Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔
خطبات محمود O سال ۱۹۳۶ء سال نو کا پروگرام (فرموده ۳/ جنوری ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.مجھے ابھی تک گلے کی تکلیف سے آرام حاصل نہیں ہوا اور آج سر میں درد بھی ہے اس کی لئے کوئی لمبا خطبہ بیان نہیں کر سکتا اختصاراً بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں.سب سے پہلے یہ اعلان کرتا ہوں کہ چونکہ جلسہ کا کام اور رمضان ختم ہو چکا ہے اس لئے اس ہفتہ سے اتوار کے روز سے سپ معمول درس شروع ہو جائے گا.ہفتہ کے روز مستورات کا درس ہوتا ہے، مردوں کا نہیں ہوتا.پس اتوار سے مردوں کا درس شروع کیا جائے گا.دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بعض دفعہ مبلغوں کے آنے جانے پر پارٹیاں ہوتی ہیں.میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ منتظمین غلطیاں کرتے ہیں.کئی دفعہ اصلاح کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے مگر پھر وہی غلطیاں ہوتی ہیں.اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ غلطی کے بعد وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہم کو سزا نہ ملے اور چونکہ وہ سزا سے بچ جاتے ہیں اس لئے پھر اُسی غلطی کے کرنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی.سزا انسانی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہے اس لئے جب غلطی ہو تو انسان کو اس کا خمیازہ بھگتنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے.جب تک یہ روح پیدا نہ ہو غلطیوں کی اصلاح نہیں ہو سکتی.ایسے مواقع پر منتظمین بعض ایسی حرکات کرتے ہیں جو دنیا کے عام مروجہ طریق کے لحاظ سے بھی نہایت ناپسندیدہ اور ناشائستہ ہوتی ہیں.مثلاً آج ہی ایک واقعہ ہوا ہے.بعض مبلغین کے جانے پر مدارس کے طلباء نے ایک پارٹی کا انتظام کیا.ایسی پارٹیوں کو میں نہ صرف یہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کہ ناپسندیدہ نہیں سمجھتا بلکہ جماعت کے اندر قربانی اور اس کی قدر کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے ان کو مفید سمجھتا ہوں لیکن ہر چیز خواہ کتنی مفید کیوں نہ ہو اُس کیلئے بعض قواعد ہوتے ہیں جن کی پابندی ضروری ہوتی ہے.اس پارٹی کے متعلق جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو منتظمین کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کہہ دیا کہ تین جنوری کو صبح یا شام جو وقت بھی مقرر ہو جائے میں آ جاؤں گا.میرا مطلب یہ تھا کہ صبح کی یا شام کی میں قید نہیں لگاتا جس وقت بھی سہولت ہو کر لی جائے.لیکن کی اس کا یہ مطلب کوئی عظمند بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ میں اُس دن صبح سے شام تک تمام کام چھوڑ کر بیٹھا رہوں گا کہ وہ جب چاہیں بلا لیں.منتظمین کیلئے مناسب تھا کہ وہ صبح کا یا شام کا کوئی وقت مقرر کر کے مجھے اطلاع دے دیتے.یہ گفتگو کیم کو ہوئی تھی اور اس کا جواب مجھے اگر دیر سے بھی ملتا تو دو کی صبح کو مل جانا چاہئے تھا.دو تاریخ کو جلسہ کے انتظام کے متعلق رپورٹیں وغیرہ پڑھنے کیلئے کی مردوں کا اجتماع ہوا اور اُس دن چونکہ سید ناصر شاہ صاحب کی وفات ہوگئی اس لئے دوسرا یعنی عورتوں کا اجلاس نہ ہو سکا اور زنانہ انتظام کے متعلق رپورٹوں وغیرہ کا پڑھا جانا ملتوی کر دیا گیا.اس کے متعلق اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا گل دس بجے اس کیلئے پروگرام رکھ لیا جائے؟ چونکہ اُس وقت تک اس پارٹی کے متعلق مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی اور میں اس کے انتظار میں تمام دن فارغ بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لئے میں نے انہیں اجازت دے دی کہ گل دس بجے کا وقت رکھ لو.لیکن آج ساڑھے نو بجے کے قریب پارٹی والوں کا آدمی آیا کہ چلیے پارٹی میں.میں نے کہا کہ مجھے تو اس کی کوئی اطلاع نہیں.تو اُس نے جواب دیا کہ آپ نے جو کہا تھا کہ خواہ صبح رکھ لو خواہ شام، میں آجاؤں گا.اب یہ تو صحیح ہے کہ میں نے یہ کہا تھا لیکن وقت مقرر کر کے مجھے اس کی اطلاع دی جانی چاہئے تھی تا کہ میں باقی وقت کام پر لگا سکتا.یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ میں صبح اُٹھتے ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہتا کہ کوئی آدمی آئے گا کہ چل کر چائے پیئو اور میں اُس کے ساتھ اُٹھ کر چل پڑوں گا.میرے کام میں تو اگر ایک دن کا بھی ناغہ ہو جائے تو کئی کئی دن تک اس کی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور اتنا کام ہوتا ہے کہ روزانہ ۱۴ ،۱۵ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے.پس یہ کسی طرح ہوسکتا تھا کہ وہ جب چاہیں مجھے بلا لیں.میرے پاس جو آدمی آیا میں نے اُسے یہ جواب دیا کہ ساڑھے نو بجے آپ آئے ہیں دس بجے ان کا وقت ہے اس لئے میں آپ لوگوں کو صرف
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء ۲۵ منٹ دے سکتا ہوں.یہ جواب لے کر وہ گیا اور پچیس منٹ کے بعد پھر آیا کہ ہم نے زنانہ جلسہ کی منتظمات سے فیصلہ کر لیا ہے وہ اپنے وقت میں سے پچیس منٹ ہم کو دیتی ہیں.میں نے کہا ان کا کی کوئی اختیار نہیں کہ میرا پروگرام تجویز کریں.اب صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں اگر چاہو تو یہ ہو سکتا ہے کہ میں جاؤں اور دعا کر کے آجاؤں.یہ جواب لے کر وہ پھر چلا گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ اچھا ہم شام کو پارٹی کر لیں گے.اب کوئی شخص اس بات کو معقول نہیں قرار دے سکتا کہ ڈیڑھ سو آدمی کو ڈیڑھ دو گھنٹہ بٹھانے کے بعد یہ کہہ دیا جائے کہ صاحبان ! آپ لوگ شام کو تشریف لائیں اور اب چلے جائیں.پہلی غلطی کے بعد منتظمین کو چاہئے تھا کہ اس کا خمیازہ خود بھگتے اور یا تو سارا پروگرام اور ایڈریس وغیرہ منسوخ کر کے مجھے لے جاتے کہ اصل چیز دعا ہی ہے دعا کروالیتے اور یا عقل سے کام لیتے اور ان مہمانوں سے کہہ دیتے کہ ہم سے غلطی ہوئی.ہمیں بڑی خوشی ہوتی اگر خلیفہ اسی شریک ہو سکتے مگر چونکہ ہماری غلطی کی وجہ سے وہ نہیں آسکے اس لئے آئیے ہم خود ہی ایڈریس وغیرہ پڑھ کر چائے وغیرہ پی لیتے ہیں.یہ کوئی جہاد تو نہیں تھا کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ا کے ماتحت امام کے بغیر نہ ہو سکتا.چائے بغیر امام کے بھی پی جاسکتی ہے ایک ادنی سی بات کیلئے اتنے لوگوں کا اس قدر وقت ضائع کرنا بالکل نامناسب تھا بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اُن لوگوں کا بھی فرض تھا کہ کی جب دس بجتے وہ کہہ دیتے کہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ اب ہم جاتے ہیں تا آئندہ کے لئے اصلاح ہوتی لیکن منتظمین نے کوشش یہ کی کہ ان کی غلطی کا خمیازہ دوسرا بھگتے اور قسم قسم کی باتوں سے بات کو طول دیا.مثلاً یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم نے فوٹو اُتروانا تھا ، یہ کرنا تھا وہ کرنا تھا ، حالانکہ یہ بچوں کی سی باتیں تھیں.اگر وہ چاہتے تو ۲۵ منٹ میں دعا بخوبی ہو سکتی تھی.وہ ایڈریس اور فوٹو وغیرہ سب باتوں کو منسوخ کر دیتے اور کہہ دیتے کہ چائے پی کر دعا کر لی جائے.یا اگر ان کو یہ پسند نہ تھا تو پھر ان ڈیڑھ سو لوگوں کا وقت ضائع نہ کرتے اور میری شمولیت کے بغیر پروگرام کے مطابق کارروائی کر لیتے لیکن انہوں نے ان دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ کی.پونے دس بجے ان کا آدمی آیا اور سوا گیارہ بجے تک یہ بحث جاری رہی اور اس طرح ڈیڑھ گھنٹہ تک ڈیڑھ سو لوگوں کو وہاں بٹھائے رکھا گیا حالانکہ جمعہ کا دن تھا لوگوں نے نہانا دھونا بھی تھا پھر چھٹی کے دن عزیز واقارب.
خطبات محمود ۴ سال ۱۹۳۶ء ملنا جلنا بھی ہوتا ہے اس کا ذکر میں نے خطبہ میں اس لئے کر دیا ہے کہ تا آئندہ اصلاح ہو.اس میں شبہ نہیں کہ اصرار بھی محبت پر دلالت کرتا ہے لیکن محبت میں معقولیت ہونی ضروری ہے.صحابہ کو رسول کریم ﷺ سے عشق تھا لیکن اگر وہ آپ کو پکڑ لیتے کہ گھر میں نہیں جانے دیں گے آپ گھر جاتے ہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو یہ اُن کا عشق تو کہلا تا مگر غیر معقول.تو محبت کو ایک حد تک ظاہر کرنا چاہئے اور پھر اپنی غلطی کی وجہ سے اسے دل میں رکھ کر احساسات کے صدمہ کو برداشت کرنا چاہئے اور سزا بھگتنی چاہئے.اگر آج میں چلا جا تا تو آئندہ بھی اسی طرح ہوتا اس لئے میں ایک نصیحت تو یہ کرتا ہوں کہ ایسے امور میں عقل سے کام لینا چاہئے.میری رائے یہی ہے کہ بہت سے جرائم معاف کئے جاسکتے ہیں مگر بیوقوفی کا جرم معاف نہیں کیا جا سکتا.میری تو سمجھ میں بھی یہ نہیں آتا کہ انسان غلطی کے باوجود یہ سمجھے کہ نتیجہ ٹھیک نکلے گا اور کہ میں اس کی سزا سے بچ جاؤں.شاید سزا کے لفظ سے بعض لوگوں نے بید کی بدنی سزا سمجھ لی ہے حالانکہ سزا صرف یہی نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کی سزا بھی سزا ہی ہے.یہ بھی سزا تھی کہ میری شرکت کے بغیر ہی وہ پارٹی کر لیتے یا ایڈریس وغیرہ پروگرام منسوخ کر دیتے یہ جذبات اور احساسات کی سزا تھی.غلطی کے باوجو د سزا سے بچنے کی کوشش کرنا انسان کو اخلاقی معیار سے نیچے گرا دیتا ہے اور غلطی سے بچنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ انسان اگر غلطی کرے تو اس کی سزا بھی بھگتے خواہ وہ سز امادی ہو یا جذباتی.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ نیا سال شروع ہوا ہے اور اس کا یہ پہلا جمعہ ہے اس لئے میں پھر بعض باتوں کو دُہرا دیتا ہوں جو میرے نزدیک اہم اور ضروری ہیں.اول تو یہ کوئی میرا پروگرام خواہ وہ ایک سال میں پورا ہو خواہ چار پانچ سال میں ، یہ ہے کہ کوئی ملک دنیا کا ایسا نہ ہو جس میں تابعی یعنی ایسے لوگ موجود نہ ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو دیکھا ہے.اس وقت دنیا کے قریباً ایک ہزار ممالک ہوں گے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچادیں.ملک کی تشریح ی میں حکومتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ زبان کے لحاظ سے کرتا ہوں اور مختلف زبانوں کے لحاظ سے اس وقت شاید ایک ہزار سے بھی زیادہ ممالک ہوں گے اور ان میں سے صرف ساٹھ ستر ہی ہیں جن تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی خبر پہنچی ہو.باقی ۹۰۰ سے زیادہ ابھی تک ی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء یسے ہیں جن تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچی بلکہ کافی حصہ ان میں ایسے ممالک کا بھی ہے جن میں اسلام کا نام تو ممکن ہے پہنچ چکا ہو گر تعلیم نہیں پہنچی.اور میرا پروگرام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ان ممالک ای میں تابعی پیدا کر سکیں.وہ وقت تو گزر گیا جب ہم ساری دنیا کو صحابی بنا سکتے تھے مگر تابعی بنا سکنے کیلئے ابھی وقت ہے.صحابہ نے بیسیوں ممالک میں تابعی بنا دیئے تھے اور زبان کے لحاظ سے اگر ممالک کی کی تقسیم کی جائے تو سینکڑوں ممالک میں بنا دئیے تھے.صحابہ کے زمانہ میں ریل ، تار، ڈاک وغیرہ کی سہولتیں نہ تھیں اور ان کے نہ ہونے کے باوجود جب صحابہ نے اتنا کام کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے سہولتوں کی موجودگی کے باوجود ہم ان سے زیادہ کام نہ کریں.قربانی کی قیمت کا اندازہ رستہ کی رکاوٹوں سے کیا جاسکتا ہے.اگر صحابہ نے دو سو ممالک میں تابعی بنائے تو ہم بھی دوسو ممالک میں تابعی بنا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے برابر ہم نے کام کیا ہے اس لئے جب تک ان سے کئی گنا زیادہ کام نہ کریں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ان کی مشابہت حاصل کر لی.پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر ملک میں تابعی پیدا کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کو ان تک پہنچا دیں یا ان کو یہاں بلالیں.اور اگر ہم یہ کر سکیں تو یہ کام اتنا شاندار ہو گا کہ کسی نبی کے زمانہ میں اس کی مثال نہ مل سکے گی.کیونکہ کوئی نبی یا ماً مور آج تک ایسا نہیں گزرا جس کے تابعی تمام دنیا میں تھے.یہ ایک ایسی عجیب بات ہے کہ اس کے تصور سے ہی میرا دل مسرت سے بھر جاتا ہے اور بجلی کی رو کی طرف مسرت کی لہر تمام جسم میں دوڑ جاتی ہے.حضرت مسیح ناصری کے صحابہ شام سے چلے اور کشمیر ی مدر اس تک پہنچے تھے اور ان کا یہ کام اُس زمانہ کے لحاظ سے بہت تھا مگر پھر بھی یہ کچھ نہ تھا.ہم گو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح ناصری کے کی پیروؤں نے تابعی بنائے یا نہیں لیکن بہر حال اُنہوں نے روم سے لے کر کشمیر تک آپ کا پیغام ضرور پہنچادیا تھا اور باوجود اُن دقتوں کے پہنچا دیا تھا جو اُس زمانہ میں سفر کے رستہ میں تھیں.لیکن ج ہمیں اس زمانہ میں جو سہولتیں حاصل ہیں وہ اس امر کی متقتضی ہیں کہ ہم ان سے بہت زیادہ کام پس ایک تو دوست دورانِ سال اس امر کو مد نظر رکھیں ، اس کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں اور چندہ تحریک جدید پر زور دیں.گو نقد اور وعدوں کے لحاظ سے تو اس وقت تک یہ چندہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے مگر اس لحاظ سے کمی ہے کہ گزشتہ سال اس وقت تک جتنی جماعتیں اس میں حصہ لے چکی تھیں اتنی جماعتوں نے اس سال نہیں لیا.معلوم نہیں یہ ان کے عہدیداروں کی کی سستی یا غفلت کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے.جس تاریخ تک گزشتہ سال ساٹھ ہزار روپیہ بصورت نقد و وعدوں کے آیا تھا اس سال اسی تاریخ تک اتنی ہزار آیا ہے اور بعض وعدے مجمل ہیں ان کو ملا کر پچاسی ہزار کے قریب رقم ہو جاتی ہے مگر حصہ لینے والی جماعتوں کی تعداد کے لحاظ سے اس سال کمی ہے.پس دوست اس طرف بھی توجہ کریں اور زندگیاں وقف کرنے کی طرف بھی.اور کوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور آپ کی تشریح کے ساتھ اسلام کی تعلیم کو ساری دنیا میں پہنچا دیں.دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ہندوستان میں تبلیغ کی جو سکیم بنائی ہے اور جس کے ماتحت دوستوں کو ایک ایک، دو دو یا تین تین ماہ وقف کرنے کی تحریک کی ہے اس پر زور دیا جائے.ہر جماعت اپنے ہاں جلسہ کر کے ان لوگوں کی ایک لسٹ مجھے بھجوائے جس میں درج ہو کہ کون کون جی دوست کتنے کتنے عرصہ کیلئے اور رکن مہینوں میں اس میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں.پچھلے سال کی طرح ایسی اطلاع بھیجوانا افراد کے ذمہ نہ سمجھا جائے بلکہ ہر جماعت اس کی فہرست مجھے بھجوائے جس طرح چندہ کی لسٹیں بھیجی جاتی ہیں.احمدیت اس وقت صحیح اسلام ہے اور اس لحاظ سے قادیان اسلام کی اشاعت کا مرکز ہے جو مکہ اور مدینہ کے تابع ہے.پس اسلامی اشاعت کے اس مرکز کے ارد گر د احمدیت کی ترقی ضروری ہے اور ساری جماعت کے افراد کو بعینہ اسی طرح جس طرح تنور میں ایندھن جھونکا جاتا ہے اس میں حصہ لینا چاہئے.دنیا میں سے ہندوستان ، ہندوستان میں سے پنجاب اور پنجاب میں سے ضلع گورداسپور میں احمدیت کی ترقی اور مضبوطی نہایت ضروری ہے اور پھر ضلع گورداسپور کے ار در گرد ضلع ہوشیار پور، امرتسر، سیالکوٹ اور جالندھر کے اضلاع میں احمدیت کو مضبوط کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بھی محلہ وار اور باہر کی جماعتیں بھی اس قسم کی فہرستیں جلد از جلد مجھے بھجوا دیں گی.یہ لسٹیں مجھے زیادہ سے زیادہ یکم اپریل تک مل جانی چاہئیں.ہاں جو دوست انفرادی طور پر اپنے نام دینا چاہیں وہ جلد بھیج دیں کیونکہ نیکی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کی تحریک ہونے پر اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے باقی جماعتیں یکم اپریل تک ایسی فہرستیں بھجوا دیں.یہ دو تو مذہبی باتیں ہیں اس کے علاوہ ایک اقتصادی بات ہے.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس سال کیلئے ایک پروگرام بریکاری کے دُور کرنے کیلئے بھی میرے مد نظر ہے.اس کے متعلق بہت سے مشورے حاصل ہو چکے ہیں اور سب سے پہلے اس کے ماتحت قادیان میں کام شروع کیا جائے گا جو امید ہے کہ جنوری کے آخر یا فروری تک ہو جائے گا.اس کے متعلق اور بھی جو دوست مشورے بھیج سکیں وہ جلد بھیج دیں اور جہاں کی جماعتیں اپنے طور پر کوئی ایسے کام جاری کی کر سکتی ہوں وہ کر دیں.اس کے ساتھ ہی تمدنی لحاظ سے ایک اور بات بھی ہے جو زیادہ تر قادیان کے لوگوں سے تعلق رکھتی ہے اگر چہ باہر کے لوگوں کیلئے بھی ہے اور وہ یہ کہ یہاں جو لوگ باہر سے آتے ہیں اُن کو بالخصوص عورتوں اور بیماروں کو سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے محلوں تک پہنچنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے.اب کے بعض لوگوں نے تجویز کی ہے کہ اگر دو ہزار روپیہ ہو تو اسٹیشن سے محلہ تک پختہ سڑک بن سکتی ہے اس کیلئے بھی طوعی طور پر جو دوست ایک آنه، دوآنه، روپیه، دور و پیه یا پیسه دو پیسہ ہی یکدم یا ماہوار دے سکتے ہوں دیتے رہیں تو اگلے سالانہ جلسہ تک یہ سڑک بن سکتی ہے اس طرح مسافروں کیلئے بہت سہولت ہو جائے گی اور محلہ تک پہنچنے میں آسانی ہوگی.اس کے بعد پھر تھوڑا سا فاصلہ گھروں تک پہنچنے کا رہ جائے گا جو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا بعد میں بن جائے گا.اس کے بعد میں اس امر کا ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزشتہ سال ہمارے بعض اختلافات حکومت اور احرار دونوں سے ہو گئے تھے جن کے متعلق میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ اب تک قائم ہیں اور احرار سے اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کریں اور یہ مان نہ لیں کہ جتھے بنا کر اقلیتوں کو ڈرانا اور مرعوب کرنا غلط طریق ہے.جب تک وہ ایسا نہ کریں جماعت کا فرض ہے کہ ہر جائز ذریعہ سے ان کا مقابلہ کریں اور ان کی مذہبی ، اقتصادی اور سیاسی طاقت کو توڑیں.میں جماعت کے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ سب جماعت اپنی توجہ کو اس کام کی طرف پھیر دے جس کا وہ ذمہ اُٹھائے.چنانچہ فتح مکہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں بھی ہو اور
خطبات محمود Δ سال ۱۹۳۶ء جدھر سے بھی نکلو تمہاری توجہ مکہ کی طرف ہونی چاہئے ہے.پس اس قاعدہ کے ماتحت تم کو بھی چاہئے کی کہ اس امر کا خیال رکھو کہ ان سلسلہ کے دشمنوں، ملک کے دشمنوں اور امن کے دشمنوں کی طاقت کو کی تو ڑا جائے.دعاؤں کے ذریعہ سے بھی، لوگوں پر ان کی حقیقت کا انکشاف کر کے بھی اور ان کے مخالفوں سے تعاون کر کے بھی.غرضیکہ جن ذرائع سے بھی ہو سکے ان کی طاقت کو تو ڑا جائے.باقی رہی حکومت ، سو اس سے ہماری ایسی لڑائی تو نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے جیسی کانگرس کرتی ہے اور ہم مذہبی لحاظ سے بھی پابند ہیں کہ جس حد تک جماعت کے وقار کیلئے مضر نہ ہو حکومت سے تعاون کریں.اس سے تعاون کی حد بندی تو ہوسکتی ہے مگر عدم تعاون کسی صورت میں نہیں ہوسکتا.اور ی تعاون کی حد بھی وہی ہے جو حکومت خود قائم کر دے.پہلے بھی حکومت سے غلطیاں ہوتی رہی ہیں مگر پھر ازالہ کی کوشش بھی اس کی طرف سے ہوتی رہی ہے لیکن گزشتہ سال بعض افسروں نے بالا رادہ بعض ایسی حرکات کی ہیں کہ جو سلسلہ کے وقار کو سخت نقصان پہنچانے والی ہیں اور اس کے ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت موجود ہیں کہ کسی کے کہنے سے بھی اس کو غلط نہیں سمجھ سکتے.ممکن ہے زید یا بکر کو اس سے تعلق نہ ہو، ممکن ہے پنجاب گورنمنٹ اس سے بری ہو یا ضلع کے بعض حکام اس سے بری ہوں لیکن یہ کہ سب کے سب اس الزام سے بری ہیں یہ ایسی بات ہے جسے نہ میں تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور نہ کوئی عقلمند.ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت موجود ہیں کہ ان سے انکار کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کبوتر اپنی آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ اب بلی مجھ پر حملہ نہیں کرے گی.ہمارا اپنا طریق یہ ہے کہ اگر ہم سے غلطی ہو جائے تو ہم اس کا اعتراف کر لیتے ہیں اور ہمارے ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی اس میں تامل نہیں کیا.حتی کہ احرار کے خلاف بھی اگر کوئی غلط بات شائع ہوئی تو ہم نے اس کی تردید کر دی اور ایسے ہی اخلاق کی ہم حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے آئندہ کے لئے یقین دلائے کہ ایسا نہیں ہوگا.حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے جماعت کے اخلاق اور اس کی دیانت پر حملے کئے گئے ہیں اور حکومت نے اس کی تردید نہیں کی اس لئے فضا کی موجودہ خاموشی سے یہ مطلب ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان سب باتوں کا تصفیہ ہو چکا ہے.ابھی تک کوئی تصفیہ نہیں ہوا اور نہ ہی اُس وقت تک ہوسکتا ہے جب تک ایسی حرکات کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں.خواہ اس پر سو سال گزرجائیں ، خواہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء دوسو سال.ہماری جماعت اخلاقی جماعت ہے اور اخلاقی لحاظ سے میں عفو کوضروری سمجھتا ہوں اور شاید اسی خیال کے ماتحت ایسے افسروں میں سے ایک نے جس سے ہمیں بہت سی شکایات ہیں ایک شخص سے ذکر کیا ہے کہ وہ مذہبی لیڈر ہیں اور مجھے امید تھی کہ وہ ان باتوں کو بھول جائیں گے.میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کا یہ مطالبہ جائز ہے اور اگر میں اسے پورا نہ کروں تو میں مجرم ہوں گا ، خدا کے سامنے بھی اور بندوں کے سامنے بھی.لیکن عفو اور بیوقوفی کے مائین ایک حد فاصل ہے عفو کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص غلطی کرتا ہے اور پھر نادم ہے.یا پھر اس غلطی کا اثر افراد پر ہے مگر بعض غلطیوں کا اثر اقوام پر پڑتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی پڑتا ہے اور ایسے امور میں عفو سے کام لینا بیوقوفی اور حماقت ہوتی ہے.ہاں اگر ایسے لوگ معافی طلب کرتے اور ندامت کا اظہار کرتے تو ان کا یہ مطالبہ جائز ہوسکتا تھا اور ایسی صورت میں ہمارا طریق یہی ہے کہ اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں.اس کی تازہ مثال بھی موجود ہے.حکومت پنجاب سے ایک غلطی ہوئی اور اُس نے اس کا اعتراف کر لیا.اس کے بعد ہم نے پھر کبھی اسے اس رنگ میں نہیں دُہرایا اور نہ اب ہی میں اس کی طرف اشارہ کرتا ہوں.ہم نے حکومت کے اعتراف کو قبول کر لیا اور اس بات کو دل سے نکال دیا.اب میں بھی اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں کر رہا ہوں کہ ہمیں اس کے متعلق حکومت سے شکوہ ہے.ہاں باقی امور میں بھی ہم حکومت سے اسی شریفانہ طریق کی امید کرتے ہیں.اس واقعہ کے بعد متواتر بعض افسروں نے ہم پر ظلم کیا ہے.جماعت پر یہ سراسر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ اس نے بعض جلسوں میں حکومت کے افسروں کو گالیاں دی اور حرامزادہ کہا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہوا.ہاں اگر کسی منافق سے خود بخود کہلوایا گیا ہو تو جماعت اس کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی اور جماعت کی طرف اِسے منسوب کرنے والا ظالم ہے.یہ جماعت پر اخلاقی حملہ ہے اور ایک مذہبی جماعت کیلئے نہایت اہم سوال ہے اور جب تک یہ الزام قائم ہے کہ ہم نے کسی کو حرامزادہ کہا یا ایسے شخص کی گالی کو پسند کر لیا ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے یہ الزام شائع کیا ہماری صلح ہر گز نہیں ہو سکتی.اسی طرح جماعت پر یہ الزام لگایا کہ وہ حکومت سے بغاوت کے راستہ پر جا رہی ہے حالانکہ حکومت سے وفاداری ہم پر احمدیت کی رو سے فرض ہے.اور اس الزام کے گویا یہ معنی ہیں
خطبات محمود 1.سال ۱۹۳۶ء کہ ہم احمدیت سے نکل گئے ہیں اور جب تک اس الزام کی تردید نہیں کی جاتی ایسا کہنے والوں کے ساتھ سو سال تک بھی ہماری صلح نہیں ہو سکتی.ہاں یہ میں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ تی اختلاف حکومت پنجاب کے بعض افسروں سے ہے اسے دیکھ کر بعض انگریز دوستوں کو یہ شک گزرا ہے کہ شاید جماعت حکومت برطانیہ کی ہی مخالف ہوگئی ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں.اختلاف صرف حکومت پنجاب کے بعض افسروں سے ہے اور ان کے خلاف پروٹسٹ بغاوت نہیں کہلا سکتا.اور جو شخص اس پروٹسٹ کو بغاوت قرار دیتا ہے وہ دنیا میں غلامی پھیلا نا چاہتا ہے اور جو حکومت ہم سے یہ امید رکھے کہ ہم اس کے غلام ہو کر رہیں گے وہ اسے کبھی پورا ہوتے نہیں دیکھ سکے گی.ہم خدا کے غلام ہیں اور کسی انسان کی غلامی کبھی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں.یہ کوئی مت خیال کرے کہ ہم تھوڑے ہیں اور کوئی حکومت ہمیں گھل سکتی یا پرا گندہ کر سکتی ہے.ہم بے شک تھوڑے ہیں اور کمزور ہیں مگر ہمارا تعلق اُس ہستی کے ساتھ ہے جس کے ہاتھ میں تمام بڑے بڑے اور طاقتور لوگوں کی گردنیں ہیں.پھر اگر میں اسلام کی اشاعت اور ترقی کو اپنی ذات سے وابستہ سمجھتا تو مجھے ڈر ہوسکتا تھا کہ حکومت مجھے پکڑ لے گی تو یہ کام کس طرح ہوگا ؟ مگر جب میں جانتا ہوں کہ میں ایک کیڑے سے بھی حقیر تر ہوں اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا خود کر رہا ہے تو پھر مجھے کیا پرواہ ہو سکتی ہے اگر میں نہ رہونگا تو وہ تار جو میرے اندر کام کر رہی ہے کسی دوسرے کے ساتھ جاگے گی.پس جب تک ان لوگوں کو جنہوں نے ہم پر ظلم کئے یا تو سزا نہیں دی جاتی یا وہ معافی نہیں مانگ لیتے ہماری حکومت سے صلح نہیں ہوسکتی اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غافل جماعتوں کی طرح ، ذلیل ہونے والی جماعتوں کی طرح اور تھوڑی دُور چل کر تھک کر بیٹھ جانے والی جماعتوں کی طرح اس کی خاموشی سے یہ خیال نہ کرے کہ ان باتوں کا تصفیہ ہو چکا ہے ان کا تصفیہ نہیں ہوا اور جب بھی ایسا موقع آئے گا جب حکومت کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہوگی اور مذہب ہمیں اختیار دیتا ہوگا کہ چاہے تعاون کریں چاہے نہ کریں ہم کہیں گے کہ ہم تعاون کرتے ہیں مگر پہلے تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے اور ان الزامات کا فیصلہ کرایا جائے.یہ کوئی سیاسی سوال نہیں یہ حملہ مذہبی ہے اور ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے.ہمیں افسروں کو گالیاں دینے والا اور بغاوت کرنے والا بتایا گیا ہے اور ان باتوں سے ہمارا چڑ نا بتاتا ہے کہ ان امور کے متعلق ہمارے احساسات نہایت شدید ہیں
خطبات محمود 11 سال ۱۹۳۶ء اور ہم ان باتوں سے سخت بیزار ہیں اور ہم پر یہ الزامات لگانے والوں کو خواہ وہ چھوٹے افسر ہوں خواہ بڑے خدا کے سامنے بھی اور انسانیت کے سامنے بھی جواب دینا پڑے گا.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے اس حکومت کے سامنے اگر ہمارے پروٹسٹ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو خدا کی طرف سے ضرور ان کی گرفت ہو گی.زمین پر بھی اور آسمان پر بھی ان کیلئے سزا مقدر ہے جو ضرور مل کر رہے گی.ہاں اگر شرفاء کی طرح وہ غلطی کا اعتراف کر لیں تو اور بات ہے.ان باتوں سے حکومت انکار کرتی ہے مگر یہ بالکل صحیح ہیں.ہمیں بعض ذمہ دار افسروں نے بتایا ہے کہ اس قسم کے سرکلر آئے ہیں.یہ ہم مان سکتے ہیں کہ انکار کرنے والے واقعات سے ناواقف ہیں مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ واقعات ہوئے ہی نہیں.اگر بعض افسرا نکار کرتے ہیں تو ہم ان کو سچا مان لیتے ہیں مگر یہی کہیں گے کہ ان کو واقعات کا علم نہیں لیکن یہ کہ ایسا ہو ا ہی نہیں ہم کبھی بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں.پس جب تک ان الزامات کی تردید نہیں ہوتی ایسے لوگوں سے ہماری صلح سو سال تک بھی نہیں ہو سکتی.ایک مذہبی جماعت کس طرح اخلاقی اور مذہبی حملہ کی برداشت کر سکتی ہے.اگر حکومت نے ہماری زمینیں چھین لی ہوتیں یا کوئی اور ذاتی نقصان پہنچایا ہوتا تو ہم خاموش رہ سکتے تھے لیکن ان باتوں کی موجودگی میں ہر گز چپ نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ جماعت کے اخلاق اور اس کی دیانت پر حملے ہیں.اسی طرح مسٹر کھوسلہ سے نے جو فیصلہ لکھا ہے اس کے متعلق ہائی کورٹ کے حج نے یہ لکھا ہے کہ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں کہ جن پر میں اس وجہ سے بحث نہیں کرسکتا کہ حکومت نے ملزم کی سزا میں اضافہ کیلئے اپیل نہیں کی.گویا ان کا ازالہ اس وجہ سے نہیں ہو سکا کہ حکومت نے اس میں رُکاوٹ پیدا کر دی اس لئے اس کی ذمہ وار حکومت ہے اور اسی کا فرض ہے کہ اس کا ازالہ کرے.اسے چاہئے کہ یا تو ایک آزاد کمیشن بٹھا کر ان کا فیصلہ کرائے اور یا پھر ہم خود ان کا ازالہ کریں گے.اور اس صورت میں اگر حکومت کی یا اس کے حج کی سبکی ہو تو اس کی ذمہ داری بھی اسی پر ہوگی.ہائی کورٹ کے جج نے تسلیم کیا ہے کہ چونکہ سزا میں اضافہ کا سوال نہیں اس لئے وہ بعض امور پر بحث نہیں کر سکتے گویا موجودہ صورت میں ہم پر جو بعض اعتراضات قائم کی ہیں وہ حکومت کے رویہ کی وجہ سے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کی تردید کریں.اور جیسا کہ ہمارا طریق ہے ہم اس کے متعلق لٹریچر شائع کریں گے اور اس سے اگر حکومت کی سبکی ہو یا اسے بُرا
خطبات محمود ۱۲ سال ۱۹۳۶ء لگے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی.حکومت کے اپنے ریکارڈ اس امر پر گواہ ہیں کہ یہ باتیں غلط ہیں اور ہم انہیں غلط ثابت کریں گے اور ان باتوں کو بھی بھی چھوڑ نہیں سکتے.ہم اپنے مال ، اپنی کی جانیں ، اپنی اولادیں اور دیگر اشیاء کو حکومت کیلئے قربان کر سکتے ہیں مگر جہاں اسلام اور سلسلہ کی تی عزت کا سوال پیدا ہو گا ہم کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کے مقابلہ میں ہماری جانیں ، ہماری عزتیں ، ہمارے مال ، ہمارا امن و سکون اور وطن کی محبت غرضیکہ کسی چیز کی بھی کوئی وقعت ہماری نظروں میں نہیں ہوگی اور ہم ہر چیز کو قربان کر کے سلسلہ کی عظمت کو قائم کریں گے.میں دیکھتا ہوں کہ وہی غلط واقعات احرار برابر دُہراتے چلے جاتے ہیں اور حکومت خاموش ہے حالانکہ حکومت کے ریکارڈ سے ان کی تردید ہوتی ہے.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہم اس لئے چُپ رہیں کہ حکومت خوش ہو جائے.جہاں خدا کی خوشی کے مقابلہ میں حکومت کی خوشی کا سوال آجائے گا ہم حکومت کی خوشی کی قطعا کوئی پرواہ نہیں کریں گے.پس ج چونکہ آج نئے سال کا پہلا جمعہ ہے میں نے یہ بات واضح کر دی ہے تا دوست موجودہ خاموشی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ سب باتیں طے ہو گئی ہیں وہ نہ آج طے شدہ ہیں اور نہ گل ہوں گی اور اگر تم کسی وقت بھی ان کو طے شدہ سمجھو گے تو بے غیرت ہو جاؤ گے اور میری تمہارے لئے اور اپنی اولاد کی کیلئے بھی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے غیرتی سے بچائے اور قربانیوں کی توفیق دے.میں تو یہ پسند کروں گا کہ میرا ایک ایک بچہ مرجائے اور میں بے نسل رہ جاؤں بجائے اس کے کہ سلسلہ کی عزت کے سوال کے موقع پر وہ بے غیرتی دکھائے.پس یہ خاموشی اور وقفہ تمہارے کام اور اغراض کو تمہاری نظروں سے اوجھل نہ کر دے.خوب یا د رکھو کہ خدا کے سلسلہ کی ہتک کی گئی ہے اور تمہارا فرض ہے کہ جان و مال اور عزت و آبرو سب کچھ قربان کر کے اسے قائم کرو اور میں مخلصین جماعت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کریں گے مگر ان کا طریق وہ نہ ہوگا جو مذہب یا دیانت و امانت کے خلاف ہو.وہ فساد اور قانون شکنی ہر گز نہیں کریں گے اور دونوں حدوں کو قائم رکھتے ہوئے اُس وقت تک کام کریں گے جب تک اس ہتک کا ازالہ نہیں ہو جاتا اور سلسلہ کی عزت قائم نہیں ہو جاتی.بے شک اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اس کی عزت ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ دنیا کی نظروں میں بھی اس کی عزت قائم کریں ورنہ
خطبات محمود ہماری تبلیغ میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے.الله سال ۱۹۳۶ء (الفضل ۱۱/جنوری ۱۹۳۶ء) بخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام و يتقى به وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوْا وَجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (البقرة : ۱۵۱) سے مسٹر جی.ڈی کھوسلہ
خطبات محمود ۱۴ ☑ سال ۱۹۳۶ء تحریک جدید کے مزید مطالبات (فرموده ۱۰/جنوری ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں جلسہ سالانہ سے پہلے تحریک جدید کے متعلق بعض خطبات دے رہا تھا اور چونکہ ابھی اس تحریک میں سے بعض باتیں باقی ہیں اس لئے ان کے متعلق میں آج پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ تحریک میں پہلے کر چکا ہوں کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں.اس غرض کیلئے کہ ان میں سے بعض کو انتخاب کرنے کے بعد باہر تبلیغ کیلئے بھیجا جائے مگر اس کے علاوہ میری تحریک کا ایک حصہ یہ تھا کہ ایسے بیکار لوگ جن کو اس ملک میں کام نہیں ملتا اگر باہر چلے جائیں تو بیرونی ممالک میں اپنے لئے ترقی کا راستہ نکال سکتے اور سلسلہ کیلئے بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں.جیسا کہ کہتے ہیں ہم خرما و ہم ثواب اسلام نے در حقیقت ملکوں کے فرق اور امتیاز کو ایسا مٹا دیا ہے اور دنیا کو اس طرح ایک ہاتھ پر جمع کر دیا ہے کہ ہمارے لئے مختلف ممالک کی حیثیت ہی کوئی باقی نہیں رہی اور ساری دنیا ہمارے لئے ایک ملک کی طرح بن گئی ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا لے.ساری دنیا میرے لئے مسجد بنادی گئی ہے اس کے یہ بھی معنی ای ہیں کہ اسلام میں اگر جوں اور مندروں کا طریق نہیں ہر جگہ انسان عبادت کر سکتا ہے.مسجد صرف اجتماع کی جگہ ہے ورنہ مساجد عبادت کیلئے مخصوص نہیں اور یہ نہیں کہ مسجد سے باہر عبادت نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں میں طریق ہے کہ ان کے نزدیک مندروں اور اگر جوں سے باہر
خطبات محمود ۱۵ سال ۱۹۳۶ء عبادت نہیں ہو سکتی.اگر کسی جگہ مسجد نہ ہو اور کوئی مسلمان سفر کر رہا ہو تو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہی جگہ مسجد اور وہی جگہ عبادت گاہ ہو جائے گی.مگر مسجد ایک خدا کا گھر بھی ہے جہاں لوگ جمعی.ہوتے ہیں.پس جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا کے یہ معنے بھی ہیں کہ جس طرح سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں چھوٹے بڑے، امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے بھی ملکوں کا کوئی امتیاز نہیں.جس طرح مسجد خدا کا گھر کہلاتی ہے اسی طرح ساری دنیا ہمارے خدا کا گھر ہے.پس یہ کہنا کہ یہ چینی ہے اور وہ جاپانی ، یہ مشرقی ہے اور وہ مغربی ایک فضول بات ہے.جس طرح ایک مسجد میں بیٹھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مسجد کے شمالی کونے میں بیٹھا ہوں اور وہ جنوبی میں یا فلاں مشرقی کونے میں ہے اور فلاں مغربی میں اس لئے میں اُس سے ممتاز ہوں بلکہ سارے ایک ہی مسجد میں سمجھے جاتے ہیں کی اسی طرح جب ساری دنیا مسجد ہے اور محمد ﷺ کے ذریعہ ساری دنیا ایک خدا کا گھر بنا دی گئی ہے تو اس دنیا کے جس حصہ میں بھی کوئی انسان بیٹھا ہو وہ خدا کے گھر میں بیٹھا ہے.چنانچہ ہر مسلمان جانتا ہے بلکہ اب تو غیر مسلم بھی جاننے لگ گئے ہیں کہ مسجد وہ مقام ہے جس میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا.میں نے مسجد کعبہ کے ایک سرے پر ایک چھوٹی سی جگہ حجرے کی شکل میں الگ بنی ہوئی دیکھی.اس کے متعلق جب میں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہاں شرفاء بعض دفعہ نماز پڑھتے ہیں.مکہ کے حاکم چونکہ شریف کہلاتے تھے اس لئے شرفاء سے مکہ کے حکمران مراد تھے.میں نے کہا یہ الگ کیوں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شریف کو بعض وقتیں پیش آئی تھیں جس کی بناء پر یہ الگ انتظام کرنا پڑا.چنانچہ ایک دفعہ اُس نے کسی مسلمان سے کہا کہ تم یہاں سے پیچھے ہو کر کھڑے ہو جاؤ تو اس نے جواب دیا یہ شریف کا گھر نہیں بلکہ خدا کا گھر ہے اگر شریف کا گھر ہوتا تو میں چلا جا تا لیکن یہ خدا کا گھر ہے اور اس میں سے مجھے کوئی نکال نہیں سکتا.چنانچہ بادشاہ ہونے کے باوجود اسے اس کا حق تسلیم کرنا پڑا اور سیاسی احتیاطوں کیلئے اسے علیحدہ جرہ بنانا پڑا تا کہ اگر کسی وقت لوگوں سے الگ رہنے کی ضرورت ہو تو شریف یعنی مکہ کے حاکم اس میں نماز ادا کر سکیں ور نہ اصل مسجد میں وہ مجبور تھے کہ دوسروں کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے.اب جو موجودہ
خطبات محمود ۱۶ سال ۱۹۳۶ء سلطان نجد ہیں وہ نماز سب لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ہی پڑھتے ہیں.پس مسجد میں چھوٹے کی بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص خواہ کتنا بڑا ہو کسی اور شخص کو خواہ وہ کتنا چھوٹا ہو بیٹھے ہوئے ایک جگہ سے اُٹھا سکتا ہے سوائے قیامِ امن کی ضرورت کے ماتحت کہ وہ بالکل علیحدہ چیز ہیں.نماز کیلئے ہر شخص کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہے مسجد میں نماز پڑھے.پس مسجد ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں امیر غریب، چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا.امیر اور غریب پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں اور ایک مزدور بادشاہ کے پہلو میں کھڑا ہو سکتا ہے اور بادشاہ کا حق نہیں کہ اسے رو کے.تو جب رسول کریم ﷺ نے فرما یا جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا تو درحقیقت آپ نے یہ بھی فرما دیا کہ تمام دنیا کے امتیازات میرے ذریعہ مٹا دئیے گئے ہیں کیونکہ مسجد میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اور نہ اس میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی سوال ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لو اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس میں کوئی قومی امتیاز نہیں اس کے مقابلہ میں عیسائیوں کو لو تو ، ہندوؤں کو لو تو ان کے گرجوں اور مندروں میں ہمیشہ امتیاز ہوتا.بلکہ اگر جوں میں تو جگہیں بھی مخصوص ہوتی ہیں جو بڑی بڑی رقمیں دیں ان کیلئے خاص کوچ(COACH) ہوتے ہیں.یہی حال منادر کا ہے کہ ان میں بھی قومی امتیاز کا خیال رکھا جاتا ہے مگر اسلامی مسجد ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے اور جس طرح لوگ آتے ہیں بیٹھتے چلے جاتے ہیں.اگر آگے جگہ خالی نہ ہو تو بعد میں آنے والا پیچھے بیٹھ جاتا ہے ورنہ چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.پس بڑے اور چھوٹے ہونے کے لحاظ سے مساجد میں فرق نہیں کیا جاتا اور نہ ملکی لحاظ سے مساجد میں فرق کیا جاتا ہے.اور میں نے جب کہا ہے کہ مساجد میں نہ ملکی لحاظ سے فرق کیا جاتا ہے اور نہ بڑے اور چھوٹے ہونے کے لحاظ سے تو درحقیقت میں نے اس میں ایک استثنائی صورت رکھی ہے.مگر وہ استثنائی صورت ایسی نہیں جسے کوئی بھی عقلمند ناجائز قرار دے سکے اور وہ یہ کہ مسجد میں مثلاً ایک پاگل آجائے جس کی عادت یہ ہو کہ وہ لوگوں پر حملہ کر دیتا ہو تو ایسے شخص کو اگر پکڑ کر لوگ مسجد سے نکال دیں تو یہ جائز ہوگا اور یہ امتیاز نہ کہلائے گا کیونکہ اُس شخص کو مشرقی یا مغربی ہونے کے لحاظ سے مسجد سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ ضرر رساں اور نقصان دہ ہونے کی وجہ سے مسجد سے نکالا جائے گا.یا اگر کوئی مسجد میں ایسا دشمن آ جائے جس کے متعلق شبہ ہو کہ وہ کسی فتنہ اور فساد کی نیت سے آیا ہے تو اگر اسے نماز پڑھنے سے روک دیا جائے
خطبات محمود ۱۷ سال ۱۹۳۶ء یا بعض صفوں میں اسے بیٹھنے نہ دیا جائے تو یہ امتیاز کیلئے نہیں ہوگا بلکہ اس کی شرارت اور ایذاء سے بچنے کیلئے ہوگا اور شرارت کے روکنے اور امتیاز کو قائم کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے.غرض ی ایک مجنون یا فسادی کو مسجد سے نکالا جا سکتا ہے یا اُس کی نشست پر قید لگائی جاسکتی ہے مگر اس لئے کی کسی کو مسجد سے نہیں نکالا جا سکتا یا اس پر قید نہیں لگائی جاسکتی کہ وہ دوسروں سے کم مالدار ہے یا ادنیا قوم کا ہے یا مشرق کا ہے یا مغرب کا ہے کیونکہ یہ امتیاز ہے اور امتیاز مساجد میں روانہیں چاہے کوئی ہو.بادشاہ ہوں یا فقیر، امیر ہوں یا غریب، چھوٹے ہوں یا بڑے سب ایک صف میں کھڑے ہوں گے، برابر کھڑے ہوں گے اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہوگا.تو رسول کریم ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا سے امتیاز مشرق و مغرب اور امتیاز ادنیٰ و اعلیٰ مٹادیا.اور جب ساری دنیا ایک گھر بن گئی تو اب اس میں کیا حرج ہے کہ کوئی دنیا کے ایک کونے میں رہے اور دوسرا دوسرے کونے میں.یہی وجہ ہے کہ جونہی اسلام دنیا میں آیا سفروں کی مشکلات کا خیال تک لوگوں کے ذہن سے مٹ گیا.جتنے بڑے بڑے مسلمان مصنف گزرے ہیں ان سب کی زندگیوں پر غور کر کے دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ کوئی تمہیں سال سفر میں رہا ہے، کوئی چالیس سال سفر میں رہا ہے، کوئی پچاس سال سفر میں رہا ہے.چنانچہ اسی لئے اسلام کے ابتدائی دوسو سال میں دنیا کے بہترین جغرافیے لکھے گئے ہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پچاس سال کے اندر اندر مسلمان دنیا میں پھیل گئے اور سو سال کے اندر انہوں نے دنیا کے جغرافیوں کی بنیاد قائم کر دی اور دو سو سال کے اندر ایسے جغرافیے لکھے جن پر آج تک جغرافیوں کی بنیا د رکھی جاتی ہے بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کا ایسا مکمل جغرافیہ نہیں بنایا تھا جو مسلمانوں نے پہلے دو سو سال میں ہندوستان کا بنایا.ایرانیوں نے ایران کا ایسا مکمل جغرافیہ نہیں بنایا تھا جو عربوں نے ابتدائی دو سو سال میں ایران کا بنایا.اسی طرح سیلون ، سٹریٹ سیٹلمنٹس ۲ ، جاپان اور چائنا کے جو جغرافیے دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب جغرافیے ابتدائی دوسو سال کے عرصہ میں مسلمانوں نے بنائے تھے.ایسا کیوں ہوا ؟ اسی لئے کہ مسلمان کسی ملکی پابندی کے قائل نہ تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے ساری دنیا ایک گھر کی طرح بنادی ہے اور چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ساری دنیا ہمارے لئے ایک گھر کی طرح بنادی گئی ہے اس لئے وہ نکل گئے اور دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے وہ خدمات سرانجام دیں جن پر آج
خطبات محمود ۱۸ سال ۱۹۳۶ء تک فخر کیا جاتا ہے.اب وہی خزانہ جو صحابہ کو رسول کریم عہ سے ملا جماعت احمدیہ کو حضرت کی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے توسط سے پھر بطور ورثہ ملا ہے.دنیا کچھ باتیں بنائے ، کوئی تی اعتراض کرے یہ حقیقت ہے کہ تمام دنیا تمہاری میراث ہے اور خدا تعالیٰ نے تمہیں دی ہے.اب یہ تمہارا کام ہے کہ ان جائز ذرائع سے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں اسے حاصل کرو اور اس کے حاصل کرنے کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا میں نکل جائیں، خود کمائیں اور کھائیں اور تبلیغ احمدیت بھی کرتے پھریں.پس علاوہ اس تحریک کے کہ مبلغین کے طور پر نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں، پیشہ وروں کے طور پر بھی ہمارے نو جوانوں کو باہر نکلنا چاہیئے اس میں ہزاروں بہتریاں ہوسکتی ہیں.بسا اوقات کی انسان ایک ملک میں عزت نہیں پاتا مگر دوسرے ملک میں عزت پا جاتا ہے.ہندوستان کے بڑے بڑے نواب ایران اور افغانستان کے معمولی معمولی آدمی تھے جنہیں اپنے ملکوں میں عزت نہ ملی تو وہ ہندوستان آگئے اور یہاں آکر نواب بن گئے بلکہ اب تک ان کی نسلیں نوابی کر رہی ہیں.وہ جو اپنے آپ کو اب بنی نوع انسان سے کچھ علیحدہ وجود سمجھتے ہیں خانہ بدوشوں کی طرح ایران اور عرب سے ہندوستان آئے یہاں آکر انہیں کوئی موقع مل گیا اور وہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے.بنگال کے لوگوں کو انگریز فوج میں داخل نہیں کیا کرتے کیونکہ وہ بُز دل سمجھے جاتے ہیں لیکن ساؤتھ امریکہ میں ایک بنگالی جرنیل ہے معلوم نہیں وہ اب زندہ ہے یا نہیں لیکن آج سے دس سال پہلے وہ زندہ تھا.پس یہاں تو بنگالی سپاہی کے طور بھی نہیں لئے جاتے لیکن جنوبی امریکہ میں پہنچ کر ایک بنگالی جرنیل بن گیا.میں اس عام قاعدہ کو تسلیم کرتا ہوں کہ جس شخص کی لیاقت کے ظاہر ہونے کا ایک جگہ موقع نہ ملے وہ دوسری جگہ بھی لیاقت ظاہر نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک گلی قاعدہ نہیں.بعض دفعہ ایک چیز ایک جگہ فٹ نہیں آتی اور رڈی سمجھ کر پھینک دی جاتی ہے مگر دوسری جگہ فٹ آ جاتی ہے ہے.ایک اینٹ ایک جگہ معمار رکھتا ہے تو وہ پوری نہیں اُترتی اور معمارا سے اُٹھا کر پھینک دیتا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک اور جگہ نکل آتی ہے جہاں اُس اینٹ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اُس کے سوا کوئی اور اینٹ لگ ہی نہیں سکتی تب وہ اُس اینٹ کو جسے ردی سمجھ کر پھینک چکا ہوتا ہے پھر اُٹھاتا اور اُس جگہ لگا دیتا ہے اور اس طرح اُس کی عزت قائم ہو جاتی ہے.رسول کریم ہے.
خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۶ء پنے متعلق بھی فرمایا ہے کہ میں وہ پتھر ہوں جسے معماروں نے رڈ کر دیا وہی کونے کا پتھر بنا ہے.تو کی کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز سامنے آتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے قابل نہیں لیکن وہی ہے ظاہری ناقابل سمجھی جانے والی چیز ایک اور جگہ قابل ثابت ہو جاتی اور اُس کی ضرورت پڑ جاتی ہے.اسی طرح بالکل ممکن ہے ہمارے بعض نوجوان یہاں دس روپیہ بھی نہ کما سکیں مگر باہر ملکوں میں نکل کر کسی حکومت میں وزیر بن جائیں، کسی جگہ جرنیل بن جائیں یا کسی طوائف الملو کی کی حالت میں وہ وہاں کے بادشاہ ہی ہو جائیں.یہ اچنبھے کی بات نہیں.تاریخ میں اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ملتی ہیں بلکہ تاریخ کا کیا ذکر ہے بڑی چیز ہمارے لئے قرآن ہے اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ دیکھ لو.وہی یوسف جس کے متعلق اُس کے بھائی یہ اعتراض کرتے تھے کہ اس میں قابلیت تو کوئی نہیں ہمارا باپ بلا وجہ اس سے محبت کرتا ہے جب مصر میں پہنچے تو اُن کی کتنی بڑی عزت ہوگئی.حضرت یوسف کے بھائیوں کے پاس جو کچھ تھا اور جس قدر ان کے پاس دولت تھی اُس کا اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اونٹ کے بار کی زیادتی جب حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں دے دی تو وہ اسی پر خوشی سے کودنے لگ گے اور کہنے لگے ہمیں بہت غلہ مل گیا ہے.موجودہ حالات کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں ان کی پندرہ ہیں یا تمہیں روپیہ ماہوار کی آمد تھی اور وہ ہیں یا تمیں روپیہ ماہوار کی آمد سے حضرت یوسف علیہ السلام کو محروم رکھنا چاہتے تھے لیکن دوسرے ملک میں جا کر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قابلیت کے ایسے جو ہر دکھائے کہ سلطنت کے وزیر بن گئے اور لاکھوں نفوس کی پرورش کرنے لگے.پس اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ہیں بلکہ آج بھی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلے اور غیر ممالک میں انہوں نے خاص عزت اور شہرت حاصل کر لی.یہی مسٹر گاندھی جو ہندوستان کے بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے ہیں انہیں ہندوستان میں عزت حاصل نہیں ہوئی بلکہ ہندوستان میں ناقابل قرار دیئے جانے کی وجہ سے وہ ساؤتھ افریقہ چلے گئے اور وہاں خوب عزت حاصل کی.پھر وہاں کی عزت اپنے ساتھ لے کر وہ ہندوستان میں آئے اور انہیں ہندوستان میں بھی عزت مل گئی.پس میں نو جوانوں کو اور نوجوانوں سے میری مراد عمر والا نوجوان نہیں بلکہ ہر ہمت والا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء شخص مراد ہے کہتا ہوں کہ باہر نکلیں.دراصل انسان ہر عمر میں نو جوان رہ سکتا ہے اور نو جوان رہنا اپنے اختیار کی بات ہوتی ہے.کئی لوگ جوانی میں ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے جوانی ! اور کئی ستر اسی سال کی عمر ہونے کے باوجود ہٹے کٹے ہوتے اور اپنے آپ کو جوان محسوس کرتے ہیں.پس جوانی عمر کے ساتھ نہیں بلکہ امیدوں ، حوصلوں اور اُمنگوں کے ساتھ ہوتی ہے.جو شخص جو ان رہنا چاہتا ہے اُسے کوئی بوڑھا نہیں کرسکتا.بوڑھا انسان اپنی مرضی سے ہوتا ہے.غرض جب میں یہ کہتا ہوں کہ نوجوان با ہر نکلیں تو اس سے میری مراد دل کے نو جوان ہیں نہ سالوں کے.اور میں ایسے سب احمدیوں سے کہتا ہوں کہ اس تحریک کو نظر انداز نہ کریں.خدا تعالیٰ نے جب ساری دنیا ان کیلئے مسجد بنادی ہے تو اب ان کو اپنی میراث سے محروم نہیں رہنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر سو دو سو نو جوان بھی ہماری جماعت کے غیر ممالک میں نکلی جائیں تو تھوڑے ہی دنوں میں وہ معلوم کر لیں گے اور جماعت کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ باہر بہت سی عزتیں موجود ہیں.غیر ملک میں جانے پر قدرتی طور پر اُس ملک کے رہنے والوں کو باہر سے آنے والی کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور وہ آنے والے کے متعلق سمجھنے لگتے ہیں کہ نا معلوم اپنے ملک میں اُس کی کتنی بڑی عزت ہے.عربوں کو دیکھ لو جب ان میں سے کوئی پنجاب میں آتا تو لوگ اس کی کتنی عزت کرتے ہیں.اپنے ملک میں وہ معمولی حیثیت کے ہوتے ہیں اور ہندوستان آتے بھی مانگتے ہوئے ہیں مگر جب ہندوستان پہنچتے ہیں تو ہندوستانی انہیں آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ عرب صاحب تشریف لائے ہیں ، عرب صاحب یہ فرماتے ہیں، عرب صاحب وہ فرماتے ہیں اور اس طرح وہ جاہل عرب جو کچھ کہہ دے ہندوستانی اسے توجہ سے سنتے ہیں اور اُس کی قدر کرتے ہیں.یہی حال ہندوستانیوں کا بھی ہوتا ہے جب وہ کسی باہر کے ملک میں جاتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ بعض علاقوں میں ہندوستانی بدنام ہیں مگر یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ انسان نئی عزت اپنے لئے قائم کی کرلے.یورپ کے مختلف علاقوں میں معمولی حیثیت کے ہندوستانی گئے اور وہ وہاں ہندوستان کے لیڈر سمجھے جانے لگے.یہی حال امریکہ کا ہے معمولی پنڈت وہاں چلا جاتا ہے تو وہ ویدانت کا ماہر اور عالم مشہور ہو جاتا ہے.امریکن لوگ اُس سے لیکچر دلاتے ، اُس کی خاطر تواضع کرتے اور
خطبات محمود ۲۱ سال ۱۹۳۶ء اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں کے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ اپنے مُلک کا بڑا آدمی کی ہے حالانکہ ہندوستان میں اُس کی کوئی قدر نہیں ہوتی.اس کی وجہ یہی ہے کہ جدید چیز لوگوں کیلئے لذیذ ہوتی ہے.تم کسی ہندوستانی کے سامنے یہ کہنے لگ جاؤ کہ لاہور ایک مشہور شہر ہے ، اس میں اتنے کالج ، اتنے مدر سے اور اتنی در سگا ہیں ہیں، اس کے تاریخی مقامات فلاں فلاں ہیں ، اتنے باغ ہیں، چارلاکھ کی آبادی ہے تو کوئی اسے دلچسپی سے نہیں سنے گا بلکہ کہیں گے پاگل ہو گیا یہ ہمیں کیا بتا رہا ہے.مگر یہی لیکچر اگر تم امریکہ میں دیتے ہو اور ہندوستان کے شہروں کی کیفیت بتاتے ہو تو وہاں دلچسپ موضوع بن جائے گا کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ لاہور کیسا ہے، کلکتہ کیسا ہے، بمبئی کیسا تی ہے، پشاور کیسا ہے.جس طرح امریکہ والوں کے سامنے اگر تم نیو یارک کے حالات بیان کرو تو وہ کی اسے فضول بات سمجھیں گے اسی طرح ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستان کے شہروں کے حالات بیان کرو تو وہ فضول سمجھیں گے لیکن نئی چیز پیش کرو تو ہر کوئی اسے توجہ سے سنے گا.جیسے لنڈن والوں کے سامنے اگر لنڈن کے حالات بیان کئے جائیں تو کوئی نہیں سنے گا لیکن کسی ہندوستانی کے سامنے بیان کئے جائیں تو وہ بڑی توجہ سے سنے گا اور دلچسپی لے گا.تو جو چیز سامنے ہو اُس کی قدر نہیں ہوتی لیکن جو چیز سامنے نہ ہو اور جس کا علم نہ ہو اُس کے متعلق حالات سننا ہر شخص پسند کرتا ہے.تم ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستان کے حالات بیان کر کے عزت حاصل نہیں کر سکتے لیکن اگر امریکہ میں ہندوستان کے شہروں اور ہندوستانیوں کی رسوم پر لیکچر دو، یہ بتاؤ کہ ہندوستان میں شادیاں کس طرح ہوتی ہیں، دولہا کس طرح بنتا ہے، سہرا کس طرح باندھا جاتا ہے تو وہاں یہی کی باتیں لوگ پیسے دے دے کر سُنیں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ہندوستان میں شادیاں کس طرح ی ہوتی ہیں.تم کسی ہندوستانی مجلس میں پلاؤ کے پکنے کا طریق بیان کرنے لگو تو لوگ اس بات کو فضول گوئی قرار دیں گے لیکن اگر تم امریکہ میں لیکچر دیتے ہو کہ ہندوستان میں ایک کھانا پلاؤ ہوتا ہی ہے اور وہ اس اس طرح پکایا جاتا ہے، اس کا ذائقہ ایسا ایسا ہوتا ہے تو یہی باتیں وہ تمہیں روپے کی دے کر تم سے سنیں گے کیونکہ علم نام ہی اس چیز کا ہے جسے لوگ نہ جانتے ہوں.وہاں کے لوگ ہندوستانیوں کی رسوم کو نہیں جانتے نہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کھاتے پیتے کیا ہیں اس لئے وہ ان باتوں کو توجہ سے سنتے بلکہ روپیہ خرچ کر کے سنتے ہیں.اور میں تو سمجھتا ہوں اگر لوگ صرف ہندوستانیوں
خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۶ء کی رسموں، شادی بیاہ کے طریقوں اور تمدن و معاشرت کے مروجہ دستور پر نو جو ان لیکچر دیتے پھریں تو اسی سے وہ کافی روپیہ کما سکتے ہیں.کیونکہ غیر ملکوں کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہندوستانی کس طرح شادیاں کرتے ہیں، ان کے کھانے پینے کا کیا طریق ہے مجلسی قوانین ان میں کیا ہیں، بے شک کوئی شخص ان تمام باتوں کو سیکھ کر یورپین ممالک میں چلا جائے وہاں کے لوگوں میں وہ عالم کی سمجھا جائے گا.یورپ کے علماء کا ایک طبقہ وہ ہے جو فوک لو (FOLK LORE) سے یعنی پرانے قصوں کے واقف ہیں.کسی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے قصے یاد رکھتا ہے، کسی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے قصے یاد رکھتا ہے.پس جو چیز لوگ نہیں جانتے اُسے علم کہا جاتا ہے اور اُس کی قدر کی جاتی ہے.پس ہندوستان کے حالات اور اس کے رسم ورواج کی واقفیت بہم پہنچا کر بھی بعض ملکوں میں روزی کمائی جاسکتی ہے.اسی طرح ہندوستان میں سے کئی لوگ یورپین کی ممالک میں جاتے اور دیسی دواؤں سے بہت بڑا روپیہ کمالیتے ہیں.بعض قسم کے امراض دنیا میں ایسے ہیں کہ دنیا خیال کرتی ہے کہ ان کا علاج ہندوستان میں بہتر ہوتا ہے.پس اگر ان امراض کو معلوم کر کے اس قسم کی دوائیں ساتھ رکھی جائیں تو بہت سے لوگ بیرونی ممالک میں وہ دوائیں لینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک کے راول باہر جاتے اور ہر جگہ کماتے پھرتے ہیں.اور تو اور ہمارے ایک احمدی را ول ہیں انہوں نے یہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ امریکہ گئے وہ آنکھوں کا کی آپریشن کرنا جانتے تھے.وہاں انہوں نے یہ کام کرنا چاہا تو لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ قانو نا ان آنکھوں کے آپریشن کی آپ کو ممانعت ہے کیونکہ آپ یو نیورسٹی کے سند یافتہ نہیں.انہوں نے کہا ہم کیا کریں ہم تو یہی ہنر جانتے ہیں.آخر ایک دن وہ بیٹھے ہوئے حقہ پی رہے تھے کہ ایک شخص آیا امریکہ میں چونکہ حقہ نہیں ہوتا سگار یا سگریٹ ہوتا ہے اس لئے اس نے حیران ہوکر پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتا یا حقہ ہے.کہنے لگا اس میں سے آواز بھی آتی ہے؟ وہ کہنے لگا ہاں جب حقہ پیا جاتا ہے تو گرد گڑ کی آواز پیدا ہوتی ہے.وہ کہنے لگا اچھا مجھے ٹھیکہ دو میں تمہیں سٹیج بنا دیتا ہوں.تم وہاں بیٹھ کر حقہ پیا کرو میں ٹکٹ لگا دوں گا لوگ آئیں گے اور تمہیں حقہ پیتے دیکھیں گے.یہ مان گئے.اُس نے سٹیج بنا کر اُس پر انہیں بٹھا دیا اور انہوں نے حقہ پینا شروع کر دیا.لوگ آتے اور انہیں حقہ پیتے دیکھ کر بڑے حیران ہوتے.کوئی کہتا کہ یہ گڑ گڑ کی آواز کہاں سے آتی ہے، کوئی کہتا ہے
خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۶ء یہ لمبی لمبی کیا چیز ہے، کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ.انہوں نے بتایا اس ذریعہ سے اُس نے سینکڑوں روپے کمائے اور سینکڑوں ہمیں دیئے.حالانکہ حقہ بالکل معمولی چیز ہے.ہندوستان میں اگر کوئی کی کسی سے کہے کہ میں حقہ پیتا ہوں تم مجھے پیسہ دو تو وہ پیسہ دینے کی بجائے اُسے چپیڑ مارے گا اور کہے گا کہ تم مجھ سے تمسخر کرتے ہو.مگر انہوں نے بتایا کہ ہم مہینوں وہاں رہے ہمارا کام یہی تھا کہ ہم روزانہ حقہ لے کر سٹیج پر بیٹھ جاتے اور لوگ ٹکٹ لے کر ہمیں حقہ پیتے دیکھتے.ان کا بیان ہے کہ جب ہم زبان سے واقف ہوئے تو معلوم ہوا کہ بعض لوگ ہمیں جانور خیال کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ ہندوستان کا کوئی بندر یا ایسا ہی کوئی جانور عجیب قسم کا سگار استعمال کرتا ہے.غرض ہر مملک والوں کیلئے غیر ملک کی چیز اچنبھا ہوتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز سے روپیہ کمایا جا سکتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ تم بھی غیر ملکوں میں نکل کر اس قسم کا تماشہ کرو بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ غیر ملکوں میں ادنیٰ سے ادنی چیز بھی اچنبھا معلوم ہوتی ہے اور اپنی چیز کو اچنبھا بنانا کوئی مشکل نہیں ہوتا صرف لوگوں میں رو چلانے کی دیر ہوتی ہے.آج سے پندرہ بیس سال پہلے ہندوستانی عطر خود ہندوستانیوں نے چھوڑ دیئے تھے اور وجہ یہ بتاتے تھے کہ یہ تیل ہوتا ہے اور کپڑے پر اس کا داغ کی لگ جاتا ہے لیکن پچھلے سات آٹھ سال سے یورپ میں بھی ہندوستانی عطر پکنے لگ گیا ہے اور وہاں کی کے لوگ کہتے ہیں کہ اِن عطروں میں طاقت ہوتی ہے.ہمارے ہندوستانی تو اسے کپڑوں پر لگانے سے دریغ کرتے ہیں انہوں نے اب اس عطر کو جسم پر مل مل کر نہانا شروع کر دیا ہے.پس دنیا کے اکثر کام ایک رو کے ماتحت ہوتے ہیں جب رو چل جائے تو وہ طبائع میں تغیر پیدا کر دیتی ہے.دیکھ لو ہندوستان میں کپڑے موجود تھے، یہاں کپڑے بننے کے کارخانے بھی تھے مگر جب انگریز آئے تو انہوں نے یہ رو چلا دی کہ ہندوستان کے کپڑے اچھے نہیں ہوتے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانیوں نے خود اپنے کپڑے پھینک دیئے اور غیر ملکوں کے کپڑے پہنے شروع کر دیئے.گویا ایک مسمریزم کا عمل ہے جو دنیا میں کیا جاتا ہے.کسی کو تم یقین دلا دو کہ فلاں چیز مفید ہے وہ اسے مفید سمجھنے لگ جائے گا اور کسی کو تم یقین دلا دو کہ فلاں چیز مُضر ہے وہ اسے مُضر سمجھنے لگ جائے گا.پس دنیا کا بیشتر حصہ مسمریزم کے عمل کے ماتحت ہے.ایک کو یقین دلا دو کہ فلاں چیز اچھی ہے وہ اسے اچھی کہنے لگ جائے گا.اور اگر یقین دلا دو کہ یہ خراب ہے تو وہ اسے
خطبات محمود ۲۴ سال ۱۹۳۶ء خراب سمجھنے لگ جائے گا پس ضرورت ہے کہ لوگوں کے نقطہ نگاہ کو تبدیل کیا جائے.تم یورپ میں کی کوئی چیز لے کر جاؤ اُسے اگر خوبی سے پیش کرو گے تو لوگ اُس کی قدر کرنے لگ جائیں گے.مثلاً فرض کرو تم یورپ میں پان لے کے جاؤ اور کہنا شروع کر دو کہ اس سے معدے کو تقویت حاصل ہوتی اور کھانا اچھی طرح ہضم ہوتا ہے اور نمونہ کے طور پر کسی عورت یا بوڑھے آدمی کو دے دو تو دوسرے ہی دن وہ کہنے لگے گا کہ آج کھانا مجھے اچھی طرح ہضم ہوا ایک پان مجھے اور دے دو.تو دنیا میں لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا کوئی مشکل نہیں ہوتا بشرطیکہ جو چیز پیش کی جائے اُس سے لوگوں کو واقعہ میں فائدہ ہو.کوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دیر پاوہی چیز ہوتی ہے جو نفع رساں ہو.ہمارے ملک میں کئی مفید چیزیں موجود ہیں مگر مغربی اثر سے متاثر ہو کر خود ہمارے ملک کے لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے.مثلاً ہماری ہندوستانی طب نہایت اعلیٰ درجہ کی باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور اب تک بعض امراض کا دیسی طب میں ایسا اعلیٰ اور مکمل علاج موجود ہے کہ یورپ والے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر ایک خیالات کی رو تھی جو انگریزوں نے چلا دی کہ انگریزی دوائی اچھی ہے اور دیسی دوائی بُری.نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانیوں نے بھی اپنی طب کو چھوڑ دیا اور انگریزی طب کے شیدا ہو گئے.حالانکہ کئی امراض ایسے ہیں جن میں انگریزی دوائیاں ناکام رہتی ہیں اور دیسی دوائیاں کامیاب ہو جاتی ہیں.مثلاً گردوں کی پتھری ہے کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس میں ڈاکٹری علاج سے انہیں فائدہ نہ ہوا اور ڈاکٹر آپریشن کے بغیر اس کا کوئی علاج نہ بتاتے تھے مگر یونانی دواؤں سے بغیر آپریشن کے فائدہ ہو گیا.دو سال ہوئے میری لڑکی امتہ الرشید انتڑیوں کے درد سے بیمار ہوئی ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ اپنڈے سائٹس ہے اور اس کا آپریشن کے بغیر اور کوئی علاج نہیں.لاہور کا جو سب سے بڑا سر جن ہے اُس نے کہا کہ تین چار دن تک آپریشن ہو جانا چاہئے ورنہ لڑ کی کی جان کا خطرہ ہے اور میرے کہنے پر انہوں نے نرسوں وغیرہ کا سب انتظام کر لیا لیکن اسی عرصہ میں مجھے خیال آیا کہ کسی ماہر طبیب سے بھی علاج کروا کر دیکھ لیا جائے اور لاہور کے مشہور طبیب حکیم نیتر واسطی صاحب کو میں نے بلوایا.انہوں نے جو دوا تجویز کی اُس کی پہلی خوراک سے ہی درد میں خاصی تخفیف ہو گئی اور دوسرے دن تک درد بہت کم ہو گیا حالانکہ مریضہ دو ہفتہ سے شدید تکلیف میں مبتلا تھی.پس بہت سی خوبیاں ہماری طب میں موجود ہیں مگر انگریزوں نے چونکہ
خطبات محمود ۲۵ سال ۱۹۳۶ء خیالات کی یہ رو چلا دی کہ ہندوستانی کچھ نہیں جانتے اس لئے ہمارے لوگ بھی سمجھنے لگ گئے کہ ہمارے طبیب کچھ نہیں جانتے.اس رو کے مقابلہ میں اگر ہم بھی ایک رو چلا دیں کہ ہم سے بہتر علاج اور کون کر سکتا ہے فلاں مرض میں دیسی طریق علاج کا انگریزی طریق علاج مقابلہ نہیں کر سکتا ، فلاں مرض میں انگریزی دوائیں ناکام رہتیں اور دیسی دوائیں اثر کر جاتی ہیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں لوگ دیسی دواؤں کے دلدادہ ہو جائیں.غرض دنیا میں جہاں حقائق لوگوں کی طبائع پر اثر کیا کرتے ہیں وہاں پرو پیگنڈا بھی ایک حد تک اثر کیا کرتا ہے اور بعض دفعہ تو حقائق کو پروپیگنڈا کی رود با دیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ جو ر وایسی چلائی گئی ہے جس نے علم کو جہالت میں تبدیل کر دیا ہے اس کے خلاف ایک رو چلا کر علم کو پھر علم کی صورت میں دنیا پر ظاہر کر دیں.اس طرح نہ صرف اپنے گزارہ کی صورت تانی نکل سکتی ہے بلکہ اور ہزاروں آدمیوں کی بریکاری دُور ہوسکتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمت والوں کیلئے دنیا میں کامیابی کے اتنے راستے کھول رکھے ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں.مزدوری کے پیشہ سے لے کر بادشاہ بننے تک کے رستے کھلے ہیں مگر انہی لوگوں کیلئے جو اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں.چنانچہ بادشاہت کے لحاظ سے ہٹلر کو دیکھ لو وہ گو لفظاً بادشاہ نہیں کہلا تا لیکن اختیارات کے لحاظ سے کئی بادشاہوں سے زیادہ ہے.وہ جرمن کا نہیں بلکہ آسٹریا کا رہنے والا ہے.یونان میں وینز ویلا ایک زمانہ میں سب سے زیادہ طاقتور رہا ہے مگر وہ یونان کا نہیں بلکہ ایک جزیرہ کا رہنے والا ہے جو ترکوں کے ماتحت ہوا کرتا تھا.آئرلینڈ کا لیڈر ڈی ولیرا‘ آئر لینڈ کا نہیں بلکہ امریکہ کا ہے.اسی طرح اور بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بڑے بڑے آدمی جو بعض ملکوں میں ڈکٹیٹر، لیڈ ر اور بادشاہوں کی طرح سمجھے جاتے ہیں وہ ان ملکوں کے باشند.نہیں بلکہ باہر سے وہاں آئے لیکن انہوں نے وہاں کے رہنے والوں کی ایسی سچی خیر خواہی کی اور اپنے مفاد کو ان کے مفاد کے ساتھ وابستہ کیا کہ اپنے لئے ملک میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا.کی انگریزوں کو ہی دیکھ لو یہ ہندوستان میں کس طرح آئے اور یہاں کے حکمران بن گئے.پس علاوہ تبلیغی طور پر باہر جانے کے ہمارے نوجوان جنہیں خدا تعالیٰ سمجھ دے اور جنہیں یہاں عزتیں نہیں ملتیں ہندوستان کو چھوڑ کر غیر ممالک میں چلے جائیں.اگر ان کے پاس روپیہ نہیں
خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۶ء تو اس ارادہ کے پیدا ہونے کے بعد انہیں روپیہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوگی.رنگون سے ابھی ہماری جماعت کے دو دوستوں کا مجھے خط ملا ہے ، ان میں سے ایک جالندھر کا رہنے والا ہے اور ایک اسی جگہ کے قریب کسی اور مقام کا.وہ لکھتے ہیں کہ ہم آپ کی اس تحریک کے ماتحت گھر سے پیدل چل پڑے اور اب پیدل چلتے ہوئے رنگون پہنچ گئے ہیں اور آگے کی طرف جارہے ہیں.گجا جالندھر اور گجا رنگون ، پندرہ سو میل کا سفر ہے لیکن انہوں نے ہمت کی اور پہنچ گئے.راستہ میں بیمار بھی ہوئے لیکن دو ماہ بیمار رہنے کے بعد پھر چل پڑے اب وہ سٹریٹ سیٹلمنٹس کے علاقہ کی طرف بڑھ رہے ہیں.تو ہمت کر کے کام کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے کام کے راستے پیدا کئے ہوئے ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان ہمت کر کے باہر نکل جائیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنہیں یہاں کام کا موقع ملا ہوا ہے وہ بھی باہر چلے جائیں.میرا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہاں کام نہیں ملتا وہ باہر جائیں اور جنہیں یہاں کام ملا ہوا ہے وہ یہاں کام کریں.اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس کیلئے روپوں کی ضرورت نہیں.اگر ہمت کریں تو وہ پیدل بھی جاسکتے ہیں.دوسری تحریک جسے آج میں پھر دُہرانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جب کام بڑھتے ہیں تو اس وقت کام کرنے والوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور اگر کام کرنے والے نہ ملیں تو کئی ضروری کام رہ جایا کرتے ہیں.ہمیں بھی سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ہمت ، طاقت اور صحت رکھتے ہوں.مثلاً بریکاروں کو کام پر لگانے کی تحریک جو میں نے کی ہے اس میں کئی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کاموں کی نگرانی کر سکیں.آخر یہ کام یونہی نہیں ہو جائیں گے بلکہ ان کیلئے نگرانوں کی ضرورت ہوگی اور ہمارے پاس پہلے ہی کام کرنے والے آدمی کم ہیں پھر ان کاموں کی نگرانی کیلئے کہاں سے آدمی میسر آئیں گے.اس غرض کیلئے میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جو لوگ پنشنر ہیں وہ خدمات سلسلہ کیلئے اپنی زندگی وقف کریں.ساری عمر انہوں نے دنیا کے کاموں میں گزار دی اب کیوں وہ اِس کام کو اختیار نہیں کی کرتے جس کے کرنے سے انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.بے شک یہ کام تجارتی ہوگا ہی مگر سوال یہ ہے کہ یہ تجارت کس لئے ہوگی؟ جب یہ تجارت غرباء ومساکین اور یتامی و بیوگان کے فائدہ کیلئے ہوگی تو یقیناً اس تجارت میں حصہ لینا بھی ویسی ہی عبادت ہے جیسے نماز عبادت ہے، جیسے
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۶ء روزہ عبادت ہے، جیسے زکوۃ عبادت ہے، جیسے حج عبادت ہے.آخر صدقہ و خیرات نماز کی طرح عبادت میں داخل ہے یا نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ کام عبادت نہ ہو جو صرف غرباء کے فائدہ کیلئے کیا کی جائے گا.اگر ایک غریب کو صدقہ دینا نیکی ہے تو غریبوں کو پیشے سکھانا، بیواؤں اور یتیموں کیلئے کام مہیا کرنا اور ان کی زندگی کو سنوارنا کیوں نیکی نہیں.اسی طرح کے اور بھی بہت سے کام ہیں جو تحریک جدید کے ماتحت نکلیں گے.پس ان کاموں کے لئے ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں کچھ تجر بہ بھی ہو ، صحت بھی اچھی ہو اور جن میں ابھی طاقت ہو.ایسے بوڑھے نہیں چاہئیں جو کام سے رہ چکے ہوں بلکہ وہ زیادہ عمر والے جو ابھی جواں ہمت ہوں، چلنے پھرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور دس بارہ گھنٹے متواتر اگر انہیں کام کرنا پڑے تو کر سکتے ہوں ایسے لوگوں کی ہمیں ضرورت ہے.پنشن لینے کے بعد ہر شخص ناکارہ نہیں ہو جا تا بلکہ دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ پینشن لینے کے بعد جو شخص کام نہیں کرتا وہ ناکارہ ہو جاتا ہے.ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب نے پنشن لینے کے بعد سلسلہ کا کام کرنا شروع کیا.وہ قریباً ۷۶ سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں مگر سوائے آخری دو سالوں کے اُن کی طاقتیں اتنی اعلیٰ تھیں کہ کام کرتے وقت نو جوان اُن سے پیچھے رہ جایا کرتے تھے.میں نے ہمیشہ ان کے منہ سے سنا جب کسی نے کہنا کہ آپ اب کیوں کام کرتے ہیں ؟ تو وہ کہتے میں نے دیکھا ہے جو لوگ پنشن لینے کے بعد کام نہیں کرتے وہ جلدی مرجاتے ہیں اور واقعہ میں کثرت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اِ دھر لوگوں نے پنشن لی اور اُدھر فوت ہو گئے.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں کام کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر جب گھر میں آکر بالکل فارغ بیٹھ رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ طبیعت پر یہ خیال غالب آجاتا ہے کہ ہم بڑھے ہوگئے اور اس طرح ناکارہ رہ کر بیمار ہو جاتے اور مرجاتے ہیں.اگر وہ کام کرتے رہتے تو بڑھے ہونے کا سوال ہی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتا.پس سکتے بیٹھے رہنے سے عمریں کم ہو جاتی ہیں پھر ان کے وجود سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا گویا وہ زندگی نہ اپنے لئے مفید ہوتی ہے نہ دوسروں کیلئے.پس میں نے تحریک کی تھی کہ دنیا کا کام اور حکومت کا کام کرنے کے بعد جو لوگ فارغ ہو جاتے ہیں انہیں کم از کم پنشن کے بعد کا وقت تو خدا تعالیٰ کیلئے وقف کرنا چاہئے تا مرنے کے بعد وہ خدا تعالیٰ سے کہہ سکیں کہ اے خدا! ہمیں اپنی زندگی میں جو وقت فرصت کا ملا اُسے ہم نے تیرے
خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۶ء دین کیلئے وقف کر دیا تھا.اس وقت بھی مرکز میں بعض ہمت رکھنے والے پنشنرز اسی تحریک کے ماتحت کام کر رہے ہیں مثلاً خان صاحب فرزند علی صاحب، بابوسراج الدین صاحب ، خان صاحب برکت علی صاحب، مرزا عبد الغنی صاحب، ملک مولا بخش صاحب ، خان بہا در غلام محمد صاحب اور بعض اور بھی ہوں گے جن کے نام مجھے اس وقت یاد نہیں.وہ روٹی سرکار سے کھاتے ہیں اور کام خدا تعالیٰ کا کرتے ہیں.لیکن میں یہ کس طرح تسلیم کرلوں کہ ہماری جو لاکھوں کی جماعت ہے اس میں یہ پانچ سات ہی پینشنز ہیں اور کوئی نہیں.میں سمجھتا ہوں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں پنشنر ہماری جماعت میں ہیں وہ ذرا ہمت سے کام لیں اور ارادہ پیدا کریں تو کافی تعداد میں کام کرنے والے ہمیں مل سکتے ہیں.پس آج میں پھر اُن دوستوں کو جو پنشنز ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں تا ان کی زندگی کے آخری ایام اللہ تعالیٰ کی رضا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے کاموں میں صرف ہوں.اس سے زیادہ کسی انسان کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ بغیر قربانی کے اُسے ثواب ملتا جائے.پنشن کو کھانے پینے اور پہننے کیلئے روپیہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گزشتہ زندگی کے کام کے بدلہ میں اسے روپیل کی رہا ہوتا ہے خواہ وہ ماہوار پنشن کی صورت میں یا پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں.اب بقیہ زندگی میں وہ دین کی خدمت کر کے مفت میں ثواب حاصل کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وارث ہوسکتا ہے.پھر میں نہیں سمجھتا وہ کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو خدمت دین کیلئے کیوں پیش نہیں کرتے ؟ یہ مت خیال کرو کہ اتنے کام کس طرح نکل سکتے ہیں؟ ہزاروں کام ایسے ہیں جو ہم نے کرنے ہیں، ہزاروں قسم کی اصلاحات ہیں جو ہم نے رائج کرنی ہیں، پھر غریبوں ، تیموں اور بیواؤں کی ترقی کیلئے بیسیوں پیشے ہیں جو ہم نے سکھانے ہیں ، اسی طرح علمی ترقیات کیلئے بیسیوں تحریکات جاری کی جاسکتی ہیں اور جاری کرنی پڑیں گی ، پھر اقتصادی ترقی کیلئے بیسیوں کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں.اور درحقیقت یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے اس میں جس شخص نے مقابلہ کو ایک منٹ کیلئے بھی بھلا یا وہ گیا.قرآن کریم نے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۵ کہہ کر اور ایک جگہ وَالسَّابِقَاتِ سبقًا ، فرما کر اسی امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس دنیا میں مقابلہ ہو رہا ہے تمہارا فرض ہے کہ اس مسابقت میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرو.و.
خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۶ء پس اس مقابلہ کی دنیا میں ایک منٹ کیلئے بھی اگر کوئی مقابلہ کو بھول جاتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں اپنی ترقی کے راستہ کو روکتا اور تنزل کے گڑھے میں گر جاتا ہے.تم سمجھ لو کہ دنیا کیا ہے؟ ایک پاگل خانہ ہے جس میں ہر شخص شور و غوغا کر رہا ہے.اگر اس میں تمہاری آواز بلند نہیں تو وہ دوسری آوازوں کے مقابلہ میں دب جائے گی اور اگر تم اپنی آواز بلند کرلو تو دوسروں کی آواز میں دب جائیں گی.پس جس قسم کی دنیا خدا تعالیٰ نے بنائی ہے اس کے مطابق تمہیں رہنا چاہئے اور اگر تم نہیں رہتے تو دنیا میں ترقی کا کوئی کام نہیں کر سکتے.ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ خدا تعالیٰ کے قوانین کے مطابق کام کیا جائے.لوٹ مار، دعا اور فریب انسان کو تباہ کر دیتا ہے اور ایسے شخص کے کام سے برکت اُڑ جاتی ہے.پس تم لوگوں کا مقابلہ کر و مگر اس لئے نہیں کہ انہیں ٹوٹو بلکہ اس لئے کہ انہیں فائدہ پہنچاؤ.بہر حال مقابلہ کی روح ضروری ہے اور ہمارے کام کی وسعت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ پنشنز ہیں وہ یہاں آئیں اور سلسلہ کے کاموں میں انتہائی سرگرمی کے ساتھ حصہ لے کر مختلف شعبوں میں جماعت کو ماہر بنانے کی کوشش کریں.ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ دوست قادیان میں مکانات بنائیں.میں آج اس تحریک کی طرف بھی دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.مکانات خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بنوارہی ہے اور پہلے سے زیادہ تعداد میں بنوا رہی ہے لیکن ابھی اس کی طرف اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.ہر مکان جو قادیان میں بنتا ہے وہ احمدیت کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے تم قادیان میں مکان بنا کر صرف اپنی جائداد نہیں بناتے بلکہ اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی جائداد بھی بڑھاتے ہو.ہر اینٹ جو تمہارے مکان میں لگائی جاتی ہے وہ صرف تمہارے مکان کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ سلسلہ اور اسلام کو بھی مضبوط کرتی ہے.پھر جس قدر قادیان میں عمارتیں بنیں گی اُسی قدر دوسری آبادی بھی ترقی کرے گی.جب قادیان میں کھانے والے بڑھیں گے تو ایسی دُکانیں بھی بڑھیں گی جو ان کیلئے آٹا وغیرہ مہیا کریں، ایسی دُکانوں کا راستہ بھی کھلے گا جو کپڑے مہیا کریں، ایسے آدمیوں کیلئے بھی گنجائش نکلے گی جو گھروں کی صفائی کریں.پس ہر مکان جو بنایا جاتا ہے وہ اور مکانوں کیلئے بھی راستہ کھولتا ہے اور پھر سب مکان مل کر احمدیت کی مضبوطی کا موجب بنتے ہیں.پس جو دوست ابھی تک یہاں مکان نہیں بنوا سکے انہیں چاہئے کہ وہ مکان بنوائیں اور جو قادیان میں رہنے والے ہیں انہیں بھی
خطبات محمود ۳۰ سال ۱۹۳۶ء چاہئے کہ مکانات بنائیں.قادیان میں مکانات بنانا دنیا نہیں بلکہ دین ہے.چنا نچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بکثرت یہ الہام ہوا کہ وَسِعُ مَكَانَكَ وَسِعُ مَكَانَكَ.رَبِّعُ مَكَانَگ ہے.یعنی اپنے مکانوں کو بڑھاؤ اور انہیں ترقی دو.یہ الہام صرف حضرت مسیح موعود لیہ السلام کیلئے ہی نہیں تھا بلکہ اس الہام میں جماعت بھی مخاطب تھی اور اسے بتایا گیا تھا کہ یا درکھو اگر تم دشمنوں کے حملوں اور ان کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ مرکز سلسلہ میں مکانات بنواتے چلے جاؤ.یہ وَسِعُ مَكَانَكَ کا متواتر الہام در حقیقت آئندہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی اور اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب کبھی احمدیوں کو مشکل پیش آئے گی اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس التجاء کے ساتھ جھکیں گے کہ الہی ! ہم کیا تی کریں؟ تو ہماری طرف سے انہیں یہ کہا جائے گا کہ وَسِعُ مَكَانَکَ اپنے مکانات کو اور زیادہ ان وسیع کر دو اور اور زیادہ مرکز کو مضبوط کرو.اس پیشگوئی کو پورا کرنا اب آپ لوگوں کا کام ہے اور گو بیسیوں نے اس کو پورا کیا مگر بیسیوں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی.میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ان کے رب نے ان کی مصیبتوں کا علاج یہ بتایا ہے کہ وَسِعُ مَكَانَکَ.اپنے مکانوں کو وسیع کرو اور اس طرح مرکز سلسلہ کو مضبوط کر کے دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی طرف سے بالکل نا امید کر دو.پھر اسی الہام میں وَسِعُ مَكَانَكَ کہہ کر اِس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب مشکلات آئیں تو اُس وقت زمین پر پھیل جانا اور اپنی تعداد کو کی بڑھانے کی کوشش کرنا.پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری ترقی کا ایک ذریعہ ایک طرف تو تمہیں یہ بتایا ہے کہ اپنے مرکز کو مضبوط کرو اور دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ تم چین اور جاپان اور امریکہ اور افریقہ اور سیٹلمنٹس اور دوسرے ممالک میں چلے جاؤ اور دنیا میں پھیلتے چلے جاؤ یہاں تک کہ کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہ کر سکے.یاد رکھو بہترین جرنیل دنیا میں وہی سمجھا جاتا ہے جو اپنی فوج کو عقل کے ساتھ پھیلا سکے.میرے مخاطب اس وقت وہ ہیں جو فوجی ہنر کو نہیں جانتے اور انہیں خطاب کرنے کی والا وہ شخص ہے جس نے کبھی اپنے ہاتھ سے تلوار نہیں چلائی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے علم دیا اور ہر قسم کا علم دیا ہے.میں نے کبھی فوجی علم پر کوئی کتاب نہیں پڑھی ، میں نے کبھی فوجی پریڈ نہیں دیکھی ، میں سٹریٹ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء نے کبھی فوجی جنگ نہیں دیکھی.مگر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چاہوں تو فوجی نظام پر ایک کتاب لکھ سکتا ہوں اور میں الہی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ بہترین جرنیل وہی ہے جو فوج کو عقل کے ساتھ پھیلا سکتا ہے.یعنی بغیر اس کے کہ دشمن کو اپنے کسی کمزور مقام پر حملہ کرنے کا موقع دے وہ اپنی فوج کو پھیلاتا چلا جائے کیونکہ اس طرح دشمن ہمیشہ اس کے نرغہ میں گھر جانے کا خطرہ میں رہتا ہے.پس اس کی دانائی یہ ہے کہ وہ اپنے کمزور مقاموں کا دشمن کو پتہ نہ لگنے دے تا دشمن اس پر حملہ نہ کر دے لیکن اپنے لشکر کو پھیلا تا چلا جائے تا دشمن اس کے نرغہ میں گھر جائے.یہ وہی وَسِعُ مَكَانَگ والی پالیسی ہے جس کا خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں ذکرفرمایا اور ہمیں بتایا کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو وَسِعُ مَكَانَگ کے حکم پر عمل کرنا می یعنی اور پھیل جانا.پھر حملہ کرے تو اور زیادہ پھیل جانا.پھر حملہ کرے تو اور زیادہ پھیل جانا.پس کی اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاں قادیان میں بڑھنے کا حکم دیا وہاں ساری زمین پر پھیل جانے کا بھی حکم دیا ہے.قرآن کریم میں بھی یہ علم موجود ہے اور دراصل قرآن ہی تمام علوم کا اصل منبع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات تو اس کی تشریح ہیں مگر قرآن مجید سے یہ معارف وہی نکال سکتا ہے جو اپنے دل کی آنکھیں کھول کر اسے پڑھے.پس یہ دو چیزیں ہیں جن پر جماعت اگر عمل کرے تو وہ دشمن کے حملہ سے بالکل محفوظ ہو جائے.یعنی قادیان میں مکانات بناتے جاؤ اور دنیا میں پھیلتے جاؤ یہاں تک کہ ساری دنیا پر تمہارا قبضہ ہو جائے.جو جماعتیں ایک جگہ رہتی ہیں وہ ہمیشہ چلی جاتی ہیں.اگر ہماری جماعت پنجاب میں محدود ہوتی تو سوچو پچھلا زمانہ کتنا خطرناک آیا تھا اور کیا اگر ہماری جماعت صرف پنجاب میں محدود ہوتی تو وہ چلی نہ جاتی ؟ اب بھی خطرہ کچھ کم نہیں ہو ا صرف اس نے اپنی شکل بدل لی ہے ورنہ خطرہ پہلے سے بڑھ گیا ہے.میں اس کی تفصیلات میں نہیں پڑ سکتا مگر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خطرہ پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے.حکومت کی طرف سے بھی اور احرار کی طرف سے بھی.جب انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ قوم بیوقوف نہیں کہ یونہی آسانی سے اسے پکڑا جا سکے تو ان کے حملہ نے اب عقلمندانہ شکل اختیار کر لی ہے.بے شک جماعت کے خلاف بدظنی ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی مگر وہ افسر جو اس دھوکا میں ہیں کہ ہماری جماعت حکومت کے خلاف بغاوت کی تعلیم دینے لگ گئی ہے جب ان کی آنکھیں گھلیں گی اُس وقت اور
خطبات محمود ۳۲ سال ۱۹۳۶ء موجودہ وقت میں جو فاصلہ ہے وہ کس طرح طے ہو سکتا تھا ؟ اور حکومت کے وہ افسر جن کے دلوں میں ہماری مخالفت ہے ان کے ظلم سے بچنے کا ہمارے پاس کونسا ذریعہ تھا؟ وہ ذریعہ یہی تھا کہ ہماری جماعت پھیلی ہوئی تھی.اگر پنجاب کے افسر ہمارے متعلق یہ کہتے کہ یہ جماعت باغی ہے تو یو.پی، بمبئی ، بہار، بنگال اور دوسرے صوبوں کے افسر کہتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.احمدی جماعت تو حکومت کی وفادار ہے.چنانچہ ہمارے ماتحت جو احمدی رہتے ہیں انہوں نے کبھی کوئی کی باغیانہ حرکت نہیں کی بلکہ بغاوت سے لوگوں کو روکنا ان کا طریق ہے.اور اگر پنجاب میں احرار ہمارے متعلق کہتے کہ یہ اسلام کے دشمن ہیں اور ان سے زیادہ بُرا اور کوئی نہیں تو دوسرے صوبوں میں جولوگ بستے وہ کہتے احرار جھوٹ کہتے ہیں احمدیوں سے زیادہ شریف اور نیک تو ہم نے کوئی دیکھا ہی نہیں.اگر یہ پھیلا ؤ ہماری جماعت کو حاصل نہ ہوتا تو ہماری بدنامی میں کون سی کسر باقی تھی.احرار اور پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں نے ہمیں بدنام کرنے کی پوری کوشش کی مگر چونکہ ہماری جماعت کو پھیلا ؤ حاصل تھا اور لوگ ہمارے حالات کو جانتے تھے اس لئے ان کی باتوں نے کوئی اثر نہ لیا.بلکہ ایک اعلیٰ انگریز افسر سے ہمارے ایک دوست ملے تو وہ کہنے لگے میں حیران ہوں پنجاب کے افسروں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ آپ کی جماعت کے خلاف رپورٹیں کرنے لگ گئے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ آپ وہی کچھ کرتے ہیں جس کے کرنے کا آپ کو مرکز سے حکم ملتا ہے اور آپ لوگ تو حکومت کے بڑے خیر خواہ ہیں پھر میں نہیں سمجھ سکتا پنجاب کے بعض افسروں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہیں.اسی طرح اور بیسیوں افسر ہیں جنہوں نے حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے رویہ پر اظہار تعجب کیا.پھر چونکہ ہماری جماعت انگلستان میں بھی موجود ہے اس لئے جب پنجاب کی خبریں انگلستان جاتی ہیں اور وہ ہمارے آدمیوں کو یکھتے ہیں تو وہاں کے افسر حیران ہوتے ہیں کہ یہ تو ہمارے دوست ہیں ، ہم سے ملنے جلنے والے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کے بدخواہ نہیں بلکہ وفادار ہیں پھر پنجاب کے بعض افسروں کو کیا ہو گیا کہ وہ ایک پُر امن اور اطاعت شعار جماعت کے خلاف رپورٹیں کرنے لگ گئے ہیں.چنانچہ کئی ریٹائر ڈ گورنر ہیں جنہوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور بعض نے تو اس موقع پر ہیں تحریر میں دی ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں.ان تحریروں میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم جانتے ہیں کی
خطبات محمود ۳۳ سال ۱۹۳۶ء یہ جماعت وفا دار ہے باقی رہی شورشیں سو وہ ہماری موجودگی میں بھی اس جماعت کے خلاف ہوا کرتی تھیں.مگر ہم تجربہ سے کہہ سکتے ہیں کہ صرف دشمن اس جماعت کو بد نام کرنے کی کوشش کرتا ہی تھا.پس یہ وسِعُ مَكَانَگ والے الہام پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا کہ ہماری جماعت ان حملوں سے محفوظ رہی ورنہ اگر انگلستان میں ہمارا مشن نہ ہوتا ، اگر سندھ ، بمبئی ، یوپی ، بنگال اور بہار وغیرہ میں ہماری جماعتیں نہ ہوتی تو حکومت پنجاب کے چند نمائندوں کی رائے ہمارے حق میں قبول کی جاتی اور ہمیں بہت بڑا نقصان پہنچتا.اسی طرح پنجاب میں تو احرار ہمیں بدنام کرتے ہیں لیکن اور مختلف صوبے جہاں احرار کا زور نہیں وہاں کے لوگ جب ان باتوں کو سنتے ہیں تو حیران ہو کر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا.پس توسیع مکانات سے جماعت محفوظ ہو جاتی اور ہر قسم کے حملہ سے بچ جاتی ہے خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی.پھر روحانی لحاظ سے بھی جماعت کی توسیع ضروری ہوتی ہے کیونکہ روحانیت کی بھی ایک رو ہوتی ہے جو بعض ملکوں میں دب جاتی ہے اور بعض میں زور سے چل پڑتی ہے.پس اگر مختلف ممالک میں جماعتیں نہ ہوں تو اس روحانی رو کے مٹ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے.مثال کے طور پر دیکھ لو ایک ملک میں غلہ زیادہ ہوتا ہے مگر دوسرے ملک میں اُنہی دنوں قحط پڑا ہوتا ہے.ایک میں ایک سال کپاس زیادہ ہوتی ہے تو دوسرے میں ماری جاتی ہے.ایک میں ایک سال کتنا زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے ملک میں نہیں ہوتا.یہی حال روحانی حالتوں کا بھی ہوتا ہے ایک وقت میں ایک ملک میں مخالفت زوروں پر ہوتی ہے مگر دوسرے ملک میں مخالفت نہیں ہوتی.پس جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں سلسلہ کی ترقی رُک جاتی اور جہاں نہیں ہوتی وہاں ہوتی رہتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک میں بھی جماعت کی مخالفت ہو رہی ہوا سے مٹنے کا خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ باقی ممالک میں ترقی کر رہی ہوتی ہے.پس روحانی جماعتوں کو ہمیشہ مختلف ملکوں میں اپنی تبلیغ کو پھیلا دینا چاہئے تا اگر ایک جگہ مخالفت ہو تو دوسری جگہ اس کمی کو پورا کیا جا رہا ہو.جس طرح وہ ای آدمی زیادہ فائدہ میں رہتا ہے جس کے کئی ملکوں میں کھیت ہوں تا اگر ایک ملک میں ایک کھیت کو نقصان پہنچے تو دوسرے ملکوں کے کھیت اُس کی تلافی کر دیں اور اس کے ضرر کو مٹا دیں.اسی طرح وہی دینی جماعتیں فائدہ میں رہتی ہیں جو مختلف ممالک اور مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہوں کیونکہ
خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۶ء انہیں کبھی کچلا نہیں جاسکتا.پس اگر ہماری جماعت کے لوگ ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تو وہ ای خود بھی ترقیات حاصل کریں گے اور ان کی ترقیات سلسلہ پر بھی اثر انداز ہوں گی.اور جس می جماعت کی آواز ساری دنیا سے اُٹھ سکتی ہو اُس کی آواز سے لوگ ڈرا کرتے ہیں اور جس جماعت کے ہمدرد ساری دنیا میں موجود ہوں اس پر حملہ کرنے کی جرات آسانی سے نہیں کی جاسکتی.پس مت سمجھو کہ موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے لئے فضا صاف ہو گئی.یہ خاموشی نہیں بلکہ آثار ایسے ہیں کہ پھر کئی شورشیں پیدا ہونے والی ہیں اس لئے موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہرگزمت سمجھو کہ تمہارا کام ختم ہو گیا.یہ فتنہ تو تمہیں بیدار کرنے کیلئے پیدا کیا گیا تھا اور اگر تم اب پھر سو گئے تو یا درکھو اگلی سزا پہلے سے بہت زیادہ سخت ہوگی.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پھیلائے.اگر تم دنیا میں نہ پھیلے اور سو گئے تو وہ تمہیں گھسیٹ کر جگائے گا اور ہر دفعہ کا گھسیٹنا پہلے سے زیادہ سخت ہوگا.پس پھیل جاؤ دنیا میں ، پھیل جاؤ مشرق میں پھیل جاؤ مغرب میں ، پھیل جاؤ شمال میں ، پھیل جاؤ جنوب میں ، پھیل جاؤ یورپ میں پھیل جاؤ امریکہ میں پھیل جاؤ افریقہ میں پھیل جاؤ جزائر میں ، پھیل جاؤ چین میں پھیل جاؤ جاپان میں اور پھیل جاؤ دنیا کے کونے کونے میں یہاں تک کہ دنیا کا کوئی گوشہ ، دنیا کا کوئی ملک اور دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہ ہو جہاں تم نہ ہو.پس تم پھیل جاؤ جیسے صحابہ پھیلے ، پھیل جاؤ جیسے قرونِ اولیٰ کے مسلمان پھیلے، جیسے انہوں نے دنیا کے جغرافیے بنائے اسی طرح اب دنیا کے نئے جغرافیے تمہارے ذریعہ سے بننا چاہئیں.تم جہاں جہاں جاؤا اپنی عزت کے ساتھ سلسلہ کی عزت قائم کرو، جہاں پھر واپنی ترقی کے ساتھ سلسلہ کی ترقی کا موجب بنو.اسی طرح مختلف پیشے ہیں جو اور ملکوں میں سیکھے جا سکتے ہیں انہیں سیکھو اور اپنے ملک کو ترقی دو.انگریز ہندوستان آئے تو انہوں نے کپڑا بنا یہاں سے سیکھا مگر لنکا شائر کا سارے ہندوستان کو محتاج کر دیا.احمد آباد، ڈھا کہ اور سندھ کی تجارت کو انہوں نے توڑ دیا اور اپنے ملک کی تجارت کو ترقی دی.اسی طرح اور کئی فن انہوں نے یہاں سے سیکھے اور اپنے ملک کو ترقی دی.اگر ہمارے آدمی بھی دنیا میں پھیل جائیں تو وہ مختلف ملکوں سے مختلف پیشے ، ہنر اور دستکاریاں سیکھ کر اپنے ملک کی کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں.پھر مؤمن کو خدا تعالیٰ نے نہایت اعلیٰ ذہن دیا ہوا ہوتا ہے اس سے کام لے کر وہ دوسروں سے زیادہ ترقی کر سکتا ہے.
خطبات محمود ۳۵ سال ۱۹۳۶ء پس یہ دو باتیں کہ قادیان میں مکان بنانا اور دنیا میں پھیلنا نہایت اہم ہیں انہیں نظر انداز نی مت کرو اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے مبلغوں کا فرض ہے کہ وہ جہاں جائیں نو جوانوں میں یہ روح پیدا کر یں کہ وہ باہر نکلیں.گھروں میں بیٹھ کر مکھیاں مارنے سے کیا فائدہ ہے.کیوں باہر نکل لر ایسے کام نہیں کرتے جن سے سلسلہ کو وسعت حاصل ہو، اس کی عظمت میں ترقی ہو اور پھر ان کے کام ہندوستان کیلئے ترقی کا بھی موجب ہوں.چین سے اس وقت چینی کا سامان آتا ہے کیا وجہ ہے کہ ہم اسے ہندوستان میں تیار نہ کریں.مگر اس کے لئے ضرورت ہے کہ بعض نوجوان چین میں جائیں اور چینی کا کام سیکھ کر یہاں آئیں اور ملک کو ترقی دیں.پھر کہیں مزدور بن کر، کہیں کلرک بن کر اور کہیں دیگر ذرائع سے ان فنون کو حاصل کریں اور دنیا میں نام پیدا کریں.جاپانیوں نے اپنے ملک کی خاطر یہی کیا تھا.ایک دفعہ امریکہ کے لوگوں نے انہیں دھمکی دی اور جاپان پر گولہ باری کی.اس کا جاپانی نو جوانوں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ ہم اب اس ذلیل ملک میں اُس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک خود عزت حاصل نہ کر لیں اور اپنے ملک کو بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے والا نہ بنادیں.ایک مشہور نواب کا لڑکا بھی چلا گیا اور وہ جہاز پر کوئلہ ڈالنے والوں میں ملازم ہو گیا اور عرصہ تک جہاز رانی اور جہاز سازی کا کام سیکھتا رہا.پھر وہ اپنے ملک میں آیا اور اُس نے جہازوں کا کارخانہ کھول کر ملک کی ایک اہم ضرورت کو پورا کر دیا اور اُسے اس کی قابل بنادیا کہ وہ دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے.تو زندہ قو میں غیرت مند ہوتی ہیں.وہ دنیا سے کوڑے نہیں کھاتیں اور اگر ایک بار کھا لیں تو اُس وقت تک دم نہیں لیتیں جب تک اُس فعل کو آئندہ کے لئے ناممکن نہ بنادیں.تمہیں بھی اس وقت ایک کوڑا لگا ہے حکومت کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی.اگر تم میں غیرت کا ایک شمہ بھی باقی ہے تو جب تک تمہاری جان میں جان ہے اور تمہارے جسم میں سانس چلتا ہے تمہیں یہ کوڑا نہیں بھولنا چاہئے جب تک اتنی طاقت حاصل نہ کر لو کہ نہ آئندہ تمہیں حکومت کوڑا مار سکے اور نہ رعایا میں سے کوئی تمہیں کوڑا مار سکے.بے غیرتی کی زندگی سے غیرت کی موت ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں.تم بے غیرت مت بنو کہ جس پر تمہارے دل بھی تم پر لعنت کریں اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی تم پر لعنت کریں.تم غیرت مند بنو کہ غیرت کے ہوتے
خطبات محمود ۳۶ سال ۱۹۳۶ء ہوئے اگر تم دنیا میں تھوڑے دن بھی جیو اور غیرت کی موت مرو تو تمہاری آنے والی نسلیں فخر سے پنی گردنیں اونچی کریں گی اور کہیں گی کہ ہم ان کے فرزند ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے دیں مگر بے غیرتی کی زندگی کو قبول نہ کیا.کیوں بعض حکام کو یہ جرات ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کریں؟ اس لئے کہ تم تھوڑے ہوا اور کمزور ہو.کیوں احرار کو یہ جرات ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کریں؟ اس لئے کہ تم تھوڑے ہو اور کمزور ہو.پس اب جاؤ اور دنیا میں نکل کر طاقت حاصل کرو، جاؤ اور دنیا میں نکل کر اپنی تعداد کو بڑھاؤ، یہاں تک کہ دنیا کا کوئی شخص تمہیں تھوڑا نہ کہہ سکے، یہاں تک کہ دنیا کا کوئی شخص تمہیں کمزور نہ کہہ سکے.کیا تم نہیں جانتے کہ وہ لوگ جنہیں اپنے مستقبل کے متعلق کوئی امید نہ تھی انہوں نے دنیا میں کس قدر قربانیاں کیں.انگلستان سے کس نے وعدہ کیا تھا کہ اسے بادشاہت دے دی جائیگی؟ کسی نے بھی نہیں.مگر تمہارے ساتھ تو اُس خدا کا وعدہ ہے جو تمہارا خالق و مالک ہے اور خدا تعالی سے بڑھ کر اور کون زیادہ سچا ہو سکتا ہے.پھر فرانس کے لوگوں سے کس نے کہا تھا کہ ان کو بادشاہت دی جائے گی؟ جرمنی سے کس نے وعدہ کیا تھا کہ اسے ترقی دی جائے گی ؟ ان کے ساتھ کوئی وعدہ نہ تھا صرف انہوں نے غیرت دکھائی اور دنیا میں عزت حاصل کر لی.مگر تمہارے متعلق تو خدا تعالی کا وعدہ ہے کہ تمہیں دنیا میں غلبہ دیا جائے گا.پس تم اگر اس غرض کیلئے باہر نکلتے ہو تو تم وہ کام کرتے ہو جس کے متعلق آسمان پر فرشتے تمہارے لئے تیاریاں کر رہے ہیں.پس تم اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابل بناؤ ، زیادہ سے زیادہ لائق بناؤ، نہ صرف دین میں بلکہ دنیا کے ہر کام ہرفن اور ہر پیشہ میں.یہاں تک کہ کوئی میدان ایسا نہ ہو جس میں احمدیہ جماعت کے افراد سے زیادہ لائق افراد دنیا میں مل سکیں.سب سے کامل لو ہار تم بنو، سب کامل نجار تم بنو، سب سے کامل معمار تم بنو ، سب سے کامل کیمسٹ تم بنو ، سب سے کامل ڈاکٹر تم بنو، سب سے کامل صناع تم بنو، سب سے کامل کپڑے ملنے والے تم بنو، سب سے کامل مشینیں بنانے والے تم بنو اور جب تم اس ارادہ اور عزم سے کھڑے ہو گے اور دنیا کے ممالک میں نکل جاؤ گے تو خدا تعالی کے فرشتے تم پر برکتیں نازل کریں گے اور تم جو کام بھی کرو گے خواہ وہ بظاہر دنیا کا نظر آتا ہو اس کے بدلہ میں تم ثواب پاؤ گے کیونکہ ہر قدم جو تم اُٹھاؤ گے اس لئے اُٹھاؤ گے کہ خدا تعالیٰ کی بہ
خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۶ء پیشگوئی پوری ہو کہ جماعت احمد یہ دنیا پر غالب آکر رہے گی.پس تم میں سے وہ لوہار جو اِس لئے آہن گرمی کے کام میں سب دنیا سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ دنیا پر غالب آئے گی اور وہ چاہتا ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں وہ بھی حصہ لے تو وہ آہن گری میں ترقی نہیں کر رہا بلکہ عبادت کر رہا ہے.تم میں سے وہ انجینئر جو اس لئے انجینئر نگ کے کام میں ترقی کر کے سب دنیا کو مات کرنا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کی جماعت کے دنیا پر غالب آنے کی پیشگوئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے پورا کرنے میں وہ بھی حصہ لے تو وہ انجینئر نگ نہیں لے رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حصہ لے رہا ہے.اسی طرح تم میں سے وہ زمیندار جو اس نیت اور ارادہ کے ساتھ اپنی پیدوار کو بڑھاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق پیشگوئی ہے کہ سب دنیا پر یہ غالب آئے گی اور وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لے تو وہ زمینداری میں ترقی نہیں کر رہا بلکہ دین میں ترقی کر رہا ہے.پس ہر پیشہ، ہرفن اور ہر ہنر میں ترقی کرو اور ملکوں اور علاقوں کی حد بندیوں سے آزاد ہو جاؤ کہ مؤمن کسی ملک اور علاقہ کی قید میں مقید نہیں ہوتا.پھر تم دیکھو گے کہ اُس کے فضل تم پر کس طرح نازل ہوتے ہیں.یہ ہماری غفلتیں تھیں جو ان فتنوں کو ہمارے لئے لائیں اور ہماری ہی غفلتیں ہوں گی جو پھر ان فتنوں کے دوبارہ لانے کا موجب بنیں گی ورنہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی آنکھیں کھولنے کیلئے بہت کی کافی سامان کر دیا ہے.اگر جماعت اب بھی اس شدید حملہ کو بھول جاتی ہے تو وہ اپنی بے غیرتی اور بے حمیتی کا افسوسناک مظاہرہ کرتی ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو بے غیرتی کے مرض سے بچائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنے ہاتھوں سے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے بنیں جو جماعت احمدیہ کی ترقی کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیں اور اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے بلکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے حوصلے اور اُن کی ہمتوں میں بھی اس قدر برکت دے کہ ساری دنیا کے حوصلے اور ہمتیں ان کے سامنے بیچ ہو جائیں.دنیا ہمارا گھر ہے.پس ی جس طرح خدا تعالیٰ کے گھر یعنی مساجد میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا سے تمام امتیازات کو مٹادیں تا پھر خدا تعالیٰ کا نام دنیا میں بلند ہو اور اُس کی
خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۶ء بادشاہت زمین پر بھی آئے جس طرح کہ وہ آسمان پر ہے.صلى الله ( الفضل ۱۶ / جنوری ۱۹۳۶ء ) ا بخاری کتاب الصلوه باب قول النبي علم جعلت لى الارض مَسْجِدًا و طهورًا سیٹلمنٹس ے سٹریٹ STRAIT SETTLEMENT) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نوآبادی.1826ء سے 1858 ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنیا نگ، ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی مجزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.1867ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور 1946ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۴۱ کے مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء) بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبيين فوکلور: (FOLK-LORE).کہانیاں، رسم و رواج البقرة : ۱۴۹ کے تذکرہ صفحہ ۵۳.ایڈیشن چہارم النزعت: ۵
خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۶ء تحریک جدید کے مالی مطالبہ کی شاندار کامیابی (فرموده ۱۷ /جنوری ۱۹۳۶ء) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج مجھے سر درد کا دورہ ہے اور اس وجہ سے ذرا سی حرکت بھی شدید درد پیدا کر دیتی ہے لیکن چونکہ جمعہ کا دن تھا میں نے پسند نہ کیا کہ جمعہ میں ناغہ ہو جائے اس لئے مناسب یہی سمجھا کہ بعض درد کو کم کر دینے والی دواؤں کا استعمال کر کے خطبہ پڑھ دوں.مگر ان دواؤں کے استعمال کی وجہ سے میں ایک ضعف محسوس کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی درد کی شکایت بھی باقی ہے جس کی وجہ کی سے میں زور سے نہیں بول سکتا.سب سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال کی تحریک جدید کی جو مالی تحریک تھی اس کی معیاد ۱۵ جنوری کو ختم ہو چکی ہے.میں نے اس سال کی تحریک کے وقت بتایا تھا کہ چونکہ گزشتہ سال کی تحریک میں بعض دوستوں نے غیر معمولی حصہ لیا تھا حتی کہ بعض نے عمر بھر کا اندوختہ چندہ میں دے دیا تھا اس لئے ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اس سال بھی اُسی قدر حصہ لے سکیں گے.پھر بعض دوستوں نے غلط فہمی سے یہ خیال کر لیا تھا کہ شاید تین سال کا چندہ ای پہلے سال میں ہی ادا کرنا ہے اس لئے اُنہوں نے اتنا بوجھ اُٹھالیا تھا کہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ ای دوسرے سال بھی اُسی قدر بوجھ اپنے ذمہ ڈال سکیں گے.پس ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی میں نے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ کچھ نہ کچھ اضافہ اپنے چندوں میں کر دیں تا کہ وہ دوست جو وه
خطبات محمود ۴۰ سال ۱۹۳۶ء بالکل حصہ نہ لے سکتے ہوں یا گزشتہ سال سے کم لے سکتے ہوں ان کی کمی کو دوسروں کی زیادتی پورا کر دے اور جیسا کہ ہماری پہلی تحریکوں کا حال ہوتا چلا آیا ہے یعنی ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سے بڑھ کر ہوتا ہے اس سال کے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں سے بڑھ جائیں.سو آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے جو خیال کیا تھا کہ ایک حصہ دوستوں کا اِس سال حصہ نہیں لے سکے گا یا اتنا نہیں لے سکے گا وہ احتیاط درست ثابت ہوئی ہے.جن دوستوں نے گزشتہ سال سارا اندوختہ چندہ میں دے دیا تھا ان کے متعلق تو ظاہر ہی ہے کہ وہ اس رنگ میں اس سال حصہ نہیں لے سکتے تھے ان کے علاوہ اور بھی ایسے دوست ہیں جو گزشتہ سال زیادہ بوجھ اُٹھا لینے کی وجہ سے دیگر مجبوریوں کے باعث اس سال حصہ نہیں لے سکے یا کم لے سکے ہیں.ایسے دوستوں کی تعداد غالباً کئی سو ہے لیکن اس احتیاط کے ماتحت جس کے لئے میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک جو علاوہ عام چندوں کے تھی اور ایک زائد بوجھ تھا گو اختیاری ہی تھا ہماری دوسری تحریکوں کی طرح آگے سے بڑھ کر کامیاب ہوئی ہے.یعنی پچھلے سال ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے جون تک ہوئے تھے جبکہ بیرون ممالک کی جماعتوں کے وعدے بھی پہنچ گئے تھے لیکن اس سال گل تک ایک لاکھ ساڑھے دس ہزار کے وعدے آچکے تھے.حالانکہ ہندوستان کی جماعتوں سے بھی ابھی وعدے آنے کے چار دن باقی ہیں.سولہ تاریخ کے پوسٹ کئے ہوئے خطوط کی منظوری کا اعلان میں نے کیا ہوا ہے اور ہندوستان کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں سے چوتھے، پانچویں روز خط یہاں پہنچتا ہے.اس لئے پندرہ یا سولہ کے بھیجے ہوئے وعدے ۲۱ تک موصول ہوتے رہیں گے.میں یہ ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ اس سال بیرون ہند کی بعض جماعتوں کے وعدے جلد وصول ہو گئے ہیں کیونکہ دوستوں کو پہلے سے یہ خیال تھا کہ تحریک ہوگی اور وہ اس کیلئے تیار تھے.مشرقی افریقہ جہاں جماعت اچھی تعداد اور اچھی حیثیت میں ہے وہاں سے بیشتر حصہ جماعت کے وعدے آچکے ہیں جو پچھلے سال اس وقت تک وصول نہیں ہوئے تھے اس لئے باہر سے اب اتنے ہی وعدوں کی امید نہیں جتنے گزشتہ سال آئے تھے پھر بھی امید ہے کہ اس سال کے وعدے ایک لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ جائیں گے.گویا اس سال آٹھ فیصدی کی زیادتی ہوگی باوجود اس کے کہ کئی
خطبات محمود ۴۱ سال ۱۹۳۶ء دوست اس سال شامل نہیں ہو سکتے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال بعض اُن دوستوں نے جو جماعت میں نئے شامل ہوئے ہیں تحریک میں حصہ لیا ہے اور بعض نے گزشتہ سال کی نسبت ا.چندوں کو بڑھا دیا ہے اس بڑھوتی نیز نئے شامل ہونے والوں نے باوجود اس کے کہ کئی دوست شامل نہ ہو سکے آٹھ فیصدی کی زیادتی کر دی ہے.اگر باقی لوگ بھی شامل ہو سکتے تو اُمید ہے کہ یہ رقم ایک لاکھ تمیں چالیس ہزار تک پہنچ جاتی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارا ایک مستقل ریز رو فنڈ ہو جس کی آمدنی سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور ہنگامی کاموں کیلئے چندہ ہو.اخلاقی لحاظ سے بھی یعنی جماعت کی اخلاقی حالت کو محفوظ رکھنے نیز کام کی وسعت کیلئے بھی ضروری ہے کہ ایک مستقل ریز روفنڈ قائم کیا جائے.صدر انجمن احمدیہ کی آمد کا بیشتر حصہ تنخواہوں میں صرف ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے ہنگامی کاموں میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سلسلہ کے اموال سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا جتنا اُٹھایا جانا چاہئے حتی کہ بعض دفعہ ہمارے مبلغ اس لئے یہاں بیٹھے رہتے ہیں کہ باہر جانے کیلئے کرایہ نہیں ہوتا.پس کام چلانے کیلئے ضروری ہے کہ مستقل عملہ کے اخراجات کیلئے تی مستقل آمدنی کے ذرائع ہوں.اس لئے میری تجویز ہے کہ ایک ریز رو فنڈ قائم کیا جائے اور تحریک جدید کے ماتحت جو کام جاری کئے گئے ہیں ان کے مستقل اخراجات کیلئے مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کیلئے میں صدر انجمن احمدیہ کے نام پر بعض جائدادیں خرید رہا ہوں تا مستقل کاموں کا بار چندوں پر نہ پڑے اور جماعت کے چندے صرف ہنگامی کاموں پر خرچ ہوں.مثلاً لٹریچر، اشاعتِ دین اور جلسے وغیرہ اس کیلئے گو بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے مگر جب کام کو چلا یا جائے تو میں سمجھتا ہوں بعض ابتدائی دقتوں کے بعد یہ کچھ مشکل نہیں رہ جاتا.اگر آج تک مالی حالت کا اس رنگ میں انتظام کیا جاتا کہ مستقل اخراجات مستقل آمدنی سے ہوتے تو ہم ہندوستان میں اس قدر عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتے تھے کہ جس کا بیسواں بلکہ سینکڑواں حصہ بھی اب تک نہیں کر سکے اور اس کے علاوہ وہ اعتراضات بھی نہ ہو سکتے جو بعض کمزور طبائع اور منافقین کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں.بعض لوگوں کو یہ خیال تو نہیں آتا کہ مرکز کے بغیر کام نہیں چل سکتا وہ
خطبات محمود ۴۲ سال ۱۹۳۶ء صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اتنے آدمی تنخواہیں لے رہے ہیں اور کھا رہے ہیں ، وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ یہ لوگ وقت خرچ کرتے ہیں، دین کی خدمت کرتے ہیں انہیں صرف تنخواہوں پر ایک کثیر رقم کا خرچ ہونا دکھائی دیتا ہے لیکن اگر شروع سے ایسا انتظام ہوتا کہ تنخواہوں کا بار چندوں پر نہ پڑتا تو منافقوں کو کمزور طبائع کے لوگوں میں بے چینی پیدا کرنے کا موقع نہ ملتا.اگر چہ قرآن کریم نے اس امر کی پوری تصریح کردی ہے کہ جس کام پر جو لوگ مقرر ہوں اُن کی تنخواہیں اُسی کام کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو شخص اپنا سارا وقت دے گا وہ گزارہ بھی لے گا.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ باہر کی نسبت یہاں کم گزارہ لیتے ہیں یا زیادہ؟ یا ان کے کام کی قیمت سے ان کا گزارہ کم ہے یا زیادہ؟ اگر ان کے کام، ان کی لیاقت اور منڈی کی قیمت کے لحاظ سے ان کی تنخواہیں کم ہیں تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں خواہ ایسے لوگوں کی تعداد ہزار ہو.کیونکہ کام چلانے کیلئے جتنے لوگوں کی ضرورت ہو گی اُتنے رکھنے ہی پڑیں گے مگر پھر بھی اس سے چونکہ کمزور طبائع کو دھوکا لگ سکتا ہے اس لئے پہلے سے ہم کو ایسا انتظام کرنا چاہئے تھا کہ مستقل اخراجات کا بار عام چندوں پر نہ پڑے.تحریک جدید کے متعلق میرا یہی خیال ہے کہ اس کے مستقل اخراجات ریز رو فنڈ کی آمد سے ادا کرنے کا انتظام کیا جائے اور چندوں کا ایک ایک پیسہ ہنگامی کاموں پر خرچ ہو، تا ہر ایک شخص کو نظر آسکے کہ تحریک کے کاموں پر کیا خرچ ہورہا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بظاہر یہ بات کمزوروں یا منافقوں کے ڈر کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے مگر وہ بات جو سلسلہ کو مضبوط کرنے والی ہو وہ ڈر نہیں بلکہ احتیاط ہے.قرآن کریم میں حکم ہے کہ خُذُوا حِذْرَكُم لے اِس سے شیعوں نے تقیہ کا جواز ثابت کیا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں.اس کا مطلب یہی ہے کہ جہاں تک اعتراض سے بچ سکو بچنا چاہئے.رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ اِتَّقُوا مَوَاقِعَ الْفِتَنِ سے یعنی فتنوں کی جگہوں سے بچتے رہو.میں نے چھ سات سال قبل ریز رو فنڈ کی تحریک کی تھی تاہم تبلیغی کام کو اس اُتار چڑھاؤ سے جو مالی لحاظ سے دنیا پر آتے رہتے ہیں بچا ئیں.دنیا میں کبھی قحط پڑ جاتا ہے اور زمیندار چندہ نہیں ادا کر سکتے کبھی اشیاء گراں ہو جاتی ہیں اور ملازموں کے چندوں میں کمی ہو جاتی ہے اور کبھی تجارتی کساد بازاری کے باعث تاجر پورے چندے ادا نہیں کر سکتے اس لئے ایسے اُتار چڑھاؤ کی
خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۳۶ء سے تبلیغی کا موں کو محفوظ کرنے کیلئے میں نے ایک ریز رو فنڈ کی تجویز کی تھی اور دوسری تحریک یہ کی تھی کہ جماعت کے دوست آنریری طور پر تبلیغی خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اب یہ سب تحریکیں میں نے تحریک جدید میں جمع کر دی ہیں.اول یہ کہ نو جوان قلیل گزارہ پر تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں.اس کے ماتحت خدا کے فضل سے سینکڑوں نو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.کئی باہر جاچکے ہیں دو ابھی گل گئے ہیں اور پانچ سات تیار بیٹھے ہیں جو ایک دو ماہ میں ہی چلے جائیں گے.دوسرے یہ کہ ہر سال ایک رقم بچا کر صدرانجمن کے نام پر کوئی جائداد خریدی جائے یا کوئی نفع بخش کام جاری کر دیا جائے.اور تیسرے ہنگامی کاموں کیلئے چندہ کی تحریک کی جائے اور باوجود منافقوں کے اس شور کے کہ جماعت میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے یا احراریوں کے اس پر و پیگینڈا کے کہ جماعت کے لوگ تنگ آچکے ہیں میں آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اعلان کرنے کے قابل ہوں کہ جماعت نے گزشتہ سال کی نسبت اس سال زیادہ چندہ کا وعدہ کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اگلے سال اس سے بھی زیادہ دینے کیلئے وہ تیار رہے گی اور تیسرے سال کی تحریک کو ایسے رنگ میں کامیاب کرے گی کہ ہم اس کے اختتام پر دولاکھ روپید ریز رو فنڈ میں منتقل کرسکیں گے.میں نے چند سال ہوئے شوری کے موقع پر ۲۵ لاکھ روپید ریز رو فنڈ کے طور پر جمع کرنے کی تحریک کی تھی مگر افسوس کہ دوستوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.اب میری پوری یہ کوشش ہوگی کہ گزشتہ سال اور اس سال کی تحریک جدید کی آمد میں سے ایک لاکھ روپیہ بچا کر ریز رو فنڈ میں جمع کرسکیں اور پھر اگلے سال اللہ تعالیٰ دوستوں کو خاص قربانی کی توفیق دے تو ایک لاکھ روپیہ اس سے جمع کر کے دولاکھ روپی گل ریز رو فنڈ میں جمع کر دیں اور اس سے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ کچھ تو صدرانجمن کے نام پر جائداد خرید لی جائے اور کچھ روپیہ بعض سودمند تجارتوں میں لگا دیا جائے اور اس مستقل آمد سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور اس میں سے جو بچے اس سے ریز رو فنڈ کو بڑھایا جائے اور آئندہ چندہ کی رقم سے صرف ہنگا می کام چلائے جائیں.میں جہاں تک سمجھتا ہوں ہمیں آج یہ ضرورتیں اس لئے پیش آرہی ہیں کہ اس زمانہ کا
خطبات محمود ۴۴ سال ۱۹۳۶ء نظام گزشتہ زمانوں سے بالکل مختلف ہے.اس زمانہ میں ہمارا اُن دشمنوں سے مقابلہ ہے جن کے حملوں کی بنیا دسرمایہ داری پر ہے اس لئے ہم محاذ جنگ خواہ کتنا ہی تبدیل کیوں نہ کریں پھر بھی اس کی کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے.آج عیسائی مبلغ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور کروڑوں روپیہ ہر سال ان پر خرچ ہوتا ہے.پس اگر اسی رنگ میں ہم بھی ان سے مقابلہ کیلئے تیار نہ ہوں باوجود اس کے کہ ہمارے پاس سچائی ہے وہ لوگوں کو گمراہ کر سکیں گے.اسلامی رنگ میں ہمارا کام اس طرح ہونا چاہئے کہ روپیہ کے بغیر بھی چل سکے جیسا کہ تحریک جدید میں میں نے مطالبہ کیا ہے.لیکن ایک حصہ پھر بھی ایسا رہ جائے گا کہ دشمن کے حملہ کو مدنظر رکھتے ہوئے روپیہ کی ضرورت رہے گی.ہمیں کچھ نہ کچھ تنخواہوں والے مبلغ بھی رکھنے پڑیں گے جیسا کہ تحریک جدید میں بھی میں نے بعض عالم رکھے ہیں جوضرورت کے وقت باہر جا کر کام کر سکیں.مثلاً تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کیلئے جانے کی والوں کے ساتھ بعض اوقات لوگ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اچھا ہم بھی اپنے علماء کو بلاتے ہیں تم بھی بُلا لو تا مباحثہ ہو جائے اور ایسے مواقع کیلئے آٹھ دس علماء کا رکھنا بھی ضروری ہے.پس دشمن کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ ایک حصہ کا کام ایسا بھی رکھیں جو اس حملہ کے ہم رنگ ہو.فی زمانہ جن دشمنوں سے ہمارا مقابلہ ہے وہ مالی لحاظ سے اتنے مضبوط ہیں کہ کئی کئی کروڑ رو پیدان کے پاس ہے.اس وقت باون ہزار پرائسٹنٹ مشنری کام کر رہے ہیں اور پونے تین لاکھ رومن کیتھولک.گویا گل مشینری سوا تین لاکھ ہیں جو عیسائیت پھیلانے کیلئے دنیا میں مقرر ہیں.اگر ان میں سے ہر ایک دس دس آدمیوں کو بھی عیسائی بنائے تو سال بھر میں ۳۵لاکھ عیسائی بنا سکتے ہیں.پھر ان کی جائدادوں کو اگر لیا جائے تو وہ بھی بہت ہیں.ہماری جماعت تو چونکہ غرباء کی جماعت ہے اس لئے وہ لاکھوں کا کی نام سننے کے عادی نہیں اس وجہ سے بعض دوست شاید یہ بھی خیال کریں کہ ۲۵ لاکھ روپیہ کس طرح جمع ہوسکتا ہے.لیکن اگر وہ میری سنیں اور سب ایک معیار پر آجائیں تو چھ ماہ کے عرصہ میں ۲۵ لاکھ روپیہ جمع ہوسکتا ہے.میرا اصول تو یہ ہے کہ جماعت کو ایک رنگ میں آہستہ آہستہ آگے بڑھانا چاہئے ورنہ ۲۵ لاکھ روپیہ تو چھ ماہ کے عرصہ میں جمع ہو سکتا ہے.ہاں تو دشمنوں کی مالی حالت کا میں ذکر کر رہا تھا.ساری دنیا کی طاقت تو الگ رہی صرف لاہور کے عیسائی مشن کی جائداد ہی میرا خیال ہے اسی نوے لاکھ روپیہ کی ہوگی اس سے زیادہ ہو تو ہو کم تو کسی صورت میں نہیں اور اس کے ساتھ
خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۶ء اگر ہندوؤں ،سکھوں وغیرہ کی جائدادیں ملالی جائیں تو صرف لاہور میں دو تین کروڑ سے کم قیمت مانی کی نہ ہوں گی.پس یہ خیال مت کرو کہ یہ رقم زیادہ ہے دشمن کے حملہ کے مقابلہ میں تو یہ کوئی چیز ہی نہیں.ہمارا سالانہ بجٹ کئی لاکھ کا ہوتا ہے مگر کام وسعت کے لحاظ سے کچھ نظر نہیں آتا.یعنی دشمن کے حملہ کے پھیلاؤ کے مقابلہ میں اس کی کوئی ہستی نہیں.دشمن کے سوا تین لاکھ مبلغین جو سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے صرف چالیس مبلغ ہیں.اب غور کرو دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ بھی ہے؟ ہمارے سپرد کسر صلیب کا کام کیا گیا ہے لیکن ہم ان کے مقابل پر صرف چالیس مبلغ رکھ سکے ہیں اور اس پر بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنے مبلغین کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ سوا تین لاکھ کے مجمع میں اگر چالیس کو تلاش کرنا شروع کرو تو شاید دو ہفتہ کے بعد ایک مبلغ کی کہیں اگر تا پڑتا نظر آ سکے.پس ہماری جماعت کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہم کس کے مقابلہ کیلئے کھڑے ہیں.میری سکیم یہ ہے کہ ہم قلیل زمانہ میں دشمن کے مقابلہ میں ایسی طاقت پیش کر سکیں کہ یہ اس کے مقابل میں کھڑی ہونے کی اہل سمجھی جا سکے ورنہ لاکھوں آدمیوں کے مقابلہ میں چالیس مبلغ چیز ہی کیا ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی ہمارے دو تین ہزار مبلغ ہونے چاہئیں.ہندوستان میں اس وقت کم و بیش تین سو اضلاع ہیں اور بارہ سو تحصیلیں ہیں اگر ریاستوں کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے تو دو ہزار کے قریب تحصیلیں بن جاتی ہیں.ہر تحصیل میں کم و بیش پانچ سو گاؤں ہوتے ہیں.پس ہندوستان میں اندازاً دس بارہ لاکھ گاؤں یا قصبے ہیں.اب سال کے دن تین سو ساٹھ ہوتے ہیں.پس اگر ہمارے دو ہزار مبلغ ہوں تو ڈیڑھ سال میں صرف چند گھنٹوں کیلئے ہر گاؤں میں جاسکتے ہیں اور اگر ساری دنیا کو ہندوستان سے پانچ گنا ہی سمجھ لیا جائے گو علاقہ کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر دو ہزار مبلغ ہوں تو دس سال میں ایک گاؤں میں ایک مبلغ ایک دن کیلئے جاسکے گا لیکن چونکہ سفر کا وقت بھی اس میں شامل ہے اس لئے حقیقتاً ہر گاؤں میں ایک مبلغ صرف ایک دو گھنٹہ ہی ٹھہر سکے گا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد یہ کام کیا ہے کہ ہم ساری دنیا کو احمدی بنائیں اور ظاہر ہے کہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ایک کی گاؤں میں ٹھہرنے سے گاؤں کے لوگوں کا مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا.اس عرصہ میں تو ہر شخص کے حصہ میں ایک سیکنڈ بھی نہیں آتا.دو ہزار مبلغ گویا دس سال میں ساری دنیا کے آدمیوں کو سلام
خطبات محمود ۴۶ سال ۱۹۳۶ء بھی نہیں کر سکتے.پس ہمارے سامنے جو کام ہے اس کے لحاظ سے ہمیں عظیم الشان جدوجہد کی ضرورت ہے.شاید کوئی کہے کہ ۲۵ لاکھ کے ریزرو فنڈ سے اگر دو ہزار مبلغ بھی ساری دنیا کو پیغام حق نہیں پہنچا سکتے تو اس کا فائدہ کیا؟ تو ایسے دوستوں کے وہم کو دور کرنے کیلئے میں یہ کہتا ہوں کہ مؤمن کا کام صرف جد و جہد کرنا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ غیب سے نصرت و تائید کے سامان مہیا کر دیتا ہے.رسول کریم ﷺے جنگ احد کے موقع پر ایک ہزار صحابہ کو لے کر دشمن کے مقابلہ کیلئے نکلے تو منافق کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ لڑائی ہے تو ہم بھی ضرور چلتے لیکن یہ تو خود کشی ہے کیونکہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ایک ہزار آدمی سارے عرب سے کسی طرح نہیں لڑ سکتا لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک ہزار کچھ اور کو زیر کریں گے وہ آگے کچھ اور لوگوں کو زیر کریں گے اور اس طرح یہی ایک ہزار ساری دنیا کو زیر کر لیں گے.چنانچہ یہی ایک ہزار تھے جنہوں نے چین سے لے کر یورپ تک ساری دنیا کو فتح کر لیا.پس مؤمن کا کام ابتدا کرنا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ترقی ہوتی ہے کہ دس ، چالیس پچاس ہو جاتے ہیں، پچاس، سو اور سو دوسو بن جاتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے.پس ہمارا کام صرف یہ ہے کہ صحیح اصول پر جن کو اسلام تسلیم کرتا ہے سلسلہ کے کام کی بنیاد رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ خود برکت دے کر ہمارے آدمیوں کو بڑھائے گا اور دشمنوں کے دلوں میں ہمارا رعب پیدا کر دے گا.ہمارا کام یہ ہے کہ سلسلہ کیلئے جو قربانی بھی ہم سے ہو سکتی ہے کریں خواہ وہ بظا ہر کتنی تمسخر والی نظر آئے.رسول کریم اللہ نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی تو ایک صحابی نے جا کر کچھ مزدوری کی شاید کسی کے کنویں پر جا کر پانی نکالا اور اس کے عوض اُسے آدھ سیر یا تین پاؤ غلہ ملا جو اس نے لا کر چندہ میں ڈال دیا.اُس وقت ہزاروں روپیہ کی ضرورت تھی منافق ہنتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لڑائی کی تیاریاں ہورہی ہیں.یہ جنگ تبوک کا واقعہ ہے جو رومیوں سے درپیش تھی اور رومن حکومت اُس وقت ایسی ہی تھی جیسی آج انگریزی حکومت ہے اور اتنی بڑی حکومت سے لڑائی کیلئے کی اُس صحابی نے چند تھی جو لا کر دیئے منافق اُس پر بنتے تھے لیکن رسول کریم ﷺ کو جب اس کا علم الله ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان کو کیا علم ہے کہ خدا کی نظر میں اس جو کی کیا قیمت ہے.یہی جو تھے جن
خطبات محمود ۴۷ سال ۱۹۳۶ء سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور رومیوں کو شکست ہوگئی اور نہ صرف رومیوں کو بلکہ اسیرانیوں کو بھی جن کی حکومت بھی رومی حکومت کے مقابل کی تھی مسلمانوں نے شکست دی.ایک عیسائی مؤرخ مسلمانوں کے اس ایمان کو دیکھ کر لکھتا ہے کہ رسول کریم ( ع ) کے متعلق خواہ کوئی کچھ کہے مگر ایک بات سے متاثر ہوئے بغیر میں نہیں رہ سکتا اور وہ یہ کہ میں اپنے خیال کی آنکھوں سے ایک مسجد دیکھتا ہوں جس کی چھت پر کھجور کی ٹہنیاں پڑی ہیں بارش ہوتی ہے تو وہ چھت ٹپکتی ہے اور اسی میں وہ لوگ نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں انہی کیچڑ سے لتھڑے ہوئے آدمیوں کو جن کے بدن پر پورے کپڑے بھی نہیں میں مسجد کے گوشہ میں بیٹھے ہوئے باتیں کرتے دیکھتا ہوں.یہ بے سامان اور ظاہری علوم سے بے بہرہ لوگ اس امر پر باتیں کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ دنیا کو کس طرح فتح کر کے اپنے مزعومہ معیار تہذیب پر اسے لانا ہے.وہ نہایت سنجیدگی سے یہ مشورے کرتے ہیں اور پھر ایک دن وہی ہو جاتا ہے جو وہ چاہتے تھے.وہ دنیا کو فتح کر کے دکھا دیتے ہیں اور اس کا نقشہ ہی بدل ڈالتے ہیں.پس یہ امر جب میری آنکھوں کے کی سامنے آتا ہے تو میں اس بات کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محمد (ﷺ) کے پیچھے ضرور کوئی بڑی طاقت تھی اور آپ مسیحی مشنریوں کے قول کے مطابق دھوکا باز انسان ہرگز نہ تھے.پس جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ۲۵ لاکھ کی رقم جماعت کے لحاظ سے زیادہ ہے انہوں نے احمدیوں کے ایمان کا اندازہ نہیں کیا اور جو ہندوؤں اور عیسائیوں کی طاقت سے واقف ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس قلیل رقم سے کیا بنے گا وہ خدا تعالیٰ کی طاقت سے ناواقف ہیں اور ان سے میں کہتا ہوں کہ ہماری فتح اس روپیہ سے نہیں بلکہ اُس ایمان اور اخلاص سے ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے.منافق اپنے دل کو دیکھتا ہے اور اپنے ایمان کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے کہ اس میں تو اتنی طاقت نہیں کہ پہاڑوں کو گرا سکے اور سمندروں کو خشک کر سکے.یہی نوجوان جو باہر گئے ہیں ان میں سے ایک کی بات سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی.اُس کی نے کہا کہ ہم سے تین سال کا معاہدہ لیا گیا ہے اس میں بھی کوئی مصلحت ہو گی مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تین سال تک خدا کا سپاہی رہنے کے بعد کوئی یہ خیال بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ پھر
خطبات محمود ۴۸ سال ۱۹۳۶ء آکر بندوں کی نوکری کرے.پس یہ تین سال کا معاہدہ نہیں بلکہ ساری عمر کا ہے.ہم اس لئے باہر نہیں جاتے کہ واپس آئیں بلکہ اس لئے جاتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مارے جائیں.یہ ا بھی منہ کے الفاظ ہیں جب اللہ تعالیٰ ان الفاظ کے مطابق ہمارے نو جوانوں کو کام کرنے کی توفیق دے گا تو وہ ایک شاندار نظارہ ہو گا مگر جب تک وہ وقت آئے یہ الفاظ بھی ہمارے لئے خوشی کا موجب ہیں کیونکہ زبان کے الفاظ بھی جب عمل ان کے خلاف نہ ہو ایک قیمت رکھتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت تو زبانی بھی اس ایمان کا اظہار نہ کرسکی تھی.قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ دشمن کا لشکر آن پہنچا ہے تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اِذْهَبُ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُنَا قَاعِدُونَ سے کہ آپ اور آپ کا خدا جائیں اور لڑائی کریں جب فتح ہو جائے گی تو ہم بھی آجائیں گے.پس ایمان کی پہلی علامت تو یہی ہوتی ہے کہ منہ سے اظہار کیا جائے اگر وہ سچے دل سے ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے پورا بھی کر دے گا.غرض منافق اپنے ایمان پر اندازہ کرتا ہے اس لئے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جماعت غریب ہے اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو دشمن کی طاقت سے مرعوب ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس قلیل رقم سے ہم کیا کریں گے وہ بھی غلطی پر ہیں.جو کہتا ہے کہ اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا اُس نے مومنوں کے ایمانوں کا اندازہ نہیں کیا اور ان کے ایمان کے مطابق ان کی قربانیوں کا اندازہ نہیں لگایا.اور جو کہتا ہے کہ اس سے کیا ہو گا اُس نے خدا کی نصرت اور تائید کا اندازہ نہیں کیا.یہ ایک کام ہے جس کا خدا نے فیصلہ کیا ہوا ہے ہمیں اپنی زندگیوں پر شبہ ہو سکتا ہے، اپنی اولادوں پر شبہ ہو سکتا ہے، اپنی بیویوں کے وجود پر شبہ ہو سکتا ہے، اپنے دوستوں پر شبہ ہوسکتا ہے، زمین و آسمان کے وجود پر شبہ ہوسکتا ہے مگر اس پر کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کے تمام ادیان کو شکست ہوگی اور اسلام کی فتح ہوگی.اس وقت یہاں اتنے لوگ بیٹھے ہیں ان میں مؤمن اور منافق کی پہچان آسان نہیں.منافق بھی ہماری نمازوں میں شامل ہوتے ہیں، روزوں میں شامل ہوتے ہیں ، درسوں میں آتے ہیں ، ان کی آنکھ، ناک اور چہروں سے کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ منافق ہیں مگر انہی لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسا ڈائنامیٹ بھرا ہوا ہے اور وہ ایسی قربانیاں کر سکتے ہیں کہ
خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۶ء وقت آنے پر دنیا حیران ہو جائے گی کہ ان گڈریوں میں کیسے سپہ سالار تھے جنہیں کوئی نہ دیکھ سکا.حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ذکر میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ جنگ بدر میں ان کے دائیں بھی اور بائیں بھی دو انصاری لڑکے کھڑئے تھے.ان کا بیان ہے کہ جب میں نے اُن کو دیکھا تو مجھے حسرت ہوئی کہ آج موقع تھا کہ کفار سے اُس بے حرمتی کا کچھ بدلہ لیتا جو وہ رسول کریم کی کرتے رہے ہیں مگر آج میرے دونوں طرف دو نو عمر اور کمزور لڑکے ہیں اور وہ بھی انصاری.انصار لڑائی کیلئے اچھے نہیں سمجھے جاتے تھے وہ زراعت میں ماہر سمجھے جاتے تھے مگر لڑائی میں نہیں.پس اُن کو دیکھ کر حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ میں آج کیا لڑوں گا لیکن میں ابھی یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ مجھے ایک طرف سے گہنی لگی.میں اُس طرف متوجہ ہوا تو اُس طرف کھڑے ہوئے لڑکے نے میرے کان کے پاس منہ کر کے دریافت کیا کہ چچا! لشکر کفار میں سے ابو جہل کون ہے؟ سنا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کو بہت دکھ دیتا رہا ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ آج اُسے قتل کروں.حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں تجربہ کار فوجی تھا مگر یہ خیال میرے دل میں بھی نہیں آیا تھا کہ میں ابو جہل کو قتل کر سکتا ہوں کیونکہ وہ بہادروں کے دائرہ کے اندر تھا اور اُس تک پہنچنا دشوار تھا لیکن میں نے ابھی اس لڑکے کے سوال کا جواب بھی نہیں دیا تھا کہ دوسری طرف سے مجھے گہنی لگی اور دوسری طرف کے لڑکے نے بھی میرے کان کے ساتھ منہ لگا کر دریافت کیا کہ ابو جہل کون ہے؟ میرا دل چاہتا ہے اُسے قتل کروں.دونوں نے اس طرح آہستگی سے اس لئے دریافت کیا تھا کہ دوسرا نہ سُن سکے.حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے اُن کی جرات پر حیرت ہوئی اور میں نے انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ ابو جہل وہ ہے جو سپاہیوں کے حلقہ میں کھڑا ہے.وہ خو د اور زرہ بکتر پہنے ہوئے تھا اور دو طاقتور فوجی افسر اُس کے آگے ننگی تلوار لئے ہوئے پہرہ کیلئے کھڑے تھے لیکن جونہی میں نے انگلی سے اشارہ کیا وہ لڑ کے بعینہ اسی طرح جس طرح ایک عقاب چڑیا پر حملہ کرنے کیلئے لپکتا ہے آگے بڑھے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے اُس پر حملہ آور ہوئے اور قبل اس کے کہ اس کے پہریدار سنبھلنے پاتے انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے گرا دیا ہے.تو کی وہ لڑکے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس کھڑے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے اندر ایسی زبر دست ایمانی طاقت ہے.اسی طرح اس مجلس میں ایسے لوگ ہیں جن کی ایمانی طاقت کا کوئی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء اندازہ نہیں کر سکتا لیکن جوں جوں قربانیوں کا وقت آئے گا وہ ظاہر ہوتے جائیں گے اور قربانیوں کی کے وقت ہی منافق بھی ظاہر ہوں گے.جب قربانی کا وقت آتا ہے تو منافق کہتا ہے کہ ہم کہاں تک بوجھ اٹھا ئیں لیکن مؤمن خوش ہوتا ہے کہ کیا اچھا موقع اللہ تعالیٰ نے دیا ہے.پس اس بات سے مت گھبراؤ کہ یہ کام کیونکر ہوگا وہ زمانہ بالکل قریب ہے جب خدا دشمن کو ایسی شکست دے گا کہ وہ سر نہیں اُٹھا سکے گا مگر اس کیلئے تمہیں انہی راستوں سے گزرنا ہو گا جن پر سے انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں.مؤمن اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے گزر کر ہی خدا کے عرش پر پہنچتا ہے.پس یہ یقین رکھو کہ یہ کام ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی غیر معمولی تو قف بھی نہیں.صرف اُس وقت کا انتظار ہے کہ ہماری قربانیاں اس حد تک پہنچ جائیں جس تک پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نصرت آتی ہے.جب وہ وقت آئے گا تمہارے جاہل کہلانے والے نو جوان دنیا کے علماء کے دلوں کو فتح کر کے انہیں اسلام کی غلامی میں داخل کر دیں گے اور دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا.اس موقع پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ الفضل، میں کچھ اشعار چھپتے رہے ہیں جن کی ردیف درد ہے.ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ اسی وزن میں میری زبان پر ایک مصرعہ جاری ہوا جو یہ ہے کہ درد ہی اُس نے بنایا ہے نشانِ اہلِ درد اور اس کا مطلب مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی کوئی علامت ہوتی ہے.آگ کی علامت دُھواں ہے،سورج کی علامت روشنی ہے، جسم میں ورم ہو تو بخار ہو جاتا ہے اور طبیب سمجھ لیتا ہے لیکن درد کی علامت کوئی ھے نہیں بلکہ درد ہی درد کی علامت ہے.اگر کوئی شخص یونہی شکایت کرنے لگے کہ مجھے درد ہے تو بظاہر ایسی کوئی علامت نہیں جس سے ہم پتہ لگاسکیں کہ اسے درد ہے یا نہیں سوائے اس کے کہ اُس کی درد والی حالت سے اندازہ لگائیں.پس اس مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی کے اندر درد کی حقیقت پاؤ تو سمجھ لو کہ اس کے اندر درد ہے ورنہ زبانی کہنے سے کچھ نہیں بنتا.کسی کے اگر سر میں درد ہو تو وہ گو چھپائے بھی مگر پتہ لگ جاتا ہے کہ اسے درد ہے.تو اس مصرعہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جس کے دل میں عشق.
خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۳۶ء ہو وہ چھپ نہیں سکتا اور اُس کے رگ وریشہ سے اس کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.اسی طرح مومن کی بھی ظاہری شکلوں سے نہیں بلکہ اپنی حالت سے پہچانے جاتے ہیں ان کے اعمال خود بتا دیتے ہیں کہ ان کے دل میں درد ہے ورنہ منہ سے تو ہر شخص کہہ سکتا ہے لیکن جب درد پیدا ہو جائے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھوڑے ہی عرصہ میں اس کے آثار چہرے پر نظر آنے لگتے ہیں.پس مؤمن کی پہچان کیلئے زبانی دعووں کی ضرورت نہیں ہوتی زبانی دعوے تو منافق بھی کر سکتا ہے لیکن مؤمن کو حقیقت خود مشخص کر کے دکھا دیتی ہے.دوسری بات میں آج یہ کہنی چاہتا ہوں کہ ہمارے مخالفوں نے اب ایک فتنہ کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ اخبار میں جھوٹی رپورٹیں شائع کرتے ہیں جو سر تا پا جھوٹی ہوتی ہیں اور جن میں سے ہزارواں حصہ بھی صحیح نہیں ہوتا.اس سے ان کی غرض ہوتی ہے کہ جس شخص کے متعلق وہ خبر ہوگی اس کے متعلق خیال کر لیا جائے گا کہ اس میں کچھ نہ کچھ نقص تو ضرور ہوگا.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ ہمارے دوست عام طور پر اس چال سے واقف نہیں ہیں وہ دھو کے میں آکر خیال کر لیتے ہیں کہ جس کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے ضرور ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ نفاق ہو گا حالانکہ یہ رپورٹیں سر تا پا غلط ہوتی ہیں.اوروں کا تو کیا کہنا ہے چند دن ہوئے خود میرے متعلق احرار کے ایک اخبار میں لکھا ہوا تھا کہ صدرانجمن احمدیہ کے دفتر میں ایک میٹنگ ہوئی اور پھر میاں بشیر احمد صاحب اس کی کارروائی لے کر میرے پاس آئے حالانکہ یہ واقعہ سرتا پا غلط تھا.نہ کوئی ایسی میٹنگ ہوئی اور نہ میاں بشیر احمد صاحب اس کی کارروائی لے کر میرے پاس آئے.تو یہ لوگ اس طرح کی بے سروپا باتیں لکھتے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے جماعت میں بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں اور بھائی کو بھائی سے بدظن کرنا چاہتے ہیں.ان میں سے بعض تو سرتا پا غلط ہوتی ہیں اور بعض میں ایک معمولی سی بات صحیح ہوتی ہے اور باقی جھوٹ ملا لیا جاتا ہے.مثلاً یہ صحیح ہوا کہ زید اور بکر ایک جگہ ملے اور آگے یہ جھوٹ ملا دیا کہ انہوں نے فلاں کو گالیاں دیں.ہمارے بعض دوستوں میں یہ مرض ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غیر کا اخبار پڑھنا ضروری ہے حالانکہ جنہوں نے نگرانی کرنی ہے یا جواب دینا ہے انہوں نے تو پڑھنا ہی ہے باقیوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ گالیوں کو پڑھیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ تھا جس میں جماعت احمد
خطبات محمود ۵۲ سال ۱۹۳۶ء کا ایک وفد شامل ہو ا جس کے امیر حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل تھے.اس جلسہ میں آریوں نے رسول کریم کو بہت گالیاں دیں اور ہمارے دوست وہاں بیٹھے رہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت ناراض ہوئے کہ آپ لوگ وہاں کیوں بیٹھے رہے ؟ پس جن کیلئے مجبوری ہے مثلاً ایڈیٹر ہوئے یا نیشنل لیگ کے افسر یا دعوت وتبلیغ والے ان کا تو کام ہے دوسرا اگر پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں گالیوں کو پڑھ کر درد نہیں ہوتا اور نہ کون ہے جو خود اپنے آپ کو منجر مارے.ان باتوں کے پڑھنے سے بعض دفعہ آپس میں بدظنیاں شروع ہو جاتی ہیں.کچھ عرصہ ہوا بعض منافقوں نے یہ کام شروع کیا تھا کہ بعض لوگ لگا دیئے جو روزانہ مجھے رپورٹیں بھیجتے تھے کہ میاں بشیر احمد صاحب فلاں جگہ یہ کہہ رہے تھے ، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب یہ شکوہ کرتے تھے ، چوہدری فتح محمد صاحب یہ شکایت بیان کرتے تھے اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں ان سب سے بدگمان ہو جاؤں.مگر جب یہ کرتے کرتے تھک گئے اور دیکھ لیا کہ میں ان رپورٹوں پر کسی کو بھی منافق نہیں سمجھتا تو اب یہ طریق اختیار کیا ہے کہ جماعت کے لوگوں کو آپس میں لڑا ئیں اور مخلصین کے دلوں میں شک پیدا ہو کہ فلاں آدمی ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے اور خیال کر لیں کہ اس میں سے کچھ تو ضرور سچ ہو گا حالانکہ یہ سب باتیں جھوٹی ہوتی ہیں.پس اول تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی کہ دوستوں کو گالیاں پڑھنے کا کیا شوق ہے اور پھر جو پڑھیں ان کو بدظنی کی کی ضرورت نہیں.تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے جو ایک گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ بعض حکام کا رویہ ہمارے متعلق اچھا نہیں اور اطمینان بخش نہیں اس سے ہر گز دفعہ ۱۴۴ کا منسوخ ہونا مراد نہ تھا.بعض دوست جب ایک طرف یہ سنتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ حکومت نے دفعہ ۱۴۴ وا پس لے لی تو وہ دونوں باتوں کو ملا کر سمجھ لیتے ہیں کہ میں نے جو کہا تھا وہ بھی شاید اسی کے متعلق ہے حالانکہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ اور بناء پر کہا تھا احرار کا یہ پروپیگنڈا بالکل غلط ہے.دفعہ ۱۴۴ کہیں بھی ساری عمر کیلئے نہیں لگائی جاتی یہ تو ہوتی ہی دو ماہ کیلئے ہے.اور اس کے اختتام پر یہ شور مچانا کہ حکومت کو شکست ہوگئی ہے اور ہماری فتح ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کسی شخص سے کہے کہ تم مریض ہو ہسپتال میں داخل ہو جاؤ اور پھر اس کے صحت یاب ہونے پر اُسے ڈسچارج کر دے تو
خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۶ء لوگ شور مچانے لگیں کہ ڈاکٹر جھوٹ بولتا تھا کہ یہ بیمار ہے یہ شخص تو ہسپتال سے اچھا بھلا باہر نکلا ہے.کوئی ظالم سے ظالم گورنمنٹ بھی دفعہ ۱۴۴ کبھی عمر بھر کیلئے نہیں لگایا کرتی یہ لوگ ایسی باتیں کر کے دراصل لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں.ان کا طریق ہی یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو احمق بنا ئیں ورنہ دفعہ ۱۴۴ کبھی ہمیشہ کیلئے نہیں لگا کرتی.کانگرس پر یہ دفعہ سینکڑوں مرتبہ لگائی گئی اور پھر ضرورت یا میعاد ختم ہو جانے پر منسوخ کر دی گئی.حکومت کو جہاں کوئی خطرہ ہوتا ہے وہاں یہ دفعہ لگا دیتی ہے اور جب خطرہ کم ہو جائے تو واپس لے لیتی ہے.شہید گنج کا واقعہ جب لاہور میں ہوا تو حکومت نے یہ دفعہ لگا دی اور جب جوش ٹھنڈا ہو گیا تو واپس لے لی.اب پھر جو فساد ہوا تو پھر لگادی.پس قادیان میں اس کی منسوخی سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حکومت کو شکست ہوگئی یا یہ کہ اب وہ احمدیوں کی دشمن ہو گئی ہے بالکل غلط ہے.اس طرح تو مولوی عطاء اللہ صاحب جب چار ماہ کی قید کاٹ کر آئیں گے تو وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے شکست مان لی اور ہتھیار ڈال دیئے حالانکہ سزا ہی چار ماہ کی ہے اس کے بعد ایک دن بھی حکومت انہیں قید میں نہیں رکھ سکتی.اسی طرح دفعہ ۱۴۴ اور ۳۳.امینڈ منٹ ایکٹ بھی ضرورت کے ماتحت ہوتا ہے جب اس کی ضرورت نہ رہے تو اسے واپس لے لیا جاتا ہے.یہ لوگ اس قسم کے پرو پیگنڈے سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ احرار جیت گئے حالانکہ اس دفعہ نے تو بہر حال منسوخ ہو جانا تھا جس طرح کہ چار ماہ پورے ہونے کے بعد حکومت مجبور ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو چھوڑ دے.اسی طرح اس دفعہ کی واپسی کا یہ مطلب ہے کہ اب حکومت کو ایسا اندیشہ نہیں رہا.ایک وقت لوگوں میں جوش ہوتا ہے اُس وقت حکومت بھی ضروری تدابیر اختیار کرتی ہے پھر وہ جوش ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو ان کی ضرورت نہیں رہتی.اسی سلسلہ میں یہ لوگ مشہور کر رہے ہیں کہ احمدیوں نے تو بہت ناک رگڑی کہ حکومت اسے جاری رکھے مگر حکومت نے نہ مانا حالانکہ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے.میں تو حیران ہوتا ہوں کہ جو افسر حالات سے واقف ہیں وہ ان کے جھوٹ پر اپنے دلوں میں کیا کہتے ہوں گے وہ ضرور ہنستے ہوں گے.اب میں بتا تا ہوں کہ یہ الزام کس قدر غلط ہے اور اب اس کے چھپانے کی بھی ضرورت نہیں.جن دنوں یہ کی گرفتاریاں ہورہی تھیں میں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو مسٹر پکل چیف سیکرٹری کے پاس بھیجا کہ ہماری یہ خواہش نہیں کہ ہر احراری کو اس پرو پیگنڈا کے ماتحت گرفتار کیا جائے.انہوں نے کی
خطبات محمود ۵۴ سال ۱۹۳۶ء جواب دیا کہ یہ لوگ ہمارا قانون توڑتے ہیں اس لئے ہم انہیں گرفتار کرتے ہیں آپ کا اس سے تعلق نہیں.اب وہ افسر جن کو میرا یہ پیغام پہنچا ہے وہ ان لوگوں کے پرو پیگنڈا کو دیکھ کر اپنے دل میں ضرور ہنستے ہوں گے اور حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس قدر جھوٹے ہیں.بہر حال ان وی کے اس پرو پیگنڈا سے ہمارا تو فائدہ ہی ہے افسر سمجھتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس قدر جھوٹے ہیں.ہمارا مطلب تو صرف یہ تھا کہ یہاں آکر یہ لوگ فساد نہ کریں اور فساد کو روکنا ہر حکومت کا فرض ہے اور بعض ٹٹ پونجئے ۵ اگر قادیان میں آبھی جائیں یا کسی لیڈر کے آنے پر سو ، پچاس آدمی جو قادیان کے ہیں ان کے گرد جمع ہو جائیں تو اس سے شورش کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے.پس یہ امر واقعہ ہے کہ میں نے خود شیخ صاحب کو بھیجا کہ ہماری طرف سے ہرگز یہ مطالبہ نہیں کہ کوئی غیر احمدی قادیان نہ آسکے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ قادیان کو فساد کا مقام نہ بننے دیا جائے یا اس جگہ شرارتی آمیز مظاہرے نہ ہوں.اس پر چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ ہمارے ڈپٹی کمشنر نے ایک قانون نافذ کیا ہے جب تک وہ قانون نافذ ہے اس کے توڑنے والے سزا کے مستحق ہیں جب وہ قانون واپس لے لیا جائے گا وہ نہ پکڑے جائیں گے.لیکن یہ لوگ مشہور کر رہے ہیں کہ ہم نے کی ناک رگڑی کہ یہ دفعہ واپس نہ لی جائے.پس دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس دفعہ کے منسوخ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت نے ہم سے دشمنی کی ہے.جب حکام ہماری مخالفت کرتے ہیں میں صاف کہہ دیتا ہوں اور جو مخالفت ہوتی ہے اُسے میں خوب جانتا ہوں اور جب ضرورت ہوتی ہے اسے ظاہر کر دیتا ہوں اور دنیا جانتی ہے کہ میں اس کے اظہار میں کسی سے دبنے والا نہیں ہوں لیکن یہ کاروائی نہ ہماری مخالفت کی وجہ سے ہے اور نہ ہی یہ حکومت کی شکست ہے قانون کے مطابق حکومت کو یہی کرنا چاہئے تھا جو اُس نے کیا.پس دوست ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ دفعہ واپس لے کر حکومت نے ہمارے ساتھ دشمنی کی ہے اس نے قانون کے عین مطابق کیا ہے.ہاں جن باتوں میں ہمیں حکومت سے شکایت ہے وہ اب بھی موجود ہیں مگر وہ علیحدہ ہیں اس لئے دوستوں کو ایسے پروپیگنڈا سے ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہئے.مؤمن بلا وجہ کبھی کسی پر الزام نہیں لگاتا ہے ہم نہ حکومت پر الزام لگاتے ہیں نہ احرار پر.ہاں جو بھی غلطی کرے گا اس کا اظہار ضرور کر دیں گے اور اس معاملہ میں ہم کسی فوج یا حکومت سے نہیں ڈریں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اچھی بات کو
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء بھی ضرور ظاہر کر دیں گے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ بُری بات کو چھپالیں.اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو دیکھیں گے کہ اس کا چھپا نا بہتر ہے یا ظاہر کرنا اور پھر جو قیام امن کے مناسب ہوگا وہ کریں گے لیکن اچھی بات کو ظاہر کرنے سے ہم نہیں رہ سکتے.پس اس پرو پیگنڈا سے بھی میں جماعت کو خبر دار کرتا ہوں کی اور اس سے بھی جو مجاہد میں جماعت کے بعض دوستوں کے متعلق کیا جارہا ہے اس سے بھی ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہئے کہ وہ بھی بالکل جھوٹ ہے.یہ صحیح ہے کہ جماعت میں بعض منافق ہیں مگر میں اُن کو خوب جانتا ہوں اور اگر ضرورت ہوئی تو ظاہر بھی کر دوں گا مگر وہ لوگ مخلصین کو منافق ظاہر کرتے ہیں اور یہ بالکل غلط ہے.اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ دفعہ ۱۴۴ کو منسوخ کرنے میں حکومت نے ہم سے دشمنی کی ہے اور احرار سے دوستی.اس میں شک نہیں کہ بعض حکام اب بھی ہمارے خلاف ہیں ان کی مخالفتیں میں نے بہت سی ظاہر کر دی ہیں اور باقی بھی وقت آنے پر ظاہر کر دوں گا مگر اس کا رروائی میں ہماری کوئی مخالفت نہیں اور نہ ہی یہ حکومت کی شکست ہے.دفعہ ۱۴۴ اور ۳۳.امینڈ منٹ ایکٹ کی واپسی کے متعلق ہمیں حکومت سے کوئی شکایت نہیں اس نے جو کیا ہے درست کیا ہے جہاں وہ ہماری مخالفت کرے گی ہم فوراً ظاہر کر دیں گے اور نہ قید سے ڈریں گے اور نہ پھانسی سے کہ ہم سے بہت بڑے بڑے لوگ قید بھی ہوئے اور پھانسی پر بھی لڑکائے گئے.حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نبی تھے مگر پھانسی پر لٹکائے گئے اور حضرت یوسف کو قید کیا گیا پس جو ڈرتا ہے وہ مؤمن ہو ہی نہیں سکتا.مؤمن حق کے بیان کرنے میں نڈر ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کسی سے اختلاف ہو تو اس کی نیکیوں کو بھی عیب ظاہر کیا جائے اور عیب کو بھی عیب.ہمیں حکومت سے اختلاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے جائز افعال کو بھی بُرا کہیں.پس دوست احراریوں کے پروپیگنڈا سے ہوشیار رہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ بلا وجہ جماعت کو مایوس کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں.آخر میں میں پھر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خواہ نخواہ ان کے لٹریچر کو بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں.میں نے سنا ہے کہ ان کے پندرہ ہیں پرچے روزانہ یہاں پک جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دوست چار سو روپیہ سالانہ کی امداد کفر کو دیتے ہیں.کیا تم پسند کرتے ہو کہ چار سو روپے خرچ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلوا ؤ ؟ پس جب عملی طور پر آپ کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء لوگوں نے ان کے جھوٹ کو دیکھ لیا ہے تو ان کے پرچوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں.باقی دشمن سے بھی غلط بات کبھی منسوب نہ کرو ہمیشہ سچی بات کرو.ہم نے دنیا کو جھوٹ سے نہیں بلکہ اخلاق سے فتح کرنا ہے.پس تم اپنی ترقیوں کی بنیا دسچائی اور تقویٰ پر رکھو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اور یاد رکھو کہ وہ ہمیشہ متقیوں کا ہی ساتھ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ فتح ہماری ہے اور جس طرح ہائی کورٹ سے ڈگری حاصل ہو جانے کے بعد کوئی نہیں گھبرا تا اسی طرح تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.شہید گنج ایجی ٹیشن شروع ہوئی تو حکومت نے کہہ دیا کہ ہائیکورٹ نے سکھوں کے حق میں فیصلہ کیا ہوا ہے تم اس فیصلہ کو بدلوا لو ہم تمہیں دلا دیں گے.پس کیا تمہیں خدا کے فیصلہ پر اتنا بھی اعتماد نہیں جتنا ہائی کورٹ کے فیصلہ پر ہوتا ہے اور یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ دنیا ہمارے ہاتھ پر فتح ہوگی.پس کوئی خواہ چیں کرے یا ہیں ، دنیا اسلام کے نام پر ہمارے ہاتھوں فتح ہوگی اور جو لوگ آج مخالف ہیں گل اسلام اور احمدیت کی صداقت کے قائل ہو کر اسلام اور احمدیت کی شان کے بڑھانے والے ہوں گے.وَاللَّهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ.ل النساء: ١٠٣ ( الفضل ۲۳ / جنوری ۱۹۳۶ء) جامع الصغير للسيوطی صفحہ ۷ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ ھ میں یہ الفاظ ہیں اتقوا مواضع التهم المائدة: ۲۵ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرا ٹٹ پونجئے : تھوڑی پونجی یا سرمائے والا
خطبات محمود لا اگر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنا چاہتے ہو تو خلیفہ وقت کی اسی طرح کامل اطاعت کرو جس طرح دماغ کی تمام اعضاء کرتے ہیں (فرموده ۲۴ /جنوری ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید میں سے ایک جز و اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے.میں ان خطبات میں جو اس سال کی تحریک جدید کے متعلق دے چکا ہوں غالباً اس کا ذکر کئی موقعوں پر کر چکا ہوں مگر پھر بھی میں سمجھتا ہوں ابھی یہ مضمون بہت کچھ وضاحت اور تحریک کا مستحق ہے.سال ہو گیا جب سے میں نے یہ تحریک کی ہے بلکہ سال کیا اب تو چودہ مہینے ہونے لگے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ میری اس تحریک پر چودہ مہینے گزر چکے ہیں اور باوجود اس کے کہ میں نے کہا تھا اس کی مثال قائم کرنے کیلئے تمام چھوٹے بڑے افراد کو اجتماعی طور پر اپنے ہاتھ سے کام کرنے چاہئیں تا دوستوں کیلئے محرک اور نمونہ ہو ،صدر انجمن احمدیہ نے اس قسم کا کوئی کام نہیں کیا حالانکہ کام کرنے کے کئی مواقع بہم پہنچتے رہے ہیں.دنیا میں ہر کام نمونہ چاہتا ہے کہنے والا اگر منہ سے ایک بات کہہ دیتا ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتا ہے تو طبائع پر اچھا اثر نہیں پڑتا اور دنیا میں کام اتنی انواع کے ہو ا کرتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے کام دوسرا شخص نہیں دیکھ سکتا.مثلاً ہاتھ سے کام کرنا ہے اس میں تحریر بھی شامل سال ۱۹۳۶ء
خطبات محمود ۵۸ سال ۱۹۳۶ء.ہے اور تحریر کرنے والا بسا اوقات اپنے گھر میں کام کرتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے.میں اگر رات کو بارہ یا ایک بجے تک کام کرتا رہوں تو کسی کو کیا پتہ ہے کہ میں نے کوئی کام کیا ہے.جو شخص نو بجے چار پائی پر لیٹ جاتا ہے وہ یہ سمجھ کر لیٹتا ہے کہ اب ساری دنیا لیٹ گئی ہوگی ، جو شخص دس بجے چار پائی پر لیٹتا ہے وہ یہ سمجھ کر لیٹتا ہے کہ دس بجے سب لوگ سو گئے ہوں گے ، جو شخص گیارہ بجے سوتا ہے وہ یہ خیال کر کے سوتا ہے کہ باقی دنیا بھی اب سو رہی ہوگی اور جو بارہ بجے لیٹتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب آدھی رات گزرچکی ہے اب تو کوئی شخص کام نہیں کر رہا ہو گا.وہ کیا جانتا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس وقت بھی کام میں مشغول ہیں.کہتے ہیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل.جو چیز آنکھ سے اوجھل ہو اُس کے درمیان ایک پہاڑ حائل ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اس کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا اور اگر کرے تو اُسے اپنے اوپر قیاس کرتا ہے.جو شخص چار گھنٹے کام کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ چار گھنٹوں سے زیادہ کسی نے کیا کام کرنا ہے اور جو شخص پانچ گھنٹے کام کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ پانچ گھنٹوں سے زیادہ کسی نے کیا کام کرنا ہے یہ منافقت نہیں بلکہ اس کی طرف سے حقیقت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ باتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا میں ایسے کام بھی کرنے چاہئیں جو لوگوں کے سامنے آنے والے ہوں.اس طرح وہ لوگ جن کی نظروں سے کام اوجھل ہوتا ہے اور وہ سستی کرتے ہیں اپنے سے بڑے آدمیوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر چست ہو جاتے ہیں..میں نے کئی دفعہ اسلامی زمانہ کا ایک واقعہ سنایا ہے کہ خلافت عباسیہ کے دور میں کوئی مزین تھا جسے کسی امیر نے خوش ہو کر پانچ سو اشرفیاں انعام دے دیں.جب اُسے اشرفیاں ملیں تو اشرفیاں لیتے ہی اُس نے خیال کر لیا کہ اب دنیا میں کوئی غریب نہیں رہا.چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اور اشرفیوں کے چوری ہونے کا اُسے کوئی خطرہ نہ تھا اس لئے وہ جہاں تزئین کرنے جاتا اشرفیوں کی تھیلی بھی لے جاتا اور اُسے اُچھالتا پھرتا.امراء کو یہ دیکھ کر مذاق سو جھا.جب کسی کے پاس جاتا وہ پوچھتا میاں مزین ! شہر کا کیا حال ہے؟ وہ کہتا شہر کا اتنا اچھا حال ہے کہ کوئی کمبخت ایسا نہیں ہوگا جس کے پاس پانچ سو اشرفیاں بھی نہ ہوں.اسی طرح روز اُس سے مذاق ہوتا.ایک دن کسی امیر کو جو مزاح سُوجھا اُس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا کر اپنے پاس رکھ لی چونکہ حجام کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ
خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۶ء یہاں سے تھیلی چرائی جاسکتی ہے اس لئے اُس وقت تو اُس نے خیال نہ کیا مگر گھر جا کر جو چیزیں دیکھیں تو اشرفیوں کی تحصیلی گم پائی.اس کا اُسے اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار ہو گیا.وہ امراء جن کو حال معلوم تھا جب اُس سے پوچھتے کہ میاں ! بتاؤ اب شہر کا کیا حال ہے؟ تو وہ کہتا شہر کنگال ہو گیا ہے، دنیا بھو کی مر رہی ہے آخر جس نے وہ تھیلی چھپائی تھی اُس نے لا کر اس کے سامنے رکھ دی اور کہا شہر کو بھوکا نہ مارو تم اپنی تھیلی لے لو.تو انسان کی عادت ہے کہ وہ دوسروں کا قیاس اپنے اوپر کرتا ہے.چور اسی خیال میں رہتا ہے کہ ساری دنیا چور ہے ، ایک جھوٹا یہی سمجھتا ہے کہ ساری دنیا جھوٹی ہے، ایک فاسق و فاجر یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں.ایک نکتا اور بریکاری شخص یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں کام کرنے والے لوگ بھی ہیں وہ سب کو نکھا اور بریکار خیال کرتا ہے.غرض دیواروں کے پیچھے کام کرنے والے کتنا ہی شاندار کام کریں، کتنی محنت اور سرگرمی سے حصہ لیں، کتنا وقت خرچ کریں پھر بھی ایک سکتے شخص کی نگاہ میں سب دنیا نکلتی ہوگی اور جب اُسے کسی کام کیلئے کہا جائے گا وہ کہے گا ہم نے سب دیکھے ہوئے ہیں.بڑے بڑے آدمی بھی سکتے بیٹھے رہتے ہیں نہ کام کرتے ہیں نہ کار، مفت میں تنخواہیں لیتے ہیں.تو کچھ کام ظاہر ہونے چاہئیں اور کچھ نہ کچھ لوگوں کے سامنے نمونہ ہونا چاہئے اس سے اُن کو تحریک ہو جاتی ہے اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے کام کرنا کوئی عار نہیں سمجھتے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں ایک زمیندار شخص جس نے کبھی شہر نہیں دیکھا تھا اور نہ شہری تمدن سے واقف تھا ریاست کپورتھلہ کا رہنے والا تھا، ایک دفعہ یہاں آیا اور پھر لاہور اور امرتسر جانے کا اسے جو موقع ملا تو شہری زندگی دیکھ کر ایک دم اُس کی کایا پلٹ گئی اور اُس کے دل میں یہ شوق سمایا کہ میں شہری طرز رہائش اختیار کروں.چنانچہ یہ جنون اُس میں یہاں تک بڑھا کہ وہ سیکنڈ کلاس کے بغیر ریل میں سفر نہیں کرتا تھا اور حالت یہ ہوگئی کہ جب وہ لاہور کے سٹیشن پر اُتر تا تو رومال یا چھتری لکی کو دے دیتا اور کہتا میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو ر و مال اور چھتری تک خود اُٹھا نہیں سکتے اور قکی کو دے دیتے ہو؟ کہنے لگا یہ فیشن ہے اگر قلی ساتھ نہ ہو تو انسان معزز نہیں سمجھا جاتا.نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی ساری جائداد گر و پڑی پھر اس کے بعد اُس نے جائداد بیچ ڈالی ، پھر اپنی بوڑھی ماں کو مار پیٹ کر
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء اُس کا زیور بیچ ڈالا اور جب اس طرح بھی کام نہ چلا تو عیسائی ہو گیا چنانچہ وہ اب تک عیسائی حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک سیدھا سادھا نیک طبع نوجوان تھا.اُس کا ایک لطیفہ مشہور ہے اُس نے ہمارا باغ ایک دفعہ ٹھیکے پر لیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے.ایک لڑکا جو بورڈنگ میں رہا کرتا تھا اب تو بہت نیک اور مخلص احمدی ہے لیکن اُس وقت بڑا شوخ مزاج ہوتا تھا.اُس نے ایک دو اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملا کر کہا آؤرات کو ہم باغ میں چل کر میوے کھا ئیں.جب وہ میوے کھانے گئے تو اُس نے انہیں پکڑ لیا.باقی دو تو بھاگ گئے مگر یہ قابو آ گیا.شاید درخت پر تھا اور اُس سے اُتر نہ سکا یا کوئی اور سبب ہوا بہر حال وہ پکڑا گیا.جب وہ پکڑا گیا تو اس شخص نے پوچھا بتا تیرا نام کیا ہے؟ اس کے نام میں عطر کا لفظ آتا تھا.پہلے تو اس نے بتانا چاہا اور کی اس کے منہ سے عطر نکل گیا پھر ڑ کا.پھر نام بتانے لگا تو عطر کا لفظ نکل گیا.مگر پھر اس نے اپنے آپ کو روکا اور چاہا کہ میں کوئی اور نام بتا دوں.اتفاقاً اس کا ایک دوسرا نام بھی تھا جو غیر معروف تھا یعنی فضل الدین.اور اس کی وجہ سے بعض لوگ اسے فجا کہتے تھے.اُس نے آخر اپنا نام فجا بتا دیا.نام پوچھ کر اس شخص نے اسے چھوڑ دیا.جب صبح ہوئی تو وہ بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس آبی اور کہنے لگا آپ کے ایک لڑکے نے رات باغ سے پھل چرایا ہے؟ انہوں نے پوچھا اُس کا کیا نام تھا ؟ وہ کہنے لگا اُس کا نام فجا ہے.وہ کہنے لگے اس نام کا تو کوئی لڑکا بورڈنگ میں نہیں.اُس نے کہا تو پھر سکول میں ہوگا.انہوں نے کہا سکول میں بھی فجا نام کا کوئی لڑکا نہیں.پھر انہوں نے حلیہ پوچھا تو اُس نے جو حلیہ بتایا اس سے انہیں شبہ پڑا اور انہوں نے اس لڑکے کا نام لیا.تو وہ کہنے لگا یہ نام نہیں اس کا نام فجا ہے.وہ کہنے لگے تمہیں کس طرح پتہ ہے کہ اس کا نام فجا ہے؟ وہ کہنے لگا اُس نے اپنا نام یہ بتایا تھا کہ عطر عطر فجا.وہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے فجا اس نے تمہیں دھوکا دینے کیلئے بتایا ہے ور نہ اصل نام تو اُس کا وہی ہے جو پہلے اس کے منہ سے نکل گیا تھا.تو اس قسم کی سادہ طبیعت کا وہ آدمی تھا لیکن بعد میں اسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اُس کا مال گیا، دولت کی گئی، عزت گئی اور آخر میں مذہب بھی چلا گیا.تو ہاتھ سے کام نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں.اس سے کی بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتیں اور اچھے اچھے خاندان برباد ہو جاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں غرباء ہمیشہ غربت کی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں اپنی حالت میں تغیر پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا.
خطبات محمود บ سال ۱۹۳۶ء اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ میں تحریک کرتا ہوں جماعت ساڑے ستائیس ہزار روپیہ دے اور وہ تھوڑے سے عرصہ میں ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کا وعدہ کر دیتی ہے.پھر دوبارہ ایسی حالت میں تحریک کرتا ہوں جبکہ جماعت پر اور بوجھ بھی ہیں تو وہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کا وعدہ کر دیتی ہے لیکن جو تحریک اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے متعلق ہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور جماعت کی پہلی حالت بدستور چلی آتی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مال کی قربانی اس کی قربانی کی نسبت بہت زیادہ آسان ہے اور یہ قربانی کرتے وقت لوگ ہچکچاہٹ محسوس کرتے اور خوشی سے آمادہ نہیں ہوتے.اس کا نتیجہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ زندگیاں وقف کرنے والے نوجوان زندگیاں وقف کرتے ہیں وہ اس دعوے کے ساتھ زندگی وقف کرتے ہیں کہ بھو کے رہیں گے، پیاسے رہیں گے، پیدل جائیں گے اور ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کیلئے خوشی سے تیار رہیں گے لیکن جب ہم اُن کی روانگی پر انہیں اپنے پاس سے کچھ خرچ دیتے ہیں تو جھٹ یہ سوال پیدا کر دیتے ہیں کہ اتنا خرچ تو کافی نہیں اور روپیہ چاہیے.یہ امرصاف بتا تا ہے کہ انہیں اسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کی عادت ہے.وہ وطن چھوڑ دیں گے ، اپنے مستقل کو قربان کر دیں گے، بیوی بچوں سے جدا ہو جائیں گے، ماں باپ سے الگ ہو جائیں گے لیکن اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنا اور اسراف ان کی راہ میں حائل ہو جائے گا اور ان عادتوں کی وجہ سے وہ مختلف قسم کے سوال پیدا کر دیں گے.پس معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں بہ نسبت اور امراض کے یہ مرض زیادہ راسخ ہے حالانکہ یہی وہ مرض ہے جس سے قوم میں غداری ، فریب اور خیانت کا مادہ پیدا کی ہوتا ہے اور جب اس قسم کی عادت پیدا ہو جائے کہ انسان نکما بیٹھا ر ہے اور جو مفت میں ملے وہ لے لے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن آتا ہے اور اس سے آکر کہتا ہے مجھ سے پانچ روپے لے لو اور احمدیوں کا کوئی راز بتاؤ یا ان کی فلاں خبر ہمیں لا دو اس پر وہ پانچ روپے لے لیتا اور اپنے ایمان کو ضائع کر دیتا ہے.بالکل ممکن ہے اس نے دس روپے اپنی طرف سے چندہ میں دیئے ہوں لیکن چونکہ اسے نکما بیٹھے رہنے کی وجہ سے یہ عادت پڑی ہوئی ہے کہ مفت کا روپیہ لیتا اور اپنی ضروریات پر خرچ کرتا ہے اس لئے وہ پانچ روپے دیکھ کر انہیں چھوڑ نہیں سکتا ، اور وہی انسان جو احمدیت کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار تھا، اپنا وطن چھوڑنے کیلئے تیار تھا، اپنے بیوی بچوں
خطبات محمود ۶۲ سال ۱۹۳۶ء سے جُدا ہونے کیلئے تیار تھا محض پانچ روپے پر اپنی قوم کو بیچ دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.یہودا اسکر یوطی کو دیکھو.حضرت مسیح علیہ السلام کیلئے وہ سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار تھا اور حواریوں میں وہ خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن اس نے تمہیں درہم پر اور وہ بھی کھوٹے تمیں درہموں پر کہ اگر وہ کھوٹے نہ ہوتے تب بھی ان کی قیمت آجکل کے لحاظ سے ساڑھے سات روپے بنتی ہے حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا.معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی وہی عادت تھی جو آجکل ہمارے بعض نوجوانوں میں پائی جاتی ہے کہ نکھتا بیٹھے رہتے اور مفت کی کھاتے ہیں اور مفت کی کھانے کی عادت پیدا ہوتی ہے اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں.اس وقت جتنے لوگ ہیں خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے سب میرے مخاطب ہیں اور میں ان میں سے بہت کم لوگوں کو مستثنیٰ کر سکتا ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کی عادت کے لحاظ سے باوجود اس کے کہ یہ تعلیم میرے منہ سے نکل رہی ہے میں اپنی اولاد کو بھی مستقی نہیں کرسکتا.وہ بھی اس بات پر تو تیار ہو جائیں گے کہ سلسلہ کیلئے اپنی جانیں دیں، تبلیغ کیلئے غیر ملکوں میں نکل جائیں لیکن اپنے ہاتھ سے کام کرنا انہیں دو بھر معلوم ہوگا.یہ محض عادت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ اگر انہیں عادت ہو جائے تو اس کام میں بھی وہ کوئی تکلیف محسوس نہ کریں.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ اذخر کاٹ کر لاتے اور بیچتے.اذخر ایک قسم کا گھاس ہوتا ہے اہل عرب میں چونکہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت تھی اس لئے وہ ان کاموں کو بُرا انہیں سمجھتے تھے لیکن ہمارے ملک میں کام کرنا عزت کے خلاف سمجھا جاتا ہے.جب تک ہم اس خیال کو دُور نہیں کر دیتے جماعت میں سے آوارگی او جہالت دور نہیں ہو سکتی.اور اگر کام کرنے کی روح جماعت میں پیدا کر دیں تو جماعت کا ۲۵ فیصد بوجھ اُتر سکتا ہے اور جب اس روح کے نتیجہ میں وہ دنیا میں مفید کام کرنے لگ جائیں تو میں سمجھتا ہوں ۲۵ فیصد بوجھ اور اُتر سکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں چندہ دینے والے بہت سے نئے لوگ پیدا کی ہو جائیں گے.غرض اگر اِس وقت ہمارا خرچ کا تین لاکھ سالانہ بجٹ ہوتا ہے تو بریکا روں کا بوجھ ہٹ جانے کی وجہ سے بجٹ سوا دولاکھ پر آجائے گا اور اگر اِس وقت آمد اڑھائی لاکھ ہوتی
خطبات محمود ۶۳ سال ۱۹۳۶ء چندہ دینے والوں کی زیادتی سے آمد سوا تین لاکھ ہو جائے گی.میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت قادیان میں ہی پانچ سو عورتیں مرد ایسے ہیں جو بالکل سکتے بیٹھے ہیں اور جن کی نظر اسی طرف رہتی ہے کہ کوئی انہیں دے تو کھالیں.ان میں اخلاص ہے، نیکی ہے اگر فاقہ میں بھی انہیں چندہ کی آواز آئے تو وہ اپنے مانگے ہوئے روپیہ میں سے چندہ دینے کیلئے تیار ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کیلئے اسے خرچ کر دیں گے پس ان میں اخلاص کی کمی نہیں ، کمی صرف تربیت کی ہے.کام لینے والوں نے ان سے کام نہیں لیا اور سمجھانے والوں نے انہیں سمجھایا نہیں اور نہ انہیں بتایا ہے کہ کس رنگ میں وہ اپنی عزت بڑھا سکتے ہیں.اگر بتاتے تو وہ بھی دوسروں سے پیچھے نہ رہتے.گویا وہ قیمتی موتی ہیں مگر افسوس کہ مٹی کے اندر ملے ہوئے ہیں.جس طرح ایک گھوڑا جس پر سوار ہو کر انسان میلوں میں سفر کر لیتا ہے اگر انسان اُس کے نیچے کھڑا ہو کر اُسے اپنے سر پر اُٹھانا چاہے تو وہ اس کی کمر توڑ دے گا اسی طرح یہ قوم کے گھوڑے ہیں مگر بجائے اِس کے کہ ان کے ذریعہ ترقی کی منازل طے کی جاتیں وہ ایسے پتھر بن گئے ہیں جو قوم کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں اور جو اسے نیچے ہی نیچے کھینچے لئے جارہے ہیں.پس ضروری ہے کہ اس قسم کے کام تمام جماعت مل کر کرے تامل کر کام کرنے کی وجہ سے کوئی شخص ہاتھ سے کام کرنا اپنے لئے عار نہ سمجھے.میں نے اُس وقت کئی کام بھی بتائے تھے چنانچہ میں نے کہا تھا مہمان خانہ بننے والا ہے سب مل کر اس کی تعمیر کر دیں لیکن لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور مہمان خانہ بن گیا.پھر میں نے کہا تھا محلوں میں بڑا گند ہوتا ہے غیر لوگ جب دیکھتے ہوں گے تو باہر جا کر کیا کہتے ہوں گے کہ یہ احمدی تقریریں کرتے وقت تو کہتے ہیں قرآن مجید کا حکم ہے صفائی کرو اور گندگی سے بچو لیکن ہم نے ان کے محلے دیکھے ہیں بدکر کے مارے ان میں سے گزرا نہیں جاتا.متعفن نالیاں ہیں، راستوں پر گند پڑا رہتا ہے اور کوئی صفائی نہیں کرتا.میں نے توجہ دلائی تھی کہ محلے والے مل کر اس گند کو دُور کریں اور گڑھے وغیرہ پر کر کے جگہیں ہموار کر دیں.آخر لوگ روٹیوں کی دعوت کھانے کیلئے جاتے ہیں یا نہیں ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کام کیلئے لوگوں کو دعوت دی جائے اور وہ نہ آئیں.ہوسکتا ہے کہ ایک دن دار الرحمت والے سارے شہر کی دعوت کر دیں اور کہیں آؤ سب مل کر ہمارے محلہ کی صفائی کرو، پھر کسی دن دار الفضل
خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۶ء الے سب شہر کو بلا لیں کہ آؤ ہمارے محلہ کی صفائی کر دو.آخر کیا وجہ ہے کہ روٹی کی دعوت میں تو ہم جا سکتے ہیں لیکن کام کی دعوت میں ہم نہیں جا سکتے.تو یہ ساری تدبیریں میں نے بتائی تھیں مگر چودہ مہینے ہو.و گئے کسی نے ہمیں نہیں بلایا.دوسری دعوتیں تو لوگ اس کثرت سے کرتے ہیں کہ مجھے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ آج روٹی ہمارے گھر سے کھائیں.حالانکہ روٹی انسان اپنے گھر میں روز کھاتا ہی ہے.پس ایسی دعوت کا کیا فائدہ جو روز میسر آتی ہے وہ دعوت کرو جو لوگوں کو میسر نہیں آتی.کام کیلئے بلا ؤ اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی لوگوں کو عادت ڈالو تا فارغ اور سکتے بیٹھے رہنے والوں کو بھی کام کی عادت پڑے.اور اگر کام کر کے لوگوں کو کھانے کی عادت ہو جائے تو پھر چاہے کوئی لاکھ روپیہ بھی دے اور کہے کہ قوم سے غداری کرو تو وہ غداری کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اُسے طیب کھانے کی عادت ہوگی.پس کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اخلاق بگڑ جاتے ہیں ، قوم میں بیکاری اور آوارگی پیدا ہوتی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی وہ عطا کردہ طاقتیں جن کی قیمت میں دنیا کی کوئی چیز پیش نہیں کی جاسکتی ضائع ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی آنکھ کتنی قیمتی چیز ہے لیکن جب کسی کی آنکھ ضائع ہو جائے تو کیا کرڑوں روپیہ دے کر بھی وہ آنکھ بنوا سکتا ہے؟ اسی طرح خدا تعالیٰ کا دیا ہو ا دماغ جب خراب ہو جاتا ہے اور انسان پاگل ہو جاتا ہے تو بسا اوقات سارے ڈاکٹر مل کر بھی اُسے اچھا نہیں کر سکتے.پس کام نہ کرنے کے نتیجہ میں علاوہ اور نقصانات کے ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عطا کر وہ طاقتیں ضائع چلی جاتی ہیں.اگر کوئی شخص ایک ہزار روپیہ ڈھاب میں ڈال دے تو قادیان کے سارے لوگ اُسے ملامت کرنے لگ جائیں گے کہ کیسا بیوقوف ہے اس نے ہزار روپیہ ڈھاب میں ڈال دیا لیکن اس سے لاکھوں گنے نہیں کروڑوں گنے زیادہ قیمت کا دماغ لوگ ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کہتا کہ کتنا اندھیر ہے حالانکہ غریب سے غریب اور ان پڑھ سے ان پڑھ کے دماغ کے مقابلہ میں ہزاروں روپیہ کی کوئی حقیقت نہیں.جاہل سے جاہل انسان سے کہو کہ ہم تجھے ہزار روپیہ دیتے ہیں تو اپنا بھیجا نکال دے تو وہ اس کیلئے تیار نہیں ہوگا.پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اگر کوئی ڈھاب میں ایک ہزار روپیہ ڈال دے تو سارے لوگ مل کر شور مچادیں کہ اتنا بڑا بیوقوف ہم نے کبھی نہیں دیکھا لیکن جو لوگ اپنے کروڑوں روپیہ سے زیادہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء قیمتی دماغ ضائع کر رہے ہیں، اپنی مفید ترین طاقتیں سکتے اور بیکار بیٹھ بیٹھ کر ضائع کر رہے ہیں ہم انہیں دیکھتے اور کوئی شور نہیں مچاتے اور نہ ان کی درستی کے ذرائع اختیار کرتے ہیں.پس بریکاری ہمیشہ کام کو ذلت سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم کام کرنے لگ جائیں اور لوگ دیکھیں کہ چھوٹے بڑے سب کام کر رہے ہیں تو ذلت کا خیال لوگوں کے دلوں سے خود بخو دنکل جائے اور لوگ کام کرنے میں عزت محسوس کرنے لگیں اور جس دن کام میں لوگ عزت محسوس کرنے لگیں گے ، جس دن نکتھا اور بیکار بیٹھنا لوگ اپنے لئے ہلاک کرنے والی زہر سمجھیں گے اُس دن سمجھو کہ کی دنیا کی بلائیں ٹل گئیں اور روحانیت کی بنیاد قائم ہوگئی.کیونکہ کام ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے کرنے کے نتیجہ میں جہاں دُنیوی مصائب کا خاتمہ ہوتا ہے وہاں روحانیت کا بھی دروازہ کھل جاتا ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًال اے رسول ! طیب کھاؤ اور اعمال صالحہ کرو.اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ طیب کھانے کے نتیجہ میں اعمال صالحہ پیدا ہوتے ہیں.اس میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ بعض لوگ طیب کھائیں لیکن ان کے پاس دین نہ ہو اور اس وجہ سے شریعت کے مطابق ان سے اعمال صالحہ سرزد نہ ہوں لیکن جن کے پاس دین ہو اور وہ طیب کھائیں ان سے ضرور اعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں.مثلاً یورپ کے لوگ ہیں وہ طیب کھانے کے عادی ہیں بڑی محنت اور مشقت سے کام کرتے اور اپنی روزی کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن دین ان کے پاس نہیں اگر دین ان کے پاس پہنچ جائے تو چونکہ وہ طیب کھاتے اور مشکل سے مشکل کاموں کو سر انجام دینے کے عادی ہیں اس لئے وہاں اسلام نہایت کی شاندار نتیجہ پیدا کرے.جب میں لنڈن گیا تھا تو یورپ کے لوگوں کے متعلق مجھ پر یہ اثر ہوا تھا کہ ان میں روحانیت ایشیا سے زیادہ ہے.ان میں دین کے متعلق ایک جستجو اور تڑپ پائی جاتی ہے پھر ان میں سنجیدگی اور متانت ایشیا والوں سے بہت زیادہ ہے.ہندوستانی جو پڑھے لکھے ہیں ان کی مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لو اور پھر انگریزوں کی مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ انگریزوں کا مذاق بہت زیادہ سنجیدہ ہے.ہندوستانیوں میں چھچھورا پن ہوگا اور پھر بدتہذیبی اور ناشائستگی پائی جائے گی جب بھی دو چار ہندوستانی مل کر بیٹھیں گے کہیں کھانے کا ذکر ہوگا اور اس پر مذاق اُڑایا جارہا ہوگا ،
خطبات محمود ۶۶ سال ۱۹۳۶ء کہیں ہوا خارج ہونے پر قہقہے لگ رہے ہوں گے، کہیں ڈکار پر ہنسی ہورہی ہوگی.اس کے مقابلہ میں شریف انگریزوں کی مجلس میں تم دس سال رہو تمہیں ان باتوں کا نشان تک نظر نہیں آئے گا.یہاں قادیان میں پڑھے لکھے کئی آدمی ہیں جو ان گندی باتوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کی مجلس میں اس قسم کے لغو اور بیہودہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے اور ان پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے.بچپن میں جب میں ہائی سکول میں پڑھا کرتا تو دو استاد تھے انہیں دیکھ کر مجھے اتنی گھن اور نفرت آتی جو بیان سے باہر ہے.وہ جب بھی ایک دوسرے کی شکل دیکھتے کہیں پاخانے کا مذاق شروع ہو جاتا ، کہیں ہوا خارج ہونے کے متعلق بنی کرنے لگ جاتے اور مجھے ان کی باتیں سُن سُن کر اتنی گھن اور نفرت آتی کہ میں چاہتا وہاں سے بھاگ جاؤں.یہ چھچھورا پن، یہ کمینگی، یہ رذالت اور یہ بیہودگی اور یہ گندہ مذاق کیوں ہے؟ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کا دین تمہارے پاس ہے یہ رذالت اور کمینگی اسی لئے ہے کہ تمہارے وقت کی کوئی قیمت نہیں اور جب انسان کسی مفید کام پر اپنا وقت خرچ نہیں کرتا تو کوئی نہ کوئی بکواس شروع کر دیتا ہے.پس جب وہ حقیقی کام نہیں کرتے تو اس قسم کی بکواس شروع کر دیتے ہیں.تم اپنے ارد گرد کے لوگوں پر نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ کیا یہ باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ مسلمانوں میں کہیں قرآن کریم کی آیتیں ہنسی کے طور پر پڑھی جارہی ہوں گی ، کہیں حدیثیں ہنسی کے طور پر پڑھی جا رہی ہوں گی ، کہیں اسلامی اصطلاحیں مذاق کا نشانہ بن رہی ہوں گی، کہیں کھانے اور دعوتوں کا ذکر ہوگا.ایک کہے گا تم فلاں دعوت میں تھے تم نے کتنا کھایا دوسرا کہے گا تم فلاں شادی میں تھے کیا کیا کھایا.پھر کہیں کسی کے ڈکار لینے پر مذاق سوجھ جائے گا، کہیں ہوا خارج ہونے پر قہقہہ لگ جائے گا.تم بتاؤ کیا اس قسم کی رزیلا نہ اور کمینہ حرکات تمہارے ملک اور سوسائٹی میں ہوتی ہیں یا نہیں؟ پھر سوچو کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم میں باتیں پائی جاتی ہیں.اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ یہ باتیں محض اس وجہ سے ہیں کہ تمہیں کام کرنے کی عادت نہیں.اگر کام کرنے کی عادت ہو تو طبیعت میں سنجیدگی اور متانت پیدا ہو جاتی ہے اور نہ صرف اس قسم کی کمینہ حرکات میں انسان حصہ نہیں لیتا بلکہ اس کا وقت ضائع ہونے لگتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے.پس کام کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے اوقات کی قدر کرو.عیسائیت کتنی گھناؤنی چیز ہے، کتنی قابل نفرت چیز ہے فطرت اس کے خلاف بغاوت کرتی
خطبات محمود ۶۷ سال ۱۹۳۶ء ہے کہ ایک کھاتے پیتے انسان کو خدا مانا جائے ، انسانی عقل اسے دھکے دیتی اور اسے اپنے سفید کپڑوں پر ایک داغ اور میں سمجھتی ہے لیکن باوجود ان تمام باتوں کے عیسائیوں کے اخلاق کیوں تم سے اعلیٰ ہیں؟ ان کے اعلیٰ اخلاق مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان قوموں نے کسی سبب سے میں اُس سبب کی تعیین نہیں کرتا، میں مذہب پر بحث نہیں کر رہا کہ میں مذہبی سبب بیان کروں، میں اقتصادیات پر بحث نہیں کر رہا کہ اقتصادی سبب بیان کروں ، میں سیاسیات پر بحث نہیں کر رہا کہ سیاسی سبب بیان کروں، میں یہ کہتا ہوں کہ کسی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو بریکاری سے بچالیا اور کام کرنے کی عادت ڈال لی.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ مذہب ان کے پاس نہیں ان کے اخلاق تم سے اعلیٰ ہو گئے.ہم جب لنڈن پہنچے اور رات سونے کے بعد میں صبح کو اُٹھا تو میں نے اپنے قافلہ کے دوستوں کے چہروں پر رنجش کے آثار پائے اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ گویا کوئی جھگڑا ہوا ہے.میں نے ادھر اُدھر سے گرید کرنا شروع کیا تو مجھے بتایا گیا کہ کچھ جھگڑا ہو گیا تھا مگر آپ کو بتا نا مناسب نہیں سمجھا گیا.میں نے کہا کیا ہوا؟ تو بعض دوستوں نے بتایا کہ اسباب جب اُتارا گیا تو اُس وقت سوال پیدا ہوا کہ مختلف کمروں میں کس طرح پہنچے.وہاں مزدور اور قلی نہیں ہوتے بلکہ سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں.چونکہ ہمارے قافلہ والے ہندوستانیت اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اس لئے جب یہ وہاں پہنچے اور اسباب اُٹھانے کیلئے کوئی مزدور نہ پایا تو ان میں سے بعض سخت ناراض ہوئے کہ یہاں ہمارے اچھے مبلغ رہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا اسباب اُٹھوانے کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا اگر مزدور ہوتے تو ان کے ذریعہ اسباب اُٹھوا کر پہنچادیتے.ہم سے پہلے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وہاں پہنچے ہوئے تھے ان کے ساتھ ان کا ایک دوست بھی تھا جو جرمن کا رہنے والا تھا اور اُس کا باپ نواب تھا.میں نے چوہدری صاحب سے کہہ دیا تھا کہ آپ ہم سے پہلے جارہے ہیں ہمارے پہنچنے سے پہلے سیریں وغیرہ کر لیں لیکن جب ہم پہنچیں تو پھر آپ کو ہمارے ساتھ کام کرنا ہوگا.اس کے مطابق چوہدری صاحب اور ان کے جرمن دوست ہم سے پہلے اس مکان میں آئے ہوئے تھے.بتانے والے نے بتایا کہ اس سوال کے پیدا ہونے پر کہ کمروں میں اسباب کون رکھے ؟ ہمارے ساتھی تو ایک دوسرے سے روٹھ کر الگ ہو گئے اور سارا اسبا
خطبات محمود ۶۸ سال ۱۹۳۶ء چوہدری ظفر اللہ صاحب اور ان کے جرمن دوست برونگر نے قافلہ میں سے بعض آدمیوں کے ساتھ مل کر رکھا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب چونکہ ولایت میں رہ چکے تھے اس لئے وہ وہاں کے طریق سے واقف تھے اور اُن کا دوست تو یورپ کا ہی تھا گو وہ اب انگلستان میں رہتا ہے اور جنگ کے بعد نوابیاں جاتی رہیں لیکن اب بھی وہ انگلستان میں انجینئر اور موجد ہے اور معزز شخص ہے مگر باوجود اس کے اُس نے اپنے ہاتھ سے کام کیا.اس کے مقابلہ میں ہمارے ملک میں اگر پندرہ پشت سے نوابی بھی کسی کے خاندان سے گئی ہوئی ہو تو مجال نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے بہر حال اُس نے اور چوہدری صاحب نے مل کر کام کیا اور اسباب کمروں میں رکھ دیا.بے شک بعض ہمارے ساتھیوں نے بھی کام کیا لیکن بعض نے اس کو بُرا منایا اور کام سے انکار کر دیا.پس ولایت میں سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں.میرے ساتھ ہی امریکہ کے بعض امراء سفر کر رہے تھے وہ بہت بڑے تاجر تھے، لکھ پتی یا کروڑ پتی تھے اور وہ اپنے اہل و عیال سمیت یورپ کی سیاحت کیلئے آئے ہوئے تھے.میرے سامنے جب وہ سٹیشن پر اترے تو ہر ایک نے اسباب کے تین تین بنڈل اپنے آگے پیچھے لٹکا لئے اور چل پڑے.میرے لئے بھی یہ اچنبھا تھا کیونکہ میں لٹکا بھی آخر ہندوستانی طریق کا عادی تھا.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی گارڈ یا ڈرائیور نے کسی بڑے افسر کو پہچان لیا تو کہہ دیا لائیے میں اسباب اُٹھا لیتا ہوں اور وہ اسباب اُٹھانے پر اُسے کچھ انعام دے دیتے ہیں مگر یہ اتفاقی ہوتا ہے اور پھر شاذ کے طور پر انعام لینے کی خاطر بعض لوگ دوسرے کا اسباب اُٹھا لیتے ہیں لیکن اس صورت کو مستی کرتے ہوئے باقی سب لوگ خواہ وہ کتنے بڑے ہوں اپنے ہاتھ سے سب کام کرتے اور اپنا اسباب خود اُٹھا کر لاتے اور لے جاتے ہیں اور ان میں.کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی لکھ پتی یا کروڑ پتی اپنے ساتھ کوئی نوکر رکھ لیتا ہے جو اسباب اُٹھا لیتا ہے لیکن مزدوروں اور قلیوں کا وہ طریق جو ہمارے ہاں مروج ہے یورپ میں کہیں نظر نہیں آتا سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں.پس یہ اخلاق جو اِن میں پیدا ہوئے ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے حقیقی کام کرنے کی عادت ڈال لی اور وہ فضول باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے.پھر ان میں سے بھی جو اپنے وقت کو فضول باتوں میں ضائع کرنے والے ہیں ان میں وہی عادتیں پائی جاتی ہیں جو
۶۹ سال ۱۹۳۶ء خطبات محمود ہندستانیوں میں ہیں.بے شک ان کا کثیر حصہ ایسا ہے جو اپنے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرتا ہے لیکن ان میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے وقت کو فضول صرف کرنے کے عادی ہیں.شاید اس لئے کہ وہ شراب پینے کے عادی ہیں اور شراب بھی آوارگی پیدا کرتی ہے یا شاید اس لئے کہ ان میں ہوا ہے اور جو ابھی آوارگی پیدا کرتا ہے.بہر حال ان میں بھی ایک حصہ آوارہ ہے اور ان میں بھی وہی آوارگیاں ، وہی گند اور وہی بُری باتیں پائی جاتی ہیں جو ہندوستانیوں میں پائی جاتی ہیں مگر وہ اتنے بھیا نک سمجھے جاتے ہیں کہ شرفاء ان کے پاس کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے.پس اس لحاظ سے یورپ اور ہندستان میں پھر بھی امتیاز ہے.جبکہ ہمارے ہاں ایک فحش کلام ، ایک گندہ دہن اور ایک بد مذاق انسان کے پاس کھڑا ہونا شرفاء باعث عار نہیں سمجھتے اور نہ اور لوگ بُرا مناتے ہیں.انگلستان میں اگر کسی شخص کو اس قماش کے لوگوں کے پاس کھڑا ہو ا دیکھ لیا جائے تو اُس کی کی ساری عزت خاک میں مل جاتی ہے اور وہ کسی سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا.لوگ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جب یہ آوارہ شخص کے پاس کھڑا تھا تو یہ بھی آوارہ ہوگا.پس وہاں کے آوارہ ایک زندہ جیل خانہ ہوتے ہیں کہ جو شخص ان کے پاس کھڑا دیکھا جائے یا باتیں کرتا دیکھا جائے اُس کی عزت بھی جاتی رہتی ہے اور جس طرح طاعون سے بچانے کیلئے کیمپ کھولے جاتے ہیں انہوں نے بھی اپنی قوم کو آوارگی سے بچانے کیلئے گویا اس قسم کے کیمپ بنارکھے ہیں اور آوارگی سے اتنی شدید نفرت اپنی قوم میں پیدا کر دی ہے کہ آوارہ شخص سے بات کرنا بھی آوارگی کا نشان سمجھا جاتا ہے.ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی آوارہ کے ساتھ چل پھر رہا ہو، اُس سے باتیں کر رہا ہوں اور اُس سے تعلقات رکھتا ہو تو پوچھنے پر لوگ کہہ دیتے ہیں وہ آوارہ ہے یہ تو نہیں.مگر وہاں چلنا پھرنا تو الگ رہا ایک منٹ کیلئے بھی اگر کوئی کسی آوارہ کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے تو سب لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے.تو کام کرنے کی وجہ سے جماعت میں بہت نیک تغیرات پیدا ہو سکتے ہیں.قادیان اور باہر کے لوگ چندے تو دیتے ہیں مگر جو چیز قوم کی حقیقی روح ہے وہ ان چندہ دینے والوں نے ابھی تک پیدا نہیں کی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور صدرا انجمن احمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا کام شروع کرے جس میں سر حصہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء لیں.کام اس کے ہاتھ میں ہیں میرے ہاتھ میں نہیں.اگر میرے ہاتھ میں ہوتے تو میں اب تک کئی کام شروع کرا دیتا.اس کے ساتھ ہی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ وزراء اور نا ئب ہوتے ہیں ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسر کی روح اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے اشاروں کو سمجھیں.اگر دماغ میں کوئی اعلی تجویز آئے مگر ہاتھ شل ہوں تو وہ تجویز کسی کام کی نہیں رہتی اور نہ کوئی نتیجہ پیدا کر سکتی ہے.ناظر ہونے کی وجہ سے وہ میرے نائب ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ وہی روح اپنے اندر پیدا کریں جو میں پیدا کرنی چاہتا ہوں.جس طرح باد نما مرغ ہوتا ہے کہ وہ ہوا کے رخ کے مطابق اپنا رُخ بدلتا ہے اسی طرح بہترین ناظر وہی سمجھا جاسکتا ہے جو خلیفہ وقت کے اشاروں کو سمجھے.جو روح خلیفہ پیدا کرنا چاہے وہی روح ناظر پیدا کریں اور جو سکیم خلیفہ پیش کرے وہی سکیم تمام ناظر رکھیں.اگر ناظروں میں تعاون نہ ہو اور وہ میری باتوں کو نہ سنیں ، جو تجاویز میں پیش کروں اُس کی بجائے وہ اپنی تجاویز چلانا چاہیں، جو میں تدابیر بتاؤں اُن کو چھوڑ کر وہ اپنی تدبیریں بروئے کار لائیں اور اگر کارکنوں میں تعاون نہ ہو ، مبلغوں میں تعاون نہ ہو اور میں کچھ کہتا رہوں اور وہ کچھ اور کرتے رہیں تو یہ یہی بات ہوگی کہ : من چه سرائم و طنبوره من چه سرائد مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اخلاص کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ تربیت کے نقص کی وجہ سے اب تک میری مثال اور ناظروں اور کارکنوں کی مثال بالکل یہی ہے کہ: من چه سرائم و طنبوره من چه سرائد میں کچھ کہتا ہوں اور وہ کچھ اور کرتے ہیں، میں کوئی سکیم پیش کرتا ہوں وہ کوئی اور سکیم چلاتے ہیں، میں کوئی اور پالیسی بتاتا ہوں وہ اپنی پالیسی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہترین سے بہترین تجویز کا بھی وہ شاندار نتیجہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہئے.اگر وہ اپنے آپ کو میرا ہاتھ بناتے ، اگر وہ اپنے آپ کو میرا ہتھیار فرض کرتے اور اگر وہ سمجھتے کہ اُن کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھیں میرے منہ سے کیا نکلتا ہے اور پھر اسے جاری کرنے کی کوشش کرتے تو اب تک کا یا پلٹ گئی ہوتی.مگر حالت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں جماعت کی اس رنگ میں تربیت کرو اور مبلغ وفات مسیح کا مسئلہ رشتے چلے
خطبات محمود 21 سال ۱۹۳۶ء جاتے ہیں، میں کہتا ہوں جماعت سے بیکاری دور کرو اور مبلغ خود اپنے اندر بیکاری پیدا کرتے چلے جاتے ہیں ، میں کہتا ہوں وعظوں کی بجائے اپنا نیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرو اور وہ پُرانے مسائل لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے.جو لوگ وفات مسیح مان چکے ہوں اُن کے سامنے وفات مسیح کا مسئلہ پیش کرنا بیوقوفی ہے اور یہ سمجھنا کہ قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ بیوقوفی ہے.قرآن کریم کی کوئی آیت نہیں جو صرف ایک مطلب اپنے اندر رکھتی ہو.اگر ایسا ہی ہوتا تو جن آیتوں سے وفات مسیح ثابت ہے وہ میرے لئے منسوخ کی طرح ہوتیں مگر یہ غلط ہے.باوجو د وفات مسیح تسلیم کرنے کے میرے لئے بھی وہ آیتیں اپنے اندر کئی معارف رکھتی ہیں.مثلاً يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ الی سے والی آیت دوسروں کیلئے یہ مفہوم رکھتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں مگر رے لئے اس میں یہ سبق ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جائے اگر ساری دنیا مل کر بھی اُسے مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی.اب اگر کوئی شخص میرے سامنے یہ آیت اس غرض کیلئے پیش کرے کہ اس سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے تو وہ میرا وقت ضائع کرتا ہے.ہر زمانہ کا دورا لگ ہوتا ہے اور ہر دور میں الگ آیتیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، الگ حدیثیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، الگ استدلال پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.تم کیوں سمجھتے ہو کہ قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک ہی معنی ہیں.تم ان ہی آیتوں کو لے کر ان سے اور اور معارف نکال سکتے اور دنیا کو محوِ حیرت بنا سکتے ہو.قرآن کریم تو ذوالبطون ہے اور اس کی ایک ایک آیت میں کئی کئی معارف پنہاں ہیں.کسی وقت اس کے کسی معنی پر زور دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی وقت کسی مفہوم پر.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ خلیفہ وقت جو کچھ کہتا ہے اُس پر عمل کرنا ضروری ہے.اگر تو وہ بجھتی ہے کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا وہ غلط کہا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا تو جو لوگ یہ سمجھتے ہوں ان کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو سمجھائیں اور اُس سے ادب کے ساتھ تبادلہ خیالات کریں لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ اُسی طرح کام کریں جس طرح ہاتھ دماغ کی متابعت میں کام کرتا ہے.ہاتھ کبھی دماغ کو سمجھاتا بھی ہے کہ ایسا نہ کرو.مثلاً دماغ کہتا ہے فلاں جگہ مگا مارو.ہاتھ منگا مارتا ہے تو آگے وہ زرہ کی سختی محسوس کرتا ہے اور ہاتھ کو درد
خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۶ء ہوتا ہے.اس پر ہاتھ دماغ سے کہتا ہے کہ اس جگہ مکانہ مروائیں یہاں تکلیف ہوتی ہے اور دماغ اس کی بات مان لیتا ہے.اسی طرح جماعت میں سے ہر شخص کا حق ہے کہ اگر وہ خلیفہ وقت سے کسی بات میں اختلاف رکھتا ہے تو وہ اُسے سمجھائے اور اگر اس کے بعد بھی خلیفہ اپنے حکم یا اپنی تجویز کو واپس نہیں لیتا تو اس کا کام ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے.اور یہ تو دینی معاملہ ہے دنیوی معاملات میں بھی افسروں کی فرمانبرداری کے تاریخ میں ایسے ایسے واقعات آتے ہیں کہ انہیں کی پڑھ کر طبیعت سرور سے بھر جاتی ہے.بیلا کلاوا کی جنگ ایک نہایت مشہور جنگ ہے.اس میں انگریزوں کو روسی فوج کا مقابلہ کرنا پڑا.ایک دن جنگ کی حالت میں اطلاع ملی کہ روسی فوج کا ایک دستہ حملہ کیلئے آ رہا ہے اور اُس میں آٹھ نو سو کے قریب آدمی ہیں.اس اطلاع کے آنے پر انگریز کمانڈر نے ماتحت افسر کو حکم دیا کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جاؤ.اس افسر کو اطلاع مل چکی تھی کہ روسی دستہ آنے کی اطلاع غلط ہے اصل میں روسی فوج آرہی ہے جو ایک لاکھ کے قریب ہے.جب انگریز کمانڈر نے حکم دیا کہ ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جاؤ تو اُس افسر نے کہا یہ خبر صحیح نہیں ایک لاکھ فوج آ رہی ہے اور اُس کا مقابلہ ایک دستہ نہیں کر سکتا.انگریز کمانڈر نے کہا مجھے صحیح اطلاع ملی ہے تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو.وہ سات آٹھ سو کا دستہ لے کر مقابلہ کیلئے چل پڑا لیکن جب قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں ایک لاکھ کے قریب دشمن کی فوج ہے.بعض ماتحتوں نے کہا کہ اس موقع پر جنگ کرنا درست نہیں ہمیں واپس چلے جانا چاہئے مگر اس افسر نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھایا اور کہا ماتحت کا کام اطاعت کرنا ہے اعتراض کرنا نہیں.باقیوں نے بھی گھوڑے بڑھا دئیے اور سب ایک ایک کر کے اس جنگ میں مارے گئے.قوم آج تک اس واقعہ پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کی قوم کے لوگوں نے اطاعت کا کیسا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور گو یہ انگریز قوم کا واقعہ ہے مگر کون ہے جو اِس واقعہ کو سن کر خوشی محسوس نہیں کرتا.ایک جرمن بھی جب اس واقعہ کو پڑھتا ہے تو وہ فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش ! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی ، ایک فرانسیسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش ! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی ، ایک روسی بھی جب واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش ! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی.پس اطاعت اور افسر کی
خطبات محمود ۷۳ سال ۱۹۳۶ء فرمانبرداری ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر بغیر مصائب میں پڑے اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کے یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک اور موقع پر ایک ترک جرنیل نے روسیوں سے لڑائی کی.ترک جرنیل کو مشورہ دیا گیا کہ اپنے ہتھیار ڈال دو کیونکہ دشمن بہت زیادہ طاقتور ہے لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوا.آخر وہ قلعہ میں بند ہو گیا روسیوں نے مہینوں اُس کا محاصرہ رکھا اور کوئی کھانے پینے کی چیز باہر سے اندر نہ جانے دی.نتیجہ یہ ہوا کہ جب غذا کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو اُس نے سواری کے گھوڑے ذبح کر کے کھانے شروع کر دیئے مگر ہتھیار نہ ڈالے لیکن آخر وہ بھی ختم ہو گئے تو اُس نے بُوٹوں کے چمڑے اور دوسری ایسی چیزیں ابال اُبال کر سپاہیوں کو پلانی شروع کر دیں مگر ہتھیار نہ ڈالے.آخر سب سامان ختم ہو گئے اور روسی فوج نے قلعہ کی دیواروں کو بھی توڑ دیا تو یہ بہادر سپاہی اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہوئے.چونکہ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مفتوح فاتح کے سامنے اپنی تلوار پیش کرتا ہے اسی قاعدہ کے مطابق جب اُس ترکی جرنیل نے روسی کمانڈر کے سامنے اپنی تلوار پیش کی تو روسی کمانڈر کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کہنے لگا میں ایسے بہادر جرنیل کی تلوار نہیں لے سکتا.تو اطاعت اور قربانی اور ایثار ایسی اعلیٰ چیزیں ہیں کہ دشمن کے دل میں بھی درد پیدا کر دیتی اور اس کی آنکھوں کو نیچا کر دیتی ہیں.انگریزی قوم سے جہاں اچھے واقعات ہوئے ہیں وہاں اس سے ایک بُرا واقعہ بھی ہوا مگر اس کے اندر بھی یہ سبق ہے کہ قربانی اور ایثار نہایت اعلیٰ چیز ہے.جب نپولین کو انگریزوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور اُس کے اپنے ملک میں بغاوت ہوگئی تو اس نے کہا میں اپنے آپ کو اب خود انگریزوں کے سپرد کر دیتا ہوں.انگریزوں سے ہی اس کی لڑائی تھی چنانچہ وہ اُسے پکڑ کر انگلستان لے گئے.جب پارلیمنٹ کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو اُس نے کہا نپولین سے تلوار کیوں نہیں لی گئی ؟ یہ تلوار لینے کا وہی طریق تھا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مفتوح جرنیل سے فاتح جرنیل تلوار لے لیا کرتا تھا.جب پارلیمنٹ نے یہ سوال اُٹھایا تو ایک انگریز لارڈ کو اس غرض کیلئے مقرر کیا گیا کہ وہ جا کر نپولین سے تلوار لے آئے.جب اُس کے سپرد یہ کام کیا گیا تو وہ پارلیمنٹ میں کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا ایسے بہادر دشمن سے جس نے اپنے آپ کو خود ہمارے
خطبات محمود ۷۴ سال ۱۹۳۶ء حوالے کر دیا ہے تلوار لینا ہماری ذلت ہے.مگر چونکہ اُس وقت انگریزوں میں بہت جوش تھا اور انہیں نپولین کے خلاف سخت غصہ تھا اس لئے بہادری کے خیالات ان کے دلوں میں دبے ہوئے تھے انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا نپولین سے تلوار ضرور لی جائے گی.پھر انہوں نے اُس لارڈ کے ساتھ ایک ایسے شخص کو کر دیا جو ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک نہیں تھا جن اعلیٰ اخلاق کا وہ لارڈ مالک تھا اور کہا کہ نپولین سے ضرور تلوار لی جائے.جب وہ نپولین کے پاس پہنچے تو وہ لارڈ نہایت رقت کے ساتھ نپولین سے کہنے لگا میری زبان نہیں چلتی اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں آپ کو وہ پیغام پہنچاؤں مگر چونکہ مجھے حکم ہے اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ اپنی تلوار ہمارے حوالے کر دیں.نپولین نے یہ سن کر کہا کیا انگریز قوم جس کو میں اتنا بہادر سمجھتا تھا اپنے مفتوح دشمن سے اتنی معمولی رعایت بھی نہیں کر سکتی.یہ سن کر اُس لارڈ کی چیخ نکل گئی اور وہ پیچھے ہٹ گیا مگر اس کے نائب نے آگے بڑھ کر اُس کی تلوار لے لی.تو بہادری اور جرات کے واقعات غیر کے دل پر بھی اثر کر جاتے ہیں.اگر ہمارے کارکن بھی وہ اطاعت، قربانی اور ایثار پیدا کریں جن کا حقیقی جرأت تقاضا کرتی ہے تو دیکھنے والوں کے دل پر جماعت احمدیہ کا بہت بڑا رعب پڑے گا اور ہر شخص یہی سمجھے کہ یہ جماعت دنیا کو کھا جائے گی.اور اگر یہ نہ ہو بلکہ میں خطبے کہتا چلا جاؤں لوگ کچھ اور ہی کرتے جائیں، مبلغین کسی اور راستے پر چلتے رہیں ، ناظر اپنے خیالوں اور اپنی تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں رہیں، اسی طرح کا رکن ، سیکرٹری، پریذیڈنٹ ، اُستاد، ہیڈ ماسٹر سب اپنے اپنے راگ الاپتے رہیں اور بندھے ہوئے جانور کی طرح اپنے کیلے کے گر د بار بار پھرتے رہیں تو بتاؤ کیا اس طرح ترقی ہو سکتی ہے؟ خلافت کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اُس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اُس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام زبیر میں ناکام ہیں.میں آج تک جس قدر خطبات دے چکا ہوں اُنہیں نکال کر ناظر دیکھ لیں کہ
خطبات محمود ۷۵ سال ۱۹۳۶ء آیا وہ ان پر عمل نہ کرنے کے لحاظ سے مجرم ہیں یا نہیں؟ اسی طرح محلوں کے پریذیڈنٹ ان خطبات کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ آیا وہ مجرم ہیں یا نہیں ؟ ۱۴ ماہ اس تحریک کو ہو گئے مگر کیا ناظروں ، محلہ کے پریذیڈنٹوں اور دوسرے کارکنوں نے ذرا بھی اُس روح سے کام لیا جو میں ان کے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا.اگر وہ میرے ساتھ تعاون کرتے تو پیچھلے سال ہی اتنا عظیم الشان تغیر ہو جاتا کہ جماعت کی حالت بدل جاتی اور دشمن مرعوب ہو جا تا مگر چونکہ وہ اس رنگ میں رنگین نہیں ہوئے جس رنگ میں میں انہیں رنگین کرنا چاہتا تھا اس لئے عملی طور پر انہوں نے وہ نمونہ نہیں دکھایا جو انہیں دکھانا چاہئے تھا.ان کی مثال بدر کے ان گھوڑوں کی سی نہیں جن کے متعلق ایک کافر نے کہا تھا کہ ان گھوڑوں پر آدمی نہیں موتیں سوار ہیں ہے.بلکہ ان کی مثال حنین کے ان گھوڑوں کی سی ہے جنہیں سوار میدانِ جنگ کی طرف موڑتے مگر وہ ملکہ کی طرف بھاگتے تھے ھے.پس میں بریکاری کو دور کرنے کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور تمام کارکنوں کو خواہ وہ ناظر ہوں یا افسر ، کلرک ہوں یا چپڑاسی، پریذیڈنٹ ہوں یا سیکرٹری توجہ دلاتا ہوں کہ اس روح کو اپنے اندر پیدا کرو.کیا فائدہ اس بات کا کہ تم نے چار سو یا تین سو یا دو سو یا ایک سو ، یا ساٹھ یا پچاس روپیہ چندہ میں دے دیا، اگر تمہارے اندروہ روح پیدا نہیں ہوئی جو ترقی کرنے والی قوموں کی کیلئے ضروری ہوتی ہے.ہم اگر پچاس روپے کا بیج خریدتے ہیں جسے گھن لگا ہوا ہے تو وہ سب ضائع ہے لیکن اگر ہم ایک روپیہ کا پیج خریدتے ہیں اور وہ تازہ اور عمدہ ہے تو وہ پچاس روپوں کے بیج سے اچھا ہے.اسی طرح صرف روپیہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک وہ ایثار ، وہ قربانی ، وہ تعاون اور وہ محبت واخوت کی روح پیدا نہیں ہوتی جو جماعت کو یکجان و دو قالب “ بنادیتی ہے.اگر خلافت کے کوئی معنے ہیں تو پھر خلیفہ ہی ایک ایسا وجود ہے جو ساری جماعت میں ہونا چاہئے اور اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے وہی ساری جماعت کے خیالات اور افکار پر حاوی ہونا چاہئے ، وہی اوڑھنا، وہی بچھونا ہونا چاہئے ، وہی تمہارا ناک، کان ، آنکھ اور زبان ہونا چاہئے.ہاں تمہیں حق ہے کہ اگر کسی بات میں تم خلیفہ وقت سے اختلاف رکھتے ہو تو اسے پیش کرو.پھر اگر خلیفہ تمہاری بات مان لے تو وہ اپنی تجویز واپس لے لے گا اور اگر نہ مانے تو پھر تمہارا فرض ہے کہ اُس کی کامل اطاعت کرو ویسی ہی اطاعت جیسے دماغ کی اطاعت اُنگلیاں کرتی ہیں.دماغ کہتا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء ہے فلاں چیز کو پکڑو اور اُنگلیاں جھٹ اُسے پکڑ لیتی ہیں.لیکن اگر دماغ کہے اور اُنگلیاں نہ پکڑیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہاتھ مفلوج اور اُنگلیاں رعشہ زدہ ہیں کیونکہ رعشہ کے مریض کی یہ حالت ہوا کرتی ہے کہ وہ چاہتا ہے ایک چیز کو پکڑے مگر اس کی اُنگلیاں اسے نہیں پکڑ سکتیں.پس خلیفہ ایک حکم دیتا ہے مگر لوگ اُس کی تعمیل نہیں کرتے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ رعشہ زدہ وجود ہیں.لیکن کیا رعشہ والے وجود بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ سال کا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کہ ہماری جماعت کا وجود رعشہ والا وجود ہے، دماغ نے حکم دیا مگر ہاتھوں اور اُنگلیوں نے کوئی کام نہ کیا.اس میں شبہ نہیں کہ جماعت نے تحریک جدید میں روپیہ دیا مگر میں نے بتایا تھا کہ اس میں سب سے کم قیمت روپیہ کی ہوگی.روپیہ کی قیمت تو رسم و رواج کی وجہ سے ہے.آج یورپ کے اثر ، اس کے غلبہ اور فوقیت کی وجہ سے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے ورنہ روپوں پر تو ہم تھو کتے بھی نہیں اور نہ صرف روپوں سے دنیا میں انبیاء کی جماعتیں کبھی کامیاب ہوا کرتی ہیں.صحابہ کے زمانہ میں کب روپے تھے مگر انہوں نے کام کر کے دکھایا اور وہ کامیاب ہو گئے.اسی طرح ہمیں بھی روپوں کی ضرورت نہیں کام کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے مگر چونکہ کفر کی اشاعت میں روپیہ کا بہت بڑا دخل ہے اس لئے جوابی رنگ میں ہمیں بھی روپیہ لینا اور خرچ کرنا پڑتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا آگ سے عذاب دینا منع ہے تے.اس حدیث کی رو سے تو پوں اور بموں سے لوگوں کو ہلاک کرنا نا جائز ہے مگر چونکہ یورپ والے لڑائیوں میں توپ اور بم استعمال کرتے ہیں اس لئے مجبوراً اسلامی حکومتوں کو بھی یہ ہتھیار استعمال کرنے پڑتے ہیں ورنہ ہمارے رسول کریم ﷺ کا یہی حکم ہے کہ ہم اس قسم کے ہتھیار دُنیا سے مٹادیں لیکن چونکہ یورپ والے تو ہیں چلاتے ہیں اس لئے جوا با توپوں کا استعمال جائز ہے ورنہ جب اسلامی حکومتوں کا دنیا میں غلبہ ہو گا اُس وقت ان کا پہلا فرض یہ ہوگا کہ وہ توپ اور ہم کو اُڑا دیں اور اسے دنیا سے مٹانے کی کوشش کریں.ہمارے محمد ﷺ نے آج تیرہ سو سال پہلے جسے آج بعض کم بخت تعلیم یافتہ کہلانے والے مسلمان بھی جہالت کا زمانہ کہتے ہیں یہ رحم اور محبت کی تعلیم دی کہ آگ کا عذاب دینا منع ہے.کتنی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے دی.آج آگ کا عذاب تم دنیا سے مٹادو تمام
خطبات محمود LL سال ۱۹۳۶ء خونریزیاں مٹ جائیں گی.تم ہم سے ایک مرد اور عورت کا فرق نہیں کر سکتے.تم ایک توپ کا گولہ چلاتے وقت یہ احتیاط نہیں کر سکتے کہ عورتیں اس کی زد سے بچی رہیں ، بچے محفوظ رہیں لیکن تلوار چلاتے وقت تم یہ سب احتیاطیں کر سکتے ہو.تم دیکھ سکتے ہو کہ تمہارے سامنے عورت ہے یا مرد، لڑائی میں شامل ہونے والا ہے یا را بگیر اور مسافر لیکن توپ کا گولہ بلا تمیز سب کو مٹا دے گا.عورتیں زد میں آئیں گی تو انہیں ہلاک کر دے گا، ہسپتال زد میں آئیں گے تو انہیں تباہ کر دے گا ، زخمی جو ہسپتال میں زخموں کی وجہ سے کراہ رہے ہوں گے انہیں بھی موت کے گھاٹ اُتار دے گا لیکن تلوار چلاتے وقت انسان سمجھتا ہے کہ میرے سامنے کون ہے اور میں کس کو ہلاک کر رہا ہوں.پس اگر آج رسول کریم ﷺ کی اسی ایک تعلیم پر دنیا عمل کرے تو جنگ کا نقشہ بدل جائے اور رحم کا مفہوم کچھ اور ہو جائے لیکن چونکہ دنیا تو پوں اور بموں سے کام لیتی ہے اس لئے اسلامی حکومتیں مجبور ہیں کہ وہ دفاع میں تو ہیں اور بم استعمال کریں.اسی طرح ہم روپیہ کی طرف اس لئے جاتے ہیں کہ دشمن روپیہ سے کام لے رہا ہے، وہ کفر کی اشاعت روپیہ سے کر رہا اور دنیا میں اسلام کے خلاف روپیہ کی مدد سے اعتراضات پھیلا رہا ہے.ورنہ اسلام روپیہ کی قربانی کو ادنیٰ قربانی قرار دیتا ہے اور اصل قربانی وہ اس چیز کو قرار دیتا ہے جو دل اور دماغ اور آنکھ اور زبان اور ہاتھ سے ہو.پس میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اندر صحیح قربانی کا مادہ پیدا کرے ورنہ باتیں تو پادر ہوا ہے چیزیں ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ چیز بھی بے اثر ہو جاتی ہے اگر ماننے والے موجود نہ ہوں.بخاری کتاب البیوع باب ماقيل في الصواغ المؤمنون: ۵۲ آل عمران: ۵۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۶ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ابوداؤد کتاب الادب باب في قتل الذر کے پادر ہوا: بے اصل.خیالی.فرضی ( الفضل ۳۱/جنوری ۱۹۳۶ء )
سال ۱۹۳۶ء خطبات محمود اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرو فرموده ۳۱ /جنوری ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں آج گلے کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ بول نہیں سکتا اس لئے اختصار کے ساتھ انسانی اخلاق کی ایک ایسی خصوصیت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں جس کو زیر نظر رکھنا ہر انسان کیلئے ضروری ہے.ہمارے ملک میں عام طور پر انسانی فطرت کی خصوصیات کا مطالعہ اور ان کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی بہت ہی کم عادت ہے.بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ آدمی اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی کامیابی اور ترقی کا راز انسانی فطرت کی باریکیوں سے آگاہی حاصل کرنے میں مستور ہے.اوّل تو لوگ ان سارے افعال سے ہی جو دماغ کرتا ہے واقف نہیں ہوتے اور اگر واقف ہوں تو چند اصطلاحات کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں.مثلاً لوگ کی جانتے ہیں کہ انسان محبت کرتا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ محبت بیسیوں قسم کی ہوتی ہے اور محبت کا ظہور سینکڑوں رنگوں میں ہوتا ہے اسی طرح غصے کی بھی سینکڑوں اقسام ہیں.لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے اندر غیرت ہوتی ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ غیرت کی کتنی اقسام ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ جرات ایک صفت ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ بہادری کی کتنی اقسام ہیں اور یہ کہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کے اندر بہادری کی بعض اقسام پائی جائیں اور بعض نہ پائی جائیں.پس لوگ چند ناموں کو جانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے نام ہیں ان کی قسموں سے وہ واقف نہیں ہوتے.جس طرح
خطبات محمود ۷۹ سال ۱۹۳۶ء بیل کا لفظ جب کوئی بولے تو ایک خاکہ سا تو ہر انسان کے ذہن میں آجاتا ہے لیکن صرف ماہر فن ہی ہے بیل کا لفظ سن کر اس کی مختلف اقسام اور ان کے فوائد اور خصوصیات کو ذہن میں لاسکتا ہے.مجھے یاد ہے کہ میں ایک دفعہ بہشتی مقبرہ کی طرف سے واپس آرہا تھا کہ رستہ میں میں نے کچھ بیل دیکھے جو مجھے بتایا گیا کہ یہ بیچنے کیلئے ہیں.میرے ساتھ ایک اور دوست تھے میں نے ان سے کہا کہ بیلوں والے سے ذرا دریافت کریں کہ ان بیلوں کی اوسط قیمت کیا ہے ؟ اور اوسط معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ادنیٰ سے ادنی اور بڑی سے بڑی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے لیکن وہ دوست ان باتوں سے ناواقف تھے اس لئے انہوں نے جا کر بیلوں والے سے پوچھا کہ ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اس پر اُس نے جواب دیا کہ آپ کون سے بیل کی قیمت معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایک بیل کی قیمت بتا دو.اُس نے پھر پوچھا کہ کون سے بیل کی ؟ انہوں نے پھر وہی سوال دہرا دیا کہ کہہ تو رہا ہوں ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اس پر بیل کا مالک بولا کہ میں کس بیل کی بتاؤں ؟ اس گلہ میں ایک سو کا بھی بیل ہے اور دواڑھائی سو قیمت والا بھی.اس پر میں نے بھی اُس دوست کو سمجھایا کہ سب بیلوں کی ایک قیمت نہیں ہوتی.پوچھنا یہ چاہئے تھا کہ کس قیمت سے لے کر کس قیمت تک کے بیل ہیں مگر آپ جس رنگ میں پوچھ رہے ہیں اس کا وہ کیا جواب دے.وہ ایک قیمت بتادے اور آپ اچھے سے اچھا بیل منتخب کر کے کہیں کہ یہ اس قیمت میں دے دو.غرض جس طرح حیوانات اور جمادات اور نباتات کی قیمتیں ہوتی ہیں اسی طرح اخلاق کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں اور ہر قسم پھر کچھ مدارج اور ممتاز کیفیات رکھتی ہے.مثلاً محبت ہے یہ جذبہ بھی اپنے اندر بہت سے اختلاف رکھتا ہے.میں اس وقت محبت پر کوئی مضمون بیان نہیں کر رہا صرف ایک موٹی بات بیان کرتا ہوں کہ بعض لوگ بچوں پر جان قربان کر دیتے ہیں.یہ بھی محبت کی ایک قسم ہے لیکن وطن ، حکومت اور مذہب کیلئے قربانی کا سوال ہو تو وہ کوئی پرواہ نہ کریں گے.اسی طرح بعض لوگ محبت کی وجہ سے مالی قربانی کیلئے تیار ہو جائیں گے مگر جانی قربانی نہیں کرسکیں گے.یا جانی قربانی کیلئے تو تیار ہوں گے مگر مالی قربانی کیلئے قطعاً تیار نہیں ہوں گے.جس سے معلوم ہوا کہ محبت کے بھی کئی مقام ہوتے ہیں جہاں کھڑا ہو کر انسان نئی قسم کا نظریہ حاصل کرتا ہے.پس ہم جب محبت
خطبات محمود ۸۰ سال ۱۹۳۶ء کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ یہ ایک چیز کا نام ہے اور محبت ہر ایک شخص میں ایک ہی قسم کی پائی جاتی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ جذ بہ بحیثیت جنس اس میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی کون سی قسم اس میں پائی جاتی ہے یہ بات تفاصیل سے تعلق رکھتی ہے.گزشتہ ایام سے میں جماعت کو یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ وہ اپنے اندر جرات اور قربانی کا مادہ پیدا کریں.یہ بھی ایک مجمل لفظ ہے جس کی کئی تفاصیل ہیں.جرات ، بہادری اور قربانی بھی کئی رنگ کی ہوتی ہے.کئی لوگ ہوں گے جو مالی قربانی کیلئے تو تیار ہو جائیں گے مگر جانی کیلئے نہیں اور کئی جانی کیلئے تیار ہوں گے مگر مالی کیلئے نہیں.پھر کئی لوگ ہوں گے جو جرات سے حکومت کا مقابلہ کریں گے مگر قوم کے مقابلہ میں کھڑے نہیں ہوسکیں گے.اگر وہ اپنی قوم میں کوئی نقص اور عیب دیکھیں تو اُس کو بیان کرنے سے ڈریں گے مگر حکومت کے مقابلہ میں بڑی بہادری دکھائیں گے.چنانچہ بعض لوگ چار چار پانچ پانچ بلکہ چھ چھ اور سات سات سال قید ہو جاتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے لیکن جس بات میں وہ دیکھیں کہ ان کی قوم کے چند لوگ ناراض ہوتے ہیں اُس کے بارہ میں کہہ دیتے ہیں کہ اسے جانے دو.انہیں لاکھ سمجھاؤ کہ مذہب، صداقت، اخلاق اور انصاف یہی مطالبہ کرتا ہے مگر وہ یہی کہتے جائیں گے کہ قوم کے لیڈروں کا مقابلہ بہت مشکل ہے.وہ جیل خانہ کی میں کئی سال کاٹ لیں گے مگر اپنے چند ایک ہم مشرب لوگوں کی بُری رائے کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.پھر بعض لوگ قوم کا مقابلہ بڑی دلیری سے کر لیتے ہیں.قوم کے لوگ انہیں لعنت ملامت کریں، بائیکاٹ کریں، تعلقات منقطع کرلیں، تو وہ ذرا پرواہ نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ تمہارے متعلق ڈپٹی کمشنر کی یہ رائے ہے تو وہ جھٹ دوڑے جائیں گے کہ حضور ! یہ بات صحیح نہیں.حضور ! جس طرح حکم دیں میں کرنے کو تیار ہوں.ان کے اندر بہادری کا مادہ بے شک ہوتا ہے مگر ساتھ ہی بُزدلی کا مادہ بھی ہوتا ہے.ایسے انسان کے اندر ایک قسم کی جرات ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ایک قسم کی بزدلی بھی ہوتی ہے لیکن کامل بہادری یہ ہے کہ دونوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انسان تیار ہو.حق کی خاطر قوم کا مقابلہ بھی کر سکے اور حکومت کا بھی.اگر قوم غلطی کرے تو وہ سچی بات پیش کر کے کہہ دیں کہ مانو یا نہ مانو حق بات یہی ہے اور حکومت اگر غلطی کرے تو بھی وہ حق بات پیش کر کے کہہ دیں کہ خواہ مانو یا نہ مانو حقیقت یہی ہے مگر کئی لوگ ایسا نہیں کر سکتے.بعض لوگ
خطبات محمود ΔΙ سال ۱۹۳۶ء ایسے ہوتے ہیں جو ماں باپ کے مقابلہ میں جرات سے کام نہیں لے سکتے.ان کو حق کا علم بھی ہو جائے تو ناحق کو اس لئے نہ چھوڑیں گے کہ ماں باپ ناراض نہ ہو جائیں.مجھے کئی ایسے لوگوں کا علم ہے جن پر احمدیت کی صداقت کھل چکی ہے مگر وہ اسے اس لئے کھلم کھلا قبول نہیں کرتے کہ ماں باپ ناراض ہو جائیں گے.اُن سے جب کہا جائے کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بندوں کا یا ماں باپ کا ڈریا محبت کیا چیز ہے؟ تو وہ کہیں گے یہ ٹھیک ہے مگر کیا کریں دل نہیں مانتا آپ اس کو ہماری کمزوری سمجھ لیں مگر ہم ایسا کر نہیں سکتے.اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کے اندر جرات کی وہ ختم نہیں ہوتی.پھر بعض لوگ بیویوں سے ڈرتے ہیں اور بعض بیویاں خاوندوں سے ڈرتی ہیں.اسی طرح بعض ماں باپ اپنے بچوں سے ڈرتے ہیں.ٹرانسوال کی جنگ کے دنوں میں میں نے ایک مشہور جرنیل کی نسبت پڑھا کہ وہ بڑا بہادر اور نڈر ہے مگر چوہے کو دیکھ کر اس کی جان جاتی ہے.اگر کبھی اسے چوہا نظر آ جائے تو جھٹ اردلی کو بلائے گا اور رات بھر جاگتا رہے گا اسے نیند نہیں آئے گی.ایسے لوگوں کے اندر کوئی نہ کوئی رگ ایسی ہوتی ہے جس سے خوف داخل ہو جاتا ہے.دوسرے مواقع پر وہ جان کی پرواہ نہیں کریں گے.بندوقوں ، توپوں اور تلواروں کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دیں گے ، دشمنوں کے ہجوم میں بلا خوف چلے جائیں گے مگر کسی معمولی سی چیز سے ڈر جائیں گے.پس ہر چیز اور ہر خلق کی قسمیں ہوتی ہیں اور مؤمن کامل کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ تمام قسموں کو مکمل کرے.ہر موقع پر اور ہر ہیبت والی چیز کے سامنے اپنے آپ کو دلیر بنائے.مؤمن کی بہادری ایسی کامل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بزدلی نہیں.صداقت کے خلاف چلنے سے خوف کھانائی بزدلی نہیں بہادری ہے.پس اس ہستی سے خوف کھانا جو ہمیشہ راستی پر ہوتی ہے بُو دلی نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس سے خوف اپنی جان کی وجہ سے نہیں کھاتا بلکہ حق سے دور ہو جانے کے ڈر سے خوف کھاتا ہے.چونکہ مؤمن خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو ایسا نہیں سمجھتا وہ یقین رکھتا ہے کہ قوم ، حکومت ، افسر، ما تحت سب غلط بات کہہ سکتے ہیں اور غلطی کر سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ جو بات کہے وہ غلط نہیں ہوسکتی.پس وہ اللہ تعالیٰ سے اس لئے ڈرتا ہے کہ اس سے ڈرنا حق اور انصاف کا تقاضا ہے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوسرے سب لوگ جب خدا تعالیٰ کی طرف.
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء بات نہ کر رہے ہوں غلطی کر سکتے ہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ کسی افسر سے نہ ڈرو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اچھی بات بھی کہے تو بھی نہ مانو بلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جب وہ غلط بات کہے تب اس کی پرواہ نہ کرو.اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ قوم کی پرواہ نہ کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ قوم کی کچی بات کو بھی نہ مانو اور کہہ دو کہ ہم بہادر ہیں اور قوم کی بات ماننا بُزدلی ہے.ایسا کرنا تو حماقت بلکہ ظلم ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم جب غلطی کرے تو اس کی بات نہ مانو اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے ڈرو تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالی غلطی کر ہی نہیں سکتا اُس سے ہر حالت میں ڈرنا چاہئے.پس جرات کا مفہوم یہ ہے کہ جب دوسرا غلط بات کہے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے چونکہ غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی اس لئے اُس سے ڈرنا بُزدلی نہیں.بُزدلی صرف یہ ہے کہ حق اور انصاف کے تقاضا کو پورا نہ کیا جائے.غرض جس بزدلی کو ہم بُرا کہتے ہیں وہ اس مقام کے متعلق ہے جہاں غلطی ، نا انصافی اور ظلم کا امکان ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتوں کا وہم بھی نہیں ہو سکتا اس لئے صرف اُس کی ذات ہے جس سے ڈرنا بُز دلی نہیں بلکہ بہادری ہے.ہاں خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے ڈرنا بُزدلی ہے اس لئے انسان کو تیار رہنا چاہئے کہ ان چیزوں کا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آتیں مقابلہ کرے.ہاں اگر اچھی بات کوئی کہے تو انسان تو انسان خواہ شیطان ہی کہے اسے ماننا چاہئے.حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے کہ ایک دفعہ اُن کی صبح کی نماز قضا ہو گئی وہ سوئے رہے اور وقت گزر گیا.دوسرے دن انہوں نے کشف دیکھا کہ کوئی شخص اُن کو جگا رہا ہے اُن کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک آدمی پاس کھڑا ہے.پوچھا کہ کون ہے؟ تو اُس نے کہا میں شیطان ہوں اور آپ کو نماز کیلئے جگاتا ہوں یہ حالت کشفی تھی.انہوں نے کہا کہ شیطان کا کام تو نماز سے روکنا ہے مگر تو نماز کیلئے جگاتا ہے یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بے شک میرا کام روکنا ہے مگر کل آپ نماز با جماعت سے رہ گئے تو آپ سارا دن روتے رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا میرے بندے کو نماز رہ جانے کا اتنا قلق ہے اسے سو نمازوں کا ثواب دے دیا جائے.اس پر میں نے خیال کیا کہ اگر آپ آج بھی سوئے رہے تو پھر سو نمازوں کا ثواب لے لیں گے اس سے بہتر ہے کہ میں خود ہی جگاؤں تا ایک ہی نماز کا ثواب مل سکے اے.تو نیکی کی بات خواہ کوئی کہے اسے مان
خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۶ء لینا چاہئے یہ نہیں کہ کوئی شخص دیکھے کہ شیطان نماز کیلئے جگا رہا ہے تو کہہ دے کہ جا میں نماز نہیں احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی نے ایک شخص کو رات کے وقت چوری کرتے ہوئے پکڑا.حالات ایسے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میں نے جسے پکڑا ہے وہ انسان نہیں اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایک بڑی اچھی بات بتا تا ہوں اور اُس نے آیت الکرسی بتائی.رسول کریم یا اللہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تھا تو وہ شیطان ہی مگر بات اُس نے بہت اچھی بتائی ہے.تو بعض اوقات شیطان بھی اپنے مفاد کی خاطر ا چھی بات بتا سکتا ہے.مگر کئی لوگوں کی طبیعت میں ایسی ضد اور ہٹ ہوتی ہے کہ دشمن اگر اچھی بات انہیں کہیں تو بھی نہیں مانتے.بعض اوقات دیکھا ہے کہ کسی کو نماز کیلئے جگایا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ چل میں نماز نہیں پڑھتا بعد میں چاہے پڑھ ہی لے مگر منہ سے ضرور بے ادبی کے الفاظ بول دے گا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ تم میرے دشمن ہو اس لئے تم اچھی بات بھی کہو گے تو نہیں مانوں گا حالانکہ اگر شیطان نیکی کی بات بتائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بدی کا راستہ رک گیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو چکا ہے ۳.تو یہ تو خوشی کی بات ہے کہ دشمن بھی فائدہ کی بات کہے.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اچھی بات خواہ کسی کی طرف سے ہو اسے ماننے کیلئے تیار رہیں خواہ وہ حکومت کی طرف سے ہو خواہ رعایا کی طرف سے، خواہ افسر کی طرف سے ہو، خواہ ماتحت کی طرف سے ، خواہ دشمن کی طرف سے ہو، خواہ دوست کی طرف سے اور جو بات اچھی نہ ہو اور حق کے خلاف ہو وہ خواہ کسی کی طرف سے ہوا سے قطعاً نہ مانیں سوائے انبیاء اور صلحاء کے کہ وہ جو بات بھی کہیں اُس میں حق وصداقت ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بعض اوقات اپنے بندے کے ہاتھ بن جاتا ہوں، اس کے کان ، اس کی ناک، اس کی زبان بن جاتا ہوں ہے.اور جو شخص ایسا ہو جائے وہ جو بات بھی کہے گا اچھی ہی کہے گا.جیسے مولا نا روم نے اپنی مثنوی میں لکھا ہے کہ ئے جب بولتی ہے تو وہ اُس کی اپنی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ہونٹ جس قسم کی آواز نکالتے ہیں
خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۶ء ہے وہی اس سے نکلتی ہے.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اُس کی آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہوتی.اور اُسے ماننا خدا تعالیٰ کی آواز کو مانا ہوتا ہے.ان کے سوا سب مخلوق غلطیاں کرسکتی ہے، ناحق اور نا انصافی کر سکتی ہے اس لئے آپ لوگوں کا فرض ہونا چاہئے کہ عقل سے کام لیں.اچھی بات کو ما نہیں اور بُری کورڈ کر دیں مگر نہ ماننا بھی اسی اصل پر ہو جو قرآن کریم نے بتایا ہے.مثلاً ماں باپ اگر کہیں کہ شرک کرو تو ان کی بات نہ مانو مگر دوسرے امور میں اُن کی تابعداری اور احترام کرو.قرآن کریم میں حکم ہے کہ ماں باپ کو اُف تک نہ کہو.حتی کہ اگر وہ شرک کی تعلیم دیں تو اسے نہ ما نو مگر یہ حق پھر بھی نہیں کہ انہیں اُف کہو.پس نہ ماننے میں بھی وہ طریق اختیار کر و جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے اور جو ادب و احترام کا طریق ہے.پس ہماری جماعت کو ہر قسم کے اخلاق سیکھنے چاہئیں.خصوصاً جرات اور بہادری پیدا کرنی چاہئے.مثلاً موجودہ حالات ہی ہیں.چونکہ ہماری جماعت کی تربیت ایک خاص رنگ میں ہوئی ہے ہمارے دوست بعض باتوں میں گھبرا جاتے ہیں.حکومت کے ساتھ پہلے ہمارے معاملات اور قسم کے تھے مگر اب حکومت کے ایک حصہ کا یا بعض افسروں کا رویہ بدل گیا ہے اور وہ ذاتی عداوتوں کی وجہ سے خواہ نخواہ ہمیں دق کرتے ہیں.اگر چہ زمانہ بتا دے گا کہ وہ تمام طاقت اور قوت کے باوجود نا کام ہوں گے اور حکومت کے اعلیٰ افسروں کے سامنے ہی انہیں ذلیل ہونا پڑے گا مگر ابھی وہ زمانہ نہیں آیا.ابھی وہ اپنے ڈنڈے پر نازاں ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ ڈنڈا لو ہے کو ٹیڑھا کر سکتا ہے مگر پانی کو نہیں کر سکتا ، اور ہوا کو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.جو شخص ہوا میں ڈنڈا مارے گا وہ دوسری طرف آکر اُس کے ہاتھ پر لگے گا.مؤمن کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کثافتوں سے پاک کر دیتا اور پانی کی طرح لطیف بنادیتا ہے اس لئے جو شخص ہم پر ڈنڈا مارتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو ہی مارتا ہے.اس کی مثال اُس افیونی کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اُسے شبہ ہوا کہ اُس کے ہاں چور آتا ہے.ایک دن وہ ڈنڈا لے کر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر کے بعد اُسے پینک ، جو آئی تو اُس کا اپنا گھٹنا ہی سامنے آگیا اُس نے زور سے اس پر ڈنڈا مارا اور جب درد ہوا تو کہنے لگا کمبخت! مار تو گیا ہے مگر اسے بھی خوب لگی ہے.تو جو حکام ہم پر حملہ کرتے ہیں ان کی حالت اُس افیونی کی سی ہے وہ ہمیں نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ماررہے ہیں.ان کی مثال بالکل اُس شیخ چلی کی
خطبات محمود ۸۵ سال ۱۹۳۶ء سی ہے جو اُسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر بیٹھا تھا.درخت کے نیچے سے کوئی عقلمند گزرا تو اُس نے کی کہا بیوقوف! یہ کیا کر رہا ہے؟ تو گر جائے گا.اُس نے کہا جاؤ تم بڑے نبی آئے ہو.اُس نے کہا اس کی میں نبوت کی تو کوئی بات نہیں یہ تو عام بات ہے کہ جس شاخ پر بیٹھے ہو اُسی کو کاٹ رہے ہو یہ کٹ کر گرے گی تو ساتھ ہی تم بھی گر جاؤ گے مگر اُس نے اُس کی بات نہ مانی.تھوڑی دیر کے بعد وہ شاخ کٹ کر گری تو وہ بھی ساتھ ہی نیچے آ گرا اور پھر جلدی سے اُٹھ کر پیچھے بھاگا کہ تم تو عالم الغیب ہو بتاؤ میں کب مروں گا ؟ تو اِن افسروں کی مثال بھی شیخ چلی کی سی ہے وہ اس تنے کو کاٹ رہے ہیں جوان کی اور ساری دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے.انبیاء کو اللہ تعالی ساری دنیا کی حفاظت کا ذریعہ بنا کر بھیجتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت اور پبلک دونوں کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ہی ذریعہ دنیا میں امن قائم کرے گا کیونکہ امن کی بنیاد اب اخلاق پر ہوگی اور جو اس جماعت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے.مسلمانوں کے لئے جب بھی حقیقی نقصان کا وقت آیا ہے ہم نے ان کی مدد کی ہے اور آئندہ بھی وہ دیکھیں گے کہ ان کے مصائب کو اُٹھانے کیلئے ہماری جماعت ہمیشہ تیار رہے گی.اسی طرح ہندوستان میں اگر کبھی ہندوؤں یا سکھوں کیلئے حقیقتی نقصان کا وقت آیا تو اُس وقت بھی احمد یہ جماعت ہی ان کے بچانے کا ذریعہ ہوگی.اور اگر کوئی وقت حکومت یا برطانوی قوم پر ایسا آیا تو اُس وقت بھی ہماری جماعت ہی ان کے بچانے کا ذریعہ ہوگی کیونکہ ہماری رشتہ داری بندوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہے اور ہم دنیا میں انصاف چاہتے ہیں.باوجود یکہ ہم مسلمان ہیں لیکن اگر کوئی وقت ایسا آئے کہ مسلمان ، ہندوؤں یاسکھوں پر ظلم کریں تو اُس وقت احمدی مظلوم کا ہی ساتھ دیں گے.اور اگر رعایا حکومت پر ظلم کرے گی تو اُس وقت بھی ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے اور دیتے رہے ہیں.نادان احراری ہمیں یہ طعنے دیتے ہیں کہ ان کا دعوی تھا کہ ہم حکومت کے محافظ ہیں مگر باوجود یکہ بعض افسر ذاتی عداوتوں کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح حکومت سے بلکہ ملک معظم.غداری کر رہے ہیں مگر پھر بھی اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ حکومت پر رعایا ظلم کرے تو حکومت کا ساتھ دیں گے اور اگر حکومت رعایا پر ظلم کرے تو ہم رعایا کا ساتھ دیں گے.
خطبات محمود ۸۶ سال ۱۹۳۶ء ۱۹۲۷ء میں لاہور میں بعض سکھوں نے چند مسلمانوں کو جو نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے مار دیا.اس پر بڑا شور ہوا اور میں نے بھی اس میں دلچسپی لی.اُس وقت لاہور کے کمشنر مسٹرلینگلے تھے انہوں نے مجھے چٹھی لکھی کہ گورنر صاحب کو آپ کی جماعت پر بڑا اعتماد تھا آپ نے اس وقت کیوں ایسا رویہ اختیار کیا ہے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ ہم نے کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ہم ہمیشہ انصاف کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور یہ حکومت پر کوئی احسان نہ تھا اور اب جو میں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے تو یہ ان پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ انصاف کی حمایت کر کے اپنا فرض ادا کیا ہے.تو حکومت کی خیر خواہی کے یہ معنی نہیں کہ ہم قوم کے غدار بنیں.میرا عقیدہ ہے کہ حکومت کی وفاداری اور قوم کی خیر خواہی دونوں جمع ہوسکتی ہیں پہلے بھی یہی عقیدہ تھا اور اب بھی یہی ہے کہ حکومت کی خیر خواہی کے معنی پبلک سے غداری کے نہیں اور اسی کی طرح پبلک کی خیر خواہی کے معنی یہ نہیں کہ حکومت سے غداری کی جائے اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ بیوقوف ہے.اس لئے یہ صحیح ہے کہ حکومت کی حفاظت ہمارے ذریعہ سے ہے.میں یہ اب بھی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ظلم کی حمایت کریں گے.بے شک حکومت کی بلکہ احرار کی اور دوسرے مسلمانوں ، ہندوؤں اور سکھوں کی سب کی حفاظت ہمارے ذریعہ ہے.بظاہر یہ پاگل پن کی بات معلوم ہوتی ہے اور کوئی کہ سکتا ہے کہ ” کیا پدی اور کیا پدی کا شور با مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ بیج ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے مگر اس سے بڑا درخت بن جاتا ہے.ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر سے درخت نکل رہا ہے.بڑ کے بیج کو دیکھنے والا اسے ایک چھوٹا سا دانہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس نے کیا بڑھنا ہے مگر پیچ جانتا ہے کہ اس کے اندر کس قدر بڑھنے کی طاقت ہے.بے شک اس وقت ہم کمزور ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم نے دنیا پر چھا جانا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی حفاظت ہمارے ذریعہ ہوگی.اگر ہم اس دعوے میں جھوٹے ہیں تو زمانہ اسے ظاہر کر دے گا اور اگر سچے ہیں تو بھی زمانہ ظاہر کر دے گا اور ظاہر کر بھی رہا ہے.ہماری جماعت پر پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس عرصہ میں ہماری کیا کیا مخالفتیں نہیں کی گئیں اور ہمارے خلاف کیا کیا شرارتیں نہیں ہوئیں مگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اگر کبھی نہیں بڑھتے تو یہ ہماری اپنی کمزوری ہوتی ہے جیسے دانے کے اپنے اندرا اگر کوئی نقص ہو تو وہ نہیں بڑھے گا
خطبات محمود ۸۷ سال ۱۹۳۶ء اسی طرح ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اگر رکیں تو رکیں ورنہ خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر بے انتہاء قابلیتیں رکھی ہیں.پس ہم حکومت کے بھی خیر خواہ ہیں اور عایا کے بھی مگر بعض افسر ہماری بلا وجہ مخالفت کر رہے ہیں.اب انہوں نے پینترا بدلا ہے.پہلے انہوں نے بعض بیوقوفوں کو آلہ کار بنایا تھا مگر جب دیکھا کہ یہ بیوقوف تو ہمیں بھی بد نام کر رہے ہیں تو اب ایسا رویہ اختیار کیا ہے جو بظاہر زیادہ محتاط ہے مگر ظلم اب بھی موجود ہے اور مجھے امید ہے کہ جس طرح انہیں پہلے شکست ہوئی ہے اب بھی ہوگی کیونکہ ہمارا مدار تدابیر پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر ہے.ایک دفعہ ایران کے بادشاہ نے گورنر یمن کو لکھا کہ رسول کریم ﷺ کو گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دیا جائے.گورنر نے بعض آدمی مدینہ میں بھیجے جنہوں نے جا کر کہا کہ ہمارے شہنشاہ کا ایسا حکم ہے.آپ نے انہیں فرمایا کہ ٹھہر وہم دو تین دن تک جواب دیں گے.جب ایک دو دن گزر گئے تو انہوں نے کہا کہ دیر ٹھیک نہیں گورنریمن نے کہا ہے کہ بادشاہ نے غلط خبروں کی بناء پر ایسا حکم دیا ہے آپ آجا ئیں تو میں سفارش کروں گا.آپ نے فرمایا کہ ٹھہر وہم جواب دیں گے.اگلے روز انہوں نے پھر از راہ نصیحت کہا کہ دیر اچھی نہیں بادشاہ بگڑ جائے گا.آپ نے فرمایا کہ جاؤ اپنے گورنر سے کہہ دو کہ ہمارے خدا نے اس کے خدا کو مار دیا ہے.انہوں نے پھر خیر خواہی کے طور پر کہا آپ انکار نہ کریں بادشاہ ناراض ہو گیا تو آپ کی ساری قوم کو تباہ کر دے گا مگر آپ نے فرمایا کہ بس جاؤ اور یہ جواب دے دو.وہ چلے گئے اور گورنر کو یہ جواب دے دیا.اُس نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے اگر یہ بات ٹھیک نکلی تو یہ شخص سچا ہو گا.چند روز کے بعد ایک جہاز ایران سے آیا جس میں سے کچھ افسر نکلے اور انہوں نے گورنر کو ایک سر بمہر لفافہ دیا.مُہر کو دیکھتے ہی گورنر نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات کچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ خط پر مہر نئی تھی.جب اس نے لفافہ کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ ہمارا باپ ظالم تھا اس لئے ہم نے اسے قتل کر کے زمام حکومت خود سنبھال لی ہے تم لوگوں سے ہماری وفاداری کا عہد لو.نیز ہمارے باپ نے مدینہ کے ایک شخص کے متعلق ایک ظالمانہ حکم دیا تھا ہم اسے بھی منسوخ کرتے ہیں ہے.پس جو جماعتیں خدا تعالیٰ سے تعلق کر لیتی ہیں وہ بندوں سے نہیں ڈرا کرتیں.حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکانے والے کتنے خوش تھے کہ ہم نے عیسائیت کا خاتمہ
خطبات محمود ۸۸ سال ۱۹۳۶ء کر دیا مگر اس پر آج انہیں سو سال گزر چکے ہیں اور وہ قوم آج بھی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے اور اُسے کہیں پناہ نہیں ملتی.انگریزوں نے ان کیلئے فلسطین تلاش کیا مگر وہاں بھی مسلمان ان کی مخالفت کر رہے ہیں.اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہود کو فلسطین میں بسانا ظلم ہے جب بھی مسلمانوں کو طاقت ملی وہ اپنا حق ضرور واپس لیں گے اور ان کو نکال دیں گے تو اس قوم کو کہیں بھی امن نہیں.پہلے انگریزوں کے ملک میں انہیں امن تھا مگر اب ان میں بھی ایک ایسی قوم پیدا ہو رہی ہے جو یہود کو نکالنا چاہتی ہے.یہ فیسی اسٹ پارٹی ہے.فاسی ازم ایک تحریک ہے جس کی بنیاد مسولینی نے اٹلی میں رکھی تھی.انگریزوں کے ملک میں یہ جماعت ابھی زور والی نہیں مگر ترقی کر رہی ہے.درد صاحب گزشتہ ایام میں ان افسروں کے ظالمانہ رویہ کے سلسلہ میں جو ہمارے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں ان کے بعض لیڈروں سے بھی ملے تھے.دورانِ ملاقات انہوں نے بتایا کہ ہمارا بھی جرمنی کے لوگوں کی طرح یہ خیال ہے کہ یہودیوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے دیا جائے.غرض یہود نے سمجھا تھا کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر لٹکا دیا مگر دراصل وہ یہودیت کو صلیب پر لٹکا رہے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام تو تین گھنٹہ کے بعد صلیب سے اُتر آئے مگر یہود کو صلیب پر لٹکے ہوئے آج انیس سو سال گزر گئے ہیں.پس ہمیں افسروں کی مخالفت کا ڈر نہیں وہ ہمیں نہیں بلکہ دراصل اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جبکہ وہی حکومت جس کے دبد بہ اور گھمنڈ کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے ہیں ان کو گرفت کرے گی لیکن حالات ایسے ہیں کہ ہمارے آدمیوں کو بھی اِس سلسلہ میں بعض مشکلات میں سے گزرنا پڑے گا.ہماری جماعت حکومت سے تعاون کی عادی ہے اور اب ایک نئے رنگ کے تعاون کا سوال در پیش ہے اس لئے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی پولیس والے کی شکل دیکھیں تو سمجھیں کہ یہ نئی قسم کا خطرہ ہے.اس رنگ میں بھی انہیں اپنے اندر بہادری پیدا کرنی چاہئے.اگر تم ناحق پر ہو تو کوئی پولیس والا آئے یا نہ آئے تمہیں چاہئے کہ اس سے ڈرو.ظلم اور جھوٹ بڑی خطرناک چیزیں ہیں اور وہ دل جس میں جھوٹ اور ظلم ہو بھی نہیں پنپتا خواہ ساری دنیا اُس کی حمایت کرے اور اگر تم حق پر ہو تو خواہ حکومت اور کانگرس اور رعایا سب مل کر بھی تمہیں پکڑنا چاہیں تو مت ڈرو.اپنے اندر ہرقسم کی دلیری پیدا کرو جہاں بھی بے انصافی دیکھو اس کا مقابلہ کرو
خطبات محمود ۸۹ سال ۱۹۳۶ء مگر محبت اور پیار سے ظلم کا مقابلہ بھی پیار سے کرو.دیکھو! قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ جو لوگ تم پر ظلم کرتے ہیں اُن کا مقابلہ کرو مگر زیادتی کی اجازت نہیں دی.پس تم کسی چیز سے نہ ڈرو مگر ظلم کرنے سے ضرور ڈرو.اگر حکومت گرفت کرتی ہے تو مت ڈرو، اگر رعایا پکڑتی ہے تو مت ڈرو، اگر ماں باپ یا بیویاں یا اولاد تمہیں حق سے پھیرنا چاہتی ہے تو اس کا مقابلہ کرو.غرض کسی خطرہ سے نہ ڈرو مگر خدا تعالیٰ کا خوف ہر وقت دل میں رکھو اور ہر وقت خیال رکھو کہ انصاف اور دیانت ہاتھ سے نہ جائے.بہت سے انسان ظلم کے مقابلہ میں ظلم کرتے ہیں مگر تم ظلم کا مقابلہ انصاف اور دیانت سے کرو.اپنے اندر بہادری پیدا کر و جولوگ بہادر ہو جاتے ہیں وہ ضرور دنیا کو مغلوب کر کے رہتے ہیں اور بہادری کے ساتھ اگر ایمان بھی ہو تو دیکھنے والا کانپ جاتا ہے.ایک جنگ کے بعد رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے ایک شخص اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے بڑی دُور تک چلا آیا.صحابہ ایک جگہ آرام کرنے کیلئے لیٹے تو انہوں نے غلطی.رسول کریم ﷺ کیلئے پہرہ کا کوئی انتظام نہ کیا اور خیال کیا کہ تھوڑی دیر ٹھہرنا ہے اور اس جنگل میں کون حملہ کرنے آئے گا ؟ رسول کریم ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے سو گئے وہ دشمن آیا اور آپ ہی تو کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی اُتار کر اُس نے آپ کو جگایا اور پوچھا کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے سادگی سے فرمایا اللہ ہے اور اس بہادرانہ ایمانی رنگ کا اُس پر ایسا اثر ہوا کہ اُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.آپ نے اُسے اُٹھایا اور پوچھا اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا کہ نہیں اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے جاؤ چلے جاؤ.تو بہادری اور ایمان بڑا رعب پیدا کر دیتے ہیں.پس یہ دونوں چیزیں اپنے اندر پیدا کرو کہ یہ دونوں جس کے اندر جمع ہو جائیں اس کے سامنے تمام دنیا کی طاقتیں خس و خاشاک کی مانند بہتی چلی جاتی ہیں اور جس طرح آندھی کے آگے تنکے اُڑتے پھرتے ہیں یہی حالت تمام طاقتوں کی اُس کے آگے ہوتی ہے.اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے کس لئے پیدا کیا ہے.کسی پر ظلم نہ کرو اور جتنی طاقت ملتی جائے ثمر ور درخت کی طرح اتنے ہی جھکتے جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسی لئے پیدا کیا ہے.اور اگر اس غرض کو تم پورا نہیں کر سکتے تو جس طرح پہلے لوگ اس کی لعنت کے مور د ہو گئے اسی طرح تم ہو گے.پس اپنے دلوں میں عہد کرو کہ خدا تعالی تمہیں
خطبات محمود ۹۰ سال ۱۹۳۶ء جتنی طاقت دے گا اُتنا ہی دنیا میں عدل و انصاف قائم کرو گے اور اگر تم ایسا کر لو تو پھر تم دنیا میں چلتے پھرتے فرشتے بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور نصرتیں ناک، کان اور آنکھ کی طرح جو باہر سے نہیں آتیں بلکہ اندر سے ہی پیدا ہوتی ہیں تمہارے اندر گھر کر لیں گی اور ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی.ل الهام منظوم دفتر دوم صفحه ۲۸۴ (الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۳۶ء) مسلم كتاب صفات المنافقين باب تحريش الشيطان (الخ) بخاری کتاب الرقاق باب التواضع ه فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُقٍ (بنی اسرائیل:۲۴) پینک: افیون یا پوست کی اونگھ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع
خطبات محمود ۹۱ سال ۱۹۳۶ء معذور سے معذور احمدی بھی خدمت دین میں ارادہ نیک اور دُعا کے ذریعہ حصہ لے سکتا ہے فرموده ۲۸ رفروری ۱۹۳۶ء) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں ۱۹۳۴ء میں جو امور جماعت کے سامنے پیش کئے تھے وہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں سب بیان ہو چکے ہیں سوائے اس کے جسے میں نے انیسواں مطالبہ قرار دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا کے تمام انسانوں کیلئے بنایا ہے اور ہر انسان کو اس کی خدمت اور اس کی اعانت کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور ہر انسان کو ان انعامات کا حصہ دار قرار دیا ہے جو انعامات اسلام کی اعانت اور اس کی تائید کی وجہ سے انسان کو حاصل ہو سکتے ہیں مگر بہت سی تجویزیں اور بہت سی تحریکیں اور بہت سی تدبیریں جو اسلام کی ترقی کیلئے کی جاتی ہیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہر انسان ان میں حصہ نہیں لے سکتا.مثلاً مالی تحریک ہے دنیا میں کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پاس مال نہیں رکھتے اور اس وجہ سے مالی تحریکات میں حصہ نہیں لے سکتے.یا کئی جانی تحریکیں ہیں کہ جن میں ہر انسان حصہ نہیں لے سکتا.کوئی معذور ہوتا ہے، کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی لول النگڑا ہوتا ہے اور کوئی بوڑھا ہوتا ہے.غرض کئی قسم کی معذوریاں ایسی ہوتی کہ ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ جسمانی خدمات سے محروم ہو جاتے ہیں.پھر کئی فنی با تیں ہوتی ہیں اور اہل فنون ہی ان میں حصہ لے سکتے ہیں دوسرے ان میں حصہ لینے سے محروم رہتے ہیں.مثلاً زخمیوں کی مرہم پٹی.
خطبات محمود ۹۲ سال ۱۹۳۶ء ہے اگر کسی وقت اس خدمت کا موقع ملے تو اس میں ایسے ہی مرد اور عورتیں حصہ لے سکتی ہیں جنہیں مرہم پٹی کرنا آتا ہو، یا اگر کسی وقت آہن گری کے علم کی ضرورت پڑے تو آہن گر ہی کام آ سکتا ہے، یا نجاری کے متعلق ضرورت محسوس ہو تو مجا ر ہی کام آئے گا دوسرے لوگ نہیں، یا اگر معماری کے سلسلہ میں بعض لوگوں کی خدمت کی ضرورت ہو تو معمار ہی قربانی کر سکتا ہے دوسرے لوگ نہیں کر سکتے.پس با وجود تمام کوششوں اور نیک ارادوں کے پھر بھی بنی نوع انسان کا ایک حصہ ایسا رہ جاتا ہے جو جانی یا مالی یا فنی خدمات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتا اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم جو تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے جس میں غریب بھی شریک ہیں اور امیر بھی ، بڑے بھی شریک ہیں اور چھوٹے بھی ، معذور بھی شریک ہیں اور غیر معذور بھی عورتیں بھی شریک ہیں اور مرد بھی، بچے بھی شریک ہیں اور بوڑھے بھی ، اس اسلام کے کسی حکم پر جو لوگ لبیک کہنے سے معذور ہوں وہ کیا کریں؟ جب اسلام مالی تحریک کیلئے بلائے تو غرباء کیا کریں؟ جب جسمانی تائید کیلئے بلائے تو ا پا نچ کیا کریں؟ جب کھلے میدانوں میں کام کرنے کیلئے بلائے تو عورتیں کیا کریں؟ جب طاقت وقوت کا مظاہرہ چاہئے تو اس وقت بچے اور بوڑھے اور بیمار کیا کریں؟ اور جس وقت علم کی استمداد چاہئے اس وقت جاہل اور ان پڑھ کیا کریں؟ غرض کوئی علاج اسلام میں ایسا بھی ہونا چاہئے اور کوئی تدبیر اس قسم کی بھی ہونی چاہئے کہ ہر شخص جو مسلمان کہلاتا ہے چاہے وہ کسی حالت میں پڑا ہوا ہو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہہ سکے اور اپنی طاقت وقوت کے مطابق اس میں حصہ لے سکے تا بنی نوع انسان میں سے کوئی انسان ایسا نہ ہو جو یہ کہہ سکے کہ اے خدا! تیری آواز دوسروں کیلئے تو تھی مگر میرے لئے نہیں تھی ، اور تا کوئی ایسا بندہ نہ ہو جسے خدا تعالیٰ کہے کہ ا تو میرے دین کی خدمت نہیں کر سکتا تھا ؟ پس نہ بندے کیلئے موقع ہونا چاہئے کہ وہ حسرت کا اظہار کرے اور کہے کہ میں دین کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہمارا خالق اپنے کسی بندے سے کہے کہ تو میرے دین میں کسی مصرف کا نہ تھا.ہمارا خدارت العالمین ہے اور رب العالمین کی آواز تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے.چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور ، جوان ہوں یا ادھیڑ عمر کے، بچے ہوں یا بوڑھے، عالم ہوں یا جاہل ، پھر خواہ وہ فنون سے واقفیت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، مال رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں اور بنی نوع انسان میں سے ہر شخص کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی طاقت کی
خطبات محمود ۹۳ سال ۱۹۳۶ء ہونی چاہئے جس سے خدمت دین میں کام لے کر وہ فخر کر سکے اور کہہ سکے کہ میں نے بھی ا.رت کی آواز کو سنا اور اس کا جواب دیا.بے شک اللہ تعالیٰ بے انتہا ء رحم کرنے والا ہے اور وہ اپنے رحم سے جس کو چاہے بخش دے کون اُس کے ہاتھ کو روک سکتا ہے.اگر وہ فیصلہ کر دے کہ نمرود اور شداد اور فرعون کو جنت میں داخل کر دیا جائے تو کون اسے روک سکتا ہے.یا فیصلہ کر دے کہ عقبہ یا شیبہ اور ابو جہل کو معاف کر دیا جائے تو کون اسے منع کر سکتا ہے.وہ مالک اور آقا ہے کون ہے جو اس پر اعتراض کرے، کون ہے جو اس کے ہاتھ کو روک سکے.پس وہ ان بوڑھوں، اپاہجوں، کمزوروں، ناطاقتوں اور جاہلوں کو اپنے فضل سے جنت میں لے جاسکتا ہے جنہیں اس کے دین کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ ملا ہو.مگر سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں کیا احساس ہوگا.بے شک ایک رنگ میں سب ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے نجات پائیں گے.رسول کریم ﷺ نے بھی اہل بیت میں سے ایک کے سوال پر فر مایا تھا کہ میری نجات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.یہ سب سچ ہے مگر ایک فضل اعمال کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور ایک بغیر اعمال کے فضل ہوتا ہے.ایک مؤمن کا جنت میں جانا اور ایک کا فر کا جنت میں جانا دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہیں مگر ان دونوں میں بہت بڑا فرق بھی ہے.ایک مؤمن کی گردن فخر سے اونچی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے میں نے اپنے رب کی آواز کو سنا اور اس پر حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا اور جنت میں داخل کر دیا مگر کافر کی گردن شرم سے نیچی ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں نے اپنے رب کی آواز کوسنا اور اس کا انکار کیا مگر پھر بھی ا.فضل سے مجھے جنت میں داخل کر دیا.پس گونتیجہ ایک ہے مگر دونوں کے ذرائع میں فرق ہے اور اپنے دونوں کے احساسات اور جذبات میں فرق ہے.یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم ایک ہی دستر خوان پر اپنے بچے کو بٹھاؤ اور اسی پر ایک فقیر کو بٹھا دو.بے شک کھانا ایک ہو گا مگر تمہارا بچہ جب کھانا کھا رہا ہوگا تو گو وہ سمجھے گا کہ مجھ پر میرے باپ کا احسان ہے مگر وہ ساتھ ہی کہے گا میرا حق بھی ہے کہ میں کھاؤں لیکن وہی کھانا فقیر کھائے گا اور کہے گا میرا حق تو نہیں صرف اس کی نوازش ہے جس نے مجھے اپنے دستر خوان پر بٹھا لیا.تو چیز ایک ہے ، نظارہ ایک ہے ، مزہ ایک ہے لیکن احساس اور جذبات مختلف ہیں.اسی طرح بے شک یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس اپاہج ، اس
خطبات محمود ۹۴ سال ۱۹۳۶ء جاہل ، اس غریب اور اس کمزور کو بھی جنت میں لے جاسکتا ہے جس نے دین کی کوئی خدمت نہ کی ہومگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے دوسرے مؤمن بھائیوں کے سامنے گردن کس رنگ میں اُٹھائے گا.ایک مؤمن جس نے تمام عمر جہاد میں گزار دی اور مرنے کے بعد خدا تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کیا وہ کہے گا میں بے شک کمزور ہوں مگر خدا تعالیٰ نے مجھے جس قدر طاقتیں دیں ان کے مطابق میں نے اس کی راہ میں کام کیا اور اس نے مجھے جنت میں داخل کر دیا.ایک مؤمن جس کی نے دنیا میں مالی قربانی کی اور مرنے کے بعد خدا تعالیٰ نے اسے جنت دے دی وہ کہے گا کہ میں بالکل کمزور تھا اور مال خدا تعالیٰ کا ہی عطا کردہ تھا مگر اُسی کی توفیق کے ماتحت میں نے وہ مال اس کی راہ میں خرچ کیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے جنت دے دی.ایک اہلِ فن اور حرفہ جس نے دین کی خدمت کیلئے اپنی فتنی زندگی وقف کر دی اور مرنے کے بعد جنت میں داخل ہوا وہ کہے گا میں بے شک کچھ نہیں کر سکتا تھا اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ اُس نے مجھے فن اور حرفہ سکھا یا مگر میں ان سے تو اچھا رہا جنہیں خدا تعالیٰ نے فن اور حرفہ سکھایا اور انہوں نے اپنے رب کی آواز بھی سنی مگر اس پر عمل نہ کیا میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے خرچ کر دیا اور جوفن آتا تھا اس سے دین کی خدمت کر دی.مگر جو مؤمن نہ اپنے پاس مال رکھتا تھا کہ مالی خدمت کرتا، نہ طاقت رکھتا تھا کہ جسمانی خدمات بجالا تا اور جہاد کرتا ، نہ علم رکھتا تھا کہ تبلیغ کر سکتا ، وہ مؤمن جس کو ایمان تو نصیب ہوا لیکن زبان نصیب نہ ہوئی کہ اس سے کام لے، وہ مؤمن جسے ایمان تو نصیب ہوا مگر ہاتھ نصیب نہ ہوئے کہ ان سے کام لے، وہ مؤمن جسے ایمان تو نصیب ہوا لیکن پاؤں نصیب نہ ہوئے کہ ان سے خدا تعالیٰ کی راہ میں کام لے سکے بے شک وہ جنت میں داخل ہو جائے لیکن بتاؤ وہ کیا کہے گا ؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ میرے رب نے مجھے انسان تو بنایا لیکن انسانی کاموں کی توفیق نہ دی اور اب مجھے جنت میں لے تو آیا ہے مگر جنت کے حصول کے کاموں میں میرا کوئی حصہ نہیں.کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ہمارا خدا جو غیور خدا ہے جو اپنے بندوں پر انتہائی رحم و شفقت کرنے والا ہے اس نے بندوں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا ہوگا اور ان کی اس حسرت کا کوئی علاج نہ کیا ہوگا ؟ میں نے ۱۹۳۴ ء میں بتایا تھا کہ ہمارے خدا نے ایک تدبیر بتائی ہوئی ہے جس سے وہ اپا نچ جو ہاتھ نہیں ہلا سکتے ، وہ گونگے جن کی زبان نہیں، وہ غریب جن کے پاس مال نہیں ، وہ کمزور
خطبات محمود ۹۵ سال ۱۹۳۶ء اور نحیف جو چار پائی سے اُٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ، وہ سب اُس وقت تک کہ وہ انسان کہلاتے ہیں اور انسان رہتے ہیں ویسی ہی دین کی خدمت کر سکتے ہیں جیسے وہ تندرست جو جہاد میں شامل ہوتے ہیں اور جیسے وہ مجاہد جو دین کی خدمت کیلئے اپنے ملکوں سے باہر جاتے ہیں.وہ کیا چیز ہے؟ وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ ارادہ نیک اور دعائے اضطرار اعمال حسنہ میں سے ایک بہت بڑا عمل ہے.لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہاتھ پاؤں کا ہلانا ہی عمل ہے مگر قرآن مجید نے دنیا کے سامنے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ دل کا مستقل ارادہ بھی عمل ہے اور دعا بھی عمل ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ جب ایک جہاد میں تشریف لے گئے جس میں مسلمانوں کو بہت سی دقتیں پیش آئیں تو آپ کو محسوس ہوا کہ بعض صحابہ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ انہوں نے دین کی خدمت دوسروں سے نمایاں طور پر کی ہے اس پر آپ نے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کچھ لوگ مدینہ میں ایسے رہتے ہیں کہ تم کسی وادی میں سے نہیں گزرتے اور کوئی تکلیف خدا تعالیٰ کے رستہ میں برداشت نہیں کرتے مگر جس طرح تمہیں ثواب ملتا ہے اسی طرح انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب مل رہا ہے.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ کیونکر ہم اسلام کی خدمت کیلئے باہر نکلے ہوئے ہیں ، خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو قربان کر کے طرح طرح کی تکلیفیں اُٹھارہے ہیں اور وہ مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہیں پھر وہ اسی ثواب کے مستحق کیونکر ہو سکتے ہیں جس کے ہم ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر جن کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ وہ معذور لوگ ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ پاؤں ہوتے تو وہ بھی جہاد کیلئے نکلتے ، اگر ان کے پاس مال ہوتا تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ کرتے ، اگر ان کے پاس طاقت ہوتی تو وہ بھی اس سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے مگر ان کے پاس کچھ نہیں وہ معذور ہیں اور اپنی معذوری کو دیکھ کر ان کے دل مدینہ میں بیٹھے خون ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کاش! ہمارے پاس مال ہوتا ، کاش! ہمارے پاس طاقت ہوتی تو آج ہم بھی جہاد کرتے.پس وہ خدا تعالیٰ کے حضور تم سے کچھ کم ثواب کے مستحق نہیں بلکہ ویسے ہی ثواب کے مستحق ہیں جیسے تم ہو اور گوان کے پاس سامان نہیں مگر ان کا ارادہ یہی ہے کہ اگر سامان ہوتا تو ہم اس سے کام لے کر خدا تعالیٰ کی راہ میں
خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۶ء نکل کھڑے ہوتے ہے.پس ان کا ارادہ خود عمل ہے اور وہ بھی ویسے ہی ثواب کا مستحق ہے جیسے اور انسانی اعمال.حقیقت یہ ہے کہ نیک ارادہ ، نیک عمل سے مشکل ہوتا ہے.تم نیک عمل منافقت سے کر سکتے ہو مگر تم نیک ارادہ منافقت سے نہیں کر سکتے.ایک کمزور سے کمزور انسان منافقت کے ساتھ نیک عمل کر سکتا ہے مگر ایک طاقتور سے طاقتور انسان منافقت کے ساتھ نیک ارادہ نہیں کر سکتا.پس ارادے کی طاقت عمل سے زیادہ ہوتی ہے تم عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہولیکن ارادہ کو اُس وقت تک اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتے جب تک تم اپنے ذہن میں اس ارادہ کے مطابق تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو جاؤ.پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہاتھ پاؤں کا عمل زیادہ قیمتی شے ہے اور دل کا عمل بے حقیقت شے ہے.خصوصاً جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل ارادے کے تابع ہے.جب ارادہ طاقت پکڑ لیتا ہے تو جس میں قوت عمل نہ ہو اس کی سے بھی اپنے منشاء کے مطابق عمل کرالیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ سے یعنی عمل نیتوں کے تابع ہوتے ہیں.جیسے جیسے نیت بدلتی جاتی ہے اس کے مطابق اعمال کی شکل بھی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے اور ایک ہی کام جو ایک کیلئے ترقی اور روحانی بلندی کا موجب ہوتا ہے نیت کے بدل جانے کی وجہ سے دوسرے کیلئے ذلت اور رسوائی کا موجب بن جاتا ہے.صلى الله چنانچہ دیکھ لو وہ نماز جو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے، وہ نماز جو الہی محبت میں بیتاب ہوکر جب ادا کی جاتی ہے تو انسان کو خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے.وہی نماز ایک دوسرے وقت میں دوسرے انسان کیلئے باوجود یکہ نماز کی وہی شکل رہتی ہے ، عبارتیں وہی پڑھی جاتی ہیں، وقت اتنا ہی خرچ کیا جاتا ہے بلکہ زیادہ کیونکہ اس میں ریاء کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے دُکھ اور عذاب کا موجب بن جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ، کہ ایک نمازی ایسے ہوتے ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے تو نیتوں کی تبدیلی کی وجہ سے انسانی اعمال کی شکل بالکل تبدیل ہو جاتی ہے.ایک ڈاکٹر بھی مریض کے جسم میں چاقو مارتا ہے اور ایک قاتل بھی چاقو مارتا ہے مگر ایک کو تم فیس دیتے اور دوسرے کو پھانسی کی سزا دلوانے کی کوشش کرتے ہو.مارتے دونوں چاقو ہیں مگر ایک کے تم ممنونِ احسان ہوتے ہو اور دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہو اس کی کیا
خطبات محمود ۹۷ سال ۱۹۳۶ء وجہ ہے؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے پیچھے مختلف ارادے کام کر رہے ہوتے ہیں.ایک کا ارادہ شفا دینے کا ہوتا ہے اور دوسرے کا ارادہ چاقو مار کر ہلاک کرنا ہوتا ہے.پس اعمال ہمیشہ ارادہ کے تابع ہوتے ہیں اور جب کوئی خدمت دین کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور ہر وقت یہ خیال اُس کے دل پر غالب رہتا ہے کہ کاش! اُس کو توفیق ملتی اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خدمت دین کر سکتا لیکن سامانوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس ارادہ کو عملی صورت میں ظاہر نہیں کر سکتا تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور ویسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے خدمت دین کرنے والا اور یہ نیک ارادہ اُسے دوسرے سے پیچھے نہیں کرتا بلکہ ان کے برابر رکھتا اور خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اس قسم کے ارادہ کو عمل سمجھتا ہے بلکہ اعمال میں بہت بڑا عمل قرار دیتا ہے.جو شخص مضبوط ارادہ دین کی خدمت کا رکھتا ہے وہ ویسا ہی جیسے خدمت دین عملی صورت میں کرنے والا بشر طیکہ ارادہ کے ساتھ عمل کی قوت اُس میں نہ ہو.اور اگر عمل کی قوت تو ہو لیکن صرف ارادے پر اکتفا کرے تو وہ منافق ہے اور اس قسم کا ارادہ بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جذب کرنے کے اس کے عذاب کا موجب بن جاتا ہے.لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ارادہ اور خیال میں فرق نہیں کرتے حالانکہ خیال اور چیز ہے اور ارادہ اور چیز.لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جب ان کے دل میں کوئی نیک خیال پیدا ہو تو وہی ارادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ اس دھوکا میں آسکتے ہیں کہ گویا ان کے نیک ارادے ہیں حالانکہ وہ ارادے نہیں بلکہ خیالات ہوتے ہیں اور خیال اور ارادہ میں وہی فرق ہوتا ہے جو ایک باپ اور اجنبی آدمی کے احساسات میں اُس وقت فرق ہوتا ہے جب وہ بچہ کو دیکھتے ہیں.بچہ وہی ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں اس کے وہی ہوتے ہیں، خدو خال وہی ہوتا ہے لیکن جب اسے باپ دیکھتا ہے تو اس کے دل میں اور قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور جب اجنبی دیکھتا ہے تو اور قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں.دونوں کے دل میں بچہ کو دیکھ کر خیال تو پیدا ہوتا ہے مگر ایک ادنی خیال ہوتا ہے اور ایک اعلیٰ.اسی طرح ارادہ اور خیال میں فرق ہے.ارادہ اس قوت کو کہتے ہیں جس کے ماتحت اعمال صادر ہوتے ہیں اور خیال اس علم کو کہتے ہیں جو کسی کے متعلق حاصل ہو.تمہارے دل میں ہزاروں بار ایک چیز کا خیال آسکتا ہے بغیر اس کے کہ تم اس کا ارادہ کرو اور گو ارادہ سے خیال جدا نہیں ہوتا لیکن خیال ހނ
خطبات محمود ۹۸ سال ۱۹۳۶ء الله ارادہ بسا اوقات جدا ہوتا ہے اور خیال بغیر ارادہ کے علم کی ایک کیفیت ہے اور ارادہ علم اور عمل دونوں کا جامع ہے.گویا وہ مقام جس میں علم اور عمل باہم ملتے ہیں اور جب انسان یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں نے فلاں کام کرنا ہے اور اپنا قلب اور اس کا تمام ماحول اس کیلئے لگا دیتا ہے اس کو ارادہ کہتے ہیں اور اس طرح ارادہ ، اعمال کا خالق ہوتا ہے مگر محض خیال عمل کا خالق نہیں ہوتا.یہی چیز ہے کہ جب مذہبی امور کے متعلق ہو تو اسے ایمان کہتے ہیں ایمان خیال کا نام نہیں.ہزاروں ہندو ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں ، ہزاروں عیسائی ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں ، ہزاروں سکھ ہیں جو رسول کریم ﷺ کوسا سمجھتے ہیں مگرتم نہیں کہتے کہ وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ صداقت کا محسوس کر لینا علم ہے ایمان نہیں.ایمان اُس حالت کو کہتے ہیں جب انسان اس کے تابع ہو اور وہ اپنے نفس کو گلی اسی طرف لگا دے اور زندگی کو اس ایمان کے طریق پر ڈھال لے.پس خالی صداقت کا قائل ہونا ایمان نہیں بلکہ یقین کے اس مرتبہ کو پہنچ جانا کہ اعمال آپ ہی آپ اس کے مطابق ڈھلتے جائیں ایمان کہلاتا ہے.بے شک کمزور حالت میں ایمان مخفی بھی ہو سکتا ہے مگر اس مخفی ایمان کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ عمل مخفی کرتا ہے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ عمل کرتا ہی نہیں.مثلاً قرآن مجید میں آل فرعون میں سے ایک شخص کے متعلق آتا ہے کہ يَكْتُمُ اِيْمَانَهُ ه وه اپنے ایمان کو چھپاتا تھا.اس کے صرف یہ معنی نہیں کہ وہ دل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سچا سمجھتا تھا بلکہ یہ ہیں کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکا تھا صرف اعمال اس کے ظاہر نہ تھے لیکن ایمان در اصل عمل کے بغیر ہوتا ہی نہیں.لیکن اس ایمان سے حقیقی ایمان مراد ہے رسمی ایمان مراد نہیں.ایک ایمان نام کا ہوتا ہے جیسے قرآن مجید میں آتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہوتے 1.لیکن چونکہ ظاہری طور پر وہ ایمان کا دعوی کرتے ہیں ، قرآن مجید پر ایمان رکھنے کا ادعا کرتے ہیں اس لئے ظاہری شکل کی وجہ سے ہم اسے ایمان کہہ دیتے ہیں حقیقت کی رو سے نہیں.جیسے مٹی کے بنے ہوئے آم ، یا مٹی کے بنے ہوئے سنگترے کو بھی ہم آم اور سنگترہ ہی کہتے ہیں اگر چہ ان میں آم اور سنگترہ کی حقیقت نہیں ہوتی.پس چونکہ انسان کے نیک ارادے اور نیک خیال میں امتیاز مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ امتیاز عمل سے ظاہر ہو جاتا ہے.نیک ارادہ کے ماتحت انسان سے آپ ہی آپ اس کے مطابق عمل بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے 09
خطبات محمود ۹۹ سال ۱۹۳۶ء لیکن نیک خیال کے ماتحت عمل کا پیدا ہو جانا ضروری نہیں ہوتا.پس نیک ارادہ اور نیک خیال میں یہی فرق ہے کہ نیک بات کے متعلق خیال پیدا ہو کر بھی عمل کی حالت ابھی بہت دور ہوتی ہے لیکن نیکی کے ارادہ کے بعد ساتھ ہی عمل بھی شروع ہو جاتا ہے.جس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک نے صرف خیالات تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور دوسرے نے عمل بھی شروع کر دیا.مگر بہر حال یہ سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ وہ کمزور اور بے کس جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دی مگر سامانوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کوئی خدمت دین کا کام نہیں کر سکتے ان کیلئے کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے ان کی عملی قوت برقرار رہے اور وہ بھی کہہ سکیں کہ ہم نے بھی خدا تعالیٰ کے دین کی لئے جو طاقتیں ہمیں میسر تھیں لگا دیں.وہ عمل جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بتایا تھا دعا ہے.دعا ان اعمال میں سے ہے جس کیلئے کسی مال کی ضرورت نہیں ،کسی علم کی ضرورت نہیں ، کسی فن کی ضرورت نہیں ، کسی طاقت وقوت کی ضرورت نہیں ، اگر کسی کے ہاتھ نہیں کہ وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا کر سکے، اگر کسی کی کمر میں ہلنے جلنے کی طاقت نہیں کہ وہ چار پائی سے اُٹھ کر نماز کی حرکات ادا کر سکے تب بھی وہ دعا کر سکتا ہے کیونکہ دُعا ان چیزوں کی محتاج نہیں بلکہ اگر اس کی پیٹھ کر گئی ہے تو وہ لیٹار ہے اور دعا کرے.اگر اس کی زبان پر فالج گرا ہوا ہے اور وہ دعا کیلئے اپنی زبان نہیں ہلا سکتا تو دماغ میں دعائیہ فقرات کو دُہرائے.اور اگر اس کا دماغ بھی جاتا رہے تو پھر وہ انسانیت سے نکل گیا.ایسا انسان زندوں کی بجائے وفات یافتہ لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے اور اُس کا زمانہ عمل ختم ہو جاتا ہے.لیکن جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اور انسانیت کی حدود سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتا اُس وقت تک معذور سے معذور انسان بھی عمل کر سکتا ہے اور وہ دعا کا عمل ہے.اسے خدا تعالیٰ نے باقی اعمال سے کم حیثیت نہیں دی بلکہ یقیناً زیادہ حیثیت دی ہے.سارے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم جہاد کرو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آ جاؤں گا، سارے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آ جاؤں گا ، سارے قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو میں ضرور تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا.غرض کسی عمل کے متعلق قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ اس کے نتیجہ میں ضرور خدا تعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہو جاتا ہے مگر ایک عمل ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ
خطبات محمود 100 سال ۱۹۳۶ء نے کہا ہے کہ اگر کوئی وہ عمل کرے تو میں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور وہ دعا ہے.چنانچہ فرماتا ہے اَمنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ ہے.وہ کونسی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بے تاب ہو کر اُس کے پاس آجاتی ہے؟ فرمایا وہ میں ہوں.تو یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ طاقتور دراصل وہی عمل ہے جس میں سب بنی نوع انسان شامل ہوں اور جو عمل تمام روئے زمین کے انسانوں کو مساوات کے میدان میں لے آئے.نماز میں امتیاز ہو سکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور دوسرا بیٹھ کر روزہ میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو مگر دوسرے میں نہ ہو تبلیغ میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک کو تبلیغ کرنی آتی ہو اور دوسرے کو نہ آتی ہو یا وہ علم نہ رکھتا ہو یا تبلیغ کی طاقت نہ رکھتا ہو، اسی طرح جہاد، تربیت اور لین دین کے معاملات میں امتیاز نظر آجائے گا اور وہ مجبوری کا امتیاز ہوگائی مگر دعا میں مجبوری کا کوئی امتیاز نہیں ہاں مرضی کا امتیاز ہو سکتا ہے.لیکن بہر حال دعا ایک ایسی چیز ہے کہ وہ گونگا جس کی زبان نہیں ، وہ بہرہ جس کے کان نہیں ، وہ مفلوج جس کے جسم کی حسس ماری گئی ہوا اور گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر چار پائی پر پڑا ہوا ہو وہ بھی اُسی جوش و خروش سے اپنے رب کے حضور دعا کا ہدیہ پیش کر سکتا ہے جس طرح ایک تندرست اور طاقتور انسان اور اس عمل میں کی بنی نوع انسان میں قطعاً کوئی امتیاز نہیں.ایک چارپائی پر پڑا ہوا بے حس انسان بھی جس میں حرکت کرنے کی تاب نہیں اپنے خدا کے حضور دعا کے ذریعہ عقیدت کا ہدیہ پیش کر سکتا ہے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کر سکتا ہے جس طرح اور انسان جو نماز پڑھتے ، روزہ رکھتے اور احکام اسلامی پر عمل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.پس دعا وہ چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اور بڑوں اور امیروں اور غریبوں کو ایک سطح پر لا کر کھڑا کر دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض صوفیاء نے کہا اسلام دُعا کا نام ہے اور دُعا اسلام ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام دنیا میں مساوات قائم کرنے کیلئے آیا ہے مگر وہ کونسا عمل ہے جو سب کو مساوات بخشتا ہے.نماز سب میں مساوات قائم نہیں کرتی کیونکہ عورتوں پر کچھ دن ایسے آتے ہیں جب وہ نماز کی ادائیگی سے معذور ہو جاتی ہیں.پھر جب انسان بوڑھا ہو جائے تو کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ کمزور ہو جائے تو مسجد میں نماز کیلئے نہیں آسکتا.اسی طرح حج ہے، زکوۃ
خطبات محمود 1+1 سال ۱۹۳۶ء ہے، صدقہ ہے اور اور بھی بہت سے اعمال ہیں جو خدا تعالیٰ نے انسان کی بہتری کیلئے دیئے اور ہمیں ان سے مالا مال کیا.مگر کوئی عمل ایسا نہیں جو سب کو ایک مقام پر لے آئے اور حقیقی مساوا قائم کر کے دکھلائے سوائے نیک ارادہ یا دعا کے یا مذہبی نقطہ نگاہ سے یہ کہو کہ سوائے ایمان اور دعا کے.کیونکہ اسی چیز کا نام مذہبی اصطلاح میں ایمان بن جاتا ہے جسے دنیوی اصطلاح میں نیک ارادہ کہتے ہیں.قوت ارادی جب خدا تعالیٰ کے تابع ہو جائے تو وہ ایمان بن جاتی ہے لیکن جب آزاد ہو تو صرف ارادی قوت کہلاتی ہے جیسے خواہش جب انسان کے تابع ہو تو محض خواہش کہلاتی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے تابع ہو تو دعا کہلاتی ہے.یہ دو چیزیں مل کر دنیا میں عظیم الشان تغییر کرسکتی ہیں، یہ زمین و آسمان کو ہلا سکتی ہیں.دنیا دار لوگوں نے اس قوت سے کام لیا اور اس کا نام انہوں نے مسمریزم، ہپنا ٹزم اور میجک (MAGIC) رکھا اور اس کیلئے انہوں نے بڑی بڑی مشقیں کیں مگر وہ سب دنیوی چیزیں ہیں اور حقارت کے قابل ہیں لیکن جس وقت یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے دین کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں انہیں ایمان اور دعا کہتے ہیں اور ان سے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے جا سکتے ہیں.علم توجہ کیا ہے؟ وہ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی نہیں کیا تھا صرف براہین احمدیہ کھی تھی کہ اس کی صوفیاء وعلماء میں بہت شہرت ہوئی.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اُس زمانہ کے نہایت ہی خدا رسیدہ بزرگوں میں سے تھے.جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کر دی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں.اتفاقاً انہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا.صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی.دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ صوفی احمد جان صاحب بھی ساتھ چل پڑے.وہ رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور ماضی قریب میں رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقہ میں مشہور تھے.علاوہ زُہد و اتقاء کے انہیں علم توجہ میں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ نماز
خطبات محمود ۱۰۲ سال ۱۹۳۶ء پڑھتے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے.نماز کے بعد جب وہ سلام پھیر تے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی مار دیتے جس سے بہت سے مریدا چھے ہو جاتے.صوفی احمد جان صاحب نے ان کی بارہ سال شاگردی کی اور وہ ان سے چکی پسواتے رہے.راستہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رتر چھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اس قدر طاقت حاصل ہوئی کی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آ رہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی جب آپ پر خاص جوش کی حالت ہوتی تو آہستگی سے اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے جس طرح کوئی چیز گرید کر نکالنی ہو ) صوفی صاحب ! اگر وہ گر جائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اُس کو کیا فائدہ ہوگا ؟ وہ چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے اور خدا تعالیٰ نے اُن کو دُور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی اُن پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے تو بہ کرتا ہوں مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ دنیوی بات ہے دینی بات نہیں.چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں.چنانچہ کوئی ہندو اور عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید اسے اسلام کا جزو سمجھ کر نہ کرے ہاں دنیوی علم سمجھ کر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.میں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں دور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں.چنانچہ انہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا مریضوں کی ہے تم مسیحا تمہی نگاه بنو خدا کے لئے
خطبات محمود ١٠٣ سال ۱۹۳۶ء یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحب کشف تھے اور خدا تعالیٰ نے انہیں بتا دیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے فوت ہو گئے مگر وہ اپنی اولا د کو وصیت کر گئے کہ حضرت مرزا صاحب دعویٰ کریں گے انہیں ماننے میں دیر نہ کرنا.اسی تعلق کی بناء پر حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی شادی ان کے ہاں ہوئی.غرض عالم توجہ ایک دنیوی چیز ہے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کر لیتے ہیں کہ توجہ سے کسی کے دل میں وہم پیدا کر لیتے ہیں، کسی کو بیہوش کر دیا، بعض ماضی کے اخبارات دریافت کر لئے ، بعض حال کے واقعات معلوم کر لئے ، معمول کو بے حس اور بے طاقت کر دیا.غرض اس قسم کے افعال عالم توجہ سے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں مگر دعا کے مقابل اس کی کیا حقیت ہے.علم توجہ کے اثرات انفرادی ہوتے ہیں مگر دعا کے اثرات انفرادی ہی نہیں بلکہ مجموعی بھی ہوتے ہیں.پھر تم نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ علم توجہ سے کوئی شخص حکومتوں کا تختہ الٹ دے، مذاہب باطلہ کو دنیا سے نیست و نابود کر دے مگر دعا کے مقابلہ میں دنیا کی ساری بادشاہتیں مل کر بھی بیچ اور ذلیل ہو جاتی ہیں اور جب خدا تعالیٰ کا ایک مسکین اور عاجز بندہ اپنی مسکنت کی چادر اوڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ کہتا ہے کہ اے میرے رب ! تُو میرا خالق اور میں تیرا بندہ ہوں تیرا حق ہے کہ تو مجھ سے جو چاہے کرے لیکن تیرے بندے مجھ پر کیوں ظلم کرتے ہیں؟ تب خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑکتی اور بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہوں کا اس طرح تختہ الٹ دیتی ہے کہ ان کا نام ونشان تک مٹ جاتا ہے.ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کے محلہ میں شاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانا بجانے کا شغل رکھتے.انہوں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ لوگوں کی نیند یں اور نماز میں خراب ہوتی ہیں تم اس شغل کو ترک کر دو مگر وہ نہ مانے.جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کا تہیہ نہ کر لیں انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کر لیا.جب اس بزرگ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا اچھا! اُنہوں نے اپنی حفاظت کیلئے فوج بلالی ہے تو ہم بھی رات کے تیروں سے ان کا مقابلہ کریں گے.معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی جو نہی ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے، وہ دوڑتے ہوئے اُس بزرگ کے پاس آئے اور کہنے لگے ان تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت
خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۶ء نہیں ہم اپنے شغل سے باز آئے.پس دعا ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی کامل یقین اور پختہ ارادہ کے ساتھ اس سے کام لیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا.میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ آپ لوگوں میں سے بعض امراء ہیں وہ مالی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض اہل علم ہیں وہ تبلیغی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے ، بعض اہل حرفہ ہیں وہ مثلاً غیر ممالک میں نکل جانے کے لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے ، بعض بچوں والے ہیں وہ تحریک جدید کے بورڈنگ والی تحریک میں زیادہ حصہ لیں گے مگر کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو نہ اپنے پاس مال رکھتے ہوں گے ، نہ دولت ، نہ علم نہ حرفہ، نہ فن.وہ دل میں کڑھتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے ہمارا اس ثواب میں کیا حصہ ہے اور خدا تعالیٰ کی اس کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں ہم کیونکر شامل ہوں؟ میں نے بتایا تھا کہ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا بھی اس تحریک میں حصہ رکھا ہے جو دوسروں سے کسی طرح کم نہیں.اور وہ یہ ہے کہ وہ دُعا کریں کہ اس جنگ میں جو آج ہمیں دوسروں سے درپیش ہے خدا تعالیٰ ہمیں فتح دے اور مقابلہ کرنے والے دشمنوں کو ذلیل اور رسوا کرے.اس عمل کے نتیجہ میں وہ ان لوگوں کے پیچھے نہیں رہتے جو مال رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کر رہے ہیں ، جو طاقت رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں طاقت خرچ کر رہے ہیں، جوفن رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی فنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور گودنیا کی نگاہوں میں یہ دعائیں بیچ نظر آتی ہوں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محض زبانی دعائیں بیچ ہی ہوتی ہیں لیکن پگھلے ہوئے دل کی دعا بیچ نہیں ہوتی بلکہ وہ بہت بڑی قیمت رکھتی ہے.دعا کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.وہ اس قسم کا سوال ہے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے جو منگے سو مر رہے مرے سو و منگن جا یعنی سوال کرنا موت ہے اور مانگنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے آقا کے دروازہ پر مر جائے تب اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے.پس وہ دعا جو خدا تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے، وہ دعا جو اس کی رحمت کو کھینچ لاتی ہے وہ مضطر والی دعا ہے، وہ دعا ہے جو دل کا خون کر دیتی ہے اگر وہ دل کا خون کسی شیشی میں گرایا جا سکے یا کسی کٹوری میں جمع کیا جا سکے تو بتاؤ وہ لوگ زیادہ قابل قدر سمجھے
خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۶ء جائیں گے جو سونا چاندی اور پیتل خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں یا وہ زیادہ قابل قدر سمجھا جائے گا جس نے اپنے دل کا خون خدا تعالیٰ کے آگے پیش کر دیا.بے شک دنیا کے لوگ اس دل کے خون کی قدر نہیں کرتے کیونکہ انہیں وہ خون نظر نہیں آتا انہیں صرف سونا چاندی اور اس کے سکے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمارا خدا وہ ہے جو عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ گو اُس کے ایک بندہ کے پاس سونا چاندی نہیں مگر دین کے غم میں اُس کا دل خون ہورہا ہے اور یہ ہمارے پاس خونِ دل کا ہدیہ لے کر آیا ہے جس کے مقابلہ میں سونے اور چاندی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک مال دار کے سونے اور چاندی کے سکوں کی اور ایک طاقتور کی حالت اور قوت کی بھی وہ اس وقت قربانی قبول کرتا ہے جب ان پر دل کے خون کی پالش ہو ورنہ وہ اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا.پس ایک مالدار کی قربانی اور ایک طاقتور جسم رکھنے والے کی قربانی بھی اُسی وقت الہی دربار میں قبول کی ہو سکتی ہے جب اُس پر دل کے خون کے قطرے پڑے ہوئے ہوں ورنہ وہ قربانی اُس کے منہ پر ماری جاتی ہے اور کہا جاتا ہے وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ.پس مت خیال کرو کہ دُعائیں معمولی چیز ہیں، مت خیال کرو کہ تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جسے قربانی کا موقع نہیں ملا.تمہارے نیک ارادے اور تمہارے دل کی قربانی جب کہ تم دوسری قربانیوں میں حصہ نہیں لے سکتے اور جبکہ تم عاجزانہ اور مسکینا نہ طور پر خدا تعالیٰ کے حضور گر کر سلسلہ کی ترقیات کیلئے دعائیں کرتے ہو، دوسروں کی قربانی سے کم نہیں بلکہ بسا اوقات اُن سے بڑھ سکتی ہے کیونکہ یہ صرف قربانی ہی نہیں بلکہ ایک درد اپنے اندر رکھتی ہے.جو انسان اپنے پاس مال نہیں رکھتا ، طاقت نہیں رکھتا ، فن نہیں رکھتا، علم نہیں رکھتا اور دل کی قربانی پیش کرتا ہے اس کی قربانی کی کے ساتھ درد بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ دوسروں کے پاس بہت کچھ ہے مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں جو میں پیش کروں تو اُس کا دل جو عشق کی چوٹ کھایا ہوا ہوتا ہے درد اور غم سے پگھل جاتا ہے.پس وہ درد والی قربانی ہے اور در دوالی قربانی کا وہ قربانی مقابلہ نہیں کر سکتی جس کے ساتھ درد نہیں.اگر ایک مجلس میں ایک امیر آدمی خدمت دین کیلئے ایک کروڑ روپیہ پیش کر دیتای ہے تو تم اُس مجلس میں نم دار آنکھیں نہیں دیکھو گے.بے شک نعرے لگانے والے دیکھو گے، شاباش اور مرحبا کی آوازیں لگانے والے دیکھو گے مگر کوئی نم دار آنکھ اس مجلس میں اس وجہ سے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء نہیں دیکھو گے کہ اُس نے ایک کروڑ روپیہ پیش کر دیا.لیکن ایک غریب بُڑھیا جس کی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں ، جسے فاقے پیش آتے ہیں اور جس کے متعلق تمہیں معلوم ہے کہ شاید اب بھی اسے فاقہ ہے اس نے اگر رات کو باوجود بیماری اور کمزوری کے سوت کا تا اور پھر بازار میں اسے بیچ کر ایک پیسہ لائی اور وہ پیسہ اُس نے خدمت دین کیلئے مجلس میں پیش کر دیا تو گو وہاں نعرے پیدا نہ ہوں لیکن بیسیوں آنکھوں میں ، اُن آنکھوں میں جو روحانیت نما چیزوں کو دیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں تم آنسود یکھ لو گے کیونکہ یہ وہ قربانی ہے جس کے ساتھ درد شامل ہے.اگر اس قسم کی قربانی ایک انسان کے دل میں جو کچی قدردانی کی طاقت نہیں رکھتا درد پیدا کر سکتی ہے تو سمجھ لو کہ اُس عالم الغیب خدا کے حضور میں وہ کس قدر مقبول ہوگی جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.یقیناً ہمارا خدا اسے اپنی گود میں بٹھالے گا اور اس کے غمزدہ دل کو تسلی دے گا اور کہے گا مت سمجھ کہ تیری قربانی حقیر ہے میں ہوں جس نے قربانی قبول کرنی ہے اور میں تیری قربانی کو دوسروں کی قربانی پر ترجیح دیتا ہوں.پس تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ تمہارے رب نے تمہیں اپنی دین کی خدمات سے محروم نہیں رکھا.ہر شخص جو تم میں سے کتنا ہی معذور نہ ہو ایک اتنی قیمتی چیز اپنے پاس رکھتا ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی ماند ہیں.پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اس قیمتی قربانی کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرو.ہما را خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تم مقام ہر حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خدا تعالیٰ کے حضور پیش نہ کرو.تم روپیہ سے زیادہ اپنے دل کو قیمتی سمجھتے ہو یا نہیں ؟ پس اس کو اپنے ربّ کے آگے پیش کرو اور یا درکھو اس سے دین کی مدد جس رنگ میں ہوگی وہ سونے اور چاندی کے سکوں سے نہیں ہوسکتی.پچھلے سال میں نے اسی دعا کی تحریک کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے بعض ہفتے مقرر کر دیئے تھے اور روزے رکھنے کی تاکید کی تھی.تم میں سے کسی کو نظر آیا ہو یا نہ آیا ہو لیکن جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں دعاؤں کے نتیجہ میں عظیم الشان تغیرات پیدا کئے.تمہیں شاید نظر نہ آتا ہو مگر میں تو دیکھ رہا ہوں کہ اٹلی اور ایسے سینیا کی جنگ بھی انہی دعاؤں کے نتیجہ میں ہوئی ہے، جاپان کے فسادات بھی انہی دعاؤں کے نتیجہ میں ہیں اور کوئٹہ کا زلزلہ بھی انہی دعاؤں کے نتیجہ میں آیا ہے.اب پھر تم خدا تعالیٰ کے حضور سچی دعائیں کر کے دیکھ لو
خطبات محمود ۱۰۷ سال ۱۹۳۶ء سلسلہ کے دشمن بالکل پاش پاش ہو جائیں گے خواہ وہ حکومت کے گل پُرزے ہوں اور خواہ میجارٹی اور اکثریت کے نمائندہ ہوں کیونکہ ہمارے خدا کے سامنے نہ حکومتیں کوئی حیثیت رکھتی ہیں نہ اکثریت کی نمائندگی کوئی حیثیت رکھتی ہے.پس میں آپ تحریک جدید کے اُنیسویں مطالبہ کو پھر پیش کرتا ہوں اور جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ تم دشمن کے حملوں سے غافل ہو جاؤ اور دعاؤں کی طرف سے نظر ہٹا لو.بے شک خدا تعالیٰ نے اس عرصہ میں بڑے بڑے نشان دکھائے ہیں مگر مخالفوں نے ان کی کی قدرنہیں کی کیونکہ نشان دو قسم کے ہوا کرتے ہیں.بعض نشان معمولی ہوتے ہیں اور بعض پُر ہیبت اور پر جلال.جس طرح چاند پہلے ہلال کی شکل میں ہوتا ہے اور پھر قمر اور پھر بدر کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح بعض نشان ہلال سے مشابہہ ہوتے ہیں بعض قمر سے اور بعض بدر سے.ہمیں کی خدا تعالیٰ نے چونکہ روحانی آنکھیں دی ہوئی ہیں اس لئے ہم نے ان نشانوں کو بھی دیکھا جو ابھی ہلال کی صورت میں ہیں لیکن دشمنوں نے ان نشانوں کو نہیں دیکھا کیونکہ ان نشانوں نے ہلال سے قمر کی صورت اختیار نہیں کی.پس دشمن ابھی تک اپنی شرارت سے باز نہیں آیا.خدا تعالیٰ نے شہید گنج کا مسئلہ بھی پیدا کیا اور احرار کی مسلمان دشمنی کے پردہ کو بالکل کھول کر رکھ دیا.خدا تعالیٰ نے حکومت کے بعض اُن گل پرزوں کو بھی سبق دیئے جنہوں نے بلا وجہ احمد یہ جماعت کی تحقیر اور تذلیل اور اسے تکالیف میں مبتلاء کرنے کا شیوہ اختیار کیا ہوا تھا اور بعض کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ انہیں آئندہ سبق مل جائے گا لیکن اب تک اصل حکومت نے ہماری شکایات کا کوئی ازالہ نہیں کیا اور نہ اشک شوئی کی کوئی کوشش کی ہے.سلسلہ کی ہتک اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے جاری کی تھی.گو بعض امور میں اصلاح بھی نظر آتی ہے اور میں اپنے خطبات میں ان کا ذکر کر چکا ہوں لیکن بعض امور میں نئی شرارتیں کی جارہی ہیں.جیسے ڈاکخانہ کا رویہ ہے یا قانونی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فتنہ وفساد کی روح کی اصلاح نہیں ہوئی.روح سے میری مراد آدمی نہیں بلکہ وہ جذبات ہیں جو بعض لوگوں کو ہماری جماعت کی مخالفت کیلئے اُکساتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ روح ابھی تک مری نہیں گو ظاہری حالات میں کسی قد رتبدیلی ہوگئی ہے.
خطبات محمود ۱۰۸ سال ۱۹۳۶ء پس ہمارا فرض ہے کہ ہم سلسلہ کی عظمت اور اس کی مشکلات کے ازالہ کیلئے اللہ تعالیٰ حضور دعائیں کرتے چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! اس کمزوری میں تو نے ہمیں پیدا کیا ہے.ہم بے شک کمزور ہیں، ناتواں ہیں ، ناطاقت اور خطا کار ہیں لیکن ہم تیرے بندے ہیں.تیرا حق ہے کہ جو چاہے ہم سے سلوک کرے مگر تیرے بندے جو قانون کو توڑتے ہوئے ہم پر ظلم کر رہے ہیں اُن کا حق نہیں کہ وہ ہمیں اپنے ستم کا نشانہ بنا ئیں.ہم پر جس رنگ میں مظالم ہور ہے ہیں تو انہیں جانتا ہے.بعض جگہ تو نے جواب دینے سے ہمیں روک رکھا ہے اور بعض جگہ بے طاقت بنا دیا ہے ایسی حالت میں سوائے اس کے ہم کیا کر سکتے ہیں کہ تیرے حضور التجاء کریں کہ ہم پر مظالم کرنے والے اور سلسلہ احمدیہ کو دنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر کرنے والے خواہ حکام کے زمرہ میں شامل ہوں خواہ رعایا میں تو خود ان کا ہاتھ پکڑ اور ہمیں ان کے شر سے بچا.ہم اپنی عزت نہیں چاہتے کیونکہ جب بھی کوئی خدا تعالیٰ کے دین میں داخل ہو جاتا ہے وہ اپنی عزت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ہمیں اپنی شوکت سے غرض نہیں کہ ہم تیرے دین کی خدمت اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں.ہمیں اپنی وجاہت سے غرض نہیں، اپنے وقار سے غرض نہیں مگر ایک چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ انجام تک پہنچ جائے.ہماری خواہش ہے تو یہ ، ہمارا ارادہ ہے تو یہ ، ہماری اُمنگ ہے تو یہ ، ہمارا مقصود ہے تو یہ ، ہمارا مطلوب ہے تو یہ کہ ہم چاہتے ہیں پھر دنیا میں محمد ﷺ کی حکومت ہو، پھر دنیا میں قرآن مجید کی حکومت ہو، پھر دنیا میں ہمارے رب کی حکومت ہو ، اس خدمت کے بدلہ میں اگر ہمیں کچھ ٹھہرت ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا انعام ہے.ہم اس کے متلاشی نہیں نہ ہم اس کے سائل ہیں ہماری صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا جلال دنیا میں قائم ہو.پس اگر کوئی اس رستہ میں روک بنتا ہے تو ہماری دعا ہے کہ اے خدایا! تو اسے ہدایت دے یا اسے ہمارے رستہ سے ہٹا دے.یاد رکھو! اگر تم سچے دل سے دعائیں کرو تو دنیا میں اتنے عظیم الشان تغیرات ہوں گے کہ تم حیران ہو جاؤ گے.تم نے گزشتہ سال کو دیکھا کہ اس میں خدا تعالیٰ کے کتنے عظیم الشان نشانات جمع ہو گئے.کوئٹہ کا زلزلہ ، شہید گنج کا واقعہ ، اٹلی اور ایسے سینیا کی لڑائی، جاپان، چین اور روس کے جھگڑے یہ سب گزشتہ سال کی دعاؤں کا نتیجہ تھے.بے شک ان میں سے بعض کے متعلق
خطبات محمود 109 سال ۱۹۳۶ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیاں تھیں اور بعض خدا تعالیٰ کی تجلی قدرت کے ماتحت ظاہر ہوئے.اور بے شک لوگ کہتے ہیں کہ کوئٹہ کی زمین میں لاکھوں برس پہلے زلزلہ کی تیاری شروع ہوگئی تھی پھر وہ تمہارے لئے کیونکر نشان بن گیا.مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ کیا وہ خدا جس نے کروڑوں سال پہلے کوئٹہ میں زلزلہ پیدا کرنے کے سامان پیدا کئے تھے اُسے یہ علم نہ تھا کہ اس وقت میرے بعض بندے ظالموں سے رہائی حاصل کرنے کیلئے دعائیں کر رہے ہوں گے ؟ جس خدا نے کی کوئٹہ میں زلزلہ کی تیاری لاکھوں کروڑوں سال پہلے کی تھی اُسے اُس وقت یہ بھی علم تھا کہ اس زمانہ میں میرے بندوں پر ظلم ہوگا، میرے مسیح موعود کو اپنی صداقت کیلئے آسمانی نشانوں کی ضرورت ہوگی.پس اُس نے کروڑوں سال پہلے اِن ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے یہ تغیرات مخفی کر دئیے.آخر خدا تعالیٰ نے جن دعاؤں کو قبول کرنا ہوتا ہے تو وہ ان کیلئے سامان بھی مہیا کر دیتا ہے.جوی گورنمنٹیں لوگوں کو انعامات دینا چاہیں وہ پہلے سے اپنے بجٹ میں انعامات کی گنجائش رکھا کرتی ہیں.مگر کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جسے حکومت انعام دے تو وہ کہے یہ انعام نہیں کیونکہ بجٹ میں حکومت نے پہلے سے اس کیلئے گنجائش رکھی ہوئی تھی بلکہ وہ اسے انعام ہی سمجھے گا.یہی حال تقدیروں کا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے بھی ایک عرصہ سے مقدر کر رکھا تھا کہ کوئٹہ میں زلزلہ آئے لیکن یہ امر بھی وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ اس وقت بعض بندے مجھ سے دعا کریں گے اور میں لوگوں کو اپنے قہر کا نشان دکھانے کیلئے یہ زلزلہ بھیجوں گا.پس اگر اب بھی حقیقی طور پر دعائیں کی جائیں تو پہلے سال سے بھی زیادہ شاندار نتائج دیکھ سکتے ہو.ضرورت اس بات کی ہے کہ تم استقلال سے دعاؤں میں لگے رہو.وہ لوگ جو جذباتی باتوں سے متاثر ہو کر چند دن جوش دکھاتے اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نہیں بلکہ اُس کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں.پس اپنے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کرو، دوستوں کو ہوشیار اور بیدار کرو ، اپنے ہمسائیوں کو ہوشیار اور بیدار کرو اور کسی کو سُست ہو کر بیٹھنے مت دو پھر تم دیکھو گے کہ دنیا میں کس قدر تغیرات ہوتے ہیں میں نے پچھلے سال کچھ روزے مقرر کئے تھے اور اس سال بھی میرا ارادہ بعض روزے مقرر کروں مگر آج میں ان کا اعلان نہیں کرتا یہ اعلان پھر کروں گا.آج صرف یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خصوصیت سے دعاؤں میں لگ جاؤ اور بالخصوص یہ دعا کرو کہ اَللَّهُمَّ إِنَّا
خطبات محمود 11.سال ۱۹۳۶ء نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ اور رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرُنِی وَارْحَمُنِی.اِس کے علاوہ اور بھی دعائیں اپنی زبان میں کرو جنہیں دلی جوش کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر سکو.اس تعلیم پر عمل کر کے دیکھ لو تم محسوس کرو گے کہ تم اکیلے نہیں اور نہ دنیا کی نگاہوں میں یتیم ہو کیونکہ ہمارا خدا ہمارا روحانی باپ ہے اور جو بندے اس زندہ اور حی و قیوم خدا کے بیٹوں کی مانند پیارے ہوں وہ یتیم نہیں ہوتے اور نہ کبھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ زندہ رہنے والا خدا ہے.یتیم وہ تب ہوں جب خدا مرے لیکن جب خدا کبھی مر نہیں سکتا تو وہ بھی کبھی یتیم نہیں ہو سکتے.پس تمہارے لئے ٹیم کا ہونا ناممکن ہے.تم مایوس مت ہو بلکہ تم اپنے زندہ خدا کے آستانہ پر گر جاؤ اور اس سے تفرع اور عاجزی سے دعائیں مانگو تب تم دیکھو گے کہ وہ دیو جو غضبناک شکلیں بنا کر تمہیں ڈرا رہے ہیں اور تمہیں اس وقت خوفناک صورتوں میں نظر آرہے ہیں وہ دُھواں بن کر اُڑ جائیں گے اور ان کا نام ونشان تک دنیا میں نہیں رہے گا.( الفضل ۱۷؍ مارچ ۱۹۳۶ء ) بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل صلى الله بخاری کتاب المغازی باب نزول النبي عليه الحجر سے بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحى (الخ) الْمَاعُون : ۵ المؤمن: ٢٩ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ امَنَّا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (البقرة: 9) النمل: ٦٣ آل عمران ۹۳
خطبات محمود L سال ۱۹۳۶ء صداقت اور دیانت کی تلوار سے دنیا کو فتح کرو (فرموده ۶ / مارچ ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بوجہ سر درد کے دورہ اور حرارت کے میں آج بہت مشکل سے خطبہ پڑھ سکتا ہوں لیکن کی میرے نفس نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں آج خطبہ تک سے گریز کروں اس وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بتایا تھا طاقت اور قوت کے مقابلہ کیلئے کوئی ہتھیار چاہئے اور ہتھیار بھی وہ جو دشمن کے پاس نہ ہو یا دشمن کے ہتھیار اس کے مقابلہ میں ادنیٰ ہوں.شاعر بے شک اپنے معشوقوں کو بغیر ہتھیار کے لڑا لیتے ہیں مگر عملی دنیا میں ہتھیار کے بغیر کام نہیں چلتا.شاعروں کا کہنا ہے کہ اُن کی دنیا خیالی ہوتی ہے جو چاہیں پاس سے بنالیں ان پر اعتراض کرنے والا کوئی نہیں بلکہ جو اعتراض کرے وہ جاہل سمجھا جاتا ہے.اس کی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ذوق علم وادب سے محروم ہے جو صداقت کو ان کے سامنے پیش کرتا ہے وہ ان کے نقطہ نگاہ سے جاہل ہوتا ہے.ہمارے کسی شاعر نے کہا ہے کہ: اس سادگی یہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں اس شاعر کا معشوق بغیر ہتھیار کے جیت جاتا ہے.ادب کے لحاظ سے اس شاعر کا پایہ بہت بلند ہے اور میں بچپن سے اس کا مداح ہوں مگر عملی دنیا میں اس کی کیا حقیقت ہے.مجازی دا
خطبات محمود ۱۱۲ سال ۱۹۳۶ء میں بے شک یہ بھی ایک اصل ہے کیونکہ اگر ہتھیار کو ظاہری ہتھیار اور لڑائی کو روحانی لڑائی سمجھ لیں کی تو بے شک یہ بھی درست ہوسکتا ہے لیکن اگر دونوں پہلو ظاہر پر مبنی سمجھے جائیں تو یہ بالکل بے معنی ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شاعر کی دنیا بالکل اور ہوتی ہے.مغلوں کا مشہور بادشاہ تیمور جب ایران کو فتح کرتا ہوا شیراز میں پہنچا جو حافظ کا جو مشہور صوفی اور شاعر تھے وطن ہے تو کسی نے اُس سے ذکر کیا کہ یہاں کے ایک شاعر نے لکھا ہے اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را بخال هندوش بخشم سمرقند و بخارا را یعنی اگر وہ میرا معشوق میرے دل کو اپنے قبضہ میں لے لے اور مجھ سے تعلق قائم کرلے تو میں اس کے رُخ سیاہ تل کے عوض سمر قند و بخارا بخش دوں.سمرقند و بخارا تیمور کا وطن تھا اُس نے یہ شعر سن کر کہا کہ میں نے تو سمرقند و بخارا کیلئے دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک قتل عام کیا ہے مگر یہ اپنے معشوق کے سیاہ تل کے عوض اسے دینے کیلئے تیار ہے.لیکن میں نے کہا ہے کہ شاعر کی دنیا اور ہے اور کہتے ہیں کہ تیمور کو بھی اس شاعر کے مقابلہ میں نیچا ہی دیکھنا پڑا اور اُس نے حافظ کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا.مگر ہم جس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں وہ حقیقت کی دنیا ہے اور یہاں ہر ایک کیلئے ہتھیار کی ضرورت ہے جو اس کے دشمن کے ہتھیار سے زیادہ تیز ، تعداد میں زیادہ اور زیادہ کارآمد ہونا چاہئے.کوئی زمانہ تھا کہ لوگ غلیل استعمال کرتے تھے، پھر تیر ایجاد ہوئے جنہوں نے غلیل اور غلے کو پس پشت ڈال دیا اور وہ قو میں جیتنے لگیں جو تیر انداز تھیں.پھر تیراندازی میں ترقی ہوئی تو توی دنیا میں منجنیقیں ایجاد ہوئیں جو پتھراؤ کر کے قلعوں کو گرا دیتی تھیں نیزے قلعوں کے مقابل میں ناکام رہتے تھے لیکن منجنیقوں نے قلعوں کو گرانے کا راستہ کھول دیا، پھر بارو د نکلا اس سے اس بارہ میں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی.کبھی لوگ چھڑے کی زرہ پہنتے تھے اور کمزور بازوؤں والے تیراندازوں کے تیروں سے محفوظ رہتے تھے لیکن پھر لوہے کی زرہ نکلی اور اس سے زیادہ خطر ناک کی ہتھیاروں سے حفاظت کا سامان پیدا ہو گیا، پھر تو پوں کا زمانہ آ گیا اور انہوں نے منجنیقوں کی طاقت کو توڑ دیا اور اگر پہلے قلعہ کے نیچے جا کر دیواروں کے نیچے بارود رکھ کر اسے اُڑا دیا جاتا تھا تو کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء تو پوں نے دور سے ہی انہیں گرانا شروع کر دیا.پھر وہ قومیں دنیا میں پھیلنے لگیں جو تو ہیں رکھتی تھیں اور منجنیقوں والی کمزور ہونے لگیں.پھر بندوقیں نکلیں جن کا ابتدا میں چلانا بہت محنت طلب تھا.اس بات کی ضرورت ہوتی تھی کہ پہلے انہیں بھرا جائے اور پھر مضبوطی سے کسی جگہ باندھ دیا جائے اور پھر فیتہ سے آگ دی جائے.اس کے بعد توڑے دار بندوقیں بن گئیں جنہوں نے پہلے کی نسبت تباہی اور خون ریزی آسان کر دی.پھر کارتوس والی بندوقیں بن گئیں اور ان کے بعد میگزینوں کی والی اور ہر وہ قوم جس نے ترقی کی طرف قدم نہ اٹھایا برباد ہوتی گئی.مسلمانوں کے علماء کہلانے والوں نے جس طرح ہندوستان میں مغربی علوم کی تحصیل کو کفر قرار دے کر مسلمانوں کو تباہ کیا اسی طرح بعض علماء نے مسلمان حکومتوں کو تو پوں اور بندوقوں کے استعمال سے بھی روکا.بخارا کی حکومت ایک وقت اس قدر ز بر دست تھی کہ ایک طرف اس نے ڈینیوب اے کے کناروں تک جو وسط یورپ میں ہے تاخت و تاراج کیا اور تمام یورپین حکومتوں کو زیرز بر کر ڈالا اور دوسری طرف اس کے بیڑے جاپان کے ساحل تک پہنچ گئے ، اس حکومت کا خاتمہ بھی ایسے ہی علماء کے فتووں سے ہوا.روس کی افواج مُہلک ہتھیاروں سے مسلح تھیں لیکن مسلمان علماء نے فتویٰ دے دیا کہ آگ سے عذاب دینا اسلام میں جائز نہیں اس لئے تو پوں اور بندوقوں کا استعمال نا جائز ہے حتی کہ بڑے بڑے علماء تو اس بات کو سرے سے تسلیم ہی نہ کرتے تھے کہ ایک میل سے گولے پھینکے جا سکتے ہیں وہ اسے جادو سمجھتے تھے.اب تو تو پوں کے گولے سو سو میل تک مار کر سکتے ہیں مگر اُس زمانہ میں میل دو میل سے زیادہ نہیں کر سکتے تھے.آخر جب روسیوں سے لڑائی ہوئی تو تی بادشاہ نے چاہا کہ صلح کر لی جائے مگر علماء نے کہا کہ کفار سے صلح نہیں ہو سکتی آپ مسلمانوں کو لڑنے دیں ہم روسیوں کو رسیوں سے باندھ باندھ کر لائیں گے.وہ رسیاں اور بکریوں کیلئے پتے جھاڑنے والے آلے لے کر میدان میں پہنچے کہ اس سے انہیں کھینچ کر پھر رسیوں سے باندھ لیں گے لیکن جب روسیوں کی طرف سے گولہ باری شروع ہوئی تو سحر سحر پکارتے ہوئے بھاگنے لگے اور بادشاہ سے جا کر کہا کہ ان لوگوں کو جادو آتا ہے آپ خواہ کچھ کرتے ان کے مقابلہ میں کا میاب نہ ہو سکتے.روسیوں نے بخارا کا تخت اُلٹ دیا اور حکومت تباہ ہوگئی.لطیفہ یہ ہے کہ تو پوں کی ایجاد مسلمانوں سے ہی شروع ہوئی اور دنیا میں.
خطبات محمود ۱۱۴ سال ۱۹۳۶ء مغل فوجوں نے ہی ان کو استعمال کیا یورپ والوں نے ان کی نقل کی مگر افسوس کہ موجدوں نے اپنی کی ایجادوں کو خود بھلا دیا اور جنہوں نے اتباع کی انہوں نے ترقی دے کر کہاں سے کہاں پہنچادیا.پھر تو پوں میں ترقی شروع ہوئی تھی کہ موٹرز کی ایجاد ہوئی جو گولہ سیدھا نہیں بلکہ بیضوی رنگ میں پھینکتی ہے اور اس کے رستہ میں پہاڑوں کی اوٹ اور قلعہ کی دیواریں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں.اس کا گولہ پہلے ہوائی کی طرح آسمان کی طرف جاتا اور پھر آ کر گرتا ہے.اس کے بعد بم ایجاد ہوئے ، پھر ٹینک نکل آئے یعنی لوہے کا جہاز جو زمین پر چلتا ہے چند لوگ اس میں بیٹھے ہوئے گولیاں چلا چلا کر مارتے جاتے ہیں باوجود یکہ جرمن قوم بہت ہوشیار اور لڑائی میں ماہر ہے لیکن ٹینک پہلے برطانیہ میں ایجاد ہوئے.میں نے اس نظارہ کی تفاصیل پڑھی ہیں.کہتے ہیں کہ پہلا ٹینک جب جرمن افواج کے مقابلہ میں گیا تو ان کے ہوش و حواس اُڑ گئے اور اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا تی کہ اس کا مقابلہ کس طرح کریں سوائے پاگلوں والی بہادری کے وہ کچھ نہ کر سکے.جرمن فوجیں آتیں اور اُس کے سامنے گر گر کر مر جاتیں اور وہ دس بارہ آدمی بحفاظت اندر بیٹھے ہوئے گولیاں کی چلاتے جاتے.انہوں نے اس کا آخری علاج اس طرح کیا کہ ان لاشوں کے ڈھیروں پر کھڑے ہو کر سوراخوں میں سے پستول چلا چلا کر اندر بیٹھے ہوئے آدمیوں کو ہلاک کیا اور جس وقت تک کی انہوں نے بھی ٹینک نہیں بنالئے ان کا بہت نقصان ہوتا رہا.خشکی پر اس ترقی کے مقابلہ میں ہوا نے بھی جنگ میں کم حصہ نہیں لیا.ہوا میں اُڑ نے والے جہاز بھی لوگوں نے ایجاد کئے جنہوں نے زمینی فوجوں کو بالکل بے دست و پا کر دیا.اسی کی طرح سمندری جہازوں میں ترقی ہوئی.پہلے وہ بادبانوں سے چلتے تھے ، پھر سٹیم کے ذریعہ چلنے لگے، پھر معمولی دُخانی جہازوں کی جگہ ٹبل شیس کروز رز ، ڈسٹرائرز ، مائن لیسر ز ، تارپیڈو بوٹس اور ، آبدوز جہازوں نے لے لی اور ہر قدم پر ترقی ہونے لگی اور وہ قومیں ترقی کرنے لگیں جو ان سے مسلح تھیں.ترکوں کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کرتے ہوئے اٹلی نے طرابلس الغرب پر حملہ کیا اور ی ترکی کے ساحل سے صرف سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر اس کے ملک پر قبضہ کر لیا لیکن ترک بالکل بے دست و پاتھے کیونکہ ان کے پاس جہاز نہ تھے.اب جنگی سامانوں نے اس سے بھی ترقی کی ہے اور گولے بھی برکار ثابت ہو رہے ہیں.اب زہریلی گیسیں نکلی ہیں جہاں ان کا گولہ پڑتا ہے سب
خطبات محمود ۱۱۵ سال ۱۹۳۶ء لوگ بیہوش ہو جاتے ہیں یا پاگل ہو جاتے ہیں.دل پر اتنا خوف طاری ہوتا ہے کہ ڈر سے انسان پاگل ہو جاتا ہے.بڑے بڑے جری اور دلیر بھی اس کیمیاوی اثر کے نیچے پاگلوں کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں.کئی لوگ بالکل ہی پاگل ہو جاتے ہیں اور عام طور پر بھی دس بارہ گھنٹے تک اس کا اثر رہتا ہے اور اب اس سے بھی زیادہ ترقی ہو رہی ہے اور ایسے سامان نکل رہے ہیں کہ تمام ملک کی خوراک، پانی اور ہوا کو زہریلا کر دیا جائے تمام ملک میں ٹائیفائیڈ ، پلیگ یا ہیضہ کے کیڑے پھیلا دیئے جائیں اور نہ معلوم دنیا ان میں ابھی کہاں کہاں تک ترقی کرے گی.سوال صرف یہ ہے کہ ہم جنہوں نے ساری دنیا سے مقابلہ کرنا ہے ہمارے پاس کیا ہتھیار ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صرف وہی غالب آتے ہیں جن کے پاس ہتھیار غالب ہوں اور ہمت و قربانی کی روح ہو.میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہمت اور قربانی کی روح ہم میں موجود ہے مگر یہ ہتھیاروں کا قائم مقام نہیں ہوسکتی.بے شک قربانی کی روح بھی ایک حد تک ہتھیار کا کام دے جاتی ہے مگر انتہاء کو پہنچ کر.حضرت سید اسماعیل صاحب شہید نے جو حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل کی صدی کے مجدد تھے مرید تھے اور نہایت روحانی آدمی تھے، پشاور کے علاقہ میں سکھوں پر حملہ کیا.آپ کے ساتھ صرف پانچ سو آدمی تھے اور سکھوں کی فوج بہت کی زیادہ تھی.پھر سکھوں کے پاس تو ہیں تھیں مگر ان کے پاس کوئی توپ نہ تھی لوگوں نے اُن سے کہا بھی کہ یہ لڑائی بے فائدہ ہے مگر انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں اگر ہم مارے بھی گئے تو جنت میں جائیں گے.پھر انہوں نے اپنے آدمیوں کو سو سو یا پچاس پچاس گز کے فاصلے پر پھیلا دیا اور حکم دیا کہ تم اس طرح دوڑو کہ مین توپ خانہ پر جا کر جمع ہو جاؤ.اب توپ کا گولہ اگر مارتا بھی تو صرف اُس ایک آدمی کو جو اُس کی زد میں ہوتا.اس طرح وہ تمام مجاہدین سکھوں کے توپ خانہ پر جا پڑے اور تلوار میں کھینچ کر اُن کو حکم دیا کہ توپوں کا منہ اپنی فوجوں کی طرف موڑ کر چلاؤ ورنہ قتل کر دیا جائے کی گا.تو پچیوں نے جان کی خاطر ایسا ہی کیا.تو بے شک بعض حالات میں ایمان ایسا ترقی کر جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ہتھیار بن جاتا ہے لیکن جب تک کسی نہ کسی قسم کا ہتھیار نہ ہو دشمن کے مقابلہ میں کامیابی محال ہے.
خطبات محمود ۱۱۶ سال ۱۹۳۶ء ظاہری ہتھیار تو ہمارے پاس ہیں نہیں حتی کہ تلوار میں بھی نہیں گجا یہ کہ مشین گنیں میگزینیں اور بندوقیں ہوں اس لئے ہمارے واسطے اب وہی ہتھیار باقی ہے جو مومنوں کا ہوتا ہے اور وہ صداقت اور ایمان کا ہتھیار ہے سچائی کے ہتھیار کے سامنے تو ہیں بالکل بیکار ہو جاتی ہیں.ایک شخص دوسرے پر توپ کا فائر اس لئے کرتا ہے کہ وہ اس کا دشمن ہے لیکن اگر وہ سچائی سے اسے دوست بنالے تو وہی توپ اس کی ہو جائے گی.اس لئے میں نے جماعت کو پچھلے سال بھی توجہ دلائی تھی کہ صداقت کے ہتھیار کو استعمال کریں.آپ لوگوں میں سے ہر ایک یہ فیصلہ کر لے کہ خواہ کی کچھ ہو وہ سچائی کو کام میں لائے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہم وہ معیار صداقت قائم نہیں کر سکے جس کے ساتھ دلوں کو مسخر کیا جاتا ہے.ادھوری صداقت تو اور بھی اُکسا دیتی ہے اس لئے کی کہ سچائی کامل چاہئے.میں نے دیکھا کہ مختلف نو جوانوں کو جو کام سپرد کئے جاتے ہیں ان میں بالعموم دیانت کا وہ معیار پیش نہیں کرتے جس کی ان سے امید رکھی جاتی ہے.مؤمن کا دل اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ صداقت اور دیانت اس کے اندر انتہائی درجہ کی ہو اور یہی اس کا ہتھیار ہونا چاہئے.بغیر ہتھیاروں کے دنیا میں فتح نہیں ہو سکتی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے دنیا اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ تمہارے پاس اتنے سامان ہی نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکو.فرض کرو آج انگریز ہمیں اجازت بھی دے دیں کہ تم ہوائی جہاز اور بحری جہاز اور دوسرے سامان رکھ سکتے ہو تو کیا ہم انہیں خرید سکتے ہیں؟ ایک بڑا جہاز آٹھ کروڑ روپیہ تک تیار ہوتا ہے اور ظاہر ہے ہم ایک جہاز بھی نہیں بنا سکتے.ہوائی جہاز جو اچھے لڑنے والے ہوتے ہیں وہ تین ی لاکھ سے دس لاکھ تک کے ہوتے ہیں.پس ظاہری ہتھیاروں کی اگر حکومت اجازت بھی دے دے تو ہماری جماعت ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی.ممکن ہے ہندو اور سکھ فائدہ اُٹھاسکیں کیونکہ وہ مالدار اور جتھے والے ہیں مگر ہم نہیں اُٹھا سکتے اس لئے ہم کیوں نہ وہی ہتھیار استعمال کریں جو ہمارے مناسب حال بھی ہے اور جسے اور کوئی اختیار نہیں کرسکتا.صداقت اور دیانت کا ہتھیار ہی تھا جسے رسول کریم ﷺ نے شدید سے شدید دشمنوں کی کے مقابلہ پر استعمال کیا اور قرآن کریم میں ہے کہ آپ نے فرما یا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ سے میں اس سے پہلے تم لوگوں میں عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں تم کیوں عقل نہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کرتے.یہی وہ تلوار تھی جس کے سامنے مکہ والوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں.مسلمانوں نے بھی مجبوراً تلوار چلائی ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی بہت سے دشمن مغلوب ہوئے لیکن ان کے چلانے والے اسی صداقت کی تلوار نے پیدا کئے تھے ، ان کے چلانے والے ابو بکر، عمر، عثمان اور علی تھے مگر کیا ابوبکر، عمر اور عثمان اور علی کو لوہے کی تلوار نے قابو کیا تھا ؟ جس وقت آنحضرت ﷺ نے دعوی کیا تو حضرت ابوبکرہ تجارت کا مال لے کر کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے.واپس آئے تو کسی دوست کے مکان پر بیٹھے تھے کہ اُس کی لونڈی نے کہا تمہارا دوست پاگل ہو گیا ہے وہ کہتا ہے کہ آسمان سے مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں.حضرت ابو بکر کے دوست آنحضرت ﷺ ہی تھے.جب انہوں نے یہ بات سنی تو چادر کندھے پر رکھ لی.اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کی روزمرہ کا لباس یہی ہوتا تھا ایک چادر اوڑھ لیتے تھے اور ایک باندھ لیتے تھے.چنانچہ آپ نے بھی چادر کندھے پر ڈالی اور چل پڑے.آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر پہنچ کر دستک دی.آپ باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ سنا ہے آپ نے دعوی کیا ہے کہ آپ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ آنحضرت ﷺ نے اس خیال سے کہ حضرت ابو بکر کوٹھوکر نہ لگے چاہا کہ اپنے دعویٰ کی کسی قدر تشریح کر دیں مگر حضرت ابو بکر نے اس سے روک دیا اور کہا کہ آپ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں.اور جب آپ نے کہا کہ ہاں تو ابو بکر نے کہا کہ میں آپ پر ایمان لے آیا ہے.انہوں نے نہ چاہا کہ اپنے ایمان کو دلائل سے خراب کریں.وہ صداقت کی تلوار کے مقتول بننا چاہتے تھے دلائل کی تلوار کے نہیں.بے شک حضرت ابو بکر کی تلوار نے اسلام میں بہت کام کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ابوبکر پر کونسی تلوار چلائی گئی تھی.ابوبکر کوئی معمولی آدمی نہ تھے.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جب عام طور پر ارتداد کی رو پھیل گئی تو مکہ مدینہ اور ایک اور چھوٹے سے گاؤں کے سوا اور کہیں بھی با جماعت نماز نہ ہوتی تھی.لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.اُس وقت حضرت ابو بکر ہی تھے جنہوں نے اس رو کا مقابلہ کیا.حضرت عمران کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اس وقت شورش بہت کی زیادہ ہوگئی ہے میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ ذرا نرم ہو جائیں آہستہ آہستہ سب کو ٹھیک کر لیا جائے گا لیکن حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ مدینہ میں گھس آئیں اور مسلمانوں کی عورتوں کو قتل کر دیں اور اُن کی لاشوں کو گتے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں ان لوگوں سے صلح نہ کروں گا جب تک کہ جو
خطبات محمود ۱۱۸ سال ۱۹۳۶ء رسول کریم ﷺ کو ایک رستی بھی زکوۃ میں دیتے تھے وہ دوبارہ نہ دینے لگیں ہے.حضرت عمر کبھی کبھی حضرت ابوبکر کو پیار سے بڑھا کہا کرتے تھے وہ کہتے ہیں میرا خیال تھا کہ بڑھا کمزور دل کا ہے مگر میرا خیال غلط تھا وہ تو ہم سب سے بہادر ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر نے جنگ کی اور واقعی جب تک زکوۃ کی ایک ایک رتی تک وصول نہ کر لی جنگ بند نہ کی.اس جری اور دلیرا ابو بکر کو کس تلوار نے مارا تھا؟ اسی طرح حضرت عمر آنحضرت ﷺ کے جانی دشمن تھے اور آپ کو قتل کرنے کی نیت سے رسے چلے تھے کہ راستے میں کسی نے کہا کہ پہلے اپنے بہن اور بہنوئی کو تو مارو جو مسلمان ہو چکے ہیں.چنانچہ آپ بہن کے گھر کی طرف چلے ، دروازہ اندر سے بند تھا اور ایک صحابی اندر بیٹھے اُن کو قرآن کریم پڑھا رہے تھے.حضرت عمرؓ نے دستک دی تو انہوں نے ڈر کے مارے صحابی کو اور ان قرآن کریم کے ورق کو بھی چھپا دیا اور پھر دروازہ کھولا.حضرت عمرؓ نغصہ سے بھرے ہوئے اندر داخل ہوئے اور چونکہ قرآن کریم سن چکے تھے دریافت کیا کہ کون پڑھ رہا ہے؟ بہنوئی نے چھپانے کی کی کوشش کی تو اُس پر حملہ کر دیا اور کہا کہ تو صابی ہو گیا ہے؟ اُس زمانہ میں مسلمانوں کو صابی کہا جاتا ہے ہے جیسے آجکل ہمیں قادیانی اور مرزائی کہا جاتا ہے.ان کی بہن اپنے خاوند کی حفاظت کیلئے بیچ میں آگئیں اور انہیں گھونسہ لگ گیا جس سے اُن کا خون بہنے لگا.بہن نے بھی جوش سے کہا کہ سنو ! ہم مسلمان ہو گئے ہیں تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لو.چونکہ عرب کے لوگوں میں ذاتی شرافت تھی عورت کی کا خون نکلتا دیکھ کر غصہ فرو ہو گیا اور جھٹ معافی مانگنے لگے اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بولے اچھا سناؤ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ مگر بہن غصہ میں تھیں انہوں نے کہا کہ تم نا پاک مشرک ہوا جب تک نہا کر نہ آؤ تم کو خدا کا کلام نہیں سنایا جا سکتا.چنانچہ آپ نے اُسی وقت غسل کیا.اس کے بعد اُس صحابی نے قرآن کریم سنانا شروع کیا دل میں نرمی پیدا ہو چکی تھی اس لئے خاتمہ سے پہلے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.وہاں سے اُٹھے اور خاموشی کے ساتھ آنحضرت میے کے مکان کی طرف چلے.آپ بعض صحابہ کے ساتھ مکان کے اندر بیٹھے وعظ ونصیحت کر رہے تھے کہ حضرت عمر نے دستک دی.عمر چونکہ دلیری میں مشہور تھے اس لئے بعض صحابہ نے کہا کہ یہ شخص بہت شوریدہ سر ہے دروازہ نہ کھولا جائے ورنہ ضرور شرارت کرے گا.حضرت حمزہ بھی بیٹھے تھے انہوں نے کہا
خطبات محمود صلى الله 119 سال ۱۹۳۶ء پرواہ نہیں دروازہ کھول دیا جائے اگر اس نے شرارت کی تو ہم بہادری میں اس سے کم نہیں.رسول کی صلى الله کریم ﷺ نے فرمایا دروازہ کھول دو.چنانچہ دروازہ کھولا گیا اور حضرت عمر اندر آئے.آنحضرت نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا عمر! کب تک شرارتوں میں بڑھتے جاؤ گے؟ حضرت عمر نے گردن کی جھکا دی اور عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ! میں تو آپ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں.ان کا یہ کہنا تھا کہ صحابہ نے خوشی سے بیتاب ہو کر اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کے درودیوار گونج اُٹھے شے.اور یہ پہلا نعرہ تھا جو مسلمانوں نے بلند کیا.یورپین مصنف کہتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کا مدار عمر کی ذات پر تھا بے شک حضرت عمر کی تلوار نے مشرق و مغرب اور ایشیا و افریقہ میں اسلام کیلئے فتوحات کیں مگر اُن کو کس تلوار نے فتح کی کیا؟ یہ تلوار وہی صداقت اور راستی کی تلوار تھی جس کے مقابلہ میں اور کوئی تلوار نہیں ٹھہر سکتی.پس تی تلوار اور دوسرے ہتھیار آپ لوگوں کی شان کے منافی ہیں.انبیاء کی جماعتیں ابتدا میں قربانی کیا کرتی ہیں خود حملہ کبھی نہیں کرتیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان لڑائی کو موت سمجھتے تھے.پس مؤمن امن پسند ہوتا ہے اسے لوہے کے ہتھیار نہیں بھاتے بلکہ اس کی محبوب تلوار صداقت کی تلوار ہوتی ہے.اس لئے میں جماعت کو بالعموم اور نو جوانوں کو بالخصوص یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صداقت پر قائم ہوں یہ وہ تلوار ہے جو ایمان سے ملتی ہے.لوہے کی تلواریں روپے سے مل سکتی ہیں لیکن صداقت کی تلوار کے لئے ایمان کی ضرورت ہے جو صرف تمہارے ہی پاس ہے.یہ وہ دھات ہے جو حکومتوں کے خزانوں میں نہیں صرف تم ہی ہو جو یہ تلوار بنا سکتے ہو اور چلا سکتے ہو اس لئے اقرار کرو کہ تم میں سے ہر ایک امین اور راستباز بنے گا پھر تمہارے دشمن بھی تمہارے آگے ہاتھ جوڑیں گے اور دنیا میں جسے کسی کام کیلئے دیانتدار آدمی کی ضرورت ہوگی وہ تمہاری تلاش کرے گا.صداقت اور دیانت کوئی معمولی نعمت نہیں بلکہ تمام نعمتوں کی جان ہے اور اگر ہمارے نوجوان اقرار کر لیں کہ وہ امین اور راستباز بنیں گے تو وہ بغیر ہتھیاروں کے دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.راستبازی قولی اور ذہنی سچائی ہے اور امین بننا عملی سچائی کو چاہتا ہے.اگر ہمارے نوجوان یہ دونوں چیزیں اپنے اندر پیدا کر لیں تو یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ انہیں کام نہیں ملتا.تمہیں چاہئے کہ ثابت کر دو کہ احمدی راستباز اور امین ہوتے ہیں پھر شدید
خطبات محمود ۱۲۰ سال ۱۹۳۶ء سے شدید دشمن بھی تمہیں تلاش کر کے کام دے گا.ہمارے سلسلہ کا ایک شدید مخالف دشمن اور احرار کا لیڈر ہے مگر وہ اپنے خانگی معاملات کیلئے ایک احمدی پر اعتماد کرتا ہے وہ پبلک میں آکر تو یہ کہتا ہے کہ کسی احمدی کا منہ تک نہ دیکھو مگر خود ایک احمدی کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا.پس جہاں بھی احمدیوں نے اپنے معیار کو قائم رکھا ہے دشمنوں نے بھی ان کی دیانت اور قابلیت کو تسلیم کیا ہے.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے ایک رپورٹ پہنچی کہ ایک احمدی افسر کے متعلق بعض لوگوں نے بہت شور مچایا مگر جب بالا افسروں نے تحقیقات کی تو مخالفوں کے ایک حصہ نے ہی گواہیاں دیں کہ گزشتہ سالہا سال سے ایسا دیانتدار کوئی افسر ہمارے علاقہ میں آیا ہی نہیں.پہلے جو بھی آتا تھا رشوت لیتا تھا صرف یہی ایک ہے جو انصاف سے کام لیتا ہے اور افسران بالا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بہت دیانتدار آدمی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست فوج میں ملازم تھے بعض فوجی کبھی جوش میں آکر لوٹ مار بھی کر لیتے ہیں اور بعض افسر فوج کی نیک نامی کے قیام کیلئے اس پر پردہ کی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ جس کمپنی میں تھے اُس کا بھی اُس وقت یہی حال تھا لیکن وہ احمدی کی سچا اور مخلص احمدی تھا وہ ہمیشہ سچی بات کہہ دیتا اور اس وجہ سے ہندوستانی افسر ہمیشہ اُس سے ناراض رہتے اور وہ اکثر کوارٹر گارڈ میں ہی رہتا.ایک دفعہ ان کی فوج کو ئٹہ کی طرف گئی اور وہاں کی بعض فوجیوں کا ایک چھابڑی والے سے جھگڑا ہو گیا اور انہوں نے غصہ میں آکر اُس کی چیزیں چھین لیں اور اُسے مارا بھی.پولیس نے اس معاملہ کی تحقیقات شروع کی تو چند ہندوستانی افسر اس کی میں رکاوٹیں ڈالنے لگے.عدالت میں مقدمہ پیش ہوا مجسٹریٹ کوئی دیانتدار انگریز تھا جو چاہتا تھا کہ که صداقت کھلے.دُکانداروں نے اسے بتایا کہ فوجیوں کے ساتھ ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جو ان کو اس کام سے منع کرتا تھا.مجسٹریٹ نے فوجی افسروں کو لکھا کہ وہ شخص کہاں ہے اسے پیش کیا ہے جائے.جواب میں لکھا گیا کہ وہ سزا یاب ہے اور کوارٹر گارڈ میں ہے.مجسٹریٹ نے لکھا کہ اسے گواہی کیلئے بھیج دو.چنانچہ وہ پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے اُسے پوچھا کہ تم سزا یاب کیوں تھے؟ اُس نے صاف کہہ دیا کہ اسی لئے کہ گواہی نہ دے سکوں اور پھر صاف بات بتادی.مجسٹریٹ نے اس کے افسروں کو لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی آپ کے ہاں کھپت نہیں اسے ڈسچارج
خطبات محمود ۱۲۱ سال ۱۹۳۶ء کر دیا جائے تو میں اسے پولیس افسر بنانا چاہتا ہوں اور اسے ڈسچارج دلا کر پولیس میں ایک اچھے عہدے پر مقرر کرا دیا اور اس طرح راستی کی بدولت وہ مالی لحاظ سے بھی فائدہ میں رہا.پس صداقت ایک ایسی چیز ہے جو دلوں کو فتح کرتی ہے.کہا جاتا ہے کہ سید عبد القادر صاحب جیلانی ابھی بچے تھے کہ ان کی ماں نے ان کو ان کی کے ماموں کے پاس تجات سیکھنے کی غرض سے ایک قافلہ کے ساتھ بھیجا اور چالیس پونڈ ان کی گدڑی کی میں سی دیئے.راستہ میں قافلہ لٹ گیا.ایک ڈاکو نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہاں چالیس پونڈ ہیں.اسے اعتبار نہ آیا اور گھور گھار کر چلا گیا.پھر کسی اور نے یہی سوال کیا اور آپ نے یہی جواب دیا.آخر ڈا کو ان کو پکڑ کر اپنے افسر کے پاس لے لی گئے.اس نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس واقعی چالیس پونڈ ہیں یا یونہی کہتے ہو؟ آپ نے کہا میرے پاس ہیں اس لئے کہتا ہوں.اُس نے کہا کہاں ہیں؟ تو آپ نے کہا گدڑی میں.میری ماں نے سی دیئے تھے.گدڑی کھولی گئی تو چالیس پونڈ نکل آئے.افسر کو حیرت ہوئی اور اس نے کہا جی کہ تم بہت بیوقوف ہو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں.آپ نے فرمایا کہ جب میرے پاس تھے تو میں جھوٹ کس طرح بول دیتا.اس بات کا اُس چور پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے جھٹ تو بہ کر لی اور یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے چوروں کو قطب بنا دیا.پس امانت اور راستی بڑی عجیب چیزیں ہیں اور ایسی تلوار میں ہیں جن سے تم قوی سے قوی دشمن کو قتل کر سکتے ہو اور پھر تم جسے قتل کرو گے وہ لمبی زندگی پائے گا.ابو جہل وغیرہ نے لوہے کی تلواری سے مسلمانوں کو مارا مگر خود مر گئے لیکن صداقت کی تلوار سے رسول کریم ﷺ نے جن لوگوں کو مارا وہ ای ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے.جیسا کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ.پس تم صداقت کی تلوار ہاتھ میں لو اور قتل عام کرتے جاؤ.تمہارا یہ قتل عام دنیا کیلئے بہت بڑی برکات کا موجب ہو گا.پس اپنے مقام کو سمجھو، تم دنیوی بادشاہوں کے سپاہی نہیں ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہو اور تمہارے لئے سب سے بڑی تلوار قرآن اور صداقت کی تلوار ہے اسے لے کر دنیا میں نکلو پھر تمہارے اندر ایسی تاثیر پیدا ہو جائے گی کہ تمہارے مقابل پر آنے والا خود بخود مرعوب
خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۶ء ہوتا چلا جائے گا.بے شک یہ بہت بڑا کام ہے مگر ہمارے خدا میں سب طاقتیں ہیں.جھوٹ کے کی سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کیلئے یہ ناممکن ہے کہ سچائی کی کشتی میں بیٹھ سکیں.مگر وہ خدا جس کی نے نوح کے زمانہ میں ایک کشتی تیار کرائی اور جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نوح کا نام دیا اُس کیلئے یہ ناممکن نہیں کہ ایک ایسی کشتی تمہیں دے دے جس سے تم نہ صرف خود اس سمندر سے نکل جاؤ بلکہ اوروں کو بھی نکال لو.پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پر اپنا فضل نازل کرے اور ہمیں سچائی پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور صداقت کی تلوار عطا کرے جس کے مقابلہ میں شیطانی تلوار اور کینہ و کپٹ اور بغض و عناد کی تلوار میں نہ ٹھہر سکیں تا اُس کی حکومت پھر قائم ہوا اور محمد لہ کا نور پھر دنیا میں پھیلے.لے (الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۳۶ ء ) غلہ : مٹی کی گولی یا کنکری جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں.ڈینیوب یورپ کے دریاؤں میں سے دوسرا سب سے بڑا دریا.بلیک فارسٹ کی مشرقی دہلانوں سے نکلتا ہے اور بحیرہ اسود میں جا گرتا ہے.يونس : ۱۷ سیرت ابن ہشام جلدا صفحه ۸۶ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۵۱ مطبوعہ لا ہور ۱۳۰۹ھ 1 سیرت ابن ہشام جلدا صفحه ۱۱۹ ،۱۲۰ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ
خطبات محمود ① سال ۱۹۳۶ء جائز اور پر امن ذرائع سے دنیا میں صحیح اسلامی حکومت قائم کرنا ہمارا فرض ہے.فرموده ۱۳/ مارچ ۱۹۳۶ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے بارہا جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر عمارت اپنے اندر کئی حصے رکھتی ہے اور جب تک وہ سب حصے پورے نہ ہوں اُس وقت تک وہ فوائد جو اُس عمارت سے مدنظر ہوں کبھی حاصل نہیں ہو سکتے.ایک قلعہ جس غرض کیلئے بنایا گیا ہوا گر وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتا تو ی وہ قلعہ نہیں کہلا سکتا.مثلاً چاروں طرف دیوار بنادی جائے لیکن اتنی موٹی دیوار نہ بنائی جائے جو تو پوں اور گولوں کا مقابلہ کر سکے یا موٹی دیوار تو بنا دی جائے لیکن ایسے مصالحہ سے نہ بنائی جائے جو دشمن کے گولوں کا مقابل کر سکے یاد یوار میں تو ایسے مصالحہ سے بنادی جائیں جو گولوں کا مقابلہ کر سکیں مگر چاروں طرف نہ بنائی جائیں بلکہ اس کا کوئی حصہ کھلا چھوڑ دیا جائے ایسی صورت میں وہ دیوار میں قلعہ کی دیوار میں نہیں کہلا سکتیں اور نہ قلعہ سے پورا فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.یا مثلاً نہریں ہیں اگر کوئی شخص نہریں کسی ملک میں جاری کر دے لیکن ان کی سطح دوسری زمین سے اونچی نہ رکھے بلکہ زمینیں اونچی ہوں اور نہریں نیچی تو وہ نہریں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں کیونکہ اُن کا پانی بغیر کسی فائدہ کے بہتا چلا جائے گا.یا مثلاً کوئی شخص مکان بنائے لیکن اُس پر چھت نہ ڈالے تو ایسی صورت میں مکان سے جو حفاظت مطلوب ہے وہ حاصل نہ ہو سکے گی.یا مکان پر چھت تو ڈال دے لیکن
خطبات محمود ۱۲۴ سال ۱۹۳۶ء چار کی بجائے تین دیوار میں بنادے یا دیوار میں تو چاروں بنا دے مگر فرض کرو وہ دروازہ نہ رکھے تب بھی اس مکان سے وہ فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ اس مکان میں داخل نہیں ہو سکے گا.یا دیوار میں بھی بنادے اور دروازے بھی رکھ دے، چھت بھی ڈال دے مگر کواڑ نہ بنائے تب بھی مکان سے وہ پورا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ دروازے کھلے رہنے کی وجہ سے چور آئیں گے اور اس کی چیزیں اُٹھا کر لے جائیں گے.غرض جب ہم کسی چیز کو بناتے یا اسے حاصل کرتے ہیں تو جی ہمارے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جو فوائد اس چیز سے مطلوب ہیں آیا وہ اس سے حاصل ہوتے ہیں یا نہیں اور آیا اس چیز کی ساری شقیں کامل ہیں یا نہیں ؟ اگر اس کی تمام شقیں کامل ہوں تو ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جو فوائد اس چیز سے حاصل ہو سکتے ہیں ہمیں بھی حاصل ہو جائیں گے اور اگر اس کی تمام شقیں کامل نہیں تو ہمیں اس فائدہ کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے جو تمام شقوں کی کے کامل ہونے کی صورت میں اس سے حاصل ہوسکتا ہے.اس تمہید کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح اس دنیا کی چھوٹی بڑی تمام عمارتوں کی جہات ہیں، دیواریں ہیں، چھتیں ہیں، فرش ہیں ، موریاں ہیں، کھڑکیاں ہیں، دروازے ہیں، الماریاں ہیں اور روشندان ہیں اسی طرح مذاہب کے بھی چھت ہیں ، مذاہب کی بھی دیوار میں ہیں کی اور مذاہب کے بھی دروازے کھڑکیاں، روشندان ، کھونٹیاں اور فرش وغیرہ ہیں اور مذہب بھی کسی ایک چیز کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس نام کے اندر بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں.اگر وہ مشمولہ اشیاء اپنی اپنی جگہ پر موجود ہوں تو ان فوائد کا حاصل ہونا یقینی ہوتا ہے جو مذہب پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتے ہیں اور اگر وہ مشمولہ اشیاء نہ ہوں تو ان فوائد کا حاصل ہونا بالکل غیر معقول اور خلاف عقل ہوگا.ہم لوگ جو مسلمان کہلاتے اور قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنے کے مدعی ہیں اس زمانہ میں ہماری حالت عجیب قسم کی ہے.قرآن کریم کے احکام کے دو حصے ہیں ایک حصہ قرآن کریم کے احکام کا وہ ہے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایک حصہ قرآن کریم کے احکام کا وہ ہے جو افراد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جو حصہ قرآن کریم کے احکام کا افراد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اُس پر ہر جگہ انسان عمل کر سکتا ہے خواہ وہ آبادی میں ہو خواہ جنگل میں ، خواہ میدانوں میں
خطبات محمود ۱۲۵ سال ۱۹۳۶ء ہو خواہ پہاڑوں میں، خواہ گاؤں میں ہو خواہ شہروں میں اور جو لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں وہ اپنے اپنے طور پر ان احکام کو اگر پورا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں.مثلاً نماز کا حکم ہے یا روزہ رکھنے کا حکم ہے یا صدقہ و خیرات دینے کا حکم ہے ان احکام پر جہاں جہاں کوئی مسلمان ہو گا عمل کرے گا اور وہ اپنے لئے ان احکام پر عمل کرنے کی کوئی راہ تلاش کر لے گا جس میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئے گی لیکن قرآن کریم کے وہ احکام جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نظام کے ذریعہ ہی پورے ہو سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں.مثلاً زکوۃ ہے اگر دنیا میں کوئی اسلامی حکومت نہیں یا حکومت اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد مسلمانوں میں کوئی نظام بھی موجود نہیں تو زکوۃ کا فریضہ صحیح معنوں میں ادا نہیں ہو سکتا کیونکہ زکوۃ کے متعلق اسلامی تعلیم یہ ہے کہ وہ ایک جگہ جمع ہونی چاہئے اور پھر عقل کے ساتھ اسے مقررہ مواقع پر خرچ کرنا چاہئے.یا مثلاً مسلمانوں کی تعلیم کو ایک سطح پر لانے کا سوال ہے یہ افراد کے ذریعہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کوئی کسی رنگ کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور کوئی کسی رنگ کی، کوئی زیادہ تعلیم حاصل کرتا ہے کوئی کم اور اس طرح ایک سطح پر وہ اپنے آپ کو نہیں لا سکتے.یا مثلاً جہاد ہے اگر جہاد کی کسی وقت ضرورت پیش آ جائے اور کوئی حکومت ظالمانہ طور پر مسلمانوں کو اس لئے قتل کرنا شروع کر دے کہ وہ کیوں مسلمان ہیں اور تلوار کے زور سے ان کا مذہب تبدیل کر کے انہیں اسلام سے منحرف کرنا چاہے تو ایسے موقع پر اور صرف ایسے موقع پر جہاد بالسیف جائز ہے مگر یہ حکم بغیر نظام کے پورا نہیں ہو سکتا.میں ضمنی طور پر یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کی سخت غلطی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جہاد کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی کافر ملے اسے مارڈالو.اگر کافروں کو مارنا ہی جہاد ہے تو پھر اسلام میں ہم کس کو داخل کریں گے.حقیقت یہ ہے کہ کا فر و اسلام مار نا نہیں چاہتا بلکہ اسے محبت کا قیدی بنانا چاہتا ہے کیونکہ اسلام دنیا میں ہلاکت بر پا کرنے کیلئے نہیں آیا بلکہ لوگوں کو زندگی دینے کیلئے آیا ہے.پس جہاد کے یہ معنی نہیں کہ غیر مسلم کا سرکاٹ دیا جائے بلکہ جو شخص بلا وجہ کسی غیر مسلم کا سر کا تھا اور اُسے قتل کرتا ہے اسلام اُسے قاتل اور جہنمی سمجھتا ہے.جہاد بالسیف صرف اُس وقت جائز ہوتا ہے جب کوئی قوم مسلمانوں پر اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا اور بزور شمشیر انہیں مذہب سے منحرف کرنا چاہے اگر اس طریق کی اجازت دی جائے اور اس کا
خطبات محمود ۱۲۶ سال ۱۹۳۶ء مقابلہ نہ کیا جائے تو پھر مذہب دنیا میں باقی ہی نہیں رہ سکتا.اسی لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ جب ی اس قسم کے حالات پیدا ہو جا ئیں تو غیر مسلموں کا مقابلہ کرو مگر یہ مقابلہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب مسلمانوں کے پاس ایک جتھہ ہو اور ان میں نظام پایا جاتا ہو.اگر ان کے پاس جتھہ نہیں اور اگر ان میں نظام نہیں اور انفرادی طور پر ایک ایک مسلمان دشمن کے مقابلہ کیلئے جائے گا تو وہ ہلاک ہو جائے گا اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا.پس جہاد بھی ان احکام میں سے ہے جن میں ایک جتھہ اور نظام کی ضرورت ہے تا مسلمان یکجائی طور پر ایک ظالم حکومت یا ظالم قوم کا مقابلہ کر سکیں افراد اس حکم کو کما حقہ نہیں بجالا سکتے.پھر اسلام کے جو احکامات حکومت اور جتھہ اور نظام سے تعلق رکھتے ہیں وہ آگے تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو گلی طور پر حکومت کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں اور ایک وہ جو گلی طور پر نظام کے اختیار میں ہوتے ہیں اور ایک وہ جو اپنی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں.خواہ حکومت انہیں اپنے قبضہ میں رکھے خواہ اقوام کو آزاد چھوڑ دے.کلی طور پر حکومت کے قبضہ میں رہنے والے اختیارات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے قاتل کو قتل کی سزا دینا.یہ کلی طور پر حکومت کے قبضہ میں ہے اور کوئی شخص کسی کو اس لئے قتل نہیں کر سکتا کہ اس کے علم میں وہ یقینی طور پر قاتل ہے کیونکہ قاتل کا علم اسے قتل کی سزا دینے کا اختیار نہیں دے دیتا یہ پورے طور پر حکومت کے اختیار میں ہے اور وہی اس اختیار کے ماتحت قاتل کو گرفتار کر کے اسے سزا دے سکتی ہے اور اگر کوئی حکومت قاتل کو قتل نہیں کرتی تو بے شک وہ ظلم کرے گی لیکن وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگی.بندوں کا یہ کام نہیں کہ وہ آپ ہی آپ قاتل کی تحقیق کر کے اسے سزا دے دیں یا مثلاً چوری کی سزا موجودہ قانون میں قید ہے یہ سزا بھی حکومت نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے اور کسی دوسرے کا یہ حق نہیں کہ وہ خود بخود کسی چور کو چوری کی سزا دے دے.اب جو نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں ہمارے لئے ان میں ایک مشکل پیدا ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں ہم پر جو حکومت ہے وہ غیر مسلم ہے اور اس کا نظام بعض جرائم کی اور سزا دیتا ہے اور اسلامی نظام ان جرائم کی اور رنگ میں سزا تجویز کرتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لازمی طور پر اسلامی تعلیم کی ایک شق باطل رہتی ہے.مثلاً اسلام ایک قاتل کے متعلق جس رنگ میں تحقیقات کا حکم دیتا اور جو سزا اس کیلئے تجویز کرتا ہے یا ایک چور کے متعلق
خطبات محمود ۱۲۷ سال ۱۹۳۶ء جس رنگ میں تحقیقات کا حکم دیتا اور جو سزا اس کیلئے تجویز کرتا ہے وہ مسلمانوں کے اختیار میں نہیں بلکہ حکومت کے اختیار میں ہے اور اس طرح ہم موجودہ دور میں ایسے حالات میں گھرے ہوئے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے بعض حصوں کو پورا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے مگر اور بہت سے حصے ایسے ہیں جو باوجود اس کے کہ نظام سے تعلق رکھتے ہیں حکومت نے ان سے اپنا ہاتھ کھینچ رکھا ہے اور لوگوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جس رنگ میں چاہیں ان امور کا آپس میں فیصلہ کرلیں.مثلاً مقدمات کا ایک حصہ ایسا ہے جس کے متعلق حکومت کہتی ہے کہ اسے ضرور ہمارے پاس لاؤ لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ اس کا ہمارے پاس لا نا یا نہ لا نا تمہاری مرضی پر منحصر ہے.اگر تم چاہو تو ان مقدمات کو ہمارے پاس لے آؤ اور اگر نہ چاہو تو نہ لاؤ.ایسے تمام معاملات اور اختیارات میں جن میں حکومت دخل نہیں دیتی اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی لوگوں کو اجازت دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان امور کا اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلہ کریں.کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ جب حکومت نے ان امور میں دخل اندازی پسند نہیں کی اور ہماری مرضی پر چھوڑ دیا ہے ہم ان کا فیصلہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہ کریں.ایسے بیسیوں معاملات ہیں جن کے متعلق ہم صحیح اسلامی حکومت کا نقشہ قائم کر سکتے ہیں.مثلاً زکوۃ کا مسئلہ ہے زکوۃ انگریزی حکومت نہیں لیتی اور نہ کسی کو زکوۃ دینے پر مجبور کرتی ہے اور چونکہ انگریزی حکومت اس میں دخل نہیں دیتی ہی اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اگر مسلمانوں میں نظام موجود ہو تو وہ زکوۃ لے کر اسلامی طریق کے ماتحت اس کی تقسیم کا انتظام نہ کریں.وہ اگر چاہیں تو ایسے امور میں اسلامی طریق اور شریعت کے مطابق ی کام کر سکتے ہیں اور جس حد تک وہ اسلامی تعمیر کو مکمل کر سکتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اسے مکمل کریں کیونکہ سارے اختیارات تو انہیں حاصل نہیں اس لئے یہی ہو سکتا ہے کہ جن امور میں حکومت دخل نہیں دیتی اور انہیں حسب منشاء کام کرنے کا اختیار دیتی ہے ان میں وہ اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلے کریں.یہی چیز ہے جسے شروع خلافت سے میں نے اپنے مد نظر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے تھی میں اپنوں کی نگاہ میں بھی کئی دفعہ بدنام ہوا ہوں اور غیروں کی نگاہ میں بھی.غیر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے بھی کئی دفعہ جب انہیں ضرر پہنچتا ہے کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ اپنی حکومت قائم کر رہا ہے حالانکہ میں اپنی نہیں بلکہ اسلام کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں
خطبات محمود ۱۲۸ سال ۱۹۳۶ء اور جہاں حکومت مجھے اجازت دیتی ہے وہاں میں اسلام کی حکومت قائم کرنے کیلئے اپنا پورا زور لی لگا تا ہوں ، لگا تا چلا آیا ہوں اور انشاء اللہ لگاتا چلا جاؤں گا اس بات میں نہ مجھے کسی کا ڈر ہے نہ خوف.جب مجھے نظر آتا ہو کہ قرآن کریم ایک معاملہ میں فلاں حکم دیتا ہے ، جب مجھے نظر آتا ہو کہ حکومت اس معاملہ میں مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں جس طرح چاہوں کروں اور جب مجھے نظر آتا ہی ہو کہ ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اقرار کرتا ہے کہ میں نے اپنا سب کچھ آپ کیلئے قربان کر دیا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اس معاملہ میں اسلامی حکم جاری نہ کروں اور کیا خدا تعالیٰ کے سامنے میرا عذر قابل سماعت ہوگا کہ میں نے اس معاملہ میں اسلامی حکم کو اس لئے جاری نہیں کیا کہ حکومت غیر تھی ؟ خدا تعالیٰ کہے گا بے شک حکومت غیر تھی مگر جب اسی حکومت نے تمہیں اجازت دے رکھی تھی کہ ان معاملات میں تم جو چاہو فیصلہ کرو اور پھر جب لوگوں نے اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ ہمیں ہر فیصلہ منظور ہے تو پھر تم نے کیوں اسلامی فیصلہ کا اجر نہ کیا اور کیوں اسلامی تعلیم اس معاملہ میں دنیا میں قائم نہ کی؟ جب فیصلہ ماننے کے والے کہتے تھے کہ ہمیں ہر فیصلہ منظور ہے اور ہم اسے ماننے کیلئے تیار ہیں ، جب حکومت کہتی تھی کہ بہت اچھا اس معاملہ میں ہم دخل نہیں دیتے تم جو چاہو فیصلہ کر لوتو پھر کونسی روک درمیان میں حائل تھی کہ تم نے اسلامی فیصلہ کا اجرا نہ کیا؟ پس اسلامی تعلیم کو دنیا میں قائم کرنا ، شریعت کے مطابق لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرنا اور جرائم کی اسلامی تعزیر کے مطابق نا قابل دست اندازی پولیس معاملات میں سزا دینا ہمارا فرض ہے سوائے اُن باتوں کے جن میں حکومت ہمارا ہاتھ روک دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم ان معاملات میں تمہیں اپنا حکم چلانے نہیں دیتے اس کے ہوا ادنیٰ سے ادنی اسلامی حکم جاری کرنا اور اسلامی حکومت کا ہر نقشہ دنیا میں قائم کر دینا ضروری ہے مگر وہ حصہ جو حکومت نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے اُس میں ہم دخل نہیں دیتے اور نہ دے سکتے ہیں.اگر دشمن ہماری اس کوشش اور جدو جہد کا نام اپنی حکومت قائم کرنا رکھتا ہے تو رکھے ہمیں اس کی پرواہ نہیں.ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ روحانی حکومت ہے اور ہم نے تو کبھی بھی یہ بات نہیں چھپائی کہ ہم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پر قائم
خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۶ء کر کے رہیں گے اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی.ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ تلوار اور فتنہ وفساد کے زور سے ہم اسلامی حکومت قائم نہیں کریں گے بلکہ دلوں کو فتح کر کے اسلامی حکومت قائم کی کریں گے.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اگر آج میرے بس میں یہ ہو کہ میں انگلستان کے تمام لوگوں کو مسلمان بنادوں ، وہاں کے وزراء کو اسلام میں داخل کر دوں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو بھی مسلمان بنا کر وہاں اسلامی حکومت قائم کر دوں تو میں اپنے اس اختیار سے کام لینے سے انکار کروں گا ؟ میں تو ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ فوراً ان لوگوں کو مسلمان بنای کر انگلستان میں اسلامی حکومت قائم کر دوں لیکن چونکہ یہ میرے بس کی بات نہیں اس لئے میں کر نہیں سکتا.ورنہ میں اس بات سے انکار تو نہیں کرتا کہ میرے دل میں یہ خیال ہے اور یقیناً میرے دل کی خواہش ہے کہ ہمارے بادشاہ مسلمان ہو جائیں، وزراء بھی مسلمان ہو جائیں، پارلیمنٹ کے ممبر بھی مسلمان ہو جائیں اور برطانیہ کے تمام باشندے بھی مسلمان ہو جائیں.اس میں اگر دیر ہے تو اس لئے نہیں کہ میری یہ خواہش نہیں کہ وہ مسلمان ہوں بلکہ اس لئے دیر ہے کہ اُن کو مسلمان کرنا میرے اختیار میں نہیں اور اس وجہ سے وہاں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی.ورنہ اسلامی حکومت قائم کرنے کیلئے میرے دل میں تو اتنی زبر دست خواہش ہے کہ اس کا کوئی اندازہ کی ہی نہیں لگا سکتا اور اپنی اس خواہش کا میں نے کبھی انکار نہیں کیا اور اگر میں انکار کروں اور میرے دل میں اسلامی حکومت کے قائم کرنے کی خواہش نہ ہو تو اسلام کے احکام کے وہ حصے پورے کس طرح ہو سکتے ہیں جن کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے.کیا کوئی شخص پسند کرے گا کہ اُس کا گھر ادھورا ر ہے؟ اگر کوئی شخص اپنے مکان کے متعلق یہ پسند نہیں کر سکتا کہ وہ ادھورا رہے تو خدا تعالیٰ کے گھر کے متعلق وہ یہ امرکب پسند کرے گا.اس میں کیا شک ہے کہ جب تک تمام دنیا مسلمان نہیں ہوتی اور خود حکومت، اسلامی حکومت نہیں ہو جاتی اُس وقت تک اسلام کی عمارت کافی رہتی ہے اور اپنی عمارت کا کا نا ہونا کون پسند کر سکتا ہے.جب ہر شخص اپنی عمارت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہے تو کب کوئی عقلمند ہم سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ہم اسلام کی عمارت کو کا نا رکھنا پسند کریں گے.اگر انگریز عیسائی ہی رہیں، یہودی یہودی ہی رہیں ، ہندو ہندو ہی رہیں تو اسلامی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی.ہاں اس کے قائم کرنے کا ایک طریق ہے اور اس طریق کے ذریعہ ہی دنیا میں ہمیشہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کام ہوا کرتے ہیں.اگر کوئی شخص کا نا ہو اور وہ کسی دوسرے سو جا کھے کی آنکھ نکال کر اپنا کا نا اپنی دور کرنا چاہے تو سارے لوگ اُسے بیوقوف ہی سمجھیں گے کیونکہ دوسرے کی آنکھ نکال کر اُس کا کا نا پن دور نہیں ہوسکتا.اسی طرح اگر کوئی بیوقوف یہ سمجھے کہ چند انگریزوں کو مار کر یا فتنہ وفساد پیدا کر کے وہ اسلامی حکومت قائم کر سکے گا تو وہ حماقت کا ارتکاب کرتا ہے.اور اگر فرض کرو وہ چند انگریزوں کو نہیں بلکہ تمام انگریزوں پر حملہ کرتا ہے اور انگریز اس حملہ کی تاب نہ لا کر ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں تب بھی اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوسکتی ہے.حکومت اگر قائم ہوگئی تو ہندوؤں کی کیونکہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہندو ہیں اور جس طرح مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن اور اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں اسی طرح کی ہندوؤں کا بھی حق ہے کہ وہ ہندو تہذیب، ہندو تمدن اور ہندو حکومت قائم کریں.اسی طرح اگر مسلمانوں کو حق ہے کہ وہ انگریزوں کو اس لئے ماریں کہ وہ اسلام میں داخل نہیں اور انہیں اپنے ملک سے اس لئے نکالیں کہ وہ انگریزی حکومت کی بجائے اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو ی یقیناً ہندوؤں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو ماریں اور انہیں اپنے ملک سے نکال کر ہندو ی حکومت قائم کریں اور ایسی صورت میں ہندوؤں کے فعل پر اعتراض کرنا بالکل پاگل پن ہوگا.جو چیز ہمارے لئے جائز ہے وہ ہمارے غیر کیلئے بھی جائز ہونی چاہئے ورنہ یہ خدا کی تعلیم نہیں ہوگی کہ وہ مسلمانوں کو تو اختیار دے دے کہ وہ اسلامی حکومت کو قائم کرنے کی کوشش کریں لیکن ہندوؤں کو اپنی حکومت قائم کرنے کا اختیار نہ دے.ایسی تعلیم دینے والا خدا نہیں بلکہ سوتیلا باپ ہوگا جو اپنے بیٹے کی تو پرورش کرتا ہے مگر دوسرے کو گھر سے نکال دیتا ہے.انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو ہم اپنا حق قرار دیتے ہوں اُسی کو دوسرے کا حق بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں.پس یہ طریق بالکل نادرست ہے اور میں ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا ہوں لیکن جائز اور پُر امن طریق سے اسلامی حکومت قائم کرنا ہماری دلی خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ آگ ہونی چاہئے کہ ہم موجودہ طرز حکومت کی بجائے حکومت اسلامی قائم کریں.یہ طبعی خواہش ہے اور میرے دل میں ہر وقت موجود رہتی ہے اور میں نے اس خواہش سے کبھی انکار نہیں کیا ہاں میرے اور عام لوگوں کے ذرائع میں اختلاف ہے.میں اسلامی حکومت
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کے قیام کیلئے تبلیغی اور پُر امن ذرائع اختیار کرتا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ اس کے قائم کرنے کا طریق مار پیٹ اور جبر و تشدد ہے.بہر حال یہ خواہش تو جب پوری ہوگی ہوگی اور یقیناً ایک دن پوری ہوگی دنیا کی مخالفتیں اور دشمنوں کی روکیں مل کر بھی اس میں حائل نہیں ہو سکتیں.چنانچہ ایک دفعہ رویا میں میں نے اس مسجد کو جس میں میں اس وقت خطبہ پڑھ رہا ہوں (مسجد اقصیٰ ) دیکھا کہ میں یہاں ممبر پر کھڑا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وائسرائے آئے ہیں کیونکہ ہمارے بادشاہ یہاں آنے والے ہیں اور وہ ان کی آمد سے پہلے انتظام دیکھنا چاہتے ہیں کی چونکہ پروگرام یہ ہے کہ بادشاہ یہاں کے مقدس مقامات دیکھیں گے اور مسجد کو بھی دیکھیں گے اس لئے وائسرائے دیکھ رہے ہیں کہ آیا تمام انتظام مکمل ہے یا نہیں ؟ اُس وقت میں نے دیکھا کہ مسجد اتنی وسیع ہے کہ اس کا آخری کنارہ مشکل سے نظر آتا ہے اور سینکڑوں فوجی سپاہی پریڈ کے طور پر ی کھڑے ہیں مگر وہ اتنی دور ہیں کہ ان کی شکلیں پہچانی نہیں جاتیں.پھر میں نے دیکھا کہ وائسرائے مسجد میں داخل ہوئے ہیں اور وہ تمام انتظام کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پھر دوسرے کی مقدس مقامات دیکھنے کیلئے چلے گئے ہیں.تو یہ چیزیں آخر ہو کر رہیں گی اور کسی کے مثانے یا نہ مٹانے کا سوال ہی نہیں.جس چیز کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے وہ آخر ہو کر رہے گی چاہے اس پر ی عیسائی بُرا منائیں چاہے موسائی بُرا منائیں، چاہے ہندو بُرا منائیں، چاہے سکھ بُرا منائیں یہ خدا تعالی کی قضاء ہے کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی اور جو چیز ایک دن ہونے والی ہو اُسے ہم نے چھپانا کیا ہے اور اس پر اگر کوئی بُرا مناتا ہے تو ہم اس کا علاج کیا کر سکتے ہیں ، مگر جب تک وہ زمانہ نہیں آتا اُس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ جن باتوں میں حکومت ہمیں اختیار دیتی ہے ان میں اسلامی حکومت کی طرز پر تمام باتیں جاری کریں.بے شک اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ ہم عادی چور کا ہاتھ کاٹ دیں بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے مگر اسلام یہ اجازت تو دیتا ہے کہ چور پر تمدنی دباؤ ڈال کر اسے چوری کی عادت سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے.پس اگر کوئی چوری کرے گا تو ہم اُس کے ہاتھ نہیں کاٹیں گے لیکن ہم اس پر تمدنی دباؤ ضرور ڈالیں گے تا اس کی اصلاح ہو جائے اور وہ آئندہ چوری کا ارتکاب نہ کرے.
خطبات محمود ۱۳۲ سال ۱۹۳۶ء اسی طرح بے شک اسلام ہم کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ اگر کوئی شخص عَلَى الْإِعْلان بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُسے ہم سنگسار کر دیں بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے کی اور اس لئے اگر کوئی بدکاری کا عَلَی الْإغلان ارتکاب کرے گا تو ہم اسے سنگسار نہیں کریں گے مگر جو تمدنی دباؤ ہے اس کے ذریعہ ہم قومی اخلاق کی درستی کر سکتے ہیں کیونکہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے.اسی طرح اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اگر کوئی شخص قتل کرے تو اسے سزا کے طور پر قتل کر دیا جائے بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا اختیار قرار دیتا ہے.پس اگر کوئی قتل کرے تو ہم یقینا اسے قتل نہیں کریں گے لیکن اسلام اس بات کا اختیار ہمیں دیتا ہے کہ اگر کوئی قتل کرے تو اُس پر تمدنی دباؤ ڈالا جائے تا اُس کی اصلاح ہو.پس ہم تمدنی طور پر اس سے متنفر کا اظہار کر دیں تا اس کے دل میں ندامت پیدا ہو اور وہ اس بُرے فعل کا دوبارہ ارتکاب نہ کرے.اگر یہ طریق اختیار نہ کی کیا جائے تو کیا اس وجہ سے کہ اسلام قاتل کو بذات خود قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہم قاتل.بڑھ کر مصافحہ کریں گے یا اُس سے پیار کرنے لگیں گے؟ یا کیا اس وجہ سے کہ اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم چور کا ہاتھ کاٹ دیں ہم چور کو چوری کرنے کے بعد شاباش دیں گے اور کہیں گے کی کہ تُو نے کیسا اچھا کام کیا ؟ یا کیا اس وجہ سے کہ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ دنیا میں جو محبہ خانے ہیں انہیں خود بخو در گرا دیا جائے ہم کنچنیوں کا گانا جا جا کر سنیں گے؟ ایک جگہ اسلام اگر ہمارے ہاتھ روکتا ہے تو دوسری جگہ ہمیں اختیار بھی دیتا ہے کہ ہم اسے استعمال کریں.یہی وہ طریق ہے جسے شروع خلافت سے میں نے اپنے مدنظر رکھا اور میں نے بار بار سمجھایا ہے کہ اسلامی عمارت کو مکمل کرنا اور اسے مغربی اثرات سے بچانا ہمارا فرض ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے آجکل کے مسلمان اسلامی احکام سے اتنے جاہل اور ناواقف ہو گئے ہیں کہ جب بھی وہ کوئی طریق اختیار کریں گے غیر اسلامی ہوگا حالانکہ اسلام میں وہ تمام طریق موجود ہیں جن پر کار بند ہو کر انسان اپنے حقوق کو حاصل کر سکتا اور دوسروں کے ظلم سے بچ سکتا ہے اور کسی غیر اسلامی طریق کے اختیار کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء انہی غیر اسلامی اثرات کے ماتحت ہمارے ملک میں ہڑتالوں کا طریق رائج ہو گیا ہے اس طریق کو ہماری جماعت کے لوگ بھی بعض دفعہ اندھا دھند اختیار کر لیتے ہیں حالانکہ وہ طریق کی ان کیلئے موزوں ہی نہیں ہوتا.ایک بچے کو بازار میں سے گزرتے ہوئے جب کوئی دوسرا بچہ تھپڑ مارتا ہے اور وہ اس کے جواب میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اُس وقت بچے کا ہاتھ اُٹھا نا بُر انہیں لگتا لیکن جس وقت اُس کی ماں اُسے مارتی ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے تو سارے کہتے ہیں یہ بڑا بے ادب اور گستاخ ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ پہلے موقع پر اُس کا ہاتھ اُٹھانا ایک اجنبی بچہ کے مقابل میں تھا اور اب اس کا ہاتھ اُٹھانا اپنی ماں کے مقابل میں ہے.بازار میں سے گزرنے والے بچے میں مقابلہ میں اُس کا ہاتھ اُٹھانا اُسے سج جاتا لیکن اپنی ماں کے مقابلہ میں اُس کا ہاتھ اُٹھا نا اُسے نہیں سمجھتا.اسی طرح بازار میں سے گزرنے والے ایک لڑکے کو کوئی اجنبی اگر کہے کہ ایک ٹانگ اُٹھا کر کھڑا ہو جا تو وہ لڑ کا اگر بہت زیادہ اخلاق سے کام لے گا تو خاموش ہو کر گزر جائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو اسے ایک نظر دیکھ کر گزر جائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو اُسے گھور کر گزر جائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو بڑ بڑا کر گزر جائے گا اور اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو دو چار سُنا کر گزرجائے گا کہ تو کون ہوتا ہے جو مجھے اس قسم کی بات کہے لیکن جس وقت سکول روم میں اُستادلر کے سے کہتا ہے کہ ایک ٹانگ پر کھڑا ہو جاتی تو اُس وقت اگر لڑ کا اُستاد کو وہی جواب دے جو وہ بازار میں ایک اجنبی شخص کو دیتا ہے تو سارے کہیں گے یہ بڑا ہی بد تہذیب ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بازار میں ایک اجنبی کے سامنے اس کے الفاظ سج جاتے تھے لیکن اُستاد کے سامنے نہیں سجتے.اسی طرح ایک مسلمان کہلانے والے کا بھی مغربی طریق عمل اختیار کرنا اور اسلامی طریق کو چھوڑ دینا اسے کسی صورت میں نہیں سج سکتا.اسلامی عمارت جو تمدن کے متعلق ہے اس کی بنیاد انصاف اور محبت پر ہے اس لئے اپنے کی حقوق کے حصول کیلئے بھی وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو انصاف اور محبت پر مبنی ہو.یہی وجہ ہے که حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہیں سٹرائک ہوتی اور کوئی احمدی اس میں شریک ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُسے سخت سزا دیتے اور اُس پر اظہار ناراضگی فرماتے.اور یہی وجہ ہے کہ سٹرائک یا سٹرائک کے مشابہہ بھی جب بعض احمد یوں نے کوئی حرکت کی ہم نے
خطبات محمود ۱۳۴ سال ۱۹۳۶ء.سے سخت ناپسند کیا.اس لئے کہ جب اسلامی تعلیم میں ان کے مطالبات کا علاج موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اسلامی طریق اختیار نہیں کرتے اور غیر اسلامی طریق اختیار کرتے ہیں.زیادہ تر سٹرائکوں کا سوال مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہوتا ہے.مغربی طریق یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طرف سے ایک حق کا مطالبہ کرتا ہے اور ان کا اصول یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس اگر مزدور غالب آجائیں تو وہ مالک کارخانہ جات کے حقوق کو د بالیں گے اور اگر مالک کارخانہ جات غالب آجائیں تو وہ مزدوروں کے حقوق کو دبا لیں گے مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.اسلام نہ مزدور کو اجازت دیتا ہے کہ وہ سرمایہ دار کو آنکھیں دکھائے نہ سرمایہ دار کو اجازت دیتا ہے کہ وہ مزدور کو آنکھیں دکھائے کیونکہ یہ دونوں باتیں غیریت پر دلالت کرتی ہیں اور اسلام کا منشاء یہ ہے کہ سب بنی نوع انسان اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھیں کیونکہ خدا تعالیٰ سب کا آتا ہے اور محبت کے لحاظ سے وہ ان کا باپ ہے اس لئے آپس میں وہ طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا جس میں غیریت پائی جاتی ہو.پس ان طریقوں کو اسلام کبھی جائز قرار نہیں دے سکتا.نہ پہلے کبھی اس نے انہیں جائز قرار دیا ہے اور نہ آئندہ قرار دے گا.میں کہہ چکا ہوں کہ اسلامی طریق کی بنیاد انصاف پر ہے اسلام ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ مزدور جتھہ بندی اور جماعت کی صورت میں سرمایہ داروں کو دبا کر اپنی طاقت قائم کریں اور نہ اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ سرمایہ دار جتھہ بندی اور جماعت کی صورت میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کو نقصان پہنچا ئیں بلکہ وہ کہتا ہے کہ غیر جانبدار شخص بیٹھیں اور انصاف کی رُو سے باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پھر دوسروں کا فرض ہے کہ اُسے قبول کریں.اسلامی خلافت اور نظام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو عقل اور فہم و فراست سے کام لے کر ایک امام منتخب کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ دیانتداری سے اپنے امام کے انتخاب کی جد و جہد کریں گے تو وہ خود امام کا انتخاب کر دے گا.اسی وجہ سے خلافت کا انتخاب خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور گو زبان بندوں کی ہوتی ہے مگر ارادہ اور منشاء خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے.جیسے قلم جب لکھتا ہے تو دراصل قلم نہیں لکھتا بلکہ ہاتھ لکھتا ہے، ہاتھ بھی نہیں لکھتا بلکہ دماغ ہاتھ سے کام کراتا ہے اسی طرح گو خلیفہ کا انتخاب بندوں کے ہاتھ سے ہوتا ہے مگر اُس کے پیچھے خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۱۳۵ سال ۱۹۳۶ء کام کر رہا ہوتا ہے اور گو زبان بندوں کی ہوتی ہے مگر دماغ پر خدا تعالیٰ کا قبضہ ہوتا ہے اور اس طرح حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی انتخاب کرتا ہے اور وہ بندوں کا نہیں بلکہ خدائی انتخاب کہلا تا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تعطل اور تعطیل کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان اصولوں پر اپنے تمام کاموں کو چلائیں جو اسلامی بنیاد اور عمارت کے ساتھ وابستگی اور مطابقت رکھیں.اگر ہم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا میں قائم کرنا نہیں چاہتے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری قادیان کی جماعت میں بعض دفعہ جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، کہیں دُکانداروں کو شکوہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے ریٹ کم ہیں، کہیں لوگوں کو یہ شکایت پیدا ہو جاتی ہے کہ دکانداروں کے ریٹ زیادہ ہیں.ابھی گل مجھے دُکانداروں کے ایک حصہ کے متعلق معلوم ہوا کہ اُس نے اِس لئے سٹرائک کر دی کہ اُن کے ریٹ کم مقرر کئے گئے ہیں.اس وجہ سے میں پھر ایک دفعہ تمام جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا طریق اسلامی ہے غیر اسلامی نہیں.اگر کسی کا حق ثابت ہے مگر دوسرا شخص اُسے نہیں دیتا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کو حق نہیں ملتا خلیفہ اُس کے ساتھ ہے اور اگر اپنے حق کے حاصل کرنے کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کیا جائے گا تو پھر خلیفہ اُس کا ساتھ نہ دے گا.خلیفہ خدا تعالیٰ کا قائم مقام ہے وہ نہ مردوں کا ہے نہ عورتوں کا ، نہ چھوٹوں کا ہے نہ بڑوں کا ، نہ مزدوروں کا ہے نہ سرمایہ داروں کا ، وہ نہ مشرقی ہے نہ مغربی بلکہ اُس کا تعلق اُس ہستی کے ساتھ ہے جو سب سے بالا ہو کر ہر ایک کو ایک نظر سے دیکھ رہی ہے اس لئے کوئی کسی کا حق خلافت کی کی موجودگی میں غصب نہیں کر سکتا.خواہ گا ہک کا حق ہو یا دکاندار کا، خواہ مزدور کا حق ہو خواہ سرمایہ دار کا ، ہر ایک کے ساتھ عدل کیا جائے گا اور ہر ایک کو انصاف کے ساتھ اُس کا حق دلایا جائے گا لیکن دیکھنا یہ پڑے گا کہ آیا عدل حاصل کرنے کیلئے وہی طریق اختیار کیا گیا ہے جو اسلامی ہے یا غیر اسلامی طریق اختیار کیا گیا ہے.جو شخص عدل حاصل کرنے کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کرے گا یقیناً اُس سے کسی طرح نرمی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس طرح ان امور میں بھی اسلامی حکومت کا قائم کرنا ناممکن ہو جاتا ہے جن امور میں اسلامی حکومت قائم کرنا ہمارے اختیار میں ہے.پس اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو اور چونکہ پچھلی باتیں ذہن سے اتر جاتی ہیں اس لئے میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء دُہرا دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جو اپنے حقوق کے حصول کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کرتے ہیں وہ کسی نرمی اور رحم کے مستحق نہیں سمجھے جاسکتے کیونکہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کو صدمہ پہنچاتے اور کی غیر اسلامی طریق دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.پس اگر آئندہ میرے کانوں میں سٹرائک کی آوازی آئے گی تو جماعت اُن سٹرائک کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور وہ کبھی اُن سے لین دین نہیں کرے گی.اسی طرح اگر سرمایہ داروں میں سے کوئی شخص کسی مزدور کا حق نہیں دے گا اور اسے دبائے رکھے گا تو اُسے بھی سخت سزا دی جائے گی.انصاف قائم کرنا ہمارا فرض ہے اور وہ خدا جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی اُس کا قائم مقام ہونے کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم کسی کو کسی کا حق چھیننے اور دبانے نہ دیں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب.جب اسلام نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک طریق مقرر کیا ہوا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اسے اختیار نہیں کیا جاتا.مثلاً اگر دکانداروں کی کو شکایت پیدا ہوئی تھی تو اس کے ازالہ کے دو طریق تھے وہ محکمہ قضاء میں نالش کر سکتے تھے کہ ہمارے ریٹ بڑھائے جائیں اسلامی محکمہ قضاء کو سب اختیارات حاصل ہیں.جس وقت محکمہ قضاء میں نالش کر دی جائے اور کہا جائے کہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم یہ ریٹ رکھیں حالانکہ یہ ریٹ کافی نہیں تو قاضی فوراً دوسرے فریق کو اگر وہ انجمن ہے تو انجمن کو اگر امور عامہ ہے تو امور عامہ کو ی بُلائے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا اور اگر وہ ثابت کر دیں گے کہ ان کے ریٹ کم ہیں تو ان کی کے پہلے ریٹ منسوخ کئے جائیں گے اور جو جائز ریٹ ہوں گے وہ مقرر کئے جائیں گے اور اگر وہ اس طریق کو پسند نہیں کرتے تھے تو چونکہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس لئے براہ راست خلیفہ وقت کے سامنے بھی درخواست پیش کی جاسکتی تھی.اسی طرح اگر پبلک کو شکایت ہو کہ دکانداروں کے ریٹ زیادہ ہیں تو وہ انجمن کے پاس شکایت کر سکتے ہیں اور اگر انجمن دُکانداروں کیلئے ایک ریٹ مقرر کر دیتی ہے مگر کوئی دُکاندار اس کی تعمیل نہیں کرتا تو بہ اجازت اس سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے.لیکن اگر انجمن ایک فیصلہ کرتی ہے اور دُکاندار اُس پر راضی نہیں تو وہ اس کے خلاف اپیل کر سکتا ہے جو خلیفہ وقت کے پاس بھی ہو سکتی ہے اور محکمہ قضاء میں بھی.یہ تمام رستے کھلے ہیں اور ان کے ذریعہ ہر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اُس کا حق مارا جارہا ہے اپنا حق لے سکتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص ان طریق کے خلاف چلتا اور دھمکی سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے تو اسلام دھمکی کی روح کو کسی صورت میں پسند
خطبات محمود ۱۳۷ سال ۱۹۳۶ء نہیں کرتا.مؤمن کے اندر تو اسلام وہ دلیری پیدا کر دیتا ہے کہ وہ نہ بادشاہ کی دھمکی سے ڈرتا ہے نہ رعایا کی دھمکی سے مگر اس کے ساتھ ہی عدل اور انصاف کی آواز کے سامنے ہر مومن جھک جاتا ہے خواہ وہ عدل و انصاف کی آواز ایک ذلیل ترین آدمی کے منہ سے نکلے.اگر ایک بادشاہ کسی مؤمن سے کہتا ہے کہ ظلم کر تو اُس مؤمن کی چھاتی تن جانی چاہئے اور اُسے کہ دینا چاہئے کہ میں ظلم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں لیکن اگر زمین پر گرا ہوا ایک اپاہج اور ٹو لالنگڑا انسان جس کا منہ مکھیوں کی کثرت کی وجہ سے نظر بھی نہیں آتا تمہیں کہے کہ انصاف کرو تو تمہارا سر اُس کے سامنے جھک جانا چاہئے اور تمہیں کہنا چاہئے کہ سَمْعًا وَّ طَاعَةً.یہ روح ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ بالکل مغربی روح کے خلاف ہے.مغرب جتھہ بندی کو طاقت دیتا ہے مگر اسلام انصاف کو طاقت دیتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہمارے سارے کام اس کے مطابق ہوں اور ہر امر میں انصاف اور محبت کی روح ہم اپنے مد نظر رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک صحابی اپنا گھوڑا دوسرے صحابی کے پاس فروخت کرنے کیلئے لایا اور اُس کی قیمت مثلاً دوسو روپیہ بتائی.دوسرے صحابی نے کہا کہ میں اس قیمت پر گھوڑا نہیں لے سکتا کیونکہ اس کی قیمت دگنی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو گھوڑوں کی قیمت سے واقفیت نہیں لیکن مالک نے زیادہ قیمت لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب میرا گھوڑا زیادہ قیمت کا نہیں تو میں کیوں زیادہ قیمت لوں اور اس پر ان کی تکرار ہوتی رہی یہاں تک کہ ثالث کے ذریعہ سے انہوں نے فیصلہ کرایا.یہ اسلامی روح تھی جو ان دو صحابیوں نے کی دکھلائی.اسلام کا حکم یہی ہے کہ ہر شخص بجائے اپنا حق لینے اور اس پر اصرار کرنے کے دوسرے کے حق کو دینے اور اُسے قائم کرنے کی کوشش کرے جس وقت یہ روح قائم ہو جائے اُس وقت ساری سٹرائکیں آپ ہی آپ بند ہو جاتی ہیں مگر کم سے کم نیکی یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے اپنے حق کا سوال پیدا ہو تو وہ حق اُسے دے دیا جائے.یہ غیر اسلامی روح ہے کہ چونکہ دوسرے کے حق پر ہم ایک لمبے عرصہ سے قائم ہیں اور اس حق کو اپنا حق سمجھنے کی ایک عادت ہمیں ہو گئی ہے اس لئے ہم دوسرے کو وہ حق نہیں دے سکتے.اسلامی روح یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرے کا حق ہو اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء یہ اس پر عرصہ سے قبضہ جمائے بیٹھا ہو تو اُس کے دل میں اور بھی ندامت پیدا ہونی چاہئے کہ میں تی نے اتنا عرصہ ناجائز طور پر دوسرے کے حق کو غصب کیا اور اس سے فائدہ اُٹھا تا رہا.یہ تعلیم ہے جو اسلامی تعلیم ہے اور یہی وہ روح ہے جس کے قیام کیلئے اسلامی حکومتوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ ہماری حکومت اسلامی حکومت نہیں مگر خدا تعالیٰ نے ہماری حکومت کو اتنا دل دیا ہے کہ اس نے بعض امور میں مختلف مذاہب والوں کو کہہ دیا ہے کہ جاؤ ان میں حسب منشاء فیصلہ کرلو.یہ بھی اس کا ایک احسان ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں گو اسی کے بعض مقرر کردہ حکام اس کی اس اجازت کی قدر نہیں کرتے.ہم کہتے ہیں کہ حکومت نے جن امور میں دخل دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور حکومت کا منشاء ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا ئیں.مگر وہ حکام لوگوں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گو حکومت نے لوگوں کو اجازت دی ہوئی ہے کہ بعض امور میں وہ باہم فیصلہ کر لیا کریں مگر اس کا منشاء نہیں کہ لوگ اس طرح فیصلہ کر یں.گویا وہ اسی حکومت پر جھوٹ کا الزام عائد کرتے اور اُسے منافق ثابت کرتے ہیں مگر ہم حکومت کو جھوٹا نہیں سمجھتے اور نہ اس کی اس اجازت میں کسی نفاق کا دخل سمجھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب اس کی طرف سے ایک اجازت ہے تو واقعہ میں حکومت کا منشاء یہ ہے کہ لوگ بجائے سرکاری عدالتوں میں جانے ہی کے بعض امور میں آپس میں سمجھوتہ کر لیا کریں مگر وہ حکام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت یہ بات جھوٹ اور فریب سے کہ رہی ہے.اصل میں اس کے دل میں یہ ارادہ نہیں.پس وہ حکومت کو جھوٹا اور منافق ثابت کرتے ہیں مگر ہم اس کو سچا سمجھ کر اس کی اس اجازت کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.غرض جن امور میں حکومت نے اختیار دیا ہوا ہے ان امور میں ہمارا فرض ہے کہ ہم پورے طور پر اسلامی حکومت کا نقشہ قائم کر دیں.اس میں جتنی غفلت لاعلمی کی وجہ سے ہو وہ معاف کی جاسکتی ہے، جتنی غفلت انتظام کی وقت کی وجہ سے ہو مثلاً سال دو سال کسی امر کا انتظام مکمل کرنے میں لگ جائیں تو اتنی تعویق معاف کی جاسکتی ہے مگر جن امور میں ہم اسلامی تعلیم کا احیاء کر سکتے ہیں اور پھر نہیں کرتے ان امور میں غفلت کسی صورت میں معاف نہیں کی جاسکتی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم پر انگریزی حکومت ہے.اللہ تعالیٰ کہے گا کیا انگریزوں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ ان
خطبات محمود ۱۳۹ سال ۱۹۳۶ء ان باتوں میں ہم دخل نہیں دیتے جس طرح چاہو کر و پس انگریزی حکومت تو بری ہو چکی اُس نے کہہ دیا کہ بعض امور میں تمہیں اختیار حاصل ہے جس طرح چاہتے ہو ان کا فیصلہ کرو اس لئے وہ تمام باتیں جن میں حکومت کی طرف سے ہمیں اختیار حاصل ہے ان میں ہمیں اسلامی حکومت رائج کرنی پڑے گی.جو شخص احمدی رہنا چاہتا ہے اسے وہ حکومت قبول کرنی پڑے گی اور جو اس حکومت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حضور احمدی بھی نہیں کہلا سکتا.پس ایک دفعہ پھر میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کرسکتا جو غیر اسلامی ہو خواہ کی مزدوروں کی طرف سے ہو یا مالکوں کی طرف سے ، گاہکوں کی طرف سے ہو یا دُکانداروں کی طرف سے بلکہ اگر انہیں شکایت ہو تو وہ اسلامی طریق کے مطابق اس کے خلاف متعلقہ افسروں کے پاس درخواست کریں.مثلاً ما لک اگر کام کرنے والے نوکروں کی غیر معقول اُجرت مقرر کر دیں اور کہہ دیں کہ اس سے زیادہ ہم ہرگز نہیں دیں گے تو اس حکم کے خلاف درخواست کی جاسکتی ہے یا اگر دُکاندار کو اپنی اشیاء کے نرخوں کی کمی کے متعلق شکایت ہو تو وہ بھی درخواست کر سکتے ہیں.لیکن اگر وہ جتھہ بازی کی صورت بنائیں گے اور دھمکی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے تو خواہ وہ مزدور ہوں یا سرمایہ دار، دکاندار ہوں یا گا ہک، دونوں سزا کے مستحق ہوں گے.خلافت تو ایک محبت کا رشتہ ہے اور جو شخص خلافت کو تسلیم کرتا ہے وہ اپنے قول و عمل سے اس کا بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں خلافت اور اس کے نظام پر اعتبار کرتا ہوں اور جب وہ اعتبار کرتا ہے تو اپنی حق تلفی یا کسی شکایت کے پیدا ہونے پر ہمارے پاس آتا کیوں نہیں اور اگر آنا نہیں چاہتا تو معلوم ہوا اُسے اعتبار نہیں اور اگر اُسے اعتبار نہیں تو پھر اُس نے بیعت کیوں کی تھی ؟ جب اسلام میں حکومت اور خلافت جمع تھیں اُس وقت تو کوئی شخص کہ سکتا تھا کہ مجھے خلافت پر تو اعتبار نہیں لیکن کیا کروں حکومت بھی تو اسلامی ہے مگر اب تو خلافت الگ ہے اور حکومت الگ اور جب بھی کوئی ای شخص بیعت کرتا ہے اپنی مرضی اور منشاء سے کرتا ہے اور اس امر کا اظہار کر کے بیعت کرتا ہے کہ مجھے نظام سلسلہ پر اعتبار ہے.اس صورت میں اُس کا فرض ہے کہ وہ نظام سلسلہ پر اعتبار کرتے ہوئے اُس کے سامنے اپنا معاملہ پیش کرے اور اگر وہ پیش نہیں کرتا تو معلوم ہوا اُسے اعتبار نہیں
خطبات محمود ۱۴۰ سال ۱۹۳۶ء اور جب اُسے اعتبار نہیں تو اُس نے بیعت کیوں کی تھی.پس میں جماعت کو ایک دفعہ پھر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اسلامی طریق جاری کرے جس کے ذریعہ ہر حقدار کو اُس کا حق مل سکتا ہے غیر اسلامی طریق جاری نہ کرے جو نتائج کے لحاظ سے کسی صورت میں بھی جماعت کیلئے مفید نہیں ہو سکتے..قاضوں کو بھی چاہئے کہ جب وہ قضاء کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہوں اُس وقت وہ چھوٹوں کی اور بڑوں ، افسروں اور ماتحتوں، مزدوروں اور سرمایہ داروں، غریبوں اور امیروں ، کمزوروں اور طاقتوروں کے تمام امتیازات کو مٹا کر بیٹھیں جس طرح خدا تعالٰی مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے اور اس کی بادشاہت میں کسی کی حق تلفی نہیں ہو سکتی اسی طرح وہ بھی جزاء وسزا کے مالک ہوتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس صفت کے انعکاس میں فیصلہ کرتے وقت کسی کی حق تلفی نہ ہونے کی دیں وہ قضاء کے وقت خلیفتہ اللہ ہوتے ہیں اور اُس وقت اُن کے دل پر کسی قسم کا اثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُن کا دل ایسا ہی غیر کے اثرات سے منزہ ہونا چاہئے جیسے خدا تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے اور اگر وہ اس کو نبھا نہیں سکتے تو پھر قضا کا ہر فیصلہ قیامت کے دن ان کے گلے میں لعنت کا طوق بن کر پڑے گا.قضاء کوئی کھیل نہیں ، تماشا نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے.ایک مشہور بزرگ جن کی آدھی اسلامی دنیا تابع ہے انہوں نے قضاء کی وجہ سے ہی بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائی میری مراد اس سے حضرت امام ابو حنیفہ ہیں.انہیں بادشاہ نے قاضی مقرر کیا مگر انہوں نے کہا میں اس کا اہل نہیں کسی اور کو قاضی بنادیا جائے.بادشاہ نے زور لگایا مگر وہ انکار کرتے چلے گئے آخر اُس نے انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا وہاں انہیں مارا گیا، پیٹا گیا اور اتنی تی تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ ان کی صحت بگرد گئی اور آخر فوت ہو گئے مگر انہوں نے قضاء کا عہدہ قبول نہ کیا.ایک اور بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں قاضی القضاۃ یعنی ہائی کورٹ کا چیف جج مقرر کیا گیا.دوست انہیں مبارکباد دینے آئے تو دیکھا کہ وہ رورہے ہیں.کسی نے کہا کہ یہ کیا ؟ ہم تو آپ کو مبارکباد دینے آئے تھے.وہ کہنے لگے مبارکباد کیسی ؟ انہوں نے کہا مبارک باد اس بات کی کہ آپ حکومت کی طرف سے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے ہیں.وہ کہنے لگے یہ مبارکباد دینے کی کون سی بات ہے اس میں تو تمہیں مجھ سے ہمدردی کرنی چاہئے.ان کے دوست اس بات کو نہ سمجھے تو
خطبات محمود ۱۴۱ سال ۱۹۳۶ء انہوں نے کہا دیکھو! دو شخص لڑتے ہوئے میرے پاس آئیں گے فرض کرو ایک شخص کہے گا اس نے میرے سو روپے دینے ہیں مگر دیتا نہیں دوسرا کہے گا کہ میں نے اس کے کوئی روپے نہیں دینے.اب جو کہتا ہے کہ اس نے میرے سو روپے دینے ہیں وہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے روپے دینے ہیں یا نہیں اور جو کہتا ہے کہ میں نے روپے نہیں دینے وہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے روپے دینے ہیں یا دے دیئے ہیں مگر میں ان کا فیصلہ کرنے بیٹھوں گا حالانکہ نہ مجھے یہ پتہ ہوگا کہ اس نے روپے دینے ہیں یا نہیں اور نہ یہ پتہ ہوگا کہ دوسرے نے روپے لینے ہیں یا نہیں گویا میں دو سو جا کھوں میں اندھا ہوں گا.وہ دونوں جانتے ہوں گے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا اور مجھے نہ یہ پتہ ہوگا کہ سچ کیا ہے اور نہ یہ پتہ ہوگا کہ جھوٹ کیا ؟ لیکن فیصلہ میں کروں گا.تو قضاء کا عہدہ معمولی عہدہ نہیں.اگر کوئی شخص سچے دل سے قضاء کے فرائض سر انجام دیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کا وارث کی ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا میں انصاف قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں.جس شخص کو قضاء کا عہدہ ملتا ہے کیلئے فوراً دو کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ایک جہنم کی طرف سے اور ایک جنت کی طرف سے اور اس کے یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو وہ جہنم میں چلا جائے اور چاہے تو جنت کا وارث بن جائے.اگر وہ انصاف سے کام نہیں لیتا ، بڑوں کی رعایت کرتا ہے، جلدی جوش میں آجاتا ہے اور حقیقت معلوم کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتا تو جہنم اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ انصاف کی سے کام لیتا ہے، بڑوں کا لحاظ نہیں کرتا، چھوٹوں کی حق تلفی نہیں کرتا اور جلد بازی سے کام نہیں لیتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے تو جنت اُس کے قریب ہو جاتی ہے اور باوجود اور ہزاروں قسم کی کمزوریوں کے وہ جنت کا مستحق سمجھا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو جاتا ہے.پس میں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دلیر ، منصف اور عادل بنے کی کوشش کریں اور کسی انسان سے نہ ڈریں بلکہ خدا تعالیٰ سے ڈریں.قاضی ہونے کی صورت میں ان کا تعلق براہِ راست خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے اور کوئی علاقہ درمیان میں نہیں ہوتا.پس انہیں صرف خدا تعالی کی ذات پر اپنی نگاہ رکھنی چاہئے اور اگر دنیا کے سارے افسر، دنیا کے سارے حکام اور دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ان کے مخالف ہو جائیں تو وہ وہی کریں جو انصاف ہو اور کسی کا ڈر اپنے دل میں پیدا نہ ہونے دیں مگر یہ شرط ہے کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے انصاف کریں.
خطبات محمود ۱۴۲ سال ۱۹۳۶ء اگر قانون میں کوئی نقص ہے تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے قانون بنایا قاضیوں پر و نہیں.پس انہیں اس بات کی اجازت نہیں کہ قانون توڑیں بلکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے وہ انصاف کریں اور ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کریں.دوسری طرف میں جماعت کے احباب کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس میں سے جولوگ اپنے گھروں میں ملازم رکھتے ہیں وہ ملازموں کی اور جو گاہک ہیں وہ دُکانداروں کی مشکلات سمجھیں.دیانت ہمارے ملک سے بہت حد تک اُٹھ چکی ہے اور ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ دوسرے کو جس حد تک ممکن ہوئو ٹے اور نقصان پہنچائے.افسر اور مالک جو نو کر رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نوکر تو دیانتداری سے کام کریں لیکن وہ خود دیانتداری سے ان کا حق ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.اسی طرح ملازم چاہتے ہیں کہ انہیں تنخواہ مل جائے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کام بھی دیانتداری سے ہوا ہے یا نہیں.گویا دونوں ایک دوسرے کا خون چوسنے کی کوشش کر رہے ہیں ان حالات میں اگر امن ہو تو کس طرح ہو.امن تبھی قائم ہو سکتا ہے جب دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں.جو لوگ نوکر نہیں رکھ سکتے وہ نہ رکھیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں خود کام کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے لیکن اگر کوئی نوکر رکھتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ اس سے انصاف اور حسنِ سلوک کرے.اسی طرح جب کوئی دُکان سے سو د الینا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ جو جائز قیمت وہ مانگے اُسے دے اور اس کی حق تلفی کرنے کی کوشش نہ کرے اور دُکاندار کا فرض ہے کہ وہ صاف اور ستھری چیز پیش کرے اور جو جائز قیمت ہو وہ وصول کرے.مگر اب دونوں طرف سے ظلم ہوتا ہے گا بگ چاہتے ہیں کہ دُکاندار کم قیمت وصول کریں اور دُکاندار اس کا علاج یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناقص اور گندی چیزیں کم قیمت پر گاہکوں کو دے دیتے ہیں.میں تو سو دا لینے نہیں جاتا لیکن چونکہ سو دے ہمارے گھروں میں آتے رہتے ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ سودوں میں دیانت سے کام نہیں لیا جا تا.میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ آٹے میں بالعموم مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے پھر مصری میں بھی بہت کچھ میل اور گند ہوتا ہے یہ دو چیزیں تو ایسی ہیں جو فوراً نظر آ جاتی ہیں.چنانچہ مصری کے ہر چیچہ میں انسان اگر آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے بہت سی مٹی ملی ہوئی دکھائی دے گی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محض وزن زیادہ کرنے کیلئے مصری میں مٹی ملالی جاتی ہے.اسی طرح آئے
خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۶ء میں ریت اور مٹی ہوتی ہے دانت کے نیچے آٹے کو ذرا چبا کر دیکھو فوراً اس میں سے کر کر کی آواز کی آنے لگے گی.عام طور پر لوگ ہمارے ملک میں اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے حالانکہ اگر وہ صرف لقمہ کو چبا چبا کر کھانے کی عادت رکھتے تو انہیں معلوم ہو جا تا کہ وہ آٹا نہیں کھا رہے بلکہ گند کھا رہے ہیں.نوے فیصدی آٹا ایسا ہوتا ہے جس میں کرک ہوتی ہے ذرا اسے دانتوں کے نیچے دباؤ کر رکر کی آواز آنے لگ جائے گی اور یہ صحت کیلئے نہایت ہی مضر ہوتا ہے.علاوہ اس کے یہ دھوکا بازی کی بھی ہے کہ دُکاندار قیمت خالص آٹا کی وصول کرتے ہیں اور آٹا وہ دیتے ہیں جس میں ریت اور مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے.بد دیانتی صرف اس کا نام نہیں کہ تم کسی کا ناحق روپیہ لے لیتے ہو بلکہ بددیانتی اس کا بھی نام ہے کہ تم کسی کی کوڑی اُٹھا لیتے ہو.اسی طرح بد دیانتی صرف اسی کا نام نہیں کہ تم ۹۵ فیصدی آٹا اور ۵ فیصدی مٹی ملا کر دو بلکہ اگر تم اٹھانویں فیصدی آٹا اور دو فیصدی مٹی وی ملاتے ہو یا ننانویں فیصدی آٹا اور ایک فیصدی مٹی ملاتے ہو، یا ساڑھے ننانوے فیصدی آٹا اور نصف فیصدی مٹی ملاتے ہو بلکہ اگر تم ۹۹۹ حصے آٹا اور ہزارواں حصہ مٹی ملاتے ہو تو وہ بھی ویسی ہی بد دیانتی اور گندی عادت ہے جیسے ۵ فیصدی مٹی ملانا.نیکی اور بدی دل سے تعلق رکھتی ہے جس طرح اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں اخلاص سے ایک پیسہ دیتا اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ یہ ایک پیسہ امیر آدمی کے ایک لاکھ روپیہ سے کم نہ سمجھا جائے اور وہ اخلاص سے ایک پیسہ دے کر سمجھتا ہے کہ اُس نے لاکھ روپیہ دینے والے جیسی قربانی کی اور اسی طرح اگر کوئی شخص پانچ فیصدی ٹھگی کرتا ہے تو وہ بھی ٹھگ ہے اور جو ہزارواں حصہ کی ٹھگی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ٹھگ ہے.جس طرح نیکی کی جزاء نیت پر ہے اسی طرح بدی کی سزا بھی نیت پر ہے.جس طرح خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی راہ میں ایک غریب شخص نے اخلاص سے ایک پیسہ دیا اور دوسرے امیر نے ایک لاکھ روپیہ دیا بلکہ وہ اخلاص دیکھتا اور اس کے مطابق جزاء دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ ایک نے پانچ فیصدی ٹھگی کی اور دوسرے نے آدھ فیصدی بلکہ وہ کہے گا کہ دونوں نے ٹھگی کی.پانچ فیصدی ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی اور ہزارواں حصہ ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی.تقدس اور نجاست کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور جس طرح زیادہ نیکی بھی نیکی اور تھوڑی نیکی بھی نیکی سمجھی جاتی ہے اسی طرح زیادہ بدی بھی بدی اور تھوڑی بدی بھی بدی سمجھی جاتی ہے.ممکن ہے یہاں کے
خطبات محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۶ء دُکاندار خود اس قسم کی حرکات نہ کرتے ہوں اور باہر سے بے احتیاطی سے اسی قسم کا ناقص مالی لاتے ہوں لیکن اس صورت میں بھی وہ بری نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر کوئی شخص جاتا ہے اور رہٹ والے سے گندہ آٹالا تا ہے تو یہ اسی کا قصور ہے.اگر گندہ آٹا تھا تو یہ کیوں لایا.اسے چاہئے تھا نہ لاتا اور اگر یہ ناقص مال سمجھ کر سستا لے آیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ بلا واسطہ فائدہ اُٹھاتا ہے.مثلاً دوسری جگہ سے اچھا آٹا خرید تا تو اس کے ایک سو ایک روپے خرچ ہوتے لیکن جس رہٹ والے سے اس نے خریدا اسے سو روپے دینے پڑے تو اس صورت میں بھی یہ ٹھگ ہے کیونکہ یہ دوسرے کی ٹھگی میں شریک ہوتا ہے.پس اگر اس قسم کی ٹھگی یہ خود نہیں کرتا بلکہ باہر سے ناقص سودا لا تا اور بیچتا ہے تو بھی یہ ویسا ہی ٹھگ ہے جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی ملانے والا.ولایت میں کئی چوری ایسے ہیں جو یتیم بچوں کی پرورش کرتے اور پھر ان کے ذریعہ چوریاں کرواتے ہیں.کیا تم سمجھتے ہو وہ یتیم بچوں کے ذریعہ چوریاں کروانے کی وجہ سے کم چور ہیں اور اگر خود چوری کرتے تو زیادہ چور ثابت ہوتے ؟ وہ ویسے ہی چور ہیں جیسے اپنے ہاتھ سے چوریاں کرنے والے.اسی طرح جب تم رہٹ والے سے ناقص آٹا لاتے اور یہ سمجھتے ہو کہ وہ خراب ہے تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے اپنے کی ہاتھ سے آٹے میں مٹی یا ریت ملانے والا.جب تم امرتسر کی منڈی سے مصری اور آٹا وغیرہ خرید کر لاتے ہو تو کیا وجہ ہے تمہیں وہ مٹی کے دانے نظر نہیں آتے جو ہمیں نظر آتے ہیں.آخر خراب سو دالانے کی یہی وجہ ہے کہ وہ تمہیں ستا مل جاتا ہے پھر تم کیوں ویسے ہی فریبی نہیں جیسے وہ جو اپنے ہاتھ سے مصری اور آٹا مٹی ڈال کر خراب کرتے ہیں.کئی لوگ بظاہر دیانتدار بھی ہوتے ہیں اور وہ مٹی نہیں ملاتے لیکن جب گیہوں کو صاف کرنے کیلئے زمین پر پھیلاتے ہیں تو پھر انہیں سمیٹتے کی وقت جب جھاڑو دیں گے تو پاؤ یا سیر کے قریب اس میں مٹی بھی ملا دیں گے اور اپنی طرف سے یہ سمجھیں گے کہ ہم تو بڑے دیانتدار ہیں مگر وہ بھی دیانتدار نہیں کیونکہ وہ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں لوگوں سے دھوکا اور فریب ہو جاتا ہے.پس میں دونوں فریق کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلامی طریق اختیار کریں.خریداروں کو بھی چاہئے کہ وہ دھوکا سے دُکانداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور دکانداروں کو بھی چاہئے کہ وہ گا ہکوں کو فریب سے گندی چیزیں نہ دیں.اسی طرح نوکروں کو بھی چاہئے کہ وہ دیانتداری سے اپنے فرائض ادا کریں اور
خطبات محمود ۱۴۵ سال ۱۹۳۶ء نوکر رکھنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ان سے ناجائز بختی نہ کریں اور نہ ان کے حقوق تلف کریں.اور کی اگر تم دیانتداری اختیار کرو تو یقینا اس سے تمہیں نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ہمارے ملک کا عام اخلاقی معیار بہت بلند ہو جائے گا اور دین کو اس ذریعہ سے جو مدد پہنچے گی وہ مزید برآں ہے.پس گزشتہ واقعہ کے متعلق میں دُکانداروں کے اُس حصہ کو جس نے سٹرائک کی ، تنبیہ کرتا ہوں اور آئندہ کیلئے انہیں بتا دیتا ہوں کہ ہم اس قسم کی حرکت برداشت نہیں کر سکتے.ہمارا طریق اسلامی ہے اور ہم اسلامی طریق ہی دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.ہمیں لاکھوں آدمیوں کی ضرورت نہیں بلکہ اخلاص ، محبت اور دین پر عمل کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے.ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنا سب کچھ اسلام کیلئے قربان کر دینا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں اور اگر اس روح کے رکھنے والے دس آدمی بھی ہوں تو یقیناً ان دس آدمیوں کے ذریعہ ہی دنیا فتح ہوگی اور کوئی طاقت ان کی فتح میں روک بن کر حائل نہیں ہو سکے گی.وہ لاکھوں آدمی ہمیں کام نہیں دے سکتے جو اسلامی زندگی کو اختیار کرنے اور اس کے مطابق اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اخلاص رکھنے اور اسلام کے مطابق اپنی عملی زندگیاں بنانے والے آدمی ہمیں کام دے سکتے ہیں.اگر آدمیوں کی کثرت اسلام کو غلبہ دے سکتی تو کروڑوں مسلمان کہلانے والے دنیا میں موجود تھے وہ کیوں اسلام کو دنیا پر غالب نہ کر دیتے.مگر خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی جماعت کو اس کی لئے دوبارہ دنیا میں کھڑا کیا ہے تاكَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً ا كا نشان دنیا پر ظاہر کرے اور بتائے کہ کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ بڑی بڑی جماعتوں کو مغلوب کر لیتی ہیں.ل البقرة: ۲۵۰ ( الفضل ۱۸ / مارچ ۱۹۳۶ء )
خطبات محمود ۱۴۶ ⑨ سال ۱۹۳۶ء آؤ ہم پھر خدا تعالیٰ کے حضور چلائیں اور اپنے آنسوؤں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر کر دیں (فرموده ۲۰ / مارچ ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں اپنے گزشتہ خطبات میں اس امر کا ذکر کر چکا ہوں کہ نہ تو وہ مخالفت ہمارے رستہ سے پوری طرح ہٹی ہے جو سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانے کیلئے بعض دشمنانِ سلسلہ کی سازش سے شروع کی گئی تھی اور نہ ایسے حالات ہی پیدا ہوئے ہیں کہ جن کے ماتحت ہم یہ کہ سکیں کہ قریب عرصہ میں کی وہ مخالفتیں خود بخود دب جائیں گی یا بیٹھ جائیں گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان بے شک ظاہر کی ہوئے ہیں اور اس کی تائید ہمیں حاصل ہوئی ہے مگر وہ ایسی صورت میں ہے کہ ابھی دشمن اس سے مرعوب نہیں ہوا گویا وہ پہلی رات کا چاند ہے جسے تیز نظر والوں نے تو دیکھ لیا مگر کمزور نظر والے ابھی محروم ہیں.روحانی آنکھ کو تو وہ تائید و نصرت نظر آ رہی ہے مگر جن کی روحانیت مردہ ہے انہیں وہ کی تائید و نصرت نظر نہیں آرہی اس لئے اس سے عبرت پکڑنے کیلئے وہ ابھی تیار نہیں ہیں اور فائدہ کی اُٹھانے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام سامانوں کو اور ان تمام ذرائع کو اور ان تمام تدابیر کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے اور اس کے مخالفوں کی شرارتوں کو دور کرنے کیلئے عطا فرمائی ہیں اور اپنی طرف سے جد و جہد ، سعی اور کوشش
خطبات محمود ۱۴۷ سال ۱۹۳۶ء میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ روحانی سلسلوں کے تمام امور کی بنیاد دوہی چیزوں پر ہوتی ہی ہے ایک طرف بندے کی انتہائی کوشش اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل.روحانی سلسلے چونکہ کمزور جماعتوں سے چلائے جاتے ہیں، ان کے افراد بہت تھوڑے ہوتے ہیں ، ان کے پاس سامان نہایت ہی کم ہوتا ہے، دنیوی طور پر ان سامانوں اور ان افراد سے کامیابی کا منہ دیکھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے جو کمی اس کوشش اور سامانوں کی قلت اور افراد کی کمی کی وجہ سے رہ جاتی ہے اسے اللہ تعالیٰ کا فضل پورا کر دیتا ہے.پس یہ دو چیزیں مل کر ہمیشہ روحانی جماعتوں کی کامیابی کا موجب ہوتی ہیں اور یہی ہماری کامیابی کا موجب ہو سکتی ہیں.ایک طرف خدا تعالیٰ کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اُس کے قدموں میں لا ڈالیں اور اُس کے دین کیلئے قربان کر دیں اور دوسری طرف اُس کا وعدہ ہے کہ باقی کمی وہ اپنے فضل سے پوری کر دے گا.خدا تعالیٰ تو وعدوں کا سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی.پس اگر کوئی نقص ہو اور نتائج صحیح نہ نکلیں ، اگر کامیابی کے آنے میں دیر لگے تو قطعی طور پر ایک ہی نتیجہ اس سے نکل سکتا ہے کہ جس حد تک ہم سعی کر سکتے تھے اُس حد تک ہم نے سعی نہیں کی.اگر خدانخواسہ ہمیں ناکامی حاصل ہو تو سوائے تین باتوں کے کوئی چوتھی بات نہیں ہے ہو سکتی.یا تو یہ کہ ہم نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی یا یہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنی ذمہ داری اداری کرنے میں کوتاہی کی اور یا یہ کہ جس سلسلہ کو ہم روحانی سمجھتے تھے وہ روحانی نہیں تھا بلکہ دنیوی تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کی نصرت کا کوئی وعدہ نہ تھا.پس یہ تین پہلو ہی اس کی ناکامی کے ہو سکتے ہیں چوتھا کوئی نہیں.اول یہ کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں تو ہمارے لئے کسی شک کی گنجائش ہی نہیں.دوم یہ کہ خدا تعالیٰ اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرنے والا ہے اس میں بھی ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا.پس اگر کوئی بات باقی رہ جاتی ہے تو یہی کہ کوتا ہی ہم سے ہوئی ہے اور ہماری تنی غلطیوں سے کامیابی میں دیر ہو گئی اور مخالفتوں میں ترقی ہو گئی.پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اپنے فرائض کو یا در کھتے ہوئے ان تمام تدابیر کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے فرمائی ہیں اور
خطبات محمود ۱۴۸ سال ۱۹۳۶ء جیسا کہ میں نے بتایا تھا ان میں سے بہت بڑی تدبیر دعا اور انابت الی اللہ کی ہے.دنیوی سامان اور دنیوی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں، جہاں پہنچ کر وہ بیکار ثابت ہوتی ہیں، جہاں وہ بعض وقت مضحکہ خیز بن جاتی ہیں وہاں صرف دعا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو آسمان سے فرشتوں کی فوج لے آتا ہے اور زمینی روکوں کو دور کر کے شرارت کو ملیا میٹ کر دیتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ بعض دفعہ ظاہری تدابیر مضحکہ خیز نظر آتی ہیں اس سے میری مراد یہ ہے کہ الہی سلسلوں کے افراد کے پاس جو سامان ہوتا ہے وہ نہایت قلیل اور کام نہایت عظیم الشان ہوتا ہے.ظاہر بین نگاہ میں وہ تدابیر اور سامان بیچ ہوتے ہیں اور کام کے مقابلہ میں ان کی کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.دیکھنے والا نان ظاہر بین خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ حماقت کی بات کر رہے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح کہتے ہیں کہ ایک پرندہ رات کو لاتیں آسمان کی طرف کر کے سوتا ہے کہا جاتا ہے کہ جب دوسرے پرندوں نے اُس سے دریافت کیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو اُس نے کہا شاید رات کو جب ساری دنیا سوئی ہوئی ہوتی ہے آسمان گر پڑے میں لاتیں اس لئے او پر کرتا ہوں کہ اُسے سہارا دے کر روک لوں تا دنیا نیچے آ کر تباہ نہ ہو جائے.یہ ایک مثال بنائی گئی ہے اسی قسم کی مضحکہ خیز صورتوں میں جیسی میں نے بیان کی ہے.جب کام بہت بڑا ہو ، طاقت بہت کم ہو اور بوجھ بہت زیادہ اُس وقت جو تھوڑی سی طاقت والا بڑا بوجھ اُٹھانے کو تیار ہو جاتا ہے دنیا کی نظر میں اُس کی یہ حرکت مضحکہ خیز ہوتی ہے لیکن جس وقت کوئی ایسا انسان جس کے پیچھے ایمان، قربانی اور ایثار کی روح کام کر رہی ہو اپنی طاقت سے بہت زیادہ بوجھ اُٹھانے کیلئے آگے بڑھتا ہے تو وہ نظارہ ایک سمجھ دار انسان کیلئے رقت انگیز ہوتا ہے مضحکہ خیز نہیں ہوتا.ایک مجنون اور پاگل، احمق اور بیوقوف جب وہی کام کرتا ہے تو وہ مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن جب مؤمن بہادر اور جری مؤمن خدا تعالیٰ کے نام پر ہر چیز قربان کر دینے کا ارادہ رکھنے والا مؤمن آگے بڑھتا ہے تو دیکھنے والوں کو ہنسی نہیں آتی بلکہ ان کے دل درد سے پُر ہو جاتے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں.بدر کے موقع پر ایک ہزار تجربہ کارسپاہی جن پر عرب کی قوم کو فخر تھا، جن پر مکہ کے لوگ ناز کرتے تھے ، جن کو قریش کا قیمتی سرمایہ کہا جاتا تھا ، جو صنادید عرب کہلاتے تھے ، جو اہلِ عرب کی بڑی سے بڑی مجلسوں میں مسند پر بیٹھنے والے تھے، تجربہ کار اور پورے ساز وسامان کے ساتھ اس
خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۶ء ارادہ سے آئے کہ محمد ہے اور اس کے صحابہ کو آج ان کے بلند و بالا دعاوی کی وجہ سے پوری طرح سزا دے کر جائیں گے.جس وقت اُن کے مقابلہ میں وہ ۳۱۳ لوگ جن میں سے بعض تلوار چلانا بھی نہ جانتے تھے، کئی ایسے تھے جن کے پاس تلوار میں تھی ہی نہیں ، جن میں سے اکثر کے پاس سواریاں بھی نہ تھیں ، کھڑے ہوئے تو ظاہری نگاہ میں اُن کا یہ فعل مضحکہ خیز تھا اور کہنے والوں نے کی کہہ بھی دیا کہ جاؤ اپنے گھروں کو چلے جاؤ تم ہمارے بھائی ہو اور ہم اپنے بھائیوں کے خون سے کی صلى الله زمین کو رنگنا نہیں چاہتے لیکن دوسری طرف ان تیز نظر لوگوں نے جو گو اسلام سے محروم تھے مگر ظاہری عقل سے حصہ وافر رکھتے تھے اندازہ کر لیا تھا کہ یہ معمولی لوگ نہیں ہیں.اہل عرب نے اپنے ایک نی تجربہ کار جرنیل کو اسلامی سپاہ کا جائزہ لینے کیلئے بھیجا اُس نے واپس آکر اُن کو جو جواب دیا وہ بتا تا ہی ہے کہ وہ شخص بہت گہری نظر والا تھا اُس نے آکر کہا کہ آدمی تو ان کے تین سو کے لگ بھگ ہیں لیکن اے قوم کے سردارو! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ان سے لڑائی نہ کرو کیونکہ میں نے گھوڑوں پر تھی آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں.مجھے ان کے چہروں سے نظر آتا ہے کہ یا تو وہ ہمارے خون سے آج اس میدان کو رنگ دیں گے اور یا ایک ایک کر کے محمد ( ﷺ ) پر جان دے دیں گے.اگر تم ہر گھر میں ماتم بپاد یکھنا نہیں چاہتے تو آج واپس چلے جاؤ ورنہ یہ خیال مت کرو کہ مسلمان پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے.یہ مقابلہ بھی ایک ظاہر بین نگاہ کیلئے اُسی طرح مضحکہ خیز تھا جیسے اُحد کا ، اُس دن منافقوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہو گی تو ضرور جاتے مگر یہ تو صریحاً بیوقوفی کی بات تھی.گجا مکہ کے تجربہ کار اور بہادر اور گجا یہ تھوڑے سے سپاہی.بدر کی جنگ دنیا داروں کی نگاہ میں اس سے بھی زیادہ غیر مساوی مقابلہ کی تھی اور اس لئے اُن کی نگاہ میں مضحکہ خیز لیکن اُس کی دن بھی واقعات نے بتادیا کہ انسانی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں وہاں الہی نصرت غیر معمولی سامان کامیابیوں کے پیدا کر دیتی ہے.مکہ والوں نے جلدی کر کے اُس جگہ پر قابو پالیا جو ان کے کی نزدیک لڑائی کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی تھی.وہ زمین مضبوط تھی جس پر پاؤں زیادہ مضبوطی سے رکھا جاسکتا تھا مگر مسلمانوں کیلئے جو جگہ خالی تھی وہ ریتلی تھی جس میں عام حالات میں قدم جمانا مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے جنہوں نے حالات کو بالکل بدل دیا.بادل بر سے جس
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء سے سخت زمین پھسلنی ہوگئی اور ریتلی جگہ ٹھوس بن گئی.وہی زمین جو دھوپ میں سخت اور آرام دہ ہے تھی بارش کے بعد پھسلنی ہوگئی اور ریتلی بارش کے بعد مضبوط ہوگئی پھر ادھر سے اللہ تعالیٰ نے آندھی چلا دی جس طرف مسلمانوں کی پیٹھیں تھیں اس وجہ سے گردو غبار اور کنکر کفار کی آنکھوں میں پڑتے تھے اور ان کے زور سے چلائے ہوئے تیر بھی مسلمانوں تک نہ پہنچتے تھے مگر مسلمانوں کا کمزوری سے کمزور تیر بھی ان تک جا پہنچتا تھا.مسلمان دشمن کو دیکھتے تھے مگر وہ انہیں بوجہ آنکھوں میں گردوغبار پڑنے کے اچھی طرح نہ دیکھ سکتے تھے.یہ سب سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ورنہ نہ بادل انسان کے اختیار میں ہیں اور نہ ہوا ئیں بندہ کے قبضہ میں.اسی طرح جنگِ احزاب کے موقع پر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان تو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی بادشاہت ہمیں مل جائے گی آج ان کی عورتوں کیلئے پاخانہ پھرنے کی جگہ بھی نہیں رہی.کہاں گئے ان کے وہ دعاوی.اس جنگ میں دس ہزار کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابل پر تھا اور سارے عرب قبائل جمع ہو کر آئے تھے اُدھر یہودیوں نے مدینہ میں بغاوت کر دی تھی اُس وقت سوائے اس کے کہ مسلمان خندق بنا لیتے ان کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.چنانچہ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے رسول کریم ہے نے صحابہ کو حکم دیا کہ خندق کھو دیں اور جب وہ خندق کھودرہے تھے تو ایک پتھر ایسا آیا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا.رسول کریم ﷺ کو اطلاع دی گئی آپ وہاں تشریف لائے اور جب زور سے کدال مارا تو پتھر میں سے آگ نکلی اور آپ نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا صحابہ نے بھی نعرہ لگایا.پھر کدال ما را تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور صحابہ نے بھی آپ کی تقلید کی.تیسری دفعہ کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر زور سے اللہ اکبر کہا اور صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا.جب وہ پتھر ٹوٹ گیا تو آپ نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے نعرے کیوں لگائے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے لگائے تھے اس لئے ہم نے بھی لگائے.آپ نے فرمایا ہاں میں نے تین بار نعرہ کی تکبیر بلند کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ جب پہلی دفعہ پتھر میں سے آگ نکلی تو میں نے اُس شعلہ میں یہ نظارہ دیکھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیصر کے قلعے تباہ ہو گئے ہیں.دوسرے شعلہ میں مجھے کسری کے قلعوں کی تباہی کا نظارہ دکھائی دیا اور تیسرے میں حمیر کے قلعے بھی سرنگوں نظر آئے ہے.اُس
خطبات محمود ۱۵۱ سال ۱۹۳۶ء وقت بھی منافقوں نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ جان بچانے کیلئے خندق کھود رہے ہیں اور مدینہ سے باہر نکل نہیں سکتے مگر خواب دیکھ رہے ہیں قیصر و کسری کے محلات کے.گویا وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے اس قدر مشکلات کا زمانہ تھا کہ منافق جو بُز دل ہوتے ہیں وہ بھی دلیری سے ان پر ہنسی کرنے لگ گئے تھے.قرآن کریم نے بھی غزوہ احزاب یا خندق کا نظارہ بیان کر کے بتایا ہے کہ اُس وقت کی مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ گویا وہ زلزلہ میں مبتلاء ہیں اور زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ صلى الله ہو گئی تھی..بظا ہر اس زبر دست لشکر کے مقابل پر صحابہ کا زور نہیں چلتا تھا مگر پندرہ روز کے بعد آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے آواز دی اور فرمایا کوئی ہے؟ مگر کسی نے جواب نہ دیا.ایک صحابی نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.پھر فرمایا کوئی جاگتا ہے؟ مگر کوئی نہ بولا.اُسی صحابی نے پھر کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میں حاضر ہوں مگر آپ نے پھر فرمایا تم نہیں کوئی اور.اور پھر تیسری دفعہ آواز دی مگر پھر بھی کوئی نہ بولا اور پھر اُسی نے آواز دی اور آپ نے فرمایا کہ جاؤ دیکھو مجھے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا ہے.وہ صحابی باہر نکلے تو دیکھا کہ سب میدان خالی پڑا ہے، نہ غنیم کا کوئی خیمہ تھا اور نہ سامان.ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اُس وقت جاگتا تھا مگر سردی شدید تھی اور کپڑے نا کافی تھے اور سردی کی وجہ سے باوجود جاگنے کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی.- کفار کے بھاگنے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک عرب سردار کی آگ بجھ گئی ، اہل عرب اس بات کو ی منحوس خیال کرتے تھے ، اس نحوست کے دُور کرنے کیلئے اس قبیلہ نے اپنے رواج کے مطابق یہ طریق تجویز کیا کہ رات کے وقت اپنے خیمے وہاں سے اُٹھا کر چند میل کے فاصلے پر لے جا کر لگائیں اور اگلے روز پھر وہیں آلگا ئیں اور جب رات کو چپکے سے انہوں نے خیمے اکھاڑنے شروع کی کئے تو ساتھ والوں نے خیال کیا کہ شکست ہوگئی ہے اور یہ لوگ بھاگ رہے ہیں انہوں نے بھی فوراً اپنے خیمے اُٹھانے شروع کر دیے.ان کو دیکھ کر ان کے پاس والوں نے بھی ایسا ہی کیا حتی کہ ابوسفیان کو جو اس لشکر کا سپہ سالار تھا خبر ہوئی تو اُس نے خیال کیا کہ مسلمانوں نے شب خون مارا ہے اس لئے یہاں سے جلدی بھاگنا چاہئے.چنانچہ وہ اس قد رگھبرایا کہ اونٹ کو کھولے بغیر اُس پر
خطبات محمود ۱۵۲ سال ۱۹۳۶ء سوار ہوکر اُسے مارنے لگ گیا مگر وہ چلتا کس طرح.آخر اس کے کسی ساتھی نے اُس پر اُس کی غلطی کو واضح کیا.یہ الہی نصرت تھی جس نے اُس وقت جب انسانی تدابیر بریکار ہو چکی تھیں آسمان سے نازل ہوکر رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو نجات دی.پس آسمانی نصرت اُسی وقت آتی ہے وہ جب ساری تدابیر انتہاء کو پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں اور کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں.ج دنیا دار نگاہوں میں مضحکہ خیز اور روحانی نظر والوں کیلئے رقت انگیز ہو جاتی ہیں اُس وقت خدا تعالی کی کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ بندہ چلائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے.بسا اوقات ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہو جا تا ہے ہے مگر جب بچہ روتا ہے تو دودھ اُتر آتا ہے.پس جس طرح بچے کے روئے بغیر ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اُتر سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت کو بندہ کے رونے اور چلانے سے وابستہ کر دیا ہے.جب بندہ چلاتا ہے تو رحمت کا دودھ اُترنا شروع ہوتا ہے اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا تھا ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں مگر وہ کوشش نہیں جو منافق مرا دلیا ای کرتے ہیں اور اس کے بعد جس حد تک زیادہ سے زیادہ دعاؤں کو لے جاسکتے ہیں لے جائیں.پچھلے سال میں نے سات روزے مقرر کئے تھے مگر چونکہ فتنہ ابھی جاری ہے، شرارت کا سلسلہ بند نہیں ہوا ، مخالفوں نے اللہ تعالیٰ کی تنبیہ سے عبرت حاصل نہیں کی اور گزشتہ عذاب سے اپنی کی اصلاح نہیں کی اس لئے آؤ ہم پھر خدا تعالیٰ کے حضور چلا ئیں.تا جس طرح بچہ کے رونے سے ماں کی چھاتیوں سے دودھ اُتر آتا ہے آسمان سے ہمارے رب کی نصرت نازل ہو اور وہ روکیں اور ان مشکلیں جو ہمارے رستہ میں ہیں دور ہو جائیں.بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا دور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں.ہم دشمن کی زبان کو بند نہیں کر سکتے اور اُس کے قلم کو نہیں روک سکتے.اُن کی زبان اور قلم سے وہ کچھ نکلتا رہتا ہے جسے سننے اور پڑھنے کی ہمیں تاب نہیں.ہم نے بار ہا حکومت کو توجہ دلائی ہے مگر اُس کے کان ہماری بات سننے سے بہرے ہیں.وہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں اگر کسی اور کے متعلق کہی جاتیں تو ملک میں آگ لگ جاتی.مگر وہ باتیں ہی متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں لیکن کہنے والوں کی کوئی گرفت نہیں کی
خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۶ء جاتی.حتی کہ ہمیں تو یہاں تک رپورٹ پہنچی ہے کہ بعض مخالفوں کے حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں افسروں نے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو چاہو لکھو کوئی گرفت نہ ہوگی.ہمیں یقین کی ہے کہ یہ بات ساری حکومت کی طرف سے نہیں ایک یا دو افسروں پر یہ الزام ہے گو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ان کے متعلق بھی صحیح ہے یا غلط ، مگر واقعات طبیعت کو اس کی صحت کی طرف مائل ضرور کرتے ہیں کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق متواتر ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو اگر کسی اور کے متعلق ایک دفعہ بھی کہی جاتیں تو حکومت کبھی خاموش نہ رہتی تو اس کی کوئی تھی وجہ ہونی چاہئے.کم سے کم سو مرتبہ اخباروں میں آپ کو کذاب یا د جبال یا شرابی کہا گیا ہے.اگر کم سے کم سو دفعہ میں ایسی گالیاں نہ دکھا سکوں تو حکومت بے شک میری بات نہ مانے لیکن اگر سو سے زیادہ دفعہ دشمنوں کے اخباروں میں یہ باتیں چھپی ہوں تو ذمہ دار افسروں کو یا د رکھنا چاہئے کہ اس ساری غفلت کا جواب انہیں خدا تعالیٰ کے سامنے دینا ہوگا اور دنیا کی نگاہوں میں بھی وہ قابل ملامت ٹھہریں گے.ہم ایک طرف انگریزی قانون کے الفاظ چھاپیں گے اور دوسری طرف کی وہ گالیاں جو احراری اخباروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں اور برطانوی پبلک سے اپیل کریں گے کہ اس طرح اس کے اچھے نام کو اس کے نوکر بد نام کر رہے ہیں اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے.ہم ایک طرف دنیا کو ان مظالم سے مطلع کریں گے تو دوسری طرف اپنے رب سے اپیل کریں گے یہاں تک کہ اس ظلم کے ذمہ دار حکام چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں گے.ایک طرف خدا کی لعنت ان پر برسے گی اور دوسری طرف شریف الطبع انسان خواہ کسی قوم اور ان مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ان کے افعال پر اظہار نفرت و ملامت کریں گے.میں ہرگز نہیں مان سکتا کہ اگر ہمارے اخباروں میں یہی الفاظ یسوع کے متعلق استعمال کئے جائیں ، اگر انہیں دجال لکھا جائے یا یہ لکھا جائے کہ ناصرہ کا رہنے والا ایک شرابی تو گورنمنٹ کی رگِ حمیت جوش میں نہ آئے.اگر یہی الفاظ ان اقوام کے بزرگوں کے متعلق استعمال کئے جائیں جو احرار کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں ، اگر یہ سکھ گوروؤں کے متعلق لکھے جائیں ، ہندو رشیوں ،سینیوں کے متعلق لکھے جائیں اور ان لوگوں کے علماء کے متعلق بولے جائیں جو اپنے آپ کو اکثریت میں بتاتے ہیں تو ہندوستان میں آگ نہ لگ جائے اور حکومت کا قانون حرکت میں نہ آئے لیکن یہ الفاظ حضرت
خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۶ء مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روز استعمال کئے جاتے ہیں اور حکومت بار بار توجہ دلائے جانے کی کے باوجود خاموش ہے.ہمارا صرف ایک ہی قصور ہے اور وہ یہ کہ ہم تھوڑے ہیں اور حکومت کے وفادار ہیں اس لئے ہماری طرف سے بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی.اگر میں کم سے کم سو ایسے حوالے دکھا سکوں جن میں سے ایک بھی اگر کسی قوم کے پیشوا کے متعلق استعمال کیا جاتا تو ملک میں آگ لگ جاتی تو کوئی قوم ہمارے صبر اور امن پسندی پر حرف نہیں لاسکتی مگر حکومت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم بھی وہی الفاظ دوسروں کے متعلق دُہرائیں اور جب ہم ایسا کریں تو اس کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ ہم پر اعتراض کرے.اور اگر وہ ہم پر اعتراض کرے گی تو آنے والے مورخ ہمیں حق بجانب قرار دیں گے حکومت کو نہیں.اگر یہ باتیں جائز ہیں اور جیسا کہ حکومت نے اپنے فعل سے بتا دیا ہے جائز ہیں تو ایسا ہی رویہ اختیار کرنے پر اُسے کوئی حق نہیں ہوگا کہ ہم سے باز پرس کرے.ہم حکومت سے کسی فائدہ کی توقع نہیں رکھتے بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ مرا ز خیر تو امید نیست بد مرساں یعنی مجھے تجھ سے کسی بھلائی کی امید نہیں مگر کم سے کم یہ کر کہ نقصان تو نہ پہنچا.ہمیں ایک لمبے تجربہ کی بناء پر یہ امید ہی نہیں رہی کہ حکومت پنجاب کا وہ عملہ جس کے سپرد ان امور کا تصفیہ ہے ہمارے احساسات کا احترام کرے گی مگر اب احمدی نوجوان اس جائز بدلہ کے لینے کیلئے بیتاب ہو رہے ہیں اور نیشنل لیگ میں سنتا ہوں کہ اپنا پروگرام مکمل کر چکی ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو چونکہ حکومت اپنے فعل سے بانیانِ مذاہب اور ہادیانِ طریقت کے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال جائز قرار دے چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے نو جوانوں کو اس فعل سے روکوں.یہ وہ اخلاق ہیں جن کی صحت پر تمام قوموں کے نمائندوں کی مہر ثبت ہو چکی ہے اور حکومت نے بھی اسے اپنے عمل سے حدود قانون کے اندر قرار دے دیا ہے.پس اب میرا فرض نہیں کہ خود دخل دوں میں پہلے ان باتوں سے روکتا تھا مگر افسوس کہ میرے اخلاق سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا مگر یہ سب باتیں دنیوی تدابیر ہیں اگر جماعت ایسا کرے تو وہ صرف الزامی جواب دے گی مگر اس فعل سے ان باتوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا.بلا شبہ ہم میں سے کمزور دلوں کی اس سے تسلی بھی ہو جائے گی مگر
خطبات محمود ۱۵۵ سال ۱۹۳۶ء حقیقی روحانیت سے مس رکھنے والے ان باتوں سے تسلی نہیں پاسکتے.جب تک وہ زبانیں کھلی ہیں جن پر یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں، جب تک وہ ہاتھ حرکت کرتے ہیں جو ایسی باتیں لکھتے ہیں ، جب می تک وہ دماغ موجود ہیں جن میں یہ خیالات دوڑتے ہیں ، جب تک وہ دل باقی ہیں جن میں ایسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جب تک دوبارہ ان باتوں کے کہے یا لکھے جانے کا امکان ہے اُس کی وقت تک کوئی احمدی چین کا سانس نہیں لے سکتا مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کا ہٹانا ہمارے اختیار میں نہیں یہ خدا کے اختیار میں ہی ہے اور وہ دونوں طرح ان باتوں کو دور کر سکتا ہے.وہی دل جو آج نفرت سے بھرے ہوئے ہیں ان میں محبت کے جذبات پیدا کر کے بھی ہٹا سکتا ہے اور ایسے لوگوں کو تباہ اور اُن کے گھروں کو ویران کر کے بھی ہٹا سکتا ہے.حکومت ہمارے ہاتھوں کو پکڑی سکتی ہے مگر وہ خدا کے ہاتھوں کو کس طرح پکڑ سکتی ہے جن ہاتھوں میں وہ خود بھی ایک قیدی کی طرح ہے.ہماری فوجیں زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہیں حکومت تو ہیں بنواتی ہے جن کے گولے ۱۵ میل تک مار کر سکتے ہیں مگر ہم وہ تو ہیں تیار کریں گے جو عرش سے گولہ پھینکتی اور فرش پر رہنے والوں کو ملیا میٹ کر دیتی ہیں.گورنمنٹ کی گرفت صرف اُن لوگوں تک ہے جو اُس کی حکومت کے ماتحت ہیں مگر ہم وہ وارنٹ جاری کرائیں گے جن سے دنیا کے بادشاہ بھی گرفتار کئے جا سکتے ہیں.ہم نے کی ایک لمبے عرصہ تک ان باتوں کو سنا اور صبر کیا، دیکھا اور خاموش رہے ، ہم نے التجائیں کیں مگر انہیں را دیا گیا ، ہم نے عرضیں کیں مگر ان پر کان نہیں دھرے گئے لیکن جب تک وہ تحریر میں موجود ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شرابی کہا گیا اور دقبال لکھا گیا اور جب تک حکومت ان کا بدلہ نہیں لیتی ہم کبھی چپ نہ ہوں گے اور جو ہم نہ کر سکیں گے وہ خدا تعالیٰ کرے گا جہاں ہمارے ہاتھ رو کے جائیں گے وہاں فرشتے کام کریں گے.زمین پر امن قائم نہیں ہو گا جب تک ہمارے دلوں میں امن قائم نہیں ہوتا، آسمان تیر اندازی بند نہیں کرے گا جب تک ہمارے قلوب پر ان تیروں کا چلا یا جا ناختم نہ ہوگا.پس پھر آؤ کہ سات روزے رکھیں جو اگلے ہفتہ سے شروع کر کے ہر پیر کے دن رکھے جائیں اور چونکہ نفلی روزے سفر میں بھی رکھے جاسکتے ہیں اس لئے جو سفر میں ہوں وہ بھی رکھیں اور اگر کوئی مسافر یا بیمار ہونے کی وجہ سے پیر کے دن روزہ نہ رکھ سکے تو وہ جمعرات کے دن رکھے اور
خطبات محمود ۱۵۶ سال ۱۹۳۶ء اس طرح چالیس دنوں میں یہ ختم کئے جائیں اور ان دنوں میں مل کر بھی اور انفرادی طور پر بھی ایسی تی دعائیں کی جائیں جو عرش الہی کو ہلا دیں تا خدا تعالیٰ اپنی فوجوں کو حکم دے کہ ساز و سامان سے تیار ہو جاؤ اور جاؤ کہ دنیا کے پردہ پر میرے کچھ مظلوم بندے ہیں انہیں کمزور سمجھ کر کچھ طاقتور حکام اور اکثریت کے نمائندے ان پر ظلم کر رہے ہیں، ان کے دل غم سے بھرے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشکوں سے پر ہیں وہ تھوڑے ہیں اور بے کس ، دنیا کے پردہ پر کوئی ان کا والی نہیں ، ہر قوم ان سے اس لئے دشمنی کر رہی ہے کہ انہوں نے میری آواز کیوں سُنی اور میری پکار پر لبیک کیوں کہا میں کی ان کی آواز سنوں گا اور ان کی پکار کو بیکار نہیں جانے دوں گا.بے شک دنیا داروں کی نگاہ میں وہ بیکس ہیں مگر انہیں کیا معلوم کہ میں ان کا والی ہوں اور میں ان کا حامی ہوں تم جاؤ اور ان کے مخالفوں کو دنیا سے مٹا دو خواہ دلوں میں تبدیلی پیدا کر کے اور ہدایت بخش کر یا ضد کی صورت میں کی ان کے گھروں پر میری لعنت برسا کر اور میرا عذاب نازل کر کے.پس جھک جاؤ اور دعا کرو اور پھر جھک جاؤ اور دعا کرو پھر جھک جاؤ اور دعا کرو یہاں تک کہ عرشِ الہی سے تمہاری امداد کا حکم نازل ہو جائے.خدا تعالیٰ کے ایک مقدس کو اور رسول کریم کے نائب کو اتنی گندی گالیاں دی گئی ہیں اور ایسے ناپاک الفاظ سے اسے یاد کیا گیا ہے کہ یہ دنیا اب مؤمن کے رہنے کے قابل نہیں جب تک خدا کا ہاتھ اسے پھر پاک نہ کرے.یہ ناپاکی ملک خدا کے قہر کو بلا رہا ہے اور یہ گندے لوگ اُس کے غضب کو بھڑکا رہے ہیں ہم نے ان کا کیا کی قصور کیا تھا کہ ہم پر یہ ظلم ہور ہے ہیں.ہم ہمیشہ حکومت کے وفادار رہے ہیں اور اب بھی وفادار ہیں ، ہم ہمیشہ بنی نوع انسان کے خیر خواہ رہے ہیں اور اب بھی خیر خواہ ہیں مگر ہم کیا کریں کہ ہماری طاقت سے زیادہ ہم پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے اور ظلم کا طوفان تھمنے میں آتا ہی نہیں.کاش! یہ لوگ ہمیں قتل کر دیتے مگر ہمارے آقا کو گالیاں نہ دیتے ، کاش! حکومت ہمیں پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیتی لیکن ان نا قابل برداشت گالیوں کو جو ہمیں نہیں بلکہ ہمارے جان و دل سے پیارے ہادی کو دی جاتی ہیں بند کرا دیتی.اگر حکومت کو خدا تعالیٰ نے باطنی آنکھیں دی ہوتیں تو وہ اس خون کو دیکھ سکتی ہے جو ہمارے دلوں سے بہ رہا ہے.وہ اُس خون کا بدلہ لیتی ہے جو چمڑے سے بہایا جاتا ہے پھر کیوں وہ اس خون کا بدلہ نہیں لیتی جو دل سے بہایا جاتا ہے.اب اس دکھ کی ساعت میں جب کہ خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۳۶ء ہمیں خود بدلہ لینے سے منع کرتا ہے ہم اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں کہ اُس کے حضور میں گر جائیں اپنے آنسوؤں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر کر دیں اور التجا کریں کہ اے ہمارے خدا! اے ہمارے آقا! اے بے کسوں کے والی ! اے مظلوموں کے حامی ! تیری یہ دنیا ظلم اور جور سے ناپاک ہوگئی ہے اپنے فرشتوں کو بھیج کہ تو بہ کے پانی یا عذاب کی آگ سے اس کو پاک کریں کہ اب اس دنیا میں ایک ایک دن کی رہائش ہمارے لئے عذاب ہے.تیرا وعدہ تھا کہ تو اسے ہمارے لئے جنت بنائے گا.اے سچے وعدوں والے! تیری رحمت کا دامن پکڑ کر تجھے تیرے ہی جلال کی قسم دیتے ہوئے ہم تجھ سے ہی التجاء کرتے ہیں کہ ہمارے زخمی دلوں پر ہمدردی کا مرہم لگا اور اس دنیا کو جو ہمارے لئے خاردار جنگل بن گئی ہے اپنی محبت کا گلزار بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ بخش جس سے تیرا نہ ختم ہونے والا وصال ہمیں حاصل ہو ، اور وہ ہمت بخش کہ جس سے تیرے رُوٹھے ہوئے بندوں کو ہم منا کر واپس لائیں.اے آقا! تجھ میں سب طاقتیں ہیں اور ہم میں کچھ بھی نہیں.پھر تیرا در نہ کھٹکھٹا ئیں تو کہاں جائیں.تجھ سے نہ مانگیں تو رکس سے مانگیں.رحم کر ، رحم کر ، رحم کر کہ تو ارح الرَّاحِمِينَ ہے اور ہم تیرے دروازے کے ابدی بھکاری ہیں.آمِينَ يَارَبَّ الْعَلَمِینَ.الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۳۶ء) سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۱۶ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ السيرة الحلبيه جلد ۲ صفحه ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (الاحزاب : ۱۲)
خطبات محمود ۱۵۸ 1.سال ۱۹۳۶ء خطرات سے پُر اوقات میں حکومت کی بہترین خدمات سرانجام دینے کا صلہ جماعت احمدیہ کو کیا مل رہا ہے؟ فرموده ۲۷ / مارچ ۱۹۳۶ء) تشهد تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں آج ایک نہایت اہم معاملہ کے متعلق خطبہ کہنا چاہتا ہوں اور چونکہ اس پر بولنے کیلئے ہے مجھے زیادہ وقت چاہئے تھا اس لئے میں نے اعلان کر دیا تھا کہ دوست ساڑھے بارہ بجے مسجد میں پہنچ جائیں.گو میں خود ایک بج کر چار پانچ منٹ پر پہنچا ہوں لیکن میری غرض دیر کرنے سے یہ تھی کہ بعض دفعہ جب تمام لوگ وقت پر نہ آئیں تو دوسروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے اس لئے میں دانستہ کچھ دیر کر کے آیا ہوں تا سب لوگ جمع ہو جائیں اور خطبہ سننے میں شریک ہوسکیں.گو مجھے یہاں آکر یہ محسوس ہوا ہے کہ غالباً دوست وقت کے قریب قریب ہی مسجد پہنچ چکے تھے اور اس احتیاط کیجی ضرورت نہ تھی.میں سب سے پہلے تو تمہیدی طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک امن پسند جماعت ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے کھڑا ہی اس لئے کیا ہے کہ ہم دنیا میں امن صلح اور محبت قائم کی کریں.چنانچہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام خدا تعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ" رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس نام کی
خطبات محمود ۱۵۹ سال ۱۹۳۶ء وجہ سے ہماری جماعت کبھی بھی اُن کاموں کو اختیار نہیں کرسکتی جو فتنہ اور فساد کا موجب ہوں.پھر اس امن پسندی کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ہمارے پاس بعض اور قومی وجوہ بھی موجود ہیں جن کے ما تحت امن شکنی ہمارے لئے کسی صورت میں جائز نہیں.پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم یہ ہے کہ کسی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اُس کے خلاف فتنہ وفساد کھڑا کرنا جائز نہیں.ہم نے اس مسئلہ کی وجہ سے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائی ہیں.ہمارے اپنے بھائیوں نے اس مسئلہ کی وجہ سے ہمیں کا فرقرار دیا بلکہ آدم حریت و آزادی کا پیغام دینے کا مدعی ڈاکٹر اقبال بھی ہمارے خلاف یہ الزام لگا تا ہے کہ ہم جہاد کے خلاف تعلیم دے کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کا موجب ہیں اور دوستی کے پردہ میں ان سے دشمنی کرتے ہیں.پس ہمارے اس عیب اور گناہ کی تصدیق پرانے علماء نے بھی کر دی اور جدید فلسفیوں نے بھی کر دی گویا مغرب اور مشرق دونوں جمع ہو گئے ہمیں مجرم قرار دینے کیلئے ، اس بناء پر اور اس گناہ کی وجہ سے کہ کیوں ہم نے مسلمانوں کو امن پسندی کی تعلیم دی ہے.قوم کی مخالفت کوئی معمولی مخالفت نہیں ہوتی.نہ صرف اس میں ہر قسم کا جسمانی دُکھ انسان کو برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ دل کا دُکھ بھی اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے.اسلام بے شک انسان کو بہا در بنا دیتا ہے، اسلام بے شک انسان کے دل میں جرات پیدا کر دیتا ہے لیکن اسلام انسان کے جذبات کو مارتا نہیں بلکہ انہیں ابھارتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ خواہ کوئی بھی حق کی مخالفت کرے ، اپنے ہوں یا غیر مؤمن ان کی پرواہ نہیں کر مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ کسی فعل کی وجہ سے خواہ وہ حق کی حمایت ہی کیوں نہ ہو اگر وہ اپنے کی عزیزوں ، اپنے رشتہ داروں ، اپنے ہمسایوں اور اپنے ہم قوموں سے علیحدگی اختیار کرے تو طبعی طور پر اسے صدمہ ضرور ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.پس یہ کوئی کھیل نہ تھا جو ہم کھیلے اور یہ کوئی معمولی بات ہے نہ تھی کہ ہم نے تمام مسلمانوں کو اپنا اس لئے دشمن بنالیا کہ ہم فتنہ و فساد کے خلاف تعلیم ان میں پھیلاتے ہیں مگر یہ دُکھ ہم نے اُٹھایا، یہ تکلیف ہم نے سہی، یہ مصیبت ہم نے برداشت کی لیکن حق کو نہیں چھوڑا بلکہ ہم ہمیشہ امن پسندی کی تعلیم لوگوں کو دیتے رہے.حکومت کے ریکارڈ اس کے گواہ ہیں ،حکومت کے اعلانات اس کے گواہ ہیں اور حکومت کی چٹھیاں اس کی گواہ ہیں.پس مذہب کی حکومت سب سے بڑی حکومت ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم مجبور ہیں خواہ ہم میں سے بعض کا
خطبات محمود 17.سال ۱۹۳۶ء دل نہ بھی چاہے، خواہ بعض ہم میں سے جوش کی حالت میں اپنی عقل و خرد کو چھوڑ کر یہ ارادہ بھی کر لیں کہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں ، کہ اس ارادہ کو عمل کا جامہ نہ پہنائیں.دوسری بات جو ہمیں پُر امن رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ ہمارے اور دوسری رعایا کے تعلقات ہیں.پہلی وجہ میں حکومت کے اور ہمارے تعلقات تھے جن میں مذہب نے ہمیں پابندِ امن کر دیا ہے لیکن دوسری وجہ وہ احکام ہیں جو رعایا اور رعایا کے آپس کے تعلقات کے متعلق ہیں ان کی احکام میں بھی آپس میں محبت اور پیار سے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن ان کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم امن شکنی نہیں کر سکتے کیونکہ علاوہ مذہبی تعلیم کے مصلحتیں اور ضرورتیں بھی ہمیں مجبوری کرتی ہیں کہ ہم امن شکنی نہ کریں.یعنی اگر ہم میں سے کوئی کمزور شخص مذہب کی حکومت سے کسی وقت انکار بھی کر دے تو وہ ضرورتا اس بات پر مجبور ہے کہ امن شکنی نہ کرے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں.ہم نے اپنا یہ فرض مقرر کیا ہوا ہے اور دوسروں کو ہم اس بات کی عادت ڈالتے ہیں کہ وہ جائیں اور غیر احمدیوں کو تبلیغ کریں.ہم مسلمانوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم ہندوؤں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم سکھوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم عیسائیوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں اور اسی طرح ہر اُس قوم کو ہم تبلیغ کرتے ہیں جو ہمارے سامنے آ جاتی ہے.اب ایک تبلیغی جماعت کی کیلئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ لوگوں سے لڑے کیونکہ اگر وہ لڑے تو تبلیغ نہیں کر سکے گی.اگر ہم تی اپنے افعال کی وجہ سے مسلمانوں کو برانگیختہ کر دیں، اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے ہندوؤں کو برانگیختہ کر دیں ، اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے سکھوں کو برانگیختہ کر دیں اور اگر ہم اپنے افعال کی کی وجہ سے عیسائیوں کو برانگیختہ کر دیں تو بتاؤ تبلیغی میدان ہمارے لئے کونسا رہ جاتا ہے.پس اگر ہم میں سے کوئی شخص اس مذہبی حکم کا قائل نہ بھی ہو تو تبلیغی ضرورتوں کی وجہ سے وہ اس بات کیلئے مجبور ہے کہ غیر جماعتوں سے اچھے تعلقات رکھے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں.ہر قوم میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی اور ای بُرے لوگوں کو روکنا کوئی آسان بات نہیں.ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو بعض اوی دفعہ تقریروں کے ذریعہ یا تحریروں کے ذریعہ سخت کلامی کرتے ہیں مگر وہ سخت کلامی یا تو کسی انتہائی غفلت کی حالت میں ہوتی ہے یا عادتاً ہوتی ہے.اور جو شخص عادتا سخت کلامی کرتا ہے وہ بھی اپنی
خطبات محمود ۱۶۱ سال ۱۹۳۶ء عادت کی وجہ سے نہ مذہب کو یاد رکھ سکتا ہے نہ مصلحتوں اور ضرورتوں کو.یا بعض دفعہ منافق سخت کلامی کرتے ہیں اور ان کی اصل غرض جماعت کو بدنام کرنا ہوتی ہے.پس ہمیشہ یہ تین قسم کے لوگ ہی جماعت میں سے سختی کرتے ہیں لیکن ہمارا رویہ ان کے متعلق ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہم ان کی باتوں پر گرفت کرتے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں.اگر غفلت سے سخت کلامی ہو تو تب بھی ہم گرفت کرتے اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اگر عادتا سخت کلامی ہو تب بھی ہم گرفت کرتے اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی منافقت.کرے تب بھی اسے سمجھایا جاتا یا اخبار والوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کیوں ایسے لوگوں کے مضامین شائع کرتے ہیں جن کی اصل غرض ہم پر الزام قائم کرنا ہے ان استثنائی صورتوں کے علاوہ ہماری جماعت کا عام رویہ یہ ہے کہ ہم دوسری قوموں کے متعلق ادب اور احترام کے مقام پر کھڑے ہوں ی اور ہم کہتے ہیں کہ کسی دوسری قوم کا دل نہیں دُکھانا چاہئے.ہمارے ہاں کثرت سے ایسی مثالیں موجود ہیں جبکہ دوسروں کے ہاں ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جب ہم میں سے کسی نے غیر اقوام کے متعلق سخت کلامی کی تو ہم نے اُسے ڈانٹا اور سزا دی.اس وقت تک تین رسالوں کو میں اس جرم کی میں ضبط کر چکا ہوں اور کئی دفعہ اخبارات والوں کو ڈانٹ چکا ہوں بلکہ اخباروں میں اس کا ذکر بھی جی آچکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کوئی دوسری قوم اپنے میں سے ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتی بلکہ دوسری قوموں میں جب کسی سے غلطی ہو جاتی ہے تو وہ ہمیشہ اُس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں.گزشتہ پندرہ بیس سال کی تاریخ دنیا میں موجود ہے اس پر غور کر کے دیکھ لو جب کسی اور قوم کے کسی فرد نے اس قسم کی غلطی کی یعنی غیر مذاہب والوں کے متعلق سخت کلامی کی تو آیا اُس قوم کے لوگوں نے بحیثیت قوم اس کے متعلق اظہار ناراضگی کیا ؟ اس میں شبہ نہیں کہ بعض افراد یا بعض شہروں نے ان پر اپنی ناراضگی اور نفرت کا اظہار کیا مگر وہ بحیثیت جماعت نہ تھا بلکہ بحیثیت افرادی تھا.اگر سارے ہندوستان کے ہندوؤں میں سے کسی ایک شہر کے ہندوؤں نے کسی ہندو کے فعل پر اظہار نفرت کر دیا یا کروڑوں مسلمانوں میں کوئی ایک شخص ایسا کھڑا ہوا جس نے کسی مسلمان کی سختی کی کے خلاف آواز بلند کر دی تو یہ جماعت کا فعل نہیں کہلا سکتا بلکہ افراد کا فعل ہے.لیکن ہماری طرف کی سے ہمیشہ ایسی سختی کے خلاف جو قوموں میں تنافر پیدا کرنے والی ہو مِنْ حَيْثُ الْقَوْمِ آواز اُٹھائی
خطبات محمود ۱۶۲ سال ۱۹۳۶ء جارہی ہے.چنانچہ یا خلیفہ وقت کی طرف سے اس کے خلاف اعلان ہوتا ہے یا صدر انجمن احمد.کی طرف سے اس کے خلاف اعلان ہوتا ہے جن کا اعلان ساری جماعت کا اعلان سمجھا جاتا ہے.زیدا گر اعلان کرتا ہے کہ فلاں نے غلطی کی تو بکر کہہ دیتا ہے کہ میں اس غلطی کو تسلیم نہیں کرتا.اس کے مقابلہ میں جماعت کا امام جب اعلان کرے کہ فلاں شخص نے غلطی کی تو کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ اس نے غلطی نہیں کی گویا یہ نفرت کا اظہار ساری جماعت کی طرف سے ہوتا ہے.پس اس معاملہ میں جو طریق اختیار کیا ہے اگر باقی جماعتیں بھی وہی طریق اختیار کرتیں تو جی کبھی ہندوستان میں فساد نہ ہوتے.مثلاً اگر ایک ہندو کے قلم سے کسی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق نازیبا کلمات لکھے گئے ہوں اور ساری ہندو قوم اس سے نفرت کا اظہار کرے تو ی آئندہ نہ اُسے یہ جرات رہے کہ وہ مسلمانوں کے متعلق دل آزار کلمات استعمال کرے اور نہ اس کی ای اس حرکت سے مسلمانوں کے دلوں میں کوئی غصہ رہے.اسی طرح اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی حرکت ہو کہ ان میں سے کوئی فرد کسی دوسری قوم مثلاً ہندوؤں کے بزرگوں کی ہتک کر دے اور پھر یہ بات مسلمانوں کے علم میں لائی جائے اور وہ اس کے خلاف اظہار نفرت کر دیں تو اس مسلمان کی بھی اصلاح ہو جائے اور ہندوؤں کا غصہ بھی بالکل فرو ہو جائے کیونکہ آخر جب کوئی مسلمان یا ہندو ایک کتاب لکھتا ہے تو اس کی غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ لوگ اسے خریدیں اور پڑھیں لیکن جب وہ یہ دیکھیں کہ غیروں نے تو اسے خرید نا نہیں کیونکہ اس میں ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور اپنے اس پر اظہار نفرت کر رہے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کتاب کی تھی اشاعت بند ہو جاتی ہے اور آئندہ کیلئے اسے یہ حوصلہ نہیں رہتا کہ وہ کوئی منافرت انگیز تحریر شائع کی کرے.چنانچہ بعض مسلمانوں کی طرف سے مذہب کے متعلق جب بعض ایسی کتاب میں لکھی گئیں جو تھی قابل اعتراض تھیں اور مسلمانوں نے ان کے خلاف آواز اُٹھائی تو ان مصنفین نے خود اپنے ہاتھ کی سے وہ کتابیں جلا دیں.اس کی مشہور مثال مولوی نذیر احمد دہلوی کی کتاب اُمہات الا مہ ہے.جب یہ پہلی دفعہ چھپی اور مسلمانوں نے اس کے خلاف شور مچایا تو اس کے مصنف نے خود اسے جلا دیا.اب پھر دوبارہ چھپی تو مسلمانوں کے آواز اُٹھانے پر اُسے چھاپنے والوں نے جلا دیا.تو ی اگر قوم متفقہ طور پر کسی کی سخت کلامی کے خلاف اظہار نفرت کرے تو مصنفین کو یہ جرات ہی نہیں رہتی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کہ وہ دوسروں کے متعلق دل آزار کلمات استعمال کریں.کتابیں لکھنے والے مالدار نہیں ہوتے بلکہ کی اکثر غریب ہوتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ کتاب چھپوا کر انہیں مالی لحاظ سے بھی گھاٹا رہاتی اور دوسری طرف نہ قوم میں عزت رہی نہ غیروں پر اثر رہا تو وہ اپنی غلطی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اس طریق کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں.اگر یہی طریق ہندو اختیار کرتے ، اگر یہی طریق عیسائی اختیار کرتے اور اگر یہی طریق دوسری اقوام اختیار کرتیں تو نہ کسی قانون کی ضرورت تھی نہ حکومت کے انتظام کی ضرورت تھی ، نہ بدنظمی پیدا ہوتی ، نہ بدمزگی واقع ہوتی ، نہ شور اور فساد پیدا ہوتا ، سب بھائی بھائی بن کر رہتے اور فتنہ و فساد سے مجتنب رہتے.لیکن چونکہ دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کی طرف سے یہ طریق اختیار نہیں کیا جاتا اس لئے آپس میں بغض اور کینہ بھی ترقی کرتا رہتا ہے لیکن ہماری جماعت ہمیشہ امن کے قیام کیلئے اس قسم کی حرکات پر سختی سے نوٹس لیتی ہے اور ان کے انسداد کی پوری کوشش کرتی ہے.پھر تبلیغی ضرورتوں کے علاوہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو قرآن مجید میں موجود ہے اور ی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر خاص زور دیا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے بزرگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن مِنْ اُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ ل - دنيا كى کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نذیر نہ آیا ہو.اس تعلیم کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ہم دوسری اقوام کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہ سکیں.چونکہ رسول کریم ہے کے بعد اسلام کے باہر کوئی نبی نہیں آسکتا تھا اس لئے صرف سکھوں کا سوال رہ جاتا تھا ان کے متعلق حضرت کی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتادیا کہ ان کے بانی حضرت باوا نا تک صاحب ایک مسلم بزرگ تھے اور جو بزرگ اور ولی اللہ ہو اس کے خلاف کوئی احمدی اپنی زبان کس طرح کھول سکتا ہے.جب ہم حضرت با وا نا نک رحمتہ اللہ علیہ کو ایک ولی اللہ تسلیم کرتے ہیں تو ان پر الزام لگانے اور ان کی عیب شماری کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے دوست بھی نَعُوذُ بِاللهِ بُرے ہوتے ہیں اور چونکہ بُروں کے دوست بھی بُرے ہوا کرتے ہیں اس لئے حضرت باوا نانک صاحب کی کی عیب شماری کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں.پس اس تعلیم کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہم مجبور ہیں کہ گو حضرت باوا صاحب
خطبات محمود ۱۶۴ سال ۱۹۳۶ء کو نبی نہ سمجھیں مگر ولی اللہ اور خدا رسیدہ انسان ہونے کی حیثیت میں ان کا ادب اور احترام کریں اور کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کریں جو ان کی شان کے خلاف ہو.پس اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ سے ایک ہی قوم باہر رہ جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قوم کے بانی کے متعلق بھی ثابت کر دیا کہ وہ ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے اور اس طرح ان کے متعلق بھی ادب اور احترام کے کی جذبات رکھنے پر ہم مجبور ہیں مگر کسی قوم کے ایسے لیڈر جو نہ نبی ہیں نہ ولی ان کے متعلق بھی ہماری شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں برا بھلا نہ کہیں اور اگر ہم ان کو گالیاں دیں تو ہم خود اس بات کے محرک بنتے ہیں کہ وہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں دیں.رسول کریم ﷺ نے اس کا ایک نہایت ہی لطیف مثال میں ذکر فرمایا.آپ نے ایک دفعہ صحابہ سے کہا بہت ہی ملعون ہے وہ شخص جو اپنی ماں کو گالی دے.صحابہ نے عرض کیا یارَسُولَ اللهِ! کوئی شخص اپنی ماں کو کس طرح گالی دے سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو گویا یہ اپنی ماں کو آپ گالی دیتا ہے ہے.تو ہمارے مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ بانیانِ مذاہب کے علاوہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے جن لوگوں کو تم نبی اور رسول یا خدا رسیدہ نہیں سمجھتے ان کا بھی احترام کرو اور انہیں گالیاں مت کی دو.بے شک جائز تنقید کا دروازہ کھلا ہے ان کی غلطیوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ، ان کے سامنے اچھی بات پیش کرنے کی ممانعت نہیں کیونکہ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو تبلیغ نہیں ہوسکتی.لیکن سخت الفاظ کی اجازت نہیں سوائے اس کے کہ جوابی رنگ میں ہوں اور میں بار ہا بتا چکا ہوں اور اس خطبہ کے شروع میں بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ ہم نے عملاً ان باتوں کو کر کے دکھا دیا ہے.حکومت کے بارے میں کیسے کیسے خطر ناک حالات میں سے ہم گزرے ہیں مگر کس صفائی کے ساتھ.نہ صرف حکومت کے خلاف کسی قسم کی بغاوت میں حصہ لینے سے ہم نے اپنے آپ کو بچایا بلکہ دوسروں کے کو بھی محفوظ رکھا.آج اگر حکومت بھول گئی ہو تو بھول جائے کیونکہ بعض لوگوں کا حافظہ خراب ہوتا ہے اور وہ باتوں کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکتے مگر اب بھی قریب وہ سب افسر موجود ہیں جو ۱۹۱۴ ء کی لڑائی کے ایام میں موجود تھے وہ تھوڑی دیر کیلئے اپنے مخالف جذبات کو دبا کر اُن دنوں کو یاد کریں
خطبات محمود ۱۶۵ سال ۱۹۳۶ء جب ۱۹۱۴ ء میں لڑائی شروع تھی اور سوچیں کہ ۱۹۱۴ء میں ان کے قلب کی کیا کیفیت تھی اور کس طرح کی وہ وفاداری کے بھو کے نظر آتے تھے.اُس دن کس طرح حقیر سے حقیر انسان بھی جو ان کی مدد کیلئے جی ہاتھ بڑھاتا تھا اُسے ادب اور احترام کے مقام پر بٹھانے کیلئے تیار ہو جاتے تھے.۱۹۱۴ء کا انگریز کس طرح اپنے ملک کی عزت کو خطرے میں گھرا ہوا پاتا تھا اُس دن کی بیشک کہنے کو اخبارات میں یہ اعلان ہوتے رہتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں اور ہماری طاقت دشمن کی طاقت سے بہت زیادہ ہے لیکن انگلستان کے بڑے بڑے جرنیلوں نے تو اب کتابیں لکھی کر اصل حالات کو طشت از بام کر دیا ہے اور ان میں اُن تمام واقعات کا ذکر ہے جن سے ثابت کی ہوتا ہے کہ وہ چار سال انگلستان والوں کیلئے عذاب کے سال تھے.کئی مواقع ایسے آئے جب انگلستان یہ محسوس کرتا تھا کہ آج وہ اپنی آزادی کو کھو دینے کیلئے بالکل تیار بیٹھا ہے.انگلستان کے جی لیڈر یہ محسوس کرتے تھے کہ قوم کی عزت اس وقت اتنے خطرے میں ہے کہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اسے ہمیشہ کیلئے کھو بیٹھیں.یہ خطرناک دن آئے اور اُن دنوں میں چھوٹی سے چھوٹی امداد کے بھی وہ ای محتاج ہوئے.اُن دنوں پر غور کر کے اور ان واقعات کی یاد تازہ کر کے حکومت کے افسر سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری جماعت نے کس جرات ، کس دلیری ، کس بہادری اور کس مردانگی کے ساتھ مخالف حالات میں حکومت انگریزی کی مدد کی لیکن کیا ہم نے اس کا کوئی بھی بدلہ لیا ؟ ہم نے اس کا ایک شمہ بھر بھی بدلہ نہیں لیا اور نہ لینا چاہتے ہیں.مگر کیا ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ کہیں کہ ہمیں وہ برطانوی انصاف دیا جائے جس پر برطانوی انصاف کی امید میں ہماری جماعت نے جانیں دیں.پھر جنگ میں جب فتح ہوئی تو کوئی سر بنا کوئی نواب بنا، کسی کو مربعے ملے، کسی کو نوکریاں ملیں اور کسی نے کی کسی طرح کا اعزاز حاصل کیا اور کسی نے کسی طرح کا.مگر کیا ہم نے بھی کوئی بحیثیت جماعت کی گورنمنٹ سے کوئی مطالبہ کیا ؟ یا کیا ہمیں بھی گورنمنٹ کی طرف سے کوئی معاوضہ دیا گیا ؟ اس میں شبہ نہیں کہ بعض افراد سے حکومت نے اچھا سلوک کیا مگر ہماری خدمات دو طرح کی تھیں.ایک وہی خدمات جو مِن حيث الأفراد تھیں اور ایک وہ خدمات تھیں جو مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَت تھیں.جو ان خدمات مِنْ حَيْثُ الأفراد تھیں ان میں بے شک بعض احمدیوں کو گورنمنٹ نے اعزاز دیا اُسی طرح جس طرح کہ اس نے اور لوگوں کو اعزاز دیا لیکن ہزاروں احمدی ایسے تھے جنہوں نے مرکز
خطبات محمود ۱۶۶ سال ۱۹۳۶ء کے ذریعہ حکومت کیلئے قربانیاں کیں اور ان کی قربانیوں کا کوئی صلہ گورنمنٹ نے نہ ان احمد یوں کو دیا اور نہ مرکز کو دیا.نہ مرکز کی یہ خواہش تھی کہ اسے صلہ ملے اور نہ اب خواہش ہے کہ اسے صلہ دیا جائے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان قربانیوں کا صلہ وہ بھی نہیں ہو سکتا جو آج ہمیں دیا جارہا ہے.کسی وقت انگریز بیلجیئم پر حملہ کرنے کی وجہ سے جرمن سے حقارت کرتے تھے اور کہتے کہ اس نے بیلجیئم کے پرانے معاہدہ کوتوڑ دیا اور اسے سکریپ آف پیپر کی حیثیت بھی نہ دی.میں ان حکام سے جو اس وقت پنجاب میں مقرر ہیں کہتا ہوں کہ وہ بیسیوں چٹھیاں جو ہماری خدمات، وفاداری اور امن پسندی کے متعلق برطانوی حکام کی ہمارے پاس موجود ہیں سکریپ آف پیپر کی حیثیت رکھتی ہیں؟ بے شک ہم ان کے بدلے کسی انعام کے طالب نہیں مگر ہم اس بات کے طالب ضرور ہیں کہ ہمیں امن دیا جائے مگر افسوس کہ وہ امن ہمیں نہیں دیا جا رہا.پھر خلافت کا جب جھگڑا ہوا اُس وقت بھی انگریزوں کو خطرناک مشکلات درپیش تھیں.جنگ کے بعد انگریز کمزوری محسوس کر رہے تھے جنگ کے دنوں میں سوشلسٹ اس ہیجان کی وجہ سے جو ملک میں پیدا ہو گیا تھا دب گئے تھے لیکن جنگ کے بعد ان کی طاقتیں معاً اُبھر آئیں ادھر آپس میں دل پھٹ چکے تھے اور ٹوٹ کے حصوں کو اُڑانے کا شوق ایک دوسرے کے حقوق کو تلف کرنے کی پر آمادہ کر رہا تھا.۱۹۱۹ ،۱۹۲۰ ء کا فرانس وہ فرانس نہیں تھا جو ۱۹۱۴ء کا تھا ،۱۹۱۹ ،۱۹۲۰ ء کا بیلجیئم وہ بیلجیئم نہیں تھا جو ۱۹۱۴ء کا تھا، ۱۹۱۹ ء ،۱۹۲۰ ء کا اٹلی وہ اٹلی نہ تھا جو ۱۹۱۴ ء یا ۱۹۱۵ ء کا تھا کیونکہ وہ ایک سال بعد جنگ میں شامل ہوا.اسی طرح امریکہ ۱۹۱۹ ء میں وہ امریکہ نہ تھا جو ۱۹۱۸ ء کے ی شروع میں تھا ، دلوں میں بعد پیدا ہو چکا تھا، لوٹ کے شوق میں ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کیا جا رہا تھا اور ایک دوسرے کے خلاف سخت شکایتیں پیدا ہو چکی تھیں.پھر لڑائی کے بعد قدرتی طور پر جوری ایکشن یعنی رد عمل ہوتا ہے اس کی وجہ سے خودا پنی رعایا میں بھی بے چینی اور بددلی پیدا ہو گئی تھی.اس وقت انگریزی حکومت کی کمزوری اس امر سے بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ تباہ شدہ روس جس کا ملک تفرقہ اور فساد سے بھرا ہوا تھا، جس کے اندر کوئی نظام نہ تھا، جس کے پاس کوئی سی طاقت نہ تھی اُس کے چند مزدور لیڈر جو نہ جنگ سے واقف تھے نہ سیاست سے آگاہ انہوں نے آر چنچل کے مقام پر انگریزی فوجوں کو بُری طرح دق کیا یہاں تک کہ انگریزوں کو اپنی فوجیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء واپس بلا لینی پڑیں.اسی زمانہ میں ترک وہ ترک جن کا ملک تقسیم ہو چکا تھا ، وہ ترک جن کا بادشاہ کی قیدیوں کی طرح تھا، وہ ترک جن کے تو پخانے اتحادیوں کے قبضہ میں تھے ، وہ شکست خوردہ ترک اپنے سینے تان کر انگریزی اور فرانسیسی فوجوں کے سامنے آکھڑے ہوئے اور آخر لارڈ کرزن کے ذریعہ ایک معاہدہ ہونے کے بعد انگریزی فوجوں کو واپس آنا پڑا.انگریز اُس وقت ساز و سامانی میں کمزور نہ تھے ، دولت میں کمزور نہ تھے لیکن انہیں نظر آ رہا تھا کہ آج چاروں طرف پھوٹ ہے اور ہمارا ساتھ دینے کیلئے کوئی تیار نہیں.اُس زمانہ میں وہ ہندوستان جس میں تینتیس کروڑ کی آبادی کی ہے اس کے باشندوں میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک حکومت انگریزی کے خلاف آگ لگ چکی تھی ، ہند و سوراجیہ کا مطالبہ کرتے تھے، مسلمان خلافت کا شور مچارہے تھے اور کوئی جماعت مِنْ حَيْثُ الْجَمَاعَت انگریزوں کے ساتھ نہ تھی ایسے خطرے کے وقت میں جب اپنے اور پرائے سب گھبرا رہے تھے سوائے جماعت احمدیہ کے اور کونسی جماعت تھی جس نے حَيْثُ الْجَمَاعَت انگریزی کا ساتھ دیا ؟ مجھے یاد ہے کہ جب رولٹ ایکٹ پر شور اُٹھا تو میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو ار در گردی کے دیہات میں بھیجا کہ وہ وہاں کے رؤساء اور بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کر کے قادیان میں لائیں تا میں انہیں نصیحت کروں کہ وہ اس فتنہ وفساد میں حصہ نہ لیں.بعض خود غرض لوگ ہم میں اس اور سکھوں میں ہمیشہ لڑائی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض پُرانے اور بڈھے سکھ جو ہمارے خاندان کی پُرانی روایات اور ان کے اثر سے واقف تھے انہوں نے یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ میں انہیں کیوں بلا رہا ہوں مجھے کہلا بھیجا کہ ہم ضرور آئیں گے اور اگر آپ اس موقع پر اپنے خاندان کی کی پرانی عظمت قائم کرنا چاہیں تو ہم آپ کا پورا ساتھ دیں گے.اُس وقت انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کا جذبہ اس قدر ترقی کر چکا تھا کہ قریب کے گاؤں ”ٹھیکری والا سے جو بالکل جاہل گاؤں ہے ایک کثیر تعداد پستولوں کی پکڑی گئی تھی کچھ لوگ وہاں پستولوں سے چاند ماری کی مشق بھی کیا کرتے تھے جب یہ رؤساء آئے اور میں نے مسجد میں جمع کر کے انہیں نصیحت کی کہ آپ کی ریزوں کے خلاف شورش میں حصہ نہ لیں تو وہ بھو کے بھیڑیے کی طرح ہمارے آدمیوں سے لڑتے تھے مگر ہم نے انہیں سمجھا سمجھا کر اور منتیں کر کے اس ارادہ سے انہیں باز رکھا اور علاقہ میں
خطبات محمود ۱۶۸ سال ۱۹۳۶ء شورش پیدا نہ ہونے دی.پھر یہاں ہی نہیں سارے پنجاب میں ہم نے لوگوں کو بھیجا اور امن قائم کی کیا.وہ وقت ایسا خطرناک تھا کہ اگر ذرا آگ لگ جاتی تو انگریز مصنف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت انگریزی کو شدید صدمہ پہنچتا.اس موقع پر ہم نے گالیاں سنیں ، ماریں کھائیں لیکن حکومت سے غداری نہیں کی بلکہ پورے امن سے رہے اور دوسروں کو امن سے رہنے کی تلقین کی.کیا اس کا کی وہی صلہ ہے جو آج ہمیں دیا جا رہا ہے؟ ہمارے جذبات اُس وقت دوسرے مسلمانوں سے کم نہیں ہے تھے.خلافت ترکیہ کے گو ہم قائل نہیں مگر اسلامی حکومتوں کی ترقی کی امنگیں ہمارے دلوں میں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ہیں بلکہ ہم نے تو کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کی کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو توی الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائیں گی پس ہمیں کتنا دُکھ ہوتا تھا یہ دیکھ کر کہا انگریزی حکومت ہم ہی سے قربانیاں لینے کے بعد ترکوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے.ہمارے دل بھی زخمی تھے اور ہمارے دلوں سے بھی یہ دیکھ کر خون بہہ رہا تھا کہ صرف ایک قابل ذکر اسلامی حکومت دنیا میں باقی تھی مگر افسوس کہ اسے بھی ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے لیکن باوجود اس کے کہ ہمارے جذبات سے کھیلا گیا ہم نے امن قائم رکھنے کی پوری کوشش کی اور کسی ایسی حرکت کو پسند نہ کی کیا جس سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں.میرے جذبات کی شدت کا ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ میں نے انہی دنوں مسلمانوں کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ اگر آپ لوگ پُر امن طریق سے کوشش کریں اور اس پر زور نہ دیں کی کہ ترکوں کا بادشاہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے صرف یہ کہیں کہ اکثر مسلمان ان کو خلیفہ تسلیم کرتے ہے ہیں لیکن باقی مسلمان بھی ان کو واجب الاحترام تسلیم کرتے ہیں تو میں پچاس ہزار روپیہ اور اپنے تمام بیرونی مبلغ آپ کو اس غرض کیلئے دینے پر تیار ہوں کہ وہ ترکوں کی حمایت میں پروپیگنڈا کریں.آج ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کی مالی حالت کی پہلے سے اچھی ہے لیکن ۱۹۱۹ء میں تو بہت ہی کمزور حالت تھی.اُس زمانہ کے پچاس ہزار روپے کی آجکل کے تین چار لاکھ کے برابر ہیں مگر مسلمانوں نے میری تجویز منظور نہ کی اور گاندھی جی کے نان کو آپریشن کے مشورہ کو قبول کر لیا.لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے حکومت ترکیہ.
خطبات محمود ۱۶۹ سال ۱۹۳۶ء ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا کتنا شدید صدمہ تھا مگر باوجود ان جذبات کے میں نے امن کا طریق اختیار کیا اور اس وجہ سے مجھے مسلمانوں سے گالیاں بھی سنی پڑیں.آج لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا جی مشورہ صحیح تھا اور باوجود اس کے کہ مسلمان لیڈروں کے ہاتھ میں میرا ٹریکٹ پہنچا اور وہ خط بھی جس کی میں تجاویز تھیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد نہیں کہ آپ کی طرف سے ہمیں کوئی ٹریکٹ اور خط ملا ہو.اگر ٹریکٹ اور خط پہنچ جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم آپ کا مشورہ قبول نہ کرتے.یہ زمانہ گزرا تو اس کے بعد بھی بیسیوں مواقع ایسے پیش آئے کہ اگر دوسری جماعتوں کو ی وہی مواقع پیش آتے تو وہ کبھی صبر سے کام نہ لیتیں اور ضرور خون ریزی تک نوبت پہنچ جاتی.مثلاً شہید گنج کے موقع پر جامع مسجد میں پولیس اندر داخل ہونے سے گھبراتی ہے.مسلمانوں کا ڈکٹیٹر عَلَى الْإِعْلان تقریریں کرتا ہے اور سپاہی ڈرتے ہیں کہ ہم مسجد میں کس طرح جائیں وہ مسلمانوں کا لالی مقدس مقام ہے لیکن ہمارے مقدس مقام میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا.گورنمنٹ دوسری اقوام کے مقدس مقامات میں بھی تو ایک مرتبہ دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کر کے دیکھے اسے پتہ لگ جائے گا کہ وہاں کی خونریزی ہوتی ہے یا نہیں ؟ مگر ہم نے ان تمام باتوں کو برداشت کیا اور میں نے اپنی جماعت کے کی لوگوں کو سختی سے روک کر اُن کے دلوں کا خون کر دیا اس لئے کہ ہماری جماعت کی یہ روایت قائم رہے کہ ہم امن پسند ہیں.پھر ان تمام حالتوں میں ہمارا رویہ جہاں ایک طرف حکومت کیلئے پر امن کی رہا وہاں ملک سے بھی دوستانہ رہا.بنگال میں انارکسٹ انگریزوں کے خون سے کھیل رہے تھے میں نے اپنے خرچ پر انارکسٹوں کی اصلاح کیلئے وفد بھیجے اور ان کا نہایت مفید اثر ہوا اور اب جو بنگال میں کام کرنے والے مسلمان موجود ہیں ان کے متعلق تحقیق کر کے دیکھ لیا جائے کہ اب ان کے کیا خیالات ہیں اور کی ایک دو سال پہلے ان کے خیالات کیا تھے.ہمارے مبلغوں کی اُس وقت کی رپورٹوں سے معلوم کیا لی جاسکتا ہے کہ کس طرح انہیں سمجھا بجھا کر درست کیا گیا اور ان کے خیالات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ خود حکومت کے انگریز افسروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ہم نے رکن حالات میں انار کسٹوں کی اصلاح کا کام کیا.جو حالت اُس وقت انگریز افسروں کی تھی اُس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ہمارا ایک آدمی جوانارکسٹوں کی اصلاح کیلئے مقرر تھا وہ ایک دفعہ ایک مشہور ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء سے ملنے گیا.ابھی ایک منٹ ہی اُسے بات کرتے گزرا تھا کہ یکدم وہ یہ سن کر حیران رہ گیا کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اس سے کہہ رہا ہے ” ہینڈ ز اپ“.یعنی ہاتھ کھڑے کر دو.یہ الفاظ عموماً اس وقت کہے جاتے ہیں جب کوئی چور، ڈاکو یا قاتل سامنے آجائے اور یہ خیال ہو کہ وہ حملہ کر دے گا اُس وقت فوراً پستول دکھا کر اور ہینڈز اپ کہہ کر تلاشی لی جاتی ہے.اس بے چارے نے بھی حیران ہو کر ہاتھ اونچے کر دئیے اور ڈپٹی کمشنر نے پستول سامنے رکھ کر اُس کی تلاشی لینی شروع کر دی.جب تلاشی کے بعد کوئی چیز نہ نکلی تو اُس نے پوچھا آپ نے تلاشی کیوں لی تھی ؟ وہ کہنے لگا میں نے کی سمجھا تم کوئی انارکسٹ ہو.بعد میں دوسرے موقع پر ایک اور انگریز افسر جو فوج میں کرنیل تھا اسے اپنے ساتھ لے کر ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اور بتایا کہ یہ تو بغاوت کے مٹانے کیلئے یہاں کام کر رہا تھا تے آپ اس سے گھبرا کیوں گئے.یہ زیادہ دور کی بات نہیں قریب کے عرصہ میں یہ واقعات ہوا کرتے تھے مگر ہم نے ان واقعات کو دُور کرنے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک کامیاب ہوئے.اس کے ساتھ ہمارا رویہ اپنے ملک کے ساتھ ہمدردانہ رہا کیونکہ ہم نے مُجرم نہیں پکڑوائے بلکہ ان کی کیا اصلاح کی کوشش کی اور جب ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص باغیانیہ خیالات رکھتا ہے تو ہم نے اُس کے جی خیالات کو دور کیا ہے.چنانچہ کئی انارکسٹ تھے جنہوں نے ہماری کوششوں کی وجہ سے اپنے خیالات کو بدل دیا.ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ موجود جو پہلے انتہا پسند تھے مگر سمجھانے کے بعد اُن کی جی اصلاح ہوگئی اور وہ جماعت میں شامل ہو گئے.پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو اگر چہ ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر اس قسم کے خیالات سے انہوں نے ہماری وجہ سے تو بہ کر لی.تو ہمارا جہاں یہ طریق ہے کہ ہم ملک سے فتنہ و فساد دور کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ کبھی طریق نہیں ہوا کہ ہم مجرموں کے نام گورنمنٹ پر ظاہر کریں اور انہیں پکڑوانے کی کوشش کریں.سارے سلسلۂ خدمات میں صرف ایک شخص کا نام ہم نے گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ وہ ہندوستان میں نہیں تھا بلکہ ہندوستان سے باہر کسی اور ملک میں تھا اور ہم اس کو سمجھا نہیں سکتے تھے.وہ حکومت انگریزی کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کر رہا تھا جب اس کے نام سے حکومت کو اطلاع دی گئی تو پہلے فارن سیکرٹری نے اپنی بے بسی کا اقرار کیا لیکن آخر اس حکومت کی معرفت جس میں وہ رہتا تھا اُ.ނ
خطبات محمود KI سال ۱۹۳۶ء وہاں سے نکال دیا گیا جہاں سے وہ حکومت کو نقصان پہنچا سکتا تھا.غرض ہم نے حکومت برطانیہ کی مدد کے ساتھ اس امر کا بھی ہمیشہ خیال رکھا ہے کہ اپنے اہل ملک کی بھی خیر خواہی کریں اور کبھی جاسوسی کا کام نہیں کیا.جس شخص کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اُس کا معاملہ استثنائی ہے اس کے بارہ میں بھی ہم اس لئے مجبور ہو گئے کہ ہم اس کو سمجھا نہیں سکتے تھے تے ور نہ ہمارا یہ اصول ہے کہ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ نقصان پہنچانے کی.یہ چند مثالیں ان بہت سی خدمات کی ہیں جو ہم نے حکومت کے فائدہ کیلئے کی ہیں مگر نہ تو ی حکومت نے ہماری قدر کی اور نہ قوم نے ہماری قدر کی حالانکہ نہ ہم نے کبھی ملک سے غداری کی کی اور نہ حکومت کے کسی حکم کی خلاف ورزی کی اور نہ اس کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کیا مگر باوجود اس کے حکومت نے بھی ہمیں بُرا سمجھا اور قوم نے بھی.پس ہر منصف مزاج انسان اگر ای انصاف سے دیکھے تو اسے ہماری امن پسندی کے جذبات کا قائل ہونا پڑتا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمیں گزشتہ دو سال کے عرصہ سے نہایت ہی تلخ تجربہ ہورہا ہے اور کسی ایسے قصور کی وجہ سے جس کا ہمیں علم نہیں ہمارے خلاف بعض حکام کا رروائیاں کر رہے ہیں.ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح پتہ لگے ہمارا جرم کیا ہے مگر ہمیں جُرم کا پتہ نہیں لگا اس لئے کہ جب حکومت کے افسروں سے ملاقات کی کی جاتی اور اُن سے دریافت کیا جاتا ہے تو ہ کہہ دیتے ہیں ہم تو ناراض نہیں.پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ ناراض نہیں تو یہ کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ پھر بعض باتیں جو لوگ بناتے ہیں وہ اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ انہیں ماننے کیلئے طبیعت تیار ہی نہیں ہوتی.مثلاً پچھلے دنوں لاہور کے ایک اخبار میں دہلی کے ایک نامہ نگار کا ایک مضمون چھپا تھا تی کہ ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب احمدیوں سے اس لئے ناراض ہیں کہ ان کے تقرر سے پہلے احمدیوں نے سر ہنری کریک کے متعلق گورنر بننے کی کوشش کی اور ان کیلئے پنجاب میں لوگوں سے دستخط لئے.یہ اتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اس کو ناراضگی کی وجہ قرار دینے کیلئے دل تیار نہیں کیونکہ اگر آپس میں اختلاف ہو بھی جائیں تو یہ ہم تسلیم نہیں کر سکتے کہ اختلاف کے بعد دوسرے کی ذہانت اور قوت فکر بھی کم ہو جاتی ہے.پس اول تو کوئی فہیم انسان اسے ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوسکتا لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ واقعات اس کے بالکل الٹ ہیں جو ظاہر کئے گئے ہیں تو اس بات کا مضحکہ خیز ہونا اور
خطبات محمود ۱۷۲ سال ۱۹۳۶ء ربھی زیادہ نمایاں صورت اختیار کر لیتا ہے.میں نے اس واقعہ کا کبھی اظہار نہیں کیا کیونکہ اس کے نتیجہ میں بعض لوگوں پر حرف آتا ہے لیکن اب جبکہ ایک اخبار میں یہ واقعہ پچھپ چکا ہے میں مجبور ہوں کہ اس واقعہ کو بیان کروں.واقعہ یہ ہے کہ دو تین جگہ سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض لوگ جن کے نام میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا منٹگمری، امرتسر اور ایک اور ضلع کے لوگوں سے سر ہنری کریک کی تائید میں دستخط کرا رہے ہیں تا ایک میموریل بھیجا جائے کہ آئندہ گورنر سر ہنری کر یک کو مقرر کیا جائے.سر ہنری کر یک ان افسروں میں ނ میں ہیں جن کو ہماری جماعت سے بہت قریب کے زمانہ سے تعلق پیدا ہوا.پیدا ہوا ہے.پہلے پہل شملہ ۱۹۳۱ء میں میری ان سے ملاقات ہوئی.جب تک وہ پنجاب میں رہے میں نے ہمیشہ انہیں ایک صاف گو دوست پایا اور جب کبھی ان سے کوئی کام پیش آیا مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے ہمیں کبھی مایوس کیا ہو.جاتی دفعہ انہوں نے مجھے جو بھی لکھی اُس میں انہوں نے صاف طور پر تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ کی وفا داری اور امن پسندی کا اُن کے دل پر گہرا اثر ہے اور یہ امران کی تمام عمر کے دی تجربہ سے ثابت شدہ ہے، مگر سر ہنری کریک سے بھی پہلے ہم موجودہ گورنر صاحب کو جانتے تھے ان کی کے تعلقات بھی ہمارے ساتھ دوستانہ تھے.جب یہ پنجاب میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُس وقت بھی ہمارے ان سے اچھے تعلقات تھے.گورنمنٹ آف انڈیا میں گئے تب بھی ہم نے انہیں کبھی اپنا تھی بدخواہ نہیں پایا ایسی صورت میں افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے ادھر ذہن منتقل ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ ہم ایک کی تائید کرتے اور دوسرے کی مخالفت.لیکن ایک بات ایسی تھی جس کی وجہ سے اس میں دخل دینا ہمارے لئے ضروری تھا اور وہ یہ کہ اس وقت بڑے بڑے انگریز افسروں کے متعلق ہندوستان کی کے لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ جنبہ داری نہیں کرتے اور نہ ان میں پارٹیاں ہوتی ہیں.اب اگر دستخطوں کا مرض پھیل جاتا تو پنجاب کے زمیندار طبقہ کے دل میں یہ احساس پیدا نی ہو جاتا کہ انگریزوں میں بھی پارٹیاں ہوتی ہیں اور وہ بھی انصاف اور عدل کے ماتحت تقرریاں نہیں کرتے بلکہ ان میں بھی ایک دوسرے کی طرفداری کی جاتی ہے اور اس طرح انگریزی حکومت کو ای پنجاب میں اتنا نقصان پہنچتا کہ کانگرس بھی اتنا نقصان حکومت کو نہیں پہنچا سکی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پر انگریزوں کی فوجیں حکومت نہیں کر رہیں بلکہ انگریزوں کا رُعب حکومت کر رہا ہے.
خطبات محمود ۱۷۳ سال ۱۹۳۶ء اور انگریزی فوجوں کے متعلق تو وہی حقیقت درست ہے جو ایک کانگرسی نے کہی کہ ۳۳ کروڑ ہندوستانی تو تھوک تھوک کر سپاہیوں کو بہا سکتے ہیں.اور واقعہ میں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر لوگ کی مرنے کیلئے تیار ہو جائیں تو ۳۳ کروڑ اتنی بڑی تعداد ہے کہ وہ انگریزی فوجوں کا بخوبی مقابلہ کر سکتی ہے مگر وہ مرنے کیلئے تیار نہیں اور اس لئے تیار نہیں کہ انگریزوں کا دلوں پر رعب ہے.پس انگریزی حکومت کی تقویت فوجوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اس کے قومی کیریکٹر ، انصاف اور رعب کی وجہ سے کی ہے اور یہ چیز ایسی ہے کہ باوجود انگریزوں کو زبان سے گالیاں دینے کے جب اس قوم کی مخالفت کا وقت آتا ہے لوگ یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ خبر نہیں دوسری حکومت اس سے اچھی ملے یا نہ ملے.جس دن یہ خیال لوگوں کے دلوں سے اُٹھ گیا ، جس دن یہ رُعب لوگوں کے قلوب سے جاتا رہا کہ انگریزی حکومت کا انصاف اور قومی کیریکٹر مضبوط ہے اُس دن نہ انگریزوں کی تو ہیں کام آئیں گے نہ فوجیں کام آئیں گی بلکہ انہیں اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے ملک کو جانا پڑے گا.جرمنی سے بھی تو ہیں وغیرہ لے کر اس کو بے دست و پا کر دیا گیا تھا یہاں تک کہ تنہا بیلجیئم بھی اسے گھور لیتا تھا مگر آج یورپ کی آدھی طاقتیں ایک طرف جرمنی کو تیوری چڑھا کہ دیکھتیں اور دوسری طرف چھلانگ لگا کر دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہیں کہ کہیں جرمن تھپڑ نہ ماردے.بالکل اسی طرح جس طرح بلیاں آپس میں لڑتی ہیں پہلے ایک بلی غرغر کرتی ہے پھر چھلانگ لگا کر پیچھے ہٹ جاتی ہے.جرمن بھی نہتا تھا مگر جب اس قوم کے افراد نے کہا ہم اب ذلت برداشت نہیں کر سکتے اور اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوئے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی تو ہیں دھری کی دھری رہ گئیں اور انہوں نے خود تو ہیں اور بندوقیں بنا کر دکھا دیں.پس قوم جس دن تیار ہو جاتی ہے اُس دن کوئی طاقت اُس کے ارادوں میں مزاحم نہیں ہو سکتی اور قوم کے تیار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس قوم کے افراد جو فوجوں میں ہوں وہ بھی خلاف ہو جائیں، جو عہدوں پر ہوں وہ بھی خلاف ہو جائیں اور سب مل کر مقابلہ کریں ایسی صورت میں تھوڑی سی انگریزی فوج بھلا کیا کر سکتی ہے.لیکن کیوں لوگ انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرتے ؟ اس لئے کہ وہ دلوں میں سمجھتے ہیں انگریز انصاف کو پسند کرتے ہیں.یہ لوگوں کا یقین ہے کہ جو انگریزی حکومت کو تقویت دے رہا ہے ورنہ انگریزوں کی فوجیں ان کی حکومت کو تقویت نہیں ہے
خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۶ء دے رہے.پس اگر دستخطوں کی وباء تمام پنجاب میں پھیل جاتی تو انگریزی دبد بہ پر ایک کاری ضرب لگتی اور لوگ یہ سمجھتے کہ انگریزوں میں بھی تفرقہ ہے وہ بھی جتھہ بازی کے مرتکب ہیں اور ان کی میں بھی انصاف قائم کرنے کی روح نہیں رہی.میں نے جب اس خبر کو سنا تو مجھے سخت رنج ہوا.میں جانتا تھا کہ سر ہنری کر یک ایک نہایت ہی شریف انسان ہیں اور ان کا اس فعل میں دخل نہیں ہے ہو سکتا یہ صرف بعض لوگوں کی چالا کی ہے جو اس طرح اپنی مقبولیت پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لئے کی میں نے اس خبر کے معلوم ہونے پر درد صاحب کو سر ہنری کر یک کے پاس بھیجا اور اُن کو کہلا بھیجا کہ آپ ہمارے دوست ہیں اور آپ کی مدد کرنا قدرتی طور پر ہمیں مرغوب ہے لیکن پنجاب کے بعض حلقوں میں ایک ایسا کام ہو رہا ہے جس سے آپ کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر آپ کی قوم کو نی نقصان پہنچے گا کیونکہ آخر لوگوں کے دستخطوں پر تو حکومت نے گورنر کا انتخاب نہیں کرنا لیکن اس کی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کو علم بھی نہ ہوگا اور انگریزوں کا رُعب پنجاب سے مٹ جائے گا کیونکہ عوام یہ خیال کریں گے کہ انگریزوں کے بڑے بڑے آدمی بھی آپس میں لڑتے ہیں.اگر آپ کہیں تو ہم اس تحریک کو روکیں اور اسے دبانے کی کوشش کریں.میں جانتا تھا کہ پنجاب کے بعض لوگوں کا یہ فعل سر ہنری کریک کے منشاء کے خلاف ہے بلکہ اس کا انہیں علم بھی نہیں ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.انہوں نے کہا مجھے اس بات کا کچھ علم نہیں اور میں آپ کا احسان مند ہوں گا اگر آپ ان لوگوں کا مقابلہ کریں اور انہیں روکیں.چنانچہ مختلف جگہوں پر ہم نے آدمی مقرر کئے اور انہوں نے لوگوں کو سمجھایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک دب گئی کیونکہ عموماً ایسی تحریکات چلانے والے کمزور دل کے لوگ ہوا کرتے ہیں اور جونہی انہیں معلوم ہو کہ ان کا راز فاش ہونے والا ہے وہ دب جاتے ہیں.یہ واقعہ ہے جو ہوا.اس کے ہوتے ہوئے میں یہ کسی طرح تسلیم نہیں کر سکتا کہ ہز ایکسی لینسی گورنر کی پنجاب پر اس بات کا کوئی اثر ہو یہ بالکل بچوں کی سی بات ہے اور خطبہ میں میں نے اس لئے اس واقعہ کا ذکر کر دیا ہے کہ سر ہنری کریک بھی اس واقعہ کو پڑھ لیں اور گواہ رہیں کہ میں نے اس واقعہ کو صحیح طور پر پیش کیا ہے.مجھے یقین ہے کہ درد صاحب نے مجھے جو کچھ آکر بتایا اُس میں کوئی غلطی نہ تھی ممکن ہے جو لوگ سر ہنری کریک کی تائید میں دستخط کر رہے تھے انہوں نے جب دیکھا ہو کہ ان کی سازش کا راز کی.
خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۶ء فاش ہو گیا ہے تو انہوں نے ہمارا نام لے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ احمدی دستخط لے رہے تھے.اس کو میں ماننے کیلئے تیار ہوں لیکن اس امر کو تسلیم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ ہزا ایکسی لینسی گورنر پنجاب پر اس کا کوئی اثر ہو.پس واقعہ جو ہے وہ اس کے بالکل الٹ ہے جو بیان کیا جاتا ہے.ہم نے کی سر ہنری کریک کی تائید میں دستخط نہیں کروائے بلکہ اُن دستخطوں کوڑ کوایا اور سر ہنری کر یک تک بات پہنچائی کیونکہ یہ محض بعض لوگوں کی چالبازی تھی جو چاہتے تھے کہ اپنے لئے ترقی کی کوئی راہ نکالیں مگر انہوں نے اپنی ترقی کے شوق میں یہ نہ سوچا کہ وہ انگریزی حکومت کی جڑوں پر تبر رکھ رہے ہیں.پس میں آج اس راز کو کھول دیتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیتا ہوں کہ میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ہرا سیکسی لینسی کی طبیعت پر اس واقعہ کا کسی رنگ میں کوئی اثر ہو.پھر کیا بات ہے اور کس جگہ سے یہ امر شروع ہوا ہے اس کا ہمیں آج تک علم نہیں ہو سکا.بعض لوگ بتاتے ہیں کہ پنجاب گورنمنٹ سے شروع ہوا اور نیچے آیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیچے سے شروع ہوا اور اوپر گیا ، اور بعض یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ آف انڈیا سے نیچے آیا مگر بہر حال کہیں سے یہ بات شروع ہوئی نتیجہ یہ ہے کہ متواتر ایسی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ جماعت کا امن برباد کیا جائے اور اس کی طاقت کو تو ڑا جائے.یہ تو میں بار ہا بتا چکا ہوں کہ ہماری جماعت کو توڑنے کی کسی میں ہمت نہیں.یہ وہ کونے کی کا پتھر ہے کہ جو اس پر گر اوہ بھی ٹوٹا اور جس پر یہ گر اوہ بھی چکنا چور ہوا.اگر حکومت کے کسی افسر کا یہ خیال ہے کہ وہ احمدیت کو مٹا سکتا ہے تو یہ بالکل ناممکن بات ہے.وہ افسر مجھ کو نقصان پہنچا سکتے ہی ہیں، جماعت کے ہر شخص کو فرداً فرداً نقصان پہنچا سکتے ہیں حتی کہ وہ ہمیں مار بھی سکتے ہیں.جب حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے اور حضرت زکریا علیہ السلام قتل کئے گئے تو ہم کس طرح کی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت قتل نہیں کر سکتی یا نقصان نہیں پہنچا سکتی.خدا تعالیٰ نے حکومت کو جو طاقتیں دی ہیں ان کے ماتحت وہ ایسا کام کر سکتی ہے، چاہے وہ جائز ہو یا نا جائز ، مگر جماعت میرا نام نہیں ، جماعت زید کا نام نہیں ، جماعت بکر کا نام نہیں بلکہ جماعت اس تعلیم کا نام ہے جسے زید، بکر، عمر، خالد کسی کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پھیلانا ہے.اس چیز کو مٹانے کی کسی میں طاقت نہیں اور عقلمند انسان تو اتنی سی بات سے ہی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ مٹنے والی تحریکیں ہمیشہ ہی
خطبات محمود KY سال ۱۹۳۶ء ایک جگہ محدود ہوتی ہیں.اگر ہم پنجاب میں محدود ہوتے تو صرف پنجاب میں محدود ہونے کی وجہ ی سے کوئی خیال کر سکتا تھا کہ وہ ہمیں مٹادے گا مگر ہم تو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.پھر پنجاب کے حکام دُنیوی اصول کے ماتحت بھی کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو وہ مٹا سکتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو ایک دفعہ مردم شماری کا حکم دیا.مردم شماری کی گئی تو پتہ چلا کہ سات سو مسلمان ہیں.اس پر صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! آپ نے کیوں مردم شماری کرائی؟ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اب ہمیں کوئی مٹا سکتا ہے.يَارَسُوْلَ اللهِ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں ہے.پس ہم تو ان لوگوں کے جانشین ہیں جو سات سو ہو کر سمجھتے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی.گورنمنٹ تسلیم کرتی ہے کہ پچھلی مردم شماری میں جماعت احمدیہ کی تعد دصرف پنجاب می میں ۵۶ ہزار تھی.جب ہماری تعداد اس کی اپنی تسلیم شدہ تعداد کے مطابق صرف پنجاب میں کی ۵۶ ہزار تھی تو ہم تو ان لوگوں کی اولاد ہیں جو سات سو ہو کر مٹنے کا نام نہیں لیتے تھے پھر ہم ۵۶ ہزار کی ہو کر کس طرح خوف کھا سکتے ہیں.کوفہ کے لوگ ہمیشہ جھگڑتے رہتے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے روز روز کے جھگڑے سن کر کہا اب میں ان پر ایک ایسا گورنر مقرر کروں گا جو انہیں سیدھا کر دے گا.چنانچہ انہوں نے عبد الرحمن بن ابی لیلی کو بھیجا جو اُنہیں سال کے تھے جب کوفہ والوں کو پتہ لگا کہ ایک انیس سالہ نوجوان ان کا گورنر بن کر آیا ہے تو انہوں نے تجویز کیا کہ آؤ اس سے کوئی تمسخر کر یں.چنانچہ بڑے بڑے آدمی جسے پہن کر اس سے ملنے کیلئے گئے اور سوال کیا جناب کی عمر ؟ جب رسول کریم ﷺ نے اسامہ کو ایک بہت بڑا جیش دے کر جس میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بھی شامل تھے لڑائی کیلئے جی بھیجا تھا اُس وقت اُن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی ، جب کوفہ والوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے پوچھا جناب کی عمر ؟ تو انہوں نے جواب دیا.میری عمر پوچھتے ہو ؟ جس وقت رسول کریم ﷺ نے اسامہ کو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کا افسر بنا کر بھیجا تھا اُس وقت جو عمر اسامہ کی تھی اس سے ایک سال زیادہ ہے.میں بھی ان لوگوں سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرام نے جب سمجھا تھا کہ اب ہم
خطبات محمود K2 سال ۱۹۳۶ء سات سو ہو گئے ہیں ہمیں اب کون تباہ کر سکتا ہے تو صحابہ کی اُس وقت کی تعداد سے اب ہم کم سے کم دوسو گنے زیادہ ہیں اور ہم محدود نہیں قادیان میں، ہم محدود نہیں پنجاب میں ، ہم محدود نہیں ہو.پی ای میں، ہم محدود نہیں ہندوستان میں بلکہ ہم افغانستان میں بھی ہیں ، ہم روس میں بھی ہیں ، ہم چین میں ہے بھی ہیں ، ہم جاپان میں بھی ہیں، ہم سماٹرا میں بھی ہیں ، ہم جاوا میں بھی ہیں ، ہم سٹریٹ سیٹلمینٹس میں بھی ہیں ، ہم امریکہ میں بھی ہیں ، ہم افریقہ میں بھی ہیں ، ہم یورپ میں بھی ہیں ، ہم بلا د عربیہ میں بھی ہیں، اسی طرح ہم مشرق میں بھی ہیں اور مغرب میں بھی اور دنیا میں خدا کے فضل سے ہم روز بروز بڑھ رہے ہیں.پس ہمارے بیج کو کوئی ایک حکومت کوئی دو حکومتیں بلکہ کوئی تین حکومتیں مل کر بھی تباہ نہیں کر سکتیں اور نہ ان کا متفقہ عزم دنیوی طور پر ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور الہی طور پر تو ہم یقینا محفوظ ہیں اور اُس خدا کے ہاتھ میں ہیں جس پر کوئی تلوار نہیں چلا سکتا.غرض میں سمجھ ہی نہیں سکا کہ ہمارے خلاف یہ کیوں شورش ہے اور اس کی تہہ میں کونسی بات کام کر رہی ہے اور چونکہ میں ہز ایکسی لینسی کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس دوران میں ایک اور بات بھی بیان کر دینی چاہتا ہوں.پچھلے سال کے آخر میں اتفاقی طور پر ہمارا یک جگہ اجتماع ہو گیا لی اور ہز ایکسی لینسی کی مہربانی سے ان سے مجھے ملاقات کا موقع مل گیا.اُن کی گفتگو کا جو اثر اُس وقت کی میرے دل پر تھا وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں پر کامل اعتماد رکھتے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیاری نہیں کہ ہمارے ساتھ بد دیانتی کا سلوک ہوتا ہے.دوسری طرف میری طبیعت پر یہ اثر بھی تھا کہ وہ وی پوری نیک نیتی کے ساتھ جماعت احمدیہ اور حکومت میں جو اختلاف واقع ہو گیا ہے اسے مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں.ذاتی رویہ ان کا نہایت ہی شریفانہ اور ان کے عہدہ کے بالکل مناسب حال تھا.پس گو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک ان کا نقطہ نگاہ اپنے ماتحتوں کے متعلق نہ بدلے ہم کسی متفقہ اصول پر نہیں پہنچ سکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم موجودہ حالات کی ذمہ داری کی ابتداء ان کی طرف منسوب کریں.پس میرا فرض ہے کہ میں اپنے شکوک وشبہات کو اِدھر اُدھر پھیروں اور ان کا کوئی اور سبب معلوم کروں.اس ملاقات کے بعد خطبہ میں میں نے اعلان کر دیا تھا کہ بعض حالات ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت میں ایک تغیر ہے.چنانچہ اس کے بعد کچھ افسر بھی تبدیل کئے گئے اور کچھ لوکل افسر جو قادیان میں شورشیں بر پا کر رہے تھے ان میں بھی کمی
خطبات محمود KA سال ۱۹۳۶ء واقع ہوگئی اور میرا خیال ہے، میں نہیں جانتا وہ صحیح ہے یا نہیں کہ اس گفتگو کے نتیجہ میں ہز ایکسی لینسی نے مناسب سمجھا کہ اپنے افسروں کو یہ ہدایت کر دیں کہ یہ اثر نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ حکومت پنجاب احمدیوں کو تکلیف دینا چاہتی ہے.غرض حکومت میں تبدیلی شروع ہوئی اور میں نے فراخدلی سے اس تبدیلی کا اعلان کر دیا.اگر یہ حالات قائم رہتے تو ممکن ہے وہ نا خوشگوار باتیں جو حکومت اور ا ہمارے درمیان تھیں جاتی رہتیں اور ممکن ہے ہم پھر اس مقام پر آجاتے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ ملک کی خدمت میں حصہ لے سکتے اور حکومت کی بھی مدد کر سکتے.مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ت ہے کہ وہ خاموشی اور سکون زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہا اور کئی تبدیلیاں ظہور میں آنے لگیں.چنانچہ پہلی تبدیلی جو یکدم نظر آئی وہ یہ تھی کہ ریتی چھلہ کی زمین کے متعلق حکومت کی طرف سے مقدمہ چلا دیا گیا حالانکہ عام حالات میں جب ایک شخص کہتا ہے کہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا حق کی ہے تو اس کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ جس کا قبضہ ہو اُس کے خلاف دوسرا فریق مقدمہ دائر کر دیتا ہے یہی طریق یہاں اختیار کیا جانا چاہئے تھا لیکن کیا یہ گیا کہ حکومت نے اپنے خرچ سے ایک غیر معروف قانون کے ماتحت ہمارے خلاف فوجداری مقدمہ کھڑا کر دیا.میں یہ نہیں کہتا کہ اس زمین کو ہماری قرار دیا جائے اور نہ یہ کہتا ہوں کہ ہمارے مخالف کی قرار دیا جاتا کیونکہ حق کا فیصلہ کرنا تھی عدالت کا کام ہے اور عدالت میں مقدمہ پیش ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ حکومت کا یہ فعل یقینا انصاف کے خلاف تھا کہ وہ عدالت میں اپنے خرچ سے ہمارے خلاف مقدمہ کھڑا کرتی.بے شک خاص حالات میں حکومت خاص طریق عمل کی بھی محتاج ہوتی ہے مگر یہاں وہ حالات پیدا نہ تھے.بہر حال یہ مقدمہ عدالت میں ہے اور وہی فیصلہ کرے گی اور چونکہ قانون ہمیں اس کے متعلق کچھ کہنے سے روکتا ہے اس لئے ہم اس کے متعلق کچھ بیان نہیں کر سکتے.ہاں مقدمہ کا چلانا ایک ایگزیکٹو عمل ہے.ایک مجسٹریٹ بھی جب مقدمہ چلائے تو ایگزیکٹو حیثیت میں ہی چلائے گا.جیسے ڈپٹی کمشنر جب کوئی مقدمہ پیش کرے گا تو بحیثیت ڈپٹی کمشنر پیش کرے گا لیکن جب مقدمہ سنے گا تو جی بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سنے گا.پس میرے نزدیک اس مقدمہ کے چلانے کی ذمہ داری حکومت کی پر ہے نہ کہ عدالت پر.اور میرے نزدیک احسن طریق یہ تھا کہ دونوں فریق کو چھوڑ دیا جاتا کہ ان میں سے جو چاہے عدالت میں چلا جائے مگر حکومت یکدم سرکاری خرچ پر مقدمہ چلوا دیتی ہے اور ی
خطبات محمود 129 سال ۱۹۳۶ء اس زمین کے متعلق مقدمہ چلا دیتی ہے جس کے متعلق پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے جس کا نام میں نہیں لیتا چوہدری ظفر اللہ خانصاحب سے ایک ملاقات کے موقع پر کہا کہ میں نے اس زمین کے کی کاغذات منگوا کر دیکھے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک ان کا مطالعہ کیا ہے اگر مجھ پر ثابت ہو جاتا کہ یہ زمین احمدیوں کی نہیں تو میں ضرور دیوار میں گروا دیتا.اسی طرح ایک افسر نے مجھ سے کہا کہ پہلے تھی ہمیں غلط رپورٹ پہنچی تھی بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ دو زمینیں جن کے متعلق جھگڑا ہے وہ آپ کی ہیں.ان دو باتوں کے بعد جب یکدم سرکاری طور پر مقدمہ چلایا جائے تو ہمیں حیرت و استعجاب کا لاحق ہونا ایک لازمی امر ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ اس قدر علم حاصل کر لینے کے بعد کون سی ایسی نئی بات پیدا ہوئی کہ یہ کارروائیاں ہونے لگیں.مجھے نہیں معلوم یہ مقدمہ چلانے کا حکم پنجاب کے کسی افسر نے دیا یا ضلع کے کسی افسر نے کہا.یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ظاہر کرے.اگر وہ ظاہر کرے توی پتہ لگ سکتا ہے نہیں تو ہمیں کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ کس کے کہنے پر یہ مقدمہ چلایا گیا.ہم تو یہی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک غیر معمولی تغیر حکومت میں پیدا ہوا اور جب ہم اس کے ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چار پانچ مہینہ خاموش رہنے کے بعد ادھر مقدمہ شروع ہوا اُدھر اس نیت سے دو احراری آ گئے کہ وہ کی ریتی چھلہ کے احاطہ کے دروازوں میں سے گزریں گے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیوار میں تو چار پانچ چی ماہ سے بنی ہوئی تھیں ان چار پانچ مہینوں میں قادیان والوں کو تو وہاں سے گزرنے کی ضرورت ہے محسوس نہ ہوئی لیکن پانچ مہینہ کے بعد جب حکومت نے مقدمہ چلا دیا تو یکدم دو احراریوں کو وہاں کی سے خاص طور پر گزرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ کیا اس کا صاف طور پر یہ مطلب نہیں کہ بعض افسروں نے مقدمہ میں اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے اشارہ کر کے ان دو آدمیوں کو بھجوایا تھاتی کیونکہ اس دفعہ کے ماتحت جس کے ماتحت مقدمہ چلایا گیا ہے فساد کا خطرہ بھی ضروری ہے.پس پانچ مہینے پہلے تو کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہوا لیکن جب گورنمنٹ نے مقدمہ کھڑا کر دیا تو کسی ایسے افسر نے جسے اس بات سے دلچسپی تھی کہ مقدمہ ضرور جیتا جائے اشارہ کر دیا کہ دو احراری چلے جائیں اور ای زبردستی دروازوں میں داخل ہوں اس کے بعد جب احراری یہاں پہنچتے ہیں تو ہماری حیرت کی کوئی کی حد نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس جب گرفتار کرتی ہے تو احرار کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گرفتار کر لیتی ہے جو مالک زمین کی طرف سے حفاظت پر کھڑے ہوئے تھے حالانکہ ہائی کورٹ کے
خطبات محمود ۱۸۰ سال ۱۹۳۶ء قریب کے فیصلے موجود ہیں بلکہ موجودہ چیف جسٹس جو نہایت ہی سمجھدار انسان ہیں جنہوں برطانوی انصاف کی دھاک بٹھا دی ہے اور جن کے مخالف بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک کی دیانتدار انسان ہیں اور انصاف کی خواہش رکھتے ہیں انہوں نے کئی فیصلوں میں لکھا ہے کہ جب کوئی اپنی مقبوضہ یا مملوکہ چیز کی حفاظت کر رہا ہو تو اس حفاظت میں اگر وہ حملہ آور کا شدید مقابلہ بھی کرے تو وہ مجرم نہیں.ایک اور حج نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کسی دوسرے کا حق چھینے کیلئے اس سے لڑے اور دوسرا ما ر ہی کھاتا رہے اس کا سختی سے مقابلہ نہ کرے تو خود حفاظتی کاتی قانون گورنمنٹ نے کیوں بنایا ہے؟ پس ہمارے آدمی اپنے ایک حق کی حفاظت کر رہے تھے اور احراری بے جا طور پر اس حق کو چھینا چاہتے تھے مگر پولیس نے نہ صرف احراریوں کو گرفتار کیا بلکہ ان حفاظت کرنے اور پہرہ دینے والوں کو بھی گرفتار کر لیا.کوئی شخص سوال کر سکتا ہے کہ آپ بے شک اس زمین پر اپنا حق جتاتے ہیں لیکن گورنمنٹ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ وہ آپ کا حق ہے.میں کہتا ہوں کہ ہمارا اعتراض حق کی بناء پر نہیں اس کا فیصلہ تو عدالت میں ہوگا.ہمارا اعتراض تو یہ ہے کہ جب ہمارے خلاف مقدمہ کھڑا کیا گیا ہے تو اس امر کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اس زمین پر اس وقت ہمارا قبضہ ہے ورنہ اگر ہمارا قبضہ تسلیم نہیں تو ی ہمارے خلاف مقدمہ کرنے کی وجہ کیا ہے.پس جب ہما را قبضہ تسلیم کر لیا گیا ہے تو جب تک عدالت ہمارے قبضہ کو نہ تڑوائے سرکاری محکموں کو ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہوگا جو ایک جائز قابض کے ساتھ کیا جاتا ہے اور عدالت کے فیصلہ تک پولیس اور حکومت کا فرض تھا کہ اس احاطہ میں داخل کی ہونے والوں کے خلاف کا رروائی کرتی اور ہمارے آدمیوں کی مدد کرتی.ہاں اگر عدالت فیصلہ کی کر دیتی کہ یہ احمدیوں کا حق نہیں تو اس کے بعد اس کا فرض تھا کہ ہمارے مخالفوں کی حفاظت کرتی.مگر جب تک عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور معاملہ عدالت میں زیر غور تھا اُس وقت تک حکومت خود مقدمہ چلا کر یہ تسلیم کر چکی تھی کہ اس زمین پر احمدیوں کا قبضہ ہے اور جس قبضہ کو حکومت تسلیم کر چکی تھی اس قبضہ کی حفاظت کرنے والوں کو پکڑنا ایک ایسی بات ہے جس کے سمجھنے سے ہم قاصر ہیں اور نہ کوئی اور اسے سمجھ سکتا ہے.یہ تبدیلی حکومت کے رویہ میں کیوں ہوئی ؟ چاہے لوکل حکام کی وجہ سے ہوئی یا اوپر کے
خطبات محمود ۱۸۱ سال ۱۹۳۶ء حکام میں سے کسی نے یہ خیال کیا کہ لوکل حکام تو ڈھیلے ہو گئے ہیں میں ہی کوئی تماشہ کروں.بہر حال اس میں کوئی راز ہے جو ہماری سخت دل شکنی کا باعث ہے اور یہ بات ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت سے قریب کے زمانہ میں ہمیں کسی اچھی تبدیلی کی امید نہیں ہوسکتی.مجھے یہ شبہ کہ اس معاملہ میں حکومت کے بعض افسروں کا دخل ہے اس لئے بھی ہے کہ ان دو احراریوں کے یہاں آنے سے تین دن پہلے احرار کے دفتر سے مجھے رپورٹ ملی کہ ایک شخص جس کا می نام زید رکھ لو دوسرے شخص کے پاس جس کا نام بکر رکھ لو گیا اور اسے کہا کہ آپ فلاں شخص کو خط لکھی دیجئے کہ فلاں دن دو آدمی یہاں ضرور بھیج دے اور فلاں شخص سے بھی میں مل چکا ہوں اور وہ فلاں کی شخص حکومت کا ایک افسر تھا.اس کے تیسرے دن دو احراری آجاتے ہیں اور ریتی چھلہ کے کی دروازوں میں سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو اشاروں کی میں بات ہوئی تھی وہ اسی واقعہ کے متعلق تھی اور چونکہ اس رپورٹ میں ایک افسر کا نام بھی آتا تھا تی اس لئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کسی افسر کی اس میں انگیخت ہے.ہم یہ بات بالا افسروں کے کی پاس ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ بات اشاروں میں ہوئی تھی ، نہ ہم اپنے انفارمر کا پتہ دے سکتے ہی ہیں، نہ خبر رسانی کے طریق کی اسے اطلاع دے سکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے وہ اسے جھوٹ کہہ دیں گوی وقوعہ کی پہلے سے خبر دے دینا جھوٹ نہیں بلکہ علم غیب ثابت کرتا ہے.اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک اور واقعہ ہوا جو ہمارے لئے حیرت کا موجب ہوگا اور وہ یہ کہ ی ولایت سے ایک سیاح ہندوستان میں آیا.اس کے بعض احمد یوں سے گہرے تعلقات تھے چنانچہ اسی بناء پر لاہور سے روانگی کے بعد وہ بعض احمدیوں کے ہاں بطور مہمان ٹھہر امگر ہمیں معلوم ہوا ہے کہ لا ہور میں حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں نے ہماری جماعت کے خلاف اس کے کان بھرے اور اسی وجہ سے اگر چہ وہ قادیان آنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر بغیر قادیان آئے واپس چلا گیا.لاہور سے روانگی کے بعد اور بعض احمدیوں کا مہمان ٹھہرنے کے بعد وہ اپنے فعل پر پچھتایا اور اُس نے کی ایک خط میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا اور لکھا کہ روز بروز میرا افسوس بڑھ رہا ہے کہ میں نے اس کی بارہ میں غلطی کی ہے.اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ حکومت پنجاب کے افسروں کے کم سے کم ایک حصہ کے قلوب میں احمدیوں کے متعلق جو منافرت تھی وہ ابھی دُور نہیں ہوئی.
خطبات محمود ۱۸۲ سال ۱۹۳۶ء تیسری مثال یہ ہے کہ پرسوں اترسوں مجھے ایک ایسے دوست کی روایت پہنچی ہے جو ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر چونکہ وہ لاہور میں ایک اعلیٰ عہدہ پر رہے ہیں اس لئے گورنمنٹ کے بعض افسروں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں.انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کو بتایا ہے کہ ایک ذمہ دار افسر نے اپنے دفتر میں یہ نوٹ کروایا ہے کہ مرزا صاحب کے دو بیٹے آئی.سی.ایس کے امتحان کیلئے ولایت گئے ہوئے ہیں اگر وہ پاس ہو کر آجائیں تو انہیں پنجاب میں نہ لگا یا نی جائے.یہ خبر اگر صحیح ہے تو بتاتی ہے کہ حکومت کے افسروں کے دلوں میں ابھی تک تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور نچلے افسروں کے جھوٹوں کو سچ تسلیم کیا جاتا ہے.علاوہ ازیں اس میں میرے نزدیک کئی باتیں قابل اعتراض ہیں.الف: وہ لڑ کے ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور امتحان میں پاس ہی نہیں ہوئے.پس ابھی سے یہ نوٹ کرنا کہ جب وہ پاس ہو کر آئیں تو انہیں پنجاب میں نہ رکھا جائے اور اس طرح ہے پنے بغض کا اظہار کرنا نہایت ہی گری ہوئی بات ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان سے نوکری کرانا ہی نہ چاہے اور ممکن ہے وہ پاس ہی نہ ہوں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مشیت کا کیا علم ہے.پس انہیں اُس وقت تک انتظار کرنا چاہئے تھا جب تک وہ پاس ہو کر یہاں نہ پہنچ جاتے مگر پہلے سے ہی پیش بندی کے لئے تیار ہو جانا ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کسی نے اپنے دوست سے کہا تھا میاں ! تمہاری کتیا نے سنا ہے بچے دیئے ہیں اور وہ بہت اچھے ہیں ایک بچہ ہمیں بھی دو.وہ کہنے لگا بچے تو دیئے تھے مگر وہ مر گئے لیکن اگر وہ زندہ رہتے تب بھی میں تمہیں نہ دیتا.وہ کہنے لگا اب تو مر چکے تھے تمہیں یہ کہنے کے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اگر زندہ ہوتے تب بھی نہ دیتا.اسی طرح ابھی تو وہ موقع آیا ہی نہیں اور یہ ای ع آب دیده موزه کشیده کے مطابق پہلے ہی اس کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں.پس اگر یہ بات صحیح ہے تو اس افسر نے سیاستا بھی ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور خوامخواہ دلوں کو حکومت سے پھیر نے کی کوشش کی ہے.دوسرے یہ صحیح نہیں کہ میرے دو بیٹے ولایت آئی سی.ایس کی تعلیم کیلئے گئے ہوئے ہیں.جو اس غرض سے گئے ہیں وہ میرے بھتیجے ہیں.میرا صرف ایک بیٹا انگلستان میں تعلیم پا رہا ہے مگر وہ اس نوکری کیلئے نہیں گیا بلکہ اس کی عمر بھی اسے اس عہدے کے قابل نہیں رکھتی.پہلے میں
خطبات محمود ۱۸۳ سال ۱۹۳۶ء نے اُسے قرآن مجید حفظ کرایا، پھر مولوی فاضل تک تعلیم دلائی ، پھر انگریزی علوم پڑھائے.ایسا کی طالب علم کہاں اس عمر کے اندر تعلیم ختم کر سکتا ہے جو نوکری کیلئے ضروری ہے.پس وہ ولایت کسی نوکری کیلئے نہیں گیا بلکہ علم کی زیادتی کیلئے گیا ہے.باقی رہے میرے بھتیجے سو میرے تعلق کا اگر میرے بھتیجوں پر یہ اثر پڑے کہ انہیں سرکاری ملازمت میں نہ لیا جائے تو یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے ہے جبکہ گورنمنٹ یہ نوٹس شائع کر دے کہ آئندہ جماعت احمدیہ کے افراد کو سرکاری ملازمتوں میں نہ کی لیا جائے.مگر حکومت کا یہ اعلان نہ کرنا اور اس وجہ سے کہ اسے مجھ سے کسی قسم کی شکایت ہے میرے بھتیجوں کے مستقبل پر اثر ڈالنا یہ امران افسران کے کسی زیادہ اچھے اخلاق پر دلالت نہیں کرتا.حالانکہ حکومتیں بھی اخلاق کی ویسی ہی پابند ہوتی ہیں جیسی رعایا.اگر خدا تعالیٰ نے انہیں کا میاب کر دیا تو پھر پنجاب کیا اور یو.پی کیا اور بنگال کیا اور بمبئی کیا جو تعلیم کیلئے انگلستان جا سکتے ہیں وہ ای ملازمت کیلئے پنجاب سے باہر بھی رہ سکتے ہیں لیکن اگر وہ پنجاب میں لگ جائیں تو حکومت کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے برٹش امپائر کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.آخر آئی.سی.ایس حکومت ہند ی کے کامرس ممبر سے زیادہ با حیثیت نہیں ہوتے.پھر جب ظفر اللہ خان کی موجودگی میں برطانوی حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تو ان دولڑکوں کی موجودگی میں اسے کیا نقصان پہنچ جائے گا.دراصل اس قسم کی باتیں صرف دلوں میں میل پیدا کر دیتی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کی کرتیں.پھر اس قسم کی باتوں کا یہ واضح مطلب ہے کہ گورنمنٹ کہتی ہے کہ غیر احمدیوں کو لے لو، سکھوں کو لے لو، عیسائیوں کو لے لو، کانگرسی خاندانوں کے بچوں کو لے لو، انتہاء پسند خاندانوں کے لڑکوں کو لے لو مگر احمدیوں کو نہ لو.گویا وہ احمدیوں کو حکومت کے مخالف گروہوں سے بھی بدتر سمجھتی ہی ہے لیکن حکومت تسلی رکھے میرے بیٹے اگر میرے نقشِ قدم پر چلنے والے ہوئے تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ کبھی انگریزوں کی نوکری نہ کریں.میں نے اپنے جتنے لڑکوں کو تعلیم دلائی ہے اُن میں سے کسی کے متعلق یہ مد نظر نہیں رکھا کہ اسے نوکری کرائی جائے.صرف ایک لڑکا ایسا ہے جسے میں نے ڈاکٹری پڑھوائی ہے اور ممکن ہے ایک دو اور کو بھی کوئی ایسا ہی علم پڑھاؤں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ علوم بھی سلسلہ کی خدمات کیلئے ضروری ہیں.ایسے بچوں کو اگر تجربہ وسیع کرنے کیلئے تھوڑی مدت کیلئے نوکری کرنی پڑی تو وہ بھی کی
خطبات محمود ۱۸۴ سال ۱۹۳۶ء جائز ہو سکتی ہے کیونکہ ڈاکٹری کیلئے ضروری ہے کہ مریض ہوں اور ان کا علاج کر کے تجربہ کو وسیع کیا تھی جائے اور پرائیویٹ پریکٹس میں ابتدا میں کافی مریض مہیا نہیں ہو سکتے اس لئے اگر اس مقصد کیلئے جی ایک دو سال انگریزوں کی ملازمت کر لی جائے تا تجربہ ہو جائے تو یہ ملازمت نہیں بلکہ تعلیم کا زمانہ ہی کہلائے گا.ورنہ نوکری تو ایسی چیز ہے کہ میں اس کا نام سُن کر بھی گھبراتا ہوں اور میرے خدا تعالیٰ سے جو تعلقات ہیں اور جس نگاہ سے میں نے اپنے تعلقات کو ہمیشہ دیکھا ہے اس کی روانی سے تو میری حیثیت ایک غلام کی ہے اور اسلام کا یہ مسئلہ ہے کہ غلام کے بچے بھی غلام ہی ہوتے ہی ہیں.پس جس نقطۂ نگاہ سے میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے اگر اسی نقطہ نگاہ سے میرے بچے بھی اپنے رب کو دیکھیں گے تو وہ اور جا کہاں سکتے ہیں.غلام تو اُسی دروازہ پر رہتا ہے جہاں اس کا آتا ہو.یہ خبر تو مجھے پرسوں ملی ہے مگر سات آٹھ دن ہوئے میرے بعض بچوں نے جب پرائمری پاس کی تو وہ آپس میں آئندہ پڑھائی کے متعلق باتیں کر رہے تھے.میں نے اس خیال سے کہ ان کی کے دل کے ارادوں کا جائزہ لوں ایک چھوٹے بچے کو بلایا اور اس سے پوچھا بولو انگریز کی نوکری اچھی ہے یا اللہ تعالیٰ کی؟ وہ کہنے لگا خدا کی.میں نے کہا اگر خدا تعالی کی نوکری اچھی ہے تو وہ پھر کی مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے سے مل سکتی ہے.تو باوجود انگریزی حکومت کا ادب و احترام دل میں رکھنے کے باوجود اس سے تعاون کرنے کے اور باوجود اس عقیدہ میں دشمنوں کی طرف سے شدید مخالفتیں برداشت کرنے کے انگریزوں کی ملازمت اپنی اولاد کیلئے میں پسند نہیں کرتا بلکہ میں یہی ہے پسند کرتا ہوں کہ جس دروازہ کی غلامی مجھے نصیب ہوئی ہے خدا تعالیٰ اسی دروازہ کی غلامی میری کی اولا د کو نصیب کرے کیونکہ دوسرا آقا تبدیل کرنا ہماری غیرتیں برداشت نہیں کر سکتیں.ممکن ہے میرے بچوں میں سے سب ایک رنگ میں سلسلہ کی خدمات نہ کر سکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل.میری اولا دزیادہ ہے.اس صورت میں انگریز کی نوکری سے میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ وہ تجارت کرلیں، یا زراعت کرلیں ، یا کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں ان کاموں میں انسان کو بہت حد تک آزادی رہتی ہے اور وہ خدمت سلسلہ کیلئے کافی وقت نکال سکتا ہے.نوکریوں میں لوگ آزاد نہیں ہوتے.ان پر سو پابندیاں عائد ہوتی ہیں پھر اقلیتوں کیلئے تو اور زیادہ مشکلات ہوتی ہیں.
خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۶ء زبر دست قو میں تبلیغ بھی کر لیں تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا.میں شملہ میں ایک دفعہ گیا وہاں گورنمنٹ کے ایک ممبر نے جلسہ کیا ، راجہ رام موہن رائے صاحب کی برسی تھی ، اس جلسہ میں انہوں نے برہمو سماج کی خوبیاں بڑے زور سے بیان کیں، گورنمنٹ کے کئی وزراء اس میں شامل ہوئے مگر ان سے کسی نے نہ پوچھا کہ وہ اس جلسہ میں کیوں شامل ہوئے.اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی مدح و تعریف میں جب جلسے ہوتے ہیں تو جو احمدی ملازم ان میں شامل ہوتے ہیں ہیں ان میں سے بعض سے چھ چھ مہینے جواب طلبیاں ہوتی کی رہتی ہیں کہ تم کیوں جلسہ میں شامل ہوئے ؟ تو طاقتور اور کمزور میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے اور جو عمل طاقتو را پنی طاقت کے گھمنڈ میں کر جاتا ہے وہی عمل غریب اور کمزور کیلئے کرنا ناممکن ہو جاتا ہے.مثل مشہور ہے کہتے ہیں ایک بھیڑیا اور بکری کا بچہ کسی نالے میں سے پانی پی رہے تھے ، بھیڑ یا اوپر کی طرف تھا اور بکری کا بچہ پانی کے بہاؤ کی طرف.بھیڑئیے نے جب بکری کے بچے کا نرم نرم گوشت دیکھا تو چاہا کہ اُس کا گوشت کھائے اور اُس کی نرم نرم ہڈیاں چبائے.یہ سوچ کر س نے بکری کے بچے سے کہا نالائق ! تجھے شرم نہیں آتی میں پانی پی رہا ہوں اور تو پانی کو گدلا کی کر رہا ہے.وہ کہنے لگا آپ اوپر کی طرف ہیں اور میں نیچے کی طرف ، بھلا آپ کا پانی میرے پینے کی کی وجہ سے گدلا کیونکر ہوسکتا ہے.بھیڑئیے نے جونہی یہ جواب سنا حھٹ گو دکر اُس کا گوشت نوچ لیا اور کہنے لگا گستاخ! آگے سے جواب دیتا ہے.یہ تو تمثیلی زبان میں ایک بات کہی گئی ہے.انگریزی قوم میں بھی اسی قسم کا ایک لطیفہ مشہور ہے.کہتے ہیں ایک افسر سپاہیوں کو پریڈی کرارہا تھا کسی سپاہی پر وہ ناراض تھا مگر اس پر گرفت کا اسے کوئی موقع نہیں ملتا تھا.پریڈ کراتے ہے کراتے کہنے لگا سپاہی نمبر ۱۳ تمہارا قدم ٹھیک نہیں.وہ کہنے لگا حضور! میرا قدم ٹھیک ہے افسر نے یہ جواب سن کر کہا سارجنٹ نمبر ۱۳ کو گرفتار کر لو یہ آگے سے جواب دیتا ہے.الله تو اقلیتوں کیلئے یہ بات ہوا ہی کرتی ہے کہ ان کے حقوق کو آسانی سے دبالیا جاتا ہے اور ان پر سختی اور تشدد کیا جاتا ہے.پس اقلیتوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں تبلیغ کرنے میں بہت سی مشکلات ہوتی ہیں.انہیں ہر وقت خوف رہتا ہے کہ کہیں افسر جواب طلبی نہ کریں اس لئے کیوں ہم وہ کام نہ کریں جن میں انسان اپنی روزی بھی کما سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت بھی کر سکتا
خطبات محمود ۱۸۶ سال ۱۹۳۶ء ہے.ایک دکاندار اپنی دُکانداری کے کام سے جب فارغ ہو جاتا ہے تو باقی وقت اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ، اسی طرح تاجر یا صناع اپنی تجارت اور صنعت و حرفت کا کام آزادی سے کرتے وئے دین کی خدمت بھی کر سکتا ہے.پس میرے بچوں کے متعلق جن افسروں کو ابھی سے مشکلات نظر آ رہی ہیں انہیں بے چینی کی کوئی ضرورت نہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے میری امیدوں اور خواہشوں کو جی پورا کیا تو وہ ان کے دروازوں پر کبھی نوکری مانگنے نہیں آئیں گے.ہو.چوتھا امر ڈاک خانہ کا رویہ ہے یہ بھی قریب کے عرصہ سے جاری ہے.ڈاک خانہ میں پہلے ایک احمدی افسر ہوا کرتا تھا پھر حکومت نے اُسے بدل دیا اور چونکہ تبدیلیوں کے متعلق گورنمنٹ کا قانون ہے اس لئے ہم نے کوئی بُرا نہ مانا اور اُس احمدی سے دریافت کیا کہ جو شخص آپ کی جگہ آرہا ہے وہ کیسا ہے؟ انہوں نے کہا میں اسے جانتا ہوں وہ ایک شریف آدمی ہے اور اس سے کسی قسم کا خطرہ کا خیال نہیں ہو سکتا.چنانچہ خود میں نے جماعت کے کارکنوں کو ہدایات دیں کہ تم لوگ اس سے پورا پورا تعاون کرنے کی کوشش کرو.اس سے پہلے ایک اور احمدی کلرک ڈاک خانہ سے تی بدلا جا چکا تھا اور اس طرح سب ایک ڈھب کے آدمی ڈاک خانہ میں مقرر کر دئیے گئے اس تبدیلی کوانی ہم نے خوشی سے قبول کیا اور میں نے سلسلہ کے افسروں کو تعاون کی ہدایت کی اور کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ شخص شریف ہے مگر اس عملہ کی تبدیلی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے.اول تو وہی شخص جس نے تعریف کی تھی اسی کے خلاف آرٹیکل لکھے جانے لگے اخبارات میں شائع کرائے جاتے گویا انہوں نے تو یہ سلوک کیا کہ آنے والے کی تعریف کی اور کہانی کہ اس سے اچھا سلوک رکھا جائے وہ شریف آدمی ہے لیکن انہوں نے اس سے یہ سلوک کیا کہ اس کی کے خلاف اخباروں میں مضامین لکھے.پھر میرے ساتھ جس نے یہ تاکید کی تھی کہ اچھا سلوک کیا تھی جائے یہ معاملہ کیا گیا کہ میں نے ایک دوائی منگوائی وہ دوائی ابھی مجھے نہیں پہنچی تھی اور نہ اس کے متعلق خط ملا تھا کہ ایک رپورٹر نے احرار کے دفتر سے مجھے اطلاع دی کہ آج فلاں شخص یہ بیان کر رہا تھا کہ میں نے احرار کے اخبار میں یہ مضمون بھیجا ہے کہ یہاں ایسی ایسی دوائیوں کا پارسل آیا ہے.میں حیران ہوا کہ یہ اطلاع انہیں کیونکر مل گئی کیونکہ ابھی تک پارسل کی اطلاع مجھے بھی نہ ملی تھی.زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس میں قیمتوں کا بھی ذکر تھا اور ایک دوا کا نام بھی صحیح تھا.
خطبات محمود ۱۸۷ سال ۱۹۳۶ء یہ رپورٹ میرے پاس صبح 9 بجے قریب پہنچی اور بارہ بجے کے قریب ڈاک والا وہ پارسل میرے نام لا یا.میں نے اُسی وقت پارسل لے کر دفتر کے ایک آدمی کو اس رپورٹ پر نشان لگا کر جو مجھے صبح پہنچی تھی ڈاک خانہ میں بھیجا کہ انہیں رپورٹ کا اتنا حصہ پڑھا آؤ اور کہہ آؤ کہ پارسل ہمیں بعد میں پہنچا ہے لیکن یہ اطلاع پہلے پہنچی تھی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں میں سے کوئی احرار کے دفتر میں اطلاعات دیتا رہتا ہے.اس پر پوسٹ ماسٹر صاحب نے کہلا بھیجا کہ میں اس واقعہ کی تحقیق کی کروں گا.وہ آدمی واپس آیا تو اُسی وقت دفتر سے ایک اخبار مجھے بھیجا گیا احسان تھا یا مجاہد مجھے صحیح یاد نہیں میں نے جب اُسے کھولا تو اُس میں پارسل کا ذکر بھی چھپا ہوا دیکھا چنانچہ وہ پر چہ بھی میں نے انہیں بھجوا دیا.اب اس کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ ڈاک خانہ کا عملہ پارسلوں اور خطوط کی اطلاعات احرار تک پہنچاتا ہے اور انہیں خبریں بہم پہنچاتا رہتا ہے.ہم نے اس بارہ میں شکایت کی لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا بلکہ جو افسر تحقیق پر مقرر ہوا اُس کا رویہ نہایت افسوسناک رہا ہے اور وہ مجرموں سے بھی زیادہ جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے.ہمیں صرف یہ جواب ملا ہے کہ یہ جو خبر نکلی ہے لاہور سے نکلی ہے قادیان کے ڈاکخانے سے نہیں نکلی اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ یہ اخبارسولہ تاریخ کا ہے اور جو پارسل قادیان میں سولہ کو پہنچا ہے اس میں سولہ کی خبر نہیں چھپ سکتی.بظاہر یہ ایک معقول بات معلوم ہوتی ہے لیکن ہے جھوٹ.اس لئے کہ خبر سترہ کے اخبار میں چھپی تھی اور سترہ کی مُہر لگی ہوئی ہمارے پاس موجود ہے سولہ کو پارسل قادیان پہنچا سترہ کو دو پہر کے وقت تقسیم ہوا.سولہ کو بٹالہ سے فون کے ذریعہ سے خبر بھجوائی جاسکتی تھی جیسا کہ احرار ان دنوں میں کرتے ہی رہے ہیں اور شام کو چھپ کر سترہ کو اخبار قادیان پہنچ سکتا تھا.۷ا کی مہر اس خبار پر خود ڈاکخانہ کی لگی ہوئی موجود ہے مگر افسروں کو دھوکا دینے کیلئے ماتحت عملہ اسے سولہ قرار دے دیتا ہے مگر اس کے علاوہ ب قطعی ثبوت ہمارے پاس ایسا موجود ہے جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بات لاہور سے نہیں نکلی.اگر گورنمنٹ نے اس معاملہ میں تحقیق کی تو اس کے سامنے وہ یقینی اور قطعی ثبوت پیش کر دیا جائے گا.اب تک میں نے اس کو ظاہر نہیں کیا لیکن اگر گورنمنٹ تحقیق کرے گی تو وہ یقینی اور کی قطعی ثبوت میں اس کے سامنے پیش کر دوں گا.اس موقع پر میں اس کی تفصیل بتائے بغیر صرف اس قدر کہ دینا چاہتا ہوں کہ اس رپورٹ کا ایک حصہ غلط ہے اگر وہ لاہور سے کسی کی رپورٹ ہوتی اور
خطبات محمود ١٨٨ سال ۱۹۳۶ء دُکان سے بات نکلتی تو وہ غلطی نہ ہوتی جو اس رپورٹ میں موجود ہے.آخر مجھ سے تو کوئی شخص امید نہیں کر سکتا کہ میں بخاری کو مسلم یا مسلم کو بخاری کہہ دوں.یہ تو وہی کہ سکتا ہے جس کو حدیث کا نی علم نہ ہو.پس رپورٹ کے ایک حصہ میں ایسی خطرناک غلطی ہے جو یقینی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا منبع دُکان والے نہیں جو اپنی دواؤں سے خود ہی نا واقف نہیں ہو سکتے پھر ہمارے پاس ہے اس بات کا قطعی ثبوت موجود ہے کہ ڈاک خانہ کے آدمی احراری ایجنٹوں کے پاس بیٹھتے ہیں.ہمارے پاس اس بات کے بھی گواہ موجود ہیں کہ ڈاکخانہ کے آدمیوں نے کہا کہ انہیں ڈاکخانہ کے کی افسروں نے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کی شکایتوں پر انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا اور یہ کہ گورنمنٹ کا منشاء ہے کہ احمدی یہاں نہ رکھے جائیں.پھر ایک قطعی ثبوت اس بات کا کہ اس تمام رویہ میں گورنمنٹ کے بعض افسروں کا ہاتھ کی کام کر رہا ہے یہ ہے کہ خانصاحب فرزند علی صاحب جب ایک افسر سے ملے تو اُس نے کہا کیا آپ سمجھتے ہیں ہم آزاد ہیں ہم بھی بعض باتوں کی وجہ سے مجبور ہیں.جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ گویا اس کو اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں نہ کی جائیں.حکومتِ پنجاب ایسی کسی ہدایت کے دینے سے انکار کرتی ہے لیکن اوپر کے واقعہ کی موجودگی میں ہم مجبور ہیں کہ تسلیم کریں کہ کسی لوکل افسر نے کی جھوٹ بولتے ہوئے ڈاک خانہ کے بعض افسروں کو دھوکا دیا ہے.میں گزشتہ ماہ میں سندھ گیا تھا اس سفر میں میری ڈاک کا جو حال ہوا وہ یہ ہے کہ جن خطوط پر ۴،۳ اور ۵ تاریخ کی قادیان کی مہریں لگی ہوئی تھیں وہ مجھے تاریخ کو ملے حالانکہ 9 تاریخ کے کی خطوط بھی مجھے کو ملے.ان ۴۳ اور پانچ تاریخ والے خطوط پر کسی اور جگہ کی مہر نہیں.بعض خطوط ایسے بھی تھے جو غلطی سے کسی اور جگہ چلے گئے لیکن اُن پر ان دوسرے ڈاک خانوں کی مہر میں تھیں جہاں وہ گئے لیکن ان خطوط پر کسی اور جگہ کی مہر نہ تھی جو صاف طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ ان خطوط کو روکا گیا تھا اور پھر کئی دن کے بعد انہیں روانہ کیا گیا.اسی طرح الفضل کو دق کیا جا رہا ہے اور متواتر اس کے پرچے لیٹ کئے جاتے ہیں یا بعض دفعہ پرچے خریداروں کو پہنچتے ہی نہیں.اسی کی طرح جوابی کارڈ غلط مُمبر میں لگا کر بعض دفعہ خط لکھنے والوں کو واپس کر دئیے جاتے ہیں.یہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اور ان کی طرف متواتر افسروں کو متوجہ کیا جاتا ہے مگر اب تک
خطبات محمود ۱۸۹ سال ۱۹۳۶ء کوئی توجہ نہیں کی گئی اور جب بار بار توجہ دلانے کے باوجود ایک افسر نے کچھ کہا تو یہ کہا کہ میں آزادی تھوڑا ہوں.جس کے معنے یہ تھے کہ اگر قادیان میں ایک بکری کی پیٹ میں بھی درد ہوتا ہے تو اس کی اطلاع او پر جاتی ہے اور وہاں کے اشارہ سے اس بارہ میں کوئی کارروائی کی جاتی ہے.اب حال میں خان صاحب فرزند علی صاحب، چوہدری اسد اللہ خان صاحب اور پیرا کبر علی صاحب پوسٹ ماسٹر جنرل سے ملے ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس طرف توجہ کروں گا.اگر یہ وی وعدے پورے ہو جائیں جیسا کہ آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ دار حکام اس دفعہ حقیقت کو پاچکے ہیں اور حالات کی اصلاح کرنے پر تیار ہیں تو ہماری شکایات کا یہ حصہ ختم ہو جائے گا اور ہم باوجود گزشتہ تکالیف کے یقیناً اس محکمہ کے افسروں کے ممنون ہوں گے مگر آئندہ تو جو کچھ ہو گا ہوگا.جب ہم گزشتہ دو سالوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تمام احمدیوں کو یہاں سے بدل دیا گیا ہے تو ہمار اشبہ اور بھی قوی ہو جاتا ہے.ریلوے میں ایک احمدی تھا اُسے بھی تبدیل کر دیا گیا ، ڈاک خانہ میں دو احمدی تھے انہیں تبدیل کر دیا گیا، پولیس میں دو احمدی تھے انہیں تبدیل کر دیا گیا، ایک نائب پٹواری احمدی تھا اُسے تبدیل کر دیا گیا، ایک پٹواری کے متعلق محبہ تھا کہ وہ کی احمدی ہے اسے بھی یہاں سے بدل دیا گیا ، بجلی والے جن کی آمد کا ۹۰ فیصدی احمد یوں پر انحصار ہے کسی احمدی کو ملازم نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں سرکار والا مدار کا حکم نہیں کہ کسی احمدی کو ملازم کی رکھیں.چنانچہ اس وقت کسی محکمہ میں کوئی بھی اعلیٰ ملازمت والا احمدی نہیں.اور پولیس میں تو غریب کانسٹیبلوں تک کو تبدیل کر دیا گیا ہے تو ان حالات کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں ایک منظم کوشش کا شبہ پیدا ہونا قدرتی اور لازمی امر ہے.کہا جاتا ہے کہ یہ حسنِ اتفاق ہے لیکن اگر یہ حسنِ اتفاق کی ہے تو کیا یہ حسن اتفاق دنیا میں کہیں اور بھی پایا جاتا ہے؟ اس حُسنِ اتفاق کے ماتحت کوئی کوشش تو کرے کہ کسی جگہ سے سب کے سب مسلمان نکل جائیں یا ہندوؤں کو الگ کر دیا جائے.پس ہم تی ہرگز یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور نہ دنیا کا کوئی عقلمند یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوگا کہ یہ حسنِ اتفاق کیا ہے.یہ حسنِ اتفاق نہیں بلکہ سُوئے تدبیر ہے.ان چیزوں کے ذریعہ دنیا میں کبھی آپس میں محبتیں قائم نہیں رہتیں اور حکومتیں کبھی محبت کے بغیر دنیا میں قائم نہیں رہتیں.آخر کب تک ہم ان باتوں کو دیکھتے چلے جائیں گے اور ہمارے دلوں میں محبت کے جذبات قائم رہیں گے.یقینا اس کی بہت
خطبات محمود 190 سال ۱۹۳۶ء بڑی ذمہ داری گورنمنٹ پر ہے اور جب کہ گورنمنٹ ان اخباروں اور رسالوں کو ضبط کرتی ہے جن کی کے ذریعہ سے سو دو سو یا چار سو آدمیوں کے قلوب کو مجروح کیا جاتا ہے تو کیوں اس کے بعض افسر ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس سے ایسی منافرت پھیلتی ہے کہ اکثر اخبار والے اس کا ہزارواں حصہ بھی منافرت نہیں پیدا کر سکتے.پانچویں مثال جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے بعض افسر جماعت احمدیہ کو خوامخواہ کی دق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں گل کا ایک واقعہ ہے جو بٹالہ میں ہؤا.گل بٹالہ میں ایک ریکروٹنگ افسر آیا تھا اُس کے سامنے ہمارے احمدی نوجوان بھی پیش ہوئے.میں نے مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر بیت المال کو ان کے ساتھ بٹالہ بھیجا تھا.انہوں نے بتایا کہ جب تمام نوجوان پیش ہوئے تو ایک ہندوستانی افسر وہاں یہ کہتا جار ہا تھا کہ مرزائی الگ ہو جائیں یہ مسلمانوں کی بھرتی ہے یہاں مسلمانوں کے سوا اور لوگ نہیں لئے جائیں گے.اس پر ایک دوسرے مسلمان افسر نے کہا کہ جماعت احمدیہ کا مخالف تو میں بھی ہوں مگر میں گولی وہاں چلایا کرتا ہوں جہاں لگ جاتی ہے تم شاید ناواقف ہو تمہیں علم نہیں یہ گورنمنٹ میں بہت رسوخ رکھنے والے ہیں اگر تم انہیں یہاں بھرتی نہیں ہونے دو گے تو یہ اور جگہ بھرتی ہو جائیں گے.یہ گفتگو تو مولوی عبد المغنی صاحب نے سنی.اس کے نی علاوہ ایک اور احمدی دوست نے جو بٹالہ کے ہی ہیں اور وہاں کے ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں سنا کہ ایک ہندو افسر انگریز افسر سے کہہ رہا تھا صاحب ! یہاں مرزائیوں کی بھرتی نہیں کرنی.اُس نے پوچھا مرزائی کیا ہوتے ہیں؟ وہ کہنے لگا یہ مسلمانوں میں ایسا ہی فرقہ ہے جیسے ہی ہمارے ہاں آریہ سماجی ہیں.مسلمان بھی ان کو مسلمان نہیں سمجھتے بلکہ کافر سمجھتے ہیں.وہ انگریز کہنے کی لگا یہ مرزائی اپنے آپ کو کیا کہتے ہیں؟ وہ کہنے لگا کہتے تو اپنے آپ کو مسلمان ہی ہیں.وہ کہنے لگا ہے جب یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو پھر تو ہمارے لئے یہ بڑی مشکل ہے کہ ہم ان کو بھرتی نہ کریں.وہ کہنے لگا نہ صاحب ! حکومت کا بھی یہی منشاء ہے کہ کم سے کم گورداسپور کے ضلع میں کی مرزائی بھرتی نہ کئے جائیں.چنانچہ مولوی عبد المغنی خان صاحب جب بعد میں اس انگریز افسر.ملے تو اس نے خاص طور پر سوال کیا کہ آپ مرزائی یا احمدی کیوں کہلاتے ہیں؟ آپ لوگ م ہیں یا نہیں؟ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ
خطبات محمود 191 سال ۱۹۳۶ء کوئی جماعت پنجاب میں ایسی ہے چاہے وہ حکومت کے سیکرٹری ہوں، چاہے ماتحت ارکان ہوں جواندر ہی اندر لوگوں کے قلوب پر ہماری جماعت کے خلاف اثر ڈال رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت کی ملازمتوں کے دروازے احمدیوں پر بند ہو جائیں.میں آج صاف طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم حکومت کی نوکریوں کے محتاج نہیں مگر حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ کھلے طور پر اعلان کر دے کہ آئندہ احمدیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہیں لیا جائے گا.کچھ افسر کچھ کہتے رہیں اور کچھ افسر کچھ کرتے رہیں یہ بے اصولی بات ہے.میں تو ی آگے ہی اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا رہتا ہوں کہ چھوڑ و اِن نوکریوں کو اور جاؤ دنیا میں خدا تعالی کی نوکری کرو، تجارت کرو، زراعت کرو، صنعت و حرفت میں ترقی کرو اور اس طرح جہاں کی اپنی روزی کماؤ وہاں خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا میں پھیلاؤ.اگر گورنمنٹ اعلان کر دے تو جیسا کہ کہتے ہی ہیں دہلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا میں ذاتی طور پر اس ظلم کو بھی جماعت کیلئے ایک مبارک فال ہی کی سمجھوں گا.میں تو پہلے ہی لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ غیر ملکوں میں نکل جائیں.بھوکے رہیں ، پیاسے رہیں ، ننگے رہیں آخر اللہ تعالیٰ ان کی ترقی کے راستے کھول دے گا اور قومی کریکٹر بھی مضبوط ہو گا مگر گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ کھل کر ایک دفعہ ہم سے کہہ دے کہ تم آئندہ باغی سمجھے جاؤ گے.تا اگر پھر جنگ شروع ہو تو کوئی افسر یہ نہ کہنا شروع کر دے کہ لا ؤ اپنے احمدیوں کو ملک کی خدمت کی کیلئے پیش کرو.مصیبت کے وقت اگر گورنمنٹ نے ہمیں بلا نا ہے تو اب آرام میں بھی ہمارے حقوق ہمیں دے اور اگر مصیبت کے وقت اس نے ہمیں نہیں بلا نا تو پھر بے شک ہم اب بھی اپنے کی حقوق کا اس سے مطالبہ نہیں کرتے.جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی اور ترقی کرتی چلی جائے گی حکومت نئے افراد کو غیر فوجی قرار دیتی جائے یا کہتی جائے کہ تمام سرکاری ملازمتیں انہیں نہیں ملے سکتیں.ہم سے پہلوں نے تو اس سے بہت زیادہ قربانیاں کی ہیں پھر ہمارے لئے اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہوسکتی ہے.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ صحابہ نے شکایت کی کہ يَارَسُولَ اللهِ ! ہم پر کفار کی طرف سے پیہم مظالم ہونے لگ گئے ہیں آپ ان کیلئے بددعا کریں.رسول کریم ﷺ نے جواب دیا کہ تم سے پہلے لوگوں کو اس سے بہت زیادہ تکلیفیں پہنچی ، وہ سر سے لے کر پیر تک آروں سے چیر
خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۶ء یئے گئے مگر انہوں نے اُف نہ کی تم بھی صبر کرو اور ان تکلیفوں سے نہ گھبراؤ ۳.پس صحا بہ کو رسول کریم ﷺ یہ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے وہ تکلیفیں برداشت نہیں کیں جو پہلی اُمتوں نے کی برداشت کیں تو ہماری جماعت نے تو ابھی صحابہ جیسی قربانیاں بھی نہیں کیں پھر ہم کیوں کی گھبرا جائیں.ہم تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا جو منشاء ہے وہ ہو جائے لیکن گورنمنٹ کیلئے ضروری ہے کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہے صفائی سے کہہ دے.یہ کوئی صحیح طریق نہیں کہ حکام میں سے ایک فریق کچھ چی کہتا جائے اور دوسرا پوشیدہ طور پر کچھ اور کہتا جائے.جس حکومت کے افسروں میں ہی اتفاق نہ ہو اُس کو نقصان پہنچنا لازمی ہے.پس اگر حکومت چاہتی ہے تو صاف طور پر کہہ دے کہ آئندہ ملازمتیں احمدیوں کو نہیں ملیں گی تو سوائے ان ملازمتوں کے جو امتحانوں کے ذریعہ سے ملتی ہیں ہم دوسری ملازمتوں کیلئے حکومت کے پاس نہیں جائیں گے اور میں ذمہ لیتا ہوں کہ ہماری جماعت اس پر کوئی شور نہیں مچائے گی اور نہ ہم گورنمنٹ کی نسبت اپنے دل میں کوئی بغض رکھیں گے مگر پوشیدہ اور مخفی کارروائیوں سے ہمارے دلوں کو ضرور تکلیف ہوتی ہے.چھٹی مثال عیدگاہ کا واقعہ ہے جس میں ہمارے آدمی زمین ہموار کرنے کیلئے گئے تو پولیس نے کدالیں اور ٹوکریاں چھین کر انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا اور کیمرے والوں کے کیمرے چھینی لئے.اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت میں ہماری طرف سے درخواست دی گئی کہ ہمیں کیمرے واپس دیئے جائیں کیونکہ اس موقع کے جو فوٹو لئے گئے تھے وہ ہمیں حق بجانب ثابت کرتے ہیں.مجسٹریٹ نے ہماری درخواست سن کر فیصلہ کیا کہ اگلی تاریخ پر اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا لیکن جب اگلی تاریخ آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے طور پر انہیں ڈویلپ کرایا تھا مگر فلم اندر سے خالی نکلے حالانکہ اگر وہ ہمیں کیمرے واپس کرنا نہیں چاہتے تھے تو ان کا فرض تھا کہ وہ پہلی تاریخ پر ہی فیصلہ کر دیتے کہ ہم نہیں دیتے تا ہمیں ان کے ارادوں کا علم ہو جاتا اور ہم اپنے ہی حق کے حصول کیلئے ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے مگر ہمیں تو یہ کہا گیا کہ اگلی تاریخ کو اس درخواست کا کی فیصلہ کیا جائے گا اور درمیان میں انہیں خود بخود ڈویلپ کرالیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ وہ اندر سے خالی نکلے حالانکہ فلم کا خالی کرنا کیا مشکل ہوتا ہے ذرا دھوپ لگا دی تو تصویر اڑ جاتی ہے.اس کے بعد وہ مقدمہ ایک دوسرے مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اور پولیس کی طرف سے دو سکھ گواہ پیش
خطبات محمود ۱۹۳ سال ۱۹۳۶ء ہوئے.ان کی گواہی ایسی تھی کہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ شاید عدالت کے دل پر اس گواہی کی وجہ سے احمدیوں کے حق میں اثر پڑے گا اس پر حاکم ضلع نے مسل خود طلب کر لی.چنانچہ جب مقدمہ کی سماعت میں دیر ہوئی اور ہمارے آدمیوں نے وجہ پوچھی تو عدالت نے بتایا کہ مسل ضلع میں منگوالی گئی ہے ہے.اس کے بعد معلوم ہوا کہ حاکم ضلع نے ان گواہوں کو اپنے پاس طلب کیا اور زبر دست افواہی ہے کہ ان سے ایک افسر نے کہا کہ ہم نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ تم کو احمدیوں کے خلیفہ نے بلا کر پچاس روپے دے کر گواہی سے پھر الیا ہے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب وہ گواہ بالا افسروں کے سامنے پیش ہوئے تو ایک پولیس کے افسر نے انہیں علیحدگی میں کہا کہ تم کہہ دو کہ خلیفہ صاحب نے پچاس روپیہ ہمیں رشوت دے کر کہا تھا کہ اس رنگ میں گواہی دو اس طرح تم لوگ تکلیف سے بچ جاؤ گے.ނ میرا پہلا جواب تو س کے متعلق یہ ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہ جھوٹے پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہوا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر مجھے ذرا بھی اس واقعہ کی تصدیق ہوگئی تو میں اللہ تعالیٰ کے کی فضل اور اُس کی مدد سے اس فریب کو ظاہر کر کے چھوڑوں گا جو اس کے پس پردہ کام کر رہا ہے.اس قسم کی تلقین کی صرف یہ غرض ہو سکتی ہے کہ مجھے بدنام کیا جائے مگر وہ یا درکھیں وہ مجھے بدنام نہیں کر سکتے کیونکہ جن لوگوں کا مجھ سے تعلق ہے وہ مجھے جانتے ہیں ، وہ میرے حالات اور خصائل.واقف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سارے برٹش انڈیا کے افسرمل کر بھی ایک بات کہیں اور اس کے مقابلہ میں میں ایک بات کہوں تو سچی وہی بات ہوگی جو میں کہوں گا.پھر قادیان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے.میں نے ان سکھ گواہوں کے گل ہی نام سنے ہیں اور میں نے آر تک انہیں کبھی دیکھا نہیں اور نہ یاد ہے کہ وہ کبھی مجھ سے ملے ہوں مگر کیا وہ ان چالبازیوں صداقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں؟ ادھر دوران مقدمہ میں ہی ڈپٹی کمشنر صاحب کا مسل منگوا لینا، اُدھر ایک افسر کا یہ بات کہنا کہ جماعت احمدیہ کے قلوب میں افسروں کے متعلق شکوک پیدا کرنے کیلئے تی بہت کافی ہے.آخر ایک مقدمہ جب عدالت میں چل رہا ہو تو پہلے عدالت کو اس کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا گواہوں نے جھوٹ بولا ہے یا پولیس نے جھوٹ بولا ہے؟ یہ کیا کہ عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی ایگزیکٹو دخل اندازی کرنی شروع کر دے اور بعض افسر اپنایا النا شرور ނ
خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۶ء کر دیں.میں نہیں جانتا اس معاملہ میں انگریزی حکومت کا کیا دستور ہے لیکن چار پانچ دن ہوئے حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے کونسل میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عدالت کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دیتے.میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر عدالت کے معاملات میں دخل نہیں دیا جاتا تو اس کے کیا معنے ہیں کہ ایک مقدمہ ایک عدالت میں چل رہا ہے اور فیصلہ سے کی پہلے ہی اس کی مسل منگوالی جاتی ہے اور گواہوں کو بھی بلایا جاتا اور ان پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ہے.اگر اس سے مقصد میری بدنامی ہے تو وہ ہو نہیں سکتی.باقی مجھے بھی اس کا علاج کرنا آتا ہے اور ی میں اس کوشش کیلئے مجبور ہوں گا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو یا حکومت مجھ پر مقدمہ چلائے یا مجھے اور اُس کی افسر کو جس نے یہ حرکت کی ہے قسم کھلائے.خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ عقلیں دی ہیں جن کے ماتحت قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم گورنمنٹ کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کرے.یہ ہمارا رحم ہے جو ہم نے ابھی تک اس قسم کی کوشش شروع نہیں کی ورنہ نہ ہم قید سے ڈرتے ہیں نہ پھانسیوں سے کیونکہ مؤمن سے بڑھ کر اور کوئی بہادر نہیں ہوتا.ممکن ہے گورنمنٹ بعض حالات میں ہمیں مجرم سمجھ لے اور قید کر دے مگر جب ہم سے بالا لوگ قید ہو چکے ہیں تو ہمیں قید سے کیا ڈر ہوسکتا ہے ہے.بلکہ اگر حکومت کے بعض افسر ایسے حالات اختراع کر دیں جن کے نتیجہ میں پھانسی کی سزا ملتی ہے ہو تو بھی ہم کو کیا خوف ہو سکتا ہے کیونکہ ہم سے بالا لوگ بھی لٹکائے جاچکے ہیں.مؤمن جانتا ہے کہ جس وقت خدا تعالیٰ نے اُسے اُٹھانا ہوگا اُٹھا لے گا اور وہ اُسی وقت اُٹھائے گا جب وہ کام ہو جائے گی گا جو اُس نے اپنے بندہ سے لینا تھا اور جب کام ہو چکے تو پھر مؤمن کو اپنی موت سے کیا ڈر ہو سکتا ہے ہے.ہم جب دنیا میں ایسی آگ لگا جائیں جو گفر اور شرک کوخس و خاشاک کی طرح جلا کر راکھی کر دے، جب ہم دنیا میں وہ آگ لگادیں جو شیطنت کو بھسم کر دے تو اس کے بعد اگر ہم دنیا سے اٹھا لئے جاتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے.دنیا میں کون ایسا انسان ہے جو ہمیشہ رہا.ہمارا منشاء تو شیطان کی عمارت کو ایک آگ لگانا ہے جب وہ آگ لگ جائے تو پھر خدا تعالیٰ کی مشیت چاہے کتی قید کی صورت میں آجائے یا پھانسی کی صورت میں، خواہ معمولی موت کی صورت میں ہمیں اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا تھا وہ ختم ہو گیا.
خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۶ء ساتویں بات یہ ہے کہ احرار برابر گالیوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کے روکنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا.میں اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے پنجاب کونسل میں بعض تقریریں کیں اس پر ایک گورنمنٹ افسر نے چوہدری صاحب کو مخاطب کر کے کہا گورنمنٹ تو آپ کی دوست ہے مگر آپ اور پیرا کبر علی صاحب اس کے خلاف تقریریں کر کے خواہ مخواہ اسے دشمن بنا رہے ہیں.چوہدری صاحب نے تو جو جواب دیا ہوگا دیا ہوگا میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ دوستی کی کوئی علامت بھی تو ہوا کرتی ہی ہے.دوست تو ہم ہیں کہ باوجود اس قدر اشتعال انگیز حالات کے ہم نے حکومت کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی.میں نے ایک سکیم بھی سوچی تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سکیم کے ماتحت حکومت کی کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے رویہ پر نظر ثانی کرے مگر جب حکومت نے کسی قدر ہماری تسلی کی کی کوشش کی تو میں نے دیانتداری سے اس سکیم کو نظر انداز کر دیا.شہید گنج کے موقع پر خاص طور پر اس کی میں حصہ لے سکتے تھے مگر ایک طرف یہ دیکھ کر کہ ہمارے حصہ لینے سے مسلمان شور مچائیں گے اور اس طرح ان میں کمزوری پیدا ہوگی اور دوسری طرف گورنمنٹ کو خوامخواہ مصیبت میں پھنسانے سے احتراز کرتے ہوئے ہم نے اس میں حصہ نہ لیا مگر گورنمنٹ نے پھر بھی ہم پر الزام لگا دیا.پس اگر تی دوستی سے پچھلے چند دنوں کی خاموشی مراد ہے تو شاید یہ اعتراض درست ہو لیکن اگر دوستی کے معنی صلح اور محبت کے ہیں تو پھر یہ صحیح نہیں کہ گورنمنٹ ہماری دوست ہے.ہم اب بھی تیار ہیں کہ بہت سی باتوں کو معاف کر دیں، ہم اب بھی تیار ہیں کہ بہت سی باتوں کو بھول جائیں مگر کچھ باتیں ایسی نی ضرور ہیں جن میں گورنمنٹ کو ہماری مرضی کا پورا کرنا ضروری ہے.جیسے گالیوں کا سلسلہ ہے کہ سے بند کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے یا جماعت احمدیہ سے ناواجب اور ناروا سلوک کرنے والے افسروں کو بدلنا ہے یہ بھی گورنمنٹ کا فرض ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ انہیں تبدیل کرے مگر اس رنگ میں کہ ہماری براءت ثابت ہو اور آئندہ کسی کو ویسی حرکات کی جرات نہ ہو کیونکہ دوستی کی کوئی کی علامت آخر گورنمنٹ بھی تو ظاہر کرے.ނ ہم تو ہمیشہ سے امن پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ تفرقہ و فساد نہ ہو.ہمیں نہ مسلمانوں.ننی ہے نہ ہندوؤں سکھوں اور عیسائیوں سے، ہم ہر ایک کے دوست بن کر رہنا چاہتے ہیں مگر
خطبات محمود ۱۹۶ سال ۱۹۳۶ء کوئی امن سے رہنے بھی تو دے.لیکن باوجود ہماری طرف سے امن پر قائم رہنے کے اگر حکومت کی رویہ نہ بدلے تو میں اسے کہوں گا کہ فتنہ کو کم سے کم حلقہ میں محدود کر نے کیلئے اسے چاہئے کہ جماعت کی پر یہ بات کھول دیے کہ اقتصادی طور پر اسے حکومت سے کوئی فائدہ اُٹھانے کا حق حاصل نہ ہوگا.اس سے بھی بہت سی تلخی دور ہو جائے گی کیونکہ امید کے بعد نا امیدی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب کوئی سمجھ لے کہ میرا کوئی حق نہیں تو اس کا شکوہ بھی کم ہو جاتا ہے.اسے چاہئے کہ یہ اعلان کر دے کہ آئندہ سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہیں لیا جائے گا.ہماری جماعت کے لوگوں کو ایسے اعلان کی سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.لاکھوں تدبیریں ہیں جو اختیار کی جاسکتی ہیں.اگر ملازمتوں کے دروازے گورنمنٹ بند کرے تو ہمارے نوجوان تجارت وغیرہ کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوں گے.اس وقت دو نہایت زبر دست حکومتیں ہندوستان میں اپنے تعلقات وسیع کرنے کیلئے تھی کوششیں کر رہی ہیں اور وہ غیر معمولی مدد دینے کیلئے بھی تیار ہیں.مثلاً وہ اس بات پر تیار ہیں کہ تجارتی مال دیں مگر اس کے بدلہ میں روپیہ نہ لیں بلکہ ہندوستانی مال مثلاً گیہوں لے لیں یا کپاس لے لیں اس طرح تجارت میں بہت کچھ سہولت پیدا ہو گئی ہے.بے شک ابتدا میں نا تجربہ کاری کی ای وجہ سے تکلیف ہوگی مگر خطرات میں پڑے بغیر انسانی اخلاق میں مضبوطی نہیں پیدا ہوتی.عقلمند ان کی تکلیفوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سمجھا کرتے ہیں.اگر اس تجربہ میں ہمارے نوجوان کامیابی ہو گئے تو وہ اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کو بھی سزا دے دیں گے جو ہمیں ناحق دُکھ دیتے ہیں کیونکہ اسی طرح لاکھوں کی تجارت انگلستان کے ہاتھ سے نکل کر دوسری قوموں کے ہاتھ کی میں چلی جائے گی بلکہ میں کہتا ہوں کہ دوسری قوموں سے تجارتی تعلق پیدا کرنے سے بھی زیادہ مفید یہ ہے کہ خود صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت توجہ کرے تا کہ ہر قسم کے سیاسی اثر سے محفوظ ہو جائے.گزشتہ جدو جہد کے زمانہ میں یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ زمیندار افسروں سے زیادہ مرعوب ہوتا ہے بہ نسبت تاجروں کے.پس تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت کو کی زیادہ توجہ چاہئے تاکہ کسی کی محتاجی باقی ہی نہ رہے.خود صنعت و حرفت کی طرف توجہ کریں اور تجارت غیر ملکوں سے بڑھانے کی کوشش کریں جو قا نو نا جائز فعل ہے.کوئی قانون ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور انگریزی مال لیں.بے شک ہم بائیکاٹ کے مخالف ہیں مگر بغیر
خطبات محمود ۱۹۷ سال ۱۹۳۶ء بائیکاٹ کئے کے کوئی دوسرا طریق اختیار کرنا تو منع نہیں.اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو کانگرس بھی کی ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گی.کانگرس میں اس وقت کوئی تنظیم نہیں اگر ہم ایک تنظیم کے ساتھ یہ کام کرنے لگیں تو ہزاروں ہندو اور سکھ ہم سے مل جائیں گے اور قانون شکنی کا خیال لوگ بھلا دیں گے اور اس طرح بالواسطہ طور پر بھی حکومت کی ایک خدمت کر دیں گے اور ساتھ ہی قانون کے اندر رہتے ہوئے خود نفع کماتے ہوئے ہم اپنے حقوق بھی حاصل کر سکیں گے اور یہ صرف ایک ہی طریق نہیں ایسے بیسیوں طریق ہیں جن سے جماعتیں اپنے آپ کو ملا زمتوں سے آزاد کر سکتی ہیں.جب ملازمتوں کے راستے بند ہوں تو خود بخود ہماری جماعت کے دماغ دوسری راہوں کی دریافت اور ان پر چلنے کی طرف متوجہ ہوں گے.مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور خوامخواہ حکومت کیلئے کی مشکلات پیدا نہیں کریں گے اور کوشش کریں گے کہ چند افسروں کی وجہ سے حکومت کیلئے مشکلات کی پیدا کرنے کا موجب نہ بنیں مگر جو سلوک ہم سے کیا جا رہا ہے نہایت تکلیف دہ ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آخر کب تک ہم ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جائیں گے ، کب تک ہم اپنے امن کو بربادی ہوتا دیکھیں گے یقیناً ایک وقت آئے گا جب مجبور ہو کر ہمیں ان ذرائع کو اختیار کرنا پڑے گا جو ہمیں ان تکالیف سے بچائیں.اس لئے میں ایک دفعہ پھر حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب بھی اپنے ہی رویہ پر غور کرے.ہم اس بات پر تیار ہیں کہ اس سے صلح کر لیں مگر اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ و بڑی بڑی باتوں میں ہماری شکایتوں کو دور کرے.آج حکومت اپنے آپ کو ہماری مدد سے مستغنی سمجھتی ہے مگر میں اُس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں جس نگاہ سے وہ نہیں دیکھ رہی کہ حکومت کو پھر مشکلات پیش آنے والی ہیں اور آسمان سے خدا تعالی کی یہ ثابت کر دے گا کہ کل کو یہی حکومت پھر ہماری مدد کی محتاج ہو گی.پھر گل کے افسر ہمیں کہیں گے کہ آؤ ہماری مدد کرو اور پچھلے افسروں کے رویہ کو نظر انداز کر دو مگر میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر آج انہوں نے ہماری شکایات کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو کل ان کا ہمیں اپنی مدد کیلئے بلا نا بیکار ثابت ہوگا اور ہم قانون شکنی سے بچتے ہوئے اپنی جماعت کی معیشت کیلئے دوسرے ذرائع إِنْشَاءَ اللهُ نکالیں گے جن کو اختیار کر کے ہم حکومت کی مہربانیوں سے آزاد ہو جائیں گے.مگر ہم چھپ کر کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ کھلے بندوں کریں گے ، عَلَی الْإِعْلان کریں گے اور حکومت کے قانون کے
خطبات محمود ۱۹۸ سال ۱۹۳۶ء اندر رہ کر کریں گے یہاں تک کہ انگریزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان باتوں میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ہم کو ان ذرائع کے اختیار کرنے سے روکیں تو ملک میں بھی شورش بر پا ہو جائے گی اور ی دنیا میں بھی ان کی بدنامی ہو گی.انگریزی فطرت کو ہم جانتے ہیں وہ کھلی بے انصافی کو کبھی برداشت نہیں کر سکتی.پس ہم اس سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ خود ہی قانون بنائے اور ان کے اندرکی رہ کر کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے بے انصاف بن جائے.پس میں پھر ایک طرف حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور ان فتنہ انگیزیوں کو روکنے کی طرف متوجہ ہو اور دوسری طرف جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ زیادہ ترا نوکریوں کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت کے کاموں کو اختیاری کرے.مگر بعض بیوقوف ایسے ہیں جو اب تک مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر کے پاس ہماری سفارش کر دیں.نہ معلوم وہ لوگ میرے خطبے پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے ، اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے ہی کیوں نہیں.میں متواتر جماعت کو بتارہا ہوں کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے امن کو برباد کر رہے ہیں ، وہ ہماری کسی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہمیں نقصان پہنچانے اور ہماری طاقت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ احمق مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دیں.میں نے تم کو وہ راستہ بتا دیا ہے جس پر تم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گر و اور اس سے دعائیں کرو.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس پیر سے روزے رکھو مگر معلوم نہیں تمہیں کیا عادت ہوگئی ہے ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی بجائے بندوں کے پاس جانا پسند کرتے ہو.میں تمہیں نوکریوں سے منع نہیں کرتا بے شک تم اچھی سے اچھی ملازمت کیلئے کوشش کروی لیکن یہ سمجھ لو کہ سب لوگوں کو نوکریاں نہیں مل سکتیں اس لئے علاج یہی ہے کہ تم اپنا رزق خدا سے کی مانگو.وہ معمولی معمولی کاموں میں بھی بعض دفعہ اتنی ترقی دے دیتا ہے کہ لوگ رشک کی نگاہوں کی سے دیکھنے لگ جاتے ہیں.پس تم قربانیوں کیلئے تیار ہو جاؤ اور اس بات پر آمادہ رہو کہ اگر تمہیں بھوکا رہنا پڑے، پیاسا رہنا پڑے، ننگا رہنا پڑے تب بھی تم ان تکالیف کو برداشت کرو گے.یہ روح پیدا کرو گے تو اللہ تعالیٰ غیب سے خود بخود تمہارے لئے کئی رستے کھول دے گا.تام چینی کے برتن جس شخص نے بنائے ہیں وہ پہلے نواب تھا لاکھوں روپیہ کا مالک تھا مگر
خطبات محمود ۱۹۹ سال ۱۹۳۶ء جب اس نے یہ کام شروع کیا تو اپنا سارا روپیہ اُس نے خرچ کر دیا مگر پھر بھی کامیاب نہ ہوا.اس کے کی بعد اُس نے بیوی کے زیور بیچنے شروع کر دیئے ، وہ روپیہ ختم ہوا تو دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کر کام کرنا شروع کر دیا، جب بالکل اُس کی آخری نوبت پہنچ گئی تو بیس سال کی محنت ، تلاش اور جستجو کے بعد وہ تام چینی کے برتن بنانے میں کامیاب ہوا اور اس کے بعد اسی کام سے وہ کروڑ پتی ہو گیا.پس صنعت و حرفت کرو اور اپنی ہمتوں کو بلند کرو.تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدرآمد ہوتی ہے کہ نوکریوں میں اتنی آمد نہیں ہوتی.میں یہ نہیں کہتا کہ نوکریاں نہ کرو.جب تک حکومت روک نہیں دیتی اُس وقت تک بے شک نوکریاں کر ولیکن روک دے تو گھبراؤ نہیں بلکہ کہہ دو ملک خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست خدا تعالیٰ نے دنیا کو نہایت وسیع بنایا ہے.ایک جگہ اگر راستہ بند ہو تو وہ دوسری جگہ رزق کا نجی راستہ کھول دیتا ہے اور ہمارا رزق تو خدا تعالیٰ کے عرش پر موجود ہے اور اُسی نے ہمیں دینا ہے.پس اُسی سے مانگو اور دعائیں کرو.میں نے کوشش کی ہے کہ محبت، پیار، نرمی اور دلائل سے حکومت تمام باتیں واضح کر دوں لیکن اگر باوجود اس کے حکومت ہماری شکایتوں کو دور کرنے کیلئے تیار نہ ہوتی تو دنیا گواہ رہے کہ ہم نے امن قائم کرنے اور حکومت سے تعاون کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہماری طرف محبت کا ہاتھ نہیں بڑھایا.اس کے بعد بھی اگر چہ میں کوشش کروں گا کہ ہماری طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون ہولیکن اگر اُس حد تک تعاون نہ ہو سکے جس حد تک کہ ہم پہلے تعاون کرتے تھے تو آئندہ آنے والے افسروں کا یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے سوال کی کریں کہ تم کیوں اب گزشتہ کی طرح تعاون نہیں کرتے کیونکہ آخر پچھلے لوگ پہلوں کے ہی وارث ہوا کرتے ہیں.فاطر ۲۵ : (الفضل ۴ را پریل ۱۹۳۶ء) مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالايمان للخائف بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام
خطبات محمود ۲۰۰ 11 سال ۱۹۳۶ء عجز وانکسار سے دعائیں کرو اور اپنی اصلاح میں لگ جاؤ (فرموده ۱/۳ پریل ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس ہفتہ سے وہ روزوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس کے متعلق دو تین ہفتے ہوئے میں نے جماعت کے دوستوں کو ہدایت کی تھی اب آئندہ ہفتہ میں اِنشَاءَ اللہ دوسرا روزہ آئے گا اور ا اس طرح سات ہفتوں میں خدا کے فضل سے اور اس کی مدد کے ساتھ وہ دعا کا پروگرام ختم ہوگا جس کی کے متعلق میں اعلان کر چکا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة له - مؤمن کو جب و کبھی وہ مشکلات میں مبتلاء ہو تو صبر اور نماز و دعا سے مدد طلب کرنی چاہئے.صبر کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ انسان ان مصائب اور مشکلات اور اذیتوں کو برداشت کرے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت اس کے مخالفوں کی طرف سے اسے پہنچ رہی ہوں لیکن صبر کے معنے روزہ کے بھی ہیں ، صبر رُک رہنے کا نام ہے اور صوم بھی رُک رہنے کا نام ہے دونوں لفظ ہم معنی ہیں جس طرح انسان مصائب کی اور مشکلات کے موقع پر گھبراہٹ سے رُکا رہتا ہے اسی طرح روزہ میں کھانے پینے سے رکا رہتا ہے.پس صبر کے معنے جہاں تکالیف کی برداشت کے ہیں وہاں اس کے معنے روزہ کے بھی ہیں بلکہ صبر روزہ صلى الله کا زیادہ ہم معنی ہے بہ نسبت اذیتوں اور مشکلات کو برداشت کرنے کے کیونکہ رسول کریم می نے فرمایا ہے کہ ہر عمل کی کوئی جزاء ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ کی جزاء میں خود ہوں سے یعنی
خطبات محمود ۲۰۱ سال ۱۹۳۶ء بجائے اس کے کہ روزہ کا انعام مخلوقات میں سے کسی چیز کے ذریعہ دیا جائے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ذریعہ سے اس کی جزاء ملتی ہے.پس ایسے کام جو خالص مذہبی ہوں اور جن کے نتیجہ میں انسان کی کی ایک ہی غرض ہو یعنی رضائے الہی ان کے حصول اور تکمیل کیلئے بہترین صبر روزہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ روزہ در حقیقت ایک زائد چیز بن جاتا ہے.اذیت اور تکلیف دینے والے بعض نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں تکلیف اور اذیت کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ بعض چیزیں جن کی انسان کو خواہش ہوتی ہے اس سے چھین لی جاتی ہے ہیں مثلاً انسان عزت چاہتا ہے مگر اسے گالیاں دی جاتی ہیں، انسان اپنے بزرگوں کا حترام چاہتا ہے ہے مگر مخالف ان پر جھوٹے الزام لگا کر اور توہین کر کے اس کی راحت چھین لیتا ہے، یا جھوٹے مقدمات بنا کر قید کر دیتا ہے، زمین یا مکان لے لیتا ہے، مار پیٹ کر کے جسم کا سکون اور آرام لے لیتا ہے غرض تکلیف اور اذیت کے یہی معنے ہیں کہ انسان کی کوئی چیز خواہ وہ جسمانی ہو یا روحانی یانی معنوی دوسرا اسے چھین لیتا ہے اور مؤمن کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس پر بے تابی کا اظہار نہ کرے خواہ اس سے اس کی جان و مال، عزت آبرو ، سکون ، آرام سب کچھ چھین لیا جائے اسے چاہئے کہ خدا پر توکل کر کے وقت گزارے.اور روزہ کیا ہے انسان خدا کیلئے اپنی مرضی سے کچھ چیزیں چھوڑ دیتا ہے کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، میاں بیوی کے تعلقات ترک کر دیتا ہے، رات کو جاگنے والا نہ بھی ہو تو نیند ترک کرتا ہے، اپنی زبان ، آنکھوں ، کانوں وغیرہ کی زیادہ حفاظت کرتا ہے کیونکہ اخلاق کی پوری نگرانی کے بغیر روزہ مکمل نہیں ہو سکتا.پس جب انسان کسی مصیبت میں مبتلاء ہوتا ہے یعنی دشمن اور مخالف اس کی بعض پسندیدہ چیزوں کو اس سے چھین لیتے ہیں تو بندہ خدا تعالیٰ کیلئے روزہ رکھتا ہے گویا دوسر.لفظوں میں وہ اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ یہ چیزیں کیا ہیں جو مجھ سے چھینی گئی ہیں میں تو تیری خاطر اپنی خوشی سے اور بھی چیزیں چھوڑنے کو تیار ہوں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی تجھ سے گر تہ مانگے تو اسے چادر بھی دے دے سے، اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو ی دوسرا بھی آگے کر دے ہے.ممکن ہے آپ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہو جو میں بیان کر رہا ہوں اور عیسائیوں نے اسے غلط سمجھا ہو.روزہ رکھنا گویا یہ کہنا ہے کہ خدایا ! تیرے عشق میں کونسی چیز ہے جو
خطبات محمود ۲۰۲ سال ۱۹۳۶ء میں چھوڑ نہیں سکتا اگر تیری مشیت مجھ سے ایک چیز چھڑاتی ہے تو میں خوشی سے دوسری بھی چھوڑ دیتا ہے ہوں.اگر اللہ تعالیٰ دشمن سے کہتا ہے کہ اس کا گر نہ چھین لے تو وہ کہتا ہے کہ خدایا! میں تیری خاطر چادر بھی پیش کرتا ہوں، اگر اللہ تعالیٰ دشمن کو اس پر مسلط کرتا ہے کہ گالیاں دے کر اسے کانوں کا عذاب دے تو وہ کہتا ہے میں زبان اور پیٹ کا عذاب بھی اپنے اوپر لیتا ہوں یعنی بھوکا رہوں گا اور اس طرح جو تکالیف اسے جبری پہنچتی ہیں وہ بھی اس کی ان طوعی اور رضائی تکالیف کی وجہ سے طوعی ہی بن جاتی ہیں اور اس کیلئے ثواب کا موجب ہو جاتی ہیں.عام لوگ جانتے ہیں اور یہ صرف لطیفہ کی ہی نہیں بلکہ تجارب سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ لیٹ یا بیٹھ جانے والے انسان پر شیر حملہ نہیں کرتا اور شیر تو کجا کتے کے سامنے بھی اگر کوئی شخص بیٹھ جائے تو وہ اسے نہیں کا ٹتا اور کون عقلمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں شیر جتنی مروت بھی نہیں.اس لئے جب دشمن حملہ آور ہو اور ہم بجائے جزع فزع کرنے کے خدا تعالیٰ کے حضور بیٹھ جائیں اور کہیں کہ ہم تو باقی چیز میں بھی تیرے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ اس غضب کو روک نہ دے.شریف فطرت انسان بھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ جو اس کے سامنے لیٹ جائے اس پر حملہ کرے کجا یہ کہ ی شریف فطرت کو پیدا کرنے والا ایسا کر سکے.بچپن کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ ہم نے ایک کشتی خریدی تھی جو ڈھاب میں پڑی رہتی تھی بعض دفعہ بعض لوگ بغیر اجازت اسے لے جاتے اور اس سے ایسا سلوک کرتے جس سے کہ وہ جلدی خراب ہونے لگی.اس میں پانی کثرت سے آنے لگا.کبھی اسے الٹا دیتے، کبھی ڈبو دیتے.میں نے بعض ساتھ کھیلنے والے لڑکوں سے کہا کہ تم تاڑ رکھو اور جب کوئی اسے لے جائے تو مجھے بتاؤ.چند روز کے بعد گاؤں کے بعض لڑکے اسے لے گئے اور خراب کرنا شروع کر دیا ، ایک لڑکے نے مجھے آکر اطلاع دی میں جلدی سے گیا اور دیکھا کہ بعض لڑکے اسے منجدھار میں لے جا کر پانی اُچھال رہے ہیں.میں نے انہیں آواز دی کہ کشتی ادھر لے آؤ.ان میں سے کچھ تو تیر کر بھاگ گئے اور کچھ کشتی کو لے آئے مگر وہ کنارے پر اُتر کر وہ بھی بھاگنے لگے.میں نے ان میں سے ایک کی قصاب لڑکے کو پکڑ لیا اور مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا لیکن جب تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ کو نیچے لا رہا تھا تو اُس نے جھٹ اپنا جسم ڈھیلا کر کے کلہ میری طرف کر دیا اور کہنے لگا لوجی مارلو.اُس کا یہ کہنا تھا کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء میرا ہاتھ وہیں گر گیا اور غصہ جاتا رہا بلکہ میں اپنے نفس میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرنے لگا کہ میں ایسی چھوٹی بات پر اسے مارنے لگا تھا.پس اگر انسانی فطرت ایسے موقع پر اتنی بلند پروازی سے کام لے سکتی ہے تو وہ عظیم الشان ہستی جس کے خزانوں میں کمی نہیں ، جس کے فضلوں کی حد بندی نہیں اس کے غضب یا امتحان لینے کے موقع پر اگر انسان اپنے آپ کو اس کے آگے گرا دے تو جو تبدیلی اُس کی صفات میں پیدا ہوتی ہے انسان اس کیفیت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا.اللہ تعالیٰ کا سلوک اپنے بندوں سے جس محبت کا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جنہیں اس کی محبت کا تجربہ کرنے کا موقع ملا ہو.مجھے یاد ہے میں چھوٹا بچہ تھا جب میں نے رویا میں ایک چھ سات یا آٹھ برس کی عمر کا بچہ جو نہایت خوبصورت اور نہایت عمدہ سفید لباس پہنے ہوئے تھا دیکھا.کی ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ ایک سنگ مرمر کا چبوترہ ہے جس کے ارد گرد ایک دو سیٹرھیاں بھی ہیں وہ امرتسر کے اس چبوترے سے ملتا جلتا ہے جس پر کوئین وکٹوریا کا بت نصب ہے میں نے دیکھا کہ وہ بچہ ان سیڑھیوں پر کھڑا ہو کر چبوترے پر جھکا ہوا ہے جس طرح کوئی کسی بزرگ سے دعا اور برکت کی لینے کیلئے جھکتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ گویا آسمان پر کوئی چیز ہے جس سے وہ برکت لینا چاہتا تھی ہے اس پر میں نے اوپر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ آسمان پھٹ گیا ہے اور اس میں سے کوئی پروں والی چیز کی نیچے آرہی ہے اور مجھے خیال ہوا کہ یہ حضرت مریم ہیں اور بچہ حضرت عیسی ہیں.حضرت مریم ایسے ہی رنگین لباس میں ملبوس تھیں کہ جود نیا میں نظر نہیں آتے اور انہوں نے چبوترے پر پہنچ کر اپنے پر بچہ پر چی پھیلا دیے اور جب وہ اس پر جھک گئیں تو آواز آئی کہ Love Creates Love یعنی محبت محبت پیدا کرتی ہے یعنی جب ایک طرف محبت پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف خود بخود ہونے لگتی ہے صداقت جو مجھے رؤیا میں دکھائی گئی تمام کائنات میں نظر آتی ہے اور جو حسن مخلوق میں نظر آتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ اس ہستی میں نہ ہو جو محبت کی خالق ہے.اسی کا ہم معنی ایک اور نظارہ مجھے اس وقت یاد آ گیا ہے کچھ عرصہ کی بات ہے کہ ایک مشکل مجھے پیش آئی جس کیلئے میں نے دعا کی مگر اُس کی قبولیت میں کچھ دیر ہو گئی.اُس وقت میں نے اپنے دل میں نیت کی کہ کچھ دن میں زمین پر سوؤں گا اور اس طرح زیادہ انکسار کے ساتھ دعا کرسکوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سُرعت سے جذب کر سکوں گا چنانچہ میں زمین پر بستری
خطبات محمود ۲۰۴ سال ۱۹۳۶ء کر کے لیٹ گیا.تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ایک عورت کی شکل میں آیا اس کے ہاتھ میں ایک سبز شاخ ہے جس کے سرے پر کچھ پتے بھی موجود ہیں اور جس طرح ماں بعض اوقات کی بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کر رہی ہوتی ہے مگر حقیقت وہ محبت کا اظہار کرتی ہے اسی طرح وہ چھڑی پکڑ کر مجھے کہتا ہے کہ اُٹھ کر چار پائی پر لیٹتا ہے یا نہیں؟ مجھے یاد نہیں کہ چھڑی مار دی ہے یا نہیں لیکن رویا میں میں نے دیکھا کہ اس کے ایسا کہنے پر میں کود کر چار پائی پر جا پڑا.اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کی کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ میں واقع میں بھی گود کر چار پائی کی طرف جارہا تھا.گویا اللہ تعالیٰ نے کی اس طرح محبت کے ساتھ مجھے بتایا کہ تمہارا از مین پر لیٹنا مجھے شاق گزرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی محبت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہوں نے ایسا نقشہ دیکھا ہو.اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں ماں باپ، بیوی، خاوند ، بہن، بھائی ، دوست احباب غرضیکہ دنیا کی کی سب محبتیں بیچ ہوتی ہیں اور کوئی بھی عقل یہ تسلیم نہیں کر سکتی کہ جس نے محبت پیدا کی اس کے مقابلہ میں کوئی محبت ٹھہر سکتی ہے.پس اگر مصیبت اور تکلیف کے ایام میں مؤمن اپنی مرضی سے اور تکالیف اپنے اوپر ڈال لے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت معاً بھڑک اٹھتی ہے.وہ جب دیکھتا ہے کہ بندہ تھی اس کی محبت اور عشق میں اتنا گداز ہے کہ تکالیف پر بجائے شکوہ اور گلہ کرنے کے اور ان پر رنجیدہ کی ہونے کے خود بخو داور بوجھ اپنے اوپر ڈالنے کیلئے تیار ہو گیا ہے تو معاً اس کی تکالیف کو دور کر کے اس کی محبت کی قربانی کو قبول کر لیتا ہے اس لئے اس موقع پر روزہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی چیز ہے اور اس کا اندازہ روحانی لوگ ہی کر سکتے ہیں.پس اس ہتھیار کو معمولی نہ سمجھو دنیا میں لوگ بھوکے رہ کر کمزور ہو جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ نسخہ بتایا ہے کہ بھوکے رہ کر ہم طاقتور ہو سکتے ہیں.مؤمن جب فاقہ کرتا ہے تو اسے ایسی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ جس کے مقابل پر بڑی بڑی طاقتیں بیچی ہوتی ہیں.یا درکھنا چاہئے کہ روحانی دنیا بالکل نرالی ہے اور یہاں بعض باتیں دوسری دنیا کی نسبت کی عجیب ہوتی ہیں.فرعون جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر دلائل سے شکست کھا کر عاجز کی آ گیا تو اس نے تمسخر کا طریق اختیار کیا اور وزراء سے کہا کہ اونچاصل تیار کراؤ.لَعَلَى اطَّلِعَ إِلَى اله مُوسَى ھے.اس طرح میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ آؤں مگر دیکھو ! خدا تعالیٰ بھی کیا لطیفہ کرتا ہے اُس
خطبات محمود ۲۰۵ سال ۱۹۳۶ء نے اُسے سمندر میں غرق کیا اور اس طرح بتا دیا کہ آسمان پر جانے والا تو کون ہے؟ میں تجھے زمین سے نیچے لے جا کر اپنی شکل دکھاتا ہوں.مگر مؤمن جب زمین پر جھکتا ہے ، سجدہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کیا کروں جو آسمان پر نگاہ ڈالوں اور خدا کے حسین چہرے کو دیکھ سکوں جب وہ اپنے سر کو نیچے لے جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اُسے اوپر اُٹھاتا ہے.فرعون او پر جا کر خدا تعالیٰ کو دیکھنا چاہتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے اسے تحت الٹڑی میں پہنچایا لیکن مؤمن نیچے جاتا اور تذلل اختیار کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اسے اوپر اٹھاتا ہے.سورہ نور میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں مؤمن کے گھر کو اونچا کرتا ہی ہوں بلکہ اس کے طفیل اس کے خاندان کو بھی اوپر اُٹھاتا ہوں '.اس کے بالمقابل جو بڑائی اور تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے نیچے گراتا ہے.پس روحانی دنیا کے معاملات بالکل نرالے ہوتے ہیں تم یہ خیال مت کرو کہ روزہ معمولی چیز ہے ہماری لڑائی روحانی ہے اس لئے اس میں روحانی ہتھیار ہی کام آ سکتے ہیں.جہاں لوہے کی تلواروں سے لڑائی ہو وہاں تو لوہے کی تلوار ہی کام آسکتی ہے مگر جب لڑائی روحانی ہو تو دل کو کاٹنے کیلئے روحانی تلوار کی ضررت ہوتی ہے اور روحانی تلوار کو تیز کرنے کیلئے پتھر کی سان کی ضرورت نہیں بلکہ روزہ کی سان کی ضرورت ہے.اس عالم میں کوئی چیز جتنی موٹی ہو اتنی بھاری ہوتی ہے مگر روحانی عالم میں کوئی چیز جتنی باریک ہو اتنی ہی زیادہ وزنی ہوتی ہے.اس دنیا میں موٹائی وزن بڑھاتی ہے مگر روحانی عالم میں باریکی وزن کو بڑھاتی ہے.پس اس ہتھیار کو معمولی مت سمجھو اور ان کی دنوں کو غفلت میں مت گزرنے دو.ہفتہ میں ہم ایک دن روزہ رکھیں گے اور سات دن دعائیں کریں گے دعائیں خواہ انفرادی طور پر کی جائیں خواہ جماعتیں مل کر دعا کرنے کا انتظام کریں یعنی کی ایک مقررہ وقت پر سب دوست جمع ہو کر دعا کریں.اس کے متعلق میں ایک بات اور کہہ دینا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا طریق بندوں سے مختلف ہوتا ہے اس کا غضب بھی رحمت کے ساتھ مخلوط ہوتا ہے بندہ کو جب دوسرے پر غصہ آتا ہے تو و چاہتا ہے کہ اسے پیس ڈالے اور مٹا دے مگر خدا تعالیٰ کا غضب جب نازل ہو رہا ہو اس وقت بھی اُس کے مدنظر یہی ہوتا ہے کہ اگر ہو سکے تو بچایا جائے.حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق روایات میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے جو معلوم نہیں پوری وہی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء طرح صحیح ہے یا نہیں مگر اس کے بعض حصوں کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے.لکھا ہے کہ جب ان کی قوم پر سے عذاب ٹل گیا اور انہیں عذاب کی کوئی خبر نہ ملی بلکہ راہ گزروں سے یہ سنا کہ نینوا کے لوگ بالکل خیریت سے ہیں تو انہوں نے یہ سمجھ کر کہ عذاب نہ آنے کی وجہ سے اُن کی قوم ان کو جھوٹا کہے گی ملک کو چھوڑ کر کہیں چلے جانے کا فیصلہ کر لیا.ادھر ان کی قوم تو بہ کر چکی اور ان کی ھے آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کہ تا ان پر ایمان لاکر ان کے حکموں کے مطابق زندگی بسر کرے مگر حضرت یونس ان حالات سے بے خبر تھے.پس وہ ملک چھوڑ دینے کے خیال سے وہاں سے چل پڑے اور ایک جہاز پر سوار ہو گئے تاکہ کہیں دور نکل جائیں مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وہ جہاز میں سوار تھے ایک شدید طوفان آیا اور لوگوں نے رائج الوقت خیالات کے مطابق سمجھا کہ کوئی غلام بھاگ کر جہاز میں سوار ہوا ہے جس کی وجہ سے طوفان آیا ہے.حضرت یونس علیہ السلام نے اُن کی گفتگوسنی تو کہا کہ وہ غلام میں ہی ہوں جو اپنے آقا سے بھاگ آیا ہوں یعنی انہوں نے خیال کیا کہ میرے چلے آنے کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا ہے اور اس سبب سے یہ طوفان آیا ہے.لوگوں نے ی ان کی بات کو قبول نہ کیا لیکن جب فیصلہ کرنے کیلئے قرعہ ڈالا تو انہی کا نام نکلا آخر لوگوں نے اُن کو دی سمندر میں پھینک دیا جہاں انہیں ایک بڑی مچھلی نگل گئی اور آپ تین دن اس کے پیٹ میں ر لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے ماتحت زندہ رہے.تین دن کے بعد مچھلی نے آپ کو اگل دیا.جس کے جگہ پر اس نے آپ کو اگلا تھا وہاں ایک بیل اُگ آئی یا پہلے سے اُگی ہوئی تھی اس کے سایہ میں آپ پناہ لے کر لیٹ گئے.آپ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے نہایت کمزور ہورہے تھے اس لئے کی نڈھال ہو کر سایہ میں پڑے رہے آپ کو طاقت آ رہی تھی کہ یکدم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بیل جس کے سایہ میں آپ لیٹے ہوئے تھے اسے ایک کیڑے نے کاٹ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ خشک ہو کر گر گئی.آپ کو اس کا بڑا صدمہ ہوا کیونکہ اس سے آپ کو بہت آرام ملا تھا اور آپ کے منہ سے بے اختیار بددعا نکلی کہ خدا اس کیڑے کو تباہ کرے جس نے اس بیل کو کاٹ دیا ہے مگر چونکہ یہ سب کچھ آپ کو سبق دینے کیلئے ہو رہا تھا اللہ تعالیٰ نے معاً آپ کو الہام کیا کہ اے یونس ! یہ بیل تیری لگائی ہوئی نہ تھی صرف تجھے اس سے عارضی تعلق پیدا ہوا تھا مگر اس کے کٹ جانے پر تجھے اس قدر رنج ہوا تو سوچ کہ جس قوم کی تباہی تو چاہتا تھا وہ تو میری پیدا کردہ تھی کیا اسے تباہ کرتے ہوئے مجھے رنج نہ
خطبات محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۶ء ہوتا ؟ پھر اگر ان کے تو بہ کرنے پر میں نے ان کو بخش دیا تو تجھے کیوں رنج ہوا.اس قصہ کی تفصیلات میں خواہ کچھ غلطی ہو لیکن اس کے اکثر اجزاء کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے.پس اس میں جو سبق نکلتا ہے وہ درست ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں بھی کی رحم ملا ہوا ہوتا ہے وہ خود بھی فرماتا ہے کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ہے میری رحمت ہر دوسری ھے پر غالب ہے.گویا جس طرح کو نین پر میٹھا چڑھا دیا جاتا ہے تا آسانی سے کھائی جا سکے اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب پر رحمت کی شکر چڑھی ہوئی ہوتی ہے.مومن کو بھی اللہ تعالیٰ کا طریق اختیار کرنا چاہئے یعنی اگر ہم کسی کے متعلق دعا کریں کہ وہ تباہ ہو جائے تو اس لئے نہیں کہ اس.ہمیں تکلیف پہنچی ہے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کے پھیلنے میں وہ روک بنتا ہے ذاتی عداوت کی ہرگز نہ ہونی چاہئے.اگر ہم واقعہ میں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں تو ہمارے اندر وہی صفات ہونی چاہئیں جو ہمارے رب میں ہیں.بے شک ہمارے مخالفین میں عیوب ہیں مگر مؤمن کو ثواب زیادہ نظر آتا ہے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ رستہ میں گتا مرا ہوا پڑا تھا.حواریوں نے ناکوں کے آگے رومال رکھ لئے ، تھوکنا شروع کر دیا اور کی کہنے لگے کہ مُردار سے کس قدر تعفن اُٹھ رہا ہے.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور فرمایا ای دیکھو! اس کے دانت کتنے سفید ہیں.سود شمن اگر چہ ہماری مخالفت کرتا ہے مگر ہم اس کی مخالفت کے باوجود دو بلکہ تین پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کر سکتے.ایک یہ کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جو دیانتداری کے ماتحت یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے دین سے پھر گئے ہیں اس لئے وہ ہماری اصلاح کرنا چاہتے ہیں.گویا وہ ہماری مخالفت خیر خواہی سے متاثر ہو کر کرتے ہیں اس لئے ہم ان کی نیت کو نہیں بھلا سکتے.اکثر لوگ غلطی خوردہ ہوتے ہیں وہ ہماری مخالفت کرتے وقت سمجھتے ہیں کہ دین کو قائم کر رہے ہیں اور وہ ہمیں مٹا کر اسلام کو کی قائم کرنا چاہتے ہیں.اگر چہ وہ شرارت کرتے ہیں اور ہم ان کو غلطی پر سمجھتے ہیں مگر ان کے چی خیالات پر بھی نیکی کا غلبہ ہوتا ہے.دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ انبیاء کے مخالفوں کے ذریعہ ان
خطبات محمود ۲۰۸ سال ۱۹۳۶ء کے ماننے والوں کو دکھ پہنچاتا ہے تا ان کی نیکی اور مخالفوں کی بدی ظاہر ہو جائے.گویا اللہ تعالیٰ ایک طرف مؤمنوں کا امتحان لیتا اور دوسری طرف ان کے مخالفوں کی بُرائیوں کو ظاہر کرتا ہے پس ان کی طرف سے جو مخالفت ہوتی ہے اس میں ایک حصہ جبر کا بھی ہوتا ہے.تیسری بات یہ ہے کہ ان تکالیف کا موجب کچھ ہمارا اپنا قصور بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم کو پاک کرے.ہم میں سے اگر کوئی بد معاملہ ہو تو دشمن سمجھتے ہیں کہ یہ سب ٹھگ ہیں، کوئی جھوٹ بولتا ہے تو مخالف کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا.کہ اس طرح ہماری کمزریوں کو دور کرے.یہ بات بھی ایسی ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور ان تین باتوں کی موجودگی میں ہمارا فرض ہے کہ پہلے مخالفوں کیلئے دعا اور پھر بدعا کریں.پہلا کام ہمارا یہ ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی ان کو ہدایت دے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہ کر بیت الدعا کے اوپر ایک کمرہ اپنے لئے بنوایا تھا کہ وہ بھی اس میں دعا کیا کریں گے.آپ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں اس میں دعا کر رہا تھا کہ مجھے نیچے سے اس طرح کی آواز آئی جیسے کوئی عورت در دزہ سے بیتاب ہو کر روتی ہے.وہ کہتے ہیں میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت زاری سے دعا کر رہے ہیں.وہ طاعون کے دن تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہہ رہے تھے الہی ! اگر یہ قوم طاعون سے ہلاک ہوگئی تو مجھ پر ایمان کون لائے گا ؟ یہ ہمارے سردار کا رویہ ہے پس ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ڈوبنے والے کو بچائیں اور مرنے کی والے کو زندہ کرنے کی کوشش کریں.غیظ و غضب سے اتنے متاثر مت ہو کہ یہی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کا بیڑا غرق کر دے بلکہ پہلے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور بچالے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں مگر لوگوں نے اس برادری کو بھلا دیا تھی اس لئے غیریت پیدا ہوگئی اگر تم اس کا خیال رکھو تو پھر یہ احساس بھی تمہیں ہو جائے گا کہ اپنے بھائیوں کو کون مرواتا ہے.مکہ کے کفار مسلمانوں کے کتنے دشمن تھے مگر اس برادری کا خیال ان پر بھی غالب تھا.
خطبات محمود ۲۰۹ سال ۱۹۳۶ء چنانچہ بدر کے دن بعض نے کہہ دیا کہ مسلمان بھی تمہارے بھائی ہیں ان کو کیسے مارو گے؟ گو یا شدید دشمنی کے باوجود محبت کا جوش غالب آ گیا.پس اگر ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ساری دنیا ایک برادری ہے تو ہمارا فرض ہے کہ مخالفت کرنے والوں کو دعاؤں کے تیروں سے ماریں.یہ چیز اچھی نہیں کہ ہم بد دعاؤں سے اپنے بھائیوں کے خون کریں.ذاتی جوش میں ہمیں یہ نہ کہنا چاہئے کہ خدایا! ان پر و بال نازل کر بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا ہم ان کی بہتری ہی چاہتے ہیں تباہی کی نہیں.ہم خود بھی کمزور تھے مگر تیرے فضل نے ہمیں ڈھانپ لیا تیری رحمت اتنی وسیع ہے کہ اس سے ی باہر کوئی چیز نہیں پس اگر تو ان کو بھی ڈھانپ لے اور ہدایت دے دے تو اس سے زیادہ ہماری خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے لیکن اگر تیری حکمت بعض کو اس کا اہل نہیں سمجھتی اور ان کو فنا کرنے میں ہی بہتری ہے تو گو یہ بات ہمارے لئے رنج کا موجب ہوگی مگر ان کو ہمارے رستہ سے اس طرح ہٹا دے کہ اسلام کی ترقی میں ان کا وجود روک نہ رہے.یہ طریق ہے جو ہمیں اختیار کرنا چاہئے یہ دعا بھی ہے اور بددعا بھی.یہ دعا ہے اس لئے میں کہ سکتا ہوں کہ مؤمن بددعا کبھی نہیں کرتا اور یہ بددعا ہے اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ مؤمن کبھی کبھی بددعا بھی کر لیتا ہے.یہ چیز دونوں کے بین بین ہے اور دعا کی طرف بددعا کی نسبت زیادہ جھکی ہوئی ہے کیونکہ اس میں پہلے ہدایت کی دعا ہے.ہاں یہ بھی ہے کہ اگر ہدایت مقدر نہ ہو تو پھر خدا ان کو ہمارے رستہ سے ہٹا دے تا دین کی ترقی میں روک نہ ہوں.پس ہمارا غضب خدا کے لئے چاہئے اور اگر ہم اس طرح دعا کریں تو یقینا یہ غضب خدا کیلئے ہوگا لیکن اگر ہم کہیں کہ خدا ان کو ماردے تو اس سے ذاتی غصہ ظاہر ہوتا ہے.پس ان دنوں میں اس رنگ میں دعائیں کرو جو میں نے اوپر بتایا ہے اور اس کے ساتھ جماعت کی اصلاح کیلئے بھی دعائیں کرو کیونکہ اگر یہ لوگ تباہ بھی ہو گئے اور ہم نے ان کی جگہ لے لی تو اس کا کیا فائدہ.ایک جھوٹے اور فریبی کو ہلاک کروا کر اگر دوسرا جھوٹا اور فریبی جگہ لے لے تو اس میں کوئی خوبی کی بات نہیں.اگر ہم خدا تعالیٰ کیلئے ان کی تباہی چاہتے ہیں تو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے نہ ہوں.خدا ہمیں رحم دل، متقی اور دیانتدار بنائے ، ہم احسان کرنے والے ہوں کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو ایک سیاہی کو مٹا کر دوسری لگا لینے سے دنیا کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے.پس اس بات کی کیلئے خصوصیت سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کا روحانی معیار بلند کر دے.ابھی کئی لوگ
خطبات محمود ۲۱۰ سال ۱۹۳۶ء جماعت میں ایسے ہیں کہ جن میں اور غیروں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا.جھوٹ ، خیانت ،ظلم، حق تلفی سے انہیں گریز نہیں.وہ دوستوں کیلئے جھوٹ بول دیتے ہیں اور بندہ کی دوستی کیلئے خدا کی نی دوستی کو قربان کر دیتے ہیں اور اگر یہ چیزیں قائم رہیں تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ موجودہ نقشہ کو تباہ کر دے بلکہ ہمارے مخالف ہم سے زیادہ ہیں اور اگر دونوں ایک ہی قسم کے ہوں تو پھر زیادہ تعدا دوالوں کا زیادہ حق ہے کہ انہیں قائم رکھا جائے.سوان دنوں میں خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں کرو اور عجز و انکسار سے اس کے حضور جھک جاؤ.نہ صرف پیر کے دن بلکہ ہر روز دعائیں کو.جہاں امام ایسا نہ ہو جو نمازوں میں تلاوت کے ساتھ دعائیں پڑھ سکے وہاں دوسرے وقت میں مل کر دعا کا انتظام کر لو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ای علیحدہ علیحدہ دعائیں کرو مگر کوئی دن ایسا نہ گزرے جب دعا نمایاں شکل میں سامنے نہ آچکی ہوتی اور اگر اس طریق سے دعائیں کی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ ہر گز خالی نہ جائیں گی.پچھلے سال اس کا تجربہ ہم کر چکے ہیں ادھر دعا کے ایام کا خاتمہ ہوا اور اُدھر کوئٹہ میں زلزلہ آیا اور پھر مسلسل تباہیاں آتی رہیں تا کہ دشمن کو بیدار کر دیں مگر افسوس کہ اس سے کسی نے فائدہ نہیں اُٹھایا.اور مجھے یقین ہے ہے کہ اگر آپ لوگ یہ دن غفلت میں نہ گزاریں گے اور عاجزانہ طور پر خدا کے حضور جھکیں گے تو ی اللہ تعالیٰ دونشانوں میں سے ایک ضرور دکھائے گا.یا تو وہ ان کو ہدایت دے دے گا یا انہیں ہلاک کر دے گا دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوکر رہے گی.اللہ تعالیٰ رحمت کا نشان دکھائے یا غضب کا اگر تمام احمدی عجز اور انکسار سے دعاؤں میں لگے رہیں تو دشمن کے حالات کے مطابق ان کی دونوں باتوں میں سے ایک کو ضرور معتین کرا کر رہیں گے.اگر وہ نیکی کی طرف جھکے گا تو رحمت کا لی نشان ظاہر ہو گا اور اگر ضد میں بڑھے گا تو غضب کا.پس آؤ اس رحمت کے دروازہ میں جو خدا نے کھولا ہے داخل ہو جاؤ جو سوائے تمہارے کسی کو میسر نہیں.آج اجابت دعا کے دروازے صرف تمہارے لئے ہی کھولے گئے ہیں اور کسی کیلئے کی نہیں ، قبولیت کے فرشتے تمہارے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں مگر دوسروں کیلئے ان کی مٹھیاں بندی ہیں.اس طاقت اور قوت کو حقیر مت سمجھو جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دی ہے.آسمان سے تمہاری کامیابی کے احکام جاری ہو چکے ہیں.اگر ہمت اور استقلال سے کام لو گے ، خدا کے حضور عجز اور ای
خطبات محمود ۲۱۱ سال ۱۹۳۶ء انکسار سے جھک جاؤ گے تو وہ تمہیں توفیق دے گا کہ اپنے آسمانی باپ کا ورثہ حاصل کر سکو لیکن اگر سستی اور غفلت کرو گے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ خالی منہ سے نکلی ہوئی دعائیں قبول نہیں کی ہوا کرتیں.اللہ تعالیٰ کے حضور وہی دعا قبول ہوتی ہے جو دل کے خون سے لکھی جائے زبان کی آواز قبول نہیں ہوتی بلکہ دل کے خون کی تحریر قبول ہوتی ہے.اگر دعاؤں کے ساتھ دل کے خون کے کی چھینٹے دو گے تو کامیابی کے رستے کھل جائیں گے ورنہ جو برکتیں تمہارے لئے مقدر ہیں وہ انتظار کریں گی جب تک کہ تم ان کے قابل نہ ہو جاؤ.انہیں لینا تمہارے اختیار میں ہے چاہے جلد حاصل کرلو اور چاہے ملتوی کرالو.البقرة: ٤٦ (الفضل ۱۱ را پریل ۱۹۳۶ ء ) کے بخاری کتاب الصوم باب في فضل الصوم سے متی باب ۵ آیت ۴۰.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء متی باب ۵ آیت ۳۹.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء ه القصص: ۳۹ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ ( النور : ۳۷) ك الاعراف: ۱۵۷
خطبات محمود ۲۱۲ (١٢ سال ۱۹۳۶ء اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کی محبت پیدا کرو (فرموده ۱۰ را پریل ۱۹۳۶ء) تشهد تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسانی زندگی کے مختلف دور ہوتے ہیں.کچھ ان حالات کے لحاظ سے جو انسان پر گزرتے ہیں اور کچھ اُس علم کے لحاظ سے جو اُ سے حاصل ہوتا ہے.یعنی کبھی تو وہ ایسے حالات میں سے گزررہا ہوتا ہے جو اُس کی ترقی کا موجب ہوتے ہیں اور کبھی ایسے حالات میں سے گزر رہا ہوتا ہے جو اس کے تنزل کا موجب ہوتے ہیں.پھر بھی وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ایسے حالات میں سے گزر رہا ہوں جو میرے لئے ترقی کا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور کبھی وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں یسے حالات میں سے گزر رہا ہوں جو میرے لئے ننزل کا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن حقیقت اس کی کا خیال درست نہیں ہوتا.اس حالت میں جب وہ گھبراہٹ کا اظہار کر رہا ہوتا ہے اس کیلئے خوشی کی اور مسرت کا مقام ہوتا ہے اور جب خوشی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے اس کیلئے گھبرانے اور رونے کا مقام ہوتا ہے.مؤمنوں کو اللہ تعالی اونچا کر رہا ہوتا ہے لیکن بظاہر انہیں اپنے سامنے مشکلات نظر آتی ہیں.مؤمنوں اور کفار کا مقابلہ بھی اِسی طرح کا ہوتا ہے.دونوں کی حالتیں در حقیقت عدم علم کی وجہ ی
خطبات محمود ۲۱۳ سال ۱۹۳۶ء سے ہوتی ہیں اور وہ ان سے گھبرا ر ہے ہوتے ہیں لیکن ان کی گھبراہٹ با موقع نہیں ہوتی اور دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نیچا کر رہا ہوتا ہے جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی ترقی اور بلندی کے سامان ہورہے ہیں ނ وہ خوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن ان کی خوشی بھی با موقع اور بامحل نہیں ہوتی.ہر ایک کو ان میں اللہ تعالیٰ غفلت میں رکھ رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ فیصلہ کا وقت آجاتا ہے اور دونوں فریق اپنی اپنی ہی جگہ حیران رہ جاتے ہیں.وہ جو اس خیال میں دوڑا چلا جا رہا تھا کہ مجھے تخت پر بٹھایا جانے والا ہے وہ یک لخت دیکھتا ہے کہ وہ پھانسی کے تختے پر کھڑا ہے اور جسے یہ خیال تھا کہ اُسے پھانسی کے تختہ کی طرف لے جایا جارہا ہے وہ یکدم دیکھتا ہے کہ اُسے تخت شاہی پر بٹھا دیا گیا ہے.وہ انکشاف کا وقت عجیب وقت ہوتا ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کو ایسے حالات میں سے گزرنے کا موقع ملتا ہے ورنہ ایسے غیر معمولی حالات ہوتے ہیں کہ بعد میں آنے والی نسلیں بھی ان کو نہیں سمجھ سکتیں.آج سے اُنیس سو سال پہلے جب یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا رہے تھے اُس وقت ان کے دلوں میں جو خوشی تھی آج اُس کا کون اندازہ کر سکتا ہے.پھر اس وقت حضرت مسیح کی کے حواریوں کی جو کیفیت تھی اس کا بھی آج کون اندازہ لگا سکتا ہے.جو گھبراہٹ اُس وقت حواریوں میں پیدا ہوئی وہ اس بات سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ غریب لوگ جو تلوار چلانا جانتے ہی نہ تھے بغیر اس خیال کے کہ ان کے اس فعل کا نتیجہ کیا ہوگا ان میں سے ایک نے جس کا نام پطرس تھا تلوار نکال لی اور شاہی فوجیوں سے لڑنے کیلئے تیار ہو گیا.حضرت مسیح علیہ السلام نے اسے منع کیا لی اور کہا اس سے کیا فائدہ؟ پھر دوسرا اثر پطرس پر یہ پڑا کہ اُس نے حضرت مسیح پر لعنت بھیجی اور کہا میں سے جانتا ہی نہیں.گویا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ وہ بے محل لڑائی کیلئے تیار ہو گیا اور دوسرا اثر یہ ہوا کہ اس کی نے بلا وجہ اپنے آقا اور اُستاد کا انکار کر دیا.خود حضرت مسیح کے قلب کی جو کیفیت تھی وہ اس سے معلوم ہوسکتی ہے کہ وہی مسیح جن کے پاس ایک دفعہ اُن کی والدہ اور بھائی جب ملنے کیلئے آئے تو ی لوگوں نے اطلاع دی آپ کی ماں اور بھائی باہر کھڑے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کون ہے میرا بھائی کون ہے میری ماں.لیکن دوسرے وقت کی ان کی قلبی کیفیت یہ تھی کہ جب اُن کو صلیب پر لٹکایا گیا اور انہوں نے ہجوم میں اپنی ماں کو کھڑے دیکھا تو ایک
خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱۹۳۶ء حواری کو اشارہ کر کے انہوں نے اپنے پاس بلایا جب وہ پاس پہنچ گیا تو انہوں نے اُس کو کہا کہ تم جانتے ہو یہ عورت کون کھڑی ہے؟ دیکھو! یہ تمہاری ماں ہے اور اے عورت! یہ تیرا بیٹا ہے جس کے صاف طور پر یہ معنی تھے کہ وہ ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ان کا آخری وقت قریب ہے اور یہ کہ اب ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ماں کی حفاظت اور اس کی تسلی کا کوئی انتظام کریں.پس انہوں نے اپنے ایک حواری کو پاس بلا کر کہہ دیا کہ تیرا فرض ہے کہ تو اسے اپنی ماں سمجھے اور اے ماں ! تُو اس کو میری جگہ بمنزلہ اپنے بیٹے کے سمجھنا.اُس وقت یہودی کتنے خوش کی تھے اور حواری کتنے رنجیدہ تھے مگر ان کو کیا علم تھا ان حالات کا جو بعد میں پیش آنے والے تھے.آج انہیں سو سال گزر گئے مگر کہیں بھی یہود کو آرام کی جگہ نہیں ملتی.ہر ملک ان کیلئے تنگ ہو رہا ہے آخری ملک ان کے آرام کا انگلستان تھا مگر اب انگلستان میں بھی ان پر حملے شروع ہو گئے ہیں.اُنیس سو سال کا عرصہ کتنا لمبا ہوتا ہے لوگ سو سال کے بعد اپنے باپ دادوں کو بھول جاتے ہیں کی لیکن حضرت مسیح کو دُکھ دینے والے آج انہیں سو سال کے بعد بھی وہ دُکھ اٹھا ر ہے ہیں جن کی نظیر کی اور کسی قوم میں نہیں مل سکتی اور وہ مسیح جسے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا اُس کی وہ عزت ہوئی کہ خدا اپنے کی عرش سے اُس کی تعریف کرتا اور قرآن مجید میں نہایت اعزاز کے ساتھ اس کا ذکر کرتا ہے اور عیسائی کی اس کی محبت میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے جو عرش پر اس کے دائیں ہاتھ بیٹھا ہے.جو پھانسی پر لٹکانے والے تھے اُنہیں دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں تھا مگر جسے پھانسی پر لٹکا یات گیا تھا اسے عرش پر بٹھا دیا گیا.پس اُس وقت کے جو یہود اور حواریوں کے جذبات تھے آج اُن کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا اسی طرح جو آج یہود اور حضرت مسیح کے ماننے والوں کے جذبات ہیں ان کی کا پہلے لوگ بھی اندازہ نہیں کر سکتے تھے.کیا ان یہودیوں کے باپ دادے یہ اندازہ کر سکتے تھے کہ ہمارے اس فعل کے نتیجہ میں کتنے ہزار سال تک ہماری اولادوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی چلی ہے جائے گی ؟ اور کیا حضرت مسیح کے حواری یہ خیال کر سکتے تھے کہ ان کی اس قربانی کے نتیجہ میں باوجودی اس کے کہ ان کی اولادیں دین کی مخالف ہو جائیں گی ، باوجود اس کے کہ وہ دین میں ابتری پھیلانے والی بن جائیں گی پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی چلی جائیں گی ؟ پس ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی ایک نبی کی جماعت ہے اور اس سے بھی
خطبات محمود ۲۱۵ سال ۱۹۳۶ء اس وقت وہی معاملہ ہو رہا ہے جو پہلوں سے ہوا جس طرح پہلوں کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اندھیرے میں رکھا یہاں تک کہ ایک دن اندھیرا دور ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیا اسی کی طرح ضروری ہے کہ ہمیں بھی اندھیرے میں رکھا جائے یہاں تک کہ اس اندھیرے کو دور کر دینے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہو جائے.مصائب کا آنا ضروری ہے، ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے، تکالیف کا آنا ضروری ہے، سب چیزیں معمولی ہیں اور ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جاسکتی.جس چیز کی پرواہ ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ مصائب اور ابتلاء ایمانی نہ ہوں کیونکہ جہاں جسمانی مشکلات انسان کے درجہ کو بلند کرتی ہیں وہاں ایمانی مشکلات اس کے درجہ کو گرا دیتی ہیں.پس مؤمن کو ان مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے جو دنیا کی طرف سے آتی ہیں بلکہ اسے ان مشکلات کا فکر کرنا چاہئے جو اس کے نفس کی طرف سے آتی ہیں مگر بہت لوگ ہیں جو ان مشکلات کی طرف نگاہ نہیں دوڑاتے جو انسانی نفس سے پیدا ہوتی ہے ہیں مگر وہ ان مشکلات پر نظر رکھتے ہیں جو دوسروں کی طرف سے آتی ہیں حالانکہ وہ مشکلات جوانی دوسروں کی طرف سے آئیں کھاد کی طرح ہوتی ہیں اور وہ مشکلات جو انسانی نفس کی طرف سے آئیں ایسی ہوتی ہیں جیسے جڑ پر تب رکھ دیا جائے.پس چاہئے کہ ہر شخص جو روحانیت کی قدر کرتا ہے وہ ان مشکلات اور ظلموں کی طرف توجہ کرے جو نفس کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں وہ ظلم اصلی ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلم حقیقی خطرے کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ بالکل ممکن ہے ان کے نتیجہ میں ہمارا ایک بھائی عرش سے فرش پر پھینک دیا جائے مگر جو دنیا کی طرف سے مصیبتیں آتی ہیں وہ ایسی ہوتی ہی ہیں کہ انسان کو فرش سے عرش پر لے جاتی ہیں.پس بجائے اس کے کہ تم اپنی توجہ ان مشکلات کی طرف پھیرو جو بندے پیدا کر رہے ہیں میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ زیادہ تر اپنے قلوب کا مطالعہ کرے اور اپنے ایمانوں کو دیکھتی رہے.صلى الله رسول کریم علیہ فرماتے ہیں شیطان انسان کے خون کے ساتھ چلتا ہے اے.جس طرح کی خون میں پیداہ شدہ زہر کا انسان کو علم بھی نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی ہلاکت کا سامان مکمل ہو جاتا ہے ہے اسی طرح شیطان انسان پر قبضہ کر رہا ہوتا ہے مگر اسے پتہ بھی نہیں لگتا یہاں تک کہ ایک دن وہ ہلاک ہو جاتا ہے.دنیا میں بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو کئی کئی دن پہلے سے انسانی جسم پر اثر ڈالنا
خطبات محمود ۲۱۶ سال ۱۹۳۶ء شروع کر دیتی ہیں جیسے ہیضہ ہے، چیچک ہے، انفلوئنزا ہے، محرقہ ہے، طاعون ہے یہ مرضیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک دن کوئی تین دن ، کوئی سات دن اور کوئی پندرہ دن پہلے سے اثر ڈالنا شروع کر دیتی ہے مگر اس اثر کا علم نہیں ہوتا یہاں تک کہ خون کے ذریعہ وہ زہر تمام جسم میں سرایت کر جاتا ہے اور اُس وقت بیماری کا علم ہوتا ہے جب بیماری جسم پر اپنا قبضہ جمالیتی ہے اور انسان کی کیلئے اس سے بھاگنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا.شیطان بھی ان راہوں سے آتا ہے جن راہوں کا انسان کو علم نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تو اُس وقت ہوتا ہے بلکہ یوں کہو کہ اُس کے ساتھیوں کو علم ہوتا ہے جب شیطان اس پر پوری طرح قبضہ جمالیتا ہے.چونکہ دنیوی بیماریوں اور روحانی بیماریوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دُنیوی بیمار خود بھی محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بیمار ہوں لیکن روحانی بیماری یہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا ہوں اور مجھے بیمار کہنے والے غلطی خوردہ ہیں.گویا اُسے ایک قسم کا جنون ہوتا ہے ہے.جس طرح پاگل سمجھتا ہے کہ میں پاگل نہیں بلکہ دوسرے لوگ پاگل ہیں اسی طرح وہ سمجھتا ہے کہ میں بیمار نہیں بلکہ مجھے بیمار کہنے والے خود بیمار ہیں.تو یوں سمجھنا چاہئے کہ جب شیطان انسان پر ای قبضہ کر لے تو اس کے دوستوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بیمار ہے مگر خود اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ میں بالکل اچھا ہوں.پس ہماری جماعت کو اپنے نفس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ہر شخص جو تکبر کرتا ہے ہے اور اپنے آپ کو محفوظ اور مصون سمجھتا ہے وہ سمجھے کہ وہ موت کی طرف جا رہا ہے.مؤمن کبھی بھی خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کے خوف سے خالی نہیں ہوا.رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب رات کو اُٹھتے تو اتنے عجز اور انکسار سے دعائیں کرتے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں رحم آجاتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ معاف کر دیا ہے آپ کی نجات تو اعمال سے ہو گی آپ نے ی فرما ی عائشہ میری نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے سے.پس جب رسول کریم ﷺ کی یہ حالت تھی تو اور کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں خدا تعالیٰ کے ابتلاء اور اس کی آزمائشوں سے بچ گیا ہوں.بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جب رسول کریم ﷺ کو دعائیں کرتے دیکھتے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ایک ہنڈیا جوش سے اُبل رہی ہے.پس اپنے نفوس کی
خطبات محمود ۲۱۷ سال ۱۹۳۶ء اصلاح کی طرف توجہ کرو اور تقویٰ و طہارت پیدا کرو اور مت سمجھو کہ تم نیک کام کر رہے ہو کیونکہ ی نیک سے نیک کام میں بھی بے ایمانی پیدا ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ نہ معلوم کیا بات ہے کہ آجکل لوگ حج کر کے آتے ہیں تو ان کے قلوب میں آگے سے زیادہ رعونت اور بدی پیدا ہو چکی ہوتی ہے یہ نقص اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ حج کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور بجائے روحانی لحاظ سے کوئی فائدہ اُٹھانے کے محض حاجی بن جانے کی وجہ سے تکبر کرنے لگی جاتے ہیں.اس کے ساتھ ہی آپ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بُڑھیا سردی کے دنوں کی میں رات کے وقت اسٹیشن پر تنہا بیٹھی تھی کہ کسی نے اُس کی چادر اٹھالی جب اسے سردی لگی اور اُس نے چادر اوڑھنی چاہی تو اسے گم پایا.یہ دیکھ کر وہ آواز دے کر کہنے لگی ” بھائی حاجیا ! میری تے اکو چادرسی میں پالے مر جاواں گی.تو ایہہ تے مینوں واپس کر دے.یعنی بھائی حاجی! میری تو ایک ہی چادر تھی اس کی مجھے ضرورت ہے وہ مجھے واپس کر دے.یہ سن کر جس نے چادری اُٹھائی تھی شرمندہ ہوا اور اس نے اُس کی چادر اس کے پاس رکھ دی مگر ساتھ ہی اُس نے پوچھا تجھے یہ پتہ کس طرح لگا کہ چادر چرانے والا کوئی حاجی ہے؟ وہ کہنے لگی کہ اس زمانہ میں اس قدر سنگدلی حاجی ہی کرتے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں ، یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک ارادے رکھتے ہیں کتنا ہی نیک کام انسان کر رہا ہو اس میں سے بدی پیدا ہوسکتی ہے اور کتنا ہی نیک ارادہ انسان رکھتا ہو وہ اس کے ایمان کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ ایمان ہمارے اعمال کے کی نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں آتا ہے.پس تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رحم پر نگاہ رکھو اور تمہاری نظر ہمیشہ اُس کے ہاتھوں کی طرف اُٹھے کیونکہ وہ سوالی جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دروازہ سے اُٹھنے کے بعد میرے لئے اور کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر لیتا ہے.پس تمہاری نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف اُٹھنی چاہئے جب تک تم اپنی نگاہ اس کی کی طرف رکھو گے تم محفوظ رہو گے کیونکہ جس کی خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ اُٹھ رہی ہوا سے کوئی نقصان کی نہیں پہنچا سکتا مگر جونہی نظر کسی اور کی طرف پھیری جائے اور انسان اس کے دروازہ سے قدم اٹھالے پھر خواہ کتنے ہی نیک ارادے رکھے اور کتنے ہی اچھے کام کرے اس کا کہیں ٹھکانہ نہیں
خطبات محمود ۲۱۸ رہتا بلکہ وہ شیطان کی بغل میں ہی جا کر بیٹھتا ہے.ہے.سال ۱۹۳۶ء (الفضل ۱۸ را پریل ۱۹۳۶ء ) اے بخاری کتاب الادب باب التكبير والتسبيح (الخ) بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب لِيَغْفِرَ لَكَ الله مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنبِكَ (الخ) بخاری کتاب الادب باب القصد والمداومة على العمل
خطبات محمود ۲۱۹ ۱۳ سال ۱۹۳۶ مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کا فیصلہ اور جماعت احمدیہ ہم حضرت مسیح موعود کی ہتک کے ازالہ کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کیلئے تیار ہیں (فرموده ۱۷ را پریل ۱۹۳۶ء) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں پہلے تو جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ شاید پھر کوئی ابتلاء آنے والا ہے کیونکہ میں نے آج رؤیا دیکھا ہے کہ میں ایک گھر میں ہوں جو قادیان کا ہی ہے وہاں بہت سے احمدی مرد اور عورتیں جمع ہیں.عورتیں ایک طرف ہیں غالباً برقعہ وغیرہ پہن کر بیٹھی ہیں یا اوٹ ہے میں نے اس طرف دیکھا نہیں لیکن ایک طرف مرد ہیں اور ایک طرف عورتیں.چوہدری کی مظفرالدین صاحب جو کچھ عرصہ پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہیں اور اب بنگال میں مبلغ ہو کر گئے ی ہیں وہ اور ایک اور آدمی گھبرا کر کھڑے ہوئے جلدی جلدی بلند آواز سے میری توجہ کو ایک طرف پھیرا نا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھئے کیا ہے.وہ دیکھئے کیا ہے.وہاں ایک چوہیا دوڑی جا رہی ہے.لوگ اُسے مار رہے ہیں اور میری توجہ اس طرف ہے لیکن چوہدری صاحب اور ان کا ایک ساتھی مجھے دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور آواز میں دے رہے ہیں.ان کے توجہ دلانے پر میں نے اس طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ ایک جگہ دیوار شق ہے اور ایک چوہیا وہاں سر کے بل
خطبات محمود سال ۱۹۳۶.وه لٹکی ہوئی ہے اسے دکھا کر چوہدری مظفر الدین صاحب جلدی جلدی مجھ سے پوچھ رہے ہیں.حضور یہ طاعون سے مری ہے یا کسی اور طرح سے.حضور یہ طاعون سے مری ہے یا کسی اور طرح سے.اسے دیکھ کر میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ طاعون سے ہی مری ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری بڑی بیوی بھی ہیں ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ چلو گھر چلیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس گھر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے طاعون سے محفوظ رکھوں گا اس لئے کی موجودہ جگہ سے جہاں طاعون کے آثار پیدا ہو چکے ہیں ہمارا اس گھر میں جانا وحی الہی کی بے حرمتی کا موجب تو نہ ہوگا اور میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ کیوں نہ سات دن کسی کھلے میدان میں باہر رہ کر پھر گھر جائیں.میں اسی خیال میں تھا کہ آنکھ کھل گئی.اور چوہدری صاحب جب مجھے وہ مری ہوئی چوہیا دکھا رہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے چوہے مرے پڑے ہیں.چوہے سے مراد منافق بھی ہوتا ہے اور طاعون بھی.پس اس خواب کا اشارہ کسی ایسے فتنہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو گھبراہٹ کا موجب ہو یا منافقوں سے ہمارا مقابلہ آپڑے اور اللہ تعالیٰ ان کو چی ہلاک کر دے اور اس سے مراد طاعون بھی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے اس سال طاعون زیادہ زور سے پھوٹے یا آئندہ زمانہ میں پھر اس کا شدت سے ظہور ہو.اسی سال ایک دشمن نے اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے تو لکھا تھا کہ طاعون بند نہ ہو گی اب طاعون کہاں ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ بند نہ ہو گی وہاں بھی اس کے خاص معنی ہیں اور جہاں فرمایا ہے بند ہوگی وہاں بھی اس کے خاص معنی ہیں.دراصل اللہ تعالیٰ عذاب لانے کے پیش خیمہ کے طور پر ایسے اعتراضات کرایا کرتا ہے جیسے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَمَرُنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا اے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو انگیخت کی جاتی ہے کہ وہ اس کے عذاب کو بھڑ کا دیں.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دعائیں کریں کہ اگر کوئی ایسا فتنہ مقدر ہو تو اللہ تعالیٰ جماعت کو اس سے بچائے اور منافقوں کا وبال ان پر ہی پڑے اور اگر اس سے مراد طاعون ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس سے بھی ہمیں محفوظ رکھے اور جیسا نمایاں سلوک ہمارے ساتھ پہلے کرتا ہے رہا ہے ویسا ہی اب بھی کرے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اس کے بعد میں ایک نہایت ضروری امر کی طرف جماعت کو بالعموم اور نیشنل لیگ اور
خطبات محمود ۲۲۱ سال ۱۹۳۶ء حکومت کو بالخصوص توجہ دلاتا ہوں.مجھے افسوس ہے کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ایسے وقت میں غسل کیلئے گیا کہ جمعہ کیلئے آنے میں دیر ہوگئی اور یہ مضمون کسی قدر طوالت چاہتا ہے مگر چونکہ اس کا جلد سے جلد بیان کر دینا ضروری ہے اور گرمی کا موسم شروع ہو جانے کی وجہ سے نماز کا وقت بھی لمبا ہو گیا ہے اس لئے میں اسے بیان کر دیتا ہوں.یہ امر مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ ہے.ہمارے دوستوں کو معلوم ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف حکومت نے مقدمہ چلایا تھا اور ی پہلے مجسٹریٹ کی طرف سے ان کو کچھ سزا بھی دی گئی تھی.ان کی طرف سے سیشن کورٹ میں اپیل کی گئی اور وہاں ان کی سزا صرف نام کے طور پر رہ گئی اور سیشن جج نے ایسا فیصلہ کیا جس سے ہماری جماعت کے دل سخت مجروح ہوئے ، مجروح ہیں اور مجروح رہیں گے.اس کے خلاف ہماری طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی جس پر جماعت کا قریباً پندرہ ہزار روپیہ خرچ ہو گیا.ہائیکورٹ کے جج نے اپنے فیصلہ میں قریباً ان تمام شکایات کو جو ہم نے پیش کی تھیں درست تسلیم کیا ہے اور ان میں اصلاح کی لیکن بعض باتوں کے متعلق اس نے لکھا کہ چونکہ حکومت کی طرف سے سزا ی بڑھانے کی درخواست نہیں کی گئی اس لئے قانون مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں واقعات میں جاؤں اور میں مجبور ہوں کہ جس حد تک سختی یا سخت الفاظ کے استعمال کا سوال ہے یا ایسے امور کا سوال ہے جو عدالت کی کارروائی سے تعلق نہیں رکھتے صرف اسی حد تک اپنے فیصلہ کو محدود رکھوں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض واقعات جو ہماری انتہائی دل شکنی کا موجب ہیں بلکہ ہمارے مذہب پر حملہ ہیں وہ بغیر جواب کے رہ گئے اور جماعت ایسے حالات میں مبتلاء کر دی گئی کہ اس کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ عدالت سے باہر ان کا فیصلہ کرے یا کرائے.نیشنل لیگ.کام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ نیشنل لیگ کے بعض ممبر اس فیصلہ کے متعلق کی رائے زنی کر رہے ہیں ایک چھپا ہوا ٹریکٹ بھی مجھے ملا ہے اور اگر چہ اُسے پڑھنے کا موقع مجھے ی تا حال نہیں ملا لیکن جو اطلاعات مجھے ملی تھیں ان کی بناء پر نیز ٹائٹل کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں اس کی میں بھی یہی مضمون ہے.مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نیشنل لیگ کے صدر اس بارہ میں حکومت سے گفت وشنید کر رہے ہیں.نیشنل لیگ کے قیام کی اجازت دیتے ہوئے جب جماعت سے چاروں طرف سے یہ آواز آ رہی تھی کہ ایک ایسی مجلس قائم کرنے کی اجازت دی جائے جو ان سیاسی امور
خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۶ء میں حصہ لے سکے جن میں جماعت احمد یہ حصہ نہیں لے سکتی.اس وقت منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط میں نے یہ بھی رکھی تھی کہ سلسلہ کے وقار اور اس کی روایات کو کسی صورت میں بھی پس پشت نہ ڈالا جائے ، اسلامی تعلیم کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے اور حکومت وقت کا کوئی قانون نہ توڑا جائے.میں نے تین ضروری شرائط رکھے تھے اور بتایا تھا کہ ان کے ماتحت لیگ اپنی ذمہ داری پر کام کرے ہاں مناسب مشورہ مجھ سے لے سکتی ہے اور یا جب میں خود مناسب سمجھوں دخل دے سکتا ہوں.اب میں سمجھتا ہوں کہ ایسا موقع آیا ہے کہ مجھے خود دخل دینا چاہئے اور چونکہ اس کا تعلق لیگ کے ہزاروں ممبروں کے ساتھ بلکہ تمام جماعت کے ساتھ اور ایک حصہ کا تعلق حکومت کے کی ساتھ بھی ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں یہ امر بیان کر دوں تا سب کو علم ہو جائے.میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جبکہ نیشنل لیگ کے صدر حکومت سے گفت و شنید کر رہے تھے تو ممبروں کو رائے زنی نہ کرنی چاہئے تھی.میرے نزدیک انسان کو ہمیشہ ایک خاص پالیسی کو مد نظر رکھ کر کام کرنا چاہئے.میں مانتا ہوں کہ جو رائے زنی کی جارہی ہے وہ آئینی طریق کے اندر ہے مگر آئینی طریق بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.بعض ایسے کہ ایک وقت میں دونوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور پھر بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو آگے پیچھے کرنا پڑتا ہے.اور جب ایک طرف اپنی براءت کی خواہش حکومت سے کی جارہی ہو تو دوسری طرف ایسے طریق اختیار کرنا جس سے اپنے طور براءت کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہو کچھ ایسا درست نہیں معلوم ہوتا.جب حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ سلسلہ کے نقصان کی تلافی کرے تو چاہئے تھا کہ پہلے اس سے جواب لے لیا جاتا اور پھر اگر ضرورت باقی رہتی تو خود کوئی قدم اٹھایا جاتا.دونوں کو ایک وقت میں جمع کر دینا میرے نزدیک مناسب نہیں تھا اور میری ذاتی رائے ہے کہ اس بارہ میں ممبروں نے غلطی کی ہے اور اگر لیگ نے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے تو اس نے بھی عقلا غلطی کی ہے.یا تو اسے حکومت کو مخاطب ہی نہ کرنا چاہئے تھا اور جب مخاطب کیا گیا تو پہلے اس سے فیصلہ کرانا چاہئے تھا اور یا پھر یہ کہ دینا ہے چاہئے کہ آپ تو فیصلہ کرتے نہیں اور خواہ مخواہ دیر لگاتے چلے جاتے ہیں اس لئے ہم اب خودسلسلہ کی عزت کو بچانے کی کوشش پر مجبور ہیں.میرے نزدیک ان تینوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک کا اختیار کرنا ضروری تھا.یا تو حکومت کو مخاطب ہی نہ کیا جاتا یا اسے مخاطب کیا جاتا اور اس سے فیصلہ
خطبات محمود ۲۲۳ سال ۱۹۳۶ کرایا جاتا.اور اگر وہ ایسا رویہ اختیار کرتی جس کے نتیجہ میں وقت ضائع ہوتا ہو تو اس سے کہہ دیا ت جا تا کہ آپ چونکہ دیر کرتے جاتے ہیں اس لئے ہم خود اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں آپ کی اب کچھ کریں یا نہ کریں.میری یہ بھی رائے ہے کہ نیشنل لیگ نے حکومت سے گفت و شنید کرنے میں بلا وجہ سستی سے کام لیا ہے.مجھے سخت افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے ذمہ دار لوگ اس ذمہ داری کو پوری طرح کی نہیں سمجھتے جو ان پر ہے.غالباً نو ماہ یا شاید سال کا عرصہ ہی ہو چکا ہے کہ میں نے صدرانجمن احمد یہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ حکومت سے تصفیہ کرے کہ کیا وہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعہ موجودہ شورش کے کی ایام کے واقعات میں ہماری، بعض افسروں کی اور احرار کی ذمہ داری کا فیصلہ کرنے کی طرف مائل کی ہے یا نہیں اور اگر وہ مائل نہ ہو تو پھر ایسے طریق اختیار کئے جائیں جو قانونی اور شرعی حدود کے اندر ہوں اور جن سے سلسلہ کے وقار کو قائم کیا جاسکے.لیکن ابھی وہ مرحلہ گورنمنٹ آف انڈیا تک پہنچا کچھ ہے حالانکہ اس حد تک زیادہ سے زیادہ چار مہینہ میں پہنچ جانا چاہئے تھا.پہلے تو کئی ہفتے چھوٹے چھوٹے ڈرافٹ کرنے میں لگ گئے ، پھر کئی ماہ جواب کا انتظار کیا جاتا رہا حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ دو کی.ہفتہ کے بعد ریمائنڈر دے دیا جاتا اور پھر دو ہفتہ کے بعد بھی اگر جواب نہ ملتا تو سمجھ لیا جاتا کہ جواب نہیں آئے گا اور دوسرا قدم اٹھایا جاتا.اب مرحلہ وزیر ہند کا ہے اور اس میں بھی بلا وجہ دیری ہورہی ہے.یہ ایک سچائی ہے جسے زمیندار بھی جانتے ہیں کہ لوہا گرم ہی کو ٹا جا سکتا ہے.جس کی صلاح لو ہا کوٹنے کی ہو اور وہ اُس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرے اسے کوئی عظمند نہیں کہہ سکتا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی شکوہ پر لمبا عرصہ گزر جائے تو بالا افسر خیال کر لیتے ہیں کہ لوگوں کا غصہ دور ہو چکا ہے اب اس معاملہ میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.گویا ہمارے صدرانجمن کے کارکنوں کی نے بالا افسروں کو یہ کہنے کا موقع دے دیا ہے کہ اب گڑے مردے کیوں اکھاڑیں.جس وقت کوئی کسی کا گلا دبا رہا ہو اور ابھی دم باقی ہو تو ہر ایک اس کی مدد کو پہنچتا ہے کہ شاید بچ جائے مگر جب وہ مر چکا ہو تو لوگوں کو جلدی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.پس جس ذہنی حالت میں حکومت کے بالا افسر دخل دیا کرتے ہیں اسے خود ہمارے کارکنوں نے اپنی سستی سے دور کر دیا ہے اگر صدرانجمن ایسے وقت میں وائسرائے تک پہنچتی جبکہ واقعات ابھی تازہ ہی تھے تو دس فیصدی امکان
خطبات محمود ۲۲۴ سال ۱۹۳۶ء ضرور تھا کہ وہ دخل دے دیتے لیکن وہ ایسے وقت میں ان کے پاس پہنچے جبکہ حکام بالا درست سمجھتے ہیں کہ لوہا ٹھنڈا ہو چکا ہے اور جب معاملہ وزیر ہند تک پہنچے گا تو ان کیلئے بھی یہ کہنے کا موقعہ ہوگا کہ میں تو غیر معمولی حالات میں دخل دیا کرتا ہوں اب ان باتوں پر بہت عرصہ گزر چکا ہے اور میرے لئے دخل دینے کی کوئی وجہ نہیں.نیشنل لیگ نے بھی اسی قسم کی سستی سے کام لیا ہے غالباً نومبر میں ہائی کورٹ میں فیصلہ ہوا تھا اسے زیادہ سے زیادہ دسمبر تک حکومت سے گفت و شنید ختم کر لینی چاہئے تھے اور پھر جنوری میں اپنی کاروائی شروع کر دینی چاہئے تھے.لیگ کی اسی ستی کا نتیجہ ہے کہ ایک افسر نے کہہ دیا کہ جب اتنی دیر تم لوگ خاموش رہے تو اب کیا ضرورت اس سوال کو اٹھانے کی ہے.گو یہ جواب غلط ہے اور دلائل سے اس کی غلطی کو ثابت کیا جاسکتا ہے مگر فطرتِ انسانی کی اس کمزوری کو کیا کیا جائے کہ وہ ایسے موقع پر بہانے ڈھونڈتی ہے.کوئی شخص جب مشکل میں پھنس جاتا ہے اور وہ مذہبی آدمی نہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل سے پیچھا چھڑائے اور حکومت کے افسروں کا قول اور فعل ایسا ہی ہے لیکن یہ کہنے کا موقعہ ان کو میرے نزدیک لیگ نے ہی دیا ہے.میرے نزدیک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے پندرہ روز کے اندر اندر حکومت کو مخاطب کر لینا چاہئے تھا اور اگر کی پہلی چٹھی کا جواب نہ آتا تو اتنے ہی عرصہ کے بعد دوسری لکھی جاتی.یہ تو بے شک نہیں لکھنا چاہئے تھا کہ فلاں تاریخ تک ایسا کرو ورنہ ہم اس اس طرح کریں گے کیونکہ یہ ایک قسم کا چیلنج ہے اور حکومت کو چیلنج دینا عقل اور ادب کے خلاف ہے وہ اسے دھمکی سمجھتی ہے اور جس کے ہاتھ میں سونٹا ہو وہ دھمکی سے جلدی غصہ میں آجایا کرتا ہے اور جلدی ہتک محسوس کرنے لگ جاتا ہے.دنیا میں بہت جلد اپنی ہتک دو قسم کے لوگ محسوس کرنے لگتے ہیں یا تو طاقت ور جو سمجھتے ہی ہیں ہم اپنا اعزاز کرا سکتے ہیں اور یا پھر بہت کمزور.پس حکومت کو یہ تو نہیں کہنا چاہئے تھا کہ فلاں تاریخ تک فیصلہ کر دو کیونکہ اس سے وہ غصہ میں آکر کہہ دیتی کہ اچھا جاؤ جو کرنا ہو کر لو لیکن یہی بات لکھنے کا ایک اور طریق ضرور ہے اور جب مطالبہ معقول ہو تو بغیر دھمکی کے بھی یہ بات لکھی جاسکتی ہے.اس موقع پر ہماری پوزیشن یہ تھی کہ احراری اس فیصلہ کو شائع کر رہے تھے جس کے بعض حصوں کے متعلق ہائی کورٹ نے سخت ریمارکس دیئے ہیں بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ ایسے فیصلوں سے
خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۶ء جس منافرت کو دور کرنا مقصود ہوتا ہے وہ اور بھی بڑھ جاتی ہے اور کہ اس میں بعض باتیں واقعہ میں احمدیوں کو تکلیف دینے والی ہیں اور عدالتی دماغ کے ماتحت نہیں لکھی گئیں.اب اس فیصلہ کے ما تحت حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی اشاعت سے جماعت احمدیہ کو نا جائز طور پر دکھ پہنچ رہا ہے اور بلا وجہ نقصان پہنچایا جارہا ہے ایسا دکھ اور ایسا نقصان جس کا جائز طور پر پہنچانا کسی کا حق نہیں اور ہماری پوزیشن ہائی کورٹ کے فیصلہ سے واضح تھی کہ اب لیگ والے اسے حکومت کے پیش کر کے کہہ سکتے تھے کہ پندرہ یا بیس روز ہوئے ہم آپ کو توجہ دلا چکے ہیں ہائیکورٹ کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے ہم قانون شکنی نہیں کرنا چاہتے ہمارا دشمن قانون شکنی کر رہا ہے اور اس فیصلہ کو شائع کر رہا ہے جو ہائی کورٹ سے رڈ کیا جا چکا ہے اور آپ تاخیر کر کے ہم پر اس کے حملہ میں اس کی مدد کر رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ روک کر ہمارے دکھ کو بڑھا رہے ہیں آپ کی طرف سے ی جتنی دیر ہوگی اتنا ہی آئین کی خلاف ورزی کرنے والے لوگ آئین کے پابند لوگوں کو بلا وجہ تکلیف پہنچاتے چلے جائیں گے اس لئے آپ جلد از جلد اس کا فیصلہ کریں ورنہ ۱۵ یا ۲۰ روز کے بعد ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ اس بارہ میں کچھ نہیں کرنا چاہتے اور پھر خود اپنی حفاظت کیلئے کوئی مناسب قدم قانون کی حدود کے اندر اٹھائیں گے.اس میں شبہ نہیں کہ بعض دفعہ صدر نیشنل لیگ نے ان معاملات میں مجھ سے مشورہ مانگا ہے مگر میں اس بارہ میں مشورہ دینے سے گریز کرتا رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خود اس کو غور کرنے اور سوچنے سمجھنے کا موقعہ ملے.چنانچہ ایک دفعہ میں نے انہیں ایک انگریزی کی ضرب المثل بھی سنائی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض بڑی عمر کے آدمی بھی چاہتے ہیں کہ انہیں بچوں کی طرح چیچوں سے غذا دی جائے.کام کی قابلیت نفس پر بوجھ ڈالنے سے ہی پیدا ہوتی ہے اس لئے میں نے مشورہ دینا مناسب نہ سمجھا لیکن اب کہ کارروائی کی شروع ہو چکی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنا مشورہ بیان کر دوں.پس میری رائے یہ ہے کہ اگر اس قسم کی چٹھی کے بعد بھی جس کا میں نے ذکر کیا ہے حکومت توجہ نہ کرتی تو پھر لیگ مجاز تھی کہ وہ جو چاہتی کرتی اور اس کا ٹھیک وقت جنوری میں تھا اور اب اپریل میں اسے شروع کرنے کے معنے ی یہ ہیں گویا تین ماہ کا قیمتی وقت ضائع کر دیا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کا رروائی شروع کی ہی بے موقعہ کی گئی ہے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اب تک بھی تو حکومت نے کوئی جواب نہیں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء دیا اور لیگ والوں نے یہ بھی نہیں کیا کہ قطعی طور پر حکومت سے کہ دیا ہو کہ ہم اب خود جواب دینے لگے ہیں.ان حالات میں عقلاً یہ بات اچھی نہیں معلوم دیتی اور جو بات عقلاً بھلی معلوم نہ دے وہ طبائع پر اچھا اثر نہیں ڈالتی مثلاً اگر کوئی شخص کسی عدالت میں مقدمہ دائر کر کے اس کے فیصلہ سے قبل ہی اپیل دائر کر دے تو اسے کوئی بھی معقول نہیں کہے گا اس لئے میرے نزدیک یہی مناسب ہے کہ اب بھی حکومت پر زور دے کر اس سے جواب لیا جائے یا اسے کہہ دیا جائے کہ چونکہ حکومت بلا وجہ دیر کر رہی ہے ہم اس کے فیصلہ کا اب انتظار نہیں کر سکتے اور اس وقت تک اپنے طور پر کوئی طریق اختیار نہ کیا جائے.اس کے بعد میں وہ سوال لیتا ہوں جو حکومت اور پبلک کے دل میں بھی پیدا ہورہا ہے اور ی جو میرے نزدیک واقعی ایسا ہے کہ اس کا جواب دیا جائے اور وہ سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی کیا اس کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ حکومت کوئی مزید کارروائی کرے جبکہ ہمارے لئے یہ راستہ کھلا ہے کہ اس فیصلہ کو شائع کریں تو حکومت کی طرف سے کسی کارروائی کی کیا ضرورت ہے.یہ سوال بظاہر نظر معقول ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ کی موجودگی میں بھی ہم مسٹر کھوسلہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہیں تو اس کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے اور ہمیں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے کہ اس کے بعد ہمارے لئے کیا مشکل باقی رہ جاتی ہے.اس کی سوال کا جواب میں آج کے خطبہ میں دینا چاہتا ہوں.اس میں شبہ نہیں کہ مزید کاروائی کی ضرورت ہے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے شکوہ ، ہمارے دکھ اور ہمارے نقصان کو دور کرنے کیلئے کافی نہیں اور اس کی دو وجوہ ہیں.ایک تو یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی پہلا فیصلہ برابر شائع کیا جا رہا ہے اور حکومت اسے نہیں روکتی.جن لوگوں تک وہ فیصلہ پہنچتا ہے قدرتی طور پر ان کے دلوں میں کچھ خیالات پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کے ذریعہ اور لوگوں میں بھی پھیلتے ہیں پھر ہر شخص جس تک یہ فیصلہ پہنچتا ہے ضروری نہیں کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی اُسے مل سکے.اب حکومت بتائے کہ اس حالت کا علاج ہمارے پاس کیا ہے.اگر حکومت اُسے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے معا بعد ضبط کر لیتی تو ہم کہتے کہ آئندہ نقصان کا تو انسداد ہو گیا اور گزشتہ پر اس حصہ کے متعلق ہم صبر
خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۶ء کر لیتے.مگر جب وہ فیصلہ برابر شائع ہورہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو غلط رنگ میں احرارا اخباروں میں شائع کرتے ہیں اور حکومت اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتی.ہائیکورٹ کے جج نے لکھا ہے کہ میں واقعات میں نہیں جاسکتا کیونکہ حکومت نے سزا بڑھانے کی درخواست نہیں کی اور میں نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ عدالت نے اپنے رستہ سے ہٹ کر اور بے تعلق باتیں فیصلہ میں لکھ کر جماعت احمدیہ کی دل شکنی تو نہیں کی اور اسی اصل کے مطابق اس نے لکھا ہے کہ مجھے ہے اس سے بحث نہیں.یعنی میں قانوناً اس بحث میں نہیں پڑسکتا کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے یا تھی نہیں مگر یہ بات ضرور ہے کہ عدالت کو ایسے الفاظ لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.مجھے چونکہ قانون کی اجازت نہیں دیتا کہ واقعات کی بحث میں پڑوں اس لئے میں اس بات کی صحت یا عدم صحت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن احراری اخبار لکھتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے جج نے تسلیم کر لیا ہے کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے.ہاں یہ لکھا ہے کہ اُسے ضرورت نہیں کہ وہ اس بحث میں پڑے.ایک ہیڈ نگ یہی تھا کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے.اور بھی کئی مواقع پر اسے غلط رنگ میں پیش کیا گیا گویا پہلے ضرر کو اور بھی خطرناک کر دیا گیا ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت کا وہ محکمہ جو چوہدری سرظفر اللہ خان صاحب کے خلاف ہر اخبار کا ہر اقتباس حکومت تک پہنچا تا تھا وہ اس موقع پر کیوں سوتا رہا اور یہ اقتباس اس نے حکومت تک کیوں نہ پہنچائے اور اگر پہنچا دیئے تو حکومت کیوں خاموش رہی.کیا اُسے نظر نہ آتا تھا کہ جس چیز کا ازالہ ہائی کورٹ نے کرنا چاہا تھا اُسے اور پختہ کیا جا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ ان حالات کی موجودگی میں اگر جماعت احمد یہ اپنی زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت سمجھے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی.دوسری بات یہ ہے کہ جج نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے سزا کی زیادتی کی درخواست نہیں کی اس لئے میں واقعات میں نہیں پڑسکتا.ہوسکتا ہے ہے کہ ایک حج واقعات سے غلط نتائج اخذ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صحیح نتائج اخذ کرے اور ان کی کی صحت ، عدم صحت کے سوال کو ہائی کورٹ اسی وقت زیر بحث لاسکتا ہے جب زیادتی سزا کی درخواست ہو.ورنہ قانوناً اس پر بحث نہیں ہو سکتی اور یہ درخواست پبلک کی طرف سے نہیں ہوا کرتی.یا تو فریقین میں سے کسی فریق کی طرف سے ہو سکتی ہے اور یا پھر حکومت کی طرف سے اور اس مقدمہ میں تو دوسرا فریق ہی حکومت تھی اس لئے ہماری طرف سے تو یہ درخواست کسی صورت
خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۶ء میں بھی نہ ہو سکتی تھی.واقعات پر بحث کرانا یا تو حکومت کے ہاتھ میں تھا یا مولوی عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ میں.ظاہر ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو ایسی درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی اس لئے ایسا سوال اُٹھانے والی صرف حکومت ہی رہ جاتی تھی اور اس نے اٹھایا نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ حج نے لکھ دیا کہ واقعات کی صحت یا عدم صحت کے سوال میں میں نہیں جاسکتا اور اس وجہ سے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کا ایک حصہ ایسا رہ گیا جو واقعات کے صحیح یا غلط ہونے سے تعلق رکھتا ہے اور اس حصہ میں سلسلہ احمدیہ اور اس کے مقدس بانی علیہ السلام پر حملے ہیں.اب میں حکومت سے پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے بتا دے کہ ان کا رڈ جماعت کس طرح کرے اگر اس کے رڈ کی کوئی صورت ہمارے اختیار میں تھی تو حکومت ہمیں وہ قانون بتادے جس سے ہم ایسا کر سکتے تھے.پھر وہ کہہ سکتی ہے کہ تمہارے لئے قانون نے یہ راستہ کھولا ہوا تھا مگر تم نے اس سے فائدہ کی نہیں اُٹھایا تو ہم کیا کر سکتے ہیں.اس پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں گے لیکن جب صرف حکومت ہی اس سوال کو اٹھا سکتی تھی اور اس نے نہیں اٹھایا تو ذمہ داری یقیناً اس پر ہے اب وہ ہمیں بتائے کہ جو مشکل اس کی نے ہمارے لئے پیدا کر دی ہے اس کا علاج ہمارے پاس کیا ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک بالا افسر نے ایک احمدی سے کہا کہ ناظر امور عامہ نے حکومت کے لیگل ریممبرر (Legal Rememberer سے کہا تھا کہ ہم سزا کی زیادتی نہیں چاہتے اس لئے ایسی درخواست نہ دیئے جانے کی ذمہ داری جماعت پر ہے.میں یہ تو نہیں جانتا کہ ناظر امور عامہ نے ایسا کہا تھا یا نہیں اس کے متعلق میں نے کی اب تک ان سے دریافت نہیں کیا لیکن اگر یہ کہا بھی تھا تو بھی میں سمجھتا ہوں حکومت کا جواب درست نہیں.سزا کی زیادتی نہ چاہنا اور سزا کی زیادتی کی درخواست دینے کی ضرورت نہ سمجھنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اگر ناظر صاحب امور عامہ نے یہ کہا بھی ہو کہ ہم سزا کی زیادتی نہیں چاہتے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مطلب تھا کہ فیصلہ میں بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان کو بھی ہم دور کرانا نہیں چاہتے اور اس کی بارہ میں آپ کی ہتک کے ازالہ کی خواہش نہیں رکھتے.کوئی عقلمند یہ باور نہیں کرسکتا کہ خانصاحب نے ایسی بات کہی ہو بلکہ کسی احمدی بچہ نے بھی یہ بات کہی ہو ہم تو اس ہتک کو دور کرانے کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور یہ خیال کرنا کہ ناظر صاحب امور عام
خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۶ ہو گا کہ سزا میں زیادتی نہ ہو بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام کی ہتک اگر ہوتی ہے تو بیشک ہو بالکل خلاف عقل بات ہے.اگر ہم نے شرافت کی وجہ سے یہ کہا کہ ہم سزا میں زیادتی نہیں چاہتے تو کیا اس شرافت کا نقصان ہمیں پہنچنا چاہئے تھا.اگر ہم حکومت کو مشکلات سے بچانے کے لئے قربانی کرنے کو تیار تھے تو کیا اس کا یہی فرض تھا کہ ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیتی اور ہمیں پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیتی.اور ان باتوں کا باقی رہنا تو ہمارے لئے پھانسی سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نے کہا تھا کہ سزا میں اضافہ نہ ہو تو جماعت احمدیہ حکومت سے لڑتی نہیں رہے گی تو اس کا یہ مطلب کس طرح ہو گیا کہ ہم پر جو اعتراض کئے گئے ہیں ہم انہیں بھی دور کرانا نہیں چاہتے.حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ درخواست دیتی کہ سزا بڑھائی جائے اور سرکاری وکیل کہہ دیتا کہ یہ درخواست رسمی طور پر اس لئے دی گئی ہے کہ واقعات پر بحث کی جائے ورنہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ سزا میں کوئی حقیقی اضافہ ہو یہ باتیں روز ہائی کورٹ میں ہوتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اس طرح نگرانی کرنے میں ہائی کورٹ ضرور سزا میں اضافہ کر دے ایسے موقعہ پر حج مدعی کی خواہش کے مطابق واقعات کا فیصلہ کر دیتا اور سز انہیں بڑھاتا.کیا حکومت کو اس بات کا علم نہیں تھا جس نے یہ قانون بنائے ہیں.پس اگر خانصاحب نے وہ بات کہی ہے تو یہ بتانے کیلئے جماعت احمدیہ حکومت کو کسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتی اور مولوی عطاء اللہ صاحب سے بھی اسے کوئی بغض نہیں.یہ ہماری شرافت تھی جسے پھانسی کا دی پھندا بنا کر حکومت ہمارے گلے میں ڈالنا چاہتی ہے اور ہماری نیکیوں کا خمیازہ بھگتنے پر ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے حکومت کا فرض ہے کہ ہماری مشکلات کو سمجھے اس کے بغیر وہ کسی صحیح نتیجہ پرنہیں پہنچ سکتی.جماعت احمد یہ ہمیشہ امن پسند رہی ہے اور اب بھی اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر حال میں امن پسند رہے گی جس رنگ میں جماعت کے مقدس بانی علیہ الصلوۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں پر حملے کئے جاتے ہیں جیسی گندی گالیاں دی جاتی ہیں کیا بالکل ویسی ہی باتوں پر دوسری قوموں نے خون نہیں کئے.ہم بزدل نہیں مگر خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ روکے ہوئے ہیں اگر دس ہیں احمدی دس ہیں احراریوں کو مار دیتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ حکومت فوراً توجہ نہ کرتی مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امن پسندی کی تعلیم کو زندہ رکھا اور میں بار بار خطبات میں جماعت کو توجہ دلاتا رہا کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آنا اور امن پسندی کا سبق بھول نہ جانا.حالانکہ یہ میرا فرض
خطبات محمود ۲۳۰ سال ۱۹۳۶ء تو نہ تھا.حکومت کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا چاہئے تھا.ہم بھی سب کچھ کر سکتے تھے مگر نہیں کیا.قادیان میں ہمیں گالیاں دی گئیں بلکہ مارا بھی گیا، میرے بھائی پر ایک فقیر کے لڑکے نے حملہ کیا اور احرار نے کرایا ، بمبئی میں ایک احمدی بچے کی لاش کو دفن کرنے سے روک دیا گیا، بریلی میں اپنی خرید کردہ زمین پر نئی بنی ہوئی مسجد کو گرانے کی کوشش کی گئی ، احرار سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں کی نے مسجد کے پاس ایک مکان کرایہ پر اس نیت سے لیا کہ اس کی چھت پر سے مسجد کی چھت پر جایا تی جاسکے اور اسے نقصان پہنچایا جا سکے اور صاف لفظوں میں احمد یہ مسجد کے گرانے کا فتویٰ بھی کی شائع کیا گیا جو ہمارے پاس موجود ہے.ابھی بھیرہ میں ایک احمدی کو مار مار کر اس کی کھوپڑی کی تو ڑ دی گئی پہلے تو ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس تھے مگر اب اطلاع آئی ہے کہ زندگی کی کچھ امید ہوگئی ہے اور اس حملہ کی کوئی دنیوی وجہ نہیں تھی بلکہ محض مذہبی اختلاف اس کا موجب تھا.پھر چوہدری اسد اللہ خان صاحب پر ریل میں حملہ کیا گیا اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا.سرہانہ دوسری طرف تھا اور خنجر لاتوں کے درمیان پھنس گیا اور نہ اگر سر اس کی طرف ہوتا تو خنجر سینہ میں اُتر جاتا.اس تمام اشتعال انگیزی کے باوجود کیا حکومت سمجھتی ہے کہ ہمارے سینوں میں دلوں کی بجائے پتھر ہیں ہمارے سینوں میں بھی ویسے ہی دل ہیں جیسے ہمارے دشمنوں کے سینوں میں مگر فرق صرف یہ ہے کہ ان کے دلوں میں حکومت کا خوف ہے اور ہمارے دلوں میں خدا کا.اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کو اس کماری سے لے کر ہمالیہ تک خون سے بھر سکتے تھے لیکن ہم نے نہ صرف یہ کہ اسے نا پسند کیا بلکہ اپنی جماعت کو یہ سبق یاد کراتے رہے کہ ایسے افعال ناجائز ہیں ہمارے اس نیک کام کے عوض میں حکومت نے ہمارے ساتھ کیا نیک سلوک کیا یہی کہ چونکہ انہوں نے ہمارے رستہ میں روکیں پیدا نہیں کیں اس لئے ان کے دل دکھنے دو.مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ہاتھ تو خدا نے باندھ رکھے ہیں لیکن کاش وہ کل کے مؤرخوں کے ہاتھ اور قلم سے نکلنے والے الفاظ کو دیکھ سکتی.حکومتیں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں کیا کوئی حکومت ہے جو ہمیشہ قائم رہی ہو؟ کیا روم کی حکومت اپنے عروج کے زمانہ میں یہ خیال کر سکتی تھی کہ وہ کبھی تباہ ہو جائے گی ، قسطنطنیہ کی حکومت یہ سمجھ سکتی تھی کہ کوئی وقت آئے گا جب وہ مٹ جائے گی ، کیا ایران کا کیانی خاندان کبھی یہ وہم کر سکتا تھا کہ ایک زمانہ میں ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوگا ، مصر کے فراعنہ کبھی اس کا تصور
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کر سکتے تھے کہ ان کی جگہ دوسری حکومتیں آجائیں گی ، اہل مصر تو شاید انگلستان کا نام بھی نہ جانتے ہوں جس نے خدیو ں کے ذریعہ وہاں حکومت کرنی تھی.وہ فرانس کے نام سے بھی نا آشنا تھے.لیکن نپولین نے ان کا تمام ملک تہ و بالا کر دیا.پھر کیا انگریز خیال کر سکتے ہیں کہ ان کی حکومت کی ہمیشہ رہے گی.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کل تک بھی قائم رہے یا سال تک رہے گی یا ایک صدی تک ، بہر حال کوئی حکومت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی ہے.اس کے انصاف کا نام قائم رہ جاتا ہے.رومی حکومت مٹ گئی مگر اس کا ایک ظلم اور ایک انصاف آج تک قائم ہے.رومی حکومت کا یہ ظلم ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو بے گناہ صلیب پر لٹکا دیا اور پیلاطوس کا یہ انصاف بھی ہمیشہ یادر ہے گا کہ باوجود یکہ اسے دھمکی دی گئی کہ بادشاہ کے حضور اس کی رپورٹ کی جائے گی.اس نے پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے اور کہہ دیا کہ میں مسیح کو بالکل بے گناہ سمجھتا ہوں.پیلاطوس کا یہ انصاف اور حکومت روم کا یہ ظلم دونوں باتیں نہیں مٹیں مگر حکومت روم مٹ چکی ہے.موجودہ انگریزی افسر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے ، ان کی نسلیں بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی ، حکومت بھی ہمیشہ نہیں رہے گی مگر ان کے افعال باقی رہ جائیں گے.آج اگر وہ انصاف کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ انگریزی حکومت بڑی اچھی تھی اس نے اقلیت سے انصاف کیا اور اکثریت کی پرواہ نہ کی لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو آئندہ مؤرخ یہی لکھیں گے کہ وہ انصاف کے دعوے تو بہت کرتی تھی مگر جب وقت آیا تو افسوس کہ وہ فیل ہو گئی.کچھ مظلوم لوگ تھے جو انصاف کا مطالبہ کرتے تھے مگر حکومت نے انہیں انصاف نہ دیا.وہ دیکھتی رہی اور ان کے دلوں پر خنجر مارے گئے ، وہ دیکھتی رہی اور ان کے سروں پر آرے چلائے گئے اور حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا اور صرف اس وجہ سے خاموش رہی کہ اکثریت رکھنے والے لوگ ناراض نہ ہو جائیں.صرف یہ چیزیں باقی رہی جائیں گی اور اس بات سے خود انگریز حکام ان کے وزراء اور پارلیمنٹ کے ممبر بھی انکار نہیں کر سکتے کہ انگریزی حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی.پس ہم بے شک امن پسند ہیں قانون کا احترام کرتے ہے ہیں ، عدالتوں اور جوں کی عزت قائم کرنے کے ہمیشہ قائل رہے ہیں.میرے خطبات دیکھ لئے جائیں میں ہمیشہ یہی نصیحت کرتا رہا ہوں اور اب بھی ہمارا یہی مسلک ہے لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی ہماری پوری طرح تسلی نہیں کرتا.اگر ہائیکورٹ میں واقعات زیر بحث ره
خطبات محمود ۲۳۲ سال ۱۹۳۶ آ جاتے تو خواہ کچھ فیصلہ ہوتا ہم خاموش ہو جاتے اور خیال کر لیتے ہیں کہ آخری عدالت تک پہنچ گئے ہیں.اس صورت میں حالات کو ماننے کیلئے تیار تھے کہ آخر کہیں پہنچ کر تو خاموش ہونا ہی تھا.اور اب بھی جس حصہ کا فیصلہ ہائی کورٹ نے کیا ہے ہم عملاً اس کی عزت کر رہے ہیں حالانکہ اس کی سے بھی ہماری تسلی نہیں ہوئی لیکن جس حصہ کے زیر بحث لانے میں حکومت روک بن گئی ہے اس کی کے متعلق ہماری شکایت کے ازالہ کی کیا صورت ہے.پس گو ہم امن پسند ہیں قانون و عدالت کا کی احترام ضروری سمجھتے ہیں مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے.جس قربانی کا کسی سے مطالبہ کیا جاتا ہے اس کی ایک حد ہونی چاہئے.جس شخص کا ایک پیسہ ضائع ہو رہا ہو وہ ہم سے امید کر سکتا ہے کہ ہم اپنا ای دھیلا ضائع کر کے اس کا پیسہ بچالیں اور یہ خیال کرلیں کہ وہ غریب آدمی ہے اس کا پیسہ ضائع نہ ہو بلکہ وہ امید کر سکتا ہے کہ ہم اپنا پیسہ ضائع کر کے بھی اس کا پیسہ بچا لیں گے.حتی کہ دو پیسہ، آنہ دو آ نه بلکہ روپیہ تک ضائع کر کے اس کا پیسہ بچا لیں کیونکہ اس غریب کا پیسہ بہت قیمتی ہے.مگر وہ اگر یہ مطالبہ کرے کہ فلاں شخص کے پاس دس کروڑ کی جائداد ہے وہ اسے برباد کر کے میرا پیسہ بچالے تو یہ دانشمندانہ مطالبہ نہیں کہلائے گا.پس ہم گو قربانی کے قائل ہیں.حکومت ،عدالت اور قانون کے ادب اور احترام کے قائل ہیں مگر ہر عقلمند یہ تسلیم کرے گا کہ قربانی نسبتی ہوتی ہے.قربانی کے وقت ہمیشہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کون سی چیز بڑی ہے جس کیلئے قربانی کی ضرورت ہے یا خود وہ چیز جس کی ای قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.حکومت ہم سے فرمانبرداری کا مطالبہ کرتی ہے اور ہم اس مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی خاطر دوسروں سے ہمیشہ لڑتے رہے ، گالیاں سنتے اور ماریں کھاتے رہے، حکومت کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمارے خلاف فتوے دیئے گئے مگر ہم پھر بھی یہی کہتے رہے ہیں اور اب بھی ہمارا یہی مسلک ہے کہ حکومتِ وقت کی فرمانبرداری کرنی چاہئے.مگر جہاں حکومت کی ہزاروں باتوں میں ہم سے فرمانبرداری کی توقع رکھتی ہے وہاں کیا وہ یہ امید بھی کر سکتی ہے کہ وہ ہم سے کہے کہ نماز چھوڑ دو تو ہم اس کی فرمانبرداری کریں.اگر وہ ایسا مطالبہ کرے تو ہم فوراً اسے جواب دیں گے کہ آپ کا ملک آپ کو مبارک ہو ہم جاتے ہیں اور اگر جانے بھی نہ دے گی تو پھر ہمیں اس سے جہاد کی اجازت ہوگی اور ہم ظاہراً یا خفیہ طور پر جس طرح ممکن ہوگا اسے نقصان پہنچائیں گے اور یہ ایسی صورت ہے کہ حکومت بھی اس کی معقولیت کا انکار نہیں کر سکتی.کسی کی
خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۶ء وائسرائے ، کسی گورنر اور کسی وزیر کے سامنے اُسے رکھ دو وہ تسلیم کرے گا کہ حکومت کو مذہب میں دخل نہیں دینا چاہئے.سو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کی فرمانبرداری ضروری ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مذہب میں دست اندازی کرے تو پھر بھی ہم اس کی فرمانبرداری کرتے جائیں.وہ کہے عیسائی کی ہو جاؤ تو ہم عیسائی ہو جائیں.اگر کوئی حکومت مسلمانوں کو عیسائی ہونے پر مجبور کرے تو یقیناً مسلمانوں کا حق ہوگا کہ وہ اس کا مقابلہ کریں خواہ زندہ رہیں یا مر جائیں مگر ایسے حکم کو کسی صورت میں نہ مانیں.اگر میرا یہ خیال غلط ہے تو کوئی بڑے سے بڑا افسر اس کے غلط ہونے کا اعلان کی کر دے.مگر میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا اعلان نہیں کرے گا کیونکہ اس سے سب متفق ہیں.پس کی قربانی کے وقت ہمیشہ دیکھا جائے گا کہ کتنی قربانی چاہی جاتی ہے اور جس کیلئے چاہی جاتی ہے اس کی کیا قیمت ہے.اگر شخصی تذلیل کا سوال ہوا اور کسی فیصلہ میں کسی شخص کو جھوٹا کہا گیا ہو تو اُسے گوارا کیا جاسکتا ہے اور اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی اُسے جھوٹا ہی قرار دیا جائے تو جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ سچا ہے وہ بھی اُسے یہی مشورہ دیں گے کہ اب خاموش ہو ر ہو.آخر جج بھی آدمی ہے اور کہیں جا کر یہ جھگڑ ا ختم ہونا ہی تھا تمہارے دوست جانتے ہیں کہ تم سچے ہو لیکن اگر تذلیل انسان کی نہیں بلکہ مذہب کی ہو اور مذہب بھی وہ جو لوگوں کو بلاتا ہے کہ آؤ اور مجھے قبول کرو.تو ای دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.انفرادی تذلیل پر باوجود اس شخص کے سچا ہونے کے ہم زور ڈال سکتے ہیں کہ ذلت برداشت کر لو لیکن مذہب کی تذلیل اگر عدالت کرتی ہے تو اس کی تھی حالت جدا گانہ ہے.پھر اگر وہ تذلیل اس مذہب کے ماننے والوں کے کسی فعل کی وجہ سے ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا اپنا قصور ہے.اگر ہم کوئی مقدمہ عدالت میں لے جاتے ہیں مگر اس مقدمہ میں تو ی ہم نہ مدعی ہیں نہ مد عاعلیہ ہمیں اپنی بریت پیش کرنے کا بھی موقعہ نہ تھا.قانون ہمیں اس سے بالکل بے دخل رکھتا ہے مگر فیصلہ کا سارا زور ہمارے خلاف ہے.پس اس کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں بلکہ حکومت پر ہے یا مولوی عطاء اللہ صاحب پر.اور اس کے نتیجہ میں اگر کوئی ضرر کسی کو پہنچتا ہے تو ان کے دونوں میں سے ہی کسی کو پہنچنا چاہئے ہم کیوں خواہ مخواہ اس کا شکار ہوں.اس فیصلہ میں ایسے امور زیر بحث لائے گئے ہیں کہ ہائی کورٹ نے صاف کہا ہے کہ ان کا زیر بحث لا نا نا جائز تھا.ہمیں اس سے بحث نہیں کہ ایسا دیانتداری سے کیا گیا یا بددیانتی سے.دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر ہم پر کیوں.
خطبات محمود ۲۳۴ سال ۱۹۳۶ پڑے.اپیل کی اجازت دینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ عدالتوں کا فیصلہ غلط بھی ہو سکتا ہے.اگر جج کیلئے غلطی کا امکان نہ ہوتا تو اپیل کے کوئی معنے ہی نہ تھے.لیکن عقلاً یا انصافاً بھی اگر کوئی عدالت ایسا فیصلہ کرے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر مدعی اور مدعا علیہ کو چھوڑ کر ایک ایسی جماعت یا مذہب پر اثر انداز ہو جو تبلیغی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے.یہ سوال ہے جس کا جواب میں حکومت سے دریافت کرنا چاہتا ہوں.حکومت جب ہمیں کہتی ہے کہ مت بولو تو اسے یہ بھی بتانا چاہئے کہ ہم کیا کریں.وہ بتادے کہ تمہارے لئے فلاں رستہ کھلا ہے یا یہی کہہ دے کہ کوئی راستہ کھلا نہیں مگر تم پھر بھی صبر کرو.میں اس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کی ان دونوں باتوں میں سے ہمیں کیا کہتی ہے.دو ہی باتیں ہیں.یا تو رستہ بتا دے یا یہ کہہ دے کہ خواہ تم کو کس قدر نقصان پہنچے خاموش رہو.جو بھی جواب وہ دینا چاہتی ہے دے تا کہ ہم اس پر غور کریں لیکن صبر کرنے کے متعلق اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکتا کیونکہ یہ سخت نا معقول کی بات ہے کہ کسی سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ خواہ تمہارے مذہب پر کس قد رسخت حملہ ہوا ہو، خواہ تمہاری تبلیغ رک گئی ہو تم خاموش رہو.پس اس کیلئے ایک ہی جواب ممکن ہے جو یہ ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ تمہارے لئے قانون نے فلاں رستہ کھلا چھوڑا ہے.اگر وہ کوئی ایسا رستہ بتائے جس کے ذریعہ سے خود جواب دیئے بغیر عدالت کے ذریعہ سے فیصلہ کرایا جا سکتا ہو.تو میں نیشنل لیگ کو مجبور کروں گا کہ اُسی رستہ کو اختیار کرے اور اگر کوئی ایسا رستہ نہیں تو حکومت بتا دے کہ ہم کیا کریں.واقعہ یہ کہ ہمیں صبر کرنے کا مشورہ حکومت نہیں دے سکتی.یہ فیصلہ ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کیا ہے جا چکا ہے.اردو انگریزی میں ہندستان ، انگلستان اور بعض دوسرے غیر ممالک مثلاً افریقہ اور کی اسلامی ممالک میں بھی بکثرت تقسیم کیا گیا ممکن ہے اور بھی بعض ایسے علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہو جن کی کے نام ہم کو معلوم نہیں.انگلستان کے متعلق تو خود احرار کے ایک اخبار میں لکھا تھا کہ جب مسٹر گا بالی وہاں گئے تو انہوں نے اس کی ایک کاپی وزیر ہند کو دی تھی.اب فرض کرو ہم کسی کے پاس تبلیغ کیلئے جاتے ہیں اور وہ آگے سے پوچھتا ہے کہ کیا تم مسلمان ہو اور اقرار کرنے کی صورت میں دریافت کرتا ہے کہ کیا شراب اسلام میں حلال ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ نہیں حرام ہے.تو وہ کہتا ہے کہ تمہارے نبی اور مامور بھی تو شراب پیتے تھے.جب ہم کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں تو وہ آگے
خطبات محمود ۲۳۵ سال ۱۹۳۶ء کہہ دیتا ہے کہ کیوں نہیں مسٹر کھوسلہ نے ایسا لکھا ہے.عدالت کا فیصلہ ہے یہ کوئی احراریوں کا الزام تو نہیں اور بھی ایسے بیسیوں سوال پیدا ہو سکتے ہیں.اب ان سوالوں کے جواب میں ہمارے لئے دو ہی رستے کھلے ہیں.یا تو کہہ دیں کہ ہمارا سلسلہ واقعہ میں جھوٹا ہے اور ہم آپ کے ہاتھ پر تو بہ ہی کرنے آئے ہیں اور یا یہ کہ یہ الزام جھوٹ ہے اور اس کا یہ ثبوت ہے.اب حکومت ہمیں بتا دے کہ ان دونوں باتوں میں سے وہ کونسا جواب ہم سے چاہتی ہے اور یا پھر کوئی تیسرا جواب بتا دے.جھگڑا تو وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی ضد کرے مگر میں تو حکومت سے ہی سوال کرتا ہوں حکومت خود ہی کی ہمیں اس مصیبت سے بچنے کا ذریعہ بتا دے.آخر یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ چونکہ یہ امور عدالت کے فیصلہ میں آگئے ہیں سلسلہ احمدیہ جھوٹا ہے.آخر ہم یہی کر سکتے ہیں کہ کتب و رسائل کے ذریعہ سے ان امور کی تردید کریں جو اس فیصلہ میں ہماری طرف منسوب کئے گئے ہیں لیکن اگر یہ طریق کی حکومت کے نزدیک معیوب ہے تو پھر وہ خود ہی کوئی علاج ہمیں بتائے.اگر وہ صبر کی تلقین کرتی ہے تو کس رنگ میں صبر چاہتی ہے.کیا ہم یہ کہیں کہ واقعات تو صحیح ہیں اور احمدیت جھوٹی ہے مگر با وجود ای اس کے ہم احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتے.یا ہم اس رنگ میں صبر کریں کہ جب کوئی اس فیصلے کا حوالہ دے تو اسے کہہ دیں کہ ہم تو بہ کرتے ہیں.اگر اس کے سوا بھی صبر کا کوئی طریق ہے تو وہ ہمیں بتادیا جائے.جلدی نہیں اپنے مشیروں اور وکیلوں، جوں سے پوچھ کر بتا دے کہ یہ طریق تمہارے لئے کھلا ہے.حکومت ہمارے اس سوال پر دیانتداری سے غور کرے کہ اگر کسی مذہب کی یہ پوزیشن ہو تو کیا وہ امید کر سکتی ہے کہ اس کی غلطی کی عزت رکھ لی جائے اور صبر کیا جائے.کیا وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ ہمارے دوست ہیں ہماری اس غلطی کو نباہنے کیلئے اپنا مذہب چھوڑ دو.موجودہ پوزیشن میں وہ اس بات کے سوا ہم سے کیا امید رکھ سکتی ہے لیکن اس بات سے زیادہ غیر معقول بات اور کیا ہے ہوسکتی ہے.بے شک بعض لوگ ایسا مطالبہ بھی کرلیا کرتے ہیں لیکن ہم حکومت سے ایسی امید نہیں کر سکتے.مجھے ایسے مطالبہ کے متعلق ایک واقعہ معلوم ہے اس واقعہ کا راوی بھی زندہ ہے اور جس کے متعلق ہے وہ بھی زندہ ہے اور دونوں اپنے اپنے محکموں کے چوٹی کے افسر ہیں اس لئے کی میں ان کے نام نہیں لیتا.واقعہ یہ ہے کہ ایک کالج کے پرنسپل نے ایک شخص کی سفارش کی کہ اُسے پروفیسری کے عہدہ پر رکھ لیا جائے.جب وہ سفارش ایک بالا افسر کے پاس پہنچی تو اس نے کہا یہ
خطبات محمود ۲۳۶ سال ۱۹۳۶ مناسب نہیں کہ آپ ایک ہی آدمی کا نام بھیجتے ہیں دو تین نام بھیجیں تا میرا اختیار بھی تو ثابت ہوتی کہ میں جس کو ان میں سے چاہوں رکھ سکتا ہوں گو میں کروں گا وہی جو آپ کہیں گے.اس پر ی پرنسپل نے بالا افسر کا اختیار ثابت کرنے کیلئے ایک اور شخص کا نام بھی لکھ دیا مگر ساتھ ہی لکھ دیا کہ یہ اس علم سے واقف نہیں.آپ نے چونکہ لکھا ہے کہ دوسرا نام چاہئے اور میرے پاس کوئی اور آدمی ہے نہیں اس لئے یہ نام بھیجتا ہوں.اب یہ دوسرا آدمی چونکہ اس بالا افسر کا ہم مذہب تھا اس نے حکم دیا کہ اسے رکھ لیا جائے.اس پر پرنسپل نے اس سے بھی ایک بالا افسر کے پاس شکایت کی کہ آپ نگران اعلیٰ ہیں یہ کس قدر عجیب بات ہے.میں نے جس شخص کی سفارش کی تھی وہ انگلینڈ کا کی یافتہ اور بطور نائب پروفیسر پہلے سے کام کرتا تھا.میرا اس سے وعدہ بھی تھا کہ جگہ نکلنے کو رکھا جائے گا مگر اس کی بجائے ایسے شخص کو مقرر کر دیا گیا جو اس علم سے بھی ناواقف ہے.اس پر اس بالا افسر نے جیسا کہ سرکاری افسروں کا قاعدہ ہے پرنسپل سے تو یہی کہا کہ یہ معاملہ میرے پاس لانے والا نہیں اعلیٰ افسر سے کہیں.اور ادھر اس افسر سے کہا کہ یہ کیا بیوقوفی تم نے کی ہے خیر میں نے تمہاری عزت رکھ لی ہے اور تمہارے ہی پاس معاملہ کو بھیجا ہے خود ہی سلجھالو.اب پرنسپل تقرر کر نیوالے افسر کے پاس پہنچا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے اور آپ نے یہ کیا کر دیا.اس پر اس کی نے پگڑی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دی کہ میں پرانے فیشن کا آدمی ہوں مجھے ان باتوں کا کیا پتہ ہے اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے.اس پر پرنسپل بے بس ہو گیا اور اس نے کہا کہ اچھا جس طرح ہوگا میں کام چلا لوں گا.یہ بات ایک نہایت ہی ذمہ دار افسر نے جو ہزاروں روپیہ نخواد لے رہا ہے مجھ سے بیان کی تھی.مگر وہاں تو اس نے پگڑی رکھ کر اپنی عزت بچالی مگر یہاں تو عزت بچانے کی کوئی صورت ہی نہیں.پھر ہم نے خود یہ حالات پیدا نہیں کئے.اگر ہمارا اختیار ہوتا تو کبھی بھی ایسی حالت پیدا نہ ہونے دیتے جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو مگر خود اس نے ایسے حالات پیدا کئے ہیں اس لئے اب نباہنا بھی اسی کا کام ہے.اس کی وضاحت کیلئے ایک مثال پیش کی کرتا ہوں.یہ حکومت عیسائی ہے اس لئے اس کے گھر کی مثال ہی دیتا ہوں.ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہی مقام ہے جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسی کا ہے بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی بڑا ہے.وہ اگر اُسے
خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۶ء صحیح نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں.ہمارا عقیدہ ان پر اور ان کا ہم پر ہرگز حجت نہیں لیکن اس بات کو تو یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ احمدیوں کے نزدیک مرزا صاحب کا درجہ وہی ہے جو عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسی کا ہے اور جس طرح آج ہم پر مقدمے کئے جاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسی کی پر بھی ہوتے تھے.انجیل کو اٹھا کر دیکھ لو ان پر بھی حکومت سے بغاوت کا الزام لگایا جا تا تھا.ایک مقدمہ ان پر دائر ہوا اور حکومت نے ان کیلئے پھانسی کی سزا تجویز کی اور انہیں پھانسی پر لٹکا بھی دیا گیا.عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق وہ فوت ہو گئے لیکن ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کی انہیں بچا لیا.اس مقدمہ کو آج انہیں سو سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں اس فیصلہ کے رد میں سینکڑوں کتابیں لکھی جاتی ہیں.اگر حکومت کے افسر مذہبی آدمی نہیں تو وہ برٹش میوزیم سے اس کے متعلق دریافت کریں کہ اس موضوع پر کتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آج تک لکھی جا رہی ہیں.ابھی ایک کتاب مجھے ملی جو ایک شخص ریورنڈ اے.جے.واکر (Rev.A.J.Walker) نے لکھی ہے اور اس کا نام ہے Why Jesus was Crucified.اس نے واقعات اور گواہیوں پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی براءت ثابت کرے.انگریز لوگ کہا کرتے ہیں کہ مشرقی مذہب کے دیوانے ہوتے ہیں.تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مغرب کے تھے مہذب لوگ جو نفس کو قابو میں رکھنے کا دعوی کرتے ہیں وہ تو انیس سو سال گزرنے کے بعد بھی اس کی مقدمہ کارڈ لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ہم مشرق کے مذہبی دیوانوں کو تازہ حملہ کا رڈ لکھنے سے بھی روکا جاتا ہے اور پھر ہم پر تو لوگ اعتراض کرتے ہیں اور ہمیں تبلیغ اور سلسلہ کی عزت کے بچاؤ کیلئے جواب کی ضرورت ہے.عیسائیوں کو تو اس کی ضرورت بھی کوئی نہیں.ان کی چونکہ ی حکومت ہے اور حکومت کو ہر کوئی سلام کرتا ہے اس لئے حضرت عیسی کی بھی لوگ عام طور پر عزت کی کرتے ہیں.حتی کہ گاندھی جی جنہوں نے یونہی رسول کریم ﷺ کی تعلیم پر دو چار لکد سے رسید کر دیئے تھے اور کہہ دیا تھا کہ اسلام تلوار کے استعمال کی تعلیم دے کر غلطی کا مرتکب ہوا ہے.حضرت عیسی کے متعلق انہوں نے بھی لکھ دیا کہ ان کی تعلیم محبت سے بھری ہوئی ہے.تو جس کا کھائیے اُسی کا گایے کے مصداق حضرت عیسی پر تو اعتراض بھی کوئی نہیں کرتا اس لئے ان کی تعلیم کی حفاظت کی بھی کوئی ضرورت نہیں.دل میں خواہ کچھ ہو ظا ہر طور پر ان کی عزت ہی کی جاتی ہے
خطبات محمود ۲۳۸ سال ۱۹۳۶ء کیونکہ ان کے ماننے والوں کی حکومت ہے مگر مشکلات تو ہمارے لئے ہیں.آج جس طرح یہ بات کی فیشن میں داخل سمجھی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کی جائے.پس حضرت عیسی جن کی عزت پہلے ہی محفوظ ہے اگر ان کے متعلق فیصلہ کا رڈ لکھنے کی انیس سو چھتیس سال بعد بھی ضرورت ہے تو بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق ۱۹۳۵ء میں صادر شدہ فیصلہ کی تردید کی ۱۹۳۶ ء میں ضرورت کیوں نہیں ؟ حکومت بتائے کہ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری اور عالم فاضل آج تک کی بھی ایسی کتابیں کیوں لکھتے ہیں.کیا وہ پاگل ہو گئے ہیں.اس کی ضرورت یہ ہے کہ آج بھی کوئی نہ کوئی اعتراض کر ہی بیٹھتا ہے.پس یہ ایک ایسا سوال ہے کہ شاید انیس سو سال بعد بھی اس کے رد کی ضرورت باقی رہے.پس اس سوال کی اہمیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن باوجود اس کے حکومت کو مشکلات سے بچانے کیلئے گو میں نیشنل لیگ کے کام میں عام طور پر دخل نہیں دیا کرتا میں اس امر کیلئے تیار ہوں کہ اگر حکومت مجھے کوئی ایسا طریق بتا دے جس پر چل کر ہم اس کی فیصلہ کے ضر کو دور کر سکیں تو میں تردید و تنقید کے سلسلہ کو حکما روک دوں.میرا خیال ہے کہ اگر حکومت ٹھنڈے دل سے غور کرے اور جھوٹا وقا ر اس کے دامنگیر ہو تو وہ اس سوال کو حل کر سکتی ہے اور میرے نزدیک اس کے دو طریق ہیں.اول تو یہ کہ اس فیصلہ کی کو ضبط کر لے اس میں عدالت کی ہتک نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی اشاعت سے چونکہ فساد ہوتا ہے اس لئے ضبط کر لیا گیا اور حکومت کو جب خود کوئی ضرورت پیش آئے تو وہ ایسا کر لیتی ہی ہے.ابھی کچھ عرصہ ہوا اسمبلی میں ایک ممبر نے تقریر کی جو اسمبلی کے رسالہ میں شائع بھی ہوئی وہاں سے اُسے ایک اخبار نے نقل کر دیا تو اُس سے ضمانت لے لی گئی اور جب اُس نے یہ ڈیفنس پیش کیا لی کہ حکومت نے خود اسے شائع کیا تھا تو اُسے جواب دیا گیا کہ حکومت کے رسالہ میں بے شک وہ شائع ہوئی لیکن تم کو ایسا کرنے کا اختیار نہ تھا.پس جب اپنے دل پر چوٹ لگنے پر حکومت نے یہ طریق اختیار کیا تو وہ دوسروں کیلئے بھی یہی تدبیر اختیار کرسکتی ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت کی دوسروں کی چوٹوں کو بھی اپنی ہی سمجھے تو سب جھگڑے مٹ جائیں مشکل یہ ہے کہ اپنی چوٹ پر تو وہ ہے حد سے زیادہ بھنا اُٹھتی ہے مگر دوسرے پر ایسا موقعہ آنے پر کہتی ہے کہ جانے دو.اگر وہ اپنے دل کی میں ایسی تبدیلی کرے کہ ہر چوٹ کو اپنے دل پر محسوس کرے تو ملک میں بالکل امن و امان ہو جائے.
خطبات محمود ۲۳۹ سال ۱۹۳۶.پس حکومت اس کا فیصلہ دو طرح کر سکتی ہے ایک تو اس فیصلہ کو ضبط کرلے اور دوسرے جماعت احمدیہ کو اجازت دے کہ اس کا جواب کتاب کی صورت میں لکھ دیا جائے جس میں واقعات کی صحیح صورت پر بحث کر کے جواب دیا جائے اور اس میں عدالت کی شخصیت پر بحث نہ ہو پھر جس جگہ بھی اعتراض ہوگا وہاں کے احمدی اس کتاب میں سے دیکھ کر جواب دے دیں گے.اس کے بعد میں نیشنل لیگ والوں کو حکم دے دوں گا کہ وہ آئندہ اس بارہ میں کچھ نہ کرے.یہ دو تجویزیں میں نے کی بہت غور سے سوچی ہیں اور ان پر راضی ہو جانے میں بھی میں نے بہت قربانی کی ہے اور حکومت کی اگر میری طرح قربانی نہیں بلکہ صرف انصاف کرنے کیلئے تیار ہو تو یہ قضیہ نامرضیہ جو حکومت اور ہمارے دونوں کیلئے مشکلات کا موجب ہو سکتا ہے مٹ جائے گا.لیکن اگر حکومت ان دونوں تجویزوں کو نہ مانے تو پھر وہ اپنی طرف سے کوئی تجویز بتا دے میں اس پر غور کروں گا لیکن اس کا فرض ہے کہ وہ یا تو میری تجویز مان لے اور یا پھر اپنی طرف سے کوئی ایسی تجویز بتائے جس سے ی اس فیصلہ کا ضرور دور ہو سکے اور اگر اس کی تجویز معقول ہوئی تو میں اس کو ضرور مان لوں گا.لیکن اگر کوئی صورت نہ ہوا اور حکومت نہ تو خود کوئی تجویز بتائے اور میری پیش کردہ تجویز کے متعلق بھی کہے کہ تم تو رعایا کے ایک فرد ہو تم ایسی تجویزیں پیش کرنے والے کون ہو تو پھر اس کا کی کوئی علاج میرے پاس نہیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے.میرا صرف یہ کام تھا کہ ایک اچھے شہری کی کی حیثیت سے امن کی بہتر صورت پیش کر دوں اور ساتھ یہ بھی کہہ دوں کہ اگر حکومت کوئی اور کی تجویز بتا دے تو میں اپنی بات چھوڑ دوں گا لیکن اگر حکومت دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ کرے تو پھر میں یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی ایسی ہے اور ملک کا امن برباد ہونے والا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فساد مقدر ہو تو ادھر رعایا میں سے بعض لوگوں کے دماغ کی میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اور ادھر حکومت اپنے رویہ کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہوتی اس لئے صرف کی یہی تدبیر باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور کہیں کہ ہم تو امن چاہتے ہیں مگر جن کی رستوں کو کھولنا ہمارے اختیار میں نہیں ، انہیں تو خود ہی کھول دے اور ہمیں تو فیق عطا فرما کہ ہماری سلسلہ کی روایات کو بھی قائم رکھ سکیں ، قانون کا احترام بھی نہ چھوڑیں اور اس خدا کے پیارے کی عزت بھی قائم کرسکیں جس کی عزت قائم کرنے کیلئے ہم میں سے ہر ایک اپنی اور اپنے تمام
خطبات محمود ۲۴۰ خاندان کی عزت قربان کر دینا سب سے بڑی عزت سمجھتا ہے.ل بنی اسرائیل: ۱۷ سال (الفضل ۲۴ را پریل ۱۹۳۶ء) خدیو بادشاہ.انیسویں صدی میں مصر کے بادشاہوں کا لقب میں مصرکے بادشہ لكد: لات ٹھوکر.دولتی ۱۹۳۶
خطبات محمود ۲۴۱ ۱۴ سال ۱۹۳۶ ستیاں ترک کر وطالب آرام نہ ہو ( فرموده ۲۴ را پریل ۱۹۳۶ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی.يْأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيْهِ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا وَ يَنْقَلِبُ إِلَى اَهْلِهِ مَسْرُورًا وَ اَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبَهُ وَرَاءَ ظَهْرم فَسَوْفَ يَدْعُوا ثَبُورًا وَّ يَصْلَى سَعِيرًا إِنَّهُ كَانَ فِى اَهْلِهِ مَسْرُورًا إِنَّهُ ظَنَّ أَن لَّن يَحُورَ بَلَى إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا ل - اس کے بعد فرمایا:- دنیا کی اصلاح کوئی ایسی معمولی بات نہیں کہ بغیر خاص توجہ اور خاص تدابیر کے پایہ تکمیل تک پہنچ سکے مگر عجیب بات یہ ہے کہ انسان ہر چیز کیلئے کسی توجہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے مگر نہیں کرتا تو بنی نوع انسان کی اصلاح کی طرف توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس طرح جو سب سے قیمتی ہے چیز ہے وہ سب سے زیادہ نظر انداز کی جاتی ہے.زمیندار ایک بھینس رکھتا ہے یا ایک گھوڑی رکھتا ہے.تم اس کے گھر میں تھوڑی دیر جا کر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ اپنے دن کا کافی حصہ گھوڑی یا بھینس کی خبر گیری میں صرف کرتا ہے.اس کے پاس تھوڑی سی زمین ہوتی ہے مگر اس کی نگہداشت کی کیلئے کافی عرصہ صرف کرتا ہے لیکن تم چوبیس گھنٹے ایک زمیندار کے گھر میں رہ کر اگر یہ معلوم کرنا چا ہو کہ وہ کتنا وقت اپنے بچے کی اصلاح میں صرف کرتا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ ایک منٹ بھی
خطبات محمود ۲۴۲ سال ۱۹۳۶ صرف نہیں کرتا.اس کی گھوڑی یا بھینس اس کے وقت کا گھنٹہ دو گھنٹے لے لیتی ہے، اس کی کھیتی اس کے کے وقت سے آٹھ دس گھنٹے لے لیتی ہے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف پھیر لیتی ہے مگر اس کا بیٹا جو اس کی کی سب سے زیادہ قیمتی جائداد ہے اس پر وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حیثیت کو لوگ نہیں سمجھتے.سب چیزوں کی درستی کیلئے لوگ کوشش کریں گے، مالوں کی درستی کیلئے کوشش کریں گے ، صنعت و حرفت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، تجارت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے ، زراعت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے لیکن قومی اخلاق کی درستی کیلئے کی کوشش نہیں کریں گے.ہمارے سامنے کانگرس کی وہ جد وجہد موجود ہے جو اس نے ملک کی آزادی کیلئے کی.کانگرس کے دشمن بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتے کہ کانگرس کی کوششوں میں سے بعض نہایت شاندار اور اعلیٰ درجہ کی تھیں.اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ کانگرس نے لوگوں میں ذہنی بیداری پیدا کی اور حب وطن کا جذ بہ قلوب میں موجزن کیا.پھر کوئی شخص اس سے کی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے ملک کا بیشتر حصہ بزدل تھا کانگرس والوں نے ان میں دلیری پیدا کی اور انہیں نڈر بنایا.غرض ان خوبیوں کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا مگر جو کچھ انہوں نے کیا اس سارے کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کو آزادی مل جائے ، ملک انگریزوں کے اثر سے محفوظ ہو جائے اور ملک کی عزت دنیا میں قائم ہو جائے لیکن اس جدو جہد اور اس کوشش میں بعض باتیں انہوں نے یا ان کے دوستوں نے ایسی بھی اختیار کیں جو اور زیادہ غلامی کا طوق لوگوں کے گلے میں ڈالنے والی ثابت کی ہوئیں.یعنی بعض اخلاقی غلطیاں ایسی ہو ئیں جن سے حریت کی روح تو پیدا ہوئی لیکن دوسری طرف اور زیادہ غلامی کی روح پیدا ہوگئی.مثلاً یہی مسئلہ جو نان کو آپریشن کا ہے گو جس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا وہ اچھا تھا مگر یہ ذریعہ نہایت گندہ تھا.اگر نان کو آپریشن کے اصول ہم صحیح تسلیم کر لیں تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی کبھی اطاعت نہ کرے اور اپنی مرضی ہمیشہ منوانے کی کوشش کرے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانوں کے اخلاق میں بگاڑ پیدا ہو گیا اور وہی اوی حملے جو کبھی گورنمنٹ کے خلاف کئے جاتے تھے کانگرس کے خلاف شروع ہو گئے.ستیہ گرہ کو ہی کی لے لیا جائے یہ کبھی گاندھی جی کے خلاف شروع کی گئی ، کبھی کانگرس کے خلاف اس لئے کی گئی کہ وہ ای اچھوتوں کی خبر گیری اور ان کے حقوق کی تائید کیوں کرتی ہے، کبھی کسی یونیورسٹی کے خلاف شروع کی
خطبات محمود ۲۴۳ سال ۱۹۳۶ء گئی ،کبھی پروفیسروں کے خلاف شروع کر دی گئی اور کبھی اپنے ماں باپ کے خلاف ہی ستیہ گرہ ہونے لگی.گویا ستیہ گرہ ایک غلط اصل کی وجہ سے دنیا کی بدترین استیہ گرہ ہوگئی یعنی بجائے سچائی کی تائید کے جھوٹ کی تائید اس سے ہونے لگی.پس اخلاقی طور پر اس تحریک نے لوگوں کو بہت نقصان کی پہنچایا.اسی طرح کانگرس کی تحریک کے نتیجہ میں گو خود کانگرس والے اس کے بانی نہیں ہوئے مگر بہر حال اس کے نتیجہ میں ٹیررازم یعنی دہشت انگیزی اور قتل کی تحریک شروع ہوئی گویا نو جوانوں کی اخلاقی طور پر موت واقع ہو گئی.اس کی وجہ یہی ہے کہ کانگرس والوں نے اس بات کی تو قیمت سمجھی کہ جسم غلامی سے آزاد ہونے چاہئیں مگر انہوں نے اس بات کی کوئی قیمت نہ سمجھی کہ ذہن بھی غلامی کی سے آزاد ہونے چاہئیں کیونکہ اخلاق کی قیمت ان کے نزدیک معمولی تھی مگر جسموں کی قیمت بہت کی زیادہ تھی اور یہ مرض کانگرس والوں سے خصوصیت نہیں رکھتا تمام دنیا میں یہ مرض پھیلا ہوا ہے یہی حالت ان ممالک کی بھی ہے جو آجکل ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں.کیا انگلستان ، کیا فرانس ، کیا جرمنی اور کیا امریکہ سب کے نزدیک انسانوں کی اخلاقی حالت خواہ کتنی ہی خراب کیوں نہ ہوا نہیں اس کی کی چنداں پرواہ نہیں ہوگی لیکن جسمانی حالت گرنے کی انہیں فوراً فکر شروع ہو جائے گی.اگر ان کے ملک کے سکہ کی قیمت گرتی ہے تو وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن اگر ان کے نوجوانوں کے اخلاق گر جائیں تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی.اگر ان کا شلنگ بارہ پنیس کی بجائے گیارہ پنیس کا ہو جائے تو وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن اگر ان کے ملک میں جو ا بازی عام ہو جائے ، شراب خوری زیادہ ہو جائے ، فواحش کی کثرت ہو جائے تو اس کی انہیں اتنی فکر نہیں ہوتی یا جھوٹ ، دعا اور فریب پھیل جائے تو اس کی انہیں فکر نہیں ہوگی لیکن شلنگ کا بارہ پینس کی جگہ گیارہ نینس کا ہو جانا ان کے ہاں بہت بڑی اہمیت رکھے گا.تو درحقیقت تمام انسان سوائے ان لوگوں کے جو مذہبی اثر کے نیچے ہوتے ہی اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے تابع ہوتے ہیں قومی اخلاق کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن مال و ی دولت کے بڑھانے کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تمام ترکی کوششیں ضَلَّ سَعْيُهُمُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا سے کا مصداق بن کر رہ جاتی ہیں.ان کی ساری کوششیں دنیا کے معاملات میں ہی صرف ہو جاتی ہیں دین کے معاملات میں خرچ نہیں ہوتیں.مگر ان سے اتر کر ایک اور گروہ بھی ہے یا یہ کہنا چاہئے کہ ان سے بدتر ایک اور گروہ ہے جس کی کوششیں
خطبات محمود ۲۴۴ سال ۱۹۳۶ کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں گویا وہ نکتے وجود ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں اس وقت ایشائیوں کی زیادہ تر حالت ایسی ہی ہے.یورپ کے لوگوں کے متعلق تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضَلَّ سَعْيُهُمُ الْحَيَوةِ الدُّنْیا.ان کی تمام تر کوششیں دنیا پر صرف ہو گئیں لیکن ایشیائیوں کا نانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصہ ایسا ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں وہ صرف آرام کرنا جانتے ہیں اور کام سے اتنا گھبراتے ہیں گویا موت ہے اور ان کی پوری کوشش اس امر پر صرف ہوتی ہے کہ کسی طرح کام سے چھٹ سکیں اور پھر اگر کوئی کام ان کے سپر د کیا جائے تو وہ کبھی اسے وقت پر پورا نہیں کریں گے اور نہ یہ کوشش کریں گے کہ اس کام میں ترقی ہو حالانکہ انسانی پیدائش اس دنیا میں ہے ہی اسی لئے کہ وہ محنت کریں.یہ جو میں نے اس وقت آیات پڑھی ہیں ان کا سارا مضمون تو وقت کی قلت کی وجہ سے ی میں بیان نہیں کر سکتا مگر ان میں اسی مضمون پر زور دیا گیا ہے جو میں اس وقت بیان کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيْهِ اے انسان! تجھے کدح کرنی پڑے گی اپنے رب تک پہنچنے کیلئے.کدح کے معنی ہیں شدید محنت.ایسی محنت جس سے انسان کا جسم کمزور ہونا شروع ہو جائے جسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ہڈیاں گھل گئیں.یہ حالت ہے جب انسان کی ہو جائے تو اس کے متعلق کہیں گے اس نے کرح کی.کدح کے اصلی معنی کسی چیز کی کا اندر داخل ہو جاتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں كَدَحَ رَأْسَهُ بِالْمُشْطِ اس نے لکھی کے ساتھ اپنے بالوں کو درست کیا.چونکہ شکھی انسان کے بالوں میں داخل ہو جاتی ہے اس لئے اس کے متعلق کدح کا لفظ استعمال کیا گیا.اسی طرح کہتے ہیں كَدَحَ وَجْهَهُ اس نے منہ پر ناخن مارے اور وہ ناخن جلد کے اندر گھس گئے تو کدح اس محنت کو کہتے ہیں جس کا اثر جسم سے اتر کر انسان کے اندر چلا لی ہے جاتا ہے اور محنت شاقہ کی وجہ سے اس کی ہڈیاں گھلنے لگ جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا يَأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلِقِيْهِ اے انسان! تجھے اتنی محنت کرنی پڑے گی اتنی محنت کرنی پڑے گی کہ اس محنت کی وجہ سے تیری ہڈیاں گھل جائیں تب کہیں تیرے رب کی ملاقات تجھے نصیب ہوگی پھر جب ایسا انسان وہاں پہنچے گا تو اس بات کی علامت کیلئے کہ اس کی کدح کچی تھی اور اس کی محنت پوری اتری خدا تعالیٰ اس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا.
خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۶ دائیں ہاتھ سے مراد کام کرنے والا ہاتھ ہے دنیا کا اکثر حصہ چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے بعض لوگ بے شک لیفٹ ہینڈڈ (Left Handed) یعنی بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ نہایت قلیل ہوتے ہیں اکثر دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں.خط لکھیں گے تو دائیں ہاتھ سے، کوئی چیز کاٹیں گے تو دائیں ہاتھ سے، ضرب لگائیں گے تو دائیں ہاتھ سے، اسلام نے تو دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو مذہب کا جز وقرار دیا ہے مگر عملی طور پر ساری دنیا میں یہ بات پائی جاتی ہے اور ملک کا ملک کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جہاں بائیں ہاتھ سے کام کیا جاتا ہو.افراد بے شک کرتے ہیں مگر وہ قلیل ہوتے ہیں پھر بائیں ہاتھ سے کامہ کرنا ان کی کوئی خوبی نہیں بلکہ نقص سمجھا جاتا ہے.تو دایاں ہاتھ عمل پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی فرماتا ہے کہ چونکہ وہ عملی لوگ ہوں گے اور محنت اور کوشش سے کام کرنے والے ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے دنیا کی میں کوئی عمل نہ کیا ہوگا اور ان کی یہ عادت ہوگی کہ جب ان کے سامنے کوئی کام آیا انہوں نے اسے جی اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا.جیسا کہ کہتے ہیں آج کا کام کل پر ڈال دینا.دنیا میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام انسان نے کرنا ہوا سے اپنے سامنے رکھ لیتا ہے مگر جو نہ کرنا ہوا سے ایک طرف کر دیتا ہے اس کی کے مطابق چونکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس جب کام آتا تو وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیتے اور اس طرح ان کی پیٹھوں کے پیچھے کاموں کا ایک ذخیرہ جمع رہتا اس لئے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ چونکہ وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے کام رکھنے کے عادی تھے اس لئے ان کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا.فَسَوْفَ يَدْعُوا ثَبُورًا اس وقت جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا یہ شور مچانے لگ جائے گا کہ میں تو ما را می گیا.یہ ست اور کاہل آدمی کی مثال ہے کہ وہ بجائے کام کو اپنے سامنے رکھنے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرنے کے ہمیشہ اسے تاخیر میں ڈالتا اور اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دیانت دار اور مؤمن انسان ہمیشہ اُسے سامنے رکھتا اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی مناسبت کے لحاظ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص کو جو عملی زندگی بسر کرنے والا ہو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر جو سُست اور کاہل ہوگا اور کام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دینے کا عادی ہوگا کی
خطبات محمود ۲۴۶ سال ۱۹۳۶ اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا گویا جس نگاہ سے اس نے دنیا میں اپنے کام کو دیکھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح اس کا اعمال نامہ بھی ایسا گندہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھنے کیلئے قوت برداشت اپنے اندر نہ رکھے گا اور اسی لئے اسے پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا.میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ستی اور غفلت بہت بڑی لعنت ہے اور ہمیں اس لعنت کو بہت جلد اپنے آپ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ہم اس کو دور نہیں ہے کر سکتے تو ہمیں کم از کم اپنی اولادوں سے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ڈاکٹروں نے کی اس بات پر بخشیں کی ہیں کہ ایشیائی لوگ سُست کیوں ہوتے ہیں.بعض کا خیال ہے کہ چونکہ ایشیاء میں ملیر یا زیادہ ہوتا ہے اس لئے ملیریا کی وجہ سے ایشیاء والے سستی کا شکار رہتے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بات غلط ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملیر یا سستی پیدا کرتا ہے اور جب ملیر یا کالی انسانی جسم پر اثر ہونے لگے تو بخار چڑھنے سے کئی دن پہلے ہی انسان کا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا ہے اور پھر بخار کی حالت میں بھی جمائیاں آتی ہیں، اعضاء شکنی ہوتی ہے اور پژمردگی سی چھائی رہتی ہے ہے.پس یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایشیاء میں ملیریا نہایت سخت ہوتا ہے لیکن اسی ایشیاء میں وہ لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوں نے دنیا میں اتنے مہتم بالشان اور حیرت انگیز کام کئے ہیں کہ دنیا کی ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.چنانچہ اسی ایشیاء میں رسول کریم ﷺے ہوئے ہیں جن کی زندگی پر جب اس لحاظ سے غور کیا جائے کہ وہ کیسی محنتی زندگی تھی تو ہمیں اس میں محنہ اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے کہ اُسے دیکھ کر حیرت آجاتی ہے.دنیا میں ایک شخص جرنیل ہوتا ہے اور وہ جرنیلی کے کاموں میں ہی تھکا رہتا ہے، کوئی استاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ سکول کا کام اتنا زیادہ ہے کہ دماغ تھک جاتا اور جسم چور چور کی ہو جاتا ہے ، ایک حج ہوتا ہے اور وہ یہ شور مچاتا رہتا ہے کہ جی کا کام اتنا زیادہ ہے کہ میری طاقت برداشت سے بڑھ کر ہے ،ایک وکیل ہوتا ہے اور وہ یہ شکوہ کرتارہتا ہے کہ وکالت کا کام اتنا بھاری ہے کہ مجھے اس سے ہوش ہی نہیں آتا، ایک میونسپل کمیٹی کا پریذیڈنٹ ہوتا ہے اور وہ اس امر کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ اتنا زیادہ کام ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا اسے کس طرح کروں ،ایک لیجسلیٹو اسمبلی کا سیکرٹری ہوتا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ قانون سازی کا کام اتنا بھاری ہے کہ میں
خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۶ء نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوں.غرض ایک ایک کام انسان کی کمر توڑ دینے کیلئے کافی ہے مگر محمد ﷺ کی زندگی میں یہ سارے کام بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام ہمیں ایک جگہ اکٹھے نظر آتے ہیں.محمد ﷺے معلم بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کو دین پڑھاتے اور رات دن کی پڑھاتے ، محمد ﷺہ جی بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرتے ، محمد ﷺ پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتے کیونکہ بلدیہ کے حقوق کی نگرانی وصفائی کی نگہداشت اور چیزوں کے بھاؤ کا خیال رکھنا یہ سب کام آپ کرتے ، پھر رسول کریمہ مفتن بھی تھے کیونکہ آپ کی قرآن کریم کے احکام کے ماتحت لوگوں کو قانون کی تفصیلات بتاتے اور ان کا نفاذ کرتے ، اسی کی طرح رسول کریم نے جرنیل بھی تھے کیونکہ آپ لڑائیوں میں شامل ہوتے اور مسلمانوں کی جنگ میں راہبری فرماتے ، رسول کریم ﷺ بادشاہ بھی تھے کیونکہ آپ تمام قسم کے ملکی اور قومی انتظامات کا کی خیال رکھتے ، پھر اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام تھے جو رسول کریم ﷺ کے سپرد تھے مگر آپ یہ سب کام کرتے اور اسی علاقہ میں رہ کر کرتے جس میں رہنے والوں کی ستی کی دلیل بعض ڈاکٹر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ملیر یاز دہ علاقہ ہے.آخر آپ بھی تو ایشیاء کے ہی رہنے والے تھے یورپ کے رہنے والے تو نہ تھے.اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں اپنی صحت کی درستی کا خیال رکھنا چاہئے اور ملیر یا کو اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہماری تندرستی بر باد کرے مگر ملیر یا بھی تو بعض کمزوریوں کی وجہ سے ہی آتا ہے یا روحانی کمزوریاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا جسمانی ستیاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا امنگوں کی کمی ملیریا کا شکار بنادیتی ہے.دنیا میں امنگ بھی بہت حد تک بیماریوں کی الله کا مقابلہ کرتی ہے.بے شک بداحتیاطی اور بد پرہیزی بھی بیماری لانے کا باعث بنتی ہے مگر امنگیں بیماری کو دبا لیتی ہیں لیکن وہ جو پہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال چکا ہو اور کہے کہ ”آ بیل مجھے مار “ اور ی بیماریوں کے مقابلہ کی تاب اپنے اندر نہ رکھتا ہو اس پر بیماری بہت جلد غلبہ پالیتی ہے.لیکن وہ جو اپنی امنگوں کو زندہ رکھتا، اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا اور اپنے حوصلہ کو بلند رکھتا ہے بیماری اس پر غلبہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا.اگر بیماری اس پر حکومت کرنا چاہے تو وہ اس کی حکومت سے بھی انکار کر دیتا ہے.پس میں تسلیم کرتا ہوں کہ بیماری کا علاج ہونا چاہئے مگر میں یہ ہرگز تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہ ست اور نکتا بنانے کا
خطبات محمود ۲۴۸ سال ۱۹۳۶ء کافی سبب ہے.ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ نے جس محنت اور مشقت کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ کے متبعین میں سے کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کہے کہ ملیریا کا ہمارے ملک میں پایا جانا ہمارے ملک کی سستی اور غفلت کیلئے کا فی عذر ہے.ہم جب رسول کریم ﷺ کی زندگی دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ آدھی رات کے بعد اٹھ بیٹھتے اور عبادت شروع کر دیتے ہیں.اسی عبادت کے دوران میں فجر کی اذان ہوتی ہے اور آپ کو نماز کیلئے اطلاع ملتی ہے رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے چلے جاتے ہیں.نماز پڑھا کر آپ مسجد میں ہی بیٹھ صلى الله جاتے ہیں اور فرماتے ہیں جس کو کوئی ضرورت اور احتیاج ہو وہ بیان کرے.اس لوگوں کو رات کو کوئی خواب آیا ہوتا وہ بیان کرتے اور آپ تعبیریں بتاتے ، اس کے بعد جنہیں کوئی دوسری حاجتیں ہوتیں وہ آپ کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتے اور آپ مناسب مشورے دیتے.پھر صحابہ کو آپ قرآن کی تعلیم دیتے بعض کو حفظ کراتے اور بعض کو معانی بتاتے پھر مقدمات کی والے آ جاتے اور آپ ان کے جھگڑوں کو سنتے اور فیصلہ کرتے.مقدمات سننے کے بعد ظہر کا وقت آجاتا ہے اور آپ کھانا کھانے اندر تشریف لے جاتے ہیں اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنے کے نکلتے ہیں.ظہر کی نماز کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، درس و تدریس ہوتا ہے، اسلامی ضروریات پر مشورے ہوتے ہیں، قانون کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں ، افتاء کا کام کیا جاتا ہے اسی میں عصر کا وقت آجاتا ہے اور آپ عصر کی نماز پڑھانے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر یا تو نصائح کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یا فوجی مشقیں ہونے لگتی ہیں کیونکہ بالعموم عصر کے بعد رسول کریم صحابہ سے فوجی مشقیں کراتے کہیں تیراندازی ہوتی ، کہیں کشتی ہوتی ، کہیں گھڑ دوڑ ہوتی اسی کی طرح بالعموم ظہر سے پہلے اور اشراق کے بعد رسول کریم ﷺ بازار تشریف لے جاتے اور بھاؤ وغیرہ معلوم کرتے اور دیکھتے کہ کہیں دکاندار دھوکا تو نہیں کر رہے یا لوگ دکانداروں پر تو ظلم نہیں کر رہے اور عصر کے بعد وعظ ونصیحت کا سلسلہ شروع ہوتا یا صحابہ کو فوجی مشقیں کرائی جاتیں اور انہیں جنگ کیلئے تیار کیا جاتا.گویا اس وقت رسول کریم ہے جرنیل کے فرائض سرانجام دیتے پھر مغرب کی نماز پڑھا کر کھانا کھا کر آپ مسجد میں آجاتے اور مجلس لگ جاتی پھر عشاء تک یا تو مقدمات کے تصفیے ہوتے یا شکایات سنی جاتی ہیں یا تعلیم دی جاتی ہے اسی دوران میں عشاء کی نماز کا صلى الله
خطبات محمود ۲۴۹ سال ۱۹۳۶ وقت آجاتا ہے اور عشاء کی نماز پڑھ کر اور نوافل سے فارغ ہو کر آپ سو جاتے اور آدھی رات کے بعد پھر اٹھ بیٹھتے اور اسی کام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.غرض اس زندگی میں ایک منٹ بھی تو ایسا ہی نہیں آتا جسے ہمارے ہاں گئیں ہانکنے کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہایت قیمتی وقت محض بکو اس کی میں ضائع کر دیا جاتا ہے کہ فلاں کا یہ حال ہے اور فلاں کا یہ.اور اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اسی وقت کے اندر رسول کریم ﷺ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کر تے تھے اور اتنی توجہ سے ہے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ میں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں.پھر بیوی کی بھی ایک نہیں آپ کی نو بیویاں تھیں اور نو بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی ہے تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی.چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میں ایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے.پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرما دیتے اس کام کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہی ہیں اور بھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم ﷺ سرانجام دیتے ہیں.پس آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو مگر آپ بھی اسی ملیر یا والے ملک کے رہنے والے تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ظل تھے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کی یہ حالت ہوتی کہ ہم جب سوتے تو آپ کو کام کرتے دیکھتے اور جب آنکھ کھلتی تب بھی آپ کو کام کرتے دیکھتے اور باوجود اتنی محنت اور مشقت برداشت کرنے کے جو دوست آپ کی کتابوں کے پروف پڑھنے میں شامل ہوتے آپ ان کے کام کی اس قدر قدر فرماتے کہ اگر عشاء کے وقت بھی کوئی آواز دیتا کہ حضور میں پروف لے آیا ہوں تو آپ چار پائی سے اُٹھ کر دروازہ تک جاتے تھے ہوئے راستہ میں کئی دفعہ فرماتے جزاک اللہ.آپ کو بڑی تکلیف ہوئی جزاک اللہ.آپ کو بڑی تکلیف ہوئی.حالانکہ وہ کام اس کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جو آپ خود کرتے تھے.غرض اس قدر کام کرنے کی عادت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھی ہے کہ اس کی کی وجہ سے ہمیں حیرت آتی.بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ آپ کو ٹہلنا پڑتا مگر اس حالت میں بھی ہے آپ کام کرتے جاتے.سیر کیلئے تشریف لے جاتے تو راستہ میں بھی مسائل کا ذکر کرتے اور سوالات کے جوابات دیتے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس ملیر یاز دہ علاقہ کے تھے بلکہ
خطبات محمود ۲۵۰ سال ۱۹۳۶ء حق یہ ہے کہ دنیا میں جتنے عظیم الشان کام کرنے والے انسان ہوئے ہیں وہ سب اسی ملیر یا والے ملک میں ہوئے ہیں کیونکہ اکثر معروف انبیاء ایشیاء میں ہوئے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی کی اسی ملیر یا زدہ علاقہ کے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اسی ملیر یاز دہ علاقہ کے تھے اور حضرت کی داؤد علیہ السلام بھی اسی ملیر یاز دہ علاقہ کے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی اسی ملیر یاز دہ علاقہ کے تھے بلکہ حضرت کرشن ، حضرت رام چندر اور حضرت زرتشت بھی اسی علاقہ کے رہنے والے تھے.تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہمیں اپنی صحتوں کو درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے مگر مغرب کے کسی ڈاکٹر کا کوئی فقرہ سن کر اس کے پیچھے چل پڑنا بھی تو نادانی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اصل ملیر بہ وہ ہے جو دل سے پیدا ہوتا ہے اگر دل کا ملیر یا دور نہ ہو تو خواہ ظاہری طور پر انسان ملیر یاز دہ علاقہ میں نہ ہو پھر بھی سست اور کاہل رہ سکتا ہے.چنانچہ یورپ میں بھی سست لوگ ہیں حالانکہ وہاں ملیر نہیں.بڑے بڑے امراء ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنا کام یہی سمجھا ہوا ہوتا ہے کہ اچھی اچھی غذائیں کھائیں ،شرا میں پیئیں اور تاش کھیلیں ان کو کونسا ملیر یا ہوتا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ دل کا ملیریا ہی انسان کوست اور غافل کر دیتا ہے اور سستی اور غفلت ایسی چیز ہے کہ وہ قوم کو تباہ کر دیتی ، اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے انسان کو محروم کر دیتی اور نجات سے دور پھینک دیتی ہے.میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا.مائیں اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتی ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتیں کہ ان پر کام کا بوجھ پڑے ، باپ اپنے بچوں کوست رکھنا پسند کر.ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کام کی عادت ڈالی جائے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام نہ کرنے کی عادت ان میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس عادت کا دور ہونا پھر بہت مشکل ہو جاتا ہے.مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص ہندو تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا ایک دن کسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی لطیفہ کی بات ہوئی اس پر وہ جھٹ کہنے لگا رام رام.رام رام.کسی نے کہا یہ کیا بات ہے تم تو مسلمان ہو تمہیں رام رام کی بجائے اللہ اللہ کہنا چاہئے تھا.وہ کہنے لگا اللہ اللہ داخل ہوتے ہی داخل ہو گا اور رام رام کی نکلتے ہی نکلے گا.پرانی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے زبان سے رام رام ہی نکل جاتا ہے.تو ہستیاں ور غفلتیں اگر کسی قوم میں عادت کے طور پر داخل ہو جائیں تو اس قوم کو کم از کم یہ چاہئے کہ اپنی اولا دوں اور
خطبات محمود ۲۵۱ سال ۱۹۳۶ء کو اس لعنت سے بچائے مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک اپنی اولا دوں کو سستی اور غفلت سے بچانے کی طرف جماعت نے کوئی خاص توجہ نہیں کی.اس تحریک میں مائیں روک بنتی ہیں ، اس تحریک میں باپ روک بنتے ہیں، اس تحریک میں استاد روک بنتے ہیں حالانکہ اگر ماں باپ اور استاد بچوں کی نگرانی کر کے سستی اور غفلت کی عادت اگلی نسل سے دور کر دیں تو ان کا یہ کام جہاد اعظم کے برابر حیثیت رکھے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک یہ کام کرنے والے ہمیں میسر نہیں آئے حالانکہ ہمیں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جنہیں کام میں لذت آئے اور جو وَ النَّزِعَتِ غَرْقًا کا مصداقی ہوں کہ جب کسی کام میں ہاتھ ڈالیں اس میں غرق ہو جائیں اور غرق ہو کر اس میں سے موتی نکال لائیں.مجھے تعجب ہوا کہ کل ہی میں نے ایک کام کیلئے ایک دفتر کو تاکید کی اور کہا کہ چونکہ وہ اس کام میں کئی مہینوں سے سستی کرتے چلے آئے ہیں اس لئے اب وہ یہ کام ختم کر کے دفتر بند کریں چاہے دو دن انہیں رات دن دفتر کھلا رکھنا پڑے.اس کے جواب میں رات کے تین بجے مجھے ایک کی افسر کا رقعہ ملا جسے پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی.ہنستی تو اس لئے کہ اس نے لکھا فلاں شخص بھی کی میرے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اسے تین بجے اٹھنے کی اجازت دی جائے حالانکہ اسی کی غفلت کے نتیجہ میں کام خراب ہوا تھا مگر ذکر اس رنگ میں کیا گیا گویا اس کا کام کرنا بہت بڑا احسان ہے اور رونا مجھے اس لئے آیا کہ میں نے کہا تھا چاہے دو دن انہیں دن رات دفتر کھلا رکھنا پڑے کھلا رکھیں اور اس کام کو ختم کریں مگر مجھے لکھا گیا اب تو تین بج چکے ہیں اب ہم میں سے بعض کو جانے کی اجازت دی جائے.وہ تو نو جوان ہیں اور اس لحاظ سے انہیں کام زیادہ کرنا چاہئے مگر میری تو عمر ان سے زیادہ ہے صحت بھی کمزور ہے لیکن سال میں بیسیوں دن ایسے آتے ہیں جب رات کے تین تین چار چار بجے تک مجھے کام کرنا پڑتا ہے مگر انہیں یہی بات اچنبھا معلوم ہوئی کہ ایک دن انہیں رات کے تین بجے تک کام کرنا پڑا اور اس کے بعد انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کام چھوڑنے کی کی اجازت لیں گویا ان کے نزدیک تین بجے کے بعد اگر کام کیا جائے تو موت ہی آجاتی ہے.حالانکہ بیسیوں دن سال میں مجھ پر ایسے آتے ہیں جب مجھے چار چار بجے تک بیٹھ کر کام ختم کرنا پڑتا ہے اور اس میں بعض دفعہ میں اپنی بیویوں کو بھی شامل کر لیتا ہوں.ابھی آٹھ دن ہوئے رات کے وقت سخت گرمی تھی اور میں پسینہ میں شرابور تھا میری بیوی بھی بیمار تھیں مگر میں نے انہیں کہا کہ تم زائد
خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۶ء قعے پڑھ کر مجھے دیتی جاؤ اور بتاتی جاؤ کہ اس میں کیا لکھا ہے کیونکہ کام بہت سا اکٹھا ہو گیا ہے.چنانچہ ہم دونوں نے بیٹھ کر رات کے تین بجے تک کام ختم کیا اور سوتے ہوئے قریباً چار بج گئے.یہ بات بتاتی ہے کہ ہماری جماعت کے نو جوانوں کو ابھی کام کرنے کی عادت نہیں ورنہ اگر کام کرنے کی عادت ہو تو تین بجے تک کام کرنے کو اہمیت دینا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص تنکا اٹھا کر نا چتا پھرے کہ میں نے کتنا بوجھ اٹھایا ہوا ہے.ایسی کئی راتیں مجھ پر گزری ہیں جن میں مجھے صبح کی نماز تک کام کرنا پڑا ہے کئی کتابیں میں نے ایسی لکھی ہیں جن میں بعض دوسرے دوست بھی میرے شریک تھے اور ہم صبح تک کام کرتے چلے گئے صبح کی نماز پڑھ کر پھر بیٹھ گئے اور رات تک کام کرتے ہے رہے.پس کام کرنے سے گھبرانا ایک ایسی بات ہے جو میری سمجھ سے بالا ہے حالانکہ میری غرض تحریک جدید اور ان صیغوں کے قائم کرنے سے ہے ہی یہ کہ لوگوں کو کام کرنے کی عادت ڈالی جائے اور نئی پودا تنا کام کرنے کی عادی ہو کہ وہ سمجھے ہی نہ کہ کام ہوتا کیا ہے.یہی لعنت تو میں دور کرنا چاہتا ہوں کہ اب چھ بج چکے ہیں ، اب سات بج چکے ہیں، اب دس بج چکے اور ہمیں دفتر بند کر کے چلے جانا چاہئے کیونکہ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ دس بج چکے ہیں یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کام ختم کرلیا گیا ہے یا نہیں یا کام ختم ہونا ناممکن تو نہیں ہو گیا.میں یہ مانتا ہوں کہ انسانی طاقت کی حد ہے مگر جو اس حد سے پہلے ہی رہ جاتے ہیں وہ کسی تعریف کے مستحق نہیں سمجھے جاتے.کام کر نیوالے لوگ تو جب انہیں کوئی ضروری کام لاحق ہو دو دو راتیں مسلسل جا گنا بھی کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے اور درحقیقت کام کرنے والا آدمی اگر کام کر کے تھوڑا سا سو جائے تو پھر دوبارہ اس کے کام کرنے کی ویسی ہی طاقت پیدا ہو جاتی ہے جیسے پہلے ہوتی ہے.ایسی صورت میں جب کوئی ضروری کام آ پڑے ہوسکتا ہے کہ ایک سو جائے اور دوسرا کام کرتا رہے پھر دوسرا سو جائے اور پہلا کام کرنے لگے گویا باری باری وہ کام کرتے رہیں اسی طرح کام بھی ہو جاتا ہے اور تھکان بھی محسوس نہیں ہوتی.مگر جب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم نے کام ختم کرنا ہے وقت نہیں دیکھنا ہے اس وقت تک کاموں میں تعویق ہوتی چلی جائے گی.یہی وجہ ہے جو کام چوبیس گھنٹے میں ہو سکتا ہے ہمارے آدمی اس پر ہفتہ ہفتہ لگا دیتے ہیں اور پھر بھی بعض دفعہ احسن صورت میں نہیں ہوتا.پس میں اس مرکو اس لئے خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں کہ ایک طرف جماعت کو میں توجہ
خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۶ دلا نا چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں اس کے تعاون کی ضرورت ہے.جو بچے گھروں پہ رہتے ہیں ان کے متعلق والدین کا فرض ہے کہ وہ انہیں کام پر لگائیں اور محنت اور مشقت کی انہیں عادت ڈالیں.مثل مشہور ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے.اگر نو جوانوں کا ایک حصہ ایسا کی ہو جوست کاہل اور غافل ہو تو انہیں دیکھ کر دسرے بھی متاثر ہوتے ہیں.پس انہیں جفاکش اور محنتی ہے بناؤ اور اگر بیماریاں ان کی سستی کا باعث ہیں تو ان کا علاج کر ولیکن اگر بیماری کوئی نہ ہو اور انسان پھر بھی کاہل اور غافل ہو اور کام سے جی چرانے لگے تو ایسا انسان اپنے ملک کیلئے عار اور مذہب کیلئے نگ کا موجب ہوتا ہے.اس کے ساتھ ہی میں صدر انجمن کے دوسرے کارکنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں تعہد سے کام لیں اور محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.ممکن ہے میری غلطی ہو لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہم میں سے سب سے زیادہ محنت سے کام کرنے والے لوگ بھی اپنی طاقت سے تیسر حصہ کام کرتے ہیں اور جب اپنے میں سے سب سے زیادہ محنتی لوگوں کے متعلق میں یہ سمجھتا ہوں تو دوسرے لوگ سمجھتے ہیں ان کے کام کی ان کی طاقت کے مقابلہ میں کیا نسبت ہوگی.بہر حال میرا یہ اندازہ ہے کہ ہم میں سے محنتی شخص بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتا ہے.کچھ تو اس طرح کہ وہ ہوشیاری سے کام نہیں لیتا اور آدھ گھنٹے کا کام گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں کرتا ہے اور کچھ اس طرح کہ ނ جتنا وقت کام کیلئے دینا چاہئے اتنا وقت وہ نہیں دیتا اور اگر کارکن وقت بھی زیادہ دیں اور چستی بھی کام لیں تو میں سمجھتا ہوں موجودہ نسبت سے وہ تین گنے زیادہ کام کر سکتے ہیں.اب خیال کرو اس وقت جتنے سلسلہ کے کارکن ہیں اگر وہ اس تعداد سے تین گنے زیادہ ہو جائیں تو کتنا کام ہونے لگے.لیکن اگر ہمارے موجودہ کارکن ہی اپنے دل میں زیادہ کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیں اور اس کی کے مطابق عمل کریں تو وہی صورت اب بھی پیدا ہوسکتی ہے اور دنیا کو بہت زیادہ کام دکھا سکتے ہیں.کتنی ہی تبلیغ بڑھ سکتی ہے، کتنی ہی تصنیف بڑھ سکتی ہے اور کتنی ہی تربیت بڑھ سکتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ تو کرح چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اتنی محنت کرے اتنی محنت کرے کہ اس کے جسم میں ہزال ۵ پیدا ہو جائے.یہ مت خیال کرو کہ جس قوم کے افراد میں ہزال آجائے گا وہ تباہ ہو تی جائے گی.یہ یورپین لوگوں کا خیال ہے جس کی اسلام تائید نہیں کرتا.اسلام یہ کہتا ہے کہ جس ہنزال
خطبات محمود ۲۵۴ سال ۱۹۳۶ء کے ساتھ اخلاص ہو وہ ہنزال انسانی حوصلہ کو بڑھا دیتا ہے اور اسے کمزور نہیں رہنے دیتا.جب خلافت کا جھگڑ اہوا اُس وقت ہمارے ایک دوست جوایم.اے ہیں اور بنگال کے رہنے والے ہیں خواجہ کمال الدین صاحب کے بہت مداح تھے وہ خلافت کے منکر نہیں تھے مگر کہتے تھے کہ خلافت کے اہل خواجہ صاحب ہیں میں نہیں.مجھ سے چونکہ وہ ذاتی طور پر واقف تھے اور جانتے تھے کہ میری صحت ہمیشہ کمزور رہتی ہے لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف انہوں نے توجہ کی تو الہام ہوا' بادشاہی را نشاید پیلتن کہ بادشاہی کیلئے ہاتھی جیسا جسم نہیں چاہئے.چنانچہ اس کے بعد انہوں نے میری بیعت کر لی اور بھی الہام انہیں ہوئے تھے مگر ایک الہام یہ تھا.تو ہنزال جس کے ساتھ ایمان ہو وہ انسان کو خراب نہیں کرتا ایسا انسان کشتی میں بے شک ہار سکتا ہے مگر اپنے ہی فن میں نہیں ہارتا.حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے اور اپنے تقویٰ و طہارت اور خدمت دین کی وجہ سے بہت مشہور ہیں دبلے پتلے تھے مگر لڑائی کے کامیاب جرنیلوں میں سے ایک جرنیل سمجھے جاتے تھے.ایک دفعہ کفار کے ایک مشہور جرنیل سے ان کا مقابلہ ہو گیا وہ آدمی تھا ذہین اُس نے سوچا میں تلوار میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا یہ دبلا پتلا اور پھر تیلے جسم کا آدمی ہے تلوار کے وار میں کامیاب ہو جائے گا اس لئے اس نے داؤ کھیل کر ان کی کی کمر پر ہاتھ ڈال دیا اور جس طرح تنکا اُٹھایا جاتا ہے اسی طرح اُس نے اُنہیں اٹھا کر زمین کی پھینکا اور ان کے سینہ پر بیٹھ کر تلوار اٹھائی کہ ان کی گردن کاٹ دے.اتنے میں پیچھے سے ایک ں نے جو اسلام سے مرتد ہو کر عیسائیوں میں شامل ہو چکا تھا تلوار سے اس کا فر کی گردن اڑادی کی اور اس کا سرکاٹ کر مسلمانوں کے لشکر میں لے آیا.اسلامی لشکر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور لوگوں کی نے کہا تو تو مرتد تھا تو نے اپنے جرنیل کو کس طرح مار دیا؟ وہ کہنے لگا ارتداد کے بعد ہمیشہ میرے دل میں ندامت پیدا ہوتی اور میں اپنی حالت پر افسوس کرتا لیکن ساتھ ہی میں کہتا مجھ سے اتنا بڑا قصور ہوا ہے اب میری تو بہ کہاں قبول ہو سکتی ہے یہاں تک کہ یہ دن آیا اور آج جب عبد الرحمن بن ابی بکر کو اُس نے گرایا اور تلوار سے گردن کاٹنے لگا تو مجھے چونکہ اُن کی نیکی اور تقویٰ کا حال معلوم تھا توی میرے دل میں یکدم جوش آیا کہ کمبخت آج اگر تو نے دین کی خدمت نہ کی تو اور کونسا دن ہوگا جب تو دین کی خدمت کرے گا دیکھ ! اسلام کا ایک درخشندہ ستارہ غائب ہونے لگا ہے تو کیوں آگے نہیں
خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۶ بڑھتا.یہ خیال جو نہی میرے دل میں آیا میں نے جھٹ تلوار نکال کر اس کافر کی گردن اڑا دی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اب میری تو بہ بھی قبول ہو جائے گی.تو حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر جسمانی طور پر ہنزال رکھتے تھے مگر اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ایک کامیاب جرنیل سمجھتے جاتے تھے.اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور جرنیل تھے مگر دُبلے پتلے اور چھوٹے قد کے آدمی تھی.چنانچہ ایک ضرب المثل ہے کہ كُلُّ قَصِيرٍ فِتْنَةٌ إِلَّا عَلِيٌّ.ہر چھوٹا قد رکھنے والا انسان فتنہ ہوتا ہے.یعنی بڑا منتفی ہوتا ہے مگر حضرت علی باوجود چھوٹا قد رکھنے کے ایسے نہیں تھے.اور حضرت عمرؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ كُلُّ طَوِيْلِ اَحْمَقٌ إِلَّا عُمَرُ ہر لمبا انسان احمق ہوتا ہے مگر حضرت عمر با وجود ای لمبا ہونے کے ایسے نہ تھے.یہ تو ایک مثال ہے اور عام طور پر ایسا ہو بھی جاتا ہے کیونکہ بعض قدوں کے ساتھ بعض باتیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت علی جو ایک کی مشہور جرنیل تھے دبلے پتلے اور چھوٹے قد کے تھے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِیهِ تم اپنے جسموں کی حفاظت کر کے اور بناؤ سنگھار کر کے خدا تعالیٰ کو حاصل نہیں کر سکتے بلکہ جب محنتیں اور مشقتیں تمہارے جسم کے اندر داخل ہو کر تمہیں گھائل کر دیں اور تم میں ہزال نظر آنے لگے اس وقت تم خدا تعالیٰ کے حضور پہنچو گے اور تمہارے دائیں ہاتھ میں تمہارے اعمال کا کاغذ دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب تمہیں محنتوں کا ثمر ملنے والا ہے جاؤ بہشت میں داخل ہو جاؤ.مگر یہ نہیں کہ بہشت میں آرام مل جائے گا بلکہ بہشت میں بھی کام کرنا پڑے گا.آرام کا لفظ اس جگہ ان معنوں کے لحاظ سے میں نے استعمال کیا ہے جو عام طور پر اس کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہ ہو اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر انسان بیٹھا رہے اس قسم کا آرام بہشت میں بھی نہیں.چنانچہ قرآن کریم سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ بہشت کام کی جگہ ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بہشت میں نکھتا بیٹھا رہنا ہوگا وہ غلط سمجھتے ہیں.غرض انسان کیلئے آرام اور حقیقی راحت کام میں ہی ہوتی ہے سکتے پن میں نہیں ہوتی اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت اور مشقت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں ورنہ میرے ساتھ ان کا گزارہ نہیں ہوسکتا.میں نے ایک عرصہ تک سلسلہ کے دفاتر میں دخل نہیں دیا اور جب میرے پاس لوگ شکایات لاتے تو میں انہیں کہتا کہ متعلقہ دفاتر میں جاؤ.اس سے میری غرض یہ تھی کہ جماعت کو سلسلہ کے نظام کی پابندی کی عادت
خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۶ء ڈالی جائے اور میں سمجھتا ہوں نہایت نیک نیتی سے میں نے ایسا کیا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ میں نے جو کچھ کیا وہی صحیح طریق عمل تھا لیکن میں سمجھتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ میں کارکنوں کی سستی اور غفلت دور کرنے کیلئے ان کے کاموں میں دخل دوں.خصوصاً تحریک جدید کے کارکنوں کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ میں ان کے متعلق ہر گز کسی قسم کا لحاظ کرنے کیلئے تیار نہیں.میرے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک کو جواب دے دوں بجائے اس کے کہ اس کی سستی اور غفلت کا سو یا دو سو لوگوں پر اثر پڑے.اسی طرح اگر ایک مبلغ محنت سے کام نہیں لیتا تو وہ ہزاروں جاہلوں کو ہلاک کرنے کا موجب بنتا ہے.پس بہتر ہے کہ اس کو الگ کر دیا جائے بجائے اس کے کہ ہزاروں جانوں کی ہلاکت برداشت کی جائے.اسی طرح اگر ایک مدرس طالب علموں کا فکر نہیں کرتا ، ایک افسر اپنے ماتحتوں کی نگرانی نہیں کرتا تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کو الگ کر دیا جائے اور وہ ہزاروں جانیں جو اس کی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہیں انہیں بچا لیا جائے.لیکن اگر میری یہ کوشش محدود ہوتحریک جدید کی کے کارکنوں تک یا محدود ہوسلسلہ کے افسروں اور کارکنوں تک یا قادیان کے لوگوں تک تو بھی اس کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے.پس زیادہ تر میرے مخاطب جماعت کے وہ لوگ ہیں جو باہر رہتے ہیں اور جو اپنے گھروں پر اپنے بچوں کو رکھتے ہی ہیں.ایسے بچے بہت بڑی تعداد میں ہیں اور میں اپنی جماعت سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کی کو محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالے گی یہاں تک کہ ان کا کوئی منٹ ایسا نہ ہو جو فارغ ہو اور جسے وہ فضول ضائع کر سکیں.یاد رکھو جس قوم کو ذلت اور رسوائی پہنچ رہی ہو اس قوم کے موٹے جسم اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ، جس جسم پر جوتے پڑ رہے ہوں اس جسم کی موٹائی اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے.پس ایک ذلیل اور رسوا شدہ قوم کے گوشت کوئی قابل قدر گوشت نہیں ہوتے.کتنے کی بوٹیاں بھی کوئی بوٹیاں ہوتی ہیں ہاں دُبلے پتلے دُنبے کا گوشت موٹے گتے کے گوشت سے زیادہ قیمت رکھتا ہے.پس تم اپنی اولادوں کو اگر کتوں جیسا بناؤ گے تو ان کی بوٹیاں سوائے اس کے کسی کام نہیں آئیں گی کہ چیلیں اور کوے انہیں کھا جائیں لیکن اگر اخلاق سکھا کر تم انہیں دُنبے جیسا کی قیمتی وجود بناؤ گے تو وہ دبلے پتلے ہونے کے باوجود بھی روحانی اور اخلاقی دنیا میں زیادہ قیمت پائیں گے.
خطبات محمود ۲۵۷ سال ۱۹۳۶ مجھے افسوس ہے ایک عرصہ سے عورتوں کا جمعہ کیلئے آنا رک چکا ہے.جس وقت انہیں روکا گیا اُس وقت تو مصلحت تھی مگر اب وہ مصلحت ختم ہو چکی ہے.میرے کئی خطبات ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر عورتیں بھی سنیں تو ان کا زیادہ شاندار نتیجہ نکل سکتا ہے.میں امید کرتا ہوں آئندہ عورتوں کیلئے بھی خطبہ سننے کا انتظام کر دیا جائے گا.دراصل بچوں کو سست بنانے میں عورتوں کا بہت حد تک دخل ہوتا ہے اگر اس قسم کے خطبات وہ سنیں تو گوعورتیں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں مگر اخلاص سے کام لے کر وہ بہت سے نقائص کا ازالہ کر سکتی ہیں.قادیان کی ایک عورت تھوڑے ہی دن ہوئے میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں کہتی ہوں میں اپنے بچہ کو مبلغ بناؤں گی اور میرا خاوند کہتا ہے کہ اُسے دنیا کا کوئی پیشہ سکھانا ہے آپ اس کا فیصلہ کریں میں نے کہا یہ تمہارا خانگی جھگڑا ہے اس میں میں دخل نہیں دے سکتا لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ تمہارا اثر تمہارے بچے کی پر زیادہ ہے تم اپنی باتیں اُس کے کانوں میں ڈالتی رہو اور ہمت نہ ہارو.تم دیکھوگی کہ اس کے نتیجہ میں ایک دن تمہارے خاوند کی باتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور تمہارا بچہ مبلغ بن جائے گا کیونکہ بچے پر ماں کا اثر باپ سے زیادہ ہوتا ہے اور تمہارا ارادہ تو نیک ہے اس کا اثر کیوں نہ ہوگا.تو اگر عورتوں کیلئے خطبہ سننے کا انتظام کر دیا جائے تو اس کا بھی بہت کچھ فائدہ ہوسکتا ہے لیکن کی بہر حال جب تک عورتیں خطبہ نہیں سنتیں مردوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور نہ صرف ی اپنی اولادوں کو بلکہ اپنے بھائیوں کی اولا دوں اور اپنے ہمسائیوں کے بچے کو بھی محنتی اور جفاکش بنانے کی کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کا وصال کدح کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.جب انسان کدح کرتا ہے تو نفس دُبلا ہونا اور روح موٹی ہونی شروع ہو جاتی ہے لیکن کدح کے بغیر نفس موٹا ہوجاتا اور روح دُبلی ہو جاتی ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ہر قسم کی مستیاں، بجز اور کسل اس سے دور فرما دے اور اپنے فضل سے اسے محنت ، مشقت اور جفا کشی سے کام کرنے کی عادت ڈالے اور اس کدح کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہمارا رب ہمیں مل سکتا ہے.(الفضل ۳۰ ا پریل ۱۹۳۶ء) ل الانشقاق: ۷ تا ۱۶ ستیہ گرہ: حکومت کے خلاف پر امن تحریک الكهف: ۱۰۵ النزعت: ۲ ہزال: دبلا ہونا.لاغری.دُبلا پن (لغت فارسی )
خطبات محمود ۲۵۸ ۱۵ سال ۱۹۳۶ اگر چالیس مؤمن بھی متوکل اور وفا دار ہوں تو وہ ساری دنیا فتح کر سکتے ہیں (فرموده یکم مئی ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.انسانی اخلاق میں بعض باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو قلوب پر اثر کرنے کے لحاظ سے دوسرے اخلاق سے زیادہ موثر اور زیادہ حرکت پیدا کرنے والی ہوتی ہیں.گو عام حالات میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ہر شخص بعض خاص قسم کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے، کئی آدمی سچائی کی بات سن کر زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کئی آدمی دیانت کا واقعہ سن کر زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، کئی ایسے ہوتے ہیں کہ جو انصاف کی واردات سنتے ہیں تو قلب میں زیادہ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے، پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ بہادری کے واقعہ میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، کچھ وفاداری کے واقعات سے زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، کچھ لوگ وسعت حوصلہ اور کچھ نرمی سے متاثر ہوتے ہیں.غرضیکہ انسانی طبائع مختلف ہیں اور وہ اپنے اپنے رجحان اور اپنے اپنے ادراک کے مطابق واقعات سے اثر قبول کرتی ہیں.زلزلہ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ دنوں کیلئے باغ میں رہائش اختیار کر لی تھی چونکہ الہاموں سے اور زلزلوں کا پتہ چلتا تھا اس لئے آپ کا خیال تھا کہ ایسا نہ ہو وہ قریب میں آنے والے ہوں.ان ایام کی بات ہے کہ ایک جگہ پر مختلف جھونپڑیاں بنائی گئی تھیں.جن میں
خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۶ مختلف دوست رہتے تھے.ایک جھونپڑی میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم رہتے تھے اور ان کے ساتھ والی جھونپڑی میں ایک اور دوست رہتے تھے.مولوی صاحب کی طبیعت میں سخت تیزی تھی اور اس دوست کی طبیعت میں بہت نرمی تھی وہ شہر میں بھی مولوی صاحب کے پڑوس میں ہی رہا کرتے تھے مگر وہاں جھونپڑیاں بہت ہی پاس پاس ہو گئیں.اس دوست کے بچوں کو رونے کی بہت عادت تھی ادھر مولوی صاحب کی طبیعت بہت نازک تھی وہاں بہت زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے بچوں کا شور سنتے سنتے مولوی صاحب سخت تنگ آگئے.ایک دن آپ نے اس دوست کو بلایا اور کہا کہ مجھے آپ پر سخت تعجب آتا ہے اور میں حیران ہوں کہ آپ کس طرح کے آدمی ہیں میں نے گھر پر بھی دیکھا ہے کہ آپ کے ہاں سے شور اور اودھم مچانے کی آواز میں برا بر آتی رہتی ہیں مگر وہاں تو کچھ فاصلہ تھا اور اب تو جھونپڑیاں زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں باہر آکر ان بچوں کو خوب ماروں اور آپ پر مجھے سخت تعجب ہے کہ آپ پاس رہتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں کہتے.یہ سن کر اس دوست نے کہا کہ مولوی صاحب مجھے بھی آپ پر سخت تعجب ہے کہ وہ میرے پاس شور کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ نادان ہیں کہ بچوں کا کام ہی شور کرنا ہوتا ہے باوجود اس قدر قریب ہونے کے مجھے کوئی غصہ اور جوش نہیں آتا اور ی میں حیران ہوں کہ آپ کو اس قدر دور بیٹھے ہوئے کیوں اس قدر جوش آتا ہے.گو یا مختلف طبائع کی نے ایک ہی واقعہ سے الگ الگ اثر قبول کیا.ایک نے یہ اثر قبول کیا کہ ان بچوں کو سزا دینی کی چاہئے اور ایک نے یہ کہ بچوں کا یہی کام ہے یہ نادان ہیں اور ان کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنی چاہئے یہ اثر اتنا نمایاں تھا کہ ہر ایک کو دوسرے پر تعجب آتا تھا.مولوی صاحب اس بات پر حیران تھے کہ وہ دوست اس قدر شور کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں اور وہ ان پر حیران تھے کہ ان کو یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ بچوں کو سزا دینی چاہئے.پس لوگ عام طور پر خاص خاص جذبات سے خاص خاص اثر قبول کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ایک ہی واقعہ سے مختلف اثر قبول کرتے ہیں اور یہ تفاوت مختلف حالات میں گھٹتا اور بڑھتا جاتا ہے.مگر باوجود اس کے اس میں شبہ نہیں کہ بعض اخلاق دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور لوگوں کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں اور ایسے اخلاق میں سے بہادری اور وفاداری خاص طور پر قابل ذکر ہیں.دنیا کا اکثر حصہ ان دو اخلاق سے نہایت ہی متاثر ہوتا.ہے
خطبات محمود ۲۶۰ سال ۱۹۳۶ء اور انسان جب اس قسم کے واقعات سنتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کے قلب میں بھی ویسے ی ہی خیالات پیدا ہور ہے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح کی بہادری اور جرات دکھاؤں.یہ دونوں اخلاق اس قسم کے ہیں کہ دوسروں سے زیادہ اثر پیدا کرتے ہیں اس میں بھی خاص وجہ کی ہے مگر میں اس وقت یہ بحث کرنے کیلئے کھڑا نہیں ہوا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے.اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اخلاق ضرور زیادہ اثر ڈالتے ہیں اور طبائع جب ایسے واقعات دیکھیں تو ضرور متاثر ہوتی ہیں خواہ وہ دشمن سے ہی کیوں نہ سرزد ہوں.ایک دشمن بھی اگر بہادری دکھاتا ہے تو دوسرا دشمن اس سے ضرور متاثر ہوتا ہے ایک دشمن بھی اگر وفاداری کا نمونہ پیش کرتا ہے تو دوسرا اُس سے ضرور اثر پذیر ہوتا ہے اور اگر دوست بھی بزدلی دکھاتا ہے یا کسی غیر سے بھی بے وفائی کا اظہار کرتا ہے تو باوجود دوست ہونے کے اس کا یہ فعل دوسرے دوست کے دل پر گراں گزرتا ہے.پس یہ دوا خلاق جو نہایت گہرے طور پر انسانی فطرت پر مؤثر ہوتے ہیں ان کی اہمیت کا کوئی انکار کی نہیں کر سکتا اور اصل بات تو یہ ہے کہ ایمان سے ان کا بہت گہرا تعلق ہے.کوئی شخص بغیر بہادری کی کے متوکل نہیں ہوسکتا اور کوئی بغیر وفاداری کے کامل الایمان نہیں ہو سکتا.متوکل کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتا اور دنیا کی کسی چیز کو حقیقی قرار نہیں دیتا اور بزدلی کے یہ معنی ہیں کہ وہ کسی چیز کو ہے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں.پس تو کل اور بہادری اور ایمان وفاداری قریباً مترادف الفاظ ہیں بیوفا شخص ایماندار نہیں ہو سکتا اور بزدل متوکل نہیں ہو سکتا.کوئی شخص جتنا جتنا زیادہ تو کل میں کمال کے حاصل کرتا چلا جائے اتنا ہی زیادہ بہادر ہوتا جائے گا اور جتنا کسی کے اندر ایمان بڑھتا جائے وہ اتنا ہی وفادار ہوتا جائے گا.در حقیقت تو کل نام ہے مذہبی بہادری کا اور ایمان نام ہے مذہبی وفاداری کی کا.جب مذہب اور وفاداری جمع ہو جا ئیں تو اسے ایمان کہتے ہیں اور جب مذہب اور بہادری جمع ہو جائیں تو اسے تو کل کہتے ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی زندگیوں میں یہ دونوں باتیں نہایت نمایاں ہیں اور ان سے پہلے انبیاء کی زندگیوں میں بھی جن کے کی تاریخ کسی حد تک محفوظ ہے یہ دونوں باتیں نمایاں نظر آتی ہیں.ایمان کے ساتھ ساتھ وفاداری اور بہادری بھی ترقی کرتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وفا داری اور بہادری کے یسے اعلیٰ معیار پر پہنچ چکے تھے کہ اس سے اوپر کوئی معیار نظر نہیں آتا.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس
خطبات محمود ۲۶۱ سال ۱۹۳۶ سے اوپر کوئی معیار ہے نہیں لیکن ہماری کمزور نظر اس سے اوپر دیکھ نہیں سکتی.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بچے تھے اور یتیم بچے ان کا چچا ان کو پال رہا تھا ان کو جس وقت ساری قوم نے شرک کیلئے مجبور کیا جسے ان کی فطرت قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھی ان کے چاچی اور چچا زاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پر وہت اے ہیں اور ہمارا گزارا ہی اس پر ہے اگر آپ نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہو جائے گا.اُس وقت اس نہایت ہی چھوٹی عمر کے بچے کی نے دلیری سے یہ جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتا ہے ان کو میں ہر گز سجدہ نہیں کر سکتا.اس جواب کا اندازہ ہر شخص نہیں کر سکتا صرف وہی کر سکتا ہے جسے قربانی کرنے کا موقع ملا ہو.آج جبکہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں موجود ہے اور میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ظلم ہوتا نہیں کیونکہ ہمیں خود ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اکثر حکام انصاف کی کوشش ضرور کرتے ہیں ایک قانون موجود ہے جو چاہتا ہے کہ انصاف ہو گو ظالم اپنے ظلم کیلئے اس میں سے رستے نکال لیتے ہیں لیکن پھر بھی ظلم حد کے اندر رہتا ہے اس پر امن زمانہ میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں پر جب صداقت کھل جاتی ہے تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان یا احمدی ہو جائیں تو ہمارے ی گزارہ کی کیا صورت ہوگی ؟ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی ؟ آج جب احمدیت کو قبول کی کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیں سوائے معمولی تکالیف کے اچھے اچھے تعلیم یافتہ ، بڑی عمر کے اور بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی ؟ گزارہ کا کیا کی انتظام ہوگا ؟ لیکن حضرت ابراہیم جو یتیم ہونے کی وجہ سے پہلے پہلے ہی شکستہ دل تھے اور جن کا پہلے ہی ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھا اپنے چچا کے ہاں اور اس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گزارہ کی کیا صورت ہوگی بلکہ بلا سوچے بہادرانہ طور پر یہ جواب دیتے ہی ہیں کہ جن بتوں کو انسان خود گھڑتے ہیں اُن کو میں سجدہ نہیں کر سکتا.بعینہ اسی قسم کا واقعہ رسول کریم ﷺ کو پیش آیا جب ایک لمبے عرصہ تک آپ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہلِ مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو دوبارہ اپنے دین کی میں شامل کر لینے سے مایوس ہو گئے تو مکہ کے رؤساء آپ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ
خطبات محمود ۲۶۲ سال ۱۹۳۶ء آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بُری طرح ذلیل کیا ہے ہم اس پر سختی کر سکتے تھے مگر ہمیں آپ کا لحاظ تھا اس لئے اس سے وہ سلوک نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا مگر اب یہ بات ہمارے لئے نا قابل برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے ی سمجھا ئیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی پر سختی سے حملہ نہ کرے اور تبلیغ میں نرمی کا پہلور کھے اور اگر وہ آپ کے کہنے سے اتنا بھی کرنے کیلئے کی تیار نہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کر لیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں اگر آپ اس کیلئے تیار نہیں ہیں تو گو ہمارے دلوں میں آپ کا ادب بہت ہے اور آپ کے خاندان کو فضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہم صبر نہیں کر سکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلق کرنا پڑے گا.ابوطالب مؤمن نہ تھے اور ایمان کے بعد جس بہادری سے انسان کا تعلق ہو جاتا ہے اس کی سے محروم تھے وہ رئیس تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ تھا.سا را مکہ اُن کو سلام کرتا تھا اور اب ان کے سامنے جو صورتِ حالات تھی اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا تھا کہ کوئی اُن کو منہ بھی نہ لگاتا اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی.اس قسم کی عزتوں کیلئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کر دیتے ہیں اور ایک ایک سلام کیلئے مرا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول سناب کرتے تھے کہ جب آپ تعلیم سے فارغ ہو کر نئے نئے بھیرہ میں آئے تو بعض مولویوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کی.اُس وقت اس علاقہ میں ایک معزز پیر صاحب تھے جن کا بھیرہ اور نواح میں بہت اثر تھا اور کی فتوی کفر شائع کرانے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کر دیں.باقی مولویوں سے تو حضرت خلیفہ اول کے دوست نہ ڈرتے تھے مگر ان پیر صاحب کے متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی تھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائے گا اس لئے آپ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ سنا ہے مولوی لوگ آپ سے فتویٰ لینے آئے تھے.پیر صاحب نے کہا ہاں آئے تھے اور جو باتیں وہ کہتے ہیں ٹھیک ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ فتوی دے دوں.اس پر اس دوست نے کہا کہ آپ تو پیر ہیں اور سب نے آپ کو سلام کرنا ہے نور دین خواہ
خطبات محمود ۲۶۳ سال ۱۹۳۶ کچھ ہو آپ کو سلام تو ضرور کرتا ہے اور اگر آپ نے فتویٰ دے دیا تو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے.اس پر پیر صاحب گھبرا گئے اور کہا کہ بھلا ہم پیروں کا فتووں سے کیا تعلق ہے آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں.اس دوست نے آ کر حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ میں اس طرح کر آیا ہوں اور اب پیر صاحب چاہیں گے کہ آپ اُن کو سلام کریں.آپ نے فرمایا کہ ہمارا کیا حرج ہے کر دیں گے.چنانچہ وہ دوست پھر پیر صاحب کے کی پاس گئے اور پیر صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پیر صاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو ی سلام کیوں نہ کریں گے.اس پر پیر صاحب بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا ہم فلاں روز اس طرف سے گزریں گے مولوی صاحب سے کہنا کہ ضرور سلام کریں.چنانچہ پیر صاحب حضرت مولوی صاحب کے مطب کے سامنے سے گزرے اور حضرت مولوی صاحب نے اپنے دوستوں سمیت باہر نکل کر اُن کو سلام کیا.پیر صاحب نے گھوڑا کھڑا کر لیا اور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے لگے کہ دیکھو ! ہمارے پاس مولوی لوگ فتوے کیلئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کر دیا کہ ہم کو ان باتوں سے کیا تعلق ہے ہمیں سب نے سلام کرنا ہوتا ہے.یہ واقعہ شہر میں پھیل گیا اور پیر صاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہو گئے اور مخالفت کا زور ٹوٹ گیا.غرض ابو طالب کیلئے یہ بڑا امتحان کی تھا وہ سارے شہر میں مکرم سمجھے جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب اُن کی عزت جاتی رہے گی انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میں سمجھتا ہوں کہ تو جو کرتا ہے سچ سمجھ کر کرتا ہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایا ہے مگر اب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور کہا ہے کہ یا تو اپنے بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اور یا پھر اس سے قطع تعلق کر لو اور اگر میں ایسا نہ کروں تو قوم میرے ساتھ قطع تعلق کر لے گی اور تو جانتا ہے کہ قوم کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے اب تو بتا تیری کیا رائے ہے؟ رسول کریم ﷺ نے جس وقت یہ بات سنی آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چچا ! میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے مگر سچائی کے مقابلہ میں میں آپ کی بات مانے کو تیار نہیں ہوں اگر دشمن میری دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لا کر کھڑا کر دیں تو بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیں کروں گا اور توحید کی اشاعت سے باز نہیں رہوں گا.میں آپ کیلئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہوں لیکن یہ بات
خطبات محمود ۲۶۴ سال ۱۹۳۶ء آپ کی نہیں مان سکتا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور اپنی قوم سے صلح کر لیں میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے.اس پر باوجود اس کے کہ ابو طالب کیلئے قوم کا چھوڑ نا مشکل تھا اس دلیرانہ جواب کو سُن کر ان پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بے شک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابو طالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا اور یہ معلوم ہوتا کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی.جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریم ﷺ کو ان سے بہت ہی محبت تھی اُن کی قربانیوں اور حسنِ سلوک کی وجہ سے ، اس لئے آپ کو سخت دُکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مر رہے ہیں.آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا ! اب موت کا وقت قریب ہے لا اله إلا الله محمد رسول الله كه دیجئے مگر ابوطالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا.آخر رسول کریم ﷺ نے بہت اصرار کیا آپ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تا کہ میں خدا کے حضور کہ سکو کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ابوطالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی ای قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا.گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانانہ چاہتے تھے.اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریم ﷺ کے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہوا کہ اُس نے کہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آ کو نہیں چھوڑوں گا ہے.غرض ایسے واقعات کو دیکھ کر دوست تو کیا دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہر شخص خواہ اس کے دل میں کتنا عنا بھی کیوں نہ ہو ان واقعات کو سن کر سر جھکا لیتا ہے اور ایسے بہادر کی عظمت کے اقرار پر مجبور ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایسے بیسیوں نہیں سینکڑوں واقعات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بہادری کے ایسے بلند مقام پر تھے کہ اس سے اوپر خیال بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ بہادری کہاں سے پیدا ہوئی؟ یہ تو کل ہی سے تھی.دنیا دار جسے بہادری کہتے ہیں مذہبی لوگ اسے تو کل کے نام سے موسوم کرتے ہیں.فرق صرف یہی ہے کہ
خطبات محمود - ۲۶۵ سال ۱۹۳۶ء بہادری کے لفظ سے یہ معلوم نہیں ہوتا یہ چیز کہاں سے آئی اور تو کل کا لفظ بتا دیتا ہے کہ اس قسم کی بہادری اعلیٰ مقصد سے پیدا ہوتی ہے.تو کل کے یہی معنی ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں انسان ہر چیز کی قربانی کیلئے تیار ہو گویا تو کل کا لفظ بہادری کے اسباب و وجوہ اور اس کا منبع بھی بتا دیتا ہے اور بہادری و تو کل میں صرف یہی فرق ہے ورنہ دونوں چیزیں ایک ہی ہیں.اسی بہادری کو ہم رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں بھی دیکھتے ہیں اور صحابہ میں ہی نہیں بلکہ صحابیات میں بھی ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے اور نہ صرف عورتوں بلکہ بچوں میں بھی موجود ہے.آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کیلئے قربانی سے بچنے کیلئے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کہتے ہیں کہ میں یہ دقت ہے وہ روک ہے لیکن رسول کریم علیہ کی قوت قدسیہ کے ماتحت مسلمانوں میں قربانی کا وہ جذبہ پیدا ہو چکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اسی جذبہ سے سرشار کی نظر آتے تھے یہاں تک کہ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلا یا تا کہ ان میں سے ان لوگوں کا انتخاب کریں جو جنگ کے قابل ہوں.اُس وقت ایک لڑکے کے متعلق آتا ہے دوسرے صحابہ اور وہ خود بھی بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ لوگ کھڑے ہوئے وہ بھی اس جوش میں کہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کا موقع ملے اُن میں کھڑا ہو گیا مگر چونکہ قد چھوٹا تھا دوسرے کی لوگوں کے مقابلہ میں چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے خطرہ تھا کہ شاید منتخب نہ ہو سکے اس لئے وہ اپنی انگلیوں کے بل کھڑا ہو گیا اور ایڑیاں اوپر اُٹھا لیں تا قد اونچا معلوم ہو اور چھاتی تان لی تای کمزور نہ سمجھا جائے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ لیا جائے اور جب آپ انتخاب کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ یہ بچہ ہے اسے کس نے کھڑا کر دیا ای ہے اسے ہٹا دو.مگر آج ایسا ہوتا تو شاید ایسا بچہ خوشی سے اُچھلنے لگتا کہ میں بچ گیا لیکن جب اُس بچہ لی کو الگ کیا گیا تو وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم ﷺ کو رحم آ گیا اور آپ نے فرمایا اچھا اسے لے لیا جائے ہے.پھر اُس زمانہ کی عورتوں کا یہ حال تھا کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ قرآن کریم کس کیلئے ہے؟ آپ نے فرمایا سب انسانوں کیلئے.اس نے عرض کیا کیا تھ عورتوں کیلئے بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر اس نے کہا کہ پھر جہاد کے حکم پر عورتوں کو کیوں عمل کی
خطبات محمود ۲۶۶ سال ۱۹۳۶ کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا.مرد جا کر جانیں قربان کرتے ہیں اور عورتیں اس ثواب سے محروم رہتی ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے مردوں کو لے جانے کا ہی حکم ہے مگر اُس عورت نے بہت اصرار کیا کہ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کروں گی آپ نے فرمایا کہ اسے لے لیا جائے ھے اور حکم دیا کہ جب بھی مالِ غنیمت آئے اس عورت کو بھی مردوں کے مساوی حصہ دیا جایا کرے کیونکہ اس نے انکار کیا کہ یہ اس وقت گھر میں بیٹھی رہے جبکہ مرد اپنی جانیں قربان کر رہے ہوں.غرضیکہ مردی کیا اور عورت کیا سب نے اپنی قربانی سے یہ بات دکھا دی کہ ایمان نے ان کے اندر ایسی جرات پیدا کر دی تھی کہ جس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی.یہ چیز گو ایمان سے بہت شاندار ہو جاتی ہے ہے مگر غیر مؤمنوں میں بھی اس کا فقدان نہیں ہوتا.ایمان اگر چہ اسے صیقل کر دیتا ہے مگر غیر دیندار اقوام میں بھی یہ پائی ضرور جاتی ہے.گزشتہ ایام میں ترک دین سے بالکل بے بہرہ ہو چکے تھے گو کہلاتے مسلمان تھے اور اب تو دین سے بہت ہی دور چلے گئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے شریف قوم شریف جذبات سے عاری نہیں ہو سکتی.چنانچہ گزشتہ جنگ عظیم میں ہم قریباً مہینہ بھر یہ خبر پڑھتے رہے کہ ایک جانباز ترک سپاہی ایک پہاڑی پر کھڑا ہو کر دشمن کو سخت نقصان پہنچاتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے پکڑا نہیں جاتا.آخر ایک دن وہ پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک ترک عورت تھی اور پوچھنے پر اُس نے تھی بتایا کہ مرد جب لڑنے کیلئے آئے تو میں نے یہ درست نہ سمجھا کہ میں گھر میں بیٹھی رہوں چنانچہ میں اکیلی ہی چلی آئی اور اس پہاڑی پر بیٹھ کر جب بھی مجھے موقع ملتا قوم کا بدلہ لیتی رہی.تو یہ بہادری کے جذبات دین سے باہر بھی ملتے ہیں اور بعض اوقات وہ بھی بہت شاندار ہوتے ہیں گو اتنے نہیں جتنے ایمان اور توکل کے ساتھ.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ جب یونان سے ترکوں کی جنگ ہوئی تو یورپین قو میں منصو بہ بازیاں کرتی رہیں.ان کا خیال تھا کہ یونانی دروں کے قلعے فتح کرنے آسان نہیں اور جب تک ترک اُن تک پہنچیں گے وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کر کے بیچ میں آکو دیں گی اور پھر ترکوں کو ذلت کی صلح پر مجبور کر دیں گی.ترک بھی اس بات سے ناواقف نہ تھے.اس لئے انہوں نے ا.جرنیلوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو دروں کے قلعے فتح کر لئے جائیں.ایک پہاڑی کی
خطبات محمود ۲۶۷ سال ۱۹۳۶ قلعہ کو فتح کرنے پر ایک ترک جرنیل مامور تھا اور اسے حکم تھا کہ دو یا تین ہفتہ کے اندراندرا سے فتح کرے.اُس نے متواتر حملے کئے مگر ناکام رہا آخر ایک دن اُس نے سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ یہ معمولی لڑائی کا سوال نہیں بلکہ ہماری قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہے اس لئے ہمیں اس بات سے بے پروا ہو کر کہ ہم میں سے کون جیتا رہتا اور کون مرتا ہے کل حملہ کرنا چاہئے اور اس نیت سے کرنا چاہئے کہ یا تو سب کے سب مر جائیں گے اور یا کل شام تک قلعہ میں ہوں گے.سب نے کی اس کا اقرار کیا اور اگلے روز وہ سپاہیوں کو لے کر قلعہ کی طرف بڑھا.وہ دیوانہ وار اوپر چڑھتے جا رہے تھے جب نصف فاصلہ طے کر چکے تو اس کرنیل کے گولی لگی اور وہیں گر گیا اس کے ساتھی تھی اسے اُٹھانے کیلئے آگے بڑھے مگر اس نے کہا تم کو خدا کی قسم ہے مجھے کوئی مت چھوئے اگر تم قلعہ کو فتح کر سکو تو اس کے اندر مجھے دفن کر دینا ورنہ میری لاش کو گتوں کے آگے ڈال دینا.یہ بات سن کر سپاہی جو اس کی شفقت اور محبت کی وجہ سے اس کے گرویدہ تھے دیوانہ وار آگے بڑھے اور شام سے پہلے پہلے قلعہ کو فتح کر لیا.تو یہ جذبات ہر قوم میں اور ہر حالت میں پائے جاتے ہیں حتی کہ بُزدل قوموں میں بھی انفرادی طور پر اس کی مثالیں مل جاتی ہیں اور تباہ شدہ قوموں میں بھی ملتی ہیں.جب جنگ بلقان ہوئی تو میں اس کے تفصیلی حالات سے واقف رہنے کیلئے بعض انگریزی اخبار پڑھا کرتا تھا.یونان کے ساتھ مختلف قو میں مل کر ترکوں پر حملہ آور تھیں جب سالونیکا پر حملہ ہوا تو ترکوں کے بعض غدار افسروں کی وجہ سے ترکوں کو شکست ہوئی.اس کے متعلق میں نے لندن کے ایک اخبار میں پڑھا.نامہ نگار نے ایک لیفٹیننٹ کا نقشہ کھینچا تھا جب غدار افسروں نے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تو اُس نے اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے.اس پر اعلیٰ کی افسر نے اسے جھڑک کر کہا کہ تم بیوقوف ہو اور افسروں کی حکم عدولی کرتے ہو اور فوج کو واپسی ہونے کا حکم دے دیا.نامہ نگار نے لکھا ہے کہ اُس پر میں نے وہ نظارہ دیکھا کہ گو میں غیر جانبدار تھا میری آنکھیں پرنم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں.جب سپاہی پیچھے ہٹنے لگے تو اس لیفٹینٹ نے تلوار پھینک دی اور ایک پتھر پر بیٹھ کر چیچنیں مار کر رونے لگا اور اس کے کندھے شدت گریہ سے یوں حرکت کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سینہ میں انگیٹھی جل رہی ہے.تو بہادری کے جذبات ہمیشہ دشمن سے بھی بڑائی کا اقرار کرالیا کرتے ہیں اور ایمان کے ساتھ تو بہادری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ
خطبات محمود ۲۶۸ سال ۱۹۳۶ء انسان حیران ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے دنیا میں بُزدلی کیسے رہ سکتی ہے.پس مؤمن کو اپنا تھی ایمان پر کھنے کے وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک اس کے دل میں جذبہ جرات و بہادری ہے اور کس حد تک جذبہ وفا داری ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کھانے پینے کا بڑا شوق ہے.دوست جب ملتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ کیا کھلاؤ گے، کیا پلاؤ گے اور جب کھانے لگتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کیلئے ہی وہ پیدا ہوئے تھے لیکن یہی لوگ جب ان کے گھروں میں کوئی موت ہو جاتی تھی ہے جب ان کا کوئی عزیز ان سے رخصت ہو جاتا ہے کھانے پینے کی لذت اور خواہش کئی دنوں تک کے ان کے دل سے جاتی رہتی ہے.جب لقمہ منہ میں ڈالتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حلق میں پھنستا ہے کوئی چیز خواہ کتنی شیر میں کیوں نہ ہو تلخ معلوم ہوتی ہے باوجود اس کے کہ لذیذ کھانا منہ میں اور شیریں پانی پیٹ میں جاتا ہے پیٹ اور منہ اسے رڈ کرتے ہیں اور لذت کی بجائے تکلیف محسوس کرتے ہیں.لیکن دوسری طرف ایسے ایام میں جبکہ اس سے بہت زیادہ مصیبتیں اسلام کیلئے موجود ہوتی ہیں، جب دین پر بڑی بڑی آفتیں نازل ہو چکی ہوتی ہیں ایسی مصیبتیں اور آفتیں کہ ان کے مقابلہ میں گھروں کی مصیبتیں بالکل بیچ ہوتی ہیں ہمارے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوتا.ہمارے منہ بدستور کھانوں سے لذت اندوز ہوتے ہیں اور پیٹ اسی طرح ٹھنڈے پانی کی اشتہا محسوس کرتے ہیں اور دن میں کسی وقت بھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اسلام کیلئے اس قدر مصائب کے ہوتے ہوئے ہم اس آرام اور سکھ کے مستحق نہیں ہیں اور جب دن میں کسی وقت ہم پر یہ حالت طاری نہیں ہوتی تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے قلوب اس محبت سے آشنا ہیں جو حقیقی محبت کہلاتی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے رسول کریم ﷺ کی وفات کے کئی سال بعد جب ایران سے چکیاں آئیں اور عمدہ آٹا ملنے لگا تو سب سے پہلے جو آٹا تیار ہوا وہ تحفہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا گیا اور جب اس کا پھلکا تیار ہو کر آپ کے سامنے آیا تو آپ نے جب ایک لقمہ لے کر منہ میں رکھا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے.ایک سہیلی پاس بیٹھی تھی اُس نے کہا کہ بی بی ! یہ تو بڑا نرم پھل کا ہے آ.اسے کھاتے ہوئے روتی کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی نرمی ہی میرے لئے رونے کا
خطبات محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۶ باعث ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چکیاں نہ تھیں پتھروں پر کوٹ کوٹ کر ہم آٹا بناتے تھے اور رسول کریم ﷺ کو وہی آٹا کھانے کو مانتا تھا.بڑھاپے کی عمر میں اور اضمحلال کے وقت بھی آپ کی یہی کھاتے تھے اور اس پھلکے کی نرمی کو محسوس کر کے میرے دل میں حسرت پیدا ہوئی کہ کاش! رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسا آٹا ہوتا تو میں اس کی روٹیاں پکا کر آپ کو کھلاتی ہے.ذرا غور کرو نرم آٹا کون سی چیز ہے جسے آج قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے.آج تو کنگال بھی اس کی قدر نہیں کرتے اور ان کو بھی آج اس سے بہت بہتر آٹا ملتا ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ علی عنہا کو ملا تھا.آج تو رول ملوں کے آٹے غریب سے غریب لوگ کھاتے ہیں اور انہیں محسوس بھی کی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی نعمت ہے.اب نعمتوں نے اس آئے سے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے مگر کیا کبھی کسی کے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ اسلام کے مصائب کی موجودگی میں ان کا استعمال مناسب نہیں.ہم کہتے ہیں ہم اسلام کے سپاہی ہیں، محمد ﷺ کے فدائی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا کے نام جی پر جانیں قربان کرنے والے ہیں مگر کیا ہمارے گلوں میں وہ نعمتیں کبھی پھنستی ہیں ؟ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کی ہتک دنیا میں ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی توہین کرنے کی والے موجود ہیں مگر کیا دین کی اس انتہائی بے بسی کے باعث ہمارے گلوں میں بھی وہ نعمتیں پھنستی کی ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ بالکل نرالا تھا میں نے کسی اور کو اس طرح کی کھاتے نہیں دیکھا آپ پھلکے سے پہلے ایک ٹکڑا علیحدہ کر لیتے اور پھر لقمہ بنانے سے پہلے آپ اُنگلیوں سے اُس کے ریزے بناتے جاتے اور منہ سے سُبحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللهِ کہتے جاتے اور پھر ان میں سے ایک چھوٹا سا ریزہ لے کر سالن سے چھو کر منہ میں ڈالتے.یہ آپ کی عادت کی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے تعجب کرتے اور بعض لوگ تو خیال کرتے تھے کہ شاید آپ روٹی ہے میں سے حلال ذرے تلاش کر رہے ہیں لیکن دراصل اس کی وجہ یہی جذ بہ ہوتا تھا کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں اور خدا کا دین مصائب سے تڑپ رہا ہے.ہر لقمہ آپ کے گلے میں پھنستا تھا اور ہے سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللہ کہہ کر آپ گویا اللہ تعالیٰ کے حضور معذرت کرتے تھے کہ تو نے یہ چیز کی ہمارے ساتھ لگا دی ہے ورنہ دین کی مصیبت کے وقت ہمارے لئے یہ ہرگز جائز نہ تھا.وہ غذا بھی ایک مجاہدہ معلوم ہوتا تھا، یہ ایک لڑائی ہوتی تھی ان لطیف اور نفیس جذبات کے درمیان جو اسلام
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء اور دین کی تائید کیلئے اُٹھ رہے ہوتے اور ان مطالبات کے درمیان جو خدا تعالیٰ کی طرف.قانونِ قدرت کے پورا کرنے کیلئے قائم کئے گئے تھے مگر ہم جو رسول کریم ﷺ کی امت اور صحابہ کا نمونہ ہونے کے مدعی ہیں کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ وہی جرات اور دلیری اپنے اندر پیدا کریں جو صحابہ کے اندر تھی.آج قربانی پر ابھارنے کی بجائے اُسے روکنے والے آپ کو ملیں گے اور بہادری کے جذبات پیدا کرنے کی بجائے بعض لوگ اس پر بنتے ہیں مگر مؤمن ہنسی اور تمسخر کی کوئی پرواہ نہیں کیا کرتا وہ دنیا سے اندھا ہوتا ہے، اُس کی بینائی صرف خدا کو دیکھتی ہے، اس کے دل کی کی نظریں بلند اور ظاہری آنکھیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں، اس کے نیکی کے کام کھلے ہوئے مگر بدی کے بند ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کیلئے ہر قربانی کرنے کو عزت سمجھتا ہے اسے کامیابی سمجھتا ہے اور اسی کو نجات خیال کرتا ہے اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں انسان کا قربان ہونا سب سے بڑی عزت ہے.گو یہ لڑائی کا زمانہ نہیں مگر قربانیوں سے خالی نہیں.بے شک آج ہمیں عَلَى الْإِعْلَان قتل نہیں کیا جاتا مگر احمدیت کیلئے آج بھی ہزاروں قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.ہمارا بائیکاٹ کیا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں، مارا پیٹا جاتا ہے اور جب تک جماعت میں سے ایک ایسا حصہ کھڑا نہ ہو جو بہادری اور وفاداری کا وہ نمونہ دکھائے جو دشمن کو بھی کھینچ لیتا ہے اُس کی وقت تک کامیابی کے قریب نہیں پہنچ سکتے.بعض لوگ یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے دائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اور بائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں.ہمیں اس سے کیا غرض کہ دائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اور بائیں ہاتھ والا وفادار ہے یا نہیں.کیا اگر ساری دنیا مرتد ہو جائے اور صرف ایک مؤمن رہے تو وہ اس لئے جان دینے سے دریغ کرے گا کہ اور کوئی اس کے ساتھ نہیں.جن مواقع کی پر آنحضرت ﷺ نے اپنی جان کو خطرات میں ڈالا کیا یہ دیکھ کر ڈالا تھا کہ آپ کے دائیں کون ہے اور بائیں کون اور کس حد تک آپ کی مدد کریں گے ؟ کیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو یہ دیکھا تھا کہ میرے مؤید اور حامی کون کون ہیں؟ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے یہاں آئے اور آپ سے کہنے لگے کہ آپ نے غلطی کی مولوی لوگ ضدی ہوتے ہیں جب آپ نے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء دعوی کیا تو انہوں نے سمجھا کہ یہ شخص ہم سے بڑا ہو گیا ہے اس لئے مخالفت شروع کر دی.اگر آپ دعوے سے پہلے علماء کو بُلاتے ، اُن کی دعوت کرتے اور پھر پوچھتے کہ اسلام پر جو اس قدر مصیبت کے ایام ہیں آپ لوگوں نے کبھی غور کیا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور اس سے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف بہت تقویت حاصل ہوتی ہے.آپ صاحبان اس کا کوئی حل سوچیں تو وہ ضرور کہتے کہ آپ ہی اس کا کوئی حل سوچئے.اس پر آپ کہہ دیتے کہ اگر ہم کہہ دیں کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں تو اس مشکل سے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور وہ ضرور کہہ دیتے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے سُبحَانَ اللهِ کیا نکتہ نکالا ہے.پھر آپ کہتے کہ ایک مشکل یہ ہے کہ جب ہم ان کی وفات کا اعلان کریں گے تو عیسائی کہیں گے کہ احادیث میں تو ان کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی ہے اس کا بھی کوئی جواب ہونا چاہئے وہ ضرور پھر یہی کہتے کہ اس کا بھی کوئی جواب آپ ہی فرمائیں تو آپ کہہ دیتے کہ اس کا علاج یہی ہے کہ ہم کہہ دیں آنے والا اسی اُمت میں سے ہوگا.اس پر پھر وہ یہی کہتے کہ سُبحَانَ اللہ کیا اچھی بات نکالی ہے.پھر آپ کہتے کہ اب صرف ان کا ایک اعتراض رہ جاتا ہے کہ جب سب علامتیں پوری کی ہو چکی ہیں تو آنے والا کہاں ہے؟ آپ لوگ رسول کریم ﷺ کی گدی پر بیٹھے ہیں اپنے میں سے کسی کے متعلق فیصلہ کر دیں کہ وہ مثیل مسیح ہے تا عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب بھی ہو جائے کی اور اسلام کو ترقی نصیب ہو.مولوی تو چونکہ سخت حاسد ہوتے ہیں وہ کیا مجال جو اپنے میں سے کسی کو مان لیتے ضرور یہی کہتے کہ آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں.یہ سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر انسانی منصوبہ ہوتا تو میں ضرور ایسا ہی کرتا مگر مجھے تو میرے خدا نے جو کہا میں نے لوگوں کو سنا دیا.یہی حال انبیاء کی امتوں کا ہوتا ہے وہ جب صداقت کو لے کر کھڑی ہوتی ہیں تو یہ نہیں دیکھا کرتیں کہ ہمارے دائیں کون ہے اور بائیں کون ہے وہ صداقت کو لے کر دنیا میں آتی ہیں اور لوگ خواہ اُن کو ماریں، پیٹیں، قتل کر دیں بلکہ قیمہ کر دیں، جلا دیں، ڈبو دیں پیچھے نہیں ہمتیں.پس یہ جذبہ اگر ہمارے نوجوانوں میں اور جماعت میں پیدا ہو تو پھر وہ لوگ ہم میں سے پیدا ہوں گے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر چالیس مؤمن مجھے مل جائیں تو میں دنیا کو فتح کرسکتا ہوں ہے.
خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۳۶ خوب یا درکھو بُز دل لاکھوں بھی دنیا کو فع نہیں دے سکتے ، بے وفا کروڑوں کسی کام کے نہیں مگر متوکل اور وفا دار چالیس بھی ہوں تو دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.تم سوچو کہ آخر تمہارے اس مقام کو حاصل کرنے میں کیا روک ہے؟ کیا صرف یہی نہیں کہ تم سمجھتے ہو ہم یہ مقام کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ مگر یا درکھو کہ تم خدا کے سوتیلے بیٹے نہیں ہو.ابوبکر کو خدا پر اس سے زیادہ حق نہیں تھا تی جو تمہیں ہے، عمر کو اس سے زیادہ خدا تعالیٰ پر حق نہیں تھا جو تمہیں ہے، عثمان اور علی کو اللہ تعالیٰ پر اس کے سے زیادہ حق نہیں تھا جو تمہیں ہے.اگر تم آج یہ ارادہ کر لو کہ ہم بھی تو کل کے مقام پر کھڑے ہو کر ی اپنے رب سے ایسا رشتہ پیدا کریں گے کہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ رکھیں گے تو وہی جو ہی ابو بکر کو ملا تمہیں مل سکتا ہے، جو عمر کو ملا تمہیں مل سکتا ہے، جو عثمان اور علی کو ملائم حاصل کر سکتے ہو صرف عزم اور ارادہ کی دیر ہے.صرف گو دنا اور چھلانگ لگانی ہے اور پھر دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے.پس تم میں سے جو ہمت والے ہوں وہ یہ عزم کر لیں.خدا کے قرب کی خواہش تم میں سے جو ر کھتے ہیں میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا بہت قریب ہے اتنا قریب ہے اتنا قریب ہے کہ اگر کوئی نابینا کی طرح آنکھیں بند کر کے ہاتھ پھیلا دے تو اسے چھو سکتا ہے اور اسے چھو کر ایسا نور حاصل کر سکتا ہے جس کے بعد تمام اندھیرے دور ہو جاتے ہیں اور ایسی طاقت حاصل کر سکتا ہے جس کے حاصل ہونے پر شیطان کی تمام طاقتیں مٹ جاتی ہیں.( الفضل ۷ رمئی ۱۹۳۶ ء ) اے پروہت: خاندانی برہمن جو تمام خاندان کی پوجا پاٹ ، موت اور بیاہ کی رسوم ادا کرتا ہے.☑° سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۲۸۵ - مطبوعه مصر ۱۹۳۴ ء سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۵ ۲۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۴ء اسدالغابۃ جلد ۴ صفحه ۱۴۸ ، مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۴۲.جدید ایڈیشن
خطبات محمود ۱۶ سال ۱۹۳۶ دشمنان احمدیت کی حیا سوز کذب بیانیاں (فرموده ۸ مئی ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جب کبھی دنیا میں سچائی ظاہر ہوتی ہے تو جھوٹ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے.اضداد ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی طرف ایک کشش رکھتی ہیں.جھوٹ کے مٹانے کیلئے سچائی آجاتی ہے ہے اور سچائی کا مقابلہ کرنے کیلئے جھوٹ آجاتا ہے اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کبھی رحمانی طاقتوں اور شیطانی طاقتوں میں صلح ہو سکے.ہمیشہ ہی رحمانی طاقتیں شیطان کا زور توڑنے کیلئے دنیا میں پیدا ہوتی رہیں گی اور ہمیشہ ہی شیطانی طاقتیں سچائی کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا میں کھڑی ہوتی رہیں گی اور یہی تھی معیار در حقیقت کسی روحانی جماعت کی صداقت کا ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جھوٹ استعمال کیا لی جاتا ہے.اس زمانہ کو جو ایک دو سال سے شروع ہے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں دو جھوٹ جمع ہو گئے ہیں ایک طرف مخالفین صداقت کا جھوٹ ہے اور دوسری طرف منافقین کا جھوٹ ہے.اس قسم کے دو جھوٹ بہت کم جمع ہوا کرتے ہیں ورنہ عام طور پر لوگوں کو ایک ایک جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے.کبھی انہیں مخالفوں کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور کبھی انہیں منافقوں کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جبکہ یہ دونوں جھوٹ جمع ہو جاتے ہیں جیسے
خطبات محمود ۲۷۴ سال ۱۹۳۶ رسول کریم ﷺ کو مدینہ منورہ کی ابتدائی زندگی میں ان دونوں جھوٹوں کا مقابلہ کرنا پڑا.آپ کو اہلِ مکہ کا بھی مقابلہ کرنا پڑا اور پھر آپ کو مدینہ میں جو منافقین کا گروہ تھا اس کا بھی مقابلہ کرنا پڑا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید اور نصرت کر کے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ جن کی مدد پر ہو اُن کے خلاف خواہ دشمن کی کتنی بڑی طاقتیں جمع ہو جائیں ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں بلکہ وہ ابدی زندگی پاتے اور مر کر بھی زندہ رہنے والے ہوتے ہیں پس ان کو کس قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا.انسان کے کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں یہی کہ وہ ماردیں ، یہی کہ وہ جائدادیں چھین لیں ، یہی کہ وہ مار پیٹ لیں ، یہی کہ وہ گالیاں دیں اور اس طرح جذبات و احساسات کو صدمہ پہنچا ئیں مگر یہ سب عارضی چیزیں ہیں جن کی مؤمن پروا نہیں کر سکتا کیونکہ مؤمن کی جنت دائگی ہوتی ہے اور یہ عارضی نقصان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی باغ کی شاخ تراشی کی جائے.شاخ تراشی کے بعد درخت بر باد نہیں ہو جاتے بلکہ وہ بڑھتے اور زیادہ پھل لاتے ہیں.اسی طرح مؤمن کو جب دُنیوی طور پر کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی تباہی کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس کی ترقی کا موجب بن جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کو کفار نے اگر گالیاں دیں، آپ کی عزت و آبرو پر حملہ کیا ، وطن سے نکالا اور قسم قسم کی نہ صرف ایذا ئیں دیں بلکہ ایذا ئیں ایجاد کیں تو کیا اس سے اشاعتِ اسلام میں کوئی روک واقع ہوگئی ؟ اسی طرح حضرت امام حسینؓ کے مقابلہ میں یزیدی طاقتوں نے گواتنی قوت کی پکڑی کہ انہوں نے آپ کو شہید کر دیا لیکن یزید آج بھی یزید ہے اور امام حسین آج بھی امام حسین کی کہلاتے ہیں.ان کا نام لیتے وقت لوگ انہیں امام کہتے اور ان کی بادشاہت آج بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن یزید کی بادشاہت ایسی مٹی کہ آج کوئی اپنے بچوں کا نام یزید رکھنے کیلئے تیار نہیں.یزید کی کیسا اچھا نام ہے اس کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہی چلا جائے.ہمارے پنجاب میں لوگ اپنے بچوں کا نام اللہ ودھایا رکھتے ہیں جس کا عربی زبان میں اگر ہم ترجمہ کریں تو یزید ہی ہوگا مگر کوئی شخص اپنے بچہ کا یزید نام رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اللہ ودھایا نام رکھ لیں گے.تو یہ نام باوجود اس کے کہ اس کے معنے بہت اچھے تھے بالکل ذلیل ہو گیا اور آج اس نام سے کوئی شخص اپنے آپ کو یا اپنی اولا د کوموسوم کرنے کیلئے تیار نہیں.اگر کوئی یہ نام رکھتا بھی ہے تو اس کے ساتھ کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے جیسے بایزید مگر صرف یزید کا لفظ مسلمانوں میں بالکل متروک ہے.اس کے مقابلہ میں
خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۳۶ء گنا جائے تو کتنے ہیں جو حسین کہلاتے ہیں.اگر تعداد معلوم کی جائے تو حسین نام رکھنے والے لاکھوں نکل آئیں گے اور ہر زمانہ میں نکل آئیں گے پھر وہ سارے کے سارے سوائے خوارج کے نام لیں گے تو امام حسین ہی کہیں گے اور حضرت کہہ کے ہی پکاریں گے.تو کسی مخالف کی مخالفت کی دنیا میں روحانیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.ہاں مخالفت کرنے والا تھوڑی دیر کیلئے اپنے دل کو خوش ضرور کر لیتا.میں نے کہا ہے اس زمانہ میں ہمارے خلاف دونوں قسم کے مخالف کھڑے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں.وہ لوگ بھی جھوٹ کے ہتھیار سے حملہ کر رہے ہیں جو بیرونی دشمن ہیں اور وہ بھی جو اندرونی دشمن یعنی منافق ہیں.منافق جب کبھی دیکھتا ہے کہ جماعت پر باہر سے حملہ ہو رہا ت ہے تو وہ اپنا سر اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے.چونکہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کی شدت سے مخالفت ہورہی ہے اس لئے کئی منافقین نے جو پہلے دبے ہوئے تھے آج سر اٹھا نا شروع کر دیا ہے اور وہ اپنی تنظیم کی فکر میں لگ گئے ہیں لیکن منافق کی تنظیم کو ئی تنظیم نہیں ہوا کرتی اور نہ مخالف کا حملہ روحانی جماعتوں کیلئے کوئی نقصان رساں حملہ سمجھا جاسکتا ہے.جھوٹ تو ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمیشہ بولا ہی جاتا ہے اور اگر ان کے جھوٹوں کو گنا جائے تو ان کا شمار ناممکن ہو لیکن بعض دفعہ تو وہ ایسا کھلا جھوٹ بولتے ہیں کہ حیرت آ جاتی ہے کہ دشمن جب جھوٹ بولنے پر آجائے تو وہ کس طرح سو فیصدی جھوٹ بول جاتا ہے.جب انسان خود سچائی کا پابند ہو تو خیال کرتا ہے کہ کوئی شخص آخر کتنا جھوٹ بول سکتا ہے، پانچ ، دس، پندرہ یا بیس فیصدی ، اس سے زیادہ جھوٹ وہ کیا بولے گا.چنانچہ میرا اپنا یہی خیال تھا میں سمجھا کرتا تھا کہ کوئی آخر کتنا جھوٹ بول سکتا ہے.اگر اس نے سو باتیں بیان کی ہیں تو ممکن ہے کہ ان میں سے پانچ جھوٹ ہوں اور پچانوے بیچ.یا دس جھوٹ ہوں اور نوے بیچ ، اس سے بڑھ کر تو جھوٹ بول نہیں ہے سکتا لیکن جب آہستہ آہستہ میرا تجربہ بڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ پچاس ساٹھ فیصدی جھوٹ بھی لوگ بول لیا کرتے ہیں اور اب اس نئی جنگ میں جو احرار سے شروع ہے مجھے پتہ لگا کہ ہمارے دشمنوں کی کی طرف سے سو فیصدی جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ اگر ان کے امکان میں ہوتا کہ سو فیصدی سے بھی زیادہ جھوٹ بول سکتے تو وہ ضرور زیادہ جھوٹ بولنے کی کوشش کرتے.پھر ایسا کھلا جھوٹ بولا جاتا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء ہے کہ جس کا پہچاننا کسی کیلئے مشکل ہی نہیں ہوتا.ہر شخص جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے مگر وہ اسے بیان کرتے اور کھلے بندوں بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر شخص جو حالات سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے.مثلاً ابھی پچھلے چند دنوں میں ان مخالفوں کی طرف سے ایسے ایسے جھوٹ بولے گئے ہیں جو سرتا پا جھوٹ ہیں اور جن میں ایک فیصدی سچائی بھی نہیں پائی جاتی.پھر جھوٹ بھی ایسی دلیری سے بولے گئے ہیں کہ یہ نہیں کہا گیا یہ سنی سنائی باتیں ہیں بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ ہماری آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتیں ہیں.مثلاً پچھلے دس بیس دن کے اندراند راحرار کی طرف سے جو جھوٹ بولے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ احمدیوں کے خلیفہ کی جوان بیٹیاں قادیان میں غیروں کے گھروں سے چندہ مانگتی پھرتی ہیں.اب جھوٹ بنانے کو تو انہوں نے بنا لیا مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ اتنا کھلا جھوٹ ہے ہے کہ قادیان کا کوئی شخص اسے صحیح تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوگا.قادیان کی آبادی اس وقت آٹھ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے، ان میں ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، غیر احمدی بھی اور قریباً آٹھ ہزار احمدی ہیں اتنی بڑی جماعت کے سامنے انہوں نے یہ جھوٹ بول دیا اور اس کا نام مذہبی خدمت رکھ دیا.کی پھر خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیاں جوان ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی خیال کرے کہ شاید ی احمدیوں کے خلیفہ کی چھوٹی عمر کی بیٹیاں مانگتی پھرتی ہیں.اس قسم کا جھوٹ بول کر دشمن یہ خیال کر لیتا ہے کہ قادیان کے لوگ اگر سمجھ بھی گئے کہ یہ جھوٹ ہے تو باقی دنیا تو حالات سے واقف نہیں وہ تو اسے درست مان لے گی.مثلاً لا ہور کے لوگوں کو کیا پتہ ہے کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، افتراء ہے یا امر واقعہ ؟ اور چونکہ اکثر ان میں سے ہمارے مخالف ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ کہیں یہ سچ ہے.اسی طرح گورداسپور کے لوگوں کو کیا ہے پستہ ، امرتسر کے لوگوں کو کیا پتہ ، پشاور کے لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ افتراء ہے یا نہیں وہ لازماً ان باتوں کو سچ سمجھیں گے اور اس طرح جماعت سے نفرت پیدا ہو گی.مگر یہ جو نظر یہ ہے کہ اگر قادیان کے لوگوں نے اسے جھوٹ سمجھ لیا تو کیا ہوا باہر کے لوگ تو اسے افتراء نہیں سمجھیں گے اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا افتراء کرنے والے اپنی قوم کا معیار عقل بہت چھوٹا تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح انہوں نے ہماری ہی ہتک نہیں کی بلکہ اپنی قوم کی ہتک بھی کی ہے اور انہوں نے
خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۳۶ جھوٹ بول کر تسلیم کر لیا ہے کہ ان کے بھائی بندا اور ہم قوم گاؤ دی لے اور احمق ہیں وہ جو کچھ کہیں گے وہ اُسے مان لیں گے خواہ وہ بات معقولیت سے کس قدر دور ہو اور کبھی اس پر غور نہیں کریں گے.مگر کیا تعجب کی بات نہیں کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ قادیان کے لوگوں کو کنگال کر دیا ، ان کا تمام مال، ان کی تمام املاک لوٹ لیں، وہ فاقوں مر رہے ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور دوسری طرف جب ان کی تمام دولت میرے پاس آجاتی ہے اور میں انہیں اچھی لوٹ لیتا ہوں تو میری جوان بیٹیاں ان کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں.اگر یہ میچ ہے کہ مال و دولت لگا دینے کی وجہ ی سے قادیان کے لوگ کنگال ہو گئے ہیں اور ان کی دولت میں نے کوٹ لی ہے تو پھر میری لڑکیوں کی کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ان کنگالوں کے گھروں پر مانگنے جاتے ہیں صریح طور پر خلاف عقل بات نہیں تو اور کیا ہے.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ کوئی میراثی تھا اس کے گھر رات کو چور آیا اس نے کی کمرے میں اِدھر اُدھر تلاش کی مگر کوئی چیز نہ ملی.جب سب طرف سے مایوس ہو گیا اور اُسے یہ ڈر بھی پیدا ہوا کہ کوئی جاگ نہ اُٹھے اور میں پکڑا جاؤں تو اس نے جلدی جلدی مکان میں گھومنا شروع کیا.اتفاقاً ایک جگہ روشندان میں سے چھن چھن کر چاندنی پڑ رہی تھی اُس نے سمجھا کہ یہ آتا ہے ہے جلدی میں اُس نے زمین پر چادر پھیلا دی مگر جب چاندنی کو آٹا سمجھ کر سمیٹنا چاہا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی کے خالی آپس میں مل گئے.اسی دوران میں اتفاقا میراثی کی آنکھ بھی کھل چکی تھی تھی اور وہ سب نظارہ بستر پر لیٹے ہوئے دیکھ رہا تھا جب اس چور نے آٹا سمجھ کر اسے اکٹھا کرنا چاہا اور دونوں ہاتھ خالی مل گئے تو میراثی ہنس کر کہنے لگا ” جمان ایتھے تے دن نوں کچھ نہیں لبھدا تو رات کی نوں کی لبھدا ہیں.یعنی میرے آقا! اس گھر میں تو دن کو بھی کچھ نظر نہیں آتا آپ رات کو یہاں کیا ہے تلاش کر رہے ہیں.تو ایک طرف احرار کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے لوگوں کو لوٹ لیا اور ان کے مال ہضم کر لئے کنگال اور فقیر بنا دیا وہ بھو کے مرتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا اور دوسری طرف کہا جاتا ہے میری جوان بیٹیاں قادیان میں گھر گھر لوگوں سے مانگتی پھرتی ہیں حالانکہ جب بقول ان کے میں نے تو لوگوں کو لوٹ لیا ہے پھر میری بیٹیاں ان کنگالوں کے گھروں میں کچھ مانگنے کس طرح جاسکتی ہیں.مگر اس تضاد اور اختلاف کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ان کا مقصد محض
خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۶ جھوٹ بولنا ہے ایک جگہ ایک رنگ میں جھوٹ بول دیا اور دوسری جگہ دوسرے رنگ میں.گویا وہ ای سمجھتے ہیں کہ احرار اتنے احمق ہیں کہ وہ ان دونوں جھوٹوں کو جو آپس میں بالکل متضاد ہیں صحیح ماننے کی کیلئے تیار ہو جائیں گے.اس جھوٹ کو بھی وہ درست سمجھیں گے کہ میری جوان بیٹیاں لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں اور اس جھوٹ کو بھی صحیح قرار دیں گے کہ میں لوگوں کو ٹوٹ ٹوٹ کر کنگال بنا چکا ہوں اور عقل وسمجھ سے کام لے کر ذرہ بھر بھی نہیں سوچیں گے کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں لوگوں کو لوٹ لوٹ کر بہت بڑا امیر بن چکا ہوں تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ میری جوان بیٹیاں قادیان میں ٹکڑا سے محتاج لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں اور اگر یہ صحیح ہے کہ میری جوان بیٹیاں لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ میں نے قادیان کے لوگوں کو لوٹ لوٹ کر انہیں کنگال بنادیا ہے مگر وہ اس فرق کو نہیں سوچیں گے اور بلا سوچے سمجھے ان دونوں جھوٹوں کو صحیح تسلیم کرلیں گے.جو جماعت ایسی گدھی اور احمق ہو جائے یا جس کے لیڈرا سے اتنا احمق اور بیوقوف سمجھتے ہوں اُس نے دنیا میں کام کیا کرنا ہے اور کونسی خدمت دین کر سکتی ہے وہ تو آج بھی تباہ ہوئی ہے اور کل بھی تباہ ہوئی.پھر اس کے بعد دوسرا جھوٹ بولا گیا ہے کیونکہ آخر چند دنوں کے بعد اخبار میں کوئی اور دلچسپ خبر بھی تو ہونی چاہئے تھی کہ اب لوگوں سے خلیفہ کی بیٹیاں مانگ مانگ کر چونکہ تھک گئی ہیں ی اور کچھ وصول نہیں ہوتا اس لئے انہوں نے اپنی بیویوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں پر مانگنے کیلئے جایا کریں.چنانچہ احرار کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدیوں کے خلیفہ نے اپنی نی چاروں بیویاں بلائیں اور ان سے کہا کہ پہلے تو میں تمہارے سنگھار پر تم سے محبت کیا کرتا تھا مگر اب لوگوں کے گھروں سے مانگنے پر تم سے محبت کیا کروں گا اور جتنا جتنا زیادہ کوئی بیوی مانگ کر لائے گی اتنی ہی زیادہ میری محبت اُسے حاصل ہوگی.لکھا ہے کہ جب میری بیویوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا کہ آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا.ہم آپ کے حکم کی تعمیل میں لوگوں کے گھروں سے مانگ کر لایا کریں گی.مگر جو میری چوتھی بیوی ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے انکار کیا اور کہا میں تو ہرگز گھروں پر جانے اور لوگوں سے مانگنے کیلئے تیار نہیں اور چونکہ اس جواب کا باقی بیویوں پر اثر پڑا ہے اس لئے اب سکیمیں سوچی جارہی ہیں کہ اُس بیوی کو کس طرح سزا دی جائے تاکہ وہ بھی باقی
خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۶ء بیویوں کی طرح مانگنے پر تیار ہو جائے گویا یہ خبر پہلی خبر کا تتمہ ہے.ان اخباروں کے وہ خریدار جو اتنے احمق اور بیوقوف ہیں کہ جو بات ان کے سامنے بیان کی جائے خواہ وہ کتنی ہی جھوٹ اور ان خلاف واقعہ ہوا سے ماننے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں ان کیلئے کچھ تعجب نہیں کہ اخبار والے آئندہ یہ خبر بھی لکھ دیں کہ چونکہ بیویوں کے ذریعہ مانگنے پر بھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا اس لئے اب احمدیوں کے کے خلیفہ نے اپنے مرید لے کر قادیان کے تمام احراریوں کے گھروں پر حملہ کر دیا ہے اور تمام کی مال و متاع کوٹ کر گھروں سمیت انہیں صفحہ دنیا سے غائب کر دیا ہے.اس کے چند دن بعد یہ خبر دے دیں کہ امرتسر کے فلاں فلاں محلے غائب ہو گئے ہیں اور انہیں احمدیوں کا خلیفہ اُٹھا کر قادیانی لے گیا ہے.پھر لکھ دیں کہ لاہور سب کا سب غائب ہو گیا ہے اور سنا گیا ہے کہ قادیانی جماعت کا خلیفہ اُسے اپنی جیب میں ڈال کر لے گیا ہے.اور اس کے بعد شائع کر دیں کہ فلاں صوبہ بالکل نی مفقود ہے اور شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ صوبہ بھی احمدیوں کے خلیفہ نے اپنے مریدوں کی معرفت قادیانی اُٹھوا منگوایا ہے.احرار نے اپنے چیلوں کو اس قدر احمق بنادیا ہے کہ کچھ تعجب نہیں ان کے چیلے ایسی خرافات کو بھی تسلیم کر لیں.بے شک پہلے بھی انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں شیطان نے کی جھوٹ بولا ہے مگر تاریخ سے معلوم نہیں ہوتا کہ کبھی اتنا نڈر ہوکر شیطان نے جھوٹ بولا ہو.معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اب یہ سمجھتا ہے کہ احرار کے ذریعہ سے شیطانوں کی ایک وسیع جماعت پیدا ہوگئی ہے اس لئے اب میں جو چاہوں کہوں وہ اسے درست تسلیم کر لیں گے.پس چونکہ شیطان کے نزدیک اب ان مخالفوں میں کوئی آدمی نہیں رہا سب شیطان ہو گئے ہیں اسی لئے وہ اس قدر کھلا جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اخباروں میں چھاپنا شروع کر دیتے ہیں.پھر انہی دنوں ہماری مجلس شوری کی کارروائیوں کا ان اخبارات میں ذکر چھپتا رہا ہے مگر جو دوست مجلس میں شامل تھے وہ اگر ان باتوں کو سنیں تو حیران ہو جا ئیں کہ یہ کس مجلس شوری کا ذکر ہورہا ہے وہ تو یہی سمجھیں کہ یہ کوئی نرالی مجلس شوریٰ ہے جس مجلس شوریٰ میں ہم شامل تھے اس کا یہ ذکر نہیں.مثلاً ان کے نزدیک اس مجلس شوری میں میں نے کئی گھنٹے اپنی تقریر میں میر قاسم علی کی صاحب کی خبر لی حالانکہ مجلس شوریٰ میں اُن کا نام تک نہیں آیا.اسی طرح بعض واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں کہ بیرونی جماعتوں کو اس اس رنگ میں ڈانٹ پڑی حالانکہ مجلس شوری میں اس کی
خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۶ رنگ میں کوئی ذکر تک نہیں آیا تھا.پھر گزشتہ ایام سے برابر ایک تسلسل ایسی فہرستوں کا چلا آتا ہے جن میں مرتدین کے نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر جب ان کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے تو کچھ تو واقعہ میں ایسے لوگ ثابت کی ہوتے ہیں جولوگوں کے بہکائے یا ڈرائے سے احمدیت چھوڑ بیٹھتے ہیں مگر یہ بہت قلیل تعداد ہوتی ہے ہے زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب ہم ان کے متعلق تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں تو عرصہ سے ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے اس نے کبھی احمدیت قبول ہی نہیں کی.اس کی کے ارتداد کا اعلان کیسا، پھر فلاں کو جماعت سے خارج ہوئے مثلاً سال دو سال ہو گئے ہیں آج کی اُس کے مرتد ہونے کا اعلان کیا معنے رکھتا ہے، پھر بعض نام ایسے احمدیوں کے بھی ہوتے ہیں جو نہایت مخلص ہوتے ہیں مگر ان کی طرف افتراء کے طور پر یہ بات منسوب کر دی جاتی ہے کہ انہوں نے احمدیت سے ارتداد کیا.آج ہی میں نے الفضل میں ایک شخص کا اعلان پڑھا ہے وہ کہتا ہے میرا نام بھی احراریوں نے مرتدین میں شائع کر دیا ہے حالانکہ میں خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہوں.یہ جھوٹ گویا اس قسم کے جھوٹوں میں سے ہے جس میں قدرے سچائی بھی ہوتی ہے یعنی کچھ واقعہ میں مرتد ہو گئے ہوتے ہیں لیکن اکثر نام ایسے ہی لوگوں کے ہوتے ہیں جو یا تو ہماری جماعت کی کے سخت مخالف ہوتے ہیں یا جماعت سے ایک عرصہ سے خارج ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر مخلص احمدی کی ہوتے ہیں.اسی سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جو بھی چندہ کی تحریک ہوتی ہے اس کے متعلق احسان“ اور ”مجاہد میں چھاپ دیا جاتا ہے کہ یہ تحریک اس لئے کی گئی ہے کہ مرزا محمود کو فلاں ضرورت پیش آئی تھی اس کیلئے روپیہ درکار تھا اس لئے چندہ کی تحریک کر دی گئی.پھر اس ضمن میں ان احرار کا ایک چہیتا مضمون ہے.یعنی وہ ان تمام رقوم کو ایک استانی جی کی خاطر قرار دیتے ہیں جو قادیان صرف ایک دن کیلئے آئی تھی اور یہ دیکھنے آئی تھی کہ وہ یہاں رہا کیا کر کام کر سکتی ہے یا نہیں اور یہ دیکھ کر کہ اس کی لڑکیوں کی تعلیم کا یہاں انتظام نہ ہو سکے گا واپس چلی گئی تھی.اب جو بھی چندہ کی تحریک ہو وہ اُس کی خاطر سمجھی جاتی ہے اور اس طرح احرار کے نزدیک اب تک لاکھوں روپیہ اس کیلئے جماعت سے لیا جا چکا ہے.ساٹھ ہزار قرض کی جو تحریک کی گئی تھی وہ وی بھی ان کے نزدیک اسی کیلئے کی گئی تھی.پھر اور بھی جو تحریکیں ہوتی ہیں وہ اسی کیلئے مجھی جاتی ہیں.
خطبات محمود ۲۸۱ سال ۱۹۳۶ غرض صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کوئی تحریک ہو وہ انہی اغراض کیلئے سمجھی جاتی ہے حالانکہ ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ صدر انجمن احمدیہ کا ایک ایک پیسہ رجسٹروں میں درج ہوتا ہے.انہوں نے ی غالباً صدر انجمن احمدیہ کی وصولی چندہ کو اپنے چندوں کی طرح سمجھا ہوا ہے.ان کا طریق تو یہ ہے که مثلاً مولوی عطاء اللہ صاحب کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ چندہ لاؤ ہم زردہ کھائیں گے ، ہم پلاؤ کھائیں گے، ہم فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے مگر حساب نہیں دیں گے.لوگوں نے سمجھا بھلا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم چندہ کا حساب مانگیں تو یہ نہ دیں یہ دل لگی کر رہے ہیں.انہوں نے چندہ دے دیا مگر بعد میں جب لوگوں نے حساب مانگا تو کہہ دیا ہم نے نہیں کہا تھا کہ ہم چندہ لیں گے مگر حساب نہیں دیں گے.ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ہم چندہ لے کر پلاؤ زردہ کھائیں گے اور فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے، موٹروں پر سوار ہوں گے مگر حساب نہیں دیں گے اب تم حساب کس طرح لے سکتے ہو.پس انہوں نے خیال کیا کہ شاید ی ہمارے چندے بھی ان کے چندوں کی طرح آتے اور ذاتی ضروریات میں خرچ ہو جاتے ہیں.حالانکہ ہمارے چندے تو ایسی احتیاط سے رجسٹروں میں درج کئے جاتے ہیں کہ بعض دفعہ چند پیسوں کیلئے دو دو تین مہینہ تک رجسٹروں کی پڑتال کی جاتی اور حساب کی چھان بین ہوتی رہتی ہے.لکھنے والا لکھتا ہے کہ میں نے فلاں دن اتنا چندہ بھیجا مجھے مقامی رسید مل گئی ہے مگر مرکزی حساب کی میں درج نہیں ہوا.یا ڈاک خانہ کی طرف سے تو روپوں کے پہنچنے کی رسید مل گئی مگر دفتر کی طرف سے نہیں ملی اس پر دفاتر کی معرفت تحقیق کرائی جاتی ہے اور جب چندہ بھیجنے والے کی تسلی نہ ہو تو وہ لکھتے ہیں اور میں تحقیقات کرتا ہوں اور اُس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک حساب صاف نہ ہو جائے اور جو الجھن پیدا ہوئی ہو وہ دُور نہ ہو جائے.تو چونکہ وہ ہمارے حالات کو نہیں جانتے اس کے لئے اپنے اوپر قیاس کر لیتے ہیں.ان کی مثال بالکل اس زمیندار کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے قریب چند نوجوان بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ملکہ وکٹوریہ کیا کھاتی ہوگی ؟ وہ چونکہ شہروں میں بھی پھر چکے تھے اس لئے ان میں سے کوئی کہتا پلاؤ کھاتی ہوگی ، کوئی کہتا زردہ کھاتی ہوگی ، کوئی کہتا متنجن کھاتی ہوگی ، اسی طرح ہر ایک نے جس چیز کو وہ زیادہ پسند کرتا تھا اس کا نام لے کر کہنا شروع کردیا
خطبات محمود ۲۸۲ سال ۱۹۳۶ء کہ ملکہ وکٹوریہ یہ کھاتی ہوگی.یہ باتیں سن سن کر وہ زمیندار تنگ آ گیا کہنے لگا.ہوں ! ہوں ! تم سب بیوقوف ہو بھلا یہ بھی کوئی کھانے کی چیزیں ہیں.اصل بات میں تمہیں بتا تا ہوں.ملکہ نے دو کو ٹھڑیاں گڑ سے بھر رکھی ہوں گی وہ ٹہلتی ٹہلتی اُدھر جاتی ہوگی تو گڑ کی بھیلی منہ میں ڈال لیتی ہوگی تھی پھر دوسری طرف جاتی ہوگی تو دوسری کوٹھڑی سے گڑ کی بھیلی نکال کر منہ میں ڈال لیتی ہو گی.وہ کی چونکہ گڑ کھانے کا عادی تھا اس لئے اس نے سمجھ لیا کہ ملکہ بھی گڑہی کھاتی ہوگی.اسی طرح چونکہ احرار کو خود لوگوں سے چندے وصول کر کے کھانے کی عادت ہے اس لئے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہوگا.چنانچہ پندرہ بیس سال کی بات ہے کہ ایک دفعہ ایک اخبار میں چھپا تھا کہ قادیان میں جب لوگوں کے منی آرڈر پہنچتے ہیں تو سب لوگ مسجد میں جمع ہو جاتے ہیں اور شور مچانا شروع کی کر دیتے ہیں کہ لانا ہمارا حصہ کہاں ہے؟ ہر ایک کا روپیہ میں کچھ حصہ مقرر ہوتا ہے.مثلاً میرا دو آنے فی روپیہ حصہ ہوا، مولوی شیر علی صاحب کا روپیہ میں سے دو پیسے، مفتی محمد صادق صاحب کا دو پیسے، مولوی غلام رسول راجیکی صاحب کے دو پیسے، مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے دو پیسے ہوئے.جس وقت منی آرڈر پہنچتے ہیں سب دوڑ پڑتے ہیں اور مسجد میں اکٹھے ہو کر روپیہ کو آپس میں بانٹ کر اپنے اپنے گھر لے جاتے ہیں.اب ہم تو اپنے دل میں ان خبروں کو پڑھ کر یا تو ہنس دیتے ہیں یا ہمیں درد پیدا ہوتا ہے که انسان جب شرافت سے عاری ہو جاتا ہے تو کس طرح گتے اور سؤر جتنی بھی نیکی اس میں باقی تی نہیں رہتی.گتے اور سور میں پھر بھی کچھ حیا ہوتی ہے مگر ایسے صریح جھوٹ بولنے والوں میں تو اتنی بھی حیا نہیں رہی جتنے گئے اور سؤر میں پائی جاتی ہے.پھر کبھی حیرت آجاتی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا مانیت پر کوئی ایسا غضب نازل ہونے والا ہے کہ یہ کمبخت صفحہ ہستی سے بالکل مٹادیا جائے گا اور اس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہ رہے گا.پھر تھوڑے ہی دن ہوئے احرار کے ایک اخبار میں ایک اور خبر شائع ہوئی اور لطیفہ یہ ہے کہ ایک ہی اخبار میں ایک ہی صفحہ پر دو متضاد خبریں درج کر دی گئیں.ان دونوں میں ذکر تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب قادیان میں آئے اور میری اُن سے گفتگو ہوئی.ایک خبر میں تو اس
خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۶ گفتگو کو خواب کے رنگ میں بیان کیا گیا تھا اور ایک میں نامہ نگار کی طرف سے وہ گفتگو بیان کی گئی تھی.مگر ایک میں تو لکھا تھا کہ میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو خوب ڈانٹا اور دوسری میں یہ لکھا تھا کہ چوہدری صاحب نے مجھے خوب ڈانٹا.ایک میں تو میں انہیں ڈانٹتا ہوں کہ آپ کچھ بھی نہیں کرتے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر آپ کو کیوں بنایا گیا تھا جب آپ ہماری مشکلات کو جی دور کرنے کیلئے کوئی علاج نہیں کرتے.اور دوسری میں وہ مجھے ڈانٹتے ہیں کہ میں تدبیریں کر کے تھک جاتا ہوں مگر تم اپنی بیوقوفی سے کام خراب کر دیتے ہو.میں سمجھتا ہوں یہ خبر میں جس نے لکھیں وہ کوئی معمولی نامہ نگار نہ تھا کیونکہ میری ملاقات کے وقت ملنے والے احمدی کے سوا اور میرے سوا دوسرا کوئی شخص وہاں موجود نہیں ہوتا.صرف جب غیر شخص ملنے والا ہو تو دفتر کا کوئی آدمی یا کوئی اور دوست وہاں موجود ہوتے ہیں کسی احمدی کی ملاقات کے وقت ایسا نہیں کیا جاتا.پس جبکہ وہ بالکل الگ کمرہ تھا جس میں گفتگو ہوئی اور اُس وقت اور کوئی تیسرا آدمی پاس موجود نہ تھا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ نامہ نگار آدمی نہیں تھا بلکہ یہ تو چھیلی تھا یا کھی یا چیوٹی تھایا کوئی سنپولیا تھا جوکسی بد روس میں چھپا بیٹھا تھا بہر حال وہ انسان نہیں ہو سکتا.یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ احرار کو کوئی ایسا طلسم آگیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ لکھی بن کر میری پگڑی پر یا چوہدری صاحب کے کوٹ پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن خبر بھی نہیں ہوتی کہ کمرہ میں کوئی اور آدمی ہے اور ہم راز کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں مگر مجاہد اور احسان“ کا نامہ نگار لکھی بنا خود ہمارے کپڑوں پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور ہنس ہنس کر کہتا جاتا ہے کہ آج ان کا راز خوب معلوم ہوا اور پھر بعد میں شائع کر دیتا ہے.غرض کوئی احمق یہ نہیں سوچتا کہ وہ نامہ نگار کہ جس نے وہ خبر لکھی اس وقت بیٹھا کہاں تھا اور اس نے وہ گفتگو سنی کس طرح سے جو میرے اور چوہدری صاحب کے درمیان ہوئی.خواہ اس کی کا کوئی موضوع ہو وہ احسان یا ”مجاہد کے نامہ نگار کو معلوم کس طرح ہو گئی جبکہ گفتگو جس وقت ہوئی اُس وقت کمرہ میں اور کوئی آدمی نہ تھا.اور یہ طریق صرف چوہدری صاحب سے مخصوص نہیں کی جماعت کے وہ ہزاروں دوست جو سال بھر میں مجھ سے ملتے ہیں جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ملتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ خود کسی دوسرے دوست کو ساتھ لے آئیں.یا سوائے مشتبہ لوگوں کے کہ ان کی کی گفتگو کے وقت کسی گواہ کا موجود رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے.اسی طرح چوہدری صاحب مجھ سے
خطبات محمود ۲۸۴ سال ۱۹۳۶ جب ملتے ہیں علیحدگی میں ملتے ہیں اُس وقت اور کوئی پاس نہیں ہوتا.ہاں اگر مشتر کہ ام ہو تو اُس وقت جماعت کے اور دوست بھی ہوتے ہیں اور چوہدری صاحب بھی.پس ایسی کی پرائیویٹ گفتگو کی خبر احسان “ یا ”مجاہد کو کس طرح ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ میں یہ سمجھوں کہ احسان “ اور ”مجاہد کا نامہ نگار اس وقت سنپولیا بنا ہوا کسی بدر رو میں بیٹھا تھا یا مکھی بن کر کرسی پر بیٹھا تھا یا چھپکلی بن کر روشندان میں موجود تھا اور اس نے ہماری باتیں سن کر احسان اور مجاہد میں شائع کرا دیں.پس اگر کوئی ایسا طلسم ان کے ہاتھ میں آگیا ہے تو یہ اور بات ہے.ورنہ سوائے اس کے کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ شیطان کے چیلے ہیں جو ساری دنیا کو الو بنا رہے ہیں.ان جھوٹوں کا صرف ایک علاج ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اجرت ہم دینے کیلئے تیار ہیں ”مجاہد اور احسان والے جب اس قسم کی کوئی خبر شائع کریں تو اس کے آخر میں یہ لکھ دیا کریں.لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اس طرح جتنی رپورٹیں وہ ہمارے متعلق شائع کریں ان کے بعد لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کے الفاظ بھی لکھ دیا کریں اور ان الفاظ کی قیمت مناسب اشتہاری ریٹ پر وہ ہم سے لے لی کریں.میری طرف سے انہیں کھلی اجازت ہے کہ وہ ان رپورٹوں اور اطلاعات کو درج کرنے کے بعد ہر رپورٹ کے نیچے لکھ دیا کریں کہ جماعت احمدیہ کا جواب اس رپورٹ کے متعلق یہ ہے لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کہ اور صرف اتنے حصے کی اُجرت کا بل بنا کر مجھے بھیج دیا کریں میں انہیں روپیہ ادا کر دوں گا.اِس صورت میں ہمارے نزدیک یہی جواب کافی ہو جائے گا اور پھر انہیں یہ بھی فائدہ ہوگا کہ انہیں پیسے مل جائیں گے.غرض اس طرح انہیں خبر کی خبر مل جائے گی ، اخبار بھی دلچسپ رہے گا اور ہم سے پیسے بھی وصول کر سکیں گے جس کے ذریعہ ممکن ہے وہ اپنے نامہ نگاروں کا گھر بھر سکیں.مخالفین کے ان جھوٹوں کے ساتھ کچھ منافق بھی کھڑے ہو گئے ہیں اور یہ بھی ایک جماعت پیدا ہوگئی ہے جن میں سے تو کچھ قادیان میں رہ کر اور کچھ اخباروں والوں سے مل کر فتنہ وفساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.ابھی تین چار دن ہوئے ایک دوست نے ایک خط بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ بعض بڑے بڑے بزرگ کہتے ہیں ( نہ معلوم وہ کون سے بزرگ ہیں ) کہ
خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۶ء خلیفہ صاحب کی بیویاں سفر میں ہمیشہ فرسٹ کلاس ہوٹلوں میں ٹھہرا کرتی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سوائے ایک دفعہ کے وہ فرسٹ کلاس چھوڑ کبھی تھرڈ کلاس ہوٹلوں میں بھی نہیں ٹھہریں.وہ استثناء ۱۹۱۸ء کے شروع کا ہے اُس وقت میں سخت بیمار ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے سمندر پر جانے کا مشورہ دیا تھا اُس وقت بمبئی جاتے ہوئے میرے ساتھ ناصر احمد کی والدہ اور امتہ الحئی مرحومہ تھیں اُس وقت دہلی میں کسی احمدی کا مکان ہمارے قافلہ کو رکھنے کے قابل نہ تھا اس لئے کا رونیشن ہوٹل میں جو ایک معمولی ہندوستانی ہوٹل ہے ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا.اس کے سوا کبھی میری کوئی بیوی میری یاد اور میرے علم میں کسی فرسٹ یا سیکنڈ یا تھرڈ کلاس ہوٹل میں نہیں ٹھہری.بیویاں تو الگ رہیں میں خود بھی ایک دفعہ کے سوا کسی فرسٹ کلاس ہوٹل میں نہیں شہر ا مگر وہ بھی تبلیغی کی ضرورتوں کے لئے قیام تھا.یہ واقعہ سفر لنڈن کا ہے جس کے دوران میں بڑے آدمیوں کی ملاقات کی کے خیال سے میں پیرس میں بعض ساتھیوں سمیت ایسے ہوٹل میں ٹھہرا تھا جسے فرسٹ کلاس ہوٹل کہا ہے جاسکتا ہے مگر وہاں بھی جن کمروں میں ہم ٹھہرے تھے فرسٹ کلاس کمرے نہ تھے بلکہ تھرڈ کلاس کے کمرے تھے.اس کے علاوہ باقی جس قسم کے ہوٹلوں میں ہم ٹھہرے اور جس قسم کا ہم نے کھانا کھایا ان میں سے ایک ہوٹل کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اُس کا کھانا کھا کر مجھے آٹھ دن دست لگے جی رہے تھے.پس ساری عمر میں مجھے اس فرسٹ کلاس ہوٹل میں ٹھہرنا یاد ہے اور وہ بھی تبلیغی ضرورتوں کیلئے تھا باقی کبھی فرسٹ کلاس ہوٹل میں میں نہیں ٹھہرا اور نہ کبھی میری بیویاں.سوائے ۱۹۱۸ ء کے فرسٹ چھوڑ تھرڈ کلاس ہوٹل میں ٹھہر ہیں.بہر حال کسی ہوٹل کو فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوٹل سمجھنا بھی اپنی اپنی نگاہ پر منحصر ہوتا ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ اس دوست نے جھوٹ بولا ہے ممکن ہے انہوں نے دہلی والا واقعہ کسی سے سن کر ہی یہ بات کہہ دی ہو.یا پھر ممکن ہے معمولی ہوٹل کو بھی وہ اپنی نگاہ میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوٹل سمجھتے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی چوڑ ھالا ہور کے پاس سے گزر رہا تھا اس نے دیکھا ہزاروں آدمی رور ہے ہیں.وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا کیا بات ہے؟ لوگوں نے بتایا رنجیت سنگھ مر گیا ہے.وہ کہنے لگا میں نے سمجھا خبر نہیں کیا بات ہو گئی ہے جب با پوجیسے ( یعنی والد جیسے ) مر گئے تو رنجیت سنگھ بیچارہ کون سے حساب میں تھا.گویا اُس چوڑھے نے ا
خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۶ باپ کو فرسٹ کلاس آدمی سمجھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو تھرڈ کلاس.پس یہ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہوتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ کہنے والے نے یہ بات جھوٹ کہی یا فریب کیا ممکن ہے انہوں نے میرے دہلی میں ٹھہرنے کا واقعہ سنا ہو اور اسی کو انہوں نے فرسٹ کلاس ہوٹل میں ٹھہر نا قرار دے لیا ہو مگر جس نیت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے وہ بے شک منافقت والی ہے.پھر مشہور کیا جاتا ہے کہ قادیان میں بہت سے منافق رہتے ہیں اور بڑی بڑی میٹنگیر کرتے رہتے ہیں چنانچہ ان میٹنگوں کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں اور وہ ایسی دلچسپ ہے ہیں کہ ان کو پڑھ کر الف لیلہ کا سا لطف آتا ہے.تقریریں یہ ہوتی ہیں کہ اپنی جانیں قربان کر دو اور بہادری و جرات کا نمونہ دکھاؤ مگر بتایا یہ جاتا ہے کہ وہ چھپ کر سڑکوں سے دور بیٹھے باتیں کر رہے تھے تا جماعت احمدیہ کا کوئی جاسوس ان کی نقل و حرکت کو معلوم نہ کرے اور ان کی باتوں کا پتہ نہ لگائے.ادھر تو اتنی بہادری کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ کہا جاتا ہے اپنی جانیں قربان کر دو اور ی دوسری طرف اتنا اخفاء کیا جاتا ہے کہ کوشش کی جاتی ہے ہمارا کوئی آدمی ان کی باتیں نہ سن لے.منافقوں کی یہ بہادری ایسی ہی بہادری ہے جیسے چوہوں کے متعلق قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک روز مل کر مشورہ کیا کہ بلی ہمیں روز مار جاتی ہے اس کا کوئی علاج کرنا چاہئے.چنانچہ انہوں نے بیٹھ کر طے کیا کہ بلی کا مقابلہ کرنا چاہئے اس پر فیصلہ ہوا کہ چوہوں کو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کرنا چاہئے.چنانچہ بڑی بڑی تقریریں ہوئیں اور مطالبہ کیا گیا کہ کون ہے جو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کرتا ہے اس پر بڑے بڑے چوہے اُٹھے.پچاس ساٹھ نے کہا کہ اب کی دفعہ بلی آئی تو ہم اُس کی دُم پکڑ لیں گے، پچاس ساٹھ چوہوں نے کہا کہ ہم اُس کا دایاں کان پکڑی لیں گے ، پچاس ساٹھ نے کہا کہ ہم اُس کا بایاں کان پکڑلیں گے سو دوسو نے کہا کہ ہم اس کی گردن پکڑ لیں گے، سو دوسو نے کہا کہ ہم اس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے ، غرض اسی طرح سینکڑوں کی چوہوں نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا اور کہا کہ ہم ملکی کو پکڑ لیں گے اور اسے جانے نہ دیں کی گے.جب چو ہے یہ تقریریں کر رہے اور قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر رہے تھے تو گوشہ سے میاؤں کی آواز آئی یہ سنتے ہی سب چو ہے بھاگ گئے.کسی نے کہا بھاگے کہاں جار ہے ہو؟ تم نے تو کہا تھا ہم بلی کا کان پکڑ لیں گے، اُس کی گردن پکڑ لیں گے، اُس کی دُم سے چمٹ جائیں گے
خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۶ء اور اُسے مارڈالیں گے اب بھاگتے کیوں ہو؟ وہ کہنے لگے سب کچھ طے ہو گیا تھا مگر میاؤں پکڑ.کا تو کسی نے وعدہ نہیں کیا تھا.یہی حال منافقین کا ہے وہ بھی جانیں قربان کرنے کا اعلان کرتے ہی ہیں مگر میاؤں سے بھاگ جاتے ہیں اور اتنی جرات نہیں کرتے کہ ہمارے کسی آدمی کے کان کو اپنے قریب آنے دیں.ہاں زبان سے یہ دعوے بھی کئے چلے جاتے ہیں کہ ہم جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ قادیان میں منافق ہیں اور یقینا وہ منافقانہ چالیں چلتے ہیں کی لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ میٹنگ کرتے ہیں اور قادیان کے اکثر افراد منافق ہیں یہ محض جھوٹ اور افتراء ہوتا ہے.نہ کوئی میٹنگ ہوتی ہے نہ اور ایسی بات ہوتی ہے لیکن ان کی غرض اس قسم کی خبروں سے یہ ہوتی ہے کہ اس قسم کی میٹنگوں کی خبریں پڑھ کر لوگ گھبرا جائیں گے اور کہیں گے اللهُ أَكْبَرُ نہ معلوم اب کیا ہونے والا ہے.پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یونہی نام لے دیتے ہیں.مثلاً گزشتہ دنوں میں ایک شخص نے کہا کہ اب میں مرزائیوں کو بتادوں گا کہ میرے اخبار میں چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب فرزند علی خود مضامین بھجوایا کرتے تھے اور میں تو ان کے چربے نکال کر اخبار میں دے دوں گا مگر کیا کچھ بھی نہ.اسی طرح جب شروع شروع میں شکایات کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو ہر ایک کے متعلق میرے پاس کوئی نہ کوئی خبر پہنچتی تھی اور کوئی ایسا نہ تھا جس کی منافقت کی اطلاع انہوں نے میرے پاس نہ بھجوائی ہو.میرے بھائیوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں ، میرے بیٹوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں ، میری بیویوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں ، سلسلہ کے تمام ناظروں ، سلسلہ کے قریباً تمام افسروں اور ان تمام کارکنوں کے متعلق جن کی کچھ بھی سلسلہ کی خدمات تھیں مجھے لکھا گیا کہ وہ منافق ہیں اور اس رنگ میں اطلاع دی جاتی کہ گویا ایک قیمتی راز ہے جو میرے پاس پہنچایا ہے جا رہا ہے.کئی لوگ جنہیں ان باتوں میں سے انفرادی طور پر کسی کے متعلق کوئی اطلاع پہنچتی تو وہ دوڑتے ہوئے میرے پاس آتے اور کہتے کہ فلاں کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ منافق ہے.میں کہتا جانے دو تمہارے متعلق بھی منافقت کی اطلاع میرے پاس پہنچی ہوئی ہے.اس سے منافقوں کی غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ شاید میں ان کی چالوں میں آجاؤں گا اور سب کو منافق تسلیم کرلوں گا
خطبات محمود ۲۸۸ سال ۱۹۳۶ء حالانکہ یہ ہتھکنڈے تو شیطان کے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شروع ہیں اور جس.قرآن مجید پڑھا ہوا ہو وہ آدم کے وقت کی بات سے آج دھوکا نہیں کھا سکتا.میں گو آدم کے وقت میں نہیں تھا مگر قرآن کریم کے ذریعہ میں آدم کے وقت میں بھی تھا.میں پیدا بعد میں ہوا مگر قرآن کریم کے ذریعہ میں نوح کے ساتھ بھی تھا، میں ابراہیم کے ساتھ بھی تھا، میں موسیٰ کے ساتھ بھی تھا، میں داوڑ کے ساتھ بھی تھا ، میں سلیمان کے ساتھ بھی تھا ، میں عیسی کے ساتھ بھی تھا اور میں رسول کریم اللہ کے ساتھ بھی تھا.میں نے سب مخالفوں کو دیکھا ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ اپنی ان کی چالوں کی وجہ سے جو انہوں نے پہلے انبیاء کے وقت اختیار کیں مجھے دھوکا نہیں دے سکتے.ہاں میں منافقوں کو جانتا ہوں اور بیسیوں منافقوں کو جانتا ہوں.ان کو جانتا ہوں اس الہی علم کے ذریعہ سے جو مجھے عطا کیا گیا ، ان کو جانتا ہوں ان کشوف اور رویا کے ذریعہ سے جو مجھے دکھائے گئے.پھر کئی ہیں جن کو علم ادراک کے ذریعہ جانتا ہوں.ایک شخص میرے ساتھ بات کرتا ہے اور میری روح اس کی روح سے ٹکرا کر معلوم کر لیتی ہے کہ یہ منافق کی روح ہے.پھر کئی ہیں جن کو ایسی شہادتوں سے جانتا ہوں جو معقول ہوتی ہیں اور قرآنی اصول کے مطابق صحیح ہوتی ہیں.اس کے سوا جتنی باتیں بیان کی جاتی ہیں میں جانتا ہوں کہ وہ غلط ہیں.پس میں ان باتوں سے کیوں ڈروں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈرایا کرتا ہے.پس جبکہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈراتا ہے تو میں شیطان اور اس کے چیلوں سے کیوں ڈروں.پس بے شک قادیان میں منافق ہیں اور باہر بھی منافق ہیں جو یہاں سے بھاگ کر گئے ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض بڑے بڑے مخلص بن کر دوسروں کو بہکاتے ہیں اور پھر جب گرفت کی جائے تو دلائل بھی دیتے ہیں جیسا عبداللہ بن ابی بن سلول اور دوسرے منافقین کا حال تھا.مگر قرآن مجید نے منافقین کی پہچان کیلئے بعض معیار بھی بتا دیئے ہیں اور وہ اتنے کھلے معیار ہیں کہ ہر شخص ان کے ذریعہ منافق کا علم حاصل کر سکتا ہے.مگر لوگ عموماً اپنے جذبات کے تابع رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ منافقین کی کو نہیں دیکھ سکتے ورنہ اگر وہ اپنے آپ کو قرآن مجید کے تابع کر لیں تو انہیں ایسا نور مل جائے جس کی مدد سے وہ مؤمنوں اور منافقوں میں تمیز کر سکیں لیکن چونکہ وہ جذبات کے تابع رہتے ہیں قرآن مجید کے تابع اپنے آپ کو نہیں کرتے اس لئے وہ اُس نور سے محروم رہتے ہیں جس سے
خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۳۶ منافقوں کو پہچانا جاسکتا ہے.پس میرے لئے منافقوں کو پہچاننا ایسا ہی آسان ہے جیسے زرد او سرخ رنگ کا معلوم کرنا اس لئے کہ قرآن مجید نے وہ اصول اور گر بتا دیئے ہیں جن سے منافقین کو پہچانا جاسکتا ہے.قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شخص جو مؤمنوں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھا ! میں نے نہیں کہا تھا اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا وہ منافق ہے.قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شخص منافق ہے جو قسمیں بہت کھاتا ہے ، قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ لوگ جو مخلصین پر اعتراض کرتے اور مخالفین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ منافق ہیں ، قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ شخص جو قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتا اور لوگوں کو بھی ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور عذر تراشنے اور بہانے بنانے لگ جاتا ہے وہ منافق ہے، قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو شخص اپنی پرائیویٹ مجالس میں نظام پر اعتراض کرے اور کہے کہ قربانیوں سے جماعت تباہ ہوتی جارہی ہے وہ منافق ہے، غرض کئی علامتیں ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں بتا ئیں.اگر کبھی منافقوں کے متعلق میں نے کوئی مضمون بیان کی کیا تو اس میں بہت سی علامتوں کا ذکر کروں گا مگر یہ موٹی موٹی باتیں ہیں اور ان سے اسی طرح منافقوں کو پہچانا جاسکتا ہے جس طرح روزِ روشن میں انسان ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے.مگر وہ لوگ ای جو جذبات کے تابع ہوں جن کے دوست میں اگر کوئی عیب ہو تو وہ انہیں نظر نہ آئے لیکن اگر ان کا کی کوئی دشمن ہو تو فوراً وہ عیب انہیں اس میں نظر آنے لگے.ان کی نگاہوں سے منافق پوشیدہ رہتے ہیں صرف وہی منافقین کو پہچان سکتے ہیں جو ہر قسم کے بغض ، کینہ، حسد اور تمام اندرونی آلائشوں سےصاف ہوں.تب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ملتا ہے اور وہ نگاہ عطا کی جاتی ہے جس سے وہ منافقوں کو پہچان لیتے ہیں.ان ہی منافقوں میں سے ایک نے یہ خبر میرے متعلق شائع کی ہے وہ مجھے چیلنج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میاں صاحب ذرا ثابت تو کریں کہ جب سے وہ خلیفہ ہوئے ہیں انہوں نے جمعہ کے سوا کوئی نماز مسجد میں پڑھی ہو.اس امر کو اس شخص نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ ناواقف سمجھے کہ اتنا جھوٹ تو کوئی بول نہیں سکتا ضرور یہ بات سچ ہوگی لیکن ہر قادیان کا رہنے والا اور اکثر لوگ جو باہر سے آتے رہتے ہیں جانتے ہیں کہ اس شخص نے اول درجہ کا افتراء کیا ہے.ایسا افتراء کہ خود
خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۶ء اس کا باپ اس کے برخلاف اس امر پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوگا.اگر یہ بات درست ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے نزدیک مجھے اس قدر جادو آتا ہے کہ جب آپ لوگ صبح کی نماز میں آتے ہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں نماز پڑھانے کیلئے مسجد میں آیا ہوں تو دراصل وہ میں نہیں ہوتا صرف آپ کی لوگوں کو غلط نہیں ہو جاتی ہے، اسی طرح ظہر کے وقت جب آپ لوگ آتے ہیں اور مجھے نماز کی پڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تب بھی میرا جادو قائم ہوتا ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کو نماز پڑھا رہا ہوں حالانکہ حقیقت میں میں اُس وقت گھر بیٹھا ہوا ہوتا ہوں ، پھر عصر کی نماز میں جب آپ لوگ آتے ہیں اور مجھے نماز پڑھاتے دیکھتے ہیں تو یہ بھی ایک جادو ہوتا ہے، یہی حال مغرب اور عشاء کا ہوتا ہے آپ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں آپ کو نماز پڑھا رہا ہوں حالانکہ اس منافق کے قول کے مطابق میں اُس وقت گھر بیٹھا ہوتا ہوں.یہ جادو غالبا احرار کی طرف سے ہی ہوتا ہوگا ہمیں تو اس قسم کا جادو نہیں آتا.ہاں ان کے سیکرٹری مسٹر مظہر علی اظہر ہیں اور ان کے ہاں کی ایسا جادو پایا جاتا ہے.مظہر علی صاحب اظہر شیعہ ہیں اور شیعوں کی نہایت ہی معتبر کتاب کافی میں لکھا ہے کہ ان کے امام صاحب نے ایک دفعہ کہا سوائے شیعوں کے جتنے لوگ ہیں سب حرامزادے ہیں.کسی نے کہا وہ حرامزادے کس طرح ہو گئے؟ روز لوگوں کے نکاح ہوتے ہیں اور ان نکاحوں کے بعد بچے پیدا ہوتے ہیں.ان کے امام صاحب کہنے لگے تمہیں پتہ نہیں یہ سب دھو کے کی بات ہے اصل بات یہ ہے کہ جس وقت کوئی سنی یا مجوسی یا عیسائی اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو شیطان اس کی گردن پکڑ کر اسے الگ کر دیتا ہے اور خود اُس کا ہم شکل بن کر اس کی بیوی سے ہم صحبت ہو جاتا ہے بیوی سمجھتی ہے کہ میرا خاوند مجھ سے ہم بستر ہے مگر ہوتا دراصل شیطان ہے اس طرح شیعوں کے سوا جس قدر لوگوں کی اولاد ہوتی ہے سب ولد الزنا ہوتی ہے.پس اگر احرار کے ہاں کوئی ایسا تماشہ دکھایا جاتا تو تعجب کی بات نہ تھی اور اسے سچ سمجھا جا سکتا تھا مگر ہمارے ہاں تو ایسی کوئی چیز نہیں.بعض منافقوں نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ خود مغربیت کے خلاف تعلیم دیتے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں اور اس کے لئے استانی رکھی ہوئی ہے.حالانکہ جہاں میں نے مغربیت کے خلاف تقریر کی تھی وہیں اس بات کا جواب بھی دے دیا گیا تھا پھر لڑکیوں کیلئے استانی
خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۶ء رکھنے کا سوال تو دُور کا ہے اس سے زیادہ نمایاں ایک اور بات موجود ہے اور وہ یہ کہ میرا بیٹا کی انگلستان میں انگریزی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نمایاں مثال یہ ہے کہ میں نے خود انگریزی پڑھنے کی کوشش کی ہے اور انگریزی زبان کا لٹریچر منگوا کر پڑھتا رہتا ہوں لیکن اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ہے کہ مغربیت کسی مٹی کے ڈھیر کا نام نہیں جسے پیر مارکر ہم نے مٹانا ہے بلکہ مغربیت ان آدمیوں کی طرزِ معاشرت اور طرز تمدن کا نام ہے جو انگریزی بولتے اور فرانسیسی وغیرہ زبانیں بھی استعمال میں لاتے ہیں.اس مغربیت کو کس طرح مٹایا جا سکتا اسی ہے جب تک ہم خود انہی کی زبانوں میں مہارت پیدا کر کے انہیں اس کے نقائص نہ بتا ئیں اور انہیں اسلام کی تعلیم نہ پہنچا ئیں.پس جب میں نے کہا تھا کہ مغربیت کو کچل دو تو سوچنا چاہئے کہ میرا اس سے کیا مطلب تھا.اگر تو میرا یہ مطلب تھا کہ مغربیت کے دلدادوں کو زہر دے کر مار دو تو پھر تو سوال ہوسکتا تھا کہ جب انہیں مارنا ہے تو پھر ان کی زبانیں سیکھنے کا کیا مطلب.اور اگر میرا مطلب کی یہ تھا کہ اہلِ مغرب کو مسلمان بنا کر مغربیت کو کچلو تو پھر یہ فرض کس طرح ادا ہو سکتا ہے جب تک ی ہمارے مرد اور ہماری عورتیں انگریزی زبان نہ سیکھیں اور ان تک اپنے خیالات پہنچانے کے قابل نہ بن جائیں.میں نے تو کئی دفعہ اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتوں کی تعلیم میں یہ نقص ہے بلکہ لڑکوں کی تعلیم میں بھی یہ نقص تھا جس کا انگریزی کے متعلق تو ازالہ ہو گیا ہے مگر عربی کے متعلق ابھی کی وہ س موجود ہے کہ ہمارے ہاں صرف لفظ رٹائے جاتے ہیں اس زبان میں بولنا نہیں سکھایا جاتا.بڑے بڑے مولوی بھی جب عربی میں بات کریں گے تو رہ جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل بے شک ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو عربی کے ماہر ہیں اور کچھ ہماری جماعت کا وہ حصہ ہے جو عربی ممالک میں رہنے کی وجہ سے عربی زبان میں اچھی طرح گفتگو کر سکتا ہے لیکن باقی ہی مسلمانوں میں سے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اشخاص بھی نَعَمُ اور لا سے آگے نہیں چل سکتے اور نہ اپنے خیالات کا عربی میں اظہار کر سکتے ہیں.سر مارتے چلے جائیں گے اور کسی بات پر لا اور کسی پر نَعَمُ کہہ دیں گے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکیں گے حالانکہ وہ عالم ہوتے ہیں اور واقعہ میں بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں.اگر وہ کسی ادب کی کتاب پر حاشیہ لکھنے بیٹھیں تو ایسا زبردست حاشیہ لکھیں کہ عربوں اور مصریوں کو حیران کر دیں گے لیکن چونکہ انہیں عربی میں باتیں کرنے کی مشق نہیں ہوتی
خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۶ اس لئے اگر کسی سے عربی میں گفتگو کرنے کا موقع آئے تو وہ پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں حالانکہ علم سکھنے سے غرض یہی ہوتی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے.ہماری لڑکیوں کی انگریزی کی تعلیم میں یہ نقص خاص طور پر موجود ہے لڑکوں کی تعلیم میں بھی ہے مگر لڑکیوں کی تعلیم میں یہ نقص بہت زیادہ ہے زبانیں سکھائی جاتی ہیں مگر بولنا نہیں سکھایا جاتا.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی ایف.اے تک تعلیم پالیتی ہے، بی.اے ہو جاتی ہے لیکن جب اُس سے بات کرو تو اُس کی زبان پر Yes اور No کے الفاظ تک نہیں آ سکتے.یہ نقص تعلیم میں اس لئے واقعہ ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو انگریزی اور عربی کی میں بولنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مشق نہیں کرائی جاتی حالانکہ جن لوگوں کو بولنے کی مشق ہو وہ تھوڑی سی تعلیم حاصل کر کے بھی اپنے مافی الضمیر کا بخوبی اظہار کرنے لگ جاتے ہیں.غرض انگریزی تعلیم حاصل کرنا مغربیت کا اثر قبول کرنا نہیں بلکہ مغربیت کے کچلنے کا یہ ذریعہ ہے اور اس چیز کو ہم جس قدر جلد حاصل کر سکیں حاصل کرنا چاہئے ہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ ہماری لڑکیاں مغربی اثر قبول نہ کریں.مگر زبان دانی کیلئے اگر ہم کوئی ایسا انتظام کریں جس سے ہمارے لڑکے اور لڑکیاں عربی اور انگریزی میں بخوبی گفتگو کر سکیں تو یہ بجائے قابلِ اعتراض امر ہونے کے مستحسن امر ہوگا.میں تو اس فکر میں ہوں کہ کچھ اور انتظام کر کے چار پانچ ہوشیارلڑ کے مصر اور عرب میں بھجواؤں تا وہاں سے وہ زبان سیکھ کر آئیں اور پھر ایک بورڈنگ بنا دیا جائے جس میں ان کی زیر نگرانی لڑکوں کو عربی میں ہی گفتگو کرنے کی اجازت ہو.تا جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو عربی میں عمدگی سے تقریریں کرنے والے ہوں.بھلا عربی یا انگریزی میں جب تک کوئی کی انسان تقریر نہیں کر سکتا اور اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا اُس وقت تک اُس زبان کے سیکھنے کا فائدہ کیا ہوسکتا ہے.خالی کتابیں پڑھ لینا تبلیغ میں مفید نہیں.ہو سکتا ہے ہماری جماعت میں اس کی وقت صرف چند ہی لوگ ہیں جو عربی میں تقریریں کر سکتے ہیں اور وہ بھی اس لئے کہ وہ کچھ عرصہ تک غیرممالک میں رہ چکے ہیں.مثلاً ولی اللہ شاہ صاحب ہوئے ، یا شیخ عبد الرحمن صاحب مصری ہیں کہ وہ مصر میں رہ آئے ہیں، مولوی جلال الدین صاحب تمس ہیں ، مولوی اللہ دتہ صاحب ہیں ، ان کے بعد اللہ اللہ خیر صلا کسی نے دو چار فقرے بول لئے یا ایک دو علماء نے ہمت کر کے خود عربی میں بولنے کی مشق پیدا کر لی تو یہ اور بات ہے ہر شخص ایسی ہمت نہیں کر سکتا.بعض ایسی ہمت والے
خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۶ ہوتے ہیں کہ خواہ مکمل سامان انہیں حاصل نہ ہوں پھر بھی وہ اپنی دھن میں لگے رہتے ہیں اور ی کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن نوے فیصدی عموماً ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں کہ جب تک سامان ان کیلئے کی میسر نہ ہوں اُس وقت تک وہ کوئی کمال حاصل نہیں کر سکتے.پس میں تو انگریزی اور عربی دونوں کی کے متعلق اس فکر میں ہوں کہ اس طرح سکھائی جائیں کہ انسان اپنے تمام خیالات کا ان میں اظہار کر سکے اور لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے متعلق میری یہ سکیم ہے جب خدا تعالیٰ توفیق دے گا یہ بات پوری ہو جائے گی.غرض ایک طرف منافقین کی یہ چالیں ہیں اور دوسری طرف دشمن کی مخالفانہ چالیں ہیں لیکن میں سب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اول تو جاننے والے جانتے ہیں کہ ان باتوں میں سے سوائے دو باتوں کے جن میں کچھ کچھ سچائی کی ملونی پائی جاتی ہے باقی سب باتیں ایسی ہی جھوٹی ہیں جیسے پنجابی میں کہتے ہیں "نزائون ہی گنہیا ہے اس قسم کے جھوٹ روحانی جماعتوں کے متعلق بجائے کی بداثر پیدا کرنے کے ہمیشہ انہیں فائدہ پہنچایا کرتے ہیں کیونکہ لوگ خود سمجھ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا جا رہا ہے.لیکن میں تو ان چیزوں پر انحصار ہی نہیں رکھتا میں جانتا ہوں کہ جب میں جماعت کی اصلاح کیلئے کوئی قدم اُٹھاؤں کمزور اور منافق لوگ چیخنے لگ جاتے ہیں.پس دنیوی نقطہ نگاہ سے میں سمجھتا ہوں میں اپنے راستہ میں کانٹے بورہا ہوں.مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مؤمن بغیر کا نٹور پر چلے منزل مقصود پر نہیں پہنچا کرتا.ہماری جماعت لاکھوں کی ہے یا ہزاروں کی ، مؤمنوں کی ہے یا منافقوں کی مخلصوں کی ہے یا کمزوروں اور مترددوں کی ، اسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جماعت کی خواہ کوئی تعداد می ہو، جماعت کی خواہ کوئی حالت ہو میں یہ جانتا ہوں اور اُس وقت سے مجھے اس کا علم دیا گیا تھا جب کی مجھے ابھی یہ بھی پتہ نہ تھا کہ خلافت کیا چیز ہوتی ہے.جب مجھے اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ خلافت کے مقام پر ایک زمانہ میں مجھے کھڑا کیا جائے گا، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ تھے اور میری عمر پندرہ سولہ سال کی تھی، مجھے اُس وقت ہی بتادیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک ایسے مقام پر کھڑا کرے گا جس کی لوگ سخت مخالفت کریں گے مگر قیامت تک میرے ماننے والے میرے منکروں پر غالب رہیں گے.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا اور نہایت ہی زوردار الفاظ
خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۳۶ء میں فرمایا کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں مجھے یہ الہام ہوا تھا اور اُس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میں نہیں سمجھ سکتا تھا کہ لوگ میری مخالفت کریں گے اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے مخالفوں اور موافقوں کے گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے مگر آج میں سمجھتا ہوں دوسرے الہاموں اور کشوف اور رؤیا کی وجہ سے اور ان حالات کی وجہ سے جو میرے پیش آرہے ہیں کہ یہ الہام میرے متعلق ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ دنیا اس کی مخالفت کی کیلئے آگئی.بیرونی مخالف بھی مخالفت کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور منافق بھی اپنے سروں کو اُٹھا کر یہ سمجھنے لگ گئے کہ اب ان کی کامیابی کا وقت آگیا لیکن میں ان سب کو حضرت نوح کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ جاؤ اور تم سب کے سب مل جاؤ اور سب مل کر اور اکٹھے ہو کر مجھ پر حملہ کرو اور تم مجھے کوئی کی ڈھیل نہ دو اور مجھے تباہ کرنے اور مٹانے کیلئے متحد ہو جاؤ پھر بھی یاد رکھو خدا تمہیں ذلیل اور رسوای کرے گا، تمہیں شکست پر شکست دے گا اور وہ مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا.میں اپنی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں بلاؤں اور آفات کو سمجھتا ہوں، میں راستہ کے مصائب اور بھیا نک نظاروں کو سمجھتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ جس کام کو میں نے اپنے سامنے رکھا تھی ہے اس جیسا عظیم الشان کام اپنے سامنے رکھنے کے بعد انسان کیلئے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو فتحی کا جھنڈا اُڑا تا ہوا گھر کو لوٹے یا اسی کوشش میں اپنی جان اپنے خدا کے سپر د کر دے اس کے سوا اور کی کوئی چیز نہیں جسے وہ قبول کر سکے اور میں نے بھی سوچ کر اور سمجھ کر اور تمام حالات کو جانتے ہوئے کی اپنا قدم اُٹھایا ہے.پس تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا نمازی سمجھتے اور مسجدوں میں آ آکر گریہ وزاری کرتے ہیں تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا عاقل اور دانا سمجھتے ہیں تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا مد بر سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا بہادر سمجھتے ہی ہیں ، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھتے ہیں ، وہ اپنی چالا کیوں اور اپنی تدبیروں کے درا اپنے اثروں اور اپنے علموں اور اپنے ظاہری تقویٰ اور لستانی اور اپنی ہر اُس چیز کو لے کر جو انہیں حاصل ہے میرا مقابلہ کریں پھر دیکھ لیں کہ نہ ان کی خفیہ تدبیریں انہیں کام دیں گی اور نہ ان
خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۶ کی ظاہری تدبیریں انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکیں گی بلکہ ذلت اور شکست انہیں نصیب ہوگی.اسی طرح میں بیرونی دشمنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی بے شک زور لگالیں اور سلسلہ احمدیہ کو مٹانے کیلئے انتہائی جد و جہد صرف کر لیں وہ بھی دیکھیں گے کہ ناکامی و نامرادی ان کے حصہ میں آئے گی اور سلسلہ احمدیہ کو وہ ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.میں نے اس وقت وہ بات پیش کر دی ہے جس سے جھوٹ اور سچ کا پر کھنا بالکل آسان ہو جاتا ہے.میرا مستقبل میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.میں اپنی کمزوریوں کو بھی سمجھتا ہوں، اپنی کوتاہیوں کو بھی جانتا ہوں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جس کام کو لے کر میں کھڑا ہوا ہوں اس کے کرنے میں میں نے کبھی کوتاہی نہیں کی ، میں نے اسلام سے کبھی غداری نہیں کی ، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی احساس میرے دل میں کام کرتا رہا ہے کہ احمدیت اور اسلام کی ترقی کیلئے اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہئے ، یہ کام میں نے ہمیشہ کیا ، ہمیشہ کرتا ہوں اور انشاء اللہ ہمیشہ کرتا چلا جاؤں گا.میں جانتا ہوں اس مقصد کی برکت کو اور میں جانتا ہوں کہ اس وابستگی کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ میرا کوئی دشمن مجھ پر غالب آ سکے.پس خواہ جھوٹ کے ذریعہ ہمارے بیرونی دشمن ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں اور خواہ جھوٹ کے ذریعہ اندرونی منافق ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں دونوں کو خدا تعالیٰ ناکام رکھے گا اور کبھی ان کی آرزوئیں پوری نہیں کرے گا.ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مخالف جھوٹ بولنے والا ہے پھر ہم کیونکر سمجھ لیں کہ وہ سچائی پر غالب آ سکتا ہے.یہ بُزدل اور منافق ہمیشہ خفیہ منصوبوں سے کام لیتے ہیں مگر جن کا حوصلہ اتنا پست ہو کہ وہ اس انسان کے سامنے بھی اپنا مافی الضمیر بیان نہ کر سکیں جسے خدا تعالیٰ نے نہ تلوار دی ہے نہ ظاہری حکومت، انہوں نے دنیا میں اور کیا کام کرنا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو منافقین تھے وہ تو باوجود تلوار کا زمانہ ہونے کے بعض دفعہ بول پڑتے تھے مگر آج کل کے منافق تو منافقوں کے بھی منافق ہیں.جیسے کہتے ہیں گوہ درگوہ کتے کا گوہ.گتا پاخانہ کھاتا ہے اور گتے کا پاخانہ تو پاخانے کا پاخانہ ہوتا ہے.ایسے ذلیل اور نا پاک وجودوں کو کب خدا تعالیٰ اپنی مقدس فتح سے برکت دے سکتا ہے.ان کا دنیا میں بھی منہ کالا ہوگا اور اگلے جہان میں بھی منہ کالا ہوگا.
خطبات محمود ۲۹۶ سال ۱۹۳۶ء ہاں بعض باتیں لطیفہ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور انہیں دیکھ کر ضرور افسوس ہوتا ہے.چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ ان منافقین میں سے ایک ایسا منافق بھی ہے جو اس ملک کا رہنے والا ہے جس نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید جیسا نیک انسان جو حضرت ابو بکر کی مانند تھا ہمیں عطا کیا مگر افسوس اسی ملک نے اس وقت ایک مسیلمہ کذاب بھی پیدا کر دیا ہے.گویا اس ملک نے ایک ہماری طرف گوہر پھینکا اور ایک اُس نے زہر پھینکی.افغانستان نے ہمیں ایک صدیق دیا اور ایک ہمیں مسیلمہ کذاب دیا.اس میں بھی شاید کوئی خدائی مصلحت ہوتی ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نظر بقو ہوتا ہے تا اس قوم کے لوگ تکبر نہ کرنے لگ جائیں اور فخر اور خیلاء کے خیالات میں مبتلاء نہ ہو جائیں.کہتے ہیں مور کے پاؤں نہایت بدصورت ہوتے ہیں جب وہ ناچ رہا ہوتا ہے اور اپنے پروں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہوتا ہے تو اچانک اُس کی نظر اپنے پاؤں پر پڑ جاتی ہے اور وہ ناچنا بند کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ بھی شاید اسی لئے قوموں میں بعض کے باعث ننگ وجود بناتا ہے تا وہ جب اپنی قوم کے بعض ممتاز افراد کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں تو اپنے پاؤں پر کوڑھ کی حالت کو دیکھ کر تکبر میں مبتلاء ہونے سے محفوظ رہیں.یہی افغانستان کی حالت ہے اس نے بھی ایک صدیق پیدا کیا اور ایک مسیلمہ کذاب پیدا کیا مگر بہر حال ان فتنوں کے لی مقابلہ کی ہمیں فکر کرنی چاہئے تا وہ جو خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں پورے ہوں اور دشمن اپنی تمام تدابیر میں خائب و خاسر رہے.اسی لئے میں نے جماعت سے کہا ہے کہ وہ دعائیں کرے اور اللہ تعالیٰ سے التجاء کرے کہ وہ خود ان مشکلات و مصائب کو ہٹائے.اس ہفتہ کا روزہ آخری روزہ ہو گا جن کو توفیق ملے گی وہ تو اس دن دعا کریں گے ہی مگر میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس کے بعد بھی دُعاؤں میں لگی رہے اور بیرونی دشمنوں کے جھوٹوں اور کذب بیانیوں کو دیکھتے ہوئے اور دوسری طرف منافقین کی قبیح حرکات کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتی رہے کہ وہ ہمارا مالک اور آقا بیرونی دشمنوں کے حملوں سے بھی ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اندرونی منافقین کی فتنہ آرائیوں سے بھی ہماری جماعت کو بچائے اور دونوں قسم کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر کے ہمارے راستہ سے ہٹادے یا انہیں ہدایت دے کر ہمارا بھائی بنا دے.
خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۶ء پس دعائیں کرو اور خاص طور پر دعائیں کرو مگر دعا کے پہلو کو ہمیشہ بددعا کے پہلو غالب رکھو.میں نے تجربہ کیا ہے آج ہماری جماعت میں بیسیوں ایسے مخلص ہیں جو چار یا پانچ یا دس سال پہلے منافق تھے اور بیسیوں ایسے ہیں جو آج سے دس یا بیس سال پہلے ہماری جماعت کے شدید مخالف تھے مگر آج وہ نہایت مخلص احمدی ہیں.اس لئے پہلے ہمیشہ یہی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو ہدایت دے اور اگر ہدایت کا قبول کرنا ان کیلئے مقدر نہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کرے تا احمدیت کا بول بالا ہو اور شیطان اور اس کی ذریت کا منہ کالا ہو.( الفضل ۱۶ رمئی ۱۹۳۶ء) لے گاؤدی: بیوقوف.احمق بد زرو: نالی.گندہ پانی بہانے کی نالی.پانی باہر جانے کا راستہ ٣ إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ (آل عمران: ۷۲ ) خیلاء: خود پسندی.غرور ぷ
خطبات محمود ۲۹۸ ۱۷ سال ۱۹۳۶ء تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جماعت کو انتباہ (فرموده ۱۵ رمئی ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کے بعد سورہ ابراہیم کی آیت وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِ جَنَّكُمْ مِنْ اَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودَنَّ فِى مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِينَ ، تلاوت کی اور پھر فرمایا:- میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مشکلات اور ابتلاؤں کیلئے تیار کریں جو مستقبل میں ان کا انتظار کر رے ہیں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آرام یا آرام تو میں کہنا چاہئے آرام طلبی جو موجودہ طرز رہائش کی وجہ سے خصوصاً ہندوستانیوں میں پیدا ہورہی ہے اس کی وجہ سے اکثر دوست اس بات کی جو میں کہتا ہوں اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کیلئے آمادہ وتیار نظر نہیں آتے.میں اپنی جماعت کے متعلق یہ تو نہیں سمجھتا کہ ایسا ہولیکن بعض دفعہ بد قسمتی سے انسان کی آنکھیں ایسی بند ہو جاتی ہیں کہ وہ نتائج اور انجام سے غافل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ مصیبت آکر اُسے پکڑ لیتی ہے.ہزاروں بادشاہتیں اور حکومتیں اسی طرح تباہ کی ہو گئیں کہ ان بادشاہتوں اور حکومتوں والے اپنے خیال میں اس یقین اور اطمینان سے بیٹھے رہے کہ کوئی دشمن ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ہندوستان میں انگریزوں کا تسلط اسی رنگ میں ہوا.یہاں کے حکمرانوں کو انہوں نے آپس میں لڑا دیا اور ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتا رہا کہ ہم اپنے دشمن کو ماررہے ہیں اور کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ اپنے آپ کو مار رہے ہیں.
خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۶ء ایک انگریز مصنف نے لکھا کہ ہندوستان کو ہم نے فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کو ہمارے لئے فتح کیا.سارے ہندوستان میں صرف ایک شخص تھا جس نے اس حقیقت کو سمجھا اور دوسروں کو اُکسایا اور ہوشیار کیا مگر کسی نے اس کی بات نہ سنی اور اس کی آواز بالکل رائیگاں گئی یہاں تک کہ ملک ہاتھ سے نکل گیا اور بعد میں افسوس سے ہاتھ ملنے لگے.انگریز بھی خوب سمجھتے ہیں کہ در حقیقت وہی ایک شخص تھا کہ جس نے ان کی تدابیر کو سمجھا کیونکہ ان کے دلوں کی میں اس کا اتنا بغض ہے کہ وہ اس کے نام پر اپنے کتوں کا نام رکھتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے والے بچے بھی جب کسی کو چڑانا چاہیں تو اُسے لگتا کہنے کی بجائے ٹیپو ٹیپو کہہ کر پکارتے ہیں اور ان کو معلوم نہیں کہ ہندوستان میں صرف وہی ایک بادشاہ تھا جس نے اس خطرہ کو سمجھا جو یہاں اسلامی حکومت کو پیش آنے والا تھا.وہی تھا جس نے غیرت دکھائی اور غیرت پر جان قربان کر دی.ٹیپو سلطان نے جب انگریزوں کے بڑھتے ہوئے تسلط کو دیکھا ( ٹیپو اُس کا نام نہیں بلکہ جس طرح پنجابی میں بعض لوگوں کے نام کے ساتھ کوئی لفظ ہوتا ہے جسے اُس کی آن کہا جاتا ہے اسی طرح ٹیپو کی ان تھی تو اُس نے چاروں طرف مسلمانوں کو خطوط لکھے کہ اسلامی عظمت کا نشان مٹ رہا ہے آؤا کٹھے ہو جاؤ تا اسے بچایا جا سکے.اُس نے ایک طرف ایران کی حکومت کو لکھا تو دوسری طرف افغانستان کی سلطنت کو ، پھر اُس نے ترکوں کو بھی لکھا اور اُس کے پہلو میں نظام کی جو حکومت تھی اُسے بھی متوجہ کیا اور یہاں تک لکھا کہ یہ مت سمجھو کہ میں اپنی عظمت چاہتا ہوں اگر تمہارا یہ خیال ہو تو میں تمہارے ماتحت ہو کر لڑنے کو تیار ہوں لیکن خدا کیلئے اور اسلام کی خاطر آؤ متحد ہو جائیں مگر جب بدقسمتی آتی ہے تو آنے والے خطرات سے انسان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ اُسے موت آدباتی ہے.اُس وقت کے نظام نے خیال کیا کہ چونکہ انگریز میرے دوست ہیں اور ان کی مدد سے میں ٹیپو کی حکومت کا خاتمہ کرنے والا ہوں اس لئے ڈر کر اُس نے مجھے یہ تحریک کی ہے اور ایرانیوں، افغانوں اور ترکوں نے خیال کیا کہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہونے سے ہمیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.آخر اس بندہ خدا نے اکیلے ہی مقابلہ کیا اور اُس مقابلہ میں اس کا آخری فقرہ میں سمجھتا ہوں ایسا فقرہ ہے جسے تاریخ کبھی مٹا نہیں سکتی.بعض فقرات اپنے اندر ایسے پاکیزہ جذبات کو لئے ہوئے ہوتے ہیں کہ زمانہ کے اثرات
خطبات محمود ۳۰۰ سال ۱۹۳۶ء اور وقت کا بعد انہیں مٹا نہیں سکتا.جس وقت اس قلعہ کی بیرونی فصیل کو توڑ کر جس میں وہ تھا ایک طرف سے انگریز اندر داخل ہوئے یا یوں کہنا چاہئے کہ بعض غدار افسروں کی مدد سے وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا ایک جرنیل دوڑ کر اس کے پاس پہنچا وہ اس وقت دو فصیلوں کے درمیان کھڑا اپنی فوج کولڑا رہا تھا کہ اُسے اُس کے جرنیل نے یہ خبر دی کہ انگریز شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ آپ ہتھیار رکھ دیں اور اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیں وہ یقیناً آپ کا اعزاز کریں گے مگر جس وقت سلطان ٹیپو نے یہ سنا کہ انگریز شہر میں داخل ہو گئے ہیں اس نے تلوار میان سے نکال لی اور خود لڑائی میں کود پڑا اور اُس نے کہا کہ گیڈر کی سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی بہتر ہوتی ہے.ایک انگریز افسر جو شریف دل رکھتا تھا با وجود اس کے کہ اس کے دشمنوں سے تعلق رکھتا تھا اپنے تذکرہ اور یادداشت میں بیان کرتا ہے کہ ہم نے متواتر اس کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ہم فتح پاچکے ہیں اب تم ہمارے ساتھ کہاں لڑ سکتے ہو بہتر ہے کہ ہتھیار ڈال دو مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ میدان میں ڈھیر ہو گیا.یہا کیلا شخص تھا جس نے ہندوستان کی آئندہ حالت کو سمجھا اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی مگر کوئی اس کی بات کو نہ سمجھا اور اس کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں ہزاروں غلامیوں کے طوق آج مسلمانوں کے گلے میں پڑے ہیں.وہ ایک غلامی کو رو رہے ہیں کہ یہاں انگریزی حکومت ہے حالانکہ ہندؤوں کی حکومت کا طوق بھی ان کی گردن میں ہے ،سکھوں کی حکومت کا طوق بھی ان کی گردن میں ہے، بڑے بڑے تاجروں کی حکومت کا طوق ہے، ساہوکاروں کی حکومت کا طوق ہے، ہر محکمہ پر جولوگ قابض ہیں ان کی حکومت کا طوق ہے، کوئی پیشہ، کوئی فن کوئی ہنر اور کوئی میدان نہیں جس میں انہیں عزت حاصل ہو اور یہ سب نتیجہ اس آواز کے نہ سننے کا ہے جو انہیں وقت پر سنادی گئی تھی.اُس وقت مسلمان بیوقوفی کی جنت میں بیٹھے رہے جو انہیں دوزخ میں لے گئی.انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سمجھ لیا کہ اب بلی ان پر حملہ آور نہیں ہوگی لیکن وہ تو تشتت ، اختلاف اور تفرقہ کا زمانہ تھا لوگوں نے اس بات کو نہ سمجھا اور اختلاف کی رو میں بہہ گئے.مگر ہماری جماعت کیلئے ویسا زمانہ نہیں ہم نئے نئے متحد ہوئے ہیں اور فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا ل کا نظارہ پیش کر رہے ہیں ایسی جماعت کی قلبی اور اندرونی حالت یقیناً اس سے بہتر ہونی
خطبات محمود ٣٠١ سال ۱۹۳۶ء چاہئے اور ہمارے اندر زیادہ بیداری اور ہوشیاری ہونی چاہئے.میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ آئندہ کے خطرات کو محسوس کرو ، اپنے اندر تغیر پیدا کر و اور ان قربانیوں کی طاقت اپنے اندر پیدا کرو جن کے نتیجہ میں محفوظ رہ سکو مگر بعینہ اس طرح جس طرح ایک افیونی کو جگایا جاتا ہے مگر وہ پھر سو جاتا ہے، پھر جگایا جاتا ہے اور پھر سو جاتا ہے، جماعت کے دوستوں کو جگایا جاتا اور ہوشیار کیا جاتا ہے اور وہ قربانی کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں مگر پھر سوتی جاتے ہیں.انہیں سوچنا چاہئے کہ کب تک کوئی گلا پھاڑ تا رہے گا اگر یہی حالت رہی تو تم سمجھ سکتے ہو اس کا انجام کیا ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ خدا کے وعدے تمہاری کامیابی کیلئے ہیں خدا تعالیٰ کے وعدے مشروط ہوتے ہیں اور اگر انسان اپنے آپ کو ان کا مستحق بنائے تو وہ پورے ہوتے ہیں.کیا رسول کریم مے سے جنگ احد میں کامیابی کے اللہ تعالیٰ کے وعدے نہ تھے پھر کیا صرف دس آدمیوں کی غلطی سے وہ فتح شکست نما نہ ہوگئی تھی ؟ پس اگر ایک ہزار برس میں سے دس کی غلطی فتح کوشکست نما بنا سکتی ہے تو آج تم میں سے ہزاروں کی غفلت سے تمہاری فتح شکست نما کیوں نہیں بن سکتی.ہمارے لوگ اس بات پر مطمئن ہیں بالکل اسی طرح جس طرح غافل اور تباہ ہونے والی قو میں ہوتی ہیں کہ وہ ایک آئینی حکومت کے ماتحت آباد ہیں اور کہ انگریز منصف اور عادل ہیں.اب اللہ تعالیٰ نے ان کو سبق دیا ہے کہ جن انگریزوں پر تم انحصار کر سکتے ہو وہ بھی تمہارے دشمن ہو سکتے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے دوستوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں.میرے بار بار کے خطبات کے باوجود بعض دوست لکھتے رہتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دو حالانکہ آجکل حکومت کے بعض انگریز افسر بھی جماعت احمدیہ کے شدید دشمن ہیں ایسے ہی دشمن جیسے چوہدری افضل حق صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب.ہم پر صریح ظلم کیا جاتا ہے، صریح جھوٹ ہمارے متعلق بولا جاتا ہے مگر ایسے افسر کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو انگیخت کرتے ہیں مگر ہم میں سے بعض بے حیا بن کر کہتے ہیں کہ ہماری سفارش کر و.مجھے اُس وقت حیرت ہوتی ہے کہ انسان بے حیائی میں کتنا کمال تک پہنچ سکتا ہے وہ ان باتوں کو شاید مبالغہ اور مذاق سمجھتے ہیں جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ تو بہت بڑی ہیں مگر جتنی میں نے بتائی ہیں ان کا ہزارواں حصہ بھی اگر ایک شخص کے متعلق ثابت ہو تو میں موت کو اس کے پاس سفارش کرنے کو ترجیح دوں.تمہارے دل میں تو ان باتوں کا اتنا
خطبات محمود ٣٠٢ سال ۱۹۳۶ء احساس چاہئے تھا کہ خواہ پھانسی پر لٹکنا پڑتا، تمہارے بیوی بچوں کو تمہارے سامنے قتل کر دیا جاتا ، تو تم اس بات کو زیادہ پسند کرتے یہ نسبت ایسے لوگوں کے پاس سفارش لے جانے کے.ایسے افسر تو ہمارے دشمن ہیں مگر شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے تو کہا ہے کہ حقا که با عقوبت دوزخ برابر است رفتن به پائے مردگی ہمسایہ در بہشت بہ یعنی ہمسایہ کی مدد سے جنت میں جانا دوزخ کے برابر ہے.اس میں شبہ نہیں کہ اس قسم کی مثالیں محدود ہیں.نہ ہندوستان کی ساری گورنمنٹیں ایسی ہیں نہ پنجاب گورنمنٹ کے سارے افسر ایسے ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں کون کہہ سکتا ہے کہ کون کیسا ہے.پس ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ انسان غیرت سے کام لے اور کہے کہ ہم سفارش نہیں کراتے.آج حالت یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک بڑے افسر نے کہا کہ احمدیوں کی بھرتی کی حکومت نے ممانعت نہیں کی اور بعض افسروں نے اعلان کیا تھا کہ سیدوں کی بھرتی منع نہیں ہے مگر میں نے تحقیقات کی ہے یہ دونوں باتیں صحیح ہیں یہ حکم بھی ہے کہ سیدوں کو بھرتی نہ کیا جائے اور یہ حکم بھی کہ احمدیوں کو بھرتی نہ کیا جائے وَاللهُ اَعْلَمُ معاملہ کیا ہے.اس بڑے افسر کو یا تو علم ہی نہ تھا یا اس نے کی غلط بیانی کی لیکن جب یہ صیح ہے کہ ایک طبقہ ضرور ہمارا مخالف ہے تو ہمیں چاہئے دوسروں کے پاس کوئی سفارش نہ لے جائیں.جو مخالف نہیں اگر ان کے پاس ہم سفارش کریں تو ممکن ہے وہ تو کوئی احسان نہ جتائیں مگر مخالف طبقہ ضرور کہے گا کہ ہم نے فلاں وقت تمہارا کام کر دیا تم ہمیں کس طرح اپنا مخالف کہتے ہو اور یہ الفاظ سننے کیلئے کیا تمہاری غیرت تیار ہے؟ بے شک ایسے افسر اور ہیں اور دوست اور مگر ہمیں تو اتنی عقل چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں کیا طعنہ ملے گا.بے شک جو انگریز ہمارے دوست ہیں یا حسنِ ظنی رکھتے ہیں وہ ایسی بات یاد نہیں دلائیں گے اور سمجھیں گے کہ یہ اچھے شہری ہیں، قانون کے پابند ہیں اور مُلک میں امن قائم کرتے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں انہیں کیوں تلف کریں مگر وہ حصہ جو جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتا وہ دوسروں کے کام کو لے کر ہمارے منہ پر مارے گا اور کہے گا تمہیں یاد نہیں فلاں وقت ہم نے تمہارا فلاں کام کیا تھا.مگر افسوس کہ جماعت کے بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.پتہ نہیں ہمارے ساتھ جو ہورہا ہے اور جس کا میں نے بار بار
خطبات محمود ٣٠٣ سال ۱۹۳۶ء اپنے خطبات میں ذکر بھی کیا ہے وہ ان سب باتوں کو مبالغہ یا محول اور کھیل ہی سمجھتے ہیں.میں ، یہ حالت دیکھتا ہوں تو اگر چہ لفظوں سے تو نہیں کہتا مگر میرا دل چاہتا ہے کہ اگر جائز ہو تو خدا تعالیٰ سے کہوں کہ وہ جماعت کے ابتلاؤں کو اور بھی بڑھا دے تا ایسے دوستوں کے حواس درست ہوں.خدا ابتلاؤں کو اتنا بڑھائے کہ یہ سونے والے بیدار ہو جائیں اور پاگل عقلمند بن جائیں اور وہ سمجھیں کہ یہ تو پھر بھی غیر لوگ ہیں سعدی نے تو کہا ہے کہ ہمسایہ کی مدد سے جنت میں جانا بھی دوزخ میں جانے کے برابر ہے.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکومت کا ابتلاء اسی وجہ سے آیا ہے تا اللہ تعالیٰ ہمیں بتادے کہ انگریزی حکومت میں بھی ایسے کل پرزے آ سکتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا ئیں گو یہ آج تھوڑے ہیں مگر کسی کو کیا معلوم کہ کل زیادہ ہو جائیں.اگر آج حکومت پنجاب میں ہیں تو کل حکومت ہند میں بھی ہو سکتے ہیں.جو شخص کسی دوسرے کے سہارے بیٹھا رہتا ہے اس سے زیادہ احمق اور بے حیا کوئی نہیں ہو سکتا.انگریز خواہ کتنے اچھے کیوں نہ ہوں مگر ہم کیوں ان کے سہارے پدر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک واقعہ لطف لے کر بیان کیا کرتے تھے کہ آپ جب فوت ہوئے اُس وقت اسی سال کے قریب عمر تھی مگر وفات سے ایک گھنٹہ پہلے آپ پاخانہ کیلئے اُٹھے آپ کو سخت پیچش تھی اور پاخانہ کیلئے جارہے تھے کہ رستہ میں ایک ملازم نے آپ کو سہارا دیا مگر آپ نے اُس کا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا اور کہا کہ مجھے سہارا کیوں دیتے ہو؟ اس کے ایک گھنٹہ کے بعد آپ کی وفات ہو گئی.تو جب ایک معمولی مؤمن بھی کسی کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کی خاص جماعت کب ایسا کرسکتی ہے.مؤمن تو ہر ایک ہو سکتا ہے خواہ وہ نبی کے ہزار ہا سال بعد ہو مگر تم میں تو ابھی کئی صحابہ موجود ہیں اور تم سب تابعی ہو پھر تم کس طرح یہ پسند کر سکتے ہو کہ کسی کا سہارا لو اور سہارا بھی اُن کا جو عیسائی ہیں اور جن کے مذہب کو مٹانے کیلئے تم کھڑے ہوئے ہو.تمہارا ہاتھ ہمیشہ اونچا ہونا چاہئے تم ان کی مدد تو کرو مگر ان کی مددمت لو.ایک اچھے شہری کی طرح تمہارا فرض ہے کہ ملک میں امن قائم کرو اور اگر حکومت کسی مصیبت میں ہو تو اس کی تائید کرو جس طرح تمہارا فرض ہے کہ اگر حکومت رعایا پر ظلم کرے تو رعایا کی مدد کرو مگر
خطبات محمود ۳۰۴ سال ۱۹۳۶ء تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ بھیک کا ٹھیکرالے کر اس کے پاس مانگنے جاؤ.مؤمن کی غیرت کا مقام بہت بلند ہوتا ہے وہ مر جانا پسند کرتا ہے مگر مانگنا پسند نہیں کرتا اور دوسرے کو اپنا سہارا بنانا گوارا نہیں کر سکتا.تم کس طرح موحد ہو سکتے ہو جب کہ سمجھو کہ انگریز تمہاری جانیں بچائیں گے.اگر تمہاری جانوں کا انحصار انگریزوں پر ہے تو یہ آج بھی نہیں ہیں اور کل بھی نہیں.انگریزوں کی حکومت بھی آخر انسانوں کی حکومت ہے جو ہمیشہ نہیں رہ سکتی.ابی سینیا کا جو حشر ہوا ہے اس کے بعد خود انگریزی اخبار لکھ رہے ہیں کہ انگریزی حکومت لڑکھڑا رہی ہے اور شاید یہ پہلا موقع ہے کہ انگریزی حکومت کے وزیر اعظم نے یہ کہا ہے کہ میں اپنے نفس میں ذلت محسوس کر رہا ہوں.پس آدمیوں پر انحصار رکھنا حماقت ہے تم اپنے نفسوں میں وہ قوت پیدا کرو کہ کوئی دشمن تم کو ہلاک نہ کر سکے اور ایسی طاقت اول ایمان کی طاقت ہے اور دوسرے اتحاد اور قوت عمل کی.انسان جب ایمان لے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کا نگران ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی نہیں مرتا.رسول کریم سے زیادہ صحابہ کو کس سے عشق ہو سکتا ہے چنانچہ جب آپ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا رسول کریم فوت ہو گئے ہیں میں اسے قتل کر دوں گا سے.حضرت ابوبکر اس وقت باہر گئے ہوئے تھے جب آپ کو خبر ہوئی تو آپ آئے اور اندر گئے ، جسم پر سے کپڑا اُٹھایا ، ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.یعنی ایک تو جسمانی موت آئی ہے اس کے ساتھ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کی اُمت خراب ہو جائے.اس کے بعد آپ باہر آئے اور کہا کہ لوگوں رسول کریم وہ فوت ہو گئے ہیں جس طرح تمام پہلے انبیاء فوت ہو چکے ہیں مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا للهِ ۖ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ ،.سنو تم میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں یہ شرک ہے اور عبادت ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی عبادت کرتا ہے میں اسے خبر دار کرتا ہوں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.وَمَنْ كَانَ مِنكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ ہے لیکن جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اُس کا معبود زندہ ہے اور کبھی نہیں مرسکتا.پس ہم تو ان لوگوں کے قائمقام ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کو بھی اللہ تعالیٰ صلى الله کے مقابلہ پر کھڑا کرنا جائز نہیں سمجھا.ابوبکر نے تو اتنی غیرت دکھائی کہ کہا محمد رسول الله له انسان
خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۶ء تھے اور فوت ہو چکے ہیں مگر تم میں سے بعض ایسے بے غیرت ہیں کہ سمجھتے ہیں انگریز ہمیشہ رہیں گے اور ان کی حفاظت کریں گے اور اگر یہی حالت رہی تو یا درکھو کہ انگریزی حکومت تو کسی دن جاتی ہی رہے گی مگر ساتھ ہی وہ ایسے لوگوں کو بھی لے ڈوبے گی.صرف خدا زندہ ہے اور وہی زندہ رہے گا جس کا وہ سہارا ہے.باقی حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ان کے نقطہ ہائے نگاہ بھی بدلتے رہتے ہیں مستقبل کا کسی کو کیا علم ہو سکتا.آج سے تین سو سال پہلے کسی کو کیا علم تھا کہ انگریزوں کی حکومت اتنی وسیع ہو جائے گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ آج سے سو سال بعد ان کی یہ حکومت افسانہ بن کر نہ رہی جائے گی.خوب یا درکھو کہ انگریز بھی تبھی زندہ رہ سکتے ہیں جب وہ خدائے واحد سے تعلق پیدا کریں اور اسی پر توکل کریں اور تم بھی اسی طرح زندہ رہ سکتے ہو.زندگی کے سامان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں یہ ضروری نہیں کہ جس طرح پہلی قو میں تباہ ہوگئیں انگریز بھی ہو جائیں گے.اس میں شک نہیں کہ اگر یہ جھوٹ اور فریب پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھیں گے، انصاف کے مقابلہ میں پر سٹیج کا زیادہ خیال رکھیں گے تو جس طرح روما اور کسریٰ کی عظیم الشان سلطنتیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہو جائیں گے لیکن اگر یہ سچ پر قائم ہوں، انصاف کریں اور خدا سے تعلق پیدا کر کے اُسی پر تو کل رکھیں تو ان کی جو پچھلی زندگی ہے اس سے بہت زیادہ لمبی زندگی انہیں مل سکتی ہے مگر پھر بھی وہ تمہارا سہارا نہیں بن سکتے.تم خدا کی جماعت ہو اور خدا کو تمہارے لئے غیرت ہے.جس طرح کوئی شخص اپنی بیاہتا بیوی کو کسی غیر کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پھرتا دیکھے تو اُسے غیرت آتی ہے اسی طرح خدا کو غیرت آتی ہے جب اس کی جماعت کسی غیر کا سہارا لے.پس انگریز اگر ہمیشہ بھی رہیں تو وہ تمہارا سہارا نہیں بن سکتے.باقی رہے دوسرے دشمن ان کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمُ اكْبَرُ ، ان کا بغض ان کے مونہوں سے ظاہر ہو گیا ہے اور جو دلوں میں ہے وہ بہت زیادہ ہے.امرتسر میں احرار کی جو کا نفرنس ہوئی ہے اس میں اس امر پر بہت زور دیا گیا ہے کہ ہمارا کام ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنا ہے اور اس کے ساتھ سب احمدیوں کو بھی.یہ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ہے لیکن ان کے دلوں میں جو ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ نکالیں گے
خطبات محمود ۳۰۶ سال ۱۹۳۶ء کیوں ؟ یہیں پھانسی پر لٹکا ئیں گے.یہ وہ دشمن ہے جو تمہارے گر دیگھیرا ڈال رہا ہے، روز بروز زیادہ منظم ہورہا ہے اور طاقت پکڑ رہا ہے چاہے وہ احرار کی صورت میں ہو اور چاہے کسی اور صورت میں ہو شیطان کو اس سے غرض نہیں کہ اس کا نام احراری رہے.تمہاری نظر مجلسوں پر ہے اور تم سمجھتے ہو مجلس احرار کو کل جو طاقت حاصل تھی وہ آج نہیں حالانکہ میں نے بار بار کہا ہے کہ تمہارا مقابلہ احرار سے نہیں شیطان سے ہے.مجھے یاد ہے ہم میں سے بعض کہا کرتے تھے کہ اب مولوی ثناء اللہ صاحب کی طاقت ٹوٹ گئی ہے مگر اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کی طاقت زیادہ تھی یا احرار کی.اسی طرح اب بعض یہ خیال کر رہے ہیں کہ احرار کی طاقت ٹوٹ گئی ہے اب ہم سو جائیں.مگر یا درکھو تمہارے لئے سو نا مقدر نہیں ہے تم یا تو جاگو گے اور یا مرو گے یہ ممکن نہیں کہ لبی دیر تک سو سکو.جب سوؤ گے مرو گے یہ سچائیاں ہیں جو ہر نبی کے زمانہ میں ظاہر ہوئیں.قرآن کریم کو پڑھو اس کا ایک ایک لفظ اس کی تصدیق کرے گا.پھر کیا تمہیں اس پر بھی اعتبار نہیں کہ سمجھتے ہو تمہارے ساتھ ویسا نہ ہوگا.حضرت آدم ، حضرت ابراہیم ، حضرت نوح ، حضرت موسی ، حضرت داؤد اور حضرت عیسی علیہم السلام اور سب سے آخر آنحضرت ﷺ کے وقت جو کچھ ہوا کیونکر ممکن ہے کہ وہ پیالہ تم کو نہ پینا پڑے وہ ضرور پینا پڑے گا.اگر منہ سے نہیں پیو گے تو نلکیوں کے ذریعہ نتھنوں کے رستہ پلایا جائے گا اور اگر اس طرح بھی نہیں پیو گے تو پیٹ چاک کر کے پلایا جائے گا.دشمن اس فکر میں ہے کہ تم کو ہندوستان سے نکال دے اور یہ وہ چیز ہے جس کا اظہار اس کے منہ سے ہو گیا اس کے دل میں جو کچھ ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور تم اس خیال میں ہو کہ ایک حکومت جو قانون کی پابند ہے اور وہ تمہارے حفاظت کرے گی.اس حکومت کے ایک حصہ نے بتا دیا ہے کہ جب وہ پکڑے گی قانون بھی مٹ جائے گا بھلا وہ کونسا قانون تھا جس کے ماتحت ایک افسر نے دوسکھ نمبرداروں کو بلا کر یہ کہا کہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خلیفہ قادیان نے تم کو بلا کر پچاس پچاس روپے دیئے تھے کہ عید گاہ کے کیس میں شہادت بدل دو اور اس طرح انہیں جھوٹ بولنے کی تحریک کی اور ایک دوسرے افسر نے ملاقات کے وقفہ میں صاف لفظوں میں ان کو ایسی گواہی دینے کا مشورہ دیا.کیا اِس امر کا کروڑواں بلکہ ار بواں کھر بواں حصہ بھی سچ ہے؟ اور انگریزی حکومت کے بعض افسر اگر اتنا جھوٹ بول سکتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ بعض دوسرے افسر
خطبات محمود ۳۰۷ کسی وقت جھوٹ بول کر تمہیں سزا ئیں نہیں دلوا سکتے.سال ۱۹۳۶ء جب خدا کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو سب کچھ کر لیتا ہے اس لئے اطمینان سے نہ بیٹھو کہ تمہارے سر پر تلوار منڈلا رہی ہے.صرف خدا پر توکل کر و حاکموں کے دل بھی خدا کے قبضہ میں ہیں وہ چاہے تو انہیں نیک بنا سکتا ہے.پس تم یہ مت کہو کہ خدا ہم سے ضرور یوں معاملہ کرے گا بلکہ خدا والے بنو پھر تمہارے لئے امن ہو گا خواہ وہ انگریزوں سے کرا دے، خواہ ہندوستان میں آئندہ قائم ہونے والی حکومت کے ذریعہ اور خواہ تمہارے اپنے ہاتھوں سے جو سب سے بہتر ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ غفلتوں اور سُستیوں کو ترک کر دو.میں محسوس کرتا ہوں کہ جماعت میں آج گزشتہ سال سے دسواں حصہ بھی جوش نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کیلئے خدا تعالیٰ کوئی لاٹھی بھیجے تو اُن کی آنکھیں کھلتی ہیں.پچھلے سال لٹھ پڑے تھے تو تم بیدار تھے آج خدا نے ان میں کمی کر دی ہے تو تم پھر سو گئے ہو.پچھلے سال تحریک جدید کے دو ماہ کے اندر اندر آمد تحریک سے بھی بڑھ گئی تھی مگر اس سال گو وعدے زیادہ ہیں مگر آمد دو تہائی ہے اور اس حساب سے اندازہ ہے کہ سال کے آخر تک ۷۴، ۷۵ ہزار آمد ہو گی مگر خرچ کا بجٹ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ہے.ممکن ہے میں غلطی پر ہوں مگر میرا خیال یہی ہے کہ یہ ادنی ایمان ہے کہ انسان کہہ دے کہ میں کچھ نہیں کروں گا.مگر جو کہتا ہے اور پھر کرتا نہیں وہ مؤمن نہیں غدار اور منافق ہے.میں نے کئی بار کہا ہے کہ کوئی چندہ مت لکھاؤ جو دے نہ سکو.جبری چندوں کے متعلق تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ زبر دستی لئے جاتے ہیں مگر تحریک جدید کے چندہ کے متعلق تو میں نے صاف کہا ہوا ہے کہ جس کی مرضی ہو وہ دے اور جتنا کوئی چاہے دے پھر بھی جولکھوانے کے باوجود نہیں دیتا وہ یہ بتا تا ہے کہ اُسے دین کی کوئی پرواہ نہیں وہ صرف نام لکھوا کر واہ واہ چاہتا ہے اور یہی بات بڑھتے بڑھتے جنون تک پہنچ جایا کرتی ہے.ایک شخص کا مجھے خط آیا ہے کہ گزشتہ سال میں نے اس اس قدر ( شاید میں چالیس) روپیہ کا وعدہ کیا تھا مگر دے کچھ نہیں سکا اس سال میرا وعدہ تین ہزار کا لکھ لیں.یہ اس MENTALITY اور ذہنیت کا آخری نتیجہ ہے جو انسان کو بے عمل کر دیتی ہے ہر بُرے عمل کا آخری نتیجہ اس کے بھیانک پن کو ظاہر کر دیتا ہے.ایسا انسان جو وعدہ کرتا ہے مگر پورا نہیں کرتا
خطبات محمود ۳۰۸ سال ۱۹۳۶ء وعده وہ خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے خدا یہ نہیں دیکھے گا کہ اس نے کتنا دیا بلکہ صرف یہ دیکھے گا کہ ہ کتنے کا کیا.پھر یہی نہیں کہ لوگوں نے اتنا لکھوایا ہے جو دے نہیں سکتے.میں جماعت کے حالات سے واقف ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ اگر اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو اس سے دُگنا دے سکتے تھے جتنا اب دیا ہے.بہت سے ایسے ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر کم لیا ہے اور پھر بہت ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت سے تین چار گنا زیادہ دیا ہے ایسے لوگ یقیناً اپنے عمل کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے لیں گے مگر ان کے اعمال ان لوگوں کیلئے کافی نہیں ہو سکتے جنہوں نے کہنے اور وعدہ کرنے کے باوجود حصہ نہیں لیا.پنجاب کی ایک بڑی جماعت ہے جس نے پانچ ماہ کے عرصہ میں ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا وہ لکھوا کر سو گئے.پھر کئی ایسے بھی ہیں جو نہایت غریب ہیں مگر اس عرصہ میں قریباً سارے کا سارا ادا کر چکے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ مال کے پاس ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں بلکہ اخلاص کا سوال ہے.بیسیوں ایسے ہیں جن کی رقمیں فہرست میں دیکھ کر مجھے شک ہوتا ہے کہ غلطی سے تو نہیں لکھ دی گئیں کیونکہ بظاہر ان سے اتنا دینے کی توقع نہیں کی جاسکتی.تو یہ اخلاص کی بات ہے طاقت کی نہیں جتنا ایمان ہو اس کے مطابق کام ہو سکتا ہے.مجلس مشاورت کے موقع پر جو نمائندے آئے وہ وعدے کر کے گئے تھے کہ جاتے ہی اس طرف توجہ کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ننانوے فیصدی نے کوئی توجہ نہیں کی یا کم سے کم ان کی توجہ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے.باقی رہیں دوسری قربانیاں ان کا بھی یہی حال ہے ابھی تک میں یہی سنتا ہوں کہ فلاں کی فلاں سے لڑائی ہے حتی کہ نماز بھی الگ پڑھی جاتی ہے.ایک دوست نے سنایا کہ ایک جگہ پانچ احمدی ہیں اور پانچوں الگ الگ نماز پڑھتے ہیں.میں اس دوست پر حیران تھا کہ وہ انہیں احمدی کس طرح کہتے ہیں.یہ کہنا چاہئے کہ وہاں احمدیت کیلئے پانچ کلنک کے ٹیکے ہیں اور پانچوں کی تاریکیاں الگ الگ جگہ چھائی ہوئی ہیں.احمدی تو بڑا لفظ ہے اس سے ادنیٰ درجہ کا مؤمن بھی اس قدر بے حیا نہیں ہوسکتا کہ خدا کی عبادت میں بھی تفرقہ ڈالے.میں نے بار بار کہا ہے کہ خدا کی عبادت میں ایسا نہ کرو مگر بعض لوگوں پر کوئی ایسی لعنت برسی ہے کہ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا.پھر میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ مگر اس تحریک میں
خطبات محمود ۳۰۹ سال ۱۹۳۶ء مجھے کئی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا کہ جو اس وجہ سے اولاد سے کام نہیں کراتے کہ گرمی زیادہ ہے بھو کے مریں گے مگر جب کہا جائے کہ جو کارخانے کھولے جا رہے ہیں ان میں اولا دکو داخل کر دو تو کہیں گے کہ وہاں گرمی میں کام کرنا پڑتا ہے.ہم تو گرم ملک کے رہنے والے ہیں مگر سرد ملک کے رہنے والے انگریز گرمی میں کام کرنے سے نہیں گھبراتے.انگلستان میں چھ ماہ تو برف ہی پڑتی رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ آدمی ٹھٹھر نے لگتا ہے.جب میں وہاں گیا تھا تو سخت گرمی کا موسم تھا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے گرم پاجامہ پہنا اور کہنے لگے کہ میں نے ہندوستان میں سخت سردیوں کے موسم میں بھی اسے کبھی نہ پہنا تھا مگر ایسے سرد ملک کے رہنے والے لوگ انجنوں پر کام کرتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انگریزوں نے نوکریاں سنبھال لی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ سنبھالیں وہ نہیں سنبھالیں گے تو کیا وہ سکتے لوگ سنبھالیں گے جو گر می گرمی پکارتے ہیں اور اولا دوں کو گھروں میں بریکار بٹھائے رکھتے ہیں.میں نے الفضل والوں سے کہا تھا کہ وہ شہروں میں ایجنسیاں قائم کریں مگر وہ شکایت کرتے ہیں کہ نو جوان یہ کام نہیں کرتے اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ روپیہ نہیں دیتا جس قوم کے نوجوان چند پیسے بھی لے کر ادا نہ کریں اور بے کار پھریں کام کیلئے تیار نہ ہوں وہ کب امید کر سکتی ہے کہ زندہ رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس سے مخالف مراد ہیں مگر جماعت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے اور اس نالی پر ہزار ہا بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے، ہر ایک بھیٹر پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا اللہ تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے، تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمُ : یعنی میرا خدا تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو.میرا یہ کہنا تھا کہ فرشتوں نے فی الفور اپنی بھیڑوں پر
خطبات محمود ۳۱۰ سال ۱۹۳۶ء چھریاں پھیر دیں اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.مطلب یہ ہے کہ وہ سکتے لوگ مٹا دیئے جاتے ہیں بھیڑیں تو پھر بھی گوہ کھا کر نجاست کو دور کرتی ہیں لیکن نکتا آدمی تو اس سے بھی بدتر ہے.پھر میں نے توجہ دلائی کہ صلح کرو اور آپس میں محبت پیدا کرو مگر اس کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کی جاتی.غرض جماعت کا ایک معتد بہ حصہ ایسا ہے یہ نہیں کہ ساری جماعت ایسی ہے مگر غرباء میں بھی اور امراء میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہمارے ملک کے اس عام مرض میں مبتلاء ہیں یہ لوگ وعظ مزے لینے کیلئے سنتے ہیں عمل کیلئے نہیں.اگر عمل کیلئے سنتے تو آج تک ولایت اور سلوک کی کئی منازل طے کر چکے ہوتے مگر وہ مزے کیلئے سنتے یا اخبار میں پڑھتے ہیں.اگر جماعت ان باتوں کی طرف توجہ کرے جو میں بتاتا ہوں تو یقیناً وہ وعدے پورے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں اور جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کے متعلق پورے ہوئے.پہلے ہمیں کہا جاتا تھا کہ ذرا افغانستان جاؤ، ایران جاؤ اور دیکھو وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے مگر اب اس نئے انتظام کے ماتحت چونکہ خیال ہو گیا ہے کہ حکومت ہندوستانیوں کو مل جائے گی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ملک سے نکال دیں گے مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا ہے کہ انبیاء کے مخالف ہمیشہ ان کو یہ کہتے رہے ہیں کہ لَنُخْرِ جَنَّكُمْ مِنْ اَرْضِنَا یعنی ہمیشہ رسولوں کو ان کی کافر قو میں یہ کہتی رہی ہیں کہ ہم تمہیں اس ملک سے نکال دیں گے ورنہ اپنا دین چھوڑ کر ہمارے ساتھ مل جاؤ.یہ مماثلت بھی آج احرار نے پوری کر دی ہے.معلوم ہوتا ہے یہ اپنے جیسے پہلے سب لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں کیونکہ احرار کے منہ سے لَتَعُودُنَّ نہیں نکلا بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ پکڑ کر سمندر پار کر دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ فَأَوْحَى إِلَيْهِمُ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِينَ یعنی یہ کیا نکالیں گے اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے نکال دے گا.پس اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے وہ تبدیلی پیدا کرو جو نبیوں کی جماعتوں کے لئے ضروری ہے.یہ تو ابتدائی زینہ ہے جو میں نے بتایا ہے اسے انتہائی سمجھ کر بیٹھ نہ جاؤ.اس سے بہت بڑی بڑی قربانیوں کا نقشہ میرے ذہن میں ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپنے وقت پر میں انہیں بیان کروں گا اور اگر آپ دیانتداری کے ساتھ میری اتباع کریں گے تو جس طرح یہ یقینی بات ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کہ اس وقت سورج نصف النہار پر ہے اسی طرح فتح یقینی ہوگی مگر اللہ تعالیٰ کی برکتیں کام سے نازل ہوتی ہیں.پہلے اُس کے بن جاؤ ، اُسے اپنا رب بنالو، پھر اُس کی طرف سے تمہیں وحی ہوگی کہ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِينَ یعنی بہت اچھا ہم ان کو مٹادیں گے.حضرت نظام الدین اولیاء کا ایک واقعہ ہے جو میں نے کئی بار سنایا ہے.وہ بادشاہ کے دربار میں نہیں جایا کرتے تھے مخالفوں نے بادشاہ کو اُکسایا کہ یہ اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں.بادشاہ ناراض ہو گیا وہ بہار کی طرف جارہا تھا اِس لئے اُس نے کہا کہ واپس آکر سزا د یں گے.چنانچہ جب وہ واپس آرہا تھا آپ کے مریدوں نے عرض کیا کہ حضور ! بادشاہ آیا ہی چاہتا ہے کوئی صورت کرنی چاہئے جس سے وہ سزا نہ دے مگر آپ نے فرمایا ہنوز دتی دور است.وہ اور قریب آب مریدوں نے پھر توجہ دلائی مگر آپ نے پھر وہی جواب دیا حتی کہ بادشاہ شہر کے باہر آ موجود ہوا.اسلامی طریق یہی ہے اور رسول کریم ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے کہ رات کو شہر سے باہر ہی قیام کر کے صبح شہر میں داخل ہوتے اسی کے مطابق بادشاہ نے بھی رات شہر سے باہر قیام کیا.مرید اور بھی پریشان تھے انہوں نے پھر جا کر عرض کیا کہ کوئی تدبیر کی جائے مگر آپ نے پھر فرمایا ” ہنوز دتی دور است.رات جشن ہوا بادشاہ کے لڑکے اور دوسرے امراء نے دعوتیں کیں اور ہجوم اتنا ہو گیا کہ چھت گر پڑی اور بادشاہ دب کر مر گیا.پس اگر تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو ، سچی قربانیوں کیلئے تیار ہو جاؤ اور ان باتوں پر غور کرو جو میں بتاتا ہوں اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ضرور کامیاب ہو کر رہو گے.زمانہ تمہیں نافرمانی کی سزا یا اتباع کے نتیجہ میں کامیابی دے کر بتادے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ایک بھی میری نہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ضروری ہے کہ جو سلوک پہلے انبیاء کی جماعتوں سے ہوا وہ تم سے ہو اور جب تم امتحانوں میں پاس ہو جاؤ گے تو تمہاری فتح بھی یقینی ہوگی.اگر اپنی اصلاح کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات نازل ہوں گی اور اگر سُستی کرو گے تو انجام جتنا بھیا نک ہے وہ میں نے بتا دیا ہے.ابھی دشمن جو کہتا ہے ڈرتے ڈرتے کہتا ہے کہ شاید حکومت پکڑ نہ لے مگر پھر بھی وہ کہہ چکا ہے کہ احمدیوں کو ملک سے نکال دیا جائے گا گو حکومت کا رویہ احرار کو پکڑنے والا نہیں.بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جاتی ہیں خصوصاً اخبار مجاہد کی
خطبات محمود ۳۱۲ سال ۱۹۳۶ء طرف سے تو حکومت نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے ، وہ بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دجال، کذاب، شرابی ، عیاش اور زانی لکھتا ہے لیکن حکومت کو ذرا احساس نہیں ہوتا کہ ایک قانون ہے جو اس نے خود بانیانِ مذاہب کی عزت کے تحفظ کیلئے بنوایا ہوا ہے وہ کہاں گیا.ان حالات میں سوائے اس کے کہ ”مجاہد اور بعض افسروں میں سمجھوتہ ہے اور کیا کہہ سکتے ہیں.دشمن کی جس قسم کی شرارت کر رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اُسے بعض افسروں کی انگیخت اور سہارا ہے لیکن اگر آپ لوگ اپنی اصلاح کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں تو ایسے سمجھوتے سب کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائیں گے.ایسے بددیانت حاکموں کو بھی ضرور سزا ملے گی ، اُن کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی ، خواہ اللہ تعالیٰ اُن سے بڑے افسروں کے ذریعہ ان کو سزا دے یا آسمان سے حکم جاری کرے.لیکن اگر ہماری طرف سے سستی اور غفلت ہو تو اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑ کنے کی کوئی وجہ نہیں اور وہ انتظار کرے گا جب تک کہ ہم اپنی اصلاح نہ کر لیں یا ہماری جگہ کوئی اور قوم کھڑی نہ ہو جائے.جب تک ہم اپنے نفسوں میں تبدیلی نہ کریں گے، جب تک جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی کیلئے تیار نہ ہوں گے، ہستیوں اور غفلتوں کو ترک نہ کریں گے اُس وقت تک کامیابی محال ہے.ابھی ایک مقدمہ میرے پاس آیا ہے اور عمر بھر میں میرا یہ پہلا تجربہ تھا کہ فریقین کی باتیں اتنی متضاد تھیں کہ ایک اُن میں سے ضرور خطرناک جھوٹ بول رہا تھا.احمدیوں کے متعلق یہ میرا پہلا مشاہدہ تھا کہ ایک فریق خطر ناک جھوٹ بول رہا تھا اور ایک موقع پر تو فریقین نے اقرار کر لیا کہ فلاں وقت وہ دونوں جھوٹ بول چکے ہیں.پس جب تک اپنی اصلاح نہ کرو گے عزت نصیب نہیں ہوگی ، جب تک آپس میں صلح نہ کرو ، محبت پیدا نہ کرو ، محنت کی عادت نہ ڈالو، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی کس طرح امید کر سکتے ہو.پس مالی اور جانی قربانیوں کیلئے خود بھی تیار ہو جاؤ اور اولادوں کو بھی قربانی کیلئے تیار کرو.اُن کو سختی ، محنت اور مشقت کا عادی بناؤ ، ایثار اور سچائی کی عادت ڈالو، ہماری جماعت کو تو سچ پر اس طرح قائم ہونا چاہئے کہ اگر احمدی کوئی بات کہہ دے تو لوگ خاموش ہو جا ئیں کہ بس یہی سچی ہے.یہ دن لے آؤ پھر دیکھو کس طرح فتح قریب آتی ہے.جس طرح خدا تعالیٰ قریب بھی ہے اور دور بھی ، اسی طرح مؤمن کی کامیابی دور بھی ہوتی ہے اور
خطبات محمود ۳۱۳ سال ۱۹۳۶ء نزدیک بھی.لوگ خدا کو کتنا دور سمجھتے ہیں کہ ساری عمر میں بھی اُس تک نہیں پہنچ سکتے مگر وہ اتنا قریب ہے کہ ایک منٹ میں انسان اُسے حاصل کر سکتا ہے یہی حال مؤمن کی کامیابی کا ہے.دنیا کو وہ سینکڑوں سالوں میں جا کر حاصل ہوتی ہے مگر مؤمن جب ارادہ کر لیتا ہے تو فوراً کامیاب ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دُور مت سمجھو اور اگر اپنی اور اپنی اولادوں کی اصلاح کر لو تو گورات کو آسمان پر مایوسیوں کے بادل تمہیں نظر آتے ہیں مگر جب صبح اُٹھو گے تو تم ہی دنیا کے بادشاہ ہو گے.( الفضل ۲۲ رمئی ۱۹۳۶ء ) آل عمران:۱۰۴ ابراهیم: ۱۴ سے اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ صلى الله بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي علم و وفاته ه آل عمران: ۱۱۹ تذکرہ صفحہ ۱۸ ،۱۹.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۳۱۴ ١٨ سال ۱۹۳۶ اگر دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہوتو عملی زندگی میں بھی تعلیم اسلام کے مطابق تغیر پیدا کرو (فرموده ۲۲ رمئی ۱۹۳۶ء) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے بار ہا بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت معمولی جماعتوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے قیام کی غرض دنیا کے موجودہ نقشہ کو بدل دینا ہے.اسلام کے عقائد پر دراصل اتنا حملہ آجکل نہیں جتنا کہ اسلامی شریعت اسلامی طریق اور اسلامی سنت پر ہے اور چونکہ یہ حملہ نہایت باریک ہوتا ہے پھر اس میں نفس کی سہولت اور آرام کا بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے اس لئے ایسے حملے کا دفاع نہایت ہی مشکل ہو جاتا ہے.چنانچہ اگر ہم غور کر کے دیکھیں تو جہاں احمدیت نے لوگوں کے عقائد میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا ہے وہاں عملی دنیا میں تغیر نہایت ہی قلیل نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب دعوی فرمایا اُس وقت تمام کے تمام مسلمان إِلَّا مَا شَاءَ الله اس خیال اور اس عقیدہ کے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور یہ عقیدہ باوجود اس کے کہ عقل و نقل کے بالکل خلاف تھا، باوجود اس کے کہ انسانی فطرت اس کو رڈ کرتی ہے پھر بھی دنیا میں اس قدر مقبول تھا کہ اس ایک مسئلہ کی وجہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف سارے ہندوستان میں ہی نہیں
خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۶ء بلکہ ہندوستان سے باہر بھی شور پڑ گیا.مسلمان حیران تھے اور وہ اپنے کھلے ہوئے مونہوں اور پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جس طرح ایک غشی میں مبتلا ہونے والا انسان سکتہ کی حالت میں پڑ جاتا ہے اس دعوی کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اعلان پر نہایت ہی تعجب کر رہے تھے.وہ حیران تھے کہ ایک سمجھدار انسان ایسی بات کس طرح قبول کر سکتا ہے اور کس طرح لوگوں کے سامنے اسے پیش کر سکتا ہے.ان کے نزدیک دنیا کی ثابت شدہ حقیقوں میں سے سب سے زیادہ ثابت ھدہ حقیقت یہی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان پر بیٹھے ہیں سوائے نیچریوں کے جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی باقی تمام مسلمان نئی تعلیم کے حاصل کرنے والے کیا اور پُرانی تعلیم کے حاصل کرنے والے کیا ، پیر کیا اور مولوی کیا ، امیر کیا اور ی غریب کیا، پیشہ ور کیا اور غیر پیشہ ور کیا ، ان میں سے ہر ایک حیرت میں تھا کہ ایسی موٹی بات کو یہ شخص کس طرح رڈ کر رہا ہے.لوگوں کو اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ ایک واقعہ اور ایک مثال سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے.پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبی عظمت کے حضرت خلیفہ اول جیسے طبیب بھی قائل تھے اُن کے متعلق حضرت خلیفہ اول کا ہی بیان ہے کہ ایک دفعہ اُن کے پاس مولوی فضل دین صاحب مرحوم بھیروی جو حضرت خلیفہ اول کے گہرے دوست اور نہایت مخلص احمدی تھے گئے اور انہیں کچھ تبلیغ کی.وہ باتیں سن کر کہنے لگے میاں ! تم مجھے تبلیغ کرتے ہو تم بھلا جانتے ہی کیا ہو اور مجھے تم نے کیا سمجھانا ہے.مرزا صاحب کے متعلق تو جو مجھے عقیدت ہے اس کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقیدت نہیں ہوگی.مولوی فضل دین صاحب مرحوم یہ سن کر بہت خوش ہوئے کی اور انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں اس لئے انہوں نے کہا اس بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزا صاحب سے عقیدت ہے اور میں خوش ہوں گا اگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اور بھی سنوں.وہ کہنے لگے آج کل کے جاہل نو جوان بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے اور یونہی تبلیغ کرنے کیلئے دوڑ پڑتے ہیں.اب تم آگئے ہو مجھے وفات مسیح کا مسئلہ سمجھانے ، حالانکہ تمہیں معلوم کیا ہے کہ مرزا صاحب کی اس مسئلہ کے پیش کرنے میں حکمت کیا ہے.وہ کہنے لگے آپ ہی فرمائیے.انہوں نے کہا سنو ! اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے کی
خطبات محمود ٣١٦ سال ۱۹۳۶ء صلى الله براہین احمدیہ کتاب لکھی، تیرہ سو سال میں بھلا کوئی مسلمان کا بچہ تھا جس نے ایسی کتاب لکھی ہو ، ی رزا صاحب نے اس میں ایسے ایسے علوم بھر دیے کہ کسی مسلمان کی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، وہ اسلام کیلئے ایک دیوار تھی جس نے اُسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا.لیکن مولوی انہیں گالیاں دینے کی بڑی عادت تھی.پانچ سات گالیاں دے کر کہنے لگے ) ایسے احمق اور بیوقوف نکلے کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے اور زانوئے ادب تہہ کر کے آپ سے کہتے کہ ہم آئندہ آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے ان نالائقوں نے الٹا آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم ہے کے بعد تیرہ سو سال میں اور کسی نے نہ کی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیت جتانے لگ گئے اور سمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں.اس پر مرزا صاحب کو غصہ آنا چاہئے تھا اور آیا.چنانچہ انہوں نے مولوی سے کہا اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو، اگر تمہیں اپنی علمیت پر ایسا ہی گھمنڈ ہے تو دیکھ لو حیات مسیح کا عقیدہ قرآن سے اتنا ثابت ہے، اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف کی حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنی ناممکن نظر آتی ہے لیکن میں قرآن کریم سے ہی حضرت مسیح کی وفات ثابت کر کے دکھا دیتا ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو اس کارڈ تو کرو.چنانچہ انہوں نے مولویوں کو ان کی بیوقوفی جتانے کیلئے وفات مسیح کا مسئلہ پیش کر دیا اور قرآن سے اس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے.اب مولوی چاہے سارا زور لگالیں ، چاہے ان کی زبانیں گھس جائیں اور قلمیں ٹوٹ جائیں سارے ہندوستان کے مولوی مل کر بھی مرزا صاحب کے دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے.مرزا صاحب نے انہیں ایسا پکڑا ہے، ایسا پکڑا ہے کہ ان میں سراٹھانے کی تاب نہیں رہی.اب اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں کہ ہم سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہوگئی ہے ہمیں معاف کیا جائے ، پھر دیکھ لیں مرزا صاحب قرآن سے ہی حیات مسیح ثابت کر کے دکھاتے ہیں یا نہیں.اس سے آپ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت حیات مسیح کا عقیدہ کتنا یقینی سمجھا جاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتبار اور اعتما در کھتے ہوئے اور آپ کو اسلام کا سب سے بڑا خادم سمجھتے ہوئے پھر بھی اُن کا ذہن اس طرف نہ جاتا کہ جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کی
خطبات محمود ۳۱۷ سال ۱۹۳۶ء علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو واقعہ میں وہ فوت ہو چکے ہوں گے بلکہ وہ سمجھتے کہ یہ محض مولویوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کہتے ہیں ورنہ حیات مسیح کا مسئلہ تو ایک ثابت ھدہ حقیقت ہے.یہ حالت تھی ان لوگوں کی جن کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.سارے ہندوستان میں ایک آگ لگ گئی ، علما ء اپنے بستے کھول کر بیٹھ گئے ، رڈ لکھتے لکھتے ان کی قلمیں گھس گئیں اور تقریریں کرتے کرتے ان کی زبان پر آبلے پر گئے ، انہوں نے حیات مسیح کو ثابت کرنے کیلئے اپنا سارا زور لگا دیا مگر نتیجہ کیا ہوا ؟ ہر دن جو نیا چڑھ اس میں ان کے چند مانے والے اگر احمدی نہیں ہوئے تو حیات مسیح کا انکار کرنے لگ گئے اور آج تمام ہندوستان میں پھر جاؤ دس تعلیم یافتہ آدمیوں میں سے ایک بھی حیات مسیح کا قائل نظر نہیں آئے گا.وہ ابھی تک احمدی نہیں ہوئے مگر وفات مسیح کے قائل ہیں بلکہ ہماری جماعت کا ایک شدید دشمن حیات مسیح اور آمد مسیح کے عقیدہ کو ایک مجوسی عقیدہ خیال کرتا ہے.وہ ہماری جماعت کی مخالفت کرتا ہے مگر حیات مسیح کا وہ بھی قائل نہیں اور یہ صرف اس سے ہی مخصوص نہیں انگریزی پڑھے ہوئے اکثر ایسے ہیں جو حضرت مسیح کی حیات تسلیم نہیں کرتے بلکہ مولویوں کے پاس چلے جاؤ ان میں سے بھی اکثر ایسے دکھائی دیں گے جو حیات مسیح کے قائل نہیں ہوں گے.چنانچہ عام طور پر مسلمانوں سے اس مسئلہ پر جب گفتگو کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کیا رکھا ہے چلو اسے چھوڑو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل سب کے ماننے لگ گئے ہیں.اب کجاوہ حالت تھی اور کجا یہ حالت ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ مسئلہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء ہر ملک میں بھیجے ہیں تو ساری دنیا میں ایک آگ لگ گئی اور لوگوں نے کہا دیکھو! یہ کافروں کو نبی قرار دیتا ہے.اس مسئلہ پر اس قدر استہزاء کیا گیا، اس قدر تمسخر کیا گیا کہ کان اس کے سننے کی برداشت نہیں کرتے تھے لیکن آج شدید ترین مخالف اخبار بھی جو رات دن ہمارے خلاف لکھتے رہتے ہیں اس مسئلہ کی صحت کو تسلیم کر چکے ہیں اور ان میں اس بات پر مضمون شائع کی ہوتے ہیں کہ اسلام پہلے انبیاء کی صداقت کا بھی قائل ہے.گویا یا تو اس مسئلہ کو نہایت ہی غلط اور بے بنیاد قرار دیا جا تا تھا یا اب احمدیت کی تعلیم کی اشاعت کی وجہ سے سارے لوگوں کیلئے یہ ایک تسلیم شدہ مسئلہ بن گیا ہے اور تمام سمجھدار انسان احمدیت کی تعلیم کو صحیح تسلیم کرنے لگ گئے ہیں.
خطبات محمود ۳۱۸ سال ۱۹۳۶ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائے دعوی میں جب قرآن مجید کے کامل ہونے کا دعویٰ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں تو علماء کہلانے والے تنے جوش میں آگئے کہ ان کے مونہوں سے جھاگ اور ان کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے.اس وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ قرآن مجید کی بعض آیات کا منسوخ ہونا ہی ان کے نزدیک اسلام کے زندہ ہونے کے مترادف ہے اور اس مسئلہ کو بھی الحاداور زندقہ کا موجب قرار دیا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل ایک اپنا واقعہ سنایا کرتے تھے.فرمایا کرتے میں ایک دفعہ لا ہور گیا غالبًا مسجد چینیاں میں نماز پڑھنے کیلئے چلا گیا، میں بھی وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی آگئے اور ان سے گفتگو شروع ہوئی.دورانِ گفتگو میں نے کوئی آیت پڑھی تو وہ کہنے لگے یہ منسوخ ہے.حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا میں قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ کا قائل نہیں ہوں.اس پر وہ بڑے جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ ملحد لوگوں کا عقیدہ ہے، ابومسلم خراسانی بھی ایک ملحد تھا اور اُس کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا چلو ہم ایک سے دو بن گئے اور پرانے آدمیوں کی بھی اس مسئلہ کی تائید میں ایک روایت مل گئی.تو اُس زمانہ میں یہ ایک عجیب بات سمجھی جاتی تھی اور جو اس کا قائل ہوتا اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ اتحاد کا مرتکب ہے اور خیال کیا جاتا کہ جب تک قرآن مجید میں بعض آیات کو منسوخ نہ سمجھا جائے اس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا مگر آج جاؤ اور ان علماء یا عوام سے جو اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں پوچھ لو وہ قرآن مجید کی تمام آیتوں سے استدلال کریں گے اور منسوخ کا نام بھی نہیں لیں گے.نئی لکھی ہوئی تفسیروں کو دیکھ لو ان میں سے ناسخ منسوخ کے الفاظ کی پالکل اُڑ گئے ہیں گویا دنیا کا نقطہ نگاہ ہی اس بارے میں بالکل بدل گیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ انبیاء بھی گناہگار ہو سکتے ہیں.چنانچہ انبیاء کے عیوب گنانے میں مولوی لوگ فخر محسوس کرتے اور مزے لے لے کر اپنی مجلسوں میں ان عیوب کو بیان کرتے.ان کی وہ مجلسیں دیکھنے کے قابل ہوتی تھیں جب وہ چٹخارے مار مار کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ گنواتے اور حضرت یوسف
خطبات محمود ۳۱۹ سال ۱۹۳۶ء علیہ السلام کی چوریاں بیان کرتے ، جب وہ اپنی مجالس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قاتل قرار دی دیتے اور وہ بجائے اس کے کہ کوئی شرم محسوس کرتے اس میں لذت اور خوشی پاتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سوال کو اُٹھایا اور اس پر بحث کی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء بالکل معصوم ہوتے ہیں.آپ کے اس دعوی کو دنیا نے عجیب قسم کا دعویٰ سمجھا اور اسے ایک غیر معمولی بات خیال کیا مگر آج کہاں ہیں مسلمانوں میں وہ لوگ جو کھڑے ہو کر کہہ سکیں کہ انبیاء نے فلاں فلاں گناہ کئے.وہی مسلمان جو یہ باتیں سن کر سر دھنا کرتے تھے ، وہی مسلمان جو یہ باتیں سن کر سُبحَانَ اللهِ اور واہ واہ کے نعرے لگایا کرتے تھے آج اگر کسی کے منہ سے اس قسم کی باتیں سن لیں تو وہ اُس کی کھوپڑی پر جوتیاں مارنے کیلئے تیار ہو جائیں.اسلامی تعلیم کے پُر حکمت ہونے کا دعوی بھی ایسا ہی تھا جو دنیا کی نظروں میں عجیب تھا.عام طور پر مسلمان یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ایک حکم دیا ہے تو اسے مان لینا چاہئے اس پر دلیل کیسی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس دعوی کو پیش کیا کہ قرآن مجید کے تمام احکام سبب اور علت کا ایک سلسلہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت کا حامل ہے تو گو اس مسئلہ پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت نہیں ہوئی مگر ان کی نظروں میں یہ دعوی کی عجیب تھا.اُس وقت مسلمان اس کو ایک ذکی الحس دماغ کی تیزی طبع خیال کرتے تھے مگر آج کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی کتاب جس میں اس مسئلہ کا بالتفصیل ذکر ہے سرورق پھاڑ کر لوگ اپنے نام سے شائع کر رہے ہیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے لاہور میں ہی ایک شخص نے ی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی اپنے نام سے شائع کی ہوئی ہے جی صرف اس نے یہ تبدیلی کی ہوئی ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے راقم بھی اس میں تجربہ کار ہے اس قسم کے تمام فقرات اس کی نے کاٹ دیئے ہیں کیونکہ وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا مگر باقی تمام کتاب اُس نے اپنے نام سے شائع کی ہوئی ہے.اب کجا وہ حالت کہ ان چیزوں پر تعجب کا اظہار کیا جاتا تھا اور کجا یہ عظمت کہ چوری کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کو اپنے نام پر شائع کر دیا جاتا ہے.قرآن مجید کی آیات میں ترتیب ہونے کا دعوی بھی مسلمانوں کے نزدیک ایک بالکل
خطبات محمود ۳۲۰ سال ۱۹۳۶ء غیر معقول اور احمقانہ دعوی تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ امر شائع فرمایا کہ قرآن مجید کی تمام آیات اور ان آیات کے تمام الفاظ میں ترتیب ہے اور اس کی ترتیب کو نظر انداز کی کرنے سے قرآن مجید کی خوبی اور اس کا حسن مارا جاتا ہے تو مسلمانوں نے حیرت اور تعجب سے اس دعوے کو دیکھا اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جسے عقلِ سلیم قبول نہیں کر سکتی.ان کی تفسیر میں تقدیم و تاخیر کی بحثوں سے بھری پڑی تھیں جہاں کہیں ان کو قرآن مجید کے معنے سمجھ نہ آتے وہ کہتے اس آیت کے الفاظ غلطی سے آگے پیچھے ہو گئے ہیں.غلطی کا لفظ میں نے اپنی طرف سے بڑھایا ہے کیونکہ آگے پیچھے الفاظ غلطی سے ہی ہوا کرتے ہیں ورنہ اگر حکمت کے ماتحت الفاظ کی ترتیب ہو تو ان کے متعلق آگے پیچھے ہو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس وہ سمجھتے کہ گویا خدا بھی نَعُوذُ باللہ بھی جلدی میں غلطی کر جاتا ہے.جو الفاظ بعد میں رکھنے ہوتے ہیں وہ پہلے رکھ دیتا تھی ہے اور جو الفاظ پہلے رکھنے ہوتے ہیں وہ بعد میں رکھ دیتا ہے.چنانچہ بڑا دعویٰ ان کا یہ تھا کہ يعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ ا میں نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ سے غلطی ہوئی اسے رَافِعُكَ اِلَی پہلے رکھنا چاہئے تھا اور مُتَوَفِّیک بعد میں.جب کبھی مسلمانوں کے سامنے احمدی یہ آیت پیش کرتے اور کہتے کہ دیکھو یعِیسَی اِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ والی آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق وفات کا پہلے ذکر ہے اور رفع کا بعد میں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پہلے فوت ہوئے ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے ہیں مگر تم کہتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے ہیں اگر فوت نہیں ہوئے ؟ تو اس پر تمام مولوی جس طرح ایک بیوقوف اور احمق شخص کی حماقت پر مسکرا کر جواب دیا جاتا ہے نہایت عالمانہ شکل بنا کر اور احمدیوں کی مزعومہ جہالت پر ہنسی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے یعنی جو پہلے لفظ رکھنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے بعد میں رکھ دیا اور جسے بعد میں رکھنا تھا اسے پہلے رکھ لی دیا.مگر کوئی نہ بتاتا کہ اس نے کیوں پہلے رکھنے والا لفظ بعد میں اور بعد کا لفظ پہلے رکھ دیا آخر وجہ کی کیا تھی اور اللہ تعالیٰ کو کونسی ایسی مشکل پیش آئی تھی جس کی بناء پر الفاظ کو آگے پیچھے کرنا پڑا.اگر کوئی مشکل پیش آئی تھی تو اسے بیان کرنا چاہئے اور اگر حکمت تھی تو اسے بیان کرنا چاہئے تھا مگر یونہی الفاظ کو آگے پیچھے رکھ دینا یا تو مطالب سے جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یا الفاظ سے جہالت کی وجہ
خطبات محمود ۳۲۱ سال ۱۹۳۶ء سے ہوتا ہے یا پھر جلدی میں بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ انسان سے الفاظ آگے پیچھے ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ کسی زمیندار کا بیل گم ہو گیا وہ تلاش کرتا رہا مگر اسے نہ ملا.کسی نے اسے کہا کہ تم اس کی تلاش میں کہاں کہاں پھرو گے بہتر ہے کہ تم نماز کے وقت مسجد میں چلے جاؤ وہاں سب گاؤں کے لوگ جمع ہوں گے وہاں دریافت کر لینا کہ کسی نے میرا بیل دیکھا ہے؟ ممکن ہے ان میں سے کوئی تمہیں بیل کا پتہ دے دے.اس نے سوچا یہ تد بیرا اچھی ہے مجھے مسجد میں چلنا چاہئے راستہ میں وہ سوچتا گیا کہ مجھے لوگوں سے مہذب طریق سے گفتگو کرنی چاہئے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اہل مجلس کو سلام کیا جائے اور پھر دریافت کیا جائے کہ کسی نے بیل تو نہیں دیکھا ؟ یہ تجویز ذہن میں آتے ہی اس نے فیصلہ کیا کہ جب میں مسجد میں جاؤں گا تو لوگوں سے کہوں گا اہل مجلس السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہیں آپ نے میرا بیل دیکھا ہے؟ یہ فقرہ سوچ کر وہ چلا.مگر اس کے دماغ میں چونکہ بیل کا خیال غالب تھا اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کے الفاظ اس نے محض لوگوں کو خوش کر نے کیلئے لگا رکھے تھے اس لئے مسجد میں پہنچتے ہی جلدی سے اس کے منہ سے نکل گیا اہل مجلس بیل بیل کہیں آپ نے میرا السَّلَامُ عَلَيْكُمُ دیکھا ہے“.وو یہ وہ چیز ہے جسے تقدیم و تاخیر کہتے ہیں مگر ان نادانوں سے کوئی پوچھے کہ کیا اللہ تعالیٰ پر بھی کبھی یہ حالت وارد ہو سکتی ہے کہ اہل مجلس بیل بیل کہیں آپ نے میرا اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ دیکھا ہے.کہنا تھا رَافِعُكَ اور منہ سے نکل گیا مُتَوَفِّيكَ.یہ مسلمانوں کی حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا لیکن آج مسلمان مصنفین کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لی جائیں وہ وہی بات دہرا رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ قرآن مجید کے الفاظ میں ترتیب ہے چاہے وہ ترتیب نہ دکھا سکیں ، چاہے ایسی آیتوں پر بحث کے وقت آج بھی انہیں مصیبت معلوم ہو مگر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید کی آیات اور اس کے الفاظ میں ترتیب پائی جاتی ہے.حالانکہ ان کے بڑے بڑے علماء یہ لکھا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں اگر تر تیب ہے بھی تو نہایت موٹی اور معمولی.غرض عقائد کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تبدیلیاں دنیا کے سامنے پیش کی تھیں اس زمانہ میں ان کے خلاف نہایت جوش اور غیظ و غضب کا اظہار کیا گیا اور مسلمانوں
خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۳۶ء نے یوں سمجھا کہ اسلام پر تبررکھ دیا گیا ہے لیکن جوں جوں جماعت احمدیہ کی طرف سے ان خیالات کو پھیلایا گیا، ان عقائد کی معقولیت، پختگی ، صحت اور درستی لوگوں کے قلوب پر اثر انداز ہوتی چلی گئی اور آہستہ آہستہ مسلمانوں کے دل ان سچائیوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ جھوٹے اور غلط عقائد جوان میں پھیلے ہوئے تھے اور جن کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف جوش اور غیظ وغضب کا اظہار کیا گیا تھا آہستہ آہستہ محو ہوتے گئے یہاں تک کہ وہ تعلیمیں جن کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کفر کے فتوے دیئے گئے اُن کو خود علماء نے قبول کر لیا اور آج کی سارے علماء کہتے ہیں کہ اس میں مرزا صاحب کی کونسی خوبی تھی یہ باتیں تو پہلے سے قرآن کریم میں موجود تھیں.مگر یہ نہیں سوچتے کہ حضرت مرزا صاحب نے کب کہا تھا کہ میں اپنی طرف سے یہ باتیں کہتا ہوں انہوں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ یہ باتیں قرآن مجید میں سے بیان کرتا ہوں مگر اُس وقت کے علماء نے انکار کیا اور آج کے علماء کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ان تمام باتوں کو مان رہے ہیں.اس کے مقابلہ میں جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو عملی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم جو ہے وہ غیر تو غیر اپنی جماعت میں بھی ابھی تک پوری طرح قائم نہیں ہوئی.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ورثہ کے مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو حصہ ملنا چاہئے مگر جہاں وفات مسیح کا مسئلہ، قرآنی ترتیب کا مسئلہ، عصمت انبیاء کا مسئلہ اور بیسیوں مسائل ایسے ہیں جنہیں دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے وہاں یہ مسائل ایسے ہیں کہ اپنوں نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا.زمینداروں میں یہ مسئلہ زیادہ تر لا پروائی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور زمیندار ہی زیادہ تر اس مسئلہ کو عملی جامہ پہنانے میں روک بنتے ہیں.وہ لڑکوں کو حصہ دے دیں گے مگر لڑکیوں کو حصہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوں گے.اسی طرح غرباء اور امراء میں پیار، اتحاد، محبت، یکجہتی اور یکسوئی کی جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے کتنے لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے؟ اب تحریک جدید کے ماتحت کھانے اور کپڑوں کے متعلق بعض احتیاطیں امراء نے اختیار کی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسی روح کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا کرنا چاہتے تھے یا معین صورت میں ؟ اگر انسان ایک روح کے ماتحت کام کرے تو وہ اس حکم کے تمام گوشوں کو مدنظر رکھنا اور باریک سے بار یک امور بھی بجالانا
خطبات محمود ۳۲۳ سال ۱۹۳۶ء اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن اگر صرف حکم کی تعمیل مد نظر ہو تو انسان اپنے آپ کو اس حکم کے الفاظ تک محدود رکھتا ہے.نیتوں کے فرق کے ساتھ عمل میں بھی فرق آجاتا ہے.جس نے حکم ماننا ہو وہ یہ دیکھتا ہے کہ الفاظ کتنے ہیں اور کیا ہیں.اور جو اخلاص کے ماتحت کام کرتا ہے وہ سارے پہلوؤں پر غور کرتا ہے ہے اور کہتا ہے کہ اس حکم کے یہ معنے بھی ہونے چاہئیں اور یہ معنے بھی ہونے چاہئیں.اسی طرح مغربیت کے مقابلہ کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے فتاویٰ موجود ہیں مگر کتنے احمدی ہیں جو ان پر عمل کرتے ہیں.لفظی طور پر قربانی کا دعویٰ بہت سے لوگ کر بیٹھیں گے لیکن عملی طور پر ان چیزوں کی عظمت کا اقرار کرنے والے اور اپنے عمل سے ثبوت دینے والے بہت کم لوگ نظر آتے ہیں حالانکہ جب تک ہم اس بات میں کامیاب نہیں ہو جاتے دنیا کے سامنے نمایاں نتیجہ پیش نہیں کر سکتے.نمایاں نتیجہ دنیا کے سامنے اسی صورت میں ہم پیش کر سکتے ہیں جب عملی زندگی میں بھی ہم اپنے آپ کو اسی دور میں لے جائیں جو آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا میں جاری ہوا ، جب ہماری شکلوں اور صورتوں کو دیکھ کر محمد ﷺ کے صحابہ کا زمانہ یاد آ جائے ، جب ہم اس راہ کو اختیار کر لیں جو صحابہ نے اختیار کی ، جب سچائی پر ہمارا قیام ہو جائے ، جب جھوٹ اور فریب سے ہم بچنے والے ہوں ، جب لڑائی اور جھگڑے کی روح کو ہم مٹادیں، جب اخلاق فاضلہ کا حصول ہماری زندگی کا مقصد ہو جائے ، جب اللہ تعالیٰ کی محبت ہر وقت ہمارے سامنے رہے اور جب اس کے قرب کے حصول کیلئے ہم ہر وقت جد و جہد کرتے رہیں تب ہم دنیا میں تغیر پیدا کر سکتے ہیں اور تبھی دنیا کے لوگ عملی زندگی میں ہماری نقل کریں گے.مگر اب تو یہ حالت ہے کہ عقائد میں وہ ہماری نقل کر رہے ہیں اور عمل میں ہم ان کی نقل کر رہے ہیں حالانکہ وعظ ونصیحت کے لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہوئی.شاید ہی اہم مسائل میں سے کوئی مسئلہ ایسارہ گیا ہو جس کے متعلق کوئی لیکچر ، کوئی خطبہ، کوئی رسالہ یا کوئی تصنیف نہ ہو مگر شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جس پر جماعت بحیثیت کی جماعت قائم ہو.پہلی چیز تو نماز با جماعت ہی ہے.ابھی تک میں دیکھتا ہوں کہ نماز با جماعت کی پوری پابندی نہیں کی جاتی.میں نے محلہ وار مسجدوں کے ساتھ انجمنیں اسی غرض کیلئے بنوائی تھیں کہ وہ لوگوں کی نگرانی رکھیں مگر مسجدوں کے ساتھ انجمنیں تو بن گئیں لیکن انہوں نے کام کوئی نہیں کیا.گویا
خطبات محمود ۳۲۴ سال ۱۹۳۶ء نام انہیں ملا مگر کام نہیں ملا کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں اور کافی تعداد میں موجود ہیں جو مساجد میں نماز نہیں پڑھتے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ کسی پریذیڈنٹ یا سیکرٹری نے مجھے کبھی اطلاع کی نہیں دی کہ فلاں فلاں لوگ مسجد میں نماز نہیں پڑھتے جس کے معنے یہ ہیں کہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری نام رکھا کر بیٹھ گئے ہیں کام کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن نام کیا فائدہ دے سکتا ہے.سب سے بڑا حکم اسلام میں نماز کا ہی ہے کیونکہ اسلام نما ز کو خدا تعالیٰ سے باتیں کرنا قرار دیتا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نماز مؤمن کا معراج ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ مؤمن نماز کی حالت میں اپنے رب سے باتیں کرتا ہے.جب ہم میں سے کچھ لوگ اپنے خدا کی سے باتیں کرنے کیلئے بھی تیار نہیں تو وہ اس کیلئے اور کیا قربانی کر سکتے ہیں.اگر ہر محلہ کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری مساجد میں جاتے ہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ انہیں کیا مصیبت پڑتی ہے کہ وہ لوگوں کی نگرانی نہیں کرتے اور اس بات کا پتہ نہیں لیتے کہ فلاں فلاں آدمی مسجد میں نہیں آتا.پھر انہیں کیا مصیبت پڑتی ہے کہ وہ میرے پاس ان کی رپورٹ نہیں کرتے.مسجدوں میں باجماعت نماز نہ پڑھنے والے معمولی آدمی ہی نہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو جماعت میں باعزت سمجھتے جاتے یا با رتبہ سمجھتے جاتے ہیں مگر جماعت کے رتبہ دے دینے سے بھلا کیا بنتا ہے رتبہ وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے.رسول کریم ﷺ ایسے شخص کو جو مسجد میں نماز باجماعت ادا نہیں کرتا منافق قرار دیتے ہیں سے.پس اگر آپ لوگ سب مل کر بھی اُسے لیڈر بنالیں تو اس سے کیا بنتا ہے.رسول کریم ﷺ کے قول کے مطابق تو وہ منافق ہے اور اس کی وہی حالت ہے جو حدیثوں کی میں رسول کریم ﷺ نے بیان کی کہ جب کوئی منافق مرجاتا ہے اور عورتیں اُس پر بین ڈالتی اور کہتی ہے ہیں کہ ہائے او بہادرا! ساری دنیا کا تُو ہی سہارا تھا ، تو فرشتے اُسے جوتیاں مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا واقعہ میں تو دنیا کا سہارا تھا؟ پھر وہ کہتی ہیں ہائے او میرے شیرا! تو فرشتے پھر اُسے جوتیاں مارتے ہیں اور کہتے ہیں کیا تو شیر تھا ؟ تیرے جیسا تو بز دل دنیا میں اور کوئی نہ تھا.تو تمہاری دی ہوئی لیڈری اور اعزاز کیا کام دے سکتی ہے.رتبہ وہ ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے ملے اور وہ رتبہ مسجد میں نماز با جماعت ادا نہ کرنے والے کا یہ ہے کہ وہ منافق ہے.پس اگر تم سارے مل کر اُسے اپنا بادشاہ بنا لو یا اُسے اپنا لیڈر تسلیم کر لوتو تمہارے رتبے دینے سے اس کی قیمت
خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۶ء میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا کیونکہ رتبہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے اور عزت وہی ہے جو اُس کی طرف سے عطا ہو.غرض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مساجد میں نہیں آتے لیکن انجمنیں تو بن گئی ہیں مگر ایسے لوگوں کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی اور نہ اُن کی رپورٹیں میرے پاس آتی ہیں.سال بھر سے زیادہ ہونے لگا ہے جب یہ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں مگر ابھی تک ایک کام میں بھی اصلاح نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے اصلاح کیا کرنی تھی.ان میں تو اتنی ہمت بھی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ میرے پاس رپورٹ کرتے حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ وہ لوگ جو مسجدوں میں نماز کیلئے نہیں آتے اُن کا پتہ لگاتے اور پھر پانچ سات آدمیوں پر مشتمل وفد بناتے اور جس کے متعلق یہ ثابت ہوتا کہ وہ اکثر ناغہ کرتا ہے اور مسجد میں نماز کیلئے نہیں آتا اس کے پاس وہ پانچ سات آدمی مل کر جاتے اور اس سے دریافت کرتے کہ وہ کیوں مسجد میں نہیں آتا.اگر ستی کی وجہ سے وہ مسجد میں نہیں آتا تو اسے آئندہ با قاعدہ مسجد میں نماز پڑھنے کی تاکید کی جاتی.اس پر بھی اگر اس کی اصلاح نہ ہوتی تو اس کی رپورٹ میرے پاس کرتے.مگر مجھے افسوس ہے کہ پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اس پہلو سے بالکل غافل رہے ہیں.اصل مضمون میرا اور ہے مگر میں ضمنی طور پر مساجد کے مخلص مقتدیوں سے کہتا ہوں جن کے دل میں اسلام اور احمدیت کا درد ہے اور جو چاہتے ہیں کہ اسلام اور احمدیت ترقی کرے کہ اگر ایک مہینہ کے اندر اندر ایسے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنی اصلاح نہ کریں تو وہ ایک مہینہ کے اندر ان پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو برخواست کر دیں اور کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنالیں.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کیلئے بڑے پایہ کا ہونا شرط نہیں.معزز وہ ہے جو قربانی کرے اور اللہ تعالیٰ کے دین کا درد اپنے دل میں رکھے.اگر رسول کریم ہے اَن پڑھ ہوتے ہوئے دنیا کے معلم اور استاد بن سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کے اتباع میں ان پڑھ ہوتے ہوئے دنیا میں عظیم الشان کام کر کے نہ دکھا سکیں.پس یہ ضروری نہیں کہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اُسے بنایا جائے جو پڑھ سکتا ہو بلکہ اگر ایک متقی ان پڑھ ہے تو اس کو ہی اپنا چی پریذیڈنٹ بنالیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سو دو سو یا چار سو ماہوار آمد رکھنے والا ہو.بیشک و پانچ روپیہ ماہوار کمانے والا ہو، بے شک وہ کنگال ہو مگر کام کرنے والا ہو اس کو تم پریذیڈنٹ بنا لو..
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء اور یاد رکھو کہ عزت وہ نہیں جو دنیا کے مال و دولت سے ملتی ہے اگر مال و دولت کی وجہ سے ہی عزت و ملتی تو بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ظلی نبوت ملنے کے جو ایک معمولی گاؤں کے رہنے والے تھے چاہئے تھا کہ راتھ شیلڈ یا راک فیلر یا انگلستان اور امریکہ کے دوسرے کروڑ پتیوں کو یہ منصب ملتا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو نہیں چنا بلکہ تمام ممالک میں سے ہندوستان کو پچھنا جو ہر ملک سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے تھا.اور ہندوستان میں سے بھی صوبہ پنجاب کو چنا جو تمام صوبوں کے مقابلہ میں ادنی کی تھا.اور صوبہ پنجاب میں سے بھی ضلع گورداسپور کو چنا جو تمام ضلعوں میں سے خراب سمجھا جاتا تھا اور ضلع گورداسپور میں سے بھی قادیان کو بچنا جو تمام دیہات میں سے ایک معمولی دیہہ تھا اور قادیان میں سے بھی ایسے فرد کو چنا جو اپنے خاندان میں بھی غیر معروف تھا.تم بھی خدا تعالیٰ کے انتخاب کو سامنے رکھا کرو اور دیکھا کرو کہ اللہ تعالیٰ کس بناء پر انتخاب کیا کرتا ہے.تم بھی کسی کو اس لئے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری مت بناؤ کہ وہ بڑی توند والا ہے یا بڑی دولت والا ہے یا بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا ہے بلکہ تم اُس کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بناؤ جو واقعہ میں سلسلہ کا درد رکھنے والا ہو اور اسلام کی تڑپ اپنے سینہ میں رکھتا ہوا ایسا شخص کام بھی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کا بھی وارث ہوگا.غرض عملی زندگی میں ہمیں بہت سی کمزوریاں نظر آتی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سوچیں ان کی اصلاح کی کیا تدابیر ہیں اور کیا مشکلات ہمارے راستہ میں حائل ہیں مگر میں آج ان تدابیر کو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اور میری طبیعت بھی کمزور ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں میں اس مضمون کا بقیہ حصہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا مگر اُس وقت تک کی جماعت کے مخلصوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ پر غور کریں.جو تغیر عقائد کے متعلق میں نے بتایا ہے وہ کتنا عظیم الشان ہے.آج سے چالیس سال پہلے جن باتوں کو لوگ کفر قرار دیتے تھے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے ماتحت خود وہی لوگ ان باتوں کو مان رہے ہیں.اس سے قیاس کرلو کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو عمل کے متعلق تعلیم ہے وہ ویسی زبر دست ثابت نہ ہو.اس پر اتنے دن غور کرو اور سوچو کہ اس کی کیا وجہ ہے.آیا یہ ہمارے کسی نقص کی وجہ سے ہے یا یہ تعلیم کا نقص ہے یا ذرائع کا نقص ہے کہ عقائد کی تعلیم کی تو یہ حالت ہے کہ کافر کہنے والے بھی اسے تسلیم کر رہے ہیں اور عملی تعلیم اتنی کمزور ہے کہ اپنوں پر بھی ابھی اس کا
خطبات محمود ۳۲۷ سال ۱۹۳۶ء پورا اثر نہیں ہوا.یہ فرق کیوں ہے؟ جس دماغ پر ایک بات نازل ہوئی ہے اُسی دماغ پر دوسری بات بھی نازل ہوئی پھر کیا وجہ ہے کہ عملی حصہ کمزور ہے.اس پر اگر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ضر ور نقص ہمارے اندرہی ہے مگر وہ کیا نقص ہے اور اس کے ازالہ کی کیا تدابیر ہیں؟ اس پر غور کرو اور اپنے ذہن میں وہ تدبیریں سوچو جن سے اس نقص کا ازالہ ہو سکے تا تمہارے نفس میں عملی حصہ کی اہمیت کا احساس ہو اور تم میں اس صورتِ حالات کو بدل دینے کی خواہش پیدا ہو.پھر میں بھی اِنْشَاءَ الله اپنے خیالات ظاہر کروں گا اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو مخلص ہیں وہ میرے ساتھ تعاون کریں اور ان باتوں کے پورا کرنے میں میری مدد کریں گے تا ہماری جماعت کی اعتراض آتا ہے اسے ہم دور کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کوئی بعید بات نہیں.اگر ہم بچے طور پر بعض تدابیر اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں اس حصہ میں بھی ویسی ہی کامیابی حاصل نہ ہو جیسے عقائد کے بارہ میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے.در حقیقت ہمارے لئے وہی خوشی کا دن ہوگا جب ہمارا عقیدہ اور عمل دونوں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق ہوں گے کیونکہ عقیدہ بغیر عمل کے کچھ نہیں جیسے عمل بغیر عقیدہ کے کچھ نہیں.ک پر جو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان نقائص کو سمجھ سکیں جن کی وجہ سے اب تک ہمیں پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، اور وہ تدابیر اپنے فضل سے سمجھائے جن پر عمل کرنے سے کامیابی عطا ہو اور ہمیں ایسے مخلص بندے دے جن کے دل ہر قسم کے بغض ، کینہ اور کپٹ سے پاک ہوں اور وہ ان تدابیر کوعملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی زندگیاں وقت کر دیں اور وہ دن لانے کی کوشش کریں جس میں مؤمن کی جنت اس کے قریب آجاتی ہے.یعنی عقیدہ اور عمل دونوں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو جاتے ہیں.( الفضل ۲۹ رمئی ۱۹۳۶ ء ) ل آل عمران: ۵۶ بخارى كتاب الاذان باب فضل صلاة العشاء في الجماعة
خطبات محمود ۳۲۸ 19 سال ۱۹۳۶ عملی اصلاح کے اہم سوال کو حل کرنے کی کوشش کی جائے (فرمود ه ۲۹ رمئی ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- پہلے تو میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تحریک جدید کے متعلق سال میں دو جلسے ایسے منعقد کئے جایا کریں جن میں اس تحریک کے اغراض اور اس کے مقاصد، اس کی ضرورت ، اس کی اہمیت اور اس کے پورا کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی جائے اور لوگوں پر اس تحریک کے مطالبات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس عمدگی سے یہ تحریک ان کے ذہن نشین کی جائے کہ وہ جو سُست ہیں پچست ہو جا ئیں ، جو نا واقف ہیں وہ واقف ہو جا ئیں اور جو پہلے ہی ہیں وہ اور زیادہ پچست اور ہوشیار ہو جائیں.اس سال ان جلسوں کے متعلق اعلان کرنے میں کسی قدر تاخیر ہوگئی ہے اس لئے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جون کے مہینہ میں اٹھائیس تاریخ کو جو اتوار کا دن آتا ہے اُس دن تمام جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر جلسے منعقد کریں جن میں تحریک جدید کے مختلف شعبوں کے متعلق تقاریر کی جائیں اور مضامین پڑھے جائیں اور جہاں اچھے لیکچرار میسر نہ آسکیں وہاں کی جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ خطبات کو نکال کر وہی لوگوں کو سنا دیں اور نہایت اچھی طرح اس تحریک کی ضرورت ، اس کے اغراض اور اس کے مقاصد کی تشریح وتوضیح کی جائے.اس کے بعد میں اس مضمون کو لیتا ہوں جس کا کسی قدر حصہ پچھلے جمعہ کے خطبہ میں میں
خطبات محمود ۳۲۹ سال ۱۹۳۶ء نے بیان کیا تھا.وہ مضمون یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو باتیں ہمارے سامنے پیش کی تھیں.ایک تو عقائد کی اصلاح کے متعلق تھی اور ایک اعمال کی اصلاح کے متعلق تھی.عقائد کی اصلاح کے متعلق جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی اس کے متعلق ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں ہمیں ایسی عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ وہی امور جن کے متعلق لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کے فتوے لگاتے تھے ، جنہیں خلاف عقل تسلیم کرتے تھے اور جن کو ماننے اور قبول کرنے کیلئے ملک کا کوئی طبقہ بھی تیار نہ تھا آج ہماری جماعت کے شدید سے شدید معاند اور بدترین مخالف بھی نہ صرف یہ کہ ان کی تردید نہیں کرتے بلکہ انہیں تسلیم کرتے اور ان کی درستی کا اقرار کرتے ہیں اور اب بجائے یہ اعتراض کرنے کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی تعلیم کے خلاف عقائد دنیا میں پھیلائے لوگ اگر کہتے ہیں تو یہ کہ یہ سب باتیں تو پہلے سے قرآن مجید میں موجود تھیں حضرت مرزا صاحب کا انہیں پیش کرنا ان کی کونسی خوبی اور کمال ہے.یہ تغیر کوئی معمولی تغیر نہیں پچاس سال کے اندر دنیا کے لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کے قلوب میں ایسا حیرت انگیز اور عظیم الشان انقلاب پیدا ہو جانا الہی نصرت اور اس کی تائید کے بغیر ممکن نہیں اور پھر یہ تغیر نہ صرف ہندوستان میں پیدا ہو چکا ہے، پیدا ہو رہا ہے اور پیدا ہوتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس تغیر کو رونما ہونے سے نہیں روک سکتی لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم عملی اصلاح کے متعلق پیش کی اس کی نسبت ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ اس پہلو میں ہمارا پلہ دشمنوں پر بھاری ہوتا اور ہم دشمنوں کے اعمال میں بھی ایک بہت بڑی اصلاح کر سکتے یا کم از کم اس تعلیم کے نتیجہ میں ہم اپنے اندر ہی ایسی تی اصلاح کر سکتے جس کو دیکھ کر ہمیں اپنے دل میں یہ محسوس ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم پر ہم نے عمل کر لیا ہے جو عملی اصلاح کے متعلق آپ نے پیش فرمائی ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ ہم دشمن کے عمل سے متاثر ہورہے ہیں اور اُس کی غلطیاں بار بار ہمارے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم میں سے جو کمز ور لوگ ہیں بسا اوقات وہ ان غلطیوں کا شکار ہو جاتے اور دشمن کے بداثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں.گو یا عقیدے کی جنگ میں ہمارا پہلو جارحانہ اور ہمارے مخالف کا پہلو مدافعانہ ہے مگر عمل کی جنگ میں ہمارے دشمن کا پہلو جارحانہ اور ہمارا پہلو مدافعانہ ہے اور
خطبات محمود ۳۳۰ سال ۱۹۳۶ء بجائے اس کے کہ ہمارے اندر ایسی قوت ہو کہ ہم دشمن اور اس کے ساتھیوں کے اعمال میں بھی ایک تغیر پیدا کر دیں اور اسے ہمارا حملہ بچانا پڑے دشمن ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہماری ہے جماعت کے نوجوانوں اور کمزور طبع لوگوں میں نقص پیدا کرتا رہتا ہے اور ہمارا سارا وقت اس اندرونی نقص کی اصلاح میں ہی صرف ہو جاتا ہے.وہ موقع ہی نہیں آتا کہ ہم دشمن کے اعمال کی بھی اصلاح کریں اور اس کے نقائص کا قلع قمع کریں تا اس کے بداثرات ہمارے اندر داخل ہی نہ ہوسکیں.گویا ہماری مثال اس واقعہ سے ملتی جلتی ہے جو ایک بزرگ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس ان کا ایک شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے گھر جانے لگا تو ان بزرگ نے اُس سے دریافت کیا کہ میاں تم اپنے گھر جا رہے ہو کیا تمہارے ملک میں شیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا ہر ملک میں شیطان ہوتا ہے اور جہاں میں جارہا ہوں وہاں بھی شیطان موجود ہو گا.آپ نے فرمایا اچھا اگر وہاں شیطان ہوتا ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا ایسی حالت میں تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں شیطان کا مقابلہ کروں گا.وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لا کر بھاگ گیا لیکن جب پھر تم عمل کی طرف متوجہ ہونے لگے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے رستوں پر تم نے چلنا شروع کیا اور پھر شیطان پیچھے سے آ گیا اور اس نے تمہیں پکڑ لیا اور تمہیں آگے بڑھنے سے روک لیا تو پھر تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں پھر شیطان کا مقابلہ کروں گا اور اس سے پیچھا چھڑا کر اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی جدو جہد میں مشغول ہو جاؤں گا.انہوں نے کہا بہت اچھا میں نے مان لیا کہ تمہارے مقابلہ کرنے کے نتیجہ میں شیطان اس دفعہ بھی بھاگ گیا اور تم کی جیت گئے لیکن جب پھر تم اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کیلئے جدو جہد کرنے لگے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع اختیار کرنے لگے اور تم نے شیطان کی طرف سے پیٹھ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کیا تو پھر شیطان آ گیا اور اس نے تمہیں پکڑ لیا تو پھر کیا کرو گے؟ شاگر د حیران سا رہ گیا اور وہ کہنے لگا مجھے تو پتہ نہیں لگتا آپ ہی فرمائیں کہ مجھے ایسی
خطبات محمود ۳۳۱ سال ۱۹۳۶ء حالت میں کیا کرنا چاہئے.وہ فرمانے لگے اچھا یہ بتاؤ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ جس کی نے اپنے مکان کی حفاظت کیلئے ایک بڑا سا مضبوط گتا رکھا ہوا ہو اور جب تم اپنے دوست کے مکان میں داخل ہونے لگو تو وہ گتا آئے اور تمہاری ایڑھی پکڑ لے تو اُس وقت کیا کرو گے؟ شاگر کہنے لگا جی میں گتے کا مقابلہ کروں گا اور اسے ماروں گا اگر میرے پاس سوٹی ہوگی تو میں اُسے سوٹی ماروں گا ، پتھر قریب ہوگا تو وہ اُٹھا کر دے ماروں گا.انہوں نے کہا ٹھیک تم نے گتے کو سوئی ماری یا پتھر مارا اور وہ بھاگ گیا لیکن جب پھر تم نے اندر مکان میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کتے کی طرف سے پیٹھ پھیری تو وہ پھر آ گیا اور اس نے تمہاری ایڑی پکڑ لی تو اُس وقت کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں اُسے پھر ماروں گا اور اُسے ہٹا کر مکان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کروں گا.انہوں نے فرمایا ای اچھا فرض کرو دوسری دفعہ بھی گتا بھاگ گیا لیکن جب پھر تم دوست سے ملنے کیلئے مکان کے اندر داخل ہونا چا ہو تو وہ پھر تمہیں پکڑلے ایسی حالت میں کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں پھر اسے ماروں گا اور اسے ہٹانے کی پوری کوشش کروں گا.وہ بزرگ فرمانے لگے اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہے گی کہ جب تم مکان کے اندر داخل ہونا چاہو تو گتا تمہاری ایڑی آ پکڑے اور جب تم اُسے مارو توی وہ بھاگ جائے لیکن جب پھر مکان کے اندر داخل ہونے لگے تو وہ پھر آ کر پکڑنا چاہے تو تم اپنے دوست سے مل کس طرح سکو گے اور اس سے ملاقات کا جو مقصد تم لئے ہوئے ہو گے وہ کس طرح پورا ہوگا ؟ شاگرد کہنے لگا جب میں یہ دیکھوں گا کہ یہ جنگ کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتی اور گتا بار بار مجھے آپکڑتا ہے تو میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ میاں ! تمہارا گتا مجھے نہیں چھوڑتا اسے کی آکر ہٹاؤ.وہ بزرگ فرمانے لگے بس یہی نسخہ تم نے شیطان کے مقابلہ میں بھی استعمال کرنا ہے.شیطان اللہ میاں کا گتا ہے اور جب انسان پر بار بار حملہ آور ہو او ر اللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پکارو اور اُ سے آواز دو کہ اللہ میاں ! میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ گتا مجھے آنے نہیں دیتا اسے رو کئے تا میں آپ کے پاس پہنچ چی جاؤں.چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ اسے روک لے گا اور تم اس کے قرب میں بڑھتے چلے جاؤ گے یہی شیطان کے حملوں سے بچنے کا علاج ہے ورنہ مقابلہ کی صورت میں تو انسان کسی طرح اپنے رب کا قرب حاصل نہیں کرسکتا.تو ہماری حالت اس وقت اس واقعہ کے پہلے حصہ کے مطابق ہے ہم
خطبات محمود ۳۳۲ سال ۱۹۳۶ء چاہتے ہیں کہ ہم نیک باتوں پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے میدان میں ترقی کرتے چلے جائیں مگر شیطان ہماری ایڑی پکڑ لیتا ہے اور ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتا.ہم اسے مارتے اور اپنے رستہ سے ہٹاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجائے مدافعانہ پہلو کے جارحانہ پہلو اختیار کریں کہ پھر شیطان ہم پر حملہ کر دیتا ہے اور ہمارا کافی وقت اپنے آپ کو اس کے حملوں سے بچانے پر ہی صرف ہو جاتا ہے.پس ہم اب تک اس کے دفاع اور اپنی حفاظت کی تدبیروں میں ہی لگے ہوئے ہیں اور اس سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ہم اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوں اور بجائے مدافعانہ کے جارحانہ پہلو اختیار کریں حالانکہ ہمارا کام یہ نہ تھا کہ ہم اپنے بچاؤ کی تدابیر میں ہی لگے رہیں بلکہ ہمارا کام یہ تھا کہ ہم خود اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے اور تمام دنیا میں ایک ایسا تغیر پیدا کر دیتے کہ اپنے تو الگ رہے غیروں کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھل جاتے لیکن ہماری تو یہ حالت ہے کہ ہمیں ابھی شیطان کے حملوں سے بچاؤ سے ہی فرصت نہیں ملتی.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اپنے اعمال بھی ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ ہم ان پر مطمئن ہو سکیں.اب تو اکثر ایسا ہوا ہے کہ شیطان آتا ہے اور ہمارے ایک آدمی کو بہکا کر لے جاتا ہے ہم سارا دن اُس کی تلاش اور جستجو میں لگے رہتے ہیں لیکن جب شام ہونے کے قریب ہوتی ہے اور ہم اسے تلاش کر کے واپس لا رہے ہوتے ہیں تو ہمیں آواز آتی ہے کہ ہم میں سے دو اور آدمیوں کو شیطان بہکا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے.پھر ہم ان کی تلاش میں نکلتے ہیں تو آواز آتی ہے کہ فلاں کی آدمی کو بھی شیطان پکڑ کر لے گیا ہے.غرض ہم میں اور شیطان میں ایک جنگ جاری ہے اور جنگ بھی ایسی کہ جس میں ہماری مثال دشمن سے بھاگے ہوئے شکست خوردہ لوگوں کی سی ہے.ہم ایک کو بچاتے ہیں تو دشمن دو کو لے جاتا ہے ، ہم دو کو بچاتے ہیں تو وہ تین آدمی لے جاتا ہے ، ہم تین کو بچاتے ہیں تو وہ چار لے جاتا ہے.غرض عقیدہ کی جنگ میں جہاں ہم نے دشمن کو ہر میدان میں شکست دی اور نہ صرف میدانوں میں اسے شکست دی بلکہ ہم اس کے گھروں پر حملہ آور ہوئے اور ہم نے اسے ایسا لتاڑا اور ایسا لتاڑا کہ اب اس میں سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رہی.دشمن کے ہر گھر میں گھس کر ہم نے اس کے باطل عقائد کو کچلا اور اسے ایسی کھلی شکست دی کہ دشمن کیلئے اس سے زیادہ کھلی اور ذلت کی
خطبات محمود ۳۳۳ سال ۱۹۳۶ء شکست اور کوئی نہیں ہو سکتی وہاں عمل کے میدان میں ہم دشمنوں میں محصور ہو گئے اور ہمارے لئے ان سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہ رہی.ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں آدمی وہ ہم میں سے نقائص اور عیوب میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں.ہم ایک جگہ سے بھاگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسری جگہ امن ملے گا مگر وہاں بھی نقص آموجود ہوتا ہے، پھر وہاں سے بھاگ کر تیسری طرف جاتے ہیں تو وہاں بھی دشمن آموجود ہوتا ہے، تیسری جگہ سے بھاگ کر چوتھی طرف جاتے ہیں تو اس جگہ بھی دشمن ہمارے مقابلہ کیلئے موجود ہوتا ہے گویا جس طرح چاروں طرف جب آگ لگ جاتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور وہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کیا کرے یہی اس وقت ہماری حالت ہے.مجھے اس پر اپنا ایک رویا یاد آ گیا ۱۹۲۲ ء یا ۱۹۲۳ء کی بات ہے میں سویا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا ایک جگہ آگ لگ گئی ہے میں اُسے بجھانے کیلئے اٹھا تو میں نے دیکھا ایک اور طرف سے بھی آگ کے شعلے نکلنے شروع ہو گئے ہیں اور وہ پہلی آگ سے زیادہ تیز شعلے ہیں میں دوڑ کر اُسے بجھانے کیلئے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تیسری طرف بھی آگ لگ گئی ہے اور وہ آگ دوسری آگ سے بھی زیادہ بھڑ کنے والی ہے.یہ دیکھ کر میں اس آگ کی طرف اسے بجھانے کیلئے بھا گا تو دیکھا تو چوتھی طرف بھی آگ لگی ہوئی ہے اور وہ پہلی تینوں آگوں سے زیادہ تیز ہے.یہ دیکھ کر میں خواب میں سخت گھبرا گیا اور میں کہتا ہوں نامعلوم اب کیا ہو گا آگ ہر طرف لگ رہی ہے اور اس کا ہر شعلہ پہلے شعلوں سے زیادہ تیز ہے.میں اسی گھبراہٹ کی حالت میں حیران ہو کر کھڑا تھا کہ میں نے کی دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.آپ نے پوچھا تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا حضور ! چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے میں ایک جگہ کی آگ بجھا تا ہوں تو دوسری جگہ نکل آتی ہے، دوسری جگہ کی آگ بجھاتا ہوں تو تیسری جگہ نکل آتی ہے اور ہر آگ پہلی آگ سے زیادہ تیز ہے جو کسی طرح سمجھنے میں نہیں آتی.آپ نے فرمایا یہ آگ یوں نہیں مجھے گی اس آگ کی ایک کنجی ہے جو میں تمہیں بتا تا ہوں.چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے مجھے زمین میں ایک سوراخ دکھایا اور فرمایا یہ اس آگ کی کنجی ہے.پھر آپ نے اشارہ کیا کہ اس سوراخ کو بند کر دو اس پر میں نے اس سوراخ کو زور سے دبا دیا اور میں نے دیکھا کہ
خطبات محمود ۳۳۴ سال ۱۹۳۶ء جو نہی میں نے اس سوراخ کو دبایا تمام آگیں بجھ گئیں اور کوئی شعلہ باقی نہ رہا.یہ نظارہ جو میں نے ۱۹۲۲ء میں یا ۱۹۲۳ ء میں دیکھا تھا در حقیقت ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی عملی زندگی کا ایک نظارہ تھا.ہم بھی ایک بُرائی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری نکل آتی ہے، دوسری بُرائی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو تیسری نکل آتی ہے، تیسری بُرائی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو چوتھی نکل آتی ہے، پھر اس جنگ میں ہماری ہمدردی بھی متحد نہیں اور نہ ہماری آواز یکساں ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے تو ساری جماعت شور مچانا شروع کر دیتی ہے کہ ہاں ہاں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں انہیں فوت ہونے دو کیونکہ ان کی موت میں ہی اسلام کی حیات ہے، جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید بالکل محفوظ ہے اور اس کی کوئی آیت منسوخ نہیں تو ساری جماعت چلاتی ہے کہ بالکل درست قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہم خود مٹ جائیں گے لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کو مٹنے کی نہیں دیں گے، جب ہم کہتے ہیں انبیاء علیہم السلام بالکل معصوم ہوتے ہیں اور ان کی طرف کسی گناہ کو منسوب کرنا نا جائز ہے تو تمام جماعت کی آواز اس آواز کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور وہ کہتی ہے ٹھیک ہے واقعہ میں انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور ہم کبھی کسی کے منہ سے یہ سننے کیلئے تیار نہیں کہ کسی نبی نے کوئی گناہ کیا.غرض عقائد کی اصلاح کے متعلق جب ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ساری جماعت کی طرف سے آواز آنے لگتی ہے کہ درست درست لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں لکھا ہے اپنی اولا دوں کو ورثہ دو اور لڑکیوں کو بھی شریعت کے مطابق اسی طرح حصہ دو جس طرح لڑکوں کو دیتے ہو تو بجائے سب کی طرف سے متحد طور پر یہ آواز اُٹھنے کے ہاں ہاں یہ بالکل درست ہے ورثہ کا حکم نہایت ضروری ہے اور لڑکیوں کو ورثہ میں نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آواز دھیمی پڑنی شروع ہو جاتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہمیں اپنوں میں سے ہی بعض کے منہ سے یہ آواز سنائی دینے لگتی ہے کہ لڑکیوں کو ورثہ دینا بڑا مشکل کام ہے اس سے تو ہماری ناکیں کٹ جائیں گی.جب ہم کہتے ہیں کہ آؤ اور باجماعت نماز پڑھو سارے قرآن کریم میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ مؤمن وہ ہیں جو يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے نمازوں کو قائم کرتے ہیں یہ کہیں نہیں لکھا کہ
خطبات محمود ۳۳۵ سال ۱۹۳۶ء يُصَلُّونَ الصَّلوةَ مؤمن وہ ہیں جو نماز پڑھیں بلکہ نماز کے ساتھ ہر جگہ يُقِيمُونَ کا لفظ آتا ہے اور اقامت ہمیشہ نماز با جماعت میں ہی ہوتی ہے اکیلے نماز پڑھنے میں نہیں ہوتی تو اس آواز کے جواب میں بجائے اس کے کہ جس طرح ہم کہتے ہیں حضرت عیسی فوت ہو گئے اور ساری جماعت متحد ہو کر کہتی ہے ہاں ہاں فوت ہو گئے انہیں فوت ہو نے دو کیونکہ ان کی موت قرآن مجید سے ثابت ہے، یہاں یہ آوازیں نہیں آتیں کہ ہاں ہاں یہ درست ہے نماز ہمیشہ با جماعت ہی پڑھنی چاہئے بلکہ یہ آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے دنیا کے کاموں میں ہم مشغول ہوتے ہیں نماز با جماعت ہم کس طرح ادا کر سکتے ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء بالکل معصوم ہوتے ہیں اور وہ گناہوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تو ہماری جماعت کے سب دوست مل کر کہنے لگ جاتے ہیں کہ بالکل درست انبیاء واقعہ میں معصوم ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مؤمنوں پر زکوۃ فرض ہے اور ہر مومن مرد اور ہر مؤمن عورت جس پر زکوۃ کا دینا فرض ہے اُسے چاہئے کہ زکوۃ دے تو بجائے یہ آواز آنے کے کہ درست ہے درست ہے جو شخص زکوۃ دینے کے قابل ہونے کے باوجود زکوۃ نہیں دیتا وہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا یہ آواز آنے لگ جاتی ہے کہ آجکل کے حالات کے لحاظ سے تو یہ بڑا مشکل کام طرح عقائد کی اصلاح کیلئے جب اور بیسیوں باتیں کہی جاتی ہیں تو اُن کی تائید اور تصدیق میں جماعت کی طرف سے آوازیں اٹھتی ہیں لیکن جب ہم کہتے ہیں سچ بولنا چاہئے تو ہمیں آواز سنائی دیتی ہے کہ پیچ اچھی چیز ہے مگر کیا کریں جھوٹ کے بغیر آجکل گزارہ نہیں ہوسکتا.غرض عمل کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر جماعت متفقہ طور پر قائم ہو.بڑی بڑی قربانیوں کو جانے دو جانی قربانیوں ، مالی قربانیوں اور جذبات کی قربانیوں کو ایک طرف رکھو، چھوٹی سے چھوٹی باتوں کو بھی اگر لے لیا جائے تو صاف طور پر ان کے متعلق بڑبڑانے کی آوازیں سنائی دیں گی.سچ بولنا کتنی معمولی بات ہے مگر لوگ اس پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.پھر اور زیادہ بڑی باتوں کو جانے دومنہ پر کچھ بال رکھ لینا کونسی بڑی مصیبت ہے مگر لوگ داڑھی منڈ وادیں گے اسے رکھنا پسند نہیں کریں گے اور جب انہیں توجہ دلائی جائے تو کہہ دیں گے محمد ﷺ کا دین کے ساتھ تعلق تھا اُن کو اس سے کیا غرض اور اسلام کو اس سے کیا واسطہ کہ کوئی داڑھی رکھتا ہے یا نہیں رکھتا.مجھ سے ہی
خطبات محمود ۳۳۶ سال ۱۹۳۶ء ایک دفعہ کچھ نو جوانوں نے گفتگو کی اور کہا ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اسلام کا داڑھی سے کیا تعلق ہے اور اسلام کو اس سے واسطہ کیا ہے کہ ہم اپنے منہ پر چند بال رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا واقعہ میں اسلام کو ہرگز اس سے کوئی تعلق نہیں کہ کوئی اپنے منہ پر داڑھی رکھتا ہے یا نہیں مگر اسلام کو اس بات سے ضرور تعلق ہے کہ محمد ﷺ کی اطاعت کی جائے ، ان کی باتوں کو قبول کیا جائے اور ان کے نمونہ کو اختیار کیا جائے.پس یہ سوال نہیں کہ اسلام کا داڑھی سے تعلق ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اسلام کا محمد ﷺ کی اطاعت سے تعلق ہے یا نہیں.اگر تعلق ہے تو پھر ضروری ہے کہ داڑھی کے معاملہ میں بھی محمد ﷺ کی اطاعت کی جائے اور جو شخص محمد ﷺ کی اتنی چھوٹی سی بات ماننے کیلئے تیار نہیں اس سے کب توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بڑی بڑی قربانیوں کیلئے تیار ہو سکے گا.جو شخص ایک پیسہ دینے کیلئے تیار نہیں وہ ہزار روپیہ کہاں دے سکتا ہے.جب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ہماری جماعت اس بات کی بھی محتاج ہے کہ اُسے بار بار سمجھایا جائے اور وعظ کیا جائے تو وہ بڑے بڑے عظیم الشان تغیرات جو اسلام کے مد نظر ہیں اور جن تغیرات کے پیدا کرنے کیلئے انسان کو اپنا نفس قربان کر دینا پڑتا ہے اُن کی باری ہی کب آئے گی.ابھی تو سر پر بودے رکھنا اور داڑھیاں منڈوانا اور موچھیں بڑھانا اور نکٹائیاں لگانا اور پتلونیں پہننا اور سگریٹ نوشی کرنا اور حقہ پینا یہی باتیں ہماری توجہ کو کھینچے ہوئے ہیں حالانکہ وہ تغیر جو اسلام تمدنِ عالم میں پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ تغیر جس کے ماتحت اسلام تمام دنیا کو ایک سطح پر لانا چاہتا ہے، وہ تغیر جس کے ماتحت امیر اور غریب کا فرق اور حکومت اور رعایا کا امتیاز مٹ جاتا ہے اس کیلئے بہت کی بڑی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے مگر ہمیں اپنے اندرا بھی اُن قربانیوں کا مادہ ہی نظر نہیں آتا.گویا ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک اتنا عظیم الشان محل تیار کرنا ہے جس میں ساری دنیا نے آرام کرنا ہے مگر اس کے سامانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ابھی کدال تلاش کر رہا ہے جس سے وہ ذراسی مٹی کھرچ سکے.جس شخص کو ایک کدال بھی میسر نہیں کہ وہ اس سے بنیاد کھود سکے اور اس میں اینٹیں رکھ سکے وہ عظیم الشان محل کب تیار کرے گا اور کب ساری دنیا کو اپنے محل میں داخل کرنے کا کی پروگرام پورا کرے گا.پس یہ ایک معمہ ہے جو ہمارے سامنے ہے اور یہ معمہ ہے جسے ہم نے حل کرنا ہے اگر ہم
سال ۱۹۳۶ء خطبات محمود ۳۳۷ احمدیت کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں، اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اور کی مقدس رسول سمجھتے ہیں تو ہمیں اس معمہ کو پورے طور پر حل کرنا ہوگا ورنہ اس کے بغیر ہم کسی قسم کی برکت اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے امیدوار نہیں ہو سکتے.ابھی تو ہم اُس شخص کی طرح پریشان پھر رہے ہیں جو بغیر سواری اور کسی ساتھی کے ایک مہیب اور پُر خطر جنگل میں بہک جائے اور اُسے اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کا راستہ نہ ملے.ہم بھی حیران و پریشان ایک ایسی زمین میں پھر رہے ہیں جس کی میں نہ کوئی انیس ہے نہ جلیس ، نہ سواری ہے نہ ٹھہرنے کا مقام ایسی حالت کے ہوتے ہوئے خالی عقیدوں کو ہم نے کیا کرنا ہے اور ان سے دنیا میں کیا تغیر ہوسکتا ہے.حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کریں اور ہٹلر یا مسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اُسے ملک سے نکال دیں اور جو ہماری باتیں سننے اور اس پر عمل کرنے کیلئے تیار نہ ہوا سے عبرتناک سزا دیں.اگر حکومت پاس ہوتی تو ہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کر لیتے اور دوسرا دن کی ایسا نہ چڑھنے دیتے جس میں ہمارے اندر یہ نقائص موجود ہوتے.اگر آج حکومت ہمیں مل جائے اور ہم حکم نافذ کر دیں کہ ہر وہ شخص جو باجماعت نماز نہیں پڑھے گا اسے سات سال قید سخت کی سزا دی جائے گی تو کوئی ہے جو نماز با جماعت نہ پڑھے گا مگر ہمارے پاس جو سزا ہے کہ ہم کہتے ہیں جو شخص باجماعت نماز نہیں پڑھے گا اللہ تعالیٰ اُس پر ناراض ہو گا مگر آجکل خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی کون پروا کرتا ہے.لوگ انگریز کی ناراضگی سے ڈر جائیں گے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں کام کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے گا تو وہ اس کی پروا نہیں کریں گے.اگر آج ہمارے پاس حکومت ہو اور ہم یہی اعلان کر دیں کہ جو شخص اپنی لڑکی کو ور شہ دینے کیلئے تیار نہیں اس کی جائیداد کو ضبط کر لیا جائے تو کیا ہندوستان میں ایک شخص بھی ایسا رہ جائے جولڑکیوں کو ورثہ نہ دے.ہر شخے کہے گا کہ میں تو مدت سے یہ سوچ رہا تھا کہ کسی طرح لڑکی کو ورثہ دوں.غرض اگر ہمارے پاس حکومت ہوتی تو صبح سے شام نہیں ہونے پائے گی اور ساری اصلاحات آپ ہی آپ ہو جائیں گی لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس حکومت نہیں اس لئے ہم کو یہ سوال کسی اور طریق سے حل کرنا پڑے گا.یا تو حکومت کے کسی ایسے پہلو کو تلاش کرنا پڑے گا جو انگریزی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بھی قائم کیا جا سکتا ہو یا ایسے ذرائع کی تلاش کرنی پڑے گی جو بغیر حکومت کے ہمیں کام دے ص
خطبات محمود ۳۳۸ سال ۱۹۳۶ء سکیں اور لوگوں کی عملی زندگی میں اصلاح کر سکیں.بہر حال یہ سوال اس قابل ہے کہ غور اور فکر کے ساتھ اسے حل کیا جائے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سوال پر غور کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اس سوال کا اطمینان بخش حل ہمیں مل جائے.مگر پیشتر اس کے کہ میں اس سوال کولوں ایک اور امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ عمل کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت کیوں مشکل ہوتی ہے.اس کے متعلق یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ یہ سوال مختلف حالتوں میں مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے.بعض زمانوں میں عقیدہ کی اصلاح عمل کی اصلاح سے زیادہ مشکل ہو جاتی ہے اور بعض زمانوں میں عمل کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح سے زیادہ مشکل ہو جاتی ہے.جب مصلح کے پاس حکومت ہو تو اُس وقت عمل کی اصلاح جلدی ہو جاتی ہے اور عقیدے کی اصلاح دیر میں ہوتی ہے کیونکہ اس وقت ایسے منافق ساتھ شامل ہو جاتے ہیں جو گو عقید تا ساتھ نہیں ہوتے مگر حکومت سے فوائد حاصل کرنے کیلئے ظاہر میں عقیدہ بدل لیتے ہیں ایسی صورت میں ان کے باطنی خیالات قائم رہتے اور ان کی اصلاح بہت مشکل ہو جاتی ہے.اسی لئے جب کسی مصلح کے پاس ظاہری حکومت ہو تو اُس کے زمانہ میں عقیدہ کی اصلاح عمل کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے لیکن جب حکومت نہ ہو تو پھر عمل کی اصلاح کی دیر سے ہوتی ہے عقیدہ کی اصلاح جلدی ہو جاتی ہے کیونکہ حکومت نہ ہونے کی وجہ سے وہی لوگ ساتھ شامل ہوتے ہیں جن کے عقیدے درست ہو چکے ہوتے ہیں لیکن عمل میں چونکہ گہرے غور اور لمبی جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہر وقت نگرانی اور دباؤ نہ ہونے کی وجہ سے انسانوں سے بہت سی کمزوریاں سرزد ہوتی رہتی ہیں.پس یہ سوال مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے جب مذہب کے پاس حکومت ہو تو اُس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقیدے کی اصلاح عمل کی اصلاح سے کیونکر زیادہ کی مشکل ہے جیسے قرآن مجید میں آتا ہے کہ بعض لوگ ہمارے رسول کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں امنا.ہمارے عقائد بالکل درست ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ مت کہو بلکہ تم اگر کہنا چا ہو تو کہو کہ اَسْلَمُنا سے ہمارا ظاہر درست ہے اور ہم ظاہر میں تمام احکام اسلام کو مان رہے ہیں.یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کے پاس حکومت تھی مگر آج وہ زمانہ ہے کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ اَسلَمُنَ.تو ہم
خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۶ء کہتے ہیں یہ درست نہیں تمہارا ظاہر ابھی تک اسلام کے مطابق نہیں ہوا ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ امنا کیونکہ تمہارے عقائد درست ہیں.غرض قرآن کریم کی یہ آیت اس زمانہ میں اپنے مفہوم کو بالکل اور رنگ میں ظاہر کرے گی.پہلے یہ سوال ہوتا تھا کہ عقیدہ کی اصلاح کیوں مشکل ہے اور اس زمانہ میں یہ سوال ہے کہ عمل کی اصلاح کیوں مشکل ہے اور بغیر حکومت کے اس مشکل کا حل کیا ہے.اس غرض کیلئے سب سے پہلے ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اعمال کی اصلاح میں کونسی چیزیں روک ثابت ہوتی ہیں تا ہمیں علاج معلوم کرنے میں آسانی ہو.اس سوال کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی چیز جو عمل کی اصلاح کو مشکل بنا دیتی ہے وہ لوگوں کا یہ احساس ہے کہ ایک گناہ بڑا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا ہوتا ہے.عمل کی اصلاح میں یہ سب سے بڑی روک ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض گناہوں پر انسان کو دلیری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ جب وہ یہ اصل قائم کرتے ہیں کہ ایک بڑے گناہ ہوتے ہیں اور ایک چھوٹے گناہ ہوتے ہیں تو کچھ حصہ گناہوں کا وہ اپنے استعمال میں کی لاتے رہتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ یہ گناہ تو چھوٹا ہے اس کے کرنے میں کونسا زیادہ حرج ہے اس طرح بیماری کا پیج ضائع نہیں ہوتا اور بیماری کے بیج کے ضائع نہ ہونے کی وجہ سے خرابی ہمیشہ عو د کرتی رہتی ہے حالانکہ ہمیں رسول کریم ﷺ کی زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ گناہ اور نیکی کے چھوٹے بڑے ہونے کی تعریف بالکل جدا گانہ کیا کرتے تھے.احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم علیہ کے پاس بعض لوگ آئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ سب سے بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرما یا جہاد فی سبیل اللہ.پھر کوئی اور آیا اور اس نے دریافت کیا یارسول اللہ سب سے بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا.اس کے بعد کوئی اور شخص آیا اور اُس نے پوچھا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! سب سے بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا.تہجد.غرض مختلف سوالات کرنے والوں کو آپ نے ایک ہی سوال کا مختلف جواب دیا، کسی کو جہاد کی طرف توجہ دلائی کسی کو شب بیداری کی طرف متوجہ کیا ، کسی کو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تلقین کی.اب سب سے بڑی نیکیاں تین تو ہو نہیں سکتیں سب سے بڑی نیکی ایک ہی ہو سکتی ہے.پس اگر سب سے بڑی نیکی جہاد ہے تو ماں باپ کی اطاعت سب سے بڑی
خطبات محمود ۳۴۰ سال ۱۹۳۶ء نیکی نہیں اور اگر ماں باپ کی اطاعت سب سے بڑی نیکی ہے تو تہجد سب سے بڑی نیکی نہیں مگر رسول کریم ہے ان میں سے ہر ایک کو بڑی نیکی قرار دیتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ رسول کریم کا نشاء کیا تھا؟ صاف ظاہر ہے کہ آپ کا منشاء سب سے بڑی نیکی سے وہ نہ تھا جو عرف عام میں سمجھا جاتا ہے بلکہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ در حقیقت ہر انسان کیلئے سب سے بڑا کام الگ الگ ہؤا کرتا ہے.ایک انسان ایسا ہوتا ہے جس کے دل میں ماں باپ کی عظمت نہیں ہوتی لیکن وہ روپیہ اُڑا دینے کا عادی ہوتا ہے اگر اسے خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں روپیہ خرچ کرنے کے ثواب کا علم نہ ہو تب بھی وہ دنیوی کاموں پر روپیہ اڑا دینے کی عادت رکھتا ہے.چنانچہ ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں جو کن چنیوں کے نارچ پر اپنی جائداد میں دے دیتے ہیں.ایسے لوگ دُنیا میں پائے جاتے ہیں جو ڈوموں کے لطیفوں پر اپنے قیمتی اموال لگا دیتے ہیں، ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو آدھ گھنٹہ کے جُوا کی خاطر اپنی جائدادیں برباد کر دیتے ہیں، ایسا انسان اگر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جائداد دے دیتا ہے تو وہ کونسا بڑا کام کرتا ہے اُس کے نزدیک تو جائداد کی کوئی قیمت ہی نہیں کہ اُس کی اس نیکی کو بڑی نیکی قرار دیا جا سکے.ایسے انسان کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ جوئے سے تو بہ کرے.ایسے شخص کیلئے چوری سب سے بُرا فعل نہیں کیونکہ چوری کی طرف اسے رغبت نہیں ، ایسے شخص کیلئے سب سے بڑا گناہ ظلم نہیں کیونکہ ظلم کی طرف اسے توجہ نہیں ، ایسے شخص کیلئے سب سے بڑا گناہ جھوٹ نہیں کیونکہ جھوٹ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ، ایسے شخص کیلئے.سے بڑا گنا قتل نہیں کیونکہ قتل کا جذ بہ اُس کے دل میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا، ایسے شخص کا سب سے بڑا گناہ جو اُ ہے کیونکہ بڑا گناہ وہی ہے جس کی عادت ہو جائے اور جس کا چھوڑ نا انسان کو مشکل معلوم ہو.اس تعریف کے مطابق ایک ایسا انسان بھی ہو سکتا ہے جس کا سب سے بڑا گناہ یہ ہو کہ وہ مونچھیں نہیں تر شوا تا.وہ چور بھی نہیں ہو گا ، وہ ڈا کو بھی نہیں ہو گا ، وہ جھوٹ بھی نہیں بولے گا ، وہ دھوکا اور فریب بھی نہیں کرے گا مگر انگریزوں کو دیکھ کر چونکہ اُسے مونچھیں بڑھانے کی عادت ہو چکی ہوگی اس لئے ہم اس کے متعلق کہیں گے کہ اس کا سب سے بڑا گناہ مونچھیں بڑھانا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل اپنے ایک عزیز کا جو وہابی خیالات رکھتا تھا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ کوئی بڑا رئیس آپ سے ملنے آیا.وہ تہ بند تکبر سے لٹکا کر چلا کرتا تھا اور اُس کی
خطبات محمود ۳۴۱ سال ۱۹۳۶ء وقت بھی اُس نے اپنی تہ بند لٹکائی ہوئی تھی اور ٹخنوں سے نیچے پڑ رہی تھی.آپ فرماتے ہیں جس وقت اُس عزیز نے اس رئیس کو اس حالت میں دیکھا تو چونکہ وہ نیا نیا علم حدیث پڑھ کر آیا تھا اس نے اپنی مسواک اُٹھائی اور اس رئیس کے ٹخنے پر مار کر کہا فِی النَّارِ یہ حصہ دوزخ میں جائے گا کیونکہ حدیثوں میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص تکبر سے اپنا ازار لمبار کھلے وہ دوزخ میں جاتا ہے سے.وہ رئیس مسلمان تھا مگر اُسے ہمیشہ اپنی عزت کا خیال رہتا تھا اور اسی عزت کے خیال سے وہ تہہ بند لٹکا کر باندھا کرتا.جب اُس شخص نے ایک بھری مجلس میں اُس رئیس کے ٹخنے پر مسواک مار کر کہا فِی النَّارِ تو فوراً اُس رئیس پر اپنی عزت کا خیال غالب آ گیا اور اُس نے نہایت غصے سے کہا کہ تجھے کسی بیوقوف نے بتایا ہے کہ میں مسلمان ہوں میں ہرگز مسلمان نہیں.گویا محمد ﷺ کا اگر ایسا حکم ہے تو وہ مسلمانوں پر چل سکتا ہے مجھ پر نہیں چل سکتا.اب تہہ بند کے ایک انچ پر یا ایک انچ نیچے ہونے میں کیا رکھا ہے مگر ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے جنہیں اگر یہ کہو کہ تم ایک ہزار مربع لے لو مگر تہہ بند نیچے نہ باندھو تو وہ زمین چھوڑنے کیلئے تیار ہو جائیں گے مگر تہہ بند کا لٹکا نانہیں چھوڑیں گے.بلکہ اگر انہیں کہا جائے کہ تمہیں سر کا خطاب مل جائے گا بشرطیکہ تہہ بند لٹکا کر نہ چلو تو وہ سر کا خطاب چھوڑنے کیلئے تیار ہو جائیں گے لیکن اس بات کے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے کہ تہہ بند ایک انچ اوپر کر کے باندھیں.پس ایسے لوگوں کا سب سے بڑا گناہ تہہ بند کو نیچے لٹکانا ہوگا نہ کچھ اور.اسی طرح ایک زمیندار جب یہ سنتا ہے کہ کسی شخص نے رسول کریم ﷺ کو گالی دی تو اسے اپنی بیویوں کی محبت، اپنے بچوں کی محبت ، اپنے خاندان کی محبت اور اپنی جان کی محبت بالکل فراموش ہو جاتی ہے.وہ خاموشی سے ایک گنڈاسہ یا چھرا لیتا ہے اور گھر سے نکل جاتا ہے اور اس شخص کی تلاش شروع کر دیتا ہے جس نے رسول کریم ﷺ کو گالی دی ہوتی ہے ، پھر جب وہ مل جاتا ہے تو اُسے قتل کر دیتا ہے اور جب خود پکڑا جاتا ہے تو اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا ہوا پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاتا ہے اور ذرا بھی خیال نہیں کرتا کہ اُس نے کوئی قربانی کی ہے.گویا وہ اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر چیز رسول کریم ﷺ پر قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائے گا لیکن باوجود اس کے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ پینے کے پاس جاتا اور اُس سے سود لیتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی
خطبات محمود ۳۴۲ سال ۱۹۳۶ء صلى الله ایک خیالی عزت کو قربان نہیں کرتا اور اپنی لڑکی کو ورثہ سے محروم رکھتا ہے.ایسے شخص کی سب سے بڑی نیکی یہ نہیں کہ اُس نے اپنی جان رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کیلئے قربان کر دی بلکہ اس کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ سو دنہ لے اور اپنی لڑکیوں کو جائداد سے ورثہ دے.یہ صرف چند مثالیں میں نے دی ہیں ورنہ ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی ہر انسان کے ساتھ بدلتی چلی جاتی ہے.پس جب تک یہ خیال دل میں رہے کہ فلاں بدیاں بڑی ہیں اور فلاں چھوٹی اور فلاں نیکیاں بڑی ہیں اور فلاں چھوٹی اُس وقت انسان نہ بدیوں سے پوری طرح بچ سکتا ہے اور نہ نیکیوں کو پوری طرح حاصل کر سکتا ہے.دنیا میں بڑی بدیاں وہی ہیں جن کے چھوڑنے پر انسان کی قادر نہ ہوا اور جو عادت میں داخل ہو چکی ہوں اور بڑی نیکیاں وہی ہیں جن کا کرنا انسان کو دوبھر معلوم ہو.اس نقطہ نگاہ کے مطابق کئی نیکیاں ایسی ہو سکتی ہیں جو ایک کیلئے بڑی ہوں مگر دوسروں کیلئے چھوٹی اور کئی بدیاں ایسی ہو سکتی ہیں جو ایک کیلئے بڑی ہوں لیکن دوسرے کیلئے چھوٹی.پس جب تک اس خیال کو دل سے نکال نہیں دیا جاتا کہ چوری ایک بڑا گناہ ہے، زنا ایک بڑا گناہ ہے، قتل ایک بڑا گناہ ہے، غیبت ایک بڑا گناہ ہے اور ان کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ چھوٹے ہیں بہ جب تک اس خیال کو دل سے نکال نہیں دیا جاتا کہ چند نیکیاں بڑی ہیں اور باقی چھوٹی مثلاً روزه ای بڑی نیکی ہے، نماز با جماعت بڑی نیکی ہے، زکوۃ بڑی نیکی ہے، حج بڑی نیکی ہے اور اس کے علاوہ جتنی نیکیاں ہیں وہ چھوٹی ہیں اُس وقت تک انسان کا عملی حصہ بہت کچھ کمزور رہتا ہے.مگر عام مسلمانوں میں اس وقت یہ مرض پھیلا ہوا ہے اور وہ یہ کہ وہ بعض نیکیوں کو بڑی اور بعض کو چھوٹی سمجھتے ہیں.مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ سب سے بڑی نیکی ہے اس خیال میں انہیں اس قد رغلو ہے کہ وہ نماز باجماعت چھوڑ دیں گے، زکوۃ ساری عمر نہیں دیں گے لیکن جو شخص روزہ نہ رکھے خواہ کسی بیماری اور مجبوری کی وجہ سے نہ رکھے وہ ان کے نزدیک کشتنی اور گردن زدنی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں جبکہ آپ سفر کی حالت میں تھے امرتسر میں تقریر فرمارہے تھے کہ آپ کے گلے میں خشکی محسوس ہوئی.ایک دوست نے یہ دیکھ کر آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیالی ہٹادی
خطبات محمود ۳۴۳ سال ۱۹۳۶ء لیکن تھوڑی دیر کے بعد اُس نے حلق کی تکلیف کے خیال سے پھر پیالی پیش کر دی آپ نے پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن تیسری دفعہ اس نے پھر پیالی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آگے کر دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غالباً یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے چائے کی پیالی نہ لی تو یہ ریاء ہو جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ میں نے لوگوں کو دکھانے کی خاطر اس حکم پر عمل نہیں کیا جو سفر کے وقت روزہ نہ رکھنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جب تیسری بار اس دوست نے پیالی پیش کی تو آپ نے لے لی اور اس میں سے تھوڑا سا گھونٹ بھر لیا.یہ دیکھتے ہی لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر رمضان میں روزے نہیں رکھتے.وہ لوگ جو اُس وقت شور مچارہے تھے ان میں سے یقیناً نوے فیصدی نماز با جماعت کیا نماز کے ہی تارک تھے اور یقیناً ان میں سے ننانوے فیصدی جھوٹ بولنے ، دھوکا فریب کرنے اور لوگوں کے مال کوٹ لینے والے تھے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے ننانوے فیصدی روزہ دار تھے کیونکہ ہندوستان میں روزہ کو سب سے بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے مگر روزہ وہ اس طرح نہیں رکھتے جس طرح رسول کریم ﷺ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولتا، غیبت کرتا یا گالی دیتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور اس کا کوئی روزہ نہیں ہے وہ صرف بھوکا اور پیاسا رہتا ہے.اس حدیث کے مطابق گوننانوے فیصدی مسلمان بظاہر روزہ رکھ کر بھو کے اور پیاسے رہتے ہیں مگر وہ اس بھوکے پیاسے رہنے کو سب سے بڑی نیکی سمجھتے ہیں.ان کے نزدیک جو شخص روزے رکھ لے اور چند اور نیکیوں پر عمل کرلے اُس کا بیڑا پار ہے.ایسے لوگ دنیا میں پاکیزگی کے قائم کرنے میں کبھی مد نہیں ہو سکتے اور نہ وہ صحیح معیار گناہ قائم کر سکتے ہیں.انہوں نے ی اپنے ذہن میں یہ نقشہ جمالیا ہوتا ہے کہ کچھ چھوٹی نیکیاں ہوتی ہیں اور کچھ بڑی نیکیاں ہوتی ہیں اور کچھ چھوٹی بدیاں ہوتی ہیں اور کچھ بڑی بدیاں ہوتی ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس نیکی کو بڑا ہے سمجھے ہوئے ہوتے ہیں اسے تو وہ اختیار کر لیتے ہیں مگر جن بدیوں کو چھوٹا سمجھ رہے ہوتے ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے حالانکہ اسلام نے اُسی نیکی کو بڑا قرار دیا ہے جس پر عمل کرنا اُس کیلئے دوبھر ہو اور اُسی بدی کو بڑا قرار دیا ہے جس سے بچنا انسان کیلئے دوبھر ہو.پس ایک تو عملی اصلاح میں سب سے بڑی روک یہ ہے کہ لوگ بدیوں اور نیکیوں کے
خطبات محمود ۳۴۴ سال ۱۹۳۶ء متعلق ذہنی طور پر فرق کر لیتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض ٹے اور بعض نیکیاں بڑی ہوتی ہیں اور بعض چھوٹی ہوتی ہیں.وہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ جو بڑی بڑی نیکیاں ہیں وہ ہم کر لیں گے اور چھوٹی نیکیوں کو نظر انداز کر دیں گے.اسی طرح گنا ہوں میں سے بھی وہ جن گناہوں کو بڑا سمجھتے ہیں اُن سے بچنے کی کوشش کریں گے مگر اور گناہوں کا اپنے اندر پایا جانا انہیں قابلِ اعتراض امر معلوم نہیں ہوگا حالانکہ چھوٹی نظر آنے والی نیکیاں چھوڑ دینے سے بسا اوقات بڑے بڑے نقصان ہو جاتے ہیں اور معمولی نظر آنے والی بدیاں کر لینے بسا اوقات روحانیت کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے.پس ان کی قربانی دونوں طرف سے کم سمجھی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے طہارت اور پاکیزگی کا خلعت انہیں عطا نہیں کیا جاتا.پھر بعض بدیوں کو چھوٹا سمجھنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بدی کا بیج دنیا میں قائم رہتا ہے جو مناسب ماحول کے قائم ہونے پر پھر آگ آتا ہے.اسی طرح جس نیکی کو چھوٹی سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہوتا ہے بسا اوقات وہ بڑی ہوتی ہے اور جس بدی کو چھوٹی سمجھ کر اختیار کر لیا جاتا ہے وہ بسا اوقات اس زمانہ میں نہایت مُہلک اور خطرناک نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے.پھر ہر شخص کے نزدیک چھوٹی بڑی بدی الگ الگ ہوتی ہے.ایک شخص جس بدی کو بڑا سمجھتا ہے دوسرا اسے چھوٹا سمجھتا ہے اور دوسرا جس بدی کو چھوٹا سمجھتا ہے تیسرا اسے بڑا سمجھتا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں ہر بدی کا بیج موجود رہتا ہے.اگر سارے لوگ مل کر فیصلہ کر لیتے کہ فلاں بدی بری ہے تو وہ پیدا ہی نہ ہوتی.جیسے مسلمان سارے گناہوں سے بدتر گناہ کی کہ شرک سے بھی بدتر سؤ رکھا نا سمجھتے ہیں.یہ اسی لئے کہ ان میں متفقہ طور پر سوار کے متعلق یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اس کا گوشت کھانا بُرا ہے.وہ کنچنیاں جو دو دو آنے ، چار چار آنے ، روپیہ روپیہ، دو دو روپے، چار چار روپے اور پانچ پانچ روپے پر علی قدر مراتب عصمت فروشی کرتی رہتی ہیں اور پھر سینہ پر ہاتھ مار کر کہتی ہیں کہ الْحَمْدُ لِلهِ ہم مومنہ ہیں ، وہ ڈا کو جو دو آنے پر ایک شخص کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں، وہ لوگ جو پندرہ پندرہ ، بیس بیس روپے لے کر بے دریغ دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں اور منہ سے اسلام کا اقرار بھی کرتے جاتے ہیں ، وہ بھی عصمت فروشی اور قتل کو اتنا بر افعل نہیں سمجھیں گے جتنا سور کا گوشت کھانے کو.جس کی یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سور کے گوشت کے متعلق مجموعی طور پر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اس کا کھانا ای
خطبات محمود ۳۴۵ سال ۱۹۳۶ء خطر ناک گناہ ہے حالانکہ کچینیوں کا سب سے بڑا گناہ عصمت فروشی ہے اور ایک قاتل کا سب.بڑا گناہ قتل ہے مگر وہ ان گناہوں کا عادی ہونے کی وجہ سے انہیں تو معمولی سمجھتے ہیں لیکن سؤر کا گوشت کھانا بدترین گناہ سمجھتے ہیں.اسی طرح کئی ایسے ملیں گے جو جھوٹ بولنے والے ہوں گے لیکن قتل نہیں کریں گے.وہ قاتل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے لیکن جھوٹ سے جب انہیں منع کیا جائے گا تو کہہ دیں گے کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا.پھر کئی ہیں جو چغلخوری کی عادت رکھتے ہیں وہ جھوٹ سے نفرت رکھتے ہیں لیکن چغلخوری کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.اس کے مقابلہ میں جو جھوٹ بولنے کی عادت رکھتا ہے اور چغلخوری سے محفوظ ہے وہ چغلخور سے سخت نفرت رکھے گا.اگر کوئی شخص اس کے پاس کسی کی چغلی کرے گا تو وہ آئندہ کیلئے اس کی شکل تک دیکھنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اور اس سے شدید نفرت کرے گا لیکن وہ اس کے سچ کو تو ادھر سے اُدھر بیان کرنے پر ناراض ہوگا اور خود جھوٹ بول لینا اسے معمولی عیب دکھائی دے گا.پس چونکہ ہر انسان اپنی فطرت، اپنی عادت اور اپنے ماحول کے مطابق کسی بدی کو بڑا اور کسی کو چھوٹا سمجھتا ہے اس لئے ہر بدی کا بیج دنیا میں موجود رہتا ہے.گویا یہ منڈی ہمیشہ ہی پر رونق رہتی ہے اس میں کئی ایسے مل جائیں گے جو قتل کو معمولی بدی سمجھ کر لوگوں کو قتل کرنے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو غیبت کو معمولی بدی سمجھ کر لوگوں کی غیبت کرنے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو جھوٹ کو معمولی بدی سمجھ کر لوگوں کے متعلق جھوٹ بولنے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو دوسرے کے مال کھانے کو معمولی بدی سمجھ کر اپنے بھائیوں کا مال کھانے کی والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو خیانت کو معمولی بدی سمجھ کر خائن ہوں گے، کئی فسق اور فجور کو معمولی بدی سمجھ کر فاسق اور فاجر نظر آئیں گے غرض ہر گناہ کی کاشت کرنے والے لوگ دنیا میں موجود ہوں گے ، کوئی کسی گناہ کو چھوٹا قرار دے رہا ہوگا اور کوئی کسی کو اور اسی طرح ہر گناہ کا بیج دنیا میں محفوظ چلا آئے گا.ہاں ایک مثال جو سور کے گوشت کی میں نے دی ہے اس کی استثناء ر ہے گی کیونکہ کروڑوں میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ہو گا جو سور کا گوشت کھاتا ہو بلکہ مسلمان سؤر کے قریب بھی نہیں پھٹکتا اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ ـ چندا ایسے لوگوں کو جو مغرب میں رہنے کی وجہ سے اس جذ بہ کو کھو چکے ہوں مگر وہ اَلنَّادِرُ كَالْمَعْدُوم کے طور پر ہیں.تو جس گناہ کو سارے لوگ ہی بڑا گناہ
خطبات محمود ۳۴۶ سال ۱۹۳۶ء قرار دے لیں اُس کا مٹانا کوئی مشکل نہیں ہوتا لیکن جن گنا ہوں کو کچھ لوگ بڑا اور کچھ لوگ چھوٹا قرار دے رہے ہوں ان کا مٹانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے.دوسرا سبب یہ ہے کہ عقیدہ ہر ایک کے دل میں ہوتا ہے اور عقیدے کا تعلق دل سے ہے لیکن عمل کا تعلق ظاہر سے ہے.انسانی فطرت میں ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ترقی کیلئے اس میں نقل کا مادہ رکھا ہوا ہے.اس نقل کے مادہ کا غلط استعمال کر کے کبھی انسان تباہ بھی ہو جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ ہمارے فائدے کیلئے رکھا ہوا ہے.اگر نقل کا مادہ انسان میں نہ ہو تو وہ مثلاً زبان ہی نہ سیکھ سکے مگر چونکہ نقل کا مادہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھا ہوا ہے اس لئے ماں باپ کو اردو یا انگریزی یا پنجابی بولتے دیکھ کر بچہ بھی وہی زبان کی بولنے لگ جاتا ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں کافی زبان سیکھ لیتا ہے.یوں کسی غیر زبان کے پڑھنے کی میں کتنے سال لگ جاتے ہیں لیکن ماں باپ سے سن کر نا فہم بچہ بھی چند سالوں میں کتنی مکمل زبان سیکھ جاتا ہے.ایک زمیندار ۱۵ سال میں بھی اتنی عربی نہیں پڑھ سکتا جتنی بچپن کی حالت میں ڈیڑھ دوسال کے عرصہ میں وہ پنجابی سیکھ لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ نقل کا مادہ اس لئے ہے رکھا ہے کہ تا انسانی ترقی ہوا اور علوم کا سیکھنا اسے بوجھ محسوس نہ ہومگر یہی نقل کا مادہ کبھی غلط طور پر بھی استعمال ہوکر بچہ کی عملی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے کیونکہ جس طرح بچہ اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے اسی طرح وہ اپنے ماں باپ کو جھوٹ بولتے دیکھ کر ان سے جھوٹ کی بھی عادت سیکھنا اور جھوٹ کی نقل کرنا شروع کر دیتا ہے.یا جب وہ اپنے ارد گر دکسی کو چوری کرتے دیکھتا ہے تو اس کو دیکھ کر خود بھی چوری کرنے لگ جاتا ہے.بچہ میں یہ نقل کی عادت ویسی ہی ہے جیسے بندر میں نقل کی عادت ہے.بندر میں بھی نقل کا مادہ بڑی شدت سے پایا جاتا ہے.بعض لوگوں نے بندر کی اس عادت کے متعلق ایک عجیب واقعہ لکھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ کوئی ٹوپیوں کا تاجر تھا وہ بہت سی ٹوپیاں لئے ایک جنگل میں سے گزر رہا تھی تھا کہ آرام کرنے کیلئے ایک درخت کے نیچے سر پر ٹوپی رکھے سو گیا اور ٹوپیوں کی گھڑی پاس رکھ لی.اتفاقاً اس درخت پر بہت سے بندر بیٹھے تھے جب بندروں نے دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی سر پر ٹوپی اوڑھے سویا ہوا ہے اور اس کے پاس بہت سی ٹوپیاں پڑی ہیں تو وہ نیچے آئے
خطبات محمود ۳۴۷ سال ۱۹۳۶ء ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک ٹوپی اپنے سر پر اوڑھ لی اور درخت پر چڑھ گئے.تھوڑی دیر کی کے بعد جب ٹوپیوں والے کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ ٹوپیاں غائب ہیں وہ حیران ہوا اور اُس نے سمجھا کہ کوئی چور اُٹھا کر لے گیا ہے مگر اتفاقاً اس نے اوپر جو دیکھا تو بیسیوں بندر اُسے ٹوپیاں کے پہنے ہوئے دکھائی دیئے.یہ دیکھ کر اُس نے بندروں کو ڈرایا اور دھمکا یا مگر انہوں نے کسی طرح ٹوپیاں نہ اُتاریں.آخر اُس نے درخت کا پھل جو نیچے گرا ہوا تھا بندروں کو مارنا شروع کیا.جب بندروں نے دیکھا کہ یہ پھل اُٹھا اُٹھا کر ہمیں مار رہا ہے تو انہوں نے بھی درخت کے پھل تو ڑ تو ڑ کر اُسے مارنا شروع کر دیا.اب چاروں طرف سے جو اُسے پھل لگے تو وہ گھبرا گیا مگر آخر اللہ تعالیٰ نے اسے عقل سے کام لینے کی توفیق دی اور اس نے سمجھا کہ یہ تو محض میری نقل کر رہے ہیں.اب ی میں کوئی ایسا طریق سوچوں جس سے یہ ٹوپیاں میری طرف پھینک دیں.اس خیال کے آنے پر اُس نے اپنی ٹوپی سر سے اُتاری اور زور سے اسے زمین پر دے مارا.یہ دیکھتے ہی سب بند سب بندروں نے ٹوپیاں اپنے اپنے سر سے اتاریں اور زور سے زمین پر پھینک دیں اس تاجر نے انہیں اکٹھا کر لیا اور آگے روانہ ہو گیا.بچوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے وہ بغیر عقل سے کام لئے دوسروں کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جس وقت وہ عقل کی عمر کو پہنچتے ہیں اور انہیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ یہ فعل بُرا ہے تو اُس وقت وہ اُن کی عادت میں داخل ہو چکا ہوتا ہے.وہ بسا اوقات اپنی ماں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کی نمازوں میں سستی کرتی ہے پھر وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کا باپ گھر میں آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ نمازی پڑھی؟ تو وہ جواب میں کہ دیتی ہے ابھی تو نہیں پڑھی پڑھ لوں گی.بچہ یہ جواب سنتا اور دل میں ہے کہتا ہے کہ مجھ سے بھی جب کسی نے پوچھا کہ نماز پڑھی ہے؟ تو میں کہہ دوں گا ابھی نہیں پڑھی پڑھ لوں گا.چنانچہ جب وہ ہوش سنبھالتا ہے اور باپ اُس سے پوچھتا ہے نماز پڑھی تو وہ کہہ دیتا ہے ابھی نہیں پڑھی پڑھ لوں گا.پھر وہ دیکھتا ہے کہ باپ گھر میں ناراض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے نماز پڑھی؟ تو ماں جواب دیتی ہے اوہ! میں بھول گئی تھی بچہ یہ جواب سنتا اور دل میں کہتا ہے یہ اچھا نسخہ ہے مجھ سے بھی جب کسی نے پوچھا نماز پڑھی؟ تو میں کہہ دوں گا اوہ ! میں بھول گیا تھا.پھر کبھی وہ دیکھتا ہے کہ باپ جب پوچھتا ہے کہ نماز پڑھی تو ماں جھوٹ بول کر کہہ دیتی ہے کہ میں نے نماز
خطبات محمود ۳۴۸ سال ۱۹۳۶ء پڑھی لی ہے.بچہ جانتا ہے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ رہتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ بھی کہتا ہے جب مجھ سے کوئی پوچھے گا نماز پڑھی تو میں کہہ دوں گا میں نے پڑھ لی ہے.چنانچہ بڑے ہونے پر جب باپ گھر میں آتا اور اپنے بچہ سے دریافت کرتا ہے کہ نماز پڑھی؟ تو وہ نہایت دلیری سے کہہ دیتا ہے ابا جان میں نے نماز پڑھ لی ہے.یا بچہ اپنے ہمسایہ میں سے کسی کو جھوٹ بولتے دیکھتا یا چوری کرتے دیکھتا ہے تو اُس کو بھی ان افعال میں لذت آنی شروع کی ہو جاتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ چیز اچھی ہے یا بُری، مزیدار ہے یا غیر مزیدار، وہ صرف نقل کرنی جانتا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بچے روتے ہیں اور ان کے رونے کا بظاہر کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا لیکن جب کرید کرید کر بات دریافت کی جائے تو کسی ایسی بات پر وہ رو ر ہے ہوتے ہیں جس میں محض دوسرے کی نقل کا شوق کارفرما ہوتا ہے.میری ایک بھانجی کا ہی ایک واقعہ ہے وہ چھوٹی سی تھی کہ ایک دن اس نے رونا شروع کر دیا.اتنی روئی اتنی روئی کہ سب حیران رہ گئے اور وہ کسی کی طرح چپ کرنے میں نہ آئے آخر بہت دریافت کرنے پر اُس نے کہا کہ میں کیہوں کی کٹوری میں گڑ کے میٹھے چاول ڈال کر کھاؤں گی اس نے کسی کھلائی کی لڑکی کو اس طرح کیہوں کی کٹوری میں گڑ کے میٹھے چاول ڈال کر کھاتے دیکھا تھا بس اس کی نقل کے شوق میں اس نے بھی ضد کر لی اور رونا شروع کر دیا.چنانچہ اسے چاول پکا کر دیئے گئے اور کیہوں کی کٹوری میں ڈال کر اس کے آگے رکھے گئے وہ لے کر کہنے لگی میں اسی جگہ زمین پر بیٹھ کر کھاؤں گی جہاں اس نے کھائے تھے.چنانچہ وہ زمین پر وہیں بیٹھی جہاں اس نے اپنی کھلائی کی لڑکی کو بیٹھے دیکھا تھا اور میٹھے چاول کھائے.اسی طرح مجھے اپنا بھی ایک لطیفہ یاد ہے میں اُس وقت گودیوں میں اٹھایا جاتا تھا ان دنوں میری آنکھیں سخت دیکھنے آئیں شدت تکلیف سے میں رورہا تھا کہ ایک عورت نے مجھے اُٹھا لیا اور ادھر اُدھر پھرنا شروع کر دیا.اُس عورت کو چونکہ بھوک لگی ہوئی تھی اس لئے اُس نے رات کی باسی روٹی لے کر ٹہلتے ٹہلتے کھانی شروع کر دی.مجھے ساری عمر میں کبھی کسی چیز کے متعلق اتنی شدید حرص پیدا نہیں ہوئی جتنی اُس دن پیدا ہوئی.میں آنکھوں کے درد سے روتا جارہا تھا اور میری سب سے بڑی خواہش اُس وقت یہ تھی کہ رات کی باسی روٹی اس وقت ہو تو میں اُسے ٹہل ٹہل کر
خطبات محمود ۳۴۹ سال ۱۹۳۶ کھاؤں.یہ باسی روٹی کا مزہ نہیں تھا جو مجھے آیا بلکہ ایک نقل تھی جو میں نے کرنی چاہی.تو بچپن میں نقل کی شدید عادت ہوتی ہے اور بغیر سمجھ کے بچہ کام کرتا چلا جاتا ہے اگر اسے نیک ماحول میں رکھ دیں تو وہ نیک کام کرتا چلا جائے گا اور اگر بُرے ماحول میں رکھ دیں تو وہ ی بُرے کام کرتا چلا جائے گا اور جب بڑے ہو کر لوگ اسے سمجھاتے ہیں اور کہتے ہی کہ یہ چیز بُری ہے اسے مت کرو تو اُس وقت وہ ان کے اختیار سے نکل چکا ہوتا ہے لیکن عقیدے میں یہ بات نہیں.عقیدہ دماغ میں ہوتا ہے اور اس وجہ سے عقیدہ نظر نہیں آتا اس لئے عقیدہ میں دوسرے کی جی نقل نہیں ہوسکتی.اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ خدا ایک نہیں بلکہ تین ہیں تو اردگرد کے بچوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ہاں اگر وہ تبلیغ کر رہا ہو تو بچے زبان سے اُس کی نقل کرنے لگ جائیں گے اور شور مچاتے پھریں گے کہ خدا تین ہیں، خدا تین ہیں اور اگر وہ کسی کو کہتے سنیں گے کہ خدا کوئی نہیں تو وہ اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے اور کہنے لگیں گے کہ خدا کوئی نہیں.لیکن ان امور کے متعلق ان کے دل میں یقین پیدا نہیں ہو گا صرف ان کی زبانیں اسے دُہرا رہی ہوں گی کیونکہ وہ زبان کی بات سن کر اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے اور دل کی حالت چونکہ ان پر عیاں نہ ہوگی اس کی نقل کرنے کی وہ کوشش نہ کریں گے.غرض عمل کا تعلق چونکہ ظاہر سے ہے اس وجہ سے دوسروں کے عیوب کا جلدی اثر ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے چونکہ عیسائی کی تثلیث کا عقیدہ بچوں کے سامنے نہیں آئے گا کیونکہ وہ اس کے دماغ میں ہے وہ اس کی نقل نہیں کریں گے لیکن اس کی نکٹائی اور پتلون چونکہ بچوں کے سامنے ہوگی اس لئے وہ فوراً اس کی نقل کرنی شروع کر دیں گے اور جب بھی نکٹائی اور پتلون کا ذکر آئے گا وہ اس کیلئے بیتاب ہو جائیں گے.اگر عقیدہ ظاہر کی چیز ہوتی تو بچے اس کی بھی نقل شروع کر دیتے مگر عقیدہ چونکہ مخفی چیز ہے اس لئے اس کی نقل کم ہوتی ہے اسے صرف علمی طور پر سمجھایا جا سکتا ہے اور علمی طور پر سمجھانا بچپن کے زمانہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ جوانی کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور اُس کی وقت بچہ اگر عقل سے کام لے تو مفید اور مضر بات میں فرق کر سکتا ہے.پس انسانی فطرت میں چونکہ نقل کا مادہ رکھا گیا ہے اس لئے اگر بچہ اپنے ارد گر دلوگوں کو جھوٹ بولتے دیکھتا ہے تو وہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے ، اگر چوری کرتے دیکھتا ہے تو چوری کرنے لگ جاتا ہے، دوسروں کو
خطبات محمود ۳۵۰ سال ۱۹۳۶ء لوگوں کے حق مارتے دیکھتا ہے تو یہ بھی حق مارنے کی عادت اختیار کر لیتا ہے، جھوٹی قسمیں کھاتے ہے دیکھتا ہے تو یہ بھی جھوٹی قسمیں کھانے لگ جاتا ہے ، گالیاں دیتے دیکھتا ہے تو یہ بھی گالیاں دینے لگ جاتا ہے، نماز کا تارک دیکھتا ہے تو خود بھی نماز کا تارک بن جاتا ہے ، روزہ رکھتے نہیں دیکھتا تو اس میں بھی روزہ رکھنے کی عادت پیدا نہیں ہوتی ، گائے کا گوشت کھاتے دیکھتا ہے تو گائے کا گوشت کھانے کا عادی ہو جاتا ہے ، گائے کے گوشت سے نفرت کرتے دیکھتا ہے تو یہ بھی گائے کے گوشت سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے.سردار فضل حق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی تھے جو فوت ہو چکے ہیں وہ سکھوں کے ایک معزز خاندان اور رئیسوں میں سے تھے اُن کی چڑ ہی لوگوں نے یہ بنائی ہوئی تھی کہ سردار صاحب گائے کا گوشت لائیں یہ سنتے ہی سردار صاحب کو متلی ہونے کی لگتی.بعض دفعہ لوگ انہیں زبر دستی گائے کی بوٹی کھلانے کی کوشش کرتے.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب مہمان خانہ میں وہ آگے آگے ہوتے اور لوگ پیچھے پیچھے اور لوگ انہیں کہتے آج تو آپ کو ایک بوٹی کھلا کر رہیں گے اور وہ کہتے خدا کیلئے مجھے نہ کھلا نا.مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ شاید انہی کا واقعہ ہے یا کسی اور نو مسلم کا.بہر حال یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ انہیں یا کسی اور نومسلم کو بے خبری میں گائے کے گوشت کی ایک بوٹی کھلا دی گئی اور انہیں واقعہ میں قے آگئی.یہ گائے کے گوشت کا ذکر سن کر قے آجانا کیا چیز ہے وہی بچپن کا اثر ہے جب انہیں گائے کے گوشت سے نفرت دلائی جاتی ورنہ گائے کے گوشت میں کیا رکھا ہے اور بکرے کے گوشت میں کیا.تو عمل چونکہ نظر آنے والی چیز ہے اس لئے لوگ اس کی نقل کر لیتے ہیں اور یہ پیج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن عقیدہ چونکہ نظر آنے والی چیز نہیں اس لئے وہ اپنے دائرہ میں محدود رہتا ہے گویا عقیدہ ایک پیوندی درخت ہے کہ اسے خاص طور پر لگایا جائے تو لگتا ہے لیکن عمل کی مثال تخمی درخت کی سی ہے کہ آپ ہی آپ اس کا بیج زمین میں جڑ پکڑ کر اُگنے لگتا ہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کے عمل کی کی مثال اس بھٹ کٹیا کے پودے کی سی ہے جو ہوا سے لڑھکتا پھرتا ہے اور ہر جگہ اس کا بیج آپ ہی آپ اگتا چلا جاتا ہے اور اُس کا مٹانا مشکل ہو جاتا ہے.پس عقیدہ اور عمل میں یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جس کی وجہ سے بُرے عقیدہ کا پھیلنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنابُرے عمل کا پھیلنا آسان ہوتا ہے.
خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۶ء تیسرا سبب یہ ہے کہ عقیدہ آجل اُمور سے تعلق رکھتا ہے لیکن عمل ایسے امور سے تعلق رکھتا ہے جو عاجل ہوتے ہیں.مثلاً یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا اس عملی حالت سے کوئی تعلق نہیں.جب ایک سنار زیور تیار کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس میں کھوٹ ملاؤں یا نہ ملاؤں کیونکہ کھوٹ ملانے یا نہ ملانے کا تعلق اُس کی شام کی روٹی کے ساتھ ہے.پس وہ اپنے قریب کے فائدے کو دیکھ کر ایک راہ عمل اختیار کر لیتا ہے.یا مثلاً یہ سوال کہ مرنے کے بعد کی زندگی ہے ؟ نہیں.بڑی ڈور کا سوال ہے ، فرشتے ہوتے ہیں یہ بھی دور کی بات ہے، اللہ تعالیٰ کے نبی سچے ہوتے ہیں اور ان کی باتیں ماننے میں انسان کا اپنا فائدہ ہوتا ہے یہ بھی دور کا سوال ہے، خدا کا کلام انسان پر اُترتا ہے یہ بھی بہت دور کی بات ہے ، نجات کس کو ملے گی یہ بھی کوئی قریب کا سوال نہیں لیکن ایک سنار کیلئے یہ بالکل قریب کا سوال ہے کہ ایک شخص جو دو روپے کی چاندی دے گیا ہے میں اسے دو روپیہ کی چاندی کی صورت میں ہی واپس کروں یا پونے دو روپیہ کی چاندی میں چار آنہ کا کھوٹ ملا کر واپس کروں کیونکہ اس سوال کا تعلق اُس کی شام کی روٹی اور اُس کی بیوی بچوں کے کپڑوں کے ساتھ ہے.یہ سوچتا ہے کہ اگر میں اس میں کھوٹ ملا دوں تو میری شام کی روٹی کا سوال حل ہو جاتا ہے مگر خدا ایک ہے اِس سے اُس کی روٹی یا بیوی بچوں کے کپڑوں کا سوال بظا ہر حل نہیں ہوسکتا.تو عقیدے کا تعلق دور کے امور سے ہوتا ہے اور عمل کا تعلق قریب کے امور سے ہوتا ہے یعنی عمل کا اثر دنیا کے معاملات پر پڑتا ہے اور عقیدے کا اثر انسان کے ذہنی اثرات اور اُس کی روح پر پڑتا ہے اس لئے عقیدہ کی اصلاح میں دُنیوی ضروریات حائل نہیں ہوتیں لیکن عمل کی اصلاح کے راستہ میں دنیوی ضروریات حائل ہو جاتی ہیں.ایک شخص جوش میں آتا ہے اور دوسرے شخص سے لڑ پڑتا ہے اتفاقاً زور سے اُس کا ہاتھ اُس کے دل پر لگتا ہے اور وہ ی مرجاتا ہے وہ دونوں ایک جگہ اکیلے ہوتے ہیں اُس وقت عاجل اور فوری طور پر اُس کے دل میں خیال آتا ہے کہ میں چُپ کر کے یہاں سے کھسک جاتا ہوں کسی کو کیا پتہ ہے کہ میں نے اسے مارا ہے اگر پکڑا جاؤں گا تو کہہ دوں گا مجھے کیا پتہ اس کو کس نے مارا ہے.گویا جھوٹ اور فریب کا عاجل فائدہ اس کے سامنے آجاتا اور وہ اس میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی توحید سے اس کا اس طرح ٹکراؤ نہیں ہوتا.ٹکراؤ اگر ہوتا ہے تو جھوٹ کے ساتھ.یا مثلاً غیبت ہے ایک افسر اس
خطبات محمود ۳۵۲ سال ۱۹۳۶ء کو تکلیفیں دیتا اور اس پر ظلم و ستم کرتا ہے لیکن یہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا اتفاقاً اس کی سے اعلیٰ افسر سے اسے ملاقات کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ پہلے ہی اس فکر میں حیران ہوتا ہے کہ میں اپنے دشمن سے کس طرح نجات پاؤں وہ ملاقات کے وقت کیا دیکھتا ہے کہ اتفاقاً اعلیٰ افسر نے کوئی ایسی بات کہی جو اُس چھوٹے افسر کے خلاف ہے تب وہ فوراً خیال کرتا ہے کہ اگر میں بھی اس افسر کے چند عیوب اس کے پاس بیان کر دوں تو یہ اس پر اور ناراض ہو جائے گا.چنانچہ یہ دیکھتے ہی کہ وہ بڑا افسر چھوٹے افسر کے خلاف ہے اس چھوٹے افسر کے چند اور عیوب بھی بیان کی کر دیتا ہے اور اس طرح اس کی غیبت کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اگر میں غیبت نہ کروں تو میری جان اور مال کا خطرہ دور نہ ہوگا.اس خیال کے آنے پر وہ غیبت کا ارتکاب کر لیتا ہے اور بسا اوقات اس کا مقصد سے حاصل ہو جاتا ہے مگر تو حید تو اس طرح اس کے فائدہ سے نہیں ٹکراتی.پس غیبت سے بچنے پر وہ قادر نہیں ہوسکتا اور تو حید کا دعویٰ کرنے پر قادر ہو جاتا ہے.یہ صرف دنیوی لحاظ سے میں بیان کر رہا ہوں ورنہ دینی لحاظ سے تو مؤمن کا خدا تعالیٰ خود محافظ ہوتا ہے اور اسے دشمنوں کے شرور سے محفوظ رکھتا ہے.غرض دُنیوی لحاظ سے انسان بعض دفعہ عاجلی فائدہ کیلئے بدیوں کا ارتکاب کر لیتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا عقیدہ اسے ان امور میں کچھ فائدہ نہیں پہنچا تا لیکن اس کا عمل اسے فائدہ پہنچاتا ہے.مثلاً وہ ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس جائے اور کہے کہ تھانیدار مجھ پر ظلم کرتا ہے لَا إِلهَ إِلَّا الله.تو اس امر کا ڈپٹی کمشنر پر کوئی بھی اثر نہیں ہوتا ہے لیکن ڈپٹی کمشنر کو متاثر کرنے کیلئے اگر وہ یہ غیبت کرے کہ ہمارے ہاں کا تھانیدار آپ کو بہت یر ابھلا کہتا رہتا ہے تو اس پر ڈپٹی کمشنر ضرور تحقیق کرے گا اور وہ واقعہ میں درست پا کر تھانیدار کو سزا دے گا اور اس کا دشمن ہو جائے گا اس طرح اس کی آرزو پوری ہو جائے گی.تو بسا اوقات بدعمل کا ترک اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ انسان کا عاجل فائدہ اس سے وابستہ ہو جاتا ہے اور بسا اوقات نیکیوں کو انسان اس وجہ سے ترک کر دیتا ہے کہ انسان کا عاجل نقصان ان سے وابستہ ہو جاتا ہے.مثلاً جب مالی قربانی کا وقت آتا ہے تو بعض انسان خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے چندہ دے دیا تو ہم کپڑے کہاں سے بنوائیں گے غرض نیکیاں اور بدیاں عاجل امور سے تعلق رکھتی ہیں اور عقائد کا آجل سے تعلق ہوتا ہے اور چونکہ انسان طبعی طور پر اپنے قریب کی چیزوں سے متاثر ہوتا ہے بعید کی
خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۳۶ء چیزوں سے متاثر نہیں ہوتا اس لئے لوگ عملی اصلاح کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں اور عقائد پر ی پختہ رہتے ہیں.اور بھی اس کے بعض موجبات ہیں لیکن چونکہ اب تین بج چکے ہیں اس لئے میں انہیں اگلے جمعہ میں انشاء الله بیان کروں گا.میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کر دوں تا اس کی اہمیت جماعت کے دوستوں پر واضح ہو جائے.فی الحال میں نے تین باتیں بتائی ہیں اور یہ تین باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے عقیدے کی اصلاح سے عمل کی اصلاح بہت زیادہ مشکل ہو جاتی ہے اور یہ باتیں عمل کی اصلاح میں روک بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں.ان باتوں کو مد نظر رکھ کر ہمیں علاج سوچنا چاہئے تا کہ ہم اپنے اعمال میں اصلاح کرسکیں اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دنیا کے عقائد میں عظیم الشان تغیر ہوا ہے اسی طرح عملی زندگی میں بھی ایک انقلاب پیدا ہو جائے.میں نے پچھلی دفعہ بھی نصیحت کی تھی اور اب پھر کرتا ہوں کہ احباب کو اپنے اپنے طور پر بھی اس مضمون پر غور کرنا چاہئے اور میں امید کرتا ہوں کہ جو لوگ اصلاح اعمال کے ذرائع پر غور کریں گے وہ پیشتر اس کے کہ میری باتیں سنیں خود اپنے اندر ایسی قوت محسوس کریں گے جس سے وہ نقائص کا بہت جلد ازالہ کر سکیں گے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خود بھی اس مسئلہ پر غور کریں اور اگر ان کے ذہن میں کوئی تجویز آئے تو اس سے مجھے اطلاع دیں تا میں بھی ان کی تجاویز سے فائدہ اُٹھا سکوں.(الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۶ء) البقرة: ۴ الحجرات : ۱۵ بخاری کتاب اللباس باب مَنْ جَرَّ إِزَارَاهُ (الخ) بخارى كتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور (الخ) بھٹ کٹیا: ایک خاردار بوٹی
خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۶ء اعمال کی اصلاح میں کیا مشکلات درپیش ہیں (فرموده ٫۵جون ۱۹۳۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے جمعہ میں خطبہ میں بعض وہ اسباب بیان کئے تھے جن کی وجہ سے ایسے زمانہ میں جبکہ مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو عملی اصلاح عقیدہ کی اصلاح سے زیادہ مشکل نظر آتی ہے.آج میں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اس مضمون کا دوسرا حصہ بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے قبل میں بعض اعتراضات کا جواب دینا چاہتا ہوں جو ایک دوست کی طرف سے مجھے موصول ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں.نیشنل لیگ کور کی طرف سے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کا لاہور میں استقبال کیوں کیا گیا؟ اخبار الفضل میں ان کے متعلق فخر وطن کے الفاظ کیوں لکھے گئے جبکہ ان کے کام جماعت احمد یہ کی پالیسی اور اس کے طریق کے خلاف ہیں؟.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلم لیگ میں داخلہ سے باوجود انگریز حکام کی تائید کے روکا کہ آخر یہ بھی کانگرس کی طرح ہو جائیں گے تو آج نیشنل لیگ کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یہ کہ میں آپ کی تحریرات سے ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہوں کہ آپ ہندوستان کی آزادی کے حق میں
خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۶ء ہیں اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم آپ کو روکے ہوئے ہے.یه که یه تغیر در حقیقت پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں کے ناجائز سلوک کی وجہ سے پیدا ہوا ہے یعنی کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا موجب غصہ ہے.یہ کہ میرے نزدیک یہ طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ اس بارہ میں اختلاف رکھ سکوں گو اسے ظاہر کر کے فساد کا موجب نہ بنوں گا.یہ چھ باتیں ہیں جو ان کے خط کا خلاصہ کہی جاسکتی ہیں.میں سمجھتا ہوں ممکن ہے بعض اور دوستوں کے دلوں میں بھی یہ خیال پیدا ہور ہے ہوں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس خط کا جواب خط کے ذریعہ دینے کی بجائے خطبہ میں دے دوں تا دوسروں کیلئے بھی میرے نقطہ نگاہ کو واضح کر دینے کا موجب ہو.پہلی بات یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کے استقبال میں کیوں حصہ لیا گیا.اس کے متعلق سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آل انڈیا نیشنل لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اس کے کاموں کی بنیا د سیاست پر ہے اور آل انڈیا نیشنل لیگ کا ہر فعل ضروری نہیں کہ جماعت احمدیہ کے اقدام کے پوری طرح مطابق ہو.میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ نیشنل لیگ سلسلہ کی روایات اور تعلیم کے خلاف چل سکتی ہے بلکہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے بلکہ ہونا چاہئے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت جن کاموں میں دلچسپی نہ لینا چاہتی ہو لیگ ان میں دلچسپی رکھے کیونکہ جماعت احمدیہ کی بحیثیت جماعت مذہبی ہے اور اس کی دلچسپی بحیثیت مذہبی جماعت مذہبی کا موں سے ہی ہو سکتی ہے مگر آل انڈیا نیشنل لیگ ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کی دلچسپی سیاسی کاموں سے ہی ہو سکتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ سلسلہ کی روایات اور اصول سے نیشنل لیگ دور جاسکتی ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ دونوں کا میدانِ عمل جُدا ہے اور اس لئے دائرہ عمل ضروری طور پر جُدا جُدا ہوگا اور طریق عمل بھی.ہر فر د جو نیشنل لیگ کا ممبر ہے جیسا کہ میں نے اس کی بنیا دی اجازت دے ہوئے کہا تھا جب نیشنل لیگ کی ہدایت کے ماتحت اس کے ممبر کام کریں گے تو ان کے فعل کی ذمہ داری نیشنل لیگ پر ہی ہوگی اور سوائے اس کے کہ ان کا قدم سلسلہ کی روایات اور اصول کے
خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۳۶ء خلاف ہو میں اس میں دخل نہیں دوں گا.ہاں خلاف ہونے کی صورت میں جیسا کہ میں نے پہلے تو بھی اعلان کر دیا تھا میرا فرض ہوگا کہ لیگ سے جواب طلب کروں یا اُسے مناسب ہدایات دوں لیکن جس حد تک کہ لیگ کا کوئی قدم اور سلسلہ کی تعلیم و اصول با ہم ٹکراتے نہیں ہم اسے پوری آزادی دیں گے کہ سیاسی معاملات میں جس حد تک وہ دوسری قوموں سے تعاون کر سکتی ہے کرے صرف یہ پابندی اس پر ہوگی کہ اس کا کوئی قدم سلسلہ کی تعلیم کی خلاف نہ ہو.پس میرے اس اعلان کے بعد لیگ کے اس کام کو جو اس کے دائرہ عمل کے اندر ہے سلسلہ کی طرف منسوب کرنا سخت غلطی ہے.من حیث النجماعت جماعت احمد یہ سیاسی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتی مگر نیشنل لیگ کے ممبر اس کے ممبر ہونے کی حیثیت سے حصہ لے سکتے ہیں.جیسا کہ وہ احمدی جو مسلم لیگ یا مسلم کانفرنس کے ممبر ہیں ان کے اندر سیاسیات میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ جماعت احمدیہ کے نمائندہ اور اس کی پالیسی کے نمائندہ نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان کے فیصلوں کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد ہوسکتی ہے.کسی احمدی کا مسلم لیگ کا ممبر ہو جانے کے یہ معنے ہرگز نہیں ہو سکتے کہ جماعت احمد یہ من حیث الجماعت سیاسیات میں حصہ لے رہی ہے اور نہ ان کے فیصلوں کا اثر من حیث انجماعت جماعت احمدیہ پر پڑے گا.اگر کوئی احمدی ممبر کسی فیصلہ کی تائید کرتا ہے تو اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ ساری جماعت ان فیصلوں کی پابند ہے.وہ شخص شخصی حیثیت سے وہاں رائے دے کر آیا ہے اور اگر وہ فیصلہ سے متفق ہے تو وہ شخصی طور پر اُس وقت تک اس کا پابند ہے جب تک کہ جماعت کی طرف سے اُسے روک نہ دیا جائے.اسی طرح نیشنل لیگ اگر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو جماعت احمدیہ اس کی ذمہ دار اور پابند نہیں ہوگی.جماعت کا صرف اتنا کام ہوگا کہ جب وہ کوئی ایسا کام کرے جو بالبداہت اور بالصراحت سلسلہ کی روایات اور اس کے اصول کے خلاف ہوا سے روک دے اور کہہ دے کہ آپ کے بحیثیت افراد جماعت احمدیہ ہونے کے ہم آپ کو کوئی ایسا کام نہیں کرنے دیں گے جس سے جماعت پر حرف آئے.پس لاہور میں پنڈت جواہر لال نہرو کا جو استقبال ہوا وہ جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ نیشنل لیگ کی طرف سے تھا.نیشنل لیگ کو نیشنل لیگ کے ماتحت ہے اور بحیثیت اس اقرار کے جوکور میں بھرتی ہوتے وقت ہر شخص نیشنل لیگ سے کرتا ہے وہ پابند ہے کہ جب اسے وہ آواز
خطبات محمود ۳۵۷ سال ۱۹۳۶ء دے تو اس پر لبیک کہے جب تک خلیفہ وقت کی آواز اُسے نہ روک دے.نیشنل لیگ کو کا ہر ممبر اپنے عہد اور اقرار کی وجہ سے اس بات کا پابند اور جوابدہ ہے.پس نیشنل لیگ کور کے ممبر لیگ کی ہدایت کے ماتحت قادیان سے بھی اور باہر سے بھی وہاں گئے اور پابند تھے کہ جاتے.اس کی ذمہ داری نیشنل لیگ پر ڈالنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ اس کا یہ فعل بُرا تھا بلکہ یہ بالکل جائز فعل تھا تی اور اس میں کسی قسم کی قباحت نہ تھی اور ابتدا میں میں نے نیشنل لیگ کو جو ہدایات دی تھیں وہ ان کے عین مطابق تھا بالکل ٹھیک اور درست تھا مگر پھر بھی اسے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا.بلکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی معمار، نجار یا لوہار احمدی اپنے ہم پیشوں کی کسی مجلس میں شریک ہو تو اس مجلس کا فیصلہ جماعت احمدیہ کا فیصلہ نہیں کہلا سکتا گو اس کی شمولیت ہماری خواہش کے مطابق ہی کیوں نہ ہو.محض شمولیت سے اس کا فعل ساری جماعت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا کیونکہ بعض اوقات اچھے افعال کی جزئیات میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے مثلاً کسی کام کی تفصیلات اگر میں سوچوں تو وہ اس سے مختلف ہونگی جو لیگ سوچے.اس لئے اس کا فیصلہ باوجود پسندیدہ ہونے کے میری طرف منسوب نہیں ہوسکتا.بالکل ممکن ہے کہ وہی فعل اگر میں کرتا تو اس کی تفصیلات بالکل اور ہوتیں.پس اول تو اس کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد نہیں ہوسکتی باقی رہا یہ سوال کہ وہ فعل سوال کرنے والے دوست کے نزدیک اتنا بُرا اور بھیانک تھا کہ جماعت کو اس سے روکنا چاہئے تھا یہ بات میری عقل سے بالا ہے.استقبال ایک اعزازی چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بعض انگریز آتے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ میل دو دو میل سے ان کو چھوڑنے کیلئے چلے جاتے.بعض روایات میں ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی مہمان آیا اور آپ کے بستر پر رات کو پاخانہ کر کے صبح چلا گیا.اتفاقاً رستہ میں اسے یاد آیا کہ کوئی چیز وہاں بھول آیا ہوں اُسے لینے کیلئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ رسول کریم کسی خادمہ کو ساتھ لے کر اُسے دھور.تھے.یہ دیکھ کر وہ دل میں سخت شرمندہ ہوا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا اور یہ میرا کس قدر اعزازی کرتے ہیں.تو کسی کا اعزاز کرنے کے یہ معنے نہیں ہوا کرتے کہ اس کے خیالات سے کلی اتفاق
خطبات محمود ۳۵۸ سال ۱۹۳۶ء ہے بلکہ اعزاز انسانیت اور مذہب کی طرف سے ضروری ہے بشرطیکہ اس میں بے غیرتی نہ پائی جائے.اگر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب اعلان کر دیتے کہ احمدیت کو مٹانے کیلئے وہ اپنی تمام طاقتیں خرچ کر دیں گے جیسا کہ احرار نے کیا ہوا ہے تو اس قسم کا استقبال بے غیرتی ہوتا لیکن اگر اس کے برخلاف یہ مثال موجود ہو کہ قریب کے زمانہ میں ہی پنڈت صاحب نے ڈاکٹر اقبال صاحب کے ان مضامین کا رڈ لکھا ہے جو انہوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دیئے جانے کیلئے لکھے تھے اور نہایت عمدگی سے ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے احمدیت پر اعتراض اور احمد یوں کو علیحدہ کرنے کا سوال بالکل نا معقول اور خود ان کے گزشتہ رویہ کے خلاف ہے تو ایسے شخص کا جبکہ وہ صوبہ میں مہمان کی حیثیت سے آ رہا ہو ایک سیاسی انجمن کی طرف سے استقبال بہت اچھی بات ہے جو اقوام کے دلوں سے باہمی بغض اور تعصب کو دور کرنے کا موجب ہوسکتی ہے.میں پہلے بھی کئی بار بیان کر چکا ہوں کہ ایک دفعہ لاہور کے ایک ہندو ڈاکٹر یہاں آئے اور مجھے بھی ملے انہوں نے بتایا کہ چند روز ہوئے گاندھی جی کہہ رہے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں قادیان جاؤں اور جماعت احمدیہ کے امام سے مل کر انہیں اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کروں کیونکہ یہ بہت منظم جماعت ہے اور بہت اچھا کام کر سکتی ہے.میں نے ان سے کہا کہ آپ میری طرف سے انہیں کہہ دیں کہ وہ ضرور تشریف لائیں ہم ان کا شاندار استقبال کریں گے میں سب لوگوں کو جمع کروں گا اور خود بھی جلسہ میں شامل ہوں گا.وہ جتنا عرصہ چاہیں تقریر کریں اگر ان کے خیالات سے مجھے اختلاف ہوا تو بعد میں میں بھی تقریر کروں گا اور اگر ان کی بات کا مجھ پر اثر ہوا تو میں مان لوں گا اور اگر ان پر میری بات کا اثر ہوا تو وہ مان لیں.یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ گورنمنٹ کے کسی حصہ کے ساتھ ہمارے اختلاف کا کوئی سوال ہی نہ تھا بلکہ لوگ ہمیں حکومتی کے خوشامدی کہتے تھے اور حکومت بھی ہمیں اپنا دوست سمجھتی تھی.اُس وقت میں نے کہا تھا کہ ہم گاندھی جی کا شایان شان استقبال کریں گے.پس اگر نہر وصاحب کے لاہور آنے پر نیشنل لیگ نے جس کا وہاں مرکزی دفتر ہے ( آل انڈیا نیشنل لیگ کا مرکزی دفتر قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہے ) اگر ان کا استقبال کیا تو یہ عین شرافت اور اچھی مثال کہلائے گا نہ کہ قابلِ اعتراض.یہ خیال کہ جس سے اختلاف ہو اُس کا اعزاز نہیں کرنا چاہئے بالکل غلط ہے.ہم
خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۶ء انگریزوں کا اعزاز ہمیشہ سے کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں اور عیسائیت کو مٹانا ہمارے مقاصد میں ہے.پس اگر عیسائیت سے اس قدر شدید اختلاف کے باوجود ہم انگریزوں کا اعزاز کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ نہر وصاحب کا اعزاز کرنانا جائز ہو.اگر ہم ان لوگوں کا اعزاز تو جائز رکھیں جو خدا کو ایک نہیں بلکہ تین سمجھتے ہیں لیکن اس کا استقبال ہمارے نزدیک نا جائز ہو جو یہ کہتا ہے کہ ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہونا چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جولوگوں کو خدا کی بادشاہت سے نکالتے ہیں ان کا اعزاز تو ہمارے نزدیک جائز ہے لیکن جو انگریز کی بادشاہت سے ملک کو نکالنا چاہتا ہے اس کا جائز نہیں گویا خدا تعالیٰ کی بادشاہت سے بھی زیادہ ہمیں انگریز کی بادشاہت عزیز ہے.اگر باوجود اس ہتک کے جو انگریز یعنی عیسائی ہمارے اس خدا کی کرتے ہیں جس کے بالمقابل حضرت عیسی علیہ السلام کی ہستی مچھر کے برابر بھی نہیں ہم انگریزوں کا اعزاز کر سکتے ہیں تو پھر یقیناً نہر و صاحب کا استقبال بھی ہم کر سکتے ہیں.اگر سیاسی اختلاف پر اعزاز ناجائز ہوتا ہے تو مذہبی ہے اختلاف پر یقیناً نا جائز ہو جائے گا اور ہم پھر انگریزوں کا اعزاز بھی نہیں کر سکیں گے لیکن ہماری ہے پچاس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ باوجود عیسائیت کی شدید دشمنی کے اور باوجود اس کے کہ اسے مٹانا ہمارے مقاصد میں داخل ہے ہم انگریز سے دوستی جائز سمجھتے رہے ہیں، رکھتے رہے ہیں، رکھ رہے ہیں اور رکھتے جائیں گے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم پنڈت نہر وصاحب کا استقبال نہ کریں اور خواہ وہ اچھا کام ہی کرتے ہوں ان کی عزت نہ کریں.یہ بات عقل کے خلاف ہے اس لئے نیشنل لیگ کی نے جو کچھ کیا ٹھیک اور درست کیا اور بہت اچھی مثال قائم کی ہے.اب اگر سیاسی طور پر نیشنل لیگ کا کوئی لیڈ رکہیں جائے تو ہم کانگرسیوں سے امید کر سکتے ہیں کہ وہ اس کی عزت کریں اور اگر وہ نہ بھی کریں تو بہر حال اخلاقی لحاظ سے ہماری ان پر فتح رہے گی اور دنیا دیکھ لے گی کہ نیشنل لیگ نے باوجود اختلاف کے کانگرسی لیڈر کا استقبال کیا مگر کانگریسیوں نے اس کے لیڈر کا اعزاز نہیں کیا لیکن کی ابھی یہ قیاسات بہت دور کے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسی مثالیں قائم کی جائیں تو آہستہ آہستہ دوسرے کے ساتھ مروت اور محبت کا سلوک پیدا ہو گا اور ہندوستانی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لیڈروں کا اعزاز کرنا سیکھ جائیں گے اس لئے میرے نزدیک نیشنل لیگ کا یہ فعل قابل استحسان ہے.
خطبات محمود.سال ۱۹۳۶ء دوسرا سوال یہ ہے کہ پنڈت نہر وصاحب کو فخر وطن کیوں لکھا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو یہ لفظ ان معنوں میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ ہندوستان کے بچے اور صحیح راہنما ہیں تو میں بھی اس دوست کے ساتھ اعتراض میں شریک ہوں کہ یہ استعمال غلط ہے لیکن اگر استعمال ان معنوں میں ہے کہ وہ اپنے رنگ میں ملک کی بہتری کیلئے کوشش کر رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.نہر وصاحب یا گاندھی جی یا اور وہ لوگ جو ہندوستان یا دنیا کی بہتری کیلئے کوشش کرتے ہیں ان کے احترام کیلئے ہم تیار ہیں اور اسے عار نہیں بلکہ فخر سمجھتے ہیں.رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں آپ ہمیشہ غیر قوموں کے لیڈروں کا احترام کرتے تھے.چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بخاری کی روایات میں ہے کہ ایک کا فر سردار آیا تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اس کا استقبال کرو اور قربانی کے بکرے اس کے رستہ میں کھڑے کر دو تا اس پر ایک نیک اثر ہو کیونکہ وہ قربانی کو پسند کرتا ہے.وہ سردار آپ کا حاکم نہ تھا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ انگریز ہمارے حاکم ہیں بلکہ مد مقابل تھا مگر باوجود اس کے آپ نے صحابہ کو اس کے استقبال کیلئے بھیجا.پس اس میں کوئی حرج نہیں.ہر شخص جو کسی شعبہ زندگی میں اچھا کام کرتا ہے یقیناً وہ ہمارا کام کرتا ہے.رسول کریم اللہ فرماتے ہیں الْكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّهُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَهَا حَيْث وَجَدَها حکمت کی بات مؤمن کی کھوئی ہوئی چیز ہے.پس جو کوئی حکمت کا کام کر رہا ہے خواہ تھوڑا ہو یا بہت اتنے حصہ میں ہم اس کی تعریف کر سکتے ہیں.اگر ایک شاعر کی باوجود اس کے کہ شعر اخلاقا خراب ہوتے ہیں ہم تعریف کر سکتے ہیں تو کیوں ایک سیاسی خادم کی تعریف نہیں کر سکتے.ہاں اگر کوئی شخص اس تعریف پر غیر معمولی زور دے تو یہ اس کی غلطی ہوگی.مثلاً توحید کی تعلیم میں جن کے ساتھ ہمارا اتحاد ہو سکتا ہے ہم ان سے اتحاد کریں گے مگر جہاں وہ رسالت کا انکار کریں گے ہم ان کی مخالفت کریں گے.یہ قرآن کریم نے یہودیوں کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ خدا کے بارہ میں ہمارا اور تمہارا اتفاق ہے آؤ مل کر کام کریں پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر پنڈت نہرو صاحب سے کسی معاملہ میں ہمارا اتفاق ہو تو ان سے مل کر کام نہ کر سکیں.میں سالہا سال سے یہ بات پیش کر رہا ہوں کہ کانگرس کی ناکامی کا بڑا موجب یہ امر ہے کہ وہ اس کو اپنے ساتھ شامل کرتی ہے جو سولہ آنہ اس سے متفق ہو ورنہ علیحدہ کر دیتی ہے.میں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کئی بار بتایا ہے کہ مذہب میں تو یہ بات درست ہے مگر سیاست میں نہیں.سیاست میں جہاں تک کسی سے جوڑ ہومل کر کام کرنا چاہئے.پس اختلاف کے یہ معنے نہیں کہ مشترکہ امور میں بھی مل کر کام نہ کر سکیں سوائے اس کے کہ نقصان کا خطرہ اور ڈر ہومگر پنڈت نہر وصاحب سے ملنے میں ہمیں کسی نقصان کا ڈر نہیں وہ گاندھی جی سے زیادہ اثر نہیں رکھتے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں تو اس کیلئے بھی تیار ہوں کہ گاندھی جی یہاں آئیں جو چاہیں کہیں ہم سننے کیلئے تیار ہیں.یہاں ایک دفعہ آریوں کا جلسہ ہوا جس میں انہوں نے ہمارے خلاف بہت شور مچایا ، جلسہ کے بعد ان کے لیکچرار مجھ سے ملنے آئے میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے آپ کو جگہ کے متعلق تکلیف ہوئی ، آپ میرے پاس آتے میں مسجد میں انتظام کرا دیتا.وہ کہنے لگے کیا آپ اپنی مسجد میں اس کی اجازت دے دیتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں.اگر ہمارے آقا و مولیٰ نے عیسائیوں کی کو مسجد میں اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دی تو میں آپ کو مسجد میں لیکچر کی اجازت کیوں نہیں دے سکتا.ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج لیکچر دے سکتا ہوں چنانچہ میں نے اجازت دی اور اسی مسجد میں ان کا لیکچر ہوا جس میں میں بھی شامل ہوا.اس کے بعد آریہ صاحبان کی موجودگی میں حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ان کے اعتراضات کا جواب دیا اس کا ایسا اثر ہوا کہ ان کا جلسہ ہی بند ہو گیا اور شاید بارہ تیرہ سال کے بعد اب ان کا جلسہ ہوا ہے.تو مومن کیلئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی اگر دلائل کمزور ہوں تو ڈرنے کی کوئی بات ن بھی ہے لیکن جب مومن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ہم دوسرے کو اپنی طرف کھینچ لائیں گے تو وہ ہمارا شکار ہے اس سے ڈرنا کیوں ہے اور اگر بہ فرض محال ہمارے مخالف کے پاس سچ ہے تو اس کے قبول کرنے پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ہمیں احرار سے شکوہ یہ نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیوں نہیں مانتے بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے اختلاف کولڑائی کی وجہ کیوں بنالیا ہے.اسی طرح بعض انگریز حکام سے ہمیں یہ شکایت نہیں کہ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت انگریزوں کے خلاف ہے، وہ اپنے دل میں اگر ایسا سمجھتے ہیں تو سمجھیں ، شکایت یہ ہے کہ وہ بغیر تحقیقات اور تفتیش کے ہمیں کچلنا کیوں چاہتے ہیں.پنجاب کے ایک کمشنر مسٹر او برائن تھے وہ کہا کرتے تھے کہ سارے انگریز جو جماعت احمدیہ کو دوست سمجھتے ہیں بیوقوف ہیں یہ ایسی منظم جماعت ہے کہ کسی روز
خطبات محمود ۳۶۲ سال ۱۹۳۶ء اپنی بادشاہت قائم کرلے گی مگر ہمیں ان سے شکوہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس بناء پر ہمیں کوئی تکلیف نہیں دیتے تھے.یہ ان کا خیال تھا کہ یہ جماعت ایسے طریق پر چل رہی ہے کہ انگریزی حکومت کیلئے خطرہ کا موجب ہو سکتی ہے مگر ہمیں ان سے شکایت نہیں تھی.ہم سمجھتے تھے کہ گو وہ اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتے تھے لیکن در حقیقت کم عقل تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی کوٹھی پر جا کر بیٹھ جاتے اور مطالبہ کرتے کہ نکالوان کو یہاں سے.پس اگر پنڈت صاحب کو فخر وطن ان معنوں میں کہا جائے کہ ان کے بغیر وطن کی نجات نہیں ہو سکتی تو یہ جماعت کی تعلیم کے خلاف ہے لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ لائق اور خادم وطن ہیں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ ایسے ہیں.یہ تو ایک لین دین کا معاملہ ہے کہ باوجود اختلافات کے ایک دوسرے کے بزرگوں کا ادب کیا جاتا ہے.پوپ روحانی باپ کو کہتے ہیں اب ہم لوگ بھی یہ لفظ استعمال کر لیتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم اسے روحانی باپ سمجھتے ہیں یا مذہبی طور پر ہم اسے اپنا پیشوا خیال کرتے ہیں.جو شخص ان معنوں میں اس لفظ کا استعمال کرے گا وہ عبارت اور لہجہ سے ہی پہچانا جائے گا.منافق جب کبھی ایسا لفظ استعمال کرے گا تو اس کا لہجہ اور ہوگا لیکن جب مؤمن کرے گا تو اس کا لہجہ اور ہوگا.پس ان کی معنوں میں اگر کسی نے پنڈت نہرو صاحب کو فخر وطن لکھ دیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے جبکہ ہم دوسروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے بزرگوں کا ادب کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دوسروں کے لیڈروں کا احترام نہ کریں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم خیالات میں بھی ان سے متفق ہو گئے ہیں.اگر میری نسبت کوئی غیر احمدی حضرت صاحب کا لفظ استعمال کر دے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس نے اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے غداری کی؟ اگر آپ لوگ یہ امید کرتے ہیں کہ دوسرے آپ کی کے امام کی عزت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دوسروں کے لیڈروں کی عزت نہ کریں اسی لئے قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم کسی کے بُت کو بھی گالی نہ دو کیونکہ وہ خدا کو گالی دیں گے.۲ تیسرا سوال یہ ہے کہ جب باوجود یکہ فنانشل کمشنر سرولسن نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زور دیا کہ مسلم لیگ گورنمنٹ کی مرضی کے مطابق کام کرنے والی ہے آپ نے اس کے خلاف اظہار رائے کیا اور فرمایا کہ نہیں یہ بھی اسی روش پر چلی جائے گی جس پر کانگرس جا چکی ہے تو نیشنل لیگ کے قیام کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حالات کے بدلنے کے
خطبات محمود ۳۶۳ سال ۱۹۳۶ء ساتھ ساتھ احکام کے معانی بدلتے جاتے ہیں.میں اس وقت جس طرح بعض لوگ یو نہی کہہ دیا کرتے ہیں کہ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں اس لئے حکم بھی بدل گیا ہے اس طرح نہیں کہہ رہا بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جب فی الواقعہ حالات بدل جائیں تو یقینا احکام بھی بدل جاتے ہیں.جس وقت مسلم لیگ قائم ہوئی اُس وقت حکومت ہند نے ہندوستان کا نصب العین جمہوری حکومت قرار نہیں دیا تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ حکومت نے اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور آزادی کو نصب العین نہیں قرار دیا اس لئے لازماً اختلاف فساد کا موجب ہوگا لیکن جب حکومت نے خود جمہوری حکومت حاصل کرنا ہندوستان کا نصب العین قرار دے لیا ہے اور رائے عامہ کو تسلیم کرنا قانون کا جز و قرار دے لیا ہے تو اب ایسے مطالبات کرنا انگریزی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تائید میں ہے.غرض پہلے جو انگریز مسلم لیگ کی تائید کرتے تھے وہ ان کی ایک سیاسی چال تھی مگر اب خود حکومت نے قانون بنا دیا ہے کہ ہندوستان کا نصب العین جمہوری حکومت ہے.پس نیشنل لیگ یہ مطالبہ نہیں کرے گی کہ اس سے باہر ہندوستان کو کوئی چیز دی جائے بلکہ وہ حکومت ہی کے قانون کی تشریح کا مطالبہ کرے گی اور وہ قانون خود انگلستان والوں نے بنایا ہے.اس کی ایک موٹی مثال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک عیسائی نے آنحضرت ﷺ پر گندے اور نا پاک حملے کئے اور ایک کتاب لکھی.مسلمانوں کی طرف سے حکومت کی کو میموریل بھیجے گئے کہ اس کتاب کو ضبط کیا جائے اور اس شخص کو سزا دی جائے مگر آپ نے اس کی مخالفت کی لیکن آج ساری جماعت ان گندی کتابوں کے خلاف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق شائع کی جاتی ہیں حکومت سے ضبطی کا مطالبہ کرتی ہے حتی کہ احراری بھی اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارے امام نے کہا تھا کہ امہات المؤمنین کو ضبط نہ کرانا چاہئے بلکہ اس کا جواب لکھنا چاہئے اور اب تم ضبطی کا مطالبہ کر کے گویا خود اپنے امام کے خلاف چلتے ہو.لیکن اس کا جواب یہی ہے کہ جب آپ نے ضبطی کا مطالبہ کرنے سے روکا تھا اُس وقت کا رائج قانون اس تصنیف کو ضبط کرنے اور مصنف کو سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ قانون بعد میں بنا ہے.لارڈایل جن کے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت کو خود توجہ دلائی تھی کہ جو شخص کسی کے بزرگ کی ہتک کر
خطبات محمود ۳۶۴ سال ۱۹۳۶ء حکومت کو چاہئے کہ اسے سزا دینے کیلئے قانون بنائے.پس اگر امہات المؤمنین کے متعلق آپ نے ایسے مطالبہ سے روکا تو اس لئے کہ اُس وقت کوئی ایسا قانون موجود نہ تھا.پس چونکہ حکومت بے بس تھی ، کیونکہ اس کیلئے کوئی رستہ کھلا نہ تھا وہ قانون کے رو سے اس شخص کو پکڑ نہ سکتی تھی.ادھر یہ کی دیکھ کر کہ حکومت کچھ نہیں کرتی مسلمانوں میں جوش بڑھتا اور اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہوتا کہ ملک میں بغاوت پیدا ہوتی اور فسادات بڑھ جاتے ، ملک کا امن برباد ہو جا تا مگر اب حکومت نے ایسا قانون بنا دیا ہے اس لئے ہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ قانون جس غرض کیلئے بنایا گیا تھا اسے پورا بھی کیا جائے.اگر اس قانون کے ذریعہ سے کہ ہندو، سکھوں اور عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کی عزت کی حفاظت کی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے بزرگوں کے متعلق یہ قانون معطل رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کے تحفظ کیلئے اس کو استعمال نہ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ یا تو حکومت ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے اور ہمیں قانون کے فائدہ سے بھی محروم رکھنا چاہتی ہے یا پھر یہ کہ وہ اکثریت سے ڈرتی ہے اس صورت میں وہ خود غلطی پر ہے ہم مطالبہ کرنے سے قانون شکن نہیں بنتے بلکہ وہ خود قانون شکن قرار پاتی ہے.اس مطالبہ میں ہم ملک معظم کے نمائندہ ہیں اور حکومت قانون کو توڑنے والی ہے کیونکہ متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملے کئے جاتے ہیں اور حکومت کا ہاتھ معطل رہتا ہے اور بیسیوں بار مطالبات کے بعد معمولی سی حرکت کرتا ہے.پس یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے نیشنل لیگ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے خلاف نہیں ہے ورنہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسی گندی کتابوں کی ضبطی کے متعلق حکومت سے مطالبہ کرنا بھی آپ کے منشاء کے خلاف ہے.غرض واقعات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ میموریل بھیجنے سے روکنے کی وجہ یہی تھی کہ اُس وقت کوئی ایسا قانون نہ تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود وائسرائے کو ایسا قانون بنانے کیلئے لکھا.اب چونکہ ایسا قانون بن چکا ہے اس لئے ایسا مطالبہ کرنا نا جائز نہیں.اسی طرح جس وقت آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت سے روکا اُس وقت آزادی زیر سایہ برطانیہ ہندوستان کا نصب العین قرارد نہ دیا گیا تھا بعد میں حکومت نے خود اس کا اعلان کر دیا.اب سیاسیات میں حصہ
خطبات محمود ۳۶۵ سال ۱۹۳۶ء لینے والی انجمن کی طرف سے اس کا مطالبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کہلا سکتا.چوتھا اعتراض یہ ہے کہ آپ کی تحریروں سے ہمیشہ آزادی کی خواہش ظاہر ہوتی ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے.مجھے خوشی ہے کہ کم از کم ایک شخص نے تو محسوس کیا ہے کہ میں آزادی کا حامی ہوں مگر یہ غلط ہے کہ مجھے اس خیال کا حامی رہنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم روکتی رہی ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نے ہی مجھے یہ سکھایا ہے.جس چیز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم روکتی ہے اس سے آج بھی ہم ڑکتے ہیں اور وہ بغاوت، فساد اور قانون شکنی ہے.جو دُکھ ہمیں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے اب دیئے گئے ہیں وہ اگر ہزار گنا بھی بڑھ جائیں تو بھی ان چیزوں کو ہم کبھی جائز نہیں سمجھیں گے یہ اصولی تعلیم ہے.باقی رہا ہندوستان کی آزادی کا سوال میں ایک منٹ کیلئے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہندوستان کی آزادی کا خیال گاندھی جی اور پنڈت نہرو صاحب کو اس.نصف بھی ہے جتنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تھا.انبیاء ہمیشہ دنیا میں غلامی کو دور کرنے کیلئے آتے ہیں ان کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ دنیا کو کسی کا غلام بنا کر رکھیں بلکہ ان کا مقصد وحید یہی ہوتا ہے کہ دنیا کو آزاد کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی چونکہ مامور تھے اس لئے آپ کا بھی یہ مقصد تھا اس لئے جب بھی غلامی کی صورت پیدا ہو جماعت احمدیہ کا فرض ہوگا کہ اس کا مقابلہ کرے باقی تفاصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا کیونکہ میرا لیکچر سیاسی نہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کو اس قدر بغض اسی وجہ سے ہے کہ وہ ہندوستان میں اسلامی حکومت کیلئے ان کے وجود کو خطرہ سمجھتا تھا اور شاید قریبی زمانہ میں تو نہیں مگر خلافت کے ابتدائی زمانہ میں میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس بادشاہ کا ادب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی سیکھا ہے.میں نے بچپن میں ایک دفعہ جب ایک گتے کو ٹیپو ٹیپو کہہ کر پکارا تو آپ نے مجھے سختی سے روکا اور فرمایا کہ وہ ایک باغیرت مسلمان بادشاہ تھا تم ایک گتے کو اس کے نام سے کیوں پکارتے ہو؟ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی غلطی تھی کہ وہ کانگرس میں شامل نہ ہوئے (اس کے متعلق بھی ایک دوست نے اعتراض کیا ہے کی
خطبات محمود ۳۶۶ سال ۱۹۳۶ء کہ پھر احمدی کیوں کانگرس میں شامل نہیں ہوتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی شرطیں پوری نہیں ہوتیں اور نیشنل لیگ کا استقبال کانگرس میں شامل ہونے کے مترادف نہیں ہے ) ہاں قانون شکنی اور عدم تعاون وغیرہ تحریکات کو آپ ہمیشہ نا پسند فرماتے رہے ہیں اور ہم بھی نا پسند کرتے رہیں گے.اس کے متعلق اسلام نے تفصیلی احکام دیئے ہیں اور ہم پر مظالم خواہ کتنے بھی بڑھ جائیں ہم ایسی تحریکوں سے بچیں گے.ہاں جو تعاون پہلے تھا ضروری نہیں کہ اسے قائم رکھیں عدم تعاون تو کسی صورت میں نہ کریں گے لیکن جہاں قانون مجبور نہیں کرتا وہاں تعاون بھی نہیں کریں گے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے اور یہ بات قانون کے خلاف نہیں.پانچواں اعتراض یہ ہے کہ اس کا موجب بعض حکام کا نا واجب رویہ ہے.مجھے اس مجرم کے اقرار میں کوئی تامل نہیں.میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہمارے اس رویہ کا موجب بعض افسروں کا ناواجب رویہ ہے اور یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں.اعتراض جب ہوتا اگر ہم اپنے اصل کو چھوڑ دیتے محض ناراضگی کا اظہار بُری بات نہیں بلکہ اس کے جواب میں نا واجب رویہ اختیار کرنا بُری بات ہے.اگر ہم نے اس صبر آزما حالت کے باوجود جماعت کو قابو میں رکھا ہے تو ہمارا یہ غصہ قابل اعتراض نہیں ہوسکتا.صبر کی آزمائش غصہ کے وقت ہی ہوتی ہے کہ بچہ کو جب ماں دودھ دیتی ہے تو اُس وقت اس کے صبر کی آزمائش نہیں ہوتی بلکہ اُس وقت ہوتی ہے جب وہ غصہ سے دیوانی ہو کر اسے گھر سے نکالتی ہے.یہ ہمارے صبر کی آزمائش کا موقع تھا ہمیں سخت غصہ دلایا گیا مگر ہم نے کوئی ناواجب رویہ اختیار نہیں کیا.اس فیصلہ سے زیادہ غصہ دلانے والی بات اور کیا ہوسکتی ہے جو مسٹر کھوسلہ نے کیا، اس سے زیادہ نا واجب رویہ کیا ہوسکتا تھا کہ راہ چلتے اور اپنی جائداد کی حفاظت کرتے ہوئے احمدیوں کو گرفتار کر لیا گیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کی مجلسوں پر ایکٹ ۳۲ کا استعمال کیا گیا، کیا یہ معمولی باتیں تھیں اور کیا دنیا میں کسی دوسری جگہ ایسا کر کے حکومت کے افسر آرام سے رہ سکتے تھے؟ مگر ہم نے کچھ نہیں کیا.پس اظہارِ ناراضگی کوئی بُری بات نہیں ناجائز ذرائع اختیار کرنا بری بات ہے.آخری بات اختلاف رکھنے کی اجازت کے متعلق ہے.سو یہ اجازت میں ہمیشہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء دیتا آیا ہوں اگر سب باتیں سمجھانے کے باوجود کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ متفق نہیں ہوسکتا تو جبکہ وہ فساد اور بدامنی نہ پیدا کر رہا ہو اور اختلاف کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہو ا سے اختلاف رکھنے کی اجازت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شخص نے جو اب ہمارے رشتہ دار اور عزیز ہیں کہا تھا کہ میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ مجھے حضرت علی کو دیگر خلفاء سے افضل سمجھنے کی اجازت دی جائے وہ چونکہ شیعہ تھے اس لئے اس قسم کی اجازت طلب کی اور آپ نے اجازت دے دی.پس اگر ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیگر خلفاء سے افضل قرار دیتے ہوئے بیعت کر سکتا ہے تو یہ عقیدہ رکھنا کہ انگریزوں سے ہمارا اتنا تعلق ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے پنڈت نہرو صاحب کا استقبال تک ہمارے لئے جائز نہ رہے کوئی ایسی بات نہیں جو بیعت میں رہنے سے مانع ہو.اس کے بعد میں اُس مضمون کی طرف آتا ہوں جس کے متعلق میں گزشتہ دو ہفتوں سے خطبے دے رہا ہوں.میں نے تین ایسے اسباب بیان کئے تھے جن کی وجہ سے عمل کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح سے زیادہ مشکل ہو جاتی ہے آج میں ایک چوتھا سبب بیان کروں گا جس کی وجہ سے اعمال کی اصلاح بہ نسبت عقائد کی اصلاح کے مشکل ہو جاتی ہے خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو اور وہ سبب یہ ہے کہ عقیدہ کا تعلق عادت سے نہیں ہوتا بلکہ وہ جب بدل جاتا ہے ہے تو ہمیشہ کیلئے بدل جاتا ہے مگر عمل کا تعلق عادت سے ہوتا ہے.کوئی شخص اگر دلائل سن کر یہ عقیدہ قائم کرلے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو وہ ان کی زندگی کے متعلق اپنے سابقہ عقیدہ کی طرف عادت کے طور پر بار بار نہیں کوٹے گا بلکہ اس کا عقیدہ ہمیشہ کیلئے بدل جائے گا مگر اعمال میں عادت کا دخل ہوتا ہے (بے شک خیالات میں بھی عادت کا ایک حد تک دخل ہوتا ہے مگر بہت کمزور ) عادت بے سوچے سمجھے کام کرنے کا نام ہے مگر عقیدہ جانتے ہوئے ایک بات کو ماننے کا نام ہے.تم کسی شخص کے پاس جاؤ اور یکدم ہاتھ اُس کے پیٹ کی طرف لے جاؤ وہ فوراً کود کر پیچھے ہٹ جائے گا.ہم جب بچے تھے تو اس طرح کھیلا کرتے تھے اب بھی بچے اسی طرح کھیلتے ہیں پہلے چھوٹی انگلی اٹھاتے ہیں کہ اس سے ڈرو گے پھر دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی اور پھر انگوٹھا جھٹ آنکھ کی طرف لے جاتے ہیں.اس پر دوسرا شخص یکدم آنکھ بند کر لیتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے یہ ڈر نہیں
خطبات محمود ۳۶۸ سال ۱۹۳۶ء بلکہ عادت ہے.چونکہ انسانی جسم نے عادت ڈال لی ہے کہ جب ایسا موقع ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا.یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ خطرہ حقیقی تھا یا وہی اس لئے جسم فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے.ماں جو بچہ پر جان فدا کر نے والی ہوتی ہے وہ بھی اگر بچہ کے پیٹ کی طرف اُنگلی لے جائے تو وہ جھٹ پیچھے ہے گا.اس کی وجہ یہی ہے کہ جسم نے عادت ڈال لی ہے کہ ہوشیار رہنا چاہئے.تو غیر ارادی افعال کا نام عادت ہے لیکن عقیدہ غیر ارادی نہیں ہو سکتا.عمل چونکہ اکثر غیر ارادی ہوتے ہیں اس لئے ہر شخص کو کوئی نہ کوئی عجیب عادت پڑ جاتی ہے کسی کو ہاتھ ہلانے کی ، کسی کو کندھا، کسی کو سینہ، کسی کو ناک کسی کو پاؤں ہلانے کی عادت ہوتی ہے، کسی کو اور کوئی عادت ہوتی ہے.غرض جسم میں مختلف حرکات کا پیدا ہوتے رہنا عادت کے طور پر ہر ایک انسان کے ساتھ ا لگا ہوا ہے اور اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اعمال میں عادات کا بہت دخل ہے.مثلاً شراب یا افیون کی عادت ہے کہ ایک شخص یہ قربانی تو کر لیتا ہے کہ تین خداؤں کی جگہ ایک خدا کو مان لے اور یہ نہیں ہوگا کہ دوسرے دن عادتاً اسے تین خداؤں کا خیال آئے مگر افیون کھانے کیلئے اُس کے اندر ضر ور خواہش پیدا ہو گی حالانکہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں یہ کتنی معمولی چیز ہے وہ ایک کے مقابلہ میں دو خداؤں کو چھوڑ دے گا مگر افیون کی گولی کی قربانی نہیں کر سکے گا.ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے زمیندار ہیں جنہوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیا ، ماں باپ کو چھوڑ دیا، بیویوں کو چھوڑ دیا اور بیویوں نے خاوندوں کو چھوڑ دیا، قیمتی سے قیمتی چیزوں کو ترک کر دیا مگر حقہ کی نال کو نہیں چھوڑ سکے.جب وقت آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں پیٹ پھولنے لگتا ہے.اسی طرح چائے کی عادت گو اس سے کم ہے مگر جسے ہو وہ وقت آنے پر پاگلوں کی طرح پھرتا ہے.پٹھان کتنی غیرت والے ہوتے ہیں اور کشمیریوں کو ادنی سمجھتے ہیں مگر مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم ایک پہاڑ پر جارہے تھے میرے ساتھ ایک پٹھان دوست تھے جنہیں نسوار کھانے کی عادت تھی مگر وہ اپنی ڈبیا گھر بھول آئے تھے.راستہ میں ایک مزدور کشمیری آرہا تھا پٹھان دوست نے اُس کشمیری سے جس کی طرف دوسرے وقت میں وہ منہ کرنا بھی پسند نہ کرتے اور جو کندھے پر لکڑیاں اٹھائے ہوئے آ رہا تھا نہایت لجاجت سے کہا کہ اے بھائی کشمیری ! اے بھائی کشمیری جی ! اے بھائی جی! آپ کے پاس نسوار ہے؟ مجھے یہ سن کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ جو شخص تکبر سے گردن
خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۶ء اونچی رکھتا تھا اب نسوار کی وجہ سے کس قدر لجاجت پر اُتر آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کچھ دوست یہاں آیا کرتے تھے جن کو حقہ پینے کی عادت تھی.یہاں اور تو کسی جگہ حقہ ہوتا نہیں تھا ہمارے ایک تایا تھے جو سخت دہر یہ تھے اور دین سے بالکل تعلق نہیں رکھتے تھے ان کے پاس حقہ کیلئے چلے جاتے اور مجبوراً ان کی باتیں سنتے.ہمارے وہ تایا ایسے شخص تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی نماز بھی پڑھی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بچپن سے ہی سلیم الطبع ہوں میں بچپن میں بھی جب کسی کو سر نیچے کرتے دیکھتا تو ہنسا کرتا تھا مراد نماز سے تھی.وہ بھنگ بھی پیا کرتے تھے تو ہمارے بعض دوست حقہ کیلئے اُن کی مجلس میں چلے جاتے تھے اور ایسی ایسی باتیں جو وہ سلسلہ اور اسلام کے خلاف کرتے مجبوراً سنتے تھے.ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ایک احمدی وہاں آ گیا اور پھر اپنے آپ کو گالیاں دیتا ہوا واپس آیا.کسی دوست نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو کہنے لگا اس لئے اپنے آپ کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوں کہ حقہ کی خاطر نفس نے مجھے ایسی باتیں سننے پر مجبور کیا.تو عادتوں کو چھوڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے انہیں لاکھ سمجھاؤ، کتنی نگرانی کرو مگر پھر بھی وہ ضرور جھوٹ بولیں گے ان کی اصلاح مشکل ہوتی ہے.یہ نہیں کہ ہوتی نہیں کیونکہ اگر نہ ہو سکتی تو میں یہ خطبات ہی کیوں بیان کرتا مگر یہ کام ان کیلئے بڑا مشکل ہوتا ہے.ایسے لوگ جب بات کرنے لگتے ہیں تو عادت کی وجہ سے ان کے دماغ میں ایک ایسی چمک پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بغیر جھوٹ کے بات کا مزا نہ ہم کو آئے گا اور نہ سننے والے کو.پھر بعض لوگوں کو چسکے کی عادت ہوتی ہے اور اس عادت کی وجہ سے بعض لوگ بڑی بڑی بے غیرتیاں کرتے ہیں.قادیان میں ایسے دس بارہ لڑکے ہیں جو دو دو چار چار پیسوں کیلئے احمدیوں کی جھوٹی سچی خبر میں احراریوں کو جا کر دیتے ہیں.انہیں مٹھائی کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے گھر سے پیسے مل نہیں سکتے اس لئے وہ خوامخواہ جھوٹی باتیں جا کر دشمنوں سے کہتے ہیں.تو عادت ایسی چیز ہے کہ اس کی اصلاح کیلئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عقیدہ میں عادت کا دخل نہیں ہوتا.پس عقیدہ کے مقابل پر عمل کی اصلاح کو جو اسباب مشکل بنا دیتے ہیں ان میں.ایک عادت بھی ہے اور اس کا مقابلہ کرنا نہایت ضروری ہے.ނ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء چونکہ خطبہ کے پہلے حصہ نے زیادہ وقت لے لیا ہے اس لئے اِس مضمون کا باقی حصہ میں اگلے جمعہ کے خطبہ میں انشاء الله بیان کروں گا اس وقت میں پھر یہ بات دُہرانی چاہتا ہوں کہ یہ کی کوئی معمولی معاملہ نہیں ہم نے عقیدہ کے میدان میں عظیم الشان فتح حاصل کی ہے مگر عمل کے میدان میں بُری طرح پٹ رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ عمل کی اصلاح میں بھی کامیابی حاصل کریں اور ان جب یہ دونوں دیوار میں مضبوط ہو جائیں گی تو دشمن کسی راستہ سے بھی ہم پر حملہ نہ کر سکے گا ، جب اس کیلئے ہمارے گھر میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ رہے گا تو اسے سوائے ہتھیار ڈالنے اور ندامت سے سر جھکا لینے کے کوئی چارہ نہ رہے گا.اس معاملہ کے متعلق آپ میں سے ہر ایک کو خود بھی سوچنا چاہئے کہ جماعت کے عملی پہلو کی کس طرح اصلاح ہو سکتی ہے تا جب میں مضمون کے آخری حصہ پر پہنچوں تو آپ لوگ خود بھی اس کیلئے تیار ہو چکے ہوئے ہوں اور جو بات میں پیش کروں وہ باہر سے آئی ہوئی معلوم نہ ہو بلکہ آپ کا نفس محسوس کرے کہ یہ اس کے اندر سے ہی پیدا ہوئی ہے اور اسے فوراً قبول کر لے.(خطبہ کے بعد ایک اور دوست نے چند اور سوال خطبہ کی بناء پر کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر پنڈت جی کے اس احسان کا یہ شکریہ ہے کہ جو اُنہوں نے ڈاکٹر اقبال صاحب کے مضمون کا جواب لکھ کر کیا تو لیگ کیوں شامل ہوئی ؟ سب جماعت کیوں استقبال میں شامل نہ ہوئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ اس احسان کا شکر یہ ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ جو شخص ایسا فعل کرتا ہے اسے ہم جماعت کا دشمن نہیں کہہ سکتے اور اس وجہ سے اس کا استقبال کرنے والے کو بے غیرت قرار نہیں دے سکتے اور جب استقبال بے غیرتی نہیں تو صرف مہمان کا اعزاز رہ جاتا ہے جو نا جائز نہیں بلکہ مستحسن فعل ہے.باقی رہا دوسری جماعت کا سوال اگر ان میں سے وہ لوگ جو سرکاری ملازم نہیں اس استقبال میں شامل ہوتے تو یقیناً یہ بھی اچھی مثال ہوتی.میرے نزدیک وہ بھی قابلِ اعتراض نہ ہوتا کیونکہ ایک دوسرے کے لیڈروں کا ادب جبکہ اس میں بے غیرتی نہ ہو یقیناً ایک اچھا فعل ہے.چنانچہ گاندھی جی جب ولایت گئے تھے تو ان کا استقبال خود انگریزوں نے نہایت شاندار کیا تھا اور ابھی حال ہی میں جب پنڈت جواہر لال نہر و صاحب انگلستان گئے تھے تو ان کا استقبال بھی انگریزوں نے کیا تھا.پس اگر انگریز گاندھی جی کا اور پنڈت جی کا نی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء استقبال کر سکتے ہیں تو ہم انگریزوں سے بھی انگلستان کے زیادہ خیر خواہ نہیں کہ ان کا استقبال نہیں کر سکتے.اصل میں یہ اعتراض کم حوصلگی کی وجہ سے اور حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ور نہ اگر ان مواقع کے سوا جب ایسے اعزاز بے غیرتی پر دلالت کرتے ہیں اگر مخالف خیال رکھنے والے لیڈروں کا اعزاز کیا جائے تو یقیناً ایک اچھی مثال قائم ہوگی اور دلوں میں سے منافرت دور کی ہو کر لوگ ایک دوسرے کی بات پر غور کرنے لگیں گے اور سچ کو ماننے کے زیادہ قریب ہو جائیں گے اور صداقت کے پھیلانے میں آسانی ہوگی ).( الفضل اارجون ۱۹۳۶ء) ل ترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ میں یہ الفاظ ہیں الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِن فَحَيْتُ وَجَدَهَا فَهُوَ اَحَقُّ بِهَا ل لَا تَسَبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسَبُّوا اللهَ (الانعام: ١٠٩)
خطبات محمود ۳۷۲ ۲۱ سال ۱۹۳۶ء اعتقادی اصلاح کی نسبت عملی اصلاح کیوں مشکل ہے (فرموده ۱۲ جون ۱۹۳۶ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجھے اس ہفتہ کے دوران میں ایک خط ایک ہند و تعلیم یافتہ خاتون کا ملا ہے جس میں انہوں نے اس خیال سے کہ اُن کا پتہ لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے اپنے پستہ کو چھپایا ہے لیکن نام اور کام وغیرہ اور اپنے خاوند کے کام کا انہوں نے ذکر کیا ہے.میں وہ نام بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا تا کہ اُن کیلئے کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جو تکلیف دہ ہو لیکن چونکہ انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان کے سوال کا جواب کسی خطبہ کے ذریعہ سے دوں اس لئے اس حد تک ان کی خواہش کے مطابق میں مجبور ہوں کہ خطبہ میں ان کی اس بات کا ذکر کروں.وہ ایک تعلیم یافتہ ہندو خاتون ہیں اور ان کے خط سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں تعصب نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے.جس سوال کے متعلق انہوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ جس سوال کے متعلق انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اُس پر خطبہ میں روشنی ڈالوں اس کی تحریک وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس لئے ہوئی کہ کسی احمدی خاتون سے وہ میرے خطبات لے کر کچھ مدت سے پڑھ رہی ہیں اور ان کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ شاید اس معاملہ کے متعلق اگر میں تحریک کروں تو نہ صرف جماعت احمدیہ کیلئے بلکہ باقی لوگوں کیلئے بھی ہدایت کا موجب ہو سکے.
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء وہ لکھتی ہیں کہ آپ کی تحریک کا اثر نہ صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے بلکہ ہندوؤں کے ایک طبقہ پر بھی ہوتا ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ ہندوؤں کا ایک طبقہ اندرونی طور پر آپ کی باتوں پر نگاہ رکھتا اور انہیں قدرومنزلت کی نظر سے دیکھتا ہے.وہ بات جس کے متعلق انہوں نے اپنے خط میں تحریک کی ہے یہ ہے کہ لڑکیوں کی شادی م طور پر ان جگہوں پر نہیں کی جاتی جس جگہ شادی کرنا وہ اپنے لئے مناسب خیال کرتی ہیں اس کے نتیجہ میں وہ لکھتی ہیں کہ بہت سے گھر برباد ہورہے ہیں اور بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں شادی کرنے سے ہی انکار کر دیتی ہیں.چونکہ وہ ایک ایسے پیشہ سے تعلق رکھتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہر مذہب و ملت کے گھرانوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے وہ اس بات سے بہت ہی متاثر نظر آتی ہیں کہ بیسیوں گھرانے تباہی و بربادی کا منہ دیکھ رہے ہیں.میں چونکہ اور کوئی ذریعہ ان تک اپنے خیالات کے پہنچانے کا نہیں دیکھتا اس لئے میں انہیں خطبہ کے ذریعہ ہی اس امر سے آگاہ کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کی تعلیم اس باب میں بالکل صاف اور واضح ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اسلام کی تعلیم اس باب میں بالکل صاف اور واضح ہے کیونکہ ہماری جماعت کسی نئے مذہب پر قائم نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو ہی دنیا میں قائم کر رہی ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ نکاح پسندیدگی پر مبنی ہوتا ہے اے اور رسول کریم ﷺ نے اس حکم کی توضیح اور تشریح میں نہایت ہی مفصل ہدایات دی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کوئی انسان دھوکا نہیں کھا سکتا.ان امور کی طرف میں ہمیشہ ہی جماعت کو توجہ دلاتا ہے رہتا ہوں لیکن چونکہ ان کو صرف خطبات جمعہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے اور خطبات جمعہ میں اس قسم کے مضامین بہت کم آتے ہیں.یہ مضامین زیادہ تر نکاح کے خطبات میں بیان ہوئے ہیں اور وہ ان کی نگاہ سے نہیں گزرتے اس لئے انہیں یہ خیال گزرا کہ شاید میری طرف سے اس بات پر ابھی تک پورا زور نہیں دیا گیا.اس میں شبہ نہیں کہ نکاح کے خطبے اس تعتمد اور احتیاط سے شائع نہیں ہوتے جس تعتمد اور احتیاط سے جمعہ کے خطبے شائع ہوتے ہیں مگر پھر بھی کئی خطبے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں بعض سالوں میں آٹھ دس خطبات نکاح ضرور شائع ہو جاتے ہوں گے.ان میں اکثر انہی امور پر بحث ہوتی ہے کہ عورتوں کے مردوں پر کیا حقوق ہیں ، مردوں
خطبات محمود ۳۷۴ سال ۱۹۳۶ء کے عورتوں پر کیا حقوق ہیں اور شادی کے متعلق اسلام نے کیا کیا شرائط رکھی ہیں.پس میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اسلامی تعلیم میں اس قسم کی مشکلات کے مقابلہ میں کامل راہنمائی موجود ہے.ایسی کامل راہنمائی کہ ہر مذہب و ملت کے لوگ اسے اپنے اور اپنی نسلوں کے فائدہ کی کیلئے اختیار کر سکتے ہیں اور اس بارے میں میں ہمیشہ ہی جماعت کے لوگوں سے خطاب کر کے کہ وہی ہیں جنہیں حق کے طور پر میں خطاب کر سکتا ہوں گو فائدہ ان سے سارے ہی اُٹھا سکتے ہیں اور اُٹھاتے رہتے ہیں ) یہ باتیں سمجھا تا رہتا ہوں لیکن اس میں شبہ نہیں جماعت احمد یہ ابھی پورے طور پر اس تعلیم پر عامل نہیں.ابھی تک ایسی مثالیں میرے سامنے آتی رہتی ہیں کہ ماں باپ نے لڑکیوں کی مرضی کے خلاف یا لڑکوں کی مرضی کے خلاف انہیں شادی کرنے پر مجبور کیا اور اس کے نتیجہ میں وہ ساری عمر کیلئے جہنم میں پڑے رہے.پس میں سمجھتا ہوں اس قسم کے مضامین بیان کرنے کی ضرورت ابھی مفقود نہیں ہوئی اور چونکہ اب خطبہ نمبر کی کثرتِ اشاعت کا خاص طور پر انتظام کیا جاتا ہے اس لئے میں کسی موقع پر جمعہ کے خطبہ میں ہی انشَاءَ اللہ اس امر کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا.فی الحال چونکہ میں نے ایک اور مضمون شروع کر رکھا ہے اور اس کا پہلے ختم کرنا میرے لئے ضروری ہے اس لئے اس سلسلہ کے ختم ہونے پر میں اس مضمون کو خطبہ جمعہ میں بیان کروں گا کیونکہ گو اس مضمون کے بیان کرنے کیلئے مجھے دوسرے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں اور گو پہلے بھی میں اس امر کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کر چکا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں ابھی اس مضمون کو بیان کرنے کی ضرورت ہے اور ضرورت رہے گی اور میں اِنشَاءَ اللہ اس کا خیال رکھوں گا.اس کے بعد میں اُس مضمون کو لیتا ہوں جس کو میں نے پچھلے کئی جمعوں سے شروع کر رکھا ہے.وہ مضمون یہ ہے کہ جماعت احمد یہ جہاں عقائد کے بارہ میں ایک عظیم الشان فتح حاصل کر چکی ہے یہاں تک کہ وہی عقائد جن کو جماعت احمدیہ کی طرف سے جب پیش کیا جاتا تو دشمنوں کی طرف سے ان کا سختی سے انکار کیا جاتا آج جماعت کے شدید ترین دشمن بھی ان عقائد پر قائم ہور ہے ہیں اور انہیں اپنا ہی عقیدہ قرار دے رہے ہیں وہاں عمل کے بارہ میں ہمیں بہت کچھ کو تا ہی نظر آتی ہے اور ابھی ہمارے اندروہ روح پیدا نہیں ہوئی جس روح کے ماتحت کام کر کے ہم دنیا کو
۳۷۵ سال ۱۹۳۶ خطبات محمود اپنے اعمال کا وہ نمونہ دکھا سکیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ہماری جماعت کی برتری اور فوقیت کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کرے.پھر یہی نہیں کہ ابھی تک ہماری جماعت کے لوگ اس تعلیم پر پورے طور پر عامل نہیں جو عملی اصلاح کے متعلق اسلام نے پیش کی بلکہ بسا اوقات وہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نقل کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنا لوہا لوگوں سے منوائیں لوگوں کے نقال بن جاتے ہیں اس وجہ سے بجائے اس کے کہ جماعت کی برتری اور فوقیت ثابت ہولوگ محسوس کرتے ہیں کہ عملی طور پر دنیا کی اصلاح کرنے میں احمدیت ناکام رہی ہے.یہ سوال ایسا ہے جسے ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے.اگر ہم اس اعتراض کو دو ودور پر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور اگر ہم وہ عملی اصلاح نہ کر سکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ہمارے لئے مقرر کی گئی اور ہماری قسمت میں لکھی گئی ہے تو ہم قطعی طور پر کسی کامیابی اور کامرانی کا دعویٰ نہیں کر سکتے.میں پچھلے دو خطبوں سے یہ مضمون بیان کرتا چلا آرہا ہوں کہ لوگوں کی اعتقادی اصلاح سے عملی اصلاح کیوں مشکل ہے.میں اس بارہ میں چار مشکلات بیان کر چکا ہوں جن کی وجہ سے عملی اصلاح زیادہ مشکل ہوتی ہے یہ نسبت اعتقادی اصلاح کے.آج میں اس امر کے چند اور سبب بیان کرتا ہوں کہ کیوں اعتقادی اصلاح کی نسبت عملی اصلاح ایسے زمانوں میں زیادہ مشکل ہوتی ہے جب مذہب کے ساتھ حکومت نہیں ہوتی.پانچواں سبب اس مشکل کا یہ ہے کہ عقیدے کے راستے میں انسان کے بیوی بچے حائل نہیں ہوتے لیکن عمل کے راستہ میں اس کے بیوی بچے حائل ہو جاتے ہیں.جب ایک انسان کہتا ہے خدا ایک ہے تو یہ کہنے کے ساتھ اُسے اپنے بیوی بچوں کے آرام کو قربان نہیں کرنا پڑتا.یا جب کوئی کہتا ہے محمد ﷺنے خدا کے رسول ہیں تو اس اعلان کے ساتھ اُسے اپنے بیوی بچوں کی کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی.یا جب وہ کہتا ہے کہ میں قیامت پر ایمان لے آیا تو یہ دعوی اس کی اس کی ذمہ داری میں جو اس پر اپنے بیوی بچوں کے متعلق ہوتی ہے خلل نہیں ڈالتا.اسی طرح جب کوئی ملائکہ پر ایمان لاتا ہے، استجابت دعا پر ایمان لاتا ہے ، جزاء وسزا پر ایمان لاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر ایمان لاتا ہے تو اسے اپنی اہلی ذمہ داری کے پورا کرنے میں کوئی روک محسوس نہیں ہوتی اور نہ یہ عقائد اس کیلئے کسی فتنہ کا موجب بنتے ہیں سوائے اس صورت میں کہ بیوی بچے اس کی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء کے ساتھ عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں تب بے شک جھگڑا ہوسکتا ہے.مثلاً خاوند کہتا ہو کہ خدا ایک ہے اور بیوی کہتی ہو کہ خدا ایک نہیں دو ہیں یا تین ہیں.یا ایک شخص کا عقیدہ ہو کہ اس دنیا میں انسان تناسخ کے ذریعہ بار بار آتا ہے اور اس کے باپ کا یہ عقیدہ ہو کہ اس دنیا سے مرکر انسان ایک اور دنیا میں جاتا اور پھر اس جگہ واپس نہیں آتا.تو عقائد میں یہ اختلاف جھگڑے کا موجب ہوسکتا ہے لیکن عقائد میں اتحاد کی صورت میں اُس کی بیوی بچے عقیدہ کے راستہ میں حائل نہیں ہوتے اور نہ روک بنتے ہیں.لیکن اس صورت میں بھی جب عقائد میں اختلاف ہو عمل کی وجہ سے ہی روکیں پیدا ہوتی ہیں محض عقائد کی وجہ سے روکیں پیدا نہیں ہوتیں.اس کے مقابلہ میں عمل کی یہ حالت نہیں عمل میں قدم قدم پر بیوی بچوں کی تکلیف انسان کے سامنے آجاتی ہے.مثلاً ساری عمر کوئی شخص تسلیم کرتا رہے کہ خدا ایک ہے ایک موقع پر بھی اس عقیدہ کی وجہ سے اس کے بیوی بچوں کی تکلیف اس کے سامنے نہیں آئے گی.مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ اس شخص کی بیوی بھوکی رہتی ہو اس وجہ سے کہ وہ خدا کو ایک سمجھتا ہے.یا اسے پہنے اور تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا نہ ملتا ہو اس لئے کہ اس کا خاوند کہتا ہے خدا ایک ہے.یا اُسے اپنی بیمار بیوی کے علاج کیلئے کوئی پیسہ نہ ملتا ہو اس لئے کہ وہ کہتا ہے میں محمدﷺ کو سچا رسول مانتا ہوں.غرض انسان کے ابلی فرائض کی ادائیگی میں عقائد اتنے روک نہیں بنتے جتنا عمل روک بن جاتا ہے.بعض صورتوں میں بے شک عقائد کا اختلاف بھی بہت بڑی روک بن جاتا ہے مگر یہ اُس وقت ہوتا ہے جب کسی نبی کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے اور عقائد کے اختلاف پر اپنے عزیز اور رشتہ دار بھی شور مچانے لگ جاتے ہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی مسائل کا اختلاف اتنی دشمنی کا باعث نہیں ہوتا جتنا اعمال کا اختلاف دشمنی کا باعث بنتا ہے.آج جو دنیا میں ہم سے دشمنی کی جارہی ہے اور لوگوں کو ہم پر غصہ ہے وہ دشمنی اور غصہ انہیں اتنا اس بات پر نہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیوں مانتے ہیں جتنا غصہ صلى الله انہیں اس بات پر ہے کہ یہ ہمارے پیچھے نمازیں کیوں نہیں پڑھتے ، ہمارے جنازے کیوں نہیں پڑھتے ، ہمیں لڑکیاں کیوں نہیں دیتے.اگر خدانخواستہ ہماری جماعت کمزوری دکھائے اور وہ کی غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنے لگے، اُن کے پیچھے نمازیں ادا کرنے لگے ، انہیں لڑکیاں دینے لگے تو آج ہماری جس قدر مخالفت ہے یہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے یا بہت ہی خفیف رہ جائے.تو کی
خطبات محمود ۳۷۷ سال ۱۹۳۶ء در حقیقت عملی اختلاف ہی انسانی طبائع میں اشتعال پیدا کیا کرتا ہے مگر اس کے علاوہ عمل کئی اور راہوں سے بھی انسان پر اثر ڈالتا ہے.مثلاً ایک شخص اسلام کی یہ تعلیم سنتا ہے کہ خدا ایک ہے اور وہ یہ بھی سنتا ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا چاہئے.اب جب وہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے تو اس عقیدہ کی وجہ سے اُس کی بیوی کو فاقے نہیں کرنے پڑتے اور نہ اُس کے بچے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے لیکن جب اسلام کی یہ تعلیم اس کے سامنے آتی ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا چاہئے تو فرض کرو کسی نے اس کے پاس سو روپیہ امانت کے طور پر رکھا ہوا ہوتا ہے لیکن کوئی گواہ نہیں ہوتا اب وہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں یہ روپیہ لے لوں تو میرا بچہ جو بیمار ہے اس کے علاج پر یہ روپیہ صرف کر دوں گا.آخر حکیم بغیر فیس کے نہیں آتا نہ دُکاندار بغیر قیمت کے دوائیں دیتا ہے پھر اُس کی بیماری کا علاج ہو تو کس طرح؟ پس ایسے موقع پر اس کے اور اسلام کی تعلیم کے درمیان اس کے بچے کی صحت آ کر کھڑی ہو جاتی ہے.وہ اگر اسلام کی امانت کے متعلق تعلیم کو مانتا ہے تو اُس کا بچہ مرجاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو اگر وہ ایک مانتا ہے یا بالکل ہی خدا تعالیٰ کے وجود کو نہیں مانتا تو اس سے اس کے بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا.یا مثلاً میں نے زمینداروں کے متعلق بتایا تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح جائداد غیر کے پاس چلی جائے گی اور ان کی خاندانی عزت اور وجاہت کم ہو جائے گی.پس چونکہ اس تعلیم پر عمل کرنے سے ایک زمیندار یہ دیکھتا ہے کہ اُس کی عزت جاتی رہے گی اس لئے عزت کا خیال عمل کے راستہ میں روک بن کر کھڑا ہو جائے گا لیکن خدا تعالیٰ کو ایک مان کر تو اُس کی عزت برباد نہیں ہوتی.یا جب وہ کہتا ہے محمد یہ خدا کے رسول ہیں تو اس سے اُس کی اقتصادی حالت پر اثر نہیں پڑتا.یا اگر وہ یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے تو اُس سے اُس کی زمین کم نہیں ہوتی.یہ نہیں ہوگا کہ اگر اُس کا ایک ایکڑ پہلے 9 کنال کا ہوا کرتا تھا تو خدا تعالیٰ کو ایک مان کر چھ کنال کا ایکڑ رہ جائے گا لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ شریعت کے مطابق ورثہ دینا چاہئے اور اُس کا لڑکا لڑکی ہو تو اس کی جائداد کا تیسرا حصہ اسی وقت کم ہو جاتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کو ایک ماننے میں اسے نقصان نظر نہیں آتا لیکن ورثہ کی تعلیم پر عمل کرنے میں فوراً نقصان کی نظر آنے لگتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر میں نے اس پر عمل کیا تو میری جائداد کا تیسرا حصہ غیر کے پاس چلا جائے گا پھر نامعلوم اس کا میرے ساتھ کیسا تعلق ہو وہ میرا شریک بن کر مجھے نقصان پہنچائے گا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ء اور میں اتنی عزت کا مالک نہیں رہوں گا جتنی عزت کا اب مالک ہوں.غرض جب وہ خدا تعالی کا یا الله رسول کریم ﷺ کی رسالت کا قائل ہوتا ہے تو اُس کی عزت اُس کے راستہ میں حائل نہیں ہوتی ، نہ بیٹے حائل ہوتے ہیں لیکن جونہی وہ لڑکی کو ورثہ دینے لگتا ہے بیٹے کی شکل اُس کے سامنے آ جاتی ہے جو اُس سے رحم کی درخواست کر رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے باپ! مجھ پر رحم کر.پس خدا ایک ہے کہنے کے نتیجہ میں اُس کے بیٹے کی شکل اس کے سامنے نہیں آتی لیکن جب اُسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اپنی بیٹی کو ورثہ دو تو فوراً اس کے بیٹے کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے اور وہ اسے یہ کہتا نظر آتا ہے کہ باپ ! تم نے سو ایکٹر میں بمشکل زندگی بسر کی تھی اب مجھ سے یہ کس طرح اُمید کر سکتے ہو کہ میں چھیاسٹھا ایکڑ میں گزارا کر سکوں گا.پس لڑکی کو ورثہ دینے کا حکم سن کر بیٹے کی شکل اُس کے سامنے آجاتی اور عمل کے راستہ میں روک بن کر کھڑی ہو جاتی ہے.یا مثلاً ظلم کا سوال ہے ایک آدمی مرجاتا ہے اس کی جائداد کا سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا ، اس کا ایک چھوٹا سا یتیم بچہ رہ جاتا ہے، زمیندار جس وقت ہل لے کر کھیت کے کنارہ پر پہنچتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ مجھے اپنی زمین میں سے دس من دانے آئیں گے میرے اتنے لڑکے ہیں اتنی لڑکیاں ہیں ، میری بیوی ہے، میرے عزیز رشتہ دار ہیں ان سب کے خرچ کا میں ذمہ دار ہوں دس من دانے تو کافی نہیں ہوں گے اس کی پر وہ کہتا ہے ساتھ کے کھیت کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں اس زمین کا مالک مر چکا ہے اور بچہ چھوٹا ہے اگر میں دوگز اور زمین میں اپنا ہل چلا لوں تو اس میں کیا حرج ہے دس من کی بجائے میرے کی دانے گیارہ من ہو جائیں گے اور اس طرح گزارہ اچھا ہو سکے گا.یہ خیال آتے ہی اس کے بیل آگے چلنے لگ جاتے ہیں اور یہ بنہ شکنی کر کے دوسرے کی زمین کے ٹکڑے کو اپنی زمین میں ملا لیتا ہے.مگر کبھی خدا تعالی پر ایمان لانا محمد ﷺ کو چار سو تسلیم کرنا یا قیامت اور جزاء اور سزا کے دن کو ماننا اس طرح اس کے عمل کے راستہ میں روک نہیں بنتا.یا مثلاً دین کی خاطر چندہ دینے کا سوال ہے.جب ہم اس سے سب سے بڑا چندہ مانگتے اور کہتے ہیں کہ اپنے دل سے سب بتوں کو نکال دے تو وہ اس کیلئے فوراً تیار ہو جاتا ہے لیکن جب چند پیسوں کا سوال آجائے تو اس کیلئے اتنا تیار نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ عقیدہ کے ساتھ کوئی مادی چیز نہیں دینی پڑتی لیکن چندہ دینے میں چونکہ مادی چیز دینی پڑتی ہے اس لئے فوراً اسے خیال آجائے گا کہ میں تو آگے ہی تنگی
خطبات محمود ۳۷۹ سال ۱۹۳۶ گزارہ کر رہا ہوں اگر چندہ دے دیا تو میرے بیوی بچے کیا کھائیں گے.یا اسی طرح جانی قربانی کا سوال ہے ، یا دین کیلئے وطن چھوڑنے کا سوال ہے ایسے موقعوں پر معاً انسان کو اپنے بیوی بچوں کا خیال آ جاتا ہے.وہ کہتا ہے اگر میں غیر ملک کو چلا گیا تو میری بیوی کو کھانے پینے کا سامان کون لا کر دیا کرے گا ، بچوں کی نگرانی کون کرے گا.غرض انسان کے جذبات اور اس کی محبت کے تعلقات جن وجودوں سے وابستہ ہیں عمل کے میدان میں وہ قدم قدم پر روک بنتے اور اس سے ی درخواست کرتے ہیں کہ دیکھنا ! ہمارا خیال رکھنا.دیکھنا ! ہمارا خیال رکھنا.پس اس لئے قدم قدم پر وہ عمل کے راستہ سے اسے ہٹا دیتے ہیں لیکن عقیدہ کے بارہ میں کوئی ایسی بات پیش نہیں آتی.جب یہ عقیدہ میں ایک ہوتے ہیں تو میاں بیوی اور بچے سارے ہی خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں ، سارے ہی محمد ﷺ کی صداقت کے قائل ہوتے ہیں، سارے ہی قرآن مجید کو خدا تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہیں اور ان عقائد کے بارہ میں اس کے راستے میں روک بن کر کھڑے نہیں ہوتے لیکن جب عملی قربانی کا سوال ہو، جب دیانت اور امانت کے قائم کرنے کا سوال ہو تو اس وقت سو دفعہ یہ روک بن کر کھڑے ہو جائیں گے.یہ صرف چند مثالیں میں نے بیان کی ہیں ورنہ بیسیوں اعمال ایسے ہیں کہ انسان ان کے کرنے میں اس لئے کمزوری دکھاتا ہے کہ اس کے بیوی بچے اس کے ہاتھ پکڑ لیتے ہیں.یہ نہیں کہ وہ عملاً اس کے ہاتھ پکڑ لیتے ہیں بلکہ ان کی محبت کا ہاتھ اسے نیکی کی باتوں پر عمل نہیں کرنے دیتا.جب یہ سرکاری عدالتوں میں رشوت لینے کیلئے بیٹھتا ہے اُس وقت اسے اس کے بیوی بچے نہیں کہتے کہ تم رشوت لومگر ان کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے اور ان کی محبت میں مجبور ہو کر وہ رشوت لے لیتا ہے.یا جب یہ ایک یتیم اور مسکین کی بند شکنی کرتا ہے تو اُس وقت اسے اس کے بیوی بچے یہ نہیں کہتے کہ تو بہ شکنی کر بلکہ ان کی محبت کی وجہ سے وہ بہ شکنی کرتا ہے اور یہ محبت اس کے دل ودماغ پر اس قدر غالب ہوتی ہے کہ اگر وہ خود بھی اسے اس بات سے روکیں اور منع کریں تب بھی وہ نہیں رکتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے ذمہ داری مجھ پر ہے ان کو کیا پتہ کہ کس مصیبت سے روزی کمائی جاتی ہے.تو انسانی اعمال کی درستی میں جذبات اور جذبات کو اُبھارنے والے رشتے روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اعمال کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل
خطبات محمود ۳۸۰ سال ۱۹۳۶ء ہو جاتی ہے.جب تک اس کی خدا تعالیٰ سے محبت ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے کہ اس محبت کی شدت کے مقابلہ میں بیوی بچوں کی محبت اور ان کا اصرار اور ان کی وہ شکلیں جو اسے اپیل کرتی ہیں دھندلی ہو جائیں اور وہ ان کے اثر سے آزاد ہو جائے اُس وقت تک عمل کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے.یا پھر اصلاح کی دوسری صورت یہ ہے کہ دنیا کا نظام ایسا تبدیل ہو جائے کہ اسے بددیانتی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور جو اس کی مشکلات ہوں وہ آپ ہی آپ دور ہو جائیں.اگر جو لوگ فاقے مررہے ہوں انہیں کھانے کیلئے روٹیاں ملنے لگیں، جو ننگے پھر رہے ہوں انہیں پہننے کیلئے کپڑے مل جائیں اور جو غریب ہوں ان کی غربت دور ہو جائے تب بھی نیک اعمال میں بہت کچھ مددمل سکتی ہے لیکن جب یہ دونوں باتیں نہ ہوں نہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں اور نہ خدا تعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر پہنچی ہوئی ہو کہ وہ باقی محبتوں کو مٹادے اُس وقت تک یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اعمال کی اصلاح ہو سکے.یہ دونوں چیزیں ہیں جو اصلاح کیا کرتی ہیں اور ان دونوں کا ایک وقت میں موجود ہونا اصلاح کیلئے ضروری ہوتا ہے تا کہ کامل اور ناقص ہر ایک کی اصلاح ہو سکے لیکن اگر یہ دونوں ایک وقت میں میسر نہ ہوں تو کم سے کم ایک چیز کا پیدا کرنا دنیا کی اصلاح کیلئے ضروری ہے.یا تو ہمیں انسانوں کے قلوب میں خدا تعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر لانی ہوگی کہ اس محبت کے مقابلہ میں انہیں دنیا کی تمام محبتیں بھول جائیں اور یا پھر ہمیں ان کی تکالیف دور کرنی اور ان کی ضروریات پوری کرنی پڑیں گی تا کہ جس حد تک بددیانتی مجبوری سے پیدا ہوتی ہے اس کا ازالہ ہو جائے.چھٹا سبب جو اعمال کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل بنا دیتا ہے یہ ہے کہ عقیدہ کا خیال ہر وقت نہیں رکھنا پڑتا لیکن عمل کا خیال ہر وقت رکھنا پڑتا ہے.مثلاً جب ایک انسان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا ایک ہے تو ایک دفعہ یہ عقیدہ رکھ لینے کے بعد کہ خدا ایک.کیلئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہر دو گھنٹے کے بعد دُہرائے اور کہے کہ خدا ایک ہے.ظہر کے وقت پھر کہے کہ خدا ایک ہے، عصر کے وقت پھر کہے کہ خدا ایک ہے مگر عمل کے بارہ میں بار بار توجہ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے.مثلاً ایک دکاندار ہے اسے ہم نے کہہ دیا کہ دیانت سے کام کرنا.یہ کہنے کو ایک بات کہی گئی ہے مگر اس میں اور یہ عقیدہ رکھنے میں کہ خدا ایک ہے بہت بڑا فرق ہے.
خطبات محمود ۳۸۱ سال ۱۹۳۶ء جب وہ دکاندار یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے تو اس کے متعلق بار بار اس کے دل میں سوال پیدا نہیں کی ہوتا ، نہ لالچ کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کہے کہ خدا ایک نہیں دو ہیں ، دو نہیں تین ہیں لیکن دیانت کے متعلق دن میں پندرہ ہیں دفعہ اس کے سامنے سوال آجاتا ہے.ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے مجھے چار آنے کی مصری دو.معا اُسے خیال آتا ہے کہ میں اسے چار آنے کی مصری دوں یا پونے چار آنے کی دوں.اسے کیا پتہ کہ چار آنے کی مصری کتنی آتی ہے.اس کے بعد ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے آٹھ آنے کی مصری دو.اُس وقت پھر ا سے خیال آتا ہے کہ میں اسے آٹھ آنے کی مصری دوں یا ساڑھے سات آنے کی دوں اسے کیا پتہ کہ میں نے اسے دو پیسے کی مصری کم دی ہے.وہ جاتا ہے تو ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے گرم مصالحہ دینا.یہ پھر سوچتا ہے کہ میں وزن میں اسے گرم مصالحہ کم دوں یا نہ دوں یا کیوں نہ اسے رڈی مصالحہ دے دوں اس طرح گرم مصالحہ میں سے مجھے دمڑی یا دھیلا بیچ جائے گا.اسی طرح کوئی آٹا لینے آتا ہے، کوئی آلو لینے آتا ہے، کوئی تیل لینے آتا ہے اور ہر گاہک کے آنے پر اس کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں بددیانتی کروں یا نہ کروں؟ لیکن یہ عقیدہ رکھنے کے بعد کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اس کے متعلق بار بار اس کے سامنے سوال نہیں آتا.یا مثلاً جھوٹ بولنے کی عادت ہے جتنی دفعہ کوئی دوست اُس سے ملتا ہے اور وہ اس سے کوئی بات پوچھتا ہے اسے خیال آجاتا ہے کہ جو بات یہ پوچھتا ہے اس میں اس کا اپنا فائدہ ہوگا یا دوسرے کا نقصان ہوگا.پس میں اپنے فائدہ کی بات کہوں یا نہ کہوں اور اس کو دکھ دینے والی بات زبان سے نکالوں یا نہ نکالوں.مگر کتنی دفعہ یہ سوال اس کے سامنے آتا ہے کہ خدا ایک ہے یا نہیں؟ محمد ﷺ خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں یا نہیں ؟ کبھی کوئی مذہبی بحث ہوئی اور کسی نے دریافت کیا تو اور بات ہے ورنہ کئی آدمی ایسے ہوں گے جن سے کئی کئی مہینوں تک کبھی کسی شخص نے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ خدا ایک ہے یا نہیں اور محمد رسول اللہ اس کے بچے رسول ہیں یا نہیں؟ نہ وہ سوال اس رنگ کا ہوتا کہ اس کے نتیجہ میں کوئی قربانی کرنی پڑتی ہو.پس اوّل تو عقائد کے متعلق کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر کبھی پیدا ہو تو اس کیلئے کسی قربانی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن عمل کا سوال ہر وقت انسان کے سامنے آتا رہتا ہے.اذان ہوتی
خطبات محمود ۳۸۲ سال ۱۹۳۶ء ہے اور ایک دکاندار اُٹھ کر نماز پڑھنے چلا جاتا ہے ، دوسرا دُکاندار اسے دیکھتا اور جھٹ خیال ہے کرتا ہے کہ یہ تو اس وقت نماز پڑھنے چلا گیا ہے اگر میں اس وقت اپنی دکان کھلی رکھوں تو کئی گا سک مجھ سے سو دالے لیں گے اور اس طرح مجھے دوسرے سے چار آنے یا آٹھ آنے کا زیادہ فائدہ ہو جائے گا.یہ خیال آنے پر ادھر تو نماز کی تیاری ہورہی ہوگی اور ادھر یہ اپنی دکان کھولے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھا ہو گا لیکن خدا تعالیٰ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت اس طرح بار بار اس کی کے سامنے نہیں آتی.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اعمال پر اسے بار بار توجہ کرنی پڑتی ہے اس لئے کبھی وہ سست اور غافل ہوجاتا اور عملی اصلاح کا پہلو ذاتی مفاد کیلئے چھوڑ دیتا ہے.اعمال پر بار بار توجہ دینے کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو.جس طرح وہ شخص جو گھوڑے پر سوار ہوا سے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا ہے اسی طرح مؤمن کو بھی ہر وقت اپنے اعمال پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے اور اگر وہ ایک لمحہ کیلئے بھی غافل ہو جائے تو گر جاتا اور اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتا.(اس موقع پر حضور نے فرمایا مدرسوں کے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طالب علموں کو بتا دیا کریں کہ جمعہ کے وقت حرکات کرنی منع ہیں.طالب علم اس وقت میر سامنے بیٹھے ہیں اور ان میں سے ساٹھ فیصدی برابر ایک دوسرے کو اشارے کر رہے ہیں.یہ نہایت ہی شرمناک حرکت ہے جو خطبہ کے آداب اور اس کے احترام کے سراسر خلاف ہے.بچوں کی کو کم سے کم ابتدائی دینی تعلیم تو اس قدر دینی چاہئے کہ وہ خطبہ کے وقت ہر قسم کی حرکات سے بچیں اور یہ صرف بچوں کا سوال نہیں بعض بڑے آدمی بھی ایسی حرکات کرتے رہتے ہیں ).تو عملی اصلاح میں یہ وقت پیش آتی ہے کہ اس کا ہر وقت خیال رکھنا پڑتا ہے اور چونکہ ہر وقت خیال نہیں رکھا جا سکتا اس لئے سستی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ بیسیوں طبائع ایسی ہیں جو ہر وقت عملی اصلاح کا خیال نہیں رکھ سکتیں.جہاں ان کا خیال اِدھر اُدھر ہوا اور انہوں نے عملی اصلاح سے غفلت کی فوراً ان کا قدم ڈگمگا جاتا ہے وہ ہیں دفعہ بددیانتی سے بچتے ہیں لیکن اکیسویں دفعہ ہوشیار نہیں ہوتے اور کوئی فریب کر بیٹھتے ہیں اور جب ایک فریب کرتے ہیں تو اس کے بعد دوسرا فریب کرتے ہیں اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا کیونکہ اگر ایک دفعہ بھی دیانت کی زمام انسان کے ہاتھ سے نکل جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے نکل جاتی ہے اور پھر اسے تھامنے
خطبات محمود ۳۸۳ سال ۱۹۳۶ء کیلئے بہت بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی سے لڑائی کرتا اور اسے گالی دے دیتا ہے اس کے نتیجہ میں اسے ہمیشہ کیلئے گالیوں کی عادت ہو جاتی ہے.صرف پہلی دفعہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا سوال ہوتا ہے ورنہ اگر ایک دفعہ بھی کوئی بدی کر لے تو پھر انسان کا قدم لڑکھڑا جاتا اور صحیح راستہ پر بہت مشکل سے قائم ہوتا ہے.ساتواں سبب جس کہ وجہ سے عقیدہ کی نسبت عمل کی اصلاح زیادہ مشکل ہوتی ہے یہ ہے کہ عقائد کا تعلق خدا تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت سامنے رہتی ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے سامنے آجاتی ہے، جب ہم کہتے ہیں محمد اے خدا تعالیٰ کے رسول ہیں تو محمد ﷺ کی رسالت کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی ذات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے، جب ہم کہتے ہیں مرنے کے بعد بھی زندگی ہے جس میں انسان کو اعمال کی جزاء وسزا ملے گی تو اس عقیدہ کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کی کی ذات سامنے آجاتی ہے، اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ ہیں جو نیکی کی تحریک کرتے ہیں تو ملائکہ کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی ذات بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے ، یا جب ہم کہتے ہیں خدا تعالیٰ کی قضاء وقدر کا سلسلہ دنیا میں جاری ہے تو قضاء و قدر کے عقیدہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ذات بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے.غرض ہر عقیدہ ایسا ہے جس کا محور خدا تعالیٰ کی ذات ہے اس میں ہمیں نہ غصہ آنے کا کوئی سوال ہوتا ہے نہ لڑائی جھگڑے کا کوئی سوال ہوتا ہے خالص اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اُس کا تقویٰ اس میں کام کر رہا ہوتا ہے اس لئے عقیدہ کی اصلاح مشکل نہیں ہوتی لیکن عملی اصلاح کا تعلق انسانوں سے ہے اور انسانوں سے دشمنی بھی ہوتی ہے، بے تعلقی بھی ہوتی ہے، ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے کوئی لالچ ہوتا ہے یا جنہیں ہم سے کوئی غرض ہوتی ہے اس لئے خشیت اللہ کی وہ دیوار جو عقیدہ میں انسان کی حفاظت کر رہی ہوتی ہے عمل میں نہیں کرتی.ایک انسان دوسرے کو کوئی نقصان پہنچا دیتا ہے کچھ عرصہ کے بعد اتفاقاً دوسرے کو اس کے متعلق کوئی کی گواہی دینی پڑتی ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ زید نے یہ کام کیا تھا یا نہیں؟ وہ سوچتا ہے اگر میں کہہ دوں نہیں تو اسے نقصان پہنچ جاتا ہے اور اگر ہاں کہہ دوں تو وہ بری ہو جاتا ہے اس پر وہ کہتا ہے اچھا اس نے مجھے فلاں وقت نقصان پہنچایا تھا میں بھی اسے نقصان پہنچا تا ہوں.اس خیال کے آتے ہی
خطبات محمود ۳۸۴ سال ۱۹۳۶ء.وہ اس کے خلاف گواہی دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے وہ کام نہیں کیا تھا.تو عقائد کا تعلق چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتا ہے اس لئے وہاں خشیت اللہ سے کام لیا جاتا ہے لیکن اعمال کا چونکہ انسانوں سے تعلق ہوتا ہے اور انسانوں سے تعلقات کشیدہ بھی ہو جاتے ہیں اس لئے انسان عملی میدان میں بہت سی کمزوریاں دکھا دیتا ہے اور جہاں سچ بولنے کا سوال آتا ہے وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ سے منع کیا ہوا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ اس شخص نے فلاں وقت مجھے نقصان پہنچایا تھا میں اسے کیوں نقصان نہ پہنچاؤں.یہ خیال نہیں آتا کہ سچ بولنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے.تو عقیدہ کے معاملہ میں ہر وقت خدا تعالیٰ کی ذات انسان کے سامنے رہتی ہے لیکن عمل کے معاملہ میں انسانوں کی ذات سامنے رہتی ہے اور اس وجہ سے بسا اوقات لالچ ، دوستانہ، رشتہ داری ، لڑائی ، بغض اور کینہ انسانی اعمال کے اچھے حصوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے.ان تمام وجوہ سے وہ عقیدہ کو اور نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور عمل کو اور نقطہ نگاہ سے.وہ امانت کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہوا ہے بلکہ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت دیکھتا ہے کہ اس کے خاص موقع پر امانت کی وجہ سے اس کے دوستوں یا دشمنوں پر کیا اثر پڑتا ہے.اسی طرح وہ سچ کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے سچ بولنے کا حکم دیا ہے بلکہ وہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ آیا اس سے اُسے یا اس کے دوستوں اور عزیزوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا.غرض عقیدہ کا چونکہ خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے اس لئے عقائد میں خشیت اللہ کام کرتی رہتی ہے اور اس سے عقیدہ کی اصلاح آسان ہو جاتی ہے لیکن اعمال چونکہ بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لئے اعمال میں خشیت اللہ کا خانہ خالی رہتا ہے اور عمل کی اصلاح بہت مشکل ہو جاتی ہے.آٹھواں سبب یہ ہے کہ عمل کی اصلاح دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو لیکن عقیدہ کی اصلاح اپنے طور پر ہو جاتی ہے.جب انسان یہ عقیدہ رکھے کہ خدا ایک ہے تو خواہ اس کے بیوی بچے یہ مانتے ہوں کہ خدا ایک نہیں دو ہیں ان پر اس عقیدے کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور نہ ان کے عقیدے کا اس کے عقیدے پر کوئی اثر ہوگا لیکن جب یہ کہتا ہے دیانتداری اختیار کی جائے تو دیانتداری اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اس کی بیوی اور بچے اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے.یہ چاہے کتنا ہی حلال مال کما کر لاتا ہولیکن اگر اس کی بیوی ہمسایوں کو
خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۳۶ء ٹوٹتی رہتی ہے یا اس کا بچہ رشوت کا مال گھر میں لاتا رہتا ہے تو اس کی روزی حلال بن کس طرح سکتی ہے؟ عقیدہ ایسی چیز نہیں کہ اسے اکٹھا کیا جا سکے اس لئے یہ ہو سکتا ہے کہ خاوند کا کوئی اور عقیدہ ہو اور بیوی کا اور لیکن اعمال میں یہ بات نہیں ہوتی اعمال کا ایک دوسرے پر اثر پڑتا ہے اور اس لحاظ سے ضروری ہے کہ سب خاندان کے اعمال درست ہوں.جیسے ایک شخص خواہ کتنی ہی دیانت سے روپیہ کمائے وہ حلال کی روزی اُس وقت تک کہلا ہی نہیں سکتی جب تک اس کی بیوی اور اس کے بچوں کا کمایا ہؤا روپیہ بھی حلال نہ ہو کیونکہ روپیہ نے ایک جگہ جمع ہونا اور اکٹھا خرچ ہونا ہوتا ہے اور اگر حلال میں حرام مال ملتا ر ہے تو وہ ساری کمائی کو خراب کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست ولایت گئے جب وہاں.واپس آئے تو انہوں نے سنایا کہ جس گھر میں میں رہتا تھا میں نے اس کی مالکہ کو سختی سے کہا ہوا تھا کہ میں سور کا گوشت نہیں کھایا کرتا میرے لئے الگ بکرے کا گوشت پکایا کرو.وہ کچھ مدت تک مجھے گوشت کھلاتی رہی کہ یہ سور کا گوشت نہیں بکرے کا ہے.ایک دن میں اتفاقاً باورچی خانہ میں چلا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کانٹے سے ایک بڑے برتن میں سے ایک ایک بوٹی نکالتی اور دوسرے برتن میں ڈالتی جاتی ہے.میں نے کہا یہ کیا کرتی ہو؟ وہ کہنے لگی تم جو کہتے ہو کہ میں سور کا گوشت نہیں کھاتا میں تمہارے لئے بکرے کی بوٹیاں سور کی بوٹیوں میں سے الگ کر رہی ہوں.اُس دن معلوم ہوا کہ وہ سور اور بکرے کا گوشت ایک ہی برتن میں پکاتی.بکرے کی بوٹیاں امتیاز کیلئے ذرا چھوٹی رکھاتی اور جب گوشت پک جاتا تو بکرے کی بوٹیاں الگ کر کے انہیں کھلا دیتی.اس دوست نے ذکر کیا کہ اس پر میں اُس سے سخت ناراض ہوا اور کہا کہ تم تو مجھ کو حرام کھلاتی رہی سور کے گوشت کے ساتھ دوسرا گوشت پکانا منع ہے.یہ سن کر وہ بہت بگڑی مگر آخر کہنے لگی اچھا میں تمہارے لئے بکرے کا گوشت الگ برتن میں پکایا کروں گی.وہ کہنے لگے چند دنوں کے بعد پھر جو میں باورچی خانہ میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو ہنڈیاں چڑھی ہوئی ہیں ایک میں سور کا گوشت ہے اور دوسرے میں بکرے کا.اس کے پاس ایک چمچہ ہے وہ کبھی ایک ہنڈیا میں پھیرتی ہے اور کبھی دوسری میں.اس پر میں نے پھر اُسے منع کیا تو وہ ناراض ہوگئی اور کہنے لگی میں اس احتیاط کی قائل نہیں بھلا سور کے گوشت والا چمچہ بکرے کے گوشت میں پھیرنے سے کیا نقصان ہو جاتا ہے.ہو،
خطبات محمود ۳۸۶ سال ۱۹۳۶ء اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے جب گھروں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر گھر میں صرف ایک آدمی کا کمایا ہوا مال نہیں آتا بلکہ اس میں کچھ حصہ باپ کا ہوتا ہے، کچھ بیٹے کا حصہ ہوتا ہے، کچھ بیوی کا حصہ ہوتا ہے، زمینداروں میں خصوصاً یہ بات پائی جاتی ہے کہ خاوند زمینداری کرتا ہے اور بیوی بھی گھی بیچ رہی ہوتی ہے یا انڈے بیچ رہی ہوتی ہے یا مرغیاں بیچ رہی ہوتی ہے اور اس میں بیسیوں ٹھگی کے موقعے اسے ملتے رہتے ہیں.اب خاوند خواہ کتنی دیانتداری.زمینداری کرے اگر اس کی بیوی حرام خوری کرتی ہے یا بیوی تو دیانت دار ہے مگر خاوند بد دیانت ہے، بیوی تو صاف ستھرا گھی لاتی اور نہایت مناسب قیمت پر اسے فروخت کرتی ہے لیکن خاوند اپنے کام میں بددیانتی کرتا اور حرام مال کما کما کر گھر میں لاتا ہے تو اس صورت میں ان کی روزی حلال کی روزی نہیں رہ سکتی کیونکہ اس میں حرام رزق شامل ہوتارہتا ہے.تو عقیدہ الگ رکھا جا سکتا ہے مگر عمل الگ نہیں رکھا جا سکتا اس لئے عمل اُس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک سارے خاندان کے اعمال درست نہ ہوں اور سارے خاندان کے اعمال درست کرنے میں پھر دقتیں پیش آجاتی ہیں.مثلاً عبادت ہے.جب یہ صبح اپنے بچے کو نماز کیلئے جگانے لگتا ہے اس وقت فوراً جذبات محبت اس کے سامنے آ جاتے ہیں اور دل میں کہتا ہے سخت سردی ہے میں اسے کیوں جگاؤں اگر نماز کیلئے جگایا تو اسے سردی لگ جائے گی.پھر وہ بیوی کو نماز کیلئے جگانے لگتا ہے تو اُس وقت بھی محبت کے جذبات اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ کہتا ہے ساری رات یہ بچے کو اٹھا کر پھرتی رہی ہے اب میں اسے جگاؤں گا تو اس کی نیند خراب ہو جائے گی بہتر ہے کہ یہ سوئی رہے نماز پھر پڑھ لے گی لیکن جب وہ کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے تو اس کے سامنے سردی گرمی کا سوال نہیں آتا.وہ کہتا ہے بیوی کہو اللہ ایک ہے اور بیوی کہ دیتی ہے اللہ ایک ہے ، وہ کہتا ہے بیٹا کہو لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ اور بیٹا کہ دیتا ہے لا الہ الا اللہ.لیکن جب نماز کا سوال آتا ہے تو نماز چونکہ قربانی کا مطالبہ کرتی ہے اس لئے کبھی سخت سردی اور کبھی سخت گرمی کاغذ راُس کے سامنے آجاتا ہے.چھ مہینے اس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ سخت سردی ہے ان ایام میں بچہ کو نماز کیلئے کیوں جگاؤں اسے سردی لگن جائے گی اور چھ مہینے اس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ نازک اور پھول سا بچہ ہے نماز پڑھنے گیا تو اسے گرمی لگ جائے گی.پھر کبھی بیوی کو جگاتے وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ یہ ساری رات تو بچے کو
خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۶ء اٹھائے پھرتی رہی ہے اس لئے بہتر ہے کہ سوئی رہے نماز پھر پڑھ لے گی.غرض قدم قدم پر جذبات اور احساسات اس کے سامنے آجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ ان کی اصلاح ہوتی ہے اور نہ اس کی اپنی اصلاح مکمل ہوتی ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا سے اے میرے بندو! نہ صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی آگ سے بچاؤ.تمہارا صرف اپنے آپ کو آگ سے بچانا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر دوسرانہیں بچے گا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبے گا.پس اعمال کی اصلاح میں ایک بہت بڑی روک یہ بھی ہوتی ہے کہ اعمال کی اصلاح اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو اور خاندان کی اصلاح میں بسا اوقات انسان ا.وں اور اپنی بیوی کی تکلیف کا خیال رکھنے کی وجہ سے ناکام رہتا ہے.اس جگہ میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس سبب اور اس سے پہلے سبب میں بہت بڑا فرق ہے.پہلا سبب یہ تھا کہ اعمال کی اصلاح اس لئے مشکل ہوتی ہے کہ اس کا انسانوں سے تعلق ہوتا ہے اور اس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عمل کی اصلاح کیلئے خاندان کی اصلاح ضروری ہے اور بسا اوقات انسان عملی اصلاح سے اس لئے سستی کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اس سے دوسرے عزیز کو تکلیف ہوگی.مثلاً جھوٹ بولنا بچے کہاں سے سکھتے ہیں؟ جھوٹ بولنا وہ یا ماں باپ سے سیکھتے ہیں یا بازاروں میں پھرنے والے لڑکوں سے.اور بازاروں میں وہ اسی لئے پھرتے ہیں کہ ان کے ماں باپ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو گھر میں کہاں بٹھائے رکھیں اس کا دل میلا ہوگا جس طرح اور بچے گلی کوچوں میں پھر رہے ہیں یہ بھی جائے اور پھرے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جاتا ہے اور دوسرے بچوں سے جھوٹ بولنا، گالیاں دینا اور چوری کرنا سیکھ جاتا ہے.اگر وہ لڑکے کی تکلیف کا خیال نہ کرتے بلکہ اس کی نگرانی رکھتے اور بُرے لڑکوں کے پاس اسے نہ بیٹھنے دیتے تو نہ وہ گالیاں دینا سیکھتا ، نہ چوری کرنا سیکھتا، نہ جھوٹ بولنا سیکھتا مگر ماں باپ کی نرمی کی وجہ سے یہ تمام عیب پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ بچے کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے.یہ روکیں ہیں جو اعمال کی اصلاح میں پیدا ہوتی ہیں.گو اور بھی بعض اسباب ہیں جن کی وجہ سے اعمال کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے لیکن مثال کے طور پر میں نے آٹھ باتیں بتائی ہیں جن کی وجہ سے عمل کی
خطبات محمود ۳۸۸ سال ۱۹۳۶ء ا اصلاح زیادہ مشکل ہوتی ہے اور عقیدہ کی اصلاح اس کی نسبت بہت زیادہ آسان ہوتی ہے.عقیدہ میں جب ہم کہتے ہیں کہو اللہ ایک ہے تو دوسرا جھٹ اسے مان لیتا ہے لیکن عمل میں کئی جگہ عادت روک بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور وہ انسان کو بے بس کر دیتی ہے.ہم ایک شخص سے کہتے ہیں تمہیں سچ بولنا چاہئے.وہ ہماری نصیحت کو تسلیم کرتا اور کہتا ہے ہاں جی سچ بولنا چاہئے لیکن ذرا آگے چلتا ہے تو جھوٹ بول لیتا ہے کیونکہ جھوٹ بولنے کی اسے عادت ہو چکی ہوتی ہے.وہ ہم سے کہتا ہے میں ہمیشہ سچ بولوں گا لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس کے بیٹے کی کسی سے لڑائی ہو جاتی ہے پولیس تحقیقات کرتی ہے تو وہ پولیس کی گرفت سے اپنے بچے کو بچانے کیلئے کہہ دیتا ہے میرا بچہ تو یہاں تھا ہی نہیں وہ تو لا ہور گیا ہوا تھا.یا ہم سے کہہ جاتا ہے میں آئندہ با قاعدہ نماز پڑھوں گا اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز پڑھواؤں گا لیکن جب گھر پہنچتا ہے اور اپنے بچوں سے کہتا ہے اُٹھو نماز کیلئے مسجد میں چلیں تو اُسے پھر خیال آجاتا ہے اور باہر جھانک کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے اس وقت سخت کو چل رہی ہے بہتر ہے یہیں نماز پڑھ لیں مگر گھر پر کون نماز پڑھتا ہے.مسجد میں جاتے ہوئے تو اسے ہر کوئی دیکھتا ہے اور اسے بھی خیال آتا ہے کہ مجھے تعہد سے نمازیں پڑھنی چاہئیں لیکن جب اس کے دل میں گھر پر نماز پڑھنے کا خیال آتا ہے تو چونکہ گھر پر اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا اس لئے آہستہ آہستہ نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیتا ہے.یا صبح کے وقت جب بچہ کو جگانا ضروری ہوتا ہے اسے خیال آ جاتا ہے کہ بچہ ہے اس کی نیند خراب ہو جائے گی ، بیوی رات بھر جاگتی رہی ہے اسے بھی نہیں جگانا چاہئے.یہی امانت، دیانت اور راستی کا حال ہے.غرض ہر کام کے کرتے وقت کئی روکیں حائل ہونے لگتی ہیں لیکن عقیدہ کے بارے میں ایسی روکیں حائل نہیں ہوتیں.پھر اعمال کے بارہ میں یہ لوگوں کا نقال بنتا ہے.ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ اکثر کر جارہا ہے اس کے سر پر ہیٹ ہے اس کی مونچھیں اور ڈاڑھی منڈھی ہوئی ہیں.یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں بھی اڑھائی روپے کی ٹوپی سر پر رکھ کر انگریز بن جاؤں تو کیا حرج ہے لوگ مجھے بھی ” صاحب سلام کہیں گے اور اس خیال کے آنے پر وہ دوسرے کی نقل میں ویسا ہی ہیٹ پہننا شروع کر دیتا ہے لیکن عقیدہ میں نقل کا خیال نہیں آتا کیونکہ وہ مخفی چیز ہے.غرض اعمال کے بارہ میں ایسی روکیں موجود ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے ہٹا دیتی اور اس کے قرب سے پرے پھینک دیتی
خطبات محمود ۳۸۹ سال ۱۹۳۶ء ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم اعمال کی اصلاح کرنا چاہیں تو اس طرف توجہ کریں.صرف یہ کہ دینے سے کہ ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک ہم وہ کوشش نہ کریں اور ان ذرائع کو اختیار نہ کریں جن کے نتیجہ میں اصلاح ممکن ہے.ورنہ اس کے بغیر ہماری وہی حالت ہوگی جو ایک برہمن کی مثال میں بیان کی جاتی ہے.ہندؤوں میں صبح کے وقت دریا پر نہانا نہایت متبرک سمجھا جاتا ہے اور ہندؤوں میں سے برہمن تو اسے بہت ہی ضروری خیال کرتے ہیں.کہتے ہیں لاہور میں کوئی برہمن صبح کو اشنان کرنے چلا سخت سردی کے دن تھے.ہانپتا کانپتا دریا کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں ایک اور برہمن اسے مل گیا جو اُس کا واقف تھا اور جو دریا سے واپس آ رہا تھا.وہ پوچھنے لگا بتاؤ غسل کیسے کیا آج تو سخت سردی ہے.وہ برہمن کہنے لگا میں تو دریا پر گیا مگر مجھے نہانے کی جرات نہیں ہوئی.یہ پوچھنے لگا پھر کیا کیا ؟ اس نے کہا میں نے ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینک دیا اور کہا ” تو راشنان سومور اشنان.تیرا نہانا سو میرا نہانا ہو گیا اور یہ کہہ کر میں واپس آ گیا.یہ کہنے لگا اچھا پھر ” تو را شنان سوموراشنان چلو پھر تیرا نہانا میرا نہانا ہو گیا اور وہیں سے اس کے ساتھ لوٹ آیا.تو اس وقت تک ہماری کوششیں اعمال کے میدان میں ایسی ہی کی ہیں کہ ” تو راشنان سوموراشنان.ہم ابھی ان ذرائع کو اختیار کرنے کیلئے آمادہ ہی نہیں ہوئے جو ایسے زمانہ میں جو مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہوا ختیار کرنے ضروری ہوتے ہیں اور جن ذرائع کو اختیار کر کے ہم اپنے اعمال کو ایسا محفوظ کر سکتے ہیں کہ ہمارے دل کی لالچیں اور حرصیں ، ہمارے غصے اور ہماری نفرتیں ، ہماری آنکھوں کی نظر جو کسی کو پسند کرتی ہے اور کسی کو ناپسند ، ہمارے کانوں کی جس جو کسی آواز کو اچھا سمجھتی ہے اور کسی کو بُرا ، ہمارے رزق کی وسعت یا تنگی اور ہماری عزتوں کی زیادتی یا کمی ہمارے راستہ میں حائل نہیں ہو سکتی اور ہم تمام خطرات سے محفوظ رہ کر اسی طرح عملی اصلاح کر سکتے ہیں جس طرح عقائد کی اصلاح میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت مختلف قسم کی قربانیوں کیلئے تیار رہے.جب تک ہماری جماعت اپنے آپ کو اسی طرح محفوظ نہیں کر لیتی جس طرح نہر کے دو کنارے پانی کو لئے چلے جاتے ہیں اُس وقت تک اصلاح کی کامیابی نہیں ہوسکتی.وہ پانی جسے میدان میں بکھیر دیا جائے کبھی وہ کام نہیں دے سکتا جو نہر کا پانی کام دیتا ہے.بکھرا ہوا پانی زمین میں بے فائدہ جذب ہو جاتا ہے مگر نہر
خطبات محمود ۳۹۰ سال ۱۹۳۶ء کا پانی زمینوں کو سر سبز و شاداب کرتا ہے.بارشیں کس قدر پانی لاتی ہیں مگر کس طرح بکھر بکھر کر ان کی کا بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ انسان جس کے فائدہ کیلئے وہ پانی اتارا گیا تھا اسے محفوظ نہیں کرتا.اس کے مقابلہ میں نہروں میں پانی بارشوں کے پانی کے مقابلہ میں کس قدر کم ہوتا ہے مگر نہر کا پانی کس قدر زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے.پس جب تک حد بندی نہ ہو اور جب تک بعض پابندیاں عائد نہ کی جائیں اس وقت تک روحانی پانی بھی بکھرا رہتا ہے لیکن جب تک ایک حد بندی کے ماتحت اس سے کام لیا جاتا ہے تو وہ کی عظیم الشان تغیر پیدا کر دیتا ہے.یہ وہ پہلو ہے جس پر ہماری جماعت کو خصوصیت سے غور کرنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ ہماری جماعت کی اصلاح کے کیا ذرائع ہیں.پھر وہ ذرائع جو ان کے ذہن میں آئیں یا وہ ذرائع جو میں آگے چل کر بیان کروں گا اُن کو اختیار کرنا چاہئے خواہ ان ذرائع کے اختیار کرنے میں انہیں کتنی بڑی قربانی کرنی پڑے.یورپ میں ایک مشہور لیکچرار تھا اسے عادت تھی کہ جب وہ لیکچر دیتا کند ھے اوپر نیچے کرتا رہتا.لوگ اسے کہتے کہ تمہارا لیکچر تو بڑا اچھا ہوتا ہے لیکن جب تم کند ھے اوپر نیچے کرتے ہو تو لوگ ا تمہیں دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگ جاتے ہیں.وہ ہر دفعہ اقرار کرتا کہ آئندہ لیکچر میں یہ نقص نہیں ہو گا مگر جب پھر لیکچر دینے لگتا تو پھر اس کے کندھے ہلنے لگتے.آخر اس نے سمجھا کہ یہ نقص اس طرح دور نہیں ہوگا بلکہ سختی سے یہ نقص دور کرنا پڑے گا.چنانچہ اس نے گھر میں مشق شروع کی وہ گھر پر لیکچر دیتا تو دو تلوار میں عین اپنے کندھوں کے اوپر لٹکا لیتا تا تقریر کے جوش میں جب اُس کے کندھے ہیں تو تلواریں اُسے لگیں.چنانچہ ایسا ہی ہوتا جب وہ جوش سے کندھے ہلا تا تو تلوار غرپ - اُس کے کندھے میں گھس جاتی اور وہ رک جاتا.پھر تقریر کرتے ہوئے کندھے ملتے تو پھر تلوار لگتی نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن کے بعد ہی اس کی عادت جاتی رہی.اسی طرح ہمیں بھی ایسے طریق ایجاد کرنے پڑیں گے جن کے نتیجہ میں لوگ اس بات پر مجبور ہو جائیں کہ نیک اعمال اختیار کریں.جب تک اس تعہد اور اس ارادہ کے ساتھ ہم اصلاحی تدابیر اختیار نہیں کرتے چاہے ہزار سال گزر جائیں ہم اسی جگہ بیٹھے رہیں گے جس جگہ اب ہیں.ایک نقص کو دور کریں گے تو دوسرا نقص آ جائے گا، دوسرے نقص کو ہٹائیں گے تو تیسرا نقص آ جائے گا، تیسرے نقص کو ہٹائیں گے تو چوتھا
خطبات محمود نقص آ جائے گا.۳۹۱ سال ۱۹۳۶ء جیسے میں نے اپنا ایک رؤیا بیان کیا تھا جس میں میں نے دیکھا کہ چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور وہ کسی طرح بجھنے میں نہیں آتی.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور مجھے گھبرایا ہوا دیکھ کر فرمایا فلاں جگہ آگ کی جڑ ہے اُسے دباؤ تو تمام آگیں خود بخود بجھ جائیں گی.اسی طرح جب تک ہم بدیوں کی جڑ نہیں پکڑیں گے اور جب تک ہم اس بات پر تیار نہیں ہو جائیں گے کہ خواہ ہمیں اپنی بیویوں ، اپنے بیٹوں ، اپنی ماؤں ، اپنے باپوں ، اپنے بھائیوں ، اپنی بہنوں ، اپنے دوستوں ، اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں سے الگ ہونا پڑے تو ہم الگ ہونے کیلئے تیار ہیں اُس وقت تک عملی اصلاح نہیں ہو سکتی.عملی اصلاح کیلئے ہمیں وہی طریق اختیار کرنا پڑے گا جو ہر نبی کے زمانہ میں اختیار کیا جا تا ہے کہ خاوند کو بیوی سے، بیوی کو خاوند سے ، بچے کو ماں سے ، ماں کو بچے سے، بھائی کو بہن سے اور بہن کو بھائی سے الگ ہونا پڑتا ہے.اس قربانی کو اختیار کئے بغیر اب چارہ نہیں کیونکہ اس کے بغیر احمدیت ایک تمسخررہ جاتی ہے لیکن جب ہم اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے ، جب ہم خدا کیلئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی جدائی کو برداشت کرلیں گے تو جیسا کہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بچھڑے ہوؤں کو ملاتا ہے ہماری جماعت کے بچھڑے ہوئے عزیز بھی مل جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے کسی وقت خاوند کو بیوی چھوڑنی پڑے یا بیوی کو خاوند چھوڑنا پڑے، ماں باپ کو بچے چھوڑنے پڑیں اور بچوں کو ماں باپ سے الگ ہونا پڑے اسی طرح بھائی بھائی سے اور بہن بہن سے خدا کیلئے جُدا ہو جائے تو یقینا اس سے ہمیں نقصان نہیں ہوگا بلکہ جب اس ابتلا میں ہماری جماعت کامیاب ہو جائے گی تو پھر خدا ماؤں ، باپوں ، بیویوں ، بھائیوں، بہنوں، بھانجیوں ، پھوپھیوں اور خالاؤں کو اکٹھا کر دے گا مگر وہ ایک دفعہ اس قربانی کو چاہتا ہے جو اعمال کی اصلاح کیلئے ضروری ہے.ہم میں سے کتنے ہی ہیں جنہوں نے عقائد کی اصلاح کیلئے اپنے والدین کو چھوڑا ، کتنے ہی ہیں جنہوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑا، کتنے ہی ہیں جنہوں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو چھوڑا اور انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی.اب اگر وہی قربانی ہماری جماعت عمل کی اصلاح کیلئے بھی کرے تو اس دوسری آزمائش کے بعد ہماری چار دیواری مکمل ہو جاتی ہے.اب تک صرف دو دیوار میں عقائد والی ہیں دو دیوار میں جو عمل
خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۶ء والی ہیں وہ ابھی ہم نے نہیں بنا ئیں.اس وجہ سے چور آتا اور ہمارا مال اٹھا کر لے جاتا ہے لیکن جب ہم اس قربانی کے نتیجہ میں اپنی چار دیواری کو مکمل کر لیں گے تو پھر چور کے داخل ہونے کے تما نی راستے مسدود ہو جائیں گے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خود بھی اس سوال پر غور کریں اور جماعت کی عملی اصلاح کی تدبیریں سوچیں اور اگر ان کے ذہن میں کوئی تدبیر آئے تو وہ مجھے بتائیں.جیسا کہ بعض دوست مجھے خطوط کے ذریعہ اطلاع دے رہے ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی ہر ایک شخص کو یہ ارادہ کر لینا چاہئے کہ اگر دوبارہ اسے اس آگ میں کودنا پڑا جس آگ میں اُسے احمدیت کو قبول کرتے وقت کو دنا پڑا تھا تو وہ اس کیلئے خوشی سے تیار ہوگا.وہ اس بات کیلئے تیار ہوگا کہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے ، وہ اس بات کیلئے تیار ہوگا کہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دے، وہ اس بات تیار ہوگا کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو چھوڑ دے مگر وہ اس بات کیلئے تیار نہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے احکام کا وہ حصہ عمل میں نہ لائے جس کو عمل میں لانے کا خدا نے حکم دیا ہے.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اعمال کی اصلاح کا علاج موجود ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنا مامور یو نہی تو نہیں بھیج دیا.کس طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہو مگر وہ تدابیر نہ بتائی ہوں جن سے لوگوں کے اعمال کی اصلاح ہو سکے.اُس نے تدابیر بتائی ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اس بات کا پختہ عہد کرے کہ وہ ان تدابیر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار رہے گی.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ عہد کریں کہ ہم ان تجاویز پر عمل کرنے کیلئے تیار ہیں چاہے دوبارہ ان کے خاندانوں کو الٹ پلٹ کر دیا جائے ، چاہے دوبارہ انہیں وہی قربانیاں کرنی پڑیں جو انہوں نے شروع میں احمدیت کو قبول کرتے وقت کیں پھر آپ لوگ دیکھیں گے کہ کسی طرح وہی عقدہ لا نخل جسے ہیں سال سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہ ابھی تک حل نہیں ہوا چند مہینوں میں حل ہو جاتا ہے یا کم سے کم اس کی بنیاد پڑ جاتی ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے عقائد کی اصلاح کی نسبت عمل کی اصلاح کیلئے زیادہ جد و جہد کی ضرورت ہوتی اور لمبی قربانیوں کی حاجت ہوتی ہے کیونکہ گو اس کے بعض حصے صرف ارادہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر بعض حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں لا
خطبات محمود ۳۹۳ سال ۱۹۳۶ء غصہ، محبت ، نفرت یا عادت کا دخل ہوتا ہے اور اس وجہ سے ان کی آہستہ آہستہ اصلاح ہوتی ہے.پس ایک طرف تو میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اصلاح اعمال کے ذرائع پر غور کرے اور جو مفید تجاویز میں ممد و معاون بنیں گے وہ اپنے دلوں میں یہ نیت کر لیں کہ اگر انہیں ان ذرائع کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں اپنے بیوی بچوں، بھائیوں اور بہنوں اور دوسرے عزیز واقارب کو چھوڑنا پڑے تو وہ اس قربانی کیلئے ہر وقت تیار رہیں گے.اوّل تو ایمانداروں سے یہ امید ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ یہ دھمکی سننے کیلئے تیار ہوں.ہمیں تو امید رکھنی چاہئے کہ وہ اصلاح اعمال کے ذرائع سنتے ہی فوراً ان پر عمل کرنا شروع کر دیں گے لیکن جو اس کیلئے تیار نہ ہوں جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ صاف طور پر ان سے کہہ دیں کہ آج کے بعد ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں.مت سمجھو کہ اس قسم کی ہنگامہ خیزی کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گی.اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی قربانی بُرے نتائج پیدا نہیں کرسکتی.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرے شیطان کو بھی مسلمان بنادیا ہے سے یعنی میرا شیطان بھی مجھے جو تحریک کرتا ہے وہ اچھی ہوتی ہے.اسی طرح رسول کریم کا جو سچا اور کامل متبع ہو اس پر جو مشکلات آتی ہیں وہ اُس کی تباہی کا موجب نہیں ہوتیں.پس ہر قربانی جو اسلام کی ترقی کیلئے خدا تعالیٰ نے مقرر کی ہیں وہ نیک نتائج ہی پیدا کرتی ہے.اسے بُرے نتائج کا حامل کوئی نہیں بنا سکتا.فَانْكِحُوا مَاطَابَ لَكُمُ (النساء: ۴) التحريم: ۷ الفضل ۱۸ جون ۱۹۳۶ء) سے مسلم كتاب صفات المنافقين باب تحريش الشيطان
خطبات محمود ۳۹۴ ۲۲ سال ۱۹۳۶ء جو میری سُنے گا وہ جیتے گا اور جو میری نہیں سُنے گا وہ ہارے گا (فرموده ۱۹ جون ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ کئی جمعوں سے ایک خاص مضمون کے متعلق خطبات شروع کر رکھے تھے لیکن انسان کچھ ارادہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کچھ ظاہر فرماتا ہے.میں آج مجبور ہو گیا ہوں کہ اُس سلسلہ کو فی الحال ملتوی کر کے ایک اور مضمون کے متعلق بعض باتیں کہوں.میرے قادیان سے جانے سے پہلے شاید ایک دن پہلے یا اُسی دن صبح کو دو موتیں بچوں کی ت یہاں ہو گئی تھیں اور اُن کے دفن کرنے کے سلسلہ میں بعض احرار کی طرف سے روکیں ڈالنے کی مجھے رپورٹ ملی تھی مگر بغیر اس کے کہ اُس کے متعلق کوئی ایسا جھگڑا پیدا ہوتا جو افسوسناک ہوتا وہ معاملہ ختم ہو گیا تھا.میں وہاں پہنچا تو دوسرے یا تیسرے دن مجھے ایک تار ملا کہ پھر ایک میت کے دفن کرنے کے موقع پر شورش ہوئی ہے اور اس پہلے تار کے پہنچنے کے دوسرے دن پھر مجھے تا رملا کہ ایک اور بچہ فوت ہو گیا ہے اور اُس کے دفن کرنے پر معمولی شورش پر بغیر کسی واردات کے معاملہ ختم ہو گیا ہے.غالبا اس وجہ سے کہ میرا قیام کوئی یقینی قیام نہ تھا کوئی تحریری رپورٹ امور عامہ کی طرف سے ان واقعات کے متعلق مجھ کو نہیں ملی.سوائے دو غیر دفتری خطوط کے جن میں معاملہ وضاحت
خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۳۶ء سے بیان نہ تھا.یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ کسی قدر صورت فساد کی بھی پیدا ہو گئی تھی اور یہ کہ ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ اس کو بعض احمدیوں نے مارا ہے.چونکہ یہ معاملہ زیرتفتیش ہے اور عدالت میں چلا گیا ہے یا جانے والا ہے میں اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا لیکن اصولی طور پر جماعت کو نصیحت کرنا میرا فرض ہے اور مجھے حق ہے کہ میں اسے سمجھاؤں.ہم لوگ مسلمان ہیں اور پانچ وقت اپنی نمازوں میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِهْدِنَا القِرَاء الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لاے اللہ ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا.جب ہم اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ خدایا ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا تو کیا ہمارا فرض نہیں ہوتا کہ اس سیدھے راستہ کو دکھانے کیلئے اس کی طرف سے جو آواز آئے اُس پر ہم کان بھی دھر ہیں.مجھے بعض مؤذنوں سے شکایت ہوتی ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے اور وہ مجھے اطلاع دینے آتے ہیں تو زور زور سے کہنا شروع کر دیتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ نماز کا وقت ہو گیا ، جی نماز کا وقت ہو گیا ، جی نماز کا وقت ہو گیا ، ایک بج گیا ، اب ڈیڑھ بج گیا ، میں اطلاع دینے آیا ہوں اور ان کلمات کا وہ اِس قدر تکرار کرتے اور ان پر اتنا زور دیتے ہیں کہ میری بات سنتے ہی نہیں آخر وہ چُپ کریں تو میری آواز سنیں.جب وہ چُپ ہی نہیں کرتے تو میری آواز کس طرح سن سکتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات میں اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا آواز دیتا ہوں اور وہ نہیں سنتے ، پھر میں اُٹھ کر جواب دیتا ہوں تو پھر بھی نہیں سنتے ، پھر قریب کے کمرہ میں آکر جواب دیتا ہوں تو بھی نہیں سنتے ، پھر برآمدہ میں آکر جواب دیتا ہوں پھر بھی میری آواز نہیں سنتے اور مسجد میں آکر کہہ دیتے ہیں میں اطلاع دینے گیا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پتہ نہیں لگا.یہ حالت اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود شور مچارہے ہوتے ہیں اور میری آواز سننے کی کوشش نہیں کرتے.میں ہمیشہ انہیں نصیحت کیا کرتا ہوں کہ جب وہ مجھے آواز دیں تو پھر میرے جواب کو بھی متوجہ ہو کر سنا کریں.اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ کے دروازہ پر دستک دیں اور کہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ خدایا! ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، خدایا! ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اور خدا تعالیٰ بتارہا ہو کہ فلاں سیدھا راستہ ہے اُس پر چل کر میرے پاس آجاؤ مگر ہم اس کی آواز کو سنتے ہی نہیں اور پھر چُپ کر کے بیٹھ
خطبات محمود ۳۹۶ سال ۱۹۳۶ء جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ہم نے پکارا اور کہا کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے مگر اس نے ہمیں سیدھا راستہ نہیں دکھایا حالانکہ وہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا رہا تھا مگر ہم نے اس کی آواز کو سننے کا موقع ہی پیدا نہیں کیا.پس میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگوں کا طریق عمل ہمیشہ ان مؤذنوں کا سال ہوتا ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے.میں نے متواتر بتایا ہے کہ ہر چیز اپنے ماحول کے ساتھ ہی ترقی کر سکتی ہے بغیر اس کے نہیں.تم اچھے سے اچھا گیہوں کا بیج اگر جیٹھ یا ہاڑ میں بود و تو اس سے کھیتی پیدا نہیں ہوگی ، تم عمدہ سے عمدہ کپاس کا بیج اگر اگست اور ستمبر میں بود و تو اس بیج سے کپاس کی فصل نہیں ہوگی ، یا بہتر سے بہتر گنا اگر تم اپریل یا مئی میں بود و تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ ہر چیز کیلئے خدا تعالیٰ نے کچھ قانون مقرر فرمائے ہیں اور ان کے ماتحت ہی نتیجہ نکلا کرتا ہے.میں نے ہمیشہ بتایا ہے اور اب دو سال سے تو متواتر بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ خلافت کی غرض و غایت کچھ نہ کچھ ضرور ہونی چاہئے اور جب کوئی شخص خلیفہ کی بیعت کرتا ہے تو اس کی بیعت کے بھی کوئی معنے ہونے چاہئیں.اگر تم بیعت کے بعد اور میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے بعد میری سنتے ہی نہیں اور اپنی ہی کہے چلے جاتے ہو تو ایسی بیعت کا فائدہ ہی کیا ؟ اس صورت میں تو ایسی بیعت کو تہہ کر کے الگ پھینک دینا زیادہ فائدہ مند ہے بہ نسبت اس کے کہ انسان دنیا میں بھی ذلیل ہو اور خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی لعنتی بنے.میں نے متواتر آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ ہر کام جو آپ لوگ کر میں عقل کے ماتحت کریں اور ان ہدایات کے ماتحت کریں جو میں آپ لوگوں دیتا آرہا ہوں.آپ لوگ اس بات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ، اسی طرح دنیا اس بات کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی ترقی خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے جیسا کہ ہمیشہ وہ اپنے دین کی ترقی خلفاء کے ساتھ وابستہ کیا کرتا ہے.پس جو میری سُنے گا وہ جیتے گا اور جو میری نہیں سنے گا وہ ہارے گا، جو میرے پیچھے چلے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر کھولے جائیں گے اور جو میرے راستہ سے الگ ہو جائے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر بند کر دئیے جائیں گے.ایسا انسان جس کی آنکھوں کے سامنے نمونہ نہ ہو وہ معذور ہوتا ہے مگر جس شخص کے سامنے نمونہ ہو اس کا باوجود نمونہ سامنے ہونے کے صداقت پر مضبوطی سے قائم نہ رہنا بہت بڑا جرم ہوتا ہے.
خطبات محمود ۳۹۷ سال ۱۹۳۶ء خدا تعالیٰ نے خلافت کی باگ میرے ہاتھ میں اس وقت دی جب ہمارے خزانے میں صرف چند آنے کے پیسے تھے غالباً اٹھارہ آنے تھے جو اُس وقت خزانہ میں موجود تھے.پھر پندرہ بیس ہزار روپیہ قرض تھا اور جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ دشمنوں کے ساتھ ملا ہوا تھا تب اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اور میرے ہاتھوں سے تمام جماعت کو اکٹھا کیا ، اس کی مالی پریشانیوں کو دور کیا اور جماعت آگے سے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ چلنے لگی.پھر مسائل کی بحث شروع ہوئی اگر اہلِ پیغام اس جنگ میں جیتے تو کیا نتیجہ نکلتا.احمدیت بالکل مٹ جاتی اور روحانی دنیا پر ایک موت آجاتی مگر کیا اس جنگ کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح نہیں دی؟ کيا لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ اے کا نظارہ اس نے نہیں دکھایا ؟ پھر تبلیغ دین اور اشاعتِ احمدیت کی جنگ میں اس نے میری پالیسی کو کامیاب نہیں کیا؟ سلسلہ کے نظام کے بارہ میں میری سکیم کو غیر معمولی برکت نہیں بخشی ؟ حتی کہ دشمن بھی اس پر رشک کرتے ہیں اور اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر نیم سیاسی امور میں ہماری شرکت کے سوال کو لو کیا اس میدان میں اس نے میری باتوں کو درست ثابت نہیں کیا ؟ جب جنگِ عظیم کے بعد ادھر خلافت کی شورش پیدا ہوئی ادھر کانگرس کی شورش نے ملک میں ایک آگ لگا دی تو یہ ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اور ہندوستان کے عظمند سے عقلمند انسان بھی اس شورش میں بہہ گئے تھے اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے جو راستہ مجھے بتایا وہی ٹھیک اور درست نکلا اور آخر لوگ پچھتا کر اسی جگہ پر واپس آگئے جس جگہ میں لانا چاہتا تھا.پھر ملکانوں میں تبلیغ کا زمانہ آیا خلافت کے فساد کے بعد نئے رنگ میں خلافت کے مٹنے کا جوش پیدا ہوا ، عرب میں اختلافات کا سلسلہ شروع ہوا ، ان میں سے ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ نے میری رائے کو صحیح ثابت کیا اور دوسروں کی رائے غلط ثابت ہوئی.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامیوں کے اس کہنے پر کہ ایک بچہ کے ذریعہ جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے ، مسجد میں بیٹھے ہوئے احمدی گریہ و بکا کر رہے تھے اور رور ہے تھے کہ واقعہ میں جماعت کو ایک بچہ کے ذریعہ تباہ کیا جا رہا ہے مگر آج وہی بچہ ہے جس کے سامنے وہی لوگ اس کی بیعت میں داخل ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں کیا یہ سب کچھ نشان اور معجزہ نہیں؟ پس اگر خلافت کے کوئی معنے ہیں تو آپ لوگوں کو وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو میں
خطبات محمود ۳۹۸ سال ۱۹۳۶ء بتا تا ہوں ورنہ بیعت چھوڑ دینا بیعت میں رہ کر اطاعت نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے.وہ طریق جو میں نے متواتر بتایا ہے یہ ہے کہ ہمارے سامنے نہایت ہی اہم معاملات ہیں.آج تک ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر ایک عدالت نے جو حملہ کیا تھا وہ بغیر بدلہ لئے قائم ہے.میں ہر اُس حمدی سے جو سمجھتا ہے کہ وہ غیرت مند ہے کہتا ہوں اگر اس کی غیرت کسی اور جگہ ظاہر ہوتی ہے تو وہ سخت بے غیرت ہے.اگر وہ واقعہ میں غیرت مند ہے تو کیوں اس کی غیرت اس جگہ ظاہر نہیں ہوتی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر حملہ کیا جاتا ہے.ابھی تک نہ اس فیصلہ کی تردید ہندوستان میں پھیلائی گئی ہے نہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی کثرت سے لوگوں میں پھیلایا گیا ہے اور نہ اس کے ازالہ کیلئے گورنمنٹ کو مجبور کیا گیا ہے.آجکل تو میں نے طریق ہی یہ اختیار کیا ہوا ہے کہ جب کوئی احمدی مجھے اس قسم کا خط لکھتا ہے کہ فلاں احمدی نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا تھا جس پر مجھے بڑا جوش آیا مگر میں نے پہلے آپ کو خبر دینا مناسب سمجھا.تو میں اُسے لکھا کرتا ہوں میں یہ ماننے کیلئے ہر گز تیار نہیں کہ تم با غیرت ہو.تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کی حفاظت کیلئے غیرت نہیں دکھائی تو میں یہ کس طرح مان سکتا ہوں کہ تم میں اس وقت غیرت پیدا ہو سکتی ہے جب تمہاری ذات پر کوئی حملہ کرے.پس جب تک ہم اس فیصلہ کا ازالہ نہ کرائیں ، جب تک ہم گورنمنٹ کو مجبور نہ کریں کہ وہ انہی ہاتھوں سے جن ہاتھوں سے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کی ہے اس ہتک کا ازالہ کرے اور اپنی غلطی کا اقرار کرے اُس وقت تک کسی احمدی کا اور معاملات میں اپنے آپ کو باغیرت کہنا بالکل جھوٹ ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام آئینی طریق اختیار کر کے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کو قائم کریں پھر اپنی عزتوں کے قیام کا سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے.میں نے متواتر بتایا ہے کہ آئینی جدو جہد کے ذریعہ کام کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ عقل سے کام لیا جائے اور بشر طیکہ انسان اپنے نفس پر قابور رکھنے کی قابلیت رکھتا ہو.میری یہ ہدایت جماعت والوں کو ہمیشہ سے معلوم ہے کہ ایسے مواقع جن میں فساد کا خطرہ ہو اُن میں کبھی لاٹھیاں وغیر لے کر نہیں جانا چاہئے.احرار کے جلسہ کے موقع پر بھی اور بعد کے دوسرے مواقع پر بھی میں نے متواتر نصیحت کی ہے کہ ایسے موقع پر میرا وہ حکم کہ ہر احمدی کو ہر وقت اپنے پاس لاٹھی رکھنی چاہئے منسوخ سمجھنا چاہئے اور اپنی براءت ثابت کرنے کیلئے ایسی حالت
خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۶ء رکھنی چاہئے کہ دشمن اگر مارتا ہے تو بیشک مارے مگر تم پر الزام نہ آئے.میں نے متواتر سمجھایا ہے کہ یہ سوال نہیں کہ تم حق پر ہو اور تم مجرم سے بری ہو بلکہ سوال یہ ہے کہ تمہاری براءت اَظْهَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہونی چاہئے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اتَّقُوا مَوَاقِعَ الفِتَنِ ۳.تم سے میں یہی نہیں کہتا کہ تم فتنہ میں مت پڑو بلکہ میں تمہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ تم فتنوں کی جگہوں میں بھی مت جاؤ.فتنوں کی جگہوں میں نہ جانے کا مطلب یہی ہے کہ دوسرے کو تم پر الزام لگانے کا کوئی موقع میسر نہیں آنا چاہئے.تمہارے لئے اپنی بہادری جتانے کے بہت سے موقعے ہیں بلکہ بیسیوں مواقع ہیں جن میں تم اپنی بہادری جتا سکتے ہو.جب دنیا میں خدا تعالیٰ کی عزت قائم کرنے کا سوال ہو یا اُس کے رسول کی عزت قائم کرنے کا سوال ہو تو اصل موقع بہادری دکھانے کا وہ ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ احد کی جنگ میں جب زخمی ہوئے تو کفار میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ رسول کریم و نعوذ باللہ مارے گئے ہیں اس سے قدرتی طور پر ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.ان کا لشکر ایک جگہ اکٹھا ہو کر اس بات پر فخر کر رہا تھا کہ ہم نے محمد ( ﷺ ) کو نَعُوذُ بِاللهِ مار دیا ہے اس موقع پر ابوسفیان نے کفار کے لشکر کی طرف سے آواز دی اور کہا.کہاں ہے محمد ( ) ؟ رسول کریم ہ اس وقت تک ہوش میں آچکے تھے آپ نے جب سنا کہ ابوسفیان کہہ رہا ہے کہ کہاں ہے محمد (ع) اور صحابہ نے اس کا جواب دینا چاہا تو رسول کریم ﷺ نے انہیں منع فرما دیا اور کہا مت جواب دو خاموش رہو.صحابہ کی طرف سے جواب نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ بات درست ہے کہ محمد ( ﷺ ) نَعُوذُ باللہ مارے گئے ہیں.چنانچہ انہوں نے خوشی سے نعرہ بلند کیا اور کہا ہم نے محمد (ﷺ) کو مار دیا.اس کے بعد انہیں قدرتی طور پر خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اگر کوئی شخص مسلمانوں کو سنبھال سکتا ہے تو وہ ابو بکر ہے اس پر ابوسفیان نے آواز دی کہاں ہے ابو بکر؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جواب دینے لگے تو رسول کریم ﷺ نے منع فرما دیا اور کہا مت جواب دو.اس پر پھر کفار نے خوشی سے ایک نعرہ مارا اور کہا کہ ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا.پھر ابوسفیان نے پوچھا کہاں ہے عمر؟ حضرت عمر نہایت تیز مزاج تھے وہ یہ کہنے کو ہی تھے کہ عمر تمہارا سر توڑنے کیلئے موجود ہے کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں منع کر دیا اور فرمایا خاموش رہو کیونکہ اُس وقت اسلامی لشکر تتر بتر ہو چکا ہے اور صحابہ سخت زخمی تھے اور رسول کریم ﷺ یہ مناسب نہیں سمجھتے صلى الله
خطبات محمود ۴۰۰ سال ۱۹۳۶ء تھے کہ ایسی حالت میں دشمن کو چھیڑا جائے اسی لئے آپ صحابہ کو جواب دینے سے منع فرماتے رہے کہ دشمن کو انگیخت کرنے کا کیا فائدہ؟ جب انہوں نے سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ بھی مارے گئے ہیں اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنهُما بھی مارے گئے ہیں تو ابوسفیان زور سے چلایا اور اُس نے بلند آواز سے نعرہ مار کر کہا اُعْلُ هُبُلُ أعْلُ هُبُلُ - صبل مشرکین مکہ کا بہت بڑا دیوتا سمجھا جاتا تھا ، اُس کا نام لے کر ابوسفیان نے پکارا اُس کی شان بلند ہو کیونکہ صبل آخر توحید پرستوں کے مقابلہ میں جیت گیا، یہ لوگ مارے گئے اور بل کو فتح ہوئی.جب ابوسفیان نے یہ نعرہ لگا یا تب وہی محمد ﷺ جو تینوں موقعوں پر صحابہ کو خاموش کرتے چلے آئے تھے اور صحابہ بھی اس لئے خاموش تھے کہ رسول کریم کے جواب دینا پسند نہیں فرماتے تھے جب ابوسفیان نے کہا اُعْلُ هُبل اُعْلُ هُبُل تو آپ کی ساری احتیاط اور سارا حرم جاتا رہا اور آپ نے صحابہ سے فرمایا کیوں جواب نہیں دیتے ؟ انہوں نے کہا کہ يَا رَسُولُ اللهِ ! ہم تو اس لئے خاموش ہیں کہ آپ نے ہمیں جواب دینے سے منع فرمایا ہے.آپ نے فرمایا نہیں اب جواب دو.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! کیا جواب دیں.آپ نے فرمایا کہو اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ سے تمہارا صبل جھوٹا ہے اللہ ہی ہے جو عزت اور جلال والا ہے.تو محمد ﷺ کے طریق عمل نے ہم کو بتادیا کہ ہماری غیر تیں کیا اور ہمارے جوش کیا اور ہماری ہمتیں کیا سب خدا اور اس کے رسول کیلئے ہونی چاہئیں.پس ہزاروں قربانیوں کے موقعے تمہارے لئے موجود ہیں.سات ہزار کی قادیان کی احمدی آبادی ہے اس میں سے کم سے کم ڈیڑھ ہزار مرد ہوں گے.میں نے تبلیغ عام کا اعلان کیا ہوا ہے مگر ان میں سے کتنے ہیں جو سال میں سے ایک مہینہ قربان کر کے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام دنیا میں پہنچانے کیلئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں.اگر ہم واقعہ میں غیرت مند ہیں تو کیوں ہماری غیر تیں خدا تعالیٰ کے نام کیلئے جوش میں نہیں آتیں.آخر خدا کے سپاہی اور گاؤں کے گنوار لٹھ باز میں کوئی فرق بھی تو ہونا چاہئے.وہ فرق یہی ہے کہ گنوار لٹھ باز کی غیرت اس وقت بھڑکتی ہے جب اس کے گھر پر کوئی شخص حملہ آور ہولیکن خدا تعالیٰ کے سپاہی کی غیرت اُس وقت بھڑکتی ہے جب خدا تعالیٰ کے گھر پر کوئی شخص حملہ آور ہو محمد ﷺ کے گھر پر حملہ کیا گیا آپ نے اپنا گھر چھوڑ دیا، محمد ہے کے وطن پر حملہ کیا گیا آپ نے اپنا وطن چھوڑ دیا لیکن جب خدا تعالیٰ کی صلى الله
خطبات محمود ۴۰۱ سال ۱۹۳۶ء صلى الله ذات پر حملہ ہوا تو اس وقت محمد مے خاموش نہ رہے بلکہ آپ نے کفار کو جواب دیا محمدمر جائدادیں اور آپ کے اموال اور آپ کے املاک اور آپ کی زمینیں چھین چھین کر دشمنوں نے جو حالت کر دی تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ جب آپ حج کیلئے فتح مکہ کے بعد مکہ تشریف لائے تو کسی نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ کہاں ٹھہریں گے؟ کیا ہی وہ درد ناک جواب ہے جو رسول کریم ہی ہے.دیا.آپ نے فرمایا ہمارے لئے تو عقیل نے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں ہم کہاں ٹھہریں گے.وہ شخص جس کے باپ دادے مکہ پر حکومت کرتے چلے آئے تھے سات سال کے بعد مکہ میں ایک اجنبی کی حیثیت میں آتا ہے اور جب اُس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ آپ کہاں ٹھہریں گے؟ تو وہ مسیح علیہ السلام کی طرح کہتا ہے ” درندوں کیلئے ماندیں ہیں اور چڑیوں کیلئے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں، ہمارے لئے تو کوئی گھر ہی باقی نہیں رہا ہم کہاں ٹھہریں گے.مگر خدا تعالیٰ کیلئے انہی محمد ﷺ کی غیرت دیکھو کہ حنین کے موقع پر صحابہ ایک وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، اسلامی لشکر کفار کی شمولیت کی وجہ سے تتر بتر ہو جاتا ہے صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گردرہ جاتے ہیں اور چار ہزار کا لشکر دونوں طرف سے تیروں کی بارش برسات رہا ہے ایسی حالت میں گھبرا کر صحابہ عرض کرتے ہیں کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! یہ کھڑے رہنے کا موقع نہیں میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹے اور ایک تو وفور محبت کی وجہ سے آپ کے گھوڑے کا باگ پکڑ لیتا اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے مگر رسول کریم ہے اس کو ہٹا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ.اور اپنی سواری کو ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اور لشکر کفار میں نڈر ہو کر گھس جاتے اور فرماتے ہیں أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ لع یعنی کیا اس وقت صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹا ہوں؟ ہر گز نہیں میں خدا کا سچا نبی ہوں اور دیکھو! میں اکیلا اس وقت تمہاری طرف بڑھ رہا ہوں لیکن اس طرح میرا دشمنوں کی طرف بڑھتے چلے جانا لوگوں کو حیرت میں ڈال دے گا اور وہ کہیں گے شاید یہ خدا ہے مگر سنو یہ درست نہیں میں خدا نہیں بلکہ عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.تو غیرت دکھانے کے بھی موقعے ہوتے ہیں اور جانیں دینے کیلئے بھی موقعے ہوتے ہیں مگر بہر حال کام ایسے طریق پر ہونا چاہئے کہ اس کی
خطبات محمود ۴۰۲ سال ۱۹۳۶ء کے نتیجہ میں خدا اور اس کے رسول کی عزت بڑھے.میرا اس سے ہرگز یہ منشاء نہیں کہ آپ لوگ اپنے اس حق کو جو قانونی اور شرعی اور اخلاقی طور پر آپ کا حق ہے چھوڑ دیں.یہی قبرستان جس پر جھگڑا ہوا ہے اور جس کے اندر واقع ہونے والے گزشتہ حادثہ کے بارہ میں میں اس وقت نصیحت کر رہا ہوں میں مانتا ہوں کہ وہ ہمارا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں اپنا حق چھوڑ دو ہم اس میں دوسروں کے ساتھ مل کر حصہ دار ہیں ان کا بھی حق ہے کہ وہ اس میں اپنے مُردے دفن کریں اور ہمارا بھی حق ہے اور میں اس حق کو لینے سے ہرگز منع نہیں کرتا بلکہ میں کہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی حکومت ہمیں اس قبرستان میں اپنے مُر دے دفن کرنے سے روک نہیں سکتی جو ہمارے باپ دادوں نے ہبہ کیا ، جس میں ہمارے باپ دادوں کی قبریں موجود ہیں اور جس میں ہمارے بھائی بہنوں کی قبریں موجود ہیں.اگر ایسے افسروں کے ہاتھ جو اس میں مزاحم ہور ہے ہیں بالا گورنمنٹ نہیں پکڑے گی تو ہمارا خدا ان کے ہاتھ پکڑے گا مگر وہ قبرستان ہمارے ہاتھ سے نہیں جاسکتا.پس مجھے حق کے لینے پر اعتراض نہیں میں نے قطعی طور پر لوگوں سے کہ دیا تھا.کہ میری رائے میں ہمیں اپنے اس حق کو ضرور قائم رکھنا چاہئے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس حق کو چھوڑ دیں لیکن سوال اُس طریق کا ہے کہ جسے ہم اپنا حق قائم کرنے کیلئے اختیار کریں اور اُس سلوک کا ہے جو ہم اپنے مخالفوں سے کریں اور اس کے بارہ میں میں یہ صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ وہی ہونا چاہئے جو میں تجویز کروں.پھر دوسرے لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ فساد کیوں کر رہے ہیں؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ میری ہی خلافت کے ایام میں ہندوؤں کی مڑہیوں کے بارہ میں ایک جھگڑا پیدا ہوا وہ لوگ میرے پاس آئے اور میں نے انہیں مڑہیوں کیلئے زمین دے دی.چنانچہ وہ زمین ہندوؤں کے پاس ہے اور سرکاری کاغذات میں سے اسے دیکھا جا سکتا ہے.قادیان کے غیر احمدی شاید ڈرتے ہیں کہ اگر قبرستان ختم ہو گیا تو وہ آئندہ اپنے مُردے کہاں دفن کر سکیں گے مگر وہ خدا کے متعلق اتنا بخل اپنے دلوں میں کیوں رکھتے ہیں؟ کیا اگر یہ قبرستان ختم ہو جائے گا تو خدا اور زمین ان کیلئے مہیا نہیں کر سکتا؟ پھر چاہے قادیان کے سب غیر احمدی احراری ہوں یا غیر احراری انہیں یا درکھنا چاہئے کہ مؤمن کبھی کسی کے مُردے کو سڑنے نہیں دیتا اگر ان کے مُردوں کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہی اور
خطبات محمود ۴۰۳ سال ۱۹۳۶ء ہمارے خاندان نے ان کے مُردوں کو دفن کرنے کا انتظام نہ کیا تو پھر بے شک وہ اعتراض کر سکتے ہیں لیکن جب ہم نے ہندوؤں کو اس مخالفت کے زمانہ میں ان کی مڑہیوں کیلئے جگہ دی ہے تو کیا ہم مسلمانوں کو قبروں کیلئے زمین نہ دیں گے.پس با وجود تمام مخالفتوں کے اگر آج احرار کیلئے جگہ ختم ہو جائے تو کم سے کم میں اپنی زندگی تک کہہ سکتا ہوں کہ ان کو قبرستان کیلئے کوئی زمین خریدنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ان کے بھائیوں اور ہم مذہبوں سے پہلے ان کی تکلیف میں میں ان کی امداد کرنے کیلئے تیار ہوں گا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ حق جو خدا تعالیٰ نے ہمارا قائم کیا ہے ہم اسے چھوڑ دیں.وہاں میری ایک بہن مدفون ہے، میرے ہوش کے زمانہ میں فوت ہوئی ، اسے ہاتھوں پر اُٹھا کر کچھ دور لے گئے ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہاتھوں پر اٹھا کر لے گئے.میری خلافت کے ایام میں وہاں ہماری ایک بھانجی بھی دفن ہوئی تھی ، ہمارے بہت سے لوگ وہاں دفن ہوتے چلے آئے ہیں ابھی دو تین مہینے کی بات ہے چوہدری عبد الرحمن صاحب سر براہ نمبر دار کی بیوی فوت می ہوئیں وہ وہیں دفن کی گئیں، محلہ دار الرحمت کے کئی مردے پچھلے ایام سے وہاں دفن ہوتے چلے آئے ہیں کیونکہ سب سے قریب انہیں وہی جگہ پڑتی ہے.پس کوئی حکومت ہم کو اس حق سے باز نہیں رکھ سکتی.لیکن اگر حکومت ظالمانہ طور پر ہمیں اس حق سے باز رکھے گی تو پھر ہمارا اصل وہی ہو گا جس کا ہم نے کئی بار ا ظہار کیا ہے کہ گورنمنٹ کا قانون نہیں تو ڑ نا مگر گورنمنٹ سے میری مراد وہ بارہ بارہ روپیہ کے کانسٹیبل نہیں جو خواہ مخواہ اپنے اوپر گورنمنٹ کا چوغہ پہن کر آ جاتے ہیں بلکہ گورنمنٹ سے مراد گورنمنٹ ہے.مثلاً حکومت پنجاب ہے حکومت پنجاب کا نمائندہ ڈپٹی کمشنر اگر تحریری طور پر حکم دے دے کہ میں جماعت احمدیہ کو اس بات سے روکتا ہوں کہ وہ اس قبرستان میں اپنے مر دے دفن کرے تو پھر ہم عدالتوں کے ذریعہ اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر عدالتوں کے ذریعہ بھی ہمیں اپنا حق نہیں ملے گا تو ہم دعاؤں کے ذریعہ اپنے خدا سے اس حق کو حاصل کریں گے مگر بہر حال ہم قانون شکنی کسی صورت میں نہیں کریں گے.اس شورش کی وجہ بھی معلوم ہے اور میں ان احمدیوں کو بھی جانتا ہوں جو اس کے پیچھے ہیں.پولیس والوں کو بعض بدعنوانیوں کی وجہ سے جھاڑیں پڑی تھیں اب وہ اس کا بدلہ لینے کیلئے یہ تدبیریں کر رہے ہیں اور معاملات کو غلط ملط کر رہے ہیں.پس ہماری جماعت کو ایسی تدبیروں
خطبات محمود ۴۰۴ سال ۱۹۳۶ء سے دھو کا نہیں کھانا چاہئے.میں نے بتایا ہے کہ عدالتوں کا راستہ کھلا ہے ہمارے حق بھی عدالتوں کی کے ذریعہ طے ہو سکتے ہیں اور ہمارے مخالفین کے حقوق بھی عدالتوں کے ذریعہ طے ہو سکتے ہیں اور اگر عدالتیں ہمارے خلاف فیصلہ کریں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم اپنا حق عدالتوں سے منوا نہیں سکے کیونکہ بہر حال ایک جگہ معاملہ کو ختم کر دینا پڑتا ہے اور اس صورت میں عدالت جو آخری فیصلہ دے اسے تسلیم کرنا پڑے گا.اگر عدالت شرارت سے خلاف حق فیصلہ کرے تو خدا تعالیٰ کے حضور ہم اپیل کریں گے اور اگر وہ دیانتداری سے اپنی سمجھ کے مطابق ایک فیصلہ کر دے تو چاہے وہ ہمارے خلاف ہی ہو ہم صبر کریں گے اور اگر وہ ہمیں ہمارا حق دلا دے تو و ہم خوش ہونگے کہ ہمیں اپنا حق مل گیا ( مگر یہ صرف دنیوی امور کے متعلق ہے دینی امور کے بارہ میں کوئی عدالت ہم پر حاکم نہیں ہو سکتی.پس میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں ( بغیر مقدمہ کی تفصیلات میں پڑنے کے ) کہ ہمیشہ ان کو ایسی باتوں سے بچنا چاہئے جن میں وہ زیر الزام آ جائیں کیونکہ گورنمنٹ کے بعض افسر پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ جماعت کے افراد پر الزام لگائیں ان کو ایسے مواقع خدا دے.پھر میں نے بار ہا بتایا ہے کہ یہ مت سمجھیں آپ کیلئے اپنے حقوق حاصل کرنے کے ذرائع نہیں.گزشتہ پونے دو سال میں جو احرار سے ہماری لڑائی ہوئی وہ ظاہر ہے اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں.بغیر قانون شکنی کئے کیا احرار کا زور ٹوٹ گیا یا نہیں ٹوٹا؟ اور کیا اپنے بھائیوں میں ہی وہ ذلیل ہوئے یا نہیں ہوئے؟ پھر کیا گورنمنٹ کے وہ افسر جنہوں نے ہمیں نقصان پہنچایا اور ہم سے بلا وجہ دشمنی کی وہ اور ابتلاؤں اور مصائب میں پڑے ہیں یا نہیں پڑے؟ اور جو افسرا بھی باقی ہیں خدا تعالیٰ انہیں بھی پکڑے گا اور سزادے گاتم گھبراتے کیوں ہو.کسی نے کہا ہے دیر گیرد سخت گیرد مر ترا خدا تعالی دیر سے پکڑتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو سخت پکڑتا ہے.پس تم کیوں سمجھتے ہو کہ بعض افسر پکڑے گئے اور بعض بچے ہوئے ہیں.جو افسر بظاہر بچے ہوئے نظر آتے ہیں در حقیقت سے نہیں بچے وہ تمہیں بچے ہوئے نظر آتے ہیں مگر مجھے بچے ہوئے نظر نہیں آتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب پادری عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کی اور اُس کے ڈر جانے کی
خطبات محمود ۴۰۵ سال ۱۹۳۶ء وجہ سے خدا تعالیٰ نے پیشگوئی ٹلا دی تو عیسائیوں نے تو شور مچانا ہی تھا بعض بیوقوف مسلمانوں نے بھی خوشی منائی اور کہنا شروع کر دیا کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ جھوٹی نکلی ہے.اُس زمانہ میں بہاولپور کے جو نواب صاحب تھے ان کے پیر میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والے تھے جو ایک نہایت ہی نیک اور بزرگ انسان تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وہ ایمان لائے تھے.نواب صاحب کے دل میں ان کی بڑی عقیدت تھی اور وہ ان کا بہت ادب کیا کرتے تھے اور میاں غلام فرید صاحب بھی انہیں اس طرح ڈانٹ لیتے جس طرح اُستاد شاگر دکو ڈانٹتا ہے.اتفاقاً ایک دن جبکہ دربار لگا ہوا تھا عبد اللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا ذکر چل پڑا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب نے آتھم کی موت کے متعلق پیشگوئی کی تھی مگر وہ جھوٹی نکلی لوگ اس کا ذکر کر کے دیر تک ہنستے اور تمسخر اُڑاتے رہے اور میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والے خاموش بیٹھے رہے.آخر اس ہنسی میں نواب صاحب بھی شریک ہو گئے اور کہنے لگے واقعہ میں مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی ہے.اس پر میاں غلام فرید صاحب نہایت جوش میں آگئے اور فرمانے لگے غلط ہے کون کہتا ہے آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش سامنے نظر آرہی ہے.پس تم کیوں اپنے خدا پر بدظنی کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ وہ ان افسروں کو بغیر بدلہ لئے یونہی چھوڑ دے گا اگر ان افسروں کا مستقبل تمہارے سامنے آجائے گی تو تم حیران ہو جاؤ کہ ان کیلئے خدا تعالیٰ نے کیا مقدر کیا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار ان کے آگے ہوتی ہے.میں نے بارہا کہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور آپ کی وحی کا مطالعہ رکھا کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان الہامات میں ان فتنوں کے متعلق بھی بہت کچھ خبر میں پائی جاتی ہیں.پس اس بات سے مت گھبراؤ کہ دنیوی حکومت کے بعض عمود تمہارے خلاف حصہ لیتے ہیں وہ عمود نظر آتے ہیں مگر وہ گھن کھائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو آج گریں یا کل گریں.تم دیکھو گے کہ وہی حکومت جس کے وہ کل پرزے کہلاتے ہیں اسی حکومت کے ہاتھوں وہ سزا پائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کے عیبوں کو پوشیدہ نہیں رہنے دے گا.
خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۶ء پس میں یہ نہیں کہتا کہ اپنا حق نہ لو تم اپنے حقوق لو اور ان حقوق کے لینے میں تمہارے ساتھ ہوں میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے خدا کا حق لے لو بعد میں دنیا سے اپنا حق لو.اگر میں اُس وقت آپ لوگوں کے ساتھ ہوتا تو میں تو جب پولیس نے مُردہ بچے کو دفن کرنے میں مزاحمت کی تھی یہی کہتا کہ مردہ کو دفن کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ پولیس پر چھوڑ دو اور مُردہ بچے اور پولیس کا فوٹو لے کر واپس آ جاؤ.جو شخص مُردہ کی ہتک کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی لعنت اپنے اوپر لیتا ہے.پس تم لعنتیں ان پر پڑنے دیتے اور خود واپس آجاتے آخر وہ ہمارے ہی بھائی بہن تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں سخت سے سخت مصائب برداشت کئے.بہار میں ہی ایک احمدی عورت فوت ہو گئی اُس کی لاش احمدی دفن کر کے آئے تو لوگوں نے رات کو لاش نکال کر گتوں کے آگے ڈال دی.تو وہ تکلیفیں جو پہلوں پر گزریں یا ہماری جماعت کے دوسرے بھائیوں پر گزریں ہم پر بھی گزرنی ضروری ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان میں صبر سے کام لیں.تمہیں چاہئے تھا کہ تم ان تمام واقعات کا فوٹو لے لیتے اور پھر دنیا میں شائع کر دیتے کہ پنجاب کی پولیس ایک احمدی مُردہ کے دفن کرنے میں روک بن رہی ہے.یہ تمہارا اتنا سخت بدلہ ہوتا کہ حکام تمہاری منتیں کرتے اور تمہارے آگے ہاتھ جوڑتے پھرتے اور کہتے یہ فوٹو دنیا میں نہ پھیلاؤ مگر تم نے ایسا نہیں کیا.کیا میں نے بار ہا نہیں کہا کہ ایسے موقعوں پر فوٹو لے لیا کرو لیکن محکموں کے ذمہ دار ارکان کے کانوں میں تو روٹی پڑی ہوئی ہے تمہارے کانوں میں بھی روئی پڑی ہوئی ہے میری باتیں ایک کان سے سُنتے ہو اور دوسرے سے نکال دیتے ہو.میں نے سنا ہے بعض فوٹو لئے گئے ہیں مگر سوال ایک یا دو کا نہیں بلکہ تمہیں ان کی ہر حرکت کا فوٹو لینا چاہئے تھا.اب اس کے کفارہ کے طور پر میں ہدایت کرتا ہوں کہ پانچ چھ سو روپیہ میں سنیما کی مشین مل جاتی ہے جس سے متحرک تصاویر اتاری جاتی ہیں.پس فوراً ایک متحرک تصاویر اتارنے کا آلہ لے لیا جائے اور جہاں کوئی ایسا واقعہ پیش آئے فورا متحرک تصاویر کی ایک فلم اُتار لی جائے اور پھر بعد میں اُس کو دنیا کے سامنے شائع کر دیا جائے اور بتادیا جائے کہ واقعات کیا تھے اور حکومت کے ایجنٹ کیا ظاہر کر رہے ہیں.اگر ایسا کیمرہ آپ لوگوں کے پاس ہوتا تو مزاحمت کرنے والوں کی ہر حرکت محفوظ رکھی جاسکتی تھی.جو تصویر میں لی گئی ہیں وہ ابھی میں نے نہیں دیکھیں معلوم نہیں وہ ٹھیک
خطبات محمود ۴۰۷ سال ۱۹۳۶ء آئی ہیں یا نہیں آئیں.لیکن اگر متحرک تصاویر والا آلہ ہو تو اس کے ذریعہ چلتا ہوا آدمی بھی نظر آ سکتا ہے، لاٹھی مارتا بھی دکھائی دے سکتا ہے، لاٹھی سے دھکیلتا ہوا بھی نظر آسکتا ہے، دوسروں کو فساد کیلئے اس رنگ میں انگیخت کرتا ہوا بھی نظر آ سکتا ہے کہ میاں آگے بڑھو اور فساد کرو.پس ایک تو جلد سے جلد اس قسم کا آلہ لے لو اور دوسرے آئندہ کیلئے اپنے دلوں میں یہ عہد کرو کہ تم پہلے خدا اور اُس کے اور رسول کی عزت قائم کرو گے اپنی عزتوں کے قائم کرنے کا خیال تمہیں بعد میں آئے گا.دیکھو! ایک بہت بڑا کام ہمارے سامنے ہے ہم نے دنیا میں پھر اسلام قائم کرنا ہے.وہ اسلام جسے آج ہر شان و شوکت سے محروم کر دیا گیا ، وہ اسلام جس کے ماننے والوں کی آواز.مشرق سے لے کر مغرب تک تمام کرہ ارض کا نپ جاتا تھا ، آج اس اسلام پر ایمان لانے والے دنیا میں ذلیل ترین وجود سمجھے جاتے ہیں.سکھوں کی تعداد کتنی قلیل ہے تمیں لاکھ سے وہ زیادہ نہیں اس کے مقابلہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد سات کروڑ ہے مگر تمیں لاکھ سکھوں کی آواز کے مقابلہ میں سات کروڑ مسلمانوں کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی حالانکہ ایک وقت وہ تھا کہ چند سو مسلمانوں کے سامنے تمام دنیا دم مارنے کی جرات نہ کرتی تھی.ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے وہ رُعب دیا ہے جو ہماری تعداد سے بہت زیادہ ہے اور ہماری دنیا میں مخالفت اسی لئے ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ان سے لوگ بہت ڈرتے ہیں اور یہ دنیا میں ایک دن پھیل کر رہیں گے مگر ہم اپنے رُعب سے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو صحابہ نے اُٹھایا.وہ ایک وجود پر ایمان لے آئے تھے اور اس کے بعد اس کے ہونٹوں کی طرف دیکھتے رہتے تھے کہ ان سے کیا آواز نکلتی ہے مگر ہم تو ابھی منافقوں میں ہی الجھ رہے ہیں.ایک منافق کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں فتنہ اٹھا اور دوسرے منافق کی وجہ سے ۱۹۳۶ء میں فتنہ اُٹھنے لگا ہے مگر یا درکھو اگر تقویٰ سے آپ لوگوں نے کام لیا اور میری اطاعت اور فرمانبرداری میں کام کیا تو ایک کیا دنیا بھر کی حکومتیں مل کر بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتیں.تم خدا کے ہو جاؤ اور اس کے احکام کو مانو پھر خدا تعالیٰ تمہارا ہو جائے گا اور اُس کا حکم تمہاری تائید میں ہو جائے گا اور کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ کے حکم کو توڑ سکے.جب خدا د نیا میں ایک ہوا چلا دے تو پھر دنیا کی کے دل خود بخود مرعوب ہونے لگتے ہیں.جیسے دریا کے کنارے پر کھڑا ہونے والا شخص اطمینان سے کھڑا ہوتا ہے کہ اچانک دریا کے پانی کی وجہ سے بھر بھری زمین دریا میں گر جاتی ہے اور وہ ی
خطبات محمود ۴۰۸ سال ۱۹۳۶ دھڑام سے پانی میں چلا جاتا ہے.اسی طرح جب خدا تعالیٰ آسمان سے اپنا روحانی پانی اُتارتا اور اس کی تائید میں دنیا میں ایک ہوا چلا دیتا ہے تو دنیوی شان وشوکت کی بڑی بڑی عمارتیں اسی طرح گر جاتی ہیں جس طرح دریا کے کنارے پانی کے زور سے گر جاتے ہیں.پس تقومی کرو، طہارت اختیار کرو اور سچائی سے کام لو.اب بھی میری نصیحت یہی ہے کہ جو شخص سچا احمدی ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ عَلَى الْإِعْلان اس کا اقرار کرے.اگر وہ اشتعال میں آکر مار بیٹھا ہے یا دوسرے کے مارنے پر اس نے مارا ہے تو وہ یا درکھے کہ خدا کے غضب سے زیادہ حکومت کا غضب نہیں ہوسکتا.جہنم کی چھوٹی سے چھوٹی سزا بھی دنیا کی بڑی سے بڑی سزا سے زیادہ ہیبت ناک ہے.یہاں کے جیل خانوں میں ایسے جرائم کی پاداش میں نو مہینے سال یا دو سال یا تین سال قید رکھا جاسکتا ہے لیکن جہنم کی قید اس سے بہت زیادہ لمبی اور بہت زیادہ تکلیف دہ ہے.پس سچائی تمہارا ہتھیار ہونا چاہئے اور راستی پر تمہارے ہر کام کی بنیاد ہونی چاہئے.وہ شخص جو چاہتا ہے کہ خدا کو خوش کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سچا پیرو کا رکہلائے وہ اقرار کرے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا.مت سمجھو کہ سچ بولنے کی وجہ سے تم قید ہو جاؤ گے اگر سچ کی وجہ سے تم قید ہوتے ہو تو خدا تعالیٰ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی.کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قید نہیں کئے گئے؟ کیا انہیں مارا اور پیٹا نہیں گیا اور کیا حضرت مسیح علیہ السلام کو دشمنوں نے صلیب پر نہیں لڑکا یا ؟ پھر تمہیں سچ کی وجہ سے قید ہونے میں کیا ڈر ہے.احمدیت کا نشان ہمیشہ یہ ہونا چاہئے کہ جو احمدی ہو وہ بیچ بولتا ہے اس سے دونوں فائدے ہوں گے.خدا تعالیٰ بھی خوش ہوگا اور آئندہ کیلئے کمزور طبع لوگ ایسی حرکات سے بھی اجتناب کریں گے کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر ہم نے کوئی خلاف اخلاق یا خلاف قانون حرکت کی تو ہم سے سچ بُلوایا جائے گا پھر کیوں نہ ہم اس حرکت کا ارتکاب ہی چھوڑ دیں.پس سچائی پر قائم رہو اور ا.کو یہ کہہ کر دھو کا مت دو کہ جھوٹ سے فتح ہو سکتی ہے.انگریز کی سزا کوئی سزا نہیں سزا وہ ہے جو خدا تعالی کی طرف سے اُترے.اسی طرح انگریز کا ساتھ کوئی ساتھ نہیں بلکہ ساتھ وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.پس بندوں کی طرف سے اپنی نگاہیں ہٹا لو اور خدا تعالیٰ کی طرف بلند کرو.
خطبات محمود ۴۰۹ سال ۱۹۳۶ء میں حیران ہوتا ہوں کہ نیشنل لیگوں نے یہ کیا اصل بنا رکھا ہے کہ فلاں جگہ کے احمدیوں پر ظلم ہو ا ہم اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے اور گورنمنٹ کو توجہ دلاتے ہیں.تم کس گورنمنٹ کو توجہ دلاتے ہو اور تمہارے کتنی بار توجہ دلانے پر اس نے توجہ کی ہے.بے شک چونکہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ایک حکومت قائم کی ہے اس لئے جس جگہ اس قسم کا کوئی واقعہ ہو وہاں کے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت کو اطلاع دیں اور مرکز کا بھی فرض ہوتا ہے کہ ان پر دشمنانِ سلسلہ کی طرف سے جو مظالم ہوتے ہیں ان کے انسداد کیلئے حکومت کو توجہ دلائے مگر یہ نیشنل لیگیں خواہ مخواہ بے فائدہ کیوں شور مچاتی رہتی ہیں.ان کو چاہئے کہ وہ بچی قربانی پیش کریں اور اپنے عمل سے سلسلہ کی عزت کی حفاظت کریں اگر وہ کام کرنا چاہیں تو قانون کے اندر رہتے ہوئے بیسیوں کام کر سکتیں اور اپنے بھائیوں کی مدد کر سکتی ہیں.مثلاً نیشنل لیگیں بجائے اس کے کہ یہ ریزولیوشن پاس کریں کہ ہم گورنمنٹ کو توجہ دلاتی ہیں اگر ہر نیشنل لیگ ایک ایک آدمی اپنے خرچ پر اپنے بھائیوں کی امداد کیلئے بھیج دیتی تو یہ ریزولیوشن کے ذریعہ گورنمنٹ کو توجہ دلانے سے ہزار درجے زیادہ بہتر تھا.پس سچی قربانی کرو اور فضول اور لغو باتیں چھوڑ دو کہ خدا تعالیٰ فضول اور لغو باتوں سے خوش نہیں ہوتا.یہ باتیں میں نے اتنی بار کہی ہیں کہ اب کہتے کہتے میرا گلا بھی اس قدر متورم اور ی زخمی ہو چکا ہے کہ خطبہ جمعہ اور اس کے بعد نماز میں قراءت بھی بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتا اور گلا بیٹھ جاتا ہے.پس میں تو اب اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ایسے لوگ مجھے عطا کرے جو بچے طور پر میری باتیں سن کر ان پر عمل کرنے والے ہوں.مجھے اس سے کیا فائدہ کہ لاکھوں آدمی میرے ساتھ ایسے ہوں جو میری باتوں پر عمل کرنے والے نہ ہوں.سچے مومن تو میرے ساتھ اگر دس میں ہوں تو وہی لاکھوں آدمیوں سے میرے لئے زیادہ خوشی کا موجب ہو سکتے ہیں.پس وہ قربانی کرو جو حقیقی قربانی ہو زبانی قربانی خدا تعالیٰ کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی.تم اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرو، دین کی خدمت میں اپنے آپ کو لگا ؤ اور زیادہ سے زیادہ اپنے اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.تبلیغ کیلئے باہر نکل جاؤ اور وہی جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدام میں داخل کرو پھر دیکھو کہ دنیا کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے یا نہیں بدلتا.
خطبات محمود ۴۱۰ سال ۱۹۳۶ء پس تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ اور دنیا کو خدا کے آستانہ پر جھکانے کی کوشش کرو اور یاد رکھو کہ جب خدا تعالیٰ ساتھ ہوتا ہے تو پھر دنیا کے لوگ خود بخو دساتھ ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک قصہ سنایا کرتے تھے.فرماتے تھے کوئی تاجر تھا جو باہر تجارت کیلئے جانے لگا تو اس کے پاس اپنی ضروریات سے زائد دو ہزار روپیہ تھا.اُس نے چاہا کہ وہ کسی کے پاس امانت رکھ کر جائے تا جب واپس آئے تو روپیہ اُس سے لے لے.یہ خیال آنے پر اس نے سوچا کہ سلطنت کے قاضی سے زیادہ اور کون معتبر ہو سکتا ہے اس کے پاس ہی روپیہ رکھوانا چاہئے.چنانچہ اس نے قاضی کے پاس تھیلی رکھوا دی.سفر سے واپس آکر جب اس نے قاضی سے روپیہ مانگا تو وہ صاف انکار کر گیا اور کہنے لگا مجھے تو تم نے کوئی روپیہ نہیں دیا تھا.وہ کہنے لگا میں آپ کو یاد دلاتا ہوں جب میں نے آپ کو روپیہ دیا تھا اُس دن اس قسم کی مجلس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے ، اس رنگ کی تھیلی تھی ، میں آیا اور آپ کو الگ کونے میں لے جا کر میں نے وہ تھیلی دی.قاضی یہ سب باتیں سن کر انکار کرتا چلا گیا کیونکہ گواہ کوئی موجود نہ تھا اور کہنے لگا نہ میاں تم نے مجھے کوئی روپیہ نہیں دیا.وہ حیران ہو کر واپس آ گیا اور سوچنے لگا اب روپیہ نکالنے کیلئے کونسی تدبیر اختیار کروں.آخر اسے یہ خیال آیا کہ بادشاہ کے پاس جا کر فریاد کروں.بادشاہ ہفتہ میں ایک دن مظلوموں کی فریاد سنا کرتا تھا وہ اس دن بادشاہ کو ملا اور تمام قصہ سنایا اس پر بادشاہ کہنے لگا کہ قاضی بھلا یہ بات کب مانے گا کہ اُس نے تمہارا روپیہ لیا ہوا ہے.اگر میں اس سے پوچھوں بھی تو چونکہ تمہارے پاس کوئی گواہ نہیں وہ کہہ دے گا کہ میں نے کوئی روپیہ نہیں لیا اگر اس کا دعویٰ درست ہے تو یہ گواہ پیش کرے اس صورت میں تمہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنا مشکل ہوگا اور پھر چونکہ اس طرح کی قاضی القضاۃ پر الزام عائد ہوتا ہے اور اس سے ہتک ہوتی ہے اور ممکن ہے وہ کہہ دے کہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے اسے سزا دی جائے.پس یہ طریق تو مفید نہیں کہ میں قاضی سے دریافت کروں ہاں میں تمہیں ایک اور تدبیر بتاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو روپیہ تمہیں مل جائے گا.میرا فلاں دن جلوس نکلنے والا ہے سارے درباری میرے استقبال کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کھڑے ہوں گے.قاضی القضاۃ بھی اپنے چبوترے پر کھڑا ہو گا تم اُس روز قاضی کے چبوترہ کے ایک طرف کھڑے ہو جانا.میرا جلوس جب وہاں سے گزرے گا تو میں تمہیں دیکھ کر اپنی سواری
خطبات محمود ۴۱۱ سال ۱۹۳۶ء کھڑی کرلوں گا اور تم سے اس بے تکلفی سے باتیں کروں گا جیسے تم میرے پرانے دوست ہو.تم بھی میری باتوں کے جواب میں بے تکلفی سے بات چیت کرنا اور گھبرانا نہیں.چنانچہ جب جلوس نکلا قاضی القضاۃ اپنے دوستوں سمیت چبوترے پر آ کر کھڑا ہو گیا.یہ دیکھ کر تا جر بھی ایک کونے میں کھڑا ہو گیا.جب بادشاہ کی سواری وہاں سے گزری تو اُس کے دل میں ارادہ تو پہلے سے ہی تھا تاجر کی شکل دیکھتے ہی اُس نے اپنا گھوڑا روک لیا ساتھ ہی تمام لوگ جو بازاروں میں ایک جلوس کی صورت میں چل رہے تھے کھڑے ہو گئے اور قاضی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر بادشاہ نے تاجر سے نہایت بے تکلفی سے گفتگو شروع کر دی اور کہا آپ مدت سے ہمیں نہیں ملے کیا بات ہے؟ تاجر کہنے لگا حضور! میں باہر تجارت کیلئے گیا ہوا تھا.بادشاہ پوچھنے لگا اچھا پھر کب آئے.تاجر کہنے لگا حضور ! چند دن ہو گئے ہیں.بادشاہ نے کہا ہمارے تمہارے اتنے گہرے تعلقات ہیں جب تمہیں یہاں آئے ہوئے چند دن ہو گئے ہیں تو ہم سے ملے کیوں نہیں ؟ وہ کہنے لگا حضور ! بندہ آپ کا غلام ہے میں تو چاہتا تھا کہ جلدی حضور سے ملاقات ہو مگر کچھ روپیہ کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے پریشانی رہی وہ جھگڑا ابھی تک جاری ہے کوئی فیصلہ نہیں ہوا.بادشاہ کہنے لگا یہ کونسی بڑی بات تھی فیصلہ بھی تو آخر ہم نے ہی کرنا ہوتا ہے تم ہمیں بتاتے اور ہم اُسی وقت روپوں کے جھگڑے کا فیصلہ کر دیتے.وہ کہنے لگا حضور! کی بڑی مہربانی ہے اگر تسلی بخش فیصلہ نہ ہوا تو پھر حضور کو تکلیف دینی پڑے گی.اب اِدھر بادشاہ تاجر سے گفتگو کر رہا تھا اور اُدھر قاضی القضاۃ کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے.یہ گفتگو کرنے کے بعد جب بادشاہ کی سواری آگے نکل گئی تو قاضی القضاة تاجر کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میاں تاجر ! ذرا ادھر آؤ مجھے تم سے ایک کام ہے.وہ تاجر آیا تو قاضی کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں بڑھا ہو گیا ہوں جس کی وجہ سے میرا حافظہ بہت کمزور ہے تم اپنی تفصیلی کا کوئی اتا پتہ بتاؤ ممکن ہے کوئی نشانی بتاؤ تو مجھے یاد آ جائے.اُس نے وہی باتیں بتائیں جو پہلے بتا چکا تھا کہ اس رنگ کی تھیلی ہے، فلاں مجلس سے میں نے آپ کو علیحدہ بلا کر یہ تھیلی پیش کی تھی.قاضی کہنے لگا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.یہ علامتیں تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتا ئیں وہ تھیلی تو محفوظ پڑی ہے.پس اگر بادشاہ کے ساتھ ہونے سے سارے لوگ ساتھ ہو جاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہو تو دنیا ہمارا مقابلہ کر سکتی ہے؟ دنیا ہرگز ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی.نہ ضلع
خطبات محمود ۴۱۲ سال ۱۹۳۶ء گورداسپور کی حکومت ، نہ پنجاب کی حکومت اور نہ ولایت کی حکومت اور نہ ساری دنیا کی حکومتیں ملکی کر ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں.پس آؤ ہم اپنے خدا کو خوش کریں اور ہماری تمام تر توجہ اس طرف ہو کہ ہم اس کے احکام پر عمل کریں پھر چاہے احراری ہوں یا حکومت کے کارندے کوئی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا.پس تم خدا کے ہو جاؤ اور اُسی پر توکل کرو.یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو کسی انسان کو دنیا میں حاصل ہو سکتی ہے.اگر یہ نعمت تمہیں حاصل نہیں تو پھر قید سے چھٹ جانا ایک معمولی بات ہے، قبرستان کا مل جانا ایک معمولی بات ہے بلکہ اگر حکومتیں تمہاری ہوں، پارلیمنٹیں تمہاری ہوں ، قانون تمہارے ہوں، تخت تمہارے ہوں اور ہٹلر اور مسولینی بھی اپنی بادشاہتوں کو چھوڑ کر انہیں تمہارے قدموں میں ڈال دیں لیکن تمہارا خدا تم سے ناراض ہو تو تم طاعون کے چوہے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ جس کا خدا دشمن ہو اُس سے زیادہ ذلیل اور ناپاک وجود اور کوئی نہیں ہوسکتا.ل الفاتحة: ٧،٦ النور : ۵۶ ( الفضل ۲۵ جون ۱۹۳۶ء ) ے موضوعات ملاعلی قاری صفحہ ۱۶، مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ میں اِتَّقُوا مَوَاضِعَ التُهُم کے الفاظ ہیں.بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد ۵ متی باب ۸ آیت ۲۰ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۹۴ ء ( مفہوماً) بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى و يوم حنين (الخ)
خطبات محمود ۴۱۳ ۲۳ سال ۱۹۳۶ قادیان کے احرار اپنے مُردوں کو ”پاک“ رکھنے کیلئے علیحدہ قبرستان بنانے کیلئے روپیہ باز مین لے لیں (فرموده ۲۶ جون ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - میرے گلے کی تکلیف ابھی تک بڑھتی چلی جارہی ہے اس وجہ سے میں درس بھی نہیں دے سکتا اور اب تو خطبہ بیان کرنا بھی سخت مشکل نظر آتا ہے گلے میں ایک ایسی تکلیف پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے آواز بولنے کے بعد بھر آ جاتی ہے اور پھر اونچا نہیں بولا جا سکتا اور گلے کے بائیں طرف کا حصہ ایساسن معلوم ہوتا ہے جیسے جسم کا کوئی حصہ سویا ہوا ہوتا ہے.پس ان حالات میں میں نہیں سمجھ سکتا کہ اپنی آواز دوستوں تک پہنچا سکوں گا یا نہیں اور کہ اپنے مضمون کو کماحقہ ادا کرسکوں گا یا اختصار سے کام لینا پڑے گا.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے بعض خیالات کا اظہار اس قبرستان کے متعلق کیا تھا جو قادیان کا بڑا قبرستان کہلاتا ہے اور جس میں قریباً ہر خاندان کے کچھ افراد مدفون ہیں.میں نے ذکر کیا تھا کہ اس قبرستان میں ہمارا ویسا ہی حق ہے جیسے دوسروں کا اور کسی کو یہ حق نہیں کہ ہماری جماعت کے مُردوں کو وہاں دفن ہونے سے روکے اور اپنے اس حق کو حاصل کرنے سے ہم کسی صورت میں باز نہیں رہ سکتے.اگر وہاں کسی کے دفن ہونے پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے تو وہ ہمیں
خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۳۶ ہوسکتا ہے کیونکہ اس قبرستان کی زمین ہمارے آباء کا عطیہ ہے مگر ہمارا یہ طریق نہیں کہ شرارت پر آمادہ ہوں اور اس قسم کا کوئی سوال اُٹھا ئیں.پس دوسروں کو اس قسم کا کوئی سوال حل کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس زمین کے مالک ہم ہیں پس اگر کوئی سوال اُٹھ سکتا ہے کہ اس میں دوسرے دفن نہ ہوں تو ہماری طرف سے اُٹھ سکتا ہے مگر نہ صرف یہ کہ ہم ایسے طریق کو نا پسند کرتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں اعلان کیا تھا اگر یہ قبرستان ختم ہو جائے اور ہمارے مخالفوں کے پاس مُردے دفن کرنے کیلئے جگہ نہ رہے تو میں انہیں اپنے پاس سے زمین دے دوں گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس پیشکش کے بعد بھی مقامی باشندوں کو کوئی اعتراض باقی رہے گا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے اس صلح و آشتی کے پیغام کا نتیجہ بجائے اچھا نکلنے کے اور بھی بُرا نکلا ہے یعنی بجائے اس کے کہ وہ میری اس پیشکش پر مطمئن ہوتے اور تسلی پا جاتے یہاں بعض جلسے کئے گئے ہیں جن میں بعض مقامی باشندوں اور بعض احرار کے باہر سے بھیجے ہوئے آدمیوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ احمدی نجس ہیں اور ان کے نجس اجسام کے ساتھ ہمارے پاک جسم جمع نہیں ہو سکتے.گالیاں دینا آسان کام ہے اور جن کی طبیعت میں شرافت نہیں ہوتی وہ گالیاں دے لیتے ہیں پس ان گالیوں کی میں چنداں پرواہ نہیں کرتا.نجس یا نا پاک کہہ لینا انسان کے اپنے اختیار میں ہے خدا تعالیٰ نے زبان دی ہے مگر اسی زبان سے بعض لوگ خدا کو گالیاں دے لیتے ہیں.پس جو زبان اپنے پیدا کرنے والے کو گالیاں دے سکتی ہے وہ اگر میرے یا میرے باپ دادا کے احسانات یا جماعت کی مصالحانہ تدابیر و پیشکش کو ٹھکرا دے تو اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں.پس ان کے اس رویہ پر مجھے حیرت نہیں ہوئی اس لئے کہ انسان جب بغض میں مبتلاء ہو جاتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیا ہی کرتا ہی ہے.اس وقت میں اس سوال میں نہیں پڑتا کہ نجس وہ لوگ ہیں یا ہم ہیں کیونکہ عقائد کے اختلاف کی وجہ سے اس بارہ میں بھی ضرور اختلاف رہے گا.ایک مسلمان کے نزدیک عیسائی اور عیسائی کے نزدیک ، مسلمان نجس ہے.ایک ہندو، مسلمان اور عیسائی کو نجس خیال کرتا ہے اور مسلمان و عیسائی ہند و کو نجس سمجھتے ہیں اور یہ نجاست و پاکیزگی کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ بعض عیسائی اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی کیوں کہا جاتا ہے یہ ان کی ہتک ہے کیونکہ وہ خدا کے.
خطبات محمود ۴۱۵ سال ۱۹۳۶ ہیں.اسی طرح بعض ہندو اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ حضرت کرشن کو نبی کیوں کہا جاتا ہے وہ تو اوتار ہیں.پس اس نجاست اور طہارت کا سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا اس لئے اس بحث میں پڑ کر فیصلہ کی خواہش ایک ایسا طول امل ہے کہ اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا اس لئے اس بحث میں میں نہیں پڑتا اور اس کے دوسرے حصہ کو لیتا ہوں کہ آیا وہ نجاست و طہارت جو دنیا میں انسان کے ساتھ لگی ہوتی ہے قبر میں بھی ساتھ جاتی ہے.سویا درکھنا چاہئے کہ بعض جذباتی چیزیں ہوتی ہیں جو جذبات کی حد پر جا کر رہ جاتی ہیں انہیں حقیقت کی انتہاء تک ہم نہیں لے جاسکتے.احرار کا نجاست اور طہارت کا دعوی ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سیڈ سفر پر روانہ ہوا تو جیسا کہ پرانے زمانہ میں قاعدہ تھا میراثی خدمت گزاری کیلئے ساتھ تھا ایک جگہ وہ رات کو پہنچے اور سرائے میں گئے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سب چار پائیاں ہے ڑکی ہوئی ہیں.ادھر سخت بارش کی وجہ سے کیچڑ بہت تھی.میراثی نے سخت محنت اور جستجو سے ایک چار پائی مہیا کی اور لا کر اسے سید صاحب کیلئے بچھا دیا.سید صاحب اس پر بیٹھ گئے اور پائنتی کی طرف میراثی بھی سکڑ کر بیٹھ گیا.اس پر سید صاحب غصہ میں آگئے اور لال پیلے ہو کر کہنے لگے کہ بے حیا! تجھے شرم نہیں آتی ہمارے برابر بیٹھتا ہے.میراثی غریب آدمی تھا ڈر گیا اور عرض کیا حضور غلطی ہوگئی پھر ایسا نہ ہوگا اور نیچے زمین پر کیچڑ میں بیٹھ گیا.دوسرے دن پھر وہ ایک سرائے میں پہنچے اور اتفاق سے وہاں بھی کوئی چار پائی فارغ نہ تھی.میراثی نے تلاش بہت کی مگر ایک چار پائی بھی نہ مل سکی آخر وہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ کے بعد ہاتھ میں پھاوڑہ لئے ہوئے داخل ہوا اور بغیر کچھ کہے سنے زمین کھود نے لگ گیا.سید صاحب نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا حضور ! چار پائی تو ملی نہیں اس لئے میں اپنے لئے جگہ بناتا ہوں.سید صاحب نے پوچھا اس کا مطلب؟ تو میراثی نے جواب دیا کہ آپ تو زمین پر بیٹھیں گے اور میں اپنے لئے گڑھا کھودتا ہوں تا برابری نہ ہو جائے کیونکہ میں آپ کے برا بر تو بیٹھ نہیں سکتا.یہ مثال زبر دست اور زیر دست کی ہے.دوسرے مسلمان چونکہ تعداد میں زیادہ احمدیوں پر اسی طرح حکومت کرنا چاہتے ہیں.قادیان میں ان کی اقلیت ہرگز انہیں اقلیت نہیں بناتی کیونکہ اقلیت سیاسی حلقہ کے لحاظ سے ہوتی ہے نہ کہ مختلف شہروں یا قصبوں کے لحاظ سے.پس وہ
خطبات محمود ۴۱۶ سال ۱۹۳۶ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ احمدی نجس ہیں اور ہم پاک ہیں در حقیقت وہ اپنی تعداد اور طاقت کے بل پر ایسا کہہ رہے ہیں.ان سے کوئی پوچھے کہ دنیا میں جو نجاست یا طہارت ہوتی ہے وہ قبرستان کے کتنے فاصلہ تک انسان کے ساتھ جاتی ہے.اس قبرستان کی مثال بہشتی مقبرہ کی تو ہو نہیں سکتی جس کی میں دفن ہونا بعض خاص اعمال کے ساتھ وابستہ ہے اور پھر اس کے بارہ میں بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کی زمین پاک نہیں کرتی بلکہ وہ شرائط پاک کرتی ہیں جو تقوی اور قربانی کے متعلق اس میں دفن ہونے والوں کیلئے مقرر ہیں.پس یہ زیر بحث قبرستان عام قبرستانوں کے مشابہہ ہے.پس عام قبرستانوں کی حالت کو مدنظر رکھ کر ان لوگوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہاں جا کر کونسی پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے.سب قبریں تو خدا کی زمین میں ہیں اور اس زمین میں بہر حال احمدی دفن ہوتے رہیں گے.اس لئے احرار کو چاہئے کہ خدا کی زمین کے سوا کوئی اور جگہ اپنی قبروں کیلئے تلاش کریں یا فیصلہ کرلیں کہ پارسیوں یا ہندوؤں کی طرح اپنے مُردوں کا خاتمہ کیا کریں.کیونکہ اس زمین میں تو احمدیوں نے بھی دفن ہونا ہے.پھر سوال یہ ہے کہ کیا زندگی میں پاکیزگی اور طہارت کا اور معیار ہے اور موت کے بعد اور؟ زندگی میں انسانی روح جسم کے اندر ہوتی ہے اس لئے ہم بد صحبت سے لوگوں کو روکتے ہیں اور بُرے لوگوں کے پاس نہیں بیٹھنے دیتے کیونکہ زندگی ایک مدرسہ ہے اور سیکھنے کا زمانہ ہے.دماغ سوچتا ہے اور کان دوسرے سے بُری باتیں سنتے ہیں اور انسان وہ باتیں سن کر ان کی نقل کر سکتا ہے.آنکھیں دیکھتی ہیں اور اس لئے بُرے لوگوں کے پاس بیٹھ کر ان کے بُرے کاموں کو دیکھ کر انسان ان کے عادی ہو سکتے ہیں کیونکہ روح کا جسم سے تعلق موجود ہوتا ہے لیکن جب روح جسم سے جدا ہو جائے تو پھر جسم خواہ کہیں پڑا رہے اور اچھے اور بُرے لاشوں کے اکٹھے پڑا رہنے میں کوئی حرج نہیں ہوسکتا.خدا کا زلزلہ کوئٹہ میں آیا اور انہی مکانوں کی چھتوں کے نیچے کنچنیاں دب گئیں اور انہی کے نیچے نمازی اور نیک لوگ، مسلمان بھی وہیں پڑے رہے اور غیر مسلم بھی ، خدا نے تو کوئی فرق نہ کیا بلکہ سب کو ایک ہی جگہ دفن کر دیا.یہ نہیں کیا کہ نیک اور بزرگ لوگوں کو الگ کر لیا ہو اور کچنوں اور بدکاروں کو الگ.خدا تعالیٰ کے ماننے والے اور اس کو گالیاں دینے والے بد کار اور نیکو کا رسب وہیں دفن تھے.اس خدائی قبرستان میں کوئی امتیاز نہ تھا ہاں اگر اس نے کوئی
خطبات محمود ۴۱۷ سال ۱۹۳۶ امتیاز کیا تو وہ احمدیوں سے کیا کیونکہ توے فیصدی احمدی بچ گئے جبکہ نوے فیصدی دوسرے لوگ مر گئے.پس اگر کسی امتیاز کا خدا تعالیٰ نے اظہار کیا تو احمدیوں کیلئے کیا اور انہیں دوسروں سے علیحدہ کر لیا باقی سب کو اکٹھا ہی دفن کر دیا.تو یہ عجیب بات ہے کہ زندگی میں تو یہ لوگ ہمارے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں حتی کہ ہم پر یہ جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ ہم انہیں قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اگر احمدی واقعہ میں ان معنوں میں نجس ہیں جن میں احراری انہیں پیش کر رہے ہیں تو ان کو چاہئے تھا کہ خود بخود ہی پاؤں کی خاک جھاڑ کر یہاں سے نکل جاتے مگر زندگی میں تو وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور رہنے پر مصر ہیں جبکہ ہم ان پر اپنا اثر ڈال سکتے ہیں مگر مُردوں کا ایک جگہ دفن ہونا وہ گوارہ نہیں کر سکتے.کیا وہ سمجھتے ہیں کہ احمدی مُردہ قبر میں احراری مُردے کو وفات مسیح کا قائل کرلے گا یا ختم نبوت کا مسئلہ سمجھا دے گا ؟ جہاں بقول ان کے ان کے ایمانوں میں خلل پڑسکتا ہے اور پڑتا رہتا ہے کیونکہ ہمیشہ ان کے آدمی تبلیغ سے متاثر ہو کر احمدیت میں داخل ہوتے رہتے ہیں وہاں تو ساتھ رہنے کیلئے زور لگاتے ہیں حتی کہ ساری دنیا تھی تو چھوڑ کر جلسوں کیلئے بھی احرار قادیان ہی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جس عالم میں احمدی ان کو اپنے عقیدہ سے پھر انہیں سکتے وہاں ان کی صحبت سے ڈرتے ہیں.اگر ہمارے ساتھ رہنے کو یہ لوگ اپنے لئے اتنا ہی بُرا سمجھتے تو چاہئے تھا کہ لاہور میں احرار ایک جلسہ کر کے ہمارا شکر یہ ادا کرتے کہ یہ لوگ ہمارے بھائیوں کو گندی جگہ سے باہر لاتے اور ان کی روحانی زندگی کو خطرہ سے بچاتے ہیں نہ کہ خواہ مخواہ ہم پر یہ الزام لگا کر شور مچاتے کہ احمدی ہمیں قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں.پھر یہ امر قابل غور ہے کہ یہ پاکیزگی اور نجاست کا سوال اب کیوں پیدا ہوا.احمدی تو برابر پچاس سال سے اس قبرستان میں دفن ہوتے آئے ہیں اور ان کے مُردے بھی وہیں دفن کی ہوتے رہے ہیں پھر پچاس سال کے بعد اب کونسی نئی پاکیزگی ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے.کیا وہ ای پاکیزگی احرار کا وجود ہی تو نہیں.عجیب بات ہے کہ احرار کے یہاں آنے سے قبل یہ سوال پیدا نہیں ہوا بلکہ ان کے آنے کے بعد بھی نہیں ہوا اور ایک لمبے عرصہ کے بعد اب پیدا ہوا ہے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے موجب اور ہیں، اس کی پشت پر بعض اور لوگ ہیں جن کیلئے فتنہ کے اور سب دروازے بند ہو گئے تو انہوں نے یہ جھگڑا شروع کر دیا ورنہ پچاس سال تک یہ
خطبات محمود ۴۱۸ سال ۱۹۳۶ خیال کیوں نہیں پیدا ہوا.کیا ان کو ہمارے عقائد کا اس سے قبل علم نہ تھا ؟ کیا ہمارے متعلق مولویوں کے فتوؤں سے وہ اس سے قبل آگاہ نہ تھے ؟ پھر احرار بھی یہاں قریباً دو سال سے ہیں اس عرصہ میں ان کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ عید گاہ اور قبرستان کا سوال اُٹھا ئیں.صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس فتنہ کے پس پردہ اور انگلیاں ہیں جو حرکت کر رہی ہیں.یہ انسان نہیں بلکہ ئے بولتی ہے جس کے پیچھے کسی اور کے ہونٹ ہیں اس وجہ سے میں ان کو معذور سمجھتا ہوں کیونکہ یہ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ انہیں دوسرے لوگ بلوار ہے ہیں مگر میں ان کو یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ ان کے اعلانات کی وجہ سے اپنے حق کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتی.اگر حکومت ہمیں جبرا روک دے گی تو اگر چہ ہم قانون کی پابندی کریں گے اور اس کے حکم کو نہیں توڑیں گے مگر قانونی طور پر اپنے حق کو حاصل کرنے کیلئے پوری کوشش کریں گے اور ہر جائز ذریعہ ان لوگوں کو تباہ کرنے کا استعمال کریں گے جو ہمارے جائز حقوق کے راستہ میں کھڑے ہوں گے.اگر چہ ہم قانون کی پابندی کریں گے مگر ایذاء کو دور کرنے کیلئے شریعت اور قانون نے ہمیں جن ذرائع کے استعمال کرنے کی اجازت کی دی ہے انہیں ضرور استعمال کریں گے اور دنیا دیکھ لے گی کہ ہمارا حق حاصل ہو کر رہے گا اور دشمن کو نامرادی اور ذلت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا.مگر میری طبیعت کا رحم اور اسلامی شفقت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں ان کے سامنے ایک آسان تجویز پیش کروں.اس قبرستان میں تو ان کا اور ہمارا دونوں کا حق ہے اور دونوں میں سے کسی کا حق بھی باطل نہیں ہوسکتا.احرار دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے اٹھارہ گھماؤں زمین قادیان میں خریدی ہوئی ہے اگر چہ وہ ہمیں نظر تو نہیں آتی کہ کہاں ہے اور نہ سرکاری کاغذات میں سے اس کا پتہ چلتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ خریدی ہوئی ہے.اب جن مقامی غیر احمدیوں کا خیال ہے کہ وہ پاک ہیں اور احمدی نجس ہیں وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کے تمام افراد کے نام الگ لکھ لیں کیونکہ بعض ایسے غیر احمدی بھی ہیں جو یہ سوال نہیں اُٹھاتے وہ ای ہمارے ساتھ ہی دفن ہوتے رہے ہیں، ہوتے ہیں اور آئندہ ہونے کیلئے تیار ہیں، ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو احرار کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور انہی کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے ایسے لوگ اپنے اور اپنے خاندانوں کے جملہ افراد کے نام لکھ کر حکومت کے حوالہ کر دیں اور لکھ دیں کہ وہ قبرستان میں ہمارے ساتھ دفن نہیں ہو سکتے.احرار اپنی خرید کردہ زمین میں سے ایک
خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۶ گھماؤں زمین قبرستان کیلئے ان کو دے دیں اس زمین کی قیمت میں ادا کر دوں گا.کیا وہ نا پا کی کالی سوال پیدا کرنے والے اتنا اخلاص بھی ان لوگوں سے نہیں رکھتے کہ ان کے مُردوں کو نا پاک اور جہنمی بننے سے بچانے کیلئے قیمت لے کر ایک گھماؤں زمین دے دیں.احرار کی خریدی ہوئی اور سکھوں سے لی ہوئی زمین سے زیادہ مقدس زمین بھلا اور کون سی ہوسکتی ہے.ایسی پاک زمین میں جا کر ان کے پاک مُردے اور بھی پاک ہو جائیں گے اور پھر اس کی قیمت بھی میرے جیسے دشمن کی جیب سے ، نکلے گی.اس سے زیادہ مفید صورت ان کیلئے اور کوئی نہیں ہوسکتی وہ اسے مان لیں خواہ مخواہ ہماری ضد میں آکر اپنے مُردے پلید کرنے سے کیا فائدہ.اگر واقعی ایمانداری سے ان کا دعوی ہے کہ وہ قبرستان ناپاک ہو گیا ہے تو کون عقلمند وہاں اپنے مُردے پلید کرنے کیلئے تیار ہوسکتا ہے محض اس لئے کہ اس زمین پر اپنا قبضہ درست ثابت کر سکے ایسی نا پاک زمین میں مُردے کو دفن کرنے سے تو بہتر ہے کہ اُسے جانور کھا جائیں کیونکہ مُردے کے ناپاک ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ جہنمی ہے اور ہر عقلمند مُردے کو جہنمی بنانے کی نسبت یہ زیادہ پسند کرے گا کہ اسے جانور کھا جائیں.پس اگر ان کا دیانتداری سے یہ خیال ہے کہ ان کے مُردے ناپاک ہو جاتے ہیں تو انہیں میری اس تجویز پر عمل کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے.ایک گھماؤں زمین احراران کے حوالہ کر دیں اور اس کی قیمت میں ادا کر دوں گا.میرے نزدیک یہاں ساٹھ ستر خاندان احراری ہوں گے ممکن ہے کچھ زیادہ ہوں وہ اس اقرار پر دستخط کر دیں کہ آئندہ کیلئے وہ اس قبرستان سے دست بردار ہوتے ہیں اور اس قبرستان میں بحصہ رسدی ان کے حصہ میں جتنی زمین آتی ہے وہ اگر ایک گھماؤں سے زیادہ ہو گی خواہ دس ہیں گھماؤں ہو تو اتنی اور اگر ایک گھماؤں سے کم حصہ ان کا نکلتا ہوگا تو کم سے کم ایک گھماؤں زمین میری طرف سے ان لوگوں کو اغراض قبرستان کیلئے دے دی جائے گی.اس حصہ کی تعیین کر لی جائے اور اس کے مطابق زمین جو ایک گھماؤں سے کسی صورت میں کم نہ ہوگی میں دینے کیلئے تیار ہوں.جس کی صورت یہ ہوگی کہ جس قدر زمین کا فیصلہ ہو اس قدر زمین اپنی گزشتہ خرید کردہ زمین میں سے ان لوگوں کو دے دیں اور اس کی قیمت مجھے سے لے لیں.اس زمین میں قادیان کے احرار اور ان کے ساتھی اپنا قبرستان بنالیں اور اس کے بعد پھر ان کو قادیان کے اس قبرستان میں یا کسی دوسرے مشترک قبرستان میں جہاں احمدی دفن
خطبات محمود ۴۲۰ سال ۱۹۳۶ ہوتے رہے ہیں دفن ہونے کا کوئی حق نہ ہوگا.یہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ان کے حصہ میں ایک گھماؤں سے کم زمین آئے گی تو حسنِ سلوک کا نمونہ پیش کرنے کیلئے میں ایک گھماؤں زمین کی قیمت احرار کو دے دوں گا تا کہ کم سے کم ایک گھماؤں کا قبرستان ہو اور ان لوگوں کو لمبے عرصہ تک پھر قبرستان کی فکر نہ کرنی پڑے اور اگر اُن کا حصہ زیادہ ہے تو اتنی زمین کی جو ان کے حصہ میں آتی ہوتی قیمت ادا کر دوں گا.لیکن اگر ان کے دوست اور ان کو اُکسانے والے جن کے پاس مسلمانوں کے چندے سے ہی خریدی ہوئی زمین موجود ہے مجھ سے قیمت لے کر بھی ان کو زمین دینے کیلئے تیار نہ ہوں تو وہ مجھے لکھ دیں کہ احرار قیمتا بھی ہمیں زمین نہیں دیتے پھر میں ان کو خو دزمین دے دوں گا.یہ بہترین تجویز میں نے ان کو مر دے پاک کرنے کی بتائی ہے اور اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو دنیا کی سمجھ لے گی کہ پا کی اور ناپاکی کا سوال محض ایک ڈھونگ ہے جو دنیا کو دھوکا دینے کیلئے رچایا گیا ہے ورنہ حقیقتاً ہمارے ساتھ دفن ہونے کو وہ اپنے لئے پاکیزگی کا موجب سمجھتے ہیں جبھی تو دور جانے کیلئے تیار نہیں ہیں.وہ یقین رکھتے ہیں کہ شاید احمدیوں کے طفیل ہمارے مُردے بھی امن پا جائیں ور نہ ایسی سہل تجویز پر ضرور عمل کرتے.میں پھر خلاصہ اپنی تجویز دُہرا دیتا ہوں.میری تجویز یہ ہے کہ ایسے احراری خاندان احرار کی خرید کردہ زمین میں سے جتنی زمین ان کے حصہ میں اس قبرستان سے آتی ہے لے لیں اور قیمت میں دوں گا ، ہاں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر ان کے حصہ میں دو چار کنال ہی آتی ہوگی تو میں ایک گھماؤں ضرور لے دوں گا.اور اگر گھماؤں سے زیادہ ہوگی تو اتنی ہی لے کر دوں گا جتنی ان کے حصہ میں آتی ہوگی لیکن ایسے لوگوں کو اپنے اور اپنے خاندانوں کی ایک فہرست گورنمنٹ میں دینی ہوگی کہ آئندہ ہمارا دوسرے قبرستانوں سے کوئی تعلق نہ ہوگا، باقی جو غیر احمدی رہ جائیں گے ان کو پھر کبھی ایسا سوال اُٹھانے کا حق نہیں ہوگا کہ احمدی یہاں دفن نہیں ہو سکتے اور جو اس فہرست میں شامل ہوں گے انہیں یہ حق نہ ای ہوگا کہ اپنے مُردے اس قبرستان یا کسی دوسرے قبرستان میں جہاں احمدی اپنے مُر دے دفن کرتے ہیں لے جائیں.یہ دو تجویزیں میں قادیان کے غیر احمدی باشندوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اپنی ذات کی طرف سے کرتا ہوں.یعنی اس کا بوجھ جماعت احمدیہ پر نہیں بلکہ میری ذات پر ہوگا.اب قادیان کے احرار کو چاہئے کہ وہ مرکز احرار کو لکھیں کہ ہمیں پہلے علم نہ تھا اب آپ نے بتایا ہے
خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۳۶ کہ ہمارے مُردے احمدی مُردوں کے ساتھ دفن ہونے سے ناپاک ہو جاتے ہیں، آپ نے یہاں کی اٹھارہ گھماؤں زمین خریدی ہوئی ہے قادیان کے مرزا صاحب روپیہ دیتے ہیں جو آپ لے کر ایک گھماؤں زمین ہمارے قبرستان کیلئے الگ کر دیں.اگر مرکز احرار اس پر تیار ہو تو وہ سرکاری طور پر زمین رجسٹری کرا کر روپیہ مجھ سے لے لیں.اگر ایک گھماؤں سے زیادہ حق ثابت ہو تو اتنی زمین کی قیمت مجھ سے لے لیں.یہ قبرستان ان کیلئے بہت زیادہ پاکیزگی کا موجب ہوگا کیونکہ احرار کے رو پیر اور مقدس لوگوں سے خریدی ہوئی زمین میں ہوگا اور اگر ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ احراری منہ سے ان کو پا کی اور ناپا کی تو بتاتے ہیں مگر اس کے حاصل کرنے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرتے اور انہیں پتہ لگ جائے کہ وہ چندوں کا روپیہ اپنی جیبوں میں ڈالنا اور اپنے کام میں لانا چاہتے ہیں مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتے تو وہ مجھے لکھ دیں کہ احرار ہماری مدد کیلئے تیار نہیں اور قیمتا بھی ہمیں جگہ نہیں دیتے.اس کے بعد میں ایک گھماؤں یا اس سے زیادہ جتنی ان کے حصہ میں آتی ہو اپنی زمین میں سے یا خرید کر پہلے قبرستان سے الگ مگر اسی طرف ان کو دے دوں گا.پھر وہ ہے خاندان اس قبرستان میں دفن ہو سکیں گے کسی اور قبرستان میں دفن کرنے کا ان کو حق نہ ہوگا.ہاں ایک شرط ضروری ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ احرار نے قیمت زمینداروں کو دی کم ہے مگر لکھوائی زیادہ ہے اس لئے انہیں حلفیہ بیان دینا ہوگا کہ ہم نے اتنی ہی قیمت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھانے کے بعد وہ جتنی قیمت بتائیں گے میں دے دوں گا.اگر تھوڑی دی ہوگی تو اتنی ہی مجھ سے لے لیں.میں نہیں سمجھتا دنیا کوئی انسان اس سے زیادہ حسنِ سلوک کسی سے کر سکتا ہے.حکومت مائی باپ کہلاتی ہے مگر وہ بھی ایسا سلوک نہیں کرتی بلکہ ہمیں آنکھیں دکھاتی.اور کہتی ہے کہ تمہارے پاس کئی قبرستان میں تم اس قبرستان میں اپنا حق چھوڑ دو اور یہ قبرستان ان کی یوں کیلئے رہنے دو.کوئی پوچھے کہ صاحب حیثیت وہ ہے یا میں ہوں ؟ وہ سارے ہندستان کی مالک ہے، افریقہ اور دوسرے براعظموں میں بھی اس کی ملکیت ہے، ایک چھوٹے سے بنجر علاقہ سے نکل کر وہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے، اگر ان لوگوں کا درد اسے اس قدرستا رہا ہے تو کیوں اپنے پاس سے ان کو زمین نہیں دے دیتی.پھر احراری آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندے ہیں اور ان کے بھائی ہیں وہ کیوں مدد نہیں کرتے لیکن میں تو پھر بھی تیار ہوں اگر ان کے مائی باپ یعنی
خطبات محمود ۴۲۲ سال ۱۹۳۶ حکومت پنجاب کے وہ افسر جو احرار کی ہمدردی میں گھلے جارہے ہیں اور ہمارا اپنے حقوق لینا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ان کی مدد نہ کریں، ان کے بھائی یعنی احرار ان کی طرف توجہ نہ کریں، تو وہ تھی میرے پاس آئیں میں پھر بھی ان کی مدد کروں گا.میں دولتمند نہیں ہوں بے شک قادیان کے مالکوں میں سے ہوں اور اس کے علاوہ بھی تین گاؤں کا ہمارا خاندان مالک ہے مگر آمد کے لحاظ ہم دولت مند نہیں ہیں تا ہم جب مائی باپ مدد سے ہاتھ اُٹھا لیں اور جب برا در پیٹھ دکھا جائیں اُس وقت میں جو ان کے خیال میں ان کا دشمن ہوں ان کی مدد کروں گا اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ حُسنِ سلوک اور کیا ہو سکتا ہے.لیکن اگر وہ پھر بھی شرم و حیا سے کام نہ لیں تو میں سوائے اس کے کیا کہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا علاج کرے انسان کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں.یہ دو تجویز میں پیش کر کے میں انتظار کروں گا کہ وہ کس تجویز پر عمل کرتے ہیں لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں ہنسی اور تمسخر کی کوئی تجویز سنے کیلئے تیار نہیں ہوں.مثلاً کوئی ایک شخص مجھے لکھ دے کہ میرے لئے علیحدہ قبرستان کا انتظام کر دو تو میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں.یہ اسی صورت میں میں مانوں گا کہ سب کے سب احراری باشندے یہ لکھ دیں اور پھر ان میں سے آئندہ کسی نئے یا پُرانے شخص کو اختیار نہیں ہوگا کہ اس جتھہ میں شامل ہو.یا کوئی اعتراض دوسرے قبرستانوں کے متعلق کرے اور کوئی احراری اس جتھے سے باہر نہ رہ سکے گا.اس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ احراری قادیان کے کتنے لوگوں کے نمائندہ ہیں.یا کیا وہ واقعہ میں ہمارے ساتھ ایک قبرستان میں دفن ہونے کو اپنے لئے موجب ناپا کی خیال کرتے ہیں.اگر کوئی غیر احمدی ان کے ساتھ شامل نہ ہونا چاہے تو بے شک نہ ہو مگر یہ حق کسی کو نہیں ہوگا کہ بعد میں پھر بدل جائے.جو اب علیحدہ ہو جائیں گے وہ علیحدہ رہیں گے اور جو ہمارے ساتھ ہوں گے وہ ہمارے ساتھ شامل رہیں گے اور باقاعدہ قانونی تدابیر کے بعد میری ان تجاویز پر عمل ہوگا.ان دونوں میں سے جو تجویز وہ بہتر سمجھیں مان لیں ، احرار سے زمین لے لیں جس کی قیمت میں دے دوں گا ، یا مجھے دیں کہ وہ نہیں دیتے تو میں خود خرید کر یا اپنی پرانی زمینوں میں سے ان کو دے دوں گا.اس کے بعد میں خطبہ کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ میں نے انتہائی صورت ان کو خوش کرنے کی پیش کر دی ہے اور اپنی طرف سے انتہائی تذلل کا اظہار کر دیا ہے.اس کے باوجوداگر
خطبات محمود ۴۲۳ سال ۱۹۳۶ وہ نہ سمجھیں تو یاد رکھیں کہ میرا یہ تذلل اور صلح پسندی اس لئے نہیں کہ میں کسی سے ڈرتا ہوں.میں نہ اُن سے ڈرتا ہوں نہ اُن کے مددگار حکام سے.میں صرف خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اُسی کی خوشنودی اور اسلام کی طرف سے نیک نمونہ پیش کرنے کیلئے یہ تجویز پیش کر رہا ہوں.اب اس کے با وجود جو شخص صلح کیلئے تیار نہیں وہ یادر کھے کہ ہم لڑائی کیلئے بھی تیار ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی طرح جھوٹ اور قانون شکنی سے کام نہ لیں گے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دشمن ہمیں ہر میدان میں کامیاب پائیں گے.انشَاءَ اللهُ ( الفضل یکم جولائی ۱۹۳۶ء)
خطبات محمود ۴۲۴ ۲۴ سال ۱۹۳۶ تم اس مقام پر کھڑے ہو جاؤ کہ دنیا تمہاری نقل کرے (فرموده ۳/ جولائی ۱۹۳۶ ء ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - کئی ہفتے ہوئے ہیں میں اعمال صالحہ کے متعلق مضمون بیان کر رہا تھا کہ ہمارے عقائد میں ہماری جماعت کی کوششیں نہایت بار آور اور کامیاب ثابت ہوئی ہیں.ہمارے عقائد کی صحت کو ہمارے دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا، کھلے طور پر اپنا لیا اور اختیار کر لیا ہے اس کے مقابلہ میں اعمال کے بارہ میں ہماری جماعت کی کوششیں ایسی بار آور اور کامیاب نہیں ہیں حتی کہ غیر تو غیر خود اپنی جماعت کے لوگ بھی یہ مانتے ہیں کہ اس بارہ میں ہمیں وہ مقام حاصل نہیں کہ جو دنیا کیلئے نمونہ کہلا سکے حالانکہ ارادہ اور نیت اعمال کے متعلق بھی ویسا ہی موجود ہے جیسا کہ عقائد کی درستی کیلئے.پس جب محرک یکساں طاقت کا موجود ہے تو ایک جگہ ارادہ کا کم سے کم اثر اور دوسری جگہ زیادہ سے زیادہ اثر بتاتا ہے کہ بیرونی مخالفت ایک کی کم اور دوسرے کی زیادہ ہے.دنیا میں کام کرنے کی دقتیں دو ہی ہیں ایک قوت مؤثرہ کی کمی اور دوسرے قوت متاثرہ کی کمی.یا تو ناکامی اس لئے ہوتی ہے کہ کام کے پیچھے قوت ارادی اتنی مضبوط نہیں ہوتی جس کے ذریعہ وہ کام ہو سکتا ہے یا پھر قوت ارادی تو ہوتی ہے مگر بیرونی مخالفت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس پر غالب آجاتی ہے.مثلاً ایک طالب علم ہے وہ ارادہ کرتا ہے کہ سبق یاد کرے مگر ایک اور طالب علم ہے جو سبق یاد کر نے کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور جب وہ ارادہ نہیں کرتا تو کوشش بھی نہیں کرتا.پس ان
خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۳۶ میں سے ارادہ کرنے والا سبق تو یاد کر لے گا اور نہ کرنے والا نہیں کرے گا.دوسری صورت کی کی مثال یہ ہے کہ ایک طالب علم ارادہ تو کرتا ہے مگر اس ارادہ کے مقابلہ میں جو کام اس کے سپر د ہے وہ زیادہ ہے.طالب علم سبق یاد کرنے کا ارادہ تو کرتا ہے مگر استاد بیوقوفی سے ایسی کتاب کا سبق اسے دے دیتا ہے جس کا وہ اہل نہیں.مثلاً پرائمری کے طالب علم کو ایم.اے کی کوئی کتاب پڑھاتا ہے اب یہاں ارادہ تو ہے مگر کام اتنا مشکل ہے کہ ارادہ اس پر غالب نہیں آسکتا یا ارادہ تو ہے مگر حافظہ اتنا خراب ہے کہ اس کی خرابی ارادہ پر غالب آجاتی ہے.اس لئے جب تک ارادہ کی طاقت اور نہ بڑھ جائے یا جب تک اس سے زیادہ حافظہ پیدا نہ کیا جائے اُس وقت تک سبق یاد نہ ہوگا.یا مثلاً حافظہ بھی اچھا ہے ارادہ بھی ہے مگر طالب علم کسی جگہ ملازم ہے اور اسے اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ سبق یاد کر سکے وہ جلدی جلدی کام ختم کرتا ہے کہ کتاب یاد کرنے کیلئے وقت مل جائے مگر وہ ادھر کتاب لے کر بیٹھتا ہے اور اُدھر اُس کا آقا اُسے دوسرا حکم دے دیتا ہے اور اسے مجبوراً کتاب رکھنی پڑتی ہے.اب یہاں ارادہ بھی ہے ، حافظہ بھی ہے ، یاد کرنے کی قابلیت بھی ہے مگر وقت نہیں.ایسے حالات میں ارادہ قوت مؤثرہ تھی اور سبق اور اس کے یاد کرانے کے ذرائع قوت کی متاثرہ اور اس کے معاون ارادہ نے جن آلات پر اثر ڈالنا تھا وہ اگر اس کے مؤید نہیں ہیں تو اس کی تمام کوششیں بے اثر ر ہیں گی.پس یہ وقتیں ہیں جن کی وجہ سے انسان کو ناکامی ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم میں قوت ارادہ دونوں امور میں یکساں موجود ہے.جب کوئی شخص ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے تو وہ یکساں قوت سے فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے عقائد اور اعمال دونوں کی اصلاح کرے گا.جب کوئی بچہ ہم میں پیدا ہوتا ہے تو وہ یکساں قوت کے ساتھ ارادہ کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنے اعمال کو درست کرے گا جس طرح عقائد کو مگر ہر داخل ہو نیوالا شخص اور ہر بالغ ہونے والا بچہ ایک ہی جیسی طاقت اور ارادہ کے باوجود عقائد کی اصلاح میں تو کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اعمال کی اصلاح میں نہیں.ہم یکسانیت سے دشمن پر حملہ کرتے ہیں اس کے عقائد کو تو پہلے حملہ میں ڈگمگا دیتے ہیں لیکن اس کے اعمال میں سالہا سال کی کوشش کے باوجود ذرہ تبدیلی نہیں کر سکتے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خود اپنے اعمال میں بحیثیت جماعت ہم اصلاح کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.گو ہم میں سے افراد اعمال کی اصلاح میں بھی
خطبات محمود ۴۲۶ سال ۱۹۳۶ کامیاب ہیں مگر ملتی اصلاح بعض افراد کی اصلاح سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کیلئے جماعتی اصلاح بھی ضروری ہوتی ہے.جماعتی اصلاح دنیا کے سامنے ایک ایسا نظارہ پیش کرتی ہے کہ دوسرے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.یا درکھنا چاہئے کہ دنیا میں سب سے بڑی قوت عمل نقل ہے اس سے زیادہ اثر کرنے والی کوئی اور قوت موجود نہیں.نقل دنیا میں ایسے حیرت انگیز کام کراتی ہے کہ عقل کو بھی پردے میں چھپا دیتی ہے اور یہ چیز دنیا کی عقل اور سمجھ اور فہم پر اس قدر غالب آجاتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.ہماری گزشتہ تاریخ ابھی اتنی قدیم نہیں کہ نظروں سے اوجھل ہو سکے.ابھی قریباً سو سال کا ہی عرصہ ہوا ہے کہ ہندوستان کا فیشن بالکل اسلامی تھا.لوگ جیتے اور عمامے پہنتے اور داڑھیاں رکھتے تھے تختی کہ ہندو بھی عمامے اور جیتے پہنتے اور داڑھیاں رکھتے تھے مگر آج وہ زمانہ ہے کہ وہ لوگ جن کے گھروں سے یہ چیزیں نکلی تھیں وہ خود ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں ، کوٹ پتلون اور ہیٹ کے دلدادہ ہیں اور داڑھیاں منڈواتے ہیں.غور کرو کہ آج سے صرف سو سال قبل وہ کونسی چیز تھی جس نے داڑھی کو معقول بنادیا تھا، وہ کونسے دلائل تھے جنہوں نے جیتے اور عمامے کے دوسرے سب لباس پر فوقیت دے دی تھی اور چھوٹے کوٹ کو ادنی اور ذلیل قرار دے دیا تھا.صرف یہ کہ ایک قوم تھی جسے دنیا اچھا سمجھتی تھی وہ دوسروں کے اثر کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھی لوگ سمجھتے تھے کہ یہ قوم نہ کسی سے ڈرتی ہے نہ کسی کا اثر قبول کرتی ہے اور پھر ترقی اور عروج پر ہے اس لئے ضرور اس کے اندر کوئی خوبی ہے اس وجہ سے دوسروں نے بھی اس کی نقل شروع کر دی.پھر ایک اور قوم آئی جس کے پیچھے قوت ارادی موجود تھی وہ جُبہ پوشوں کے سامنے چھوٹے کوٹ اور عماموں والوں کے سامنے ہیٹ پہنے پھرتی رہی ، وہ منڈی ہوئی داڑھیوں پر استقلال سے قائم رہی ، لوگ اُس پر ہنستے اور پھبتیاں اُڑاتے رہے اور کہتے رہے کہ یہ مرد ہیں یا عورتیں؟ ان کے چھوٹے کوٹوں کو دیکھ کر لوگو مضحکہ اُڑاتے اور کہتے کہ کتنے کنجوس ہیں کیا دور گرہ اور کپڑا نہ ملتا تھا کہ لبادہ بنا لیتے ، ان کے سروں پر ہیٹ دیکھ کر کہتے کہ یہ بھی کوئی لباس ہے جیسے بندر کے سر پر ٹوکری رکھی ہو مگر وہ لوگ اپنی بات پر قائم رہے اور آہستہ آہستہ نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ ان کی ہنسی اڑاتے تھے وہ بھی نقل کرنے لگے اور ساری دنیا میں یہی روچل گئی کہ چھوٹا کوٹ ہی اچھی چیز ہے، ہیٹ بہت آرام دہ ہے دھوپ.ނ
خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۳۶ بچاتی ہے، یہاں تک کہ ترکوں نے حکم دے دیا ہے کہ جو سر پر چھجے دار ٹوپی نہ پہنے گا اسے کوڑے لگائے جائیں گے اور جو داڑھی رکھے گا اُسے سزا دی جائے گی.داڑھی رکھنے اور لمبا کوٹ پہننے کیلئے لائسنس کی ضرورت ہے جس طرح بندوق کیلئے ہمارے ہاں لائسنس ضروری ہوتا ہے گو با داڑھی سے بھی کسی کو گولی ماری جاسکتی ہے.آخر کیا چیز تھی جس سے سو سال کے اندر اندر دنیا میں لویا اس قدر تغیر ہو گیا اور ترکوں میں تو یہ تبدیلی پندرہ بیس سال سے ہی ہوئی ہے پہلے وہ ہیٹ کے سخت دشمن تھے اور ان کا قومی لباس فیض کیپ سا تھا جسے ہمارے ہاں رومی ٹوپی کہتے ہیں.باقی یورپین ہے لباس تو خیر یورپ میں بھی ترکوں سے ہی گیا ہے لیکن فیض ابھی قریب میں ان کے ہاں موجود تھی تھی اور پندرہ بیس سال پہلے اسے اُتارنا ترک اپنی ہتک سمجھتے تھے مگر آج جو اسے پہنے اسے کوڑے لگائے جاتے ہیں.یہ تغیر کیوں ہوا ؟ اسی لئے کہ بعض تو میں ایسی تھیں جو ہیٹ پہنتی تھیں اور شرماتی نہیں تھیں انہیں دنیوی عزت حاصل تھی اس لئے دوسروں نے خیال کیا کہ شاید ترقی اسی میں ہے.نقالوں کی مثال تو ایسی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی ملک میں کوئی شخص طب نہ جانتا تھا وہاں ایک طالب علم تھا جو بہت ہوشیاری کا دعویٰ کرتا تھا اور لستان تھا مگر دراصل بیوقوف تھا وہاں کے لوگوں نے اسے اپنے ہمسایہ ملک میں طب سیکھنے کیلئے بھیجا اور اس کے ملک کے رؤساء نے اپنے واقفوں اور آشناؤں کے نام اسے خطوط وغیرہ بھی دیئے.چنانچہ وہ گیا اور ایک طبیب.شاگردوں میں داخل ہو گیا.ابھی دو تین روز ہی ہوئے کہ طبیب کسی مریض کو دیکھنے گیا اور اسے بھی کی قلمدان اُٹھا کر ساتھ چلنے کو کہا.وہاں جا کر مریض کی نبض دیکھی اور اسے کہا کہ آپ نے کل چنے کھالئے بھلا آپ ایسے نازک مزاج کو چنے کہاں ہضم ہو سکتے ہیں پیٹ درد اسی وجہ سے ہے اسے نسخہ لکھ دیا اور واپس آ گیا.وہ طالب علم استاد کے مکان پر پہنچ کر کہنے لگا کہ بس اجازت دیجئے میں واپس جانا چاہتا ہوں.اس نے پوچھا کیا طب سیکھنے کا ارادہ ترک کر دیا ؟ اُس نے کہا نہیں بس میں کو پڑھ چکا، ہوشیار آدمی بہت جلد سیکھ سکتا ہے وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے.استاد نے کہا کہ اتنی جلدی طب کہاں سیکھی جاسکتی ہے؟ اس نے کہا نہیں جی ! ہوشیار آدمی کیلئے کیا چیز مشکل ہے اصل چیز تشخیص ہے سو اس کا گر میں نے معلوم کر لیا ہے آگے علاج تو ہر ایک جانتا ہے.وطن پہنچا تو لوگوں نے کہا اتنی جلدی آگئے ؟ اس نے کہاں ہاں بس میں سیکھ آیا ہوں ہوشیار آدمی جلد سیکھ
خطبات محمود ۴۲۸ سال ۱۹۳۶ سکتا ہے.وہاں کوئی رئیس بیمار ہوا تو یہ طبیب صاحب بھی پہنچے اور چار پائی کے نیچے نظر ڈالنے کے بعد کہا کہ آپ نازک مزاج آدمی ہیں آپ نے گھوڑے کی زمین کھالی بھلا وہ آپ کیونکر ہضم کر سکتے ہی تھے.وہ رئیس غصہ سے بھر کر کہنے لگا کہ گستاخی کرتے ہو تمہیں علاج کیلئے بلایا ہے یا ایسی باتوں کیلئے ؟ اور نوکروں سے کہا اسے خوب پیٹو جب خوب پٹ چکا تو کہنے لگا کہ اس طبیب نے جس سے میں نے طب سیکھی ایسی ہی بات کی تھی وہ مریض کو دیکھنے گیا تو میں بھی اُس کے ساتھ تھا اور تاڑتا رہا کہ کیا کرتا ہے.اس نے چار پائی کے نیچے دیکھا دو تین چنے کے دانے پڑے تھے اس نے مریض سے کہا کہ تم نے چنے کھائے ہیں.میں نے سمجھا کہ جو چیز چار پائی کے نیچے پڑی ہو وہی مریض نے کی کھائی ہوتی ہے.تو نقال ایسے ہی ہوتے ہیں کسی کو ترقی یافتہ دیکھا تو اس کے کاموں کی نقل شروع کی کر دی مگر اس وجہ سے کہ کبھی اس سے مضحکہ انگیز صورت پیدا ہو جاتی ہے.یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک معمولی طاقت ہے یا بُری چیز ہے اس میں زبر دست طاقت ہے اور جس طرح اس سے بُری کی باتیں پیدا ہوتی ہیں کبھی یہ اچھی تبدیلیاں بھی پیدا کر دیتی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ تک عرب کے لوگ سمجھ سمجھ کر اسلام قبول کر رہے تھے لیکن فتح مکہ کے بعد ان میں سے بہتوں نے محض نقل کے طور پر اسلام قبول کرنا شروع کر دیا گویا اسلام قبول کرنا اُس وقت فیشن ہو گیا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دریا ہے جو انڈا چلا آ رہا ہے.دس دس اور بیس بیس ہزار افراد پر مشتمل قبائل ایک وقت میں اسلام قبول کرتے تھے اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس بارہ میں وہ ایک دوسر.سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ ہمارا مخالف قبیلہ پہلے داخل ہو جائے.تو وہ اسلام نقل کا تھا آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد زکوۃ کا فتنہ جب اُٹھا تو وہی نقال جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں جلدی کی تھی انہوں نے کفر کی طرف لوٹ جانے میں بھی جلدی کی.ایسے سب قبائل نے ارتداد اختیار کر لیا حتی کہ سارے عرب میں صرف تین جگہ نماز با جماعت ہوتی تھی.یہ اتنا نازک وقت تھا کہ حضرت عمر جیسے بہادر انسان نے بھی حضرت ابو بکر سے عرض کیا ی کہ اس وقت ہمیں ذرا نرمی اختیار کرنی چاہئے سارے ملک میں بغاوت ہوگئی ہے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جو لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اونٹ کا گھٹنا باند ھنے کی رتی زکوۃ میں دیتے تھے جب تک وہ یہ رشتی اب بھی نہ دینے لگیں گے میں ان سے لڑائی بند نہ کروں گا
خطبات محمود ۴۲۹ سال ۱۹۳۶ خواہ خطرہ اتنا بڑھ جائے کہ دشمن مدینہ میں آجائے اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں پڑی ہوں جنہیں کتے گھسیٹتے پھریں ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب ان سے گفتگو کر کے باہر نکلے تو آپ کے دوستوں نے جو انتظار میں کھڑے تھے اور اسی فکر میں تھے پوچھا کچھ کامیابی ہوئی ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس بڑھے کو بہت کمزور دل کا سمجھتا تھا مگر یہ تو ہم سب سے زیادہ بہادر ہے اور آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو دوبارہ عرب میں قائم کیا اور تربیت کے ماتحت وہی عرب سچے مسلمان بن گئے.غرض نقل ایک زبر دست طاقت ہے جو کبھی نیکی کے پھیلنے میں محمد ہوتی ہے اور کبھی بدی کے پھیلنے میں.چنانچہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی نقل جس نے ایک دفعہ اسلام کی اشاعت میں مدد کی تھی دوسرے وقت میں اس کے شعار کو مٹانے میں مدد کی اور وہ لوگ جو داڑھیاں رکھتے تھے ان سے داڑھیاں منڈوانے لگی کبھی اس نے خدا اور رسول پر ایمان کے اظہار میں مدد دی اور کبھی انکار میں.پس نقل اپنی ذات میں نہ اچھی ہے اور نہ بُری اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ سے نقل کرنے والا اگر اچھی چیز کی نقل کرتا ہے تو وہ اچھا ہو جا تا ہے اور اگر بُری چیز کی نقل کرتا ہے تو بُرا ہو جاتا ہے.نقل ایک شیشے کے کٹورے کی مانند ہے اس میں اگر دودھ ڈالا جائے تو دودھ نظر آتا ہے اور اگر پانی ڈالا جائے تو پانی.اس میں کالا رنگ ڈالا جائے تو وہ کالا نظر آتا ہے اور اگر سُرخ رنگ ڈالا جائے تو سُرخ ، غرض وہ ہر رنگ کے قبول کرنے کو تیار ہو جاتا ہے.در حقیقت اس زبر دست طاقت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری کیلئے پیدا کیا ہے تا کامیابی کے راستہ پر اس کا سفر اس کیلئے آسان ہو جائے گوگندے لوگ اُسے بُری طرح استعمال کرنے لگ جاتے ہیں جیسے اور پاکیزہ اشیاء کو لوگ بُری طرح استعمال کرنے لگ جاتے ہیں.اس طاقت کی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ صداقت ایک وقت تک جد و جہد کرنے کے بعد جب اپنا سکہ جمالے تو پھر اس کی اشاعت میں سہولت پیدا ہو جائے.چنانچہ جب کوئی قوم ایسے مقام پر کھڑی ہو جاتی ہے کہ لوگ اُس کی نقل کریں تو وہ کامیاب ہو جاتی ہے ورنہ ایک ایک اور دو دو کو منوا نا بڑ المبا کام ہے.اس طرح منوانے کیلئے ایک بڑا لمبا عرصہ کامیابی کیلئے درکار ہوتا ہے اور دنیا
خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۳۶ کب تک انتظار کر سکتی ہے.چنانچہ اپنی ترقی کو ہی دیکھ لو اگر لوگ اسی طرح ہماری جماعت میں داخل ہوتے رہیں جس طرح اب ہوتے ہیں یعنی ایک ایک دو دو یا جس طرح رسول کریم ہے کے ابتدائی زمانہ میں داخل ہوتے تھے تو شاید ہم ہزار سال میں اتنے لوگوں کو بھی احمدی نہ کر سکیں جتنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک اسلام لائے تھے.کامیابی اُسی وقت ہوتی ہے جب لوگ نقل کرنے لگیں.اگر جس چیز کی نقل کی جائے بچی ہو تو اس کی نقل کرنے والے بھی عقل والوں جیسے ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ تربیت سے سچائی ان کے دلوں میں بٹھا دی جاتی ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ دخول کے وقت وہ نقل سے کام لیتے ہیں اور عقل بعد میں آتی ہے مگر نیک امر کی نقل کرنے والا کی باوجود اس کے کہ اُسے ابھی عقل سے حصہ نہیں ملا ہوتا بوجہ اس کے کہ وہ اچھی اور معقول بات کی نقل کر رہا ہوتا ہے دوسروں سے ذہین ضرور ہوتا ہے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ پیرے کی مثال سنائی - وہ کم عقل آدمی تھا صرف نقل سے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا مگر جب مولوی علی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اُسے کہا کہ تم قادیان میں کیوں رہتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں کوئی پڑھا لکھا آدمی تو نہیں ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مرزا صاحب ریلوے سٹیشن سے بارہ کی میل کے فاصلہ پر رہتے ہیں اور لوگ خود بخود ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں مگر آپ روز سٹیشن پر آنے ہیں اور آپ کی جوتیاں بھی گھس گئی ہیں مگر پھر بھی آپ کو کوئی نہیں پوچھتا.یہ دلیل اس کی ٹھیک تھی گوی اسی حد تک جس حد تک پیرے کے ایمان کا سوال تھا.دنیا کی جتنی تسلی نقل سے ہوتی ہے اتنی دلائل سے نہیں ہوتی.نقل میں پونچہ پکڑنے والی بات ہوتی ہے سچائی جب ایک حد تک ترقی کر جاتی ہے تو لوگ اس میں داخل ہونے کیلئے بہانہ ڈھونڈتے ہیں.اُس وقت وہ کوئی معمولی سی دلیل بھی سُن لیں تو کہہ دیتے ہیں کہ بس اب ہم سمجھ گئے ہیں.ان لوگوں کی مثال اُس دھوبی کی سی ہوتی ہے جسے کہتے ہیں روز گھر والوں سے روٹھنے کی عادت تھی.ایک دن اس کے بیوی بچوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اب یہ روٹھے تو اسے منایا نہ جائے کیونکہ اسےمنایا روز منانے سے یہ سر چڑھ گیا ہے.اگلے روز وہ پھر روٹھ گیا اور کہنے لگا میں گھر میں نہیں رہوں گا اور بیل لے کر باہر چلا گیا.دن بھر انتظار کرتا رہا کہ کوئی منانے آئے گا مگر کوئی نہ آیا.اُدھر بھوک نے تنگ کیا تو شام کے وقت بیل کو چھوڑ دیا اُس نے گھر کو ہی جانا تھا کیونکہ اسے یہی عادت تھی کہ صبح
خطبات محمود ۴۳۱ سال ۱۹۳۶ گھر سے آتا اور شام کو گھر کو چلا جاتا.دھوبی نے اُس کی دُم پکڑ لی اور پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا کہ چھوڑو بھی یار تم مجھے یونہی زبردستی گھر لے جا رہے ہو میں نہیں جانا چاہتا گھر آ گیا.تو جب کوئی قوم ایسے مقام پر کھڑی ہو جائے کہ دوسرے اس کی نقل کرنے لگیں تو پھر ڈر اور خوف جاتا رہتا ہے.لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ قوم صبح شام ، دن رات بڑھتی ہی جاتی ہے اور اسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ممکن ہے اس کی مخالفت سے ہم پر کوئی عذاب آئے اور وہ اُس کے ساتھ ملنے کیلئے بہانے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں.اور جب کوئی جا کر تبلیغ کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس طرح تو آج تک ہمیں کسی نے سمجھایا ہی نہ تھا اور جھٹ ایمان لے آتے ہیں.تو نقل دونوں طرح کام کرتی ہے مگر یہ مقام حاصل کرنے کیلئے ایک حد تک طاقت کی ضرورت ہوتی ہے.جب تک اس خاص معیار پر کوئی قوم نہ پہنچ چ جائے لوگ اس کی نقل نہیں کرتے.پس ماننا پڑے گا کہ نقل میں بھی فائدے ہیں اور خدا نے اسے بے وجہ پیدا نہیں کیا اور فائدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کی اشاعت میں بھی اس سے مدد لیتا ہے.داخل ہونے کے بعد منوانا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ داخل ہونے کے بعد انسان حکومت کے اندر آجاتا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سہولت پیدا کس طرح ہوتی ہے تا اسے حاصل کیا جا سکے.لوگ آج عقائد کے بارہ میں ہماری نقل کر رہے ہیں، آج لوگ اگر چہ یہ نہیں جانتے کہ وفات مسیح سے اسلام کے کیا فوائد وابستہ ہیں مگر وہ اُسے مانتے ہیں، سارے قرآن کو محفوظ سمجھنے کے فوائد وہ نہیں جانتے مگر یہ عقیدہ ان کا ہو گیا ہے، الہام کے جاری ہونے کی پوری حکمت وہ نہیں سمجھتے مگر عیسائیوں کی اور آریوں سے مقابلہ کے وقت وہ اسلام کی فضیلت کے طور پر اُسے پیش کرتے ہیں.وہ یہ نہیں جانتے کہ صفات الہیہ کے کمال کا اقتضاء یہ ہے کہ سب قوموں میں نبیوں کی آمد تسلیم کی جائے مگر دوسروں کے سامنے وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے، لیکن ابھی ہمارے اعمال کی لوگوں نے نقل شروع نہیں کی اور میں نے پچھلے بعض خطبات میں بتایا تھا کہ اس رستہ میں ہمارے لئے کچھ دقتیں ہیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ جب قوتِ ارادی یکساں ہے تو یہ امتیاز کیونکر پیدا ہوا ہے.میرے اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے قوت متاثرہ کی کمزوری اور اس کے معاونین کا نقص ہے.ایک چاقو سے ہم سنگترہ کاٹ سکتے ہیں مگر لوہے کی سلاخ نہیں کاٹ سکتے ، ریتی سے لوہے کو چھیل سکتے ہیں مگر ہیرے کو نہیں کیونکہ وہ زیادہ سخت ہوتا ہے.پس معلوم ہوا کہ اعمال
خطبات محمود ۴۳۲ سال ۱۹۳۶ کے متعلق ہماری روکیں عقائد کی روکوں سے زیادہ سخت ہیں اور وہ میں بیان کر چکا ہوں کہ کیا ہیں.اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ان روکوں کو دور کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے.اگر ہم دوسروں پر غالب آنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے اس سے ہمارے اندر ایسی قوت پیدا ہو جائے گی کہ دوسرں کی اصلاح کر سکیں.دوسروں سے نقل کرانے کیلئے بہادری اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے.جب کوئی قوم مضبوطی سے ان چیزوں پر قائم ہو جاتی ہے تو دوسرے خود بخود اُس سے مرعوب ہونے لگتے ہیں اور پھر اس کی نقل شروع کر دیتے ہیں.جب دنیا میں لوگ بُری سے بُری باتوں کی نقل کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اچھی باتوں کی نہ کریں.اب انگریزوں میں ناچ کا رواج ہے مگر پہلے اُسے بُرا سمجھا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے اسے اختیار کرنا شروع کیا.پہلے پہلے عورت اور مرد ہاتھ پکڑ کرنا چتے تھے، پھر سینہ کی طرف سینہ کر کے، پھر یہ سلسلہ ترقی کی کر کے فاصلہ تین انگلی تک آ گیا اور اب بہت جگہ پر یہ بھی اُڑتا جاتا ہے.تو جس چیز کو بہادری اور استقلال سے قائم رکھا جاتا ہے لوگ اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں.ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں جب پہلے پہل داڑھیاں منڈوانے کا حکم دیا گیا تو بعض درباریوں نے اپنے عہدے ترک کرنے اور دربار سے نکلنا منظور کر لیا مگر داڑھیاں منڈوانے پر رضامند نہ ہوئے مگر آج کوئی داڑھی رکھنا پسند نہیں کرتا.تو ہر چیز کے بدلنے سے پہلے ایک طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جب لوگ اسے پیدا کر لیتے ہیں تو دوسرے ان کی نقل شروع کر دیتے ہیں اور جب تک وہ پیدا نہ ہو نقل کرانا دشوار ہوتا ہے اور ہم نے اپنے اندر اسی طاقت کو پیدا کرنا ہے مگر اس کے رستہ میں بہت سی روکیں ہیں جن کے مقابلہ کیلئے ہم نے قواعد تجویز کرنے ہیں.اس کیلئے ہمیں اپنے نفسوں کی قربانی اور ایک ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک یہ چیزیں ہمیں حاصل نہ ہوں گی ہم کامیاب نہیں ہو سکتے یہ چیزیں کس طرح حاصل ہو سکتی ہیں اس کے متعلق تفصیلی طور پر تو میں ابھی بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تحریک جدید کا دوسرا حصہ ہے اور اس کے بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلا حصہ پورا ہو جائے.جب تک پہلا امتحان پاس نہ کر لیا جائے دوسرے کی طرف قدم اُٹھانا کبھی مفید نہیں ہوسکتا.لیکن میں نے جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ وہ ان مشکلات پر اور ویسی ہی دوسری مشکلات پر جو ہمارے سامنے آئیں غور کرے کہ ان کا کیا علاج ہے وہی علاج ہماری کامیابی کا ،
خطبات محمود ۴۳۳ سال ۱۹۳۶ علاج ہوگا.ہر احمدی اس بات پر غور کرے اور یقیناً آپ میں سے ہر ایک کا دل یہی گواہی دے گا کہ ہمارے ارادہ میں کمی نہیں ، ارادہ اعمال کی اصلاح کے متعلق بھی ویسا ہی ہے جیسے عقائد کی اصلاح کے بارہ میں نقص قوت متاثرہ میں ہے.جن پر ہمارے ارادہ نے اثر انداز ہونا ہے ان کی میں نقص ہے.ہمارے پاس چاقو موجود ہے مگر جس چیز کو اس سے کاٹنا ہے وہ اس سے زیادہ سخت ہے.یا ہمیں اس کو نرم کرنا پڑے گا اور یا پھر چاقو کو تیز کرنا ہوگا اس کے سوا چارہ نہیں.سخت چیز کو نرم کر کے بھی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جیسے سونا چاندی ہے اس کا کشتہ بنا لیا جاتا ہے.لوہ کتنی سخت چیز ہے مگر اس کا بھی کشتہ بنالیا جاتا ہے پس یا تو قوت ارادی کو زیادہ مضبوط کرو اور یا پھر قوت متاثرہ کے نقص کو دور کرو.یہی دو علاج ہیں.اگر ہم اپنے ارادوں میں اتنی طاقت پیدا کرلیں کہ وہ سب روکوں کو مٹادے تو پھر بھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور ایسی قوتِ ارادی ایمان سے ہی پیدا ہوسکتی ہے.ایمان جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر قوتِ ارادی مضبوط ہوگی اگر ایمان کمزور ہو تو قوت ارادی بھی کمزور ہوگی.حضرت مسیح ناصری نے فرمایا کہ اگر تمہارے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑوں کو چلا سکتے ہو مگر جب تک یہ مقام حاصل نہ ہو اُس وقت تک جد و جہد کی بہت زیادہ ضرورت ہے.بے شک یہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم میں سے بعض کو وہ مقام دے دے کہ ہم جو چاہیں ہو جائے مگر ساری جماعت یہ مقام حاصل نہیں کر سکتی.باقیوں کیلئے جد و جہد کی ضرورت پھر بھی باقی رہے گی اور اس کیلئے ہم کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسی تدابیر ہیں جن سے ساری جماعت کامیابی کا منہ دیکھ سکے اور ان روکوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ہمارے رستہ میں ہیں ایسے علاج تجویز کرنے چاہئیں کہ باوجود ان کے ہم کامیاب ہو سکیں.وہ تدابیر کیا ہیں؟ ان کی کی تفاصیل تو میں ابھی بیان نہیں کر سکتا ہاں اجمالی طور پر اس کا ذکر اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ خطبہ میں کردوں گا اور باقی کو اُس وقت تک ملتوی رکھوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق.جماعت پہلا قدم اُٹھا لے.( الفضل اار جولائی ۱۹۳۶ء) فیض کیپ (FEZ CAP) ترکی ٹوپی تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۵۱، مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء سے ابوداؤد کتاب اللباس باب في لبس الشهرة
خطبات محمود ۴۳۴ ۲۵ سال ۱۹۳۶ اصلاح اعمال کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے (۱) قوت ارادی (۲) صحیح اور پورا علم ( ۳) قوت عملی (فرموده ۱۰ جولائی ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - وہ مضمون جس کے متعلق گزشتہ کئی ہفتوں سے میں خطبات دیتا آرہا ہوں سوائے دو خطبوں کے کہ جن میں تھوڑے دنوں کیلئے اس مضمون کو بند کر دیا گیا تھا آج میں پھر شروع کرتا ہوں.مضمون یہ ہے کہ احمدیت کو جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے عقائد کی اشاعت میں اس قدر عظیم الشان فتح حاصل ہوئی ہے کہ ہماری جماعت کے دشمن بھی وہی عقائد رکھنے لگ گئے ہیں جو ہمارے ہیں اور جن پر کسی زمانہ میں وہ کفر کے فتوے لگایا کرتے تھے ، وہاں اعمال کی اصلاح میں ابھی تک ہماری کی جماعت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ صرف یہ کہ دشمنوں کو ہم ابھی تک اپنا ہم رنگ نہیں بنا سکے بلکہ بعض احمدی بھی ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو دشمنوں کے رنگ میں رنگین ہیں اور ان پر احمدیت کا نی رنگ ابھی تک نہیں چڑھا باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً لا یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ سے بہتر اور کون سا رنگ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو رنگے پھر بھی ہماری جماعت نے ابھی تک وہ رنگ اختیار نہیں کیا جس کے بغیر خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی محبت انسان کو حاصل نہیں ہو سکتی.
خطبات محمود ۴۳۵ سال ۱۹۳۶ میں نے اس نقص کی وجوہ بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انسان میں ایک قوتِ مؤثره ہوتی ہے اور ایک قوت متاثرہ ہوتی ہے.اور پھر ان دونوں قوتوں کے معاون ہوتے ہیں اور کامیابی کیلئے صرف قوت مؤثرہ کا ہونا ضروری نہیں بلکہ قوتِ متاثرہ کا اس کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے.اگر قوت متاثرہ اس حد تک نہ ہو جس حد تک قوت مؤثرہ ہو تب بھی نتائج اطمینان کی بخش نہیں نکل سکتے اور اگر قوت متاثرہ اس حد تک نہ ہو جس حد تک قوت متأکثرہ ہو تب بھی نتائج انسان کی امید کے مطابق نہیں نکل سکتے.میں نے بتایا تھا کہ قوت مؤثرہ جو قو می دماغ کی حیثیت رکھتی ہے جب کوئی بات عمل میں لانا چاہتی ہے تو انسان کی قوتِ ارادی کو حرکت میں لاتی ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک مادہ رکھا ہوا ہے جو قوت ارادی کی بات کو مانتا اور اُسے تسلیم کرتا ہے جسے عبودیت بھی کہتے ہیں.اگر عبودیت کا مادہ انسان میں نہ ہو تو قوت ارادی کی موجودگی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.جیسے بعض ہاتھ مفلوج ہوتے ہیں دماغ حکم دیتا ہے کہ پلو مگر وہ کی نہیں ہل سکتے ، بعض پاؤں مفلوج ہوتے ہیں دماغ حکم دیتا ہے کہ چلو مگر وہ نہیں چلتے ، بعض زبانیں کی مفلوج ہوتی ہیں دماغ حکم دیتا ہے کہ بولومگر وہ نہیں بولتیں ، اسی طرح بعض آنکھیں مفلوج ہوتی ہیں دماغ حکم دیتا ہے کہ دیکھو مگر وہ نہیں دیکھ سکتیں تو اگر قوت متاثرہ موجود نہ ہو یا بہت ہی کمزور ہو تو اُس وقت قوت مؤثرہ بریکار اور معطل ہو جاتی ہے اور اگر قوت مؤثرہ بریکار اور معطل ہو تو قوت متاثرہ کو چونکہ حکم دینے والا کوئی نہیں رہتا اس لئے وہ جس طرح چاہتی ہے کام کرتی جاتی ہے اور اس وجہ سے ان کاموں کے مفید نتائج نہیں نکلتے.جیسے ہر گھر میں ماں باپ بچوں پر حکومت کرتے ہیں اب کی اگر بچے اپنے ماں باپ کے حکموں کو نہ مانیں تب بھی گھر کا امن قائم نہیں رہ سکتا اور اگر ماں باپ میں عقل نہ ہو اور وہ بچوں کی صحیح تربیت اور ان کی نگرانی نہ کر سکیں تب بھی امن نہیں رہ سکتا.تو اصلاح اعمال کیلئے دونوں قوتوں کا درست ہونا ضروری ہوتا ہے اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری کی قوت مؤثرہ میں کوئی نقص نہیں اور اگر کسی کی قوت مؤثرہ میں کوئی نقص ہے تو بہت ہی کم ہے ورنہ ارادہ کے طور پر ہماری جماعت کے تمام افراد چاہتے ہیں کہ انہیں تقویٰ اور طہارت حاصل ہو، وہ اسلامی احکام کی اشاعت کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کر سکیں.پس ہماری قوت ارادی تو مضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج صحیح نہیں نکلتے تو یقیناً دو باتوں میں سے ایک
خطبات محمود ۴۳۶ سال ۱۹۳۶ یا تو یہ کہ عمل کیلئے جتنی قوت ارادی چاہئے اتنی ہمارے اندر نہیں لیکن عقیدہ کی اصلاح کیلئے جتنی قوت ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی اس وجہ سے عقائد کی اصلاح ہوگئی لیکن عملی اصلاح کیلئے چونکہ قوت ارادی کی ضرورت تھی اور وہ ہمارے اندر نہیں تھی اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں کچھ نقص ہے اور قوت متاثرہ مفلوج ہونے کی وجہ سے قوت مؤثرہ کے اثر کو قبول نہیں کرتی یا جن معاونوں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے ان میں کمزوری ہے.اس صورت میں جب تک ہم قوتِ متاثرہ کا علاج نہ کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.جیسے کوئی طالب علم کند ذہن ہوتا ہے وہ سبق پڑھتا ہے مگر یاد نہیں رکھ سکتا اس کا جب تک ذہن درست نہیں کر لیا جا تا اُس وقت تک خواہ اُسے کتنا سبق دیا جائے ، کتنی بار اُسے یاد کرانے کی کوشش کی جائے وہ یاد نہیں رکھ سکے گا.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے نیکی کے ارادے دماغ کے اس حصہ پر کیوں اثر نہیں کرتے جس پر اثر ہونے کے نتیجہ میں عملی اصلاح شروع ہو جاتی ہے اور ہمیں ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس رستہ میں حائل ہوتی ہیں.میں نے بتایا تھا کہ دو قسم کی روکیں ہیں جو اس رستہ میں حائل ہوتی ہیں.ایک قوت ارادی میں کمزوری اور دوسری قوت عمل میں کمزوری لیکن ان کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے اور وہ یہ کہ علمی طور پر انسان میں کمزوری ہو کیونکہ ارادہ بھی علم کے مطابق چلتا ہے.مثلاً اگر کسی انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک ہزار کا لشکر اُس کے مکان پر حملہ آور ہونے والا ہے بلکہ اُسے صرف اتنا معلوم ہو کہ ایک آدمی اس کے مکان پر حملہ کرے گا تو یقیناً جو تدابیر وہ اس حملہ کے دفاع کیلئے اختیار کرے گا وہ اس صورت سے مختلف ہوں گی جو اس صورت میں کرتا جب اُسے معلوم ہوتا کہ ایک ہزار آدمی اس کے مکان پر حملہ آور ہونے والے ہیں.تو علم کی کمزوری کی وجہ سے بھی نقص پیدا ہو جاتا ہے اور علم کی صحت قوت ارادی کو بڑھا دیتی ہے.جن لوگوں کو کبھی بوجھ اُٹھانے کا موقع ملا ہو وہ جانتے ہیں کہ بعض چیزیں ہلکی نظر آتی ہیں مگر ہوتی بوجھل ہیں ان کے اُٹھاتے وقت انسانی ہاتھ جھٹکا محسوس کرتا ہے.پہلے یہ سمجھ کر وہ ہاتھ ڈالتا ہے کہ یہ ہلکی چیز ہے مگر جب دیکھتا ہے کہ بھاری ہے تو کہتا ہے اوہ ! یہ تو بھاری چیز تھی اور اس خیال کے آنے پر دوبارہ وہ اسی بھاری چیز کو اٹھا لیتا ہے.آخر دوبارہ اس ނ
خطبات محمود ۴۳۷ سال ۱۹۳۶ میں زائد طاقت تو نہیں آجاتی.طاقت تو وہی ہوتی ہے جو پہلے تھی پھر وجہ کیا ہے کہ پہلی دفعہ وہ چیزی اُس سے نہیں اٹھائی جاتی مگر جب دوسری دفعہ اُسے پتہ لگتا ہے کہ بوجھل ہے تو وہ اسے اٹھا لیتا ہے ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں ایک قوت مواز نہ رکھی ہوئی ہے.وہ قوتی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کیلئے اتنی طاقت درکار ہے اور چونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے اس لئے جب دماغ اتنی طاقت بھیجتا ہے جتنی پہلی دفعہ قوت موازنہ طلب کرتی ہے تو انسان کے ہاتھ کو جھٹکا محسوس ہوتا ہے اور قوت مواز نہ سمجھ جاتی ہے کہ میری غلطی تھی تب وہ دماغ کو اور طاقت بھیجنے کیلئے کہتی ہے اور اس طاقت کے آنے پر چیز بآسانی اُٹھالی جاتی ہے.مثلاً ایک چیز پڑی ہو جس کے متعلق انسان یہ سمجھتا ہو کہ یہ دس سیر وزنی ہے لیکن ہو نہیں سیر کی تو چونکہ انسان اسے اس طاقت سے اُٹھائے گا جتنی طاقت دس سیر بوجھ اُٹھانے کیلئے ضروری ہوتی ہے اس لئے اس کے ہاتھ کو جھٹکا لگے گا.جھٹکا لگنے کے معا بعد دماغ کی دس سیر بوجھ اُٹھانے کی اور طاقت بھیج دے گا اور وہ چیز اُٹھائی جا سکے گی.تو قوت موازنہ نے جو فیصلہ کیا اس کی غلطی کی وجہ سے انسانی ہاتھ کو جھٹکا لگا ور نہ طاقت تو اس میں اس بوجھ کو اُٹھانے کی پہلے سے تھی.وہ طاقت رکھتا ہے کہ میں سیر بوجھ کو اٹھا لے لیکن قوتِ موازنہ جو دماغ کیلئے وزیر کی حیثیت رکھتی ہے کہا کہ دس سیر وزن کیلئے طاقت چاہئے تب دماغ نے اتنی ہی طاقت بھیج دی لیکن جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو قوت موازنہ کو اپنی غلطی محسوس ہوئی اور اس نے دماغ کو اطلاع دی کہ دس سیر مزید کے اٹھانے کی طاقت بھجوائی جائے تب وہ چیز بآسانی اُٹھالی گئی.بڑی بڑی چیزیں تو الگ رہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے ہولڈر کی کیا حیثیت ہوتی ہے لیکن بعض ہولڈروں کے اندرسیسہ بھرا ہوتا ہے.اب جو شخص ایسے ہولڈر کو جس میں سیسہ بھرا ہوا ہو غلطی.عام ہولڈر سمجھ کر اُٹھائے گا تو چونکہ جتنی طاقت کی ضرورت تھی اس سے وہ کم طاقت خرچ کرے گا اس لئے اندرونی طور پر وہ ایک جھٹکا محسوس کرے گا کیونکہ جب وہ اسے اٹھانے لگتا ہے تو جتنی طاقت کی ضرورت سمجھ کر اُٹھاتا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت محسوس ہو جاتی ہے اور اس طرح اس کا ہاتھ جھٹکا محسوس کرتا ہے اور گو ہولڈر اٹھانے کیلئے وہ دوسری دفعہ ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ پہلی مرتبہ ہی اسے اُٹھا لیتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ اس کا بازو اندرونی طور پر یہ جس محسوس کرتا ہے کہ مجھے پہلی ނ
خطبات محمود ۴۳۸ سال ۱۹۳۶ دفعہ اس ہولڈر کے اٹھانے میں کامیابی نہیں ہوئی بلکہ دوسری دفعہ میں نے اسے اٹھایا ہے.گواس موقع پر پہلی اور دوسری کوشش میں ایک سیکنڈ کے سینکڑویں حصہ کا فرق ہوتا ہے اور دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے مگر فرق ہوتا ضرور ہے.یہ قوت موازنہ ہمیشہ علم کے ذریعہ آتی ہے خواہ علم اندرونی طور پر ہو خواہ بیرونی طور پر.اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد بیر ونجات کی آوازیں ہیں جو کان میں پڑیں.مثلاً یہ علم کہ دس دشمن آرہے ہیں ان کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جاؤ بیرونی ہے کیونکہ کان اسے سنیں گے اور دماغ کو سنائیں گے.لیکن جب دس سیر وزنی ھے اُٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھتے ہیں تو کوئی اسے نہیں کہتا کہ یہ دس سیر وزنی ہے بلکہ سابق تجربہ کی بناء پر قوت موازنہ آپ ہی اس کے بارہ میں فیصلہ کرتی ہے پس یہ علم اندرونی ہوتا ہے.اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ جب انسان اصلاح عمل کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو قوت موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جدو جہد کیلئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.بعض دفعہ صحیح علم نہ ہو سکنے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح پر غالب نہیں آسکتا اور قوت موازنہ عدم علم کی وجہ سے اسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس عملی اصلاح کیلئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.جیسے ظاہر ہے کہ اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ فلاں چیز زہر ہے تو عدم علم کی وجہ سے قوت موزانہ اس کے کھانے سے ڈرائے گی نہیں لیکن اگر اُسے معلوم ہو کہ یہ زہر ہے تو پھر اس کی قوت موازنہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اُسے زہر کھانا چاہئے یا نہیں.مثلاً اگر ایک شخص زندگی سے بیزار ہے، افکار و ہموم ہر وقت اس پر غالب رہتے ہیں اور وہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں رکھتا تو قوت موازنہ اسے کہے گی کھا لو اچھا ہے مرکر ان جھگڑوں سے نجات تو ملے گی لیکن جو شخص زندہ رہنا چاہتا ہے اسے قوتِ موازنہ کہے گی کہ یہ زہر ہے اسے مت کھاؤ.یا فرض کرو کوئی ایسا زہر ہے جو پچاس فیصدی مہلک ثابت ہوتا ہے اور پچاس فیصدی ایسا بھی ہوتا کہ لوگ بچ جاتے ہیں اب اگر کسی انسان کے سامنے اس قسم کا زہر رکھ دے اور کہے کہ اگر یہ کھا لو تو میں تمہیں ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا تو وہاں بھی قوت موازنہ اسے بتا دے گی کہ کس حد تک اسے اس تجویز پر عمل کرنا چاہئے اور کس حد تک نہیں.اگر زندگی اس کیلئے دوبھر ہے، اگر مشکلات و مصائب سے وہ گھرا ہوا ہے اور جینے سے سخت بیزار ہے تو قوت موازنہ کہے گی زہر کھا لو اس میں کیا حرج ہے اگر بچ گئے تو رو پیدل جائے
خطبات محمود ۴۳۹ سال ۱۹۳۶ ہے گا اگر مر گئے تو دنیا کے دھندوں سے جان چھوٹ جائے گی.لیکن اگر کوئی شخص ہمت والا مشکلات پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے اور کمر ہمت تو ڑ کر نہیں بیٹھ جاتا تو اسے قوت موازنہ کہے گی پچاس فیصدی موت بھی تم کیوں قبول کرتے ہو اسے مت کھاؤ خواہ تمہیں کتنا ہی انعام ملنے کی لالچ دلائی جائے.غرض قوتِ موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور وہی عدم علم کی وجہ سے اسے غافل کرتی ہے اور پھر اسی عدم علم کی وجہ سے یا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے گناہ صادر ہوتے ہیں.چنانچہ ایک بچہ جب ایسے لوگوں میں پرورش پاتا ہے جو گناہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں جن کی مجلسوں میں ہر وقت یہ ذکر ہوتا رہتا ہے کہ (۱) جھوٹ کے بغیر تو دنیا میں گزارہ نہیں ہوسکتا (۲) جھوٹ ہی ہے جو تمام ترقیات کی کلید ہے (۳) آجکل بھلا کون سچ بولتا ہے (۴) اس زمانہ میں تو جھوٹ بولے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی تو ایسے فقرے سن سن کر اس کا علم صرف اسی حد تک محدود رہتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایسی بری بات نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہوکر جہاں اسے جھوٹ بولنے کا موقع ملے گا اور اپنی قوتِ موازنہ سے وہ فیصلہ چاہے گا کہ قوت موازنہ فوراً ا سے کہہ دے گی کہ خطرہ زیادہ ہے جھوٹ بول لو اس میں حرج ہی کیا ہے.یا مثلاً غیبت ہے وہ اپنے اردگرد جب تمام لوگوں کو غیبت کرتے دیکھتا ہے تو بڑا ہو کر جب اس کے سامنے بھی کوئی غیبت کا موقع آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے غیبت کی تو مجھے فائدہ پہنچ جائے گا تو قوتِ موازنہ اسے کہہ دیتی ہے کہ سارے ہی غیبت کرتے ہیں اگر تم بھی غیبت کر لو تو کیا حرج ہے گو یہ گناہ تو ہے مگر کوئی اتنا بڑا گناہ نہیں.یہی وہ امر ہے جس کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ اصلاح اعمال میں ایک خطرناک روک یہ ہے کہ کہا جاتا ہے بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے اس کی وجہ سے بعض گنا ہوں کو لوگ نہیں کی چھوڑ سکتے کیونکہ کہتے ہیں یہ تو چھوٹے ہیں ان کے کر لینے میں کیا حرج ہے.اس خیال کا اثر یہ ہوتا ہے ہے کہ گو قوتِ موازنہ موجود ہوتی ہے مگر وہ اس غلط علم کی وجہ سے جو اُس نے ماحول سے حاصل کیا ی تھا انہیں اتنی طاقت نہیں دیتی جس طاقت کے نتیجہ میں وہ گناہ پر غالب آسکیں.جیسے میں نے بتایا ہے کہ اگر ایک چیز دس سیر یا ہیں سیر وزنی ہو اور آدمی اسے پانچ چھ سیروزن کی سمجھ رہا ہوتو خواہ اس میں دومن بوجھ اٹھانے کی طاقت ہو پہلی دفعہ اس کے ہاتھ کو جھٹکا محسوس ہوگا اور وہ اسے نہ اٹھا سکے
خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۶ گا.پہلی دفعہ اس کے ہاتھ کو جھٹکا لگنا اور اس کا اس چیز کونہ اُٹھا سکنا اس لئے نہ تھا کہ اس میں وہ چیز اٹھانے کی طاقت نہ تھی.طاقت تو اُس میں اس سے بھی زیادہ بوجھ اٹھانے کی تھی جھٹکا اسے اس لئے لگا کہ قوت موازنہ نے غلط اندازہ کر کے دماغ کو کم طاقت بھیجنے کا مشورہ دیا.اس طرح گناہوں کو مٹانے کی طاقت بھی انسان میں ہوتی ہے لیکن جب گناہ سامنے آتا ہے اور قوت موازنہ کی کہہ دیتی ہے اس گناہ میں کیا حرج ہے یہ تو معمولی گناہ ہے اور دوسری طرف فائدہ اس سے بہت زیادہ ہے تو دماغ اتنی طاقت اس گناہ کو مٹانے کیلئے نہیں بھیجتا جتنی بھیجنی چاہئے اور وہ اس گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے.اب گو یا اصلاح اعمال کیلئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہوئی.ایک قوت ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوت عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا بھی ضروری ہے.علم کی زیادتی بھی درحقیقت قوت ارادی کا ہی حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوت ارادی بڑھ جاتی ہے یا یوں کہو کہ عمل کرنے پر وہ آمادہ ہو جاتی ہے.خلاصہ یہ کہ اصلاح کیلئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے.قوت ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑ.کاموں کے کرنے کی اہل ہو ، علم کی زیادتی کہ ہماری قوت ارادی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہے اور غفلت میں رہ کر موقع نہ گنوادے، قوت عملیہ کی طاقت کہ ہمارے اعضاء ہمارے ارادہ کے تابع چلیں اور اس کے حکم کو ماننے سے انکار نہ کریں.جب ہماری قوت ارادی مضبوط ہو گی وہ ایک زبردست افسر کی طرح اپنی طاقت اور قوت کے ساتھ جسم کی کمزوریوں پر غالب آ کر اسے اپنے منشاء کے مطابق کام کرنے پر مجبور کر دے گی ، جب علم صحیح ہوگا ہم ان ناکامیوں سے محفوظ ہو جائیں گے جو قوتِ موازنہ کی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ وہ ایک اندازہ کام کا لگاتی ہے لیکن وہ اندازہ غلط ہوتا ہے اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ اصلاح کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور اس کام کیلئے دوبارہ کوشش فضول ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ عدم علم کی وجہ سے قوت ارادی فیصلہ ہی نہیں کر سکتی کہ اسے کیا کرنا چاہئے ، اسی طرح جب قوت عمل یہ مضبوط ہوگی تو وہ قوت ارادی کے ادنیٰ سے ادنی اشارہ کو بھی قبول کرے گی جیسے کہ ایک پچست آدمی کو جب کوئی کام کہا جاتا ہے تو وہ فوراً کھڑا ہو جاتا ہے اور ایک ست آدمی کو کہا جاتا ہے کہ وہ اسی معمولی سے کام کو
خطبات محمود ۴۴۱ سال ۱۹۳۶ بڑا بو جھ سمجھ کرستی کرتا ہے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ قوت عملیہ کی کمزوری دو قسم کی ہوتی ہے.ایک حقیقی اور ایک غیر حقیقی.غیر حقیقی تو یہ ہے کہ قوت تو موجود ہو لیکن مثلاً عادت وغیرہ کی وجہ سے زنگ لگا ہوا ہو اور حقیقی یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے عدم استعمال کی وجہ سے وہ مُردہ کی طرح ہوگئی ہو اور اسے بیرونی مدد اور سہارے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہو.غیر حقیقی کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص میں مثلاً طاقت تو ایک من بوجھ اٹھانے کی ہے لیکن بوجہ کام کرنے کی عادت نہ ہونے کے وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے گھبراہٹ محسوس کرتا ہے.ایسا شخص اگر کسی وقت اپنی طبیعت پر دباؤ ڈالے گا تو اس بوجھ کو اٹھانے میں کامیاب ہو جائے گا اور حقیقی مثال یہ ہے کہ بوجہ دیر تک کام نہ کرنے کے کام کی طاقت ہی باقی نہ رہی ہو اور اب وہ مثلاً دس سیر میں سیر سے زیادہ نہیں اٹھا سکتا ایسے شخص سے اگر ہم ایک من بوجھ اُٹھوانا چاہیں تو ہمیں اُسے کوئی مددگار دینا ہوگا یا اس کے بوجھ کو دس دس سیر کے حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا.غرض جب طاقت کا خزانہ موجود نہ ہو اُس وقت بیرونی ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں تا کہ جو کام سامنے ہے اسے پورا کر دیا جائے.یہی حالت بعینہ اعمال کی اصلاح کی ہے اور کی مختلف لوگوں کیلئے مختلف علاجوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے، بعض کیلئے قوت ارادی پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے، بعض کیلئے قوت عمل پیدا کرنا اور بعض کیلئے ایسی صورت میں جب وہ بوجھ زیادہ ہو اور ان کی طاقت برداشت سے باہر ہو بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جیسے سو من بوجھ اگر کسی کے سامنے پڑا ہوا ہو اور وہ اٹھانا چاہے تو اس کیلئے کوئی قوت ارادی یا کوئی علم کام نہیں دے سکتا بلکہ باوجود قوت ارادی رکھنے کے اور باوجود یہ جاننے کے کہ یہ سو من ہے وہ اسے ہلا بھی نہیں سکے گا.ہیں سیر کے متعلق تو جب اسے معلوم ہوگا کہ یہ میں سیر ہے میں غلطی سے دس سیر سمجھتا رہا تو وہ اسے اٹھا لے گا کیونکہ بیس سیر اُٹھانے کی طاقت اس کے اندر موجود تھی.یا ایک انسان کے اندر قوت ارادی موجود ہی ہے لیکن وہ اس سے کام نہیں لیتا تو اگر کسی دوسرے وقت وہ اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا شروع کر دے تو وہ اسے فائدہ دے سکتی ہے.جیسے فرض کرو ایک بڑھیا عورت ہے جس کا ایک ہی بیٹا ہے جو میدانِ جنگ میں چلا گیا اور تھوڑے دنوں کے بعد خبر آئی کہ وہ مر گیا ہے.یہ بڑھیا عورت کسی دوسرے وقت بیمار پڑ جاتی ہے اور اپنے علاج کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتی کیونکہ وہ کہتی ہے میرا اب
خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۳۶ دنیا میں کون ہے جس کیلئے میں زندہ رہوں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مایوسی کی وجہ سے اس کی بیماری بڑھتی چلی جاتی ہے.لیکن فرض کرو کہ اس کے بعد جبکہ وہ بالکل کمزور ہو چکی ہوتی ہے یکدم اُسے گورنمنٹ کی طرف سے تار پہنچتا ہے کہ تمہارا بیٹا زندہ ہے پہلے غلطی سے اس کی موت کی اطلاع تمہیں بھیجی گئی تھی اس تار کے ملتے ہی وہ بیماری کا مقابلہ کرنا شروع کر دے گی.دوائیں اُسے موافق آنے لگ جائیں گی ، غذا ئیں اس کے انگ لگنی شروع ہو جائیں گی اور وہ تھوڑے ہی دنوں کی میں اچھی بھلی ہو جائے گی.ایسے واقعات بکثرت دنیا میں ہوتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں میں طاقت تو موجود ہوتی ہے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کرتے.بعض دفعہ اس کی کے الٹ مثالیں بھی مل جاتی ہیں.مثلاً چند دن ہی ہوئے ایک عورت کو رات کے وقت سانپ نے ی کا ٹا ، اُس نے ایک معمولی کیڑا سمجھ کر پر واہ بھی نہ کی ، وہ بالکل اچھی بھلی اپنا کام کرتی رہی لیکن دن کو اُسے معلوم ہوا کہ جس چیز نے اُسے کاٹا تھا وہ سانپ تھا اور وہ فوراً مر گئی.یہ واقعہ بھی قوت ارادی کی طاقت کا ہے خود زہر شدید نہ تھا بوجہ ناواقفیت کے اس کی تمام قوت ارادی اپنا کام کرتی رہی لیکن جب اُسے معلوم ہوا کہ کاٹنے والی چیز سانپ تھی تو اُس نے ہمت ہار دی اور خیال کیا کہ سانپ کے زہر کا مقابلہ نہیں ہو سکتا اور اس طرح ہتھیار پھینک دینے سے عورت کی ہلاکت واقع ہوئی.دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص ملیریا سے بیمار ہے، کونین اس کے پاس موجود ہے، اس کا ارادہ بھی ہے کہ میں اچھا ہو جاؤں لیکن نقص یہ ہے کہ اسے علم نہیں کہ کو نین ملیر یا کو دور کر دیتی ہی ہے.اس عدم علم کی وجہ سے باوجود اس کے کہ اس کا دل چاہتا ہے میں اچھا ہو جاؤں وہ اچھا نہیں ہو سکے گا کیونکہ اسے علم نہیں کہ کو نین ملیریا کو دور کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ اس کا استعمال نہیں کرتا.یا ایک شخص کے پاس ایک مٹکا پڑا ہوا ہے پہلے اس میں پانی تھا لیکن بعد میں ختم ہو گیا ، یہ دیکھ کر کسی ہمسائے نے اس میں پانی ڈال دیا لیکن اُسے اس بات کا علم نہیں ، اسے سخت پیاس لگی ہوئی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ملکے میں تو پانی نہیں میں کہاں سے پیوں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عدم علم کی وجہ سے باوجود مکے میں پانی موجود ہونے کے پیاسا رہتا ہے.مگر تیسری صورت یہ ہے کہ پانی ہے ہی نہیں جس سے وہ اپنی پیاس بجھا سکے.تمہیں کتنی ہی خواہش ہو کہ اگر پانی ملے تو میں اس سے اپنی پیاس بجھاؤں تمہیں کتنا ہی علم ہو کہ پانی پیاس بجھانے کے کام آتا ہے لیکن اگر تم ایسے جنگل میں ہو تی
خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۶ جس میں پانی کہیں ہے ہی نہیں تو پانی کہاں سے مل سکتا ہے.پس ایسے موقع پر ارادہ اور علم بھی باطل ہو جاتا ہے اور جب تک پانی نہ ہو انسان کا ارادہ اور اس کا علم اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.غرض یہ تین چیزیں ہیں جن کے ذریعہ ہم لوگوں کا علاج کر سکتے ہیں.بعض لوگوں کے اعمال میں کمزوری اس لئے ہوتی ہے کہ ان میں قوتِ ارادی نہیں ہوتی ، بعض عمل میں اس لئے کمزور ہوتے ہیں کہ ان میں علم کی کمی ہوتی ہے اور بعض عمل میں اس لئے کمزور ہوتے ہیں کہ ان میں قوت عملی نہیں ہوتی.مؤخر الذکر لوگوں کیلئے جب تک بیرونی سامان مہیا نہ کئے جائیں اس وقت تک کچھ نہیں بن سکتا.قوت ارادی کیا چیز ہے؟ قوت ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتا ہے اور جو میں مضمون بیان کر رہا ہوں اس میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے.انسان کے دل میں اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ہو تو اس کے سارے کام آپ ہی آپ ہو جاتے ہیں اور کوئی مشکل ایسی نہیں رہتی جو آسان نہ ہو جائے.رسول کریم ﷺ پر جو لوگ ایمان لائے ان میں چور بھی تھے ، ان میں ڈا کو بھی تھے ، ان میں فاسق و فاجر بھی تھے ، وہ ماؤں سے بھی نکاح کر لیتے تھے.بلکہ ورثہ میں اپنی ماؤں کو لیتے اور اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے ، پھر وہ جواری تھے ،شراب خور تھے اور شراب پینے میں اپنی تمام عزت سمجھتے تھے ، وہ ایک دوسرے پر اگر فخر کرتے تو اسی بات پر کہ میں اتنی شراب پیا کرتا ہوں ، ایک شاعر اپنے اشعار میں فخر کرتا اور کہتا ہے میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ شراب پیتا ہوں ، وہ ایسے جواری تھے کہ جوئے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر فخر کرتے اور جب کسی نے اپنی بڑائی کا اظہار کرنا ہوتا تو کہتا کہ میں وہ ہوں کہ جو اپنا تمام مال جوئے میں لٹا دیتا ہوں ، پھر مال آتا ہے تو پھر میں اُسے جوئے میں لٹا دیتا ہوں یہ ان کی ایمان سے قبل کی حالت تھی مگر جب وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے اور ان میں قوتِ ارادی پیدا ہو گئی تو انہوں نے نہایت قوی اور مضبوط دل سے فیصلہ کر لیا کہ اب ہم خدا کے فیصلہ اور اس کے احکام کے خلاف اپنا کوئی قدم نہیں اُٹھا ئیں گے.یہ فیصلہ انہوں نے اتنی مضبوطی ، اتنی پختگی اور اتنے زور کے ساتھ کیا کہ اس مضبوطی کے مقابلہ میں ان کے اعمال کی کمزوریاں ایک لمحہ کیلئے بھی نہ ٹھہر سکیں.یکدم ان کی کے حالات بدل گئے اور وہ خدا تعالیٰ کیلئے ہر خطر ناک سے خطر ناک مصیبت اپنے نفس پر وارد
خطبات محمود ۴۴۴ سال ۱۹۳۶ کرنے کیلئے تیار ہو گئے اور قوت ارادی نے ان کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دی جیسے ایک تنکا تند سیلاب کے آگے بہہ جاتا ہے.شراب کا نشہ کتنا خطر ناک ہوتا ہے جب کوئی شرابی شراب کے نشہ میں مدہوش ہو تو اُسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، کئی اپنے ماں باپ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں، کئی اپنے عزیزوں سے لڑائی اور فساد شروع کر دیتے ہیں، کئی یونہی بکواس کرتے چلے جاتے ہیں، کئی ننگے ہو جاتے ہیں، کئی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ عقل قائم ہونے کے وقت اگر انہیں کوئی سنائے تو وہ کبھی یہ ماننے کیلئے تیار نہ ہوں کہ ان کے منہ سے اس قسم کی باتیں نکلی ہیں.ایک دفعہ میں ایک مضمون لکھ رہا تھا اور اپنے مکان کے اس حصہ میں تھا جو اس گلی پر واقع ہے جو ہمارے گھروں سے مسجد اقصیٰ کو آتی ہے اور جو مکان اس وقت میاں بشیر احمد صاحب کے پاس ہے اس کے اوپر اُس وقت ایک صحن تھا اُس صحن میں ٹہل ٹہل کر میں مضمون لکھ رہا تھا.ٹہلتے ٹہلتے نیچے گلی میں سے مجھے کچھ آواز آئی مجھے معلوم ہوا کہ دو سکھ گلی میں سے گزر رہے ہیں.پہلے ان کے لہجہ اور پھر اُن کے ناموں کو سن کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ سکھ تھے اب ان کے نام تو مجھے صحیح یاد نہیں لیکن ایسے ہی نام تھے جیسے سو جان سنگھ یا سورن سنگھ.بہر حال فرض کرو ایک کا نام سورن سنگھ تھا اور دوسرے کا نام سو جان سنگھ.میں نے سنا کہ ان میں سے ایک کہہ رہا ہے اوسو جان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ میں نے سمجھا کوئی دوست اپنے دوست سے پوچھ رہا ہے کہ کیا تم پکوڑے کھاؤ گے.مگر تھوڑی دیر کے بعد میں نے پھر سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے اوسو جان سنگھا ! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پھر مجھے آواز آئی اوسو جان سنگھا ! توں پکوڑے کی کھانے ہیں؟ تب میں نے جھانکا کہ یہ کیا بات ہے.میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ گلی میں سے گزر رہا ہے اور دوسرا شخص گلی کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہے اور کہتا جارہا ہے.اوسو جان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ اوسو جان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ میں نے دیکھا کہ وہ جو گھوڑے پر سوار تھا وہ تو اُس وقت گلی کے نکڑ پر تھا اور دور جا چکا تھا مگر دوسرا شخص دیر تک وہاں بیٹھا یہی کہتا رہا او سو جان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ اوسو جان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں ؟ تب میں سمجھا کہ یہ شرابی ہے عقل و ہوش سے کام لے کر یہ الفاظ منہ سے نہیں
خطبات محمود نکال رہا.۴۴۵ سال ۱۹۳۶ یہ تو خیر ایک زمیندار شرابی کا واقعہ ہے ایک دفعہ مجھے ریل گاڑی میں بھی ایسا ہی تجربہ ہوا.میں امرتسر سے دہلی جانے کیلئے سوار ہوا سیکنڈ کلاس کا میں نے ٹکٹ لیا مگر چونکہ دیوالی کا دن تھا اس لئے سخت بھیڑ تھی یہاں تک کہ سیکنڈ کلاس میں بھی چالیس کے قریب آدمی اکٹھے ہو گئے ، اکثر کھڑے تھے اور کچھ اوپر کی سیٹوں پر بیٹھے تھے.میں سیکنڈ کلاس کے جس کمرہ میں داخل ہوا اُس میں ایک دو جگہیں ابھی خالی تھیں لیکن جو نہی میں داخل ہوا ایک شخص نہایت تپاک سے مجھے ملا اور اُس نے دوسرے سے کہا آپ ایک طرف ہو جا ئیں اور انہیں بیٹھنے دیں.وہ ایک طرف کھسک گیا اور میں بیٹھ گیا اُس نے مجھ سے کچھ باتیں ایسی کیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے جانتا ہے.پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک اور شخص آیا تو وہی شخص اس کی طرف متوجہ ہو گیا اور ایک شخص سے کہنے لگا دیکھتے نہیں ایک بھلا مانس آیا ہے تم اسے جگہ کیوں نہیں دیتے ایک طرف ہو جاؤ اور اسے بیٹھنے دو.یہ جو میں نے کہا ہے کہ اس کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرا واقف ہے یہ میں نے اس کی لئے کہا ہے کہ اُس نے مجھے بتایا اُس کا باپ پونچھ میں وزیر تھا اور حضرت خلیفہ اول سے بھی اُس نے اپنی واقفیت کا اظہار کیا جس سے مجھے معلوم ہوا کہ اسے میرے نام وغیرہ سے واقفیت تھی لیکن ابھی اُس نے دوسرے آدمی کو بٹھایا ہی تھا کہ ایک تیسرا شخص آپہنچا.یہ پھر ادھر متوجہ ہوا اور اس شخص سے جس کو اس نے نہایت تعظیم سے بٹھایا تھا سختی سے کہنے لگا دیکھتے نہیں ایک بھلا مانس کھڑا ہے اور تم اسے جگہ نہیں دیتے فوراً اس کیلئے جگہ بناؤ.تب میں سمجھا کہ یہاں خیریت نہیں کیونکہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے جانتا ہو لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو بھی داخل ہوتا ہے اس کا یہ واقف ہو اور اس کے بیٹھنے کیلئے جگہ بنانا ضروری خیال کرتا ہو.اور جب جگہ نہ بنتی تو وہ بختی سے انہی کو ڈانٹنا شروع کی کر دیتا جن کو پہلے عزت سے بٹھا چکا ہوتا اور سوائے میرے کہ اُس نے مجھے اٹھنے کو نہ کہا جب بھی کی کوئی آتا فوراً دوسرے سے کہنا شروع کر دیتا دیکھتے نہیں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اس کیلئے جگہ نہیں بناتے.تھوڑی دیر گزری تو پھر ایک اور شخص اندر داخل ہوا وہ اسے دیکھتے ہی اس طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ دو چار سیکنڈ کے بعد پھر کہنے لگا میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ اس نے کہا آپ کی مہربانی.مگر یہ جواب سننے کے بعد وہ پھر کہنے لگا میں آپ کی کیا خاطر
خطبات محمود ۴۴۶ سال ۱۹۳۶ کروں؟ جب اُس نے بار بار دہرانا شروع کیا کہ میں آپ کی کیا خاطر کروں تو میں سمجھا یہ شرابی ہے.اتنے میں پھر کوئی شخص ڈبہ میں آ گیا اس پر وہ اسی شخص سے جس کو کہہ رہا تھا کہ میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ نہایت سختی سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا دیکھتے نہیں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اس کیلئے جگہ نہیں بناتے.وہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص تھا اور اس کا باپ پونچھ کا وزیر تھا مگر شراب کے نشے میں وہ ایسی باتیں کہنے لگ گیا جو عقل و ہوش قائم ہونے کی صورت میں کبھی نہ کہتا.تو شراب انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے اور اسے بالکل دیوانہ اور پاگل بنا دیتی ہے.مگر ایمان کی قوت ارادی کو دیکھو.محمد اللہ کے چند صحابہ ایک دفعہ ایک مکان میں جس کے کواڑ بند تھے بیٹھ کر شراب پی رہے تھے ، اُس وقت تک شراب کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، ایک مٹکا شراب کا وہ ختم کر چکے تھے اور دوسرا مٹکا وہ شروع کرنے والے تھے کہ گلی میں سے ایک شخص کی یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ مجھ پر خدا کا حکم نازل ہوا ہے کہ آج سے شراب حرام کی جاتی ہے.جب یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچی تو ایک شخص جو شراب کے نشے میں مد ہوش تھا دوسرے سے کہنے لگا اٹھو دروازہ کھولو اور پتہ لو کہ یہ کہنے والا کیا کہتا ہے.سننے والوں میں سے ایک شخص نے چاہا کہ اُٹھ کر دروازہ کھولے اور پکارنے والے سے اس کے اعلان کی حقیقت دریافت کرے لیکن ایک اور شخص جو ان کی طرح ہی شراب میں مخمور تھا اُٹھا اور اُس نے سونٹا پکڑ کر شراب کے مٹکے پر زور سے مار کر اُسے پھوڑ دیا.جب باقیوں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا پہلے پوچھ تو لینے دیتے کہ اس حکم کا مفہوم کیا ہے.تو اس نے جواب دیا کہ میں پہلے مٹکا توڑوں گا پھر حکم کی حقیقت پوچھوں گا ہے.جب میرے کانوں نے یہ آواز سن لی ہے کہ محمد ﷺ نے شراب منع کر دی ہے تو میں پہلے اس حکم کی تعمیل کروں گا پھر پوچھوں گا کہ کن حالات میں اور کن قیود کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے.کتنا عظیم الشان فرق ہے جو ہمیں محمد ﷺ کے صحابہ اور دوسرے لوگوں میں نظر آتا ہے.چلے جاؤ گاؤں کی مجالس میں، چلے جاؤ شہروں کی گلیوں میں، چلے جاؤ بازاروں میں اور دیکھو کہ شرابیوں کی کیا حالت ہوتی ہے.نہ ان کی عقلیں ٹھکانے ہوتی ہیں، نہ فہم ٹھکانے ہوتے ہیں، نہ مجھے ٹھکانے ہوتی ہے، اُن کی زبان بے قابو ہوتی ہے اور ان کے ہاتھ پاؤں غیر ارادی طور پر حرکت
خطبات محمود ۴۴۷ سال ۱۹۳۶ کرتے رہتے ہیں.نہ انہیں باپ کی پروا ہوتی ہے نہ ماں کی ، نہ گورنمنٹ کی پروا ہوتی ہے نہ اُستاد کی ، مگر ایمان نے صحابہ کے اندر ایسی قوت ارادی پیدا کردی کہ باوجود اس کے کہ وہ شراب کے نشہ میں مخمور تھے ، باوجود اس کے کہ ایک شراب کا مٹکا وہ اپنے پیٹوں میں انڈیل چکے تھے اور دوسرا مٹکا پینے والے تھے جب انہیں آواز سنائی دیتی ہے کہ محمد ے کہتے ہیں خدا نے شراب حرام کر دی ہے تو ان کا نشہ فوراً ہرن ہو جاتا ہے وہ پہلے شراب کا مٹکا توڑتے ہیں اور پھر اعلان کرنے والے سے دریافت کرتے ہیں کہ تو نے کیا کہا تھا.یہ قوت ارادی ایسی چیز ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد کوئی روک درمیان میں حائل نہیں رہ سکتی بلکہ ہر چیز پر قوت ارادی قبضہ کرتی چلی جاتی ہے.گویا قوت ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں کہ جس طرف اُٹھتے ہیں اور جدھر کا قصد کرتے ہیں شیطان ان کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا جاتا ہے اور مشکلات کے پہاڑ بھی اگر ان کے سامنے آئیں تو وہ اسی طرح کٹ جاتے ہیں جس طرح پنیر کی ڈلی کٹ جاتی ہے.پس اگر اس قسم کی قوت ارادی پیدا ہو جائے اور اس حد تک ایمان پیدا ہو جائے جس حد تک صحابہ کا ایمان تھا تو پھر لوگوں کو اصلاح اعمال کیلئے اور طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.آپ ہی آپ اعمال حسنہ سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں.اس کے مقابلہ میں امریکہ میں شراب نوشی کے انسداد کیلئے حکومت نے کتنی کوششیں کیں لیکن چونکہ ایمان لوگوں کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ ممانعت شراب کے پیچھے ایک قانون کام کر رہا تھا اس لئے یہ تحریک ناکام رہی.ہزارہا موتیں وہاں اس وجہ سے واقع ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ پی لیتے.سالہا سال ایسا ہوتا رہا کہ چونکہ لوگوں کو پینے کیلئے کی شراب نہ ملتی اس لئے وہ سپرٹ پی لیتے اور سپرٹ میں چونکہ زہریلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہو جاتے اور کئی مرجاتے.پھر امریکہ میں نصف سے زیادہ لوگ ایسے تھے جو باہر سے ناجائز طور پر شرا ہیں منگواتے اور پیتے.گورنمنٹ کا قانون تھا کہ ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی شخص کو شراب نہیں مل سکتی اس قانون کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی آمد نیاں پہلے سے کئی گنے بڑھ گئیں.وہ فیس لے کر سرٹیفکیٹ دے دیتے کہ فلاں شخص کا معدہ کمزور ہے یا اور کوئی ایسی بیماری ہے.اسے پینے کیلئے شراب ملنی چاہئے.غرض ہزاروں ڈاکٹروں کا گزارہ محض اس قسم کے
خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۶ سرٹیفکیٹوں پر ہو گیا اور باوجود شراب نوشی کے خلاف قانون بن جانے کے لوگ کئی قسم کے حیلوں کی سے کوشش کرتے کہ کسی طرح قانون شکنی کریں لیکن محمد ﷺ کا بتایا ہوا قانون ابھی رائج نہ ہوا تھا ، ابھی لوگ اس سے ناواقف تھے ، صرف پہلا اعلان ہوا تھا کہ لوگوں نے شراب کے مٹکے تو ڑ دیئے 096 اور لکھا ہے کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی پھرتی تھی یہ کتنا بڑا فرق ہے جو ہمیں نظر آتا ہے.امریکہ والوں کا دعویٰ ہے کہ اب نئی ترقی یافتہ نسل انہی کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوگی، دنیا میں سپر مین یعنی ترقی یافتہ نسل انسانی کہلاتے ہیں اور عام انسانوں سے اپنے آپ کو بالا سمجھتے ہیں لیکن باوجود اس بات کے کہ وہ محسوس کرتے ہیں شراب بُری چیز ہے، باوجود اس کے کہ قانون شراب پینے سے انہیں روکتا ہے، باوجود اس کے کہ حکومت انہیں منع کرتی ہے اور باوجو داس کے کہ ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ شراب پینا بُری چیز ہے وہ شراب نہیں چھوڑ سکتے.ادھر وہ قوم ہے جسے جاہل کہا جاتا ہے، جسے جانگلی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور جسے ان پڑھ کہا جاتا ہے اس کے اندر ہمیں اس کی قدر اخلاقی قوت نظر آتی ہے کہ وہ جو نہی سنتے ہیں کہ محمد اللہ نے شراب سے منع کیا ہے اُسی لحظہ شراب پینا ترک کر دیتے ہیں.یہ وہ ایمان ہے جس نے صحابہ کو متا ز کیا.امریکہ کے لوگوں کے سامنے صرف قانون تھا لیکن محمد ﷺ کے صحابہ کے سامنے ایمان تھا اسی وجہ سے امریکہ باوجود تسلیم کرنے کے کہ شراب بُری چیز ہے اسے چھوڑنے میں ناکام رہا اور صحابہ باوجود ان پڑھ ہونے کے شراب کے چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے.غرض اگر کسی انسان کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو ساری روکیں خود بخو داس کے رستہ سے دور ہو جاتی ہیں.اس کے بعد قوت علمی ہے.اگر قوت علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے وہ بھی دور ہو جاتی ہے.جیسے بچے بچپن میں مٹی کھانے کے عادی ہوتے ہیں لیکن جب بڑے ہوتے ہیں تو مٹی کھانا چھوڑ دیتے ہیں اس لئے نہیں کہ انہیں اس بات کا علم حاصل ہو جاتا ہے کہ مٹی کھا نا مضر صحت ہے.یا بعض چھوٹے بچے جب ان کا ناک بہ رہا ہوتو زبان سے اُسے چاہتے رہتے ہیں لیکن بڑے ہو کر نہیں چاہتے کیونکہ بعد میں انہیں اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ یہ معیوب بات ہے.تو کئی گناہ اور کئی عملی کمزوریاں ایسی ہیں جو علم کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں کی اگر ایسے شخص کا علم مضبوط کر دیا جائے تو وہ گناہ سے بچ جاتا ہے.
خطبات محمود ۴۴۹ سال ۱۹۳۶ تیسری چیز جس سے عملی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ قوت عملیہ کا فقدان ہے.اس قوت عملیہ کے فقدان کے بھی بعض اسباب ہوتے ہیں جن میں سے مثلاً ایک سبب عادت ہے.ایک تو کے اندر کسی قدر قوت ارادی بھی ہوتی ہے، اس میں قوت علمی بھی ہوتی ہے لیکن وقت پر عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ عمل میں کمزوری دکھا دیتا ہے.یا ایک شخص جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوسکتا ہے وہ دل میں تڑپ اور خواہش بھی رکھتا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو لیکن جب وقت آتا ہے تو مادی اشیاء کے لئے جذبات محبت یا مادی نقصان کے خیال سے جذبات خوف اُس کی پر غالب آجاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے ذریعہ کو اختیار نہیں کرسکتا ایسے لوگوں کیلئے اندرونی نہیں بلکہ بیرونی علاج کی ضرورت ہوا کرتی ہے.جیسے چھت کی کڑیاں جب گرنے لگیں تو ضروری ہوتا ہے کہ ان کے نیچے سہارا دیا جائے اگر بجائے سہارا دینے کے چھت کے اوپر مٹی ڈالنی شروع کر دی جائے تو کڑیاں مٹی کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گی اور گر جائیں گی.اس میں شبہ نہیں کہ ایک وقت چھت پر مٹی ڈالنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر دوسرے وقت مٹی ڈالنے کی بجائے چھت کی کڑیوں کے نیچے کوئی سہارا کھڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح قوت عملی کی انتہائی کمزوری کی صورت میں بیرونی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے.وہ سہارا کیا ہوسکتا ہے اس کیلئے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک شخص کو کسی بات کا علم پہلے سے حاصل ہو تو سہارا یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اسے خدا کے غضب سے خوف دلایا جائے یا اللہ تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کی تلقین کی جائے کیونکہ ان باتوں کا تو اسے پہلے سے علم ہے.قوت ارادی اس میں ہے مگر کامل نہیں ، علم ہم نے دیا مگر خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے غضب کا خوف دل کے زنگ کی وجہ سے اس پر اثر نہ کر سکا ، اب اس کیلئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ چیز سوائے اس کے کیا ہو سکتی ہے کہ خدا تو اس کی نظروں سے اوجھل کی ہے لیکن انسان اس کی نظر سے اوجھل نہیں اسی لئے وہ خدا سے نہیں ڈرتا لیکن بندے سے ڈر جاتا ہے.پس اگر ایسے شخص کے دل میں ہم بندے کا رُعب ڈال دیں یا مادی طاقت سے کام لے کر اُس کی اصلاح کریں تو اس کی بھی اصلاح ہوسکتی ہے.غرض یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ تینوں بیماریاں اکٹھی موجود ہوتی ہیں.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے عمل میں کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کا ایمان
خطبات محمود ۴۵۰ سال ۱۹۳۶ کامل نہیں ہوتا ، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کا علم کامل نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے ان کی کے قلوب پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ یہ دونوں علاج ان کیلئے کافی نہیں ہوتے اور ضروری ہوتا ہے کہ ان کیلئے بیرونی ہتھیاروں سے کام لیا جائے.جیسے پاؤں کی ہڈی جب بعض دفعہ ٹوٹ جاتی ہے تو ڈاکٹر ہڈی کو جوڑ کر لکڑی کا اسے سہارا دے دیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد ہڈی اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہو جاتی ہے اور سہارے کی اسے ضرورت نہیں رہتی اسی طرح اس قسم کے انسانوں کیلئے بھی کچھ دنوں کیلئے سہارا کی ضرورت ہوتی ہے.گو پہلے اس میں کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن سہارا لیتے لیتے آخر سے صحیح طور پر کام کرنے کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ سہارے کا محتاج نہیں رہتا.ان ذرائع کا جو پہلا حصہ ہے یعنی قوت ارادی کی مضبوطی ، اس کیلئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں آتے ہیں اور تازہ اور زندہ معجزات و نشانات دکھاتے ہیں ہماری جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات کا اتنا وافر سامان موجود ہے کہ اتنا سامان کیا ، اس سامان کے قریب قریب بھی کسی کے پاس موجود نہیں اور اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں اس وقت ایسا نہیں جس کے پاس خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام ، اس کے زندہ معجزات اور اس کی ہستی کا مشاہدہ کرانے کو والے نشانات موجود ہوں جو انسانی قلوب کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرتے اور اللہ تعالی کی معرفت سے لبریز کر دیتے ہیں لیکن باوجود اس ایمان کے اور باوجود ان تازہ اور زندہ معجزات کے پھر کیوں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزوری ہے؟ اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے سلسلہ کے علماء اور واعظین نے ان چیزوں کے پھیلانے کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی.تم یہ دیکھو گے کہ ہمارے علماء جاتے ہیں اور مناظروں میں وفات مسیح پر گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتے ہیں مگر تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ انہوں نے جماعت کے سامنے احمد یہ کی صحیح تعلیم پیش کرنے کی کوشش کی ہو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو وفات مسیح کے دلائل جانتے ہوں گے مگر ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جنہیں علم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں پیش کیا ، آپ نے معرفت
خطبات محمود ۴۵۱ سال ۱۹۳۶ اور محبت الہی کے حصول کے کیا طریق بتائے ، اس کے قرب کے حاصل کرنے کی آپ نے کن الفاظ میں تاکید کی ، خدا تعالیٰ کے تازہ کلام اور اس کے معجزات و نشانات آپ پر کس شان کے ساتھ ظاہر ہوئے اور چونکہ وفات مسیح کے مسئلہ سے عملی اصلاح نہیں ہو سکتی اس لئے جماعت اس پہلو میں کمزور رہتی ہے پس جب تک اس طرف ہماری جماعت کے علماء توجہ نہیں کرتے اور اس امر کی طرف ویسی ہی توجہ نہیں کرتے جیسی توجہ انہیں کرنی چاہئے اُس وقت تک جماعت کا وہ طبقہ جو قوت ارادی کی کمزوری کی وجہ سے عملی اصلاح نہیں کر سکتا ڈبکیاں کھاتا رہے گا.تم اپنے محلوں میں پھر کر دیکھ لو کتنے نو جوان ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو ، وہ بھی الہام الہی کے مورد بنیں اور ان سے بھی خدا تعالیٰ ہمکلام ہو.اگر واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام انہیں معلوم ہوتا ، اگر انہیں پتہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے کس قدر عظیم الشان نشانات دکھائے اور خدا تعالیٰ نے کس طرح آپ سے کلام کیا تو کیا ممکن تھا کہ وہ اس مقام کے حصول کی خواہش نہ کرتے ؟ وہ کسی کو اچھا کپڑا پہنتے دیکھتے ہیں تو فوراً اس کی نقل میں اچھا کپڑا پہننا شروع کر دیتے ہیں ، وہ کسی کو اچھی ٹوپی کی پہنے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی اسی قسم کی ٹوپی لیں ، پھر کس طرح ممکن ہے کہ انہیں اس بات پر یقین کامل ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے الہامات نازل ہوتے تھے ، وہ آپ کیلئے تازہ بتازہ نشانات ظاہر کیا کرتا تھا اور ان کے دلوں میں حسرت پیدا نہ ہوتی اور وہ بھی ان باتوں کے حصول کیلئے کوشش نہ کرتے.پھر غور کرو کہ کیا واقعہ میں ان میں وحی والہام کا مورد بننے کی وہی خواہش ہے جو ایک نبی کے قریب زمانہ کے ماننے والوں میں ہونی چاہئے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ لڑکے ایک کو اچھی پگڑی پہنے دیکھتے ہیں تو فوراً اس جیسی کی پگڑی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، عمدہ رومی ٹوپی پہنے دیکھتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ ان کے سر پر بھی ویسی ہی رومی ٹوپی ہو، کسی کے پاس اچھا تو یہ دیکھتے ہیں تو اس کی نقل میں خود بھی ایک اچھا سا تولیہ خریدنے کی کوشش کرتے ہیں.غرض وہ ہر چیز کی نقل کرنا چاہتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ یہ عظیم الشان چیز کہ خدا تعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہو، اُس کا الہام اُس پر نازل ہو، اس کی وحی کا وہ مورد ہو اور اس کے تازہ اور زندگی بخش کلام کو سننے والا ہو، اس کی نقل کرنے کی وہ کوشش نہیں
خطبات محمود ۴۵۲ سال ۱۹۳۶ وہ کرتے.صاف پتہ لگتا ہے کہ انہیں ان چیزوں کا علم نہیں دیا جاتا اور خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات کا تی ان کے سامنے ذکر نہیں کیا جاتا.مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد سخت بیمار تھا اُس نے ایک کپڑے کی خواہش کی ( یہ اس کی مرض موت تھی ).کلکتہ کی کوئی فرم تھی اُس سے وہ کپڑا مل سکتا تھا حضرتی مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کپڑا اُس کیلئے منگوا دیا مگر اس کے بعد مبارک احمد شاید فوت ہو گیا یا اور زیادہ بیمار ہو گیا کہ اسے اس کپڑے کی خواہش نہ رہی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے و کپڑا ہم تینوں بھائیوں میں بانٹ دیا.میں نے اُس کی صدری بنوالی جب میں صدری پہن کر باہر نکلا تو ایک دوست مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے آپ یہیں ٹھہریں مجھے ایک کام ہے میں ابھی آتا ہوں.یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آگئے.میں نے پوچھا کہاں گئے تھے؟ کہنے لگے ایک ضروری کام تھا.دو تین دن کے بعد وہ آئے تو انہوں نے بھی ایک صدری پہنی ہوئی تھی.کہنے لگے جب میں نے آپ کو صدری پہنے دیکھا تو میں نے کہا میں بھی اب اس قسم کی دھاری دار صدری ان بنوا کر رہوں گا.چنانچہ اُسی وقت میں گیا اور بازار سے کپڑا خرید کر صدری سلوالی.خیر اس میں بھی ایک لطیفہ تھا اور وہ یہ کہ ہمارا کپڑا ٹسری تھا اور اس دوست کا کپڑا گبرون یالدھیانہ کی قسم کا تھا لیکن اس سے اس خواہش کا پتہ چلتا ہے جو دوسروں کی اچھی چیز دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.اب کیا یہ لطیفہ نہیں کہ کسی کی دھاری دار صدری دیکھ کر تو دل بے تاب ہو جائے اور یہ خواہش پیدا ہو کہ کاش ! میرے پاس بھی ایسی ہی صدری ہو لیکن الہام الہی کا ذکر سُن کر اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت کی باتیں سن کر ہمارے دلوں میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ ہمیں بھی الہام ہوں ، ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ اپنے نشانات دکھایا کرے اور ہمیں بھی اپنی محبت سے نوازے.اس کی بڑی وجہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ہے کہ ہمارے سلسلہ کے علماء اور ہمارا سمجھدار طبقہ نو جوانوں کے سامنے اس رنگ میں ان باتوں کو پیش نہیں کرتا کہ یہ امور سہل الحصول اور ممکن الحصول ہیں.اوّل تو انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا کیا تعلق تھا اور اگر پتہ بھی ہو تو وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخصوص تھیں حالانکہ یہ سیج نہیں.پس اگر یہ تڑپ ہماری جماعت میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ہماری جماعت میں ایسا پیدا ہوسکتا ہے
خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۶ جو گناہ کو بہت حد تک مٹادے گا.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ گناہ بالکل مٹ جائے گا کیونکہ یہ بہت مشکل بات ہے مگر بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جا سکتا ہے یا اکثر حصہ جماعت میں ایسے لوگوں کا پیدا ہوسکتا ہے جو گناہوں پر غالب آ جائے ورنہ کوئی نہ کوئی گنا ہوگا تو ہر جماعت میں موجود ہوتا ہے جیسے کوئی نہ کوئی مریض یورپ میں بھی ہوتا ہے مگر ہندوستان میں چونکہ مریضوں کی کثرت ہے اس کی لئے ہم کہتے ہیں ہندوستان میں زیادہ بیماریاں ہیں.یہاں کی اوسط عمر بیس سال ہے اور یورپ والوں کی اوسط عمر پچاس سال ہے اور گو یہ بھی مرتے ہیں اور وہ بھی ، اور یہ بھی بیمار ہوتے ہیں اور وہ بھی لیکن کثرت وقلت کے فرق کی وجہ سے یورپ کو ہندوستان سے بہتر سمجھا جاتا ہے.غرض یہ فرق جماعت میں ہوسکتا ہے اور بہت سا حصہ ایسا پیدا کیا جاسکتا ہے جو نیک ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہماری جماعت کے علماء باہر جا کر وفات مسیح پر زور دینے کی طرح جماعت کی لکی اصلاح کی بھی کوشش کریں اور یہ بتابتا کر اصلاح کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس قدر برکات سے حصہ دیا ہے.آپ پر کس طرح الہامات نازل ہوتے تھے، کس طرح اللہ تعالیٰ سے آپ محبت کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کی تائید کیلئے کیسے کیسے عظیم الشان نشان ظاہر فرماتا تھا اور آپ کیلئے کس طرح اپنی غیرت کا اظہار کیا کرتا تھا اور یہ کہ یہ باتیں انہیں بھی حاصل ہوسکتی ہیں.اگر یہ باتیں بار بار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقیناً اس میں طاقت پیدا ہوسکتی ہے اور اس کی قوتِ ارادی ایسی مضبوط ہوسکتی ہے کہ وہ ہزاروں گناہوں پر غالب آجائے اور ان سے ہمیشہ کیلئے محفوظ رہے.دوسری چیز علمی قوت ہے جو اصلاح اعمال میں ممد ہوتی ہے.اس کے متعلق میں بتا چکا ہے ہوں کہ غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ گناہ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ہے کہ جن گنا ہوں کو وہ چھوٹا سمجھتے ہیں وہ ان کے قلوب میں راسخ ہوتے چلے جاتے ہیں.اگر ہمارے علماء اس بات پر زور دیں اور لوگوں کو بتایا کریں کہ کوئی گناہ چھوٹا نہیں ہوتا ہر گناہ خطر ناک زہر ہے تو جماعت کی بہت کچھ اصلاح ہو جائے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے سال بھر میں ایک مولوی ایک لیکچر بھی اس قسم کا نہیں دیتا اگر وہ اس قسم کے لیکچر دیتے تو یقینا لوگوں کی اصلاح ہو جاتی.خصوصیت سے اس قسم کے پیچروں کی کالجوں ،سکولوں اور مدرسوں میں ضرورت ہوا کرتی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ ہے مگر جا کر سکول میں دریافت کریں کہ اس قسم کے کتنے لیکچرلڑکوں کے سامنے دیئے جاتے ہیں.بعض دفعہ تمہیں معلوم ہوگا کہ پانچ سال سے تمہارا لڑکا سکول میں داخل ہے مگر اس قسم کی باتیں ایک دفعہ بھی اس کے کانوں میں نہیں پہنچا ئیں گئیں حالانکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو روزانہ لڑکوں کے سامنے بیان ہونی چاہئیں.پس علمی کمزوری کی وجہ سے بھی بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں مگر ہمارے سکولوں میں اس قسم کی علمی کمزوری کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی بلکہ الٹا ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو اخلاق کو خراب کرنے والی ہوتی اور خیالات کو پراگندہ کرنے والی ہوتی ہے.چنانچہ سکولوں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت سے کوئی غیر مرد محبت کرے اور وہ اس کی خواہشوں کا جواب نہ دے تو وہ بے وفا ہوتی ہے.ہماری پرانی شاعری میں اس کے سوا اور ہے ہی کیا.یہی اس میں ذکر آتا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی لڑکی کو اپنے قابو میں لانا چاہے اور وہ اس کا کہا مان لے تو وہ با وفا ہے، ورنہ بیوفا اور ظالم ہے.یہ تعلیم اُس وقت دی جاتی ہے جب لڑکی اور لڑکے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہوس کیا ہوتی ہے، محبت کیا ہوتی ہے اور عشق کیا ہوتا ہے اور وصل کیا ہوتا ہے مگر وہ ا شعر پڑھتا اور آہیں بھرتا ہے اور جب اس میں مادہ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے سامنے اس قسم کا کوئی منظر آتا ہے تو وہ کہتا ہے اب مجھے ظالم نہیں بلکہ باوفا بننا چاہئے.پس سکولوں میں اچھی تعلیم تو کیا بُری تعلیم دی جاتی ہے اور ہماری احمد یہ جماعت بھی اس سے مستی نہیں اسی لئے میں نے کہا ہے کہ جب تک تعلیم کے کورس بدل نہیں دیئے جاتے ، جب تک پرانی شاعری کو لعنت قرار دے کر اُسے الگ پھینک نہیں دیا جاتا، جب تک اس شاعری کا شوق رکھنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور جب تک ان اشعار کی جگہ ایسے اشعار نہیں پڑھائے جاتے جو اخلاق کیلئے مفید ہوں اُس کی وقت تک اصلاح کبھی نہیں ہوسکتی.تیسری چیز دوسرے کا سہارا ہے جو دو قسم کا ہوتا ہے ایک نگرانی کا اور دوسرا جبر کا.یعنی کچھ حصہ سہارے کا ایسا ہوتا ہے جو نگرانی پر مشتمل ہوتا ہے.مثلاً ایک دوست پاس بیٹھ جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میں تمہیں فلاں بدی کا ارتکاب کرنے نہیں دوں گا اور ایک سہارا ایسا ہوتا ہے جو جبر پر مشتمل ہوتا ہے.یعنی اسے مارا پیٹا جاتا ہے، اس پر مجرمانہ کیا جاتا ہے، اس کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور اس طرح اسے مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ نیک اعمال اختیار کرے.اس جبر کے نتیجہ میں گوا بتداء
خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۶ میں وہ جبراً نیکی کے اعمال بجالاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کے دل میں بھی ایمان پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ خوشی سے نیک اعمال میں حصہ لینے لگ جاتا ہے.یہ ذرائع ہیں جن سے بُرے اعمال کا علاج کیا جاسکتا ہے بغیر ان ذرائع کو اختیار کئے اصلاح اعمال میں کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی.یعنی ایمان کا پیدا کرنا، علم صحیح کا پیدا کرنا، نگرانی کرنا اور جبر کرنا یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیر تمام قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی.دنیا میں ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا.ایسے لوگوں کے قلوب میں اگر قوت ایمانیہ بھر دی جائے تو ان کے اعمال درست ہو جاتے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدم علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے اس کیلئے علم صحیح کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک طبقہ جو نیک اعمال میں حصہ لینے کیلئے دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے وہ نگرانی کا مستحق ہوتا ہے اور وہ طبقہ جو بالکل گرا ہوا ہو وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے اور جب تک اسے سزا نہ دی جائے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اگر ہم ان چاروں ذرائع کو اختیار کریں گے تو ہم کامیاب ہوں گے اور اگر ہم ان چاروں ذرائع میں سے ایک ذریعہ کو بھی چھوڑ دیں گے تو کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ جس زمانہ کی میں مذہب کے پاس نہ حکومت ہو نہ تلوار اُس زمانہ میں یہ چاروں علاج ضروری ہوتے ہیں.مگر یہ کی کہ پہلے دو ذرائع چھوڑ کر مؤخر الذکر دو ذرائع کی تفصیل کیا ہے اور کس کس طرح ان پر عمل کرنا چاہئے اس کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ یہ میری تحریک جدید کا دوسرا حصہ ہے اور انہیں اُسی وقت بیان کیا جائے گا جب تحریک جدید کے دوسرے حصہ کو پیش کرنے کا وقت آیا.لیکن اصول میں نے بیان کر دیئے ہیں اور اس سے دوست بہت حد تک فائدہ بھی اُٹھا سکتے ہیں لیکن دو چیز میں ایسی ہیں جن پر عمل شروع ہو جانا ضروری ہے.ان میں سے پہلی چیز جس پر ابھی سے عمل شروع کر دینا تھی چاہئے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات ، آپ کی وحی ، آپ کے الہامات کی اور آپ کے تعلق باللہ کا متواتر لوگوں کے سامنے ذکر کیا جائے اور ہر شخص کو بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی کیا فوائد ہیں، اس کی محبت انسان کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اور اس کا پیار جب کسی انسان کے شامل حال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے کس طرح امتیازی سلوک کرتا ہے.حضرت عیسی بے شک زندہ آسمان پر بیٹھے رہیں ، ان کا آسمان پر زندہ بیٹھے رہنا اتنا نقصان دہ نہیں جتنا خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۴۵۶ سال ۱۹۳۶ کا ہمارے دلوں میں مُردہ ہو جانا نقصان دہ ہے.پس کیا فائدہ اس بات کا کہ تم حضرت عیسی کی علیہ السلام کی وفات پر زور دیتے ہو جبکہ دوسری طرف خدا تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں میں تم مادر ہے کی ہو اور اسے زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.خدا تعالیٰ بے شک حی و قیوم ہے اور وہ کبھی نہیں مرتا مگر بعض انسانوں کے لحاظ سے وہ مر بھی جاتا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل اپنے ایک استاد کا جو بھوپال کے رہنے والے تھے واقعہ سنایا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں انہوں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ بھوپال کے باہر ایک پل ہے وہاں ایک کوڑھی پڑا ہوا ہے.جو کوڑھی ہونے کے علاوہ آنکھوں سے اندھا ہے، ناک اس کا کٹا ہوا ہے، انگلیاں اس کی جھڑ چکی ہیں اور تمام جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے اور مکھیاں اُس پر بھنبھنا رہی ہیں.وہ کہتے ہیں مجھے اسے دیکھ کر سخت کراہت آئی اور میں نے پوچھا بابا تو کون ہے؟ وہ کہنے لگا میں اللہ میاں ہوں.یہ جواب سن کر مجھ پر سخت دہشت طاری ہوئی اور میں نے کہا تم اللہ میاں ہو.آج تک تو سارے انبیاء دنیا میں یہی کہتے چلے آئے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور اس سے بڑھ کر اور کوئی حسین نہیں ، ہم جو اللہ تعالیٰ سے عشق اور محبت کرتے ہیں تو کیا اسی شکل پر ؟ اس نے کہا انبیاء جو کچھ کہتے آئے وہ ٹھیک اور درست ہے میں اصل اللہ میاں نہیں میں بھوپال کے لوگوں کا اللہ میاں ہوں یعنی بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں میں ایسا ہی سمجھا جاتا ہوں.تو اللہ میاں یوں تو نہیں مرتا مگر جب کوئی انسان اسے بھلا دیتا ہے تو اس کے لحاظ سے وہ مرجاتا ہے.تو عجیب بات ہے ہمارے علماء حضرت عیسی کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ کسی وقت اگر یہ سوال پیدا ہو جائے کہ عیسی مر جائے مگر ساتھ خدا تعالیٰ بھی مر جائیں گے تو یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اگر عیسی زندہ رہتا ہے تو زندہ رہنے دو لیکن خدا کو مرنے نہ دو کیونکہ اگر خدا زندہ رہا تو وہ زندہ عیسی کی وجہ سے بھی دنیا میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہونے دے گا.غرض اصل مضامین جن کی طرف ہمارے مبلغین ک توجہ کرنی چاہئے اُن کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور نہ دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ خشک دلائل سے لوگوں کے پر اثر ڈالا جاتا ہے حالانکہ جس کے پاس اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات اور معجزات ہوں اور جو
خطبات محمود ۴۵۷ سال ۱۹۳۶ مشاہدہ اور رؤیت کے طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دے سکتا ہوا سے خشک دلائل سے خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے.کوئی احمق ہی ہوگا کہ جب اُس سے ایسی حالت میں جبکہ سورج چڑھا ہوا ہو سورج کے چڑھنے کا ثبوت مانگا جائے تو وہ دلائل دینا شروع کر دے اور کہنے لگ جائے کہ سورج کی روشنی سفید ہوتی ہے، جب اُس کی روشنی زمین پر پھیلتی ہے تو ہر چیز نظر آنے لگتی ہے، اتنے بجے چڑھتا ہے اور اتنے بجے غروب ہوتا ہے.کیا دنیا میں تم نے کوئی ایسا گدھا اور بیوقوف بھی دیکھا ہے جو سورج کی موجودگی میں سورج کے چڑھنے کے دلائل دیتا ہو.ایسی حالت میں تو جب کوئی سورج کے طلوع ہونے کا ثبوت مانگے ایک ہی علاج ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اُس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ سورج کی طرف کر دو اور کہو دیکھ لو یہ سورج ہے.خدا تعالیٰ بھی اس وقت ہمارے سامنے جلوہ گر ہے، وہ بھی عریاں ہو کر اپنی تمام صفات کے ساتھ دنیا کے سامنے رونما ہو گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وہ اپنے سارے حسن کے ساتھ جلوہ نما ہے ایسی حالت میں اگر ہمارے واعظ اور مبلغ خشک دلائل دینے میں لگے رہتے ہیں تو اُن جیسا احمق اور بیوقوف کون ہوسکتا ہے.ایسی صورت میں تو ایک ہی علاج ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کے کلے پکڑ کر اُن کی آنکھیں اوپر کو اٹھا دی جائیں اور کہا جائے دیکھ لو وہ خدا ہے جس نے اپنے تازہ نشانات سے دنیا پر اپنے وجود کو ثابت کیا ہے.یہی چیز ہے جو جماعت کی عملی قوت کو مضبوط کر سکتی ہے.تم بچوں ، جوانوں، مردوں ، عورتوں اور نو وارد احمدیوں کے سامنے یہ باتیں پیش کرو.انہیں بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا ، انہیں سمجھاؤ کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.پھر دیکھو گے کہ وہی لڑکے جو دھاری دار صدریوں کی نقل کرنے کا شوق رکھتے ہیں خدا تعالیٰ سے ملنے کی تڑپ بھی اپنے دلوں میں پیدا کریں گے اور اس کے قرب میں بڑھتے چلے جائیں گے.پھر جن میں علم کی کمی ہے اس ذریعہ سے ان کی علمی کمی بھی دور ہو جائے گی.اب تو ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک معمولی سی بات پر ہم میں سے کسی کو ابتلاء آ جاتا ہے.مثلاً پانچ روپے اس نے کسی کے دینے تھے مگر وہ دیتا نہیں تھا خلیفہ وقت کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو اس نے پانچ روپے لے کر اس مستحق کو دلوا دئیے پس اتنی سے بات پر اُسے ابتلاء آ جاتا ہے اور وہ لوگوں سے کہنا شروع کی
خطبات محمود ۴۵۸ سال ۱۹۳۶ کر دیتا ہے کہ خلیفہ نے پانچ روپے مجھ سے ناحق لے کر دوسرے کو دے دیئے.یہ الگ سوال ہے کہ وہ پانچ روپے اس کے نہیں تھے بلکہ دوسرے ہی کے تھے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپیہ کیا ، پانچ ہزار روپیہ کیا ، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور نا قابل ذکر چیز ہیں تو اس قسم کے ابتلاء جماعت کے لوگوں پر کیوں آئیں.پھر اگر انہیں بار بار بتایا جائے کہ ساری برکت نظام میں ہے، انہیں سمجھایا جائے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی قوم میں سے نظام اٹھا لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس قوم پر اپنی لعنت ڈالنا چاہتا ہے.اگر یہ باتیں ہر مر د، ہر عورت ، ہر بچے اور ہر بوڑھے کے ذہن نشین کی جائیں اور ان کے دلوں پر ان کا نقش کیا جائے تو وہ ٹھوکر میں جو عدم علم کی وجہ سے لوگ کھاتے ہیں کیوں کھا ئیں.مگر قادیان میں ہی بعض مجلسوں میں یہ تو سننے میں آ جائے گا کہ خلیفہ خدا تھوڑا ہی ہوتا ہے وہ بھی غلطی کر سکتا ہے جیسے عام انسان غلطی کر سکتے ہیں.مگر اس قسم کے الفاظ لوگوں کے منہ سے کم سنائی دیں گے کہ خدا تعالیٰ خود قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ خلفاء جن امور کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ہم ان امور کو دنیا میں قائم کر کے رہتے ہیں.وہ فرماتا ہے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ سے یعنی وہ دین اور وہ اصول جو خلفاء دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں ہم اپنی ذات کی ہی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم انہیں دنیا میں قائم کر کے رہیں گے.پس اگر یہ باتیں لوگوں کو سنائی جائیں تو کیوں معمولی معمولی باتوں پر وہ ٹھوکریں کھا ئیں.پس سب سے اہم ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے بعد اور کوئی عالم ایسا نہیں نکلا جس نے اس ذمہ داری کو پوری طرح سمجھا ہو.حافظ روشن علی صاحب مرحوم صرف ایک عالم ہی نہیں تھے بلکہ انہیں لوگوں کی اصلاح کا خیال رہتا تھا اور وہ ہر معاملہ میں دخل دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ لوگوں میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو حالانکہ انہیں کوئی غیر معمولی طاقتیں حاصل نہیں تھیں، ان کی نظر کمزور تھی اور ان کے قومی بھی کمزور تھے مگر چونکہ ان کی قوت ارادی اور ایمان بہت مضبوط تھا اس لئے وہ سب کام بخوبی کرتے تھے.اگر ہمارے علماء اس طرف توجہ کریں اور اپنے لوگوں کی عملی اصلاح کو وہ غیروں کے عقیدوں کی
خطبات محمود ۴۵۹ سال ۱۹۳۶ اصلاح کے برابر ہی ضروری سمجھیں تو چند دن کے اندر ہی کا یا پلٹ سکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو دوسرے قدم ہیں اُن کا اُٹھانا بھی ہمارے لئے آسان ہو سکتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ گو یہ مضمون نہایت ہی اہم ہے مگر چونکہ اب عصر کا وقت قریب ہو رہا ہے اور میرا گلا بھی بیٹھ گیا ہے اس لئے میں اصلاح اعمال کے متعلق اپنے خطبات کو موجودہ صورت میں ختم کرتا ہوں کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ اس مضمون کے زیادہ تر حصے ایسے ہیں جو تحریک جدید کے دوسرے حصہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اُسی وقت بیان کرنا مناسب ہے لیکن اس سے پہلے ہماری جماعت کے علماء لوگوں کو تیار کر سکتے ہیں.اور دوسرے لوگ بھی جن کو خدا تعالیٰ نے علم و فہم بخشا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے اور الہی محبت کے حاصل کرنے کی خواہش اپنے قلوب میں پاتے ہیں لوگوں کو اس رنگ میں تیار کر سکتے اور ان کے اعمال کی اصلاح میں حصہ لے سکتے ہیں اور میرے کام میں سہولت پیدا کر کے خدا تعالیٰ کی نظر میں خلیفہ وقت کے نائب قرار پاسکتے ہیں.اس کام کا طریق میں بتا چکا ہوں جو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات اور آپ کے فیوض لوگوں پر ظاہر کئے جائیں ، خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات کا بار بار ذکر کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے ذرائع لوگوں کو بتائے جائیں، خلیفہ وقت کی اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی تلقین کی جائے اور ان لوگوں کے اعتراضات اور وساوس سے انہیں محفوظ رکھا جائے ، جو نا بینا ہو کر ایک بیٹا پر اعتراض کرتے ہیں ، جو لولے لنجے ہو کر اُس شخص پر اعتراض کرتے ہیں جو چلتا پھرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے مقر کردہ خلیفہ پر.وہ آپ تو سکتے ہی تھے مگر وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی نکما کر دیں اور انہیں بھی اپنی طرح گمراہی میں مبتلا کر دیں.ان کے مقابلہ میں اگر وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے ہاتھ پاؤں دیئے ہیں اور عقل و سمجھ سے انہیں حصہ دیا ہے کام کریں اور جماعت کی تربیت کریں تو آج ہی نقشہ بدل جائے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ وفات مسیح اور کی ختم نبوت کے مسائل میں ہی مشغول رہتے ہیں حالانکہ جس حصہ کی طرف ان کی توجہ ہے وہ علمی ہے اور جس حصہ کی طرف میں انہیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ عملی اور عرفانی ہے.علم اور چیز ہے اور عرفان اور چیز.ہمیں جو وفات مسیح وغیرہ کے مسائل کے متعلق علم کی ضرورت ہے وہ دشمن کیلئے ہے لیکن عمل اور عرفان کی اپنی جماعت کیلئے ضرورت ہے مگر ہمارے علماء کی ساری توجہ اس وقت
خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۶ غیر احمدیوں کی طرف ہے اپنی جماعت کی طرف نہیں.اپنی جماعت کے متعلق غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چاہے ڈوبے یا مرے ہمیں اس سے کیا کام ہے حالانکہ اگر وہ قلوب کی اصلاح کریں اور لوگوں کے دلوں میں عرفان اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں تو کروڑوں کروڑ لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَتِكَ وَاسْتَغْفِرُهُ ہے کہ اگر تبلیغ کے ذریعہ تم اپنے مذہب کی اشاعت کرو گے تو ایک ایک دو دو کر کے لوگ تمہاری طرف آئیں گے لیکن اگر تم استغفار اور تسبیح کرو اور اپنی جماعت سے گناہ دور کر دو تو پھر فوج در فوج لوگ آئیں گے اور تمہارے اندر شامل ہوجائیں گے.تو جو ذرائع میں بتا رہا ہوں اُن پر عمل کرنے سے لاکھوں اور کروڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں مگر جو طریق تم اختیار کئے ہوئے ہو اس سے سینکڑوں سال میں بھی ہماری جماعت ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتی.اگر ہمارے اعمال اچھے ہوں، ہم میں دیانت اور امانت پائی جاتی ہو اور ہم اتنی حلال روزی کما کر کھانے والے ہوں کہ جس کام پر مقرر کئے جائیں اُس کو پوری تندہی ، پوری خوش اسلوبی اور پوری دیانتداری کے ساتھ کریں تو ہر جگہ کی نوکریاں مل سکتی ہیں اور وہی انگریز جو آج کہتے ہیں کہ احمدیوں کو نوکریاں نہ دو ترلے اور منتیں کر کر کے تمہیں نوکریاں دینے کیلئے تیار ہو جائیں گے.مسٹر سٹرک لینڈ کو آپریٹو سوسائیٹیز کے ایک انگریز رجسٹرار تھے وہ شملہ میں ایک دفعہ مجھے ملے اور کہنے لگے آپ کے چندہ وصول کرنے والے کس دیانتداری سے کام لیتے ہیں میں تو جسے مقرر کرتا ہوں وہ تھوڑے دنوں میں ہی خائن ثابت ہو جاتا ہے اور مجھے اسے نکالنا پڑتا ہے.میں نے کہا ہمارے ہاں کوئی بددیانتی نہیں کرتا کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ بددیانتی انسانی ایمان کو ضائع کر دیتی ہے.وہ اُس وقت چھٹی پر جارہے تھے کہنے لگے اگر میں واپس آیا تو حکومت سے درخواست کروں گا کہ کو آپریٹو سوسائیٹیز کے انسپکٹر پہلے چھ ماہ کیلئے امام جماعت احمدیہ کے پاس بھیج دیئے جایا کریں تا کہ وہ ان میں دیانت کی روح پیدا کر دیں.انہوں نے احمدیت کا کافی مطالعہ کیا ہوا تھا اور وہ احمدیت سے بہت ہی متاثر تھے مگر انہوں نے تو صرف سطحی نگاہ سے جماعت کو دیکھ کر اس رائے کا اظہار کیا تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم میں بھی کمزور لوگ موجود ہیں اور اگر واقعہ میں ہم
خطبات محمود ۴۶۱ سال ۱۹۳۶ میں اس قسم کی کمزوریاں نہ رہیں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ گورنمنٹ منتیں کر کر کے ہم سے آدمی مانگے اور وہ ہمارے دیانتدار آدمیوں کو اپنے محکموں کا نگران مقرر کرنے کیلئے منتیں کرے.پس یہ طریق ہے جس سے جماعت کی عملی اصلاح ہوسکتی ہے ورنہ خالی وفات مسیح اور ختم نبوت کے مسائل بیان کی کرنے سے جماعت کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی.میں یہ نہیں کہتا کہ ان مسائل کا بیان کرنا ضروری کی نہیں وہ بھی ضروری ہیں مگر وہ ایک ابتدائی حربہ ہیں.وہ ایسے ہی ہیں جیسے کلہاڑا لے کر ایک پہاڑ کو تو ڑا جائے مگر جو طریق میں نے بتایا ہے وہ ایسا ہے جیسے پہاڑ کے نیچے ڈائنا مائٹ رکھ کر اسے ضرب لگا دی جائے.پس پیشتر اس کے کہ ایک تحریک جدید کا دوسرا حصہ آئے میں علماء سے امید کرتا ہوں کہ وہ ان لائنوں پر جماعت کو تیار کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ وقت آنے پر جماعت کا کچھ حصہ فیل نہ ہو جائے.یہ تو خدا تعالیٰ کا کام ہے اور بہر حال ہو کر رہے گا لیکن اگر تحریک جدید کے اس کی دوسرے حصہ کو بیان کرتے وقت دس ہیں ٹھوکر کھا کر مرتد ہو جائیں تو ان کا ارتداد بھی ہمارے لئے تکلیف دہ ہو گا.کسی کے اگر ہزار بچے بھی ہوں تو بھی وہ پسند نہیں کر سکتا کہ اس کا کوئی بچہ مر جائے پھر ہم کب پسند کر سکتے ہیں کہ جب ہم اصلاح جماعت کیلئے کوئی عملی قدم اُٹھا ئیں تو دس ہیں یا پچاس سو مرتد ہو جائیں.پس دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے قلوب کی اصلاح کرے اور اس کی خامیوں اور نقائص کو دور کرے تا جس وقت عملی اصلاح کیلئے قدم اٹھایا جائے وہ اُس وقت لبیک کہہ کر آگے آجائیں اور دلی شوق سے ان پر عمل کرنے لگیں کسی دوسرے کو انہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو.ل البقرة: ١٣٩ (الفضل ۱۹؍ جولائی ۱۹۳۶ء) بخاری کتاب التفسير باب لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا (الخ) النور : ۵۶ النصر : ۲ تا ۴
خطبات محمود ۴۶۲ ۲۶ سال ۱۹۳۶ خدا تعالیٰ نے اخلاق کی درستی اور مادی ترقی کو مذہب کے تابع کر دیا ہے فرمودہ ۷ار جولائی ۱۹۳۶ء بمقام دھرم ساله) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے سب فطرتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تجویز فرمایا ہے.دنیا میں مذہب اور اخلاق اور انسان کی وہ ضروریات جو اس کے جسم کے ساتھ وابستہ ہیں وہ ایسی مشترک ہیں کہ ان میں آپس میں فرق کرنا مشکل ہے.جب کبھی ہم نیچے سے اوپر کی طرف آتے ہیں یعنی جسم کی ضرورتوں کے تقاضوں پر غور کرتے ہوئے اخلاقیات اور پھر مذہب کی طرف آتے ہیں تو بظاہر ساری مادیات کا ہی مجز و معلوم ہوتی ہیں اور اگر ہم اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں یعنی مذہب سے مادیات کی طرف آتے ہیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری کی باتیں مذہب سے تعلق رکھتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جو مادیات پر غور کرنے کے عادی ہیں آہستہ آہستہ مذہب کی تمام ضرورتوں اور اس کے تمام احکام کو مادیات کا حصہ قرار دیتے ہیں اور جو مذہب پر غور کرنے کے عادی ہیں وہ ہر ایک شے کو مذہب کا جُز و قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کے نزدیک دنیا کی معمولی سے معمولی بات بھی مذہب کا حصہ ہے.ہندوستان اور یورپ میں امتیازی نشان ہے کہ ہندوستانی لوگ ہر ایک بات کو خواہ اخلاق سے تعلق رکھتی ہو یا مادیات سے
خطبات محمود ۴۶۳ سال ۱۹۳۶ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے مذہب کا جر و بنادیں اور یورپین لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ روحانیات اور اخلاقیات کو مادی دنیا کا حصہ بنا دیں.وہ لوگ اگر الہام پر غور کرنے لگتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ یہ انسانی افعال کا جزو ہے، وہ اخلاق پر غور کریں گے تو اسی نقطہ نگاہ سے کہ اس سے انسان کو دنیوی فائدہ ہوتا ہے اور اگر مذہب پر غور کریں گے تو یہی کہیں گے کہ ادنیٰ قسم کے لوگ جو غیر تعلیم یافتہ ہیں مذہب کے نام سے جرائم اور فتنہ و فساد سے بچ جاتے ہیں.اس کے مقابل پر ہندوستان میں خصوصاً مسلمانوں کو دیکھا جائے تو وہ ہر چیز کو مذہب کا حصہ بنانے کی فکر میں ہیں گویا نماز روزہ سے اُتر کر اخلاق اور دنیوی تمام ضروریات خواہ کسی انجمن کا قیام ہو یا کسی جلسہ کا انعقاد ہو وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نزدیک اسلام کا حصہ ہیں اور ان میں شامل نہ ہونے والا کافر و مرتد ہے.اس معاملہ نے آہستہ آہستہ ایسا خطرناک غلو پیدا کیا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بجزئیات بھی خواہ وہ مادی ہوں یا اخلاقی مذہب کا حصہ ٹھہرائی گئی ہیں اور اب تو مذہب آدمیوں کے نام پر ہو گیا ہے.فلاں مولا نا صاحب کا یہ مذہب ہے اور فلاں عالم کا یہ، اور اس طرح اسلام میں اب کوئی حقیقت باقی نہیں رہی اور یہ لوگ اسلام سے دور جا پڑے ہیں.غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ در حقیقت مادیات اخلاق اور مذہب اسی قدر قریب قریب ہیں کہ عام آدمی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے ایک کی حد شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے.اگر مذہب اخلاقیات سے اتنا قریب نہ ہوتا کہ انسان کو پتہ نہ لگتا کہ مذہب اپنی حد سے نکل کر اخلاقیات کی حد میں داخل ہوتا ہے یا اخلاقیات، مادیات سے اتنا قریب نہ ہوتے کہ انسان کو معلوم نہ ہوتا کہ اخلاقیات اپنی حد سے نکل کر مادیات کی حد میں داخل ہوتے ہیں تو اتنا اختلاف جو آج پایا جاتا ہے نہ ہوتا.پس دونوں قوموں کے اختلاف سے معلوم ہوا کہ دونوں ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور اتنی قریب ہیں کہ انسان نہیں سمجھ سکتا کہ دونوں کی و حدود کیا ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ نیچے سے اوپر جانے کی وجہ سے یعنی مادیات سے مذہب کی طرف جانے کی وجہ سے چونکہ انسان مادیات سے اثر قبول کر چکا ہوتا ہے اس لئے وہ اوپر کی چیزوں کو مادیات کے تابع کرتا چلا جاتا ہے اور جو مذہب کا مطالعہ کرتے ہوئے مادیات کی طرف آتا ہے وہ اخلاقیات اور مادیات کو بھی مذہب کے تابع کر دیتا ہے اسی لئے کہ وہ اوپر سے اثر قبول
خطبات محمود ۴۶۴ سال ۱۹۳۶ کر چکا ہوتا ہے اور چونکہ ان میں آپس میں کامل مشابہت ہے اس لئے امتیاز مشکل ہے.اسی امتیاز کے نہ کرنے کی وجہ سے دو گروہ پیدا ہو گئے ہیں ایک ہر ھے کو مادیات کے تابع کرتا ہے اور دوسرا ہر ٹھے کو روحانیات کے.مگر باریک نظروں والا ان دونوں گروہوں کو غلطی پر قرار دے گا.اوپر سے نیچے آنے والے نے فرق کو دیکھا نہیں اس نے غلطی کی اور نیچے سے اوپر جانے والے نے تفاوت کی طرف نگاہ نہ اُٹھائی اُس نے بھی غلطی کی لیکن رسول کریم ﷺ کی زندگی میں دونوں پہلو نظر آ.ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ دنیا کے ماڈی مصلح بھی ہیں، اخلاقی مصلح بھی ہیں اور روحانی مصلح بھی ہیں اور آپ کی حیات طیبہ تمام کی جامع نظر آتی ہے.اگر ایک طرف آپ تعلیم دیتے ہیں کہ الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ لے تو دوسری طرف روحانیت کی تکمیل کے متعلق زور دیتے ہیں.دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا ہے جیسے بچے اور ماں کا تعلق.دعا کے معنے پکارنے کے ہیں.پکارنے والا تب پکارتا ہے جب اسے یقین ہو کہ کوئی میری مدد کرے گا کیونکہ کون اپنے دشمن کو مدد کیلئے پکارتا ہے؟ کہ مجھے آکر بچاؤ بلکہ انسان ایسے وقت میں خاموش رہتا ہے تا کہ کوئی اس پر ہنسے نہیں.دعا میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں اول یہ کہ اپنے دل میں یقین کرے کہ میری بات قبول کی جائے گی ، دوسرے یہ اعتما د ر کھے کہ جس کو میں پکارتا ہوں اس میں میری مدد کرنے کی طاقت ہے، تیسرے ایک فطری لگاؤ جو انسان کو باقی ہر قسم کے لگاؤ سے پھیر کر اُسی کی طرف لے جاتا ہے.پہلے دو تو عقلی نکتے ہیں.تیسری فطرتی محبت ہے جو دوسری طرف سے اس کی آنکھ کو بند کر کے محبوب کی طرف لے جاتی ہے.بچہ اور ماں کی مثال کو دیکھ لو بچہ کا ماں سے فطرتی تعلق ہوتا ہے قطع نظر اس سے کہ ماں اس کی مدد کر سکے یا نہ کر سکے وہ اسے پکارتا ہے.ایک سمندر میں ڈوبنے والا بچہ با وجود یہ جاننے کے کہ میری ماں تیرنا نہیں جانتی پھر بھی اپنی ماں کو آواز دیتا ہے کہ مجھے بچاؤ کسی دوسرے کو آواز نہیں دیتا کہ کوئی مجھے بچائے بلکہ بے اختیار اپنی ماں کو پکارتا ہے یہ جذباتی تعلق ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ بغیر دعا کے انسان کے ایمان کو کامل نہیں کیا جاسکتا.پس آنحضرت ﷺ نے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو ماں اور بچہ کا سا تعلق قرار دیا ہے کہ دنیا سے آنکھ بند کر کے اسی کی طرف بھاگے جب کبھی دکھ پہنچے تو بھاگ کر اسی کے
خطبات محمود آستانہ پرگرے.۴۶۵ سال ۱۹۳۶ دوسری چیز اخلاق میں ہم دیکھتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایسے باریک در بار یک اخلاقی پہلو معلوم ہوتے ہیں کہ بار یک نگاہ والے بھی دیکھ نہیں سکتے.مثلاً بیویوں کے معاملہ میں ہی آپ کے متعلق آتا ہے کہ جب کوئی آپ کی بیوی پانی پیتی آپ اُسی جگہ منہ لگا کر پانی پیتے جہاں سے اس نے پیا ہوتا ہے.یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے مگر کیسا باریک نکتہ ہے کہ انسانی محبت بڑے بڑے معاملات سے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہوتی ہے.اخلاق کے بڑے معاملات میں بھی آپ نے ایسی تعلیم دی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ شخص ساری عمر اخلاقیات کا مطالعہ کرتا رہا ہے بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات، رشتہ داروں کے باہمی تعلقات ، انسان کے ذاتی کیریکٹر کی تفصیلات ، جھوٹ ، خیانت، بدگمانی سے پر ہیز تمام امور نظر آتے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جس کا ذکر نہ آیا ہو بلکہ ذات میں ایسا کامل نمونہ دکھایا ہے کہ اگر کسی شخص کو بیسیوں زندگیاں عطا ہوں تب بھی اس کمال کو نہیں پہنچ سکتا.تیسری چیز مادیات ہیں ان کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں تو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں مادیات میں اصلاح کی تعلیم بھی معلوم ہوتی ہے ،سڑکوں کو کھلا کرو، پانی کی صفائی رکھو، راستہ کی صفائی کرو، مکان کشادہ بناؤ وغیرہ احکام سے آپ کی تعلیم پُر ہے.پس مادیات کے لحاظ سے بھی آپ کی تعلیم ایسی مکمل ہے کہ حیرت آجاتی ہے.تمام ضروری ماڈی چیز میں خواہ وہ سیاست سے تعلق رکھتی ہوں یا تمدن سے تعلق رکھتی ہوں یا تجارت سے یا صنعت سے متعلق ہوں ہر ایک شے کو رسول کریم ﷺ نے اپنی اپنی جگہ پر بیان فرمایا ہے لیکن باوجود اس کے رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ کے لوگوں کی طرح یہ نہیں کیا کہ دنیا کی ہر ھے کو مذہب کا حصہ قرار دے دیا ہو.مثلاً آپ کے متعلق واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگ کھیتی باڑی کی کر رہے تھے آپ پاس سے گزرے تو وہ کر اور مادہ پودوں کو ملا رہے تھے آپ نے فرمایا کیا حرج ہے اگر نہ لگاؤ.لوگوں نے لگانے چھوڑ دیئے تو دوسرے سال پھل بہت کم آیا آپ نے ان درختوں صلى الله کو دیکھ کر دریافت فرمایا تو لوگوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! آپ ہی نے فرمایا تھا.رسول اللہ ہے نے فرمایا میں نے حکم نہیں دیا تھا آپ لوگ اپنی دنیاوی باتوں کو مجھ سے اچھا جانتے ہو سکے.اب گوب رسول اللہ ﷺ نے مادیات کو مذہب سے جدا کر دیا.وہ زبان بھی خدا کے رسول کی زبان تھی مگر
خطبات محمود ۴۶۶ سال ۱۹۳۶ باوجود اس کے کہ وہ خدا کے رسول کی زبان تھی آپ نے مادیات کو مادیات قرار دے کر فر مایا کہ تم ان باتوں کو زیادہ جانتے ہو مگر آجکل کے مولوی تو ایسا کرتے ہیں کہ خواہ اُن کے منہ سے انہونی کی بات بھی نکلے اس کے نہ ماننے سے اسلام کے دائرہ سے خارج اور کافر و مرتد ہونے کا سوال پیدا ہو جاتا ہے.دوسری طرف مغربی گروہ ہے اسکے نزدیک مذہب پر نہ ایمان لانا ضروری ہے، نہ ان کے نزدیک آپ کی تعلیم کی عزت ہے، نہ اخلاق کی حرمت، وہ ہر شے کو مادی قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ اُن کے فلاسفروں نے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ خدا نے دنیا کو کس طرح پیدا کیا بلکہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو کس طرح پیدا کیا.ان کے نزدیک خدا کا سوال انسانی ارتقاء کا نتیجہ ہے اور یہ کہ بے شک خدا کا وجود ایک حقیقت ہے لیکن دماغی ترقی کی وہ انتہائی کڑی ہے اور کچھ نہیں.ان کے نزدیک انسان نے اپنے لئے ایک اچھا نمونہ تلاش کرنا چاہا جب وہ انسانوں میں ایک عمدہ نمونہ تلاش نہ کر سکے تو انہوں نے انسانوں سے باہر ایک ذہنی نقشہ تیار کیا.پہلی کوشش انسان کی ایسی کامیاب نہ تھی مگر جوں جوں وہ زیادہ غور کرتا گیا زیادہ ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ اس نے ایک کامل نقشہ تیار کر لیا اُس کا نام خدا ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ اس کا حکم مانے یعنی اس کی نقل کرنے کی کوشش کرے بغیر اس کی نقل اُتارنے کے انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں مگر اس کی لئے نہیں کہ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے بلکہ اس لئے کہ انسان نے آخر ایک کامل وجود کو دریافت کر لیا.غرض ان لوگوں نے خدا کو بھی مادیات کا حصہ قرار دے لیا ہے اور دوسری طرف ہندوستان کی کے مولویوں نے ہر ایک ھے حتی کہ اخبار ، سوسائٹی اور جلسہ کو بھی مذہب کا حصہ ٹھہرا لیا ہے.لیکن اس کی طریق سے نہ دنیا کی اصلاح ہو سکتی ہے نہ مذہب کی.جس گروہ نے مادیات کو روحانیات کے تابع کیا وہ کہتا ہے کہ نماز پڑھنے سے دنیا حاصل ہو جاتی ہے.دوسرا فریق کہتا ہے کہ دنیا میں کمانا، کھانا کھلا نا خدا کے حصول کا موجب ہیں.یہ دین کو خیالی نقطہ سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ دنیا کے پیچھے تمام روحانیات کو قربان کرنا چاہتا ہے.پس یہ دونوں دھو کا خوردہ اور دھوکا دینے والے ہیں اصل حقیقت رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ دونوں الگ الگ ہیں اور دونوں ضروری
خطبات محمود ۴۶۷ سال ۱۹۳۶ ہیں اور ان کو ملانا جائز نہیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ بے شک عبادت ضروری ہے لیکن وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَارِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ۵.مگر تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے ہمسایہ کا بھی تجھ پر حق ہے.پس ہمیں تینوں قسم کے ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہے.ان میں سے ایک تو دعا ، توجہ الی اللہ اور انابت اور عبادت سے کام لینا ضروری ہے.دوسرے نفس پر قابو پانا، جذبات کود با نا اور علم النفس پر غور کرنا.تیسرے مزدوری اور اپنے پیشہ میں دیانت سے کام لینا علم دنیوی اور سائنس کا حاصل کرنا ضروری ہے.پس ہر ایک ھے ضروری ہے مگر الگ الگ دائرہ کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کو ملا دے گا یا تقدیم و تاخیر کرے گا وہ غلطی کرے گا.یورپ نے روحانیت کو دنیا کے تابع کر کے دنیا کو حاصل کر لیا.دوسرا فقرہ اس کے برعکس یہ ہونا چاہیئے کہ ہندوستان نے مذہب کو مقدم کر کے مذہب کو حاصل کر لیا لیکن افسوس کی کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہندوستان نے خدا کے مذہب کو مقدم نہیں کیا بلکہ اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھا اس لئے اسے نہ مذہب ملا نہ دنیا.اس لحاظ سے یورپ کو فضیلت ہے کہ اس نے کچھ تو حاصل کر لیا.جس کو مقدم کیا وہ تو مل گیا مگر انہوں نے جس کو مقدم کیا اسے بھی کھو بیٹھے.اسی حالت کو دور کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے مامور آتے ہیں جو لوگوں کی صحیح راہنمائی کر کے مذہب کو مذہب کی جگہ اور اخلاق کو اخلاق کی جگہ اور دنیا کو دنیا کی جگہ رکھتے ہیں.بظاہر وہ روحانی پیغام لے کر آتے ہیں مگر ان تینوں چیزوں کا گہرا تعلق ہے اور روحانیت میں کمال سے اخلاق کا درست ہونا لازمی امر ہے ، اخلاق کی نگہداشت سے مادیت کی درستی لازمی ہے مگر اس کا عکس درست نہیں.یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس کی دُنیا درست ہو اُس کے اخلاق بھی درست ہوں اور جس کے اخلاق درست ہوں اس کا مذہب بھی درست ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کا منشاء انسان کو اپنی طرف لانے کا ہے پس اس نے اخلاق کی درستی اور مادی ترقی کو مذہب کے تابع کر دیا ہے تا کہ جو شخص اس کی طرف توجہ کرے اسے باقی سب کچھ آپ ہی آپ مل جائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامل مؤمن کو سب ترقیات حاصل ہوتی ہیں مگر کامل دنیا دار کے متعلق ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنیا تے.ان کی سب کوشش دنیا میں ہی غائب ہو جاتی ہے گویا روحانیت کے قبول کرنے والے
خطبات محمود ۴۶۸ سال ۱۹۳۶ کیلئے یعنی اوپر سے نیچے آنے والے کیلئے سیڑھی موجود ہے مگر نیچے سے اوپر جانے والے کیلئے سیڑھی موجود نہیں پس معلوم ہوا کہ دنیا میں ان تینوں امور کے حصول کیلئے الگ الگ ذرائع ہیں لیکن ایک کی ذریعہ مشترک بھی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا ہے.اخلاق کیلئے کوشش کرنے سے اخلاق مل جائیں گے، مادیات کیلئے کوشش سے مادیات حاصل ہو جائیں گی مگر ہر ایک کوشش کا نتیجہ اسی دائرہ کے اندر محد ودر ہے گا مگر روحانیت کی درستی کرنے والے کو ساری چیزیں ملیں گی.صحابہ رضی اللہ عنہم ایمان لاتے وقت اس بات کی بیعت نہیں کرتے تھے کہ گلیاں چوڑی رکھیں گے، سڑکیں کھلی رکھیں گے ، صفائی کریں گے بلکہ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھتے تھے اسی سے اخلاق درست ہوتے تھے.اخلاق کی درستی سے لازماً دنیا درست ہوتی تھی.اُس کو وقت ایک مسلمان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو دنیا میں کوئی رد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ سچ بولتا تھا اور تجارت میں دیانتدار کو دیکھ کر دنیا گویا مسلمان ہی کو تجارت سپر د کر دیتی تھی اور رعایا سے انصاف برتتے ہوئے دیکھ کر وہ لوگ چاہتے تھے کہ مسلمان ہی ہمارے حاکم ہوں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقع ہے کہ ایک موقع پر آپ کو شام سے فوج ہٹانی پڑی کیونکہ رومیوں کی فوج زیادہ تھی لیکن شامی لوگ روتے اور اصرار کرتے تھے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے آپ یہاں سے نہ جائیں.باوجود اس کے کہ رومی بھی عیسائی تھے اور شامی بھی عیسائی تھے مگر باوجود رومیوں کے ہم مذہب ہونے کے شامی اِس بات پر آمادہ تھے کہ مسلمانوں کی مدد کریں اور اپنی قوم کے ماتحت رہنا پسند نہ کرتے تھے اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمان اپنے ماتحتوں سے دیانت دارانہ سلوک کرتے تھے.پس گو بادشاہت دُنیوی کے ہے ہر مذہب کے لوگ بادشاہ ہوتے ہیں مگر مسلمانوں کی بادشاہت دنیوی نہ تھی.یہ بادشاہت ان کے مذہب کے طفیل ملی تھی اس لئے مذہب کے پیچھے چلتی تھی اور اس وجہ سے اس میں ایسی خوبیاں تھیں کہ ان سے مذہبی اختلاف رکھنے والے بھی نہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی بادشاہت جاتی رہے.مگر گو یہ حکومت لا إله إلا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے طفیل ملی تھی لیکن صرف زبانی دعوی کے طفیل نہیں بلکہ حقیقی ایمان کے طفیل سے کیونکہ زبانی دعوئی والا تو دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر جس کو سچا مذہب مل جائے اس کے اخلاق بھی درست ہو جاتے ہیں اور دنیا بھی.پھر چونکہ خدا تعالیٰ کو سب دنیا پر بادشاہت حاصل ہے اس لئے وہ بچے مذہب کے
خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۳۶ حامل کوظلتی طور پر بادشاہت دے دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تاجر کی مثال اکثر سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک دفعہ کچھ رقم شہر کے بڑے قاضی کے پاس امانت رکھی کہ جب میں سفر سے واپس آؤں گا تو اپنی امانت لے لوں گا لیکن جب وہ واپس آیا اور اس نے اپنی تھیلی مانگی تو قاضی نے صاف انکار کر دیا اور کہا ہے کیسی تھیلی اور کیسی امانت.تاجر نے بہتیرے آتے پتے بتائے کہ فلاں وقت تھا اور فلاں دن تھا، اس طرح آپ بیٹھے تھے.قاضی نے کہا کہ مجھے تو کوئی یاد نہیں اور میں تو امانتیں رکھا ہی نہیں کرتا.اس جواب پر تاجر بہت پریشان ہوا آخر اُ سے کسی نے بتایا کہ ہفتہ میں فلاں دن بادشاہ کا کھلا در بار ہوتا ہے اور ہر شخص جا کر عرض کر سکتا ہے تم اس دن جانا اور جا کر اپنا قصہ سنانا.اس نے ایسا ہی کیا مگر چونکہ تاجر کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا اس لئے بادشاہ نے کہا کہ شہر کے قاضی کو میں بغیر ثبوت کے کس طرح پکڑ سکتا ہوں.ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ فلاں دن میری سواری اور جلوس نکلے گا تو قاضی کے قریب ٹھہر نا میں جب آؤں گا تو تم سے بے تکلفی سے باتیں کروں گا اور تم آگے سے ایسے ظاہر کرنا کہ گویا تم میرے دوست ہو ڈر نامت.میں تمہیں کہوں گا کہ آپ ملے نہیں تو آگے سے جواب دینا کہ پہلے میں تو سفر پر گیا ہوا تھا پھر جب آیا تو کچھ امانت ایک صاحب کے پاس رکھی ہوئی تھی اس کا جھگڑا تھا وصولی کی کوشش میں ہوں اس لئے نہ مل سکا تو میں کہوں گا کہ نہیں تمہیں چاہئے تھا کہ ہمیں آکر ملتے اور آخر ایسے جھگڑے بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں پھر ہمیں آکر کیوں کی نہ کہا ؟ تو جواب دینا کہ اچھا اگر طے نہ ہوا تو پھر حاضر ہو جاؤں گا.چنانچہ اس تاجر نے ایسا ہی کیا.قاضی جو پاس ہی سلام کیلئے کھڑا تھا اُس نے یہ باتیں سن کر تاجر کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میاں ! تم اس دن آئے تھے اور کسی تحصیلی کا ذکر کرتے تھے میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے کوئی نشان بتاؤ تو شاید مجھے امانت یاد آ جائے.تاجر نے پھر پہلی ہی کہانی دُہرا دی کہ اس اس طرح میں آیا اور آپ فلاں مجلس میں بیٹھے تھے اور یوں میں نے تحصیلی دی تھی.تو قاضی کہنے لگا کہ آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا یہ امانت تو میرے پاس محفوظ ہے اور روپیہ لا کر تاجر کے حوالے کر دیا.تو جب ایک دنیوی بادشاہ جس کو محدود طاقت حاصل ہے اُس کی دوستی انسان کو یہ مقام دے دیتی ہے کہ اس سے بڑے بڑے لوگ خوف کھاتے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی دوستی کسی کو حاصل ہو اور دنیا اس کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ قدموں پر نہ گر جائے اس کا تعلق دیکھ کر تو ہر ذرہ آگے بڑھتا ہے کہ اس انسان کے قدموں پر شار ہو کر خدا تعالیٰ کی نظروں میں جگہ پائے.پس سچا مذہب حاصل کر کے انسان ساری دنیا کو حاصل کر سکتا ہے اور مذہب کے آنے سے سب باتیں آجاتی ہیں.چنانچہ رسول کریم لے کے ذریعہ یہ باتیں جو صحابہ کرام کو حاصل ہوئیں تو انہوں نے دنیاوی طور پر حاصل نہیں کیں بلکہ دنیا مذہب کے تابع ہو کر انہیں ملی مگر اس کیلئے ایمان کامل ضروری ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو جذب کرے.مثلاً ایک شخص جسے کامل ایمان حاصل ہو وہ کس طرح اعلیٰ اخلاق کو چھوڑ سکتا ہے اور اگر اخلاق کے سارے شعبے انسان اختیار کرے اور ان پر عمل کرے تو سچائی ، دیانت، امانت ، تقویٰ اور طہارت سبھی کچھ اسے حاصل ہوگا اور ان کا لازمی نتیجہ علم، ہنر، ہوشیاری اور محنت ہوگا اور ایسے شخص کو لا زمانی دنیا بھی حاصل ہو جائے گی.پس مؤمن کو سب سے زیادہ توجہ روحانی تعلق کی طرف کرنی چاہئے ان لوگوں کی طرح نہیں جو آجکل سمجھتے ہیں کہ منہ سے اقرار کافی ہے.خدا تعالیٰ کی محبت زبان کی نہیں ہو سکتی بلکہ دل سے ہی ہوسکتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر انسان ہر شے پر قبضہ کر لیتا ہے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منہ کی تھوک سے یا ایک قطرہ سے پہاڑ ڈھک جائیں مگر بادلوں سے ڈھک جاتے ہیں.اسی طرح اگر دل سے محبت کا دھواں اُٹھے تو اس سے اہم نتائج پیدا ہوں گے مگر جو منہ سے دعوی کرتا ہے وہ پاگل ہے اسے نہ دین ملے گا نہ دنیا.مؤمن کو کامل بنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ کسی نے کہا ہے ع کسب کمال گن که عزیز جہاں شوی جب تک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا.مذہب میں داخل ہونے سے بھی کمال ہی فائدہ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل ہم سے فائدہ وہی اُٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں یا تو پوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں یا کامل اخلاص رکھنے والے.ادنی تعلق فائدہ نہیں دیتا.اصل میں کمال ہی سے فضل ملتا ہے بغیر اس کے انسان فضل سے محروم رہتا ہے.اگر انسان ہر چہ بادا باد کشتی ما در آب انداختیم “ کہہ کر خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے تو اُس کے ساتھ بھی پہلوں کا سا معاملہ ہوگا.آخر خدا تعالیٰ کوکسی سے دشمنی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ انسان کامل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دے اور اس کے آستانہ پر گرا دے اس سے آپ ہی آپ اسے سب کچھ حاصل ہو جائے گا اور جو ترقی اس کیلئے ضروری ہوگی وہ آپ ہی آپ مل جائے گی.آگ کے پاس بیٹھنے والے کے اعضاء کو دیکھو سب گرم ہوں گے اس کا چہرہ ہاتھ پاؤں جہاں ہاتھ لگا ؤ گے گرم محسوس ہو گا.تو پھر کس طرح ممکن ہے کوئی شخص سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کے پاس آئے اور اُس کے پاس بیٹھ جائے اور خدا تعالیٰ کا وجود اُس کے اندر سے ظاہر نہ ہو.آگ کے اندر لوہا پڑ کر آگ کی خصوصیات ظاہر کرنے لگ جاتا ہے گو وہ آگ نہیں ہوتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگوں سے خاص معاملات ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں كُن فَيَكُونُ والی چادر پہنا دیتا ہے.حتی کہ نادان اُن کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ تو صرف خدا تعالیٰ کی صفات کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں.پس اگر کوئی مذہب سے فائدہ اُٹھانا چاہے تو اُس کا طریق یہی ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گلی طور پر ڈال دے لیکن اگر قوم کی قوم اس طرح کرے تو اس پر خاص فضل ہوں گے اور وہ ہر میدان میں فتح حاصل کرے گی.ہماری جماعت کیلئے بھی یہی قدم اٹھانا ضروری ہے مگر بہت سے لوگ صرف کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کرنی چاہئے کہ ایک طبعی کے بن جائے صرف جھوٹا دعوی نہ ہو کیونکہ جھوٹ اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی.جھوٹ ایک ظلمت ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک نور پس نور اور ظلمت کیسے جمع ہو سکتے ہیں.ایسے شخص کے اندر نہ سستی ہو نہ فریب نہ دغا.کیونکہ یہ سب ظلمات ہیں اور خدا تعالیٰ ایک نور ہے اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے.جب یہ بُرائیاں کسی قوم سے مٹ جائیں تو وہ قوم ذلیل نہیں رہتی اُس میں سے ذلت جاتی رہتی ہے اور عزت حاصل ہو جاتی ہے.پس اپنی ایسی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس سے خدا تعالیٰ دوست بن جائے اور صرف منہ سے کہنے کا فائدہ نہیں نہ فتوی بازی سے کام چل سکتا ہے اور نہ اس سے فائدہ ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی انجمن بنالیں یا کارخانے کھول لیں یہ سب باتیں مجزوی ہیں.جو شخص ادنی باتوں سے آزاد ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ڈال دے.ایسی حالت اگر لمحہ کیلئے بھی حاصل ہو تو دنیا میں تغیر پیدا کر دیتی ہے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ دو بادل ایک لمحہ کیلئے ملتے ہیں تو ان سے چمک پیدا ہوتی ہے
خطبات محمود ۴۷۲ سال ۱۹۳۶ اور تاریک رات کو روشن کر دیتی ہے.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ بندہ اور خدا آپس میں ملیں خوا ایک منٹ کیلئے ہی کیوں نہ ہو تو ایک ایسا نور نہ پیدا ہو جو سب دنیا کو روشن کر دے.( الفضل ۲۵ / جولائی ۱۹۳۶ء) ل ترمذی کتاب الدعوات باب الدعا مخ العبادة ابوداؤد کتاب الطهارة باب مؤاكلة الحائض و مجامعتها سے مسلم كتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقاله شرعًا (الخ) ۴ بخارى كتاب الصوم باب من اقسم على اخيه (الخ).بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم الكهف : ۱۰۵ النور : ٣٦
خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۶ بہادر بنو کہ مومن بُز دل نہیں ہوتا اور رحیم بنو کہ مومن ظالم نہیں ہوتا (فرموده ۲۴ / جولائی ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ منہ کی باتوں سے دنیا میں ہرگز کامیابی نہیں ہو سکتی.ہم میں سب کے سب ہی منہ سے اخلاص کا دعویٰ کرنے والے ہیں مگر عمل سے اخلاص کا ثبوت دینے والے اس کثرت سے موجود نہیں ہیں حالانکہ ہماری مشکلات پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہیں اور اگر پہلے صرف مختلف مذاہب بلکہ یوں کہو کہ مختلف مذاہب کے افراد مخالف تھے تو اب حکومت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جس کا مقصود جماعت احمدیہ کی مخالفت ہے.لوگ گھبراتے ہیں ان باتوں پر اور بعض گھبرا کر مجھے لکھتے ہیں اور بعض زبانی بھی کہتے ہیں کہ کیا بات ہو گئی ، خدا کیوں اس کا علاج نہیں کرتا.لیکن جہاں میں دعا اور تدبیر میں دوسروں سے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتا ہوں وہاں ان مشکلات کے پیدا ہونے کے متعلق مجھے ہرگز کوئی گھبراہٹ نہیں.لوگوں کو اس امر پر حیرت ہے کہ خدا تعالیٰ یہ باتیں کیوں ہونے دیتا ہے اور مجھے اس امر پر حیرت ہے کہ ان کو اس وقت تک خدا نے کیوں رو کے رکھا.اگر کوئی شخص بالکل نابینا نہیں، بالکل فاتر العقل نہیں ، بالکل کند ذہن نہیں ، بالکل ہی جاہل نہیں تو وہ پہلے انبیاء کے حالات کو دیکھ کر معلوم
خطبات محمود ۴۷۴ سال ۱۹۳۶ کر سکتا ہے کہ ان کا دسواں حصہ بھی ہم پر نہیں گزرا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو فرماتا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ تم ان حالات سے نہ گزرو جن سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں اے.آج بھی وہی خدا ہے، وہی دین ہے ، صداقت کو ثابت کرنے اور اس کے قائم ہونے کیلئے آج بھی وہی شرائط ہیں جو پہلے تھیں، وہی ذمہ داریاں ہمارے سپرد کی گئی ہیں ، اسی طرح ہم میں ایک مامور مبعوث کیا گیا ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ جو حالتیں پہلوں پر گزریں وہ ہم پر نہ گزریں، جو تکالیف پہلوں پر آئیں وہ ہم پر نہ آئیں.ہم میں اور ان میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ پہلی جماعتیں تکالیف اُٹھانے کی عادی تھیں اس لئے خدا تعالیٰ نے ان پر تکالیف جلد بھیج دیں لیکن ہم لوگ آرام طلبی کی وجہ سے اور ایسے ملک میں رہنے کی وجہ سے جہاں کی حکومت منظم ہے اور جہاں چوری، ڈاکہ اور قتل و غیرہ کی وارداتیں بہت کم ہوتی ہیں مصائب کے عادی نہ رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ آہستہ آہستہ ہم پر بوجھ ڈالے اور یکدم مصائب کا دروازہ ہم پر نہ کھولے.پس ان مصائب کے دیر سے آنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی ہے نہ کہ اس کی غفلت.ان کا آنا قابل تعجب نہیں بلکہ دیر سے آنا قابلِ تعجب ہے.پس جو احمدی خیال کرتا ہے کہ یہ مصیبتیں نا قابل برداشت ہیں ان ابتلاؤں میں کوئی ایسی بات ہے جن کو اس کا ایمان سمجھنے سے قاصر ہے وہ یا در کھے کہ اُسے ایمان کی چاشنی عطا نہیں ہوئی ، اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی سنت اسے معلوم نہیں.تم سے بہتر لوگوں کے ساتھ یہی باتیں گزریں اور صل الله انہوں نے ان کو اور نظر سے دیکھا.حضرت عمر اللہ تعالیٰ کے کتنے مقرب تھے رسول کریم علی فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو عمر ہوتا ہے.یہاں میرے بعد سے مراد معاً بعد ہے.تو وہ شخص جسے رسول کریم ﷺ بھی اس قابل سمجھتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے کسی کو شہادت کے مرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز کرنا ہوتا تو اس کا مستحق عمر تھا.وہ عمر جس کی قربانیوں کو دیکھ کر یورپ کے اشد ترین مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی قربانی کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو مٹادینے والا انسان بہت کم ملتا ہے اور جس کی خدمات کے متعلق وہ یہاں تک غلو کرتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کو ان سے ہی وابستہ کرتے ہیں.وہ عمر دعا کیا کرتے تھے کہ الہی! میری موت مدینہ میں ہو اور شہادت سے ہو.انہوں نے یہ دعا محبت -
خطبات محمود ۴۷۵ سال ۱۹۳۶ کے جوش میں کی ورنہ یہ دعا تھی بہت خطرناک.اس کے معنے یہ بنتے تھے کہ کوئی اتنا ز بر دست غنیم ہو کہ جو تمام اسلامی ممالک کو فتح کرتا ہو امدینہ پہنچ جائے اور پھر وہاں آکر آپ کو شہید کرے لیکن اس اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس نے حضرت عمر کی اس خواہش کو بھی پورا کر دیا اور مدینہ کو بھی ان آفات سے بچالیا جو بظاہر اس دعا کے پیچھے مخفی تھیں اور وہ اس طرح کہ اس نے مدینہ میں ہی ایک کافر کے ہاتھ سے آپ کو شہید کروا دیا.بہر حال حضرت عمر کی دعا سے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قرب کی یہی نشانی تھی کہ اپنی جان کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا موقع مل سکے لیکن آج مخرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے کہ خدا بندہ کی جان بچالے.حضرت خالد کی ہستی ایسی نہیں کہ کوئی مسلمان آپ کے نام سے ناواقف ہو.آپ کا نام کفار میں بھی اسی طرح مشہور ہے جس طرح مسلمانوں میں.آپ کا نام مسلمان اگر عزت سے لیتے ہیں تو غیر مسلم دہشت سے.وہ شخص موت اور مصائب کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا تھا.اس کی بہادری کا معیار اتنا بلند تھا کہ بعض واقعات پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں بلکہ الف لیلہ کا کوئی قصہ ہے.کفار کا لشکر لاکھوں کی تعداد میں آتا ہے، اسلامی لشکر کے بعض افسر مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہئے ، بعض کہتے ہیں کہ لڑنا چاہئے لیکن جب خالد سے مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ سارے اسلامی لشکر کو لڑانے کا کیا فائدہ مجھے دو سو آدمی دے دیا جائے میں انشاء الله اسے شکست دے دوں گا اور آپ نے عملاً ساٹھ ہزار کفار کا مقابلہ صرف ساٹھ مسلمان سپاہیوں سے کیا ہے اور نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں شکست دی اور ان کے کمانڈر کو قتل کر دیا.اب دیکھو یہ شخص اپنی قربانیوں کا کیا اندازہ لگاتا ہے.وہ تمہاری طرح یہ نہیں کہتا کہ فلاں موقع پر میں نے آٹھ آنہ چندہ دیا تھا اور فلاں موقع پر پچاس یا سو یا ہزار دیا تھا بلکہ اس کے برخلاف لکھا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلاء تھے تو ان کے ایک دوست ان کے پاس عیادت کیلئے گئے.ان کا بیان ہے کہ حضرت خالد مجھے دیکھ کر رو پڑے.میں نے کہا کہ خالد تم کیوں روتے ہو؟ موت تو آخر سب کو آنی ہے تم کو اسلام کی جو خدمات کرنے کا موقع ملا ہے ان کی وجہ سے تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہو اور اس کے انعامات سے حصہ پانے والے ہو.ان کے دوست کا بیان ہے کہ میری یہ بات سن کر آپ اور بھی بیتاب ہوکر رونے لگے اور کہا میرے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ دوست ! میرے جسم پر سے کپڑا اُٹھانا اور جب میں نے اُٹھایا تو دیکھا کہ سر سے لے کر کمر بند تک کوئی ایک انچ ایسی جگہ نہ تھی جہاں زخم کا نشان نہ ہو اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میری لاتوں پر سے کپڑا اُٹھانا اور جب میں نے اُٹھایا تو جسم کے اس حصہ کا بھی یہی حال تھا.اپنے یہ زخم دکھا کر حضرت خالد اور زیادہ بیتاب ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں نے ہر موقع پر خدا کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے ڈال دیا مگر نا معلوم میری کیا بدقسمتی تھی کہ میدانِ جنگ میں مارا نہ گیا اور آج بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں.یہ لوگ خدا کے سپاہی تھے.یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق لوگوں کا حق ہے کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَضُوا عَنْهُ ۳.کیا یہ عجیب زمانہ نہیں کہ آج آرام کی زندگی بسر کرنے کو خدا تعالیٰ کی نعمت قرار دیا جاتا ہے اور کجا وہ زمانہ تھا کہ خالد سر سے لے کر پاؤں تک زخمی تھے مگر پھر بھی تسلی نہیں اور ڈرتے ہیں کہ میں چونکہ خدا کی راہ میں مارا نہیں گیا نہ معلوم میری باقی قربانیاں بھی قبول ہوئیں یا نہیں.پس خوب یاد رکھو کہ جب تک پہلوں جیسی حالتیں ہم پر نہ آئیں یہ خیال کرنا کہ ہم خدا کی مقدس جماعت ہیں بالکل غلط ہے جو کچھ پہلوں کے ساتھ ہوا ہم سے ہونا ضروری ہے.ابتلاء مؤمن کی ذلت کا نہیں بلکہ عزت کا موجب ہوا کرتے ہیں.حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید ہم میں سے ایک فرد تھے اور اس زمانہ کے آدمی تھے مگر آپ نے صحابہ کا نمونہ دکھایا.آپ کو رویا میں بتایا گیا تھا کہ آپ پکڑے جائیں گے اور کہ آپ کیلئے بڑا ابتلاء مقدر ہے.آپ نے شاگردوں کو اس سے آگاہ کر دیا تھا اس لئے جب آپ کی گرفتاری کے احکام دربار سے جاری ہوئے تو آپ کو قبل از وقت اپنے درباری دوستوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہوگئی.شاگردوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے جلدی سے انگریزی علاقہ میں چلے جائیں.راوی کا بیان ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ آگے نکال کر کہا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس کی راہ میں مجھے سونے کے کنگن یعنی ہتھکڑیاں پہنائی جائیں گی.اور میں سمجھتا ہوں ان لوگوں تک پیغام صداقت پہنچانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہوگا جن تک کسی دوسرے طریق سے یہ پیغام نہیں پہنچایا جا سکتا.تو باوجود قبل از وقت اطلاع مل جانے کے اور باوجود اس کے کہ آپ بھاگ سکتے تھے آپ نہیں بھاگے اور اسے ذلت نہیں سمجھا بلکہ عزت سمجھا اور ہتھکڑی کا نام زیور رکھا اور
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ جب خود بادشاہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ اپنے عقائد چھوڑ دیں یا کم از کم اُن کو چھپالیں تا لوگوں کا جوش کم ہو تو آپ نے جواب دیا کہ میں کس چیز کو چھپاؤں.صداقت کو؟ اگر میں کوئی بُری بات پیش کر رہا ہوتا تو بادشاہ تو گجا کسی معمولی آدمی کے کہنے سے بھی چھوڑ دیتا مگر کیا صداقت کو بھی چھپایا جاسکتا ہے؟ آپ نے ان تکالیف کو مصیبت نہیں سمجھا اور یہ خیال نہیں کیا کہ میری قربانی کے عوض اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بیوفائی کی ہے انہوں نے اپنی قوم کے متعلق بھی اس فعل کو بیوفائی نہیں سمجھا.ایک شخص کا جو اس موقع پر موجود تھا بیان ہے کہ جب آپ پر پتھر پڑ رہے تھے ، جسم چور ہو رہا تھا ، ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں ، اُس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اے میرے رب ! ان کو ہدایت دے کہ یہ نادانی سے ایسا کرتے ہیں.مؤمن ہر چیز میں رسول کریم ﷺ کا اسوہ پیش نظر رکھتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پیش نظر اُس وقت طائف کا واقعہ تھا جو یوں ہے کہ مکہ والوں نے جب آنحضرت ﷺ کی تبلیغ کو سننے سے انکار کر دیا تو آپ کو خیال آیا کہ طائف کے لوگوں کو تبلیغ کروں.مکہ کے بد باطن مخالفوں کو جب علم ہوا تو انہوں نے طائف والوں کے پاس آدمی بھیجا کہ اس شخص کیلئے ہم نے مکہ میں تو کوئی جگہ چھوڑی نہیں ہمیں امید ہے کہ تم لوگ اپنے مذہب کیلئے ہم سے کم غیرتمند ثابت نہ ہوگے.طائف والوں نے جواب دیا کہ تم اسے یہاں آنے دو تم سے زیادہ بدسلوکی ہم کریں گے.رسول کریم ہے جب طائف پہنچے تو ان لوگوں نے دھوکا سے آپ کو ایک جگہ بلایا کہ آپ کی باتیں سنیں گے اور ادھر شہر کے لڑکوں کو جمع کر لیا جن کی جھولیوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ساتھ گتے تھے.جب آپ نے وہاں پہنچ کر بات شروع کی تو لڑکوں نے پتھر مارنے شروع کر دیئے اور گتے بھی چھوڑ دیئے گئے.پتھر آپ پر گرتے اور جسم اطہر پر زخم لگتے جاتے تھے اور خون بہتا جاتا تھا.آپ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کیلئے ٹھہرتے تو جسم اطہر سے خون پونچھتے جاتے اور ساتھ فرماتے اے میرے ربّ! یہ لوگ نہیں جانتے میں کون ہوں تو انہیں معاف کرتے.عربوں میں شرافت کا مادہ تھا اس لئے دشمن بھی بعض اوقات دل میں درد محسوس کرتا تھا.رستہ میں ایک عرب سردار کا باغ تھا جب اُس نے آپ کو اس حالت میں آتے دیکھا تو اس کے دل میں درد پیدا ہوا اور اپنے عیسائی غلام سے کہا انگور توڑ کر لے جاؤ اور اس شخص کو بلا لا ؤ اور اسے بٹھا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کے کر کھلاؤ.چنانچہ غلام جا کر آپ کو بلا لا یا بٹھایا اور انگور کھلائے اور پھر دریافت کیا کہ آپ می ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے؟ آپ نے اسے ساری بات سنائی اور پھر کہا کہ میں جب طائف - واپس آ رہا تھا تو مجھ پر جبریل نازل ہوئے اور کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تو کہے تو طائف والوں کا تختہ اُسی طرح اُلٹ دوں جس طرح لوط کی بستی کا اُلٹا گیا تھا مگر میں نے اسے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ تباہ ہو گئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا.آپ کی باتیں سن کر عیسائی غلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے جب اس کے آقا نے یہ دیکھا تو اس کی مذہبی غیرت جوش میں آگئی اور اپنے غلام کو واپس بلا لیا اور کہنے لگا کہ کیا تو بھی اس کے پھندے میں آ گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی نظر کے سامنے تھا اور آپ نے نہ چاہا کہ آپ کا قدم کسی ایسی جگہ پڑے جہاں آنحضرت ﷺ کا قدم نہ پڑا تھا.اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مؤمن کو ایک ہی وقت میں بہادر بھی اور رحیم بھی ہونا چاہئے.یہ دو جذبات بہت کم اکٹھے مل سکتے ہیں.مگر وہ بہادری حقیقی نہیں ہوتی جس میں ظلم ہو.وہ شجاعت شجاعت نہیں بلکہ تہور ہوتا ہے.حقیقی بہادری مؤمن میں ہی ملتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ رحم کا جذ بہ ضروری ہے.مؤمن بیک وقت بہادر بھی اور رحیم بھی ہوتا ہے.اگر وہ ایک طرف اپنی جان کو اخروٹ اور بادم کے چھلکے سے بھی حقیر سمجھتا ہے تو دوسری طرف اس کے اندرا تارحم ہوتا ہے کہ وہی لوگ جو اس پر ظلم کرتے ہیں ان سے وہ عفو کا معاملہ کرتا ہے.ایک واقعہ میں نے رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کا سنایا ہے جو ایک لمبی زنجیر کی کڑی ہے.متواتر تیرہ سال تک آپ پر یہ مظالم جاری رہے.کبھی آپ پر تلواروں سے حملہ کیا جاتا تو کبھی تیروں اور سونٹوں اور پتھروں سے ، کبھی آپ کے اوپر نجاست پھینکی جاتی اور کبھی گلا گھونٹا جاتا.حتی کہ آخری ایام میں جب آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا مسلسل تین سال تک آپ کا اور آپ کے صحابہ کا ایسا شدید بائیکاٹ کیا گیا کہ کسی سے سو دا بھی مسلمان نہ خرید سکتے تھے.حضرت ابوبکر کی روایت ہے کہ اتنی تنگی ہو گئی تھی کہ بعض دفعہ دنوں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا.پاخانے سوکھ گئے اور جب پاخانہ آتے تو بالکل مینگنیوں کی طرح ہوتا کیونکہ بعض اوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے ھے اور بعض اوقات کھجور کی گٹھلیاں.احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی چہیتی بیوی جس نے اسلام
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کیلئے ہر چیز قربان کر دی تھی یعنی حضرت خدیجہ ان کی وفات انہی مظالم کے باعث ہوئی.ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ جن بی بی کے بیسیوں غلام تھے اور جو لاکھوں روپے کی مالک اور جو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں، جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھاتی تھیں.بڑھاپے میں ان کو کئی کئی فاقے کرنے پڑتے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے وغیرہ.اُس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہوگا.چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ فوت ہو گئیں.آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب بھی انہی تکالیف کی وجہ سے فوت ہو گئے.ان حالات میں تو ایک عام انسان تو در کنار بہادر سے بہادر اور جری سے جری انسان کے ساتھ بھی اگر ایسی حالت ہوتی تو اس کے دل کا غصہ انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے.اگر ایسی ہی وفادار بیوی انہی حالات میں کسی اور شخص کی ضائع ہوتی تو وہ ان کی وفاداریوں اور قربانیوں کو یاد کر کے اور ان بچوں پر نگاہ ڈال کر جنہیں بے نگران چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہوتی بہادر سے بہادر انسان بھی قسم کھا تا کہ اس صدمہ کے عوض قریش کی ہر عورت کو بھی قتل کرنا پڑا تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا.رسول کریم ﷺ نے کیا کیا؟ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں جب رسول کریم ﷺ نے قریش کی ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپ اس قدر غصہ میں آئے کہ میں نے آپ کو اس قدر غصہ میں کبھی نہ دیکھا تھا اور آپ نے سخت غصہ کی حالت میں دریافت کیا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اور پھر فرمایا کہ عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، ضعیفوں، بیماروں اور مذہبی لیڈروں پر کبھی ہاتھ مت اٹھاؤں.کجا وہ سلوک اور کجا یہ.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بہادری کا مفہوم یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتایا.مگر میں اپنی جماعت سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا ان میں بھی وہی جرأت اور وہی رحم ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دکھایا؟ ہمارے دوستوں کی حالت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو دوست گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم قید ہو جائیں گے، پکڑے جائیں گے.کیا انہیں پتہ نہیں کہ جب انہوں نے احمدیت کو قبول کیا تھا تو اس وقت یہ سب چیزیں ان کے سامنے رکھ دی گئی تھیں.کیا انہیں کسی نے دھوکا سے احمدیت میں داخل کر لیا تھا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ جو لوگ تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتے ان کا راستہ مجھ سے الگ ہے.میرا راستہ پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں پر ہے ہے کسی سے کوئی دھوکا نہیں کیا گیا.ہر شخص جو احمد بیت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ
خطبات محمود ۴۸۰ سال ۱۹۳۶ یہ سب تکالیف اسے برداشت کرنی پڑیں گی پھر شکایت کیسی ! اگر تو ہم کسی سے کہتے کہ آؤ احمدی ہو جاؤ ہم تمہیں بڑے بڑے عہدے دلائیں گے، دولت دیں گے، بیماریوں اور تکلیفوں سے بچائیں گے، عمدہ عمدہ عورتوں سے شادیاں کردیں گے، تمہارے بچوں کی تعلیم کا انتظام کر دیں گے تو شکایت ہوسکتی تھی مگر ہم تو شروع دن سے یہی کہتے کہ خدا نے ہمیں اس لئے بچن لیا ہے کہ دین کیلئے ہمیں قربانی کی بھیڑریں بنائے.اگر ابتلاؤں کی تلواروں سے گردن کٹوانی ہے ، اگر اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے ہولی کھیلنی ہے تو آؤ.تو پھر کوئی شکایت کا موقع نہیں.یہ بُز دل کا کام نہیں اور ڈرپوک ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا.ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ تا محمد ﷺ کی بادشاہت کو پھر قائم کریں اور ظاہر ہے کہ شیطان کے چیلے جنہیں اس سے پہلے انسانوں پر بادشاہت حاصل ہے وہ سیدھے ہاتھوں اپنی بادشاہتیں ہمارے حوالے نہیں کریں گے.وہ ہر تد بیر اختیار کریں گے جس سے ہمیں کچلا جا سکے اور ہر سامان مہیا کریں گے جس سے ہماری طاقت کو تو ڑا جا سکے.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ جاؤ اور اُس وقت تک دم نہ لو جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ جھنڈا دنیا کے تمام مذاہب کے قلعوں پر نہ گاڑ دو جو صدیوں سے گر ا ہوا ہے، جس کی عزت کو دشمنوں نے خاک میں ملانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے.اس مقصد کو ہم نے کبھی نہیں چھپایا گو یہ ہمیشہ کہا ہے کہ ہم اس مقصد کوامن کے ذریعہ اور دلوں کو فتح کر کے حاصل کریں گے.مگر یہ تو ہم نے کہا ہے کہ ہم ہر حال میں سچائی کو اختیار کریں گے.کیا ہمارے دشمنوں نے بھی یہ اقرار کیا ہوا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ شکوہ کیسا کہ حکومت کے بعض افسر کیوں آئین کو توڑتے ہیں؟ کیا انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا اس نے خیال کیا کہ فوج پر اتنا روپیہ صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے.قصائی جو روز چھری چلاتے ہیں ان سے ہی فوج کا کام لیا جا سکتا ہے.چنانچہ سب فوج موقوف کر دی گئی.ارد گرد کے بادشاہوں کو جب یہ اطلاع ملی تو ایک بادشاہ نے جو اپنی حکومت کو وسیع کرنا چاہتا تھا اور ہمت والا تھ حملہ کر دیا.بادشاہ نے قصائیوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ جا کر مقابلہ کرو.وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد شور مچاتے ہوئے آگئے کہ ظلم
خطبات محمود ۴۸۱ سال ۱۹۳۶ داد، فریاد، بے انصافی ، بادشاہ نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ دشمن کا لشکر بہت بے انصافی کرتا ہے.ہم تو چار چارمل کر ایک آدمی کو پکڑتے اور سر اور پاؤں کو پکڑ کر باقاعدہ بسم اللہ کہہ کے چھری پھیرتے ہیں لیکن دشمن بے تحاشہ تلواریں مار مار کر ہمارے بیسیوں آدمی ہلاک کر دیتا ہے اس لئے اس کا ازالہ کیا جائے.اسی طرح ہمارے بعض نادان بھی یہی شور کرتے ہیں کہ ہم سچ بولتے ہیں اور آئینی طریق اختیار کرتے ہیں مگر ہمارے دشمن غیر آئینی کا رروائیاں کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں ان کی بات ایسی ہی ہے جیسے قصائیوں نے کی تھی کیا ہمارا دشمن بھی سچائی کا پابند ہے؟ کیا وہ بھی میری ہدایتوں پر چلنے کیلئے تیار ہے؟ کیا اس کے اخلاق کا بھی وہی معیار ہے جو تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے؟ کیا اس نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ تم سچ بولتے ہو اور تمہارا دشمن جھوٹ تم آئین کے مطابق چلتے ہو اور وہ غیر آئینی ذرائع اختیار کرتا ہے، تم رحم کرتے ہو اور وہ بختی، اگر تم میں اور اس میں یہ فرق نہ ہوتا تو تم کو احمدیت میں داخل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی.دوسری طرف رحم کا معاملہ ہے.بہت تم میں ہیں جو چاہتے ہیں کہ اگر دشمن قا بو آئے تو اس سے پوری طرح بدلہ لیا جائے لیکن یاد رکھو یہ طریق مسلمان کا نہیں ہوتا.مؤمن سے جب معافی طلب کی جاتی ہے تو وہ معاف کر دیتا ہے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت آ چکی ہو.بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت رحم سے روک دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ہر چیز پر حاوی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ A منافق جنگ میں نہ جانے کی اجازت لینے آئے اور تو نے اجازت دے دی.اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کرے جو اس رحم سے پیدا ہوگی تو نے کیوں کی اجازت دی؟ محمد رسول اللہ اللہ سے خدا کا علم زیادہ تھا اس لئے یہ فرمایا.پس ایسے مواقع کے علاوہ جہاں خدا کا حکم ہم کو رو کے شدید سے شدید دشمن بھی اگر ہتھیار ڈال دے تو ہمارا غصہ دور ہو جانا چاہئے.ہاں مؤمن بیوقوف نہیں ہوتا اور وہ کسی کے دھوکا میں نہیں آتا.رسول کریم ﷺ تو یہاں تک احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے میدانِ جنگ میں جب ایک مسلمان اسے مارنے لگا تھا کہہ دیا کہ میں صابی ہوتا ہوں.کفار مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے جس طرح آج کی صلى الله
خطبات محمود ۴۸۲ سال ۱۹۳۶ ہمیں مرزائی کہتے ہیں حالانکہ یہ سخت بداخلاقی ہے.ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی اپنے اوپر لے لی مگر پھر بھی ہم انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں.عیسائیوں کو عیسائی اور یہودیوں کو یہودی کہتے ہیں.یہ نہیں کہتے کہ تم کہاں کے ہدایت یافتہ ہو.مگر جو لوگ دین سے بے بہرہ ہوں ان کے اخلاق گر جاتے ہیں اور وہ دوسرے کا نام بھی ٹھیک طرح نہیں لینا چاہتے.تو اس وقت کے کفار مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے اور ایک شخص نے لڑائی کے دوران میں کہا کہ میں صابی ہوتا ہوں مگر چونکہ یہ نام غلط تھا اور لڑائی ہو رہی تھی مسلمان نے اسے مار ڈالا.رسول کریم ﷺ کو جب علم ہوا تو آپ نے فرمایا.تم نے ظلم کیا.اسے مارنے کا تمہیں کیا حق تھا.اُس صحابی نے عرض کیا کہ اس نے صابی کا لفظ بولا تھا.آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ صابی ہی کہتے ہیں.اسی طرح ایک اور شخص نے لڑائی میں کلمہ پڑھا اور ایک صحابی نے اُسے مار دیا.اس پر بھی رسول کریم سے سخت ناراض ہوئے.تو ایک طرف رحم اور دوسری طرف بہادری جب تک انتہاء کو نہ پہنچی ہوئی ہو کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا.رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو وہ دشمن مجرموں کی حیثیت سے آپ کے سامنے پیش کئے گئے.وہ لوگ جن کے مظالم کی وجہ سے آپ کو راتوں رات مکہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا آپ کے سامنے پیش ہوئے.جو ان کے ظلم سے اپنے عزیز وطن کو اپنے پیارے خدا کے گھر کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے.اور ان لوگوں کی موجودگی میں پیش ہوئے جن میں سے بعض کی بیویوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہوں نے ہلاک کر ڈالا تھا، جن کے باپوں اور بھائیوں اور دوستوں کو ایک اونٹ کے ساتھ ایک ٹانگ اور دوسرے سے دوسری ٹانگ باندھ کر اور انہیں مختلف جہتوں میں چلا کر چیر پھاڑ کر ہلاک کر دیا تھا ، ان غلاموں کے سامنے جنہیں جیٹھ اور ہاڑ کی گرمیوں میں گرم پتھروں پر لٹا لٹا کر جلایا جاتا تھا اور پھر کوڑے لگائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اپنے دین سے تو بہ کرو پھر چھوڑیں گے ، مکہ کے وہ ظالم سردار جنہوں نے تیرہ سال تک صحابہ کے وطن کو ان کیلئے جہنم بنا رکھا مجرموں کی حیثیت سے حاضر تھے صحابہ کہتے ہیں کہ تلوار میں میانوں سے اُچھل اچھل پڑتی تھیں کہ ان ظالموں سے اپنے بزرگوں کے خون کا بدلہ آج لیں گے.مہاجر تو مہاجر انصار کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا حتی کہ ایک انصاری سردار کے منہ سے بے اختیار نکل
خطبات محمود ۴۸۳ سال ۱۹۳۶ صلى الله ہی گیا کہ مکہ کے ظالم لوگو! آج تمہارے درودیوار کی اینٹ سے اینٹ ہم بجادیں گے.لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے بجائے اُن کو سزا دینے کے خود اُن ہی سے دریافت کیا کہ اے مکہ کے رہنے والو! بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے آگے سے جواب دیا کہ وہی جو یوسٹ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.آپ نے فرمایا جاؤ میں نے تم کو معاف کیا.تم مجھے یوسف سے کم رحم کرنے والا نہیں پاؤ گے اور سب کو معاف کر دیا.یوسف کے بھائیوں نے انہیں صرف جلا وطن کیا تھا مگر رسول کریم ہے پر کفار کے مظالم کے مقابلہ میں جلا وطن کرنا کچھ چیز نہیں.یہاں جلا وطنی تو ہزاروں ظلموں میں سے ایک ظلم تھی.پھر یوسف کے سامنے اُس کے باپ جائے بھائی کھڑے تھے جن کی سفارش کرنے والے اُن کے ماں باپ موجود تھے مگر یہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے عزیزوں اور بھائیوں کے قاتل تھے.حضرت حمزہ کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے ؟ رسول کریم ﷺ کی چہیتی بیٹی کو مارنے والے کون تھے جبکہ وہ حاملہ تھیں؟ اور خاوند نے اس خیال سے کہ والد کی عداوت کی وجہ سے لوگ انہیں مکہ میں تنگ کرتے تھے مدینہ روانہ کر دیا تھا مگر کفار نے راستہ میں انہیں سواری سے گرادیا جس سے اسقاط ہو گیا اور اسی کی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہوگئی.حضرت یوست کے سامنے کون سے جذبات تھے سوائے اس کے کہ ان کے بھائیوں نے اُن کو وطن سے نکال دیا تھا مگر یہاں تو یہ حالت تھی کہ ابو طالب کی روح آنحضرت ماہ سے کہہ رہی تھی کہ میرے (جس نے تیری خاطر تیرہ سال تک اپنی قوم سے مقابلہ کیا ) یہ لوگ قاتل ہیں.عالم خیال میں حضرت خدیجہ آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ میں نے اپنا مال و دولت ، اپنا آرام آسائش سب کچھ آپ کیلئے قربان کر دیا تھا اور یہ لوگ میرے قاتل ہیں.حضرت حمزہ کھڑے کہہ رہے تھے کہ ان میں ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری لاش کی بے حرمتی کی تھی اور میرے جگر اور کلیجہ کو باہر نکال کر پھینک دیا تھا.آپ کی بیٹی آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک عورت پر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے شرم نہ آئی اور ایسی حالت میں مجھ پر حملہ کیا جبکہ میں حاملہ تھی اور مجھے ایسا نقصان پہنچایا جس سے بعد میں میری وفات ہوگئی.پھر وہ سینکڑوں صحابہ جو آنحضر صلى الله بچوں سے زیادہ عزیز تھے اور جن میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جب ان میں سے ایک کو مکہ میں کفار نے پکڑا اور قتل کرنے لگے تو کہا کہ کیا تم یہ پسند نہ کرو گے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہوں ! اور
خطبات محمود ۴۸۴ سال ۱۹۳۶ الله تم آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں تو آرام سے گھر میں بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چھے 2.ایسے عزیز صحابہ کے ناک پاؤں اور ہاتھ کاٹ کاٹ کر انہیں مارا گیا اور اُن کی روحیں اُس وقت آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ لوگ ہمارے قاتل ہیں مگر باوجود ان سب جذبات کے آنحضرت ﷺ نے کہا تو یہ کہا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ لے جاؤ آج تم سے کوئی بازپرس نہیں کی جائے گی.پس غور کرو کیا ان سے زیادہ تکالیف ہمیں دی جاتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض چیزیں کی جسمانی اذیت سے زیادہ ہوتی ہیں مگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی تھیں اور ان میں بھی صحابہ ہمارے شریک ہیں.رسول کریم ﷺ کی ذات پر بھی ایسے حملے کئے جاتے تھے اور ایسی گالیاں دی جاتی تھیں جیسی آج دی جاتی ہیں.یہ ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ ہمارے دشمن گالیاں دینے میں زیادہ ہوشیار ہیں اور ان کی فطرت زیادہ گندی ہے اور کفار عرب کی شرافت سے یہ لوگ نا آشنا ہیں مگر یہ نہیں کہ اس زمانہ میں گالیاں وغیرہ بالکل دی ہی نہیں جاتی تھیں.اس زمانہ میں بھی رسول اللہ اللہ کے گھر کی مستورات کے متعلق ویسے ہی گندے اتہام لگائے جاتے تھے جیسے آج لگائے جاتے ہیں اور عرب کے شاعر شعروں میں ان کے ساتھ محبت کا اظہار کیا کرتے تھے.پس یہ ممکن ہے کہ آج کل کے لوگ اس خباثت میں ان سے زیادہ ہوں مگر جسمانی تکالیف صحابہ کو ہم سے بہت زیادہ تھیں.اُس زمانہ میں ساری حکومت اسلام کے مخالف تھی مگر آج ساری نہیں.آج گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ ہمارے مقابل پر نہیں بلکہ بعض حکام ہمارے خیر خواہ بھی ہیں اور بعض اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ہماری مخالفت کرتے ہیں.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اتباع کا دعوی کرتے ہوئے آج وہی رحم نہ دکھا ئیں جو آنحضرت ﷺ نے دکھایا اور جسے قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہر فرمایا.صلى الله میں چھوٹا تھا مگر مجھے مندرجہ ذیل واقعہ اچھی طرح یاد ہے اور اس لئے بھی وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے متعلق مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت رؤیا کے ذریعہ خبر دی تھی.ایک دن ہم سکول سے واپس آئے تو احمدیوں کے چہروں پر ملال کے آثار تھے.گول کمرہ اور دفتر محاسب
خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۶ کے درمیان جہاں مسجد کا دروازہ ہے ہم نے دیکھا کہ ہمارے بعض چچاؤں نے وہاں دیوار کھینچ دی ہے اس لئے ہم اندر سے ہو کر گھر پہنچے اور معلوم ہوا کہ یہ دیوار اس لئے کھینچی گئی ہے کہ تا احمدی نماز کیلئے مسجد میں نہ آسکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکم دیا کہ ہاتھ مت اُٹھاؤ اور مقدمہ کرو.آخر مقدمہ کیا گیا جو خارج ہو گیا اور معلوم ہوا کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود نالش نه کریں گے کامیابی نہ ہوگی.آپ کی عادت تھی کہ مقدمہ وغیرہ میں نہ پڑتے مگر یہ چونکہ جماعت کا معاملہ تھا اور دوستوں کو اس دیوار سے بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ اچھا میری طرف سے مقدمہ کیا جائے.چنانچہ مقدمہ ہوا اور دیوار گرائی گئی.فیصلہ سے بہت پہلے میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں کھڑا ہوں اور وہ دیوار توڑی جا رہی ہے اور حضرت خلیفتہ امسیح الا ول بھی پاس ہی کھڑے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا.جس دن سرکاری آدمی اسے گرانے آئے عصر کے بعد میں مسجد والی سیڑھیوں سے اُترا عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الاوّل درس دیا کرتے تھے ، سخت بارش آئی اور حضرت خلیفہ اول بھی شاید بارش کی وجہ سے یا یونہی وہاں آ کر کھڑے ہو گئے.اس دیوار کی وجہ سے جماعت کو مہینوں یا شاید سالوں تکالیف اٹھانی پڑیں کیونکہ انہیں مسجد تک پہنچنا مشکل تھا.پھر مقدمہ پر ہزاروں روپیہ خرچ ہوا اور عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچاؤں پر ڈالا جائے.کئی لوگ غصہ سے کہہ رے تھے کہ یہ بہت کم ڈالا گیا ہے ان کو تباہ کر دینا چاہئے.جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے.آپ کو عشاء کے قریب رو یا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے وہ تکلیف میں ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جا کر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کر دیا ہے.مجھے اس معافی کی صورت پوری طرح یاد نہیں که آیا سب رقم معاف کر دی تھی یا بعض حصہ.بچپن کا واقعہ ہے اس لئے اس کی ساری تفاصیل یاد نہیں رہیں مگر اتنا یاد ہے کہ فرمایا مجھے رات نیند نہیں آئے گی اسی وقت کسی کو بھیج دیا جائے جو جا کر کہہ دے کہ یہ رقم یا اس کا بعض حصہ جو بھی صورت تھی تم سے وصول نہ کیا جائے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مؤمن کا رحم اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ دوسرا خیال بھی نہیں کر سکتا.
خطبات محمود ۴۸۶ سال ۱۹۳۶ مارٹن کلارک کی طرف سے آپ پر مقدمہ کیا گیا اور الزام سے بری کرنے کے بعد مجسٹریٹ نے آپ سے کہا کہ آپ کو ان پادریوں پر جو اس مقدمہ کو اٹھانے والے ہیں مقدمہ چلانے کا حق ہے مگر آپ نے فرمایا یہ ہمارا طریق نہیں.کرنل ڈگلس جو اُس زمانہ میں کیپٹن تھے ابھی تک زندہ ہیں اور ولایت میں ہمارے دوستوں سے ملتے رہتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا کرتے ہیں ہیں کہ جب میں نے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ ان پادریوں پر مقدمہ چلا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا طریق نہیں ہم نے ان کو معاف کر دیا.تو مؤمن کے ایک ہاتھ میں رحم اور دوسرے میں بہادری ہوتی ہے اور اُس کا سر قطب مینار کی طرح سب سے اونچا ہوتا ہے.جب دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ کون ہے بہادر.تو اُسے جواب ملتا ہے کہ مؤمن.اور جب وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کون ہے رحیم تو اسے مؤمن کے سوا کوئی نظر نہیں آتا.پس یہ دونوں حصلتیں اپنے اندر بڑھاؤ کی اور پھر جو مصائب آتی ہیں ان کو آنے دو کہ وہ تمہاری ہلاکت کا نہیں بلکہ ترقی کا موجب ہیں.اور صلى الله جب خدا تعالیٰ تمہارے رحم کا امتحان لے تو یہ دیکھو کہ ایسے وقت میں محمد رسول اللہ ﷺ اور حضر مسیح موعود علیہ السلام نے کیا کیا.اُس وقت دشمنوں کے ظلموں پر نظر نہ ڈالو.پھر یہ مت سمجھو کہ تمہاری آزادی اور زندگی سے ہی اسلام کی ترقی وابستہ ہے.ممکن ہے تمہاری قید یا موت زیادہ مفید ہو.اس بات کو خدا پر چھوڑ دو کہ وہ دیکھے کیا مفید اور مناسب ہے اور ایک بہادر اور جری انسان کی طرح ہر انجام سے بے پرواہ ہو کر (سوائے خدا کی ناراضگی کے انجام کے ) اپنی جانوں اور مالوں کو خدا کے رستہ میں ڈال دو اور جب سب مصائب کو برداشت کرتے ہوئے خدا تعالیٰ تمہیں طاقت دے تو یا درکھو کہ تم اس کی اُمت ہو جس نے مکہ والوں کو بھی معاف کر دیا تھا.مکہ والوں کے مظالم اور آنحضرت ﷺ کے رحم کی مثال کہیں اور نہ مل سکے گی اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہرامر میں محمد رسول اللہ اللہ ہی اسوہ حسنہ ہیں.جرات اور بہادری میں بھی اور عفو اور رحم میں بھی.پس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ کن حالات میں آپ نے دنیا کا مقابلہ کیا.آج جبکہ خدا کے فضل سے ہمارا رعب ساری دنیا پر بیٹھ چکا ہے اور جب لاکھوں لوگ جماعت میں شامل ہیں اور تمام براعظموں میں احمدی موجود ہیں بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوتا ہے کہ
خطبات محمود ۴۸۷ سال ۱۹۳۶ بعض باتوں اور فتووں میں ہمیں نرمی کر دینی چاہئے.پھر غور کرو اُس وقت کتنی دقت ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا.اُس وقت صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے اور نبوت ، کفر و اسلام ، نمازوں اور شادیوں کی علیحدگی یہ مسائل پیش کرنے کیلئے کتنے بڑے دل گردے کی ضرور تھی.پس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بروز کامل میں رحم اور بہادری کے دونوں نمونے موجود ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف نقال بنایا ہے موجد نہیں.ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہر چیز اور ہر دل پر محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر کھینچتے جائیں.پس بہادر بنو کہ مؤمن بُزدل نہیں ہوتا اور حیم بنو کہ مؤمن ظالم نہیں ہوتا.دنیا کیلئے ان دونوں چیزوں کا جمع ہونا مشکل ہے مگر ہمارے لئے آسان ہے کیونکہ ہمارے لئے بنی بنائی تصویر موجود ہے.خدا تعالیٰ نے ان چیزوں کا خمیر کر کے محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بھر دیا ہے اور خمیر سے اور خمیر اٹھالینا کو ئی مشکل نہیں.آگ جلانا مشکل ہوتا ہے مگر جب جل جائے تو اس سے ہر شخص اپنی شمع روشن کر سکتا ہے.نور پیدا کرنا خدا کا کام تھا جو اس نے کر دیا اب ہمارا کام صرف یہ ہے کہ آئیں اور اپنی شمعیں اس سے لگالیں.پس اس طریق کو سمجھو کہ یہی فلاح کا طریق ہے اور خوب یا درکھو کہ جو بُز دل ہے وہ خدا کے رستہ سے کاٹا جائے گا.جب تک تم ایسے بہادر نہ بن جاؤ کہ قید ، قتل، جلا وطنی سب مظالم کو برداشت کرنے کیلئے آمادہ ہو جاؤ اُس وقت تک تم خدا کے محبوب نہیں بن سکتے اور جو خدا کا محبوب نہیں بنتا وہ شیطان کا محبوب ہوتا ہے.( الفضل ۲ اگست ۱۹۳۶ ء ) أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ (البقرة: ۲۱۵) ترمذی کتاب المناقب باب قوله عليه لو كان نبى بعدى لكان عمر التوبة: ١٠٠.بخاری کتاب احادیث الانبياء باب حديث الفأر صلى الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى علم باب مناقب سعد بن ابی وقاص ابوداؤد كتاب الجهاد باب في دعاء المشركين
خطبات محمود ۴۸۸ انوار الاسلام صفحه ۲۳ ۲۴ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳ ۲۴ التوبة: ٤٣ اسد الغابة جلد ۲ صفحہ ۲۳۰ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۸۹ مطبع محمد علی صبیح مصر ۱۹۳۵ء سال ۱۹۳۶
خطبات محمود ۴۸۹ ۲۸ سال ۱۹۳۶ ہم کس حد تک دُنیوی عزت کے طالب ہو سکتے ہیں قربانیاں اور مصائب وہ کھڑکیاں ہیں جن میں سے ہم اپنے محبوب کو جھانک سکتے ہیں فرموده ۳۱ جولائی ۱۹۳۶ء بمقام دھرم ساله) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اس زمانہ میں ہماری جماعت کے خلاف طرح طرح کے منصوبے اور شرارتیں کی جاتی ہیں اور دشمن ہم کو ہر قسم کی تکلیف پہنچانے کے درپے ہیں.اس موقع پر ہماری جماعت کو سورہ فاتحہ کے مضامین پر غور کرنا چاہیئے.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ مؤمن عزت کا طالب ہوتا ہے اور یہ کوئی بُری بات نہیں اور وہ ذلت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ بھی کوئی بُری بات نہیں.اگر یہ باتیں یعنی طلب عزت اور ذلت سے احتراز کی کوشش بُری ہوتیں تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خدا تعالیٰ خود ہم کو ان کی طرف سورۃ فاتحہ میں توجہ دلاتا.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بندہ کچھ تو خدا تعالیٰ سے انعام مانگتا ہے اور کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے محفوظ رہنے کی التجا کرتا ہے.پس اگر عزت کی طلب اور ذلت سے بچنے کی سعی بُری بات ہے تو ہم کو خدا تعالیٰ ہرگز ایسی دعا نہ سکھلاتا جس میں یہ دونوں باتیں ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ہم کو ایسی دعا
خطبات محمود ۴۹۰ سال ۱۹۳۶ سکھلائی ہے اور وہ دعا ہر نماز میں کرنے کا حکم دیتا ہے.یعنی یہ کہ اپنے لئے عزت مانگو اور ذلت سے بچنے کی کوشش کرو اور یہ تقاضا ایک طبعی تقاضا ہی نہیں بلکہ مذہبی اور روحانی تقاضا ہے.اور اس حد تک بندہ مجرم نہیں ٹھہرتا بلکہ خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والا اور اُس کی رضا کا طالب قرار پائے گا.پس ان خطرات کے ایام میں اگر ہماری جماعت کے دوست عزت کے طالب اور ذلت سے محفوظ رہنے کے خواہشمند ہوں تو یہ کوئی بُری بات نہیں اس حد تک کہ وہ عزت کے طالب ہوں اور ذلت سے بچنے کی سعی کریں.خدا تعالیٰ بھی ان کی خواہش کو جائز قرار دے گا اور اس کا رسول بھی مگر یہاں ایک اختلاف پیدا ہو سکتا ہے جو نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں اور وہ اس بات کے سمجھنے میں ہے کہ عزت کیا چیز ہے اور ذلت کیا ہے؟ اور کس رنگ میں مؤمن عزت کا طالب اور ذلت سے بچنے کا خواہشمند ہو تو اس کا یہ کام قابلِ اعتراض نہیں.اور وہ کونسی صورت ہے کہ جب اس کا طالب عزت ہونا اور ذلت سے بچنے میں کوشاں ہونا قابلِ اعتراض ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے جہاں مؤمن کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ عزت کا طالب ہو اور ذلت سے بچنے کا خواہشمند ہو وہاں خود ہی عزت اور ذلت کی وضاحت بھی فرما دی ہے.پس خدا تعالیٰ کی بیان کردہ طلب تو بہتر اور منشائے الہی کو پورا کرنے والی ہوگی لیکن اگر ہم عزت کا مفہوم بدل دیں اور اپنی طرف.کوئی عزت ٹھہرا لیں اور پھر اُس کے طالب ہوں تو ہم مجرم ہوں گے.ނ اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں عزت کا مفہوم یہ بیان فرمایا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اے یعنی ہم کو ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام ہوا.وہ منعم علیہم لوگ کون تھے؟ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقًا ہے.پس جو بندہ نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین والا انعام پانے کی جستجو کرتا اور نیکیوں اور تقویٰ کا طالب بنتا ہے وہ ہرگز جاہ کا طالب اور دین پر دنیا کو مقدم کرنے والا نہ سمجھا جائے گا بلکہ قرآن مجید کی رو سے وہ بندہ فرض الہی کو پورا کرنے والا اور منشائے الہی پر عمل کرنے والا سمجھا جائے گا کیونکہ وہ ان سب انعامات کو طلب کر رہا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو ملے اور ان انعامات کی طلب جوان لوگوں کو ملے عین منشائے الہی بلکہ حکم الہی
۴۹۱ سال ۱۹۳۶ خطبات محمود کے مطابق ہے.میں اس وقت اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ نبوت ، صدیقیت ، شہادت، صالحیت کی تشریحات کیا ہیں؟ ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس حد تک عزت کے طالب ہو سکتے ہیں؟ اس وقت میں یہ حصہ لیتا ہوں کہ انبیاء کو جو انعامات ملے وہ دُنیوی لحاظ سے ان کو کیا پوزیشن دیتے ہیں اور صدیقین کو جو انعامات ملے وہ اُن کو دنیاوی لحاظ سے کیا پوزیشن دیتے ہیں اور شہداء اور صالحین کو جو انعامات ملے وہ دنیاوی لحاظ سے ان کو کیا پوزیشن دیتے ہیں.پہلے انبیاء کو لو اور دیکھو کہ نبوت کا انعام کس حد تک اُن کو دُنیوی مراتب عطا کرتا ہے.اس حد تک ہمارے لئے بھی جائز ہوگا کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو یہ مراتب بخشے.نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو جس حد تک ان کے دنیا سے تعلقات تھے اُس حد تک جاہ کی طلب ہمارے لئے جائز ہے اور جس جگہ پر جا کر وہ کھڑے ہو جاتے ہیں اس سے آگے بڑھنا ہمارے لئے جائز نہ ہوگا.ان انبیاء میں سے بعض بادشاہ بھی تھے.مثلاً حضرت نبی کریم ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام وغیرہ.حضرت داؤ د اور حضرت سلیمان علیہم السلام - حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ایک حد تک تنفیذ امر کا مقام حاصل تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایسی حکومت حاصل نہ سہی لیکن کم از کم اپنے قبیلہ میں وہ ضرور حکومت کرتے تھے.غرض بادشاہت کا ثبوت بعض انبیاء میں ضرور ملتا ہے اور یہ بات تاریخ سے بھی ثابت ہے اس کے حصول اور قیام کیلئے کس حد تک انہوں نے دین کو تابع کیا ہے اس کی مثال ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ کے وجود مبارک میں موجود ہے.حضور آخری عمر میں ایک بادشاہ تھے اس میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس بادشاہت سے حضور نے دنیاوی فوائد کیا حاصل کئے ہیں.مثلاً بیوی بچوں کی آسائش، دوستوں کی آسائش اور رشتہ داروں کی آسائش اس بادشاہت سے حضور نے کہاں تک حاصل کی.غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے اس بادشاہت سے دنیاوی فائدہ کوئی بھی حاصل نہیں کیا بلکہ حضور نے اپنی تمام تر زندگی میں لوگوں کیلئے قربانی ہی پیش کی.حضور نے ممالک مفتوحہ اور جائدادوں کو اپنا ہر گز قرار نہیں دیا.حضور کی وفات کے بعد سنی شیعہ کا جو اختلاف پیدا ہوا اس عظیم الشان اختلاف کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ حضور نے جائدادوں اور ممالک مفتوحہ کو اپنی
خطبات محمود ۴۹۲ سال ۱۹۳۶ ذاتی چیز اور ملکیت قرار نہیں دیا اور یہ جائز نہیں ٹھہرایا کہ یہ اشیاء حضور کے خاندان کی طرف بطور ورثہ کے منتقل ہو سکیں.پس حکومت سے حضور نے اپنی ذات کیلئے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا.حضور کی اولاد کے بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نے ان کیلئے کوئی چیز بھی دنیا میں نہیں چھوڑی.حتی کہ حضور کی وفات کے وقت حضور کی بہت سی اشیاء گرو ر کھی ہوئی ثابت ہوئیں.انسان کو اپنی زندگی میں بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آ جاتی ہیں کہ اسے اپنی مملوکہ اشیاء گرو رکھنی پڑتی ہیں اسی طرح حضور پر بھی تنگی اور فراخی کے زمانے آتے رہتے تھے.خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں جب بہت سا مال آیا تو حضرت فاطمہ نے حضور سے درخواست کی کہ اس مال میں سے ایک لونڈی مجھے عنایت فرمائی جائے جو میرا کام کاج کرے.حضور نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ یہ مال میرا تو نہیں ہے یہ تو خدا تعالیٰ کا ہے.میں تم کو اس مال میں سے کچھ نہیں دے سکتا تم خدا تعالیٰ کا ذکر کیا کرو اور لونڈی کا خیال ترک کر دو سے.پھر حضور کے دوستوں کو لو.رسول کریم ﷺ کے دوست ایسے لوگ تھے جنہوں نے حضور کی بہت خدمات کیں لیکن حضور نے ان سے کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جن میں دوسرے لوگوں پر ان کو ترجیح دی گئی ہو.حضرت عباس محضور کے چا بھی تھے اور دوست بھی کیونکہ عمر میں برابر کے تھے ان کے تعلقات حضور سے اس قدرا ہم تھے کہ جب کچھ لوگ مدینہ منورہ کے مسلمانوں میں سے حج کرنے آئے اور انہوں نے چاہا کہ حضور کو اپنے ساتھ مدینہ لے چلیں تا کہ حضور مکہ کی تکالیف سے محفوظ ہو جاویں.اُس وقت حضور نے ان کی ملاقات کیلئے صرف حضرت عباس کو اپنے ساتھ لیا اور معاہدہ بھی ان کی منشاء کے مطابق کیا.یہی حضرت عباس جب بدر کی جنگ میں مسلمان ہونے سے پہلے قید ہوئے تو حضور نے ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا.جس طرح باقی قیدیوں کو رسیوں میں جکڑا گیا اسی طرح اِن کو جکڑا گیا اور بوجہ رفاہیت کی زندگی کی عادت کے ان کو کئی دوسرے قیدیوں سے زیادہ تکلیف پہنچی اور وہ شدت درد سے کراہتے رہے.چنانچہ بعض صحابہ نے رات کے وقت حضور علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ بار بار کروٹیں بدل رہے ہیں اور آپ کو بے چینی کی تکلیف معلوم دیتی ہے.اس پر بعض صحابہ نے عرض کی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو نیند نہیں آ رہی اور کچھ بے چینی سی ہے.حضور نے فرمایا ہاں میں بے چین ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید عباس
خطبات محمود ۴۹۳ سال ۱۹۳۶ کی رسیاں زیادہ سخت باندھی گئی ہیں کیونکہ وہ کراہ رہے ہیں ان کی تکلیف کو دیکھ کر مجھے بے چینی محسوس ہو رہی ہے اور میں سو نہیں سکتا.صحابہ نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو معمولی بات ہے ہم اسی کی وقت حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیتے ہیں.حضور نے فرمایا نہیں ، یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں ورنہ عباس کی رسیاں بھی اسی طرح رہنے دی جائیں.چنانچہ حضرت عباس اور باقی تمام قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی گئیں ہے اور حضرت عباس کو آرام مل گیا تب حضور آرام کی نیند سوئے.پس بادشاہت سے حضور نے یا حضور کے دوستوں اور رشتہ داروں نے قطعاً کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا.وہ بادشاہت تو خدا تعالیٰ کیلئے تھی اور اس بادشاہت میں آپ کو ویسی ہی انفرادی عزت حاصل تھی جیسی اور لوگوں کو تھی.یاد رکھنا چاہئے ذاتی عزت اور حکومت کی عزت میں فرق ہوتا ہے.بعض لوگ حکومت اور انفرادی عزت میں فرق نہیں کر سکتے اس لئے حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں.حکومت کے بارہ میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِئُ فَقَدْ عَصَانِی ۵ کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاع کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے گویا میری نافرمانی کی.گویا نظام کے ماتحت جو حکومت آپکو حاصل تھی اُس میں نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے مقرر کردہ امیروں کیلئے بھی آپ گھی اطاعت کے طالب ہیں لیکن جہاں ذات کا سوال آتا ہے وہاں اپنے یا اپنے عزیزوں کیلئے کوئی زائد فائدہ طلب نہیں فرماتے.پس حاکمانہ مرتبہ اور چیز ہے اور انفرادی عزت اور چیز ہے.بھلا اس اطاعت سے حضور کو کیا جسمانی فائدہ ہو سکتا تھا ہاں اس سے خدا تعالیٰ کی حکومت ضرور قائم ہوتی تھی.لوگ ایسی حکومت کو ذاتی عزت خیال کر لیتے ہیں حالانکہ ذاتی عزت اور ذاتی فائدہ تو یہ ہے کہ کوئی شخص حکومت کو اپنے آرام و آسائش میں استعمال کرے.مثلاً جاگیریں حاصل کرے یا مال جمع کرے وغیرہ.لیکن حضور نے اس حکومت سے ایسا فائدہ ہرگز حاصل نہیں کیا بلکہ وہ تو حج ، زکوۃ اور قربانیوں کیلئے لوگوں کو دعوت دیتے تھے.پس وہ بڑائی جو نظام کیلئے ہو وہ ذاتی بڑائی نہیں بلکہ ایسی بڑائی تو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کیلئے ضروری ہے.پس جب یہ ارشاد ہوا کہ تم لوگ نبیوں والے انعام مانگو تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم کو ایسی حکومت ملے جس میں ہماری ذات،
خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۶ اولاد، دوستوں اور رشتہ داوں کو دنیاوی فوائد حاصل ہوں بلکہ اس انعام سے مراد وہ قربانیاں اور تکالیف ہیں جو انبیاء کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں اُٹھانی پڑتی ہیں اور یہی وہ انعام ہے جس کے مانگنے کیلئے اللہ تعالیٰ ہم کو حکم فرماتا ہے.نبیوں کے بعد صدیقوں کا مقام ہے.صدیقوں میں سے حضرت ابو بکر کی ذات ہمارے سامنے ہے.ہم آپ کی ذات کا مشاہدہ کر کے معلوم کرتے ہیں کہ کیا صدیقیت کے مقام میں کسی قسم کی ذاتی بڑائی مد نظر ہوتی ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق کا اعلیٰ مقام خلافت تھا ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس صدیق نے اس مقام کو ذاتی بڑائی کا ذریعہ بنایا ؟ اس حقیقت کو معلوم کرنے کیلئے میں رسول کریم ﷺ کے معابعد کا ایک واقعہ لیتا ہوں.حضرت نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد سوائے چند علاقوں کے تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی اور اس موقع پر حضرت عمرؓ جیسے صحابی بھی خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے اور دوسرے صحابہ نے یہ مشورہ کیا کہ ان باغیوں سے رعایت کی جائے اور زکوۃ کے لینے میں ان سے نرمی اختیار کی جائے.دوسرے یہ کہ وہ لشکر جو اسامہ کے ماتحت حضور نے عیسائیوں سے لڑنے کیلئے بھیجا تھا اُس کو روک لیا جائے اور اس لشکر سے موجودہ بغاوت کے دبانے میں مدد لی جائے.یہ مشورہ کر کے حضرت عمرؓ، حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور اُن سے جا کر یہ دونوں باتیں کہیں.حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ ایک مشورہ آپ کا یہ ہے کہ جیش اسامہ کو روک لوں ، میرا جواب اس بارہ میں یہ ہے کہ کیا ابن محافہ کی یہ طاقت ہے کہ وہ اس لشکر کو جو رسول کریم ﷺ نے بھیجا تھا روک لے؟ یہ لشکر ضرور جائے گا خواہ کفار کا لشکر مدینہ میں گھس آئے اور خواہ مدینہ کی عورتوں کی لاشیں گلیوں میں پھینک دی جائیں 1ے.باقی رہا ز کوۃ کے مطالبہ میں نرمی اختیار کرنا تو زکوۃ تو خدا تعالیٰ کا حکم ہے اگر لوگ اونٹ کی وہ رسی تک جس سے اونٹ کا گھٹنا باندھتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیا کرتے تھے اب دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ وہ ہر عزت خدا اور اس کے رسول کیلئےسمجھتے تھے اپنے لئے انہیں کسی امر کی خواہش نہ تھی.صلى الله ان کی زندگی میں ایک اور مثال بھی نظر آتی ہے حضرت ابوبکر کے بیٹے عبد الرحمن بھی خلافت کے لائق تھے اور لوگوں نے کہا بھی کہ ان کی طبیعت حضرت عمر سے نرم ہے اور لیاقت بھی
خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۶ سے کم نہیں ان کو آپ کے بعد خلیفہ بننا چاہئے لیکن حضرت ابو بکر نے خلافت کیلئے حضرت عمرؓ کو ہی منتخب کیا ، باجود یکہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طبائع میں اختلاف تھا.پس حضرت ابو بکر نے خلافت سے ذاتی فائدہ کوئی حاصل نہیں کیا بلکہ آپ خدمت خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے.-.صوفیاء کی ایک روایت ہے (وَاللَّهُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے ) کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کے غلام سے پوچھا کہ وہ کون کون سے نیک کام تھے جو تیرا آقا کیا کرتا تھا تا کہ میں بھی وہ کام کروں.منجملہ اور نیک کاموں کے اس غلام نے ایک کام یہ بتایا کہ روزانہ حضرت ابو بکر روٹی لے کر فلاں طرف جایا کرتے تھے اور مجھے ایک جگہ کھڑا کر کے آگے چلے جاتے تھے میں یہ نہیں کہ سکتا کہ کس مقصد کیلئے اُدھر جاتے تھے.چنانچہ حضرت عمر اس غلام کے ہمراہ اُس طرف کو کھانا لے کر چلے گئے جس کا ذکر غلام نے کیا تھا.آگے جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپانج اندھا جس کے ہاتھ پاؤں نہ تھے بیٹھا ہوا ہے.حضرت عمر نے اُس ا پانچ کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ ابو بکر پر رحم فرمائے وہ بھی کیا نیک آدمی تھا.حضرت عمرؓ نے کہا بابا! تجھے کس طرح پتہ چلا کہ ابو بکر فوت ہو گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اس لئے ابوبکر میرے منہ میں لقمہ چبا کر ڈالا کرتے تھے آج جو میرے منہ میں سخت لقمہ آیا تو میں نے خیال کیا کہ یہ لقمہ کھلانے والا ابو بکر نہیں ہے بلکہ کوئی اور شخص ہے اور ابوبکر تو ناغہ بھی کبھی نہ کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہوا تو یقینا وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں.پس وہ کونسی شے ہے جو بادشاہت سے حضرت ابو بکر نے حاصل کی؟ کیا سرکاری مال کو اپنا قرار دیا اور حکومت کی جائدادوں کو اپنا مال قرار دیا؟ ہر گز نہیں.جو اشیاء ان کے رشتہ داروں کو ملیں وہ ان کی ذاتی جائداد سے تھیں.اب شہداء کو لو.شہید وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے.پس جب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ شہیدوں والا انعام مانگ تو یقیناً اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگو کہ اے خدا ! ہم تیرے راستہ میں مارے جائیں اور غور کرو کہ بھلا مارے جانے والے کو دنیاوی فائدہ کیا پہنچ سکتا ہے.موت اور دنیاوی فائدہ کس طرح جمع ہو سکتے
خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۶.معلوم ہوا کہ شہیدوں والا انعام لینے کیلئے بھی انسان کو اپنے پاس سے کچھ دینا ہی پڑتا ہے یعنی اپنی جان دینی پڑتی ہے تب رضائے الہی حاصل ہوتی ہے.آگے فرمایاؤ الصَّلِحِینَ.صالح کے معنے نیک کے ہیں.صالحین والا انعام نیکی کی توفیق کامل جانا ہوا.قرآن مجید نے نیک کام یہ نہیں بتلائے کہ ہم کو دنیا کے لوگوں کی نظروں میں عزت مل جائے ، لوگ ہم کو گالیاں نہ دیں ، لوگ ہماری بات سنیں بلکہ اللہ تعالیٰ تو نیک اُن لوگوں کو قرار دیتا ہے جو مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ 2 پر عمل کرنے والے ، خدمت خلق کرنے والے ، نماز ، روزہ ، زکوۃ کے پابند اور غرباء مساکین کی مدد کرنے والے ہوں.پس یہی دعا ہے جو ہم سے منگوائی گئی ہے اور یہی انعام ہے جس کے مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے یعنی یہ کہ ہم کو نیکیوں کے کرنے کی توفیق مل جائے جو انبیاء، صدیقین اور صالحین کرتے رہے.انبیا ء خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں.پس جو انبیاء کے انعامات کا طالب ہے یقیناً اس کو تکالیف اور مصائب برداشت کرنی پڑیں گی.اسی طرح صدیق اُس کو کہتے ہیں جو نبی کے نقش قدم پر چلے اور نبی کی طرح خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے تو صدیقوں والے انعام کے طالبوں کو بھی انبیاء کی طرح تکالیف اُٹھانی اور قربانیاں کرنی پڑیں گی.شہید اُس کو کہتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنی جان دے.پس وہ بھی کچھ دیتا ہی ہے یعنی لیتا نہیں.اسی طرح صالح وہ ہے جو احکام الہیہ پر عمل کرے نہ کہ جاگیر دار ہو یا کسی مجلس کا پریذیڈنٹ یا مالدار ہو بلکہ قرآن مجید کے نزدیک نیک وہ ہے جولوگوں کی خبر گیری کرے.ذاتی بڑائی کا اُس کو خیال نہ ہو اور خدمت خلق پر اس نے کمر باندھ رکھی ہو.ان تمام باتوں کے بعد انسان کو ملتا کیا ہے.فرمایا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ا - یعنی یہ کہ خواہ نبوت کے ذریعہ سے جستجو کرو خواہ صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کے ذریعہ سے ہر رنگ میں تمہاری جستجو عبودیت کیلئے ہونی چاہئے یعنی عبودیت کی چادر کا مل جانا ہی حقیقی انعام ہے.قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے عبودیت کی چادر کے مل جانے کے بعد انسان کو دنیاوی انعام بھی مل جاتے ہیں مگر وہ ضمنی انعام ہیں اصل نہیں اصل تو صرف عبودیت کا حصول ہے.حکومت کا مل جانا یا عزت کا حاصل ہو جانا تو ضمنی اور مقصود اشیاء ہیں.
خطبات محمود ۴۹۷ سال ۱۹۳۶ یہاں تک تو یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے ؟ آگے یہ فرماتا ہے کہ کن باتوں سے محفوظ رہنے کی انسان کو دُعا اور خواہش کرنی چاہئے اور وہ کونسی ذلت ہے جس سے بچے رہنے کا خواہشمند ہونا ضروری ہے؟ فرما یا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ الى يعنى ذلت اس کا نام نہیں کہ لوگ ہم کو گالیاں نہ دیں، ہمارا بائیکاٹ نہ کریں، ہمارا لین دین بند نہ کر دیں بلکہ حقیقی ذلت یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ بھول جائے جس کا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں ذکر ہے یا انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دے جس کا وَلَا الضَّالِّينَ میں ذکر ہے.پس فرمایا کہ تم یہ دعا مانگو کہ اے خدا! تو ہم کو اپنے دربار سے نہ نکال اور ہم کو اس سے محفوظ رکھ کہ ہم تجھ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چل دیں.پس اس ذلت سے بچنے کی اگر ہم دعا کریں تو ہم پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ جب خود خدا تعالیٰ نے اس ذلت سے بچنے کا حکم فرمایا ہے تو پھر اعتراض کے کیا معنی؟ پس قرآن مجید کی بیان کردہ عزت اور ذلت تو یہ ہے کہ جس کا اوپر ذکر ہوا ہے.اگر ہم اس عزت اور ذلت کے خلاف کوئی اور عزت اور ذلت ٹھہرا لیں اور اس عزت کے طالب اور اس ذلت سے بچنے کی کوشش کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں گے.مولوی برہان الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابہ میں سے تھے اور مدرسہ احمدیہ مولوی برہان الدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کی یادگار کے طور پر بنا ہے تا کہ اس مدرسے سے ایسے عالم پیدا کئے جائیں جو ان کی کمی پوری کر سکیں اور ان کے جانشین بن سکیں.اس سے ان کا احمدیت میں مقام معلوم ہوسکتا ہے.اُن کے متعلق میں ایک واقعہ سنا کر بتانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے ذلت اور عزت کا کیا مفہوم لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب ۱۹۰۲ء میں یا ۱۹۰۳ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو غیر احمد یوں میں سے بعض نے شورش کرنے کا ارادہ کیا مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ وہاں حضور کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے اُس نے یہ انتظام کر دیا کہ شہر کے ایک رئیس آغا باقر جو قادیان برائے علاج آچکے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے ڈپٹی کمشنر نے انتظام کیلئے ان سے مشورہ کیا.انہوں نے اپنی خدمات انتظام کیلئے پیش کر دیں اور ساتھ مسٹر بیٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو لگائے جانے کی خواہش کی اور ڈپٹی کمشنر نے اسے منظور کر لیا.چنانچہ ان دونوں نے مل کر
خطبات محمود ۴۹۸ سال ۱۹۳۶ ایسا عمدہ انتظام کیا کہ کسی قسم کی شورش نہ ہوئی.لوگ پتھروں کو لے کر مکانوں پر چڑھے ہوئے تھے مگر ان دونوں نے کہہ دیا کہ اگر کسی نے شرارت کی تو ہم اُسے اِس قد رسزا دیں گے کہ وہ یادر کھے گا یہ سن کر سب دشمن ڈر گئے.مجھے یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر نکلتے وہ ساتھ رہتے.اس سفر میں ایک لیکچر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اور کچھ لوگوں نے اس میں شورش کرنی چاہی اور بعض آنے والوں پر پتھر پھینکے.مسٹر بیٹی نے ان لوگوں کو ڈانٹ کر ہٹا دیا کی اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر ختم ہو چکا تو بآواز بلند کہا کہ مجھے ان مسلمانوں پر افسوس آتا ہے کہ غصہ تو ہم کو آنا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں ہمارے خدا کو مردہ ثابت کیا ہے اور ہمارے خلاف اور بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن مسلمانوں کے نبی کی بہت تعریف کی ہے اور وہی پھر بھی فساد کرتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں ہر شر سے محفوظ رکھا اور اس سے دشمن اور بھی زیادہ غصہ میں بھر گئے.چنانچہ انہوں نے آخر تجویز کی کہ آپ کی واپسی پر ٹرین پر پتھر برسائے جائیں اور جو لوگ چھوڑنے جائیں واپسی کے وقت ان کو دکھ دیا جائے.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہوئے تو آپ کی گاڑی پر پتھر برسائے گئے اور جولوگ وداع کیلئے گئے تھے واپسی پر اُن پر حملہ کیا گیا.ان لوگوں میں مولوی برہان الدین صاحب مرحوم بھی شامل تھے.لوگ بُری طرح ان کے پیچھے پڑ گئے ستر یا بہتر سال ان کی عمر تھی اور نہایت کمزور تھے مگر خندہ پیشانی سے مار کھائی حتی کہ ایک شخص نے گوبر اٹھایا اور ان کے منہ میں ڈال دیا.بعض دوستوں نے سنایا کہ مولوی صاحب اُس وقت بالکل غمگین نہ تھے بلکہ بہت خوش تھے اور بار بار کہتے تھے ایہ نعمتاں کتھوں.ایہ نعمتاں کتھوں یعنی یہ نعمتیں ہم کو پھر کب میسر آسکتی ہیں؟ گویا ماً مور کی خدمت میں مار کھانے کے مواقع روز روز حاصل نہیں ہوا کرتے.دیکھو ! جس چیز کو لوگ ذلت خیال کرتے ہیں اُس کو مولوی صاحب نے عین عزت خیال کیا اور یہی قرآنی منشاء ہے.قرآن مجید کے نزدیک ذلت یہ نہیں کہ لوگ ہم کو گالیاں دیں کیونکہ گالیاں تو آنحضرت ﷺ کو بھی دیں گئیں ، حضور پر اوجھڑی بھی پھینکی گئی تو کیا گالیاں دی جانے اور اوجھڑی پھینکے جانے سے حضور کی ذلت ہوئی ؟ ہر گز نہیں.حضور کا نام ہی محمد ہے جس کے معنی عزت دیا گیا کے ہیں.پس جو واقعہ بھی حضور سے گزرا وہ یقیناً سراسر عزت ہے.اگر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ جھوٹا ٹھہرتا ہے کیونکہ اس کے
خطبات محمود ۴۹۹ سال ۱۹۳۶ یہ معنے ہوں گے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ حضور کو محمد کہتا ہے اور دوسری طرف نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلک ذلیل ہونے دیتا ہے.پس اگر گالیوں کا ملنا ذلت ہے تو یہ ہرگز آنحضرت ﷺ کو نہ دی جاسکتیں.ہاں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کیلئے گالیاں کھا نا عزت ہے لیکن اپنی ذات کیلئے گالیاں کھانا کبھی ذلت کا موجب بھی ہو سکتا ہے.رسول کریم ﷺ کو ذاتی طور پر لوگ صادق اور امین کے نام سے یاد کیا کرتے تھے لیکن جو نہی حضور نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا لوگوں نے حضور کوتی کا ذب کہنا شروع کر دیا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت مے کی طرف یہ قول نقل فرمایا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ ، یعنی دعوی نبوت سے قبل کیا کسی نے تم میں سے مجھے گالی دی یا کوئی اعتراض کیا ؟ ہاں جو نہی میں نے خدا تعالیٰ کا نام لیا تو تم نے مجھ کو گالیاں دینا شروع کر دیں.تو یہ گالیاں وہ لوگ حضور کو نہیں دے رہے تھے بلکہ درحقیقت خدا تعالیٰ کو دے رہے تھے اور وہ اوجھڑی حضور پر نہیں پھینکی گئی تھی بلکہ در اصل خدا تعالیٰ پر پھینکی گئی تھی اور جب حضور کے گلے میں رسی ڈالی گئی تھی تو محض محمد اللہ کے گلے میں نہیں بلکہ اُس محمد کے گلے میں ڈالی گئی تھی جو رسول اللہ ہونے کا مدعی اور خدا تعالیٰ کا نام لینے والا تھا.پس یہ سلوک گو یا حضور سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے تھا.میرے اس فقرہ پر تعجب نہ کرو کیونکہ انسان سے بعض سلوک خدا تعالیٰ سے سلوک قرار پاتے ہیں.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگوں کو مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا ، میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا اس لئے تم جنت میں چلے جاؤ.وہ لوگ کہیں گے تو کب ہمارے پاس بھوکا ہونے کی حالت میں آیا کہ ہم نے تجھ کو کھانا دیا یا کب نگا ہونے کی حالت میں آیا کہ تجھ کو کپڑا دیا.تب اللہ تعالیٰ اُن کو فرمائے گا کہ دنیا میں میرا فلاں بندہ بھوکا اور نگا تھا تم نے اُس کو کھانا اور کپڑا دیا تو گویا اُسے نہیں بلکہ مجھے ہی دیا.اسی طرح بعض لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمائے گا کہ میں تمہارے پاس بھوکا اور نگا ہونے کی حالت میں آیا مگر تم نے مجھے کھانا اور کپڑا نہ دیا اس لئے جہنم میں جاؤ.وہ لوگ کہیں گے کہ اے خدا! تُو کب ہمارے پاس اس حالت میں آیا کہ ہم نے تجھ کو کھانا اور کپڑا نہ دیا تب خدا تعالیٰ ان کو بھی یہی جواب دے گا کہ دنیا میں میرا فلاں بندہ بھوکا اور ننگا تھا لیکن تم نے اس کو کھانا اور کپڑے کی مدد نہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ دی تو گویا یہ سلوک تم نے اُس سے نہیں بلکہ مجھ سے روا رکھا.پس ان تکالیف کا نام جو خدا تعالیٰ کے راستے میں ہم کو آتی ہیں ذلت رکھنا سراسر جہالت ہے.اگر یہ تکالیف در حقیت ذلت ہوتیں تو ہم کو قرآن مجید میں یہ دعا سکھلائی جاتی کہ اے خدا! لوگ ہم کو گالیاں نہ دیں، ہمارا بائیکاٹ نہ کریں.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس موقع پر سورۃ فاتحہ پر غور کرے کیونکہ ہر ایک وہ چیز جو خدا تعالیٰ کیلئے قربان کی جائے وہ گئی نہیں بلکہ ملی ہے اور وہ عزت ہے نہ کہ ذلت اور وہ انعام ہے کیونکہ جو چیز خدا تعالیٰ کے رستہ میں قربان کی جائے سینکڑوں گنا ہو کر قیامت کے دن واپس ملے گی.اور جو لوگ دنیا کی نظروں میں ذلیل خیال کئے جاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز ہیں اور حقیقی عزت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاصل ہو.دنیاوی عزتیں تو محض جھوٹ اور فریب ہیں.سجدہ کو دیکھو وہ بظاہر کیسی ذلت کی حالت ہے لیکن اس کے بارہ میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مَنْ تَوَاضَعَ لِلهِ رَفَعَهُ اللهُ یا سجدہ میں چونکہ زمین پر سر رکھ دیا جاتا ہے اس لئے یہ بظاہر ذلت کی صورت ہے لیکن حضور فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے نیچے کو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو بلند کرتا ہے اور جو شخص دنیاوی نقطۂ نگاہ سے بلند ہونا چاہتا ہے خدا تعالیٰ اُس کو بلندی سے نیچے کی طرف لے جاتا ہے.فرعون نے ہامان سے کہا تھا کہ مجھے ایک محل بنا دو جس پر چڑھ کر میں ذرا موسیٰ کے خدا کو تو دیکھوں ھے.اللہ تعالیٰ نے اُس کے ساتھ عجیب سلوک کیا کہ اس کو بحر قلزم میں اپنا وجود دکھایا.یعنی چونکہ وہ اوپر کو جانا چاہتا تھا خدا تعالیٰ نے کہا کہ تو اوپر کو کیا جاتا ہے میں تم کو نیچے ہی اپنا وجود دکھا دیتا ہوں.پس فرعون جواو پر کو جانا چاہتا تھا اسے خدا تعالیٰ نیچے کی طرف لے گیا.لیکن مؤمن خدا تعالیٰ کیلئے نیچے کی طرف جانا چاہتا ہے اسے اللہ تعالی اونچا کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ روحانی عالم میں اللہ تعالیٰ کا سلوک بالکل الٹ ہوتا ہے یہ گویا خواب کا سا معاملہ ہوتا ہے جیسے خواب میں تعبیر بعض اوقات اُلٹ ہوتی ہے جیسے موت سے مراد عمر کے لمبا ہونے اور دین کی ترقی کے ہیں اور ہنسنے سے مراد رنج اور رونے سے مراد خوشی کے ہوتے ہیں.اسی طرح جسمانی اور روحانی عالم بعض امور میں اُلٹ چلتے ہیں.پس جس قدر لوگ ہم کو گالیاں دیں گے اُسی قدر ہم کو عزت ملے گی اور جس قدر ہم کو دھتکاریں گے اسی قدر اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے
خطبات محمود ۵۰۱ سال ۱۹۳۶ قریب کرے گا.دنیا دیکھ لے کہ گالیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا حرج ہوا.حضور کی جماعت پر ایک دن بھی ایسا نہیں آتا جس میں اُس کو ترقی حاصل نہ ہوتی ہو اور دشمنوں پر ایک دن بھی ایسا نہیں آتا جس میں اُن میں کمی نہ آتی ہو.تو ہمارا دشمن نقصان میں ہے نہ کہ ہم.گالیاں دینا کی تو کمزوروں کا کام ہے اور یہ کمزور لوگوں کا ہی اوچھا ہتھیار ہے گالیاں دے کر وہ گو یا اپنا ناک آپ کاٹ رہے ہوتے ہیں.پس ہماری جماعت کو گھبرانا نہیں چاہئے تکالیف کا آنا خوشی اور فخر کا مقام ہے یہ زمانہ تلوار چلانے کا تو نہیں تھا اس لئے ہمارے دلوں میں ضرور یہ حسرت رہنی تھی کہ آنحضرت ﷺ اور دیگر انبیاء کے صحابہ کو تو تکالیف اٹھانے اور قربانیاں کرنے کی توفیق ملی مگر ہم کو یہ نعمت نصیب نہ ہوئی.پس ہم کو گالیاں دلا کر اور بعض دوسری مشکلات میں مبتلاء کر کے اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ حسرت پوری کر دی.ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ صحابہ مصائب کو کس نگاہ سے دیکھا کرتے تھے کیونکہ ہمیں انہیں کے نقشِ قدم پر چلنے کا حکم ہے.میں اس وقت ایک واقعہ بطور مثال سناتا ہوں تاریخوں میں آتا ہے ایک دفعہ رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہو رہی تھی اور جنگ مبارزہ تھی یعنی دونوں طرف کے بہادر ایک ایک کر کے لڑ رہے تھے.اتفاقاً ایک رومی سردار نے بہت سے مسلمانوں کو مار ڈالا.کئی بہادروں کے مارے جانے کے بعد حضرت ضرار اُس کے مقابلہ کیلئے نکلے لیکن جو نبی مقابلہ شروع ہوا آپ اپنے خیمہ کی طرف بھاگ پڑے.یہ دیکھ کر دشمن بہت خوش ہوئے اور مسلمان گھبرا اُٹھے کہ یہ کیا ہوا کیونکہ ضرار نہایت اعلیٰ پائے کے جرنیل تھے.غالباً حضرت ابو عبیدہ سردار لشکر تھے انہوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا.جب ضرار اپنے خیمہ میں پہنچے تو ان کی ہمشیرہ غصہ سے باہر نکل آئیں اور اُن کو ملامت کرنے لگیں.حضرت ضرار نے کہا اصل بات یہ ہے کہ میں نے آج اتفاقا زرہ پہنی ہوئی تھی.جب عیسائی جرنیل نے مجھ پر حملہ کیا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ضرار تو ہمیشہ بغیر زرہ کے لڑتا رہا ہے آج جو تو نے زرہ پہنچی ہے تو کیا اس وجہ سے کہ یہ عیسائی جرنیل بہت بہادر ہے اور تو مرنے سے ڈرتا ہے؟ یہ خیال آتے ہی مجھے خوف ہوا کہ اگر میں آج مر گیا اور خدا تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ اے ضرار! کیا تو ہماری ملاقات سے ڈرتا تھا کہ زرہ پہن کر لڑتا تھا ؟ تو میں
خطبات محمود ۵۰۲ سال ۱۹۳۶ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا.پس میں خیمہ کی طرف بھاگا تا کہ زرہ اُتار دوں اور پھر جا کر دشمن کی سے لڑوں.یہ وہ نقطہ نظر تھا جس پر صحابہ قائم تھے ان کے نزدیک مصائب اور قربانیاں صرف کھڑکیاں تھیں جن میں سے وہ اپنے محبوب کو جھانکتے تھے.غرض مؤمن خدا تعالیٰ کے راستے میں پیش آمدہ تکالیف کو انعام سمجھتا ہے اور جو ان تکالیف کو انعام نہیں سمجھتا وہ اپنے دل میں ایمان رکھتا ہی نہیں.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تکالیف اور مصائب کو اسی نقطہ نگاہ سے دیکھے یہ کہ قرب الہی کے حصول کیلئے ایک ذریعہ ہیں ہم کو تو صرف گالیاں دی جاتی ہیں اور کچھ تھوڑی سی تکالیف دی گئی ہیں.نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو تو گالیاں بھی دی گئیں اور انہیں قتل بھی کیا گیا اور جلا وطن بھی کیا گیا حتی کہ عورتوں تک کو شدید ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑا.خود رسول کریم ہے کی ایک صاحبزادی جب اُن کے خاوند نے اس وجہ سے انہیں مدینہ روانہ کر دیا کہ مکہ والے ان کو تکلیف دیتے تھے ان پر بزدل کفار نے حملہ کیا اور سواری سے گرا دیا.اس وقت وہ حاملہ تھیں اسی صدمہ سے اُن کا حمل ساقط ہو گیا اور اسی تکلیف کی وجہ سے وہ آخر فوت ہو گئیں.پس خدا کی راہ میں تکلیف پانا عزت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ عزت کیلئے پیدا کئے گئے تھے اگر یہ چیزیں عزت نہ ہوتیں تو آپ کو ہرگز ان باتوں سے واسطہ نہ پڑتا.پس ہم کو اس بات سے خوش ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو اس قابل سمجھا کہ ہم گالیاں کھائیں اور ہم پر پتھر برسیں.کشمیر کی تحریک کے موقع پر جب میں سیالکوٹ میں گیا تھا تو اس وقت میری تقریر کے موقع پر احرار نے ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک پتھر برسائے اور گو میرا دل چاہتا تھا کہ میں بھی اس تکلیف سے حصہ لوں لیکن بہت سے دوستوں نے میرے گر د حلقہ کر لیا لیکن اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو پورا کرنے کیلئے تین پتھر مجھ تک پہنچا ہی دیئے.یہ سنگ باری ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک ہوتی رہی اس کے بعد ڈپٹی کمشنر نے حکم دیا کہ لوگ پانچ منٹ میں چلیں جائیں ورنہ لاٹھی چارج کیا جائے گا.تب فواید احرار بہادر وہاں سے بھاگ گئے لیکن ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک پتھر برستے رہے.اس عرصہ میں بعض رؤساء نے مجھ سے کہا بھی کہ آپ چھت کے نیچے چلے آئیں اور بعض نے لیکچر ملتوی کرنے کو کہا مگر میں نے یہی جواب دیا کہ نہ میں لیکچر ملتوی کروں گا نہ اندر
خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۳۶ جاؤں گا کیونکہ میں ان پتھروں کے کھانے میں حقیقی خوشی اور لذت محسوس کرتا تھا.اور اس موقع پر کی ہماری جماعت کے پچھیں آدمی زخمی ہوئے جن میں بعد میں ایک آدمی فوت بھی ہو گیا.ہم کو یہ تو نہیں چاہئے کہ ایسے مواقع ہم اللہ تعالیٰ سے طلب کریں لیکن اگر خود بخو دا ایسے مواقع پیش آجائیں تو گھبرانے کی بجائے خوش ہونا چاہئے.جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے تکلیف اُٹھانا نعمت سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماتا ہے.ماں کو دیکھ لو جب وہ بچے کو کہتی ہے کہ تجھے پھینک دوں اگر بچہ آگے سے خاموش ہورہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھے یہ امر منظور ہے تو ماں اُس بچے کو گرانے کی بجائے چھاتی سے لگا لیتی اور پیار کرتی ہے.پس ہم کو چاہئے کہ عزت اور ذلت کا معیار وہی رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے نہ کہ اپنی طرف سے ایک چیز کو عزت اور دوسری کو ذلت سمجھ لیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ظاہر بین نظروں میں ذلیل ہو وہی شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہو.ل الفاتحة: ٦، ( الفضل ۹ / اگست ۱۹۳۶ ء ) النساء: ٧٠ ابوداؤد کتاب الخراج فى بيان مواضع قسم الخمس (الخ) اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۱۰۹ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ بخاری کتاب الاحكام باب قول الله تعالى أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (الخ) تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۵۱ مطبوعہ لا ہور۱۸۹۲ء تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۴۲۶،۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء البقرة : ۴ الفاتحة: 6 الفاتحة: ۵ ۱۲ یونس : ۱۷ مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض کنز العمال جلد ۳ صفحه ۲۴۳.مطبوعہ حلب ۱۹۷۰ء ها فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَّعَلَّى اَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى (القصص: ۳۹)
خطبات محمود ۵۰۴ ۲۹ سال ۱۹۳۶ مؤمن کو کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرنی چاہئے تحریک جدید کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا امتحان ہو رہا ہے اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کرو (فرموده ۷/اگست ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سب سے پہلے تو میں اس بات پر اظہار افسوس کرتا ہوں کہ بعض دوست سٹیشن پر آج گئے تھے اور میں نے اُن سے مصافحہ نہیں کیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ کل میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو پا لوضاحت اس بات کی ہدایت کر دی تھی کہ چونکہ جمعہ کا دن ہوگا اور قادیان پہنچ کر نہانا دھونا، کپڑے بدلنا اور پھر کھانے کا وقت ہونے کی وجہ سے کھانا کھانا ہوگا اس وجہ سے زیادہ وقت سٹیشن پر خرچ نہیں کیا جاسکتا اس لئے آپ تار دے دیں کہ دوست سٹیشن پر استقبال کیلئے نہ آئیں.انہوں نے پوچھا کیا یہ مطلب ہے کہ مصافحہ نہ کیا جائے.میں نے کہا یہ بات مجھے زیادہ شرمناک معلوم ہوتی ہے کہ دوست آئیں مگر میں اُن سے مصافحہ نہ کروں اس لئے یہ نہ لکھا جائے کہ مصافحہ نہ ہو بلکہ یہ لکھیں کہ دوست سٹیشن پر ہی نہ آئیں لیکن جب میں قادیان پہنچا تو میں دیکھا کہ کچھ دوست سٹیشن پر استقبال کیلئے کھڑے ہیں.میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو ہدایت بھجوا دی تھی.اس پر مقامی امیر صاحب سے میں نے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ دریافت کیا کہ میری ہدایت کے خلاف کیوں عمل کیا گیا اور دوستوں کو جمع کر کے کیوں ایک طرف مجھے شرمندہ کیا گیا اور دوسری طرف انہیں تکلیف دی گئی.انہوں نے کہا کہ ہمیں تار یہی پہنچی تھی کہ مصافحہ نہیں کرنا اس لئے ہم نے لوگوں کو جمع ہونے سے منع نہیں کیا.مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ جب بالوضاحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھ سے یہ بات دریافت کر لی تھی اور ان کی تجویز پر کہ مصافحہ سے روکا جائے میں نے کہہ دیا تھا کہ اسے میں ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں کو جمع ہونے دیا تو جائے اور پھر مصافحہ سے روکا جائے اس لئے دوستوں کو جمع ہونے سے ہی روک دیا جائے پھر اس قسم کی تار کیونکر دی گئی.اور میں نے دوبارہ امیر مقامی مولوی سید سرور شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ کو غلطی تو نہیں لگی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تین شخصوں سے تار پڑھوائی اور سب نے یہی کہا کہ اس میں مصافحہ کو منع کیا گیا ہے.میں نے ان سے کہا کہ آپ تار مجھے بھجوا دیں.اس کے بعد موٹر میں بیٹھتے ہوئے نیر صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کی کیا تھا اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہی تار چاہئے کہ مصافحہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے ان کے مشورہ کے مطابق میں نے یہ تار دے دی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نمائش کی خاطر اور صرف یہ دکھانے کیلئے کہ جب قادیان میں امام جماعت احمدیہ آتا ہے تو لوگ استقبال کیلئے جمع ہو جاتے ہیں میری حکم عدولی کرتے ہوئے اس قسم کا تار دے دیا گیا.میں دنیا کی کسی لغت کے لحاظ سے نہیں سمجھ سکتا کہ جب وضا حنا یہ ہدایت دے دی گئی ہو کہ لوگ سٹیشن پر نہ آئیں کیونکہ سٹیشن پر ان کے آجانے کے بعد ان سے مصافحہ نہ کرنا مجھے بہت معیوب معلوم ہوتا ہے اور یہ بات مجھے بُری لگتی ہے کہ لوگ جمع ہو جائیں اور میں ان سے مصافحہ نہ کروں میری ہدایت کو ان الفاظ میں ادا کیا جائے کہ لوگ مصافحہ نہ کریں.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ایک یہ عذر بھی کیا کہ میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سمجھا تھا کہ اگر یہ تار دی کہ لوگ نہ آئیں تو پہرے کا انتظام بھی نہ ہوگا حالانکہ تار میں آسانی سے لکھا جاسکتا تھا کہ سوائے منتظمین کے اور کوئی نہ آئے.لیکن میرے نزدیک اپنی ذات میں بھی یہ عذ رفضول ہے اس لئے کہ جو عملہ قادیان سے باہر پہرہ کا انتظام کر سکتا ہے، ریل میں پہرہ کا انتظام کرسکتا ہے وہ قادیان میں کیوں نہیں کر سکتا.کیا قادیان کے سٹیشن پر باہر کی نسبت زیادہ خطرات ہوتے ہیں اور سٹیشن کے باہر تو موٹر میں ہی جانا تھا.غرض یہ عذرات بالکل نادرست اور باطل تھے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ اور اسی ہندوستانی عادت کے ماتحت تھے کہ سو گز واروں گز بھر نہ پھاڑوں“.جان قربان کرنے کے دعوے زور شور سے کئے جائیں اور اطاعت بالکل نہ کی جائے اور میں مجبور ہوں کہ سمجھوں کہ محض نمائش اور جھوٹے مظاہرے کی خاطر میری ہدایت کی دیدہ دانستہ اور جان بوجھ کر نا فرمانی کی گئی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ اس غلطی کا خمیازہ قادیان کے دوستوں کو بھی بھگتنا پڑا اور جو مجھے تکلیف ہوئی وہ بھی کچھ کم نہیں.میں نے صراحتا کہ دیا تھا کہ وہ لوگ جو دوستوں کو جمع کر کے تو لے آتے ہیں مگر پھر مصافحہ کرنے سے انہیں روکتے ہیں ان کا روکنا مجھ پر بہت ہی گراں گزرتا ہے.جب لوگ جمع ہو جائیں تو اُس وقت میں یہی چاہتا ہوں کہ ان سے مصافحہ کروں اور وہ لوگ جو ایسی حالت میں کہتے ہیں کہ مصافحہ نہ کرو ان کی یہ بات مجھے نہایت ہی شرمناک معلوم ہوتی ہے اس کی تحقیقات تو میں بعد میں کروں گا کہ یہ صریح نافرمانی کیونکر ہوئی لیکن میں چاہتا ہوں کہ دوستوں سے اس بات کی معذرت کر دوں کہ میرا ان سے آج مصافحہ نہ کرنا نظام کے قیام کیلئے ضروری تھا.ہمارے ہندوستانیوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً سب سے بڑی لعنت یہی ہے کہ ان کے تمام کاموں میں نمائش ہوا کرتی ہے اطاعت نہیں ہوتی.ان کی ذلت اور رسوائی کا تمام تر راز اس امر میں ہے کہ وہ سچی اطاعت اور قربانی کے مفہوم سے ناواقف ہیں.نہ وہ خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت کرتے ہیں اور نہ ان لوگوں کی جن کے ہاتھ میں دینی یا دنیوی قیادت کی باگیں ہیں.نہایت چھوٹی چھوٹی نمائشی باتوں کیلئے ان کی جان یوں نکلتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں لیکن بڑے اور عملی کاموں کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں ہوتی.ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں سے ایک حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا کہ حضور ! یہ تو بتائیے کہ حج کے دنوں میں اگر کوئی شخص جوں مار بیٹھے تو اس کی کیا سزا ہے.انہوں نے کہا خدا کے رسول کے بھائی ، خدا کے رسول کے داما داور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو تم نے قتل کر دیا اور تم مجھ سے مسئلہ پوچھنے نہ آئے لیکن حج کے دنوں میں جوں مارنے والے کی سزا کے متعلق تم مجھ سے مسئلہ پوچھنے آگئے ہو.جاؤ دور ہو جاؤ میں تم کو کوئی مسئلہ بتانے کیلئے تیار نہیں.تو یہ
خطبات محمود ۵۰۷ سال ۱۹۳۶ ضلالت اور گمراہی ہمارے ملک میں عام ہے کہ لوگ شیطانی قیاس کرتے ہیں اور بات کو خوب سمجھنے کے باوجود پھر بھی اپنے قیاسات دوڑاتے ہیں.یہی لعنت ہے جو ان کی ذلت اور رسوائی کا موجب ہے اور جس کی وجہ سے فرمانبرداری اور اطاعت کی روح ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی.جن بزرگوں نے یہ کہا ہے کہ پہلا قیاس شیطان نے کیا تھا در حقیقت ان کا بھی ایسے ہی قیاس سے مطلب تھا کہ بات واضح ہوتی ہے، حکم بین ہوتا ہے مگر اسے رڈ کر دیا جاتا ہے اور ایک راہ پیدا کر کے کہا جاتا ہے کہ ہم نے یوں قیاس کیا تھا.اسی قسم کا قیاس ہے جس نے آدم کے زمانہ سے ہی تباہی مچائی ہوئی ہے.جب تک مؤمن کا مقام اس اطاعت اور فرمانبرداری کی حد تک نہ پہنچ جائے کہ جب اُس پر حکم واضح ہو جائے تو پھر چاہے اس کی حکمت اُسے سمجھ آئے یا نہ آئے اُس پر عمل کرے اس وقت تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.پہلا کام مؤمن کا یہ ہوتا ہے کہ جب اُسے کوئی حکم دیا جائے اور وہ اسے پوری طرح نہ سمجھ سکے تو اُس حکم کی وضاحت کرالے.جیسے مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا یہ مقصد ہے کہ مصافحہ نہ ہو.میں نے کہا نہیں.میرا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص سٹیشن پر نہ آئے.اس حد تک ان کا پوچھنا بالکل جائزہ تھا بلکہ ماتحت کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے کسی غلط فہمی کا اندیشہ ہوتو وہ پوچھ لے لیکن جب ما تحت دریافت کر چکے تو پھر جو بات اُسے کہی گئی ہو اُس کے متعلق اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اُس پر ایسی اطاعت اور فرمانبرداری سے عمل کرے کہ اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور نہ کو اس میں کسی قسم کا تخلف ہو.آخر غور تو کرو کہ صحابہ میں اور تم میں خدا تعالیٰ نے کیوں فرق رکھا ہے.اُن کو خدا تعالیٰ نے اُٹھایا اور چند سالوں میں ہی آسمان پر پہنچا دیا اور وہ لوگ جن کے بوٹ عربوں کی گردنوں پر تھے پندرہ بیس سال کے عرصہ میں ہی ان کی گردنوں پر عربوں کی جوتیاں رکھی گئیں.یہ بات یونہی تو نہیں ہو گئی ان کے اندر فرمانبرداری کی روح تھی.وہ جانتے تھے کہ فرمانبرداری اور اطاعت کسے کہتے ہیں ، وہ جانتے تھے کہ عقل سے کام کرنا کسے کہتے ہیں.ان کا یہ حال تھا کہ رسول کریم ﷺے ایک دفعہ وعظ فرمارہے تھے آپ نے بعض لوگوں کو کناروں پر کھڑے دیکھا تو فرمایا بیٹھ جاؤ.حضرت عبداللہ بن مسعود گلی میں سے مسجد کی طرف آرہے تھے ان کے کانوں میں جو نہی یہ آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ وہ وہیں بیٹھ گئے اور انہوں نے گھسٹ گھسٹ کر مسجد کے دروازہ
خطبات محمود ۵۰۸ سال ۱۹۳۶ کی طرف آنا شروع کر دیا جہاں کہ رسول کریم ﷺ تقریر فرمار ہے تھے.کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کانوں میں رسول کریم ﷺ کی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا اور میں نے گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.کسی نے کہا آپ مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھتے.تو عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر داخل ہونے سے پہلے مرجاتا تو خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیتا ہے.یہ وہ روح تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے فتح پائی اور انہوں نے دنیا میں اتنا عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کہ حیرت سے دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ استعجاب سے انگشت بدنداں ہو گئی.اس فرمانبرداری کے مظاہرہ کی ایک اور مثال میں سناتا ہوں.رسول کریم علی مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کیلئے تیار کیا اور اُسامہ بن زید کو اس کا سردار مقرر فرمایا تھا ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات ہوگئی اور سارے عرب میں بغاوت ہوگئی.اس بغاوت کا حلقہ اتنا وسیع ہو گیا کہ صرف تین مقام ایسے تھے جہاں نماز با جماعت ہوتی تھی ایک مکہ میں ، ایک مدینہ میں اور ایک اور چھوٹے سے گاؤں میں ان کے سوا عرب میں ہر جگہ بغاوت رونما ہوگئی تھی.بڑے بڑے صحابہؓ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقع پر اُسامہ کا لشکر باہر بھیجنا درست نہیں کیونکہ اِ دھر سارا عرب مخالف ہے اُدھر عیسائیوں کی زبر دست حکومت سے لڑائی شروع کر دی گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی حکومت بالکل درہم برہم ہو جائے گی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ موقع نہیں کہ اسامہ کالشکر باہر بھیجا جائے آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں جب ہم انہیں دبا لیں گے تو اُسامہ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کیلئے بھیج دیں گے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی نگسرا نہ حالت ظاہر کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو اپنے باپ سے نسبت دے کر بات کرتے کیونکہ ان کے باپ نہایت مسکین اور غریب آدمی تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب کہا کہ جیشِ اُسامہ کو روک لیا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا ابن ابوقحافہ کی طاقت ہے کہ محمد ﷺ ایک لشکر بھیجیں اور وہ اُسے روک لے.پھر فرمایا خدا کی قسم ! اگر کفار مدینہ کو فتح کریں اور مدینہ کی
خطبات محمود ۵۰۹ سال ۱۹۳۶ گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں گنتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو محمد اللہ نے روانہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا.اس کے بعد فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ ابن ابو قحافہ کا اپنی خلافت میں پہلا کام یہ ہو کہ وہ محمد عے کے کسی حکم کو منسوخ کر دے.بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اس سے بہادری کا وہ جذ بہ ظاہر ہوتا ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر تھا لیکن در حقیقت اسی میں ان کی کامیابی کا راز تھا.وہ قوت ارادی جس سے دنیا فتحی ہو سکتی ہے اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ انسان کے اندر ہو، جب وہ حیلے حجتیں نہ کریں، جب وہ اپنی تجویزوں اور اپنے قیاسات سے کام لینے کی بجائے اس حکم کو سنے جو اُسے دیا گیا ہو اور اُس پر پوری طرح عمل کرے.اگر انسان اس بات کی عادت ڈال لے تو اس صورت میں اسے بہت جلد کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس ایک طرف میں دوستوں سے معذرت کرتا ہوں اور دوسری طرف انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی کارروائیاں تمہیں قطعاً کامیابی عطا نہیں کر سکتیں.جب تک تمہارے اندر ایسی فرما نبراری پیدا نہ ہو کہ اگر تمہیں کہا جائے تلوار کی دھار پر اپنی گردنیں رکھ دو تو ایک بھی تم میں سے پیچھے نہ ہٹے اس وقت تک تمہیں اطاعت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا.مؤمن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ابتدائی تحقیق کر کے دیکھ لیتا ہے کہ مدعی خدا کا رسول ہے یا نہیں.یا نبی کی جانشینی اور قائمقامی کا دعوی کرنے والا صحیح معنوں میں اس کا قائمقام اور جانشین ہے یا نہیں.لیکن جب وہ اسے مان لیتا ہے تو پھر وہ دوسری آواز نہیں نکالتا.اس کی اپنی آواز میں بند ہو جاتی ہیں اور اس کیلئے صرف ایک ہی راستہ کھلا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اُس کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتا چلا جائے خواہ کی اسے آگ میں کودنا پڑے یا سمندر میں چھلانگ لگانی پڑے.اسلام تو اسلام جب یہ بات کافروں میں پیدا ہو جاتی ہے تو ہ بھی دنیا کو فتح کر لیتے ہیں.نپولین ایک معمولی ماں باپ کا بیٹا تھا لیکن وہ ایسے وقت میں فرانس میں پیدا ہوا جب فرانس کی حالت بہت گر رہی تھی.فرانس اس سے پہلے بہت بڑی طاقت رکھتا تھا اور سارے یورپ پر اس کا رُعب اور دبدبہ تھا لیکن نپولین کے زمانہ میں فرانس اپنے عروج کی حالت سے گر رہا تھا.نپولین نے اسے سنبھالنا چاہا اور اس نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جب تک تم
خطبات محمود ۵۱۰ سال ۱۹۳۶ میں تفرقہ اور شقاق ہے تم کامیاب نہیں ہو سکتے.تم اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ اپنے اندر پیدا کرو جیت جاؤ گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.ملک کی حالت دیکھ کر دردمند لوگ اس کے اردگرد جمع ہونے شروع ہو گئے اور انہوں نے اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین نمونہ دکھایا ایسا نمونہ کہ خود اس نے نپولین کی زندگی میں بھی تغیر پیدا کر دیا.نپولین ایک دفعہ ایک بڑی جنگ کے بعد فرانس کے پاس اٹلی کے نیچے ایک جزیرہ میں قید کر دیا گیا.کچھ لوگوں کی مدد سے آخر وہ آزاد ہوا اور فرانس کے ساحل پر اترا.اُس وقت نئی حکومت قائم ہو چکی تھی اور نیا نظام تھا.بادشاہ نے پادریوں کو بلایا اور ان کے ذریعہ جرنیلوں سے بائیل پر ہاتھ رکھ رکھ کر متمیں لیں اور جرنیلوں کے ذریعہ تمام سپاہیوں سے قسمیں لیں کہ وہ پوری طرح حکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے.بادشاہ نے یہ قسمیں اس لئے لیں کہ وہ جانتا تھا کہ نپولین نے لوگوں کے دلوں میں ایسی روح پیدا کر دی ہے کہ جب بھی نپولین ان کے سامنے آئے گا وہ نئی حکومت سے اپنے سارے تعلقات بھول جائیں گے اور اسی کے گرد جمع ہو جائیں گے.اس طرح قسمیں لینے کے بعد جنرل نے (NAY) کو رئیس لشکر بنایا گیا اور وہ بیس ہزار سپاہی لے کر نپولین کے مقابلہ کو روانہ ہوا.نپولین کے ساتھ صرف چندسو آدمی تھی اور وہ بھی اکثر زمیندار تھے جو لڑائی کے فن سے چنداں واقف نہ تھے اور ان کے پاس ہتھیاروں کی اتنی کمی تھی کہ بعض کے پاس صرف درانتیاں تھیں.اتفاقاً نپولین کے دستہ اور شاہی فوج کی مڈ بھیڑ ایک ایسے مقام پر ہوئی جہاں درہ بہت چھوٹا تھا اور صرف چند آدمی کندھے سے کندھا ملا کر گزر سکتے تھے.نپولین نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ آگے بڑھو وہ آگے بڑھے تو شاہی فوج نے ان پر گولیاں چلائیں اور وہ مارے گئے.پھر اُس نے بعض آدمی بھیجے تو وہ بھی مارے گئے.آخر سپاہیوں نے اُسے کہا کہ آگے بڑھنے کی کوئی صورت نہیں.دشمن سامنے کھڑا ہے اور وہ کی کہتا ہے کہ ہم بائیل پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر آئے ہیں کہ نپولین کے سپاہیوں کو مار ڈالیں گے اور چونکہ دو چار سپاہیوں کے سوا ہم میں سے زیادہ بڑھ نہیں سکتے کیونکہ درہ چھوٹا ہے اس لئے وہ گولیوں سے ہلاک کر دیتے ہیں اور ہم مقابلہ بھی نہیں کر سکتے.میں اس بات کی مثال دے رہا تھا کہ نپولین نے ان لوگوں میں سے کس طرح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کر دیا تھا.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سپاہیوں نے کہا کہ شاہی فوج کے آدمی ہم پر گولی چلا کر ہمیں ہلاک
خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۳۶ کر دیتے ہیں تو نپولین نے کہا.تم نے کہا نہیں ہوگا کہ نپولین کہتا ہے رستہ چھوڑ دو.انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کا حکم نہیں مان سکتے کیونکہ ہم بائبل پر قسمیں کھا کر آئے ہیں.نپولین کہنے لگا میں اس امر کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ تم نے میرا نام لے کر کہا ہو کہ راستہ چھوڑ دو اور انہوں نے نہ چھوڑا ہو.اب جاؤ اور کہو کہ نپولین کہتا ہے رستہ چھوڑ دو.وہ پھر گئے اور انہوں نے یہی کہا مگر انہوں نے جواب دیا ہم اب یہ باتیں سننے کیلئے تیار نہیں.ہم بائبل پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر آئے ہیں کہ تمہارا مقابلہ کریں گے.آخر نپولین خود چلا گیا اور کہنے لگا میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح میری بات نہیں مانتے.نپولین ان کے سامنے ہوا اور کہنے لگا دیکھو! نپولین تم سے کہتا ہے کہ راستہ چھوڑ دو.شاہی فوج کا افسر کہنے لگا جناب وہ دن گزر گئے اب اور بادشاہ ہے اور نئی حکومت ہم آپ کی بات کس طرح مان سکتے ہیں.مگر نپولین جانتا تھا کہ اس نے لوگوں کو اپنی اطاعت کا جو سبق پڑھایا ہوا ہے وہ اتنی جلدی بھولنے والا نہیں.وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا بہر حال میری فوجوں نے آگے بڑھنا ہے اگر تم وہ اطاعت کا سبق جو تمہیں پڑھایا گیا تھا بھول چکے ہو تو لو یہ میرا سینہ کھلا ہے جس سپاہی کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے سینہ میں گولی مار دے وہ گولی مار کر اپنا دل خوش کر سکتا ہے.نپولین نے جونہی یہ الفاظ کہے وہ پرانا جذبہ وفاداری ان میں عود کر آیا اور معا سپاہیوں نے اپنی بندوقیں ہوا میں اُچھال دیں اور نپولین زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور دوڑ کر اس کے ساتھ آملے اور کئی ان میں بچوں کی طرح روتے تھے جب یہ خبر جنرل نے کو ملی تو وہ فوج کا بڑا حصہ جو ابھی پیچھے تھا اس کو لے کر آگے بڑھا لیکن جس وقت نپولین کی آواز اس کی فوج کے کانوں میں پڑی کہ فرانس کے سپاہیو! تمہارا بادشاہ نپولین تم کو بلاتا ہے تو وہ فوج بھی اور جنرل نے بھی اپنے اقراروں کو بھول گئے اور صرف وہ اطاعت کا جذبہ ان کے اندر رہ گیا جسے نپولین نے ان کے دلوں میں پیدا کیا تھا اور وہ دوڑ کر اس کے گرد جمع ہوئے.فرانس میں اس وقت اتنا تفرقہ اور فساد تھا کہ انسان صبح کو نہیں کہ سکتا تھا کہ وہ شام تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں.ہزاروں لاکھوں انسان اس تفرقہ اور فساد کے زمانہ میں مارے گئے مگر اس تفرقہ کو نپولین نے فرمانبرداری کی روح پیدا کر کے دور کر دیا اور ملک کی حالت کو یکدم بدل دیا.اب دیکھ لو مسولینی کی وجہ سے اٹلی کو کس قدر عروج حاصل ہے.اٹلی کی حالت اتنی ذلیل
خطبات محمود ۵۱۲ سال ۱۹۳۶ تھی کہ جنگ عظیم میں ہر قسم کی قربانیاں لینے کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں نے گوشت گوشت تو خود رکھ لیا اور ہڈیاں اٹلی کو دے دیں.تمام اعلیٰ ملک اور زرخیز علاقے اپنے قبضہ میں کرلئے اور اٹلی والوں کو محض پر چا دیا.اس کے بعد مسولینی اُٹھا اور اُس نے فرمانبرداری کی روح اٹلی والوں میں پیدا کرنی شروع کر دی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اٹلی والوں کے پاس کوئی مذہب نہیں ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کی وہ تائید نہیں جو بچے مذہب والوں کے ساتھ ہوا کرتی ہے محض فرما نبرداری کی روح کے نتیجہ میں وہی اٹلی جسے جنگ عظیم کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں کی نے دھتکار کر پرے کر دیا تھا آج چیلنج دے رہا ہے، متواتر اور بار بار چیلنج دے رہا ہے کہ اگر کسی طاقت میں دم خم ہے تو اس کا مقابلہ کر لے.مگر وہی طاقتیں جو پہلے اسے ذرا ذرا سی بات پر گھورا کرتی تھیں اس طرح چُپ کر کے بیٹھ گئی ہیں گویا وہ دنیا میں ہیں ہی نہیں.آج سے بارہ سال پہلے کے اٹلی میں فرمانبرداری کی روح نہیں تھی اس لئے وہ ذلیل تھا مگر آج بارہ سال کے بعد اٹلی میں فرمانبرداری کی روح پیدا ہو گئی اس لئے وہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگ گیا.بیعت کا مفہوم تو ہے ہی یہ کہ انسان اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کر دے اور یہ مفہوم اتنا بلند ہے کہ دنیوی امور میں فرمانبرداری اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی.آج دنیا میں کون سا بادشاہ ہے جولوگوں سے بیعت لیتا ہو.بیعت تو سوائے اسلام کے اور کہیں نہیں.پس بیعت کا مقابلہ دنیا کی فرمانبرداری نہیں کر سکتی.بیعت کے معنی بیچ ڈالنے کے ہیں اور جب کسی نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا تو پھر کون سی چیز ہے جو اس کی رہ سکتی ہے.پس یہ گر کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ سے ایسا ہے کہ جب تک کوئی قوم اس پر عمل نہیں کرتی خواہ وہ بچے مذہب کی پابند ہویا اس سے ناواقف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.یہی روح ہے جس کو میں تحریک جدید کے ماتحت پیدا کرنا چاہتا ہوں.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک طبقہ جماعت کا ایسا ہے کہ نہ وہ بید کا مفہوم سمجھتا ہے، نہ وہ تحریک جدید کا مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اطاعت کا مفہوم سمجھتا ہے.بے شک ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں مگر کمزور ہونا کوئی عزت کا موجب نہیں کہ ہم کہیں چونکہ تمام جماعتوں میں کمز ور لوگ ہوا کرتے ہیں اس لئے ہمارے اندر بھی کمزور لوگوں کا ہونا قابل اعتراض نہیں.کمزوری ایک بُری چیز ہے اور اس کا مٹانا ہمارا فرض ہے اگر ہم اپنی کمزوری کو نہیں مٹا سکتے تو
خطبات محمود ۵۱۳ سال ۱۹۳۶ یقیناً ہم اپنی تباہی کے سامان آپ پیدا کرتے ہیں.اطاعت اور فرمانبرداری وہ چیزیں ہیں جن کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کرسکتی.رسول کریم ﷺ نے دنیا کا مقابلہ آخر کون سے سامان تھے جن سے کیا.مال آپ کے پاس نہیں تھا ، سپاہیوں کی تعداد آپ کے پاس کم تھی ، سوار آپ کے پاس تھوڑے تھے ، سامانِ جنگ آپ کے پاس قلیل تھا، آپ نے جس چیز کے ساتھ دنیا پر غلبہ حاصل کیا وہ یہ تھی کہ آپ نے صحابہ میں یہ روح پیدا کردی کہ خواہ وہ آگ میں پھینکے جائیں یا سمندر میں ان کا فرض ہے کہ وہ اطاعت کریں.مکہ والوں کے پاس اعلیٰ سے اعلیٰ فوجیں موجود تھیں، زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع تھا کیونکہ وہ تاجر لوگ تھے ، ان کے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی بہتات تھی، کپڑوں کی بہتات تھی ، تیروں کی بہتات تھی ، تلواروں کی بہتات تھی ، نیزوں کی بہتات تھی ، اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی بہتات تھی مگر ایک چیز نہیں تھی یعنی اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ نہیں تھا جس کی وجہ سے نہ ان کی فوجیں ان کے کام آئیں ، نہ ان کا روپیہ ان کے کام آیا، نہ تیروں اور تلواروں نے انہیں فائدہ پہنچایا اور نہ گھوڑے اور اونٹ انہیں غالب کر سکے.اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں یہ چیز موجود تھی اور اسی چیز نے انہیں کامیاب کیا.بدر کی جنگ کے موقع پر دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو کفار نے آپس میں مشورہ کے بعد ایک سردار کو مقرر کیا جو دیکھے کہ مسلمانوں کے کتنے آدمی ہیں تا انہیں تسلی ہو اور وہ فتح و شکست کو کے متعلق اندازہ لگا سکیں.انہوں نے مسلمانوں کا جائزہ لینے کیلئے جو سردار مقرر کیا وہ نہایت زیرک اور ہوشیار تھا.مسلمانوں کو دیکھ کر جب وہ واپس گیا تو کہنے لگا آدمی تو وہ تین سو سوا تین سو ہیں (اور یہ اس کا کہنا بالکل ٹھیک تھا کیونکہ صحابہ ۱۳ ۳ تھے مگر میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ ان کا مقابلہ نہ کرو.انہوں نے کہا یہ کیوں؟ وہ اتنے تھوڑے ہیں اور تم ہمیں ان کا مقابلہ کرنے سے ڈراتے ہو! ! وہ کہنے لگا اے میرے بھائیو! بے شک وہ تھوڑے ہیں مگر میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی سوار نہیں دیکھے بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں ہے.یعنی تم یہ خیال نہ کرو کہ تمہارے پاس نیزے ہیں اور ان کے پاس نیزے نہیں، تمہارے پاس تیر ہیں اور ان کے پاس تیر نہیں ، تمہارے پاس تلوار میں ہیں اور ان کے پاس تلواریں نہیں تمہارے پاس تیر کما نہیں ہیں اور ان کے پاس تیر کما نیں
خطبات محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۶ نہیں ، تمہارے پاس گھوڑے ہیں اور ان کے پاس گھوڑے نہیں، تم ہزاروں ہو اور وہ تین سے سوا تین سو ہیں بلکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ ایک اشارہ پر مر جانے والے اور ایک آواز پر اپنی جانیں فدا کر دینے والے آدمی ہیں.ایسے آدمیوں کا مقابلہ آسان نہیں کیونکہ میں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ وہ موتیں ہی تھیں.وہ سوائے موت کے اور کسی چیز کو نہیں جانتے تھے.یا وہ خود مارے جاتے تھے یا دوسروں کو مار دیتے تھے.میں نے کئی دفعہ واقعہ سنایا ہے کہ اسی جنگ میں دو انصاری لڑکے بھی شامل تھے جو نہایت چھوٹی عمر کے تھے جن میں سے ایک لڑکے کے متعلق رسول کریم ﷺ نے بھی فیصلہ فرما دیا تھا کہ وہ اتنی چھوٹی عمر کا ہے کہ اُسے لڑائی میں شامل نہیں کیا جا سکتا مگر وہ اتنار ویا اتنا رویا کہ رسول کریم ﷺ کو رحم آگیا اور آپ نے اُسے شامل ہونے کی اجازت دے دی.حضرت عبد الرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے جنگ میں ان کے دائیں بائیں یہ دونوں لڑکے کھڑے تھے.وہ کہتے ہیں میں اپنے دل میں افسوس کر رہا تھا کہ آج چھوٹے چھوٹے لڑکے میرے دائیں بائیں ہیں میں کس طرح لڑ سکوں گا کہ اتنے میں دائیں طرف سے مجھے کہنی پڑی.میں نے مُڑ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اُس لڑکے نے جو میرے دائیں طرف کھڑا تھا مجھے کہنی ماری ہے.مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر کہنے لگا چا! وہ ابو جہل کونسا ہے جو مکہ والوں کا سردار ہے میں نے سنا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کو بڑا دکھ دیا کرتا تھا میں نے آج اُس سے بدلہ لینا ہے.وہ کہتے ہیں میں ابھی اُسے جواب بھی دینے نہ پایا تھا کہ دوسری طرف سے مجھے کہنی پڑی میں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ بائیں طرف کے لڑکے نے مجھے کہنی ماری ہے.اُس نے بھی مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر کہا چا ! وہ ابو جہل کو نسا ہے جو مکہ والوں کا سردار ہے اور جو رسول کریم ﷺ کو بہت دُکھ دیا کرتا تھا میں نے آج اُس کی جان لینی ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ باوجود ایک تجربہ کار جرنیل ہونے کے میں خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ابو جہل کو مار سکوں گا کیونکہ وہ قلب لشکر میں کھڑا تھا اور پہرہ داروں کے جھرمٹ میں تھا اور بہادر سپاہی اس کی حفاظت کیلئے بنگی تلوار میں لئے اس کے پہرہ پر کھڑے تھے.لیکن جب دونوں لڑکوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے انگلی اٹھائی اور کہا دیکھو ! وہ جو قلب لشکر
خطبات محمود ۵۱۵ سال ۱۹۳۶ میں گھوڑے پر سوار ہے اور جس کے آگے پیچھے سپاہی ننگی تلوار میں لئے کھڑے ہیں وہ ابو جہل ہے.وہ کہتے ہیں ابھی میرا ہاتھ نیچے نہیں آیا تھا کہ جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے وہ دونوں کو ذکر لشکر کفار میں گھس گئے اور اس تیزی سے گئے کہ پہرہ داروں کے حواس باختہ ہو گئے مگر پھر بھی ایک پہرہ دار نے اُن میں سے ایک کا ہاتھ کاٹ دیا مگر اُس نے اس کی پرواہ نہ کی اور ابو جہل تک پہنچ ہی گیا اور دونوں لڑکوں نے مل کر ابو جہل کو گرا دیا ھے اور اُسے بُری طرح زخمی کر کے گرادیا جو بعد میں عبد اللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ سے مارا گیا.سیہ وہ لوگ تھے جن کو ایک ہی دھن تھی کہ محمد ﷺ کے احکام کی اطاعت میں دنیا میں ایک نیا تغیر پیدا کر دیں.انہوں نے اطاعت کی اور اس کا پھل پالیا آج ہم جو کچھ کریں گے اس کا پھل آئندہ زمانہ میں پالیں گے مگر یہ چیز ہے جس کی طرف جماعت کو لا نا ہمارا فرض ہے اسی لئے آجکل میں بالکل پرواہ نہیں کر رہا اور جماعت کا قدم آگے سے آگے بڑھا رہا ہوں اور اسی وجہ سے جو قادیان کے منافق ہیں وہ بھی پہلے سے زیادہ اعتراض کرنے لگ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر بوجھ چونکہ زیادہ پڑ رہا ہے اس لئے وہ جلدی ان کے دھوکا اور فریب میں آجائیں گے مگر وہ نہیں جانتے کہ میں آدمیوں کو نہیں دیکھ رہا بلکہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں.میں ایسا بیوقوف نہیں کہ سمجھوں کہ اس وقت جو لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں ان کے ذریعہ میں دنیا کو فتح کر سکتا ہوں یا جماعت میں اس وقت جتنے آدمی شامل ہیں ان کے ذریعہ ساری دنیا فتح کی جاسکتی ہے.پچاس ہزار یا لاکھ دو لاکھ آدمی ساری دنیا کے مقابلہ میں کیا کر سکتے ہیں.پھر مال کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو ان کے پاس مال کہاں ہے، طاقت کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو ان کے پاس طاقت کہاں ہے.پس میں دنیا کی فتح کا آدمیوں کے ذریعہ اندازہ نہیں کرتا آدمی میرا ساتھ نہیں دے سکتے بلکہ ایمان اور اخلاص میرا ساتھ دے سکتا ہے اور جب کسی انسان کے ساتھ ایمان اور اخلاص شامل ہو جائے تو ساری دنیا کے خزانے مل کر بھی اس کے مقابلے میں بیچ ہو جاتے ہیں.آج میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلہ کو بیان کرنے کیلئے آیا ہوں کہ جماعت کو توجہ دلاؤں کہ اُس مقام کو حاصل کئے بغیر جس میں انسان فنافی اللہ ہو جاتا ہے کسی قسم کی کامیابی اور ترقی حاصل نہیں ہوسکتی.آج سے قریباً پونے دو سال پہلے جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا جماعت میں
خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۶ ایک شور تھا، ایک غوغا تھا، ایک ہنگامہ تھا اور لوگ کہہ رے تھے کہ ہم کو حکم دیجئے ہم اپنا سب کچھ احمدیت کیلئے قربان کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن آج جاؤ اور تحریک جدید کے مالی وعدوں کو دیکھ لو رجسٹر موجود ہیں ان سے معلوم کر لو، پرانے خطوط محفوظ ہیں انہیں نکال کر پڑھ لو.کئی قربانیوں کا شور مچانے والے ایسے نکلیں گے جنہیں کہا گیا تھا کہ اگر تم کوئی رقم ادا نہیں کر سکتے تو اس رقم کی ادا ئیگی کا وعدہ مت کرو کیونکہ یہ کوئی جبری چندہ نہیں مگر انہوں نے وعدہ کیا پھر اسے پورا نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں ، مجھے صحیح یاد نہیں چوری ہوگئی اور ان کا کچھ زیور پر ایا گیا.ان کا ایک نو کر تھا وہ شور مچاتا پھرے کہ ایسے کم بخت بھی دنیا میں موجود ہیں جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کے ہاں چوری کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے.وہ چوری کرنے والے پر بے انتہاء لعنتیں ڈالے اور کہے خدا اس کا پردہ فاش کرے اور اسے ذلیل کرے.آخر تحقیقات کرتے کرتے پتہ لگا کہ ایک یہودی کے ہاں وہ زیور گرو رکھا ہوا ہے.جب اُس یہودی سے پوچھا گیا کہ یہ زیور کہاں سے تمہیں ملا ؟ تو اس نے اسی نوکر کا نام بتلا یا جو شور مچاتا اور چور پر پر لعنتیں ڈالتا پھرتا تھا.تو و منہ سے لعنتیں ڈال دینا یا زبان سے فرمانبرداری کا دعویٰ کرنا کوئی چیز نہیں عمل اصل چیز ہوتی ہے.ور نہ منہ سے اطاعت کا دعویٰ کرنے والا سب سے زیادہ منافق بھی ہو سکتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں وعدہ کیا اور پھر اُسے پورا نہیں کیا منافق ہیں مگر کئی تھے جنہوں نے پہلے سال وعدہ کیا اور پھر وعدہ پورا بھی کیا مگر دوسرے سال کی تحریک میں آکر رہ گئے.ایسے لوگ یک سالہ مؤمن تھے اُن کی دوڑ پہلے سال میں ہی ختم ہوگئی دوسرے سال کی دوڑ میں وہ شریک نہ ہو سکے.یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے سال شور مچاتے تھے کہ جو قربانی لینی ہے ابھی لے لو.ایسے تمام لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے اسی لئے تحریک جدید کے متعلق تین سال کی شرط لگا دی تھی تاتی وہ جو پہلے یا دوسرے قدم پر تھک کر رہ جانے والے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں اور خالص مؤمن باقی رہ جائیں.ایمان اور اخلاص کے سانس بھی مختلف ہوتے ہیں.جیسے کہتے ہیں فلاں اونٹنی دس میل دوڑ سکتی ہے، فلاں اونٹنی ہیں میل اور فلاں سو میل.ایمان کی بھی دوڑیں ہوتی ہیں اور ایمان کی دوڑ میں وہی جیتے ہیں جن کیلئے کوئی حد بندی نہ ہو.ہمیں نہ یک سالہ مؤمن کام دے سکتے ہیں نہ
خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۶ دوسالہ مؤمن بلکہ وہی کام دے سکتے ہیں جو بغیر کسی شرط کے ہمیشہ قربانیوں کیلئے تیار رہنے والے ہوں.اب انشَاءَ اللہ تیسرے سال کی تحریک آنے والی ہے.میں سمجھتا ہوں کئی ہیں جو اس میں بھی رہ جائیں گے.وہ دوسالہ مؤمن ہوں گے جو تیسری تحریک کے وقت گر جائیں گے.غرض کچھ لوگ اس سال گر گئے اور کچھ لوگ اگلے سال گر جائیں گے اور پھر کچھ سہ سالہ مؤمن ہوں گے جو تین سال قربانیوں پر صبر کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں.یہ سب لوگ جھڑتے چلے جائیں گے اور گرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ صرف وہ مؤمن رہ جائیں گے جو حیاتی مؤمن ہوں گے یعنی ساری زندگی ہی وہ خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کرنے میں گزار دیں گے اور یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ اپنے دین کو فتح دے گا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے جب تک خبیث اور طیب میں فرق کر کے نہ دکھلا دیں.اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ خبیث اور طیب میں ضرور فرق کر کے دکھائے گا جو لوگ گھبرا ر ہے ہیں اور خیال کر رہے ہیں کہ اس ذریعہ سے میں جماعت کو چھوٹا کر رہا ہوں وہ نادان ہیں وہ جانتے ہی نہیں کہ جماعت ترقی کس طرح کرتی ہے، وہ سمجھتے ہی نہیں کہ جماعت کی مضبوطی اور کمزوری کا کیا معیار ہوا کرتا ہے.کیا ایک لمبی زنجیر جس کی بعض کڑیاں کمزور ہوں وہ مضبوط ہوتی ہے یا وہ چھوٹی زنجیر جس کی ساری کڑیاں مضبوط اور پائیدار ہوں.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہی زنجیر کام آسکتی ہے جس کی ساری کڑیاں مضبوط ہوں.انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ زنجیر کی طاقت سب سے کمزور کڑی میں ہوتی ہے.یعنی سب سے کمزور کڑی جتنی طاقت کی ہوتی ہے اتنی ہی زنجیر کی طاقت ہوتی ہے.اسی طرح افراد کے ایمان کی مضبوطی ہی ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب کر سکتی ہے خواہ جماعت کے افراد تھوڑے ہوں یا بہت.اسی لئے میں نے تحریک جدید کو لمبا پھیلایا ہے تا میں دیکھوں کہ کہ کتنے مخلص ہیں جو اس دوڑ میں میرے ساتھ چلتے ہیں.میں نے دیکھا ہے پچھلے سال موجودہ سال کی نسبت زیادہ لوگوں کے وعدے پورے ہوئے تھے.چنانچہ ابھی میں نے نقشہ منگوا کر دیکھا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے سال آج کے دن تک ۷۴ ہزار روپیہ وصول ہو چکا تھا.مگر اس سال آج کے دن تک تریسٹھ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے حالانکہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعد
خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۳۶ زیادہ تھے.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یکسالہ مؤمن تھکنے لگ گئے ہیں اور اگلے سال کی تحریک میں جو دوسالہ مؤمن ہوں گے وہ تھک کر الگ ہو جائیں گے اور پھر پہلی تحریک جدید کے بعد جب دوسرا قدم اٹھایا جائے گا تو وہ جو سہ سالہ مؤمن ہوں گے وہ گرنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے دین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں آجائے گا جو خدا تعالیٰ کے ساتھ شرطیں باندھنے کے عادی نہیں ہوتے تب اُس وقت فرشتے نازل ہوں گے اور آدمی نہیں بلکہ فرشتے لڑائی کر کے دنیا کو دین کیلئے فتح کریں گے.ہاں جیسا کہ قرآن مجید میں منافقوں کا حال لکھا ہے جب دنیا فتح ہو جائے گی اور اسلام کی حکومت عالم پر قائم ہو جائیگی اُس وقت یکسالہ مؤمن اور دو سالہ مؤمن اور سہ سالہ مؤمن سب جمع ہو کر آجائیں گے اور کہیں گے ہم بھی مؤمن ہیں ہمیں بھی فتوحات میں شامل کیا جائے مگر خواہ وہ دنیا کی چیزیں لے لیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو سکتا.دنیا کی بادشاہت محمد ﷺ اور آپ کے نائبین سے چھین کر یزید نے لے لی مگر کیا خدا تعالیٰ کے حضور بھی یزید کو کوئی بادشاہت ملی؟ یزید کا نام اس دنیا میں بھی جہنم کے دروازہ پر لکھا ہوا ہے کجا یہ کہ آخرت میں اسے کوئی انعام حاصل ہو.پس دنیا کا حصہ گو ایسے لوگوں کو ملا جائے مگر آخرت میں انہیں کوئی حصہ نہیں مل سکتا کیونکہ آخرت میں انہی کا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرطیں نہیں کرتے.پس میں جماعت کو آج یہ توجہ دلانے کیلئے آیا ہوں کہ تحریک جدید کے ذریعہ ان کا امتحان ہورہا ہے فیل ہونے والے فیل ہورہے ہیں اور کامیاب ہونے والے کامیاب ہورہے ہیں.وہ جو امید کرتے ہیں کہ اب ان کیلئے کوئی آرام کا سانس ہے وہ غلطی پر ہیں اگر بندوں کے ہاتھ سے ان کا امتحان نہیں ہوگا تو خدا تعالیٰ خود ان کا امتحان لے گا لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ چاہتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مخلصوں اور کمزوروں اور منافقوں کو جُدا جُدا کر دیا جائے.میں نے تحریک جدید میں جو امور پیش کئے تھے اگر جماعت ان پر عمل کرتی تو ہر سال پہلے سے زیادہ چندہ آتا اور زیادہ چندہ دینے کی طاقت ان میں پیدا ہوتی.میں نے کہا تھا کہ اپنے اخراجات کو کم کرو اور اخراجات میں کمی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کر کے جو رقم تمہارے پاس بچے وہ اسلام کی ترقی کیلئے دو اور اخراجات میں کمی اپنی اپنی
خطبات محمود ۵۱۹ سال ۱۹۳۶ حیثیت کے مطابق کرو.جسے دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی ہے وہ اپنے اخراجات کے لحاظ سے کمی کی کرے اور جسے دس روپے ملتے ہیں وہ اپنے اخراجات کے لحاظ سے کمی کرے اور اس طرح جو و روپیہ بچے وہ چندہ میں دے دیا جائے مگر معلوم ہوتا ہے چندہ دینے کا یہ گر جو میں نے بتایا تھا جماعت نے اس پر عمل نہیں کیا.میں نے شروع میں بتایا تھا کہ تم منہ سے کہتے ہو ہم اپنا سب کچھ اسلام کیلئے قربان کرنے کیلئے تیار ہیں حالانکہ تمہارے پاس کچھ نہیں ہوتا اس صورت میں تمہارا دعوئی کیونکر صحیح ہو سکتا ہے تمہارا فرض یہ ہے کہ پہلے ٹھی میں کچھ لو اور پھر دینے کا نام لو اور مٹھی میں لینے کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنی زندگیوں میں تغیر پیدا کر دکھانے میں ، پینے میں، پہننے میں اور مکانات کی آرائش و زیبائش غرض ہر چیز میں فرق کرو اور اپنی حیثیت کے مطابق کرو.میں یہ نہیں کہتا کہ ایک غریب شخص بھی اتنا ہی چندہ دے جتنا ایک امیر دیتا ہے بلکہ اگر وہ پانچ روپے دے سکتا ہے تو پانچ ہی دے مگر پانچ روپیہ دینا بھی ایک غریب شخص کیلئے تبھی ممکن ہے جب وہ اپنے اخراجات میں کمی کرے گا جیسا کہ ایک امیر کیلئے پانچ سو روپیہ چندہ دینا بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ قربانی کر کے اخراجات کو کم نہیں کرتا.ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ میں امراء سے کہوں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ لائیں اور اسلام کیلئے قربان کر دیں.ابھی نسبت کے طور پر ان سے قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.مثلاً کہا جاتا ہے جو سو روپیہ لیتا ہے وہ دس روپے دے اور جو ہزار روپیہ کماتا ہے وہ ایک سو روپے دے لیکن جب وہ وقت آیا کہ کہا جائے جو کچھ پاس ہے سب اسلام کیلئے حاضر کر دو اس وقت شاید اور زیادہ لوگوں کا امتحان ہو جائے مگر اُس امتحان کے آنے تک ضروری ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو تحریک جدید کے ادنیٰ امتحان میں شامل کیا ہوا ہے وہ اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں.مجھے تحریک جدید کے مالی شعبہ اور امانت فنڈ دونوں کی رپورٹوں کی سے معلوم ہوا ہے کہ ان دونوں شعبوں کے چندوں میں کمی آرہی ہے اور ایک سالہ اور دو سالہ مؤمن کمزوری دکھا رہے ہیں مگر مجھے اس کی کوئی گھبراہٹ نہیں.میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگ گر جائیں اور ہمارا ساتھ چھوڑ دیں اور صرف ایسی ہی مخلص جماعت ساتھ رہ جائے جو پورے طور پر اطاعت کرنے اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار ہو.میں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ میرا ہرگز یہ ارادہ نہیں کہ اگر چندہ میں
خطبات محمود ۵۲۰ سال ۱۹۳۶ - کمی ہو تو ان کا موں کو جن کو شروع کیا جا چکا ہے بند کر دیا جائے.میں پہلے بھی اشارۃ بیان کر چکا ہے ہوں کہ روپیہ کی کمی کی وجہ سے کام ہرگز بند نہیں کئے جاسکتے.اگر روپیہ کی آمد میں کمی ہوئی تو تو کارکنوں کی تنخواہیں دس فیصدی کم کر دی جائیں گے اور اگر دس فیصدی کمی کر کے بھی گزارہ نہ ہوا تو ان کی تنخواہوں میں بیس فیصدی کمی کر دی جائے گی اور اگر ہمیں فیصدی کمی بھی ضروریات کو پورا نہ کرسکی تو تیس فیصدی کمی کر دی جائے گی اور اگر تمیں فیصدی کمی کافی ثابت نہ ہوئی تو چالیس بلکہ پچاس فیصدی کمی کر دی جائے گی.صدرانجمن احمدیہ کے جو کا رکن پہلے سے کام کر رہے ہیں یا وہ کا رکن جنہوں نے اس تحریک جدید پر کام شروع کیا ہے میں آج سے ان سب کو ہوشیار کر دیتا ہوں کہ اگر انہیں اپنی تنخواہوں میں یہ کمی منظور نہ ہو تو وہ بے شک اپنی نوکریوں کا باہر ا نتظام کر لیں.مجھے یقین ہے کہ پانچ یا دس دفعہ بھی اگر مجھے آدمی بدلنے پڑے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل.آدمی بھیجتا چلا جائے گا اور وہ کام پورا ہو کر رہے گا جس کے کرنے کا ذمہ ہم نے اُٹھایا ہوا ہے اور جس کو تکمیل تک پہنچنا نے کا فرض ہم پر عائد کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا نام انبیاء علیہم السلام نے شیطان کی آخری لڑائی کا زمانہ رکھا ہے اس لڑائی کی آگ میں جب تک ہم اپنی ہر چیز جھونکتے نہ جائیں گے اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے.شاہجہاں کی نسبت آتا ہے کہ اُس کی بیوی نے مرنے سے پہلے خواب میں دیکھا کہ میں مرگئی ہوں اور میری قبر پر بادشاہ نے ایسا ایسا مقبرہ بنایا ہے یہ وہی مقبرہ ہے جسے آجکل تاج محل کہتے ہیں اور آگرہ میں ہے.اس نے بادشاہ کے پاس ذکر کیا وہ چونکہ بیمار تھی اور بادشاہ کو اس کی دلجوئی مد نظر تھی اس لئے اُس نے بڑے بڑے انجینئر بلائے اور کہا کیا اس قسم کی عمارت بنا سکتے ہو؟ سب نے کہا یہ تو کسی جنت کی عمارت کا نقشہ ہے ہم اسے تیار نہیں کر سکتے آخر ایک انجینئر آیا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت ! ایسی عمارت بن سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر جمنا کے دوسرے کنارے چلیں اور ہزار ہزار روپیہ کی دوسو تھیلیاں اپنے پاس رکھوالیں.تجویز میں بتادوں گا اور وہ جگہ بھی بتادوں گا جہاں اس قسم کا مقبرہ بن سکتا ہے.بادشاہ نے حکم دیا جس پر فوراً ہزار ہزار و پیر کی دو سو تھیلیاں خزانہ سے آگئیں.اس نے ان تھیلیوں کو کشتی میں رکھا اور انجینئر کے ساتھ سوار ہوکر جمنا کے دوسرے کنارے جانے کیلئے روانہ
خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۶ ہو گیا.کشتی تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس انجینئر نے ایک تھیلی اُٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت ! اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کوئی حرج نہیں.دو قدم کشتی آگے بڑھی تو پھر اس نے ایک تھیلی اُٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا کہ بادشاہ سلامت! اس طرح روپیہ لگے گا بادشاہ نے کہا کوئی پرواہ نہیں.تھوڑی دور آگے چلے تو اُس نے تیسری تحصیلی دریا میں پھینک دی اور پھر چوتھی اور پھر پانچویں.یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ہزار ہزار روپیہ کی دوسو تھیلیاں دریا میں پھینک دیں اور ہر دفعہ یہی کہتا رہا کہ بادشاہ سلامت ! یوں روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ بھی یہی کہتا؟ رہا کہ پرواہ نہیں تم عمارت تیار کرو.جب وہ انجینئر جمنا کے دوسرے کنارے پہنچا تو کہنے لگا با دشاہ سلامت! مقبرہ بن سکتا ہے اور یہ جگہ ہے جہاں مقبرہ بنے گا.بادشاہ نے کہا آخر وجہ کیا ہے کہ دوسروں نے کہا ایسا مقبرہ نہیں بن سکتا اور تم کہتے ہو کہ بن جائے گا.وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ انہوں نے حضور کے دل کا اندازہ نہیں لگایا تھا انہوں نے سمجھا کہ آپ اس قدر روپیہ کہاں خرچ کریں گے مگر میں نے آپ کے دل کا اندازہ لگالیا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں کہ جب آپ دو لاکھ روپیہ کے ضائع ہونے پر چیں بہ جبیں نہیں ہوئے تو اس قسم کے مقبرہ پر بھی بے دریغ روپیہ خرچ کر دیں گے.اگر آپ ان دو لاکھ کے ضائع ہونے پر چیں بہ جبیں ہو جاتے تو میں بھی کہہ دیتا کہ اس قسم کا مقبرہ نہیں بن سکتا.اگر تاج محل کے بنانے کیلئے اتنے وسیع حو صلے کی ضرورت ہو سکتی تھی تو خدا تعالیٰ کیلئے ایک نئی زمین بسانے کیلئے کتنے وسیع حوصلہ اور کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.ہمیں بھی اسی طرح اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کرنے پڑیں گے جس طرح اس انجینئر نے شاہجہاں کا روپیہ قربان کیا.میں جانتا ہوں کہ ہر شخص کی عقل اتنی وسیع نہیں ہوتی کہ وہ قربانیوں کی حقیقت کو سمجھ سکے بعض تھڑ دے ہوتے ہیں وہ نہ دین کے پھیلانے کی عظمت جانتے ہیں، نہ قربانی کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں ، نہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہوتی ہے ان کی ایک ایک پیسہ پر جان نکلتی ہے اور دین کیلئے خرچ کرنا انہیں موت دکھائی دیتا ہے.مگر وہ جو جانتے ہیں کہ کام کتنا بڑا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ قربانیاں اپنے اندر کیا عظمت و شان رکھتی ہیں ، جو خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے مقابلہ میں دُنیوی مال و متاع کو ایک حقیر اور ذلیل چیز قرار
خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۶ دے کر اسے قربان کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے وہ قربانیوں پر بجائے غمگین ہونے کے خوش ہوتے او ر قر بانیوں کوستاسو دا سمجھتے ہیں ایسے آدمی خدا تعالیٰ کی فضل سے ہماری جماعت میں کم نہیں ہزار ہا ہیں جو اسی قسم کا اخلاص اور اسی قسم کی محبت رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں عبد الحکیم نے جب اعتراض کیا کہ جماعت احمدیہ میں سوائے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور ایک دو اور آدمیوں کے کوئی صحابہ کا نمونہ نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے اس خیال کی نہایت سختی سے تردید کی اور فرمایا میری جماعت میں ہزاروں ہیں جو صحابہ کا نمونہ ہیں.پس میرے لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور وہ خود ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو سلسلہ کی مالی اور جانی خدمات سرانجام دیں گے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ایک بھی ہم میں سے تباہ ہو اس لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرا رستہ لمبا اور تکلیفوں سے پر ہے جو لوگ کمزور ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی کمزوری دور کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنائیں.اس راستہ میں مال کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، جان کی قربانی بھی کرنی پڑے گی ،عزت کی قربانی بھی کرنی پڑے گی ، وطن کی قربانی بھی کرنی پڑے گی ، آرام و آسائش کی قربانی بھی کرنی پڑے گی اور اسی طرح کی اور بہت سی قربانیاں ہیں جو انہیں کرنی پڑیں گی.تب خدا تعالیٰ کا نور دنیا میں پھیلے گا.پس جو کمزور ہیں وہ میری تحریک کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں ورنہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ یا تو ایک دن مرتد ہو کر انہیں جماعت سے الگ ہونا پڑے گا یا خود انہیں جماعت سے الگ کر دیا جائے گا.قادیان کے کارکنوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہئے کہ اگر سرمایہ کافی نہ ہوا تو گو پہلے ہی انہیں باہر کی نسبت قلیل تنخواہیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنخواہوں میں کمی کی جائے گی اور جو کارکن اس کیلئے تیار نہ ہوں انہیں پہلے سے اپنی نوکریوں کا باہر انتظام کر لینا چاہئے.پھر کارکنوں کے علاوہ جماعت کے جو عام افراد ہیں خواہ وہ قادیان میں رہتے ہوں یا باہر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امر کیلئے تیار رہیں اور اب انہیں ہر قدم پہلے سے آگے بڑھانا پڑے گا اور یہ کام ختم نہیں ہوگا جب تک اسلام کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہو جائے.اس سے پہلے ہمارے لئے کوئی ہالٹ اور کوئی ٹھہرنا اور کوئی آرام نہیں.ہاں جب دنیا میں صحیح رنگ میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی تو ایک مرحلہ ہمارا ختم ہو جائے گا.
خطبات محمود ۵۲۳ سال ۱۹۳۶ وه مگر جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ مؤمن کا کام پھر بھی ختم نہیں ہوسکتا جو سچا مؤمن ہو جس دن اس کا کام ختم ہو جاتا ہے اسی دن اس کی موت آجاتی ہے.دیکھو رسول کریم ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ فَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ل کہ تیرا کام چونکہ دنیا میں اسلام پھیلانا ہے اس لئے جب اسلام میں جوق در جوق لوگ داخل ہونے لگیں اور فوج در فوج لوگ اسلام قبول کرنے کیلئے آئیں تو سمجھ لینا کہ تیرا وقت ختم ہو گیا اس وقت ذکر الہی میں مشغول ہو جانا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا.جب رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو یہ آیت سنائی تو باقی صحابہ تو بڑے خوش ہوئے کہ اب فتوحات کا زمانہ آ گیا لیکن حضرت ابو بکر رو پڑے وہ نہایت کامل الایمان تھے وہ یہ آیت سنتے ہی سمجھ گئے کہ جب رسول کریم ﷺ کا کام ختم ہو گیا تو پھر آپ نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے.خدا تعالیٰ کا رسول نکما نہیں بیٹھتا.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ اب رسول کریم ﷺ کا زمانہ وفات نزدیک ہے.اس پر حضرت ابو بکر کو اتنا رونا آیا کہ ان کی گھگی بندھ گئی.بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ آپ کے رونے کو سن کر کہہ اُٹھے کہ اس بڑھے کو کیا ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ اسلام ترقی کرے گا اور جوق در جوق لوگ اس میں داخل ہوں گے اور یہ روتا ہے.مگر رسول کریم ہے اس نکتہ کو سمجھ گئے یعنی آپ نے سمجھ لیا کہ حضرت ابو بکر نے آیت کا مفہوم سمجھ لیا ہے اس لئے آپ نے ان کی تسلی اور دلجوئی کیلئے فرمایا کہ ابو بکر مجھے اتنے پیارے ہیں اتنے پیارے ہیں کہ اگر کسی بندے کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابو بکر کو بنا تا لیکن یہ اسلام میں میرے بھائی ہیں.پھر فرمایا مسجد میں جس قدر کھڑ کیاں کھلتی ہیں سب بند کر دی جائیں مگر ابو بکر کی کھڑ کی کھلی رہے.اس میں آپ نے اس طرف اشارہ کر دیا کہ میرے بعد یہی امام ہوں گے اور انہیں چونکہ نماز پڑھانے کیلئے مسجد میں آنا پڑے گا اس لئے ضروری ہے کہ ان کی کھڑ کی مسجد کی طرف کھلی رہے.تو مؤمن جب اپنا کام ختم کر لیتا ہے تو وہ بالکل دنیا میں رہنا نہیں چاہتا.دیکھو! جب کوئی شخص اپنے بیوی بچوں سے جدا ہو کر غیر ملک میں جاتا ہے تو جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے کیلئے بیتاب ہو جاتا ہے.جب بیوی بچوں کی محبت اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ جب تک اُسے فرضِ منصبی رو کے رکھتا ہے وہ رکا رہتا ہے لیکن جب صلى الله
خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۶ اس کا کام ختم ہو جاتا ہے وہ ان کے ملنے کیلئے بیتاب ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی محبت اپنے اندرکس قدر کشش رکھتی ہوگی.یہی وجہ ہے کہ مؤمن جب تک دنیا میں اپنے فرائضِ منصبی میں مشغول رہتا ت ہے وہ مجبوراً اپنے محبوب خدا سے دور رہنا برداشت کر لیتا ہے لیکن جب وہ اپنے فرائض منصبی کو پورا کر لیتا ہے اُس وقت وہ ایک منٹ بھی دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ اُڑے اور خدا کے پاس پہنچ جائے.ہاں جب تک اس کا فرضِ منصبی پورا نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میں مجبور ہوں کیونکہ میرے آقا کا حکم یہی ہے کہ میں دنیا میں کام کروں مگر کام کے ہو جانے کے بعد وہ ایک منٹ بھی دنیا میں ٹھہر نا پسند نہیں کرتا.پس جب تک دنیا میں اسلام کی حکومت قائم نہیں ہو جاتی میرا اور جماعت کا کام ختم نہیں ہوسکتا اور جن کی زندگیوں میں بھی یہ کام ختم ہو گیا کیونکہ ضروری نہیں کہ ہماری زندگیوں میں ہی یہ کام پورا ہو وہ اس دنیا میں رہنا پسند نہیں کریں گے بلکہ ان کی روحیں اُڑیں گی اور خدا سے جاملیں گی اور پھر نئی پود کو نیا کام سپر د کیا جائے گا.در حقیقت لوگوں نے اس بات کو سمجھا نہیں کہ آخرت کے انعامات کی کیا اہمیت ہے.انہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے اس لئے وہ اس کی ذرہ ذرہ سی بات پر مرتے ہیں حالانکہ دنیا ایک میدانِ جنگ ہے جہاں شیطان سے لڑائی جاری ہے.کوئی شخص یہ لڑائی پسند نہیں کر سکتا کہ وہ ساری عمر لڑتا ہی رہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ لڑائی سے جلد سے جلد فارغ ہو کر اپنے گھر آئے.پس جس طرح میدانِ جنگ عارضی مقام ہوتا ہے اسی طرح سچا مؤمن چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں جلد سے جلد شیطان سے لڑائی ختم کر کے اپنے مولیٰ کے پاس پہنچے.پس ایک بار پھر میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑ دیں ورنہ اس بات کیلئے تیار ہیں کہ آج نہیں تو کل خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ٹھوکر لگے گی اور ان پر ایسا ابتلاء آئے گا کہ وہ ایمان سے بالکل محروم کر دئیے جائیں گے.خدا تعالیٰ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ زید یا بکر اس کے سلسلہ میں داخل ہیں یا نہیں.اگر کوئی شخص اس کے دین میں نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ اس کے دین کو چھوڑ کر الگ ہو رہا ہے تو وہ کہتا ہے جاؤ میرے دین کا کام کرنے والے اور بہت سے موجود ہیں میں ان سے کام لے لوں گا بلکہ خدا تو خدا
خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۶ ایک مؤمن بھی یہ پسند نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے دین پر احسان رکھے.وہ پسند کرے گا کہ وہ اکیلا خدا تعالیٰ کی راہ میں لڑائی لڑے بجائے اس کے کہ اس کے پہلو میں کوئی ایسا شخص ہو جو خدمت کر کے احسان جتانے والا ہو.پس جو بچے مؤمن ہیں وہ اس بات کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کر سکتے کہ کوئی ان کا ساتھ دیتا ہے یا نہیں اور جو بچے مؤمن نہیں وہ پتھر ہیں جو قوم کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے خطرہ ہے کہ بعض دوسرے لوگ بھی ڈوب جائیں.پس جتنی جلدی یہ پتھر دور ہو جائیں اور جتنی جلدی ان سے نجات ملے اتنا ہی اچھا ہے.ہاں چونکہ جن لوگوں سے تعلق اور محبت ہو اُن کے علیحدہ ہونے پر افسوس بھی آتا ہے اس لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کمزوروں پر رحم فرمائے ، انہیں ایمان اور اخلاص عطا فرمائے اور ہمیں بھی وہ طاقت بخشے کہ نہ دنیا کی آفات اور مصیبتیں ہمیں ڈرا سکیں اور نہ حکومتیں اور بادشاہتیں ہمیں مرعوب کرسکیں.صرف ایک ہی چیز ہو جو ہمارا مقصود ہو اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت ہمیں حاصل ہو اور اُس کے قرب کا مقام ہمیں ملے.خدا تعالیٰ کیلئے جان دینا ہمارے لئے سب - بڑی نعمت ہو اور اُس کی خوشنودی کیلئے مرنا ہماری سب سے بڑی راحت.اسدالغابه جلد ۳ صفحہ ۱۵۷.مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۵۱.مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء النساء: ۶۰ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۶.مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ه بخاری کتاب المغازى باب فضل من شهد بدراً النصر : ۲ تا آخر ( الفضل ۱۹ راگست ۱۹۳۶ ء )
خطبات محمود ۵۲۶ ٣٠ سال ۱۹۳۶ استعانت بغیر عبودیت کے حاصل نہیں ہو سکتی فرموده ۱۴ راگست ۱۹۳۶ء بمقادھرم ساله) ( غیر مطبوعہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- کہنے کو تو سب لوگ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بندہ کہتے ہیں اور خواہ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر اس بات میں جھجک محسوس نہیں کرتا کہ وہ خدا تعالیٰ کا غلام ہے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ واقعہ میں اس کے اندر عبودیت موجود بھی ہے یا نہیں.منہ سے غلامی کا اقرار کر لینا اور بات ہے اور اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کے غلام ہونے کا ثبوت پیش کرنا بالکل اور بات ہے.بسا اوقات ایک آدمی اپنے منہ سے تو ایک بات کا اقرار کر لیتا ہے لیکن جب امتحان اور آزمائش کا وقت آتا ہے تو فیل ہو جاتا ہے.ابوسینا ایک شخص تھے جن کے خیالات بہت اعلیٰ ہوتے تھے.انہوں نے ایک دفعہ ایسی بات کہی جس کا ان کے تمام شاگردوں پر خاص اثر ہوا کہ ان کا ایک شاگرد بے تحاشہ کہہ اُٹھا آپ تو ی.نبوت کے اہل ہیں آپ تو وہ کام کر سکتے ہیں جو آنحضرت اللہ سے بھی نہیں ہو سکتے.وہ تھے تو مسلمان لیکن اپنے شاگرد کی اس بات کو سن کر مصلحنا خاموش ہور ہے.کچھ عرصہ کے بعد سردی کا موسم آ گیا اور اس قدر شدید سردی پڑی کہ تالابوں کا پانی منجمد ہونا شروع ہو گیا.اس شدید سردی کی حالت میں انہوں نے ایک تالاب کو دیکھ کر اپنے اسی شاگرد کو کہا تم اس تالاب میں تو گو دو.حکم سن کر ان کا شاگر د حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ یہ کیسا تکلیف اور ناممکن العمل حکم دے رہے ہیں اور کہنے لگا آپ مجھ سے یا تو مذاق کر رہے ہیں یا پھر آپ پاگل
خطبات محمود ۵۲۷ سال ۱۹۳۶ ہیں.انہوں نے اس شاگرد کو جواب دیا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تو نے کس برتے پر مجھے کہا تھا کہ آپ تو نبوت کے اہل ہیں حالانکہ میں نے تجھے صرف ایک سرد پانی کے تالاب میں گودنے کو کہا تو ہے اور تو اس حکم پر بھی پورا نہیں اُتر سکتا دوسری طرف نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی یہ حالت تھی کہ حضور نے اُن کو طرح طرح کے مصائب میں ڈالا لیکن انہوں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اُن کو ہمیشہ اس بات کی خواہش رہتی تھی کہ ہم کو اس سے زیادہ مشکل کاموں کے کرنے کا دیا جائے.آجکل کے مسلمانوں کی تو یہ حالت ہے کہ وہ تمام احکام میں ایسی راہیں تلاش کرتے ہیں جن سے وہ ان احکام سے کسی طرح بچ سکیں.حتی کہ بعض مسلمانوں نے كِتَابُ الحِيَل “ جیسی کتب بھی لکھ دی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طریق سے ہم شریعت کے احکام سے نجات پاسکتے ہیں.گویا یہ لوگ ان احکام سے بچنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور ان احکام کو اپنے اوپر بطور چٹی کے خیال کرتے تھے لیکن اس کے برخلاف صحابہ کرام اعمالِ صالحہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے.چنانچہ ایک صحابی کا ذکر ہے کہ انہوں نے ساری رات جاگنا شروع کر دیا تھا تا کہ زیادہ ثواب اور رضائے الہی حاصل ہو لیکن حضرت نبی کریم ﷺ نے اس کو منع فرما دیا.اسی طرح ایک صحابی نے ہر روز روزہ رکھنا شروع کر دیا لیکن حضور نے اُس کو بھی منع فرما دیا.ایک صحابی نے ہر روز پورے قرآن مجید کی تلاوت کا التزام کیا تو حضور نے اُس کو بھی منع فرمایا.بعض صحابہ نے وصال کے روزے شروع کر دیئے تو حضور نے ان سے فرمایا کہ یہ روزے صرف میری ذات کیلئے ہیں تم یہ روزے نہ رکھا کرو.ایک دفعہ حضور نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنایا.ایک دفعہ مہاجر بھائی ، انصاری بھائی سے ملاقات کیلئے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ اس انصاری بھائی کی بیوی میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے بیٹھی ہے.انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ تیری یہ حالت کیوں ہے؟ کہنے لگی میں کس کو دکھانے کیلئے صاف ستھری ہو کر بیٹھوں.میرے خاوند کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات عبادت کرتا رہتا ہے اور دن روزہ کی حالت میں گزار دیتا ہے اور اُس کو اِس بات کی خبر نہیں کہ میں اُس کے گھر میں بطور بیوی کے رہتی ہوں.اتنے میں انصاری بھائی بھی آگئے.مہاجر بھائی نے ان
خطبات محمود ۵۲۸ سال ۱۹۳۶ کو اس قد رعبادت سے منع کیا.انہوں نے جواب دیا کہ تم عجیب قسم کے بھائی ہو کہ مجھے نیکی سے روکتے ہو اور جب وہ رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے لگے تو انہوں نے نہ اُٹھنے دیا اور زبردستی لٹا دیا اور جب دن کو روزہ رکھنے لگے تو روزہ بھی نہ رکھنے دیا.اس پر انصاری نے آنحضرت ﷺ سے اس امر کی شکایت کی تو حضور نے فرمایا کہ تمہارے مہاجر بھائی کا یہ فعل بالکل درست ہے اور فرمایا لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَارِكَ عَلَيْكَ حَقًّا اے.یعنی ہر وقت عبادت درست نہیں کیونکہ تجھ پر تیرے اپنے نفس، بیوی اور ہمسایہ کے بھی حقوق ہیں.گویا صحابہ میں ہمیشہ اس بات کا بھی مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ وہ عبادت میں کسی سے کم نہ رہیں لیکن آج کل کے مسلمان ہر وقت ایسی راہوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں جن سے وہ عبودیت کے پنجے سے نجات پاسکیں اور ان کا اپنے منہ سے یہ کہنا کہ ہم خدا تعالیٰ کے عبد ہیں اس مثال کے مطابق ہے کہ سو گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں یعنی منہ سے تو سو گز وارنے کو تیار ہیں لیکن اگر ان کو فی الواقعہ پھاڑنے کیلئے کہا جائے تو انکار کر دیں گے.یوں تو عبودیت کے دعویدار ہیں لیکن ان میں رکمبر ، تصنع ، ریاء، نمائش سب قسم کے عیوب اور نقائص پائے جاتے ہیں اور زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنے عیوب کو عیوب نہیں سمجھتے اور ان کی مثال اُس بیمار کی طرح ہے جو اپنی بیماری کا احساس نہیں کرتا.ایسے بیمار کا علاج بھی مشکل سے ہی ہو سکتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کو سمجھانے لگے تو اُلٹا اس کی بات کو بُر امانتے ہیں.قرآن مجید میں یہ ایک ممتاز خوبی ہے کہ جب کبھی کوئی حکم بیان کرتا ہے تو معاً اس کے ساتھ ہی اس حکم کے فوائد اور اغراض بھی بیان کر جاتا ہے اور یہ خوبی کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی کیونکہ جب وہ کوئی حکم دیتی ہیں تو اس حکم کے نتائج، فوائد اور اس کے حصول کے طریق نہیں بتاتیں.لیکن قرآن مجید ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتا ہے اسی لئے جب اس نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ فرما ساتھ ہی اس کا نتیجہ اور فائدہ بھی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ لے کے الفاظ میں فرما دیا.گویا ایاک نَعْبُدُ کے لے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بطور دلیل کے ہے.نیز بطور معیار کے بھی یعنی جو شخص عبودیت کا مدعی ہو ہم اس کو تب ہی سچا سمجھیں گے جبکہ اِيَّاكَ نَسْتَعِینُ کا اعلیٰ مقام اس کو حاصل ہو.پس ايَّاكَ نَعْبُدُ بطور دلیل کے ہے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کیلئے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بطور دلیل کے ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ
خطبات محمود ۵۲۹ سال ۱۹۳۶ کیلئے.یعنی عبودیت کا دعویٰ بغیر استعانت کے بالکل غلط ہے اور اسی طرح استعانت بغیر عبودیت کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں تو اُس پر فرض ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی اتکال کرے اور ادھر اُدھر اپنی نظر نہ اُٹھائے.کیا تم نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ کو ئی شخص کہتا ہو کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور پھر اور لوگوں کے گھروں سے کھانا اور کپڑا مانگتا پھرتا ہو.اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ درحقیقت اپنے آپ کو اُس شخص کا بیٹا نہیں سمجھتا بلکہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہے.اسی طرح جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگتا ہے تو درحقیقت وہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے دعوئی میں سچا نہیں ہے.اگر کوئی شخص عبودیت کے دعوئی کے باوجود اور لوگوں کا دست نگر ہے تو یقیناً اُس کا ایمان کمزور ہے ور نہ اگر اس کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا تو خدا تعالیٰ کے مل جانے کے بعد اس کو کسی اور کی حاجت ہی باقی نہ رہتی.اور جو شخص خدا تعالیٰ کا ہورہتا ہے تو پھر اس کو اس بات کی ضرورت باقی نہیں رہا جاتی کہ لوگ اس کی مدد کریں بلکہ خدا تعالیٰ خود اس کی مدد کرتا ہے اور یہ جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آتا ہے کہ غریبوں اور مساکین کی امداد کرو یہ حکم تو ادنی ایمان والے لوگوں کیلئے فرمایا گیا ہے نہ کہ کامل ایمان والے لوگوں کیلئے.اس حکم سے یہ تو مراد نہیں کہ اے لوگو ! تم نبی کریم ﷺ کی.نوح علیہ السلام کی یا ابراہیم علیہ السلام کی مدد کرو.کیونکہ انبیاء کی نصرت کا دار و مدارلوگوں پر نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ خود ان کی پشت پر ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا يَنصُرُكُ رِجَالٌ نُوْحِی إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ سے یعنی یہ سوال نہیں کہ کوئی تیری مدد کرتا ہے یا نہیں بلکہ ہم خود پکڑ پکڑ کر لوگوں سے تیری مدد کروائیں گے.پس رحم اور امداد کا سوال تو ادنی درجہ کے لوگوں کیلئے ہے نہ کہ انبیاء اور کامل مومنوں کیلئے.کیونکہ انبیاء اور کامل مومن تو سائل اور محروم کے ماتحت نہیں آتے اور مذکورہ حکم اُن دو کے لئے ہی ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ یہ حکم یا تو کافروں کیلئے ہے یا پھر ادنی مومنوں اور محروم لوگوں کیلئے.کامل مؤمنوں کی فکر تو خدا تعالیٰ خود کرتا ہے.ہاں جن لوگوں کا ایمان ہنوز کمال کے درجہ تک نہیں پہنچا ہوتا تو جس طرح غبارہ ہچکولے کھایا کرتا ہے اسی طرح وہ بھی ہچکولے کھاتے رہتے ہیں.ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ شہر سے دور کسی مقام پر عبادت کیا کرتے تھے اور ان
خطبات محمود ۵۳۰ سال ۱۹۳۶ء کا رزق وہیں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچ جایا کرتا تھا.ایک دفعہ ان کو فاقہ ہوا اور وہ اُس جگہ کو چھوڑ کر شہر کو چل دیئے اور ایک دوست کے ہاں سے کھانا کھایا اور کچھ کھانا لے کر واپس اسی جگہ کی طرف آنے لگے تو ان کے دوست کا کتا بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہولیا.انہوں نے جب گتے کو پیچھے آتے دیکھا تو اس کو بھوکا سمجھ کر ایک روٹی ڈال دی.تھوڑی دور جا کر پھر دیکھا کہ کتا ابھی پیچھے ہی چلا آ رہا ہے تو دوسری روٹی ڈال دی.تھوڑی دیر کے بعد جب پھر گتا پیچھے ہی چلا آتا نظر آیا تو نہایت غصہ کے ساتھ تیسری روٹی اُس کی طرف پھینک کر کہا کہ تو بڑا بے حیا ہے کہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتا.ان کے اس کہنے پر معاً اُن کو کشف ہوا اور کتا انسان کی شکل ہو کر ان کو یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ بے حیا میں ہوں یا تو ہے؟ مجھے اس گھر میں کئی دنوں سے فاقے ہورہے ہیں مگر میں نے وفاداری کی وجہ سے اس گھر کو چھوڑ نا گوارا نہ کیا تجھے صرف ایک ہی فاقہ گزرا تھا کہ تو نے خدا تعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا.پس گتے نے انسانی شکل میں آکر اُن کو یہ بتایا کہ مومن کو اللہ تعالیٰ سے کسی صورت میں بھی مایوس نہ ہونا چاہئے اور ہر وقت اُس کے دروازہ پر ہی اپنی نظر کو لگائے رکھنا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے مجھے یہ تو قطعاً یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں ہی فرماتے ہوں کہ ہم طبیبوں کی بھی کیا زندگی ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی شخص اپنے نیفے کو کھجلاتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو کچھ فیس دینے لگا ہے.یہ انہوں نے عام اطباء کی حالت بیان فرمائی ہے نہ کہ اپنی.کیونکہ کامل مومن کی نظر لوگوں کی طرف نہیں ہوتی اور حضرت خلیفہ اول کو ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب اُن کو روپوں کی ضرورت ہوتی تو فوراً کوئی شخص آتا اور علاج کروا کے بغیر گننے کے کچھ روپے دے جاتا.ایک دفعہ حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم، حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور حضور کو کچھ روپے دے گیا.حضور نے حافظ صاحب مرحوم سے گنے کو فرمایا تو وہ روپے اُسی قدر نکلے جس قدر ایک قرض خواہ کو دینے تھے.ایسا معاملہ تو عام مومنوں سے بھی ہو جاتا ہے لیکن عام مومنوں میں إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی شرط اعلی پیمانہ پر نہیں پائی جاتی بلکہ یہ صرف خاص مؤمنوں کیلئے ہی ہے.پس جب کامل مؤمن إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہہ کر خدا تعالیٰ کا کامل عبد ہو جاتا ہے تو پھر ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے یعنی اے خدا! جب میں تیرا ہی بندہ ہو چکا اب میں تیرے دروازے کو چھوڑ کر اور کسی کا دروازہ کیوں
خطبات محمود ۵۳۱ کھٹکھٹاؤں ؟ گویا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ لازمی نتیجہ ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کا.سال ۱۹۳۶ اس مقام پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پہلے ہونا چاہئے تھا اور ايَّاكَ نَعْبُدُ بعد میں کیونکہ بغیر ا عانت الہی کے عبودیت کا مقام حاصل ہو ہی نہیں ہو سکتا.ان کا یہ کہنا بھی ایک طرح سے درست ہے لیکن جس مقام کا یہاں بیان ہے اس میں عبودیت، استعانت سے قبل ہی درست ہے کیونکہ یہاں گویا پہلے سوال اٹھایا ہے کہ کون شخص اللہ تعالیٰ کا عبد ہوتا ہے اس کے بعد خود ہی جواب دے دیا کہ جو خدا تعالیٰ سے ہی استعانت طلب کرے اور صرف اسی کی طرف اُس کی نظر اُٹھے اور اسی پر اُس کا کامل بھروسہ ہو.حضرت سید عبدالقادر جیلانی فرمایا کرتے تھے کہ میں اُس وقت تک کھانا نہیں کھایا کرتا جب تک مجھے اللہ تعالیٰ نہیں فرما دیتا کہ اے عبدالقادر ! تجھے میری ہی ذات کی قسم ہے کہ تو ضرور کھانا کھا اور میں اُس وقت تک کپڑا نہیں پہنتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے نہیں فرما دیتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ہی ذات کی قسم کہ تو ضرور یہ کپڑا پہن.یہ بھی ایک خاص مقام ہے جو اُن کو حاصل تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ حضور میں سادگی اور فقر نظر نہیں آتا.مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اول ان لوگوں کو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام میں سلیمان کے نام سے بھی تو یا د فر مایا ہے اور وہ بادشاہ تھے.پس اگر حضور میں حضرت سلیمان کے حالات نہ پائے جائیں تو حضور کا یہ الہام غلط ٹھہرے گا.حضور کو اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کا رنگ عطا فرمایا تھا.حضور میں نبی کریم ﷺ کی سی سادگی بھی تھی اور سلیمان کے حالات بھی حضور میں نظر آتے تھے.پس عبودیت تامہ کے بعد انسان کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے استعانت حاصل ہو جاتی ہے اور ہر ایک انسان کو یہ درجہ حاصل ہو سکتا ہے بشر طیکہ وہ ہمت نہ ہارے.حتی کہ ابو جہل جیسا انسان بھی اِيَّاكَ نَعْبُدُ پر عمل کر کے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مستحق بن سکتا ہے.اگر ابو جہل کیلئے یہ امر محال ہوتا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ پھر خدا تعالیٰ کو کوئی حق نہیں کہ ابو جہل کو سزا دے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کے اندرا گر یہ ملکہ ہی نہیں رکھا تو اس کو سزا دینا قرین انصاف نہیں کیونکہ پھر وہ معذور ہے.پس اس مقام کے حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دے رکھی ہے خواہ وہ کسی ملک کا ہو، کسی قوم کا ہو، کسی حالت میں زندگی
خطبات محمود ۵۳۲ سال ۱۹۳۶ گزار رہا ہو.پس کیوں ہر ایک انسان یہ کوشش نہ کرے کہ وہ ايَّاكَ نَعْبُدُ کے مرحلے کو طے کرتا ہوا إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی منزل پر جا کر ٹھہرے.مجھے ان دوستوں پر تعجب آتا ہے جو دشمنوں کی مخالفت کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں.مگر غور کرنا چاہئے کہ اگر دین پر کوئی خطرہ نہ آئے جس میں ہم کو دین کی نصرت کا موقع مل سکے تو ہمارے اخلاص کا اظہار کس طرح ہو.اسی طرح اگر ہم پر تکالیف اور مصائب نہ آئیں تو لوگوں کو کس طرح علم ہو کہ خدا تعالیٰ ہماری اعانت فرماتا ہے اور ان تکالیف کو دور کرنا اُس کے سامنے کچھ بھی نہیں اور اس طرح گویا خدا تعالیٰ بھی اپنا امتحان دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ میرے اندر کس قدر طاقت اور قوت کی ہے اور وہ اپنی قدرت کا اس طرح پر اظہار کرتا ہے کہ پہلے پہل لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے کو بظاہر حالات میں ذلیل کر لیں اور اس کو طرح طرح کی تکالیف کا نشانہ بنالیں.اُس کی جان اور مال اور آبرو پر حملے کر لیں.اس کے بعد یکدم خدا تعالیٰ نمودار ہوتا ہے اور دنیا کو کہتا ہے ہے کہ کون ہے جو میرے اس بندے کو ہاتھ لگا سکے اور پھر اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اُس کو عزت کے مقام پر پہنچا دیتا ہے اور اس طرح دنیا کو بتلا دیتا ہے کہ میں کس قدر قادر ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سلطان عبدالحمید شاہ ٹرکی کی ایک بات بہت ہی پسند آتی ہے اور وہ یہ کہ جب یونان سے جنگ ہونے کو تھی تو اس کے جرنیلوں نے جلسہ کیا اور خوب رڈ و قدح کے بعد کہنے لگے کہ ہمارے پاس جنگ کا فلاں فلاں سامان تو کافی موجود ہے لیکن فلاں سامان موجود نہیں ہے اس لئے ہم کو جنگ سے احتراز کرنا چاہئے.اس موقع پر سلطان عبدالحمید نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم نے اپنی طرف سے سارے خانے پر کر لئے اب کوئی خانہ خدا تعالیٰ کیلئے بھی تو رہنے دو اور حملہ کر دو.چنانچہ حملہ کیا گیا اور فتح حاصل ہوئی.حضور فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبد الحمید کی یہ بات کہ خدا تعالیٰ کیلئے بھی کوئی خانہ رہنے دو مجھے بہت ہی پسند ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جب ہماری جماعت میں سے کسی دوست پر انفرادی طور پر یا جماعت پر بحیثیت مجموعی مصائب آتے ہیں تو دوست گھبرا اُٹھتے ہیں اور دوست اخلاص کی وجہ سے مجھے آن آن کر مشورے دینے لگتے ہیں کہ فلاں بات یوں کریں، فلاں یوں کریں.خصوصاً جس
خطبات محمود ۵۳۳ سال ۱۹۳۶ جگہ کے دوست آرام میں ہوں جیسا کہ قادیان کی حالت ہے وہ ناصح مشفق بن کر مجھے نصائح شروع کر دیتے ہیں کہ گورنمنٹ سے جنگ پر اتر نا ٹھیک نہیں اور لوگوں کو اپنی مخالفت پر آمادہ نہیں کرنا چاہئے.وہ تو دل میں خیال کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ میری خیر خواہی کر رہے ہیں لیکن میں اُن کو اپنے دل میں بُزدل یقین کر رہا ہوتا ہوں کیونکہ جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہہ چکے تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا کام کریں اور وہ خراب ہو جائے.ہمارے تباہ ہو جانے سے دنیا کو ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا.کیا ابو بکر ، عثمان اور عمر کی شہادت سے اسلام کو کوئی نقصان ہوا ؟ ہرگز نہیں حالانکہ یہ خلفاء مقتدر صحابہ میں سے تھے.پس ہم کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے جھکیں اور اُن سے غیر ضروری نرمی اختیار کریں.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے خود بخود ہو جائے گا ہمارا تو صرف اتنا فرض ہے کہ قربانی سے دریغ نہ کریں آگے خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی تو ہم سے کام لے لے گا اور مرضی ہو گی تو ہم سے کام نہ لے گا.عبودیت تامہ کے ساتھ جبکہ استعانت لازمی طور پر گی ہوئی ہے تو ہم کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ بُزدل شخص کے دل میں عبودیت تامہ اور خوف اور لالچ ایک جا جمع ہوسکیں.ہاں خدا تعالیٰ سے خوف کرنا اور اس کی کسی چیز کی خواہش رکھنا بُزدلی اور لالچ نہیں کہلائے گا.اللہ تعالیٰ سے تو یہ امید ہوتی ہے اور لالچ تو بندوں سے ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی عبادت ہے نہ کہ بُزدلی.جس طرح سنکھیا سے ڈرنائز دلی نہیں کیونکہ جس چیز کا نتیجہ یقینی ہو اُس سے ڈرنا بُزدلی نہیں کہلاتا.بُزدلی تو اُس چیز سے ڈرنے کو کہتے ہیں جس کا نتیجہ یقینی نہ ہو.پس انسان کیونکہ ہم کو یقینی طور پر کوئی نقصان نہیں دے سکتے اس لئے اس سے خوف کرنا بُز دلی کہلائے گا.ہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کیونکہ یقینی انسان کو تباہ کر دینے والی ہے اس لئے اس سے بچنے والا محتاط کہلائے گا نہ کہ بُزدل.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی امید رکھنا لالچ نہیں کیونکہ لالچ تو اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے جس کا ملنا شکی ہو.لیکن جس چیز کے متعلق ملنے کا یقین ہو اس کے بارہ میں لالچ کا لفظ نہیں بولا جاتا.مثلاً کسی شخص کو تنخواہ کا ملنا یقینی امر ہے تو یہ لالچ نہیں کہلا سکتا.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں ہم کو ملتی ہیں کیونکہ وہ یقینی ہوتی ہیں اس لئے ان کی امید لالچ نہیں ہے اور جو شخص اس مقام سے اِدھر اُدھر جاتا ہے وہ اپنے اند ر عبودیت نہیں رکھتا یا پھر وہ غلطی خوردہ ہے اور اگر چہ ہم اس کو مؤمن کہہ لیں گے لیکن اسے کامل مؤمن نہیں
خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۳۶ کہہ سکتے.اور اپنے کامل مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ ہر گز ضائع نہیں کرتا بلکہ حدیث شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ لَا يَشْقَى جَلِیسُهُمُ سے یعنی ان لوگوں کے پاس بیٹھنے والا بھی ضائع نہیں ہوسکتا.حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ ایک خاص سلوک ہے کہ مجھے رات کا فاقہ کبھی نہیں ہوتا.ایک دوست سناتے تھے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور رات کے وقت بٹالہ پہنچے اور آپ کے پاس کھانے کیلئے اُس وقت کچھ نہ تھا.آپ قادیان سے محبت کی وجہ سے رات کو ہی قادیان کی طرف چل دیئے.وہ دوست کہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا اور میں نے دل میں کہا کہ آج میں حضرت کی اس بات کا امتحان اچھی طرح سے لے سکتا ہوں کہ آیا آپ پر کسی رات کو فاقہ آتا ہے یا نہیں.کیونکہ آج آپ نے اب تک کچھ نہیں کھایا اور اب چاربج چکے ہیں.گھر جا کر بھی ان کو کھانا ملنے کی امید نہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب ہم وڈالہ کے قریب پہنچے تو ایک شخص ہماری طرف دوڑتا ہوا آیا اُس کے ہاتھوں میں برتن تھے اور اُس کے پیچھے کچھ ساتھی تھے اُن کو آواز دیتا چلا آرہا تھا.جب وہ ہم تک پہنچ گیا تو اس نے ہمارے سامنے کھانا رکھ دیا اور چار پائی بچھوا دی.جب ہم کھانا کھا چکے تو حضرت خلیفہ اول نے اُس دوست سے پوچھا کہ آپ کو کس طرح پتہ تھا کہ آج ہم نے یہاں سے گزرنا ہے؟ کہنے لگا کہ مجھے معلوم تھا کہ آپ دہلی گئے ہوئے ہیں اور دہلی سے واپسی کا دن آج ہے اور میں صبح سے کھانا لئے بیٹھا ہوں کہ آپ اب تشریف لے آئے ہیں.نیز میری والدہ سخت بیمارتھی میں نے سوچا کہ میں حضور کو وہ مریضہ بھی دکھا دوں گا.چنانچہ حضور نے مریضہ کو دیکھ لیا اور قادیان تشریف لے گئے اور آپ کی یہ بات کہ مجھے رات کا فاقہ کبھی نہیں ہوتا پوری ہو گئی.تو مؤمن جب اللہ تعالیٰ کا ہورہتا ہے تو ایساک نَسْتَعِينُ کے ماتحت خود بخود آ جاتا ہے اور ہر مؤمن سے اللہ تعالیٰ کے مختلف سلوک ہوتے ہیں ایک ہی رنگ کا سلوک ہر ایک سے نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں امرتسر سے یکے پر سوار ہو کر روانہ ہوا.ایک بہت موٹا تازہ ہندو بھی میرے ساتھ ہی یکے پر سوار ہوا وہ مجھ سے پہلے یکے کے اندر بیٹھ گیا اور اپنے آرام کی خاطر اپنی ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلا لیا حتی کہ اگلی سیٹ جہاں میں نے بیٹھنا تھاوہ بھی بند کر دی.چنانچہ میں تھوڑی سی جگہ میں ہی بیٹھ رہا.اُن دنوں دھوپ بہت سخت پڑتی
خطبات محمود ۵۳۵ سال ۱۹۳۶ تھی کہ انسان کے ہوش باختہ ہو جاتے تھے.مجھے دھوپ سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو ہمارے یکے کے ساتھ ساتھ سایہ کرتی ہوئی بٹالہ تک آئی.یہ نظارہ دیکھ کر وہ ہندو کہنے لگا آپ تو خدا تعالیٰ کے بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں.اسی طرح حضور نے ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک مکان میں سور ہا تھا کہ مجھے القاء ہوا کہ کوئی مصیبت آنے والی ہے اس مکان سے جلد نکل چلو اور دل میں ایسا ڈالا گیا کہ جب تک میں اس مکان کے اندر ہوں وہ مصیبت نازل ہونے سے رُکی رہے گی.چنانچہ میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے سب دوستوں کو پہلے مکان سے باہر نکال لوں.چنانچہ جب وہ باہر چلے گئے اور میں بھی باہر جانے لگا تو ابھی میرا ایک قدم باہر اور ایک دروازے کے اندر کی طرف تھا کہ اس مکان کی چھت گر پڑی لیکن اپنی قدرت سے خدا تعالیٰ نے ہم سب کو اس کی بلائے ناگہانی سے محفوظ رکھا.پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسے سلوک کرتا ہے کہ انسان حیرانی رہ جاتا ہے مگر عبودیت شرط ہے اور ایسے انسان کا انجام ضرور بخیر ہوگا.بظاہر وہ دنیا کی ظاہر بین نظروں میں ذلیل ہوتا نظر آ رہا ہوگا لیکن انجام کار اُس کو عزت حاصل ہوگی.بظاہر وہ بد نام بھی ہو رہا ہوگا لیکن انجام کار نیک نامی اسی کو حاصل ہوگی.گویا اس شخص کی ابتداء عبودیت سے اور انجام استعانت پر ختم ہو گا.عبودیت کے معنی بندگی کے ہیں اور مثل مشہور ہے کہ بندگی بیچارگی.اور استعانت کے معنی ہیں اعزاز.گویا جب انسان بیچارگی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تب اُس کو اعزاز حاصل ہوتا ہے.اس لئے یہ ترتیب کہ خدا تعالیٰ نے پہلے عبودیت اور اس کے بعد استعانت کو رکھا ہے بالکل درست ہے اور جو لوگ اس ترتیب کو بدلنا چاہتے ہیں وہ اس نکتے کو سمجھے ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے اپنے بندہ کی کامل بیچارگی ظاہر کرتا ہے اور بعد میں اس کی مدد کر کے دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ میں کس طرح اپنے بندوں کی مدد کرتا ہوں.اگر استعانت حاصل ہونے سے پہلے انسان پر بیچارگی طاری نہ ہو تو پھر استعانت کو بھی لوگ ایک اتفاقی امر سے زیادہ وقعت نہ دیں گے.ہر انسان کا فرض ہے کہ استعانت کے اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.دنیا ہمیں کیا دے سکتی ہے اور کیا ہم سے چھین سکتی ہے.دنیا ہم کو کچھ نہیں دے سکتی کیونکہ اس کے پاس دینے کو ہے ہی کیا اور دنیا ہم
خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۳۶ سے کچھ لے بھی نہیں سکتی کیونکہ ہم پہلے ہی خدا تعالیٰ کیلئے سب کچھ چھوڑے بیٹھے ہیں.تو ہم سے کسی چیز کا چھیننا کیا معنی؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک اندھا کسی سے باتیں کر رہا تھا اور اُس کی بلند آواز کی وجہ سے کسی تیسرے شخص کی نیند اُچاٹ ہو رہی تھی.وہ اندھے سے کہنے لگا حافظ جی ! سو جائیں.اس اندھے نے جواب دیا بھائی ! میں نے سونا کیا ہے بس خاموش ہی ہو رہنا ہے.اُس کا مطلب یہ تھا کہ میری آنکھیں تو پہلے ہی بند ہیں اگر آواز بند کرلوں تو بس یہی میرا سونا ہو جائے گا.یہی حالت کامل مؤمن کی ہوتی ہے کہ وہ پہلے تو خدا تعالیٰ کے راستے میں سب کچھ قربان کر کے بیٹھا ہوتا ہے تو دنیا اُس سے کیا چھینے گی؟ کچھ بھی نہیں.مؤمن نے اگر دنیا کو تھوڑا بہت ہاتھ لگایا ہوا ہوتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہی ہوتا ہے.جیسا کہ سید عبد القادر صاحب جیلانی فرمایا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہولے کھانے اور پہننے کی طرف ہاتھ کونہیں بڑھا تا.اور ایسے شخص کو کوئی لالچ بھی کس طرح دلا سکتا ہے کیونکہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی بادشاہت دے دیتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا نوکر ہو جاتا ہے.تو کیا ایک ہزار روپے کے مالک کو کوئی چار آنے یا آٹھ آنے کا لالچ دے سکتا ہے؟ یا ایک کروڑ پتی کو کوئی دس روپے کی طمع دلا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.اور اگر کوئی اسے لالچ دلانے کی کوشش کرے گا تو وہ احمق ہی ہوگا.جس شخص کو خدا مل گیا تو گویا اُس کو زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک مل گیا اور اس طرح اُس شخص کے ہاتھ میں یہ سب خزانے بھی آگئے اور پھر ایسا انسان لالچ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا.اس کی ایک بین مثال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ سے جب کفار مکہ تنگ آگئے تو وہ حضور کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ اپنی اس تبلیغ کو بند کر دیں اور اس کے بدلہ میں اگر آپ شادی کرنا چاہیں تو ہم اپنے میں سے خوبصورت سے خوبصورت عورتوں سے کروا سکتے ہیں.اگر آپ مال کے خواہشمند ہیں تو ہم سب لوگ ہزاروں روپے آپ کو جمع کر کے لا دیتے ہیں اور اگر آپ دنیاوی عزت کے طالب ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں.لیکن برائے خدا اس تبلیغ کو بند کر دیں.حضور کیونکہ دنیا کو بیچ اور ذلیل چیز سمجھتے تھے اس لئے اُن کو جواب دیا کہ یہ چیزیں تو کیا اگر تم سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ کر لا کر رکھ دو تو میں
خطبات محمود ۵۳۷ سال ۱۹۳۶ ہرگز اس فرض کو ترک نہیں کر سکتا جو مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کیا گیا ہے ۵.پس جس کا خدا ہو گیا اُس کا سب کچھ ہو گیا.اب جبکہ دنیا کا سب کچھ ہی اُس کا ہے تو اس کی مملوکہ چیزوں کی اس کو لالچ دلانے کے کیا معنی؟ بھلا کیا کوئی شخص کسی کو اپنے ہی مال میں سے کچھ روپیہ نکال کر اس کو لالچ دلا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.اور جس شخص کو خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی بادشاہت دے چکا ہو ایسے شخص کو اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تم کو فلاں دنیا وی عہدہ دے دیتے ہیں تو وہ کیا اس بات پر خوشیاں منانے لگے گا؟ قطعاً نہیں.اور جبکہ دنیا کے بادشاہ بھی اتنی قدرت کے مالک ہیں کہ ان کے سپاہیوں کی طرف اگر کوئی شخص بُری نظر سے دیکھے تو اس کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں تو کیا تم خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے سپاہیوں کو نقصان دینے کا ارادہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے غضب محفوظ رہ سکتا ہے؟ دیکھ لو کہ اکیلے سید عبداللطیف کی شہادت کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ کا بل میں تباہ و برباد کر دیئے گئے اور اس تباہی کی سید صاحب مرحوم نے قبل از وقت پیشگوئی بھی فرما دی تھی اِن الفاظ میں کہ میری موت کے چھ دن بعد جمعرات کے روز اس شہر پر تباہی آجائے گی.جب انسان عبودیت کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہاتھ ڈالنا پسند بھی نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر ہمیشہ بلندی کی طرف اُٹھتی ہے اس لئے کہ اس کی امید گاہ وہ ذات ہوتی ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ جب ابھی میری عمر کوئی پندرہ سال کی تھی میں لکھنو میں طب پڑھنے کی غرض سے گیا چنا نچہ وہاں کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا.میری سادہ حالت دیکھ کر اُس طبیب کے ساتھی کہنے لگے کہ یہ لڑکا کہاں سے آگیا ہے؟ اور بعض مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہنسنے بھی لگ گئے اور کہنے لگے اس کو یہ آداب کس نے سکھائے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ آداب مجھے اُس اُمی نبی نے سکھائے ہیں جس نے ساری دنیا کو آداب سکھائے.اس جواب میں میرا اشارہ اس طرف بھی تھا کہ انہوں نے باوجود مسلمان ہونے کے میرے سلام کا جواب نہیں دیا.چنانچہ میری اس بات کا حکیم صاحب پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کس غرض کیلئے آئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ آر
خطبات محمود ۵۳۸ سال ۱۹۳۶ طب پڑھنا چاہتا ہوں.کہنے لگے کہ میں تو ایک عرصہ سے طب پڑھانا ترک کر چکا ہوں.میں آپ کو ایک اور مشہور طبیب کی شاگردی میں داخل کر دیتا ہوں.میں نے کہا کہ اگر کسی اور طبیب سے ہی پڑھنا ہے تو پھر آپ کی سفارش کی ضرورت ہی کیا ہے میں خود ہی اس کے پاس جا سکتا ہوں.اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا بتا ئیں آپ کس قدر طب پڑھنی چاہتے ہیں.مجھے اُس عمر میں طبّ وغیرہ کا تو قطعاً کچھ علم ہی نہ تھا.ہاں افلاطون کے بارہ میں سن رکھا تھا کہ وہ بہت چوٹی کے حکا ہو گزرے ہیں چنانچہ میں نے جواب دیا کہ افلاطون کے برابر طب پڑھنی چاہتا ہوں.میں نے افلاطون کا نام لیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ اگر آپ کا منشاء افلاطون کے برابر طب پڑھنے کا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لیں گے.حضرت خلیفہ اول کی نگاہ بچپن میں بھی افلاطون تک ہی گئی اور کسی چھوٹے طبیب کی طرف ان کا ذہن منتقل ہی نہیں ہوا.کامل مؤمن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نہیں گر پڑتا بلکہ خدا تعالیٰ کی شان کے مطابق اس سے امید رکھتا ہے اور اگر ہم خدا تعالیٰ سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگ کر ہی صبر کر بیٹھیں تو یہ خدا تعالیٰ کی کسر شان ہے گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی چیزیں نہیں دے سکتا.خدا تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہم کو جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمواتُ وَالْاَرْضُ نے کی امید دلاتا ہے.اگر کہیں سے ہم کو کروڑ رو پیل رہا ہو تو ہم کیوں پانچ روپوں پر راضی ہوں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مؤمن کو لالچ ہوتا ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت ہے اس کو لالچ نہیں کہا جا سکتا.مؤمن کا حوصلہ بہت بلند ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میرے پاس ایک غریب عورت آئی مجھے خیال ہوا کہ اس کی کچھ امداد کر دوں.میں نے اس سے کہا کہ مائی ! تجھے کچھ ضررت ہو تو بتلاؤ تا کہ امداد کی جائے.کہنے لگی کہ مجھے کچھ ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کی تفصیل یوں بیان کی کہ میرا ایک لڑکا بھی ہے اور ہم دونوں کے پاس ایک بڑا قرآن مجید ہے.جس کو ہم دونوں باری باری پڑھ لیتے ہیں.ایک کافی بڑا لحاف ہے اس میں ہم دونوں رات کو اکٹھے سورہتے ہیں.جب مجھ کو زیادہ سردی محسوس ہوتی ہے تو میں لحاف کو اپنے اوپر اچھی طرح سے لپیٹ لیتی ہوں اور جب میرے لڑکے کو سردی محسوس ہوتی ہے تو وہ لحاف کو اپنے اوپر ڈال لیتا ہے.ایک مکان ہے اس میں ہم آرام سے گزارہ کر لیتے ہیں.اُس عورت کے نزدیک یہی اشیاء سب کچھ
خطبات محمود ۵۳۹ سال ۱۹۳۶ کے قائمقام تھیں، اُس کا حوصلہ بلند تھا.مؤمن کی شان ہی یہی ہے کہ جس طرح وہ کروڑوں.نہیں گھبرا تا اسی طرح دس روپے سے بھی نہیں گھبرا تا.پس إِيَّاكَ نَسْتَعِینُ کا درجہ حاصل کر لینے کے بعد مؤمن دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی پشت پر ایک قادر مطلق ہستی ہے.دنیا میں دیکھ لو کہ انگریز کیونکر ایک طاقتور حکومت ہے اس لئے اس کا ایک سپاہی بھی اکٹر اکٹر کر چلتا ہے اور لوگ اس سپاہی سے ڈرتے بھی ہیں.حقیقت میں وہ اس معمولی سپاہی سے نہیں ڈر رہے ہوتے بلکہ اس سپاہی کی پشت پر جوز بر دست طاقت ہے اُس سے ڈر رہے ہوتے ہیں.تو جب ایک معمولی سی دنیاوی حکومت کا سپاہی کسی سے نہیں ڈرتا تو کیا خدا تعالیٰ کا سپاہی اور اس کا نو کر کسی سے ڈرسکتا ہے.إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا جواب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ دیتا ہے کہ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِي فَإِنِّي قَرَيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی جب کوئی شخص یہ سوال کرے کہ خدا کہاں ہے؟ تو تم اس کو کہہ دو کہ خدا تمہارے بالکل قریب ہے.تم بولو وہ آیا.گویادَعْوَةَ الدَّاعِ ایک سیٹی ہے جو مؤمن کو دی جاتی ہے جس طرح ایک سپاہی سیٹی بجاتا ہے اور اُس کی سیٹی کی آواز کے سنتے ہی اُس کے افسر اُس کی مدد کیلئے آن موجود ہوتے ہیں اسی طرح جب مومن دَعْوَةَ الدَّاعِ کی سیٹی بجاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کیلئے بلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً اُس سیٹی کی آواز سن کر اُس کے پاس آکر کہتا ہے کہ ہاں بتلاؤ کیا کہتے ہو؟ میں تمہاری مدد کیلئے آ گیا ہوں.پس بد بخت اور نالائق ہے وہ شخص جو اس سیٹی کے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی کسی سے ڈرتا ہے.قصوں کی کتابوں میں ایسی کہانیاں لکھی ہوتی ہیں کہ فلاں دیو فلاں شخص کو جاتا ہؤا بال دے گیا اور کہہ دیا کہ اگر تم کو میری مدد کی ضرورت ہو تو اس بال کو آگ دکھا دینا میں فوراً تمہارے پاس تمہاری مدد کیلئے آن پہنچوں گا.یہ تو فرضی کہانیاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہم کو أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کا بال دیا ہوا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اپنے پروردگار کو جس وقت چاہیں نہایت آسانی سے اپنی مدد کیلئے بلا سکتے ہیں اور اس بال کے مل جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنے دل میں خوف رکھتا ہے تو وہ ازلی شقی اور پاگل ہے اور اللہ تعالیٰ کو پکارنا بعض اوقات اس طور پر بھی ہوتا ہے کہ ہم اس کی راہ میں مارے جائیں یا اور قسم کے مصائب ہم پر
خطبات محمود ۵۴۰ سال ۱۹۳۶ ٹوٹیں.تو جب ہم اُس کی راہ میں مارے جائیں گے تو یہی ہماری طرف سے خدا تعالیٰ کو پکارنا ہوگا کی اور خدا تعالیٰ فوراً ہماری مدد کو آئے گا.بعض اوقات اللہ تعالیٰ خوف کے ذریعہ سے ہی انسان سے اپنے آپ کو آواز دلواتا ہے لیکن اس آواز کے آتے ہی اس انسان کے پاس جانے میں دیر نہیں کرتا ہے اور آتے ہی دنیا کا نقشہ بدل دیتا ہے، حکومتوں کو تبدیل کر دیتا ہے اور اس طرح مؤمن کو ترقی دیتا ہے ہے.کیا اگلے زمانہ میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو ان کی تجارت نوکریاں بڑھا دینے سے ترقی دیا کرتا تج تھا ؟ نہیں بلکہ ان سے مالی و جانی قربانیاں لے کر اور ان کو شدید امتحانوں میں ڈال کر ترقی دیا کرتا تھا.ہاں جب مؤمن اس امتحان میں پاس ہو جاتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت اُس کی مدد کیلئے جوش میں آتی اور دنیا کو بتا دیتی ہے کہ جس شخص میں کامل عبودیت پیدا ہو جائے اُس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعانت حاصل ہوتی ہے اور اُس ایک شخص کے بدلہ میں خدا تعالیٰ دنیا کو ز یروز بر کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.(ماخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ ) بخارى كتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم (مفهوماً ) الفاتحة: ۵ ے تذکرہ صفحه ۵۰.ایڈیشن چہارم بخاری کتاب الدعوات باب فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ه سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۲۵۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء آل عمران: ۱۳۴ البقرة: ۱۸۷
خطبات محمود ۵۴۱ (٣١ سال ۱۹۳۶ احمدی اس نعمت کی قدر کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے سپرد کی ہے دوست اپنی اولاد کی اور دوسرے نوجوانوں کی اصلاح کریں (فرموده ۲۱ راگست ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- انسان کی پیدائش جس اعلیٰ مقصد کیلئے ہوئی ہے اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا میں بہت سے فلاسفر اور بہت سے تعلیم یافتہ انسان یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انسان کی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے اور بنی نوع انسان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے وہ کام لے لیا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے اس نے انسان کو پیدا کیا تھا ؟ وہ مقصد جسے خدا تعالیٰ نے انسانی پیدائش میں مدنظر رکھا ہے یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ا یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کیلئے یا اپنا عبد بنانے کیلئے پیدا کیا ہے.وہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعہ میں انسان اس مقصد کو پورا کر رہا ہے اور کیا واقعہ میں اس نے اس قسم کی ترقی کی ہے کہ خدا کا عبد کہلانے کا مستحق ہو؟ اور پھر ان کا جواب یہ ہے کہ نہیں.اور اس لئے وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کا کوئی پیدا کرنے والا ہے تو کیوں اسے اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی ؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اس سوال کا جواب دینے کیلئے آتے ہیں اور دنیا میں نیکی کی ایسی رو چلاتے ہیں
خطبات محمود ۵۴۲ سال ۱۹۳۶ کہ جسے دیکھ کر دشمن کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ مقصد پورا ہو گیا ہے اور اس دن کی آمد کیلئے اگر ہزار دن بھی انتظار کرنا پڑے تو گراں نہیں ہوتا.وہ پس انبیاء کا زمانہ اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی انبیاء کے زمانہ کولیلۃ القدر قرار دیا ہے چنانچہ فرما یالیلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنَ الْفِ شَهْرٍ يعنى وه ایک رات ہزار مہینوں سے اچھی ہے.گویا ایک صدی کے انسان بھی اس ایک رات کیلئے اگر قربان کر دئیے جائیں تو یہ قربانی کم ہوگی یہ مقابلہ اُس نعمت کے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے.اس میں مؤمنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انہیں نبوت کے زمانہ کی قدر کرنی چاہئے.کچھ عرصہ ہوا میں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے متعلق پڑھے تھے اور جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی اسے پورا کرنے کیلئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکہ جمالیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہو سکتا.موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے.دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اسی مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمد یہ کے دفاتر ہیں اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضہ اس گھر کے مالکوں کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کیلئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہو اور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں.انہوں نے بھی اپنی ملکیت ثابت کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں.اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کر دیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ان کے چھوٹے بھائی کو بُلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہو گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور
خطبات محمود ۵۴۳ سال ۱۹۳۶ جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا.آپ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلت محسوس کیا اور بہت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا.اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلایا گیا کہ آپ نے ڈاک خانہ کو دھوکا دیا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص پیکٹ میں کوئی چٹھی ڈال کر بھیج دے تو سمجھا جاتا تھا کہ اس نے ڈاک خانہ کو دھوکا دیا ہے اور ایسا کرنا فوجداری جرم قرار دیا جاتا تھا جس کی سزا قید کی صورت میں بھی دی جاسکتی تھی.اب وہ قانون منسوخ ہو چکا ہے اب زیادہ سے زیادہ ایسے پیکٹ کو بیرنگ کر دیا جاتا ہے.اتفاقاً آپ نے ایک پیکٹ مضمون کا اشاعت کیلئے ایک اخبار کو بھیجا اور اس قانون کے منشاء کو نہ سمجھتے ہوئے اس میں ایک خط بھی لکھ کر ڈال دیا جو اس کی اشتہار کے ہی متعلق تھا اور جس میں اسے چھاپنے وغیرہ کے متعلق ہدایات تھیں.پریس والے غالباً عیسائی تھے انہوں نے اس کی رپورٹ کر دی اور آپ پر مقدمہ چلا دیا گیا.آپ کے وکیل نے کہا کہ پیش کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اس لئے ان کی گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں اگر آپ انکار کر دیں تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا.اُس زمانہ میں اکثر مقدمات میں آپ کی طرف سے شیخ علی احمد صاحب وکیل گورداسپوری پیروی کیا کرتے تھے اور آپ کی پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر دعوئی کے بعد بھی گو وہ احمدی نہ تھے آپ پر بہت حُسنِ ظن رکھتے تھے.انہوں نے آپ سے کہا کہ اور کوئی گواہ تو ہے نہیں پھر وہ خط اسی مضمون کے متعلق ہے اور اسے اشتہار کا حصہ ہی کہا جا سکتا ہے اس لئے آپ بغیر جھوٹ کا ارتکاب کئے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو اشتہار ہی بھیجا تھا خط کوئی نہیں بھیجا.مگر آپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا جو بات میں نے کی ہے اس کا انکار کس طرح کرسکتا ہوں.چنانچہ جب آپ پیش ہوئے اور عدالت نے دریافت کیا کہ آپ نے کوئی خط مضمون میں ڈالا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں.اس راستبازی کا دوسروں پر تو اثر ہونا تھا ہی خود کو عدالت پر ہی اس قدر اثر ہوا کہ اس نے آپ کو بری کر دیا اور کہا کہ ایک اصطلاحی مجرم کیلئے ایسے راستباز آدمی کوسڑا نہیں دی جاسکتی.
خطبات محمود ۵۴۴ سال ۱۹۳۶ اسی طرح کئی واقعات مقدمات میں آپ کو ایسے پیش آتے رہے جن کی وجہ سے ان وکلاء کے دلوں میں جن کو ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا آپ کی بہت عزت تھی.چنانچہ ایک مقدمہ میں آپ نے شیخ احمد علی صاحب کو وکیل نہ کیا تو انہوں نے لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس مقدمہ میں مجھے وکیل نہیں کیا اس لئے نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا بلکہ اس لئے کہ مجھے خدمت کا موقع نہیں مل سکا.تو سچائی اور راستبازی ایک ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیر احمدی رہے اور انہوں نے بیعت نہیں کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ظاہری رنگ میں آپ کا اخلاص احمدیوں سے کسی طرح کم نہ تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے آپ کی سچائی کو ملاحظہ کیا تھا اور صرف شیخ علی احمد صاحب پر ہی کیا موقوف ہے جن جن کو بھی آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا ان کی یہی حالت تھی.جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپ پر مقدمہ کیا تو ایک ہند و وکیل لالہ بھیم سین صاحب کی چٹھی آئی کہ میرالڑکا بیرسٹری پاس کر کے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہو اس لئے آپ اس کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی طرف سے پیش ہو.جس لڑکے کے متعلق انہوں نے یہ خط لکھا تھا وہ اب تک زندہ ہیں.پہلے لاء کالج کے پرنسپل تھے پھر جموں ہائیکورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے اور اب وہاں سے ریٹائر ہو چکے ہیں.انہوں نے الحاج سے یہ درخواست اس واسطے کی کہ اُن کو سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہ آپ کی سچائی کو دیکھ چکے تھے.پس معلوم ہوا کہ سچائی ایک اعلیٰ پایہ کی چیز ہے جسے دیکھ کر دشمن کو بھی متاثر ہونا پڑتا ہے.سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں بلکہ غیروں پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.انبیاء دنیا میں آکر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور نقل کرنے پر مجبور ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ نے دنیا میں آکر کوئی تو ہیں اور مشین گنیں ایجاد نہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجاد نہیں کی تھیں پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اور جس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی.وہ سچائی کی روح اور اخلاق فاضلہ تھے.یہ چیز پہلے مفقود تھی آپ نے اسے کمایا اور پھر یہ خزانہ دنیا کو دیا اور صحابہ اور ان کی اولا دوں اور پھر ان کی الله
خطبات محمود ۵۴۵ سال ۱۹۳۶ اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں.رسول کریم اللہ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو چونکہ عرب کے لوگ وحی اور الہام سے نا آشنا تھے.آپ یہ حکم سن کر کہ آپ ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کا کلام پہنچا ئیں کچھ گھبرائے.یعنی اس لئے کہ آپ اس عظیم الشان ذمہ واری کو کس طرح پورا کریں گے اور اسی گھبراہٹ میں آپ حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے.شدت جذبات سے آپ اُس وقت سردی محسوس کر رہے تھے حتی کہ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے فرما یا مَلُونِی زَمِلُونِی مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو.حضرت خدیجہ نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ تو آپ نے انہیں سب واقعہ سنایا.اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ ابدا ہرگز نہیں ہر گز نہیں.خدا کی قسم ! خدا آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں.اور ان خوبیوں میں سے ایک یہ بتائی کہ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ٣ یعنی جو ا خلاق دنیا سے اٹھ گئے تھے آپ نے اپنے وجود میں ان کو دوبارہ پیدا کیا ہے اور بنی نوع انسان کی اس کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ تلاش کیا ہے پھر بھلا خدا آپ جیسے وجود کو کس طرح ضائع کر سکتا ہے.تو انبیاء کی بعثت کی یہی غرض ہوتی ہے اور مؤمنوں کے سپر دیہی امانت ہوتی ہے جس کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہوتا ہے.محبت کی وجہ سے انبیاء کا وجود مؤمنوں کو بے شک بہت پیارا ہوتا ہے مگر حقیقت کے لحاظ سے انبیاء کی عظمت کی وجہ وہی نور ہے جسے دنیا تک پہنچانے کیلئے خدا تعالیٰ ان کو مبعوث کرتا ہے.انہیں خدا تعالیٰ کا وہ پیغام ہی جو وہ لاتے ہیں بڑا بناتا ہے.پس جب نبی کے اتباع اس وجود کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو اس پیغام کی حفاظت کیلئے کیا کچھ نہ کرنے کیلئے تیار ہوں گے.رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کیلئے صحابہ کرام نے قربانیاں کیں وہ واقعات پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی محبت دیکھ کر آج بھی دل میں محبت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے.احد کی جنگ میں ایک موقع ایسا آیا کہ صرف ایک صحابی رسول کریم.ساتھ رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر اور پتھر پھینک رہے تھے.اُس صحابی نے اپنا ہاتھ حضور.
خطبات محمود ۵۴۶ سال ۱۹۳۶ صلى الله چہرہ مبارک کی طرف کر دیا اور اس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہاتھ ہمیشہ کیلئے بیکار ہو گیا.ایک دفعہ اُس صحابی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے اس ہاتھ کو کیا ہوا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح آنحضرت ﷺ پر حملہ ہوا تھا اور میں نے یہ ہاتھ حضور علیہ السلام کے چہرہ کے آگے کر دیا اور اس پر اتنے تیر اور پتھر کھائے کہ یہ ہمیشہ کیلئے شل ہو گیا.اس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ انہوں نے کیا لطیف جواب دیا کہنے لگے تکلیف تو اتنی تھی کہ اُف نکلنا چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہیں دیتا تھا کیونکہ اگر اُف کرتا تو ہاتھ ہل جاتا کوئی تیر رسول کریم ﷺ کو لگ جاتا.تو تم اس قربانی کا اندازہ کرو اور سوچو کہ تم میں سے آج اگر کسی کی انگلی کو زخم آ جائے تو وہ کتنا شور مچاتا ہے مگر اس صحابی نے ہاتھ پر اتنے تیر کھائے کہ وہ ہمیشہ کیلئے خشک ہو گیا.ایک اور صحابی کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے یہ بھی احد کے موقع کا ہے احد کی جنگ میں جب بعض صحابہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پھر اکٹھے ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو! کون کون شہید اور کون کون زخمی ہوا ہے؟ اس پر بعض صحابہ میدانِ جنگ کا جائزہ لینے کیلئے گئے.ایک صحابی نے دیکھا کہ ایک انصاری میدان میں زخمی پڑے ہوئے ہیں.وہ ان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور اُن کی زندگی کی آخری گھڑی قریب آرہی.ہے.اس پر وہ صحابی ان کے نزدیک ہوا اور ان سے پوچھا کہ اپنے عزیزوں کو کوئی پیغام پہنچانا ہو تو بتادیں میں پہنچا دوں گا.اُس زخمی انصاری نے کہا کہ میں انتظار میں ہی تھا کہ کوئی دوست اِدھر سے گزرے تو میں اُسے اپنے عزیزوں کے نام ایک پیغام دوں.سو تم میرے عزیزوں کو میرا یہ پیغام پہنچادینا کہ محمد رسول اللہ ﷺ ایک قیمتی امانت ہیں جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانوں سے ان کی حفاظت کی اور اب کہ ہم رخصت ہو رہے ہیں میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہم سے بھی بڑھ کر قربانیاں کر کے اس قیمتی امانت کی حفاظت کریں گے ہے.غور کرو.موت کے وقت جبکہ وہ جانتے تھے کہ بیوی بچوں کو کوئی پیغام دینے کیلئے اب ان کیلئے کوئی اور وقت نہیں.ایسے وقت میں جب انسان کو جائداد کے تصفیہ اور لین دین کے انفصال کا خیال ہوتا ہے اور جب لوگ اپنے پسماندگان کی بہتری کی فکر سے مشوش ہورہے ہوتے ہیں اُس وقت بھی اس صحابی کو یہی خیال آیا کہ میں تو محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں جان دے
خطبات محمود ۵۴۷ سال ۱۹۳۶ رہا ہوں اور تم سے امید کرتا ہوں کہ تم بھی اسی راہ پر گامزن رہو گے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی جان کے مقابلہ میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے.پس جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی ذات کیلئے یہ قربانیاں کیں وہ اس پیغام کیلئے جو آپ لائے کیا کچھ قربانیاں نہ کر سکتے ہوں گے اور انہوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگا.صحابہ نے اس بارہ میں جو کچھ کیا اس کی مثال کے طور پر میں رسول کریم ﷺ کی وفات کا واقعہ پیش کرتا ہوں.جب آپ کی وفات کی خبر صحابہ میں مشہور ہوئی تو ان پر شدید محبت کی وجہ سے گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.حتی کہ بعض صحابہ نے یہ خیال کیا کہ یہ خبر ہی غلط ہے کیونکہ ابھی آپ کی وفات کا وقت نہیں آیا کیونکہ ابھی بعض منافق مسلمانوں میں موجود ہیں.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی خیال میں مبتلاء ہو گئے اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا آپ فوت ہو گئے ہیں میں اُس کی گردن اڑا دوں گا ھے.آپ آسمان پر گئے ہیں پھر دوبارہ تشریف لا کر منافقوں کو ماریں گے اور پھر وفات پائیں گے.بہت سے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم کسی کو یہ نہیں کہنے دیں گے کہ آپ وفات پاگئے ہیں.بظاہر یہ محبت کا اظہار تھا مگر دراصل اُس تعلیم کے خلاف تھا جو آنحضرت ﷺ لائے کیونکہ قرآن کریم میں صاف موجود ہے صلى الله أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ : یعنی کیا اگر رسول کریم ﷺ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا اے مسلمانو! تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.بعض صحابہ اس رو میں بہنے سے بیچ گئے اور انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف جو اُس وقت اتفاقا مدینہ سے چند میل باہر گئے ہوئے تھے ایک آدمی بھیجا جو آپ کو ان حالات کی خبر دے اور بلا کر بھی لائے.آپ کو جب یہ خبر ملی تو آپ جلد واپس مدینہ تشریف لائے اور سیدھے اُس حجرہ میں چلے گئے جس میں آپ کا اطہر رکھا ہوا تھا اور آپ نے آپ کے چہرہ سے چادر اٹھائی اور دیکھا کہ واقعہ میں آپ فوت سوچکے ہیں.پھر جھکے اور پیشانی پر بوسہ دیا آپ کی آنکھوں سے آنسونکل پڑے اور جسم اطہر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں نہیں لائے گا.یعنی ایک تو ظاہری موت اور دوسرے یہ کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ جائے.پھر آپ باہر تشریف لائے جہاں صحابہ جمع تھے اور جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار ہاتھ میں لے کر بڑے جوش میں
خطبات محمود ۵۴۸ سال ۱۹۳۶ صل الله اعلان کر رہے تھے کہ جو کہے گا آپ فوت ہو گئے ہیں وہ منافق ہے اور میں اُس کی گردن اڑا دوں گا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے اور لوگوں کو خاموش ہونے کو کہا اور بڑے زور سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ چُپ رہو مجھے بات کرنے دو اور پھر یہ آیت پڑھی مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ یعنی محمد رسول اللہ ﷺہ صرف خدا کے رسول ہیں آپ سے قبل جتنے رسول آئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم اپنے دین کو چھوڑ دو گے اور سمجھو گے کہ تمہارا دین ناقص ہے؟ پھر نہایت جوش سے فرمایا کہ اے لوگومَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ جو تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ ہما را خدا زندہ ہے اور کبھی نہیں مرسکتا.وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ A لیکن جو محمد رسول اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ کی سن لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا آیت پڑھی مجھے ایسا معلوم ہوا گویا آسمان پھٹ گیا ہے میری ٹانگیں لڑ کھڑا گئیں اور پاؤں کی تی طاقت سلب ہوگئی اور میں بے اختیار ہو کر زمین پر گر پڑا 2.اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ واقعی آنحضرت ﷺ فوت ہو گئے ہیں.دیکھو! حضرت ابو بکر کو آنحضرت ﷺ سے کتنی محبت تھی کہ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں تو بے اختیار ہو کر آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دیا، آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے مگر دوسری طرف اُس سچائی سے کتنی محبت تھی جو آپ لائے تھے کہ حضرت عمر جیسا بہا در تلوار لے کر کھڑا ہے کہ جو کہے گا آپ فوت ہو گئے ہیں میں اسے جان سے ماردوں گا اور بہت سے صحابہ ان کے ہم خیال ہیں مگر باوجود اس کے آپ نڈر ہو کر کہتے ہیں کہ جو کہتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے میں اسے بتاتا ہوں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.مگر وہ خدا جس کی آپ پرستش کرانے آئے تھے وہ زندہ ہے.یہ سچائی کا اثر تھا جو محمد ﷺ نے صحابہ کے دلوں میں پیدا کر دی تھی کہ وہ صحابہ جونگی تلوار میں لے کر کھڑے تھے انہوں نے یہ بات سنتے ہی سر جھکا دیئے اور تسلیم کر لیا کہ ٹھیک ہے آپ واقعہ میں فوت ہو گئے ہیں.بعض نادان شاید کہ دیں اور ایک قوم کہتی بھی ہے کہ حضرت ابو بکر کو رسول کریم ہے الله ނ
خطبات محمود ۵۴۹ سال ۱۹۳۶ کامل محبت نہ تھی چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کو آنحضرت ﷺ کو دفن کرنے کا فکر نہ ہوا بلکہ آپ خلیفہ کے انتخاب میں مشغول ہو گئے مگر یہ معترض غلطی پر ہیں حضرت ابوبکر نے جو کچھ کیا وہ اس تعلیم کی حفاظت کیلئے کیا جو آنحضرت میں لائے تھے ورنہ حضرت ابو بکر کو جو بے مثل محبت رسول کریم ﷺ کے وجود سے تھی وہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے.آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر تیار کیا تھا کہ شام کے بعض مخالفین کو جاکر ان کی شرارتوں کی سزا دے.ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ آپ کی وفات ہوگئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے اور اکثر صحابہ نے اتفاق کر کے آپ سے عرض کیا کہ اس لشکر کی روانگی ملتوی کر دی جائے کیونکہ چاروں طرف سے عرب میں بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں اور مکہ، مدینہ اور صرف ایک اور گاؤں تھا جس میں باجماعت نماز ہوتی تھی کہ لوگوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے.پس صحابہ نے مشورہ کر کے حضرت عمرؓ کو حضرت ابو بکر کے پاس بھیجا کہ وہ کچھ عرصہ کیلئے اس لشکر کو روک لیں کیونکہ بوڑھے بوڑھے لوگ یا بچے ہی اگر مدینہ میں رہ گئے تو وہ باغی لشکروں کا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے.مگر حضرت ابو بکر نے ان کو جواب دیا کہ کیا ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ طاقت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ آپ کی وفات کے بعد میں پہلا کام یہی کروں کہ جو لشکر آپ نے بھیجنا تجویز کیا تھا اسے روک لوں ؟ خدا کی قسم ! اگر باغی مدینہ میں داخل بھی ہو جائیں اور ہماری عورتوں کی لاشوں کو گھتے گھسیٹتے پھر میں جب بھی وہ لشکر ضرور جائے گا لے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر کو آپ سے کتنا عشق تھا مگر چونکہ آپ صدیقیت کے مقام پر تھے اس لئے جانتے تھے کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے.پس ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کو لیا اور اسے قائم رکھا حتی کہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اسے ذرہ بھر بھی نہیں بدلا گیا.عیسائی، ہندو، یہودی غرضیکہ سب مخالف قو میں تسلیم کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا ایک شوشہ بھی نہیں بدلا.تبدیلی ابتدائی زمانہ میں ہی ہو سکتی تھی جب دوسری قوموں کی نظریں نہ پڑتی تھیں مگر ان لوگوں نے اپنی جانوں سے اس تعلیم کی حفاظت کی اور اس میں ایک شوشہ کا بھی تغیر نہ ہونے دیا نہ صرف لفظی بلکہ معنوی طور پر بھی.اب اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا کہ تا آپ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ اخلاق فاضلہ، رسول کریم ﷺ کی محبت اور عشق دلوں میں قائم کریں اور محمد رسول اللہ ہی ہے کی شریعت کا اجراء کریں اور ہمیں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے ان چیزوں کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح صحابہ نے کی تھی ہم میں اور دوسری قوموں میں ایسا امتیاز ہونا چاہئے کہ پتہ لگ سکے کہ ہم نے اس امانت کو قائم رکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک جماعت ایسی موجود تھی مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ نسلوں میں بھی یہی جذبہ موجود ہے؟ کیا کوئی عظمند یہ پسند کر سکتا ہے کہ ایک اچھی چیز سے تو ملے مگر اس کی اولاد اس سے محروم رہے؟ پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی قدرو قیمت جانتا ہے وہ پسند کرے گا کہ وہ اس کے ورثاء کو نہ ملے لیکن اس کی زمین اور اس کے مکانات انہیں مل جائیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَ لَهُوٌ دُنیوی زندگی لہو و لعب کی طرح ہے یہ سب کھیل تماشہ کی چیزیں ہیں یہ ایسی ہی ہیں جس طرح فٹ بال، کرکٹ یا ہا کی ہوتی ہے.پھر کیا کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ حکومت اس کی زمین ، مکان اور جائداد تو ضبط کر لے مگر گلی ڈنڈا اُس کے بیٹے کو دے دے یا کوئی پھٹا پرانا فٹ بال یا ٹوٹا ہوا ٹینس ریکٹ یا ہاکی کی سٹک اُس کے بیٹوں کو دے دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیوی چیزیں لہو ولعب ہیں اور دین و دنیا میں وہی نسبت ہے جو ایک حقیقی چیز کو کھیل تماشہ سے ہوتی ہے اور کوئی شخص یہ کب پسند کر سکتا ہے کہ قیمتی ورثہ تو اُس کی اولا د کو نہ ملے اور لہو ولعب کی چیزیں مل جائیں.لیکن کیا ہم میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو عملاً ایسا کرتے ہیں.جب ان کا بیٹا جھوٹ بولے، چوری کرے یا کوئی اور جُرم کرے تو وہ اس کی تائید کرتے ہیں.میں متواتر دیکھ رہا ہوں کہ بعض لڑکے قادیان میں ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ احمدیت تو الگ رہی وہ انسانیت کو کے بھی خلاف ہوتی ہیں مگر ان کے ماں باپ چوری چھپے ان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں.اول تو وہ اس وجہ سے مجرم ہیں کہ انہوں نے اولا دکو دینی تعلیم سے محروم رکھا اگر ان کے نزدیک نیکی کی کوئی قیمت ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اس سے اپنی اولادوں کو محروم رکھتے اور اگر اس میں کو تاہی کی تھی تو پھر مجرم کی اعانت سے ہی باز رہتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ نیکی اور تقویٰ میں ضرور تعاون کرونگر بدی اور
خطبات محمود ۵۵۱ سال ۱۹۳۶ عدوان میں تعاون نہ کرو.پہلا جرم تو انہوں نے یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا قُوا أَنْفُسَكُمُ و اَهْلِيكُمْ نَارًا سا اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور دوسرا مُجرم یہ کرتے ہیں کہ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کے حکم الہی کو توڑتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو دین کو نعمت قرار دیتا ہے مگر وہ جماعت جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی دعویدار ہے اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اول تو اپنی اولادوں کو دین سے محروم رکھتے ہیں اور پھر جب وہ شرارت کریں تو ان کی مدد کرتے ہیں حالانکہ وہ بعض ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جن پر شرافت اور انسانیت بھی چلا اٹھتی ہے چہ جائیکہ احمدیت اور ایمان ان کے متحمل ہو سکیں.مگر ایسے مجرموں کے والدین، بھائی، رشتہ دار بلکہ دوست ان کی مدد کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کرنے سے ایمان کہاں باقی رہ جاتا ہے ایسے آدمی کا دین تو آسمان پر اُڑ جاتا ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھو ایک دفعہ بعض صحابہ نے آپ کے پاس کسی مجرم کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے گی ۱۴.تو تقویٰ اور طہارت ایسی نعمت ہے کہ اس کے حصول کیلئے انسان کو کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمیں جو دولت ملی ہے وہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں اور اپنی اولا دں کو ان کا وارث بنانا ہمارا فرض ہے اور اگر غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو ی مؤمن کا فرض ہے کہ وہ تعاون عَلَى الْإِثْمِ نہ دکھائے بلکہ اُسی وقت اس سے علیحدہ ہو جائے جس نے جرم کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اس کی ایسی مثالیں دکھائی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے.سید حامد شاہ صاحب مرحوم بہت مخلص احمدی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو اپنے بارہ حواریوں میں سے قرار دیا تھا چنانچہ میرے سامنے جب اپنے حواریوں کے نام گنے تو ان کا بھی نام لیا اور پھر ان کے نیک انجام نے ان کے درجہ کی بلندی پر مہر بھی لگا دی.ایک دفعہ ان کے لڑکے کے ہاتھ سے ایک شخص قتل ہو گیا مگر یہ قتل ایسے حالات میں ہوا کہ عوام کی ہمدردی ان کے لڑکے کے ساتھ تھی.دراصل مقتول کی زیادتی تھی جس پر لڑائی ہوگئی ان کے لڑکے نے اُسے مکہ مارا اور وہ مر گیا.اس وقت سیالکوٹ کا ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا وہ ایسے افسروں میں سے تھا جو جرم
خطبات محمود ۵۵۲ سال ۱۹۳۶ ثابت ہو یا نہ ہوسز ا ضرور دینا چاہتے ہیں تا رُعب قائم ہو.اسے خیال آیا کہ میر حامد شاہ صاحب میرے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہیں اگر میں ان کے لڑکے کو سزا دوں گا تو میرے انصاف کی دھوم مچ جائے گی اس لئے شاہ صاحب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ کے لڑکے نے قتل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میں تو وہاں موجود نہ تھا لیکن سنا ہے کہ کیا ہے.اس نے کہا کہ آپ اسے بلا کر کہہ دیں کہ وہ اقرار کر لے تا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کرتے.آپ نے اپنے لڑکے کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اس شخص کو مارا ہے؟ اُس نے کہا ہاں مارا ہے.آپ نے فرمایا پھر سچی بات کا اقرار کرلو.لوگوں نے کہا کہ کیوں اپنے جوان لڑکے کو پھانسی پر لٹکوا نا چاہتے ہو مگر آپ نے فرمایا کہ اس دنیا کی سزا سے اگلی دنیا کی سزا زیادہ سخت ہے اور اپنے بیٹے کو یہی نصیحت کی کہ اقرار کر لے.خدا کی قدرت اس نے اقرار تو کر لیا مگر وہ لڑکا کرکٹ کا کھلاڑی تھا اور وہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ تھا وہ بھی کرکٹ کا کھیلنے والا تھا اسے کرکٹ کلب میں معاملہ کی حقیقت معلوم ہوگئی اور چونکہ قانون کی ایسا ہے کہ اگر مجسٹریٹ کو کسی بات کا یقین ہو جائے تو ملزم سے کچھ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی اُس نے خود ہی پولیس کے گواہوں پر ایسی جرح کی کہ اس لڑکے کی بریت ثابت ہوگئی اور اس نے کی اس سے کچھ پوچھے بغیر ہی اسے رہا کر دیا.اسی قسم کا ایک مقدمہ پچھلے دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بھائی پر ہوا.چوہدری صاحب اس وقت ولایت میں تھے انہوں نے اپنے بھائی کولکھا کہ یہ ایمان کی آزمائش کا وقت ہے اگر تم سے قصور ہوا ہے تو میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس دنیا کی سزا سے اگلے جہان کی سزا زیادہ سخت ہے اس لئے اسے برداشت کر لو اور سچی بات کہہ دو.تو جو بات ایک شخص کر سکتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرا نہ کر سکے صرف اخلاص اور ایمان کی ضرورت ہے.سیالکوٹ کے رہنے والے ہمارے ایک دوست ہیں جو بھی زندہ ہیں احمدی ہونے کے بعد ب انہیں معلوم ہوا کہ رشوت لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو انہوں نے تمام ان لوگوں کے گھروں میں جا جا کر جن سے وہ رشوتیں لے چکے تھے واپس کیں.اس سے وہ بہت زیر بار بھی ނ ہو گئے مگر اس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی.تو ہماری جماعت میں ہر قسم کے اعمال کے لحاظ ایسے نمونے ملتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ صحابہ کے نمونے ہیں لیکن ہمیں ان پر خوش
خطبات محمود ۵۵۳ سال ۱۹۳۶ نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ساری جماعت ایسی ہو جائے ایسے لوگوں سے صرف اتنا فائدہ ہو سکتا ہے کہ ان کی مثال دوسروں کے سامنے پیش کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیا ان کو مال کی ضرورت نہیں ، ان کو اپنے بیوی بچوں سے محبت نہیں ، پھر اگر وہ خدا کیلئے قربانی کر سکتے ہیں تو تم کیوں نہیں کر سکتے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امانت کی قدر کریں جو ان کے سپرد کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر ہمیں جائدادیں نہیں دیں، حکومتیں نہیں دیں ، کوئی ایجادیں نہیں کیں ، سامان تعیش مہیا نہیں کئے ، صرف ایک سچائی ہے جو ہمیں دی ہے اور اگر وہ بھی جاتی رہے تو کس قدر بد قسمتی ہوگی اور ہم اس فضل کو اپنے ہاتھ سے پھینک دینے والے ہوں گے جو تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو اسلام دیا، اخلاق فاضلہ دیے اور نمونہ سے بتادیا کہ ان پر عمل ہو سکتا ہے.پہلے خیال تھا کہ ان چیزوں پر عمل محال ہے مگر آپ نے بتادیا کہ عمل ہو سکتا ہے پھر بھی کئی ہیں جو فائدہ نہیں اُٹھاتے.ہم میں سے کئی ہیں جو جوش میں آکر مخالف کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں مگر آپ پر قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اس وقت اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈگلس تھے جو اس وقت بھی زندہ ہیں اور اب کرنل ڈگلس ہیں.وہ اس قدر متعصب تھے کہ جب اس ضلع میں آئے تو کہا کہ اس ضلع کے رہنے والا ایک شخص مسیح ہونے کا دعوی کرتا ہے اب تک کیوں اسے سزا نہیں دی گئی؟ ان کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہوا.ایک انگریز کہلانے والے شخص نے جو انگریز مشہور تھا مگر دراصل انگریز نہیں پٹھان تھا یہ مقدمہ کیا تھا.اس کے انگریز کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ پٹھان ہونے کے سبب سے اُس کا رنگ انگریزوں کی طرح گورا تھا اور پھر ایک انگریز نے اسے بیٹا بنایا ہوا تھا اس لئے لوگ اُسے انگریز سمجھتے تھے.اُس کا نام مارٹن کلارک تھا ان کا بیٹا یا بھائی ابی سینا کی سابق حکومت میں وزیر اعظم تھا.آپ میں سے کئی ایک نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ مسٹر مارٹن نے یہ کہا.یہ مارٹن اسی مارٹن کلارک کا بیٹ ہے یا بھائی.رشتہ کی تعیین میں اس وقت نہیں کر سکتا.ان مسٹر مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کیلئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے مسلمانوں میں علماء کہلانے والے بھی اس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تو اس
خطبات محمود ۵۵۴ سال ۱۹۳۶ مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کیلئے بھی آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتادیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلت کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کیلئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے مگر مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیروی کر رہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمد حسین کی ذلت ہوتی تھی تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا.اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد حسین کی والدہ کنچنی تھی اور مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بے حیثیت آدمی ہے.مولوی فضل دین صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ سوالات سنائے جو وہ مولوی محمد حسین صاحب پر کرنا چاہتے تھے تو ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ تمہاری ماں کون تھی ؟ جسے سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوالات کو برداشت نہیں کر سکتے.مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی اس لئے کہ گواہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک لیڈر ہونے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ وہ ایسا معزز نہیں مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے.مولوی فضل دین احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے اور حنفیوں کے لیڈر تھے، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے مگر جب بھی کبھی غیر احمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پُر زور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہوسکتا تھا جس مقام پر کہ آپ کھڑے تھے.اب دیکھو! ادھر گواہ کے ذلیل ہونے کا الہام ہے، ادھر اُس کی گواہی آپ کو مجرم بناتی ہے مگر جو بات اس کی پوزیشن کو گرانے والی ہے وہ آپ پوچھنے ہی نہیں دیتے لیکن جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی اس نے
خطبات محمود ۵۵۵ سال ۱۹۳۶ ایک طرف تو آپ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرا دیا.اور یہ اس طرح ہوا کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اس نے جو نہی آپ کی شکل دیکھی اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگوا کر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھا یا.جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی کیلئے آئے تو چونکہ وہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا کم سے کم آپ کو ذلت کے ساتھ کھڑا کیا گیا ہوگا جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصہ سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کر سی دی جائے.اس پر عدالت نے کہا کہ نہیں آپ کا کوئی حق نہیں کہ آپ کو کرسی ملے.مولوی صاحب نے کہا کہ میں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر صاحب سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے.ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کرسی ملتی ہے مگر یہ عدالت ہے مرزا صاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے ان کا معاملہ اور ہے.مولوی صاحب اس پر بھی باز نہ آئے اور کہا کہ نہیں مجھے ضرور کرسی ملنی چاہئے میں اہلحدیث کا ایک ایڈووکیٹ ہوں.اس پر ڈپٹی کمشنر کو طیش آ گیا اور اس کی نے کہا کہ بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.مولوی صاحب جب گواہی دے کر باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی اُس پر بیٹھ گئے کہ لوگ سمجھیں کہ شاید اندر بھی کرسی پر ہی بیٹھے تھے مگر نوکر ہمیشہ آقا کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں.چپڑاسی نے جب دیکھا کہ صاحب ناراض ہیں تو اس خیال سے کہ برآمدہ میں کرسی پر بیٹھا دیکھ کر مجھے ناراض نہ ہوں آ کر کہنے لگا میاں! اٹھو! کرسی خالی کر دو.وہاں سے اٹھ کر وہ باہر آئے اور ایک چادر بچھی ہوئی تھی اُس پر بیٹھ گئے اور خیال کیا کہ چلو اتنی عزت ہی سہی مگر چادر والے نے نیچے سے چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ اٹھو! میری چادر چھوڑ دو جو عیسائیوں سے مل کر ایک مسلمان کے خلاف جھوٹی گواہی دینے آیا ہوا سے بٹھا کر میں اپنی چادر پلید نہیں کراسکتا اور اس طرح ذلّت پر ذلت ہوتی چلی گئی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی.اس کے بالمقابل ہماری جماعت کے کتنے دوست ہیں جو غصہ کے موقع پر اپنے نفس پر قابور رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود
خطبات محمود ۵۵۶ سال ۱۹۳۶ء علیہ السلام کو دیکھو کہ ایسے شدید دشمن کے صحیح واقعات سے بھی اس کی تذلیل گوارا نہیں کرتے مگر ہمارے دوست جوش میں آکر گالیاں دینے بلکہ مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ - رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے پس ہماری جماعت کو ایک طرف تو یہ اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں اور دوسری طرف بدی سے پوری پوری نفرت پیدا کرنی چاہئے ایسی ہی نفرت جیسی حضرت رسول کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی یہ دونوں رے پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن ایک سمویا ہوا نسان ہوتا ہے.میں اس موقع پر غیرت کی ایک مثال بھی بیان کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں آگئے اور آپ کو سلام کیا.اُس وقت اُن کی شہرت آریہ لوگوں میں آنحضرت مہ کو گالیاں دینے کی وجہ سے خوب ہو چکی تھی اور وہ آریوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے سلام کا کوئی جواب نہ دیا تو حضور کے ساتھ جو خدام تھے انہوں نے سمجھا کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں اس لئے عرض کیا کہ حضور پنڈت لیکھرام سلام کرتے ہیں مگر آپ خاموش رہے.پنڈت لیکھرام نے بھی اس خیال سے کہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں دوسری طرف ہو کر پھر سلام کیا.پھر بھی آپ نے جواب نہ دیا.اس پر آپ کے ہمرا ہی جو شاید فخر محسوس کر رہے تھے کہ آریوں کا لیڈر آپ کو سلام کر رہا ہے پھر انہوں نے آپ کو توجہ دلائی کہ حضور پنڈت لیکھرام جی آپ کو سلام کر رہے ہیں.اس پر آپ نے جوش سے فرمایا کہ کیا انہیں شرم نہیں آتی کہ آقا کو تو گالیاں دیتے ہیں اور غلام کو سلام کہتے ہیں.غرض آپ کے اندر ایک طرف تو بے انتہاء غیرت تھی اور دوسری طرف بے انتہاء رحم اور عفو تھا.غیرت تھی تو اس قدر کہ ایک مشہور لیڈر کا سلام تک لینے کو آپ تیار نہ ہوئے اور رحم تھا تو اتنا کہ ایک شدید مخالف کی ذلت بھی پسند نہیں کرتے.پس یہ اخلاق ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو سکھائے اور جنہیں زندہ رکھنے کی کوشش ہماری جماعت کو کرنی چاہیئے.یاد رکھو کہ جوشخص اپنی اولا دکو نیک اخلاق نہیں سکھاتا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولا د سے دشمنی
خطبات محمود ۵۵۷ سال ۱۹۳۶ کرتا ہے بلکہ سلسلہ سے بھی دشمنی کرتا ہے، آنحضرت ﷺ سے دشمنی کرتا ہے اور خدا سے دشمنی کرتا ہے.مجھے بعض لوگوں نے خطوط لکھے ہیں کہ آپ اعمال کی اصلاح کے متعلق خطبات پڑھ رہے تھے تو بعض نوجوانوں نے داڑھیاں رکھ لی تھیں مگر ادھر آپ نے خطبات ختم کئے اُدھر اُن کی داڑھیاں غائب ہو گئیں.اب بتاؤ یہ کونسا وعظ ہے جو میں ہر وقت ہی کرتا رہوں اور جس وقت اسے بس کروں اُسی وقت عمل بھی بس ہو جائے.بھلا یہ طاقت کس میں ہے کہ روز ہی داڑھی پر لیکچر دیتا رہے.مؤمن کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے وہ جب صداقت کی بات سن لیتا ہے تو اس کے پیچھے چل پڑتا ہے اور دوبارہ نہیں کہلواتا.اگر میں اس طرح لیکچر دیتا رہوں کہ سلسلہ بند ہی نہ ہو تو ہزاروں نیکیاں ہیں ان پر وعظ کیلئے اتنے دن کہاں سے لاؤں.حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک مریض آیا اور اس نے ایک سوال کیا.یہاں بچے بیٹھے ہیں اس لئے میں وہ سوال تو بیان نہیں کرتا مگر اس نے کہا کہ کوئی ایسی دوائی مل جائے کہ میں فلاں کام ۵۰،۴۸ گھنٹے تک کر سکوں.آپ نے فرمایا احمق خدا نے تو ۲۴ گھنٹے بنائے ہیں میں تیرے لئے پچاس گھنٹے کہاں سے لاؤں.تو خدا نے ہفتہ کے سات دن مقرر کئے ہیں جن میں سے ایک دن جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاسکتا ہے.ادھر ہزاروں نیکیاں ہیں میں ان سب پر روز خطبہ کیسے پڑھ سکتا ہوں.جو لوگ وعظ سن کر عمل کرتے ہیں اور پھر فوراً ہی چھوڑ دیتے ہیں ان کی مثال تو اس کھیل کی سی ہے جسے ” جیک ان دی بکس“ کہتے ہیں.ایک بکس کے اندر لچکدار گڑا ہوتا ہے جب ڈھکنا بند کیا جائے تو وہ بھی اندر چلا جاتا ہے مگر جب ڈھکنا کھولا جائے تو وہ پھر نمودار ہو جاتا ہے اسی طرح میں وعظ کرتا ہوں تو ان لوگوں کی داڑھی نکل آتی ہے اور بس کرتا ہوں تو پھر اندر چلی جاتی ہے پس اس داڑھی کا کوئی علاج میرے پاس نہیں ہے.خدا نے کسی کو اتنا وقت نہیں دیا کہ ایسا وعظ کر سکے اصل چیز یہی ہے کہ انسان مؤمن بنے پھر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ کشمکش اسی وقت تک کیلئے ہے جب تک ایمان نہ ہو.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو صاحب الهام بزرگ تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور اپنی اولاد کی اس سے محرومی کی خبر بھی الہام کے ذریعہ دی تھی ایک دفعہ لوگ ایک بڑے حنفی مولوی کو جو خود بھی نیک تھا آپ سے بحث کرنے کیلئے لائے اور کہا کہ حنفی مولوی
خطبات محمود ۵۵۸ سال ۱۹۳۶ صاحب آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا اگر نیت بخیر باشد - حنفی مولوی بھی کی نیک تھا وہیں خاموش ہو کر چل دیا.لوگوں نے پوچھا تو کہا کہ میری نیت نیک نہیں تھی کیونکہ فضول بحث کرنا کوئی اچھی بات نہیں.پس نیست اگر نیک ہو تو وعظوں کی حاجت نہیں رہتی.قرآن کریم میں ہے کہ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۱۵ یعنی تمہارے دلوں میں بھی نشان موجود ہیں کیا تم دیکھتے کی نہیں.پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے انسان کے اندر کمزوریاں خواہ پہاڑ کے برابر ہوں وہ اگر چھوڑنے کا ارادہ کرلے تو کچھ مشکل نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور مقولہ ہے کہ اگر تمہارے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑ کو ان کی جگہوں سے ہٹا سکتے ہو.اس کا مطلب یہی ہے کہ گناہ خواہ پہاڑ کے برابر ہوں انسان کے اندر ایمان اگر رتی کے برابر بھی پیدا ہو جائے تو وہ ان پہاڑوں کو اُڑ سکتا ہے.مؤمن جس دن ارادہ کر لے اس کے رستہ میں کوئی روک نہیں رہتی.میں بتا چکا ہوں کہ ان خطبات کا ایک حصہ تحریک جدید کا دوسرا حصہ ہے جو آئندہ کبھی بیان کروں گا اس لئے میں اب بھی اس بارہ میں کچھ نہیں کہتا ہاں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی اولادوں کی اور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کی اصلاح کریں.جھوٹ، چوری، دغا، فریب ، دھوکا ، بد معاملگی ، غیبت و غیره بد عادات ترک کر دیں حتی کہ ان کے ساتھ معاملہ کرنے والا محسوس کرے کہ یہ بڑے اچھے لوگ ہیں اور اگر کوئی ان کے پاس کروڑوں روپیہ بھی رکھ دے تو سمجھے کہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ جس کے پاس رکھا ہے وہ احمدی ہے اور اگر دوست اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کر لیں تو تحریک جدید کے دوسرے حصہ کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی سارا کام ہو جاتا ہے.اچھی طرح یا درکھو کہ اس نعمت کے دوبارہ آنے میں تیرہ سو سال کا عرصہ لگا ہے اور اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اور پھر تیرہ سو سال پر یہ جاپڑی تو اُس وقت تک آنے والی تمام نسلوں کی لعنتیں ہم پر پڑتی رہیں گی اس لئے کوشش کرو کہ اپنی تمام نیکیاں اپنی اولادوں کو دو اور پھر وہ آگے دیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کو دیں اور یہ امانت اتنے لمبے عرصہ تک محفوظ چلی جائے کہ ہزاروں
خطبات محمود ۵۵۹ سال ۱۹۳۶ سالوں تک ہمیں اس کا ثواب ملتا جائے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو نیکی کسی شخص کے ذریعہ سے قائم ہو وہ جب تک دنیا میں قائم رہے اور جتنے لوگ اسے اختیار کرتے جائیں ان سب کا ثواب اُس شخص کے نام لکھا جاتا ہے.پس جو بدلہ ملتا ہے وہ بھی بڑا ہے اور امانت بھی اپنی ذات میں بہت بڑی ہے اور اتنی بڑی چیزوں کے ہوتے ہوئے جو فائدہ نہیں اُٹھاتا اُسے نہ کوئی خطبہ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ وعظ اور اُس کے متعلق یہی کہنا پڑتا ہے کہ یا تو وہ شقی ازلی ہے اور یا پاگل.ل الذريت: ۵۷ القدر : ( الفضل ۲۶ /اگست ۱۹۳۶ ء ) بخارى كتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله (الخ) سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰۰ ۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ ء ه اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۲۲۱.مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ آل عمران: ۱۴۵ صلى الله کتا کہ بخاری کتاب المغازى باب مرض النبي.تاريخ الخلفاء للسيوطی صفحه ۵۱ مطبوعہ لا ہو ر ۱۸۹۲ء ال الانعام : ٣٣ ها الذريت: ۲۲ المائدة: ٣ مسلم کتاب الحدود باب قطع السَّارِقِ الشَّرِيفِ و وفاته التحريم:
سال ۱۹۳۶ خطبات محمود الله ہے ہمارا ماٹولا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله.( فرموده ۲۸ را گست ۱۹۳۶ء بمقام دھرم ساله) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ دو دن سے مجھے گلے کے درد کی شکایت ہے اس لئے میں آج کے خطبہ میں ایک چھوٹاسا مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں.پچھلے جمعہ میں نے الفضل میں ایک دلچسپ بحث دیکھی اور وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کا ماٹو کیا ہونا چاہئے ؟ اس مضمون پر دو دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اخبار الفضل میں شائع ہو چکے ہیں اور یہ دونوں اصحاب میرے ماموں ہیں.اسی ماٹو کے بارہ میں ایک تیسرا مضمون بھی میری نظر سے گزرا ہے جس کے بارہ میں مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ وہ اخبار میں بھی شائع ہوا ہے یا نہیں ؟ ماٹو کے بارہ میں جو دو مضمون اخبار میں شائع ہو چکے ہیں ان میں ایک مضمون میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمارا ما ٹو فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ“ لے ہونا چاہئے اور دوسرے مضمون میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہمارا مح نظر جس کو دوسرے الفاظ میں ماٹو یر خطبہ دھرم سالہ کا ہے.ایک دوست نے جن کو لکھنے کی مشق نہ تھی لکھاہے اس وجہ سے کئی جگہ مضمون حذف ہو گیا ہے.میں نے کسی قدر اصلاح کر دی ہے اور اس خیال سے کہ تھوڑا ، بالکل نہ ہونے سے اچھا ہوتا ہے اسے شائع کرنے کیلئے بھجوا رہا ہوں.بہر حال یہ دوست شکریہ کے مستحق ہیں.خاکسار - مرزا محمود احمد
خطبات محمود ۵۶۱ سال ۱۹۳۶ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ہونا چاہئے.میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا بہر حال یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ہر قوم کیلئے کوئی نہ کوئی سطح نظر ضرور ہوتا ہے اور قدرتی طور پر سب قو میں اپنے اپنے ماٹو کو اپنے سامنے رکھتی ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتی ہیں.صحیح نظر کا اصول یہ ہے کہ جس غرض کیلئے کوئی قوم یا انجمن بنی ہے وہ قوم یا انجمن اس غرض اور مقصد کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے.جس وقت فرانس کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت ہوئی تو باغیوں کا صح نظر یہ تھا کہ ہم نے حریت، مساوات اور اخوت کو حاصل کر کے رہنا ہے اور اس مضمون کے بور ڈلکھ لکھ کر انہوں نے مختلف مقامات پر لگا دیئے تھے اور اپنی تقریروں میں بھی وہ ان باتوں پر زور دیتے تھے اور بازاروں میں پھر پھر کر لوگوں کو اپنے اس مطمح نظر کی طرف توجہ دلاتے تھے.انگلستان کی تاریخ سے بھی یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی وہاں اختلاف پیدا ہوا تو جو قوم بھی اُٹھی ہے اس نے اپنے لئے ضرور کوئی نہ کوئی مائو تجویز کیا ہے جس کو وہ اپنے سامنے رکھتی تھی.پس تمام سوسائٹیاں اور انجمنیں یہ بتانے کیلئے کہ ہم کو دوسری قوموں سے کیا امتیاز ہے اپنے لئے ایک خاص سطح نظر تجویز کر لیتی ہیں.کوئی انجمن یہ قرار دے لیتی ہے کہ اخلاق کی درستی اُن کے نزدیک سب سے بالا ہے، کوئی قوم یہ کہتی ہے کہ سب سے مقدم تعلیم کی ترقی ہے، کوئی سوسائٹی اپنا نصب العین یہ ٹھہرا لیتی ہے کہ ہم نے آزادی کو حاصل کرنا ہے اور اس کے بغیر ہماری زندگی زندگی کہلانے کی مستحق ہی نہیں.غرضیکہ کوئی انجمن سیاسی ہوتی ہے تو کوئی تعلیمی اور ہر ایک نے اپنے لئے کوئی نہ کوئی مائو تجویز کر رکھا ہوتا ہے اور وہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ جس بات کیلئے ہماری جماعت قائم ہوئی ہے اس کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اس بات کو اپنی جماعت کے سامنے بھی ہر وقت موجود رکھنا ہے.دنیا میں ہزاروں قسم کی نیکیاں ہیں اگر ہم ان میں سے ایک نیکی کو چن لیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری نیکیاں اس قابل نہیں کہ ان کے حصول کی کوشش کی جائے اور صرف یہ ایک نیکی جس کو ہم اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں اس قابل ہے کہ اس کو اختیار کیا جائے بلکہ مطلب
خطبات محمود ۵۶۲ سال ۱۹۳۶ صرف یہ ہوتا ہے کہ فلاں فلاں نیکی کا حاصل کرنا ہمارے لئے ذرا دقت طلب کی بات ہے لیکن اس نیکی کے حصول میں ہم کو چند در چند سہولتیں ہیں اس لئے ہم اس کی طرف اپنی توجہ کو زیادہ مبذول کرتے ہیں.اسی اصول کے ماتحت جس قوم کو تعلیم سے دلچسپی ہوتی ہے وہ تعلیم کو اور جس قوم کو نظام سے دلچسپی ہوتی ہے وہ نظام کو اپنا مائو قرار دے لیتی ہے اور جس قوم کو مثلا صحت سے دلچسپی.ہے وہ ورزش کو اپنا مائو قرار دے لے گی.غرضیکہ جس جس کام سے کسی قوم کو دلچسپی ہوتی ہے وہ اس کو اپنا ماٹو قرار دے کر اس کو اختیار کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتی ہے اور اس کوشش کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ باقی کاموں سے اس قوم کو نفرت ہے بلکہ صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کام کی طرف اس قوم کا زیادہ میلان ہے.اس لحاظ سے کوئی بھی اچھا ماٹو کوئی قوم رکھے وہ اُس کیلئے نیکی ہوگا.اور بعض ماٹو ایسے بھی ہیں جو آپس میں اشتراک رکھتے ہیں مثلاً یہ ماٹو کہ خدا کی اطاعت کرو اور یہ ماٹو کہ نیکیوں میں ترقی کر و در حقیقت ایک ہی ہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ خدا کی اطاعت کے بغیر نیکیوں کا حصول محال ہے اور اسی طرح جو شخص نیک ہی نہیں وہ خدا تعالیٰ کا مطیع کس طرح ہوسکتا ہے.اسی طرح یہ ماٹو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور یہ ماٹو کہ ”میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کروں گا“ دونوں گو ایک نہ ہوں مگر آپس میں بہت مشابہہ ہیں اور دونوں ایک حد تک ایک دوسرے کے اندر آ جاتے ہیں.پس یہ ساری نیکیاں ہی اچھی ہیں اور ہم کو ان کے حصول کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.لیکن جب میں نے ماٹو کے بارہ میں یہ مضامین الفضل میں پڑھے تو مجھے ایک یہودی کال قصہ یاد آ گیا کہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمر سے باتیں کر رہا تھا کہ دورانِ گفتگو میں کہنے لگا ہم تو آپ لوگوں سے سخت حسد رکھتے ہیں.حضرت عمر نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہم پر کس بات کا حسد آتا ہے؟ وہ یہودی کہنے لگا کہ مجھے اس بات کا حسد ہے کہ آپ کے اسلام میں یہ ایک خاص خوبی ہے کہ دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں جس کے بارہ میں آپ کے اسلام کے اندرا حکام موجود نہ ہوں حتی کہ آپ کے اسلام نے تو پاخانہ اور پیشاب کرنے اور کھانا کھانے اور پانی پینے تک کیلئے بھی احکام بتلا دیئے ہیں کہ فلاں فلاں کام کرو تو اس طور پر کرو، اسی طرح شادی بیاہ کے بارہ میں
خطبات محمود ۵۶۳ سال ۱۹۳۶ بتلا دیا کہ اس طرح پر کرو غرضیکہ کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے بارہ میں اسلام کے اندرا حکام اور مسائل موجود نہ ہوں.ہم کو آپ کے مذہب پر اس بات کا حسد ہے کہ یہ کس قدر وسیع مذہب ہے لیکن ہمارے مذہب میں یہ بات ہرگز موجود نہیں.اس واقعہ کو مدنظر رکھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کسی ایک بات کو بطور ماٹو چنا درست نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی تو ہر بات ہی ایسی ہے جو ماٹو بنانے کے قابل ہے.پس فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ بھی ایک نہایت عمدہ مائو ہے اسی طرح یہ مائو کہ ”میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ بھی بہت عمدہ ہے اور اس کی طرف بھی قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے اور وہ اِس آیت میں ہے کہ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّ اَبْقَى سے یعنی نادان لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ آخرت یعنی دین کی زندگی کا نتیجہ دنیوی زندگی سے اعلیٰ اور دیر پا ہے.پس اسے دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى ٣- یہ تعلیم ہم آج نہیں دے رہے یہ تعلیم سب انبیاء دیتے چلے آئے ہیں چنانچہ موسیٰ اور ابراہیم کی وجیوں میں بھی اس پر زور دیا گیا تھا.قرآن مجید کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس مضمون کو ادا کرتی ہیں.پس یہ اعلی تعلیم ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی وہ کونسی تعلیم ہے جو ماٹو نہ بن سکے.میں تو اس کے جس حکم پر نظر ڈالتا ہوں وہی جاذب توجہ نظر آتا ہے اور دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ میں اپنے محبوب کے جس حصے پر نگاہ ڈالتا ہوں کرشمہ دامن دل می کشد که جا اینجاست یعنی محبوب کے چہرہ کا ہر حصہ کہتا ہے کہ بس خوبصورتی کا مقام اگر کوئی دنیا میں ہے تو یہی ہے بس تو یہیں ٹھہر جا.اس تمہید کے بعد یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کا زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا مصداق تھا.دنیا کی کوئی چیز ایسی نہ رہی تھی جس میں خرابی نہ آگئی ہو اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے حل اور بروز ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا ظل ہے اور اس زمانہ میں بھی ہر قسم کی خرابیاں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں اس لئے آج مذہب کی بھی ضرورت ہے ، اخلاق کی
خطبات محمود ۵۶۴ سال ۱۹۳۶ تمام اقسام کی بھی ضرورت ہے، دنیا کی ہر خوبی اور ترقی کی بھی ضرورت ہے جہاں لوگوں کے دلوں کی سے خدا تعالیٰ پر ایمان اُٹھ گیا ہے وہاں اخلاق فاضلہ بھی اُٹھ گئے ہیں اور حقیقی دنیوی ترقی بھی مٹ گئی ہے کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ نفسانیت کا ایک مظاہرہ ہے اور دنیا کی ترقی نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس سے ایک حصہ دنیا فائدہ اُٹھا رہا ہے اور دوسرے کو غلام بنایا جا رہا ہے.پس ایسے وقت میں ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی فلاں آیت پر ہمیں خاص طور پر عمل کرنا چاہئے اور فلاں کی طرف کم توجہ کی ضرورت ہے.نہیں بلکہ قرآن مجید کی ہر آیت ہی اس قابل ہے کہ انسان اس کو اپنا طمح نظر اور نصب العین بنائے خصوصاً اس زمانہ میں کہ ہر آیت ہی کی طرف سے لوگوں کو بے رغبتی ہے مگر ایسے دن نہ بھی ہوں تب بھی قرآن مجید کی کسی آیت کا پچن لینا انسان کیلئے ناممکن ہے کیونکہ اس کی ہر ایک آیت بے شمار خوبیوں کی جامع ہے اور ہر آیت پر انسان یہ خیال کر کے کہ اس سے بڑھ کر بھلا اور کون سی آیت ہوگی حیرت میں پڑ کر وہیں کھڑا کا کھڑا رہی جاتا ہے.پس اس صورت میں کہ قرآن مجید کی ایک ایک آیت تمام خوبیوں کی جامع ہے ہم کس آیت کو اپنا ما ٹو قرار دیں اور کس کو اپنا ماٹو قرار نہ دیں جبکہ ان میں سے ہر ایک ہی ہمارا ما ٹو ہے تو ترجیح کی کیا وجہ ہے؟ ہم کو تو اب خود کسی ماٹو کے تجویز کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی جبکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سارے قرآن مجید کو ماٹو مقرر کر دیا ہے لیکن اگر ایک مختصر ماٹو ہی کی ضرورت ہو تو وہ بھی رسول کریم ﷺ نے ہمارے لئے تجویز کر دیا ہے اور وہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.یہ جملہ در حقیقت قرآن کریم سے ہی اخذ کیا گیا ہے اور قرآن مجید کے سب مضامین کا حامل ہے.گویا یہ تمام قرآن مجید کا خلاصہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد تو حید کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح بندوں کے آپس کے تعلقات اور بندہ کے خدا تعالیٰ سے تعلقات توحید کے اندر آ جاتے ہیں توحید کے معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اور جس طرح سورج بغیر آنکھ کے نظر نہیں آسکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایک خاص آنکھ کے بغیر نظر نہیں آ سکتا اور وہ آنکھ آنحضرت ملے ہیں ان کے ذریعہ سے ہی لا إِلهَ إِلَّا اللهُ دنیا کو نظر آ سکتا ہے اور اسی حکمت کی وجہ سے لَا إِلهَ إِلَّا الله کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بغیر توحید کا سمجھنا ہی محال ہے.گویا آنحضرت ﷺ ہی ایسی دور بین ہیں صلى الله
خطبات محمود ۵۶۵ سال ۱۹۳۶ جس سے تو حید دیکھی جاسکتی ہے.پس یہ لَا اِلهَ إِلَّا الله ایسی آیت ہے کہ اس میں بقرہ، آل عمران، نساء وغیرہ سب سورتیں شامل ہیں اور الحمد سے لے کر والناس تک کا کوئی مضمون اس سے باہر نہیں.لیکن تو حید ایسی کو بار یک چیز ہے کہ اس کو ہر ایک نظر نہیں دیکھ سکتی.ہاں ایک عینک ہے کہ اگر اس کو انسان اپنی آنکھوں پر لگالے تو وہ تو حید نظر آنے لگتی ہے اور وہ عینک آنحضرت ﷺ کا وجو دمبارک ہے اور اس میں کون شہبہ کر سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے آنے سے ہی دنیا میں تو حید قائم ہوئی ورنہ آپ کی بعثت سے قبل تو بعض لوگوں نے حضرت عزیر، بعض نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بنا رکھا تھا، بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے اور ایسے خطر ناک زمانہ میں جس میں گویا سب کی آنکھیں کمزور ہو رہی تھیں صرف آنحضرت ﷺ کی عینک لگانے سے ہی لوگوں کو تو حید نظر آئی.آنحضرت ﷺ سے قبل اور حضور کے زمانہ میں لاکھوں فلاسفر موجود تھے لیکن کسی کو تو حید کے علم کو بلند کرنے کا موقع نہ ملا بلکہ اس کے بر عکس فلسفیوں نے جو کچھ پیش کیا وہ شرک سے پر تھا پس حقیقت یہی ہے کہ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشند خدای بخشنده به محض خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے ہی دنیا میں تو حید قائم ہوئی اور یہی لَا اِلهَ إِلَّا اللہ ایسا مالٹو ہے جس کو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بلند آواز میں بیان کرتے ہیں اور جب کسی شخص کو اسلام میں لایا جاتا ہے تو اُس سے یہی لَا إِلهَ إِلَّا الله کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کا نام ہے اور باقی تشریحات اور تفصیلات ہیں جو ساتھ چسپاں کر دی جاتی ہیں.اور اگر کسی شخص میں دینی کمزوری پیدا ہوتی نظر آتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ لا إِلهَ إِلَّا الله اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ لَا اِلهَ إِلَّا الله کے سامنے موجود ہونے سے انسان دینی کمزوریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جب لَا إِلهَ إِلَّا اللہ آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو زید کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے، عمر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور بکر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم کس طرح کہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے بغیر بھی تو حید حاصل ہو سکتی ہے جبکہ تو حید کو انسان رسالت کے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ بغیر سمجھ ہی نہیں سکتا اور خصوصاً کامل توحید کیلئے رسالت کامل یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی رسال کا سمجھنا ضروی ہے.غرض جب تک انسان آنحضرت ﷺ میں بالکل محو نہ ہو جائے تو حید کامل کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس کے تفصیلی جلوہ یعنی قرآن مجید کو سمجھ سکتا ہے.وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ میں محو ہو کر تو حید کو نہیں سمجھتے باوجود عقل کے شرک میں مبتلاء رہتے ہیں جیسے کہ مسیحی ، ہندو، یہودی وغیرہ ہیں اور اسی طرح بہت سے مسلمان کہلانے والے جو پیروں اور فقیروں کو ہی اپنا خدا بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت خلیفہ اول کی ایک ہمشیرہ نے ایک فقیر کی بیعت کی ہوئی تھی حضرت خلیفہ اول نے کی ایک دفعہ اس کو کہا کہ اپنے پیر صاحب سے جا کر یہ پوچھو کہ آپ کی بیعت سے مجھے کیا فائدہ ہے؟ وہ اس فقیر سے پوچھنے گئیں.جب واپس آئیں تو آپ نے دریافت فرمایا کہ سناؤ کیا جواب ملا ؟ کہنے لگیں پیر صاحب خفا ہو کر بولے کہ تجھے یہ سوال ضرور مولوی نورالدین صاحب نے ہی سمجھایا ہوگا جا کر ان سے کہہ دے کہ ہماری بیعت میں آنے والے مریدوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ قیامت کے روز جب ہمارے مریدوں سے خدا تعالیٰ حساب لینے لگے گا تو ہم آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ ان کا حساب ہم سے لینا ان سے نہ پوچھو.اس کے بعد مرید تو دوڑ کر جنت میں جا داخل ہوں گے اس نے کے بعد جب اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ کیا ہمارے باپ امام حسین کی قربانی کافی نہ تھی کہ اب ہمیں دق کیا جاتا ہے.پس اس پر خدا تعالیٰ خاموش ہو جائے گا اور ہم جنت میں چلے جائیں گے.یہ سب لغو خیالات اسی لئے پیدا ہوئے کہ لوگوں نے خدا تعالیٰ کو محمد رسول اللہ میں ہو کر نہیں دیکھا.اگر وہ خدا تعالیٰ کومحمد رسول اللہ کی عینک میں سے دیکھتے تو اس کی ایسی بُری صورت نظر نہ آتی اور توحید سے دُور نہ جا پڑتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بغیر تو حید انسان پر کھل ہی نہیں سکتی.چنانچہ دیکھ لو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ میں محو ہو گئے اور ان میں محو ہونے کے بعد قرآن مجید پر غور کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن مجید میں سے یہ نظر آ گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور اُن کو زندہ ماننا شرک ہے.حضور سے قبل لاکھوں عالم اور فقیہہ موجود تھے لیکن کسی کو قرآن مجید میں یہ بات نظر نہ آئی بلکہ وہ تو حضرت عیسیٰ
خطبات محمود ۵۶۷ سال ۱۹۳۶ علیہ السلام کی طرف خدا تعالیٰ کی اکثر صفات نہایت شد و مد سے منسوب کرتے تھے مثلاً وہ اب تک آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں ، وہ مُردے زندہ کیا کرتے تھے، ان کو غیب کا علم تھا وغیرہ وغیرہ لیکن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ایک احمدی بچہ بھی اس عقیدہ پر قائم رہنا گوارا نہیں کر سکتا اور وہ نہایت قوی عقلی و نقلی دلائل سے اس کو باطل کر سکتا ہے.یہ بات اس احمدی بچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں وہ بات آنحضرت میلے میں فنا اور محو ہونے سے آئی ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ سے نور لیا اور اس نور کو دنیا میں پھیلایا تو شرک کی ظلمت اس نور کے آنے سے کافور ہوگئی اور علاوہ اس ایک بات کے اور بھی ہزاروں شرک کی باتیں حضور نے لوگوں کو دکھا ئیں کہ وہ ان سے پر ہیز کریں لیکن یہی باتیں اس زمانہ کے مشہور علماء اور فقہاء کی نظر سے اب تک اوجھل ہیں.اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے وجود مبارک میں محو نہیں ہوئے اس لئے اس نعمت سے محروم رہے اور ی حضرت مسیح موعود نے ہی اس زمانہ کے لوگوں کو لا الہ الا اللہ کا جلوہ دکھلایا اور یہی تو ایک چیز ہے جو اسلام کا لب لباب ہے اور جس کا ہر کامل موحد میں پایا جانا ضروری ہے.اس کے علاوہ باقی تفصیلات ہیں اور وہ مختلف آدمیوں کیلئے مختلف شکلوں میں بدلتی چلی جاتی ہیں.جیسے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کے حضور حاضر ہوا اور عرض کی يَارَسُولَ اللهِ ! مجھے سب سے بڑی نیکی بتا ئیں.حضور نے فرما یاماں کی خدمت کیا کر ھے.اس کے بعد کسی اور موقع پر ایک اور شخص آیا اور اس نے عرض کی کہ يَا رَسُولَ اللهِ! مجھے سب سے بڑی نیکی بتا ئیں.حضور نے فرما یا جہاد فی سبیل اللہ کیا کر.ایک اور شخص نے سب سے بڑی نیکی دریافت کی تو حضور نے اُس کو تہجد بتلائی.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور نے متضاد باتیں بتلائی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں میں تضاد قطعاً نہیں بلکہ وہ تینوں اشخاص تین مختلف امراض میں مبتلاء تھے.پس اُن کے علاج بھی مختلف ہی ہونے چاہئیں تھے.ایک کو ماں کی خدمت نہ کرنے کی مرض تھی حضور نے اُس سب سے بڑی نیکی ماں کی خدمت قرار دی.دوسرا شخص جہاد فی سبیل اللہ میں ست تھا اُس کو جہاد فی سبیل اللہ سب سے بڑی نیکی بتلائی گئی اور تیسرا شخص تہجد کی ادائیگی میں کمزور تھا اُس کو آنحضرت ﷺ نے یہ فرما دیا کہ تیرے لئے سب سے بڑی نیکی تہجد ہی ہے کیونکہ تو اس سے محروم ہے.
خطبات محمود ۵۶۸ سال ۱۹۳۶ الغرض تفصیلات ہر انسان کیلئے بدلتی رہتی ہیں مگر لATLANTA ALA GALALA N سب کیلئے یکساں ہے یہ کی ہرگز نہیں بدلتا.کسی کو سورہ بقرہ فائدہ دیتی ہے کسی کو آل عمران کسی کو کوئی اور سورۃ یا آیت.مگر لَا إِلَهَ إِلَّا الله سب کو یکساں طور پر فائدہ پہنچاتا ہے گویا قرآن کریم کی تمام آیات اپنے اپنے مقام پر بہت عمدہ اور مفید ہیں لیکن لا اله الا اللہ سب پر حاوی اور سب سے بڑھ کر ہے اور اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ العنی میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے وہ تم کو سیدھے راستہ پر ڈال دے گا.پس صحابہ کرام تو ستارے تھے لیکن آنحضرت ﷺ عالم روحانی تھے جس کے اندر یہ سب روحانی ستارے بھی آجاتے ہیں.یہ روحانی ستارے اپنی اپنی جگہ پر تو بہت عمدہ تھے لیکن روحانی سورج سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.الغرض ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ ماٹو لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ تو موجود ہے لیکن لوگ اسلام کے اس ماٹو کو بھول گئے ہیں اور آج کل کے واعظ اپنے وعظوں میں توحید کا نام تک نہیں آنے دیتے بلکہ ادھر ادھر کی غیر ضروری باتوں کے بیان کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں حالانکہ تو حید کی ضرورت انسان کے ہر ایک کام میں رہتی ہے حتی کہ آنحضرت ﷺ اپنے سونے کے وقت اور وضو کے وقت بھی تو حید کا اقرار فرمایا کرتے تھے کیونکہ تو حید صرف اس امر کا نام نہیں کہ انسان بت پرستی نہ کرے یا کسی شخص کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں زندہ نہ مانے یا کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرائے بلکہ دنیا کے ہر ایک کام میں توحید کا تعلق ہے کیونکہ جب بھی کسی انسان کو دنیا کے کسی کام پر ذرہ بھر بھروسہ اور اتکال ہو گیا تو وہ انسان شرک کے مقام پر جا ٹھہرا اور اس کے موحد ہونے کا دعوی باطل ہو گیا کیونکہ تو حید کی لازمی شرط یہی ہے کہ انسان صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہی اتکال رکھے کیونکہ تو حید کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر کام میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی انسان کی نظر صرف ایک خدا کی طرف اُٹھے.جہاں اُس کی نظر ماسوی اللہ کی طرف بلند ہوئی اس میں شرک آ گیا.حتی کہ انسان کو ہر قدم پر سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں میں شرک تو نہیں کر رہا یہاں تک کہ جب آدمی پانی پیتا ہے اور کھانا کھاتا ہے تو اُس وقت بھی دیکھتا ہے کہ کہیں میں اس کام میں شرک تو نہیں کر رہا.
خطبات محمود ۵۶۹ سال ۱۹۳۶ پس اپنی جگہ پر فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ بہت عمدہ ماٹو ہے اور اسی طرح ” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا بھی بہت اچھا ماٹو ہے لیکن کامل موحد بننے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کی نظر سے ہر ایک چیز غائب ہو جائے اور ماسوی اللہ اس کیلئے کالعدم ہو جا ئیں حتی کہ انسان خود بھی غائب ہو جائے اور اُس کو اگر نظر آئے تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات نظر آئے پس اپنی اپنی جگہ پر تمام چیزیں اچھی ہیں.اگر کوئی جماعت کہے کہ ہمارا سمح نظر یہی ہے کہ ہم لوگوں کو نیکی کی تحریک کیا کریں گے تو یہ اچھی بات ہے اگر کوئی جماعت کہے کہ ہمارا نصب العین فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ہے تو یہ بھی اچھی بات ہے اور اگر کوئی کسی اور اچھی بات کو اپنا مائو قرار دے لے تو اُس کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن نبوت کے حقیقی متبع کا ماٹو اس زمانہ میں صرف لا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہوسکتا.کیونکہ اس سے ہر کمال کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور سب کمال اسی کلمہ میں آتے ہیں.مثلاً فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کو لے لو.اس استباق اور خیرات کے معنی ہم کہاں سے معلوم کریں.دین کو دنیا پر مقدم کروں گا، فقرہ میں دین اور دنیا اور مقدم کرنا تینوں مضمون بھی تشریح کے محتاج ہیں.کئی لوگ دین کو دنیا اور کئی دنیا کو دین قرار دیتے ہیں.کئی مقدم کی تشریح میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہمیں صرف کمال کا نقطہ ہی نہیں بتا تا بلکہ تشریح اور توضیح کے حصول کا ذریعہ یہی بتاتا ہے.وہ ایک سو نیکیوں کی جامع لیکن تو حید کی طرف ہمیں بلاتا ہے دوسری طرف تو حید کے سمجھنے میں جو دقتیں پیش آسکتی ہیں ان کے حل کرنے کا طریق ہمیں بتا دیتا ہے.غرض جس نے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کو سمجھ لیا اُس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اُس نے سب ہی کچھ سمجھ لیا کیونکہ شرک ہی تمام بدیوں ، غفلتوں اور گناہوں کی جڑ ہے اور توحید پر قائم ہونے کے بعد انسان میں اخلاق، علم ، عرفان ، تمدن، سیاست ، حدت نظر و حذق یعنی فنون میں کمال سب ہی کچھ آجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے جو تمام امراض کا واحد علاج ہے.جس طرح تریاق کے میسر آنے پر مرض کا فور ہو جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا نور جب انسان میں آجاتا ہے تو اس کے پاس سے تمام امراض روحانی بھاگ جاتے ہیں.پس ہما را مائو جو خود بخود خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے وہ لَا اِلهَ إِلَّا اللہ ہی ہے باقی تفصیلات ہیں اور وعظ کے طور پر کام آ سکتی ہیں اور وہ سب ANAL NAWALANGANA اللہ میں شامل ہیں.گوہر
خطبات محمود ۵۷۰ سال ۱۹۳۶ لا إله إلا الله ایک جامع اجمال ہے اور ماٹو ا جمال کا ہی نام ہے.اس زمانہ میں چونکہ دجال اپنی پوری طاقت کے ساتھ دنیا میں رونما ہے اور اُس کا نصب العین یہ ہے کہ میں دنیا کو دین پر مقدم رکھوں گا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے مقابل پر یہ کہیں کہ تم تو دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہو لیکن ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور چونکہ ہم نے دجالی فتنہ کا قلع قمع کرنا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام کی بناء پر شرائط بیعت میں ایک یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں دجال سے ہما را سخت مقابلہ پڑے گا.وہ دنیا کو دین پر مقدم کر کے دکھلائے گا اور ہم اُس کے جواب میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھلائیں گے.دجال کا مقصد دنیاوی آرام کو حاصل کرنا ہوگا لیکن ہم دین کی راہ میں مصائب کا آنا ایک نعمت تصور کریں گے.لیکن اگر ہم کو خدا تعالیٰ دنیاوی آرام بھی دے دے تو یہ کوئی بُری بات نہیں.کیا آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ مجھے قیصر و کسریٰ کے خزانے دیئے گئے ہیں.تو اگر خزانوں کا ملنا بری بات ہوتی تو حضور کو کیا نَعُوذُ بِاللهِ بُری چیز دی گئی ؟ ہر گز نہیں.ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کے تابع نہ ہو جائیں بلکہ دنیا کو اپنے ماتحت اور تابع رکھیں اور اس کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیں بلکہ ہم اس پر سوار رہیں.ورنہ ہماری مثال اُس میراثی کی سی ہوگی جس نے دعا کی تھی کہ اے سخی سرور ! مجھے کوئی جانور سواری کیلئے دے.ابھی وہ چلا جا رہا تھا کہ اُس کو ایک گاؤں کا رئیس مل گیا جس کی گھوڑی نے راستے میں ہی بچہ دے دیا تھا.اُس رئیس نے جب میراثی کو دیکھا تو کہا کہ میری گھوڑے کے بچہ کو اُٹھا کر شہر لے چل.یہ عجیب معاملہ دیکھ کر میراثی بول اُٹھا واہ سخی سرور ! تو بھی اُلٹی ہی سمجھ کا مالک ہے تجھ سے تو میں نے جانور سواری کیلئے مانگا تھا تو نے اُٹھانے کیلئے دے دیا.تو جو انسان دنیا کو اپنے سر پر اٹھا لیتا ہے اُس کی مثال بعینہ اس میراثی کی سی ہے کیونکہ دنیا تو خدا تعالیٰ انسان کو اس لئے دیتا ہے کہ انسان اس پر چڑھے لیکن وہ احمق دنیا کو اپنے سر پر اُٹھا لیتا ہے.پس اصل چیز جس سے دنیا کی ترقی ہے وہ لَا اِلهَ إِلَّا الله ہی ہے اور اس کی عینک جس سے یہ نظر آ سکے وہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ﷺے ہیں.جس طرح عینک کے بغیر آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا صلى الله
خطبات محمود ۵۷۱ سال ۱۹۳۶ اسی طرح آنحضرت اللہ کے بغیر انسان لَا إِلَهَ إِلَّا الله کو نہیں دیکھ سکتا.اس زمانہ میں یوں تو اور بھی بہت سی نیکیاں ہیں اور سب کی طرف ہم کو توجہ کرنی چاہئے لیکن تو حید کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ خُذُوا التَّوحِيدَ خُذُو التَّوْحِيدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ کہ اے ابنائے فارس ! توحید کو مضبوطی سے پکڑ لو.تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو.ابنائے فارس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ہی نہیں بلکہ روحانی لحاظ سے ساری جماعت ہی ابنائے فارس کے ماتحت ہے اور یہ حکم تمام جماعت پر مشتمل ہے.یہ قاعدہ ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کسی ایک چیز کو خاص طور پر پکڑا لی کرتا ہے.فرمایا کہ تم مصائب کے موقع پر تو حید کو پکڑ لیا کرو کہ اس کے اندر باقی تمام چیزیں آجاتی ہیں.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لَا اِلهَ اِلَّا الله کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے کیونکہ اسی میں انسان کی دینی اور دنیاوی فلاح مضمر ہے.( الفضل ۲۶ / دسمبر ۱۹۳۶ء ) البقرة: ۱۴۹ الاعلى: ۱۸،۱۷ س الاعلى: ۲۰:۱۹ الروم: ۴۲ ه بخاری کتاب الادب باب مَنْ أَحَقُّ النَّاسُ بِحَسُنِ الصُّحُبَة مشكوة كتاب المناقب باب مناقب الصحابة کے تذکرہ - صفحه ۵۲.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۵۷۲ ۳۳ سال ۱۹۳۶ جماعت کو تدریجی طور پر اب قربانیوں کے میدان میں آگے سے آگے قدم رکھنا ہوگا (فرموده ۱۱ ستمبر ۱۹۳۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- کھانسی اور گلے کی تکلیف کی وجہ سے میرے لئے بلند آواز سے بولنا بالکل جائز نہیں لیکن چونکہ بخار میں تخفیف ہے اور دو جمعے درمیان میں میں یہاں خطبہ نہیں پڑھا سکا اس اس لئے یہ نے مناسب سمجھا کہ تکلیف اٹھا کر بھی آج خطبہ جمعہ خود پڑھاؤں.میں نے چند جمع ہوئے غالباً ۷ / اگست کو جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے چندہ کے متعلق میں بعض دوستوں میں سستی اور غفلت دیکھتا ہوں حالانکہ اس چندہ کی تحریک طوعی تھی جبری نہ تھی.یعنی ہر شخص کو اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اس چندے میں شامل ہو یا نہ ہو.صرف تحریک کی جاتی تھی اور ہر شخص کو اس میں شامل ہونے کا پابند نہیں بنایا جاتا تھا.اس سستی کو دیکھ کر یہ خطرہ بھی ہوسکتا تھا کہ یہ چیز تو ہمارے سامنے آ جاتی ہے مگر اس تحریک کے وہ دوسرے حصے جو سامنے نہیں آتے ممکن ہے دوست ان میں بھی سستیاں کر رہے ہوں مثلاً ایک کھانا کھانے کی تحریک ہے یا سادہ لباس کی تحریک ہے یا بیکار نہ رہنے کی تحریک ہے یا تبلیغ کی تحریک ہے ان ساری قسم کی تحریکوں کے متعلق قدرتی طور پر یہ شبہ پیدا ہو:
خطبات محمود ۵۷۳ لازمی ہے کہ شاید ان میں بھی کسی قسم کی سستی ہو رہی ہے.سال ۱۹۳۶ میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں جماعت میں ایک اصلاح تو ہوئی ہے اور وہ یہ کہ چندہ کی رفتار پہلے سے بڑھ گئی ہے اور اس خطبہ کے بعد اس وقت تک جو دس اور گیارہ ہزار کے درمیان پچھلے سال اور اس سال کے چندہ میں فرق تھا وہ کوئی ساڑھے چھ ہزار کے قریب آ گیا ہے.گویا چار یا ساڑھے چار ہزار روپیہ کی کمی کو دوستوں نے پورا کیا ہے لیکن ابھی تک جماعت کے تمام افراد میں وہ تحریک پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے تھی.جن جن افراد نے علیحدہ طور پر چندے لکھوائے ہیں انہوں نے زیادہ جوش سے چندے ادا کئے ہیں لیکن جماعتی چندوں میں ابھی بہت کچھ کمی ہے میں الفضل کی کسی قریب کی اشاعت میں بعض بڑی جماعتوں کی لسٹ شائع کروں گا تا کہ ان کی جماعتوں کو توجہ ہو ).در حقیت بہت سی رقم جو جمع ہوئی ہے وہ افراد کی طرف سے جمع ہوئی ہے ورنہ بہت سی جماعتیں ایسی پائی جاتی ہیں جنہوں نے بحیثیت جماعت نہایت سستی اور غفلت دکھائی ہے میں ان جماعتوں کو ستمبر تک کی مہلت دیتا ہوں کہ وہ ستمبر تک اپنے بقائے پورے کرنے کی کوشش کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ سارے دوست ہی ستمبر تک بقائے ادا کریں کیونکہ مہلتیں بعض کی نومبر تک ، بعض کی جنوری تک اور بعض کی اس سے بھی بعد تک ہیں لیکن بہر حال جس حد تک حصہ ان کی طرف ہے اس وقت تک پہنچ جانا چاہئے.اپنی اپنی رقم کے مطابق وہ اس کو ضرور پورا کرنے کی کوشش کریں ور نہ اطلاع دیں کہ کیوں وہ اس وعدے کو پورا کرنے پر قادر نہیں ہو سکے جو طو عی طور پر انہوں نے کیا تھا اور جس کے متعلق کوئی جبر اُن پر نہیں کیا گیا تھا.میں بتا چکا ہوں کہ تدریجی طور پر جماعت کو قربانی کے میدان میں اب آگے سے آگے بڑھنا ہو گا.ذاتی طور پر مجھے اس بات کا قطعاً در دمحسوس نہیں ہوسکتا اگر ہماری جماعت موجودہ تعداد سے گھٹ کر آدھی رہ جائے یا چوتھا حصہ رہ جائے یا اس سے بھی زیادہ گر جائے کیونکہ میں اس یقین پر قائم ہوں کہ مخلصین وہ کچھ کر سکتے ہیں جو تعداد نہیں کر سکتی.ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع بتائے ہوئے ہیں کہ جن کے ماتحت چند آدمیوں کے ذریعہ بھی ساری دنیا میں اسلام قائم کیا جاسکتا.لیکن ان ذرائع کو استعمال کرنے کے اوقات ہوتے ہیں.خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا
خطبات محمود ۵۷۴ سال ۱۹۳۶ کہ تجھے اور تیری قوم کو کنعان کی حکومت دی جاتی ہے.بنی اسرائیل نے آگے سے یہ کہہ دیا کہ اِذْهَبُ اَنتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ لے جاموسی تو اور تیرا رب لڑتے پھر وجب فتح ہو جائے گی تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے.اس وقت تک تو ہم یہیں بیٹھے ہیں.موسیٰ اور اس کا خدا اکیلے رہ گئے مگر باوجود اس کے کنعان پھر بھی فتح ہوا اور کنعان پر تیرہ سو سال تک بنی اسرائیل حکومت کی.حضرت مسیح علیہ السلام کو جب صلیب کا واقعہ پیش آیا حواری سب بھاگ گئے بلکہ ایک حواری نے تو آپ پر لعنت بھی کی اور کہا میں نہیں جانتا یہ کون ہے؟ یہ سب کچھ ہوا مگر کیا عیسائیت دنیا میں نہیں پھیلی ؟ کیا وہ یونہی رک کر رہ گئی؟ پس میں اس یقین پر قائم ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس یقین پر قائم رہے گا وہی اپنے ایمان کو سلامت لے کر نکلے گا کہ سلسلہ افراد کی تعداد پر قائم نہیں بلکہ اخلاص پر قائم ہے.جس شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ ہر گندی چیز کو ہم میں اور رکھ لیں وہ نہ سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے اور نہ سلسلہ کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے.میرا مطلب یہ نہیں کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے جس کو خدا تمہارے پاس بھیجے اس کو نکالو یہ خود ایک بھاری گناہ اور عذاب کا موجب ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پوری وضاحت اور انکشاف کے بعد اپنے آپ کو اسلام کیلئے مفید بنانے کیلئے تیار نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو سلسلہ سے آپ نکالتا ہے تم اسے نہیں نکالتے.ایک کمزور اور ناطاقت جس میں چلنے کی طاقت نہیں اگر تم اُسے دیکھ تو تمہارا کام ہے کہ اُسے اُٹھاؤ اور لے چلو.ایک ناواقف اور جاہل جسے کوئی علم نہیں اگر وہ تمہارے پاس آتا ہے تو تمہارا کام ہے کہ اسے بتاؤ اور اپنے ساتھ شامل کر ومگر ایک واقف اور آگاہ شخص جو ٹانگیں رکھتے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے إِنَّا هُنَا قَاعِدُونَ تمہارا فرض ہے کہ تم اُسے سلام کر کے کہہ دو آج سے میں اور تم الگ ، ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں.: تمہارے نفس میں اس رنگ میں خدا پر تو کل قائم ہو گا تب تم دنیا میں کامیابی حاصل کر سکو گے جب تم اپنے آپ کو دیوانگی کے مقام پر کھڑا کر لیتے ہو تب تم منزل مقصود پر بھی کامیابی کے ساتھ پہنچ سکتے ہو.یہ مت خیال کرو کہ تمہارے دائیں اور بائیں ایسے لوگ ہیں جو اندر سے ہو کر تمہاری مخالفت کرتے ہیں وہ منافق ہیں اور منافق کی مثال چوہے کی سی ہوتی ہے جس نے بلی کی میاؤں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ سنی اور وہ بھاگا.مثل مشہور ہے ہے کہ کچھ چوہے تھے انہوں نے آپس میں مشورہ طلب کیا کہ بلی نے ہمیں سخت ستایا ہوا ہے آؤ ہم اسے مل کر پکڑیں.آخر صلاح ٹھہری کہ والنٹیئر ز طلب کرو جو اپنی جانیں قربان کر دیں اور قوم کو اس مصیبت سے نجات دیں.چنانچہ پچاس ساٹھ چوہے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو اس خدمت کیلئے پیش کرتے ہیں کہ اگر بلی آئی تو ہم اُس کا دایاں پاؤں پکڑ لیں گے.پچاس ساٹھ چوہوں نے کہا ہم اُس کا بایاں پاؤں پکڑ لیں گے.اسی طرح والنٹیئرز کھڑے ہوتے گئے اور انہوں نے بلی کا تمام جسم آپس میں تقسیم کر لیا اور کہا ہم اسے پکڑ کر وہیں مار دیں گے.جب سب حصے وہ آپس میں تقسیم کر چکے تو ایک بوڑھا چوہا کہنے لگا تم بتی کے پاؤں اور اُس کے دیگر اعضاء سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا اُس کی میاؤں سے ڈرتے ہو اس لئے یہ بتاؤ کہ اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا.ادھر اُس نے یہ کہا اور ادھر اتفاقاً ایک بلی نمودار ہوگئی اور اس نے کہا میاؤں.میاؤں کا سننا تھا کہ سارے چو ہے اپنی اپنی پلوں میں گھس گئے یہی حال منافق کا ہوتا ہے وہ دعوے بہت کرتا ہے لیکن ہو تا سخت ڈرپوک ہے.بھلا وہ منافق جو قلیل التعداد دوستوں کے سامنے کھل کر بات کرنے سے ڈرتا ہے وہ کثیر التعداد دشمنوں کا کہاں بلہ کر سکتا ہے.ابتدائی مؤمنوں کی تعداد تو کفار کے مقابلہ میں ہمیشہ قلیل ہوتی ہے.رسول کریم اور آپ کے صحابہ کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہ تھی یہی حال ہمارا ہے.۳۳ کروڑ ہندوستان کے باشندے ہیں ان میں الا مَا شَاءَ اللہ شریف الطبع لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے بہت سے ہمارے جانی دشمن ہیں.بہت سے ایسے ہیں جنہیں سلسلہ کی چونکہ واقفیت نہیں ہوتی اس لئے مولوی انہیں ورغلا لیتے ہیں.پس وہ جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کے مقابلہ میں ہماری تعداد ہے ہی کیا.پھر تم منافق سے یہ کس طرح امید کر سکتے ہو اور تمہاری یہ امید کس طرح صحیح سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ اتنے بڑے دشمنوں کا مقابلہ کرے گا جبکہ تم دیکھتے ہو کہ تم اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں سینکڑوں گنے کم ہو لیکن وہ تم سے ڈرتے ہیں اور تمہارے سامنے بات نہیں کر سکتے.جولوگ ہمارے جیسی قلیل اور بے کس جماعت سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں وہ ہم سے مل کر کئی گنے طاقتور دشمنوں کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں.وہ تو صرف ایک ہی کام کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ تمہاری صفوں کو پراگندہ کریں ، تمہاری چغلخوری اور عیب جوئی کریں اور تمہاری دشمنوں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کے پاس خبر رسانی کریں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا کام یہی بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے منافق تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں تو سوائے اس کے کہ تمہارے اندر تفرقہ پیدا کریں اور دشمنوں کے پاس خبر رسانی کریں اور کیا کر سکتے ہیں.پس میرا یقین ہے کہ جماعت کی ترقی ان مخلصین کے وجود پر ہے کہ جب جب اور جس جس وقت انہیں مرکز کی طرف سے آواز سنائی دے وہ اس پر لبیک کہتے جائیں اور میں سمجھتا ہوں جب تک جماعت کے خیالات اس بارے میں متفق نہ ہوں جماعت کے لوگ میری مدد نہیں کر سکتے.اگر اس خیال پر تم قائم نہیں کہ تمہاری ترقی اخلاص کے ذریعہ ہے نفاق کے ذریعہ نہیں اور نہ تعداد کے ذریعہ تو تم لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں اربوں روپیہ بھی میرے قدموں میں ڈال دو پھر بھی وہ میرے کام نہیں آسکتا کیونکہ وہ تو کل کا روپیہ نہیں بلکہ شرک کا روپیہ ہے اور شرک کا روپیہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.اس کے مقابلہ میں اُس شخص کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی برکت کا موجب ہوسکتا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کا ہوں اور خدا میرا اور فتح صرف خدا دیتا ہے.جو یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے سوا دنیا میں کوئی چیز نہیں اور تمام اشیاء محض سایہ ہیں جو خدا کے ارادہ سے ادھر اُدھر نظر آتی ہیں اور جب وہ ارادہ ہٹالے تو کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی.ہے بعض دوستوں نے جو سلسلہ کے کارکن ہیں میرے گزشتہ خطبہ سے متاثر ہو کر مجھے لکھا کہ ہماری تنخواہوں میں سے اتنا اتنا حصہ کاٹ لیا جایا کرے.میں ان دوستوں کے اخلاص کی تو قدر کرتا ہوں مگر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ سے خالی قربانی کبھی کامیاب نہیں کرتی بلکہ وہ قربانی کا میاب کیا کرتی ہے جو امام کے پیچھے اور اس کی اتباع میں کی جائے.بے شک مؤمن کو قربانیوں کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے مگر اسے اس بات کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ امام کی آواز سنے اور جب امام قربانیوں کیلئے بلائے اُس وقت اپنی قربانی کا اظہار کریں.نماز کتنی اچھی چیز ہے جتنی لمبی نماز ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے مگر رسول کریم ﷺ نے ہی صلى الله فرمایا ہے کہ جو شخص امام سے پہلے حرکت کرتا ہے قیامت کے دن اس کا منہ گدھے کے منہ کی طرح بنایا جائے گا تے.اسی طرح اگر کوئی شخص امام کے تکبیر کہنے سے ایک منٹ پہلے نماز کی نیت باندھ لیتا ہے تو وہ ثواب حاصل نہیں کرتا بلکہ رسول کریم ﷺ کے قول کے مطابق قیامت کے دن وہ گدھے
خطبات محمود ۵۷۷ سال ۱۹۳۶ عليا کی شکل میں اُٹھایا جائے گا.پھر رکوع اور سجدہ دعا کیلئے کتنے اچھے مقام ہیں مگر رسول کریم ہی ہے فرماتے ہیں کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں چلا جاتا ہے وہ غلطی کرتا ہے.جب امام جھکے تب جھکنا چاہئے اور جب امام سر اُٹھائے اس وقت سر اُٹھانا چاہئے.پس بے شک انہوں نے اخلاص دکھایا اور میں اس کی قدر کرتا ہوں اور ان کیلئے دعا کرتا ہوں لیکن ان کی خیر خواہی کے بدلہ میں ان سے یہ خیر خواہی کرتا ہوں کہ انہیں رسول کریم ﷺ کا یہ حکم بتاتا ہوں کہ جس وقت قومی قربانی کا سوال ہو اُس وقت ہر شخص کو امام کی آواز کا انتظار کرنا چاہئے.ہاں جب انفرادی قربانی کا سوال ہو تو ہر شخص اپنے اخلاص کے اظہار کیلئے دوسروں سے آگے بڑھ سکتا ہے اور اسے بڑھنا چاہئے.در حقیقت امام کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ ایک جماعت بحیثیت جماعت قربانی کرے افراد کی قربانی تو بغیر امام کے بھی ہو سکتی ہے.چین کی نازک حالت میں جب مسلمانوں کی حکومت ن تباہ ہو رہی تھی عیسائیوں نے بعض شرائط پیش کیں کہ اگر مسلمان انہیں مان لیں تو ہم انہیں ملک سے نکل جانے کی اجازت دے دیں گے.بادشاہ نے اس کے متعلق مشورہ لینے کیلئے جب اپنے سرداروں کو بلایا تو انہوں نے کہا یہ بہت اچھی بات ہے کہ ان شرائط کو تسلیم کر لیا جائے ہمارے اندر ان کے مقابلہ کی کوئی طاقت نہیں.اگر وہ ہمیں افریقہ جانے دیں، کتب خانے ساتھ لے جانے دیں اور کسی قدر مال و دولت کے لے جانے میں بھی مزاحم نہ ہوں تو ہمیں اور کیا چاہئے.ان سرداروں میں ایک مسلمان جرنیل بھی تھا جب اس نے یہ باتیں سنیں تو وہ کھڑا ہوا اور اُس نے کہا سو ڈیڑھ سو سال سے ہماری حالت اس ملک میں کمزور ہوتی چلی آرہی ہے اور اس عرصہ میں بیسیوں معاہدے عیسائیوں سے ہوئے مگر کیا تم ایک معاہدہ بھی ایسا دکھا سکتے ہو جو انہوں نے پورا کیا ہو.جب ایک معاہدہ بھی تم ایسا نہیں دکھا سکتے جو انہوں نے پورا کیا ہو بلکہ ہر معاہدہ کو انہوں نے توڑا ہے تو اب تم کس طرح امید کر سکتے ہو کہ وہ اس معاہدہ کی تمہارے لئے نگہداشت کریں گے.اس کا یہ کہنا تھا کہ باقی سب اس کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ پاگل ہے، دیوانہ ہے، یہ نہیں سمجھتا کہ مصلحت کیا چیز ہوتی ہے اتنی عمدہ شرطیں جب وہ پیش کر رہے ہیں تو ہمیں ضرور مان لینی چاہئیں اگر یہ شرائط ہم منظور نہیں کریں گے تو چونکہ ہم کمزور ہیں اس لئے وہ شہر فتح کر کے اندر داخل ہو جائیں گے اور ہم سب کو ماردیں گے.جب انہوں نے مخالفت کی تو وہ جرنیل اس مجلس سے اُٹھ کر چلا گیا اور اکیلا
خطبات محمود ALA سال ۱۹۳۶ عیسائی فوج سے لڑا اور مارا گیا.لوگوں نے سمجھا یہ ایک بیوقوف تھا جس نے اپنی بیوقوفی کی سزا پالی لیکن وہ بیوقوف نہیں تھا کیونکہ جب صلح ہوگئی اور مسلمانوں نے جہازوں میں عورتوں اور بچوں کو بھر دیا اور کتب خانوں کو بھی ساتھ لے لیا تو جس وقت سپین کو آخری الوداع کہہ رہے اور اپنے آنسوؤں کا ہدیہ اس کے سامنے پیش کر رہے تھے عیسائیوں نے یکدم حملہ کر کے ان کے جہازوں کو غرق کر دیا اور اس طرح وہ بُزدل اور ذلیل ہو کر مرے لیکن دنیا اس جرنیل کو آج بھی یاد کرتی ہے جس نے بہادری سے اپنی جان دی.اس کے مقابلہ میں ان ہزاروں جان دینے والوں پر رحم تو آتا ہے مگر ساتھ ہی دل کے گوشوں سے ان کے متعلق لعنت کی آواز بھی اُٹھتی محسوس ہوتی ہے.پس اکیلا مر جانا اور قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دینا ہر وقت ہو سکتا ہے لیکن امام کی غرض چونکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک جماعت تیار کرے اس لئے قربانیوں کا وہ آہستہ آہستہ مطالبہ کرتا ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر اسلام ایسی ہی قربانی چاہتا ہے جیسی آپ بیان کرتے ہیں تو کیوں اس وقت قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا.انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ بے شک اسلام انتہائی قربانی چاہتا ہے مگر اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ کمزوروں کو اُٹھایا جائے اور انہیں بھی دوسروں کے پہلو بہ پہلو ترقی دی جائے.اگر وقت سے پہلے ہی انتہائی قربانی کا مطالبہ کر لیا جائے تو ہزاروں لوگ جو بعد میں مؤمن ثابت ہو سکتے ہیں منافق بن جائیں.جیسے اسلام کہتا ہے کہ خدا اور رسول کے دشمن تباہ ہو جاتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ فورا تباہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایک عرصہ تک ڈھیل جاتی ہے.قرآن مجید میں ہی بار بار کفار کا یہ اعتراض دُہرایا گیا ہے کہ جب ہم مخالفت کرتے ہیں تو ہم مارے کیوں نہیں جاتے؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہی جواب دیا ہے کہ ہم تمہیں ڈھیل دیتے ہیں شاید کسی وقت تم درست ہو جاؤ اور ہدایت پر آ جاؤ.یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں آہستہ آہستہ قربانیوں کی طرف لاتا ہے تا جو گر نے والے ہیں وہ کم ہو جائیں اور بچنے والے زیادہ ہوں.پس قربانی کا معیار اسی جگہ پہنچ کر رہے گا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچا اور جہاں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں پہنچا مگر چونکہ کمزوروں اور ناطاقتوں کو اٹھانا بھی ایمان کا حصہ ہے اس لئے امام کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ قربانیوں کا مطالبہ کرے اور زیادہ سے
خطبات محمود ۵۷۹ سال ۱۹۳۶ زیادہ جماعت کو بچائے.پس جماعت کے تمام مخلصین کو اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اگلی قربانی کا ان سے مطالبہ کیا جائے.بیشک اپنے دلوں میں فیصلہ انہیں آج سے ہی کر لینا چاہئے مگر عمل اُسی دن ہونا چاہئے جس دن امام کی آواز ان کے کانوں میں پہنچے کیونکہ الُاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ - اسی طرح بہت سے دوستوں نے میرے اس اعلان سے گھبرا کر تیسرے سال کیلئے وعد.کرنے شروع کر دیئے ہیں.میں ان دوستوں کے اخلاص پر بھی جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتے ہوئے ان کو تنبیہ کرتا ہوں کہ ابھی میری طرف سے تیسرے سال کی قربانیوں کا مطالبہ نہیں ہوا.ان کو کیا معلوم کہ میں پہلے سالوں سے اب کی دفعہ کس قدر زیادہ کا مطالبہ کروں گا.یا قربانی کا کس رنگ میں مطالبہ کروں گا.پس ان کو بھی اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب تیسرے سال کی قربانیوں کے متعلق میری طرف سے اعلان ہو.پھر جب اعلان ہو جائے تو اس کے مطابق وہ وعدے کریں.فی الحال دوستوں کو اِس کوشش میں لگ جانا چاہئے کہ جہاں جہاں جماعتوں نے وعدے پورے کرنے میں سستی دکھائی ہے وہاں کی جماعتوں کو سستی کے دور کرنے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائیں.میری پہلی مخاطب جماعت قادیان ہے مگر مجھے معلوم نہیں کہ اس نے اپنے وعدوں کے پورا کرنے میں سستی دکھائی ہے یا چستی ؟ اگر انہوں نے پستی دکھائی ہے تو انہیں مزید پستی کی ضرورت ہے اور اگر انہوں نے سستی کی ہے تو انہیں اپنی سستی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور پچھلے دونوں سالوں کے بقائے بھی ادا کرنے چاہئیں یہاں تک کہ نومبر میں جب تیسرے سال کی قربانیوں کے متعلق اعلان کیا جائے تو ان کی طرف کوئی بقایا نہ ہوا اور وہ اپنے وعدوں کو پورا کر چکے ہوں.پھر ساتھ ہی میں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے دوسرے حصوں کو بھی یادرکھنا چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جوں جوں اس تحریک پر جماعت کے لوگ عمل کرتے جارہے ہیں کمزور اور منافق طبقہ گھبرا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ اعتراض کرتا جارہا ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا حالانکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں وہی تو منافق ہوتا ہے.جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس نے کیا کیا.جو شخص اپنا
خطبات محمود ۵۸۰ سال ۱۹۳۶ سب کچھ قربان کر دیتا ہے اُس کا حق ہے کہ وہ کہے باقی لوگوں نے کیا کیا اور وہ کیا کرتے ہیں بشرطیکہ وہ اعتراض جائز ہو کیونکہ بعض حالات میں بعض کیلئے قربانی کا زیادہ موقع ہوتا ہے اور بعض کیلئے کم.اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کے حصول کیلئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں وہ اعتراض کم کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش زیادہ کرتے ہیں.حدیثوں میں اس کی ایک مثال بھی آتی ہے.حضرت ابو بکر نے ہمیشہ قربانی میں دوسروں سے بڑھے ہوئے رہتے مگر ان کو کبھی دوسروں کی قربانی دیکھ کر یہ خیال نہ آتا کہ وہ کم ہے لیکن کم قربانی کرنے والوں کو ضرور خیال آجا تا کہ ان کی قربانی زیادہ ہے.ایک دفعہ رسول کریم نے قربانی کا مطالبہ کیا.حضرت عمر د اللہ نے کہا حضرت ابو بکر قربانی میں ہمیشہ بڑھ جاتے ہیں اب کی دفعہ میں انہیں شکست دوں گا.اُس وقت تک حضرت ابو بکر نے کی جو مالی قربانی تھی وہ نصف کے قریب نہیں پہنچی تھی اور جب وہ گھر سے مال لاتے نصف سے کم ہوتا.حضرت عمر دینہ نے کہا میں اب کے اپنا نصف مال لے جاؤں گا اور ان کو شکست دوں گا مگر جب وہ اپنے گھر کا نصف مال لئے چلے آرہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر ے پہلے ہی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے ہوئے ہیں اور رسول کریم ﷺہے اس مال کو جو چندہ کے طور پر ابو بکر لائے تھے دیکھ کر حیرت کے ساتھ اُن سے پوچھ رہے تھے کہ ابو بکر ! کیا تم نے اپنے گھر میں بھی کچھ چھوڑا ؟ اور حضرت ابوبکر جواب میں عرض کر رہے تھے کہ اب اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی گھر میں باقی ہے اور تو کچھ نہیں ہے.حضرت عمر ﷺ نے جب یہ واقعہ دیکھا تو وہ کہنے لگے اس شخص کو شکست دینا ہمارے بس کی بات نہیں.اس واقعہ سے حضرت ابو بکر ی کے دو کمال ظاہر ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ قربانی میں سب سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے یہ کہ باوجود اپنا سارا مال لانے کے پھر سب سے پہلے پہنچ گئے اور جنہوں نے تھوڑا دیا تھا وہ اس فکر میں ہی رہے کہ کتنا گھر میں رکھیں اور کتنا لائیں.مگر باوجود اس کے حضرت ابو بکر کے متعلق یہ کہیں نہیں آتا کہ اُنہوں نے دوسروں پر اعتراض کیا ہو.حضرت ابو بکر قربانی کر کے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا میں دیندار ہوں اور میں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے توفیق دی لیکن منافق خود تو کوئی قربانی نہیں کرتا البتہ دوسروں کی قربانیوں پر اعتراض کرتا چلا جاتا ہے.وہ گالیاں دیتا ہے اور
خطبات محمود ΟΛΙ سال ۱۹۳۶ جب اُسے کہا جائے کہ گالی مت دو تو وہ کہتا ہے فلاں گالی نہیں دیتا ؟ وہ چغلی کرتا ہے اور جب اُسے کہا جاتا ہے کہ چغلی مت کرو تو وہ کہتا ہے کہ کیا فلاں چغلی نہیں کرتا اور با وجود اس شدید عیب کے وہ سمجھتا ہے کہ وہ مصلح ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دیندار ہے.اسی طرح وہ چندے میں سستی کرتا ہے اور جب اُسے کہا جائے کہ ستی مت کرو تو وہ کہتا ہے کہ کیا فلاں شخص چندہ دینے میں سستی نہیں کرتا ؟ اور اکثر اوقات جب وہ کہتا ہے کہ فلاں شخص چندہ دینے میں سستی نہیں کرتا وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اور محض اپنے آپ کو بچانے کیلئے دوسروں کو عیب میں ملوث کرتا ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے میرے متعلق ایک اعتراض چھپوایا ( وہ منافق کی مثال نہیں بلکہ دشمنوں میں سے ایک شخص کی مثال ہے اور گومنافقوں کی مثالیں بھی میں دے سکتا ہوں مگر شاید اس طرح ان کا نام ظاہر ہو جائے جو ابھی میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا ) کہ انہوں نے خلافت سے بہت سا روپیہ کمایا ہے چنانچہ ان کو صرف جلسہ سالانہ پر پچاس ہزار روپیہ نذر کا آتا ہے.ایک دوست نے جب مجھے یہ اعتراض سنایا تو میں نے انہیں کہا اُسے کہہ دیں کہ وہ آکر ٹھیکہ لے لے اور جتنا روپیہ نذر کا اکٹھا ہو اُس میں سے کو حصے آپ رکھ لیا کرے اور ایک حصہ مجھے دے دیا کرے.گو اس ایک حصہ میں سے بھی بہت سا روپیہ جماعت کے کاموں پر ہی خرچ کی کردوں گا مگر پھر بھی مجھے اس ٹھیکہ میں نفع رہے گا.پس اُسے کہو کہ وہ اس شرط پر ٹھیکہ لے لے کہ وہ پانچ ہزار تو مجھے دے دیا کرے اور جس قدر نذرانہ آئے وہ خود کھ لیا کرے.میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اکثر حصہ دینی ضروریات پر خرچ کر کے پھر بھی مجھے نفع ہی رہے گا.غرض منافق اور دشمن ہمیشہ اپنے پاس سے باتیں بیان کرنی شروع کر دیتے ہیں اور کئی دوست انہیں سن کر گھبرا جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں کی نسبت وہ یہ کہتا تھا اور فلاں کی نسبت یہ.بھلا جو خدا سے اخلاص نہیں رکھتا وہ اپنے بھائی سے کیا اخلاص رکھ سکتا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بخاری لے دیں.فرمانے لگے میں نے اُسے کہا کہ مجھے اس وقت توفیق نہیں.وہ کہنے لگا یہ بھی کوئی بات ہے کہ آپ کو توفیق نہ ہو آپ صاف طور پر یہی کہ دیں کہ میں لے کر نہیں دینا چاہتا.فرمانے لگے کیوں؟ وہ کہنے لگا سیدھی بات ہے حضرت مرزا صاحب کے دو تین لاکھ مرید ہیں اگر و 09.
خطبات محمود ۵۸۲ سال ۱۹۳۶ مرزا صاحب کو ایک ایک روپیہ نذرانہ دیتے ہوں تو دو لاکھ روپیہ کا نذرانہ انہیں آجاتا ہوگا اور اگر وہ چار چار آنے بھی آپ کو نذرانہ دیں تو پچاس ہزار روپیہ نذر کا تو آپ کو ہر سال مل جاتا ہوگا.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل فرماتے کہ میں نے اُسے کہا کہ پہلے تم یہ بتاؤ کہ آج تک تم نے مجھے کتنی چونیاں دی ہیں؟ جس قدر تمہاری طرف سے مجھے چونیاں پہنچی ہیں وہ گنا دو اور پھر اس پر دوسروں کا قیاس کرلو اس پر وہ خاموش ہو کر چلا گیا.تو منافق آدمی ہمیشہ دوسروں کے متعلق بے بنیاد باتیں کرتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں یوں ہے اور فلاں یوں.پس ان کی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ ان کی پروا کر نی چاہئے کیونکہ کوئی معقول وجہ ایسی نہیں ہوتی جس کی بناء پر سمجھا جا سکے کہ واقعہ میں ہمارا فلاں بھائی ایسا ہے.وہ صرف اپنا پہلو بچانے کیلئے اعتراض کرتا ہے اور اس کی غرض محض اپنے آپ سے اعتراض کو دور کرنا ہوتا ہے اور یہی علامت منافق کی ہے ورنہ کیا یہ جواب دینے سے کہ چونکہ فلاں شخص نجاست پر منہ مارتا ہے اس لئے میں بھی ایسا کرتا ہوں کوئی شخص بری الذمہ سمجھا جاسکتا ہے!! مثل مشہور ہے کہ کسی شخص نے دوسرے سے برتن ما نگا مگر دیر تک واپس نہ کیا.ایک دن یہ اُس کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ اُس برتن میں ساگ کھا رہا ہے.یہ کہنے لگا چوہدری ! یہ بات تو اچھی نہیں کہ تم نے میرا برتن لیا مگر اُسے واپس نہ کیا اور اب اس میں ساگ کھا رہے ہو میرا نام بھی تم بدل دینا اگر میں تمہارے برتن میں جا کر پاخانہ نہ کھاؤں.ان منافقوں کا جواب اگر واقعات کے لحاظ سے درست ہو تب بھی اس کی حیثیت اس جواب سے زیادہ نہیں ہے.بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے کہ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں تو فلاں بھی جھوٹ بولتا ہے، میں اگر فریب کرتا ہوں تو فلاں بھی فریب کرتا ہے، میں اگر غداری کرتا ہوں تو فلاں بھی غداری کرتا ہے، میں اگر بدکاری کی کرتا ہوں تو فلاں بھی بدکاری کرتا ہے، گویا چونکہ دوسرا شخص بھی جھوٹ بولتا ، فریب کرتا ، غداری کرتا اور بدکاری کا مرتکب ہوتا ہے اس لئے جھوٹ جھوٹ نہ رہا، فریب فریب نہ رہا ، غداری غداری نہ رہی اور بدکاری بدکاری نہ رہی.غرض یہ یقینی بات ہے کہ جوں جوں جماعت قربانی میں ترقی کرے گی منافق چونکہ ساتھ نہیں چل سکے گا اس لئے وہ شور مچانے لگ جائے گا کہ یہ بھی ناجائز ہے اور وہ بھی ناجائز مگر جماعت کو ادھر ادھر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ سیدھا اپنی منزل مقصود کی طرف پڑھتے چلے جانا چاہئے.
خطبات محمود ۵۸۳ سال ۱۹۳۶ ۱۹۱۳ء میں میں نے رویا دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جن کی ایک چوٹی سے دوسری چوٹی کی طرف میں جانا تج چاہتا ہوں.وہ پہاڑ ایسے ہی ہیں جیسے صفا اور مر وہ.لیکن صفا اور مروہ کے درمیان جو جگہ تھی وہ تو اب پاٹ گئی ہے مگر خواب میں جو دو پہاڑ میں نے دیکھے ان کے درمیان جگہ خالی تھی.جب میں ایک چوٹی سے دوسری چوٹی کی طرف جانے لگا تو مجھے ایک فرشتہ ملا اور کہنے لگا جب تم دوسری چوٹی کی طرف جانے لگو گے تو راستہ میں تمہیں بہت سے شیطان اور جنات ڈرائیں گے اور تمہاری توجہ اپنی طرف پھرانا چاہیں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ ہر رنگ میں تمہیں ڈرائیں تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیں تم ان کی طرف نہ دیکھنا اور یہی کہتے جانا کہ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ، خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ “.اس کے بعد میں جب چلا تو راستے میں میں نے دیکھا کہ ایک وسیع جنگل ہے جس میں سے عجیب عجیب شکلیں نکل نکل کر مجھے ڈرانا چاہتی ہیں، کہیں ہاتھی نکلتے ہیں اور وہ مجھے ڈراتے ہیں، کہیں چیتے نکلتے ہیں اور مجھے ڈراتے ہیں کہیں خالی سر آ جاتے ہیں اور مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کہیں بغیر سروں کے دھڑ آ جاتے ہیں.غرض عجیب عجیب رنگوں اور عجیب عجیب شکلوں میں وہ مجھے ڈراتے اور میری توجہ اپنی طرف پھرانا چاہتے ہیں مگر جب میں کہتا ہوں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تو وہ سب شکلیں غائب ہو جاتی ہیں.غرض اسی طرح میں چلتا گیا یہاں تک کہ منزل مقصود پر پہنچ گیا.تو در حقیقت اس قسم کے لوگوں کی باتوں کو سُن کر اس فکر میں پڑ جانا کہ فلاں نے فلاں پر یہ اعتراض کیا ہے فضول بات ہے.مؤمن کا کام یہ ہے کہ جب وہ اس قسم کی کوئی بات سنے تو ذمہ دار لوگوں تک اُسے پہنچا دے مگر یہ کہ منافق جن لوگوں پر الزام لگائے اُن الزامات کی تحقیق کی جائے یہ بیوقوفی کی بات ہے.اگر واقعہ میں انہیں کوئی اعتراض ہے اور وہ منافق نہیں تو کیوں وہ اس طریق کو اختیار نہیں کرتے جو شریعت نے مقرر کیا ہے.گھروں میں بیٹھ کر باتیں کرنے اور دوسروں پر اعتراض کرنے کا مطلب ہی کیا ہے.پس ہر دوست کو اس طرف سے بالکل آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر لینا چاہئے کہ میں ہی ہوں جس نے یہ کام کرنا ہے.خواہ میرے بیوی بچے ، عزیز دوست اور رشتہ دار سب مجھے چھوڑ دیں مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں میں خود اس کام کو کروں گا اور جب دوست اس قسم کا پختہ ارادہ کر لیں گے تو خود بخود کام میں سہولتیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.اب تک جو کام ہوا ہے کیا وہ ہماری
خطبات محمود ۵۸۴ سال ۱۹۳۶ تدبیروں کا نتیجہ ہے؟ میں تو جب اُس زمانہ کی جماعت پر نگاہ دوڑاتا ہوں جب خلافت کا کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا اور آج کی جماعت کو دیکھتا ہوں تو میں خود جس کے ہاتھ میں یہ سب کام ہوا اپنے ذہن میں اسے ایک خواب سمجھتا ہوں.آج ہماری طاقت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی طاقت سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے، آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم سینکڑوں گنے زیادہ وسیع علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ بیسیوں تو میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی نہیں جانتی تھیں آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ان میں ہماری جماعتیں قائم ہیں.پس میں تو اس ترقی پر جب نگاہ ڈالتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک خواب ہے اور میری اس حالت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے وہ رات دیکھی ہے جس سے پہلے دن حضرت خلیفتہ امیج اول کی وفات ہوئی.اس رات مولوی محمد علی صاحب نے ایک ٹریکٹ تمام جماعت میں تقسیم کیا جس میں لکھا تھا آئندہ کسی خلیفہ کی کوئی ضرورت نہیں.صرف ایک پریذیڈنٹ ہونا چاہئے اور وہ بھی چالیس سال سے اوپر کی عمر کا ہو اور پھر غیر احمدیوں کو کافر نہ کہتا ہو.ادھر ہمیں یہ نظر آتا تھا کہ جماعت کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے،سارے عہدے ان کے قبضے میں ہیں اور خزانہ بھی انہی کے ماتحت ہے اور اس پر بھی انہی کا قبضہ ہے.وہ رات جنہوں نے قادیان میں گزاری ہے وہ جانتے ہیں کہ جماعت کیسی خطرناک حالت میں سے گزری ہے.اس وقت کی حالت بالکل ایسی ہی تھی جیسے پانی پر ایک بلبلہ ہو اور اچانک ایک تیز آندھی اُسے مٹانے کیلئے آجائے.ایک تیز آندھی کے مقابلہ میں بلبلے کی کیا حیثیت ہوا کرتی ہے ہر شخص اس کا اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے.بلبلہ تیز آندھی کے مقابلہ میں ایک بالکل بے حقیقت سے ہوتا ہے مگر کوئی کیا جانتا ہے کہ یہی بلبلہ ایک دن گنبد خضراء بننے والا ہے اور آسمان کی طرح دنیا پر چھا جانے والا ہے.بلبلہ بلبلہ ہی تھا اور طوفان طوفان ہی تھا مگر اس بلبلہ کے اندر جو ہوا بھری ہوئی تھی وہ معمولی ہوا نہ تھی بلکہ خدا کی روح تھی وہ بڑھی ، وہ ترقی پائی ، وہ مضبوط ہوئی یہاں تک کہ ایسی چھت بن گئی جس کے نیچے ساری قوموں نے آرام پایا.پس کون ہے جو مؤمن کو ڈرا سکے کون ہے جو اُسے خائف کر سکے کہ مؤمن کی طاقت اس کے نفس سے نہیں آتی بلکہ اس کے خدا کی طرف سے آتی ہے.ایک تلوار جو خالی پڑی ہوئی ہو وہ ایک بچہ کو بھی زخمی نہیں کر سکتی لیکن ایک معمولی سی چھڑی مضبوط انسان کے ہاتھ میں جا کر دوسرے انسان کا سر بھی تو ڑسکتی ہے.پس
خطبات محمود ۵۸۵ سال ۱۹۳۶ دنیا کے سامانوں سے مت ڈرو اور اس کی تکلیفوں کا مت خیال کرو تم میں سے ہر فرد واحد کا معاملہ براہ راست خدا تعالیٰ سے ہے پس اپنے دل میں عہد کرو کہ اس آخری زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کی اصلاح کریں گے اور بیوی بچوں، ہمسایوں، دوستوں ، رشتہ داروں اور ملنے والوں کی کوئی پروانہ کریں گے اور جس جس قربانی کیلئے بلایا جائے گا اس کیلئے آمادہ ہوں گے.جب تم ایسا کرو گے تو تمہارا معاملہ خدا سے صاف ہو گیا.لَا يَضُرُّكُمُ مَنْ ضَلَّ إِذَا هُتَدَيْتُم هے جب تم ہدایت پاگئے تو دوسرے کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ؟ سکتی.خدا تعالیٰ کے سامنے تم دنیا کے ذمہ دار نہیں بلکہ صرف اپنی جان کے ذمہ دار ہو.جب تم اپنی جان خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر دو گے اور کہہ دو گے کہ اے خدا! ہم نے تیرے لئے اور تیرے دین کی اشاعت کیلئے اپنی جان بھی قربان کر دی آگے لوگوں کی اصلاح ہوئی یا نہیں ہوئی یہ تیرا کام تھا ہمارا نہیں تو تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے اور تم پر کوئی الزام نہیں ہوگا.مگر یا درکھو اگر انسان خدا تعالیٰ کیلئے اپنی جان دینے کیلئے تیار ہو جائے تو ناممکن ہے کہ دنیا کی اصلاح نہ ہو.زمین ٹل سکتی ہے ، آسمان ٹل سکتے ہیں، پہاڑ غائب ہو سکتے ہیں ، دریا خشک ہو سکتے ہیں ،سمندر بھاپ بن کر اڑ سکتے ہیں، تمام عالم تہہ و بالا کیا جاسکتا ہے مگر مؤمن کی قربانی کو خدا کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا.اس کے دل سے بہا ہوا ایک قطرہ خون سارے زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے.چاہے تم اس دنیا میں کامیابی دیکھو چاہے اگلے جہان میں آسمان پر سے جھانک کر دیکھو بہر حال تمہاری قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی.دنیا کی اصلاح ہو کر رہے گی اور حضرت مسیح موعود ال مشن دنیا میں قائم ہو کر رہے گا اور تم خدا کی گود میں ہنستے ہوئے کہو گے کہ ہمارا تھوڑا سا خون دنیا میں کتنے عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے کا موجب ہوا.آج اسلام تباہی کی حالت میں گرا ہوا ہے مگر صدیوں تک اسلام نے دنیا میں نہایت نیک اور مہتم بالشان تغیر پیدا کئے ہیں.وہ دو دو چار چار روپے کی حیثیت کے صحابہ جن کے جسم پر کپڑے بھی کافی نہیں ہوتے تھے اور جن کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تھی وہ کسی اعلیٰ مقام کو پہنچے ؟ جس وقت اگلے جہان میں خدا اُن کی روحانی بینائی کو تیز کرتا ہوگا اور گزشتہ صدیوں میں جب وہ آسمان پر سے جھانک کر دیکھتے ہوں گے کہ کس طرح دنیا میں یورپ سے لے کر چین کے کناروں تک مسلمان خدا کا نام پھیلانے میں مصروف ہیں تو اُن
خطبات محمود ۵۸۶ سال ۱۹۳۶ کے دل کس قدر خوشیوں سے بھر جاتے ہوں گے اور وہ کس کس رنگ میں مزے نہ لیتے ہوں گے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی قربانیاں دنیا میں کتنا عظیم الشان تغیر پیدا کر گئیں اور ہمارا بو یا ہوا چھوٹا سا بیج کیسا عظیم الشان درخت بن گیا یہی حال آئندہ ہونے والا ہے.ہمارے زمانہ میں یہ باتیں آئیں یا نہ آئیں مگر یہ آکر رہیں گی اور اگر اس دنیا میں ہم نے اِن امور کو پورا ہوتے نہ دیکھا تو ہم آسمان پر سے دنیا کو جھانکیں گے اور دنیا کے تغیرات کو دیکھ کر کہیں گے کہ خدا نے سب کچھ ہمارے ہاتھوں سے کرایا.اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کوقرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ سے جو وعدے کئے ہیں ان وعدوں میں سے بعض تیری زندگی میں پورے کر دیں گے اور بعض تیری وفات کے بعد پورے کریں گے 21.یہی حال مؤمن کا ہوتا ہے وہ کچھ امور کو پورا ہوتے اپنی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے اور کچھ امور کے پورا ہونے کو آسمان پر سے جھانک کر دیکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے دیکھنے سے آسمان پر سے دیکھنا کچھ کم حیثیت نہیں رکھتا بلکہ دنیا میں انسان جب ان امور کو دیکھتا ہے تو اُس کے ساتھ بہت سے خطرات بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ آئندہ کے حال سے بھی ناواقف ہوتا ہے لیکن آسمان پر بیٹھی ہوئی روح مستقبل سے بھی واقف کی جاتی ہے اور وہ جانتی ہے اُس وسعت کو جو اُس کا لگایا ہوا درخت دنیا میں حاصل کر رہا ہوتا ہے.پس اپنی ذات کا معاملہ خدا سے درست کر لو دنیا کا معاملہ خدا تعالیٰ خود درست کر دے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے مؤمن کی قربانی کبھی ضائع نہیں ہوتی ، ضائع نہیں ہوسکتی اور ضائع نہیں کی جاتی.ل المائدة: ۲۵ ( الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۳۶ء ) بخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل مِنْ وَّرَاءِ الْإِمَامِ وَ يُتَّقَى بِهِ بخاری کتاب الاذان باب إِثْم مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابى بكر الصديق ه المائدة: ١٠٦ وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس: ۴۷)
خطبات محمود ۵۸۷ (۳۴ سال ۱۹۳۶ مؤمن کو امرالہی کے حصول کیلئے ہر وقت اور ہر قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے (فرموده ۱۸ ستمبر ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - گو پچھلے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کی وجہ سے میری طبیعت زیادہ خراب ہوگئی لیکن آج بھی میں نے یہی فیصلہ کیا کہ خطبہ خود ہی پڑھوں خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو.میں نے پچھلے خطبہ میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ الہی جماعتیں قربانی کے ساتھ ترقی کیا کرتی ہیں اور تعداد اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.چنانچہ قرآن کریم میں بھی ہمیں توجہ دلائی گئی ہے کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِاِذْنِ اللهِ ل یعنی بہت سی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں.پس معلوم ہوا کہ تعدا دا پنی ذات میں کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز امر اللہ ہے.جسے اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے وہ جیت جاتی ہے اور جس کے خلاف اللہ تعالیٰ کا امر نازل ہو جائے وہ ہار جاتی ہے.پس ہمیں اتنی کوشش اپنی فتح اور کامیابی کی غرض سے جماعت کو بڑھانے کی نہیں کرنی چاہئے جتنی کوشش کہ فتح اور کامیابی کے واسطے امر الہی کے حاصل کرنے کیلئے کرنی چاہئے.میں نے اس فقرہ میں ایک شرط لگائی ہے جو معمولی نہیں بلکہ نہایت ضروری ہے.میں نے کہا ہے کہ فتح و کامیابی کی غرض سے ہمیں
خطبات محمود ۵۸۸ سال ۱۹۳۶ اپنی تعداد بڑھانے کی اتنی کوشش نہیں کرنی چاہئے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں اپنی تعداد بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ یہ ہے کہ تعداد بڑھاتے وقت ہماری غرض یہ نہیں ہونی چاہئے کہ ہمیں فتح و کامیابی حاصل ہو بلکہ جماعت بڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہئے کہ اس طرح صداقت پھیلتی ہے اور خدا تعالیٰ کا نام قائم ہوتا ہے.دنیا میں لوگ جتھے اس لئے بناتے ہیں کہ مضبوط ہو جائیں اور اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں کہ تا غالب آجائیں مگر اسلام تبلیغ کا حکم ہمیں اس لئے نہیں دیتا کہ ہم زیادہ ہو جائیں کیونکہ وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا تو کل خدا پر ہو کسی بندہ پر نہ ہو.پس مؤمن اور غیر مؤمن دونوں تبلیغ کرتے ہیں مگر جبکہ غیر مؤمن اپنی تعداد بڑھانے کیلئے تبلیغ کرتا ہے مؤمن صرف اپنے گمراہ بھائی کو ہدایت دینے کیلئے تبلیغ کرتا ہے اور اس لئے تبلیغ نہیں کرتا کہ کوئی شخص اس کے ساتھ شامل ہو کر اس کی طاقت بڑھائے پس وہ رحم کرتا ہے.اسلامی و غیر اسلامی تبلیغ میں یہی فرق ہے.اسلام کی تبلیغ جذبہ رحم کے ماتحت دوسرے کو تباہی سے بچانے کیلئے ہوتی ہے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کیلئے مؤمن کی نگاہ بندوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہوتی ہے لیکن جب ایک غیر مسلم یا غیر مؤمن ( ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مسلم ہومگر مؤمن نہ ہو) تبلیغ کرتا ہے تو وہ اپنی جان پر رحم کرتا ہے.وہ خیال کرتا ہے میں کمزور ہوں دوسرے کو اپنے ساتھ شامل کر کے اس کے ذریعہ اپنی جان بچاؤں مگر اس کے برعکس مؤمن اور مسلم دوسرے پر رحم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر فضل کر کے مجھے نجات دی ہے اس لئے مجھے چاہئے کہ دوسرے کو بھی گڑھے سے بچاؤں.مؤمن کی تبلیغ جتھہ بندی کیلئے نہیں بلکہ ہدایت کیلئے ہوتی ہے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ فتح و کامیابی کیلئے تعداد بڑھانے کی کوشش نہ کرو تو میرا یہ مطلب نہیں کہ تعداد بڑھانے کی کوشش ہی نہ کرو بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس غرض کو مد نظر رکھ کر نہ کرو.تعداد بڑھانے کی کوشش ضرور کرو مگر اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا نام روشن ہو ، بھولے بھٹکے بندے راہ راست پر آجائیں.غلبہ اور فتح و کامیابی کی بنیاد اس امر پر ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو اور جب اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے تو بڑے لوگ کیا کر سکتے ہیں.پرانے زمانہ میں تلواروں کا رواج تھا اور لوگ اچھی اچھی تلوار میں جمع کرتے تھے اور جن کے پاس زیادہ اچھی تلواریں ہوتی تھیں لوگ ان سے ڈرتے تھے.پھر تیر نکلے تو جن کے پاس اچھے تیر کمانیں ہوں وہ جیت جاتے
خطبات محمود ۵۸۹ سال ۱۹۳۶ تھے.پھر ڈھالیں نکلیں تو جن کے پاس صرف تیرکمان تھے وہ کمزور ہو گئے.جب سکندر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اسے زیادہ تر اسی وجہ سے فتح حاصل ہوگئی کہ اس کے پاس اعلیٰ قسم کی ڈھالیں تھیں.وہ صرف چند ہزار آدمیوں کے ساتھ آیا تھا اس کی فوج کی تعداد بعض حملوں میں چار سے بارہ ہزار تک بیان کی جاتی ہے مگر اُس نے اسی سے ایران اور ہندوستان کی بڑی بڑی تعداد رکھنے والی فوجوں کا مقابلہ کیا اور اُن کو شکست دی.ڈھالوں کے بعد منجنیقیں نکلیں اور ان کے ذریعہ دور دور پتھر پھینکے جانے لگے.اس کے بعد بارود نکلا، پھر رائفلیں اور تو ہیں ایجاد ہوئیں اور اب گیس پھینکنے والے ہم اور ہوائی جہاز ایجاد ہوئے ہیں اور ایک ایک ہوائی جہاز سینکڑوں گاؤں تباہ کر سکتا ہے.ایسے ایسے زہریلے بم ایجاد ہوئے ہیں کہ ایک بم سے بارہ میل کے رقبہ کو تباہ کیا جا سکتا ہے.یہ بم ہوائی جہازوں سے پھینکے جاتے ہیں اور نیچے کے لوگ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.تو اب دنیا میں تعداد کوئی چیز نہیں بلکہ طاقت کے دوسرے ذرائع ہیں.پھر کیا ایک مؤمن کیلئے یہ شرم کی بات نہیں کہ دوسرے لوگ جو غیر مؤمن ہیں وہ تو تعداد کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے بلکہ طاقت کیلئے تعداد کے مقابلہ میں ہوائی جہازوں ، بموں اور توپوں پر انحصار رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خواہ دشمن کتنی زیادہ تعداد میں کیوں نہ ہو ہم اسے زیر کریں گے اور ایک مؤمن سمجھے کہ خدا تعالیٰ کی طاقت ہوائی جہاز جتنی بھی نہیں ، توپ اور بم جتنی بھی نہیں.ایک اکیلا انسان ایک جہاز سے بم پھینک کر بارہ میل علاقہ کا جس کی آبادی اوسط آبادی کے لحاظ سے تین ہزار بنتی ہے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے لیکن ایک مؤمن کا اتنا ایمان بھی نہ ہو کہ اس کے خدا کی ہوائی جہاز کے برابر بھی طاقت ہے.پس جو بچے مؤمن ہیں وہ جیتنے کیلئے تعداد کا کبھی خیال بھی نہیں کرتے وہ اگر غلطی کر رہے ہیں تو یہ کہ تھوری تعداد کے ساتھ بھوں پر حملہ کر دیا.ایسی مثالیں اسلامی تاریخ میں کثرت سے ملتی ہیں کہ پچاس ساٹھ یا سو آدمیوں نے ساری فوج پر حملہ کر دیا مگر ایسی کوئی مثال نہیں کہ دشمن کی زیادہ اون فوج پر مسلمانوں نے حملہ مزید کمک کے آنے پر ملتوی کر دیا.پچاس اور ساٹھ مسلمانوں نے پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ ہزار کفار پر حملہ کر دیا اور مارے گئے مگر ڈر کر پیچھے نہیں ہے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور قرآن شریف میں بھی ہمیں یہی بتاتا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِاِذْنِ اللهِ کہ بہت ہی تھوڑی جماعتیں تم سے پہلے گزری ہیں جو اللہ تعالیٰ کے
خطبات محمود ۵۹۰ سال ۱۹۳۶ امر کے حاصل ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں.پس ہمیں اس لئے اپنی تعداد بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم جیت جائیں گے بلکہ ہم اس بات کے خواہشمند ہیں کہ لوگ تباہی اور بربادی سے بچ جائیں.فتح حاصل کرنے کیلئے ہمیں صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کریں جو سچی قربانی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ دائم رہنے والی اور اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ سے ہستی ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور وہ اُسی کو اپنے قریب لاتا ہے جو اس بات پر یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ زندہ کرنے والا ہے.زید کے متعلق اگر یہ یقین کامل ہو کہ وہ اچھا تیراک ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی کو ڈوبنے دے تو اس کے موجود ہوتے ہوئے کوئی شخص خطر ناک سمندر میں کود پڑنے سے بھی نہیں ڈرے گا.اسی طرح جس کو خدا تعالیٰ پر یہ یقین ہو کہ وہ الحی ہے اور زندہ کرنے والا ہے وہ ہر موت قبول کرنے کیلئے تیار ہوگا.پس جب تک کوئی اللہ تعالیٰ کی صفت الحَيُّ الْقَيُّومُ پر یقین نہیں رکھتا جس کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر موت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں رہتا اُس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اُس کے ایمان کو قبول نہیں کرتا.جس شخص کو یقین ہو کہ اُس نے اتنی مشق کرنی ہے کہ سنکھیا اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا وہ تو لہ بھر سنکھیا بھی کھا جائے گا لیکن جسے یہ یقین نہ ہو وہ کبھی ایسی جرات نہیں کر سکتا.پھر بعض لوگوں کو آگ پر چلنے کی ترکیب آتی ہے وہ اس سے نہیں ڈرتے لیکن کوئی دوسرا آگ کے نزدیک بھی نہیں جاسکتا اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کو اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ جانتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا.ہندوؤں میں ایک لطیفہ مشہور ہے مگر ہم اس سے ایک سبق ضرور حاصل کر سکتے ہیں.کہتے ہیں کوئی راجہ تھا جس کے ہاں اولا د نہیں ہوتی تھی اُس نے علاج وغیرہ بہت کرائے مگر بے سود.ہندوؤں میں تین خدا سمجھے جاتے ہیں برہما، ویشنو اور شیو.برہما پیدائش کا خدا سمجھا جاتا ہے ، ویشنو رزق کا اور شیو موت کا خدا.اس راجہ نے برہما کی نذر مانی کہ اگر میرے ہاں بیٹا ہو تو میں تیری عبادت کیا کروں گا.ہندو برہما کی عبادت نہیں کرتے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اس نے تو صرف پیدا ہی کرنا تھا سو کر دیا اس سے اب کسی نفع نقصان کی کیا امید ہے.اب تو روزی دینے والے اور مارنے والے خدا کی عبادت ضروری ہے.گویا عبادت میں بھی وہ تجارتی اصول کو مدنظر رکھتے ہیں احسان کے ماتحت خدا کی عبادت نہیں کرتے.تو اس راجہ نے برہما کی عبادت کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے
خطبات محمود ۵۹۱ سال ۱۹۳۶ ہاں لڑکا پیدا ہو گیا.جب وہ لڑکا جوان ہوا تو باپ نے کہا کہ اب تک تو میں برہما کی عبادت کرتا رہا ہوں مگر موت چونکہ شیو جی کے ہاتھ ہے اس لئے ہمیں اب اس کی عبادت کرنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے مار دے مگر بیٹا اس بات کا سخت مخالف تھا اور اسے احسان فراموشی قرار دیتا تھا.یہ اختلاف آپس میں اس قدر بڑھا کہ باپ نے غصہ میں آکر شیو جی سے درخواست کی کہ اس کے بیٹے کو ماردے چنانچہ بیٹا مر گیا.برہما کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے کہا کہ اچھا یہ ہماری عبادت کی وجہ سے مارا گیا ہے اُس نے پھر اُسے پیدا کر دیا.شیو جی نے پھر ماردیا اور برہمانے پھر پیدا کر دیا اور دونوں میں یہ لڑائی شروع ہوگئی.تو یہ یوں تو لطیفہ ہے مگر حقیقت سے خالی نہیں.دراصل شیو انسان خود ہوتا ہے اور برہما خدا ہوتا ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے آپ کو مارتا ہے تو خدا تعالیٰ اُسے پھر پیدا کر دیتا ہے.دیکھو صحابہ نے کتنی دفعہ اپنے آپ کو مارا اور کتنی دفعہ خدا تعالیٰ نے اُن کو زندہ کیا.جب صحابہ بدر کے میدان میں لڑنے گئے تو کیا انہوں نے موت قبول نہ کی تھی ؟ پھر کیا جنگ احد موت نہ تھی ؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق کہتے تھے یہ تو صریح موت ہے اگر ہمیں علم ہوتا کہ لڑائی ہے تو ہم ضرور شامل ہوتے.پھر کیا احزاب کی جنگ موت نہ تھی ؟ منافق جیسے بُزدل اور موقع پر مسلمانوں کو طعنے دیتے پھرتے تھے کہ پاخانہ پھرنے کیلئے تو جگہ ملتی نہیں اور دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں.پھر کیا غزوہ تبوک موت نہ تھی ؟ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عرب میں بغاوت ہو گئی تھی کیا اُس وقت صحابہؓ نے اپنے لئے موت قبول نہ کی تھی ؟ پھر جب حضرت ابو بکر نے قیصر سے مقابلہ شروع کیا تو کیا موت نہ تھی ؟ عرب کی کل آبادی اتنی بھی ان نہیں جتنی فلسطین کی مگر مسلمانوں نے مقابلہ ایسے بادشاہ سے شروع کیا جس کے ماتحت فلسطین تھا، شام تھا ، بلغاریہ، مقدونیہ، مصر، طرابلس، آرمینیا ، اسوریہ کے علاقے بھی تھے گویا اتنی بڑی حکومت سے ٹکر لگائی.اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایران سے بھی جنگ شروع کر دی اور اُس وقت ایرانی حکومت کے ماتحت افغانستان ، ہندوستان ، چین ، چینی ترکستان اور ایشیائی روس کے علاقے تھے گویا آدھی دنیا پر اسیران کی حکومت تھی اور آدھی دنیا پر روم کی اور مسلمان بہ یک وقت ان دونوں حکومتوں سے لڑ رہے تھے پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ موت نہ تھی.پس غور کرو کہ صحابہ نے کتنی دفعہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالا گویا وہ شہد کی مکھیاں
خطبات محمود ۵۹۲ سال ۱۹۳۶ تھیں اور موت ان کیلئے شہد تھا.لوگ موت سے بھاگتے پھرتے ہیں مگر صحابہ موت کے اوپر خود گرتے تھے اور خدا اُن کو پھر زندہ کر دیتا تھا.پس مؤمن کو امرالہی کے حصول کیلئے ہر وقت اور ہر قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے مگر قومی قربانی نظام کے ماتحت ہونی چاہئے.اگر چہ انفرادی قربانی انسان ہر وقت پیش کر سکتا ہے.پس میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اس کا تو کل انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہونا چاہئے اور ترقی کی بنیا دا سے امر الہی پر رکھنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ جب اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے جو قر بانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے تو پھر ترقی کے رستہ میں کمی تعدا د روک نہیں بن سکتی اس لئے میں نے تحریک جدید میں ہر قسم کی قربانیاں رکھی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگ کھانے پینے اور لباس کے معاملہ میں اس کی پوری پابندی نہیں کرتے.زیورات بنوانے کے معاملہ میں بعض عورتیں اس پر عمل کرنے میں کوتا ہی کرتی ہیں.یہی وجہ ہے جماعت ابھی تک ان قربانیوں کو پیش نہیں کر سکی جن کی ضرورت ہے کیونکہ جب انسان کے پاس ہے ہی کچھ نہیں تو وہ قربانی کیا کرے گا.اگر تمہارے جسم کے اندر روح موجود ہے تو تم جان کی قربانی پیش کر سکتے ہو مگر جب روح ہی نہیں تو جان کی قربانی کے کیا معنی؟ اسی طرح جو شخص اقتصاد کی مدد سے کچھ رقم پس انداز نہیں کرتا وہ مالی قربانی کس طرح کر سکے گا اور جو شخص جلد جلد کام کرنے کا عادی نہیں وہ وقت کی قربانی کس طرح کر سکتا ہے.وقت کی قربانی وہی کر سکتا ہے جو جلد کام کرنے کا عادی ہو، جان کی قربانی وہی کر سکتا ہے جس کے پاس جان ہو اور مالی قربانی وہی کر سکتا ہے جس نے محنت سے کام کیا ہو اور پھر اقتصاد سے کچھ بچایا بھی ہو.پس جب تک تحریک جدید کے سارے حصوں پر عمل نہیں ہوتا اور ہر ایک مطالبہ کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اُس وقت تک ہم ترقی کے میدان میں نہیں اُتر سکتے.یاد رکھو کہ منہ کی قربانی کسی کام کی نہیں.قربانی وہی ہے جو حقیقی معنوں میں ہو.منہ کی قربانی کی تو وہی مثال ہے کہ سو گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں اور اِس سے اسلام کو یا دین کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.( الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۳۶ء) ل البقرة: ۲۵۰ البقرة: ۲۵۶
خطبات محمود Ce (۳۵) ۵۹۳ سال ۱۹۳۶ جذبات کے اظہار کا صحیح طریق تحریک جدید کے مطالبات کے مطابق قربانی کرنا ہے (فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - آج میں بعض ضروری امور کے متعلق خطبہ کہنا چاہتا ہوں بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آواز میرا ساتھ دے.سب سے پہلے تو میں اس واقعہ کو لیتا ہوں جس کے متعلق دوستوں کی طرف سے کثرت کے ساتھ خطوط آ رہے ہیں.یعنی ۱۷ تاریخ کا واقعہ جبکہ ناصر احمد کو چھوڑ کر میں سٹیشن پر سے واپس آرہا تھا اس وقت موٹر پر کسی شخص نے کوئی چیز چھینکی.اس واقعہ کے متعلق قدرتی طور پر دوستوں میں جوش پیدا ہوا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک متواتر خطوط ہندوستان کے تمام اطراف سے آرہے ہیں اور بعض جگہ سے تار بھی آئی ہے اور کئی دوستوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر بھی یہاں قادیان آنے کیلئے تیار ہیں.پھر کئی دوستوں نے گورنمنٹ پر اظہار ناراضگی کیا ہے اور کئی نے قادیان کے دوستوں پر اظہار ناراضگی کیا ہے کہ آخر جب ایک گلی کے مخدوش ہونے کا انہیں علم ہے تو وہ کیوں اس جگہ پہرہ کا انتظام نہیں کرتے.اسی طرح کسی نے احرار کے خلاف جذبات کا اظہار کیا ہے اور کسی نے مقامی حکام کو مطعون کیا ہے.یہ چٹھیاں صرف احمدیوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ کئی غیر احمدیوں کی طرف سے ہیں اور کئی ہندوؤں کی طرف سے
خطبات محمود ۵۹۴ سال ۱۹۳۶ بھی.پس ایک تو دوستوں کی تشویش کو دور کرنے کیلئے اور دوسرے اظہارِ حقیقت کیلئے میں چاہتا ہوں کہ اس امر کے متعلق بعض باتیں بیان کروں.جس قد ر واقعہ اُس دن ہوا ہے وہ اسی قدر ہے کہ جبکہ ہم سٹیشن پر سے واپس آرہے تھے تو اُس گلی میں جو شیخ یعقوب علی صاحب کی گلی کہلاتی ہے ان کے گھر کے قریب جب موٹر گزر رہا تھا تو اُس کی چھت پر قریباً اُسی جگہ جہاں میں بیٹھا تھا مگر ذرا بائیں طرف بائیں کندھے کے اوپر کے قریب کوئی چیز زور سے گری.اُس کے اندر اچھی زور کی طاقت تھی کیونکہ موٹر کی چھت پر کپڑا ہوتا ہے اور اُس کے اور لکڑی کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے مگر وہ چیز اس زور سے گری کہ کپڑے سمیت چھت سے آلگی اور چھت کا نپی اور یوں معلوم ہوا کہ اس میں سے کچھ ذرے بھی گرے ہیں حالانکہ اس کے نیچے بھی کپڑا ہوتا ہے.اس کے گرنے پر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ موٹر ٹھہرائے تا دیکھا جائے کہ کیا بات ہے مگر چونکہ موٹر کی رفتار تیز ہوتی ہے اور موٹر چلانے والا ارادہ کے باوجود اُسے یکدم نہیں روک سکتا اس لئے اُسے موٹر کے روکنے میں کچھ دیر گی.تب میں نے دوبارہ اُسے کہا کہ موٹر کو جلدی کھڑا کرو چنانچہ اُس نے موٹر کو کھڑا کیا مگر وہ انداز دس پندرہ گز کے فاصلہ پر جا کر کھڑی ہوئی اور جس جگہ وہ ٹھہری وہاں میاں فیروز الدین صاحب پٹواری کا مکان ہے.وہ باہر رہتے ہیں مگر ان کا گھر یہیں ہے لیکن وقوعہ اس مکان سے دس یا پندرہ یا بیس گز پرے کا ہونا چاہئے یا اس سے کم و بیش فاصلہ.کیونکہ چلتی ہوئی موٹر کے فاصلہ کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن بہر حال یہ فاصلہ پانچ دس گز سے پندرہ میں گز تک ہوسکتا ہے.موٹر کے ٹھہر جانے پر میں نے اُس کے پائیدان پر کھڑے ہو کر چھت کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو چیز رگری تھی اُس کا اُس حصہ چھت پر کوئی نشان نہ تھا جس کے متعلق مجھے خیال تھا کہ اس پر کوئی چیز پھینکی گئی ہے.البتہ اس کے اگلے حصہ پر جو بالکل قریب کے زمانہ میں مرمت کرایا گیا تھا تین چار یا پانچ میں صحیح نہیں کہہ سکتا مگر متعدد جگہ سے کپڑا پھٹا ہوا تھا مگر ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ عزیزم ناصر احمد دو تین ہفتہ پہلے جب اپنی پھوپھی سے ملنے کیلئے ڈلہوزی گئے تھے تو وہاں سے واپسی پر پہاڑ سے کچھ پتھر گرے تھے یہ کپڑا اُن پتھروں سے پھٹا تھا اور یہ نشان انہی پتھروں کے ہیں.پس یہ نشانات پھینکی ہوئی چیز کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے تھے.بعد میں میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ دیکھ لیں کہ آیا یہ
خطبات محمود ۵۹۵ سال ۱۹۳۶ سارے نشانات ہی پُرانے ہیں یا ان میں سے کوئی نیا نشان بھی ہے.انہوں نے خود تو مجھے اپنی تحقیق کی اطلاع نہیں دی لیکن میں نے سنا ہے دیکھنے پر وہ سب نشانات پرانے ہی معلوم ہوئے ہیں.بہر حال وہ نشان اس وقت کے خیال کے مطابق زیر بحث نہیں آسکتے.اس امر کا اندازہ کہ جو چیز پھینکی گئی تھی وہ کس زور سے گری تھی اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب میں نے موٹر کے روکنے کیلئے کہا کہ دیکھیں کیا چیز موٹر پر پھینکی گئی ہے تو اُس وقت ہمراہیوں میں سے ایک نے کہا کہ ٹائر برسٹ ہوا ہے.جن لوگوں نے ٹائر برسٹ ہوتے سنا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کی اچھی بلند آواز ہوتی ہے.خیر موٹر کے کھڑا ہونے پر بعض دوست اُتر کر اس گھر کے اندر گھس گئے جس کے آگے کا ر ٹھہری تھی اور اُس کی چھت پر چڑھ کر حملہ آور کو دیکھنے لگے حالانکہ چھت پر چڑھتے چڑھتے حملہ آور دور تک نکل جا سکتا ہے.پہلے مجھے شبہ ہوا کہ ان دوستوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اسی گھر سے چیز پڑی ہے اور اس پر میں نے دوسرے دوستوں سے کہا کہ یہ ان کی غلطی ہے موٹر تو آگے آچکی ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس کی چھت پر چڑھ کر یہ دیکھنے گئے تھے کہ شاید اس چیز کا پھینکے والا نظر آجائے.اس کے بعد چاروں طرف تلاش کی گئی مگر چیز چھینکنے والے کا کوئی پتہ نہ لگا.یہ چیز ایک تو بائیں طرف کی گلی سے پھینکی جاسکتی تھی یا اس سے پہلے ایک کھولہ ہے وہاں سے پھینکی جا سکتی تھی اور ایک مکان ہے جو مقفل ہے اس مقفل مکان سے بھی چیز پھینکی جاسکتی تھی بشر طیکہ یہ سازش ہو کیونکہ جولوگ جرائم کی حقیقت سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ مجرموں کو گھروں میں داخل کر کے باہر سے تالا لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح جُرم کا سراغ لگنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ تحقیق کرنے والے جب وہاں سے گزرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس جگہ سے تو یہ جرم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں قفل لگا ہوا ہے.پھر جب وہ پتہ لگانے سے مایوس ہو جاتے ہیں تو گھنٹہ دو گھنٹہ کے بعد لوگ آتے اور تالا کھول کر مجرم کو نکال لے جاتے ہیں.تو اگر یہ فعل کسی سازش کا نتیجہ تھا تو ممکن ہے اس فعل کا ارتکاب اس مقفل گھر سے ہی ہوا ہو لیکن مقفل گھر کوکھولنا قانون کے خلاف ہے اور پولیس ہی ایسا کر سکتی تھی جو وہاں موجود نہ تھی.تلاش کے وقت بھی میں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے اس گھر سے چیز پھینکی گئی ہو.بہر حال جب لوگ تلاش کر چکے اور انہیں کوئی آدمی نظر نہ آیا تو کسی ہمارے دوست نے کہا کہ تلاش تو کرو وہ چیز جور گری ہے کیا اور کہاں ہے؟ اُس وقت تک سہ
خطبات محمود ۵۹۶ سال ۱۹۳۶ لوگ اسے یقینی طور پر پتھر سمجھ رہے تھے اور مجھے بھی اُس وقت تک یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اگر پتھر ہوتا تو نشان چھت پر لگ جاتا اس لئے غالباً یہ کوئی اور شے ہے ( گو بعض صورتوں میں نشان نہیں بھی ہو سکتا لیکن سو میں سے نناوے دفعہ پتھر کا نشان ہونا چاہئے ).اس لئے میں نے بھی اُس دوست کی تائید کی اور کہا کہ اس چیز کو تلاش کرو لیکن چونکہ مغرب کا وقت ہو چکا تھا اس لئے ایک آدھ منٹ کے بعد ہی میں نے کہہ دیا کہ اب چلو.ہاں ایک بات رہ گئی جو یہ ہے کہ میرے پیچھے جو سائیکلسٹ آرہے تھے اُن سے جب میں نے دریافت کیا کہ تم کو معلوم ہے کہ وہ چیز کس طرف سے آئی تھی تو انہوں نے دائیں طرف سے اس کا آنا بتایا ( یعنی شمال سے آتے ہوئے جو دائیں طرف ہے یعنی مغرب کی سمت ).ہم جو موٹر میں تھے دھماکے سے ہمارا بھی یہی اندازہ تھا کہ وہ چیز شمال مغربی سمت سے آکر گری ہے.اس کی تصدیق سائیکلسٹوں نے بھی کی جنہوں نے یہ بیان کیا کہ انہوں نے خود اُدھر سے ایک چیز آتی ہوئی دیکھی ہے جسے وہ ایک ہاتھ کے برابر پتھر سمجھتے تھے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ چونکہ مغرب کا وقت ہو گیا تھا میں دوستوں کو ساتھ لے کر موٹر میں سوار ہو گیا اور مزید تحقیق ترک کر دی گئی.میری غرض وہاں ٹھہرنے کی صرف اتنی تھی کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے تو ہمیں علم ہو جائے کہ وہ کون شخص ہے اور دوسرے میں اسے نصیحت بھی کروں کہ ایسی فضول باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.اس قسم کے واقعات درحقیقت انبیاء کی جماعتوں سے ہونے لازمی ہیں اور ہوتے رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں ایک دفعہ ایک گلی میں سے جارہے تھے شیخ رحمت اللہ صاحب ، مرزا ایوب بیگ صاحب اور غالباً مفتی محمد صادق صاحب بھی ساتھ تھے کہ کسی نے زور سے پیچھے سے آپ پر دو ہتر مارا اور آپ گر گئے.جو دوست ساتھ تھے وہ اس شخص کو مارنے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نہیں نہیں یہ معذور ہے اس نے اپنے خیال میں تو نیکی کا کام ہی کیا ہے اسے کچھ نہ کہو جانے دو.تو یقیناً اگر وہ شخص مجھے مل جاتا تو میں ایسا ہی نمونہ دکھاتا.میں نے سنا ہے کہ بعض دوستوں نے کہا کہ اگر وہ مل جاتا تو کیا ہم اسے زندہ چھوڑتے ؟ مگر میں جانتا ہوں کہ میری موجودگی میں انہیں چھوڑ نا ہی پڑتا.میری غرض صرف اتنی تھی کہ کسی کے پتہ لگ جانے سے ایک تو معاملہ کی اصل حقیقت واضح ہو جاتی دوسرے اس کیلئے شرمندگی اور ندامت
خطبات محمود ۵۹۷ سال ۱۹۳۶ بھی ہوتی کیونکہ جب ایک شخص اپنی کسی حرکت سے اشتعال دلائے مگر دوسرا اشتعال میں نہ آئے بلکہ نرمی کا معاملہ اُس سے کرے تو یہ اس کیلئے شرمندگی کا موجب ہوتا ہے.چونکہ اس چیز کا نشان نہیں پڑا اس لئے بعد میں میں نے اس پر غور کیا اور پولیس کے بعض افسروں سے بھی میری گفتگو ہوئی جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ غالبا چمڑے کی کوئی چیز تھی جیسے جوتی وغیرہ یا صاف شدہ لکڑی تھی.اس قسم کی چیز سے آواز بھی زور سے پیدا ہوتی ہے، دھما کہ بھی ہوتا ہے لیکن نشان کا پڑنا ضروری نہیں ہوتا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس حرکت کے مرتکب کی غرض یہ تھی کہ جماعت میں اشتعال پیدا ہو جائے.ایسا یقین کرنے کی یہ وجہ بھی ہے کہ مجھے کئی مہینوں سے رپورٹیں آرہی کی تھیں بلکہ بعض لوگوں کے نام بھی میرے پاس پہنچ چکے تھے کہ فلاں فلاں شخص اس قسم کی کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں اور بعض کے متعلق میرے پاس ایسی رپورٹیں بھی پہنچیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم قادیان سے جائیں گے مگر جانے سے پہلے کوئی تماشہ کر کے جائیں گے.غرض دو تین مہینہ سے اس قسم کی رپورٹیں میرے پاس آ رہی تھیں.پس میری رائے میں وہ کوئی سنجیدگی سے جان کو نقصان پہنچانے کیلئے حملہ نہ تھا بلکہ محض شورش پیدا کرنے کیلئے ایک حرکت تھی تا جماعت میں اشتعال پیدا ہو جائے اور احمدی غیر احمدیوں پر حملہ کر دیں مگر یہ ان کی بیوقوفی تھی کہ انہوں نے اشتعال کیلئے میری ذات کو چنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری موجودگی میں جماعت کو اشتعال نہیں آسکتا.ہاں میری عدم موجودگی میں اشتعال کا امکان ہو سکتا ہے لیکن میری موجودگی میں اشتعال کا امکان ہرگز نہیں - إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ - إِلَّا مَا شَاءَ اللہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض جگہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہی اشتعال کا ہوتا ہے اس لئے وہاں اشتعال آنا کوئی عیب کی بات نہیں ہوتی لیکن ان استثنائی صورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باقی صورتوں میں جماعت کو اشتعال میری موجودگی میں نہیں آسکتا.اُسی دن کا جس دن یہ وقوعہ ہوا یہ بھی واقعہ ہے جس کی مجھے رپورٹ پہنچی کہ وہی حنیفا جس نے میاں شریف احمد صاحب پر لاٹھی کا وار کیا تھا اس سے ایک گھنٹہ یاڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایک شخص نے معانقہ کیا اور میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نہایت اعلیٰ کام کیا سب مسلمان آپ کو غازی سمجھتے ہیں.اس واقعہ کو اگر موٹر کے وقوعہ سے ملا ہے جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ اسی حرکت کیلئے دوسروں کو تیار کرنے کی کوشش کر رہے
خطبات محمود ۵۹۸ سال ۱۹۳۶ تھے کیونکہ جب ایسے کاموں کی تعریف کی جائے اور کہا جائے کہ آپ تو اس کام کی وجہ سے غازی کی بن گئے ہیں تو کئی نو جوانوں کو خیال آجاتا ہے کہ ہم بھی غازی بننے کی کوشش کریں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پہلا غازی تو چھپتا پھرتا تھا اور پھر پولیس اس کی نگرانی کرتی رہی اور اب بھی اس وقوعہ کے بعد کو پولیس اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے کیونکہ پولیس کو اگر حفاظت کی ضرورت نظر آتی تو صرف اسی غازی کی.اس سے گورنمنٹ کو کچھ ایسی محبت ہے کہ وہ عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے اور یہاں کی پولیس کا تو اس سے لیلی مجنوں والا تعلق ہے جب بھی کوئی واقعہ ہو دوڑ کر وہ اُس کے گر د جمع ہو جاتی ہے کہ ہمارے اس محبوب کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے.حالانکہ عقلمند احمدی کی تو جوتی بھی اُس پر پڑنے سے شرمائے گی ایسے ذلیل آدمی کا مقابلہ کر کے کسی نے کیا لینا ہے.آخر یہ بھی تو انسان کو دیکھنا پڑتا ہے کہ میرے مقابلہ میں ہے کون؟ گزشتہ سالوں میں جب مباہلہ والوں نے مجھ پر الزام لگائے تو کئی دوست گھبرا کر مجھے کہتے آپ ان سے مباہلہ کیوں نہیں کر لیتے تا دشمنوں کا منہ بند ہو جائے تو میں انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ میں مباہلہ کس سے کروں کیا یہ الزام لگانے والا شخص دینی یا اخلاقی لحاظ سے کوئی بھی حیثیت رکھتا ہے؟ پھر بعض دوست جب الزامات کی اشاعت کو دیکھ کر زیادہ متاثر ہوتے تو میں انہیں سمجھانے کیلئے کہتا کہ اگر کوئی شخص کسی چوڑھی یا کنچی کو آٹھ آنے دے کر بازار میں کھڑا کر دے اور وہ آپ پر الزام لگا دے اور کہے کہ اگر یہ الزام غلط ہے تو مجھ سے مسجد میں مباہلہ کر لو تو کیا اس چوڑھی یا کنچنی کے مقابلہ میں آپ مباہلہ کیلئے تیار ہو جائیں گے؟ اس پر بات اُن کی سمجھ میں آجاتی اور کہتے ہیں کہ ہاں یہ تو ٹھیک ہے.تو مقابلہ کیلئے بھی انسان اپنے مد مقابل کی حالت کو دیکھتا ہے میں تو نہیں سمجھتا ہماری جماعت کا کوئی عقلمند اس شخص سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو خصوصاً اس حالت میں کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے آدمی خود کام نہیں کرتے بلکہ کچھ اور کرانے والے ان سے کام کراتے ہیں.پس اگر کوئی احمدی قانون کو توڑنے پر آئے گا تو وہ اس پر حملہ کر کے کیوں قانون توڑے گا وہ اس پر توڑے گا جس نے انگیخت کی اور اُسے اُکسایا.اول تو ہماری تعلیم کے مطابق وہ صبر کرے گا لیکن اگر کوئی دیوانگی کا شکار ہو جائے تو جیسے غالب نے کہا ہے
خطبات محمود ۵۹۹ سال ۱۹۳۶ وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو اگر قانون شکنی ہی کرنی ہے اور مار پیٹ کا ہی کسی کو خیال پیدا ہونا ہے تو پھر وہ ایسا ہی آدمی تلاش کرے گا جو مغوی اور مفسد اور متفنی ہو یہ بیچارے پانچ پانچ اور دو دو روپے لے کر کام کرنے والے حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں ان غریبوں کو تو ہلا شیرا کہہ کر دوسرے لوگ آگے کر دیتے ہیں.پس ان کا مقابلہ کوئی نظمند نہیں کر سکتا اور اگر کوئی احمدی اس قسم کی حرکت کرے تو نہ صرف میں اسے قانون شکن کہوں گا ، نہ صرف اُسے اپنا عاصی اور نافرمان کہوں گا بلکہ بیوقوف اور احمق بھی کہوں گا.جو شخص گوہ پر اینٹ مارے گا میں اسے بیوقوف نہ کہوں گا تو اور کیا کہوں گا.نجاست پر اینٹ مارنے والے پر تو نجاست ہی پڑے گی.پس پولیس افسران کے یہ وسو سے تو صرف ان کی روشنی مطبع کی علامت ہیں اور کچھ نہیں.مقامی پولیس کی حالت تو یہ ہے کہ اسے متواتر خبریں ملیں کہ اس گلی میں فساد کے اندیشے ہیں مگر اس کے پاس پہرے کیلئے کافی پولیس نہ تھی لیکن حنیفا کی جان کی حفاظت کیلئے اس کے پاس ہمیشہ کافی پولیس ہوتی ہے.صوبہ کے ایک بہت بڑے افسر نے مجھ سے خود کہا کہ وہ پولیس حنیفا کی حفاظت کیلئے نہیں ہوتی بلکہ اس لئے ہوتی ہے تا وہ پھر کسی احمدی پر حملہ نہ کر دے.میں نے کہا آپ کی پولیس معلوم ہوتا ہے بات خوب بنا سکتی ہے مگر ہم اپنی دیکھی ہوئی بات کا کیونکر انکار کریں کہ پولیس کو باوجود علم ہونے کے وہ خطرہ کی جگہ کے متعلق تو کوئی انتظام نہیں کرتی لیکن حنیفا کے آگے پیچھے پھرنے لگتی ہے.غرض ایسے واقعات اس دن اور اس کے قریب رونما ہوئے کہ یہ یقین کرنے کی کافی وجہ ہے کہ وہ وقوعہ ہتک کے طور پر جماعت کو اشتعال دلانے کیلئے کیا گیا گو وہ ایسا نہ تھا جس سے جان کا خطرہ ہو یا جو جان پر حملہ کہا جا سکتا ہو.پس جن دوستوں نے اس وقوعہ کا ذکر ”پتھر پڑا“ سے ” پتھر میں پڑیں“ کے الفاظ میں کیا میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ مؤمن مبالغہ سے کام نہیں لیتا بلکہ وہ سچائی کا دلدادہ ہوتا ہے.پتھروں کا کوئی سوال نہیں جو چیز پھینکی گئی وہ ایک تھی پس جو کہتا ہے کہ پتھر پھینکے گئے وہ مبالغہ سے کام لیتا ہے اور اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے.میرا غالب گمان یہ ہے کہ وہ پتھر نہیں تھا کیونکہ موٹر پر کوئی نشان
خطبات محمود ۶۰۰ سال ۱۹۳۶ نہیں اور پتھر کی صورت میں سو میں سے نانوے امکانات یہی ہیں کہ نشان ہوتا.ہاں سُوکھی مٹی کا ڈلا ہوسکتا ہے یہ بغیر نشان لگنے کے دھما کہ بھی دے سکتا ہے اور آواز بھی اس سے پیدا ہو سکتی ہے اس کا مجھے پہلے خیال نہیں آیا اب خطبہ کے وقت خیال آیا ہے پس اگر اس کو بھی شامل کر لیا جائے تو میرے نزدیک چمڑے کی کوئی چیز یا لکڑی کی زندہ کی ہوئی چیز یا سوکھی مٹی کا ڈلا تھا ایسی چیز میں جب پھینکی جائیں تو آواز بھی دے سکتی ہیں اور بہت ممکن ہوتا ہے کہ ان کا نشان بھی نہ رہے.سُوکھی مٹی کے ڈلے میں تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی تلاش بھی نہ ہو سکے کیونکہ مٹی کا ڈلا لگ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس چیز کی تلاش حقیقی طور پر ہوئی نہیں ایک آدھ منٹ سے زیادہ تلاش نہیں کی گئی.میں جلد ہی موٹر میں بیٹھ گیا اور دوستوں کو بلالیا نیز جو دوست ساتھ تھے وہ گلی کے قریب کے مقامات اور اُس کے ننگے حصہ کو ہی دیکھتے رہے دُور دُور انہوں نے نہیں دیکھا اور جو چھتی ہوئی نالیاں تھیں ان کو بھی انہوں نے نہیں دیکھا اور اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر پوری طرح ہم تلاش کرتے تو وہ چیز نہ ملتی.اس موقع پر جماعت نے جو رویہ اختیار کیا ہے میں اسے پسند کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے گورنمنٹ سے کوئی اپیل نہیں کی.میرے نزدیک گورنمنٹ کا اور ہمارا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب اس کے بعد پنجاب کی گورنمنٹ کو توجہ دلا نا فضول بات ہے کیونکہ پنجاب کی گورنمنٹ بیعت کر چکی ہے ضلع گورداسپور کی پولیس کی.وہ اگر سورج کو کہے کہ اندھیرا ہے تو پنجاب گورنمنٹ کہتی ہے اندھیرا ہے اور اگر وہ رات کو کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے تو حکومت پنجاب بھی کہہ دیتی ہے کہ ہاں سورج نکلا ہوا ہے.چونکہ وہ ہماری ہر رپورٹ کے مقابلہ میں پولیس کی رپورٹ کو زیادہ وقعت دیتی ہے اس لئے ایسی صورت میں اس کے پاس شکایت کرنا بے فائدہ امر ہے.یہاں کی پولیس والے جو باتیں کرتے رہتے ہیں وہ بھی مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے وہ بھی ہیں جو اس کی خیال سے متفق ہیں جس کا میں نے اظہار کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ کسی شریر نے جماعت کو اشتعال دلانے کیلئے یہ فعل کیا ہے.بعض یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بچے سے کوئی چیز گرگئی ہوگی حالانکہ جو دھما کہ تھا اُس کو وہی جان سکتے ہیں جو وہاں موجود تھے.پنجابی میں مثل ہے گھروں میں آواں تے سنیے توں دیویں
خطبات محمود ۶۰۱ سال ۱۹۳۶ اگر پولیس کے سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی کمشنر یا کمشنر یا گورنر کی موٹر پر ایسا ہی دھما کہ ہو اور وہ کہیں کہ یہ اتفاقی امر ہے کسی بچہ سے کوئی چیز گر پڑی ہوگی تو میں ان کی بات کو ماننے کیلئے تیار ہوں لیکن وہاں وہ یہ نہیں کہتے بلکہ وہاں ان کا رویہ بالکل مختلف ہوا کرتا ہے.ان کا قول ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ہم راجہ کے نوکر ہیں بینگن کے نو کر نہیں.بعض پولیس کے آدمیوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ساری بات ہی بنائی ہوئی ہے واقعہ کوئی ہوا ہی نہیں.اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق بولتا ہے جو شخص جھوٹ کا عادی ہو اور جس کا اوڑھنا اور بچھونا جھوٹ ہو وہ کسی بات کو سوائے جھوٹ کے اور کیا سمجھ سکتا ہے.اس قسم کے افسر سوائے اس کے کہ پبلک کو حکومت سے بدظن کریں اور اس کے خلاف منافرت کے جذبات پھیلائیں کسی صورت میں گورنمنٹ کی خدمت نہیں کر سکتے.غرض دونوں طرف خیالات کی روکو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے.ایک ہمارے دوست تو اس واقعہ کو سن کر ایسے متاثر ہوئے کہ کہنے لگے ایسی بات تو نہیں کہ کوئی پٹاخہ وغیرہ کی پھینکا گیا ہو میں نے انہیں بتایا کہ پٹانے کی آواز اور اس آواز میں بہت فرق ہوتا ہے.مجھے یہ ڈر پیدا ہوا کہ آہستہ آہستہ بعض دوست محبت کے جوش میں کہیں اس چیز کو ہم ہی نہ سمجھے لگیں.اس موقع پر بعض جلسے قادیان میں ہوئے ہیں اور بعض دوستوں نے تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ ہم یوں کریں گے اور ڈوں کر دیں گے اس پر بعض دوستوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا کہنے کا کیا فائدہ کہ ہم یوں کر دیں گے ؤوں کر دیں گے.جب کرنے کا وقت آئے اُس وقت جو کچھ کرنا ہو کر دکھا ئیں بے فائدہ دعوؤں سے کیا فائدہ اور میں اس بات میں ان سے بالکل متفق ہوں.میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ بیہودہ دعوے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.جماعت کا اظہار ا خلاص ایک طبعی بات ہے اور وہ جس محبت کا نتیجہ ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا وہ ایک قابل قدر چیز اور ایمان کو بڑھانے والی بات ہے لیکن ایسی باتیں کرنا جن کے متعلق انسان کے ذہن میں کچھ بھی نہ ہو کہ کیا کر دیں گے ایک بے فائدہ چیز ہے.پس جس حد تک کہ دوستوں نے اپنے اخلاص کا اظہار کیا یا ریزولیوشن کے ذریعہ اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کیا ہے وہ بالکل جائز اور درست بلکہ موجب ثواب تھا لیکن اس سے زائد اگر کسی نے دھمکیاں دی ہوں تو ان سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ دھمکیاں بھاپ کی طرح انسان کے جوش کو نکال دیتی ہیں.
خطبات محمود ۶۰۲ سال ۱۹۳۶ میرے نزدیک صحیح طریق جذبات کے اظہار کا یہ ہے کہ دوستوں کو قربانی کی تحریک کی جائے ایسی باتوں سے کیا فائدہ کہ ہم دکھا دیں گے ، ہم بتا دیں گے، ہم دنیا کو ہلا دیں گے یہ ایک بے فائدہ اور لغو بات ہے.میرا خیال ہے کہ ایسے مقرر سے اگر اُسی وقت کوئی پوچھ بیٹھے کہ آپ کیا دکھا دیں گے؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ ابھی سوچا نہیں ہم آئندہ سوچیں گے اور جب سوچ کر بھی کوئی فیصلہ کرنا ہے تو پہلے ہی سے دعوے کرنے سے کیا فائدہ؟ میرے نزدیک اس زمانہ میں صحیح طریق جذبات کے اظہار کا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر جماعت کے دوستوں کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی جائے دشمنوں کے سارے حملوں کا علاج تحریک جدید میں موجود ہے.پس انہیں بتایا جائے کہ جس قد ر کرنے والی باتیں ہیں وہ تمہارے امام نے تمہیں بتادی ہیں کیا تم نے ان باتوں پر عمل کر لیا ؟ اگر کیا ہے تو اور کرو.اگر نہیں کیا تو ان پر جلدی عمل کرو کہ انہیں باتوں میں ان تمام رفتن کا علاج ہے.پس تحریک جدید کے مختلف پہلو جو قربانیوں کے ہیں انہیں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں توجہ دلائی جائے کہ جنہوں نے ابھی تک اس تحریک پر عمل نہیں کیا وہ عمل کریں.یہ ایک صحیح ذریعہ قربانی پیش کرنے کا ہو گا مگر اس قربانی کا دعویٰ کرنا جس قربانی کا مطالبہ ہی نہ ہو یا جس قربانی کی نوعیت پر خود بھی غور نہ کیا ہو انسان کو نکما بنادیتا ہے اور اُس کے دل پر زنگ لگا دیتا ہے.ایک شخص جو جانتا ہی نہیں کہ کیا کریں گے وہ اگر کہتا ہے کہ ہم مر جائیں گے ، ہم مٹ جائیں گے، ہم مٹادیں گے، ہم ہلا دیں گے، ہم دکھا دیں گے، ہم بتا دیں گے تو وہ بیہودہ اور لغو دعوے کرتا ہے اور نہ خود جانتا ہے کہ کس طرح پہلا دیں گے اور نہ وہ جانتے ہیں جو اُس کی تقریرین رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح پلا دیں گے، صرف اپنے ہی دل میں وہ دونوں پل رہے ہوتے ہیں.تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ تمہارے سامنے جو پروگرام رکھا گیا ہے اور جو تمہارے امام نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے اُس پر عمل کرو اور لوگوں کو بتاؤ کہ یہ حملے اس لئے ہورہے ہیں کہ تم سکیم کے فلاں فلاں حصے پر عمل نہیں کرتے.پھر اُس حصہ کے متعلق دلائل دو، اُس کی تفصیلات کو بیان کرو.اُس کے نتائج اس کی خوبیاں اور اُس کے اثرات واضح کرو اور لوگوں کو توجہ دلاؤ کہ جب وہ قربانیوں کیلئے تیار ہیں تو کیوں تحریک جدید کے ماتحت قربانیاں نہیں کرتے.یہ وہ قربانی کی تحریک ہے جو جائز اور مفید ہے.پس ایک مفصل سکیم تمہارے سامنے موجود ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ خالی
خطبات محمود ۶۰۳ سال ۱۹۳۶ جذبات کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.پس یہاں کا جلسہ ریزولیوشن اور اظہار اخلاص کی حد تک جائز ، مفید اور موجب ثواب تھا لیکن اس سے زائد اگر کوئی خالی دعوے کئے گئے ہیں تو وہ بے فائدہ تھے.قربانی کیلئے تمہارے سامنے ایک سکیم موجود ہے اُس پر عمل کرو اور لوگوں کو بھی توجہ دلاؤ کہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں بنا ئیں اس کا دینی فائدہ بھی ہوگا، دنیوی فائدہ بھی ہوگا اور پھر ثواب الگ رہا جو تحریک کرنے والوں کو ملے گا.دوسری بات جس کا ذکر میں آج کرنا چاہتا ہوں وہ قادیان میں احرار کے جلسہ کرنے کی کوشش کے متعلق ہے.ہمیشہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد قادیان میں احرار جلسہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہماری جماعت میں بھی جوش پیدا ہو جاتا ہے.ایسے موقع پر جوش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر بھی ہے کیونکہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ لوگ یہاں آئیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہو کہ وہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں دیں.گورنمنٹ کے بعض افسر کہا کرتے تھے کہ ہم کسی کو قادیان آنے سے کیونکر روک سکتے ہیں اور میرا جواب ہمیشہ یہ ہوا کرتا ہے کہ قادیان آنے سے کون روکتا ہے یا کون کہتا ہے کہ کسی کو قادیان آنے کی سے روکیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قادیان آ کر گورنمنٹ انہیں شرارت کرنے سے روکے.کیا کوئی گورنمنٹ کا افسر یہ جرات رکھتا ہے کہ وہ یہ کہہ سکے کہ ہم کیونکر کسی کو قادیان میں آکر شرارت کرنے سے روک سکتے ہیں؟ حکومت کا کوئی بڑا یا چھوٹا افسر یہ فقرہ دُہرانے کی جرات نہیں کر سکتا کہ ہم کسی کو قادیان آ کر شرارت کرنے سے کیونکر روک سکتے ہیں بلکہ میں کہتا ہوں یہ بھی نہیں میں اس حد سے بھی نیچے اُترتا ہوں اور کہتا ہوں کہ لوگوں کو قادیان آ کر ہمارے دل دُکھانے سے روکیں.حکومت کا کوئی افسر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہم کیونکر لوگوں کو قادیان میں آکر آپ کا دل دُکھانے سے روک سکتے ہیں.اس لئے کہ اس کے اپنے اعمال موجود ہیں جن میں اس سے بہت کم دل دُکھانے والے افعال کو اس نے روکا.مسلمان گائے ذبح کرتے ہیں چیز ان کی اپنی ہوتی ہے، روپیہ انہوں نے خرچ کیا ہوتا ہے، زمین ان کی اپنی ہوتی ہے لیکن گورنمنٹ آگو دتی ہے اور کہتی ہے کہ ہندو کا دل رکھتا ہے.ہم پوچھتے ہیں کیا ہندو کا دل ہوتا ہے؟ ایک مسلمان اور پھر احمدی کا دل نہیں ہوتا ؟ تم گائے کے ذبح کرنے پر تو پابندی عائد کر دیتے ہو کہ فلاں جگہ کرنی چاہئے اور فلاں جگہ نہیں ہم یہ
خطبات محمود ۶۰۴ سال ۱۹۳۶ پابندی عائد کر سکتے ہو کہ جس گاؤں میں ہندو زیادہ ہوں اُس میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی اجازت نہیں ، تم یہ تو پابندی عائد کر سکتے ہو کہ جس گاؤں کے ہندو مالک ہوں اُس گاؤں میں مسلمان گائے ذبح نہیں کر سکتے ، تم یہ تو پابندی عائد کر سکتے ہو کہ جن گاؤں کو ہندوؤں نے آباد کیا ہو ان میں مسلمان گائے ذبح نہیں کر سکتے ، ہاں جن گاؤں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہو یا مسلمان ان میں کثرت سے رہتے ہوں یا مسلمان اب گاؤں کے مالک ہوں وہاں کے مسلمانوں کو گائے ذبیح کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے.چنانچہ یہ مجھوتہ ہندو اور مسلمان منسٹروں نے مل کر سر میلکم ہیلی یا سرمیکلیکن کے زمانہ میں کیا تھا ( میرا غالب خیال یہ ہے کہ سر میلکم ہیلی کے زمانہ میں ہی یہ تجویز منظور کی گئی تھی ) بہر حال ان دونوں گورنروں میں سے کسی ایک کے زمانہ میں یہ اصول تجویز کیا گیا تھا لیکن جب یہ اصول طے ہو چکا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہی اصول یہاں کیوں نہیں برتتے.قادیان میں احمدیوں کی آبادی زیادہ ہے، قادیان میں احمدیوں کی اکثریت ہے اور قادیان احمدیوں کا مقدس مقام ہے پس ہر گز کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ یہاں آکر احمد یوں کا دل دکھائے خصوصاً گالیاں دے کر اور بد زبانی کر کے.پھر گائے ذبح کرتے ہوئے کسی کو کوئی گالی نہیں دیتا مگر آپ ہی آپ دل دُکھنے لگ جاتے ہیں اور گورنمنٹ کا دل بھی اس دُکھ کے خیال سے دھڑ کنے لگ جاتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کا دل عدل اور انصاف کے جذبات سے پُر ہونا چاہئے اور اسے ہمارے دلوں کے دُکھنے پر بھی دھڑکنا چاہئے.اس کا دل ہندوؤں کا دل دُکھنے پر دھڑکتا ہے، اس کا دل سکھوں کا دل دُکھنے پر دھڑکتا ہے، اس کا دل عیسائیوں کے دل دُکھنے پر دھڑکتا ہے پھر کیوں احمدیوں کیلئے اس کا دل نہ دُکھے.ایک تازہ مثال لکھنو کی ہی لے لو وہاں گورنمنٹ نے حکم دیا ہوا ہے کہ صحابہ کی تعریف بازاروں میں نہ کی جائے اور نہ ان کی مدح میں جلسے کئے جائیں کیونکہ اس سے شیعوں کا دل دکھتا ہے.احراری وہاں مدح صحابہ کے نام پر آجکل ایجی ٹیشن کر رہے ہیں اور حکومت اُن کو گرفتار کر رہی ہے کہ اس فعل سے شیعوں کا دل دُکھتا ہے.اب کیا یہ لطیفہ نہیں کہ حکومت برطانیہ کے ماتحت ایک جگہ تو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے بزرگوں کی تعریف نہ کرو کیونکہ اس سے شیعوں کا دل دُکھتا ہے اور دوسری جگہ اور پھر ایسی جگہ جو ایک جماعت کا مقدس مقام ہے بعض لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ ہے کہ وہ دوسروں کے بزرگوں کو گالیاں دیں کیا اس لئے کہ حکومت کے نزدیک احمدیوں کا دل نہیں دُکھ سکتا ؟ میں نے سنا ہے کہ حکومت نے مولوی عطاء اللہ کو قادیان آنے سے روک دیا ہے اگر یہ درست ہے تو اُس نے اچھا کیا کہ ان کو یہاں آنے سے روک دیا لیکن سوال صرف مولوی عطاء اللہ صاحب کی گالیوں کا نہیں بلکہ صرف بزرگان جماعت احمدیہ کو گالیاں دینے کا ہے.یہاں ہر جمعہ کو جماعت احمدیہ کے بزرگوں کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اگر کبھی کوئی پولیس کا سچا ر پورٹر وہاں جاتا ہوگا تو گورنمنٹ کے پاس اس کی ڈائریاں بھی پہنچتی ہوں گی لیکن گورنمنٹ کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس دل آزار طریق کو بند کرے.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ لکھنو میں مدح صحابہ اس لئے جرم قرار دی جاتی ہے کہ اس سے شیعوں کی دل آزاری ہوتی ہے لیکن احمد یہ جماعت کے مرکز ، اس کے مقدس مقام قادیان میں ست بزرگانِ احمدیت کو بھی جرم نہیں سمجھا جاتا.آخر یہ قانون کس عقل کے ماتحت بن رہے ہیں؟ اگر یہاں احرار کی بد زبانی کو روکنا نا جائز ہے تو لکھنو میں سنیوں کو مدح صحابہؓ سے روکنا اس سے بھی زیادہ ناجائز ہے اور اگر وہاں سینیوں کو مدح صحابہ سے روکنا جائز ہوسکتا ہے تو قادیان میں احمدیوں کے بزرگوں کے خلاف گالیوں کو روکنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہاں صحابہ کی تعریف کا سوال ہے جس سے دل دُکھنا خلاف عقل ہے اور یہاں جماعت احمدیہ کے بزرگوں کی تو ہین کا سوال ہے جس سے دل دُکھنا ایک طبعی امر ہے.پس حکومت کو چاہئے کہ اپنے افعال کے اس تضاد کو دُور کرے.کہا جا سکتا ہے کہ وہ حکم لکھنؤ کا ہے جو یو.پی میں ہے اور قادیان پنجاب میں ہے.بیشک یہ درست ہے لیکن قانون کا اصل تو ایک ہی ہونا چاہئے آخر یو.پی کے افسر بھی تو انگریز ہی ہیں.غرض اگر گورنمنٹ نے مولوی عطاء اللہ صاحب کو روکا ہے تو اس کا یہ فعل مستحسن ہے لیکن یہ فعل اسے کلی طور پر الزام سے بری نہیں کرتا کیونکہ گالی مولوی عطاء اللہ صاحب کے منہ سے نکل کر زیادہ بُری نہیں ہو جاتی اور کسی دوسرے احراری کے منہ سے نکل کر گالی اچھی نہیں ہو جاتی بلکہ گالی بہر حال بُری چیز ہے اور یہ تو ابتدائی اخلاق کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو گالی دینے سے روکا جائے اس معاملہ میں چھوٹے اور بڑے میں فرق نہیں کیا جاسکتا.
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ مثل مشہور ہے کہ کوئی بیوقوف نواب تھا اس نے ایک دفعہ مجلس میں بے حجابانہ بلند آواز میں ہوا خارج کر دی.اُس کے ارد گرد جو خوشامدی بیٹھے تھے کہنے لگے سُبحَانَ اللهِ کیا سنتِ رسول پر عمل کیا ہے.رسول کریم ﷺ کا یہی حکم ہے کہ ہوا خارج ہونے لگے تو اسے نہ روکو.ایک اور بھلا مانس بھی اس مجلس میں بیٹھا تھا اسے یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی کہ رسول کریم ﷺ کا نام اس طرح نامناسب طور پر استعمال کیا گیا ہے اُس نے چاہا کہ اُن کو شرمندہ کرے لیکن چونکہ وہ اسی مجلس میں بیٹھنے والا تھا اُس کے اخلاق بھی زیادہ اچھے نہ تھے اس لئے اس نے بجائے شریفانہ رنگ میں سمجھانے کے دوسرے دن آپ وہی حرکت کر دی.اس پر سب اُسے کہنے لگے کیسا گدھا ہے، کیسا بیوقوف اور احمق ہے، آداب مجلس کا ذرا بھی خیال نہیں.وہ کہنے لگا جناب ! میں نے تو وہی حرکت کی ہے جو کل اس قدر قابل تعریف کبھی گئی تھی.پس اگر گورنمنٹ الگ الگ آدمیوں سے الگ سلوک کرے گی تو لوگوں کی ملامت کا نشانہ بنے گی.آخر لوگوں کے دل میں سوال پیدا ہو کر رہے گا کہ جب قانون کا اصل ایک ہے تو کیا وجہ لکھنؤ والوں کیلئے وہ اور رنگ میں ظاہر ہو اور قادیان والوں کیلئے اور رنگ میں ؟ آخر لوگ سوچیں گے کہ اس کی یہی وجہ تو نہیں کہ لکھنؤ والے امیر ہیں اور قادیان کے لوگ غریب.اگر یہ بھی امیر ہوتے ، اگر ان کی تعداد بھی زیادہ ہوتی اور اس قسم کا واقعہ ہوتا تو گورنمنٹ ان کی یہ باتیں سن کر فوراً کہتی بالکل درست لکھنو میں بھی ہم نے ایسا ہی کیا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن چونکہ امارت اور غربت کا فرق ہے یہ تھوڑے ہیں اور وہ زیادہ پھر یہ قانون کے پابند ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.میں تو بعض دفعہ سوچا کرتا ہوں کہ شاید ہمارا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ ہم قانون کی پابندی کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس وجہ سے حکومت خیال کرتی ہے کہ ان کی تکلیف کی طرف توجہ نہ کی گئی تو امن میں خلل نہ آئے گا لیکن اگر میرا یہ خیال درست ہو تو حکومت کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے کیونکہ ایسے حالات ملک کے امن و امان کو برباد کر دیتے ہیں اور لوگوں کی محبت حکومت سے کم کر دیتے ہیں.میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک جاپانی لیڈر نے ایک دفعہ ایک مضمون لکھا اس میں وہ بیان کرتا ہے ( جس طرح ہندوستان پر یورپین قوموں نے حکومت حاصل کر لی ہے اسی طرح شروع شروع میں انہوں نے جاپان پر بھی حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی.انہوں نے
خطبات محمود ۶۰۷ سال ۱۹۳۶ جاپان میں کارخانے کھول لئے ، تجارتیں شروع کر دیں اور جاپان میں اثر پیدا کرنا شروع کر دیا.ایک دفعہ جاپانی امریکن تاجروں سے لڑ پڑے.امریکہ والوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے جہاز بھیجے جاپانیوں پر گولہ باری کی اور نہایت کڑی شرائط جاپانیوں سے منوائیں.جاپانیوں کو اس سے ایسا ہی دُکھ پہنچا جیسا کہ پچھلے سال ہمیں پہنچا تھا انہوں نے فیصلہ کر لیا اب ہم اپنی عزت قائم کر کے رہیں گے.وہ خوش قسمت قوم تھی اُس کے بڑے بڑے نواب جمع ہوئے اور انہوں نے کہا جب یورپین اقوام کے نزدیک ہماری چوڑھے اور چمار جیسی بھی عزت نہیں تو ہماری نو ابیاں کس کام کی ہیں.سب نے کہا ہم اپنی نو ابیاں چھوڑتے ہیں اور سارے اختیارات ایک بادشاہ کو دیتے ہیں چنانچہ سب نے اپنی نو ا بیاں چھوڑ دیں اور پرانے شاہی خاندان کے ایک آدمی کو جو عبادت گاہ میں بیٹھا تھا اپنا بادشاہ بنالیا.گویا پہلا تغیر انہوں نے یہ کیا.اس کے بعد ان میں سے نوجوان نکلے اور انہوں نے قسمیں کھائیں کہ ہم اپنے ملک میں واپس نہیں آئیں گے جب تک یورپ اور امریکہ سے وہ ہنر سیکھ کر نہ آئیں جن ہنروں کی وجہ سے وہ ہمارے ملک میں طاقت پکڑ رہے ہیں.چنانچہ کسی نے جہاز رانی سیکھنی شروع کر دی ، کسی نے کارخانوں کا کام سیکھنا شروع کر دیا، اس طرح کوئی کسی کام میں لگ گیا اور کوئی کسی میں اور دس پندرہ سال باہر رہ کر جب وہ اپنے ملک میں آئے تو انہوں نے ہر قسم کے کارخانے جاری کر دیئے.اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ جاپانی مد بر کہتا ہے ) کہ ہماری قوم سورہی تھی جب ہم جاگے تو ہم نے دیکھا ہمارے ملک میں یورپین قومیں اپنا اثر بڑھا رہی ہیں اور وہ اپنے آپ کو مہذب کہتے ہیں اور ہمیں غیر مہذب.تب ہم نے سوچا کہ شاید تہذیب کا رخانے جاری کرنے کا نام ہے اور ہم نے اپنے ملک میں ہر قسم کے کارخانے جاری کر دیئے اور ہم نے یورپ کی طرف فخر سے دیکھا اور سمجھا کہ اب وہ کہے گا کہ جاپان بھی مہذب ملک ہے مگر ہم نے دیکھا کہ مغرب نے اپنا سر ہلا دیا اور کہا کہ جاپانی غیر مہذب ہیں.وہ کہتا ہے کہ ہم نے سمجھا شاید چونکہ یہ باہر سے ہمارے ملک میں کپڑ الاتے ہیں شاید تہذیب دوسرے ملکوں سے تجارت کرنے کا نام ہے پس ہم نے کہا کہ ہم بھی اپنی چیزیں باہر بھیجیں گے اور دنیا میں مہذب کہلائیں گے.چنانچہ ہم باہر نکلے اور ہم نے ہر جگہ ان کی منڈیوں کو شکست دی اور دور دور تجارت کی اور خیال کیا کہ مغرب ہماری اس ترقی کو دیکھ کر کہے گا کہ جاپان مہذب ملک.
خطبات محمود ۶۰۸ سال ۱۹۳۶ مگر مغرب والوں نے پھر اپنا سر ہلا دیا اور کہا جاپانی غیر مہذب ہیں.اس پر ہم نے سمجھا کہ شاید چونکہ یہ اپنے جہازوں میں مال لاتے ہیں اور ہمارے اپنے جہاز نہیں اس لئے ہم ان کی نگاہ میں مہذب نہیں.یہ خیال آنے پر ہم نے اپنے جہاز بنائے اور اپنے جہازوں میں غیر ممالک کو اشیاء بھیجنی شروع کیں اور ہم نے خیال کیا کہ اب تو یہ ہمیں مہذب خیال کریں گے مگر مغربی لوگوں نے پھر سر ہلا دیا اور کہا کہ جاپانی غیر مہذب ہیں.وہ کہتا ہے کہ ہم اس پر پھر حیران ہوئے اور خیال کیا کہ چونکہ ہم تعلیم میں پیچھے ہیں اس لئے غیر مہذب ہوں گے اس پر ہم نے تعلیم پر زیادہ زور دینا شروع کیا اور نئی سے نئی ایجادیں کرنی شروع کر دیں مگر ہم پھر بھی مغرب کی نگاہ میں غیر مہذب رہے.اتنے میں مانچوریا میں جھگڑا شروع ہو گیا اور روس کے ساتھ ہماری لڑائی ہوئی تب پستہ قد جاپانیوں نے میان سے اپنی تلوار نکال لی اور دیو قد روسیوں پر ٹوٹ پڑے اور تین لاکھ روسیوں کے خون سے انہوں نے مانچوریا کی زمین کو سرخ کر دیا تب ہم نے دیکھا کہ سارا یورپ اور امریکہ پکار اُٹھا کہ جاپانی مہذب ہیں جا پانی مہذب ہیں.وہ کہتا ہے تب ہمیں معلوم ہوا کہ یورپین اقوام کے نزدیک تہذیب طاقت کا نام ہے.اس قسم کے خیال کا لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا بہت خطرناک چیز ہوا کرتی ہے اور حکومت کو یہ امر ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر اس کے ماتحت افسر لوگوں کے دلوں میں اس قسم کا خیال پیدا کرتے ہیں تو وہ رعایا کو باغی بناتے ہیں کیونکہ اگر رعایا کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ حکومت طاقت کے آگے جھکتی ہے دلائل کے آگے نہیں جھکتی تو امن کہاں رہ سکتا ہے.جب لوگ یہ دیکھیں کہ حکومت طاقتور کی بات مانتی ہے تو ان میں بھی مقابلہ کا جوش پیدا ہوتا ہے اور حکومت کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال بغاوت کی روح پھیلاتا ہے.پس اگر حکومت سمجھتی ہے کہ لکھنؤ والے چونکہ مالدار ہیں یا جتھے اور طاقت والے ہیں اس لئے اس نے قانون کا وہاں نفاذ کر دیا لیکن احمدی کمزور ہیں اس لئے ان کے متعلق کسی قانون کی ضرورت نہیں تو میری نصیحت اسے یہی ہے کہ وہ اپنا رویہ اس بارے میں بدل لے کیونکہ اس خیال کا پیدا ہونا حکومت کے تباہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور اس کی موجودگی میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا.پس میرے نزدیک خالی مولوی عطا ء اللہ کو روکنا کافی نہیں.قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور قادیان کے متعلق گورنمنٹ کا یہ قانون ہونا
خطبات محمود ۶۰۹ سال ۱۹۳۶ چاہئے اس جگہ سلسلہ احمدیہ اور اس کے بزرگوں کے متعلق توہین آمیز کلمات کا استعمال کسی کیلئے جائے نہیں.ہمیں اس بات پر ہر گز اعتراض نہیں اگر کوئی اور قوم کسی اور شہر کو اپنا مقدس مقام مجھتی ہے تو اس شہر کے متعلق بھی اسی قسم کا قانون نافذ کر دیا جائے اگر ہندو کہیں کہ ہر دوار یا بنارس ان کا مقدس مقام ہے یاستنی کسی شہر کو اپنا مقدس مقام قرار دے لیں یا شیعہ کسی شہر کو مقدس مقام قرار دے لیں اور اس طرح اپنے لئے ایک ایک شہر چن کر اس کے متعلق اس قسم کا قانون بنوا لیں تو ہمیں اس پر ہرگز اعتراض نہیں ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قادیان میں کسی مذہب والے کا اپنے مذہب کی تلقین کرنا ہم نا پسند کرتے ہیں.اگر کوئی اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے تو بے شک وہ آئے اور تقریر کرے لیکن تہذیب و شائستگی کے ساتھ.ایسے مہذب لیکچراروں کیلئے میں آپ انتظام کرنے کیلئے تیار ہوں بلکہ اسی مسجد میں انہیں لیکچر کی اجازت دے سکتا ہوں لیکن غیر شریفانہ رنگ میں اگر کوئی شخص کسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس کی اس حرکت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ممکن ہے کہ کوئی شخص کہے کہ تمہارا تو ایک مرکز ہے جس کی وجہ سے گورنمنٹ سے اس قانون کا مطالبہ کرتے ہو لیکن ہم کیا کریں سو ایسے لوگوں سے میں کہتا ہوں تم بھی ایک مرکز بنا لو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے مرکز کے متعلق کسی قانون کا مطالبہ نہ کریں یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی لومڑ کی دُم کٹ گئی تھی تو اُس نے سب لومڑوں کو مشورہ دیا کہ ہمیں اپنی دمیں کٹوا دینی چاہئیں.اگر کسی قوم کا کوئی مذہبی مرکز نہیں تو ہم کیوں اپنا حق چھوڑ دیں اور اگر اسے اس سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ اپنا بھی ایک مرکز بنالے.ہم خصوصیت سے خیال رکھیں گے کہ ہماری جماعت کا کوئی شخص وہاں جا کر ایسا رنگ اختیار نہ کرے جو دل آزار ہو.پس اگر ایسے مراکز ہر قوم تجویز کر لے تو ہمیں اس پر ہرگز اعتراض نہیں ہو گا مگر بہر حال قادیان ہمارا مقدس مذہبی مرکز ہے اور اس جگہ احمدیت یا احمدیت کے بانی یا احمدیت کے بزرگوں کے خلاف کسی قسم کی تضحیک یا تمسخر سننے کیلئے ہم تیار نہیں اور یہ مطالبہ ہمارا اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک گورنمنٹ ان لوگوں کو روکتی نہیں جو یہاں آکر گالیاں دیتے ہیں.مولوی عطاء اللہ سے ہمیں کوئی بغض نہیں نہ انہوں نے ہمارا مال چرایا ہے کہ انہیں کی بدزبانی ہمیں تکلیف دیتی ہو اور اگر مولوی عنایت اللہ یا شیخ تاج دین صاحب گالیاں دیں تو وہ
خطبات محمود ۶۱۰ سال ۱۹۳۶ ہمیں بُری نہ گتی ہوں.اگر گالیاں دینا جائز ہے تو کوئی دے سب کیلئے جائز ہے اور اگر گالیاں دینا ہے جائز نہیں تو کسی کیلئے بھی جائز نہیں خواہ مولوی عطاء اللہ صاحب دیں یا مولوی عنایت اللہ.پس ہمارے لئے یہ کافی نہیں کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو قادیان آنے سے روک دیا جائے ہاں اگر گورنمنٹ نے ایسا کیا ہے تو اس حد تک ہم اس کی تعریف ضرور کریں گے.میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمیں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا چاہئے اور ہمارا طریق یہ ہونا چاہئے کہ جو بیچ ہوا سے ہم جھوٹ نہ کہیں اور جو جھوٹ ہوا سے ہم سچ نہ کہیں اس کے مطابق ہم گورنمنٹ کے اس فعل کی اگر اس نے واقعہ میں ایسا کیا ہے تعریف کریں گے ہاں بقیہ حصہ کی مذمت کریں گے کیونکہ اس نے کی گالیوں کے انسداد کیلئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا جو جماعت احمد یہ اور اس کے بزرگوں کو احرار کے دوسرے نمائندے دیتے ہیں.بعض دوست غلطی سے گورنمنٹ کے اچھے کام کی تعریف کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ گورنمنٹ نے یہ کام اچھا کیا ہے تو ہم جو گورنمنٹ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہمارے حقوق کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی اس الزام کی قوت جاتی رہے گی لیکن میں سمجھتا ہوں طاقت ہمیشہ سچائی میں ہوتی ہے دو رُخ طریق میں نہیں ہوتی اور نہ حق کو چھپانے میں ہوتی ہے.ابتداء سے یہی میرا اصل رہا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ مجھے اس اصل پر قائم رکھے کہ ہم سچائی کے پیچھے چلیں اس کے پیچھے نہ جائیں کہ لوگوں پر ہماری باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے لوگوں پر جو بھی اثر ہو ہو.ہمیں نہیں چاہئے کہ ہم سچائی کو کسی طرح چھپا دیں.میں جانتا ہوں کہ آجکل لوگوں میں عادات کی خرابی کی وجہ سے یہ نقص ہے کہ اگر کسی ایسے شخص کی کوئی نیکی بیان کی جائے جس سے انسان کو شکوہ ہو تو وہ سن کر کہہ دیتے ہیں پھر کیا ہوا.ہر شخص میں کوئی تھی اچھی بات بھی ہوتی ہے اور کوئی بُری بھی.پس اس قدر شکوہ کیوں کرتے ہو.اس قسم کے لوگوں کے سامنے یقیناً ہمارے دلائل کمزور ہو جائیں گے اور وہ جھٹ کہنے لگیں گے کہ جب تمہارے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بعض حکام نے ظلم اور انصاف دونوں طرح سے کام لیا ہے تو ظلم کو بھول جاؤ اور انصاف کو یا د رکھو آخر غلطیاں بھی تو انسان سے ہی ہوتی ہیں.سچائی کی اتباع میں یہ وقت ہمیں ضرور پیش آئے گی مگر یہ کمزوری سچائی کو چھوڑ دینے سے کم خطر ناک ہے.اگر لوگوں میں یہ عادت
خطبات محمود ۶۱۱ سال ۱۹۳۶ ہے کہ وہ کسی کی ایک خوبی سن کر اُس کے عیوب کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ لوگوں کی اس عادت کو دور کریں نہ یہ کہ سچائی کو ہی چھوڑ دیں.ہمیں دھڑلے سے سچائی کا اظہار کرنا چاہئے اور پھر پوری قوت سے لوگوں کے عیب کو بھی دور کرنا چاہئے ہمیں کہنا چاہئے کہ گورنمنٹ نے فلاں غلطی کی اور ہمیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ گورنمنٹ نے فلاں اچھی بات کی.ہمیں اس بات کے کہنے سے شرمانا نہیں چاہئے کہ گورنمنٹ کے بعض افسر اچھے ہیں اور نہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان کی نیکی کو چھپادیں بلکہ جو افسر نیک کام کریں ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں انہوں نے نیک کام کیا اور جو افسر بُرا کام کریں ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں انہوں نے بُرا کام کیا.ہم صداقت قائم کرنے کیلئے دنیا میں کھڑے کئے گئے ہیں اور ہمارا فرض صرف یہی نہیں کہ ہم زید اور بکر کی اصلاح کریں بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ گورنمنٹ کی بھی اصلاح کریں.اگر ہم حکومت کے افسروں کی نیکیوں کو چھپائیں تو ہمارے مذہب اور ہمارے اخلاق کا ان پر کیا اثر ہو سکتا ہے.وہ یہی کہیں گے کہ دنیا داروں کی طرح یہ بھی ہمارے عیب تو بیان کرتے ہیں مگر خوبیاں چھپاتے ہیں مگر جب ہم ان کی خوبیاں بھی بیان کریں گے اور برائیاں بھی ان کی اصلاح کیلئے ان کے سامنے رکھیں گے تو ان میں سے جو نیک طبائع ہوں گی وہ کہیں گی یہ نمونہ بہت اچھا ہے آؤ ہم بھی یہی نمونہ اختیار کریں اور جب وہ ہمارا نمونہ اختیار کریں گے تو ملک میں امن قائم ہو جائے گا اور چونکہ ہماری غرض نہ حکومت کو نقصان پہنچانا ہے نہ پبلک کو بلکہ ہماری غرض ملک اور قوم اور حکومت کو فائدہ پہنچانا ہے اس لئے جس ذریعہ سے نیکی اور تقویٰ پیدا ہو وہی ذریعہ ہمیں اختیار کرنا چاہئے خواہ عارضی طور پر اس کے نتیجہ میں ہمیں کوئی تکلیف بھی پہنچ جائے.ہمارے ملک میں یہ عام رواج ہے کہ اگر آرام سے کوئی کہے کہ مجھے فلاں نے تھپڑ مارا ہے تو اس سے دوسرے کے دل میں ہمدردی پیدا نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی معمولی تھپڑ بھی مارے اور دوسرا زور زور سے چیخیں مارنی شروع کر دے تو اوروں کے دل میں فوراً ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ وہ درد سے نہیں شیخ رہا ہوتا بلکہ درد پیدا کرنے کیلئے چیخ رہا ہوتا ہے.میں اس دفعہ دھر مسالہ کے قیام کے دوران میں ایک مرتبہ دھر مسالہ جا رہا تھا تو ہماری موٹر کے سامنے چند ہند و چیختے چلاتے ہوئے آئے اور کہنے لگے ایک حادثہ ہو گیا ہے ہماری موٹر
خطبات محمود ۶۱۲ سال ۱۹۳۶ دوسری موٹر سے ٹکرا گئی ہے میرے ساتھ چونکہ ڈاکٹر صاحب بھی تھے اس لئے میں نے موٹر کو ٹھہرالیا اور ہم سب نیچے اُتر آئے.انہی ہندوؤں میں ایک بُڑھا بھی موجود تھا وہ زور سے چیخ مار کر کہنے لگا وہ عورتوں کی لاشیں پڑی ہیں ان لاشوں کو تو کم سے کم آپ پٹھانکوٹ پہنچا دیں.یہ سن کر ہم جلدی سے وہاں پہنچے کہ دیکھیں کتنی لاشیں ہیں مگر جب پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان لاشوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے یعنی سب زندہ ہیں.اب ان عورتوں کو لاشیں اس نے اسی لئے کہا کہ عام ہندوستانی جب تک یہ نہ سنے کہ لاشیں پڑی ہیں اُس وقت تک وہ اپنی موٹر سے نیچے نہیں اترتا اور وہ چونکہ ہمارے اخلاق سے ناواقف تھا اس لئے اُس نے لاشیں کہہ کر ہماری ہمدردی کے جذبات کو ابھارنا چاہا.خیر شیخ بشیر احمد صاحب کو ساتھ لے کر کہ وہ بھی اس سفر میں میرے ہمراہ تھے موٹر میں پٹھانکوٹ گیا وہاں موٹر کا انتظام کروایا گیا اور پولیس کو اطلاع دی گئی اور ڈاکٹر صاحب اور نیر صاحب کو ہم پیچھے چھوڑ گئے تا زخمیوں کی مرہم پٹی اس عرصہ میں ہو جائے.میں ضمناً یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ گورنمنٹ کا انتظام اس بارے میں خطر ناک طور پر ناقص ہے.میں نے بتایا ہے کہ ان لوگوں میں سے مرا کوئی نہ تھا لیکن ان میں سے ایک مریضہ پہلی میں درد کی شکایت کرتی تھی اور ڈاکٹر صاحب کو خطرہ تھا کہ وہ درد ہڈی ٹوٹنے کے سبب سے نہ ہو اور مہلک ثابت نہ ہو.اس لئے جب ہم پٹھانکوٹ پہنچے تو شیخ بشیر احمد صاحب نے تفصیلاً پولیس والوں کو اصل حالات سے اطلاع دے دی لیکن باوجود حالات کی نزاکت کے پولیس والے پہلے تو اس بحث میں لگے رہے کہ وہاں جائے کون پھر ایک بیٹھ گیا کہ لاؤ پر چہ چاک کرواؤ اور بیان لکھواؤ اور چالیس منٹ اِس طرح ضائع کر دیئے گئے.دنیا کی کسی مہذب حکومت میں ایسی حماقت پولیس والے نہیں کر سکتے.اگر انگلستان میں ایسا واقعہ ہو تو وہ کان پکڑ کر ایسے پولیس والے کو نکال دیں مگر پولیس نے کافی وقت ضائع کیا.میں موٹر میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا شیخ بشیر احمد صاحب بہت دیر کے بعد واپس آئے تو میں کی نے ان سے دریافت کیا کہ اتنی دیر آپ نے کیوں لگائی ؟ انہوں نے بتایا کہ پولیس والوں نے ضمنیاں لکھنی شروع کر دی تھیں اور آپس میں یہ طے کر رہے تھے کہ کون اس کام کیلئے جائے.آخر بمشکل انہیں تیار کیا ہے.اب یہ تو اتفاقی بات تھی کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ساتھ تھے اور انہوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی لیکن اگر ڈاکٹر صاحب ساتھ نہ ہوتے تو زخمیوں کی اتنی دیر کون مرہم پٹی کرتا
خطبات محمود ۶۱۳ سال ۱۹۳۶ اور اگر اس وجہ سے ان میں سے کوئی مرجاتا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی.ایسے موقع پر پہلا فرض پولیس کا یہ ہونا چاہئے کہ جس وقت اسے اس قسم کے حادثہ کی اطلاع ملے جبری طور پر وہ کسی ڈاکٹر کو اپنے ساتھ لے اور پانچ دس منٹ کے اندر اندر حادثہ کے مقام پر پہنچ جائے لیکن وہاں پچاس منٹ کے بعد پولیس آئی اور اتنی دیر میں آدمی مر بھی سکتا ہے یا لا علاج بھی ہو سکتا ہے.غرض ضمنی طور پر میں حکومت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کیونکہ آجکل میرے لئے اپنے خطبہ کے ذریعہ اسے توجہ دلانا بہت آسان ہے کیونکہ ہر خطبہ اسے باقاعدہ پہنچتا ہے کہ اس حماقت کا اُسے علاج کرنا چاہئے.ایسی حماقتوں کے ہوتے ہوئے کوئی شخص ہندوستان کی حکومت کو مہذب نہیں کہ سکتا گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ پولیس والوں کو ہدایت دے کہ جب انہیں کسی حادثہ کی اطلاع ملے وہ رپورٹیں لکھنے نہ بیٹھ جایا کریں کیونکہ وہ وقت رپورٹیں لکھنے کا نہیں ہوتا بلکہ ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر لے کر اور مرہم پٹی کا ضروری سامان لے کر حادثہ کے موقع پر پہنچیں.یہ ابتدائی حقوق ہیں جو بنی نوع انسان کے حکومت پر ہیں اگر گورنمنٹ یہ حقوق ادا نہیں کرتی تو وہ کوئی کام نہیں کر سکتی.میں نے یہ واقعہ اس امر کے ثبوت کے طور پر سنایا ہے کہ ہندوستانیوں میں یہ عادت ہے کہ جب تک وہ مبالغہ سے کام نہ لیں اُس وقت تک سمجھتے ہیں بات کا اثر ہی نہیں ہوسکتا اور اگر ان کے مخالف کی کوئی اچھی بات ہو تو اسے بھی اس لئے بیان نہیں کریں گے کہ اس طرح ہماری بات کا اثر کم ہو جائے گا گویا ان کے نزدیک جب تک یہ نہ کہا جائے کہ دکھ ہی دکھ ہے اُس وقت تک بات مؤثر نہیں ہوتی مگر یہ صحیح طریق نہیں اور ایک مؤمن تو اس طریق کو کبھی بھی اختیار نہیں کر سکتا.کسی شاعر نے کہا ہے عیب کے جملہ بگفتنی هنرش نیز بگو اے واعظ شراب کی خرابیاں تو تو نے تمام بیان کر دیں لیکن قرآن میں یہ بھی تو لکھا ہے کہ اس میں خوبیاں بھی ہیں تو ان خوبیوں کا بھی تو ذکر کر.پس حکومت کی بُرائیوں کو ظاہر کرنا اس کی اصلاح کی کیلئے جہاں ضروری ہے وہاں حکومت اگر کوئی اچھی بات کرے تو ہمیں اس کی تعریف بھی کرنی چاہئے اور ہمارا اختلاف تو حکومت سے ہے ہی نہیں بلکہ حکومت کے بعض افسروں سے ہے اور اس
خطبات محمود ۶۱۴ سال ۱۹۳۶ صورت میں تو یہ اور بھی زیادہ ناجائز ہے کہ ہم اُس کی نیکیوں کو چھپائیں اور بدیوں کو بیان کریں.پس نیکی اور بدی دونوں کا اظہار اور اقرار کرنا ایک اچھی بات ہے لیکن ہندوستانی ذہنیت اس بارہ میں اس قدر گری ہوئی ہے کہ میں نے دیکھا ہے ہماری مثالیں بھی اسی اخلاق کا آئینہ ہیں.کہتے ہیں کہ کوئی دوست کسی دوست سے ملنے گیا اور اس نے یہ ظاہر کرنا چاہا کہ راستہ میں میں نے ایک مزیدار نظارہ دیکھا ہے مگر اس پر اثر ڈالنے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے وہ کہنے لگاؤ الله بِاللَّهِ ثُمَّ اللہ راستہ میں اس قدر خونریز جنگ ہو رہی تھی کہ تھانیسر بھول گیا.لاکھوں آدمی کٹا پڑا ہے.اس کے دوست کو پتہ تھا کہ یہ ہمیشہ اثر ڈالنے کیلئے بات کو بڑھا کر بیان کرتا ہے اُس نے چھا سچ سچ کہو کیا واقعہ تھا.وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ دو آدمی بُری طرح لڑ رہے تھے.اب یا تو لاکھوں آدمی کٹا پڑا تھا یا صرف دو آدمی بڑی بُری طرح لڑ رہے تھے کا واقعہ رہ گیا مگر دوست کو اس پر بھی اطمینان نہ ہوا وہ کہنے لگا اچھا کہو نا بات کیا تھی ؟ دوسرے نے جواب دیا بات یہ ہے کہ راستہ میں دو بلیاں آپس میں لڑ رہی تھیں.یہ طریق اچھا نہیں اور ہمیں اس خلق کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور بالکل نڈر ہو کر اس طریق پر عمل کرنا چاہئے کہ نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی کہا جائے.بعض لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ گورنمنٹ نے فلاں فعل اچھا کیا ہے تو لوگ کہیں گے اگر گورنمنٹ کی اب اصلاح ہو گئی ہے تو اس کی گزشتہ کوتاہیوں کو معاف کیوں نہیں کر دیتے اور پچھلی باتوں کو جانے کیوں نہیں دیتے.چنانچہ صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ بعض ذمہ دار افسروں نے بھی کہا ہے کہ پیچھے جو باتیں ہو چکیں سو ہو چکیں اب اگر فلاں فلاں معاملہ میں گورنمنٹ نے آپ کے حسب منشاء فیصلہ کر دیا ہے تو خاموش کیوں نہیں ہو جاتے.اس دلیل سے بھی بعض لوگ ڈر جاتے ہیں مگر میں اس کا بھی جواب دے دیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ یہ کوئی ڈرنے کی بات نہیں.میں اس دلیل کی کمزوری ظاہر کرنے کیلئے ایک مثال بیان کرتا ہوں.فرض کرو ایک شخص نے کسی کا گھوڑا چُرا لیا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ اسی گھوڑے پر سوار ہو کر اس شخص کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھ سے غلطی ہوگئی کہ میں نے آپ کا گھوڑا پھر الیا آپ اللهِ فِی اللہ مجھے معاف کر دیں آپ کی بہت ہی عنایت ہوگی.گھوڑے کے مالک نے جب دیکھا کہ یہ اس گھوڑے پر ہی سوار ہو کر معافی طلب کرنے کیلئے آیا ہے تو وہ سمجھا کہ اب میرا گھوڑا تو ا
خطبات محمود ۶۱۵ سال ۱۹۳۶ مل ہی جائے گا آؤ جھگڑے کو کیوں طول دیں اور جیسا کہ ہما را عام ہندوستانی طریق ہے کہنے لگا اجی صاحب ! ہم اور آپ کیا دو ہیں غلطی تو ہر ایک سے ہو ہی جایا کرتی ہے اور میں بھی غلطی کا پتلا ہوں آپ کو میں نے دل سے معاف کیا.اس پر چور کہنے لگا اچھا تو آپ نے اپنے دل سے یہ بات نکال دی ؟ گھوڑے کے مالک نے جواب دیا ہاں ہاں میں نے بالکل دل سے نکال دی ہے.اب مالک تو امید کر رہا تھا کہ یہ معافی مانگ کر گھوڑا مجھے واپس دے جائے گا لیکن چور نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ اچھا بھائی صاحب آپ کا بہت شکریہ اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر وہ جا اور یہ جا.مالک بیچارہ منہ دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا.بتاؤ کیا یہ معافی ہو سکتی ہے؟ اگر گورنمنٹ کے وہ افسر جنہیں شکوہ ہے کہ ہم چھلی باتوں کو بھلا کیوں نہیں دیتے چاہتے ہیں کہ ہم انہیں معاف کر دیں تو ہم آج بھی انہیں معاف کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن وہ ہمارے نقصان کا ازالہ بھی تو کریں.نقصان ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کا ازالہ نہیں ہو سکتا اور ایک وہ جن کا ازالہ ہر وقت ہوسکتا ہے.جن کا ازالہ نہیں ہو سکتا ان کے متعلق وہ معافی مانگ لیں اتنا ہی کافی ہے لیکن جن کا ازالہ ہو سکتا ہے اُن کا ازالہ کر دیں تو آج ہی تمام جھگڑا ختم ہوسکتا ہے.لیکن اگر وہ افسران جن کے خلاف ہمیں شکوہ ہے یہ چاہیں کہ لفظوں سے ہمیں خوش کر دیں لیکن ہمارے نقصان کی تلافی نہ کریں تو یہ معافی ، معافی نہیں کہلا سکتی.ہمیں جو نقصان پہنچے ہیں ان میں گو بعض ایسے ہیں جن کی تلافی نہیں ہوسکتی مگر بعض ایسے ہیں جن کی تلافی ہو سکتی ہے.جن کی تلافی نہیں ہو سکتی اُن کے متعلق ہم بھی انہیں مجبور نہیں کرتے لیکن جن کی تلافی ہو سکتی ہے جب تک وہ اس کا ازالہ نہ کریں گے اُس وقت تک ہمارا اور ان افسروں کا جھگڑ اختم نہیں ہوسکتا.مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے خلاف جماعت میں جوش تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق طبائع میں جو جوش ہے وہ جوش کسی صورت میں دب نہیں سکتا بلکہ یہ اُبھرتا اور بار بار ظاہر ہوتا ہے.پچھلے دنوں قادیان میں بعض لوگوں نے زور و شور سے تقریریں کیں، بعض نے قربانیوں کے ڈراوے دیئے، بعض نے حکومت سے شکوہ کیا.حکومت سے شکوہ بالکل بجا اور درست ہے اور میں خود بھی اِس کا مؤید ہوں مگر حکومت سے صرف چند افسر مراد ہیں ساری برطانوی حکومت مراد نہیں کیونکہ اس فیصلہ میں سارے برطانیہ کا دخل نہیں.اگر ہم ایسا کہیں تو یہ
خطبات محمود ۶۱۶ سال ۱۹۳۶ جھوٹ ہو جائے گا.پنجاب کے بعض افسروں کا اس معاملہ میں دخل ضرور ہے مگر اسی پنجاب میں بیسیوں انگریز افسر ہیں جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں.مثلاً فیروز پور ، جھنگ، ملتان اور دوسرے کئی ضلعوں کے انگریز افسروں کا اس سے کیا تعلق ہے؟ پھر ساری پنجاب گورنمنٹ کا بھی اس میں دخل نہیں کسی ایک حصہ کا ہے.پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ بعض مقرروں نے یہ کس طرح کہہ دیا کہ ہم برطانیہ سے ناراض ہیں.برطانیہ پر بھی ہم نے حجت پوری نہیں کی جب تک ہم اس پر حجت پوری نہ کرلیں ہمارا ہر گز یہ حق نہیں کہ ہم اپنی ناراضگی کو وسیع کریں.ہماری ناراضگی ان افسروں پر ہے جن پر حجت تمام ہو گئی ہے مگر انہوں نے ہمارے نقصانات کے ازالہ کی کوئی پروا نہیں کی لیکن اگر ہم حجت پوری کر دیں تب بھی برطانیہ کے وہ شریف آدمی جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تعریف کی ہے ہم ان کی کس طرح مذمت کر سکتے ہیں.بھلا کرنل ڈگلس کی موجودگی میں ہم انگریزی قوم کی کس طرح مذمت کر سکتے ہیں یا سرابٹسن سابق لیفٹینٹ گورنر جیسے آدمی جس قوم میں ہوں کی اس قوم کی ہم کس طرح مذمت کر سکتے ہیں.یہ گورنر ہو کر جب پنجاب میں آئے تو آتے ہی انہیں سرطان کا مرض لاحق ہو گیا ڈاکٹروں نے انہیں کہہ دیا کہ وہ جلدی مر جائیں گے چنانچہ چھ ماہ کے بعد وہ مر گئے.جب یہ پنجاب میں آئے تو انہوں نے آتے ہی ایک نوٹ لکھا جس کی اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اطلاع ہو گئی.غالبا ۱۹۰۷ ء کے آخر کی بات ہے انہوں نے اس نوٹ میں لکھا کہ جماعت احمد یہ ایک نہایت ہی وفادار جماعت ہے لیکن ہماری گورنمنٹ اسے ہمیشہ شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے اگر میں زندہ رہا تو پہلا کام یہ کروں گا کہ اس ظلم کو دور کروں.اس قسم کے شریف الطبع لوگوں کی موجودگی میں ہم ساری انگریزی قوم کو کس طرح بُرا کہہ سکتے ہیں بلکہ آج بھی ایسے انگریز موجود ہے جو ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں.پس پنجاب گورنمنٹ کو بھی ہم بُرا نہیں کہہ سکتے صرف اُن افسران کو بُرا کہہ سکتے ہیں جن سے ہمیں نقصان پہنچا.پس اپنے شکوے کو وسیع نہ کرو اور ساری برطانوی حکومت کو الزام نہ دو..مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض مقرروں نے کہا ہے کہ برطانوی نمائندوں نے ہمارے مبلغین کی کبھی مدد نہیں کی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولوی جلال الدین صاحب شمس کی انہوں نے مدد میں کی لیکن بعض برطانوی نمائندوں نے مدد کی بھی ہے.مثلاً روس میں جو ہمارے مبلغین گئے
خطبات محمود ۶۱۷ سال ۱۹۳۶ تھے ان کی نہایت تکلیف دہ اوقات میں انگریزی قونصلوں نے مدد کی ، بعض دفعہ قرض کے طور پر روپیہ بھی دیا اور ہماری ہدایتوں کے مطابق انہیں واپس پہنچایا.پس یہ غلط بیانی اور جھوٹ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ برطانوی نمائندوں نے ہماری کبھی مدد نہیں کی.برطانوی نمائندوں میں سے جنہوں نے ہماری مدد کی وہ شریف انسان اور بچے برطانوی تھے اور جنہوں نے ہماری مدد نہیں کی وہ ذلیل انسان اور جھوٹے برطانوی تھے.انہی دنوں تحریک جدید کے ماتحت سپین میں جو ہمارا آدمی گیا ہوا ہے انگریزی قونصل نے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا اور کہا کہ چونکہ لڑائی ہورہی ہے اس لئے میں تمہارے لئے سپین سے باہر جانے کا انتظام کر دیتا ہوں اور تم مطمئن رہو کہ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی.مگر اس نے کہا میں تو مرنے کیلئے ہی آیا ہوں میں یہاں سے نہیں جاسکتا اور میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ قربانی کروں گا.پس اگر میری جان کی قربانی کی ضرورت ہے تو میں یہاں سے کس طرح جا سکتا ہوں.پھر انگریزی قونصل نے اسے یقین دلایا کہ ہم ہر طرح تمہارا خیال رکھنے کیلئے تیار ہیں.ہم نے اپنے مبلغ کا حال معلوم کرنے کیلئے جو تار دیا اس کا بھی اس نے ہماری تشفی کیلئے تار میں ہی جواب دیا حالانکہ وہ خط بھی لکھ سکتا تھا.تو برطانیہ کے اندر اب بھی شرفاء موجود ہیں اور یہ بالکل غیر شریفانہ رویہ ہوگا اگر بعض کے نقص کی وجہ سے ہم ان کے اچھے آدمیوں کی بھی مذمت کرنے لگ جائیں.میرے نزدیک نیشنل لیگ کو بجائے حکومت کا شکوہ کرنے کے کچھ اپنا اور کچھ مرکزی لیگ کا شکوہ کرنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا قصور زیادہ ہے کہ ہم نے اب تک کچھ نہیں کیا.گورنمنٹ ڈرتی کسی حقیقت سے ہے جب اسے پتہ ہو کہ لوگ کہتے تو ہیں مگر کرتے کچھ نہیں تو وہ نہیں ڈرتی.کہتے ہیں کسی شخص نے اپنے باورچی خانہ کو دروازہ لگا دیا کیونکہ گتے اس کا کھانا کھا جاتے تھے.جب گتوں نے دیکھا کہ باورچی خانہ کو دروازہ لگ گیا تو وہ سب مل کر رونے لگے.ایک بڑھا گتا آیا اور پوچھنے لگا کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے ہم اسی باورچی خانہ پر پلتے تھے مگر اب وہاں دروازہ لگا دیا گیا ہے اب ہم کیا کریں گے؟ وہ کہنے لگا بیوقوفو! دروازہ تو لگ گیا مگر اسے بند کون کرے گا ؟ تو ڈرنے کی آخر کوئی وجہ بھی ہوا کرتی ہے.جب دوسروں پر یہ اثر ہو کہ یہاں
خطبات محمود ۶۱۸ سال ۱۹۳۶ باتیں ہی باتیں ہیں کرتے کراتے کچھ نہیں تو وہ ڈر کس طرح سکتے ہیں.نیشنل لیگ کو اس عرصہ میں میں نے بار بار کہا کہ تم اسلام اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بہت کچھ کر سکتے ہو مگر اس نے کچھ نہیں کیا.اگر وہ اسلام اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کچھ کرتے اور انہیں نا کامی ہوتی تو وہ مجھ پر الزام لگاتے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ پہلے کو ربنی اور پھر جس طرح غبارہ اُڑتا ہے وہ کور غائب ہوگئی.اب مولوی عطاء اللہ صاحب کے آنے کا خیال تھا تو پھر کور ظہور میں آ گئی.ایسی کو رجو مولوی عطاء اللہ صاحب کے آنے پر بنتی ہے ” بخاری کو ر ہی کہلا سکتی ہے احمدی کو ر تو نہیں کہلا سکتی.میں چونکہ اب فیصلہ کر چکا ہوں کہ نیشنل لیگ کے افراد سے سکیم کی بات نہیں کروں گا کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے افراد تو نہیں لیکن اگر نیشنل لیگ کا نمائندہ وفد میرے پاس آئے تو میں اب بھی کام کرنے کیلئے ایک سکیم اُس کے سامنے رکھ سکتا ہوں.جوں جوں ترقی ہوتی جائے گی اس سکیم میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ سکیم ایسی ہوگی جو اسلام اور رائج الوقت قانون کے مطابق ہوگی.اب تک میں نے اس سکیم کو اس لئے ان کے سامنے نہیں رکھا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ اپنی عقل استعمال کریں لیکن چونکہ انہوں نے اپنی عقل سے کام نہیں لیا اس لئے وہ اب بھی میرے پاس آجائیں میں انہیں سکیم بتا دوں گا.اسی سلسلہ میں میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ نیشنل لیگ کے حال کے جلسہ کے بعد ممبروں میں ایسی باتیں دیکھنے میں آئی ہیں جو اسلام اور احمدیت کے وقار کے خلاف ہیں مثلاً کاغذ کی ٹوپیاں ہیں جو سروں پر پہن رکھی ہیں اور ان پر کچھ فقرے لکھے ہوئے ہیں جن کا کچھ بھی فائدہ نہیں اور پھر وہ ٹوپیاں بعض معذوروں کو پہنا دی گئیں ہیں جیسے اسی قسم کی ٹوپی میاں شمس الدین صاحب معذور کے سر پر بھی رکھ دی گئی ہے.شکایت کنندہ صاحب کہتے ہیں یہ ایسی ہی بات ہے جیسے زمیندار اخبار والے ایک معمولی حیثیت کے شخص کا نام اخبار کی پیشانی پر بطور ایڈیٹ لکھ دیتے تھے اور خود تمام کام کرتے تھے.جس وقت مضمون کی بناء پر جیل میں جانے کا وقت آتا تو وہ معمولی حیثیت کا آدمی اندر چلا جاتا اور ایڈیٹر صاحب باہر دندناتے پھرتے.اسی قسم کی حرکت میاں شمس الدین صاحب معذور کے سر پر ٹوپی رکھ کر کی گئی ہے اور ٹوپی پہنانے والے نے سمجھا ہے کہ اگر جیل میں جائے گا تو شمس الدین جائے گا لکھنے والا تو گھر بیٹھا رہے گا.میں سمجھتا ہوں
خطبات محمود ۶۱۹ سال ۱۹۳۶ اگر کسی نے اس نیت سے اُسے ٹوپی پہنائی ہے کہ پکڑ اوہ جائے گا اور میں گھر میں بیٹھا رہوں گا تو وہ کی نہایت پاجی ، نہایت خبیث اور نہایت نالائق انسان ہے لیکن اگر کسی نے تمسخر کے ساتھ اس کے سر پر ٹوپی رکھ دی ہے تب بھی میں اسے کہوں گا کہ تو نے بڑی نادانی کی.دینی معاملات میں تمسخر جائز نہیں ہوتا لیکن اگر یہ اعتراض کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس قسم کے فقرات کے نتیجہ میں قانونی رنگ میں کوئی الزام عائد ہو سکتا ہے تو وہ بھی غلطی کرتا ہے.نیشنل لیگ نے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق حکومت کو بار بار توجہ دلائی ، ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو رڈ کیا لیکن وہ فیصلہ آج تک شائع ہوتا ہے اور اس سے روکا نہیں جاتا بلکہ حکومت نے نیشنل لیگ کے صدر کو صاف کہا ہے کہ ہم نے قانونی مشورہ لیا ہے ہم اس کی اشاعت کو روک نہیں سکتے.پس اگر مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی اشاعت کو گورنمنٹ روک نہیں سکتی تو مسٹر کولڈ سٹریم کے فیصلہ کو وہ کس طرح روک سکتی ہے اور اس کے فقرات کے استعمال کو وہ قانونی رنگ میں کس طرح زیر الزام لاسکتی ہے.پس بے شک اس فیصلہ کو چھتوں پر لکھ لیا جائے اس میں کوئی حرج نہیں پس اس دوست کو تسلی رکھنی چاہئے کہ میاں شمس الدین جیل میں نہیں جائے گا بلکہ وہیں بیٹھا ر ہے گا.باقی رہا یہ کہ نیشنل لیگ کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے ایک حد تک میں بھی اس سے متفق ہوں.آج ہی راستہ میں میں نے بہت سے والنٹیئروں کو سروں پر کاغذ کی ٹوپیاں پہنے دیکھا ہے اور اب بھی میرے سامنے اس قسم کی ٹوپیاں پہنے ہوئے والٹیئر بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے تو ان کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گو یا بھان متی کا تماشہ ہے بھلا اس قسم کے تماشہ سے کیا بن سکتا ہے.اس فیصلہ کے متعلق بتانا تو ایک ہندو کو ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور ہائی کورٹ اس فیصلہ کو رڈ کر چکی ہے ، اس فیصلہ کے متعلق بتا نا تو ایک سکھ کو ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور ہائی کورٹ کا ایک حج اس فیصلہ کو رد کر چکا ہے، اس فیصلہ کے متعلق بتا نا تو ایک عیسائی کو ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور مسٹر کھوسلہ سے بھی بڑا حج کی اس فیصلہ کو باطل کر چکا ہے، مگر کاغذ کی ٹوپیاں پہنے ہوئے نوجوان بیٹھے یا کھڑے میرے سامنے ہیں گویا مجھے بھی اس بات میں شبہ ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے یا صحیح.اور لطیفہ یہ ہے کہ کور کے ممبر وردیاں پہنے اور ہاتھ میں ڈنڈے لئے کھڑے ہیں لیکن سر پر کاغذ کی ٹوپیاں رکھی ہیں.مجھے اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا اور جب میں خطبہ پڑھانے آ رہا تھا تو اُس وقت بھی اس لطیفہ کا تصور کر کے اور کور
خطبات محمود ۶۲۰ سال ۱۹۳۶ کے ممبروں کو دیکھ دیکھ کر میرے لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی تھی.ایک دفعہ یہاں غیر احمد یوں کا جلسہ ہوا انہوں نے بڑا مجمع کیا.ہماری تعداد اُس وقت تھوڑی تھی اور ہمیں اُن کی طرف سے خطرہ تھا ہم نے بھی اس کے مقابلہ میں اپنا انتظام کیا اور پہرے دار لگا دئیے جو اِدھر اُدھر چکر کاٹتے تھے.یہاں ایک بابا جیٹھ ہوتے ہیں ان کی عادت ہے کہ مجلس میں بیٹھے بیٹھے زور سے ان کی بیٹھ کی آواز نکل جاتی ہے وہ پہلے کسی زمانہ میں ذکر الہی کرتے رہے ہیں اور ذکر الہی کی اسی عادت کی وجہ سے اب ان کے سینہ سے بعض دفعہ بے اختیار ہیھ کی آواز زور سے نکل جاتی ہے اور بعض دفعہ اس زور سے نکلتی ہے کہ کئی لوگ اسے سن کر کانپ جاتے ہیں.جلسہ کے دن عصر کے بعد میں نماز پڑھا کر گول کمرہ میں جہاں منتظمین کا دفتر تھا مشورہ کیلئے گیا.وہاں میں اور درد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب بیٹھے تھے میرالڑ کا مبارک اُس وقت کوئی ساڑھے سات سال کا تھا وہ بھی وہاں تھا اور بھی کئی لڑکے ہم نے وہاں کھڑے کئے ہوئے تھے تاکہ بوقت ضرورت ادھر اُدھر پیغام پہنچائیں.میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ وہ بابا صاحب جن کا نام ہی لوگوں نے بابا ہیٹھ رکھ دیا ہوا ہے مسجد سے اُترتے ہوئے بیتاب ہو گئے اور انہوں نے زور سے بیٹھ کی آواز نکالی جسے سن کر کئی لوگ کانپ گئے ان کی اس آواز کوسن کر میرا لڑکا مبارک احمد دوسرے لڑکوں کے پاس گیا اور انہیں ایک قطار میں کھڑا کر کے کہنے لگا تم سپاہیوں کی طرح کھڑے ہو جاؤ پھر نہایت سنجیدگی سے کہنے لگا کہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور وہ یہ ہے کہ سپاہیوں کو افسر قطار میں کھڑا کر دیتے ہیں اور پھر حکم دیتے ہیں اٹینشن ! اور وہ اس حکم کو سن کر بالکل چست ہو کر ساکت کھڑے ہو جاتے ہیں.اب ایسے موقع پر جبکہ افسر فوج کو کھڑا کر کے اٹینشن کا حکم دے رہا ہو اور یہ باباجی وہاں آکر بیٹھ کر دیں تو بجائے پچست ہو کر کھڑے ہونے کے سب سپاہی کانپ جائیں گے اور صفیں خراب ہو جائیں گی.پس اس بیٹھ کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا.یہ لطیفہ آج مجھے بار بار یاد آتا ہے کور کے ممبر اٹینشن ہو کر کھڑے ہیں مگر سروں پر تماشہ رکھا ہوا ہے یہ بات فی الواقعہ وقار کے خلاف ہے لیکن اس موقع پر میں یہ بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ وقار کی بھی تشریح کر دوں کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ وقار کے لفظ کے رُعب سے کئی دوست سچی خدمت سے محروم نہ ہو جائیں لیکن چونکہ اب عصر کا وقت قریب آ رہا ہے اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں میں اس مضمون کو بیان کروں گا اور اس پر
خطبات محمود ۶۲۱ سال ۱۹۳۶ علمی بحث کروں گا تا ایسا نہ ہو کہ جماعت کے لوگ سُست اور غافل ہو جائیں اور جو کام وہ کر رہے ہیں وہ بھی چھوڑ دیں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں میں یہ بتاؤں گا کہ وقار کے کیا معنے ہیں ، وقار کا کس حد تک خیال رکھنا چاہئے اور کس حد تک وقار وقار نہیں بلکہ بے حیائی بن جاتا ہے.فی الحال میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بعض ایسی باتیں ہیں جنہیں لوگ بے وقاری کا موجب سمجھتے ہیں حالانکہ وہ وقار کا موجب ہوتی ہیں اور کئی باتیں ہیں جنہیں وہ وقار والی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ وقار کے خلاف ہوتی ہیں.( الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۳۶ء )
خطبات محمود ۶۲۲ سال ۱۹۳۶ "وقار" کا حقیقی مفہوم ہمارے تمام کاموں کی بنیاد عقل اور حکمت پر ہونی چاہئے (فرموده ۲ /اکتوبر ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ نوح کی ان آیات کی تلاوت کی :- ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمُ إِسْرَارًا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمُ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمُ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالِ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنْتٍ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ أَنْهَارًا مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَ قَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَانًا ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَ يُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا لِتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا - اس کے بعد فرمایا : - میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر کیا تھا کہ بعض دوستوں کے اس فعل پر کہ انہوں نے کاغذ کی ٹوپیاں بنا کر اور ان پر ہائی کورٹ کے فیصلہ کے چند فقرات لکھ کر انہیں اپنے سروں پر پہن رکھا تھا یا بعض نے کوٹ بنوا کر اُس پر اسی قسم کے بعض فقرات لکھ لئے تھے.ایک دوست نے یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ فعل وقار کے خلاف ہے اور ایسی باتیں احمدیوں کو نہیں کرنی چاہئیں.اگر
خطبات محمود ۶۲۳ سال ۱۹۳۶ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے میں نے ایک حصہ کے متعلق اپنے خیالات کا گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ہی اظہار کر دیا تھا لیکن ساتھ ہی اس خوف کا بھی اظہار کیا تھا کہ ایسا نہ ہو وقار کے لفظ کے نتیجہ میں جماعت میں سستی اور غفلت پیدا ہو جائے یا وہ کوئی ایسا طریق اختیار کرے جو احمدیت کے منشاء، اسلام کے منشاء اور قرآن مجید کے منشاء کے خلاف ہو اور اس طرح وہ خدمتِ اسلام اور خدمت احمدیت سے محروم ہو جائے اس لئے میں نے گزشتہ جمعہ میں ہی کہا تھا کہ چونکہ آج وقت بہت گزر چکا ہے اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میں اگلے خطبہ جمعہ میں اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا.سو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اُس کی مدد سے اپنے اس وعدہ کے مطابق میں آج وقار کے متعلق بعض باتیں بیان کرنی چاہتا ہوں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں قرآن کریم میں وقار کا لفظ صرف ایک دفعہ استعمال ہوا ہے اور وہ استعمال سورۃ نوح کی ان آیات میں ہوا ہے جن کو ابھی میں نے پڑھا ہے.موجودہ زمانہ میں تعلیم یافتہ لوگ اور امراء اپنے بہت سے کاموں کی بنیاد یا یوں کہو کہ عدم عمل کی بنیا د وقار پر رکھا کرتے ہیں اور غرباء اور غیر تعلیم یافتہ لوگ اس لفظ کو بہت کم استعمال کرتے ہیں اور اس لفظ کے کوئی معنے ان کے ذہن میں نہیں ہوتے.پس ہمارے ملک میں عام محاورہ کے لحاظ سے یہ لفظ غرباء اور امراء اور تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ایک حد فاصل ہے.جب تم کسی امیر شخص سے ملو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ جب بھی کوئی ایسی بات ہو جو اُس کی طبیعت کے اور اُس کی منشاء کیخلاف ہو وہ فوراً کہہ دے گا یہ کیسی بیہودہ بات ہے یہ تو وقار کے صریح خلاف ہے.اسی طرح جب کسی تعلیم یافتہ شخص سے تم ملوتو معمولی گفتگو اور ادھر اُدھر کی چند باتوں کے دوران میں ہی تم اُس سے یہ سن لو گے کہ فلاں بات تو وقار کے بالکل خلاف ہے لیکن اس طبقہ کو چھوڑ کر اگر تم غرباء میں چلے جاؤ تو تمہیں اس لفظ کا استعمال بہت کم بلکہ قریباً قریباً مفقو د نظر آئے گا.وہاں بالعموم لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں یوں کر دوں گا، میں یوں کر دوں گا یہ کوئی نہیں کہے گا کہ میں فلاں بات کیوں کروں یہ وقار کے خلاف ہے.انہیں اگر کوئی بات نا پسند بھی ہو تو اس کی بُرائی ظاہر کرنے کیلئے وہ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ وقار کے خلاف ہے بلکہ وہ اتنا کہنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ فلاں بات ہم نہیں کر سکتے گویا ہمارے ملکی محاورہ کے مطابق یہ لفظ بہت سا انحصار غریب اور امیر کے
خطبات محمود ۶۲۴ سال ۱۹۳۶ رقہ پر رکھتا ہے اور تعلیم اور عدم تعلیم کے تفرقہ پر رکھتا ہے لیکن باوجود اس لفظ کے کثیر الاستعمال ہونے کے اگر کسی شخص سے جا کر دریافت کرو کہ یہ وقار کیا چیز ہوتی ہے تو وہ کبھی نہیں بتا سکے گا.اب تو میں اس مضمون کو بیان کر رہا ہوں اور انشاء الله وقار کا مفہوم بیان کر ہی دوں گا لیکن اس سے پہلے اگر اچھے اچھے تعلیم یافتہ اشخاص سے بھی آپ پوچھتے کہ وقار کے کیا معنے ہیں تو وہ ایسے ایسے مضحکہ خیز جواب دیتے کہ آپ سُن کر حیران رہ جاتے.جہاں تک میں نے انسانی علم اور انسانی سمجھ کا مطالعہ کیا ہے اور جہاں تک مجھے انسان کے حالات کا تجربہ ہے اس کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ گو قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور میں ابھی ان معنوں کو انشَاءَ اللهُ بیان کر دوں گا جو قرآن کریم کی رو سے ثابت ہیں لیکن ہمارے ملکی محاورہ کے مطابق اور اس لفظ کے عام استعمال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ لفظ اُن چند الفاظ میں سے ہے جن میں سے ہر ایک کی نسبت غالب کی اصطلاح کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرمندہ معنی نہ ہوا اس لفظ کے کوئی بھی معنی لوگوں میں نہیں سمجھے جاتے نہ اس لفظ کو استعمال کرنے اور اسے اپنے منہ سے نکالنے والا سمجھتا ہے کہ اس کے کیا معنے ہیں اور نہ اس لفظ سننے والا سمجھتا ہے کہ یہ لفظ کن معنوں میں استعمال کیا گیا ہے حالانکہ بولنے والے بولتے اور سننے والے سنتے ہیں لیکن نہ بولنے والوں کو خیال آتا ہے کہ وہ غور کریں اس لفظ کے کیا معنے اور کس مفہوم میں وہ یہ لفظ استعمال کر رہے ہیں اور نہ سننے والوں کو یہ خیال آتا ہے کہ وہ اس لفظ کے مفہوم پر غور کریں اور اس کے اصل معنے معلوم کرنے کی کوشش کریں.لیکن پیشتر اس کے کہ میں وقار کے معنے بیان کروں جن لوگوں کو وقار کا لفظ استعمال کرنے کی عادت ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے دلوں میں سوچیں کہ وقار کے اب تک وہ کیا معنے سمجھتے رہے ہیں.اگر وہ سوچیں گے تو انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس لفظ کے کوئی معنے نہیں سمجھتے تھے گو اس کا استعمال وہ بہت کرتے تھے.در حقیقت بعض چیزوں کی طرف توجہ دلانے سے ایک فائدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی تشریح ہو جاتی ہے.اگر وہ دوست اپنے اعتراض کے دوران میں وقار کا لفظ استعمال نہ کرتے تو شاید مجھے یہ کبھی خیال پیدا نہ ہوتا کہ بہت سے لوگ جانتے ہی نہیں کہ وقار کیا ہوتا ہے اور وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کے سامنے وقار کی تشریح کر دی جائے.
خطبات محمود ۶۲۵ سال ۱۹۳۶ ہر شخص کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے ممکن ہے ہزاروں علماء قرآن کریم کی ان آیتوں کو پڑھ گئے ہوں اور انہیں کبھی خیال بھی نہ آیا ہو کہ ان میں وقار کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے کیا معنے ہیں مگر قرآن کریم کی جو آیتیں میرے دل میں اس وقت تک کھٹکتی رہیں جب تک کہ خدا تعالیٰ نے ان کا مفہوم مجھ پر نہیں کھولا یا قرآن کریم کی جن آیات کو میں مشکل سمجھتا رہا ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہے اور جس میں وقار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.وقار کو جن معنوں میں عام طور پر لوگ استعمال کرتے ہیں ان معنوں کو جب میں اس آیت پر چسپاں کرتا تو حیران ہو جاتا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہوا کہ مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا اور خدا کے لئے وقار کا لفظ استعمال کرنے کا مقصد کیا ہے.اور میں ہمیشہ اس پر حیران رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے معنی مجھ پر کھول دیئے اور وہ آیت جو پہلے میرے لئے مشکل تھی مجھ پر آسان ہو گئی.مگر اس قسم کی آیتیں جن کے معنے ایک عرصہ تک مجھ پر نہیں کھلے صرف چند ہی ہیں ورنہ بالعموم قرآن کریم خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی نظر میں ہی مجھ پر حل ہو گیا ہے.ہاں بعض آیات جو دوسروں کو بظاہر سیدھی سادھی نظر آتی رہی ہیں اور بعض ایسی آیات بھی جو دوسروں کے نزدیک بھی مشکل آیات میں سے ہیں پہلی نظر میں ہی مجھ پر حل نہیں ہوئیں بلکہ زیادہ عرصہ تک مجھے ان پر غور کرنے اور ان کے متعلق توجہ اور دعا کرنے کا موقع ملا ہے تب وہ مجھ پر حل ہوئی ہیں.غرض انہی آیات میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو بظاہر سیدھی سادھی نظر آتی ہے شاید اس آیت کے معنے مجھ سے سن کر یا مجھ سے سنے والے کسی اور عالم سے سن کر لوگوں کو اس آیت کا مفہوم معلوم کرنے کیلئے مشکلات کا سامنا نہ ہوا ہو کیونکہ شروع سے ہی ان کے سامنے اس آیت کے معنے آگئے لیکن میرے لئے ایک عرصہ تک اس آیت میں وقار کے لفظ کا استعمال حیرت کا موجب رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اصل حقیقت واضح کر دی.اللہ تعالیٰ کیلئے وقار کے لفظ کا استعمال اس مفہوم میں جو ہمارے ہاں استعمال ہوتا ہے ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے اور اب بھی اپنے دلوں میں غور کر کے آپ لوگوں کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ عام مفہوم کے مطابق اس لفظ کا استعمال اس جگہ پر عجیب لگتا ہے اور انسان کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا جب تک اسے وقار کے کوئی ایسے معنے نہ بتائے جائیں جو اللہ تعالیٰ پر چسپاں ہوسکیں.
خطبات محمود ۶۲۶ سال ۱۹۳۶ غرض میں نے مناسب سمجھا کہ اس موقع پر وقار کی حقیقت کو بھی بیان کر دوں اور قرآن کریم کی اس آیت کو بھی پیش کر دوں جس میں وقار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.میں نے کہا ہے کہ یہ لفظ ہمارے ملک میں شرمندہ معنی نہیں ہوگا اور اس کا پتہ اس امر سے بھی لگ سکتا ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے بہادری کا لفظ بولا جائے تو جرات اور بہادری کا ایک مفہوم فوراً اس کے ذہن میں آجاتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ بہادری کیا چیز ہوتی ہے گو ممکن ہے وہ بہادری کی تفصیلات اور اس کی باریکیوں کو نہ سمجھتا ہوں لیکن اس لفظ کا ایک مفہوم اُس کے سامنے ضرور آ جاتا ہے.اسی طرح جب کسی کے سامنے سچائی کا لفظ بولا جائے تو گوسچائی کی بار یک قسمیں اور صداقت اور راستی کی باریک شقیں اس کے ذہن میں نہ آئیں مگر سچائی کا ایک موٹا سا نقشہ اس کے ذہن میں فوراً آ جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ سچائی کا کیا مفہوم ہے.اسی طرح جب کسی شخص کے سامنے امانت کا ذکر کرو تو چاہے وہ امانت کی بار یک قسمیں نہ جانتا ہو خواہ وہ امانت اور دیانت کی اُس تفصیل سے نا آشنا ہو جو قرآن کریم اور رسول کریم اللہ نے بیان فرمائی ہے پھر بھی اس کا موٹا سا مفہوم اور امانت و دیانت کے موٹے معنے اُس کے ذہن میں ضرور آجاتے ہیں اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ امانت کا لفظ کس مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے.اسی طرح اکثر انسانی اخلاق کا حال ہے جب بھی ان میں سے کسی خُلق کا ذکر انسان کے سامنے کیا جائے اس کا کوئی نہ کوئی مفہوم ذہن میں ضرور آجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں مگر جب لوگ وقار کا لفظ بولتے ہیں تو در حقیقت اس کا کوئی مفہوم بھی اس کے ذہن میں نہیں ہوتا بلکہ اگر ہم ذرا گہرے غور سے کام لیں اور وقار کا لفظ عام محاورہ کے مطابق استعمال کریں اور پھر سوچیں کہ ہم نے کس چیز پر وقار کا لفظ استعمال کیا ہے تو ہمیں فوراً معلوم ہو جائے گا کہ وقار کے معنے ہم اتنے ہی سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہمیں پسند نہیں آئی.گویا جو چیز ہمیں پسند نہ آئے اس کے متعلق ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ وقار کے خلاف.لیکن اگر ہمیں پسند ہو تو ہم اسے خلاف وقار نہیں کہتے.گو یا وقار کیلئے ہمارے محاورہ کے مطابق اُس فعل کے ہیں جو وقار کا لفظ استعمال کرنے والے کو پسند آئے.مگر چونکہ ہر شخص کی طبیعت الگ الگ ہوتی ہے اس لئے افعال کو پسند اور ناپسند کرنے کے متعلق پھر اختلاف پیدا ہو جائے گا حالانکہ دوسرے امور کے متعلق یہ اختلاف ہمیں نظر نہیں آتا.
خطبات محمود ۶۲۷ سال ۱۹۳۶ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص سچائی کا پابند نہ ہو، وہ جھوٹ کا عادی ہو اور خلاف واقعہ باتیں لوگوں میں کہتا پھرتا ہو لیکن سچائی کے معنوں میں وہ اختلاف نہیں کرے گا.فرض کرو اس نے کسی کو مارا پیٹا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے فلاں شخص کو مارا ؟ اس کے جواب میں ممکن ہے وہ کہہ دے مجھے خدا کی قسم! میں تو وہاں پر موجود ہی نہ تھا مجھے تو علم ہی نہیں کہ کیا واقعہ ہوا.میری تو اس سے کوئی دشمنی اور عداوت ہی نہیں کہ مجھے اُسے پیٹنے کی ضرورت ہوتی.اب وہ جھوٹ تو بول رہا ہوتا ہے مگر اس حالت میں بھی وہ سچ کے معنے سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ سچ کسے کہتے ہیں اور جھوٹ کسے.اور یہ تعریف مشرق سے لے کر مغرب تک سب لوگ یکساں طور پر جانتے ہیں.ایک انگریز سے پوچھو کہ سچ کے کیا معنے ہیں تو وہ یہی جواب دے گا کہ کسی امر کو وقوعہ کے مطابق بیان کرنے یا سمجھنے کو سچ کہتے ہیں، ایک جرمن کے پاس چلے جاؤ وہ بھی یہی جواب دے گا ، ایک ترک کے پاس چلے جاؤ وہ بھی یہی جواب دے گا ، ایک عرب کے پاس چلے جاؤ وہ بھی یہی جواب دے گا ، ایک ایرانی سے پوچھ دیکھو وہ بھی سچ کی یہی تعریف بتائے گا ، ایک افغانی سے دریافت کرو وہ بھی سچ کی یہی تعریف بتائے گا، ایک ہندوستانی سے پوچھو وہ بھی اسی تعریف کا قائل نظر آئے گا ، پھر چین کی طرف نکل جاؤ ، جاپان کی طرف چلے جاؤ ، امریکہ کے لوگوں کے پاس پہنچ جاؤ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ سچ اسے کہتے ہیں کہ کوئی بات خلاف واقعہ نہ بیان کی جائے مگر وقار کے متعلق لوگوں سے پوچھ دیکھو تو اس کی تعریف میں سینکڑوں جگہ اختلاف نظر آ جائے گا.ایک کہے گا فلاں بات تو بالکل وقار کے خلاف ہے اور دوسرا کہہ رہا ہوگا کہ یہ بات کہاں وقار کے خلاف ہے اس میں تو کوئی حرج نہیں لیکن سچ کے متعلق اس قسم کا اختلاف نہیں ہوسکتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کہے جھوٹ کے بغیر دنیا میں گزارہ نہیں ہوسکتا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے ہر شخص دنیا میں اپنا فائدہ چاہتا ہے جب میرا فائدہ جھوٹ بولنے میں ہے تو میں کیوں سچ بولوں مگر یہ کہ سچ کس کو کہتے ہیں اور جھوٹ کس کو اس میں اختلاف نہیں ہوگا.گویا سچ کے موٹے معنوں میں کوئی شخص اختلاف نہیں کرسکتا گو باریک اور تفصیلی امور میں اختلاف ہو جاتا ہے مگر وقار کے متعلق قدم قدم پر لوگوں میں اختلاف نظر آ جائے گا.ایک مالدار شخص جو پورا لباس پہننے کا عادی ہے اور جس کے جسم کے ہر حصہ پر کوئی نہ کوئی چیز موجود ہوتی ہے اگر وہ کسی دن گر تہ اُتار کر بازار چلا جاتا ہے تو اس کے
خطبات محمود ۶۲۸ سال ۱۹۳۶ ہم خیال لوگ کہیں گے اس نے وقار کے خلاف فعل کیا.فرض کر وکوئی ڈپٹی کمشنر ہے یا ای.اے سی ہے یا فوج کا کپتان ہے وہ اگر کسی دن پاجامہ اُتار کر اور ایک معمولی لنگوٹ باندھ کر بازار میں پھر نے لگ جاتا ہے تو اُس کے دوست اور احباب سب کہنے لگ جائیں گے کہ یہ کیسا وقار کے خلاف فعل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم دیکھیں گے کہ ایک زمیندار بھی اسی بازار میں پھر رہا ہے اس نے بھی ایک لنگوٹ باندھا ہوا ہے بلکہ اس نے گریہ بھی اُتارا ہوا ہے مگر اس کے دوست اسے دیکھ کر یہ نہیں کہتے کہ یہ فعل وقار کے خلاف ہے یہ بازار میں اس طرح کیوں پھر رہا ہے بلکہ وہ اس فعل کو بالکل جائز اور درست سمجھتے ہیں.پس دونوں جگہ لنگوٹ ہیں لیکن ایک کے لنگوٹ باندھنے کو خلاف وقار کہا جاتا ہے اور دوسرے کے لنگوٹ باندھنے کو خلاف وقار نہیں کہا جاتا ہاں اگر وہ زمیندار جس نے لنگوٹ باندھا ہوا ہے اگر اپنا لنگوٹ بھی اُتار دیتا ہے تو اُس وقت اُس زمیندار کے ساتھی بھی اسے کہیں گے کہ یہ کیسی خلاف وقار بات ہے بشرطیکہ انہیں وقار کا لفظ آتا ہو اور اگر وقار کا لفظ نہ آتا ہو تو وہ کہیں گے یہ فعل ہمیں نا پسند ہے.اسی طرح ایک مسلمان پردہ دار عورت جو اپنی سوسائٹی میں جہاں پردہ کیا جاتا ہے اور برقع کو استعمال کیا جاتا ہے ہمیشہ پردہ کرتی ہے اگر باہر جاتے ہوئے کسی وقت برقع کی نقاب اُٹھا دیتی ہے تو ساری عورتیں اُسے دیکھ کر کہیں گی یہ بات وقار کے بالکل خلاف ہے لیکن ایک زمیندار عورت جو برقع بنوا نہیں سکتی اور جو اپنے حالات کے لحاظ سے برقع پہن نہیں سکتی اگر صرف گھونگھٹ نکالے پھر رہی ہوتی ہے تو اُس کے ار در گرد بیٹھنے والی عورتوں کے ذہن میں بھی کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے.ہاں اگر وہی عورت کسی وقت گھونگھٹ بھی اُتار دے اور ننگے سر پھرنے لگ جائے تو اگر ان عورتوں کو وقار کے لفظ کا علم ہو تو وہ سب کہیں گی یہ کیسی وقار کے خلاف بات ہے.اب ایک باپردہ عورت کیلئے صرف نقاب کا اُٹھا دینا وقار کے خلاف ہے اور ایک زمیندار عورت کیلئے بے نقاب ہونا وقار کے عین مطابق ہے ، ہاں اگر وہ گھونگھٹ بھی اُتار دیتی ہے اور ننگے سر پھرنے لگتی ہے تو یہ فعل وقار کے خلاف ہو جاتا ہے.یا ایک دولت مند آدمی اگر کسی دن بغیر بوٹ پہنے ننگے پاؤں بازار میں چلا جاتا ہے تو اُس کے سب دوست اور احباب کہیں گے اتنا عقلمند اور متمول ہوکر اس نے کیسا خلاف وقار فعل کیا.لیکن اسی بازار اور اسی گلی میں بیسیوں غرباء ننگے پاؤں پھرتے نظر آئیں گے اور وہ ایسے
خطبات محمود ۶۲۹ سال ۱۹۳۶ ہوں گے کہ سالہا سال سے انہیں جوتی میسر نہیں آئی ہوگی مگر انہیں کوئی نہیں کہے گا کہ ان کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے.یا ایک معزز اور ذی ثروت آدمی جو اپنی روزی کمانے کی فکر سے بے نیاز ہے اور دوسرے کا محتاج نہیں وہ اگر بازار میں بیٹھ کر نمک کوٹنے لگ جاتا ہے، یا تمبا کو گو ٹنے لگ جاتا ہے، یا مرچیں کوٹنے لگ جاتا ہے تو سارے دوست اسے دیکھ دیکھ کر مسکرائیں گے اور کہیں گے اس کے دماغ میں نقص ہو گیا ہے اور اگر نقص نہ ہوتا تو یہ ایسا خلاف وقار کام سر بازار کیوں کرتا.مگر اسی بازار میں ایک چھوٹا دکاندار تمبا کو بھی گوٹتا ہے، نمک بھی گوٹتا ہے، مرچیں بھی گوٹتا ہے مگر اس کے ساتھی اس کے پاس مشورہ کیلئے آتے رہتے ہیں اور وہ کبھی نہیں کہتے کہ تو وقار کے خلاف کام کر رہا ہے بلکہ وہ اسے ویسا ہی معزز سمجھتے ہیں جیسے پہلے سمجھتے تھے اور ویسا ہی مؤقر سمجھتے ہیں جیسے پہلے سمجھتے تھے.ان کے دلوں میں اس کا احترام بھی ہوتا ہے اگر وہ اعلیٰ اخلاق والا ہو تو اس کی عظمت بھی ہوتی ہے.وہ اس سے باتیں بھی کرتے ہیں اہم امور میں اس سے مشورے بھی لیتے ہیں مگر کبھی ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ اس کے یہ کام وقار کے خلاف ہیں.پس ہمارے ملک میں وقار ایسے فعل ، ایسے امر ، ایسی بات کو کہا جاتا ہے جو وقار کا لفظ استعمال کرنے والے کی عادت کے خلاف ہو مگر کیا ساری ہی عادتیں اچھی ہوتی ہیں ؟ اور کیا وہ ساری باتیں جنہیں وقار سمجھا جاتا ہے اخلاق اور دین کیلئے محمد ہوتی ہیں؟ اور کیا ان میں سے بیسیوں نہیں سینکڑوں باتیں دین کیلئے مضر نہیں ہوتیں؟ پھر اگر ہم ان کو چھوڑ دیں تو کیا ساری سوسائٹی یہ نہیں کہے گی کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے؟ مگر کیا وہ بُری زندگی بہتر ہے جو ان لوگوں کی نگاہ میں وقار کے خلاف نہیں یا وہ اچھی زندگی بہتر ہے جو گولوگوں کی نگاہ میں وقار کے خلاف ہے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وقار کے خلاف نہیں کیونکہ خدا تعالی وقار کو ان معنوں میں نہیں لیتا جن معنوں کو میں عام لوگ اسے استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ وقار کا لفظ ان معنوں میں لیتا ہے جن معنوں میں قرآن مجید نے اسے استعمال کیا ہے.پس جب ہمارے اس دوست نے لکھا کہ نیشنل لیگ کے والٹیئر ز کا یہ فعل کہ انہوں نے اپنے سروں پر کاغذ کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں جن پر ہائیکورٹ کے فیصلہ کے چند فقرات لکھے ہو.ہیں وقار کے خلاف ہے تو اس کے صرف اتنے ہی معنے تھے کہ یہ بات میری عادت کے خلاف ہے
خطبات محمود ۶۳۰ سال ۱۹۳۶ اور چونکہ میں ایسی ٹوپی اپنے سر پر رکھنا پسند نہیں کرتا اس لئے میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی ایسی ٹوپی سر پر رکھے.اب وہی کوٹ جس پر ہائی کورٹ کے فیصلہ کے فقرات لکھے گئے ہیں اس دوست کو تو وقار کے خلاف نظر آیا لیکن حضرت باوا نانک صاحب کو ایسا کوٹ وقار کے خلاف نظر نہیں آیا.وہ ایک بزرگ انسان تھے، ایک قوم کے لیڈر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اس فعل سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا ہے اور حضرت باوا نانک صاحب کے چولہ کا حوالہ دے کر ان کے اخلاص کی بہت تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ ایسے مخلص تھے کہ جگہ بجگہ وہ ایسا کوٹ پہنے پھرتے تھے جس پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اُس کی واحدانیت لکھی ہوئی تھی.تو حضرت باوا نا نک صاحب کو یہ چیز وقار کے عین مطابق نظر آئی لیکن ہمارے اس دوست کو یہ بات وقار کے خلاف دکھائی دی اس لئے کہ اس دوست کی آنکھ ایسی بات دیکھنے کی عادی نہ تھی اور حضرت باوا نانک صاحب کا نفس ایسی باتوں کے برداشت کرنے کا عادی تھا.حضرت باوا نانک صاحب نے سمجھا کہ میں تو لوگوں کی ہدایت چاہتا ہوں اگر اس چولہ کے ذریعہ ہی انہیں ہدایت مل سکتی ہے تو میرا اس میں کیا حرج ہے کہ میں اسے پہنے پھروں.پس انہوں نے اسے عین وقار سمجھا لیکن یہی فعل اس زمانہ میں کیا گیا تو اس دوست کو وقار کے خلاف معلوم ہوا.تو دراصل وقار کے وہ معنے درست نہیں ہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وقار کے کچھ اور معنے ہیں.اور عقلاً بھی جس بات کی ہم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ہم میں ہونی چاہئے اس کا کوئی مفہوم ہونا چاہئے اور مفہوم بھی ایسا جو مستقل ہو یعنی اصولی لحاظ سے وہ تبدیل نہ ہو گو تفصیلات میں اس کا مفہوم بدل بھی سکتا ہے جیسے نماز ہے.اصولی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ نماز ا سے کہتے ہیں اور نماز اس طرح پڑھنی چاہئے.اب جو تندرست ہو وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے، جو بیمار ہو وہ بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے، جو زیادہ بیمار ہو وہ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے اور جو اور زیادہ بیمار ہو وہ دل میں ہی پڑھ سکتا ہے، پھر جنگ کی حالت میں گھوڑے کی پیٹھ پر ہی انسان نماز پڑھ سکتا ہے خواہ اس گھوڑے کا منہ کسی طرف بھی ہو جائے یا کشتی میں انسان نماز پڑھتا ہے تو خواہ کشتی کسی رُخ چلتی چلی جائے پڑھنے والے کی نماز ہوتی جائے گی.تو شکل کے بدل جانے میں کوئی حرج نہیں ہاں اصول ایک ہونا چاہئے.پس ہمیں وقار کے ایسے معنے معلوم کرنے چاہئیں جن معنوں کی رو سے ہم ایسے محفوظ اور
خطبات محمود ۶۳۱ سال ۱۹۳۶ مصئون ہو جائیں کہ ہمارا کوئی کام خدا تعالیٰ کی نظر میں بے وقار نہ ہو اور نہ ہمارا کوئی فعل ہمیں کسی نیکی سے محروم کر دے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے ملک میں عام طور پر عادت کا نام وقار رکھا جاتا ہے اور ہماری عادت کے خلاف اگر کوئی شخص بات کرے تو ہم کہہ دیتے ہیں یہ وقار کے خلاف ہے مثلاً انگریز پکنک کے موقع پر بعض دفعہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا لیا کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ وہ کی ہمیشہ میز کرسی پر ہی کھانا کھاتے ہیں.اب اگر اپنے گھر میں کوئی انگریز زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگ جائے تو اس کے سب دوست اور رشتہ دار کہنے لگ جائیں گے کہ یہ وقار کے خلاف فعل ہے.یا یہ کہیں گے یہ اس کی شان کے خلاف فعل ہے اور انہی معنوں میں یہ لفظ عام طور پر لوگ استعمال کرتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ میں اس لفظ کو استعمال نہیں کرتا میں بھی اسے استعمال کرتا ہوں کیونکہ ہمارے ملک میں اب یہ محاورہ ہو گیا ہے کہ جب کوئی بات نا پسندیدہ ہو اور دوسرے کو اس سے روکنا ہوتو کہ دیا جاتا ہے یہ بات وقار کے خلاف ہے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں میں ایک دفعہ لا ہور گیا.اُن دنوں میں ترکی ٹوپی پہنا کرتا تھا قادیان میں اُس وقت دُکانیں بہت تھوڑی تھیں اور سودا ان میں بہت کم ہوتا تھا.اتفاقاً ایک دفعہ میرے سر کے مطابق ٹوپی نہ ملی میں لاہور چلا گیا کہ ٹوپی بھی خرید لاؤں گا اور دوستوں سے بھی مل آؤں گا ، سیر بھی ہو جائے گی.جب میں واپس آیا تو گو حضرت خلیفہ اول سے میں پوچھ کر ہی لاہور گیا تھا مگر آپ نے مجھ سے دریافت کیا میاں !لاہور کیوں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا میں لا ہور ٹوپی خرید نے کیلئے گیا تھا.میرا جواب سن کر آپ بڑی حیرت اور تعجب سے فرمانے لگے ترکی ٹوپی لینے کیلئے.پھر فرمایا یہ تمہاری شان اور وقار کے خلاف ہے کہ تم خود ترکی ٹوپی لینے جاؤ.پھر حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے میں نے تو کبھی بازار سے سو دانہیں خریدا.غرض حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی عادت کے لحاظ سے بازار سے سو دا خرید نا بھی وقار کے خلاف تھا.مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق تاریخ میں کئی جگہ آتا ہے کہ آپ بازاروں میں جاتے ، سو دا خریدتے اور دُکانداروں کی نگرانی بھی کرتے.تو اس زمانہ میں اپنی عادات کی وجہ سے بعض تبدیلیوں کو ہم نا پسند کرتے اور انہیں خلاف وقار قرار دے دیتے ہیں گوشرعاً ہم انہیں جائز ہی سمجھتے ہوں.چنانچہ دیکھ لوصحابہ کے متعلق احادیث اور تاریخ میں کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس
خطبات محمود ۶۳۲ سال ۱۹۳۶ صلى الله گرتے نہیں ہوتے تھے، سروں پر پگڑیاں اور ٹوپیاں بھی نہیں ہوتی تھیں حتی کہ پاؤں میں جوتی بھی نہیں ہوتی تھی صرف تہبند انہوں نے باندھا ہوا ہوتا اور وہ اسی طرح آدھا دھڑ نگا کئے اور ننگے سر بازاروں میں جاتے اور کوئی اسے وقار کے خلاف نہ سمجھتا مگر اب کوئی غریب آدمی بھی مسجد میں ننگے سر آ جائے تو سارے اُس کے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ یہ وقار کے خلاف بات ہے.تو دراصل ہمیں بعض چیزوں کی عادت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے خلاف کوئی کام کرے.میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ یہ عادات بُری ہیں یا اچھی لیکن اصولاً اس وقت اس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض عادات اچھی ہیں اور بعض بُری.اس لئے بعض جگہ اس لفظ کا عام ان مفہوم بھی درست ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ غلط ہو جاتا ہے.مثال کے طور پر بیوہ کا نکاح لے لو.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بیوہ عورتوں کا نکاح کرنے میں کوئی ہتک نہیں سمجھی جاتی تھی خود رسول کریم ﷺ نے اپنی بیوہ لڑکیوں کی شادیاں کیں اور آپ کی ایک نواسی تو متعدد بار بیوہ ہوئیں اور متعدد بار ہی ان کی شادی ہوئی.مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں مگر غالباًا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی جن کا نام سکینہ تھا جہاں تک تاریخ سے معلوم ہوتا ہے وہ سات بار بیوہ ہوئیں اور سات دفعہ ہی اُن کی شادی ہوئی.اسلامی دستور کے مطابق ان کا یہ فعل کوئی شخص بھی بُرا نہ سمجھتا تھا بلکہ اسے مستحسن سمجھتے تھے.مگر ہمارے ملک کا اب یہ حال ہے اس کا اس مثال سے پتہ چل سکتا ہے کہ میں نے ایک دفعہ ایک سید نو جوان سے کہا کہ تمہاری بہن بیوہ ہے اس کی شادی کرا دو.اس نے نہایت ہی حیرت و استعجاب سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا آپ کیا بات کہتے ہیں؟ میں نے کہا میں یہ کہتا ہوں کہ تمہاری بہن بیوہ ہے اس کی کہیں شادی کرا دو.اُس نے جواب دیا آپ تو میری ہتک کرتے ہیں.میں نے کہا جس خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ کو عزت حاصل ہے اُن کی تو بیوہ لڑکیوں کی شادی کرنے سے ہتک نہ ہوئی اور آپ کی اس سے ہتک ہو جاتی ہے؟ تمہاری عزت آخر اسی وجہ سے ہے کہ تم محمد ﷺ کی بیٹی کی اولاد ہو مر محمد ﷺ کی بعض بیٹیاں بیوہ ہو ئیں اور آپ نے اُن کی دوسری شادیاں کیں.پس تمہاری دادی جو رسول کریم ﷺ کی بیٹی تھیں انہیں کون سی زائد خصوصیت حاصل ہے کہ ان کی اولاد کی بیواؤں کی شادیاں نہیں ہونی چاہئیں.آخر
خطبات محمود ۶۳۳ سال ۱۹۳۶ رسول کریم ﷺ کی ساری اولاد ہی عزت کے قابل ہے.اگر آپ نے اپنی ایک بیوہ بیٹی کی بھی کی شادی کی ہے تو دوسری بیٹی کی نسل میں سے کوئی شخص اپنی بیوہ بہن یالڑ کی کی شادی کیوں نہیں کر سکتا مگر میرا یہ جواب ان کی سمجھ میں نہ آیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ یہ ہتک ہے میں اسے کس طرح برداشت کر سکتا ہوں.اب یہ موجودہ زمانہ کے بڑے خاندانوں میں وقار کے خلاف بات سمجھی جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی اپنی کسی عزیزہ کی دوبارہ شادی کر دے مگر رسول کریم ﷺ کو اس میں کوئی بات وقار کے خلاف نظر نہیں آتی تھی.اسی طرح اور ہزاروں باتیں ہیں جو عرب میں اس وقت رائج تھیں مگر آج ہمارے زمانہ میں اگر وہی باتیں کی جائیں تو سب لوگ انہیں وقار کے خلاف سمجھنے لگ جائیں.اس کی وضاحت کیلئے ایک اور مثال بھی دے دیتا ہوں.تاریخ سے ثابت ہے کہ بڑے بڑے صحابہ جب جنگ میں جاتے تو اشعار پڑھتے.رسول کریم ہے ان کے شعر سنتے اور اُنہیں داد دیتے لیکن ہمارے زمانہ میں اگر کوئی معزز شخص شعر پڑھنے لگ جائے تو سب کہنے لگ جائیں گے کہ یہ وقار کے خلاف بات ہے حالانکہ تاریخ سے صاف طور پر نظر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جب کسی جنگ پر تشریف لے جاتے تو صحابہ ایسے اشعار پڑھتے جن میں لوگوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جانیں دینے کی ترغیب دی جاتی اور رسول کریم ﷺ صحابہ کے ایسے اشعار سُن کر اُن کی تعریف کرتے اور کوئی شخص اسے وقار کے خلاف نہ سمجھتا.لیکن اس زمانہ میں وہی بات وقار کے خلاف سمجھی جاتی ہے حالانکہ صحابہ نہیں ہمیں یہ بات دکھائی دیتی ہے بلکہ صحابہ تو الگ رہے خود رسول کریم ﷺ کے گھروں میں بعض اشعار گائے جاتے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے جہاں مزامیر سے روکا ہے وہاں گانے یا بعض قسم کے باجوں کی اجازت بھی دی ہے.چنانچہ شریفانہ اشعار کا رسول کریم ﷺ کے گھروں میں پڑھا جانا ثابت ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض عورتوں سے گا نائن رہی ہیں وہ پیشہ ور گانے والی عورتیں نہیں تھیں جنہیں اسلام نے ناپسند کیا بلکہ محلہ کے معزز گھرانوں کی بہو بیٹیاں یا بیویاں تھیں اور وہ بعض دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر گاتی تھیں.رسول کریم ﷺ نے ان کے فعل کو نا پسند نہیں کیا بلکہ ایک دفعہ عورتوں کے گانے کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ
خطبات محمود ۶۳۴ سال ۱۹۳۶ پر ناراضگی کا اظہار کیا تو رسول کریم ﷺ نے انہیں منع کیا اور فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں.مگر آج کسی گھر میں کوئی شریف عورت گا تو جائے تم دیکھ لو گے کہ باوجود حدیثیں پڑھنے کے باوجود تاریخی واقعات سے آگاہی رکھنے کے گھر گھر یہ چرچا ہوتا ہے کہ نہیں کہ فلاں عورت تو بڑی بُری ہے وہ تو خوش الحانی سے شعر پڑھتی ہے.گویا لوگ اب صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ میرا نہیں اور ڈومنیاں ہی گا سکتی ہیں شرفاء کا حق نہیں کہ وہ گائیں.مگر ہندوستان سے باہر نکل کر انگلستان چلے جائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ معزز سے معزز گھرانوں کی عورتیں گاتی ہیں ، جرمنی چلے جائیں تو وہاں بھی یہی نظر آتا ہے ، فرانس چلے جائیں تو وہاں بھی یہی دکھائی دیتا ہے اور پھر شریعت پر غور کرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس قسم کے گانے سے منع نہیں کیا پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں تو اس قسم کا گا نا عیب سمجھا جاتا ہے مگر انگلستان وغیرہ میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا.وہاں لوگ اس قسم کے گانے گانے کی تائید میں دلائل بھی دیں گے، اس کی خوبیاں بھی بیان کریں گے ، اس کی ضرورت بھی کی واضح کریں گے.یہ فرق صرف اس لئے ہے کہ اب ہندوستان کے مسلمانوں میں اس کے خلاف عادت پڑ گئی ہے اور یورپ کا طریق عمل اس عادت کے خلاف ہے.پس وقار کے معنے در حقیقت ہمارے ملک کے استعمال کے لحاظ سے یہ ہیں کہ جو میں کہتا ہوں اُس کے خلاف نہ کیا جائے گویا ہمارے ملک میں وقار کے لفظ کے ماتحت ایک انسان دوسروں پر حکومت کرنا چاہتا ہے مگر اس حکومت کو منوانے کیلئے وہ یہ نہیں کہتا کہ چونکہ میں یوں کہتا ہوں ایسا مت کرو کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے کہا ایسا مت کرو تو دوسرا آگے سے جواب دے گا کہ تو کون ہوتا ہے مجھے حکم دینے والا.اس لئے وہ اپنی بات کو مؤثر کرنے اور لوگوں پر رعب ڈالنے کیلئے یوں کہہ دیتا ہے کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے اس لئے ایسا نہ کرو اور دوسرا آدمی جو اس سے کمزور طبیعت کا ہوتا ہے فوراً شرمندہ ہو جاتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اوہو! جب یہ بات ہے تو میں اب اسے نہیں کروں گا.انسانی طبیعت پر اس قسم کا اثر کہ وہ بعض باتوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو نا پسند خاندانوں کے رسم و رواج کی وجہ سے ہوتا ہے ، قوموں کے تغائر کی وجہ سے ہوتا ہے، خاص خاص مذاہب کی مختلف تعلیمات کی وجہ سے ہوتا ہے اور ان تمام تاثرات کی وجہ سے جو اثر انسان کی طبیعت پر پڑے اسے لوگ وقار کہتے ہیں.اس کے مطابق جب تک لوگ کام کرتے
خطبات محمود ۶۳۵ سال ۱۹۳۶ ہیں دوسرے کہتے ہیں یہ بڑے باوقار ہیں لیکن جب ان کے خلاف چلا جائے تو کہہ دیتے ہیں یہ وقار کے خلاف کام کرتے ہیں.پس اس محاورہ کے استعمال کے لحاظ سے وقار کو نہ تو ہم ثواب کا موجب کہہ سکتے ہیں اور نہ عذاب کا باعث ، نہ اسے اچھا کہہ سکتے ہیں نہ بُرا ، جب یہ اچھے معنوں میں استعمال ہوگا تو ہم کہیں گے اچھا ہے اور جب بُرے معنوں میں استعمال ہوگا تو ہم کہیں گے بُرا ہے لیکن جن معنوں میں قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے ان کے رو سے یہ ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے.یادر ہے کہ وقار کے معنے عربی زبان میں بوجھ کے ہوتے ہیں اور اس سے سکون کا مفہوم لیا جاتا ہے کیونکہ بوجھل چیز ملتی کم ہے.دوسرے معنے وقار کے عقلمندی اور دانائی کے ہوتے ہیں تو اصولی طور پر وقار کے دو معنے بن گئے ایک سکون کے معنے دوسرے عقلمندی اور دانائی کے.ہمارے ملک میں جب یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو سکون کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ انگریزی میں کنزرویٹونس (Conservativeness) کہتے ہیں.لوگ عام طور پر کنزرویٹو پارٹی کو جانتے ہیں اس کے معنے بھی سکون ہیں یعنی ایسی پارٹی جو کہتی ہے ہم اپنے آباء واجداد کے طریق کو یونہی نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ہم اپنے مقام پر کھڑے رہیں گے ہاں جب کوئی واضح غلطی نظر آئی تو اسے چھوڑ دیں گے محض بعض اچھے اصول کو دیکھ کر ہم اپنی باتوں میں تبدیلی کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ تجربہ کے بعد تبدیلی کریں گے اور جب تک تجربہ نہ ہو اُس وقت تک باپ دادوں کی راہنمائی ہمارے لئے کافی ہے.اس قسم کی پارٹی کو کنزرویٹو پارٹی کہتے ہیں جس کا اردو میں ترجمہ قدامت پسند کیا جاتا ہے اور اسی کو سکون کہا جاتا ہے اور وزن اور بوجھ کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں کیونکہ اس سے سکون پیدا ہو جاتا ہے.پس وقار کے ایک معنے عادات کی اتباع میں سکون پیدا کرنے کے ہیں اور دوسرے معنے عظمندی اور دانائی کے ہیں.دوسرے معنوں پر غور کرنے اور ان کی تفصیلات پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کے لحاظ سے موقع اور محل کے مطابق کسی صحیح غرض اور مقصد کے ماتحت کام کرنا وقار کہلاتا ہے اور جب کوئی شخص بے موقع اور بے محل کام کرے تو اسے عدم وقار کہتے ہیں.قرآن مجید میں وقار کا لفظ انہی دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ پہلے معنے گو معیوب نہیں
خطبات محمود ۶۳۶ سال ۱۹۳۶ مگر خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نَعُوذُ بِاللهِ ساکن ہے اللہ تعالیٰ کیلئے کون سی قدامت ہے کہ ہم ان معنوں میں اُس کے متعلق وقار کا لفظ استعمال کر سکیں.انسانوں کیلئے تو بیشک ایک قدیم خیال ہو سکتا ہے اور ایک جدید لیکن اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو وحدہ لاشریک ہے اس کیلئے خاندانوں یا قوموں کی رسم و رواج کا کون سا سوال ہے کہ سکون کا لفظ اس کے متعلق استعمال کیا جا سکے.اُس کے متعلق وقار کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ موقع اور محل کے مطابق کسی غرض اور حکمت کے ماتحت کام کرنے والا ہے اور جب خدا تعالیٰ کے متعلق وقار کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے تو ایک مسلمان بھی جب اس لفظ کا استعمال کرے گا تو انہی معنوں میں استعمال کرے گا.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کو باوقار ہونا چاہئے تو اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت اس کے یہی معنے ہوں گے کہ انسان کو موقع اور محل کے مطابق عقلمندی اور دانائی سے کام کرنا چاہئے.اب وقار کے ایک معنے معین ہو گئے اور اس کے معنوں کا ابہام دور ہو گیا اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ باوقار اسے کہتے ہیں جو عقل اور سمجھ کے ماتحت موقع اور محل کی رعایت مد نظر رکھتے ہوئے ایسا کام کرے جس میں کوئی حکمت اور فائدہ ہو اور بے وقار اُس شخص کو کہیں گے جو ایسے افعال کا مرتکب ہو جو حکمت اور فائدہ سے خالی ہوں اور جو موقع اور محل کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے خلاف عقل اور خلافِ دانش ہوں.اس تعریف کے لحاظ سے وہ مثالیں جو میں پہلے دے آیا ہوں اگر ان کو دیکھا جائے تو فوراً پتہ لگ جائے گا کہ ان میں بیان کردہ وہ کون سے فعل وقار کے مطابق ہیں اور کون سے فعل وقار کے خلاف ہیں.ایک عورت جو گھر میں رہ سکتی ہے، جو عورت برقعہ بناسکتی ہے اور برقعہ پہن سکتی ہے وہ اگر کسی موقع پر بغیر کسی خاص ضرورت کے اپنا نقاب اٹھا دیتی ہے تو چونکہ اس نے پردہ اُتارا حالانکہ وہ پردہ کرسکتی تھی اور چونکہ قرآن مجید نے حکم دیا تھا کہ جو عورت اپنی زینت کے مقامات کو چھپا سکتی ہے وہ چھپائے اور اُس نے باوجود زینت کے مقامات چھپانے پر مقدرت رکھنے کے زینت کا مقام نہیں چھپایا اس لئے کہا جائے گا کہ وہ عورت بے وقار ہے اور اُس کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے.لیکن ایک زمیندار عورت جو برقعہ نہیں بنوا سکتی جو اپنی ضروریات کے لحاظ سے برقعہ نہیں پہن سکتی اور جو اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنے لئے اور اپنے بچوں کیلئے رزق کمانے کیلئے اپنے خاوند کے ساتھ کھیتی پر جائے اور کام میں اُس کا ہاتھ بٹائے اس کیلئے اتنا ہی کافی
خطبات محمود ۶۳۷ سال ۱۹۳۶ ہے کہ وہ گھونگھٹ نکالے اور کام کرتی پھرے اور اس کا ایسا کرنا عین وقار ہوگا.پس وہی چیز جو ایک برقعہ پوش امیر عورت کیلئے بے وقاری کا موجب ہے وہ ایک زمیندار عورت کیلئے بے وقاری کا موجب نہیں بلکہ وقار کا موجب ہے اس لئے نہیں کہ وہ عادت کے خلاف کام کرتی ہے بلکہ اس لئے کہ ایک امیر برقعہ پوش عورت کام کیلئے اور کئی وسائل اختیار کرسکتی ہے اور اپنی زینت کے مقامات کو بھی چھپا سکتی ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو شریعت اس پر الزام رکھتی ہے کہ اس نے کیوں اپنا نقاب اُٹھایا لیکن ایک غریب زمیندار عورت پر الَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ت کے مطابق کوئی الزام نہیں آئے گا کیونکہ وہ مجبور ہے کہ باہر جا کر اپنے خاوند کے ساتھ کام کرے.پس ایک نقاب کا اُٹھا دینا حکمت کے خلاف ہے اور دوسری کا برقعہ پہننا حکمت کے خلاف ہے ہاں اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ گھونگھٹ نکالے کیونکہ کھیت پر کام کرنے میں گھونگھٹ اس کے کام میں روک نہیں بن سکتا لیکن اگر وہ کسی وقت گھونگھٹ بھی اُتار دیتی اور ننگے سر پھرنے لگتی ہے تب ہم اس کے متعلق بھی کہیں گے کہ اُس کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے کیونکہ گھونگھٹ اتارنے کی اسے کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ گھونگھٹ اُتارنے کا وہ کوئی موقع اور محل تھا.پھر شریعت نے ظاہری پردہ سے زیادہ اندرونی پردہ پر زور دیا ہے اور کسی عورت کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی کسی بہن یا بیٹی یا سہیلی کے سامنے تنگی ہولیکن اگر کوئی عورت اپنی بیٹی یا بہن کے سامنے پیشاب کرنے بیٹھ جاتی ہے تو چونکہ اُس کا یہ فعل عقل و سمجھ کے خلاف اور موقع و محل کی رعایت سے عاری ہوگا اس لئے ہم کہیں گے کہ وہ عورت بے وقار ہے لیکن وہی عورت اپنی مجبوری کے ماتحت جب اسے دردِ زہ ہوتا ہے اور بچہ جننے کا وقت قریب آتا ہے تو دانا دائی یا واقف کار معالج کو بلاتی اور اس کے سامنے ننگی ہو جاتی ہے اور کوئی نہیں کہتا کہ یہ فعل وقار کے خلاف ہے.تو حکمت کے ماتحت کام کرنا وقار ہوتا اور بغیر کسی حکمت کے کام کرنا بے وقاری کہلاتا ہے.اب دیکھ لو قرآن کریم میں وقار کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں اے میرے ربّ! میں نے اس قوم کے سامنے کھول کھول کر اپنی باتیں پیش کر دیں ، میں نے اس خیال سے کہ شاید دوسرے لوگوں کے سامنے انہیں میرے منہ سے نصیحت کی بات سن کر تکبر میں اپنی عزت کا خیال نہ آجائے اور یہ نہ کہہ دیں کہ ہماری ہتک ہو گئی علیحدگی میں بھی انہیں باتیں سمجھائیں
خطبات محمود ۶۳۸ سال ۱۹۳۶ اور میں نے انہیں ایسی باتیں نہیں کہیں جو ان کیلئے بوجھل ہوں اور جن پر عمل کرنے سے انہیں تکلیف ہو بلکہ میں نے انہیں یہی کہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو یہ نہیں کہا جیسا کہ پادری کہتے ہیں کہ میرے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے ان کے متعلق معافی طلب کرو بلکہ میں نے انہیں کہا کہ تم دنیا کے کسی انسان کے سامنے نہیں بلکہ عالم الغیب خدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو اور یہ اقرار کوئی مضر بھی نہیں کیونکہ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا وہ خدا ایسا ہے جو گنا ہوں کو بہت بخشا ہے.پس اگر تم گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے طلب کرو گے تو تمہیں فائدہ ہوگا اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے گا.پھر میں نے انہیں کہا کیا تم دیکھتے نہیں کہ باوجود تمہارے گنا ہوں کے اللہ تعالیٰ آسمان سے کثرت سے تمہارے لئے بارشیں نازل کرتا ہے اور اُس نے تمہیں.دیئے ہیں ، مال دیا ، باغات دیئے ہیں نہریں دی ہیں، جب وہ تمہارے گنہگار ہونے کی حالت میں تم سے اتنا سلوک کرتا ہے تو اگر تم تو بہ کر لو گے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو گے تو سوچو تو سہی کہ خدا تم سے کیسا اچھا معاملہ کرے گا، جب تم اس کی رضامندی کیلئے کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتے ہو اور وہ تمہاری اس حالت کے باوجود تم پر اس قدر فضل کرتا ہے تو جب تم اسے خوش کر لو گے تو وہ تمہارے لئے کیا کچھ نہیں کرے گا.پھر وہ کہتے ہیں میں نے ان کے سامنے یہ بات بھی پیش کی کہ مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا آخر تم جو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے تو اسی لئے نا کہ سمجھتے ہو کہ ہم سے کوئی سوال جواب نہ ہوگا اور نہ ہم مرکز دوبارہ اُٹھائے جائیں گے یہی دنیا کی زندگی ہے جس میں ہمارا کام ہے کہ کھائیں اور پیئیں اور عیش اُڑائیں خدا کو اس سے کیا غرض کہ ہم دنیا میں کیا کرتے ہیں اور آیا اس کی عبادت بھی کرتے ہیں یا تو نہیں مگر مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا تم کو کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ باوقار ہے.یعنی ہر کام حکمت کے ماتحت کرتا ہے اور موقع اور محل کے مطابق کرتا ہے.اور کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ اس نے تم کو یونہی بغیر کسی مقصد اور مدعا کے پیدا کیا ہے.پھر وہ اپنے اس دعویٰ کی کہ خدا تعالیٰ کا بندوں کو پیدا کرنا بغیر حکمت کے نہیں ہوسکتا یہ دلیل دیتے ہیں کہ وَ قَدْ خَلَقَكُم اطوَارًا خدا تعالیٰ نے تم کو مختلف حالتوں اور ھیئتوں میں پیدا کیا ہے.یعنی اول تو انسانی پیدائش ایک وسیع قانون کے ماتحت ہے، باریک ذرات سے اس نے سب دنیا کو جوڑا ، پھر ادفی حالت
خطبات محمود ۶۳۹ سال ۱۹۳۶ سے ترقی دے کر زمین کو قابل نشو نما بنایا ، پھر اس میں سے سبزیاں نکالیں ، پھر جانور پیدا کئے ، پھر انسان کو اس سے ترقی دے کر پیدا کیا، پھر انسانی دماغ کو ترقی دے کر کامل بنایا، اب اس قدر وسیع و قانون اور نظام کے ماتحت پیدا ہونے والے انسان کی نسبت تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ اس کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مقصد ہی نہ تھا.دوسری دلیل تجربہ کی دی کہ علاوہ ھیئتوں کے اختلاف کے انسانوں کی حالتوں میں بھی اختلاف ہے ہر نیک اور بدعمل کا بدلہ ظاہر یا مخفی طور پر اس دنیا میں ملتا ہوا نظر آتا ہے اور جب یہ نظارہ ہر جگہ نظر آ رہا ہے ہے تو تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ انسان کو بلا مقصد پیدا کیا گیا ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے جزاء وسزا ایک خاص حد تک نازل ہو رہی ہے تو پھر قانونِ قدرت کے اس ظہور کی موجودگی میں انسانی پیدائش کو عبث کیونکر کہا جاسکتا ہے اور تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کا یہ فعل جو اتنے لمبے عرصہ سے جاری ہے اور جس کی ہر زمانہ میں نگرانی کی جارہی ہے محض ایک کھیل ہے.اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا.کیا تم اپنی طرف اور کارخانہ عالم کی طرف نہیں دیکھتے کیا یہ سب کچھ اتفاق کے نتیجہ میں پیدا ہو گیا ہے؟ اطوار کی پہلی دلیل کے ماتحت انسان کہ سکتا تھا کہ یہ سب کچھ اتفاق ہے جیسے آجکل سائنسدن کہتے ہیں کہ دنیا کا پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے.اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک بعض باتوں میں اتفاق ہو سکتا ہے لیکن کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں ستارے ہیں اور یہ سب کے سب طباقاً ہیں یعنی ایک قانون کے ماتحت چل رہے ہیں.کبھی اتفاق بھی ایک قانون کے ماتحت ہوا کرتا ہے.اب اس وقت جمعہ میں اتنے آدمی بیٹھے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب اتفاقی طور پر آکر بیٹھے ہیں.ہر شخص جو اس اجتماع پر نظر ڈالے گا وہ یہی کہے گا کہ کوئی خاص بات ہے یا کوئی خاص دن ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح اکٹھے ہو کر بیٹھے ہیں اور اگر کوئی غیر مسلم ہم سے پوچھے تو ہم اُسے بتا دیں گے کہ آج جمعہ ہے جو ہماری عبادت کا دن ہے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے جمع ہوئے ہیں.تو اللہ تعالیٰ اِس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کا رخانہ عالم پر نگاہ ڈالو سارے کے سارے کو تم طباق پاؤ گے یعنی ایک مطابقت سب میں دیکھو گے اور ہر چیز میں ایسی مطابقت کا پایا جانا قانون پر دلالت
خطبات محمود ۶۴۰ سال ۱۹۳۶ کرتا ہے اتفاق پر دلالت نہیں کرتا.اب دیکھ لو ادھر انسان دنیا میں پیدا کیا گیا اور اس کے چہرہ پر آنکھیں پیدا کی گئیں اور اُدھر کروڑوں میل پر ایک سورج بنادیا گیا کیونکہ آنکھ بغیر روشنی کے نہیں دیکھ سکتی تھی.مگر کیا کروڑوں میل پر ایک سیارہ کا بنایا جانا اور اس غرض کیلئے بنایا جانا کہ تا انسان دیکھے اور دنیا میں کام کاج کرے اتفاقی امر ہے؟ یہ تو اتفاق مانا جا سکتا تھا کہ اس دنیا میں انسان کی آنکھ بن گئی مگر آنکھ کے بننے کے ساتھ کروڑوں میل پر ایک سورج کا بن جانا کس طرح اتفاق ہو گیا.اس سے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ ایک مقتدرہستی نے پالا رادہ انہیں بنایا ہے.پھر انسانی زندگی کے قیام کیلئے جیسا کہ دن کی ضرورت تھی ایسا ہی رات بھی ضروری تھی اس کیلئے خدا نے تاریکی پیدا کر دی مگر اسی کے ساتھ ہی ہلکی روشنی کی بھی انسان کو ضرورت تھی جس کیلئے خدا تعالیٰ نے سورج کے مقابلہ میں ذرا قریب کر کے ایک چاند بنادیا جو سورج سے ہی روشنی لیتا ہے اس چاند کی روشنی سے فصلیں پکتی ہیں اور انسان کی صحت کو کئی لحاظ سے فائدہ پہنچتا ہے اب یہ اتفاق کس طرح ہو گیا کہ ادھر آنکھ بنی اور اُدھر چونکہ وہ بغیر سورج کی روشنی کے کام نہیں دے سکتی تھی اس لئے سورج بن گیا.پھر یہ امر د یکھتے ہوئے کہ بعض دفعہ سورج کی روشنی کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ براہِ راست نہ پڑے بلکہ چھن کر پڑے اتفاقی طور پر ایک اور سیارہ بن گیا جو رات کے وقت روشنی دینے لگا.غرض تمام کائنات عالم پر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ساری دنیا ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہے اور اسے کوئی ہوشمند انسان اتفاق نہیں کہ سکتا.پس حضرت نوح علیہ السلام یہ دلائل دے کر ان لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تمہاری پیدائش لغو اور عبث نہیں بلکہ تمہیں ایک خاص مقصد کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے آخر تم اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہو یا نہیں سمجھتے.اگر سمجھتے ہو تو کیا اسی لئے نہیں کہ تم حکمت کے ماتحت کام کرتے ہو پھر جب تم اپنے متعلق یہ خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ حکمت کے ماتحت کام کرتے ہو تو تم یہ کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام حکمت کے ماتحت نہیں کیا اور اُس نے یونہی انسانوں کو پیدا کر دیا ہے.آخر تم بڑوں کو کیوں بڑا کہتے ہو اسی لئے کہ تم سمجھتے ہو کہ وہ سمجھدار تھے اور ان کا حق ہے کہ انہیں بڑا کہا جائے.پھر اگر تمہارے باپ دادا اپنے چند سالوں کے کاموں کی وجہ سے سمجھدار بن گئے اور تمہارے لئے ضروری ہو گیا کہ تم ان کے
خطبات محمود ۶۴۱ سال ۱۹۳۶ کاموں پر اعتراض نہ کرو تو یہ کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کا ایک دومنٹ کا کام نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں سال کا کام نَعُوذُ بِالله لغو اور بے فائدہ ہے.تو وقار کے معنی قرآن کریم میں حکمت والے کام کے بیان کئے گئے ہیں گویا تمام دنیا کی پیدائش اور اس کا ایک قانون کے ماتحت چلنا بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب وقار ہے یعنی وہ کوئی کام فضول ، بے غرض اور بے محل نہیں کرتا بلکہ اس کا ہر کام کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اس کے مطابق ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جب بھی وقار کا لفظ استعمال کریں تو یہ امر اپنے مد نظر رکھیں کہ ہم جو کام کرتے ہیں یا جس کام کے کرنے کی لوگوں کو تاکید کرتے ہیں وہ بے محل تو نہیں کیونکہ بے محل ہونے کے لحاظ سے بھی وقار اور غیر وقار کا سوال سامنے آجاتا ہے.مثلاً وہی واقعہ جس کے متعلق اس دوست کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ وقار کے خلاف ہے اس کو میں نے بھی بے وقار قرار دیا تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے اُسی خطبہ میں بیان کر دی تھی کہ یہ امر بتانا تو ہندوؤں کو ہے کہ مسٹر کھوسلہ نے غلط فیصلہ کیا ، یہ امر بتانا تو سکھوں اور عیسائیوں کو ہے کہ ہائیکورٹ کے ایک جج نے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کو باطل قرار دیا ہے، مگر ٹوپیاں پہن کر گھوم اپنے بازاروں میں رہے ہیں حالانکہ اپنے بازاروں میں پھرنے کا کیا فائدہ.پس یہ کام بے حکمت تھا، بے غرض اور بے فائدہ تھا اور ایک لغو فعل تھا جس کا ارتکاب کیا گیا مگر یہی فعل ایک اور رنگ میں اگر کیا جائے تو بالکل وقار کے مطابق ہوگا.دیکھو ایک شخص سمجھدار ہے وہ دوسروں کو اپنی بات بخوبی سمجھا سکتا ہے لوگ اُس کی بات سُن کر مان بھی سکتے ہیں وہ اگر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے مثلاً اسی قسم کی ٹوپی پہن کر چل پڑتا ہے اور زبان سے اس فیصلہ کی تردید نہیں کرتا تو ہم کہیں گے اُس کا یہ فعل خلاف وقار ہے کیونکہ جس شخص کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ اس فیصلہ کو دلائل سے غلط ثابت کرے وہ اگر اپنی ٹوپی پر ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کا ایک فقرہ لکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ اُس کا فرض ادا کی ہو گیا تو وہ ایک لغو کام کرتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص زبان سے کام نہیں لے سکتا مثلاً فرض کرو کوئی گونگا ہے وہ بول نہیں سکتا لیکن چونکہ وہ بھی چاہتا ہے کہ اس ثواب میں شریک ہو اس لئے اگر وہ ایسا کوٹ پہن کر پھرتا ہے جس پر مسٹر کھوسلہ کے متعلق تردیدی فقرات درج ہوں تو کوئی شخص نہیں کہے گا کہ اس کا فعل خلاف وقار ہے کیونکہ آخر ایک گونگے کیلئے بھی تو ثواب کا کوئی ذریعہ چاہئے.
خطبات محمود ۶۴۲ سال ۱۹۳۶ وہ اگر مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم کے فیصلہ کو اپنی زبان سے نہیں دُہرا سکتا اور لوگوں کو یہ نہیں بتا سکتا کہ ہائیکورٹ کے ایک جج نے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق کیا کہا تو اُس کا کوٹ پہن کر لوگوں میں پھر نا ایک بامعنی اور با غرض کام ہے جسے کوئی بھی بُرا نہیں کہہ سکتا بلکہ اگر وہ اپنی ٹوپی پر بھی اس قسم کی با غرض اور با مقصد عبارت لکھوا کر لوگوں میں جاتا ہے تو وہ یقیناً گونگا ایک مفید کام کرتا ہے.شاید اس موقع پر کوئی شخص اعتراض کرے کہ حضرت باوا نا تک صاحب تو زبان سے اپنے عقائد کا اظہار کر سکتے تھے پھر انہوں نے چولہ کیوں بنوایا اور کیوں اُس پر عربی عبارات لکھوائیں اور کیوں اسے پہنے پھرے حالانکہ ان کی قوم عربی آیات کا مطلب نہیں سمجھ سکتی تھی.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت باوانا تک صاحب کے چولہ پہنے میں بھی حکمت تھی اور وہ حکمت یہ تھی کہ بیشک سکھ اور ہندو جن میں وہ چولہ پہن کر اپنے عقائد کی اشاعت کیا کرتے تھے عربی سے ناواقف تھے لیکن چونکہ باوا نا نک ایک ایسی قوم میں کام کر رہے تھے جس میں ان کے کام کے مٹ جانے کا اندیشہ تھا اور خطرہ تھا کہ بعد میں ان کی قوم ان کے عقائد کا انکار نہ کر دے اور اس بات کو قبول ہی نہ کرے کہ حضرت باوا نانک صاحب لوگوں کے سامنے اسلامی تعلیم پیش کیا کرتے تھے اس لئے با واصاحب نے چولہ بنوایا.وہ چولہ انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کیلئے نہیں بنوایا بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کیلئے بنایا تھا تا ہمیشہ کیلئے وہ چولہ اس بات پر گواہ رہے کہ باوا صاحب مسلمان تھے اور اسلامی تعلیم کی اشاعت ہی ان کا کام تھا.عربی میں آیات قرآنیہ آپ نے چولہ پر اس لئے لکھوائیں تا چولہ کو اُن کی قوم محفوظ رکھے کیونکہ اگر وہ گور و لکھی میں قرآنی تعلیم کا ترجمہ لکھواتے تو اول تو لوگ خیال کی کر سکتے تھے کہ یہ ان کے اپنے اقوال ہیں دوسرے اگر کسی کو قرآن کریم کا خیال آجا تا تو شاید چولہ کو چھپا دیتا لیکن اصل آیات کو بوجہ زبان نہ سمجھنے کے سکھوں نے کوئی آسمانی نشان سمجھا اور ا محفوظ رکھا.اور اگر کہا جائے کہ انہوں نے اس چولہ کو پہنا کیوں، رکھ کیوں نہ چھوڑا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ خالی رکھ ہی چھوڑتے تو ان کی قوم یہ خیال کرتی کہ شاید کسی اور کا چولہ ہو ان کے پہننے کی وجہ سے تاریخی شہادت قائم ہوگئی کہ باوا نا نک صاحب اسی چولہ کو پہنتے تھے اور ان کو پسند تھا.غرض چولہ پر اصل عربی آیات ہونے کی وجہ سے سکھوں میں سے کسی کو اس کے تباہ کرنے کا خیال نہ آیا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آ گیا اور آپ نے اس چولہ سے فائدہ
خطبات محمود ۶۴۳ سال ۱۹۳۶ اُٹھا کر سکھ قوم کو ان کے گرو کے عقیدہ کی طرف توجہ دلائی.پس جو کام حضرت باوا صاحب نے کیا نہایت پر حکمت اور با موقع اور برمحل تھا لیکن اگر اسی قسم کا چوغہ پہن کر اب میں پھرنے لگوں یا سلسلہ کا کوئی عالم اس قسم کا چوغہ پہن کر پھرنے لگے تو یہ خلاف و قار فعل ہوگا کیونکہ جب قرآن کریم کی انہی آیتوں کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کر سکتے اور ان کے مطالب سے انہیں آگاہ کر سکتے ہیں تو ان آیتوں کو ایک چوغہ پر لکھوا کر پہنے کا کیا مطلب.لیکن اگر ایک گونگا جو بول نہیں سکتا یا ایسا شخص جس میں تقریر کرنے کا ملکہ نہیں جو ان پڑھ ہے اور لوگوں سے گفتگو کرنے میں جھجھک محسوس کرتا ہے وہ اگر کہتا ہے کہ لاؤ مجھے کسی کوٹ پر قرآن کریم کی چند آیتیں جن سے سلسلہ کی صداقت ثابت ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی ثابت ہوتا ہے لکھ دو تا کہ میں اسے پہن کر لوگوں میں پھرتا رہوں اور تا اگر میں زبان سے تبلیغ نہیں کر سکتا تو کم از کم اپنے کوٹ سے ہی لوگوں کو تبلیغ کروں تو کوئی شخص اس کے فعل کو لغو یا خلاف وقار قرار نہیں دے گا لیکن یہ فعل میرے لئے لغو ہو گا کیونکہ میں زبان سے لوگوں کو سمجھا سکتا ہوں.غرض میں یا سلسلہ کا کوئی اور عالم اس قسم کا چوغہ پہن لے تو یہ وقار کے خلاف فعل ہوگا لیکن اگر ایک ان پڑھ اس قسم کا چوغہ پہنتا ہے جو زبان سے تبلیغ کرنے کا ملکہ اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کا یہ فعل جائز ہوگا بشرطیکہ وہ اس قسم کا چوغہ پہن کر ان لوگوں کے سامنے جائے جن کو سمجھا نا اُس کے مدنظر ہے لیکن اگر وہی شخص اس قسم کا چونہ پہن کر اس مسجد میں آجاتا ہے تو چونکہ اس مسجد میں اس قسم کا چونہ پہن کر آنے کا کوئی فائدہ نہیں اِس لئے اُس کا یہ فعل خلاف محل ہونے کی وجہ سے وقار کے خلاف ہوگا اور یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص جوتی اپنے سر پر رکھ لے یا ٹوپی پاؤں میں ڈال لے.جس طرح جوتی کا سر پر رکھنا یا ٹوپی کا پاؤں میں ڈال دینا خلاف وقار امر ہے اسی طرح جب کوئی شخص اس قسم کا چوغہ یا اس قسم کی ٹوپی پہن کر جس پر لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے بعض فقرات لکھے ہوئے ہوں اپنی مسجد میں آتا یا اپنے لوگوں میں ہی پھرتا رہتا ہے تو وہ وقار کے خلاف فعل کرتا ہے.غرض ضرورت کے مطابق بات کرنا اور دانائی اور حکمت سے کام لینا وقار ہے.اس تعریف کے بعد جیسی جیسی ضرورت بدلتی جاتی ہے وقار والے افعال بھی بدلتے جاتے ہیں مگر ان سب میں اصل وہی کام کرتا ہے جو میں نے بیان کر دیا ہے اگر ایسا کام کیا جائے جو با موقع اور
خطبات محمود ۶۴۴ سال ۱۹۳۶ برحل ہو اور لوگوں کا فائدہ اس میں مدنظر ہو تو وہ وقار والا کام کہلائے گا اور اگر حکمت کو مد نظر نہ رکھا جائے تو خلاف وقار فعل ہو جائے گا.غرض اچھے بھلے سمجھدار آدمیوں کا اپنے لوگوں میں ہی اس قسم کی ٹوپیاں پہن کر پھرنا جن پر بعض مختصر فقرات لکھے ہوئے ہوں جن کا مطلب بھی لوگ نہ سمجھ سکیں خلاف وقار ہے مگر ایک کوٹ بنوا کر کسی گونگے یا ان پڑھ کا پہن لینا تا کہ وہ اپنے کپڑوں سے ہی لوگوں کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کرتا رہے ایک باوقار کام ہے.غرض کام کے لحاظ سے، کام کرنے والے کے لحاظ سے اور موقع اور محل کے لحاظ سے وقار والے کاموں اور غیر وقار کاموں کی نوعیت بدلتی چلی جاتی ہے.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو ایک راج ہے وہ کسی کا مکان بنانے کیلئے ہمیشہ گونگا تا اور بانسوں پر تختے رکھ کر اُن پر بیٹھ کر کام کرتا ہے اور کسی کے وہم میں بھی نہیں آتا کہ اُس کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے لیکن کسی کے مکان کے پاس اسی طرح بانس گاڑ کر اور اس پر تختے بچھا کر اگر سلسلہ کا کوئی عالم بیٹھ جائے تو جو شخص بھی وہاں سے گزرے گا ہنسے گا اور کہے گا کیسی خلاف و قار حرکت ہے.اب راج کو لوگ روز دیکھتے ہیں کہ وہ تختوں پر بیٹھ کر کام کر رہا ہے مگر کبھی انہیں خیال نہیں آتا کہ یہ وقار کے خلاف امر ہو رہا ہے اس لئے کہ ان کی فطرت اس موقع پر بولتی اور کہتی ہے کہ راج کا یہ فعل با موقع اور برمحل ہے اور اس میں بنی نوع انسان کا فائدہ ہے لیکن ایک سلسلہ کے عالم کا اس طرح بیٹھ رہنا چونکہ بالکل بے فائدہ ہوگا اس لئے سب اسے لغو اور خلاف وقار فعل کہنے لگ جائیں گے.غرض وقار کے یہ بالکل غلط معنی ہیں کہ چونکہ ہمیں ایک کام کرنے یا اس کے دیکھنے کی عادت نہیں اس لئے اس کام کو جاری نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر ہم اس تعریف کو درست سمجھیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں روکیں پیدا کرتے ہیں.پس اپنی عادات کے خلاف کسی کو چلتے دیکھنا بے وقاری نہیں بلکہ حکمت کے خلاف کام کرنا بے وقاری ہے.کوئی شخص اگر ایک جلس میں کھڑا ہو کر ایک پاؤں پر ناچنے لگ جائے تو سب کہیں گے اسے اپنے وقار کا کوئی خیال نہیں لیکن اگر ایک اور شخص جو کسی ضرورت کیلئے دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا ہے تپتی ہوئی زمین کی گرمی برداشت نہ کر کے کبھی ایک پاؤں اٹھائے اور کبھی دوسرا تو کوئی اسے وقار کے خلاف فعل قرار نہیں دے گا.غرض قرآن مجید نے وقار کے معنے یہ بتائے ہیں کہ انسان حکمت عقل اور دانائی کے
خطبات محمود ۶۴۵ سال ۱۹۳۶ ماتحت کام کرے اس میں سکون کے معنے آجاتے ہیں کیونکہ عقل اور دانائی کے ماتحت جب کوئی کام کی کیا جائے تو وہ جوش انسان میں نہیں ہوگا جو اُس کے عقلی توازن کو متزلزل کر دیتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ عادات کے خلاف کام کرنا بھی بعض دفعہ وقار کے خلاف کہلا سکتا ہے اور یہ اس موقع پر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے قومی طریق کو بلا وجہ اور بلا حکمت چھوڑ دے.مثلاً اپنے قومی لباس یا قومی تمدن کو ہلا کسی خاص مقصد یا حکمت کے چھوڑ دے تو ایسے شخص کو بھی وقار کے خلاف کام کرنے والا قرار دیں گے کیونکہ وہ بلا وجہ ساری قوم کو اپنا دشمن بنالیتا ہے.اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہو تو بے شک اس طریق کو وہ چھوڑ سکتا ہے لیکن اگر وہ بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے قومی طریق کو چھوڑتا ہے تو وہ یقیناً لوگوں میں بلا وجہ ہیجان پیدا کرتا ہے اور بے وقار فعل کا مرتکب ہوتا ہے.اگر ایک قوم فیصلہ کر لیتی ہے کہ ہم نے پگڑی ہی پہنی ہے تو کسی شخص کے پگڑی پہننے میں کیا حرج ہے کہ وہ ٹوپی پہن کر اپنی قوم میں ہیجان پیدا کرے.جب دونوں اچھی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ جماعت کے افراد وہ چیز اختیار نہ کریں جسے سب قوم نے پسند کیا ہے.غرض بلا وجہ ایسی قومی عادات کو چھوڑنا جن میں عقلاً اور شرعاً کوئی خاص نقص نہیں اور اپنے لئے قوم کے خلاف کوئی دوسری راہ تلاش کرنا بھی خلاف وقار کام ہے کیونکہ اس سے طبائع میں بلا وجہ جوش پیدا ہوتا ہے.ایک دفعہ جب مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق مجھ سے مشورہ لیا گیا تو میں نے پوچھنے والوں کو انہی معنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بتایا کہ اشتہاروں والے اپنے اشتہارات لوگوں میں وسیع طور پر پھیلانے کا یہ انتظام کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے آگے پیچھے بورڈ لگا دیتے ہیں جس کے درمیان دو ڈنڈے لگے ہوئے ہوتے ہیں اس بورڈ پر اخبار والے اپنا اشتہار لگا دیتے ہیں اور ایک آدمی ان بورڈوں کو لے کر چکر کا تھا پھرتا ہے.انگلستان میں اس قسم کے بورڈوں کو سینڈ وچ بورڈ کہتے ہیں دو پھٹے آگے پیچھے ہوتے ہیں اور ان پر اُس دن کے اخبار کا خلاصہ لکھا ہوتا ہے اور ایک شخص اسے اُٹھائے پھرتا ہے.وہ بازاروں میں پھرتا رہتا ہے اور اس بورڈ کو پڑھ پڑھ کر لوگ اخبار خریدتے اور پڑھتے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ ہم غریب ہیں اور دشمن امیر ، پھر ہمارے مستقل کام ہزاروں چل رہے ہیں جن پر ماہوار ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں ہمارے دشمنوں کو کبھی کبھی جوش آتا ہے اور وہ بعض دفعہ بہت زیادہ روپیہ بھی اکٹھا کر لیتے ہیں لیکن
خطبات محمود ۶۴۶ سال ۱۹۳۶ - بہر حال انہیں کبھی کبھی جوش آتا ہے اور ہمارے کام ہزاروں ہیں اور پھر مستقل ہیں ایک دن کے کام نہیں کہ آج کیا اور کل چھوڑ دیا.بلکہ انہیں مسلسل کرتے چلے جانا ہے پھر ہم نے کسی ایک قوم کا یا ایک ملک کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا مقابلہ کرنا ہے اگر مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے خلاف ہم ٹریکٹ شائع کریں تو دنیا میں اس وقت دو ارب کی آبادی ہے اگر ہم ساری دنیا کو یہ بتانا چاہیں کہ ہم مظلوم ہیں اور دوسو آدمیوں کیلئے صرف ایک ٹریکٹ رکھیں تو ہمیں ایک کروڑ ٹریکٹ شائع کرنا پڑے گا اور ایک کروڑ ٹریکٹ شائع کرنے کیلئے کم از کم دس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی اور چونکہ ہمارے اس ایک ٹریکٹ سے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی تردید کی ضرورت پوری نہیں ہوگی اس لئے اور اشتہارات اور ٹریکٹ بھی شائع کرنے کی ضرورت رہے گی.اب جب کہ دس لاکھ روپیہ سے صرف ایک ٹریکٹ شائع کیا جاسکتا ہے تو خود ہی سوچیں ہماری غریب جماعت اس خرچ کی کہاں متحمل ہوسکتی ہے اور اگر ہم باقی دنیا کو چھوڑ کر صرف ہندوستان میں اس فیصلہ کی تردید کی کثرت سے اشاعت کریں تب بھی پچاس ساٹھ ہزار روپیہ کی ضرورت ہے اور اگر صرف شہر لاہور میں اچھی طرح اشاعت کریں تب بھی سو دو سو روپیہ خرچ ہو جائے گا لیکن اگر ایک آدمی مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق ہائی کورٹ کے فقرات اسی قسم کے سینڈوچ بورڈ پر لکھوا کر یا ایک پھٹے پر لکھ کر اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یا سائیکل پر رکھ کر پھرتا رہے تو چار آنے کے خرچ سے وہ سارے لا ہور کو آگاہ کر سکتا ہے.اب یہ بے حکمت کام نہیں بلکہ پر حکمت کام ہے کیونکہ اس ذریعہ سے ہم دوسرے لوگوں تک اپنی آواز بھی پہنچادیں گے اور خرچ زیادہ نہیں ہوگا.پس یہ فعل وقار کے خلاف نہیں بلکہ وقار کے عین مطابق ہے.اگر ہم اس تشریح کو مدنظر نہ رکھیں جو میں نے کی ہے تو پھر وقار کے یہ معنی ہوں گے کہ انسان کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جائے نہ ہاتھ ہلائے نہ پاؤں.مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی تردید کی اشاعت کیلئے اس قسم کی اور تجاویز بھی استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن چونکہ میرا اصل خطبہ وقار کے متعلق ہے مسٹر کھوسلہ کے متعلق نہیں اس لئے میں نے ایک مثال بتادی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ضرورتیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم تمام ایسے طریق اختیار کریں جو عام حالات میں یا روپیہ ہونے کی صورت میں گو وقار کے خلاف سمجھے جاسکتے ہوں مگر ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے ہرگز نہیں.اگر ہمارے پاس کافی روپیہ آ جائے یا ہر شخص ہم میں سے پڑھا لکھا اور مقرر ہو تو پھر ایسے
خطبات محمود ۶۴۷ سال ۱۹۳۶ ریق اختیار کرنا یقیناً وقار کے خلاف فعل ہوگا اور ہمارے لئے مناسب ہوگا کہ ہم انہیں چھوڑ دیں لیکن موجودہ حالات کا تقاضا بالکل اور ہے.یا درکھولوگوں کی رسوم اور لوگوں کے رواج اور لوگوں کی عادات کوئی چیز نہیں اصل چیز یہ ہے کہ ہمارا کوئی قدم اسلام کے خلاف نہ ہو اور ہمارا کوئی کام عقل و دانش اور موقع محل کی رعایت سے خالی نہ ہوا گر اسلام اور احمدیت کی خدمت میں ہمیں کوئی ایسا کام کرنا پڑے جو ہماری عادات یا رسوم و رواج کے خلاف ہو تو ہمیں اس کے اختیار کرنے سے بچا نا نہیں چاہئے کیونکہ ہمارا اصل کام اسلام اور احمدیت کی خدمت ہے لیکن اگر اسلام اور احمدیت کیلئے کوئی بات مُضر ہے تو خواہ وہ ہمارے رسوم اور ہمارے رواج کے مطابق ہو اُس کو چھوڑنے اور ترک کرنے میں ہی برکت ہوگی.غرض اگر کسی بات میں اسلام کا کوئی فائدہ ہے تو ہم اسے ہی اختیار کریں گے خواہ ہمیں اُس کیلئے کتنی بڑی قربانی کرنی پڑے اور خواہ اس کو اختیار کر کے ہم دنیا کی نگاہ میں بے وقار ہی بن جائیں.پس سُست اور غافل مت بنو بلکہ با وقار بنونگران معنوں میں نہیں کہ تم اپنے باپ دادوں کے پرانے طریق کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہو بلکہ ان معنوں میں جن معنوں میں قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے یعنی جو کام کرو وہ پر حکمت ہو ، وہ عقل کے ماتحت ہوا اور تمہارا مقصد و مدعا اُس سے یہ ہو کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے.جب بھی تمہارے سامنے کوئی کام پیش ہو تم غور کرو کہ اس سے اسلام اور احمدیت کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں.اگر اس سے اسلام اور احمدیت کو فائدہ پہنچتا ہو، اگر وہ موقع اور محل کے مطابق ہو، اگر وہ حکمت اور دانائی کی روح اپنے اندر رکھتا ہو، پھر خواہ اس کی کوئی شکل اور کوئی صورت ہو تمہارا فرض ہے کہ اس کام کو کرو کیونکہ وہی کام تمہارے وقار کا موجب.اور جو اس کے خلاف ہے اس کو مت کرو کیونکہ اس میں تمہارا وقار نہیں بلکہ بے وقاری ہے.( الفضل ۱۰ /اکتوبر ۱۹۳۶ء) ا نوح ۱۰ تا ۲۱ النور : ٣٢
خطبات محمود ۶۴۸ ۳۷ سال ۱۹۳۶ مالی قربانی اور سادہ زندگی کی طرف خاص توجہ کی جائے (فرموده ۹ /اکتوبر ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- تحریک جدید کا دوسرا سال عنقریب ختم ہونے والا ہے اور تیسرے سال کے متعلق چند ہفتوں تک إِنْشَاءَ اللهُ اعلان ہونے کو ہے اس لئے پھر ایک دفعہ میں اُن دوستوں کو جو اخلاص و تقویٰ کے ساتھ سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرتا ہوں.میں نے بارہا کہا ہے کہ جماعت کی کثرت یا تعداد کی زیادتی سلسلہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی.ہماری کمزوری آج سے چالیس سال پہلے کے مقابلہ میں اس لحاظ سے نہیں کہ آج ہماری تعداد کم ہے آج سے چالیس سال سارے ہندوستان میں شاید اتنے احمدی نہیں تھے جتنے آج اس مسجد میں بیٹھے ہیں.آج سے چالیس سال قبل کا زمانہ ۱۸۹۶ء کا بنتا ہے اور اُس وقت سارے ہندوستان میں شاید ہزار ڈیڑھ ہزار احمدی ہوں گے کیونکہ ۱۸۹۳ ء.۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین چار سو تعداد لکھی تھی اور اس لحاظ سے ۱۸۹۶ ء میں انداز اہزار ڈیڑھ ہزار احمدی بنتے ہیں اور آج اس مسجد میں جس قدر لوگ بیٹھے ہیں وہ غالباً دو اڑھائی ہزار ہوں گے.پس تعداد کے لحاظ سے تو خدا تعالیٰ نے ہمیں اتنی ترقی دی ہے کہ آج صرف قادیان کی کو جماعت اُس وقت کی ساری جماعت سے زیادہ ہے مگر اُس زمانہ میں باوجود اس کے کہ افراد تھوڑے تھے ، بوجہ اس کے کہ مخالفت زیادہ تھی اور ہر فرد مظالم کا تختی مشتق بن رہا تھا ایمان داروں
خطبات محمود ۶۴۹ سال ۱۹۳۶ کے سامنے یہ بات نئی نئی آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مامور کو نئے سرے سے دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے ایمان ایک شاندار مظاہرہ کر رہا تھا اور منافق بہت ہی کم تھے میں نے کہا ہے کہ بہت ہی کم تھے لیکن یہ نہیں کہا کہ بالکل ہی نہ تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ اُس زمانہ میں بھی بعض کمزور طبائع کے لوگ تھے.موجودہ زمانہ میں چونکہ بعض سارے کے سارے خاندان احمدی ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ بعض ان کے رشتہ دار بھی لگے بندھے اور ان کی دیکھا دیکھی احمدی ہو گئے ہیں ، پھر نئے نئے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کی تربیت کی طرف ان کے والدین کوئی توجہ نہیں کرتے اور وہ صرف اس وجہ سے احمدی ہیں کہ ان کے ماں باپ احمدی تھے ورنہ وہ سوچ سمجھ کر تحقیق کر کے جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہوئے.پھر یوں بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں وضاحت فرمائی ہے جب جماعتیں ترقی کرتی ہیں تو بعض دفعہ قربانیوں کے مطالبہ میں زیادتی کی وجہ سے کمزور لوگوں میں منافقت پیدا ہونے لگ جاتی ہے.ابتدائی زمانہ میں تو صرف یہی قربانی ہوتی ہے کہ بیعت کرلی اور دین کی راہ میں مالی قربانی پیش کر دی یا وہ قربانی پیش کر دی جو دشمن زبر دستی حاصل کرتا ہے مگر جماعت کی رقی کے بعد سینکڑوں قسم کی قربانیوں کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے، کچھ تمدنی ہوتی ہیں، کچھ اقتصادی، کچھ علمی ، کچھ نفسی ، کچھ اخلاقی ، کچھ سیاسی ، کچھ اہلی جو بعض لوگوں کو ناگوار گزرتی ہیں اور اس وجہ سے نفاق کا مادہ ان میں پیدا ہونے اور نشو ونما پانے لگتا ہے پس اسی سنت کے مطابق اب اُس وقت کی نسبت منافق زیادہ ہیں اور اس لئے تعداد کی زیادتی کے باوجود ہمارے لئے وہ امن نہیں ہے جو اُس وقت تھا.غرض آج ہمیں خطرہ اس طرف سے نہیں ہے کہ ہماری تعداد پہلے سے کم ہوگئی ہے بلکہ خطرہ اس امر سے ہے کہ اب منافق پہلے کی نسبت زیادہ ہیں ورنہ آج اگر جماعت آدھی یا چوتھائی حصہ رہ جائے لیکن ساتھ ہی منافقوں کی نسبت موجودہ نسبت سے کم ہو جائے تو ہماری طاقت زیادہ ہو جائے گی کم نہ ہوگی بلکہ میں تو بارہا غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر ہماری تعداد سو گنا کم ہو جائے اور منافق بالکل نکل جائیں تو ہماری طاقت موجودہ طاقت سے سو گنا زیادہ ہو جائے گی.منافق ایک طرف تو پوشیدہ رہتا ہے اور دوسری طرف نَحْنُ مُصْلِحُونَ اے کا نعره
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ ނ لگا تا رہتا ہے اس وجہ سے سادہ لوح مؤمن ہمیشہ ہی منافق کی چالا کی اور ہوشیاری کا شکار رہتے ہیں.منافق جس سے ملتا ہے پہلے اس کی نسبت تاڑتا ہے کہ یہ کس خیال کا آدمی ہے اور پھر اس سے بات کرتا ہے.بعض منافقین کے متعلق ان کے دوستوں نے بتایا کہ ہم پندرہ بیس سال سے ان.تعلقات رکھتے تھے مگر ان کی منافقت کا ہمیں کوئی علم نہیں ہوا اور جب ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے بعض دوسرے لوگوں سے منافقانہ باتیں کیں تو ہم حیران رہ گئے.منافق بھی سوچ بچار کر کے دوستا نے کرتا ہے بعض دفعہ وہ ایک مخلص انسان سے اس لئے دوستانہ لگا لیتا ہے کہ وہ ہمیشہ میری براءت کا گواہ رہے گا اور اس کی دوستی اور ضرورت کے موقع پر اس کی شہادت کی وجہ سے لوگ مجھ پر شک نہیں کر سکیں گے اور خیال کریں گے کہ اتنے مخلص آدمی سے تعلق رکھنے والا منافق نہیں ہوسکتا اور اگر کسی شخص نے میری منافقت کا بھانڈا پھوڑ دیا تو میں جھٹ اس مخلص کی شہادت پیش کروں گا کہ یہ شخص میرا اتنے سال سے دوست ہے اس سے میرے خیالات پوچھو اور وہ جھٹ اپنی مؤمنانہ سادگی سے کود کر آگے آجائے گا اور بڑے جوش سے میرے مخلص ہونے کی گواہی دے گا.ایسے آدمیوں کو چھوڑ کر وہ دوسرے لوگوں سے ان کے خیالات کے مطابق منافقانہ گفتگو کرتے ہیں.مثلاً ایک منافق کو اگر ایک دوسرے شخص کی نسبت جو ہو تو مخلص لیکن کمزوری کی وجہ سے منافق کا اثر قبول کرنے کیلئے تیار ہو یہ معلوم ہو کہ اُسے نظام سلسلہ سے کوئی شکوہ ہے لیکن ساتھ ہی وہ خلیفہ سے اخلاص رکھتا ہے تو وہ جھٹ اُسے جا کر ملے گا اور یوں بات شروع کرے گا کہ کیا رکیا جائے خلیفہ تک تو کوئی بات پہنچنے ہی نہیں دیتا اگر ان تک بات پہنچے تو وہ ایک منٹ میں انصاف کر دیں مگر مشکل تو یہ ہے کہ ان تک بات پہنچتی ہی نہیں اور یہ درمیانی افسر غریبوں پر ظلم کرتے چلے جاتے ہیں.سننے والا چونکہ نظام سلسلہ سے ٹھو کر کھائے ہوئے ہوتا ہے اور اُس کی امید میں خلافت کے وجود سے وابستہ ہو رہی ہوتی ہیں وہ اس کلام میں نظام پر حملہ اس قدر محسوس نہیں کرتا جس قدر خلافت سے عقیدت کا اظہار اُسے نظر آتا ہے اور چونکہ وہ خود بھی اُس وقت اسی رائے کا ہوتا ہے وہ کو اس منافق کو عقلمند مخلص سمجھتے ہوئے اُس کی محبت کو اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ کچھ دنوں میں نفاق کا زہر اُس کے ایمان کے تریاق کو بھی ضائع کر دیتا ہے اور یہ کمزور مخلص ایک دن اپنے آپ کو
خطبات محمود ۶۵۱ سال ۱۹۳۶ ا خالص منافق پاتا ہے.اس کے برخلاف اگر اسی منافق کو کسی ایسے شخص کا علم ہوتا ہے جسے کسی وجہ سے خلافت سے کچھ بدظنی ہو جاتی ہے تو یہ دوڑ کر اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے.پہلے تو بیچ بیچ کر شبہات ظاہر کرتا ہے، کبھی کہتا ہے خلافت برحق مگر موجودہ خلیفہ کی طبیعت ذرا نازک ہے، کبھی کہتا ہے خلیفہ اول بہت متقی انسان تھے، کبھی کہتا ہے وہ بہت سادہ تھے، پھر آہستہ آہستہ جب وہ اس شخص کے ایمان کو کمزور کر لیتا ہے تو کھلے طور پر کہ دیتا ہے کہ اجی ! ناظر اور دوسرا عملہ کیا کرے خلیفہ صاحب کسی کی بات تو سنتے نہیں اور اگر کوئی حق بات کہہ دے تو اُس کی شامت آ جائے.اس پر الٹی جھاڑیں پڑیں اور ایسی ڈانٹ ڈپٹ ہو کہ ساری عمر یا د رکھے کیا کسی نے جماعت سے نکلنا ہے کہ خلیفہ کو جا کرسچا مشورہ دے.غرض وہ ہر قسم کے آدمی سے علیحدہ علیحدہ ایسی گفتگو کرتا ہے جو اس کمزور انسان کے مرض کے مطابق ہو خواہ ایک گفتگو دوسری سے متضاد ہی ہو.بعض دفعہ اس منافق کی گفتگو ایسی متضاد ہوتی ہے کہ اگر دونوں شخص اکٹھے ہو کر تبادلہ خیالات کریں تو دنگ رہ جائیں کہ اس منافق نے ایک سے کیا کہا اور دوسرے سے کیا کہا.ایک سے تو یہ کہا کہ خلیفہ بیچارہ کیا کرے اُس تک تو ناظر بات نہیں پہنچنے دیتے ورنہ وہ تو انصاف دینے پر تیار رہتا ہے اور دوسرے سے یہ کہا کہ کا رکن تو نہایت اچھے ہیں لیکن ان کی کوئی سنتا ہی نہیں.ناظر بیچارے کئی دفعہ سچ کہنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فوراً ڈانٹ پڑ جاتی ہے.غرض منافق کی چال ہر جگہ بدلتی رہتی ہے وہ جانتا ہے کہ جن مؤمنوں سے وہ علیحدہ علیحدہ گفتگو کرتا ہے وہ اکٹھے ہو کر تو کبھی اُس کی گفتگوڈ ہرا ئیں گے نہیں اس لئے اس کا بھید نہیں کھل سکے گا اور اگر وہ کبھی اکٹھے ہو کر بات بھی کر لیں اور اس کی شرارت کا بھانڈا پھوٹ جائے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ پھر یہ قسمیں کھا کھا کر اور جھوٹ بول بول کر اپنے عیب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے.چنانچہ ان دنوں بھی منافقوں کا یہی رویہ ہے اگر وہ پکڑے جائیں تو جھٹ قسمیں کھانے لگ جاتے ہیں کہ اصل میں غلط فہمی ہو گئی میں نے کچھ اور کہا تھا.لیکن جب یہ بہا نہ بھی نہ چلے اور الزام ثابت ہو جائیں تو پھر جو چھوٹا الزام ہوا سے تسلیم کرلیں گے مثلاً اوپر کی مثال میں یہ تسلیم کر لیں گے کہ ہاں ہم نے ناظروں کے خلاف کہا تھا خلیفہ کے خلاف نہیں کہا اور اُس شخص کو مخاطب کر کے جس
خطبات محمود ۶۵۲ سال ۱۹۳۶ کے سامنے ناظروں کی شکایت اور خلیفہ کی براءت کی تھی چلانے لگ جائیں گے.آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے خلیفہ سے کس قدر انس ہے ان صاحب کو غلط فہمی لگ گئی ہے ورنہ یہ تو بے شک خلیفہ کے خلاف باتیں کہہ رہے تھے لیکن میں اس کی تردید کرتا چلا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ نہیں سب قصور ناظروں اور دوسرے افسروں کا ہے اور وہ بیچارہ شخص بھی اپنے تجربہ کی بناء پر جو در حقیقت تجربہ نہ تھا فریب تھا شہادت دینے لگ جائے گا.قرآن کریم میں منافق کی علامت یہ بتائی ہے کہ وہ حلاف اور جھوٹا ہوتا ہے یعنی جھوٹ بھی خوب بولتا ہے لیکن پھر جھوٹ پر پردہ ڈالنے کیلئے قسمیں بھی خوب کھا تا ہے.میں نے شروع میں ہی بتایا تھا کہ تحریک جدید کے متعلق منافقوں میں چہ میگوئیاں ہوں گی کیونکہ منافق زیادہ قربانیوں کی برداشت نہیں کر سکتا مثلاً منافق کہیں گے کہ انجمن کی مالی حالت اس قدر خراب ہے اور اس پر تحریک جدید کے چندے اسے اور بگاڑ رہے ہیں.چنانچہ مجھے ابھی بعض لوگوں کی نسبت جو معزز اور باوقار سمجھے جاتے ہیں اور جنہیں لوگ معتبر اور دیانتدار خیال کرتے ہیں اطلاع ملی ہے کہ وہ اپنی مجلس میں ذکر کر رہے تھے کہ اس زمانہ میں تحریک جدید کو جاری کر کے انجمن کی مالی حالت اور خراب کر دی گئی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ عام چندے ادا نہیں کر سکتے.ان کا پہلا جھوٹ تو انجمن کے رجسٹر دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کیونکہ رجسٹروں سے پتہ چلتا ہے کہ انجمن کی آمد آگے سے زیادہ ہے اگر قرضہ ہے تو اس وجہ سے کہ اخراجات آمد کی زیادتی سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں.اس لئے نہیں کہ آمد پہلے سے کم ہوگئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ قریب کے سالوں میں عموماً جھٹ پٹ آمد میں کمی آنے لگتی تھی مگر اب متواتر کئی سال سے آمد ایک ہی سطح پر قائم ہے إِلَّا مَا شَاءَ اللہ کسی ہفتہ یا مہینہ میں کوئی کمی ہو کیونکہ جو لوگ قربانی کے عادی ہو جاتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ قربانی کرتے ہیں اس لئے تحریک جدید نے آمد میں کمی نہیں کی بلکہ زیادتی کی ہے یا کم سے کم اسے ایک ہی سطح پر قائم کر دیا ہے.پھر جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا تحر یک جدید طوعی ہے اس میں حصہ لینے کیلئے کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ اُن ہی سے اس کا چندہ لیا جاتا ہے جو خوشی سے ادا کریں اور انجمن کے چندے بھی باقاعدہ ادا کریں بلکہ گزشتہ سال کئی لوگوں نے ہے
خطبات محمود ۶۵۳ سال ۱۹۳۶ بات پیش کی تھی کہ ہم نے تحریک جدید کا وعدہ لکھا یا تھا مگر اس وقت ہمیں اپنی طاقت کا علم نہ تھا اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر تحریک جدید کا چندہ ادا کریں تو انجمن کے چندے ادا نہیں کر سکیں گے اس لئے ہمیں تحریک جدید کا چندہ معاف کر دیا جائے تو اُن کا تحریک جدید کا چندہ معاف کر دیا گیا.مگر منافق کیلئے ان دلائل کا بیان کرنا فضول ہے کیونکہ منافق کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب اُس کے اعتراض کا جواب دے دیا جائے تو اول تو وہ کہہ دیتا ہے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں میں نے تو اعتراض ہی نہیں کیا پھر اگر ثابت کر دیا جائے کہ اُس نے اعتراض کیا تھا تو وہ یہ کہ دیتا ہے کہ غلط فہمی ہوگئی میرا مطلب کچھ اور تھا.پھر اگر یہ بھی ثابت کر دیا جائے کہ جو کچھ اُس نے کہا تھا اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہرگز نہیں ہوئی اس کا وہی مطلب تھا جولیا گیا.تو پھر کہتا ہے کہ میں نے کہا تو تھا مگر اب جو آپ نے جوابات دیئے ہیں ان سے میری پوری تشفی ہو گئی ہے اور میرا ایمان دوبارہ تازہ ہو گیا ہے اور یہ فقرہ اتنی بار دہراتا ہے کہ سادہ لوح مؤمن بھی سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے امام کی زبان میں کس قدرتاً شیر ہے کہ اس گمراہ شدہ انسان کا ایمان پھر تازہ ہو گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان تازہ جھوٹوں اور جھوٹی قسموں سے اُس کے اندرا گر کوئی ذرہ ایمان کا تھا بھی تو وہ بھی ضائع ہو چکا ہوتا ہے.اس کے بعد جب یہ منافق اپنے احباب کی مجلس میں جاتا ہے تو کہتا ہے کہ جی! کیا کریں گزارہ جو کرنا ہوا اور ان اشخاص کو گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے جنہوں نے اس کا بھانڈا پھوڑا تھا اور کہتا ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ خبیث ایسا بے وفا نکلے گا اس چغلخور کو چغلی کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی اور اس کے ساتھ منافق سر ہلاتے ہوئے اُس کی ہاں میں ہاں ملائیں گے اور کہیں گے کہ آجکل کا زمانہ ہی ایسا گندہ ہو گیا ہے اب تو سگے بھائی پر بھی انسان اعتبار نہیں کر سکتا اور ان بد معاشوں میں سے کوئی بھی تو یہ محسوس نہیں کرے گا کہ خبیث وہ خود ہیں، بے وفا وہ خود ہیں ، چغل خور وہ خود ہیں اور بے اعتبار وہ خود ہیں.در حقیقت منافق کی مثال شتر مرغ کی ہوتی ہے جسے کسی نے کہا تھا کہ آؤ تم پر بوجھ لادیں تو اُس نے کہا کہ کبھی مرغوں پر بھی بوجھ لادا جاتا ہے اور جب اُسے کہا گیا کہ اگر تم مرغ ہو تو پھر اُڑتے کیوں نہیں تو اُس نے جواب دیا کہ کبھی اُونٹ بھی اُڑا کرتے ہیں.تو منافق شتر بھی ہوتا ہے اور مرغ بھی.اگر اُس کے ایک دعوے کی بناء پر اُس پر اعتراض کیا جائے تو وہ دوسرے دعوے کی
خطبات محمود ۶۵۴ سال ۱۹۳۶ پناہ لے لیتا ہے اور اگر دوسرے دعوے کی بناء پر اس پر اعتراض کیا جائے تو وہ پہلے کی یا پھر ایک تیسرے دعوے کی پناہ لے لیتا ہے اُس پر وعظ ونصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا.ہر گرفت پر اُس کا پہلا جواب تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جب دلیل سے ثابت کر دیا جائے کہ جو الزام لگایا گیا اُس کے مطابق ہی اس نے گفتگو کی تھی تو اس کا دوسرا جواب یہ ہوتا ہے کہ اب مجھے یاد آ گیا ہے کہ بے شک میں نے ایسا ہی کہا تھا مگر میرا مطلب اس سے یہ نہیں تھا جو سمجھا گیا ہے اور جب یہ بھی ثابت کر دیا جائے کہ اس کا مطلب بھی اس گفتگو سے یہی تھا تو تیسرا جواب اُس کا یہ ہوتا ہے کہ میرا مطلب اعتراض کا نہیں تھا بلکہ سمجھنے کا تھا اور الْحَمْدُ لِلهِ کہ اب میں سمجھ گیا ہوں اور میرا ایمان تازہ ہو گیا ہے بلکہ میری اس گفتگو کی وجہ سے کئی اور میرے جیسے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچ گیا ہو گا جن کے دلوں میں بھی ایسے خیالات پیدا ہور ہے ہوں گے.اگر اس طرح سوال نہ کیا جائے تو معارف بھی تو نہیں کھلتے اور ایمان کو تازگی بھی حاصل نہیں ہوتی.غرض اعتراض سوال بن جاتا ہے اور منافقت دوسروں کے ایمان کو تازہ کرنے کے ذریعہ کا نام پاتی ہے.مگر منافق ہر موقع پر جھوٹ بولتا ہے اور اس پر حُسنِ ظن رکھنے والا مطمئن ہو جاتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ کہ اب اس شخص کی تسلی ہوگئی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جتنی سفارشیں منافقوں کی میرے پاس آتی ہیں اتنی مخلص محتاجوں کی سفارشیں نہیں آتیں.محلہ میں مخلص حاجت مند ہوتے ہیں ، بیوائیں مصیبت میں ہوتی ہیں ، یتیم آوارہ پھر رہے ہوتے ہیں ،مگر کوئی خبر نہیں لیتا لیکن ادھر کسی منافق کے متعلق کوئی سوال اُٹھا اور ادھر بڑے بڑے ثقہ اور وزنی آدمی سفارشوں پر سفارشیں لئے آتے ہیں.ملاقاتوں اور چٹھیوں کے ذریعہ ناک میں دم کر دیتے ہیں.کئی تو کہتے ہیں کہ اس کے متعلق غلط فہمی ہوگئی ہے.کئی کہتے ہیں کہ اب اس نے بچی تو بہ کر لی ہے اور اتنا کوئی نہیں سوچتا تو بہ تو وہ نعمت ہے کہ معمولی مؤمن کو بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے.پھر اُس شخص کو اس قدر جلدی نایاب تحفہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی طرح حاصل ہوا کہ جس کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں رکھے جائیں گے اور وہ سادہ لوح مؤمن جو منافقوں کی اس رنگ میں سفارش کرتے ہیں کہ یہ منافق ہی نہیں ان کے بارہ میں غلط نہی ہوگئی ہے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہر شخص جس پر منافقت کا الزام لگا ہے بری ہوتا ہے تو وہ منافق کہاں ہیں جن کی نسبت خدا اور اس کے رسول کے کلام میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کثرت سے خبر دی گئی ہے.ان سادہ لوح مؤمنوں کی مثال اُن غیر احمد یوں کی سی ہوتی ہے جو قرآن کریم میں یہ تو پڑھتے ہیں کہ ہر قوم میں خدا کا نبی گزرا ہے لیکن جب کوئی حضرت کرشن یا حضرت رام چندر جی کو نبی کہہ دے تو آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تصدیق کسی مثال سے ہی ہوسکتی ہے ورنہ اس صداقت کے بیان کرنے سے فائدہ کیا ہوا.غرض قسم کھا کر الزام کو دور کرنا اور بالکل پکڑے جانے کی صورت میں جھٹ تو بہ کا اظہار کرنا تو منافق کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے اس سے دھوکا کھانا تو ایک مؤمن کیلئے ناممکن ہونا اہئے.منافق تو جب دیکھتا ہے کہ اُس کا جرم ظاہر ہو گیا تو فوراً بھاگتا ہے اور معافی مانگتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی جنگ سے جب واپس کوئے تو منافقین فوراً حاضر ہوئے اور معذرتیں کرنے لگے اور درخواست کرنے لگے کہ ہمیں معاف کر دیں اور اللہ ابھی ہاتھ اٹھا کر دعا کر دیں.دیکھنے والا تو خیال کرتا ہے کہ یہ کتنے مخلص لوگ ہیں یہ نہیں چاہتے کہ ایک منٹ بھی اس حالت میں رہیں لیکن در حقیقت اُن کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ بات یہی ختم ہو جائے اور مزید تحقیقات نہ ہو لیکن مؤمن ایسی بناوٹی معذرت سے ہچکچاتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ تین مؤمن بھی اس جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے ان میں سے ایک کا طویل بیان احادیث میں آتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب میں رسول کریم ﷺ کی واپسی کے بعد آپ کے پاس پہنچا تو میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ سناؤ پیچھے رہنے والے اور بھی کوئی آئے ہیں یا نہیں اور انہوں نے کیا کیا طریق معذرت کا اختیار کیا ہے اور ان سے کیا سلوک ہؤا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ لوگ آتے ہی عذر معذرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! ہماری معافی کیلئے دعا کر دیں تو آپ ان کیلئے دعا کر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ میں بھی کوئی عذر کر دوں اور سرزنش سے چھوٹ جاؤں مگر پھر مجھے کچھ خیال آ گیا اور میں نے صحابہ سے پوچھا کہ کون کون لوگ آچکے ہیں؟ انہوں نے نام لئے تو سب منافق تھے صرف دو مومنوں کا نام انہوں نے لیا اور بتایا کہ انہوں نے کوئی عذر نہیں کیا بلکہ اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے.تب میں نے دل میں کہا کہ میں منافقوں کے ساتھ کیوں شامل ہوں بہتر ہے کہ ایسے عذر پیش کرنے کی بجائے جو
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ حقیقتا عذر نہیں کہلا سکتے صاف کہہ دوں کہ غلطی ہوگئی ہے آپ جو چاہیں مجھ سے معاملہ کر یں.چنانچہ صلى الله یہ خیال آنے پر میں نے اقرار جرم کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے منافقوں کے ساتھ شامل ہونے سے بچا لیا.چنانچہ میں گیا اور رسول کریم ﷺ سے صاف طور پر کہہ دیا کہ میری سستی اور غفلت تھی کہ میں غزوہ میں شامل نہ ہوا اور نہ کوئی حقیقی عذر نہیں تھا.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم تمہارے متعلق نہ آئے تم سے قطع تعلق کیا جائے گا.اس صحابی کا نام کعب بن مالک تھا وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اس حکم سے سخت تکلیف پہنچی کیونکہ مدینہ میں سب مسلمان ہی تھی اور جو منافق تھے ان میں سے بھی کسی کو جرات نہ تھی کہ ان سے بات چیت کرے یہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں سے بات چیت منع ہے وہ محلوں میں احمدیوں کے مکانوں پر بھی چلے جاتے ہیں محلے والے معلوم نہیں سوئے رہتے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں لگتا.یہاں کے بعض احمدی سانپوں کو پالتے ہیں مگر وہ یا درکھیں کہ یہ سانپ نہ خدا کو ڈس سکتے ہیں نہ اُس کے رسول کو اور نہ خلیفہ کو.یہ انہی کو ڈسیں گے جو ان کو پالتے ہیں.ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں کیونکہ جسے اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لے لے اُسے کون ڈس سکتا ہے یہ انہیں کو ڈسیں گے جنہیں وہ ڈس سکتے ہیں اور افسوس کہ وہ دیکھتے ہوئے ان سانپوں کی حرکات پر اغماض سے کام لیتے ہیں.غرض مدینہ میں کوئی منافق بھی ان سے بات چیت نہ کر سکتا تھا.کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس حکم کے چند دن کے بعد معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوی بچے بھی ان لوگوں سے جُدا ہو جائیں.ہم تینوں میں سے ایک صحابی بوڑھے تھے ان کی بیوی رسول کریم کے پاس گئی اور عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ! میرا خاوند تو پہلے ہی مر چکا ہے نہ کھانا کھاتا ہے نہ سوتا ہے پھر بوجہ ضعیف العمر ہونے کے ہر وقت مدد کا محتاج ہے ، میاں بیوی کے تعلقات کے قابل تو وہ پہلے ہی نہ تھا اگر آپ اجازت دیں تو میں کھانے پینے میں اُس کی مدد کروں.آپ نے فرمایا اچھا اتنی اجازت ہے.اس پر مجھے خیال آیا کہ میں بھی کیوں نہ اپنے لئے ایسی اجازت حاصل کرنے کا انتظام کروں مگر پھر خیال آیا کہ وہ بوڑھا ہے میں جوان ہوں میرے لئے ایسا کرنا مناسب نہیں.اس پر میں نے بیوی سے کہا کہ تو میکے چلی جا ایسا نہ ہو کہ میں تجھے بلا ؤں اور تُو جواب دے دے.جھے کسی اور کے متعلق تو خیال ہی نہ تھا کہ مجھ سے بات چیت کرے.ہاں رسول کریم ﷺ کی محبت
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ اور شفقت کی وجہ سے خیال تھا کہ میرے درد کو دیکھ کر آپ کو ضرور رحم آئے گا.اس لئے میں آپ کی مجلس میں جاتا اور زور سے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتا اور پھر دیکھتا کہ آپ کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں یا نہیں مگر آپ جواب نہ دیتے اور میں گھبراہٹ میں اُٹھ آتا اور خیال کرتا کہ آپ کے ہونٹ ہلے ہوں گے مگر میں دیکھ نہیں سکا اس لئے مجلس سے اُٹھ کر چلا جاتا اور پھر لوٹ کر آکر زور - السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ کر پھر ہونٹوں کی طرف دیکھتا اور پھر اُٹھ آتا اور پھر جاتا مگر آپ جواب نہ دیتے ہاں سنکھیوں سے کبھی کبھی میری طرف دیکھ لیتے.وہ کہتے ہیں جب بہت دن گزر گئے تو میں اپنے چیرے بھائی کے پاس جن کے ساتھ میں ہمیشہ کھاتا پیتا اور ہتا سہتا تھا گیا وہ اپنے باغ میں کام کر رہا تھا.میں نے اُسے کہا کہ اے بھائی! تو میرا محرم راز ہے ہم دونوں ہمیشہ اکٹھے رہے ہیں اور ہماری کوئی بات ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں تجھے خوب معلوم ہے کہ میں مخلص مسلمان ہوں اور نفاق کی کوئی رگ مجھ میں نہیں میں آج گھبراہٹ میں تجھ سے پوچھنے آیا ہوں کہ بتاؤ کیا میں منافق ہوں ؟ مگر اُس نے کوئی جواب نہ دیا اور صرف آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ خدا اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جب ایسے بھائی نے جو میرا محرم راز تھا مجھے یہ جواب دیا تو میں نے محسوس کیا کہ زمین مجھ پر تنگ ہو گئی ہے اور میں گھبرا کر باغ کی دیوار پھاند کر باہر آ گیا اور دیوانہ وار شہر کی طرف چل پڑا.جب شہر کے پاس پہنچا تو ایک شخص میرے قریب آیا اور پوچھا کہ کیاں تو فلاں شخص ہے؟ میں نے کہاں ہاں تو اُس نے مجھے ایک خط دیا کہ یہ فلاں بادشاہ نے بھیجا ہے یہ ایک عرب کا عیسائی بادشاہ تھا جو رومی حکومت کے ماتحت تھا.میں نے کھول کر پڑھا تو اُس میں لکھا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم عرب کے رئیس ہو اور تمہیں محمد (ﷺ) نے ذلیل کیا ہے حالانکہ تمہاری قدر کرنی چاہئے تھی اگر تم میرے پاس آجاؤ تو میں تمہارے شایانِ شان تم سے سلوک کروں گا.مالک کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے مجھے جو جواب دیا تھا اُس سے میرا دل اُلٹ رہا تھا وہ خط دیکھ کر مجھ پر سکتہ کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے سوچا کہ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے ایسا نہ ہو کہ میرے قدم لڑکھڑا جائیں اور میں نے اُس قاصد سے کہا کہ میرے پیچھے آؤ.ایک جگہ ایک آدمی بھٹی جلا رہا تھا میں نے اُس خط کو پُرزے کر کے اُس میں ڈال دیا اور اُس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہہ دینا کہ اس کا جواب یہ ہے.یہ ان کے ابتلاء اور مصیبت
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کی آخری گھڑیاں تھیں.آخر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور رسل کر یم ﷺ کو فرمایا کہ ان کی غلطی معاف کر دی جائے سے.تو مؤمن اس قسم کی تو بہ نہیں کرتا جیسی کہ منافق کرتا ہے (اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں کسی آئندہ خطبہ میں یہ بتاؤں گا کہ مؤمن کی تو بہ اور منافق کی تو بہ میں کیا فرق ہوتا ہے کہ ایک کو سچا تسلیم کیا جاتا ہے اور دوسری کو جھوٹا کہا جاتا ہے اور کیوں ایک کو فوراً تو بہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے اور دوسرے کی فوری تو بہ کو منافقت کی علامت قرار دیا جاتا ہے ).مؤمن اگر غفلت کرے تو سزا کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے وہ جانتا ہے کہ اصل معافی تو تکلیف اور قربانی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے لیکن منافق جھٹ معذرت کرتا ہے.اُس کا پہلا پینترا یہ ہوتا ہے کہ بالکل غلط ہے دوسرا یہ کہ ہاں یاد آ گیا میں نے کہا تھا اور تیسرا یہ کہ اب میری تسلی ہوگئی ہے کمزوری کی گھڑیاں بھی انسان پر آہی جاتی ہیں اب پھر میرا ایمان تازہ ہو گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ایمان کبھی اُس کے دل میں تھا ہی نہیں.یا اگر کبھی تھا تو مدت ہوئی رُخصت ہو چکا ہے مگر منہ سے وہ روز اُسے تازہ کرتا ہے.پس مؤمن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ مؤمن غلطی کرتا ہے تو سزا کو برداشت کرتا ہے مگر منافق جھوٹ بولتا اور معذرتیں کرتا ہے.منافق کو پکڑنا مشکل نہیں مگر اس کیلئے دانائی اور بیدار مغزی کی ضرورت ہے جو افسوس ہے کہ ہمارے دوستوں میں بہت کم ہے اگر کبھی میں منافقین کیلئے سفارش کرنے والوں کے نام اُن بورڈوں پر لکھوا دوں جو امور عامہ نے لگوار کھے ہیں تو دوست حیران رہ جائیں گے کہ کیا سب کو انہی سے اخلاص تھا.بعض حالات میں میں جانتا ہوں کہ یہ اُس منافق کی چالبازی کا نتیجہ ہوتا ہے اور چونکہ روشن دماغی ان دنوں کم ہے اس لئے دوست اس کے قابو میں آ جاتے ہیں.ان کے عقل کا توازن خراب کرنے کیلئے دو آنسو گرا دینا دوسرد آہیں بھر لینا یا دو قسموں کا کھا لینا کافی ہوتا ہے پھر وہ جو کہے درست مان لیتے ہیں.تو منافق اعتراض کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسی جگہ جہاں کوئی جواب دینے والا نہ ہو.ورنہ جواب دے سکنے والوں کے سامنے وہ ایک اعتراض بھی کر کے دیکھیں پھر انہیں معلوم ہو کہ کس طرح انہیں جو تے اُٹھا کر بھاگنا پڑتا ہے.ہم نے ایک کام کرنا ہے بلکہ ہم نے کیا ہمارے خدا نے کرنا ہے اور اس کیلئے ہم تو ایسے
خطبات محمود ۶۵۹ سال ۱۹۳۶ ہی ہیں جیسے روٹی پکانے والا اُپلے استعمال کرتا ہے.اُپلے کی حیثیت سوائے اس کے کیا ہے کہ وہ جلتا ہے اور راکھ ہو جاتا ہے.پس انسان تو محض واسطہ بنتا ہے ورنہ جس حقیقت کو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے وہ اجسام سے تعلق ہی نہیں رکھتی انسان کا تعلق تو اس سے صرف اتنا ہی ہوتا ہے جتنا روٹی پکانے کیلئے اُپلے کا.ورنہ جو کام خدا تعالیٰ نے کرنا ہے اُسے کوئی روک نہیں سکتا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر میں مؤمنوں کو بیدار کرنا چھوڑ دوں تو یہ کام رُک جائے گا ، یا اگر غافلوں کو چست کرنا چھوڑ دوں تو یہ کام نہ ہوگا ، اگر سوتوں کو بیدار نہ کروں تو یہ کام رہ جائے گا؟ ہر گز نہیں.وہ میری یا کسی اور کی ت سے تعلق نہیں رکھتا وہ ہر حال میں ہو گا مگر انسان حریص ہوتا ہے کہ وہ اور اُس کے دوست فائدہ اُٹھا ئیں اس لئے میں چاہتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ مجھے بھی اور میرے دوستوں کو بھی اس میں خدمت کا موقع مل جائے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہم پر بھی ہو جائے.اس سلسلہ میں وعظ ونصیحت کا یہی مطلب ہے کہ جیسے کوئی خزانہ لگانے لگا ہو تو ایک دوست جسے اس کا علم ہو جائے وہ دوسرے دوستوں کو بھی اطلاع کر دے کہ آکر جھولیاں بھر لو.رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے ایک بیعت رضوان لی تھی جو ایک بیری کے درخت کے نیچے لی گئی تھی اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان کو صلح کا پیغام دے کر مکہ بھیجا تھا وہاں ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے ان کو ٹھہر الیا اور یوں مصالحت کی باتیں بھی لمبی ہو گئیں اس لئے جس وقت تک ان کی واپسی کا اندازہ تھا (ضمناً میں حضرت عثمان کے اخلاص کا ذکر بھی کر دیتا ہوں.حضرت عثمان جب مکہ میں گئے تو ان کے دوستوں نے کہا کہ اب آپ آتو گئے ہیں عمرہ کرلیں.انہوں نے جواب دیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہاری فوجیں رسول کریم ﷺ کو تو باہر رو کے ہوئے ہوں اور میں عمرہ کرلوں.میں اگر کروں گا تو آپ کے ساتھ کروں گا ورنہ نہیں ).تو اُدھر ان کی واپسی میں دیر ہوئی اور ادھر بعض شرارت پسندوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عثمان قتل کر دیئے گئے ہیں اور منافقوں نے جھٹ یہ خبر پھیلا دی تا رسول کریم جوش میں آکر حملہ کر دیں.مگر آپ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے حملہ تو نہ کیا مگر چونکہ ہوشیار رہنا ضروری تھا آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ میں تم سے بیعت لینا چاہتا ہوں.یہ بیعت اسلام کی بیعت کے علاوہ ہوگی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت عثمان جو میرے ایچی تھے شہید ہوگئے ہیں تو ہم ان
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کے قاتلوں سے جنگ کریں گے اور آپ لوگوں میں سے جو چاہیں میرے ہاتھ پر اس وقت بیعت کریں کہ اگر ایسی جنگ ہمیں کرنی پڑی تو وہ میدانِ جنگ سے بھاگے گا نہیں بلکہ فتح کے بغیر کوٹے گا نہیں ) اس بیعت کو بیعت رضوان کے علاوہ موت کی بیعت بھی کہتے ہیں).صحابہ آئے اور بیعت کیلئے ایک دوسرے پر گرنے لگے کشی کہ بعض کو تو اتنا جوش تھا کہ وہ تلوار سے دوسرے کو پیچھے ہٹا کر خود بیعت کیلئے آگے بڑھنا چاہتے تھے.اتفاقاً حضرت عمرؓ اُس وقت کہیں اِدھر اُدھر ہو گئے تھے لیکن ان کے لڑکے عبد اللہ بن عمر موجود تھے انہوں نے خود ایک موقع پر بیان کیا کہ ایک نیکی میں اگر میں چاہتا تو اپنے باپ سے آگے بڑھ جاتا اور وہ موقع بیت رضوان کا تھا.جب یہ بیعت شروع ہوئی تو میں نے ادھر اُدھر دیکھا حضرت عمر وہاں موجود نہ تھے میں ان کی تلاش میں چلا گیا اور جب تلاش کر کے لایا تو اُس وقت بہت سے لوگ بیعت کر چکے تھے میں اگر اپنے باپ کو شریک کرنے کی کوشش نہ کرتا تو سابقون میں ہوتا.تو مؤمن ضرور کوشش کرتا ہے کہ عزیز واقرباء کو نیکی میں شریک کرے ورنہ خدا تعالیٰ کے کام نہ کسی کے شریک ہونے سے مکمل ہوتے ہیں اور نہ کسی کے شریک نہ ہونے سے رہ جاتے ہیں.کئی منافق طبع اور کمزور ایمان والے یہ کہہ دیں گے کہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ روپیہ کے بغیر یا آدمیوں کے بغیر کام ہو جائے اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ ان کا یہ اعتراض صحیح ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا تمہارا دیکھا ہی سب کچھ ہے اور اگر تمہیں اس میدان کی خبر ہو جو روحانیت کا میدان ہے تو تمہیں پتہ لگے کہ وہاں یہ سوال نہیں ہوتا.انسان ایک رؤیا دیکھتا ہے کہ وہ آسمان پر ہے اور خدا کے حضور پیش ہے مگر تمہیں کیا نظر آتا ہے صرف یہی کہ وہ خراٹے لے رہا ہے.اسی طرح روحانیت کے مقام کی اس شخص کو کیا خبر ہو سکتی ہے جو وہاں گیا ہی نہیں.تم بے شک کہہ سکتے ہو کہ جب ہم نے دیکھا ہی نہیں تو کیسے مان لیں.مگر یہ بھی تو سوچو کہ وہ روپیہ اور وہ آدمی کہاں.ނ آتے ہیں جس سے کام ہوتا ہے.جس کی عقل ہو وہ جانتا ہے کہ خدا ہی لاتا ہے پھر وہ آدمی کہاں ہوئے جو کام کرتے ہیں وہ خدا ہی ہوا اور وہ روپیہ کہاں ہوا وہ بھی خدا ہی ہوا.ہماری جماعت کی جو کمزور حالت ہے وہ ظاہر ہے مگر سات کروڑ مسلمانوں کا کوئی ایک بھی ادارہ ہے جس میں غرباء سے اتنا روپیہ آتا ہو جتنا ہماری جماعت جمع کرتی ہے؟ بے شک امراء کے بعض کا لج وغیرہ ہیں مگر
خطبات محمود ۶۶۱ سال ۱۹۳۶ وہ بھی یا تو حکومت سے امداد لیتے ہیں یا راجوں ، مہاراجوں کی مدد سے چلتے ہیں.افراد کی مدد ہندوستان بھر میں کسی کو اتنی نہیں ملتی حالانکہ مسلمانوں کی تعداد سات کروڑ ہے اور ہماری تعداد سرکاری مردم شماری کے مطابق پنجاب میں صرف ۵۶ ہزار اور سارے ہندوستان میں ایک لاکھ ہے.پھر منافق بھی شور مچاتے رہتے ہیں اور ورغلاتے رہتے ہیں مگر ہمارے دوست ہر لحاظ سے قربانی میں آگے ہی بڑھتے ہیں.پس سوچنا چاہئے کہ یہ سب کام کون کر رہا ہے دوسری انجمنوں میں سے کسی میں اگر ایک منافق بھی ہو تو وہ ٹوٹ جاتی ہے مگر یہاں بیسیوں ہیں اُن کی سفارشیں بھی دوست کرتے ہیں ، تائیدیں بھی کرتے ہیں اور اُن کی باتیں بھی سنتے ہیں پھر بھی قربانی میں آگے ہی کی آگے جماعت بڑھتی جاتی ہے.کیا اس کے باوجود کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کام انسان کرتے ہیں؟ کا رلائل ایک انگریز جو بڑا مصنف ہے اس نے رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی ایک مضمون لکھا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے آنحضرت کی عزت اور عظمت ان کی تعلیم کی وجہ سے قائم نہیں ہوئی بلکہ تلوار سے قائم ہوئی ہے مگر وہ کہتا ہے اس اعتراض کی حقیقت میری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ اس اعتراض کے ساتھ ہی ایک دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے جس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا کہ یہ تلوار چلانے والے کہاں سے آئے تھے؟ کیا محمد (ﷺ) کوئی نسلی بادشاہ تھے کہ انہوں نے اپنی سپاہ سے اپنے ملک کو وسیع کر لیا ؟ اگر نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ محمد (ﷺ) کے پاس تلوار چلانے والے کہاں سے آئے تھے؟ وہ بہادر لوگ جنہوں نے ساری دنیا کو مار مار کر اس طرح آگے لگا لیا سوچنا چاہئے کہ ان تلوار چلانے والوں کو کونسی تلوار نے فتح کیا تھا ؟ اگر کہو کہ دلیل سے وہ قابو کئے گئے تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ جس دلیل نے ان بہادروں کو قابو کیا تھا تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ دلیل دوسروں کو قابو کرنے میں ناکام رہی تھی.کارلائل کا یہ جواب یہاں بھی چسپاں ہوتا ہے بیشک ہمارا کام بھی بظا ہر آدمیوں اور روپیہ کے ذریعہ ہورہا ہے مگر ان آدمیوں اور روپیہ کو لانے کے ذرائع کو بھی تو دیکھنا چاہئے ان کو خدا تعالیٰ کے سوا کون لاتا ہے.منافق اور بعض غیر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ منظم جماعت ہے اس لئے کام چل جاتا ہے مگر وہ بھی یہ نہ سوچتے تھے کہ ان لوگوں کو کون لایا جو تنظیم کے ماتحت چلنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں.اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی
خطبات محمود ۶۶۲ سال ۱۹۳۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا ہے.فرماتا ہے يَنصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.پس جب کوئی شخص سلسلہ کی مدد کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا کا فرشتہ اسے کہتا ہے کہ جا اور جا کر مدد کر.غرض ہمیں جو کچھ ملتا ہے آدمیوں کا دیا ہوا نہیں بلکہ خدا کا دیا ہوا ہے اور ہمارے سلسلہ کے کام آدمیوں اور روپوں کے بغیر ہی چل رہے ہیں کیونکہ جس طرح وحی سے مدد کرنے والا انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہتھیار کی حیثیت سے کام کرتا ہے اسی طرح وحی سے ملا ہوا روپیہ نہیں صرف خدا تعالیٰ کا اذن ہے.غرض الہام الہی کے مطابق ہر وہ قربانی کرنے والا جو سلسلہ کی مدد کرتا ہے وہ اپنی ہر قربانی کے وقت منہم ہوتا ہے اگر وہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی خدمت کیلئے دیتا ہے تو چونکہ اُس وقت خدا تعالیٰ کا الہام اس کے دل پر نازل ہو رہا ہوتا ہے اس لئے دیتا ہے.پس اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دے دیا ہوا ہے.منافقوں کے ان سوالوں کا جواب دینے کے بعد میں ان مخلصوں کو توجہ دلاتا ہوں جو میرے اوّل مخاطب ہیں.اتنی لمبی تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ منافق میرے مخاطب نہیں ہیں ان سے کیوں مددلوں جن کے متعلق دل چاہتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے تو ان کو تباہ کر دے ایسے لوگ تو جب چندہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت لے لیتا ہوں ورنہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ واپس کر دوں کہ یہ مال ہمارے لئے کسی برکت کا نہیں بلکہ نقصان کا موجب ہی ہوگا.پس میں مؤمنوں سے کہتا ہوں کہ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ نے بغیر رو پید اور بغیر آدمیوں کے کام کیا ہے.جب جماعت میرے سپرد ہوئی اس وقت سترہ اٹھارہ ہزار روپیہ قرض تھا اور خزانہ میں صرف چند آنے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دکھایا یا نہیں کہ وہ بغیر روپیہ کے بھی کام چلا دیتا ہے.اُس وقت غیر مبائعین نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ اٹھانوے فیصدی جماعت ہے اور تمہارے ساتھ صرف دو فیصدی.مگر اب ان سے پوچھ کر دیکھو کہ اٹھانوے فیصدی ان کے ساتھ ہے یا میرے ساتھ ؟ اور اس وقت تک ایک کروڑ کے قریب روپیہ میرے ہاتھوں سے گزر چکا ہے یہ مطلب نہیں کہ میرے ہاتھ میں آیا بلکہ انجمن میں جو بھی آتا ہے وہ میری نگرانی میں خرچ کرنے کیلئے ہی لوگ بھیجتے ہیں اس لئے اصولی طور پر وہ میرے
خطبات محمود ۶۶۳ سال ۱۹۳۶ ہاتھ میں ہی آتا ہے.تین لاکھ کا عام طور پر ہمارا بجٹ ہوتا ہے خاص چندے اس کے علاوہ ہوتے ہیں اور اس طرح ۲۲ سال کے عرصہ میں قریباً اسّی لاکھ روپیہ آچکا ہے.پھر مقامی طور پر بھی جماعتیں چندے کر لیتی ہیں اور ان کی تعداد ۲۰، ۲۵ لاکھ سے کم نہ ہوگی.پس چند آنے اور دو فیصدی آدمی میرے ہاتھ میں دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں ان چند آنوں کو ایک کروڑ روپیہ سے اور دو فیصدی آدمیوں کو اٹھا نوے فیصدی یا اس سے زیادہ آدمیوں سے تبدیل کر دوں.کئی دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک سادھو ایک شخص کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دس روپیہ کا نوٹ دو میں نہیں کا بنادوں گا اور لوگ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ نہیں بنا سکتا اسے روپیہ دے دیتے ہیں.انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کر سکے گا پھر بھی لالچ کی وجہ سے اُس پر ایمان لے آتے ہیں مگر ان نادانوں کو دیکھو جو مجھ پر ایمان نہیں لاتے جس نے چند آنوں کو ایک کروڑ بنا دیا اور دو فیصدی کو اٹھانوے فیصدی میں بدل دیا اور پھر یہ سب کام ان حالات میں ہوا کہ مخالفت کے طوفان کے بعد طوفان اُٹھتے چلے آتے تھے یہی وہ کام ہے جسے زمینی زبان میں جادو اور آسمانی زبان میں معجزہ کہتے ہیں اور معجزہ بھی نبیوں والا معجزہ ہے جو نبیوں اور ان کے خلفاء کو ہی ملتا ہے ان کے سوا بڑے بڑے اولیاء بھی اس سے محروم رہتے ہیں.کاش ! لوگ آنکھیں رکھتے اور دیکھتے اور اس حقیر قربانی کو نگاہ میں نہ رکھتے جس کی توفیق ان کو یا ان کے دوستوں کو ملی ہے بلکہ ان عظیم الشان نتائج کو دیکھتے جو اس حقیر قربانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے ظاہر کرائے ہیں.میں مخلصوں کو پھر ایک بار توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں.تھوڑا عرصہ ہوا میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ اس سال کی آمد گزشتہ سال کی اسی تاریخ سے گیارہ ہزار کم ہے اگر چہ وعدے گزشتہ سال سے زیادہ ہیں اور تحریک کی تھی کہ دوست اس کمی کو جلد پورا کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شکر اور حمد کا مقام ہے کہ اب کمی 11 ہزار کے بجائے صرف اڑھائی ہزار رہ گئی ہے ( آج جب کہ میں خطبہ درست کر رہا ہوں یہ کمی آٹھ سو رہ گئی ہے ).مگر چونکہ اب تک بھی گزشتہ سال سے آمد کم ہے حالانکہ ۱۰،۸ ہزار کے قریب زیادہ ہونی چاہئے تھی اس لئے میں پھر احباب کو اس نقص کی طرف توجہ دلاتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ بعض بڑی جماعتوں نے بہت لا پرواہی کی ہے
خطبات محمود ۶۶۴ سال ۱۹۳۶ مثلاً لائل پور، لاہور اور سیا ، لاہور اور سیالکوٹ کی جماعتیں اعتراض کے نیچے آ رہی ہیں بعض دیہات کی جماعتوں نے اپنی نسبت کے لحاظ سے بہت بڑے چندے دیئے ہیں.ایک گاؤں میں معمولی حیثیت کے صرف چار پانچ احمدی ہیں ایک ان میں سے شاید مدرس یا پٹواری ہے اور باقی زمیندار ہیں مگر اُن کا چندہ ڈیڑھ سو ہے اگر اس نسبت سے بڑی جماعتوں کا چندہ لگایا جاتا تو وہ تین چار گنا زیادہ ہونا چاہئے تھا.جب اس گاؤں کے افراد کی لسٹ میرے سامنے آئی تو میں حیران رہ گیا کہ اتنے غریب لوگوں نے ایسی تنگی کی حالت میں کس طرح ایسا اخلاص دکھایا ہے جو دوسروں کیلئے نمونہ ہے.مجھے افسوس ہے کہ بعض جماعتوں نے اُس سے بہت کم قربانی کی ہے جتنی وہ کر سکتی تھیں اور پھر اُسے بھی پورا کرنے سے قاصر ہو رہی ہیں اس لئے میں اُن کو توجہ دلاتا ہوں کہ غفلت اور شستی کو ترک کریں.اب صرف دو ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے سوائے اُن کے جو اجازت لے کر میعاد میں اضافہ کرالیں.گو کمی پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ساڑھے آٹھ ہزار کی کمی پوری کی ہے مگر پھر بھی ابھی بہت کوشش کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِى الَيْهِمُ اس لئے میں جانتا ہوں کہ جب وقت قریب آئے گا تو اللہ تعالیٰ مخلصین کے دل میں الہام کر دے گا اور چندہ پورا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ہمارے کاموں میں اکثر زیادتی ہی ہوتی ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللہ کوئی ہی ایسا موقع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیت کے ماتحت کبھی کمی آئی ہو.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقت کم ہے اس لئے مالی بھی اور دوسری قربانیاں کرنے کی طرف بھی پوری پوری توجہ کریں.خصوصاً سادہ زندگی کی طرف زیادہ توجہ کریں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سادہ زندگی کی ہدایت پر عمل کرنے میں کچھ نقص ہے ورنہ اتنا اثر چندوں پر نہ پڑتا.کیونکہ سادہ زندگی سے اخراجات میں جو کمی آنی چاہئے چندوں کا بوجھ اس سے کم ہے اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ دوستوں کے پاس کچھ روپیہ جمع ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا.سادہ زندگی کی تحریک کوئی معمولی نہیں بلکہ دراصل دنیا کے آئندہ امن کی بنیاد اسی پر ہے.جب تک جماعت احمدیہ قائم رہے گی تحریک جدید بھی کسی نہ کسی شکل میں چلے گی چندہ کی شکل چند سالوں تک ختم ہو جائے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ آمد کی مستقل صورت پیدا ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ آمد کا معتد بہ حصہ میں
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ سلسلہ کیلئے جائداد بنانے پر لگارہا ہوں تا اس کی آمد سے کام چلائے جاسکیں اور چندوں کی ضرورت صرف وقتی کاموں کیلئے ہی رہے لیکن اس تحریک کے جو دوسرے حصے ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے خصوصاً سادہ زندگی کی تحریک جو بہت ضروری ہے یہی ہے جو امیر وغریب کا امتیاز مٹاتی ہے.مغربی اور مشرقی اور شہری و دیہاتی تمدن میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ گاؤں کے امیر کی زندگی بھی سادہ ہوتی ہے مگر شہروں میں ایسا نہیں.ایک گاؤں میں دوسو ایکڑ زمین کے مالک کا تمدن بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دوا یکٹر زمین کے مالک کا.اور وہ دونوں دارے میں بیٹھ کر ا کٹھے باتیں کرتے ہیں گو یہ ممکن ہے کہ دو ایکڑ کے مالک کو کسی وقت فاقہ کی نوبت آجاتی ہو مگر دو سو ایکڑ کا مالک دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا تا ہو یا یہ تو دودھ پیتا اور مکھن کھا تا ہو اور وہ لسی پی کر ہی گزارہ کر لیتا ہومگرا جزاء دونوں کی غذا کے ایک ہی ہوں گے.وہی ساگ پات دونوں کھا ئیں گے یہ نہیں کہ بڑے زمیندار کی خوراک ایسی ہو کہ وہ غریب کے گھر میں کھانا نہ کھا سکے.قادیان کے انہی معترضین میں سے جو اعتراض کرتے رہتے ہیں ایک کے متعلق مجھے ایک لطیفہ یاد ہے.مجھے ایک ایسی دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ بھی مدعو تھا.میزبان نے نہ معلوم اس لئے پلاؤ نہیں پکوایا تھا کہ وہ اس کی توفیق نہ رکھتا تھا یا یونہی اُس نے جدت کی.میں نے یہ خیال کر کے کہ یہ شرمندہ نہ ہو کہا کہ یہ آپ نے بہت اچھا کیا جو پلاؤ نہ پکوایا مجھے تو پلاؤ کھانے سے بخار ہو جاتا ہے (بوجہ ضعف معدہ کے مجھے پلاؤ کھانے سے اکثر حرارت ہو جاتی ہے خصوصاً جبکہ ایک دو دعوتیں اکٹھی ہو جائیں ) یہی وجہ ہے کہ میں دعوتوں میں شریک ہونے سے اکثر اجتناب کرتا ہوں.خیر تو میں نے کہا کہ یہ پلاؤ کی رسم تو اُڑا دینی چاہئے اور میری غرض یہی تھی کہ کوئی اور شخص بول نہ اُٹھے اور میزبان کی دل شکنی نہ ہو مگر اُس شخص سے نہ رہا گیا اور وہ بول اُٹھا کہ میں تو اس دعوت کو دعوت ہی نہیں سمجھتا جس میں پلاؤ نہ ہو.میں تو تعریف کر رہا تھا کہ یہ عمدہ کام ہے اور ایک غرض یہ بھی تھی کہ کوئی شخص کوئی دل شکنی کا کلمہ نہ کہہ دے مگر پھر بھی وہ شخص رہ نہ سکا.لیکن زمینداروں میں دیکھ لو کھانے کی نوعیت میں فرق بہت کم ہوگا.طرز بود و باش ایسی ہوتی ہے کہ سب آزادی سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مگر شہروں میں ایسا نہیں ہوتا.ایک شخص جس کی تنخواہ بیس روپے ہے دو ہزار تنخواہ والے سے ملنے کی کبھی جرات نہ کر سکے گا حالانکہ یہاں بھی
خطبات محمود ۶۶۶ سال ۱۹۳۶ نسبت وہی ہے جو دو اور دو سو گھماؤں میں ہے مگر شہروں میں میں روپے تنخواہ لینے والے کی کیا مجال ہے کہ جو دو ہزار تنخواہ والے کی دری پر بیٹھ سکے اور اس کا اتنا اثر ہے کہ زمیندار لوگ بڑے ہونے کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ فرعونیت میں بڑا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ مجھے جو زمیندار احمدی ملنے آتے ہیں وہ جب دور سے دیکھتے ہیں تو جوتیاں اُتار دیتے ہیں وہ خدمت کو بڑائی نہیں سمجھتے بلکہ فرعون کو مزاجوں کو دیکھ کر ان غریبوں کے ذہن میں بڑائی کے معنے فرعونیت کے ہی ہو گئے ہیں.وہ سمجھتے ہیں اگر بڑے آدمی کے ساتھ چار پائی پر بیٹھ گئے تو بس شامت ہی آجائے گی.بدقسمتی سے ہمارے ملک کے پیروں نے بھی بڑائی کا یہی مفہوم پیش کیا ہے.اس کے متعلق مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.ایک پیر صاحب سفر کر رہے تھے اور ساتھ ایک میراثی خدمتگار تھا پرانے زمانہ میں میراثی اکثر سفروں میں خدمت کیلئے ساتھ جایا کرتے تھے وہ رات کے وقت ایک سرائے میں پہنچے بارش ہونے کی وجہ سے تمام کیچڑ ہی کیچڑ تھا اور مشکل یہ ہوئی کہ چار پائی صرف ایک ہی ملی.میراثی نے وہی پیر صاحب کیلئے بچھا دی اور خود پرے ہٹ کر پائنتی کی طرف بیٹھ گیا.پیر صاحب طیش میں آگئے اور اس بیچارے کے دو چار تھپڑ لگا دیئے اور کہا کہ بے شرم ! ہمارے برابر بیٹھتا ہے.اگلے روز پھر ایک سرائے میں پہنچے اور اتفاق سے وہاں ایک چارپائی بھی نہ ملی اُس نے پیر صاحب کو تو کچھ گھاس پھوس جمع کر کے بستر کر دیا اور خود پھاوڑا لے کر زمین کھود نے لگا.پیر صاحب کہنے لگے کہ یہ کیا کرتا ہے؟ اُس نے کہا کہ اپنے لئے گڑھا کھودتا ہوں کیونکہ آپ کے برابر تو نہیں بیٹھ سکتا.تو بیچاروں کو ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ بڑائی کے معنی ان کے نزدیک فرعونیت کے ہو گئے ہیں.میں بار بار منع کرتا ہوں اور سیڑھیوں میں بھی لکھوا کر لگا رکھا ہے کہ جو تیاں نہ اُتاری جائیں مگر اول تو کوئی پڑھتا نہیں اور اگر پڑھے تو خیال کر لیتا ہے کہ اگر چہ لکھا ہوا ہے پھر بھی ادب کا تقاضا یہی ہے کہ جوتیاں اُتار دی جائیں.تو یہ چیزیں شہرت او رمغربیت کے اثر کے ماتحت ہیں.محبت، پیار، اخلاص اور مہمان نوازی جو دیہات میں ہے وہ شہروں میں نہیں.لا ہور کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے جو اگر چہ غلط ہی ہو مگر شہری ذہنیت کا اظہار ضرور کرتا ہے وہ یہ کہ لاہور میں کسی کے کوئی مہمان آجائے تو کہتے ہیں کہ بھائی جی! روٹی بھی تیار ہے اور گاڑی بھی.اور ظاہر ہے کہ جس نے جانا ہو وہ روٹی کہاں کھائے گا وہ تو یہی کہے گا کہ اچھا میں جاتا ہوں.
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ اس تحریک سے میری غرض یہ ہے کہ دو آدمیوں میں جو فرق ہے یعنی ایک اپنے آپ کو آدمی سمجھتا ہے اور دوسرا فرعون اِسے مٹا دیا جائے اور دونوں ہی آدمی بن جائیں.حضرت خلیفہ اول کا ایک لطیفہ یاد ہے آپ کے پاس بعض شاگرد بھی بیٹھے رہتے تھے اور شاگردوں میں سے بھی بعض اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا کرتے ہیں.بعض اوقات آپ کسی مریض کو دوا لگانے کیلئے فرماتے کہ کوئی تنکا وغیرہ لاؤ یا کوئی اور کام بتاتے تو بعض دفعہ اگر وہی شاگر دموجود ہوتے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے تو وہ بیٹھے رہتے.اور آپ جب دریافت فرماتے کہ فلاں چیز ابھی آئی یا نہیں تو وہ کہہ دیتے کہ حضور! کوئی آدمی آتا ہے تو منگوالیتے ہیں.اس پر آپ فرماتے کہ تھوڑی دیر کیلئے آپ ہی آدمی بن جائیں.تو زندگی کے سادہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ آدمی آدمی نہیں رہے بلکہ بعض آدمیت سے نکل گئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سارے ہی آدمی بن جائیں اس لئے یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے گی ورنہ مذہب اپنی اصلی شکل پر قائم نہیں رہ سکتا.اس لئے اس تحریک کے مالی حصہ کے سوا باقی سب تحریکیں دائی ہیں اور حقیقت میں وہ زیادہ مقدم ہیں اور چونکہ اس سال کی تحریک کے اب صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں اس کی لئے جن دوستوں نے غفلت کی ہے وہ اب جلد کوتاہیوں کو پورا کریں تا وقت پورا ہونے کے بعد ان کے دل ملامت نہ کریں.میں تو کوئی ملامت نہیں کروں گا کیونکہ طوعی تحریک ہے مگر ان کے دل ضرور ملامت کریں گے.پس پیشتر اس کے کہ دل ملامت کریں انہیں چاہئے کہ کوشش کریں تا سال کے اختتام پر وہ خوش ہوں اور کہ سکیں کہ پہلا بوجھ تو ہم اُٹھا چکے اب نئے سال کا اُٹھانے کو تیار ہیں.( الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۳۶ء) ل البقرة : ١٢ ۳۲ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک کے تذکرہ، صفحه ۵.ایڈیشن چہارم
خطبات محمود ۶۶۸ ۳۸ سال ۱۹۳۶ منافقین کا جماعت احمدیہ سے علیحدہ ہونا جماعت کیلئے ہر گز نقصان رساں نہیں (فرموده ۱۶ /اکتوبر ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- چونکہ آج میرے گلے میں زیادہ تکلیف ہے اور کھانسی بھی زیادہ اُٹھ رہی ہے اس لئے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا لیکن پھر بھی آجکل کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چونکہ مجھے بولنا پڑتا ہے اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ پھر اسی مضمون کو لیتا ہوں جس مضمون کے متعلق میں نے گزشتہ جمعہ میں خطبہ پڑھا تھا یا یہ کہو کہ اس مضمون کے ایک حصہ کے متعلق جس کی طرف خطبہ کے ابتداء میں میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی.دوستوں کو معلوم ہے کہ متواتر کئی خطبات کے ذریعہ میں جماعت کو توجہ دلا تا آرہا ہوں کہ افراد اور ان کی تعداد پر خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کی طاقت نہیں ہوتی بلکہ ان کی طاقت اخلاص اور ایمان پر ہوتی ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد میں ابھی تک یہ حس پیدا نہیں ہوئی کہ وہ اس نکتہ کو سمجھیں.وہ خطبات سنتے ہیں مگر ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.بڑی سے بڑی نعمت بھی اگر اس سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے تو اور بڑی سے بڑی نصیحت بھی اگر اس پر عمل نہ کیا جائے انسان کے کسی کام نہیں آسکتی.
خطبات محمود ۶۶۹ سال ۱۹۳۶ منافقین کا وجود جس قسم کا زہر اپنے اندر رکھتا ہے اس زہر کے ازالہ یا اس کے علاج کی طرف لوگ بہت ہی کم توجہ کرتے ہیں آخر اس کا کیا نتیجہ ہو گا ؟ یہی کہ خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں اس کام کو لے لے گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ اس کا اثر دوسروں پر کتنا شدید اور کتنا ہیبت ناک پڑتا ہے.جب تم اپنے گھروں میں آگ جلاتے ہو تو تم یہ احتیاط کر لیا کرتے ہو کہ وہ آگ تمہارے اسباب کو نہ لگے بلکہ صرف چولہے تک ہی محدود رہے.تم کبھی اس امر کو برداشت نہیں کر سکتے یا اس قسم کی کوئی بے احتیاطی اختیار نہیں کر سکتے جس کے نتیجے میں وہ آگ چولہے سے نکل کر تمہارے اسباب کو لگ جائے اور اسباب کے بعد تمہارے گھر کو جلا دے اور گھر کو جلانے کے بعد تمہارے ہمسایوں کے مکانات اور ان کے اسباب کو جلانا شروع کر دے.لیکن یہی آگ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے لگتی ہے تو وہ کس طرح وسیع علاقہ میں پھیل جاتی اور کس قدر مال و اسباب کا نقصان کر دیتی ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کہیں آگ لگتی ہے تو بسا اوقات وہ گھر کا تمام مال و اسباب جلا دیتی ہے، بسا اوقات نہ صرف ایک گھر کا مال و اسباب جلا دیتی ہے بلکہ ہمسایوں کے مکانات اور ان کے مال و اسباب کو بھی جلا دیتی ہے، پھر بسا اوقات وہ سارا محلہ جلادیتی ہے اور بسا اوقات سارے شہر کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے خود اپنے کانوں سے یہ مضمون بارہا سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں.ایک تو وہ ابتلاء ہوتے ہیں جن میں بندے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ تم اس میں اپنے آرام کیلئے خود کوئی تجویز کر سکتے ہو.چنانچہ اس کی مثال میں آپ فرماتے دیکھو! وضو بھی ایک ابتلاء ہے سردیوں کے موسم میں جب سخت سردی لگ رہی ہو ٹھنڈی ہوا چل رہی اور ذراسی ہوا لگنے سے بھی انسان کو تکلیف ہوتی ہو خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو حکم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کر و.بسا اوقات جب نماز کا وقت ہوتا ہے اُس وقت گرم پانی نہیں ہوتا یا بسا اوقات اسے گرم پانی میسر تو آسکتا ہے مگر اُس وقت تیار نہیں ہوتا.پھر بسا اوقات اسے گرم پانی میسر ہی نہیں آسکتایخ بستہ پانی ہوتا ہے اور اسی پانی سے اُسے وضو کر کے نماز پڑھنی پڑتی ہے.آپ فرمایا کرتے یہ بھی ایک ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کیلئے رکھ دیا مگر فر مایا یہ ایسا ابتلاء ہے جس میں بندے کو اختیار دیا گیا ہے یعنی اسے اس بات کی اجازت دی گئی
خطبات محمود ۶۷۰ سال ۱۹۳۶ ہے کہ اگر پانی ٹھنڈا ہے تو گرم کرلے گویا یہ ایک اختیاری ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا اور انسان کو اس بات کی اجازت دی کہ اگر ٹھنڈے پانی سے تم وضو نہیں کر سکتے تو ہمت کرو اور آگ پر پانی گرم کر لو.اور اپنے گھر میں آگ موجود نہیں تو ہمسایہ کے گھر سے آگ لے کر پانی گرم کر لو اور گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد اچھی طرح گرم کپڑے پہن لو تا تمہیں سردی محسوس نہ ہو.یا بعض اوقات لوگ مسجدوں میں حمام بنا دیتے ہیں جن میں پانی گرم رہتا ہے.پس جو لوگ غریب اپنے گھروں میں پانی گرم نہیں کر سکتے وہ مساجد میں جا کر حمام سے وضو کر سکتے ہیں یا اگر مسجد میں گرم حمام کا انتظام نہیں تو پھر اگر کوئی ہمت والا کنویں سے تازہ پانی کا ڈول نکال کر اس سے وضو کر لیتا ہے اس طرح بھی وہ سردی سے بچ جاتا ہے کیونکہ سردیوں میں کنویں کا تازہ پانی قدرے گرم ہوتا ہے.پس اگر کوئی ذریعہ اس کے پاس موجود نہیں تو وہ اس طرح اپنی تکلیف کو دور کر سکتا ہے.اسی کی طرح فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا کہ علی الصبح اُٹھے اور نماز فجر پڑھے.اب سردیوں میں صبح کے وقت اُٹھنا کتنا دو بھر ہوتا ہے لیکن انسان کے پاس اگر کافی سامان ہو تو یہ تکلیف بھی اسے محسوس نہیں ہو سکتی.مثلا اگر اسے تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ہے تو وہ یہ کر سکتا ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے وقت کمرے کے دروازے اچھی طرح بند کرے تا کمرہ گرم رہے اور باہر کی ٹھنڈی ہوا اندر نہ آسکے.اسی طرح جب فجر کی نماز پڑھنے کیلئے مسجد کو جائے تو کمبل یا ڈلائی اوڑھ سکتا یا گرم کوٹ پہن کر جا سکتا ہے اور اگر کوئی غریب بھی ہو تو وہ بھی پھٹی پرانی صدری یا کوٹ پہن کر جا سکتا اور سردی کے اثر سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے.اور اگر کوئی شخص بالکل ہی غریب ہو اور اس کے پاس نہ کمبل ہو نہ دلائی نہ صدری نہ کوٹ تو اسے بھی زیادہ تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے شخص کو سردی کے برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جس چیز کا انسان عادی ہو جائے وہ اس کو تکلیف نہیں دیتی.میں نے دیکھا ہے کہ باورچی خانہ میں کام کرنے والی عورتیں اپنے ہاتھوں سے چولہے سے انگارے نکال لیتی ہیں اور انہیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی حالانکہ ہم ان انگاروں کے قریب بھی نہیں جاسکتے.اسی نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخیوں کو جب دوزخ میں عذاب دیا جائے گا تو کچھ عرصہ کے بعد جب ان کی جلدیں پک جائیں گے اور انہیں عذاب سہنے کی عادت ہو جائے گی تو بَدَّلْنَهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لے ہم ان
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کے چھڑے تبدیل کر دیں گے اور نیا چمڑہ انہیں دے دیں گے کیونکہ اگر ایک ہی چمڑہ رہے تو انہیں دوزخ کا عذاب سہنے کی عادت ہو جائے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء دوزخیوں کو دوزخ کا عذاب محسوس کرانا ہے اس لئے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد انہیں نئی جلدیں ملیں گی تا وہ عذاب ہمیشہ محسوس کرتے رہیں اور عذاب کا عادی ہو جانے کی وجہ سے اس کی تکلیف کا احساس ان کے دلوں سے مٹ نہ جائے.میرا مضمون گو اور ہے مگر چونکہ قرآن مجید کا جب ذکر آتا ہے تو توجہ خود بخود اس کی طرف پھر جاتی ہے اس لئے اس جگہ ایک قابلِ ذکر نکتہ بھی بیان کر دیتا ہوں.تم تمام دنیا کی علمی کتابوں کو پڑھ کر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ اعصاب کا تفصیلی علم ہمارے زمانہ کی دریافت ہے اس سے پہلے قدیم طب میں اعصاب کا علم اس طرح موجود نہیں تھا کیونکہ اس علم کا بہت سا تعلق خوردبین ہے جو پہلے معلوم نہ تھی اس وجہ سے پہلے زمانہ کے اطباء اس بات کو بہ تفصیل نہ جانتے تھے کہ انسان کی تمام جلد پر جس والے اعصاب کا ایک جال پھیلا ہوا ہے اور وہ جال اتنا باریک ہے کہ خوردبینی سے بھی بعض دفعہ نظر نہیں آسکتا.یہ موجودہ زمانے کی تحقیق کا نتیجہ ہے مگر قرآن مجید نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جس جلد کے ذریعہ ہوتی ہے حالانکہ پہلے علمی رنگ میں یہ بات ثابت نہیں تھی.غرض قرآن کریم نے ہی سب سے پہلے دنیا کو یہ نکتہ بتایا ہے کہ جس والے اعصاب جلد پر پھیلے ہوئے ہیں اور جب کسی انسان کی جلد جل جائے یا پختہ ہو جائے تو اس کی جس کم ہو جاتی ہے.اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کچھ کچھ عرصہ کے بعد دوزخیوں کی جلد کو بدل دے گا اور اس طرح تازہ اور زندہ اعصاب انہیں دے کر ان کی جس کو پھر مکمل کر دے گا تا وہ عذاب محسوس کریں.بہر حال خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب کسی شخص کو کسی دکھ یا تکلیف کی عادت ہو جائے تو اس کے متعلق اس کا احساس کم ہو جاتا ہے اور چونکہ سردیوں میں غرباء کے پاس گرم کپڑے نہیں ہوتے اور نہ اور سامان ہوتے ہیں جن سے انہیں سہارا حاصل ہو اس لئے ان کی جلد کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مضبوط کر دیا جاتا ہے گویا یہ خدائی لباس یا خدائی کوٹ ہوتا ہے جو سردیوں میں غرباء کو پہنایا جاتا ہے.جب کسی شخص کو گرم کوٹ سردی سے محفوظ رہنے کیلئے نہیں ملتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی جلد میں ایسی طاقت پیدا کر دی جاتی ہے کہ اسے سردی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ سردی کی
خطبات محمود ۶۷۲ سال ۱۹۳۶ اسے عادت پڑ جاتی ہے اور یہ عادت ہی اس کے بچاؤ کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے.غرض سردیوں میں وضو کر نا یا تہجد اور صبح کی نماز کیلئے اٹھنا ایک ابتلاء ہے مگر اس ابتلاء میں انسان کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی سہولت اور آرام کو مدنظر رکھ لیا کرے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے استاد بعض دفعہ طالب علم سے کہتا ہے کہ تم اپنے کان خود کھینچو.طالب علم اُستاد کے اس حکم کی تعمیل میں جب اپنے کان کھینچے گا تو وہ ضرور لحاظ رکھ لے گا کہ اسے تھوڑے سے تھوڑا درد ہو لیکن جب وہ طالب علم شرارت سے باز نہیں آتا تو پھر استاد اسے یہ نہیں کہتا کہ اپنے کان خود کھینچو بلکہ وہ دوسرے سے کہتا ہے کہ اس کے کان کھینچو.پس وہ اس کے کان کھینچتا ہے اور کان کھینچنے کے ساتھ اسے جھٹکے بھی دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک ابتلاء تو اس قسم کے آیا کرتے ہیں جواختیاری ہوتے ہیں اور جن میں انسانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی سہولت اور آرام کو مد نظر رکھ لیں لیکن جب انسان ان ابتلاؤں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے تو وہ یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر اُس وقت انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ابتلاء ہی نہیں آتے بلکہ جھٹکے بھی ملتے تو ہیں اور جب اُسے جھٹکے آتے ہیں تو اس کے سوا اور لوگوں کو بھی جھٹکے آتے ہیں اور وہ سب اپنی اپنی جگہوں سے ہلائے جاتے ہیں.مدینہ میں بعض یہودی قو میں رہتی تھیں جو مسلمانوں سے ہمیشہ فتنہ وفساد کا بازار گرم رکھتیں.جب ان کی شرارتیں حدود سے تجاوز کر گئیں تو رسول کریم ﷺ نے ان کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ چاہو تو تم خود اپنے آپ کو سزا دے لو اور چاہو تو ہم تمہیں سزا دیں.وہ سمجھدار لوگ تھے انہوں نے کہا ہم خود ہی اپنے آپ کو سزا دے لیتے ہیں چنانچہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے اور باہر آباد ہو گئے.لیکن بعض دفعہ جب خدا اور اس کے رسولوں کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ ہم اور تم اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے تو خدائی جواب انہیں یہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری زمین ہے اور یہ بندے بھی ہمارے بندے ہیں یہ تو یہاں سے نہیں جاسکتے لیکن اگر تم نبیوں کی جماعتوں سے مل کر نہیں رہ سکتے تو ہم تمہیں یہاں سے نکال کر رہیں گے.چنانچہ پھر خدا انہیں نکالتا ہے اور اسی طرح نکالتا ہے جس طرح اس نے کانگڑہ میں لوگوں کو نکالا ، جس طرح اس نے بہار میں لوگوں کو نکالا ، جس طرح اس نے کوئٹہ میں لوگوں کو نکالا ، اس
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ خدائی عذاب کی گرفت میں پھر کچھ دوسرے لوگ بھی آجاتے ہیں کیونکہ خدائی قانون یہ ہے کہ ولا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا تو ظالم طبع لوگوں کو تم اپنے میں سے آپ جُدا کرو اور اگر تم انہیں جُدا کرنے کیلئے تیار نہیں تو یا درکھو جب ہم نے ظالموں کے گھروں پر آگ برسائی تو اگر تمہارے گھروں کو بھی لگ جائے تو شکوہ نہ کرنا.ہماری جماعت کے سامنے بھی اس وقت یہی سوال در پیش ہے کہ آیا وہ اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی آگ سے جلوانا چاہتی ہے یا منافقوں اور منافق طبع لوگوں سے الگ ہونا چاہتی ہے اس کے سوا تیسری کوئی صورت نہیں ان میں سے ایک کا وقوع ضروری ہے یا منافق ہماری جماعت میں سے الگ ہو جائیں گے یا خدا ان کے گھروں کو جلائے اور ان کے گھروں کے ساتھ ان لوگوں کی کے گھر بھی جو اُن سے ملنے والے اور ان سے محبت اور دوستی کے تعلقات رکھنے والے ہیں جل جائیں گے.تم کو خدا تعالیٰ کا سلسلہ اتنا پیارا ہو یا نہ ہو لیکن خدا تعالیٰ کو یہ سلسلہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیارا ہے کیونکہ وہ صداقت ہے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی اُس وقت سے لے کر آج تک وہ اس صداقت کی حفاظت کیلئے سامان مہیا کرتا چلا آیا ہے.آخر سوچو کہ تمہیں اپنی زندگیوں میں جن منافقوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی تعداد کتنی ہے.یہاں کے اور بیرونی جماعتوں کے منافقوں کو ملا کر زیادہ سے زیادہ ان کی تعداد دو چار ہزار ہوگی ان دو چار ہزار منافقوں کی ساری دنیا کے مقابلہ میں نسبت ہی کیا ہے.دنیا کی آبادی اس وقت دوارب ہے ان دوارب آدمیوں کے مقابلہ میں دو چار ہزار منافقوں کی کچھ بھی حیثیت نہیں.پھر جس صداقت کو احمدیت پیش کرتی ہے اور جس صداقت کو اسلام ظاہر کرتا ہے وہ صداقت دوارب آدمیوں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ عالم انسانی سے تعلق رکھتی ہے اور صرف عالم انسانی سے نہیں بلکہ تمام عالم سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ انسان عالم صغیر ہے اور تمام عالم اس کی خاطر پیدا کیا گیا ہے بلکہ انسان بھی ایک اور چیز کی خاطر پیدا کیا گیا ہے جسے سچائی کہتے ہیں.اس سچائی کے کامل نمو نے جو دنیا میں ہوئے ہیں ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک سے.چنانچہ رسول کریم ﷺ سے خدا تعالیٰ نے یہی کہا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الله الافلاک یعنی اے محمد ﷺ اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو کبھی پیدا نہ کرتا.محمد ﷺ کو خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۶۷۴ سال ۱۹۳۶ نے یہ بحیثیت انسان نہیں کہا کہ اگر تو پیدا نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا بلکہ نمائندہ صداقت ہونے کی حیثیت سے کہا اور اس وجہ سے کہا کہ محمد ﷺ کا وجود دسچائی سے مل گیا تھا یہاں تک کہ سچائی اور محمد ماہ میں کوئی فرق نہ رہا تھا.اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک ، کہ اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا.یہ بھی آپ کو بحیثیت انسان نہیں کہا گیا بلکہ ایک نمائندہ صداقت ہونے کی حیثیت سے کہا گیا اور اس وجہ سے کہا گیا کہ آپ کا وجود سچائی سے مل گیا یہاں تک کہ آپ میں اور سچائی میں کوئی فرق نہ رہا.پس جب خدا نے کہا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک تو اس کے یہی معنی تھے کہ اگر سچائی نہ ہوتی ، اگر دنیا میں یہ حقیقت مضمرہ نہ ہوتی جو سارے عالم کی جان ہے جو خدا میں سے آتی اور پھر خدا میں ہی جا کر مل جاتی ہے تو میں زمین و آسمان کبھی پیدا نہ کرتا.یہ سارا عالم اس سچائی کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس دائگی ، اس ازلی اور اس ابدی سچائی کیلئے جو خدا میں سے آتی اور خدا میں ہی واپس چلی جاتی ہے اس دائمی سچائی کے کامل نمائندے محمد ملتے تھے.پس اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک.اور اس دائمی سچائی کے خلی نمائندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی فرمایا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک لیکن مستقل طور پر محمد ﷺ کو ہی کہا گیا ہے کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک یعنی اسے محمد مال لے چونکہ تو اس دائمی سچائی کا نمائندہ ہے جو مجھ میں سے آتی اور مجھ میں ہی آکر مل جاتی ہے اور جس کا اشارہ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۲۵ میں بھی ہے اس لئے اگر تو پیدا نہ ہوتا جو سچائی کا نمائندہ بننے والا تھا تو میں زمین و آسمان کبھی پیدا نہ کرتا مگر چونکہ تو ایک زمانہ میں میری سچائی کا کامل نمائندہ بنے والا تھا اس لئے میں نے زمین و آسمان کو پیدا کر دیا کیونکہ تیرے ذریعہ میری اس صداقت اور سچائی کا ثبوت ملنا تھا.پھر جب محمد ﷺ کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اپنے وجود کو فنا کر دیا.آپ کی محبت میں اپنے آپ کو مٹادیا اور سچائی کی اُس چادر کو اوڑھ لیا جو دائمی ہے، جو از لی اور ابدی ہے، جو خدا میں سے آتی اور خدا میں ہی واپس چلی جاتی ہے تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہاما فرمایا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک اب خود سوچ لوجس مجرم اور جس
خطبات محمود ۶۷۵ سال ۱۹۳۶ گناہ کے نتیجہ میں یہ سچائی پوشیدہ ہو جائے ، جس مُجرم اور جس گناہ کے نتیجہ میں یہ سارے افعال باطل ہو جائیں اور اربوں ارب اور کھربوں کھرب سالوں سے خدا تعالیٰ جس سچائی کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ مشتبہ ہو جائے اس جرم اور اس گناہ سے ہمیں کتنی شدید نفرت رکھنی چاہئے.پس ہزار دو ہزار ، یا لاکھ دو لاکھ ، یا کروڑ دو کروڑ ، یا ارب دوارب انسانوں کا سوال نہیں بلکہ اگر دس ارب انسان بھی اس سچائی کے مقابلہ پر آجا ئیں تو جس طرح سر کو کھجلی سے بچانے کیلئے ایک جوں مار دی جاتی ہے اسی طرح ان اربوں لوگوں کی تباہی کی بھی پرواہ نہیں کی جاسکتی کیونکہ صداقت دنیا کی ہر چیز پر مقدم ہے اور انسانوں کی سچائی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایک وقت کی دنیا کیا قیامت تک کے سارے عالم اور قیامت تک پیدا ہونے والے نسل انسانی کے تمام افراد بھی سچائی کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے.وہ صرف اتنا ہی وزن رکھتے ہیں جتنا صداقت سے وہ تعلق رکھتے ہوں.اسی لئے جب میں نے کہا کہ سچائی کے مقابلہ میں اربوں ارب بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے افراد کی تباہی کی بھی پرواہ نہیں کی جاسکتی تو محمد ﷺ ان انسانوں سے باہر آگئے کیونکہ انہیں انسانیت سے بہت بلند اور بالا مقام حاصل تھا وہ ازلی سچائی کے مظہر ہو گئے تھے.اسی طرح وہ دوسرے لوگ بھی باہر آجائیں گے جو حسب مراتب صداقت سے تعلق رکھتے ہوں گے.پس انسانوں سے مراد وہ انسان نہیں جو صداقت کے نمائندہ ہیں ان کے سوا باقی تمام انسان اگر ابتدائے عالم سے لے کر قیامت تک تباہ کر دیئے جائیں تو سچائی کے مقابلہ میں وہ اتنا وزن بھی نہیں رکھتے جتنا ایک من وزن کے مقابلہ میں چنے کا ایک دانہ حیثیت رکھتا ہے.یہ زمین ، یہ آسمان ، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے، یہ سیارے اور قسم قسم کی اشیاء جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیں یہ سب سچائی کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک اے محمد احمد ﷺ یہ ساری چیزیں تیرے لئے ہیں کیونکہ تو ہماری سچائی کا نمائندہ ہے اور اگر تو پیدا نہیں ہوتا تو پھر ان چیزوں کی کچھ بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سچائی کے بغیر یہ سب حقیر اور ذلیل چیزیں ہیں.پس کون بیوقوف یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس کا وجود اتنا بڑا ہے کہ سچائی کے مقابلہ میں اس کی پروا کرنی چاہئے.سچائی تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ اس کیلئے خدا تعالیٰ نے محمد ﷺ کے وجود کو بھی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ ہے خطرہ میں ڈال دیا ، مکہ اور مدینہ میں جب لوگ آپ پر حملہ کرتے تو ان میں سے ہر شخص اسی لئے حملہ کرتا تھا کہ وہ ازلی اور ابدی صداقت جو آپ کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوئی مٹا دے.پس اس سچائی کیلئے تو محمد ﷺ کی جان کو بھی خدا تعالیٰ نے خطرہ میں ڈال دیا کجا یہ کہ ایک منافق کی جان کی سچائی کے مقابلہ میں حفاظت کی جائے.تاریخوں میں ایک واقعہ آتا ہے نہ معلوم وہ سچا بھی ہے یا نہیں مگر بہر حال ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے والد کہیں سے آرہے تھے کہ راستہ میں انہوں نے دیکھا ایک عورت بیٹھی اُس عورت پر رسول کریم ﷺ کے والد کا چہرہ دیکھ کر ایسی وارفتگی طاری ہوئی کہ اُس نے ان سے شادی کی خواہش ظاہر کی کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں.عرب کی عورتوں میں ہندوستان کی عورتوں کی نسبت بہت آزادی تھی اور اُن میں عورت کا شادی کی خود خواہش کرنا کچھ ایسا معیوب نہ سمجھا جا تا تھا مگر پھر بھی عورت کی ذات اپنے اندر شرم و حیا کا فطرتی مادہ رکھتی ہے اور وہ مرد سے اس قسم کی بات کہتے ہوئے شرماتی ہے لیکن اُس عورت نے کہہ ہی دیا کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں.کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا اور گو وہ عورت معزز اور مالدار تھی اور شاید اُس سے شادی کرنا ان کیلئے مفید ہوتا لیکن انہیں جواب دیتے ہوئے شرم محسوس ہوئی اور وہ اپنے گھر چلے گئے.کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر وہاں سے گزرے تو اسی عورت کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا اور اب کی دفعہ خود اُن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر یہ کہے تو میں اس سے شادی کرلوں.وہ یہ امید رکھتے تھے کہ عورت پھر شادی کیلئے خود اپنے آپ کو پیش کرے گی لیکن وہ عورت خاموش رہی اور اُس نے انہیں کچھ نہ کہا.اس پر انہیں بہت تعجب ہوا اور انہوں نے اُسے مخاطب کر کے کہا کہ اُس دن جو میں یہاں سے گزرا تھا تو تم نے کہا تھا کہ مجھ سے شادی کر لو اور میں خاموش رہا تھا لیکن آج تم نے یہ بات نہیں کہی اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ عورت کہنے لگی اُس دن جو آپ یہاں سے گزرے تھے تو مجھے آپ کے ماتھے پر ایک نور نظر آیا تھا مگر آج وہ نور مجھے نظر نہیں آیا.دراصل اسی عرصہ میں حضرت عبداللہ رسول کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں آپ کا حمل قرار پا گیا وہ نور جو اُس عورت کو نظر آیا وہ وہی ازلی سچائی تھی جو نسلاً بعد نسل لوگوں کی پشت میں منتقل ہوتی چلی آئی تھی لیکن جب وہ سچائی آمنہ کے پیٹ میں منتقل ہوگئی تو تمام مرد اس سے محروم
خطبات محمود ۶۷۷ سال ۱۹۳۶ صل الله ہو گئے یہاں تک ہ محمد ے کے ذریعہ پھر وہ نور دنیا میں ظاہر ہوا.وَاللَّهُ أَعْلَمُ یہ روایت صحیح بھی کی ہے یا نہیں لیکن اس میں ہمارے لئے ایک سبق ضرور ہے خواہ وہ تصویری زبان ہی میں کیوں نہ ہو.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ روایت مواہب اللہ نیہ میں جو تاریخ کی مشہور کتاب ہے آتی ہے.یہ قصہ خلاف عقل بھی نہیں ہے جو عام واقعات دنیا میں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی شناخت کے متعلق ہوتے رہتے ہیں ممکن ہے انہی کی طرح اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو کشفی نگاہ دے دی ہو اور اُس نے وہ نور محمدی دیکھ لیا ہو جو دنیا میں ظاہر ہونے والا تھا لیکن بہر حال خواہ یہ واقعہ صحیح ہے یا غلط ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں خواہ تاریخی لحاظ سے ہم اس کی صحت کی ذمہ داری نہ لے سکتے ہوں.پس وہ صداقت دائگی ، وہ ازلی اور ابدی صداقت جو خدا تعالیٰ سے آتی اور خدا تعالیٰ کی طرف ہی چلی جاتی ہے تمام عالم پر مقدم ہے اور وہی اس دنیا کی پیدائش کا مقصد ہے اور در حقیقت وہی نور ہے جس کا ذکر سورہ نور میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ 1 اللہ ہی آسمان و زمین کا نور ہے.شاید تم کہو کہ جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے تو تم نے محمد ﷺ اور بعض خاص افراد کو اس کا حامل قرار کیوں دیا ہے ایک کو دوسرے سے کیا امتیاز صلى الله حاصل ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگ اتنے کثیف ہوتے ہیں کہ ان میں سے خدا تعالیٰ کا وہ نور نظر نہیں آسکتا.گویا ان کی مثال اس خول کی سی ہوتی ہے جس میں بجلی کی تار گزرتی ہے.میں نہیں جانتا وہ لوہے کا ہوتا ہے یا کسی اور چیز کا لیکن بہر حال بجلی والے بجلی کی بعض تاروں پر ایک خول چڑھاتے ہیں اس خول کی وجہ سے وہ نان کنڈکٹر ہو جاتی ہے یعنی اندر سے ہزاروں لاکھوں گھوڑوں کی طاقت والی بجلی گزر رہی ہوتی ہے اور اوپر سے ایسی محفوظ ہوتی ہے کہ ایک چڑیا یا چوہیا بھی اگر بیٹھ جائے تو اُسے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا.پس بعض وجود نان کنڈکٹر ہوتے ہیں لیکن بعض وجود ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر جذب کر کے اسے باہر بھیجنا شروع کر دیتے ہیں جیسے بجلی کی تاریں ہوتی ہے اور بجلی کو جذب کرتیں اور اسے دوسری چیزوں تک پہنچا دیتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللَّهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ اللہ تعالیٰ کا نور زمین و آسمان میں ہر جگہ موجود ہے فرق صرف یہ ہے کہ بعض نے اپنے آپ کو نان کنڈکٹر بنالیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس نور سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اور بعض اُس نور کو جذب کر کے دوسرے لوگوں تک بھی
خطبات محمود ۶۷۸ سال ۱۹۳۶ پہنچا دیتے ہیں اس قسم کے وجود محمدی وجود ہوتے ہیں.پس نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہر جگہ موجود ہے مگر یہی صداقت از لی جو خدا نے پیدا کی صرف انہی کو نظر آسکتی ہے جو الوہیت کی چادر اوڑھ لیں تا کوئی شخص یہ کہہ سکے کہ دنیا میں دو چیزیں ہیں بلکہ ہر کوئی انہیں دیکھ کر یہی کہے کہ یہ سب نور اللہ کا ظہور ہے اور اس نور میں کوئی دوئی نہیں.غرض نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ سے وہ صداقت از لیہ مراد ہے جس کا کامل ظہور محمدی کے ذریعہ ہوا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا لولاک لَمَا خَلَقْتُ الافلاک یعنی میں نے دنیا اسی ازلی صداقت کو ظاہر کرنے کیلئے پیدا کی ہے اور اس ازلی اور ابدی صداقت کو اور کسی نے کامل طور پر ظاہر نہیں کیا صرف تو ایسا وجود ہے جس نے اسے کامل طور پر ظاہر کیا.پس اگر تو پیدا نہ ہوتا تو میں اس زمین و آسمان کو ہرگز پیدا نہ کرتا.پس اس از لی اور ابدی صداقت کے مقابلہ میں جسے نور اللہ کہتے ہیں دنیا کا کوئی انسان ، دنیا کی کوئی جماعت، دنیا کی کوئی نسل ، بلکہ کروڑوں اور اربوں سالوں کی نسلیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اور یقیناً ان سب کو مٹایا جا سکتا اور انہیں تباہ و برباد کیا جاسکتا ہے لیکن سچائی کے مشتبہ ہونے یا اس کے مٹنے کو کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا.ایک سر میں پڑی ہوئی جوں کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے لیکن سوائے اُن انسانوں کے جنہوں نے سچائی سے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کر لیا اور لوگوں کی ایک جوں کے برابر بھی حیثیت نہیں ہے.بچپن میں ہمیں کہانیاں سنے کا بہت شوق تھا.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہتے تو آپ ہمیں ایسی کہانیاں سناتے جنہیں سن کر عبرت حاصل ہوتی.انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی مجھے اس وقت یاد آ گئی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے سنا.آپ فرماتے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان اس وجہ سے آیا کہ لوگ اُس وقت بہت گندے ہو گئے کو تھے اور گناہ کرنے لگ گئے تھے.وہ جوں جوں اپنے گناہوں میں بڑھتے جاتے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی قیمت گرتی جاتی.آخر ایک دن ایک پہاڑی کی چوٹی پر کوئی درخت تھا اور وہاں گھونسلے میں چڑیا کا ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا اُس بچے کی ماں کہیں گئی اور پھر واپس نہ آسکی شاید مرگئی یا کوئی اور وجہ ہوئی کہ نہ آئی.بعد میں اس چڑیا کے بچہ کو پیاس لگی اور وہ پیاس سے تڑپنے لگا اور اپنی چونچ کھولنے لگا تب خدا تعالیٰ نے یہ دیکھ کر اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور زمین پر پانی برساؤ اور اتنا
خطبات محمود ۶۷۹ سال ۱۹۳۶ برساؤ کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جو درخت ہے اُس کے گھونسلہ تک پہنچ جائے تا کہ چڑیا کا بچہ پانی پی سکے.فرشتوں نے کہا خدایا! وہاں تک پانی پہنچانے میں تو ساری دنیا غرق ہو جائے گی.خدا تعالیٰ نے جواب دیا کوئی پرواہ نہیں اس وقت دنیا کے لوگوں کی میرے نزدیک اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی اُس چڑیا کے بچہ کی حیثیت ہے.اس کہانی میں یہی سبق سکھایا گیا ہے جو بالکل درست ہے کہ صداقت اور راستی سے خالی دنیا ساری کی ساری مل کر بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک چڑیا کے بچہ جتنی حیثیت نہیں رکھتی.تو پھر بتاؤ کہ ایک یا چند انسانوں کی صداقت کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوسکتی ہے کہ ان کا لحاظ رکھا جائے.میں ایک عرصہ سے تم میں سے وہ لوگ جن کی آنکھیں ہیں انہیں دکھا رہا ہوں ، جن کے کان ہیں انہیں سنا رہا ہوں اور جن کی جس ہے انہیں محسوس کر رہا ہوں کہ سلسلہ کے قیام یا اس کی زندگی کے قیام کے مقابلہ میں منافق تو کیا خود تمہاری جانوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاسکتی بلکہ جس طرح گھتے کی سڑی ہوئی لاش پھینک دی جاتی ہے اسی طرح اگر تم صداقت کے مقابل پر آجاؤ تو تمہیں پھینک دیا جائے گا بلکہ سڑے ہوئے گتے کی لاش پھینکتے ہوئے بھی رحم آ سکتا ہے لیکن اگر تم صداقت کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاؤ تو تم سڑے ہوئے گنے کی لاش جتنی بھی حیثیت نہیں رکھو گے اور فوراً سلسلہ سے منقطع کر دیئے جاؤ گے.تم خود غور کر کے دیکھ لو میں نے جس وضاحت سے صداقت کی قیمت تمہارے سامنے پیش کی ہے اس کے بعد کیا کوئی بھی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس صداقت کو چند نفوس کے لئے مٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے.میں اپنی حیثیت سمجھتا ہوں اور تم اپنی حیثیت جانتے ہو ہم سب سوچ سمجھ کر معلوم کر سکتے ہیں کہ کیا ہماری اس صداقت کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت ہے.ہمارے ملک میں گتے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے اسی لئے میں نے گتے کی مثال دی ہے ورنہ اگر مجھے گنے سے بھی کم حیثیت رکھنے والی چیز کی مثال نظر آتی تو میں وہی دیتا ممکن ہے کہ بعض لوگ سچائی کے مقابلہ میں اپنی قیمت اس سے زیادہ سمجھتے ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ازلی سچائی کے مقابلہ پر اپنے آپ کو سڑے ہوئے گتے سے تشبیہہ دے کر میں نے اپنی قیمت زیادہ ہی لگائی ہے کم نہیں لگائی کیونکہ اس صداقت از لیہ کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ، نہ ایک کی نہ دو کی ، نہ دس کی نہ ہیں کی ، نہ سو کی نہ ہزار کی بلکہ لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سالوں کی
خطبات محمود ۶۸۰ سال ۱۹۳۶ نسلوں کی قیمت بھی سچائی کے مقابلہ میں کچھ نہیں وہ نور اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کے مقابلہ میں حقیر اور ذلیل انسان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے.وہی تو ایک چیز ہے جسے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے پاک بندے اپنی جانیں دیتے چلے آئے ہیں.حضرت نظام الدین صحبت اولیاء کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے جو میں نے خود تو نہیں پڑھا مگر حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل سے میں نے سنا ہے.آپ ایک دفعہ شاگردوں کے ساتھ ایک بازار میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے ایک چھوٹا سا لڑکا دیکھا جو نہایت خوبصورت تھا آپ فوراً آگے بڑھے اور اُسے چوم لیا.شاگردوں نے جب یہ دیکھا کہ ہمارے پیر ومرشد نے ایک لڑکے کا بوسہ لیا ہے تو وہ فوراً ایک دوسرے سے آگے بڑھے اور انہوں نے اس لڑکے کو چومنا شروع کر دیا.اُن کے ایک مرید تھے جو ان کے بہت مقرب تھے اور بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے انہوں نے اس موقع پر لڑ کے کو نہ چوما بلکہ الگ کھڑے رہے.یہ دیکھ کر باقی لوگ باتیں بنانے لگ گئے کہ اس شخص کے دل میں حضرت بزرگ صاحب کا ذرا بھی ادب نہیں بزرگ صاحب نے ایک کام کیا اور اس نے نہیں کیا.وہ حسد کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ اعتراض کرتے چلے جارہے تھے کہ چلتے چلتے راستہ میں حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے دیکھا ایک بھٹیارا بھٹی میں آگ جلا رہا ہے اور اُس کے شعلے اس تیزی سے بھڑک رہے ہیں کہ پاس کھڑا نہیں ہوا جاتا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے چہرہ پر یہ دیکھ کر یکدم ایک تغیر آیا اور بودگی کی سی حالت طاری ہوگئی اور جھٹ آگے بڑھے اور آگ کے شعلہ کا بوسہ لے لیا مگر آگ کا بوسہ لینے سے نہ تو اُن کے بال جلے اور نہ منہ.وہ پیچھے ہے تو وہی شاگرد جو بعد میں ان کا خلیفہ ہوا اور جس نے لڑکے کو نہیں چوما تھا آگے بڑھا اور اُس نے بھی آگ کو بوسہ دیا پھر پیچھے ہٹ کر اُس نے دوسروں سے کہا حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے آگ کو بوسہ دیا ہے آپ بھی اسے بوسہ دیجئے.مگر وہاں بوسہ دینے کی انہیں کس طرح جرات ہوسکتی تھی وہاں تو وہی بوسہ دے سکتا تھا جسے خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ آگ تیری غلام بلکہ تیرے غلاموں کی بھی غلام ہے.جب ان میں سے کوئی شخص آگے نہ بڑھا تو وہ شاگرد اُن سے مخاطب ہو کر کہنے لگا میں نے تمہارا اعتراض سنا ہے کہ پیر صاحب نے لڑکے کو بوسہ دیا مگر اس نے نہیں دیا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ پیر صاحب نے لڑکے کو بوسہ نہیں دیا تھا بلکہ انہیں اس میں سے نور اللہ نظر آیا تھا
خطبات محمود ۶۸۱ سال ۱۹۳۶ اور اُس نور اللہ کو انہوں نے بوسہ دیا مگر مجھے اس میں سے نور اللہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے اُسے بوسہ نہ دیا اگر میں اسے بوسے دیتا تو وہ حفظ نفس ہوتا اپنے پیر کی اتباع نہ ہوتی لیکن اب جبکہ انہیں آگ میں نور اللہ نظر آیا مجھے بھی اس میں سے نور اللہ دکھائی دیا پس میں نے بھی آگ کو بوسہ دے دیا.اگر تم نے بھی لڑکے میں نور اللہ دیکھ کر اُسے بوسہ دیا تھا تو اب آگ کو کیوں بوسہ نہیں دیتے ؟ اور اگر تم نے محض حظ نفس کی وجہ سے لڑکے کو چوما تھا تو مجھ پر تمہارا اعتراض کس طرح درست ہوسکتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کا نور ظاہر ہوتا اور خدا تعالیٰ کے پیاروں کو نظر آ جاتا ہے چاہے وہ آگ میں نظر آئے یا کسی اور چیز میں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کا یہ نور آگ میں نظر آیا تھا اور وہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے چلے گئے تھے.پس اس صداقت کے مقابلہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پھر اسی طرح صلى الله ظاہر ہوئی جس طرح حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ ظاہر ہوئی تھی انسانوں کی کوئی ہستی نہیں کہ ان کا لحاظ کیا جا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرمودہ مجھے اس وقت ایک اور مثال بھی یاد آ گئی ہے جو مُردہ گتے والی مثال سے زیادہ بہتر مثال ہے آپ فرمایا کرتے تھے ایسے لوگوں کی طاعون سے کی مرے ہوئے چوہوں جتنی بھی حیثیت نہیں ہوتی اور یقیناً یہ مثال مُردہ گتے سے بھی زیادہ واضح ہے کیونکہ مرے ہوئے گتے کی لاش میں گوٹھ اور سڑاند ہوگی لیکن طاعون سے مرے ہوئے چوہے میں بو اور سٹراند کے علاوہ طاعون کا زہر بھی ہوگا.پس مرے ہوئے کتے سے صرف ناک اذیت اُٹھاتا ہے لیکن طاعون سے مرے ہوئے چوہے سے ناک کے ساتھ جان بھی تکلیف پاتی ہے کیونکہ ایسا چو ہا انسانی جان کو بھی تلف کر دیتا ہے.پس تمہارے اندرا گر نفاق ہے تو اسے دور کرو اور اگر تمہارے اندر نفاق نہیں تو تمہارا وہ کی ہمسایہ جس میں نفاق ہے اس کے نفاق کو دور کرنے کی کوشش کرو اور اس کے زہر سے دوسروں کو بچاؤ اور اگر تم اس کی حمایت اور حفاظت کیلئے کھڑا ہونا چاہتے ہو تو میں تم سے درخواست کروں گا کہ تم طاعون سے مرا ہوا چوہا اگر اپنے گھر میں رکھ لو تو میں سمجھوں گا کہ تم دیانتدار ہو.ایسے لوگ اگر آمادہ ہوں تو اب کی دفعہ جب طاعون پڑے تو طاعون زدہ علاقے سے مرے ہوئے چوہے لائیں اور اپنے اپنے گھروں میں رکھ لیں اور اگر وہ اس کیلئے تیار نہیں لیکن منافق کو پناہ دینے کیلئے
خطبات محمود ۶۸۲ سال ۱۹۳۶ وہ ہر وقت تیار ہیں تو بتاؤ ان کے ایمان اور ان کی دیانتداری پر میں کس طرح یقین کر سکتا ہوں.میں تو یہ سمجھوں گا کہ ان میں بھی نفاق کی کوئی نہ کوئی رگ پائی جاتی ہے اگر ان میں نفاق نہیں تو وہ طاعون سے مرے ہوئے چوہوں کو اپنے گھروں میں کیوں نہیں رکھتے.اسی لئے نا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چوہے رکھنے سے ہمیں طاعون لگ جائے گی.پھر جب وہ طاعون سے مرا ہوا چوہا رکھنے.ڈرتے ہیں لیکن منافق کے ساتھ ملنے اور اُس سے دوستی اور تعلق رکھنے میں کوئی ضرر نہیں دیکھتے تو ی کیوں یہ نہ سمجھا جائے کہ خود ان کے اندر نفاق کی کوئی رگ پائی جاتی ہے.ނ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سنایا ہوا ایک اور واقعہ بھی مجھے یاد ہے.آپ فرمایا کرتے تھے جالینوس ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہا تھا کہ ایک دیوانہ دوڑتا ہوا آیا اور اس سے چمٹ گیا.جالینوس جب گھر واپس گیا تو جاتے ہی اس نے اپنی فصد کھلوائی.کسی نے پوچھا آپ فصد کیوں کھلواتے ہیں وہ کہنے لگا ہمیشہ ایک چیز کی طرف اسی جنس کی چیز رجوع کیا کرتی ہے آج جب ایک مجنون اور دیوانہ شخص بازار میں مجھ سے چمٹ گیا تو میں نے سمجھا کہ میرے اندر بھی ضرور کوئی دیوانگی کی رگ ہے پس کیوں نہ اس کے ظاہر ہونے سے پہلے میں اس کا علاج کرلوں.غرض پہلے اپنی عقلوں سے کام لو، پھر دعاؤں اور انابت الی اللہ سے کام لو، اس کے بعد ہمت اور جرات.کام لو، بُزدل اور ڈرپوک مت بنو اور یہ مت خیال کرو کہ تم دس یا بیس ہزار آدمی کھو کر اپنا نقصان کرو گے.یقیناً اگر دس لاکھ آدمی بھی کسی کچی جماعت سے نکل جائیں تو وہ ایک کروڑ بن کر ہم میں آئیں گے اور تخلص بن کر آئیں گے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی ایک بیوی جو فوت ہو گئیں نہایت سادہ طبع اور بہت ہی مخلص تھیں.ان کی نرینہ اولا دکوئی زندہ نہیں رہتی تھی صرف دولڑ کیاں تھیں جن میں سے چھوٹی مفتی فضل الرحمن صاحب سے بیاہی گئی اور بڑی مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے لڑکے مولوی عبدالواحد صاحب سے.ان دونوں لڑکیوں کی آگے اولاد ہے.مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا بہت لوگوں نے نام سنا ہوگا وہ انجمن سعودیہ کے ہندوستان میں نمائندے ہیں اور کانگرس میں بھی بہت عرصہ تک کام کر چکے ہیں اور غزنوی خاندان کے مشہور فرد ہیں.مفتی فضل الرحمن صاحب کی اولا دشروع شروع میں مرجاتی تھی اس سے قدرتی طور پر نانی کو تکلیف ہوتی کہ میری اولا دتو
خطبات محمود ۶۸۳ سال ۱۹۳۶ فوت ہوا ہی کرتی تھی اب میری لڑکی کی اولا د بھی فوت ہونے لگ گئی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس عموماً دعا کرانے کیلئے آیا کرتیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں فرمایا آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ آپ کی بیٹی کو اولاد دے گا.اُن کا اللہ تعالیٰ پر اس قدر ایمان تھا کہ ایک دفعہ ان کا ایک بچہ فوت ہو گیا وہ بچہ خلقی طور پر کچھ نقص اپنے اندر رکھتا تھا، کانوں سے بہرہ تھا اور آنکھیں بھی شاید کمزور تھیں اس بچہ کی وفات پر ایک عورت اُن کے پاس افسوس کرنے آئی تو کہنے لگیں میرا بچہ اچھا ہو گیا ہے یعنی پہلے تو اس میں نقص تھا لیکن اب وہ اللہ تعالیٰ کے پاس خوبصورت ہونے کیلئے گیا ہے.تو یاد رکھو خدا تعالیٰ کی خاطر جن لوگوں سے قطع تعلق کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے بہتر قائمقام پیدا کر دیتا ہے جو نہ صرف اخلاص میں بڑھے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ تعداد میں بھی زیادہ ہوتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے مخلص بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی کیلئے قربان کرنے کو تیار ہو گئے اور بیٹے نے بھی خدا تعالیٰ کا حکم ماننے میں کوئی عذر نہ کیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں کہا اے ابراہیم ! تو نے میرے حکم کے ماتحت اپنے اکلوتے بیٹے کو میری راہ میں قربان کرنے کیلئے تیاری کی آسمان کی طرف دیکھ.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھ کیا آسمان پر ستارے ہیں ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا ہاں حضور ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تو ان ستاروں کو گن سکتا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے خدا! میں تو ان ستاروں کو نہیں گن سکتا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم ! دیکھ چونکہ تو اپنے اکلوتے بیٹے کو میری راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو گیا تھا اس لئے میں تیری نسل کو اس قدر بڑھاؤں گا کہ وہ اسی طرح نہیں گئی جاسکے گی جس طرح آسمان پرستارے نہیں گنے جاسکے.کیا وہ کی خدا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مخلص بیٹے کی قربانی پر اس قدر کثرت سے نسل دے سکتا ہے وہ ہمیں منافق فرزندوں کی قربانی پر ان کے ایسے قائمقام نہیں دے گا جو ان کی کمی کو پورا کرنے والے ہوں.یقیناً جو قوم خدا تعالیٰ کی محبت اور اخلاص میں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ نفاق کو برداشت نہیں کر سکتی اسے اللہ تعالیٰ اسی طرح بڑھاتا ہے جس طرح آسمان پر ستارے کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام اس نکتے کو سمجھے تھے یا نہیں جو ستاروں کی طرف اشارہ
خطبات محمود ۶۸۴ سال ۱۹۳۶ کر کے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا کیونکہ اُس وقت تک علم ہیئت کی ترقی اس حد تک نہیں ہوئی جس حد تک موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے لیکن آج ہم بالکل اور رنگ میں اس نکتہ کو سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آج دنیا کی لمبائی کا اندازہ میلوں میں نہیں لگایا جاتا.مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ ایک زمین سے دوسری زمین کا اتنے میل کا فاصلہ ہے بلکہ اس لمبائی کا اندازہ روشنی کی رفتار سے لگایا جاتا ہے.روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے اور دنیا کی وسعت کا اندازہ اس نور کی روشنی سے ہی لگاتے ہیں اور یہ ایک اور ثبوت ہے اس بات کا کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.اللہ ہی آسمان اور زمین کا نور ہے یعنی اس میں بتایا گیا زمین و آسمان کی وسعت کا اندازہ تم کسی اور چیز سے نہیں لگا سکتے صرف نور اور اس کی رفتار سے ہی لگا سکتے ہو.غرض جب ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ اسی ہزار میں چلتی ہے تو ایک منٹ میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ میں روشنی چلے گی.پھر اسے ایک گھنٹہ کے ساتھ ضرب دو تو یہ ۶۴ کروڑ ۰ ۸ لاکھ میں بنتے ہیں.ان میلوں کو ایک دن کی روشنی کا حساب لگانے کیلئے ۲۴ سے ضرب دیں تو یہ ۱۵ ارب ۵۵ کروڑ ۲۰ لاکھ میل رفتار بن جاتی ہے.اب پھر اسے ایک سال کی رفتار کا حساب نکالنے کے لئے ۳۶۰ دنوں سے ضرب دیں تو ۵۵ کھرب ۹۸ ارب ۷۲ کروڑ میل بنتے ہیں.یہ حساب ایک روشنی کے ایک سال کی لمبائی کا ہوتا ہے لیکن دنیا کی لمبائی تین ہزار سال کی علم ہیئت والے قرار دیتے تھے.پس ان اعداد کو ۳ ہزار سال سے ضرب دینی ہو گئی اب اس کا حاصل ضرب جو نکلے وہ حسابی لحاظ سے در حقیقت نا قابل اندازہ ہی ہو جاتا ہے کیونکہ اربوں کے اوپر کا حساب در حقیقت حساب نہیں سمجھا جاتا مگر یہ حساب یہاں ختم نہیں ہو گیا جوں جوں نئے آلات دریافت ہورہے ہیں یہ اندازے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں.چنانچہ جنگ کے بعد کی تحقیق میں یہ قرار دیا گیا کہ دنیا کی لمبائی 4 ہزار روشنی کے سال کے برابر ہے مگر اس کے بعد بالکل تازہ کی تحقیق جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ہم دنیا کی لمبائی کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کیونکہ جس طرح بچے کا قد بڑھتا ہے اسی طرح دنیا بھی بڑھتی چلی جارہی ہے اور اب اس کی لمبائی بارہ ہزار روشنی کے سالوں کے برابر ہے.یہ ایک اور ثبوت اس آیت کی صداقت کا ہے کہ اللَّهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ کہ خدا زمین و آسمان کا نور ہے چونکہ خدا خود غیر محدود ہے اس لئے اس کا نور بھی جس چیز میں داخل ہو جاتا ہے اُسے غیر محدود کر دیتا ہے.علم ہیئت کی اس ترقی کے بعد
خطبات محمود ۶۸۵ سال ۱۹۳۶ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الہام سے جو لذت ہم اُٹھا سکتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں اٹھا سکتے تھے.خیر تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جس طرح آسمان کے ستاروں کو کوئی شخص گن نہیں سکتا اسی طرح تیری اولاد کو بھی کوئی رگن نہیں سکے گا.اب آسمان کے ستاروں کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے اس کے مطابق اس پیشگوئی کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولا د غیر محدود ترقی کرے گی اور اگر کبھی لوگ اسے گننے پر قادر ہونے لگیں گے تو جھٹ خدا تعالیٰ اسے بڑھا دے گا کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرماتا ہے زمین و آسمان خدا تعالیٰ کی مٹھی میں ہیں.پس جو چیز خدا تعالیٰ کی مٹھی میں ہو اُس کا انسان کہاں اندازہ لگا سکتا ہے.اسی لئے جب انسان کا علم اس اندازے کے قریب قریب پہنچنے لگتا ہے تو خدا تعالیٰ اس دنیا کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے.اس نے علم سے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کے کی صداقت کا سائنس نے اقرار کر لیا اور معلوم ہو گیا کہ زمین و آسمان کا اندازہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا اور جب بھی انسانوں کا اندازہ حقیقت کے قریب پہنچے گا دنیا اور زیادہ پھیل جائے گی کیونکہ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ بتاتا ہے کہ عالم کا اندازہ محض خدا تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے سوا اور کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کر سکتا اسی لئے انسان جب اپنے خیالی علم کے ذریعہ اپنے خیال میں ایک اندازہ تک پہنچ گیا تو معاً بعد اُسے معلوم ہوا کہ حقیقت تو اور ہی ہے اور خدا تعالیٰ نے دنیا کو اور زیادہ پھیلا دیا ہے.پس ہم جس معرفت کو حاصل کئے ہوئے ہیں اس کے مطابق منافقین کا جماعت.علیحدہ ہونا ہرگز جماعت کیلئے نقصان دہ نہیں ہوسکتا بلکہ غیر محدود ترقی کا موجب ہوگا.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی ایک شخص مرتد ہوگا تو اللہ تعالیٰ اُس کی جگہ اُس سے بہتر قائمقام لائے گا.پس ہمیں ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تم صداقت قائم کرنے اور کفر اور نفاق کو اپنے اندر سے نکالنے کی کوشش کرو خواہ وہ نفاق تمہارے اندر ہو یا تمہارے بیوی بچوں اور عزیز ترین وجودوں میں.تم ان سب کو اللہ تعالیٰ کیلئے قربان کر دو تا تمہیں وہ انعام حاصل ہوں جو قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں.یادرکھو جب تک تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے عزیزوں کو قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گے اُس وقت تک خدا تعالیٰ خود
خطبات محمود ۶۸۶ سال ۱۹۳۶ تمہاری تعداد کو غیر معمولی طور پر نہیں بڑھائے گا آخر خدا تعالیٰ تمہاری تعداد کو کیوں بڑھائے.کیا اس لئے کہ نفاق اور شرارت بھی ساتھ ساتھ ترقی کرے ہاں جب تم نفاق کو اپنے اندر سے نکال کر باہر پھینک دو گے، جب تم شرارت اور فتنہ انگیزی سے بکلی مجتنب ہو جاؤ گے تب خدا تمہارے متعلق کہے گا کہ یہ پیج ہے جو جنت کا بیج ہے آؤ میں اسے اپنی جنت میں بووؤں لیکن اگر تمہارے اندر نفاق ہوگا تو تمہاری مثال گھن کھائے ہوئے بیج کی طرح ہو گی اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ اپنے باغ میں گھن کھائے ہوئے بیج کو کبھی بونے کیلئے تیار نہیں ہوتا بلکہ پھل دینے والا پیج اپنی جنت میں ہوتا ہے اور پھل دینے والا بیج وہی ہے جو نہ منافق ہے نہ منافقت کی کوئی رگ اس میں پائی جاتی ہے.ایسا شخص یقیناً جنت کا بیج ہے اور وہ جنت میں دائمی زندگی حاصل کرے گا.تم کیا سمجھتے ہو کہ جنت کیا چیز ہے جنت وہی جگہ تو ہے جو ان پاکیزہ ارواح کا مسکن ہے جو ہر قسم کے کفر اور نفاق سے پاک ہوں گے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِی فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي A کہ اے میرے بندے! جا اور تو جنت کا درخت بن جا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرما یا غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِي ؟ میں نے اپنے ہاتھ سے تیرے لئے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت بویا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تیرے لئے اسماعیلی درخت بویا ہے یعنی ایک ایسا بیٹا مقدر کیا ہے جو اسماعیلی رنگ رکھتا ہوگا یعنی وہ سب دنیا سے مقابلہ کرے گا اور دنیا اس کا مقابلہ کرے گی.اسی طرح صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی نسبت فرمایا کہ کابل سے اُکھیڑا گیا اور ہمارے ہاں لگایا گیا اے.پس جنت کے اصل درخت وہی روحیں ہیں جو دنیا سے پاک ہو کر اپنے رب کے حضور جاتی اور خدا کے نور کے پانی سے دائمی زندگی بسر کرتی ہیں.پس اگر تم دائمی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو تو نفاق کو اپنے دلوں سے نکال دو اور کامل پاکیزگی اور کامل طہارت حاصل کر کے جنت کے درخت بن جاؤ تب خدا تمہارے پاس آئے گا اور وہ تمہیں ہمیشہ کیلئے اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے گا.( الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۶ء) النساء: ۵۷ هود ۱۱۴ :
خطبات محمود YAZ ے موضوعات ملاعلی قاری.صفحہ ۵۹ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ تذکرہ صفحه ۶۱۲ ، ایڈیشن چہارم الحديد: ۴ النور : ٣٦ البقرة: ۲۵۶ سال ۱۹۳۶ الفجر: ٣١،٣٠ تذکرہ صفحہ ۹، ایڈیشن چہارم تذکره صفحه ۴۸۴، ایڈیشن چہارم میں یہ الفاظ ہیں ” کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا.
خطبات محمود ۶۸۸ (۳۹ سال ۱۹۳۶ حمد کامل کیلئے صفاتِ البِي رَبُّ الْعَلَمِيْن الرَّحْمن، الرَّحِيمِ اور مَالِكِ يَوْمِ الدِّینِ کا مظہر بننا ضروری ہے (فرموده ۲۳/اکتوبر ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ نماز جمعہ کے بعد مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوگا اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ میں عصر کی نماز بھی پڑھا دوں گا اور نماز کے بعد چند نکاحوں کا اعلان کرنا ہے.پہلے اُن کا اعلان کروں گا پھر دعا کے بعد مجلس شوری کے اجلاس کیلئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال کی طرف جاؤں گا.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ دنیا میں کوئی تعریف کسی انسان کو حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اس میں چار باتیں نہ پائی جائیں.حقیقی تعریف ہمیشہ چار باتوں سے ہی ہوتی ہے جن کا ذکر سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں سے کہو میری حمد کریں اور کہیں کہ سب کامل اور سچی تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں کیونکہ اس میں چار باتیں پائی جاتی ہیں وہ رَبُّ العالمین ہے ایک، الرَّحْمٰن ہے دو الرَّحِیم ہے تین رَمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے چار چونکہ یہ چار باتیں اس میں پائی جاتی ہیں اس لئے وہ تعریف کا مستحق ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ خدا جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے جس کا احساس انسانی زندگی
خطبات محمود ۶۸۹ سال ۱۹۳۶ کے ہرلمحہ اور ہر ساعت پر اور انسانی جسم کے ہر ذرہ پر ہے اس خدا کی تعریف کے ساتھ بھی دلیل دی گئی ہے کہ وہ سچی تعریف کا مالک ہے کیونکہ اس کے اندر یہ چار باتیں پائی جاتی ہیں اگر یہ ہوتیں تو وہ تعریف کا مستحق نہ ہوتا تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ انسان جو اس قد ر محدود دائرہ عمل رکھتا ہے اور اگر کوئی حسن اس میں ہو تو نہایت ناقص ہوتا ہے، جس کی خوبیاں نہایت مشتبہ ہوتی ہیں وہ یہ امید کرتا ہے کہ ان چار باتوں کے بغیر ہی اس کی تعریف ہو جائے ، نہ وہ اپنے درجہ کے مطابق رَبُّ العَلَمين بنے ، نہ اپنی حیثیت کے مطابق رحمن ہو ، نہ رحیم اور نہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہو مگر پھر بھی لوگ کہیں کہ واہ یہ کیا اچھا آدمی ہے.جھوٹ سے تو یہ بات ہو سکتی ہے جھوٹی تعریف انسان ہر طرح کراسکتا ہے.غریب، کمزور سے جو چاہا کہلوالیا مگر حقیقی تعریف نہیں کراسکتا.ایک احمدی دوست کا ہی قصہ ہے ان کے ایک بھائی مخلص احمدی تھے ان کی وجہ سے وہ احمدی تو ہو گئے مگر قادیان آنے کی توفیق ان کو نہ ملی اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کا موقع ملا.ان کی دو بیویاں تھیں اور ان کا طریق یہ تھا کہ کسی ذرا سی بات پر ناراض ہو کر بیوی کو مارنے لگتے اور جس کا قصور سمجھتے اسے مارنے کے بعد دوسری کو بھی مارتے اور وہ سبب پوچھتی کہ میرا تو کوئی قصور نہیں مجھے کیوں مارتے ہو؟ تو کہتے کہ تو اس پر ہنسے گی اس لئے تجھے مارتا ہوں.وہ ایک کو تو قصور کی وجہ سے مارتے تھے اور دوسری کو اس لئے کہ وہ ہنسے نہیں.ایک دفعہ قادیان سے کوئی دوست ان کے پاس گئے اور جب ان کو علم ہوا کہ یہ بیویوں کو مارتے ہیں تو انہوں نے نصیحت کی کہ یہ بہت بُری بات ہے اور بڑا ظلم ہے اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے محبت اور پیار کا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اگر آپ قادیان جاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سنتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے جو آپ کر رہے ہیں.وہ شخص چونکہ دل سے نیک تھا اس لئے اس بات کا اس پر بڑا اثر ہوا.اس نے یہ باتیں سنیں اور رو پڑا اور کہنے لگا کہ اب کیا کروں.اُس دوست نے بتایا کہ اب تو یہی طریق ہے کہ اپنی بیویوں سے معافی مانگیں اور توبہ و استغفار کریں.وہ گھر میں گئے اور دونوں بیویوں کو بلا کر پاس بٹھایا اور کہا کہ مجھے سے بہت بڑا قصور ہوا اور اتنا بڑا گناہ ہوا ہے کہ شاید میری بخشش بھی نہ ہو سکے.اب مجھے پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بیوی کو مارنا نہیں چاہئے إِلَّا مَا شَاءَ الله ان امور میں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے سو میں بہت گنہ گار
خطبات محمود ۶۹۰ سال ۱۹۳۶ ہوں اب تم دونوں مجھے معاف کر دو.مگر ان کی بیویاں شاید بوجہ ان پڑھ ہونے کے خاوند کی طبیعت کو پڑھنے سے قاصر تھیں انہوں نے خیال کیا کہ یہ اب نرم اور ڈھیلا ہے اب ہمارے لئے بدلہ لینے کا موقع ہے کہنے لگیں اب جو معافی مانگنے آئے ہو پہلے ہی کیوں اس قدر ظلم کرتے رہے ہو پھر ایک کو تو قصور پر اور دوسری کو بلا وجہ ہی مارتے رہے ہو پہلے ہی خیال کر لینا چاہئے تھا.معافی مانگنے کیلئے ان کا جوش چونکہ عارضی تھا اور نصیحت کے ماتحت تھا بیویوں سے جب یہ جواب سنا تو سامنے لاٹھی پڑی تھی کہنے لگے معاف کرتی ہو یا اس لاٹھی سے تمہاری ہڈیاں تو ڑ دوں.بیویوں نے جب یہ دیکھا کہ پھر وہی دورہ ہونے لگا ہے تو کہنے لگیں آپ نے آخر قصور کون سا کیا ہے جس کی معافی مانگتے ہیں.آپ تو بہت اچھے آدمی ہیں.تو اس قسم کی تعریف تو انسان کرواہی لیتا ہے یہ کون سا مشکل کام ہے.تعریف وہ ہے جو دل سے نکلتی ہے اور علم کے ماتحت ہوتی ہے.کچی تعریف ہمیشہ دو طرح سے ہی ہو سکتی ہے ایک علم کے ماتحت ہو اور دوسرے دل سے نکلتی ہو سچی تعریف کیلئے یہ دو شرطیں ایک وقت میں ضروری ہیں ممکن ہے ایک تعریف علم کے ماتحت ہومگر دل سے نہ نکلے اور یہ بھی ممکن ہے ایک تعریف دل سے نکلے مگر علم کے ماتحت نہ ہو.ایک گاؤں میں چلے جاؤ کئی پارٹیاں نظر آئیں گی ایک دوسری کو قتل کرنے والی اور مال و اسباب کو ٹنے والی.ان میں سے ہر ایک مجلس میں بیٹھو وہ اپنے لیڈر کی تعریف کرتی ہوگی کہ وہ بڑے اچھے آدمی ہیں ، بڑے شریف ہیں اور بڑے نیک ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جس نے دوست سے نیکی کی وہ نیک ہے دشمن سے ظلم کو بھی وہ نیکی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دشمن سے جتنا ظلم بھی کیا جائے وہ نیکی ہی ہے.ڈاکو، فاسق ، فاجر اور بدمعاش کی تعریف میں ان کی زبانیں خشک ہوتی ہیں وہ تعریف دل سے تو کرتے ہیں مگر علم کے ماتحت نہیں کیونکہ وہ جانتے ہی نہیں شرافت اور نیکی کیا ہے.دوسرا پہلو علم کا یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان کو اس چیز کا پتہ ہی نہیں ہوتا وہ ایک چیز کو دیکھتا ہے کہ روشن اور خوبصورت ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اپنی ذات میں زہر ہے مثلاً ایک سانپ ہوتا ہے بچہ اُس پر ہاتھ پھیرتا اور سمجھتا ہے کہ کیسا نرم ہے مگر وہ اُسے ڈس لیتا ہے اُس کی ذات کے اندر جو برائیاں ہوتی ہیں ان کا اسے علم نہیں ہوتا.یہ علم کی کمی کی دوسری مثال ہے کہ انسان اس چیز کی حقیقت سے ہی ناواقف ہوتا ہے.سانپ کی چھکتی ہوئی آنکھیں اور نرم جسم دیکھ کر بچہ خیال کرتا ہے کہ کیسا
خطبات محمود ۶۹۱ سال ۱۹۳۶ خوبصورت ہے مگر اسے یہ علم نہیں ہوتا کہ ابھی ڈس کر اُسے مار دے گا.تو علم کی کمی کی وجہ سے یا علم کی غلطی کی وجہ سے لوگ تعریف کر دیتے ہیں.پھر کبھی تعریف علم کے ماتحت تو ہوتی ہے مگر دل - نہیں ہوتی.مثلاً ایک شخص بھوکا ہے اُسے کئی روز کا فاقہ وہ دیکھتا ہے کہ ایک آدمی کسی دوسرے بھو کے کو کھانا کھلا رہا ہے اب اس کی زبان تو کہتی ہے کہ کیسا نیک دل آدمی ہے مگر اس کا دل یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ کاش! مجھے بھی کھلا تا گو اس کی پوری مثال نہیں مگر اس سے مشابہہ مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ ہے جو قرآن کریم میں آتا ہے اور چار پرندوں کے واقعہ سے مشہور ہے.آپ نے خدا تعالیٰ سے سوال کیا کہ آپ مُردوں کو کس زندہ کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم کو میری طاقتوں پر ایمان نہیں؟ آپ نے جواب دیا ایمان تو ہے وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ! یہ زبان کا ایمان ہے میں دیکھتا ہوں کہ آپ مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور اقرار کرنا پڑتا ہے کہ کرتے ہیں مگر دل کہتا ہے کہ یہ طاقت میری اولاد کی نسبت بھی استعمال ہو، میں چاہتا ہوں کہ یہ نشان اپنے نفس میں دیکھوں.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی قوم چار دفعہ مُردہ ہوگی اور ہم اسے چار دفعہ زندہ کریں گے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کے ذریعہ حضرت ابراہیم کی آواز بلند ہوئی اور یہ مُردہ زندہ ہوا پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے ذریعہ حضرت ابراہیم کی آواز بلند ہوئی اور یہ مُردہ زندہ ہوا پھر آنحضرت ﷺ کے ذریعہ وہی آواز بلند ہوئی اور اس مُردہ قوم کو زندگی ملی اور چوتھی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ابراہیمی آواز پھیلی اور وہی مُردہ زندہ ہوا.چار دفعہ ابراہیمی نسل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز میں دیں اور چاروں دفعہ وہ دوڑ کر جمع ہو گئیں.پہلا پرندہ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلایا اور اطمینانِ قلب حاصل کیا وہ موسوی اُمت تھی ، دوسرا پرندہ عیسوی اُمت تھی، تیرا پرندہ ( آنحضرت ﷺ کے جلالی ظہور کی حامل اور مظہر ) محمدی جماعت ہے اور چوتھا پرندہ ( آپ کے جمالی ظہور کی مظہر ) جماعت احمدیہ ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے قلب کو راحت پہنچائی اور آپ نے کہا کہ واقعی میرا خدا زندہ کرنے والا ہے.حضرت ابراہیم نے جواب دیا تھا کہ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِی جس کا مطلب یہی ہے کہ حضور ! زبان تو اقرار کرتی ہے اور میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ آپ مُردوں کو زندہ کرتے ہیں پھر مجھے کس طرح انکار ہو سکتا ہے کہ آپ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اگر میری اولاد ہدایت نہ پائے تو
خطبات محمود ۶۹۲ سال ۱۹۳۶ مجھے اطمینان قلب کس طرح حاصل ہو سکتا ہے.پس اطمینان قلب کیلئے میں نشان مانگتا ہوں.میری عقل و فکر ، میرے ہوش و حواس اور میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ آپ مُردوں کو زندہ کرتے ہیں مگر دل کہتا ؟ ہے کہ میں خود کیا تعریف کروں جب تک یہ پتہ نہ لگے کہ میری اولاد میں بھی یہ نشان ظاہر ہوگا.میں چاہتا ہوں کہ میرا دماغ ہی نہیں بلکہ دل بھی متوجہ ہو اور میرے دل میں عشق پیدا ہو اور دل اُسی وقت توجہ کرتا ہے جب اپنی ذات پر احسان ہو.تو جب تک علم کے ساتھ اور دل سے نہ ہو تعریف، تعریف نہیں ہو سکتی اور اس کیلئے ان چار باتوں کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں بیان کی ہیں اور جن سے قلب کی بھی اور دماغ کی بھی تسلی کی گئی ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ حمد کیلئے ضروری ہے کہ جس کی حمد کی جائے اُس کے اندر یہ چاروں کمالات ہوں.کامل حمد کیلئے ایک ضروری چیز تو یہ ہے کہ اس کا احسان محدود نہ ہو اور وہ رَبُّ الْعَلَمِین ہو ہر عظمند سوچ سکتا ہے کہ حمد کامل اس کے بغیر نہیں ہو سکتی.فرض کرو دنیا میں دس آدمی ہی آباد ہیں اب ان میں سے اگر نو ہی تعریف کریں اور ایک نہ کرے یا آٹھ تعریف کریں اور دو نہ کریں یا سات کی تعریف کریں اور تین نہ کریں تو یہ حمد کامل نہ ہو سکے گی.کامل حمد جبھی ہوگی کہ دسوں تعریف کریں تو اللہ تعالیٰ کے متعلق فرمایا کہ وہ رب العلمین ہے وہ سب جہانوں کا رب ہے نہ اسی زمانہ کا بلکہ گزشتہ اور آئندہ زمانوں کا بھی اور نہ صرف انسانوں کا بلکہ سب مخلوق کا وہ ربّ ہے جو چیز بھی عالم وجود میں ہے وہ سب کا رب ہے اور جب اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے تو کونسی چیز اس کی حمد سے باہر رہ سکتی ہے.پس حمد کامل کیلئے پہلے رَبُّ العلمین ہونا اور پھر رحمن اور رحیم اور مالِک يَوْمِ الدِّينِ ہونا ضروری ہے.رحمن کے معنے ہیں بغیر محنت کے وہ فضل کرتا ہے اور رحیم کے معنے ہیں کہ انسانی کاموں کے اعلیٰ بدلے دیتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے معنے ہیں کہ وہ حساب لیتا ہے تو سختی نہیں کرتا بلکہ نرمی سے کام لیتا ہے.مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کے بغیر انسان کی تسلی نہیں ہو سکتی.کسی کا ماضی خواہ کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو مستقبل خوف کے نیچے ہی رہتا ہے.تو مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہ کر مستقبل بھی خوشکن کر دیا اور بتا دیا کہ انجام بھی اس کے ہاتھ میں ہے اگر نیک نیتی سے کام لو تو جو غلطیاں رہیں گی ان کی تلافی بھی وہ خود کر دے گا.اس کے بیسیوں معنے ہیں جن میں سے ایک درجن کے قریب
خطبات محمود ۶۹۳ سال ۱۹۳۶ میں نے اپنے اس درس میں بیان بھی کئے ہیں جو الفضل میں شائع ہونا شروع ہوا ہے لیکن ایک کی معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کے انجام کو اپنا انجام قرار دے لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرا انجام میرا انجام ہے اگر تم اپنے دل میں عشق پیدا کر لو تو تمہارے انجام کو میں اپنا انجام قرار دے لوں گا.اگر تم ہارے تو گویا میں ہارا ، اگر تم پر الزام آئے گا تو مجھ پر آئے گا ، اگر تم پر تباہی آئی تو گویا میری بادشاہت پر تباہی آئے گی، تمہارا انجام اب تمہارا نہیں بلکہ اسے میں نے اپنا انجام بنالیا ہے.یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے جنگ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ کو فرمایا کہ اعْمَلُوا مَا شِئْتُم سے جاؤ جو چاہو کرو اس کا مطلب یہ نہیں یہ جاؤ بے شک ڈاکے ڈالو، چوریاں کر وہ قتل و غارت کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی کتنا بھی زور لگا لے تم گمراہ نہیں ہو سکتے تمہارا انجام اللہ تعالیٰ نے اپنا انجام قرار دے لیا ہے اب تم گمراہ نہیں ہو سکتے.اس نکتہ کے ماتحت اس بدری صحابی کا واقعہ دیکھو جس نے مکہ والوں کو اسلامی لشکر کے آنے کے متعلق اطلاع دے دی تھی.رسول کریم ﷺ نے سختی سے منع فرمایا تھا کہ اہل مکہ کو اسلامی لشکر کے آنے کی کوئی اطلاع نہ دی جائے.لیکن ایک بدری صحابی نے مکہ میں اپنے رشتہ داروں کو رقعہ لکھ بھیجا کہ آنحضرت ﷺ اپنی فوج سمیت آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت لعلم آگاہ کر دیا.آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعض اور صحابہ کو بلایا اور بتایا کہ فلاں رستہ پر اور فلاں منزل پر تمہیں ایک عورت ملے گی اُس کے پاس ایک رقعہ ہوگا وہ لے آؤ.حضرت علی ہے جب اُس عورت کے پاس پہنچے اور رقعہ کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی رقعہ نہیں ہے.اُسے دھمکیاں بھی دی گئیں مگر وہ انکار کرتی رہی ، لالچ بھی دیئے گئے مگر اُس نے نہ مانا.صحابہ نے کہا کہ ممکن ہے کہ کوئی اور عورت ہو اور کسی اور طرف سے نکل گئی ہو لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں یہ بات نہیں ماننے کا.آنحضرت ﷺ نے یہ الہام الہی سے خبر دی تھی اور یہ ممکن نہیں کہ وہ عورت نکل کر جاسکے اور اُسے کہا کہ میں ابھی نگا کر کے تیری تلاشی لوں گا اس لئے بہتر ہے کہ رقعہ دے دے اس سے وہ ڈر گئی اور گت کھول کر اس میں سے رقعہ نکال کر دے دیا اس میں یہ خبر لکھی تھی کہ آنحضرت ﷺ تشریف لا رہے ہیں.رسول کریم ہے نے اس صحابی کو بلایا اور پوچھا یہ تم نے لکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں.آپ نے فرمایا کیوں؟ تو انہوں نے عرض
خطبات محمود ۶۹۴ سال ۱۹۳۶ کیا يَا رَسُوْلَ اللهِ ! آپ نے جو احتیاطیں کیں یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا ورنہ جس خدا نے آپ کے ساتھ فتح کا وعدہ کیا ہے مکہ والے اُس کی طاقتوں کا مقابلہ کہاں کر سکتے ہیں مکہ میں میرے کوئی رشتہ دار ایسے نہیں ہیں جو میرے بیوی بچوں کی حفاظت کر سکیں باقی سب صحابہ کے رشتہ دار مکہ کے بڑے بڑے رئیس ہیں میں نے اس لئے رقعہ بھیج دیا تھا کہ اس وجہ سے وہ میرے بیوی بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں گے.باقی خدا کی بات تو پوری ہو کر ہی رہے گی اس لئے میرا قعہ بھیج دینا کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے اسلام کو نقصان پہنچ سکے.عام حالات میں یہ ایک منافقانہ بات ہے اور اس جواب کوسُن کر انسان کہے گا کہ بہانے بناتا ہے لیکن اس میں شبہ بھی کیا ہے کہ یہ بات بچی تھی خدا تعالیٰ کے وعدہ کو کون ٹلا سکتا تھا مگر چونکہ عام حالات میں یہ ایک منافقانہ بات تھی اس لئے صحابہ نے اپنی تلوار میں نکال لیں کہ اجازت ہو تو ابھی سرکاٹ دیں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا آرام سے بیٹھو تمہیں معلوم نہیں کہ یہ بدری ہے.۳ واقعہ خود بتاتا ہے کہ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُم کا کیا مطلب ہے.اس صحابی سے غلطی ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے دی اور وہ رقعہ واپس آ گیا اس عورت نے جا کر یہ سارا واقعہ مکہ میں بیان تو کر ہی دیا ہو گا کہ اس طرح فلاں شخص نے مجھے ایک رقعہ دیا تھا جس میں یہ لکھا تھا اور اس طرح وہ مجھ سے واپس لے لیا گیا اور اس طرح وہ صحابی اس رقعہ سے جو فائدہ اُٹھا نا کی چاہتے تھے وہ بھی حاصل ہو گیا ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے اس رقعہ کے پہنچنے کے گناہ سے اُس صحابی کو بھی بچا لیا.آنحضرت ﷺ نے کئی کئی منزلیں ایک ایک دن میں طے کیں تا کہ والوں کو خبر ہونے سے پیشتر ہی پہنچ جائیں.تو اعْمَلُوا مَا شِئْتُم میں یہی بتایا تھا کہ بدری صحابی اگر کوشش بھی کریں تو اُن سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو گی جو انہیں گنہگار بنا دے.اللہ تعالیٰ کو علم تھا کی کہ اگر یہ رقعہ پہنچا تو وہ صحابی گنہ گار ہوگا اس لئے رسول کریم ﷺ کو حکم دیا کہ بھیجو علی کو اور رقعہ واپس منگوالو.یہ مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اس مقام پر پہنچ جائے اللہ تعالیٰ اس سے گناہ سرزد ہونے ہی نہیں دیتا.ایک صحابی نے غلط فہمی کی وجہ سے ایک ایسا فعل کیا جو اُسے گناہگار بنانے والا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم جاری کر کے اسے بچا لیا.تو مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ایسے انسان کے انجام کو اللہ تعالیٰ اپنا انجام قرار دے لیتا ہے.
خطبات محمود ۶۹۵ سال ۱۹۳۶.مقبرہ بہشتی کیلئے وصیت بھی دراصل اسی کے ماتحت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ی وصیت کرنے والا گنہ گار ہو جائے تو پھر ؟ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے شخص کے انجام کو اللہ تعالیٰ اپنا انجام قرار دے لیتا ہے.گندہ شخص اگر وصیت کر دے تو وصیت قبول کر لینے والا گنہگار ہوگا لیکن وصیت کرنے والا اپنی نیت کے مطابق ضرور جنت میں جائے گا.پس اللہ تعالی بعض اشخاص کے انجام کو اپنا انجام قرار دے لیتا ہے.بالکل ممکن ہے کہ اگر کوئی موصی گنہگار ہوتو اللہ تعالیٰ موت کے وقت فرشتوں سے تلقین کرا کر اسے تو بہ کا موقع دے دے اور وہ جنت میں چلا جائے یا اگر وہ اس قابل نہیں تو موت سے قبل اس کی وصیت منسوخ کر دے.پس مَالِكِ يَوْمِ الدِّین کے ان گنت معنے ہیں.بیسیوں کہنا قرآن کریم کی ہتک ہے جن میں سے ایک یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے انجام کو اپنا انجام قرار دے لیتا ہے.یہ چار باتیں ہیں جن کی وجہ سے انسان حمد کا مستحق ہوسکتا ہے لیکن تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بغیر ہی ان کی تعریف ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق اظہار نفرت کیا ہے جو کوئی کام تو کرتے نہیں لیکن تعریف کی خواہش رکھتے ہیں.میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تعریف کا احساس قدرتی ہے بے شک یورپین فلاسفر کہتے ہیں کہ انسان کو تمام قسم کی تعریفوں سے مستغنی ہونا چاہئے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا کی تعریف سے بھی مستغنی ہونا چاہئے.حقیقی تعریف سے مستغنی ہونے والا انسان احمق کہلائے گا.تعریف کا جذ بہ طبعی ہے حتی کہ رسول کریم ﷺ نے تو اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ فرمایا جس شخص کے متعلق چالیس مؤمن کہیں کہ وہ نیک تھا وہ ضرور جنت میں جائے گا گویا جنت کو بھی شہادت پر منحصر کر دیا لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ تعریف کا جذبہ چونکہ مجو و فطرت ہے اس لئے چالیس مؤمن جس کی تعریف کریں اُس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے کیونکہ فطرت اللہ تعالیٰ سے ہی آتی ہے.پس جب یہ فطری جذبہ ہے تو اسے پورا کرنے کے سامان بھی کرنے ضروری ہیں اور وہ سامان یہی ہیں کہ مؤمن کا احسان محدود نہ ہو.انسان اور خدا میں یہی فرق ہے کہ خدا کا احسان ہر چیز پر براہ راست ہوتا ہے مگر انسان کے اعمال محدود ہیں اس لئے اُس کا احسان ہر چیز پر براہِ راست نہیں ہو سکتا اس وجہ سے وہ ان معنوں میں تو رَبُّ العَلَمین نہیں
خطبات محمود ۶۹۶ سال ۱۹۳۶ ہوسکتا لیکن اسے چاہئے کہ وہ ان معنوں میں تو رَبُّ العالمین بنے کہ جسے اس کے ساتھ واسطہ پڑے اُس کے ساتھ وہ ربوبیت کا معاملہ کرے.اس کے بعد جن لوگوں سے اس کا واسطہ نہیں پڑا اُن کو بھی اللہ تعالیٰ اسی شاخ میں شامل کر دے گا.مثلاً اُس کا واسطہ ایک ہزار انسانوں سے پڑا ہے اور وہ ان کے ساتھ ربوبیت کا معاملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے رجسٹر میں یہی لکھے گا کہ وہ تمام مخلوق سے ربوبیت کا معاملہ کرتا ہے.دوسرا طریق اس کا یہ ہے کہ عمل کی طاقت جہاں محدود ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے خیال کی طاقت کو غیر محدود پیدا کیا ہے.آریہ اعتراض کرتے ہیں کہ انسانی اعمال محدود ہیں پھر ان کا اجر کس طرح غیر محدود ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا یہی جواب دیا ہے کہ انسان کے اعمال بے شک محدود ہیں مگر اس کی نیت محدود نہیں انسان نے کب کہا تھا کہ ساٹھ یا ستر سال کی عمر میں اُسے وفات دے دی جائے اس کی نیت غیر محدود تھی اور ارادہ غیر محدود عمل کرنے کا تھا اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ کا وعدہ اسے غیر محدود جنت دینے کا تھا.اب خدا تو اسے غیر محدود جنت دینے پر قادر ہے لیکن انسان غیر محدود عمل کرنے پر قادر نہیں.خدا تعالیٰ جب چاہے اسے وفات دے سکتا ہے.پس اس کی اس کمزوری کا فائدہ بھی اللہ تعالیٰ اسے ضرور دے گا.تو دوسرا ذریعہ رَبُّ الْعَلَمِین بنے کا ارادہ ہے.تمہارے دل میں یہ جوش ہونا چاہئے کہ تمام دنیا کو ہدایت دی جائے ، تمام دنیا کو آرام اور سکھ پہنچایا جائے ، تمام مخلوق کی ترقی کا موجب بنا جائے.اب اگر تمہارا ارادہ ہزار اشخاص کو فائدہ پہنچانے کا تھا مگر موقع صرف سو کو ہی پہنچانے کا ملا تو ثواب تمہیں ہزار کا ہی ہوگا اور اگر ارادہ غیر محدود مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا تھا مگر موقع صرف ہزار ہی کو پہنچانے کا ملا تو ثواب بھی غیر محدود کا ہی ہوگا.اسی اصل کے ماتحت آنحضرت ﷺ نے فرمایا نِيَّةُ الْمُؤْمِن خَيْرٌ مِنْ عَمَلِه ۴ پس بدلہ اللہ تعالیٰ عمل کے مطابق نہیں بلکہ نیت کے مطابق دیتا ہے اور اسی لئے انسان غیر محدود کا وارث بنتا ہے.انسان جب اپنے جذبات کو رَبُّ الْعَلَمِین کی صفت کے ماتحت کر لیتا ہے اور اس کی نیت یہ ہو جاتی ہے کہ ساری دنیا بلکہ سارے عالم کی بہترین کی کوشش کرے لیکن کر ان کیلئے ہی سکتا ہے جس سے اس کا واسطہ پڑے تو وہ مظہرِ رَبُّ العَلَمِين بن جاتا ہے اور اُس وقت تعریف کا مستحق ہو جاتا ہے.فرض کرو وہ دس آدمیوں کو فائدہ پہنچا سکتا
خطبات محمود ۶۹۷ سال ۱۹۳۶ ہے مگر اس کی نیت یہ تھی کہ اگر خدا تعالیٰ موقع دے تو دوارب لوگوں کو فائدہ پہنچائے لیکن اُسے موقع صرف دس کو ہی پہنچانے کا مل سکا تو گیارھویں کو جب اُس کی نیت کا علم ہوگا کہ یہ رات دن اس کوشش میں رہتا تھا کہ اسے فائدہ پہنچائے تو وہ اس کی تعریف کرے گا یا نہیں.اور جوں جوں یہ علم پھیلتا جائے گا اس کی تعریف بھی پھیلتی جائے گی اور جو اس کی تعریف نہیں کرے گا وہ صرف اس وجہ سے نہیں کرے گا کی کہ اسے علم نہیں.اس طرح لا علم ہونے کی وجہ سے تعریف نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی موجود ہیں ان کی کا تعریف نہ کرنا عدم علم کی وجہ سے ہے اگر انہیں پتہ ہو کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے تو وہ ضرور اس کی تعریف کریں.پس اس طرح جو بندہ نیک نیت ہے اس کے متعلق بھی اگر ساری دنیا کوعلم ہو تو سب اُس کی تعریف کریں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن اور رحیم ہے.انسان کے پاس جو سامان میسر ہے وہ دوسرے کو دے دیتا ہے اور نیت یہ رکھتا ہے کہ اور ہو تو وہ بھی دے دوں.تو اس کے عمل میں جو کو تا ہی رہے گی اُسے اس کی نیت پوری کر دے گی.پس عمل اور ارادہ مل کر انسان کو خدا تعالیٰ کا مظہر بنا دیتے ہیں جس حد تک عمل چلتا ہے وہاں تک عمل دکھانا پڑتا ہے لیکن جہاں غفلت کی وجہ سے یا وفات کی وجہ سے عمل ختم ہو جاتا ہے وہاں ارادہ اور نیت کمی کو پورا کر دیتا ہے اور وہ شخص حمد کا مستحق ہو جاتا ہے.بعض لوگ عمل تو درست رکھتے ہیں مگر ان کی نیت درست نہیں ہوتی خصوصاً آجکل تو ظاہر داری بہت ہے ایک شخص ملنے آتا ہے تو کہتے ہیں آئے تشریف لائیے.آپ بہت اچھے آدمی ہیں مگر دل میں یہی ہوتا ہے کہ اس نے فلاں موقع پر میرے ساتھ فلاں بات کی تھی اگر موقع ملے تو اس کا گلا گھونٹ دوں.عمل تو اچھا ہوتا ہے مگر نیت خراب ہوتی ہے نیت کیلئے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے.اس زمانہ میں ایمان کی کمی کی وجہ سے نیت زیادہ خراب ہے.ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے جتنے جھگڑے ہیں وہ سب نیت کی خرابی کی وجہ سے ہی ہیں.ایک مجلس میں ایک پنڈت صاحب سے ایک مولوی صاحب ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بس آپ کا احسان ہے بیوی بچے آپ ہی کے احسانات کی وجہ سے پلتے ہیں.لیکن گھر میں آ کر کہتا ہے کہ یہ بڑا خبیث ہے موقع ملے تو اسے جان سے مار دوں.اور ہند و مسلمان سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ خان صاحب آپ ہی ہمارے اَن داتا -
خطبات محمود ۶۹۸ سال ۱۹۳۶ ہیں لیکن گھر میں جا کر کہتا ہے کہ یہ مسلے جب تک ملک سے نہ نکلیں ہمارا ملک آزاد نہیں ہوسکتا.گویا عمل تو درست ہے مگر نیت درست نہیں.اگر نیت درست ہو تو عمل کی اصلاح آسانی سے ہو سکتی ہے مگر چونکہ نیت کی اصلاح نہیں ہوتی اس لئے عمل کا فائدہ بھی نہیں پہنچتا اور وہ بیماری پھر عود کر آتی ہے کیونکہ عمل نیت اور ارادہ کے تابع ہوتا ہے.پس میں جماعت کو آج یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ایک اہم کام ہمارے ذمہ ہے پھر ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی تعریف ہو.ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ مجھے تو یہ خواہش نہیں لیکن مجھے تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میرے دل میں تو یہ خواہش ضرور ہے کہ جب میں خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو وہ کہے کہ تو نے بہت اچھا کام کیا.پس میں تو تعریف سے مستغنی نہیں ہوں.میرا قلب اتنا فلسفی نہیں اسے کمزوری سمجھ لو یا کچھ ، مجھے تو ضرور یہ خواہش رہتی ہے.پس اگر تم بھی کی چاہتے ہو کہ وہ ہستیاں تمہاری تعریف کریں جن کی تعریف قیمتی چیز ہے تو عمل کے ساتھ نیت بھی ہے درست کرو.جہاں تک ہو سکے، عمل، قربانی اور ایثار سے کام لو اور پھر نیت درست رکھو.اگر ایک پیسہ بھی دے سکتے ہو دے دو لیکن نیت یہ رکھو کہ خدا تعالیٰ دے تو ان گنت قربانیاں کریں.جو شخص ایک روپیہ چندہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ لعنت ہے ایسے چندہ پر پیچھے پڑ کر لکھوا لیتے ہیں تو ایسا چندہ واقعہ میں ہی لعنت ہے.جس کی نیست چھوٹی ہے مگر ظاہر میں عمل بڑا ہے اس کا عمل حقیقتا چھوٹا ہے لیکن جس کا عمل کم مگر نیت زیادہ ہے اس کا تھوڑا عمل بھی زیادہ ہے.جس چندہ کے بعد دل میں یہ ہو کہ میں نے بہت تھوڑا دیا ہے وہ بہت زیادہ ہے لیکن جس چندہ کے بعد دل میں یہ ہو کہ بہت دے دیا ہے وہ کچھ نہیں.یا جو شخص تبلیغ کیلئے ایک مہینہ لگا تا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اور مصیبت آپڑی ہے پہلے تو کہتے تھے چندے دو مگر اب کہتے ہیں وقت بھی دے دو اور کمائی بھی نہ کرو تو اس کے ذریعہ سے اگر کسی کو ہدایت بھی ہو جائے تو خدا تعالیٰ کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں مگر جو بجائے ایک ماہ کے ایک دن دیتا ہے مگر اس کے دل میں تڑپ یہ ہے کہ موقع ملے تو اور بھی وقت دوں اُس کی نیت عمل کی کمی کو پورا کر دے گی.نیت کی کمی کو عمل پورا نہیں کر سکتا مگر عمل کی کمی کو نیت پورا کر دیتی ہے.جس طرح ایمان کی کمی کو نمازیں اور روزے پورا نہیں کر سکتے مگر نماز وں اور روزوں میں جو کمی رہ گئی ہوا سے ایمان پورا کر دیتا ہے.ظاہری طور پر ہی دیکھ لو کتنے بچے ہیں جو بے حد کر یہ دبلے پتلے
خطبات محمود ۶۹۹ سال ۱۹۳۶ اور دائم المرض ہوتے ہیں مگر ماں باپ اُن کو چھاتی سے لگائے پھرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں.دنیا میں کتنے ماں باپ ہیں جو کسی غیر کے بچہ کو محض اس وجہ سے محبت کریں کہ وہ خوبصورت ہے لاکھ میں سے ایک بھی عورت شاید ایسی نہ ہو.کہتے ہیں دنیا کی آبادی اس وقت ڈیڑھ ارب ہے غور کر کے دیکھ لو ان میں چند ہزار بھی ایسی مائیں نہیں ملیں گی جو دوسرے کے بچہ سے محض خوش شکل ہونے کی وجہ سے اپنے بچہ کی طرح محبت کریں مگر پچاس فیصدی ایسی ہیں جو نہایت ہی بدصورت اور ایسے گندے بچوں کو جنہیں دیکھ کر گھن آتی ہے چھاتی سے لگائے پھرتی ہیں کیونکہ اُن کیلئے اُن کے دل میں اخلاص ہوتا ہے.پس معلوم ہوا کہ ایمان عمل کی کمزوری کو پورا کر دیتا ہے جس طرح محبت ظاہری نقص کو پورا کر دیتی ہے ایسی مثالیں تو بے شمار ہیں کہ بچہ بدصورت ہے مگر ماں جذبہ محبت کی وجہ سے پیار کرتی ہے مگر ایسی مثال کوئی نہ ملے گی کہ دل میں نفرت ہو اور صرف خوبصورتی کی وجہ سے کوئی عورت بچہ کو پیار کرے.پس اگر واقعہ میں آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک تعریف کے مستحق بنیں تو اعمال کے ساتھ نیت کی بھی اصلاح کریں.کسی قربانی پر بھی مطمئن نہ ہوں بلکہ نیت رکھیں کہ اور بھی کریں.اگر تو واقعی آپ کے قلب کی یہی حالت ہے تو سمجھ لیں کہ ٹھیک ہے لیکن اگر یہ خیال ہے کہ بوجھ ہے تو نیت ہی نہیں ساتھ ہی عمل بھی رڈ کر دیا جائے گا.سورۃ فاتحہ میں یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو سکھایا گیا ہے مؤمن کو چاہئے اس سے فائدہ اُٹھائے اور ساتھ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور نیت کی اصلاح ایسے رنگ میں کر دے کہ ہم اس کی ابدی رحمت اور ابدی جنت کے حقدار ہو جائیں تا خدا تعالیٰ سے ہمارا تعلق حقیقی ہو عارضی اور غیر حقیقی نہ ہو.البقرة : ۲۶۱ ( الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۶ء) بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الممتحنة باب لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَ عَدُوَّكُمْ المعجم الكبير جلد 4 صفحہ ۲۲۸، مطبوعہ عراق ۱۹۷۹ء
خطبات محمود الده سال ۱۹۳۶ کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان تذلّل اور انکسار اختیار کرے فرموده ۶ رنومبر ۱۹۳۶ء بمقام محمود آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائى قَدَا فَلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ اے.اس کے بعد فرمایا : - دنیا میں کئی لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے اور ان کی محنتیں ضائع چلی جاتی ہیں ایسے لوگ ہمیں دنیوی کام کرنے والوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور دینی کام کرنے والوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں.دنیوی زندگی کو صیح نظر قرار دینے والوں سے بھی بعض شکوہ کیا کرتے ہیں کہ ان کے کاموں کا انفرادی یا قومی رنگ میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور دینی کام کرنے والوں میں سے بھی بعض لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں، استطاعت پر حج بھی کرتے ہیں ، ذکر الہی بھی کرتے ہیں، سچائی اور دیانت سے بھی کام لیتے ہیں لیکن وہ ان کا کوئی غیر معمولی اثر اپنے اندر محسوس نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہی ناکامیوں کے پیش نظر بعض گر بیان فرمائے ہیں جن کو مد نظر رکھنے سے انسان دینی و دنیاوی طور پر کامیاب یا بامراد ہو جاتا ہے اور اس کے کاموں کا صحیح نتیجہ برآمد ہونے لگتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَذَا فَلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمُ
خطبات محمود 2 +1 سال ۱۹۳۶ خَاشِعُونَ وہ مؤمن کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع سے کام لیتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم کام تو کرتے ہیں مگر ہمیں ملتا کچھ نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کیلئے صحیح رنگ میں جدو جہد کرے اور پھر اسے نا کامی حاصل ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مخلص اور مؤمن بندے کا ایمان تقاضا کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کسی انعام کے لالچ میں نہ کرے بلکہ عبودیت کو اپنے فرائض منصبی میں شمار کرے مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کسی اچھے نتیجے کی امید نہ رکھی جائے.جس بات سے روکا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت ٹھیکہ کے طور پر نہ کی جائے کہ جتنا انعام ملے گا اتنی ہی ہم عبادت کریں گے.وہ عالم الغیب ہستی ہے انسان کو چاہئے کہ اپنا معاملہ اُس پر چھوڑ دے اور صدق دل سے اس کی عبادت کی کرتا چلا جائے پھر اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا اسے اپنے انعامات سے حصہ عطا فرما دے گا ور نہ اگر اللہ تعالیٰ سے کسی ثواب کی امید ہی نہ رکھی جائے تو دین ایک عبث اور رائیگاں چیز بن جاتی ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اس آیت میں مؤمنوں کو امید دلائی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے اچھے نتائج کی کی امید رکھنی چاہئے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص مؤمن ہوا اور پھر کا میاب نہ ہو.قَدَا فَلَحَ الْمُؤْمِنُونَ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ مومن کامیاب ہو گئے.اس رنگ میں الفاظ اُسی وقت استعمال کئے جاتے ہیں جب کوئی بات یقینی اور قطعی ہو جیسے اگر کوئی شخص سفر پر ہو اور گھبرا کر پوچھے کہ ابھی منزل مقصود کتنی دور ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ بس ہم پہنچ ہی گئے ہیں گویا اب شبہ والی بات نہیں.اسی طرح جب کوئی یقین دلا دیتا ہے کہ وہ فلاں کام ضرور کر دے گا اور اس میں کی شبہ کی گنجائش نہیں تو وہ کہتا ہے کہ بس یہ کام ہوا سمجھو.یہ محاورہ پنجابی میں بھی اسی طرح استعمال ہوتا ہے ہے کہ اب گویا اسے حاصل شدہ چیز ہی سمجھو.اسی طرف قَدَا فَلَحَ الْمُؤْمِنُونَ میں اشارہ ہے کہ تم مؤمنوں کو بس کامیاب ہوا سمجھو اور یا درکھو کہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کیونکہ مومن کا مستقبل ماضی کی مانند یقینی ہوتا ہے.پھر بتایا کہ ایسے مؤمنوں کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ نمازوں میں خشوع وخضوع کرتے ہیں.خاشع کے معنے عام طور پر یہ کئے جاتے ہیں کہ جو نمازوں میں گریہ وزاری کرے.اس ،
خطبات محمود ۷۰۲ سال ۱۹۳۶ میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معنے درست ہیں مگر خاشع کے صرف یہی معنے نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی معنی ہیں، اسی طرح صلوۃ سے مراد خالی دعا نہیں کیونکہ وہ تو تکلیف کے وقت ہوتی ہے.یہاں خصوصیت سے نماز کا ذکر ہے کہ وہ نماز میں خشوع کرتے ہیں.درحقیقت عربوں میں صلوٰۃ کا لفظ عام ہے جو صرف عبادت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے خواہ وہ اس شکل میں ہو جیسے مسلمانوں میں عبادت کا رواج ہے یا کسی اور شکل میں ہو جیسے عیسائیوں یا یہودیوں کی نماز ہے.قرآن کریم میں صلوۃ سے مراد بالعموم عبادت ہی ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ کفار کی صلوۃ صرف سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا ہے.اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نماز میں سجدہ کے وقت یا دوسرے موقع پر تالیاں پیٹتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عبادت اسی قسم کی ہے جس میں کوئی معقول بات نہیں جیسے ہندوؤں کی عبادت چھینے بجانے سے ہوتی ہے اسی طرح مکہ والے بھی کرتے تھ تھے اور اسی کا نام عبادت رکھ لیتے تھے.گویا اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ مسلمانوں کی نماز کے وقت بھی تالیاں بجاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ ایک نیک کام کر رہے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشرکوں کی عبادت ایسی ہوتی ہے جیسے تالیاں بجانا.اسی طرح خشوع کسی چیز کے نیچے ہونے کو کہتے ہیں اسی وجہ سے غض بصر کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے.پس خشوع کے معنے ہوئے نیچے ہو جانا ، تذلل اختیار کرنا اور نفس کو مٹا دینا.بَلْدَةً خَاشِعَہ ایسے شہر کو کہتے ہیں جس کے سب مکانات گر گئے ہوں اور غبار سے اٹے ہوئے ہوں.پس نماز میں خشوع کے یہ معنے ہوئے کہ نماز پڑھنے والا اپنے آپ کو کلی طور پر مٹادے اور انکسار اختیار کرے.اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ نماز میں انکسار سے کیا مراد ہے سواگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے اندر ہی انکسار کا مفہوم رکھا ہوا ہے.انسان تکبیر کے بعد کھڑا ہو جاتا ہے اور سینے پر ہاتھ باندھ لیتا ہے چونکہ انسان میں یہ ایک کمزوری پائی جاتی ہے کہ جب وہ کوئی اہم کام کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب میں بہت بڑا ہو گیا ہوں جیسے آجکل کے علماء اور سجادہ نشین لوگوں کو اپنی عزت کرتے ہوئے دیکھ کرا.آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قیام کے معا بعد رکوع رکھ دیا اور حکم دیا کہ فروتنی اور انکسار کی وجہ سے نیچے جھک جاؤ اور ایسا رنگ دکھاؤ جیسے غلام اپنے آقا کیلئے دکھاتا ہے.پھر جب اسے خیال آنے لگتا ہے کہ اب میں نے بڑا کام کر لیا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ اور جھک جاؤ چنانچہ وہ سجدے کا حکم دیتا ہے جو تذلل کا انتہائی مقام ہے اور سجدہ دو دفعہ رکھا ہے جس کی کا مقصد یہ ہے کہ تواتر سے اس پر عمل کیا جائے گویا جھکو اور جھکتے چلے جاؤ.پھر ہر رکعت میں اس کا تکرار انسان کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ اسے اپنے ہر کام کا اختتام سجدہ پر ہی کرنا چاہئے کیونکہ بعض لوگ مختلف نیکیوں میں تو حصہ لیتے ہیں لیکن آخر تکبر میں مبتلاء ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس قوم نے کوئی بڑا کام کر کے تکبر کیا وہ گر گئی.مسلمانوں نے طب میں ترقی کی لیکن جب وہ ایسے مقام پر پہنچ گئی کہ کسی کے آگے جھکنے کو عار سمجھنے لگے تو ان کے ہاتھ سے طب نکل گئی اور یورپ میں چلی گئی.اب یورپ نے اس میں اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ پہلا سارا کام کھلونا سا معلوم ہوتا ہے.یورپ نے اپنے آپ کو اس وقت تک طالب علم سمجھا ہوا ہے لیکن کی جہاں اُس نے یہ خیال کیا کہ اب وہ استاد بن گیا ہے وہ گرنا شروع ہو جائے گا اور یہ کمال ان سے نکل کر کسی اور کے پاس چلا جائے گا.اسی طرح قدیم مصریوں نے انجینئر نگ میں ترقی کی لیکن جب انہوں نے تکبر کیا تو یہ فن ان کے ہاتھ سے نکل کر یونانیوں کے پاس چلا گیا.ان سے عربوں کے حصے میں آیا اور جب عربوں نے تکبر کیا تو یورپ میں چلا گیا جب وہ تکبر کریں گے تو ان سے بھی چھن جائے گا.پس قوم اسی وقت تک ترقی کرتی ہے جب تک وہ بجھتی ہے کہ ابھی تک ہم نے اور سیکھنا ہے جب وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ استاد بن گئے ہیں تو ذلیل ہو جاتے ہیں.غرض مؤمن دین اور دنیا دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں صرف شرط یہ ہے کہ وہ جتنی بھی ترقی کرے اتنا ہی یہ سمجھے کہ میں نے کچھ بھی خدمت نہیں کی.اگر یہ مادہ کسی میں پیدا ہو جائے تو وہ بڑھتا چلا جائے گا لیکن جب اُس نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ اب میں نے کافی ترقی کر لی ہے تو وہ ای گر جائے گا اور اس کے اندر نفاق پیدا ہو جائے گا.غور کرو کہ کتنے معمولی سے جھٹکے سے ایک مؤمن منافق بن سکتا ہے پس کبھی تکبر کے قریب بھی نہ جاؤ عزت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ اس دنیا میں دے خواہ اگلے جہان میں.کسی کیلئے ایک قسم کی عزت اچھی ہوتی ہے اور کسی کیلئے دوسری قسم کی.ہم دیکھتے ہیں کہ والدین کو اپنے سب بچوں سے ہی پیار ہوتا ہے لیکن بعض چیزیں وہ اپنے کسی بچے کو دیتے ہیں اور کسی کو نہیں دیتے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی خوب جانتا ہے کہ بندے کو کس رنگ میں انعام دیا جاوے.انسان کو تو اپنی عبادت کی قیمت بھی معلوم نہیں ہوتی پھر وہ اپنے لئے کوئی
خطبات محمود ۷۰۴ سال ۱۹۳۶ انعام کیسے تجویز کر سکتا ہے جب وہ اپنے لئے خود کوئی انعام تجویز کرتا ہے تو وہی اُس کے تنزل کا مقام ہوتا ہے.جیسے دنیا میں کوئی ماں باپ ایسے نہیں جن کو اپنے بچوں سے محبت نہ ہولیکن وہ اس امر کو پسند نہیں کرتے کہ بچہ اُن پر حکومت کرے.جب ماں باپ بچے کی طرف سے اس سلوک کو برداشت نہیں کر سکتے تو کیا خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ امید ہو سکتی ہے کہ خدا بندے کی حکومت تسلیم کرے اور بندے کو وہی دے جو بندہ خود اپنے لئے تجویز کرے.کئی لوگ حج کرتے ہیں تو حاجی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ وہ روزانہ دیکھتے ہیں کہ تمام مؤمن نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے خواہش نہیں کی کہ انہیں نمازی یا روزے دار کہا جائے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حج کر لینے کے بعد وہ اپنے اندر ایک بڑائی محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.مرزا غالب کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے ایک دفعہ ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنی جب لوگوں نے بھی ان کی نقل میں اسے پہننا شروع کیا تو انہوں نے اُسے اُتار دیا اور اپنی بڑائی میں دوسروں کی نقل کو بھی برداشت نہ کیا حالانکہ اُن کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ لوگوں نے اُن کی نقل کی ہے اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کے انبیاء ان اخلاق کو لے کر آتے ہیں کہ بجائے اس کے وہ اپنی نقل کو نا پسند کریں ان کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی نقل کریں.غرض ایک کچے مؤمن میں تذلیل ہوتا ہے اور وہ جوں جوں عبادت کرتا ہے اس کا تذلل ترقی کرتا چلا جاتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا عائشہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۲؎.اسی طرح ایک دفعہ جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ اپنے اعمال کے زور سے بہشت میں جائیں گے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں میں بھی جنت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی جاؤں گا سے.گویا آپ نے اپنے اعمال کی قیمت محض اللہ تعالیٰ کا فضل رکھی.غرض جس کو بچے کام کی تو فیق مل جاتی ہے اس کے دل میں کبھی غرور پیدا نہیں ہوتا.
خطبات محمود ۷۰۵ سال ۱۹۳۶ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک با قاعدہ مسجد میں نمازیں پڑھیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ یہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے.آخر ایک دن انہیں خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع کی کسی نے بھی مجھ کو نیک نہیں کہا اگر خدا کیلئے عبادت کرتا تو خدا تعالیٰ تو راضی ہو جاتا.یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اُسی وقت جنگل میں چلے گئے، روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی اور عہد کیا کہ خدایا! اب میں صرف تیری رضا کیلئے عبادت کیا کروں گا.جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ کی بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کر رکھا ہے اور بچے بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے.اس بزرگ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدایا ! صرف ایک دن میں نے تیری رضا کی خاطر نماز پڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے میری تعریف کرنی شروع کر دی.پس ہر مؤمن کیلئے ضروری ہے کہ جب وہ نماز پڑھے تو اس کو شروع کرتے وقت اگر اس کے دل میں تکبر ہو تو ہو لیکن جب اسے ختم کرے تو اُس کا دل تکبر سے بالکل خالی ہو چکا ہو، اسی طرح جب وہ روزہ رکھے تو شروع میں اگر اُس کے اندر کبر کا کوئی شائبہ ہو تو ہولیکن جب اسے ختم کرے تو وہ تکبر کو کلی طور پر چھوڑ چکا ہو.تاریخوں میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زبان پر یہ فقرہ جاری تھا کہ رَبِّ لَا عَلَيَّ وَلَا لِی ہے یعنی اے خدا! میں اپنے کاموں کا تجھ سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا صرف یہی آرزو ہے کہ میرے اوپر کوئی الزام قائم نہ کیا جاوے.گویا ہزار ہات کام کرنے کے باوجود وہ یہی سمجھتے تھے کہ اس وقت تک میں نے کچھ بھی نہیں کیا.پس ترقی کیلئے ضروری ہے کہ جس قدر بھی عبادت کی جائے اُسی قدر آدمی اور زیادہ جھکتا چلا جائے حتی کہ اُسے یہ احساس بھی نہ ہو کہ اس نے کچھ کیا ہے.جو لوگ دنیا میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے کچھ حاصل کر لیا ہے اُن کی مثال کنویں کے مینڈک کی سی ہوتی ہے جو سمندر کے مینڈک سے ملا اور ایک چھلانگ لگا کر اُس سے کہا کہ کیا سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے؟ اُس نے کہا نہیں.اُس نے دو چھلانگیں اور ماریں اور کہا کہ
خطبات محمود 2.4 سال ۱۹۳۶ کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟ اس نے کہا نہیں اس سے بہت بڑا ہوتا ہے.آخر اس نے تین چھلانگیں ماریں اور کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے سمندر کے مینڈک نے سر ہلا دیا جس پر کنویں کے مینڈک نے اس سے منہ پھیر لیا اور کہا میں ایسے جھوٹے سے بات نہیں کرتا.پس فِی صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ میں اللہ تعالی نے یہ گر بتایا ہے کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو جتنا بھی تم کام کرواتنی ہی تم پر اپنی کمزوری واضح ہوتی چلی جائے گی.اگر کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ اسے اس کے اعمال کے بدلہ میں کیا ملا ہے تو یہ اُس کا منافقت کی طرف پہلا قدم ہوگا اور اگر اس کے اندر یہ احساس ہو کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تو خدا تعالیٰ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ کے وعدے کے مطابق اسے ضرور کامیاب کرے گا.ہماری جماعت میں بھی ٹھو کر کھانے والے ایسے ہی لوگ تھے جیسے ڈاکٹر عبدالحکیم کہ وہ کی چندے بھی دیتا تھا اور اُس نے کتابیں بھی لکھیں لیکن اس سے کم چندے دینے والے مرتے وقت تک ایمان پر قائم رہے اور خدا تعالیٰ نے اُن کو قبول کر لیا.پس جو احمدی یہ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ انہوں نے چندے بھی دیئے لیکن اس کا ان کو کوئی اجر نہیں ملا ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر سچا ایمان پیدا کریں اور اپنی کمزوریوں پر استغفار کریں جب ان کے دل سے یہ احساس جاتا رہے گا کہ انہوں نے کچھ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو ایمان کے اعلیٰ ثمرات سے متمتع فرمائے گا اور انہیں دینی اور دُنیوی دونوں رنگ میں کامیابیاں عطا فرمائے گا.ل المؤمنون: ٣،٢ ( الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۶۱ء) بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الفتح باب قوله إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا بخاری کتاب التفسير باب القصد والمداومة على العمل صلى الله بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبي عليه (الخ)
خطبات محمود ۴۱ سال ۱۹۳۶ تحریک جدید کے تیسرے سال کا یکم دسمبر ۱۹۳۶ ء سے آغاز (فرموده ۲۷ نومبر ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- باوجود طبیعت کی ناسازی اور بخار کے میں نے آج جمعہ کا خطبہ اس لئے کہنے کا ارادہ کیا ہے کہ تا تحریک جدید کے سال سوم کی تحریک کا اعلان کر سکوں.آج سے دو سال پہلے جب میں نے تحریک جدید کی ابتدا کی تھی اُس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تحریک آئندہ کیا رنگ اختیار کرنے والی ہے.شاید آج بھی لوگ اس کے نتائج سے ناواقف ہوں گے لیکن میں جانتا ہوں کہ در حقیقت یہ تحریک الہی تصرف کے ماتحت ہوئی تھی.ہماری جماعت ان سہولتوں کی وجہ سے جو موؤ لّفتہ القلور کے حق میں خدا تعالیٰ نے مقررفرمائی ہیں اُس بیداری اور قربانی سے محروم ہوتی جارہی تھی جس کے بغیر کوئی روحانی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی.در حقیقت ہمارے کام ایک منظم انجمن کی صورت اختیار کرتے جا رہے تھے جس کا کام لوگوں سے کچھ رقوم حاصل کرنا اور انہیں بعض تمدنی یا علمی ضرورتوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے اور وہ اصل غرض یعنی اپنے دل کو خدا کی محبت میں فنا کر دینا اور دنیا میں ہوتے ہوئے اُس سے جدا رہنا اور دنیا کماتے ہوئے دین میں ترقی کرنا اور بنی نوع انسان میں رہتے ہوئے خدا کے قریب رہنا اور جسمانی سانس لیتے ہوئے اپنے اوپر ایک موت وارد کر لینا اور اپنے قدم ہمیشہ اطاعت کیلئے بڑھاتے چلے جانا اس کی طرف سے غفلت پیدا ہورہی تھی تب خدا نے چاہا کہ اُس کی رحمت اور اُس کا فضل زمین پر نازل ہو اور اس کام میں زندگی پیدا کرے جسے خدا تعالیٰ
خطبات محمود ۷۰۸ سال ۱۹۳۶ دنیا میں جاری کرنا چاہتا ہے.جس طرح بچوں کے لباس سے بڑوں کے لباس کا فرق ہوتا ہے اسی طرح مؤلّفتہ القلوب والی حالت اور کامل حالت میں فرق ہوتا ہے.بچے کبھی نگے بھی پھر لیتے ہیں اور کبھی کپڑے بھی پہن لیتے ہیں نہ ان کی ایک حالت کو لوگ سراہتے ہیں نہ ان کی دوسری حالت کو قابل ملامت قرار دیتے ہیں.اسی طرح روحانیت کی ابتدائی حالتوں میں الہی جماعتوں کو کچھ سہولتیں دی جاتی ہیں یہاں تک کہ وقت آ جاتا ہے کہ کمزور اور طاقتور میں امتیاز کیا جائے اور منافق اور مؤمن میں فرق کیا جائے تب خدا کی مشیت ان سہولتوں کو واپس لے لیتی ہے اور دین اپنی کامل شان کے ساتھ دنیا میں قائم کر دیا جاتا ہے.قرآن کریم تمام کمالات کی جامع کتاب ہے اور اس کا نازل کرنے والا کوئی بندہ نہیں بلکہ علام الغیوب خدا ہے جس کے علم میں ہر ھے خواہ ماضی ، خواہ حال ، خواہ مستقبل ، غرض کسی زمانہ سے بھی تعلق رکھتی ہو محفوظ ہے اس کیلئے ابد بھی وہی حیثیت رکھتا ہے جو ازل، نہ اس کیلئے کوئی گزشتہ زمانہ ہے نہ آئندہ ہے ہر چیز اس کی نظر کے سامنے حاضر ہے خواہ وہ ہو چکی اور گزرگئی اور خواہ وہ آئندہ ہونے والی اور پوشیدہ ہے.اس کیلئے کیا مشکل تھا کہ سارا کا سارا قرآن کریم ایک ہی وقت میں نازل فرما دیتا.اُسے نہ سوچنے کی ضرورت تھی نہ تدبر کی ، نہ تصنیف میں اُس کا کوئی وقت صرف ہوتا تھا کہ اُس نے قرآن کریم کو آہستہ آہستہ تئیس ۲۳ سال کی مدت میں اُتارا؟ اس میں یہی حکمت تھی کہ آہستہ آہستہ تعلیم اترے اور ایمان کی پہلی حالتوں میں مؤمنوں پر یکدم بوجھ نہ پڑ جائے.دو دو چار چار آیتوں پر مؤمن عمل کرتے گئے جب ان کے عادی ہو گئے تو پھر اور آیتیں نازل ہو گئیں.حکم پر حکم ، ہدایت پر ہدایت ، فرمان پر فرمان نازل ہوتا ہ گیا یہاں تک کہ وہ دن آگیا جب محمد ﷺ نے ایک وسیع مجمع میں حج کے ایام میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر دنیا کو یہ خوشخبری سنائی کہ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي لے.میں نے آج تمہارے لئے دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے گویا یہ اس امر کا اعلان تھا کہ مؤمنوں کے ایمان پختہ ہو گئے ، ان کے روحانی جسم کی ہڈیاں مضبوط ہوگئیں اور کمر قوی ہوگئی ہو تب خدا تعالیٰ نے اپنی امانت کا سارا بار انسان کی پیٹھ پر لاد دیا کیونکہ ایک لمبے امتحان کی زندگی میں سے گزر کر انسان نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ بوجھ جس کو اٹھانے سے پہاڑ بھی لرزتے تھے وہ ظلوم وجهول بن کر اور عاشقانہ جوش کے ساتھ اس بوجھ کو اپنی پیٹھ پر اُٹھا لینے کیلئے تیار ہو گیا تھا.
خطبات محمود 2.9 سال ۱۹۳۶ شاید بعض لوگ خیال کریں کہ اس لمبے عرصہ میں قرآن کریم کے اترنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ کئی صحابہ جو اخلاص میں زندہ رہنے والوں سے کم نہ تھے خدا کی راہ میں شہید ہو گئے او کامل کتاب کے دیکھنے کا ان کو موقع نہ ملا اور شاید اس طرح ان کا ایمان نامکمل رہا.یہ اعتراض قرآن کریم میں بھی مذکور ہے شاید آج بھی بعض لوگوں کے دلوں میں یہی خیال پیدا ہو سو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایمانی تکمیل دوراہوں سے ہوتی ہے.ایک عمل کے کمال کے ساتھ اور ایک ایمان کے کمال کے ساتھ.جن لوگوں کو ایمانی کمال حاصل ہو جاتا ہے ان کیلئے عملی کمال ایک طبعی عمل ہو جاتا ہے اور وہ اس ایمانی کمال کے ماتحت اپنے اعمال کو بغیر خارجی تحریک کے آپ ہی آپ کی ایسے سانچے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی کی قبولیت کو حاصل کرتا ہے.عملی تفصیلات در حقیقت کمزور انسانوں کی تقویت کیلئے ہوتی ہیں اور کامل انسان شکر گزاری کیلئے ان پر عمل کرتا ہے اور خدائی حکم کامل انسانوں سے اس لئے ان احکام پر عمل کرواتا ہے تا کمزور انسان ان کی نقل کر کے عمل نہ چھوڑیں.پس گو عملی تفصیلات جاری ہوتی ہیں کامل اور کمزور دونوں پر مگر ان کی اجراء کی حکمتیں دونوں صورتوں میں مختلف ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کو ایک موقع پر اس طرف توجہ دلائی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گزشتہ و آئندہ ذنوب کو معاف فرما دیا ہے آپ عبادت پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! أَفَلا اَكُوْنَ عَبْدًا شَكُورًا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں سے.یعنی لوگ تو عمل اس لئے کرتے ہیں تا ان کی امداد سے کامل ہو جائیں اور میں عمل اس لئے کرتا ہوں کہ خدا نے جو مجھے کامل بنایا ہے تو اُس کا شکر ادا کروں.پس اس کی حدیث نے اعمال کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے خود قرآن کریم کی یہ آیت جسے حضرت عائشہ نے بیان فرمایا اور جو روحانی اندھوں کے نزدیک ہمیشہ قابلِ اعتراض رہی ہے اس کا یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی حصول کمال کیلئے عمل نہیں کرتا کیونکہ عملوں نے جو کچھ پیدا کرنا تھا وہ تو خدا نے خود ہی اُس کیلئے پیدا کر دیا اب وہ جو کچھ کرتا ہے اظہارِ شکر کے طور پر کرتا ہے.اس مسئلہ کی وضاحت اس امر سے بھی ہو جاتی ہے کہ نبی ، نبی پہلے بنتا اور شریعت پر بعد میں عمل کرتا ہے اور عام مؤمن عمل پہلے کرتا ہے اور روحانی درجے اسے بعد میں حاصل ہوتے ہیں
خطبات محمود 21° سال ۱۹۳۶ پس یہ اعتراض کہ وہ صحابہ جو اس عرصہ میں فوت ہو گئے کیا ان کے درجے کی تکمیل نہ ہوئی کیونکہ کامل شریعت ان کے زمانہ میں نہیں اتری تھی اس حقیقت سے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں دور ہو جاتا ہے.یہ امر واضح ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں مارے گئے وہ کمال کو کمال ایمان سے حاصل کر چکے تھے اور ان کا دل شدتِ ایمان سے وہ سب کچھ حاصل کر چکا تھا جو تفصیلی احکام دوسروں نے حاصل کرنا تھا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو مُردہ کہنے سے روکا ہے اور انہیں دائمی زندہ قرار دیا ہے یعنی ان کی حالت وفات کے ساتھ ایک جگہ پر قائم نہیں ہو جاتی بلکہ ان کی تکمیل اسی طرح ہوتی چلی جاتی ہے جس طرح دنیا میں رہ کر عمل صالح کرنے والوں کی.غرض انسانی ترقی کیلئے خاص قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انسانی کمزوری ابتداء میں بعض سہولتوں کی بھی طالب ہوتی ہے اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ تحمیل شریعت ایک دن میں ہی نہیں کرتا بلکہ ایک لمبے عرصہ میں احکام کے سلسلہ کو ختم کرتا ہے.یہ تو ان لوگوں کی حالت ہے جو اُن انبیاء کے زمانہ میں ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ شریعت نازل کرتا ہے.جو انبیاء بغیر شریعت کے آتے ہیں اور جو پہلی کتابوں کی تکمیل کرتے ہیں یعنی ان کے مضامین کو دنیا میں قائم کرتے ہیں ان کی جماعتوں کی کمزوری کا اللہ تعالیٰ ایک اور طرح لحاظ کر لیتا ہے چونکہ شریعت تو پہلے سے مکمل ہوتی ہے احکام کے متعلق تو ان سے کوئی سہولت نہیں کی جاسکتی.پس مجاہدات اور قربانیوں میں ان سے سہولت کا معاملہ کیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان پر بوجھ لادا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ دن آجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے سامنے یہ شرط پیش کر دیتا ہے کہ یا گلی طور پر اپنے آپ کو میرے سپر د کر دو یا مجھ سے بالکل جدا ہو جاؤ جس قدر مہلت تمہارے لئے ضروری تھی وہ میں دے چکا اب میری رحمت اپنے فضلوں کی تکمیل کیلئے بے تاب ہو رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں چن لوں اور اسی طرح چن لوں جس طرح کہ تم سے ماسبق جماعت کو چنا جاتا تھا اور تمہارے دلوں کو اپنے غیر کی محبت سے صاف کر دوں خواہ وہ وطن کی محبت ہو، خواہ وہ اولاد کی محبت ہو، خواہ وہ بیویوں کی محبت ہو، خواہ وہ آسائش کی محبت ہو، خواہ وہ کھانے پینے کی محبت ہو، خواہ وہ پہننے کی محبت ہو، خواہ ماں باپ کی محبت ہو، خواہ عزت و رتبہ کی محبت ہو، خواہ مال کی محبت ہو ، جو شخص
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ اس مطالبہ کو پورا کرتا ہے وہی خدا تعالیٰ کی برکتوں سے حصہ لیتا ہے اور دوسرا شخص جو کمزوری دکھا تا تای ہے اور شرطیں لگاتا ہے اسے خدا کی درگاہ سے باہر نکال دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی پہلی روحانی کی حالت محض ایک نمونہ کے طور پر تھی.جس طرح ایک مٹھائی والا گا ہک پیدا کرنے کیلئے تھوڑی ہے تھوڑی مٹھائی لوگوں کو کھلاتا ہے اور اُس کے بعد امید کرتا ہے کہ لوگ اسے پیسے دے کر خریدیں گے اسی طرح ایسی جماعتوں کے ابتدائی فیوض اور ابتدائی مدارج بطور اس نمونہ کے ہوتے ہیں جو مٹھائی فروش گا بک کو چکھاتا ہے اور جسے پنجابی میں ”وندگی کہتے ہیں.جو شخص ساری عمر اسی طرح نمونہ کی مٹھائی لے کر کھانا چاہے دکاندار کبھی اُسے قریب بھی آنے نہیں دیں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اُن اشخاص کو جو نمونہ دیکھ کر بھی چیز کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے دھتکار دیتا اور اپنی درگاہ سے نکال دیتا ہے.ہماری جماعت کے ہر فرد نے جس نے اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ احمدیت کو قبول کیا ہو اپنے نفس میں تجربہ کیا ہوگا کہ احمدیت کے قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس پر خاص فضل نازل فرمایا اور روحانیت کی بعض کھڑکیاں اُس کیلئے کھول دیں.تمام احمد یوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ حالت ان کی وہ نمونہ تھی جو خدا تعالیٰ نے اس لئے ان کے سامنے پیش کیا تا انہیں روحانی عالم کی قیمت معلوم ہو جائے اور وہ اس کی لذت سے آشنا ہو جائیں.اب اگر وہ چاہتے ہیں کہ مزا قائم رہے اور لذت بڑھے اور جس چیز کی لذت سے ان کی زبان آشنا ہوئی تھی اس سے ان کا معدہ بھی پُر ہو جائے اور وہاں سے خون صالح پیدا ہو کر ان کے دماغ اور ان کے دل اور ان کے تمام جوارح کو طاقت بخشے تو اس کیلئے انہیں وہی قیمت ادا کرنی ہوگی جو ان سے پہلے لوگوں نے ادا کی اس کے بغیر کوئی راہ ان کیلئے کھلی نہیں.قربانی ہی ایک راہ ہے جس سے لوگ اپنے یار تک پہنچتے ہیں اور موت ہی وہ راستہ ہے جو اپنے محبوب تک پہنچاتا ہے پس اس موت کیلئے تیار ہو جاؤ اور ان کے اعمال کو اختیار کرو جو انسان کو موت کیلئے تیار کرتے ہیں ہر کام کے کمال کیلئے ابتدائی مشق کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کامل قربانی کیلئے نسبتاً چھوٹی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.تحریک جدید کے پہلے دور نے ان کی چھوٹی قربانیوں کی طرف جماعت کو بلایا ہے وہ جو ان چھوٹی قربانیوں پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوں
خطبات محمود ۷۱۲ سال ۱۹۳۶ گے خدا تعالی بڑی قربانیوں کیلئے تو فیق عطا فرمائے گا اور وہ خدا کے بڑے ہو جائیں گے جس طرح یسوع اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان اور اور ہزاروں کامل بندے خدا کے بڑے قرار پائے اور کی انہوں نے خدا کی محبت کی چھری کو خوشی سے اپنی گردن پر پھر والیا.دنیا کی تمام شوکتیں اُن کے پاؤں پر قربان ہیں، دنیا کی تمام عزتیں اُن کی خدمت پر قربان ہیں ، دنیا کی تمام بادشاہتیں اُن کی غلامی پر قربان ہیں، وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا ہے.آج ایک زندہ اور باجبروت اور قاہر اور خبر دار اور منتظم بادشاہ کو گالی دے کر ایک انسان سزا سے بچ سکتا ہے، اُس کی گرفت سے بھاگ سکتا ؟ ہے لیکن یہ لوگ جو انسانوں جیسے انسان تھے اوّل تو فقیری میں انہوں نے عمر گزار دی اور اگر بعض بادشاہ بھی ہوئے تو ان کی بادشاہتیں اپنی دُنیوی عظمت کے لحاظ سے بہت سے دُنیوی بادشاہوں سے کم تھیں لیکن آج جبکہ وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہوئے ہیں اور بعض کی نسلوں کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے اور بعض کی اُمتیں بھی مٹ چکی ہیں کوئی زبر دست سے زبر دست بادشاہ بھی بے ادبی سے ان کا نام لے تو وہ ذلت اور رسوائی سے بچ نہیں سکتا کیونکہ خدا میں محو ہو جانے کی وجہ سے خدا کی بادشاہت میں ان کی بادشاہت شامل ہے اور جس طرح خدا کی بادشاہت کبھی فنانہیں ہوتی اُن کی بادشاہت بھی کبھی فنانہیں ہوسکتی.میں نے کہا تھا کہ یہ خدا کے بڑے ہیں میں نے اس سے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ جس طرح ایک بکری کا گوشت اُس کے ذبح ہو جانے کے بعد انسان کی غذا بن کر انسان ہو جاتا ہے اسی طرح لوگ خدا کے بڑے بن کر قربان ہو جاتے ہیں وہ بھی خدا میں شامل ہو جاتے ہیں اور ابدی از لی بادشاہت ان کو عطا کی جاتی ہے.شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ ابدی بادشاہت تو سمجھ میں آسکتی ہے مگر از لی بادشاہت انہیں کس طرح حاصل ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور ان کو کوئی جانتا بھی نہ تھا تو انہیں بادشاہت کیونکر حاصل ہوئی.ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ میں خاتم النبین تھا جبکہ آدم ابھی مٹی اور پانی میں ہی چھپا ہوا تھا سکے.رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں یہی حکمت بیان فرمائی ہے کہ جو شخص خدا میں ہو جاتا ہے اُس کو از لی بادشاہت بھی عطا ہو جاتی ہے اور اس کا ظاہری نشان یہ ہوتا ہے کہ اُس کے آباء و اجداد کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ حفاظت ملتی چلی آتی ہے جس طرف
خطبات محمود ۷۱۳ سال ۱۹۳۶ قرآن کریم میں تَقَلُبَكَ فِی السَّاجِدِينَ آ کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے ( یہاں ساجد کے معنے سجدہ کرنے والے اور نیک کے نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار اور مطیع کے ہیں ) اور دنیا کا تمام کارخانہ اسی طرح چلا یا جاتا ہے کہ جب وہ شخص آئے تو موافق حالات پا کر اس روحانی بادشاہت کو قائم کرے جس بادشاہت کو قائم کرنے کیلئے خدا تعالیٰ اُن کو مبعوث فرماتا ہے.جس طرح ایک معزز آدمی کے آنے سے پہلے شہر کو سجایا جاتا ہے، صفائیاں کی جاتی ہیں، چھڑکاؤ کئے جاتے ہیں ، بڑا ے بڑے پھاٹک کھڑے کئے جاتے ہیں ، مکانوں میں سفیدیاں کرائی جاتی ہیں، اسی طرح ایسے کامل انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صفائی اور چھڑکاؤ کا طریق جاری رکھا ہوا ہے اسی وجہ سے جب وہ دنیا میں آتے ہیں تو وہ جو دنیا کی نگاہوں میں ناممکن ہوتا ہے ممکن ہو جاتا ہے.آخر آپ لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ ہزاروں ہزار عیب اور لاکھوں لاکھ نقص جو انسانوں کے دلوں میں پیدا ہور ہے تھے اور وہ بے انتہاء زنگ جو ان کے دماغوں کو لگ رہا تھا اس کی موجودگی میں کس طرح خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو جو اب لاکھوں کی تعداد میں ہیں اس تعلیم پر ایمان لانے کی توفیق بخشی جو آنحضرت لے کے ذریعہ سے نازل ہوئی تھی اور جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر قسم کی گرد سے پاک کر کے پھر جلا بخشی تھی.اس کی یہی وجہ تھی کہ وہ علیم وخبیر خدا جو ہمیشہ.جانتا ہے اور جانتا رہے گا کہ اس زمانہ میں اس کا مسیح پیدا ہونے والا ہے وہ دنیا کے ذرہ ذرہ میں ایسی تحریک کر رہا تھا اُس وقت سے جب سے یہ دنیا پیدا کی گئی بے انتہاء سال اُس وقت سے پہلے جبکہ انسان پہلے پہل دنیا پر ظاہر ہوا تھا کہ تمام دنیا میں ایسے تغیر پیدا ہوتے رہیں کہ کروڑوں اور اربوں سالوں کے بعد جس وقت اُس کا مسیح ظاہر ہو تو کچھ دل ایسے تیار ہوں جو فوراً یا قریب کے عرصہ میں اُس کی آواز پر لبیک کہیں اور اپنے دلوں کے برتنوں کو اُس کی تعلیم کا دودھ بھرنے کیلئے پیش کر دیں.پس مسیح موعود کی بادشاہت بھی جس طرح ازلی ہے اسی طرح ابدی ہے اور یہی حال باقی تمام انبیاء کا ہے.جو شخص اس نکتے کو سمجھ لے وہی اس حدیث کو سمجھ سکتا ہے جو رسول کریم علیہ نے ختم نبوت کے متعلق بیان فرمائی ہے اور جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں.اس کے سوا کوئی معنے کر کے دیکھ لو یا ان میں رسول کریم ع کی ہتک ہو جائے گی یا آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی ہتک ہو جائے گی.یہی ایک معنے ہیں جو ایک طرف رسول کریم ﷺ کی عظمت کو قائم کر
خطبات محمود ۷۱۴ سال ۱۹۳۶ ہیں تو دوسری طرف باقی انبیاء کی عظمت کو بھی قائم رکھتے ہیں.پس اے عزیز و! تمہارے لئے ازلی اور ابدی بادشاہت کے دروازے کھلے ہیں تم میں سے جس میں ہمت ہو اور جو موت کے دروازے میں سے گزر کر خدا میں محو ہونے کی طاقت رکھتا ہو اُسے خوش ہونا چاہئے کہ اُس کے لئے بھی وہی برکتیں اور وہی رحمتیں موجود ہیں جو اُس سے پہلے لوگوں کیلئے موجود تھیں.ضرورت صرف قربانی کی ہے اور تقویٰ کی ہے جس کا دوسرا نام محبت الہی ہے.جس دل میں خدا کی محبت آگئی باقی سب تفصیلیں اس میں آ جاتی ہیں.جس طرح خدا تمام چیزوں کا جامع ہے یعنی ہر چیز اُس کے علم میں ہے اور ہر چیز اُس کے قبضہ میں ہے اور ہر چیز اُس کی قدرت میں ہے اسی طرح خدا کی محبت بھی جامع ہے اس میں بھی ہر چیز داخل ہوتی ہے یعنی تمام وہ روحانی ضرورتیں جو انسانی تکمیل کیلئے ضروری ہیں محبت الہی میں سے آپ ہی آپ نکلتی آتی ہیں.پس خدا کی محبت پیدا کرو اور محبت کا جو لازمی نتیجہ ہے یعنی قربانی اس کے آثار دکھاؤ تو تمہارے لئے بھی خدا کے فضل اُسی طرح ظاہر ہوں گے جس طرح آنحضرت ﷺ کے صحابہ کیلئے ظاہر ہوئے تھے.دنیا میں ایک طوفان بپا ہے لوگ خدا کو بھول گئے ہیں، محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوگئی ہے، وہ چمکتا ہوا ستارہ جسے خدا نے دنیا کی ہدایت کیلئے پیدا کیا لوگوں کی کی آنکھوں میں نور پیدا کرنے کی بجائے سر دست تو حاسدوں کے دلوں میں ایک انگارہ بن کر جل رہا ہے یعنی خدا کا مسیح دنیا کی تضحیک اور اُس کے تمسخر کا مرکز بنا ہوا ہے.ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے، ایک نئی دنیا کی تعمیر ، ایک نئے آسمان اور زمین کی بنیاد، پس اپنی ہمتیں مضبوط کرو اور ارادے کی کمر کس لو اور اپنے ارد گرد کے منافقوں کی طرف نگاہ مت ڈالو کہ مؤمن منافق کو کھینچتا ہے نہ کہ منافق مؤمن کو.جس دل میں ایمان ہوتا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر اسے آگ میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا اور فرماتے ہیں کہ یہ ادنیٰ درجے کا ایمان ہے ہے.پس آج میں اجمالی طور پر تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف جماعت کو پھر بلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس پہلے درجہ کی آخری جماعت میں ہمارے دوست ایسے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں گے کہ خدا کے فضل ان پر بارش کی طرح نازل ہونے لگیں گے اور دشمنوں کے دل مایوسی.ނ
خطبات محمود ۷۱۵ سال ۱۹۳۶ پُر ہو جائیں گے اور منافقوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے گی.ابھی بہت سا کام ہم نے کرنا ہے اور یہ تو ابھی پہلا ہی قدم ہے اگر اس قدم کے اُٹھانے میں جماعت نے کمزوری دکھائی تو خدا کے کام تو پھر بھی نہیں رکیں گے لیکن دشمن کو مسیح موعود پر طعن کرنے کا موقع مل جائے گا اور ہر وہ گالی اور ہر وہ دشنام اور ہر وہ طعنہ جو مسیح موعود کو یا ان کے سلسلہ کو دیا جائے گا اُس کی ذمہ داری انہی لوگوں پر ہوگی جو اپنے عمل کی کمزوری سے دشمن کو یہ موقع مہیا کر کے دیں گے.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تو آئندہ ہفتوں میں میں اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی پھر ایک دفعہ تفصیلی طور پر ان امور کی طرف توجہ دلاؤں گا سر دست میں نے اجمالاً سب امور کی طرف توجہ دلا دی ہے اور مالی حصہ تحریک کو میں آج ہی خطبہ کے ساتھ شروع کر دیتا ہوں کیونکہ اس تحریک کیلئے دوستوں کو ہفتوں محنت کرنی پڑتی ہے اور بڑی مہلت درکار ہوتی ہے.پس اگر اس میں تعویق کی گئی تو احباب کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی.پس میں آج ہی اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ یکم دسمبر سے تحریک جدید کے مالی حصے کی قسط سوم کا زمانہ شروع ہو جائے گا اور میں دوستوں سے امید رکھتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ پہلے سالوں سے بڑھ کر اس میں حصہ لینے کی کوشش کریں کیونکہ مؤمن کا قدم پیچھے نہیں پڑتا بلکہ اسے جتنی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے اتنا ہی وہ اخلاص میں آگے بڑھ جاتا ہے.ہر وہ شخص جس نے ایک سال یا دو سال اس قربانی کی توفیق پائی لیکن آج اُس کے دل میں انقباض پیدا ہو رہا ہے یا وہ اس بشاشت کو محسوس نہیں کرتا جو گزشتہ یا گزشتہ سے پیوستہ سال میں اس نے محسوس کی تھی اسے میرے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، اپنے دوستوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت کی نہیں ، اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قد ر خلوص بھی اُس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اُس کی مدد سے گریہ وزاری کرے یا کم از کم گریہ وزاری کی شکل بنائے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جھک کر کہے کہ اے میرے خدا! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدے کیلئے روحانی باغ تیار ہورہے ہیں پراے میرے رب ! میں دیکھتا ہوں جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں سے تو روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی نہ معلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ کھا گیا ، یا میری وحشت کا کوئی درندہ اسے پاؤں کے نیچے مسل گیا، یا
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ میری کوئی مخفی شامت اعمال ایک پتھر بن کر اس پر بیٹھ گئی اور اس میں سے کوئی روئیدگی نکلنے دی.اے خدا! اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اُٹھاتا مگر آج تو میرا دل خالی ہے میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوؤں.اے خدا! میرے اسی ضائع شدہ پیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اس دھتکارے ہوئے بندہ کو ایک رحمت کا بیج عطا فرما کہ میں اور میری نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہا جائیں اور ہمارا قدم ہمارے کچی اور اعلیٰ قربانی کرنے والے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ہمارے کندھے ہوں.اے خدا! بہت ہیں جو اعمال کے زور سے تیرے فضل کو کھینچ لائے پر ہم کیا کریں کہ ہمارے اعمال بھی اُڑ گئے.کیا تیرا رحم ، کیا تیرا بے انتہاء رحم غیرت میں نہ آئے گا اور ہم جیسے بندوں کو بے عمل ہی اپنے فضل کی چادر میں چھپا نہ لے گا.پس تم اس طرح خدا کے آگے زاری کرو تا کہ تمہارے دلوں کے زنگ دور ہو جائیں اور تمہاری مُردہ روح پھر زندہ ہو جائے اور تم کو پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی توفیق ملے اور تمہارے عمل کا نتیجہ پہلے سالوں سے بھی زیادہ دشمن کے لئے حسرت اور یاس کا موجب بنے.اگر تم سچے دل سے خدا کی طرف جھکو گے تو وہ یقینا تمہارے دلوں کو کھول دے گا اور تم پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ خدا اور اس کے دین کے لئے قربانیوں کے لئے میں تم کو بلاتا ہوں انہی میں اسلام کی بہتری ہے کی اور انہی میں اسلام کی شوکت ہے.خدا چاہتا ہے کہ وہ اپنی قربان گاہ پر مسیح محمدی کے بروں کی کی قربانی کرے اور ان کے خون کو اسلام کی خشک شدہ انگور کی بیل کی جڑ میں ڈالے تا کہ وہ پھر ہری ہے ہو جائے اور پھر اس میں خدا کے فضل کے انگور لگنے لگ جائیں.اگر تم میں سے کسی نے انجیل پڑھی کی ہو تو اُس کو معلوم ہوگا کہ روحانی بادشاہت کو انگور کے باغوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور انگور کی ہی بیل ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سر سبز و شاداب کرنے کیلئے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے.پس اس کی مثال میں اسی طرف اشارہ تھا کہ خدا کے دین کو تازہ کرنے کیلئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اس باغ کی جڑوں میں گرا کر اُسے پھر زندہ اور شاداب کیا
خطبات محمود جائے گا.سال ۱۹۳۶ پس اے دوستو ! آؤ کہ ہماری جانیں اسلام کے مقابلہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں ہم میں سے ہر ایک شخص خواہ اُس کو مال ملا ہے یا نہیں ملا اپنی اپنی توفیق کے مطابق خدا کے سامنے اپنی قربانی پیش کر دے اور اس قربانی کو پیش کرنے کے بعد ایک مُردے کی طرح الہی آستانہ پر گر جائے یہ کہتے ہوئے کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! میری اس حقیر نذر کو قبول کر اور مجھے ا دروازے سے مت دُھتکار.اَللَّهُمَّ آمِينَ ثُمَّ آمِينَ ل المائدة : ۴ ( الفضل ۳ دسمبر ۱۹۳۶ء) پنے ل بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الفتح باب قوله إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ الشعراء: ۲۲۰ بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان
خطبات محمود ZIA ۴۲ سال ۱۹۳۶ لیلۃ القدر کیا ہے اور اس کے حصول کیلئے کیا کرنا چاہئے (فرموده ۴ / دسمبر ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے سب سے پہلے سال تحریک جدید کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ایک تو وہ آپس میں صلح کریں ، لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ دیں اور ایک کے ایسے قصور جو ذاتی ہوں اور ایسے جھگڑے جو دینی نہ ہوں اُن کو بھلا دیں اور دوسرے اپنے بقائے ادا کرنے کی طرف توجہ کریں کیونکہ جو پچھلا بقایا ادا نہیں کرتا وہ آئندہ کیلئے کس طرح وعدہ کرسکتا ہے.میری اس ہدایت کی سند رسول کریم ﷺ کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے جو کہ رمضان کی بعض ساعات کے متعلق ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کے ماتحت اس تحریک کے پہلے حصہ کا تیسرے سال کیلئے اعلان کرتے وقت وہی مہینہ آ گیا ہے جس میں اس راز کالی انکشاف کیا گیا ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ دوستوں کو پھر اس کی طرف توجہ دلا دوں.حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس گھڑی کی خبر دی جس میں دعائیں بالعموم سنی جاتی ہیں اور ایسی ساعات کا علم ہونا کوئی معمولی بات نہیں اس لئے رسول کریم ﷺے اس خوشی میں گھر سے باہر آئے تاباقی احباب کو بھی اُس وقت کی اطلاع دیں اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں مگر آپ جب مسجد میں تشریف لائے تو دو مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے آپ اُن کی اس لڑائی اور اختلاف کے دور کرنے میں مصروف ہو گئے اور ادھر سے آپ کو اپنی توجہ ہٹانی پڑی اس صلى الله
خطبات محمود ۷۱۹ سال ۱۹۳۶ لئے جب پھر اس طرف متوجہ ہوئے تو وہ گھڑی آپ کو بھول چکی تھی بلکہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولی ہی نہیں اللہ تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت اس گھڑی کی یاد اُٹھالی گئی تھی.پس آپ نے نے فرمایا کہ اس اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے اس گھڑی کا علم اُٹھا لیا گیا ہے اس لئے اب اسے رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں اور ان میں سے بھی طاق راتوں میں تلاش کرو اے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت کی وجہ سے اسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے وہ قومی اتفاق اور اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد اور اتفاق مٹ جائے اُس میں سے لیلۃ القدر بھی اُٹھالی جاتی ہے.لیلتہ القدر کے معنے ہیں وہ رات جس میں انسان کی قسمت کا اندازہ کیا جاتا ہے اور فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال میں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ، وہ کہاں تک بڑھے گا اور ترقی کرے گا ، کیا کیا فوائد اسے حاصل ہوں گے اور کیا کیا نقصان اُٹھانے پڑیں گے.انسانی ترقی کے تمام فیصلے لیلتہ یعنی ظلمت میں ہی ہوتے ہیں جس طرح کہ اس کی جسمانی ترقی ظلمت میں ہی ہوتی ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی متواتر ظلمتوں میں ہوتی کی ہے، ماں کا پیٹ بھی کئی ظلمتوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور وہیں انسان کی جسمانی ترقیات کا فیصلہ ہوتا ہے.اگر ان ایام میں تربیت یا پرورش اچھی طرح نہ ہو تو آئندہ وہ بچہ کمزور ہوگا ، اُس کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہوگی اور وہ دنیا میں کوئی بڑے کام بھی نہیں کر سکے گا یہی وجہ ہے کہ اسلامی فقہاء نے ایام حمل میں عورت کا روزہ رکھنا نا پسند کیا ہے کیونکہ اس سے بچہ کی پرورش میں کمزوری کی واقعہ ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ایسے مواقع پر طلاق کو بھی ناپسند کیا ہے کیونکہ اس کے سے جو صدمہ ہوتا ہے اس سے بچہ کی پرورش میں کمزوری ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت کی میں اسلام نے نکاح کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس سے جذبات کے ہیجان کے باعث بھی بچہ پرورش پر بُرا اثر پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جماع کے وقت کیلئے ایک جامع دعا سکھائی ہے جو ماں کے پیٹ میں اس کی تربیت کی ذمہ وار ہو سکتی ہے کیونکہ اس حالت میں بچہ کا نوں سے کچھ نہیں سن سکتا صرف ماں باپ کے خیالات سے سبق سیکھتا ہے.اس لئے اسلام نے سکھایا ہے کہ اُس وقت یہ دعا کی جائے کہ اللهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَ جَيِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَات يعنى
خطبات محمود ۷۲۰ سال ۱۹۳۶ اے خدا! شیطانی خیالات کو اس وقت ہم سے دور کر دے کیونکہ ہم ایک نیا بندہ پیدا کرنے لگے ہیں اگر اب تک ہماری رگوں میں خون کے ساتھ شیطان دوڑتا رہا ہے تو اب اسے ہم سے علیحدہ کر دے تا آئندہ یہ سلسلہ نہ چل سکے اور اس کے نتیجہ میں جو اولا د تو ہمیں دینے والا ہے اسے شیطان سے بچا کر دے تا بدی کا سلسلہ یہیں منقطع ہو جائے.جو ماں باپ ان شہوات کے اوقات میں یہ دعا کریں کوئی وجہ نہیں کہ ان کی اولا د نیک نہ ہو اور شیطان کے اثر سے پاک نہ ہو بشرطیکہ خلوص نیت سے یہ دعا کی جائے کہ زبان کے ساتھ دل اور دماغ بھی اس دعا کے کرتے وقت شریک ہوں.پس شریعت نے بچہ کی تربیت اور پرورش کیلئے ان دنوں میں خصوصاً احتیاط سکھائی ہے جب وہ ظلمات میں ہوتا ہے اور یہ احتیاط کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھا ہے جب تک کہ ظلمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے.رضاعت کے ایام بھی اسی سلسلہ کی لمبائی ہیں کیونکہ ان دنوں میں ابھی بچہ اپنی زندگی کیلئے دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ ماں کی طرف ہی متوجہ ہوتا ہے.چنانچہ اُس وقت بھی ماں کو روزے رکھنے کی ممانعت ہے اور بہت سی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں.پس ترقیات کا فیصلہ ہمیشہ ظلمات میں ہوتا ہے اور جس طرح جسمانی ترقیات ظلمت میں ہوتی ہیں اسی طرح روحانی ترقیات بھی رات میں ہی ہوتی ہیں.ہر قوم کی روحانی ترقی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس کی ابتدائی قربانیاں ہوتی ہیں اُس کی لیلۃ القدر ہی اس کی ترقیات کی عمر کا معیار ہوتی ہے.رسول کریم نے اسی لئے فرمایا ہے کہ کوئی شخص جتنا خدا کا پیارا ہو اتنے ہی زیادہ اُسے ابتلا ء پیش آتے ہیں کیونکہ اس کیلئے انعام بھی زیادہ مقدر ہوتے ہیں.غرض لیلۃ القدر اُس قربانی کی ساعت کو کہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی ہے.بعض قربانیاں مقبول نہیں ہوتیں.جنگ بدر میں مکہ کے جو کفار مارے گئے ان کی قربانی خدا کے ہاں مقبول نہیں تھی پس وہ زمانہ لیلۃ القدر نہیں کہلا سکتا مگر جو صحا بہ شہید ہوئے اُن کی قربانی مقبول تھی.جس تکلیف کی اللہ تعالیٰ کوئی قیمت مقرر نہیں کرتا وہ لیلۃ القدر نہیں وہ سزا ہے، عذاب ہے، انتقام ہے مگر وہ تکلیف جس کیلئے اللہ تعالیٰ قیمت مقرر کرتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے یعنی ظلمت ، بلا اور دُکھ جس کا بدلہ دینے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہو وہ لیلتہ القدر ہے.پنجابی میں بھی کہتے ہیں کہ میری قربانی کی کوئی قدر نہیں کی گئی عربی میں بھی یہ لفظ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ
خطبات محمود ۷۲۱ سال ۱۹۳۶ نے انسان کیلئے ایسی ساعات مقرر کی ہیں کہ جن میں جو قربانیاں وہ کرے وہ ہمیشہ اُس کی نظر میں مقبول ہوتی ہیں مگر ان کیلئے ضروری شرط یہ ہے کہ قوموں میں سے مخلصوں کو آپس میں لڑنا نہیں چاہئے.منافق کا گناہ ہمارے ذمہ نہیں مگر بچے مؤمن اگر لڑیں تو ان کا لڑ نا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا نی موجب ہو گا لیکن منافق اگر فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے تو چونکہ وہ باغی ہے اس کے افعال کی مؤمنوں کو سزا نہیں ملتی بلکہ اگر مؤمن اس سے بچتے رہیں تو انعام کے مستحق ہوتے ہیں.پس میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے لئے لیلۃ القدر آ رہی ہے یعنی ایسے مصائب در پیش ہیں کہ جماعت کی روحانی اور اشاعتی زندگی خطرہ میں ہے اور اس لئے نصیحت کی تھی کہ آپس میں صلح کر لیں اور اس طرح خدا تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی خوشنودی حاصل کریں اس کی لئے اب جبکہ پھر رمضان کا مہینہ ہے اور لیلۃ القدر کی گھڑیاں قریب آرہی ہیں اور جبکہ تندرستوں کی اور حاضروں نے خدا تعالیٰ کیلئے روزے رکھے اور تکلیف اُٹھائی ہے میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کی تکلیف کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے ایسا طریق اختیار کرو جس سے وہ فائدہ حاصل ہوا کرتا ہے اور وہ طریق وہی ہے جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے یعنی یہ ہے کہ باہمی لڑائی اور جھگڑے چھوڑ دو تو لیلۃ القدر تمہیں یاد آ جائے گی اور نہ بھلا دی جائے گی.یادرکھنا چاہئے کہ یہ بھولنا بھی دو قسم کا ہوتا ہے جب افراد کی باہم لڑائی ہو تو وہ محروم رہ جاتے ہیں باقی قوم کو وہ گھڑی مل جاتی ہے مگر آخری عشر میں تلاش کرنے سے لیکن اگر قوم کی باہم لڑائی ہو تو ساری قوم محروم رہ جائے گی اور تلاش کرنے سے بھی وہ حاصل نہیں ہوگی بلکہ جب وقت آئے گا لوگ سوتے ہی رہ جائیں گے اس لئے لڑائیاں اور جھگڑے چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کے دین کیلئے متحد ہو جاؤ.ہاں یہ اتحاد منافق اور مخالف سے نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کیلئے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ذلّت مقدر ہو چکی ہے وہ تو جب تک اَذِلَّة گروہ میں شامل ہو کر خود معافی نہ مانگے اس وقت تک کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا.اس کے بعد میں نے جو دوسری بات کہی تھی جب تک ایک ایسا شخص بقائے ادا نہ کرے تحریک جدید اسے کوئی نفع نہیں دے سکتی اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں.دراصل جو شخصا.پہلے حقوق ادا نہ کرتے ہوئے مزید وعدے کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکا تا ہے اور دنیا کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہوا خدا کو ناراض کر لیتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کو کیا معلوم.ہے
خطبات محمود ۷۲۲ سال ۱۹۳۶ کہ میں نے اپنا پچھلا وعدہ پورا نہیں کیا.لوگ تو خوش ہو جائیں گے کہ فلاں نے اتنا وعدہ کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ تو اس دھوکا بازی کو خوب جانتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس شخص نے پہلے بھی دھوکا کیا تھا ی اور اب پھر کرتا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے فرضی چندوں کے بقایوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں اور اگر ادا نہیں کر سکے تو دل میں ان کو ادا کرنے کا پختہ اقرار تو کر لیں اور کوئی کی ایسا طریق مقرر کر لیں جس سے ادا کر سکیں.مثلاً کوئی قسط مقرر کر لیں اور اس کے بعد تحریک جدید کی طرف توجہ کریں ورنہ تحریک جدید کا وعدہ اُن کی ترقی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا.اگر دوست یہ دونوں باتیں کریں یعنی مؤمن اور مخلص لوگ دلوں سے بغض نکال کر باہم محبت پیدا کریں اور بقائے ادا کریں اور پھر تحریک جدید میں حصہ لے سکیں تو لیں بلکہ اگر توفیق ہو تو تحریک جدید میں حصہ لینا بھی ضروری سمجھیں تو پھر ترقیات کے دروازے ان پر کھل سکتے ہیں.تحریک جدید میں حصہ لینا اگر چہ میں نے اختیاری رکھا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کی میں حصہ لینے سے کوتاہی کی جاسکتی ہے یہ تحریک تو اختیاری تو میں نے اس لئے رکھی ہے کہ انسان کو زیادہ ثواب انہی تحریکوں میں حصہ لینے سے ہوتا ہے جو خو دا ختیاری ہوں.حکم کو تو منافق بھی مان لیتا ہے، ماہواری چندوں میں تو منافق بھی شامل ہوتے ہیں بلکہ ضرور ہوتے ہیں کیونکہ بمصداق ”چور کی داڑھی میں تنکا وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے سُستی کی تو ہمارا پول کھل جائے گا کمزور مخلص تو بعض دفعہ کو تا ہی کر جائے گا مگر منافق نہیں کرے گا وہ ضرور کوشش کرے گا کہ یہ کلنک کا ٹیکا اسے نہ لگے ورنہ وہ بالکل ننگا ہو جائے گا مگر خود اختیاری تحریکوں میں آکر اس کا بھید کھل جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے ان میں حصہ لینا ضروری تو نہیں ہے پس اس میں مخلص کے اخلاص کے اظہار کا زیادہ موقع ہوتا ہے.ایک بات اور بھی یادرکھنی چاہئے کہ جو شخص ہر نیکی اس لئے کرتا ہے کہ اسے جنت ملے گی وہ اعلیٰ درجہ کا مؤمن نہیں ہے.مؤمن تو وہ ضرور ہے اور رسول کریم ﷺ کی شہادت ہے کہ وہ مؤمن ہے.چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور دریافت کیا.کیا آپ کو خدا نے کہا ہے کہ پانچ نمازیں پڑھی جائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، پھر اس نے کہا کیا خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ تمیں روزے رکھے جائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، پھر اس نے کہا کیا آپ کو
خطبات محمود ۷۲۳ سال ۱۹۳۶ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جسے توفیق ہو وہ کم سے کم ایک دفعہ حج ضرور کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں ، اسی طرح غالبا ز کوۃ کے متعلق بھی اُس نے پوچھا اور ساتھ ساتھ قسم بھی دیتا جاتا تھا آخر سب کچھ سن کر اس نے کہا کہ خدا کی قسم ! یہ میں ضرور کروں گا مگر اس سے زیادہ نہیں.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس نے اپنی قسم کو پورا کیا تو جنت میں جائے گا سے.تو وہ مؤمن تو تھا مگر بیوقوف مؤمن تھا.ابو بکر نے کبھی ایسا سوال نہیں کیا، عمرؓ نے کبھی ایسا سوال نہیں کیا ، اسی طرح عثمان علی ، طلحہ اور زبیر نے کبھی ایسے سوالات نہیں کئے ، اکابرانصار نے کبھی ایسے سوال نہیں کئے ، ان کی تو یہ حالت تھی غریب صحابہ کا ایک گروہ آنحضرت میہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! آپ جو حکم دیتے ہیں وہ اُمراء بھی بجالاتے ہیں اور ہم بھی ، نماز میں وہ بھی پڑھتے ہیں اور ہم بھی ، روزے وہ بھی رکھتے ہیں اور ہم بھی ، حج بھی دونوں کرتے ہیں مگر وہ زکوۃ دیتے ہیں اور ہمارے پاس روپیہ نہیں اس لئے یہ ہم سے درجہ میں بڑھ جاتے ہیں کوئی ایسی تدبیر بتائیے کہ یہ ہم سے نیکی میں نہ بڑھ سکیں.آپ نے فرمایا کہ تم ہر نماز کے بعد ۳۳ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ ۳۳ دفعہ الْحَمْدُ لِلهِ اور ۳۴ دفعہ اللهُ اَكْبَرُ پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ دوسروں سے پہلے تمہیں جنت میں.جائے گا.یہ سن کر سب غرباء نے یہ پڑھنا شروع کر دیا.یہ نہیں کہا کہ ہم صرف فرائض ہی او کریں گے لیکن اس زمانہ کے امراء بھی نیکیوں میں ترقی کرنے کیلئے ہمیشہ ٹوہ میں رہتے تھے ان کو جب علم ہوا تو انہوں نے بھی یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا.اس پر غرباء آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللهِ ! ان کو رو کئے یہ بھی وہ وظیفہ پڑھنے لگے ہیں.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص خدا کی خوشنودی کیلئے کوئی کام کرتا ہے میں اسے کیسے روک سکتا ہ ہوں.پس یہ حقیقی اور عقلمند مؤمن تھے وہ شخص بھی مؤمن تھا اور بخشا ہوا مؤمن تھا جو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا مگر بیوقوف مؤمن تھا اس نے سمجھا کہ مجھے چھوٹی سے چھوٹی رحمت بھی مل جائے تو کافی ہے مگر عقلمند مؤمن کہتا ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ کیوں نہ لوں.پس نوافل اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں یعنی وہ عبادت جو انسان کی مرضی پر چھوڑ دی گئی ہو.نوافل ادا کرتے کرتے انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ
خطبات محمود ۷۲۴ سال ۱۹۳۶ صلى الله خدا تعالیٰ اُس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے، پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے، زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے، آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے ۵ ، غرضیکہ وہ دنیا میں خدا تعالیٰ کا ظہور اور بروز بن جاتا ہے.جس طرح بانسری میں سے بجانے والے انسان کی آواز نکلتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ بولتا اور دیکھتا ہے.جب اس کی نگاہ کسی چیز کو بُرا دیکھتی ہے تو خدا تعالیٰ بھی اُسے بُرا ہی کر دیتا ہے.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک شخص ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے سامنے کھڑا تھا وہ بالکل کنگال تھا ، اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور بال پریشان تھے.اُس کی پھوپھی پر ایک مقدمہ تھا جس کی حرکت سے اتفاقاً کسی کا دانت ٹوٹ گیا تھا.یہ غریب صحابی دوسرے فریق کی منتیں کر رہا تھا کہ میری پھوپھی نے شرارتاً ایسا نہیں کیا اتفاقاً ایسا ہوا ہے مگر دوسرا فریق مصر تھا کہ نہیں ضرور اُس کی پھوپھی کا دانت توڑا جائے گا.رسول کریم یہ بھی سمجھتے تھے کہ شرارتاً ایسا نہیں ہوا اس لئے آپ نے بھی سفارش کی مگر دوسرے فریق نے کہا کہ نہیں ہمارا حق ہے جو ہم ضرور لیں گے.جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کی سفارش کو بھی رد کر دیا تو اس صحابی کو جوش آ گیا اور اُس نے کہا خدا کی قسم ! میری پھوپھی کا دانت نہیں تو ڑا جائے گا.وہ غریب آدمی تھا اِس لئے اُس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں لڑوں گا اور تمہیں ایسا کرنے سے باز رکھوں گا.بلکہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں خدا تعالیٰ سے اپیل کروں گا.جب اس نے یہ قسم کھائی تو دوسرے فریق کے دل ڈر گئے اور وہی لوگ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی سفارش بھی نہ مانی تھی خود بخود کہنے لگے يَا رَسُولَ اللهِ !ہم نے معاف کر دیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا کا کوئی بندہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور جسم پر مٹی پڑی ہوتی ہے مگر جب وہ خدا تعالیٰ کے نام پر قسم کھا لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے ضرور پورا کر دیتا ہے ".یہی مطلب ہے اس کا کہ خدا تعالیٰ نوافل کے ذریعہ بندہ کی زبان بن جاتا ہے، آنکھیں بن جاتا ہے، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہے یعنی اخلاص کے ساتھ وہ جس طرف لگ جاتا ہے خدا تعالیٰ کے سب فرشتے اسی طرف لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہی ہو جو یہ چاہتا ہے اور یہ مقام نوافل کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے.پس میں نے چاہا کہ تمہارے لئے ایسا موقع بہم پہنچاؤں اور ایسی قربانیاں مقرر کروں جو
خطبات محمود ۷۲۵ سال ۱۹۳۶ تمہاری مرضی پر موقوف ہوں تا جو لوگ اپنی مرضی سے قربانیاں کریں خدا تعالیٰ ان کے ہاتھ ، پاؤں ، کان ، آنکھیں اور زبان بن جائے.چنانچہ اس شورٹی پر صدر انجمن کی مالی مشکلات دور کرنے کیلئے بھی میں نے اسی طرح نفلی چندے اور قرضے ہی مقرر کئے ہیں.اب تمہارا اختیار ہے کہ ان جانی و مالی قربانیوں کو اختیار کر کے قُرب الہی حاصل کرو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے ظہور اور بروز بن جاؤ.مگر میں اس موقع پر ایک اور بات سے بھی ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں بعض لوگ نادانی.قربانی کے بعد اس امید میں رہتے ہیں کہ ادھر وہ قربانی کریں اور اُدھر اُن کو دولت مل جانی چاہئے.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ دولت وہ ہے جو خدا تعالیٰ دے نہ کہ جو وہ خود تجویز کریں.ایسے لوگوں کے حال پر مجھے ہمیشہ ایک لطیفہ یاد آتا ہے.کہتے ہیں کہ کوئی میراثی اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ سودا کرنے کا شائق تھا جب کبھی کوئی اُسے نماز کیلئے کہتا وہ یہی جواب دیتا کہ کیا ملے گا؟ ایک دفعہ ایک مولوی نے اُسے وعظ کیا کہ نماز پڑھا کرو.تو اُس نے یہی سوال کر دیا کہ کیا ملے گا ؟ مولوی صاحب نے اُسے روحانیت کی طرف مائل کرنے کیلئے کہا کہ نور ملے گا.اس پر وہ نماز کیلئے تیار ہو گیا مولوی صاحب نے اُسے موٹے موٹے مسائل سمجھا دیئے اور تیمّم کا مسئلہ بھی بتا دیا.فجر کی نماز کے وقت اُس نے بیوی سے کہا کہ اُٹھا تو جاتا نہیں تیمم کر کے بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لیتا ہوں نماز پڑھ کر کچھ دیر کیلئے وہ سو گیا جب صبح اٹھا تو اسی قسم کے جلد بازوں کی طرح فوری انعام کا امیدوار ہوا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ بیوی ذرا اُٹھ کر دیکھو تو میرے چہرے پر کوئی نور ہے یا نہیں ؟ بیوی نے دیکھا تو کہنے لگی کہ کچھ ہے تو سہی.اُس نے پوچھا کہ نور کیسا ہوتا ہے؟ اُس نے کہا کہ کچھ کالا کالا معلوم ہوتا ہے.بات یہ تھی کہ اُس نے اندھیرے میں تیمم کرنے کیلئے توے پر ہی ہاتھ مار دیا تھا اور اُس کی سیاہی چہرے پر لگی ہوئی تھی جب اس نے بیوی کا جواب سنا تو اپنے ہاتھ دیکھے اور انہیں بالکل سیاہ پایا کیونکہ توے کی سیاہی پہلے انہی کو گی تھی.انہیں دیکھ کر وہ بیوی سے کہنے لگا اگر نور کالا ہوتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر وہ گھٹا باندھ کر آیا ہے.تو ایسے نادان لوگ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور دنیوی نعمتوں کا نام فضل رکھتے ہیں حالانکہ اصل نعمت وہ ہے جوموت کے بعد ملتی ہے.
خطبات محمود ۷۲۶ سال ۱۹۳۶ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم دنیا میں بھی اپنے بندوں کو ذلیل نہیں ہے رکھتے اور جب چاہتے ہیں بادشاہت بھی دے دیتے ہیں مگر بادشاہت قومی ہوتی ہے انفرادی نہیں.مسلمانوں کو جب بادشاہت ملی تو سارے ہی عمر اور عثمان نہیں بن گئے تھے.غریب مسلمان اُس وقت بھی موجود تھے اگر نہیں تھے تو زکوۃ کے ملتی تھی اور صدقات رکن کو دئیے جاتے تھے.تو ڈ نیوی اموال کا وعدہ قومی طور پر ہوتا ہے انفرادی وعدے ایسے ہوتے ہیں کہ مثلاً رمضان کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز کیلئے انعام ہوتے ہیں مگر روزے کا انعام میں خود ہوں.اب کوئی بد بخت روزے رکھ کر اگر یہ سمجھے کہ میری تنخواہ پانچ سے چھ روپے ماہوار ہو جانی چاہئے تو وہ کتنا ہی نادان ہوگا.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں خود ا سے مل جاتا ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں مجھے آپ کی ضرورت نہیں آپ اپنے گھر میں رہیں اور مجھے صرف ایک روپیہ ماہوار مل جائے.اس کی مثال ہے صرف ایسی ہے کہ جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ڈپٹی کمشنر کہیں سفر پر جارہا تھا اس سے کسی فقیر نے سوال کیا اور اس نے اسے دو چار آنے دے دیئے.فقیر لوگوں کو چونکہ پولیس کے سپاہیوں سے ہی واسطہ زیادہ تر پڑتا ہے وہ ایک جگہ بھیک مانگتے تو پولیس والے وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف بھیج دیتے ہیں ، وہاں جاتے ہیں تو دوسرا سپا ہی وہاں سے بھی اُٹھا دیتا ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کے افسر ہی سب سے بڑے ہوتے ہیں.اسی اثر کے ماتحت اُس نے خوش ہو کر اس ڈپٹی کو دعا دی کہ رب تینوٹھانے دار کرے.یعنی خدا تعالیٰ تجھ کو تھانے دار بنائے جو الفاظ اس محسن کے حق میں بددعا تھے دعا نہ تھے.تو ان بیوقوفوں کی مثال بھی ایسی ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ روزے کے بدلہ میں میں خود مل جاتا ہوں مگر وہ کہتے ہیں نہ حضور ایک روپیہ مہینہ ہی ہمیں دے دیں.اگر اللہ تعالیٰ روپیہ بھی دیتا ہے تو دے اس کے فضلوں کو کون روک سکتا ہے مگر دنیوی وعدے جماعتی ہوتے ہیں انفرادی نہیں.یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں کہ ہم تمہیں دولت دیں گے یہ ہے کہ ہم تمہاری قوم کو بادشاہت دیں گے.تم اگر تحریک جدید پر عمل شروع کر دو تو آج کل یا پرسوں نہیں جب خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی تمہاری قوم کو ضرور بادشاہت مل جائے گی.دیکھو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے تین سو سال کے بعد ایک محدود بادشاہت دی تھی مگر آنحضرت ﷺ کو پندرہ بیس سال میں ہی
خطبات محمود ۷۲۷ سال ۱۹۳۶ ایک وسیع بادشاہت عطا فرما دی.پس اللہ تعالیٰ بحیثیت قوم تم کو بھی یقیناً با دشاہت دے گا لیکن اس کے وقت کا علم خدا تعالیٰ کو ہی ہے ہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مسیح کی قوم کو جس سرعت سے ترقی ملی تھی اس سے بہت زیادہ سرعت سے ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اور پھر جو ہم سے وعدے ہیں وہ پہلے مسیح سے بہت زیادہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سو سال کے اندر جماعت احمد یہ سب دنیا پر غالب آجائے گی اور اس کے مخالف صرف چوہڑے اور چماروں کی طرح کمزور اور قلیل التعداد ہو جائیں گے مگر یہ بادشاہت قومی ہوگی.لیکن خدا تعالیٰ کا قرب ہر شخص حاصل کر سکتا ہے دنیا چھوٹی ہے اس لئے ہر ایک کو نہیں مل سکتی مگر خدا بڑا ہے اس لئے ہر شخص اسے پاسکتا تھی ہے کیا تم جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہو پانی کے ایک گلاس سے سیر ہو سکتے ہو؟ ہر گز نہیں لیکن دریائے اٹک سے سب اپنی پیاس بجھا سکتے ہو اور خدا تعالیٰ کی وسعت کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں.پس دنیا ایک متاع قلیل ہے اور ٹنڈ یا کوزے کا پانی ہے اسے اگر تقسیم کرو گے تو کسی کا بھی پیٹ نہیں بھرے گا.پس جو وعدہ ہر شخص سے ہے وہ دنیا کا نہیں وہ روحانی وعدہ ہے.دُنیوی وعدہ صرف قومی وعدہ ہے پس جو اِس لئے قربانی کرتا ہے کہ اُسے دولت مل جائے وہ نادان ہے اور اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنی کی طرف مائل ہوتا ہے.پس اس نکتہ کو سمجھ کر قربانی کرو تا کوئی ٹھوکر نہ لگے اور اس میراثی کی مثال نہ بن جاؤ.ٹھوکریں ہمیشہ ایسے ہی خیالات سے لگتی ہیں کہ مجھے فلاں خطاب نہیں ملا، میرے لڑکے کو فلاں عہدہ نہیں ملا، یہ رشتہ نہیں ہوا، فلاں شخص سے ہمارا جھگڑا تھا وہ ہمارے حق میں فیصلہ نہیں ہوا.لیکن جس شخص کی نیت ہی خدا کو ملنے کی ہوا سے ابتلاء کس طرح آسکتا ہے اُس کے پاس تو جب کوئی منافق جا کر کہے کہ تمہیں دنیوی دولت نہیں ملی تو وہ کہتا ہے کہ میں نے مانگی ہی کب تھی.جب اُسے کہا جائے کہ تمہارے ساتھ فلاں رعایت نہیں کی گئی تو وہ کہتا ہے کہ میں نے کی اس کی خواہش ہی کب کی تھی مجھے تو صرف خدا سے ملنے کی خواہش تھی اور وہ مجھے ملا ہوا ہے.ایسے شخص کو ابتلاء نہیں آسکتا.ابتلاء ہمیشہ اُسے ہی آتا ہے جو بظاہر تو خدا خدا پکارتا ہے مگر اس کے دل سے دنیا دنیا کی صدائیں نکل رہی ہوتی ہیں.پس اگر تم خدا کے ہو جاؤ اور اُسے اپنا مقصود قرار دے کر قربانیاں کرو تو ساری دنیامل کر بھی تمہارے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا نہیں کر سکتی اور تم اس چیز کے مستحق ہو سکتے ہو جس کے مقابل میں کوئی اور چیز نہیں رکھی جاسکتی.
خطبات محمود ۷۲۸ سال ۱۹۳۶ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو مکہ کے لوگ آپ کے پاس آئے جن کی نگا ہیں بوجہ ایمان سے پوری طرح روشناس نہ ہونے کے ابھی دنیا ہی کی طرف تھیں اس کے بعد کی ایک جنگ میں کچھ اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے آنحضرت ﷺ نے وہ اموال ان لوگوں میں تقسیم کر دئیے.ایک انصاری نوجوان نے کسی مجلس میں کہا کہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے.آپ کو اس کا علم ہوا تو ا کا بر انصار کو بلا یا اور دریافت کیا کہ مجھے ایسی بات پہنچی ہے.انصار رو پڑے اور کہا کہ کسی نادان نے کی ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں اے انصار ! تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد(ﷺ) کو اس وقت جگہ دی جب اسے کوئی جگہ نہ دیتا تھا اور اس کے شہر والوں نے اسے نکال دیا تھا پھر اس کیلئے عزت اور فتح مندی حاصل کی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں کو بانٹ دیئے.اس پر انصار کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے پھر کہا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! ہم ایسا نہیں کہتے.پھر آپ نے فرمایا کہ تم اسی بات کو ایک اور طرح بھی کہہ سکتے ہو اور وہ اس طرح کہ جس شخص کو خدا نے تمام دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث کیا وہ ای مکہ کی چیز تھی مگر خدا اُسے مدینہ میں لے گیا اور پھر خدا نے اپنے زور اور طاقت سے مکہ کو اُس کیلئے فتح کیا.اُس وقت مکہ والوں کا خیال تھا کہ ان کی چیز انہیں مل جائے گی مگر مکہ والے بھیڑ اور بکریوں کی کو لے گئے اور مدینہ والے خدا کے رسول کو لے کر اپنے شہر کی طرف چلے گئے.پھر آپ نے فرمایا کی بے شک یہ بات ایک نادان کے منہ سے نکلی ہے مگر اس کی وجہ سے اب تمہیں اس دنیا کی حکومت نہیں مل سکتی.اب تمہاری خدمات کا بدلہ تمہیں حوض کوثر پر ہی ملے گا ہے.دیکھ لو تیرہ صدیاں کی گزرچکی ہیں اور چودھویں صدی گزر رہی ہے اس عرصہ میں ہر قوم ہی اسلام کی بدولت بادشاہ بنی ہے ہے مگر کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہو سکا.سو بعض اوقات ایک شخص کا قول ساری قوم کیلئے نقصان کا موجب ہوسکتا ہے.پس وہ جو قربانی اس لئے کرتے ہیں کہ کوئی عہدہ ملے یا دولت ملے وہ ہرگز میری آواز پر لبیک نہ کہیں.ایسے لوگ میرے مخاطب نہیں ہیں میرے مخاطب وہ ہیں جو میرے لئے نہیں بلکہ خدا کیلئے قربانی کرتے ہیں.جو میرے لئے قربانی کرتا ہے وہ ہرگز ایسا نہ کرے کیونکہ میں تو خود کمزور اور بیمار ہوں کسی کا احسان نہیں اُٹھا سکتا میرے نا تواں کندھے اس بوجھ کی برداشت نہیں کر سکتے.
خطبات محمود ۷۲۹ سال ۱۹۳۶ پس میں اپنے لئے نہیں مانگتا اور نہ ہی اس کی مجھے عادت اور ہمت ہے جو خدا کیلئے دیتا ہے وہ دے اور اس کا بدلہ خود خدا ہو گا.خدا پر ہی اسے تو کل رکھنا چاہئے اگر وہ چاہے تو اسے دنیا کی بھی دے دے اور چاہے تو انعام آخرت پر ملتوی رکھے.بہر حال جو اخلاص سے قربانی کرتا ہے اُس کی قربانی ضائع نہیں جاتی.زمین مٹ سکتی ہے ، آسمان مٹ سکتا ہے، سورج مٹایا جا سکتا ہے مگر خدا کے بندہ کا خدا کیلئے ڈالا ہوا دا نہ کبھی ضائع نہیں جا سکتا وہ ضرور نکلتا ہے خواہ اس دنیا میں نکلے اور خواہ آخرت میں.مؤمن کی قربانی کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا پس میرے مخاطب وہی ہیں جو خدا کیلئے قربانی کرتے ہیں نہ کہ میرے لئے اور قربانی کرتے وقت خدا کو مدنظر رکھتے ہیں نہ کہ دنیا کو.ان کو بشارت ہو کہ ہر شخص اپنی قربانی اور ایثار کے مطابق بدلہ لے گا خدا تعالی کسی کا قرض نہیں رہنے دیتا وہ ضرور اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی روحانی رنگ میں بھی اور عرفانی رنگ میں بھی ، تقویٰ کے رنگ میں بھی اور قوت عمل کے رنگ میں بھی ضرور بدلہ دے گا.یہ وہی بہتر جانتا ؟ ہے کہ کسے کس رنگ میں بدلہ دینا مفید ہو سکتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ بعض لوگوں کیلئے علم اور بعض کیلئے مال اور بعض کیلئے اطمینانِ قلب ٹھو کر کا موجب ہو جاتا ہے.پس وہ کیوں اپنے بندے کو ٹھو کر دے.نادان سمجھتا ہے کہ اگر اسے ایک خاص صورت میں انعام نہیں ملا تو اسے کچھ نہیں ملا حالانکہ اس کیلئے اس صورت میں انعام کا نہ ملنا ہی انعام کا ملنا ہوتا ہے.( الفضل ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۳۶ء) بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب تحرى ليلة القدر في الوتر (الخ) ے بخاری کتاب الدعوات باب ما يقول اذا اتى اهله سے بخاری کتاب الایمان باب الزكوة من الاسلام جلد ا صفحه ۲۶۴ بیروت ۱۹۷۸ء.مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۴۳ بیروت ۱۹۹۴ء مسلم كتاب المساجد باب استحباب الذكر بعد الصلوة ه بخاری کتاب الرقاق باب التواضع بخاری کتاب الصلح باب الصلح في الدِّيَة صلى الله کے بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبي عليه يعطى المؤلفة (الخ)
خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۳۶ رمضان کی دوراتوں میں تمام احمدی متحدہ طور پر صرف دو دعائیں مانگیں (فرموده ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۶ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے مکان دینے اور اپنی خدمات پیش کرنے کی تحریک مجھے ناظم صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ دوست جلسہ سالانہ کی خدمات کیلئے بھی اپنے آپ کو کم پیش کر رہے ہیں اور مکان بھی کم دے رہے ہیں.جلسہ اب ایک اتنی پرانی چیز ہو گیا ہے اور اس کی متعلقہ خدمات اور قربانیاں اتنے سالوں سے چلی آتی ہیں کہ ایمان کا سوال اگر نہ رکھا جائے تو عادت کے باعث بھی اس کیلئے کسی کو یاد کرانے کی ضرورت نہیں رہتی.لوگ حقہ پیتے ہیں ، افیون کھاتے ہیں ، چرس پیتے ہیں ، چانڈو اُڑاتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد اس کی انہیں عادت ہو جاتی ہے کہ چاہے لوگ انہیں روکیں ، چاہے دوست انہیں منع کریں، چاہے ڈاکٹر انہیں ڈرائیں، پھر بھی آپ ہی آپ ان کا ہاتھ اس چیز کی طرف بڑھ جاتا ہے.جب چند روزہ استعمال کے نتیجہ میں وہ افیون کا وقت خالی جانے نہیں دیتے ، نہ گانجے کا وقت خالی جانے دیتے ہیں، نہ تھے کا وقت خالی جانے دیتے ہیں، نہ چانڈو کا وقت خالی جانے دیتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا نیکی ہی ایسی کمزور چیز ہے کہ اس کی عادت نہیں پڑسکتی.میں تو سمجھتا ہوں اخلاص اور ایمان کے علاوہ عادت
خطبات محمود ۷۳۱ سال ۱۹۳۶ کے باعث ہی جو نبی دسمبر آ جائے دوستوں کے دلوں میں بے چینی پیدا ہونی شروع ہو جانی چاہئے کہ چالیس سالہ پرانی عادت کے مطابق اب ان کیلئے اپنے مکان خالی کرنے اور اپنی خدمات جلسہ سالانہ کیلئے پیش کرنے کا وقت آگیا ہے مگر وہ عادت پوری کیوں نہیں ہوتی.جس طرح ایک نشئی کو اباسیاں آنے لگتی ہیں اسی طرح چاہئے کہ ہمارے دوستوں کو بھی جلسہ سالانہ کے قرب کے ایام میں اباسیاں آنے لگیں.پس میرے لئے یہ بات ماننی ذرا مشکل ہے کہ دوست اپنے مکان خالی نہیں کرتے یا مہمانوں کیلئے اپنی خدمات پیش نہیں کرتے اس لئے میں سمجھتا ہوں شاید وہی بات کی ہے کہ افیونی اپنی ڈبیہ بھول جاتا ہے اور مکان لینے والے اچھی طرح تمام لوگوں کے پاس نہیں کی پہنچے.وگر نہ ایمان کے ماتحت تو اس قسم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا بلکہ کامل ایمان تو بڑی چیز ہے ایک منافق کے ایمان کے متعلق ہی آتا ہے کہ اُس نے رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ادعا کیجئے میں بڑا دولتمند بن جاؤں کیونکہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں خوب صدقے دیا کروں.رسول کریم ﷺ نے اُس کیلئے دعا کی اور وہ بڑا دولت مند ہو گیا ہزاروں اونٹ اور ہزاروں بکریاں اُس کے پاس جمع ہو گئیں اور یہی اُس زمانہ کی دولت تھی.اب جو اُس پر زکوۃ فرض ہوئی تو رسول کریم ﷺ کا مقرر کردہ آدمی اُس کے پاس زکوۃ لینے گیا چونکہ ایمان اُس کے دل میں نہیں تھا صرف اُس کا نفس اُسے یہ دھوکا دے رہا تھا کہ اگر مجھے دولت حاصل ہو جائے تو میں صدقے دیا کروں اس لئے جب ایک آدمی زکوۃ لینے اُس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہر وقت انہیں چندوں کی پڑی رہتی ہے کبھی کہتے ہیں صدقہ دو، کبھی کہتے ا ہیں اتنی زکوۃ دو، کبھی کہتے ہیں اتنا چندہ دو، ہمارا اپنا گزارہ ہی مشکل سے چلتا ہے اونٹوں اور گھوڑوں کو دانہ ڈالنا پڑتا ہے، نوکروں کو مزدوری دینی پڑتی ہے اور بہت سے اخراجات ہیں جو پورے ہونے میں نہیں آتے لیکن انہیں ہر وقت چندوں کی فکر رہتی ہے اور کہتے ہیں کہ لاؤ چندہ اب تم پر زکوۃ فرض ہو گئی ہے.اب فلاں مقصد کیلئے روپیہ چاہئے وہ شخص یہ باتیں سن کر واپس آگیا اور اُس نے رسول کریمہ سے آکر کہہ دیا کہ وہ کہتا ہے کہ ہم کہاں سے دیں ہر وقت چندہ چندہ پکارا جاتا ہے.آپ نے فرمایا بہت اچھا آئندہ اُس سے کوئی زکوۃ اور صدقہ قبول نہ کیا جائے.چونکہ اُس شخص کا دل گلی طور پر نہیں مرا ہو ا تھا اس لئے جب اُسے معلوم ہوا کہ بجائے اس کے رسول کریم ﷺ صلى الله
خطبات محمود ۷۳۲ سال ۱۹۳۶ بطور سزا اُس سے ڈیوڑھا یا دو گنا چندہ وصول کرتے آپ نے یہ حکم دے دیا کہ آئندہ اس شخص سے کوئی صدقہ قبول نہ کیا جائے اس پر اُس کے دل نے محسوس کیا کہ در حقیقت میراد بنا لینا تھا اور میں نے غلطی کی جو اس قسم کا جواب اسے دیا.چنانچہ اگلے سال وہ بہت سی زکوۃ اکٹھی کر کے رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں یہ صدقہ لایا ہوں.آپ نے فرمایا نہیں اب تم سے یہ مال قبول نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اُس سے زکوۃ قبول نہ کی گئی ، آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب اہل عرب نے ارتداد اختیار کیا زکوۃ کی وصولی کے متعلق لڑائیاں ہوئیں اور پھر دوبارہ اہل عرب اسلام میں داخل ہوئے تو اُس شخص نے نی سمجھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میری زکوۃ بھی قبول ہو چنانچہ وہ پھر اپنے اونٹوں اور بھیڑوں اور بکریوں کا بہت سا گلہ جو گزشتہ اور موجودہ زکوۃ پر مشتمل تھا لے کر حضرت ابو بکر کی خدمت میں کی حاضر ہوا مگر انہوں نے فرمایا جس چیز کو خدا کے رسول نے قبول نہیں فرما یا ابو بکر بھی اسے قبول نہیں کر سکتا.حدیثوں میں آتا ہے کہ ہر سال وہ زکوۃ دینے کیلئے اتنا بڑا گلہ لاتا کہ میدان اُس سے بھر جا تا مگر خلفاء اُس کا مال لینے سے انکار کر دیتے اور وہ روتا ہوا گھر چلا جاتا.یہ شخص کامل مؤمن نہیں تھا کیونکہ اگر کامل مؤمن ہوتا تو رسول کریم ﷺ کے پیغامبر کو وہ کیوں یہ جواب دیتا کہ ان کو ہر وقت چندوں کی ہی پڑی رہتی ہے مگر اس کے دل میں جو تھوڑا بہت ایمان تھا اس کے باعث و ہر سال آتا تھا کہتا تھا کہ میری زکوۃ قبول کی جائے.پس میں تو یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ منتظمین جلسہ سالانہ میں سے کوئی شخص ہماری جماعت کے مخلص لوگوں کے پاس گیا ہو اور سچ سچ حقیقت بیان کی ہو اور انہوں نے کہہ دیا ہو کہ ہم مکان کی دینے کیلئے تیار نہیں.میں تو سمجھتا ہوں شاید مکانوں والے منتظمین کے پیچھے پھر رہے ہوں گے اور نے کہتے ہوں گے ہمارے مکان لیتے کیوں نہیں.پس میں تو منتظمین کی ہی ملامت کروں گا اور کہوں گا کہ ان کے کام میں کچھ نقص ہے اور انہوں نے صحیح طور پر کوشش نہیں کی ورنہ ہر مکان میں ہر سال کچھ نہ کچھ مہمان ٹھہرتے اور ہر سال لوگ مکان دیتے اور ہر سال اپنی خدمات بھی پیش کرتے ہیں اور اب تو نیشنل لیگ کو ر بھی قائم ہو چکی ہے جس کے والنٹیئروں نے حلفیں اُٹھائی ہوئی ہیں کہ وہ سلسلہ کی خدمت کریں گے آخر یہ حلف انہوں نے مکھن لگا لگا کر چاٹنی تو نہیں اس کی کوئی نہ کوئی
خطبات محمود ۷۳۳ سال ۱۹۳۶ غرض ہونی چاہئے اور وہ غرض یہی ہے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کریں.غرض میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شخص میں کوئی کمزوری ہے تو میرا اتنا کہنا ہی اس کیلئے کافی ہے اور اگر افسروں نے کمزوری دکھائی ہے تو انہیں چستی سے کام کرنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ یہ کام آخر ہو جائے گا.میں نے متواتر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ بہت سا کام طوعی طور پر لوگوں سے لینا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طریق کو اختیار فرمایا تھا اور آج ہی کے الفضل میں وہ حوالہ چھپا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تحریر فرمایا ہے کہ میں معتین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ مقرر نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں کہنے کی مجبوری کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.تو کارکنوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طوعی طور پر کام کرنے کا موقع دیا کریں اور تحریص اور ترغیب سے کام لیا کریں.مؤمن در حقیقت زیادہ ترغیب کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے صرف اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور اس اشارہ کو سمجھ کر وہ ایسے جوش سے کام کرتا ہے کہ بعض لوگوں کو دیوانگی کا شبہ ہونے لگتا ہے.اسی لئے جتنے کامل مؤمن دنیا کی میں ہوئے انہیں لوگوں نے پاگل کہا ہے.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے میرے اُستاد ہوا کرتے تھے مولوی یار محمد صاحب ان کا نام تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص ہو گیا تھا مگر یہ نقص اُن کا اِس رنگ کا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا محبوب اور اپنے آپ کو عاشق سمجھتے تھے اسی عشق کی وجہ سے وہ خیال کرنے لگے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پسر موعود اور مصلح موعود بنادیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ بات کرتے کرتے بعض دفعہ جوش میں اپنی رانوں کی طرف یوں ہاتھ کو لاتے جس طرح کی کسی کو بلایا جاتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی رنگ میں جوش سے کچھ کلمات فرمارہے تھے کہ مولوی یار محمد صاحب کو دکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا بیٹھے بعد میں کسی نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ تو وہ کہنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں - اشارہ کیا تھا اور یہ اشارہ میری طرف تھا کہ تم آگے آجاؤ چنانچہ میں گو دکر آگے آگیا.یہ دیوانگی تھی مگر بعض رنگ کی دیوانگی بھی اچھی ہوتی ہے آخر ان کی یہ دیوانگی بغض کی طرف نہیں گئی بلکہ محبت کی طرف گئی پس محبت کا دیوانہ غیر اشارہ کو بھی اپنے لئے اشارہ سمجھ لیتا.
خطبات محمود ۷۳۴ سال ۱۹۳۶ پھر جو قوم خدا تعالیٰ کی محبت کا دعوی کرنے والی ہو وہ صحیح اشارہ کو کیوں نہیں سمجھ سکتی.کیا ہماری جماعت کے دیوانوں کی وہ محبت جو وہ سلسلہ سے رکھتے ہیں مولوی یار محمد صاحب جتنی بھی نہیں کہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رانوں پر آہستگی سے ہاتھ مارا اور انہوں نے سمجھا کہ مجھے بلا رہے ہیں.یا درکھو ہر چیز کی زکوۃ ہوا کرتی ہے انسان کے جسم کی بھی زکوۃ ہے، انسان کے مکان کی بھی زکوۃ ہے اور زکوۃ کے بغیر کوئی چیز پاک نہیں ہوسکتی.اور زکوۃ کی ایک دفعہ ادا ئیگی خدا تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمائی بلکہ ہر سال ادا کرنے کا حکم ہے حتی کہ قرآن کریم نے یہ زکوۃ بھی مقرر کر دی کہ جب کوئی تمہارا پھل تیار ہو یا غلہ تیار ہو تو اُس میں سے اُسی دن جس دن غلہ کا ٹو یا پھل اُتارو کچھ خدا کے بندوں کیلئے بھی الگ کر لو.تو شریعت نے ہماری ہر چیز کی زکوۃ مقرر کی ہے کیونکہ در حقیقت اسلامی مسئلہ ہے ہی یہی کہ دنیا کی ہر چیز سارے بندوں کی ہے.پس جب تک باقی بندوں کیلئے حصہ نہ نکال لیا جائے وہ چیز پاک نہیں ہوتی بھلا خدا تعالیٰ نے زمین آسمان ، سورج چاند ، ستار - اور سیارے اپنے تمام بندوں کیلئے پیدا کئے ہیں یا صرف ہمارے لئے.پھر جبکہ تمام بندوں کیلئے ہیں تو گویا یہ شاملات ہے اور شاملات پر جو شخص قبضہ کرے وہ گاؤں والوں کو مٹھائی بھی کھلاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے میں اس چیز پر قبضہ کرنے لگا ہوں جس پر تمہارا بھی حق ہے.پس ہر چیز جو ہمارے پاس ہے وہ صرف ہماری نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم باقی دنیا کا اس میں سے حصہ نکالیں ورنہ ہمارا قبضہ جابرانہ ہوگا اور جابرانہ قبضہ کی سزا ہوا کرتی ہے.جب انسان زکوۃ دیتا رہتا ہے تو خدا تعالیٰ کہتا ہے یہ میرا بندہ اس چیز کا کرایہ دیتا ہے اسے رہنے دو لیکن جب وہ زکوۃ نہیں دیتا تو خدا تعالیٰ کہتا ہے یہ اب کرا یہ نہیں دیتا اسے نکال دو.یہ مت خیال کرو کہ دنیا میں ایسی قومیں بھی موجود ہیں جو کرائے نہیں دیتیں.کیا تم نہیں جانتے کہ بنئے نے جسے تباہ کرنا ہوتا ہے اس سے وہ اپنائو دوصول نہیں کرتا بلکہ اس کی طرف رہنے دیتا ہے.ابھی فیروز پور میں ایک مقدمہ ہوا ہے ایک شخص نے ۸۴ روپے سود پر قرض لئے.۶۴ روپے کے بدلہ میں اُس نے اپنی زمین گرو رکھ دی اور ۲۰ روپیہ کے بدلے میں اُس نے کہا کہ میں چھ روپے سالا نہ سود دیا کروں گا لیکن اس نے سود نہ دیا اور یہ خیال کرتا رہا کہ ہمیں روپے ہی ہیں کسی وقت
خطبات محمود ۷۳۵ سال ۱۹۳۶ دے دوں گا اور بنئے نے بھی اس سے تقاضا نہ کیا.اب اُس نے اس شخص پر دولاکھ بیس ہزار روپیہ کی نالش کی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ سو داکٹھا ہوتا گیا اور اس نے اپنی نادانی سے سمجھا کہ بنیا مجھ سے رعایت کر رہا ہے.تو بعض بیوقوف یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے فلاں شخص کو چونکہ نہیں پکڑا اس لئے اس بدی کے کر لینے میں کوئی حرج نہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کے پاس اُس کا سو د جمع ہورہا ہوتا ہے اور کسی دن اُس پر اکٹھی نالش ہوگی.لیکن مؤمن کو خدا تعالیٰ جلدی سزا دے دیتا ہے تا کہ زیادہ سزا اس کیلئے جمع نہ ہو جائے.مثلاً اگر تمیں چالیس روپے سُود کے جمع ہوتے ہی بنیا نالش کر دیتا تو اسے زیادہ سزا نہ ملتی لیکن اس نے سُود اس کے پاس جمع ہونے دیا تا کہ زیادہ سزا دلائی جا سکے.تو اللہ تعالیٰ کا مؤمن سے یہ سلوک ہوتا ہے کہ وہ اُسے جلدی سزا دے دیتا ہے لیکن غیر مؤمن سے یہ سلوک نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ اُسے سزا میں ڈھیل دیتا جاتا ہے تا کہ اُس پر زیا د عذاب نازل کرے.لیلۃ القدر کے متعلق ارشاد اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب رمضان خاتمہ پر ہے اور کل کا جو روزہ ہے اس میں شبہ ہے یعنی صحیح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ چھبیسواں ہے یا ستائیسواں کیونکہ بعض جگہ روزہ پہلے رکھا گیا ہے اس لئے گویا کل اور پرسوں دونوں دن رمضان کی ستائیسویں ہو سکتی ہے.کل ستائیس تاریخ ان لوگوں کی ہے جنہوں نے چاند کو دیکھ کر ایک دن پہلے روزہ رکھا اور پرسوں ستائیسویں ہمارے لحاظ سے ہے.ہمارے ملک کی مثال ہے کہ ” جوگی بھلا دو نالا بھے یعنی کوئی جوگی بھول کر کسی اور کے مکان پر چلا گیا تو اُس مکان والوں نے اُس کی خوب خاطر تواضع کی وہاں سے نکلا تو بھول کر کسی اور کے گھر چلا گیا وہاں بھی اس کی خوب خاطر تواضع ہوئی.غرض جتنا جتنا وہ گھر بھول کر کسی اور کے گھر میں داخل ہوتا اُتنی ہی زیادہ اس کی خاطر تواضع کی جاتی کیونکہ لوگ سمجھتے کہ اس نے خدا کیلئے دنیا کو چھوڑا ہوا ہے آؤ اس کی 66 خدمت کر کے ثواب حاصل کریں.اسی طرح مؤمن بھی بھولتا ہے تو دو نالا بھ والی مثال اُس پر صادق آتی ہے.اب گویا رمضان کی دوستائیس تاریخیں ہمارے لئے جمع ہوگئی ہیں.رمضان کی ستائیس تاریخ کو بالعموم روحانی علماء لیلتہ القدر قرار دیتے ہیں اور جب مؤمن بھول جاتا ہے اور وہ یہ خیال کر کے کہ ممکن ہے جسے میں چھپیں تاریخ سمجھتا ہوں وہ ستائیس ہو یا ممکن ہے ستائیس ہی
خطبات محمود ۷۳۶ سال ۱۹۳۶ اصل تاریخ ہو ، چھپیں اور ستائیس دونوں راتوں میں خاص طور پر عبادت کرتا ہے تو اُس مؤمن کی دولیلۃ القدر ہو جاتی ہیں.ان دو لیلۃ القدر کے متعلق میں اس وقت جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہی ہوں.مجھے افسوس ہے کہ میری آواز بیرونی دوستوں تک نہیں پہنچ سکے گی لیکن اگر ” الفضل والے احتیاط سے بغیر مجھے دکھائے ہی آج کا خطبہ شائع کردیں اور صبح لوگوں کو پہنچ جائے تو بیرونی جماعتوں کے دوست بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی بعید بات نہیں وہ ستائیس کی لیلۃ القدر کو اٹھائیس اور انتیس میں بھی تبدیل کر سکتا ہے.وہ بات جو ان دو دنوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اپنی صحت کیلئے ، اپنی ترقیات کیلئے ، اپنے بچوں کیلئے ، اپنی بیوی کیلئے ، اپنے رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کیلئے ، اسی طرح قرضوں کے انے کیلئے ، مقدمات میں کامیاب ہونے اور آفات سے محفوظ رہنے کیلئے بالعموم دعا کرتے رہتے ہیں لیکن دعا کا ایک طریق یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ ایک ہی مقصد و مدعا کیلئے انسان دعا کرنے میں مشغول ہو جائے اور وہ اسی طرح دعا کرے جس طرح حضرت یونس علیہ السلام کے وقت میں لوگوں نے دعا کی تھی.حضرت یونس علیہ السلام نے جب نینوا کے لوگوں پر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی کی تو جو وقت عذاب نازل ہونے کیلئے مقرر تھا اُس وقت تک وہ شہر سے باہر نکل کر عذاب کا انتظار کرتے رہے.جب عذاب کی میعاد پر دو چار دن گزر گئے تو انہوں نے بعض لوگوں سے پوچھا کہ علاقے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے بتایا کہ سب راضی خوشی ہیں.حضرت یونس علیہ السلام یہ سن کر کچھ شرمندہ سے ہوئے اور انہوں نے سمجھا اب میرا وہاں واپس جانا لوگوں کیلئے کیا ہدایت کا موجب ہو سکتا ہے بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ چلا جاؤں.چنانچہ وہ اُس جگہ کو چھوڑ کر چل پڑے اور کسی دوسرے علاقہ میں جانے کیلئے جہاز پر سوار ہو گئے.اتفاق سے سمندر میں سخت طوفان آ گیا.اُس زمانہ کے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ سمندر میں طوفان اس لئے آتا ہے کہ جہاز پر کوئی غلام بھاگ کر سوار ہوتا ہے اس عقیدہ کے ماتحت اُنہوں نے دریافت کیا کہ کیا کوئی غلام بھاگ کر یہاں آیا ہے؟ مگر کسی نے نہ مانا.آخر انہوں نے قرعہ ڈالا تو حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا مگر اُن کو حضرت یونس کی شکل دیکھ کر خیال آیا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا اگر یہ بھاگا ہوا غلام ہوتا تو خود بخود بتا دیتا.معلوم ہوا قرعہ صحیح نہیں پڑا.چنانچہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے تین
خطبات محمود ۷۳۷ سال ۱۹۳۶ دفعہ قرعہ ڈالا اور تینوں دفعہ انہی کا نام نکلا.آخر وہ حضرت یونس علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ ہیں تو راستباز انسان مگر تین دفعہ قرعہ میں آپ کا ہی نام نکلا ہے معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ سُن کر حضرت یونس علیہ السلام کا ذہن بھی اس طرف منتقل ہو گیا اور کہنے لگے میں ہی خدا کا غلام ہوں جو بھاگ کر آیا ہوں آخر انہوں نے آپ کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا تا کہ ہماری بلا دور ہو اور طوفان تھمے.حضرت یونس علیہ السلام جب سمندر میں گرے تو انہیں ایک بڑی مچھلی نگل گئی جس نے بعد میں انہیں خشکی پر اُگل دیا اس صدمہ کی وجہ سے کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں بیہوش رہے اور کھانے کو کچھ نہ ملا وہ بہت کمزور ہو چکے تھے.ساحل پر جہاں مچھلی نے انہیں اگلا ایک بہت بڑی بیل اُگی ہوئی تھی حضرت یونس علیہ السلام سرک کر اُس کے سایہ کے نیچے لیٹ گئے لیکن جب انہیں کچھ طاقت حاصل ہوئی تو اُس بیل کو کیڑے نے کاٹ دیا اور وہ خشک ہوگئی.حضرت یونس علیہ السلام کو یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی اور اُس کے دل میں خیال آیا کہ کمبخت کیڑے نے بیل کو خراب کر کے مجھے تکلیف میں ڈال دیا.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہی وحی ہوئی کہ ایک جنگلی بیل جس نے کوئی نسل نہیں چھوڑنی تھی اور جس نے تھوڑے دنوں میں خود خشک ہو کر مُرجھا جانا تھا اُس کے چند دن پہلے خشک ہونے پر جب تو نے اتنے غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ کمبخت کیڑے نے اسے تباہ کر دیا تو بتاؤ میں اپنے ہزاروں بندوں کو کس طرح تباہ کر دیتا جبکہ وہ ابھی تباہ کرنے کے قابل نہ تھے جاؤ اور دیکھو تو بات کیا ہوئی ہے؟ حضرت یونس علیہ السلام وہاں سے نینوا کو روانہ ہوئے اور جونہی نینوا والوں نے دیکھا کہ حضرت یونس علیہ السلام آرہے ہیں وہ استقبال کیلئے دوڑے اور بیعت کیلئے ایک دوسرے پر گرنے لگے.حضرت یونس علیہ السلام نے پوچھا بات کیا ہے؟ میں نے سنا ہے تم پر عذاب نہیں آیا.وہ کہنے لگے یونہی تو عذاب نہیں ملا.اصل بات یہ ہے کہ جب وہ دن آیا جو آپ نے عذاب کیلئے مقرر کیا تھا تو ہم نے دیکھا کہ آسمان کا رنگ بدل گیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آگ برسنے لگی ہے ایک ہیبت ناک طوفان کی بنیاد دیکھ کر یکدم ہمیں خیال آیا کہ آج ہم مرے.اس پر ہمارے شہر کے تمام بڑے بڑے لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اب اس کا علاج یہ ہے کہ شہر کو چھوڑ دو اور جنگل میں نکل جاؤ ، مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلانا چھوڑ دیں، جانوروں کے مالک جانوروں کے آگے چارہ ڈالنا بند کر دیں ، پُرانے چیتھڑ.
خطبات محمود ۷۳۸ سال ۱۹۳۶ ٹاٹ کے کپڑے پہن کر جنگل میں نکل جاؤ اور رونا شروع کر دو.چنانچہ جنگل میں ہم سب اکٹھے ہو گئے ، مرد، عورتیں، بچے ، بوڑھے ، جانور غرض سب کے سب ایک میدان میں جمع ہو گئے.تھوڑی ہی دیر کے بعد جب بچوں کو دودھ نہ ملا تو انہوں نے رونا شروع کر دیا، جانوروں کو چارہ نہ ملا تو انہوں نے چیخنا شروع کر دیا ، مردوں اور عورتوں نے چلانا شروع کر دیا اور سب نے مل کر کہرام مچادیا اور ایک ہی دعا مانگی کہ اے خدا! یہ عذاب ہم سے مل جائے ہم تو بہ کرتے ہیں.چنانچہ صبح سے شام تک ہم دعا کرتے رہے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ عذاب ہم سے دور کر دیا.ہم تو اُسی دن سے آپ کا انتظار کر رہے تھے کہ کب آپ واپس آتے ہیں تا ہم آپ پر ایمان لائیں.کیا تم سمجھتے ہو حضرت یونس علیہ السلام کے مقررہ عذاب کے دن کسی عورت نے یہ کہا ہو کہ یا اللہ ! میرے بچے کا بخار ٹوٹ جائے، یا کسی مرد نے یہ کہا ہو کہ یا اللہ! فلاں تجارت ہے اس میں مجھے خوب نفع ہو.سب نے ایک ہی دعا مانگی اور وہ دعا یہ تھی کہ خدایا! یہ عذاب ہم سے مل جائے ہم تیرے حضور تو بہ کرتے ہیں اور تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں.یہی آواز تھی جو مرد، عورت، بچہ، جوان، کمزور اور طاقتو ر غرض سب کی زبان سے نکل رہی تھی اور صبح سے شام تک اُن کی ایک ہی پکار تھی کہ الہی ! ہمیں معاف کر ، الہی ! اپنے عذاب کو ہم سے دور کر.دیکھو وہ ایک دعا جو سب نے یک زبان ہو کر مانگی کیسی کارگر ثابت ہوئی.یوں تو اُس شہر کے کفار بھی انفرادی کی طور پر کبھی کہہ دیا کرتے ہوں گے کہ یا اللہ ! ہمیں معاف کر مگر اُس دن جب سب ایک آواز کے ساتھ یہ کہہ اُٹھے کہ الہی ! ہمیں معاف کر تو خدا تعالیٰ نے اُن کی دعا کو قبول کیا اپنا عذاب اُن سے ہٹا لیا اور اپنے نبی کی پیشگوئی بدل دی.اس واقعہ کو پیش نظر رکھ کر مجھے آج خیال آیا کہ ہم مؤمن ہیں اور مؤمن کو ہر چیز سے فائدہ اٹھانا چاہئے ہماری اُمت کا نام خدا تعالیٰ نے خَيْرُ الأمم رکھا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ساری کی اُمتوں کی خوبیاں ہمارے اندر جمع ہیں جب ساری اُمتوں کی خوبیاں ہمارے اندر جمع ہیں تو مجھے خیال آیا کہ ہم حضرت یونس علیہ السلام کی اُمت والی دعا کر کے دیکھیں ہم اُس کے بندے ہیں اور وہ ہمارا رب ہے وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں.دنیا میں انسان کا اگر معمولی سا بھی نقصان ہوتا ہے تو وہ لٹھ لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور نوکر یا بیوی کو مارنا شروع کر دیتا ہے کبھی کھانے میں نمک زیادہ
خطبات محمود ۷۳۹ سال ۱۹۳۶ ہو جائے تو ناراضگی کا اظہار کر دیتا ہے اور یہاں تو اللہ تعالیٰ کے بندوں نے اُس کی دی ہوئی چیزوں کا اتنا نقصان کیا ہے کہ اگر اتنا نقصان بندوں کا کوئی کرتا تو وہ کھال ادھیڑ کر رکھ دیتے.حضرت شبلی ایک صوبہ کے گورنر تھے وہ کوئی رپورٹ دینے کیلئے بادشاہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہے ایک جرنیل جو کوئی بڑی مہم فتح کر کے آیا تھا وہ بھی بیٹھا ہوا ہے اور وہ دربار دراصل اسی لئے منعقد کیا گیا تھا کہ اُس جرنیل کو خلعت دیا جائے.غرض اُس کے اعزاز میں خوشی سے تمام لوگ جمع تھے کہ وہ جرنیل بادشاہ کے سامنے پیش ہوا اُسے ایک چوغہ بطور خلعت پہنایا گیا اور بادشاہ نے اُس کی تعریف میں چند کلمات کہے اتفاقا وہ جرنیل دربار میں جاتے ہوئے رومال ساتھ لانا بھول گیا تھا اور اُس روز اُسے نزلہ کی بھی شکایت تھی دربار میں بیٹھے بیٹھے جو اُسے چھینک آئی تو ناک سے رینٹھ بہہ نکلی.وہ سخت حیران ہوا کہ اب میں کیا کروں جب اُسے اور کچھ نہ سوجھا تو بادشاہ کی آنکھ بچا کر اُس نے اُسی چوغہ سے ناک پونچھ لی کیونکہ اس کے سوا اور کوئی صورت ناک صاف کرنے کی اُس کیلئے نہیں تھی مگر اتفاق ایسا ہوا کہ گو اُس نے آنکھ بچا کر ناک پونچھی تھی مگر بادشاہ کی نظر پڑ گئی اور وہ آپے سے باہر ہو گیا.اُس نے نہایت غصے سے کہا اس مردود کو ہمارے دربار سے باہر نکال دو یہ ہمارے انعام کی قدر نہیں جانتا.اس کا چوغہ بھی اتار لو اور ا سے ذلیل کرو.چنانچہ اُس کا خلعت اُتار لیا گیا اور اُسے ذلیل کر کے دربار سے باہر نکال دیا گیا.شبلی جو نہایت جابر گورنر تھے انہوں نے جو نہی یہ نظارہ دیکھا چیچنیں مار مار کر رونا شروع کر دیا.بادشاہ کہنے لگا کیا تو پاگل ہو گیا ہے؟ میں ناراض تو اُس پر ہؤا ہوں اور چینیں تو مارنے لگ گیا ہے.شبلی نے کہا حضور ! میرا استعفیٰ منظور کیجئے.وہ کہنے لگا کیوں؟ شیلی کہنے لگے اس شخص نے آپ کیلئے جو قربانی کی اور اُس کے مقابلہ میں آپ نے جو اسے انعام دیا کیا ان دونوں کی بھی آپس میں کوئی نسبت ہے.اس نے زبر دست دشمن کے مقابلہ میں مہینوں اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالے رکھا، ہر گھڑی یہ ایک موت کا شکار ہوتا اور ہر گھڑی اس کی بیوی بیوہ ہوتی ، اس نے مہینوں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر فتح حاصل کی اور آپ کے نام کا شہرہ ہوا لیکن آپ نے جو اسے چوغہ دیا اس کی کیا حقیقت ہے ویسا چوغہ وہ خود بھی خرید سکتا تھا لیکن چونکہ آپ بادشاہ ہیں اس لئے بادشاہ کی دی ہوئی اتنی چھوٹی چیز کی بھی چونکہ اس نے قدر نہ کی اور اس سے اپنی ناک پونچھ لی جو بالکل مجبوری کی
خطبات محمود ۷۴۰ سال ۱۹۳۶ حالت تھی اس لئے آپ نے اس پر اپنے غصے کا اظہار کیا اور اُسے برسر در بار ذلیل کیا.مجھے اس سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خلعت پہنائی ہوئی ہے اُس نے مجھے بھی آنکھ ، کان، ناک، زبان، دل، دماغ اور ہزاروں قو تیں دی ہیں جنہیں میں رکن بھی نہیں سکتا مگر میں انہیں صبح و شام ضائع کرتا ہوں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرتا ہوں جب آپ ایک معمولی خلعت کی وجہ سے اُس پر اتنا سخت ناراض ہوئے ہیں تو مجھ پر میرا آقا کس قدر ناراض ہو گا.پس اب میں نہیں سمجھتا کہ میں بھی کسی کام کا اہل ہوں.آپ مجھے اجازت دیں اور میرا استعفیٰ منظور کریں.بادشاہ نے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا.چونکہ وہ ایک سخت جابر اور ظالم گورنر رہ چکے تھے اس لئے وہ علماء کے پاس جاتے اور کہتے کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ مگر جس کے پاس بھی وہ جا کر یہ کہتے کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ وہی کہتا کہ تمہاری تو بہ قبول نہیں ہو سکتی.آخر وہ حضرت جنید بغدادی کے پاس گئے اور کہا میں ہر طرف سے راندہ ہوا آپ کے پاس آیا ہوں.سنا ہے آپ اہل اللہ ہیں آپ بتائیں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں اگر تم میری ایک بات مان لوتو میں تمہاری توبہ قبول کرانے کیلئے تیار ہوں.انہوں نے عرض کیا فرمائیے میں آپ کا ہر حکم ماننے کیلئے تیار ہوں.حضرت جنید نے کہا تمہارا جو دار الحکومت تھا وہاں تم جاؤ اور ہر گھر کے دروازہ پر کھڑے ہو کر وہاں کے رہنے والوں سے معافی مانگو اور کہو کہ جو جو مظالم میری طرف سے تم پر ہوئے ہیں انہیں معاف کر دو.چنانچہ وہ گئے اور سارے شہر میں ایک ایک دروازہ پر دستک دے کر معافی مانگی پھر واپس آئے تو حضرت جنید نے کہا میں تمہارا تکبر تو ڑ نا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا؟ تھا کہ تم سچی توبہ کرتے ہو یا نہیں ورنہ تو بہ تو ہر حالت میں قبول ہوسکتی ہے.اس پر انہوں نے حضرت جنید کی بیعت کی اور پھر خود روحانیت میں اس قدر ترقی کی کہ مشہور اہل اللہ بن گئے.تو اللہ تعالیٰ کی خلعت کی بندہ روز ناقدری کرتا ہے مگر سال میں ایک دن بھی تو ایسا نہیں رکھتا جس میں اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے.وہ بے شک دعا کرتا ہے مگر دعا کرتے وقت کھچڑی پکا کر رکھ دیتا ہے.کچھ تو وہ یہ مانگتا ہے کہ میرے بچے بیمار ہیں انہیں تندرست کر، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ فلاں مقدمہ چل رہا ہے اس میں مجھے کامیاب کر، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ فلاں تجارت ہے اس میں مجھے نفع دے، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ میرا ہمسایہ مجھے دق کرتا ہے اس کی دقت میرے
خطبات محمود ۷۴۱ سال ۱۹۳۶ سامنے سے ہٹا، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ مجھ پر بہت قرض ہو گیا ہے اُسے اُتار.غرض وہ دعا کو گڈ مڈ کر دیتا ہے اسی طرح جس طرح بابل پر جب عذاب آیا تو وہاں کے رہنے والے متفرق زبانیں بولنے لگ گئے اور یہ تو انفرادی دعاؤں کی حالت ہے میں نے دیکھا ہے نہایت اہم اور نازک اوقات میں بھی جب دعا کے لئے تمام دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو چاروں طرف سے آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ میری بیوی بیمار ہے اس کے لئے دعا فرما ئیں، مجھ پر قرضہ زیادہ ہے اس کے لئے دعا فرمائیں ، میرے بچوں کی ترقی اور اقبال مندی کے لئے دعا کریں ، ان کی یہ حالت دیکھ کر بالکل اُس مثال کا خیال آجاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک زمیندار کے متعلق مشہور ہے اور گو وہ ہنسی کی بات ہے لیکن یہ بتانے کے لئے کہ بے موقع بات ہمیشہ بُری لگتی ہے سنا دیتا ہوں.کہتے ہیں کوئی زمیندار تھا جو شہر کے پاس ہی دست بارہ میل کے فاصلہ پر رہتا تھا لیکن شہر میں وہ کبھی نہیں گیا تھا.لوگ اُس سے پوچھتے کہ کیا تم نے کبھی شہر نہیں دیکھا ؟ وہ خاموش ہو جاتا اور شرمندگی میں کچھ جواب نہ دے سکتا.آخر ایک دن اُسے خیال آیا کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں آج شہر تو جا کر دیکھ آؤں.اُس نے گھر سے کچھ آٹالیا اور کپڑے میں باندھ کر شہر کو چل پڑا تا جس وقت وہاں بھوک لگے تو کسی عورت سے کہہ کر روٹی پکوا لے.اُس نے خیال کیا کہ جس طرح گاؤں میں عورتیں باہر پھرتی رہتی ہیں اسی طرح شہر میں بھی پھرتی ہوں گی اور اُن میں سے کسی کو کہہ کر روٹی پکوالوں گا.جب وہ شہر میں گیا تو اُس نے دیکھا کہ گھروں کے دروازے بند ہیں اور عورتیں باہر چلتی پھرتی نہیں.وہ گلیوں اور بازاروں میں پھرتا رہا اُسے سخت بھوک لگی ہوئی تھی مگر اُسے کوئی عورت ایسی دکھائی نہ دی جسے کہہ کر وہ اپنی روٹی پکواسکتا.آخر عصر کا وقت آگیا اور وہ ایک حلوائی کی دکان پر سے گزرا جوئچیاں تک رہا تھا وہ دُکان پر کھڑا ہو گیا اور تھوڑی ہے دیر تک اُسے دیکھتا رہا آخر اس سے نہ رہا گیا اور حلوائی سے پوچھنے لگا بھئی یہ کیا پکار رہے ہو؟ اُس نے کہانچیاں تل رہا ہوں اُس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے کپڑے کی گرہ کھولنی شروع کی اور جو آنا اُس نے روٹی پکوانے کیلئے باندھ رکھا تھا اُسے یہ کہتے ہوئے کڑاہی میں ڈال دیا کہ ” میرا بھی نیچ پائے.اُس نے سمجھا کہ جب یہ چھوٹی چھوٹی کچیاں کہلاتی ہیں تو میرا زیادہ آٹا لیچ بن جائے گا.یہی حال اُن لوگوں کا ہوتا ہے.کیسا ہی اہم موقع ہو وہ اپنی بات ضرور کر دیتے ہیں اور نہیں سمجھتے
خطبات محمود ۷۴۲ سال ۱۹۳۶ کہ اس جگہ اپنے لئے نہ مانگنے میں ہی برکت ہے اور اپنی ضروریات کیلئے خاموش رہنے میں ہی ا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.پس میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ آؤ دو دن ہم ایسے مقرر کریں جن میں سوائے ایک مشترکہ دعا کے اور کوئی دعا نہ مانگی جائے.مثلاً آج کی رات ہماری جماعت کے تمام افراد صرف ایک ہی دعا مانگیں اور وہ یہ کہ الہی ! تیرا عفو تام اور تو بہ نصوح ہمیں میسر ہوا اور نہ صرف ہمیں میسر ہو بلکہ ہمارے خاندان کو ، ہمارے ہمسایوں کو ، ہمارے دوستوں کو ، ہمارے عزیز رشتہ داروں کو اور ہماری تمام جماعت کو یہ نعمت میسر آجائے.خدایا! ہم تیرے عاجز و خطا کار اور گناہگار بندے ہیں ہم سخت کمزور اور نا تو اں ہیں جن جالوں اور پھندوں میں ہم نے اپنے آپ کو پھنسا رکھا ہے ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں اور ہماری نجات کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ تیرا عفو تام ہم پر چھا جائے اور آئندہ کیلئے وہ تو بہ نصوح ہمیں حاصل ہو جائے جس کے بعد ذلت اور تنزل نہیں ہے.جس طرح حضرت یونس علیہ السلام نے ایک ہی دعا مانگی تھی اور کہا تھا کہ خدایا ! تیرا عذاب ہم سے مل جائے اسی طرح ہم بھی صرف ایک ہی دعا مانگیں اور نہ صرف اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور اہل و عیال کیلئے بلکہ ساری جماعت کیلئے.اور یہ ضروری نہیں کہ یہی فقرات اختیار کئے جائیں بلکہ اپنے اپنے رنگ اور جوش کے مطابق اپنی اپنی خطاؤں کو یاد کر کے ، دنیا کی خرابیوں اور کمزوریوں کو یاد کر کے کہیں کہ الہی ! ہم تیرے خطا کار اور گناہگار بندے ہیں تیری بخشش کے سوا ہمارے لئے کوئی ٹھکانا نہیں.ہمارے گزشتہ گناہوں نے ہمیں آئندہ کی نیکیوں سے محروم کر رکھا ہے تو اپنا عفو ہمیں عطا کر اور ہمیں تو بہ کی سچی توفیق عطا فرما.وہ تو بہ کہ جس کے بعد انسان کو کوئی ذلت نہیں پہنچ سکتی اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقام سے نیچے گر سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں اس گڑ بڑ کی دعا سے جس میں ایک منٹ میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ خدایا! میرے گناہ معاف کر اور دوسرے منٹ میں یہ کہا جاتا ہے کہ میری تنخواہ دس سے گیارہ روپے ہو جائے دل میں رقت پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ وہ سوز اور گداز پیدا ہوتا ہے جس سے دعا قبول ہوتی ہے کیونکہ ان دعاؤں میں سے ایک کا دوسری سے کوئی جوڑ نہیں ہوتا.وہ ایسی ہی دعا ہوتی ہے جیسے جنازہ پر کھڑے ہو کر کوئی نکاحوں کا اعلان کرے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ دعائیں نہ مانگو.تم وہ دعائیں روز ہی مانگا کرتے
خطبات محمود ۷۴۳ سال ۱۹۳۶ ہو.میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سال میں کم از کم ایک دن تم خدا تعالیٰ کے سامنے صرف اپنے گناہوں پر روؤ اور خوشی کی چیز اس سے کوئی نہ مانگو.اس سے روپیہ نہ مانگو، اس سے پیسہ نہ مانگو، اس سے دولت نہ مانگو، اُس سے صحت نہ مانگو، اس سے قرضوں کا دور ہونا نہ مانگو، اُس سے اعزاز نہ مانگو، اس سے اکرام نہ مانگو، صرف یہی مانگو کہ خدایا! تیرا عفو تام ہمیں حاصل ہو اور توبہ نصوح ہمارے لئے میسر ہو جائے.اس دعا کو مختلف رنگوں میں مانگو مختلف طریقوں سے مانگو، مختلف الفاظ میں مانگو، اپنے لئے مانگو، اپنی بیویوں کیلئے مانگو، اپنے بچوں کیلئے مانگو، اپنے دوستوں کیلئے مانگو، اپنے ہمسایوں کیلئے مانگو، اپنے شہر والوں کیلئے مانگو اور پھر ساری جماعت کیلئے مانگومگر چیز ایک ہو، بات ایک ہو، رنگ ایک ہو.سُر ایک ہو، تال ایک ہوا اور جو کہو اُس کا خلاصہ یہ ہو کہ ہم تیرا عفو تجھ سے ہی چاہتے ہیں.پس اس عفو سے مانگو، اس غفا ر سے مانگو ، اس ستار سے مانگو ، اس تو اب سے مانگو.اور اگر تم اس سے رحمانیت مانگو تو اس لئے کہ وہ تمہیں اپنا عفو تام اور تو بہ نصوح دے اور اگر رحیمیت مانگو تو بھی اسی لئے کہ وہ تمہیں اپنا عفو تام اور تو بہ نصوح دے.حدیثوں میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں میں سے ایک امت کے تین آدمی ایک دفعہ ایک طوفان میں پھنس گئے اور وہ اس طوفان سے پناہ لینے کیلئے ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے.اتفاقاً زور کی جو آندھی آئی تو پتھر کی ایک بڑی بھاری رسل لڑھک کر اُس غار کے منہ کے آگے آگئی اور نکلنے کا راستہ بند ہو گیا.وہ ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کیلئے پہاڑ کی غار میں گئے تھے مگر اُس سے بڑی مصیبت میں پھنس گئے.اُس جنگل میں جبکہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں محبوس تھے کوئی آدمی ایسا نہ تھا جو انہیں اس مصیبت سے نجات دلاتا.تب وہ سخت گھبرائے اور جب انہیں نجات کی کوئی صورت کی دکھائی نہ دی تو ایک شخص کو دعا کی تحریک ہوئی اور اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا آؤ ہم نے اپنی عمر.میں جو سب سے زیادہ نیکی کا کام کیا ہے اُس کا واسطہ دے کر خدا تعالیٰ سے کہیں کہ وہ اس پتھر کو ہٹا دے.تب اُن میں سے ایک نے کہا اے خدا ! تو جانتا ہے مجھے ایک لڑکی سے جو میری رشتہ دار تھی بڑی محبت تھی اور وہ کسی طرح میرے قابو نہ آتی تھی میں اُس سے بدکاری کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہ مانتی.آخر میں نے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ وہ اس بات پر مجبور ہوگئی کہ میرے ساتھ بدفعلی کرے.جب میں اُس پر قادر ہو گیا اور سالہا سال کی کوششوں اور بہت سا روپیہ خرچ کرنے کے
خطبات محمود ۷۴۴ سال ۱۹۳۶ بعد میں اس سے بدفعلی کا ارتکاب کرنے لگا تو اُس نے کہا اے خدا کے بندے! میں تجھے خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تو مجھے گناہ میں مبتلاء مت کر.میں یہ سنتے ہی ہٹ گیا اور میں نے کہا اب تو نے ایک بڑی ذات کا مجھے واسطہ دیا ہے میں اُسی کی رضا کیلئے اس سے باز رہتا ہوں.اے خدا ! کی اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کیلئے کیا تھا تو اِس کام کے بدلے میں میں تجھ سے درخواست کرتا کی ہوں کہ تو اس پتھر کو ہمارے راستہ سے ہٹا دے.اس دعا کے نتیجہ میں زور کی آندھی کا ایک طوفان اُٹھا اور وہ پتھر ذرالڑھک گیا لیکن ابھی ان کے نکلنے کا راستہ نہ بنا.تب دوسرے نے کہا اے خدا! تجھے معلوم ہے کہ ایک مزدور میرے پاس آیا اس نے میری مزدوری کی اور مزدوری کرنے سے پیشتر اس کے کہ وہ اُجرت مجھ سے لے چلا گیا میں نے اُس کی اجرت کے پیسوں سے سوداگری شروع کی اور اس میں سے نفع اٹھاتے ہوئے ایک بکری خریدی اس بکری سے اور بکریاں پیدا ہوئیں یہاں تک کہ سینکڑوں بکریوں اور بھیڑوں کا گلہ میرے پاس ہو گیا وہ کئی سال کے بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا میری اٹھتی رہتی ہے وہ مجھے دے دو.میں نے اُسے اپنے ساتھ لیا اور سینکڑوں بکریوں اور بھیڑوں کا گلہ اُسے دکھا کر کہا کہ یہ تیری چیز ہے اسے لے جا.وہ کہنے لگا کیوں مجھ سے مخول کرتے ہو میری صرف اٹھنی رہتی تھی وہ مجھے دے دو.میں نے اُسے کہا اُس اٹھنی سے میں نے تجارت شروع کی تھی اور اب اس قدر بھیڑیں اور بکریاں ہو گئیں وہ کہنے لگا پھر تو یہ میری نہ ہوئیں بلکہ تمہاری ہوئیں.میں نے اُسے کہا نہیں میری نہیں بلکہ میں نے تمہارے لئے تجارت کی تھی.تب وہ نہایت ہی حیران ہوا آخر میرے مجبور کرنے پر وہ بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں کو ہا تک کر اپنے ساتھ لے گیا.اے خدا! اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی اور رضا کیلئے کیا تھا تو مجھ پر رحم کر اور یہ پتھر راستہ سے ہٹا دے.تب پھر زور سے ایک طوفان اُٹھا اور پتھر تھوڑا سا کی سرک گیا مگر راستہ پھر بھی نہ بنا کیونکہ چٹان بہت بڑی تھی اور ابھی وہ اتنی نہیں لڑکی تھی کہ ان کے کی نکلنے کا راستہ بن جاتا.تب تیسرا شخص خدا تعالیٰ کے حضور جھکا اور اُس نے کہا اے خدا ! تجھے معلوم ہے کہ میں بکریاں چرایا کرتا ہوں اور دودھ پر میرا گزارہ ہے.ایک دن مجھے بکریاں چراتے چراتے دیر ہوگئی اور میں جلدی گھر نہ پہنچ سکا میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور بچے چھوٹے چھوٹے جب میں گھر پہنچا تو شعف کی وجہ سے میرے ماں باپ سوچکے تھے اور بیوی بچے جاگ رہے تھے
خطبات محمود ۷۴۵ سال ۱۹۳۶ اور بھوک کی وجہ سے میرا انتظار کر رہے تھے جب میں پہنچا تو انہوں نے کہا لاؤ ہمیں دودھ پلاؤ تا کہ ہم دودھ پی کر سو جائیں.میں نے دودھ کا پیالہ بھرا اور اپنے والدین کی پائینتی کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہا جب تک میرے ماں باپ دودھ نہ پی لیں گے میں کھڑا رہوں گا اور کسی اور کو دودھ نہیں پلاؤں گا.میری بیوی زاری کرتی رہی اور میرے بچے بیچتے رہے مگر میں نے اُن کی چیخ و پکار کی کوئی پرواہ نہ کی اور دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی.اُس وقت میرے والدین اُٹھے تو میں نے انہیں دودھ پلایا اور پھر اپنے بچوں اور بیوی کو دودھ پلایا.اے خدا! اگر میرا یہ کام تیری رضا اور تیری ہی خوشنودی کیلئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض اس میں نہ تھی تو تو مجھ پر رحم فرما اور اس پتھر کو راستہ سے ہٹا دے تب پھر زور کا طوفان اُٹھا اور پھر لڑھک کر نیچے گر گیا اور وہ تینوں شخص غار سے باہر نکل آئے.اب دیکھ لو وہ تین شخص تھے اور انہوں نے تین قسم کے کام کئے مگر وہ سارے کام صرف اس مقصد کیلئے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کئے گئے کہ پتھر ہٹ جائے اور وہ پتھر واقع میں ہٹ گیا.یہ مختلف طریقے تھے جو انہوں نے دعا کیلئے اختیار کئے لیکن دعا ایک ہی تھی اور چونکہ وہ مشترک دعا تھی اس لئے قبول ہوگئی.اسی طرح تم بے شک اپنے جذبات کو جس طرح چاہوا بھا ر و اور جن جن مثالوں سے اپنی گریہ وزاری کو بڑھا سکتے ہو بڑھاؤ لیکن تان یہیں آکر ٹوٹے کہ اے خدا ! ہم اپنے لئے ، اپنے اہل و عیال کیلئے اور اپنی تمام جماعت کیلئے تجھ سے عفو تام اور تو بہ نصوح ما نگتے ہیں.ایک رات تو اس قسم کی دعاؤں میں گزارو پھر جو دوسری رات آئے اس میں بھی تم اپنے لئے کچھ نہ مانگو بلکہ وہ رات صرف اپنے خدا کیلئے وقف کر دو اور اُس رات میں بھی صرف ایک ہی دعا مانگو اور وہ یہ کہ اے خدا! تو کامل ہے، ہر تعریف سے مستغنی ہے، ہر عزت سے مستغنی ہے، ہر شہرت سے مستغنی ہے، تجھے اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ تیرے بندے تجھ پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں ان کے مان لینے سے تیری شان میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی اور نہ ان کے نہ ماننے سے تیری شان میں کوئی کمی آسکتی ہے.مگر اے ہمارے رب ! گو تو محتاج نہیں لیکن دنیا تیرے نور کی محتاج ہے کہ تیری صفات دنیا پر جلوہ گر ہوں اور تیرا نور عالم پر پھیلے اور تمام بنی نوع انسان تجھ پر ایمان لائیں اور تیری بادشاہت دنیا میں قائم ہواے خدا! اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غریب بندوں کی خاطر دنیا پر رحم فرما.
خطبات محمود ۷۴۶ سال ۱۹۳۶ اپنی خالقیت کے اظہار کیلئے نہیں بلکہ مخلوق پر ترتم اور شفقت کرنے کیلئے انہیں وہ راستہ دکھا جو انہیں تیرے قُرب تک پہنچانے والا ہو اور جس کے نتیجہ میں تیری بادشاہت دنیا پر قائم ہو جائے تا بنی نوع انسان تیرے نور سے منور ہو جائیں ، ان کے دل روشن ہو جائیں ، ان کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور ان کے ذہن تیز ہو جائیں.سوکل کی رات کو بھی صرف ایک ہی بات پر تان تو ڑنی چاہئے اور جتنا بھی کسی کو جاگنے کی توفیق ملے اس میں صرف ایک ہی دعا مانگنی چاہئے اس رات میں بھی نہ اپنے لئے دعا کی جائے ، نہ اپنے بیوی بچوں کیلئے دعا کی جائے ، نہ مقدمہ میں کامیابی کیلئے دعا کی جائے ، نہ مال کیلئے دعا کی جائے ، نہ عزت کیلئے دعا کی جائے ، نہ ترقیات کیلئے دعا کی جائے ، نہ اپنوں کیلئے دعا کی جائے ، نہ پرایوں کیلئے دعا کی جائے صرف یہ دعا کی جائے کہ خدا کی خدائی عالم میں قائم ہو اور اس کے جلال کا دنیا پر ظہور ہو.پس آؤ کہ ہم اپنی تین سو ساٹھ راتوں میں سے دو راتیں ان دعاؤں کیلئے وقف کر دیں یقیناً یہ ایک نیا تجربہ اور کامیاب تجربہ اور مفید تجربہ ہوگا.حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ تمہارے سامنے ہے ان سب نے ایک بات مانگی اور سارا دن مانگی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیا.انہوں نے عذاب کے آنے کے بعد دعا مانگی ، ہم عذاب کے آنے سے پہلے دعا کریں گے انہوں نے دن کو مانگی ہم رات کو مانگتے ہیں اور یقیناً ہماری دعا ان سے زیادہ بھاری ہوگی کیونکہ دن کی دعا سے رات کی دعا بھاری ہوتی ہے اور عذاب آنے کے بعد کی دعا سے عذاب آنے سے پہلے کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے.پس آؤ کہ ہم ان دو مقاصد کیلئے اپنی راتوں میں سے دو راتیں وقف کر دیں.ایک رات اپنے لئے اور ایک رات خدا کیلئے وقف کر دیں تا خدا کا عشق اور اس کا عفو تام ہمیں میسر آجائے اور توبہ نصوح کی ہمیں توفیق ملے.دوسری رات ہماری دعا یہ ہو کہ خدا کا جلال اور اُس کی حکومت دنیا پر قائم ہو اور اس کی شان عالم پر ظاہر ہو.گویا ایک رات دعا سلب کی ہو اور دوسری رات جذب کی.ایک رات ہم دور کریں اپنے قلوب سے ہر قسم کی بدی کو اور دوسری رات کھینچیں اُس کے نور اور محبت کو.ایک رات دور کریں تاریکی کو اور دوسری رات جذب کریں اُس کے نور کو.جہاں جہاں اخبار الفضل ، گل پہنچے وہ گل ہی دعاؤں میں قادیان والوں کے
خطبات محمود ۷۴۷ سال ۱۹۳۶ ساتھ شریک ہو جائیں اور پرسوں وہ دعا کریں جو آج رات ہم یہاں کریں گے اور جنہیں اخبار ان دونوں دنوں میں نہ ملے وہاں کے احباب اگلی دو راتوں میں اسی ترتیب سے دعا کریں اور اگلی دونوں راتیں ان دعاؤں کیلئے وقف کر دیں جو میں نے بتائی ہیں.مگر بہر حال صوفیانہ اور روحانی کی نقطۂ نگاہ سے یہ ایک تجربہ ہے جو نہایت اعلیٰ اور عمدہ ذریعہ ہے خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا.اس کے بعد ہمارے لئے راستہ کھلا ہے اور رمضان کی بعض راتیں ابھی باقی ہیں ان میں اور مقاصد کیلئے دعائیں کی جاسکتی ہیں.پس جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ان دو راتوں میں خصوصیت سے دعا کریں.قادیان والے تو آج اور کل دعائیں کریں.آج رات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ان کو ان کے اہل وعیال کو اور ساری جماعت کو اپنے عفو، اپنی غفاری اور اپنی ستاری سے بہرہ ور کرے اور توبہ نصوح کی توفیق عطا فرمائے اور دوسری رات یہ دعا کرتے ہوئے گزاریں کہ خدا کا نور اور اُس کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور اُسی کی حکومت عالم میں قائم ہو.جن لوگوں کو کل اس کی خبر پہنچے وہ کل قادیان والوں کے ساتھ مشترکہ دعا میں شامل ہو جائیں اور پرسوں وہ دعا کریں جو یہاں آج مانگی جائے گی اور جن کو اِن دونوں دنوں میں اطلاع نہ ہو وہ اگلی دو راتوں کو اسی ترتیب سے دعاؤں کیلئے وقف کر دیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کئی ہزار آدمی اس متحدہ دعا میں شریک ہو گئے تو یہ دعائیں قلوب میں صفائی پیدا کرنے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں زیادتی رونما کرنے کیلئے بہت کامیاب ثابت ہوں گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کو صحیح راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، اپنی بخشش کی چادر ان پر اوڑھائے ، انہیں بچی تو بہ کی تو فیق عطا فرمائے اور اپنا نورد نیا میں قائم کر دے.( الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۳۶ء)
خطبات محمود ۷۴۸ ۴۴ سال ۱۹۳۶ مخلصین جماعت کو جلسہ سالانہ میں بکثرت شریک ہوکر دائر الامان کے فیوض و برکات سے حصہ لینا چاہئے سادہ زندگی اختیار کرو کہ یہ اس اسلامی تمدن کا نقطۂ مرکزی ہے جسے اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے (فرموده ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۶ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- پہلے تو میں باہر کے دوستوں کی توجہ کیلئے اس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سال چندوں میں کئی رنگ میں زیادتی ہوئی ہے اور اتنی زیادتی ہوئی ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی.مثلاً تین تحریکیں خصوصیت کے ساتھ اس سال نہایت اہم ہوئی ہیں ایک تو دوستوں میں یہ تحریک کی گئی تھی کہ وہ اپنا حصہ وصیت یا عام چندہ پہلے سے زیادہ کر دیں.اس پر بعض دوستوں نے دسواں حصہ دینے کے بجائے نواں حصہ دینا شروع کر دیا ہے اور بعض نے نواں کی حصہ دینے کی بجائے آٹھواں حصہ دینا شروع کر دیا ہے اور بعض نے اس سے بھی زیادہ.اسی طرح جو ن پہلے چار پیسے فی روپیہ چندہ دیا کرتے تھے انہوں نے اب پانچ پیسے فی روپیہ کے حساب سے چندہ دینا شروع کر دیا ہے اور بعضوں نے اس سے بھی زیادتی کی ہے گویا چندہ عام کو مد نظر رکھتے ہوئے جو چندہ دوست پہلے دیتے تھے کم سے کم اُس کا سوایا انہوں نے کر دیا ہے اور اس
خطبات محمود ۷۴۹ سال ۱۹۳۶ طرح ۲۵ فیصدی زیادتی ہوگئی ہے.پھر اس سال جلسہ سالانہ کے چندہ کے علاوہ مساجد اور مہمان خانہ کیلئے بھی چندہ جمع کیا جاتا رہا ہے اور یہ چندہ بھی پہلے سالوں میں نہیں تھا.علاوہ ازیں اس سال تحریک جدید کے چندہ کے متعلق میں نے تحریک کی ہے کہ دوست پہلے سالوں سے زیادہ کی دیں اور گو یہ تحریک اختیاری ہے لیکن پھر بھی جماعت کی ایک معقول تعداد اس میں حصہ لیتی ہے اور کی جماعت کے ایک حصہ کی مالی حالت پر ضرور اس کا اثر پڑتا ہے اور ایسے دوستوں سے جب خواہش کی گئی ہے کہ وہ پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیں تو جو لوگ اس پر لبیک کہیں گے یقیناً ان کے ال پر پہلے سے زیادہ بوجھ پڑے گا.غرض اس سال کئی تحریکیں اکٹھی جمع ہوگئی ہیں اور یہ سال ہماری جماعت کیلئے ایک خاص آزمائش کا سال ہے.پس میں ڈرتا ہوں کہ جماعت کے بعض دوست اس خیال سے کہ مالی بوجھ کی اس سال ان پر بہت زیادہ پڑا ہے جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے میں کوتاہی کر جائیں.پس میں دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ اس سال کو اپنا ایک ابتلائی سال سمجھ لیں کہ جس میں خدا تعالیٰ نے انہیں خصوصیت سے زیادہ قربانیاں کرنے کا موقع دیا ہے اور خیال رکھیں کہ جہاں انہوں نے باقی قربانیاں کی ہیں وہاں ایک قربانی یہ بھی کر لیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوکر ان دنوں کے فیوض و برکات سے حصہ لیں سوائے اُن لوگوں کے جو اہم مجبوریوں کی وجہ سے نہ آسکیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت کے سارے لوگ جلسہ سالانہ میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن کچھ تعداد ایسے لوگوں کی ضرور ہے جو ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر آتے ہیں اور باقی لوگ ایسے ہیں جن میں سے باری باری ہر سال ایک دو فیصدی آجاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ ضرورت کے موقع پر سلسلہ کے لئے زائد بوجھ اُٹھانے والے زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو پہلے سے ہی زیادہ کی قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں.مثلاً اگر چندوں کی زیادتی کی فہرست دیکھی جائے اور ان لوگوں کی فہرست دیکھی جائے جنہوں نے اپنی وصیت میں اضافہ کیا تو معمولی نظر سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے چندہ تحریک جدید بھی زیادہ دیا ہے.در حقیقت قربانی کی بھی ایک روح ہوتی ہے جس میں پیدا ہو جائے اس سے سب کام کر لیتی ہے.دل کی رگرہ جس وقت اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے تو پھر اس کا نشان ہر جگہ مل جاتا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا تعالیٰ کی
خطبات محمود ۷۵۰ سال ۱۹۳۶ طرف سے الہام ہوا ہے کہ میں نبی ہوں ابو بکر نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا نبی مانتاج ہوں ، محمد ﷺ نے فرمایا ہمیں دین کیلئے چندہ کی ضرورت ہے لوگوں کو چاہئے کہ وہ مال دیں ابو بکر نے اپنا سارا مال لا کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا اور کہا ٹھیک ہے خدمت دین کا یہی موقع تھا، محمد ﷺ نے فرمایا مجھے لڑائی کا حکم ہوا ہے ابو بکر تلوار باندھ کر آ گئے اور کہا چلئے میں تیار ہوں ، محمد ﷺ نے سابقہ حکم کے بالکل الٹ صلح حدیبیہ کے موقع پر فرمایا ہمارا منشاء ہے کہ لڑائی نہ کریں بلکہ صلح کرلیں.سب کے ماتھے پر شکن آئے یہاں تک کہ عمر کے ماتھے پر بھی مگر ابو بکڑ نے کہا ٹھیک ہے یونہی ہونا چاہئے اور صلح ہی بہتر ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ابو بکر کی روحانیت کی گرہ کشائی ایسی کر دی تھی کہ جو آواز بھی محمد ﷺ کی طرف سے آتی وہ کہتے یہی ہونا چاہئے.ایک اور شخص کا حال بھی حدیثوں میں آتا ہے ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا وہ مؤمن نہیں تھا اس نے آپ کا نام لے کر کہا آپ نے میرے کچھ روپے دینے ہیں.رسول کریم ہے نے فرمایا وہ تو میں نے ادا کر دیئے تھے اس نے کہا نہیں مجھے کوئی ادا نہیں ہوئے.اس پر ایک صحابی کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میں اس بات کا گواہ ہوں کہ آپ نے روپے ادا کر دئیے ہیں.اس شخص کا خیال تھا کہ روپوں کی ادائیگی کا کوئی گواہ نہیں ہو گا لیکن جب ایک صحابی نے گواہی دے دی تو چونکہ وہ جھوٹ بول رہا تھا اور نا جائز طور پر تقاضا کر رہا تھا اس لئے اس نے مان لیا اور کہنے لگا ہاں مجھے یاد آ گیا ہے آپ نے مجھے روپے دے دیئے تھے.رسول کریم ﷺ نے حیرت سے اس صحابی کی طرف دیکھا اور فرمایا تم اس موقع پر کب تھے؟ اس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میرے وہاں ہونے کی کیا ضرورت تھی آپ روز کہتے ہیں خدا تعالیٰ آسمان سے مجھ پر وحی نازل کرتا ہے اور میں اسے مان لیتا ہوں کیا میں اُس وقت آسمان پر موجود ہوتا ہوں؟ اسی طرح جب آپ کہتے.کہ میں نے رو پید ادا کر دیا ہے تو میں اس کی بھی گواہی دے سکتا ہوں.اب دیکھو کہ چونکہ اس صحابی کی گواہی ایمانی طاقت کے ساتھ تھی اس کا دشمن پر بھی اثر ہوا اور اس نے تسلیم کر لیا کہ میری ہی غلطی تھی.تو صرف دل کی گرہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے جس وقت اللہ تعالیٰ کسی انسان کے دل کی گرہ کھول دیتا ہے تو ہر بات میں اس کیلئے آپ ہی آپ را ہنمائی نکلتی آتی ہے.تو میں سمجھتا ہوں ان اخراجات کے ساتھ دوستوں کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جلسہ سالانہ پر آنے کا بھی ایک زائد خرچ ہے
خطبات محمود ۷۵۱ سال ۱۹۳۶ جو انہیں برداشت کرنا پڑے گا بلکہ اس سال رمضان بھی ختم ہو چکا ہے گزشتہ تین سالوں میں رمضان کے ایام میں دوسرے لوگوں کو ساتھ لانا مشکل ہوا کرتا تھا کیونکہ ہم جو جلسہ سالانہ کی مذہبی اہمیت سمجھتے ہیں غیر احمدی نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم جلسہ پر جا کر رمضان کیوں خراب کریں.مگر اب رمضان کا مہینہ گزر چکا ہے اور جلسہ غیر رمضان میں آئے گا دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے ایسے رشتہ دار یا دوست جو گو احمدی نہیں لیکن شریف اور دیانت دار ہیں انہیں بھی ساتھ لائیں مگر یہ خیال رہے کہ ان لوگوں کی مثال پر عمل نہ کیا جائے جو دوسروں کو اپنے ساتھ لانے کے شوق میں ایسے لوگوں کو بھی لے آتے ہیں جو سلسلہ کے شدید مخالف ہوتے ہیں اور جن کی غرض فتنہ و فساد ہوتی ہے حالانکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ایسے لوگوں کے لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.ہاں اگر اور موقع پر وہ قادیان آئیں تو انہیں بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر ایسے لوگوں کو ساتھ لانا چاہئے جو شریف الطبع اور تحقیق کا شوق رکھنے والے ہوں کیونکہ ان دنوں تمام لوگ مشغول ہوتے ہیں اور صرف وہی لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو جلسہ سالانہ سے فائدہ اُٹھانے کی اہلیت رکھتے ہوں.جو لوگ شوخ طبع اور چالاک ہوں ان کیلئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان سے پرائیویٹ ملاقاتیں کی جائیں اور بحثیں کی جائیں اور چونکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ان باتوں کیلئے فرصت نہیں ہوتی اس لئے ان ایام میں انہیں ہمراہ لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف پھر متوجہ ہوتا ہوں.اول تو میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض جماعتوں نے اس سال کی تحریک کے متعلق اس لئے کہ ان کی جماعت کا نام جلدی پہنچ جائے نامکمل فہرستیں بھیجنی شروع کر دیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ان کی جماعت کے دوستوں کی طرف سے وعدے موصول ہو رہے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ جلدی کی نیکی ہی اعلیٰ نیکی ہوتی ہے مگر نامکمل نیکی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو لوگ جلدی مکمل فہرستیں نہ بھیج سکتے ہی تھے ان کیلئے یہی بہتر تھا کہ وہ اپنی جماعت کے باقی ساتھیوں کا انتظار کر لیتے اور مکمل فہرستیں بھیجے.میں دیکھتا ہوں بعض جماعتوں کی طرف سے پانچ پانچ چھ چھ چٹھیاں آرہی ہیں اور لکھا جا رہا ہے کہ اب ہماری یہ لسٹ ہے اور اب یہ لسٹ ہے.ایسے لوگ اگر چند دن انتظار کر لیتے تاکہ دوسرے دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو ان کے سابق ہونے میں کوئی فرق نہ آتا.
خطبات محمود ۷۵۲ سال ۱۹۳۶ میں نے گزشتہ سال اپنے کسی خطبہ میں بیان کیا تھا کہ جو شخص اس لئے انتظار کرتا ہے کہ دوسرے دوست بھی اس کے ساتھ شامل ہو جائیں اُس کی سبقت میں کوئی فرق نہیں آسکتا کیونکہ انہوں نے جس دن چندہ کی ادائیگی کی نیت کر لی خدا تعالیٰ کے حضور ان کا نام سابق لوگوں میں لکھا گیا خواہ ہمارے پاس وہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد پہنچے.سابق قرار دینا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا نہیں.بالکل ممکن ہے ایک شخص میرے پاس آئے اور سو روپیہ چندہ دے اور میں اس کی بڑی قدر کروں اور ایک دوسرا شخص آئے جو پانچ روپے دے اور میں یہ اندازہ نہ کرسکوں کہ اس نے کتنی بڑی قربانی کے بعد پانچ روپے دیئے ہیں اور خدا کے نزدیک اس کی قربانی زیادہ قرار پا جائے ایسی صورت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک اول نمبر پر پانچ روپے چندہ دینے والا ہی لکھا جائے گا نہ کہ سو روپیہ چندہ دینے والا.اسی طرح ایک شخص جلدی سے خط بھیج دیتا ہے مگر دوسرا شخص انتظار کرتا ہے تا اس کے باقی بھائی بھی اس میں شامل ہو جائیں تو اگر وہ اس احتیاط کی وجہ سے دیر لگاتا ہے کہ وہ عمدگی سے کام کرے اور اس کی ارسال کردہ فہرست ہر لحاظ سے مکمل ہو تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہی سابق ہے.میرا اس احتیاط کی تاکید سے یہ مطلب نہیں کہ جو جلد وعدے بھجوا سکتے ہوں وہ بھی جلدی نہ کریں یقیناً جو جماعتیں مکمل اور جلدی وعدے بھجوا سکیں انہیں ایسا کرنا چاہئے کیونکہ وہ شوکت اسلام کے ظاہر کرنے میں ممد ہوتی ہیں.اگر خلیفہ کے اعلان کے معا بعد کثیر تعداد میں وعدے وصول ہونے لگیں تو دوسرے لوگوں پر یقینا اس کا ثر پڑتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دیکھو یہ جماعت کس طرح اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتی ہے.میری نصیحت صرف ان جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے جو صرف جلدی کو مد نظر رکھتی ہے تکمیل کو نہیں.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس سال کے وعدے قلیل زمانہ میں پہلے سالوں سے زیادہ موصول ہو چکے ہیں.گزشتہ سال پہلے مہینے میں پچاس ہزار کے وعدے موصول ہوئے تھے لیکن اس دفعہ پندرہ دن میں اتنی ہزار کے قریب کے وعدے وصول ہوئے ہیں جس کی دو وجہیں ہیں.ایک تو یہ کہ پہلے دو سال کام کرنے سے یہ کام زیادہ منظم ہو چکا ہے اور جماعتیں جلد وعدوں کی فہرست کو پورا کر لیتی ہیں اور دوسری یہ کہ جنہوں نے گزشتہ سالوں میں قربانیاں کی تھیں ان کے اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زیادہ سہولت سے اور جلدی
خطبات محمود ۷۵۳ سال ۱۹۳۶ قربانی پیش کرنے کی اس سال توفیق دے دی ہے.خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو کوئی اس کی راہ میں قربانی کرے وہ اسے مزید قربانیوں کیلئے زیادہ جوش بخش دیتا ہے اور پچھلی قربانیوں کا ثواب اس رنگ میں بھی اسے ملتا ہے کہ اور قربانیوں کی توفیق اسے مل جاتی ہے.میں یہ بھی اعلان کر دیتا ہوں کہ اس سال گزشتہ سال کے مقابل پر چونکہ پندرہ دن بعد میں نے تحریک کی ہے اس لئے اس سال کی تحریک کے وعدوں کے اختتام کا وقت ہندوستان کے لئے ۳۱ / جنوری ہے.گویا ہندوستان کی تمام جماعتوں کے وعدے۳۱ /جنوری تک پہنچ جانے چاہئیں اور ہندوستان سے جو باہر کی جماعتیں ہیں ان کیلئے چونکہ زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اس لئے انہیں جون کے آخر تک مہلت ہے.میں نے گزشتہ سال بھی یہ اعلان کیا تھا اور متواتر کیا تھا کہ بیرونِ ہند کی جماعتوں کی وصولی کی تاریخ بھی جون کے آخر تک ہے لیکن معلوم ہوتا ہے انہوں نے ان اعلانات کو پڑھا نہیں اور اب تک بیرونی جماعتوں کی طرف سے تحریکیں ہو رہی ہیں کہ ہمیں چندوں کی ادائیگی کیلئے مزید مہلت ملنی چاہئے حالانکہ ان کیلئے پہلے سے جون کے آخر تک کا وقت مقرر ہے اور جنوری کے آخر تک کا وقت ہندوستان والوں کیلئے ہے جن کے وعدوں کی مدت ۱۵ جنوری تک ختم ہوتی تھی.پس وصولی کی مدت بھی اگلے سال کی اسی تاریخ پر ختم کی گئی.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سادہ زندگی اختیار کرنے کا ہے میں نے اس کی طرف متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے اور علاوہ تحریک کے ایام کے دوسرے وقتوں میں بھی توجہ دلائی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جہاں تک اسلام پر غور کرتا ہوں مجھے اس کے تمدن کا یہ نقطۂ مرکزی نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہزاروں قومی خرابیاں تکلفات سے پیدا ہوتی ہیں.غریب اور امیر کا فرق یا تمدنی تعلقات کی ترقی یہ سب مبنی ہیں سادہ زندگی با پر تکلف زندگی پر.جیسی جیسی کسی انسان یا قوم کی زندگی ہو اس کے مطابق قومی تعلقات اور تمدنی تعلقات ترقی کرتے یا تنزل کرتے ہیں.خالی یہ سوال نہیں کہ خود انسان کیا کھاتا ہے یا کیا پہنتا ہے بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ اُس کے کھانے اور اس کے پہنے کا اثر اس کی روحانیت اور اس کی قوم پر کیا پڑتا ہے.بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے
خطبات محمود ۷۵۴ سال ۱۹۳۶ دوستوں کی دعوت کریں لیکن وہ اس لئے ان کی دعوت نہیں کر سکتے کہ اگر دعوت کی تو شاید ان کی کی حیثیت کے مطابق انہیں کھانا نہ کھلا سکیں.کئی امراء اس لئے اپنے غریب بھائیوں کی دعوت قبول نہیں کرتے کہ وہ ان کے مزاج کا کھانا انہیں نہیں کھلا سکیں گے.لیکن اگر کھانے میں رسول کریم تی وی کی سنت کے مطابق وہی طریق جاری ہو جائے جو ہم تحریک جدید کے ماتحت اختیار کئے ہوئے کی ہیں کہ صرف ایک کھانا پکایا جائے تو نہ دعوت کرنے والے پر کوئی بار پڑتا ہے اور نہ دعوت قبول کرنے والا کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے.دعوت کرنے والا سمجھتا ہے کہ میرا کوئی زائد خرچ تو ہونے نہیں لگا اور دعوت قبول کرنے والا سمجھتا ہے کہ گھر میں بھی تو میں نے ایک ہی کھانا کھانا ہے آؤ آج اس کی دعوت ہی قبول کر لیں اور وہ کون سا ایک کھانا ہے جس کے متعلق کسی کو دعوت کرنے کا تو خیال آ جائے مگر وہ تیار نہ کر سکے.آخر وہ شخص جو فاقے کرتا ہوا سے تو دعوت کرنے کا خیال نہیں آ سکتا.دعوت کا خیال جسے آسکتا ہے وہ بہر حال ایک کھانا تیار کر سکتا ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے ہوسکتا جسے دوسرے کی دعوت کرنے کا تو خیال آئے مگر ایک کھانا بھی نہ تیار کر سکے.پس اس ذریعہ سے امراء اور غرباء کے تعلقات میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور اسلام جس برادری کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے وہ قائم ہو جاتی ہے.یہی حال لباس کا ہے لباس کی نظافت اور صفائی اور چیز ہے لیکن اگر کچھ لوگ اپنے گھروں کو کپڑوں سے بھر لیں اور روپیہ ایسی چیزوں پر خرچ کرنا شروع کی کر دیں جو ضروری نہیں.مثلاً گوٹے کناریاں ہیں ، فیتے ہیں ، ٹھے ہیں تو ان چیزوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کی دولت ایسی جگہ خرچ ہوتی ہے جس جگہ خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.ہماری شریعت نے اسی لئے روپیہ جمع کرنے سے منع کیا ہے جمع شدہ روپیہ پر زکوۃ لگا دی ہے اور زکوۃ لگا کر کہہ دیا ہے کہ تم بے شک روپیہ جمع کرو مگر ہم چالیس پچاس سال کے اندر اندر سے ختم کر دیں گے.تو شریعت نے ہم کو روپیہ جمع کرنے سے اسی لئے منع کیا ہے کہ جو روپیہ جمع ہوتا ہے وہ لوگوں کے کام نہیں آسکتا اور دنیا کی تجارتوں کو نقصان اور کارخانوں کو ضعف پہنچتا ہے تو نہ شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ روپیہ ضائع کرو اور نہ اس بات کی اجازت دی ہے کہ روپیہ کو اس طرح سنبھال کر رکھ لیا جائے کہ وہ لوگوں کے کام نہ آئے.ان دونوں باتوں پر غور کرنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہی کہ سادہ زندگی بسر کرو اور روپیہ اس طرح خرچ کرو کہ لوگوں کو
خطبات محمود ۷۵۵ سال ۱۹۳۶ فائدہ پہنچے.مثلاً تجارتیں کرو کیونکہ تجارت میں ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے.بعض کو نوکر یوں کے ذریعہ فائدہ پہنچ جاتا ہے، بعض کو دلالی کے ذریعہ سے ، بعض کو حرفت کے ذریعہ سے.ہاں اسلام نے یہ بھی کہہ دیا کہ فضول باتیں نہ کرو کیونکہ اس سے غرباء کے دلوں میں حرص پیدا ہوتی ہے اور ان کے قلوب کو تکلیف پہنچتی ہے.مثلاً شادیوں کے موقع پر بڑی تباہی اس وجہ سے آتی ہے کہ لوگوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکے والے بری دکھاتے ہیں اور لڑکی والے جہیز دکھاتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب لڑکیاں جو ان چیزوں کو دیکھتی ہیں وہ یا تو دل ہی دل میں کڑھتی آتی ہیں یا اگر بیوقوف ہوں تو ماں کو آکر چمٹ جاتی ہیں کہ ہمارے لئے بھی ایسی چیزیں تیار کی جائیں.اسی طرح مردوں میں سے کئی جب اس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہوتی تھی بة ہے کہ جب ہماری شادی ہوگی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے حالانکہ اول تو امارت کے یہ معنی ہی نہیں کہ روپیہ ضائع کیا جائے ہاں چونکہ شادیاں خوشی کا موقع ہوتی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود کی علیہ السلام نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ ایسے موقع پر کچھ خرچ کیا جائے کیونکہ ایسے موقع پر خرچ کرنا گناہ نہیں بلکہ لڑکی کا دل رکھنا مرد کیلئے نہایت ضروری ہے لیکن اس کیلئے وہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بداثر ڈالے اور غرباء کیلئے تکلیف کا موجب بنے.اگر مسلمان قرآن کریم کا علم رکھتے تو وہ سمجھتے کہ قرآن کریم نے ایسے دکھاوے سے منع کیا ہوا ہے چنانچہ وہ فرماتا ہے لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَامَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهَا له اگر کسی کو ایسی چیزیں ملیں تو تم ان کی طرف جھانکا نہ کرو اور نہ اپنے دل کو اس طرح میلا کیا کرو.پس اگر دکھانے کی والے دکھاتے اور دیکھنے والے انکار کر دیتے اور کہہ دیتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ کہ اگر کوئی دولتمند ہوں اور وہ اپنی چیزیں دکھا کر تمہارا دل دکھانا چاہیں تو تم وہ چیزیں دیکھا نہ کرو اور اپنے خدا کی طرف نظر رکھا کرو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہارَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِیر سے کہ اے میرے رب ! میں محتاج تو ہوں مگر میں محتاج ہو کر بندوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ تیری طرف دیکھتا ہوں.پس تیری طرف سے جو آ جائے اسے میں قبول کرنے کیلئے تیار ہوں تو نہ انہیں تکلیف ہوتی اور نہ وہ اندر ہی اندر گڑ ھتے.پس ان رسوم کے نتیجہ میں کمزور طبائع پر برا اثر پڑتا ہے لیکن اگر ملک میں سادہ زندگی الـ
خطبات محمود ۷۵۶ سال ۱۹۳۶ آجائے تو یقیناً بہت سی دولت بچ جائے گی جو غرباء اور ملک کی ترقی کے کام آئے گی اور اس طرح آہستہ آہستہ تمام ملک یا جماعت ایسے مقام پر آجائے گی کہ غریب اور امیر کا فرق بہت کم ہو جائے گا.یوں شریعت نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے وہ جب فوت ہوئے تو انہوں نے اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائداد چھوڑی اُس زمانہ میں تو روپیہ کی قیمت بہت کم تھی لیکن آج بھی جبکہ روپیہ کی قیمت گری ہوئی ہے مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس قدر جائدا در رکھتے ہیں لیکن خود ان کی اتنی سادہ زندگی تھی کہ ان کا روزانہ خرچ چار آنے ہوا کرتا تھا اور وہ اپنی آمد کا اکثر حصہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے یہ زندگی تھی جو اسلامی زندگی تھی.اسلام نے انہیں کمانے سے منع نہیں کیا تھا انہوں نے کمایا اور کما کر بتادیا کہ یوں کمایا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف چونکہ اسلام کا یہ بھی حکم تھا کہ اپنی زندگی کو ایسا پُر تکلف نہ بناؤ کہ جو کچھ کماؤ وہ سب اپنی ذات پر خرچ کر دو اور غرباء کیلئے کچھ نہ رہنے دو اس لئے وہ باوجود دولتمند ہونے کے غریب رہے اور یہی چیز ہے جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں شخص قربانی کر رہا ہے.جب تک مسلمانوں میں ایسے لوگ رہے جو کمانے والے اور غرباء پر خرچ کرنے والے تھے اس وقت تک مسلمانوں میں غربت کا وہ زور نہ تھا جو آجکل ہے لیکن جب کمانے والے نہ رہے یا ایسے کمانے والے پیدا ہو گئے جنہوں نے سب روپیہ اپنے ہاتھوں میں جمع کر لیا اور سوائے اپنی ذات اور ضروریات کے اور جگہ خرچ نہ کیا تو مسلمانوں پر تباہی آگئی.چنانچہ آجکل مسلمانوں کی تباہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اوّل وہ کماتے نہیں جہاں دیکھو مسلمان بریکا رہی برکار دکھائی دیتے ہیں اور اگر انہیں کوئی کام کرنے کو کہا جائے تو اس میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا باپ ایسا تھا پس جب تک ہمیں باپ جیسا عہدہ نہ ملے گا ہم کام نہیں کریں گے.اسی طرح زمیندار ہیں وہ تو نوکریاں نہیں کریں گے یا کوئی اور پیشہ اپنی روزی کمانے کیلئے اختیار نہیں کریں گے اور جب انہیں کہا جائے کہ کیوں کوئی کام نہیں کرتے تو کہہ دیں گے ہم زمیندار ہیں ہم کوئی اور پیشہ کس طرح اختیار کر سکتے ہیں.پس وہ کوئی پیشہ اختیار نہیں کریں گے، کوئی فن نہیں سیکھیں گے، کوئی اور ذریعہ اپنی روزی کمانے کیلئے اختیار نہیں کریں گے ، بھوکے مریں گے ، اپنی صحت خراب
خطبات محمود 202 سال ۱۹۳۶ کرلیں گے، اپنی بیوی اور بچوں کی صحت تباہ کر لیں گے لیکن کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائیں گے.زمیندار ماں اپنے بچہ کو بھوکے رہنے کی وجہ سے خون پلاتی جائے گی مگر وہ اسی گھمنڈ میں رہیں گے کہ ہمارا باپ زمیندار تھا ہم موچی کا کام کس طرح کر سکتے ہیں ، ہم نجاری اور معماری کا کام کس طرح کر سکتے ہیں ، ہم جو لاہوں کا کام کس طرح کر سکتے ہیں.پس مسلمانوں کی تباہی کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ وہ کام نہیں کرتے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ان میں سے جو کام کرتے ہیں وہ سارا رو پیدا اپنے گھروں میں رکھ لیتے ہیں غرباء پر اسے خرچ نہیں کرتے حالانکہ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ کمائی کریں اور اس میں سے کچھ اپنی ذات پر خرچ کریں اور کچھ دوسرے لوگوں پر صرف کریں.أَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِث سے کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو نعمت تمہیں ملے اسے دنیا میں پھیلاؤ.تحدیث دو ہی طرح ہو سکتی ہے ایک یہ کہ کچھ اپنی ذات پر اس روپیہ کو خرچ کیا جائے اس سے بھی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اسے نعمت ملی ہے اور کچھ غریبوں میں تقسیم کرے اس سے بھی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی گر بتایا ہے کہ یہ گر بغیر سادہ زندگی اختیار کئے کام نہیں آسکتا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود بار بار توجہ دلانے کے ہماری جماعت کا ایک حصہ ابھی ایسا ہے جس نے اس کی قیمت کو نہیں سمجھا.کئی کئی طریق پر دوست اس سے پہلو تہی کر لیتے ہیں.گزشتہ سفر کے موقع پر ہی ایک دوست نے پوچھا ( وہ نہایت مخلص احمدی ہیں مگر چونکہ پرانی عادتیں زیادہ کھانا کھانے کی پڑی ہوئی ہیں اس لئے بعض افراد کی طبیعت کسی نہ کسی آڑ میں اس مطالبہ سے پہلو تہی کا جواز تلاش کرنا چاہتی ہے ) کہ میں تحریک جدید پر تو عمل کرتا ہوں لیکن اس طرح کہ ہم ایک جگہ چار آدمی ہیں ہم چاروں ایک ایک کھانا پکوا لیتے ہیں اور پھر سب مل کر کھا لیتے ہی ہیں اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ میں نے کہا چار کھانے تو آج کل ایک وقت امراء بھی نہیں کھایا کرتے آپ کس طرح چار کھانے کھا کر سمجھتے ہیں کہ آپ نے تحریک جدید کے اس مطالبہ پر عمل کر لیا.اب دیکھو انہوں نے اپنی طرف سے تحریک جدید پر بھی عمل کیا اور چار کھانے بھی کھالئے پھر میں نے انہیں کہا میں صرف یہی نہیں چاہتا کہ ایک کھانا پکانے کی وجہ سے لوگوں کو اخراجات میں کفایت رہے بلکہ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ زبان کے چسکا کی عادت نہ پڑے.اب چار کھانے
خطبات محمود ۷۵۸ سال ۱۹۳۶ کھانے سے چسکا بڑھ سکتا ہے کم نہیں ہو سکتا.اگر وہ گھر میں کھانا پکاتے تو زیادہ سے زیادہ دو پکاتے لیکن مل کر کھانے کی وجہ سے چار کھانے کھالئے گئے اور یہ بھی سمجھ لیا گیا کہ تحریک جدید پر عمل ہو رہا ہے.اسی طرح کئی لوگ اس رنگ میں ایک سے زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں کہتے ہیں کہ تحفہ آ گیا ہے بیشک کبھی کبھار کا تحفہ تحفہ ہے اور اس کے استعمال میں خصوصاً تحفہ بھیجنے والے کا دل رکھنے کیلئے حرج کی نہیں بلکہ بعض صورتوں میں ثواب ہے لیکن اگر دو ہمسائے آپس میں ایک دوسرے کے گھر کھانے بھجوانے کی عادت ڈال لیں تو ایسے کھانے کا عام استعمال یقینا تحریک جدید کا غلط استعمال ہوگا.غرض تحفوں میں احتیاط کی ضرورت ہے اگر اس بارہ میں تحریک کی حقیقت کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو شاید ہمارے گھر میں تو اس تحریک پر کبھی عمل نہ ہو سکے کیونکہ ہمارا تعلق اور رشتہ روحانی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا وسیع ہے اور کوئی نہ کوئی تحفہ ہمارے گھروں میں روز آ جاتا ہے اس لئے ہمیں تو تحفہ کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے.گزشتہ دو سال میں چار پانچ مرتبہ سے زیادہ ایسا اتفاق نہیں ہوا جہاں سے تحفہ آیا اور میں نے سمجھا کہ اس موقع پر دل رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے استعمال کر لیا جائے ورنہ عام طور پر جب کوئی تحفہ بھیج دیتا ہے تو یا تو میں اُسی کو استعمال کرتا ہوں گھر کا کھانا نہیں کھایا کرتا یا پھر گھر کا کھانا کھاتا ہوں اور اسے خود استعمال نہیں کرتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں بھیجنے والے نے بھیج دیا اب اسے کیا پتہ کہ میں نے وہ چیز کھائی ہے یا نہیں کھائی اسے تو بہر حال ثواب ہو گیا.تو تحفوں میں بھی انسان احتیاط کر سکتا ہے اور تحفہ کو بھی وہیں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایسا نہ کرنے سے دوسرے کی دل شکنی کا خوف ہو.اسی طرح ایک کھانے کی کے استعمال میں بعض اور استثنائی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً کوئی غیر احمدی دعوت کرتا ہے یا غیر احمدی کی دعوت کی جاتی ہے تو ایسی حالت میں اگر ایک کھانا کھایا جائے تو وہ سمجھتا ہے میری ہتک کی گئی ہے.پس ایسے موقع پر کوئی شخص ایک سے زیادہ کھانا کھالیتا ہے تو یہ اور بات ہے.اس قسم کی ایک دعوت مجھے بھی ایک دفعہ پیش آئی ایک جگہ بہت سے غیر احمدی معززین کو بلایا گیا تھا اور انہیں مدنظر رکھتے ہوئے کئی کھانے تیار کئے گئے تھے ان معززین کی دلداری کے طور پر مجھے بھی ایک سے زائد کھانے کھانے پڑے ہاں جہاں بے تکلفی ہو وہاں دعوت کرنے والوں کو کہا جاسکتا ہے یا دوسرے مہمانوں کو بتایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک ہی کھانا کھائیں گے زیادہ نہیں.تو بعض دوست تحریک جدید
خطبات محمود ۷۵۹ سال ۱۹۳۶ کے اس مطالبہ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے در حقیقت میری غرض اس تحریک سے صرف عارضی فائدہ حاصل کرنا نہیں بے شک اس کا ایک عارضی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو دوست تحریک جدید کے مالی مطالبات میں حصہ لیں انہیں ایک کھانا پکانے کی وجہ سے مالی تنگی محسوس نہ ہو اور ان کی بشاشت قائم رہے.یہ ٹھیک ہے اور اس تحریک میں ایک یہ فائدہ بھی مد نظر ہے لیکن میری اصل غرض یہ ہے کہ ہم دنیا میں اس اسلامی تمدن کو پھر قائم کریں جو محمد اللہ نے قائم کیا.یہ مستقل غرض ہے اور وہ عارضی ہے ہم جب تک اس مستقل غرض کو قائم نہیں کر دیتے اُس وقت تک یقیناً ہم اسلام کی روح کو قائم نہیں کر سکتے.اولیاء اللہ نے لکھا ہے کہ اعلیٰ روحانی ترقیات کیلئے کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا ضروری ہے اور کم کھانے سے سادہ زندگی کا بڑا تعلق ہے.زیادہ کھانے کھانے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کتنا کھا گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیران کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بھوک نہیں لگتی کوئی ایسا نسخہ بتائیے جس سے بھوک خوب لگے.فرمایا ہم نے اُس کا کچھ دن علاج کیا ج لیکن ایک دن ہمیں جو اُس کے کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا تو کیا دیکھا کہ چالیس کے قریب کھانے اس کے دستر خوان پر جمع ہیں وہ ایک ایک تھالی اُٹھاتا اور ہر تھالی میں سے ایک ایک لقمہ اس غرض کیلئے کھاتا جاتا کہ وہ چکھ کر دیکھے کہ ان میں سے کون سی چیز اچھی پکی ہے اور اپنے کھانے کے متعلق فیصلہ کرے.اس کے بعد اس نے دو چار کھانے پسند کر کے اپنے سامنے رکھ لئے اور چند لقمے کھا کر کہنے لگا مولوی صاحب! دیکھئے بالکل دل نہیں چاہتا کہ کھاؤں.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل فرمانے لگے میں نے اسے کہا اب آپ کا اور کھانے پر کیا دل چاہے چالیس تھے تو آپ نے چکھنے کی خاطر کھالئے ہیں حالانکہ عام طور پر انسان بتیس لقمے کھاتا ہے اور اس پر بھی آپ کو شکایت ہے کہ آپ کو بھوک نہیں لگتی.تو زیادہ کھانے کھانے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ زیادہ کھا رہے ہیں کیونکہ پیٹ کا کچھ حصہ چکھنے سے بھر جاتا ہے اور باقی حصہ چند اور لقموں سے بھر جاتا ہے تو چونکہ پیٹ میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اتنی ہی غذاوہ کھا لیتا ہے اور کھانے ابھی سامنے پڑے ہوتے ہیں اس لئے وہ کی سمجھتا ہے کہ میں نے بہت تھوڑا کھایا ہے اور زبر دستی اور کھاتا جاتا ہے حالانکہ وہ چکھنے میں ہی بہت کچھ کھا چکا ہوتا ہے.تو کم خوری، کم گوئی اور کم سونا یہ روحانی ترقیات کیلئے اولیائے الہی ضروری ہے
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ بتاتے ہیں اور کم کھانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان ایک کھانا کھائے زیادہ کھانوں میں کم خوری بہت مشکل ہوتی ہے.سو دوستوں کو اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ ہمارے دوست عموماً ایک دوسرے پر نگاہ رکھیں گے اور ان کے اعمال کو تاڑیں گے مگر شکایت کی غرض سے نہیں ، جاسوسی کے طور پر نہیں کیونکہ جاسوسی اسلام میں منع ہے بلکہ اس نیت سے کہ دوسرے کی اصلاح ہو اور پھر اس شخص کے علاوہ اور کسی کے پاس ذکر نہ کیا جائے.یہ میں پسند نہیں کروں گا کہ لوگ میرے پاس آئیں اور کہیں کہ فلاں شخص دو کھانے کھاتا ہے.میں نے ایک کھانا کھانے کا کوئی حکم نہیں دیا میں نے صرف تحریک کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس تحریک کے باوجود دوکھانے کھاتا ہے تو اُس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے ممکن ہے وہ اس تحریک کو ہی فضول سمجھتا ہو اور ممکن ہے کہ وہ کسی خاص وجہ سے دو کھانے استعمال کرتا ہو.بہر حال جبکہ میری طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں تو میں نہیں چاہتا کہ اس کی خلاف ورزی پر کسی کو سزا دوں لیکن میں امید کرتا ہے ہوں کہ جہاں تک دوستوں سے ممکن ہے وہ اس سوال پر غور کریں ، وہ میرے دلائل کو سوچیں ، وہ ی اسلام کی تاریخ کو دیکھیں ، وہ محمد ﷺ کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں اور پھر سوچیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے یا نہیں.اگر انہیں معلوم ہو کہ صحیح ہے تو اس پر عمل کریں اور اگر کوئی دوست غفلت میں مبتلاء ہے اور اس کے محلے والا سمجھتا ہے کہ اس کو سمجھا نا مناسب ہے تو اسے سمجھائے لیکن اسے بدنام نہ کرے اور نہ اُس کی کمزوری کا کسی اور کے پاس ذکر کرے.پس اس نظر سے اگر کوئی دوسرے بھائی کے اعمال کو دیکھے گا تو یہ تجنس نہیں کہلائے گا.تجسس اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے بھائی کے حالات معلوم کرنے کیلئے مخفی ذرائع سے کام لے اور پھر لوگوں میں باتیں کرتا پھرے لیکن جب یہ اپنے بھائی کا نقص اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے اور کسی اور کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہونے دیتا تو یہ اپنے دوست کا محاسب ہے تجسس نہیں اور دوستوں کا محاسبہ کرنا بڑی نیکی ہوتی ہے.یہ یاد رکھو کہ میں نے نگاہ رکھنا کہا ہے تجنس نہیں کہا اور نگاہ رکھنا اور ہوتا ہے اور تجنس اور.اگر یہ کسی کے مکان پر جاتا اور گھر والے کے بچہ کو بلا کر پوچھتا ہے کہ آج تمہارے ہاں کیا کیا پکا ہے؟ تو یہ نجس ہے اور منع ہے لیکن نگاہ رکھنا یہ ہے کہ مثلاً باتوں باتوں میں کسی نے کہہ دیا کہ آج ہم نے گھر میں یہ چیز پکائی ہے تو اس کی باتیں سن کر اسے نصیحت کر دی کہ یہ درست نہیں ایک ہی کھانا کھانا چاہئے.پس ،
خطبات محمود ۷۶۱ سال ۱۹۳۶ اگر دوست اس کا خیال رکھیں تو میں سمجھتا ہوں یقیناً قومی کیریکٹر میں ایک بہت بڑی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تبدیلی ہو بھی رہی ہے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں قربانی کی روح اس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے مگر قربانی کی روح بھی انہی میں پیدا ہوتی ہے جو بشاشت سے اعمال بجالائیں کیونکہ روحانی امور بشاشت ہی سے تعلق رکھتے ہیں.جو لوگ عمل کریں مگر ساتھ ہی کی چلے جائیں اور کہتے جائیں کہ جب سے ایک کھانا کھانا شروع کیا ہے کھانے میں مزا ہی نہیں رہا انہیں میں یہی کہوں گا کہ وہ دو ہی کھانے کھائیں کیونکہ ان کا دو کھانے کھانا ایک کھانا کھانے سے زیادہ اچھا ہے.پس اس تحریک میں وہی شامل ہو جو اس تحریک کی خوبیوں کا قائل ہو گیا ہو اور اپنی اور اپنی جماعت کی زندگی اس میں محسوس کرتا ہو اور جو شخص ابھی اس مقام پر نہیں پہنچا وہ تجربہ کر کے دیکھ لے اگر ایک کھانا کھانے کے بعد اس کے دل میں بشاشت پیدا نہ ہو تو چھوڑ دے یعنی اگر اس کی تحریک کی خوبیوں کو نہ اس کا دل مانتا ہو نہ عقل اور وہ تجربہ کر کے فائدہ نہ دیکھے تو اسے چھوڑ دے.ہاں وہ شخص جس کی عقل تو نہ مانتی ہومگر دل مانتا ہو یعنی وہ سمجھتا ہو کہ خواہ میرا انفس کچھ اور کہتا ہے مگر تب میں ایک شخص پر اعتقاد رکھتا ہوں کہ وہ میرا استاد ہے تو اس نے جو کچھ کہا ہوگا درست ہی کہا ہوگا تو ایسے شخص کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن وہ شخص جس کی نہ عقل مانتی ہو نہ دل اور عمل کے بعد بھی اس کی قبض دور نہیں ہوتی وہ اس مطالبہ پر عمل کر کے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا سوائے اس کے کہ اس کی صحت خراب ہو اور وہ صبح شام کڑھتار ہے اور کچھ نتیجہ اس کیلئے نہیں نکلے گا.میں نے جیسا کہ بتایا ہے یہ معمولی مطالبہ نہیں بلکہ نہایت ہی اہم مطالبہ ہے اور یقیناً جوانی شخص رسول کریم ﷺ کی زندگی ، صحابہ کرام کی زندگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق پر غور کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اسلامی تعلیم اور اسلامی تعامل یہی ہے.باقی رہا یہ کہنا کہ اگر اسلامی تعلیم یہی ہے تو آپ حکم کیوں نہیں دیتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں جو عمل کیا جائے وہ بشاشت سے کیا جائے اور اپنی مرضی سے کیا جائے تا کہ ثواب بڑھے.جو فوری ضروریات ہوتی ہیں اُن کے متعلق ہم حکم دے دیتے ہیں اور جو فوری امور نہ ہوں ان میں ہم حکم نہیں دیتے بلکہ قوم کو تیار کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں جوں جوں ہماری جماعت اس تحریک پر عمل
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کرتی چلی جائے گی ایک طبقہ ایسا پیدا ہو جائے گا جو پھر واپس نہیں جائے گا اور کہے گا ہمارے لئے یہی مقام اچھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسلام ایسے تمدن کو قائم کرنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمدن سے بالکل مختلف ہے اور یہ اس تمدن کی پہلی سیڑھی ہے.آج اگر ہم اس تمدن میں تبدیلی نہیں کر سکتے تو جب ہمیں بادشاہتیں ملیں گی اُس وقت کیا کریں گے.ابھی تو ہماری جماعت میں سے اکثر لوگ غریب ہیں لیکن جب ہم میں سے اکثر لوگوں نے محنت کرنی شروع کر دی اور سلطنتیں اور حکومتیں آگئیں تو پھر کتنی خرابیاں پیدا ہو جانے کا احتمال ہے پھر تو وہی چالیس چالیس کھانا کھانے والے لوگ آجائیں گے جن کا ایک ایک لقمہ چکھ کر پیٹ بھر جائے گا اور شکایت کریں گے کہ انہیں بھوک نہیں کی لگتی.غریب بھوکے مر رہے ہوں گے اور ہماری جماعت میں سے وہ لوگ جن کے پاس بادشاہتیں ہوں گی ان کی کوشش یہ ہوگی کہ ساری دنیا کی دولتیں جمع کریں اور باقی ملکوں کو کنگال اور مفلسی بنادیں.پس اس چھوٹی سی بات کی طرف اگر توجہ نہ کی گئی تو اس کے نتیجہ میں ہم دنیا کیلئے جنت نہیں دوزخ پیدا کرنے کا موجب ہو جائیں گے جیسے یورپ والے آج کل جہاں جاتے ہیں لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے ہیں کہ وہ تمام ملکوں کی دولت جمع کر کے لے گئے لیکن اگر وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرتے تو جہاں جاتے لوگ ان کے ہاتھ چومتے اور کہتے آگئے ہمیں غلامی کی قید سے آزاد کرانے والے پس یہ تقویٰ کی راہ ہے جو میں نے بتائی ہے اور تقویٰ بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ چاہتا ہے آخر بغیر کسی ریعہ کے ہم تقومی کس طرح پیدا کر سکتے ہیں.جو جو بدیاں دنیا میں پیدا ہیں اُن کے مٹانے کا کوئی نہ کوئی سامان چاہئے اور انہی سامانوں میں سے ایک یہ ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے اور کھانے پینے اور پہننے میں ایسا طریق اختیار کیا جائے جس میں اسراف نہ ہو اور جس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حصہ شامل ہو اور امراء اور غرباء کے تعلقات میں کوئی ایسی دیوار حائل نہ ہو کہ غریب امیر کو بلانے سے ڈرے اور امیر غریب کی دعوت قبول نہ کر سکے بلکہ ایسا تمدن قائم ہو جائے ހނ کہ ہر شخص دوسرے سے خوشی سے ملے اور تکلفات جاتے رہیں اور یہ سب کچھ سادہ زندگی.حاصل ہوسکتا ہے.میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ہمارے ملک میں پیروں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ جہاں انہیں کوئی مرید ملے وہ اپنی جوتی اُتار دے اور میں دیکھتا ہوں کہ باوجود
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ میرے روکنے کے ہماری جماعت کے بعض دوستوں پر اس کا اب تک اثر ہے اور چوتھے پانچویں کوئی نہ کوئی دوست ایسا ملنے آجاتا ہے کہ وہ ادب سے جوتی اُتارنا شروع کر دیتا ہے.بس میری اور اس کی کشتی شروع ہو جاتی ہے میں کہتا ہوں جوتی پہنو اور وہ جوتی اُتار رہا ہوتا ہے.تو اسلام یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں برادرانہ تعلقات پیدا ہوں.بے شک ایک بڑا بھائی ہو اور دوسرا چھوٹا لیکن بہر حال اخوت اور برادری ہوا اور اخوت ہی اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.غریب کو تم چھوٹا بھائی سمجھ لو اور امیر کو بڑا لیکن امیر اور غریب دونوں بھائی ہیں اور یہی روح ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ہے اور یہ ادب کے بھی منافی نہیں.کیا چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کا ادب نہیں کرتا اور کیا بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کیلئے قربانیاں نہیں کرتا.بے شک جب مسند پر بیٹھنے کا وقت آئے تو چھوٹا کی بھائی اپنے بڑے بھائی کو جگہ دے گا اور آپ ایک طرف بیٹھ جائے گا لیکن نوکروں کی طرح وہ جوتیوں میں نہیں کھڑا ہوگا یہی چیز ہے جس کو پھر اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور یہی دُنیوی ت ہے جب یہ نہ ہو اور لکیریں کھینچ دی جائیں کہ تم برہمن ہو، تم کھشتری ہو، تم شو در ہو اُس وقت محبت اور پیار نہیں رہتا اور جس کا داؤ چلتا ہے دوسرے کو ذلیل کر کے نکال دیتا ہے لیکن جب برادری قائم ہو جائے تو آپس کے تعلقات خراب نہیں ہو سکتے.کوئی چھوٹا بھائی یہ کبھی نہیں کہتا کہ میں اپنے بڑے بھائی کو ماردوں کیونکہ گو اپنے بڑے بھائی کا ادب کرتا ہے لیکن وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ اپنے سکھ کو میرے لئے قربان کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر کچھ چھوٹے ہونے کی قیمت ادا ئی ہورہی ہے تو کچھ بڑے ہونے کی قیمت بھی ادا ہو رہی ہے.چھوٹا سمجھتا ہے کہ گو یہ آگے بیٹھتا ہے اور میں پیچھے بیٹھتا ہوں لیکن جب باپ موجود نہ ہو اس کا فرض ہے کہ کما کر چھوٹے بھائیوں کو پالے یا وہ مصیبت میں ہوں تو یہ انہیں بچانے کیلئے جد و جہد کرے یا باپ کی عدم موجودگی میں ان کا حافظ ونگران ہو.پس اس پر جو ادب کی قربانی ہے وہ گراں نہیں گزرتی وہ سمجھتا ہے کہ دونوں ہی اپنے مقام کی قیمت ادا کر رہے ہیں وہ ایک طرح دے رہا ہے اور میں دوسری طرح دے رہا ہوں.اسی طرح میاں بیوی کا تعلق ہے بیوی کھانا پکاتی ہے اور بظاہر وہ ایک ملازمہ نظر آتی.لیکن دوسرے موقع پر اُس کا میاں اُس کی ہر بات مان رہا ہوتا ہے اور بیوی سمجھتی ہے کہ گو میں اس کا کام کرتی ہوں مگر اس کو بھی میری اطاعت کی قیمت دوسری طرح ادا کرنی پڑتی ہے.خاوند اس
خطبات محمود ۷۶۴ سال ۱۹۳۶ پر روپیہ خرچ کرتا ہے، خاوند اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور خاوند اس کی تکلیف میں کام آتا ہے.پس بیوی اپنے آپ کو نو کر نہیں سمجھتی بلکہ وہ کہتی ہے کہ اگر اپنے تعلق کی ایک قیمت میں ادا کر رہی ہوں تو میرا خاوند بھی اپنے تعلق کی قیمت ادا کر رہا ہے.یہی اخوت کا تعلق ہوتا ہے جس میں تمام انسان ایک دوسرے کیلئے قربانیاں کرتے ہیں صرف عمل کے دائرہ میں اختلاف ہوتا.ور نہ ہوتی برا بری ہی ہے.یہ چیز ہے جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کا ایک ذریعہ تحریک جدید ہے جس میں اپنے ہاتھوں سے کام کرنا ، کھانے میں سادگی ، لباس میں سادگی اور رہائش میں سادگی رکھی گئی ہے اور یہ عارضی چیزیں نہیں بلکہ مستقل چیزیں ہیں اور دوستوں کا فرض ہے کہ جبر سے نہیں بلکہ پیار سے ، محبت سے سمجھا کر ، دلائل دے کر لوگوں کو قائل کریں.جب یہ باتیں ہماری جماعت کے قلوب میں راسخ ہو جائیں گی تو جب احمدیت کو بادشاہتیں ملیں گی اُس وقت کے بادشاہ بادشاہ بن کر نہیں بلکہ بھائی بن کر حکومت کریں گے اور جہاں جائیں گے لوگ کہیں گے یہ ہمیں اُٹھانے آئے ہیں اور جس جس ملک میں بھی احمدیت پھیلے گی خواہ انگلستان میں پھیلے ، خواہ جرمن میں یہ وہاں کا نقشہ بدل کر رکھ دے گی اور وہ جابر حکومتیں نہیں ہوں گی بلکہ خادم حکومتیں ہوں گی اور دنیا کولوٹنے کیلئے قائم نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کو ابھارنے کیلئے قائم ہوں گی اور اس ذریعہ سے پھر اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت ظاہر ہوگی.پس میں اس مطالبہ کی طرف جماعت کو پھر توجہ دلا تا ہوں یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ نہایت ہی اہم ہے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس کی طرف خاص توجہ کریں اور اپنے اخلاق کو ایسی طرز پر ڈھالیں کہ وہ نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان کے تمام بھائیوں کیلئے رضائے الہی کا موجب ، سکھ کا موجب، عزت کا موجب اور نیک نامی کا موجب ہوں.( الفضل ۲۲ / دسمبر ۱۹۳۶ء) طه: ۱۳۲ القصص : ۲۵ الضحى: ۱۲
خطبات محمود ۷۶۵ ۴۵ سال ۱۹۳۶ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے متعلق فرائض اور واجبات (فرموده ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۶ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج بہت سے دوست جلسہ میں شمولیت کے ارادہ سے قادیان میں تشریف لائے ہوئے ہیں اور بہت سے اور دوست شام یا کل آنے والے ہیں جو ابھی آنے والے ہیں اُن تک تو میں اپنا پیغام نہیں پہنچا سکتا لیکن جو آچکے ہیں انہیں ان کے فرائض اور واجبات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس جلسہ میں شمولیت کرنے والوں پر خدا اور اس کے ماموروں کی طرف سے عائد ہوتے ہیں.قادیان کا یہ جلسہ اپنے اندر میلہ کا رنگ نہیں رکھتا کہ دوست یہاں جمع ہو کر خرید و فروخت کریں ، نہ یہ اجتماعی تفرج لے یا دلچسپی کیلئے کیا جاتا ہے کہ لوگ اس میں شامل ہو کر اپنے دل کی خوشی کے سامان مہیا کریں بلکہ ان دنوں قادیان میں جمع ہونے کی غرض صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معبودِ حقیقی اور ہمارے خالق نے اس زمانہ کے لوگوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے اور دنیا میں مختلف اقسام کے فتنے اور فساد دیکھ کر آواز دی ہے اُن صادق الوعد لوگوں کو جو ایمان میں بچے اور وعدوں میں پکے ہیں اُن کو بلایا ہے کہ اس کے دین کی ترقی اور اس کے نام پر علو کیلئے اس مقام پر جمع ہو کر تدابیر اور تجاویز کریں.پس جس طرح نازک وقت پر انسان کا دل فضولیات اور لغویات کی طرف متوجہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ نہیں ہوسکتا اسی طرح اس موقع پر بھی ہر قسم کی لغویات سے پر ہیز لازمی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس جلسہ کی کیفیت عام جلسوں یا میلوں کی نہیں ہو سکتی.میلوں میں لوگ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ خوشیاں منائیں مگر ہم یہاں اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اسلام کیلئے اپنے درد کا اظہار کریں.ہمارے اجتماع کی غرض فریاد اور گریہ وزاری ہے پس قلب کی اس حالت میں اگر یہ سچی ہو اور ہم منافق اور بہانے بنانے والے نہ ہوں تو ان دنوں ہمیں ہر قسم کی فضولیات اور لغویات سے پر ہیز کرنا چاہئے.رسول کریم ﷺ کی زندگی کا ہر واقعہ دوسرے سے بڑھ کر ہے اور ہر واقعہ ایسے انسان کی نگاہ کو جس کے دل میں محبت اور عشق کی چنگاری ہو اپنی طرف کھینچنے کیلئے کافی ہے مگر ان تمام نوادر ، سوانح اور واقعات میں سے جو آپ کو اپنی زندگی میں پیش آئے میرے مذاق کے مطابق لطیف تر اور جاذب تر واقعہ حنین کا ہے اور زیادہ روحانیت کو بڑھانے والا ہے.اُس وقت بعض حدیث العہد اور نئے مسلمان ہونے والوں کی کمزوری اور بعض کفار کی خود پسندی اور خودی کی وجہ سے جو صرف اظہاریشان کی غرض سے مسلمانوں سے مل گئے تھے اسلامی لشکر پر ایک سخت ابتلاء آیا.یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کفار سے زیادہ تھی مگر پھر بھی تمام اسلامی فوج تتر بتر ہوگئی اور رسول کریم ﷺ صرف ۱۲ صحابہ کے ساتھ چار ہزار تیراندازوں کے نرغہ میں گھر گئے.حضرت ابو بکر اور بعض دوسرے صحابہ نے آپ سے عرض کیا کہ اب ٹھہرنے کا وقت نہیں گھوڑے کی باگ پھیریں اور واپس چلیں تا اسلامی فوج کو دوبارہ جمع کر کے حملہ کیا جائے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے اور گھوڑے کی باگ اُٹھائی اور اُسے ایٹر لگا کر اور بھی آگے بڑھایا اور کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ یعنی میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں اور میری اس طاقت اور جرات کو دیکھ کر کہ میں چار ہزار تیراندازوں کے نرغہ میں ہونے کے باوجود آگے ہی بڑھتا جارہا ہوں غلطی سے یہ خیال نہ کرنا کہ مجھ میں خدائی صفات ہیں میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.پھر آپ نے حضرت عباس کو جو آپ کے چا بھی تھے مخاطب کر کے فرمایا آپ کی آواز اونچی ہے زور سے آواز دیں کہ اے انصار ! خدا کا ی
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ رسول تم کو بلاتا ہے.اُس وقت رسول کریم ﷺ نے صرف انصار کو آواز دی.اس میں کئی حکمتیں تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس شکست کی وجہ مکہ کے بعض لوگ تھے اور چونکہ مہاجرین کے اہل وطن نے کمزوری اور غداری دکھائی اس لئے اس رنگ میں آپ نے لطیف طور پر ان کو زجر کی اور صرف انصار کو آواز دی چنانچہ آپ نے فرمایا عباس انصار کو آواز دو.اور جس وقت حضرت عباس نے بلند آواز سے یہ فقرہ دہرایا کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اُس وقت اسلامی لشکر کی حالت تھی کہ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہمارے قبضوں سے نکلے جار ہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مکہ اور مدینہ سے ورے یہ نہیں رکیں گے.میدان سے بھا گنا مسلمان جانتے ہی نہ تھے اور ان کی غیر تیں یہ برداشت ہی نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کی سواریاں ان کو بھگا لے جائیں اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم سارا زور انہیں روکنے کیلئے لگا رہے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکتے تھے.ہر بھاگنے والا گھوڑا دوسرے کو اور بھگاتا تھا اور ہر بھاگنے والا سپاہی دوسروں کو اور پراگندہ کرتا تھا.وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم بالکل بے بس ہو گئے اور سمجھتے تھے کہ میدان میں واپس آنا ہماری طاقت سے باہر ہے کہ اتنے میں حضرت عباس کی گوجنے والی آواز آئی کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے جسے سنتے ہی یوں معلوم ہوا کہ گویا ہم پر بجلی گر گئی ہے، حشر کا دن ہے اور صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے.ہمیں دنیا و مافیها کا کوئی ہوش نہ تھا صرف ایک ہی آواز تھی جو ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ عباس کی آواز تھی ہم نے گھوڑوں کو موڑنے کی آخری کوشش کی جو مُڑ گئے مُڑ گئے اور جو نہ مڑے ہم نے تلوار میں نکال کر اُن کی گردنیں اڑا دیں اور پیدل دوڑ پڑے اور لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ الله ! لَبَّیک کہتے ہوئے آنا فانا آپ کے گرد جمع ہو گئے سے.یہ حالت اخلاص اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے کا واقعہ میں نہیں ہے جانتا لوگوں کے قلوب پر کیا اثر کرتا ہو مگر میرے پر یہ اثر ہوتا ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک لرزه ای طاری ہو جاتا ہے.تیرہ صدیاں اس پر گزرچکی ہیں جب بھی یہ واقعہ میرے سامنے آتا ہے میری روح لبیک کہتی ہوئی رسول کریم ﷺ کی طرف جاتی ہے اور میں ہمیشہ اس واقعہ کو حشر کے میدان سے تشبیہہ دیا کرتا ہوں.آج بھی خدا تعالی کی آواز محمد ﷺ میں سے ہوتی ہوئی خدا کے مامور اور آخری زمانہ
خطبات محمود ۷۶۸ سال ۱۹۳۶ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بلند ہوئی اور کہہ رہی ہے کہ اے احمد یو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور آپ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو فیق دی اور اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے.پس ان کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں کہ آپ کو یہ ایام کس تقویٰ ، کس محبت و عشق سے گزارنے چاہئیں.بظاہر ان ایام میں ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے نظر آتے کی ہیں لیکن دراصل خدا تعالیٰ نے ایک ہاتھ بڑھایا ہے جو ہمیں بلا رہا ہے اور ہماری نگاہیں اس کی طرف ہیں پس اپنی ذمہ داری کو محسوس کرو اور ان ایام کو بیکاری اور آوارگی ، سستی و غفلت میں نہ گزار و بلکہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے ، ذکر الہی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سننے میں گزارو.ذرا سوچو تو سہی کہ کون ایسا محبت و عشق کا دعویٰ کرنے والا ہو سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا رسول اسے آواز دے تو وہ راستہ میں کھڑا ہو کر بندروں کا تماشہ دیکھنے لگے.یہ دن حشر کے ایام سے مشابہ ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں اپنے دودھ پینے والے بچہ کو بھی بھلا دے گی.آج نی اپنی ضرورتوں ، رشتہ داروں، دوستوں، اپنے کاموں ، اپنے جذبات اور احساسات کو بھی بھول جاؤ تمہارے کانوں میں ایک ہی آواز گونجے اور وہ خدا تعالیٰ کی آواز ہو اور تمہارا فرض ہے کہ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھو.ہم میں سے کتنے ہوں گے جو کہتے ہوں گے کاش! ہم محمد ﷺ کے زمانہ ای میں ہوتے اور اس شمع کے گرد پروانوں کی طرح جل کر راکھ ہو جاتے.پھر کتنے ہوں گے جن کے دل میں یہ حسرت ہوگی کہ کاش! ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پاتے اور خدا تعالیٰ کے اس ماً مور، آخری مصلح، رسول کریم ﷺ کے بروز ، مظہر اور خلیفہ کے ارد گرد اپنے نفوس اور اپنے اموال قربان کر دیتے.ایسے تمام لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے بندے کبھی مرا نہیں کرتے بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں.دنیا میں لوگ مرتے آئے ہیں اور سب مرتے جائیں گے مگر رسول کریم ﷺ دائمی زندگی پانے والے انسان ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے حی ہونے کی تی چادر آپ پر ڈال دی ہے اور آپ کو کوئی نہیں مار سکتا.اسی طرح سب دنیا مرتی ہے اور مرتی جائے گی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے.خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کی چادر انہیں اوڑھادی ہے اور اب کوئی انہیں نہیں مار سکتا پس یہ مت خیال کرو کہ تم کس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابی بن سکتے ہو اور کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مل سکتے ہو.
خطبات محمود ۷۶۹ سال ۱۹۳۶ اگر آج تمہاری روحیں ان کے آستانہ پر گر جائیں اور ان کے روحانی وجود کی طرف بڑھیں تو تم آج بھی وہی رُتبے حاصل کر سکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کئے.ضرورت صرف تقویٰ ، اخلاص اور ایثار کی ہے.تم ہرگز ہرگز یہ خیال مت کرو کہ جو کچھ پہلوں کو ملا وہ تم کو نہیں مل سکتا صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر اصلاح پیدا کر و تقویٰ اور خشیت اللہ پیدا کرو.یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایک سچا عاشق اپنے معشوق کے پیارے سے محبت نہ کرے اور اس کے قریب نہ ہو.کیا یہ ممکن ہے کہ تم کسی کے ملازم ہو اور تمہارے آقا کا بچہ تمہیں جنگل میں اکیلا ملے اور تم اسے وہیں چھوڑ کر چلے آؤ.پھر یہ خیال کرو کہ اگر تقویٰ اور خشیت سے تم اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کر لو اور اس کے محبوب بن جاؤ تو اس کا کامل عبد محمد ﷺ کس طرح تم سے الگ ہو سکتا ہے یقین و محمد کا ہو خدا تعالیٰ اُس کا ہو جاتا ہے اسی طرح جو خدا تعالیٰ کا ہو جائے محمد رسول اللہ ﷺ خود بخود داس کے ہو جاتے ہیں.اسی طرح جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہو جائے خدا تعالیٰ اُس کا ہو جاتا ہے اور جو خدا کا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے ہو جاتے ہیں.پس اگر جسمانی طور پر محمد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے جدا ہو جائیں تو ہمارا خدا تو ہم سے جد انہیں تم اگر خدا کے ہو جاؤ تو محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بخود تمہارے ہو جائیں گے.پس اے بعد میں آنے والو! گھبراؤ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ترقیات کے رستے تمہارے لئے بند نہیں کئے.ایک بزرگ لکھتے ہیں کہ احادیث پڑھتے وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کرتا تھا کہ کیا خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے محمد ﷺ کی زبان مبارک سے کلمات سنے اور لوگوں تک پہنچائے.یہ حسرت میرے دل میں بڑھتی گئی یہاں تک کہ ایک شب خواب میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا بخاری لاؤ اور اس میں سے ایک حدیث خود مجھے پڑھائی اور پھر فرمایا کہ اب یہ براہ راست تم لوگوں کو ہماری طرف سے سنا سکتے ہو.پس اگر حقیقی محبت پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ پر کیا مشکل ہے کہ محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روحانی طور پر تم سے ملادے اور اس طرح ان کے صحابہ میں داخل کر دے لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ تم خودی اور خود پسندی، سستی ،غفلت اور دین سے بے اعتنائی ترک کر دو.اس لئے جو لوگ روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ جہاں تک ہو سکے جلسہ
خطبات محمود سال ۱۹۳۶ کی کارروائی کو دیکھیں اور دوسرے اوقات بھی باہم واقفیت بڑھانے اور محبت و اخوت پیدا کرنے میں صرف کریں اور ذکر الہی بہت کریں کیونکہ یہ دن میلے کے نہیں بلکہ خصوصیت سے خشیت الہی کے ہیں.یہ تین دن اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دو جو شخص تین دن بھی خدا کیلئے وقف نہیں کر سکتا اس کی سے یہ کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ساری عمر کیلئے اسے بلائے تو وہ لبیک کہے گا.پس ان ایام میں یہ عہد کر لو کہ انہیں تقویٰ اور خشیت کے حصول کی کوشش ، ذکر الہی اور دینی باتیں سننے اور اخوت و محبت کے بڑھانے میں صرف کرو گے اور ان ایام کو آوارہ پھرنے : دکانوں پر گپیں ہانکنے ، بازاروں میں فضول باتیں کرنے اور فساد و جھگڑے میں ضائع نہیں کروں گے.جو دوست ابھی نہیں آئے جو آئے ہوئے ہیں وہ اُن تک بھی میرا یہ پیغام پہنچا دیں تا وہ بھی زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کر سکیں.اس کے بعد میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں لیکن اس لئے نہیں کہ یہاں کے کام کرنے والوں کیلئے سہولت پیدا ہو بلکہ آپ لوگوں کے فائدہ کیلئے اور وہ یہ ہے کہ اتنے بڑے ہجوم غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں دوستوں کو چاہئے کہ پیار اور محبت سے کام لیں اور یہ خیال کر لیں کہ جتنی تکلیف انہیں پہنچے گی اتنا ہی ثواب انہیں حاصل ہوگا.میرا یہ مطلب نہیں کہ ذمہ وا را فسروں کو توجہ نہ دلائیں اس کے تو یہ معنے ہوں گے کہ نقص دور نہیں ہو سکے گا اور انتظامات میں اصلاح نہ ہو سکے گی.نقص کی افسروں تک اطلاع ضرور پہنچائیں لیکن اپنے دلوں میں ملال نہ پیدا ہونے دیں.جہاں غفلت اور سستی کا دور کرانا ایک بچے اور مخلص مؤمن کا فرض ہے وہاں اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنی اصلاح کا بھی خیال رکھے اور اس کا طریق یہی ہے کہ دل میں میل نہ آنے دے بلکہ خیال کرے کہ یہ تکلیف بھی میرے لئے ثواب کا موجب ہوگی.اس کی شکایت شکایت کیلئے نہیں بلکہ اس لئے ہو کہ نقص دور ہو کر سلسلہ کے کاموں میں ترقی ہو.کام کرنے والوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تین بلکہ چار پانچ دن خاص ہیں جن میں وہ برکتیں حاصل کر سکتے ہیں.سینکڑوں راتیں ان پر ایسی آئی ہوں گی کہ وہ غفلت کی نیند سوئے ہوں گے اور کئی ایسی بھی آئی ہوں گی کہ صبح اُٹھ کر فجر کی نماز مشکل سے ادا کی اور سورج نکل آیا وہ غفلت کی راتیں ایک تاریک چادر بن کر ان کے گرد چھا گئیں اور قرب الہی کے حصول میں رکاوٹ
خطبات محمود 221 سال ۱۹۳۶ بن گئیں.اب اگر وہ چار پانچ راتیں ہوشیاری اور بیداری میں صرف کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ظلمت کی چادر پھٹ سکتی ہے اور ایسا نور پیدا ہو سکتا ہے جو ان کو روحانی رستہ دکھانے میں مدد دے سکتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ تم خدمت کرتے ہو یہ خدا تعالیٰ کا تم پر فضل ہے کہ وہ ان مہمانوں کو یہاں لایا اور تم کو خدمت کا موقع دیا.اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم لوگوں کی خدمت کرتے ہو تو ی تم مشرک ، منافق اور جاہل ہو.یہ ان لوگوں کی خدمت نہیں بلکہ اُس خدا کی خدمت ہے جس نے یہ دن مقرر کئے ہیں اور جس نے اپنے دین کے اعلاء کیلئے اپنے بندوں کو یہاں جمع ہونے کا حکم دیا ہے.جب آقا کے گھر میں مہمان آیا ہوا ہو تو اس کے آگے کھانا رکھنے والا خادم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے مہمان کی خدمت کی ہے وہ مہمان کی نہیں بلکہ اپنے آقا کی خدمت کرتا ہے.پس آنے والے خدا کے مہمان اور تم خدا کے خادم ہوا گر تم ان مہمانوں کی خدمت کرتے ہو تو ان پر کوئی کی احسان نہیں کرتے.یادرکھو کہ یہ خدا کے مہمان ہیں ان کی ذراسی دل شکنی اور بہتک خدا تعالیٰ کی ج دل شکنی اور ہتک ہے.پس ہوشیار ہو جاؤ کہ تم عظیم الشان امتحان میں بٹھائے گئے ہو اور آئندہ آنے والے چار پانچ دن فیصلہ کریں گے کہ تم کامیاب ہوتے ہو یا نہیں.دنیا کے امتحانوں میں کامیاب ہو.والے لوگ انعامات حاصل کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے پیش کردہ سوالوں میں کامیابی حاصل کر کے جو انعامات حاصل ہو سکتے ہیں بندہ ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا اور نا کامی کی صورت میں جو سزا ملتی ہے دنیوی امتحانوں میں ناکامی کی سزا اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتی.پس کوشش کرو اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور باہر سے آنے والوں کو بھی امتحان میں کامیاب کرے.ہم سب کمزور ہیں ایک ہمارا خدا ہی ہے جو سب نقائص سے پاک ہے.آؤ ہم اس کے سامنے جھک جائیں اور اس سے عاجزانہ درخواست کریں کہ اے خدائے قدوس ! اپنے عاجز بندوں پر نظر کر ہمیں پاک کر اور اس امتحان میں کامیاب کر کہ نا کامی کی سزا کی برداشت کی طاقت ہم میں نہیں اور تیرے انعام سے ہم کبھی مستغنی نہیں ہو سکتے.میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ دوست بعد میں آنے والوں کو میری یہ نصیحت پہنچا دیں گے کہ ان اوقات کو خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت خرچ کریں کی
خطبات محمود ۷۷۲ سال ۱۹۳۶ کیونکہ جو نیک بات دوسرے تک پہنچاتا ہے وہ دوہرے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جب سننے والا اس پر عمل کرتا ہے تو اسے تیسرا ثواب ملتا ہے.ہمارے رب نے ثواب کی راہیں ہمارے لئے آسان کر دی ہیں بشرطیکہ سمجھنے والا سمجھے اور دیکھنے والا دیکھے.ا تفرج: سیر تماشا، تفریح مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۷ ۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ( الفضل ۱۶ / جنوری ۱۹۳۷ ء )