.ورنہ ہم نے تو آج تک ایک دفعہ بھی انہیں غیر احمدی نہیں کہا.یا درکھنا چاہئے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کو توڑا، یہ ایک غلط مثال اور تاریخ سے ان کی ناواقفیت کا ثبوت ہے.تاریخیں اس
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء بات پر متفقہ طور پر شاہد ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو بیعت کی تھی وہ ان بیعت طوعی نہیں تھی بلکہ جبراً اُن سے بیعت لی گئی تھی.چنانچہ محمد اور طلحہ دو راویوں سے طبری میں روایت آتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب شہید ہو گئے تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ جلد کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے تا امن قائم ہو اور فساد مٹے.آخر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری بیعت لیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تم نے میری بیعت کرنی ہے تو تمہیں ہمیشہ میری فرمانبرداری کرنی پڑے گی اگر یہ بات تمہیں منظور ہے تو میں تمہاری بیعت لینے کیلئے تیار ہوں ورنہ کسی اور کو اپنا خلیفہ مقرر کرلو، میں اس کا ہمیشہ فرمانبردار رہوں گا اور تم سے زیادہ اُس کی اطاعت کروں گا.انہوں نے کہا ہمیں آپ کی اطاعت منظور ہے.آپ نے فرمایا پھر سوچ لو اور آپس میں مشورہ کر لو.چنانچہ انہوں نے مشورہ سے یہ طے کیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لیں تو سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیں گے ورنہ جب تک وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کریں گے ، اُس وقت تک پورے طور پر امن قائم نہیں ہوگا.اس پر حکیم بن جبلہ کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت زبیر کی طرف اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت طلحہ کی طرف روانہ کیا گیا.جنہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ ای تلوار میں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت علی کی بیعت کرنی ہے تو کرو ور نہ ابھی ہم تم کو مارڈالیں گے.چنانچہ انہوں نے مجبور ہو کر رضامندی کا اظہار کر دیا اور یہ واپس آگئے کے دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا اے لوگو! تم نے کل مجھے ایک پیغام دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اس پر غور کر لو.کیا تم نے غور کر لیا ہے اور کیا تم میری کل والی بات پر قائم ہو؟ اگر قائم ہو تو یاد رکھو تمہیں میری کامل فرمانبرداری کرنی پڑے گی.اس پر وہ پھر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے پاس گئے اور اُن کو زبردستی کھینچ کر لائے.روایت میں صاف لکھا ہے کہ جب وہ حضرت طلحہ کے پاس پہنچے اور ان سے بیعت کیلئے کہا تو انہوں نے جواب دیا اِنّى إِنَّمَا ابَايِعُ كَرْهًا ل دیکھو میں ز بر دستی بیعت کر رہا ہوں خوشی سے بیعت نہیں کر رہا.اسی طرح حضرت زبیر کے پاس جب وہ لوگ گئے بیعت کیلئے کہا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اِنّى إِنَّمَا ابَايِعُ كَرْهًا تم مجھ کو مجبور کر کے بیعت کروا رہے ہو دل سے میں یہ بیعت نہیں کر رہا.اسی طرح عبد الرحمن بن جندب اپنے باپ سے روایت
خطبات محمود ٣٠٢ سال ۱۹۳۷ء کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد اشتر، طلحہ کے پاس گئے اور بیعت کے لئے کہا.انہوں نے کہا مجھے مُہلت دو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں مگر انہوں نے نہ چھوڑا اور جَاءَ بِه يَتْلُهُ تَلا عَنِيفًا كے ان کو زمین پر نہایت سختی سے گھسیٹتے ہوئے لے آئے.جیسے بکرے کو گھسیٹا جاتا ہے.پھر حارث الوالی کی روایت ہے کہ حضرت زبیر کو جبراً حکیم بن جبلہ بیعت کیلئے لایا تھا اور حضرت زبیر یہ کہا کرتے تھے کہ جَاءَ نِی لِضٌ مِنْ لُصُوصِ عَبْدِ الْقَيْسِ فَبَايَعْتُ وَاللجُ عَلَى عُنُقِى یعنی عبد القیس قبیلہ کے چوروں میں سے ایک چور میرے پاس آیا اور اس کے مجبور کرنے پر اس حالت میں میں نے بیعت کی کہ تلوار میری گردن پر تھی اور مجھے کہا جاتا تھا کہ بیعت کرو ورنہ تمہاری گردن اُڑا دی جائے گی.اس بیعت کو کون شخص ہے جو بیعت کہہ سکے.پھر تاریخوں سے صاف ثابت ہے کہ جب وہ حضرت علی کی بیعت کرنے لگے تو انہوں نے کہا ہماری شرط یہ ہے کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے آپ بدلہ لیں.پس چونکہ اُنہوں نے شرط کر کے بیعت کی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی شرط پوری نہ کر سکے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے اور پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے اور اس سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں اور پھر چونکہ جبراً ان سے بیعت لی گئی تھی اس لئے وہ چوتھے دن ہی چلے گئے اور بیعت سے الگ ہو گئے.پس یہ کہنا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے بیعت کر کے چھوڑ دی ایک مغالطہ ہے وہ بیعت نہیں تھی بلکہ جبری بیعت تھی.اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی شخص کا ہاتھ زبردستی نیل کے مکے میں ڈال دیا جائے اور پھر کہنا شروع کر دیا جائے کہ اس نے اپنے ہاتھ نیلے کر لئے ہیں.انہوں نے بھی جبراً بیعت کی تھی.وہ خود کہتے ہیں ہم نے ایسی حالت میں بیعت کی وَاللجُ عَلَى أَعْنَاقِنَا جَبکہ تلواریں ہماری گردنوں پر رکھی تھیں.پھر انہوں نے بیعت پر زیادہ دیر بھی نہیں لگائی.تیسرے یا چوتھے دن وہ سکے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ نہیں لیا جاتا اور اسی شرط پر ہم نے بیعت کی تھی اس لئے ہم اپنی بیعت پر قائم نہیں رہتے.اب بتاؤ اس میں اور مصری صاحب کی بیعت میں آیا کوئی بھی مناسبت ہے اور کیا مصری صاحب سے جب بیعت لی گئی تھی تو تلوار ان کی گردن پر رکھی گئی تھی؟ یا کیا انہوں نے کسی شرط پر میری بیعت کی تھی؟ اور کیا وہ ۲۳ سال تک میری اطاعت اور
خطبات محمود ٣٠٣ سال ۱۹۳۷ء فرمانبرداری کا اقرار نہیں کرتے رہے؟ پھر ان کی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی نسبت ہی کیا ہے کہ وہ ان کی مثال اپنے لئے پیش کرتے ہیں.چنانچہ اس بات کا ایک اور ثبوت کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے زبر دستی بیعت لی گئی یہ ہے کہ کہ جب جنگ جمل ہوئی انہوں نے حضرت علی کا مقابلہ کیا.تو لکھا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ سے کہا أَمَا بَايَعْتَنِی کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ حضرت طلحہ نے کہا بَايَعْتُكَ وَ عَلَی عُنُقِى اللجے میں نے بیعت تو کی تھی مگر ایسی حالت میں جب تلوار میری گردن پر تھی.مگر باوجوداس جبر کے انہوں نے بیعت کے وقت اقامت حد کی شرط کر لی.گویا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے جو بیعت کی وہ انہوں نے اپنی خوشی سے نہیں کی بلکہ زبردستی ان سے بیعت کرائی گئی.اور اس کی ایسی ہی مثالی ہے جیسے جبراً کسی شخص سے کلمہ پڑھایا جائے اور پھر کہہ دیا جائے کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو بھی وہ تلواروں سے ڈرا دھمکا کر بلکہ سختی سے گھسیٹ کر لائے اور انہوں نے کہہ بھی دیا کہ گو ہم بیعت کرتے ہیں مگر جبراً کرتے ہیں اور پھر اس شرط پر کرتے ہیں کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے.دراصل زبر دستی بیعت لوگوں نے انہیں اس لئے کرائی کہ وہ سمجھتے تھے یہ دونوں صحابہ اثر و رسوخ رکھنے والے ہیں اور اگر ان دونوں نے بیعت کر لی تو باقی مسلمان بھی بیعت کر لیں گے اور ی عالم اسلامی میں امن قائم ہو جائے گا.مگر کیا مصری صاحب اور ان کے رفقاء نے بھی ایسی حالت میں بیعت کی تھی کہ ان کی گردنوں پر تلوار میں تھیں؟ اور کیا انہوں نے بھی بیعت کے وقت کوئی شرط کی تھی ؟ پھر حدیثوں میں محمد وطلحہ کی روایت سے یہاں تک آتا ہے کہ بیعت کرنے کے معا بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور بعض دوسرے صحابہ حضرت علی کے گھر گئے اور انہوں نے کہا کہ ہماری بیعت میں شرط تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں پر حد قائم کی جائے گی پس آپ ان کو سزا دیں اور حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر کیا اور کہا اس وقت فساد کا خطرہ ہے اور سب سے مقدم اسلام کی حفاظت ہے قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہو جانے سے کوئی حرج نہیں.گویا انہوں نے ایک کی گھنٹہ بھی انتظار نہیں کیا بلکہ ادھر بیعت کی اور اُدھر ان کے گھر چلے گئے کہ ہماری شرط پوری کی جائے ورنہ ہم آپ کی بیعت سے آزاد ہیں.اور یہ وہ ہیں کہ ۲۳ سال تک ان کا منہ میری تعریفیں کر کر کے سوکھتا ر مگر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا اور طلحہ وزبیر کا معاملہ ایک ہی ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء میں ضمناً اس جگہ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اُس زمانہ میں بیعت کا مفہوم کیا سمجھا جایا کرتا تھا.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں سے بیعت لی تو اُس کے الفاظ یہ تھے عَلَیک عهد الله و ميثاقه بالوفاء لتكونن لسلمنا سلما و لحربنا حربا و لتكفن عنا لسانک ویدک ١٠ کہ تم خدا اور کی قسم کھا کر مجھ سے یہ عہد کرتے ہو کہ تم ہمیشہ میرے مطیع وفرمانبردار رہو گے.جس سے میں صلح کروں اس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میں جنگ کروں گا اُس سے تم بھی جنگ کرو گے اور تم نہ اپنی زبان کی سے مجھ پر کوئی اعتراض کرو گے اور نہ اپنے اعمال سے میرے لئے کسی تکلیف کا باعث بنو گے.گویا بیعت کی یہ اہم شرط تھی کہ ولتکفن عنا لسانک ویدک.اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہے اور مجھ پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرنا.یہ عہد تھا جو صحابہ بیعت کا سمجھتے تھے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ میں برا بر دو سال تک آپ کے خلاف مصالحہ جمع کرتا رہا اور ابھی ان کے نزدیک وہ میری بیعت میں ہی شامل تھے.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا قصور کیا ، ہم نے صرف اعتراض ہی کیا تھا اور اعتراض کرنے میں آزادی ہونی چاہئے.انہیں غور کرنا چاہئے کہ اگر خلفاء پر اعتراضات کرنے میں اسلام آزادی سکھاتا ہے تو ولتکفن عنا لسانک و یدک کا کیا مفہوم ہے.اس میں تو صاف طور پر حضرت علیؓ نے لوگوں سے کہ دیا تھا کہ تم اپنی زبانوں کو روکے رکھنا اور کبھی مجھ پر اعتراض نہ کرنا.اسی طرح اپنے ہاتھوں کو ہمیشہ بند رکھنا اور کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جو میرے لئے دُکھ اور اذیت کا موجب ہو.پھر روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کم سے کم حضرت طلحہ کی نسبت کہ انہوں نے وفات سے پہلے دوبارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اور حضرت زبیر نے بھی رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی سُن کر حضرت علی کا مقابلہ کرنے سے اعراض کر لیا تھا.چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت زبیر جب کی جنگ کیلئے حضرت علیؓ کے سامنے نکلے تو اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر سے کہا ز بیر ! تم کو وہ دن بھی یاد ہے جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دن میں اور تم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور آپ نے مجھے اور تمہیں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا اے علی ! وہ بھی کیا دن ہوگا جب یہ تیرے چا کا بیٹا ز بیر تجھ سے ایسی حالت میں لڑائی کرے گا جبکہ یہ ظالم ہوگا اور تو مظلوم ہوگا.یہ سُن کر حضرت زبیرا اپنے لشکر کی طرف واپس کوٹے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے ہر گز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کر لیا کہ انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی
خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۷ء صلى الله کی لالیکن لطیفہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ حضرت زبیر کو حضرت علی کے مقابلہ میں ظالم قرار دیتے ہیں اور مصری صاحب کہتے ہیں اگر میں نے بیعت توڑ دی ہے تو کیا حرج ہوا زبیر نے بھی تو بیعت توڑی تھی اور حضرت علی کا مقابلہ کیا تھا.گویا وہ اپنے منہ سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ظالم ہیں.کیونکہ وہ اپنے آپ کی کو حضرت زبیر سے نسبت دیتے ہیں اور حضرت زبیر کو رسول کریم ﷺ نے ظالم قرار دیا تھا.اب کیا ظالم ہونا ان کے خیال میں کوئی گناہ نہیں صرف غیر احمدی ہونا ہی گناہ ہے.یہ مانا کہ حضرت زبیر نے حضرت علی کی بیعت عملا تو ڑ دی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی تو حدیث ہے کہ اے زبیرا تو علی سے ایسی حالت میں مقابلہ کرے گا جبکہ تو ظالم ہوگا.پس جب وہ حضرت زبیر سے اپنی نسبت دیتے ہیں تو کیا وہ اس کی حدیث کے ماتحت ظالم قرار نہیں پاتے؟ اور کیا ظالم ہونا ان کے نزدیک کم گناہ ہے کہ وہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں.پس حضرت زبیر تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی سُن کر جنگ سے الگ ہو گئے اور اچانک حملہ کے وقت چونکہ وہ زخمی ہو گئے تھے بعد میں فوت ہو گئے.باقی رہے حضرت طلحہ ان کی کی نسبت روایات میں آتا ہے کہ حضرت طلحہ بھی میدانِ جنگ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے.ان کے پیچھے ایک شخص گیا اور ان پر غفلت میں حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا.اس کے بعد ان کے پاس سے ایک شخص گزرا اور آپ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علی کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر علی کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں.اب گجا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی حالت اور گجا مصری صاحب کی حالت.کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے ؟ اور کیا ان کا حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر کی مثال پیش کرنا کسی لحاظ سے بھی درست ہوسکتا ہے؟ مصری صاحب دریافت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے جب بیعت کو فخ کر لیا تھا تو کوئی ہے جو جرات کر کے انہیں اسلام سے خارج قرار دے.اور میں انہیں کہتا ہوں کہ ہم اگر انہیں اسلام سے خارج قرار نہیں دیتے تو آپ کو بھی بیعت سے الگ ہو جانے کی وجہ سے احمدیت سے کب خارج قرار دیتے ہیں.اگر آپ ایک بھی میری ایسی تحریر دکھا دیں جس میں میں نے آپ کو غیر احمدی قرار دیا ہو تب تو سمجھ لیا جائے گا کہ آپ سچ بولتے ہیں.لیکن اگر کوئی تحریر نہ دکھا سکیں تو کیا اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ نے دیدہ دانستہ غلط بیانی کی ہے.میری جس قدر تحریریں ہیں وہ ای چھپ چکی ہیں، میری تقاریر بھی محفوظ ہیں اور شائع ہو چکی ہیں پس اگر ان میں شرافت کا ایک ذرہ بھی باقی ہی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ہے اور اگر ایمان کی کوئی حس ان میں موجود ہے تو وہ میرا کوئی ایک ہی ایسا حوالہ پیش کریں جس میں میں نے یہ کہا ہو کہ وہ میری بیعت سے الگ ہو کر غیر احمدی ہو گئے ہیں.اِس وقت ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے خطبات کو سُنا اور ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے ”الفضل“ کے ذریعہ میرے خطبات کو پڑھا پھر کیا ان ہزاروں لوگوں میں سے کوئی ایک بھی بتا سکتا ہے کہ میں نے شیخ صاحب کو غیر احمدی کہا.جب ایک بھی ایسی گواہی نہیں مل سکتی تو یقیناً انہوں نے غلط بیانی کی.یقیناً انہوں نے ایک ظیم کیا ، یقیناً انہوں نے لوگوں کو دھوکا و فریب دیا.اور پھر دیدہ دانستہ ان امور کا ارتکاب کیا کیونکہ ہم پہلے بھی کئی لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کر چکے ہیں اور ہم نے ان میں سے آج تک کسی کو محض جماعت سے الگ ہونے کی وجہ سے غیر احمدی نہیں کہا.اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علیؓ کی مخالفت کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ”سر الخلافہ“ میں تحریر فرماتے ہیں والحق ان الحق كان مع المرتضى ومن قاتله في وقته فبغی و طغی یعنی سچی بات یہ ہے کہ سچ اور حق جو تھا وہ حضرت علی کے ساتھ تھا.ومن قاتله في وقته فبغی و طغی " اور حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں جن لوگوں نے آپ کا مقابلہ کیا وہ باغی اور سرکش تھے.اب چاہے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ہی کیوں نہ ہوں جس کسی نے حضرت علی کا مقابلہ ان کی خلافت میں کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس وقت تک وہ حضرت علی کے مقابلہ میں کھڑا رہا اُس وقت تک وہ باغی اور طافی تھا ( مگر میں جیسا کہ بتا چکا ہوں کہ صحابہ مقابلہ سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے اور فی الحقیقت مقابلہ کی کرنے والوں میں سے نہ تھے ).اب اگر مصری صاحب اس لئے خوش ہیں کہ میں گو غیر احمدی نہیں مگر باغی اور طاغی ہوں تو وہ بے شک خوش ہو لیں.ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو شخص مومن ہو وہ خدا تعالیٰ کی ادنی سے ادنی ناراضگی سے بھی ڈرتا اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ کے ارتکاب سے بھی خوف کھاتا ہے.ان کی کو اگر اس بات کی پرواہ نہیں اور انہیں اس بات پر فخر ہے کہ میں باغی اور طاغی ہوں غیر احمدی نہیں تو بیشک اس پر فخر کر لیں ہم بھی انہیں غیر احمدی نہیں کہتے بلکہ باغی اور طاغی ہی کہتے ہیں.پس یاد رکھو حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے گو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مگر وہ جبری بیعت تھی ، طوعی بیعت نہیں تھی.اور پھر بیعت کے وقت انہوں نے شرط بھی کر لی تھی کہ حضرت عثمان کے
خطبات محمود ۳۰۷ سال ۱۹۳۷ء قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا.مگر جب ان کی نگاہ میں یہ شرط پوری نہ ہوئی تو انہوں نے بیعت توڑ دی.لیکن تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ان کے بیعت توڑنے کے فعل کو اُن کے ساتھیوں نے بھی ناپسند کیا.چنانچہ ایک شخص سے جب کسی دوسرے شخص نے کہا کہ تم تو حضرت عثمان کے قاتلوں کے مخالف تھے پھر آج حضرت علیؓ کے ساتھیوں میں کیوں شامل ہو گئے؟ تو اُس نے کہا میں اس لئے ان کے ساتھ شامل ہوا ہوں کہ إِنَّهُمْ نَكَثُوا الْبَيْعَةَ - ۱۳ طلحہ اور زبیر نے بیعت کی اور پھر توڑ دی گویا با وجود یکہ ان کی بیعت این جبری بیعت تھی ، پھر بھی ان کے ساتھیوں نے ان کے فعل کو نا پسند کیا اور کہا کہ جب بیعت کر لی تھی تو خواہ ان جبری بیعت تھی پھر بھی اس بیعت کو توڑنا نہیں چاہئے تھا.غرض ان لوگوں کی مثالوں سے استنباط بالکل غلط ہے.انہوں نے بیعت یا تو عارضی طور نہ کیج اور پھر کر لی یا پھر جنہوں نے بیعت کی گڑھا کی اور پھر فوراً الگ ہو گئے ، استقرار بیعت کبھی نہیں ہوا.یا تج پھر انہوں نے بیعت نہ کی مگر خلافت کا مقابلہ بھی نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ اگر فلاں امر ہو جائے مثلاً کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے بدلہ لے لیا جائے تو ہم بیعت کر لیں گے.جیسے حضرت معاویہ ہیں کہ انہوں نے گو حضرت علی کی اسی وجہ سے بیعت نہیں کی مگر انہوں نے آپ کا مقابلہ بھی نہیں کیا.غرض تمکین خلافت کے بعد کسی کی مخالفت یا بیعت طوعی کا توڑ نا ہر گز ثابت نہیں اور اگر ہو تو اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فیصلہ یہی ہے کہ فَبَعَی وَ طَغَی.بعض نادان اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ جب بیعت سے الگ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص غیر احمدی نہیں ہو جاتا تو پھر بیعت نہ کرنا یا بیعت کا تو ڑ دینا کوئی بڑا گناہ تو نہ ہوا.مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ ایک خطرناک غلطی ہے.ایمان کے معاملہ میں جب انسان جان بوجھ کر کہتا ہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب اگر چہ گناہ ہے مگر میں نے اگر کر لیا تو کیا حرج ہوا تو وہ ضرور اپنے ایمان کو تباہ کر لیتا ہے.اگر کوئی شخص مجبوراً یا عا دتا یا جہالتا نادانی سے کوئی گناہ کرتا ہے تو یہ اور بات ہے.لیکن اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ فلاں امر گناہ ہے اور پھر وہ اسے معمولی بات خیال کر کے اس گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس شخص کو خدا دولت ایمان سے محروم کر کے ہی چھوڑتا ہے کیونکہ وہ باغی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہتک کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تباہی میں بھی بہت بڑا دخل اس امر کا بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹا گناہ ہے اور وہ ان بڑا.حالانکہ مومن کامل وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ادنیٰ ناراضگی سے بھی ڈرے اور اس کے ارتکاب -
خطبات محمود ۳۰۸ سال ۱۹۳۷ء بچے.یہ نہ کہے کہ میرا احمدی نہ ہونا تو بہت بڑا گناہ ہے لیکن احمدی ہو کر نماز نہ پڑھنا یا روزے نہ رکھنا معمولی باتیں ہیں.جو شخص اس طرح اپنی رضا مندی اور خوشی سے جانتے بوجھتے ہوئے کوئی گناہ کرتا ہے اور اسے چھوڑتا نہیں وہ خدا تعالیٰ کو چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تیری رضا کی پرواہ نہیں.پس مومن تو ی خدا تعالیٰ کی ادنی ناراضگی سے بھی ڈرتا ہے کجا یہ کہ اس قدر اہم ناراضگی سے نہ ڈرے جو گو کفر نہیں مگر کفر کے دروازہ تک انسان کو پہنچا دیتی ہے.اور وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ کا اسے مورد بنا دیتی ہے.دراصل جو شخص نیکیوں کو یہ سمجھ کر چھوڑتا چلا جاتا ہے کہ وہ معمولی ہیں اور گنا ہوں کا اس لئے ارتکاب کر لیتا ہے کہ اس کے نزدیک ان گناہوں کا ارتکاب کوئی بڑی بات نہیں ، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو بہادری کا دعوی تھا وہ ایک دن کسی گودنے والے کے پاس گیا اور کہا کہ میرے بازو پر شیر گوردو.اس نے شیر گودنے کیلئے جب سوئی ماری تو اُسے درد ہوا اور کہنے لگا بتاؤ کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا میں شیر کا کان گود نے لگا ہوں.کہنے لگا کون سا کان دایاں یا بایاں ؟ اس نے کہا دایاں.وہ کہنے لگا اچھا اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو آیا شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں.اس نے کہا اچھا تو دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو.جب اس نے دوسرا کان بنانے کیلئے سوئی ماری تو پھر اسے درد ہوا اور وہ کہنے لگا اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب بایاں کان گود نے لگا ہوں.وہ کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا رہتا کیوں نہیں.وہ کہنے لگا اسے بھی چھوڑ دو اور آگے چلو.پھر جب اس نے ٹانگ گودنا شروع کی تو وہ پھر کہنے لگا اگر ٹانگ نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا ٹانگ کے بغیر بھی شیر ہو سکتا ہے.کہنے لگا اسے بھی چھوڑو اور آگے چلو.اس کے بعد اس نے دوسری ٹانگ گودنی چاہی تو پھر اس نے روک دیا.یہ دیکھ کر اُس گود نے کی والے نے سوئی ہاتھ سے رکھ دی اور کہنے لگا ایک کان کے بغیر بھی شیر رہ سکتا ہے اور دوسرے کان کے بغیر بھی مگر یہ سب چیزیں چھوڑ دی جائیں تو پھر شیر کا کچھ نہیں رہتا.تو جب انسان دلیری سے یہ کہتا ہے کہ اگر فلاں نیکی چھوڑ دوں تب بھی ایمان باقی رہتا ہے اور فلاں گناہ کر لوں تب بھی میرے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوسکتا.وہ آہستہ آہستہ تمام نیکیوں کو چھوڑتا ہی چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ اُس کے ایمان میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پھر یہ بھی یا درکھو کہ زمانوں کے بدلنے سے سزائیں بھی بدل جاتی ہیں.اور گو واقعہ ایک ہی قسم
خطبات محمود ۳۰۹ سال ۱۹۳۷ء کا ہوتا ہے مگر حالات کے اختلاف کی وجہ سے سزا کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے.مثال کے طور پر دیکھ لوتم کسی شہر میں رہتے ہو اور تمہارے پاس کوئی بھوکا شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے کچھ کھانے کیلئے دو تمہارے پاس کھانا موجود ہے مگر تم اسے نہیں دیتے اور وہ چلا جاتا ہے.اب تم ایک گناہ کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ وہ بھوکا تھا مگر تم نے اسے کھانا نہیں دیا.لیکن اگر تم ایک ایسے جنگل میں ہو جہاں بیں ہیں تمہیں تمھیں میل تک آبادی کا نام و نشان نہیں اور کہیں سے کھانا ملنے کی امید نہیں ہو سکتی لیکن تمہارے پاس وافر کھانا موجود ہے مثلاً ایک گھوڑا روٹیوں اور کھانے پینے کے سامان سے لدا ہوا تمہارے پاس کھڑا ہے ایسی حالت میں اگر ایک بھو کا تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے میرا بہت بُرا حال ہے مجھے ایک روٹی دے دو تا اسے کھا کر میرے بدن میں کچھ طاقت آجائے اور میں آبادی کے قریب پہنچ جاؤں تو ایسی حالت میں اگر تم اسے روٹی نہیں دیتے اور وہ بھوکا چلا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی تم ایک گناہ کے مرتکب ہو گے کیونکہ کھانا تمہارے پاس موجود تھا مگر تم نے اسے نہیں دیا.لیکن ان دونوں جگہ ایک بین فرق بھی موجود ہے جو تمہارے جرم کو ایک جگہ معمولی اور دوسری جگہ سنگین بنا دیتا ہے.جب تم نے آبادی میں ایک بُھو کے اور غریب شخص کو روٹی نہ دی تو اُس وقت امکان تھا کہ اسے کوئی اور شخص روٹی دے دیتا مگر جنگل میں جب تم نے ایک بھوکے کو روٹی نہ دی اور ایسی حالت میں نہ دی جبکہ ہیں ہیں تمہیں تمھیں میل تک اسے کھانا ملنے کی امید نہ ہو سکتی تھی تو تم نے اسے بھوکا ہی نہیں رکھا بلکہ اگر وہ مر جائے گا تو تم اس کے قاتل بھی ٹھہرو گے.تو صرف عمل کو دیکھا نہیں جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ارد گرد کے حالات اس عمل کو کیا شکل دے رہے ہیں.بالکل ممکن ہے ایک عمل ظاہری نگاہ میں بالکل چھوٹا ہو مگر حالات کی وجہ سے وہ بہت بڑی اہمیت رکھنے لگے.مثلاً دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو حافظ قرآن ہیں اگر کوئی شخص کسی حافظ قرآن کو قتل کرتا ہے تو ہم اسے قاتل کہیں گے.لیکن فرض کرو اگر کسی وقت دنیا میں صرف ایک ہی حافظ قرآن ہو تو اگر کوئی شخص اُس کو مارے گا تو نہیں کہا جاسکے گا کہ دونوں کا فعل ایک جیسا ہے کیونکہ گودونوں جگہ حافظ قرآن ہی ای قتل ہوئے ہوں گے مگر ان دونوں قتلوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پہلا قاتل صرف ایک عام آدمی انان کا قاتل ہے مگر دوسرا قاتل صرف ایک آدمی کا قاتل نہیں بلکہ قرآن کا بھی قاتل ہے.کیونکہ اس کے قتل کے بعد دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں رہے گا جس کے سینہ میں قرآن محفوظ ہو.تو صرف کسی عمل کی ظاہری شکل نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس کے باطنی حالات بھی دیکھے جاتے ہیں.
خطبات محمود ۳۱۰ سال ۱۹۳۷ء اب دیکھ لو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بہت بڑا فرق ہے.اُس وقت حکوت ساتھ تھی ، اسلام مضبوط ہو چکا تھا، ملکوں کے ملک اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور اسلامی شریعت پر رات اور دن عمل کروایا جارہا تھا.پس اُس وقت تفرقہ صرف سیاسی کمزوری پیدا کرتا تھا مگر یہ زمانہ اور ہے، ترقی آہستہ ہے، حکومت غیر ہے، اسلامی تمدن قائم نہیں ہوا.پس آج کا تفرقہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و والسلام کی بعثت کو بالکل رائیگاں کر سکتا ہے.اسی لئے آج کا فسادا اور اُس وقت کا فساد بالکل مختلف ہے.اُس وقت رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی اور اس وجہ سے وہ تمام مسائل کی جن کا تعلق حکومت کے ساتھ ہے قائم کر دیئے گئے تھے.مثلاً زکوۃ اور عشر کی تقسیم ، لین دین کے مسائل، اقتصادیات کے متعلق احکام، بادشاہوں کا رعایا سے تعلق اور رعایا کا بادشاہ سے تعلق.یہ تمام امورا ایسے تھے کہ ان کے متعلق شریعتِ اسلامی جن تفاصیل کی حامل ہے، وہ مسلمانوں میں قائم کر دی گئی تھی.پس ج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو تفرقہ ہو ا گو اس سے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے کمزوری ہوئی مگر بہر حال اس تفرقہ کے نتیجہ میں جو حکومتیں قائم ہوئیں وہ اسلامی حکومتیں ہی تھیں.کیونکہ اسلام عملی صورت میں دنیا میں قائم ہو چکا تھا.مگر اس زمانہ میں اسلام کی ترقی آہستہ آہستہ مقدر ہے اور ابھی احمدی حکومتیں ہی دنیا میں قائم نہیں ہوئیں.زکوۃ اور خراج کے مسائل ، لین دین کے معاملات ، حکومت اور رعایا یا امیر اور غریب کے متعلق احکام ، آقا اور ملازمین کے تعلقات، رعایا کے فرائض ، اسلامی حکومت کے حقوق اور فرائض ، حکومتوں کے آپس کے تعلقات اور ورثہ اور سُود وغیرہ سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق اسلامی تعلیم دنیا میں قائم نہیں ہوئی.پس یہ ساری عملی اسلامی زندگی ابھی پوشیدہ ہے اور اُس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب کہ اسلامی بادشاہتیں دنیا میں پھر قائم ہوں اور ان امور کے متعلق اسلامی تعلیم کا احیاء ہو.پس چونکہ ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں صحیح طور پر قائم نہیں ہوئی اور نہ تمدن کے متعلق اسلام کی وہ تعلیم دنیا میں رائج ہوئی ہے جس کو کامل طور پر رائج کرنا خدا تعالیٰ کا منشاء ہے اس لئے آج اگر کوئی شخص تفرقہ کرتا اور جماعت کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ صرف معمولی مجرم نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قاتل ہے.کیونکہ ابھی حضرت کی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں قائم نہیں ہوئی اور اس کے قائم ہونے میں ایک لمبا عرصہ
خطبات محمود ۳۱۱ سال ۱۹۳۷ء درکار ہے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی نسبت فرماتا ہے كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْلَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ " یعنی وہ جماعت اس سبزے کی طرح ہوگی جو زمین میں سے نکلتا ہے اور نہایت ہی کمزور اور ناطاقت ہوتا ہے.جدھر سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کے دباؤ سے جھک جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ آندھیاں اور ہوائیں اُسے جڑ سے نہیں اُکھاڑ سکیں گی بلکہ وہ پودا بڑھے گا اور بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ مضبوط ہو جائے گا اور دنیا کے حوادث اور مخالفت کی آندھیاں اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکیں گی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی مگر ان دونوں خلافتوں میں ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ کی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی اسلام کے تمام احکام عملی طور پر قائم ہو گئے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ان احکام کے عملی صورت میں قائم ہونے کیلئے ایک لمبا عرصہ مقدر ہے.پس گو پہلے خلفاء کے زمانہ میں بھی اگر کوئی تفرقہ کرتا تو وہ شدید گناہ کا مرتکب ہوتا مگر عملی صورت میں یقیناً اسلامی احکام کو نقصان نہ پہنچ سکتا کیونکہ اسلامی تعلیم قائم ہو چکی تھی.اسے جو بھی نقصان اور ضعف پہنچتا وہ سیاسی ہوتا.لیکن آج اگر کوئی شخص تفرقہ پیدا کرتا اور جماعت کے اتحاد کو تباہ کرنے کے در پے ہوتا ہے تو وہ صرف تفرقہ پیدا نہیں کرتا بلکہ اسلام کو ضعف پہنچاتا اور اس کی ترقی میں زبر دست روک بنتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سزاؤں میں بھی دونوں جگہ فرق ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ فعل بتا رہا ہے کہ اس زمانہ کے خلفاء اور اس زمانہ کے خلفاء کے انکار کی سزاؤں میں بہت بڑا فرق ہے.اُس وقت جو خلافت کے مخالفین تھے وہ مذہب سے دور نہیں ہوئے مگر آج جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ مذہب کو بھی یا تو بالکل چھوڑ دیتا ہے یا اس کے مذہب میں رخنہ پڑ جاتا ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سعد نے بیعت نہ کی.آپ نے حکم دیا کہ ان سے قطع تعلق کر لیا جائے.چنانچہ کوئی شخص ان ان سے نہ بولتا اور نہ لین دین کے تعلقات رکھتا لیکن وہ مسجد میں آتے نماز پڑھتے اور چلے جاتے.پھر سعدی جب فوت ہوئے تو تمام مسلمانوں نے اُن کا جنازہ پڑھا اور اس طرح انہوں نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ انہیں مومن ہی سمجھتے تھے ( سعد نے بھی کبھی کوئی اعتراض حضرت ابو بکر پر یا نظام سلسلہ پر نہیں کیا نہ کبھی عملاً اس کی مخالفت کی ).
خطبات محمود.۳۱۲ سال ۱۹۳۷ء حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت معاویہؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی مگر ان کے ایمانوں میں کوئی فرق نہیں آیا.یہ ممکن ہے دنیا میں انہیں جسمانی طور پر بعض سزائیں ملی ہوں مگر ان کے ایمان ضائع نہیں ہوئے.پھر بعض نے ان میں سے توبہ کر لی اور بعض کے متعلق ہمیں پورے حالات معلوم نہیں.بہر حال ان میں سے کسی کے ایمان ضائع ہونے کی خبر ہمیں نہیں ملتی مگر اس زمانہ میں جس نے بھی خلفاء کی مخالفت کی آہستہ آہستہ اس کے مذہب میں بھی رخنہ پڑ گیا اور وہ اصل اسلام اور حمدیت سے بہت دور ہو گیا.چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمدعلی صاحب اور ان کے رفقاء نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی مخالفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد سب سے پہلا جو جلسہ سالانہ ہوا اُس میں اپنی تقریروں کے دوران میں انہوں نے آپ پر حملے کرنے شروع کر دئیے اور جماعت کے لوگوں کو اس امر کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صدرانجمن احمد یہ ہے، حضرت خلیفہ اول نہیں.مگر اس مخالفت کا کیا نتیجہ ہوا ؟ سعد کی طرح ان کا حال نہیں ہوا ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت معاویہ کی طرح محض حدود کے قیام تک ان کی مخالفت محدود نہیں رہی بلکہ خلافت کا انکار کرنے کے بعد انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا بھی انکار کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ اور مقام کا بھی انکار کر دیا.بعض ان امور کا بھی انکار کر دیا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عقائد میں شامل فرمایا ہے اور اس طرح ان کے مذہب میں بہت بڑا رخنہ واقع ہو گیا.پھر مستریوں نے جب میری مخالفت کی تو انہوں نے سب سے پہلے جو اعلان کیا وہ مصری صاحب کی طرح ایک دردمندانہ اپیل ہی تھی اور اس میں لکھا کہ ہم احمدیت سے الگ نہیں ہوئے.ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر کامل ایمان ہے ہمارا اختلاف صرف موجودہ خلیفہ سے ہے ور نہ یہ کب ہو سکتا ہے کہ ہم احمدیت چھوڑ دیں.مگر پھر وہی عبد الکریم وفات مسیح کے مسئلہ پر احمدیوں سے مناظرے کرتا رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بالکل الگ ہو گئے.آخر یہ فرق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے خلفاء کے منکروں اور موجودہ خلفاء کے منکروں کی سزا میں ہے، کیوں ہے؟ خدا نے اُس وقت کے خلفاء کے منکرین کے ایمان کیوں ضائع نہ کئے اور آج جو خلفاء کا انکار کرتا ہے ، اس کا ایمان کیوں ضائع ہو جاتا ہے؟ اسی لئے کہ آج جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے اور جماعت میں تفرقہ وانشقاق
خطبات محمود ۳۱۳ سال ۱۹۳۷ء برا کر تا ہے وہ نہ صرف خلفاء کا انکار کرتا ہے بلکہ اسلام کی اس عملی زندگی پر بھی تبر چلاتا ہے جس کو قائم کرنا خدا تعالیٰ کا منشاء ہے.لیکن رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلام کی عملی زندگی قائم ہو چکی تھی اور خلفاء کا انکارسیاسی نقصان پہنچاتا تھا.پس چونکہ آج جو شخص خلفاء کی مخالفت کرتا ہے وہ اسلام کی عملی زندگی اور دنیا تج کے ایمان پر تنبر چلاتا ہے ، اس لئے خدا تعالیٰ اس مجرم کی سزا میں اس کا ایمان بھی ضائع کر دیتا ہے.لیکن کی پہلے زمانہ میں مخالفت، اسلام کو صرف سیاسی نقصان پہنچاتی تھی اس لئے مخالفت کرنے والوں کو دنیا میں بعض جسمانی سزائی مل جاتیں روحانی سزا اس حد تک انہیں نہیں ملتی تھی.مصری صاحب بے شک کہہ رہے ہیں کہ گو مجھے خلیفہ وقت سے اختلاف ہے مگر میں احمدیت پر قائم رہوں گا.پہلوں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے اس اختلاف کو وسیع کر کے احمدیت کے خصائص بھی ترک کر دیئے.اب میں بتاؤں گا کہ مخالفت اور اختلاف کے باوجود کس طرح احمدیت پر انسان قائم رہتا ہے.مگر جس قسم کے گندے اعتراض وہ کر رہے ہیں اور جس قسم کے ناپاک حملوں کے کرنے کی ان کی طرف سے اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں ، اگر وہ ان پر مصر رہے اور اگر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے توبہ نہ کی تو میں کہتا ہوں احمدیت کیا اگر ان کے خاندانوں میں حیا بھی باقی رہی تو وہ مجھے کہیں.بلکہ میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ جس قسم کے خلاف اخلاق اور خلاف حیا حملے وہ کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں اگر ان کے خاندان فحش کا مرکز بن جائیں تو اسے بعید از عقل نہ سمجھو.پس میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اشتہار میں جس قدر مثالیں پیش کی ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور ان میں سے ایک بھی ان کے طریق عمل پر چسپاں نہیں ہوتی.علاوہ ازیں خدا تعالیٰ کے فعل نے پہلے زمانہ اور اس زمانہ میں نمایاں امتیاز قائم کر کے دکھلا دیا ہے.پس اب جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ پہلوں سے بہت زیادہ سزا کا مستحق ہے اور یقینا اگر کوئی شخص خلافت کے مقابلہ پر اصرار کرے گا اور اپنے اس فعل سے تو بہ نہیں کرے گا تو اُس کا ایمان بالکل ضائع ہو جائے گا اور آج نہیں تو کل وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی حملہ کرنے لگے گا.اور پھر بالکل ممکن ہے وہ اس سزا کے نتیجہ میں اخلاق فاضلہ کو بھی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے اور حیا اور شرم سے اسے دور کی بھی نسبت نہ کی رہے.پس زمانہ کے حالات سزاؤں کو بدل دیتے ہیں.اُس زمانہ کے حالات بالکل اور تھے اور اب کی
خطبات محمود ۳۱۴ سال ۱۹۳۷ء حالات اور ہیں.اب جو لوگ خلافت کا مقابلہ کریں گے انہیں یقینا ایسی سزائیں ملیں گی جو نہایت ہی عبرتناک ہوں گی اور یقیناً اپنی اپنی مخالفت اور عناد کے مطابق ان کے ایمان بھی ضائع ہوتے چلے جائیں گے.النور : ۵۶ الفضل یکم اگست ۱۹۳۷ ء ) رح تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۳۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۲۶.۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ه تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۰ ۴۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء تا ۸ تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۴۵۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء تاریخ طبری جلد۵ صفحه ۵۴۳مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء " ۱۲ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۲۴۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء سر الخلافة صفحه ۳۸ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۲ شائع کرده نظارت اشاعت ربوه ۱۳ الفتح: ٣٠
خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۷ء شیخ عبدالرحمن مصری کی طرف سے انکسار کا جھوٹا دعویٰ (فرموده ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اب میں اس سوال کو لیتا ہوں جو مصری صاحب نے لکھا ہے کہ میرے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ میں نے جماعت میں اپنے اثر و رسوخ کا دعویٰ کیا ہے یہ غلط ہے.اور اس کے ثبوت میں وہ دوسری عبارتیں پیش کرتے ہیں جو انکسار پر دلالت کرتی ہیں.چنانچہ وہ اپنی تائید میں یہ عبارت پیش کرتے ہیں: بیشک ان باتوں کی وجہ سے جو اقتدار آپ کو حاصل ہو چکا ہے، اس پر آپ کو ناز ہے اور آپ کی یقین رکھتے ہیں کہ میں ( آپ ) مد مقابل کا سر ایک آن میں گھل سکتا ہوں اور اس میں بھی شک نہیں کہ میں جو آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں ایک نہایت ہی کمزور ، بے بس، بے کس ، بے مال، بے مددگار ہوں اور جہاں آپ کو اپنی طاقت پر ناز ہے مجھے اپنی کمزوریوں کا اقرار ہے.ہاں میں اتنا ضروری جانتا ہوں کہ حق کی قوت میرے ساتھ ہے اور غلبہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی کو ہوتا ہے جو حق کی کی تلوار لے کر کھڑا ہوتا ہے.ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں میری بات کی طرف توجہ نہ کی جائے اور میں اس مقابلہ میں چلا جاؤں لیکن حق کی تائید کیلئے اور بال کا سر کچلنے کی غرض سے کھڑے ہونے والے علماء اس قسم کے انجاموں سے کبھی نہیں ڈرتے“.تو وہ کہتے ہیں کہ میری اس تحریر میں انکسار کا دعویٰ موجود ہے.پھر یہ کہنا کہ میں نے کسی عزت.اور اثر و رسوخ کا دعویٰ کیا ہے، غلط ہے.مجھے اس بات کا انکار نہیں ہے کہ مصری صاحب کے خطوط
خطبات محمود ۳۱۶ سال ۱۹۳۷ء یسے فقرے بھی موجود ہیں جن میں اپنی بے بسی اور بے کسی کا اظہار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ فقرہ جسے ہماری طرف سے پیش کیا گیا ہے وہ بھی موجود ہے یا نہیں.وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میرے خطوط میں مندرجہ ذیل فقرہ موجود ہے:.کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے.مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عذر گھر لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا گیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوتی لانے کا مشورہ دیا تھا مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر بھی نہیں چل سکتا.اس کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا.اس کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح رو نہیں کرے گی بلکہ اس پر اسے کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی“.اس فقرہ کے موجود ہونے کا مصری صاحب کو بھی انکار نہیں.وہ مانتے ہیں کہ انہوں نے یہ بھی کی لکھا ہے مگر کہتے ہیں کہ اس سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ غلط ہے.اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ نتیجہ وہ درست ہے جو مصری صاحب نے نکالا ہے یا وہ جو ہم نکالتے ہیں اور اس امر کے سمجھنے کیلئے کہ کونسی بات درست کی ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب ایک شخص کے دوقولوں میں بظاہر اختلاف نظر آئے ، یعنی ایک قول سے بظاہر جو نتیجہ نکلتا ہو دوسرے قول سے اس کے مخالف نتیجہ نکلتا ہو تو ایسی صورت میں تین باتوں میں.ایک ضرور ماننی پڑے گی چوتھی صورت نہیں ہو سکتی.(۱) یا کہنا پڑے گا کہ دونوں عبارتیں غلط ہیں.(۲) یا دونوں ٹھیک ہیں.(۳) یا ایک غلط اور ایک ٹھیک ہے.ނ مثلاً ایک شخص پہلے کہتا ہے میں لاہور گیا تھا.دوسرے موقع پر اسی سفر کے متعلق کہتا ہے میں دہلی گیا تھا.ان دو بظاہر مختلف اقوال کی نسبت یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں جھوٹے ہوں.نہ وہ لا ہور گیا ہو نہ دہلی بلکہ کہیں بھی نہ گیا ہو.یا گیا تو ہو وہ مگر کسی اور شہر کی طرف گیا ہو.یہ ضروری نہیں کہ دونوں باتوں میں سے ایک ضرور صحیح ہو.دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہو.یعنی بالکل ممکن ہے وہ لا ہور اور دہلی میں سے ایک جگہ گیا تو ہوا اور دوسری جگہ کے متعلق اس نے جھوٹ بولا ہو.اسی طرح ایک تیسری صورت بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس کے دونوں قول صحیح ہوں چونکہ لاہور سے ہوتے -
خطبات محمود ۳۱۷ سال ۱۹۳۷ء ہوئے بھی دہلی کو راستہ جاتا ہے ممکن ہے وہ لاہور گیا ہو اور وہاں سے دہلی چلا گیا ہو.غرض جب کسی شخص کے دوقولوں میں بظاہر اختلاف پایا جاتا ہو تو صداقت تین صورتوں میں سے ایک صورت میں پائی جائے گی.کبھی دونوں قول غلط ہوں گے، کبھی ایک غلط ہو گا اور ایک صحیح ہوگا.اور کبھی دونوں صحیح ہوں گے.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مصری صاحب کے ان بظاہر مختلف فقروں میں ان تینوں حقیقتوں میں سے کون سی تی حقیقت پائی جاتی ہے آیا (۱) دونوں فقرے ہی غلط ہیں.وہ نہ منکسر المزاج ہیں اور نہ متکبر ہیں.(۲) دونوں فقروں میں سے ایک صحیح ہے اور دوسرا غلط.(۳) دونوں فقرے ہی صحیح ہیں.اور ایک فقرہ تشریح طلب ہے.دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے.پس یہی تین صورتیں ہیں جن کی روشنی میں مصری صاحب کے ان دو بظاہر مختلف دعووں کی تشریح کی جاسکتی ہے.ان میں سے یہ صورت کہ یہ دونوں دعوے غلط ہیں میرے نزدیک بھی اور مصری صاحب کے نزدیک بھی صحیح نہیں.نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دونوں جگہ غلطی کی ہے اور نہ ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے دونوں جگہ غلطی کی ہے.دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ ان کے دونوں فقرے غلط نہیں ہیں.پس قابل غور دو ہی صورتیں رہ گئیں.ہم کہتے ہیں کہ انکساری کا دعوئی غلط اور بناوٹی ہے اور تکبر والا ان کا اصل دعوی ہے.لیکن مصری صاحب کہتے ہیں کہ دونوں فقرے ان کے صحیح ہیں مگر ان سے ہم نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ غلط ہے.ان دونوں فقروں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ منکسر المزاج ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں تشریحوں میں سے کون سی صحیح ہے.مصری صاحب اپنے دعوئی کے ثبوت میں دلیل یہ دیتے ہیں کہ چونکہ میرے خطوط کے بعض دوسرے فقروں میں انکسار پایا جاتا ہے اس لئے اس فقرہ کے یہ معنے کہ میں کوئی متکبرانہ دعوی کرتا ہوں غلط ہے.گویا ان کے دعویٰ کی بناء یہ ہے کہ میرے خطوط میں چونکہ ایسے فقرات موجود ہیں جن میں انکسار پایا جاتا ہے اس لئے جو بھی دوسرا فقرہ ہو اس کے معنے بہر حال انکسار کے ہی لینے پڑیں گے.مگر ان کی یہ دلیل قطعاً غلط ہے اس لئے کہ اخلاقیات میں قاعدہ یہی ہے جسے ہر شخص جانتا ہے کہ تکبر انکسار کو باطل کرتا ہے انکسار تکبر کو باطل نہیں کرتا.ایک شخص دن میں پچاس دفعہ بیچ بولے اور ایک دفعہ جھوٹ تو اسے سچانہیں کہا جائے گا.اور یہی کہیں گے کہ پچاس دفعہ سچ بولنے میں اسے جھوٹ کی ضرورت پیش نہیں آئی
خطبات محمود ۳۱۸ سال ۱۹۳۷ء اور جب اس کی ضرورت پیش آئی اس نے جھٹ جھوٹ بول دیا.یا مثلاً ایک شخص چار نمازیں پڑھتا ہے مگر پانچویں چھوڑ دیتا ہے تو اسے نمازی نہیں کہا جاتا اور نہ وہ یہ کہ سکتا ہے کہ میں نمازی ہوں.ہم یہ نہیں کی کہیں گے کہ اس نے چار نمازیں پڑھ لی ہیں اس لئے سمجھو ساری پڑھ لیں بلکہ یہ کہیں گے کہ ایک چھوڑ دی تو گویا ساری چھوڑ دیں.ایک شخص سارا سال کسی کو نہیں مارتا مگر سال کے آخر پر مار دیتا ہے تو کیا قانون اسے اس وجہ سے کہ اُس نے سارا سال نہیں مارا، بے گناہ قرار دے دے گا اور کیا وہ سال بھر کسی کو نہ مارنا اپنی بے گناہی کے ثبوت میں پیش کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ چونکہ میں نے سارا سال نہیں مارا اس لئے میرے ایک دفعہ مارنے کو مارنا نہ کہو.کیونکہ اگر اس کا ایک دفعہ مارنا ثابت ہو جائے تو وہ مارکھنڈ ہوگا بشرطیکہ ایسی وجوہ موجود نہ ہوں جو ا سے معذور قرار دیتی ہوں.چور روز چوری نہیں کیا کرتے پھر کیا ی اس وجہ سے ایک چور یہ کہ سکتا ہے کہ میں پچاس دن سادھ رہتا ہوں مگر مجھے کوئی سادھ نہیں کہتا لیکن ایک دن چوری کرتا ہوں تو سب چور کہنے لگ جاتے ہیں.چونکہ مُجرم انسانی فطرت کے خلاف ہے اس لئے جو شخص خلاف فطرت فعل کرتا ہے ، وہ اسی نام سے پکارا جائے گا اور جو بات اس سے فطرت کے مطابق ظاہر ہوتی ہے وہ عادتا ہے نیکی نہیں.پس یہ کہنا کہ چونکہ مصری صاحب نے انکسار کا دعویٰ کیا ہے اس لئے کی تکبر کا دعویٰ ان کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا ، غلط ہے.مذہبی دنیا میں انکسار خوبی ہے اور کبر عیب.اور یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ عیب کو چھپاتا اور نیکی کو ظاہر کرتا ہے.اپنی خوبی کو وہ تکلف.ظاہر کرتا اور بدی کو چھپاتا ہے اور اس کوشش کے باوجود اگر کسی موقع پر وہ اپنی بدی کا اقرار کرتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ اس کی نیکی تکلف اور بناوٹ سے تھی.کیا کوئی مومن کبھی نماز چھوڑ سکتا ہے؟ اور جو شخص ایک دفعہ بھی نماز چھوڑنے کا اقرار کرتا ہے اُس کی نسبت ماننا پڑے گا کہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ نمازی نہیں اس کا نماز پڑھنا خاص اغراض کے ماتحت تھا.جو شخص سچا ہے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا اور اگر ایک دفعہ جھوٹ بولنے کا اقرار اُس کے منہ سے نکل جائے تو اس کے سارے بیچ پر پانی پھر جائے گا.پھر اگر نئے سرے سے تو بہ کر کے بیچ بولنا شروع کر دے تو ہم اسے سچا کہیں گے ورنہ نہیں.یہ کبھی نہیں ہوگا کہ ہم کہیں اس نے دس سچ بولے تھے اگر ایک جھوٹ بول دیا تو کیا ہوا.غرض وہ کام جو دنیا میں نیکی سمجھے جاتے ہیں، انسان ان کو تکلف سے بھی ظاہر کرتا ہے اور بدی کی کو چھپاتا ہے.کون نہیں جانتا کہ عیسائی تین خداؤں کے قائل ہیں.مگر کسی عیسائی سے پوچھو تو وہ یہی کہے ہی
خطبات محمود ۳۱۹ سال ۱۹۳۷ء لہ ہم ایک ہی خدا کو مانتے ہیں.تو حید چونکہ انسانی فطرت میں داخل ہے اس لئے کسی عیسائی کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ کہے ہم تین خدا مانتے ہیں.میں نے تو آج تک جتنے بڑے بڑے پادریوں.سے گفتگو کی ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ اقرار نہیں کیا کہ ہم تین خداؤں کے قائل ہیں.جب بھی تثلیث کا مسئلہ چھیڑا جائے وہ یہی کہیں گے کہ ہم مشرک نہیں موحد ہیں.تثلیث کا مسئلہ ایک بار یک مسئلہ ہے ، آپ اسے آرام سے سنیں تب آپ کی سمجھ میں آئے گا.بلکہ میں نے عیسائیوں کی کئی کتب میں پڑھا ہے کہ ی مسلمان ہمیں مشرک کہتے ہیں حالانکہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں اور جب تین کہتے ہیں تو اس کی کچھ تشریح اور توضیح اور ہوتی ہے اور پھر وہ اس تکلیفی عقیدہ کوکئی کئی پردوں میں چھپاتے ہیں مگر منہ سے یہی کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے.یہی حال اور دعووں کا ہے.جو صداقت کے خلاف لوگوں میں پائے جاتے ہیں.یعنی جو بات فطرت کے خلاف ہو اُس کا اظہار پوری طرح نہیں کریں گے ، اتفاقاً نکل جائے تو نکل جائے.آر یہ نیوگ کو مانتے ہیں مگر اس کے متعلق کبھی کسی آریہ سے سوال کرو تو وہ لڑنے لگ جائے گا.تو کیا پھر اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان پر غلط الزام لگایا جاتا ہے؟ ہر گز نہیں.کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ انسانی فطرت نیکی کو تکلف سے ظاہر کرتی اور بدی کو چھپاتی ہے اس لئے آریہ نیوگ سے انکار کرتا ہے اور ی اس قدر احتیاط کے باوجود جب کوئی بدی کا اقرار کرے تو اس کے یقینی طور پر یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ ی اس کے اندر موجود ہے.انبیاء کو دعوے کرنے پڑتے ہیں مگر کبھی کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی نبی نے کہا ہو میں ایسا کر سکتا ہوں یا کر دوں گا.نبی ہمیشہ یہی کہے گا کہ میرا خدا یوں کر دے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری عمر میں کوئی ایسا فقرہ نہیں مل سکتا کہ میں ایسا کر دوں گا.انبیاء کی تو بڑی شان ہوتی ہے.میرے متعلق مصری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے خلافت پر گھمنڈ ہے.لیکن میری کسی تحریر میں سے ہی کوئی ایسا فقرہ دکھا دیں کہ میں نے کہا ہو میں ایسا کر دوں گا.ہاں یہ میں نے سینکڑوں مرتبہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ میری نصرت کرے گا اور کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ جو مجھ پر حملہ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا اور یہ میں اب بھی کہتا ہوں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ان پیغام ہے جس کا پہنچانا میرا فرض ہے.اس کے سوا کوئی ثابت کر دے کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے آدمی نے بھی مجھے دھمکی دی ہو اور میں نے اسے کہا ہو کہ میں تمہیں سیدھا کر دوں گا.میرا ہزاروں ، لاکھوں کی
خطبات محمود ۳۲۰ سال ۱۹۳۷ء انسانوں سے واسطہ ہے کوئی بتا دے اگر میں نے کبھی ایسا کہا ہو.میں نے کبھی شدید غصہ کی حالت میں بھی ایسی بات نہیں کہی.مصری صاحب نے تو چند سطور لکھی ہیں.میری تحریرات کا سلسلہ بہت وسیع ہے کسی جگہ کوئی یہ لکھا ہوا دکھا دے کہ میں یوں کر دوں گا ، میں دنیا کو دکھا دوں گا.پس انبیاء، خلفاء اور صلحاء کا یہی طریق ہے کہ وہ متکبرانہ الفاظ کبھی منہ سے نہیں نکالتے.انہوں کی نے جب بھی بڑائی کا اظہار کرنا ہوا سے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کریں گے اپنی طرف نہیں.اور اگر کبھی اپنی کسی طاقت کا اظہار کریں تو ایسے موقع پر جب یہ کہنا ہو کہ مجھے یہ سامان تو میسر ہے مگر میں اللہ تعالیٰ کے کی حکم کی وجہ سے اس کو استعمال نہیں کر سکتا.یہ بھی انکسار کا رنگ ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی حکومت کا جوا اپنی گردن پر ہونے کا اظہار اس میں کیا جاتا ہے.غرض مصری صاحب کے خطوں میں منکسرانہ الفاظ کا استعمال کوئی عجیب بات نہیں.کوئی شخص خواہ کتنا بڑا متکبر کیوں نہ ہو وہ ایسے الفاظ بھی ضرور استعمال کرتا ہے.کیونکہ اس طرح لوگوں کی ہمدردی کی حاصل کی جاسکتی ہے اور جذبات رحم کو اپیل کر کے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.کیا تم سمجھتے ہو شداد اور نمرود نے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے تھے.بڑے سے بڑے جابر بادشاہ بھی منکسرانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان سے مستغنی نہیں ہو سکتے.مگر جب موقع آتا ہے اصل حقیقت ظاہر ہو جاتی.ہندوستان میں ایک مثل مشہور ہے.لکھنؤ اور دہلی والوں میں ہمیشہ کسر نفسی کا مقابلہ رہتا ہے.دونوں اپنے آپ کو زیادہ مہذب اور صاحب اخلاق ظاہر کرنا چاہتے ہیں.کہتے ہیں دہلی کے ایک مرزا صاحب اور لکھنو کے میر صاحب ریل گاڑی پر سوار ہونے کیلئے اسٹیشن پر آئے.دونوں کو اپنی تہذیب اور اپنے شہر کی عزت کا خیال تھا.مرزا صاحب جھکے اور میر صاحب سے کہا قبلہ! تشریف رکھئے.ادھر میر صاحب ان سے بھی ایک بالشت زیادہ جھکے اور کہنے لگے کہ نہیں مرزا صاحب آپ پہلے تشریف رکھئے.اس بیچ میرزا کی کیا طاقت ہے کہ آپ کی موجودگی میں پہلے بیٹھ سکے.ادھر مرزا صاحب کچھ اور مجھکے اور کہنے لگے کہ نہیں جناب ! اس فقیر حقیر کی کیا مجال ہے کہ اتنی بے ادبی اور گستاخی کر سکے.اتنے میں گاڑی نے سیٹی دی اور چلنے لگی اور یہ دونوں بھاگے.وہ اسے کہنی مارے کہ خبیث ! پیچھے ہٹ میں رہ جاؤں گا اور وہ اسے پرے ہٹائے کہ کمبخت ! مجھے سوار ہونے دے.یہ مثال اسی امر کے اظہار کیلئے ہے کہ انکسار کا مظاہرہ تکبر کی اصلیت کو چھپا نہیں سکتا.تمام اظہار انکسار کے باوجود تکبر باہر پھوٹ آتا ہے.
خطبات محمود ۳۲۱ سال ۱۹۳۷ء پس مصری صاحب اپنے منکسرانہ الفاظ سے کس طرح یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ متکبر نہیں ہیں.سوال تو یہ ہے کہ اگر وہ منکسر المزاج ہیں تو یہ کبر کے الفاظ ان کے منہ سے کس طرح نکل سکتے تھے.ان کے منکسرا نہ الفاظ کو استعمال کرنے کی وجہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نیک ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن کبر کے الفاظ کو استعمال کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے.کیا وہ اپنے آپ کو بد بھی ظاہر کرنا چاہتے تھے.سچ بولنے کا دعوی کرنا تو مفید ہوسکتا ہے لیکن جھوٹ بولنے کا دعوی کرنا نقصان کا موجب ہے.اور نقصان انسان کبھی جان بوجھ کر نہیں کیا کرتا.پس اپنے خطوط میں بعض انکسار کے الفاظ بتا کر یہ نتیجہ نکالنا کہ میں نے کبر کے الفاظ نہیں کہے غلط ہے.ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ان کے زیر بحث الفاظ کبر کے الفاظ ہیں یا نہیں.اگر ہیں تو وہ انکسار کے الفاظ کی ایک کتاب بھی کیوں نہ پیش کر دیں ان کا تکبر ثابت ہے.کیا تم سمجھتے ہو فرعون ہر روز خدائی کا دعوی کیا کرتا تھا؟ وہ ہمیشہ جُجوں کے سامنے جھکتا اور انکسار ظاہر کرتا تھا.صرف ایک دفعہ غصہ میں اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کہہ دیا کہ میں خدا ہوں اور خدا تعالیٰ نے اُس کے اِس کبر والے فقرے سے اسے مجرم قرار دیا.پس اگر مصری صاحب کے خطوط میں دس ہزار فقرے بھی انکسار کے ہوں اور صرف ایک فقرہ متکبرانہ ہو تو ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ سب بناوٹ تھی.اور اس ایک ہی فقرہ نے ان کے اندرونہ کو ظاہر کر دیا ہے.پس ہمارے لئے صرف ایک ہی سوال ہے کہ وہ زیر بحث فقرہ ان کے خطوط میں موجود ہے یا نہیں.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ متکبرانہ فقرہ وہی ہے جو انسان خود اپنی طرف منسوب کرے.ہاں اگر خدا تعالیٰ یا قرآن کریم کی طرف منسوب کر کے کوئی شخص اپنی نسبت کوئی دعوی کرے تو ہم اس کے کی متعلق یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا دعویٰ غلط ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ کہنے والا متکبر ہے.لیکن جب بغیر خدا کا نام لئے بڑائی اپنی طرف منسوب کرے تو وہ کبر کہلائے گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا مصری صاحب کو الہام سے کھڑا ہونے کا دعوی ہے اس وقت تک تو مجھے یہ علم نہیں کہ ان کو ایسا دعویٰ ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے اور اس نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے مخالف سب شکست کھا جائیں گے اور کامیابی انہی کے لئے ہوگی.اگر ان کا کوئی ایسا دعویٰ اس فقرہ کے ساتھ موجود ہے تو اپنے زیر بحث فقرہ کے متعلق انہیں اس قسم کی توجیہ کا حق ہے، اس سے قبل ہر گز نہیں.اس سے پہلے اگر وہ اپنی بڑئی کا اظہار کریں تو وہ کبر ہوگا اور اس فقرہ میں کوئی ایسا اشارہ نہیں جس سے خیال ہو سکے کہ یہ بات انہوں نے خدا تعالیٰ کی
خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۳۷ء طرف منسوب کی ہے چنانچہ اس کے مندرجہ ذیل الفاظ قابل غور ہیں.کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص (مصری صاحب) کو جماعت میں عزت حاصل ہے.مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے غذر گھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھایا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا.مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر بھی نہیں چل سکتا.اس (مصری صاحب ) کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا.اس (مصری صاحب) کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح رد نہیں کرے گی بلکہ اسے اس پر کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی“.ممکن ہے کو ئی شخص خیال کرے کہ وہ تو کہتے ہیں کہ میں نے یہ لکھا ہے کہ آپ جانتے تھے اور خود تو یہ دعویٰ نہیں کیا.لیکن میں اُردو اور پنجابی کی مثالوں سے ثابت کرتا ہوں کہ اس فقرہ کے کہ " آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے یہ معنی ہیں کہ کہنے والے کا دعوی ہے کہ وہ بڑا اور صاحب عزت آدمی ہے.پنجابی میں بھی اس محاورہ کے یہی معنی ہیں اور اُردو میں بھی.اور چونکہ اُردو دان پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں میں پہلے پنجابی کا محاورہ لیتا ہوں.کسی گاؤں میں کوئی جاٹ کسی بننے سے لڑے اور کہے کہ توں جاننا اس میں تینوں اک مگا ماراں تے سارے دند کڈ سٹاں.“ یعنی تم جانتے ہو کہ اگر میں ایک مکا ماروں تو تمہارے سارے دانت نکال دوں.تو کیا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جاٹ بننے سے یہ کہ رہا ہے کہ میں تو بالکل کمزور آدمی ہوں مگر تیرا یہ خیال ہے کہ اگر میں تجھے ایک مکا ماروں تو تیرے سارے دانت نکل جائیں یا اس کے یہ معنے ہیں کہ جاٹ خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ ایک گھونسہ مارے تو بننے کے سارے دانت توڑ دے.اس کے معنی کوئی عظمند یہ نہیں لے گا کہ جاٹ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ فقط بننے کا خیال ہے بلکہ اس کے معنے یہی لئے جائیں گے کہ جاٹ کے خیال میں جاٹ کا یہ دعوئی ایسا ظاہر اور ثابت ہے کہ بنیا بھی اس سے ناواقف نہیں.وہ اتنی ثابت شدہ اور واضح حقیقت ہے کہ وہی نہیں بنیا بھی اس سے خوب واقف ہے.اس میں نفی نہیں بلکہ اقرار ہے کہ وہ ایسا ہے بلکہ اس کے ایسا طاقتور ہونے کی دوسروں کو بھی بر ہے اور دشمن بھی اس سے واقف ہیں.غرض یہ الفاظ دعوی کو زیادہ مضبوط کرتے ہیں اور اس کے زور کو کم نہیں کرتے.پنجابی میں تو ” جاننا ایں“ کی بجائے تینوں پتہ ائے بھی کہتے ہیں اور اس کا یہ مطلب
خطبات محمود ۳۲۳ سال ۱۹۳۷ء نہیں ہوتا کہ تیرا خیال ہے بلکہ یہ کہ یہ امر واقعہ ہے.اُردو میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے، یعنی جب کہیں کہ ” تو جانتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ تیرا وہم ہے بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ میری اس طاقت کا تجھے بھی علم ہے.اور جب یہ کہنا ہو کہ یہ محض تمہارا خیال ہے ، واقعہ میں نہیں تو اردو میں تو کہتے ہیں کہ یہ تمہارا خیال ہے.اور پنجابی میں کہتے ہی ہیں.تینوں ایویں وہم ہے.اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے مصری صاحب کا فقرہ پڑھو جو یہ ہے کہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص (مصری صاحب) کو جماعت میں عزت حاصل ہے.اس کے صاف معنی یہی ہیں کہ میری عزت کوئی چھپی ہوئی بات نہیں.یہ اتنی ظاہر بات ہے کہ تمہیں بھی اس کا پتہ ہے.پنجابی میں اس کا ترجمہ یہ ہوگا.تہانوں چنگی طرح پتہ ہی کہ مصری صاحب دی جماعت وچ بڑی عزت ہے.صاف ظاہر ہے کہ اس کے معنی یہی ہیں کہ مجھے جماعت میں اتنی عزت حاصل ہے کہ خلیفہ کو بھی اس کا علم ہے.جانتے تھے“ کے الفاظ سے اگر کچھ نکلتا ہے تو یہ کہ مصری صاحب اپنی عزت کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ خلیفہ بھی اس سے ناواقف نہیں ہوسکتا.اور اس نے خوب ٹھوک بجا کر دیکھ لیا ہے کہ مجھے عزت حاصل ہے.یہ دعوی کوئی معمولی دعوی نہیں.پس قواعد زبان اُردو اور پنجابی کے مطابق ان کے اس فقرہ کا یہی مطلب ہے کہ مصری صاحب کو جماعت میں اپنی عزت کا یقین ہے.لفظ ” جانے کے بعد جو فقرہ ہو وہ دعوی ہوتا ہے جس پر کہنے والے کا اعتماد اور یقین ہوتا ہے.زبان اردو کے قاعدہ کے مطابق بھی اور پنجابی کے محاورہ کے مطابق بھی اس کے یہی معنے ہیں کہ مجھے دعوی ہے کہ مجھے جماعت میں عزت حاصل ہے اور یہ کوئی منفی بات نہیں.میرا دشمن بھی یہ جانتا ہے کہ مجھے عزت حاصل ہے اور اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے مصری صاحب کے اس فقرہ کا تفسیری ترجمہ یہ بنے گا کہ نہ صرف یہ کہ مجھے ہی اس بات کا پتہ ہے بلکہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ مجھے جماعت میں عزت حاصل ہے.مستریوں کے متعلق تو یہ غذ رگھڑ لیا گیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا مگر میرے (مصری صاحب کے ) کے متعلق کوئی ایسا عذر نہ چل سکتا.میری (مصری صاحب کی ) بات پر اسے کان دھر نا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ فقرہ تکبر کا ہے یا انکسار کا.پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے جو یہ لکھا تھا کہ میری بات پر جماعت ضرور کان دھرے گی.اس کا کی
خطبات محمود ۳۲۴ سال ۱۹۳۷ء یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے جماعت میں عزت حاصل ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اب احباب خود ہی غور فرمائیں کہ میری عبارت میں کیا کان دھرنے کی وجہ اثر و رسوخ بتائی گئی ہے یا اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ میری طرف نہ تو کوئی دُنیوی غرض منسوب کی جا سکتی ہے جیسی مستریوں کی طرف کی گئی اور نہ کوئی ایسی بات پیش کی جاسکتی ہے جیسی مستریوں کی کی طرف کی گئی تھی.گویا یہ عزت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہا تھا کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں.اب میں پھر ان کا وہ فقرہ پڑھ دیتا ہوں تا احباب غور کر سکیں کہ کیا اردو کے قاعدہ کے لحاظ سے اس کے یہ معنے بن سکتے ہیں جو مصری صاحب ظاہر کرتے ہیں.ان کا فقرہ یہ ہے ” کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کی شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے غذ رگھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا.یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر نہیں کی چل سکتا.اس کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جا سکتا.اس کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح ردّ نہیں کرے گی بلکہ اسے اس پر کان دھر نا پڑے گا“.اس عبارت میں کان دھرنے کے دعوئی سے پہلے دو باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک یہ کہ مصری صاحب کو جماعت میں عزت حاصل ہے دوسری یہ کہ ان پر مستریوں کی طرح کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا.پھر عجیب بات ہے کہ مصری صاحب کہتے ہیں کہ ان میں سے دوسری تو کان دھرنے کا ہے پہلی نہیں.جب دو باتیں جو دونوں سبب کان دھرنے کا ہوسکتی ہیں اکٹھی مذکور ہیں تو ایک کو وجہ قرار دینا اور دوسری کو مستثنی قرار دینا کس طرح جائز ہے.اگر کوئی دلیل ہے تو مصری صاحب پیش کریں.ور نہ زبان کے قاعدہ کے مطابق یہ دونوں باتیں لازماً کان دھر نے کا سبب قرار پائیں گی اور کان دھرنا دونوں ہی کا نتیجہ سمجھا جائے گا.میں اس مضمون کو ایک اور مثال سے واضح کرتا ہوں.اگر کوئی شخص کہے میں لمبے قد کا ہوں اور گھوڑے پر سوار ہوں ، اس لئے میرا ہاتھ چھت تک جاسکتا ہے تو اس کے معنے یہی ہوں گے کہ اپنا ہاتھ چھت پر پہنچنے کی وجہ وہ شخص اپنے لمبے ہونے کو نہیں بیان کرتا نہ گھوڑے پر سوار ہونے کو بلکہ لمبا ہونے اور گھوڑے پر سوار ہونے کے مجموعہ کو ہاتھ پہنچنے کا سبب قرار دیتا ہے.پس مصری کی صاحب کے زیر بحث فقرہ کے معنے اُردو زبان کے عام قاعدہ کے رُو سے یہی ہیں کہ وہ جماعت کے کان دھرنے کے دو سبب بیان کرتے ہیں.ایک عزت حاصل ہونا اور دوسرے کسی الزام کا نہ ہونا اور یہی ہم
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۷ء ایک دلیل مصری صاحب یہ دیتے ہیں کہ عزت کا حاصل ہونا اور بات ہے اور خلیفہ کے مقابل پر عزت حاصل ہونا اور بات ہے.وہ کہتے ہیں میں نے یہ تو کہا ہے کہ عزت حاصل ہے مگر یہ تو نہیں کہا کہ خلیفہ کے مقابل پر مجھے عزت حاصل ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی یہ بات صحیح ہے کہ ان دونوں باتوں میں فرق ہے اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے صرف عزت کا حاصل ہونا کہا ہے، خلیفہ کے مقابلہ پر عزت کا دعویٰ نہیں کیا تو ہم مان لیں گے کہ ان کی اتنی بات صحیح ہے.مثلاً کسی گاؤں کا کوئی نمبرداری ہے، اس گاؤں کے دس بارہ گھر ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں ایک معزز آدمی ہوں تو کسی کا اسے یہ کہنا کہ اگر تو معزز ہے تو چل بادشاہ کا مقابلہ کر ، بالکل غلط مطالبہ ہوگا.کیونکہ اُس نے تو اپنے گاؤں میں عزت کا دعویٰ کیا ہے نہ کہ بادشاہ کے مقابل پر.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مصری صاحب نے صرف عزت کا دعویٰ کیا ہے خلیفہ کے مقابلہ پر عزت کا دعویٰ نہیں کیا ، تو ان کی یہ بات صحیح ماننی پڑے گی.مگر سوال یہ ہے کہ یہ فقرہ انہوں نے خلیفہ کے متعلق لکھا ہے یا کسی اور کے متعلق.جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے.تو اس ” آپ سے ان کی مرادی خلیفہ تھی یا محلہ دارالرحمت کا پریذیڈنٹ؟ بالفاظ دیگر مصری صاحب کا یہ فقرہ یوں ہے." کیونکہ خلیفہ صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ مصری صاحب کو جماعت میں عزت حاصل ہے.مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عذر گھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا.مگر مصری صاحب کے متعلق اس قسم کا کوئی عذر بھی نہیں چل سکتا.مصری صاحب کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جا سکتا.مصری صاحب کی بات کو جو وہ خلیفہ کی مخالفت میں کہیں گے جماعت مستریوں کی طرح رڈ نہیں کرے گی بلکہ مصری صاحب کی بات پر جو وہ خلیفہ کی کی مخالفت میں کہیں گے جماعت کو کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی“.اب مصری صاحب بتائیں کہ کیا ان کے فقرہ کی یہ تشریح ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو پھر اس فقرہ میں خلیفہ کے بالمقابل عزت کا سوال ہے یا کسی اور کے مقابل پر.یہ اعتراض جو انہوں نے کرنے تھے ، مجھے پر کرنے تھے یا مولوی اللہ دتا صاحب پر ؟ اور جماعت نے کان ان اعتراضوں پر دھرنا تھا جو مولوی اللہ دتا صاحب پر کئے جانے والے تھے یا ان پر جو خلیفہ وقت پر کئے جانے تھے؟ اگر آخری بات درست.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ان کی یہ تشریح کہ عزت سے مراد عام عزت تھی نہ کہ خلیفہ وقت کے مقابل پر عزت ، کس قدر غلط ہے.بات بالکل واضح ہے کہ ان کا دعویٰ خلیفہ کے مقابل پر ہے.وہ بی اے مولوی فاضل اور ایک علمی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر تھے کیا وہ اردو زبان کے ابتدائی قواعد سے بھی واقف نہیں ہیں کہ ایسی باتیں کرتے ہیں یا یہ کہ وہ واقف تو ہیں مگر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنا چاہتے ہیں.پس گو اس میں شبہ نہیں کہ خالی عزت کا دعویٰ اور خلیفہ کے مقابل پر عزت کا دعوی دو الگ الگ باتیں ہیں مگر ان کا دعویٰ جیسا کہ میں نے ثابت کیا ہے خلیفہ کے مقابل پر ہے وہ اس امر میں تو ازن کرتے ہیں کہ جماعت میں میری بات مانے گی یا خلیفہ کی.اور فیصلہ کرتے ہیں کہ میری مانے گی.ایک اور طرح بھی اس فقرہ کو حل کیا جا سکتا ہے یعنی ان کے بتائے ہوئے مطلب کو فقرہ میں شامل کر کے دیکھا جائے کہ کیا اس کے کوئی معقول معنے بھی بن سکتے ہیں.سوان کے بیان کردہ مطلب کو اگر فقرہ میں داخل کیا جائے تو فقرہ یوں بنتا ہے مجھے آپ کے مقابلہ پر کوئی دعوئی عزت کا نہیں مجھے تو صرف مدرسہ احمدیہ میں عزت حاصل ہے اس لئے جب میں آپ کے بالمقابل کھڑا ہو کر آپ پر اعتراض کروں گا جماعت میری بات ضرور سنے گی اور اسے میری بات سننی پڑے گی.کیا اس قسم کا فقرہ احمقانہ فقرہ کہلائے گا یا نہیں ؟ کیونکہ سبب مسبب کا موجب نہیں ہے بلکہ اس کے مخالف ہے.اگر ایسا فقرہ کہنا جائز ہو تو پھر یہ کہنا بھی جائز ہوگا کہ دیکھو فلاں شخص کا سانس نہیں چلتا اس لئے وہ زندہ ہے اور فلاں شخص چونکہ دوڑ رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مر چکا ہے.اگر مصری صاحب کا پہلا فقرہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجھے آپ کے مقابلہ میں عزت حاصل نہیں تو اس کا نتیجہ کیونکر نکلا کہ جماعت ان کی بات سُنے گی.اگر اس فقرہ کا وہ مطلب تھا تو نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ جماعت ان کی بات نہیں سنے گی.پھر مصری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے تو لکھا تھا کہ آپ جانتے تھے اس لئے میرا دعویٰ ماضی کے متعلق تھا موجودہ زمانہ کے متعلق تو نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کا تکبر تکبر نہیں ہوتا ؟ اگر کوئی شخص کہے میں نے تو کل کہا تھا کہ میں خدا ہوں آج تو نہیں کہا ، آج لوگ مجھ پر کیوں اعتراض کرتے ہیں.تو ی کیا اس کا یہ کہنا درست ہو گا ؟ ہم اس شخص سے کہیں گے کہ تم نے تو بہ کب کی کہ اعتراض سے بچ جاؤ.یہی ہم مصری صاحب سے کہتے ہیں کہ اگر یہ فقرہ ماضی کا تھا تو کیا آپ نے اپنے اس خیال سے تو بہ کر لی ہے؟ اگر سوال یہ ہوتا کہ اب آپ کو عزت حاصل ہے یا نہیں تو آپ کا جواب کافی تھا.مگر سوال تو یہ ہے
خطبات محمود ۳۲۷ سال ۱۹۳۷ء کہ آپ نے ایک متکبرانہ دعویٰ کیا ہے ایسے دعویٰ کا اظہار جو ماضی میں کیا گیا ہو یا حال میں ایک ہی حیثیت رکھتا ہے.غرض مصری صاحب کی اس دلیل کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ماضی کا تکبر بھی تکبر ہی ہوتا ہے.دوسرا یہ کہ اس تکبر سے تو بہ انہوں نے کبھی نہیں کی اور تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ یہ دعوئی ماضی کے زمانہ کے متعلق ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ چونکہ آپ کو پتہ تھا کہ میں جو اعتراض آپ پر کروں گا جماعت اس کو ضرور سُنے گی ، اس لئے میرے خلاف اندر ہی اندر پرو پیگنڈا شروع کر دیا گیا.اور یہ بات معلوم کرنی بالکل آسان ہے کہ میں نے مصری صاحب کے خلاف کب پرو پیگنڈا کیا.آیا اس خطبہ کے بعد یا پہلے؟ مصری صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات کسی گزشتہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہے یعنی دو سال کی قبل.مگر سوال یہ ہے کہ اس خط سے قبل جو و ارجون کا ہے میں نے ان کے خلاف کون سا پراپیگنڈا کیا تھا.آپ لوگ اپنے دلوں میں سوچ لیں کہ کبھی میں نے کسی سے کہا کہ شیخ صاحب کی عزت نہ کی جائے یا وہ بُرے آدمی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ دعویٰ خط لکھنے کے وقت تھا کہ جماعت میں ان کو عزت حاصل ہے.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس خط سے قبل جماعت کی کثرت شیخ صاحب سے متنفر ہو چکی تھی تو ان کی بات سچ ثابت ہو جائے گی.لیکن اگر اتنی بڑی جماعت میں سے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں مل سکتا جو یہ کی کہے کہ میں نے اس سے شیخ صاحب کے خلاف باتیں کیں اور اُس نے اس کے اثر کے ما تحت شیخ صاحب سے نفرت کرنی شروع کر دی تو پھر ان کا یہ دعویٰ خود بخود غلط ثابت ہو جائے گا.لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے.حقیقت یہ ہے کہ میاں فخر الدین صاحب کے اخراج سے چار پانچ ماہ قبل مجھے محکمہ خاص کی طرف سے تین چار رپورٹیں آئیں کہ فخر الدین صاحب ، مصری صاحب اور مصباح الدین صاحب اکٹھے مل مل کر باتیں کرتے ہیں اور اکثر دفعہ مغرب کی نماز بھی باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں.تو میں نے ایک رپورٹ پر لکھا کہ میں نے تم لوگوں کو منافقوں اور مخالفوں کی جانچ کیلئے مقرر کیا ہوا ہے ، مصری صاحب کی جانچ کیلئے نہیں اور انہیں زجر کی کہ آئندہ ایسی رپورٹ نہ آئے.اسی طرح گزشتہ سال ایک دوست نے سندھ سے ان تینوں اور چند اور آدمیوں کے متعلق لکھا کہ یہ ایک ٹریکٹ آپ کے خلاف مخفی طور پر جلسہ کے موقع پر شائع کرنا چاہتے ہیں.تو میں نے انہیں لکھا کہ میں یہ بات بغیر ثبوت کے نہیں مانتا، آپ گواہ پیش کریں.گویا فخر الدین صاحب کے اخراج سے چار پانچ ماہ قبل تک اس بات کا تحریری
خطبات محمود ۳۲۸ سال ۱۹۳۷ء ثبوت موجود ہے کہ میں مصری صاحب کو منافق نہیں سمجھتا تھا اور میں نے تحریری طور پر ان لوگوں کو ڈانٹا جو ان کے متعلق رپورٹیں دیتے تھے اور لکھا کہ وہ مخلص آدمی ہیں ان کے متعلق کیوں رپورٹیں کرتے ہو.میرا سب سے زیادہ راز دان محکمہ تحقیقات ہی ہو سکتا ہے.وہ اُس وقت کئی حرکات کر چکے تھے جن کو وہ محکمہ جانتا تھا مگر میں ان حرکات کو بالکل وقتی غلطیاں سمجھتا تھا.پس جبکہ ان کے دعوئی کی بنیاد یہ ہے کہ انہیں میرے پروپیگینڈا سے پہلے عزت حاصل تھی اور میرا پروپیگنڈا اگر کوئی ہے تو اس خط کے بعد ہے.اس سے ثابت ہوا کہ عزت کا مقام انہیں خط لکھنے تک حاصل تھا.خلاصہ یہ ہے کہ ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے خطوط میں انکسار والے فقرات بناوٹی اور اپنے لئے جذبات رحم پیدا کرنے اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ہیں ان کی اصل حالت کبر والی ہی ہے.ایک شکوہ مصری صاحب کو یہ ہے کہ مجھے گالیاں دی گئیں.مگر سوال یہ ہے کہ خط و کتابت کی ابتداء میں نے کی یا شیخ صاحب نے ؟ اگر تو میں نے کی تو مجھ پر اعتراض ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری صاحب نے مجھے جو پہلا خط لکھا اُس کا پہلا ہی فقرہ یہ ہے کہ الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ اَيَقَظَهَا یعنی فتنہ سورہا ہے خدا کی لعنت ہو اُس پر جو اسے جگاتا ہے اور جیسا کہ خط کے مضمون سے ظاہر ہے وہ مجھے فتنہ کو جگانے والا قرار دیتے ہیں.پس جو شخص خط کو شروع ہی لعنت سے کرتا ہے اس کا یہ شکوہ کہ مجھے گالیاں دی جاتی ہیں کس طرح درست ہو سکتا ہے.پھر اسی اشتہار میں جس میں انہوں نے یہ شکوہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ اے جماعت اللہ تعالیٰ کے ارشاد فَتَبَيَّنُوا کو جو آپ نے توڑا ہے اس لئے مجھ کو ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے آپ کہیں گرفت کے نیچے نہ آجائیں.قرآن کریم میں فَتَبَيَّنُوا کا لفظ تین بار آیا ہے.دو بار تو سورہ نساء میں ایک ہی جگہ آیا ہے اور وہاں یہ حکم ہے کہ اگر کوئی تو مسلم کا فروں میں سے آکر کہے کہ میں مسلمان ہوں تو بوجہ اس کے کہ وہ کافروں سے نکل کر آیا ہے، تمہیں چاہئے کہ اس کے متعلق تحقیقات کر لیا کر ویلے اور ظاہر ہے کہ یہاں یہ تو سوال ہی نہ تھا.دوسرا موقع اس کا سورہ حجرات میں ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأُ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَدِمِينَ لا یعنی ے مسلمانو! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کو نہ مانو جب تک کہ تحقیقات نہ کر لو.تا ایسا نہ ہو کہ اس کی بات کو مان کر تم کسی غیر مجرم کو تکلیف پہنچا بیٹھو جس پر تمہیں بعد میں نادم ہونا پڑے.
خطبات محمود ۳۲۹ سال ۱۹۳۷ء اس اشتہار کے مضمون کے مطابق اسی آیت کی طرف مصری صاحب کا اشارہ ہوسکتا ہے.گویا مصری اپنے اس اشتہار میں جماعت کو یہ کہہ رہے ہیں کہ اے احمد یو! خلیفہ نے لکھا ہے کہ میں نے عزت کا دعویٰ کیا ہے اس کی اس بات کو سُن کر تمہیں چاہئے تھا کہ خلیفہ سے کہہ دیتے کہ اے فاسق ! ہم تیری بات کو نہیں مانتے.ہم پہلے تحقیق کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ تم سچ کہتے ہو یا جھوٹ.مصری صاحب اس طرح نہ یہ کہ مجھے فاسق قرار دیتے ہیں بلکہ ساری جماعت کو تلقین کرتے ہیں کہ اسے بھی میری نسبت یہی عقیدہ رکھنا چاہئے لیکن ابھی ان کے نزدیک وہ گالی نہیں دیتے.پھر اسی اشتہار میں انہوں نے میرے متعلق لکھا ہے کہ غلط بات منسوب کرنے والا 9966 جماعت کی عقل اور اخلاص سے کھیلنے والا ، تقویٰ سے کوسوں دور ، صریح غلط بیانی کرنے والا ، پر فریب رستہ اختیار کرنے والا.مگر ان سب باتوں کے باوجود مصری صاحب نے کوئی گالی نہیں دیا اور جماعت احمد یہ بلا وجہ انہیں گالیاں دے رہی ہے.ان کے اس عجیب رویہ پر مجھے حضرت خلیفہ اول کا ایک لطیفہ یاد آ گیا.آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ فلاں شخص جو آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہے وہ گالیاں بہت دیتا ہے اس کو سمجھا ئیں.جب وہ شخص آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ نیک آدمی ہیں ، ہمارے ملنے والے ہیں مگر کسی نے شکایت کی ہے کہ آپ گالیاں بہت دیتے ہیں یہ ٹھیک نہیں.تو وہ ماں کی گالی دے کر کہنے لگا کون ایسا ویسا کہتا ہے کہ میں گالیاں دیتا ہوں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کا اس زور سے انکارسن کر حیران ہی ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ بیچارہ معذور ہے.اسے معلوم ہی نہیں کہ گالی کے کہتے ہیں اور میں نے اسے کہا کہ میری غلطی تھی آپ کو ہر گز گالیاں دینے کی عادت نہیں ہے.اسی طرح حضرت خلیفہ اول کے ایک معالج تھے اُن کو بہن کی گالی دینے کی بہت عادت تھی.ایک دفعہ جب وہ حضرت خلیفہ اول کے زخم کی مرہم پٹی کر ہی رہے تھے کہ میں وہاں پہنچا.میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب ! زخم کا کیا حال ہے؟ تو وہ زخم کو بہن کی گالی دے کر کہنے لگے کہ یہ اچھا ہی ہونے میں نہیں آتا.اس مجلس میں تو ہم نے ان سے کچھ نہ کہا مگر بعد میں سمجھایا کہ آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح کی مجلس میں یہ کہہ دیا تھا، ایسا تو نہیں چاہئے تھا.تو وہ اس گالی کو وہی گالی دے کر کہنے لگے کہ یہ منہ سے نکل ہی ہے جاتی ہے یہی حال مصری صاحب کا ہے.چھ گالیاں ایک اشتہار میں دی ہیں اور پہلا خط ہی اس طرح
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء شروع کیا ہے کہ فتنہ خوابیدہ تھا تم نے اسے بیدار کیا اور بیدار کرنے والے پر خدا کی لعنت ہو اور ابھی کہتے ہی ہیں کہ میں گالیاں نہیں دیتا.اس کے جواب میں ہم بھی حضرت خلیفہ اول کی طرح یہی کہتے ہیں کہ ہاں آپ نے گالی نہیں دی ہماری ہی غلطی ہے.ان لوگوں کی طرف سے ایک دستی اشتہار آج ہی مجھے دفتر نے بھیجا ہے جس میں مصری صاحب کی امارت کا اعلان کر دیا گیا ہے.ہمیں اس سے خوشی ہے کیونکہ جو شخص جماعت میں تفرقہ پیدا کرے اسے خدا تعالیٰ خود سزا دیتا ہے.اور یہ اعلان کر کے انہوں نے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ الہی سزا کے مستحق ہو گئے ہیں.اس اعلانِ امارت کے ساتھ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سزا کو کھینچا ہے دور نہیں کیا.اسی اشتہار میں ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ دیکھو! ہمیں مرتد ، منافق ، فاسق وغیرہ الفاظ سے پکارا جاتا ہے، ایسا نہ کیا جائے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے تو انہیں ان ناموں سے نہیں پکارا بلکہ ہمارے آدمیوں نے تو صرف اُن کی اپنی باتیں دُہرائی ہیں.پکارنے والا تو ابتدا کرنے والا ہوتا ہے.انہوں نے مجھے مرتد قرار دیا ، معزول کرنے کے لائق کہا حالانکہ میں تو خلیفہ ہوں.رسول کریم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جب تک تم اپنے دُنیوی بادشاہ میں کفر بواح نہ دیکھو اس کی اطاعت کرو گے اللہ تعالیٰ خودا سے سزا دے گا اور اس لحاظ سے مصری صاحب نے گویا یہ کہا ہے کہ مجھ میں کفر بواح یعنی گھلا گھلا پایا جاتا ہے.باقی رہافتنہ پرداز کہنا، سو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اپنے پہلے خط میں ہی انہوں نے مجھے فتنہ پرداز کہا ہے اور پھر فَتَبَيَّنُوا والی آیت مجھ پر چسپاں کر کے مجھے فاسق قرار دیا ہے.پھر مجھے منافق بھی کہا ہے یہ کہہ کر کہ میں جماعت کو دہریت کی طرف لے جا رہا ہوں حالانکہ بظاہر اسلام سے تعلق ظاہر کرتا ہوں.پس یہ ثابت ہے کہ پہل انہوں نے کی اور انہوں نے جو کچھ ہمارے متعلق کہا جماعت نے اُسے دُہرا دیا ہے.وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں تو میں جماعت کو بھی آئندہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دوں گا مگر پہلے وہ تو بہ کریں پھر ان کا حق ہوگا کہ ہم.ت ایسا مطالبہ کریں.حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے بیعت توڑی ہے اور ہر جماعت کی اصطلاح میں ایسے شخص کو مرتد کہتے ہیں.بیعت میں یہ اقرار ہوتا ہے کہ مبائع کامل فرمانبرداری اور گلی طور پر تعاون
خطبات محمود ٣٣١ سال ۱۹۳۷ء کرے گا اور جو شخص اس اقرار کو توڑ دے اُسے اگر مرتد نہیں تو اور کیا کہا جائے گا.مرتد کے معنی ہیں واپسی جانے والا.پس جو بیعت کو توڑ دے اُسے مرتد ہی کہا جا سکتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے غیر احمدی کہتے ہیں کہ ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے.حالانکہ کافر کے معنی ہیں نہ ماننے والا.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانتا اسے ہم مومن کس طرح کہہ دیں.اگر ہم ان سے پوچھیں کہ کیا آپ لوگ مرزا صاحب کے دعوی ماموریت کو مانتے ہیں؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ نہیں.پس چونکہ نہ ماننے والے کو عربی میں کافر کہتے ہیں کسی مدعی ماموریت کو جب کوئی نہ مانے تو اُسے کافر کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے.اسی طرح اگر بیعت کرنے کے بعد کوئی واپس لوٹے تو اُسے مرتد کے سوا اور کیا کہا جائے گا.رسول کریم ہے کے بعد عرب میں اکثر لوگ نمازیں بھی پڑھتے تھے، روزے بھی رکھتے تھے.صرف زکوۃ کے متعلق انہیں شبہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ صرف رسول کریم ﷺ کے زمانہ تک ہی کیلئے حکم تھا مگر پھر بھی ان کو مرتد ہی کہا جاتا تھا.پھر یہ لوگ اندر ہی اندر سازش کر رہے تھے.میاں عبد العزیز کا فوراً الگ ہو جا نا بتاتا ہے کہ وہ پہلے ہی ان کے ہم خیال ہو چکے تھے.اور فخر الدین صاحب کے اخراج پر مصری صاحب کا نوٹس دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے ہی جتھے بنا رہے تھے اور اندر ہی اندر فتنہ پیدا کر رہے تھے.پھرا ایسے لوگوں کو اگر فتنہ پرداز نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے.پھر آیت استخلاف میں خلافت کی بیعت کے بعد ا نکار کرنے والوں کو فاسق کہا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ کہتے ہیں ہمیں منافق نہ کہا جائے.لیکن اسی اشتہار میں جس میں امارت کا اعلان بھی کیا گیا ہے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ ملنا چاہے، اُس کا نام پوشیدہ رکھا جائے گا.گویا وہ صرف منافق ہی ہے نہیں بلکہ منافق گر ہیں.وہ لوگوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ تم بظاہر خلیفہ کی بیعت میں رہو اور خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کر لو کہ ہم ہر ایک نیک بات میں آپ کی فرمانبرداری کریں گے.سَمْعًا وَّ طَاعَةً کے نعرے بھی لگاؤ ، مگر در پردہ ہم سے ملے رہو اور پھر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ہمیں منافق نہ کہو.یہ تو صحیح ہے کہ جس جماعت کا کوئی نظام نہ ہو اُس کے افراد خُفیہ بیعت کر سکتے ہیں جیسے کہ سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خفیہ بیعت کی اجازت دی تھی.مگر شاہ صاحب کسی اور پیر کے مرید تو نہ تھے وہ ایک آزاد آدمی تھے ان کی خفیہ بیعت کسی عہد کو باطل نہ کرتی تھی.ایسے شخص کو اگر کوئی مجبوری ہو تو اختیار ہے کہ چاہے اپنے عقیدہ کو ظاہر کرے اور چاہے چُھپائے.مگر ظاہر میں کسی اور کے ساتھ بیعت کا
خطبات محمود ۳۳۲ سال ۱۹۳۷ء رشتہ قائم کر کے در پردہ کسی اور سے تعلق رکھنا ہرگز ہرگز جائز نہیں.اگر ایک شخص کا مکان کسی کے پاس رہن نہیں تو اسے اختیار ہے کہ چاہے اپنا مکان خفیہ طور پر اسے رہن کر دے اور چاہے ظاہر کر دے لیکن جس کا مکان پہلے سے رہن ہے وہ اگر خفیہ طور پر کسی دوسرے کے پاس رہن کر دیتا ہے تو ہر شخص کہے گا کہ یہ پکا بدمعاش ہے.پس ایک طرف بیعت کرنے والا دوسری طرف ملے تو یقینا وہ منافق ہے.ہاں جو کسی سلسلہ میں شامل نہیں وہ اگر خفیہ طور پر کسی سے ملتا ہے تو یہ اور بات ہے.صحابہ اس امر کا اس قد ر لحاظ رکھتے ہی تھے کہ ایک دفعہ قیصر روم کا ایچی حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور چاہا کہ اسلام قبول کرے.انہوں نے اس سے صاف انکار کیا اور فرمایا اس وقت تم قیصر کے ایچی ہو.اس وقت تمہارا اسلام میں داخل ہونا بددیانتی ہوگا.واپس جا کر استعفیٰ دے کر آؤ تو پھر تم کو اسلام میں داخل کروں گا.پھر مصری صاحب کہتے ہیں کہ جماعت ایک آزاد کمیشن مقرر کرے مگر یہ معلوم نہیں اس سے ان کا مطلب کیا ہے.میں اس وقت تک ان کے اس مطالبہ کو لغو سجھتا ہوں مگر ممکن ہے ان کے ذہن میں کوئی ایسی صورت ہو جو ہمارے ذہن میں نہ ہو اور وہ ہمارے نزدیک بھی معقول ہو اس لئے میں ان سے ان کے ان الفاظ کے معنے پوچھنا چاہتا ہوں اور اس ضمن میں پہلی بات میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ:.پہلے خلفاء کے خلاف بھی بعض لوگوں نے شکایات کی ہیں اور بعض دفعہ ایسے مقدمات عدالتوں میں بھی سُنے گئے ہیں ،مصری صاحب بتائیں کہ ان کے فیصلوں کے لئے کس قسم کے کمیشن مقرر ہوئے تھے ؟ یا ان خلفاء کے اپنے مقرر کردہ قاضی ہی ان مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آزاد کمیشن مانگنا مصری صاحب کا ہی حق ہے یا اور کسی کا بھی ؟ کیا جب کوئی آکر کہے کہ خلیفہ کے متعلق آزاد کمیشن بٹھایا جائے یہ مطالبہ منظور ہو جانا چاہئے یا صرف اُس وقت جب مصری صاحب اس کا مطالبہ کریں؟ جس طرح پنجابی میں مثل مشہور ہے کہ جتھے میاں نور جمال او تھے مُردہ کھوتا وی حلال.غرض وہ بتائیں کہ ہر معترض آزاد کمشن طلب کر سکتا ہے یا صرف وہی ایسا کر سکتے ہیں.تیسرا سوال یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ آزاد کمیشن سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا مادر پدر آزاد یعنی دہریوں کا کمیشن وہ مانگتے ہیں یا ان کے نزدیک آزاد کمیشن وہ ہے جسے وہ مقرر کریں خلیفہ نہ مقرر کرے.اگر یہ دونوں مراد نہیں تو وہ بتائیں کہ ان کا مطلب کیا ہے.آیا وہ چاہتے ہیں کہ ساری جماعت کو دعوت دی جائے اور پھر ووٹ لئے جائیں کہ کون کون حج مقرر ہو.اور ہمیشہ کیلئے یہی طریق ہو کہ جب کوئی
خطبات محمود ۳۳۳ سال ۱۹۳۷ء الزام لگائے جماعت کو یہاں بلا لیا جائے اور ضمناً اس بات کا بھی وہ جواب دیں کہ ایسا کرنے پر پچاس ساٹھ ہزار بلکہ لاکھ روپیہ کا خرچ ہو گا وہ مصری صاحب دیں گے یا کون دے گا.پھر یہ ممکن ہے کہ کل کوئی اور اُٹھے اور کہے کہ مصری صاحب نے جو الزام لگائے تھے وہ غلط تھے اب میں یہ الزام لگا تا ہوں ان کی تحقیقات کی جائے اور ادھر لوگ مصری صاحب کے کمیشن سے فارغ ہو کر گھر پہنچیں اور اُدھر پھر تاریں چلی جائیں کہ خلیفہ پر ایک اور مقدمہ ہو گیا ہے فوراً چلے آؤ.اور پھر اس سے فارغ ہو کر جائیں تو کوئی اور ی کہہ دے کہ میں خلیفہ پر یہ الزام لگا تا ہوں اور لوگ ابھی بعض رستوں میں ہی ہوں اور بعض ابھی پہنچے ہی ہوں کہ پھر تاریں چلی جائیں کہ فوراً آ جاؤ پھر آزاد کمیشن بیٹھنے لگا ہے.پھر یہ بھی سوال ہے کہ آیا ہر الزام پر آزاد کمیشن چاہئے.یا آزاد کمیشن والے الزامات کی کوئی خاص نوعیت والے الزام ہی آزاد کمیشن کے حقدار ہوں گے تو اس نوعیت کا فیصلہ قرآن وحدیث کی کس سند کے ذریعہ کیا جائے گا.وہ یہ بھی بتائیں کہ آزاد کمیشن کا مطالبہ کرنے کا حق ان کو اگر حاصل ہے تو صرف اس دفعہ ہی یا جب وہ چاہیں جماعت سے اس کا مطالبہ کر لیں.اور اگر دوسروں کو بھی اس کا حق حاصل ہے تو انہیں بھی ایک ایک دفعہ عمر بھر میں یا جب اور جس وقت کوئی شخص آزاد کمیشن کا مطالبہ کرے فوراً آزاد کمیشن بیٹھ جانی چاہئے.اور یہ آزاد کمیشن جماعت کے اندر رہنے والے لوگ مانگ سکتے ہیں یا جماعت سے باہر کے لوگ بھی اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں.مثلاً پیغامی اور غیر احمدی اس بارہ میں مطالبہ کریں تو آیا ان کا یہ مطالبہ جائز سمجھا جائے گا یا نا جائز ؟ اگر جماعت سے باہر کے لوگوں کا یہ مطالبہ درست تسلیم نہ کیا جائے تو پھر مصری صاحب جو جماعت سے نکل چکے ہیں ان کو ایسا مطالبہ کرنے کا حق کہاں سے حاصل ہوا ہے اور اگر یہ قانون ہے کہ جو جماعت سے قریب زمانہ میں نکلا ہو ، وہ آزاد کمیشن کا مطالبہ کر سکتا ہے دوسرا نہیں.تو پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ کتنی د تک کا مرتد اس قسم کا مطالبہ کر سکتا ہے.پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ آزاد کمیشن سے مراد غیر احمد یوں کا کمیشن ہے یا احمدیوں کا یا مشترک؟ اگر مشترک مراد ہے تو کس کس نسبت سے احمدی اور غیر احمدی ممبر مقرر کئے جائیں گے اور انہیں کون مقرر کرے گا.اگر خلیفہ مقرر کرے گا تو پھر وہ بقول مصری صاحب آزاد نہ رہے گا اور اگر احمدی مقرر کریں گے تو پھر بھی آزاد کمیشن نہ رہے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی خلیفہ کو حق پر سمجھ رہے ہیں ور نہ مصری صاحب کے ساتھ ہی بیعت توڑ کر الگ ہو جاتے اور اگر وہ کہیں کہ نہیں احمدی بہ حیثیت حججی مقرر کرنے والے کے دیانتدار ہیں تو پھر غیر احمدی کمیشن کی کیا ضرورت رہی.پھر احمدی حج ہی کمیشن بن
خطبات محمود ۳۳۴ سال ۱۹۳۷ء سکتے ہیں.اسی طرح وہ یہ سوال بھی حل کریں کہ ان ممبران کمیشن کو اگر جماعت احمدیہ نے مقرر کرنا ہے تو کیا ساری جماعت کو اکٹھا ہو کر منتخب کرنا چاہئے یا الگ الگ جماعتیں ایسا انتخاب کریں.اور اگر ی غیر احمدیوں نے بھی کوئی حصہ منتخب کرنا ہے تو ان کے انتخاب کا کیا ذریعہ ہوگا.اور اگر آزاد کمیشن سے مراد یہ ہے کہ آدھے حج معترض تجویز کیا کریں اور آدھے خلیفہ وقت کیا کرے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر غیر احمدی جوں پر خلیفہ کو اعتبار نہ ہو تو کیا وہ حصہ بھی معترض ہی مقرر کر دیا کرے گا یا خلیفہ کو مجبور کیا جائے گا کہ ضرور کچھ غیر احمدیوں پر یا غیر مسلموں پر اعتبار کر کے ان میں سے حج مقرر کرو اور جب احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق دوسری اقوام اس کے ماتحت آجائیں گی تو اُس وقت غیر احمدی یا غیر مسلم بھی جانبدار نہ رہیں گے.اُس وقت آزاد کمیشن کیلئے ممبر کہاں سے لائے جائیں گے.آیا یہ کوشش کی جائے گی کہ کچھ حصہ دنیا کا بالکل آزاد رہے اور اسلامی حکومت میں داخل نہ ہو تا مصری صاحب کے ہم خیالوں کیلئے آزاد کمیشن کے ممبر ملتے رہیں.اور پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر آزاد کمیشن یہ کہے کہ مصری صاحب جھوٹے ہیں تو ان کو کیا سزا دی جائے گی.خلیفہ کیلئے تو یہ سزا ہوئی کہ وہ غیر احمدیوں کے کہنے پر خلافت سے معزول ہو جائے گا مگر اس کے مقابل پر مصری صاحب کیلئے کیا سزا ہوگی.آیا ان کیلئے صرف یہ کافی ہوگا کہ ہنس کر کہیں کہ چلو تو بہ کرتے ہیں یا کوئی اور سزا بھی ہوگی.پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر ان کے خلاف کمیشن فیصلہ کرے تو کیا وہ ان اس کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو جھوٹا کہیں گے؟ یا یہ کہیں گے کہ خلیفہ ہے تو بد کا رہی مگر کمیشن کی خاطر میں اسے مان لیتا ہوں.اگر اپنے آپ کو جھوٹا کہیں گے تو اس وقت وہ براہین کہاں جائیں گے جن کی وجہ سے خلافت سے روگردانی ان کیلئے جائز ہو گئی ہے.اگر پھر بھی وہ اپنے آپ کو حق پر ہی سمجھتے رہیں گے اور باوجود اس کے خلیفہ کی بیعت کرلیں گے ، تو آج آپ کو بیعت توڑنے کی کیا مجبوری پیش کی آئی تھی.یا آپ کا ارادہ یہ ہے کہ اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو قابل قبول ہوگا اور نہ نہیں.یہ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب دینا آزاد کمیشن کے مطالبہ سے پہلے ضروری ہے.اور امید ہے کہ مصری صاحب جلد ان کا جواب دے کر اپنے نقطۂ نگاہ کو واضح کر دیں گے.بہر حال ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ آزاد کمیشن کسے کہتے ہیں.اس کے فیصلہ کی پابندی ان کیلئے ضروری ہوگی یا نہیں.اسے کون مقر ر کرے، کس طرح کرے اور کس کس کو ایسا کمیشن مقرر کرانے کا حق ہے.
خطبات محمود ۳۳۵ سال ۱۹۳۷ء ایک سوال اور بھی ہے کہ اگر خلافت کے عزل کا سوال آزاد کمیشن سے طے کرایا جا سکتا ہے تو ی خلیفہ مقرر بھی کیوں غیر احمدیوں کی ایک کمیٹی سے نہ کروایا جائے.آخر میں میں ایک اور شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس فتنہ کو اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ مصری صاحب یا ان کے ساتھیوں کی حیثیت ہی کیا ہے.ایسے لوگوں کی واقفیت کیلئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسے اہمیت مصری صاحب کی حیثیت کی وجہ سے نہیں دی جاتی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ احراریوں ، مستریوں اور پیغامیوں کے نمائندہ ہیں.بلکہ شبہ ہے کہ بعض حکام سے بھی ان کے تعلقات ہیں.یا کم سے کم ان کے بعض ساتھی ایسا کہتے ہیں اور چونکہ بعض حکام نیز احرار اور پیغامیوں کی امداد ان کی پشت پر ہے اور وہ مل کر حملہ کر رہے ہیں ، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جماعتی طور پر اس فتنہ کا مقابلہ کریں اور اسے کچل دیں.احرار کے فتنہ نے ہمارے ایمانوں کو بیشک خراب نہیں کیا مگر ڈ نیوی طور پر تو انہوں نے ضرور دق کیا ہے.اسی کی طرح ان لوگوں کے متعلق خیال ہے کہ یہ سلسلہ کیلئے مشکلات نہ پیدا کریں.پھر اس کے علاوہ ہمارا فرض صرف یہی نہیں کہ احمدیوں کی حفاظت کریں بلکہ جن لوگوں کو ہم نے احمدی بنایا ہے ان کی حفاظت کرنا بھی ہمارا فرض ہے.یہ لوگ باہر ہمارے خلاف بہت پرو پیگنڈا کر رہے ہیں اور غیر احمدیوں میں اپنا ز ہر پھیلا رہے ہیں.کئی جگہ سے ہمارے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے ان کے اشتہار تقسیم کر نیوالوں سے مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمیں ہدایت ہے کہ آپ لوگوں کو نہ دیئے جائیں.پس ہماری جماعت چونکہ ایک تبلیغی جماعت ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ پورے زور کے ساتھ اپنی آواز کو ان لوگوں تک پہنچائیں جن کے دلوں میں یہ زہر بھرا جا رہا ہے.پھر اس کی وجہ بعض خواب بھی ہیں.جیسا کہ میں نے سُنایا تھا کہ میری ہمشیرہ کو خواب میں بتایا گیا کہ ان دنوں خاص طور پر رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ جائے.پھر ایک میرا اپنا خواب ہے جو سال گزشتہ میں چھپ چکا ہے کہ بعض منافق بھاگ کر بلوں میں ج کھس گئے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ تو خطر ناک بات ہے.ایسا نہ ہو یہ لوگ موقع پا کر پھر کسی وقت ہم پر حملہ کر دیں.پس منافق کا چونکہ پتہ نہیں ہوتا اس لئے اُس تک آواز پہنچانے کا بھی یہی طریق ہے کہ کی پورے زور کے ساتھ آواز بلند کریں تا وہ جہاں کہیں بھی چھپا بیٹھا ہو، ہماری آواز کو سن سکے.ہماری جماعت میں بھی بعض کمزور لوگ ہیں اور ان کو بچانا بھی ہمارا فرض ہے.یہ کہنا کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو صحیح
خطبات محمود ۳۳۶ سال ۱۹۳۷ء نہیں ان کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے.اور اس کے علاوہ ان لوگوں کا قاعدہ ہے کہ جن کو سزا ملے ان کے پاس پہنچتے ہیں کہ آپ پر بڑا ظلم ہوا ہے اور اس طرح جماعتی اخلاق کو بگاڑتے ہیں اور بدنظمی پیدا کرتے ہیں.اگر مجرموں کو ہم جماعت سے نہ نکالیں یا ان کو سزا نہ دیں تو پھر بھی اخلاق بگڑتے ہیں اور اگر سزا دیں تو وہ ان لوگوں کا شکار ہو سکتے ہیں اور چونکہ ایسے لوگوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے اس لئے کی ضروری ہے کہ اس قدر زور اور وضاحت سے خلافت کی اہمیت اور ایسے معترضین کی حماقت کو لوگوں پر ای واضح کر دیا جائے کہ ہر قسم کا آدمی خواہ کمزور ہو، خواہ مضبوط ان کے اندر شامل ہونے کو اپنی روحانی موت سمجھے.ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ یہ فری میسنوں کی طرح کی ایک خفیہ کی سوسائٹی ہے.ہماری جماعت میں آج تک کوئی خفیہ سوسائٹی قائم نہ ہوئی تھی.یہ پہلے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بیعت میں رہو، خدا کی قسمیں کھاؤ کہ ہم اپنی جانیں خلیفہ کیلئے قربان کر دیں گے مگر جب موقع پاؤ فتنہ پیدا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں ، اور ہلاک کرنے سے آپ کی جماعت کا قتل ہے یا خلافت کا قتل ہے اور ظاہر ہے کہ جس جماعت کے افراد میں منافقت بھر دی جائے اُس نے کام کیا کرنا ہے اور جس جماعت کو ی خلافت سے جُدا کر دیا جائے اس نے ترقی کیا کرنی ہے.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ظاہر کرتا ہے کہ فری میسنوں جیسی سوسائٹی بنے گی جو تجھے قتل کرنا چاہے گی اور گوالہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے گی.لیکن اس قدر عرصہ پہلے اس الہام کی کوئی اہمیت ہونی چاہئے اور وہ اہمیت ہی ہے کہ اس وقت مسلمان سابق اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی طاقت نہیں رکھتے.اس بارہ میں ادنی ابتلاء انہیں اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے.پس خدا تعالیٰ ہم کو ہوشیار کرتا ہے کہ ایسا قتل ممکن ہے گو ہم تم کو بچائیں گے لیکن تم کو ہوشیار ہو جانا چاہئے.پس ہمارا فرض ہے کہ اس فتنہ کا پوری طرح مقابلہ کریں اور جب تک اپنے ارد گرد اِن لوگوں سے محفوظ رہنے کیلئے چار دیواری نہ کھینچ لیں ، آرام سے نہ بیٹھیں.باہر کی جماعتیں ابھی اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتیں مگر میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر جماعت نے اس کے مقابلہ میں کوتاہی کی تو وہ خدا تعالیٰ کے
خطبات محمود ۳۳۷ سال ۱۹۳۷ء نزدیک مجرم ہوگی.دوستوں کا فرض ہے کہ اپنے ضروری کاموں سے بھی وقت نکال کر اور اپنی نیند کو بھی کم کر کے اور اپنے آرام کو بھی قربان کرنے اس فتنہ کا مقابلہ کریں اور جہاں ان کے اشتہار پہنچیں وہاں تک ضرور اپنی آواز پہنچا کر ان کے زہر کا ازالہ کریں.تا یہ لوگ جماعت احمدیہ کی ترقی میں روک نہ پیدا کی کر سکیں اور تا نظام سے بغاوت کی روح احمد یہ جماعت میں سے ہمیشہ کیلئے کچلی جائے اور شیطان پھر اس سوراخ میں سے احمدیت کی جنت میں داخل نہ ہو سکے.مبارک ہیں وہ جو وقت کو پہچانتے ہیں اور سیلاب سے پہلے سیلاب کا راستہ روکتے ہیں اور حق کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مقدس فوج میں شامل ہوتے ہیں.وہی ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کے دائیں طرف اُس کے عرش پر جگہ پائیں گے.کیونکہ وہ اسلام کے قلعہ کی فصیلوں کے محافظ ہیں اور آسمانی خزانہ کے پہرہ دار.جب تک وہ اور ان کے شاگرد دنیا میں زندہ رہیں گے احمدیت بھی زندہ رہے گی اور جب ان کی شاگردی کا دروازہ بند ہوگیا دنیا پھر تاریکی اور کفر کی طرف لوٹ جائے گی.وَاللهُ الْمُعوّد النساء: ۹۵ الحجرات: ۷ الفضل ۷ اگست ۱۹۳۷ ء ) بخاری کتاب الفتن باب قول النبي الا الله سترون بعدی اموراً (الخ) تذکرہ صفحه ۴۴۱.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۳۳۸ ۲۵ سال ۱۹۳۷ء کیا خطبہ جمعہ پر بھی دفعہ ۱۴۴ عائد ہوتی ہے؟ فرموده ۱۳ اگست ۱۹۳۷ء بمقام قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں خطبہ کیلئے تیاری کر کے آرہا تھا کہ خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے پیغام بھیجا کہ میں ایک ضروری امر کے متعلق کچھ بات کرنی چاہتا ہوں.میں جب باہر آیا تو خانصاحب نے بتایا کہ مجھے کی مجسٹریٹ علاقہ نے ابھی بلوایا تھا اور جب میں گیا تو کہا کہ آج آپ کا جمعہ ہوگا ؟ اس میں کس کس کی تقریریں ہوں گی ؟ میرے جواب دینے پر کہ ہمارے ہاں تو خطبہ ہی ہوتا ہے اور وہ حضرت صاحب پڑھاتے ہیں.فرمایا کہ میں یہاں دفعہ ۱۴۴ نافذ کر چکا ہوں اور اس کے ماتحت جمعہ کا اجتماع بھی آتا ہے.مگر میں اس کی اجازت دے دیتا ہوں بشرطیکہ خالص مذہبی مضمون ہو.میرے کہنے پر کہ ڈی.سی صاحب نے حضرت صاحب سے خواہش کی تھی کہ لوگوں کو پُر امن رہنے کی تلقین کر دیں اور حضرت صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ میں اس جمعہ پر ایسا کرنے کا پہلے ہی ارادہ رکھتا ہوں.کہا کہ اچھا میں اس کی اجازت دیتا ہوں.مگر اسکے سوا مرتدین کے متعلق اور کچھ نہ کہیں.خانصاحب کہتے ہیں کہ میں نے مجسٹریٹ صاحب سے کہہ دیا کہ میں یہ پیغام پہنچا دوں گا.اس پیغام سے ظاہر ہے کہ مجسٹریٹ صاحب کے نزدیک مسلمانوں کی عبادت بھی گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت ہے.لیکن چونکہ ہمارا دین ایک خدا کا دین ہے گورنمنٹ کا نہیں اس لئے میں خطبہ گورنمنٹ کی اجازت کے ماتحت پڑھنے کیلئے تیار نہیں ہوں اس لئے آج میں صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت
خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۷ء پر ہی کفایت کرتا ہوں اور ۱۴۴ کے نفاذ تک قانون کا احترام کرتے ہوئے عربی خطبہ پر ہی کفایت کیا کروں گا یہاں تک کہ گورنمنٹ کے ساتھ کوئی فیصلہ ہو جائے.ہاں چونکہ مجھ سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے خواہش کی تھی کہ میں امن کے قیام کے متعلق ا.خیالات اچھی طرح جماعت پر واضح کر دوں تا کہ لوگوں میں خلاف آئین جوش پیدا نہ ہو.میں اس بارہ میں وعدہ پورا کرنے کیلئے اتنا کہہ دیتا ہوں کہ جیسا کہ میں اس سے پہلے اتوار کے دن اعلان کر چکا ہوں اگر کسی احمدی نے کوئی چھوٹا یا بڑا افساد کیا تو میں اُسے کلّی طور پر اور فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا.بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے اطلاع نہ ہوئی تھی.یا یہ کہ جو پہلا اعلان ہو اتھا امور عامہ نے شاید اپنے پاس سے بنالیا ہو.اب میں نے اپنی زبان سے آپ لوگوں تک یہ بات پہنچا دی ہے اور اب آپ کا اختیار ہے کہ عمل کر کے جماعت میں رہیں یا اس کو رڈ کر کے جماعت سے نکل جائیں.کیا آپ لوگوں نے یہ بات ہے سن لی ہے؟ ( سب نے بآواز بلند عرض کیا کہ سن لی ہے ).پس میں اس بات پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور ۱۴۴ کے نفاذ تک خطبہ میں صرف عربی آیات پر کفایت کروں گا جب تک کہ گورنمنٹ کے ساتھ فیصلہ نہ ہو جائے.(الفضل ۱۵ اگست ۱۹۳۷ء)
خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۳۷ء خطبات جمعہ کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی (فرموده ۲۰ /اگست ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مجھے آکر مجسٹریٹ صاحب علاقہ کا یہ پیغام دیا تھا کہ جمعہ کا خطبہ بھی دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت آتا ہے.لیکن یہ کہ وہ خطبہ پڑھنے کی اجازت دے دیتے ہیں بشرطیکہ کوئی بات اس میں اس قسم کی نہ آئے جو موجودہ واقعات کے متعلق ہو اور جس سے کسی قسم کی شورش پیدا ہونے کا خطرہ ہو.میں نے اس پر یہ بیان کیا تھا کہ یہ کہنا کہ جمعہ کا خطبہ بھی دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت آتا ہے، چاہے اس کے بعد مجسٹریٹ صاحب یہ کہہ دیں کہ میں خطبہ کے پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں ، مذہب میں دست اندازی ہے اور یہ کہ جب تک گورنمنٹ کے ساتھ کوئی فیصلہ نہ ہو جائے میں مجسٹریٹ صاحب کی اجازت کے ماتحت خطبہ پڑھنے کیلئے تیار نہیں ہوں بلکہ دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ تک قانون کا احترام کرتے ہوئے صرف عربی کلمات پر ہی کفایت کروں گا.لیکن اُسی دن خان صاحب سے مجسٹریٹ صاحب علاقہ کی جب دوبارہ گفتگو ہوئی تو انہوں نے خانصاحب سے ذکر کیا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ کہ میرا اس سے وہ منشاء نہ تھا جو آپ نے سمجھا.چنانچہ بعد میں ان کی طرف سے ایک تحریر بھی آئی جس میں انہوں نے لکھا کہ میرا وہ منشاء نہ تھا جو آپ لوگوں نے سمجھا بلکہ میرا منشاء صرف اتنا تھا کہ خطبہ میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو موجودہ شورش کو زندہ رکھنے والی ہو.پس چونکہ انہوں نے خود اس کی ایک ایسی تشریح کی ہے جو ان معنوں کو بالکل بدل دیتی.
خطبات محمود ۳۴۱ سال ۱۹۳۷ء جن پر مجھے اعتراض تھا ، اس لئے میں نے اس وجہ کو تسلیم کرتے ہوئے آج ارادہ کیا ہے کہ میں اپنا خطبہ حسب سابق بیان کروں.خطبات کے متعلق ہماری جماعت کی پالیسی ہمیشہ غیر مہم رہی ہے.جب کانگرس کا شور تھا یا ہجرت کا شور تھا یا بعض اور شور گورنمنٹ کے خلاف بپا تھے اُس وقت بعض لوگ مساجد کو اس رنگ میں استعمال کیا کرتے تھے کہ وہ خطبات میں گورنمنٹ کے خلاف وہ کچھ کہہ جاتے جو دوسرے موقعوں پر کہنے سے ڈرتے تھے.اُس وقت میری طرف سے بھی اور ہماری جماعت کی طرف سے بھی گورنمنٹ کی حمایت کی کی جاتی اور کہا جاتا تھا کہ خطبات کو پولیٹکل تقریروں کا ذریعہ بنالینا درست نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم کی زندگی ساری کی ساری مذہبی ہوتی ہے اور اسلام سیاسیات کا بھی جامع ہے اور اقتصادیات کا بھی کی جامع ہے، معاملات کا بھی جامع ہے اور مدنیت لے کا بھی جامع ہے ، اخلاقیات کا بھی جامع ہے اور فلسفہ کا بھی جامع ہے،عقلیات کا بھی جامع ہے اور مذہب کا بھی جامع ہے.غرض ہر چیز اس میں پائی جاتی ہے اور عام حالات میں خطبات میں سیاسی باتیں بیان کرنا مناسب نہیں ہیں.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ ایک منظم حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے خطبات کو ذریعہ بنا لینا فساد اور جھگڑے کا، یہ بھی درست نہیں.یہ وہ باتیں جو ہم پہلے کہا کرتے تھے اور یہ وہ باتیں ہیں جو آج بدل نہیں گئیں.پس جن حالات میں ہم 6% لوگوں پر اعتراض کیا کرتے تھے اگر انہی حالات میں ہم بھی وہی حرکت کریں تو یقینا ہم مجرم قرار پائیں گے.پس اگر کسی مصلحت کے ماتحت کسی ایسے مسئلہ میں جو خالص مذہبی نہ ہو حکومت کا کوئی افسر قانون کے ماتحت اور اپنے جائز اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے خطیب کو یہ ہدایت دے دے کہ وہ فلاں مضمون کے متعلق کچھ بیان نہ کرے تو یقیناً ہم اسے حق پر سمجھیں گے.لیکن خطبہ کو بحیثیت خطبہ اگر کوئی افسر قانون کے تابع کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کی بات کو ماننے کیلئے ہر گز تیار نہیں کیونکہ یہ مذہبی دست اندازی ہوگی.اسی طرح اگر خطبات کو بالکل آزاد کر دیا جائے یا مذہبی عبادت گاہوں میں ہر قسم کی تقریروں کی آزادی دے دی جائے تو یقیناً مذہبی عبادت گاہیں جھگڑے اور فساد کا مرکز بن جائیں گی حالانکہ وہ جھگڑے اور فساد کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی یاد کا مرکز ہوتی ہیں.یہ وہ اصل ہے جسے ہم ہمیشہ پیش کرتے رہے ہیں اور اب بھی ہم اسے کھولے ہوئے نہیں.اور یہ نہیں ہو سکتا کہ جب دوسروں کا معاملہ ہو تو ہم اس پر اعتراض کریں لیکن جب اپنا معاملہ آجائے تو قابلِ اعتراض بات کو جائز قرار دے لیں.پس اگر حکومت بعض
خطبات محمود ۳۴۲ سال ۱۹۳۷ء مصالح کے ماتحت کسی ایسے مسئلہ کو جو خالص مذہبی نہ ہو کسی وقت خطبات سے الگ کر دے اور ہدایت کر دے کہ خطبہ میں اس کا ذکر نہ آئے تو یہ اُس کا ایک جائز حق ہوگا.لیکن اگر وہ یہ کہے کہ خطبہ ہی قانون کی زد میں آتا ہے تو ایسی حکومت نہایت ہی بیوقوف ہوگی جو مجرم کو اُس کی معتین حد تک روکنے کی بجائے مذہب میں دست اندازی شروع کر دے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے اپنی بات کی تشریح کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ خطبہ میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو.گو ہمارے نقطہ نگاہ سے ان کی یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی اشتعال پیدا نہیں کرتے.یہ ہمارے دشمنوں کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں کہ ہم لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں لیکن بہر حال اگر ایک افسر ہمیں ایسی ہدایت دیتا ہے تو ہم اس ہدایت کو اس کے کی دائرہ اختیار کے اندر سمجھیں گے گوہم یہ ضرور کہیں گے کہ اسے ہماری طبیعت کا علم نہیں.اسے با وجود اس علاقہ میں رہنے کے ہمارے حالات ، ہمارے اعمال اور ہمارے عقائد سے کوئی واقفیت نہیں.اس نے ہمارے متعلق دشمنوں کی بعض باتوں کو سنا اور ان پر یقین کر لیا مگر ہم اُس کی ہدایت کو غیر قانونی نہیں کہہ سکتے اور حکومت کا یہ حق ہے کہ اگر کوئی بات فساد اور شرانگیزی کا موجب ہو تو چاہے وہ بات خطبہ میں ہی بیان کی جانے والی ہو اس حصہ کے متعلق حکم دے دے کہ وہ بات خطبہ میں بیان نہ کی جائے.اس کے بعد میں آج کے خطبہ کا مضمون لیتا ہوں.چار پانچ دن کی بات ہے میں نے لاہور کا ایک اخبار جس کا نام ”احسان ہے پڑھا اور اتفاقی طور پر اُس کے ایک نوٹ پر میری نظر جا پڑی یا شاید دفتر نے اُس نوٹ پر نشان لگا کر میرے پاس بھجوایا تھا اس معاملہ کے متعلق میرا ذہن پورے طور پر صاف نہیں بہر حال’احسان کا جو نوٹ تھا اُس میں یہ لکھا تھا کہ لائل پور کے کسی احمدی نے کہا ہے کہ ہم خدا کے بعد مرز امحمود کو ہی سمجھتے ہیں.اس نے یہ فقرہ درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم پہلے بھی مرزا محمود احمد کوکی اس طرف توجہ دلا چکے ہیں ( گو میری نظر سے اس کا اس سے پہلے کوئی نوٹ نہیں گزرا ).مگر انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور غالباً ساتھ ہی اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیں گے کیونکہ ان کا عقیدہ یہی ہے اور باوجود اس عقیدہ کے یہ لوگ جھوٹے طور پر رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں.میں جیسا کہ بیان کر چکا ہوں احسان" کا پہلا نوٹ میری نظر سے نہیں گزرا اور کسی کی اخبار کا خواہ وہ کتنی ہی وسیع اشاعت رکھتا ہو یہ سمجھ لینا کہ جس کے متعلق اس میں کوئی نوٹ لکھا گیا ہے اس کی
خطبات محمود ۳۴۳ سال ۱۹۳۷ء نے اس نوٹ کو ضرور پڑھ لیا ہوگا سخت غلطی ہے.ہمارے ہندوستانی اخبارات کی توسیع اشاعت ہوا ہی نہیں کرتی مستقل خریدار سات آٹھ سو یا ہزار ہوتے ہیں اور ہنگامی طور پر بعض دفعہ دو اڑھائی ہزار تک ان کی اشاعت ہو جاتی ہے.شاذ و نادر کے طور پر بعض ہندوستانی اخبارات ایسے ہوئے ہیں جن کی خریداری پانچ سات ہزار تک پہنچی ہے.مگر یہ خریداری بھی عارضی ثابت ہوئی ہے اور پھر خریداری گھٹی کر ہزار دو ہزار تک پہنچ گئی ہے.لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ ایک اخبار کی اشاعت ہزار دو ہزار نہیں ، پانچ ہزار ہے یا دس ہزار ہے یا نہیں ہزار ہے یا پچاس ہزار بلکہ لاکھ دو لاکھ حتی کہ دس لاکھ بھی ہے پھر بھی اُس اخبار کا یہ فرض کر لینا کہ جس کے متعلق کوئی نوٹ لکھا گیا ہے وہ ضرور اُس تک پہنچ گیا ہوگا اور اُس نے پڑھ لیا ہو گا، عقل سے بعید بات ہے اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر متعلقہ شذرہ پر نشان لگا کر اُس شخص کو بھجوا دیا جائے جس سے اس کے جواب کا مطالبہ کیا جاتا ہے.پس جب کو ئی شخص کسی سے جواب کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس مضمون یا نوٹ پر نشان لگا کر بھیج دے اس کے بغیر یہ امید کر لینی کہ میرا پر چہ پہنچ گیا ہوگا اور پھر نوٹ بھی پڑھ لیا گیا ہوگا ، بالکل خلاف عقل بات ہے.میں اپنے اخبارات کو بھی اس موقع پر یہ ہدایت دیتا ہوں کہ جب وہ اپنے مضمون میں کسی سے جواب کا مطالبہ کریں تو وہ اس اخبار پر نشان لگا کر اس شخص کو بھجوا دیا کریں جس سے جواب کا مطالبہ کیا گیا ہو.بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اخبار رجسٹری کر کے بھجوایا کریں تا کلی طور پر یہ اطمینان ہو جائے کہ پرچہ اسے پہنچ گیا ہوگا اور اگر ہمارے اخبار بھی کسی کے متعلق نوٹ تو لکھیں لیکن پر چے پر نشان لگا کر اور رجسٹری کرا کر اُسے نہ بھیجیں اور پھر کہیں کہ اس نے جواب نہیں دیا تو میں سمجھوں گا کہ وہ حق پر نہیں.کیونکہ یہ امیدی کرنی کہ ہر مخالف "الفضل کا ایک ایک حرف پڑھتا ہے بالکل خلاف عقل بات ہے.اسی طرح میں دوسروں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ ہم میں سے کسی کے متعلق کوئی نوٹ لکھیں تو اُس اخبار کو رجسٹری ہے کرا کے اُس شخص کے پاس بھیج دیا کریں.وہ اگر مناسب سمجھے گا تو جواب دے دے گا اور اگر نہیں سمجھے گا تو نہیں دے گا.بہر حال وہ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنا مضمون پہنچا دیا تھا.گوجیسا کہ میں نے بتایا ہے جواب دینے والا اس بات پر مجبور نہیں ہوتا کہ ہر بات کا جواب دے کیونکہ بعض باتوں کا جواب خاموشی ہی ہوتا ہے.جیسے کہتے ہیں جواب جاہلاں خموشی باشد لیکن کم سے کم جب صحیح طریق پر سوال پہنچا دیا
خطبات محمود ۳۴۴ سال ۱۹۳۷ء جائے تو انسان اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے.احسان کے اس نوٹ کا مطلب یہ ہے کہ اول تو اس لائکپوری دوست کے نزدیک اور پھر تمام احمدیوں کے نزدیک میری حیثیت ( نَعُوذُ بِاللهِ ) رسول کریم ﷺ اور تمام انبیاء سے زیادہ ہے.اگر تو یہ نوٹ احسان نے ناواقفیت کی وجہ سے لکھا ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ کسی ایک فقرہ کوسن کر بغیر اس کے کہ اس کے مَا سَبَق اور مابعد کو دیکھا جائے یا اس ماحول کو دیکھا جائے جس میں وہ فقرہ کہا گیا ہے کوئی معنے کر لینا عقل کے بالکل خلاف ہوتا ہے.احسان“ کے نوٹ لکھنے والے کو چاہئے تھا کہ وہ یہ نوٹ لکھنے سے قبل ہماری تحریرات کو دیکھتا اور یہ معلوم کرتا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا تو درجہ دیتے ہیں اور اگر اس نے جانتے اور بوجھتے ہوئے یہ نوٹ لکھا ہے تو میرا جواب سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ مذہبی امور میں اور خصوصاً ایک ایسے معاملہ میں جو تمام لوگوں کی جانوں اور ان کی زندگیوں کی سے قیمتی اور بہت زیادہ قیمتی ہے ایسے بے تحقیق اور غیر ذمہ دارانہ نوٹ لکھنے کسی شریف اخبار کا شیوہ نہیں ہوسکتا.میں نہیں جانتا کہ اس لائل پوری احمدی نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا.کیونکہ ہمارے سامنے ان کا نام پیش نہیں کیا گیا.یا کم از کم اس شذرہ میں نہیں تھا جو میں نے پڑھا.اگر پہلے کے کسی نوٹ میں ان کا نام آیا ہو تو مجھے علم نہیں.پھر ساری تفصیلی گفتگو وہاں نہیں تھی جس سے ہم کوئی صحیح نتیجہ نکال سکیں مگر جس قدر باتوں کا وہاں ذکر تھا اس سے ایک نتیجہ ہم ضرور نکال سکتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اس پر بھی وہ اعتراض عائد نہیں ہوسکتا جو احسان نے کیا ہے.یہ بالکل صاف بات ہے کہ خلیفہ نائب اور کی ماتحت ہوتا ہے اپنے متبوع کا.اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روحانی خلیفہ ہیں آنحضرت ﷺ کے.اس لئے وہ بالواسطہ رسول کریم ﷺ کے بھی خلفاء ہیں تو جبکہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں خلیفہ امسیح ہوں اور جس کا میں خلیفہ ہوں اُس کا یہ دعویٰ ہے کہ میں غلام محمد ہوں تو ان دو دعووں کے بعد کوئی احمدی یہ کس طرح خیال کر سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا کوئی خلیفہ چاہے میں ہوں یا کوئی اور اتنا بلند درجہ رکھتا ہے کہ ( نَعُوذُ بِاللهِ ) رسول کریم ﷺ سے بھی وہ بڑا ہے اور خدا کے بعد اگر کسی کا درجہ ہے تو اسی کا.اور کیا ان دو دعوؤں کی موجودگی میں کوئی بھی عقل مند اس خیال کو صحیح تسلیم کر سکتا ہے؟ کیا ایک ہی
خطبات محمود ۳۴۵ سال ۱۹۳۷ء منہ سے کوئی شخص کہ سکتا ہے کہ میں فلاں کا نوکر ہوں اور یہ کہ میں اپنے آقا سے بڑا ہوں.جب ایک شخص یہ کہتا ہو کہ میں فلاں کا نوکر ہوں تو اس پر اگر کوئی دوسرا یہ الزام لگائے کہ یہ اپنے آقا سے بڑا ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اس الزام کو ون عقلمند تسلیم کر سکتا ہے.اور یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ ایک طرف وہ کہے میں فلاں کا نوکر ہوں اور دوسری طرف کہے میں اس سے بڑا ہوں.جب وہ نوکر ہے اور اس کا اقرار ہے کہ کی میں نوکر ہوں تو پھر چونکہ نوکر آقا سے بڑا نہیں ہو سکتا اس کا دعوی یہی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے آپ کو آقا سے ادنی سمجھتا ہے.اسی طرح خلفاء کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کا نام دنیا میں روشن کریں.پس ان کا رتبہ ظلی رتبہ اور ان کی بڑائی ظلی بڑائی ہوتی ہے.غرض ہماری تمام عزت یعنی خلفاء کی اور ہماری ہر ایک بڑائی اور ہماری ہر ایک خوبی اسی میں ہے کہ ہم اپنے آقا اور مطاع کا نام دنیا میں روشن کریں اور جتنی زیادہ ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت صلى الله.کریں ، جتنا زیادہ ہم رسول کریم ﷺ کا نام دنیا میں روشن کریں اور جتنا زیادہ ہم رسول کریم ہی ہے درجہ دنیا میں بلند کریں اُسی قدر زیادہ ہماری ذمہ داری پوری ہوتی ہے اور اسی میں ہماری عزت ہے.پس جبکہ ہمارے رتبہ کی بلندی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ رسول کریم ﷺ کے تابع ہیں تو پھر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہمیں ( نَعُوذُ باللهِ ) رسول کریمہ سے بھی بلند درجہ رکھنے کا دعوی ہے ، اس سے زیادہ غیر معقول بات اور کیا ہو سکتی ہے.ہاں ایک صورت ہے اور اگر کسی احمدی نے کوئی بات کہی ہوگی تو یقینا انہی معنوں میں کہی ہوگی.یعنی اُس نے یہ کہا ہوگا کہ خدا تعالی کے بعد اس زمانہ کے لوگوں میں سے خلیفتہ اسیح ہمارے نزدیک سب سے بڑے ہیں.اور اگر کسی احمدی نے ان معنوں میں فقرہ کہا ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ اُس نے بالکل درست کہا ہے.کیونکہ اپنے زمانہ میں جماعت کا امام یقیناً تمام دنیا سے بزرگ ہوتا ہے.اس صورت میں الفاظ کو ان معانی کا رنگ دے دینا جو کہنے والے کے منشاء کے سخت خلاف ہوں سخت ظالمانہ بات اور تقویٰ کے بالکل خلاف فعل ہے.یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اور غیر احمدیوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے.یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اور عیسائیوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے.یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اور یہودیوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے.یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اور ہندوؤں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے.مگر باوجود ان تمام اختلافات کے ایک چیز ہے جس کی سب سے اُمید کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم انصاف سے کام لیں، سچ بولیں اور شریفانہ طور پر کلام
خطبات محمود ۳۴۶ سال ۱۹۳۷ء کریں.انصاف سچائی اور شرافت یہ ورثہ مسلمان کا نہیں ، یہ ورثہ ایک عیسائی کا نہیں ، یہ ورثہ ایک یہودی اور ایک ہندو کا بھی نہیں بلکہ انصاف ، صداقت اور شرافت کی امید ایک مسلمان سے بھی اُسی طرح کی جاتی ہے جس طرح ایک ہندو سے.اور انصاف، صداقت اور شرافت کی امید ایک عیسائی سے بھی ا طرح کی جاتی ہے جس طرح ایک یہودی سے.خدا کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو.عبادت کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو ، بعث بعد الموت کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو ؟ فرشتوں کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو.غرض مذہب کی تمام جزئیات میں اگر اختلاف ہو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ مذہب کے اختلاف کے معنے یہی ہیں کہ عقائد میں بھی اختلاف ہے.لیکن انصاف ، شرافت اور سچائی کے متعلق ساری دنیا متحد الخیال ہے.ایک ہندو کے نزدیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک مسلمان کے نزدیک.اور ایک عیسائی کے نزدیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک یہودی کے نزدیک.اسی طرح ایک سکھ کمیز دیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک جینی کے نزدیک.اور ایک جینی کے نزدیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک پارسی کے نزدیک.کیونکہ مذہبی اختلاف سے مذہب تو بدل جاتا ہے لیکن انسانیت نہیں بدلتی.پس یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو مشترک ہے اور ہم میں سے ہر شخص کو یہ پابندی کرنی چاہئے کہ وہ اس میں سے اپنا اپنا حصہ لے.ایک بت پرست کہ سکتا ہے کہ میں توحید کا قائل نہیں ، تو حید اگر خزانہ ہے تو مسلمانوں کا میرا نہیں.ایک قیامت کا منکر کہہ سکتا ہے کہ قیامت اگر خزانہ ہو گا تو ان کا جنہیں قیامت پر یقین ہے میرا اس میں حصہ نہیں کیونکہ میرے باپ دادا سے مجھے یہ خزانہ ورثہ میں نہیں ملا.ایک فرشتوں کا منکر کہ سکتا ہے کہ تمہیں فرشتوں کا وجود مبارک ہو میرے باپ دادا نے فرشتوں کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا پس یہ اگر خزانہ ہے تو تمہارا ہے میرا نہیں.مگر کیا کوئی ہندو کہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیں کیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے نہیں ملیں.یا کیا ایک یہودی کہہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیں کیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے نہیں ملیں.یا کیا کوئی عیسائی کہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیں کیونکہ یہ ای چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے نہیں ملیں.یا کیا ایک مسلما نکہہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت
خطبات محمود ۳۴۷ سال ۱۹۳۷ء میں میرا کوئی حصہ نہیں کیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے بطور ورثہ نہیں ملیں.اگر ان میں سے کوئی نص یہ بات نہیں کہ سکتا تو انسان خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو اُس کا اولین فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ صداقت ، شرافت اور انصاف کو نہ چھوڑے.وہ دشمنی کرے اور جتنی چاہے کرے مگر شرافت کے صلى الله پہلو کو ترک نہ کرے.لڑائی کرے اور جتنی چاہے کرے مگر عداوت میں انصاف کے پہلو کونہ بھولے.کچھ بھی بن جائے وہ انسان کا بچہ ہے، وہ کچھ بھی بن جائے وہ صادقوں کی اولاد میں سے ہے.پھر یہ کتنے کی افسوس کی بات ہے کہ ایک اخبار کا ایڈیٹر جس کی ذمہ واری یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں اچھے اخلاق قائم کرے وہ شرافت ، انصاف اور صداقت کو ترک کر کے ایک ایسا حملہ کرے جس میں ایک ذرہ بھی سچائی نہ پائی جاتی ہو.اور ہمارا تو یہ دعوئی ہو کہ ہم رسول کریم ﷺ کے غلاموں کے بھی غلام ہیں اور وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں ، اس سے زیادہ جھوٹ اور اس سے زیادہ غلط بات اور کیا ہو سکتی ہے.ہاں یہ ایک سچائی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدہ کی رو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لئے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہوگا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناً اسے ” بعد از خدا بزرگ توئی کہہ سکتے ہیں.مگر اس کے یہ معنی نہیں ہونگے کہ وہ نَعُوذُ بِاللهِ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا ہے یا نَعُوذُ بِاللہ درجہ میں رسول کریم ﷺ کے برابر ہے.کیونکہ ہماری تمام عزت ، ہماری تمام بڑائی ، ہماری تمام ترقی اور ہمارا تمام اعزاز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر ایں بخدا سخت کافرم بود صلى الله یعنی اے مسلمانو ! میری زندگی کا ماحصل کیا ہے یہی کہ میں خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ہے کی عزت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں مگر تم با وجود ان باتوں کو دیکھنے کے مجھے کافر کہتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں میرے اندر کفر کی وجہ یہی نظر آئی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کا درجہ صلى الله لوگوں میں قائم کرنا چاہتا ہوں.لیکن اگر میرا یہ فعل جرم ہے تو پھر میں یقیناً مجرم ہوں.بلکہ اس سے بھی
خطبات محمود ۳۴۸ سال ۱۹۳۷ء بڑھ کر مجرم ہوں جتنا تم مجھے سمجھتے ہو.اور اگر گفر اسی کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ہی کی محبت دل میں پائی جاتی ہو اور آپ کا عشق رگ وریشہ میں سرایت کر چکا ہو تو پھر خدا کی قسم ! میں اس سے بہت زیادہ کا فر ہوں جتنا تم مجھے سمجھتے ہو.یہی عقیدہ ہمارا ہے بلکہ ہم میں سے ہر احمدی کا یہی عقیدہ ہے اور جو شخص اس عقیدہ سے ذرہ بھر بھی اِدھر اُدھر ہو جائے وہ احمدی نہیں رہ سکتا.کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال محمد ﷺ کی کامل اطاعت میں ہے.اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کے پر ہمارا کامل یقین وایمان ہے.یہ قرآن کی آیت ہے اور جو شخص قرآن کو مانتا ہو وہ اس آیت کے ماتحت لازمی طور پر یہ عقیدہ رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان رسول کریم ﷺ کی متابعت میں فنا ہو جائے.لطیفہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود رسول کریم ﷺ کی عملا بہتک کرتے ہیں مگر الزام ہم پر لگاتے ہیں کہ گویا ہم ( نَعُوذُ بِالله ) رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.گو عقیدہ ہم ان کے متعلق بھی یہ نہیں سمجھتے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں.کیونکہ کوئی شخص مسلمان کہلاتے ہوئے دانستہ رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیں کر سکتا.مگر بعض دفعہ انسان غلطی سے نادانستہ طور پر ہتک کا مرتکب ہو جاتا ہے.یہی حال ان کا ہے.وہ بھی گو عقیدۃ رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیں کرتے مگر عملاً آپ کی ہتک کرتے ہیں.چنانچہ ان کا ای عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور رسول کریم وہ فوت ہو کر زمین میں دفن ہو چکے ہیں.اب یہ صاف بات ہے کہ جو نبی آسمان پر اپنے جسد عنصری کے ساتھ زندہ موجود ہو اور دنیا کے فسادات کو مٹانے اور دین کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے اُسی نے آخری زمانہ میں اتر نا ہوا اور پھر نبی بھی وہ مستقل ہو یعنی رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور پیروی سے اس نے مقام نبوت حاصل نہ کیا ہو اور نہ اُس کا کام رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہو سکتا ہو وہ بہر حال اُس نبی سے بڑا ہو گا جو زمین میں دفن ہے.تو یہ لوگ عملاً رسول کریم ﷺ کی بہتک کرتے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو آپ کے سے افضل قرار دیتے ہیں مگر ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت یہ یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کے غلام ہیں اور آپ نے جو درجہ بھی حاصل کیا وہ رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور غلامی سے حاصل کیا پس آپ رسول کریم ﷺ کے شاگرد ہیں.اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ شاگرد جو بھی کام کرتا ہے وہ اُس کے اُستاد اور آقا کی طرف منسوب ہوتا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ
خطبات محمود ۳۴۹ سال ۱۹۳۷ء صلى الله رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں اس سے بہت زیادہ فتوحات تھیں جو ان حضرت ابو بکر کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئیں اور پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ اس سے بہت زیادہ تھیں جو حضرت ابو بکر کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئیں.مگر باوجود ملک کے دائرہ کی وسعت کے اور باوجود اُن افراد کی کثرت کے جن پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے حکومت کی کیا کوئی احمق کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رسول کریم ہے سے بڑے تھے پس با وجود اس کے کہ حضرت ابو بکر کی حکومت اس سے بہت زیادہ علاقہ پر تھی جتنے علاقہ پر رسول کریم کی حکومت تھی اور باوجود اس کے کہ حضرت ابو بکر کو ان سے بہت زیادہ افراد پر حکومت حاصل تھی جتنے افراد پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکومت حاصل تھی.اسی طرح با وجود اس کے کہ حضرت عمرؓ کو اس سے بہت زیادہ علاقہ اور بہت زیادہ افراد پر حکومت حاصل تھی جتنے علاقہ یا جس قدر افراد پر رسول کی کریم ﷺ یا حضرت ابو بکر نے حکومت کی.پھر بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ سے بڑے تھے.اسی لئے کہ ابوبکر ، ابو بکر کہاں سے بنتا اگر وہ رسول کریم ﷺ کا غلام نہ ہوتا اور عمر عمرؓ کہاں سے بنتا اگر وہ رسول کریم ﷺ کا غلام نہ ہوتا.بیشک حضرت ابو بکر نے اسلام کیلئے ایک وسیع علاقہ فتح کیا اور پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگوں پر حکومت کی مگر جو لوگ آپ کے تابع ہوئے وہ کن فوجوں سے فتح ہوئے تھے؟ انہی فوجوں سے جو رسول کریم اللہ نے تیار کی تھیں.اور بیشک حضرت عمر نے اس سے بھی زیادہ علاقہ پر حکومت کی اور اس سے بھی زیادہ افراد حلقہ بگوش اسلام بنائے مگر سوال ی یہ ہے کہ کیا عمر نے کوئی اپنی فوجیں تیار کر لی تھیں؟ حضرت عمرؓ نے وہی فوجیں لیں جو محمد ﷺ نے تیار کی تھیں اور اُسی سامان اور اُسی ایمان سے کام لیا جو سامان اور ایمان رسول کریم علیہ نے تیار کیا تھا.وہی قربانی ، وہی ایثار ، وہی اخلاص اور وہی محبت کا جذبہ جو رسول کریم ﷺ نے لوگوں کے قلوب میں پیدا کیا تھا ، اُسی کو حضرت عمرؓ نے لیا اور اُن چیزوں کو اکٹھا کر کے ان سے ایک عمارت تیار کی.پس وہ عمر کی کی عمارت نہیں تھی ، وہ رسول کریم ﷺ کی عمارت تھی اور جبکہ وہ سامان جن سے حضرت ابوبکر نے بڑائی حاصل کی ، رسول کریم ﷺ کے پیدا کئے ہوئے تھے اور جب کہ وہ سامان جن سے حضرت عمر نے بڑائی کی حاصل کی ، رسول کریم ﷺ کے پیدا کئے ہوئے تھے.تو گو ظاہری طور پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے کی یادہ علاقہ پر حکومت کی مگر وہ رسول کریم ﷺ سے بڑے نہیں تھے اور گو ظاہری طور پر ان کی رعایا کی
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۱۹۳۷ء تعداد بھی زیادہ تھی مگر پھر بھی وہ رسول کریم ﷺ کی حکومت سے باہر نہیں جا سکتے تھے اور نہ آپ کی غلامی سے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی الگ ہو سکتے تھے.کیونکہ یہ کام ان کا نہیں ، محمد ﷺ کا کام تھا.آج لڑائیوں میں لوگ کثرت سے تو ہیں چلاتے ہیں مگر کیا تم اُس انجینئر کو زیادہ قابلِ اعزاز سمجھتے ہو جس نے آج سے سو سال پہلے توپ ایجاد کی یا آجکل کے تو ہیں بنانے والوں کو زیادہ معزز سمجھتے ہی ہو.اُس زمانہ میں بڑے سے بڑے گولے چھ پونڈ یا دس پونڈ کے ہوا کرتے تھے مگر آجکل کے کارخانے ان سے بہت بڑی بڑی تو ہیں بناتے ہیں.مگر باوجود اس تمام ترقی کے یہ کارخانے چلانے والے اُس انجینئرز سے زیادہ معزز نہیں سمجھے جا سکتے جس نے توپ ایجاد کی کیونکہ اُس نے ایک نیا خیال پیدا کیا اور کی ایک نئی ایجاد کے راستہ پر لوگوں کو ڈال دیا جس پر دنیا آخر ترقی کرتی چلی گئی.اسی طرح ابتدائے اسلام میں وہ سپاہی جنہوں نے دنیا فتح کی وہ محمد ﷺ نے پیدا کئے تھے.وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ نے پیدا نہیں کئے تھے.ہاں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں چونکہ زیادہ علاقے فتح ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے پہلے سپاہیوں کے رنگ میں اور سپاہی بھی تیار کر لئے اور ان کی مدد سے کئی علاقے فتح کر لئے مگر بہر حال یہ تمام فتوحات عمر کی نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی تھیں.پس شا گرددنیا میں جو کام بھی کرتے ہیں وہ ان کے آقا کی طرف منسوب ہوتا ہے اور وہ سخت احمق شاگرد ہوگا جو یہ کہے گا کہ اس کا کام اس کے آقا سے بڑا ہے یا اس کی بڑائی کے دعوئی سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے آقا سے بھی درجہ میں بڑھ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بیرونِ ہند میں سوائے افغانستان کے اور کہیں تبلیغ احمدیت نہیں تھی.عرب اور ایران میں اگے دُگے احمدی تھے.مگر میرے زمانہ میں قریباً ساری دنیا اور سارے بر اعظموں میں احمدیت کی تبلیغ ہوئی ہے ، یورپ کے مختلف علاقوں میں تبلیغ ہوئی ہے افریقہ کے مختلف علاقوں میں تبلیغ ہوئی ہے.اسی طرح چین، سماٹرا، جاوا اور امریکہ میں نئی جماعتیں قائم کی ہوئی ہیں اور پھر پہلے سے بہت زیادہ مصر، فلسطین اور شام کے حصوں میں احمدیت پھیل چکی ہے.مگر کیا اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ ( نَعُوذُ باللہ) میرا درجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا ہے؟ آخر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے یورپ کے لوگوں کو مسلمان بنایا اور کیا وہ میری چیز تھی ؟ پھر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے امریکہ کے لوگوں کو مسلمان کیا اور کیا وہ چیز میری ایجاد کردہ تھی ؟ پھر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے سماٹرا اور جاوا کے لوگوں کو مسلمان کیا اور انہیں رسول کریم اللہ کی غلامی میں حقیقی اول
خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۷ء معنوں میں داخل کیا اور کیا وہ چیز میری تھی ؟ وہ صداقت کی تلوار جس سے میں نے ان علاقوں کو فتح کیا وہ میری نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی.پس یہ میرا کام نہیں بلکہ انہی کا کام ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تلوار چلائی وہ بھی آپ کی نہیں تھی بلکہ قرآن اور حدیث اور محمد ﷺ کی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جو کچھ کیا وہ ان کا نہیں بلکہ محمد ﷺ کا کام تھا.ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کا پیغام دنیا کے کونوں تک پہنچا ئیں.ورنہ اگر ہم دنیا کے ایک ایک آدمی کو مسلمان بنالیں اور دنیا کے ایک ایک آدمی کے گند کو نکال کر اُسے تقویٰ اور طہارت سے لبریز کر دیں اور دنیا کی تمام حکومتوں کا نقشہ بدل کر اسلامی حکومتیں قائم کر دیں اور انصاف اور عدل قائم کر کے تمدنی معاملات میں اس قدر تغیر پیدا کر دیں کہ تمام دنیا کے لوگ ایک دوسرے کو بھائی بھائی سمجھنے لگیں.اسی طرح ہم تجارت ، زراعت اور صنعت و حرفت میں ایسی اصلاح کر دیں کہ تمام انسانوں میں کی مساوات قائم ہو جائے اور سب ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے لگیں.غرض ہم سب کچھ کر دیں اور ہمارے علاقوں کی وسعت ہزاروں گنے زیادہ ہو جائے اور ہمارے ماتحت افراد کی تعداد لاکھوں گئے بڑھ جائے پھر بھی ہمارا کام رسول کریم ﷺ کے کام کے ایک ذرہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا.پس ہمارا جس قدر کام ہے یہ ہمارا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا ہے اور ہماری تمام کوششیں اپنا نام پھیلانے کیلئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام پھیلانے اور آپ کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے ہیں.آخر جب ہم امریکہ کے لوگوں سے یہ کہتے ہیں وہ اسلام میں داخل ہو جائیں تو ی ہم ان سے کیا کہلواتے ہیں؟ وہی کلمہ شہادت یعنی لا اله الا اللهُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللهِ - اسی طرح افریقہ کے لوگوں کو جب ہم مسلمان بناتے ہیں، جب ہم سماٹرا، جاوا، چین اور جاپان میں اسلام کی اشاعت کرتے ہیں تو ان لوگوں سے کیا کہلواتے ہیں؟ یہی کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللهِ.پھر کیا یہ رسول کریم ﷺ کی عزت قائم ہوری ہے یا ہماری عزت قائم ہو رہی ہے ؟ ہماری اور محمد ﷺ کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے ہمالیہ پہاڑ اور سائبان.سائبان ایک لگتا ہے اور کچھ مدت کے بعد اُٹھ جاتا ہے.ایک پھٹتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا آ جاتا ہے لیکن ہمالیہ پہاڑ برابر اپنی جگہ پر کھڑا ہے اور اسے کوئی خص ہلا نہیں سکتا.اسی طرح خلفا ء آتے اور چلے جاتے ہیں.ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا خلیفہ دنیا میں آتا اور اپنا اپنا فرض سر انجام دے کر چلا جاتا ہے مگر
خطبات محمود ۳۵۲ سال ۱۹۳۷ء رسول کریم ﷺ ہمالیہ کی طرح اپنے مقام پر کھڑے ہیں اور ایک لمحہ بھی آپ پر ایسا نہیں آتا جب آپ دنیا کو اپنے فیوض نہ پہنچارہے ہوں.پس جس احمدی نے بھی یہ بات کہی ہے انہی معنوں میں کہی ہوگی کہ اس زمانہ میں جولوگ ہیں ان کے لحاظ سے ہم اپنے خلیفہ کو بعد از خدا سمجھتے ہیں اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ اگر اس نے ان معنوں میں ان الفاظ کو استعمال کیا ہے تو یقیناً اُس نے سچ کہا ہے.اس میں کیا شبہ ہے اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، میں نے بھی بار ہا بتایا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشا ہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے.وہ دنیا میں خدا اور رسول کریم ﷺ کا نمائندہ ہے اور چونکہ دین ، دنیا پر مقدم ہے اس لئے گو ہم دنیوی معاملات میں حکام کی اطاعت کریں گے لیکن اگر دین کا معاملہ آئے گا تو پھر ان بادشاہوں کو ہماری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی پڑے گی.آج اگر دنیا کا ایک بڑے سے بڑا بادشاہ بھی مذہب کی تحقیق کرتا ہے اور تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اسلام ہی تمام مذاہب پر فضیلت رکھتا ہے تو جب وہ اس نکتہ پر پہنچے گا اُس کیلئے سوائے اس کے اور کیا چارہ ہوگا کہ وہ اسلام کے خلیفہ کے پاس آئے اور اُس کی بیعت کرے اور جب وہ خلیفہ وقت کی بیعت کرے گا تو لازماً وہ خلیفہ کے ماتحت ہوگا اُس سے بڑا نہیں ہوگا.پس دنیا کے بادشاہوں کو جو بڑائی حاصل ہے وہ اُسی وقت تک ہے جب تک احمدیت اور اسلام کی صداقت اُن پر روشن نہیں ہوتی.جس دن اُن پر اسلام اور احمدیت کی صداقت روشن ہو گئی اُسی کی دن وہی فقرے جو آج غرباء کے منہ سے سُن کر وہ ہنتے ہیں وہ خود کہنے لگ جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ ہی ہمارے حاکم اور آپ ہی ہمارے سرتاج ہیں.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک بادشاہ احمدی ہو اور وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے اور پھر وہ یہ کہے کہ میں تمہارا حاکم اور میں تمہارا بادشاہ ہوں.لازماً وہ یہی کہے گا کہ دینی میدان میں میں ہی غلام ہوں ، میں ہی شاگرد اور میں ہی ماتحت ہو.عیسائیوں میں اس کی مثال موجود ہے چاہے وہ کیسی ہی غلط مثال ہو اور کتنے ہی غلط طریق پر ہو اور وہ یہ ہے کہ جو بادشاہ پوپ کو مانتے ہیں وہ پوپ کو اپنا سر دار اور حاکم سمجھتے ہیں اور اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ ہماری بادشاہتیں ہمیں پوپ سے ملی ہیں.زمانہ وسطی میں تو یہ قاعدہ تھا کہ جب بادشاہ تخت پر بیٹھتا تو وہ پوپ کے پاس اپنی بادشاہت کی منظوری کیلئے پیٹھی بھیجا اور جب وہ اسے بادشاہ تسلیم کرتا تب وہ اپنے کا
خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۳۷ء آپ کو بادشاہ سمجھتا.عیسائی اپنامذہبی پیشوا پوپ کو سمجھتے ہیں.لیکن جماعت احمدیہ کے نزدیک خلیفہ وقت اُس کا مذہبی پیشوا ہے.پس جو بادشاہ بھی احمدی ہو گا وہ اپنے آپ کو خلیفہ وقت کا ماتحت اور اُس کا نائب سمجھے گا اور گودنیوی معاملات میں اُس کے احکام نافذ ہوں گے مگر دینی معاملات میں حکومت احمدی خلیفہ کی ہی ہوگی.اس لحاظ سے اگر اپنے موجودہ زمانہ کے لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے کوئی شخص خلیفہ وقت کو ” بعد از خدا بزرگ توئی“ کہہ دے تو کہہ سکتا ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک ایسا عقلی مسئلہ ہے کہ اس کا کوئی شخص انکار ہی نہیں کر سکتا.میں پوچھتا ہوں کہ اگر احمدیوں کے سوا کسی دوسرے مسلمان کے منہ سے کسی اپنے بزرگ کے متعلق یہ لفظ نکلیں کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے بعد آپ ہی کو سمجھتے ہیں تو کیا اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ وہ اُس بزرگ کا درجہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا سمجھتا ہے.ہر شخص جو معمولی عقل بھی رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے فقر کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ اس بزرگ کا درجہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اپنے زمانہ میں وہ تمام دنیا پر فضیلت رکھتا ہے.اور احسان بھی کبھی اس پر اعتراض نہ کرے گا.یہ اعتراض اس کے صرف جماعت احمدیہ کیلئے وقف ہیں.پھر یہ لوگ تعلیم قرآن سے ایسے بے بہرہ ہو چکے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی مثالیں موجود ہیں اور وہ انہیں پڑھتے ہیں پھر بھی اس اسلوب بیان کو نہیں سمجھ سکتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق فرماتا ہے وَاصْطَفَكِ عَلى نِسَاءِ الْعَلَمِيْنَ" کہ ساری دنیا کی عورتوں سے حضرت مریم علیہا السلام افضل ہیں.مجھے نہیں معلوم کہ احسان کے ایڈیٹر کا اس بارہ میں کیا عقیدہ ہے مگر میں تو ایک منٹ کیلئے بھی اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ حضرت مریم ہماری ماں عائشہ صدیقہ سے بڑی ہوں یا ہماری ماں خدیجہ سے درجہ میں بلند ہوں.پھر خود رسول کریم ﷺ نے ایک حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا کہ فَاطِمَةُ سَيْدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّةِ ث یعنی وہ جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی.اب بتاؤ اس جنت میں حضرت مریم علیہا السلام ہوں گی یا نہیں ہوں گی ؟ اگر حضرت مریم علیہا السلام نے بھی جنت میں ہی جانا ہے اور وہ جہان کی تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں تو حضرت فاطمہ سَيْدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّةِ کس طرح ہو سکتی ہیں.پس بہر حال اس آیت کے کوئی معنے کرنے پڑیں گے اور وہ ان معنے یہی ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام صرف اپنے زمانہ کی تمام عورتوں سے درجہ میں بلند تھیں.پھر اگر کی
خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۷ء وہاں یہ معنے کرنے جائز ہیں تو شرافت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس احمدی کے فقرہ کے بھی یہی معنے کئے جائیں کہ اس زمانہ میں جس قدر لوگ ہیں ان سب سے جماعت احمدیہ کا خلیفہ بڑا ہے اور اگر یہی معنے کئے جائیں تو اس سے ہمیں انکار نہیں بلکہ یقیناً ہم اس کے دعویدار ہیں.پھر اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى العلمین کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے.اب بتاؤ کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ بنی اسرائیل الْعَلَمِينَ رسول کریم ﷺ کی امت سے بھی بڑے ہیں.اللہ تعالیٰ تو امت محمدیہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ فرما ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ = کہ تم دنیا کی ساری قوموں میں سے زیادہ بلند درجہ رکھنے کی والی قوم ہو اور تم خالص دنیا کے فائدہ اور نفع رسانی کیلئے پیدا کی گئی ہو.اب ایک طرف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ فرماتا ہے کہ تم دنیا کی تمام قوموں سے اعلیٰ ہو اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے متعلق فرماتا ہے کہ میں نے انہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی.حالانکہ تمام جہان پر فضیلت ایک کو ہی حاصل ہوسکتی ہے دونوں کو حاصل نہیں ہو سکتی.پھر ان آیتوں کے تطابق کی کیا صورت ہے اور انِّی فَضَّلْتُكُمْ عَلَى العلمین کے کیا معنے ہوں گے.کیا یہ ہوں گے کہ بنی اسرائیل کو مسلمانوں پر فضیلت حاصل ہے یا یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.مگر مسلمانوں کو ساری جماعتوں اور سارے زمانوں پر فضیلت حاصل ہے.اس کا مزید ثبوت رسول کریم ﷺ کا اپنا دعوی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں إِنِّي مُفَاخِرٌ بِكُمْ وَمُكَائِرٌ بِكُمُ ۵ کہ قیامت کے دن میں اپنی اُمت کو ساتھ لے کر باقی تمام انبیاء کی اُمتوں پر فخر کروں گا اور اس کی کثرت پر ان کے مقابلہ میں ناز کروں گا.اب قیامت کے دن جہاں ساری اُمتیں اکٹھی ہوں گی جس قوم کو فخر حاصل ہوگا یقینا وہی قوم دنیا کی ساری قوموں سے بڑی ہوگی تو خَيْرَ أُمَّةٍ کی تشریح رسول کریم ﷺ نے خود کر دی اور اللہ تعالیٰ نے بھی ایک دوسرے مقام پر اس کی تشریح کر دی جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ اُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ * اور اسی طرح ہم نے تم کو سب قوموں سے اعلیٰ بنایا ہے تا کہ تم باقی سب لوگوں پر شہید کے طور پر ہو.شہید کے معنے داروغہ کے ہوتے ہیں.اب خود ہی سوچ لو کہ کیا داروغہ بڑا ہوتا ہے یا مزدور بڑا ہوتا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ مزدور نہیں بلکہ داروغہ بڑا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی ساری قوموں کے مقابلہ میں تم داروغہ کے طور پر ہو اور وہ تمہارے مقابلہ میں ایسی ہی ہیں جیسے مزدور ہوتا ہے.
خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۷ء مسلمانوں کو باقی اقوام پر یہ فضیلت حاصل ہے اور جبکہ قیامت کے دن جہاں انگلی چھیلی تمام قو میں اکٹھی ہوں گی ، مسلمان شہید کے طور پر ہوں گے اور باقی قومیں مزدوروں کی طرح.تو پہلی قوموں کی بڑائی کا جن آیات میں ذکر آتا ہے ان کے معنے یہی ہوں گے کہ ان قوموں کو صرف اپنے زمانہ میں تمام دنیا پر فضیلت حاصل تھی.پھر ایک مقام پر اللہ تعالیٰ بہت سے انبیاء کا اکٹھا ذ کر کرتے ہوئے فرماتا ہے كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ وَمِنْ آبَاءِ هِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَهُمْ وَ هَدَيْنَهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ كه ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی.اسی طرح ان کے باپ دادوں کو فضیلت دی، ان کی ذریت کو فضیلت دی اور ان کے بھائیوں کو فضیلت دی.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک سارے جہاں پر فضیلت رکھتا تھا.اگر باپ فضیلت رکھتے تھے تو بھائیوں کو کس طرح فضیلت حاصل ہوگئی.اور اگر بھائی افضل تھے تو ذریت افضل کس طرح بن گئی.یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ تین دو سے بڑا ہے لیکن یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سے بڑا ہے.اگر تین دو سے بڑا ہے تو دو تین سے بڑا نہیں ہوسکتا.اور اگر دو تین سے بڑا ہے تو تین دو سے بڑا نہیں ہوسکتا.دراصل وہاں بھی اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہر نبی کی جماعت کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.حضرت ابراہیم کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور احق کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور یعقوب کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.اسی طرح داؤڈ اور سلیمان اور ایوب اور یوست اور موسیٰ اور ہارون اور زکریا اور کیٹی اور عیسی اور الیاس اور اسماعیل اور الیسع و غیرہ کی قوموں کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی.اور پھر ان کی وجہ سے ان کے اُن باپ دادوں اور اولادوں کو بھی فضیلت حاصل ہو گئی جو انبیاء کو ماننے والی تھیں.تو قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ ثابت ہے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہے تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت رکھتا ہے.اب یہ کتنی ظالمانہ یا کتنی جاہلانہ بات ہے جو ہماری طرف منسوب کی گئی ہے.اگر احسان نے دیدہ دانستہ یہ عقیدہ ہماری طرف منسوب کیا ہے تو اس نے ایک ظالمانہ فعل کیا اور اگر ہمارے عقائد سے واقفیت حاصل کئے بغیر اس نے ایسا نوٹ لکھا تو اس نے ایک جاہلا نہ فعل کا ارتکاب کیا.
خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۳۷ء حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً لے کہ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس میں دخل نہ دیا کرو.جو شخص قرآن کریم کو جانتا ہی نہیں اور جس نے رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور ہی نہیں کیا ، وہ اگر بغیر سوچے سمجھے اعتراض کر دیتا ہے تو اس کا اعتراض معاف بھی کیا جاسکتا ہے.مگر جو قرآن کریم پر ایمان لانے کا دعوی کرتے ہوئے اس کی باتوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے وہ معذور نہیں قرار دیا جاسکتا.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے قرآن پر کبھی غور نہیں کیا تھا یا اگر ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور نہیں کیا تھا تو کم از کم انہیں انسانوں کے کلام پر ہی غور کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا روزمرہ کی گفتگو میں اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں کئے جا سکتے.تم چلے جاؤ لا ہور میں اور لوگوں سے دریافت کرو کہ سب سے بڑا پہلوان کون سا ہے.وہ کہیں گے سب سے بڑا پہلوان گاما ہے.اب کیا جب کوئی شخص یہ کہے کہ سب سے بڑا پہلوان گاما ہے تو اس سے یہ بحث شروع کر دینی چاہئے کہ سب سے بڑا پہلوان تو رستم تھا ہم گاما کو سب سے بڑا پہلوان کیوں قرار دیتے ہو.یا سب سے بڑا پہلوان تو غلام تھا تم گاما کو کیوں بڑا کہتے ہو.اگر کوئی شخص ایسی بحث کرے تو ساری دنیا اسے احمق قرار دے گی اور کہے گی کہ یہاں رستم اور گاما کا مقابلہ کون سا ہو رہا ہے یہاں تو یہ ذکر ہے کہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا پہلوان کون سا ہے.غرض تم ساری دنیا کا چکر لگاؤ ، ساری دنیا کا نہ سہی تم ہندوستان کا ہی چکر لگا کر دیکھ لو تمہیں گلیوں میں اور بازاروں میں، مدرسوں اور خانقاہوں میں، چھوٹوں اور بڑوں میں غرض ہر جگہ اور ہر شہر میں اس قسم کے فقرات بولتے ہوئے لوگ نظر آئیں گے.وہ کہیں گے فلاں شخص سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑا ہونے سے مراد وہ کبھی یہ نہیں لیں گے کہ وہ پہلوں اور پچھلوں سب سے بڑا ہے بلکہ سب سے بڑا ہونے سے یہ مراد لیں گے کہ وہ موجودہ زمانہ میں سب.بڑا ہے یا ایک خاص دائرہ میں سب سے بڑا ہے.تم چلے جاؤ عدالتوں میں تمہیں روزانہ اس قسم کے نظارے دکھائی دیں گے کہ مجسٹریٹ کے سامنے مقدمہ پیش ہو رہا ہے اور ایک غریب شخص جس کا مقدمہ عدالت کے سامنے ہے وہ مجسٹریٹ کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا ہے ” خدا دے بیٹاں ساڈے نہیں ہی ہو ، یعنی خدا کے نیچے اب آپ ہی ہمارا کام کرنے والے ہیں.روزانہ زمیندار اور پیشہ ور اس قسم کے فقرات استعمال کرتے ہیں مگر کبھی انہیں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ تم دہر یہ ہو گئے یا رسول اللہ ) سے
خطبات محمود ۳۵۷ سال ۱۹۳۷ء رسالت کا تم نے انکار کر دیا.پس میں حیران ہوں کہ ادیب کہلانے والے ان محاوروں کو بھی کیوں نہیں سمجھتے جو جاہل سے جاہل زمیندار روزانہ بولتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.”زمیندار“ جب یہ فقرہ استعمال کرتا ہے کہ ” خدا دے ہیٹاں ساڈے تسیں ہی ہو تو ” بیٹاں“ سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اب خدا کے بعد اسی مجسٹریٹ کا درجہ ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے اس مقدمہ کا یا خدا فیصلہ کر سکتا ہے یا آپ فیصلہ کر سکتے ہیں.وہاں نہ دین کا ذکر ہوتا ہے نہ رسول کریم ﷺ کے درجہ کا ذکر ہوتا ہے.صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ میرے اس مقدمہ میں یا مجسٹریٹ نے فیصلہ کرنا ہے یا خدا نے.یا اگر گاؤں میں بیٹھ کر کوئی زمیندار اسی قسم کا فقرہ نمبر دار سے کہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ میرا فیصلہ اب خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس سے نیچے اتر کر نمبردار کے ہاتھ میں.لیکن اگر ان معنوں کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور جب کوئی زمیندار کسی نمبر دار کو کہے کہ خدا دے تو ہیٹاں ساڈے تسیں ہی ہو ، تو جھٹ پولیس کا کوئی آدمی اسے ہتھکڑی لگالے اور کہے کہ ہر میجسٹی شہنشاہ معظم کی بادشاہت کا یہ انکار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے نیچے نہ کوئی بادشاہ ہے نہ حاکم ، جو ہے یہ نمبر دار ہی ہے.پس یہ ہائی ٹریژن (HIGH TREASON) کا مجرم ہے، اسے جیل بھیجنا چاہئے.تو کیا ساری دنیا اس سپاہی کو پاگل ہے قرار نہیں دے گی ؟ وہ کہے گی اسے جیل خانہ بھیجنے کی بجائے تمہیں پاگل خانہ بھیجنا چاہئے.کیونکہ تمہیں سوچنا چاہیئے تھا کہ اس فقرے کا محل کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے.پھر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ تم اپنے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہمیں رسول کریم ہے.محبت ہے مگر اس لفاظی کا کیا فائدہ.تم نے کبھی غور بھی کیا ہے کہ تمہاری اس محبت میں جو تم رسول کریم ﷺ سے رکھتے ہو اور ہماری اس محبت میں جو ہم رسول کریم نے سے رکھتے ہیں کتنا عظیم الشان فرق ہے ؟ اور کتنا تین امتیاز ان دونوں میں موجود ہے.میں ایک دفعہ قصور گیا وہاں ایک دوست کا ایک کارخانہ ہے.وہ مجھے اپنا کارخانہ دکھانے کیلئے لے گئے.اُس وقت تک وہ غیر مبائعین سے تعلق رکھتے تھے مگر اب وہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.اسی اثناء میں قصور کا ایک ہندو نوجوان جو نہایت ہوشیار اور چلتا پُرزہ تھا ، وہاں آ گیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میرا ایک سوال ہے آپ اس کا جواب دیں.میں نے کہا دریافت کیجئے.وہ کہنے لگا مجھے اس کی
خطبات محمود ۳۵۸ سال ۱۹۳۷ء الله بات کا شوق ہے کہ مختلف مذاہب کے جو بانی ہیں ان کے حالات زندگی معلوم کروں.اس وجہ سے مختلف مذاہب کے واعظ جب ہمارے شہر میں آتے ہیں تو میں ان کے وعظوں اور تقریروں میں شامل ہوتا ہے.جب کوئی بڑا مولوی آجاتا ہے اور لیکچر دیتا ہے تو میں اس کے لیکچر میں بھی شامل ہو جاتا ہوں اور جب کوئی عیسائی پادری آجاتا ہے تو اس کا وعظ سننے کیلئے بھی چلا جاتا ہوں اور جب کوئی ہندو پنڈت آتا ہے تو اس کی کی تقریر میں بھی چلا جاتا ہوں.مسلمان واعظوں میں سے مجھے ان کی تقریر کا زیادہ شوق رہتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی سنائیں کیونکہ یہ ایک تاریخی مضمون ہے.اور ایک غیر مذہب والے کو مذہبی مضمون سے تاریخی مضمون سے زیادہ دلچسپی ہو سکتی ہے.لیکن ایک بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی اور وہ یہ کہ عیسائی پادری جب وعظ کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے محبت کی تعلیم دی اور انہوں نے لوگوں کیلئے اپنی جان قربان کر دی.ایک ہندو پنڈت کھڑا ہوتا ہے تو وہی بھی حضرت کرشن جی کے فضائل بیان کرتا اور کہتا ہے کہ انہوں نے دنیا سے جھگڑا اور فساد دور کیا.حضرت رام چندر کے متعلق کہتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ یہ سکھ پہنچایا.ایک سکھ گیانی آتا ہے تو وہ بھی اپنے گرو کی خوبیاں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے مگر جب کوئی مسلمان مولوی آتا ہے اور محمد ﷺ کے فضائل بیان کرنے لگتا ہے تو یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اوکالی کملی والے اوزلفاں والے ! او کالی کملی والے او زلفاں والے!.میں اس کی یہ بات سن کر شرم اور ندامت سے پسینہ پسینہ ہو گیا اور میں نے اُسے کہا یہ مسلمان کی رسول کریم کے فضائل سے ناواقف ہیں.اگر یہ لوگ قرآن کریم پڑھیں اور احادیث سے واقفیت رکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ رسول کریم ہے کے اخلاق کو کس اعلیٰ رنگ میں بیان کیا گیا ہے.مگر چونکہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے محاسن پر کبھی غور نہیں کیا اس لئے یہ بڑی سے بڑی خوبی اور بڑے سے بڑا کمال جو آپ کا بیان کریں گے وہ یہی ہوگا کہ اوکالی کملی والے اوزلفاں والے“.غرض یہ لوگ جو رسول کریم کی تعریف کرتے ہیں اس میں ہر شخص شامل ہوسکتا ہے.انہوں نے کالی کملی رسول کریم ﷺ کی فضیلت کا معیار سمجھی ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان فقیروں نے کالی کملی اوڑھ لی اور سمجھ لیا کہ رسول کریم ہے.تمام کمالات انہیں حاصل ہو گئے.پھر انہوں نے رسول کریم ﷺنے میں ایک اور محسن یہ دیکھا کہ آپ کی لفیں لمبی تھیں یہ دیکھ کر مسلمان فقیروں نے بھی اپنے بال بڑھالئے اور سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع ہو گئی اور ہم آپ کے مثیل بن گئے.مگر ایک احمدی جب رسول کریم ہے کے اخلاق کو پیش کرے گا تو و صلى الله
خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۷ء آپ کے ان اخلاق کو پیش کرے گا جو ساری دنیا کی کملیوں والوں پر کیا ، ساری دنیا کے نبیوں اور رسولوں پر آپ کی فضیلت ثابت کر دیتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا جو ان تعریفوں میں رسول کریم ﷺ کا مقابلہ کر سکے.پھر جب یہ لوگ رسول کریم ﷺ کے معجزات بیان کرتے ہیں تو ایسے ایسے معجزات بیان کرتے ہے ہیں جنہیں سن کر بجائے متاثر ہونے کے لوگ ہنستے ہیں اور پھر جب ہندوؤں کے سامنے ان قصوں کو رکھا تھی جاتا ہے تو وہ ان سے بھی بڑے بڑے قصے اپنے بزرگان کے متعلق سنا دیتے ہیں کیونکہ خالی قصوں پر اگر دین کا مدار ہو تو قصے بنانے کوئی مشکل کام نہیں.ہمارے ایک عزیز تھے جو احمدی نہیں تھے وہ ایک دفعہ قادیان آئے.میر محمد الحق صاحب اُس وقت چھوٹی عمر کے تھے.چھوٹی عمر میں انسان دعوئی زیادہ کر لیتا ہے اور بعض دفعہ جب اسے کوئی نئی دلیل ملتی ہے تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا اور وہ اس بات سے ناواقف ہوتا ہے کہ نہ ماننے والے کئی راستے نکال لیتے ہیں.اُن دنوں حقیقۃ الوحی تازہ تازہ چھپی تھی اور چونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بہت سے معجزات کا ذکر کیا ہے اس لئے میر محمد الحق صاحب حقیقۃ الوحی لے کر ان کے پاس چلے گئے.اُس وقت میر صاحب کی عمر پندرہ سولہ سال کی تھی.انہوں نے خیال کیا کہ جونہی میں نے اس کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات بیان کئے وہ احمدیت کی صداقت فورا تسلیم کریں گے.خیر وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آگئے اور مجھے آکر کہنے لگے کہ میں نے ان کی خوب خبر لی ہے.وہ ہماری تمام باتیں مان گئے ہیں اور اب وہ بیعت کرنے کے بالکل قریب ہیں.میں نے کہا تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر ان کے پاس جائیں گے تو پتہ لگ جائے گا.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ ان سے ملے اور مل کر واپس آئے تو کہنے لگے وہ تو جی عجیب آدمی ہیں.میری باتیں سن کر تو کہتے رہے کہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے مگر جب آخر میں میں نے کہا تھ کہ جب تمام باتیں درست ہیں تو آپ احمدیت کو قبول کر لیجئے تو وہ کہنے لگے میاں ! یہ معمولی ولایت کے کمال ہیں ان سے کسی کو مامور تھوڑا ہی مانا جاسکتا ہے اور یہ تو ادنی باتیں ہیں.جو کامل ولی ہوں وہ تو اس سے بھی بڑے بڑے معجزات دکھا سکتے ہیں.پھر انہوں نے خود ایک قصہ سنایا.کہنے لگے تم نے سنا ہوگا کہ مکہ میں تربوز بہت اچھے ہوتے ہیں.اب قرآن میں لکھا ہے کہ وہ وادی غَيْرِ ذِي زَرع ہے"
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء وہ ایسی وادی ہے جس میں کچھ بھی پیدا نہیں ہو سکتا تو پھر اعلیٰ قسم کے تربوز اتنی کثرت سے کہاں سے آجاتے ہیں.سو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ گدھوں والے مکہ سے طائف جاتے ہیں اور طائف سے بڑے کھنگھر اپنے بوروں میں بھر لیتے ہیں جب وہ واپس آتے اور مکہ میں پہنچتے ہیں تو تمام کھنگھر تربوز.ہوئے ہوتے ہیں.پھر کہنے لگے ہمارے ایک دادا تھے، وہ بڑے بزرگ اور اللہ تعالیٰ کے کامل ولی تھے.ایک دفعہ وہ بغداد سے جہاز پر سوار ہوئے.راستہ میں جہاز کہیں گھنٹہ بھر ٹھہرا تو وہ کہنے لگے میں فلاں بزرگ سے مل آؤں.لوگوں نے انہیں کہا کہ جہاز نے یہاں صرف ایک گھنٹہ ٹھہرنا ہے اور آندھی بھی آئینی ہوئی ہے، آپ نہ جائیں.مگر وہ کہنے لگے نہیں میں ضرور جاؤں گا اور اگر میں ایک گھنٹہ تک نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کیا جائے اور جہاز بے شک روانہ ہو جائے.چنانچہ ایک گھنٹہ تک جہاز کھڑا رہا مگر وہ نہ آئے اور جہاز چل پڑا.جس وقت جہاز بمبئی پہنچا تو لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی بزرگ ساحل بمبئی پر ٹہل رہے ہیں.لوگوں نے عرض کیا حضرت آپ کہاں؟ کہنے لگے مجھے جب معلوم ہوا کہ جہاز چل پڑا ہے تو میں نے کھڑاواں پہنی اور بھاگ کر بمبئی آ گیا.پھر کہنے لگے وہ بزرگ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں جمعہ کے دن فوت ہوں گا اور میرا جنازہ کشمیر کی شاہی مسجد میں پڑھا جائے گا اور وہیں میں دفن ہوں گا.چنانچہ ایک دن جب وہ جمعہ کی نماز پڑھ چکے تو لوگوں سے کہنے لگے بھائیو ذرا ٹھہر جانا میں اب فوت ہونے لگا ہوں ، مجھے نہلا دھلا کر جانا.وہ کہنے لگے کہ آپ تو کہا کرتے تھے کہ میرا کشمیر میں جنازہ ہوگا اور وہیں میں دفن ہوں گا مگر آپ فوت یہیں ہونے لگے ہیں.انہوں نے فرمایا تم فکر نہ کرو وہ بھی ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے کلمہ پڑھا اور فوت ہو گئے.لوگوں نے انہیں نہلایا دھلایا اور پھر کفن پہنا کر چار پائی پر لٹا دیا.بس جو نبی انہوں نے نعش چار پائی پر رکھی وہ کیا دیکھتے ہیں کہ نعش غائب ہے.ادھر سرینگر کی جامع مسجد میں جب جمعہ ہو چکا تو امام صاحب نے لوگوں سے کہا بھائیو! ذرا ٹھہر جانا یہاں ایک بہت بڑے بزرگ کا جنازہ آنے والا ہے.لوگوں نے کہا یہاں تو کوئی بزرگ فوت نہیں ہوا.امام صاحب کہنے لگے ابھی جنازہ پہنچ جاتا ہے.چنانچہ وہ مصلے پر بیٹھ گئے اور انہوں نے تھوڑی دیر ہی تسبیح پھیری تھی کہ یکدم ایٹہ سے جو علی گڑھ کے قریب ہے، چار پائی پر جنازہ وہاں آ اُترا اور سب نے ان کا جنازہ پڑھ کر انہیں وہیں دفن ہے کر دیا.یہ قصہ سنا کر وہ میر محمد الحق صاحب سے کہنے لگے میاں معجزے تو یہ ہوتے ہیں.وہ بھی کیا معجزے ہیں جو مرزا صاحب نے دکھائے.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور ان صاحب کے مذکورہ کی
خطبات محمود ۳۶۱ سال ۱۹۳۷ء معجزات کی آپس میں کوئی نسبت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ صرف اوہام باطل تھے.مگر جب تاریخی معجزات سے لوگ یہ سلوک کریں تو ان معجزات کا کیا حال ہو گا جو رسول کریم ﷺ کے اصلی معجزات کو چھوڑ کر لوگوں نے خود بطور کہانی کے بنالئے ہیں.پھر اس قسم کے غیر تاریخی معجزات جب مسلمان مولوی ہندوؤں کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر معجزے بیان کر دیتے ہیں.چنانچہ ہندو کہتے ہیں کہ ایک نیل کنٹھ ۱۳ کا بچہ تھا اسے پیدا ہوئے ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ وہ اپنی ماں سے کہنے گا اماں اماں ! مجھے بھوک لگی ہے.ماں نے کہا کہ میرے پاس تو تمہارے لئے کچھ نہیں.وہ کہنے لگا اچھا تو اماں مجھے اجازت دے کہ میں باہر جا کر کچھ کھا پی آؤں.ماں کہنے لگی تمہیں باہر جانے کی تو میں اجازت دے دیتی ہوں مگر دیکھنا کسی برہمن کو نہ کھا جانا.لطیفہ یہ ہے کہ اسے پیدا ہوئے ابھی صرف ایک گھنٹہ گزرا ہے اور ماں کی ہدایت اسے یہ ہے کہ کسی برہمن کو نہ کھا جانا.خیر وہ کھانے کی تلاش میں باہر نکلا.آگے اُس نے کیا دیکھا کہ ایک بارات آرہی ہے ہے جس میں سینکڑوں ہاتھی ، گھوڑے اور اونٹ ہیں اور ہزاروں آدمی اس بارات میں شامل ہیں.ان کے پاس کھانے کا بھی لاکھوں من سامان ہے.اس نے یہ دیکھتے ہی سڑک پر اپنی چونچ رکھ دی اور تمام اونٹ ، گھوڑے، ہاتھی اور باراتی کھچے کھچے اُس کے پیٹ میں چلے گئے.غلطی سے ایک برہمن بھی وہ کھا گیا.مگر جب اسے معلوم ہوا کہ ایک برہمن بھی پیٹ میں چلا گیا ہے تو اس نے پیٹ مرور مراڑ کر برہمن کو اگل دیا اور پھر وہ لاکھوں من کھانا بھی کھا گیا جو بارات کے ساتھ تھا.اس کے بعد اسے پیاس لگی تو وہ ایک دریا پر گیا اور اُس پر چونچ رکھ کر پانی پینا شروع کر دیا اور اتنا پانی پیا کہ آخر وہ دریا سارے کا سا را خشک ہو گیا.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ راجپوتانہ میں یہ دریا ہوا کرتا تھا مگر آجکل وہاں ریت ہی ریت ہے.اس کے بعد وہ آرام کرنے کیلئے ہمالیہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چلا گیا اور سو گیا.چنانچہ آج تک وہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر آرام کر رہا ہے.غرض مسلمانوں کے مولوی اس قسم کی مضحکہ خیز باتیں رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے اور ایسے معجزات آپ کے بیان کرتے ہیں کہ جن کے مقابلہ میں دشمن اس سے بھی بڑے بڑے معجزات پیش کر دیتا ہے اور وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے.مگر ہم رسول کریم ﷺ کے وہ معجزات بیان کرتے ہیں کہ جنہیں سن کر دشمن کے منہ پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ بات تک نہیں کر سکتا.جب ہم دشمن کے سامنے
خطبات محمود ۳۶۲ سال ۱۹۳۷ء کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کا معجزہ یہ ہے کہ جو شخص ان کی غلامی اور اتباع کرتا.خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اُس پر اُترتا ہے اور زمین و آسمان کا خدا اُس سے ہمکلام ہوتا ہے.تو کیا ہے کوئی چی ہند و جو کہے کہ میں اس سے بڑھ کر اپنے پیشوا کا معجزہ پیش کر سکتا ہوں.یا ہے کوئی عیسائی جو کہے کہ ان کی کے مسیح کی اتباع سے یہ نعمت انسان کو حاصل ہو سکتی ہے، سب دم بخود ہو جاتے ہیں کیونکہ محمد ﷺ کی غلامی کے سوا یہ نعمت کسی مذہب میں رہ کر انسان کو نصیب نہیں ہو سکتی.اسی طرح جب ہم قرآن کریم کے معجزات دنیا کے سامنے پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام پارلیمنٹیں اور دنیا کے تمام فلاسفر اور دنیا کے تمام مدبر اور ور عقلمند سب مل کر جو تعلیمیں تجویز کر رہے اور سینکڑوں سال غور کرنے کے بعد انہیں لوگوں کی کامیابی کا ذریعہ بتا رہے ہیں ، وہ ہمارے اُمی آقا اور سردار کی اس تعلیم کے مقابلہ میں جو اس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے پیش کی اگر رکھی جائیں تو خاک ہو کر رہ جاتی ہیں.تو کس طرح وہ عیسائی جو دوسروں پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ واقعہ میں قرآن کریم جس تعلیم کو پیش کرتا ہے وہی تعلیم اصلی اور اعلیٰ ہے.پھر کس طرح طلاق کے متعلق غیر تو الگ رہے مسلمان بھی بہانے بنانے لگ گئے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی یہ تشریح ہے اور اس کی وہ تشریح ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے دنیا کو آکر بتایا کہ طلاق بھی ایک ضروری چیز ہے اور جس عورت کو طلاق دی جائے وہ حسبِ منشاء دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے ہے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی اور آپ نے جو کچھ کہا وہ بالکل سچ ہے.لوگوں نے اس بات کو سنا اور حقارت کی ہنسی ہنسے مگر کس طرح آج ایک زبر دست بادشاہ نے جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا، اسی مسئلہ میں یورپ کے خیالات کی غلطی ثابت کرنے کیلئے اپنی بادشاہت چھوڑ دی.پادریوں نے بھی زور دیا کہ وہ بادشاہت نہ چھوڑے، مدبروں نے بھی زور لگایا کہ وہ اپنے ارادہ سے باز رہے ، وزراء نے بھی کوشش کی کہ وہ اس اقدام کو ترک کر دے، پارلیمنٹ کے ممبروں نے بھی چاہا کہ وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنائے، ملک نے بھی خواہش کی کہ وہ تاج و تخت کو نہ ٹھکرائے مگر اس نے صاف کہہ دیا کہ جو ملک یہ کہتا ہے کہ طلاق والی عورت الزام کے نیچے ہے اور اس سے دوبارہ شادی کرنا پسندیدہ نہیں میں اس کی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا.میں بادشاہت چھوڑ نی آسان سمجھتا ہوں مگر اس خیال کو ترک کرنا میرے لئے مشکل ہے کہ مطلقہ عورت کسی الزام کے نیچے نہیں ہوتی اور اس سے شادی کی تی
خطبات محمود جاسکتی ہے.الله ۳۶۳ سال ۱۹۳۷ء غرض قرآن کریم کے ایک ایک حرف اور ایک ایک حرکت اور ایک ایک نقطہ کے نیچے سے ہم نے معارف کے خزانے نکالے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا اور محمد ﷺ کی عزت عالم میں قائم کی.یہاں تک کہ اسلام کا شدید سے شدید دشمن بھی آج یہ تسلیم کرنے لگ گیا ہے کہ روحانی میدان میں محمد ے جیسا پہلوان اور کوئی نہیں ہوا.پس وہ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی حقیقی شان دنیا میں قائم کی، وہ جنہوں نے اسلام کی سچی خدمت کی ، وہ جنہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے دنیا کو دکھا دیا اور ثابت کر دیا کہ اسلام کی تمام تعلیمیں قابل عمل ہیں اور انہی پر عمل کرنے میں ہر برکت اور سعادت ہے ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے خلیفہ کو رسول کریم ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ اور اس سے زیادہ غلط بات اور کیا ہو سکتی ہے.میں ایسے اخبار نویسوں کو کہتا ہوں کہ مذہبی اختلاف کو جانے دو تم کم از کم انسانیت اور شرافت کا پاس رکھو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ دو.ہمارے تمہارے اختلاف بھی ہیں، لڑائیاں بھی ہیں ، جھگڑے بھی ہیں مگر ان لڑائیوں اور جھگڑوں میں جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ اور کسی کی طرف وہ عقائد منسوب کرنے سے کیا حاصل جن کو وہ مانتا ہی نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ بچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں رسول کریم ہی اللہ کی ہم سے زیادہ عزت ہے تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے علماء کو تیار کریں اور تر اضئی فریقین سے ایک تاریخ مقرر کر کے وہ بھی رسول کریم ﷺ کی عظمت پر مضامین لکھیں اور ایک مضمون رسول کریم ہے کی عظمت پر میں بھی لکھوں گا پھر دنیا خود بخود دیکھ لے گی کہ ان کے دس ہیں لکھے ہوئے مضامین میرے ایک مضمون کے مقابلہ میں حقیقت رکھتے ہیں اور رسول کریم میہ کے فضائل اور آپ کے محاسن میں بیان کرتا ہوں یا وہ مولوی بیان کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے رسول کریم میں اللہ کی عظمت پر کبھی غور ہی کی نہیں کیا.ان کا بے شک رسول کریم ﷺ پر ایمان ہے مگر ان کا ایمان ایمان العجائز سے بڑھ کر نہیں.یعنی انہوں نے اپنے باپ دادوں سے جیسائنا و لسا مان لیا.یا چونکہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ماننے لگ گئے اور نہ انہوں نے نہ کبھی قرآن پر غور کیا ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور کیا ہے.اگر ان لوگوں نے قرآن مجید کو غور سے پڑھا ہوتا تو حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق وَاصْطَفَكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَلَمِيْنَ اور اسی طرح بنی اسرائیل کے
خطبات محمود ۳۶۴ سال ۱۹۳۷ء متعلق أَنِّي فَضَّلْتُكُمُ عَلَى الْعَلَمِینَ کے الفاظ پڑھ کر کیوں اس حقیقت کو نہ پہنچ جاتے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہا جاتا کہ بعد از خدا اُس کا درجہ ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ کے لوگوں پر وہ فضیلت رکھتا ہے ، نہ یہ کہ وہ رسول کریم ﷺ سے بھی درجہ میں بڑا ہے.اس کے مقابلہ میں ہم وہ ہیں جو رسول کریم ﷺ کے ایک ادنیٰ سے ادنی ارشاد پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.اور یا تو آج سے تیرہ سو سال پہلے صحابہ نے یہ کہا تھا کہ يَارَسُول اللہ! آپ ہمیں حکم دیجئے ، ہم سمندر میں اپنے گھوڑے ڈالنے کیلئے تیار ہیں گے اور ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روند تا ہوا نہ گزرے اے اور یا یہی فقرے آج ہمارے ہیں.آج ہم ہی ہیں جو رسول کریم یا اللہ کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ رہے ہیں، آج ہم ہی ہیں جو دین کی اشاعت کر رہے ہیں، آج ہم ہی ہیں جو قرآن کریم کی خدمت کر رہے ہیں اور آج ہم ہی ہیں جو اسلام کے فضائل اور محاسن دنیا پر ظاہر کر رہے ہیں.مگر یہ غافل اور سوئے ہوئے افیونی کروٹ بدلتے ہیں اور آنکھیں کھولے بغیر کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدیوں نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کر دی.حالانکہ یہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم سے غافل ہو کر لحافوں میں لیٹے ہوئے پڑے ہیں اور ہم پر ایسی حالت میں اعتراض کر رہے ہیں جب کہ ہمارے سینے دشمنان اسلام کے مقابل پر تنے ہوئے ہیں اور جب کہ محمد ﷺ کی حفاظت کیلئے ہم ان کے اعداء کے نیزوں کو اپنے جسموں پر روک رہے ہیں.مدنیت: شہریت.شہری پین در مشین فارسی صفحه ۱۱۲.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ آل عمران: ۳۲ ال عمران ۴۳ الفضل ۲۷ اگست ۱۹۳۷ء) ۵ ترمذی کتاب المناقب باب ما جاء في فضل فاطمة میں یہ الفاظ ہیں "أَخْبَرَ نِی أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ البقرة: ۴۸ ك آل عمران: ااا
9 خطبات محمود ۳۶۵ ابو داؤد كتاب النکاح باب النهى عن تزويج من لم يلد من النساء ( مفهوما ) البقرة: ۱۴۴ ۱۲ ابراهیم : ۳۸ الانعام : ۸۷-۸۸ ۱۳ نیل کنٹھ : ایک پرندہ جس کی گردن اور پر نیلے ہوتے ہیں.۱۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۶۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۱۵ بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر بنی اسرائیل : ۳۷ سال ۱۹۳۷ء
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۷ء خلیفہ وقت کی اطاعت میں یقینی فتح اور کامیابی ہے (فرموده ۲۷ /اگست ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سب سے پہلے تو میں ایک رپورٹ کے متعلق بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں جو ایک دوست نے ایک باہر کے گاؤں سے لکھ کر بھیجی ہے.وہ دوست بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی بیماری کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے اور بعض انتظامات کی خاطر قادیان آیا تھا.ایک مجلس میں مجھے باہر کے ایک مہمان کے نی ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا جس کا نام تو میں نہیں جانتا مگر غالباً وہ ایم.اے تھے.وہ دوست لکھتے ہیں کہ ی موجودہ فتنہ کے متعلق ہماری باہمی گفتگو شروع ہو گئی.اور میں نے برسبیل تذکرہ یہ بات بیان کی کہ ہمارے گاؤں میں بعض نوجوان ان اتہامات اور الزامات کی وجہ سے جو آجکل بعض جماعت سے خارجین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں، بہت اشتعال میں تھے لیکن میں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے خطبات اور نصائح کی طرف ان کو توجہ دلائی اور بتلایا کہ ہمارے جوش اسی راہ پر چلنے چاہئیں جس پر چلنے کی خلیفہ وقت کی طرف سے ہدایت ہو اور ہماری قربانیاں اسی رنگ میں ہونی چاہئیں جس رنگ میں امام کی طرف سے قربانی کے لئے ہمیں بلایا جائے.اس پر وہ دوست جو بیرونی مہمان تھے اور جن کا رپورٹ کرنے والے دوست کو نام معلوم نہیں کہنے لگے کہ آپ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ خوامخواہ ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرتے.چونکہ جس شخص سے ان کی بات ہوئی ہے اس کا نام وہ نہیں جانتے اور جس کا نام معلوم نہیں اسے پرائیویٹ طور پر نصیحت کرنا ناممکن ہے.اور پھر چونکہ ناممکن ہے کہ ایسے اور لوگ بھی
خطبات محمود ۳۶۷ سال ۱۹۳۷ء ہوں میں نے مناسب سمجھا کہ اس رپورٹ کے متعلق خطبہ میں بعض باتیں بیان کروں.میں نے متواتر جماعت کو بتلایا ہے کہ خلافت کی بنیاد محض اور محض اس بات پر ہے کہ اَلاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ہے یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے.مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہو کر ہوتی ہیں.اگر ہم اس مسئلہ کو ذرا بھی بھلا دیں ، اس کی و قیود کو ڈھیلا کر دیں اور اس کی ذمہ واریوں کو نظر انداز کر دیں تو جس غرض کیلئے خلافت قائم ہے وہ مفقود ہو جائے گی.میں جانتا ہوں انسانی فطرت کی کمزوریاں کبھی کبھی اسے اپنے جوش اور غصہ میں اپنے فرائض سے غافل کر دیتی ہیں.پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی انسان ایسے اشتعال میں آجاتا ہے کہ وہ یہ کی نہیں جانتا کہ میں منہ سے کیا کہہ رہا ہوں مگر بہر حال یہ حالت اس کی کمزوری کی ہوتی ہے نیکی کی نہیں.اور مومن کا کام یہ ہے کہ کمزوری کی حالت کو مستقل نہ ہونے دے اور جہاں تک ہو سکے اسے عارضی بنائے بلکہ بالکل دُور کر دے.اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی.امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اُٹھاتا ہے اُس کے پیچھے اُٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی ہے مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے ، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کواس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جا ئیں تو ان کیلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس نکتہ کو واضح کرنے کیلئے فرماتا ہے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا یعنی جو خلفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہے ہیں ہمارا وعدہ یہ ہے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمُ یعنی ان کے طریق کو جو ہم ان کیلئے خود چنیں گے دنیا میں قائم کریں گے.دین کے معنی صرف مذہب کے ہی نہیں.گو مذہب بھی اس میں شامل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب تو انبیاء کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے.خلفاء کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں ورنہ احکام تو انبیاء پر نازل ہو چکے ہوتے ہیں.خلفاء، دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مغلق امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ایسی راہیں بتاتے ہیں جن پر چل کر اسلام کی ترقی ہوتی ہے.
خطبات محمود ۳۶۸ سال ۱۹۳۷ء یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ جو مسلمانوں کا دین ہوگا ہم اسے مضبوط کریں گے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو خلیفہ کا دین ہوگا اسے مضبوط کریں گے.جس پالیسی کو خلفا ء پیش کریں گے ہم اسے ہی کامیاب بنائیں گے اور جو پالیسی ان کے خلاف ہوگی اُسے نا کام کریں گے.پس اگر کوئی مبائع اور مومن کوئی اور طریق اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اسے نا کام کریں گے.اب اس پر غور کرو ایک شخص یا دس ہیں یا ہزار دو ہزار یا دس بیس ہزار لوگ خلیفہ سے کوئی الگ پالیسی رکھتے ہی ہیں یا اپنی اپنی الگ پالیسیاں رکھتے ہیں تو خدا تعالیٰ نے تو جیسا کہ وہ فرما چکا ہے صرف خلیفہ کی پالیسی کو ہی کامیاب کرنا ہے.تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر جماعت ایک لاکھ کی ہے تو اس میں سے اتنے ہزار کی کوششیں رائیگاں جائیں گی.اگر ایک ہزار کی کوششیں اللہ تعالیٰ رو کر رہا ہے تو گویا 99 ہزار یا اگر دست ہزار کی رڈ ہورہی ہیں تو نوے ہزار، اگر بیس ہزار کی رڈ ہورہی ہیں تو اسی ہزار ، اگر پچاس ہزار کی روانی ہو رہی ہیں تو صرف پچاس ہزار لوگوں کی کوششیں کامیابی کے راستہ پر ہو رہی ہوں گی اور اس طرح جس نسبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے فتوحات آتی ہیں وہ اسی نسبت سے کم ہوتی جائیں گی.ایک لاکھ سپاہیوں کو جو کامیابی ہوئی تھی اتنی نہیں ہوگی اور جتنی کوششیں رڈ ہورہی ہوں گی اتنی کامیاب کوششوں میں کمی ہو جائے گی.اور اس طرح ایسے لوگ دین کی مدد کرنے والے نہیں ہوں گے بلکہ اس میں رخنہ ڈالنے والے اور اسے ضعیف اور کمزور کرنے والے ہوں گے.یہ تمام نقائص پیدا ہی تب ہوتے ہیں جب خدا تعالیٰ کے کلام پر یقین نہ ہو اور یہ خیال ہو کہ اس کی موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں آئے گی بلکہ ہم نے خود کام کرنا ہے.یا خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے سے کامیابی نہیں ہوگی بلکہ کامیابی اس طریق پر چلنے سے ہوگی جو ہم نے سوچا ہے.جس شخص نے جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو اُس کیلئے ضروری ہے کہ مستیوں کو دور کر کے لوگوں کے اندر اخلاص، تقویٰ اور اُمنگ پیدا کرے.لیکن اگر کچھ آدمی ایسے ہوں کہ جتنی اُمنگیں اور امید میں اور ی جوش خلیفہ پیدا کرے اس کا ایک حصہ وہ ضائع کر دیں، تو ایسے لوگ بجائے اسلام کی ترقی کا موجب ہونے کے اس کے تنزل کا موجب ہوں گے.الله رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دیکھ لوصلح حدیبیہ کی مثال بالکل واضح ہے.رسول کریم ﷺ نے رویا میں دیکھا کہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.چونکہ وہ حج کا وقت نہیں تھا، آپ نے عمرہ کی نیت کی اور
خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۷ء اب کو بھی اطلاع دی.چلتے چلتے آپ کی اونٹنی حدیبیہ کے مقام پر بیٹھ گئی اور زور لگانے کے باوجود نہ اٹھی.آپ نے فرمایا کہ اسے خدا تعالیٰ نے بٹھا دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مشیت یہی ہے کہ ہم ج آگے نہ جائیں گے.مسلمانوں کی آمد دیکھ کر کفار نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا شروع کیا.کیونکہ وہ یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان طواف کریں.رسول کریم ہے ان کے آدمیوں کی انتظار میں تھے کہ آئیں تو شائد کوئی سمجھوتہ ہو جائے.ان کی طرف سے مختلف نمائندے آئے اور آخر کا صلح کا فیصلہ ہوا.شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس وقت واپس چلے جائیں.وہ سمجھتے تھے کہ اگر اب انہوں نے طواف کر لیا تو ہمارے پر سٹیج میں فرق آئے گا اس لئے انہوں نے یہی شرط پیش کی کہ اب کے واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں.دوسری شرط یہ ہوئی کہ اگر کوئی کا فرمسلمان ہو کر رسول کریم ﷺ کے پاس آجائے تو آپ اسے واپس کر دیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جانا چاہے تو اسے اس کی اجازت ہوگی.بظاہر یہ شرطیں بڑی کمزور شرطیں تھیں اور پھر جس وقت آپ نے اس شرط کو ی منظور کر لیا ، اُسی وقت ایک مسلمان جس کے ہاتھوں اور پاؤں میں کڑیاں اور بیڑیاں پڑی تھیں ، جس کا تمام جسم لہولہان تھا نہایت تکلیف سے لڑھکتا اور گرتا پڑتا وہاں پہنچا اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ! میرا حال دیکھئے میں مسلمان ہوں اور میرے رشتہ داروں نے اس طرح مجھے بیڑیاں پہنائی ہوئی ہیں اور مجھے ہے شدید تکالیف پہنچارہے ہیں.آج کفار لڑائی کیلئے تیار ہوئے تو میرا پہرہ ذرا کمزور ہوا اور میں موقع پا کر نکل بھاگا اور اس حالت میں یہاں پہنچا ہوں.صحابہؓ کو اس کی حالت دیکھ کر اتنا جوش تھا کہ وہ آپے سے باہر ہورہے تھے.لیکن اہل مکہ کی طرف سے جو شخص سفیر ہو کر آیا ہوا تھا اُس نے رسول کریم ﷺ کا نام لے کر کہا کہ ہمیں آپ سے غداری کی امید نہیں.آپ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے تو اسے واپس کر دیں گے اس لئے یہ شخص واپس کیا جائے.اُس وقت اُن ہزاروں آدمیوں کے سامنے جو اپنے گھروں سے جانیں دینے کیلئے نکلے تھے ، ان کا ایک بھائی تھا جو مہینوں سے قید تھا ، جس کے ہاتھوں اور پاؤں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے اور جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تھا.اسے دیکھ کر صحابہ کی تلوار میں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور وہ دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم سب یہیں ڈھیر ہو جائیں گے مگر اسے واپس نہیں جانے دیں گے.مگر رسول کریم ﷺ نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ خدا کے رسول دھوکا نہیں کیا کرتے.ہم نے وعدہ کیا لی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ہے اور اب خواہ ہمارے دلوں کو کتنی تکلیف ہو، اسے پورا کریں گے اور آپ نے کفار کے نمائندہ سے فرمایا کہ اسے لے جاؤ.جب اس شخص نے دیکھا کہ مجھے واپس کیا جارہا ہے تو اس نے پھر نہایت متر جمانہ نگاہوں کے ساتھ صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا تم جانتے ہو مجھے کس طرف دھکیلتے ہو؟ تم مجھے ظالم لوگوں کے قبضہ میں دے رہے ہو؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کو تاب نہ تھی کہ آنکھ اُٹھا سکے اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے ہے لیکن صحابہ کو اس کا رنج اتنا تھا، اتنا تھا کہ جب صلح نامہ پر دستخط ہو چکے تو رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ اس سال ہمیں عمرہ کا موقع نصیب نہ ہو.جاؤ اور اپنی قربانیوں کو ذبح کر دو.آپ نے یہ فرمایا اور وہ صحابہ جو آپ کے ایک اشارے پر اُٹھ کھڑے ہوتے اور نہایت بے تابی کے ساتھ فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے ، ان میں سے ایک بھی نہ اُٹھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ اُمہات المومنین میں سے ایک بی بی تھیں.آپ نے ان سے کہا کہ آج میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے جو نبوت کے ایام میں کبھی نہیں دیکھا تھا.میں نے باہر جا کر صحابہ سے کہا کہ اپنی قربانیاں ذبح کر دو مگر ان میں سے ایک بھی نہیں اُٹھا.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ کسی سے بات ہی نہ کریں.آپ سیدھے جا کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر دیں.یہ زجر زبان کی زجر سے بہت سخت تھی اور یہ مشورہ کی نہایت ہی اچھا تھا.چنانچہ آپ باہر آئے ، نیزہ لیا اور بغیر کسی مدد کے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کی کر دئیے.جو نہی صحابہ نے یہ دیکھا معا انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دوڑے، بعض رسول کریم کی مدد کیلئے اور بعض اپنی قربانیوں کی طرف.اور ان کی بے تابی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے تلواروں کی نوکوں سے ایک دوسرے کو ہٹاتے تھے.لیکن گو انہوں نے یہ فرمانبرداری دکھائی اور ان کا جوش بھی ٹھنڈا ہوا مگر پوری طرح نہیں ہوا.حضرت عمرؓ جیسا مخلص انسان بھی اپنے جوش کو نہ دبا سکا.آپ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جا کر بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ يَارَسُوْلَ اللہ ! کیا آپ خدا کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم خدا کی کچی جماعت نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہیں.حضرت عمر نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! آپ کو ایک رؤیا ہوئی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ نا کا می پھر کس بات کا ی نتیجہ ہے؟ ہم ایمان پر ہوتے ہوئے دب گئے اور کفار کا پہلو بھاری رہا اور ہم نے ایسی ایسی شرطیں منظور
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کر لیں کہ اپنے ایک بھائی کو سخت مصیبت کی حالت میں دیکھا مگر کچھ نہ کر سکے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک مجھے رویا ہوئی تھی مگر کیا میں نے کہا تھا کہ اس سال ہم عمرہ کریں گے؟ میں نے صرف قیاس کیا تھا اور اسی قیاس کی بناء پر آیا اور تم کو معلوم ہے کہ یہ بات شرائط میں ہے کہ ہم اگلے سال عمرہ کریں گے اور خواب پورا ہو گا.پھر اس میں ذلت کی کوئی بات نہیں کہ جو مسلمان ہو اُسے واپس کیا جائے اور جو کافر ہوا سے اپنے ہم مذہبوں کے پاس جانے دیا جائے.جس مسلمان کو کفار پکڑ کر رکھیں گے وہ تبلیغ ہی کرے گا اور جو مسلمان مرتد ہو جائے تم بتاؤ ہم نے اُسے رکھ کر کرنا ہی کیا ہے.اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے.ان کا جوش کم ہوا انگر پوری طرح فرو نہیں ہوا.اور پھر وہ اس شخص کے پاس پہنچے جسے اللہ تعالیٰ نے صدیق کہا ہے اور جس کی نبض محمد رسول اللہ ﷺ کی نبض کے تابع چلتی تھی اور کہا ابو بکر ؟ کیا محمد خدا کے رسول ہیں؟ کیا ہمارا دین سچا ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے خواب نہیں دیکھا تھا کہ ہم عمرہ کر رہے ہیں، پھر ہوا کیا ؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا عمر! کیا محمد مصطفی ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم ضرور اسی سال عمرہ کریں گے؟ خواب صرف یہی ہے کہ ہم عمرہ کریں گے سوضرور کریں گے.تب حضرت عمرؓ کا دل صاف ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ صداقت جس طرح رسول کریم ﷺ کی زبان سے نکلی اُسی طرح ابوبکر کی زبان سے بھی نکلی.تو صلح حدیبیہ بڑا بھاری امتحان تھا، بڑی آزمائش تھی مگر صحابہ نے انتہائی اطاعت کا نمونہ دکھایا.مومن کو بعض دفعہ ایسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم انتہائی طور پر ذلیل کئے جارہے ہیں.پہلوں سے بھی ایسا ہوا اور ضروری ہے کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو محمد ہے، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی غرضیکہ سب انبیاء کی جماعتوں سے ایسا ہوا.حضرت عیسی کی صلیب کا واقعہ کچھ کم نہیں.حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ یہ وعظ کیا کرتے تھے کہ اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلوار میں خرید و.مگر جب حکومت نے آپ کو پکڑا تو پطرس جوش میں آیا اور اُس نے لڑنا چاہا مگر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا پطرس جوش میں مت آ اور خاموش رہ.چنانچہ انجیل میں آتا ہے پطرس نے تلوار جو اس کے پاس تھی کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر پر چلا کر اُس کا داہنا کان اُڑا دیا.یسوع نے پطرس سے کہا تلوار کو میان میں رکھ.جو پیالہ باپ نے مجھ کو دیا کیا میں اسے نہ پیوں کے حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بھی کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ان کی قوم جوش میں لڑنا چاہتی مگر وہ حکم دیتے کہ ٹھہر جاؤ.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو گلی طور پر ی خدا کی تدبیر کے ماتحت کر دیں.مگر وہ مُردہ نہیں ہوتے ان کے اندر جوش اور اخلاص ہوتا ہے.وہ قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں مگر قربانی کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن ہو اور جس رنگ میں ہو وہ اُسی وقت اور اُسی رنگ میں قربانی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی فوقیت کی ور عظمت کی بڑی علامت فرمانبرداری اور اطاعت کا ایسا نمونہ ہی ہوتا ہے جو دوسری قوموں میں نظر نہیں آتا.جو چیز دوسروں کی نگاہ میں ذلت ہو وہ ان کی نگاہ میں عزت ہوتی ہے.جو دوسروں کو عزت نظر آئے وہ اسے ذلت سمجھتے ہیں.لوگ عزت اس میں سمجھتے ہیں کہ اپنے نفس کا غصہ نکال لیں اور مومن اس میں کہ خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہو، نفس کا غصہ بے شک نہ نکلے.جب کوئی شخص ایسا ہو جائے تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے نازل کرتا ہے جو اُس کی مدد کرتے ہیں اور یہی کامیابی کا ذریعہ ہے.تم سوچو تو سہی کیا ہماری اتنی طاقت ہے کہ ساری دنیا کو فتح کر سکیں.ہمیں تو جو کامیابی ہوگی فرشتوں کے ذریعہ سے ہوگی اور یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب مومن اپنے نفسوں پر قابو رکھیں اور دل میں اس کیلئے بالکل تیار رہیں کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی اپنے نفسوں کو قربان کر دیں گے مگر اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو قابو میں رکھیں گے اور کوئی بات ایسی نہ کریں گے جو خلاف شریعت اور خلاف آداب ہو.شریعت وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہے اور آداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں.پس ضروری ہے کہ آپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں اور دوسری طرف خلفاء کا ادب واحترام قائم کریں اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے.تمہارے دل پتھر کے ہوں گے اگر وہ ان معجزات سے متاثر نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ نے گزشتہ پچاس سال میں جماعت کیلئے ظاہر کئے ہیں.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر وہ نشانات جمادات پر ظاہر ہوں تو کی درختوں پر اور پتھروں پر اور لوہے پر اور لکڑی پر بھی ان کا اثر ضرور ہو اور تم تو انسان ہو.غور تو کرو تم نے کتنے نشان دیکھے ہیں اور کتنی وحیوں ، کشوف اور الہامات کو پورا ہوتے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، آپ کے خلفاء اور پھر اپنے نفسوں کے ذریعہ تم میں سے بہت ہی کم ہوں گے جنہیں خدا تعالیٰ نے کبھی کوئی سچا خواب نہ دکھایا ہو اور پھر وہ پورا نہ ہوا ہو.تم تو زمین پر اللہ تعالیٰ کا چلتا پھرتا ہے نشان ہو.دنیا کو تم انسان نظر آتے ہو مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں تم خدا کا ہاتھ ہو جو دنیا کی طرف بڑھایا گیا.تم
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء خدا تعالیٰ کا دنیا کی طرف ایک چیلنج ہو جس طرح پُرانے بادشاہ بکرے چھوڑ دیتے تھے اور وہ علامت ہوتے تھے اس بات کی کہ جو اُن پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ گویا بادشاہ کو چیلنج دے گا اور پھر اس بکرے کیلئے ہزاروں لاکھوں انسان تہہ تیغ ہو جاتے تھے.اسی طرح تم خدا کے بڑے ہو.خدا تعالیٰ نے دنیا میں تم کو چھوڑا اور کہا ہے کہ یہ میری نشانیاں ہیں.جو ان پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ مجھ پر ہاتھ اُٹھانے والا سمجھا جائے گا.پس تم کو خدا تعالیٰ نے اپنی طاقت کی آزمائش کیلئے بھیجا ہے نہ کہ تمہاری طاقت کے اظہار کیلئے.سوچو کہ بکرے کی کیا طاقت ہوتی ہے.اگر وہ خود سینگ مارنے لگے تو لوگ اُس پر ہنسی کریں گے.لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ اُس بکرے کے پیچھے بادشاہ کی طاقت ہے اور جس طرح بادشاہ کا بکرا اپنے سینگ مار کر اپنی ہلاکت خریدتا ہے اسی طرح تمہارا حال ہے.کیا تم کو خدا تعالیٰ پر یقین نہیں کہ تم اپنی تدبیروں سے کامیابی کی کوشش کرو.جولوگ کامیابی اپنی تدبیروں سے سمجھتے ہیں وہ سوچیں تو سہی کہ ہماری طاقت کیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے.پس تم اُسی کی طاقت پر بھروسہ رکھو اور اپنی تدبیروں کو دماغ سے نکال دو.مومن وہ ہے جو ہر ابتلاء سے بچتا ہے اور جسے دنیا کی کوئی طاقت اپنی طرف نہیں پھیر سکتی.موجودہ فتنہ جو ہے اس گند کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں.جن لوگوں کے دلوں میں ایمان اور تقویٰ ہے اُن پر تو اس کا کچھ اثر ہو نہیں سکتا اور ایسے لوگوں کو کیا صدمہ ہو سکتا ہے اور جن پر اثر ہوتا ہے وہ ان از لی راندے ہوئے لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ سلسلہ سے الگ کر دے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو کون بچا سکتا ہے.انہیں تو نہ میں بچا سکتا ہوں اور نہ تم نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچا سکتے تھے اور نہ آنحضرت ﷺ.جس کے دل پر موت وارد کرنے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کر لے اسے کون بچا سکتا ہے.ہدایت دینا اور پھر ا بتلاؤں سے بچانا اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے.ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط بنالیں اور ایسے مقام پر کھڑے ہوں کہ اس کے فضل سے ہمارے ایمان پر کوئی چھا پہ نہ مار سکے.جب کوئی کی اپنے ایمان کو حملہ سے بچالیتا ہے تو پھر فرشتے خود بخود اس کی حفاظت کرتے ہیں.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میں پندرہ سولہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا کہ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ یعنی میں تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.یہ الہام اُس وقت کا ہے جب مجھے نہ خلافت کا پتہ تھا اور نہ اس کا کوئی وہم و
خطبات محمود ۳۷۴ سال ۱۹۳۷ء گمان ہو سکتا تھا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا الہام ہے جسے حضور نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی کاپی میں درج فرمایا.پندرہ سولہ سال کے بچہ کو ان باتوں کا علم ہی کیا ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت میری عمر انیس سال کی تھی اور یہ دو تین سال پہلے کا الہام ہے جبکہ میری عمر زیادہ سے زیادہ سترہ سال کی ہوگی.اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی میرے متبعی ہوں گے اور پھر میرے منکر بھی ہوں گے.پھر اگر متبع ہوں تو منکروں کا ہونا تو ضروری نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول کی بیعت سب نے کر لی تھی صرف دو تین آدمی رہ گئے تھے مگر وہ بھی کبھی ظاہر نہیں ہوئے.حضور کی وفات کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے بیعت نہیں کی تھی مگر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ بیعت میں شامل ہیں اور ایسا ہی پھر بھی ہو سکتا تھا یعنی اگر میرے متبع ہوتے تو منکر نہ ہوتے.پھر میری خلافت کے خلاف تو حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ایجی ٹیشن شروع ہو گئی تھی.اُس وقت جو لوگ صاحب کا راور صاحب تدبیر تھے وہ ہمیشہ میرے خلاف جماعت کو اُکساتے رہتے تھے اور پھر دوسری طرف حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بدظن کرنے کی کوششیں کرتے رہتے تھے.وہ جماعت کو تو کہتے تھے کہ یہ غلو کرتا ہے، گفر واسلام کا مسئلہ چھیڑ کر جماعت کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور حضرت خلیفہ اول کو عجیب تدبیروں سے مجھے سے ناراض کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے.یہ دو ہی ذریعے میری خلافت کے ممکن تھے یعنی یا تو ی جماعت منتخب کرتی اور یا پھر حضرت خلیفہ اول نامزد کرتے.اور یہ لوگ دونوں رستے بند کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے.حضرت خلیفہ اول جب پہلی بار بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وصیت میں تحریر فرما دیا تھا.کہ میرے بعد محمود خلیفہ ہومگر بعد میں مخالفتوں کو دیکھ کر آپ نے وہ وصیت پھاڑ دی.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ خیال کیا کہ اگر میں نے یہ لکھ دیا تو مخالفت کر نیوالے اسے میرا بنا یا ہوا خلیفہ کہیں گے اور خلافت کا امر مشتبہہ ہو جائے گا ، اللہ تعالیٰ جسے چاہے بنا دے.حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے جس رنگ میں بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی تھی میں اس کی ایک مثال سناتا ہوں.حضرت خلیفہ اول اس کمرہ میں رہا کرتے تھے جہاں اب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ آ کر ٹھہرتے ہیں یعنی مسجد مبارک کے ساتھ جو کمرہ ہے.ایک روز قریشی امیر احمد صاحب مجھے گھر پر بلانے آئے اور کہا کہ حضرت خلیفتہ امیج بلاتے ہیں.میں گیا تو اُس وقت وہاں شیخ رحمت اللہ صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور غالباً مولوی
خطبات محمود ۳۷۵ سال ۱۹۳۷ء صدرالدین صاحب بیٹھے تھے.جب میں دروازہ میں پہنچا تو دیکھا ان کے چہروں کے رنگ اُڑے ہوئے ہیں.میں گھبرایا کہ خدا خیر کرے.میں نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا اور مجھے یاد نہیں حضرت خلیفہ اول نے جواب دیا یا نہیں اور فرمایا میاں! تم بھی اب ہمارے خلاف منصوبوں میں شامل ہوتے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں میں تو کسی ایسے منصوبہ میں شامل نہیں ہوا؟ آپ نے فرمایا یہ لوگ بیٹھے ہیں.میں نے ایک مکان کے متعلق کہا تھا کہ وہ فلاں شخص کو دے دیا جائے اور ان لوگوں نے میرے خلاف فیصلہ کیا ہے اور میرے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے.میں نے کہا یہ بالکل خلاف واقعہ امر ہے.ان لوگوں نے یہ معاملہ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ شخص کم قیمت دیتا ہے.میں نے کہا حضرت خلیفہ اول کا منشاء ہے کہ اسی کو دیا جائے.اس پر ڈاکٹر محمد حسین صاحب نے کہا کہ ہم لوگوں کو تقویٰ سے کام لینا چاہئے.ہم لوگ ٹرسٹی ہیں اور جماعت کے اموال کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعتمادی بنایا ہے دین کیے ن کیلئے ہمیں جہاں سے زیادہ رقم ملے لے لینی چاہئے.میں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اسیح سے زیادہ تقویٰ کا خیال کون رکھ سکتا ہے.اگر ان کے نزدیک کم قیمت پر اس شخص کو دے دینا ضروری ہے تو میرے نزدیک یہی تقویٰ ہے.مگر یہ کہنے لگے کہ حضرت خلیفہ اسیح نے اجازت دے دی ہے.میں نے کہا کہ ان کی تحریر دکھا ئیں.اس پر انہوں نے آپ کی ایک تحریر دکھائی جس میں لکھا تھا کہ میں نے وہ مشورہ دیا تھا جو میرے نزدیک صحیح تھا لیکن اب میں وہ مشورہ واپس لیتا ہوں جس طرح چاہو کرو.یہ دیکھ کر میں نے کہا یہ اجازت تو نہیں ناراضگی کی تحریر ہے اس لئے اگر آپ لوگوں کا پہلے ارادہ بھی کسی اور کو دینے کا تھا تو اب رُک جانا چاہئے.لیکن اس کے جواب میں انہوں نے پھر کہا کہ تقوی سے کام لینا چاہئے اور میں یہ کہہ کر کہ میرے نزدیک تقویٰ وہی ہے جو حضرت خلیفتہ اسیح پسند کرتے ہیں، خاموش ہو گیا.حضرت خلیفہ اول نے ان سے پوچھا کہ یہ بات ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک تو ہے مگر انہوں نے منع بھی نہیں کیا.اس پر حضرت خلیفہ اول جوش میں آگئے اور فرمایا کہ تم لوگ مجھے اس پر ناراض کرنے کی کوشش کرتے ہو!.یہ بڑی عمر کا تھا یا تم ! اس نے کہہ دیا کہ اطاعت کرو اور کیا کرتا تم لوگوں کے ہاتھ پکڑ لیتا !! غرض حضرت خلیفہ امسیح الاول کو مجھ سے بدظن کرنے کی جو تدابیر بھی ممکن تھیں یہ لوگ انہیں اختیار کرتے رہتے تھے مگر خدا کی مشیت نے پورا ہو کر رہنا تھا.انسانوں نے سارا زور لگایا اور خلافت کے جتنے دروازے ان کے نزدیک تھے وہ مجھے پر بند کرنے کی کوشش کرتے رہے.حالانکہ میرے تو ذہن میں بھی کبھی خلافت کا خیال نہ آیا تھا کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء بلکہ اگر کوئی کبھی مجھ سے اس کے متعلق کوئی ذکر بھی کرتا تو میں اسے روک دیتا اور کہتا کہ یہ جائز نہیں.ابھی حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے ایک حلفی بیان شائع کرایا ہے جس میں لکھا ہے کہ ” حضرت خلیفہ اول بیمار تھے اور مجھے گوجرانوالہ ایک مباحثہ پر جانے کا حکم ہوا.مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے تو کہنے لگے حافظ صاحب آپ سفر پر جاتے ہیں اور مولوی صاحب بیمار ہیں.خلیفہ بنانے میں جلدی نہ کرنا.میں نے یہ بات حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے سامنے پیش کی کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب ! اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنا دے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا“.تو میں نے آگے آنا نہیں چاہا تھا ، میں پیچھے ہٹتا تھا مگر خدا کے ہاتھ نے مجھے پکڑا اور کہا کہ جب ہم کام لینا چاہتے ہیں تو تو پیچھے رہنے والا کون ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کر دیا.اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہیں مگر میں کہتا ہوں تمہاری خوشی کا سوال ہی کیا ہے.اگر تم خوش نہیں ہو تو جاؤ اس سے لڑوجس نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.اگر تم میں کچھ طاقت اور زور ہے تو اُس کے پاس جاؤ اور اس سے اُس تائید اور نصرت کو بند کرا دو جو مجھے مل رہی ہے.مگر میں ہر ایسے شخص کو بتادیتا ہوں کہ اسے سوائے نا کامی و نامرادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا.یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اور خدا کے سلسلوں پر کوئی غالب نہیں آسکتا.آج بے شک تم اتنے لوگ میرے ساتھ ہو مگر اُس وقت کون تھا جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا.بے شک قادیان کے اکثر لوگوں نے بیعت کر لی تھی لیکن باہر کی بہت سی جماعتیں مترڈ تھیں.بڑے بڑے کارکن سب مخالف تھے ، خزانہ خالی تھا اور مخالفت کا دریا تھا جو انڈا ہوا چلا آ رہا تھا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اُس وقت میں اس کی نصرت سے کامیاب ہوا.اس وقت خدا ہی تھا جو میری تائید کیلئے آیا اور اسی نے دوسرے دن مجھ سے وہ ٹریکٹ نکلوایا کہ ”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور جہاں جہاں یہ ٹریکٹ پہنچا جس طرح حنین کی لڑائی کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ کی طرف سے یہ آواز بلند کرائی گئی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور صحابہ بیتاب ہو کر اُس آواز کی طرف بھاگے بلکہ جن کے گھوڑے نہیں مُڑتے تھے انہوں نے اُن کی گردنیں کاٹ دیں اور پیدل دوڑے ہے اسی طرح جب میری آواز باہر پہنچی مترو د جماعتوں کے دل صاف ہو گئے اور تاروں اور خطوں کے ذریعہ بیعت کرنے لگیں.وہی خدا جو اُس وقت فوجوں کے ساتھ تائید کرنے آیا آج میری مدد پر ہے اور اگر آج تم خلافت
خطبات محمود ۳۷۷ سال ۱۹۳۷ء کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھ لوتو تمہاری مدد کو بھی آئے گا.نصرت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے.جب تک خلافت قائم رہے نظامی اطاعت پر اور جب خلافت مٹ جائے انفرادی اطاعت پر ایمان کی بنیاد ہوتی ہے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے عقلمند اور مدبر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا کھڑا ہونا اور چلنا ، تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو.بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور کی اس جگہ پر کھڑا ہوں.ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ یقینا نبی کی اطاعت سے باہر جاتا ہے.جو میرا جوا اپنی گردن سے اُتارتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جواً اُتارتا ہے.اور جو ان کا جواً اُتارتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا جواً اُتارتا ہے.اور جو آنحضرت ﷺ کا جوا اُتارتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا جواُ اُتارتا ہے.میں بے شک انسان ہوں خدا نہیں ہوں مگر میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے.مجھے جو بات کہنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے میں اسے چھپا نہیں سکتا.مجھے اپنی بڑائی بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اس وقت تک اس شرم کی وجہ سے رُکا رہا ہوں لیکن آخر خدا تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے.میں انسانوں سے کام لینے کا عادی نہیں ہوں.تم بائیس سال سے مجھے دیکھ رہے ہو اور تم میں سے ہر ایک اسی امر کی گواہی دے گا کہ ذاتی طور پر کسی سے کام لینے کا میں عادی نہیں ہوں.حالانکہ اگر میں ذاتی طور پر بھی کام لیتا تو میرا حق تھا مگر میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خود دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں مگر خود کسی کا ممنونِ احسان نہ ہوں.خلفاء کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے.تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس کے ماں باپ نے خدمات نہ لی ہوں گی.مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی سے ذاتی فائدہ اٹھانے یا خدمات لینے کی میں نے کوشش کی ہو.میرے پاس بعض لوگ آتے ہیں کہ ہم تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنی پسند کی چیز بتا دیں مگر میں خاموش ہو جاتا ہوں.آج تک ہزاروں نے مجھ سے یہ سوال کیا ہوگا ہی مگر ایک بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کا جواب دیا ہو.میرا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا ہے کہ وہ خود میری دستگیری کرتا ہے اور میرے تمام کام خود کرتا ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء بندے کا کام خدا تعالیٰ کا امتحان لینا نہیں مگر میں نے کئی دفعہ ابراہیم کی طرح جوش محبت میں خدا تعالیٰ سے اُس کی قدرتوں کے دیکھنے کی خواہش کی ہے اور اس نے میری خواہش پوری کی ہے.ایک کی دفعہ میں ایک سفر پر تھا اور ایسے علاقہ سے گزر رہا تھا جہاں کوئی احمدی نہ تھا.غالبا نشانات کا ذکر تھا میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مجھے اپنے نشان کے طور پر ایک روپیہ دلوا دیں.اب یہ بات تو بالکل ہی عقل کے خلاف تھی کہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی مجھے ایک روپیہ دے دیتا.اور اُس وقت یہ ذکر ہورہا تھا کہ اس علاقہ میں کوئی احمدی نہیں اور لوگ شدید مخالف ہیں.مگر ادھر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور اُدھر سامنے ایک گاؤں کے لوگ کھڑے نظر آئے اور ہمارے کسی ساتھی نے کہا کہ اس گاؤں میں.نہیں گزرنا چاہئے یہ لوگ سخت مخالف ہیں اور نمبر دار کئی دفعہ کہہ چکا ہے کہ یہاں اگر کوئی احمدی آیا تو اسے جوتے مرواؤں گا اس لئے اس گاؤں سے ہٹ کر چلنا چاہئے.مگر ہم اس قدر قریب پہنچ چکے تھے کہ اور کوئی رستہ ہی نہ تھا، اس لئے چلتے گئے.ہمیں دیکھ کر وہ نمبردار آگے بڑھا.میرے ساتھی میرے ارد گرد ہو گئے کہ ایسا نہ ہو حملہ کر دے.مگر اُس نے بڑھ کر سلام کیا اور ایک روپیہا اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بطور نذرانہ پیش کیا.میں مسکرا پڑا اور وہ دوست گاؤں سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنے لگے.ایک نے کہا اس کا روپیہ لینا نہیں چاہئے تھا.میں نے کہا اسی کا تو لینا چاہئے تھا.اسے کیا معلوم تھا کہ وہ روپیہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندہ کے ناز کو پورا کرنے کی علامت تھا.تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ مجھ سے ایسا ہے کہ اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا.بیسیوں مرتبہ میں نے اپنی آمد اور اخراجات کا حساب کیا ہے تو اخراجات آمد سے ہمیشہ دوگنا ہوئے ہیں اور پھر پتہ نہیں وہ کس طرح پورے ہوتے ہیں.پھر حساب کے معاملہ میں میں اس قد رمحتاط ہوں کہ میں چیلنج کرتا رہتا ہوں کہ جو چاہے میرے حساب کو دیکھ لے.پچھلے دنوں ایک شخص کے اعتراضات کے جواب میں میں نے جو خطبہ پڑھا تو ایک غیر مبائع کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا ہے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ کے حسابات ہمارے حسابات سے زیادہ صاف ہیں.ہم پر اعتراض ہو سکتے ہیں مگر آپ پر نہیں.مگر آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ تین سال سے جو فلاں شخص پیدا ہوا ہے، شاید اس سے ڈر کر یہ حساب رکھے گئے ہیں.میں نے اسے لکھا کہ تین سال سے نہیں بلکہ ۲۲ سال سے ہی ایسے ہیں جب سے میں خلیفہ ہوا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو اپنے ساتھ دیکھ کر میں کسی انسان پر کوئی امید نہیں رکھ سکتا.کئی لوگ کہتے ہیں کہ موٹر رکھا ہوا ہے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء نادان نہیں جانتے کہ موٹر تو جلدی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا ذریعہ ہے.موٹر کی قیمت عرب کے گھوڑے کے برابر ہی ہوتی ہے.اور رسول کریم ﷺ کئی کئی گھوڑے رکھتے تھے.پھر گاڑی بھی تو سواری کا زریعہ ہے.اگر موٹر سادگی کے خلاف ہے تو پھر گاڑی میں بھی سفر نہیں کرنا چاہئے.کامل سادگی اسی میں ہے کہ پیدل چلا جائے.میرا موٹر تو بہت سارا دینی کاموں کے کام آتا ہے.سلسلہ کے جو مہمان یہاں آتے ہیں ان کے سواری کے کام یہی آتا ہے.پھر سلسلہ کے کاموں کیلئے لاہور وغیرہ جانا پڑے تو اسی پر چلے جاتے ہیں.اگر سلسلہ موٹر خریدتا اور میں اسے استعمال کرتا تب بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی.اگر وائسرائے گاڑی میں سفر کرے یا ہوائی جہاز پر کرے تو کیا حکومت اس کا انتظام کرتی ہے ؟ نہیں ؟ اس کیلئے سواری کا انتظام حکومت کے ہی ذمہ ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پھرے گا نہیں تو کام کیسے کرے گا.اس لئے اگر سلسلہ کی طرف سے خرید کردہ موٹر کو میں استعمال کرتا تو بھی کوئی اعتراض کی بات ی نہ تھی.لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میرے روپے سے خریدا گیا اور سلسلہ کے کام آتا ہے یہ ایک قابل تعریف بات تھی لیکن نادان اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ ایک ایک ہزار دینار کا لباس پہنا کرتے تھے.کسی نے اس پر اعتراض کیا تو ی انہوں نے فرمایا کہ یہ نادان نہیں جانتا کہ میں اُس وقت تک کوئی کپڑا پہنتا ہی نہیں ہوں جب تک خدا تعالیٰ کی مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ہی قسم کہ یہ کپڑا پہن.اور میں نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے ہے نہیں کہتا کہ عبد القادر! تجھے میری ہی قسم کھا.اور تم کو یاد ہوگا کہ ۱۹۳۳ء کی عید الفطر کے خطبہ کے موقع پر میں نے اپنا ایک رؤیا سنایا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم ہے میں اس میں بیٹھا ہوں اور ایک دو غیر احمدی بھی میرے پاس بیٹھے ہیں.کچھ لوگ مجھے دبا ر ہے ہیں.ان میں سے ایک شخص جو سامنے کی طرف بیٹھا تھا، اُس نے آہستہ آہستہ میرا ازار بند پکڑ کر گرہ کھولنی چاہی.میں نے سمجھا اس کا ہاتھ اتفاقا لگا ہے اور میں ازار بند پکڑ کر اُس کی جگہ پر اٹکا دیا.پھر دوبارہ اس نے ایسی ہی حرکت کی اور میں نے پھر یہی سمجھا کہ اتفاقیہ اُس سے ایسا ہوا ہے.تیسری دفعہ پھر اس نے ایسا ہی کیا تب مجھے اس کی بد نیتی کے متعلق شبہ ہوا اور میں نے اسے روکا نہیں جب تک کہ میں نے دیکھ نہ لیا کہ وہ بالا رادہ ایسا کر رہا ہے تا جب میں کھڑا ہوں تو ننگا ہو جاؤں اور لوگوں میں میری سبکی ہو.تب میں نے اُسے ڈانٹا اور کہا تو جانتا نہیں مجھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اللہ تعالیٰ نے عبد القادر بنایا ہے ( یہ خواب جیسا کہ ظاہر ہے موجودہ فتنہ پر بوضاحت دلالت کرتا ہے).پس میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بالکل سید عبد القادر جیلانی والا ہے.وہ میرے لئے اپنی قدرتیں دکھاتا ہے مگر نادان نہیں سمجھتا.یہ زمانہ چونکہ بہت مشبہات کا ہے اِس لئے میں تو اِس قد را احتیاط کی کرتا ہوں کہ دوسروں سے زیادہ ہی قربانی کروں.پس یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو دیکھتے ہی ہوئے میں انسانوں پر انحصار نہیں کر سکتا اور تم بھی یہ نصرت اس طرح حاصل کر سکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ کی نمونہ دکھاؤ.اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود خلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیں ملے گا.اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اُڑ جائیں گے، تمہارے دشمن زیر ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت وسطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے.لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو.جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دوور نہ چُپ رہو، ادب کا مقام یہی ہے.لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو بغیر پوچھے بھی دے دو مگر عمل وہی کرو جس کی تمہیں ہدایت دی جائے.ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کیلئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے.باقی رہا عمل اس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اُس کے ہتھیار بن جاؤ ، تب ہی برکت حاصل کر سکو گے اور تب ہی کامیابی نصیب ہوگی.اللہ تعالیٰ تم کو اس کی توفیق بخشے.( الفضل ۴ ستمبر ۱۹۳۷ء) بخاری کتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام (الخ) النور : ۵۶ سے بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد (الخ) سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۳۳۳۳۳۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۶،۵، بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد (الخ) کے یوحنا باب ۱۸ آیت ۱۰.۱۱ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء سیرت ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۷ ۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
خطبات محمود ۳۸۱ ۲۸ سال ۱۹۳۷ء فتنوں سے بچنے کیلئے سورہ فاتحہ میں علاج بتایا گیا ہے (فرموده ۳ ستمبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سورۃ فاتحہ ایک ایسی کامل سورۃ ہے کہ جس میں ہر مرض کا علاج موجود ہے اور ہر زمانہ کے شرور اور فتن کا ذکر اس میں پایا جاتا ہے اور ہر قسم کی روکیں جو انسانی ترقی کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں یا وہ اسباب جو خدا تعالیٰ کے قرب سے اسے دور کر دیتے ہیں ان کے ازالہ کے ذرائع اور ان سے بچنے کے کی سامانوں کا ذکر اس میں کیا گیا ہے.جس طرح قرآن کریم ایک انڈیکس اور فہرست ہے اللہ کے ان قوانین کی جو اس تمام کائنات کو چلا رہے ہیں اسی طرح سورہ فاتحہ فہرست ہے قرآن کریم کے مضامین کی.جس طرح ایک زکی انسان محض فہرست پڑھ کر اصل کتاب کے مضامین سے آگاہ ہو جاتا ہے اسی طرح قرآن کریم سے تعلق رکھنے والا انسان سورۂ فاتحہ پڑھ کر قرآن مجید کے تمام مضامین سے آگاہ ہو جاتا ہے.اور پھر قرآن مجید پڑھ کر جو اللہ تعالیٰ کے اُن قوانین کی فہرست ہے جو تمام کائنات عالم کو چلا رہے ہیں اس کے قوانین قدرت سے آگاہ ہو جاتا ہے.چونکہ موجودہ زمانہ کئی قسم کے فتن کا زمانہ ہے اس لئے میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ فتنوں کے زمانوں کے متعلق قرآن کریم میں بعض احکام بیان کئے گئے ہیں اور بعض ایسی تدابیر بتائی گئی ہیں جن کو اختیار کر کے انسان رفتن سے محفوظ ہو جاتا ہے.بالخصوص سورۃ فاتحہ میں اصولی طور پر اللہ تعالیٰ نے فتن کی تفصیلات بتائی ہیں اور ان سے بچنے کا علاج بھی بتایا ہے.مگر ہماری جماعت
خطبات محمود ۳۸۲ سال ۱۹۳۷ء کے بعض دوست ان امور کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے بسا اوقات اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ ہماری جماعت میں بھی بعض منافق پائے جاتے ہیں.اور ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ مختلف مواقع پر ٹھوکر کھاتے اور مرتد ہو جاتے ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کیلئے یہ صورت حیرت انگیز ہوتی ہے.حالانکہ اگر وہ سورۂ فاتحہ پر غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ اس ابتدائی سورت میں ہی جو ہمیں دعا سکھائی گئی ہے اس میں بھی اس امر کو بیان کر دیا گیا ہے کہ ایسے فتن ہمیشہ آتے رہیں گے اور مومنوں کی جماعت سے وہ لوگ نکلتے رہیں گے جو منافق طبع ہوں.جیسا کہ عربی زبان سے واقف لوگ جانتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وَلَا الضَّالِينَ ل کی دعا جو ہمیں سکھائی گئی ہے یہ مستقل دعا نہیں.عام طور پر جو لوگ عربی زبان سے یا قرآن کریم کے مطالب سے ناواقف ہوتے ہیں وہ سورہ فاتحہ کی ان آخری آیتوں کے صرف یہ معنے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ سکھایا ہے کہ ہم اس سے انعامات کے حصول کی دعا کریں اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ اُس کا غضب ہم پر نازل نہ ہو اور نہ ہم گمراہ ہوں.حالانکہ یہ مفہوم ان آیتوں کا نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا ہے اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل اس کی بات پر زور دیا کرتے تھے اور جیسا کہ عربی زبان کے قواعد سے ہر واقف شخص جانتا ہے کہ اس میں جو دعائی سکھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ الہی ! ہم پر تو اپنا انعام نازل کر مگر انعام کے بعد جو تیرا غضب نازل ہوتا ہے یا منعم علیہ گروہ میں شامل ہو کر انسان بعض دفعہ جو ضال بن جاتا ہے اس سے ہمیں بچا اور ہمیں مغضوب اور ضالین میں شامل ہونے سے محفوظ رکھ.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی دعا اگر مستقل ہوتی تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم نے کی دعا سے پہلے اسے لکھا جاتا.کیونکہ پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچتا اور گمراہی سے محفوظ ہوتا ہے اور بعد میں اسے انعام ملتا ہے.ایسا نہ کیا جاتا کہ پہلے تو اس کی سے ہدایت طلب کروائی جاتی اور پھر کہا جاتا کہ اب یہ بھی دعا مانگو کہ ہم پر غضب نازل نہ ہو.مثلاً ایک طالب علم جب امتحان میں کامیابی کے متعلق دعا کرے گا تو یوں دعا کرے گا کہ یا اللہ ! مجھے روزانہ سبق یا د ہوتے رہیں اور پھر امتحان میں بھی میں پاس ہو جاؤں.کیونکہ امتحان سبقوں کے بعد آتا ہے پہلے نہیں آتا.اور اگر کوئی طالب علم یہ دعا کرے کہ یا اللہ ! میں امتحان میں پاس ہو جاؤں اور پھر سبق بھی مجھے یاد کی ہوتے رہیں تو سب لوگ اُس کی اس دعا پر ہنسیں گے اور کہیں گے کہ پہلے تمہیں سبق یاد ہونے چاہئیں اس
خطبات محمود ۳۸۳ سال ۱۹۳۷ء کے بعد تم امتحان میں کامیاب ہو گے نہ یہ کہ امتحان میں کامیاب ہو جاؤ اور پھر سبق یاد کرنے لگو.پس تم پہلے یہ دعا مانگو کہ الہی ! مجھے روزانہ سبق یاد ہوتے رہیں اور پھر یہ دعا مانگو کہ مجھے امتحان میں کامیاب بھی کر.امتحان میں کامیابی کی دعا اس لئے ضروری ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ سبق یاد ہونے پر انسان امتحان میں بھی ضرور کامیاب ہو جائے.بعض دفعہ سبق اچھی طرح یاد ہوتے ہیں مگر کمرہ امتحان میں داخل ہوتے ہی ہی طالب علم گھبرا جاتے ہیں اور انہیں سب کچھ کھول جاتا ہے اور وہ فیل ہو جاتے ہیں.پس سبقوں کے یا درہنے کی دعا کے ساتھ ہی یہ دعا مانگنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ الہی ! پھر میں امتحان میں بھی کامیاب ہو جاؤں.مجھے یاد ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا تو مولوی شیر علی صاحب جو ہمارے استاد ہوا کرتے تھے وہ ایک طالب علم کو تمام لڑکوں کی کا پیاں دیکھنے کیلئے مقرر کیا کرتے تھے.وہ انگریزی میں نہایت اعلیٰ مہارت رکھتا تھا اور ہمارے اساتذہ اُسی کو ہماری کا پیاں دیکھنے کیلئے مقرر کیا کرتے تھے.مگر جب امتحان ہوتا تو وہ استاد طالب علم جو دوسروں کی کاپیاں دیکھا کرتا تھا فیل ہو جاتا اور اس کے شاگرد پاس ہو جاتے.جب اُس سے پوچھا جاتا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو وہ کہتا جب میں امتحان کے کمرہ میں داخل ہوتا ہوں تو گھبرا جاتا ہوں اور سب پڑھا لکھا مجھے بُھول جاتا ہے.تو یہ تو ممکن ہے کہ کوئی انسان سبق یاد کرتا رہے مگر امتحان کے وقت گھبرا جائے اور سوالات کے جواب نہ دے سکے.یا اسے امتحان کے دنوں میں بخار ہو جائے اور اس طرح وہ امتحان میں فیل ہو جائے.لیکن یہ کوئی صورت نہیں کہ کوئی طالب علم امتحان پہلے پاس کرے اور سبق بعد میں یاد کرے.اسی لئے جب کوئی ذہین اور سمجھدار طالب علم دعا کرے گا تو اسی رنگ میں کرے گا کہ یا اللہ ! مجھے سبق یاد ہوتے رہیں اور پھر امتحان میں بھی میں کامیاب ہو جاؤں.یہ نہیں کہے گا کہ یا اللہ ! میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں اور پھر سبق مجھے یاد ہوتے رہیں.کیونکہ یہ پہلی دعا ہے اور وہ پچھلی.اور پہلی دعا کو پیچھے کرنا اور پچھلی دعا کو پہلے رکھنا عقل کے بالکل خلاف ہے.تو ہدایت ملنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل نہ ہو.کیونکہ جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو گیا اسے ہدایت کہاں مل سکتی ہے اور پھر ہدایت ملنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انسان گمراہی سے بچاہوا ہو.کیونکہ جو گمراہ ہو اس کا ہدایت سے کیا تعلق ہے.تو اگر یہ مستقل دعائیں ہوتیں تو سورۂ فاتحہ میں یوں دعا مانگی جاتی کہ یا اللہ ہم گمراہ نہ ہوں.یا اللہ ! ہم پر تیرا غضب نازل نہ ہوتی
خطبات محمود ۳۸۴ سال ۱۹۳۷ء اور یا اللہ ! ہم ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں.یہ ترتیب بالکل طبعی تھی کیونکہ پہلے انسان کمزور یوں سے نجات حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے اور پھر یہ چاہتا ہے کہ میں کامل انسان بن جاؤں.جب ایک بیمار دعا کرے گا تو یوں کرے گا کہ یا اللہ ! مجھے بیماری سے شفا بخش اور مجھے طاقت عطا فرما.کیونکہ پہلے اس کی بیماری دور ہوگی اور پھر اس میں طاقت آئے گی.اسی طرح خدا کا غضب اور ضلالت بیماریاں ہیں اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا قوت اور طاقت کی دعا ہے.اور کوئی عقلمند یہ دعا کبھی نہیں کرے گی گا کہ پہلے میں پہلوانوں کی طرح مضبوط بن جاؤں اور پھر میری بیماریاں دور ہوں.وہ یہی دعا کرے گا کہ پہلے میری بیماریاں دور ہوں اور پھر میرے اندر پہلوانوں کی سی طاقت آجائے.تو اگر یہ تینوں مستقل دعائیں ہوتیں تو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کو پہلے رکھا جاتا اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ سے کو بعد میں.مگر یہ مستقل دعا ئیں نہیں بلکہ ساری دعائیں مل کر ایک کی کامل دعا بنتی ہے.چنانچہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کیا گیا.اور اس دعا کے اندر ہی وہ ضلالت جو ایمان سے پہلے ہوتی ہے اس کے دور ہونے کی دعا شامل ہے.مثلاً اگر کوئی بیمار صرف یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ ! مجھے مضبوطی اور طاقت عطا کر تو بیماری کے دور ہونے کی دعا خود بخود اس میں آجائے گی.ہاں اگر اس کے ساتھ ہی وہ یہ الفاظ بھی بڑھا دے کہ پھر کبھی میں بیمار نہی ہوں تو بڑھا سکتا ہے کیونکہ یہ آئندہ کے متعلق ہو گی.اس کی موجودہ بیماری کے دور ہونے کی دعا اس کے پہلے فقرہ میں ہی آجائے گی تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں جس کے معنے یہ ہیں کہ یا اللہ ! مجھے کامل صحت دے، یا اللہ ! مجھے کامل قوت دے وہ ضلالت جو ایمان سے پہلے ہوتی ہے اور وہ غضب جو عدم ہدایت کی صورت میں نازل ہوتا ہے اس سے بچنے کی دعا خود بخود آ گئی.مگر پھر ایمان کے بعد بھی کبھی انسان ضلالت اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ایمان کے بعد بھی کبھی انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد ہو جاتا ہے.پس اس غضب اور اس ضلالت سے بچنے کی دعا ان آخری آیتوں میں سکھائی گئی ہے اور مومنوں کو تلقین کی گئی ہے کہ تم یہ دعا کرو کہ یا اللہ! ہماری بیماریوں کو دور کر اور ہمیں اپنے فضل سے کامل روحانی صحت دے.مگر پھر اس صحت کی وجہ سے جو بعض خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہو جاتا ہے اور کبھی ضلالت اس پر غالب آ جاتی ہے اور وہ گمراہ ہو جاتا ہے، ان تمام خرابیوں سے تا عمر اور تا اختتام حیات ہمیں محفوظ رکھ اور صراط مستقیم پر ثبات
خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۳۷ء عطا فرما - توغَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ سے مراد موجودہ بیماریوں کے دور ہونے کے لئے دعا نہیں بلکہ جب ایمان کامل ہو جائے تو اس کے بعد پیدا ہونے والی خرابیوں کے ازالہ کیلئے یہ دعا ہے کہ الہی ! ہمیں ایمان تو حاصل ہو گیا مگر اب ایسا فضل کر کہ ہمارا ایمان کبھی زائل نہ ہوا ور ہم مرتے دم تک اسی پر قائم رہیں.غرض غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ استثناء ہے.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ سے کہ بعض منعم علیہ ہوکر مغضوب ہو جاتے ہیں اور بعض منعم علیہ ہو کر ضال ہو جاتے ہیں اور دعا یہ سکھائی گئی ہے کہ الہی ! جب ہم منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جا ئیں تو پھر ہم منعم علیہ ہی رہیں.ایسا نہ ہو کہ کسی ٹھوکر کی وجہ سے مغضوب اور ضالین میں شامل ہو جائیں.یہ دعا ہے جو ہم ہمیشہ مانگتے رہتے ہیں اور جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ عام مومن تو کجا منعم علیہ شخص بھی مغضوب اور ضال ہونے کے خطرہ میں ہر وقت گھرا ہوا ہے اور بعض دفعہ انسان روحانی لحاظ سے بہت بلند مقام پر پہنچ کر بھی ایسا گرتا ہے کہ اس کے اندر ایمان کا شائبہ تک نہیں رہ جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو لدھیانہ کے ایک شخص کے متعلق جو آپ سے نہایت گہری ارادت ظاہر کرتا تھا ایک دفعہ ایک الہام ہو ا جس میں اس کی روحانی طاقتوں کی بہت بڑی تعریف کی گئی تھی.مگر بعد میں وہ مرتد ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کے کی متعلق تو الہام الہی میں تعریف آچکی تھی پھر یہ کیوں مرتد ہو گیا.تو آپ نے فرمایا بے شک الہام میں اس کی تعریف موجود تھی اور اللہ تعالیٰ کا کلام بتارہا تھا کہ وہ اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتا تھا.لیکن جب اس نے ان طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس میں کبر اور غرور پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو گیا اور وہ مرتد ہو گیا.تو سورہ فاتحہ کی دعا ہمیں بتاتی ہے کہ نفاق اور کفریہ دو چیزیں انسان کے ساتھ ہر وقت لگی ہوئی ہیں اور یہ دونوں مرضیں منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد انسان پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں.اور ان کے پیدا ہونے کے دو سبب ہوتے ہیں.ایک مرض تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوتی ہیں.اس کے فضل اسے نو از ناشروع کرتے ہیں اور وہ ایمان میں اعلیٰ درجہ حاصل کر لیتا ہے.لیکن بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر گزار ہونے کے وہ تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کسی وقت خدا تعالیٰ کی یا اس کے پیاروں اور مقبول بندوں کی کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تمام انعامات سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آجاتا ہے.گویا یہ اللہ تعالیٰ
خطبات محمود ٣٨٦ سال ۱۹۳۷ء یا اس کے پیاروں سے لڑائی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ تمام درجات سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو جاتا ہے.یا پھر یہ مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ غلو کر نے لگ جاتا ہے اور ایسی جگہ انکسار کرنے لگ جاتا ہے جہاں اس کیلئے انکسار جائز نہیں ہوتا.ایسی حالت میں اس کے اندر تکبر نہیں ہوتا بلکہ انکسار ہوتا ہے اور انکسار بھی جب حد سے بڑھ جائے تو ایک مقام پر جرم بن جاتا ہے.پس انکسار اس کو ایک ایسے مقام پر لے جاتا ہے جو ضلالت اور گمراہی کا مقام ہوتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی نگاہ سے وہ گر جاتا ہے.مثلاً خدا کے کسی برگزیدہ کے متعلق وہ یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ اس کے ی مقابلہ میں میں اتنا ذلیل ہوں ، اتنا ذلیل ہوں کہ مجھے اب اس کی پوجا کرنی چاہئے اور میں تو بالکل ادنی انسان ہوں، یہ شخص جس کی میں اطاعت کرتا ہوں خدا یا خدا کا بیٹا ہے.جب انکسار کو وہ اس حد تک پہنچا دیتا ہے تو وہ ضال کہلانے لگ جاتا ہے.اور ایسا انسان بھی انعام کے مقام پر پہنچ کر گر جاتا ہے.پہلی کی قوم کی مثال رسول کریم ﷺ نے یہود سے دی اور دوسری قوم کی مثال رسول کریم ﷺ نے نصاری سے دی.یہود وہ تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے انبیاء کے مقابلہ میں تکبر سے کام لیا اور نصاریٰ وہ تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے مقابلہ میں اس قدر انکسار کیا کہ اسے خدا اور خدا کا بیٹا سمجھنے لگ گئے اور آپ اس کے بندے بن بیٹھے.پہلی قوم محبت تو ڑ کر خدا تعالیٰ کی مجرم بنی تھی تو دوسری قوم محبت کی بے جا تی زیادتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے حضور مجرم قرار پا گئی.۱۹۳۵ء میں میں نے اسی مسجد میں اسی ممبر کھڑے ہوکر ایک رویا سنایا تھا جو انہیں دنوں الفضل میں بھی شائع ہو گیا اور جس کے ایک حصہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ناجائز محبت انسان کو مجرم بنادیتی ہے.میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کبڈی کھیلنے لگے ہیں اور انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا، خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا.جب مجھے ان کے اس خیال کا علم ہوا تو میں نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا تم دین کو ہنسی کا تج موجب بناتے ہو اور کیا ان امور کا فیصلہ کبڈیوں سے ہو سکتا ہے.اس پر جو لوگ پہلے خلافت کے موید تھے میں نے دیکھا کہ وہ بھی بھر گئے اور انہوں نے میرے روکنے کو ہی اپنی ہتک سمجھا اور وہ بھی دوسرے فریق کے ساتھ شامل ہو گئے.اب یہ ایک ناجائز محبت کا مظاہرہ تھا جو انہوں نے کیا اور بوجہ اس کے کہ انہیں خدا کیلئے محبت نہ تھی ان کے ایمان ضائع ہو گئے.پس اگر محبت کے جذ بہ کا غلط طریق پر استعمال کیا جائے تو اس کا نتیجہ بھی کبھی اچھا نہیں نکل سکتا.
خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۷ء بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کے دل میں بڑا ایمان تھا، اسے سلسلہ سے بڑی محبت تھی ، پھر اسے کیوں ٹھوکر لگی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس کی محبت اور اس کا اخلاص خدا کیلئے نہیں تھا بلکہ کسی کمزوری یا الہی تصرف کے ماتحت تھا.اس لئے ایسے انسان با وجود محبت میں ترقی کر جانے کے پھر بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں.تو ای انسان کے متعلق کسی مقام پر بھی یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اب ٹھوکر سے محفوظ ہے.سوائے اس کے کہ وہ اس اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے جہاں خدا کی طرف سے یہ کہ دیا جائے کہ اب اسے ٹھو کر نہیں لگے گی.غرض اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں یہ دونوں مضمون بیان کر دیئے ہیں.یعنی یہ کہ ایک طرف تمہارے لئے ہر قسم کی ترقیات مقدر ہیں اور تم اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات حاصل کر سکتے ہو.مگر دوسری طرف یہ یاد رکھو کہ جوں جوں انعامات بڑھتے جائیں اتنا ہی انسان کے گرنے کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے.کسی شاعر نے کہا ہے گرتے ہیں شہسوار ہی میداں میں مثل برق وہ طفل کیا کرے گا جو کھٹنوں کے بل چلے کہ جو شہسوار ہو وہی میدانِ جنگ میں گرتا ہے.وہ بچہ جو گھٹنوں کے بل چل رہا ہو اس نے کیا کرنا ہے.اسی طرح انسان جتنا زیادہ اونچا چڑھتا اور روحانی کمالات حاصل کرتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی اس کے گرنے کا احتمال بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے.یہودی کتب میں اور ہماری روایات کی کتب میں ایک شخص بلعم باعور کا حال لکھا ہے کہ اس نے بڑی عبادتیں کیں ، بڑی عبادتیں کیں ، بڑی عبادتیں کیں یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گیا اور اس کی دعائیں نہایت کثرت سے قبول ہونے لگیں.حتی کہ لوگ جب اُس کے پاس جاتے اور دعا کرنے کیلئے کہتے تو اس یقین کے ساتھ واپس آتے کہ اب یہ دعا ضرور قبول ہو جائے گی.ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے ملک میں سے گزرے تو اس ملک کا جو بادشاہ تھا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اور آپ سے لڑائی شروع کر دی.مگر جب اُس نے دیکھا کہ میرا پلہ کمزور ہے اور میں موسیٰ کے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس نے اپنے مشیر کاروں سے مشورہ لیا.انہوں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ بلعم کو بلا ؤ اور اس سے دعا کراؤ.اگر وہ موسیٰ کے خلاف بددعا کرے گا تو موسیٰ کے لشکر کو ضرور شکست
خطبات محمود ۳۸۸ سال ۱۹۳۷ء ہو جائے گی.اس پر اس نے بلعم کی طرف اپنا آدمی بھیجا اور کہا کہ میرا موسیٰ سے مقابلہ ہے تم میرے لئے دعا کرو کہ اس مقابلہ میں میں کامیاب ہو جاؤں اور اگر میں جیت گیا تو میں تمہیں بہت کچھ انعام دوں گا.مگر پیشتر اس کے کہ بادشاہ کا آدمی اس کے پاس پہنچتا بلعم کو خدا نے خواب میں بتلا دیا کہ دیکھنا موسیٰ میرا پیارا بندہ ہے ، اس کے خلاف بد دعا نہ کیجیئو.جب بادشاہ کا پیغا مبر اس کے پاس پہنچا تو چونکہ بلعم یہ خواب دیکھ چکا تھا اس لئے اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ موسیٰ کے خلاف میں بددعا نہیں کر سکتا.مگر اس نے کی بیوی نے جس کے دل میں انعام کا لالچ پیدا ہو گیا تھا اُسے کہا دیکھو! خوابوں کی مختلف تعبیریں ہوتی کی ہیں.تم انکار مت کرو اور اس کے ساتھ جاؤ اور موسیٰ کے خلاف بد دعا کرو ممکن ہے ہمارے بھی دن پھر جائیں اور ہماری تنگدستی دور ہو جائے.چنانچہ وہ اپنی بیوی کی بات مان گیا اور گھر سے موسیٰ کے خلاف بددعا کرنے کیلئے نکلا.لیکن جب وہ اس شخص کے ساتھ چلا تو تین دفعہ خدا تعالیٰ کے فرشتے نے سامنے کھڑے ہو کر اسے روکا اور کہا کہ موسیٰ کے خلاف بد دعامت کر مگر وہ پھر بھی اپنی بیوی کے کہنے کے مطابق چلتا چلا گیا.یہاں تک کہ ایک الگ مقام میں اس نے بادشاہ کے حکم کے ماتحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بددعا کرنی شروع کر دی.ابھی وہ دعا کر ہی رہا تھا کہ معاً اُس پر کشفی حالت طاری ہوئی اور اس نے دیکھا کہ ایک کبوتری اُس کے منہ سے نکل کر اُڑی جارہی ہے.اس نے ایک فرشتے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ خدا کے فرشتے نے جواب دیا یہ تیرا ایمان ہے جو اب تیرے اندر سے نکل کر اُڑا جا رہا ہے.اب تو ساری عمر بیٹھا ریاضتیں کرتارہ خدا نے تجھے جو انعام دیا تھا وہ اب اس نے واپس لے لیا ہے اور تیری تمام ولایت اس نے چھین لی ہے.اب دیکھو ایک شخص صاحب کشف ہے، صاحب وحی ہے ، صاحب الہام ہے ، خدا کا مقرب ہے اور اتنا مقرب ہے کہ اس کی کوئی دعا رد نہیں کی جاتی مگر جب وہ اس شخص کا مقابلہ کرتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے نظام کے قائم کرنے کیلئے کھڑا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی ساری عبادتوں کو ضائع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تیری دعا چونکہ کسی فرد کے خلاف نہیں بلکہ میرے خلاف ہے اس لئے ساری عمر کی عبادتوں کے نتیجہ میں ہماری طرف سے جو تجھے انعام ملا تھا وہ ہم واپس لیتے ہیں.تو معمولی مقام تو ایک طرف رہے بڑے بڑے مقام پر پہنچ کر بھی انسان بعض دفعہ ٹھو کر کھا جاتا اور ایسی بُری طرح گرتا ہے کہ اس کا ایمان بالکل ضائع ہو جاتا ہے.
خطبات محمود ۳۸۹ سال ۱۹۳۷ء اب تک ہماری جماعت میں سے جن لوگوں کو ٹھوکریں لگیں اور وہ مرتد ہوئے ، ان میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو ایسا صاحب کشف اور صاحب الہام ہو کہ اس کے صاحب کشوف اور صاحب الہام ہونے کا جماعت کے اکثر حصہ کو علم ہو اور انہیں اس کے کشوف اور اس کے الہامات کے سچا ہونے کا تجربہ ہو.ایسے تو کئی ہیں جن کے دماغ میں خرابی پیدا ہوگئی اور وہ کئی قسم کے دعوے کرنے لگے مگر ان کا یہاں ذکر نہیں.ان کے بگاڑ کا باعث ان کے کشوف اور الہام ہی ہوئے ہیں بلکہ ان کے دماغ کا بگاڑ ان کے کشوف والہام کا موجب ہوا ہے.مگر وہ لوگ جن کے کشوف اور الہامات کی جماعت گواہ ہو اور ہزاروں آدمیوں کو اس بات کا تجربہ ہو کہ انہیں خدا تعالیٰ سے خاص تعلق ہے، ایسا کوئی آدمی ہماری جماعت سے آج تک بھی مرتد نہیں ہوا.ظاہری علم بالکل اور چیز ہے اگر ظاہری علم پر ہی فضیلت اور بزرگی کی بنیاد رکھی جائے تو نَعُوذُ بِاللهِ دنیا کے سارے انبیاء کو جھوٹا کہنا پڑے گا.کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والے علماء ہی ہوئے ہیں.رسول کریم ہے کے مقابلہ میں بھی عرب کے کا بہن اور علماء اُٹھے.حضرت عیسی علیہ السلام کا کی بھی اس زمانہ کے فقیہیوں اور فریسیوں نے مقابلہ کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے ہی لوگ آپ کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی انہی لوگوں نے مقابلہ کیا جو ای اپنے آپ کو ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑا عالم سمجھا کرتے تھے.یہاں تک کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نہایت حقارت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو منشی غلام احمد لکھا کرتے تھے.گویا آپ نَعُوذُ بِاللَّهِ صرف منشی ہیں کہ دو چار سطریں لکھ لیتے ہیں، عالم نہیں ہیں اور وہ اس بات پر بہت خوش ہوتے کہ میں نے انہیں منشی“ لکھا ہے.مجھے یاد ہے میں اُس وقت چھوٹا بچہ تھا کہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے کسی مجلس میں بیان کیا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے میری نسبت تو یہ لکھا ہے کہ یہ مولوی ہے مگر حضرت مسیح موعود کے متعلق اس نے یہ لکھا ہے کہ وہ منشی ہیں.مجھے اس وقت بھی ان کی یہ بات بری معلوم ہوئی تھی اور آج بھی بُری محسوس ہوتی ہے.ان کے دل میں شاید مولویت کی کوئی قدر ہو تو ہو ہمیں تو کوئی مولوی کہہ دے تو چھ آ جاتی ہے.اس کی وجہ یہ نہیں کہ مولوی کا لفظ بُرا ہے.مولوی ایک عربی کا لفظ ہے اور یہ مولائی سے بنا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا مولا ، ہمارا سردار اور ہمارا اُستاد مگر اب کی مولوی کے لفظ کا استعمال جن لوگوں پر شروع ہو گیا ہے اُن کو دیکھتے ہوئے اس بات سے شرم آتی ہے کہ
خطبات محمود ۳۹۰ سال ۱۹۳۷ء کوئی ہمیں مولوی کہہ دے.تو ظاہری علوم بالکل اور چیز ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ظاہری علوم والے روحانیت میں بھی کوئی درجہ رکھتے ہوں.قرآن کریم نے بے شک بعض لوگوں کو علماء قرار دیا ہے مگر اس کی نے ان ہی کو علماء قرار دیا ہے جو اپنے اندر خوف خدا ر کھتے ہوں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى الله مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ہے کہ اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والے علماء ہیں اور جو اس کا خوف نہیں رکھتے وہ جاہل ہیں.گویا رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جس قدر علماء کہلانے والے تھے ان کو قرآن کریم نے جاہل قرار دیا اور جس قدر لوگوں کی نگاہ میں جاہل سمجھنے جانے والے تھے اور رسول کریم پر وہ ایمان لے آئے تھے انہیں عالم قرار دیا اور فرمایا عالم ابوبکر ہے، عالم عمر ہے ، عالم عثمان ہے، عالم علی ہے، عالم طلحہ ہے، عالم زبیر ہے اور عالم اور صحابہ ہیں مثلاً بلال وغیرہ.مگر یہ جو عرب کے بڑے بڑے کا ہن ہیں یہ سب جاہل ہیں عالم نہیں.تو ظاہری علوم کوئی چیز نہیں اصل چیز باطنی علوم ہیں اور جب کی وہ کسی کو حاصل ہو جائیں تو اُسی کی عزت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں قائم کی جاتی ہے اور انہی علوم کی کی کوئی قیمت ہوتی ہے.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے قریب زمانہ میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کا ایک لطیفہ ہے جس سے اُن کی عزت دل میں پیدا ہوتی ہے.کہتے ہیں کہ امرتسر میں ایک دفعہ لوگوں نے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک بڑا بھاری عالم تیار کیا جو علومِ مروجہ میں خوب ماہر تھا.اس کے بعد وہ لوگ مولوی عبد اللہ صاحب کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ آپ مجلس میں چلیے ، آپ کی فلاں عالم سے بحث کرانی ہے.مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی بے شک عالم تھے مگر ایسے نہیں کہ انہوں نے صرف ونحو کی گردانیں رٹی ہوئی ہوں.وہ ایک صوفی منش بزرگ تھے مگر لوگ چاہتے تھے کہ عربی کی ترکیبوں میں لاکر انہیں گرائیں اور ذلیل کریں.خیر وہ مجلس میں آگئے.لوگوں نے کہا مولوی صاحب یہ فلاں عالم صاحب آئے ہیں کیا یہ آپ سے کوئی سوال کریں؟ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی یہ عادت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بھی عادت تھی کہ جب خاموش ہوتے تو سر نیچے ڈال کر یا سر کو ہاتھ کا سہارا دے کر بیٹھے رہتے اور ذکر الہی کرنے والے پا لعموم ایسا ہی کیا کرتے ہیں.جب انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ سے کوئی سوال کریں؟ تو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی نے فرمایا اگر نیت بخیر باشد، یعنی اگر نیت نیک ہو تو بیشک وہ سوال
خطبات محمود ۳۹۱ سال ۱۹۳۷ء کریں.وہ آدمی بھی گو بظا ہر دُنیوی علماء میں شامل تھا مگر اُس کے دل میں تقویٰ کی آگ جلتی تھی.جب انہوں نے کہا کہ اگر نیت بخیر باشد تو اُس نے سوال کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس وقت تو میں بحث کی نیت سے ہی آیا تھا.اور در حقیقت یہ جو اُس شخص میں تقویٰ پیدا ہو ا مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی بات کے نتیجہ میں پیدا ہوا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ایک واقعہ ہے.شروع شروع میں مولوی محمد حسین صاحب جب مولوی ہو کر بٹالہ آئے تو ان کے خیالات بٹالہ کے رہنے والوں کو سخت گراں گزرے.آپ فرماتے کہ ایک دفعہ جب میں بٹالہ گیا تو چونکہ لوگوں کو میرے مذہبی جوش اور مذہبی تحقیق و تدقیق کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ عیسائیوں کے متعلق میں اکثر مضامین لکھتا رہتا ہوں اور صوفیاء کی میرے دل میں کی عزت ہے اس لئے بعض لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ سے ایک ضروری کام ہے، آپ ہمارے ساتھ فلاں مسجد میں چلیں.جب میں وہاں گیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بیٹھے تھے اور لوگوں کا بہت بڑا مجمع تھا.لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ حنفیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بحث کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم حنفیوں کی طرف ہیں کیونکہ حنفیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اول قرآن ہے اور پھر حدیث اور ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.جب لوگوں کی نے آپ کو مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کرنے کیلئے آمادہ کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا مجھے ان کے مذہب کا پتہ نہیں ، پہلے یہ اپنا عقیدہ بیان کریں اس کے بعد میں ان پر کوئی اعتراض کر سکتا ہوں.مولوی نان محمد حسین صاحب بٹالوی نے بیان کیا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے جو قول ثابت ہو جائے وہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی عقیدہ تھا اور ہمارا بھی یہی ج عقیدہ ہے.کیونکہ اگر رسول کریم ﷺ کی بات نہیں ماننی تو اور کس کی ماننی ہے؟ بہر حال جب آپ نے کی مولوی محمد حسین بٹالوی کی یہ بات سنی تو فرمایا یہ بالکل ٹھیک ہے ، میں اعتراض کس بات پر کروں.یہ سنتے ہی ہی لوگ سخت غضب میں آگئے اور انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہار گئے ، ہار گئے.بس یونہی عالم بنے پھرتے تھے، ہمیں اب پتہ لگا کہ یہ عالم نہیں جاہل ہیں.آپ نے لوگوں کی ان تمام باتوں کو سُنا مگر کوئی پرواہ نہ کی اور وہاں سے چلے آئے.واپسی کے وقت خدا تعالیٰ نے آپ پر الہام نازل کیا کہ چونکہ تو نے میری خاطر یہ ذلت برداشت کی ہے اس لئے ” تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے
خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۷ء بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.ھے تو علما حقیقی وہی ہیں جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو مگر ان علماء میں سے بھی وہ لوگ جو اس مقام پر کی نہیں پہنچے ہوئے ہوتے جس مقام پر پہنچ کر خدا تعالیٰ انہیں اِعْمَلُوا مَا شِتَتُم کے خطاب سے مخاطب کرتا ہے ، بعض دفعہ ٹھوکر کھا جاتے اور پھر ایسے ذلیل ہو جاتے ہیں کہ ان کی ذلت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے.شروع شروع میں انہوں نے حضرت مسیح موعود لیہ الصلوۃ والسلام کی اتنی تعریف کی ، اتنی تعریف کی کہ اسے دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے ایک پُر جوش مریدی آپ کی تعریف کر رہا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ پر انہوں نے جور یو یو کیا اس میں لکھا کہ رسول کریم مالی است و کے بعد تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی ایک شخص نے بھی اپنے قول اور عمل سے اسلام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی حضرت مرزا صاحب نے کی ہے.مگر پھر وہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے جنہوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور تمام ہندوستان میں آپ کی مخالفت کی آگ بھڑکائی.محض اس لئے کہ میری ہتک ہوئی ہے، مجھ سے اپنے دعوی کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے مشورہ کیوں نہیں کیا.اور دراصل پہلا غصہ انہیں آپ پر یہی تھا.چنانچہ جب کسی شخص نے انہیں بتایا کہ آپ ایک ایسی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وفات مسیح کا ذکر آتا ہے.تو مولوی محمد حسین بٹالوی کہنے لگے کہ ہم سے تو انہوں نے کوئی ذکر نہیں کی کیا.پھر اسی غصہ میں وہ سارے ہندوستان میں پھرے اور آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اس شخص کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اسے نیچے گراؤں گا.کے مگر نتیجہ کیا نکلا ؟ انہوں نے اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ آپ کا مقابلہ کیا.تھوڑے دنوں کے لئے ہاؤ ہو کا شور بھی مچالیا ، آپ کو گالیاں بھی دی گئیں ، آپ کو بُرا بھلا بھی کہا گیا.آپ کے خلاف لوگوں کو مشتعل بھی کیا گیا مگر آخر فتح حصہ مسیح موعود علیہ السلام کو ہی حاصل ہوئی.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ ملتان کسی مقدمہ میں گواہی دینے کی کیلئے تشریف لے گئے.میں نے اُس وقت خواہش کی کہ میں بھی آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں.چنانچہ آپ مجھے اپنے ساتھ لے گئے.میری عمر اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے ملتان میں کیا کیا دیکھا.جب ہم واپس آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں بھی ایک دو دن ٹھہرے.انہی دنوں کسی دوست نے شہر کے اندر آپ کی دعوت کی.مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ کھانے کی دعوت تھی یا اُس
خطبات محمود ۳۹۳ سال ۱۹۳۷ء دوست نے کسی اور تقریب پر آپ کو بلایا تھا.جس وقت آپ وہاں سے واپس آرہے تھے تو وزیر خان کی تی مسجد یا سنہری مسجد کے قریب بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا.مفتی محمد صادق صاحب بھی اُن دنوں وہیں قریب رہتے تھے اور میاں تاج دین صاحب وہیں رہتے تھے.میں نہیں جانتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن میں سے کس دوست کے مکان پر تشریف لے گئے تھے.بہر حال جب واپس آئے تو مسجد کے قریب بہت بڑا ہجوم تھا اور جو نبی لوگوں نے آپ کی گاڑی دیکھی انہوں نے تالیاں پیٹنی شروع کر دیں.بعض گالیاں دینے لگ گئے ، بعض نے آپ کے خلاف نعرے لگائے اور شور سے آسمان سر پر اٹھالیا.شاید یہ نظارہ میرے ذہن سے اُتر جاتا اور میں اس واقعہ کو بالکل بھول جاتا مگر بچپن کی عمر کے لحاظ سے ایک بات میں نے ایسی دیکھی کہ جس نے اس نظارہ کے نقوش کو بہت گہرے طور پر میرے دماغ پر ثبت کر دیا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑھا شخص جس کی داڑھی ناف تک پہنچ رہی تھی ، ۷۵-۸۰ سال اس کی عمر ہوگی ، اُس کا قد لمبا اور جسم دُبلا پتلا تھا.اس نے اپنے ایک ہاتھ پر زرد زرد پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جس سے معلوم ہوتا کج تھا کہ اُس کا ہاتھ زخمی ہے اور ہاتھ پہنچے کے آگے سے کٹا ہو اتھا.اپنے اس ٹنڈ کو دوسرے صحیح ہاتھ پر مار رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ہائے ہائے مرزا ، ہائے ہائے مرزا.اپنے بچپن کے لحاظ سے یہ نظارہ میرے لئے ایک عجیب نظارہ تھا کہ ایک شخص کا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور اُس پر ہلدی وغیرہ اس نے باندھی ہوئی ہے مگر وہ اپنائنڈ دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے ہائے ہائے مرزا، ہائے ہائے مرزا.بے شک ، چیزیں ہوئیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان باتوں کو دیکھ کر خوش ہوئے اور وہ اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ دیکھا ! ہم نے احمدیوں کا کیسا ناطقہ بند کیا ، ان کو کیسا ذلیل اور کیسا رُسوا کیا.مگر دنیا کی نگاہوں میں جو ذلت ہو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عزت ہوتی ہے اور دنیا کی نگاہوں میں جو عزت ہو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ذلّت ہوتی ہے.جس وقت وہ تمام لوگ ہنسی کر رہے تھے ، جس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ساری دنیا میں تبلیغ احمدیت کے راستے بند کر دیئے ہیں.اُس وقت ہر گالی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مل رہی تھی.وہ آپ کے انعامات اور خطابات اور القابات کی فہرست میں لکھی جا رہی تھی.آخر یہ ان گالیوں کا ہی نتیجہ ہے جو ہم یہاں بیٹھے ہیں اور کس بات کا نتیجہ ہے.پس وہ جتنا جتنا کہتے ہائے ہائے مرزا، ہائے ہائے مرزا یعنی نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مر گئے ہیں اور وہ آپ کا سیا پا کر رہے ہیں.اُتنا ہی فرشتے کہتے آپ
خطبات محمود ۳۹۴ سال ۱۹۳۷ء کو اور زندگی ملے آپ کو اور درجہ ملے اور آخر وہی بات پوری ہوئی جو خدا اور اس کے فرشتوں نے کہی.وہ بات تو پوری نہ ہوئی جو مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہی تھی.تو دنیا کی طرف سے جو عز تیں آتی ہیں وہ کوئی ہستی نہیں رکھتیں.ہاں جو عزت خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے وہی حقیقی عزت ہوتی ہے اور وہ اُنہی کوملتی ہے جو خدا تعالیٰ کی خشیت اپنے دل میں رکھتے ہی ہوں.ظاہری نام کے رٹ لینے سے وہ عزت نہیں مل سکتی.تو انسان کیلئے دنیا میں ہر مقام پر گرنے کا خطرہ ہے سوائے اس کے کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں خدا خودا سے محفوظ قرار دے دے اور کہہ دے کہ اب تیرے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں.غرض سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ تم اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کی دعا ہمیشہ پڑھتے رہو.یہ نہ ہو کہ ترقی کرتے کرتے تم کسی مقام پر پہنچ کر خوش ہو جاؤ اور سمجھ لو کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارا ایمان خراب نہیں ہوسکتا.فرمایا یہ ہما راحق ہے کہ ہم کہیں جو چا ہو کر وہ تمہاراحق نہیں.کیونکہ خدا جب کسی بندے کو کہتا ہے کہ اب تو جو جی میں آئے کر تو اس کے بعد اس کی نگرانی بھی کرتا ہے.لیکن بندہ جب اپنے متعلق خود بخود یہ مقام تجویز کر لیتا ہے تو چونکہ نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لئے وہ ٹھوکر کھاتا اور کی گر جاتا ہے.یہ وہ سورۃ ہے جو ہم پانچ وقت نمازوں میں روزانہ پڑھتے ہیں اور پھر پانچوں نمازوں کی ہر ایک رکعت میں پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ الہی ! منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد ہم ارتداد کے گڑھے میں نہ گر جائیں.پھر وہ بات جس کا کسی نماز میں چار دفعہ کسی نماز میں پانچ دفعہ، کسی نماز میں دس دفعہ اور کسی نماز میں گیارہ دفعہ ہم اقرار کرتے اور کہتے ہیں کہ منعم علیہ گروہ میں کی شامل ہونے کے بعد بھی انسان بعض دفعہ مغضوب اور ضال بن جاتا ہے.اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ کیا می ہو گیا ، اس سے زیادہ بیوقوفی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی گورکن روزانہ ریں کھو دے اور لوگوں کو اپنے ہاتھ سے لحد میں اُتارے اور پھر لوگوں سے یہ کہے کہ کیا لوگ مر بھی جاتے ہیں؟ جب وہ روزانہ لوگوں کو دفن کرتا اور ان کی قبریں کھودتا ہے تو اُس کا موت پر تعجب کرنا بیوقوفی نہیں تو اور کیا کہلائے گا.اسی طرح ایک انسان جب روزانہ پانچ دفعہ خدا تعالیٰ کے حضور جاتا اور کئی کئی رکعتوں میں تو اتر اور تسلسل کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ یا اللہ ! تو مجھے بڑے بڑے انعامات دیجیو مگر ایسا نہ ہوتی
خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۳۷ء کہ انعامات حاصل کرنے کے بعد میں پھر گمراہ ہو جاؤں اور ارتداد کے گڑھے میں گر جاؤں.اس کا یہ کہنا کہ فلاں شخص ایمان لانے کے بعد مرتد کیوں ہو گیا، بیوقوفی اور حماقت ہے.اگر بڑے انعاموں کے حاصل کرنے کے بعد انسان مرتد نہیں ہو سکتا تو یہ دعا کیوں سکھائی گئی ہے جو تہجد اور اشراق اور ضحی اور دوسرے نوافل کو اگر نکال بھی دیا جائے تو کم از کم پانچ وقت فرض نمازوں میں انسان مانگتا اور ہر رکعت میں مانگتا ہے.پھر فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل ہیں جن میں یہی دعا مانگی جاتی ہے اور یہ نوافل عصر کے ساتھ بھی ہیں اور صبح کے ساتھ بھی ہیں اور دوسری نمازوں کے ساتھ بھی ہیں.ان سب میں انسان یہی دعا مانگتا ہے اور کم سے کم چار دفعہ ہر نماز میں خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ یا اللہ ! میں اعلیٰ سے اعلیٰ مومن بن جاؤں.مگر ایمان میں کمال حاصل کرنے کے بعد پھر منافق نہ بن جاؤں.ایمان میں کمال حاصل کرنے کے بعد پھر مرتد نہ ہو جاؤں.جب اتنی دفعہ ایک انسان یہ اقرار کرتا اور تسلیم کرتا ہے کہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہو کر بھی انسان مغضوب اور ضال بن سکتا ہے تو اس کیلئے کسی انسان کا مرتد ہونا ہرگز کوئی عجیب بات نہیں ہوسکتی.اگر یہ ابتلاء لوگوں کو شاذ و نادر کے طور پر آنا ہوتا تب بھی اتنی لمبی اور مسلسل دعا کی جو ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے ضرورت نہیں تھی.مگر اس دعا کا مسلسل مانگا جانا بتا تا ہے کہ اس قسم کے ابتلا ء ایسے شاذ نہیں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب کسی قوم پر انعام نازل ہوتے ہیں تو وہی انعام اس قوم کو تباہ بھی کر دیا کرتے ہیں اگر اس قوم میں خشیة اللہ نہ ہو.ہاں اگر خشیة اللہ ہو تو وہ اس تباہی سے محفوظ رہتی ہے.اسی لئے ساری دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جسے ترقی اور عروج کے بعد زوال نہ ہوا ہو.اس کی وجہ یہی ہے کہ انعام جہاں خوشی کا موجب ہوتے ہیں وہاں قوموں اور افراد کی تباہی کا موجب بھی ہو جاتے ہیں.جیسے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے بعد غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ لا کر خدا نے بتا دیا کہ ہر انعام اپنے ساتھ ایک مخفی ابتلاء بھی رکھتا ہے اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ ان ابتلاؤں سے محفوظ رہنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہیں.یہ ابتلا عموماً دو وجہ سے آیا کرتے ہیں اور اگر مومن ان وجوہ کو یا درکھیں تو ابتلاء آنے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے.ایک وجہ ابتلاء آنے کی یہ ہوتی ہے کہ انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب کی میرے لئے انعام کے دروازے بند ہیں.جب کسی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ اب میرے لئے انعام کے حصول کے دروازے بند ہیں وہ تباہی کی طرف جانا شروع کر دیتا ہے.
خطبات محمود ۳۹۶ سال ۱۹۳۷ء دراصل یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب بھی یہ خیال پیدا ہو جائے کہ انعام کے دروازے اب ہمارے لئے بند ہیں خواہ کسی قوم کے دل میں یا بعض افراد کے دل میں آئے وہ تباہ ہو جاتے ہیں.مثال کے طور پر متبعین قرآن کو لے او، قرآن ہمارے ہاتھ میں بھی وہی ہے جو غیر احمدیوں کے ہاتھ میں ہے.انہی کے شائع کردہ قرآن ہم پڑھتے ہیں.لغتیں بھی انہی کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں.مگر باوجود اس کے جب کی قرآن غیر احمدیوں کے ہاتھ میں جاتا ہے تو وہ بولتا ہی نہیں خاموش رہتا ہے.مگر جب ہمارے ہاتھ میں آتا ہے تو اتنا بولتا ہے، اتنا بولتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے اس کے معارف ختم ہونے میں ہی نہیں آتے.اور واقع میں اس کے معارف ختم ہونے ہی نہیں آتے.آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ بظا ہر نہایت چھوٹی سی ہے اور وہ یہ کہ غیر احمدیوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر جو ان کے بزرگ لکھ گئے اس کے بعد قرآن کریم کے معارف کے دروازے بند ہو چکے ہیں اور کسی پر کوئی ایسا نکتہ نہیں گھل سکا جو پہلے بزرگ نہ لکھ گئے ہوں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں وہی تفسیر میں ملتی ہیں جو ان کے بزرگ لکھ گئے ہیں.کوئی نئی بات ان پر منکشف نہیں ہوتی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں آکر بتایا کہ قرآن مجید کے متعلق یہ کہنا کہ اس کے معارف کا دروازہ بند ہو چکا ہے کفر کا کلمہ ہے.اس میں سے نئے سے نئے معارف نکل سکتے ہیں اور نئی سے نئی تفسیر میں اس کی آیات کی ہو سکتی ہیں.جب ہم اس نکتہ اور اِس خیال کے ماتحت قرآن مجید کو پڑھتے اور ان اس پر غور اور تدبر کرتے ہیں تو ہمیں نئی سے نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور ہم پر وہ وہ معارف گھلتے ہیں جو ی پہلے مفسرین نے اپنی کسی تفسیر میں نہیں لکھے.ہم یہ مانتے ہیں کہ ان مفسروں نے بڑی بڑی محنتیں کیں اور قرآن کریم کے اچھے اچھے معارف اور نکتے دنیا کے سامنے پیش کئے.مگر ہم یہ ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم کے معارف محدود ہوں اور جو پہلوں پر معرفت کی باتیں گھل چکیں اُن سے زائد کوئی باتیں قرآن کریم میں نہ ہوں.جب اس مادی دنیا کی ایجادات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تو ہم یہ کس طرح مان لیں کہ عالم روحانی کی ایجادات کا سلسلہ بند ہو گیا ہے.پس چونکہ ہم اس نیت سے قرآن کریم کے پاس جاتے ہیں کہ وہ ایک زندہ کتاب ہے جو اپنی معرفت کے تازہ بتازہ پھل ہمیں کھلائے گی اس لئے خدا ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک سخنی میز بان اپنے مہمانوں کے ساتھ کرتا ہے.جس طرح حاتم طائی کے متعلق لکھا ہے کہ جب وہ مہمانوں کو دیکھتا تو اپنے اونٹ اور اپنی بکریاں ذبح کی
خطبات محمود ۳۹۷ سال ۱۹۳۷ء کر کر کے انہیں کھلاتا اور ان کی خاطر تواضع حد سے زیادہ کرتا.اسی طرح جب ہم قرآن کریم کے باغی میں داخل ہوتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے سخی کے پاس چلے گئے ہیں جسے اسی میں لذت آتی ہے کہ وہ تازہ بتازہ پھل ہمارے سامنے پیش کر کے اور کھلائے.چنانچہ اس باغ کا مالک یعنی کی اللہ تعالیٰ اپنے معارف کے پھل ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے میرا یہ پھل بھی کھاؤ ، میرا وہ پھل بھی کھاؤ ، میرے اس پھل کا بھی مزا چکھو اور میرے اس پھل سے بھی لطف اندوز ہو اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک باغ ہے جس میں کروڑوں قسم کے درخت لگے ہوئے ہیں اور ہر درخت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور قسم قسم کے پھل بالکل پکے ہوئے تیار موجود ہیں اور باغ کا مالک ایک پھل اُتار کر کہتا ہے کہ اس باغ کا یہ پھل کھاؤ اور پھر دوسرا پھل پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بھی کھاؤ.اور پھر دوسرے کے بعد تیسر اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں حتی کہ وہ پھل تو ڑ تو ڑ کر ہمارے سامنے رکھتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے یہ بھی لو اور وہ بھی لو.اسے بھی چکھو اور اسے بھی چکھو.مگر جب اسی باغ میں غیر احمدی کی جاتے ہیں تو انہیں کیکر کے درختوں کے سوا اور کوئی درخت نظر نہیں آتا اور کیکر کے درخت بھی ایسے جو خشک ہوں اور جن پر کوئی سبزی نہ ہو.نہ درختوں سے انہیں کچھ ملتا ہے اور نہ مالک انہیں پوچھتا ہے اور وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں.اس کی وجہ محض ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ اس باغ کے مالک کے پاس بدظنی اور بدگمانی سے بھرا ہو ا دل لے کر جاتے ہیں.وہ پہلے ہی خیال کر لیتے ہیں کہ اس گھر کا مالک سخت بخیل اور کنجوس ہے ، وہ ہمیں کچھ نہیں دے گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں کچھ نہیں دیتا.وہ کہتا ہے جب مجھ پر بدظنی کرتے ہیں تو میں انہیں کیوں اپنی نعمتیں دوں.مگر جب ہم اس باغ کے مالک کے پاس جاتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ جاتے ہیں کہ یہ بہت ہی سخی ہے، اور ہمارے دامن کو اپنی نعماء سے پُر کر دے گا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے یقین سے بھی زیادہ مالا مال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مجھ پر حسن ظن لے کر آئے ہیں.اب میں ان کے حُسنِ ظن سے بھی بڑھ کر ان سے سلوک کروں گا تا یہ میرے احسانات کے اور بھی گرویدہ ہوں.تو دیکھو کتنی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں نے اس خزانہ کو کھو دیا.جب انہوں نے یہ سمجھا کہ اب قرآن کریم کے معارف کا انعام انہیں حاصل نہیں ہوسکتا، جو انعام ملنا تھا وہ ان کے بزرگوں کو مل چکا ان پر الہی معرفت کے دروازے بند ہو گئے.وہ قرآن کریم سے فائدہ اُٹھانے سے گاتی طور پر محروم ہو گئے.
خطبات محمود ۳۹۸ سال ۱۹۳۷ء اسی طرح کبھی ٹھو کر اس وجہ سے لگتی ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ فلاں انعام کا مستحق میں تھا دوسرے کو کیوں مل گیا.جب انسان کے اندر اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ٹھوکر کھا جاتا ہے.حالانکہ اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ میرے لئے خدا تعالیٰ نے کوئی اور انعام مقرر کیا ہوگا یا اس انعام کا نہ ملنا ہی میرے لئے مفید اور بابرکت تھا.مثنوی رومی میں ایک حکایت آتی ہے.لکھا ہے ایک سپیرا تھا جسے ایک دفعہ کوئی نئی قسم کا سانپ ملا.وہ اسے پکڑ کر بہت ہی خوش ہوا اور چونکہ سپیروں کی کمائی کا دارو مدار سانیوں پر ہی ہوتا ہے اس لئے وہ خیال کرنے لگا کہ میں اب اس سانپ کے ذریعہ لوگوں سے بہت کچھ روپیہ کما سکوں گا.اتفاقا رات کو کی جس گھڑے میں اُس نے سانپ رکھا تھا اُس پر ڈھکنا دینا وہ بھول گیا اور سانپ نکل گیا یا وہ سانپ زیادہ طاقتور تھا کہ ڈھکنے کے باوجود گھڑے میں سے نکل گیا.اتفاقاً اس کا ایک دوست اسے ملنے آیا اور اس نے ی خوشی سے ناچنا شروع کر دیا کہ مجھے ایک نئی قسم کا سانپ ملا ہے ، آؤ میں تمہیں دکھاؤں.جب وہ سانپ اسے دکھانے کیلئے گھڑے کی طرف گیا تو اس نے دیکھا کہ گھڑا خالی ہے اور سانپ اس میں موجود نہیں.یہ دیکھ کر اسے بہت ہی صدمہ ہوا اور وہ ساری رات دعائیں مانگتا رہا کہ یا اللہ ! میرا سانپ مجھے ملا جائے.تھوڑی دیر دعا کرنے کے بعد وہ اُٹھتا اور مکان کے کونوں میں تلاش کرتا اور دیکھتا کہ سانپ آیا ہے یا نہیں.جب اسے معلوم ہوتا کہ سانپ نہیں آیا تو پھر خدا کے حضور جھک جاتا اور کہتا یا اللہ ! میرا سانپ مجھے مل جائے.تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر اُٹھتا اور کونوں میں تلاش کرنا شروع کر دیتا اور جب نہ ملتا تو پھر دعائیں مانگنے لگ جاتا.آخر اسی طرح ساری رات اس نے دعا کرتے کرتے گزار دی.جب صبح ہوئی تو اس کے دل میں خیال آیا کہ میری تو ساری رات کی دعائیں ضائع گئیں اور میر اسانپ مجھے نہ ملا.اس کے دل میں ابھی یہ خیال گزرا ہی تھا کہ اُس کا ایک ہمسایہ اُسے بلانے آیا.جب وہ اس کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ تمام برادری اکٹھی ہے.اسے دیکھ کر وہ کہنے لگے رات کو اس گھر والے کو ایک نئی قسم کا سانپ ملا تھا.اس نے اسے پکڑ لیا لیکن اس نے اسے کاٹ لیا اور چونکہ اس زہر کا تریاق ہماری قوم کے پاس موجود نہیں باوجود ہر قسم کے علاج کے وہ مر گیا.اس لئے ساری برادری کو بلا یا گیا کہ اس سانپ کو دیکھ لیں تا آئندہ اس سے ہوشیار رہیں.اس شخص نے جب سانپ کو دیکھا تو وہ وہی سانپ تھا جس کے ملنے کے متعلق وہ ساری رات دعائیں مانگتا رہا تھا.یہ دیکھ کر وہ پھر سجدہ میں گر گیا اور کہنے لگا خدایا ! یہ
خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۷ء میری بیوقوفی تھی جو میں نے کہا کہ تو نے میری دعا نہیں سنی.حقیقت یہ ہے کہ جب میں یہ کہہ رہا تھا کہ تو نے میری دعا نہیں سنی ، اُس وقت تو نے میری دعائن لی تھی.کیونکہ اس کا نہ ملنا ہی میرے لئے مفید تھا اور اگر مل جاتا تو جو اس شخص کا انجام ہو اوہ میرا ہوتا.تو کبھی انعام کا نہ ملنا ہی انسانی بہتری کا موجب ہوتا ہے اور کبھی دُنیوی نعماء اور ترقیات ہی بے ایمانی کفر اور ارتداد کا موجب ہو جاتی ہیں.تو یہ دو چیزں ہیں جن سے ارتداد پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں ان دونوں باتوں کا ذکر کیا ہے اور ان وساوس کا جواب بھی دیا ہے.لیکن پیشتر اس کے کہ میں وہ جواب بتاؤں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ دعا مسلمانوں کو خاص طور پر سکھائی گئی ہے.کیا پہلی قوموں کو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی دعا کی ضرورت نہیں تھی ؟ کیا وجہ ہے کہ نوح کی قوم کو اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا نہیں سکھائی گئی اور کیا وجہ ہے کہ ابراہیم کے پیروؤں کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا نہیں سکھائی گئی.کیا وہ صراط مستقیم کے محتاج نہیں تھے یا صراط مستقیم کا ملنا کوئی ایسی اہم بات تھی جس کا تکمیل دین سے تعلق تھا یا کیا دماغ ان کا اس قابل نہ تھا کہ صراط مستقیم کو سمجھتا ؟ اللہ تعالیٰ تو خود فرماتا ہے هَدَيْنَهُمُ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَات کہ ہم نے ان سب کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دی.پس جب انہیں صراط مستقیم کا ملنا قرآن کریم سے ثابت ہے تو معلوم ہوا کہ وہ صراط مستقیم کے اہل تھے اور جب اس کے اہل تھے تو یہ دعا انہیں کیوں نہ سکھائی گئی.پھر موسیٰ کے تابعین کو یہ دعائی کیوں نہ سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اور پھر عیسی کے حواریوں کو یہ دعا کیوں نہ سکھائی گئی.صرف محمد ﷺ کے متبعین کو یہ دعا کیوں سکھائی گئی اور انہیں کیوں کہا تی گیا کہ یہ دعا مانگو اور مانگو بھی اتنی کثرت سے کہ تمہاری پانچ نمازوں کی کوئی رکعت ایسی نہ ہو جس میں تمہارے منہ سے یہ دعا نہ نکلے.اس کی آخر کوئی حکمت ہونی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے.اس کی حکمت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ ہی ایسے وجود تھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ خاتم النبین ہیں یعنی ایسے کمالات ہم نے آپ کو بخش دیئے ہیں کہ اب کوئی شخص براه راست مقام نبوت تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ ہر شخص کو آپ کی غلامی اور اطاعت کرنی پڑے گی.اب ہر وہ شخص جس کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کی خواہش ہوا سے پہلی منزل پر ایک دھکا لگتا ہے اور اس کے کی دل کو ایک چوٹ لگتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ اچھا نبی آیا کہ جس نے آتے ہی ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے کی
خطبات محمود ۴۰۰ سال ۱۹۳۷ء قرب کے تمام دروازے بند کر دیئے.تو ایک ٹھو کر انسان کو اس طرح لگتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے اب میرے لئے الہی قرب کے وہ دروازے بند ہو گئے جو پہلے کھلے تھے اور واقعہ میں جب کہا جائے کہ محمد نے کے بعد نبوت کا وہ دروازہ بند ہو گیا جو پہلے گھلا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد وہ دروازہ کھلا نی حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد وہ دروازہ کھلا تھا اور ہر شخص براہِ راست اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا تھا.مگر محمد عے کے بعد یہ دروازہ بند ہو گیا.تو وہ انسان جو وصلِ الہی کا متمنی ہے اس پر ایک موت کسی وارد ای ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ کیا ہوا کہ آئندہ کیلئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا وہ راستہ ہمارے لئے بند کر دیا گیا جو اس سے پہلے گھلا تھا.تو چونکہ پہلی منزل پر ہی دل کو ایک صدمہ پہنچتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس صدمہ سے بچانے کیلئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھائی اور بتایا کہ بیشک محمد ﷺ کے بعد کوئی مستقل بنیا یا پرانا نبی نہیں آ سکتا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اب ترقیات کے دروازے بند ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی انسان حاصل نہیں کر سکتا.بلکہ ہماری یہ سنت ہے کہ جب ہم ایک دروازہ بند کرتے ہیں تو اُسی وقت دوسرا دروازہ کھول دیتے ہیں اور یہ وہی دروازہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں لکھا کہ امتی نبی ہونے میں میں ہی منفرد ہوں.اور یہ ایک ایسا لذیذ مقام ہے کہ جس کی لذت کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.پھر آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے.اب یہ دروازہ بند تو نہ ہو اہاں ایک قسم کا دروازہ ضرور بند کر دیا گیا ہے.لیکن اگر کسی گھر کے دو درواز - ہوں اور ایک کو بند کر دیا جائے تو گھر میں داخل ہونا تو پھر بھی جاری رہا.پس اصل غرض تو انسان کی دنیا میں آنے سے یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے اور وہ اس کی محبت کے حصول میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائے اور یہ وہ دروازہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بند نہیں کیا بلکہ اسی طرح کھلا ہے جس طرح پہلے کھلا تھا.غرض اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھا کر مومنوں کے دلوں کو ڈھارس دی اور انہیں بتایا کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی دروازہ مومنوں کیلئے بند کیا جائے تو اسے بند نہ سمجھو.کیونکہ یہ اس کی سنت ہے کہ وہ ایک دروازہ
خطبات محمود ۴۰۱ سال ۱۹۳۷ء بند کرتا ہے تو دوسرا دروازہ فوراً کھول دیتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے اس نبوت کا دروازہ بند کیا جو پہلے جاری تھی تو ایک اور نبوت دنیا میں جاری کر دی جسے امتی نبوت کہتے ہیں.اور اس میں وہ مقامِ قُرب رکھا کہ باوجود یکہ اُمتی نبی مستقل نبی نہیں ہوتا یعنی ایسا نبی جس نے براہ راست اللہ تعالیٰ سے نبوت حاصل کی ہو یا کوئی نئی شریعت لایا ہو ، پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور وہ اتنا بلند درجہ رکھ سکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی بڑھ سکتا ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت نوح سے بھی بڑھ سکتا ہے.تو قرب کا مقام ویسا ہی کھلا رہا جیسے پہلے گھلا تھا.بلکہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نمونہ پیش کر کے صلى الله بتا دیا کہ ہم رسول کریم ﷺ کی پیروی میں تمہیں پہلے تمام نبیوں کے کمالات دے سکتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آنچہ داد است نبی را جام داد آں جام مرا بتمام کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے وہ جام جو پہلے انبیاء کو فرداً فرداً ملے تھے وہ تمام جام اللہ تعالیٰ نے اکٹھے کر کے مجھے پلا دیئے ہیں.اسی بنا پر آپ نے دعوی کیا کہ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں ، میں ابراہیم ہوں ، میں الحق ہوں، میں اسمعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں ، میں داؤد ہوں ، میں عیسی ہوں اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں یعنی خلقی طور پر محمد اور احمد ہوں.گویا رسول کریم ہے کے خاتم النبین ہونے سے قرب اور وصالِ الہی کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت جس کی دنیا کو ضرورت نہیں تھی تکمیل شریعت کی وجہ سے بند کی گئی اور نبوت کی وہ دوسری قسم جو پہلی قسم سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہے کیونکہ اس میں اسی اُستاد کی شاگردی کا مقام حاصل ہوتا تج ہے جو سب نبیوں کی خوبیوں کا جامع ہے، جاری کی گئی.تو بہت سے ابتلا لوگوں کو اس لئے آتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا دروازہ بند ہو گیا حالانکہ خدا اپنے قُرب کے دروازوں کو کبھی بند نہیں کیا کرتا.ہمارے زمانہ میں جو کئی لوگوں کو ابتلا آتا ہے یا بعض دفعہ بڑے بڑے لوگ یا اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں تو وہ بھی اسی وجہ سے ٹھو کر کھاتے ہیں کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ فلاں نعمت کا دروازہ ہمارے لئے بند ہو گیا.مثلاً خلافت ہے، وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ ہوتی تو
خطبات محمود ۴۰۲ سال ۱۹۳۷ء پندرہ ہیں آدمی اس میں شریک ہوتے مگر اب ایک شخص خلیفہ ہو گیا ہے اور یہ اعزاز اُسی کو حاصل ہے دوسرا کوئی حاصل نہیں کر سکتا.کیونکہ خلافت ایک ایسا عہدہ ہے جو لازماً ایک شخص کو ہی ملے گا، زیادہ کو نہیں مل سکتا.پس وہ سمجھتے ہیں کہ اب اس عہدہ پر تو ایک شخص قابض ہو گیا ، ہم کیا کریں.اگر یہ خلیفہ بننے کا اہل تھا تو ہم بھی خلیفہ بننے کے اہل ہیں.نہ یہ اُترتا ہے کہ کوئی اور خلیفہ بنے اور نہ مرتا ہے کہ کسی اور کو خلافت کاج مقام حاصل ہو.گویا ان کے نزدیک خلافت کے مقام کی حیثیت ویسی ہی ہونی چاہئے جیسے لڑکے جب آپس میں کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے پر سوار ہوتا ہے تو نچلا لڑکا کہتا ہے ”اتر کانٹو میں چڑھاں“ اس پر اوپر والالڑ کا اُتر کر نیچے ہو جاتا ہے اور نیچے والا او پر سوار ہو جاتا ہے.یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خلافت کا مزا تب تھا کبھی میں خلیفہ بنتا کبھی وہ کبھی زید بنتا کبھی بکر.مگر چونکہ ان کی یہ آرزوئیں پوری نہیں ہوئیں اس لئے اندر ہی اندر ایک جلن اور سوزش اور حسد کی آگ انہیں جلائے رکھتی ہے.وہ کہتے ہیں اتنی مدت گزرگئی ، اب تک یہی خلیفہ بنا بیٹھا ہے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) مرتا بھی نہیں کہ ہمیں یہ عزت حاصل ہو.پھر ان کا نفس اندر ہی اندر تدبیریں سوچتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ مرتا نہیں تو اسے خلافت سے اُتارنے کی کوشش کریں.شاید اسی طرح ہم کو خلیفہ بننے کا موقع مل جائے.یہ ایسے ہی وسوسے ہوتے ہیں جیسے عارضی طور پر رسول کریم ہے کے مقام کے ذریعہ لوگوں کو ایک دھکا لگتا ہے اور نا دان انسانوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات اُٹھنے شروع ہو جاتے ہیں کہ اس رسول نے ہمارے لئے ترقیات کے دروازے بند کر دیے اور جو انعامات پہلے براہ راست مل جایا کرتے تھے وہ اب براہ راست نہیں مل سکتے.تو اللہ تعالیٰ نے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں انہی وساوس اور شبہات کا ازالہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ تم کو اگر میرے قرب اور وصال کی ضرورت ہے تو یا دی رکھو میرے قرب اور وصال کے تمام دروازے کھلے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں ہوا.اور اگر تمہیں اپنی عزت کی خواہش ہے تو پھر جاؤ اور اپنی عزت کو آپ تلاش کرتے پھرو.غرض لوگوں کے ان تمام وساوس کا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں جواب ہے.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بتا دیا ہے کہ اگر تمہیں میرے انعامات کی خواہش ہو تو تم تقویٰ اللہ اختیار کرو ہم ہر ج روحانی کمال تمہیں دینے کیلئے تیار ہیں اور تمہارے لئے میرے قرب اور وصال کے دروازے اسی طرح گھلے ہیں جس طرح دوسروں کے لئے.لیکن اگر تم اپنے نفس کی عزت چاہتے ہو اور دنیوی وجاہت کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء شائق ہو تو پھر مجلسیں بناؤ اور ان کے صدر بن جاؤ.ہماری طرف سے تو جو عزت ملے گی وہ اسی طرح ملے گی کہ تم اپنے آپ کو کلیہ ہمارے آستانہ پر ڈال دو.اور اس امر کو جانے دو کہ تمہیں کیا انعام ملے.تم ہمارے قرب اور ہمارے وصال کے طلب گار بن کر ہمارے پاس آؤ.پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ بھی ہمارا بالکل ویسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے دوسروں کے ساتھ.پس اللہ تعالیٰ کی محبت کے راستہ میں نہ کوئی نبی روک بن سکتا ہے نہ کوئی خلیفہ.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کی بعض نمازیں خدا تعالیٰ اس لئے قبول نہ کرے کہ اگر میں نے اس شخص کی یہ نمازیں قبول کیں تو یہ روحانیت میں خلیفہ سے ترقی کر جائے گا.تم جتنی عبادتیں چاہو کرو، تم جس قدر اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہو کھینچو خدا کے قرب کے دروازے تمہارے لئے گھلے ہیں اور اس میں کوئی خلیفہ روک نہیں بن سکتا.غرض جو حقیقی عزت ہے اس کی راہ میں نہ خلیفہ روک ہے اور نہ نبی.بلکہ انبیاء اور کی خلفاء اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں لوگوں کے مُمد ہوتے ہیں.جیسے کمزور آدمی پہاڑ کی چڑھائی پرتی نہیں چڑھ سکتا تو سونے یا کھڈسٹک کا سہارا لے کر چڑھ جاتا ہے.اسی طرح انبیاء اور خلفاء لوگوں کیلئے سہارے ہیں.وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الہی قرب کے راستوں کو روک رکھا ہو بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آدمی بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے.پس اگر کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء اور خلفاء کے وجود سے قُرب الہی کی روکیں پیدا ہوگئی ہیں تو وہ بیوقوفی کا نی خیال ہے.حقیقی کمالات کے حصول کی راہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بننے کے طریق ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور انبیاء وخلفاء اس میں روک بننے کی بجائے لوگوں کیلئے محمد ہوتے ہیں.پھر دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو بڑی بڑی امنگیں تو نہیں رکھتے مگر انہیں اس بات پر ٹھوکر لگ جاتی ہے کہ فلاں درجہ فلاں کو کیوں مل گیا، ہمیں کیوں نہیں ملا.ان کیلئے بھی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں جواب ہے.اور اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انعامات ایک قسم کے نہیں بلکہ مختلف قسم کے ہیں.دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ اُس نے ان کے تمام دشمنوں کو غرق کر دیا.لیکن ابراہیم کے ساتھ اس نے یہ سلوک کی نہیں کیا کہ ان کے دشمنوں کو اس نے اس طرح غرق کیا ہو.بلکہ ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم ہجرت کی کر کے چلے جاؤ.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن اور تھا جو عراق کا علاقہ ہے.وہاں لوگوں.
خطبات محمود ۴۰۴ سال ۱۹۳۷ء آپ کی شدید مخالفت کی اور آگ میں ڈال کر آپ کو جلانا چاہا تب اللہ تعالیٰ نے نوح کی طرح یہ نہیں کہا کہ ابراہیم میں تیرے تمام مخالفوں کو برباد کر دوں گا بلکہ یہ کہا اے ابراہیم ! یہ گندہ علاقہ ہے اس علاقے کو چھوڑ دے.اور اللہ تعالیٰ ان کو عراق سے فلسطین میں لایا جو بہت بڑے فاصلہ پر واقع تھا.آجکل ریلی کی وجہ سے لوگ اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ فاصلہ کس قدر زیادہ ہے.مگر پرانے زمانہ میں جبکہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ میل کے بعد یہ خیال کیا جا تا تھا کہ دنیا ختم ہو گئی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عراق سے فلسطین ہجرت کر کے آنا کوئی معمولی بات نہ تھی.وہ عراق سے چلے گئے اور راستہ کے تمام بیابان طے کرتے ہوئے کنعان میں پہنچے.جہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی.یہ انعام ان کو بیشک ملا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بادشاہت نہیں ملی.آپ تجارت کرتے تھے اور کچھ جانور رکھے ہوئے تھے جن پر آپ کا گزارہ تھا.کنعان آکر کچھ زمینیں آپ کو تحفہ کے طور پر آپ کے مریدوں کی طرف سے مل گئیں.جہاں آپ گلے چراتے اور تجارت کرتے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان سے معاملہ خدا تعالیٰ نے بالکل اور رنگ میں کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہجرت بھی کرائی اور انہیں لاکھوں کی کی قوم دے کر اس کا انہیں بادشاہ بھی بنادیا لیکن ملک آپ کو عطا نہیں کیا.آپ جسموں پر بیشک حکومت کرتے تھے مگر کسی ملک پر آپ نے حکومت نہیں کی.گویا سیاسی بادشاہت آپ کو حاصل تھی مگر ملکی نہیں.اور پیشتر اس کے کہ آپ کنعان کی سرزمین تک پہنچتے یہود کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے چالیس سال تک جنگلوں میں پھرنے کی سزادی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اسی عرصہ میں وفات پا گئے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملکوں پر حکومت نہیں ملی ، ہاں انسانوں پر حکومت آپ کو بے شک مل گئی.پھر حضرت داؤد علیہ السلام آئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے ملکوں پر بھی حکومت عطا کی اور جسموں پر بھی حکومت عطا کی.حالانکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی تھے.لیکن باوجود تابع نبی ہونے کے بادشاہت اور نبوت دونوں ان میں جمع تھیں.اور بادشاہت بھی دونوں قسم کی یعنی ملکی بادشاہت بھی اور سیاسی بادشاہت بھی.پھر حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو باوجود اس کے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے، آپ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے درجہ میں بڑھ کر تھے، پھر بھی آپ ایسی غربت اور کمزوری کی حالت میں آئے کہ آپ کہتے ہیں درندوں کیلئے ماندیں ہیں اور پرندوں کیلئے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں.اے گویا وہ اپنی بے بسی
خطبات محمود ۴۰۵ سال ۱۹۳۷ء اور بیکسی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ جنگل کے درندے تمام دن ادھر اُدھر پھرنے کے بعد آرام کرنے کیلئے غاروں میں چلے جاتے ہیں.پرندے فضائے آسمانی میں اڑتے ہیں تو کچھ وقت کے بعد اپنے گھونسلوں میں آرام کرنے کیلئے چلے جاتے ہیں.مگر میرے لئے اس دنیا میں کہیں سر چھپانے کی جگہ نہیں.اب یہ الگ الگ قسم کی نعمتیں ہیں جو انبیاء کو ملیں اور الگ الگ سلوک ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان سے کئے.کیا ان مثالوں کو دیکھ کر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر خدا تعالیٰ نے نعمت صلى الله نازل نہیں کی.مگر حضرت داؤد علیہ السلام پر کی کہ انہیں نبی بھی بنا دیا اور بادشاہ بھی.پھر رسول کریم ہے کو دیکھو.آپ چونکہ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ سے نوح والا معاملہ بھی کیا اور ابراہیم والا معاملہ بھی کیا.موسٹی والا معاملہ بھی کیا اور داؤد اور عیسی والا معاملہ بھی کیا.غرض سارے معاملے آپ سے ہوئے.نوح کا معاملہ آپ سے اس طرح ہوا کہ یہود کے بعض قبائل آپ کے زمانہ میں بالکل تہہ تیغ کر دیئے گئے اور جس طرح نوح کے دشمنوں میں سے ایک شخص بھی نہیں بچا تھا اسی طرح ان قبائل میں سے ایک شخص بھی نہ بچ سکا اور سب تہ تیغ ہو گئے اور تہہ تیغ بھی اپنے فتویٰ کے مطابق ہوئے.کیونکہ انہوں نے جس شخص کو فیصلہ کرنے کیلئے مقرر کیا تھا اُس نے یہی فیصلہ دیا کہ جس قدر مرد ہیں وہ تہہ تیغ کر دیئے جائیں.لوگ اس پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ نے کی ( نَعُوذُ بِاللهِ ( ظلم کیا.حالانکہ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ محمد یہ تمام نبیوں کے کمالات کے جامع تھے اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے آپ مظہر نہ ہوں.پس چونکہ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے بھی مظہری تھے اس لئے ضروری تھا کہ جس طرح نوح کے دشمن سب کے سب ہلاک کئے گئے اسی طرح آپ کے بعض دشمن بھی تمام کے تمام ہلاک کئے جاتے.پھر حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہا السلام کی طرح آپ کو ہجرت بھی کرنی پڑی اور اس ہجرت کے زمانہ میں کچھ وقت آپ پر ایسا آیا جب آپ سیاسی طور پر حکمران تو تھے مگر ملکی طور پر نہیں.پھر کچھ وقت حضرت داؤد کی طرح آپ پر ایسا بھی آیا جب آپ سیاسی اور ملکی دونوں طرح بادشاہ تھے.پھر آپ کو حضرت عیسی والی غربت بھی دیکھنی پڑی اور آپ نے مکہ میں بڑی بڑی تکالیف اُٹھا ئیں.یہاں تک کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ ایک فاتح اور بادشاہ کی حیثیت میں اس میں داخل ہوئے تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ آپ کی رہائش کا انتظام کس گھر میں کیا جائے ؟ تب بعینہ وہی فقرہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے نکلا تھا رسول کریم ﷺ کی زبان سے بھی نکلا اور
خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۷ء صلى الله آپ نے فرمایا میرے رہنے کا کیا پوچھتے ہو، عقیل نے تو میرے لئے مکہ میں کوئی گھر نہیں چھوڑا جس میں میں رہ سکوں.دراصل رسول کریم ع ه جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپ کے رشتہ داروں.مخالفت کی وجہ سے آپ کے اکثر مکانات بیچ ڈالے تھے اور بعض پر خود قبضہ کر لیا تھا.جس طرح انسان جب مرجاتا ہے تو اُس کے ورثاء اس کی جائداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اسی طرح انہوں نے آپ کی جائدادی سے معاملہ کیا اور جب آپ مکہ میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہوئے تو کوئی ایسا مکان نہ تھا جسے آپ اپنا کی مکان کہ سکیں.اب یہ کتنا دردناک نظارہ ہے کہ ایک بادشاہ ہونے کی حیثیت میں رسول کریم کے اپنے صل الله ملک اور اپنے شہر میں داخل ہوتے ہیں مگر کوئی گھر ایسا نہیں ملتا جسے آپ اپنا گھر کہہ سکیں.آپ فرماتے ہیں مکہ میں تو ہمارے لئے کوئی گھر نہیں رہنے دیا گیا.میدان میں خیمے لگاؤ اور وہاں میری رہائش کا انتظام کرو.غرض یہ ساری چیز میں رسول کریم ﷺ کی ذات میں جمع تھیں اور پھر ساری عزتیں بھی آپ کی ذات میں جمع ہوئیں.جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمن ہمیشہ کیلئے مغضوب ہو گئے تھے، اسی طرح رسول کریم ﷺ کے بعض دشمنوں کو بھی خدا نے مغضوب قرار دیا.جس طرح نوح کے دشمنوں کو کی خدا تعالیٰ نے گلی طور پر ہلاک کر دیا تھا اسی طرح آپ کے بعض دشمنوں کو بھی اس نے گلی طور پر ہلاک کیا.جس طرح موسیٰ کے دشمنوں کو اُس نے پانی میں غرق کیا اسی طرح رسول کریم ﷺ کے دشمنوں کو بھی کی اس نے غرق کیا.دونوں طرح یعنی خشکی میں بھی اور تری میں بھی.چنانچہ فتح مکہ کے بعد مکہ کے بعض بڑے بڑے سردار مکہ سے بھاگ نکلے اور وہ جہازوں میں سوار ہو کر کسی اور ملک کو جانے لگے تو سمندر میں ایسا طوفان آیا کہ وہ جہاز غرق ہو گیا اور سب پانی میں ڈوب گئے.غرض وہ تمام انعامات جو پہلے انبیاء کو ملے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع تھے.پھر موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تو آپ کے ساتھ پھر وہی سلوک ہوا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے کی ساتھ ہوا تھا.حکومت غیر ہے ، دشمن زور میں ہے ، جماعت کمزور ہے ،لوگ گالیاں دیتے ہیں ہنسی کرتے ہیں، مذاق اُڑاتے ہیں، اشتعال دلاتے ہیں مگر جماعت کو یہی تعلیم دی جاتی ہے کہ صبر کرو، صبر کرو اور وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی ہے.پھر جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو عدالتوں میں کھڑا کیا گیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی عدالتوں میں جانا پڑا.یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ظالم کی مجسٹریٹ نے جب کہ آپ کا بڑھا پا تھا اور آپ کو اسہال کی تکلیف تھی اور سخت پیاس لگی ہوئی تھی آپ کو
خطبات محمود ۴۰۷ سال ۱۹۳۷ء اس بات کی بھی اجازت نہ دی کہ آپ پانی پی سکیں.اب کیا کوئی اس حالت کو دیکھ کر کہ ادھر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ کہتے ہیں کہ مجھے سارے انبیاء کی خلعت ملی اور ادھر یہ حالت ہے کہ آپ کی بڑھاپے اور کمزوری اور اسہال کی حالت میں جب کہ آپ کو سخت پیاس لگتی ہے، مجسٹریٹ سے پانی پینے کی کی اجازت مانگتے ہیں اور وہ پانی پینے کی اجازت نہیں دیتا، کہہ سکتا ہے کہ آپ انعامات سے محروم رہے.اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو وہ نہایت ہی احمق ہے کیونکہ انعامات مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں.اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس رنگ میں ایک پر انعام ہوا اسی رنگ کا انعام دوسرے پر بھی ہو.تو اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں مسلمانوں کو یہ بتایا ہے کہ بعض دفعہ ایک قسم کا انعام اگر تمہیں نہ ملے اور دوسروں کو مل جائے تو تم حرص اور لالچ نہ کیا کرو تمہیں کیا معلوم ہے کہ تمہارے لئے جو انعام مقدر ہے وہ کیسا ہے اور کس صورت میں ہے.اگر ظاہری انعاموں کو ہی انعام کہا جائے تو پھر ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان انعامات سے محروم رہے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی ان انعامات سے محروم رہے.اور پھر تم کو ماننا پڑے گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان انعاموں سے محروم رہے اور اسی طرح اور بہت سے انبیاء مثلاً حضرت بیچی اور زکریا وغیرہ بھی انعامات سے محروم رہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں انہی کا ذکر فرماتا ہے کہ تم یہ وی دعا مانگو کہ الہی ! ہمیں اس راستہ پر چلا جس راستہ پر چل کر تیرے پیارے بندوں نے انعامات حاصل ! کئے.یہاں اللہ تعالیٰ نے کسی خاص شخص کا ذکر نہیں کیا بلکہ تمام منعم علیہ گروہ کا ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ی یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ مانگو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ مُوسی - کیونکہ تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے لئے موسوی انعام بہتر ہے یا عیسوی انعام بہتر ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم یہ مانگو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ عِيسَى كيونہ ممکن ہے عیسوی انعام کے تم اہل نہ ہو تم ابراہیمی انعام کے مستحق ہو.اور پھر یہ بھی نہیں کہا کہ تم کہو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ إبْرَاهِيمَ کیونکہ تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے لئے ابراہیم والا انعام موزوں ہے، ممکن ہے تمہارے لئے نوح کا انعام مقدر ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کا اس میں ذکر نہیں کیا بلکہ اس دعا میں عام رنگ رکھا اور فرمایا کہ تم یہ دعا مانگو کہ الہی ! ہمیں اس راستہ پر چلا جس راستہ پر چل کر موسی اور عیسی اور ابراہیم اور داؤد اور سلیمان اور نوح اور تیرے ہزاروں کامل اور اکمل بندوں نے جو صدیق ، شہید اور صلحاء تھے انعام
خطبات محمود ۴۰۸ سال ۱۹۳۷ء حاصل کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے جس نبی یا جس کامل بندے کا انعام تمہارے مناسب حال ہوگا وہ انعام اللہ تعالیٰ تمہیں عطا فرما دے گا اور اگر وہ یہ دیکھے گا کہ تم تمام نبیوں کے انعامات کے مستحق ہو تو تمہیں تمام نبیوں کے انعامات سے حصہ دے دے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی اپنے متعلق فرمایا کہ آنچه داد ہر نبی جام داد آں جام مرا بتمام کہ وہ جام جو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کو پلایا تھا وہ اس نے بھر کر مجھے بھی پلا دیا.تو ممکن ہے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ مقدر کیا ہوا ہو کہ تم سارے نبیوں کے کمالات حاصل کرو.پھر تم اس سے کسی ایک نبی کا کمال کیوں مانگتے ہو.اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض کے کمالات تمہارے کمالات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ، اس صورت میں تمہارا ان نبیوں کے کمالات طلب کرنا بھی غلطی ہے.تم خدا تعالیٰ سے صرف یہ مانگو کہ وہ تمہیں اپنے قرب میں بڑھائے اور پہلے کامل بندوں میں سے جس کامل بندے کے ساتھ بھی تمہاری روحانی مناسبت ہے اس کے انعامات سے تمہیں بہرہ ور فرمائے.اگر خدا دیکھے گا کہ تم ابراہیمی جام کے مستحق ہو تو وہ تمہیں ابراہیمی جام پلا دے گا اور اگر دیکھے گا کہ موسوی جام کے مستحق ہو تو موسوی جام پلا دے گا.لیکن اگر تم داؤدی جام کے مستحق ہو اور تم اس سے ابراہیمی جام مانگتے رہو یا سلیمانی جام کے مستحق ہو اور تم اس سے عیسوی جام مانگتے رہو تو گو اللہ تعالیٰ تمہارا انعام تمہیں دے دے گا مگر وہ انعام ناقص ہوگا.کیونکہ تمہاری دعا کسی اور طرف جارہی ہوگی اور خدا تعالیٰ کا ارادہ کسی اور طرف ہوگا.لیکن اگر کوئی شخص خود کسی امر کی تعین نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ سے صرف یہ کہتا ہے کہ تو میرے اندر جن کمالات کو دیکھ رہا ہے ان کے مناسب حال جو انعام مجھے ملنا چاہئے وہ دے تو اس کے نتیجہ میں اسے جو جام بھی ملے گا وہ کامل ہوگا.کیونکہ ایک طرف اس کی دعا اس انعام کو طلب کر رہی ہوگی تو دوسری طرف خدا تعالی کا ارادہ اس انعام کو قریب لا رہا ہو گا.غرض اللہ تعالیٰ نے مومن کو یہ سکھایا ہے کہ تم یہ دعا مانگا کرو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ یعنی تم جمع کے صیغے میں دعا مانگا کرو اور یہ کہا کروانی که خدایا ! جو بھی اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں سے ہمارے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور جس کی روحانی قابلیتیں ہماری قابلیتوں سے تو ار د رکھتی ہیں، اس کا جام ہمیں پلا دے.وہ اگر موسوی جام ہے تو موسوی جامی
خطبات محمود ۴۰۹ سال ۱۹۳۷ء پلا دے.داؤدی صفات ہمارے اندر پائی جاتی ہیں تو داؤدی جام پلا دے.سلیمانی صفات پائی جاتی ہیں تو سلیمان کا جام پلا دے اور اگر عیسی کی پھانسی ہمارے لئے مقدر ہے تو وہی پھانسی ہمیں دلا دے.حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی کی سزا کا ملنا گوڈ نیوی نقطہ نگاہ میں معیوب امر تھا مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا سے تعلق رکھنے والوں کیلئے اسی پھانسی میں عزت ہے اور ان کی نگاہ میں یہ سزا نہیں بلکہ عزت ہے.یا ممکن ہے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ابراہیمی ہجرت مقدر کی ہو اور تم اس سے سلیمانی انعام ما نگتے رہو ، وہ تمہیں سلیمانی جام پلانا چاہتا ہو اور تم ابرا ہیمی ہجرت کے طلبگار ہو.وہ غرض اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ تم کسی کو انعام ملنے پر حسد اور لالچ مت کیا کرو.کیونکہ ممکن ہے تم اس انعام کے اہل ہی نہ ہو.یا ممکن ہے تمہارے لئے کوئی اور انعام مقدر ہو اور تمہارا رونا پیٹنا محض بے ایمانی اور نفاق کی علامت ہو.اگر کوئی انسان اس نکتہ کو نہیں سمجھتا اور وہ خدا تعالیٰ سے معتین طور پر کوئی ایسا انعام مانگتا ہے جس کا وہ اہل نہیں تو اگر وہ کمزور ایمان والا ہوگا تو فرشتے اس کا کان پکڑ کر الہی دربار سے نکال دیں گے.اور کہیں گے گستاخ تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں شوخی سے کام لیتا ہے.اور اگر وہ ایسا کامل انسان ہے کہ ارتداد اس کیلئے مقدر نہیں تو کم از کم اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا انعام بہت کم ہو جائے گا.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی جامع دعا سکھائی ہے کہ جس کے مطلب کو سمجھ کر انسان کفر اور نفاق.بیچ سکتا ہے اور بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ تم کبھی یہ خیال نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دروازے بند ہو چکے ہیں.یا فلاں کو جو مقام حاصل ہو ا تو اس کا اہل وہ نہ تھا تم تھے.خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور اگر یہ نظر آتا ہو کہ بظاہر ایک دروازہ بند ہو گیا تو خدا تعالیٰ معاً اس کی کے ساتھ ایک اور دروازہ کھول دیتا ہے.جیسے محمد ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین بنایا اور آپ پر تمام شرائع کو ختم کر دیا اور براہِ راست نبوت حاصل کرنے کا دروازہ مسدود قرار دے دیا تو بظاہر یہ نظر آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے ایک دروازہ کو بند کر دیا مگر خدا نے فوراً ایک اور قسم کے انعام کا دروازہ کھول دیا جو پہلے سے کسی صورت میں کم نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع میں بھی انسان کو ایسا بلند مقام حاصل ہوسکتا ہے کہ انسان نے حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی درجہ میں بڑھ سکتا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کو سارے انبیاء کے نام
خطبات محمود ۴۱۰ سال ۱۹۳۷ء دیئے اور اس طرح تمام انبیاء کے کمالات کا آپ کو جامع ٹھہرایا.اور ایسا انسان جسے تمام انبیاء کے نام دے دیئے جائیں اگر پہلے تمام انبیاء سے بڑا نہیں تو سب کے برابر تو ضرور ہوگا.صلى الله الله غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتا دیا کہ جو رستہ رسول کریم کی کے ذریعہ روکا گیا تھا وہ آپ کی شاگردی میں ایک اور رنگ میں کھول دیا گیا ہے.اور اس طرح کی اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال اسی طرح انسان کو حاصل ہو سکتا ہے جیسے پہلے حاصل ہوا کرتا تھا.بلکہ ان رسول کریم ﷺ کی غلامی کی وجہ سے پہلوں سے بھی زیادہ کمالات انسان حاصل کر سکتا ہے.لیکن وہ ان انسان جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ بجائے اللہ تعالیٰ کے قرب کیلئے جد و جہد کرنے کے دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی ترقی میں اگر کوئی روک ہے تو وہی جسے اس وقت عزت حاصل ہے.چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جب باغیوں نے حملہ کیا تو آپ نے انہیں یہی کہا کہ میرا قصور سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ میرا دور خلافت ذرا لمبا ہو گیا ہے اور تمہارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ یہ کہیں مرتا بھی نہیں کہ اس کی جگہ کوئی اور لے اور ہم اس کی وجہ سے انعام سے محروم ہوتے جار ہے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دروازے انسان کیلئے ہر وقت گھلے ہیں اور کوئی خلیفہ اس کے میں روک نہیں بن سکتا.یہی وہ امر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ } اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں بتایا اور مومنوں کو سمجھایا کہ ہمارے قرب کا کوئی دروازہ بند نہیں.اگر بظاہر تمہیں یہ نظر آتا ہو کہ کوئی دروازہ بند ہو گیا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی اور دروازہ خدا تعالیٰ نے کھول بھی رکھا ہوا ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی دروازہ اس وقت تک بند نہیں کرنا جب تک ایک اور دروازہ لوگوں کیلئے کھول نہ دے.پھر دوسرا ابتلا لوگوں کو اس لئے آتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں فلاں نعمت فلاں کو کیوں ملی ہمیں کیوں نہیں ملی.حالانکہ دنیوی رہتے تو جس قدر ہیں وہ محدود ہی ہوں گے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہر ایک کو کوئی نہ کوئی عہدہ دے دیا جائے.اگر کوئی ملازمت ہو تو خواہ وہ صدر انجمن احمد یہ دے یا میں دوں بہر حال محدودا فراد کیلئے ہی ہوگی.لیکن اگر ہیں آدمی آئیں اور ان میں سے ایک کو میں رکھ لوں اور اُنہیں کہیں کہ چونکہ ہمیں یہ جگہ نہیں دی گئی اس لئے ہمیں اعتراض پیدا ہو گیا ہے تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں.کیونکہ محدود ملازمتیں محدود افراد کو ہی دی جاسکتی ہیں ہر ایک کو کس طرح دی جاسکتی ہے.
خطبات محمود ۴۱۱ سال ۱۹۳۷ء اللہ تعالیٰ سورۃ فاتحہ میں اسی شبہ کا ازالہ کرتا اور فرماتا ہے جب تمہیں کوئی انعام نہیں ملتا تو تم کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ تمہارے لئے یہ انعام مقدر نہیں تھا تمہارے لئے کوئی اور نعمت ہوگی جو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے وقت تمہیں دے دے گا.پس تم جب خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو تو تم اس طرح دعا کرو کہ کی الہی ! جو نعمت ہمارے لئے مقدر ہے وہ ہمیں دے.تب خدا تمہاراحق تمہیں دے گا اور اس میں تمہارے لئے برکت رکھ دے گا.لیکن اگر تم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت پر قانع نہیں ہو گے اور دوسرے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاؤ گے تو خدا تم سے اپنی پہلی نعمت بھی چھین لے گا.کیونکہ جو شخص اُس کی دی ہوئی نعمت پر راضی نہیں ہوتا وہ مغضوب ہے.اس کی مثال قرآن کریم میں ایک اور مقام پر موجود ہے.اللہ تعالی عیسائیوں کی اور یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ اگر یہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئیں تو ان کیلئے یہ مقدر ہے کہ آسمان سے بھی ان پر نعمتیں اُتریں گی اور زمینی نعمتیں بھی انہیں عطا کی جائیں گی.یہود نے یہ سنا تو انہوں نے کہا ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نبی آئے.اللہ تعالیٰ نے کہا یہ تو ہو نہیں سکتا لیکن اس کی گستاخی کی سزا میں جو ہم نے تمہیں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ بھی ہم اب واپس لیتے ہیں.تو ہر متقی انسان کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام مقرر ہے.ورنہ یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ انسان دن رات میں پانچ نمازوں میں اس کے حضور کھڑا ہو اور اُس سے انعام طلب کرے مگر وہ کوئی انعام نہ دے.بچپن میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک لڑکے نے روٹی کا ٹکڑہ اپنے ہاتھ میں لیا اور ایک کتے کو پچکار کر اپنے پاس بلایا.کتے نے یہ سمجھا کہ یہ مجھے روٹی کا ٹکڑا کھلانے لگا ہے وہ دُم ہلاتے ہوئے اس کے پاس چلا گیا مگر جو نہی کتا اس لڑکے کے قریب پہنچا اس نے ایک ڈنڈا نکال کر جو اس نے پیٹھ کے پیچھے چھپایا ہوا تھا زور سے اس کے منہ پر مارا اور وہ چوں چوں کرتا ہوا بھاگ گیا.یہ نظارہ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے دیکھ رہا تھا.اسے یہ بات بہت ہی بُری معلوم ہوئی اور اس نے اس لڑکے بق سکھانے کیلئے ایک روپیہ اپنی جیب سے نکالا اور کہا کہ میاں بچے یہ روپیہ لے لو.وہ دوڑا دوڑا اس کے پاس گیا.مگر جو نبی اس نے روپیہ پر ہاتھ ڈالا اس شخص نے زور سے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا.وہ لڑکا شور مچانے لگ گیا کہ میرے ساتھ دھوکا اور فریب کیا گیا ہے.مجھے روپیہ دینے کیلئے بلایا گیا مگر جب میں پاس پہنچ تو مجھے تھپڑ کھینچ مارا.وہ شخص کہنے لگا تو نے کتے سے کیوں دھوکا کیا تھا اور کیا تجھے شرم نہ آئی تھی کہ تو نے اسے روٹی کا ٹکڑا دکھا کر بلا یا مگر جب وہ تمہارے پاس آیا تو تم نے اس کے منہ پر زور سے
خطبات محمود ۴۱۲ سال ۱۹۳۷ء ڈنڈا مار دیا.اب دیکھو ایک بچہ اور نادان بچہ جس میں عقل و خرد نہیں وہ ایک کتے کو روٹی کیلئے بلاتا ہے مگر جب اسے روٹی دینے کی بجائے ڈنڈا مارتا ہے تو انسانی فطرت اس بات کو بُرا مناتی ہے.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا خدا تمہیں اپنے دربار میں بلا کر تم سے یہی معاملہ کرے گا اور وہ تمہیں ہدایت تو یہ دیتا ہے کہ مجھے سے انعام ما نگومگر جب تم انعام لینے جاؤ گے تو تمہیں خالی ہاتھ پھیر دے گا.ایک بچہ کی ایک کتے سے اس قسم کی بات ہوتی ہے تو انسانی فطرت اسے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.پھر کیسا نالائق وہ انسان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ خدا تو اُسے اس لئے بلاتا ہے کہ وہ اسے انعام دے مگر جب وہ جائے گا اور انعام لینے جائے گا تو وہ اسے ٹھوکر مار کر اپنے دربار سے نکال دے گا.یہ خیال ہی خود بے ایمانی کی علامت ہے.یہ خیال ہی خود کفر کی علامت ہے، یہ خیال ہی خودارتداد کی علامت ہے اور جس شخص کے کی دل میں ایسا خیال پیدا ہوتا ہے وہ اپنے کفر اور اپنے ارتداد اور اپنے نفاق پر آپ مُہر لگاتا ہے.اگر اس کی کے اندر ایمان ہوتا تو وہ سمجھتا کہ خدا جو مجھے بلا رہا ہے اور اس نے مجھے اپنا ابراہیمی پرندہ بنایا ہے تو اس لئے بنایا ہے کہ مجھے اپنا مقام قرب دے اور اگر ایک دروازہ میرے لئے بند ہے تو کوئی اور دروازہ میرے لئے ضرور کھلا ہوگا.اگر یہ دو باتیں جو سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں انسان سمجھ لے تو ارتداد اور نفاق کا پیدا ہونا بالکل بند ہو جائے.یہ دو وسو سے ہیں جو دلوں میں پیدا ہوتے اور انسان کے ایمان کو بالکل بہا کر لے جاتے ہیں.ایک تو یہ کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اب میرے لئے انعامات کے دروازے بند ہو گئے.پس وہ خیال کرتا ہے کہ جب میرے لئے حصولِ عزت کی اب کوئی راہ باقی نہیں تو آؤ میں نئی انجمنیں بناؤں اور ان کا صدر اور پریذیڈنٹ بن جاؤں.پھر انجمنوں کی صدارت پر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور قوم کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچنے لگ جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو مسلمانوں میں جب بھی کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہے اسی بات پر ہوتا ہے کہ جب کوئی نئی انجمن بنتی ہے تو ایک کہتا ہے پریذیڈنٹ میں بنوں دوسرا کہتا ہے تو کیوں بنے میں بنوں گا.وہ سمجھ لیتے ہیں کہ عزت کے حصول کے طریق محدود ہیں اور اگر عزت حاصل کرنے کا کوئی طریق ہے تو صرف یہ کہ دوسرے کو گرایا جائے اور خود اس کا مقام حاصل کیا جائے.پھر کبھی وظیفوں پر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں کہ فلاں کو کیوں ملا، ہمارے بیٹے کو کیوں نہیں ملا.غرض یا تو وہ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ حصولِ مدارج کے راستے بند ہو گئے اور یا یہ خیال کرنے لگ جاتے ہی
خطبات محمود ۴۱۳ سال ۱۹۳۷ء ہیں کہ انعامات کی تقسیم میں ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا.اور یہ دونوں بے ایمانی کے طریق ہیں اور یہ دونوں کفر کی چوکھٹ پر انسان کو لے جاتے ہیں اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے ان دونوں وسوسوں کا علاج اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں بتا دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو کی سمجھا دیا گیا ہے کہ ان دو چیزوں میں سے کوئی بھی پیدا ہوئی تو تم مغضوب بن جاؤ گے.پھر اس کے کی مقابل کی جو حالت ہوتی ہے وہ ضال والی حالت ہوتی ہے یعنی جس کو انعام مل جاتا ہے وہ بعض دفعہ ایسی کی غلو والی محبت شروع کر دیتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ضال بن جاتا ہے.گویا جس کو کچھ نہیں ملتا وہ ٹھوکر کھا کر مغضوب بن جاتا ہے اور جس کو کچھ ملتا ہے وہ بعض دفعہ ایسی ٹھو کر کھاتا ہے کہ ضال بن جاتا ہے.ہاں وہ جو اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر سلسلہ کے کاموں میں سے فلاں کام میرے سپرد نہیں کیا گیا یا میرے ہاتھ فلاں عہدہ کے حصول تک نہیں پہنچ سکے تو یہی میرے لئے مفید ہوگا.اور اگر واقعہ میں میں کسی انعام کا مستحق ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے غیب سے اور سامان پیدا کر دے گا اور اور راستے میرے لئے کھول دے گا.وہ نہ مغضوب بنے گا نہ ضال بلکہ دائمی ترقی کرتا چلا جائے گا کیونکہ وہ ہمیشہ دعا مانگتا رہے گا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اور ہمیشہ اسے انعامات ملتے رہیں گے.اور اگر کسی وقت اس دعا کے باوجود خدا تعالیٰ اسے انعام نہ دے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ نَعُوذُ باللہ خدا تعالیٰ کے خزانے خالی ہیں حالانکہ وہ کبھی خالی نہیں ہوتے.غرض غیر محدود ترقیات کیلئے یہ دو یقین اپنے اندر پیدا کرنے نہایت ضروری ہیں.اول یہ کہ خدا کبھی انسانی ترقیات کے دروازے بند نہیں کرتا اور اگر بظاہر یہ نظر آتا ہو کہ ترقی کا فلاں دروازہ ہمارے لئے بند ہو گیا تو اس کی جگہ ایک اور دروازہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور کھلا ہو ا ہو گا.دوسرے یہ کہ جب ایک انعام کسی شخص کو نہیں ملتا تو وہ سمجھ لے کہ یہ انعام یقیناً اس کیلئے مقدر نہیں تھا بلکہ کوئی اور انعام اس کیلئے مقدر ہو گا.اور اس کیلئے جیسا کہ سورۂ فاتحہ میں ہدایت کی گئی ہے بغیر کسی تعیین کے خدا تعالیٰ کی سے دعا مانگے اور اس سے کہے الہی ! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیں اپنے پاس سے وہ انعامات دے جو ہمارے مناسب حال ہوں اور جن کو تُو نے ہمارے لئے مقدر کر رکھا ہو.اگر ہمارے لئے موسوی جام مقدر ہے تو وہ دے، عیسوی جام مقدر ہے تو وہ دے، داؤدی جام مقدر ہے تو وہ دے، سلیمانی جامی مقدر ہے تو وہ دے، رامچندری جام مقدر ہے تو وہ دے کرشنوی جام مقدر ہے تو وہ دے.ہمیں کچھ علم ہے
خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۳۷ء نہیں کہ ہمارے لئے کونسا جام مفید اور بابرکت ہے اور کونسا جام ہماری قابلیتوں اور طاقتوں کے لحاظ سے ہمارے لئے ضروری ہے.علم غیب محض تجھ کو ہے اور تجھے ہی ہماری قسمت کا علم ہے.پس جو جام تیری نگاہ اور تیرے علم میں ہمارے لئے مفید ہے وہی ہمیں دے اور اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں ڈھانپ لے.جب تم اس طرح خدا تعالیٰ سے دعا مانگو گے اور اس سے کہو گے کہ اے خدا! جو ہمارا حصہ ہے وہ ہمیں دے.تو وہ تمہارا حصہ تمہیں ضرور دے گا.لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ سے دوسرے کا حصہ مانگو گے تو اس گستاخی کے بدلے نہ صرف یہ کہ دوسرے کا حصہ تمہیں نہیں ملے گا بلکہ تمہارا حصہ بھی جو تم کو مل چکا ہو گا تم سے واپس لے لیا جائے گا.اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت پر رکھے اور غضب اور ضلالت سے بچائے.آمین الفضل ۱۱ ستمبر ۱۹۳۷ الفاتحه : 2 الفاتحه : ۶ الفاتحه: ۷ فاطر: ۲۹ ها تذکرہ صفحہ ۱.ایڈیشن چہارم حم السجدة: ۴۱.بخارى كتاب التفسير سورة الممتحنة اشاعۃ السنتہ جلد ۱۳ نمبر صفحه ۴۳ مطبوعه ۱۸۹ء النساء: ۴۹ در نشین اُردو صفحه ۵۸ ا درشین فارسی صفحه ۲۴۸ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوه متی باب ۸ آیت ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء (مفہوماً)
خطبات محمود ۴۱۵ ۲۹ سال ۱۹۳۷ء نبی کے مقاصد پورے ہونے تک اُس کی جماعت کی اکثریت ضرور سچائی پر قائم رہتی ہے (فرموده ۱۰ ستمبر ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ نزلہ کی وجہ سے میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے آج میں بعض دوسرے راستوں کے ذریعہ سے اپنے خطبہ کی آواز دوستوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا لے اور اس الہام کے بعد دوسرا الہام ہو ا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں اور آپ نے اس کی تشریح یہ بیان فرمائی کہ ” میری اس دوبارہ زندگی سے مراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے.سکے اس الہام میں ایک تو خبر ہے اور ایک سنت اللہ بیان کی گئی ہے.خبر تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی ضائع نہیں فرمائے گا اور آپ کے کام کی کو آسمانی تائیدوں کے ساتھ دنیا میں زندہ رکھے گا.اور سنت اللہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ معاملہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے ساتھ یہی ہے سلوک کرتا چلا آیا ہے اور یہی سلوک کرتا چلا جائے گا.اور یہ اس کا قدیم دستور ہے کہ جب کبھی بھی اس کی ج طرف سے مامور دنیا میں آتے ہیں ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی رُوح کو علی قدر مراتب ان کی
خطبات محمود ۴۱۶ سال ۱۹۳۷ء جماعتوں کے افراد کے جسموں میں بطور مظاہر کے حلول کر دیتا ہے اور وہ رُوح جو پہلے ایک جسم سے ظاہر ہو رہی تھی آئندہ وہ تمام افراد جماعت کے اندر تقسیم ہو کر اپنی حیات کا ثبوت دیتی رہتی ہے.یہ سنتِ الہیہ ایک ایسا معیار صداقت ہے کہ اس کا انکا ر الہی سلسلوں کی صداقت کو باطل کر دیتا ہے اور یہ کی معیار اتنا اہم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اعلان فرمایا ای ہے کہ وہ تمام تعلیمات کہ جو دنیا میں رائج ہو گئیں اور ان کو مخالفتیں مٹا نہ سکیں وہ ایک یقینی ثبوت ہیں اس امر کا کہ ان کے لانے والے خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل تھے.گویا اس قاعدہ کلیہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام سلسلوں کو الہی سلسلہ قرار دیا ہے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کے نام پر قائم کئے گئے اور مرورِ زمانہ اُن کو مٹانہ سکا.خواہ ان کے لانے والوں کا نام بھی ہم کو معلوم نہیں اور خواہ ان کے حالات سے ہم گلی طور پر بے خبر ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی قانون کے ماتحت ویدوں کی صداقت کا اعلان فرمایا ہے.گو ہمارے پاس کوئی ایسا تاریخی ثبوت موجود نہیں کہ ویدوں کے لانے والے کون تھے اور ان کی زندگیاں کیسی تھیں اور ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ کس رنگ میں ہو ا تھا.صرف اس بنیاد پر کہ وید خدائی الہام کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو اسی سرچشمہ سے قرار دیتے ہیں اور ان کے ماننے والے ہزاروں سالوں سے چلے آتے ہیں اور ان کی تعلیم دنیا میں قائم کی رہ گئی ہے ، آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ الہی سنت کے ماتحت وہ خدا ہی کی طرف سے تھے اور ان کے لانے والے اللہ تعالیٰ کے مامور اور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے.پس جو شخص بھی اس قاعدہ کور ڈ کرتا ہے وہ الہی سنت کورڈ کرتا ہے اور وہ ایک ایسا دروازہ کھولتا ہے کہ جس دروازہ کے گھلنے کے ساتھ کفر و الحاد کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صداقت مشتبہ ہو جاتی ہے اور اس کا نہ ملنے والا قانون بے اعتبار ہو جاتا ہے.اور ہمارے لئے کوئی ایسی راہ کھلی نہیں رہتی جو ہمیں یقینی طور سے خدا تعالیٰ کا وصال اور قرب حاصل کرا سکے اور مشاہدہ کی بنیاد پر ہمارے ایمانوں کو قائم رکھ سکے.اللہ تعالی قرآن کریم میں بیان فرما تاج ہے فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلاً ے اس آیت میں دو قانون بیان کئے گئے ہیں.اول تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسا قاعدہ ہے کہ جس میں کوئی استثناء نہیں.اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس کے ذریعہ سے چیلنج دیا ہے کہ تم دنیا کی ساری تاریخ کو دیکھ جاؤ تم اللہ تعالیٰ کے ان افعال کو دیکھ جاؤ جو زمانہ کے شروع سے آج تک جاری رہے ہیں تمہیں یہی کی
خطبات محمود ۴۱۷ سال ۱۹۳۷ء نظر آئے گا کہ جس چیز کو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قرار دیا ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.مشروط وعدے بدل جاتے ہیں، غیر مشروط وعید بھی ٹل جاتے ہیں.خدا کی قدرت خود اپنی ہی تقدیر مبرم کو بدل دیتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کہ سنت اللہ میں تبدیلی ہو جائے.سنت اللہ جو آدم کے وقت میں تھی وہی سنت اللہ نوح کے وقت میں تھی ، وہی سنت اللہ ابراہیم کے وقت میں تھی ، وہی موسیٰ کے وقت میں تھی ، وہی کرشن کے وقت میں تھی ، وہی رام چندر کے وقت میں تھی ، وہی زرتشت کے وقت میں تھی ، وہی عیسی کے وقت میں تھی اور پھر وہی آنحضرت مے کے وقت میں تھی اور وہی آکر پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة ) والسلام کے وقت میں ظاہر ہوئی.اس میں کبھی ایک رتی بھر بھی تبدیلی نہیں ہوئی اور جس مامور اور مدعی کے متعلق ہم اس میں تبدیلی دیکھیں ہم اس الہی قانون کے ماتحت یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ مدعی جھوٹا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مدعی تو سچا ہے مگر اس کے لئے خدا تعالیٰ کی سنت کسی اور شکل میں ظاہر ہوئی ہے.کیونکہ وعدوں کی شکلیں بدلتی ہیں وعیدوں کی شکلیں بدلتی ہیں مگر سنت اللہ کی شکل کبھی نہیں بدلتی.پھر دوسرا قانون اس جگہ پر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلًا یعنی تو اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تعویق و تأخیر نہیں پائے گا یعنی نہ صرف یہ کہ وہ سنت تبدیل نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے وقت سے ملے گی بھی نہیں.تحویل کے معنے عربی زبان میں ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ پر رکھی دینے کے ہیں.پس وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلًا کے یہ معنے ہوئے کہ سنتِ الہیہ میں جس امر کے ظہور کا کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے وہ اپنے وقت سے ٹل نہیں سکتا.ضروری اور لازمی ہے کہ سنت اللہ عین وقت پر ظاہر ہو اور اُس وقت تک ظاہر ہوتی چلی جائے جس وقت تک کہ اُس کا ظہور مقدر ہے.نہ وہ اپنے ظہور کے ابتدائی وقت سے پیچھے ہے اور نہ وہ اپنے ظہور کے انتہائی وقت سے پہلے ختم ہو.ان دونوں کی قاعدوں کے مطابق اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کو دیکھتے ہیں تو آپ کا پہلا الہام یہ ہے کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا.اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء کے ساتھ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت کے ذریعہ آپ کو ایک نئی زندگی بخشے گا اور وہ زندگی پائیدار ہوگی اور اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ وہ مقاصد پورے نہ ہو جائیں جن کے پورا کرنے کیلئے آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا.چونکہ اس الہام کا مضمون بظاہر ایک وعدہ نظر آتا تھا اور وعدے بعض دفعہ شرطی بھی ہوتے ہیں اور کی
خطبات محمود ۴۱۸ سال ۱۹۳۷ء حالات کی تبدیلی کے ساتھ وہ بدل جاتے ہیں اور لوگ شبہ کر سکتے تھے کہ اگر اس کے خلاف جماعت میں حالات ظاہر ہوں تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ یہ وعدہ شرطی تھا.جب اس کی شرائط پوری نہ ہوئیں اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو بدل دیا.پس اللہ تعالیٰ نے دوسرے الہام کے ذریعہ سے اس بات کو صاف کر دیا اور بتا دیا کہ یہ وعدہ نہیں بلکہ اس قدیم سنتِ الہیہ کے ظہور کا اس الہام میں ذکر ہے جو ہمیشہ ہمارے ماموروں کے حق میں پوری ہوتی چلی آئی ہے اور اب تیرے حق میں بھی پوری ہوگی.اور فرمایا کہ ہم ہمیشہ اپنے مقربوں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں.اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ فیصلہ تھا جس طرح پہلے انبیاء اور مامورین کے متعلق یہی فیصلہ ہوتا رہا ہے کہ وہ سنت اپنے کی وقت سے ملے گی نہیں اور نہ ان مقاصد کے پورا ہونے سے پہلے جن مقاصد کے پورا کرنے کیلئے کی - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا گیا تھا، اس کا زمانہ ختم ہوگا.یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ایک اور الہام سے بھی ثابت ہوتی ہے.گوسنتِ الہیہ کو دیکھتے ہوئے کسی مزید ثبوت کی ضرورت بھی نہ تھی.وہ الہام یہ ہے مَا أَنتَ اَنْ تَتْرُكَ الشَّيْطَنَ قَبْلَ أَنْ تَغْلِبَهُ - اَلْفَوْقُ مَعَكَ وَالتَّحْتُ مَعَ اعْدَاءِ ک.یعنی اے ہمارے مامور ! تو شیطان کا پیچھا اُس وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک تو اُس کو ہلاک نہ کرے اور اُسے تباہ نہ کر دے کیونکہ غلبہ تیرے لئے مقدر ہے اور ی مغلوبیت تیرے دشمن کیلئے.اس الہام میں یہ خبر دی گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت روحانیہ اُس وقت تک متواتر اور بغیر وقفہ کے جاری رہے گی جب تک کہ دنیا سے شیطان کی حکومت کو نکال نہ دیا جائے اور اسلام کو دوسرے ادیان پر جو اب سچائیوں اور جھوٹوں کا مرکب ہیں غالب نہ کر دیا جائے.اور اس عرصہ میں کوئی وقفہ نہیں پڑے گا کیونکہ مَا أَنْتَ أَنْ تَتْرَكَ الشَّيْطَنَ میں بھی ایک قاعدہ بیان کیا گیا ہے اور ایک فرض کو ظاہر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ بات تیری شان کے خلاف ہوگی اور الہی سنت کے خلاف ہوگی اگر شیطان پر غلبہ اور فتح پانے سے پہلے تو اور تیری جماعت اس جنگ کی سے غافل ہو جائیں اور شیطان کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں اور تیری جماعت گمراہ ہو جائے اور شیطان آزاد ہو جائے اور جھوٹے ادیان کو سانس لینے کا موقع مل جائے.پس الہی سنت کے ماتحت تیری جماعت کا قدم اُس وقت تک برابر راستی پر رہے گا جب تک کہ شیطان مغلوب نہ ہو جائے اور اسلام کو کی
خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۷ء دوسرے ادیان پر غلبہ نہ حاصل ہو جائے.اب دیکھو یہ ایک کیسی گھلی بشارت ہے جو سنت الہیہ کے ساتھ وابستہ ہے اور جس کے متعلق خدا تعالی کا یہ قانون ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلی جاتی اور اس کے اندر کبھی رخنہ نہیں پڑنے دیا جاتا.وہ نہ اپنے وقت سے پیچھے بہتی ہے اور نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوتی ہے.اب ان پیشگوئیوں اور ان قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرو اور سوچو کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جماعت میں گمراہی پھیل گئی اور وہ اب اس کی تی اصلاح کریں گے ، وہ کس طرح سنت الہیہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں وہ اپنی وفات کے تی بعد پھر زندہ ہو جاتے ہیں.یعنی ان کی روح ان کی جماعت میں حلول کر جاتی ہے اور ان کی جماعت کی نیکیوں کا پلہ اُن کی بدیوں پر بھاری رہتا ہے.اور وہ اسی حالت میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں یہاں کی تک کہ شیطان مغلوب ہو جاتا ہے اور مذہب کو فوقیت اور غلبہ حاصل ہو جاتا ہے.تب خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہو چکتے ہیں اور وہ نصرت جو نبیوں کیلئے بلا واسطہ یا بعد میں جماعت کے ذریعہ بالواسطہ مقدر ہوتی ہے اُس کو خدا تعالیٰ کھینچ لیتا ہے اور اُس وقت کے بعد انسانی اعمال خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوتا ہے وہ دنیا میں دینی روح کو قائم رکھتے ہیں اور پھر ایک عرصہ کے بعد ان میں سنت اللہ کے ماتحت خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور الہی نصرت کی ان کو چھوڑ دیتی ہے.مگر یہ حالت غلبہ کے بعد آتی ہے پہلے نہیں.اگر یہ حالت پہلے آ جائے تو یہ ایک یقینی دلیل ہوگی اس امر کی کہ مدعی اپنے دعوئی میں سچا نہیں تھا بلکہ جھوٹا تھا کیونکہ اس کے مقاصد کے پورا ہونے سے پہلے ہی اُس کی جماعت میں رخنہ پیدا ہو گیا.اب دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کن مقاصد کو لے کر دنیا میں آئے تھے.آپ کی تحریرات اور آپ کے الہامات سے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور قرآن کریم کی بینات سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اس غرض سے تھی کہ اسلام کو کی دوسرے ادیان پر غالب کیا جائے.اور ابھی تو ہماری جماعت کی یہ حالت ہے کہ ہمیں خود دار الامان میں کامل امن حاصل نہیں اور دین کے دشمن خود ہمارے مرکز میں آکر ہمارے پیاروں اور ہماری محبوب ترین و ہستیوں کو گندی سے گندی گالیاں دیتے ہیں.مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملے کرتے ہیں اور کی
خطبات محمود ۴۲۰ سال ۱۹۳۷ء صلى الله سکھ و ہند و آنحضرت محے پر اعتراض کرتے ہیں.اور ہمارے لئے سوائے خون کے گھونٹ پینے کے اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا.دنیا ساری کفر و ضلالت میں پڑی ہوئی ہے، عیسائیت ابھی تک خوشی کے ناچ ناچ رہی ہے اور دوسرے مذاہب باطلہ بھی اسلام کے مقابلہ میں بظاہر زیادہ شان و شوکت رکھتے ہیں اور اسلام ابھی غربت کی گھڑیاں گزار رہا ہے.ان وعدوں کا جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پورا ہونا مقدر تھا ایک اربواں حصہ بھی پورا نہیں ہوا.پس پیشتر اس کے کہ وہ وعدے پورے ہوں اگر یہ جماعت خراب ہو جائے اور اس کی اکثریت باطل پر ہو تو یہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بطلان ہوگا.کیونکہ سنتِ الہیہ یہی ہے کہ نبیوں کے بعد ان کی جماعتیں ان کی روح کو قائم رکھتی ہیں یہاں تک کہ ان کے مقاصد پورے ہو جائیں.کچھ لوگ مرتد ہو سکتے ہیں، کچھ لوگ منافق ہو سکتے ہیں، لیکن اکثریت کا قدم سچائی پر رہنا ضروری ہے.حضرت رسول کریم نے سے بھی ایک شخص نے دریافت کیا کہ يَا رَسُولَ الله ! اگر اسلامی نظام مٹ جائے تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا جدھر اکثریت ہو تو بھی اُدھر شامل ہو جانا اے.اگر اکثریت کیلئے فساد ممکن ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ ہدایت کیونکر دے سکتے تھے.آپ کو چاہئے تو یہ تھا کہ یہ فرماتے کہ تو قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے دعووں کو پرکھیو اور جو قرآن کہے گا اُس پر عمل کیجیئو.مگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ میرے مقاصد کے پورا ہونے سے پہلے اگر کسی وقت مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو تو کوئی اور دلیل نہ دیکھیو، کوئی اور برہان تلاش نہ کیجیو ، کوئی اور کی معیار نہ ڈھونڈ یو، تجھے کسی گہرے غور کی ضرورت نہیں ، تجھے کسی لمبی فکر کی ضرورت نہیں سیدھا دوڑ کر اکثریت کے ساتھ جاملیو.کیونکہ جدھر اکثریت ہوگی سنت اللہ کے مطابق اُدھر ہی قرآن ہوگا اور خدا تعالیٰ کی سچائیاں تجھے جماعت کی اکثریت میں ملیں گی.پس رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان بھی اسی بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب تک نبی کے مقاصد پورے نہ ہو جائیں جماعت کی اکثریت سچائی پر قائم رہتی ہے اور کسی عارضی اور وقتی خلل کے سوا اس کا قدم صداقت کے رستہ سے نہیں پھرتا اور عارضی اور وقتی سے مراد میری ایسا قلیل وقت ہے کہ جو نظام میں رخنہ پیدا نہیں کر سکتا.جیسے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد چند گھنٹوں کیلئے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہوا.مگر معا ابوبکر کی آواز رسول کریم ﷺ کی قد وی کو لے کر بلند ہوئی اور سارے مسلمان دوڑ کر آپ کے گر د جمع ہو گئے.یا جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کے بعد دو چار دن کیلئے جماعت میں ایک
خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۳۷ء انتشار پیدا ہو اگر بغیر اس کے کہ جماعت یا اس کے نظام یا اس کے مرکزی وفا تر میں کوئی خلل پیدا ہوتا جماعت پھر اتحاد کے نقطہ پر جمع ہوگئی اور ہر قسم کا انتشار دور ہو گیا.پس ایسے عارضی اور وقتی خلل کے سوا کوئی ایسا تغیر نبیوں کی جماعتوں میں پیدا نہیں ہوتا کہ جس کو کسی عظیم الشان جہاد یا کوشش کے ساتھ دور کرنا پڑے.اس خلل اور اس خلل میں جو ناممکن ہوتا ہے ایسا ہی فرق ہے کہ جیسے کسی شخص کو نزول الماء کی بیماری ہو جائے اور کئی سال اندھا رہنے کے بعد آپریشن کے ذریعہ سے اُس کی نظر درست ہو اور ایک ایسا شخص ہو جو یکدم اندھیرے سے روشنی میں آئے یا روشنی سے نکل کر اندھیرے میں جائے تو اس کی بینائی میں بھی فرق پڑتا ہے.اندھیرے میں سے روشنی میں جا کر وہ اپنی آنکھوں کو چندھیائی ہوئی پاتا ہے اور روشنی سے اندھیرے میں جا کر اپنی پتلیوں کو گھلتا ہوا محسوس کرتا ہے.یہ بیماری نہیں ، یہ صدمہ ہوتا ہے جو فوراً ہی زائل ہو کر پھر بینائی اپنی اصل جگہ پر آجاتی ہے.اس حالت کو کبھی کوئی ڈاکٹر بیماری نہیں کہے گا لیکن نزول الماء کو ہر شخص بیماری قرار دے گا.پس اس قسم کے عارضی تعطل کو دلیل قرار دینا ویسی ہی حماقت ہوگی جیسا کوئی شخص نزول الماء کی حالت کو صحت قرار دینے کیلئے اس تندرست آنکھوں والے کو پیش کرے جو اندھیرے سے روشنی میں آکر ایک منٹ کیلئے گھبرا گیا ہو.پس اس قسم کی دلیلیں اس سنت اللہ پر اعتراض کرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں.جو چیز نہیں ہوتی اور نہیں ہو سکتی وہ یہ ہے کہ جماعت میں کوئی تی ایسی بیماری پیدا ہو جائے جو اسے جادہ اعتدال سے ہٹا دے اور جس کو دور کرنے کیلئے ایک لمبی محنت اور لی ایک لمبی کوشش کی ضرورت ہو.پھر بعض لوگ یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ ہم جو معترض ہیں ، ہمارے ذریعہ سے ماموروں کی روح زندہ ہے اس لئے سنت اللہ پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.مگر یہ اعتراض بھی نہایت ہی باطل اور غلط ہے.کیونکہ کوئی کوئی نیک مرد تو فیح اعوج کے زمانہ میں بھی ہوتا رہا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تین صدیوں تک ہدایت رہے گی اور اس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہوگا.اب دیکھو کہ کیا فیح اعوج میں کوئی نیک نہیں ہوتا تھا؟ یہ سید عبدالقادر جیلانی، یہ شہاب الدین صاحب سہروردی، یہ شبلی اور جنید اور غزالی اور عبدالقادر جرجانی، یہ معین الدین صاحب چشتی ، یہ محی الدین صاحب ابن عربی ، نظام الدین صاحب اولیاء اور فرید الدین صاحب شکر گنج اور سید احمد صاحب سرہندی اور سید احمد صاحب بریلوی اور ہزاروں صوفیاء اور اولیاء اور علماء سب فیج اعوج کے زمانہ میں ہی گزرے ہیں.پھر وجہ کیا ہے کہ
خطبات محمود صلى الله ۴۲۲ سال ۱۹۳۷ء رسول کریم ﷺ نے پہلی تین صدیوں کو تو اپنے نور کا زمانہ قرار دیا ہے اور بعد کی دس صدیوں کو دجال کی آزادی کا زمانہ.حالانکہ ان دس صدیوں میں بڑے بڑے روحانی عالم اور بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں زمانوں میں یہی فرق ہے کہ پہلی تین صدیوں میں اسلام کی حامل کثریت تھی اور پچھلی دس صدیوں میں اسلام کی حامل اقلیت تھی.جس زمانہ میں اسلام کی حامل اقلیت تھی، اُس زمانہ کو رسول کریم ﷺ نے دجال کا زمانہ قرار دیا ہے اور جس زمانہ میں اسلام کی حامل اکثریت تھی ، اُس کو اپنا زمانہ قرار دیا ہے.پس وہ چند افراد جو کہ اخلاقی طور پر بھی کوئی اچھا معیار ظاہر نہیں کر سکتے اگر وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا حامل قرار دیں اور ہم ان کے اس دعوی کو قبول بھی کر لیں تب بھی رسول کریم کے فیصلہ کے مطابق بوجہ اس کے کہ جماعت کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں اور بقول اُن کے اس کا قدم ضلالت کی طرف چلا گیا ہے اور وہ ایک سلسلہ کے دشمن کی محبت میں غلو کر رہی ہے، یہ زمانہ دجالی زمانہ کہلائے گا کیونکہ چند آدمیوں کے راستی پر قائم ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ کا تسلسل اور تو اتر قائم نہیں رہتا.وہ لوگ جو آج جماعت احمدیہ پر احمدی کہلاتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں جماعت کے مقابلہ میں ان کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے جتنی کہ فیج اعوج کے زمانہ میں مومنوں کی دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں تھی.پھر جب کہ باوجود ان مومنوں کی موجودگی کے رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ کو اپنی روحانی بادشاہت کے زمانہ سے خارج کر دیا ہے تو ان سے بہت کم تعداد میں ہوتے ہوئے یہ لوگ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اس صورت میں تو ہم کو ماننا پڑے گا کہ دجال پیشتر اس کے کہ مارا جاتا پھر غالب آ گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں آپ کی وفات سے نصف صدی سے بھی پہلے فیح اعوج کا زمانہ شروع ہو گیا ہے اور اکثریت باطل پر اور اقلیت حق پر قائم ہوگئی ہے.اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان پر غالب آنا تو در کنار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح شیطان سے پوری طرح نبرد آزما ہونے سے پہلے ہی میدان چھوڑ گئی ہے اور میدان شیطان کے ہاتھ رہا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا تھا کہ مَا أَنتَ اَنْ تَتْرَكَ الشَّيْطنَ قَبْلَ أَنْ تَغْلِبَهُ - یعنی شیطان کو مغلوب اور زیر این کر لینے سے پہلے اے ہمارے مسیح! تو کبھی مقابلہ نہیں چھوڑے گا اور تو بس نہیں کرے گا جب تک شیطان
خطبات محمود ۴۲۳ سال ۱۹۳۷ء کو قید نہ کر دے.پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جوا کثریت کو چھوڑ کر اپنے لئے ایک نئی راہ تجویز کر رہے ہیں، خواہ وہ اپنا نام احمد یہ اشاعت اسلام رکھیں یا مجلس احمد یہ رکھیں یا کوئی اور نام اپنے لئے تجویز کر لیں وہ خدا تعالیٰ کی کچی جماعت نہیں.کیونکہ وہ تو اپنے عمل سے اور اپنے قول سے ان الہامون کو جھوٹا کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمائے.بلکہ وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ سنت قدیمہ جو ہر نبی کے زمانہ میں ظاہر ہوئی اور ایک نبی بھی ایسا نہیں گذرا جس کے زمانہ میں وہ ظاہر نہ ہوئی ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ظاہر نہیں ہوئی اور اگر ان کی یہ بات درست ہو تو فَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا - وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلًا کے دوز بر دست قاعدوں کے مطابق تو نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوی میں راستباز نہ تھے.کیونکہ جو خدا تعالیٰ کا قانون ہر راستباز کیلئے ظاہر ہونا ضروری ہے وہ آپ کیلئے ظاہر نہیں ہوا.شاید بعض لوگ کہہ دیں کہ ان کی اقلیت عارضی وقفہ ہے پھر جماعت کی اکثریت ان کیسا تھ مل جائے گی اور حق پر قائم ہو جائے گی.مگر یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی دے دیا ہے جو یہ ہے ه وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلًا یعنی اس سنت کا ظہور اپنے وقت پر اور تسلسل اور تو اتر کے ساتھ ضروری ہے وہ پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتی اور اس میں رخنہ بھی نہیں پڑ سکتا.پس اگر یہی تسلیم کر لیا جائے کہ یہ کسی وقت جماعت پر غالب آجائیں گے اور جماعت کو اپنا ہم خیال بنالیں گے تب بھی تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک خاصہ لمبا زمانہ اس سنت اللہ کے ظہور سے خالی رہا اور مقاصد عالیہ کے پورا ہونے سے پہلے جماعت کی اکثریت باطل اور ناراستی پر قائم ہوگئی.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلًا.یعنی اس سنت میں وقفہ بھی نہیں پڑتا.اگر وقفہ بھی پڑ جائے تب بھی وہ مدعی جس کے زمانہ میں وقفہ پڑے خدا تعالیٰ کی طرف سے قرار نہیں دیا جائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ خدا تعالیٰ کی سنت کی اس کے حق میں پوری نہیں ہوئی.اس سنت کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی جماعتوں کے حق میں ظاہر کیا ہے وہ ایک ایسی کھلی دلیل ہیں کہ سوائے ایک ازلی نابینا کے کوئی شخص اس دلیل کو دیکھنے سے محروم نہیں رہ سکتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا حال دیکھ لو، وہ ہمارے سامنے ہے.قرآن کریم میں ان کے متعلق آتا ہے کہ جب ایک عظیم الشان جنگ کیلئے اُن کو بلایا گیا تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جواب
خطبات محمود ۴۲۴ سال ۱۹۳۷ء میں کہا کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ کے اے موسی جاتو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.جب فتح کر لو گے تو ہم بھی اس ملک میں داخل ہو جائیں گے.یہ وہ اظہار ایمان ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے حضرت موسیٰ کی زندگی میں ظاہر کیا.لیکن جب اس قوم کو اس زمانہ کے دیکھنے کا موقع ملا جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ نبی کی روح اس کی قوم میں تقسیم کر دی جاتی ہے تو وہی لڑائی سے انکار کرنے والی قوم جس نے موسیٰ جیسے جلیل القدر نبی کے پیچھے لڑنے سے انکار کر دیا تھا، وہ اس کے شاگرد اور ایک نا تجربہ کار نوجوان یوشع کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور تلواریں لے کر اس نے ان دشمنوں کے پرے کے پرے کاٹ دیئے جن سے ڈر کر اس نے موسیٰ کی زندگی میں لڑائی کیلئے نکلنے سے انکار کر دیا تھا.اس کی یہی وجہ تھی کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت موسیٰ کی روح اب اس قوم میں حلول کر گئی تھی اور وہ ناقص الایمان اب موسوی ایمان کی قوت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ پر کھڑے ہو گئے تھے.اب وہ پہلے سے بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ ان میں سے ہر ایک چھوٹا موسیٰ تھا جس کا ایمان خدا کی قدرتوں پر قائم تھا اور جن میں سے ہر ایک کے دل میں بجائے پیچھے بیٹھ رہنے کی خواہش کے اب یہ اُمنگ پیدا ہو رہی تھی کہ میں سب سے پہلے جان دے کر اپنے پیدا کرنے والے کے قدموں میں جارگروں.دوسری مثال حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی موجود ہے.ان کے شاگر د جبکہ حضرت مسیح ناصری کو یہودیوں نے پکڑا تو اکثر تو ان میں سے بھاگ گئے اور جو کھڑے رہے ان میں سے سب سے زیادہ جرات دکھانے والا پطرس تھا.اس نے بھی آخر میں یہودیوں کے سامنے ان کے ڈر اور خوف سے حضرت مسیح کو ماننے سے انکار کر دیا اور آپ پر نَعُوذُ بِاللهِ لعنت کی اور تین دفعہ ایسا ہی کیا.اور ان جب اس نے تیسری دفعہ ایسا کیا تو ایک مرغ کی اذان کی آواز اس کے کان میں پڑی اور اسے حضرت مسیح کی یہ پیشگوئی یاد آ گئی کہ 'اے پطرس ! میں تجھ سے کہتا ہوں کہ آج مرغ بانگ نہ دے گا جب تک تو کی تین مرتبہ میرا انکار نہ کرئے کے یعنی آج ہی رات تو تین دفعہ مجھ پر لعنت کرے گا.اس مرغ کی اذان کی آواز نے اس کی آنکھیں کھول دیں اور وہ تو بہ واستغفار میں لگ گیا.لیکن جو نبی صلیب کا زمانہ گزر گیا اور خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ ” میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور ی وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا بخشے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں
خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۳۷ء کرسکتی.کیونکہ اسے نہ دیکھتی ہے اور نہ اسے جانتی ہے لیکن تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں ہو وے گی.میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا میں تمہارے پاس آؤں گا.اب تھوڑی دیر ہے کہ دنیا مجھے پھر نہ دیکھے گی.پر تم مجھے دیکھتے ہو اور اس لئے کہ میں جیتا ہوں تم بھی جیو گے.اُس روز تم جانو گے کہ میں باپ میں اور تم مجھ میں اور میں تم میں ہوں“.تو اس زمانہ کے آتے ہی ان حواریوں کی حالت بدل جاتی ہے.کمزوریاں دور ہو کر ایمان بڑھ جاتا ہے.اور وہ پطرس جو حکومت سے نہیں ، حکومت کے حکام سے نہیں ، حکومت کے معمولی سپاہیوں سے نہیں ، بلکہ مغلوب اور محکوم اور مغضوب علیہم چند یہودی افراد سے ڈر گیا تھا اور جس نے اتنی بُزدلی دکھائی کہ اس شخص پر جس کو وہ خدا کا نبی مانتا تھا، اپنی جان کی حفاظت کیلئے اس پر لعنت کرنے سے بھی نہ ہچکچایا، ہم اسے اس موعود زمانہ میں دلیری اور جرات کے ساتھ خود حکومت کے مرکز روم میں یہ کہتے ہوئے صلیب کی طرف بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں کہ میں اس لئے مرتا ہوں کہ تا تم کو زندہ کروں اور جرات کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح وہ بھی صلیب پر لٹک گیا اور مر گیا.اور اس زمانہ میں اس نے تبلیغ دین کو ترک کرنے کی نسبت صلیب پر جان دینے کو زیادہ آسان سمجھا.رومی حکومت اپنی ساری طاقت کے باوجود اس کی جادو بھری زبان کو خاموش کرنے سے قاصر رہی.انہوں نے اس کو صلیب کی دھمکی دی اور سمجھا کہ یہ شاید وہی پطرس ہے جو کچھ عرصہ پہلے یہود سے ڈر کر مسیح پر لعنتیں کر رہا تھا مگر انہیں نہیں معلوم کی تھا کہ حضرت مسیح کے صلیبی واقعہ کے بعد مسیح کی رُوح اب اس کے حواریوں میں تقسیم کر دی گئی تھی.اب پطرس ، یوحنا اور یعقوب دنیا میں نہیں تھے بلکہ بہت سے چھوٹے مسیح پیدا ہو گئے تھے جن میں سے ہر ایک شخص مسیحی جھنڈے کو اُٹھا رہا تھا.وہ پطرس ، یعقوب اور تھوما کو ڈرا سکتے تھے مگر مسیح کو ڈرانے کی ان میں کی طاقت نہ تھی.مسیح صلیب نہیں دیا گیا تھا بلکہ در حقیقت پطرس دیا گیا تھا یعقوب اور یوحنا اور تھو ما صلیب پر دیئے گئے تھے کیونکہ جب مسیح صلیب پر چڑھا تو اُس کے ساتھ تمام وہ کمزوریاں جو اس سے پہلے حواریوں میں پائی جاتی تھیں صلیب پر چڑھ گئیں.اور اب دنیا میں پطرس نہیں بلکہ مسیح باقی رہ گیا تھا ، یعقوب نہیں بلکہ مسیح باقی رہ گیا تھا.یوحنا نہیں بلکہ مسیح باقی رہ گیا تھا.یہ دو مثالیں کتنی واضح ہیں کہ دو جماعتیں اپنے نبیوں کی زندگی میں یا ایک کے متعلق یوں کہو کہ اس کی موجودگی میں کیونکہ مسیح صلیب پر مرا نہیں بلکہ اُس کی ملک کو چھوڑ کر چلا گیا تھا، نہایت کمزور تھیں.لیکن جب وہ انبیاء ان جماعتوں میں نہیں رہے اور خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۴۲۶ سال ۱۹۳۷ء کی اس سنت کے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ جب کوئی نبی مرتا ہے تو اس کی روح اس کی جماعت میں ڈال دی جاتی ہے ، وہ کمزور اور ناقص جماعتیں ، وہ بُز دل جماعتیں کروٹ لیتی ہیں اور ان کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ ایمان کے ایسے زبردست مظاہرے کرتی ہیں کہ ان کی زندگیوں کے دونوں حصوں کو دیکھ کر انسان کیلئے یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ایک ہی جماعت کے دو کارنامے ہیں.پہلے اس کی کمزوری کا اظہار تھا اور اب اس طاقت کی نمائش.کیا عجیب بات ہے کہ وہ جماعتیں جن کی پہلی کمزوریوں پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ تو اپنے نبی کی جدائی کے بعد اس قدیم سنت اللہ کے ماتحت ایسے زبر دست ایمان کو ظاہر کرتی ہیں مگر ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کا یہی دعوی تھا کہ میری جماعت حضرت مسیح ناصری کی جماعت سے بہت زیادہ قربانی کرنے والی اور بہادر ہے اور مجھے وہ ایسا جواب نہیں دیتی جیسا کہ حضرت موسیٰ کی قوم نے اُن کو دیا تھا.اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جبکہ صحابہ مسیح موعود علیہ السلام ابھی ہم میں زندہ موجود ہیں وہ گمراہی اور ضلالت میں پڑ گئی ہے اور جرات و بہادری اس سے کھوئی گئی ہے.کوئی نوکریوں کی خاطر ، کوئی زمینوں کی خاطر، کوئی مکانوں کی خاطر، کوئی دُکانوں کی خاطر ، کوئی چند سیر آٹے کی خاطر، کوئی تھوڑے سے تعلیمی وظیفہ کی خاطر، کوئی صرف نمائشی عہدہ کی خاطر ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر جمع ہے جس کی اور کی نسبت اسی فیصدی کو یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کو تباہ کر رہا ہے اور سلسلہ کی برکات کو مٹا رہا اور اس کے نظام کو برباد کر رہا ہے ، وہ خاموش ہے اور رسول کریم ﷺ کے الفاظ میں گونگے شیطان کی طرح خدا تعالی کی عمارت کو گراتے ہوئے دیکھتی ہے مگر بُزدلوں اور خناثے لا کی طرح نہ وہ منہ سے اظہار نفرت کرتی ہے اور نہ ہاتھ سے اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے.نہ کسی اور تدبیر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے.گویا کہ وہ ایک مُردہ ہے جو گل سڑ گیا اور اب سوائے لوگوں کی ناکوں کو بُو سے تکلیف دینے کے اب اس میں کوئی فائدہ کی بات نہیں رہی.اگر یہ بات صحیح ہے تو یقیناً الْعَيَاذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھوٹے تھے کیونکہ خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا.اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ مسیح موعود مرا اور پھر مر ہی گیا.اس کی روح دنیا سے اٹھالی گئی اور اس کی صداقتیں کچل دی گئیں اور نیکی و تقویٰ جس کے قائم کرنے کیلئے یہ جماعت کھڑی ہوئی تھی اس کی چادر اس سے چھین لی گئی.ایک حصہ کی اپنی بد عملی کی وجہ
خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۳۷ء سے اور دوسرے حصہ کی دوسروں کی بداعمالیوں پر راضی ہو جانے کی وجہ سے.غرض کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح محروم ہو گیا.دیکھو حضرت مسیح ناصری کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی کہ اب آپ کے پکڑے جانے کا وقت آ گیا ہے اور اب آپ کو یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑے گا اور اس ملک کے لوگوں کے لحاظ سے گویا آپ مر جائیں گے، اُس وقت حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو جمع کیا اور کچھ انگور کا رس اور کچھ روٹیاں منگوا ئیں.یسوع نے روٹی لی اور برکت مانگ کے توڑی پھر شاگردوں کو دیکھ کر کہا لو کھاؤ یہ میرا بدن ہے.پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور انہیں دے کر کہا تم سب اس میں سے پیو کیونکہ یہ میرا لہو ہے.یعنی اب جب کہ میں تم سے جدا ہونے والا ہوں خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت میرا گوشت اب تمہارا گوشت ہو جائے گا اور میرا خون تمہارا خون ہو جائے گا.گویا یہ ایک ظاہری علامت تھی کہ میری جدائی کے باعث اب تم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ مسیح بنا دے گا.حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی (یعنی اپنی وفات کی خبر دی ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.‘۱۳ قیامت تک اس کا سلسلہ منقطع نہ ہونے کے یہ معنے تو نہیں لئے جاسکتے کہ جماعت احمد یہ قیامت تک بگڑے گی ہی نہیں.کیونکہ یہ تو سنت اللہ کے خلاف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الہام کے بھی خلاف ہے.پھر احادیث نبویہ اور آیات قرآنیہ کے بھی یہ بات خلاف ہے.یہ بات مسلّمہ طور پر تمام الہامی کتب میں بیان کی گئی ہے کہ قیامت اَشْرَارُ النَّاس پر قائم ہوگی یعنی قیامت کے آنے سے پہلے تمام دنیا گمراہی میں پڑ جائے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ کی لکھا اس کے یہی معنے ہیں کہ جب تک میرے مقاصد کے پورا ہونے کا وقت نہیں آتا اُس وقت تک
خطبات محمود ۴۲۸ سال ۱۹۳۷ء تمہاری اکثریت روح القدس سے مؤید رہے گی اور خدا تعالیٰ کی تائید تمہار ا ساتھ کسی صورت میں نہیں چھوڑے گی.چیز ایک ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا نام قدرت ثانیہ رکھا ہے کی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے اس کا نام روح القدس رکھا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کا نام.زمانہ خیر رکھا ہے.بہر حال جو کچھ بھی وہ ہے وہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے اور پاکیزگی کی روح ہے.وہ بہترین زمانہ ہے.اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی خبر ہے کہ جب تک کہ اس کے اٹھائے جانے کا وقت نہ آئے وہ متواتر جاری رہتی ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ روح القدس، وہ قدرت ثانیہ، وہ زمانہ خیر جو ہر نبی کے بعد اس کی جماعت کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے اور بلا وقفہ اور بلا فتور اُس وقت تک اس کے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے جب تک کہ وہ نبی کی جماعت دنیا کو خدا تعالیٰ کیلئے فتح نہ کرے، وہ زمانہء خیر اس جماعت سے دور ہو گیا ہے، وہ قدرت ثانیہ اس جماعت سے چھین لی گئی ہے ، وہ روح قدس اس سے ہٹالی گئی ہے وہ نابینا ہے، وہ خود روحانیت سے محروم ہے.کاش ! وہ ان الفاظ کے کہنے سے پہلے خدا تعالیٰ کے الفاظ پر غور کرتا اور سوچتا کہ میں کیا کہنے والا ہوں اور اس کے نتائج میری روح کیلئے کس قدر خطر ناک نکلنے والے ہیں.دنیا کی عزتیں کوئی چیز نہیں، دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی چیز نہیں اور یہاں تو ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں.صرف جماعت حقہ کے مخالف لوگوں کی واہ واہ اور کی تعریف ہی ہے جس تعریف کی نہ کوئی قیمت ہے اور جس واہ واہ کو نہ کوئی اہمیت حاصل ہے.پس کاش کہ یہ لوگ سوچتے اور اگر ان کے دلوں میں دینی روح قائم نہ رہی تھی تو یہ اپنے نفس پر بدظنی کرتے مگر خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور اس کے خلفاء پر بدظنی نہ کرتے.بہتر ہوتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتے اور اس سے تو بہ واستغفار کرتے تا وہ ان کے ایمان کو بچا لیتا.خدا تعالیٰ کسی کی کے ایمان کا دشمن نہیں ، وہ کسی کو ہدایت سے محروم نہیں کرنا چاہتا سوائے اس کے جو آپ ہی اس کی ہدایت کی کو پھینک دیتا ہے اور جو آپ ہی اس کی نعمت کو رد کر دیتا ہے.کاش ایسا شخص ایسی جرات نہ کرتا اور ایسی تی باتیں کہنے سے پہلے جو کہ جماعت کیلئے نہیں بلکہ خود اس کی جماعت کے بانی کیلئے موجب اعتراض ہیں، جنگلوں میں چلا جاتا اور خدا کے سامنے گڑ گڑاتا اور زاری کرتا اور کہتا اے میرے خدا! شیطان مصلح کی صورت میں میرے سامنے آیا ہے اور نیکیوں کی شکل میں وہ مجھے بدی کی ترغیب دیتا ہے.میں کمزور ہوں، ایمان کا دامن میرے ہاتھوں سے چھٹا جاتا ہے اور عرفان کی روح میرے جسم سے نکلی جاتی.
خطبات محمود ۴۲۹ سال ۱۹۳۷ء اے ابدی زندگی بخشنے والے ! جس نے اپنے مسیح کو دوبارہ زندہ کرنے کی پیشگوئی فرمائی تھی تو مجھے ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے پر رحم کر اور اس حیات کے پانی میں سے تھوڑ اسا مجھ پر بھی چھڑک تا میری بے ایمانی جاتی رہے اور روحانی موت زندگی سے بدل جائے اور تیرے احیا کی صفت کو اپنی ذات میں مشاہدہ کرلوں.مگر افسوس کہ ایسا نہ کیا گیا اور کچھ تو ۲۳ سال سے اپنی روحانی موت کی تیاریاں کر رہے ہیں اور کچھ بعد میں ان میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں.ہمیں ان کی روحانی موت پر خوشی نہیں.ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والا ہر ایک روحانی زندگی پائے.مگر ہم خدا تعالیٰ کی مشیت میں روک نہیں بن سکتے.ہاں اس سے ہماری ہمیشہ یہی التجا ہوتی ہے کہ خدایا ! یہ کچھ پیا سے تڑپ رہے ہیں اپنی رحمت کا پانی ان کو بھی پلا دے.یہ کچھ روحانی بیمار تکلیف سے اور بیماری کی شدت سے سسک رہے ہیں اور ان کی جانیں ان کے نتھنوں تک پہنچ چکی ہیں.اے مردوں کو زندہ کرنے والے ! تو ان کو پھر زندگی بخش تا یہ تیری ہدایت سے محروم نہ رہ جائیں.اور قیامت کے دن تیرے مسیح کے سامنے، تیرے خاتم النہین کے سامنے اور خود تیرے سامنے ان کو شرمندگی اور ذلت نہ اٹھانی پڑے.کاش! قیامت کے دن جبکہ کچھ لوگ جو صحا بہ کہلاتے تھے حوض کوثر کے پاس سے ۱۴ دھکیل کر لے جائے جارہے ہوں گے اُس وقت ان کے متعلق ہمارے آقا سیدنا محمد مصطفی علی دل کو بہ کہنا پڑے کہ اُصَيْحَابِی اُصَيْحَابِی یہ تو میرے صحابی ہیں ، یہ تو میرے صحابی ہیں ، انہیں تم کہاں لئے جا رہے ہو؟ اور خدا کے فرشتوں کو یہ جواب نہ دینا پڑے يَا رَسُولَ اللهِ ! یہ آپ کے صحابی تھے مگر آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ،کیا کچھ غضب ڈھایا." خدا تعالیٰ کی رحمتیں وسیع ہیں.ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اس کا فضل نہ صرف ہم پر بلکہ پہلوں پر بھی اور پچھلوں پر بھی ہوں.اس کی ساری ہی مخلوق اس کے فضل کے نیچے آجائے.خدا کے خزانے محدود نہیں کہ ہمیں اپنے حصہ کی فکر ہو.ہمیں وہ جو کچھ دینا چاہتا ہے اس کے دینے کے بعد بھی اس کے خزانے معمور ہی رہیں گے ، بھر پور ہی رہیں گے.پس اگر دوسرے ہمارے بھائی کہلانے والوں کو اس کی رحمت کا حصہ مل جائے تو ہمارے لئے یہ خوشی کا ہی امر ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ دنیا میں اسلام اور ہدایت کا جھنڈا گاڑ دیں.پس ہر ایک شخص جو ارتداد سے بچایا جاتا ہے وہ ہماری فتح کا نشان ہے اور غلبہ کی علامت ہے.ہر ایک شخص جو بخشا جاتا ہے وہ ہمارا حصہ بٹا تا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے.
خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۳۷ء پس خدا تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس صداقت و ہدایت پر قائم رکھے اور ہمارے دشمنوں کو بھی اس صداقت اور ہدایت پر قائم ہونے کی توفیق دے.یہاں تک کہ دنیا اپنی آنکھوں.دیکھ لے کہ سنت اللہ جس طرح پہلے نبیوں کے حق میں پوری ہوئی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں بھی پوری ہوئی اور دنیا کے جس کونے اور جس گوشے میں ہم جائیں ، جس ملک اور جس براعظم کی ہم سیر کریں اور جس شہر اور جس قصبہ کو ہم دیکھیں اور اپنے دائیں اور بائیں جدھر نظر ڈالیں اسی طرف خدا تعالیٰ کے کلام کی تصدیق نظر آئے اور مومنوں کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلتے پھرتے نظر آئیں اور دشمن سے دشمن کو بھی یہ اقرار کرنا پڑے کہ وہ جو کہا گیا تھا کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا ، اس کلام کا لفظ لفظ پورا ہوا.نہ صرف یہاں نہ صرف وہاں ، نہ صرف ادھر نہ صرف ادھر بلکہ زمین کے چپہ چپہ پر دائیں بھی اور بائیں بھی ، آگے بھی اور پیچھے بھی سمندروں پر بھی اور خشکیوں پر بھی اور یہ نشان ان بقیہ لوگوں کی ہدایت کا بھی موجب بن جائے جو اس نشان کو دیکھنے کے وقت تک ابھی سلسلہ حقہ میں داخل نہ ہوئے ہوں.اللَّهُمَّ آمِينَ ( الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۳۷ء ) ا تذکرہ صفحہ ۱۷.ایڈیشن چہارم LJ 1013 فاطر: ۴۴ تذکرہ صفحہ ۳۹.ایڈیشن چہارم ك المائده : ۲۵ P> Pa پرے: صفیں.قطاریں لوقا باب ۲۲ آیت ۳۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء 10 یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۶ تا ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء لا خناثے: خناث.ہیجڑے خلفی کی جمع ۱۲ متی باب ۲۶ آیت ۲۶ تا ۲۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء الوصیت صفحہ ۷ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوه ۱۴ مسند احمد بن حنبل جلد نمبر اصفحه ۴۵۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
خطبات محمود £ ۴۳۱ دُنیا انبیاء اور خلفاء کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کرتی ہے (فرموده ۱۷ ستمبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- گزشتہ اتوار کی رات میں نے ایک عجیب رویا دیکھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا جلسہ گاہ ہے.مگر اس رنگ کا نہیں جیسا کہ ہمارا جلسہ گاہ ہوا کرتا ہے.بلکہ جیسا کہ تاریخوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ روم کی میں بڑے بڑے قومی اجتماعوں کیلئے ایفی تھیٹر (AMPHI THEATRE) بنائے جایا کرتے تھے.اسی رنگ کا وہ جلسہ گاہ ہے.یعنی جو خطیب ہے اُس کے سامنے مربع یا مستطیل شکل میں جلسہ گاہ نہیں بلکہ ہلالی شکل میں ہے.جس طرح گھوڑے کا نعل بیچ میں سے خالی ہوتا اور قریباً نصف دائرہ یا اس سے کچھ زیادہ بناتا ہے.اسی طرح ایک وسیع میدان میں جو نصف میل یا میل کے قریب ہے اس طرح پہینچ لگے ہوئے ہیں جس طرح پہلے دن کا چاند ہوتا ہے.ایک گول دائرہ ہے جو دور فاصلہ سے شروع ہو کر دونوں کناروں سے آگے بڑھنا شروع ہوتا ہے.اور جس طرح چاند کی ایک طرف خالی نظر آتی ہے اسی طرح ایک طرف اس دائرہ کی خالی ہے اور وہاں لیکچرار یا خطیب کی جگہ ہے.اس وسیع میدان میں کہ لوگوں کی شکلیں بھی اچھی طرح پہچانی نہیں جاسکتیں بہت سے لوگ لیکچر سنے کیلئے بیٹھے ہیں اور جو درمیانی جگہ خطیب کی ہے جہاں چاند کے دونوں کو نے ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں وہاں میں کھڑا ہوں سال ۱۹۳۷ء
خطبات محمود ۴۳۲ سال ۱۹۳۷ء اور اس وسیع مجمع کے سامنے ایک تقریر کر رہا ہوں.وہ تقریر الوہیت، نبوت اور خلافت کے متعلق اور ان کے باہمی تعلقات کی نسبت ہے.گولیوں بھی میری آواز خدا تعالیٰ کے فضل سے جب صحت ہو تو بہت بلند ہوتی ہے اور دور دور سنائی دیتی ہے.لیکن وہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے دُگنی آواز والا شخص بھی اپنی آواز ان لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا.مگر رویا میں میری آواز اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وسیع دائرہ کے تمام سروں تک میری آواز پہنچ رہی ہے.اسی ضمن میں میں مختلف آیات قرآنیہ سے اپنے مضمون کو واضح کرتا ہوں اور بعض دفعہ تقریر کرتے کرتے میری آواز اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سروں تک پہنچ رہی ہے.جب میں اپنی تقریر کے آخری حصہ تک پہنچتا ہوں تو اُس وقت میری حالت اس قسم کی ہو جاتی ہے جس طرح کوئی شخص جذب کی حالت میں آجا تا ن ہے.میں نے اُس وقت الوہیت، نبوت اور خلافت کے متعلق ایک مثال بیان کر کے اپنے لیکچر کو ختم کیا اور اُس وقت میری آواز میں ایسا جلال پیدا ہو گیا کہ اسی کے اثر سے میری آنکھ کھل گئی.مجھے صرف وہ مثال ہی یا درہ گئی ہے باقی مضمون بھول گیا ہے.وہ مثال میں نے رویا میں یہ دی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور اس کے خلفاء کے تعلق کی مثال چوکٹھے میں لگے ہوئے آئینہ کی ہوتی ہے.آئینہ کا کام تو در حقیقت درمیانی شیشہ دیتا ہے مگر اس شیشہ کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی لگی ہوئی ہوتی ہیں.جیسے آئینہ کے پیچھے قلعی ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد چوکٹھا ہوتا ہے.لیکن دراصل جو چیز ہماری شکل ہمیں دکھاتی ہے اور جو چیز ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہماری راہ نمائی کرتی ہے، وہ آئینہ ہی ہے.نہ وہ قلعی جو اس کی کے پیچھے لگی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنی ذات میں شکل دکھا سکتی ہے اور نہ وہ چوکٹھا جو اس کے ارد گر د لگا ہوتا ہے وہ ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہمیں کوئی ہدایت دے سکتا ہے.لیکن آئینہ بھی عیب اور صواب ہمیں تبھی بتاتا ہے جب اُس کے پیچھے قلعی کھڑی ہو.اور وہ محفوظ بھی اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ وکٹھے میں لگا رہتا ہے.چنانچہ چوکٹھوں میں لگے ہوئے آئینے لوگ اپنے میزوں پر رکھ لیتے ہیں اور اس طرح وہ ٹوٹنے سے محفوظ رہتے ہیں.مگر جب ہم اس کے چوکٹھے کو اُتار دیں اور اُس کی قلعی کو کھرچ دیں تو آئینہ بلحاظ روشنی کے تو آئینہ ہی رہتا ہے مگر پھر وہ ہماری شکل ہمیں نہیں دکھاتا.اور اگر دکھاتا ہے تو نہایت دُھندلی سی.جیسے مثلاً ( یہ مثال میں نے رویا میں نہیں دی.صرف سمجھانے کیلئے بیان کر رہا ہوں) دروازوں میں وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں کھڑکیوں میں بھی وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جو
خطبات محمود ۴۳۳ سال ۱۹۳۷ء آئینوں میں ہوتے ہیں مگر ان میں سے شکل نظر نہیں آسکتی کیونکہ ان کے پیچھے قلعی نہیں لگی ہوتی.اسی طرح جن شیشوں کے چوکٹھے اُتر جاتے ہیں رویا میں ہی میں کہتا ہوں کہ ان شیشوں کا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ ٹوٹ جاتے ہیں.تو آئینہ اپنے اندرونی جو ہر ظاہر کرنے کیلئے ایک ایسی چیز کے آگے کھڑا ہوتا ہے جو اپنی ذات میں تو چہرہ دکھانے والی نہیں مگر جب وہ آئینہ سے مل جاتی ہے تو آئینہ میں شکل نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ قلعی ہے.اسی طرح اس کا چوکٹھا اسے محفوظ رکھتا ہے.تو میں رویا میں یہ مثال دے کر کہتا ہوں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی مثال ایک آئینہ کی سی ہے اور انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اسی کو حاصل کرنا ہے.وہی ہے جو ہمیں علم دیتا ہے، وہی ہے جو ہمیں عرفان دیتا ہے ، وہی ہے جو بھی عیب سے آگاہی بخشتا ہے، وہی ہے جو ہمیں تو اب کی باتوں کا علم دیتا ہے لیکن وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق اُس وقت تک دنیا کو عیب اور صواب سے آگا ہی نہیں بخشا جب تک اس کے پیچھے قلعی نہیں کھڑی ہو جاتی جو نبوت کی قلعی ہے.یعنی وہ ہمیشہ اپنے وجود کو نبیوں کے ہاتھ سے پیش کرواتا ہے.جب نبی اپنے ہاتھ میں لے کر خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے تبھی دنیا اُس کو دیکھ سکتی ہے ورنہ نبوت اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی ہستی اتنی مخفی اور اتنی وراء الوراء ہوتی ہے کہ انسان صحیح اور یقینی طور پر اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ آسمانوں میں بھی ہے، اللہ تعالی زمینوں میں بھی ہے، اللہ تعالی دریاؤں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ پہاڑوں میں بھی ہے، اللہ تعالی سمندروں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ خشکیوں میں بھی ہے.غرض ہر ایک ذرہ ذرہ سے اس کا جلال ظاہر ہو رہا ہے مگر با وجود اس کے کہ دنیا کے ذرہ ذرہ میں اس کا جلال پایا جاتا ہے بغیر انبیاء کے دنیا نے کب اس کو دیکھا.انبیاء ہی ہیں جو ان خدا تعالیٰ کا وجود دنیا پر ظاہر کرتے ہیں.لیکن انبیا ء خدا تعالیٰ کو بناتے تو نہیں ، وہ تو ازل سے موجود ہے پھر وجہ کیا ہے کہ انبیاء کے آنے پر دنیا خدا تعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتی ہے اور پہلے نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح آئینہ کے پیچھے قلعی کا وجو د ضروری ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کو خدا تعالیٰ نے اپنے ظہور کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.پھر چوکٹھا جو ہوتا ہے وہ آئینہ کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے اور وہ بھی نبوت اور خلافت کا مقام ہے یعنی انبیاء اور ان کے خلفاء اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں.خود اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ حیی و قیوم ہے لیکن اُس نے اپنی سنت یہی رکھی ہے کہ وہ اپنے وجود کو بعض انسانوں کے ذریعہ قائم رکھے.ان وجودوں کو مٹا دوساتھ ہی خدا تعالیٰ کا ذکر بھی دنیا سے مٹ جائے گا.تم ساری دنیا کی تاریخیں پڑھ
خطبات محمود ۴۳۴ سال ۱۹۳۷ء جاؤ ( اب یہ جوا گلا حصہ ہے یہ خواب کا نہیں بلکہ بطور تشریح میں خود بیان کر رہا ہوں ) تمہیں کہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود بغیر انبیاء کے دنیا میں قائم ہوا ہو.حالانکہ انبیاء بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہر وقت موجود ہے اور اُس کا نور ہر چیز سے ظاہر ہے.مگر باوجود اس کے کہ اُس کا نور دنیا کی ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے، پھر بھی انبیاء ہی ہیں جو اسے ایسی طرز پر ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے کیا خدا نہیں تھا.خدا اُس وقت بھی اسی طرح آسمان سے ظاہر ہو رہا تھا، اسی طرح زمین سے ظاہر ہو رہا تھا ، اسی طرح دریاؤں سے ظاہر ہو رہا تھا ، اسی طرح فضا سے ظاہر ہو رہا تھا، اسی طرح پاتال سے ظاہر ہورہا تھا جس طرح رسول کریم اللہ کے زمانہ میں ظاہر ہوا.پھر پہلے زمانہ اور رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں فرق کیا تھا؟ فرق یہی تھا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے نور کے ظہور کیلئے کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا.ایک آئینہ تھا مگر اس آئینہ کے ساتھ وہ قلعی نہیں تھی جو اسے روشن کر کے لوگوں کی نظروں کے قابل بنا دیتی.جب رسول کریم ﷺ نے اس شیشے کو اپنے ہاتھ میں پکڑا تو و جس طرح آئینہ کے پیچھے جب قلعی کھڑی کر دی جاتی ہے تو آئینہ کو ایک خاص شکل مل جاتی ہے اور اس میں دوسروں کی بھی شکلیں نظر آنے لگ جاتی ہیں، اسی طرح ساری دنیا کو خدا نظر آنے لگ گیا اور اس کے لی وجود کا اسے احساس ہو گیا.ورنہ شیشہ جتنا زیادہ مصفی ہو اتنا ہی لوگوں کو کم نظر آیا کرتا ہے.کئی دفعہ جب اعلیٰ درجہ کے شیشے دروازوں سے لگائے جاتے ہیں تو بعض دفعہ لوگ ان دروازوں سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ رستہ کھلا ہے حالانکہ وہ آئینہ ہوتا ہے اور رستہ بند ہوتا ہے.رات کے وقت جب کمرہ میں روشنی ہو تو اُس وقت انسان کیلئے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ منافذ میں شیشہ موجود ہے یا نہیں.بعض دفعہ شیشہ لگا ہوا ہوتا ہے اور انسان اس کے بعد زیادہ مصفے ہونے کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ شیشہ میں کوئی نہیں.اور بعض دفعہ شیشہ نہیں ہوتا اور وہ خیال کرتا ہے کہ شیشہ ہے.پس شیشہ جتنا زیادہ مصفی ہواُتنا ہی لوگوں کو کم نظر آتا ہے.مگر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود جو نہایت ہی مخفی اور وراء الوراء ہے اسی طرح لوگوں کو نظر آنے لگ جاتا ہے جس طرح شیشہ کے پیچھے جب قلعی کھڑی کر دی جائے تو وہ شکلیں دکھانے کے قابل ہو جاتا ہے.یہ مضمون ہے جو رویا میں میں نے بیان کیا اور اسی مثال پر میری تقریر ختم ہو گئی.میں نے روبہ
خطبات محمود ۴۳۵ سال ۱۹۳۷ء میں اس مضمون کے متعلق کئی آیات بھی بیان کیں مگر جاگنے پر وہ ذہن سے اتر گئی تھیں.اس پر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ وہ آیتیں کون سی تھیں جو میں رویا میں اس مضمون کو ثابت کرنے کیلئے پڑھ رہا تھا اور جن سے اس مضمون کا میں نے استدلال کیا.مگر باوجود اس کے کہ میں نے کافی غور کیا مجھے وہ آیتیں سمجھ میں نہ تو آئیں کیونکہ وہ بھول چکی تھیں.صرف اس تقریر کا آخری حصہ یا د ر ہا تھا جو یہ تھا کہ انبیاء اور خلفاء کی اللہ تعالیٰ سے وابستگی ایسی ہی ہے جیسے شیشے کے ساتھ چوکٹھا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے قلعی لگی ہوئی ہوتی ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں.ان کے ذریعہ خدا ظاہر ہوتا ہے اور انہی کے ذریعہ اس کا وجود عالم میں محفوظ رہتا ہے.غرض میں نے جن جن امور کو رویا میں بیان کیا تھا اُن پر میں نے پھر غور کیا مگر مجھے وہ باتیں یاد نہ آئیں.گوا بھی جبکہ میں یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام یاد آ گیا جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے.گو الفاظ اس کے اور ہیں مگر مفہوم یہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّى وَ أَنَا مِنكَ یا یعنی اسے سورج اور اے چاند تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.اب سورج اور چاند آپس میں ایک خاص نسبت رکھتے ہیں.سورج براہِ راست روشنی ڈالتا ہے لیکن چاند براہ راست روشنی نہیں ڈالتا بلکہ سورج سے روشنی لے کر دنیا کی طرف پہنچاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ میں ایک دفعہ خدا نے مجھے سورج قرار دیا ہے اور ایک دفعہ مجھے چاند قرار دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے سورج قرار دیا تو اپنے آپ کو چاند قرار دیا ہے اور جب مجھے چاند قرار دیا ہے تو اپنے آپ کو سورج قرار دیا ہے.اب یہ جو بات ہے کہ خدا سورج ہے اور بندہ چاند ، یہ بالکل واضح ہے اور ہر سمجھ سکتا ہے کہ بندہ اسی طرح خدا کے نور سے لیتا اور اسے دنیا میں پھیلاتا ہے جس طرح چاند سورج سے نور لیتا اور اسے دنیا میں پھیلاتا ہے.مگر یہ جو خدا نے فرمایا کہ تو سورج ہے اور خدا کی ذات بمنزلہ چاند ہے.یہ بات بظاہر حقیقت سے دور معلوم ہوتی ہے.بھلا بندے کی کیا حقیقت ہے کہ وہ سورج کہلائے اور خدا اس کے مقابلہ میں چاند کہلائے.تو چونکہ یہ بات بظاہر قابل اعتراض نظر آتی تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود دنیا سے مخفی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء ہوتا ہے اور جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو انبیاء کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتا ہے.پس چونکہ خدا تعالیٰ کے نور کا ظہور انبیاء کے ذریعہ ہوتا ہے اس لئے دنیا والوں کی نگاہ میں نبی سورج اور خدا چاند ہوتا ہے.کیونکہ جب نبی آتا ہے تب ہی خدا کا چہرہ انہیں نظر آنے لگتا ہے.اس سے پہلے وہ پوشیدہ ہوتا ہے.پس گو حقیقتا خدا ہی ہے سورج ہے اور بندہ چاند ہے مگر دنیا والے جن کی نگاہیں کمزور ہوتی ہیں اور جو نبی کے ذریعہ خدا کے جلال اور اس کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ان کے لحاظ سے نبی سورج اور خدا چاند ہوتا ہے.جیسے سورج کی روشنی جب چاند پر پڑے تب وہ چمکتا ہے نہ پڑے تو چاند تاریک رہتا ہے.اسی طرح جب تک نبی کا وجود خدا تعالیٰ کو ظاہر نہ کرے وہ مخفی رہتا ہے.مگر جب نبوت کی روشنی الوہیت پر پڑتی ہے تو خدا کا وجود ہر ایک کو نظر آنے لگ جاتا ہے.پس دنیا کے حالات کے مطابق تمثیلی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بندہ سورج ہے اور خدا چاند.یہ بھی ویسی ہی مثال ہے جیسی میں نے رویا میں دی اور اس سے بھی یہی امر ظا ہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی روشنی اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے کا ذریعہ انبیاء و خلفاء اور اولیاء وصلحاء ہوتے ہیں.زمین و آسمان سے خدا کا وجود حق الیقین کے طور پر ثابت نہیں ہو سکتا.جیسے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر مفصل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کی کر کے انسان جس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس زمین و آسمان کا کوئی خالق ہونا چاہئے.مگر یہ کہ وہ ہے اس کا پتہ زمین و آسمان سے نہیں لگتا.گویا یہ نتیجہ صرف سکنے سے تعلق رکھتا ہے، ہے سے نہیں.یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ انسان اس عالم کی صنعتوں پر نظر کر کے صانع کی ضرورت محسوس کرے مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شے ہے اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ در حقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے.اسی لئے آپ نے بتایا کہ جتنے فلسفی عقلی ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ ٹھو کر کھاتے اور بالآخرد ہر یہ بن جاتے ہیں اور زمین و آسمان کی مصنوعات پر غور کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اس غور و فکر کا نتیجہ صرف اس حد تک نکلتا ہے کہ خدا کا وجود کی ہونا چاہئے.یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ خدا کا وجود ہے.آپ فرماتے ہیں جب وہ زمین کو دیکھتے ہیں تو اسے دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے.جب وہ آسمان کو دیکھتے ہیں تب بھی وہ یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے.مگر یہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پیدا کرنے والا
خطبات محمود ۴۳۷ سال ۱۹۳۷ء وو یقینی طور پر موجود ہے اور اس طرح پھر بھی شبہ رہ جاتا ہے اور انسان خیال کرتا ہے کہ ممکن ہے کوئی مخفی قانون ایسا ہو جس کے ماتحت یہ کارخانہ عالم آپ ہی آپ چل رہا ہو.جس طرح آجکل کے فلسفی کہتے ہ ہیں کہ اس دنیا کی پیدائش میں خود ہی ایک ایسا قانون مخفی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام دنیا چل رہی ہے، کسی خاص وجود کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں.غرض آپ نے اس بات پر بحث کی اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ فلسفہ اور عقل انسانی خدا تعالیٰ کے متعلق انسان کو ” ہونا چاہئے کی حد تک ہی رکھتے ہیں مگر الہام الہی نبوت کے ذریعہ ہے ثابت کرتا ہے.ہم جب زمین کو دیکھتے ہیں ، ہم جب آسمان کو دیکھتے ہیں تو انہیں دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ ان کو بنانے والا کوئی ہونا چاہئے اور ہماری دلیل ختم ہو جاتی ہے.مگر جب خدا ہمیں مخاطب کرتا اور فرماتا ہے انى انا اللہ یقینا میں ہی خدا ہوں.تو یہ اب ” ہے “ بن گیا اور ” ہونا چاہئے کی حد سے اس نے ہمیں نکال دیا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی گھر میں آگ جل رہی ہو ، چولہے پر ہنڈیا چڑھی ہوئی ہو، ہنڈیا کے ابلنے کی آواز آرہی ہو تو ہم باہر سے اس آواز کوشن کر یہ نتیجہ نکالیں کہ اس گھر کا کوئی مالک ہونا چاہئے کیونکہ ہم غور اور فکر کرنے کے بعد فوراً اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ کوئی شخص ہوگا جو یہ ہنڈیا پکا رہا ہوگا، کوئی شخص ہو گا جس نے آگ جلائی ہوگی اور کوئی شخص ہوگا جو گوشت وغیرہ لایا ہوگا.مگر اس قدر نتائج نکالنے کے بعد بھی ہم اسی حد تک پہنچیں گے کہ گھر کا کوئی مالکی اندر ہونا چاہئے.اس نتیجہ پر ہم نہیں پہنچ سکتے کہ وہ شخص اندر ہے بھی.ممکن ہے کوئی کہے اس سے زیادہ وضاحت اور کیا ہو سکتی ہے.جب آگ جل رہی ہے ، ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہے ، اس کے ابلنے اور جوش کھانے کی آواز آرہی ہے تو اس سے ہم یہ نتیجہ کیوں نہیں نکال سکتے کہ اندر واقعہ میں کوئی شخص موجود ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام قرائن کے باوجود ہم یقینی طور پر یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ اندر کوئی مالک موجود ہے.فرض کر واندر واقعہ میں کوئی شخص ہوا اور اس نے ہنڈیا چولہے پر چڑھائی ہو مگر ہنڈیا چو لہے پر رکھتے ہی وہ مر گیا ہو اور ہم یہ سمجھتے ہوں کہ اندر وہ موجود ہے حالانکہ وہ مر چکا ہو.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیٹھے بیٹھے دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے اور وہ اُسی وقت مر جاتے ہیں.پس ممکن ہے وہ دل کی حرکت بند ہو جانے کی وجہ سے مرا پڑا ہو.یا ممکن ہے اسے کسی سانپ نے کاٹا ہو اور وہ مر چکا ہو.یا بعض دفعہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہنڈیا رکھنے کے بعد اسے کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہو اور وہ گھر چھوڑ کر اُس وقت باہر گیا ہوا ہو.مثلاً فرض کرو اُس نے ہنڈیا چڑھائی ہو اور اس کے معا بعد ایک شخص اس کے پاس
خطبات محمود ۴۳۸ سال ۱۹۳۷ء دوڑتا ہوا آیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ تمہارا بیٹا ڈوب گیا ہے اور وہ اسی وقت اس کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا ہوا اور ہنڈیا اس نے چولہے پر ہی رہنے دی ہو.تو چونکہ ایسی کئی صورتیں ممکن ہیں اس لئے باوجود ہنڈیا کی آواز سننے کے اور باوجود آگ کو جلتا دیکھنے کے ہم اگر یہ نتیجہ نکالیں کہ اندر کوئی شخص واقعہ میں موجود ہے تو ہم اس نتیجہ کے نکالنے میں غلطی پر ہو سکتے ہیں.مگر جب حالات یہ نہ ہوں بلکہ جونہی ہم کسی کے دروازہ پر پہنچیں گھر کا مالک اندر سے باہر نکل آئے اور ہمیں کہے کہ آپ مسافر ہیں، تھکے ماندے آئے ہیں ، تھوڑی دیر میرے پاس آرام کیجئے.تو اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم ” ہونا چاہئے“ کی حد سے نکل کر ” ہے کی حد میں داخل ہو جاتے ہیں.تو نبوت اور الہام سے خدا کا وجود ہے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ہے لیکن باقی دلیلوں سے ہم اس کے متعلق صرف ” ہونا چاہئے“ کی حد تک پہنچتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے.مگر یہ خیال بھی مجھے اسی وقت آیا ہے پہلے ی نہیں آیا.بہر حال رویا سے بیداری کے بعد میں غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس مضمون پر میں نے اور کیا کیا باتیں بیان کی تھیں مگر مجھے کوئی بات یاد نہ آئی.لیکن اس رؤیا کا اثر میری طبیعت پر گہرا رہا اور کئی دفعہ مجھے یہ خیال آیا کہ وہ کون سی آیات تھیں جو ویا میں میں نے پڑھیں اور جن میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مگر قرآن کریم کی کوئی آیت میرے ذہن میں نہ آئی.اس کے دوسرے یا تیسرے دن یعنی پیر یا منگل کو مجھے اب یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ کونسا دن تھا بہر حال ان میں سے کسی دن نماز ظہر یا عصر ( یہ بھی مجھے صحیح طور پر یاد نہیں ) میں پڑھا رہا تھا اور اُس وقت مجھے خواب کا خیال بھی نہیں تھا.گویا اُس وقت وہ میرے ذہن سے بالکل اتری ہوئی تھی کہ جب میں نے رکوع کے بعد قیام کیا اور پھر سجدہ میں جانے کیلئے اللہ اکبر کہا تو جس وقت اوپر سے نیچے سجدہ کی طرف جانے لگا تو معا القاء کے طور پر میرے دل پر ایک آیت ی نازل ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ آیت ہے جو اس مضمون کی حامل ہے جو خواب میں بتایا گیا ہے.اور ان پھر بجلی کی طرح اس طرح وہ وسیع مضمون میرے سامنے آگیا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف وہ آیت بلکہ سورۃ کی سورۃ ہی حل ہوگئی.اور اس کی ترتیب جو میں پہلے سمجھتا تھا اس کے علاوہ ایک ایسی ترتیب مجھ پر کھول دی گئی کہ مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ اس سورۃ میں ہر آیت اس طرح پروئی ہوئی ہے جس طرح ہار کے کی موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی آیت اس سورۃ میں ایسی نہ رہی جس کے متعلق یہ شبہ ہو سکے کہ اسر
خطبات محمود ۴۳۹ سال ۱۹۳۷ء کا پہلی آیتوں یا بعد کی آیتوں سے کیا تعلق ہے.وہ سورۃ جس کی طرف میرا ذہن منتقل کیا گیا سورہ نور ہے اور وہ آیت جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ اس میں الوہیت ، نبوت اور خلافت کے تعلقات پر بحث کی گئی ہے اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ہے.قرآن کریم کی تفہیم کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ میرے ساتھ کئی دفعہ ہوا ہے کہ ایک سیکنڈ میں بعض دفعہ ایک وسیع مضمون القاء کیا جاتا ہے اور الہام کے طور پر وہ میرے دل پر ایک نکتہ کی شکل میں نازل کیا جاتا ہے.پھر وہ نکتہ نازل ہو کر یوں پھیل جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے بیسیوں مطالب میرے دل پر حاوی ہو جاتے ہیں اسی طرح اُس دن میرے ساتھ ہوا.پہلے بھی اپنی بعض تقریروں میں میں ایسے نکات بیان کر چکا ہوں مثلاً السمُ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ے کی تغییر اور اس کے مطالب ایک سیکنڈ کے نی اندر میرے دل پر نازل ہوئے تھے اور میں نے کسی جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان کر دیا تھا.اسی طرح اور کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا.اُس دن بھی نماز میں معا مجھے القاء کیا گیا کہ وہ آیت الله نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے اور اس کے ساتھ ایسے عظیم الشان مطالب کھولے گئے کی جو پہلے میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھے.اگر چہ اس سارے مفہوم کو سمجھنے کیلئے اس ساری سورۃ کو ہی سمجھنا ضروری ہے.کیونکہ ساری سورۃ کے مطالب کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ ایک بات کی تکمیل دوسری بات کے بغیر نہیں ہو سکتی.مگر چونکہ خطبہ میں اتنی لمبی تشریح نہیں کی جاسکتی اس لئے میں صرف اس آیت کو لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ یہ مضمون کس عمدگی کے ساتھ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللَّهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ O فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُو وَالْآصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقَامِ الصَّلوةَ وَإِيتَاءِ الزَّكورةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ لِيَجْزِيَهُمُ اللهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ TO یہ آیتیں سورة نور کی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خلافت، نبوت اور اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا لی
خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۷ء ہے اور یہ بات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت کروں گا کہ وہ شخص جو قرآن کریم کو بے ترتیب، بے ربط اور بے جوڑ کتاب نہ کہتا ہو، وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ اس مضمون کو مانے جو میں بیان کر رہا ہوں.کیونکہ اس مضمون سے ان تمام آیات بلکہ تمام سورۃ کا آپس میں ایسا ربط قائم ہو جاتا ہے کہ اس کے بغیر ان آیات کے کوئی معنے ہی نہیں بنتے.مگر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی مضمون کو خطبہ کی وجہ سے اختصار کے ساتھ بیان کروں گا اور چونکہ ان دنوں خلافت کا مسئلہ خصوصیت سے زیر بحث ہے، اس لئے ان آیات کی تشریح سے خلافت کا مسئلہ بھی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بیان فرماتا ہے کہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے.مَثَلُ نُورِهِ اور اس کے نور کی مثال گمشکوۃ ایک طاقچے کی سی ہے.مشکوہ اُس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوار میں بناتی ہوا ہو اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہ ہو.دیوار میں دو طرح کے طاق بنائے جاتے ہیں.ایک کھڑ کی کی طرح کا ہوتا ہے یعنی اُس کے آر پار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ کھڑ کی کی غرض باہر دیکھنا ہوتی ہے.یا مثلاً روشندان رکھنے کیلئے طاقچہ کی طرح خلاء رکھا جاتا ہے.اس کے بھی آر پار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ روشند ان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ہوا اور روشنی کی آمد ورفت رہے.مگر پُرانی عمارتوں خصوصاً مساجد میں اس قسم کے طاقچے بنائے جایا کرتے تھے جن میں چراغ یا قرآن شریف رکھے جاتے تھے اور جن کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا تھا.اس مسجد میں بھی بعض طاقچے بنے ہوئے ہیں بعض تو بڑے بڑے ہیں جو قرآن شریف رکھنے کیلئے ہیں اور ایک دو چھوٹے طاقچے ہیں جو لیمپ رکھنے کیلئے بنائے گئے ہیں.میں نے شاہی عمارتوں میں بھی دیکھا ہے کہ ان میں چھوٹے چھوٹے طاقچے بنے ہوئے ہیں جو دراصل دیا تی رکھنے کے لئے بنائے جایا کرتے تھے.تو مشکوۃ اُس طاقچہ کو کہتے ہیں کہ جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا اور وہ لیمپ رکھنے کے کام آتا ہے.تو فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال کیا ہے.گمشکو اُس کے نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے.فِيهَا مِصْبَاح.جس میں ایک بھی رکھی ہوئی ہو.الْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ.اور وہ بنی ایک شیشہ یا چینی میں ہو.اَلزُّجَاجَةُ كَانَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ اور وہ چمنی یا گلوب ایسے اعلیٰ درجہ کے شیشے کا بنا ہوا ہو اور ایسا روشن ہو کہ گویا وہ ایک ستارہ ہے جو چمک رہا ہے.اس کے يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ میں اس کی تفصیل بتائی ہے.مگر ابھی میں اس کی تفصیل کی طرف نہیں جاتا اور جو مضمون کا اصل حصہ ہے وہ میں بیان کرتا ہوں.
خطبات محمود ۴۴۱ سال ۱۹۳۷ء ( اس موقع پر حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا کسی دوست کے پاس ٹارچ ہے مگر ٹارچ نہ ملی.اس کے بعد فرمایا ).ان آیات میں در حقیقت اللہ تعالیٰ کے نور کو تین چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی نے فرمایا ہے کہ کمال نور ہمیشہ تین ذرائع سے ہوتا ہے.ایک مشکوۃ سے ایک مصباح سے اور ایک زجاجہ سے.یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے دی اور بتایا کہ ہمارا نور جو دنیا میں کامل طور پر ظاہر ہوا اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک طاقچہ میں ایک بنی ہو اور بتی پر گلوب یا چمنی ہو اور وہ گلوب اتنا روشن ہو کہ گویا وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے.ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر اس قسم کے لیمپوں کا رواج نہیں اس لئے میں نے چاہا تھا کہ ٹارچ کے ذریعہ آپ لوگوں کو یہ مضمون سمجھاؤں کیونکہ ٹارچ میں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ قرآن مجید با وجود یکہ ایسے زمانہ میں نازل ہوا جبکہ سائنس ابھی کمال کو نہیں پہنچی تھی.اور ایسے ملک میں نازل ہوا جہاں کے لوگ بدو سمجھے جاتے تھے اور تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے اور ایسے انسان پر نازل ہوا جو اُمی تھا.پھر بھی روشنی کے کمال کو جس عجیب طرز سے ان آیات میں بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیسویں صدی کا انجینئر روشنی کی حقیقت بیان کر رہا ہے.مشکوۃ جس طرح اُس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوار میں بنایا جاتا ہے اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا ، اسی طرح مصباح اُس شعلہ کو کہتے ہیں جو بتی میں سے نکلتا ہے یا بلب کی وہ تاریں سمجھ لو جن سے بجلی کی روشنی پیدا ہوتی ہے بشرطیکہ وہ روشن ہوں.مصباح کے معنے دراصل ” صبح کر دینے کا آلہ کے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ہر چیز جس سے روشنی ہوتی ہوا سے مصباح کہا جاتا ہے اور وہ چونکہ بتی کا گل ہی ہوتا ہے یا بجلی کی وہ تاریں ہوتی ہیں جو بلب کے اندر ہوتی ہیں اور چمکتی ہیں ، اس لئے عربی زبان میں انہیں مصباح کہتے ہیں.گویا وہ شعلہ جو آگ لگنے کے بعد بتی میں سے نکلتا ہے یا بجلی کی وہ تار جہاں بجلی بھتی ہے تو وہ یکدم روشن ہو جاتا ہے وہ مصباح ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایک طاقچہ کی سی ہے جس میں ایک بتی جل رہی ہو اور پھر وہ بتی ایک زجاجہ میں ہو.اب تو قادیان میں بجلی آگئی ہے اور لوگوں کا ایک حصہ بجلی جلاتا ہے.لیکن پھر بھی اکثر گھروں میں ابھی بھلی نہیں لگی اور وہ لیمپ جلاتے ہیں اور جن کے ہاں بجلی لگی ہوئی ہے ان کی بجلی کی رو بھی جس دن فیل ہو جائے اُس دن اُنہیں لیمپ جلانے پڑتے ہیں.یا انہیں قادیان سے جب باہر جانا پڑے تو لیمپ دیکھنے اور جلانے کا انہیں اکثر موقع
خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۳۷ء ملتا رہتا ہے.بہر حال یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہری کین (HURRICANE LAMP) روشن کرنے کیلئے جب کوئی شخص دیا سلائی جلاتا اور بتی کو لگاتا ہے تو اُس وقت بتی کی روشنی کی کیا حالت ہوتی ہے.ایک زردسا شعلہ بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے اور اُس کا دُھواں اُٹھ اُٹھ کر کمرہ میں پھیل رہا ہوتا ہے.نازک مزاج اشخاص کے دماغ میں وہ دُھواں چڑھتا ہے تو انہیں چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں، بعض کو نزلہ ہو جاتا ہے.لیکن جو نہی بتی میں سے دُھواں نکلتا اور کمرے میں پھیلنے لگتا ہے انسان جلدی سے چمنی پر ہاتھ مارتا اور ہری کین کا ہینڈل دبا کر اُسے بتی پر چڑھا دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُسی وقت دھواں جاتا رہتا ہے ار اس شعلہ کا رنگ ہی بدل جاتا ہے اور اس کی پہلی روشنی سے بعض دفعہ میں گئے ، بعض دفعہ تہیں گنے ، بعض دفعہ پچاس گنے، بعض دفعہ سو گئے اور بعض دفعہ دو سو گئے تیز روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور تمام کمرہ روشن ہو جاتا ہے.پھر زائد بات اس چمنی یا گلوب سے یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بھی بجھتی نہیں.تیز بارشوں کے ایام میں رات کے وقت لوگ ہری کین لے کر باہر چلے جاتے ہیں.آندھی آرہی ہوتی ہے ، طوفان اُٹھ رہا ہوتا ہے ، چھتیں ہل رہی ہوتی ہیں، عمارتیں کانپ رہی ہوتی ہیں، پیرلڑ کھڑا رہے ہوتے ہیں مگر وہ روشنی جو انسان ہاتھ میں اُٹھائے ہوتا ہے نہیں سمجھتی کیونکہ اُس کی چمنی اس کے ماحول کو محفوظ کر دیتی ہے.تو چمنی نہ صرف اس کی روشنی کو کئی گنا زیادہ کر دیتی ہے بلکہ اسے بجھنے سے بھی محفوظ کر دیتی ہے.مگر بعض لیمپ ہری کین سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور جو بڑے بڑے لیمپ کمروں کو روشن کرنے کیلئے جلائے جاتے ہیں اُن کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اُن کی روشنی تیز کرنے کیلئے ان کے پیچھے ایک اس قسم کی چیز لگادی جاتی ہے.جو روشنی کو آگے کی طرف پھینکتی ہے.پرانے زمانوں میں لوگ اس غرض کیلئے لیمپ کو طاقچہ میں رکھ دیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں اس کی ایک مثال ٹارچ ہے.ٹارچ پیچھے سے لمبی چلی آتی ہے اور اس کے آگے اس پر ایک نسبتاً بڑا خول چڑھا دیتے ہیں جو بلب کے تین طرف دائرہ شکل میں پھیلا ہوا ہوتا ہے.جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو آگے کی طرف پھیلا دے.اگر اس خول کو اُتار لیا جائے تو ٹارچ کی روشنی دس پندرہ گز تک رہ جاتی ہے.لیکن اس خول کے ساتھ وہی روشنی بعض دفعہ پانچ سو گز ، بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو دو ہزار گز تک پھیل جاتی ہے.یہ روشنی کو دور پھینکنے والا جو خول ہوتا ہے اسے انگریزی میں ری فلیکٹر (REFLECTOR) کہتے ہیں.اس ری فلیکٹر کی وجہ سے ٹارچ کی روشنی بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو ہزار گز تک چلی جاتی ہے اور بڑی طاقت کے لیمپ
خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۷ء توری فلیکٹر کی وجہ سے بہت دور دور تک روشنی پہنچا دیتے ہیں.ہمارے مینارہ اسی پر جب روشنی کرنے کا سوال پیدا ہوا اور اس پر بحث ہوئی کہ لیمپ کیسے لگائے جائیں تو ری فلیکٹر لگوانے کا سوال زیر بحث آیا اور ماہرین فن نے بتایا کہ پانچ سو طاقت کی اگر بتی لگائی جائے اور اس پر اعلیٰ درجہ کا ری فلیکٹر لگا دیا جائے تو اس سے کئی گنے طاقت تک کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے ہے.مگر چونکہ ری فلیکر بہت گراں آتے تھے ، غالباً اسی لئے پھر وہ منگوائے نہیں گئے.تو پوری روشنی چمنی کی ہر 109.کے ذریعہ ہوتی ہے اور پھر اس روشنی کو دور پھینکنے کے لئے اس کے پیچھے ایک ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے تین جہت سے روک کر سامنے کی طرف لے جائے.اس طرح روشنی مکمل ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ تین چیزیں ہیں جن سے نور مکمل ہوتا ہے.ان میں سے ایک تو شعلہ ہے جو اصل آگ ہے اور جس کے بغیر کوئی نور ہوتی ہی نہیں سکتا.روحانی دنیا میں وہ شعلہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور چمنی جس سے وہ نور روشن ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا کے ہر ذرہ سے خدا تعالیٰ کا نورظاہر ہے مگر وہ نوری لوگوں کو نظر نہیں آتا.ہاں جب خدا کا نبی آتا اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تب ہر شخص کو وہ نور نظر آنے لگ جاتا ہے.بالکل اسی طرح جس طرح بنی جب جلائی جائے تو ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اُسے بجھا دیتا ہے.اس میں سے دھواں نکل رہا ہوتا ہے مگر جونہی اس پر شیشہ رکھا جاتا ہے اندھیر اسب دور ہو جاتا ہے، تاریکی سب مٹ جاتی ہے اور وہی نور آنکھوں کے کام آنے لگ جاتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصل چیز شیشہ ہے اصل چیز تو وہ نور ہی ہے جو بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے.مگر چونکہ وہ نور دھویں کی شکل میں ضائع ہو رہا ہوتا ہے اس لئے لوگ اس سے اس وقت تک فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جب تک اُس پر شیشہ نہیں چڑھایا جاتا.ہاں جب شیشہ چڑھ جاتا ہے تو وہی نور جو پہلے ضائع کی ہو رہا ہوتا ہے ضائع ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے.پھر چمنی سے مل کر پہلے نور سے ہیں گنے ، سو گنے ، دوسو گنے ، ہزار گنے بلکہ دو ہزار گنے زیادہ تیز ہو جاتا ہے.یہ شیشے اور گلوب دراصل انبیاء کے وجود ہوتے ہیں جو خدا کے اس نور کو جو قدرت میں ہر جگہ پایا جاتا ہے لیتے ہیں اور اپنے گلوب اور چمنی کے نیچے رکھ کر اس کا ہر حصہ انسانوں کے استعمال کے قابل بنا دیتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس نور کو دیکھنے لگی جاتی ہے اُس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ اس سے فائدہ حاصل کر نے لگ جاتی ہے.
خطبات محمود ۴۴۴ سال ۱۹۳۷ء اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ کے ذکر میں فرماتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا.وہ فرماتے ہیں انى انستُ نَارًا ہے میں نے ایک آگ دیکھی ہے.اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا کی میں بطور نار کے ہوتا ہے.یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اسے دیکھتا ہے.اس کی روشنی تیز نہیں ہوتی لیکن جب وہ نبی میں ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہو جاتا ہے یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی تیز ہو جاتی ہے.نبوت میں آکر یہ نور مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود رہتا ہے.کیونکہ نبی بھی موت کا شکار ہوتے ہیں.پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی.پس اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے ایک ری فلیکر ایجاد کیا جس کا نام خلافت رکھا.نبی کی روشنی اس ری فلیکٹر کے ذریعہ سے دور تک پہنچا دی جاتی ہے.پرانے زمانہ کے طریق کے مطابق اس کا نام طاق رکھا گیا.جو تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اُس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے ہے.اسی طرح خلیفہ نبی کی قوت قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہورہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتا ہے اور جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا.اگر خلافت نہ ہوتی تو ہی بعض کاموں پر زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا رو پیدا اور اس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا.غرض خلافت کے ذریعہ سے الہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے دنیا کے لحاظ سے مکمل ہوا تھا ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے.چنانچہ محمدی نور رسول کریم ﷺ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گیا.بلکہ ابو بکر کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو تین سال اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد وہی نور خلافت عمر کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور سات سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر وہ کی نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور تیرہ سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت عثمان کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور وہ چھ سال اور اس نور کو لے گیا.گویا چھپیں تمہیں سال محمدی نوری خلافت کے ذریعہ لمبا ہو گیا.جیسے ٹارچوں کے اندر ری فلیکٹر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بلب کی روشنی
۴۴۵ سال ۱۹۳۷ء خطبات محمود دور دور تک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے ری فلیکٹر بعض دفعہ تھوڑا سا خم دے کر بنائے جاتے ہیں.جیسے دیوار گیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہوا ہوتا ہے جو دیوار گیرے کا ری فلیکٹر کہلاتا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی ٹارچ کے ری فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس ری فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے.چھ چھ آنے کے جو دیوار گیر آتے ہیں ان کے ساتھ بھی یہ ری فلیکٹر لگا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ دیوار گیر کی روشنی زیادہ دور تک جاتی ہے.اسی طرح خلافت وہ ری فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کر دیتا اور اسے دور دور تک پھیلا دیتا ہے.پس مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت، نبوت اور الوہیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ.وہ ایک نور ہے جو دنیا کے ہر ذرہ سے ظاہر ہو رہا ہے مگر جب تک وہ نبوت کے شیشہ میں نہ آئے لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.جیسے نیچر پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ہستی معلوم کرنے کا شوق رکھنے والے ہمیشہ ٹھوکر کھاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِنَّ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت لِأُولِي الألْبَابِ " بالکل درست ہے.اور زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی آیات پائی جاتی ہے ہیں مگر یہی خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ یورپ کے فلاسفروں کو دہر یہ بنا رہی ہے.گویا خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ میں اللہ تعالیٰ کا جو نور ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ.یہ شعلہ جب نکلتا ہے تو اس کی کے ساتھ دُھواں بھی اُٹھتا ہے جو بعض دفعہ نزلہ پیدا کر دیتا اور آنکھوں کو خراب کرتا ہے.وہ دُھواں تب ہی دور ہوتا ہے جب اس پر چمنی یا گلوب رکھ کر اسے روشنی کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے.اگر اس کے بغیر کوئی اس شعلہ سے نور کا کام لینا چاہئے تو اسے ضرور کچھ نور ملے گا اور کچھ دُھواں، جو اس کی آنکھوں اور ناک کو تکلیف دے گا.چنانچہ اسی وجہ سے جو شخص نیچر پر غور کر کے خدا تعالیٰ کو پانا چاہتا ہے تو وہ کوئی ٹھوکریں کھاتا ہے اور بعض دفعہ بجائے خدا تعالیٰ کو پانے کے دہر یہ ہی ہو جاتا ہے.مگر جو شخص خدا تعالیٰ کے وجود کو نبوت کی چمنی کی مدد سے دیکھنا چاہتا ہے اس کی آنکھیں اور اس کا ناک دھویں کے ضرر سے بالکل محفوظ رہتے ہیں اور وہ ایک نہایت لطیف اور خوش کن روشنی پاتا ہے جو سب کثافتوں سے پاک ہوتی ہے.غرض کا ئنات عالم پر غور کر کے خدا تعالیٰ کے وجود کو پانے والوں کیلئے خدا تعالیٰ نے کچھ ابتلاء
سال ۱۹۳۷ء خطبات محمود رکھے ہیں، کچھ شکوک رکھے ہیں، کچھ مشبات رکھے ہیں تا وہ مجبور ہوکر نبوت کی چمنی اس نور پر رکھیں.چنانچہ جب بھی الہی نور پر نبوت کی چمنی رکھی جائے اس نور کی حالت یکدم بدل جاتی ہے اور یا تو وہ کو دینے والا دھواں نظر آ رہا تھا اور یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نور ہی نور ہے اور اس میں دُھویں کا نشان تک نہیں.پھر جب اس روشنی کو اُٹھا کر ہم طاقچہ میں رکھ دیتے ہیں تو پہلے سے بہت دور دور اس کی روشنی پھیل جاتی ہے.غرض یہ آیت ہے جو مجھے بتائی گئی اور مجھے سمجھایا گیا کہ اس میں الوہیت ، نبوت اور خلافت کا جوڑ بتایا گیا ہے.اگر کوئی کہے کہ آخر خلافت بھی تو ختم ہو جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلافت کا ختم ہونا یا نہ ہونا تو انسانوں کے اختیار میں ہے.اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہ کر ان کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہو سکتا ہے.اور اگر وہ خود ہی اس انعام کو ر ڈ کر دیں تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے.اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ والی آیت کا مضمون مختصر ابتانے کے بعد میں اب یہ بتا تا ہوں کہ کس طرح یہ تمام سورۃ اسی ایک مضمون کے ذکر سے بھری ہوئی ہے اور اس کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں اسی مضمون کے مختلف پہلوؤں کو بیان نہ کیا گیا ہو.اس سورہ نور کو اللہ تعالیٰ نے بدکاری اور بدکاری کے الزامات لگانے والوں کے ذکر سے شروع کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگا تھا اُس کا کی ذکر کرتا ہے.پھر اور بہت سی باتیں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والی بیان کرتا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ت ہے کہ انہیں ایسے مواقع پر کن کن باتوں پر عمل کرنا چاہئے.پھر وہ ذرائع بیان کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے بدکاری دنیا سے مٹ سکتی ہے.یہ تمام مضامین اللہ تعالیٰ نے پہلے دوسرے اور تیسرے رکوع میں کی بیان کئے ہیں.چنانچہ دیکھ لو پہلا رکوع ان آیات سے شروع ہوتا ہے سُوْرَةٌ اَنْزَلْنَهَا وَفَرَضْهَا وَ أَنْزَلْنَا فِيْهَا ايتٍ بَيِّنَتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةً کے یہ مضمون چلتا چلا جاتا ہے.پھر آگے فرماتا ہے وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةٍ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمْنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوالَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ٨ زنا کا الزام لگانے والوں کا ذکر اور ان کی سزا کا بیان کیا ہے.پھر فرماتا ہے.اِلَّا لَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذلِكَ وَاَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اس کے بعد وَالَّذِينَ يَرْمُونَ اَزْوَاجَهُمُ میں ان
خطبات محمود ۴۴۷ سال ۱۹۳۷ء لوگوں کا ذکر کیا جو اپنی بیویوں پر مکاری کا الزام لگاتے ہیں.پھر اِنَّ الَّذِينَ جَاءُ وُا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنكُمُ ! کہہ کر مخصوص طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کا ذکر کرتا ہے.پھر الزام لگانے کے نقائص بیان اور فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ - وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ لي اللَّهَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ.یہاں دور کوع سورہ نور کے ختم ہو جاتے ہیں.پھر اسی مضمون کو اگلے رکوع میں بھی جاری رکھتا اور فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَنِ.پھر اس شبہ کا ازالہ کرتا ہے کہ شاید صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانا کوئی اہمیت رکھتا ہے.عام الزام ایسے خطرناک نہیں ہوتے اور فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ الْعَفِلَتِ الْمُؤْمِنَتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ - ے اس کے بعد چوتھار کوع شروع ہوتا ہے اور پھر اسی سلسلہ میں کی مختلف ہدایات دی گئی ہیں کہ ان الزامات کے مراکز کو کس طرح روکنا چاہئے.چنانچہ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُو وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا - ا اس موقع پر ایک دوست محمد احمد صاحب مالک محمود الیکٹرک سٹور قادیان نے ٹارچ لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.اس پر حضور نے ہاتھ سے بتایا کہ اس ٹارچ کے اندر جو بلب ہے اس کی باریک تاریں مصباح ہیں اور وہ گول شیشہ جس میں بلب رکھا جاتا ہے وہ زجاجہ ہے اور اس کا بیرونی دائرہ طاقچہ یاری فلیکٹر ہے جو روشنی کو لمبا کر کے آگے کی طرف پھینکتا ہے.گویا تیرہ سو سال ترقی کرنے کی کے باوجود سائنس روشنی کے متعلق اسی مقام پر آکر ٹھہری ہے جو قرآن کریم نے بتایا تھا اس سے آگے.نہیں بڑھی ).پھر اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ بدی سے محفوظ رہنے کے ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے قُل الِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ.پھر شادیوں کا ذکر کرتا ہے اور اس پر 14 چوتھار کو ع ختم ہو جاتا ہے.گویا پہلے رکوع سے لے کر چوتھے رکوع تک سب میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے.کسی جگہ الزام لگانے والوں کے متعلق سزا کا ذکر ہے، کسی جگہ الزامات کی تحقیق کے طریق کا ذکر ہے، کسی جگہ شرعی ثبوت لانے کا ذکر ہے، کسی جگہ ایسے الزامات لگنے کی وجوہ کا ذکر ہے، کسی جگہ اُن دروازوں کا ذکر ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.غرض تمام آیتوں میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے.
خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۷ء مگر اس کے معا بعد فرماتا ہے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اب انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا پہلے رکوعوں سے کیا تعلق ہے؟ ایک ایسا مفسر جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں وہ بے ربط کلام ہے.اس کی آیتیں اسی طرح متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس طرح دانے زمین پر گرائے جائیں تو کوئی کسی جگہ جاپڑتا ہے اور کوئی کسی جگہ ، وہ تو کہہ دے گا اس میں کیا حرج ہے.پہلے وہ مضمون بیان کیا گیا تھا اور اب یہ مضمون شروع کر دیا گیا ہے.مگر وہ شخص جوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے واقف ہے جو جانتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ ایک ه ترتیب رکھتا ہے ، وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ پہلے تو بدکاری کے الزامات اور ان کو دور کرنے کا ذکر تھا اور اس کے معا بعد یہ ذکر شروع کر دیا گیا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا.پھر انسان اور زیادہ حیران ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ پانچویں رکوع میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اور اس سے دور کوع بعد یعنی ساتویں رکوع میں اللہ تعالیٰ یہ ذکر شروع کر دیتا ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ١٨ کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجالائے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر ہے.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر مج الزام لگنے کا بیان ہے.پھر ان الزامات کے ازالہ کے طریقوں کا ذکر ہے.پھر اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کا ذکر آ گیا.اور پھر کہہ دیا کہ میرا یہ وعدہ ہے کہ جو مومن ہوں گے انہیں میں اِس اُمت میں اسی طرح خلیفہ بناؤں گا جس طرح پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے دین کو دنیا میں قائم کروں گا اور ان کی کے خوف کو امن سے بدل دوں گا.وہ میری عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو شخص ان خلفاء کا منکر ہو گا وہ فاسق ہوگا.پس لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر کیا پھر اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کا ذکر کیا اور پھر خلافت کا ذکر کر دیا.ان کی تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ ہونا چاہئے ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ قرآن کریم نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے اور اس کے مضامین میں ایک عالم اور حکیم والا ربط اور رشتہ نہیں ہے.اس جگہ
۴۴۹ سال ۱۹۳۷ء خطبات محمود ضمنی طور پر یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جہاں دوسروں پر الزام لگانے والوں کا ذکر ہے وہاں الزام لگا.والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِارْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمِنِينَ جَلْدَةً وَّلَا تَقْبَلُوالَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَأَوْلَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ کہ وہ لوگ جو بے گناہ لوگوں پر کی الزام لگاتے ہیں اور پھر ایک موقع کے چار گواہ نہیں لاتے تو فَاجْلِدُوهُمْ تَمْنِينَ جَلْدَةً تم ان کو ۸۰ کوڑے مارو.وَلَا تَقْبَلُوالَهُمْ شَهَادَةً اور تم اُن کی موت تک ہمیشہ اُن کو جھوٹا سمجھو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو.اُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک فاسق ہیں.پھر اسی سورۃ میں جہاں خلفاء کا ذکر کیا وہاں بھی یہی الفاظ رکھے اور فرمایا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فأولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ 19 کہ جو شخص خلیفہ کا انکار کرے وہ فاسق ہے.اب جو زنا کا الزام لگانے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے الفاظ ر کھے تھے اور جو نام ان کا تجویز کیا تھا بعینہ وہی نام خدا تعالیٰ نے خلافت کے منکرین کا رکھا اور قریباً اسی قسم کے الفاظ اس جگہ استعمال کئے.وہاں بھی یہ فرمایا تھا کہ جو لوگ بدکاری کا الزام لگاتے اور پھر چار گواہ ایک موقع کے نہیں لاتے انہیں۸۰ کوڑے مارو، انہیں ساری عمر جھوٹا سمجھو اور سمجھ لو کہ وَأُولئِكَ هُمُ الفسِقُونَ یہی لوگ فاسق ہیں.اور یہاں بھی یہ فرمایا کہ جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے، سمجھ لو کہ وہ فاسق ہے.تو نام دونوں جگہ ایک ہی رکھتا ہے ).اب میں پھر اصلی مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کو ایک حکیم کی کتاب سمجھتا ہے اور اس کے اعلیٰ درجہ کے با ربط اور ہم رشتہ مضمونوں کے کمالات کے دیکھنے کا جسے ذرا بھی کی موقع ملا ہے، وہ اس موقع پر سخت حیران ہوتا ہے کہ کس طرح پہلے بدکاری اور بدکاری کے جھوٹے الزامات لگانے کا ذکر کیا گیا ہے پھر یکدم اللَّهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کہہ دیا گیا.اور پھر خلافت کا ذکر شروع کر دیا گیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں مضمونوں میں ضرور کوئی اعلیٰ درجہ کا جوڑ اور تعلق ہے.اور یہ تینوں مضمون آپس میں مربوط اور ہم رشتہ ہیں.اس شکل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس من غور کرو جو میں نے اوپر بتایا ہے اور جو یہ ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کی آیت میں الوہیت اور نبوت اور خلافت کے تعلق کو بتایا گیا ہے.اس مضمون کو ذہن میں رکھ کر آخری دو مضمونوں کا تعلق پالکل واضح ہو جاتا ہے.کیونکہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ والی آیت میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلال الہی کے ظہور کے مضمون پر
خطبات محمود ۴۵۰ سال ۱۹۳۷ء زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدہ کیلئے محفوظ کر دیا جاتا ہے.اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعا قرآن کریم پڑھنے والوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ خدا کرے ایسی نعمت ہم کو بھی ملے.سو وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ کی آیات میں اس خواہش کے پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا اور بتایا کہ یہ نعمت تم کو بھی اسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کی ملی تھی.غرض میرے بیان کردہ معنوں کے رو سے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں کا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں سے ایک ایسا لطیف اور طبعی جوڑ قائم ہو جاتا ہے جو دل کو لذت اور سرور سے بھر دیتا ہے اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے اور قرآنی مطالب کی عظمت کا سکہ دلوں میں بٹھا دیتا ہے.لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اس مضمون کا پہلی آیتوں سے کیا تعلق ہوا.یعنی سورہ نور کے پانچویں رکوع کا اس کے نویں رکوع تک تو خلافت سے جوڑ ہوا لیکن جو پہلے چار رکوع ہیں اور جن میں بدکاری اور بدکاری کے الزامات کا ذکر آتا ہے ، اُن کا اِسی سے کیا تعلق ہے.جب تک یہ جوڑ بھی حل نہ ہو اُس وقت تک قرآن کریم کی ترتیب ثابت نہیں ہو سکتی.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور ان میں خصوصاً اس الزام کارڈ کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگانے والوں نے الزام لگایا تو اس کی اصل غرض کیا تھی.اس کا سبب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی.ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے تعلق ہو، نہ قضا سے ، نہ عہدوں اور اموال کی تقسیم سے ، نہ لڑائیوں کی سے ، نہ مخالف اقوام پر چڑھائیوں سے ، نہ حکومت سے ، نہ اقتصادیات سے، اس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے.غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست بغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی.پس اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ الزام سچا ہو جس امر کو کوئی مومن ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ نے عرش سے اس گندے خیال کو ر ڈ کیا ہے.دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے ہے
خطبات محمود ۴۵۱ سال ۱۹۳۷ء کہ حضرت عائشہ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لئے لگایا گیا ہو.اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لئے یا ان کے کی سرداروں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے.ایک ادنی تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جاسکتی تھی.ایک رسول کریم ہے سے اور ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھی اور ایک کی بیٹی تھیں.یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی.یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بد نام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں.ورنہ خود حضرت عائشہ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہ ہو سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہوسکتا تھا اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہ کو رسول کریم ﷺ کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کیلئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو.مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا.بلکہ حضرت عائشہ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریمہ کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کرتی تھی وہ حضرت زینب با تھیں.ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی.مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینب کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کا انکار کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ہی تھیں.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو وہ ان کی سوتوں کو ہی ہوسکتی تھی.اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ رسول کریم ﷺ کا نگاہ سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے.مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں دخل ہی نہیں دیا.اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اُس نے حضرت عائشہ کی تعریف ہی کی.چنانچہ ایک اور بیوی کی کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے اُن سے اِس معاملہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو سوائے خیر کے عائشہ میں کوئی چیز نہیں دیکھی.۲۰ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی دشمنی نکالنے کا امکان اگر کسی کی طرف سے ہو سکتا تھا تو ان کی سوتوں کی طرف سے مگر ان کا اس معاملہ میں کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا.اسی طرح مردوں کی
خطبات محمود ۴۵۲ سال ۱۹۳۷ء عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.پس آپ پر الزام یا رسول کریم ﷺ سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا 3 یا حضرت ابوبکر سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا.رسول کریم ﷺ کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے.انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم ہے کے بعد بھی وہ صلى الله اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں اور وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے.پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر کو ی مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترکی کر دیں جو انہیں آپ سے تھی.اور اس طرح رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے.جس طرح حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں پیغامیوں کا گروہ مجھ پر اعترض کرتا رہتا تھا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا.پس یہی وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا.صلى الله حدیثوں میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر کا ہی مقام ہے.پھر حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ہے کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ يَا رَسُولَ الله آپ میری فلاں نی حاجت پوری کر دیں.آپ نے فرمایا اس وقت نہیں پھر آنا.وہ بدوی تھا اور تہذیب اور شائستگی کے اصول سے ناواقف تھا اُس نے کہا آخر آپ انسان ہیں اگر میں پھر آؤں اور آپ اُس وقت فوت ہو چکے ہوں تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا اگر میں دنیا میں نہ ہوا تو ابوبکر کے پاس چلے جانا وہ تمہاری حاجت کی پوری کر دے گا." اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اے عائشہ! میں چاہتا تھا کہ ابو بکر کو اپنے بعد نا مزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ کی اللہ اور مومن اس کے سوا اور کسی پر راضی نہ ہونگے سے اس لئے میں کچھ نہیں کہتا.غرض صحابہ یہ قدرتی طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم کے بعد ان میں سے اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر کا اور وہی آپ کا خلیفہ بنے کے اہل ہیں.کی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے انتظام کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا.لیکن مدینہ میں رسول کریم ﷺ کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی.اور طبعا منافقوں کے دلوں میں
خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۷ء یہ سوال پیدا ہونے لگا کیونکہ آپ کی مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امیدیں باطل ہو گئیں تھیں.چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج.اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل اور خونریزی کا بازار گرم رہتا.جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رُعب مٹتا جا رہا ہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار پایا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کر لیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے.اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے لئے تاج بنے کا حکم بھی دے دیا گیا.اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مدینہ میں ظاہر ہو گیا ؟ ہے اور ہم اس کی بیعت کر آئے ہیں.اس پر رسول کریم اللہ کے دعوئی کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں.اور چند دنوں کے بعد بعض اور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم ﷺ کی بیعت کر لی.پھر انہوں نے رسول کریمہ سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک صحابی کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے.انہی دنوں میں چونکہ مکہ میں رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو بہت سی تکالیف پہنچائیں جا رہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ میں تشریف لے آئیں.چنانچہ رسول کریم ﷺ بہت سے صحابہ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے.اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کے لئے جو تاج تیار کر وایا جار ہا تھا وہ دھرا کا دھرا رہ گیا کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا.اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام رخنے ڈالتا رہتا تھا.اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اُس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی کی تھی تو یہی کہ محمد ﷺ فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن مسلمانوں میں جو نبی بادشاہت قائم ہوئی اور ایک نیا نظام انہوں نے دیکھا تو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کی کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے.آپ کے بعد اسلام کا کیا حال ہوگا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے.عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام
خطبات محمود ۴۵۴ سال ۱۹۳۷ء کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا اور اس کیلئے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابوبکر ہے اور رسول کریم ہے کے بعد مسلمانوں کی نظر اسی کی طرف اُٹھتی ہے اور وہ اسے دوسروں سے معزز سمجھتے ہیں.پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بد نام کر دیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرادیا جائے بلکہ خود رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے بھی گرا دیا جائے.اور اس بد نیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر گندہ الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں اشارہ بیان کیا گیا ہے اور حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہی ہے.عبد اللہ بن ابی بن سلول کی اس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابو بکر ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم ﷺ سے بھی خراب ہو جائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے لا بدی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں تباہ ہو جاتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبد اللہ بن ابی بن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا اور بعض لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے.چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی کہ میرے ساتھ صلى الله ایک لاکھ سپاہی ہیں میں چاہتا ہوں کہ اپنی تمام جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کرلوں.رسول کریم عالی و لیلی نے فرمایا اسلام میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کر لو.وہ کہنے لگا میں بیعت کرنے کیلئے تیار تو ہوں مگر میری ایک شرط ہے.آپ نے فرمایا وہ کیا؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو خیر اب عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبر دست قوم ہے پس میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا.آپ نے فرمایا میں کوئی وعدہ نہیں کرتا.یہ خدا کا انعام ہے وہ جسے چاہے گا دے گا.اس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا اور اپنی تمام قوم سمیت مخالفت پر آمادہ ہو گیا.تو مسیلمہ کذاب نے رسول کریم ﷺ کے بعد بادشاہت ملنے کی آرزو کی تھی ، زندگی میں نہیں.یہی حال عبد اللہ بن ابی بن سلول کا تھا.چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لئے عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی اپنی موت کو دور سمجھتا تھا.
خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۷ء اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا.وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں گا.لیکن اب اس صلى نے دیکھا کہ ابوبکر کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے.جب رسول کریم یا اللہ نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابو بکر آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں.رسول کریم ﷺ سے کوئی فتوی کی پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابو بکر سے فتویٰ پوچھتے ہیں.یہ دیکھ کر عبد اللہ بن ابی بن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امید لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے.چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں.گرانے کیلئے اس نے حضرت عائشہ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم کو حضرت عائشہ سے نفرت پیدا ہوا اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم ﷺ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ ابوبکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بنے کا کوئی امکان نہ رہے.چنانچہ اسی امر کا اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ذکر کرتا اور فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ جَاءُ وُا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمُ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگا یا وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھہ ہے مگر فرماتا ہے لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمُ ۲۵ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ الزام کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی کی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہو جائے گا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتادیتے ہیں کہ یہ منافق زور مار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کر کے چھوڑیں گے.کیونکہ خلافت ، نبوت کا ایک جزو ہے اور الہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ کی ہے.پھر فرماتا ہے لِكُلِّ امْرِى ءِ مِنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْم.اسے ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اسے مل جائے گا.چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں ۱۲۷ شامل تھے انہیں اتنی اسی کوڑے لگائے گئے.پھر فرمایا وَ الَّذِی تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اس تمام فتنہ کا بانی ہے اسے ہم کوڑے نہیں لگوائیں گے بلکہ اس کو عذاب ہم خود دیں گے.وَالَّذِی تَوَلَّى كِبَرَهُ و شخص جس نے اصل میں بات بنائی ہے ( یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول ) وہ عام عذاب کا مستحق نہیں خاص اور بڑے عذاب کا مستحق.
خطبات محمود ۴۵۶ سال ۱۹۳۷ء جو عذاب ہم ہی دے سکتے ہیں.چنانچہ اس حکم کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے عذاب مل گیا اور رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی وہ ہلاک ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے بعد خلیفہ ہو گئے.اس الزام کا ذکر کرنے اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگایا ، اللہ تعالیٰ معاً فرماتا ہے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کا نور ہے مگر اُس کے نور کو مکمل کرنے کا ذریعہ نبوت اور اس کے بعد اس کے دنیا میں پھیلانے اور اسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے.پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے.بلکہ اپنے نور کے دنیا میں دیر تک قائم رکھنے کیلئے اس سامان کو مہیا کریں گے.اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے وہ نور خلافت ہی ہے، اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے.فرماتا ہے فِي بُيُوتِ یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے.نور نبوت تو صرف ایک گھر میں ہے مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فی بُيُوتِ چند گھروں میں ہے.پھر فرماتا ہے اذنَ اللَّهُ اَنْ تُرْفَعَ وہ گھرا بھی چھوٹے سمجھتے جاتے ہیں مگر خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے.کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے.اس آیت نے یہ بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ نور خلافت ، نور نبوت اور نور الوہیت کے ساتھ گلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے.پس ہم اسے مٹنے نہ دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ ظاہر کریں گے تاتی نور نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نورالہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے.چنانچہ خلافت پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئی.کیونکہ خدا نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ان بیوت کو اونچا کرے.تُرفَع کے لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو
خطبات محمود ۴۵۷ سال ۱۹۳۷ء نیچا کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کریں.مگر خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ان کو اونچا کرے اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کسی کے الزام لگانے سے کیا بنتا ہے.الله اب دیکھو سورہ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ پر الزام کی لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کیا جائے اور رسول کریمہ سے ان کے جو تعلقات ہیں وہ بگڑ جائیں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میں بھی ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں.کیونکہ عبداللہ بن ابی بن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اُٹھنی ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے اور اگر ابو بکر کے ذریعہ خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی بن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہ ہوں گے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے ذکر کے معا بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں ہے.وہ تو نور الہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے.اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اس کا ضائع ہونا تو نور نبوت اور نورالوہیت کا ضائع ہونا ہے.پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور نبوت کے بعد بادشاہت ہرگز قائم نہیں ہونے دے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ایک نہیں متعد دلوگوں کو خلافت پر قائم کر کے نور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا.یہ مضمون ایسا ہی ہے جیسے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا دائر نہیں کہ جس کا جی چاہے پی لے.اسی طرح فرمایا تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابو بکر کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو.کیونکہ خلافت ایک نور ہے وہ نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے کی اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ اسی طرح خلافت کا یہ نور چند اور کی گھروں میں بھی پایا جاتا ہے اور کوئی انسان اپنی کوششوں اور اپنے مکروں سے اس نور کے ظہور کو روک نہیں سکتا.اب دیکھو اس تشریح کے ساتھ سورہ نور کی تمام آیتوں کا آپس میں کس طرح ربط قائم ہو جاتا ہے اور کس طرح پہلے چار رکوعوں کے مضمون کا اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اور اس کے مَابَعْد کی آیتوں کے ساتھ ربط قائم ہو جاتا ہے اور ساری سورۃ کے مطالب آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں.پس خلافت ایک الہی سنت ہے کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے.وہ خدا تعالیٰ کے نور کے
خطبات محمود ۴۵۸ سال ۱۹۳۷ء قیام کا ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے.ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص سے وابستہ ہے.فرماتا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ) الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۳۷ ء ) تذکرہ صفحہ ۵۸۸.ایڈیشن چہارم الم نشرح: ٢ النور: ۳۹۳۳۶ طه ۱۱ دیوار گیر: دیوار میں لگانے کا لیمپ آل عمران: ۱۹۱ ك النور: ٣٢ النور : ۵ هم النور: ٦ النور: ۷ النور: ۱۲ ۱۲ النور: ۲۱،۲۰ النور: ۲۲ النور : ۲۴ ܙ܂ النور: ۲۸ النور: ٣١ كلا النور : ٣٦ ۱۹،۱۸، النور : ۵۶ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة النور باب لولا اذ سمعتموه (الخ) صلى الله صلى الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علم ـ باب فضل ابى بكر بعد النبي علم صلى الله صلى الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علم باب قول النبي عليه لو كنت متخذا خليلا بخاری کتاب الاحكام باب الاستخلاف ۲۴ بخاری کتاب المغازى باب وفد بنى حنيفة (الخ) ۲۵ تا ۲۷ النور: ۱۲ ۲۸ النور : ۵۶
خطبات محمود ۴۵۹ ۳۱ سال ۱۹۳۷ء قربانی پیش کرنے کیلئے مشق ضروری ہے (فرموده ۲۴ ستمبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جب بڑا کام کسی قوم کے سپرد کیا جاتا ہے اسی کے مطابق اس کو کام کیلئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.بعض کاموں کی مشق خاص قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جب تک اس قسم کی قربانیاں نہ کی ی جائیں وہ مشق نہیں ہوتی اور جو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ بغیر اس مشق کے جو اس کام کیلئے ضروری ہے وہ ی اس کام کے اہل ثابت ہو جائیں گے وہ قطعی طور پر نا واقف اور جاہل ہوتے ہیں.جب تک اس قسم کی قربانیوں میں سے نہ گزرا جائے اُس وقت تک ان کے کاموں کا بجالانا جن کیلئے ایک خاص قسم کی قربانیاں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں ناممکن اور بالکل ناممکن ہے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے زمانے میں پیدا کیا ہے جبکہ زمانہ ظاہری طور پر پُر امن ہے.میں نے ظاہری طور پر پُر امن کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ بالعموم اس زمانہ میں عَلَى الْإِعْلان لڑائیاں نہیں کی جاتیں.تلوار اور بندوق لے کر ایک ملک دوسرے ملک پر اور قو میں قوموں پر اور گھرانے گھرانوں پر حملہ نہیں کرتے ، ور نہ ظلم اب بھی ہوتے ہیں قتل اور خونریزیاں اب بھی ہوتی ہیں مگر ایک حد تک قانون ان کے رستہ میں ނ روک بنا رہتا ہے.گو بعض جگہ قانون بھی ناکام رہتا ہے.کسی جگہ ایسا افسر آ جاتا ہے جسے ظالموں.ہمدردی ہوتی ہے اور وہ درگرز سے کام لیتا ہے.کبھی کسی جگہ پولیس مقدمات کو خراب کر دیتی ہے گواہوں کو ڈرا دیتی ہے، بدلوادیتی ہے، بھگا دیتی ہے، مگر یہ کوئی عام قانون نہیں.عام طور پر حکام لڑائیوں،
خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۷ء خونریزیوں اور قتلوں کے واقعات میں بے تعلق ہی رہتے ہیں.اس لئے ہم اسے پُر امن زمانہ کہتے ہیں.اور فساد کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب کوئی حکومت امن قائم کرنے والی نہ ہو، کوئی قانون نہ ہو ، جس کی مرضی ہو تلوار اُٹھا کر دوسرے کو قتل کر دے اور کوئی جھوٹے منہ بھی نہ پوچھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا جیسے مکہ میں تھا.یہاں جب پولیس کسی کی رعایت بھی کرتی ہے تو کم سے کم بے تعلقی کا مظاہرہ ضرور کرتی ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ مقدمہ کو کامیاب نہ ہونے دے.جیسے آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی احمدی پر ظلم یا تعدی کرنے کا کوئی مقدمہ ہو تو اکثر مجرم بری ہو جاتے ہیں.کبھی مجسٹریٹ کہتا ہے کہ پولیس کی غلطی تھی اور کبھی پولیس کہتی ہے کہ مجسٹریٹ نے غلطی کی مگر انصاف کرنے کی ایک نمائش ضرور ہوتی ہے.یہ تو نہیں ہوتا کہ کوئی پوچھتا ہی نہیں.اس سے بھی ظالم اور شریر کو ڈر اور خوف ضرور لگا رہتا ہے.وہ سمجھتا ہے ممکن ہے مجسٹریٹ کے سامنے سچائی کھل جائے.ممکن ہے اس دفعہ رعایت نہ کی جائے ممکن ہے پولیس کے بالا افسر ہی توجہ کریں.اس لئے اسے ایک خوف ضرور لگا رہتا ہے.مگر جہاں یہ نمائش بھی نہ ہو وہاں کوئی خوف نہیں ہوتا لوگ عَلَى الْإِعْلان اور دھڑلے سے ایسے کام کرتے ہیں اور کوئی پرواہ نہیں کرتے.پھر جہاں نمائش ہو شریر کو یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ زمانہ کے دور بدلتے رہتے ہیں مثلاً ہمارے ہی متعلق دیکھ لو.بے شک اس وقت احرار اور دوسرے معاندوں کو حکومت کے بعض افسروں کی نگاہ میں وقار حاصل ہے اور وہ افسر تعصب کی وجہ سے ہر احمدی کی روایت کو جھوٹا سمجھتے یا کم سے کم اسے جھوٹا قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کبھی اچھے افسروں کی کثرت آجاتی ہے جو انصاف کرتے ہیں.بالعموم جہاں پولیس اور کی دوسرے افسروں کو کوئی خاص تعلق نہ ہو کوشش یہی کی جاتی ہے کہ انصاف ہو.اس لئے ایسے واقعات کثرت اور تواتر سے نہیں ہوتے اور اس وجہ سے ہم اس زمانہ کو پُر امن زمانہ کہتے ہیں.مگر جہاں نہ کوئی حکومت ہو، نہ قانون ہو، نہ پولیس ہو، کوئی قیام امن کی کوشش کرنے والا نہ ہو، اسے فساد کا علاقہ کہا جائے گا.اور ایسے علاقے جہاں کوئی حکومت نہ ہو یا جب کسی علاقہ کی حکومت کسی جماعت کو اپنی رعایا ہونے کے حقوق سے عملاً یا قانونا محروم قرار دے دے وہاں قتل ، خونریزیاں ، فساد اور جنگیں بکثرت ہوتی ہیں اور لوگوں کو اس قسم کی خونریزیوں کی برداشت کی عادت ہو جاتی ہے.لیکن جہاں ایسے واقعات بکثرت نہ ہوں وہاں ایسے واقعات پر لوگوں پر بڑی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور قربانی کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں.
خطبات محمود ۴۶۱ سال ۱۹۳۷ء وسطی صدیوں میں یورپ میں مذہب کی خاطر بڑے قتل ہوتے تھے اور حکومتیں اس میں لذت حاصل کیا کرتی تھیں.اگر کیتھولک خیالات کے لوگوں کی حکومت ہوتی تو پروٹسٹنٹوں کو قتل کر دیا جاتا تھا اور پروٹسٹنٹوں کی حکومت ہوتی تو وہ کیتھولک فرقہ کے لوگ قتل کراتے تھے اور بعض جگہ ایک ایک دن میں چار چار پانچ پانچ سو بلکہ ایک ایک ہزار تک لوگ قتل کر دئیے جاتے تھے.آگ جلا کر ماؤں، بہنوں ، بیویوں اور بچوں کو زندہ اس میں ڈال دیا جاتا تھا اور لوگ سامنے کھڑے ہنستے رہتے تھے.ان کے نزدیک یہ کوئی خاص بات ہی نہ تھی.اسی طرح مرنے والے بھی اس کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے.کیونکہ ان کے سامنے روزانہ یہی کام ہوتا تھا.جس فرقہ کو غلبہ حاصل ہو جاتا وہ دوسرے سے ایسا سلوک کرتا تھا.اور لوگوں کی ذہنیت ایسی ہوگئی تھی کہ جہاں قتل نہ ہوں لوگ شور مچادیتے تھے کہ آج حکومت نے کوئی تماشہ نہیں دکھایا.آجکل سپین میں یہی حالت ہے.دو مختلف خیالات کے لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں.وہاں کے حالات کے متعلق مجھے ایک رپورٹ ملی تھی کہ ایک دن میڈرڈ میں صرف پچاس آدمی قتل ہوئے تو عورتوں نے شور مچادیا کہ حکومت نے پبلک کی خیر خواہی کا آج کوئی کام نہیں کیا.کیونکہ جہاں روزانہ دو تین سو قتل ہوتے تھے آج صرف پچاس ہوئے ہیں اور ایسے قتل کے جواز کیلئے کسی تحقیقات کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی.کسی مشتبہ آدمی سے بات کرتا دیکھا گیا یا کوئی مشتبہ خط اس سے پکڑا گیا ، اسی کی بات پر نہایت ظالمانہ طریق پر لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے.لٹا کر آنکھیں نکال دی جاتی ہیں، مختلف اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں اور پھر ایسا کرنے والے ایسے ظالمانہ افعال پر خوش ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی خوش ہی ہوتے ہیں کیونکہ قتلوں کی عام مصیبت اور فتنہ کی وجہ سے عادت ہو جاتی ہے.وہ لوگ زندگی کی قدر ہی نہیں جانتے.وہ جانتے ہیں کہ اگر آج بچ گئے تو کل مارے جائیں گے.ان کا نقطۂ نگاہ ہی بدل جاتا ہے اور یہ لوگ ایسے ایسے سخت کام کر لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور ی یہ عادت کی بات ہے.ایک دوست نے ایک اور دوست کی نسبت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی تھے سنایا کہ ان کے والد نے جو مظفر گڑھ کے علاقہ کے راجہ تھے ، دربار کشمیر کے خلاف اعلانِ جنگ کیا.اُس کی زمانہ میں انگریز نئے نئے آئے تھے اور سکھوں کا عہدِ حکومت قریب زمانہ میں ختم ہوا تھا اور ابھی حکومتی کا پورا تصرف راجوں مہاراجوں پر نہ ہوا تھا ، وہ خود بھی جنگیں کر لیتے تھے.اس جنگ میں اُن کو شکست این
خطبات محمود ۴۶۲ سال ۱۹۳۷ء ہوئی اور مہاراجہ کشمیر نے اُن کو اُن کے علاقے سے جلا وطن کر کے حکم دیا کہ ہمیشہ مہاراجہ کے دربار میں رہا کریں.وہ بہت خوبصورت آدمی تھے.ایک دفعہ کسی حادثہ کی وجہ سے اُن کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی.کسی جراح نے اُسے جوڑا، وہ جڑ تو گئی مگر ذرا ٹیڑھی جڑی.ایک دن وہ دربار میں بیٹھے تھے کہ مہاراجہ نے دریافت کیا کہ راجہ صاحب سنا ہے آپ کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ؟ انہوں نے کہا ہاں مہا راج ٹوٹ گئی کی تھی مگر اب ٹھیک ہو گئی ہے.مہاراجہ نے کہا مجھے بھی دکھاؤ اور دیکھ کر کہا کہ یہ جوڑ ٹھیک نہیں بیٹھا آپ بہت خوبصورت آدمی ہیں لیکن اس ٹیڑھی ہڈی نے آپ کے ہاتھ کو بدصورت بنا دیا ہے.انہوں نے کہا ہاں مہاراج بات تو ٹھیک ہے مگر اب کیا ہو سکتا ہے.مہاراج نے کہا کہ آپ نے ہمیں کیوں نہ اطلاع دی ، ہم سرکاری ڈاکٹر کو بھیج دیتے.وہ بہت ماہر ہے، ہڈی کو بالکل درست کر کے بٹھاتا اور یہ نقص نہ ہوتا.یہ سُنی کر راجہ صاحب نے گھٹنا اوپر اُٹھایا اور کلائی کو اُس پر رکھ کر زور جو دیا تو ہڈی تڑاق سے ٹوٹ گئی.پھر بڑے اطمینان سے مہاراجہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا کہ لیجئے مہاراج! اب اپنے ڈاکٹر سے ہڈی کی جڑوا دیجئے.یہ دیکھ کر راجہ کو تو شش آنے لگا اور تمام دربار میں سناٹا چھا گیا.اب تم میں سے کون ہے جو اس قسم کا کام کر سکے.یقینا کوئی نہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کسی کو ایسے ماحول میں رہنے کا موقع نہیں ملا.تمہاری نگاہ میں امن کی اتنی قدر ہے کہ کسی چیز کو اس کے مقابل پر کچھ مجھتے ہی نہیں ہو.لیکن ان لوگوں کے نزدیک جن میں قتل و خونریزی کے واقعات کثرت اور تواتر سے ہوں زندگی کی کوئی قدر ہوتی ہی نہیں.اُس زمانہ میں بھی سپاہیوں کے نزدیک زندگی کی کوئی زیادہ قیمت نہیں ہوتی.جنگ عظیم میں شامل ہونے والے کئی سپاہیوں سے میں نے بات چیت کی ہے اور کئی یورپینوں کی کتابیں پڑھی ہیں ، سب یہی بیان کرتے ہیں کہ پہلی گولی جب چلتی ہے تو اُس وقت بہادر سے بہادر آدمی بھی بزدلی محسوس کرتا ہے اور چھپنا چاہتا ہے.لیکن آدھ یا پون گھنٹہ کے بعد حس ماری جاتی ہے اور خطرہ کا احساس بالکل مٹ جاتا ہے اور بعض لوگ ایسے ایسے خطر ناک مقامات پر اکیلے چلے جاتے ہیں کہ کی دنیا سن کر حیران ہو جاتی ہے کہ ایسے خطرناک مقامات سے گزرے کس طرح اور بچے کس طرح.گولیاں چاروں طرف سے چل رہی ہوتی ہیں مگر انہیں احساس تک نہیں ہوتا.لیکن یہ اقرار ہر سپاہی ہے کرتا ہے کہ جب شروع میں اُسے گولیوں کی بوچھاڑ کا سامنا ہوا تھا تو وہ ضرور خوفزدہ ہو گیا تھا.بڑے بڑے خطاب یافتہ اور انعام یافتہ بلکہ بہادری کا سب سے بڑا انعام یعنی وکٹوریا کر اس حاصل کرنے ،
خطبات محمود ۴۶۳ سال ۱۹۳۷ء والوں کے اس قسم کے اقرار میں نے پڑھے ہیں کہ جب وہ پہلے جنگ میں شامل ہوئے تو انہوں نے اپنے دل کی حالت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ وہ بُزدل ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے انہیں ایسے حالات کی عادت نہ تھی لیکن کچھ عرصہ ان حالات میں سے گزرے تو طبیعت میں جرات پیدا ہوگئی.تو یہ بہادری بھی ایک حد تک مشق کا نتیجہ ہوتی ہے.سپاہی جنگ میں جاتا ہے اور اس کا دل مضبوط ہو جاتا ہے.تم نہیں جاتے اس لئے تمہارا دل ویسا مضبوط نہیں.ہم میں سے بہت اگر کسی کیلئے چھ ماہ قید کی سزا کا حکم سن لیں تو ان کا دل دھڑکنے لگتا ہے او اس روز کھانا کھانے کو دل نہیں چاہتا.مگر مجسٹریٹ ہر روز سزائیں دیتا ہے بلکہ ایک دن میں مجموعی طور پر دس دس اور ہیں ہیں سال کی سزائیں دے دیتا ہے اور پھر گھر جا کر اطمینان سے کھانا کھاتا ہے اور ساتھ ساتھ لیکچر بھی دیتا جاتا ہے کہ یہ چیز اچھی کی ہے اور یہ خراب ہے.اس سے بڑھ کر جلا دوں کا حال ہے.بعض دفعہ تو جلا دمرنے والے کو بعض خاص حالتوں میں دیکھ کر ہنس پڑتا ہے کہ اُس کا منہ یوں ہو گیا اور ٹانگیں یوں ہو گئیں حالانکہ دوسرے اُس وقت رو ر ہے ہوتے ہیں مگر جلا د میں جس ہی نہیں ہوتی.پس عادات انسان کو کچھ کا کچھ کچ بنا دیتی ہیں.ہمیں چونکہ امن کی عادت ہے اس لئے ہماری جماعت میں وہ قربانیاں جو پہلے انبیاء کی جماعتیں کرتی تھیں بالکل عجیب معلوم ہوتی ہیں.گویا امن ہمارے لئے جہاں ترقی کا موجب ہے وہاں تنزل کا باعث بھی ہے.امن ہونے کی وجہ سے تبلیغ میں بے شک زیادتی ہے جو پہلے زمانوں میں حاصل نہ تھی مگر قر بانیوں میں کمی ہے جس سے پہلے لوگ بچے ہوئے تھے.جس شخص کو یہ یقین ہو کہ مال جو میرے پاس ہے دراصل میر انہیں ممکن ہے اسے کل ہی ڈاکو لے جائیں یا حکومت ہی چھین لے وہ اگر نیک ہوگا تو خیال کرے گا کہ کیوں نہ اسے خدا تعالیٰ کے رستہ میں ہی دے دوں اور پہلے زمانوں میں لوگوں کی یہی کی کیفیت ہوتی تھی.مگر آج چونکہ یقین ہے کہ حکومت یونہی نہیں چھینے گی ، حکومت اگر لے گی تو ٹیکسوں وغیرہ کے ذریعہ سے ہی لے گی.پھر ٹیکس ہر ایک پر نہیں لگے گا اور جس پر لگے گا ایک مقررہ شرح سے لگے گا اور ڈاکوؤں وغیرہ کے چھین کر لے جانے کا امکان بھی بہت کم ہے اس لئے ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ میر امال ہے اور اس وجہ سے اس کی محبت اسے زیادہ ہوتی ہے.غرض پہلے زمانوں میں مال کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے مال کو خدا کا سمجھتے تھے مگر
خطبات محمود ۴۶۴ سال ۱۹۳۷ء آجکل محفوظ ہونے کی وجہ سے اسے اپنا سمجھتے ہیں.اس لئے اس کی قربانی بھی دوبھر معلوم ہوتی ہے.اسی طرح پہلے زمانوں میں لوگ سمجھتے تھے کہ اگر آج نہ مرے تو کل مر جائیں گے معلوم نہیں کس وقت ڈاکوؤں کے ہاتھ سے ہی موت آجائے یا حکوت ہی مذہبی اختلاف کی وجہ سے پھانسی پر لٹکا دے یا سنگسار کرا دے یا کوئی دشمن ہی کسی وقت قتل کر دے.وہ یقین رکھتے تھے کہ ہماری زندگی آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں اس لئے جو اُن میں سے نیک ہوتے تھے کہتے تھے کہ کیوں نہ اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا جائے مگر ان اب چونکہ حکومت پُر امن ہے کسی کو پھانسی بھی دیا جائے تو قانون کے رُو سے دیا جاتا ہے اور یوں بھی قتل کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ جانیں ہماری ہیں اور ان کے د.میں دریغ ہوتا ہے.پہلے زمانہ میں یہ خیال نہیں ہو سکتا تھا کہ ہماری جانیں ہماری اپنی ہیں.بلکہ یہی خیال ہوتا تھا کہ ہماری نہیں ہیں آج نہیں تو کل کوئی لے لے گا چلو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہی دے دیں اور اس خطرہ کی حالت کا دل پر ایسا نقش ہوتا تھا کہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینا مشکل نہیں معلوم ہوتا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں وطن چھوڑ دینے سے بھی دریغ نہیں ہوتا تھا.کیونکہ ذرا سی بات پر ناراض ہو کر بادشاہ لوگوں کو وطن سے نکال دیتے تھے.اس لئے لوگ کسی ملک کو اپنا وطن نہیں سمجھتے تھے.یہودیوں پر یورپین حکومتیں اس لئے ناراض رہتی ہیں کہ وہ ان کے ملک کو اپنا وطن سمجھتے ہی نہیں تھے.حالانکہ ان میں یہ ذہنیت پیدا کرنے والی یہی حکومتیں ہیں جو ان پر ناراض ہوتی ہیں.صدیوں سے ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ انہوں نے اگر روس میں جائدادیں خرید کیں ، مکانات کی بنوائے اور وہاں آباد ہوئے تو کچھ عرصہ بعد بلا کسی سبب کے حکومت نے حکم دے دیا کہ یہاں سے نکل جاؤ.وہ وہاں سے نکل کر جرمنی میں گئے اور کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی وہی حال ہوا.تیسرے ملک میں گئے تو وہاں بھی یہی سلوک ہوا.اس وجہ سے قدرتی طور پر انہوں نے کسی ملک کو اپنا وطن نہیں سمجھا.مغربی ممالک میں سے صرف امریکہ اور انگلستان ہی دو ایسے ملک ہیں جہاں سے وہ نکالے نہیں گئے باقی قریباً ہر جگہ سے ان کو نکال دیا جاتا رہا ہے اور اس وجہ سے وہ کسی ملک کو اپنا وطن سمجھتے ہی نہیں.جسے وطن سے نکلنے کی عادت ہو وہ کسی ملک کو وطن کیسے محسوس کرے گا.ایک انگریز انگلستان کو اور روسی روس کو اپنا ملک سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس نے بھی اور کی اس کی نسلوں نے بھی وہیں رہنا ہے.مگر جو جانتا ہے کہ میں نے یہاں رہنا نہیں، اگر میں نہیں تو میری
خطبات محمود ۴۶۵ سال ۱۹۳۷ء اولا د کو یہاں سے نکال دیا جائے گا، اس کے نزدیک وطن کی کوئی قیمت نہیں ہو سکتی.اور یہودی چونکہ ہر وقت وطن کو چھوڑ دینے پر آمادہ رہتے ہیں اس لئے یورپین حکومتوں کو ان پر غصہ آتا ہے کہ یہ ہمارے وطن کی کو وطن نہیں سمجھتے.حالانکہ یہ ذہنیت ان حکومتوں نے ہی پیدا کی ہے.جو قوم ہمیشہ پابہ رکاب رہے اس سے یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ اس کے اندر حب وطن پیدا ہو.یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کیلئے وطن کو ترک کر دینا دو بھر نہیں ہوتا.جن قوموں کیلئے امن نہ ہو ان کیلئے وطن کی قربانی بھی آسان ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ قربانیاں ہمیشہ مشقوں کے ساتھ آسان ہوتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم امن کے زمانہ میں بھی تم سے قربانیاں کراتے ہیں تا مشق ہوتی رہے.دن میں دو نمازیں ایسے وقت میں رکھی ہیں جبکہ ان کا ادا کرنا ایک تاجر کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے.دو پہر کو اسے چند منٹ آرام کرنے اور حساب کتاب کیلئے ملتے ہیں، اُس وقت ظہر کی نماز رکھ دی.پھر عصر کے وقت گاہکوں کا زور ہوتا ہے اُس وقت بھی نماز حکم دے دیا.علاوہ ازیں شام کو کھاتہ بند کرنے اور حساب کتاب کرنے کا وقت ہوتا ہے.عشاء کے وقت اُسے اپناروپیہ محفوظ کرنے اور دُکان بند کرنے کا فکر ہوتا ہے.مگر ان سب وقتوں میں حکم ہے کہ چلو نما ز پڑھو.یہی حال زمینداروں کا ہے اس کے کام میں بھی بظاہر بڑی روک ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ مشق کی کراتا ہے کیونکہ لڑائی کو ہمیشہ جاری رکھنا تو اپنے اختیار میں نہیں.پھر اسلام نے جارحانہ لڑائی کی سختی ممانعت کی ہے، ادھر مشق بھی ضروری ہے اس لئے اسلام نے پُر امن ذرائع مشق کیلئے رکھ دیئے.اگر تو می اسلام میں جارحانہ لڑائی کی اجازت ہوتی تو یہ حکم دے دیا جاتا کہ جب بھی امن ہو کوئی چھوٹی موٹی لڑائی چھیڑ دیا کرو.مگر چونکہ یہ جائز نہیں اس لئے دوسرے ذرائع سے قربانی کی مشق کرائی اور حکم دیا کہ نمازیں پڑھو ، حج کرو، زکوۃ دو، روزے رکھو.ان سے قربانی کی مشق ہوتی رہتی ہے.مثلاً روزہ ہے اس سے گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی سفر والی حالت پیدا ہو جاتی ہے.پھر جس طرح لڑائیوں میں جا گنا اور فاقے کرنا پڑتا ہے اسی طرح اس میں ہوتا ہے اور لڑائی کی کیفیت ایک حد تک پیدا ہو جاتی ہے.پھر مالوں کے نقصان برداشت کرنے کی مشق کرانے کیلئے زکوۃ اور صدقات ہیں.صدقات تو خیر حوادث کے وقت کیلئے ہیں مگر ز کوۃ مستقل چیز ہے.پھر وطن چھوڑنے کی مشق کرانے کیلئے حج ہے.جو لوگ دس میل چلنے کی کے بھی عادی نہیں ہوتے.ان کے پاس روپیہ آیا تو ان پر حج فرض ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مکہ جاؤ ،
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء جہازوں میں اور خشکیوں پر سفر کی صعوبتیں برداشت کرو، غیر ملکی زبانیں بولنے والوں اور مختلف تمدن کے لوگوں سے ملو اور اس طرح وطن کی قربانی کی مشق کرو.پر امن زمانہ میں پیدا ہونے والے نبیوں کو ادھر تو یہ حکم ہوتا ہے کہ جا کر لڑو اور دوسری طرف یہ کہ نہ لڑو.ایک طرف تو حکم ہوتا ہے کہ جاؤ اور دنیا میں تہلکہ مچادو ، اور دوسری طرف یہ کہ امن نہ خراب کرنا.ایک طرف تو یہ حکم ہوتا ہے کہ خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو، اور دوسری طرف یہ کہ بادشاہ اور حکام سے نرمی کا برتاؤ کرنا.وہ دو کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں.ان کو یہ بھی حکم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر بڑے چھوٹے اور امیر غریب کے اخلاق کو درست کریں اور یہ بھی کہ بادشاہ اور حکام سے ملائمت اور نرمی سے بات کریں.ان سے لڑائی کی ساری کیفیات پیدا کرائی جاتی ہیں مگر پُر امن ذرائع سے.ان کیلئے جہاں یہ حکم ہوتا ہے کہ لڑائی کیلئے گھر سے نہ نکلو وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ تبلیغ کیلئے گھروں کو چھوڑ دو اور بغیر تلوار کے سب قوموں سے جنگ کرو.ان سے اپنے دل کی قربانی کرائی جاتی ہے اور ان کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وسرے کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو مارو.جو انبیاء بغیر تلوار کے آتے ہیں ان کو یہی حکم ہوتا ہے کہ خود کو قتل کرو.جاؤ تبلیغ کرو، لوگ گالیاں دیں گے اُن کو سنو اور اپنے دلوں کا خون کرو.لوگ ماریں گے اور ی گھروں سے نکال دیں گے مگر تمہارے لئے یہی حکم ہے کہ تم ماریں کھاؤ اور گھروں سے نکل جاؤ.لیکن جو ان انبیا ء پر امن زمانہ میں پیدا نہیں ہوتے گوان کو بھی پہلے ظلم برداشت کرنے کا ہی حکم ہوتا ہے مگر جب وہ ظلم کی ایک حد تک پہنچ جاتے ہیں تو ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہو جاتی ہے کہ مقابلہ کرو.مگر جونہی کی پر امن زمانہ میں ہوتے ہیں ان کیلئے جنگ کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہی حکم ہوتا ہے کہ ظلم برداشت کرتے چلے جاؤ.بیشک یہ ظلم کے زمانے دورے کے ساتھ آتے ہیں کبھی ظلم زیادہ ہوتے ہیں اور کبھی کم کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے.عورت کو درد زہ ہوتا ہے مگر ہر شخص کو معلوم ہے کہ یکساں نہیں ہوتا.اٹھتا ہے اور رُکتا ہے.پھر اُٹھتا ہے پھر رکتا ہے حتی کہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے تو بچہ پیدا ہو جاتا ہے.بعض لوگوں کے سر میں آنکھ کی خرابی کی وجہ سے درد اٹھتا ہے اور ٹیسیں پڑتی ہیں جنہیں پنجابی زبان میں ہلیں کہتے ہیں.مگر اسی طرح کہ ٹیں پڑی اور رک گئی پھر پڑی اور پھر رک گئی حتیٰ کہ جب آنکھ ماری جاتی ہے تو درد بھی بند ہو جاتا ہے.ہیضہ میں بھی دست اور قے مسلسل نہیں ہوتے بلکہ ہوتے ہیں اور رُک جاتے ہیں ہوتے ہیں اور رُک جاتے ہیں.بخار بھی ہر وقت یکساں نہیں ہوتا.چڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے.پھر اُترتا ہے پھر
خطبات محمود ۴۶۷ سال ۱۹۳۷ء چڑھتا ہے.بارش ہوتی ہے اور تھم جاتی ہے.پھر ہوتی ہے اور تھم جاتی ہے.سورج چڑھتا ہے اور غروب ہو جاتا ہے.غرضکہ دُکھ ہو یا سکھ اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ ان میں دورے ہوتے ہیں.یہی حال کی ابتلاؤں کا ہے اور یہی انعاموں کا.دشمن کبھی گالیاں بہت زیادہ دیتے ہیں اور کبھی خاموش ہو جاتے ہیں.پھر گالیاں دینے لگتے ہیں اور پھر چپ ہو جاتے ہیں.کبھی اتہامات لگاتے ہیں کبھی رُک جاتے ہیں.پھر اتہامات لگاتے ہیں پھر چپ ہو جاتے ہیں.رات اور دن کی طرح راحت اور تکلیف کے وقت آتے اور بڑھتے گھٹتے رہتے ہیں.جب تکلیف کا دور آتا ہے وہ خود قربانیوں کو کھینچ لیتا ہے.مگر جب اس میں کمی ہو تو ہمارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ہم قربانیوں میں سستی نہ کریں اور آئندہ حملہ کے مقابلہ کیلئے تیاری کرتے رہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے نیند کو سبات بنایا ہے لے یعنی نئی تیاری کیلئے کی قومی کو آرام دیا جاتا ہے.گرمی کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے تا انجمن پھر کام کر سکے.تو درمیانی وقفے اس لئے ہوتے ہیں کہ آئندہ حملے کیلئے تیاری کی جائے اور جو قو میں اس وقفہ میں سو جاتی ہیں وہ آئندہ حملہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا نہیں کر سکتیں.عقلمند فوج رات کو اس فصیل کی مرمت میں لگ جاتی ہے جو دن کے وقت دشمن کے حملہ سے ٹوٹ چکی ہو اور کوشش کرتی ہے کہ اسے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کر دے.لیکن ی اگر یہ نہ ہو سکے تو رخنہ کو پُر کر دینے کی تو ضرور کوشش کرتی ہے.اگر ایسا نہ کرے تو دشمن اگلے روز حملہ کی کر کے اسے اور توڑ دے گا اور اسی طرح توڑتے توڑتے وہ قلعہ میں داخل ہو جائے گا.پس عقلمند فوج وہی ہے جو دن کولڑائی اور رات کو مرمت کرتی ہے.اسی طرح ان درمیانی وقفوں میں جماعتوں سے یہی امید کی جاتی ہے کہ گزشتہ رخنوں کو بند کریں اور آئندہ کیلئے زیادہ سے زیادہ قربانی کریں.مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور وزانہ دلائل سنائے جاتے ہیں، پھر بھی جب کبھی کوئی راحت اور آرام کی گھڑی آ جائے لوگ سونا چاہتے ہیں.میرے ان خطبات کو نکال کر دیکھ لو جو تحریک جدید کی سکیم کو بیان کرتے ہوئے میں نے دیئے تھے.میں نے ان میں بتایا تھا کہ یہ ابتلا چھوٹے اور معمولی ہیں ، ان کے بعد بڑے ابتلا آئیں گے.دیکھو اُس وقت کسے اس مصری، پیغامی ، احراری فتنہ کی خبر تھی.مگر اُسی طرح ہوا جس طرح میں نے کہا تھا.اب بھی پھر میں یہی کہتا ہوں کہ یہ فتنے بھی معمولی ہیں.ان سے بھی بڑے ابھی آنے والے ہیں اور جب تک وہ نہ آئیں قوم بن ہی نہیں سکتی.جب تک ایسی دلیری ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے کہ اپنی جان دینا اور
خطبات محمود ۴۶۸ سال ۱۹۳۷ء اپنے مال اور وطن کو قربان کر دینا ہمارے لئے آسان ہو جائے اُس وقت تک یہ دور برابر آتے رہیں گے.اب تو یہ حالت ہے کہ معمولی چوٹ پر بھی ہم میں سے بعض رونے لگتے ہیں.یا د رکھو کہ جب تک زندگی اور موت ، غنا اور فقر ہنگی اور آسائش ہمارے لئے یکساں نہ ہوں جب تک ہمارے دن بھی راتیں اور راتیں بھی دن نہ ہو جا ئیں اُس وقت تک ہم اس آخری لڑائی کیلئے تیار نہیں ہو سکتے جو اسلام اور شیطان کے مائین مقدر ہے.اور ابھی تو ہم نفس کی لڑائی سے بھی فارغ نہیں ہوئے.تحریک جدید کے شروع میں ہی میں نے نصیحت کی تھی کہ ہمیں صداقت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہئے.مگر تم اپنے دلوں میں سوچو کہ کیا تم سچ بولتے ہو اور ہمیشہ سچ بولتے ہو.جب تک جماعت کی اکثریت ایسی نہ ہو جو سچ بولے اور ہر حالت میں سچ بولے اُس وقت تک ہم اس جنگ میں کامیاب نہیں کی ہو سکتے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے سچائی دے کر کھڑا کیا ہے.قرآن کریم کا نام بھی حق ہے اور اصل جہاد بھی وہی ہے جو قرآن کریم کو لے کر کیا جائے.جیسا کہ فرمایا وَجَاهِدُ هُمُ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًات اور اصل جہاد اسی کا ہے جو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر لڑتا ہے.بدر و حنین کی لڑائیاں معمولی تھیں.اصل لڑائی وہی تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تلوار سے کی اور قرآن کریم نام ہے سچائی کا.جب تک تم اپنے نفسوں میں، اپنے بیوی کی بچوں میں ، اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں، اپنے بھائیوں اور بہنوں میں اپنے محلہ والوں میں اور اپنے ہمسایوں میں اپنے شاگردوں میں اور اپنے اپنے حلقہ کی جماعتوں میں سچائی کو قائم نہیں کر لیتے اُس وقت تک تم اس لڑائی کیلئے تیار نہیں ہو سکتے اور جب بھی مقابلہ ہوگا تم شکست کھاؤ گے.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اسے ظاہر نہ ہونے دیا.میں نے دیکھا ہے ذراسی بات ہو تو بعض نادان کہنے لگا جاتے ہیں کہ آجکل سچ سے گزارہ نہیں ہوتا ، جھوٹ بول دو اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ تلقین کرتے ہوئے وہ نہ صرف اس شخص کو ہی بلکہ جماعت کو بھی ساتھ ہی قتل کر رہے ہیں.وہ شکایت کرتے ہیں کہ ی احراری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں.مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ تو گالیاں دیتے ہیں مگر یہ لوگ آپ کی تعلیم میں رخنہ ڈال کر آپ کے قتل کے مرتکب ہورہے ہیں.جو شخص اس چیز کو مٹاتا ہے جسے قائم کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے وہ آپ کو قتل نہیں کرتا تو کیا کرتا ہے.حالانکہ وہ اپنے آپ کو سچائی پر قائم بتاتا ہے اور احمدیت کی فوج میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.غیر تو تی
خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۳۷ء اس واسطے آپ پر حملہ کرتا ہے کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتا ہے لیکن یہ دوستی کا دم بھرتا ہوا آپ کے کا م کو تباہ کرتا ہے.اس نے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا کہ آپ کی لائی ہوئی صداقتوں کو دنیا میں قائم کرنے میں مدد دے گا.لیکن جب پہلا ہی موقع ملا یہ اسی دیوار کو گرانے کیلئے کھڑا ہو گیا جو آپ نے تعمیر کی تھی.پس اچھی طرح یا درکھو کہ احمدیت کی فتح سچائی سے ہوگی.جب تک تم سچائی پر اس طرح قائم نہ کی ہو جاؤ کہ کسی بات کے متعلق محض اس وجہ سے کہ وہ ایک احمدی نے کہی ہے قسم کھا سکو کہ سچ ہے اُس وقت تک تمہاری فتح نہیں ہو سکتی.یہ کافی نہیں کہ جب میں جگاؤں تم ہوشیار ہو جاؤ اور کچھ عرصہ بعد پھر سو جاؤ.اس طرح تو ایک افیونی بھی کر لیتا ہے.وہ بھی کسی نہ کسی وقت ہوشیار ہو جاتا ہے.تمہیں چاہئے کہ سچائی پر اس طرح قائم ہو جاؤ کہ کسی کے جگانے کی ضرورت ہی نہ رہے.میں نے بتایا تھا کہ ہمیں عقائد کے میدان میں جس طرح فتح حاصل ہو چکی ہے اس طرح اعمال کے میدان میں نہیں ہوئی.ہمارے اعمال کو دیکھ کر لوگ اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنا عقائد سے متاثر ہوتے ہیں.وفات مسیح کے دلائل سن کر لوگ کہ دیتے ہیں کہ اس کا ہمارے پاس جواب نہیں.لیکن جب ہم اُن کو سچائی کی طرف بلاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر تم بھی پوری طرح قائم نہیں ہو.قرآن کریم کے کامل ہونے کے جب دلائل دیتے ہیں تو ی کہتے ہیں کہ اس کا جواب کوئی نہیں.لیکن جب امانت کا سبق دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر ابھی تم کی بھی قائم نہیں ہو.عقائد کے میدان میں ہم نے دشمن کو مار دیا ہے مگر جہاں عمل کا سوال ہو ہم میں ؎ بعض کمزوریوں سے وہ فائدہ اُٹھاتا ہے.اگر جماعت کے دوست پختہ عہد کریں کریں جس طرح زبان دانتوں میں لے کر انسان تکلیف برداشت کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ ہم استقلال پر قائم ہوں گے ، سچائی پر قائم ہوں گے ( دراصل سچائی پر قائم رہنے کا نام ہی استقلال ہے ) تو عمل کے میدان میں بھی ہم اسی طرح غلبہ حاصل کر سکتے ہیں جس طرح عقائد کے میدان میں کیا ہے.صرف عہد کی ضرورت ہے.ہمیں صداقت پر اس طرح قائم ہونے کا عہد کرنا چاہئے کہ دشمن بھی محسوس کریں کہ ایک احمدی کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے.اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے نمونے ہیں کہ باہم لڑائی کے موقع پر دشمن کہہ دیتا ہے کہ جو بات فلاں احمدی کہے گا ہم مان لیں گے مگر ایسے نمونے کم ہیں.بہتوں کا چال چلن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے اور بعض اپنے جھوٹ سے لوگوں کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کیلئے ابتلا کا موجب بن رہے ہیں یا ابتلا کا موجب بنے کیلئے وہ تیار رہتے ہیں.گو ابھی تک ان کا گند ظاہر نہ ہوا ہو.دین کیلئے قربانیوں میں میں دیکھتا ہوں کہ بہت سستی ہے.کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے ساتھ نمازوں کی پابندی کی ہدایت کی تھی.باہر کا تو مجھے علم نہیں لیکن قادیان میں اس خطبہ کا دو چار ماہ تک اچھا اثر رہا مگر بعد میں پھر زائل ہو گیا.حالانکہ نماز تو ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر خلافت بھی باقی نہ رہے تب بھی اس کی پابندی لازمی ہے.آدمی جنگل میں ہوتب بھی اسے نہیں چھوڑا جاسکتا اور سمندر میں ہو تب بھی نہیں.یہ مستقل ہدایت ہے جسے کسی جگہ بھی چھوڑنے کی اجازت نہیں.پھر میں نے سچائی کی ہدایت کی تھی.اس کا بھی کچھ عرصہ خیال رہا.دوستوں نے ایک دوسرے کی نگرانی شروع کی ، ایک دوسرے کو سنبھالنے لگے مگر کچھ عرصہ کے بعد بھول گئے.اسی طرح تحریک جدید کے وعدے ہیں.گزشتہ دنوں الفضل“ کو ایک مستقل نوٹ لکھ کر دے دیا تھا کہ شائع ہوتا رہے.اس کے نتیجہ میں پندرہ روز تک تو آمد قریباً دگنی ہوگئی لیکن پھر سستی پیدا ہونے لگی.حالانکہ تحریک جدید کوئی پہلی دفعہ نہ ہوئی تھی یا اس میں چندوں کے وعدے جبر نہ لئے گئے تھے.دوستوں نے اپنی مرضی سے وعدے کئے تھے.پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ ادا کرنے کیلئے میری طرف سے یاددہانیوں کے منتظر رہیں.اسی طرح ناظر صاحب بیت المال نے مجھے کہا کہ چندہ جلسہ سالانہ کیلئے تحریک کر دوں.مگر میں کہتا ہوں کہ اس تحریک کی ضرورت ہی کیوں سمجھی جاتی ہے.کیا جلسہ پہلی دفعہ آیا ہے؟ یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کیا ہوا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک حصہ جماعت کا اس امر کا محتاج ہے کہ میں کہوں تو وہ اس کیلئے چندہ دیں.کیا وہ خدا کے حضور پیش ہونے والے نہیں ؟ پھر کیوں وہ وعدے کر کے پورے نہیں کرتے اور کیوں اس تحریک میں بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے سالہا سال سے قائم ہے میری تحریک کی ضرورت سمجھتے ہیں.یہ عدم استقلال کا ثبوت ہے.اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو و اپنے اندر استقلال پیدا کرو.سچائی پیدا کرو اور امانت پیدا کرو.پھر دیکھو دشمن تم سے کس طرح خوف کھاتا ہے.دشمن ہمیشہ دو چیزوں سے ڈرتا ہے.یا طاقت سے اور یا پھر اعلیٰ درجہ کی نیکی سے.جب کوئی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء قوم کسی بات پر ہٹ کر کے قائم ہو جاتی ہے تو لوگ اس سے ڈرنے لگتے ہیں.ابھی دیکھ لولا ہور میں مدیح کی کی تعمیر کا سوال تھا.گورنمنٹ نے پچاس لاکھ روپیہ کا نقصان اُٹھا کر اس کی تعمیر روک دی ہے.حالانکہ اگر ہندو ،سکھ ،مسلمان ، عیسائی سب مل کر ایک وفد حکومت کے پاس لے جائیں کہ ہماری کسی یو نیورسٹی کو پچاس لاکھ کی امداد دی جائے تو حکومت کبھی اس بات کو تسلیم نہ کرے گی.پہلے اس مذی کی تعمیر کور کو انے کیلئے جب ہندوؤں نے کوشش کی تو انگریزوں نے یہی جواب دیا کہ اس میں تمہارا فائدہ ہے نقصان نہیں.مگر انہوں نے کہا کہ ہمیں اس فائدہ کی ضرورت نہیں اور اس کے خلاف ایجی ٹیشن کیلئے زبردست تیاریاں شروع کر دیں.حتی کہ ایسے ایسے ہندو جو حکومت کے وزراء رہ چکے ہیں انہوں نے بھی اپنے نام کی جتھوں میں جانے کیلئے پیش کر دئیے.تو وائسرائے نے چپکے سے اعلان کر دیا کہ چونکہ اس سے ہندوؤں کی دل آزاری ہوتی ہے ہم اس سکیم کو واپس لیتے ہیں.یہ استقلال کا نتیجہ تھا اور اسی کی بدولت ہندوؤں کو یہ فتح حاصل ہوئی.ایسا اعلان کیوں نہ وائسرائے نے پہلے ہی دن کر دیا.کیا پہلے انہیں علم نہ تھا کہ اس سے ہندوؤں کی دلآزاری ہوگی.جو شخص یہ کہتا ہے کہ انہیں پہلے علم نہ تھا وہ غلط کہتا ہے، یقیناً انہیں اس کا علم تھا.ہاں یہ علم انہیں پہلے نہ تھا کہ ہندو اس مدیح کا مقابلہ کرنے کیلئے اس طرح لڑنے مرنے کو تیار ہی ہو جائیں گے.پس جو قوم استقلال کے ساتھ کھڑی ہو جائے اُس سے سب ڈرتے ہیں اور جب کوئی قوم صداقت پر قائم ہو جائے تو لوگ اس کی طرف رغبت کرتے ہیں.مجھے تو غیرت آتی ہے کہ ہندو ایک جانور کیلئے اور ایسے جانور کیلئے جسے وہ مارتے کو ٹتے بھی ہیں، اُس کا دودھ بھی دوہتے ہیں ، ان میں سے بعض اس کے چمڑے کی تجارت بھی کرتے ہیں ، وہ قربانی کرتے ہیں جو ہم میں سے بعض خدا اور رسول کیلئے نہیں کرتے.ہندو گائے کیلئے کھڑے ہوئے اور استقلال کے ساتھ کھڑے ہوئے تو حکومت نے اپنا پچاس لاکھ کا نقصان کر کے ان کی بات کو مان لیا.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم خدا اور اس کے رسول کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو لوگ تم کو فنا کر دیں گے.یاد رکھو کہ جو مرنے کیلئے تیار ہو جائے اُسے کوئی نہیں ماری سکتا.لوگ بھی اُسی پر زور ڈالتے ہیں جس کا اپنا دل ڈرتا ہو.اگر تم استقلال کے ساتھ اسلام کی اشاعت میں لگ جاؤ اور اس کام میں کوئی سستی اور غفلت نہ کرو تو کوئی نہیں جو تمہارے مقابل پر کھڑا ہو سکے.بلکہ ہر دشمن خود تم سے مرعوب ہوگا اور تمہاری طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے والے کا دل خود بخود کانپنے لگے گا اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء سوس کرنے لگے گا کہ ان کو میں موت سے کیا ڈراؤں یہ تو خدا کی راہ میں پہلے ہی مر چکے ہیں.(الفضل یکم اکتو بر ۱۹۳۷ء) وجعلنا نو مكم سبانا (النباء : ١٠) الفرقان: ۵۳
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء حمدیوں کے اعمال اور اقوال دُنیا سے نرالے ہونے چاہئیں (فرموده یکم اکتوبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میرا منشاء ایک خاص مضمون بیان کرنے کا تھا مگر چونکہ میں کچھ دنوں کیلئے باہر جارہا ہوں میں نے سمجھا کہ ایسے اہم معاملہ کو ایسے ہی وقت میں بیان کرنا چاہئے جبکہ بعد میں آنے والے خطبات میں اگر ضرورت ہو تو اس کی مزید تشریح کی جا سکے.اس لئے میں اُس مضمون کو اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کی مشیت اس کا وقت لے آئے ، چھوڑتا ہوں.اور آج جماعت کو مختصر الفاظ میں اس امر کی طرف توجہ کی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے جس کی خواہش اور امید کروڑوں کروڑ آدمی جو ہم سے کم محبت رسول نہیں رکھتے تھے یا ہم سے کم خشیت اللہ ان کے دلوں میں نہ تھی ، کرتے ہوئے گزر گئے.چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی انسان کے قلب میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیتی ہیں تو بڑی بڑی خواہشات کے عدم حصول پر جذبات کی جو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں یا جیسے جیسے رنج اور دکھ انسان کو اُٹھانے پڑتے ہیں اُن کا اندازاہ لگانا کوئی آسان کام نہیں.یہ وہ زمانہ ہے جس کے متعلق گزشتہ انبیاء لوگوں کے دلوں میں اُمید میں پیدا کرتے چلے گئے ہیں.حضرت نوح آئے اور انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو عظیم الشان نشانات دکھائے ، انسانی ایمان کو تازہ کر دینے والے معجزات دکھائے ، الہی فضلوں کا مشاہدہ کرایا، ان کے ایمانوں کو تازگی بخشی اور انہیں محبت الہی کا ایسا درس دیا کہ ان کے دل خوشی اور اطمینان سے لبریز ہو گئے.اور اپنے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی دنیا عام
خطبات محمود ۴۷۴ سال ۱۹۳۷ء لوگوں کی دنیا سے علیحدہ ہوگئی اور لوگوں نے یوں محسوس کیا جیسے انہیں آگ سے نکال کر ایک ٹھنڈے کمرے میں پہنچا دیا گیا ہے یا بے آب و گیاہ جنگل سے اُٹھا کر ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے باغ میں بٹھا دیا گیا ہے.مگر جب وہ لوگ خوش ہوئے اور ان کے دلوں میں شکر کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے کہا ہم کتنی بڑی راحت میں ہیں اور خدا نے ہم سے کیسا اچھا کام لیا تو نوع نے اُن سے کہا ابھی ایک اور زمانہ آنے والا ہے اور ایک ایسی جنگ ہونے والی ہے جو اِس جنگ سے بہت زیادہ خطر ناک اور مہیب ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے انعامات بھی نازل ہونے والے ہیں جو تمہارے ان انعامات سے بہت بڑھ کر ہیں.اس طرح حضرت نوح نے اپنی قوم کے دلوں میں اس آخری زمانہ کے دیکھنے کی خواہش پیدا کر دی.جو بہادر تھے اُن کے دلوں میں اس لحاظ سے کہ کاش ! اس جنگ میں انہیں بھی لڑنے کا موقع ملے اور جو نسبتا کمزور تھے اُن کے دلوں میں اس لحاظ سے کہ کاش! ان نعمتوں اور فضلوں کے دیکھنے کا کی جو اس روحانی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے ہیں انہیں بھی موقع میسر آئے.اور کی وہ اس کی حمد اور ستائش کے گیت گائیں.یہی کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ، یہی کچھ حضرت موسیٰ نے کہا ، یہی کچھ حضرت عیسی نے کہا اور پھر ان کے بعد جب آنحضرت ﷺ کا زمانہ آیا ، وہ موعود زمانہ جس کیلئے دنیا کی پیدائش ہوئی تھی اور اس انسان کو مبعوث کیا گیا جس انسان کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک یعنی اے محمد ﷺ ! اگر تو نہ ہوتا تو میں دنیا کو ہی پیدا نہ کرتا.تو اس وقت انسانی ترقیات کے کمال تک پہنچنے اور خدائی فضلوں کے انتہا تک پہنچنے کا زمانہ آ گیا.لوگ خوش ہوئے اور انسان نے مسرت سے جھوم کر کہا میں کس بلند معیار تک پہنچ گیا.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابھی ایک آخری زمانہ آنے والا ہے.میں نہیں جانتا میری اُمت کی ابتدا اچھی ہے یا انتہاء.غرض وہ اطمینان کا سانس جو انسان لے سکتا تھا اس اطمینان کا سانس لینے کے معا بعد ان کے دلوں میں رسول کریم ﷺ نے ایک نئی امید پیدا کر دی اور آپ نے فرمایا بے شک میرا زمانہ بہترین ہے مگر میری روحانی تربیت سے بعض اور لوگ بھی حصہ لینے والے ہیں اور ایک دفعہ پھر میں آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا ہوں.پھر روحانی طور پر میری ایک اور بعثت ہونے والی ہے.میں نہیں کہہ سکتا میری اُمت کی ابتدا اچھی ہے یا انتہاء.جب آپ نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا میری اُمت کی ابتدا اچھی ہے یا تی انتہاء تو لوگوں کے دلوں میں خواہش پیدا ہو گئی اور انہوں نے چاہا کہ کاش! ہم بھی وہ زمانہ دیکھیں.غرض
خطبات محمود ۴۷۵ سال ۱۹۳۷ء ہر نبی نے اس زمانہ کی خبر دی اور ہر امت نے اس کو دیکھنے کی خواہش کی.مگر اس زمانہ کو دیکھنے کا موقع کس کو ملا.تمہارے اور میرے جیسے کمز ور لوگوں کو.خواجہ مظہر جان جاناں ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ایک شاگرد بھی جو انہیں بہت پیارے تھے اور وہ خود بھی بڑے عارف تھے، ان کے پاس موجود تھے کہ کوئی شخص بالائی کے لڈولا یا اور اس نے وہ لڈو تحفہ کے طور پر آپ کے سامنے پیش کر دئیے ( دہلی کے بالائی کے لڈو خاص مشہور ہیں ) انہوں نے ان لڈوؤں میں سے دولڑو اٹھا کر اس شاگرد اور خلیفہ کو دے دیئے.دو چار منٹ گزرے تو آپ نے نگاہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا میاں! تمہارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں.میں نے تو تمہیں لڈو دیئے تھے.وہ کہنے لگا حضور ! وہ تو میں نے اسے کھالئے.کہنے لگا کیا دونوں کھالئے ؟ وہ کہنے ؟ لگا حضور لڈو بھی کوئی چیز ہوتے ہیں وہ تو ایک دفعہ ہی میں نے منہ میں ڈال لئے.خواجہ مظہر جان جاناں صاحب ایک جذبہ کی حالت میں چلے گئے اور بار بار یہ فقرہ دہرانے لگے میاں ! تمہیں لڈو کھانے بھی نہیں آتے.یہ دیکھ کر شا گرد کے دل میں کچھ ندامت اور شرمندگی پیدا ہوئی اور اس نے کہا حضور! پھر آپ ہی بتائیے کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں.آپ نے فرمایا اچھا پھر کبھی لڈو آئے تو تمہیں بتا ئیں گے.چند دن گزرے تھے کہ پھر کوئی شخص تحفہ کے طور پر آپ کے پاس بالائی کے لڈو لایا.وہ شاگر د پاس ہی کی بیٹھا تھا کہنے لگا حضور ! اب بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں.آپ نے جیب سے ایک رومال نکالا اور اُسے بچھا کر اُس پر ایک لڈور کھ دیا اور اپنے اس شاگرد کو دیکھ کر فرمایا کیا تم سمجھتے ہو یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے.یا درکھو یہ چھوٹی چیز نہیں بلکہ بہت بڑی چیز ہے.ذرا غور تو کرو اس لڈو کے بنانے میں کیا کیا چیزیں خرچ آتی ہیں.کچھ گھی لگتا ہے، کچھ بالائی لگتی ہے، کچھ میٹھا لگتا ہے، کچھ میدہ خرچ ہوتا ہے.پھر کچ فرمایا تو ان چیزوں کو ذرا آگے تو پھیلاؤ اور اگر سب کو نہیں تو خالی میدے کو ہی لے لو، کتنی محنتوں اور کی مشقتوں کے بعد وہ تیار ہوا ہے.تم جانتے ہو کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر زمیندار اپنے کھیتوں کو گئے.بیمار بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر اور بعض دفعہ خطرناک امراض میں مبتلا بیویوں کو چھوڑ کر آدھی رات کے وقت انہوں نے اپنے اپنے بل اٹھائے اور کھیتوں کو چل دیئے.ننگے پاؤں پتھروں اور روڑوں پر سے گزرتے ہوئے ایسی حالت میں کہ انہیں سانپوں کے ڈسنے کا خطرہ تھا اور بچھو کی نیش زنی کا ڈر.مگر وہ والہانہ انداز میں گئے اور انہوں نے ہل چلانا شروع کر دیا.پھر فرمانے لگے آخر انہوں نے یہ کیوں کیا اور کیوں یہ تمام کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء صعوبتیں اور تکالیف برداشت کیں ؟ صرف اس لئے کہ ایک دن مظہر جان جاناں لڈو کھا کر اپنا منہ میٹھا کرے.اتنا ہی کہا تھا کہ وہ سُبْحَانَ اللهِ، سُبْحَانَ اللهِ کہتے ہوئے اپنے خیالات میں محو ہو گئے اور دیر تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتے رہے.پھر فرمانے لگے چھ مہینہ تک اس زمیندار نے رات اور دن کی کی تکلیف اٹھا کر غلہ پیدا کیا.پھر اس کو تاجر نے خریدا.پھر اس کو چکیوں میں پیسا گیا.سینکڑوں نہیں ہے ہزاروں آدمی اس کام میں لگے اور انہوں نے میدہ تیار کیا.مگر کام یہاں سے بھی شروع نہیں ہوا.اس کی سے بھی پہلے ہل کیلئے لوہے کی ضرورت تھی.اس لوہے کو لوہار نے کس طرح تپتی ہوئی گرمیوں کے موسم میں بھٹی کے پاس بیٹھ کر تیار کیا.مگر اس لوہار نے بھی صرف لوہے کا آلہ بنا یا لوہے کو کانوں سے نکالا نہیں بلکہ اس کیلئے دُور دراز ملکوں میں ہزاروں لوگ تھے جو کانوں میں کام کر رہے تھے.جنہوں نے اپنی کی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر اور تہہ خانوں میں دن رات کام کر کے لوہا نکالا.پھر بیسیوں خچروں پر وہ لدلدا کر ہمارے ملک میں پہنچا.یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھا لے.غرض اس مضمون کو جو اگر وسیع کر کے الگ بیان کیا جائے تو کئی دن لگ جائیں ، بیان کرتے چلے گئے اور درمیان میں محبت الہی کا جذبہ ترقی کر جاتا تو سُبحَانَ اللهِ، سُبْحَانَ اللهِ کہنے لگ جاتے.اسی کے بعد آپ نے لڈو میں سے ایک ذرا سا ٹکڑہ توڑا اور اسے اپنے منہ میں ڈالا کہ اتنے میں مؤذن پہنچ گیا ہے اور اُس نے عرض کیا کہ عصر کی نماز کو دیر ہورہی ہے.چنانچہ آپ اُسی وقت کھڑے ہو گئے اور وہ لڈو و ہیں دھرے کا دھرا رہ گیا.تو ایک عارف اور حقیقی علم رکھنے والا لڈو کی بھی کیسی قدر کرتا ہے.اس لڈو کی جس کی دنیا کی نگاہ میں کوئی قدر نہیں.اچھے سے اچھا لڈو آنہ دو آنے کو آجائے گا.ایک چھوٹا بچہ جس کا وجود دنیا میں کسی فائدہ کا نہیں ہوتا ، اُس کو خوش کرنے کیلئے بعض دفعہ تم دو دو تین تین آنے کے لڈو کھلا دیتے ہو.ایک فاسق و فاجر انسان جس کی نہ دین میں عزت ہے نہ دنیا میں ، اپنے منہ کے چسکے کیلئے دس دس لڈو کھا جاتا ہے.پس وہ لڈو کیا چیز ہے جسے اتنی حقیر چیزوں کیلئے قربان کر دیا جاتا ہے.لیکن خواجہ مظہر جان جاناں نے اسے ایک اور نگاہ سے دیکھا.انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ ایک لڈو ہے جو میرا منہ میٹھا کرے گا بلکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ کتنے آدمیوں نے اپنی جان کو اس لڈو کے تیار کرنے کیلئے ہلکان کیا اور اس لئے ہلکان کیا تا اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ لڈو کھائے.ہزاروں نہیں لاکھوں ، لاکھوں نہیں کروڑوں ، کروڑوں نہیں ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اربوں بلکہ اس سے بھی زیادہ سالوں سے خدا تعالیٰ کے ان گنت فرشتے دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی جی تیاری میں لگے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ کے وہ زبردست آئین جن میں سے ایک چھوٹے سے چھوٹے قانون کے مقابلہ میں بھی دنیا کی تمام پارلیمنٹوں کے آئین بالکل ذلیل اور بیچ ہیں ، انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.دنیا کی پارلیمنٹوں میں سے کسی ایک پارلیمنٹ کا بھی کوئی قانون ایسا نہیں جو دوسو سال تک یکساں چل سکے.مگر خدا تعالیٰ کا ایک قانون بھی ایسا نہیں جو کروڑوں نہیں ، اربوں سالوں میں ایک دفعہ بھی بدلا ہو.وہ خود فرماتا ہے لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا - وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تحويلا سے دنیوی گورنمٹیں جنہیں اپنی طاقت پر ناز ہوتا ہے ، جنہیں اپنی قوتوں پر فخر ہوتا ہے ، وہ کہتی ہیں کی فلاں جگہ چھاؤنی قائم کی جائے.وہاں چھاؤنی بن جاتی ہے لیکن ابھی سو سال نہیں گزرتے کہ وہاں سے چھاؤنی بدل کر کسی اور جگہ چلی جاتی ہے.لیکن خدا نے کہا ہماری گرمی کا مرکز سورج میں ہے.اس پر کروڑوں نہیں اربوں سال گزر گئے.ایک کروڑ کے بعد دوسرا کروڑ اور دوسرے کے بعد تیسرا کروڑ آیا.ایک لاکھ کے بعد دوسرا لاکھ اور دوسرے کے بعد تیسرا لاکھ آیا.ایک ہزار کے بعد دوسرا ہزار آیا اور دوسرے کے بعد تیسرا ہزار آیا.ایک دن کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا دن آیا.ایک گھنٹہ کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا گھنٹہ آیا.غرض زمانہ گزرا اور گزرتا چلا جاتا ہے مگر قانون وہی ہے.دن آتا ہے اور پھر رات آتی ہے.رات گزرتی ہے تو دن آجاتا ہے اور گرمی کا مرکز ہمیشہ سورج ہی رہتا ہے.یہ چھاؤنی نہیں بدلتی.پھر خدا نے کہا ہوا ئیں فلاں جگہ سے اٹھیں اور ہندوستان پر اپنا پانی برسا ئیں.اس قانون پر لاکھوں سال گزر گئے.ہمارے باپ دادوں کے زمانہ میں بھی یہی قانون تھا ، ان کے باپ دادوں کے زمانہ میں بھی یہی قانون تھا.جن دنوں اسلامی حکومت تھی اُن دنوں میں بھی یہی قانون تھا.جب ہندوؤں کا غلبہ تھا اُس وقت بھی یہی قانون تھا اور ان سے جب ڈریوڈین (DRAVIDIAN) لوگوں کا زور ہندوستان میں تھا اُن دنوں بھی یہی قانون تھا اور اب تک بھی وہیں سے ہوائیں اُٹھتیں اور ہندوستان میں بارش برسا دیتی ہیں.خدا نے کہا آگ جلائے.اب ساری دنیا میں قانون بدلتے رہتے ہیں ، حکومتیں بدلتی ہیں، فلسفے کے اصول بدلتے ہیں، تہذیب بدلتی ہے، تمدن بدلتا ہے مگر خدا کا قانون نہیں بدلتا آگ ہمیشہ جلاتی ہی ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ اس نے کسی کی پیاس بجھا دی ہو.پھر خدا نے کہا پانی پیاس بجھائے.نتیجہ یہ ہے کہ پانی پیاسی
خطبات محمود CLA سال ۱۹۳۷ء ہی بجھاتا ہے ، آگ نہیں جلاتا.تو خدا تعالیٰ کا ایک چھوٹے سے چھوٹا قانون بھی دنیا کی تمام پارلیمنٹوں کے بڑے سے بڑے قوانین کے مقابلہ میں بڑا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے ایسے تمام قوانین خواہ وہ چھوٹے ہیں یا بڑے اربوں ارب سالوں سے ایک حقیر انسان کی خدمت کیلئے لگا رکھے ہیں.مگر انسانوں میں سے ہزاروں نہیں کی لاکھوں ، لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ ہر لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو صد ننانوے انسان ایسے ہیں کہ جب سورج ڈوبتا ہے اور شام آتی ہے تو کبھی وہ نظر اُٹھا کر بھی اوپر نہیں دیکھتے کہ اُن کے سروں پر کیا ہے.زیادہ سے زیادہ رمضان کے مہینہ میں یا عید کے موقع پر کسی نے چاند دیکھ لیا تو دیکھ لیا اور ستاروں کی طرف تو کسی کی توجہ ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو قریب کے ستاروں کی طرف.مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ ستارے جو اس کے سر پر کھڑے آنکھیں جھپک رہے ہیں ، دنیا کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہیں.اسے یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہ خدائی پہرہ دار ہیں جو اس کی حفاظت کیلئے مقرر ہیں.ان اربوں ارب ستاروں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی روشنی انسان کی زندگی کے کی کام نہ آرہی ہو.کوئی انسانی اخلاق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، کوئی صحت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ، کوئی غذا کی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ، کوئی دنیا کے ذرات کو جوڑنے کا کام کر رہا ہے ، کوئی پانی برسا رہا ہے، کوئی ہوائی چلا رہا ہے اور اسی طرح تمام ستارے اپنے اپنے کام میں خاموشی سے مصروف ہیں.مگر انسان کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ اس کیلئے خدا نے کتنے عظیم الشان سیارے اور ستارے اور سورج اور چاند کام کیلئے لگا رکھے ہیں.یہ جب بازار میں سے گزرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ دو چار سو آدمی اکٹھے شور مچارہے ہیں تو حیرت سے کھڑا ہو جاتا ہے اور حیرت سے پوچھتا ہے کہ کیا بات ہے؟ وہ سو دو سو آدمی تو اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں لیکن یہ کروڑوں کروڑ ستارے جو دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہیں، رات دن کام کر رہے ہیں اور ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اس کی توجہ کو اپنی طرف نہیں پھراتے.پھر یہ ایک دو آدمی کو معمولی طور پر دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو فوراً تجس کی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگتا ہے.لیکن بعض سیارے اس کی خدمت میں ہزاروں لاکھوں میل کی رفتار سے دوڑ رہے ہیں مگر یہ آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کہ کیا ہورہا ہے.اسی لئے کہ خدا کا قانون خاموشی سے یہ سب کچھ کر رہا ہے اور ایسی طرز پر کام کی ہو رہا ہے کہ انسان کو یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کے فائدہ کیلئے اس قدر دوڑ دھوپ ہورہی.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اور اگر کبھی نگاہ اُٹھاتا بھی ہے تو کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میرے جیسی حقیر چیز کیلئے خدا نے کیا کیا سامان پیدا کر دیئے.غرض وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ان چیزوں پر جو محض اس کے فائدہ کیلئے معرضِ وجود میں آئی ہیں نگاہ بھی نہیں ڈالتا.اور ان تغیرات کی قیمت کو سمجھتا ہی نہیں جو اس کیلئے پیدا کئے جارہے ہیں.ہاں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قدر و قیمت کو خوب سمجھتا ہے.وہ ایک دھیلے کی قیمت سمجھتا ہے، وہ ایک پیسہ کی کی قیمت سمجھتا ہے ، وہ ایک روپیہ کی قیمت بہت زیادہ سمجھتا ہے مگر وہ سورج اور چاند اور سیاروں اور ستاروں اور ان کروڑوں چمکنے والی ہستیوں کی جو اس پر نیک یا بداثر ڈال رہی ہیں کوئی ہستی نہیں سمجھتا.مگر خواہ کی انسان ان چیزوں کی قیمت سمجھے یا نہ سمجھے اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ انسانی زندگی کے قیام کیلئے ہے.پھر ایسے انسانوں کی زندگی کے قیام کیلئے بھی ہے جو خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے ، اس کے نبیوں کا انکار کرتے اور اس کے کلام اور نشانات پر ہنسی اُڑاتے ہیں.پس اگر یہ سارے کا سارا عالم ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کی خدمت میں لگا ہوا ہے تو پھر کیا کہنا ہے اس انسان کا جس کے متعلق خدا نے یہ کہا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک اور پھر کیا کہنا اس انسان کا جن کے متعلق و لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کا مصداق یہ الفاظ کہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میری اُمت کی ابتداء وه اچھی ہے یا انتہاء.غرض یہ مبارک زمانہ ہم کو ملا مگر ہم میں سے بہت لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ کیا انہوں نے خدا کے مسیح کی اتنی بھی قدر کی جتنی مظہر جان جاناں نے ایک لڈو کی کی تھی.دلی کا بنا ہوا بالائی کا لڈو حضرت ی مظہر جان جاناں کے سامنے آیا.وہ خدا کا ایک عارف بندہ تھا اُس نے لڈو کو جو نہی دیکھا لڈو نے اُس کی ساری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیا اور دنیا وَمَافِیهَا کو اس کے ذہن سے اُتار دیا کیونکہ اس لڈو میں اسے جی خدا کا جلوہ دکھائی دیا.اس نے سارالڈو نہیں کھایا بلکہ لڈو کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا چکھا اور اس ٹکڑے میں پھر کی اسے خدا تعالیٰ کا جلال نظر آیا حتی کہ اس کے چکھنے پر اسے باقی تمام لڈو بھی بھول گیا.دنیا کو خدا از مین میں نظر نہیں آتا ، اسے خدا سورج چاند میں نظر نہیں آتا، اسے خدا سارے عالم میں بھی نظر نہیں آتا.مگر مظہر جان جاناں کو ایک لڈو میں نظر آ گیا اور چونکہ خدا کا جلوہ جب نظر آئے تو وہ ترقی کرتا ہے آخر وہ جلوہ انہیں لڈو کے اس ٹکڑا میں نظر آ گیا جو انہوں نے اپنے منہ میں ڈالا تھا اور خود لڈو بھی ان کی نظروں.اوجھل ہو گیا.مگر کیا ہماری جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قدر اس لڈو کے ایک ذره ای
خطبات محمود ۴۸۰ سال ۱۹۳۷ء کے برابر بھی سمجھتے ہیں؟ کتنے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک عظیم الشان تغیر ہے جس کو پیدا کرنے کیلئے مسیحی موعود د نیا میں آیا.کتنے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسیح موعود دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ لوگ آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ، بیعت کرتے اور یہ سمجھتے کہ معاملہ ختم ہو گیا.یہ رسمی چیز ایسی نہیں تھی جس کیلئے خدا کو اتنا عظیم الشان انسان بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوتی بلکہ خدا دنیا میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے.اتنا عظیم الشان تغییر کہ جسے دیکھ کر دشمن بھی یہ اقرار کرے کہ اس تغیر کیلئے جتنی بھی قربانی کی جاتی کم تھی.لوگ کہتے ہی ہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے پر ساری دنیا کا فر ہوگئی.مگر میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ یہ بات وہ اُس وقت تک کہتے ہیں جب تک ہم دنیا میں وہ تغیر پیدا نہیں کر دیتے جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا گیا تھا.اگر آج تم دنیا میں وہ تغیر پیدا کر دو، اگر آج تم دنیا میں وہ جنت پیدا کر و جس جنت کو پیدا کرنا خدا کا منشاء اور مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ہے تو میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہی شخص جو آج تم سے اس لئے لڑتا ہے کہ تم دنیا کو کا فرقرار دیتے ہو، تم سے دو قدم آگے بڑھے گا اور کہے گا کہ ایسے عظیم الشان تغیر کے پیدا کرنے میں جس کے نتیجہ میں دنیا کو جنت حاصل ہوئی جو لوگ حائل ہوتے ہیں وہ یقیناً کافر بلکہ کفر ہیں.پھر وہ لوگ جو تم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم ہمیں جہنمی کہتے ہو، اگر تم اِس جنت کو دنیا میں قائم کر دو تو وہی لوگ جو آج تم سے اس لئے دست وگریبان ہورہے ہیں کہ تم انہیں جہنمی کہتے ہو خود کہیں گے کہ جو لوگ اس جنت کے قائم کرنے میں حائل تھے وہ جہنمی ہی نہیں بلکہ جہنم سے بھی اگر کوئی نچلا درجہ ہو تو وہ اس میں گرائے جانے کے قابل ہیں کیونکہ وہ اس جنت مانی سے لوگوں کو محروم کرتے تھے.پس اگر لوگ انکار کرتے ہیں، لوگ اگر اعتراض کرتے ہیں، لوگ اگر جوش میں آتے ہیں، لوگ اگر بُرا مناتے ہیں تو محض اس لئے کہ ان کے سامنے ابھی وہ جنت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت نے دنیا میں پیدا کرنی ہے.ان کے سامنے کچھ دعوے ہیں، کچھ باتیں ہیں ، کچھ لاف زنیاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کیلئے کسی کو کا فرکہنا جائز نہیں ، ان باتوں کیلئے کسی کو جہنمی کہنا جائز نہیں.لیکن اگر تم یہ قیمتی چیز ان کے سامنے رکھ دو تو وہی لوگ جو اعتراض کر رہے ہیں کہیں گے بالکل ٹھیک ہے.جو شخص مسیح موعود کا انکار کرتا ہے وہ کافر بلکہ کفر ہے.اور جو ان کو نہیں مانتا وہ جسہمی ہی نہیں جہنم کے نچلے حصہ میں گرائے جانے کے قابل ہے.
خطبات محمود ۴۸۱ سال ۱۹۳۷ء دنیا میں ایک شخص گزرا ہے جس کا نام لوگوں نے اُس کی دیوانگی کی وجہ سے مجنوں رکھ دیا ہے.حالانکہ مجنوں اس کا نام نہیں تھا بلکہ اس کا نام قیس تھا.لیکن بوجہ اس کے کہ وہ عشق میں دیوانہ ہو گیا تھا لوگوں نے اس کا نام ہی مجنوں رکھ دیا.حالانکہ مجنوں کے معنے عربی میں پاگل کے ہیں اور لوگ مجنوں اسی کی طرح کہتے تھے جس طرح کہ ہندوستانی دیوانوں کو پاگل کہتے ہیں.اب اگر ہمارے ملک میں کوئی شخص لوگوں سے یہ کہے کہ پاگل کی یہ بات ہے، پاگل کی وہ بات ہے تو لوگ اس کی بات سن کر حیران ہوں گے اور کہیں گے کہ کونسے پاگل کی ؟ تم نام تو بتاتے نہیں.لیکن قیس کو ایک دنیا پاگل پاگل کہہ کر بلاتی ہے اور کسی کو حیرت نہیں ہوتی.ہر ایک فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ قیس کا ہی ذکر ہے.کیونکہ اس کے متعلق یہ لفظ اتنی کثرت سے استعمال ہوا کہ اب وہ اس کا علم بن گیا ہے اور اس کا نام قرار پا گیا ہے.غرض وہ ایک مجنون شخص تھا مگر دیکھو وہ مجنوں بھی اپنی بات میں کیسا ہو شیار تھا.کہتے ہیں مجنوں ایک جگہ بیٹھا ہوا ایک کتے کو گود میں لئے پیار کر رہا تھا کہ پاس سے کوئی شخص گزرا اور اُس نے کہا میں! یہ کیا دیوانگی کی حرکت کر رہے ہو! ( آجکل کے انگریزوں اور میموں کی سمجھ میں شاید یہ بات نہ آئے کہ کتے کو پیار کرنے پر اس سے حیرت سے کیوں سوال کیا کیونکہ وہ خود کتوں کو پیار کرنے کے عادی ہیں اور ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں.ان سے اگر کوئی کہے کہ کتے کو کیوں پیار کر رہے ہو تو وہ شاید اُلٹا معترض کو پاگل سمجھیں گے اور کہیں گے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا.لیکن بہر حال ایشیائی ایشیائی ہے اور مغربی مغربی.ایک ایشیائی جب بھی کسی ایسے شخص کو دیکھے گا جو کتے سے پیار کر رہا ہو وہ حیرت سے اسے دیکھے گا اور وہ اسے اس کام سے وکے گا.اس بناء پر اُس شخص نے جب مجنوں کو دیکھا کہ وہ ایک کتے کو پیار کر رہا ہے تو اُس نے کہا قیس ! یہ کیا پا گلا نہ حرکت کر رہے ہو ) قیس یہ اعتراض سن کر حیرت سے بولا کیا کر رہا ہوں ؟ اُس نے کہا تم ایک کتنے سے پیار کر رہے ہو.کہنے لگا کہتا؟ یہ تمہیں کتا نظر آتا ہو گا مگر مجھے تو یہ لیلیٰ کا کتا نظر آتا ہے.گویا قیس کی کو حیرت ہوئی کہ وہ شخص اس قدر بیوقوف ہے کہ اُسے کتے اور لیلی کے کتے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا.کتا بے شک ایک گندی چیز ہے مگر قیس کے نزدیک لیلی کا کتا بالکل اور چیز تھا وہ کسی صورت میں گندہ نہیں ہو سکتا تھا.تو جب کسی شخص سے کسی کو حقیقی عشق ہوتا ہے اسے اپنے معشوق کی ہر چیز پیاری نظر آنے لگ رو جاتی ہے.اب محمد اللہ بھی ایک انسان ہی تھے اور ویسے ہی انسان تھے جیسے مکہ کے اور بہت سے لوگ.
خطبات محمود ۴۸۲ سال ۱۹۳۷ء مگر کیوں ہمارا ذرہ ذرہ آپ پر فدا ہے اور کیوں ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کرنا انتہائی سعادت اور خوش بختی سمجھتے ہیں.اسی لئے کہ وہ لوگوں کو آدمی نظر آتے ہیں مگر ہمیں اللہ کے آدمی نظر آتے ہیں.آپ کے آدمی ہونے سے تو ہمیں بھی انکار نہیں.آپ خود فرماتے ہیں کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ سے میں تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں.مگر اس پر مزید بات یہ ہے کہ آپ ہمیں ” اللہ کے آدمی دکھائی دیتے ہیں.لوگ ہم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم ایک آدمی کے پیچھے چل رہے ہو مگر یہ درست نہیں.بھلا ہم کوئی ایسے پاگل ہیں کہ کسی آدمی کے پیچھے چلیں.ہم تو اللہ کے بندے کے پیچھے چل رہے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا محبوب ہے اس لئے اس محبوب میں جو بھی جذب ہو گیا وہ خالی بندہ نہ رہا بلکہ اللہ کا بندہ بن گیا اور اس لئے وہ ہمارا بھی محبوب اور معشوق قرار پا گیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے طواف کیلئے جاتے ہیں.راستہ میں کفار کا لشکر آپ کو اور صحابہ کو روک لیتا ہے.صنادید عرب ایک وفد لے کر آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ آپ کعبہ کا طواف کریں.اس سے ہمارے پر سٹیج PRESTIGE) میں فرق آتا ہے.اس پر صلح کی گفتگو شروع ہوگئی اور گفتگو ہوتے ہوتے نماز کا وقت آ گیا.رسول کریم ﷺ اٹھتے ہیں اور وضو کرتے ہیں مگر جب منہ میں پانی ڈال کر کلی پھینکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے کچھ اور بندے جو اپنی خوبیوں اور طاقتوں کے ذریعہ یہ ثابت کر چکے تھے کہ وہ دنیا کے عمود اور اس کی حفاظت کا ذریعہ ہیں، دیوانہ وار آگے بڑھتے ہیں اور وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے.کوئی اس پانی کو ہاتھوں میں مل لیتا ہے، کوئی منہ کو ملنے لگ جاتا ہے، کوئی سینہ پر مل لیتا ہے، کوئی پیٹھ پر ملنے لگ جاتا ہے." یہ دیکھ کر کفار کی نظر حیرت سے پھٹ جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں دیکھو یہ کتنے پاگل ہیں.یہ جو کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی ہدایت کیلئے کھڑے کئے گئے ہیں، ہم دنیا کی اصلاح کیلئے قائم کئے گئے ہیں ایک انسان کی تھوک کیلئے مرد ہے ہیں کون ہے جو انہیں مہذب کہہ سکے.بے شک ان کی نگاہ میں وہ تھوک تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ای تھوک ہی تھا مگر فرق یہ تھا کہ وہ کفار محمد ﷺ کی نسبت یہ سمجھتے تھے کہ یہ محمد ( ﷺ ) کا تھوک ہے اور صحابہ یہ سمجھ کر اُس تھوک کو اپنے ہاتھوں اور اپنے مونہوں پر ملتے تھے کہ یہ خدا کے بندے کا تھوک ہے.کوئی کہے خدا کے بندے کا تھوک بھی تھوک ہی ہے.مگر یہ بالکل جھوٹ ہے.کیا مکھی کی قے اور شہد کی مکھی کی قے ایک ہی جیسی ہوتی ہے؟ کیا تم ایک مکھی کی قے اپنے کپڑوں سے دھوتے نہیں اور کیا دوسری مکھی کی قے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء مزے سے چاہتے نہیں ؟ اگر کوئی شخص تم پر اعتراض کرے اور کہے کہ تم شہد کی مکھی کی قے کیوں چاہتے ہو تو تم اسے پاگل سمجھو گے اور اسے کہو گے بے شک یہ قے ہے مگر یہ شہد کی مکھی کی قے ہے عام مکھی کی نہیں.تم روزانہ دیکھتے ہو کہ ڈاکٹر تمہیں ہدایت دیتا ہے کہ تم اس قصاب سے گوشت خرید وجس کی دکان کے دروازوں میں جالی لگی ہوئی ہو اور کھیاں اُس کے گوشت پر نہ بیٹھتی ہوں.تم اس حلوائی سے مٹھائی خریدا کرو جس کی دُکان پر مکھیاں نہ بیٹھتی ہوں کیونکہ مکھی کے بیٹھنے کی وجہ سے چیزیں گندی ہو جاتی ہیں اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں.مگر دوسری طرف جب تم بیمار ہوتے ہو تو وہی ڈاکٹر آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں دوائی شہد میں ملا کر کھاؤ.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کل تو یہ ڈاکٹر یہ کہہ رہا تھا کہ مکھیوں کی غلاظت سے ہیضہ پھیلتا ہے اور آج یہ کہہ رہا ہے کہ مکھی کے قے کھاؤ تو شفاء ہوگی.اگر کوئی یہ اعتراض کرے تو اسے بیوقوف کہیں گے کیونکہ ہر شخص اُسے کہے گا کہ ہیضہ اور دوسری متعدی بیماریاں عام لکھیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں نہ کہ شہد کی مکھی کی وجہ سے.شہد جو شہد کی مکھی کا اُگال ہے اس سے تو نہ صرف یہ کہ کوئی بیماری پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ کئی بیماریوں کو دُور کرتا ہے.اگر ایک عام مکھی اور شہد کی مکھی میں فرق ہے ، اگر ایک مکھی سے ہیضہ پیدا ہوتا ہے تو دوسری مکھی کی قے سے شفاء حاصل ہوتی ہے تو کیا بندے اور خدا کے بندے میں کوئی فرق نہیں.کیا شہد خدا سے بڑا ہے کہ اس کی طرف منسوب ہو تو مکھی بدل جائے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر انسان عام انسانوں جیسا رہے.پس بے شک وہ تھوک تھوک ہی تھا مگر وہ ہی خدا کے بندے کا تھوک تھا اور ان دونوں تھوکوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.جس طرح شہد کی مکھی کے تھوک اور عام لکھی کے تھوک میں فرق ہے، اسی طرح ان تھوکوں میں فرق ہے.غرض محمد ﷺ کفار کی نگاہ میں ایک انسان تھے ، ویسے ہی انسان جیسے دنیا میں اور کروڑوں انسان ہیں مگر صحابہ کو آپ خدا کے بندے نظر آتے تھے.آج بھی دنیا کی نگاہ میں مسیح موعود صرف ایک انسان ہے اور لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ کی تم ایک آدمی کے پیچھے چل رہے ہو.ہم میں سے بھی کئی لوگ حضرت مسیح موعود کی نسبت سمجھتے ہیں کہ ایک نیک آدمی آیا اور گزر گیا اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک خدا کا بندہ آیا اور گزر گیا.جس طرح ایک آگ میں پڑا ہوا لو ہالو ہا نہیں رہتا بلکہ آگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور گوجنس کے لحاظ سے وہ لوہا ہی رہتا ہے مگر خواص کے لحاظ سے آگ بن جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندے اپنی جنس کے لحاظ سے انسان ہی رہتے
خطبات محمود ۴۸۴ سال ۱۹۳۷ء ہیں مگر اپنے کام کے لحاظ سے وہ خدا کی قدرتیں دکھاتے ہیں.جیسے پیتے ہوئے لو ہے اور گرم گرم انگارہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا.جو انگارہ کام کرتا ہے وہی لوہا کام کرتا ہے.جس طرح انگارہ جلاتا ہے اسی طرح لو ہا بھی جلاتا ہے.جس طرح انگارہ داغ دیتا ہے اسی طرح لوہا بھی اگر بدن سے چھو جائے تو وہ بدن کو جھلس دیتا ہے.جس طرح انگارہ روشنی دیتا ہے اسی طرح لوہا بھی روشنی دیتا ہے.غرض انگارے اور لو ہے میں کام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رہتا.صرف یہ فرق رہے گا کہ انگارا سارے کا سارا آگ بن جائے گا.مگر لو ہا اس وقت تک آگ رہے گا جب تک وہ آگ میں پڑا رہے گا.جب اسے آگ سے الگ کر لیا جائے گا تو وہ ٹھنڈا ہو جائے گا.مگر وہ لوگ جن کے متعلق خدا یہ فیصلہ کر دے کہ انہیں محبت الہی کی آگ سے کبھی نکالا نہیں جائے گا بلکہ وہ ہمیشہ اس آگ میں رہیں گے ، وہ صفات الہیہ سے ظلی طور پر متصف ہو جاتے ہیں اور ان کی انسانیت اس کی تجلیات کے نیچے ہمیشہ کیلئے قرار پکڑ لیتی ہے.غرض خدا تعالیٰ کی ہم پر یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ اُس نے اپنے مسیح کو ہم میں بھیجا اور اس کی شناخت کی ہمیں تو فیق دی اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں.میں بیرونی جماعتوں کو بھی مخاطب کرتا ہوں مگر خصوصیت سے میرے مخاطب قادیان کے لوگ ہیں.میں کہتا ہوں تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اخلاق ، اپنے افعال ، اپنے اقوال ، اپنی لڑائیوں ، اپنے جھگڑوں ، اپنی صلحوں اور اپنی صفائیوں یہ کی ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھو کہ تم نے خدا کے ایک بندے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہوا ہے.جس طرح آگ میں پڑا ہوا لو ہالو ہ نہیں رہتا بلکہ آگ بن جاتا ہے.اسی طرح تم بھی اب خدا کے ایک بندے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کوئی اور چیز بن چکے ہو.تمہیں بھی اپنا وقار سمجھنا چاہئے اور تمہیں بھی اپنی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا چاہئے.تم باتیں کرتے وقت کیوں یہ سمجھتے ہو کہ عبداللہ یا عبد الرحیم یا عبد الرحمن بول رہا ہے.تم سمجھ لو کہ عبداللہ مر چکا ، عبد الرحیم مر چکا ، عبدالرحمن مر چکا اور اب خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے والا ایک شخص بول رہا ہے.پس تمہارے اعمال اور تمہارے افعال اور تمہارے اقوال تمام دنیا سے نرالے ہونے چاہئیں.اور ہر قدم پرتمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ خدا کے بندے کو اب کیا کرنا چاہیے.یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے.جب تم نے بیعت کر لی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنے لئے موت قبول کر لی.سو جب تم مر گئے تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب تم پہلے کے سے انسان نہیں رہے بلکہ سیح موعود بن گئے ہو.تمہیں باتیں کرتے وقت سوچنا چاہئے کہ گفتگو کیلئے شریعت کے کون سے آداب
خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۷ء ہیں.تمہیں لین دین کرتے وقت سوچنا چاہئے کہ لین دین کے متعلق شریعت کے کیا احکام ہیں.تمہیں شادی بیاہ کے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ اسلام اس بارے میں کیا ہدایات دیتا ہے.غرض ہر حرکت اور ہر سکون کے وقت تمہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا تم کوئی ایسا کام تو نہیں کر رہے جو خلاف تقویٰ ہے.کیونکہ تم اب وہ نہیں رہے جو پہلے تھے.تمہاری عزت حضرت مسیح موعود کی عزت ہے اور مسیح موعود کی عزت خدا کی عزت ہے.پس تمہارے اقوال میں، تمہارے افعال میں، تمہارے اخلاق میں، تمہارے اطوار میں، تمہارے سونے میں تمہارے جاگنے میں، تمہارے کھانے میں تمہارے پینے میں غرض ہر حرکت اور ہر سکون میں تمہیں دوسروں سے ممتاز ہونا چاہئے.تب تم دیکھو گے کہ یہ دنیا تمہارے لئے جنت بن جائے گی.آخر یہ دنیا چند قوانین کے ماتحت ہی جنت بن سکتی ہے.اگر آپ ہی آپ جنت بن سکتی تو اللہ تعالیٰ کو شریعت بھیجنے اور انبیاء کا ایک لمبا سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی.پس جب تک ہم اپنے اقوال میں، اپنے افعال میں ، اپنے اطوار میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا نہیں کرتے اس وقت تک ہم اس جنت کے پیدا کرنے میں ایک روک بنے ہوئے ہیں اور بالفاظ دیگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ جنت پیدا نہ ہو.حالانکہ خدا تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ کی نسبت فرماتا ہے کہ وَإِذَ الْجَنَّةُ ازْ لِفَتْ ۵ کہ خدا تعالیٰ اُس زمانہ میں جنت انسانوں کے قریب کر دے گا.مگر افسوس کہ ہم میں سے ہی بعض اسے دور کر رہے ہیں.کیونکہ ان کے اقوال اور ان کے افعال اور ان کی حرکات اور ان کی سکنات اس تعلیم کے مطابق نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی.لیکن اگر ہم اپنے اقوال اور اعمال میں تغیر پیدا کریں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت نزدیک کر دی جائے گی.گویا ہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے کرسیوں پر دو دوست آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے ہوں اور نوکر چائے کی سینی لئے ان کے پاس کھڑا ہو مگر وہ اپنی باتوں میں ہی مشغول ہوں اور چائے کی سینی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں.ہماری حالت بھی یہی ہے کہ ہم دنیا کی طرف متوجہ ہیں اور خدا اپنے ہاتھ میں جنت لئے ہمارے کولہوں کے پاس کھڑا ہے اور منتظر ہے کہ شاید پہلے انہوں نے توجہ نہیں کی تو اب کر لیں، شاید پہلے انہوں نے جنت نہیں لی تو اب لے لیں.پس اس جنت کے حصول میں صرف اتنی ہی دیر ہے کہ ہم دنیا کی طرف سے اپنا منہ موڑیں اور خدا کی طرف اپنی توجہ کریں.ورنہ وہ تو فرما چکا ہے کہ وَإِذَ الْجَنَّةُ ازْ لِفَتْ کہ جنت تمہارے قریب کر دی گئی ہے.صرف تمہارے ہاتھ بڑھانے اور پکڑنے کی دیر ہے.
خطبات محمود ۴۸۶ سال ۱۹۳۷ء سو میں بوڑھوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور جوانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور بچوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور خصوصاً بچوں کو ہی مخاطب کرتا ہوں کیونکہ بڑوں کو جو خراب عادتیں پڑ چکی ہوں اُن کا دور ہونا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن بچے اگر بچپن کی عمر سے ہی نیک باتیں سیکھیں اور ان کو اپنی عادت بنالیں تو ان کی تمام زندگی سنور سکتی اور سکھ اور آرام میں گزرسکتی ہے.یہ بات یا درکھو کہ ایمان کی طاقت کے بعد دنیا میں سب سے بڑی طاقت عادت کی ہے.بیشک بڑے بھی اگر چاہیں تو ایمان کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اصلاح کر سکتے ہیں.لیکن ان بڑوں میں جنہیں بعض خراب عادتیں پڑ چکی ہوں یہ نقص ہوتا کہ انہیں ایمان کی طاقت کسی اور طرف کھینچ رہی ہوتی ہے اور عادت کی طاقت کسی اور طرف کھینچ رہی ہوتی ہے.مگر تم اے سلسلہ کے بچو! اگر اپنی عادتوں کو آج درست کر لو گے تو تمہاری عادتیں بھی تمہیں نیک راہ پر چلا رہی ہوں گے اور تمہارا ایمان بھی تمہیں سیدھے راستہ کی طرف لے جارہا ہوگا اور اس کی طرح جس سفر کو تمہارے بڑے ایک دن میں طے کر سکتے ہیں اسے تم ایک منٹ میں طے کر سکو گے.کیونکہ تمہارے بڑوں کی مثال ایسی ہے جیسے ریل کے ایک طرف ایک انجن لگادیا جائے اور اس کے دوسری طرف دوسرا انجن.بیشک ایمان کا انجن طاقتور ہے لیکن انہیں عادت کا انجن کسی اور طرف کھینچ رہا ہے اور ایمان کا انجمن کسی اور طرف.اس لئے ان کی رفتار لاز مائست ہے.لیکن اگر تم اپنی عادتیں بچپن سے درست کر لو تو تمہارے دونوں انجن ایک ہی طرف لگے ہوئے ہوں گے.تمہیں ایمان کا انجن بھی اسی کی طرف کھینچے گا اور عادت کا انجن بھی اسی طرف کھینچے گا.اور تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ جس ریل کے آگے دو انجن لگے ہوئے ہوں اس کی رفتار کس قدر تیز ہوگی.پس میں تمہیں بھی مخاطب کرتا ہوں اور پھر عورتوں سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لو.دنیا کمانے سے اسلام نہیں روکتا.صحابہ نے بھی بڑی بڑی تجارتیں کیں.خود رسول کریم ﷺ بھی تجارت کر لیا کرتے تھے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی تجارتیں کی ہیں، پھر صحابہ زراعتیں بھی کی کرتے تھے اور رسول کریم ﷺ بھی بعض زمینوں میں کام کرواتے تھے اور ان کے غلہ سے سال بھر تک کی ضروریات اپنے اہل کی جمع کرا دیتے تھے.پھر صحابہ نے تو بڑی بڑی زمینداریاں اور تجارتیں کی ہیں اور بہت کچھ کمایا ہے.پس تمہیں بھی دنیا کمانے سے کوئی شخص نہیں روکتا.ہاں یہ چیزیں تمہاری توجہ کھیچنے و ہوں بلکہ خدا کی آواز جب بھی تمہارے کانوں میں پڑے تم ان تمام زراعتوں اور تجارتوں نہ
خطبات محمود MAL سال ۱۹۳۷ء ملازمتوں کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی آواز پر حاضر ہو جاؤ اور اگر تم ایسا کرو تو پھر تم دنیا دار نہیں بلکہ دینداری کہلاؤ گے.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ حضرت امام حسن نے پوچھا کہ کیا آپ کو مجھ سے محبت کی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر انہوں نے سوال کیا کہ آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی محبت ہے؟ آپ نے فرمایا ای ہاں.حضرت امام حسنؓ کہنے لگے پھر تو یہ شرک ہے.حضرت علیؓ نے ابھی اس کا کوئی جواب نہ دیا تھا کہ جھٹ حضرت امام حسن نے آپ ہی سوال کر دیا کہ اگر خدا تعالیٰ کی محبت آپ کو ایک طرف کھینچتی ہو اور میری محبت دوسری طرف تو آپ کس راہ کو اختیار کریں گے؟ انہوں نے کہا میں خدا تعالیٰ کی محبت کے راستہ کو ہی اختیار کروں گا.اس پر امام حسنؓ بولے تب آپ مشرک نہیں.تو وہ بندہ جو خدا تعالیٰ کی آواز سنی کر رک جاتا ہے وہ اگر دنیا کے کاموں میں بھی مشغول ہو تو وہ دنیا دار نہیں بلکہ دیندار ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا دنیا میں کوئی شخص ایسا ہو جس کے اندر حقیقی ایمان کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی آواز سن کر اپنی ہوا و ہوس کے اتباع سے نہ رک سکے.دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں اگر معمولی جذبات بھی اُبھر آئیں تو انسان کے ہاتھ کو رنگ دیتے ہیں.کجا یہ کہ ایمان کا دعوی ہو اور خدا تعالیٰ کی آواز آئے اور انسان کا ہاتھ نہ رُکے.مجھے یاد ہے بچپن میں میری ایک کشتی تھی جو برسات کے دنوں میں لڑکے لے جاتے اور سارا دن اُس پر کودتے اور توڑتے رہتے.ایک دفعہ میں نے بعض لڑکوں کو مقرر کیا کہ اب کی دفعہ کوئی کشتی لے لی جائے تو مجھے اطلاع دینا.چنانچہ انہوں نے ایک دن مجھے اطلاع دی کہ آپکی کشتی فلاں فلاں لڑکے لے گئے ہیں اور وہ پانی میں کھیل کو درہے ہیں.اس پر میں وہاں گیا میں نے دیکھا کہ پندرہ ہیں لڑکے اس پر بیٹھے ہیں.( حالانکہ اس کشتی پر صرف پانچ سات لڑ کے بیٹھ سکتے تھے ) اور خوب کھیل کو د ر ہے اور شور مچارہے ہیں.کشتی کے اندر پانی بھرا ہوا ہے اور وہ پانی میں ڈوب رہی ہے.میں نے قریب جا کر جو اُن کو آواز دی تو وہ لڑکے کچھ گھبرا سے گئے.کچھ اس لئے کہ کشتی کا مالک میں تھا اور کچھ اس لئے کہ قادیان کی ہماری ملکیت ہے اور وہ خوفزدہ ہو کر بھاگے اور پانی میں کود پڑے اور تیرتے ہوئے ادھر اُدھر نکل گئے.میرے قابو اور تو کوئی نہ آیا صرف ایک لڑکا میرے قابو چڑھ گیا.کیونکہ اُسے نکلنے کیلئے اور کوئی رستہ نہ ملا اور جس جگہ سے وہ نکلا وہاں میں کھڑا تھا.بچپن کی عمر تھی اور غصہ مجھے بے انتہا آیا ہوا تھا.میں نے جوش
خطبات محمود ۴۸۸ سال ۱۹۳۷ء سے اُسے مارنے کیلئے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اُس نے میری ضرب کو روکنے کیلئے ہاتھ اُٹھایا جسے دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا اور میں نے اور زیادہ زور سے ہاتھ پیچھے لے جا کر اُسے مکا مارنا چاہا.یہ دیکھ کر اُس نے یا تو یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے مقابلہ میں میرا ہاتھ اٹھانا بے ادبی ہوگا اور یا یہ سمجھتے ہوئے کہ انہیں غصہ بہت چڑھا ہوا ہے اگر میں نے ضرب رو کی تو انہیں اور زیادہ غصہ آئے گا اُس نے اپنا ہاتھ ہٹالیا اور میری طرف منہ کر کے بولا لو جی مارلو.جس طرح پتھر گر پڑتا ہے اسی طرح میرا ہاتھ جو بڑے جوش سے اُٹھا ہوا تھا بریکار ہوکر نیچے گر گیا اور اُس کے سامنے سے ہٹتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا وہ حقدار ہے اور میں مجرم ہوں.تو اگر معمولی اخلاق انسان کے قلب پر اتنا عظیم الشان اثر کر سکتے ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی یہ آواز آرہی ہو کہ میرے بندے میری طرف آ اور وہ اس کی طرف دوڑ نہ پڑے.اگر اس میں ایک شمہ بھر بھی خدا تعالیٰ کی محبت ہوگی تو ناممکن ہے کہ اس کا پاؤں کسی اور طرف اُٹھے.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک شخص اپنے غلام کو مارنے لگا کہ اسے پیچھے کی طرف سے 109- ایک آواز آئی کہ یہ کیا جاہلیت کی حرکت کر رہے ہو.اُس نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول کریم تے تھے.صحابی کہتے ہیں میں اُس وقت نہایت جوش کی حالت میں تھا کیونکہ اُس غلام نے کوئی نہایت ہی بیہودہ ان حرکت کی تھی اور میں نے اُسے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ میں کوڑا اُٹھایا ہوا تھا اور ایک کوڑا لگا چکا تھا کہ مجھے کی رسول کریم ﷺ کی یہ آواز آئی کہ یہ کیا جاہلیت کی بات ہے.وہ صحابی کہتے ہیں یہ آواز سن کر مجھے اس قدر ندامت ہوئی کہ میں نے اپنے دل میں کہا کاش ! میں اس سے پہلے مر چکا ہوتا اور رسول کریم ہی ہے کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گر گیا.میں نہایت شرمند ہو کر مجرم کی طرح آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ میں اسے نہیں مارتا.آپ نے فرمایا اب کیا ہے اب تو تم اسے مار ہی کی چکے.میں نے کہا يَارَسُولَ اللهِ پھر میرے اس گناہ کا کیا کفارہ ہے.آپ نے فرمایا اس کا کفارہ اس کی آزادی ہے.چنانچہ اُس صحابی نے اُسی وقت اُس غلام سے کہہ دیا کہ آج سے میں نے تجھ کو آزاد کیا.تم جو غلام رکھنے کے عادی نہیں ہو تم نہیں سمجھ سکتے کہ اس زمانہ میں غلام کی کیا قیمت ہوتی تھی.اس زمانہ میں غلام کی جس قدرآمد ہوا کرتی تھی وہ اُس کی نہیں بلکہ اُس کے آقا کی ہوا کرتی تھی.گویا غلام کی اپنے آقا کیلئے روزی کمایا کرتا تھا.پس میں نے تجھ کو آزاد کیا یہ ایسے ہی الفاظ ہیں جیسے تمہار.
خطبات محمود ۴۸۹ سال ۱۹۳۷ء کانوں میں یہ آواز آئے کہ کوئی شخص ای اے سی ہو اور وہ کہ رہا ہو کہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو ہوں یا کوئی زمیندار یہ کہہ رہا ہو کہ میں اپنی زمین چھوڑتا ہوں.غرض اُس زمانہ میں غلام کو آزاد کرنے کے معنے یہ تھے کہ اس کے ذریعہ سے جس قدرآمد ہوتی تھی وہ سب جاتی رہے گی.مگر اُس صحابی نے جب دیکھا کہ مجھ سے ایک قصور ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کی آواز اس کے رسول کے ذریعہ سے مجھے کسی اور طرف بلاتی ہے تو اس نے اس غلام کو آزاد کر دیا.تو خدا تعالیٰ کی آواز جب کسی اخلاص رکھنے والے انسان کو سنائی دیتی ہے تو اس کا رنگ بالکل بدل دیتی ہے اور اسے بڑی سے بڑی قربانیوں پر آمادہ کر دیتی ہے.پس تم خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کر و.سلسلہ کے کاموں کو اپنے کاموں پر مقدم سمجھو.سلسلہ کی تبلیغ کو اپنے بیوی بچوں سے باتیں کرنے پر مقدم سمجھو.سلسلہ کی مالی ضروریات کو اپنی مالی ضروریات پر مقدم سمجھو اور اپنے اندر وہ حالت پیدا کر لو کہ جب بھی خدا کی آواز تمہارے کانوں میں پڑے تمہارا سر اُسی جگہ جھک جائے اور تمہارے اندر اس کے خلاف ایک ذراسی بھی جنبش پیدا نہ ہو.یہ وہ ایمان ہے جو حقیقی ایمان کہلاتا ہے.اور یہ وہ ایمان ہے جو دل سے ہر قسم کا گند دور کر کے انسان کو قوم کا سپاہی بنا دیتا قادیان والوں پر خصوصیت سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.انہیں سچائی پر دوسروں سے زیادہ جوش سے قائم ہونا چاہئے.انہیں نمازیں دوسروں سے زیادہ مداومت کے ساتھ پڑھنی چاہئیں.انہیں تبلیغ دوسروں سے زیادہ عمدگی سے کرنی چاہئے.انہیں مالی قربانی دوسروں سے بہت بڑھ کر کرنی چاہئے.کیونکہ یہی وہ نعمتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے لئے لائے.اگر یہ نعمتیں کسی کو حاصل نہیں اور وہ قادیان میں محض تجارت یا زراعت یا ملازمت اپنا پیشہ بنا کر رہائش اختیار کئے ہوئے ہے ، تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی چیز نہیں.اگر وہ باہر پچاس ساٹھ کما تا تھا اور یہاں اُس نے دوسو ماہوار بھی کمالئے تب بھی یہ بالکل حقیر اور ذلیل چیز ہے.تم سے زیادہ کمانے والے تم سے زیادہ تجارتیں کرنے والے تم سے زیادہ زراعتیں کرنے والے تم سے زیادہ دُنیوی کا موں میں دسترس رکھنے والے دنیا میں موجود ہیں ، پھر سوچو کہ انہوں نے کیا بنا لیا.مگر جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیاں کی ہیں، دنیا سینکڑوں سالوں سے ان کی اولادوں اور نسلوں کی بھی غلام بنی چلی آرہی ہے.یزید نے کی بے شک رسول کریم ﷺ کے نواسے کو اُس نواسے کو جسے رسول کریم ﷺ نے اپنی گود میں اُٹھایا شہید
خطبات محمود ۴۹۰ سال ۱۹۳۷ء کر دیا اور اُس نے یہ سمجھا کہ وہ کامیاب ہو گیا.مگر آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جو سادات میں سے ہونے کی وجہ سے دوسروں سے بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ ہم امتی کے برتن میں کھانا نہیں کھائیں گے.پھر.بعض بناوٹی سید ہوتے ہیں وہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم امتی کے برتن میں کھانا نہیں کھا ئیں گے اور لوگ خوشی سے ان باتوں کو برداشت کر لیتے ہیں.حالانکہ اس قسم کا فقرہ لوگ کسی بڑے سے بڑے آدمی کے منہ سے بھی نہیں سُن سکتے اور اسے اپنی ہتک سمجھتے ہیں.مگر جب کسی سید کے منہ سے وہ یہ فقرہ سنتے ہیں تو ی کہتے ہیں کہ کوئی حرج نہیں ، آخر یہ محمد ﷺ کی بیٹی کی اولاد میں سے ہے.اب دیکھو تیرہ سو سال کا عرصہ کتنا لمبا عرصہ ہوتا ہے مگر آج بھی ایک شخص جب یہ کہتا ہے کہ میں سید ہوں تو معاً ہما را لہجہ اور ہمارا طریق گفتگو بدل جاتا ہے.ہم اسی حیثیت کے ایک دوسرے آدمی کو تو تو کر کے بلا رہے ہوتے ہیں مگر اس سید کو ہم شاہ صاحب شاہ صاحب کہنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح وہ صلى الله ہما را شاہ بھی بن جاتا ہے اور صاحب بھی ہو جاتا ہے.حالانکہ بعض دفعہ اس کے اعمال کو رسول کریم ہے کی تعلیم سے اتنی نسبت بھی نہیں ہوتی جتنی خاک کو سورج سے ہے.پھر تم خدا تعالیٰ کو دیکھو وہ بھی کس طرح ان لوگوں کی قدر کرتا ہے جو اُس کے کسی پیارے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب دشمنوں کی طرف سے بہت زیادہ تکالیف پہنچیں تو غالباً اس وجہ سے کہ آپ کے دل میں ان کے متعلق بددعا کا جوش پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے آپ پر الہام کیا اور فرمایا اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کآخر کنند دعوئے نو یعنی اے مسیح موعود کے دل ! تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار.یہ کیسے ہی تیرے دشمن سہی ، کیسے ہی تیرے مخالف سہی پھر بھی ان کا کچھ لحاظ کیجیو.کیونکہ یہ ہمارے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں.اب دیکھو فنی خدا محسن خدا، صمد خدا اپنے ایک خادم سے تعلق رکھنے والے کی جب اتنی قدر کرتا ہے تو کس قدر نا پاک وہ بندہ ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر وہ خود خدا سے تعلق پیدا کرے گا تو خدا اُس کی قدر نہیں کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ اُخْرِجَ مِنْهُ اليَزِيدِيُّونَ ) کہ قادیان میں بعض یزیدی صفت لوگ پیدا کئے گئے ہیں.یہ نام گویا خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کا رکھا جو سلسلہ کی مخالفت کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الہام نازل
خطبات محمود کر کے کہ ۴۹۱ سال ۱۹۳۷ء اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کآخر کنند دعوے پیمبرم اس امر کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ گویزید ایک نہایت ہی نا پاک انسان تھا جس نے محمد اللہ کے نواسے کو شہید کیا اور تیرے دشمن یزیدی صفت ہو گئے ہیں.مگر پھر بھی ان کا کچھ نہ کچھ لحاظ کرنا کیونکہ یہ آخر یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انہیں رسول کریم ﷺ سے محبت ہے.الله تو اخلاص اور عدمِ اخلاص بہت موٹی چیزیں ہیں اور یہ فوراً نظر آ جاتی ہیں.جسے اخلاص ہوتا ہے اسے اپنے محبوب کی ہر چیز پیاری معلوم ہوتی ہے.مگر جس کے اندرا خلاص کا مادہ نہیں ہوتا وہ محبت کا دعوئی تو کرتا ہے لیکن اس کے آثار اس کے اندر نہیں پائے جاتے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنے اندرا خلاص اور محبت پیدا کرو اور دن اور رات سلسلہ کیلئے قربانیاں کر کے اپنے آپ کو ان لوگوں میں شامل کر و جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی.اس وقت تحریک جدید کا پہلا دور ختم ہو کر اس کا دوسرا دور عنقریب شروع ہونے والا ہے.تمہیں چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص کچی قربانی کا نمونہ بنے اور اس تحریک کے جس قدر مطالبات ہیں ان کو پورا کرے.تا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس تحریک کے دوسرے دور میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہو.یاد رکھو وہ لوگ جنہوں نے آج کوتاہی کی ہوگی ، جنہوں نے آج اپنی قربانیوں کمزوری اور شستی دکھائی ہوگی ، جنہوں نے آج اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے بے تو جہی اور لا پرواہی اختیار کی ہوگی اُن کا گل ان کو اس نیکی کے راستہ سے اور زیادہ دور لے جانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہی ان پر رحم کرے تو کرے ورنہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ان کی ایمانی حالت خطر ناک ہوگی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ گوسال کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب بھی وقت ہے، اب بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا موقع ہے اور گودن بہت تھوڑے رہ گئے اور سال اپنے اختتام کو پہنچ گیا مگر پھر بھی وہ دوست جو اپنی اصلاح کرنا چاہیں کر سکتے ہیں.ان کے سامنے تحریک جدید کے تمام مطالبات موجود ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام مطالبات کو پورا کریں.خواہ وہ مطالبات سادہ زندگی کے متعلق ہیں، خواہ ایک کھانا کھانے کے متعلق ہیں، خواہ تبلیغ کے متعلق ہیں، خواہ وقف زندگی کے
خطبات محمود ۴۹۲ سال ۱۹۳۷ء متعلق ہیں ، خواہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے متعلق ہیں ، خواہ صلح اور آشتی سے رہنے کے متعلق ہیں اور خواہ مالی قربانی کے متعلق ہیں.ان میں سے ہر ایک مطالبہ کو پورا کرو.چونکہ جیسا میں نے حال میں اعلان کیا ہے اس سال مالی حصہ میں ابھی بہت کمی ہے اس لئے اس حصہ کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اس کے علاوہ ان باتوں کو بھی مد نظر رکھو جن کے متعلق میں نے اس سال کے چند ابتدائی خطبات میں جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں.غرض ہر رنگ میں تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرو اور اپنے چھوٹوں اور اپنے بڑوں اور اپنے جوانوں اور اپنے بوڑھوں کے اندر نیکی اور تقویٰ کا وہ رنگ پیدا کرو کہ جس رنگ کو دیکھ کر دنیا یہ کہہ سکے کہ اسے تم میں خدائی جلوہ نظر آ رہا ہے.موضوعات کبیر.ملاعلی قاری صفحه ۵۹ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ فاطر ۴۴ الكهف: ااا بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد (الخ) التكوير: ۱۴ مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک تذکرہ صفحہ ۱۷۶.ایڈیشن چہارم (الفضل ۱/۸ کتوبر ۱۹۳۷ء)
خطبات محمود ۴۹۳ ۳۳ سال ۱۹۳۷ء اپنے مقصود کو بھی بھولنا نہیں چاہئے (فرموده ۵/نومبر ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- سب سے پہلے تو میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عقلمند انسان کو کبھی بھی ن مقصود کو نہیں بھولنا چاہئے.جو انسان اپنے مقصد کو بھول جاتا ہے وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا کیونکہ دوسرے مقاصد کیلئے تو وہ کوششیں کر نہیں رہا ہوتا.پس جو مقصد اس کا ہوتا ہے اسے بھی اگر بھول جائے تو اس کے تمام کاموں اور جدوجہد کا نتیجہ صفر رہ جاتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَال یعنی ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کیلئے اپنی ساری جدوجہد کو وقف کر دیتا ہے اور یہی چیز انسان کی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے.اللہ تعالیٰ نے انسانی ترقی کیلئے یہ اصل مقرر کر دیا ہے کہ کوشش کچھ نہ کچھ نتیجہ پیدا کر ہی دیتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كُلَّا نُمِدُ هَؤُلاءِ وَ هَؤُلاءِ سے یعنی ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں.کوئی نیک ہو یا بد ہم نے دنیا میں یہ قانون جاری کر دیا ہوا ہے کہ جو شخص کسی مقصد کیلئے کوشش، محنت اور سعی کرے تو جس مقصد کیلئے وہ ایسا کرے اگر اس کی کوشش اس مقصد میں کامیابی کے ذرائع کے مطابق ہو تو اسے کامیاب کر دیتے ہیں.ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ، ان کی یعنی نیکوں کی بھی اور ان کی یعنی بدوں کی بھی.تو اللہ تعالیٰ نے اس قانون کی کا اتنا احترام کیا ہے کہ کوئی انسان خواہ بچے دین کا پیرو نہ ہو تب بھی اس کی کوششیں اگر صحیح ہوں نتیجہ خیز ہوتی ہیں.بلکہ جو لوگ سچے دین کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اگر جد و جہد کرتے ہیں تو گو کامیاب نہیں
خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۷ء ہوتے مگر سچائی کے راستہ میں مشکلات ضرور پیدا کر دیتے ہیں.انجام تو بہر حال نیکیوں کا ہی اچھا ہوتا ہے.مگر بدوں کی کوششیں بظاہر ایسی فضا پیدا کر دیتی ہیں کہ دیکھنے والے شروع میں سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید نبیوں کے دشمن کامیاب ہو جائیں گے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَّلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطنُ فِي أُمُنِيَّتِهِ " یعنی جب بھی کوئی مقصد عالی لے کر کھڑا ہو شیطان ضرور اس کے راستہ میں روک ڈال دیتا ہے.یعنی یہ نہیں ہوتا کہ وہ روک ڈال ہی نہ سکے روک ضرور ڈال دیتا ہے.ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ خاص اُس روک کو دور کر کے نبیوں کو کامیاب کر دیتی ہے.تو جد و جہد اگر بُرے مقصد کیلئے بھی ہو عارضی کامیابی پیدا کر دیتی ہے اور اگر سچائی کے مقابل پر نہ ہو تو خواہ کا فر کی صحیح جد و جہد ہو نتیجہ خیز ہوتی ہے.دیکھ لو مکہ والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی.انہوں نے اپنا یہ مقصد قرار دے دیا کہ محمد (ع) کو زک پہنچانی ہے اور آپ کو مکہ سے نکال دینا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ایک نبی اور پھر اس نبی کو جو تمام نبیوں کا سردار ہے وہ حقیقی زک نہیں پہنچا سکتے تھے.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اس حد تک وہ اپنی کوششوں میں ضرور کامیاب ہو گئے کہ آنحضرت ﷺ کو مکہ چھوڑنا پڑا.اور ان کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں اور کہ ہم نے ملکہ کومحمد (ﷺ) کے وجود سے نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلک ) پاک کر دیا ہے.اگر چہ خدا تعالیٰ نے اُن کو جھوٹا کیا اور بتادیا کہ جس کے مکہ سے جانے کو وہ مکہ کی پاکی کا موجب سمجھتے تھے اس کا جانا دراصل مکہ والوں کی ہلاکت کا موجب تھا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ یعنی مکہ والے خوش ہیں کہ انہوں نے مکہ کو بزعم خود پاک کر لیا ہے.لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنے کے لئے دو ہی طریق مقرر ہیں.یا تو یہ کہ وہ لوگ نیک ہوں تانی اور استغفار میں لگے رہتے ہوں اور یا پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان میں ہوا اور انہیں رسول کی صحبت جسمانی حاصل ہو.رسول کا جسمانی قرب بھی انسان کو بہت سے عذابوں سے بچا لیتا ہے.غرض یہی قانون دنیا میں رائج ہے کہ یا تو وہ لوگ عذاب سے بچائے جاتے ہیں جو نیک ہوں اور یا پھر جو رسولی کے اس قدر قریب ہوں کہ ان پر عذاب کا اثر رسول اور اس کے ساتھیوں پر بھی پڑسکتا ہو.پس اللہ تعالی ان فرماتا ہے کہ مکہ والے تو خوش ہیں کہ انہوں نے محمد ( ﷺ ) کو نکال لیا ہے اور مکہ کو بزعم خود پاک کر دیا
خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۷ء ہے.حالانکہ ایسا کر کے انہوں نے ہمارے لئے ان پر عذاب نازل کرنے کا رستہ کھول دیا ہے.اب ہمارا رسول ان کے اندر نہیں اس لئے ان پر عذاب نازل کرنے کا رستہ ہمارے لئے کھل گیا ہے.اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے.جوانی کے ایام کا واقعہ ہے کہ آپ سیالکوٹ کی میں ایک مکان میں سورہے تھے.اُس وقت اُس کمرہ میں ایک ہند و صاحب بھی تھے جن کا نام لالہ بھیم سین تھا اور وہ وکالت کا پیشہ کرتے تھے.انہی صاحب کے لڑکے لالہ کنورسین کچھ عرصہ ہوا لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور بعد میں ریاست جموں و کشمیر کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ کی الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصہ گزر گیا تو چھت میں ٹک ٹک کی معمولی سی آواز پیدا ہوئی ( اور ایسی آواز عام طور پر کوئی کیڑا وغیرہ لگا ہو سنائی دیا کرتی ہے ) اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ چھت گرنے والی ہے.اس پر میں نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اور کہا کہ یہاں سے نکل جانا چاہئے.مگر انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں صرف آپ کو وہم ہو گیا ہے، ایسی آواز تو ہمیشہ آیا ہی کرتی ہے اور ایسے کیڑے لگے ہوئے شہتیر دس دس اور بیس بیس سال کھڑے رہتے ہیں.اس پر آپ خاموش ہو گئے مگر تھوڑی دیر بعد پھر بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوا کہ چھت گرنے والی ہے.اس پر آپ کی نے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو اس کمرے سے باہر نکلو.مگر انہوں نے پھر اسی قسم کا جواب دیا اور آپ پھر لیٹ گئے.مگر پھر آپ کے دل پر یہ خیال غالب ہوا اور یقین ہو گیا کہ شہتیر ٹوٹنے ہی والا ہے.اس پر آپ نے پھر ساتھیوں سے فرمایا کہ اٹھو اور میری خاطر ہی کمرہ سے نکل چلو.اس پر وہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کہنے لگے کہ خوامخواہ آپ ہماری نیند خراب کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے اُس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ چھت صرف میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے.اس کی لئے میں دروازہ میں کھڑا ہو گیا اور ان سب کو ایک ایک کر کے گزرنے کو کہا.جب سب نکل گئے تو میرا ایک پاؤں ابھی سیڑھی پر تھا اور دوسرا اندر کہ چھت گر پڑی.لالہ بھیم سین صاحب پر اس واقعہ کا اس قدر اثر تھا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر جہلم والا مقدمہ چل رہا تھا ، اُس وقت اُن کے لڑکے ولایت سے نئے نئے بیرسٹری پاس کر کے آئے تھے اور شہرت حاصل کر رہے تھے.لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کولکھا کہ میں نے اپنے لڑکے سے کہا ہے کہ یہ اس کیلئے بڑا چھا موقع ہے کہ وہ آپ کے مقدمہ کی پیروی
خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۷ء کر کے برکت حاصل کرے.لالہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی عقیدت اور تعلق ظاہر کیا کرتے تھے کہ حضور کو اگر کبھی ضرورت پیش آتی تو ان سے قرض منگوالیا کرتے تھے اور احمدیوں سے قرض مانگتے ہوئے حجاب کرتے تھے.یہ مثال ایک نمونہ ہے اور بھی ہزاروں مثالیں ہیں مگر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے جو بہت نمایاں ہے.تو یہ مکہ والوں کی بیوقوفی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نکال کر انہوں نے مکہ کو پاک الله پ کرلیا ہے.دراصل انہوں نے پاک نہیں کیا تھا بلکہ مکہ کیلئے خطرہ پیدا کر لیا تھا اور محمد رسول اللہ اللہ کی پاکیزگی کو مکہ سے نکال کر انہوں نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تھا.لیکن بہر حال جس چیز کو وہ کامیابی سمجھتے تھے وہ انہوں نے بظاہر حاصل کر لی تھی.تو یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو شخص محنت اور سعی کرے وہ ضروری گلی یا جزوی کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور مومن تو اگر کوشش کرے تو بہت ہی کامیابی حاصل کرسکتا ہے.مکہ والوں کا مقصد غلط تھا مگر وہ اس میں لگ گئے.اس لئے عارضی کامیابی کی خوشی کی انہیں بھی حاصل ہو گئی.اس کے مقابل دیکھ لو آخری زمانہ کے مسلمانوں کا مقصد کتنا عظیم الشان تھا.یعنی یہ کہ قرآن کریم کی صداقت ظاہر ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت ثابت ہو.مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بادشاہتیں مٹ گئیں ، جتھے ٹوٹ گئے ، وہ علم سے کورے ہو گئے اور انہیں ہر میدان میں شکست پر شکست ہوئی حالانکہ ان کا مقصد کیسا اعلیٰ تھا.ان کے مقابل پر دیکھو عیسائیوں کا مقصد کتنا غلط تھا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس دعویٰ پر جو عیسائی کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا بیٹا کی ہے آسمان پھٹ جائے.عیسائی ایسے خطر ناک مقصد کیلئے کھڑے تھے اور مسلمان اس مقصد کیلئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا پیدا ہی اس مقصد کیلئے کی گئی ہے.چنانچہ حدیث قدسی ہے لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود نہ ہوتا تو دنیا پیدا ہی نہ کی جاتی.اب دیکھو ایک طرف تو ایسا مقصد تھا جس کیلئے دنیا پیدا کی گئی اور دوسری طرف ایسا جس سے دنیا تباہ ہو جائے.مگر باوجود اس کے مسلمان ہارتے گئے اور عیسائی جیتتے گئے.جس کی وجہ یہ ہے کہ گو مسلمانوں کا مقصد نیک تھا مگر وہ اس مقصد کیلئے جد و جہد چھوڑ بیٹھے تھے اور دوسری طرف عیسائیوں کا مقصد بُرا تھا مگر وہ اس کیلئے سعی اور جد و جہد کر رہے تھے.عیسائی شرک کی تائید میں کھڑے ہوئے اور اپنا سب کچھ اس کیلئے قربان کر دیا اور مسلمان توحید کی تائید کیلئے کھڑے ہوئے مگر اسے فراموش کر کے اور
خطبات محمود ۴۹۷ سال ۱۹۳۷ء کاموں میں لگ گئے اور آخر دنیا کے ہر گوشہ میں انہوں نے شکست کھائی.پس اپنے مقصود کو بھلا دینا بڑی نادانی ہے.جس سے انسان کو ہمیشہ نا کامی کامنہ دیکھنا پڑتا ہے.جو شخص اپنے مقصد کو فراموش کر دیتا ہے وہ گویا خود اپنے پاؤں کاٹتا ہے.ہمارے سلسلہ کا مقصد دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کرنا ہے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کی قائم کرنا ہے جو نیکی اور تقویٰ سے ہی قائم ہو سکتی ہے.یہ تو نہیں کہ خدا تعالیٰ پہلے دنیا کی بادشاہت سے محروم ہے اور ہم نے اس کیلئے لندن کا یا دہلی کا تخت حاصل کر کے کہنا ہے کہ لیجئے حضور یہ ہم نے آپ کے لئے حاصل کیا ہے.یہ بادشاہت تو اسے پہلے ہی حاصل ہے وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے دنیا میں تغیر پیدا کر سکتا ہے.کوئٹہ اور بہار کے زلزلے صاف ثابت کر رہے ہیں کہ دنیا پر اس رنگ میں حکومت کی اسے حاصل ہے.پس جس بادشاہت کیلئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے وہ دلوں پر ایمان اور تقویٰ کی بادشاہت ہے.یہی نذرانہ اور یہی ہدیہ ہے جو ہم پیش کر سکتے ہیں اور جس کا مطالبہ ہم سے کیا گیا ہے.اگر کسی وقت کی بھی ہم اس مقصود کو بھول جائیں تو ہماری تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی.کیونکہ وہ غیر مقصود کیلئے ہوں گی.اس لئے ہم کبھی مقصود کو نہیں پاسکیں گے.ایک شخص لا ہور جانا چاہتا ہے مگر چلتا ہے وہ بیاس کی طرف تو وہ لاہور نہیں پہنچ سکے گا.دنیا کے گرد پچیس ہزار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ممکن ہے لاہور آ جائے مگر یہ اور بات ہے.دنیا میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، جھگڑے بھی ہوتے ہیں ، جوش اور غصہ بھی دلایا جاتا ہی ہے مگر کسی حالت میں بھی ہمیں اپنے مقصود کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے.۱۹۱۳ء میں میں شملہ کے مقام پر تھا کہ میں نے رویا دیکھا کہ میں ایک پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں.کوئی کہتا ہے کہ رستہ میں شیطان اور ابلیس مختلف طریقوں سے تمہیں ڈرا ئیں گے.مگر تم کوئی خیال نہ کرنا اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ کہتے ہوئے چلتے جانا.9966 چنانچہ جب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ قسم قسم کے وجود ظاہر ہو کر مجھے ڈراتے ہیں.کوئی تو وجود انسان کا ی مگر سر ہاتھی کا ہے.کوئی شیر کا دھڑ اور سر انسان کا ہے.کہیں خالی دھڑ ہی ہیں اور کہیں خالی سر ہی ہیں.کبھی وہ گالیاں دیتے ہیں اور کبھی اور مختلف ذرائع سے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں.مگر میں ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا چلا جاتا ہوں اور کسی کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور آخر منزل مقصود پر پہنچ گیا.9966
خطبات محمود ۴۹۸ سال ۱۹۳۷ء یہ غالباً ستمبر ۱۹۱۳ ء کا رویا ہے جس پر آج ۲۴ سال اور دو ماہ گزرتے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف ان سے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ عارضی روکوں سے اصل مقصد کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے.دشمن کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہمیں اپنے مقصد سے پھیر دے.ڈرا کر ، لالچ دلا کر اور گالیاں دے کر وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے مقصد کو بھول جائیں اور بعض لوگ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور جواب میں گالیاں دینے لگی جاتے ہیں.اس سے کئی طرح کے نقصان ہوتے ہیں.میں جماعت کے تین چار افراد کو جانتا ہوں جن کو اسی وجہ سے ٹھوکر لگی کہ وہ دشمن کی گالیوں کے جواب میں گالیاں دیتے تھے.چنانچہ فخر الدین صاحب ملتانی نے جو بیان دیا، اس میں تسلیم کیا تھا کہ میں نے سید عزیز اللہ صاحب کی معرفت پتہ کرایا کہ حضرت صاحب مجھ پر کیوں ناراض ہیں.تو معلوم ہوا کہ میرے ان مضامین کی وجہ سے جو " فاروق“ میں شائع ہوتے رہتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتے کہ میں ان کو نیکی کا رستہ بتا تا ہوں اس بات سے ان کے دل میں گرہ بیٹھ گئی.اگر میں دنیا دار لوگوں کی طرح ہوتا تو ان مضامین پر خوش ہوتا اور اُن کو شاباش دیتا کہ تم نے خوب پیغامی جماعت کو گالیاں دیں.مگر میں اپنی ایسی تائید کو بھی پسند نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو اسی بات سے ان کے دل میں بال آ گیا اور جس چیز میں بال آجائے وہ آخر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے.میں نے بارہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ اعلیٰ اخلاق دکھا ئیں.میں مانتا نان ہوں کہ بعض اوقات سختی کرنی پڑتی ہے مگر اس کا رنگ اور ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بعض اوقات سختی کی ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے اور جب خدا تعالیٰ سختی کا حکم دے تو نتیجہ کا بھی وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے.جب وہ اپنے نبی سے کہتا ہے کہ سختی کرو تو ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ جو اس کا جواب دے گا، میں اس کا منہ توڑ دوں گا لیکن ہمارے لئے اس نے ایسا نہیں کہا.نبی کی نقل شرعی امور میں ضروری ہوتی ہے لیکن خاص امور میں اس کی نقل کرنا بے ادبی ہے.نماز ایک عام حکم ہے.روزہ ایک عام حکم ہے.یہ شرعی احکام ہیں ان میں اگر ہم نبی کی نقل نہ کریں تو یہ گناہ ہے.معاف کرنا اور عفو سے کام لینا شرعی احکام ہیں، ان میں نبی کی اتباع جتنی ہو سکے کرنی چاہئے.لیکن اگر خدا تعالیٰ نبی سے کہے کہ دنیا کو چیلنج کرو کہ میرا مقابلہ کرے تو یہ چیلنج کوئی شرعی چیز نہیں ہوگی بلکہ خاص حکم ہوگا اور اس میں اگر ہم نبی کی نقل کریں تو گویا اس کا منہ چڑانے والے ہوں گے.کئی لوگ مجھے بھی کہتے ہیں کہ آپ اس قسم کا
خطبات محمود صلى الله ۴۹۹ سال ۱۹۳۷ء دیں اور کئی نادان خود تیار ہو جاتے ہیں.حالانکہ یہ تو نبی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ نمازی تھے.ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ نمازی بنے لیکن محمد رسول الله خاتم النبین بھی تھے.اب کوئی کہے میں بھی خاتم النبین بنتا ہوں تو ہر کوئی سے پاگل کہے گا.نماز میں، روزہ میں ، عفو میں، دوسروں سے اچھا سلوک کرنے کے معاملہ میں ،حسن سلوک میں ، یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کرنے میں ہمیں آنحضرت ﷺ کی نقل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مگر خاتم النبین بننے میں نقل کرنا جنون ہے، بے ایمانی ہے.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو خاص حکم دیتا ہے کہ تم اس اس طرح کرو.ان میں ان کی نقل کرنا حماقت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ تم ہو کیا گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.اب اگر ہم بھی یہ کہتے پھریں تو بد تہذیب کہلائیں گے یا نہیں ؟ نبی تو ایک فیصلہ سناتا ہے، جیسے ایک مجسٹریٹ سناتا ہے کہ تم چور ہو اور میں تم کو چھ ماہ قید کی سزا دیتا ہوں.لیکن ہم ایسا نہیں کہہ سکتے خواہ کوئی چور ہی ہو ہم اسے چور نہیں کہہ سکتے.کوئی مجسٹریٹ یہ نہیں کہتا کہ تم بڑے نمازی ہو، پر ہیز گار ہو اس لئے میں تم کو سزا دیتا ہوں.وہ چور کہہ کر ہی سزا دیتا ہے.لیکن اگر کوئی دوسرا کسی کو چور کہے تو اُسے عیب چین اور بد گو کہا جائے گا.لیکن مجسٹریٹ کہتا ہے تو سب کہتے ہیں کیا انصاف کیا.پس انبیاء کی کسی ایسی بات کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا.میں نے اخبار والوں کو بار ہا توجہ دلائی ہے کہ سخت الفاظ کا استعمال نہیں ہونا چاہئے.اگر کوئی مضمون نگار اس بارہ میں دشمنوں کی نقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ وہ بختی کرتے ہیں اس لئے ہم بھی سختی کریں تو وہ غلطی کرتا ہے.اس صورت میں ہم میں اور دوسروں میں فرق کیا رہے گا.میں ہمیشہ کسی مخالف کا نام لیتے ہوئے ساتھ صاحب کا لفظ لگاتا ہوں اور عزت سے نام لیتا ہوں.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ مجھ میں غیرت نہیں یا مجھے غصہ نہیں آتا.آتا ہے اور ضرور آتا ہے مگر میں کہتا ہوں " ایاز قدر خود بشناس“ جو رتبہ نبی کا ہے ، وہ اُسی کا ہے اور ہمارا رتبہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا.میں نے دیکھا کہ بعض لوگ لکھتے وقت بے احتیاطی کرتے ہیں.مضمون لکھتے ہیں تو جواب میں سخت لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ دشمن کے بیسیوں الفاظ کے جواب میں یہ ایک لفظ ہم نے لکھا ہے حالانکہ وہ ایک لفظ بھی مناسب نہیں تا.مظلومیت کا حربہ بہت بڑا حربہ ہے.دیکھو ! یزید نے حضرت امام حسینؓ کو گالیاں دیں اور بہت ظلم کی کئے لیکن امام حسین نے مظلومیت دکھائی اور نتیجہ دیکھ لو یزید کا کوئی نام بھی نہیں لیتا اور حضرت امام حسین کا
خطبات محمود ۵۰۰ سال ۱۹۳۷ء آج بھی ماتم کیا جاتا ہے.تو مظلومیت کا رتبہ بڑا ہے جس کی ہمارے دوستوں کو قدر کرنی چاہئے اور اگر وہ ظالموں کی صف میں کھڑا ہونے کی بجائے مظلومیت دنیا کے سامنے پیش کریں تو یہ زیادہ اچھا ہے.مومن تو دنیا میں آتا ہی مظلوم بننے کیلئے ہے.اس کی مثال تو اس شخص کی ہوتی ہے جو دولڑنے والوں کو چھڑاتا ہے اور جسے دونوں ہی مارتے ہیں اور اس طرح اس کا کام ہی مظلوم بننا ہوتا ہے.پس میں دوستوں کو خصوصاً اخبار والوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سخت الفاظ استعمال نہ کیا کریں.اگر کسی مضمون میں کوئی سخت لفظ ہو بھی تو اسے کاٹ دیں.ایڈیٹر کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جو لفظ کی نا مناسب سمجھے اسے کاٹ دے اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو وہ اپنا مضمون واپس لے لے.یہ کوئی عذر نہیں کہ ہم نے دشمن کی بیسیوں گالیوں کے مقابلہ میں صرف ایک آدھ لفظ ہی سخت استعمال کیا ہے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ بیسیوں گالیاں سننے کے بعد ، چالیس، پچاس اور سو بلکہ ہزار کا بھی انتظار کریں.رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ حضرت ابو بکر کے ساتھ کسی شخص کا اختلاف ہو گیا.وہ شخص مَغْلُوبُ الْغَضَبُ تھا.اُس نے سخت الفاظ استعمال کرنے شروع کر دئیے.کچھ دیر حضرت ابو بکر خاموش رہے مگر آخر آپ کو بھی غصہ آگیا اور آپ نے بھی کوئی سخت لفظ استعمال کیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر ! اس وقت تک فرشتے تمہارے طرف سے جواب دے رہے تھے.مگر جب دیکھا کہ تم خود جواب دینے لگے ہو تو وہ لوٹ گئے کہ اب اس نے اپنا کام آپ سنبھال لیا ہے.پس اپنے مقصود کو سامنے رکھو میرا یہ مطلب نہیں کہ جواب نہ دو.جواب میں حق نہ کہنے والے کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گونگا شیطان فرمایا ہے.پس جواب دو اور ضرور دو مگر گالی اور سخت کلامی سے نہیں بلکہ نرمی اور رفق سے.جب کوئی شخص غصہ میں آ جائے تو دلائل بھول جاتا ہے اور لفاظی پر خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے کیسا منہ توڑ جواب دیا.حالانکہ دراصل وہ دشمن کا منہ تو نہیں رہا ہوتا بلکہ اپنا ہی قلم توڑ دیتا ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ جواب مت دو.جواب نہ دینے والے کو رسول کریم ﷺ نے گونگا شیطان قرار یا بنے ہے.بلکہ مجھے یہ افسوس ہے کہ اس وقت ہمارے بعض دوست عملی طور پر گونگے شیطان کے مثیل.ہوئے ہیں.ان کو بھی چاہئے کہ سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ کریں.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ سختی
خطبات محمود ۵۰۱ سال ۱۹۳۷ء الفاظ استعمال نہ کریں بلکہ قرآن کریم اور احادیث کے رو سے جواب دیں.دوسرا امر جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تحریک جدید کے تین سال اب ختم ہو رہے ہیں.جب میں نے یہ اوران تحریک شروع کی تھی ، اُس وقت جماعت کیلئے ایک نیا صدمہ تھا اور دوستوں کیلئے یہ حیرت انگیز بات تھی کہ گورنمنٹ کے بعض افسر بھی ہمارے خلاف ہو گئے تھے.اس نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں اور ی انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ ہمارے لئے یہی مقدر ہے کہ ہم امن سے اپنا کام کرتے جائیں گے.سرکاری حکام کا یہ سلوک اِس قدر آنکھیں کھولنے والا تھا کہ بہت سے سوئے ہوئے بیدار ہو گئے.اور لازمی طور پر ہماری بیداری کے ساتھ ہمارے دشمن بھی بیدار ہوئے خواہ وہ حکام میں سے تھے، خواہ احرار میں سے اور خواہ وہ دوسرے مولویوں میں سے.انہوں نے باہر سے بھی ہم پر حملے کرنے کی شروع کئے اور اندرونی طور پر بھی.ہم میں سے بعض کو اپنے ساتھ ملانا چاہا ” Divide & Rule ایک پرانا اصولِ حکمرانی ہے.رومن حکومت کی بنیاد اسی اصول پر تھی ، یعنی محکوموں میں باہم تفریق پیدا کرو اور ان پر حکومت کرتے جاؤ.اور بعض انگریز سیاست دانوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت کی بنیاد بھی اسی اصل پر ہے.چنانچہ اس اصل کے ماتحت ہم میں سے بعض لوگوں کے اندر بھی منافقت پیدا کی کرنے کی کوشش کی گئی.چنانچہ پنجاب کے جیلوں کے ایک بڑے افسر کے ذریعہ بالواسطہ طور پر مجھے معلوم ہوا یعنی اُس نے ایک معزز احمدی افسر کو بتایا ہے کہ احرار کے ایک اہم اور ذمہ داری قیدی.سے ۱۹۳۵ء میں کہا کہ یہ مت خیال کرو کہ قادیان کے خلاف ہماری تحریک ناکام ہوئی ہے بلکہ ہم نے ان میں سے ہیں پچھپیں آدمی اپنے ساتھ ملالئے ہیں اور اس طرح جماعت کے اندر تفرقہ پیدا کر چکے ہیں.یہ ۱۹۳۵ء کی بات ہے مگر یہ تدبیریں انہوں نے انسانوں کی طاقت کا اندازہ کر کے کی تھیں خدائی کی طاقتوں کا ان کو علم نہ تھا.انسانی طاقتوں کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ اصول بیشک صحیح ہے مگر خدائی طاقتوں کیلئے نہیں.کیونکہ خدائی طاقتوں کی جڑ خود خدا تعالیٰ ہوتا ہے اور انسان محض فروع ہوتے ہیں اور جب درخت کی جڑ کٹ جائے تو اسے نقصان پہنچتا ہے.لیکن شاخیں کاٹنے سے اکثر درخت پھیلتا ہے بلکہ بعض درخت تو ترقی ہی اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی شاخیں کائی جائیں.ہمارے مخالفوں نے سمجھا تھا کہ یہ انسانی کام ہے حالانکہ ایسا نہیں.وہ اگر میں چھپیں تو کیا دس لاکھ کو بھی گمراہ کر لیتے بلکہ ساری جماعت کو بھی گمراہ کر لیتے بلکہ ساری جماعت کو بھی گمراہ کر لیتے تو بھی اس درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے
خطبات محمود ۵۰۲ سال ۱۹۳۷ء کیونکہ اس کی جڑ خدا تعالیٰ ہے.پس پہلی شاخیں کٹتے ہی اس میں سے نئی شاخیں نکل آئیں.کئی درخت ایسے ہوتے ہیں کہ جڑ سے کاٹنے پر بھی دوبارہ پھوٹ آتے ہیں.نیکی کا بیج جو انبیاء کے ذریعہ بویا جاتا ہے وہ بھی اسی قسم کا سخت ہوتا ہے.تم اسے کاٹ دیتے ہومگر وہ پھر نکلتا ہے.تم اسے زمین کے اندر گھس کر بھی کاٹ دیتے دو پھر بھی وہ قائم رہتا ہے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ درخت نہیں اُگ سکتا مگر خدا تعالیٰ پھر بھی اس میں سے نیا شگوفہ نکال دیتا ہے.تو دشمنوں نے ہم پر حملے کئے اور ہمیں متواتر تین سال تک ان کا مقابلہ کرنا پڑا اور ان کے جواب کیلئے اور جماعت کو اس نئے رستہ پر ڈالنے کیلئے میں نے یہ تحریک شروع کی جو اس لحاظ سے تحریک جدید ہے کہ اسے اب شروع کیا گیا ورنہ وہ قرآن کریم میں موجود ہے.اس تحریک کے ماتحت ہم نے کئی نئے تجربے کئے ہیں، کئی نئے مشن قائم کئے گئے ہیں اور یہ نیا تجربہ تھا.میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور باہر نکل جائیں ، یہ بھی نیا تجربہ تھا.دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں، یہ بھی نیا تجربہ تھا.تجارت شروع کی جائے ، یہ بھی نیا تجربہ تھا.پھر صنعتی اداروں کا اجراء بھی نیا تجربہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ان سب میں کم و بیش کامیابی ہوئی.سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور بیسیوں باہر نکل گئے.کوئی کہیں چلا گیا اور کوئی کہیں.بعض تین تین سال سے بمبئی اور کراچی میں بیٹھے ہیں.وہ کسی بیرونی ملک میں جانے کی کے ارادہ سے گھروں سے نکلے تھے لیکن چونکہ اب تک کوئی صورت نہیں بن سکی اس لئے ابھی تک اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.ان کے والدین چٹھیاں لکھتے ہیں ، مجھ سے بھی سفارشیں کراتے ہیں مگر وہ ی یہی التجا کرتے ہیں کہ جو ارادہ ایک دفعہ کر لیا اب اسے پورا کرنے کی اجازت دی جائے.بعض ان میں سے اتنے چھوٹی عمر کے ہیں کہ ابھی داڑھی مونچھ تک نہیں نکلی مگر اس راہ میں وہ ٹوکری تک اُٹھاتے ہیں.پھر بعض نوجوان بیرونی ممالک میں پہنچ گئے ہیں اور وہاں بھی کئی نئے تجربے ہمیں حاصل ہوئے ہیں.- آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے لئے مدنی طبع لوگوں لوگوں کی تلاش کرنی ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں اب تک مختلف ممالک میں قریباً پندرہ مشن ہمارے قائم ہو چکے ہیں.امریکہ، اٹلی، ہنگری، پولینڈ، یوگوسلاویہ، یہ مشن البانیہ کیلئے ہے.لیکن چونکہ البانوی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا تھا وہ وہاں کام کر رہا ہے.فلسطین ، جاوا ، سٹریٹ سیٹلمنٹ ، جاپان ، چین ، افریقہ.ان میں سے کئی مبلغ کی ایسے ہیں جو ہمارے خرچ پر گئے ہیں، کئی اپنے خرچ پر گئے ہیں.بعض تجارتوں کے ذریعہ سے اچھے
خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۳۷ء گزارے کر رہے ہیں اور بہت خوش ہیں ، بعض ابھی مشکلات میں ہیں.اور مختلف ممالک کے متعلق بھی ہے ہمیں نئے تجربے ہوئے ہیں.مشرقی ممالک میں سوائے جاوا ، سماٹرا اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے ہمیں ابھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی.چین اور جاپان میں ابھی تک بالکل کامیابی نہیں ہوئی.بلکہ تازہ اطلاع جو آج ہی بذریعہ تار مجھے ملی ہے یہ ہے کہ جاپانی گورنمنٹ نے صوفی عبد القدیر صاحب کو قید کر لیا ہے اور ضمناً میں ان کیلئے دعا کی تحریک بھی کرتا ہوں.اس کے متعلق ہم اب تحقیقات کرئیں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے.لیکن بہر حال چوتھے سال کے ابتداء میں یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا انذار ہے کہ سب حالات پر غور کر کے ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کی مشکلات بھی تبلیغ کے رستہ میں حائل ہوں گی.صوفی عبدالقدیر صاحب تحریک جدید کے تجارتی صیغہ کے نمائندہ تھے.گویا وہ با قاعدہ مبلغ نہیں تھے اور ابھی زبان ہی سیکھ رہے تھے اور اب تو ان کی واپسی کا حکم بھی جاری ہو چکا تھا کیونکہ دوسرے مبلغ یعنی مولوی عبد الغفور صاحب برا در مولوی ابوالعطاء صاحب وہاں جاچکے ہیں.تو تجارتی اغراض کے ماتحت جانے والے ایک احمدی کیلئے جب اس قدر مشکلات ہیں تو تبلیغ کیلئے جانے والوں کیلئے کس قدر ہوں گی.جہاں تک معلوم ہو سکا ہے ان پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ جاپانی گورنمنٹ کے مخالف ہیں اور یہ بھی ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے.انگریز ہمیں کہتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہو اور دوسری حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ تم انگریزوں کے خیر خواہ ہو.بہر حال یہ سب نئے تجربے ہیں جو ہمیں حاصل ہو رہے ہیں اور ان سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس کس قسم کی رکاوٹیں ہمارے رستہ میں پیدا ہونے والی ہیں.پھر ایک نیا تجربہ یہ ہوا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ محمد ابراہیم صاحب ناصر کو اس بناء پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے قائل ہیں.تو ہمیں ان مبلغوں کے ذریعہ سے نئی نئی مشکلات کا علم ہوا ہے.ان کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جن سے جماعت کے اندر بیداری پیدا ہوئی ہے.سادہ زندگی ہے، سینما اور تھیٹروں وغیرہ کی ممانعت ہے.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا حکم ہے.اس سے قوم میں نئی روح پیدا ہوتی ہے اور یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر کوئی قوم قوم نہیں بن سکتی.دنیا میں دو قسم کی رفتاریں ہیں ایک تو یہ کہ جہاز کسی منزل کو سامنے رکھ کر چلے اور دوسری یہ کہ کی ایک شہتیر پانی میں بہا جارہا ہو.پانی جس طرف لے جائے وہ اُدھر ہی چل پڑے.ہم نے جماعت میں
خطبات محمود ۵۰۴ سال ۱۹۳۷ء صرف روانی نہیں پیدا کرنی بلکہ جہاز والی روانی پیدا کرنی ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ جماعت کیلئے کوئی مقصود قرار دیں اور مراقبہ کرتے رہیں کہ ہماری روانی جہاز والی ہے یا شہتیر والی.اگر ہم الہی جماعت ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ایک مقصود کو سامنے رکھ کر جہاز کو اُس لائن پر چلا ئیں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ منزل پر پہنچ سکیں.اور تحریک جدید سے میری غرض یہی ہے کہ جن امور کی طرف جماعت کو توجہ کی ضرورت ہے اور ابھی اُس طرف دھیان نہیں ، اُس طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے اور ہوشیار کیا جائے تاہم اسلامی نظام کی روح کو قائم کریں.اس میں شک نہیں کہ نظام حکومت سے کامل ہوتا ہے مگر جب حکومتوں کو مسلمان بنانے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے اُس وقت تک جتنا بھی اسلامی نظام ہم قائم کر سکتے ہیں اتنا ہی کام ہمیں کرتے رہنا چاہئے اور ایسا کرنے میں کسی شخصیت کی پرواہ نہ کرنی چاہئے.اگر ایک بادشاہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہے مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا تو اسے ایک گندہ عضو سمجھ کر الگ کر دینا چاہئے اور ج اس بات کو بالکل بھول جانا چاہئے کہ یہ جماعت بڑوں اور چھوٹوں اور عالموں اور جاہلوں کی جماعت ہے.اور صرف ایک ہی بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.اگر کوئی آدمی بڑا ہے اور ی وہ نظام کی پرواہ نہیں کرتا تو اسے بھی الگ کر دیں اور اگر کوئی چھوٹا ہے جو ایسا ہے تو اسے بھی الگ کر دیں.اگر کوئی جاہل ہمارے ساتھ نہیں چلتا تو اسے بھی الگ کر دیں اور اگر کوئی عالم نہیں چلتا تو اسے کی بھی.مجھ سے ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا چونکہ اب وہ فوت ہو چکے ہیں میں اُن کا نام بھی لے لی یتا ہوں، وہ صاحب شیخ غلام احمد صاحب واعظ مرحوم تھے.اُنہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک کن لوگوں سے تعلق رکھنے میں جماعت کی مضبوطی ہو سکتی ہے ، امیروں سے یا غریبوں سے؟ یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کے آخری ایام کی بات ہے.انہوں نے صوفیانہ رنگ میں یہ سوال کیا.میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ جماعت کی مضبوطی اُن لوگوں کے ساتھ ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے ہوں، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب کئی دفعہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کا کام کرنے والا ایک غریب ہوتا ہے اور کئی دفعہ امیر.کسی کو کیا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترقی کس کیلئے مقدر کی ہوئی ہے.پس جو خدا تعالیٰ کا ہے وہی ہمارا ہے.اگر امیر خدا تعالیٰ کا ہے تو ہمارے سر آنکھوں پر اور اگر غریب ہے تو وہ ہمارے سر آنکھوں پر.اور جو خدا کا نہیں اسے ہمارا سلام ہے.ہم نہ سوشلسٹ ہیں کہ غریبوں کو ابھارنا ہمارا کام ہو اور نہ کیپٹیلسٹ ہیں کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء سرمایہ داروں کی مدد کریں.ہماری جماعت کوئی کسان موومنٹ نہیں کہ ہم کسانوں کیلئے اپنی سعی کو وقف کر دیں اور نہ یہ کیپٹیلسٹوں کی سوسائٹی ہے کہ تاجروں اور طاقتوروں کی مدد کریں.جو لوگ اس قسم کی باتوں میں پڑتے ہیں وہ ہمیشہ نقصان اُٹھاتے ہیں.یہاں بھی بعض لوگ ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں.کوئی کہتا ہے کہ یہاں غریبوں کی کوئی قدر نہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہاں کسی بڑے چھوٹے کی عزت ہی نہیں.حالانکہ ایسی باتیں کرنے والوں میں خود استقلال نہیں ہوتا.جو کہتے ہیں کہ غریبوں کو کوئی نہیں چھتا ، جب مصری صاحب کا فتنہ اٹھا تو یہی کہتے تھے کہ دیکھو جی اتنے بڑے آدمی کی پرواہ نہیں کی گئی.ایسے لوگوں کو صرف باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے، حقیقت کو وہ نہیں سمجھتے.جو شخص خدا تعالیٰ کے سلسلہ کیلئے مفید ہے ہم اُسے اونچا کرتے ہیں اور جو مضر ہے اُسے الگ کر دیتے ہیں.صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ جدا کر نا ظلم کے رنگ میں نہ ہو بلکہ خیر خواہی کے رنگ میں ہو.دانت آدمی ہمیشہ رنج سے ہی نکلواتا ہے وہ اُس کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے مگر وہ مجبور ہوتا ہے.اسی طرح ہم بھی جسے نکالتے ہیں افسردہ دل کے ساتھ ہی نکالتے ہیں ، خوشی سے نہیں.ہمارے دل غمگین ہوتے ہیں کہ جو چیز ہماری تھی وہ اب ہماری نہیں رہی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی محبت ہمارے دل میں ایسی ہو کہ ہم کہیں جس کی وجہ سے درد پہنچا ہے ، وہ سب سے بڑا ہے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نظم لکھی جس کا ایک مصرعہ یہ ہے ع بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پر اے دل تو جاں فدا کر یعنی بیشک مبارک احمد کی وفات کا صدمہ بڑا ہے مگر اے دل! جس نے اسے اپنے پاس بلایا ہے وہ اس سے بھی زیادہ پیارا ہے.یہی وہ حقیقی معرفت کا مقام ہے جو مومن کو حاصل کرنا چاہئے.جو شخص سچائی کو چھوڑتا ہے، اسے دلیری کے ساتھ مگر افسردگی کے جذبات کے ساتھ الگ کر دیا جائے.یہ تحریک ابتداء تین سال کے لئے تھے اور یہ تین سال تجربہ کے تھے.اور اس کے شروع میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ ختم ہو جائے گی بلکہ تین سال کے بعد یہ اس سے بھی زیادہ تعہد کے ساتھ جاری ہوگی اور زیادہ گراں اور بوجھل سکیم پیش کی جائے گی.آج میں اس نئی تحریک کو بیان تو نہیں کرتا ،صرف احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں پر غور کریں کہ ان تین سالوں میں انہوں نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں ؟ اور اگر کیا ہے تو اس کا کیا نتیجہ ہوا.اور اگر نہیں کیا تو وہ سوچیں کہ انہوں نے ی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء بیعت ہی کیوں کی ہوئی ہے.جوشخص بیعت میں شامل ہوتا ہے وہ اسی لئے ہوتا ہے کہ میں کچھ سکھوں اور اس کے باوجود اگر وہ بے پروائی کرتا ہے تو اس کے صاف معنے ہیں کہ وہ مجھے اپنا اُستاد بنا کر اور ہاتھ میں کی ہاتھ دے کر بھی دنیا کو دھوکا دے رہا ہے اور اپنے نفس کو بھی دھوکا دے رہا ہے.سکول میں جا کر وہی لڑکا کچھ سیکھ سکتا ہے جو سمجھتا ہے کہ اُستاد مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی عزت اور احترام کرتا ہے.اسی تی طرح خلافت ایک مدرسہ ہے اور خلیفہ اُستاد ہے اور جو یہ خیال کرتا ہے کہ یہ استاد مجھے کچھ نہیں سکھا سکتا اس کا اس مدرسہ میں داخل ہونا فضول ہے.پس میں نے جو تحریک کی تھی ، ہر شخص کو چاہئے کہ دیکھے اس پر عمل کرنے سے مجھے فائدہ ہوا ہے یا نقصان.اگر اسے نقصان نظر آئے اور وہ سمجھے کہ اس پر عمل کر کے وہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو گیا ہے تو اسے چاہئے کہ الگ ہو جائے.مثلاً میں نے کہا تھا کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو.ایک ہی کھانا کھاؤ، کپڑوں میں کمی کرو.یہ نہیں کہ امراء بھی کھدر پہنیں بلکہ یہ کہ جو چارکوٹ بنوا تا تھا وہ اب تین ہی بنوائے اور جو تین بنوا تا تھا وہ دو سے ہی گزارہ کرے اور جو پیسے بچیں وہ غریبوں پر خرچ کرے.یا مثلاً سینما میں کوئی نہ جائے.اب ہر شخص غور کرے کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے اس کی روحانیت پر ضرب لگی ہے یا ترقی میں مددملی ہے.اگر وہ سمجھے کہ ضرب لگی ہے تو پھر وہ اس امر پر غور کرے کہ اس کا میرے ہاتھ میں ہاتھ دینا کس کام کا.اور اگر سمجھے کہ فائدہ ہوا ہے تو اسے چاہئے کہ پھر آئندہ پیش ہونے والی سکیم پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جائے.اور اگر وہ دیکھے کہ تحریک تو مفید تھی مگر اس نے عمل نہیں کیا.تو پھر اسے غور کرنا چاہئے کہ جو شخص چشمہ پر بیٹھنے کے باوجود پانی نہیں پیتا وہ کس قدر بیوقوف ہے.پس جن کو فائدہ ہوا ہے وہ پہلے سے زیادہ عمل کرنے کیلئے تیار ہو جائیں اور جس نے عمل ہی نہیں کیا وہ اپنی اصلاح کرے.اس کے علاوہ دوستوں کو چاہئے کہ اپنے وعدے جلد پورے کریں.اس سال قادیان کی جماعت پر بھی بقایا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی تغیرات ہوئے ہیں.ان کی تنخواہیں پہلے ہی کم تھیں اور اس سال ان میں بھی تخفیف کر دی گئی ہے.پھر غلہ بھی گراں رہا ہے مگر مومن کے وعدے ایسے نہیں ہوتے کہ ایسی باتیں ان کے پورا ہونے میں روک بن سکیں.لاہور کی جماعت بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں اچھی ثابت نہیں ہوئی.پھر ہندوستان کے باہر کی جماعتوں کے ذمہ.۲۵۰۰۰ کی رقم بقایای ہے.اس میں شک نہیں کہ ابھی ان کی مدت جون ۱۹۳۸ ء تک ہے مگر رقم بھی ابھی بہت زیادہ ہے اور ان
خطبات محمود ۵۰۷ سال ۱۹۳۷ء کے بقائے ان کو مجرم نہیں تو سست ضرور ثابت کرتے ہیں.پس انہیں چاہئے کہ وعدے پورے کرنے کی طرف جلد توجہ کریں.اسی طرح ہندوستان کی اکثر جماعتوں کے ذمہ ابھی بقائے ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ بتائے جلد ادا کریں.جو شخص پہلا قدم صحیح اُٹھاتا ہے اُسے اگلا قدم بھی صحیح طور پر اٹھانے کی توفیق ملتی ہے.اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے بقائے صاف کریں تا اللہ تعالیٰ انہیں آئندہ اور نیکیوں کی توفیق دے آخر میں میں پھر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی زندگیوں کو عملی زندگیاں بناؤ.اب خالی دعووں کا وقت گزر چکا.ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دشمن کے دل میں بھی یہ لالچ پیدا ہو کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ = یعنی کئی ان کے دفعہ کافروں کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ ایسے اچھے لوگ ہیں اور دنیا کے بہترین وجود ہیں ، کاش ہم بھی ایسے ہوتے.یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر کامیابی حاصل ہوتی ہے.جس دن کفار کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو، جس دن اردگرد کے لوگ ہندو، سکھ ، غیر احمدی ہمارے اعمال ، نظام، تقوی اور صداقت کو دیکھ کر یہ خیال کریں کہ کاش ہم بھی ایسے ہوں ، اُس دن اور صرف اُس دن خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوگی.الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۷ء) ۲۸ البقرة: ۱۴۹ کے بنی اسرائیل: ۲۱ الحج: ۵۳ الانفال: ۳۴ موضوعات کبیر.ملاعلی قاری صفحه ۵۹ مطبوعہ دلی ۱۳۴۶ھ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء الحجر: ٣
خطبات محمود ۵۰۸ ۳۴ سال ۱۹۳۷ء قبولیت دعا کے خاص دنوں میں خصوصیت سے دُعائیں کرو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی تسلی کیلئے قسموں کا اعلان (فرموده ۱۲/ نومبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں آج بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن سحری کے وقت چونکہ نماز میں نے بغیر کافی گرم کپڑوں کے پڑھی ، سردی لگ کر گلے پر نزلہ گرنے لگ گیا.اس لئے شاید میں اپنی آواز دور تک نہ پہنچا سکوں اور ممکن ہے میں اس قد رلمبا نہ بول سکوں جس قدر بولنا چاہتا تھا.اس موقع پر حضور نے ایک تار ملاحظہ کر کے فرمایا.کوئی دوست سردار خان صاحب بنارس کے رہنے والے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ ان کا بچہ سخت بیمار ہے.دوست اس کی صحت کیلئے دعا کریں ).پھر فرمایا:- سب سے پہلے تو میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا یہ پہلا جمعہ ہے.جس دن کے متعلق ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول کی معرفت یہ خبر دی گئی ہے کہ اس دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں مومن اپنے رب کے حضور جو دُعا بھی کرے خدا تعالیٰ اُس کو قبول کرتا ہے اور رمضان وہ مہینہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنّى قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوَلِى
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمُ يَرْشُدُونَ ے کہ رمضان کے ایام ایسے مبارک ہیں کہ ان دنوں کی عبادتوں کے لے جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو تو انہیں کہہ دے کہ میں بالکل قریب ہوں.جِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب مجھے کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.گویا رمضان کی راتیں دعاؤں کی قبولیت کیلئے خاص ہیں اور جمعہ کے دن دعاؤں کی قبولیت کیلئے مخصوص ہیں.جس کے معنے یہ ہوئے کہ رمضان کے مہینہ میں جو جمعہ آتا ہے وہ ایسا با برکت ہوتا ہے کہ نہ صرف اس دن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں بلکہ اس رات کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں.دوسرے جمعوں میں صرف دن کے وقت دعاؤں کی قبولیت کی بشارت ہے اور رمضان میں سے صرف رمضان کی راتوں میں قبولیت دعا کا ارشاد ہے مگر جب جمعہ اور رمضان اکٹھے ہو جائیں تو ایک ارشاد کے ماتحت دن کو دعائیں سنی جاتی ہیں اور دوسرے ارشاد کے ماتحت رات کو دعائیں سنی جاتی ہیں.پس ان دنوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور جیسا کہ ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ جب لوگ کسی کو خط لکھتے ہیں تو اس میں اپنے متعلق خاکسار، نابکار ، شرمسار، گنہگار یا حقیر، ناچیز اور بندہ ذلیل وغیرہ الفاظ لکھتے ہیں.یا بات بھی کرتے ہیں تو کہتے ہیں میں تو کیا ہوں خاک پا ہوں.سو ہماری ان منکسرا نہ دعا میں اگر ذرہ بھر بھی حقیقت پائی جاتی ہوئی تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں پوری طرح اپنی کمزوریوں کا اقرار اور اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے اور اگر ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اپنی کمزوریوں کا اقرار کرتے ہوں تو اس میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس عظیم الشان مقصد کیلئے جو ہمارے جیسے کمزور آدمیوں کے سپرد کیا گیا ہے ہمارے لئے دعا ئیں کرنا نہایت ضروری ہے اور کوئی راستباز اسے نظر انداز نہیں کرسکتا.اگر ہم واقعہ میں کمزور اور نا تو اں ہیں اور اگر واقعہ میں وہ کام جو ہمارے سپرد کیا گیا نہایت ہی اہم اور مشکل ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسا کام ہم سے کس طرح سرانجام دیا جا سکتا ہے.ادھر یہ کام اپنے اتمام کیلئے ایک بہت بڑی طاقت چاہتا ہے اور ادھر ہم سخت کمزور اور ناتواں ہیں.ان حالات میں دو باتوں میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی.(1) یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ان دونوں دعووں میں سے ایک دعویٰ غلط ہے.یعنی یا تو ہمارا انکسار کا دعویٰ غلط ہے اور یا ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ کام بہت مشکل (۲) اگر ہمارے یہ دونوں دعوے صحیح ہوں اور ایک بھی ان میں سے غلط نہ ہو تو پھر ہمیں یہ
خطبات محمود ۵۱۰ سال ۱۹۳۷ء تسلیم کرنا پڑے گا کہ یا تو اس کام نے ہونا ہی نہیں اور یا پھر یہ کہ اس کام کے سرانجام دینے کیلئے خدا تعالیٰ نے ہماری کوششوں کے سوا کوئی اور ذرائع بھی مقرر فرمائے ہیں.چونکہ یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے کہ اس کام نے ضرور ہو کر رہنا ہے.اس لئے آخری نتیجہ پھر بھی یہی نکلتا ہے کہ اس کام کیلئے ہماری کوششوں کے مکی علاوہ کوئی اور ذرائع اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور جب ہم یقینی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جائیں تو اس کی مقصد کو پورا کرنے کیلئے جو ہمارے سامنے ہے، ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں کہ اے خدا! ہمارے ہاتھوں سے تو یہ مقصد پورا ہونے کا نہیں.تیرے حکم کے ماتحت ہم ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تو بھی اپنے فضل سے ان مخفی ذرائع کو ظاہر کر اور ہماری تائید میں لگا دے جو تو نے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مقرر فرمائے ہیں تا کہ یہ ناممکن کام ممکن ہو جائے اور ہماری خواب ایک حقیقت کی شکل میں تبدیل ہو جائے.اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف ظاہری آلہ بنایا ہے ورنہ اصل آلہ کار جس سے اُس نے دنیا کو فتح کرنا ہے اور ہے.ہماری مثال ویسی ہی ہے جیسے محمد ﷺ نے کنکر اُٹھا کر بدر کے دن پھینکے تھے.اللہ تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى کہ یہ تمہارا کنکر پھینکنا، تمہارا کنکر پھینکنا نہیں بلکہ خدا کا کنکر پھینکنا ہے.اگر یہ کنکر تم پھینکتے تو ان کنکروں کا کیا تھا تھوڑی ہے دور جا کر یہ زمین پر گر پڑتے.مگر یہ تم نے کنکر نہیں پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے.ادھر تمہارا ہاتھ پلا اُدھر ہم نے آندھی کو بھی ساتھ ہی چلا دیا اور اُس نے کروڑوں کروڑ اور اربوں ارب اور کنکر اُٹھا کر کفار کی آنکھوں میں ڈال دیئے.نتیجہ یہ ہوا کہ کفار بالکل حملہ نہ کر سکے.کیونکہ جو سوار سامنے کی طرف دیکھ ہی نہیں سکتا اس نے دشمن کا مقابلہ کیا کرنا ہے.غرض سب حالات کو دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ہماری حیثیت بدر کے ان کنکروں کی سی ہے جنہیں محمد ﷺ نے اپنی مٹھی میں لیا اور کفار کی طرف پھینکا.اُن کی کنکروں نے کفار کو اندھا نہیں کیا تھا جو رسول کریم ﷺ نے پھینکے بلکہ اُن کنکروں نے کفار کو اندھا کیا جو خدا تعالیٰ نے آندھی کے ذریعہ اُڑائے.پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے سوا کوئی اور آلہ ہے جس نے کام کرنا ہے اور کوئی اور سامان پیدا کئے گئے ہیں جنہوں نے اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے اور وہ آلہ اور وہ ہتھیار جن سے دنیا پر اسلام کو غالب کیا جا سکتا ہے بندے کی وہ دعائیں ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے جس سے ناممکن کام بھی ممکن ہو جاتے ہیں.
خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۳۷ء صرف یہی چیز ہے جس پر ہماری فتح اور کامیابی مقدر ہے.اور چونکہ یہ دن خصوصیت سے دعاؤں کے دن ہیں اس لئے ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بالالتزام یہ دعا کریں کہ وہ اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان پیدا کرے.ہماری کمزوریوں کو دور کرے، ہماری کوتاہیوں سے چشم پوشی کی کرے، ہماری خطاؤں کو معاف کرے اور اپنے فضل سے ہمیں وہ سامان عطا فرمائے جن سامانوں سے ہمارا مقصود ہمیں حاصل ہو.کیونکہ گو ہم کمزور ہیں مگر کام اُسی کا ہے اور ہماری شکست اور نا کامی اُسی کے جلال کے ظہور میں حارج ہوگی.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں تا ہماری غفلتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا جلال پوشیدہ نہ ہو جائے اور ہماری کوتاہیاں نادانوں کی نگاہ میں اس کی شکست قرار نہ پائیں اور وہ اپنے فضل سے اپنے نام، اپنے جلال اور اپنی عزت کے ظہور کیلئے ہمارے کمزور ہاتھوں میں وہ طاقت پیدا کر دے جو کام کو سرانجام دینے کیلئے ضروری ہے.پھر اس کے ساتھ ہی جماعت کے افراد کیلئے بھی دعائیں کرو اور اپنے اہل وعیال اور دوستوں اور عزیزوں کیلئے بھی دعائیں کروتا اللہ تعالیٰ ہم سب میں حقیقی تقویٰ پیدا کرے.یہ امر اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک نیکی اور تقویٰ دنیا میں قائم نہیں ہو جاتا ، ہمیں وہ ثمرات میسر نہیں آسکتے جو ہمارے لئے مقدر ہیں.ایک انسان میں غلطیاں بھی ہوں ، وہ گنہ گار بھی ہو ، وہ قصور وار بھی ہومگر جب تک اُس کے دل میں تقویٰ رہتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو ڈھانپتا چلاج ہے اور بالآخر ا سے توبہ کی توفیق دے دیتا ہے.پس سب سے پہلے جماعت کے افراد کیلئے دُعا کرو اور اپنے اہل وعیال اور رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے بھی کہ ہم میں سے ہر شخص کو تقویٰ اللہ نصیب ہو.تقویٰ خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف کو کہا جاتا ہے اور جب تک کسی شخص کے دل میں اُس کا خوف رہتا ہے اُس وقت تک وہ گناہ کی حالت میں بھی خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے.کیونکہ گو گناہ ایک کمزوری کی علامت ہے مگر خشیت اللہ کے معنے ہیں خدا کی محبت.اور گوخشیت خوف کو کہا جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا ڈر ایسا نہیں ہوتا جیسے سانپ کے زہر سے انسان ڈرتا ہے.اس کے ڈر کے معنے اُس کی محبت کے ہی ہوتے ہیں اور در حقیقت محبت الہی کا ہی دوسرا نام خشیت اللہ اور تقویٰ اللہ ہے.اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی چیز ہے کہ جس دل میں اس کا ایک شمہ بھی باقی ہو اُس کا تباہ ہونا بڑا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ جس شخص کے دل میں اس کی سچی محبت ہو وہ اسے ضائع کی
خطبات محمود ۵۱۲ سال ۱۹۳۷ء کر دے.اس لئے یا تو وہ ایسے شخص کوتوبہ کی توفیق دے دیتا ہے یا انسان اگر کبھی غفلت سے تقویٰ کا بیج اپنے دل سے بالکل ضائع کر دے تو اُس وقت اُسے سزا دیتا ہے.مگر جب تک کسی انسان کے دل میں تقومی قائم رہتا ہے اُسے سزا اس رنگ میں کبھی نہیں ملتی جو اُ سے تباہ کر دے اور ایسے شخص کی نجات نہ صرف ممکن بلکہ سہل الحصول ہوتی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کا اکلوتا بچہ ہو اور اس کی ماں بڑھیا ہو.یا بڑھیا تو نہ ہو مگر اس کا خاوند مر چکا ہو.ایسی ماں اور ایسے بچہ میں بھی کبھی کبھی لڑائی ہو جاتی ہے.اختلاف بے شک بُری ھے ہے لیکن کبھی نہ کبھی عزیز ترین وجود وں میں بھی اور ایسے ماں بچے میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.اس وقت اس بچہ کی ماں اس پر ناراض ہو جاتی ہے.لیکن ماں کی ناراضگی ایسی ہی ہوتی ہے کہ اُدھر وہ خفا ہو کر منہ ایک طرف کر لیتی ہے اور ادھر کنکھیوں سے اُسے دیکھتی بھی جاتی ہے تا بچہ میں اگر ذرا سی بھی تبدیلی یا رغبت پیدا ہو تو وہ اسے کی دوڑ کر گود میں اُٹھا لے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب تین صحابہ سے ایک غلطی ہوئی اور وہ با وجود جنگ میں شامل ہونے کی طاقت رکھنے کے شامل نہ ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ سزا دی کہ ان کے بیوی بچے ان سے الگ کر لئے.ان سے بولنا منع کر دیا ، ان سے لین دین کے تعلقات رکھنے ممنوع قرار ے دیئے اور ان سے تمام مسلمانوں کو ہر قسم کا معاملہ کرنے سے روک دیا.تو انہی تین شخصوں میں سے ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاتا آپ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتا اور پھر دیکھا کہ جواب میں آپ کے ہونٹ ہلتے ہیں یا نہیں.وہ چونکہ یہ جانتا تھا کہ رسول کریم ہے نے جب ان سے بولنا منع کیا ہوا ہے تو آپ اونچی آواز سے جواب نہیں دیں گے.اس لئے وہ سلام کہہ کر آپ کے کی ہونٹوں کی طرف دیکھتا اور خیال کرتا کہ شاید آپ منہ میں میرے سلام کا جواب دے دیں.مگر جب دیکھتا کہ آپ کے ہونٹ نہیں ہلے تو گھبرا کر مسجد سے باہر آجاتا.اور پھر دوبارہ جا کر اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتا اور خیال کرتا کہ شاید پہلی دفعہ رسول کریم ﷺ نے میری آواز نہیں سنی اور سلام کہہ کر پھر غور سے دیکھتا کہ آپ کے ہونٹ جواب میں ہلے ہیں یا نہیں.مگر جب دیکھتا کہ نہیں ہلے تو پھر چلا جاتا اور خیال کرتا کہ دونوں دفعہ میری آنکھیں چوک گئی ہیں اور پھر تیسری دفعہ جا کر اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتا اور آپ کے ہونٹوں کو خوب غور سے دیکھتا رہتا کہ ان میں حرکت پیدا ہوئی ہے یا نہیں.وہ صحابی کہتے ہیں کہ بار بار اس کی
خطبات محمود ۵۱۳ سال ۱۹۳۷ء ނ طرح کرنے پر بھی رسول کریم ہے کے ہونٹوں میں مجھے کوئی حرکت نظر نہ آتی.یہ وہ شخص تھا جو خطا کاری تھا ، جو گنہ گار تھا اور اسے اپنے ایک قصور کی وجہ سے سزا ملی تھی مگر اس کے دل سے محمد حملے کی محبت نہیں گئی تھی.وہ چاہتا تھا کہ خدا میرا قصور معاف کرے اور پھر مجھے اپنے دامنِ رحمت میں لے لے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے سلام کا جواب نہیں دیتے تھے.کیونکہ جو حکم آپ نے تمام مسلمانوں کو دیا تھا آپ کے لئے بھی اس کی تعمیل ضروری تھی.مگر وہ روایت کرتے ہیں کہ مجلس میں جب میرا کسی دوسری طرف دھیان ہوتا اور یکدم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرنظر پڑتی تو مجھے دکھائی دیتا کہ آپ کنکھیوں سے میری طرف دیکھ رہے ہیں.اب دیکھو ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی جو آپ نے تمام مسلمانوں کو دیا خود بھی تعمیل کرتے اور سلام کا جواب تک نہیں دیتے.مگر دوسری طرف اسے کنکھیوں.دیکھتے بھی جاتے ہیں.سے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ تو بہ اور حقیقی ندامت کے آثار پوری طرح اس میں ظاہر ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے.پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جو محبت رکھتا ہے، اس کا بھی رسول کریم ﷺ نے ایک مثال میں ذکر فرمایا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی محبت بھی ایک بڑی چیز تھی مگر خدا کی محبت تو بہت ہی بڑی چیز ہے.اور کسی انسان کی محبت خواہ وہ محمد اللہ ہی کیوں نہ ہوں ، اس حد تک کہاں پہنچ سکتی ہے جس حد تک خدا تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے.وہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی " ہے اور اس سے کسی کو کوئی مشارکت نہیں ، خواہ وہ نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو.پس رسول کریم ﷺ کی محبت کا جب یہ نمونہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا کیا کہنا.وہ جس محبت اور پیار سے بندے کی طرف دیکھتا ہے اُس کا نقشہ ہم نہیں کھینچ سکتے.ہم جب اُس کی جنت کا نقشہ نہیں کھینچ سکتے تو اُس کی محبت کا نقشہ کس طرح کھینچ سکتے ہیں.بندوں کے متعلق ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ان کے اعمال کی کیفیت بیان کر سکتے ہیں ، ان کے قلوب کی کیفیت بیان کی نہیں کر سکتے.پھر خدا تعالیٰ جس کے افعال کو بھی ہم نہیں سمجھ سکتے ، اُس کی کیفیت محبت کو ہم کہاں سمجھ سکتے ہیں.مگر پھر بھی مثالوں سے حقیقت قریب کی جاسکتی ہے اور رسول کریم ﷺ نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو کی مثالوں سے ہی سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے.بدر کی جنگ میں جب دشمن شکست کھا چکا.جب مسلمانوں کی تلوار میں کفار کی گردنیں اڑا رہی تھیں.جب بڑے بڑے جری سپاہی اپنی سواریوں پر بیٹھے پور.زور سے انہیں کوڑے مار کر بھگائے لے جا رہے تھے تا جتنی جلد وہ مسلمانوں کی فوج سے دور پہنچ سکتے
خطبات محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۷ء ہوں پہنچ جائیں.اُس وقت ایک عورت دیوانہ وار میدان جنگ میں پھرنے لگی اور بغیر اس خیال کے کہ کوئی مسلمان سپاہی اُسے گرفتار کر لے گا، وہ ایک جوش اور جنون کی حالت میں کبھی ایک بچہ کو اٹھاتی اور کبھی دوسرے کو.رسول کریم ﷺ نے اس عورت کو دیکھا تو صحابہ سے فرمایا تمہیں پتہ ہے یہ عورت کیوں اس میدان میں گھبرائی ہوئی پھر رہی ہے؟ پھر خود ہی فرمایا اس عورت کا بچہ کھو گیا ہے اور یہ اسے تلاش کی کر رہی ہے.مگر دیکھو اپنے بچہ کی محبت میں اسے یہ ہوش ہی نہیں کہ یہاں کیا تباہی مچی ہوئی ہے.چنانچہ وہ عورت اس میدان میں جو نہی کسی بچہ کو دیکھتی دوڑ کر اُس سے چمٹ جاتی اور اسے گلے لگا لیتی اور جب دیکھتی کہ وہ اس کا بچہ نہیں تو اسے پیار کر کے چھوڑ دیتی.پھر آگے بڑھتی اور جب کوئی اور بچہ اسے نظر آتا تو ی دوڑ کر اُسے گلے لگا لیتی اور جب دیکھتی کہ وہ بھی اس کا بچہ نہیں تو اسے بھی پیار کر کے چھوڑ دیتی اور پھر دیوانہ وار ادھر اُدھر تلاش کرنے لگ جاتی.آخر اسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا.اس نے اپنے بچہ کو گلے سے چمٹالیا اور چھاتی سے لگا کر اسے پیار کرنے لگی اور پھر نہایت اطمینان سے وہیں بیٹھ گئی اور دنیا جہان سے بالکل غافل ہو گئی.وہ اس بات کو بھول گئی کہ یہاں کوئی جنگ ہورہی ہے ، وہ اس بات کو بھول گئی کہ یہاں لوگ قتل ہورہے ہیں ، وہ اس بات کو بھول گئی کہ یہاں ہر لمحہ جان جانے کا خطرہ ہے.وہ دنیا وَمَافِیھا سے غافل ہوگئی اور جب اسے اپنا بچہل گیا تو اس نے سمجھا کہ اب میر.لئے امن ہی امن ہے.رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا جب اسے اپنا بچہل گیا تو یہ کس اطمینان سے بیٹھ گئی لیکن جب کھویا ہوا تھا تو کیسی مضطرب اور بے قرار تھی.پھر آپ نے فرمایا یہی مثال اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کی ہے بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے جو بندہ اپنے گنا ہوں اور اپنی خطاؤں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو کھودیتا ہے اس کا خدا تعالیٰ کو ایسا ہی قلق ہوتا ہے جیسے اس عورت کو اپنے بچہ کے کھوئے جانے پر ہوا.اور پھر جب بندہ تو بہ کر کے اس کی طرف واپس آتا ہے تو اسے ویسی ہی خوشی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جیسی اس عورت کو اپنا بچہ ملنے پر ہوئی.ھے تو ہمارا خدا ہمیں بخشنے کیلئے تیار ہے بشرطیکہ ہم اس کی بخشش کو ڈھونڈ نے کیلئے تیار ہوں..وہ دیکھ رہا ہے کہ ہم کب اس کی طرف بڑھتے ہیں.وہ ہمارا انتظار کر رہا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ الفاظ استعمال کرنے جائز ہوتے تو میں کہتا کہ وہ مضطرب ہے.وہ ایک گھبراہٹ اور قلق میں ہے کہ میرا بندہ میرے پاس کیوں نہیں آتا.دیر صرف ہماری ہی طرف سے ہے، کوتا ہی صرف ہماری ہی
خطبات محمود ۵۱۵ سال ۱۹۳۷ء ہے ورنہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ، اُس کے حضور تو بہ کرتا اور اس سے درخواست معافی کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی بخشش اُس کو ڈھانپ لیتی ہے اور نہ صرف اُس کے گناہوں کو بھول جاتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی بھلوا دیتی ہے.سبھی خدا تعالیٰ کا نام ساتر نہیں بلکہ ستار ہے اور ستار وہ ہوتا ہے جس میں صفت ستر کی تکرار اور شدت آئی جائے.دنیا صرف ساتر ہو سکتی ہے یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کسی کو کسی کے گناہ کا علم ہوتو وہ اُسے بیان نہ کرے مگر وہ دوسروں کے ذہن سے کسی کے گناہ کا علم نہیں نکال سکتا.مگر خدا تعالیٰ چونکہ قادر ہے اس لئے اُس نے کہا کہ میں ساتھ نہیں بلکہ ستار ہوں.یعنی میں صرف یہی نہیں کرتا کہ بندوں کے گناہ معاف کر دیتا ہوں بلکہ میں لوگوں کے ذہنوں سے بھی ان گناہوں کی یاد نکال دیتا ہوں اور انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ فلاں نے کبھی فلاں گناہ کیا تھا.اگر خدا تعالیٰ ستار نہ ہوتا تو گنہگار کیلئے جنت میں بھی امن نہ ہوتا.وہ ہر شخص کی طرف دیکھتا اور کہتا اس کو میرے گناہ کا علم ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ کہ فرمایا کہ میں ستار ہوں اور میں نہ صرف لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہوں بلکہ لوگوں کے حافظوں پر بھی تصرف کرتا ہوں.یہاں تک کہ دوسروں کو اس کا گناہ یاد ہی نہیں رہتا.اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی ہمیشہ سے ہی نیک تھا.یہ ہمیشہ سے ہی پاکیزہ خصائل رکھنے والا تھا.تو ہمارا واسطہ ایک ستار العیوب اور غفار الذنوب خدا سے ہے.جو نہ صرف ہمیں بخشنے کیلئے تیار ہے بلکہ وہ ہماری کھوئی ہوئی عزت ہمیں واپس دینے اور اسے دوبارہ دنیا میں قائم کر دینے کیلئے آمادہ ہے.وہ نہ صرف مزید عزت دیتا بلکہ پہلی بدنامی کو بھی دور کر دیتا ہے.ایسے خدا کی خاطر جو ہماری عزت کا اتنا خیال رکھتا ہے کونسی قربانی ہے جو بڑی ہو سکتی ہے.یقیناً اس کی خاطر ہر قربانی حقیر اور ذلیل ہے اور اس کیلئے ایک عزت کیا اگر ہزار عزتیں بھی قربان کرنی پڑیں تو وہ گراں نہیں ہوسکتیں کیونکہ عزتیں اُسی کی طرف سے آتی ہیں اور ذلتوں کو بھی وہی دور کرتا ہے.پس دعائیں کرو اپنے لئے ، سلسلہ کیلئے اور ان تمام روکوں کے دور ہونے کیلئے جو ترقی سلسلہ کی راہ میں حائل ہیں تا اللہ تعالیٰ ہمارے قصوروں اور ہماری غلطیوں کو معاف کرے اور ہمارے اندر ایسی طاقت پیدا کر دے کہ جس طاقت سے کام لیتے ہوئے ہم اس کے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر سکیں اور اُس کے دین کے بچے خادم بن جائیں.ایسے خادم جن کے دلوں میں رات دن یہی خیالات موجزن رہیں کہ اس کے دین کو بلند کریں.اس کے نام کو اونچا کریں اور اُس کی عزت کو غالب کریں.اور ہمارے اعمال میں اپنے فضل سے ایسی طاقت اور قوت بھر دے کہ دشمنوں کی طاقت اور قوت ہمار.
خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۷ء مقابلہ میں بیچ اور ذلیل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں کو نہ صرف معاف کرے بلکہ ہمارے دلوں میں گنا ہوں سے ایسی نفرت پیدا کر دے کہ ہم اس کے احکام توڑنے کو اپنے لئے زہر سمجھیں جسے کوئی عقلمند پینے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور نیکیوں اور بھلائیوں اور خیرات کی ایسی محبت پیدا کر دے کہ جس طرح جسم کا کوئی حصہ جُدا کرنے سے انسان کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اسی طرح نیکیوں کو چھوڑ نا ہمارے لئے تکلیف اور دُکھ کا موجب ہوا اور تقویٰ ہمارے دل میں مضبوطی سے قائم ہو اور اُس کی محبت ہماری غذا اور اُس کا عشق ہماری دوا ہو.حتی کہ ہمارا اُٹھنا ، ہمارا بیٹھنا ، ہمارا سونا ، ہمارا جا گنا، ہمارا کھانا ، ہمارا پینا ، ہمارا چلنا ، ہمارا پھر نا ، ہمارا جینا اور ہمارا مرنا سب خدا کیلئے ہو اور ہماری زندگی کی ہر گھڑی اُس کی محبت میں گزرے کی اور اُس سے جدائی کی کوئی ساعت ہم پر نہ آئے.یہاں تک کہ جب ہم اس دنیا سے رُخصت ہو کر اگلے جہان میں جائیں تو اسی کے وصال کا ابدی جام ہمیں پلا دیا جائے.ایسا جام جو پھر ہمارے ہونٹوں سے کبھی نہ ہٹایا جائے اور وہ ہماری ہی چیز بن جائے اَللّهُمَّ مِينَ.اس کے بعد میں اس امر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق سفر سے پہلے میں نے کہا تھا کہ میں ایک بات بیان کرنی چاہتا ہوں.مگر اس کیلئے قادیان میں میرا موجود ہونا ضروری ہے تا اگر ضرورت محسوس ہو تو بعد کے خطبات میں اس پر مزید روشنی ڈالی جا سکے.وہ بات یہ ہے کہ میں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے متعلق ایک امر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.جو میں ان کو براہ راست بوجہ موجودہ تعلقات کی نوعیت کے کہنا پسند نہیں کرتا.اس لئے اس خطبہ کے ذریعہ سے کہتا ہوں تا دوسرے لوگ بھی سُن لیں اور شیخ صاحب تک بھی بات پہنچ جائے.آگے ان کی مرضی ہے وہ جس طرح چاہیں کریں ، میری طرف سے ان پر حجت پوری ہو جائے گی.جیسا کہ میں نے قادیان سے جانے سے پہلے بیان کیا تھا میرا ارادہ تو پہلے ہی اس بات کو کہنے کا تھا لیکن اس سفر کے دوران میں ایک رؤیا ہوا جس سے میں نے یہ سمجھا کہ الہی منشاء بھی یہی ہے کہ میں اُن پر حجت تمام کر دوں.جس وقت شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا تیسرا خط مجھے آیا اور دوستوں کو بلا کر میں نے ان کے متعلق مشورہ لیا ہے تو اُس وقت میں ایک تحریر لکھ کر اُس مجلس میں لے گیا تھا.اور میر امنشاء تھا کہ ان خطوں کے جواب میں وہ تحریر انہیں بھجوا دوں.اس تحریر میں میں نے لکھا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ آپ کو استخارہ اور دعا کی طرف توجہ دلاؤں تا خدا تعالیٰ کے حضور میں مجرم ٹھہریں.لیکن افسوس کہ آپ نے اس نے
خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۷ء راستہ کو بند کر دیا.اب میں مجبوراً آپ کے آخری خط کے جواب میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی ج قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ آپ کا خط افتراؤں ، بہتانوں اور کذب سے پُر ہے ( میرا یہ مطلب نہ تھا کہ شیخ صاحب نے خود افترا کیا بلکہ یہ کہ جس نے بھی ان تک یہ باتیں پہنچائی ہیں ، اس نے افتراء، کذب اور جعلسازی سے کام لیا ہے اور شیخ صاحب کے بغض نے اس پر مزید رنگ آمیزی کر دی ).اب اگر آپ اپنے دعوئی میں مصر ہوں اور دوسروں کے بہتانوں پر قسم کھانے کی غیر متقیانہ جسارت رکھتے ہوں تو آپ بھی اپنے خط کے نیچے لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ لکھ کر بھجوا د میں کہ آپ نے بزعم خود جو واقعات اس خط میں لکھے ہیں یا جو باتیں بیان کی ہیں، وہ سچی ہیں اور ان کے کہنے کا خدا اور اس کے رسول نے آپ کو حق دیا ہے.اور یہ کہ اگر آپ کا عمل خدا اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو تو آپ پر اور آپ کے خاندان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو.میرا منشاء یہ تھا کہ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کے ماتحت دیئے ہوئے حکم پر کہ ایسے امور پر مباہلہ نہیں ہوتا بلکہ گواہیاں ہوتی ہیں اور مباہلہ کے مطالبہ کا حق صرف اس شخص کو ہے جس پر الزام لگایا گیا ہو نہ کہ الزام لگانے والے کو ، تا کہ وہ دیکھ لے کہ جو شخص اس کے مقابل پر ہے مباہلہ کے قابل بھی ہے یا نہیں ، نہایت یقین کے ساتھ ایمان رکھتا ہوں.اس لئے شیخ صاحب کی طرف سے کسی ایسے مطالبہ کے پیش ہونے سے پہلے ہی یہ قسم کھا دوں تا کہ ان کے مطالبہ کے بعد یہ راستہ میرے عقیدہ کے مطابق میرے لئے بند نہ ہو جائے.جب میں نے دوستوں کو مضمون سنایا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اس رنگ میں ان کے جواب کی ضرورت نہیں وہ ایسے گندے الزام لگا کر اور گستاخی کے مرتکب ہوکر خود ہی جماعت سے الگ ہو گئے ہیں.ان کی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر دینا چاہئے.پھر جب وہ خود اپنے الزامات شائع کریں گے تو اس قسم کی تردید کا موقع بھی آجائے گا.چنانچہ ان کے مشورہ کے مطابق میں نے وہ مضمون لکھا جو پہلے شائع ہو چکا ہے.بعد کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوستوں کا مشورہ بھی نہایت با برکت تھا.کیونکہ ممکن تھا کہ میرے جواب سے معاملہ دب جاتا اور پھوڑا اندر ہی اندر پکتا رہتا.لیکن جیسا کہ اب معاملہ ہے اس مرض کا ظاہر ہونا سلسلہ کے مفاد کیلئے ضروری تھا تا کئی لوگ جو اس قسم کی ناپاک سازشوں میں ملوث تھے ظاہر ہوجائیں اور یہ فتنہ بڑھنے سے رُک جائے.لیکن میں ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کی تحریر جو میں نے لکھی تھی وہ بھی یقیناً بعض اور لحاظ سے مفید ہو سکتی تھی.بہر حال وہ وقت تو گیا اور اُس وقت کے دعا اور انابت کے موقع کو بھی شیخ صاحب نے
خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۳۷ء ضائع کر دیا اور میں بھی ان کو اس طرف توجہ نہ دلا سکا.کیونکہ میں یہ خیال کرتا رہا کہ ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے تو انہیں نصیحت کروں.اور بعد میں خود انہوں نے اس دروازہ کو بند کر دیا اور جو ہونا تھا ہو گیا.مگر ہمارا خدا ایسا رحم کرنے والا ہے کہ آج بھی ان کیلئے تو بہ کا دروازہ بند نہیں.اور اسی کی طرف میں آج ان کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں.اب بھی اگر وہ خشیت اللہ سے کام لے کر اللہ تعالیٰ سے ہدایت چاہیں اور موذیا نہ طرز کو چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ سے بعید نہیں کہ ان کی ہدایت کا راستہ کھول دے.اللہ تعالیٰ رمضان میں دعائیں سنتا ہے.شاید سندھ جانے سے پہلے مجھے اسی لئے بولنے کا موقع نہ ملا ہو کہ میں رمضان میں یہ خطبہ کروں اور ان کو ان ایام سے فائدہ اُٹھانے کا موقع مل جائے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ ان کو توجہ دلاتا ہوں.ان تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کبھی میرے اور ان کے درمیان تھے اور ان تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ان کے سلسلہ سے تھے کہ وہ بجائے ان باتوں پر زور دینے کے جو اُن کی عقل کی پیداوار کردہ ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور کم سے کم چالیس دن استخارہ اور دُعا کریں اور کہیں کہ اے خدا! جس راستہ پر میں اس وقت چل رہا ہوں اگر یہ راستی اور کی ہدایت کا راستہ نہیں بلکہ گمراہی اور ضلالت کی راہ ہے اور جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے کا موجب ہے او رتیری رضا اس میں نہیں ہے تو تو مجھے اس راستہ پر چلنے سے بچالے اور مجھے ہدایت دے اور اگر میں راستی اور ہدایت پر ہوں اور تیری رضا کی راہ پر چل رہا ہوں تو تو خود میرے لئے ایسی روشنی پیدا کر دے جس روشنی کی بناء پر میں اس راستہ پر قائم رہوں.جیسا کہ بعض دوستوں کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں ان کو بھی یہ معلوم ہے کہ ان کی کی حالت جو آج ہوئی ہے اس کی خدا نے آج سے بائیس سال پہلے مجھے خبر دے دی تھی.جب شیخی صاحب مصر سے واپس آئے ہیں اُس وقت مجھے ایک رؤیا ہوا جس میں مجھے بتایا گیا کہ شیخ صاحب کا خیال کی رکھنا یہ مرتد ہو جائیں گے شاید میرے اس رویا کے اور بھی گواہ ہوں مگر دو گواہ تو میں یقینی طور پر پیش کر دیتا ہے ہوں.ان میں سے ایک گواہ کے متعلق شاید وہ یہ کہہ دیں کہ ان کی گواہی کی کوئی حقیقت نہیں.کیونکہ عام کی لوگ گواہ کے رتبہ اور مقام اخلاص کو نہیں دیکھتے ، وہ صرف یہ دیکھ کر کہ وہ ماتحتی میں کام کرتا ہے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول دے گا.لیکن اگر وہ اس گواہ کے رتبہ اور مقام کو مد نظر رکھیں تو میں سمجھتا ہوں وہ ان اس گواہ کی گواہی کو بھی رو نہیں کریں گے.خصوصاً جبکہ ایک آزاد گواہی اس کے ساتھ شامل ہے.یہ گواہی
خطبات محمود ۵۱۹ سال ۱۹۳۷ء مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہیں.مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ارتداد کے متعلق جو رؤیا دیکھا اور جس کا میں نے انہی دنوں ذکر کر دیا تھا یہ تھا کہ شیخ صاحب کا خیال رکھا جائے وہ عیسائی ہو جائیں گے.مجھے جس قدر اس خواب کی تعبیر یاد ہے وہ یہی ہے کہ ان کے دین کی خرابی کے متعلق مجھے کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی.چنانچہ میں نے اس رویا کی بناء پر صدرانجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ خواب میں یہ تھا کہ عیسائی ہونے کا خطرہ ہے.اگر یہ بھی ہو تب بھی عیسائی سے مراد ضرور عیسائی ہونا نہیں بلکہ عیسائیوں والی کوئی خاص صفت بھی ہوسکتی ہے.اور عیسائیوں کا یہ مشہور عیب ہے کہ وہ دوسرے بزرگوں پر عیب لگانے میں فخر محسوس کرتے.ہیں.اور ان کے مذہب کی بنیاد اس پر ہے کہ سب انبیاء بد کار تھے سوائے حضرت مسیح ناصری کے.شیخی صاحب کو جو ابتلا آیا ہے وہ بھی اس قسم کا ہے.ایک طرف وہ اپنے آپ کو عالم ربانی کہتے ہیں اور دوسری طرف مجھ پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں اور اکثر حصہ جماعت کو گمراہی کی طرف جانے والا اور بدظنی کرنے والا اور بہت سوں کو دہریہ قرار دیتے ہیں.پس یہ ٹھو کر جو ان کو لگی ہے یہ عیسائیوں والی ٹھوکر ہے.اگر صرف مولوی سید سرور شاہ صاحب کی گواہی ہوتی تو شاید شیخ صاحب اس سے اتنا فائدہ نہ اٹھا سکتے لیکن خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے اس بارہ میں ایک اور آزاد گواہ بھی پیدا کر دیا ہے اور اس کا علمی اس طرح ہوا کہ شیخ صاحب کے جدا ہونے پر جو جماعتوں نے ریزولیوشن بھجوائے ان میں ایک ریزولیوشن اڑیسہ کی ایک جماعت کا بھی تھا.اس میں وہاں کے جلسہ کی کیفیت بھی درج تھی اور اس میں ان ایک مقرر کی تقریر اس طرح درج تھی کہ شیخ صاحب کا ابتلا بھی ہمارے ایمانوں کو بڑھانے والا ہے.کیونکہ خلیفہ امسیح کی ایک خواب ان کے متعلق تھی کہ وہ مرتد ہو جائیں گے.جب میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو فوراً اُس جماعت کو خط لکھوایا کہ ان صاحب نے یہ میری خواب کہاں سے سنی ہے.اس کا جواب وہاں سے یہ آیا کہ یہ صاحب ۱۹۱۵ء میں قادیان میں طالب علم تھے اور انہوں نے خود میرے منہ سے یہ خواب سُنی تھی جبکہ میں نے بعض دوستوں کو یہ خواب سنائی تھی.اس سینکڑوں میل پرے کے ایک شخص کی شہادت نے شہادت کی لڑی کو مکمل کر دیا ہے اور ہر دیانتدار کیلئے شیخ صاحب کی ٹھو کر بجائے شبہ کا موجب بننے کے زیادتی ایمان کا موجب بنتی ہے.الہی سلسلوں کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ رویائے صادقہ خصوصاً ایسی رؤیا جو قیاسات یا حالات حاضر
خطبات محمود ۵۲۰ سال ۱۹۳۷ء سے تعلق نہ رکھتی ہو، خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بائیس سال پہلے اس قسم کا خیال بھی شیخ صاحب کی نسبت نہیں کیا جا سکتا تھا.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے مستقبل کے متعلق یہ خبر دی.یہ خواب انسانی بناوٹ نہیں ہوسکتی.کیونکہ آخر وہ کون سا بندہ ہے جو اتنے علم کا مالک ہو کہ بائیں سال بعد میں ہونے والے واقعہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دے.یہ صرف خدا کا ہی کام ہے کہ وہ غیب کا انکشاف کرے اور وہ خدا ہی تھا جس نے مجھے آج سے بائیس سال پہلے ان کے ارتداد کی خبر دی.پس شیخ ا صاحب کو سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ کیا خدا تعالیٰ نے اسی کو رڈیا کے ذریعہ بائیس سال پہلے یہ بات بتائی تھی جس کو ان کے ذریعہ ہو ( نَعُوذُ بِاللهِ ) تباہ کرنے کا ارادہ کر چکا تھا.پھر آٹھ نو سال ہوئے میں نے رویا دیکھی کہ مصری صاحب پر کوئی ابتلا آیا ہے اور ان کے دل میں بہت سے شکوک پیدا ہو گئے ہیں اور ی بعض دفعہ انہیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ قادیان سے چلے جائیں.میں نے اس پر رویا میں ان کی دعوت کی اور انہیں نصیحت کی کہ ان باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں، اس سے ایمان بالکل جاتا رہے گا.چنانچہ رویا تی میں انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں واقعہ میں میرے دل میں وساوس پیدا ہو گئے تھے اور میں چاہتا تھا کہ قادیان سے چلا جاؤں.یہ رویا بھی جہاں تک میں سمجھتا ہوں انہیں پہنچی ہوئی ہے اور اس رویا سے بھی یہی کچ ظاہر ہوتا تھا کہ ان پر کوئی ابتلا آنے والا ہے اور ان کے دل میں ایسے شکوک و شبہات پیدا ہونے والے ہیں جن کے نتیجہ میں وہ چاہیں گے کہ قادیان سے باہر چلے جائیں.خدا کی قدرت ہے یہ خواب بھی عجیب طریق پر پورا ہوا.چنانچہ احباب نے ”الفضل میں ایک دوست کا بیان پڑھا ہوگا جو انہوں نے افریقہ سے لکھ کر بھجوایا کہ مصری صاحب نے ان کے سامنے یہ خواہش کی تھی کہ اگر میری لڑکی کی ملازمت کا وہاں کوئی انتظام ہو جائے تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی افریقہ چلا جاؤں.اور گوانہوں نے کہا تھا کہ دوسال کی چھٹی لے کر مگر بہر حال قادیان کو چھوڑ کر محض دنیوی اغراض کیلئے ایک لمبے عرصہ کیلئے انہوں نے کی جانے کا اظہار کیا.باقی رہا وساوس کا حصہ اس کو وہ خود بھی تسلیم کر چکے ہیں.پھر ان کے ارتداد کے متعلق صرف میری ہی خوا ہیں نہیں اور بھی کئی دوستوں کی خواہیں ہیں جن میں سے بہت سی الفضل میں شائع ہو چکی ہیں اور کئی ہیں جو ابھی شائع نہیں ہوئیں.ان میں سے ایک رویا چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری کا بھی ہے.پچھلے سال کی بات ہے غالباً جون یا جولائی کا مہینہ تھا، میں اُس وقت دھرم سالہ میں تھا کہ ان کی طرف سے ایک چٹھی مجھے ملی.جس میں مصری صاحہ
خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۷ء کے متعلق ایک مُنذر خواب تھا.اُس وقت ان کا دل مصری صاحب کی طرف سے اتنا صاف تھا کہ چیٹھی مضمون ہی بتا رہا تھا کہ وہ مصری صاحب پر نہ صرف یہ کہ بدظن نہیں بلکہ ان سے عقیدہ رکھتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اس خط میں لکھا تھا کہ میں نے ایک خطر ناک ڈراؤنا خواب دیکھا ہے جس سے مجھے اپنی ایمانی کی حالت کے متعلق شبہ پیدا ہو گیا ہے.میں نے دیکھا کہ ایک جگہ آپ بیٹھے ہیں، مجلس لگی ہوئی ہے اور آپ کی شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور ایک اور شخص کے متعلق ( اس شخص کا نام انہوں نے لکھا تھا لیکن میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا ) فرماتے ہیں کہ انہوں نے نفاق سے کام لیا ہے اور میں انہیں جماعت سے خارج کرتا ہوں.یہ خواب بیان کرنے کے بعد انہوں نے سخت گھبراہٹ کا اظہار کیا ہوا تھا اور لکھا تھا کہ چونکہ شیخ صاحب اور دوسرے صاحب کے متعلق تو ایسا گمان بھی نہیں ہوسکتا وہ تو مخلص آدمی ہیں اس لئے مجھے سخت گھبراہٹ ہے کہ شاید اس خواب میں میری اپنی روحانیت کا نقشہ نہ کھینچا گیا ہو.کیونکہ بعض دفعہ رویا میں ایک مومن کو دوسرے مومن کا آئینہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے.پس میں سخت گھبرا گیا ہوں کہ شاید میرے ایمان میں کوئی نقص ہے جسے ظاہر کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ رو یا مجھے دکھائی ہے.گویا اُس وقت انہیں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ مصری صاحب نفاق سے کام لے سکتے ہیں.بلکہ سمجھتے تھے کہ مصری صاحب کے آئینہ میں مجھے اپنی شکل دکھلائی گئی ہے.مگر پھر کس طرح لفظ بلفظ اور ہو بہو یہ بات پوری ہوئی.اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں خواب ہیں ہیں جو جماعت کے مختلف افراد کو ان کے ارتداد کے متعلق آئیں.پس مصری صاحب کو قرآن کریم کی اس آیت پر غور کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاری کو تورات وانجیل کی ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو رسول کریم کے متعلق ان کتب میں پائی جاتی ہیں.اور فرماتا ہے کہ کیا ہمارا یہ بندہ موسیٰ کے پاس جانب طور میں موجود تھا.جب اس نے اپنے مثیل کی خبر دی تھی کہ اس نے سازش کر کے وہ پیشگوئی لکھوالی اور انہیں سوچنا چاہئے کہ یہی دلیل اس موقع پر بھی چسپاں ہوتی ہے.اگر ہم لوگوں نے ان کے خلاف کوئی منصوبہ کیا ہے تو کیا خدا تعالیٰ بھی اس منصوبہ میں ہمارے ساتھ شریک ہو گیا اور اس نے ۲۲ سال پہلے سے اس سازش کی بنیا درکھنی شروع کر دی.انہیں غور کرنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ جب ان کے ارتداد کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا یعنی کی آج سے بائیس سال پہلے اُس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے ان کے ارتداد کی خبر دی.پھر ۸-۹ سال پہلے اس کی
خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۷ء خبر کا تکرار کیا اور دوبارہ ان کے خیالات کی خرابی کی اطلاع دی.اور پھر اللہ تعالیٰ کے اور نیک بندوں پر بھی جن کو قطعی طور پر مصری صاحب پر شبہ نہیں تھا بلکہ وہ ان کے ایمان کو اتنا مضبوط سمجھتے تھے کہ خیال کرتے تھے کہ ان کے آئینہ میں انہیں اپنی شکل دکھلائی گئی ، اسی خبر کا اظہار کیا گیا.اور اگر یہ واقعہ بعینہ ظہور میں نہ آجا تا تو وہ یہی سمجھتے رہتے کہ ان کے ایمان میں کوئی نقص ہے.اب وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا ہم سب نے اللہ تعالیٰ سے مل کر ایک سازش کر لی تھی اور اگر خدا بھی ہماری سازش میں شریک ہو گیا ہے تو پھر مصری صاحب کیلئے تقوی کا طریق یہی ہے کہ وہ کہیں کہ اگر خدا بھی اسی بدی کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو مجھے اپنی عقل کے نقص کا اقرار کرتے ہوئے اعتراض سے رُک جانا چاہئے.پس میں ان کے اور ان کے ساتھیوں کے تمام اعتراضوں اور ان کے اور ان کے تمام ساتھیوں کی گالیوں اور تمام دشنام طرازیوں کو بھلاتے ہوئے نہایت ہی اخلاص اور محبت اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اس کے حضور عاجزانہ طور پر عرض کریں کہ اگر میں حق پر نہیں ہوں اور مجھے یہ طریق عمل اختیار کرنے کی میں غلطی لگی ہے تو اپنے فضل سے مجھے ہدایت دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ عاجزانہ اور منکسرانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کیلئے سامان پیدا کر دے گا.لیکن اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کا لحاظ نہیں کرتا ، خواہ وہ ہندو سے مسلمان بنا ہو یا عیسائی سے مسلمان ہوا ہو.خدا اپنے سلسلہ کی عظمت کو بڑھانا چاہتا ہے اور خواہ کس قدر روکیں درمیان میں حائل ہوں وہ اسے بڑھا کر رہے گا.وہ مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جو وہ مجھ پر لگاتے ہیں جھوٹے ہیں تو میں موکد بعذاب قسم کھاؤں.حالانکہ مستریوں کے مقابلہ میں بھی میں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کیلئے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کی کے خاص طریق بتائے گئے ہیں، قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں بلکہ ایسے مطالبہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کر دیتا ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے.ہاں جس پر الزام لگایا گیا ہو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اختیار ہے کہ جب وہ مناسب سمجھے الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دے.لیکن چونکہ وساوس و شبہات میں مبتلا مبتلا رہنے والا انسان خیال کر سکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کیلئے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے اس لئے کم سے کم اس شخص کی تسلی کیلئے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا.میں کہتا ہوں کہ میں اُس خدائے قادر و توانا
خطبات محمود ۵۲۳ سال ۱۹۳۷ء کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھا کر شدید لعنتوں کا انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جو میں نے بیان کی.اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو.اب وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں اس لئے قسم نہیں کھا تا کہ میں جھوٹا ہوں اور خدا تعالیٰ کی لعنت سے ڈرتا ہوں ، انہیں سوچنا چاہئے کہ اگر میں خود ان کے یقین کے مطابق خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم سے ڈرنے والا ہوں تو میری یہ قسم کچی ہے اور جب یہ قسم بچی ہے تو انہیں ماننا پڑے گا کہ میرا ان معاملات میں مباہلہ نہ کرنا یا قسم نہ کھانا اپنے عقیدہ کی رو سے خدا تعالیٰ کے حکم کے پورا کرنے کیلئے ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص ایک جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا وہ دوسری جھوٹی قسم بھی نہیں کھایا کرتا.لیکن اگر ان کا خیال ہو کہ میں اس بارہ میں جھوٹی قسم کھا رہا ہوں تو انہیں سوچنا چاہئے کہ پھر دوسرے امر میں جھوٹی قسم اٹھا لینے سے مجھے کیا عذر ہوسکتا ہے.پھر ایک اور سوال ہے جو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے کیا گیا تھا اور آج بھی کیا جا رہا ہے کہ خلیفہ معزول ہو سکتا ہے.اور وہ اس بناء پر مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے خلافت سے الگ ہو جانا چاہئے.یا یہ کہ جماعت کو چاہئے کہ مجھے اس عہدہ سے الگ کر دے.میں اس دعوی کے جواب میں بھی اسی قادر و توانا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خدا تعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اُس نے آج سے ۲۲ ،۲۳ سال پہلے مجھے رویا کے ذریعہ بتادیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہو سکتا ہو تو اسے علیحدہ کر دیا جائے ، مگر تو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا اور یہ کام تجھے بہر حال نباہنا پڑے گا.اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو.اب اس رنگ میں میں نے قسمیں کھالی ہیں.وہ بھی اگر اپنے آپ کو سچائی پر سمجھتے ہیں تو اس رنگ میں قسمیں کھا لیں.لیکن اُن کو میری نصیحت یہی ہے کہ وہ قسمیں نہ کھائیں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم پر قائم ہوں اور ان کے عقائد کی بنیا د خنیات پر ہے.پس میں انہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ و ایسی قسم مت کھائیں کیونکہ اس کا ان کیلئے اچھا نتیجہ پیدا نہیں ہوگا.میں نے بیشک قسمیں کھائی ہیں مگر میں نے ان رؤیا ، کشوف اور الہامات کی بناء پر قسمیں کھائی ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں
خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۷ء تھیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں.پھر میں نے یہ قسمیں اس علم کی بنا پر کھائی ہیں جو خدا سے مجھے ملا اور جو بندوں سے میں نے نہیں سیکھا.پس میں انہیں یہی کہوں گا کہ وہ میرے مقابلہ میں ایسی قسمیں ن کھائیں بلکہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انہیں ہدایت دے اور اگر انہیں اپنی بات پر اصرار اور قسمیں کھانے کا شوق ہو تو ایک نہیں کئی قسم کی قسمیں ہیں جو ان جھگڑوں کا فیصلہ کر سکتی ہیں.آخر جو الزامات وہ مجھ پر لگاتے ہیں ان کا یہی مطلب ہے کہ میں خلافت کا اہل نہیں.مگر میں ابھی خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ چکا ہوں کہ میں اُس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں.وہ بھی ایسی ہی قسم لکھ کر شائع کر دیں پھر خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر.میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں اور اب پھر اللہ تعالیٰ کے وعید لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الكَاذِبِينَ کے ماتحت کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے میں اُس کا قائم کر دہ خلیفہ ہوں اور میرے لئے عزل ہرگز جائز نہیں.اگر حوادث میرے سامنے آئیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ میرے لئے بعض اندھیرے مقدر ہیں اور اگر وہ ساری کی ساری جماعت کو بھی مجھ سے برگشتہ کر لیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت نہیں دے گا جب تک وہ پھر ایک زبردست جماعت میرے ساتھ پیدا نہ کر دے.دنیا میں فریب کاریاں بھی ہوتی ہیں، دنیا میں دھو کے بھی ہوتے ہیں، دنیا میں وسوسہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں، دنیا میں ابتلاء بھی آتے ہیں اور ان تمام چیزوں کے ذریہ لوگ ٹھوکریں کھاتے اور حق سے منحرف ہوتے ہیں.مگر مجھے بندوں پر یقین نہیں ، مجھے اپنے خدا پر یقین ہے.اُس خدا نے اُس وقت جب کہ مجھے خلافت کا خیال تک بھی نہ تھا مجھے خبر دی تھی کہ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفُرُوا إِلى يَوْمِ الْقَيَامَةِ کہ وہ لوگ جو تیرے تبع ہیں وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے.پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص میری بیعت کا اقرار کرے گا وہ قیامت تک میرے منکرین پر غالب رہے گا.یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور پوری ہوتی رہے گی.اگر اس الہام کے سنانے میں میں جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کی مجھ پر لعنت.میری خلافت کے بارہ میں ایک بار نہیں، دو بار نہیں اتنی بار خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.اب بھی جب یہ فتنہ اُٹھا تو میں نے جلدی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں اور خدا نے مجھے خبر دی کہ ” میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں
خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۷ء گا.پھر تم نے دیکھا کہ خدا تعالی کی اس پیشگوئی کے بعد کس طرح دشمنوں پر آسمان سے تباہی نازل ہوئی اور ان کی طاقت کو اس نے تو ڑ کر رکھ دیا.پس میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کہ خدا تعالیٰ کی بخشش نہایت وسیع ہے، اس کی بخشش کے دامن میں پناہ لیں.بیشک اس کے پاس عذاب بھی ہے اور ی تا ہیاں بھی لیکن اس کے پاس برکتیں بھی ہیں اور عفو کے خزانے بھی ہیں بلکہ وہ فرماتا ہے رَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے میری رحمت باقی ہر چیز پر غالب ہے.پس اُس سے وہ چیز کیوں نہ مانگی جائے جس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ میرے پاس بہت ہے اور اس سے وہ چیز کیوں مانگی جائے جس کے متعلق و کہتا ہے کہ اس کا دینا میں پسند نہیں کرتا.وہ کہتا ہے عذاب دینا مجھے پسند نہیں اور عذاب دینے میں میں ڈھیلا ہوں لیکن رحم کرنے میں بڑا تیز ہوں.وه پس وہ چیز خدا تعالیٰ سے مانگو جس کے متعلق وہ کہ رہا ہے کہ مجھ سے مانگو.وہ چیز اس سے کیوں مانگتے ہوں جس کے متعلق وہ یہ کہتا ہے کہ میں وہ دینا نہیں چاہتا.ممکن ہے کہ پھر وہ کہیں جب خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر عذاب نہیں مانگنا چاہئے تو پھر تم نے مؤکد بعذاب قسمیں کیوں کھائیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کی بناء پر قسمیں کھا ئیں ہیں.میں نے ان رویا، کشوف اور الہامات کی بنا پر قسمیں کھائی ہیں جو ایک ربع صدی سے مجھ پر نازل ہورہے ہیں.پھر ان الہامات کے علاوہ بیسیوں نہیں سینکڑوں خواہیں ہیں جو پرائیویٹ مجالس میں میں نے بیان کیں اور پوری ہوئیں اور ی ان کے علاوہ بہت سی خوا میں ایسی ہیں جو گو میں نے بیان نہیں کیں لیکن وہ فلق اصبح کی طرح پوری ہوئیں.پس میں نے ان کشوف اور رؤیا کی بناء پر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے دکھائے گئے اور جن میں غیب کی خبریں پائی جاتی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں یہ قسمیں کھائی ہیں اور میں نے ان الہامات کی بناء پر قسمیں کھائی ہیں جو میرے نفس کی طرف سے نہیں اور جن میں قیاس کا کوئی دخل نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.چونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور پھر رمضان کا یہ مبارک مہینہ.اس لئے میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ڈریں اور خدا تعالیٰ کا خوف کریں.بے شک وہ اپنے کی طریق عمل کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصلاح کا طریق ہے مگر قرآن مجید کہتا ہے بعض لوگ کہتے ہیں ہم صلح جو ہیں حالانکہ وہ صلح پسند نہیں بلکہ فتنہ انداز ہوتے ہیں.پس وہ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈریں اور سمجھیں کہ کہیں میں فتنہ تو پیدا نہیں کر رہا.جماعت میں فتنہ پیدا کرنے میں تو وہ اب کی
خطبات محمود ۵۲۶ سال ۱۹۳۷ء تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب نہیں ہو سکے ہاں غیروں کو ان کی حرکات سے تقویت ضرور پہنچی ہے اور سلسلہ کے خلاف وہ ایک دفعہ پھر پورے جوش کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں.اگر وہ صرف اسی بات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا قدم راستی پر نہیں.ان کے بعض دوستوں نے مجھے چٹھیاں لکھی ہیں جن میں ایک نے مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ جو سلوک آپ ہم سے کر رہے ہیں کیا یہ نبیوں والا سلوک ہے یا غیر نبیوں والا؟ ان کی مراد اس سلوک سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ مقاطعہ ہے جو ان کا کیا گیا ہے.میں اُس سوال کے جواب میں پوری دیانتداری کے ساتھ اُس علم کی بناء پر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے حاصل ہے یہ کہتا ہوں کہ جو سلوک میں نے ان سے کیا ہے وہ نبیوں والا کی سلوک ہے غیر نبیوں والا نہیں.میں نے ان کا کوئی بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ان کی ضرورتوں کے پورا کئے کی جانے کا حکم دے دیا تھا.چنانچہ میری ہدایت یہ تھی کہ جو ضروریات زندگی سکھوں ، ہندوؤں اور غیر احمدی دکانداروں سے میسر نہ آسکتی ہوں وہ احمدی دُکانداروں کی طرف سے دے دی جائیں.لیکن چونکہ بعد میں انہوں نے بغیر ثبوت کے جماعت احمدیہ کی طرف مظالم منسوب کرنے شروع کر دیئے اور اس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا کہ اگر کسی احمدی دکاندار سے وہ مثلاً دودھ لے جائیں اور اس سے اتفاقاً ان کے کسی بچہ کوقر اقر ہو جائے یا مٹھائی سے پیٹ درد ہو جائے تو وہ یہ شور مچانا شروع کر دیں کہ ہمیں زہر ملا کر دیا گیا ت ہے اور اس طرح جماعت کے افراد کو بعض الزامات کے نیچے لائیں.اس لئے میں نے امور عامہ کو حکم دیا کی کہ ایسے دکاندار مقرر کر دیئے جائیں جن سے وہ سو دالے سکیں.لیکن خود انہوں نے اس حکم سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور میں آج بھی اس امر کیلئے تیار ہوں کہ ان کی ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دکاندار مقرر کر دوں.غرض میں نے ان کا کوئی بائیکاٹ ان معنوں میں نہیں کیا جن معنوں میں کہ نبیوں کے دشمن کیا الله کرتے ہیں.اصل بائیکاٹ وہ تھا جو مکہ والوں نے رسول کریم ﷺ اور صحابہ کا کیا کہ انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے پاس سو دا فروخت کرے گا ہم اُسے سزا دیں گے.اس کے بر خلاف ہم نے تو یہ کہا تھا کہ ہم ان کے پاس اس دکاندار کو سودا بیچنے کی اجازت دیں گے جس کے متعلق اس شبہ کی کوئی صورت نہ ہوگی کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے تعلقات دوسرے منافق طبع لوگوں سے قائم کرنا چاہتے ہیں.اور اگر ان کی غرض محض سو دا خرید نا ہوتی زید یا بکر سے ملنا نہ ہوتی تو وہ ہمارے اس قائم کردہ
خطبات محمود ۵۲۷ سال ۱۹۳۷ء نظام سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے.پھر اس احتیاط کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ انہوں نے شروع سے ہی یہ طریقہ رکھا ہوا تھا کہ مخفی طور پر لوگوں پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کرتے تھے اور آخر میں تو انہوں نے اخبارات میں بھی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور ان کے نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے.پھر صرف اعلان پر بس نہیں وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کی کوششیں اب تک کر رہے ہیں اور اس کے یقینی ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اور وہ ایسے واضح ثبوت ہیں کہ جب ان کو ظاہر کیا گیا تو ان کیلئے ان باتوں کا انکار کرنا بہت مشکل ہوگا.ایسی صورت میں ہمارا فرض تھا کہ ہم ان سے بول چال اور لین دین وغیرہ کے تعلقات رکھنے کے راستہ کو ایک قاعدہ کے ماتحت لا کر اس فتنہ کو دور کرتے.یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ یہ احتیاطیں مخفی پروپیگنڈا کے متعلق تھیں.ورنہ ظاہر پروپیگنڈا سے اگر شرافت کی حد کے اندر ہو میں نے کبھی نہیں روکا.چنانچہ جو اشتہارات وہ بورڈوں پر چسپاں کرتے رہے ہیں ان کے متعلق کیا میں نے کبھی یہ اعلان کیا ہے کہ لوگ انہیں نہ پڑھیں.بلکہ ایک دفعہ انہوں نے بورڈ پر اشتہار لگا یا تو غالباً مولوی ابوالعطاء صاحب کی چٹھی مجھے آئی کہ لوگ اسے پڑھنے کیلئے بہت جمع ہو گئے اور وہ اسے پڑھ کر غیظ و غضب سے بھر گئے جس سے فساد کا خطرہ ہے مناسب ہے کہ ایک اعلان کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کے اشتہارات پڑھنے سے وک دیا جائے.مگر میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ اس قسم کی ممانعت میں پسند نہیں کرتا.کیونکہ اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ میں لوگوں کو تحقیق سے روکتا ہوں.میں دلائل اور صحیح طریق تبلیغ کا مخالفت نہیں ہوں.میں تو خود ہمیشہ ہی حق کا متلاشی رہا ہوں اور کی یہی میری روح کی غذا ہے.اگر وہ دلائل سے مجھ پر غالب آ سکتے ہیں تو شوق سے آجائیں.مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا.میرا اعتراض یہ ہے کہ وہ ناجائز کارروائیاں کرتے ہیں جو کسی مذہب میں بھی جائز نہیں اور چونکہ وہ تہذیب اور شرافت اور اسلامی احکام سے تجاوز کر کے ایسی حرکات کے مرتکب ہیں اس کی لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی جماعت کے احباب کو ان سے ایسے تعلقات سے روکیں جو فساد کا کی موجب ہوسکیں.یہی وجہ ہے کہ آج تک جس قدر احکام سلسلہ کی طرف سے اس قسم کے نافذ کئے گئے جن میں دوسروں سے بول چال کی ممانعت تھی تو وہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق تھے جن کے افعال میں سازش کا رنگ پایا جا تا تھا.ورنہ اگر کسی کے افعال میں سازش نہ ہو اور وہ عَلَی الْإِعْلان ہم سے الگ ہو کر کسی
خطبات محمود ۵۲۸ سال ۱۹۳۷ء اور گروہ میں شامل ہو جائے تو ہم اس سے کبھی بولنا منع نہیں کرتے.غیر مبائعین میں ہی آجکل کئی ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہماری جماعت میں تھے مگر بعد میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے.لیکن ہم نے ان کے متعلق یہ اعلان نہیں کیا کہ ان سے کوئی شخص گفتگو نہ کرے.ڈاکٹر سیدمحمد طفیل صاحب ، میاں غلام مصطفیٰ صاحب ، مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ یہ پہلے میری بیعت میں شامل تھے مگر پھر غیر مبائعین کی طرف چلے گئے اور ہم نے ان کے مقاطعہ کا کوئی اعلان نہیں کیا بلکہ میں خود ان میں سے بعض سے ملتا رہا ہوں.اسی طرح اور بھی کئی آدمی ہیں جو پہلے ہمارے ساتھ تھے پھر ادھر شامل ہو گئے.مگر ہم نے کبھی لوگوں کو ان سے ملنے سے نہیں روکا.ہم صرف انہی سے تعلقات رکھنے ممنوع قرار دیتے ہیں جو سلسلہ کے خلاف خفیہ سازشیں کرتے ہیں.چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ دو سال سے خفیہ تحقیق میرے خلاف کر رہے تھے اور اس بارہ میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے.اگر جس دن انہیں میرے متعلق شبہ پیدا ہوا تھا اور میرے خلاف انہیں کوئی بات پہنچی تھی ، اسی دن وہ میرے پاس آتے اور کہتے کہ میرے دل میں آپ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے تو میں یقیناً انہیں جواب دیتا اور اپنی طرف سے ان کو اطمینان دلانے اور ان کے شکوک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتا.چنانچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے دیانت داری سے اپنے شکوک پیش کی کر کے ان کا ازالہ کرنا چاہا اور میں ان پر ناراض نہیں ہوا.بلکہ میں نے ٹھنڈے دل سے اُن کی بات کو سُنا اور آرام سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی.اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ جھوٹ نہ بولیں تو ایسے لوگ بھی میں پیش کر سکتا ہوں جو اب احمدی نہیں اور وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے مخفی طور پر اپنے بعض شکوک کے متعلق مجھ سے تسلی چاہی اور میں نے نہایت خندہ پیشانی سے ان کی باتوں کا جواب دیا.لیکن جو شخص پہلے مجھے مجرم قرار دیتا ہے اور پھر مجھ سے تسلی چاہتا ہے اُس کی تسلی کرنے کے کوئی معنے نہیں.جس نے فیصلہ کر لیا کہ میں مجرم ہوں ، جس نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے میں فلاں فلاں عیوب پائے جاتے ہیں اُس کی تسلی کرنی بالکل بے معنی بات ہے.پس مجھے ان کے طریق پر اعتراض ہے.ورنہ وسو سے بعض کمزور انسانوں کے قلوب میں پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں.مجھے جس بات پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے خفیہ کارروائی کی اور خفیہ طور کی پر لوگوں کو بہکایا.چنانچہ اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ ادھر جماعت سے وہ نکلے اُدھر
خطبات محمود ۵۲۹ سال ۱۹۳۷ء حکیم عبدالعزیز صاحب نے کہہ دیا کہ میں جماعت سے الگ ہوتا ہوں اور وہ جھٹ مصری صاحب کے ساتھ شامل ہو گئے.پھر مصری صاحب نے بھی اپنے خط میں یہی لکھا تھا کہ فخر الدین کو اگر آپ نے معاف نہ کیا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا.گویا میری وجہ سے وہ جماعت سے الگ نہیں ہوئے بلکہ اس کی لئے ہوئے کہ فخر الدین کو کیوں معاف نہیں کیا گیا.پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک پارٹی تھی جو اندر ہی اندر خفیہ منصوبے کر رہی تھی.چنانچہ ابتدائی رپورٹیں جو میرے پاس پہنچیں ان میں میاں فخر الدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب ،مصری حکیم عبدالعزیز صاحب اور میاں مصباح الدین صاحب ان چاروں کے نام علاوہ بعض دوسرے ناموں کے آتے رہے ہیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیوں نہ فرض کر لیا تو جائے کہ رپورٹ دینے والوں نے جھوٹ بولا.یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ شروع سے ایک پارٹی تھی.تو ی اس کا جواب یہ ہے کہ رپورٹ دینے والوں کو کیا پتہ تھا کہ کسی وقت یہ چاروں علیحدہ بھی ہو جائیں گے.انہوں نے ایک رپورٹ کی اور وقوعہ نے ثابت کر دیا کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ سچ کہا ورنہ وجہ کیا ہے کہ ادھر میاں فخر الدین صاحب ملتانی جماعت سے نکالے جاتے ہیں اور ادھر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری بھی نکل جاتے ہیں.وہ علیحدہ ہوتے ہیں تو میاں عبد العزیز حکیم اور میاں عبد الرب بھی فتح بیعت کا اعلان کر دیتے ہیں اور میاں مصباح الدین صاحب سے بھی ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ انہیں جماعت کی سے الگ کرنا پڑتا ہے.یہ باتیں ثبوت ہیں اس بات کا کہ ان میں خفیہ کاروائیاں ہوتی رہی تھیں اور یہی ہے تقویٰ کے خلاف فعل ہے.اگر پہلے دن ہی جب انہوں نے میرے متعلق بات کوئی بات سنی تھی ، میرے پاس آتے اور مجھ سے کہتے کہ میں نے فلاں بات سُنی ہے مجھے اس کے متعلق سمجھایا جائے تو جس رنگ میں بھی ممکن ہوتا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا اور کوتسلی دینا خدا کا کام ہے میرا نہیں مگر اپنی طرف سے میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا.لیکن انہوں نے تقویٰ کے خلاف طریق اختیار کیا اور پھر ہر قدم جوی انہوں نے اُٹھایا وہ تقویٰ کے خلاف اُٹھایا.چنانچہ جب انہوں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ مجھ پر جماعت کی طرف سے کئی قسم کے مظالم کئے جارہے ہیں تو میں نے اس کی تحقیق کیلئے ایک کمیشن مقرر کیا جس کے ممبر مرزا عبد الحق صاحب اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر تھے.مرزا عبدالحق صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے گہرے دوست تھے.مگر انہوں نے مرزا عبدالحق صاحب کے متعلق کہہ دیا کہ یہ خلیفہ کے اپنے آدمی ہیں اور انہیں چونکہ جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں اس لئے فیصلہ
خطبات محمود ۵۳۰ سال ۱۹۳۷ء میں وہ خلیفہ کی طرفداری کریں گے اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر کہ وہ بھی ان کے گہرے دوستوں میں سے تھے ان کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ مجھے ان کے فیصلہ پر اس لئے تسلی نہیں کہ ان کی مرزا گل محمد صاحب نے جو خلیفہ کے چچا کے بیٹے ہیں ایک ضمانت دی ہوئی ہے.اب اگر احمدیوں کے ایمان اتنے کی کمزور ہیں کہ ان میں سے کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ مجھے جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں ، اگر میں نے جماعت کے خلاف فیصلہ کیا تو مقدمات ملنے بند ہو جائیں گے.اور کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ میرے چچا کے بیٹے نے ان کی ایک ضمانت دی ہوئی ہے تو ایسے لوگوں کے اندر شامل رہنے سے فائدہ کیا ہے.میں نے تو نہایت دیانتداری سے ان دونوں کو اس کا دوست سمجھ کر اس فیصلہ کیلئے مقرر کیا تھا مگر انہوں نے اس کمیشن کے سامنے اس لئے اپنے مطالبات پیش کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ دونوں ہمارے زیر اثر ہیں.اس کے مقابلہ میں مصری صاحب کے ایک اور دوست مصباح الدین صاحب کے متعلق جب کمیشن مقرر کیا گیا تو میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ لوگ ان لوگوں پر جو جماعت سے کوئی ملا زمت وغیرہ کا تعلق رکھتے ہوں، اعتراض کرنے کے عادی ہیں ایسے آدمی مقرر کئے جنہیں جماعت سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا.ان میں سے ایک میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ تھے.انہوں نے کبھی بھی جماعت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا اور جماعت نے کسی مقدمہ میں انہیں کبھی فیس نہیں دی.دوسرے دوست چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری تھے انہیں بھی کبھی جماعت سے کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا.مگر جب ان دونوں کو میں نے مقرر کیا اور انہوں نے مصباح الدین صاحب کو بیان کیلئے بلایا تو انہوں نے کہا کہ اگر خلیفہ خود مجھ سے جواب طلب کرے تو میں جواب دے سکتا ہوں ، کسی اور کا ان امور سے کیا تعلق ہے.مجھے جب یہ بات پہنچی تو میں نے جواب دیا کہ جب وہ سلسلہ پر اعتراض کرنے لگے تھے تو کیا انہوں نے خلیفہ سے اجازت لے لی تھی ؟ اگر ان میں اتنا ہی اخلاص تھا تو چاہئے تھا کہ وہ اپنے اعتراضات کا بھی خلیفہ وقت کے سوا اور کسی کے سامنے ذکر نہ کرتے.جب اعتراض کرنے کا وقت تھا اُس وقت تو اوروں کے سامنے ہی اعتراض ہوتے رہے مگر جب جواب دینے کا وقت آیا تو کہہ دیا کہ میں خلیفہ کے سوا اور کسی کو جواب نہیں دے سکتا.اصل بات یہ ہے کہ جب کسی انسان کے دل میں فتنہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ نہ مانوں نہ مانوں کی وو رٹ لگا تا رہتا ہے.جب کمیشن میں شیخ مصری صاحب کے دوست مقرر کئے گئے تو انہوں نے کہہ د
خطبات محمود ۵۳۱ سال ۱۹۳۷ء کہ یہ پیڈ ایجنٹ (PAID AGENT) ہیں.ایک کو مقدمے مل جاتے ہیں اور دوسرے کو خلیفہ وقت کی کے ایک رشتہ دار نے ضمانت دی ہوئی ہے.اور جب ایسے لوگ مقرر کئے گئے جن پر یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا تھا تو یہ کہ دیا گیا کہ خلیفہ وقت کے سوا ہم کسی کے سامنے بات نہیں کر سکتے.پس میں نے تو چاہا تھا کہ اگر ہماری جماعت کے کسی فرد کی طرف سے ان پر سختی ہوئی ہو تو اس کا کی ازالہ کروں مگر انہوں نے خود اس کو قبول نہیں کیا.میں یہ ہر گز نہیں کر سکتا تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے جھگڑوں میں غیر احمد یوں کو حج مقرر کروں.ہمیشہ اُمت محمدیہ میں امت محمدیہ کے افراد ہی باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کرتے رہے ہیں.اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں.خلفائے اسلام بھی بعض دفعہ دیوانی مقدموں میں بلائے گئے ہیں.مگر وہ اُنہی قاضیوں کے پاس گئے ہیں جنہیں انہوں نے خود مقرر کیا تھا.حضرت عمرؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما پر اگر کوئی دیوانی مقدمہ ہوا ہے تو انہی قاضیوں کے پاس جنہیں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے مقرر کیا تھا.اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ قاضی تو آپ کا اپنا مقرر کردہ ہے اس سے ہم فیصلہ کیونکر کر سکتے ہیں، وہ آپ کی طرفداری کرے گا.وہ جانتے تھے کہ یہمسلمان قاضی ہیں اور مسلمان قاضی دیانت داری سے ہی کام لیں گے.ان میں یہ بدظنی نہیں تھی کہ قاضی تو ان کا مقرر کردہ ہے وہ کس طرح صحیح فیصلہ کر سکتا ہے.اور اگر کسی وقت قوم کی حالت ایسی گندی ہو جائے کہ اُس کا خلیفہ بگڑ جائے اور اُس کے افراد بددیانت ہو جائی تو پھر اس مرض کا علاج کوئی بندہ نہیں کر سکتا اس کا علاج پھر اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.اُس وقت پھر اصلاح کا جی دعویٰ کرنا محض ایک لاف ہے.اُس کا علاج ایک ہی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے فریاد کی جائے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمہیں مجھ پر ایسی بدظنی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ جماعت کو تباہ کر رہا ہے تو تم خدا سے کہو کہ وہ مجھے تباہ کر دے.بندوں کے پاس چیخ و پکار بالکل بے معنی بات ہے.مصری صاحب کے اسی ساتھی نے جس کے خط کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سازش کر کے مستریوں پر حملہ کروایا تھا.پھر آپ نے سازش کر کے محمد امین کو قتل کروایا اور اب فخر الدین کو مروا دیا ہے.اور اس کے بعد آپ ہمیں مروانے کی فکر میں ہیں.مجھے اس قسم کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہر غلط الزام کا جواب دینے کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا ی فائدہ ہوتا ہے.لیکن چونکہ خط لکھنے والے نے آئندہ کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے اور میں کسی کو قلق اور اضطراب
خطبات محمود ۵۳۲ سال ۱۹۳۷ء میں رکھنا نہیں چاہتا اس لئے میں ان کے وسوسہ کو دور کرنے اور ان کے خدشات کو مٹانے کیلئے وہ بات کہتا ہوں جس کی مجھے عام حالات میں ضرورت نہیں تھی اور میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کروانا تو الگ رہا آج تک سازش سے کسی کو چیرہ بھی نہیں لگوائی.کسی پر اُنگلی بھی نہیں اُٹھوائی اور نہ میرے قلب کے کسی گوشہ میں یہ بات آئی ہے کہ کی میں خدانخواستہ آئندہ کسی کو قتل کرواؤں یا قتل تو الگ رہانا جائز طور پر پٹوا ہی دوں.اگر میں اس قسم میں کی ز جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی لعنت مجھ پر اور میری اولاد پر ہو.ان لوگوں نے میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے.اگر یہ لوگ تعصب سے سے بالکل ہی عقل نہ کھو چکے ہوتے تو یہ ان باتوں سے شک میں پڑنے کی بجائے خود ہی ان باتوں کو رڈ کر دیتے.خدا تعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا ، اس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے جو ساری عمر دنیا کے غموں میں گھلتا رہا اور کھل رہا ہے.ایک محبت کرنے والا دل جس میں سب دنیا کی خیر خواہی ہے ، ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولا د اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں.ان امور میں مجبوریوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آجائے تو آ جائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آئی.میں اصل مضمون سے دُور چلا گیا.میں ان لوگوں کی تسلی کیلئے اس سے بھی بڑھ کر ایک قدم اُٹھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر جماعت میں کوئی ایسا شخص ہے جسے میں نے کبھی بھی کسی کے قتل یا مخفی طور پر پیٹنے کا حکم دیا ہو ( مخفی کی شرط میں نے اس لئے لگائی ہے کہ قضاء کی سزاؤں میں ان لوگوں کو جنہیں سزا دینے کا ہم کو شرعی اور قانونی حق ہوتا ہے کبھی بدنی سزا بھی دلوا دیتے ہیں ).تو اسے میں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ اس امر کو ظاہر کر دے تاکہ اگر میں جھوٹا ہوں تو دنیا پر میرا جھوٹ کھل جائے.پھر میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اور قدم اُٹھاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ ایسے افعال کو نا پسند کیا ہے جن میں ظلم پایا جائے اور ظاہر اور مخفی ہر طرح ان افعال کو روکنے کی کوشش کرتا رہا ہوں.ہاں اگر خدا کی بتائی ہوئی تقدیریں پوری ہوں تو ان میں میرا کوئی دخل نہیں.وہ خدا کا اپنا کام ہے جو وہ کرتا ہے اور مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.مجھ پر الزام تبھی آسکتا ہے کہ میرے منصوبہ یا اشارہ سے کوئی بات ہو.لیکن میں انہیں کہتا ہوں انہوں نے مجھے پر یہ اعتراض کر کر کے کہ میں پہلے اپنے دشمنوں کی تباہی کے متعلق ایک پیشگوئی کرتا ہوں اور پھر انسانوں کی منت سماجت کر کے اسے پورا کروا تا کی
خطبات محمود ۵۳۳ سال ۱۹۳۷ء اور اپنے دشمنوں کو مروا ڈالتا ہوں، غیر از جماعت لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کر دیئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب نے لیکھرام کے قتل ہونے کی پیشگوئی کی اور پھر ایک آدمی بھیج کر ا سے مروا دیا.گویا انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگا کر ایک ایسا خطرناک حربہ دشمن کے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ گو وہ سلسلہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر اس سے وہ ہنسی اور طعن و تشنیع کا نشانہ ضرور بن جاتا تی ے.انہیں سوچنا چاہئے کہ میں خدا تعالیٰ کی خبر کو کس طرح چھپاؤں.میں اس بارہ میں بے بس ہوں.میں قسم کھا سکتا ہوں، ہر سخت سے سخت قسم کہ میں نے جو خبر دی وہ خدا تعالی کی طرف سے تھی میں نے اپنے پاس سے نہیں بنائی اور میں ہر غلیظ سے غلیظ قسم کھا سکتا ہوں کہ اس خبر کے پورا کرنے کیلئے میں نے کوئی سازش نہیں کی.اس سے زیادہ میں اور کیا ذریعہ تسلی دلانے کیلئے اختیار کر سکتا ہوں.جو اس پر بھی تسلی نہیں پاتا اس کا علاج خدا تعالیٰ کے پاس ہی ہے میرے پاس نہیں.مگر بدقسمت ہے وہ جو خدا تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اور بھی گمراہ ہو جاتا ہے.بے شک خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ يُضِلُّ به كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا 2 کچھ لوگ اس سے ہدایت پاتے ہیں اور کچھ گمراہ ہو جاتے ہیں.مگر اس قاعدہ کے گمراہی والے حصہ میں شامل ہونا کوئی اچھا مقام نہیں کہ انسان اس مقام پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے.پیشگوئیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں.ابھی قریب کے زمانہ میں ہم خدا تعالیٰ کے ایک مامور کی آوازسُن چکے ہیں.پیشگوئی کے بعد پیشگوئی ہم نے سنی اور پھر اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھی.پھر کیا ہوا کہ اتنے قلیل عرصہ میں لوگ اس آواز سے نا آشنا ہو گئے اور کیوں نہ ہوا کہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز سے فائدہ اُٹھاتے اور انکار کر کے اپنے گناہوں کے بار کو زیادہ نہ کرتے.اے زمین اور آسمان! تو گواہ رہ کہ میں ان الفاظ کے بیان کرنے میں جو میں نے بیان کئے تھے جھوٹا نہ تھا.میں نے وہی کہا جو میرے دل اور کانوں پر نازل ہوا اور میں نے افتراء نہیں کیا اور میں خدا تعالیٰ پر افتراء کرنے کو جی لعنتیوں کا کام سمجھتا ہوں.اور مجھے ایسا کہنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود کہہ چکا ہے کہ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا ؟ میں نے صرف وہی کہا جو میرے روحانی کانوں نے سنا اور میرے دل نے محسوس کیا اور اسی دفعہ نہیں میں نے بہت دفعہ آسمانی آواز کو سنا ہے.اور یہ کوئی میرا ذاتی فخر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا محض احسان ہے ورنہ میں تو ایک ناکارہ وجود ہوں ، گناہوں سے پُر ، خطاؤں سے بھرا
خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۳۷ء ہوا مگر میں کیا کروں کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ مجھ سے اِحیائے اسلام کا کام لے اور اسلام کی عظمت کو میرے ذریعہ سے قائم کرے اور یہ کام ہو کر رہے گا جلد یا بدیر.مبارک ہے وہ جو اس کام میں میرا ہاتھ بٹاتا ہے اور افسوس اُس پر جو میرے راستہ میں کھڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ میرا نہیں خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھ سے گنہگار کو اپنے جلال کے اظہار کا ذریعہ بنایا.کاش! وہ تو بہ کرتا اور خدا تعالیٰ کے کی اشارہ کو سجھتا، کاش! وہ اپنے آپ کو اس خطر ناک مقام پر کھڑا نہ کرتا کیونکہ اس قسم کے اعتراضوں سے وہ جس مصیبت کو اپنے اوپر سے ٹلانا چاہتا ہے وہ اس کو ٹلاتا نہیں بلکہ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے لے آتا ہے.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اخلاص اور درد کے ساتھ اسے یہی کہتا ہوں کہ اے آنکہ سُوئے من بد دیدی بصد تبر از باغباں بترس که من شاخ مثمرم میں آخر میں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا نا میرے لئے ممکن تھا میں نے قسمیں کھالی ہیں اور ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تو بہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں.میں نے ان کی باتوں کو سنا اور صبر کیا اور اس حدی تک صبر کیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کر سکتے.مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ اُن کو یقین دلا دے گا اور اگر اس دنیا میں انہیں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین ظلم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پر کر سکتا ہے.انہوں نے ان حربوں کو استعمال کیا ہے جن حربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا.میں نے آج تک خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دوسرے پر ظلم نہیں کیا اور اگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ میرے پاس آ جائے جس سے مجھے کوئی ذاتی رنجش ہو تو میرا طریق یہ ہے کہ میں ہر وقت یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ الہی ! یہ میرے امتحان کا وقت ہے تو اپنا فضل میرے شامل حال رکھ ایسا نہ ہو کہ میں فیل ہو جاؤں.ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی کوئی رنجش اس فیصلہ پر اثر انداز ہو جائے اور میں انصاف کے خلاف فیصلہ کردوں.پس میں ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہوں تا خدا تعالیٰ مجھے انصاف کی توفیق دے اور میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ انصاف کی توفیق دی ہے.میں نے شدید سے شدید دشمنوں کی بھی
خطبات محمود ۵۳۵ سال ۱۹۳۷ء کبھی بدخواہی نہیں کی.میں نے کسی کے خلاف اُس وقت تک قدم نہیں اُٹھا جب تک شریعت مجھے اس قدم کی کے اُٹھانے کی اجازت ہی دیتی.پس وہ تمام الزامات جو وہ مجھ پر مار پیٹ اور قتل وغیرہ کے سلسلہ میں عائد کرتے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں.بلکہ بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے تو میں نے اُن کو ڈانٹا اور کہا کہ یہ شریعت کے خلاف فعل ہے.ان باتوں کا کبھی دل میں خیال بھی نہیں لانا چاہئے.اگر اس قدر یقین دلانے کے باوجود بھی وہ ان اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں تو میرے پاس ان کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں اور میں خدا تعالیٰ سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا! اگر تو نے مجھے عہدہ خلافت پر قائم کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تو آپ ان مظالم کا جواب دینے کیلئے آسمان سے اتر.نہ میرے لئے بلکہ اپنی ذات کیلئے ، نہ میرے لئے بلکہ اپنے سلسلہ کیلئے.مذکورہ بالا خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی آزاد کمیشن بیٹھے تو اس کے سامنے میرے خلاف لڑکوں اور لڑکیوں اور عورتوں کی گواہیاں وہ دلوا دیں گے بلکہ خود میری بھی گواہی دلوادیں گے.جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں ، میری اپنی گواہی سے لکھنے والے کی مراد شاید یہ ہو کہ وہ کوئی میری تحریر پیش کرنا چاہتے ہیں وَاللَّهُ اَعْلَمُ اور کوئی معنے اس فقرہ کے میرے ذہن میں نہیں آئے.مگر ایسا ہو تو بھی خلفائے سابق سے میری ایک اور مماثلت ثابت ہو گی.پہلے خلفاء کے مقابلہ میں بھی لڑکیاں پیش کی گئیں.پہلے خلفاء کے مقابلہ میں بھی تحریریں پیش کی گئیں.چاہے ان لڑکیوں کی گواہیاں ہوئیں یا نہ ہوئیں اور چاہے وہ تحریریں کیسی ہی جعلی تھیں مگر بہر حال اس قسم کے دلائل پہلے بھی پیش ہوتے چلے آئے ہیں.پس ان کی باتوں سے میں نہیں گھبراتا.میں نے بندوں پر کبھی تو کھل نہیں کیا، میرا تو کل محض خدا کی ذات پر ہے.اگر میں جماعت سے بھی محبت کرتا ہوں تو صرف اس لئے کہ یہ خدا نے مجھے دی ہے اور اگر جماعت کے کی تمام لوگ مجھ سے الگ ہو جائیں تو میں سمجھ لوں گا کہ یہ خدا نے مجھے نہیں دیئے تھے.پس مجھے لوگوں کے ارتداد سے گھبراہٹ نہیں مجھے یقین ہے خدا کے وعدوں پر ، مجھے یقین ہے خدا کی نصرتوں پر اور مجھے یقین ہے کہ ہر وہ شخص جو سچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہے وہ نہیں مرے گا جب تک میری بیعت میں داخل نہ ہوئے.اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ حضرت
خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۳۷ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوڑتا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریم ﷺ کو چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے.میں اس یقین پری قائم ہوں قرآن مجید کے ماتحت، میں اس یقین پر قائم ہوں حدیث کے ماتحت ، میں اس یقین پر قائم ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے ماتحت، میں اس یقین پر قائم ہوں ان رؤیا و کشوف اور الہامات کے ماتحت جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے اور میں اس یقین پر قائم ہوں خدا تعالیٰ کی اُن کھلی کھلی تائیدات کے ماتحت جو ہر وقت میرے شامل حال ہیں.اگر کسی کو خدا تعالیٰ کا یہ عمل نظر نہیں آتا تو وہ اندھا ہے.ورنہ جو شخص ایک معمولی بصیرت بھی رکھتا ہو وہ دیکھ سکتا ہے کہ خدا نے ہمیشہ میری امداد فرمائی ہے اور غیب سے میری تائید کے سامان پیدا کئے ہیں اور ہمیشہ اپنے فضل سے وہ میری پشت پناہ بنا رہا ہے.اس نے ہر لمحہ میری تائید کی، اُس نے ہر گھڑی میری نصرت کی ، اُس نے ہر حملہ سے مجھے بچایا ، اُس نے ہر میدان میں مجھے کامیاب کیا.میں کمزور ہوں اس کو میں مانتا ہوں، میں کم علم ہوں اس سے کی میں نا واقف نہیں ، میں نالائق ہوں اس سے مجھے انکار نہیں مگر خدا تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ کر مجھے خلیفہ نہیں کی بنایا.اگر وہ پوچھتا تو میں اس سے ضرور کہتا کہ مجھ میں کوئی خوبی اور لیاقت نہیں.مگر کون ہے جو خدا تعالیٰ سے پوچھے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور کون ہے جو اس کے فیصلہ پر اعتراض کرے.جب اُس نے مجھے اس مقام پر کھڑا کر دیا تو اب میں کھڑا ہوں.اس لئے نہیں کہ اپنی عزت قائم کروں بلکہ اس لئے کہ خدا کی عزت دنیا میں قائم کروں.پس اُسی کے نام کو قائم کرنے ، اُسی کی عزت کو بلند کرنے اور اُسی کے جلال کو ظاہر کرنے کیلئے میں کھڑا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر دم تک کھڑا رہوں گا اور اس کا عمل بتا رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے.پس جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی تائیدات کو بھی نہیں دیکھ سکتا وہ روحانی اندھا ہے.اگر وہ راہ راست پر نہیں آسکتا تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں.میری تو ہر آن اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اے خدا! مجھ پر بھی رحم کر اور ان پر بھی جن کو تُو نے میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے کیلئے چنا اور اُن پر بھی جو اب تک اس سے محروم ہیں.جس طرح تیرے فضل نے مجھ جیسے کمز ور کو ڈھانپ لیا، میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اسی طرح وہ فضل ساری دنیا کو ڈھانپ لے.وَمَا ذَلِكَ بِبَعِيدٍ
خطبات محمود عَنْ رَحْمَتِكَ يَارَبِّ.۵۳۷ البقرة: ۱۸۷ الانفال: ۱۸ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک الشورى : ۱۲ ه بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد وتقبيله.....الخ) الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء ك الاعراف: ۱۵۷ البقرة: ۲۷ ۹ الانعام: ۲۲ ا در شمین فارسی صفحه ۱۰۶.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ سال ۱۹۳۷ء ( الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۳۷ء )
خطبات محمود ۵۳۸ ۳۵ سال ۱۹۳۷ء صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق ایک نہایت اہم کام اشاعت دین کا کام ہمیشہ جاری رہے گا (فرموده ۱۹/ نومبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے قریباً ۴۸ سال ہو گئے ہیں اور اب دو سال میں پچاس سال کی مدت ختم ہو جائے گی.انسانی زندگیوں کے لحاظ سے پچاس سال کی عمر ایک نہایت ہی پختہ عمر ہوتی ہے اور پچاس سال کے آدمی بڑھاپے کی طرف جارہے ہوتے ہیں گورنمنٹ بھی اپنے ملازموں کو ۵۵ سال کی عمر میں پنشن دے دیتی ہے.پس جو دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا تھا اُس کے ابتدائی حالات دیکھنے اور سننے والوں میں سے نو عمروں کی عمر اگر ۱۸ ۲۰ سال یا پندرہ سال بھی سمجھ لی جائے ، کیونکہ یہ چھوٹی سے چھوٹی عمر ہے جس میں بچہ کچھ سمجھدار ہو جاتا ہے ( یہ تو نہیں ہوسکتا کہ جو لوگ ایمان لائے وہ سب کے سب پندرہ برس کے ہی تھے.اُن میں تو پندرہ برس کا شاید ہی کوئی ہو ورنہ ایمان لانے والے بالعموم ۲۵ ،۳۰ سال کی عمر کے لوگ تھے ).تو وہ پندرہ سال کا بچہ آج ۶۳ سال کا ہوگا اور جس کی ہیں سال کی عمر تھی وہ آج ۶۸ برس کا ہوگا اور جس کی اُس وقت تمہیں سال عمر تھی وہ آج ۷۸ برس کا ہوگا.اور ۷۸ سال کی عمر وہ ہے جس کو ہمارے ملک کے لوگ بہت کم پہنچتے ہیں اس لحاظ سے سمجھ لینا چاہئے کہ اس
خطبات محمود ۵۳۹ سال ۱۹۳۷ء وقت ابتدائی بیعت دیکھنے والوں میں سے ایک دو ہی زندہ ہوں گے اور بظاہر حالات دو چار سال کے بعد کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں ہو گا جس نے ابتدائی حالات کو دیکھا ہو.پھر ابتدائی بیعت کے بعد ابتدائی مشکلات کا زمانہ تھا جو ۱۹۰۰ ء تک سمجھنا چاہئے.اگر اُس زمانہ کو ۱۸۹۵ ء تک بھی سمجھا جائے تو اس کے کی دیکھنے والوں کی عمر بھی اگر وہ اُس وقت ہیں سال کے تھے آج ۶۲ سال کی ہوتی ہے.اور اُس زمانہ کے کی آخری سال یعنی ۱۹۰۰ ء کو اگر لیا بھی جائے تو ہیں سال کی عمر کا آدمی اب ۵۷ سال کا ہوا.اور اگر پندرہ برس کی عمر والے بھی شامل کر لئے جائیں تو گویا ایسے لوگ اب ۵۲ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہوں گے.غرضیکہ اُس زمانہ کے لوگ یا تو فوت ہو چکے ہیں یا وفات کے قریب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ۱۹۰۸ء کے ابتدا میں ہوئی اور اُس وقت جن لوگوں کی عمر پندرہ سال کی سمجھی جائے کیونکہ یہی کم سے کم عمر ہے جس میں بچہ سمجھ رکھتا ہے تو ایسے لوگوں کی عمر بھی اب ۴۴ سال ہو گی.جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال اور جماعت میں رہ سکتے ہیں اور بظاہر آج سے ۲۰، ۲۵ سال بعد شاید ہی کوئی صحابی جماعت کو مل سکے.ایسے صحابی جس نے حضور کی باتوں کو سُنا اور سمجھا ہو.یوں تو ایسے بچے بھی صحابی ہو سکتے ہیں جن سے جبکہ وہ دو چار سال کی عمر کے ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باتیں کی ہوں.یہ عمروں کا اندازہ میں نے وہ کیا ہے جو عام طور پر ہوتا ہے.بعض لوگ غیر معمولی طور پر لمبی عمر میں بھی پاتے ہیں.جس دن میں نئے مہمان خانہ کی بنیاد رکھ کر آیا مجھے رستہ میں ایک بوڑھے آدمی ملے.ان کی شکل حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سے اس قدر رملتی جلتی تھی کہ میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ کیا آپ ان کے رشتہ دار ہیں؟ انہوں نے کہا میں ان کا چاہوں.ان کے چہرے سے جس قسم کی طاقت ظاہر ہوتی تھی اُس سے اندازہ کر کے میں نے قیاس کیا کہ یہ غالباً ان سے چھوٹے ہیں.بعض اوقات بھتیجے کی عمر چا سے زیادہ بھی ہوتی ہے اس لئے میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ حافظ صاحب سے چھوٹے ہیں؟ تو انہوں نے اپنی مخصوص زبان میں جواب دیا کہ جدوں اُس دی ماؤ دا ویاہ ہو یا سی اودوں میں اٹھارہ دریاں دا ساں.یعنی جب ان کی والدہ کی شادی ہوئی اُس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی.حافظ صاحب کے قولی بھی مضبوط تھے.اب تو بیماری کی وجہ سے وہ کمزور ہو گئے ہیں لیکن بیماری سے پہلے ہم ان کو مضبوط قومی کے آدمیوں میں سے سمجھا کرتے تھے.لیکن پھر بھی اپنے چچا سے ان کا کوئی جوڑ ہی نہیں اور ان کے چچا نے کہا کہ آپ مجھے کمزور خیال نہ کریں.اب بھی میں
خطبات محمود ۵۴۰ سال ۱۹۳۷ء دس بارہ میل پیدل سفر کر لیتا ہوں اور میری عمر اس وقت ۹۸ سال کی ہے اور حافظ صاحب کی ۷۸، ۷۹ سال.تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں.ایک اور مثال بھی مجھے یاد آ گئی.پندرہ سولہ سال ہوئے ایک دوست بیعت کرنے کی غرض سے میرے پاس آئے اور کہا کہ میں لاہور سے پیدل آیا ہوں.میں نے ان کی شکل وصورت سے اندازہ کر کے کہا کہ آپ کی عمر تو ساٹھ ستر سال کی ہوگی.آپ نے بڑی ہمت کی جو اس قدر لمبا سفر پیدل کیا.مگر وہ کہنے لگے کہ میری عمر تو ایک سو دس سال کی ہے.میں جس اُستاد کے پاس پڑھا کرتا تھا ان کے پاس ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ آئے تھے ( مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کو فقراء سے بہت عقیدت تھی اور وہ مسلم فقراء کے پاس بھی جایا کرتے تھے تا کہ ان سے دعا کرائیں ) اور ان کو ایک بھینس دی تھی جسے میں نہلا تا ج تھا.تو انہوں نے اپنی عمر ایک سو دس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ بتائی تھی.بعد میں میں سمجھا کرتا تھا کہ وہ شاید فوت ہو چکے ہیں.مگر کوئی ایک سال کا عرصہ ہوا ایک دوست کا خط آیا جس میں ان کے متعلق بھی لکھا تھا کہ ان کی عمر اب ۱۳۰ ،۱۳۵ سال کے لگ بھگ ہے اور وہ آپ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ ہیں.تو ایسے استثنائی لوگ بھی ہوتے ہیں.صحابہ میں سے حضرت انسؓ نے سب سے بڑی عمر پائی اور وفات کے وقت وہ ۱۱۰ یا ۱۲۰ سال کے تھے لے رسول کریم ﷺ ہی کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۷ ، ۱۸ سال تھی اور آپ کی وفات کے بعد وہ قریباً سو سال زندہ رہے.ایسے لوگ تو تبرکات ہوتے ہیں جن کو دیکھنے کیلئے اگر دنیا کے دوسرے کنارے سے بھی آنا پڑے تو یہ مشقت کم ہے اور ایسے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو تابعیت کا فضل دینے کیلئے زندہ رکھتا ہے تا لوگ ان کی وجہ سے تابعی کہلا سکیں.ورنہ عرب میں عمریں بالعموم ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہوتی ہیں.رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے زمانہ کی اوسط عمر ساٹھ سال ہی فرمائی ہے اور ساٹھ سال کی اوسط عمر بہت بڑی عمر ہے.ہمارے ملک کی اوسط عمر گورنمنٹ کی کی مردم شماریوں کے رو سے تمیں سال نکلتی ہے.انگلستان کی اوسط عمر ۴۸ سال ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ لمبی عمریں پاتے ہیں.پس میں جس عمر کا ذکر کرتا ہوں وہ لمبی عمروں میں سے اوسط عمر ہے اور جس حدیث کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا مفہوم غالبا عام عمروں میں سے اوسط عمر ہے.کیونکہ انفرادی طور پر تو اس زمانہ میں بھی سو سال سے زیادہ عمر میں بعض لوگوں نے پائی ہیں.اب اوسط کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ جس قوم کی کی
خطبات محمود ۵۴۱ سال ۱۹۳۷ء اوسط عمر ساٹھ سال ہو وہ اعلیٰ درجہ کی تندرست قوم تھی.ورنہ ہمارے ملک میں تو پچاس فیصدی لوگوں کا بھی اس عمر کو پہنچنا ناممکن ہے.انشورنش والے انسانوں کی عمروں کے اعداد و شمار نکالتے رہتے ہیں اور ان کا اندازہ ہے کہ صرف پندرہ فیصدی لوگ ساٹھ سال یا اس سے اوپر پہنچتے ہیں.ان حالات میں ۲۰۱۵ سال کے بعد ہماری جماعت میں صحابیوں کا ملنا مشکل ہوگا.مگر ہم نے ابھی تک وہ علوم دنیا میں قائم نہیں کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ملے تھے.صحابہ کرام کو اِس کا اِس قدر جنون تھا کہ وہ جب بھی بیٹھتے کہتے آؤ رسول کریم ﷺ کی باتیں کریں اور انہوں نے آپ کا کھانا پینا، بیٹھنا اُٹھنا ، سونا جاگنا غرضکہ آپ کی ہر قسم کی حرکات و سکنات کو اس طرح محفوظ کر دیا کہ آج بیسیوں کتابیں احادیث اور تاریخ کی بھری پڑی ہیں.تاریخ کی دس دس اور پندرہ پندرہ جلدوں کی باریک لکھی ہوئی بیسیوں کتا بیں موجود ہیں اور احادیث کی کتابیں ان کے علاوہ ہیں.احادیث کی کئی کتابیں تلف بھی ہو چکی ہیں.اگر چہ ان میں درج شدہ حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں یا تفاسیر میں آگئی ہیں.میں سمجھتا ہوں رسول کریم کی زندگی اور سیرت کے حالات کی کتابیں اور احادیث اگر جمع کی جائیں تو تین چار سو نیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں.جن میں سے ہر ایک جلد پانسو صفحات کی ہو.اگر ایسی تین سو جلدیں بھی ہوں تو یہ ڈیڑھ لا کھ صفحات ہوں گے اور جتنے بڑے صفحات عام طور پر عربی کی کتابوں کے ہوتے ہیں وہ انسان ایک گھنٹہ کی میں دس بارہ پڑھ سکتا ہے.روزانہ چھ گھنٹہ کی پڑھائی رکھی جائے تو دن میں ستر صفحات کی اوسط بنتی ہے اور ایک مہینہ میں دو ہزار ایک سو صفحات کی اور ایک سال میں چھپیں ہزار صفحات کی.گویا سب کام چھوڑ کر بھی کی ایک آدمی کا چھ سال پڑھنے کے بعد ان کتب پر عبور ہو سکتا ہے.لیکن چونکہ انسان کو کتاب کے سمجھنے کیلئے کبھی غور کی ضرورت ہوتی ہے، کبھی دوسری کتب کے مطالعہ کی کبھی لغت کی اس لئے درحقیقت وقت اس سے دو گنا بلکہ تگنا خرچ ہوتا ہے.یہ تو عام لیاقت کے آدمیوں کا حال ہے.لیکن جو لوگ تیز پڑھنے والے ہیں اور زیادہ محنت کر سکتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی سرسری تلاوت پر تین سال اور غور کر کے اور سمجھ کر پڑھنے پر چھ سال سے نو سال خرچ ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اور کوئی کام نہ کریں.غرض صحابہ کرام نے اتنا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ آج ہمیں بہت ہی کم یہ خیال آ سکتا ہے کہ کاش! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں بات ہمیں معلوم ہوتی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات ، اقوال اور واردات کا بہت ہی کم حصہ محفوظ ہوا.ا ہے.
خطبات محمود ۵۴۲ سال ۱۹۳۷ء میں نے بار ہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ جو بات کسی کو معلوم ہو وہ لکھا دے اور دوسروں کو سنا دے.مگر افسوس کہ اس کی طرف بہت ہی کم توجہ کی گئی ہے.اور اگر کسی نے توجہ کی بھی ہے تو ایسی طرز پر کہ اس کا نتیجہ صفر کے برابر ہے.پس گو میرا آج کا مضمون تو اور ہے مگر ضمنی طور پر میں دوستوں کو بالخصوص نظارت تالیف و تصنیف اور تعلیم کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ اس قسم کا کام ہے کہ اس میں سے بہت سا ہم ضائع کر چکے ہیں اور اس کیلئے ہم خدا کے حضور کوئی جواب نہیں دے سکتے.اب جو باقی ہے اسے ہی ہے محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے.ہمارا سالانہ بجٹ تین لاکھ کا ہوتا ہے مگر اس میں ایک ایسا آدمی نہیں رکھا گیا جو ان لیکچروں اور تقریروں کو جو صحابہ کریں قلمبند کرتا جائے.اب بھی اگر ایسا انتظام کر دیا جائے تو جو کچھ محفوظ ہوسکتا ہے اسے کیا جاسکتا ہے.اور اس میں سے سال دو سال کے بعد جو جمع ہو شائع ہوتا ت رہے اور باقی لائبریریوں میں اور لوگوں کے پاس بھی محفوظ رہے.میں سمجھتا ہوں اب بھی جو لوگ باقی ہیں وہ اتنے ہیں کہ ان سے چالیس پچاس فیصدی باتیں محفوظ ہو سکتی ہیں.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک بہت بڑے مصنف بھی تھے.اس لئے آپ کی کتابوں میں بھی بہت کچھ آچکا ہے.لیکن جو باتیں صحابہ کو معلوم ہیں اگر ان کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تو ہم ایک ایسی قیمتی چیز کھو بیٹھیں گے جو پھر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ آسکے گی.میں کئی سال سے اس امر کی طرف توجہ ہی دلا رہا ہوں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا.میں اپنے اس درد کی وجہ سے جو اس بارہ میں میرے دل میں ہے کہیں سے کہیں نکل گیا.میں صرف یہ بتا نا چاہتا تھا کہ ہمارے لئے ایک بہت نازک دور آ رہا ہے.ایک عظیم الشان کام ہمارے سپرد کیا گیا تھا لیکن ہم ابھی تک اس محل کی بنیادوں کے خاتمہ اور ڈیوڑھی تک بھی نہیں پہنچے جس کی تعمیر اور جس کی آبادی ہمارے ذمہ فرض تھی.اس کی تعمیر کے لحاظ سے تو کہنا چاہئے کہ ہم ابھی تک اس کی بنیادیں بھی نہیں بھر سکے اور آبادی کے لحاظ سے ابھی اس کی ڈیوڑھی تک بھی نہیں پہنچے.اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی کبھی کچ ہمیں جگاتے اور ہوشیار کرتے ہیں مگر ہم پھر غفلت میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے ایک فضل نے مجھ سے تحریک جدید کو جاری کرایا جس کی غرض بھی ہمیں ہوشیار کرنا تھا.تحریک کے اصل معنے حرکت دینے کے ہیں اور اس نام سے میری مراد یہی تھی کہ جماعت کو بیدار کیا جائے یہ نہیں کہ جماعت کو کوئی نئی چیز دی جائے.علم رسول کریم ﷺ پر ختم ہو چکا ہے.کسی ماں نے اب
خطبات محمود ۵۴۳ سال ۱۹۳۷ء ایسا بچہ نہیں جننا جو رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے علم میں ایک شوشہ کا بھی اضافہ کر سکے یا اس میں کمی کر سکے.ہاں اس کے شارح ہوتے رہیں گے جو اسی کی تفاسیر کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی علم کی تفسیر ہی کی اور ہم بھی اب یہی کر رہے ہیں.آج فضیلت کا معیار یہی ہے کہ علوم کے اس خزانہ میں سے کس پر کتنا ظاہر کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کی فضیلت کی یہی وجہ ہے کہ اس علم کا خزانہ بعد رسول کریم ہے کے سب سے زیادہ آپ پر کھولا گیا.پس ہم میں سے ہر ایک کی بڑائی اسی میں ہے کہ اس پر وہ دروازہ کتنا کھولا جاتا ہے.قرآن کریم کو تصنیف تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر ہم تمثیلی طور پر ایسا کہہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف محمد رسول اللہ ﷺ پرختم ہوگئی.اب جو بھی آئیں گے وہ اس کے شارح ہوں گے اور اسی کی تشریح کرتے جائیں گے.تحریک جدید بھی اسی کی ایک تشریح ہے، کوئی نہیں چیز نہیں.عربی میں حرک کے معنے ہیں ہلانا ، بیدار کرنا اور اسی لحاظ سے اس کو تحریک جدید کہا گیا تھا کہ یہ جماعت کو بیدار کرنے اور جگانے کیلئے تھی.آج اس تحریک پر تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور میں نے پہلے اعلان میں کہا تھا کہ یہ ابتداء تین سال کیلئے ہے مگر وصالِ الہی ، استحکام دین اور اشاعت اسلام کا کام تین سال سے نہیں بلکہ عمروں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور کوئی شخص جس دن اس کام کو ختم سمجھے وہی اس کی تباہی کا دن ہے.جس دن کوئی یہ خیال دل میں لائے وہی دن اس کے تنزل کا ہوتا ہے.جب مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ دین کا کام پورا ہو گیا ہے، اسی دن وہ تباہی ، ذلّت ، نکبت اور ادبار کے گڑھے میں گرنے لگے.جب تک مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ یہ کام مکمل نہیں ہوا اور ہم نے اس کی تعمیل کرنی ہے، اُس وقت تک وہ برابر ترقیات کا کام کرتے رہے.ہم نے دنیا میں قرآن کریم کو قائم کرنا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں لا تعداد خزانے ہیں تو ہم میں سے جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن کریم کو قائم کرنے کا کام ختم ہوگیا اس سے زیادہ پاگل کون ہو سکتا ہے.بارش ہونے کے بعد جو شخص یہ کہے کہ اب ہمیشہ کیلئے بارش ہو چکی تو اسے پاگل کہا جائے گا.ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جو بادل آئے تھے وہ برس چکے ہیں اور ی جب خدا تعالیٰ کے بادل ختم نہیں ہوتے ہر روز اور ہر مہینہ اور ہر سال آتے ہیں تو قرآن کریم کا بادل کس طرح ختم ہوسکتا ہے.جو شخص یہ سمجھے کہ گزشتہ سال بارش ہوئی تھی اور میرے والد نے کھیت کو پانی دے لیا تھا، اب مجھے پانی دینے کی ضرورت نہیں فصل خود بخود ہو جائے گی وہ احمق ہے.اس کے باپ نے پانی
خطبات محمود ۵۴۴ سال ۱۹۳۷ء دیا تو دانہ بھی لے لیا تھا.اب اگر اس نے دانہ لینا ہے تو پھر پانی بھی دینا ہوگا ، ہل بھی چلانا ہوگا اور بیج بھی ڈالنا ہوگا.ہر سال نئے بادل آتے ہیں، نیا پانی برساتے ہیں اور نئی فصلیں اگاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کا کلام بھی ہمیشہ نئے مطالب لاتا ہے اور نئی نئی روحانی فصلیں دیتا ہے اور ان کے حصول کیلئے انسان کو ہر دفعہ نئی جد و جہد کرنی پڑتی ہے اور جو شخص سمجھتا ہے کہ اس کام سے وہ تھک گیا ہے اس کی تباہی یقینی ہے.مگر تم کسی اکھر زمیندار سے کہو کہ تم اپنی زمین میں کاشت کرتے کرتے تھک گئے ہو اب یہ میرے حوالے کر دو تو وہ لٹھ لے کر تمہیں مارنے کیلئے کھڑا ہو جائے گا کیونکہ یہ اس کے فائدہ کی بات نہیں بلکہ نقصان کی ہے.اسی طرح سمجھدار انسان دین کیلئے جد و جہد چھوڑنے کو کبھی منظور نہ کرے گا کیونکہ اس قربانی میں اس کا فائدہ ہے اس کا نقصان نہیں.جو شخص اس کام میں تھکتا ہے وہ کبھی نجات نہیں پاسکتا.جو ا شخص یہ دعوی کرے کہ میں ایسی صورت بتا سکتا ہوں کہ روحانیت دو چار سال میں حاصل ہو جائے گی اور پھر کسی قربانی کی ضرورت نہ رہے، اس سے زیادہ جھوٹا، اس سے زیادہ مفتری اور کذاب دنیا میں پیدا نہیں ہوا.سچائی یہی ہے جو اسے سننے کی ہمت نہ رکھتا ہو وہ بے شک الگ ہو جائے کہ یہ کام نہ تم سے ختم ہوسکتا ہے نہ تمہاری نسلوں سے اور نہ ان کی نسلوں سے اور نہ یہ قیامت تک ختم ہو سکتا ہے.قیامت تک جو بھی پیدا ہوگا اس کی گردن پر یہ جوا رہے گا.جس میں جو ا اُٹھانے کی ہمت نہیں وہ دین کے کام کا نہیں.ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو منافق ہو جایا کرتے ہیں.جو چند روز کام کرنے کے بعد آرام کرنا چاہتے ہیں یا پنشن کے خواہاں ہوتے ہیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ دین کے کام میں پنشن تو اگلے جہان میں ملتی ہے.یہاں بھی جو پنشن گورنمنٹ سے لیتے ہیں وہ دنیا کے کاموں سے علیحدہ ہو کر نہیں بیٹھ جاتے.گھر میں جاتے ہیں تو بچے گرد ہو جاتے ہیں ، اُن کی شادیاں بیاہ کرنے ہوتے ہیں.پھر پوتے ہوتے ہیں اور اگر زیادہ لمبی عمر ہو تو پڑپوتے ہوتے ہیں.ان کے متعلق اپنے فرائض کو ادا کرنا پڑتا ہے.گویا دنیا کے کام بھی کبھی ختم نہیں ہوتے.جب کوئی شخص گورنمنٹ سے پنشن لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اب اس دفتر میں کام کا اہل نہیں.یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گھر پر بھی وہ اپنا کوئی کام نہیں کر سکتا.اور ہم نے تو دیکھا ہے کہ پنشن لینے والے عام طور پر افسروں کی دہلیز پر ہی ناک رگڑتے رہتے ہیں.کبھی کہتے ہیں صاحب! میرے لڑکے کو نوکری دلوائے.کبھی پوتے کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں صاحب! میں نے بڑی خدمت کی ہے.کبھی بھیجے کیلئے یا کسی اور رشتہ دار کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں.کبھی خطار
خطبات محمود ۵۴۵ سال ۱۹۳۷ء حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی آنریری مجسٹریٹی کیلئے کبھی مربعوں کیلئے افسروں کے بنگلوں کا طواف کرتے ہیں.غرضیکہ وہ کسی نہ کسی غرض کے ماتحت انہی افسروں کے دربار میں حاضر ہی رہتے ہیں.لیکن یہ نہ بھی ہو تو بھی کیا گھر کے کام کبھی ختم ہو جاتے ہیں؟ ان فکروں سے وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتے.لیکن خدا تعالیٰ کی جنت میں جو پنشن ملتی ہے اس میں کوئی فکر نہیں ہوتا.وہاں جو دل چاہے حاصل ہو جائے گا اور حقیقی پنشن یہی ہے.یا فرض کرو انسان کو خدا تعالیٰ ایسا بنا دے کہ اسے کام کرنے سے نہ کوئی تکلیف ہو نہ وہ تھکے تو وہ اگر ۴۸ گھنٹہ کام ہی کرتا چلا جائے تو اسے کیا بوجھ محسوس ہوسکتا ہے اور اگلے جہان میں جب نہ کوئی تکلیف ہوگی اور نہ تھکان تو کام بے شک ہوتا جائے اس کا کیا احساس ہو سکتا ہے.یا پھر جس کام کی طرف رغبت ہو اُس میں تھکان محسوس نہیں ہوتی.میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ بعض لوگ مسلسل ۷۸ گھنٹے شطرنج کھیلتے رہے ہیں.کھیل میں ان کو ایسی رغبت اور شغل ہوتا ہے کہ تکلیف کا خیال تک بھی نہیں آتا اور وہ کچھ محسوس ہی نہیں کرتے.تو جس کام کی طرف رغبت ہو وہ بوجھ محسوس نہیں ہوتا.پس حقیقی پنشن وہی ہوگی جو اگلے جہان میں ملے گی.اس جہان میں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ چند روز دین کا کام کرنے کے بعد پنشن مل جائے گی وہ اگر آج نہیں تو کل ضرور منافق ہوگا.بلکہ جو شخص اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی اولاد کیلئے بلکہ اس کی بھی اولاد کیلئے دین نی کے کام میں پنشن کی توقع رکھتا ہے وہ دوسرے لفظوں میں اپنی اولاد کی بے دینی اور نظام دین کی تباہی کی خواہش کرتا ہے.دین کے کام میں پنشن ہو کیسے سکتی ہے.کیا نمازوں میں اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پنشن دی ہے؟ روزہ میں دی ہے ؟ طاقت کے مطابق کسی کام سے بھی پنشن نہیں دی.روزہ طاقت نہ ہونے کی حالت میں چھوڑا جا سکتا ہے.مگر یہ پنشن نہیں ، یہ تو اُس وقت ہے جب آدمی روزہ رکھ ہی نہ سکے.پھر کوئی شخص یہ خیال کس طرح کر سکتا ہے کہ دینی نظام سے پنشن مل جائے.جس دن مسلمانوں نے خلافت سے پنشن کی اُسی دن سے اُن کو حقیقتاً پینشن مل گئی اور ان کی تمام ترقیات رُک گئیں.پہلے پچاس سالوں میں مسلمانوں نے جو حکومت حاصل کی تھی ، اگلے تیرہ سو سال میں اس سے آدھی بھی نہیں کر سکے اور یہ ایک ایسا نشان ہے جو اندھا بھی دیکھ سکتا ہے.پچاس سال میں ایک قوم نے کی اس قدر ترقیات حاصل کیں کہ بیسیوں اقوام مل کر تیرہ سو سال میں اس سے آدھی بھی نہ کرسکیں.صحابہ کرام کے زمانہ میں ایک طرف مسلمان ہندوستان و چین کے ساحلوں تک پہنچ چکے تھے اور دوسری طرف افریقہ
خطبات محمود ۵۴۶ سال ۱۹۳۷ء کے جو حصے آباد تھے ان میں اپنی حکومت قائم کر چکے تھے اور تیسری طرف یورپ کے ساحلوں تک پہنچ چکے تھے.تبلیغی لحاظ سے وہ چین کے اندر تک داخل ہو چکے تھے.ہندوستان کے اندر بھی داخل ہو گئے تھے.بمبئی کے علاقہ میں تھا نہ ایک بندرگاہ ہے جس کے پاس ایک گاؤں میں صحابہ کی قبریں موجود ہیں.اس مجلس میں نوے فی صدی لوگ ہوں گے جنہوں نے بمبئی نہیں دیکھا.حالانکہ وہ ہمارے ملک کا ایک حصہ ہے.پھر ریل ایجاد ہو چکی ہے جو صرف ۳۶ گھنٹے میں وہاں پہنچادیتی ہے.لیکن اُس زمانہ کے لوگوں کیلئے یہ سفر کئی ماہ کا تھا مگر پھر بھی وہ یہاں پہنچے اور اپنی قبریں بھی یہیں بنا دیں.ہو پس دیکھو نظام کی کتنی برکت اور طاقت تھی.جب تک کوئی قوم کام کی ذمہ داری سمجھتی.ہے وہ ترقی کرتی جاتی ہے اور جس دن اس ذمہ واری کا احساس نہیں رہتا، ترقیات کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے.اب میں بتا تا ہوں کہ وہ کام کیا ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَحَسِبْتُمُ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمُ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ - فَتَعَلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ہے یعنی اے انسانو! کچھ عقل سے کام لو.تم جو سمجھتے ؟ ہماری زندگیاں دُنیوی ہیں دین کیلئے نہیں ہیں.کیا تمہیں خیال ہے کہ ہم نے دنیا کو بلا وجہ پیدا کیا ہے.کیا یہ ایک کھیل اور تماشہ ہے جس طرح بچے کھلونے بناتے اور پھر اسے توڑ ڈالتے ہیں.ہم نے بھی دنیا کو اسی طرح بنایا ہے کہ پیدا کیا اور مار دیا.کیا تم یہ خیال نہیں کرتے کہ بڑی عمر کا آدمی جب کوئی مکان بناتا ہے تو اسے توڑتا نہیں سوائے اس کے کہ اس میں کوئی نقص ہو اور خدا تعالیٰ کے کام میں تو کوئی نقص بھی نہیں ہوتا.تم ایک عمارت بناتے ہو اور پھر اسے اُس وقت توڑتے ہو جب اس سے بہتر بنانے کا خیال ہو ورنہ نہیں.ہاں بچے کھلونے بناتے ہیں.ہم جب بچے تھے ہم بھی بنایا کرتے تھے اور اب بھی بچے بناتے ہوں گے یا ممکن ہے کوئی نئے کھیل اب نکل آئے ہوں.بہر حال ہم اپنے بچپن کے زمانہ میں ریت کے میدانوں میں جاتے تھے اور اوپر کی خشک ریت ہٹا کر نیچے سے گیلی ریت نکال کر اُس میں کی پاؤں یا ہاتھ رکھ کر اوپر سے تھپکتے جاتے تھے اور اس طرح ریت کے مکان بناتے تھے.پھر گھر کو آتے وقت لات مار کر انہیں تو ڑ دیا کرتے تھے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے بھی دنیا کو بچوں کے کھیل کی طرح پیدا کیا ہے.یعنی ہم انسان کو پیدا کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد اسے مار دیتے ہیں.گویا بچے کی کھیل کو د گھنٹے دو گھنٹے کی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی چند سال کی.کیا تم سمجھتے ہو ہم نے یہ سب
خطبات محمود ۵۴۷ سال ۱۹۳۷ء چیز میں لغو اور بے فائدہ پیدا کی ہیں.یہ سب تماشا ہے وَ انكُمُ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ.اور یہ کہ تمہاری موجودہ زندگی کسی اور زندگی کا پیش خیمہ نہیں.اور تم سمجھتے ہو کہ پھر ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ فرمایا یہ بالکل گندہ خیال ہے، اسے ہماری طرف منسوب کرنا بھی ہماری ہتک ہے.کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ کی اللہ تعالیٰ کو بچہ بنا دیا.حالانکہ فَتَعلَی اللہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے.وہ کامل الصفات ہے خدا کیا تم سمجھتے ہو کہ بچوں کی طرح کھیل رہا ہے.وہ پیدا کرتا اور تباہ کرتا ہے، نہ اس کا کوئی مقصد.اور نہ کوئی غرض ہے.فرمایا فَتَعلَی الله تم تو ایک عقلمند انسان کی طرف بھی کھیل منسوب نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اگر کھیلے بھی تو اس کے کھیلنے کا وقت کام کے وقت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا.پھر خدا تعالیٰ کی طرف جو تمام عقلوں کا پیدا کرنے والا اور علوشان والا ہے کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ محض کھیل ہی رہا ہے.ہندوستان میں ایسے مذہبی فلسفی موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ واقعی کھیل رہا ہے.وہ کہتے ہیں یہ دنیا کیا ہے؟ یہ محض خدا تعالیٰ کی کھیل ہے.خدا تعالیٰ تنہائی سے گھبرایا ، اس لئے اس نے کہا لا ؤ کی کوئی شغل پیدا کریں اور اس نے انسان کو پیدا کر دیا.کوئی انسان مرتا ہے تو وہ ہنستا ہے.جس طرح بچہ کھلونے کو تو ڑ کر ہنس دیتا ہے.اس کے ماں باپ ناراض ہو رہے ہوتے ہیں مگر وہ ہنس رہا ہوتا ہے.اسی کی طرح جب کوئی انسان مرتا ہے تو لوگ تو رور ہے ہوتے ہیں مگر خدا ہنستا ہے کہ کیا خوب گلا گھونٹا گیا.اس کی طرح جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں دردزہ کی شدت سے کراہ رہی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ ہنس رہا ہوتا ہے.واقعی ایسے لوگ ہیں جو صاف لفظوں میں یہی عقائد رکھتے ہیں اور کئی ایسی ہیں جو گومنہ سے یہ نہیں کہتے لیکن ان کے اعمال کے محرکات کے پشت یہ خیال ضرور عمل کر رہا ہوتا ہے.وہ سوچتے ہیں کہ ہم دنیا میں کیوں آئے.اور پھر خیال کر لیتے ہیں کہ یونہی آگئے.جو لوگ اپنی زندگی کو دین کیلئے نہیں سمجھتے ان پر اگر جرح کر کے دیکھو تو ان کا عقیدہ یہی نکلے گا کہ خدا تعالیٰ کھیل رہا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَتَعلَى الله.اللہ تعالیٰ تو بڑی شان والا ہے.اُس نے دنیا کوکھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ خدا کی چار صفات نے دنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا تھا.وہ صفات ظاہر ہونا چاہتی تھیں اور ان کے اظہار کیلئے ہی اس نے دنیا کو پیدا کیا.وہ چار صفات کیا ہیں.الْمَلِكُ الْحَقُّ - لا إِلهُ إِلَّا هُوَ - رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ - فرمایا اللہ تعالیٰ ملک ہے.اس کی ملکیت چاہتی تھی کہ ظاہر ہو.وہ الْحَقُّ ہے اس کا حق ہونا چاہتا تھا کہ ظاہر ہو.لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ اس کی توحید یہ چاہتی تھی کہ ظاہر ہو.اور اس کا رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ہونا
خطبات محمود ۵۴۸ سال ۱۹۳۷ء چاہتا تھا کہ ظاہر ہو.یہ چاروں صفات اپنا اظہار چاہتی تھیں اس لئے اس نے دنیا کو پیدا کیا.ان چاروں صفات پر غور کرو تو یہ وہی ہیں جو سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ - الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ملِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ - - یعنی اللہ تعالیٰ رَبِّ العَلَمِينَ.الرَّحْمنِ ہے الرَّحِیمِ اور ملک یوم الدین ہے.یہاں بھی وہی چاروں صفات بیان کی گئی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب بدل دی گئی ہے.سورہ فاتحہ میں جو پہلے بیان کی تھی یہاں وہ آخر میں رکھ دی.پھر اسی ترتیب سے سب صفات کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے.چنانچہ اس آیت میں اَلْمَلِكُ جو آیا ہے یہ ملک یوم الدین کی طرف اشارہ ہے.علم القرآت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ج ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی جگہ ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ پڑھا ہے.غرض الْمَلِكُ کا لفظ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی طرف اشارہ کرتا ہے.سورہ فاتحہ میں ملک یوم الدین سے پہلے الرَّحِیمِ ہے.یہاں الْمَلِكُ کے بعد الْحَقُّ رکھا گیا ہے.سورۃ فاتحہ میں الرَّحِیمِ سے پہلے الرَّحْمنِ ہے.یہاں الْحَقُّ کے بعد اس کی طرف اشارہ کرنے کیلئے لا اله الا هو رکھا گیا ہے.سورہ فاتحہ میں اَلرَّحِمْنِ سے پہلے رَبِّ العَلَمِينَ ہے.یہاں اس کی جگہ سب سے آخر میں رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ رکھا گیا.ہے.گویا سورہ فاتحہ کی مذکورہ صفات اور اس آیت مذکورہ صفات میں صرف یہ فرق ہے کہ ایک تو ترتیب الٹ دی ہے دوسرے درمیانی دو صفات کو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے.یعنی رحیمیت کی طرف اشارہ اَلْحَقُّ سے اور رحمانیت کی طرف اشارہ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ سے کیا گیا ہے.غرض یہ صفات وہی سورہ فاتحہ والی صفات ہیں.مزید تشریح کیلئے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ ملک بادشاہ کو کہتے ہیں اور ملکیت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی ذات کے ظہور کا موجب اور منبع ہے کیونکہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے معنی ہیں جزا سزا کے دن کا مالک.اور جزا سز ا مترتب نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پہلے کوئی قانون نہ ہو.چنانچہ اگر ہماری شریعت میں نماز کا حکم نہ ہوتا تو کیا ہم مسلمانوں سے یہ پوچھ سکتے تھے کہ تم نمازیں کیوں نہیں پڑھتے ؟ اگر ہم ایسا کرتے تو یقیناً وہ جواب دیتے کہ ہمیں ایسا کوئی خاص حکم نہیں ہے.غرض جسے حکم نہ ہو اس سے رپورٹ بھی نہیں لی جاتی اور ایسا شخص مجرم بھی قرار نہیں دیا جا سکتا.پس ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ نتیجہ ہے ملکیت کا.کیونکہ پہلے قانون کا نفاذ ہو پھر اس کے متعلق جواب طلبی ہو سکتی ہے.ملک کے بعد اس سورۃ میں الحق کی صفت بیان کی گئی ہے اور ادنیٰ غور سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اَلْحَقُّ رحیمیت کا منبع
خطبات محمود ۵۴۹ سال ۱۹۳۷ء ہے.کیونکہ جب ملک کی طرف سے قانون جاری کیا جائے تو اس کے ساتھ انعام اور صلے بھی جاری ہوتے ہیں اور ان کے وعدے کئے جاتے ہیں اور رحیم کے معنے یہی ہیں کہ اچھے کاموں کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیتا ہے.کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور یہ الحق کی صفت کا تقاضا ہے.کیونکہ اَلْحَقُّ چاہتا ہے کہ اس کا کوئی وعدہ غلط نہ جائے اور جو جو اس نے لوگوں سے انعامات کے وعدے کئے ہیں ان کو ضروری مل جائیں.پھر اَلْحَق کے معنے قائم رہنے اور قائم رکھنے کے بھی ہوتے ہیں.اور رحیم کی صفت میں جو بار بار بدلہ دینے کے معنے پائے جاتے ہیں وہ اسی صفت سے تعلق رکھتے ہیں.کیونکہ اَلْحَقُّ : صرف خود قائم رہتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی قائم رکھتا ہے.اور انعامات کو بھی قائم رکھتا ہے.حق در حقیقت مصدر ہے اور مصدر مبالغہ کے معنوں کے ساتھ اسم فاعل کے معنی بھی دے دیتا ہے.جیسے کی العدل نہایت انصاف کرنے والے کو کہتے ہیں.ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو رحم ہی رحم ہے یعنی بہت رحم کر نیوالا ہے.پس الحق کے معنی اس کے مختلف معنوں کے رو سے قائم رہنے والے، قائم کہنے والے اور سچے وعدے کرنے والے کے ہوں گے اور چونکہ رحیم کے معنے کسی کے نیک کام کو کی ضائع نہ کرنے کے اور متواتر انعامات دینے کے ہیں، اس صفت کا تعلق الْحَقُّ سے ہے.اَلْحَقُّ ہی ہے جو دیکھتا ہے کہ کوئی وعدہ غلط نہ ہوا اور اس کے مورد صرف ایک دفعہ ہی انعام نہ پائیں بلکہ انعام پاتے ہی جائیں اور دائمی زندگی ان کو عطا ہو.غرض مزدوری کا تعلق الْحَقُّ سے ہے کیونکہ وعدے آئندہ کیلئے ہی تی ہوتے ہیں اور کام کے بعد پورے کئے جاتے ہیں.مگر بخشش پہلے ہوتی ہے.کوئی فقیر آتا ہے تو انسان فوراً اسے روٹی دے دیتا ہے.کسی محتاج کو دیکھتا ہے تو پیسے دے دیتا ہے.مگر اولا د اور دوستوں کیلئے وعد.ہوتے ہیں.پہلے ان کے سپر د خدمات کی جاتی ہیں.پس الْحَقُّ کا تعلق رحیمیت سے ہے.پھر فرمایا لا إلهَ إِلَّا هُوَ یہ رحمانیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.رحمانیت کا تقاضا ہے کہ ہر زمانہ میں ہر ایک کی ضرورتیں پوری ہوں خواہ کوئی کام کرے یا نہ کرے اور یہ توحید الہی کی ایک دلیل ہے کیونکہ بغیر کسی شگاف یا وقفہ کے سب کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی بچہ پیدا ہوا ہو اور اس کیلئے دودھ کی ضرورت پوری نہ ہو.نادان خیال کرتا ہے کہ یہ دودھ آج پیدا ہوا ہے.حالانکہ یہ مسیح نہیں.جس وقت دنیا کی پیدائش ہوئی اُسی وقت زید یا بکر کا دودھ بھی پیدا ہوا تھا.یہ چھاتی کا دودھ ماں کے خون سے پیدا ہوا ہے اور خون ان جمادی حیوانی یا نباتی غذاؤں سے جو انسان کھاتا ہے اور ان میں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء سے بعض چیزیں لاکھوں سال پہلے بنائی گئی تھیں اور بعض کو بظاہر اب پیدا ہوتی ہیں لیکن ان کی پیدائش کے ذرائع پہلے کے ہی ہیں.جیسے سبزیاں، ترکاریاں کہ ان کو بیج زمین اور پانی پیدا کرتا ہے.اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو دودھ کہاں سے آ سکتا تھا.پس اس کے سامان اس وقت رکھے گئے تھے جب دنیا کا پہلاتی ذرہ پیدا ہوا تھا.پس رحمانیت لا إِلهَ إِلَّا هُوَ پر دلالت کرتی ہے اور اسے مانتے ہوئے دوسرا خدا انسان تسلیم ہی نہیں کر سکتا.کامل تو حید انہی قوموں میں ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی قائل ہیں.ہندو اور مسیحیان مشرک قو میں ہیں اور یہ دونوں رحمانیت کی قائل نہیں.ایک نے رحمانیت کا انکار کر کے تناسخ کا مسئلہ نکالا ہے تو دوسری قوم نے کفارہ ایجاد کیا ہے.غرض شرک اور رحمانیت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ، توحید کامل رحمانیت سے تعلق رکھتی ہے.رحمانیت کے معنے ہیں کہ انسان کی ہر ضرورت پوری ہو خواہ اس نے اس کیلئے کام کیا ہو یا نہ کیا ہو.اب یہ بات تب ہی ہو سکتی ہے جب ایک خدا ہو.کیونکہ جس نے خواہشات پیدا کیں وہی ان کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر سکتا ہے اور جب ایک وجود نے خواہشات بھی پیدا کیں اور انہیں پورا بھی کر دیا تو اب کسی دوسرے وجود کی ضرورت کیا رہی.مجھے اس حقیقت کے متعلق ایک واقعہ یاد آ گیا ہے اسے بیان کر دیتا ہوں.میں ایک دفعہ ڈلہوزی گیا میری عمر بھی اچھوٹی ہی تھی.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی خلافت کے ابتدائی ایام تھے اُس وقت وہاں عیسائیوں کے ایک بڑے پادری پنگسن نامی جنہوں نے سیالکوٹ کا مشن قائم کیا تھا ، آئے ہوئے تھے.اُن کی عمر کوئی ستر سال کی تھی اور داڑھی انہوں نے خوب بڑھائی ہوئی تھی.وہ پادری کی صاحب عیسائیوں میں بہت معزز تھے.پنجاب سے ان کی تبدیلی آخر عمر میں پونا کو ہو گئی تھی اور و ہیں.خرابی صحت کی وجہ سے وہ ڈلہوزی آئے تھے.وہ بعض دفعہ اپنے مذہبی اشتہار بازاروں میں تقسیم کیا کرتے تھے.بعض دوستوں کی خواہش تھی کہ میں ان سے بات چیت کروں.چنانچہ میں اُن سے ملا دوران گفتگو میں بعض باتیں اس مضمون کے متعلق ہوئیں جس کو میں اب بیان کر رہا ہوں.توحید کا مسئلہ زیر بحث تھا.میں نے اُن سے پوچھا بتائیے اللہ تعالیٰ مخلوقات کو خود پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں.میں نے کہا بیٹا ؟ انہوں نے کہا ہاں.میں نے پھر روح القدس کے بارہ میں پوچھا انہوں نے کہا وہ بھی پیدا کرسکتا ہے.مگر خدا نے یہ کام بیٹے کے سپرد کیا.میں نے کہا پھر تو خدا تعالیٰ اور روح القدس سارا وقت فارغ رہتے ہوں گے.ان کے وجود یا عدم وجود کا کوئی فائدہ ہی نہیں.کہنے لگے نہیں سب ہی کام کرتے
خطبات محمود ۵۵۱ سال ۱۹۳۷ء ہیں.میں نے کہا یہ سامنے آپ کی پنسل پڑی ہے.اگر کوئی بات نوٹ کرنے کیلئے آپ اسے اٹھانا چاہیں تو کیا آپ اپنے بیرے، خانسامہ اور اپنے دوست کو جو آپ کے ساتھ ہیں بلکہ مجھے بھی مدد کیلئے بلائیں گے اور اگر اتنے آدمی مل کر پنسل پر اُنگلیاں رکھیں اور سب اُٹھا کر اسے آپ کے قریب کریں تو دیکھنے والا کی ہم سب کو پاگل سمجھے گا یا نہیں ؟ کہنے لگے ضرور سمجھے گا کیونکہ پنسل کو تو ایک آدمی بھی بآسانی اُٹھا سکتا ہے.میں نے کہا کہ جب یہ بات ہے اور آپ مانتے ہیں کہ ایک خدا بھی سب کچھ کر سکتا ہے تو پھر باقیوں کی ضرورت کیا ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جب ایک انسان بلا ضرورت کسی کام پر زائد آدمی لگائے تو اسے آپ پاگل کہیں مگر ان کو آپ ہم سے خدا منوانا چاہتے ہیں جو ہر ایک کامل قدرت رکھنے کے باوجود ایک چھوٹے کام کیلئے تین مل کر لگے ہوئے ہیں.تو رحمانیت کو مانتے ہوئے شرک کبھی قائم نہیں رہ سکتا.رحمانیت کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رحمت سے کوئی باہر نہیں اور جو بغیر محنت کے دیتا ہے اس کی رحمت سے کون باہر رہ سکتا ہے اور جب وہ ہر ایک کی ضرورت کو ہر زمانہ میں پورا کرتا ہے تو پھر دوسرے خدا نے کیا کرنا ہے.جس قوم میں کامل تو حید نہیں وہ خدا کی رحمانیت کی قائل نہیں ہوسکتی.پھر فرمایا رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ یعنی وہ تمام صفات حسنہ کا مرکز اور حکومت کا مالک ہے.اس کی کا عرش کریم اور کریم اسے کہتے ہیں جس میں اعزاز اور احسان پایا جاتا ہو اور ساری عزتیں اور سارے احسان اس میں جمع ہوں.وہ ربوبیت میں ادنیٰ حالت سے لے کر اعلیٰ تک ترقی دیتا ہے.وہ بے شک بادشاہ بھی ہے مگر انسانوں کی نظامی ضرورتوں کے علاوہ وہ ان کی تربیت کے متعلق ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے.بادشاہت تو صرف انتظامی ضرورتوں تک ہوتی ہے.انفرادی تعلقات کی درستی ربوبیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.بادشاہ کو میاں بیوی کے باہمی جھگڑے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا مگر ربوبیت کو اس کے ساتھ تعلق ہے.ماں باپ انہیں ضرور کہیں گے کہ لڑو نہیں.تو ربوبیت کا تعلق تمدنی اور معاشی چیزوں سے ہے.اس لئے فرمایا کہ اس کی بادشاہت خالی ملوک والی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ربوبیت بھی شامل ہے.یعنی تمدنی اور معاشی امور سے بھی اسے وابستگی ہے اور کریمیت بھی اس کے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ کی یہ چاروں صفات وہ ہیں جن کی وجہ سے دنیا ظہور میں آئی.ملک يَوْمِ الدِّينِ وہ اس لئے ہے کہ وہ ان ملک ہے.رحیم اس لئے ہے کہ وہ الْحَقُّ ہے.رحمن اس لئے ہے کہ ا ا الا ھوا ہے.جہاں ایک سے زیادہ کام کرنے والے ہوں وہاں کسی سے پوچھو کہ فلاں کام تم نے کیوں نہیں کیا.تو وہ
خطبات محمود ۵۵۲ سال ۱۹۳۷ء جواب دے دیتا ہے کہ میں نے سمجھا فلاں کر لے گا.لیکن جب کام کرنے والا ایک ہی ہو تو وہ خود ساری فکر رکھتا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اور تو کوئی ہے نہیں، میں نے ہی سب کی ضرورتوں اور سب ضرورتوں کو پورا کرنا ہے.پس اُس کا رحم ہر رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.پھر وہ رَبِّ العَلَمِينَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيم ہے.یہ چاروں چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ دنیا میں قائم کرنی ہیں.اور اسی انان غرض کیلئے ہم نے بندے کو پیدا کیا ہے اور مذہب دنیا میں اسی لئے آتا ہے کہ ان چیزوں کو قائم کرے.ملکیت نظام کامل پر دلالت کرتی ہے.بادشاہ یا خلیفہ کا کام ہے کہ دنیوی یا دینی نظام کو قائم رکھے اور ایک کو دوسرے پر ظلم نہ کرنے دے اور خدا تعالیٰ کی ملکیت تقاضا کرتی ہے کہ بنی نوع انسان میں نظام ہو اسی لئے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے اور اسے مل جل کر رہنے پر مجبور کیا ہے.بیوی بچے ساتھ لگا دیئے ہیں.بیشک وہ جانوروں کے ساتھ بھی ہیں مگر اس طرح نہیں جس طرح انسان کے ساتھ ہیں.بعض جانوروں میں تو جوڑا ہے ہی نہیں.بعض میں ہے جیسے کبوتر مگر ان میں بھی تربیت اولاد کا طریق نہیں.بچہ جب دانے کھانے لگے نکال دیتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوگا کہ بچہ کو بوڑھا ہونے تک باپ ساتھ لئے پھرے.لیکن انسان میں یہ بات ہے.اسی جلسہ پر دو بوڑھے آدمی مجھے ملنے آئے.ایک زیادہ ضعیف تھا اور دوسرا اسے سہارا دے کر لا رہا تھا.میں نے خیال کیا یہ بھائی بھائی ہیں اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ دونوں بھائی ہیں؟ اس پر اُس نے جو سہارا دے کر دوسرے کو لا رہا تھا کہا کہ نہیں جی یہ میرا بیٹا ہے.بوجہ امراض کے زیادہ بوڑھا معلوم ہوتا ہے اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا ہے اس لئے میں اسے اپنے ساتھ رکھتا ہوں.ایسی مثالیں جانوروں میں نہیں پائی جاتیں تو انسان کو مدنی الطبع بنایا گیا ہے.پھر جانوروں میں بھائیوں کا احساس نہیں.برادری کا سسٹم ان میں کوئی نہیں لیکن اگر بعض کے تعاون کو جیسا کہ چیونٹیوں میں ہوتا ہے برادری کا طریق سمجھ لیا جائے تو خاندان کی مثال ان میں نہیں مل سکے گی.حکومت تو ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں میں اور چیونٹیوں میں ہوتی ہے مگر خاندان کا سسٹم نہیں ہو گا.اور وارث ہونا قرابیت کی وجہ سے دوسرے کا ذمہ وار قرار پانا یہ باتیں مفقود ہوں گی.پس ملکیت کامل نظام پر دلالت کرتی ہے اور اسی لئے انسان کو اللہ تعالیٰ نے مدنی الطبع پیدا کیا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں نظام کامل پیدا کیا جائے.جس وقت تک حکومتیں مسلمان اور احمدی نہیں ہو جاتیں جو کامل طور پر نظام کے قیام کا ذریعہ ہیں اُس وقت تک جتنا اسلامی نظام بھی ممکن ہو تی
خطبات محمود ۵۵۳ سال ۱۹۳۷ء ہمیں اسے قائم رکھنا چاہئے.پھر صفت الحق جو ہے یہ اخلاق فاضلہ اور عمل کی درستی پر دلالت کرتی ہے ہے.رحیمیت کے معنے ہیں اچھے کام کا بدلہ دینا اور یہ چیزیں اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں.اچھے کام ہوں تو بدلہ دیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں اور جس طرح ملکیت کے نظام کو قبول کرنے کیلئے انسان کے اندر قابلیت رکھی تھی اور اسے مدنی الطبع بنایا تھا، اسی طرح الحق کے مقابلہ پر اخلاق فاضلہ انسان کو دیئے ہیں.مذاہب ہو یا نہ ہو، تعلیم ہو یا نہ ہو ، تمدن ہو یا نہ ہو، اخلاق سے کورا کوئی انسان نہیں ہوسکتا.ذرا خلاف اخلاق بات کر کے دیکھو فوراً چہرہ سرخ ہو جائے گا اور پسینہ بہنے لگے گا.جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ فطرت بول رہی ہے.رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلى فِطْرَةِ الاسلام کے یہاں اسلام سے مرا یہ اسلام نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ حقہ کی فرمانبرداری بچہ میں پائی جاتی ہے.اسی فطرت پر بچہ پیدا ہوتا ہے.بعد میں اس کے ماں باپ اپنے رنگ میں رنگین کر لیتے ہیں.جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے تو بے شک انسان بے حیا ہو جاتا ہے لیکن پہلا جھوٹ بولتے ہوئے اُس کا رنگ ضرور فق ہوگا کیونکہ اُس کی فطرت میں سچائی ہے.بے شک کسی کو چوری کی اتنی تی عادت ہو جائے کہ وہ سب مال سمیٹ کر اپنے قبضہ میں کر لینے کی حرص رکھتا ہومگر پہلی چوری کرتے ہوئے ضرور اُس کا ہاتھ کا نا ہوگا.کیونکہ اخلاق فاضلہ کو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں داخل کیا ہے.جب خدا تعالیٰ بدلہ دینا چاہتا تھا تو اس کیلئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ بھی ہونی چاہئے تھی.لا إلهَ إِلَّا هُوَ کے ساتھ قربانی اور ایثار کا تعلق ہے.رحمانیت کا یہی مطلب ہے کہ بغیر مزدوری کے دیا جائے.یہ چیز بھی انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے.اس کی مثال ماں باپ میں ملتی ہے.و قطع نظر اس خیال سے کہ بچہ کبھی ان کے کام آئے گا یا نہیں ، اسے پالتے پوستے ہیں، اسے تعلیم دلاتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کی طرف سے کسی محنت کے بغیر یا بدلہ کی امید کے بغیر کرتے ہیں.ہاں جو لوگ پیدائش میں کامل نہ ہوں وہ اخلاق میں بھی کامل نہیں ہو سکتے.یہی وجہ ہے کہ کوئی ہیجڑا بزرگ نہیں ہوا.وہ چونکہ کامل الخلق نہیں ہوتا اس لئے کامل الاخلاق بھی نہیں ہو سکتا.کامل الاخلاق ہونے کیلئے کامل الخلق ہونا ضروری ہے.اس نکتہ کو علم نفس والوں نے خوب سمجھا ہے اور ایک نے تو اسے ایسے لطیف رنگ میں بیان کیا ہے کہ اس کا خیال الہام کی حد تک پہنچ گیا ہے.امریکہ کے ایک شخص نے علم النفس کے متعلق سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے.اس میں
خطبات محمود ۵۵۴ سال ۱۹۳۷ء Seanality کی تاریخ بیان کرتے ہوئے وہ کثرت ازدواج کی طرف بھی آیا ہے.اور پھر اس ضمن میں رسول کریم ﷺ کا ذکر بھی اُس نے کیا ہے اور عیسائی ہونے کے باوجود وہ لکھتا ہے کہ میں اُن لوگوں کو احمق سمجھتا ہوں جو آپ کے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر اعتراض کرتے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے والا شخص یقیناً ایسا کامل الخلق ہوتا ہے اور اس کے اندر ایسی طاقتیں ہوتی ہیں کہ وہ یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے.کامل الخلق ہونے کے یہ معنے نہیں کہ ضرور بہت ہٹا کٹا ہی ہو بلکہ اس سے مرا دصفات حسنہ اور دل دماغ کی طاقت ہے.پھر لا إلهَ إِلَّا هُوَ میں تو گل پایا جاتا ہے، یہ بھی لا الله پر تو ہے.جانور میں بڑا تو کل ہوتا ہے مگر وہ انسان کے تو کل کو پھر بھی نہیں پہنچ سکتا.چند روز ہوئے میں گھر میں کھانا کھا رہا تھا اور وہیں ایک بلی بھی پھر رہی تھی جس سے میری بیوی کے دل میں کچھ خفگی کے جذبات پیدا ہورہے تھے.مجھے خیال آیا کہ دیکھو خدا کی قدرت ہے کہ اس نے بہت سے جاندار پیدا کئے اور ان میں سے صرف ایک کو کہا کہ میں تجھے بے انتہاء دوں گا اور باقیوں کو نہیں کہا مگر عجیب بات ہے کہ جسے کہا تھا وہ تو خدا کو چھوڑ کر اپنی محنت کرنے لگ گئے اور جن سے نہیں کہا تھا وہ تو کل کر کے بیٹھے ہیں.پھر دوسرے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو سب جانداروں میں سے صرف ایک ہی ہے جو کماتا ہے اور وہی ہی بھوکا مرتا ہے.مگر یہ تو ایمان سے محروم انسانوں کی کمزوری ہے.ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کامل تو کل کی طاقت انسان میں ہی پائی جاتی ہے.جانوروں میں کوئی نہیں ہوگا جو بیٹھ جائے کہ بس اب خدا ضرور بھیج دے گا.مگر انسانوں میں ایسے ضرور ملیں گے اور ہزاروں ہوں گے جن کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے سامان کرتا ہے.تو تو کل کا مقام کامل بھی انسان کو ہی ملتا ہے.گو ہر ایک کا یہ کام نہیں کہ توکل کے مقام والے کی نقل کرے.کہتے ہیں کوئی بزرگ تھے جو کام نہیں کرتے تھے.دوسرے بزرگ انہیں نصیحت کرنے کیلئے آئے کہ کوئی کام بھی کرنا چاہئے.تو کل کرنے والے تو کل کے مقام پر تھے مگر دوسرے بزرگ کا مقام دوسرا تھا اس لئے انہوں نے جب نصیحت کی تو اس بزرگ نے کہا کہ میں تو اللہ تعالی کا مہمان ہوں اور یہ میزبان کی بہتک ہے کہ اُس کا مہمان کوئی کام کرے.دوسرے بزرگ نے کہا کہ مانا آپ مہمان ہیں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمانی تین دن کی ہے.اس کے بعد سوال ہو جاتا ہے.یہ سن کر وہ متوکل بزرگ کہنے لگے کہ اِنَّ يَوْمًا عِندَرَتِكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ * خدا تعالیٰ کا دن قرآن کریم کے مطابق ایک ہزار سال کا ہوتا ہے.پس مہمان نوازی کی مدت تین
خطبات محمود ۵۵۵ سال ۱۹۳۷ء ہزار سال کی ہے.اس کے بعد اگر زندہ رہے تو دیکھا جائے گا.اسی طرح ایک اور بزرگ جو اس مقام پر تھے اُن کی نسبت لکھا ہے کہ ان کے ذمہ کچھ قرض ہو گیا.اُن کا قرض خواہ اُن کے پاس آیا اور انہیں تنگ کرنے لگا اور فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا.انہوں نے کہا بیٹھو ! ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رقم آرہی ہوگی.مگر وہ شخص مصر تھا کہ ابھی رقم دو میں انتظار نہیں کر سکتا.اسی دوران میں ایک لڑکا گزرا جو حلوا فروخت کر رہا تھا.اُس بزرگ نے اُسے بلایا اور اس سے ی حلوا لے کر حاضرین کو کھلایا.حلوا کھا کر تھوڑی دیر کیلئے اس کا منہ تو بند ہوا مگر جب اس لڑکے نے کہا کہ لائیے آٹھ آنہ کے پیسے تا میں جاؤں تو اُس بزرگ نے کہا کہ تم بھی بیٹھ جاؤ اللہ تعالیٰ ابھی بھیجتا ہے.اس پر وہ شخص کہنے لگا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ میرا قرض تو دبایا ہی ہوا تھا اب اس لڑکے کا بھی دبا لیا.اتنے میں ایک شخص آیا اس نے کاغذ میں لپٹی ہوئی نقدی دی اور کہا کہ یہ فلاں شخص نے آپ کو نذر بھیجی ہے.اسے کھولا تو جتنا قرض تھا اُتنی ہی رقم اس میں موجود تھی مگر حلوے والے کے پیسے نہیں تھے.اس پر اُس بزرگ نے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے ، کچھ اور بھی ہے.اس پر اُس نے کہا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی مجھے بھول گیا تھا اس کے ساتھ ایک اٹھنی بھی ہے.تو تو کل کا یہ مقام انسانوں میں سے ہی بعض کو حاصل ہوتا ہے.رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيم -تنظیم معاشی تنظیم تعلیم اور تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.دیکھ لو ایک باپ کس طرح کھانے پینے کا بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ پچ کو تعلیم بھی دلواتا ہے اور اس کی اصلاح کا چی بھی خیال رکھتا ہے.یہ سب استعدادیں مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کے اندر رکھی ہیں اور مذہب ان خفیہ استعدادوں کو جگانے کیلئے اور انہیں منظم صورت میں قائم کرنے کیلئے آتا ہے.یہی چیز ہے جس کیلئے احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.یہ کام ہم نے کرنے ہیں اور اگر انہیں نہیں کرتے تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہم نے اپنے رستہ کو چھوڑ دیا ہے.لیکن اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اس مضمون کی مزید تفاصیل آئندہ خطبہ میں اِنشَاءَ اللهُ بیان کروں گا.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللَّهِ اسد الغابة جلد اصفحہ ۱۲۸.مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ھ ( الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۳۷ ء )
خطبات محمود ل المؤمنون: ١١٦، ١١٧ الفاتحه : ۲ تا ۴ بخاری کتاب الجنائز باب ما قيل في اولاد المشركين بخاری کتاب الادب باب اکرام الضيف.....الخ) ل الحج: ۴۸ سال ۱۹۳۷ء
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والے صفات الہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں (فرموده ۲۶ / نومبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ جمعہ میں اس امر کے متعلق خطبہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو جو پیدا کیا ہے وہ یونہی نہیں پیدا کیا بلکہ اس کی صفات کا تقاضا تھا کہ دنیا پیدا کی جاتی اور خصوصاً انسان کی پیدائش معرض وجود میں آتی.چنانچہ انسان کی پیدائش قرآن کریم کے بیان کے مطابق اس لئے ہوئی ہے کہ کی اللہ تعالیٰ کی چار صفات اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتی تھیں.یہ صفات اپنے منبع کے لحاظ سے تو وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آیت اَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ( فَتَعْلَىَ اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لا إلهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيم لے میں بیان فرمایا ہے.اور بندوں کے تعلق کی کے لحاظ سے سورہ فاتحہ میں آیات الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ - اَلرَّحْمنِ الرَّحِيمِ - مَلِكِ يَوْمِ الدین آیات میں بیان فرمایا ہے.گویا پہلی آیت میں چار صفات بطور منبع کے بیان کی گئی ہیں.یعنی وہ صفات جنہوں نے دُنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا لیکن ان کے نتیجہ میں جب انسان کو پیدا کیا گیا تو چار اور صفات الہیہ نے انسانوں کی خبر گیری کی.گویا تخت شاہی کے مالک بلند شان والے مہربان رب کی طرف سے جب دنیا پیدا ہوئی تو وہ دنیا کے لحاظ سے رب العلمین بن گیا.پھر توحید کامل نے جب اپنا جلوہ دکھانا
خطبات محمود ۵۵۸ سال ۱۹۳۷ء چاہا تو وہ انسانوں کیلئے رحمانیت کی صفت میں ظاہر ہوئی اور دنیا کی ہر ضرورت کو اُس نے پورا کر کے بتا دیا کہ سوائے اس کے اور کوئی خدا نہیں.پھر الحق کی صفت نے جب ظہور کرنا چاہا جو سچے وعدے کرنے والی اور دنیا کو قائم رکھنے والی ہے تو اس نے رحیمیت کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا.اور گو اَلْحَقُّ کے معنے قائم رکھنے والے کے بھی ہیں مگر چونکہ اس میں سچائی کے معنے بھی شامل ہیں ، اس لئے اس نے ی فیصلہ کیا کہ میں صفت رحیمیت کے ماتحت ہر اُس چیز کو قائم رکھوں گا جو سچائی پر مبنی ہوگی اور پھر اس کی نیکی کاتی بار بار بدلہ دوں گا اور اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کروں گا.پس اُس نے مخلوق میں سے سچ پر قائم ہونے والے وجودوں کو ہمیشہ کیلئے قائم رکھ کر اپنے الحق ہونے کا ثبوت دیا.پھر ملکیت نے چاہا کہ وہ کوئی قانون جاری کرے اور جب اس نے قوانین جاری کئے تو اس نے کہا اب میں ہر ایک سے حساب لوں گا کہ اس نے قانون کی کس حد تک پیروی کی ہے اور وہ ملک يَوْمِ الدِّینِ کی صورت میں ظاہر ہوا.تو یہ چار صفات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں جو خطبہ کے شروع میں میں نے پڑھی تھی ، یہ سورۂ فاتحہ کی چار صفات کیلئے بطور منبع ہیں.ملک نے جب اپنی جلوہ گری کی تو لازمی طور پر ملک يَوْمِ الدِّينِ کی صفت انسانوں کیلئے ظاہر ہوئی.توحید نے جب اپنا ثبوت دینا چاہا تو لازمی طور پر اس کی کی رحمانیت کی صفت ظاہر ہوئی.اور خدا تعالیٰ کی صفت الحق نے جب اپنا ظہور چاہا تو اس نے رحیمیت کے ذریعہ سے سچائی کے دلدادوں کو ہمیشگی کی زندگی بخشی.پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ نے چاہا کہ کوئی ایسی تی مخلوق ہو جس کی وہ ربوبیت کرے.پس اُس نے دنیا پیدا کیا اور اس کیلئے رَبِّ العَلَمِینَ ہو کر ظاہر ہوا.غرض رَبِّ العَلَمِينَ بھی خدا کی صفت ہے اور الرحمن بھی خدا کی صفت ہے اور مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی خدا کی صفت ہے.لیکن ملک يَوْمِ الدِّینِ کی صفت تابع ہے رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ کی صفت کے.اگر وہ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیمِ نہ ہوتا تو رَبِّ العَلَمِینَ بھی نہ ہوتا.اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينَ نتیجہ ہے اس کے ملک ہونے کا.اگر وہ ملک نہ ہوتا تو ملک يَوْمِ الدِّينِ بھی نہ ہوتا.جس نے کوئی قانون ہی نہ بنایا ہو وہ اس کے متعلق باز پرس کرنے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتا.اسی طرح اگر و الحق نہ ہوتا اور تمام تر سچائیوں کا منبع نہ ہوتا اور پھر اس کے اندر دوسری چیزوں کو قائم رکھنے کی طاقت نہ ہوتی تو وہ رحیم بھی نہ ہوتا.کیونکہ رحیمیت کی صفت ہی ہے جو بنی نوع انسان کے سچائی پر قائم ہونے کی وجہ سے انہیں اچھے سے اچھا بدلہ دیتی ہے اور انہیں ہمیشہ کیلئے قائم رکھتی ہے.چنانچہ عربی زبان میں جس کے کی وہ
خطبات محمود ۵۵۹ سال ۱۹۳۷ء اندر یہ خوبی ہے کہ اس کے الفاظ اس حقیقت اور فلسفہ کو بھی بیان کر دیتے ہیں جو سٹی سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کی مسمی سے امید کی جاتی ہے.ایک محاورہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سچائی ہی دائمی زندگی کا موجب ہو جاتی ہے.صدق عربی زبان میں سچائی کو کہتے ہیں.جس طرح حق سچائی کو کہا جاتا ہے عربی زبان کا محاورہ ہے کہ جب کسی چیز کے دوام پر دلالت کرنا ہو تو اُسے صدق کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں لَهُ قَدَمُ صِدْقٍ جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ اسے سچائی کا قدم حاصل ہے.لیکن محاورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اسے وہ مقام حاصل ہے جو کبھی جاتا نہ رہے گا.اس محاورہ سے ظاہر ہے کہ عربی زبان میں یہ حقیقت لغوی طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ سچائی ہی دائمی زندگی بخشتی ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ رہنے کیلئے صدق کا لفظ ہی استعمال کرنا شروع کر دیا.پس اَلْحَق کی صفت ہی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور صفت یعنی رحیمیت اس کے بندوں کیلئے ظاہر ہو.تا کہ ان کی سچائی کا بدلہ انہیں ابدی زندگی کی صورت میں ملے.غرض اگر اللہ تعالیٰ اَلْحَقُّ نہ ہوتا تو الرَّحِیمُ بھی نہ ہوتا.اسی طرح الرَّحْمن کی صفت لا إله إِلَّا هُوَ یعنی تو حید کامل کے تابع ہے یعنی توحید کامل رحمانیت کے ظہور کا موجب ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوتا تو وہ ہرگز الرحمن نہ ہوتا.کیونکہ الرحمن کے معنے ہیں کہ وہ ہر چیز کی جائز ضرورت کو پورا کرتا ہے.خواہ اس نے کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو.اور یہ بھی ہو سکتا ہے جب ایک ہی خدا ہو.اگر کئی خدا ہوں تو کسی کی ضرورت کوئی پوری کرے گا اور کسی کی کوئی.یا کوئی ضرورت کوئی پوری کرے گا اور کوئی ضرورت کوئی اور.میں اپنے پچھلے خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ تو حید کامل کا لازمی نتیجہ رحمانیت ہے.جب کبھی تو حید کامل اپنا ظہور کرنا چاہے گی وہ رحمانیت کی صفت میں ہی انسانوں کے سامنے آئے گی.اس لئے کہ اگر ہماری ضرورتیں دو وجود پوری کرنے والے ہوں تو تو حید کس طرح ثابت ہو سکتی ہے.اگر پانی کسی خدا نے دینا ہے اور روٹی کسی نے ، تو تو حید کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا.لیکن جب ہم اپنی ہر ضرورت خدا تعالیٰ سے پوری ہوتے دیکھیں تو پھر ہماری عقل کہتی ہے کہ اس کے سوا کسی اور خدا کی ضرورت نہیں.تو رحمانیت جس کے معنی ہر انسانی ضرورت پورا کرنے کے سامان مہیا کرنے کے ہیں توحید کامل کا نتیجہ ہے.یعنی کی تو حید جب مخلوق کیلئے ظاہر ہوگی رحمانیت کے ذریعہ سے ہوگی.غرض یہ چاروں صفات جو سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں ان صفات کی تابع ہیں جو خدا تعالیٰ نے اَفَحَسِبْتُمُ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء تُرْجَعُونَ ) فَتَعلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ میں بیان کی ہیں.یعنی این اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دنیا کو کھیل کے طور پر نہیں بنایا بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ ہم ملک میں ، ہم الحق ہیں ، ہم لا إِله إِلَّا هُوَ ہیں، ہم رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ہیں.گویا یہ چاروں صفات ہیں جنہوں نے تقاضا کیا کہ ہم اپنے آپ کو ظاہر کریں.پس ہم نے اپنے آپ کو ظاہر کیا مگر کس طرح رب العلمین صورت میں ، الرحمن کی صورت میں ، الرحیم کی صورت میں اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی صورت میں اور یہ چاروں صفات جو سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں تنزلی صفات ہیں.کیونکہ یہ بندوں سے تعلق پر دلالت کرتی ہیں.یعنی وہ رب العلمین تبھی ہوسکتا تھا جب عالم موجود ہو اور اس کی وہ ربوبیت کرے.کسی ایسے شخص کے متعلق جس کا کوئی بیٹا نہ ہو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی اولاد کی نہایت اچھی پرورش کرتا ہے.پرورش کا لفظ اُسی وقت استعمال کیا جائے گا جب اُس کے بچے اور دیگر عزیز ہوں گے.پس ربُّ العالمین ایک تنزلی صفت ہے یعنی صفات الہیہ کی وہ جہت ہے جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہے.اسی طرح الرحمن ہونا بھی بندوں کے وجود کو ظاہر کرتا ہے.کیونکہ اگر ایسی مخلوق نہ ہو جس کو ضروریات لگی ہوئی ہوں تو اس کی ضرورت پورا کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اور یہ صفت لا إلهَ إِلَّا هُوَ کی اس جہت کا ظہور ہے جو بندوں سے متعلق ہے.پس الرحمن بھی تنزلی صفات میں سے ہے.پھر رحیم جس کے معنے اچھے کاموں کا بدلہ دینے اور بار بار بدلہ دیتے چلے جانے کے ہیں جس کا نتیجہ انسان کیلئے ابدی زندگی ہے ، یہ بھی تنزل صفت ہے کیونکہ اس صفت کے ماتحت ضروری تھا کہ دنیا میں نیک کام کرنے والے لوگ ہوں.ورنہ خدا تعالیٰ تو ابد سے ہے اور وہ اپنی ذات میں قائم ہے.اُس کا جی کسی کو قائم رکھنا اور اسے ہمیشہ کی زندگی دینا تبھی ظاہر ہوسکتا ہے جب ایسے لوگ ہوں جو فنا ہو جانے والے ہوں لیکن باوجود ان کے فانی ہونے کے وہ ان کو قائم رکھے اور اس طرح الرحیم کہلائے.پس الرحیم کی صفت بھی الحق کے تابع ہے اور تنزلی صفات میں سے ہے.یعنی وہ صفات جو مخلوق کے متعلق ہیں.اسی طرح ملک یوم الدین ہونا بھی بتا تا ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں الہی قانون جاری کیا جائے اور پھر اس قانون کے مطابق اس سے حساب لیا جائے اور پھر نیک کاموں پر جزاء اور بُرے کاموں پر سزا دی جائے.یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی ذات کے اندر ہی فیصلے کرتا رہتا ہے.فیصلہ تو بہر حال دوسروں کے معاملات کا ہی ہوتا ہے.پس ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی تنزّلى
خطبات محمود ۵۶۱ سال ۱۹۳۷ء اور صفات میں سے ہے.یعنی جن کا ظہور مخلوق سے وابستہ ہے ( یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ صفات میں سے وہ جو بالبداہت کی ایک بالفعل موجودات اور مخلوقات پر دلالت کرتی ہوں وہ تنزلی صفات ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات میں ایک مخلوق کے وجود کو اور پھر اس سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کو ظاہر کرتی ہیں.گویا ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے عرش کریم سے اُترتا ہے تا اپنی مخصوص صفات کو بندوں کیلئے ظاہر کرے.اور تنزیہی صفات وہ ہیں جو بالبداہت کسی مخلوق کے وجود پر دلالت نہیں کرتیں اور ان کا خیال مخلوق کے خیال کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے.جیسے خدا تعالیٰ کا سچائی محض ہوتا ہے یعنی اَلْحَقُّ ہونا بالا إِلهُ إِلَّا هُوَ ہونا یا ایک لفظ سے یہ مفہوم ادا کیا جائے تو اس کا احد ہونا.اسی طرح کامل الصفات ہستی کا ملک ہونا ، رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ہونا یا حی ہونا یا العظیم ہونا اور اسی طرح اور صفات ہیں جن کو ذہن میں لاتے ہوئے کسی مخلوق کی طرف ذہن کا انتقال ضروری نہیں ہوتا ).غرض یہ چاروں صفات تشبیہی تنزلی ہیں.جن میں اللہ تعالیٰ کا فعل بہت حد تک بندوں کے افعال سے ملتا جلتا ہے اور ان کا ظہوران چار صفات کے تقاضا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو آیت زیر تشریح میں بیان ہوئی ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجملاً ذکر کیا ہے کہ ان چار صفات نے انسانی پیدائش کا تقاضا کیا جس پر ہم نے انسان کو پیدا کیا نہ کہ بلا وجہ اور فضول.اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ جبکہ ان چاروں صفات کے نتیجہ میں انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کا پر تو ظلی طور پر انسان پر پڑے ورنہ ان صفات کا ظہور انسان کے ذریعہ سے ہو نہیں سکتا.چنانچہ میں جیسا کہ گزشتہ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ چاروں صفات تنزلی صورت میں انسان کے اندر پائی جاتی ہیں.انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ملک والی صفت بھی رکھی ہے.جس کے نتیجہ میں وہ ملک يَوْمِ الدِّینِ کا مظہر بنتا ہے.اس کے اندر الحق والی صفت بھی رکھی ہے.وہ بھی سچ کو قبول کرتا اور سچائی کے مقابلہ میں دنیا کی ہر چیز کو بھول جاتا ہے.پھر رحیمیت والی صفت بھی انسان کے اندر رکھی گئی ہے.پھر خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو لا الہ الا ھو کہا تھا.اس کی تنزلی صورت یعنی رحیمیت بھی انسان میں پائی جاتی ہے.پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ کی تنزلی صورت یعنی رب العلمین ہونا اس کا پر تو بھی انسانی روح پر پڑا ہے اور اس کا مظہر بننے کی قابلیت بھی اس میں موجود ہے.غرض یہ چاروں صفات ایسی ہیں کہ اگر انسان چاہے تو وہ ان کا مظہر بن سکتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ کوئی
خطبات محمود ۵۶۲ سال ۱۹۳۷ء - بنے یا نہ بنے.مگر خدا نے ہر شخص کو یہ قابلیت دے دی ہے اور وہ اگر چاہے تو رب العلمین الرحمن الرحیم اور ملک يَوْمِ الدِّينِ کی صفات کا مظہر ہوسکتا ہے.ممکن ہے کوئی شخص کہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے.سو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ملکیت کی قابلیت کا ہر انسان میں پیدا کیا جانا تو ظاہر ہی ہے اور اس صفت کا اتنا غلبہ ہے کہ دنیا میں نا قابل سے نا قابل انسان کو بھی مجازی طور پر بادشاہ کی بننے کی خواہش ہوتی ہے.بلکہ جتنا کوئی نا قابل ہو اتنا ہی اسے اپنا حکم چلانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ مشورہ دینے کیلئے بے تاب رہتا ہے.پھر بادشاہت ایک نظام چاہتی ہے اور انسان بھی.ملک ہو کر قانون بنا تا اور ملک يَوْمِ الدِّينِ ہو کر قاضی بنتا اور لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے اور ہر انسان اس نظام کی پابندی کیلئے مدنی الطبع بنایا گیا ہے.پھر انسان میں الحق کی صفات بھی موجود ہیں.چنانچہ انسان ہی وہ وجود ہے جو سچائی کو اس کی انتہائی حد تک پہنچا دیتا ہے اور سچائی کے قیام کیلئے اتنی عظیم الشان قربانی کرتا ہے جس کی مثال کسی اور مخلوق میں نہیں مل سکتی.اُمت محمدیہ میں ایسے کئی اولیاء ہوئے ہیں جنہوں نے سچائی کیلئے بڑی بڑی تکالیف اٹھا ئیں.خود ہماری جماعت میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا واقعہ موجود ہے.آپ کا بل میں اس قدر رسوخ اور عزت رکھتے تھے کہ بادشاہ حبیب اللہ خان کو گدی پر بٹھانے کا کام انہی کے سپرد کیا گیا تھا.جب وہ احمدی ہوئے اور اس کا علم بادشاہ کو اور باقی عمائد کو ہوا اور مولویوں نے آ.پر کفر کا فتویٰ لگا دیا تو بادشاہ کو چونکہ ان کے رسم تاجپوشی ادا کرنے کی وجہ سے ان کا ادب منظور تھا، اس لئے اُن کو بلایا اور کہا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں میں اس پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن چونکہ مولوی بہت شور مچاتے ہیں اس لئے آپ خاموشی اختیار کر لیں تا ملک میں جو شور برپا ہے وہ بند ہو جائے میں اس کے بدلہ میں آپ سے بہت کچھ حسن سلوک کروں گا.مگر انہوں نے حبیب اللہ خان کو صاف جواب دے دیا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے.مجھے خدا نے پہلے سے ہی میرا انجام بتا دیا ہے اور میں سچی بات کہنے سے کبھی رُک نہیں سکتا.اور جو بات مجھے حق دکھائی دیتی ہے وہ میں کسی کے کہنے سے نہیں چھپا سکتا.آخر علماء نے آپ کو سنگسار کرنے کا فیصلہ کر دیا اور اس کی تعمیل میں آپ کو میدان میں لے جایا گیا.اُس وقت بادشاہ نے مولویوں سے کہا کہ پہلے تم پتھر مارو، اس کے بعد میں ماروں گا کیونکہ اس کی سنگساری کا فتویٰ تم نے دیا ہے.مجھے معلوم نہیں کہ یہ فعل سنگساری کے قابل ہے یا نہیں.انہوں نے کہا
خطبات محمود ۵۶۳ سال ۱۹۳۷ء کہ بادشاہ آپ ہیں پہلا پتھر آپ پھینکیں اس کے بعد ہم پھینکیں گے.بادشاہ نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر شریعت کا تمہیں ہی علم ہے اور تمہارا ہی حق ہے کہ ابتدا کرو.میں تمہارا تابع ہوں گا کیونکہ مجھے علم نہیں کہ یہ سزا جائز ہے یا نا جائز.اسی دوران میں بادشاہ پھر مولوی عبداللطیف صاحب شہید کے پاس گیا اور کی انہیں کہا کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ دل میں بے شک جو چاہیں بات رکھیں لیکن ظاہر میں کہہ دیں کہ میں تو بہ کرتا ہوں تا ملک میں جو شور ہے وہ دور ہو جائے.میں ان مولویوں سے کہہ دوں گا کہ انہوں نے تو بہ کر لی ہے اور آپ سنگساری سے بچ جائیں گے.مگر انہوں نے فرمایا میں اس قسم کی با تیں نہیں جانتا.خدا نے مجھے سچائی دی ہے اور میں اسے کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتا.تب بادشاہ نے مولویوں سے کہا کہ اب مجبوری ہے.یہ کسی طرح بھی ہماری بات نہیں مانتے ، تم ان پر پتھر چلاؤ.چنانچہ انہوں نے چاروں طرف سے آپ پر پتھر برسانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے.بعض دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پر چاروں طرف سے پتھر برسائے جا رہے تھے تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ خدایا! میری قوم پر اپنا عذاب نازل نہ کرنا کیونکہ یہ جہالت سے یہ کام کر رہی ہے.یہ سچائی کا نمونہ ہے جو ہماری جماعت میں بھی موجود ہے اور اس سے پہلے اولیائے اُمت میں بھی اس کے بڑے بڑے نمونے موجود ہیں.بڑی عمر کے آدمیوں کو جانے دو سید عبدالقادر صاحب جیلانی کو ہی دیکھو.وہ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے ماموں کے پاس ایک قافلہ کے ساتھ بھیجا.چونکہ ان دنوں سفر میں بہت کچھ مشکلات حائل تھیں اور ڈا کے بڑی کثرت سے پڑتے تھے اس لئے انہوں نے چالیس اشرفیاں ان کی گدڑی میں سی دیں تا اس سرمایہ سے وہ کوئی کام کرسکیں.یہ قافلہ جب ایک جنگل سے گزر رہا تھا تو اس پر بعض ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور اس کا سب سامان لوٹ لیا.اتفاقاً کوئی ڈاکو ان کے پاس سے بھی گزرا اور ان سے پوچھا میاں کچھ تمہارے پاس بھی ہے؟ انہوں نے کہاں ہاں چالیس اشرفیاں میرے پاس موجود ہیں.وہ یہ سن کر حیران سا رہ گیا اور اسے ان کی بات پر یقین نہ آیا کیونکہ انہوں نے گدڑی پہنی ہوئی تھی اور غربت کے آثار ظاہر تھے.چنانچہ وہ کہنے لگا مخول نہ کر تیرے پاس چالیس اشرفیاں کہاں سے آسکتی ہیں اور یہ کہ کر وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا.پھر کسی دوسرے ڈاکو نے ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے پھر یہی جواب دیا مگر اسے بھی ان کی بات پر یقین نہ آیا.آخر کسی نے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اپنے افسر سے اس کا ذکر کیا.اس نے حکم دیا کہ اس لڑکے کو پکڑ کر لاؤ.چنانچہ وہ انہیں اپنے افسر کے پاس لے گئے اور جب اس کے سامنے ان کی گدڑی پھاڑی گئی تو اس میں سے واقعہ میں چالیس اشرفیاں نکل آئیں.وہ ڈاکوؤں کا افسر سید عبد القادر جیلانی صاحب سے کہنے لگا کہ تم نے یہ کیا بیوقوفی کی کہ اپنی اشرفیوں کا ہمیں پتہ دے دیا.اگر تم کہہ دیتے کہ میرے پاس کچھ نہیں تو ہمیں تمہاری بات کا یقین آجاتا اور ہم میں سے کسی کا ذہن بھی اس طرف منتقل نہ ہوتا کہ تمہاری گدڑی میں اشرفیاں ہیں.وہ اُس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے، بعض کہتے ہیں بارہ تیرہ سال کی عمر تھی.مگر جب ڈاکوؤں کے سردار نے یہ بات کہی تو وہ کہنے لگے جب میری گدڑی میں اشرفیاں موجود تھیں تو میں کس طرح کہہ دیتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے.ان کی اس بات کا ڈاکوؤں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی وقت ڈا کہ سے تو بہ کی.اسی واقعہ کی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی پنجابی شاعر نے سید عبدالقادر صاحب جیلانی کی تعریف میں کہا ہے کہ چوروں قطب بنایا ع غرض سچائی جب ایک بچہ کے دل میں بھی داخل ہو جاتی ہے تو اُسے ایسا دلیر بنا دیتی ہے کہ وہ تمام دنیا کے مقابلہ میں نڈر ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے.پھر جو ہمارے سردار اور آقا محمد مصطفی ملے ہیں انہیں دیکھ لو.مکی زندگی میں ابوطالب جو آپ کے چاتھے آپ کی بہت حفاظت کرتے تھے اور چونکہ وہ اپنی چھی قوم کے سردار تھے اس لئے قریش مکہ رسول کریم ﷺ کو اس طرح دق نہیں کر سکتے تھے جس طرح وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو دق کیا کرتے تھے.آخر جب رسول کریم ﷺ کے وعظ و نصیحت کو سُن سُن کر انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام بڑھتا جاتا ہے اور اگر اسے جلدی روکا نہ گیا تو اس کا مٹانا مشکل ہو جائے گا تو وہ سخت غیظ و غضب سے بھر گئے.اور وہ ایک وفد کی صورت میں ابو طالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمیں سخت دق کر رکھا ہے.وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دیتا اور ایک خدا کا وعظ کرتا رہتا ہے.آپ اسے سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کرے اور اگر وہ نہ رُکے تو آپ اس سے الگ ہو جائیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں ہم خود اسے روک لیں گے اور اگر آپ ان سے الگ ہونے کیلئے تیار نہ ہوں تو کی مجبوراً ہمیں آپ کی سرداری کو بھی جواب دینا پڑے گا اور پھر اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا.ابو طالب اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور جن قوموں کی قبائلی زندگی ہوتی ہے وہ اپنی سرداری کی بڑی قیمت سمجھتی ہیں.ابو طالب نے جب یہ بات سنی تو وہ گھبرا گئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلا کر کہا اے میرے بھتیجے !
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اب قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی.میں نے ہمیشہ تیری حفاظت کی کوشش کی مگر آج میری قوم کے افراد نے مجھے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یا اپنے بھتیجے سے الگ ہو جا اور اگر الگ ہونے کیلئے تیار نہیں تو ہم آپ کی سرداری کو بھی جواب دے دیں گے ، اب ہم میں برداشت کی زیادہ طاقت نہیں رہی.ابو طالب کیلئے یہ ایک ایسا امتحان کا وقت تھا کہ باتیں کرتے کرتے کی انہیں رقت آگئی اور ان کی تکلیف کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے.مگر آپ نے فرمایا اے چا! میں آپ کے احسانات کو بھول نہیں سکتا.میں جانتا ہوں کہ آپ نے میری خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیں.لیکن اے پچا ! مجھے خدا تعالیٰ نے اس کام کیلئے مقرر کیا ہے.اگر آپ کو اپنی تکلیف کا خیال ہے تو اپنی پناہ واپس لے لیں.خدا نے مجھے سچائی دی ہے جسے میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا.اگر وہ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اُس تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا ؟ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے.یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں تھے.آج بھی یورپ کے معاند مؤرخین جب رسول کریم ﷺ کے واقعات لکھتے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب جھوٹ بولنے والے نہ تھے اور انہیں اس تعلیم کی سچائی پر پورا یقین تھا جو وہ لائے تھے.پھرا بوطالب کا کیا حال ہوا ہوگا جس نے کی خود محمد ﷺ کی زبان سے یہ کلمات سنے.ابو طالب مسلمان نہ تھے مگر جس وقت انہوں نے سچائی کے متعلق کی حمد ﷺ کا یہ یقین دیکھا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اے بھتیجے! مجھے قوم کی کوئی پرواہ نہیں میں تیرے ساتھ ہوں تو شوق سے اپنا کام کرتا چلا جا سکے الله غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سچائی کا وہ مادہ رکھا ہے کہ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.جانور بھی جھوٹ نہیں بولتا، جھوٹ صرف انسان کی ایجاد ہے.مگر جانور کا سچ بالکل اور قسم کا ہوتا ہے.اس کا سچ طبعی ہوتا ہے مگر انسان کا سچ ایمانی ہوتا ہے.اس لئے جو انسان راستباز ہوتا ہے وہ ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا کھڑا ہو جاتا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے مقابلہ میں ایک کروڑ آدمی ہیں یا دس کروڑ.وہ نظارہ دنیا کیلئے ایک حیرت انگیز نظارہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کھڑے ہو کر ساری دنیا کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے.مگر وہ کیا چیز ہے جو اس کے پیچھے ہوتی ہے.اس کے پیچھے صرف حق ہوتا ہے جس کی طاقت پر وہ ساری دنیا کولا کا رتا ہے.غرض یہ خاصیت اللہ تعالیٰ نے انسان کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء اندر پیدا کی ہے کہ وہ سچائی کا کامل نمونہ ہوتا ہے.پھر الحق کے دوسرے معنی دنیا کو قائم رکھنے والے کے ہیں اور اس کا بہترین نمونہ بھی انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا غضب دنیا کے گناہوں کی وجہ سے بھڑ کنے والا ہوتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کا الحق ہونا فوراً اپنے نبی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے اور کہتا ہے اس وجود کے ہوتے ہوئے میں اس دنیا کو کیونکر تباہ کر دوں.پس ان کا وجود دنیا کیلئے ایک حرزا اور تعویذ ہوتا ہے اور ان کی وجہ سے دنیا بہت سے مصائب اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتی ہے.اسی طرح لا إِلهَ إِلَّا هُوَ ہے.یہ توحید کا مقام بھی ایسا ہے کہ جو شخص اس مقام کو دیکھ لیتا ہے خود تو حید کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.آپ کہیں گے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا مظہر ہو جائے.مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا آپ لوگوں کیلئے مشکل ہو.بالکل قریب زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الہام نازل ہو چکا ہے کہ اَنتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَ تَفْرِيدِى ! کہ اے مسیح موعود! تیرا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو تو حید کا مجھ سے تعلق ہے.گویا تو لا اِلهَ إِلَّا هُوَ کا مظہر ہے اور مجھے لا إِلهَ إِلَّا هُوَ پیارا ہے.اسی طرح مجھے تو پیارا ہے.تو تو حید کے مقام کے یہ معنے ہیں کہ جس نے مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ اب دنیا میں میرا پیارا صرف ایک ہی وجود ہے اس کے سوالی میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا.یہ وہی بات ہے جو بعض احادیث قدسیہ میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک ۵ کہ اے محمد یہ ساری دنیا تیری مٹھی میں آگئی ہے.جدھر تیرا ہاتھ اُٹھے گا اُدھر ہی میرا ہاتھ اُٹھے گا.جدھر تیری نظر ہوگی اُدھر ہی میری نظر ہو گی.یہ توحید کا مقام ہے جو اصل مقام تو محمد ﷺ کا ہے لیکن ظلی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ مقام حاصل ہوا کی ہے.پھر یوں بھی رسول کریم ﷺ تو حید کے مظہر تھے کہ جیسی تو حد محمد ﷺ نے قائم کی ایسی تو حید قائم کرنا تو الگ رہا کسی دوسری قوموں نے اس رنگ میں توحید کو سمجھا بھی نہیں.یہ اس تفصیل کا موقع نہیں ورنہ میں بتاتا ہے کہ دنیا نے تو حید کو سمجھا ہی نہیں.تو حید وہی ہے جو رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی.پھر یہ بھی تو حید کا مقام تھا کہ رسول کریم ﷺ سید ولد آدم تھے یعنی دنیا کے تمام انسانوں میں سے افضل و اعلیٰ ہیں اور آئندہ بھی کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو آپ کے درجہ کی بلندی کو پہنچ سکے.پھر اس لحاظ سے بھی آپ تو حید کے مقام پر تھے کہ خدا تعالیٰ کے حضور اُس کی توحید سے آپ نے ایسا تعلق قائم کیا کہ دنیا وَمَا فِيهَا
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء پ کی نظروں سے غائب ہو گئے اور خدا ہی خدا آپ کو نظر آنے لگ گیا.گویا ایک آپ کا وجود تھا اور ایک خدا کا.انسانی وجودوں میں سے واحد وجود آپ کا تھا اور خدا تو ایک ہے ہی.اور پھر اس لحاظ سے بھی آپ تو حید کے مقام پر تھے کہ تو کل کا اعلیٰ مقام آپ کو حاصل تھا اور آپ کی نظر خدا کے سوا اور کسی کی طرف نہ اُٹھتی تھی.پھر صفت ربّ العلمین کا مادہ بھی خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیا اور اسے اتنا وسیع کیا ، اتنا وسیع کیا کہ ہر ماں اور ہر باپ اپنے بچہ کی ربوبیت کر رہا ہے.پھر محمد ﷺ کو دیکھ تو تمہیں نظر آئے گا کہ آپ اس صفت کے کامل مظہر تھے اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے احسان سے باہر رہ گئی ہو.مخلوق میں سے اہم جنس حیوان ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انسانوں پر رحم کیا بلکہ آپ کے دائرہ شفقت میں دوسرے حیوانات بھی آگئے اور آپ نے ان کی بہتری کیلئے اپنی اُمت کو کئی احکام دیئے ہیں.مثلاً آپ نے فرمایا کہ آزاد جانور کو باندھ کر مت رکھو اور اگر باندھ کر رکھتے ہو تو ان کے کھانے پینے کا بندو بست کرو.اس حکم کے ماتحت ہر شخص جو کسی جانور کو اپنے گھر میں باندھ کر رکھتا ہے وہ اس بات پر مجبور ہے کہ اسے کھانے پینے کیلئے دے اور اگر نہیں دے گا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ دوزخ میں جائے گا.پھر جانورں پر آپ نے اس قدر رحم کیا کہ فرما یا کسی جانور کوکسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح مت کرو تا اسے تکلیف نہ ہو.کے کسی جانور کو کند چھری سے ذبح نہ کرو.^ اسی طرح کی جانور کو باندھ کر نشانہ بنانے سے منع کیا.جانور پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے روکا.لے اسی طرح منہ پر داغ دینے کی ممانعت کی اور فرمایا اگر داغ لگانا ہی ہو تو پیٹھ پر لگاؤ.لالے غرض جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانوروں کیلئے مقرر ہیں ان کے سوا باقی ہر قسم کی تکلیف سے آپ نے انہیں محفوظ کر دیا اور پھر جو زیادہ سے زیادہ رحم جانوروں پر کیا جا سکتا تھا وہ بھی آپ نے کیا اور فرمایا جو جانور پالتو نہیں دانے وغیرہ چگتے رہتے ہیں اُن کو دانے وغیرہ ڈال دینا بھی ثواب کا موجب ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا ایک شخص تھا جو جانوروں کو دانے ڈالا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اس نے اسی نیکی کے عوض اسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.غرض آپ کے احسانات سے حیوانات بھی باہر نہیں اور انسان باہر نہیں.انسانوں میں سے مرد اور عورت کو لے لو.پہلی قوموں نے مردوں کے متعلق بے شک قوانین تجویز کئے تھے مگر عورتوں کے حقوق
خطبات محمود ۵۶۸ سال ۱۹۳۷ء صلى الله کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا تھا.رسول کریم ﷺ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ تعلیم دی کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۳ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں.پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے.اسے جائداد کا مالک قرار دیا، اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا، اس کی تعلیم کی نگہداشت کی ، اس کی تربیت کا حکم دیا اور پھر فیصلہ کر دیا کہ جس طرح جنت میں مرد کیلئے ترقیات کے کی غیر متناہی مراتب ہیں اسی طرح جنت میں عورتوں کیلئے بھی غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.پھر مردوں کی مختلف شاخیں ہیں.کبھی مرد بحیثیت باپ ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بھائی ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بیٹا ہوتا ہے اور کبھی مرد بحیثیت خاوند ہوتا ہے.اسی طرح عورت کبھی بحیثیت ماں ہوتی ہے ، کبھی بحیثیت بیٹی ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بہن کے اور کبھی بحیثیت بیوی کے.پھر مرد بھی معلم ہوتا ہے کبھی متعلم.عورت بھی کبھی معلمہ ہوتی ہے اور کبھی متعلمہ.پھر عورت کبھی دودھ پلانے والی ہوتی ہے اور کبھی دودھ پینے والی.کبھی مرد دودھ پلوانے والا ہوتا ہے اور کبھی خود دودھ پینے والا یعنی چھوٹا بچہ ہوتا ہے.پھر مرد عورت خریدار بھی ہوتے ہیں اور بیچنے والے بھی ہوتے ہیں.وہ محنت کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور مزدوری دینے والے بھی ہوتے ہیں.معاہدہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور معاہدہ لینے والے بھی ہی ہوتے ہیں.حاکم بھی ہوتے ہیں اور محکوم بھی ہوتے ہیں.غرض ہر قسم کی زندگی مردوں سے بھی تعلق رکھتی ہے اور عورتوں سے بھی.ان تمام شعبوں میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ مردوں کو بھی احکام دیئے اور عورتوں کو بھی.پھر انسانوں میں قوموں ، مذہبوں اور حکومتوں کے تفاوت کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہیں.مگر جہاں گھمسان کی لڑائی ہورہی ہوتی ہے، جہاں کوئی کسی کی الله پر واہ نہیں کرتا وہاں محمد ﷺ کے ذریعہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ بے شک میرے ماننے والے مسلمان ہیں اور نہ ماننے والے کا فرمگر دیکھو میں رب العلمین کا مظہر ہوں.دیکھنا ان کفار میں سے کسی عورت کو نہ مارنا ، دیکھنا ان میں سے کسی بچے کو نہ مارنا، دیکھنا ان کے کسی پنڈت ، پادری یا راہب کو قل نہیں کرنا ، دیکھنا باغات نہ جلانا ، معبد نہ گرانا، پھل دار درخت نہ کاٹنا.دیکھنا جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا ، دیکھنا کسی
خطبات محمود ۵۶۹ سال ۱۹۳۷ء ایسے شخص کو قتل نہیں کرنا جس نے تمہارے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے ہوں.دیکھنا زخمی کو نہ مارنا، دیکھنا کسی کو آگ سے عذاب نہ دینا ، دیکھنا کفار کا مثلہ نہ کرنا اور ان کے ہاتھ پاؤں نہ کاٹنا.یہ سب احکام جو رسول کریم ﷺ نے دیئے یہ مسلمانوں کیلئے تو نہیں تھے ، یہ کفار کیلئے تھے.آخر مسلمانوں نے مسلمانوں صلى الله کے ناک، کان اور ہاتھ نہیں کاٹنے تھے انہوں نے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر آگ میں نہیں جلانا تھا.وہ اگر مثلہ کر سکتے تھے یا آگ سے عذاب دے سکتے تھے تو کافروں کو.پس یہ احکام مسلمانوں کی خیر خواہی کیلئے نہیں تھے بلکہ کفار کی خیر خواہی کیلئے تھے اور ان کے آرام اور بچاؤ کیلئے یہ سب سامان تھے.گوی تمثیلی زبان میں اگر ہم ان واقعات کو بیان کریں تو اس کا نقشہ یوں کھینچا جاسکتا ہے کہ مسلمان ایک لمبے عرصہ صلى الله تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد جب تلواریں سونت کر کفار پر حملہ آور ہوئے تو وہی محمد ہے جو مسلمانوں کو کفار سے لڑا رہے تھے، کیا دکھائی دیتا ہے کہ دشمنوں کے آگے بھی کھڑے ہیں اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر یہختی نہ کرو، وہ سختی نہ کرو.گویا محمد نے صرف مسلمانوں کے لشکر کی ہی کمان نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ کفار کے لشکر کی بھی کمان کر رہے تھے اور اُسے بھی مسلمانوں کے حملہ سے بچارہے تھے.پس لڑائیوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت رب العلمین کا مظہر ہونے کا ثبوت نظر آ رہا ہے.پھر غلاموں پر بھی آپ نے احسان کیا اور فرمایا جو شخص کسی غلام کو مارتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا فدیہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے.آپ نے فرمایا اپنے غلام سے وہ کام نہ لو جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خو د ساتھ لگ کر کام کراؤ.اور اگر تم اس کیلئے تیار نہیں تو تمہارا حق نہیں کہ اس سے کام لو.اسی طرح اگر غلام کیلئے تمہارے منہ سے کوئی گالی نکل جاتی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اسے کی فوراً آزاد کر دو.غرض مزدور اور آقا کے لحاظ سے بھی آپ نے صفت رب العلمین کا مظہر بن کر دنیا کی کو دکھا دیا.آپ نے ایک طرف مزدور کو کہا کہ اے مزدور تو حلال کما اور محنت سے کام کر.اور دوسری طرف آقا سے کہا کہ اے محنت لینے والے ! تو حد سے زیادہ اس سے کام نہ لے اور اس کا پسینہ سُوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری اسے دے.اسی طرح تجارتوں کے متعلق اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی رسول کریم ﷺ نے احکام دیئے ہیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر رسول کریم ﷺ کا کوئی احسان نہ ہو.
خطبات محمود ۵۷۰ سال ۱۹۳۷ء کوئی کہ سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں پر تو رسول کریم ﷺ نے یہ احسانات کئے ، آپ کے پہلوں پر کیا احسان ہیں؟ سو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے احسانات نہ صرف موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں پر ہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے.آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں تمام انبیاء پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے.تم مجھے ایک ہی نبی ایسا بتا دو کی جس پر کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو.ہر نبی پر الزام لگا اور انہی قوموں نے ان پر الزام لگایا جو ان انبیاء کو ماننے والی تھیں.حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت داؤد علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی الزام لگا اور عیسائیوں نے تو حضرت عیسی علیہ السلام کو مستقلی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سب نبی چور اور بٹ مار تھے.مگر حضرت عیسی علیہ السلام کی نیکی بھی ان کی نگاہ میں کیا تھی.انہوں نے کی منہ سے تو کہہ دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بے گناہ تھے مگر تفصیلات میں وہ ان پر الزام لگانے سے بھی بازی نہیں آئے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اس پر سواری کرتے پھرے.لوگوں کو گالیاں دیتے تھے اور انہیں حرام کار اور بد کار کہتے تھے.وہ لوگوں کے گناہ اُٹھا کر صلیب پر لٹک گئے اور اس طرح نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ لعنتی بنے اور تین دن دوزخ میں رہے.وہ لوگوں کے سوروں کے گلے بغیر ان کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کر دیا کرتے تھے.یہ سب باتیں مسیحی کتب میں لکھی ہیں.پھر ہندوؤں کو لے لو.وہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو اپنا اوتار مانتے ہیں.مگر رام کی چندر جی کا سیتا سے جو سلوک بیان کرتے ہیں وہ اگر ایک طرف رکھ لیا جائے اور دوسری طرف ان کی و بزرگی اور نیکی دیکھی جائے تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کیا ہو.مگر وہ حضرت رام چندر کی طرف بے دریغ یہ ظلم منسوب کرتے جاتے ہیں.پھر حضرت کرشن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرا چرا کر لے جایا کرتے تھے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نبی تھے.غرض تمام انبیاء پر بیسیوں الزامات لگائے جاتے تھے.یہ صرف محمد ﷺ کی ہی ذات ہے جس نے تمام انبیاء سے ان اعتراضات کو دُور کیا اور بتلایا کہ یہ لوگ نیک، پاک اور راستباز تھے.ان پر الزام نہیں لگانا چاہئے.پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف موجودہ اور آئندہ نسلوں پر احسان کیا بلکہ پہلے لوگوں پر بھی کی احسان کیا جو وفات پاچکے تھے اور ان کی قوموں پر بھی احسان کیا.جب ایک یہودی کو بتادیا جائے کہ تمہارے بزرگ تمام نقائص سے پاک تھے تو اس کی گزشتہ تاریخ کتنی صاف ہو جاتی ہے اور وہ کیسی خوشی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کے ساتھ ان بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرے گا.یہی حال عیسائیوں کا ہے اور یہی حال دوسری قوموں کا ہے.پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف اپنی قوم کی ترقی کے راستے کھولے بلکہ دوسری قوموں کی روایات کو بھی صاف کیا اور ان کے سامنے بھی ان کے بزرگوں کے اعلیٰ نمونے پیش کئے جن کو اپنے ے سامنے رکھتے ہوئے وہ عظیم الشان ترقی کر سکتے ہیں.پھر آپ نے ملائکہ پر بھی احسان کیا.طرح طرح کے الزام تھے جو ان پر لگائے جاتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ١٢ کہ ملائکہ گنہگار نہیں ان کے اندر خدا تعالیٰ نے انکار کا مادہ ہی نہیں رکھا.انہیں جو بھی حکم ہے اس کی وہ اطاعت کرتے ہیں.پس ان پر کسی قسم کا الزام لگانا اور یہ کہنا کہ انہوں نے بھی فلاں گناہ کیا سخت ظلم ہے.پھر رسول کریم اللہ نے دنیا کے ہر گنہگار پر احسان کیا اور اس کے دل کو خوشی سے لبریز کر دیا.رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے ساری دنیا یہ کہا کرتی تھی کہ گنہ گار ہمیشہ کے دوزخ میں گرائے جائیں گے اور جو شخص ایک دفعہ جہنم میں چلا گیا پھر وہ وہاں سے نہیں نکل سکے گا.گو یا دنیا گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتی تھی اور تو بہ کا دروازہ اس پر بند بتلاتی تھی.مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان کتنا ہی گنہگار ہو جائے ، اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے کیلئے تیار ہے.بیشک گنہ گاروں کے گناہ بہت بڑے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا رحم اس سے بھی بڑا ہے.پس تم اس بات سے مت گھبراؤ کہ تم گناہوں میں ملوث ہو، تم تو بہ کرو کہ خدا آج بھی تمہیں معاف کرنے کیلئے تیار ہے.کتنی امید ہے جو گنہگاروں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ نے پیدا کر دی.کتنی اُمنگ ہے جو آپ نے ان کے قلوب میں پید کر دی.غرض رب العلمین کی صفت اعلیٰ درجہ کے کمال کے ساتھ محمد اللہ میں ظاہر ہوئی اور ان سے اتر کر امت محمدیہ کے اور بہت سے اولیاء وصلحاء میں ظاہر ہوئی اور ظاہر ہوتی رہتی ہے.غرض یہ چاروں صفات جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں انہی کے ماتحت دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے.اگر قانون نہ ہوا اور پھر اس قانون کا نفاذ نہ ہو تو ہرگز امن قائم نہیں ہوسکتا.اسی طرح اگر صحیح رنگ میں تربیت نہ ہو اور بلی اور عائلی زندگی درست نہ ہو تب بھی امن مفقود ہوتا ہے اور کبھی کچی راحت انسان کو حاصل نہیں ہو سکتی.دنیا میں محض حکومت کے قوانین کی پابندی سے امن قائم نہیں ہوتا بلکہ امن اُس کی وقت ہوتا ہے جب انسان کی اہلی اور عائلی زندگی ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات سے پاک ہو.تم چوری
خطبات محمود ۵۷۲ سال ۱۹۳۷ء نہیں کرتے ، تم ڈاکہ نہیں ڈالتے، تم قتل اور خونریزی کے مرتکب نہیں ہوتے اور یہی چیز ہے جو حکومت تم سے چاہتی ہے.اسی طرح اگر تم لوگوں کا مال نہیں ٹوٹتے تو حکومت کے قانون کی نظر میں تم پر امن ہو لیکن اگر گھر میں تمہاری روزانہ لڑائی رہتی ہے تو حکومت کا کوئی قانون ایسا نہیں جو تمہیں اس لڑائی سے روکے.لیکن کیا اس لڑائی کو دور کئے بغیر امن ہو سکتا ہے؟ اگر میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہیں اور اگر ان تعلقات کو اچھے رکھنے کے ذرائع موجود نہیں تو دنیا کی پُر امن سے پُر امن حکومت بھی افراد کیلئے پُر امن وہ ނ نہیں ہوسکتی.حکومت اپنے نظام سے یہ کر دے گی کہ بازاروں میں قتل و خونریزی کو روک دے، و سرحدوں پر امن قائم کرسکتی ہے مگر وہ گھروں میں امن قائم نہیں کر سکتی.اگر دنیا میں مائیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہ کریں اور بچے اپنی ماؤں سے حسن سلوک نہ کریں.بھائی اپنی بہنوں سے محبت نہ کریں اور بہنیں اپنے بھائیوں سے عمدہ سلوک نہ کریں تو کیا کوئی حکومت ہے جو اس میں دخل دے سکے ؟ کبھی کوئی کی حکومت اس میں دخل نہیں دے گی.مگر کیا کبھی اس کے بغیر امن قائم ہوسکتا ہے.تم بہتر سے بہتر قانون بنا دو اور تعزیرات ہند تو کیا چیز ہے اس سے بھی اعلیٰ تعزیرات مقرر کر دو، بہتر سے بہتر افسروں کا انتخاب کرو، اعلیٰ سے اعلیٰ فوجیں تیار کر وجود شمنوں کو سرحدوں پر ہی روک دیں اور اسے آگے بڑھنے نہ دیں.تم دیانتدار سے دیانتدار پولیس کے آدمی مقرر کر و لیکن اگر گھر میں بھائی بہن ناراض ہیں یا باپ بیٹے.اور بیٹا باپ سے ناراض ہے، خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے خفا ہے تو کوئی قانون اس نا راضگی کو دور کی نہیں کراسکتا.اور جب تک یہ نا راضگی دور نہ ہو کوئی قانون گھروں میں امن اور دلوں میں اطمینان پیدا نہیں کر سکتا.نہ محبت قائم ہوسکتی ہے نہ صلح اور آشتی ہو سکتی ہے.نہ راحت میسر آسکتی ہے نہ آرام حاصل ہوسکتا ہے.اعلیٰ درجہ کے وزرا و امراء اور افسروں کی موجودگی کے باوجود عائلی اور اہلی زندگی کی خرابی اطمینان اور امن کو مٹا دیتی ہے.ہاں جب تربیت صحیح ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست ہو تو پھر یہ دونوں چیزیں مل کر ایک حد تک امن قائم کر سکتی ہیں لیکن پھر بھی پورا امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے اندر یہ اطمینان پیدا نہ ہو کہ میری زندگی عبث اور فضول نہیں.بے شک تم دنیا کا نظام اعلیٰ سے اعلیٰ بنا دو، بے شک تم اپنی فوجوں کو مضبوط بنادو، بے شک اپنی طاقت کو اس قدر بڑھا لو کہ کوئی دشمن تم پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے، بے شک تمہاری پولیس نہایت ہوشیار اور فرض شناس ہو.پھر بے شک تمہاری اہلی زندگی بھی ہر قسم کی خلش سے پاک ہو.بیوی خاوند کی عاشق ہو تو خاوند بیوی کا، بے شک ہمسایہ ہمسایہ کی
خطبات محمود ۵۷۳ سال ۱۹۳۷ء خبر گیری کرنے والا ہو، بے شک اُستاد شاگرد سے محبت رکھتا ہو اور شاگر استاد کی عظمت پہچانتا ہو، بیشک تاجر دیانتداری سے سو دا دیتے ہو اور بے شک ہر قسم کے آرام اور ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہوں لیکن اگر انسان کے دل میں یہ خلش موجود ہو کہ وہ کیوں پیدا کیا گیا اور اس کا کیا انجام ہے تو پھر بھی دنیا میں کبھی حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا.اس خلش کو دور کرنے کیلئے جب تک محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم انسان کے سامنے پیش نہ کی جائے ، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے اس کے سامنے نہ رکھ دیئے جائیں، جب تک ہم اُسے یہ بتا نہ دیں کہ یہی زندگی اس کا اصل مقصود نہیں.بلکہ اصل زندگی وہ ہے جب وہ مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا اور خدا اُسے کہے گا کہ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِی ۵ا کہ اے میرے بندے میں نے تجھے بے انتہاء انعامات دینے ہیں.میں نے تیری روح ہمیشہ قائم رکھنی ہے.بے شک تیری دُنیوی زندگی ہزاروں مایوسیوں ، ہزاروں ناکامیوں اور ہزاروں بیماریوں کی آماجگاہ تھی لیکن یا درکھ کہ وہی تیری زندگی نہیں تھی بلکہ اصل زندگی وہ ہے جو اب تجھے میں دیتا ہوں اور جو ہر قسم کی تکلیفوں اور ہر قسم کی ذلتوں اور ہر قسم کے تنزل سے محفوظ ہے.آ اور اب میری جنت میں داخل ہو جا اُس وقت تک اس کا دل اطمینان حاصل نہیں کر سکتا.ہاں جب یہ خیال کسی کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی عبث نہیں بلکہ یہ ایک اور عظیم الشان زندگی کا پیش خیمہ ہے اور اصل زندگی وہ ہے جو میری موت کے بعد شروع ہوگی.تب وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور حقیقی امن محسوس کرتا ہے اور اُس وقت وہ صرف اپنی پیدائش پر ہی خوش نہیں ہوتا بلکہ اپنی موت پر بھی خوش ہوتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اس لئے نہیں کہ مجھے تباہ کرے بلکہ اس لئے کہ وہ مجھے چھوٹی جگہ سے اٹھا کر ایک بلند مقام پر پہنچا دے.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی شخص تحصیلدار سے ای اے سی ہو گیا ہو یا ڈپٹی کمشنر سے کمشنر ہوگیا ہو یا کمشنر سے فنانشل کمشنر ہو گیا ہو یا فنانشل کمشنر نے گورنر ہو گیا ہو اور وہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگ گیا ہو.اسی طرح مومن اپنی موت پر روتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے انعامات ملنے کا وقت آ گیا.لیکن جو شخص روتا ہے وہ اس لئے روتا ہے کہ اس نے زندگی محض دُنیوی حیات کو سمجھ رکھا تھا اور اس نے دیکھا کہ اس زندگی کا بیشتر حصہ نا کامی اور بدمزگی میں گزر گیا اور اسے کچھ بھی لطف نہ آیا.مگر جو شخص جانتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا کمرہ ہے.وہ اس کمرہ سے نکلتے وقت خوشی محسوس کرتا ہے.جس طرح وہ لڑکا جو اچھے پرچے کر کے آتا ہے خوش ہوتا ہے، اسی طرح مومن جب
خطبات محمود ۵۷۴ سال ۱۹۳۷ء دنیا کے امتحان کے کمرہ سے اچھے پرچے کر کے نکلتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ایک رحیم ہستی میرے سامنے ہے جس نے مجھ سے بے انتہا انعامات کا اقرار کیا ہوا ہے.اب میں اس کے پاس جاؤں گا اور اس سے انعام لوں گا.جیسے یونیورسٹی کی ڈگریاں لینے کیلئے جب طالب علم جاتے ہیں تو وہ بھر کیلئے لباس اور گاؤن وغیرہ پہن کر جاتے ہیں.اسی طرح وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے عظیم الشان کنی فضلوں پر ایمان رکھتا ہے جب مرنے لگتا ہے تو اُس کا دل بلیوں اچھل رہا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں اپنے ربّ کے پاس ڈگری لینے چلا ہوں، میں اپنے رب سے انعام لینے چلا ہوں.جب تک یہ امید انسان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک دنیا میں کبھی بھی حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا.غرض انسان میں اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان قابلیتیں رکھی ہیں اور اس کا یہ فرض مقرر کیا ہے کہ وہ ان چار صفات کا مظہر بنے.مگر یہ کام ہو نہیں سکتا جب تک ایک نظام نہ ہو.اسی نظام کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ ایسی حکومت قائم کرے جن کے افراد انہی صفات کے مالک ہوں جو اُس نے بیان کی ہیں.پس جب تک کوئی شخص ان تمام ذمہ داریوں کو سمجھ کر مذہب قبول نہیں کرتا اُس وقت تک اس کا مذہب میں شامل ہونا یا نہ ہونا برا بر ہوتا ہے.اور اسے بعض دفعہ ایسی ٹھو کرلگتی ہے کہ اس کی زندگی محض ایک لطیفہ بن کر رہ جاتی ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ اس میں ایک لطیفہ آ گیا.لکھا تھا کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکا تھا ایک دفعہ چند لوگوں کو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا.اس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں.جب یہ کھانا کھانے لگیں گے تو میں بھی وہیں سے کھانا کھالوں گا.چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو گیا.جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنے شروع کر دیئے.تب اُسے پتہ لگا کہ یہ تو شاعر ہیں اور اپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں.چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی باری پر اُٹھ کر قصیدہ سنانا شروع کر دیا.یہ اب سخت حیران ہوا کہ میں کیا کروں.شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی.جب سب شاعر اپنے اپنے قصائد سنا چکے اور بادشاہ سے انعام لے کر گھروں کو روانہ وگئے تو بادشاہ اُس سے مخاطب ہوا اور کہا کہ اب آپ قصیدہ شروع کریں.یہ کہنے لگا حضور! میں شاعر نہیں ہوں.بادشاہ نے پوچھا کہ پھر آپ یہاں کیوں آئے ہیں! وہ کہنے لگا حضور میں وہی ہوں جس کا ہو
خطبات محمود ۵۷۵ سال ۱۹۳۷ء قرآن کریم میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ لے کہ شاعروں کے پیچھے غاوی آیا کرتے ہیں.وہ شاعر تھے اور میں غاوی ہوں.قرآن کریم کی اس آیت کا تو یہ مطلب ہے کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں.کیونکہ شاعر کوئی حقیقت بیان نہیں کرتے.کبھی رنج کی بات پر شعر کہہ دیں گے، کبھی خوشی کی بات پر، کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبھی کچھ.ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا.تو ایسے لوگوں کے پیچھے چلنے والے غاوی ہی ہوتے ہیں.نیک آدمی جو حقیقت کا متلاشی ہوتا ہے شعراء کے پیچھے نہیں جاتا.لیکن اُس نے اپنی بات میں لطیفہ پیدا کرنے کیلئے کہا کہ شاعروں کے پیچھے ناوی آیا کرتے ہیں ، آپ مجھے غاوی سمجھ لیجئے.بادشاہ کو اُس کا یہ لطیفہ پسند آ گیا اور اُس نے حکم د.کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیا جائے.یہ تو ایک لطیفہ ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا آدمی جو مذہب کی حقیقت کو سمجھ کر مذہب میں شامل نہیں ہوتا ، غاوی ہی ہوتا ہے.وہ چند مسائل سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ احمدیت انہی چند مسائل کو مان لینے کا نام ہے.وہ مسلمان ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھ لیا جائے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ لا الہ الا اللہ کی تفسیر سارا قرآن ہے.اس سارے قرآن پر عمل کئے بغیر وہ کس طرح مسلمان ہو سکتا ہے.جس طرح انسان کسی ایک عضو کا نام نہیں بلکہ انسان مجموعہ ہے ناک کا، کانوں کا، آنکھوں کا منہ کا، گردن کا ، سرکا، سینہ کا ، دھڑ کا ، ہاتھوں کا اور پاؤں وغیرہ کا اور ان میں سے کوئی چیز الگ نہیں ہو سکتی.نہ ہاتھ الگ کی ہو سکتے ہیں نہ پاؤں الگ ہو سکتے ہیں.نہ سر لگ ہو سکتا ہے نہ دھڑا الگ ہو سکتا ہے.اسی طرح لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ نے سے بے شک انسان کو مسلمان کا نام حاصل ہو جاتا ہے مگر یہ ایسا ہی نام ہے جیسے اعضاء کے مجموعہ کا نام انسان ہے.جس طرح ان اعضاء کے بغیر انسان نہیں ، اسی طرح ان تفاصیل کے بغیر اسلام نہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ایک مفردے نہیں بلکہ وہ چار اعضائے روحانی کا نام ہے.الملک کے بروز کا اور الحق کے بروز کا اور توحید کے بروز کا اور ربوبیت کے بروز کا.یعنی انسان کو لا اله الا اللہ کہنے والا تب کہا جا سکتا ہے جب وہ رَبُّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور ملِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کا مظہر ہو.اگر کوئی شخص ان صفات کو اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اور محض زبان سے لا الہ الا اللہ کہے چلا جاتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایسی چیز کو آدمی آدمی کہتا رہے جس کا نہ دل ہو نہ دماغ ہو نہ منہ ہو.یہ لوگ بھی گویا غادی ہوتے ہیں جو احمدیت کی
خطبات محمود ۵۷۶ سال ۱۹۳۷ء میں داخل تو ہو جاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ احمدیت میں داخل ہونے کے کیا اغراض و مقاصد ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان پر کس قدر ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں.یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ احمدیت میں داخل ہو کر ہمیں اس دنیا میں کچھ انعام مل جائے گا اسی لئے جب انہیں کوئی کام بتایا جاتا ہے، جب ان پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہ خیال نہیں تھا کہ احمدیت میں داخل ہو کر اس قدر بوجھ پڑ جائیں گے.ہم نے تو سمجھا تھا کہ ہم جب احمدی ہو گئے تو ہمیں انعام مل جائے گا.حالانکہ جس دن وہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے وہ اس لئے نہیں ہوئے تھے کہ ان میں انعام تقسیم کیا جائے گا بلکہ اس کے لئے ہوئے تھے کہ وہ اپنی جانیں اور اموال سلسلہ کیلئے قربان کر دیں گے.پس جب لوگوں کو یہ کہا جاتا ہے ہے کہ آؤ اور مسلمان ہو جاؤ یا یہ کہا جاتا ہے کہ آؤ اور احمدی ہو جاؤ تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ آؤ اور کی روٹیاں کھاؤ.بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ آؤ اور سر کٹواؤ.اور جب کوئی شخص سر کٹوانے آ گیا تو اسے انعام کی ہوس کہاں رہی.کہتے ہیں ” جب اوکھلی میں سردیا تو موہلوں کا کیا ڈر.“ جب کوئی شخص اوکھلی میں اپنا سر دے دیتا ہے تو اسے اس بات کا کیا خوف ہو سکتا ہے کہ وہ پیسا جاتا ہے یا کچلا جاتا ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ تُو لوگوں پر کوئی جبر کرنے والا نہیں.اگر کسی شخص پر جبر کیا جائے اور اُسے زبر دستی مذہب میں داخل کیا جائے تو وہ بعد میں کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خوشی سے شامل نہیں ہوا، تم نے جبر کیا اور میں نے مان لیا.لیکن جب ہم دلائل دیتے ہیں اور دلائل پیش کر کے کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہتا ہے ان دلائل کو سُن کر ہمارے اندر شامل ہو جائے اور جس کو شرح صدر نہیں وہ شامل نہ ہو تو اس کے بعد جو شخص ہمارے اندر شامل ہوتا ہے وہ یہ ارادہ لے کر آتا ہے کہ میں اپنا سر دے دوں گا مگر اس راستہ سے جس کو میں نے سچا تسلیم کر لیا ہے پیچھے قدم نہیں ہٹاؤں گا.پھر جو شخص سر دے دیتا ہے اس کا یہ حق کہاں باقی رہ جاتا ہے کہ وہ کسی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکے.ہاں یہ سر دینا جاہلانہ نہ ہو کہ خودکشی کی اور مر گئے.بلکہ سر دینے سے مراد اپنے جذبات کی قربانی ، اپنے احساسات کی قربانی، اپنے علم کی قربانی ، اپنے اموال کی قربانی اور اپنی خواہشات کی قربانی ہے.البتہ اگر کسی وقت تلوار سے جہاد بھی شروع ہو جائے تو اُس وقت ظاہری طور پر اپنی جانیں قربان کرنا بھی ضروری کی ہوگا لیکن ایسا جہاد بہت کم ہوتا ہے.اور یہ جہاد انسانی زندگی کا کروڑواں حصہ بھی نہیں.اگر حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کا کروڑ منٹ اور کاموں میں خرچ ہوا ہے مگر ایک منٹ صرف جہاد پر
خطبات محمود ۵۷۷ سال ۱۹۳۷ء خرچ ہوا ہے.پس سر کٹوانے سے وہ سر کو انا مراد نہیں بلکہ اپنے نفس کی گل طاقتوں کو خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع کر دینا ہے اور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کر دے.رب العلمین کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو گلیۂ تابع کر دے، رحمن کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کر دے، رحیم کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کر دے.ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی صفت کے ماتحت.جو جماعت اور جو قوم یہ کام کر لیتی ہے وہی کامیابیاں اور عروج دیکھنے کی مستحق ہوتی ہے اور یہی غرض میری تحریک جدید سے ہے.چنانچہ تحریک جدید کے تمام مطالبات اسی لئے ہیں کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بناؤ.مثلاً جب میں نے کہا جاؤ اور باہر تبلیغ کیلئے نکل جاؤ تو میں نے یہ حکم رب العلمین کی صفت کے ماتحت دیا اور اس لئے دیا تا تم بھی صفت رب العلمین کے مظہر بن جاؤ.کیونکہ کچھ قو میں پیاسی ہیں انہیں پانی پلا ؤ، وہ تاریکیوں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں تم انہیں وہ نور پہنچاؤ جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اور جس طرح رب العلمین تمام جہان کی ربوبیت کرتا ہے اسی طرح تم بھی نکلو اور تمام دنیا کو اپنی روحانی تربیت کی آغوش میں لے لو.پھر جب میں نے چندے کی تحریک کی تو وہ بھی رب العلمین اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی صفت کے ماتحت تھی.کیونکہ ملک کیلئے خزانے کی ضرورت ہوتی ہے.اور کوئی قوم اُس وقت تک اپنا نظام درست نہیں کر سکتی جب تک اُس کے پاس خزانہ موجود نہ ہو.پھر جب میں نے امانت فنڈ کی تحریک کی تو وہ بھی صفت رب العلمین کے ماتحت کی کیونکہ رب العلمین کی صفت اس طرف بھی اشارہ کرتی کی ہے کہ سب زمانوں پر نظر رکھی جائے اور آج کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ہی خیال نہ کیا جائے بلکہ کل کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے.اللہ تعالیٰ ربّ العالمین ہے ، اس نے یہ نہیں کیا کہ جن چیزوں کی انسان کو ضرورت ہے وہ اُس نے آج پیدا کی ہوں بلکہ کروڑوں کروڑ سال پہلے اُس نے یہ چیزیں تیار کرنی شروع کر دی تھیں.اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی کل کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کیلئے آج سے تیاری شروع کر دیں اور اسی وجہ سے میں نے امانت کی تحریک جاری کی.پھر جب میں نے کہا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو تو یہ بھی رب العلمین کی صفت کے ماتحت تھا.کیونکہ رب العلمین کے کی صفت کے ماتحت کوئی شخص اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے والا نہ ہو.ربوبیت کا تعلق ماں باپ والی خدمت سے ہے اور ماں باپ
خطبات محمود ۵۷۸ سال ۱۹۳۷ء کی خدمت چندہ سے نہیں بلکہ ہاتھوں سے ہوتی ہے.بعض بیمار مائیں بے شک اپنے بچہ کو دودھ نہیں پلاتیں اور وہ اس بات پر مجبور ہوتی ہیں کہ نوکروں سے خدمت لیں.مگر تندرست مائیں ہمیشہ اپنے بچوں کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرتی ہیں.خواہ ان کے ایک نہیں دس ، پچاس اور سو نو کر بھی ہوں.ملکیت کی زندگی کے ماتحت بے شک خدمتگاروں سے کام لیا جا سکتا ہے مگر صفت رب العلمین کے ماتحت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے کام کرے.محمد ﷺ جن کے قدموں کے نیچے ہزاروں انسان اپنی آنکھیں بچھانے کیلئے تیار تھے اور جن کی خدمت کیلئے ہزاروں لوگ موجود تھے ، انہیں جب ہم اہلی زندگی میں دیکھتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک موقع پر جھکتے ہیں اور فرماتے ہیں عائشہ! میری پیٹھ پر پیر رکھ کر فلاں نظارہ دیکھ لو.کلے پھر آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو حضرت حسنؓ جو بھی چھوٹے بچے تھے آتے اور جب آپ سجدہ میں جاتے تو گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتے.جب آپ سجدہ کے بعد کھڑے ونے لگتے تو انہیں اپنی گودی میں لے لیتے.پھر رکوع میں جاتے تو اُتار دیتے اور جب پھر سجدہ میں جاتے تو وہ پھر آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے.صحابہ ایک دفعہ یہ دیکھ کر حضرت حسنؓ پر ناراض ہوئے تو آپ ہو.نے فرما یا ر ہنے دو بچوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کے شفیق بنو.۱۸ غرض گود نیا جہان کیلئے محمد ﷺ قربانی کر رہے تھے اور دنیا جہان بھی آپ کیلئے ہر چیز قربانی کرنے کیلئے تیار تھی مگر حضرت حسن کے ساتھ سلوک ایک جدا گانہ رنگ رکھتا تھا.جو سلوک آ کرتے تھے کسی اور کا بچہ کرتا تو شاید وہ باپ اپنے بچہ کو مار مار کر ادھ موا کر دیتا.کیونکہ یہاں صرف ایمان کا سوال نہیں تھا بلکہ اہلی زندگی کا بھی سوال تھا.غرض ربوبیت کے مرکز میں آکر ہاتھوں سے کام کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی تحریک جدید میں میں نے جماعت سے مطالبہ کیا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور اسی طرح کرو کہ جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کا کام کرتے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہی عورت جوی اپنے ہاتھ سے اپنا ناک پونچھنے میں بھی ہتک محسوس کرتی ہے اور بغیر رومال کے اُسے صاف نہیں کرتی جب دیکھتی ہے کہ اُس کے بچے کا ناک بہ رہا ہے تو کس طرح فوراً اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا نام اپنے ہاتھ سے صاف کر دیتی ہے.وہ بادشاہ جو اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے پانی لینا بھی برداشت نہیں کر سکتے بچوں کو اپنی گودی میں اُٹھائے پھرتے ہیں.تو اپنے ہاتھوں سے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا یہ ربوبیت کا حصہ ہے اور ہر س جو صفت رب العلمین کا مظہر بننا چاہتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ کام کرے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ
خطبات محمود ۵۷۹ سال ۱۹۳۷ء پیسے لے لو مگر ہاتھ سے کام نہ لو وہ ملکیت کا مظہر تو بنتا ہے مگر رب العلمین کا مظہر نہیں بنتا.حالانکہ ربوبیت کا مادہ فطرت انسانی میں داخل ہے.ایک زمیندار بے شک ٹیکس ادا کرتا ہے مگر کوئی زمیندار است امر کو برداشت نہیں کرسکتا کہ گورنمنٹ کچھ ٹیکس بڑھا دے اور اس کے بچوں کی پرورش کا ذمہ خود لے لی لے.وہ کہے گا ٹیکس بے شک بڑھا دو مگر بچہ کی خدمت میں ہی کروں گا اور کسی کو نہیں کرنے دوں گا.روس میں کئی دفعہ محض اس بات پر بغاوت ہوگئی ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ قوم کے بچوں کو ہم پالیں گے اور ان کی پرورش حسب منشاء کریں گے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی خود پرورش کریں گے تمہارے سپرد نہیں کر سکتے.حکومت کے افسر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے بچوں کو عمدہ سے عمدہ مکانوں میں رکھیں گے.اچھی سے اچھی غذا کھلائیں گے تم ان کی پرورش ہمارے ذمہ رہنے دو مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم خواہ کی بھوکے مریں یا فاقے برداشت کریں بچوں کو اپنی گودی سے نہیں اتاریں گے.غرض ملکیت کے ماتحت کی چندے دیئے جاتے ہیں لیکن ربوبیت کے ماتحت ہاتھوں سے خدمت کی جاتی ہے.تم اپنے بچے کو اس لئے گود میں نہیں اُٹھاتے کہ اس کو اُٹھانے والا اور کوئی نہیں ہوتا.اگر تمہارے ہزار خادم بھی ہوں تب بھی تم اپنے بچے کو خود اٹھاؤ گے کیونکہ ربوبیت تمہاری فطرت میں داخل ہے.مجھے ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا میں اُس وقت چھوٹا سا تھا ، سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اُس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہو گئی اور اُس کو دفن کرنے کیلئے اسی مقبرہ میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہو سکتے.جنازہ کے بعد نعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اُٹھالی.اُس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور الغش مجھے دے دیجئے میں اُٹھا لیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑ کر اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ میری بیٹی ہے.یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک جسمانی خدمت جو اس کی آخری خدمت ہے یہی ہو سکتی ہے کہ میں خود اس کو اٹھا کر لے جاؤں.تو صفت رب العلمین کے مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجالاؤ.اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائداد دے دیتے ہو ، اپنی گل آمد اسلام کی اشاعت پر خرچ کر دیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے مگر رب العلمین کے مظہر نہیں بنو گے.کیونکہ رب الـعـلـمـیـن کا مظہر بننے کیلئے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غرباء کی خدمت پر کمر بستہ ہی
خطبات محمود ۵۸۰ سال ۱۹۳۷ء رہو.ہاں جب تم اپنے ہاتھوں سے بھی بنی نوع انسان کی خدمات بجالاؤ گے تو تم رب العلمین کی صفت کے بھی مظہر بن جاؤ گے.پھر جب میں نے کہا کہ تحریک جدید کے بورڈنگ میں اپنے بچوں کو داخل کراؤ تو یہ تمہیں صفت رحیمیت کا مظہر بنانے کیلئے مطالبہ کیا.کیونکہ رحیمیت کہتی ہے کہ تم ایسی اعلیٰ تربیت کرو اور ایسی عمدہ ان خوبیاں مخلوق میں پیدا کرو کہ جن سے وہ دوامی زندگی اختیار کر لے.پھر یہ تحریک ایک رنگ میں رب العلمین کی صفت کے ماتحت بھی ہے یعنی قوم کے ہر شعبہ کی اصلاح کی جائے.اسی طرح جب میں نے سادہ زندگی اختیار کرنے کیلئے کہا تو یہ مطالبہ صفت رحمانیت اور صفت ملکیت کے ماتحت آتا تھا.کیونکہ ہر وہ قوم جو اپنی زندگی عیش پسند بنالیتی ہے غرباء کی خدمت میں حصہ نہیں لے سکتی.حالانکہ رحمانیت کی صفت چاہتی ہے کہ مزدوروں سے ہی نہیں بلکہ غیروں سے بھی سلوک کیا جائے اور پھر اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس سامان ہوں اور سامان تبھی ہو سکتا ہے جب اس کی زندگی کو بعض قیود کے اندر رکھا جائے.جو شخص بعض قیود کے اندر اپنے آپ کو نہیں رکھتا وہ موقع پر ضرور فیل ہو جاتا ہے.پھر ایک ملک ہونے کے لحاظ سے بھی سادہ زندگی ضروری ہے کیونکہ ملک کیلئے سپاہ ضروری ہے اور سپاہی کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ جفا کش ہو.ورنہ فوج جس کے سپاہی ترقہ 19 میں زندگی بسر کرتے ہوں لڑائی میں کام نہیں آسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک لطیفہ بیان کیا کرتے تھے کہ ایک کی بادشاہ تھا جسے یہ وہم ہو گیا کہ سپاہیوں پر روپیہ فضول برباد کیا جاتا ہے ملک میں جو ہزاروں لاکھوں قصائی موجود ہیں یہی لڑائی کیلئے کافی ہیں.جب جنگ کا موقع ہوا انہیں بلایا جا سکتا ہے.چنانچہ اس خیال کے آتے ہی اُس نے تمام سپاہی موقوف کر دیئے.جب یہ خبر ارد گرد پھیلی تو اس کے قریب ہی ایک اور با دشاہ تھا جو اس کا دشمن تھا.اُس نے دیکھا کہ یہ موقع عمدہ ہے.اب فوجیں اس نے موقوف کر دی ہیں اس پر حملہ کر دینا چاہئے.چنانچہ وہ اپنی فوج لے کر ملک پر حملہ آور ہو گیا.بادشاہ کو جب یہ خبر پہنچی تو اُس نے حکم دیا کہ فوراً تمام قصائیوں کو جمع کیا جائے اور ایک فوج بنا کر انہیں کہہ دیا جائے کہ دشمن پر حملہ کر دیں.اس پر اول تو اُن قصائیوں کو جمع کرنے میں بہت دیر لگی اور اتنے عرصہ میں دشمن کی فوجیں شہر کے قریب آگئیں.لیکن خیر جد وجہد کے بعد قصائیوں کو جمع کر کے میدانِ جنگ میں بھیج دیا گیا.ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بادشاہ نے کیا دیکھا کہ وہ تمام قصائی بھاگے چلے آرہے ہیں اور بادشاہ -
خطبات محمود ۵۸۱ سال ۱۹۳۷ء مخاطب ہو کر فریاد کر رہے ہیں کہ انصاف ! انصاف ! بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے بھلا یہ بھی کوئی کی انصاف ہے ہم باقاعدہ دشمن کے ایک آدمی کو پکڑتے اور پوری احتیاط کے ساتھ اُسے ذبح کرتے ہیں.مگر وہ لوگ نہ رگ دیکھتے ہیں پٹھا، یونہی مارتے چلے جاتے ہیں.ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے.وہ قصائی تو ادھر انصاف کی جستجو کرتے رہے اور اُدھر دشمن کی فوجیں بے انصافی کیلئے ملک میں داخل ہو گئیں.تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوتا جب تک قوم کے افراد میں ایک نظام نہ ہو اور ان میں جفا کشی کی عادت نہ ہو اور جفاکشی بغیر سادہ زندگی اختیار کئے پیدا نہیں ہوتی.اسی طرح رب العلمین کی صفت ان کے ماتحت بھی سادہ زندگی کی تحریک اُس طرح آتی ہے کہ سادہ زندگی اُس فرق کو دور کرتی ہے جو امراء اور غرباء میں پایا جاتا ہے.جس طرح باپ چاہتا ہے کہ کسی وقت اُس کے تمام بیٹے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھا ئیں.اسی طرح رب العلمین یہ چاہتا ہے کہ امراء اور غرباء میں ایسا فرق نہ ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک دستر خوان پر جمع ہونا مشکل ہو.فرق بے شک ہو مگر ایسا نہ ہو جو آپس کے تعلقات کو خراب کر دے اور ان میں اس قدر انسانیت بھی باقی نہ رہنے دے کہ امیر غریب کو حقیر اور ذلیل جانے اور غریب امیر کے متعلق سمجھے کہ وہ عام انسانوں سے بالا ہو گیا ہے.مگر امارت وغربت کا امتیا ز سادہ زندگی سے ہی دور ہو سکتا ہے اور یہ بھی صفت رب العلمین کے ماتحت ایک تحریک ہے جس پر عمل کر کے انسان اپنے آپ کو رب العلمین کا مظہر بنا سکتا ہے.سکتا غرض یہ چند مشقیں ہیں جو میں نے بتا ئیں اور میری غرض ان مشقوں سے یہ ہے کہ تم اپنے آپ کی کو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا بھی مظہر بناؤ اور اُس کی رحمانیت کا بھی مظہر بناؤ اور اُس کی رحیمیت کا بھی مظہر بناؤ اور اُس کی ملکیت کا بھی مظہر بناؤ اور اس طرح اپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر کے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بناؤ.مگر میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ ہماری جماعت میں جو لوگ نئے داخل ہوتے ہی ہیں وہ وفات مسیح اور ختم نبوت وغیرہ کے مسائل سُن کر داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چند مسائل ہی ہیں جو ہم نے ماننے ہیں اور انہیں مانا اور چھٹی ہوگئی.حالانکہ اسلام ایک وسیع نظام کا نام ہے.اور اس کے اندر بادشاہتوں کا نظام بھی شامل ہے، اہلی اور عائلی زندگی کا نظام بھی شامل ہے ،تعلیمی نظام بھی شامل ہے، تربیتی نظام بھی شامل ہے اور یہ جس قدر نظام ہیں ان کو قائم کرنا ہمارے لئے ضروری نی ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم رحمانیت کو بھی قائم کریں اور رحیمیت کو بھی.ہم ربوبیت کو بھی قائم
خطبات محمود ۵۸۲ سال ۱۹۳۷ء کریں اور مالکیت کو بھی.پھر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم غرباء کی خبر گیری کریں اور انہیں اٹھانے کی کوشش کریں اور امراء کا بھی خیال رکھیں اور انہیں عیش پسند زندگی میں پڑنے سے محفوظ رکھیں.غرض ایک وسیع نظام کی ضرورت ہے جس کے ماتحت اسلام کے تمام احکام عملی رنگ میں دنیا کے سامنے آسکتے ہیں.بے شک اس نظام کا ایک حصہ وہ ہے جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے لیکن ملکیت کا بھی ایک حصہ حکومت نے رعایا کے سپر د کر رکھا ہے.اور پھر اسلام کا وہ نظام جو اہلی اور عائلی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، اسے تو کلی طور پر ہم قائم کر سکتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں.پس جب حکومت ایک بات میں دخل نہیں دیتی اور ہم اس میں اسلامی تعلیم جاری کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس معاملہ میں اسلامی احکام کا اجراء نہ کریں.نادان کہتے ہیں کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل دیا جاتا ہے مگر میں کہتا ہوں اگر تم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے تو تم ہمارے پاس آئے کیوں تھے.تم نے جب خدا کو رب العلمین تسلیم کیا ہے تو تم خدا تعالیٰ کے دین کے جس نمائندہ کے پاس بھی جاؤ گے وہ تمہارے باپ کے طور پر ہو گا اور س کا حق ہوگا کہ وہ تمہارے ذاتی معاملات میں دخل دے.اور اگر وہ دخل نہ دے تو اسلام کی تعلیم لوگوں کے گھروں میں کس طرح قائم ہوسکتی ہے.پس جب تک خدا تعالیٰ موجودہ حکومتوں اور پارلیمنٹوں کو احمدی نہیں بنا دیتا اُس وقت تک اسلامی نظام کے وہ حصے جن پر عمل کیا تھی جاسکتا ہے ضروری ہے کہ ان پر عمل کیا جائے اور جب حکومتیں احمدی ہو جائیں گی تو اُس وقت اسلامی نظام کا مکمل ڈھانچہ تیار ہوگا.اور اُس وقت دنیا کو معلوم ہوگا کہ اسلام کی تعلیم اور اسلام کا نظام کس قدر پر امن ہے.آج کو حکومتیں احمدی نہیں مگر کئی امور ایسے ہیں جن میں حکومت روک نہیں بنتی.مثلاً زکوۃ ہے موجودہ گورنمنٹیں زکوۃ نہیں لیتیں اور اگر کوئی زکوۃ وصول کرے تو اُس کے راستہ میں روک نہیں ڈالتیں.پس جب حکومت خود ایک بات کی ہمیں اجازت دیتی ہے یا کم از کم اس میں روک نہیں بنتی تو ہم کیوں اس سے فائدہ نہ اُٹھائیں اور کیوں اس میں اسلامی نظام قائم نہ کریں.پس جتنے حصے اسلامی نظام کے ہیں ان میں سے جن حصوں کو موجودہ بادشاہت نے اپنے اندر شامل نہیں کیا ہمارا حق ہے کہ ان کو استعمال کریں اور ان کے ماتحت لوگوں کو چلنے پر مجبور کریں.زکوۃ کی میں نے صرف ایک مثال دی ہے ورنہ اور ان بھی کئے ایسے مسائل ہیں جو شریعت نے ملکیت سے متعلق رکھے ہیں.لیکن موجودہ حکومتوں نے ان کو اپنے حدود و اختیار سے باہر رکھا ہے.اور اگر ان کا انتظام کیا جائے تو حکومت کا کوئی قانون ان
خطبات محمود ۵۸۳ سال ۱۹۳۷ء میں روک نہیں بنتا.بے شک بہت سے ایسے بھی حصے ہیں جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں.اور ان پر اُسی وقت عمل کیا جا سکتا ہے جب بادشاہت احمدیوں کو حاصل ہو.مگر جب تک وہ وقت نہیں آتا وہ امور جن میں حکومت دخل نہیں دیتی ہمارا فرض ہے کہ ان میں اسلامی احکام نافذ کریں.اگر ہم زندگی کے ان شعبوں میں بھی اسلامی احکام جاری نہیں کرتے جن میں ان احکام کا اجراء ہمارے لئے قانونا جائز ہے تو ی وو یقیناً ہم انسان نہیں طوطے ہیں.جس طرح طوطا ”میاں مٹھو میاں مٹھو" کہتا رہتا ہے اور اگر میاں مٹھو کی بجائے اسے ”لا الہ الا اللہ سکھا دو تو وہ یہی کہتا رہے گا.اسی طرح گوتم احمدی ہو مگر تم طوطے کی طرح اپنے آپ کو احمدی کہتے ہو اور سمجھتے نہیں کہ اپنے آپ کو احمدی کہنے کے بعد تم پر کس قدر ذمہ واریاں عائد ہوچکی ہیں.پس جب تک اس اسلامی حکومت کو قائم کرنے کیلئے ہم اپنے نظام میں تبدیلی نہیں کرتے اس وقت تک ہم صرف نام کے احمدی ہیں کام کے احمدی نہیں.مگر صرف نام لے لینے کی سے کیا بنتا ہے جب تک انسان کے اندر وہ حقیقت بھی نہ پائی جاتی ہو جو اس نام کے اندر ہو.مجھے یاد ہے ہماری بہن امتہ الحفیظ دو اڑھائی سال کی تھی کہ ہمارے ہاں ایک مہمان آئے ان کی بھی ایک چھوٹی سی لڑکی تھی جو قریباً اسی عمر کی تھی.اُس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں اور روشنی میں چونکہ نہیں کھلتی تھیں اس لئے وہ سمجھتی تھی کہ اور لوگوں کو بھی میری طرح دن میں نظر نہیں آتا.امتہ الحفیظ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود کے پاس جا کر کہا کرتی تھی کہ ابا مجھے چیجی دو اور حضرت مسیح موعود علیہ کی السلام اسے کوئی چیز کھانے کی دے دیا کرتے تھے.اس لڑکی نے جو اسے اس طرح مانگتے دیکھا تو ایک دن خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جا کر ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی حضرت صاحب ! میں جی ہوں ( امۃ الحفظ ) مجھے چیجی دیں.یہی مثال تم میں سے بہتوں کی ہے.تم بھی اسی خیال میں مست ہو کہ تم خدا کے سامنے جا کر کہہ دو گے کہ ہم مسلمان یا احمدی ہیں ہمیں انعام دو اور اسے مَعَاذَ اللہ ) کوئی علم نہیں ہوگا کہ تم کیا کرتے رہے ہو اور آیا تم انعام کے مستحق بھی ہو یا نہیں.غرض اگر تم سچے دل سے لا اله الا لله کہ رہے ہوتو تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی حکومت قائم کرو.لیکن اب تو تمہاری یہ حالت ہے کہ جو شخص تم میں سے اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تم اس کے دشمن ہو جاتے ہو.کوئی تم میں سے اس پر اعتراض کرتا ہے، کوئی تم میں سے اسے گالیاں دیتا ہے، کوئی تم میں سے اس پر اتہام لگاتا ہے، کوئی تم میں سے اس کے خلاف شکوہ و ان
خطبات محمود ۵۸۴ سال ۱۹۳۷ء شکایت کرتا ہے اور ان تمام اتہاموں ، ان تمام الزاموں ، ان تمام اعتراضوں اور ان تمام نکتہ چینیوں کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ تم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آؤ اور سچے مسلمان بن جاؤ ، آؤ اور بچے احمدی بن جاؤ.لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سختی کی جاتی ہے مگر میں کہتا ہوں کس بات پر ؟ تم وہ باتیں نکالو جن کی بناء پر تم کہتے ہو کہ تم سے سختی کی جاتی ہے.پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ کس بات پر سختی کی جاتی ہے.تم پر اس وجہ سے سختی کی جاتی ہے کہ تم میں سے بعض اپنی لڑکیاں غیر احمدیوں کو دے دیتے ہیں مگر کیا اس سے مجھے ذاتی طور پر کوئی فائدہ ہے ؟ تم میرے پاس آتے ہو اور اپنے منہ سے کہتے ہو کہ ہم احمدیت کا جوا اٹھانے کیلئے تیار ہیں، میں تمہاری بیعت لیتا ہوں اور تم احمدیت میں شامل ہو جاتے ہو.اس کے بعد تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ تم احمدیت کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تم اس کی تعلیم پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ منافق مت بنو.یا تم پورے احمدی بن جاؤ یا احمدیت سے الگ ہو جاؤ.مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم آپ میرے پاس آتے اور احمدیت کو قبول کرتے ہو، تم پر کوئی جبر نہیں ہوتا تم سے کوئی زبردستی نہیں کی جاتی تم اپنی رضا و رغبت اور خوشی سے احمدیت قبول کرتے ہو، تم اپنی رضا ورغبت سے مجھے اپنا استاد تسلیم کرتے ہومگر جب کوئی کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے تو تم بہانے بنانے لگ جاتے ہو.اس دھوکا اور فریب کا کیا فائدہ.کیا تم خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اسے تمہارے اعمال کا علم نہیں ؟ تمہاری فطرت اور تمہارا دماغ کہتا ہے کہ احمدیت کے بغیر تمہاری نجات نہیں مگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں نجات بھی ملے جائے اور تم دل سے غیر احمدی کے غیر احمدی بھی بنے رہو.کوئی انسان کسی دوسرے عقلمند انسان کو بھی دھوکا کی نہیں دے سکتا.پھر تم کس طرح خیال کر لیتے ہو کہ تم خدا کو دھوکا دے لو گے.یہی وہ احساس ہے جس کے ماتحت میں نے تحریک جدید کا آغاز کیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس قسم کے کمزور لوگوں کو جو احمدیت میں رہ کر جماعت کو بدنام کرتے ہیں زیادہ مہلت نہیں دی جاسکتی.میں جماعت کو اسی امر کی طرف لا رہا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کو اس پر ثبات حاصل ہو جائے گا.مگر اس احساس کے تی باوجود میں پھر بھی مہلت دے دے کر تمہیں لا رہا ہوں تا کہ تم پر بوجھ نہ پڑے اور تم یکدم گھبرا نہ جاؤ.میں م شخص جو جانتا ہوں کہ میرے اس ارادہ کی لازماً مخالفت ہوگی اور نہ صرف میری مخالفت ہوگی بلکہ ہر ھے میرے ساتھ تعاون کرے گا ، ہر شخص جو قانون کے دائرہ کے اندر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہے گا ، اس کی بھی مخالفت ہوگی.لوگ بُرا منائیں گے ، وہ گالیاں دیں گے، وہ بد نام کریں گے ، وہ عیب چینی کریں
خطبات محمود ۵۸۵ سال ۱۹۳۷ء گے اور بجائے اِس کے کہ اصل حقیقت بیان کریں ، غلط واقعات بیان کر کے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہیں گے.مثلاً وہ یہ نہیں کہیں گے کہ انہوں نے شریعت کا فلاں قانون توڑا تھا جس کی انہیں سزا ملی.یا غیر احمد یوں کو انہوں نے لڑکی دی تھی جس کی سزا ملی.وہ کہیں گے ناظر امور عامہ نے مجھ پر ظلم کیا اور پھر یہ بتائیں گے نہیں کہ کیوں ظلم کیا اور کیا ظلم کیا.پھر اگر کسی کو واقعہ کا کچھ علم ہوگا اور وہ اشارہ کہہ دے گا کہ لڑکی کا کیا واقعہ تھا.تو کہہ دیں گے اصل بات یہ نہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ ناظر امور عامہ کی میرے ساتھ لڑائی ہے اور وہ خواہ مخواہ مجھے دق کرتا ہے.غرض وہ اس طرح لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے لگ جائیں گے اور لوگ یہ نہیں سمجھیں گے کہ یہ بہانے بناتا ہے اور اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے.تم می کبھی نہیں دیکھو گے کہ کوئی چور کہے بھائیو آؤ اور آنسو بہاؤ کہ میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں.وہ یہی کہتا ہے کہ لوگوں کی مجھ سے دشمنی تھی.فلاں جگہ میں بیٹھا تھا کہ انہوں نے گھاس کاٹ کر میری جھولی میں ڈال دیا اور مجھے چور چور کہہ کر پکڑوا دیا.وہ کیوں ایسا کہے گا اور اصل حقیقت بیان نہیں کرے گا.اس لئے کہ سچ بولنے سے اسے لوگوں کو ہمدردی حاصل نہیں ہو سکتی تھی.مگر جھوٹ بول کر وہ سمجھتا ہے کہ اسے لوگوں کی ہمدردی حاصل ہو جائے گی.تو یہ دنیا کا عام دستور ہے اور ہر ملک اور ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گاؤں اور ہر محلہ میں اس کی نظیر میں ملتی ہیں.مگر پھر جس طرح لوگ موت کو بھول جاتے ہیں ، اسی طرح اسے بھی بھول جاتے ہیں اور مجرموں کی حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں.تو وہ لوگ جو قانون کا احترام کرتے ہوئے کوشش کریں گے کہ اسلامی حکومت قائم ہو اور میرے کام میں میرے ساتھ تعاون کرنا چاہیں گے انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بدنامی ان کے حصہ میں بھی آئے گی مگر خدا تعالیٰ کے حضور وہ ضرور نیک نام ہوں گے.دنیا کی نگاہ میں وہ بے شک ذلیل ترین وجود ظالم ، فاسق ، فاجر ، بدکار، جھوٹی سفارشیں قبول کرنے والے لوگوں پر جبر کرنے والے اور ایمان پر چھاپہ ڈالنے والے مشہور ہوں گے مگر خدا تعالیٰ کے حضور وہ بڑی عزتوں کے مالک ہوں گے کیونکہ خدا کہے گا کہ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنی عزت اس لئے برباد کی کہ میری عزت دنیا میں قائم کریں.پس اگر اسے اس کام کے عوض دنیا میں عزت نہ ملے تب بھی وہ ابدی زندگی کا وارث ہوگا.اور اس کا نام آسمان پر ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا جائے گا اور وہی جو اس پر اعتراض کرنے والے ہوں گے اگلے جہان میں اس کے کی سامنے خادموں کے طور پر پیش ہوں گے.پس یہ کام بہت مشکل ہے، یہ منزل بہت کٹھن ہے.مگر اس میں
خطبات محمود ۵۸۶ سال ۱۹۳۷ء کوئی شبہ ہیں کہ جو شخص آگے بڑھے گا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا برکات حاصل ہوں گی اور وہ ای اس کے عظیم الشان فوائد اپنی آنکھوں سے دیکھے گا.غرض تحریک جدید کے دوسرے دور میں جو سکیم نافذ کی جانے والی ہے وہ نہایت ہی اہم ہے اور اس کی تفصیلات بہت وقت چاہتی ہیں جو آئندہ کئی خطبات میں اِنْشَاءَ اللہ تَعَالٰی بیان کی جائیں گے.لیکن چونکہ تحریک جدید کا تیسر ا مالی سال ختم ہو رہا ہے اس لئے میں اس تحریک کے دوسرے دور کے مالی حصہ کو آج کے خطبہ میں ہی بیان کر دیتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ تحریک جدید کا تیسرا سال مالی لحاظ سے ختم ہورہا ہے اور اب آئندہ کے متعلق میں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے.میں دوستوں اور اُن کارکن اصحاب کی واقفیت کیلئے جنہوں نے اس سلسلہ میں کام کرنا ہے بتا دینا چاہتا ہوں کہ جہاں اس کی تحریک کے دوسرے حصوں میں زیادہ سختیاں کی جائیں گی اور دوستوں سے زیادہ زور اور زیادہ جوش کی کے ساتھ کام لیا جائے گا وہاں میرا اس تحریک کے مالی حصہ کو ایک حد تک پیچھے ہٹانے کا ارادہ ہے.میں نے مالی حصہ کے تمام پہلوؤں پر کافی غور کیا ہے اور میں ایک لمبے غور کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک جدید کے مالی پہلو کو ایسی مضبوطی حاصل ہونے میں جس کے بعد کسی سالانہ تحریک کی اِنْشَاء الله ضرورت نہ رہے بلکہ اخراجات خود بخود نکلتے آئیں سات سال کی مسلسل قربانی کی ضرورت.ہے.پس آج سے کہ چوتھا سال شروع ہو رہا ہے سات سال اور تحریک جدید کا مالی مطالبہ ہوتا چلا جا.گا.لیکن اس رنگ میں کہ موجودہ تین سالہ دور میں سے پہلے سال جس قدر چندہ کسی نے دیا تھا کم از کم اُسی قدر چندہ اس سال دیا جائے ، ہاں اگر کوئی زیادہ دینا چاہے تو وہ زیادہ بھی دے سکتا ہے.پس اس وقت میرا دوستوں سے مطالبہ یہ ہے کہ انہوں نے اِس تین سالہ دور میں سے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا کوشش کریں کہ اس سال اس چندہ کے برابر چندہ دیں.لیکن میں کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور اس کی قدر چندہ دے.کیونکہ یہ طوعی چندہ ہے اور اس کا دینا میں نے ہر شخص کی مرضی پر منحصر رکھا ہوا ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص اس سال چندہ دینے کی بالکل طاقت نہیں رکھتا وہ بھی ضرور چندہ دے.میں کسی کو مجبور نہیں کر رہا اور نہیں کرنا چاہتا.یہ طوعی چندہ ہے اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے بار بار کہا ہے یہ طوعی چندہ ہے اور اگر کسی میں ہمت نہیں تو وہ وعدہ مت لکھائے پھر بھی بعض لوگ اپنی مرضی سے چندہ لکھا کر ادا نہیں کرتے اور اس طرح وہ ایک خطر ناک گناہ کے
خطبات محمود ۵۸۷ سال ۱۹۳۷ء مرتکب ہوتے ہیں.ہزاروں احمدی ایسے ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا لیکن اُن پر میرا کوئی گلا نہیں.مجھے شکایت ان سے ہے جو اپنے نام لکھوا کر پھر پیچھے ہٹے اور انہوں نے وقت کے اندر چندہ ادا نہ کیا.میں نے ان کی سہولت کیلئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ اگر کوئی شخص دیکھتا ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ چندہ ادا کرنے کی بالکل طاقت نہیں رکتھا مگر نام لکھا چکا ہے تو وہ اپنی میعاد میں اضافہ کرالے یا تی مجھ سے معافی لے لے.میں اُس کا چندہ معاف کرنے کیلئے تیار ہوں.اس طرح وہ خدا کے حضور مجرم نہیں بنے گا.کیونکہ خدا کہے گا کہ جب میرے نمائندہ نے تجھے معاف کر دیا تو میں نے بھی تجھے معاف کر دیا.خدارو پے کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے.اگر تم ایک عیسائی سے کوئی وعدہ کرتے ہو تو اُس وقت عیسائی اس کا نمائندہ ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اُس وعدے کو پورا کرو.اور گر تم ایک یہودی سے کوئی وعدہ کرتے ہو تو اُس وقت یہودی اُس کا نمائندہ ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس وعدے کو پورا کرو.کیونکہ جس سے وعدہ ہو گیا اس کے اور وعدہ کرنے والے کے درمیان خدا آجاتا ہے.پس وعدہ کو پورا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اور جب میں نے ان لوگوں کیلئے جو سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہوں یہ صورت پیدا کر دی تھی تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور خدا تعالیٰ کے گنہ گار نہ بنتے.مگر کئی کی دوست ایسے ہیں جنہوں نے اس سے بھی فائدہ نہیں اُٹھایا.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وقت کے اندر بھی ادا نہیں کر سکتے تو مہلتیں لے لو.چنانچہ بعض نے مزید مہلت لے لی مگر بعضوں نے مُہلت بھی نہیں لی ، چندہ معاف بھی نہیں کرایا اور وقت کے اندر بھی ادا نہیں کیا.گویا انہیں یہ شوق تھا کہ ہم ضرور گنہ گار بنیں گے اور کسی رعایت سے فائدہ نہیں اُٹھا ئیں گے.اب بھی میں یہی کہتا ہوں کہ جو شخص یہ چندہ دے سکتا ہے دے اور جو نہیں دے سکتا وہ نہ دے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو اپنے پہلے چندوں سے بھی زیادہ چندہ دینا چاہتا ہے تو میں اسے بھی نہیں روکتا.میرے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو چندہ دے سکتے ہیں اور دینے کا ارادہ رکھتے ہیں.چنانچہ گوا بھی تحریک نہیں کی گئی تھی مگر اس وقت تک چار پانچ وعدے میرے پاس آچکے ہیں اور وہ ان کے پہلے وعدوں سے زیادہ ہیں.ان میں سے ایک چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا وعدہ ہے اور دوسرا ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب افریقہ کا.خود میرا ارادہ بھی ہے پہلے تین کی سالوں سے زیادہ چندہ دینے کا.اسی طرح اور بھی بعض دوستوں کے وعدے آچکے ہیں.پس جو لوگ زیادہ دے سکتے ہیں ان کو میں نہیں روکتا.جو شخص نیکی کے میدان میں جس قدر زیادہ قدم بڑھاتا ہے
خطبات محمود ۵۸۸ سال ۱۹۳۷ء اسی قدر زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق ہوتا ہے.پس میں ان سے بھی جو زیادہ چندہ دے سکتے ہیں کہتا ہوں کہ نیکیوں کا میدان وسیع ہے آؤ اور آگے بڑھو.اور جو شخص چندہ نہیں دینا چاہتا اسے میں یہ کہتا ہووں کہ اگر تم چندہ نہیں دینا چاہتے تو مت دو اور وعدہ بھی مت لکھوا ؤ ایسا نہ ہو کہ تم گنہ گار ٹھہر و.لیکن اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ خواہ مجھے تنگی سے گزارہ کرنا پڑے میں چندہ ضرور ادا کروں گا.تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم کم سے کم اس قدر قربانی کرو جس قد رتم نے پہلے سال کی تھی اور انہی اصول پر کرو جو پہلے سال میں نے بتائے تھے.یعنی دو دو چار چار روپے نہیں بلکہ کم از کم پانچ روپے اس تحریک میں دیئے جائیں.پھر دس پھر میں پھر تمیں پھر ساتھ پھر سو پھر دوسو پھر تین سو اور جو اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے وہ اس سے زیادہ دے.مگر جو شخص اتنا چندہ نہیں دے سکتا جتنا اس نے پہلے سال دیا تھا تو اگر جس قدر رقم اس نے دی تھی اس سے کم تر کسی اور رقم کی اجازت ہے تو وہ اپنے حالات کے مطابق اس سے کم چندہ دے دے.مثلاً اگر کسی نے پہلے سال تمیں روپے دیئے اور اس سال وہ اتنے نہیں دے سکتا تو وہ ہیں دے سکتا ہے.اور اگر کسی نے ہمیں دیئے تھے اور اس سال وہ اتنے روپے نہیں دے سکتا تو اس کیلئے بھی گنجائش ہے وہ دس دے سکتا ہے.اور اگر کوئی شخص جس نے پہلے سال دس روپے دیئے تھے اس سال دس دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو پانچ دے.لیکن چونکہ یہ آخری حد ہے اس لئے اگر کوئی شخص ایسا ہو جس نے پہلے سال پانچ روپے دیئے تھے اور اس سال وہ پانچ بھی نہیں دے سکتا تو پھر وہ اس تحریک میں حصہ نہ لے کیونکہ پانچ سے کم کوئی رقم اس تحریک میں قبول نہیں کی جاتی.پس جو شخص دے سکتا ہے وہ انہی اصول پر دے جو میں مقرر کر چکا ہوں.سوائے اس کے کہ وہ اس سے زیادہ دینا چاہتا ہو.مثلا کو ئی شخص تین سو کی بجائے ہزار دو ہزار یا تین ہزار دینا چاہے تو شوق سے دے.اللہ تعالیٰ کے فضل غیر محدود ہیں اور اس کے پاس جس طرح تین سو روپیہ چندہ دینے والے کیلئے جزا ہے اسی طرح اس کے پاس تین ہزار روپیہ چندہ دینے والے کیلئے بھی جزا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص پانچ ہزار روپیہ چندہ دینا چاہے تو وہ پانچ ہزار دے اور سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ پانچ ہزار روپیہ چندہ کی بھی جزا دے سکتا ہے اور اس کی طرف سے قربانی کے مطابق ثواب ملتا ہے.جو شخص دو ہزار روپے دے سکتا ہے مگر وہ تین سو دیتا ہے اسے وہ ثواب ہر گز نہیں مل سکتا جو اس شخص کو ملے گا جو پانچ روپے دینے کی توفیق رکھتا تھا اور اس نے پانچ روپے ہی دیئے.کیونکہ دو ہزار دینے کی توفیق رکھنے والا جب تین سو روپیہ دیتا ہے تو وہ اپنی
خطبات محمود ۵۸۹ سال ۱۹۳۷ء طاقت کا ساتواں حصہ قربانی کرتا ہے.لیکن پانچ روپے دینے کی طاقت رکھنے والا جب پانچ روپے ہی دے دیتا ہے تو وہ سو فیصد قربانی کرتا ہے.پس خدا پانچ روپے دینے والے کو زیادہ ثواب دے گا اور تین سو روپے دینے والے کو کم کیونکہ وہ ثواب روپیہ کی مقدار پر نہیں دیتا بلکہ قربانی کی طاقت پر دیتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ چونکہ تم نے تین سو روپے دے دیئے ہیں اس لئے ضرور تم پانچ روپے چندہ دینے والے سے ثواب میں بڑھ کر رہو گے.سینکڑوں پانچ روپے دینے والے ایسے ہوں گے جو تین سو روپے.چندہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوں گے.کیونکہ انہیں پانچ سے زیادہ روپے دینے کی توفیق نہیں تھی اور تین سو روپے دینے والوں کو یہ توفیق تھی کہ وہ چار سو دیتے یا پانچ سو دیتے یا ہزار بلکہ اس سے بڑھ کر دیتے.پس اس سال کیلئے میری تحریک یہی ہے کہ جتنا کسی شخص نے اس تین سالہ دور کے پہلے سال چندہ دیا تھا اتنا ہی چندہ اس سال دے.پھر میری سکیم یہ ہے کہ ہر سال اس چندہ میں سے دس فیصدی کم کرتے چلے جائیں گے.یعنی جس نے اس سال سو روپیہ چندہ دیا ہے اس سے اگلے سال نوے کی روپے لئے جائیں گے.پھر اس سے اگلے سال اسی روپے پھر تیسرے سال ستر روپے پھر چوتھے سال ساٹھ روپے پھر پانچویں سال پچاس روپے اور پھر یہ پچاس فیصدی چنده باقی دو سال مسلسل چلتا چلا جائے گا اور ساتویں سال کے بعد چندے کے اس طریق کو ختم کر دیا جائے گا.یہ مطلب تو نہیں کہ پھر سات سال کے بعد چندہ کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا.چندے تو صدرانجمن احمدیہ کی ضروریات کیلئے بھی ہوتے ہیں.ممکن ہے خدا تعالیٰ اور کوئی کام پیدا کر دے مگر تحریک جدید کی سکیم کے بارہ میں میری سکیم ایسی کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس رنگ میں چندہ کی ضرورت نہ رہے گی إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَی.اور ان سالوں میں اس کی اپنی ذاتی آمد ایسی ہو جائے گی جو اس کام کو جاری رکھنے کیلئے کافی ہو.اس سکیم پر کسی شخص کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ جماعت پر بوجھ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ میں اس چندہ کیلئے کسی کو مجبور نہیں کرتا.میں ان کو مخاطب کر رہا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی ہے اور جو میری آواز پر لبیک کہنے میں سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے.پس وہ جو مالی وسعت رکھتے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کے دن اچھے بنا لو اور ثواب کا جو یہ موقع ہے اس سے فائدہ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو اور جو لوگ پہلے سے بھی زیادہ بوجھ اُٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ تم نے پہلے بھی ثواب کمایا اور اب اور ثواب کی
خطبات محمود ۵۹۰ سال ۱۹۳۷ء کمالو کہ خدا نے تمہارے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دیئے.مگر وہ جو طاقت رکھنے کے باوجود اس میں حصہ نہیں لیتا اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور جو اس چندہ میں حصہ لینے سے بالکل معذور ہے اس پر کی ہر گز کوئی گناہ نہیں نہ میری طرف سے اور نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے.گویا اس سال میری تحریک یہ ہے کہ اپنے پہلے سال کے چندہ کے برابر چندہ دو.اور جو اس قدر نہ دے سکتا ہو وہ کم دے بشر طیکہ اس سے کم چندہ دیا جا سکتا ہو.مثلاً جس نے پہلے سال دس دیئے تھے اور اس سال وہ دس روپے نہیں دے سکتا تو وہ تھی پانچ دے اور جس نے پانچ دینے تھے اور اس سال وہ پانچ نہیں دے سکتا وہ کچھ بھی نہ دے کیونکہ پانچ سے کم کوئی رقم اس تحریک میں نہیں لی جاتی.اسی طرح ہیں روپے دینے والا دس روپے دے سکتا ہے.تمہیں روپے دینے والا میں روپے دے سکتا ہے.ستائیس اٹھائیس نہیں کیونکہ ایسا کوئی درجہ مقرر ہیں.ہاں جس نے ہیں دیئے تھے وہ چاہے تو ستائیس اٹھائیس دے سکتا ہے.کیونکہ وہ زیادتی ہے.اسی طرح جو شخص سو روپے دے سکتا ہے وہ سو روپے دے اور جو سو نہیں دے سکتا وہ پانچ یا پانچ کے اعداد کے لحاظ سے رقم میں کمی کر سکتا ہے.پس چندہ کے جو درجات مقرر ہیں ان کے مطابق چندہ دو اور جو شخص مقررہ رقوم سے زیادہ رقم چندہ دے سکتا ہے اُس سے میں کہتا ہوں کہ وہ زیادہ دے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نزول کی بھی زیادہ امید رکھے.پس ہر شخص جو ثواب حاصل کرنے کا آرزومند ہے، اس سے میں کہتا ہوں کہ ثواب کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں آگے بڑھو اور ان دروازوں میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی صلى الله خوشنودی حاصل کرلو.بے شک یہ چند نفلی ہے مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہوتا ہے.۲ پس جو شخص چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ اس نفل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کر سکتا ہے.اگلے سال اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی یہ چندہ نوے فیصد ی پر آجائے گا اور اُس وقت آنوں اور پائیوں کی کمی بھی جائز ہوگی.مثلاً جس نے اس سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں وہ اگلے سال ساڑھے چار روپیہ دے سکے گا اور جس نے دس روپے دیئے ہوں گے اس کیلئے نو روپے ہو جائیں گے.اسی طرح جس نے سودیئے ہوں گے اگلے سال اسے ۹ دینے پڑیں گے اور جس نے تین سو روپے دیئے ہوں گے اسے ۲۷۰ روپے دینے پڑیں گے.غرض اس سال نہیں بلکہ اس سے اگلے سال پانچ روپے دینے والے کیلئے جائز ہوگا کہ وہ ساڑھے چار دے اور دس دینے والے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ وہ نوتی
خطبات محمود ۵۹۱ سال ۱۹۳۷ء دے اور تمہیں والے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ وہ ۲۷ روپے دے.مگر پھر بھی جو زیادہ چندہ دینا چاہے گا اُس کیلئے رستہ کھلا ہوگا.یہ کمی اسی طرح سال بہ سال ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ پچاس فیصدی کمی پر آکر یہ چندہ ٹھہر جائے گا.اور دو سال اور گزرنے کے بعد اسے بند کر دیا جائے گا.اس انتظام کے ماتحت مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنے عرصہ میں تحریک جدید کے جو کارخانے قائم کئے گئے ہیں اور اس کی جو جائدادیں خریدی گئی ہیں وہ ایسے رنگ میں آزاد ہو جائیں گی کہ مرکزی دفتر کے اخراجات کی خود بخود چلتے چلے جائیں گے.پس اس رنگ میں ہر سال اول تو چندے کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا اور دوسرے یہ تحریک ایک مستقل صورت اختیار کرتی چلی جائے گی.یا درکھو بہر حال قربانی خواہ کسی ہی ہو جب تک انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد نہ کر دے اور اس کی قربانی میں خلوص اور محبت نہ پائی جائے ، اُس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.پس نہ صرف قربانیوں کی ضرورت ہے بلکہ اس اخلاص کی بھی ضرورت ہے جو قر بانیوں کو نتیجہ خیز بناتا ہے.یہ تحریک ہے جو اس سال میں کر رہا ہوں.بعض دوست جن کو یہ خیال تھا کہ میں اب کی دفعہ پہلے سالوں سے زیادہ مالی قربانی کا مطالبہ کروں گا اُن کی توقع کے خلاف میں نے قربانی کا مطالبہ کم کر دیا ہے.لیکن اس کی میعاد بجائے تین سال کے اب میں نے دس سال کر دی ہے.یعنی تین سال وہ جو گزر چکے ہیں اور ی سات سال وہ جو آئندہ آنے والے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے یہ چٹھیاں آچکی ہیں کہ میں اس تحریک کو تین سال میں ختم کرنے کی بجائے دس سال تک بڑھا دوں.میرا اپنا بھی خیال اس نئے سال سے اسی قسم کا اعلان کرنے کا تھا.پس ان تحریکوں کو جو بالکل میرے خیال سے تو ار دکھا گئیں مجھے یقین ہوا کہ یہ الہی القاء ہے.پس اس تحریک کی میعاد میں توسیع اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس میں اپنے اخلاص اور اپنی طاقت کے مطابق حصہ لیں.اسی طرح تحریک جدید کے امانت فنڈ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دوست جو امانت فنڈ میں روپے جمع کرا رہے ہیں وہ اپنے سابقہ طریق کو جاری رکھنے کی کوشش کریں اور جنہوں نے ابھی تک اس میں کوئی کی حصہ نہیں لیا وہ اس سال سے ہی امانت فنڈ میں اپنے روپے جمع کروانے شروع کر دیں.مگر جو دوستی آئندہ کیلئے اس میں حصہ نہیں لے سکتے اور چاہتے ہیں کہ ان کا روپیہ انہیں واپس دیا جائے ان کیلئے کی دونوں صورتیں ہیں.جن کے متعلق مرکز کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان میں سے جو صورت چاہے اختیار
خطبات محمود ۵۹۲ سال ۱۹۳۷ء کرے.یعنی وہ چاہے تو انہیں ان کے روپیہ کے بدلہ میں کوئی جائداد دے دے اور اگر روپیہ دینے کی گنجائش ہو تو روپیہ واپس کر دے.لیکن دوستوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جن کے پاس روپیہ موجود ہے اور وہ امانت فنڈ میں آئندہ بھی رقوم جمع کراسکتے ہیں، وہ اپنے اس طریق کو جاری رکھیں اور روپیہ برابر جمع کراتے رہیں.مگر وہ دوست جو یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ مجبور ہیں اور آئندہ وہ امانت فنڈ کی تحریک میں شامل نہیں رہ سکتے وہ دفتر کو اطلاع دے دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ آیا وہ روپیہ کو ترجیح دیتے ہیں یا جائداد کو.اگر وہ اپنی امانت بصورت نقد لینا چاہیں گے تو جس حد تک ممکن ہوگا انہیں روپیہ واپس کر دیا جائے گا اور اگر روپیہ نہ ہوا تو اس قیمت کی انہیں کوئی جائداد دی جائے گی.اور جیسا کہ میں نے شروع میں ہی اعلان کر دیا تھا اصل قاعدہ یہی ہے کہ جائداد کی صورت میں امانت واپس کی جائے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں دوستوں کا نفع بھی اسی میں ہے کیونکہ اس صورت میں انہیں کچھ فائدہ ہو جائے گا.جولوگ امانت واپس لینا چاہیں اس کیلئے میں ایک کمیٹی بنادوں گا جس میں زیادہ تر اُن لوگوں کو شامل کروں گا جو امانت فنڈ کے حصہ دار ہیں.تا وہ دیکھ لیں کہ کسی سے بے انصافی تو نہیں ہو رہی اور آیا سب کے حقوق ادا ہو گئے ہیں یا نہیں.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست اسے جاری رکھنا اہتے ج ہیں وہ بھی اطلاع دے دیں اور بحیثیت مجموعی سب دوست کوشش کریں کہ اپنے اس طریق عمل کو جاری کی رکھیں اور بجائے حساب بند کرانے کے اور دوستوں کو بھی ترغیب دے کر نئے حساب کھلوائیں.کیونکہ اس نے کے فوائد نہایت اہم ہیں اور اس کو جاری رکھنا نہایت ضروری ہے.پس تحریک جدید کے دوسرے دور میں میں جماعت کے احباب سے جو مالی مطالبہ کرنا چاہتا ہوں وہ میں نے بتا دیا ہے کہ تحریک کے پہلے سال میں دوستوں نے جس قدر چندہ دیا تھا کوشش کریں کہ کی اس سال بھی اسی قدر چندہ دیں.اور جو زیادہ دے سکتے ہیں وہ ثواب کے اس موقع کو نہ کھوئیں اور پہلے سے بھی زیادہ چندہ دیں.اور جو مجبور ہیں اور اس تحریک میں بالکل حصہ نہیں لے سکتے ان کے متعلق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور کرے اور انہیں آئندہ نیکیوں کے کاموں میں شامل ہونے کی توفیق عطا کرے.اور وہ لوگ جنہوں نے باوجود وعدے لکھوانے کے اپنے چندے ادا نہیں کئے ان سے میں کہتا ہوں کہ خدا تم پر رحم کرے.میں نے ہر چند چاہا کہ تم گنہ گار نہ بنو میں نے تمہارے لئے اس چندہ کو طوعی رکھا.میں نے تمہیں کہا کہ اگر تم وقت کے اندرا دا نہیں کر سکتے تو مزید مہلت لے لو، میں نے
خطبات محمود ۵۹۳ سال ۱۹۳۷ء تمہیں کہا کہ اگر تم بالکل دینے کی طاقت نہیں رکھتے تو چندہ معاف کرالو.مگر افسوس تم نے میری کسی رعایت سے فائدہ نہ اُٹھایا اور گنہگار ہونا پسند کر لیا.یا درکھو مجھے روپے کی ضرورت نہیں ، میں اپنے لئے تم سے کچھ نہیں مانگتا.میں خدا کیلئے اور اس کے دین کی اشاعت کیلئے تم سے مانگ رہا ہوں اور اگر تم اس چندہ میں حصہ نہیں لو گے تو خدا خود اپنے دین کی ترقی کا سامان کرے گا.مگر میں اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دین کی ترقی میں حصہ نہ لے کر گنہ گار نہ بنو.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس موقع کو غنیمت سمجھو اور خدمت اسلام کیلئے اپنے مالوں کو قربان کرو.جو شخص تکلیف اُٹھا کر اس خدمت میں حصہ لے گا میں اُس کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ دعا کر چکے ہیں کہ اے خدا! وہ شخص جو تیرے دین کی خدمت میں حصہ لے تو اُس پر اپنے خاص فضلوں کی بارش نازل فرما اور آفات اور مصائب سے اسے محفوظ رکھ.پس وہ شخص جو اس تحریک میں حصہ لے گا اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا سے بھی حصہ ملے گا اور پھر میری دعاؤں میں بھی وہ حصہ دار ہو جائے گا.پس جو شخص اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے وہ لے اور اگر کوئی شخص اس میں حصہ نہیں لے سکتا تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم ہر گز حصہ نہ لو، تم خدا کے حضور کی بری ہو.اور جو لوگ زیادہ حصہ لے سکتے ہیں انہیں میں کہتا ہوں کہ میری حد بندیوں کو نہ دیکھو خدا تعالیٰ کے پاس غیر محدو د ثواب ہیں اگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو زیادہ ثواب کے مستحق بنو گے.غرض یہ تحریک جدید کا مالی حصہ ہے جس کا مطالبہ آج میں نے سب کے سامنے پیش کر دیا ہے اور میں نے بتا دیا ہے کہ یہ چندہ رفتہ رفتہ گھٹتے گھٹتے پچاس فیصدی تک آ جائے گا اور سات سال گزرنے کی کے بعد بند کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اُس وقت تک اس محکمہ کو ایسا مضبوط بنا دے کہ بہ اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہو جائے اور اپنی مستقل آمد سے تبلیغ کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے.اسی طرح وہ دوست جنہوں نے امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کا کام گزشتہ سالوں میں جاری رکھا ہے، انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی یہ بتا دیں کہ آئندہ کیلئے وہ اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا بند کر نا چاہتے ہیں.اگر بند کرنا چاہتے ہیں تو وہ ساتھ ہی یہ بھی بتادیں کہ وہ کس چیز کو ترجیح دیتے ہیں، روپیہ کو یا جائداد کو.گوی مرکز اس بات کا پابند نہیں کہ وہ امانت جمع کرانے والے کو ضر ور ر و پی دے لیکن اس بات کی کوشش ضرور کی جائے گی کہ اگر روپیہ ہو تو انہیں روپیہ ہی واپس کیا جائے اور اگر روپیہ نہ ہوا تو انہیں قیمت خرید کے
خطبات محمود ۵۹۴ سال ۱۹۳۷ء مطابق کوئی جائداد دے دی جائے گی.لیکن میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کا کام جاری رکھیں اور جو دوست ابھی تک اس میں شامل نہیں ہوئے وہ اس وقت ہی شامل ہو جائیں.لیکن بہر حال جو لوگ نئے شامل ہوں گے یاوہ دوست جو اپنے گزشتہ طریق عمل کو جاری رکھیں گے، انہیں مسلسل سات سال اور امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانا پڑے گا اور گورو پیہ پس انداز کرنا صرف سات سال یا دس سال تک ضروری نہیں ہوتا ، ساری عمر ہی انسان کو اپنا روپیہ پس انداز کرتے رہنا چاہیئے.لیکن اس تحریک میں شامل ہونے والے کو سات سال اور اپنارو پیدا امانت فنڈ میں جمع کرانا پڑے گا.اور اگر کوئی شخص سات سال تک جمع نہیں کر سکتا تو کم سے کم اور تین سال کیلئے ہی جمع کرا دے.لیکن میری نصیحت یہی ہے کہ جن دوستوں نے امانت فنڈ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے انہیں چاہتے کہ اُن سے جہاں تک ہو سکے اسے جاری رکھیں.مجھے افسوس ہے کہ اس فنڈ میں روپیہ کی آمد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے.پہلے سال ستر پچھتر ہزار روپیہ جمع ہوا.دوسرے سال ساٹھ ہزار اور اس سال چالیس بیالیس ہزار.یہ کوئی یقینی اعداد وشمار نہیں.مگر جو صحیح اعداد و شمار ہیں وہ اس کے قریب قریب ہیں.حالانکہ یہ نہایت ہی اہم فنڈ ہے اور ایک مجلس شوری کے موقع پر ایک خفیہ میٹنگ میں میں نے دوستوں پر اس کی اہمیت کو پوری طرح واضح کر دیا تھا.پس اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ی اسے کسی لمحہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.گزشتہ احرار کے فتن میں ہمارے دشمنوں کو جو نا کامی ہوئی اس میں امانت فنڈ کا بہت بڑا حصہ ہے.اور اب جو نیا فتنہ اُٹھا تھا اس نے بھی اگر زور نہیں پکڑا تو در حقیقت اس میں بھی بہت سا حصہ تحریک جدید کے امانت فنڈ کا ہے.پس اس امانت فنڈ میں جو دوست حصہ- سکتے ہیں وہ ضرور لیں اور چاہے ایک روپیہ یا دو روپے ماہوار جمع کرائیں پالالتزام اس فنڈ میں روپیہ جمع کراتے جائیں.اور جو پہلے ہی اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ اسے جاری رکھیں اور سات سال اور مکی روپیہ جمع کراتے جائیں.لیکن جو لوگ سات سال تک روپیہ جمع نہ کرا سکتے ہوں وہ کم از کم تین سال اور ہی اس میں حصہ لیں.اور جو لوگ آئندہ اس میں شامل نہیں رہنا چاہتے اور اپنی جمع شدہ امانت واپس لینا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ یہ اطلاع دیں کہ وہ روپیہ لینا چاہتے ہیں یا جائداد لینا چاہتے ہیں.اگر روپیہ کا مطالبہ کریں تو گو کوشش ہماری یہی ہوگی کہ انہیں روپیہ واپس دیا جائے لیکن اگر روپیہ نہ دیا جا سکا تو جیسا کہ میں نے پہلے بتا دیا تھا انہیں اس روپیہ کے بدلہ میں اسی قیمت کی جائداد دے دی جائے گی اور جو
ง خطبات محمود ۵۹۵ سال ۱۹۳۷ء آئندہ کیلئے اس میں شامل رہنا چاہتے ہوں لیکن گزشتہ امانت واپس لینا چاہتے ہوں وہ بھی اطلاع دے دیں.غرض تمام دوستوں کی طرف سے فرداً فرداً اطلاعات آجانی چاہئیں.اس کے بعد ایک کمیٹی بنادی جائے گی جس میں حصہ داران کو بھی شامل کیا جائے گا اور وہ روپیہ کی تقسیم کے کام میں مشورہ دیں گے تا کسی کو شکایت پیدا نہ ہو.پس مالی مطالبہ سے میں اس تحریک جدید کے دوسرے دور کا آغاز کرتا ہوں اور اس کی باقی تفصیلات کو اگلے خطبات پر ملتوی کرتا ہوں.اُس وقت میں بتاؤں گا کہ ہماری جماعت پر کتنی اہم ذمہ داریاں عائد ہیں اور اسے اپنے نظام میں کس رنگ میں تبدیلی کرنی چاہئے.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ - الفضل ۴ / دسمبر ۱۹۳۷ ء ) المؤمنون: ١١٦، ١١٧ الفاتحه : ۲تا۴ سیرت ابن هشام جلد اصفحه ۵ ۲۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء تذکرہ صفحہ ۶۶.ایڈیشن چہارم موضوعات کبیر.ملاعلی قاری صفحه ۵۹.مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ مسلم كتاب العيد والذبائح باب الامر باختان الذبح.....الخ) 28 مسلم كتاب العيد والذبائح باب النهي عن صبر البهائم ابوداؤد كتاب الجهاد باب النهي عن الوسم في الوجه.....الخ) :البقرة : ۲۲۹ ۱۴ التحريم: ۷ الشعراء: ۲۲۵ ۱۵ الفجر : ۳۱۳۰
خطبات محمود ۵۹۶ کا بخارى كتاب العيدين باب الحراب والدرق يوم العيد و ترفه: دولتمندی، خوشحالی، آسودگی ۲۰ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع سال ۱۹۳۷ء
خطبات محمود ۵۹۷ ۳۷ سال ۱۹۳۷ء مسجد اقصیٰ کی توسیع کی ضرورت اور آلہ نشر الصوت لگانے کا ارشاد تحریک جدید کے ماتحت مخلصین جماعت کی مالی قربانی مزید سات سال تک ممتند کرنے کا مقصد (فرموده ۳ / دسمبر ۱۹۳۷ء) تشهد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سب سے پہلے تو میں صدر انجمن احمدیہ کے اس محکمہ کو توجہ دلاتا ہوں جو مساجد کا انتظام کرتا ہے کہ دوسال سے مساجد اور مہمان خانہ کی توسیع کیلئے چندہ جمع ہورہا ہے.مہمان خانہ تو خیر بن گیا ہے لیکن مساجد میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.حالانکہ برابر دو سال سے جماعت کیلئے جمعہ کی نماز پڑھنا نہایت ہی مشکل ہورہا ہے.اس تنگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو جگہ نہیں ملتی یا ایسی جگہ ملتی ہے جہاں آواز یا تو پہنچ ہی نہیں سکتی یا پہنچتی ہے تو ٹھیک طرح نہیں پہنچتی ، ان میں سے وہ کمز ور طبع لوگ جو روحانیت میں کے نہیں گھروں میں ہی رہ جایا کریں گے اور خیال کر لیا کریں گے کہ جگہ تو ملتی نہیں مسجد میں جا کر کیا کرنا ہے.ہر جمعہ کی نماز بیسیوں لوگ گلی میں پڑھتے ہیں اور یہ حالت استثنائی نہیں بلکہ یہ ایک قانون بن گیا ہے اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ مسجد میں مزید ایک بھی آدمی کی گنجائش نہیں ہوتی.میں نہیں سمجھتا کہ وہ
خطبات محمود ۵۹۸ سال ۱۹۳۷ء روپیہ جو تو سیع مساجد کیلئے جمع ہو چکا ہے کیوں جمع رکھا ہوا ہے اور کیوں اسے معا خرچ کر کے مساجد کو وسیع نہیں کیا جاتا.جہاں تک مجھے علم ہے اس وقت تک تین چار ہزار روپیہ جمع ہے.اور گو مجھے عمارت وغیرہ کے متعلق واقفیت نہیں پھر بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین ہزار روپیہ لگا کر ایسی تبدیلی کی جاسکتی ہے کہ یہ ساری مسجد مردوں کیلئے ہی رہ جائے بلکہ اور بھی بڑھائی جاسکے اور عورتوں کیلئے علیحدہ جگہ بن سکے.اردگرد کے مکانات سب خریدے جاچکے ہیں.اگر صرف گلی کو ہی پاٹ لیا جاتا تو دوسرا مکان ساتھ ملا کر ہزار بارہ سو آدمی کیلئے اور جگہ نکل سکتی ہے اور کچھ حصہ عورتوں کیلئے وقف کیا جاسکتا ہے.اس کے علاوہ خطبہ جمعہ کے متعلق دیر سے یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ اب لوگ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ ہر ایک تک آواز پہنچانا مشکل ہوتا ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے لاؤڈ سپیکر بھی ایجاد کراد - ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے.قریباً چھ ماہ کا عرصہ ہوا مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک ان دوست نے اپنے خرچ پر لاؤڈ سپیکر لگوا دینے کا وعدہ کیا ہے مگر معلوم نہیں ابھی تک لگا کیوں نہیں.جب یہ حقیقت ہے کہ اس کی ضرورت بھی ہے ، ایک دوست نے وعدہ بھی کیا ہوا ہے تو پھر دیر کیوں ہے.منتظمین کو یا درکھنا چاہئے کہ جتنے لوگ خطبہ سننے سے محروم رہتے ہیں اُتنا ہی وہ اس غرض کو فوت کرتے ہیں جس کی کیلئے جمعہ رکھا گیا ہے.شریعت نے خطبہ کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق میں سے بھی کچھ وقت بندہ کو چھوڑ دیا ہے.گویا اس طرح اللہ تعالی تمثیلی زبان میں فرماتا ہے کہ لو اس اہم کام کے لئے ہم بھی بندہ کو یہ وقت بطور تحفہ دیتے ہیں.کیونکہ جو شخص جمعہ کی نماز میں شامل نہ ہو سکے اسے ظہر کی چار رکعتیں ہی پڑھنی پڑتی ہیں مگر جمعہ کی اللہ تعالیٰ نے دور کھی ہیں اور دو خطبہ کیلئے چھوڑ دی ہیں.اس سے خطبہ کی عظمت کا پتہ لگ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے اپنی نماز میں سے وقت چھوڑ دیا ہے.گویا اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ اس میں دو رکعت کے وقت کا چندہ اپنی طرف سے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ کی جمعہ کے روز جو لیکچر ہو اس میں سے دورکعت نماز کا وقت ہماری طرف سے بھی چھوڑا جاتا ہے.اور جس کام کیلئے اللہ تعالیٰ اپنی ذاتی عبادت میں سے وقت دے اس کی اہمیت ظاہر ہے.پھر جمعہ کو اس قدر اہمیت ہے کہ ایک سورۃ قرآن شریف میں اسی نام سے ہے.پس اس عظیم الشان نیکی سے جماعت کے ایک حصہ کو بلا وجہ ایک لمبے عرصہ کیلئے محروم رکھنا بہت ہی بُری بات ہے.جب ایک چیز ایجاد ہو چکی.اس کی ضرورت بھی موجود ہے اور ایک دوست اخراجات ادا کرنے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کی
خطبات محمود ۵۹۹ سال ۱۹۳۷ء کہ لوگوں کو ثواب سے محروم رکھا جائے.اسی طرح مساجد کی توسیع کا کام ہے.اس کیلئے بھی روپیہ جمعی ہے ، مکانات خریدے جاچکے ہیں.پھر اس میں تاخیر کے کیا معنی ہیں ( مجھے بتایا گیا ہے کہ لاؤڈ سپیکر کیلئے امریکہ آرڈر دیا گیا ہے اور مسجد کی توسیع کی رقم ابھی اس قدر نہیں کہ اس کام کو شروع کیا جا سکے.لیکن میں نے تاکید کر دی ہے کہ کام فوراً شروع کر دیا جائے.اللہ تعالی سامان پیدا کر دے گا).اس کے بعد میں دوستوں کو اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مالی حصہ کے نئے دور کا اعلان گزشتہ جمعہ میں کر چکا ہوں.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری یہ سکیم ہے کہ اس کی مالی تحریک کو سات سال کے عرصہ میں ختم کر دیا جائے اور سے درجہ بدرجہ اس طرح کم کرتے جائیں کہ آخری تین سالوں میں یہ چندہ پچاس فیصدی رہ جائے گا اور پھر سات سال کے بعد بالکل چھوڑ دیا جائے گا.کیونکہ کوشش ہو رہی ہے کہ ایسا مستقل سرمایہ مہیا ہو جائے کہ تحریک جدید کے کاموں کیلئے کسی علیحدہ چندہ کی ضرورت ہی نہ رہے.سوائے اس کے کہ کبھی کوئی خاص ضرورت پیدا ہو جائے.لیکن عام ضروریات کیلئے مستقل سرمایہ ہو.اس وقت تحریک جدید کے ماتحت ہم گیارہ بارہ مشن قائم کر چکے ہیں اور ان کا کام اس قدر کفایت سے چلایا جاتا ہے کہ ان پر اس رقم سے بھی کم خرچ ہوتا ہے جو ہمارے پرانے دو تین مشنوں پر خرچ ہوتی ہے.ان مشنوں میں سے تین تو یورپ میں ہیں جس کے ممالک کی گرانی مشہوری ہے اور ایک امریکہ میں جہاں یورپ سے بھی زیادہ گرانی ہے.مگر ان سب پر روپیہ اس سے بھی کم خرچ ہو رہا ہے جو پُرانے دو تین مشنوں پر ہوتا ہے اور یہ ان نوجوانوں کے تعاون کی وجہ سے ہے جو باہر گئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ خود تکالیف اُٹھا کر بھی دین کا کام کریں گے.اس لئے ان چار مشنوں پر ہمارا اتنا بھی خرچ نہیں ہوتا جتنا صرف انگلستان کے مشن پر ہو رہا ہے.انگلستان کے مشن پر قریباً سات آٹھ سو روپیہ ماہوار خرچ ہوتا ہے اور یہ بھی اب کم ہوا ہے پہلے گیارہ بارہ سو ہوتا تھا مگر ان چار مشنوں پر قریباً ۲۷۵ روپے ماہوار خرچ ہو رہا ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ خرچ لٹریچر کے علاوہ ہے یعنی رسالے اور کتب وغیرہ ان مشنوں کو علیحدہ مہیا کی جاتی ہیں مگر یہ خرچ انگلستان کے مشن پر بھی الگ ہوتا ہے.اور یہ خرچ ایسا ہے کہ ہم جتنا چاہیں کر سکتے ہیں.جتنا لٹریچر چھپوا ئیں اسی کے لحاظ سے خرچ ہوگا.خواہ دس لاکھ کریں یا ایک سو کر یں.جہاں تک کام کرنے والوں کا دخل ہے چار مشنوں پر صرف پونے تین کی سو روپے ماہوار کے قریب خرچ ہے.ان میں سے ایک مشن یعنی امریکہ کا مشن تو ایسا ہے جہاں اللہ تعالیٰ
خطبات محمود ۶۰۰ سال ۱۹۳۷ء کے فضل سے بہت ہی کامیابی ہو رہی ہے.وہاں کا مشنری خود محنت کر کے اپنا گزارہ کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص جماعت عربوں کی بھی ایسی دے دی ہے جو چندہ دیتی ہے اور ان کا چندہ اب یہاں بھی آنا شروع ہو گیا ہے اور امید ہے کہ وہاں جلد ترقی ہوتی جائے گی.کیونکہ وہاں ایک خاصی تعداد عربوں کی ہے جو سلسلہ کی طرف متوجہ ہیں.ان کے علاوہ چین میں، جاپان میں اور سٹریٹ سیٹلمنٹ میں بھی ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور دود و مبلغ وہاں کام کرتے ہیں.اور پھر مصرا اور افریقہ میں بھی مبلغین پہنچ چکے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے خرچ پر ہی کام کر رہے ہیں یا برائے نام امداد لیتے ہیں اور بعض تو گئے بھی اپنے خرچ پر ہیں.جن مبلغوں کو خرچ جاتا ہے انہیں بھی ہماری ہدایت یہ ہے کہ خرچ بہت ہی کم کریں.ان کے علاوہ کچھ مشن ہندوستان میں بھی تحریک جدید کے ماتحت قائم ہیں.مثلاً دیر و وال ضلع امرتسر میں یا مکیریاں ضلع ہوشیار پور میں، ایک مشن کراچی میں ہے.ان میں بعض لوگ کی برائے نام گزارہ پر کام کرتے ہیں اور باقی جماعت کے دوست مہینہ مہینہ یا ہمیں ہیں یا دس دس دن جا کر کام کرتے ہیں.ان مشنوں کے علاوہ انگریزی لٹریچر کی ضرورت کو بھی پورا کیا جا رہا ہے.انگریزی اخبار ایک سن رائز لا ہور سے اور ایک مسلم ٹائمز لندن سے شائع ہوتے ہیں.ان میں سے بالخصوص سن رائز کی ضرورت اور اہمیت کو بہت محسوس کیا جارہا ہے.اور یہ پرچہ اگر چہ ہمیں قریباً مفت ہی دینا پڑتا ہے مگر فائدہ بہت ہے.امریکہ سے تو مسلمین نے لکھا ہے کہ یہ اخبار بہت ضروری ہے اور اسے پڑھ کر ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ بھی جماعت کا ایک حصہ ہیں.خصوصاً اس میں جو خطبہ جمعہ کا ترجمہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے ایمانی ترقیات کا موجب ہے.پہلے ہم یوں سمجھتے تھے کہ جماعت سے کٹے ہوئے الگ تھلگ ہیں مگر اب خطبہ پہنچ جاتا ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی گویا جماعت کا ایک حصہ ہیں.اس کے علاوہ کتا بیں بھی شائع کی جاتی ہیں.پہلے احمدیت کو شائع کیا گیا اور دو تین اور کتا ہیں اس سال بھی شائع کی جارہی ہیں.قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ جس کیلئے مولوی شیر علی صاحب ولایت گئے ہوئے ہیں، اس کیلئے بھی تحریک جدید سے ایک معقول رقم علیحدہ کر دی گئی ہے.اس کے علاوہ غرباء کے لئے کارخانے بھی جاری کئے گئے ہیں تا بیتا مے اور مساکین بچے تعلیم پاسکیں.اس وقت میں بائیس ایسے طالب علم ہیں جن میں سے بعض کا تو سارا خرچ ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور بعض کو امداد دینی پڑتی ہے اور ان کیلئے دینی تعلیم کا تمام خرچ ہمیں کرنا پڑتا ہے.یہ ایک
خطبات محمود ۶۰۱ سال ۱۹۳۷ء مستقل کام ہے جسے تین سال کے بعد چھوڑ انہیں جاسکتا.پھر ابھی تک کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مبلغین پہنچنے چاہئیں مگر نہیں پہنچے.مومن کسی نیک کام کو شروع کر کے اُسے بند نہیں کرتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے اور یہی نیت میری ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہر ملک میں مشن قائم کر دیئے جائیں.اب تک تو صرف یہ کوشش کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچا دیا جائے اور اس میں بعض نا تجربہ کارلوگوں سے کام لینا پڑا ہے.بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں تجربہ کاروں کا انتظار نہیں کیا جا سکتا.کسی شخص کے مکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہوا ہو تو کیا وہ یہ انتظار کرتا ہے کہ سپاہی آئیں تو ان سے لڑائی کریں؟ نہیں بلکہ اس کے گھر کے لوگوں میں سے جس کے ہاتھ میں لٹھ آجائے وہ لٹھ لے کر ، جس کے ہاتھ میں کدال ہو وہ کدال لے کر مقابلہ کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے.اُس وقت تجربہ کاروں کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا جاتا.تو یہ جو مشن ہیں یہ نا تجربہ کار نو جوانوں کو بھیج کر قائم ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ان سے غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں اور کچھ انہیں خود بخود تجربہ ہوتا جاتا ہے ار کچھ اہم اصلاح کرتے ہیں.مگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام ان ممالک میں پھیل رہا ہے اور خدا کا یہ کلام پورا ہورہا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اور ہم اس کے پورا کرنے میں محمد ہور ہے ہیں.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے عظیم الشان کام کیلئے تجربہ کار مبلغ ہی زیادہ مفید ہو سکتے ہیں مگر ایسے مبلغ ہمارے پاس ہیں نہیں.جو مبلغ جامعہ احمدیہ سے نکلتے ہیں وہ انگریزی نہیں کی جانتے.اسی دن کیلئے میں برابر دس سال سے اس بات پر زور دے رہا تھا کہ مبلغین کیلئے انگریزی لازمی رکھی جائے.گو یہ دین کا حصہ نہیں مگر دین کا کام فی زمانہ اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا.مگر افسوس ہے کہ محکموں نے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا اور جو مبلغ نکلتے ہیں وہ اس کا چوتھا حصہ بلکہ دسواں حصہ انگریزی بھی نہیں جانتے جتنی کہ بیرونی ممالک میں کام کرنے کیلئے جاننا ضروری ہے.اور اس لئے ہمیں ایسے کی نو جوانوں سے کام لینا پڑتا ہے جو انگریزی دان ہوتے ہیں، مگر وہ دینیات سے اچھی طرح واقف نہیں ہے ہوتے.اس کیلئے ہم اُن کو چند کتا بیں ہی پڑھا سکتے ہیں حالانکہ یہ کافی نہیں.باہر کئی پیچیدہ مسائل پیش آ جاتے ہیں جنہیں ایسے لوگ حل نہیں کر سکتے.کیونکہ چند کتا بیں دینیات کی پڑھنے سے دین کے لاکھوں مسائل کا علم نہیں ہو سکتا.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو ان کو سبکی ہوتی ہے اور یا پھر وہ غلط مسائل بتا دیتے ہیں.یہ بات بالخصوص یورپ میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور پھر غلط مسائل کا نکالنا مشکل ہو جاتا
خطبات محمود ۶۰۲ سال ۱۹۳۷ء ہے.لوگ یہی کہتے ہیں کہ سب سے پہلا فقیہہ جو آیا تھا اس نے ہمیں یہی بتایا تھا.پس ضروری ہے کہ ایسے مبلغ ہوں جو دین کے پورے ماہر ہوں ( مجھے یاد آیا یورپ میں تین نہیں بلکہ چار مشن تحریک جدید کے ماتحت قائم ہیں.پولینڈ البانیہ ، ہنگری اور اٹلی.اور ان سب پر اس خرچ سے آدھے سے بھی کم خرچ ہوتا ہے جو انگلستان کے مشن پر ہوتا ہے ).تو ہمیں اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ ایسے آدمی مہیا کریں جو دین کے بھی ماہر ہوں اور غیر ملکی زبانیں بھی جانتے ہوں اور اس مینی کیلئے ہمیں ایک خاص حکیم تیار کرنی پڑے گی.یا تو ایسے آدمیوں کو جو مولوی ہوں انگریزی پڑھانی پڑے گی اور یا پھر انگریزی دانوں کیلئے عربی اور دینیات کی تعلیم کا انتظام کرنا پڑے گا.پہلے تو جو بھیجے گئے ہیں وہ اسی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھ کر بھیجے گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام جہاں جہاں بھی ممکن ہو جلد سے جلد پہنچایا جائے.اس لئے فوراً جو مل سکے وہ بھیج دیئے گئے تا وہ نام پہنچا ئیں اور تعلیم دینے والے بعد میں آئیں گے.اس وقت جو پانچ مشن مغربی ممالک میں ہیں ان میں سے دو میں تو مولوی فاضل مبلغ کام کر رہے ہیں اور تین انگریزی دان ہیں جنہیں دینی تعلیم حاصل نہیں اور ہم نے اُن کو یونہی بھیج دیا ہے.ان کی جگہ ہمیں ایسے لوگ بھیجنے ہوں گے جو عالم ہوں اور ان کو بلا کر یا تو فارغ کرنا پڑے گا اور یا ایسے رنگ میں ان کو تعلیم دینی پرے گی کہ وہ پھر واپس جا کر مشن کا چارج لے سکیں.نئے مشنوں کیلئے ہمیں ابھی سے انتظام کرنا چاہئے کہ یا تو مولوی انگریزی پڑھ سکیں اور یا پھر انگریزی دان عربی اور کی دینیات کی تعلیم حاصل کر سکیں اور یہ سالہا سال کا مسلسل کام ہے.اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اکثر ممالک میں تین چار سال کے عرصہ میں مفت مشن کھول سکیں گے.اب بھی کئی جگہ مبلغین یا تو کلی طور پر اپنا خرچ خود برداشت کر رہے ہیں یا کچھ ہم دیتے ہیں اور باقی وہ خود کماتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ کچھ مزید تجربہ کے بعد کوئی نہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو جائے گی کہ مبلغین اپنے گزارے آپ کر سکیں.صرف تبلیغی لٹریچر یا مبلغین کی ٹرینگ ہمارے ذمہ ہوگی.ان ان کے علا وہ ہندوستان کیلئے ہمیں پیشہ ور مشنری تیار کرنے ضروری ہیں اور یہ چمڑے کے کام ، بوٹ سازی وغیرہ اور لو ہار ترکھان کے کام سکھانے کیلئے جو کارخانہ جاری کیا گیا ہے اس کی غرض یہی ہے کہ ہم اچھے بوٹ ساز ، اچھے لوہار اور اچھے ترکھان پیدا کریں جو دین کے بھی عالم ہوں.تا وہ جہاں جائیں ، خواہ ونی بسلسلہ ملازمت یا اپنے طور پر کام کرنے کیلئے وہ اچھے عالم اور مبلغ بھی ہوں.اس میں شک نہیں کہ ایسے
خطبات محمود ۶۰۳ سال ۱۹۳۷ء - کاموں پر مبلغوں سے زیادہ خرچ آتا ہے کیونکہ ان کو سکھانے کیلئے لکڑی ، لوہا اور چمڑا ضائع کرنا پڑتا ہے.کیونکہ اگر وہ ضائع نہ کیا جائے تو وہ سکھ نہیں سکتے.اس لئے یہ کام بہت اخراجات چاہتے ہیں اور اس کیلئے بہت توجہ کی ضرورت ہے.مگر کچھ تو روپیہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ دوسرے کاموں کی طرف توجہ کی کی وجہ سے ہم اس کی طرف پوری توجہ نہیں دے سکے میرا اراد ہے کہ اس کام کو بھی مستقل بنیاد پر قائم کیا جائے.اور اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو سینکڑوں نوجوان کام پر لگ سکتے ہیں جو ساتھ ہی مبلغ بھی ہوں گے.میں نے سوچا ہے کہ ان سب باتوں کیلئے کم سے کم سات سال کی سہولت ہمیں ملنی چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ ایسا فنڈ قائم ہو جائے کہ سب کام آسانی سے چل سکیں اور مزید چندوں کی بھی ضرورت نہ رہے.اور ہم بغیر چندوں کے ہی اس قابل ہو سکیں کہ ایک طرف تو بیرونی ممالک میں ایسے مبلغ بھیج سکیں جو ماہر دین بھی ہوں اور دوسری طرف سینکڑوں ایسے لو ہار ، ترکھان اور چمڑے کا کام کرنے والے نوجوان پیدا کر دیں جو دین کے عالم بھی ہوں اور جو ہندوستان کی سب منڈیوں میں پھیل جائیں اور اپنا کام کرنے کے علاوہ وہاں قرآن کریم اور احادیث کا درس بھی دے سکیں اور تبلیغ بھی کریں.اسلام کی تبلیغ در اصل اسی طرح ہوئی ہے.ان بزرگوں کے ناموں کو اگر دیکھا جائے جنہوں نے اسلام پھیلایا ہے تو ان کے ناموں کے ساتھ ایسے القاب ہیں کہ فلاں رسیاں بٹنے والا تھا ، فلاں بوٹ بنانے والا تھا، فلاں گھی بیچنے والا تھا.دراصل صوفیاء نے تبلیغ اسلام کا یہ ذریعہ نکالا تھا کہ وہ اپنے کی شاگردوں کو ایسے پیشے سکھاتے کہ وہ اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہو سکیں اور پھر انہیں باہر بھیج دیتے تھے کہ جا کر اپنا کام بھی کریں اور ساتھ تبلیغ اسلام بھی.یہی ایک ذریعہ ہے جس میں اگر ہم کامیاب ہو جا ئیں تو لاکھوں مبلغ مُفت ملک کے کونہ کونہ میں بھیج سکتے ہیں.مردم شماری کے اعداد و شمار کی رو سے جو اس سال شائع ہوئے ہیں ، ہمارے ملک کی آبادی ساڑھے سینتیس کروڑ ہے.اس میں سے اگر نصف بھی مرد ہوں کی تو گویا پونے انیس کروڑ مرد ہیں.ان میں سے اگر آدھے جوان ہوں تو قریباً 9 کروڑ جوان مرد ہیں اور اندازہ کیا گیا ہے کہ ہر سو میں سے کم سے کم ہیں پیشہ ور ہیں اور باقی جو ۸۰ فیصدی ہیں وہ زراعت یا تجارت یا ملازمت کرتے ہیں.گویا ہمارے ملک میں کم سے کم ایک کروڑ اسی لاکھ انسان پیشہ ور ہیں یعنی دھوبی، نائی، درزی، موچی، لوہار، ترکھان وغیرہ.اور اگر ہم پوری کوشش کریں اور ان ایک کروڑ اسی لاکھ میں سے سواں حصہ بھی لے لیں تو بھی گویا ہمارے لئے اس میدان میں ایک لاکھ اسی ہزا را اپنے آدمی کی
خطبات محمود ۶۰۴ سال ۱۹۳۷ء داخل کر دینے کی گنجائش ہے.اور اگر اتنے آدمی سارے ملک میں پھیل جائیں تو ہمیں پچیس سال میں سا را ملک احمدی ہو سکتا ہے اور یہ سکیم ایسی ہے کہ اسے جتنا بھی پھیلایا جائے اتنی ہی کامیابی ہوسکتی ہے.اس کے علاوہ یتیموں اور بیواؤں کی پرورش کا سوال بھی میرے سامنے ہے اور یہ بہت بڑ.ثواب کا کام ہے.اور اس طرح وہ طبقہ جو عام طور پر نظر انداز ہوتا ہے ، وہ نمایاں طور پر آگے آسکتا ہے اور ایسے لوگ دین کے خادم بننے کے علاوہ اپنی روزی بھی کما سکتے ہیں.مگر یہ کام ایسے ہیں کہ جن پر مبلغین کی تیاری سے زیادہ خرچ آتا ہے.کیونکہ اول تو پیشہ ور اُستاد بہت مشکل سے ملتے ہیں اور پھر یہ کام سکھانے کیلئے بہت سا سامان ضائع کرنا پڑتا ہے.اس لئے جب تک اس سکیم کو ایسا مکمل نہ کر لیا جائے کہ یا اپنا بوجھ خود اٹھا لے اُس وقت تک کامیابی مشکل ہے.شروع میں اس سکول میں نو طالب علم لئے کی گئے تھے اور میرا خیال تھا کہ ہر سہ ماہی پر ہم مزید نوٹ کے لیتے جائیں گے اور اگر مزید کامیابی ہوتی تو اس کی وقت اتنی طالب علم ہوتے.مگر اس وقت ہیں صرف ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے جو مشورہ دیا گیا تھا.وہ صحیح نہ تھا اور جتنے عرصہ میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ لڑ کے اپنی روزی کمانے کے قابل ہوسکیں گے وہ غلط تھا.کیونکہ وہ لڑکے ابھی تک بھی اپنی روزی کمانے کے قابل نہیں ہو سکے.دراصل اس قابل ہونے کیلئے تین چار سال درکار ہیں.اور یہ طالب علم جوں جوں کام سیکھتے جائیں گے ، اپنی روزی کمانے کے قابل ہوتے جائیں گے اور اس طرح بیواؤں اور یتیموں کا سوال خود بخود حل ہوتا جائے گا اور مبلغ بھی تیار ہوتے جائیں گے.ان سب باتوں پر غور کر کے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سکیم کو کم سے کم سات سال تک ممتد کیہ جائے.اور اس عرصہ میں ہم کوشش کریں کہ یہ کام اپنا بوجھ آپ اُٹھا سکیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ہمارا اتنا بڑا کارنامہ ہوگا کہ جس کی کوئی مثال موجودہ زمانہ میں نہیں ملی سکے گی.اس میں شک نہیں کہ دیال باغ وغیرہ میں ایسی سکیمیں کامیاب ہو چکی ہیں مگر وہ کوششیں صرف ایک گاؤں کے متعلق ہیں اور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے.مگر ہم نے ساری دنیا میں مبلغ بھیجنے ہیں.ایک گاؤں کی اصلاح کرنا اور بات ہے اور ساری دنیا میں مبلغین کا پھیلانا اور اس کی مثال ایسی ہے ہے کہ کوئی شخص کہے کہ دیکھوں فلاں عورت تو اپنے گھر میں بڑے اطمینان کے ساتھ روٹیاں پکا لیتی ہے اور تم جلسہ سالانہ پر روٹیوں کے انتظامات کیلئے اس قدر گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہو.آگرہ کے پاس ایک
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء گاؤں خاص سکیم کے ماتحت نیا بنالینا اور ساری دنیا میں تبلیغ کیلئے آدمی تیار کرنا اور پھر ان کی علمی اور اخلاقی کی نگرانی کرنا ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے.اس وقت امریکہ میں کئی ایسے سکول ہیں جو دیال باغ کی طرح کام کر رہے ہیں.مگر ہم نے تو دنیا میں مبلغین پھیلانے ہیں.اور پھر ایک بہت بڑی دقت یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تجارتی اور صنعتی کاموں سے واقف نہیں.میں خود جو اس کام کو چلا رہا ہوں زراعت پیشہ ہوں اور نہ معلوم سینکڑوں یا ہزاروں سال سے ہمارا خاندان تجارتی کاموں سے بے تعلق چلا آتا ہے.اس لئے اگر خدا تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب کر دے تو یہ ایک ایسا کام ہوگا جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکے گی.مگر یہ ساری کامیابی توجہ، دیانت داری اور تعاون کو چاہتی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ابھی جماعت میں تعاون کی روح پیدا نہیں ہوئی.عورتوں کے متعلق میں نے ایک سکیم بنائی تھی اور اس کیلئے خود روپیہ دیا تھا اور لجنہ کے ذریعہ کوشش کی تھی کہ غریب عورتیں کام کریں.اور میں جانتا ہوں کہ یہاں بہت سی عورتیں ایسی ہیں کہ جن کو وہ کام کرنا چاہئے تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ گزارہ کیلئے مانگی تو تھیں مگر کام یہ کہہ کر کرنے سے انکار کر دیتی تھی کہ مزدوری تھوڑی ہے.حالانکہ یہاں جو مزدوری ہم دیتے تھے وہ اُس سے ڈیوڑھی تھی جوی امرتسر میں اسی کام کیلئے ملتی ہے.مگر وہ اس اُجرت پر کام نہیں کرتی تھی اور گھر بیٹھی درخواستیں لکھوا لکھوا کر بھیجتی رہتی تھیں کہ ہمیں فلاں ضرورت ہے ، فلاں حاجت ہے، ہماری مدد کی جائے.حالانکہ میں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس کام سے جو آمدنی ہوگی وہ بھی غرباء پر ہی خرچ ہوگی.انہیں تو چاہئے تھا کہ اگر مزدوری کم بھی تھی تو کام کرتیں.امرتسر میں اگر ایک ازار بند بنانے کی اجرت ایک پیسہ ہو اور یہاں صرف دھیلا بلکہ دمڑی ملتی پھر بھی ان کو چاہئے تھا کہ کام کرتیں کیونکہ وہ آمدنی پھر غرباء میں جانی تھی.مگر انہوں نے ڈیوڑھی دگنی مزدوری لے کر بھی کام کرنا پسند نہ کیا.اور یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت تا جر نہیں.ہمارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کام وہ کرنا چاہئے جس میں پورا گزارہ ہو سکے.حالانکہ بہتر یہ ہے کہ جو کام بھی ملے وہ کر لیا جائے اور پوری محنت کرنے کے بعد اور پورا وقت کام کر نے کے باوجودا گر گزارہ نہ ہو تو انسان کا حق ہے کہ امداد کی درخواست کرے.ایک شخص پورا وقت کام کرتا ہے مگر پھر بھی دو روپیہ ہی کما سکتا ہے تو اس کا حق ہو جاتا ہے کہ اس کی باقی ضرورتیں جماعت پوری کرے.کیونکہ جو شخص بتادیتا ہے کہ روزانہ چھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود اسے دور و پے ہی
خطبات محمود ۶۰۶ سال ۱۹۳۷ء مل سکے ہیں وہ سائل نہیں اور اس کا حق ہے کہ جماعت اس کی امداد کرے.لیکن جو اس خیال سے کام ہی نہیں کرتا کہ دو روپے میں اس کا گزارہ نہیں ہوسکتا اور پھر خواہش رکھتا ہے کہ اس کی ضرورتیں جماعت پوری کرے وہ سائل ہے اور سوال کو روکنے کی اسلام نے حد درجہ کوشش کی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اپنی ذمہ واری کو سمجھیں گی اور کوشش کریں گی کہ اس معیار کے مطابق جو چندہ کا میں نے مقرر کیا ہے چندہ دیں.میں جانتا ہوں کہ اگر میں یہ تحریک کرتا کہ کی گزشتہ سال جتنا چندہ دیا گیا ہے اُس سے زیادہ دیا جائے تو جماعتیں یقیناً زیادہ دیتیں.مگر اب کے میں نے کم کیلئے کہا ہے.بعض لوگ سُستی کریں گے اور خیال کر لیں گے کہ شاید اب ایسی ضرورت نہیں رہی.اقوام جب کمی کی طرف آتی تو اُس وقت اُن کا قدم تنزل کی طرف اُٹھا کرتا ہے.اس لئے یہ سال چندہ کی کے لحاظ سے نازک سال ہے.کیونکہ کئی لوگ کمی کا نام سن کر ہی خیال کر لیں گے کہ اب ضرورت نہیں اس لئے کمی کے وقت ہمیشہ یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ بالکل بند ہی نہ ہو جائے.تحریک جدید کے سب سے پہلے سال میں ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کا وعدہ ہوا تھا اور اس سال بھی میں نے کہا ہے کہ اتنی ہی رقم جمع کی جائے.اگلے سال اس سے دس فیصدی کم یعنی ۹۶۰۰۰ ، اس سے اگلے سال اس سے دس فیصدی کم اور اس طرح یہ رقم کم ہوتی جائے گی.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کمی کے لفظ کے ساتھ ہی سستی پیدا ہو جاتی ہے.اگر میں اس سال گزشتہ سال سے زیادہ کی تحریکی کرتا تو میں سمجھتا ہوں مجھے اس کے متعلق دوسرے خطبہ کی ضرورت پیش نہ آتی اور لوگ خود بخود ہی خیال کر لیتے کہ ابھی تک نازک وقت موجود ہے.پہلے سال ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے ہوئے تھے ، دوسرے سال ایک لاکھ سترہ ہزار کے اور تیسرے سال ایک لاکھ ۴۵ ہزار کے اور اگر چہ یہ پورے وصول نہیں ہوئے مگر بہر حال وصولی میں بھی ہر سال پہلے سال سے زیادتی ہوتی چلی گئی ہے اور اگر اب بھی ج زیادہ کی تحریک ہوتی تو یقیناً دوست زیادہ جمع کر دیتے.مگر کمی کی طرف آنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ سستی نہ کریں.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے بقائے صاف کر دیں اور یا پھر معاف کرا لیں.اگر وہ ادا کر سکتے ہوں تو اب بھی کر دیں.اگر چہ اب ادائیگی کا ثواب اتنا تو نہیں ہوسکتا مگر اب بھی ادا کر کے وہ گناہ سے بچ سکتے ہیں اور یقیناً کچھ تو اب بھی حاصل کر سکتے ہیں.اور جو ادا نہ کر سکتے ہوں کم سے کم معاف ضرور کرالیں.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس طرح ایک تو وہ گناہ سے بچ
خطبات محمود ۶۰۷ سال ۱۹۳۷ء جائیں اور دوسرے آئندہ کیلئے انہیں خیال ہو کہ غلط وعدہ نہیں کرنا چاہئے.معافی مانگنے سے انہیں بے احتیاطی سے وعدہ کرنے پر شرم آئے گی اور آئندہ وہ ایسا نہیں کریں گے.اور دوسرے معافی لے لینے سے خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں وعدہ توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا.اور تیسرے میری غرض یہ کہنے سے یہ بھی ہے کہ جو دے سکتا ہے وہ دے دے اور یہ دین کا فائدہ ہے اور جو واقعی نہیں دے سکتے وہ اگر معافی لے کے لیں تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے.پس وہ تمام لوگ جو پہلے سال کا چندہ نہیں دے سکے ، جو دوسرے سال کا نہیں دے سکے اور جو تیسرے سال کا نہیں دے سکے، وہ یا تو معافی لے لیں اور یا ادا کر دیں.تیسرے سال کیلئے تو ابھی بعض کیلئے میعاد باقی ہے.بعض کی معیاد جنوری تک ہے اور بعض کی جون تک.لیکن جو سمجھتے ہیں کہ میعاد کے اندر نہیں دے سکیں گے وہ اب بھی مہلت لے لیں اور جو سمجھتے ہیں کہ بالکل ہی نہیں دے سکیں گے وہ معاف کرا لیں.اس سال کی تحریک کے متعلق میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کمی کا وقت نازک ہوتا ہے اور یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہوتا ہے، اس لئے سستی نہ کریں.گو اس وقت تک جو وعدے آرہے ہیں ان میں سے ایک کافی تعداد ایسی ہے جنہوں نے اب بھی تیسرے سال کے وعدہ سے زیادہ لکھایا ہے اور یہ ایمان کا ایک ایسا مظاہرہ ہے کہ جس کی نظیر دوسری جگہ نہیں مل سکتی.جو لوگ اعتراض کی کرتے ہیں کہ جماعت گر رہی ہے اور دہریت کی طرف جارہی ہے، ان سے میں کہتا ہوں کہ وہ غور کریں کیا یہ دہریوں کی علامت ہے؟ اس وقت جب ہر طرف مالی تنگی ہے ، غلوں کی قیمتیں گر رہی ہیں ، پھر قادیان کے لوگوں پر جبری قرضہ لگا دیا گیا ہے اور ساتھ امانتیں جمع کرانے کی بھی تحریک ہے اور ایسے وقت میں جب انجمن کے کئی لاکھ کے چندے بھی ہیں پھر بھی دوست کہہ رہے ہیں کہ ہم پہلے سے زیادہ دیں گے.کیا یہ دہریوں یا بے دینوں کی علامت ہے؟ نہیں بلکہ یہ چیز بتاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ میں جبکہ خدا تعالیٰ پر بالکل مٹ چکا تھا اور دنیا کو دین پر مقدم کیا جاتا تھا ایک غریب ملک میں جو غیر ملکی لوگوں کے قبضہ میں ہے اور غلام ملک ہے، ایک ایسی زندہ جماعت قائم کی کر دی جو دین کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہے اور یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے.پہلے سال میں نے کی صرف ۲۷۰۰۰ روپے کی تحریک تین سال کیلئے کی تھی اور کئی لوگوں نے کہا تھا کہ جماعت یہ روپیہ کہاں سے دے گی اور صدرانجمن کے چندوں کے بقایوں کی وجہ سے خیال کیا جاتا تھا کہ تین سال کے عرصہ میں بھی
خطبات محمود ۶۰۸ سال ۱۹۳۷ء یہ رقم پوری نہیں ہو سکے گی.مگر تحریک پر ایک ہفتہ بھی نہ گزرا کہ جماعت نے ۲۷۰۰۰ روپیہ نقد جمع کر دیا.یہ ایک ایسا زندہ نشان ہے کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی.کسی معترض کو یہ نظر آئے یا نہ آئے مگر یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر اسے کسی غیر شخص کے سامنے رکھا جائے تو وہ تسلیم کرے گا کہ ایسے مُردہ ملک میں ایک زندہ جماعت ہے.بے شک میں کہتا رہتا ہوں کہ جماعت سستی کرتی ہے مگر یہ نستی نسبتی ہے ، دوسروں کے مقابلہ میں سستی نہیں.میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس معیار کی نسبت سے سستی ہے جس کا خدا تعالیٰ مطالبہ کرتا ہے ، ورنہ دوسری اقوام کی طوعی قربانیوں سے یہ قربانی بہت بڑھ کر ہے.بے شک جماعت کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو فی الواقع شستی کرتا ہے لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جو قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق ہے کہ فَمِنْهُم مَّنْ قَضى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ بعض ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جان دے چکے ہیں یا یہ کہ اپنی نذریں اور وعدے پورے کر چکے ہیں.اور بعض خدا کی راہ میں مرنے کیلئے یا اپنے وعدوں کو وقت آنے پر پورا کرنے کیلئے منتظر ہیں.بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ایک صحابی کے متعلق ہے جو بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہوئے تھے.رسول کریم ﷺ نے کسی مصلحت کی وجہ سے لوگوں کو بتایا نہیں تھا کہ اس موقع پر ایسی سخت جنگ ہونے والی ہے.اس لئے بعض صحابہ شامل نہ ہو سکے.جب صحابہ لڑائی سے واپس آئے اور لڑائی کے حالات سنائے تو ایک صحابی جو انصاری تھے اور بڑے مخلص تھے، وہ سنتے اور انہیں رہ رہ کر غصہ آتا اور بار بار کہتے کہ کاش! میں وہاں ہوتا اور تمہیں بتاتا کہ میں کیا کرتا.سننے والے خیال کرتے تھے کہ انہیں یونہی غصہ آ رہا ہے.آخر اُحد کی لڑائی کا وقت آگیا اور پھر اس کی لڑائی کا وہ موقع آیا جب ایک غلطی کی وجہ سے فتح کے بعد اسلامی لشکر تر بتر ہوگیا اور رسول کریم ہے کے ارد گر د صرف بارہ صحابی رہ گئے.اور پھر ایک ایسار یلا آیا کہ وہ بارہ بھی پیچھے دھکیلے گئے اور رسول کریم کی اکیلے رہ گئے.اور کفار نے پتھر مار مار کر آپ کو بیہوش کر دیا.اُس وقت جو صحابہ آگے بڑھ سکے بڑھے اور شہید ہو ہو کر آپ کے اوپر گرتے گئے اور اس طرح آپ لاشوں کے نیچے دب گئے اور یہ خیال ہو گیا کہ آپ شہید ہو چکے ہیں.لیکن یہ صحابی فتح کے بعد پیچھے ہٹ کر کچھ کھانے میں مشغول ہو گئے تھے اور انہیں ان حالات کا علم نہ تھا.انہوں نے فتح کے وقت شاید یہ خیال کیا کہ اب تو صرف مال میں سے ہی حصہ لینا باقی ہے وہ نہ لیا تو کیا.وہ بھوکے تھے اس لئے ایک طرف جا کر کھجور میں کھانے لگے.انہیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جنگ کا نقشہ پھر بدل گیا ہے.جب یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت اللہ شہید ہو گئے ہیں تو
خطبات محمود ۶۰۹ سال ۱۹۳۷ء رو حضرت عمر جیسا بہادر شخص بھی صبر کھو بیٹھا اور ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگا.وہ صحابی ادھر سے گزرے اور حضرت عمر کو دیکھ کر کہا کہ عمر کیا بات ہے.مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی ہے اور تم بیٹھے ر رہے ہو.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ جنگ کا نقشہ بدل چکا ہے اور حضرت رسول کریمی شہید ہو چکے ہیں.اس کے ہاتھ میں اُس وقت ایک دو کھجور میں باقی تھیں.حضرت عمر سے یہ بات سنی تو کھجوریں پھینک دیں اور کہا کہ عمر ! پھر یہ رونے کا وقت نہیں.جب آنحضرت شہید ہو گئے تو اب ہمارا بھی اس دنیا میں کوئی کام نہیں.چنانچہ انہوں نے تلوار نکال لی اور ہزاروں کے لشکر میں جا گھسے اور شہید ہو گئے.جب اُن کی لاش نکالی گئی تو اُس کے ٹکڑے تھے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخر تک تلوار چلاتے رہے.اس لئے ان کافروں نے غصہ میں آکر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ان کے متعلق ہے.مگر یہ بات غلط ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت کسی خاص آدمی کیلئے ہو.جب تک خدا تعالیٰ خود اس کا اظہار نہ کرے.مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایسے ہی لوگوں کیلئے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں اور بعض اس انتظار میں ہیں کہ کب موقع ملے اور قربان کریں.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں لوگ جماعت میں موجود ہیں.بے شک بعض کمزور بھی ہیں مگر ایسے بھی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ یعنی وہ جو اپنے وعدے پورے کر گئے.اور ایسے لوگوں کی موجودگی کی جماعت کی ترقی کا موجب اور فتح کی ضمانت ہے.وہ لوگ جو اپنے قول کے پکے ہیں، جو خدا تعالیٰ کے دین کیلئے اس کے بعض بندوں کے ہاتھ پر وعدہ کرتے ہیں اور پھر اسے پورا کر کے ہی چھوڑتے ہیں.یہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے میرے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیا.اس لئے ان کی کوششیں نا کام نہیں جانی چاہئیں.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ کمی کے لفظ سے جماعت سستی نہ کرے اور دوسری طرف جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ کام بہت بڑا ہے اور اس میں تعاون کی ضرورت ہے، نہ صرف چندہ کے ذریعہ سے بلکہ کام کے ذریعہ سے بھی.قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.غرباء کیلئے کام مہیا کرنے کی سکیم کا اس میں کیا شبہ ہے کہ پہلا فائدہ قادیان کے لوگوں کو پہنچے گا.اس لئے انہیں اس میں زیادہ قربانی کرنی چاہئے.مثلاً عورتوں کیلئے کام کی سکیم ہے اس کا بڑا فائدہ قادیان کے غریب خاندانوں
خطبات محمود ۶۱۰ سال ۱۹۳۷ء کو پہنچے گا یا کم سے کم جب تک ہم اس سکیم کو باہر نہ پھیلا سکیں ، یہاں کی غریب عورتوں کو ہی اس وقت فائدہ پہنچ سکے گا.پس انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کے فائدہ کی جوسکیم ہے اس میں وہ شوق اور قربانی سے لیں.اگر تھوڑی مزدوری ہے تو بھی ان کو کوئی نقصان نہیں کیونکہ تھوڑی مزدوری سے یہی ہوگا کہ کام میں کی نفع زیادہ ہوگا اور یہ نفع سب کا سب ان پر ہی خرچ ہو گا.کیونکہ میں نے لجنہ اماءاللہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی نفع ہو تو سلسلہ اس میں سے کوئی حصہ نہ لے گا بلکہ یہ نفع بھی غرباء میں تقسیم کیا جائے گا.بلکہ نفع کی صورت میں راس المال کو میں اِنشَاءَ اللہ بڑھاتا جاؤں گا تا یہاں ایک بھی ایسی لاوارث یا بیوہ عورت کی نہ رہے جو بیکار ہو اور جو اپنا گزارہ اچھی طرح نہ چلا سکے.مگر چونکہ میرے ساتھ تعاون نہ کیا گیا اس لئے یہ کام اچھی طرح نہ چلا.پس اس کا کے چلانے کیلئے قادیان والوں کے تعاون کی ضرورت ہے.اس طرح دوسرے کاموں میں بھی تعاون کی ضرورت ہے.کیا ہمارے پیشہ وروں میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو کچھ وقت خرج کر کے ہماری مدد کر سکیں ؟ ہمیں تو یہ پتہ نہیں کہ یہ کام کس طرح جلدی سکھائے جا سکتے ہیں اور کس طرح ان میں بچتیں ہوسکتی ہیں.ہماری مثال تو ان کاموں میں ایسے ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ہاتھ مارے خواہ اُس کا ہاتھ سانپ پر پڑ جائے خواہ ہیرے پر.اس لئے ضروری ہے کہ پیشہ ور دوست تعاون کریں اور ان کاموں کو اپنا رقیب نہ سمجھیں.کیونکہ یہ ان کیلئے بھی نفع کا ہی موجب ہوں گے ، نقصان کا کی نہیں.اگر یہ محکمے ترقی کریں گے تو اس میں ان کی اولادوں کی بھی بہتری ہوگی.کیونکہ پیشہ ور لوگوں کی اولادیں ہی زیادہ تر یہ کام سیکھتی ہیں، کسی کو کیا پتہ ہے کہ کل ہی اس کی موت ہو جائے اور اس کی اولاد کو کی اس کی ضرورت پیش آجائے.یہ محکمے تو اس امر کی ضمانت ہیں کہ کل اگر اس کی اولاد کو ضرورت ہو تو اس کے کام آئیں گے.پس پیشہ ور دوست اپنے اوقات خرچ کر کے مشورے دیں اور امداد کریں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کا موں کو ترقی حاصل ہو جائے.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ جب کسی کا جتھا بن جائے تو اس کی پیشہ کوترقی ہوتی ہے نقصان نہیں.دیکھو! ایک گھر کا ملازم اگر کام چھوڑ دے تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا.لیکن اگر کسی کارخانہ کے مزدور کام چھوڑ دیں اور سٹرائیک کر دیں تو گورنر تک اُن کو منانے کیلئے آتے ہیں.پس یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ اگر ترکھان بڑھ جائیں گے تو مجھے کام کہاں سے ملے گا.وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آبادی بھی اُس وقت تک بڑھ جائے گی اور اس کیلئے کام بھی بڑھ جائے گا.مثلاً اگر کوئی یہ خیال کرے کہ
خطبات محمود ۶۱۱ سال ۱۹۳۷ء ہم اس وقت یہاں دس ترکھان ہیں اگر میں ہو گئے تو ہمارے لئے کوئی کام نہیں رہے گا تو یہ بیوقوفی ہے.وہ یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ کہ اس وقت تک یہاں کی آٹھ ہزار کی آبادی بھی تو سولہ ہزار ہو جائے گی.باتیں اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہیں.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبروں نے تحریک کی کہ جلسہ کے دن بجائے تین کے دو کر دیئے جائیں.کسی نے حضرت خلیفہ اول سے بھی اس کا ذکر کر دیا.آپ کا یہ طریق تھا کہ بعض اوقات جب آپ صدر انجمن احمدیہ پر قابض جماعت پر ناراض ہوتے اور اُن سے کوئی بات کہنا چاہتے تو اُن کی بجائے مجھے مخاطب کر کے کہہ دیتے اور مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں اُن کو پہنچا دوں.جب آپ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے مجھے لکھا کہ میاں ! میں نے سنا ہے اب جلسہ کے دن تین کی بجائے دوکی کر دینے کی تجویز ہے مگر میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ لَا تَخْشِ مِنْ ذِى تَخْشَى اقْلَالاً س یعنی عرش والے خدا سے تم کمی کا خیال کیوں کرتے ہو.لوگ آئیں گے ، ان کے ایمان اور اخلاص میں ترقی کی ہوگی اور اس طرح مال بھی زیادہ آئیں گے.چنانچہ میں نے یہ بات انجمن کو لکھ بھیجی اور جلسہ بجائے دو دن ہونے کے تین دن ہی کیلئے رہنے دیا گیا.پس پیشہ ور خدا تعالیٰ پر کیوں بدظنی کرتے ہیں.ان کاموں کی کی ترقی جماعت کی ترقی ہوگی اور پیشہ وروں کو بھی تقویت ہوگی.یہاں ایک زمانہ میں صرف ایک دو راج ہی تھے مگر اب بیسیوں ہیں.اور خدا تعالیٰ سب کو رزق دیتا ہے اور اس زمانہ کے لحاظ سے اب ان کی آمدنی دُگنی تین گئی ہے.اُس زمانہ میں یہاں مزدور تین چار آنہ روزانہ لیتا تھا اور راج اور ترکھان کی آمدنی آٹھ نو آنہ تھی مگر اب سوا اور ڈیڑھ روپیہ راج اور ترکھان کی اجرت ہے.اور آٹھ نو آ نہ تو مزدور کو مل جاتے ہیں.پیشہ ور اپنی اولادوں کو جو کام سکھا سکتے ہیں ان محکموں میں اس سے بہت بہتر سکھانے کا انتظام ہوگا کیونکہ ہم باہر سے ماہرین بلائیں گے.اس لئے تمام افراد کو پورا پورا تعاون کرنا چاہئے کہ یہ محکمہ مضبوط ہو.تا ہم اس قابل ہوسکیں کہ جلد سے جلد تمام ملک میں مبلغین پھیلا سکیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب رمضان ختم ہونے کو ہے اور شاید دو دن ہی باقی ہوں گے اور رات تو شاید ایک ہی ہوگی اور یہ بات قریباً یقینی ہے کہ اتوار کو عید ہو جائے گی.کیونکہ بعض کے روزے ہفتہ کو میں ہو جائیں گے.بعض جگہ چاند جمعرات کے روز نظر آ گیا تھا اور اس طرح ان کا پہلا روزہ جمعہ کا تھا تو گویا ۲ دن باقی ہیں.انسان کا قاعدہ ہے کہ جب اختتام کا
خطبات محمود ۶۱۲ سال ۱۹۳۷ء وقت قریب ہو تو جلدی جلدی چیزوں کو سمیٹتا اور کام ختم کرتا ہے.اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ ان دو دنوں میں خصوصیت سے دعائیں کریں.قادیان کے لوگوں کیلئے بالخصوص بڑی ذمہ واری ہے.یہاں آبادی کے بڑھ جانے اور امن ہونے کی وجہ سے کئی لوگ سُست ہو گئے ہیں حالانکہ یہ مقام خشیت اللہ کیلئے مرکز بنایا گیا ہے.جب تک انسان خدا تعالیٰ کا خوف پیدا نہ کرے، ایمان سلامت نہیں رہ سکتا.جس طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مدینہ ایک بھٹی ہے جہاں گندہ انسان نہیں رہ سکتا ہے اس طرح یہاں بھی وہ شخص جس کے ایمان میں نقص ہو چھپا نہیں رہ سکتا اور خدا تعالیٰ اسے ضرور ظاہر کر دیتا ہے.وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم ان کو نکالتے ہیں.حالانکہ یہ صحیح نہیں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اُخْرِجَ مِنْهُ الْيَزِيدِيُّونَ - ٥ جس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ یہان یزیدی پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم ان کو نکالتے رہیں گے.ہم کسی کو یزیدی ای نہیں بناتے ہیں وہ خود بنتے ہیں اور ہم وہی کرتے ہیں جو خدا کا حکم ہے یعنی یہ کہ ان کو نکالو.دین کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے میں نے دیکھا ہے کئی لوگ ہیں جن کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ابتلا آ جاتے ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اس وقت ایک بلند مینار پر ہیں اگر یہاں سے گرے تو چکنا چور ہو جائیں گے.جو شخص زمین پر کھڑا ہوا اور گرے تو وہ تو بیچ سکتا ہے مگر جو مینار کے اوپر چڑھتا ہوا گرے اُس کو تو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے.پس قادیان کے لوگوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے.اس لئے انہیں چاہئے کہ بہت دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور باہر والوں کیلئے بھی.باہر کے دوستوں کا مرکز والوں پر حق ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے اکثر کام ان کے چندے سے چلتے ہیں.پھر ان مبلغین کا بھی بہت حق ہے جو باہر کام کرتے ہیں ان کے لئے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں.پس دعائیں کرو اور بہت استغفار کرو اور رمضان شریف کا اِس قد رثمرہ ہی لے لو کہ آئندہ کیلئے یہ نیت کر لو کہ اپنے اوپر ابتلاء کبھی نہیں آنے دو گے.آخر ایسے لوگ ہوتے ہی ہیں جو ابتلاء نہیں آنے دیتے.پھر کیوں تم ویسے نہیں بن جاتے.اس کیلئے صرف نیت کی ضرورت ہے.اگر ایک دفعہ نیت کر لی جائے تو پھر آدمی ٹھوکر سے بچ سکتا ہے اور اسے ہدایت مل ہی جاتی ہے.ہزاروں لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت ہوئی مگر وہ ایمان اس لئے نہ لا سکے کہ ٹھوکر سے نہ بچ سکے.وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ احمدیت سچی ہے مگر انتظار کرتے رہے.
خطبات محمود ۶۱۳ سال ۱۹۳۷ء احرار کی شورش ہوئی تو خیال کر لیا کہ ذرا ٹھہر جائیں، دیکھ لیں اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اور پھر انہیں موقع نہ ملا.کئی ایسے لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ذرا ٹھہر جاؤ.بعض اوقات مرنے سے پہلے شدید ترین دشمن ہو جاتے ہیں.لاکھوں آدمی ایسے ہیں کہ جن پر صداقت کھل چکی اور اگر وہ یہ نہ کہتے کہ اب ٹھہر جاؤ تو کبھی ٹھو کر نہ کھاتے.مجھے کئی ایسے لوگ معلوم ہیں جو دس پندرہ سال پہلے سلسلہ کے بہت قریب تھے مگر اب کی شدید ترین دشمن ہیں.اور صرف چند روز کے توقف نے ان کو ہدایت سے محروم کر دیا.انہوں نے چونکہ ہدایت کی قدر نہ کی ، اس لئے اس سے محروم ہو گئے.اسی طرح مومنوں میں سے بھی بیسیوں ایسے لوگ ی ہوتے ہیں کہ جو ابتلاء میں آجاتے ہیں.صرف اس لئے کہ وہ ارادہ نہیں کرتے کہ اپنے اوپر ابتلاء نہیں کی آنے دیں گے.جب کوئی شخص ایسا ارادہ کر لے تو خدا تعالیٰ اسے ضرور بچالیتا ہے.کیونکہ جو یہ کہے کہ خدایا ! میں تیرا دامن پکڑتا ہوں اسے خدا تعالیٰ کبھی دھکا نہیں دیتا.ایسا کرنا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.جب سے آدم پیدا ہوئے اُس وقت سے لے کر اب تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کا دامن پکڑے اور کہے کہ میں ٹھو کر اور ابتلا میں نہیں پڑوں گا ، اور خدا تعالیٰ نے اسے ٹھوکر سے نہ بچایا ہو.پس یہ بہت نازک دن ہیں.رمضان کے باقی وقت سے فائدہ اُٹھاؤ اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ابتلاؤں سے بچائے اور تو بہ کرو تا ٹھو کر نہ کھاؤ.جن لوگوں نے ٹھو کر کھائی ہے وہ اگر یہ خیال کرتے کہ اگر وہ سب ای باتیں بھی صحیح ہیں جو وہ سمجھتے ہیں تب بھی ہم دوسروں کیلئے ٹھوکر کا موجب کیوں نہیں.یہ سلسلہ آخر میرا تو ہے نہیں.یہ تو خدائی سلسلہ ہے اور جو مجھ سے عداوت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے سلسلہ سے دشمنی کرتا ہے وہ اپنے جرم کا خود اقرار کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر اسے ایمان نہ تھا.پس اپنے ایمانوں کو خدا تعالیٰ کیلئے بناؤ.پھر جس کے متعلق تمہیں بدظنی ہے اگر وہ بُرا ہے تو خدا تعالیٰ اسے بھی اچھا بنادے گا.اور اگر اس میں وہ عیب نہیں ہے تو تمہیں ٹھوکر سے بچالے گا.پس بہت دعائیں کرو اور استغفار کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کیلئے ٹھوکر نہ بنائے.تم خدا تعالیٰ کی اپنے گھر بار اور عزیزوں رشتہ داروں کو چھوڑ کر آئے ہو اور اگر یہاں آکر بھی کسی ٹھوکر کا شکار ہو جاؤ تو کس قدر بدنصیبی ہے.اس لئے نیت کر لو کہ کسی ٹھوکر کا شکار نہ ہوگے اور بہت استغفار کرو.اگر تمہارے دل پر میل بھی لگ گئی ہوگی تو خدا تعالیٰ کا ہاتھ اسے دور کر سکتا ہے.تمہارا ہاتھ تمہارے دل تک نہیں پہنچ سکتا مگر خدا تعالیٰ کا پہنچ سکتا ہے.اس لئے اُسی کے آگے عجز و انکسار سے جھک جاؤ تا وہ تمہیں اچھا نمونہ
خطبات محمود ۶۱۴ سال ۱۹۳۷ء بنادے اور باہر سے آنے والے تم سے ٹھو کر نہ کھائیں بلکہ تمہیں دیکھ کر ان کے ایمان مضبوط ہوں.الاحزاب: ۲۴ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء شمائل ترمذی باب ماجاء في خُلق رسول الله الا الله بخاری کتاب فضائل المدينة باب المدينة تنفى الخبث تذکرہ صفحہ ۱۷۶.ایڈیشن چہارم الفضل ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۷ ء )
خطبات محمود ܬܙܖ سال ۱۹۳۷ء ۳۸ جلسہ سالانہ کی اہمیت اور برکات (فرموده ۱۰؍ دسمبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سب سے پہلے تو میں جماعت کے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب دسمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور آج اس کا دوسرا جمعہ ہے.اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اس کے کی الہام اور وحی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کا ایک اجتماع مقرر فرمایا ہے.یہ اجتماع ۲۶ - ۲۷ - ۲۸ دسمبر کو ہوا کرتا ہے اس اجتماع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ جماعت کے وہ تمام دوست جن کا ان دنوں یہاں پہنچنا ممکن ہو اس موقع پر جمع ہوا کریں.اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سننے یا سنانے میں شامل ہوا کریں جو ان دنوں یہاں کیا جاتا ہے.ابھی تک ہمارے ملک میں وسائلِ سفر اتنے آسان نہیں جتنے کہ یورپ میں آسان ہیں.اور ہندوستان کے باہر تو کئی ممالک میں ان وسائل میں اور بھی کمی ہے جیسے افغانستان ہے یا ایران ہے یا ہندوستان سے باہر کے جزائر ہیں.پھر ابھی تک ہماری جماعت میں ایسے لوگ شامل نہیں جو مالداری ہوں.اور جو دُور دراز ممالک سے جبکہ ہوائی جہازوں کی آمد ورفت نے سفر کو بہت حد تک آسان کر دیا ہے، جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچ سکیں.لیکن اگر ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوں تو ان دور دراز ممالک کے لوگوں کیلئے بھی جہاں ہر قسم کے وسائل سفر آسانی سے میسر آ سکتے ہیں، یہاں پہنچنا کوئی مشکل نہیں رہتا.اور زیادہ سے زیادہ ان کیلئے روپیہ کا سوال رہ جاتا ہے.مگر ایسے لوگ ابھی ہماری
خطبات محمود ۶۱۶ سال ۱۹۳۷ء جماعت میں بہت کم ہیں یا حقیقتا بالکل ہی نہیں.ہماری جماعت کا بیشتر حصہ اس وقت ہندوستان میں ہے اور اس میں سے بھی زیادہ تر مردوں کی ایک تعداد ہے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچ سکتی ہے.پس جو پہنچ سکتے ہیں انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ساری جماعت کی طرف سے اُن پر ایک خاص ذمہ داری ہے جسے ادا کرنے کی کوشش ان کا اولین فرض ہے.اور یہ کہ جبکہ ساری جماعت اس موقع پر نہیں پہنچ سکتی تو ہر علاقہ کے مردوں، عورتوں اور بچوں میں سلسلہ کی روح کو زندہ رکھنے کیلئے جو پہنچ سکتے ہیں انہیں سو کام کا ن حرج کر کے بھی آنا چاہئے تا ان کا آنا دوسروں کے نہ آ سکنے کے نقصان کا ازالہ کر دے.دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ترقی کے شروع ہونے پر سست ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں اب جماعت بہت ہوگئی.ایسے لوگوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کیلئے جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچنا ممکن ہے اگر یہاں آنے میں کوتا ہی کرتا ہے تو اس کا لازمی اثر اس کے ہمسایوں اور اس کی اولاد پر پڑے گا.میں نے دیکھا ہے جو دوست سال بھر میں ایک دفعہ بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان آجاتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو ہمراہ لاتے ہیں ان کی اولادوں میں احمدیت قائم رہتی ہے اور گوان بچوں کو احمدیت کی تعلیم سے ابھی واقفیت نہیں ہوتی مگر وہ اپنے والدین سے یہ ضروری کہتے رہتے ہیں کہ ابا ! ہمیں قادیان کی سیر کیلئے لے چلو.اس طرح بچپن میں ہی ان کے قلوب میں احمدیت گھر کرنا شروع کر دیتی ہے اور آخر بڑے ہو کر وہ اپنی احمدیت کا شاندار نمونہ پیش کرنے پر قادری ہو جاتے ہیں.پھر بچوں کے ذہن کے لحاظ سے بھی جلسہ سالانہ کا اجتماع ان پر بڑا اثر کرتا ہے.بچہ ہمیشہ غیر معمولی چیزوں اور ہجوم سے متاثر ہوتا ہے.پس جلسہ سالانہ پر آکر وہ نہ صرف ایک مذہبی مظاہرہ دیکھتا ہے بلکہ اپنی طبیعت کی جدت پسندی کے لحاظ سے بھی تسلی پاتا ہے اور یہ اجتماع اس کیلئے ایک دلچسپ اور یا در رکھنے والا نظارہ بن جاتا ہے.غرض جو باپ جلسہ پر آتے ہیں وہ اپنی اولاد کے دل میں بھی یہاں آنے کی کی تحریک پیدا کر دیتے ہیں.اور کبھی نہ کبھی ان کے بچے کا اصرار بچے کو جلسہ پر لانے کا محرک ہو جاتا ہے.جس کے بعد دوسرا قدم وہ اُٹھتا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.پس ان ایام میں قادیان آنا کسی ایسے بہانے یا عذر کی وجہ سے ترک کر دینا جسے توڑا جا سکتا ہو یا جس کا علاج کیا جاسکتا ہو، صرف ایک حکم کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد پر بھی ظلم ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی مالدار لوگ داخل نہیں
خطبات محمود ۶۱۷ سال ۱۹۳۷ء اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جلدی سے جانے کیلئے جو وسائل سفر ہیں وہ اتنا خرچ چاہتے ہیں کہ بیرونی ممالک کے احمدیوں کیلئے ان ایام میں قادیان پہنچنا مشکل ہے.لیکن اگر کسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مالدار ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں یا سفر کے جو اخراجات ہیں ان میں بہت کچھ کمی ہو جائے اور ہر قسم کی سہولت لوگوں کو میسر آجائے تو دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ اس موقع پر آئیں گے.اگر کسی وقت امریکہ میں ہماری جماعت کے مالدار لوگ ہوں اور وہ آمد و رفت کیلئے روپیہ خرچ کر سکیں تو و حج کے علاوہ ان کیلئے یہ امر بھی ضروری ہوگا کہ وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آئیں.کیونکہ یہاں علمی برکات میسر آتی ہیں اور مرکز کے فیوض سے لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ دور دراز ممالک کے لوگ یہاں آئیں گے.چنانچہ حضرت کی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک رؤیا ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں اور فرماتے ہیں عیسی تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے، لیے اس رویا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جس طرح قادیان کے جلسہ پر کبھی یکے سڑکوں کو گھسا دیتے تھے اور پھر موٹریں چل چل کر سڑکوں میں گڑھے ڈال دیتی تھیں اور اب ریل سواریوں کو کھینچ کھینچ کر قادیان لاتی ہے، اسی طرح کسی زمانہ میں جلسہ کے ایام میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر یہ خبریں بھی ملا کریں گی کہ ابھی ابھی فلاں مُلک سے اتنے ہوائی جہاز آئے ہیں.یہ باتیں دنیا کی نظروں میں عجیب ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں عجیب نہیں.خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دین کیلئے مکہ اور مدینہ کے بعد قادیان کو مرکز بنانا چاہتا ہے.مکہ اور مدینہ وہ دو مقامات ہیں جن سے رسول کریم ہے کی ذات کا تعلق ہے.آپ اسلام کے بانی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آقا اور استاد ہیں.اس لحاظ سے ان دونوں مقامات کو قادیان پر فضیلت حاصل ہے.لیکن مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے وہ وہی ہے جو رسول کریم ہے کے کل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے اور جو اس وقت تبلیغ دین کا واحد مرکز ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت با برکت مقام ہونے کے علاوہ تبلیغی مرکز بھی تھے آج وہاں کے باشندے اس فرض کو بھلائے ہوئے ہیں.لیکن یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی.مجھے یقین ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں احمدیت کو قائم کرے گا تو پھر یہ مقدس مقامات اپنی اصل شان و شوکت کی طرف کو ٹائے
خطبات محمود ۶۱۸ سال ۱۹۳۷ء جائیں گے اور پھر یہ تعلیم اسلام اور تبلیغ کا مرکز بنائے جائیں گے.اور جب بھی احمدیوں کی طاقت کا وقت آئے گا اُن کا پہلا فرض ہے کہ ان پاک شہروں کو ان کا کھویا ہوا حق واپس دینے کی تدبیر کریں اور ان کی اصلی شان کو واپس لائیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو دی گئی ہے.لیکن جب تک وہ دن نہیں ہے آتا اُس وقت تک محض قادیان ہی تبلیغ و اشاعت دین کا مرکز ہے.مکہ ہماری عبادت کا مرکز ہے.مکہ ہماری محبت اولی کا مرکز ہے اور مدینہ بھی ہمارے بہت سے تبرکات اور محبت اولی کا مرکز ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اس زمانہ میں اس عظیم الشان فرض کو کھلا دیا ہے جس کیلئے ملکہ اور مدینہ کے مرکز خدا تعالیٰ نے قائم کئے تھے اور وہ فرض اس وقت قادیان سے ادا ہو رہا ہے یعنی دنیا میں تبلیغ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی اشاعت کا فرض.لیکن وہ دن دور نہیں گو ہمارے خیالات اور واہمہ سے دور ہو مگر خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے لحاظ سے دور نہیں کہ پھر یہ دونوں مرکز نہ صرف عبادت یا محبت کا مرکز ہوں بلکہ تبلیغ اور اشاعت دین کے بھی مرکز ہوں.غرض رسول کریم ہے کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے جو عبادت کا مرکز قائم کیا وہ مکہ ہے اور مدینہ ہماری محبت اولی کا مرکز ہے مگر تبلیغ اور اشاعت دین کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں ایک ہی مرکز ہے جو قادیان ہے اور اس سے وابستگی ہر مومن کیلئے ضروری ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا کے گوشوں گوشوں سے ہوائی جہازوں کے ذریعہ یا بعض اور سواریوں کے ذریعہ سے جو ابھی ہمیں معلوم بھی نہ ہوں لوگ قادیان آئیں گے اور ساری دنیا کی احمدی جماعتیں اُس وقت قادیان میں اکٹھی کی ہوں گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بعینہ وہ سارے الہامات ہوئے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مکہ کے قیام کے وقت ہوئے تھے.مثلا آپ کو الہام ہوا يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَحَ عَمِيقٍ.عمیق سے پھر الہام ہوا يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ - یعنی خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت ہر ایک یے دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ راستے لوگوں کے بہت چلنے کی وجہ سے گہرے ہو جائیں گے.اسی طرح اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گی.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خبر دی گئی تھی کہ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَّ عَلَى كُلِّ ضَامِرٍ یہ الہام بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوا اور آپ کو بتایا گیا کہ ہرقسم کی اونٹنی پر سوار ہوکر لوگ یہاں آئیں گے.مگر اس جگہ ہر قسم کی اونٹنی سے مراد اونٹنیاں نہیں بلکہ ہر قسم کی
خطبات محمود ۶۱۹ سال ۱۹۳۷ء سواری مراد ہے.پس ہماری جماعت کو یہ مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر نہ صرف خود آنا چاہئے بلکہ اپنے ہمسائیوں ، اپنے عزیزوں اور اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لانا چاہئے.مگر اس کے ساتھ یہ امر بھی یادرکھنا چاہئے کہ ان ایام میں بے احتیاطیاں دل کو زیادہ سخت کر دیا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے مقدس مقامات کا احترام کرانا چاہتا ہے اور ہر شخص جو ان مقامات کا احترام نہیں کرتا اُس کی سرزنش کا مستحق ہوتا ہے.جس طرح قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر آنا برکات کا موجب ہوتا ہے اسی طرح یہاں آنا اور پھر اپنے اوقات کا حرج کرنا اور انہیں علمی باتوں کے سننے میں صرف کرنے ہو مقدس مقامات کی زیارت کرنے کی بجائے رائیگاں کھو دینا دل پر زنگ لگا دیتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ جب وہ جلسے پر آئیں تو یہ اقرار کر کے آیا کریں کہ ہم محض رسم پوری کرنے نہیں چلے بلکہ ہم وہاں خدا کا ذکر کریں گے.جب جماعت میں بیٹھیں گے تب بھی اس کا ذکر کی کریں گے اور جب علیحدہ ہوں گے تب بھی اس کا ذکر کریں گے.جماعتی ذکر ہمیشہ مجلس میں ہوتا ہے.انسان باتیں سنتا ہے تو نصیحت حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف اس کے قلب کا میلان ہو جاتا ہے.لیکن انفرادی ذکر الگ الگ ہوتا ہے.دنیا میں چونکہ بعض طبائع ایسی ہیں جو اس وقت ذکر کی طرف توجہ قائم رکھ سکتی ہیں جب خود ذکر میں شامل ہوں اور بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں سے ذکر سنیں تو ذکر میں مشغول ہو جاتی ہیں نہ سنیں تو وہ بھی ذکر چھوڑ بیٹھتی ہیں.اس لئے جماعتی اور انفرادی دونوں کی ذکر انسانی اصلاح کیلئے ضروری ہیں اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نمازوں میں جمع کر دیا ہے.دیکھو ظہر اور عصر میں اس طرح نماز پڑھی جاتی ہے کہ ہر شخص اپنا انا ذکر کر رہا ہوتا ہے.امام خاموشی سے اپنے طور پر ذکر کر رہا ہوتا ہے اور مقتدی اپنے طور پر.پھر جب خاموش طور پر دُعا کی جاتی ہے تو ہر ایک کی دعا الگ الگ ہوتی ہے لیکن مغرب، عشاء اور فجر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ طریق مقرر کر دیا کہ جب امام سورۃ کی فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورۂ فاتحہ پڑھو.مگر جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو.غرض قرآن کریم کے سننے میں ہم امام کے تابع ہوتے ہیں اور سورہ فاتحہ میں بھی ہم اس رنگ میں اس لئے تابع ہوتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب ملائکہ اور نمازیوں کی کی آمین ایک ہو جائے تو اُس وقت دعا قبول ہو جاتی ہے.2ے اب ہمیں کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ ملائکہ اور نمازیوں کی آمین ایک ہوئی ہے یا نہیں اور اگر ہوئی ہے تو کس وقت؟ سو یا درکھنا چاہئے کہ ملائکہ کی آمین
خطبات محمود ۶۲۰ سال ۱۹۳۷ء تابع ہوتی ہے امام کی آمین کے اور اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ امام کے ساتھ چلتے ہیں انہی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہے پھر دعائیں ہیں.شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ امام نماز میں بلند آواز دعائیں مانگے اور مقتدی آمین کہیں.چنانچہ رسول کریم ہے بعض دفعہ مہینوں اس رنگ میں دعائیں کرتے تھے تو نماز میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا طریق رکھا ہے کہ بعض جگہ لوگوں کو کلیہ امام کے تابع کر دیا ہے.امام کہتا الله اكبر اور مقتدی بھی کہتا ہے اللہ اکبر.امام رکوع میں جاتا ہے تو مقتدی بھی رکوع میں چلا جاتا ہے.امام سجدہ میں جاتا ہے تو مقتدی بھی سجدہ میں جھک جاتا ہے.لیکن جو خاموشی کا حصہ ہوتا ہے اس میں ہر شخص آزاد ہوتا ہے اور ہمیں نظر آتا ہوتا ہے کہ مقتدی کچھ کہ رہا ہوتا ہے اور امام کچھ.تو دونوں قسم کی عبادتیں خدا تعالیٰ نے نماز میں رکھ دی ہیں.ایسی بھی جن میں اسے حکم ہے کہ امام کے ساتھ ساتھ کی چلے اور ایسی بھی جو مستقل ہیں اور جن میں اپنے طور پر جو جی چاہے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگ سکتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں طبائع کا علاج کر دیا ہے.اُن کا بھی جو دوسروں کو ذکر میں مشغول دیکھ کر ذکر کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور ان کا بھی جنہیں اُس وقت عبادت میں لذت آتی ہے جب وہ علیحدہ کی ہوں.چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مجلس میں دعا کرتے وقت رقت آتی ہی نہیں مگر بعض ایسے کی ہوتے ہیں کہ جونہی وہ کسی کی چیخ سنتے ہیں ان کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں.پہلے انہیں جوش نہیں آتا لیکن دوسرے کا جوشِ گر یہ دیکھ کر بے اختیار خود بھی رو پڑتے ہیں.یہ کوئی بُری بات نہیں مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ایک عادت ہے جو بعض لوگوں کو ہوتی ہے اور انہی لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز کا ایک حصہ جہری بھی رکھا ہے تا دوسروں کی تاثیر کو دیکھ کر ان میں روحانیت کے حصول کا جوش اور ولولہ پیدا ہو.پس جلسہ سالانہ میں بھی دونوں قسم کی عبادتیں کرنی چاہئیں.یعنی دوستوں کو چاہئے کہ جب تک وہ جلسہ گاہ میں رہیں لیکچر سنیں.احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں.قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے ارشادات سے آگاہی حاصل کریں اور جب جلسہ سے فارغ ہوں تو نمازیں پڑھیں، دعائیں کریں، مقامات مقدسہ کی زیارت کریں اور اُن آدمیوں سے ملیں جن سے مل کر ان کے ایمان کو تقویت حاصل ہو.مگر اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور نہ کھیل کو د اور لغو کاموں میں اسے رائیگاں جانے دیں.اسی طرح جو غیر احمدی دوست باہر سے آتے ہیں ان کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے.ہر شخص
خطبات محمود ۶۲۱ سال ۱۹۳۷ء جو کسی کو اپنے ساتھ لاتا ہے وہ اس کی رعیت ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " کہ تم میں سے ہر شخص رائی ہے اور ہر شخص نگران ہے.ہر شخص گڈریا ہے.ہر شخص محافظ ہے.ہر شخص بادشاہ ہے.وَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ اور تم میں سے ہر شخص اپنے رعیت کے متعلق جس کی نگرانی جس کی بادشاہت اور جس کی حفاظت اس کے سپرد کی گئی ہے ، سوال کیا جائے گا.اور اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے کیا نگرانی کی.تو ہر شخص جو کسی غیر احمدی کو اپنے ساتھ لاتا ہے وہ اس کا نگران ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ یہ خیال رکھے کہ اُس کا وقت صحیح طور پر خرچ ہوا ور مفید کاموں میں خرچ ہو.وہ یہاں سے جاتے وقت برکت اپنے ساتھ لے جائے.اگر کوئی شخص کسی غیر احمدی کو اپنے ساتھ لاتا ہے مگر پھر اسے چھوڑ دیتا ہے اور وہ ایسے مقامات پر جاتا یا ایسی صحبت میں بیٹھتا ہے جہاں سے وہ بُر.اثرات سے متاثر ہو جاتا ہے.تو یہ تو وہی مثال ہوگی کہ ھے یکے نقصان مایه و دگر شماتت ہمسایہ اُس نے روپیہ بھی اس پر ضائع کیا اور پھر اپنے لئے ایک خار اور کانٹا بھی پیدا کرلیا.اسی طرح میں قادیان کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ گو یہ نصیحت ہر سال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر چونکہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے احکام لوگوں کی یاد دہانی کیلئے دُہراتا رہتا ہے اور ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم اُس کی صفات کی نقل کریں، اس لئے میں بھی اس سنت میں اس نصیحت کو دُہراتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے کی فضل سے جوں جوں جلسہ سالانہ پر لوگوں کی آمد بڑھتی چلی جاتی ہے اسی طرح قادیان والوں پر ان کی ذمہ واری بھی بڑھتی جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہر سال قادیان کی آبادی بڑھا تا چلا جاتا ہے.ورنہ جتنا اجتماع جلسہ سالانہ پر اب ہوا کرتا ہے اگر اس کے مقابلہ میں قادیان کی آبادی اتنی ہی رہتی جتنی پرانی آبادی تھی تو غالباً وہی طریق ہمارے ہاں بھی رائج ہو جاتا جو پرانے عرسوں پر رائج ہے کہ ایک وقت کی اور وہ بھی مقررہ روٹی لوگوں کو دے دیتے ہیں.یعنی ایک دو روٹیاں ہوتی ہیں اور ان پر ی کچھ سالن رکھا ہوا ہوتا ہے اور پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے بس اتنا ہی ہو سکتا ہے، باقی انتظام آپ خود کر لیں.اگر یہاں بھی اتنے ہی آدمی رہتے جتنے پرانی آبادی کے وقت ہوا کرتے تھے تو غالبا جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو ہمیں ایک وقت کی روٹی دینی بھی مشکل ہو جاتی.مگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسا توازن رکھا ہوا ہے کہ ادھر جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی تعداد بڑھاتا ہے تو ادھر قادیان کی
خطبات محمود ۶۲۲ سال ۱۹۳۷ء آبادی کو بھی بڑھا دیتا ہے.پس یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے گھر جوں جوں بڑھتے ہیں ان کی ترقی میں ایک حصہ ان مہمانوں کا بھی ہوتا ہے جو جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور ہمارے جس قدر اوقات ہیں ان میں بھی ایک حصہ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کا ہوتا ہے.اس لئے قادیان کے دوستوں کو اپنے مکانات کی جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے پیش کرنے میں کسی قسم کا بخل نہیں کرنا چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کسی کا کوئی نیا مکان بنا ہوا ہو تو اُس کے دل کو یہ بُرا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکان اور لوگوں کے استعمال کیلئے دے دے.لیکن اس میں بُرا محسوس ہونے کی کوئی بات نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو چیز خدا تعالیٰ کے ر.میں خرچ کرنے سے انسان ڈرے وہ چیز رکھنے کے قابل ہی نہیں ہوتی.دنیا میں تمام فتنے اسی نقص کی وجہ ان سے پیدا ہوتے ہیں.اسی نقص کی وجہ سے امراء غرباء کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے اور یہی چیز قوم میں تفرقہ پیدا کرتی اور امراء وغرباء میں ایک دیوار حائل کر دیتی ہے.پھر وہ مکان جس کو انسان خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے پیش نہ کر سکے وہ اسے برکت کیا دے گا.اس نے تو اسے خدا تعالیٰ کے دین کی کی خدمت سے محروم کر دیا.اگر وہ مکان اس نے نہ بنایا ہوتا تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہوتا.کیونکہ جب تک اس نے مکان نہیں بنایا تھا اس کے دل میں کوئی وسوسہ نہیں تھا.اُسے خدمت دین سے کوئی اعراض نہیں تھا.مگر جونہی اُس نے مکان بنالیا اُس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونے لگ گیا کہ اگر میں نے مکان دیا تو ی یہ خراب ہو جائے گا.میں نے جب دارالانوار کا مکان بنایا تو پہلے سال مجھ سے کئی دوستوں نے کہا کہ یہ مکان جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو نہ دیا جائے ، خراب ہو جائے گا.گو میں نے انہیں کہا کہ میں تو اس مکان کو آگ لگانے کیلئے تیار ہوں جس مکان کے متعلق میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر میں نے اسے خدمت دین کیلئے دیا تو وہ خراب ہو جائے گا.چنانچہ میں نے دوستوں سے کہا کہ سب سے پہلے اس مکان کو جلسہ سالانہ کے لئے استعمال کرو تا کہ ان کے ٹھہرنے کی وجہ سے اس میں برکت پیدا ہو جائے.چنانچہ پہلے وہ لوگ رہے اور پھر ہم کچھ عرصہ کیلئے وہاں گئے.گو بعد میں وہاں سے گاتی طور پر واپس آگئے.تو میں نہیں سمجھ سکتا وہ مکانات اور وہ چیزیں ہمارے لئے کسی قسم کی برکت کا بھی موجب ہوسکتی ہیں جن کے متعلق ہمیں یہ خیال ہو کہ اگر ہم نے انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کیا تو وہ خراب ہو جائیں گی.ایسے مکانات توی انسان کیلئے رحمت کا موجب نہیں بلکہ وبال اور عذاب کا موجب ہیں اور جس طرح عذاب لینے کیلئے کوئی
خطبات محمود ۶۲۳ سال ۱۹۳۷ء شخص تیار نہیں ہوتا اسی طرح ایسے مکانات میں رہنے کیلئے بھی کوئی با غیرت مومن تیار نہیں ہوسکتا.حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز بُری نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کو جو نا واجب اہمیت دی جاتی ہے وہ اسے بر ابنا دیتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص اپنے بچے کو علم سکھائے.اب علم سکھا نابُرا کام نہیں لیکن اگر وہ اسے علم سکھاتا ہے اور پھر اسے سنبھال کر گھر میں رکھ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے دین یا اس کی مخلوق کی ہمدردی اور فائدہ کے لئے قربانی کرنے سے اس لئے روکتا ہے کہ اس قدر محنت کے بعد میرا بچہ ضائع نہ ہو جائے ، تو وہ ایک بُرا کام کرتا ہے.لیکن اگر وہ اسے علم سکھا کر اس لئے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے تا وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو علم سکھائے اور انہیں دین سے واقف کرے اور دین کیلئے ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لے تو یہی علم اس کیلئے برکت کا موجب بن جائے گا.اسی طرح اگر کوئی شخص اس لئے کی یہاں مکان بنا تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے وَسِعُ مَكَانَكَ کے اپنے مکانات کو وسیع کرو.تو وہ ان برکات سے حصہ لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قادیان سے مخصوص کی ہیں.لیکن اگر کوئی شخص اس نیت سے مکان نہیں بناتا بلکہ اپنی شان اور اپنی عظمت کے اظہار کیلئے ایک مکان بنادیتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے پیش کرنے سے ہچکچاتا ہے.تو وہ مکان اس کیلئے برکت کا نی موجب ہر گز نہیں ہوسکتا.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو یہ الہام ہوا ہے کہ وَسَ مگانک مگر اس کا کیا سبب ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کی خرابی کا وقت وہ ہو گا جب اس کی میں بڑے بڑے مکانات بن جائیں گے.سو اس کی وجہ یہی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے مکانوں کی وسعت کا حکم دیا تو ان مکانوں سے وہ مکان اس نے مراد لئے جو خدمت دین کیلئے بنائے جائیں جن کو پیش کرتے وقت انسان یہ نہ کہے کہ دیکھنا ! مکانوں پر میل نہ لگ جائے ، دیکھنا ! فرش پر گرد نہ پڑ جائے، دیکھنا ! دیواروں پر کوئی تھو کے نہیں.مگر جب رسول کریم اللہ نے کی یہ خبر دی کہ مدینہ اس وقت خراب ہو گا جب اس میں بڑے بڑے مکانات بن جائیں گے تو ان مکانات سے وہ مکانات مراد تھے جن میں دین کا کوئی حصہ نہ تھا اور جنہیں ان کے مالکوں نے خدمت دین کیلئے پیش کرنے کی بجائے اپنے ذاتی آرام و آسائش کیلئے وقف کر لینا تھا.پس یہ دونوں باتیں الگ الگ مکانات کیلئے ہیں.جو مکانات خدا تعالیٰ کے دین کی ضروریات کے لئے وقف کر دئیے جائیں اور جن کی
خطبات محمود ۶۲۴ سال ۱۹۳۷ء مکانات کا قومی ضروریات کے پیش آنے پر دے دینا کسی کو گراں نہ گزرے، ایسے مکانات یقیناً با برکت ہیں اور وہ جتنے بھی بڑھتے جائیں اُتنا ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ہاں جو مکان ایسا ہو کہ اُس کا خدمت دین کیلئے پیش کرنا انسان کو دوبھر ہو یا غریبوں کو دینا انسان پر شاق گزرتا ہو تو وہ مکان رحمت کی بجائے انسان کے لئے لعنت بن جاتا ہے.پس دوستوں کو جہاں تک ہو سکے جلسہ سالانہ کیلئے اپنے مکانات دینے چاہئیں اور انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جس وقت بھی خدا تعالیٰ نے انہیں قادیان میں مکان بنانے کی توفیق دی تھی تو اسی لئے دی تھی تو کہ وہ اپنا مکان خدمت دین کیلئے پیش کر کے ہر سال زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرتے رہیں.پھر اس موقع پر اپنے نفوس کو بھی خدمت دین کیلئے پیش کرنا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ انسان جب تک ہر قسم کی قربانی نہ کرے وہ ہر قسم کی برکات حاصل نہیں کر سکتا.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ جنت کے فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا اور جو فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا.اسی طرح آپ نے مختلف عبادات کا نام لیا اور فرمایا ای جنت کے سات دروازوں سے مختلف اعمال حسنہ پر زیادہ زور دینے والے لوگ گزارے جائیں گے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے.انہوں نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللَّهِ! مختلف دروازوں سے تو وہ اس لئے گزارے جائیں گے کہ انہوں نے ایک ایک عبادت پر زور دیا ہوگا ، لیکن يَا رَسُولَ اللهِ! اگر کوئی شخص ساری عبادتوں پر ہی زور دے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا.آپ نے فرمایا وہ جنت کے ساتوں دروازوں سے گزارا جائے گا.اور اسے ابو بکر ! میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی انہی میں سے ہوں گے.2 اب ان دروازوں سے اینٹوں اور لکڑیوں والے دروازے مراد تو نہیں ہو سکتے.کیونکہ اگر یہی دروازے مراد ہوں تو پھر اس میں کون سی عزت ہو سکتی ہے کہ بجائے ایک دروازہ مراد کے سات دروازوں سے کسی کو گزارہ جائے.اگر ہم کسی مکان میں داخل ہونا چاہیں اور مالک مکان بجائے ایک دروازہ سے اندر لے جانے کے پہلے ہمیں ایک دروازہ سے اندر لے جائے پھر دوسرے سے، پھر تیسرے سے ، پھر چوتھے سے ، پھر پانچویں سے، پھر چھٹے سے اور پھر ساتویں سے تو اس میں ہماری کون سی عزت ہوگی.اس سے تو سوائے اس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا کہ ہماری لاتیں ٹوٹیں اور ہم تھک کر رہ جائیں.پس اگر جنت میں بھی ساتوں دروازوں سے گزارنے سے مرا د ساتوں دروازوں
خطبات محمود ۶۲۵ سال ۱۹۳۷ء سے اندر جانا ہو تو یہ کوئی عزت کی بات نہیں ہو سکتی.لیکن چونکہ رسول کریم ﷺ نے اس میں بعض جنتیوں کو خاص قسم کی عزت کی بشارت دی ہے اس لئے یقیناً اس گزرنے سے ظاہری گزرنا مراد نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے مراد مختلف قسم کے انعامات حاصل ہونا ہے اور مطلب یہ ہے کہ انہیں اس قسم کے انعامات دیئے جائیں گے.گویا ساتوں دروازوں سے گزرنے کے معنے ہر قسم کی نیکیوں کے بدلے ہر قسم کے انعامات ملنے کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص ہر قسم کی نیکیاں کرے وہی ہر قسم کے انعامات کا مستحق ہوتا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چونکہ ہر قسم کی نیکیاں کرتے تھے اس لئے رسول کریم ﷺ یہ امید رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ان سے امتیازی رنگ میں ہوگا.مگر یہ صفت صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہی مخصوص نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ اُمت محمدیہ کے اور کئی بزرگ بھی ہر قسم کی نیکیوں کے حصول کیلئے بے چینی رہتے تھے.بلکہ بعض بزرگ تو اتنا غلو کر لیتے تھے کہ ظاہر بین نگاہیں انہیں شاید پاگل ہی خیال کرتی ہوں کی لیکن وہ جو کچھ کرتے تھے محبت کے جوش میں کرتے تھے.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قرآن پڑھتے تو جہاں زبان سے الفاظ کہتے جاتے وہاں اپنی انگلی بھی آیتوں پر پھیرتے جاتے.کسی نے پوچھا آپ یہ کیا کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی تلاوت میں کی زبان اور آنکھیں تو شریک ہوتی ہی ہیں انگلی کو بھی کیوں نہ اس کام میں شریک کیا جائے.چنانچہ میں نے آنکھوں سے قرآن کریم کی آیات دیکھتا جاتا ہوں، زبان سے پڑھتا جاتا ہوں اور اپنی انگلی ساتھ ساتھ ہر آیت کے نیچے پھراتا جاتا ہوں.تا میری آنکھیں، میری زبان اور میرے ہاتھ سب تلاوت قرآن کے ثواب میں شریک ہو جائیں.اس عمل کو تم غلو کہہ لولیکن اس ذہنیت کی تعریف کئے بغیر تم نہیں رہ سکتے.کیونکه در حقیقت حقیقی کمال روحانیت کا یہی ہے کہ ہر قسم کی نیکی حاصل کی جائے.جو شخص ایک قسم کی نیکی میں ہمیشہ حصہ لیتا ہے اس میں کچھ اس کی عادت کا بھی دخل ہو جاتا ہے اور جس نیکی میں عادت کا دخل ہو وہ انسان کو اتنے انعام کا مستحق نہیں بناتی جتنے انعام کا وہ نیکی مستحق بناتی ہے جو محبت کی وجہ سے کی جائے.صحابہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی رنگ نیکی کا جانے نہیں دیتے تھے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عمر کے لڑکے تھے لیکن بہت ہی باکمال صحابہ میں سے تھے.اور صحابہ میں بہت کم ایسے لوگ ہوئے ہیں جو باپ بیٹا دونوں عظیم الشان انسان ہوئے ہوں اور جن کو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی بہت بڑی خدمت کا موقع ملا ہو.لیکن حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر دونوں نہایت جلیل القدر بزرگ
خطبات محمود ۶۲۶ سال ۱۹۳۷ء صلى الله گزرے ہیں.پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نہایت اعلیٰ تفقہ رکھتے تھے اور مشہور فقیہہ تھے.کئی جگہ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب وہ بعض مسائل بیان کرتے اور لوگ ان سے کہتے کہ آپ کے والد کی فلاں روایت اس کے خلاف ہے تو وہ بڑے جوش سے کہتے کہ میں رسول الله الا الله.ایمان لایا ہوں.میں نے رسول کریم ﷺ سے یہ بات یوں سنی ہے.اگر میرے والد کو اس کے سنے کا موقع نہیں ملا تو میں تو وہی بات بیان کروں گا جو میں نے رسول کریم ﷺ سے منہ سے سنی ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایتیں حضرت عمرؓ سے بہت زیادہ ہیں.کیونکہ حضرت عبداللہ بن صلى الله عمر کو رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کا حضرت عمر سے بہت زیادہ موقع ملا کیونکہ وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ قریباً ہر وقت رہتے تھے.اور حضرت ابو ہریرہ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عمر و بن العاص کی ہی روایات احادیث میں کثرت سے ملتی ہیں جو انہوں نے خود رسول کریم والے سے سنیں.( حضرت ) عبد اللہ بن عباس کی روایات بہت ہیں لیکن ان میں سے اکثر وہ ہیں جو انہوں نے دوسرے صحابہ سے سنی ہیں ).یہ عبداللہ بن عمرؓ جو اتنے بڑے پایہ کے بزرگ اور نیک انسان تھے.ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ حج کیلئے گئے تو راستہ میں ایک مقام پر وہ پیشاب کرنے بیٹھ گئے.پھر چلتے چلتے ایک پتھر آیا تو تو اُس پر بیٹھ گئے.اسی طرح بعض اور پتھروں پر وہ تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور پھر حج کیلئے مکہ پہنچ گئے.جب حج کر کے واپس آئے تو پھر انہی پتھروں پر تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور جب اس جگہ پہنچے جہاں انہوں نے پیشاب کیا تھا تو پھر وہاں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ گئے.اس پر ان کے ایک ساتھی نے ان سے کی کہا کہ پہلے تو میں نے سمجھا کہ اتفاق سے آپ پیشاب کرنے یہاں بیٹھ گئے تھے اور ذرا دم.پتھروں پر بیٹھتے گئے.مگر جب واپسی پر آپ پھر انہی پتھروں پر بیٹھے ہیں اور اسی جگہ آپ نے آپ نے ی پھر پیشاب کیا ہے تو مجھے محسوس ہوا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ اس میں کوئی بات ہے.ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں آپ کو پہلے پیشاب آیا تھا آتی دفعہ بھی آپ کو اسی مقام پر پیشاب آتا اور جن پتھروں پر آپ پہلے بیٹھے تھے انہی پتھروں پر دوبارہ تھک کر بیٹھتے.حضرت عبداللہ نے جواب دیا یہ ہے تو میرے ذوق کی بات مگر چونکہ تم نے پوچھا ہے اس لئے بتا دیتا ہوں.اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم ہے جب عمرہ تشریف لے گئے تھے تو آپ نے اسی جگہ پیشاب کیا تھا اور آپ انہی پتھروں پر تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے آرام کرنے کی خاطر بیٹھے تھے.2 میں جب یہاں سے گزرتا ہوں تو خیال آتا ہے چلو یہاں سے بھی
خطبات محمود ۶۲ سال ۱۹۳۷ء برکت لے لیں.چنانچہ جہاں رسول کریم ہے پیشاب کرنے بیٹھے تھے وہاں میں بھی بیٹھ جاتا ہوں اور جن پتھروں پر آپ نے نشست فرمائی تھی وہاں تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے میں بھی بیٹھ جاتا ہوں.یہ عشقی رنگ ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر میں پایا جاتا تھا کہ رسول کریم علیہ نے ایک کام کیا ہے ، میں بھی وہی کام کی کیوں نہ کروں.خبر ہے اس میں ہی برکت ہو اور یہی وہ رنگ ہے جو انسان کو اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچا تا ہے.پس ہر قسم کی نیکی کے حصول کیلئے جب تک انسان کامل اتباع نہیں کرتا اُس وقت تک وہ کمال حاصل نہیں کر سکتا.تم مت خیال کرو کہ اگر تم جلسہ کیلئے چندہ جمع کر دیتے ہو تو تمہیں نیکی میں کمال حاصل ہو جاتا ہے یا تم جلسہ میں لیکچر دے دیتے ہو یا لیکچر سن لیتے ہو تو تم نیکیوں کو پورا کر لیتے ہو یا قادیان میں مکان بنا لیتے ہو یا جلسہ والوں کو مکان دے دیتے ہو تو نیکیوں کو پورا کر لیتے ہو یا مہمانوں کی خدمت کرتے ہو تو نیکیوں کو پورا کر لیتے ہو.یہ الگ الگ اور انفرادی طور پر جس قدرخدمتیں ہیں ان کا بجالانا بھی ضروری ہے.لیکن ان کے علاوہ اور بھی جس قدر خدمتیں ہیں ان سب میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے.کیونکہ جو شخص ساری خدمتیں کرتا ہے وہی جلسہ سالانہ کے سارے انعامات کا مستحق بنتا ہے.اور یہ صرف جلسہ کی ہی بات نہیں دین کی ہر بات میں یہی فرض انسان پر عائد ہوتا ہے.انسان کو حکم ہے کہ وہ نماز بھی پڑھے، وہ فرضی روزے بھی رکھے، وہ نفلی روزے بھی رکھی ، وہ فرضی زکوۃ بھی دے، وہ نفلی صدقہ و خیرات بھی دے.وہ بنی نوع انسان کی خدمت بھی کرے، خواہ وہ خدمت لسانی ہو یا مالی ہو یا جسمانی ہو.غرض ہر رنگ میں جب وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے راستہ پر ڈال دے تبھی اس کا دین کامل ہوسکتا ہے اور تبھی ہر رنگ میں وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے.اور یہی جنت کے ہر دروازہ سے داخل ہونا ہے جو فخر کے قابل ہے اور جس سے ہر مومن اپنے اپنے ایمان اور اپنے اپنے عرفان کے مطابق حصہ لے سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت ابو بکڑ کے دروازہ سے ہر شخص داخل نہیں ہوسکتا.لیکن اگر کوئی حضرت ابو بکر کی کے قدم پر قدم مارسکتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو بھی وہ انعام دینے کیلئے تیار ہے جو اس نے حضرت ابوبکر کیلئے تیار کیا.اور اگر کوئی حضرت عمرؓ کے قدم پر قدم مار سکتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کو بھی وہ انعام دینے کیلئے تیار ہے جو اس نے حضرت عمر کو دیا.لیکن جو ان کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا وہ ان سے اُتر کر اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلے.لیکن بہر حال کوشش کرے کہ اس میں ہر قسم کی نیکیاں پیدا ہو جائیں.یہی روحانیت کو.
خطبات محمود ۶۲۸ سال ۱۹۳۷ء محفوظ کر دینے والی بات ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے جلسہ سالانہ کے ایام میں کئی قسم کی خدمات انسان کر سکتا ہے.یہی نہیں کہ کھانے کے وقت مہمانوں کو کھانا کھلایا اور پھر کام ختم ہو گیا بلکہ کھانا کھلانے کے علاوہ مہمانوں کے متعلق اور بھی ایسی کئی خدمات ہوسکتی ہیں جن سے انہیں فائدہ ہوسکتا ہے.مثلاً وہ بازاروں میں پھرتا رہے اور دیکھتا رہے کہ کوئی مسافر بھولا ہوا تو نہیں پھر رہا اور اگر اسے معلوم ہو کہ کوئی ای - مہمان اپنا مکان بھول گیا ہے یا اسے علم نہیں کہ میری جماعت کا کمرہ کون سا ہے تو ایک یہ بھی خدمت ہے کہ اسے صحیح جگہ پہنچا دیا جائے.یا عورتیں گلیوں میں پھرتی رہتی ہیں اور مردان کا قطعاً لحاظ نہیں کرتے.وہ چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور عورتوں کے گزرنے کا کوئی رستہ نہیں رہتا.اگر یہی خدمت بعض لوگ اپنے ذمہ لے لیں کہ گلیوں اور راستوں میں سے مردوں کو ایک طرف سے گزاریں اور عورتوں کو دوسری طرف سے تو میں سمجھتا ہوں اس کا انہیں بہت بڑا ثواب ہو.مگر ہمارے ملک میں عورت پر رحم بہت کم ہوتا ہے حالانکہ اسلام.نے عورتوں کا بڑا بھاری خیال رکھا ہے.رسول کریم ہے جب سفر پر جاتے اور صحابہ اونٹوں کو دوڑاتے تو آپ فرماتے رِفقًا بِالْقَوَارِير - رِفقًا بِالْقَوَارِير " ارے شیشوں کا بھی خیال رکھنا.ارے شیشوں کا بھی خیال رکھنا.اور آپ کا مطلب یہ ہوتا کہ اونٹوں پر عورتیں بھی سوار ہیں.وہ تمہاری طرح اونٹ تیز نہیں دوڑ سکتیں ، ان کا بھی خیال رکھو.لیکن اب ایک عجیب قسم کی ذہنیت پیدا ہوگئی ہے کہ لوگ کمزور پر طاقت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ طاقت مضبوط کے مقابلہ پر ظاہر کی جائے تبھی اس سے شان ظاہر ہوتی ہے.میری خلافت پر قریباً ۲۴ سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں میں نے بار ہا جماعت کو سمجھایا ہے کہ کمزوروں پر رحم کرو اور عورتوں پر اپنی طاقت مت جتلاؤ.مگر میری اس قدر مسلسل نصائح کے باوجود حالت یہ ہے کہ جو لوگ میرے ساتھ چلنے والے ہوتے ہیں ، وہ نہ معلوم اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ جب راستہ میں کوئی عورت آجاتی ہے تو اسے انتہائی تحکمانہ لہجے کی میں کہتے ہیں ”مائی ہٹ جاؤ ” مائی ہٹ جاؤ“.گویا مائی کوئی رستم پہلوان یا اسفند یار ہے جسے انہوں نے راستہ سے ہٹانا ہوتا ہے.مجھے ۲۴ سال سمجھاتے سمجھاتے گزر گئے کہ اگر کوئی عورت آگے سے آ رہی ہو تو بجائے اُسے ہٹانے کے خود راستہ کاٹ کر گزر جاؤ مگر اب تک اصلاح ہونے میں نہیں آتی.آج بھی ہے جب میں خطبہ پڑھانے کیلئے نکلا تو میرے آگے آگے کوئی صاحب تھے جن کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی تھی سوٹی تھی جسے وہ ہلاتے جاتے تھے اور عورتوں کو کہتے جاتے تھے کہ ہٹ جاؤ ہٹ جاؤ.آخر میں
خطبات محمود ۶۲۹ سال ۱۹۳۷ء ساتھیوں سے کہا کہ خدا نے مجھے بھی آنکھیں دی ہوئی ہیں بجائے ان کو دھکیلنے کے ہم خود راستہ کاٹ کر ایک طرف سے کیوں نہیں گزر سکتے.تو کمزور پر زور جتانے کی لعنت ایسی ہمارے ملک میں ہے جو کسی ح دور ہونے میں نہیں آتی.حالانکہ کمزور کے آگے کمزور بننا چاہئے اور طاقتور کے آگے طاقتور.اگر کوئی شخص جابر اور ظالم ہے تو اس کے مقابلہ میں ہمیں بیشک اپنی طاقت دکھانی چاہئے لیکن اگر کوئی کمزور ہے تو وہاں طاقت دکھانے کی بجائے ہمارے لئے یہ حکم ہے کہ ہم نرم بنیں.عورتیں جب بازار یا گلیوں میں پھرتی ہیں تو شریعت کا ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ پردہ کریں.لیکن ہم کھلے منہ پھر رہے ہوتے ہیں.ان حالات میں یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ عورتوں پر سختی کی جائے اور انہیں راستہ سے ہٹایا جائے.پس جلسہ سالانہ کے ایام میں اگر دوست اس امر کی نگرانی کریں کہ بھولے بھٹکے مہمان ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں تو یہ بھی ایک خدمت ہوگی.اور اگر اس امر کا خیال رکھیں کہ راستوں میں مرد ایک طرف اور قطار بنا کر چلیں تا عورتوں کو چلنے میں تکلیف نہ ہو تو یہ بھی ایک ثواب والی خدمت ہوگی.بلکہ بہتر ہے کہ اس دفعہ یہ انتظام کیا جائے کہ گلیوں اور راستوں پر ایک طرف مردوں کے چلنے کیلئے مخصوص کر دی جائے تو دوسری طرف عورتوں کیلئے.اور چلنے پھرنے والے مردوں کو سمجھاتے رہیں کہ وہ ایک طرف چلیں اور بجائے اس کے کہ وہ عورتوں سے یہ امید کریں کہ وہ ان کا راستہ نہ روکیں خود ایک طرف ہو جائیں.عورتوں کو بھی بیشک اُن کی جہت بتادی جائے مگر مردوں کیلئے بھی ایک جہت مخصوص کر دی کی جائے.اس طرح میں سمجھتا ہوں آمد و رفت میں بہت کچھ آرام اور سہولت ہو جائے گی.انگریزوں نے یہ کیا ہوا ہے کہ وہ ایک رستہ سے جاتے اور دوسرے رستہ سے واپس آتے ہیں.ہمارے ہاں چونکہ پر دے کا طریق رائج ہے اور عورتوں کو پردہ میں ہی لیکچروں کیلئے آنا جانا پڑتا ہے اس لئے میرے نزدیک جب تک ہماری سڑکیں کافی چوڑی اور فراخ نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک اسی طریق پر عمل کرنا بہتر ہے جو میں نے بتایا ہے کہ ایک طرف مردوں کیلئے مخصوص کر دی جائے اور دوسری طرف عورتوں کیلئے.ہاں جو انگریزوں کا طریق ہے کہ آنے جانے کیلئے بھی الگ الگ جہات ہوں اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس طرح وقت بہت حد تک بچ جاتا ہے.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا کہ سڑکیں اس قدر چوڑی ہوں کہ ان کے چار حصے کر کے مردوں اور عورتوں کے آنے اور جانے والے راستے الگ الگ کر دیئے جائیں س وقت تک مردوں اور عورتوں کیلئے الگ الگ اطراف مخصوص کر دی جائیں اور مرد اس کی نگرانی
خطبات محمود ۶۳۰ سال ۱۹۳۷ء کریں.تو میں سمجھتا ہوں وہ جلسہ سالانہ کے ایام میں بہت بڑی خدمت کر سکتے ہیں.اسی طرح جلسہ سالانہ کے ایام میں بعض عورتوں کے بچے گم ہو جاتے ہیں، بعض خبیث طبع لوگ عورتوں کو مخول کردہ کرتے ہیں.ایسے تمام امور کی نگہداشت کی جائے اور عورت کی عزت اور اس کے احترام میں کوئی خلل نہ آنے دیا جائے.پس کئی قسم کی خدمتیں ہیں جو تم نکال سکتے ہو اور بیسیوں قسم کی نیکیاں ہیں جو تم پیدا کر سکتے ہو.اور یا درکھو کہ وہ شخص جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ وہ نیکی کے نئے سے نئے راستے تلاش کرے اور ہر قسم کی نیکیاں اپنے اندر پیدا کرے اُسی کو صوفی کہتے ہیں.تم نے سنا ہو گا کہ امت محمدیہ میں فلاں فلاں صوفی گزرے ہیں اور تم حیران ہوتے ہوگے کہ صوفی کسے کہتے ہیں.سو یا درکھو کہ صوفی وہی ہوتا ہے جو اپنے دل کی صفائی کی مختلف راہیں تلاش کرتا رہتا ہے.اسی لئے کئی دفعہ نا سمجھ لوگ صوفیاء کو بیوقوف خیال کرنے کی لگ جاتے ہیں.جیسے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جب وہاں پیشاب کیا جہاں رسول کریم ﷺ نے پیشاب کیا تھا تو بعض ظاہر پرستوں نے اس پر اعتراض کیا.مگر جہاں عشق کا مظاہرہ ہو وہاں انسان یہی کوشش کرتا ہے کہ میں اپنے محبوب کی نقل کروں.میں خدا اور اُس کے رسول کی صفات کا نقال بن جاؤں.اور میں دنیا کی ہر خوبی کا نقال بن جاؤں ، اس کا نام تصوف ہے.وہ اگر دیکھتا ہے کہ اس سے پہلے خدا رسیدہ لوگوں نے نفلی نمازوں سے خدا کا قرب حاصل کیا تو وہ نماز پڑھنے لگ جاتا ہے.وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے نفلی روزے رکھ کر وصالِ الہی حاصل کیا تو وہ روزے رکھنے لگ جاتا ہے.وہ اگر کی دیکھتا ہے کہ انہوں نے صدقہ و خیرات سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی تو وہ صدقہ دینے لگ جاتا ہے.وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے نفلی حج سے برکت حاصل کی تو وہ حج کرنے لگ جاتا ہے.وہ اگر دیکھتا ہے ج کہ انہوں نے علم پڑھایا تو وہ لوگوں کو علم پڑھانے لگ جاتا ہے.وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کی تو وہ اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے لگ جاتا ہے.غرض جس جس رنگ میں وہ کسی بزرگ کو نیکی میں رنگین پاتا ہے وہی رنگ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے.وہ کسی نیکی کو حقیر سمجھ کر نہیں چھوڑتا بلکہ کہتا ہے کہ میں یہ بھی لے لوں اور وہ بھی لے لوں وہ خدا اور اس کے رسول کا عاشق ہوتا ہے اور عشق و محبت کا ترانہ دنیا کے ترانوں سے جُدا گانہ ہوتا ہے.دنیا کی نگاہوں میں وہ پاگل ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ پاگل نہیں ہوتا بشر طیکہ وہ شریعت اور وقار کو چھوڑنے والا نہ ہو.
خطبات محمود ۶۳۱ سال ۱۹۳۷ء مثنوی رومی والوں نے ایک قصہ لکھا ہے معلوم نہیں انہوں نے کہاں سے لیا کہ ایک گڈریا ایک دفعہ جنگل میں کسی درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت نے جوش مارا.چونکہ وہ جاہل تھا یا ممکن ہے وہ جاہل نہ ہو بلکہ عاشق ہوا اور عشق میں عالم اور جاہل کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا.عشق انسانی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ عالم ہوتے ہوئے بھی انسان ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو دوسری صورت میں نہیں کہہ سکتا.اور اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت مانی شعلہ زن ہو، دوسرے لوگ نہ ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان باتوں کو بیان کیا جاسکتا ہے.یہی تصوف کے کے راز کہلاتے ہیں جب عشق انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.پس بالکل ممکن ہے وہ اسی حالت ی میں ہوا اور عشق و محبت کی محویت میں اس کے منہ سے باتیں نکل رہی ہوں یا ممکن ہے اس کا سبب جہالت ہی ہو.بہر حال وہ لکھتے ہیں وہ ایک درخت کے نیچے بیٹا اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ خدایا! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیری گدڑی میں سے جوئیں نکالا کروں.تیرے پیروں میں سے کانٹے نکالا کروں.تجھے اپنی بکریوں کا تازہ تازہ دودھ پلایا کروں.تجھے دبایا کروں، تیری دل کھول کر خدمت کیا کروں.غرض وہ اکیلا بیٹھا اس طرح عشق کے راگ نثر میں گا رہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اتفاقات پاس سے گزرے اور انہوں نے یہ باتیں سن لیں.انہیں سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگے نالائق ! تو خدا کی تھی ہتک کرتا ہے.تیرے نزدیک اللہ میاں نے گدڑی پہنی ہوئی ہے؟ تیرے نزدیک اسے جوئیں پڑی ہوئی ہیں؟ اور یہ کہتے ہوئے اسے اپنا ڈنڈا زور سے مارا.وہ بے چارا اُٹھ کر بھاگا.حضرت موسیٰ علیہ السلام جوش میں اُس کا تعاقب کرنا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ ! تو نے ہمارے بندہ کو بڑا دُ کھ دیا.موسیٰ اُس کی باتوں سے تیرا کیا بگڑتا تھا وہ تو اپنی زبان میں ہم سے اپنے کی عشق کا اظہار کر رہا تھا.اُس کی تو بولی یہی تھی اور اُس کی سمجھ بھی اتنی ہی تھی.وہ آپ گدڑی میں رہتا ہے کی اس لئے اس نے ہمارے متعلق بھی یہ فرض کر لیا کہ ہم گدڑی میں رہتے ہیں.اس کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی نعمت بکریوں کا تازہ دودھ ہے سو یہی نعمت اس نے ہمارے سامنے پیش کر دی.وہ خود جب جنگل میں ننگے پاؤں چلتا ہے تو اس کے پاؤں میں کانٹے چبھ جاتے ہیں اور اس کے محبوب یعنی بیوی بچے بھی جب ننگے پاؤں پھرتے ہیں تو اُن کے پاؤں میں کانٹے چبھ جاتے ہیں اور وہ انہیں بیٹھ کر نکالا کرتا ہے.سواس نے ہمارے متعلق بھی اسی خدمت کو سرانجام دینا اپنے لئے باعث فخر سمجھا.پس اے
خطبات محمود ۶۳۲ سال ۱۹۳۷ء موسیٰ ! تو نے اس کو دکھ دے کر ہمیں بڑی تکلیف پہنچاتی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جب یہ وحی نازل ہوئی تو آپ فوراً اُس کے پاس گئے اور اس سے معافی مانگی.بالکل ممکن ہے اُس کی یہی باتیں جہالت کی وجہ سے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی تہہ میں محبت و عشق کارفرما ہو اور جذبہ عشق کی فراوانی کی وجہ سے اُس قسم کی باتیں اس کی زبان سے نکل رہی ہوں.لیکن تم اگر گڈریا کے واقعہ کو جانے بھی دو تو ای مجھے بتلاؤ کہ کونسا عاشق صادق ہے جس کے دل میں باوجود اس یقین کے کہ خدا تعالی مجسم سے پاک ہے یہ خیال نہ آتا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کو جوشِ محبت میں پکڑ لے.چاہے اس گڈریے کی طرح یہ سب کچھ عالم تصور تک محدود ہو.لیکن چونکہ اس کی نظر اس بات کی عادی ہو چکی ہے کہ جس محبوب سے اُسے محبت ہوا سے وہ چھوتا ہے ، اس سے مصافحہ کرتا ہے اگر بزرگ ہو تو اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے، بچہ ہو تو اس کو چوم لیتا ہے.اس لئے یہی کیفیت خدا تعالیٰ کے متعلق بھی اس کے دل میں غیر معین اور غیر محسوس طور پر پیدا ہوتی ہے.چنانچہ دیکھ لوشاعری میں خدا تعالیٰ کی نسبت وہی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو دنیا میں عام معشوقوں کی نسبت لوگ استعمال کرتے ہیں.اُس وقت یہ تو نہیں ہوتا کہ شاعر خدا تعالیٰ کو مجسم سمجھتے ہیں.وہ عقید تا اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر قسم کے تجسم سے پاک ہے مگر چونکہ عشق و محبت کا مادہ اس طریق اظہار کا عادی ہو چکا ہے، اس لئے خدا تعالیٰ کی نسبت بھی اسی قسم کے الفاظ کی استعمال کر لئے جاتے ہیں.مثلاً جب ہم کہتے ہیں اے خدا! تو ہمیں مل جائے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کرتا ہے کہ خدا ( نَعُوذُ بِاللهِ ) کہیں بھولا بھٹکا پھر رہا ہے اور ہم اسے کہتے ہیں کہ وہ آئے اور ہم سے آکر مل جائے.یہ صرف اپنے عشق کا اظہار کا ایک ذریعہ ہے.اور یا پھر خدا تعالیٰ کا اپنے ادراک میں آجانے کا نام ہم خدا تعالیٰ سے ملنا رکھتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اُس کا ادراک حاصل ہو جائے.یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ کہیں کھویا ہوا ہے بلکہ ہمارے کمز ور نفوس میں اُس کا ادراک اگر مفقود ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمیں مل جائے.اور یا پھر اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ اس کے متعلق ہمارا ناقص ادراک کامل ہو جائے.غرض عشق کے اظہار کے ہزاروں ذرائع ہیں.اور ان تمام ذرائع کو اختیار کر نے کا نام ہی تصوف ہے اور اسی تصوف پر حقیقی قرب کی بنیاد ہوتی ہے.لوگوں نے غلطی سمجھ رکھا ہے کہ تصوف نام ہے درود وظیفہ کا.حالانکہ درود و وظیفہ کیا چیز ہیں؟ وہ صرف دوسروں کی دماغی نقل ہیں.اور تصوف عشقی نقل کا نام ہے اور عشقی نقل کے مقابلہ میں دماغی نقل کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.
خطبات محمود ۶۳۳ سال ۱۹۳۷ء دماغی نقلیں صرف کاغذ کے پھول ہیں اور کاغذ کے پھولوں میں کبھی خوشبو نہیں ہو سکتی.ہاں جو عشق میں مخمور ہو کر عشقی نقل کرتا ہے وہی حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے.بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نماز میں بھی بعض دفعہ رسول کریم ﷺ کی طرف دیکھتے تھے کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں.یہ عشق کی نقل تھی دماغی اور عقلی نقل نہیں تھی اس عشق میں بعض دفعہ ع عشق است و ہزار بدگمانی والا معاملہ بھی ہو جاتا ہے.صلى الله ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ جب آپ سجدہ میں گئے تو آپ نے بہت دیر کر دی اور سجدہ بہت لمبا ہو گیا.یہ دیکھ کر میرے دل میں وہم اٹھنا شروع ہو گیا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو.چنانچہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت حسن رسول کریم ہے صلى الله.صلى الله کی گردن پر اس طرح بیٹھے ہیں جس طرح کوئی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے.یہ دیکھ کر میں پھر جلدی سے سجدہ میں چلا گیا.جب نماز ہو چکی تو باقی صحابہ نے عرض کیا کہ يَارَسُولَ اللهِ ! کیا سجدہ میں حضور پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے کہ اس قدر دیر حضور نے کردی؟ یا خدانخواستہ کوئی تکلیف ہوگئی تھی ؟ ہمیں تو سخت گھبراہٹ کی ہونے لگ گئی تھی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ خدا کے فضل سے کوئی تکلیف ہوئی ہے.یہ ہمارا بیٹا ہماری گردن پر سواری کرنے بیٹھ گیا تھا اور ہم نے کہا کہ چلو تھوڑی دیر کیلئے یہ بھی سواری کر لے، اگر اسے ہٹایا تو اسے تکلیف ہوگی.لے اب وہ صحابی نماز میں تھا مگر اس عشق کی وجہ سے جو اُسے رسول کریم ﷺ کی ذات سے تھا بے تاب ہو گیا اور وہ سجدہ سے ہی سر اُٹھا کر دیکھنے لگ گیا.لوگ کہتے ہیں فلاں بزرگ کو نماز پڑھتے وقت اتنی محویت ہوتی ہے کہ انہیں بچھو نے ڈس لیا مگر انہیں ذرا احساس نہ ہوا.فلاں بزرگ کونماز میں بھڑیں کاٹ گئیں اور انہوں نے پرواہ نہ کی.یہ وقت بھی بعض دفعہ عشاق پر آتا ہے مگر اس صحابی میں اس سے جدا گانہ کیفیت پیدا ہوئی.اور گو وہ نماز پڑھ رہے تھے مگر سجدہ کے ذرا لمبا ہو جانے کی وجہ سے ہی ان کے دل میں کئی قسم کے خیالات پیدا ہونے لگ گئے کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہو گئی اور جب تک انہوں نے سراٹھا کر دیکھ نہ لیا ان کی تسلی نہ ہوئی.اسی موقع پر میں ضمناً ان لوگوں کا ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قادیانی میں کچھ عرصہ سے نماز کے وقت پہرہ لگایا جاتا ہے جو شرعاً نا جائز ہے.حالانکہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ی
خطبات محمود ۶۳۴ سال ۱۹۳۷ء صلى الله ہے کہ صحابہ نماز پڑھتے ہوئے بھی رسول کریم ﷺ کا پہرہ رکھتے تھے.اب شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ جو شخص امام سے پہلے اپنا سر سجدے سے اُٹھاتا ہے وہ سخت گناہ کرتا ہے اور قیامت کے روز اس کا سر گدھے کا سر بنایا جائے گا.مگر اس حکم کی اس صحابی نے کوئی پروانہ کی اور نہ خدا اور خدا کے رسول نے اس کے اس فعل پر اظہار ناراضگی کیا اور یہ یقینی امر ہے کہ اس نے جو نماز میں ہی سراٹھا کر دیکھ لیا کہ کہیں خدانخواستہ رسول کریم ﷺ پر کسی نے حملہ تو نہیں کر دیا یا آپ بیمار تو نہیں ہو گئے ، یہ ایک بہت بڑی نیکی تھی.تو نیکی کے تمام راستوں کو اختیار کرنا اور عشق اور محبت کے ماتحت دین میں ترقی کرنا، اسی کا نام تصوف ہے.جوی شخص یہ تصوف اختیار کرتا ہے اُس پر رویا و کشوف اور الہامات کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے.کلامِ الہی کے معارف واسرار سے اسے آگاہ کیا جاتا ہے اور محبت الہی کے رموز اس پر وا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.غرض تمام روحانی نعمتیں اسے میسر آجاتی ہیں مگر شرط یہی ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق محبت کا ہو اور محبت میں کوئی شرطیں اور حد بندیاں نہیں ہوتیں.جو شخص شرطوں اور حد بندیوں کے اندر کام کرتا ہے خدا تعالیٰ کا اُس کے ساتھ وہی معاملہ ہوتا ہے جو ایک آقا کا نوکر کے ساتھ ہوتا ہے.مگر جو شخص عشق میں سرشار ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس سے وہ سلوک کرتا ہے جو وہ اپنے پیاروں اور محبوبوں سے کیا کرتا ہے.پس جلسہ سالانہ کے ایام میں جو دوست باہر سے آتے ہیں اور جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان سب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان ایام کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں.ہمارے سلسلہ کی بنیاد ہی محبت و عشق الہی پر ہے.پس کوشش کرو کہ تمہارے اندر محبت الہی پیدا ہو.تمہارے ہاتھ بیشک کاموں میں مشغول ہوں مگر تمہارے دل رو بہ خدا ہوں اور ان میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی محبت کی ٹیسیں اٹھ رہی ہوں اور ہر رنگ میں اس کی خوشنودی کے حصول کیلئے بے قرار رہو.صحابہ نیکیوں کے حصول کے اتنے دلدادہ تھے کہ ایک دفعہ کوئی جنازہ گزرا تو ایک مجلس میں جہاں چند صحا بہ بیٹھے ہوئے تھے ایک صحابی کہنے لگے جنازے میں شامل ہونا بڑے ثواب کا کام ہے میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہوا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے جنازے میں شامل ہوتا ہے اور پھر اس سے جدا نہیں ہوتا جب تک اسے دفن نہ کر دیا جائے ، اسے احد کے پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے.باقی صحابہ یہ روایت سن کر کہنے لگے نیک بخت تو نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی.معلوم نہیں ہم اب تک کتنے احد کے پہاڑ جیسے ثواب ضائع کر چکے ہیں.۱۳
خطبات محمود ۶۳۵ سال ۱۹۳۷ء تو نیکی کو ہر رنگ میں لینے کی کوشش کرنا اور نیکیوں کے حصول کی جستجو کرنا اسی کا نام تصوف ، اسی کا نام بزرگی اور اسی کا نام روحانیت ہے.تم ہزاروں کتابیں تصوف پر پڑھ جاؤ ، تم ہزاروں کتابیں روحانیت کا سبق سکھانے والی اپنے مطالعہ میں لے آؤ تمہیں اس سے زیادہ ان میں اور کوئی چیز نظر نہیں آئے گی.یہ خلاصہ ہے تمام روحانیات کا ( اور باقی جو کچھ ہے وہ اس کی تفصیلات ہیں ) کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی ایسی محبت پیدا ہو جائے کہ اس کے دل میں ہر وقت یہ آگ سی لگی رہے کہ مجھے نئے سے نئے طریقے نیکیوں کے حصول کے ملتے جائیں جن کے ذریعہ میں اس سے اپنا تعلق وسیع سے وسیع تر کرتا چلا جاؤں.یہی خواہش ہے جو انسان کے دل میں جس وقت پیدا ہو جاتی ہے اس میں روحانیت بھی ترقی کر نے لگ جاتی ہے.پس بچے بھی اور نو جوان بھی اور بوڑھے بھی اور ادھیڑ عمر کے لوگ بھی ، جو بھی کوشش کریں اپنے اپنے ظرف ، اپنے اپنے مجاہدہ اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے فضلوں سے حصہ لے سکتے ہیں اور جلسہ سالانہ کے ایام چونکہ خصوصیت کے ساتھ برکات اور انوار کے نزول کے دن ہیں اس لئے احباب کو چاہئے کہ وہ ان ایام کی برکات سے مستفید ہونے کی پوری کوشش کریں.میں بات تو ایک اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر چونکہ یہی بات لمبی ہوگئی ہے اس لئے آج کا خطبہ اسی پر ختم کرتا ہوں.لا تذکرہ صفحہ ۴۴۵.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۲۰۱.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۲۹۷.ایڈیشن چہارم الحج : ٢٨ بخاری کتاب الاذان باب جهر الامام بالتامين بخارى كتاب النكاح باب المرأة راعية....الخ تذکرہ صفحه ۵۳.ایڈیشن چہارم بخاری کتاب الصوم باب الريان للصائمين الفضل ۱۸ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ء)
خطبات محمود ها ۶۳۶ سال ۱۹۳۷ء مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۷۸ ء میں یہ الفاظ ہیں.ارفق بالقواریر مسلم كتاب الصلوة باب تحريم سبق الامام....الخ بخاری کتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز P=
خطبات محمود ۶۳۷ ۳۹ سال ۱۹۳۷ء احمدی نوجوانوں سے خطاب حصولِ مقصد کیلئے جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کر لے فرموده ۱۷؍ دسمبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے خطبہ میں جلسہ سالانہ کے ذکر پر یہ کہا تھا کہ اسلامی تعلیم انسان کی نیکی اور پاکیزگی کے متعلق یہی ہے اور اسی کو تصوف اور روحانیت کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی نیکیوں کو جمع کرنے کی کوشش کرے.جو شخص کسی ایک شق کو لے لیتا ہے اور اسی پر زور دیتا چلا جاتا ہے اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دین کی خاطر اور نیکی کیلئے کرتا ہے یا محض عادت کے ماتحت.ہویا بنی نوع انسان کے اخلاق کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق اور نیکیوں کے لحاظ سے بھی انسانوں کی فطرتیں خاص خاص میلان رکھتی ہیں.قطع نظر اس سے کہ وہ بات ان کے مذہب کی تعلیم ہو یا وہ اس فلسفہ کا حصہ ہو جس کی وہ اتباع کر رہے ہوں.انسانی طبائع مختلف میلانات رکھتی ہیں اور یہی چیزی دراصل تہذیب اور تمدن کی جڑ ہوتی ہے.اگر طبائع میں اختلاف نہ ہو اور مختلف میلان نہ ہوں تو دنیا میں تنوع اور قسم قسم کی چیزیں کبھی نظر نہ آئیں.سارے لوگ ایک ہی پیشہ کو اختیار کریں ، سارے ایک ہی غذا کھانے لگیں، سارے ایک ہی قسم کا لباس پہنیں اور سب ایک ہی کام کرنے لگ جائیں تو دنیا کا قائم رہنا مشکل ہو جائے.یہ اختلاف دنیا میں اتنا جاری وساری ہے کہ ایک گھر کے رہنے والوں میں اور ایک ماں باپ کی اولاد میں بیٹوں بیٹوں اور لڑکیوں لڑکیوں میں اس قدر اختلاف ہو جاتا ہے کہ بعض اوقار
خطبات محمود ۶۳۸ سال ۱۹۳۷ء صرف خوراک کے متعلق اختلاف ابتلاء کی صورت اختیار کر لیتا ہے.ایک بچہ کہتا ہے کہ میں فلاں تر کاری کھاؤں گا تو دوسرا بچہ کہتا ہے کہ میں یہ نہیں بلکہ وہ کھاؤں گا.ایک ایک پھل کو پسند کرتا ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں ، میں تو فلاں لوں گا.ایک کہتا ہے میں ٹوپی پہنوں گا تو دوسرا پگڑی کو پسند کرتا ہے.غرض یہ اختلاف طبائع میں کھانے پینے پہنے میں اور اخلاق میں اس قدر عظیم الشان ہے کہ قریبی سے قریبی رشتوں میں بھی بالکل نمایاں اور ظاہر نظر آتا ہے.ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں میں سے کوئی تو گھر میں بیٹھ کر کام کرنا پسند کرتا ہے اور دوسرا باہر چلنے پھرنے میں خوش رہتا ہے.ایک کوکی حساب سے دلچسپی ہوتی ہے ، دوسرے کو سائنس سے اور تیسرے کو ادب اور شاعری کا مذاق ہوتا ہے.پھر ایک قسم کے پیشوں میں بھی آگے اختلاف ہوتا ہے.اگر سب تجارت کرتے ہیں تو ایک کسی قسم کی تجارت کرتا ہے اور دوسرا دوسری قسم کی.کوئی کسی میں ترقی کرتا ہے اور کوئی کسی میں.پھر اگر ترقی کرنے والے نہ بھی ہوں اور صرف دن گزارنے والے ہوں تو بھی کوئی کسی کام سے روٹی کماتا ہے اور کوئی کسی سے.پس یہ اختلاف دنیا میں ہر جگہ اور ہر حالت میں پایا جاتا ہے اور انسانی میلان اتنائین اور واضح ہوتا ہے کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور جس چیز میں انسان کا طبعی میلان ہو اُس کے مطابق اگر اسے کوئی کام پیش آئے اور وہ اس میں بشاشت بھی محسوس کرے تو وہ نیکی تو ہے مگر اس پایہ کی نہیں جس کا میلان اس کی فطرت میں نہ ہو.حاتم طائی سخاوت میں مشہور ہے مگر اس کا طبعی میلان سخاوت کی طرف تھا.بچپن سے ہی وہ سخاوت کو پسند کرتا تھا.بلکہ بچپن میں جب اسے کھانے کیلئے کوئی چیز ملتی تو وہ دوسرے بچوں کو ڈھونڈتا پھرتا تھا کہ ان میں تقسیم کر دے اور اگر کوئی بچہ نہ ملتا تو وہ رو پڑتا کہ کسے دے.بسا اوقات بچپن میں وہ اپنے کپڑے دوسروں کو دے دیتا.حتی کہ ایک دفعہ اس کے باپ نے اس ڈر سے کہ وہ گھر کو اُجاڑ دے گا اسے جنگل میں اونٹوں کے گلوں پر بھیج دیا اور خیال کیا کہ وہاں تو اس طرح اُجاڑ نہیں کر سکے گا.وہاں سینکڑوں اونٹ پلتے تھے.اتفاق سے وہاں عرب کے تین مشہور شاعر آگئے جو ا کٹھے کسی میلہ پر شعر کہہ کر واپس آرہے تھے.وہ جب اس جگہ پہنچے تو حاتم نے اُن کیلئے تین اونٹ ذبح کر ڈالے.انہوں نے کہا ہم تو صرف تین آدمی ہیں.ہمارے لئے ایک ہی اونٹ کافی تھا.اس پر اُس نے جواب دیا کہ اگر میں ایک ہی اونٹ ذبح کرتا تو یہ صرف ایک کی مہمان نوازی ہوتی اور باقی دو طفیلی ہوتے اور میں مہمانوں میں فرق
خطبات محمود ۶۳۹ سال ۱۹۳۷ء کرنا پسند نہیں کرتا.اس بات کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں کے اس کے خاندان کی تعریف میں کچھ شعر کہہ دیئے اور اسے سنائے.شعر سن کر حاتم نے کہا کہ تم تو بڑے ادیب اور شاعر معلوم ہوتے ہوا اور تمہارے یہ شعر ہمارے خاندان کو ہمیشہ کیلئے مشہور کر دیں گے.اس کے مقابلہ میں ہمارے یہ اونٹ ہمیں کوئی شہرت کی نہیں دے سکتے.اس لئے تم قرعہ ڈال کر یہ سب اونٹ آپس میں تقسیم کر لو اور لے جاؤ چنانچہ وہ لے لی گئے.کسی نے حاتم کے باپ کو بھی اس کی خبر کر دی.چنانچہ وہ آیا اور اس نے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا ؟ حاتم نے جواب دیا کہ تمہارے یہ اونٹ تمہیں کتنا مشہور کر سکتے تھے.اگر یہ اونٹ ہوتے تو تمہیں کونسی خاص شہرت ہو جاتی.جبکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر کئی ایسے لوگ ہیں جو بہت بہت اونٹوں کے مالک اور امیر ہیں مگر دیکھو یہ شعر اوروں کو کہاں نصیب ہو سکتے ہیں.یہ تو میں نے تمہارے لئے ایک ایسا شہرت کا ی ذخیرہ مہیا کر دیا ہے جس کے مقابلہ میں اونٹوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں.آخر تنگ آکر اُس کے باپ نے کی اُسے عاق کر دیا اور خود کسی اور طرف نکل گیا.پس ایسا شخص اگر اسلام میں داخل ہو جائے اور صدقہ خیرات کرے تو یقینا یہ اس کا نیک کام ہو گا مگر یہ اُس کی کامل نیکی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں اس کی فطرت کے میلان کا بھی دخل ہے.اسی طرح اگر دنیا کے مشہور جری اور بہادر جیسے ایشیائی پہلوانوں میں رستم اور کی اسفند یار ہیں ، اسلام میں داخل ہو کر اپنے اوقات لڑائیوں میں گزاریں تو بے شک ہم کہیں گے کہ وہ جہاد کرتے ہیں مگر اُن کا یہ جہاد اس پایہ کی نیکی نہیں ہوگی جتنی اُس شخص کی جو لڑائی میں جانا پسند نہیں کرتا.یہی ای وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق سورۃ انفال میں فرمایا ہے کہ وہ لڑائی کیلئے ایسی حالت میں نکلتے ہیں کہ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ یعنی ان میں سے ایک بڑا گر وہ اس سے نفرت کر رہا ہوتا ہے.بعض لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ صحابہ کرام لڑائی سے جی چراتے تھے ، مگر یہ درست نہیں.صحابہ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی جانوں کو ہرگز اسلام کے مقابلہ میں عزیز نہیں جانتے تھے.پس کراہت کے معنے اس جگہ یہ ہیں کہ وہ لڑائی سے نفرت کرتے تھے.اس لئے کہ اس میں مرے لوگ مارے جائیں گے اور ان دونوں قسم کی کراہتوں میں بڑا فرق ہے.ایک کراہت اس شخص کی ہے جو سمجھتا ہے کہ میں نہ مارا جاؤں ، وہ بزدل ہے اور ایک اس لئے کراہت کرتا ہے کہ انسانی جانیں ضائع ہوں گی اور مرجانے والوں کیلئے ہدایت کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا.یہ اعلیٰ بہادری اور شرافت نفس کی دلیل ہے.پس جو شخص لڑائی اور دنگا فساد کو پسند کرتا ہے وہ اگر جہاد میں شامل ہو تو یہ اس
خطبات محمود ۶۴۰ سال ۱۹۳۷ء کی نیکی تو ضرور ہوگی مگر اُس پایہ کی نہیں جتنی اس شخص کی جو دنگا فساد اور قتل و خونریزی کو نا پسند کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کیلئے وَهُمْ كَرِهُونَ بمقام مدح میں بیان کیا ہے.وہ جانتا تھا کہ کسی زمانہ میں ان پر یہ الزام لگایا جائے گا.جیسے آجکل یورپین مؤرخ کرتے ہیں کہ وہ لوگ لوٹ مار کو پسند کرتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ صحیح نہیں بلکہ وہ تو لڑائی کو دل سے ناپسند کرتے تھے اور صرف اس صورت میں لڑتے تھے کہ جب دیکھتے کہ اب کافروں نے ان کیلئے اس سے بچنے کا کوئی رستہ نہیں چھوڑا.تو یہ ان کی نیکی بیان کی گئی ہے کہ وہ مجبور ہو کر لڑتے تھے ورنہ وہ کسی کو دکھ دینا پسند نہیں کرتے تھے.چنانچہ اس کی عملی ہے الله مثال رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں ملتی ہے.باوجود اس کے کہ آپ نے درجن بھر سے زیادہ لڑائیوں میں حصہ لیا اور باوجود اس کے کہ آپ شدید معرکوں میں جو بلحاظ قتل و خونریزی کے شدید تھے ، اگر چہ ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد زیادہ نہ ہو ، کمان کرتے رہے.مگر سوائے ایک کے کوئی شخص آپ کے ہاتھ سے مارا نہیں گیا اور وہ بھی اس لئے کہ اس نے خود آپ کے ہی ہاتھ سے مارے جانے پر زور دیا.آپ خود اسے بھی مارنا پسند نہ کرتے تھے.صحابہ اس کے مقابلہ پر آتے مگر وہ سب سے کہتا کہ تم ہٹ جاؤ میرا مقابلہ محمد سے ہے اور میں تم میں سے کسی سے نہیں لڑوں گا.یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے آنے دو.ورنہ آپ پر نَعُوذُ بِاللهِ بُزدلی کا الزام لگتا اور غیرت کے خلاف فعل سمجھا جاتا.اور جب وہ آگے آیا تو آپ نے اُسے قتل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اُس کے حملہ کو روکنے کیلئے نیزہ کی آنی چھوٹی اور اسی سے اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا شدید درد پیدا کر دیا کہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ گیا اور بعد میں مر گیا ہے گویا اسے بھی آپ نے قتل نہیں کیا بلکہ صرف زخمی کیا اور یہ اتنی عظیم الشان بات ہے کہ دنیا کی کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ کوئی جرنیل اور کمانڈر اس قدر معرکوں میں شامل ہوا ہو اور اسکے ہاتھ سے صرف ایک ہی شخص مارا گیا ہو.تو صحابہ عام طور پر اور آنحضرت ﷺے خاص طور پر لڑائی کو نا پسند کرتے تھے مگر باوجود اس کے ان کو لڑائیاں کرنی پڑتی تھیں.اس لئے کہ دشمن ان کو مجبور کر دیتے تھے.الا مَا شَاءَ الله بعض اس کے برعکس بھی ہوں گے جو لڑائی کو پسند کرتے ہوں گے اور تیز طبیعت بھی ہوں گے مگر مستثنیات ہمیشہ قانون کو ثابت کرتی ہیں رد نہیں کرتیں.تو وہ اخلاق جو طبیعت کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں وہی نیکی کے کمال پر دلالت کرتے ہیں.طبیعت کے میلان کے مطابق جو نیکی ہو وہ کامل نیکی نہیں کہلا سکتی.مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے
خطبات محمود ۶۴۱ سال ۱۹۳۷ء فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو سے اب اگر ان کا سارا کریکٹر اسی نقطہ کے گرد گھومتا ہے اور یہی بات ان کے ہر عمل میں نظر آتی ہے تو یہ کوئی اعلیٰ خوبی نہیں.اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کی تمام نیکیوں میں ان کے طبعی میلان کا دخل ہے.نیکی دراصل اسی کی ہوتی ہے جس کی زندگی میں ہر قسم کی نیکیاں پائی جائیں.جیسے ہمارے رسول کریم ﷺ کی ذات ہے.عفو میں آپ نے ایسا نمونہ دکھایا کہ اس سے بہتر عفو نہیں ہوسکتا.لڑائی میں اس قدر دلیر تھے کہ آپ سے بڑھ کر کوئی دلیر نظر نہیں آتا.پالیسی میں اس قدر ذہین تھے کہ آپ سے بہت تدبیر کرنے والا اور سپاہیوں کو لڑانے والا کوئی دوسرا نہیں ملتا.جب آپ تقریر کرتے تو ایسی کہ بڑے بڑے مقررین آپ کے سامنے بیچ نظر آتے.ایک دفعہ آپ تقریر کرنے کیلئے صبح کھڑے ہوئے تو شام تک تقریر کرتے رہے صرف نماز کیلئے بند کرتے اور نماز پڑھ کر پھر شروع فرما دیتے.مگر جب مختصر بات فرماتے تو ایسی کہ اس کی تفسیر میں کئی کتابیں لکھی جاسکیں.گویا ایک طرف آپ کے لیکچر میں اتنی وسعت نظر آتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری طرف اختصاراً کلام فرماتے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.جب آپ سخاوت کرتے تو انتہاء درجہ کی حتی کہ صحابہ کا بیان ہے کہ آپ پا لخصوص رمضان میں اس طرح سخاوت کرتے کہ جس طرح تیز آندھی چلتی ہے ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی لَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا ۵ پر آپ کا عمل تھا.یعنی سخاوت کو فضول اور رائیگاں نہ گنواتے اور کی نہ بے محل استعمال کرتے.حاتم طائی کی سخاوت تو تھی مگر بے محل.کیونکہ وہ حلوائی کی دُکان پر دادا جی کی فاتحہ والی سخاوت تھی.باپ کے مال پر اُس کا کیا حق تھا کہ اُسے تقسیم کر دیتا.اس کے مقابل پر آنحضرت ایک طرف تو آپ اس قدرسخی تھے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان کے دنوں میں آپ اس طرح سخاوت کرتے کہ گویا تیز آندھی چل رہی ہے.مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک دفعہ آپ کی عزت کی اور کہا کہ آپ پانچ آدمیوں کو ساتھ لے آئیں.آپ نے ی پانچ آدمیوں کو ساتھ لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے.رستہ میں ایک چھٹا آدمی ساتھ شامل ہو گیا.بعض طبائع بے تکلف ہوتی ہیں اور ایسے لوگ خود بخو د ساتھ ہو جایا کرتے ہیں.جب آپ اس شخص کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا کہ اس نے صرف پانچ آدمیوں کی اجازت دی تھی ، چھ کی نہیں.گویا جب دوسرے کے حق کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے اس قدر احتیاط کی.یوں تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک کی آدمی کا کھانا دو آدمی کھا سکتے ہیں مگر اس وقت یہ نہیں فرمایا کہ پانچ کا کھانا چھ کھا لیں گے.کیونکہ یہاں
خطبات محمود ۶۴۲ سال ۱۹۳۷ء سخاوت کا نہیں بلکہ دوسرے کے حق کا سال تھا.جب آپ قضا فر ماتے تو یہی نظر آتا تھا کہ آپ بہترین قاضی ہیں اور ساری توجہ آپ کی اسی کام کی طرف ہے.لیکن جب تدریس فرماتے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا میلان اسی کی طرف ہے اور آپ بہترین مدرس ہیں.پھر جب آپ تربیت فرماتے تو ی یہی معلوم ہوتا کہ آپ بالکل ایسے ہیں جیسے تربیت کرنے والے اور بورڈنگوں وغیرہ کے افسر ہوتے ہیں اور گویا آپ صرف مربی ہیں.پھر جب مجلس میں بیٹھتے تو صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص یہی خیال کرتا تھا کہ آپ میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور یہ نظر آتا تھا کہ آپکو ان لوگوں کے سوا اور کسی کا بلکہ اپنے گھر والوں کا بھی کوئی خیال نہیں.لیکن جو نبی گھر میں قدم رکھتے آپ کی بیویاں خیال کرتیں کہ آپ سے زیادہ محبت کرنے والا خاوند دنیا بھر میں نہیں ہوگا.آپ جب بچوں سے ملتے تو کی معلوم ہوتا کہ آپ ایک خوش مذاق نوجوان ہیں اور بچوں سے کھیلنے میں ہی ساری لذت محسوس کرتے ہیں.کسی بچہ کو کندھے پر اُٹھاتے ، کسی کو چھیڑتے ،کسی کو پیار فرماتے ہیں مگر جب بوڑھوں میں جاتے تو تو ایسا نظر آتا کہ بڑھاپا ہی بڑھاپا ہے.آپ کے منہ سے عقل اور تدبیر کے پھول جھڑتے ہیں.جب آپ دوستوں کی طرف توجہ کرتے تو معلوم ہوتا ہے ان کے سوا آپ کو کسی کا خیال تک نہیں.مگر جب دشمن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ بھی اتنا ہی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جتنا دوست.یہ کہ دنیا کی کوئی نیکی ایسی نہیں جس میں آپ نمایاں نظر نہیں آتے اور نیکی اسی کا نام ہے.یہ نیکی نہیں کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو، یہ تو طبیعت کا میلان ہے.نیکی یہی کی ہے کہ ایک تھپڑ کھا کر دوسرا آگے کرنے کے موقع پر آگے کر دیا جائے اور مقابلہ کرنے کے موقع پر مقابلہ کیا جائے.ہاتھ کھولنے کے موقع پر کھولا جائے اور بند رکھنے کے موقع پر بند رکھا جائے.دوستوں کے تحفظ کا سوال ہو تو اس کا خیال رکھا جائے اور دشمنوں سے انصاف کا موقع ہو تو اس کا.قضاء کے موقع پر بہترین کی قاضی بنا جائے اور لڑائی کے موقع پر بہترین جرنیل تعلیم کا معاملہ ہو تو انسان معلم بنے اور تربیت کا وقت ہو تو مربی.اور اخلاق بیان کرنے کا وقت ہو تو عظیم الشان فلسفی نظر آئے.غرضیکہ ساری نیکیوں کا خیال رکھا جائے.یہی حقیقی اور کامل نیکی ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں طبیعت کا میلان نہیں ہوسکتیں.ایسی حالت میں ماننا پڑے گا کہ اگر کچھ چیزیں طبیعت کا میلان ہیں تو کچھ ایسی بھی ہیں جو محض نیکی کی خاطر اور کی خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے کی جارہی ہیں.یہ چیز ہے جو دنیا میں نیکی کو قائم کرنے کیلئے ضروری ہے.
خطبات محمود ۶۴۳ سال ۱۹۳۷ء جو لوگ چندہ دے کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر لیا اب ہمیں نمازوں کی کیا ضرورت ہے.یا جو نمازیں پڑھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ اب ہمیں زکوۃ کی ضرورت نہیں.حج کر لیا تو خیال کر لیا کہ اب عمرہ کی کیا حاجت ہے.روزہ رکھ کر سمجھ لیا کہ اب ہمیں اپنی یا ہمسائیوں کی تربیت اور لوگوں کے کی اخلاق کی نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں.وہ صرف اپنے اپنے میلانات طبائع کی اتباع کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے احکام کی نہیں اور ایسے لوگ کبھی صحیح قومی ترقی حاصل نہیں کیا کرتے.یہ مقصد ہے جسے تم نے کی حاصل کرنا ہے اور تم اس مقصد کے حصول کا ارادہ کر کے کھڑے ہوئے ہو.اس کا نام خواہ تحریک جدید رکھ لو یا تحریک قدیم.نام سے کوئی غرض نہیں ، اصل مقصود کام ہے.اس کا نام خواہ کچھ رکھ لیا جائے اور یہ تحریک جدید نہیں بلکہ اسے تم تحریک اقدم کہہ سکتے ہو کیونکہ یہ آدم کے وقت سے ہے، کوئی نہیں تحریک نہیں.سوال یہ ہے کہ یہ کام ہم نے کرنا ہے یا نہیں اور میرا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ خواہ کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہو کہ اگر ہم نے اس بات کو پورا نہ کیا اور قومی زندگی کو اس طرح نہ بدلا تو ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور ہمیشہ ناکام و نامرادر ہیں گے.اگر واقعی ہمارا یہی مقصود ہے تو ہمیں سنجیدگی.غور کرنا پڑے گا کہ اس راہ میں کیا کیا روکیں ہیں اور کن کن قربانیوں کی ہمیں ضرورت ہے.اور جب ނ تک اس کے متعلق اپنے قلوب میں قطعی فیصلہ نہ کر لیں اس جہت میں کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتے.اصل بات یہ ہے کہ کوئی کام مشکل نہیں ہوتا ، مشکل اس کا سمجھ لینا اور ارادہ کر لینا ہوتا ہے.جب یہ ہو جائے تو پھر کام آسان ہوتا ہے.جو شخص کام کو سمجھتا نہیں اور صرف رو میں بہتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.مثلاً اگر جہاد کا وقت ہوا تو اس کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھے بغیر شامل ہو گیا.تو جب اسے الله مشکلات نظر آئیں گی بھاگ اٹھے گا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی جو بغیر سوچے سمجھے ساتھ ہو لیتے تھے ان میں سے ہی بعض لڑائی میں سے بھاگ بھی آیا کرتے تھے.پس کام میں روکیں صرف اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ بعض لوگ حقیقی طور پر اسے سمجھتے نہیں.بعض لوگ تو بے سوچے ہی داخل ہو جاتے ہیں ر بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا ہے مگر حقیقت سمجھا نہیں ہوتا اور محض رو میں بہہ کر شامل ہو جاتے ہیں.لیکن جب مشکلات دیکھتے ہیں تو پھر پیچھے ہٹتے ہیں.ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہتے ہیں کہ اپنے بہادری کی علامت کے طور پر شیر کی تصویر کندھے پر گدوانے گیا تھا.پرانے کی زمانے میں یہ رواج تھا کہ لوگ اپنے جسموں پر مختلف تصویر میں گدوا لیتے تھے اور اس سے مراد یہ ہوتی تھی
خطبات محمود ۶۴۴ سال ۱۹۳۷ء کہ ہمارے اخلاق اس تمثیل کے صاحب کی طرح ہیں.مثلاً کوئی عقاب کی تصویر گرد والیتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوتا کہ میں دشمن پر عقاب کی طرح جھپٹتا ہوں اور اُسے اُٹھا کر لے جاتا ہوں.یا سانپ کی کی تصویر گدوالی جس کے معنے یہ ہوتے کہ میں سانپ کی طرح دشمن کو ڈس لیتا ہوں اور پھر وہ بچ نہیں سکتا.یہ ای شخص جس کی کہاوت ہے اُس کو یہ وہم تھا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور اُس نے سوچا کہ سب سے زیادہ بہادر تو شیر ہوتا ہے اس لئے مجھے اپنے جسم پر شیر کی تصویر گرد والینی چاہئے.چنانچہ وہ گدوانے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ شیر کی تصویر گود دو.اُس نے جب سوئی ماری کہ نشان کر کے اس میں سرمہ بھرے تو اس نے پوچھا کہ کون سا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ دایاں کان.وہ کہنے لگا پہلے یہ بتاؤ کہ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا رہتا تو ہے.اس پر وہ کہنے لگا کہ بس پھر یہ چھوڑ دو.اس نے پھر سوئی ماری تو اس نے پوچھا اب کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا بایاں کان.کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ کہ اگر شیر کا بایاں کان نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا تو ہے.کہنے لگا کہ بس پھر یہ بھی چھوڑ دو.اس کے بعد اُس نے پھر سوئی ماری تو اس نے پوچھا کہ اب کیا گود تے ہو؟ اس نے کہا کہ دُم.کہنے لگا اگر دم نہ ہو تو کیا شیر نہیں رہتا ؟ اس نے کہا رہتا تو ہے.اس پر وہ کہنے لگا کہ بس پھر دم بھی چھوڑ دو.اسی طرح بعض اور اعضاء کے گودنے کے متعلق بھی اس نے ایسا ہی کہا.اس پر گودنے والا سوئی رکھ کر بیٹھ گیا.اس نے پوچھا کہ گود تے کیوں نہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ بس اب شیر کا کچھ نہیں رہ گیا.کیونکہ جب نہ کان ہوں نہ دم نہ ٹانگیں تو شیر کارہ کیا گیا.دراصل یہ مثال اخلاقی حالت بیان کرنے کیلئے ہے.جو شخص یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہو تو میں احمدی رہ سکتا ہوں یا نہیں اور وہ نہ ہو تو رہ سکتا ہوں یا نہیں ، اس کی احمدیت باقی نہیں رہ سکتی.باقی اُسی کی رہتی ہے جو یہ خیال کرتا رہتا ہے کہ اگر یہ بات بھی شامل ہو جائے تو میری احمدیت اور اچھی ہو جائے گی اور اگر فلاں بھی کر سکوں تو اور بھی اچھی ہو جائے گی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں درس دے رہا تھا کہ ایک رئیس وہاں آکر بیٹھ گیا.میں پڑھا رہا تھا اور میں نے بتایا کہ دوزخ دائگی نہیں بلکہ ایک وقت یہ سزا منقطع ہو جائے گی اور جنت حاصل ہو جائے گی اس پر وہ کہنے لگا کہ پھر یہ تو بڑا مزا ہے.ہم اس دنیا میں بھی عیش کی کرتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی تھوڑی سی سزا کے بعد جنت حاصل کر لیں گے.آپ فرماتے تھے کہ وہ ا
خطبات محمود ۶۴۵ سال ۱۹۳۷ء بڑا آدمی تھا، میں نے خیال کیا کہ یہ ایسی ہی مثال سے سمجھے گا.میں نے کچھ روپے نکال کر رکھ دیئے اور کہا کہ گلی میں چل کر مجھے دو تین جوتے مار لینے دیں اور یہ روپے لے لیں.اس پر وہ بہت غصہ میں آیا اور کہنے لگا کہ تم مولوی لوگ ایسے ہی بد تہذیب ہوتے ہو ، یونہی عالم بنے پھرتے ہو.میں نے کہا کہ اگر واقعی تم اس بات کو پسندیدہ سمجھتے ہو کہ اگلی پچھلی مخلوق کے سامنے دوزخ کی سزا برداشت کر کے جنت لے لو تو پھر گلی میں چل کر چند آدمیوں کے سامنے جوتے کھا کر انعام کیوں نہیں لیتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے جو بات کہی تھی وہ جھوٹ تھی.دراصل تم اس کیلئے تیار نہیں ہو.تو کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو یہی خیال کرتے رہتے ہیں کہ چلو یہ بات نہ کی تو کیا احمدی نہ رہیں گے.مجھے یاد ہے جب مولوی محمد احسن صاحب فوت ہوئے اور میں نے ان کا جنازہ پڑھا تو بعض لوگوں نے مجھے لکھا کہ جب آپ نے ان کا بھی جنازہ پڑھ لیا تو پھر بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے لوگوں کے خیال میں مدارج کا فرق کوئی فرق ہی نہیں ہوتا.حالانکہ بیعت اور عدم بیعت کا فرق تو الگ کی رہا رنگ میں اگر اُنیس بیس کا فرق ہو تو وہ بھی فرق ہی ہوتا ہے.گورنمنٹ بی.اے پاس لوگوں کو بھی ای نوکریاں دے دیتی ہے مگر کیا پھر لوگ ایم.اے پاس کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر میں فرق ی تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ لوگ پھر کمشنری کا خیال ہی چھوڑ دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہی ہیں کہ اگر کچھ فرق ہے تو کیا ہوا.اور جب دنیا میں کچھ فرق کا خیال نہیں چھوڑا جا سکتا اور بندوں کا کچھ بھی بڑا سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا کا کچھ ہی ایسا بے حقیقت ہے کہ اس کا خیال نہ کیا جائے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک بھانجے تھے.آپ ایک دفعہ ان پر ناراض ہوئیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چونکہ کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی جائیدا درشتہ داروں میں ہی تقسیم ہوئی تھی.اس بھانجے نے کہیں کہہ دیا کہ یہ سخاوت بہت کرتی ہیں، انہیں روکنا چاہئے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو بہت ناراض ہوئیں اور قسم کھائی کہ میں آئندہ کبھی اس کی شکل نہ دیکھوں گی اور اگر دیکھوں تو کچھ صدقہ کروں گی.اس ناراضگی پر کچھ عرصہ گزر گیا تو اس بھانجے نے بعض صحابہ سے کہا کہ ناراضگی دور کرا دو.انہوں نے کہا کہ ہم اتنا کر دیں گے کہ تمہیں اندر لے جائیں.کیونکہ بغیر اذن کے وہ اندر نہ جا سکتے تھے.آگے اندر جا کر تم اپنی خالہ سے لپٹ جانا اور معافی لے لینا.چناچہ چھ سات صحابہ مل کر گئے اور دروازہ پر جا کر اجازت مانگی.حضرت عائشہ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے
خطبات محمود ۶۴۶ سال ۱۹۳۷ء دو چار کا نام لے دیا اور کہا کہ یہ اور کچھ اور ہیں.حضرت عائشہ نے پردہ کھینچ دیا اور اجازت دے دی.چنانچہ یہ اندر گئے اور ساتھ ہی وہ بھانجا چلا گیا اور پھر پردے کے اندر جا کر آپ سے لپٹ گیا اور معافی مانگنے لگا.حضرت عائشہ نے اسے معاف تو کر دیا مگر اس کے بعد جو غلام بھی آپ کے پاس آتا اُسے آزادی کر دیتیں اور فرماتیں کہ میں نے کہا تھا کہ کچھ صدقہ کروں گی.اب مجھے کیا علم ہے کہ خدا تعالیٰ کے کی نزدیک کچھ کی حد بندی کیا ہے؟ کے تو یہ کتنی نادانی کی بات ہے کہ لوگ کچھ کے فرق کو بے حقیقت سمجھتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کے کچھ کا فرق انسانی کچھ کے مقابلہ میں ذرہ اور سورج کا فرق ہے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ ای خاک کا ذرہ ہو اور سورج نہ ہو.ابو جہل بھی انسان تھا اور محمد رسول الله الا اللہ بھی انسان تھے.مگر کیا تم یہ ان پسند کرتے ہو کہ تم ابو جہل بن جاؤ.پھر رسول کریم ﷺ بھی انسان تھے اور وہ مسلمان بھی جو ہمیشہ غلطیاں کی کرتے اور جھاڑیں کھایا کرتے تھے.پھر کیا تم اس وجہ سے رسول کریم ہے کے مثیل بننے کی کوشش نہ کرو گے کہ دوسرے بھی انسان تھے.اگر جنازہ پڑھا جانا ہی معیار ہے تو رسول کریم ﷺ کا بھی جنازہ پڑھا گیا تھا اور ایک ادنی مسلمان کا بھی پڑھا جاتا ہے پھر کیا دونوں ایک ہی ہیں؟ کیا یہی جنازہ ایک معیار ہے.تو ی بعض لوگوں کا نقطہ نگاہ یہی ہوتا ہے.ہر بات کے متعلق وہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوئی تو کیا ہم احمدی نہ رہیں گے.جب دیکھتے ہیں کہ کسی بات پر وہ شدید گرفت کے نیچے نہیں آئیں گے تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں.مگر صحابہ کا نقطہ نگاہ اس کے بالکل اُلٹ تھا.ایک صحابی ایک دفعہ کسی جنازہ کے پاس سے گزرے تو انہیں بتایا گیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کسی کا جنازہ ادا کرنے اور پھر دفن تک ساتھ رہے تو اسے اُحد کے پہاڑ کے برابر ثواب حاصل ہوتا ہے.یہ سن کر انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہم نے تو کئی اُحد ضائع کر دئیے.کے یہ اعلیٰ درجہ کی قربانیوں میں سے تو نہیں مگر یہ بات سن کر وہ برداشت نہ کر سکے.اور یہ اُحد بھی تو صرف سمجھانے کیلئے کہا گیا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا ثواب تو ساری دنیا کے پہاڑوں سے بھی بھاری ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم ادنی درجہ کے مومن کو بھی جو انعام دیں گے وہ زمین و آسمان کے برابر ہوگا.پس یہ خیال کہ بعض نیکیاں اگر چھوٹ جائیں تو کیا حرج ہے کافر اور منافق بنانے کیلئے کافی ہوتا ہے ہے.یوں کوئی چھوٹ جائے تو علیحدہ بات ہے مگر اس نیت سے نہ چھوڑے کہ یہ معمولی بات ہے.یہ صحیح
خطبات محمود ۶۴۷ سال ۱۹۳۷ء ہے کہ ہر انسان اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا کہ ساری نیکیاں کرے.مگر جو یہ خیال کر لیتا ہے کہ اگر کوئی چھوٹ جائے تو کیا حرج ہے.اس کی سو میں سے اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو باقی ناوے بھی ساتھ ہی ضائع ہو جاتی ہیں.اس لئے پیشتر اس کے کہ میں وہ باتیں بیان کروں جو میں تحریک جدید کے سلسلہ میں کہنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے اور جو تبدیلی نہیں کرے گا وہ یا تو ان منافق بنے گا اور یا پھر ہمارے رستہ میں پتھر بن کر رُکاوٹ پیدا کرے گا.آئے دن ان کی طرف سے فتنے اٹھتے رہیں گے.سفر میں جو شخص ساتھ چلنا چاہے مگر چل نہ سکے وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے مصیبت ہی بنہ کرتا ہے.کبھی کہتا ہے ذرا بیٹھ جاؤ ، سانس لے لیں.کبھی کہتا ہے پانی پی لیں اور کبھی یہ کہ پیشاب کر لیں اور اس طرح دوسروں کا سفر بھی خراب کرتا ہے لیکن جب ذہنیت میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو ہر شخص اپنی ذمہ واری کو سمجھتا ہے.چونکہ جلسہ کے ایام قریب ہیں اس لئے میں اس وقت اہم تفاصیل میں جانا نہیں چاہتا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء الله جلسہ سالانہ کے بعد بیان کروں گا.مگر فی الحال دوستوں کو اس امر کی کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذہنیت میں تبدیلی پیدا کریں.اس کے متعلق میں نے پہلے بھی بعض خطبے کی پڑھے تھے اور توجہ دلائی تھی کہ جب تک ہماری ذہنیت میں تبدیلی نہ ہو کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.جب تک ہمارا دانا اور نادان، عالم اور ان پڑھ، چھوٹا اور بڑا، بچہ اور بوڑھا یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اسلام در اصل ایک خاص قسم کے قوانین کے مجموعہ کا نام ہے اور جب تک ہم ان کو جاری نہیں کر لیتے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اسلام نہ کسی کلمہ کا نام ہے اور نہ کسی اقرار کا.یہ کلمے اور اقرار تو صرف علامتیں ہیں اور تعلیمات کے خلاصے ہیں.ورنہ اسلام ایک وسیع تمدنی دائرہ کا نام ہے جسے قائم اور مکمل کئے بغیر قومی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی.جب ہم اس دائرہ کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، جب اس کعبتہ اللہ کی تعمیر کر لیں ، اُسی وقت ہم کامیاب ہوں گے.اُسی وقت حج شروع ہوگا لیکن جب تک وہ دائرہ ہم مکمل نہیں کر لیتے ، جب تک وہ گھر نہیں بنالیتے اُس وقت تک کامیابی کی تمام امیدیں محض وہم ہیں جن کے اندر کوئی حقیقت نہیں.جیسا کہ میں کہہ آیا ہوں تفاصیل تو اِنشَاءَ اللہ جلسہ سالانہ کے بعد بیان کروں گا مگر بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ذکر اس اثنا میں بھی کرتا رہوں گا.چنانچہ ایک آج بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ نو جوانی
خطبات محمود ۶۴۸ سال ۱۹۳۷ء نکلیں اور باہر جائیں.تحریک جدید کے شروع میں بھی میں نے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور بہت سے نوجوان نکلے بھی تھے مگر ان کے نکلنے کا طریق زیادہ مفید نہیں تھا.اور اس لئے جن ممالک میں ہم جانا چاہتے تھے اور جس رنگ میں کام کرنا چاہتے تھے نہیں کیا جاسکا.بے شک انہوں نے قربانیاں کیں مگر صحیح طریق پر ان کی قربانیوں کو استعمال نہیں کیا جاسکا.اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف کریں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبلغ بن سکیں.میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ ہمیں ایسے نو جوانوں کی ضرورت ہے جو یا تو انگریزی دان ہوں اور ہم انہیں دینی تعلیم دلا دیں.یا ایسے عالم ہوں جن کو یورپین زبانیں سکھا لیں.پہلا حملہ تو ہو چکا.اُس وقت کی ہمیں جو ملا اور اُسے جہاں بھیجنا پسند کیا بھیج دیا.اس سے ہم نے تجربہ حاصل کیا، نتیجہ نکالا ، خطرات دیکھے، فوائد کا مشاہدہ کیا اور آئندہ کیلئے نقائص کو دور کرنے کیلئے اپنے ذہن میں بعض تدابیر کا اندازہ کیا.اب دوسرا قدم ہمیں ایسے رنگ میں اُٹھانا چاہئے کہ یا تو یورپین زبانوں کے ماہرین کو دین سکھائیں اور یا علماء کو زبانیں سکھا کر باہر بھیجیں تا وہ باہر جا کر مکمل تبلیغ کرسکیں.پس جماعت کے نوجوانوں کو میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آگے آئیں.پہلا تجربہ ان کے سامنے موجود ہے اس لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کریں.جس وقت فوری ہے ضرورت ہواُس وقت کا معیار اور ہوتا ہے اور دوسرے وقت کا اور.اُس وقت ہم صرف تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح آواز کو غیر ممالک میں پہنچا سکتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم میں ایسے نو جوان موجود ہیں جو خطرات سے بے پرواہ ہو کر اسلام کی تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں.لیکن اب ہم مستقل صور قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس مستقل طریق پر کام کرنے والے ہوں.اور جو ایسے اخلاص اور جذبہ اطاعت کے ماتحت اپنے آپ کو پیش کریں کہ جس میں کوئی کیا اور کیوں نہ ہو.جو شخص کیا اور کیوں کہتا ہے وہ کبھی سپاہی نہیں بن سکتا.سپاہی وہی ہوسکتا ہے جو ان الفاظ کو بھول جائے اور جو شخص اطاعت اور فرمانبرداری کا مفہوم جانتا ہے وہ سوال نہیں کیا کرتا.حکم کے مقابلہ میں کیوں اور کیا نہیں پوچھا کرتا.پس کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہایت ضروری ہے.اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں.بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ہی ضروری ہے اور کسی کی ضروری
خطبات محمود ۶۴۹ سال ۱۹۳۷ء نہیں.خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح ماننا ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا.کیونکہ خلیفہ تو براہ راست ہر ایک شخص تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.فرمایا ہے کہ مَنْ أَطَاعَ اَمِيْرِى فَقَدْ اَطَاعَنِى وَ مَنْ عَصَى اَمِيْرِى فَقَدْ عَصَانِی - جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کر وہ افسر کی نافرمانی کی ، اس نے گویا میری نافرمانی کی.ایسا خلیفہ کون سا ہو سکتا ہے جو تمام افراد تک براہِ راست اپنی آواز پہنچا سکے.ایسا تو نبی بھی نہیں کر سکتا.بلکہ خدا تعالیٰ گو اس پر قادر ہے مگر عملاً ہر ایک تک اپنی آواز نہیں پہنچا تا.اس قسم کی باتیں کرنے والوں کے اندر بھی وہی روح ہوتی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ اگر خدا ہم سے کہے تو ہم مانیں گے.خدا تو ایسا کر سکتا ہے مگر کرتا نہیں لیکن خلیفہ تو کر ہی نہیں سکتا.پس جب خدا جو کر سکتا ہے وہ ایسا نہیں کرتا اور جو کر ہی نہیں سکتا وہ کس طرح کرے.خدا تعالیٰ کے نہ کر سکنے کا سوال نہیں بلکہ حکمت کا سوال ہے.مگر خلفاء تو نہ ایسا کر سکتے ہیں اور نہ ای ہی حکمت ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے.سوائے اس کے کہ ملانوں کی طرح پانچ سات طالب علم نے کر بیٹھ جائے.اس لئے ضروری ہے کہ خلیفہ کے ماتحت افسر ہوں جن کی اطاعت اُسی کی طرح کی کی جائے.پس وہی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو اس بات پر آمادہ ہوں کہ کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھا ئیں گے، عقل سے کام لیں گے، تیسرے محنت کر سکتے ہوں چوتھے اخلاص.کام کرنے والے ہوں اور پانچویں قابلیت رکھتے ہوں.ان اوصاف کے ساتھ ہی یہ وقف مفید ہو سکتے ہیں.قابلیت اور اطاعت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا.اور اگر اخلاص نہ ہو تو بھی انسان ایسے ایسے کی اعتراض کرتا رہتا ہے کہ بجائے مفید ہونے کے نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.پھر محنت بھی ضروری ہے.جو شخص محنت نہیں کرتا اس کے ہاتھ سے کئی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں اور کئی سوراخ ایسے رہ جاتے ہیں جن کی سے خرابی پیدا ہو جاتی ہے.جیسے کوئی شخص کنویس کی چادر میں پانی ڈال لے تو اگر تو اس کے چاروں کونوں کو پکڑ کر رکھے تو وہ محفوظ رہے گا لیکن اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو پانی گر جائے گا.پھر عقل بھی ضروری ہے.اگر عقل نہ ہو تو علم اور اخلاص بھی کام نہیں دے سکتا.بعض احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ زاہد بہتر ہے یا عاقل ؟ آپ نے فرمایا عاقل کئی گنا زیادہ بہتر ہے.کیونکہ زاہد تو صرف اپنی ذات کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے مگر عاقل
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء 66 دوسروں کو بھی.بعض لوگوں نے کتا ہیں تو رٹی ہوئی ہوتی ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ علم کو استعمال کہاں کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے.قابلیت سے میری مراد دراصل علم ہے جس سے کام اور اس کے کرنے کا طریق معلوم ہوتا ہے اور عقل اس علم کے استعمال کا محل بتاتی ہے اور اخلاص ، استقلال اور مداومت سے عقل کو کام پر لگائے رکھتا ہے.جب یہ چیزیں جمع ہو جائیں اور پھر ساتھ محنت کی عادت اور اطاعت کا جذ بہ ہو تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے لیکن ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا.میں نے دیکھا ہے کہ تحریک جدید کے تمام کاموں سے زیادہ وقتیں تحریک جدید کے بورڈنگ میں پیش آئی ہیں.اتفاق سے ہمیں وہاں کام کرنے کیلئے ایسے آدمی ملے جنہوں نے محنت سے کام نہ کیا یا عقل سے نہ کیا اور یہ نہ سمجھا کہ اس کا مقصد کیا ہے اور میں کیا چاہتا ہوں.ان کی مثال من چہ سرائم و طنبورہ من چہ مے سرائید کی تھی.اگر وہ ذمہ واری کا احساس کرتے اور خیال کرتے کہ لوگوں کے کام تو اس زمانہ میں نتائج پیدا کریں گے اور ہمارے آئندہ زمانہ میں جا کر تو یہ حالت نہ ہوتی.مگر انہوں نے نہ خود کام کو سمجھا اور نہ ہی طالب علموں کی کی ذہنیت میں مناسب تبدیلی پیدا کی حتی کہ ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ اُن کو یہاں کیوں جمع کیا گیا ہے.پس محض وقف سے کام نہیں بنتا ایسے وقف سے کام بنتا ہے کہ انسان محنت ، مشقت ، قربانی اور اطاعت سے کام کرنے کیلئے تیار ہو.تحریک جدید کے بورڈنگ کا کام ہی ایک ایسا کام ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے تو ایک ایسا انقلاب پیدا کر دیتے جس کی قیمت اور عظمت کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر مجھے چالیس خالص مومن مل جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر سکتا ہوں.اور اس قسم کے بورڈنگ میں موقع ہے کہ ایک زمانہ میں ایسے سوسو مومن پیدا کرسکیں.پس آئندہ جولوگ اپنے آپ کو وقف کریں وہ یہ سمجھ کر کریں کہ اپنے آپ کو فنا سمجھیں گے اور جس کام پر ان کو لگایا جائے اُس پر محنت ، اخلاص اور عقل و علم سے کام کریں گے.عقل اور علم کا اندازہ کرنا تو ہمارا کام ہے مگر محنت ، اطاعت اور اخلاص سے کام کا ارادہ ان کو کرنا چاہئے اور دوسرے یہ بھی خیال کر لینا چاہئے کہ وقت کے یہ معنے نہیں کہ وہ خواہ کام کیلئے موزوں ثابت ہوں یا نہ ہوں ہم ان کو علیحدہ نہیں کریں گے یا سزا نہیں دیں گے.صرف وہی اپنے آپ کو پیش کرے جو سزا کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں.جن قوموں کے افراد میں سزا برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ ہلاک ہی ہوا کرتی
خطبات محمود ۶۵۱ سال ۱۹۳۷ء ہیں.صحابہ کو دیکھو وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سزا برداشت کرتے تھے اور خود بخود کرتے تھے.ایک دفعہ ایک صحابی سے کوئی غلطی ہوگئی تو انہوں نے مسجد میں جا کر اپنے آپ کو ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہ کر دے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا.مگر ایسا کرنے کیلئے بھی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے.کئی وہمی آدمی ہوتے ہیں جو ایسی بات سن کر فوراً اُچھل پڑتے ہیں کہ بہت اچھا گرمل گیا ہے.آئندہ اگر ہم سے کبھی غلطی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح کریں گے.مگر جو اپنے آپ کو باندھتا اور پھر ادھر اُدھر دیکھتا ہے کہ کوئی آئے اور مجھے چھڑائے وہ خود بھی دھوکا خوردہ ہے.اس کی مثال تو ایسی ہی ہے ہے جیسے کانگرسی قانون شکنی کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمیں گرفتار کیوں کرتی ہے.اس صحابی نے تو اپنی نیت پوری کر دی مگر رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جائز نہیں.لیکن بہر حال سزا کا برداشت کرنا قومی زندگی کیلئے بہت اہم چیز ہے.ایک شخص کو رسول کریم ﷺ نے سزا دی کہ یہ ہماری مجلس میں کبھی نہ آئے اور وہ ساری عمر نہ آسکا.اسی طرح حضرت ابو بکر نے ایک شخص کو کی یہ سزا دی کہ ہمارے زمانہ میں کبھی مدینہ میں نہ آئے.چنانچہ وہ نہیں آیا مگر کام اسی قربانی سے کرتا رہا.تو سزا کا برداشت کرنا ہر مومن کیلئے ضروری ہے.خاص کر وقف زندگی کی صورت میں تو بہت ہی ضروری ہے.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسے سزا دی ہی نہ جائے خواہ کچھ ہو ، وہ گویا چاہتا ہے کہ ہر حال کی میں اس کا لحاظ کیا جائے اور اس کیلئے دوسروں کو تباہ کر دیا جائے.پس وقف کرنے والوں کیلئے پانچوں اوصاف کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سزا برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں.اور بعد میں یہ نہ کہیں کہ اس وقت ہمیں نوکری مل سکتی تھی.یونہی ہمارے دوسال ضائع کئے گئے.پس وہی آگے آئے جس کی نیت یہ ہو کہ میں پوری کوشش کروں گا.لیکن اگر نکتا ثابت ہوں تو ہے سزا بھی بخوشی برداشت کرلوں گا.میں پھر ایک بار دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب کا ایک نہایت اہم کی موقع ہے.انگریزی دان اور عربی دان دونوں قسم کے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں.انٹرنس پاس یا اس سے اوپر گریجوایٹ انگریزی دان اور مولوی فاضل یا بعض ایسے جو کہ اگر چہ مولوی فاضل کی ڈگری تو نہ رکھتے ہو مگر عربی میں اچھی استعداد ہو، اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.انتخاب کرنے کا اختیار تو ہمارا ہے.مگر جو اپنے آپ کو پیش کریں وہ محنت اور قربانی کیلئے تیار ہوکر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا اور ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو پیش کریں اور اپنے سامنے ایک ہی مقصود رکھیں !
خطبات محمود ۶۵۲ سال ۱۹۳۷ء اشاعت اسلام.اور اس بات کیلئے بھی تیار ہوں کہ اگر کبھی وہ نظام کے لئے موزوں ثابت نہ ہوں تو.شک ان کو الگ کر دیا جائے خواہ دُنیوی لحاظ سے ان کو کیسا بھی نقصان کیوں نہ پہنچ چکا ہو.مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان شرائط کے ماتحت جلد از جلد اپنے نام پیش کریں گے تا است سکیم پر کام کر سکیں جو میرے مدنظر ہے.ہم آدمی تو تھوڑے ہی لیں گے مگر جو چند آدمی سینکڑوں میں.چنے جائیں گے وہ بہر حال ان سے بہتر ہوں گے جو پانچ سات میں سے چنے جائیں گے.پچھلی مرتبہ قریباً دوسو نو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور مجھے امید ہے کہ اب اس سے بھی زیادہ کریں گے.جنہوں نے پچھلی مرتبہ اپنے آپ کو پیش کیا تھا وہ اب بھی کر سکتے ہیں.بلکہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی چاہیں تو اپنے نام پیش کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی تین سال کی مدت ختم ہو گئی ہے.بعض ان میں سے ایسے ی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تین سال تو ہم جانتے نہیں جب ایک دفعہ اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر پیچھے کیا ہٹنا ہے.ان کو بھی قانون کے ماتحت پھر اپنے نام پیش کرنے چاہئیں کیونکہ پہلے ہمارا مطالبہ صرف تین سال کیلئے تھا.اور جو بھی اپنے آپ کو پیش کریں پختہ عزم کے اور ارادہ کے ساتھ کریں.کیونکہ ڈھلمل آدمی اپنے لئے بھی اور دوسروں کیلئے بھی مصیبت کا موجب ہوتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک بچے بوڑھے ، جوان، مرد، عورت، چھوٹے بڑے کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ عزم صمیم کے ساتھ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے جس کا مطالبہ ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کیا گیا ہے اور وہ ہمارے کاموں میں برکت دے تا ہم اس میں کامیاب ہو سکیں.اللَّهُمَّ آمِينَ الانفال: ۶ الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۳۷ء ) سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء سے متنی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي صلى الله عليه وسلم(الخ) بنی اسرائیل: ۲۷
خطبات محمود =م ۱۲ 2 ۶۵۳ سال ۱۹۳۷ء مسلم كتاب الاشربة باب ما يفعل الضيف اذا تبعه (الخ) بخاری کتاب المناقب باب مناقب قريش بخاری کتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى اطيعوا الله و اطيعوا الرسول....الخ ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۴۲.جدید ایڈیشن
خطبات محمود لده سال ۱۹۳۷ء اصلاح نفس اور تبلیغ احمدیت میں کامیابی حاصل کرنے کا مگر فرموده ۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسانی فطرت ہمیشہ ہی ہدایت کی جستجو میں رہتی ہے اور یہ ایک ایسا یقینی اور قطعی امر ہے کہ اس کے متعلق کبھی بھی ایک عقلمند اور غور و فکر کرنے والا انسان شبہ میں نہیں رہ سکتا.لیکن باوجود اس کے انسانی نی تعصبات اتنے بڑھ گئے ہیں اور عارضی پر دے انسان کی عقل پر اتنے پڑ گئے ہیں کہ بالعموم ایک انسان کی دوسرے انسان کے متعلق بدظنی کی طرف مائل رہتا ہے اور اگر اسے دوسرے کی کوئی نیکی معلوم ہوتی ہے تو کی وہ اُس کو منافقت کی طرف منسوب کر دیتا ہے.یہ حالت دماغی ہمیشہ ہی فتنے اور فساد پیدا کرتی چلی جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت سے محروم بھی کر دیتی ہے بلکہ مایوسی پیدا ہی اسی وجہ سے ہوتی ہے.مایوسی اور بدظنی لازم و ملزوم ہیں.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو خاص طور پر تاکید فرمائی ہے فَذَكَرُ اِنْ نَّفَعَتِ الذِكری کہ تو لوگوں کو ہمیشہ سمجھا تارہ کیونکہ دنیا کا مشاہدہ اس کی بات پر گواہ ہے اور تجربہ اس کا شاہد کہ ہمیشہ ہی انسان کو نصیحت کرنے اور سمجھانے سے فائدہ ہوتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی مایوسی کو دور فرمایا ہے کہ گھروں میں بیٹھے بیٹھے بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہے ہیں کہ لوگ ہماری باتیں نہیں سنیں گے اور اگر سُنیں گے تو توجہ نہیں کریں گے.اور اگر توجہ کریں گے تو ان کی کو قبول نہیں کریں گے اور نہ وہ صحیح راستہ جو انہیں بتایا جائے گا اسے اختیار کریں گے اور اگر انہوں نے صحیح راستہ اختیار کر لیا اور ہماری بات کو مان بھی لیا تو صداقت کو عَلَى الْإِعْلان قبول کرنے کی جرات نہیں کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء کریں گے.یہ چار خیالات انسان آپ ہی اپنے ذہن میں پیدا کر لیتا اور پھر اپنے نفس کو یہ کہتے ہوئے خوش کر لیتا ہے کہ میں نے لوگوں کی ہدایت کیلئے پورا زور لگا لیا.حالانکہ یہ انسانی فطرت پر بد گمانی ہے اور ایسا خیال کرنا واقعات کے بھی خلاف ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر جستجو کا مادہ رکھا ہوا ہے اور ی چونکہ یہ طبعی مادہ ہے اس لئے کوئی بھی اس سے محروم نہیں.انسان خواہ ہند و ہو خواہ عیسائی ، خواہ یہودی ہو خواہ مجوسی اندرونی طور پر اُس کا دل چاہتا ہے کہ میں صحیح راستہ اختیار کروں.لیکن بدظنیاں، شقاق، لڑائیاں اور صحیح ذرائع کا ہم نہ پہنچنا اس کو بُرائی کی طرف مائل کر دیتے یا ہدایت سے کلیۂ محروم کرد.ہیں.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کُلُّ مَوْلُودٍ يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ " یا ایک حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَة الْإِسْلَامِ فَاَبَوَاهُ يُهَوِدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ اَوْ يُمَحِسَانِه ٣ کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ فطرت صحیحہ یا فطرتِ اسلامی پر پیدا ہوتا ہے.فطرت اسلامی پر پیدا ہونے کے یہی معنی ہیں کہ فطرتی طور پر اُس کے اندر یہ خوبی رکھی جاتی ہے کہ سچائی کے آگے سر جھکا دے.کیونکہ اسلام کے معنی اطاعت و انقیاد کے ہیں.پس ہر بچہ کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات داخل کی ہے کہ وہ سچائی کے آگے سر جھکا دے.مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو فَابَوَاهُ يُهَوِدَانِهِ اَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِہ.اُس کے ماں باپ اس کو یہودی بنا دیتے ہیں یا عیسائی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں.یعنی اس کی فطرت پر دوسرا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے.اور جب اس کے سامنے ایسے عقائد بیان کئے جاتے ہیں جو فطرتِ صحیحہ کے خلاف ہوتے ہیں تو وہ اسی رو میں بہہ جاتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ فطرت انسانی میں نیکی رکھی گئی ہے اور وہ کبھی نہیں بدلتی.ہاں عارضی پر دہ اس پر پڑ جائے تو فطرت کی روشنی مدھم ہو جاتی ہے.مگر جب بھی وہ پردہ اس سے اُٹھا دیا جائے فطرت اپنی اصل صورت میں جلوہ گر ہو جاتی ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ جب ایک شخص بعد میں یہودی یا عیسائی یا مجوسی بن جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ فطرت بھی بدل جاتی ہے.مگر یہ غلط ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ فَاَبَوَاهُ يُغَيِّرَانِ فِطْرَتَہ کہ اُس کے ماں باپ اس کی فطرت کو بدل دیتے ہیں بلکہ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ یہ ہے کہ فَاَبَوَاهُ يُهَوِدَانِهِ اَوْيُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِهِ کہ اس کے ماں باپ کے اثرات کی وجہ سے وہ یہودی ہو جاتا ہے یا عیسائی ہو جاتا ہے یا مجوسی ہو جاتا ہے.اب یہودی، عیسائی یا مجوسی ہو جانا اور چیز ہے اور فطرت انسانی کا بدلنا اور چیز ہے.فطرت کے متعلق رسول کریم ﷺ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ پہاڑ کا ایک جگہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء سے دوسری جگہ چلا جانا آسان ہے مگر فطرت کا بدلنا مشکل ہے.گویا رسول کریم ﷺ نے بتادیا کہ جب میں کہتا ہوں کہ فطرت صحیحہ کے باوجود انسان میں تبدیلی ہو جاتی ہے تو اس تبدیلی سے سطحی تبدیلی مراد ہوتی ہے ورنہ فطرت و ہیں قائم رہتی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عورتیں برقعہ پہن لیتی ہیں.اب اگر ایک عورت برقعہ پہنے اور کوئی شخص اس کے برقعہ کو دیکھ کر کہے کہ اس کی آنکھیں بھی ماری گئی ہیں اور اس کا چہرہ بھی مسخ ہو گیا ہے تو ہر شخص اسے بیوقوف کہے گا.کیونکہ ان چیزوں پر برقعہ کے ذریعہ صرف پردہ پڑا ہوتا ہے ورنہ چیزیں اصل میں موجود ہوتی ہیں.اسی طرح بچہ ماں باپ کے اثرات کے نتیجہ میں یہودیت یا نصرانیت یا مجوسیت کا برقعہ پہنتا ہے، فطرت نہیں بدلتی.کیونکہ پہاڑ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے مگر فطرت میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تو فطرت انسانی اسی جگہ قائم رہتی ہے البتہ ماں باپ اس کی عادات میں تبدیلی کر دیتے ہیں، اس کے سطحی خیالات میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور وہ ایک دھوکے میں آ جاتا ہے.جیسے خدا تعالیٰ نے تو سردی اور گرمی کا الگ الگ موسم بنایا ہوا ہے مگر جب کسی کو ملیر یا چڑھتا ہے تو اسے کی سخت گرمی میں بھی سخت سردی محسوس ہونے لگ جاتی ہے.مگر کوئی نہیں کہتا کہ اس کی فطرت بدل گئی.ہر شخص جانتا ہے کہ یہ مرض ہے جس کی وجہ سے اس کے اعصاب میں کمزوری واقع ہوگئی ہے، ورنہ اس کی لکی فطرت نہیں بدلی.چنانچہ جو نبی اس کا بخار اترتا ہے فوراً اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے.اسی طرح بعض بخار ایسے ہوتے ہیں جن میں سخت گرمی محسوس ہوتی ہے.سردی کے ایام ہوتے ہیں لوگ آگ تاپ رہے ہوتے ہیں.سردی کے مارے ٹھٹھرے جارے ہوتے ہیں مگر مریض کہہ رہا ہوتا ہے مجھے آگ لگ گئی ، میرے کپڑے اُتار دو.بلکہ بعض امراض تو ایسے ہیں جو بہت لمبے چلے جاتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں بیمار سردی کے ایام میں سوتے وقت لحاف سے اپنا پاؤں باہر نکال لیتا ہے.ایسے ایسے مریض کو جب بھی دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ اپنا سارا جسم لحاف سے ڈھک لے گا مگر پیر نہیں ڈھکے گا.حالانکہ دوسرے لوگوں کو اس وقت سخت سردی محسوس ہو رہی ہوتی ہے اور سردی سے اُن کے پیرسن ہورہے ہوتے ہیں.اب اس کے یہ معنے نہیں کہ دنیا سے سردی مٹ گئی یا گرمی جاتی رہی بلکہ درحقیقت اس شخص کی فطرت پر ایک پردہ پڑ جاتا ہے.جب وہ پردہ دور کر دیا جاتا ہے تو وہ فوراً اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے.پس رسول کریم علیہ نے ان دونوں مضمونوں کو بیان کر دیا اور فرمایا کہ بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے.اور یہ فطرت ایسی چیز ہے جو کبھی نہیں بدلتی.اور جب ہر بچہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے تو کسی وقت انسانوں کی انسانیت سے مایوس ہو جانا محض حماقت اور نادانی ہے.یہی مایوسی جب اپنی ذات کے متعلق پیدا ہوتی ہے تو انسان گناہوں میں بڑھ جاتا ہے اور یہی مایوسی جب دوسرے لوگوں کے متعلق اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو وہ تبلیغ چھوڑ دیتا ہے.اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ سے مایوس ہو کر اپنے نفس کی اصلاح ترک کر دیتا ہے وہی وقت اُس کی اصلاح اور روحانی ترقی کا ہوتا ہے.مگر وہ عین وقت پر اپنی کوششوں کو چھوڑ دیتا اور اس طرح عظیم الشان کی نیکیوں کے حصول سے کلیۂ محروم ہو جاتا ہے.جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؎ قسمت تو میری دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا یہی اس شخص کی مثال ہوتی ہے.وہ کوشش کرتا ہے اور کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے مگر جس وقت اُس پر فضل نازل ہونے والا ہوتا ہے اور تاریکی وظلمت کا پردہ اُٹھنے والا ہوتا ہے وہ کہتا ہے مجھ سے اپنی اصلاح نہیں ہوسکتی اور مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر ہمیشہ کیلئے گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہوں میں کتنا ہی ملوث کیوں نہ ہوا گر وہ یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ میں گنا ہوں سے بچوں اور اسی کوشش میں اُس کی موت واقع ہو جائے تو جہاں تک میں نے اسلام اور قرآن کا مطالعہ کی کیا ہے میرا مذ ہب یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق ہوگا، سزا کا نہیں ہوگا.کیونکہ اگر وہ واقعہ میں گناہوں کی دلدل میں پھنس گیا تھا اور اس نے اس دلدل سے نکلنے کی پوری کوشش کی کی اور کوشش کرتا چلا گیا اور اسی حالت میں اُسے موت آگئی تو موت پر اُس کا کیا اختیار تھا کہ وہ اُسے روک سکتا.یہ موت خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس پر آئی اور اس موت کے آجانے کی وجہ سے وہ گنا ہوں کی دلدل سے نکلنے سے محروم رہا.ورنہ اگر موت نہ آتی تو ممکن تھا وہ گنا ہوں سے پاک ہو جاتا.پس چونکہ موت خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی اور اس پر ایسی حالت میں آئی جبکہ گنا ہوں سے نکلنے کی وجہ پوری کوشش کر رہا تھا.اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ اسے یہ کہے کہ جا جہنم میں.کیونکہ اس صورت میں اس کے جہنم میں جانے کا باعث خدا تعالیٰ کا فعل ہوگا ( نَعُوذُ بِاللهِ ) اس کا نہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس عقیدہ سے گناہوں پر دلیری پیدا ہو جاتی ہے مگر یہ میچ نہیں کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ وہ گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا یا نہیں، خدا تعالیٰ کا کام ہے.انسان کو کیا پتہ کہ میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء واقعہ میں گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوں یا اگر چاہوں تو ان سے بچ سکتا ہوں.پس چونکہ یہ فیصلہ خدا تعالیٰ نے کرنا ہے اس لئے گناہوں پر یہ دلیر نہیں ہو سکتا.غرض جو شخص گنا ہوں سے بچنے کی بچے طور پر کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش میں مرجاتا ہے وہ یقیناً نیک لکھا جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے وہ لوگ جو جرمن، انگلستان اور فرانس کی لڑائی میں مارے گئے.گو انہوں نے فتح نہیں دیکھی مگر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ فتح انہی لوگوں کے ہاتھ سے ہوئی ہے جو زندہ رہے ہیں.بلکہ فتح کا سہرا جس طرح کی زندوں کے سر رہتا ہے اسی طرح ان لوگوں کے سر بھی رہتا ہے جو جنگ کی حالت میں مارے گئے.چنانچہ قوموں نے اس کا عملی رنگ میں اعتراف کرتے ہوئے جنگ عظیم کے بعد قومی فتح کا نشان یہی قرار دیا کہ جنگ میں مرنے والے ایک مُردہ کو ایک خاص جگہ گاڑ دیا گیا.جہاں سال میں ایک دفعہ وہ بھاری میلہ کرتے ہیں اور باشادہ تک وہاں جاتا ہے.اسی طرح ان قوموں نے تسلیم کیا ہے کہ ہماری فتح ان کی مرنے والوں کے ذریعہ ہوئی ہے جنہوں نے اپنی جانیں قوم اور ملک کیلئے قربان کر دیں.اسی طرح جوی س شیطان سے لڑتا ہوا مارا جاتا ہے، خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی حیثیت شکست خوردہ انسان کی نہیں ہے ہوتی بلکہ اُس کی حیثیت اُس شخص کی سی ہوتی ہے جولڑائی میں مارا جاتا ہے.اس کا ثبوت احادیث سے بھی ملتا ہے.چنانچہ رسولکر یم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے بہت سے گناہ کئے مگر آخر اس کے دل میں تو بہ کا خیال پیدا ہوا.اُس زمانہ میں رائج خیال یہی تھا کہ تو بہ بغیر علماء کی اجازت کے قبول نہیں ہوسکتی.یہ خیال یہودیوں اور عیسائیوں میں اب تک پایا جاتا ہے بلکہ عیسائیوں میں تو یہ خیال اتنا غالب ہے کہ ان کے نزدیک پادری کے سامنے اقرار جرم کئے بغیر انسان بخشا ہی نہیں جاتا.ہماری طرح ان میں یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے روئیں اور معافی طلب کریں.بلکہ ان میں یہ ضروری تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان پادری کے سامنے تو بہ کرے.اسی قومی رواج کے مطابق وہ مختلف علماء کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں نے یہ یہ گناہ کئے ہیں، اب میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ جب وہ کسی عالم کو اپنا واقعہ سنا تا تو وہ کہتا کہ تیری تو بہ قبول نہیں ہوسکتی.اگر تیرے جیسے انسان کی توبہ قبول کر لی جائے تو دنیا میں گناہ کی انتہا نہ رہے.وہ چونکہ علاوہ اور گناہوں کے قتل کا بھی مرتکب رہ چکا تھا اور بڑا بھاری قاتل تھا اس لئے وہ کہتا کہ اگر میری توبہ قبول نہیں ہوسکتی تو میں تم کو بھی زندہ نہیں رہنے دیتا.چنانچہ وہ اسے قتل کر دیتا.پھر وہ دوسرے کے پاس گیا، پھر تیسرے کے پاس گیا ، پھر چوتھے کے پاس گیا مگر سب اُس کی ج
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء تو بہ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے اور وہ ہر ایک کو قتل کرتا گیا.آخر لوگوں نے اسے کہا کہ تو تو بہ کیلئے گھر سے نکلا ہے مگر قتل کر کے اور بھی گنہگار ہوتا جاتا ہے.وہ کہنے لگا میں تو تو بہ کرتا ہوں مگر لوگ کہتے ہیں تیرے لئے تو بہ کا دروازہ بند ہے.اس لئے میں غصہ میں آکر انہیں بھی قتل کر دیتا ہوں.آخر لوگوں نے اُسے کہا کہ فلاں علاقہ میں ایک شخص ہے تو اُس کے پاس جا امید ہے کہ وہ تیری توبہ قبول کر لے گا.جب وہ چلا تو ابھی وہ راستہ میں ہی تھا کہ اُس کی جان نکل گئی.اس پر ملائکہ رحمت اور ملائکہ عذاب کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا.ملائکہ عذاب نے کہا کہ ہم اس کی روح دوزخ میں لے جائیں گے کیونکہ یہ گنہگار تھا.مگر ملائکہ رحمت کہتے کہ یہ تو بہ کرنے کیلئے جار ہا تھا پس ہم اسے جنت میں لے جائیں گے.آخر اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا کہ کس کی بات صحیح ہے اور اس شخص کے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم یہ دیکھو کہ وہ اس مقام کے زیادہ قریب ہے جہاں تو بہ کرنے جارہا تھا یا اس مقام کے زیادہ قریب ہے جہاں سے وہ گناہ کر کے نکلا تھا.جب ملائکہ ان جگہوں کو ماپنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اُس راستہ کو جو تو بہ کا تھا چھوٹا کر دیا مگر اُس راستہ کو جو گناہ والا تھا لمبا کر دیا اور فرمایا کہ چونکہ یہ تو بہ کے مقام کے زیادہ قریب ہے اس لئے اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اسے جنت میں لے جایا جائے.کے اس حدیث کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کے درمیان ضرور اس قسم کی باتیں ہوئی ہوں.یہ اصطلاحی الفاظ ہوتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص گنا ہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے مر جاتا ہے تو ملائکہ تر ڈو میں پڑ جاتے ہیں.ملائکہ تو احکام الہی کی اطاعت کیا کرتے کی ہیں تر و د کا مفہوم صرف یہ ہے کہ جس وقت کوئی جان تو بہ کی کوشش کرتے ہوئے نکلتی ہے اور بظاہر حقیقی تو بہ اُسے نصیب نہیں ہوتی تو ملائکہ میں ایک اضطراب سا پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کا مستحق ہے دوزخ کا نہیں اور پھر خدا تعالیٰ بھی انہی کی تائید کرتا ہے.غرض انسان جب اپنی فطرت سے مایوس ہو جاتا ہے تو گناہ میں بڑھ جاتا ہے.اور جب دوسروں سے مایوس ہو جاتا ہے تو تبلیغ میں سُست ہو جاتا ہے.کئی لوگ ہیں جو میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں حق تو یہی ہے مگر لوگ مانتے نہیں.میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ اگر لوگ واقعہ میں نہیں مانتے تو ی ہماری جماعت میں جولوگ نئے داخل ہوتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں.اگر لوگ اتنے ہی سنگدل اور ان حقیقت سے بے بہرہ ہو گئے ہیں کہ وہ سچائی کی باتیں سنتے ہیں مگر مانتے نہیں.تو سوال یہ ہے کہ ایک
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء زمانہ وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کوئی آدمی نہ تھا.پھر وہ وقت آیا جب آپ کے ساتھ ہزاروں آدمی تھے اور اب تو لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں.پھر کسی زمانہ میں پنجاب میں بھی کوئی شخص آپ کا معتقد نہ تھا.اور اب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام براعظموں میں احمدی پھیل گئے ہیں.اگر یہ سچ بات ہے کہ دنیا نہیں مانتی تو پھر اتنے لوگ کہاں سے آگئے.یہیں دیکھ لو اچھے لوگ اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں، ان میں سے کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں پ پر ایمان لائے.میں سمجھتا ہوں اس مجمع میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل دیکھی.زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی تصویر دیکھی.پھر کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شکل تو دیکھی مگر آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا انہیں موقع نہ ملا.اور بہت قلیل ایسے لوگ ہیں جو غالباً در جنوں سے بڑھ نہیں سکتے جنہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا انہیں موقع ملا.مگر آخر یہ لوگ کہاں سے آئے.میری پیدائش اور بیعت قریباً ایک ہی وقت کی سے چلتی ہے اور جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا اُس وقت کئی سال تبلیغ پر گزر چکے تھے لیکن مجھے اپنے ہوش کے زمانہ میں یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کیلئے نکلتے تو صرف حافظ حامد علی صاحب ساتھ ہوتے.ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اسی طرف سیر کیلئے آنا یاد ہے.میں اُس وقت چونکہ چھوٹا بچہ تھا اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں بھی سیر کیلئے چلوں گا.اُس زمانہ کی میں یہاں جھاؤ کے پودے ہوا کرتے تھے اور یہ تمام علاقہ جہاں اب تعلیم الاسلام ہائی سکول ، بورڈنگ کی اور مسجد وغیرہ ایک جنگل تھا اور اس میں جھاؤ کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوا کرتی تھی.حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام اسی طرف سیر کیلئے تشریف لائے اور میرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے لیا.مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میں تھک گیا ہوں.اس پر کبھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُٹھاتے اور کبھی حافظ حامد علی صاحب اور یہ نظارہ مجھے آج تک یاد ہے.تو وہ ایسا کی زمانہ تھا کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی تھا مگر آپ کو ماننے والے بہت قلیل لوگ تھے اور قادیان میں آنے والا تو کوئی کوئی تھا لیکن آج یہ زمانہ ہے کہ ہمیں بار بار یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ قادیان میں ہجرت کر کے آنے سے پیشتر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اجازت لے لیں اور اگر کوئی بغیر اجازت کے یہاں ہجرت کر کے آئے تو اسے واپس جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے.کیونکہ اب آبادی خدا تعالیٰ کے
خطبات محمود ۶۶۱ سال ۱۹۳۷ء فضل سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ منافق بھی یہاں کھپ جاتے ہیں.پھر جن کو ذرا بھی باہر دشمنوں کی طرف سے تکالیف پہنچتی ہوں اردوہ ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے تو کہتے ہیں چلو قادیان میں ہجرت کر کے چلیں.اس طرح کمزور ایمان والے بھی قادیان میں اکٹھے ہو سکتے ہیں.غرض اُس وقت یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ جس کے دل میں ایمان کا ایک ذرہ بھی ہوا سے چاہئے کہ ہجرت کر کے قادیان آئے اور اب ہمیں شرطیں لگانی پڑتی ہیں اور کہنا پڑتا ہے کہ جس کے دل میں بڑا پختہ ایمان ہو صرف وہ آئے ، دوسروں کے آنے کی ضرورت نہیں.پھر کجا وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بائیکاٹ کر دیا جاتا.برتن بنانے والوں کو آپ کے برتن بنانے سے ، سقوں کو آپ کا پانی بھرنے سے اور چوہڑوں کو آپ کے مکانات کی صفائی کرنے سے روک دیا جاتا.اور کجا آج یہ حالت ہے کہ قادیان میں ہر پیشے والے کثرت سے احمدی پائے جاتے ہیں.بلکہ بعض پیشوں میں ۹۰-۸۰ فیصدی اور بعض پیشوں میں سو فیصدی احمدی ہی احمدی نظر آتے ہیں.شاید آج سے چند سال پہلے میں یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ ہر پیشہ کے احمدی قادیان میں بکثرت موجود ہیں.کیونکہ خاکروب جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا احمدی نہیں تھے مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے خاکروب بھی احمدی ہیں اور کہانی جاسکتا کہ ہر پیشہ کے احمدی قادیان میں موجود ہیں.پھر ان علاقوں میں جہاں پھرنے سے وحشت ہوتی کی تھی اور جھاؤ ہی جھاؤ نظر آتا تھا، وہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمارتیں ہی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور یا ان رستوں پر چلنے سے انسان گھبرا تا تھا یا اب یہاں تقریریں ہوتی ہیں اور جلسے ہوتے ہیں.تو اگر یہ کی درست ہے کہ انسانی فطرت اتنی گری ہوئی ہے کہ وہ حق بات مانتی نہیں تو یہ لوگ کہاں سے آگئے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ انسان کبھی صحیح راستہ اختیار نہیں کرتا.وہ یا افراط کی طرف چلا جاتا ہے یا تفریط کی طرف.یا تو وہ کہتا ہے کہ میری اصلاح ہو ہی نہیں سکتی اور یا وہ یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ میں ہی اصلاح کے قابل تھا باقی دنیا اصلاح کے قابل نہیں.اسی طرح اگر اس کے اندر خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری یہ کہاں قسمت ہے کہ مجھے ہدایت حاصل ہو.اور جب اسے ہدایت مل جاتی ہے تو وہ یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ میں ہی دنیا میں ایک خوش قسمت انسان ہوں.میں ہی جنتی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوں.باقی سب دوزخی اور جہنمی ہیں.حالانکہ اگر یہ آپ ڈوبتا ہے تب بھی نقصان ہے اور اگر یہ تو بیچ جاتا ہے مگر لوگ ڈوب جاتے ہیں تب بھی نقصان ہے.کمال تو یہ
خطبات محمود ۶۶۲ سال ۱۹۳۷ء کہ یہ بھی نہ ڈوبے اور دوسرے لوگ بھی نہ ڈو ہیں.اور یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے نفس پر بھی بدظنی نہ کرے اور دوسرے لوگوں پر بھی بدظنی نہ کرے.اگر وہ اپنے آپ پر بدظنی نہ کرے اور اپنے رب پر بھی بدظنی نہ کرے اور وہ یہ سمجھے کہ وہ سخت گیرا اور سنگدل نہیں بلکہ رحم کرنے والا اور گنہگار کی تو بہ کو قبول کرنے والا ہے.مجھے چاہئے کہ میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا چلا جاؤں.تو اول تو وہ دنیا میں ہی کامیاب ہو جائے گا اور شیطان کے پنجہ سے رہائی پا جائے گا اور اگر دنیا میں کامیاب نہ ہوا اور اسی جد و جہد میں اسے موت آجائے ، تب بھی خدا تعالیٰ کا فضل اسے ڈھانپ لے گا.غرض انسان اگر اپنے نفس پر بدظنی ترک کر دے تو اس سے اس کے گناہ بھی کچھ کم ہو جائیں اور اس کے دل میں کام کرنے کی امنگ اور جوش پیدا ہو جائے.اسی طرح اگر وہ دنیا پر حسن ظنی کرے اور کہے کہ اگر مجھے ہدایت مل سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ دوسروں کو نہیں مل سکتی.یقیناً جس طرح مجھے ہدایت ملی اسی طرح دوسروں کو بھی ہدایت مل سکتی ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ ان کو تبلیغ کرنے سے غافل نہیں ہوگا اور اپنی کوشش میں مشغول رہے گا یہاں تک کہ انہیں ہدایت حاصل ہو جائے گی.چنانچہ اس امر کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ وہ لوگ جو ایک وقت صداقت کے شدید ترین دشمن ہوتے ہیں دوسرے وقت میں اسی صداقت کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے والے بن جاتے ہیں.حضرت عمر و بن العاص ایک مشہور صحابی گزرے ہیں.گو مسلمانوں کا ایک طبقہ انہیں حقارت کی نی نظر سے دیکھتا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت ذہین اور ہوشیار تھے.وہ جب مرض الموت سے بیماری وئے تو ایک دوست ان کی عیادت کے لئے گئے اور پوچھا کہ کیا حال ہے؟ وہ یہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے اگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں میں فوت ہو جاتا تو مجھے یقین ہوتا کہ میں بخشا جاؤں گا.کیونکہ اُس وقت ہم ہر قسم کے عیبوں سے بچے ہوئے تھے مگر آپ کی وفات کے بعد کئی واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ اب اپنے اعمال کے متعلق مجھے شبہ پیدا ہو گیا ہے ( حضرت عمرو بن العاص دراصل حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علیؓ سے جنگ کرتے رہے تھے اور شاید اسی کا اُن کی طبیعت پر اثر تھا ).پھر کہنے لگے میرا عجیب حال ہے.ایک زمانہ مجھ پر ایسا گزرا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے زیادہ قابل نفرت وجود مجھے اور کوئی نظر نہیں آتا تھا.میں نے جو نبی آپ کا دعویٰ سنا، دل میں آپ سے بغض پیدا ہو گیا اور اسی بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل کبھی نہیں دیکھی بلکہ اتنی نفرت پیدا ہوگئی اتنی نفرت پیدا ہوگئی کہ میں کبھی یہ پسند
خطبات محمود ۶۶۳ سال ۱۹۳۷ء صلى الله نہ کرتا کہ میں اور رسول کریم ﷺ ایک جگہ جمع ہوں.پھر اللہ تعالی نے مجھے ہدایت دی اور میں مسلمان ہو گیا تو رسول کریم ﷺ سے مجھے اتنی محبت پیدا ہو گئی اور آپ کی اس قدر عظمت میرے دل میں بیٹھ گئی کہ میں آپ کے جلال اور آپ کے رُعب کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.اور آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے رسول کریم ﷺ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا.کیونکہ بعض کے وقت مجھے آپ سے اتنا بغض تھا کہ اس بغض کی شدت کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل کبھی نہ دیکھی اور محبت کے وقت مجھے آپ سے اتنی محبت پیدا ہوگئی اور آپ کی اس قدر عظمت میرے دل پر مستولی ہو گئی کہ آپ کے ی رعب اور جلال کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل کبھی نہ دیکھی.۵ے یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو ان میں پیدا ہوا.اگر اس قسم کے لوگ پہلے زمانہ میں ہو سکتے تھے تو یقیناً آج بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں.پس مومن کو کبھی بھی فطرت انسانیہ پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے خواہ وہ بدظنی اپنی ذات کے متعلق ہوا اور خواہ دوسرے لوگوں کے متعلق.جب تک ہماری جماعت کے دوست اس نقص کو دور نہ کر لیں اُس وقت تک نہ ان کے گناہ دور ہو سکتے ہیں اور نہ وہ تبلیغ میں پورے جوش سے حصہ لے سکتے ہیں.گنا ہوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان نہ اپنی ذات پر بدظنی کرے اور نہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرے.دنیا میں مختلف کام مختلف میعاد کے اندر ہوتے ہیں.کوئی دس سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی بیس سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی تمہیں سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی چالیس سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی پچاس سال کے اندر ہوتا ہے.اسی طرح گناہوں سے بھی کوئی جلدی بیچ جاتا ہے کوئی دیر میں بچتا ہے اور کوئی بہت ہی دیر میں بچتا ہے.اس کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ کوشش کرتا چلا جائے.اس سلسلہ میں اس کا اپنی کامیابی دیکھنا ضروری نہیں.ہاں باطنی کامیابی اسے فوراً حاصل ہو جاتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے ظاہر کو نی نہیں دیکھتا.جب کوئی شخص اپنی اندرونی صفائی کیلئے کوشش شروع کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اُسی وقت کا میاب سمجھا جانے لگتا ہے گو دنیا کے نزدیک اس کی کامیابی میں ابھی کچھ دیر ہو.پس مومن کو بدظنی کے مرض سے بہت بچنا چاہئے.میں نے قریباً ہر قوم کے لوگوں سے مل کر دیکھا ہے کہ ان میں نیک اور شریف النفس لوگ پائے جاتے ہیں.ہندوؤں سے مجھے جب بھی ملنے کا موقع ہوا ہے میں نے ان کی اکثریت کو شرافت اور نیکی کی خواہش اپنے دل میں رکھنے والی پایا ہے اور ان میں سے اکثر کو سچائی کی جستجو ہوتی ہے.یہ الگ بات ہے کہ اگر ان کے سامنے سچائی پیش کی جائے تو وہ اس کو قبول کرنے کی جرات نہ
خطبات محمود ۶۶۴ سال ۱۹۳۷ء کر سکتے ہوں.کیونکہ دل میں سچائی کے حصول کی تڑپ ہونا اور بات ہے اور سچائی کو کسی روک کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے قبول کر لینا اور بات ہے.لیکن بہر حال ملاقاتوں اور خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوؤں میں کثرت ایسے لوگوں کی ہے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی ایک تڑپ ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے روحانیت کہتے ہیں.روحانیت خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی تڑپ کا نام ہے.جس کے اندر یہ تڑپ تھوڑی ہو اُس میں تھوڑی روحانیت ہوتی ہے اور جس میں یہ تڑپ زیادہ ہو اس میں زیادہ ہی روحانیت ہوتی ہے اور عدمِ روحانیت اس بات کا نام ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کا خیال انسان کے دل میں نہ ہو.جو شخص خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کے ماتحت کام نہیں کرتا وہ چاہے جتنی بھی نیکی کرے دنیا دار کہلاتا ہے.مگر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے کوئی کام کرتا ہے وہ چاہے کتنی ہی حقیر نیکی کرے دیندار کہلائے گا.چنانچہ اگر کوئی شخص اس لئے چندہ دیتا ہے کہ اسے نام ونمود اور شہرت حاصل ہو، اُس کا جتھا مضبوط ہو، تو وہ دنیا دار کہلائے گا.لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک پیسہ یا دو پیسے چندہ دیتا ہے مگر اس لئے دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو تو وہ روحانی آدمی کہلائے گا.یورپ میں آجکل لاکھوں نہیں کروڑوں روپے صدقہ و خیرات دینے والے موجود ہیں مگر کوئی شخص انہیں روحانی آدمی نہیں کہتا.کیونکہ ان کی غرض محض یہ ہوتی ہے کہ ہماری قوم مضبوط ہو جائے.ہمارا جتھا بڑا ہو جائے اور ہمیں دنیا میں عزت اور شہرت حاصل ہو جائے.اسی لئے وہ باوجود بڑی بڑی رقوم چندہ دینے کے دنیا داری کہلاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی رضاء اور خوشنودی کیلئے اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی رقم بھی چندہ میں دیتا ہے تو وہ روحانی آدمی کہلاتا ہے.تو میرا تجربہ یہ ہے کہ دنیا کے اکثر لوگوں میں روحانیت پائی جاتی ہے سوائے آوارہ گردوں اور اوباشوں کے بلکہ ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے اندر خشیت اللہ ہوتی ہے.لیکن اس طبقہ کو مستقلی کرتے ہوئے میرا تجربہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقی آوارگی میں مبتلا ہوتے ہیں اُن کے سوا دنیا کے ہری شخص میں کچھ نہ کچھ روحانیت ہوتی ہے مگر آوارگی کی تعریف جو میں کرتا ہوں وہ دوسرے لوگوں.ނ مختلف ہے.میں چور کو آوارہ نہیں کہتا ، میں ایک بد کار کو بھی آوارہ نہیں کہتا.آوارہ میرے نزدیک وہ ہے جو اپنے وقت کو رائیگاں کھوتا اور اسے ہنسی اور مخول میں ضائع کر دیتا ہے.ایسے لوگوں میں ہر گز روحانیت ں پائی جاسکتی.میں نے چوروں میں بھی روحانیت دیکھی ہے ، میں نے بدکاروں میں بھی روحانیت
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء دیکھی ہے مگر میں نے ان لوگوں میں روحانیت نہیں دیکھی جو بیکار بیٹھے رہتے ہیں اور ہا ہا ہو ہو کر رہے اور لوگوں پر ہنسی اور تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں.بلکہ جرم کرنے والوں میں احساس گناہ اور احساسِ ندامت زیادہ ہوتا ہے جیسے بعض عبادت کرنے والوں میں کبر پیدا ہو جاتا ہے.مگر یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں.دنیا میں ہر گنہگار میں احساسِ ندامت نہیں ہوتا جیسے ہر عابد میں کبر نہیں ہوتا.یہ صرف بعض لوگوں کی قسمیں ہیں.کبر بہر حال روحانیت ایک وسیع چیز ہے اور میرے نزدیک ناوے فیصدی لوگوں میں پائی جاتی ہے.صرف وی ایک فیصدی وہ لوگ ہیں جن پر دنیا داری کامل طور پر چھائی ہوئی ہوتی ہے اور روحانیت کے حصول کی کوئی خواہش ان کے دلوں میں نہیں ہوتی.مگر ایسے آدمی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں بہت کم ہوتے ہیں.حتی کہ دہر یہ بھی ایسے نہیں ہوتے.دہر یہ انسان ایک خاص عمر میں ہوتا ہے.مگر پھر جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے اس کی دہریت بھی کم ہوتی جاتی ہے.چنانچہ جن دہریوں سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ان میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جو چند سال گزرنے کے بعد اپنی دہریت پر قائم رہا ہو.ایک نو جوان شخص جو ہندوستانی تھا ولایت میں مجھے ملا.وہ اُس وقت دہریت پر اتنا یقین اور وثوق رکھتا تھا کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے وجود پر ہنسی اور تمسخر اڑا تا رہتا تھا اور اُس کی دین سے بے بہر گی کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ایک دفعہ کہنے لگا ہندوستانی اتنے بیوقوف ہوتے ہیں ، اتنے بیوقوف ہوتے ہیں کہ اب مجھے اپنے آپ کو تی ہندوستانی کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے.اس پر ہندوستانیوں کی حماقت کی جو مثال اس نے مجھے سنائی وہ میں آپ لوگوں کو بھی بتا تا ہوں.اس سے آپ سمجھ سکیں گے کہ اس کی دینی حالت کیا تھی.وہ کہنے لگا ہم چند ہندوستانی دوست جب پہلے پہل تعلیم کیلئے ولایت آئے اور مارسیلز میں اُترے تو ایک دوست نے کہا یہاں ایک میوزیم ہے ، چلو دیکھ لیں.چنانچہ ہم سب میوزیم دیکھنے کیلئے چلے گئے.مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی ہم وہاں سے ہاہا ہی ہی کرتے اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بھاگے.میں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگا وہاں نگی تصویر یں تھی جنہیں ہم دیکھتے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بھاگے.مگر اب یہ حالت ہے کہ ننگی عورتیں دیکھ کر بھی ہمارے دل میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا.گویا اس نے بتایا کہ جب ہم ہندوستان سے آئے تھے تو اتنے جاہل تھے ، اتنے جاہل تھے کہ منگی تصویر میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے.حالانکہ تہذیب کا کمال یہ ہے کہ انسان ننگی عورتوں کو دیکھے تو اس کی آنکھ تک نہ جھپکے.یہ اس کے نزدیک تہذیب کی اور شرافت کا معیار تھا.مگر دس بارہ سال کے بعد وہ ایک دفعہ مجھے ہندوستان میں ملا، اُس وقت وہ ایک
خطبات محمود ۶۶۶ سال ۱۹۳۷ء کالج کا پروفیسر تھا.میں نے اُس سے پوچھا بتاؤ اب تمہاری کیا حالت ہے؟ وہ کہنے لگا مذہبی آدمی تو میں ہوں نہیں لیکن میری اب وہ پہلی حالت نہیں رہی.چنانچہ طالب علموں سے پوچھ لیجئے جب خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کوئی اعتراض کرتے ہیں تو میں انہیں کہتا کہ میں بھی ان راستوں سے گزر چکا ہوں.مگر میرا تجربہ یہی ہے کہ مذہب کو تسلیم کئے بغیر اطمینانِ قلب حاصل نہیں ہوتا.اب دیکھو اُس کی یا تو وہ حالت تھی اور یا یہ حالت ہوگئی.مگر اس کے اندر یہ تغیر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى فِطْرَةِ الْاَسْلَام کے مطابق ایک فطرتی نیکی اس کے اندر موجود تھی جو بعد میں ظاہر ہوگئی.گو یا فطرت پر پہلے ایک پالش چڑھا ہوا تھا مگر جب وہ پالش اُتر گیا تو فطرت اپنی اصل حالت رونما ہوگئی.تو گناہ اور بدی اور افتراء اور جھوٹ یہ ساری چیزیں ملاقع ہیں ورنہ اندرونی طور پر تمام انسان نیک ہوتے ہیں.جب تک ہم یہ نکتہ نہ سمجھ لیں گلی طور پر ہم اصلاح عالم نہیں کر سکتے.یہ تو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی بداعمالی کی وجہ سے اُس کے متعلق یہ فیصلہ کر دے کہ وہ جہنمی ہے مگر ایسی سزا بھی عارضی ہوگی ،مستقل نہیں ہوگی.اگر یہ سزا مستقل ہوتی تو جہنم بھی مستقل ہوتا.مگر خدا تعالیٰ نے جہنم کو مستقل نہیں رکھا بلکہ جنت کو مستقل رکھا ہے اور اس طرح ہمیں بتایا ہے کہ نیکی مستقل چیز ہے اور بدی عارضی چیز.جب ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم ایسی اعلیٰ ملی ہے تو یہ کتنے بڑے تعجب کی بات ہوگی.اگر ی وہی قوم جس کے سپر د اصلاح عالم کا کام ہو تھک جائے اور کہے کہ لوگ اس کی بات نہیں مانتے.یا اس کی لئے ہمت ہار کر بیٹھ جائے کہ وہ نیکی حاصل نہیں کر سکتی.یا اگر اس نے خود نیکی حاصل کر لی ہے تو وہ دوسروں کے متعلق یہ خیال کرلے کہ وہ نیک نہیں بن سکتے.وہ کیوں یہ خیال نہیں کرتی کہ اور لوگ خدا تعالیٰ کے سوتیلے بیٹے نہیں.وہ بھی اس کی مخلوق ہیں اور ان سے بھی خدا تعالیٰ محبت اور پیار رکھتا ہے.اگر وہ ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں تو یقیناً ایک وقت ایسا آ جائے گا جبکہ وہ ہدایت پا جائیں گے.تو مومن کو اپنی فطرت کی نیکی پر پورا بھروسہ اور یقین رکھنا چاہئے.یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے کہا مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ ل بعض لوگ اسے حدیث قرار دیتے ہیں.بعض اسے آثار میں سے قرار دیتے ہیں لیکن جو بھی ہو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میں ایک نکتۂ معرفت بیان کیا گیا ہے.بعض لوگ اس سے وحدت وجود کا استدلال کرتے ہیں مگر یہ بالکل غلط ہے.اس میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ی انسان اپنی فطرت کو سمجھ لے تو اسے خدا ضرور مل جاتا ہے.جب ایک انسان اس یقین پر قائم ہو جائے کہ
خطبات محمود ۶۶۷ سال ۱۹۳۷ء میری فطرت خدا تعالیٰ نے نیک بنائی ہے اور مجھے اس نے اس لئے بنایا ہے کہ اس کا وصال مجھے حاصل ہو تو فطرت کو خدا تعالیٰ نے ایسا طاقتور بنایا ہے کہ اس یقین کے بعد وہ شیطان سے شکست نہیں کھا سکتا.اور جو شخص شیطان سے نہیں ہارتا جنت اس کا ورثہ ہوتا اور جنت کا وہ ٹھیکیدار ہو جاتا ہے.پھر جب اسے اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے تو وہ اس یقین کے بعد دوسروں کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے بھی تیار ہو جاتا ہے اور ہر رنگ میں انہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش اور سعی کرتا ہے ہے.کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ لوگ بچ جائیں گے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی گھر کو آگ لگی ہوئی ہو اور چاروں طرف سے اس کے شعلے نکل رہے ہوں.اور انسان یہ سمجھ لے کہ اب اس گھر کے آدمیوں میں سے ہم کسی کو نکال نہیں سکتے.تو وہ واقعہ میں کسی آدمی کو نہیں نکال سکتا.لیکن جب کوئی شخص ایک عزم اور ارادہ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں کوشش تو کروں ممکن ہے بعض لوگوں کو میں کی نکال لاؤں تو وہ آگ کے اندر داخل ہو کر بعض لوگوں کو واقعہ میں بچالیتا ہے.اسی طرح اگر کسی کو یقین ہو کہ لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے اور پھر وہ اپنی کوششیں جاری رکھتا ہے تو اس کی تبلیغ بہت زیادہ مؤثر ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص یقین سے خالی دل لے کر جاتا ہے اور لوگوں کو سمجھاتا ہے تو اس کی تبلیغ میں کیا اثر ہو سکتا ہے.چنانچہ بعض لوگ گو تبلیغ کیلئے جاتے ہیں مگر اُن کا دل یہ کہ رہا ہوتا ہے کہ لوگوں نے تو ماننا ہی نہیں.اس طرح جب وہ لوگوں پر بدظنی کرتے ہیں اور اپنے خدا پر بھی بدظنی کرتے ہیں تو ان کی تبلیغ میں کوئی برکت نہیں رہتی اور وہ خالی ہاتھ گھر واپس آجاتے ہیں.آخر کیا فرق ہے انبیاء کی تبلیغ اور دوسرے لوگوں کی تبلیغ میں.کیا فرق ہے اولیاء کی تبلیغ اور دوسرے لوگوں کی تبلیغ میں.کیا فرق ہے مومنوں کی تبلیغ اور دوسرے لوگوں کی تبلیغ میں.فرق یہی ہے کہ مومن جب بولتا ہے تو اس یقین اور وثوق سے بولتا ہے کہ میں دنیا کو ہلا دوں گا.میرے سامنے اگر پہاڑ بھی آئے تو میں اسے اُڑا دوں گا.اور جو مخالف میر.سامنے ہے اس کی مجال نہیں کہ میرے ہاتھ سے جاسکے.وہ میرا شکار ہے جو کہیں اور نہیں جاسکتا.میں اس کی بدی کا چولہ پھاڑ دوں گا اور اس کی حقیقی نیکی جو اس کی فطرت میں مرکوز ہے نکال کر باہر رکھ دوں گا.لیکن دوسرا جب تبلیغ کرتا ہے تو دل میں یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ میں یونہبی تبلیغ کر رہا ہوں ورنہ اس نے مانا تو ہے نہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے قلب کا اثر دوسرے شخص کے قلب پر بھی جاپڑتا ہے اور وہ بھی کہتا ہے کہ یہ بے شک تبلیغ کرلے میں نے اس کی بات نہیں مانی.لیکن دل کے اندر سے نکلی ہوئی بات کی
خطبات محمود ۶۶۸ سال ۱۹۳۷ء دوسرے کے دل پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی اور انسان خواہ کس قدر مخالف ہو اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور اس میں انبیاء اور اولیاء کی کوئی تخصیص نہیں.عام مومن پر بھی جب اس قسم کا وقت آتا ہے تو اس کے ذریعہ قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی ایک مثال ہے جو اس امر کو خوب واضح کر دیتی ہے.حضرت عمر اسلام کے سخت دشمن تھے.اتنے دشمن کہ وہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے چل پڑے.مگر ابھی رستہ میں ہی تھے کہ کسی نے ان سے پوچھا عمر کہا جا ر ہے ہو ؟ وہ کہنے لگے محمد (ﷺ) کا کام تمام کرنے چلا ہوں.اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ وہ کہنے لگا اعتبار نہیں تو گھر جا کر دیکھ لو.چنانچہ وہ اپنے بہنوئی کے گھر گئے ، دیکھا تو دروازہ بند تھا اور اندر انہوں نے ایک صحابی کو بلایا ہوا تھا جس سے وہ قرآن مجید سن رہے تھے.حضرت عمرؓ نے دستک دی، انہوں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر اندر داخل ہو گئے اور پوچھا کہ بتاؤ کیا ہو رہا تھا؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں.وہ کہنے لگے کہ کچھ کیوں نہیں کوئی بات ضرورت ہے اور میں نے سنا ہے تم مسلمان ہو چکے ہو.یہ کہتے ہوئے وہ غصہ میں آگے بڑھے تا کہ اپنے بہنوئی کو ماریں.جب وہ مارنے لگے تو ان کی بہن اپنے خاوند کی محبت کے جوش میں ان کو بچانے کیلئے بیچ میں آگئیں.اہل عرب کی یہ فطرت نہیں تھی کہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھا ئیں.مگر حضرت عمرؓ چونکہ اپنے بہنوئی پر ہاتھ اُٹھا چکے تھے اس لئے روک نہ سکے اور ضرب مار دی جو بجائے اپنے بہنوئی کے ان کی بہن کو جا لگی اور ان کے جسم سے خون ٹپکنے لگا.یہ دیکھ کر ان کی بہن جوش میں آگئیں اور انہوں نے کہا عمر ! پھر ہم مسلمان ہو چکے ہیں تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لو.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ڈر کی وجہ سے مسلمان عام طور پر ان سے کھل کر گفتگو نہیں کرتے تھے.مگر اُس دن جب انہوں نے یقین اور وثوق سے بھرے ہوئے یہ الفاظ سنے کہ تم نے جو کرنا ہے کر لو ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور اب اسلام کو ہم ہرگز چھوڑنے کیلئے تیار نہیں.تو گو یہ الفاظ ایک کمز ور فطرت عورت کے منہ سے نکلے تھے جو عام طور پر دوسرے کی حفاظت چاہتی ہے مگر جب اس عورت نے یہ کہ دیا کہ میں عورت ہو کر یہ کہتی ہوں کہ اب ہم اسلام پر قائم ہو چکے ہیں تم نے جو کرنا ہے کر لو تو یہ یقین اور وثوق ان کے دل کو کھا گیا اور انہوں نے کہا اچھا مجھے بھی بتاؤ کہ تم کیا سن رہے تھے.انہوں نے کہا تم قسم کھاؤ کہ اس کی بے ادبی نہیں کرو گے.انہوں نے یقین دلایا کہ میں بے ادبی
خطبات محمود ۶۶۹ سال ۱۹۳۷ء نہیں کروں گا.آخر انہوں نے اُس صحابی کو جسے انہوں نے مکان میں پوشیدہ کر دیا تھا اندر سے بلایا اور قرآن شریف سنانے کیلئے کہا.انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات پڑھ کر سنائیں.چونکہ وہ اس.پہلے اسلام کی صداقت کے متعلق ایک یقین اور وثوق کا نظارہ دیکھ چکے تھے اور وہ یہ یقین بھری تبلیغ سنتی چکے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر اسلام کو نہیں چھوڑیں گے اور اس قسم کی تبلیغ انہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ، اس لئے قرآن کریم سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہاں سے اُٹھ کر سیدھے رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے.بعض صحابہ اور رسول کریم وہ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے اور صل الله دروازہ بند تھا کہ حضرت عمرؓ نے دستک دی.آپ نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا عمر.صحابہ نے کہا يَارَسُولَ اللهِ! يہ شخص بڑا خطرناک اور لڑا کا ہے دروازہ نہیں کھولنا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ آپ کی کوئی بے ادبی کرے.مگر حضرت امیر حمز گانے جو رسول کریم ﷺ کے چچا تھے اور بڑے بہادر انسان تھے کہا دروازہ کھولو، ڈر کی کونسی بات ہے.اور رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ کھول دو.جب صحابہ نے دروازہ کھولا تو رسول کریم ہے ان کا استقبال کرنے کیلئے دروازہ تک تشریف لے گئے اور جب حضرت ی عمر اندر داخل ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عمر! کیا اب تک تمہاری ہدایت کا وقت نہیں آیا ؟ وہ ادھر اپنی بہن کے ایمان کا نظارہ دیکھ کر آئے تھے، ادھر رسول کریم ﷺ کا جب یہ فقرہ انہوں نے سنا تو ان کا جسم سر سے لے کر پیر تک ہل گیا.کیونکہ اس فقرہ میں گو بظاہر دو چار لفظ ہیں مگر کیسا یقین اور وثوق ہے جو ان الفاظ سے ٹپک ٹپک کر ظاہر ہو رہا ہے کہ جس سچائی اور صداقت کو میں لے کر دنیا میں آیا ہوں سے جلد یا بد برد نیا مان کر رہے گی اور ہر ایک کا ایک وقت ہے جس میں اسے ہدایت ملے گی.مگر اے عمر ! کیا تیرا وقت ابھی نہیں آیا؟ اس فقرہ کا سنا تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل سے رہی سہی میل بھی دور ہو گئی.عمران جیسے سخت گیر انسان پر بے انتہا رقت طاری ہو گئی.بے اختیار ان کی چیخیں نکل گئیں اور وہ کہنے لگے يَارَسُوْلَ اللهِ! میں تو خام ہونے کیلئے آیا ہوں.کے دیکھو یہ یقین کا اثر ہے جو حضرت عمر پر ظاہر ہوا اور جس نے ان کے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا.وہ پہلے بھی وہی قرآن سنتے تھے جو انہوں نے بعد میں سنا مگر جب ان کے کانوں میں ایک عورت کی یہ آواز پہنچی کہ میں ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں مگر اسلام کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں.ادھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ سنا کہ جس سچائی کو میں لے کر آیا ہوں ایک دن دنیا
خطبات محمود ۶۷۰ سال ۱۹۳۷ء اسے ماننے پر مجبور ہوگی وہ اسے قبول کئے بغیر رہ نہیں سکتی.گویا واقعات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نے ایسے رنگ میں پیش کیا کہ جس میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی.تو اس یقین اور وثوق نے حضرت عمرؓ کی حالت بالکل بدل ڈالی.اسی طرح تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک شریر اور مفسد شخص تھا جو گو مسلمان کہلاتا تھا مگر اسلامی احکام پر ہمیشہ بنسی اور تمسخر اڑاتا رہتا.لوگ اسے بہت سمجھاتے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا.کئی سال کے تی بعد ایک دفعہ لوگوں نے اسے دیکھا کہ وہ حج کر رہا ہے.یہ دیکھ کر لوگ اس کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تو تو حج پر ہنسی کرتا اور مخول اُڑایا کرتا تھا مگر آج تو خود حج کرنے کیلئے آگیا یہ تغیر تیرے اندر کس طرح پیدا ہو گیا ؟ وہ کہنے لگا بے شک آپ لوگ مجھے سمجھایا کرتے تھے مگر ہدایت کا کوئی خاص وقت ہوتا ہے.ایک دن کا ذکر ہے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ گلی میں سے ایک شخص گذرا جو نہایت ہی درد ناک لہجہ میں یہ آیت پڑھتا جارہا تھا کہ اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ ۵ کہ کیا مومنوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ڈر سے بھر جائیں.معلوم نہیں اُس کے دل کی اس وقت کیا کیفیت تھی اور اس کے اندر کس قدرسوز اور در دبھرا ہوا تھا کہ میں یہ آیت سنتے ہی تڑپ اُٹھا اور میں اپنے کی گنا ہوں سے تو بہ کر کے حج کیلئے چل پڑا.تو صداقت اور یقین سے جو تبلیغ کی جاتی ہے اس میں اور دوسری باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور یہی وہ باتیں ہوتی ہیں جو دوسرے کے قلب کو بالکل صاف کر دیتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ سے واپس تشریف لائے تو ایک دشمن جس کے دور شتے دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میں مارے گئے تھے اس نے اپنی تلوار لی اور رسول کریم ﷺ کے تعاقب میں چل پڑا.ایک جنگل میں جب اسلامی لشکر پہنچا تو تمام لوگ آرام کرنے کیلئے اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے.صحابہ گورسول کریم ﷺ کا ہمیشہ پہرہ رکھتے تھے مگر اُس وقت انہوں نے خیال کیا کہ یہاں جنگل میں کون دشمن آنے لگا ہے اور سب اِدھر اُدھر درختوں کے نیچے سو گئے.رسول کریم ﷺ نے بھی اپنی تلوار ایک درخت کی شاخ میں لٹکا دی اور آرام کرنے کیلئے اُس درخت کے نیچے سو گئے.وہ شخص جو تعاقب میں تھا اسی موقع کا منتظر تھا.وہ جھٹ ایک جھاڑی کے پیچھے سے نکالا اور رسول کریم ایک تلوار اُس نے اُٹھالی.آہٹ پاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی.اُس نے جب آپ
خطبات محمود ۶۷۱ سال ۱۹۳۷ء کو جاگتے دیکھا تو تلوار سونت کر کہنے لگا بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے لیٹے لیٹے ایک اطمینان اور یقین سے فرمایا کہ اللہ.اللہ کا لفظ لوگ ہزاروں دفعہ استعمال کرتے ہیں مگر کون ہے جس کے الفاظ میں وہ اثر ہو جو رسول کریم ﷺ کے الفاظ میں تھا.آپ نے جس یقین اور وثوق سے یہ لفظ استعمال کیا ، وہ تلوار سے زیادہ تیزی کے ساتھ اس کے دل میں اتر گیا.اور اس کا ایسا اثر اس پر پڑا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.رسول کریم ﷺ نے فور اوہ تلوار اُٹھ کر پکڑ لی اور پھر اُس کے سر پر تلوار کھینچ کر فرمایا بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے جواب دیا آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا اے نادان ! تُو نے پھر بھی سبق حاصل نہ کیا.کم از کم مجھ سے سن کر ہی تو یہ کہہ دیتا ہے اللہ مجھے بچائے گا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو وہ رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کیلئے آیا تھا اور یا وہیں مسلمان ہو گیا.تو دل سے نکلی ہوئی جو بات ہو اس کا رنگ بالکل اور قسم کا ہوا کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی بات پر ہی یقین نہ ہو تو اس نے اثر کیا کرنا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم میں سے صرف ایک بہادر آدمی اُٹھتا اور ساری قوم کو زندہ کر دیتا ہے.لیکن کئی آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر جب گھر سے نکلتے ہیں تو ایک قدم ان کا آگے اُٹھتا ہے اور ایک پیچھے.ایسے آدمیوں کا اپنی قوم میں کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ لوگ انہیں ذلیل اور حقیر سمجھتے ہیں.پس كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ و صحیح تسلیم کرتے ہوئے فطرتِ انسانی پر انسان کو بھی بدگمانی نہیں کرنی چاہئے.یہ امر اچھی طرح یا درکھو کہ ہر قوم میں نیکی پائی جاتی ہے.نیکی پر تمہارا کوئی ٹھیکہ نہیں.ہاں کامل ہدایت بیشک تمہار.سواء اس وقت کسی اور کے پاس نہیں مگر فطرتی نیکی سے نہ ایک ہند ومحروم ہے، نہ سکھ محروم ہے، نہ عیسائی محروم ہے، نہ یہودی محروم ہے.یہی چیز ہے جو انسان کو ہدایت کی طرف لاتی ہے.اور فطرتی نیکی کا انسان کے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے جیسے انسان کے ساتھ اس کے پیروں کا.پیر جب چلتے ہیں تب تم اپنے کی کسی رشتہ دار یا دوست سے مل سکتے ہو.نہ چلیں تو نہیں مل سکتے.اسی طرح فطرتی نیکی ہی ہے جو کامل ہدایت تک پہنچاتی ہے یہ نہ ہو تو کامل ہدایت کسی انسان کو نہ مل سکے.پس بے شک خدا تعالیٰ کی کامل اور حقیقی محبت تمہارے دلوں میں ہی ہے مگر اس کی محبت کی جو جستجو اور تڑپ ہے.وہ ہر ایک شخص کے دل میں پائی جاتی ہے.پس اپنے آپ پر بھی بدظنی نہ کرو اور دوسروں پر بھی بدظنی نہ کرو.اور یا درکھو کہ اگر تم اس نکتہ کو سمجھ جاؤ تو تم اپنی بھی اصلاح کر لو گے اور.
خطبات محمود سال ۱۹۳۷ء دوسروں کی بھی کیونکہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ جس نے اپنی ذات کو نہیں پہچانا اس نے خدا کوی بھی نہیں پہچانا.اور جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے خدا کو بھی پہچان لیا.جس نے یہ سمجھا کہ میں گندہ ہوں اور خدا تعالیٰ کو نہیں مل سکتا وہ چونکہ اپنے آپ پر اور اپنے خدا پر بدظنی کرتا ہے اس لئے واقعہ کی میں اس کی محبت سے محروم رہتا ہے.مگر وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے اسی لئے بنایا ہے کہ اس کی رضا کا وارث ہو اور اس کی محبت کا حامل ، اسے خدا تعالی بہر حال مل جاتا ہے.پس انسان کو کی چاہئے کہ اپنے متعلق اور دوسرے لوگوں کے متعلق بدظنی کے مرض کو دور کرے اور اپنے اندر ایک یقین اور وثوق پیدا کرے.تب ہی اس کے اندر اُمنگیں پیدا ہوں گی اور تب ہی یہ لوگوں کی اصلاح کے کام میں کامیاب ہوگا اور اگر یہ نہ ہو تو انسان کی تمام کوششیں رائیگاں اور فضول چلی جاتی ہیں.الفضل ۲ /جنوری ۱۹۳۸ ء ) الاعلى: ١٠ ۳۲ بخاری کتاب الجنائز باب ماقيل فى اولاد المشرکین میں یہ الفاظ ہیں.کل مولود IN يولد على الفطرة فابواه يهودانه اوينصرانه اويمجسانه الخ مسلم كتاب التوبة باب قبول التوبة.....اع مسلم کتاب الايمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله.....الخ موضوعات ملاعلی قاری صفحہ ۷۲ مطبوعہ دھلی ۱۳۴۶ھ سیرت ابن هشام جلد اصفحه ۳۶۶ تا ۳۷۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء الحديد: ۱۷ شرح مواهب اللدنيه جلد ۲ صفحه۵۳۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء