Khutbat-eMahmud V16

Khutbat-eMahmud V16

خطبات محمود (جلد 16)

خطبات جمعہ ۱۹۳۵ء
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبات علوم و معارف کا ایک انمول خزانہ ہیں اور پیش گوئی کے الہامی الفاظ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا‘‘ پر شاہدناطق ہیں۔ آپؓ کا دور خلافت نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے جو ایک تاریخ ساز دور تھا۔ اس نہایت کامیاب اور طویل دور میں آپؓ نے اپنے خطبات جمعہ کے ذریعہ جماعت کی تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی افقوں پر نمودار ہونےوالے ہر معاملے پر بروقت اور درست رہنمائی عطافرمائی۔ الغرض یہ خطبات جمعہ جماعت احمدیہ کا ایک بہت ہی قیمتی خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ جسے فاؤنڈیشن نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔


Book Content

Page 1

بِسمِ اللهِ الـ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمُ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کے خطبات کی سولہویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.اَلحَمدُ لِلَّهِ على ذلک.اس جلد میں ۱۹۳۵ ء کے ۴۸ خطبات جمعہ شامل ہیں.حضرت فضل عمر سلطان البیان کے خطبات علوم و معارف کا انمول خزانہ ہیں اور پیشگوئی کے الہامی الفاظ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ پر شاہد ناطق ہیں.حضرت مصلح موعود کا دور خلافت جو کم و بیش ۵۲ سال پر محیط ہے ایک تاریخ ساز دور تھا.اس نہایت کامیاب طویل دور میں حضور کے خطبات نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم وتربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیا.ہمارا یہ روحانی وعلمی ورثہ سلسلہ کے لٹریچر میں بکھرا پڑا تھا اور جماعت کے دوستوں کو اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن اس جماعتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان خطبات سے پورے طور پر استفادہ کرنے اور جماعتی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 2

صفحہ ۲۴ ۴۶ ۶۳ ۸۰ ۹۵ ۱۲۰ ۱۳۷ ۱۵۹ فہرست مضامین خطبات محمود خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده 1 ( خطبات جمعہ ۱۹۳۵ء) جلد ۱۶ موضوع خطبه ۴۱ جنوری ۱۹۳۵ء نئے سال کیلئے جماعت احمدیہ کا پروگرام ۲ ۱۱ار جنوری ۱۹۳۵ء خدمتِ اسلام کیلئے جماعت کا ہر فردا پنی زندگی وقف کر دے ۱۸ / جنوری ۱۹۳۵ء شریعت، قانون ، اخلاق اور دیانت کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے ۲۵ / جنوری ۱۹۳۵ء مخلصین کا انتہائی اخلاص اور بعض لوگوں کا قابلِ اصلاح روپ یکم فروری ۱۹۳۵ء مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ۸ فروری ۱۹۳۵ء ہر حال میں خلیفہ کی اطاعت فرض ہے ۱۵۷ / فروری ۱۹۳۵ء دنیا کو اعلیٰ اخلاق کے ساتھ فتح کرو ۸ ۲۲ فروری ۱۹۳۵ء زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے ۹ یکم مارچ ۱۹۳۵ء ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا

Page 3

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده ا.موضوع خطبہ ۸ / مارچ ۱۹۳۵ء اظہارِ حقیقت اور گالی میں فرق ۱ ۱۵ / مارچ ۱۹۳۵ء اگر دائمی حیات چاہتے ہو تو اشاعت احمدیت کیلئے ممالک غیر میں نکل جاؤ صفح ۱۷۲ ۱۹۳ ۲۱۱ ۲۲۳ ۲۳۶ ۱۲ ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء اجتماعی عبادت اور دعاؤں کی تحریک ۱۳ ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ء گورنمنٹ جو کچھ کرنا چاہتی ہے کھلم کھلا کرے ۱۴ ۱/۵ پریل ۱۹۳۵ ء اپنے نفسوں کو قربان کر دو اور آستانہ الہی پر گر جاؤ ۱۵ ۱۲ / اپریل ۱۹۳۵ء اُن قربانیوں کیلئے تیار ہو جاؤ جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے ۲۵۱ ۱ ۱۹ را اپریل ۱۹۳۵ ء اسلام کا بلند ترین نصب العین دنیا میں کامل مساوات قائم کرنا ہے ۱۷ ۲۶ اپریل ۱۹۳۵ء احراریوں کی مسلمانوں کو تباہ کرنے والی حرکات ۳۱۸ مئی ۱۹۳۵ء احراریوں کی ہر بات اُلٹی ہے ۱۹ ۲۴ مئی ۱۹۳۵ء زمین ہمارے مخالفین کے پاؤں سے نکلی جا رہی ہے ڈاکٹر سرا قبال کا حیرت انگیز بیان ۲۰ ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء تبلیغ احمدیت کیلئے ایک شاندار پروگرام ۲۱ ۷ جون ۱۹۳۵ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان ، کوئٹہ کا ہیبت ناک زلزلہ اور جماعت احمدیہ کا فرض ۲۲ ۱۴ جون ۱۹۳۵ء کامیابی کے چار گر / ۲۳ ۲۱ جون ۱۹۳۵ء سچائی پر قائم ہو جاؤ اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور دعاؤں میں لگ جاؤ ۲۶۲ ۲۸۱ ۲۹۶ ۳۱۳ ۳۲۲ ۳۲۹ ۳۴۰ ۳۵۰

Page 4

خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده موضوع خطبہ ۲۴ ۲۸ / جون ۱۹۳۵ء انذاری پیشگوئیاں مذہب کا حصہ ہیں.مذہب میں مداخلت کو ہم ہرگز برداشت نہیں کر سکتے صفحه ۳۶۷ ۳۸۲ ۲۵ ۵ / جولائی ۱۹۳۵ء مظلومیت کی پکار بدرگاہ کردگار ۲۶ ۱۲ جولائی ۱۹۳۵ ء اشتعال انگیز حالات کے متعلق جماعت احمدیہ کو ضروری نصائح ۴۰۱ ۲۷ ۱۹؍ جولائی ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ کو پُر امن رہنے کی تلقین ۲۸ ۲۶ جولائی ۱۹۳۵ ء احراریوں کی سازش سے قاتلانہ حملہ کے اثرات ، جماعت احمدیہ اور حکومت برطانیہ ۴۲۲ ۴۳۶ ۲۹ ۲ اگست ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ پر مظالم اور موجودہ فتن کے وسیع اثرات ۴۵۷ ۳۰ و ر ا گست ۱۹۳۵ء نیشنل لیگ کے متعلق اہم اور ضروری ہدایات ۱۶ ر ا گست ۱۹۳۵ء نیشنل لیگ کے متعلق ضروری ہدایات اور لائحہ عمل ۳۲ ۲۳ اگست ۱۹۳۵ء اب زیادہ سے زیادہ قربانیوں کیلئے تیار ہو جاؤ ۳۳ ۳۰ اگست ۱۹۳۵ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور خانہ کعبہ کی عظمت کی خاطر احرار کو مباہلہ کا چیلنج ۳۴ ۶ ستمبر ۱۹۳۵ء احرار کو مباہلہ کا چیلنج اور اس کی مزید تشریح ، مسجد شہید گنج کی خاطر جماعت احمدیہ ہر ممکن اور جائز قربانی کرنے کیلئے تیار ہے ۳۵ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۵ء احرار کو مباہلہ کا چیلنج اور اس کی اہم شرائط ۴/اکتوبر ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ اور احرار کی جنگ کو احرار کی معافی یا موت ہی ختم کر سکتی ہے.ہم صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہیں ۴۸۲ ۴۹۷ ۵۱۹ ۵۳۲ ۵۵۴ ۵۷۲ ۵۸۵

Page 5

صفحہ ۵۹۸ ۶۱۵ ۶۳۱ ۶۴۸ ۶۶۲ ۶۹۵ ۷۱۹ ۷۴۳ ۷۹۱ ۸۲۳ ۸۴۴ خطبه نمبر تاریخ بیان فرموده | موضوع خطبہ ۱۳۷ ۱۱ اکتو بر ۱۹۳۵ ء معاندین سے جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک سچ اور جھوٹ میں سے ایک قربان گاہ پر نہیں چڑھ جاتا.دین کیلئے مالی اور جانی قربانیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور انعام ہیں ۳۸ ۱۸ / اکتوبر ۱۹۳۵ء مؤمن اور غیر مومن کے آرام میں فرق ۳۹ ۲۵ اکتوبر ۱۹۳۵ء دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت ۴۰ یکم نومبر ۱۹۳۵ء گزشتہ سال سے زیادہ قربانیوں کیلئے تیار ہو جاؤ ۴۱ ۸ رنومبر ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ کے سامنے تین اہم سوال ۴۲ ۱۵ نومبر ۱۹۳۵ء تحریک جدید کے دوسرے سال کیلئے جماعت احمدیہ سے اہم مطالبات ۲۲۴۳ نومبر ۱۹۳۵ء ہماری ذمہ داریاں اور ہمارا بہت بڑا کام ۴۴ ۲۹ نومبر ۱۹۳۵ء قربانیوں کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی ۴۵ ۶ ؍ دسمبر ۱۹۳۵ء آل انڈیا نیشنل لیگ کے والنٹیئر ز کو اہم ہدایات ۱۳۴۶ / دسمبر ۱۹۳۵ء جلسہ سالانہ کے متعلق ضروری ہدایات ۴۷ ۲۰؍دسمبر ۱۹۳۵ء تحریک جدید کے تین اہم مطالبات ۴۸ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۵ء اشاروں میں ہی باتیں سمجھنے کی کوشش کرو W......

Page 6

خطبات محمود 1 سال ۱۹۳۵ء نئے سال کے لئے جماعت احمدیہ کا پروگرام (فرموده ۴ /جنوری ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلِكُلِ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا یعنی ہرشخص کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصود ہوتا ہے جسے وہ سامنے رکھ کر چلتا ہے.یہ مقصود آگے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو اتفاقی طور پر سامنے آ جاتے ہیں جیسے گاڑی چلتے چلتے جھٹکے سے یا کسی اور سبب سے انجن سے کٹ جاتی ہے مثلاً انجن کسی چڑھائی پر چڑھ رہا ہے اور گاڑی کٹ جائے اس کٹنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ گر جائے گی.اب یہ اس کی جہت تو ہو گی مگر ایسی جہت جو ہنگامی طور پر آپ ہی آپ پیدا ہوگئی انجن اگر چڑھ رہا تھا تو خاص ارادہ سے اور اگر گاڑیاں گری ہیں تو بغیر کسی ارادہ کے تو مقصود ہر ایک چیز کا ہوتا ہے لیکن کبھی اتفاقی طور پر وہ پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی ارادہ سے.جو مقصود اتفاقی طور پر پیدا ہو، اس کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا لیکن جو ارادہ سے پیدا کیا جاتا ہے اس کے لئے انسان قبل از وقت تیار ہوتا ہے.اب ہمارے لئے ایک نیا سال چڑھا ہے اور اسے مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس سال میں ہمارا مقصود کیا ہونا چاہئے.ہمارے مقصود دونوں قسم کے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ ہنگامہ میں ایک طرف چل پڑیں اور یہ بھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا ایک مقصود قرار دے لیں.ہنگامی مواقع پر طبائع کا جوش یہی چاہا کرتا ہے کہ جدھر حالات لیتے جائیں ، چلتے جائیں اور وہ اسے بہادری اور جرأت سمجھتے

Page 7

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء مقصود ہیں لیکن عقل کی ہدایت یہی چاہا کرتی ہے کہ سارے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک مقـ قرار دے لیں اور اس کے نزدیک یہی بہادری ہوا کرتی ہے.عقل اور جوش دونوں میں اختلاف ہوتا ہے اور دونوں اپنے اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں.جوش یہ کہتا ہے کہ اگر حاضر کو چھوڑ کر آئندہ کے پیچھے جاتے ہو تو یہ تم اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہو یہ جو کہتے ہو کہ ہمارا مقصود اعلیٰ ہے، یہ تم موجودہ حالات سے بچنے کیلئے کہتے ہو لیکن عقل جوش سے یہ کہتی ہے تمہارا وجود حماقت پر دلالت کرتا ہے تمہیں وسعت نظر حاصل نہیں.بینائی کوتاہ ہے تم دور کے مرغزار نہیں دیکھ سکتے تمہارے صرف سامنے کی دو چار بوٹیاں تمہاری نظر میں ہیں اور انہی کو دیکھ کر تم وہیں بیٹھ جاتے ہو.تمہارے قریب گدلے پانی کا چشمہ ہے تمہاری نظر اسی پر ہے مگر دور میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے اور تمہیں یہ ہمت نہیں کہ وہاں تک پہنچ سکو.تو جوش عقل کو بزدل اور بہانہ ساز سمجھتا ہے اور اسی طرح عقل جوش کو نا بینا اور وسیع النظری سے محروم قرار دیتی ہے اور دونوں کے پاس اپنی اپنی تائید میں دلائل ہیں.دونوں اپنے اپنے رنگ میں مضبوط ہیں لیکن صداقت کیا ہے ؟ اسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے عام طور پر لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی بات کچی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو خیلی طبائع جوش کی رو میں بہہ کر ایک طرف چل دیتی ہیں اور کچھ لوگ جو سمجھدار اور مستقل مزاج ہوتے ہیں وہ دوسری طرف چل دیتے ہیں.نتائج کبھی اس کے حق میں نکلتے ہیں اور کبھی اُس کے حق میں.جوش کی رو میں بہنے والے بعض اوقات اتنے زور سے کام کرتے ہیں کہ حالات کے نقشہ کو بدل دیتے ہیں.وہ نقشہ جو عقلمندوں نے اپنی عقل و دانش کی بناء پر تیار کیا ہوتا ہے اس میں طبہ نہیں کہ وہ نقشہ صحیح ہوتا ہے مگر وہ نقشہ حالات کے مطابق تیار کیا ہوا ہوتا ہے.ایک دریا بہتا ہے تم اُسے دیکھ کر یہ اندازہ کر سکتے ہو کہ یہ تین میل کے فاصلہ پر کہاں جا کر نکلے گا اور کن کھیتوں کو سیراب کرے گا مگر کوئی جوشیلا شخص اُٹھے اور دریا کے دہانہ کو کاٹ کر اُس کا رُخ دوسری طرف پھیر دے تو اس صورت میں اس اندازہ کا غلط ہونا لازمی ہے یا کوئی جوشیلا شخص دریا کے منبع کو اکھیڑ ہی ڈالے اور اس طرح پانی کو بکھیر دے تو وہ نہ دریا کی صورت اختیار کر سکے گا اور نہ کسی زمین کو سیراب کر سکے گا نہ کسی اور کام آ سکے گا.پس اندازے ہمیشہ صحیح نہیں ہو سکتے کبھی جوش والے کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی عقل کی پیروی کرنے والے اور درحقیقت کا میابی اسی کو ہوتی ہے جو وَالشَّزِعَتِ غرقاً لے کے ماتحت کام کرتا ہے اور یا پھر اسے کہ جس کے شامل حال اللہ تعالیٰ کا

Page 8

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء فضل ہو.اگر تو کوئی دینی کام ہو تو اس میں کامیابی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے نہ کہ کسی تدبیر سے اور اگر دنیوی ہو تو والنعتِ غَرقاً کے ماتحت کام کرنے والا کامیاب ہو جاتا ہے بعض اوقات ایک شخص اٹھتا ہے اور دیوانہ وار سب کچھ اپنے آگے بہا کر لے جاتا ہے اور بعض اوقات ٹھنڈی طبیعت والے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں.مختلف قوموں کی طبائع مختلف ہوتی ہیں.کہتے ہیں کہ جس نے فرانسیسیوں کا پہلا حملہ برداشت کر لیا ، وہ جیت گیا.ان میں جوش ہوتا ہے وہ اگر بات کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ رہا ہے زور زور سے بولیں گے.ہاتھ ، پیر، سر، سب حرکت کریں گے مگر اس کے بالمقابل ایک انگریز نہایت دھیما بیٹھا ہو گا اس لئے فرانسیسیوں کے متعلق مشہور ہے کہ جس نے ان کا پہلا حملہ سہہ لیا ، وہ جیت گیا.وہ اپنا سارا جوش پہلے حملہ میں صرف کر دیتے ہیں اور جو قو میں دھیمی طبیعت کی ہوتی ہیں وہ اگر پہلا حملہ برداشت کر جائیں تو سمجھو جیت گئیں کیونکہ پھر کوئی ان کے استقلال کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس دونوں باتیں ہمارے سامنے ہیں اور ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی بات اختیار کی جائے.ہم اس وقت ایک جنگ میں داخل ہیں، تمام مذاہب کے لوگوں میں ہمارے خلاف جوش ہے اور ایک بہت بڑا گر وہ ہمیں دکھ دینے میں لذت محسوس کر رہا ہے اور وہ قوم جس کے ہاتھ میں ہمارے ملک کا انتظام ہے اور جس کے یہاں ٹھہرنے کی وجہ ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ تا ملک میں امن قائم رہے اس کے بعض افراد کو بھی یا دھوکا دیا گیا ہے یا شاید بعض تعصب کا شکار ہو گئے ہیں.حالانکہ سمندر پار کے رہنے والے انگریزوں کا اس ملک میں رہنے اور ہم پر حکومت کرنے کا حق صرف اس بناء پر ہے کہ ہندوستانی با ہم امن وامان سے نہیں رہ سکتے اور وہ یہاں اس لئے ہیں کہ تا ملک کو فتنہ و فساد سے بچا کر امن قائم رکھیں.یہی ایک دلیل ان کے یہاں رہنے کی ہے اور یہ دلیل ایک وقت تک صحیح تھی اور آئندہ بھی صحیح رہے گی مگر اس جنگ کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ اس قوم کے بعض افراد نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی قوم کے اس جو ہر سے محروم ہیں اور یہ ناممکن نہیں.لمبے قد والی قوموں میں بھی ٹھنگنے اور بالشتیے پیدا ہو جاتے ہیں ،سفید رنگ والوں میں بھی سیاہ رنگ کے ہو جاتے ہیں.پس یہ لوگ یا تو مستثنیات سے ہیں اور ان کی قوم میں جو خوبیاں ہیں، ان سے عاری ہیں اور یا پھر اس کا یہ مطلب ہے کہ اس قوم کا معیار قابلیت اب گرنے لگ گیا ہے لیکن ہمیں اس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں.مختصر یہ کہ اس قوم کے بعض افراد ان ذمہ داریوں کو بھلا

Page 9

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء رہے ہیں جو ان کے یہاں رہنے کے لئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں.اگر ہم نے آپس میں لڑنا اور ایک دوسرے کے حقوق تلف ہی کرنا ہے تو پھر ان کے یہاں رہنے کا کیا فائدہ.ہم خود ہی لڑتے رہیں گے کیا وہ جھگڑ از یادہ اچھا ہوتا ہے جو انگریزوں کی موجودگی میں ہو.یا کیا وہ حق تلفی یا بے انصافی اچھی ہو جاتی ہے جو ان کے ہوتے ہوئے کی جائے.آج تک ان کی طرف سے بھی یہی کہا جاتا تھا اور ہم بھی یہی کہتے تھے کہ انگریز یہاں قیام انصاف کے لئے ہیں مگر اس قوم میں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جو انصاف نہیں کرتے.اگر تو ایسے افراد مستثنیات سے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر رحم کرے اور اسے بدنام ہونے سے بچائے.اور اگر انگریز حکام کا معیار اخلاق عام طور پر گر رہا ہے جو میرے نزدیک درست نہیں تو بھی میں یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور پھر پرانے اعلیٰ معیار پر قائم کرے کیونکہ ہمارے اور ان کے تعلقات اچھے رہے ہیں.جب تک اس قوم میں اچھے لوگ رہیں گے ان کے یہاں ٹھہرنے کا سامان رہے گا لیکن جس دن ان میں اچھے لوگ نہ رہے یا ان کا سٹینڈرڈ گر گیا تو اس دن نہ تیر ان کے کام آ سکیں گے ، نہ تفنگ، نہ تو ہیں نہ بمب نہ ہوائی جہاز.آپ ہی آپ ان کی حکومت میں اضمحلال پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی حکومت کے گر نے کے سامان پیدا ہو جائیں پھر اسے کوئی قائم نہیں رکھ سکتا اور وہ ریت کے قلعہ کی مانند گر جاتی ہے.قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق کیا اچھا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک کیڑا اندر ہی اندر گھن کی طرح حکومت کو کھا گیا.جس چیز کو گھن لگ جائے وہ بظاہر درست نظر آتی ہے نقص کا پتہ اسی دن لگتا ہے جب ساری کی ساری گر جائے.جس مکان کی چھت کو گھن لگا ہو وہ دیکھنے میں ٹھیک معلوم ہوتا ہے لیکن ایک دن یکا یک ساری چھت گر پڑتی ہے ، اسی طرح حکومتوں کا حال ہے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر قائم ہے مگر ایک دن پتہ لگتا ہے کہ اندر ہی اندر گھن نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے.پس ہم اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرتے ہیں کہ وہ انگریزوں کو اس برے دن سے بچائے.سر دست تو یہ حال ہے گو غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے اور ہمیں پوری حقیقت کا علم نہیں ہوسکتا کہ ہمارے خلاف اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، اس میں بعض انگریز افسروں کا بھی دخل ہے.گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس حصہ کو حقیقتا گورنمنٹ کہتے ہیں، اسے ان کا رروائیوں کا علم ہے یا نہیں لیکن بہر حال خواہ ایسے واقعات حکومت کے علم کے بغیر ہوں ، وہ حکومت کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ فساد

Page 10

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء بڑھنے سے خو د حکومت کو بھی ضعف پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہو گا یا کیا نہ ہو گا مگر میں نے تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک پروگرام تیار کیا ہے اور ایک سکیم جماعت کے سامنے رکھی ہے کہ اس طریق پر عمل کرو تو احراری فتنہ سے محفوظ رہو گے.میں یقین رکھتا ہوں، خالی یقین نہیں بلکہ ایسا یقین جس کے ساتھ دلائل ہیں اور جس کی ہر ایک کڑی میرے ذہن میں ہے اور اس یقین کی بناء پر میں کہتا ہوں کہ گو جو شیلے لوگوں کو وہ سکیم پسند نہ آئے لیکن ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر بچے طور پر عمل کریں تو یقینا یقینا فتح ان کی ہے.میں نے روپیہ کے متعلق جو تحریک کی تھی ، اس کا جواب جو جماعت کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اتنا خوش آئند ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ باقی حصہ سکیم میں جماعت کمزوری دکھلائے گی.مگر جیسا کہ میں نے کئی بار بیان کیا ہے بعض لوگ فوری بڑی قربانی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر مستقل اور چھوٹی قربانی نہیں کر سکتے.میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی مگر اس وقت تک ساٹھ ہزار سے زائد کے وعدے آچکے ہیں اور بیس ہزار کے قریب نقد آ چکا ہے اس لئے بالکل ممکن ہے کہ گو میں نے پندرہ جنوری تک صرف وعدوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس تاریخ تک نقد رقم مطالبہ کے برابر یا اس سے بڑھ کر آ جائے.جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھا زائد رقم کا ایک حصہ یعنی چھ سات ہزار روپیہ تو میں قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر خرچ کرنا چاہتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ جلد سے جلد انگلستان آدمی بھیجے جائیں جو اس کی چھپائی وغیرہ کا جلد سے جلد انتظام شروع کر دیں اور باقی جو روپیہ بچے گا اسے آئندہ دونوں سالوں پر تقسیم کر دیا جائے گا.اور اس صورت میں بجائے ۲۲ ہزار کے آئندہ سالوں میں صرف چودہ پندرہ ہزار روپیہ ہی جماعت سے مانگنا پڑے گا ، باقی پہلے ہی جمع ہو گا.مگر میں یہ بتانا گا، چاہتا ہوں کہ یہ روپیہ کی تحریک اصل تحریک کا سواں حصہ بھی نہیں ، بقیہ تحریک میں جو اصول ہیں وہ بہت زیادہ مفید اور اہم ہیں اس لئے ان پر زیادہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے خالی روپیہ جمع کر لینے سے کچھ نہیں بن سکتا کیونکہ سواں حصہ تو کوئی چیز نہیں.ایک شخص ایک گلاس پانی یا دودھ میں تین چمچ شکر ڈالنے کا عادی ہے ، ایک پیچ میں ڈھائی تین ڈرام شکر آتی ہے اور اس طرح وہ قریباً ایک اونس شکر ڈالتا ہے لیکن اگر وہ اس کا سواں حصہ یعنی صرف اڑھائی رتی ڈالے تو کیا اس سے پیالہ میٹھا ہو جائے

Page 11

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء گا.ہرگز نہیں.اس میں اتنی مقدار کا تو پتہ بھی نہیں لگ سکے گا.پس جو چیز تحریک کا سواں حصہ ہے اس پر خواہ کس قدر جوش کے ساتھ عمل کیا جائے ، کامیابی نہیں ہو سکتی.اصل کام وہ ہے جو جماعت کو خود کرنا ہے روپیہ تو ایسے حصوں کے لئے ہے جہاں پہنچ کر جماعت کام نہیں کر سکتی باقی اصل کام جماعت کو خود کرنا ہے.قرآن اور حدیث سے کہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو.کوئی نبی ایسا نہ تھا جس نے مبلغ اور مدرس نوکر رکھے ہوئے ہوں.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بھی مبلغ نوکر نہ تھا اب تو جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے سہارے کے لئے بعض مبلغ رکھ لئے گئے ہیں.جیسے پہاڑوں پر لوگ عمارت بناتے ہیں تو اس میں سہارے کے لئے لکڑی دے دیتے ہیں تا لچک پیدا ہو جائے اور زلزلہ کے اثرات سے محفوظ رہے.پس ہمارا مبلغین کو ملازم رکھنا بھی لچک پیدا کرنے کے لئے ہے وگر نہ جب تک افراد جماعت تبلیغ نہ کریں، جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اوقات دین کے لئے وقف ہیں ، جب تک جماعت کا ہر فرد سر کو ہتھیلی پر رکھ کر دین کے لئے میدان میں نہ آئے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علیحدہ کیا ہے تو اس کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اس کے بھائیوں کی تلوار اس کے خلاف اُٹھے گی اور اس کی تلوار ان کے خلاف.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی ہوگا کیونکہ نبی کے خلاف ہی ساری دنیا کی تلوار میں اٹھتی ہیں.پس جب تک کوئی شخص ساری دنیا کی تلواروں کے سامنے اپنا سر نہیں رکھ دیتا اس وقت تک اس کا یہ خیال کرنا کہ وہ اس مأمور کی بیعت میں شامل ہے فریب اور دھوکا ہے جو وہ اپنی جان کو بھی اور دنیا کو بھی دے رہا ہے.ہماری جماعت کے زمیندار اور ملازم اور تاجر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اور چند مبلغ ملازم رکھ کر کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ خدا کی جماعت ہیں حالانکہ یہ حالت خدا کی جماعتوں والی نہیں اس صورت میں ہم زیادہ سے زیادہ ایک انجمن کہلا سکتے ہیں.خدائی جماعت وہی ہے جس کا ہر فرد اپنے آپ کو قربانی کا بکرا بنا دے اور جس کا ہر ممبر موت قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے.یاد رکھو جو جماعت مرنے کے لئے تیار ہو جائے اسے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ اس کے مقابلہ پر کوئی ٹھہر سکتا ہے.پنجاب گورنمنٹ کی مردم شماری کی رُو

Page 12

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سے ہماری تعداد چھپن ہزار ہے مگر میں کہتا ہوں اسے جانے دو، اس سے پہلے وہ ۲۸ ہزار بتائی جاتی تھی اس لئے ۲۸ ہزار ہی سہی.مگر نہیں.اس سے دس سال پہلے وہ ۱۸ ہزار کہی جاتی تھی اس لئے ۱۸ ہزار ہی سہی بلکہ اس سے دس سال قبل وہ گیارہ ہزار سجھی جاتی تھی اس لئے میں گیارہ ہزار ہی فرض کر لیتا ہوں مگر کیا اگر گیارہ ہزار لوگ جانیں دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو کوئی قوم ہے جو انہیں مار سکے ، ہرگز نہیں.انہیں مارنے والی قوم خود تباہ ہو جاتی ہے.یاد رکھو جو شخص دلیری کے ساتھ جان دیتا ہے وہ دیکھنے والے پر یہ اثر چھوڑ جاتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی چیز ضرور تھی جس کے لئے اس نے اس قدر بشاشت سے جان دی.آؤ ہم بھی دیکھیں اس سلسلہ میں کیا بات ہے اور یہ اثر گیارہ ہزار کے ختم ہونے سے پہلے ۲۲ ہزار اور پیدا کر دیتا ہے اور پھر ان بائیس ہزار کے ختم ہونے سے پہلے ستر استی ہزار اور پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کے مرنے سے پہلے کئی لاکھ اور ہو جاتے ہیں اور اس طرح ایک وقت وہ آ جاتا ہے کہ کوئی نہیں جو انہیں مار سکے اور جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ روح پیدا نہ ہو اور جب تک ہر شخص اپنی جان سے بے پرواہ ہو کر دین کی خدمت کے لئے آمادہ نہ ہو جائے.کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی.یہ اور بات ہے کہ ہم کسی پر ظلم نہ کریں ، فساد نہ کریں ، قانون شکنی نہ کریں مگر یہ روح ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ظالم کی تلوار سے مرنے کے لئے تیار رہیں اور میرے پروگرام کی بنیاداسی پر ہے.جب میں کہتا ہوں کہ اچھا کھانا نہ کھاؤ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اس لئے زندہ رہنا چاہتا ہے ، وہ نہ رہے اور جب کہتا ہوں قیمتی کپڑے نہ پہنو تو گو یا طلب زندگی کے اس موجب سے میں تمام جماعت کے لوگوں کو محروم کرتا ہوں اور جب یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم رخصتیں اور تعطیلات کے اوقات سلسلہ کے لئے وقف کرو تو اس بات کے لئے تیار کرتا ہوں کہ باقی اوقات بھی اگر ضرورت ہوتو سلسلہ کے لئے دینے کے واسطے تیار رہیں اور جب وطن سے باہر جانے کو کہتا ہوں تو گویا جماعت کو ہجرت کیلئے تیار کرتا ہوں.طب میں سہولتیں پیدا کرنے کو اس لئے کہتا ہوں کہ جو لوگ تہذیب و تمدن کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس لئے باہر نہیں جا سکتے کہ وہاں یہ سہولتیں میسر نہیں آ سکتیں اور معمولی تکلیف کے وقت بھی اعلیٰ درجہ کی دوائیں اور دوسری آرام دہ چیزیں نہیں مل سکتیں ان کو اس سے آزاد کر دوں اور تہذیب کے ان رسوں کو توڑ دوں.جب ایک کشتی کے زنجیر توڑ دیئے جائیں تو کسی کو کیا معلوم کہ پھر لہریں اسے کہاں سے کہاں لے جائیں گی.

Page 13

خطبات محمود Δ سال ۱۹۳۵ء پس میں نے جماعت کی کشتی کا لنگر توڑ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کشتی کو جہاں چاہے لے جائے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے لئے کس ملک میں ترقی کے لئے زیادہ سامان مہیا کئے گئے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ دس ہیں یا سو دو سو روپیہ دے دیا اور فرض ادا ہو گیا یہ تو ادنی ترین قربانی تھی.سکیم کے اصل حصے دوسرے ہیں جو زیادہ اہم ہیں اور جب تک ہر فردِ جماعت اس کی طرف توجہ نہ کرے اور اس احتیاط کے ساتھ ان پر عمل نہ کرے جس کے ساتھ ایک لائق اور ہوشیار ڈاکٹر اپنے زیر علاج مریض کو پر ہیز کرواتا ہے ، اس وقت تک فائدہ نہیں ہو سکتا.میں نے اپنی ذات میں بھی تجربہ کیا ہے اور باہر سے بھی بعض دوستوں کے خطوط آئے ہیں کہ پہلے یہ خیال رہتا تھا کہ فلاں خرچ کس طرح پورا کریں مگر اب یہ خیال رہتا ہے کہ اس خرچ کو کس طرح کم کریں اس پر عمل کرنے سے اور بھی بعض فوائد حاصل ہوتے ہیں.مثلاً ہمارے گھر میں لوگ تحائف وغیرہ بھیج دیتے ہیں اور میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں.کہا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تھی بھیج دیا تھا.تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے تعلقات تو ساری جماعت سے ہیں اس لئے ہمارے ہاں تو ایسی چیزیں روز ہی آتی رہیں گی اس لئے جب ایسی چیزیں آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیج دیا کرو، ضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھاؤ.اس سے غرباء سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے اُنس پیدا ہو گا.کئی دوست لکھتے ہیں کہ اس سکیم کے ماتحت تو ہمیں فلاں خرچ بھی ترک کرنا پڑتا ہے اور میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ یہی تو میری غرض ہے.پس اس سکیم میں میں نے جو جو تحریکیں کی ہیں ، وہ ساری کی ساری ایسی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے تخفیف کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں ہم اپنی حالت کو زیادہ سے زیادہ اسلامی طریق کے مطابق کر سکتے ہیں.میں ان لوگوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پہلا طریق اسلامی نہیں تھا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلامی طریق یہی ہے کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ ور ان کے یعنی وہ قربانی کرو جس کا امام مطالبہ کرتا ہے.جب وہ کوئی مطالبہ نہ کرے، اس وقت حلال وطیب کو دیکھنا چاہئے لیکن جہاں وہ حکم دے وہاں حلال و طیب کو بھی چھوڑ دینا چاہئے.( ہاں مگر یہ ضروری ہے کہ یہ وقتی قربانی ہو اور اسلام کے دوسرے اصولوں کے مطابق ہو.بدعت کا رنگ نہ ہو ) غرض میں پہلے طریق کو نا جائز قرار نہیں دیتا مگر اب جو طریق میں نے تجویز کیا ہے اس پر عمل کرنا

Page 14

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ضروری ہے کیونکہ اب یہی اسلامی طریق ہے اور اب جو ڈھال کی پناہ میں نہیں آئے گا وہ دشمن کے تیر کھائے گا.بہر حال اس سال کے لئے ہمارا پروگرام یہی ہے اور ہر احمدی کو یہی چاہئے کہ اسے یاد کر لے اور اس پر عمل کرے.میرے دل میں یہ تحریک ہو رہی ہے کہ اس سکیم کے چارٹ تیار کرائے جائیں اور پھر انہیں ساری جماعت میں پھیلا دیا جائے.ہر احمدی کے گھر میں وہ لگے ہوئے ہوں تا سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے ان پر نظر پڑتی رہے.ہمارے خطیب ہر ماہ کم سے کم ایک خطبہ میں نئے پیرا یہ میں اسے دُہرا دیا کریں تا احساس تازہ رہے.پھر ہمارے شاعر اردو اور پنجابی نظمیں لکھیں جن میں سکیم ، اس کی ضرورتیں اور فوائد بیان کئے جائیں جو بچوں کو یاد کر وا دی جائیں اور اگر اس طریق پر سال بھر کا م کیا جائے تو جماعت میں بیداری پیدا کی جاسکتی ہے.ایک دوست کا مجھے خط آیا ہے کہ ایک بڑے سرکاری افسر نے ان سے کہا کہ ہماری رپورٹ یہ ہے کہ اس سکیم کا جواب جماعت کی طرف سے اس جوش کے ساتھ نہیں دیا گیا لیکن کیا ہی عجیب بات ہے کہ حکومت قرضہ مانگتی ہے جس میں قرضہ دینے والوں کو زیادہ سے زیادہ نفع دیا جاتا ہے اور پھر اگر وہ دو گنا بھی ہو جائے تو تاریں دی جاتی ہیں کہ قرضہ میں بہت کامیابی ہوئی ہے لیکن ہم نے جس قدر طلب کیا تھا اس سے اڑھائی گنا آ جانے کے باوجود انہیں اس میں کامیابی نظر نہیں آتی اور وقت مقررہ کے ختم ہونے تک إِنْشَاءَ اللهُ الْعَزِیز پونے تین گنے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ آ جائے.مگر وہ قرض کے دو گنا وصول ہونے کو کامیابی سمجھتے ہیں مگر میرے اس مطالبہ کے جواب میں انہیں کا میابی نظر نہیں آتی حالانکہ میں نے جو مانگا ہے اس کی واپسی نہیں ہو گی.وہ قرض نہیں چندہ ہے.سوائے امانت فنڈ کے کہ وہ بے شک امانت ہے اور واپس ملے گا.جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کی مثال تو پیش کریں اور پھر ہم نے جو لیا ہے ،غریبوں کی جماعت سے لیا ہے کروڑ پتیوں اور لکھ پتیوں سے نہیں لیا گیا.کروڑ پتی تو ہمارے مطالبہ سے بھی زیادہ رقم کی موٹریں ہی خرید لیتے ہیں.بعض انگریزی موٹریں ایسی ہیں جن کی قیمت ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی ہے اس لئے ایسے لوگوں کیلئے ستائیس ہزار کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں مگر ہماری جماعت کی مالی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے ، میں ان سے کہتا ہوں کہ

Page 15

خطبات محمود +1 سال ۱۹۳۵ء وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کے بالمقابل آدھی بلکہ اس کا چوتھائی حصہ قربانی کی ہی کوئی مثال پیش کریں.خواہ انگریزوں کی قوم میں سے کریں، خواہ جرمنوں یا فرانسیسیوں میں سے، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں احساس پیدا ہو رہا ہے مگر مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ ہمارے دوستوں میں ابھی استقلال نہیں اور وہ اس کی قیمت کو ابھی تک نہیں سمجھے.اور اب میرا منشاء یہ ہے کہ دوستوں کے اندر استقلال پیدا کروں چاہے اس کے لئے مجھے ان کے گلوں میں جھولیاں ڈلوانی پڑیں اور بھیک منگوانی پڑے.اب میں ان کے اندر وہ حالت پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی شکل سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے در کے فقیر ہیں جس جس قدم کو اللہ تعالیٰ ضروری سمجھے گا وہ میں اٹھاتا جاؤں گا اور جس رنگ میں وہ میری ہدایت کرتا جائے گا، میں اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا.آج میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سال میرا یہی پروگرام ہے جو سکیم میں بیان ہوا ہے.پس شاعر اس کے متعلق نظمیں لکھیں.نقشے بنانے والے اس قسم کے نقشے تیار کریں.اب میں عملی حصہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.سب سے اول یہ کہ میں سائیکلسٹوں کو جلد بھجوانا چاہتا ہوں.پس چاہئے کہ سائیکلسٹ جلد از جلد دفتر میں حاضر ہوں تا ان کو میں کاموں پر بھیج سکوں.ایک کام میں تو دیر بھی ہو چکی ہے وہ آج سے تین چار دن پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھا اس لئے اب دیر نہیں ہونی چاہئے.جن طالب علموں نے تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں ان میں سے پہلے اعلان کے علاوہ بھی بعض لوگ لئے جائیں گے.بعض نئے کام نکلے ہیں اس لئے انٹرنس سے کم تعلیم رکھنے والے نوجوان جن کے اندر تبلیغ کا مادہ ہو ، وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.اس کے ساتھ ہی میں جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمارے خلاف روز روز شورش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمیں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہیں ہمیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، کہیں قتل کے لئے انکیت کی جاتی ہے اور اپنے نام قتل کی دھمکیوں کے جھوٹے خطوط شائع کر کے لوگوں کو احمدیوں کے قتل پر اکسایا جاتا ہے اور حکومت کے بعض افسر بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کو تنبیہہ کریں اور انہیں ایسی حرکات سے روکیں ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں کہ ان کو اور بھی شبہ ہو رہی ہے.مثلاً بجائے ان کا جھوٹ کھولنے کے ان کی حفاظت کا خاص انتظام کیا جاتا ہے جیسے کوئی واقع میں انہیں قتل کرنے لگا تھا.ممکن ہے ان باتوں کے نتیجہ میں ہم میں

Page 16

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سے بعض کی جانوں پر حملے ہوں.چنانچہ مجھے قتل کی دھمکیوں کے کئی خطوط ملے ہیں لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے جوشوں کو اپنے قابو میں رکھیں.میں جانتا ہوں کہ وہ دوہرے طور پر جکڑے ہوئے ہیں.ان پر ایک قانون کی گرفت ہے اور ایک ہماری اور ہماری گرفت قانون کی گرفت سے بہت زیادہ سخت ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس ناراضگی کے بعد جو ہمارے دلوں میں پیدا کی جارہی ہے، قانون کی گرفت کسی احمدی کے دل پر رہ سکتی ہے کیونکہ اشتعال اس قد رسخت ہے کہ صبر ہاتھوں سے نکلا جار ہا ہے.اگر احمدیت ہمیں نہ روکتی تو جس طرح سلسلہ کی بے حرمتی کی جارہی ہے میں نہیں سمجھتا ایک منٹ کے لئے بھی قانون ہم میں سے کسی کو روک سکتا لیکن بہر حال قانون چلتا ہے اور ہمارا مذہب ہمیں اس کی پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے.پس ایک طرف تو اس کی رکاوٹ ہے دوسری طرف سے ہماری گرفت جماعت کے دوستوں پر ہے کہ وہ حتی الوسع اپنے جذبات کو دبائے رکھیں اور ہماری گرفت ایسی سخت ہے کہ اس کے مقابل میں قانون کی گرفت کوئی چیز نہیں.اور ان حالات میں میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے دل خون ہو رہے ہیں، طبیعتیں بے چین ہیں، صحتوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور انہیں موت سے زیادہ تلخ پیالہ پینا پڑ رہا ہے مگر میں پھر بھی یہی کہتا ہوں کہ میں ان کی تکالیف سے ناواقف نہیں ہوں.جس وقت تک کہ میں دیکھوں گا کہ ہم دونوں پہلو نباہ سکتے ہیں ، میں ان کو صبر کی تلقین کرتا رہوں گا مگر جب میں دیکھوں گا کہ ہمارے صبر کی کوئی قیمت نہیں، حاکم اسے کوئی وقعت نہیں دیتے بلکہ وہ اسے ہماری بزدلی پر محمول کرتے ہیں تو اس دن میں دوستوں سے کہہ دوں گا کہ میں ہر کوشش کر چکا لیکن تمہاری تکلیف کا علاج نہیں کر سکا اب تم جانو اور قانون کیونکہ قانون صرف اپنی پابندی کا مجھ سے مطالبہ کرتا ہے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ میں اس کے حکم سے بھی زیادہ لوگوں کو رو کے رکھوں.جیسا کہ میں اب کر رہا ہوں کہ جہاں قانون اجازت دیتا ہے وہاں بھی تمہارے ہاتھ باندھے رکھتا ہوں قانون یہ تو حکم دے سکتا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کر ومگر اپنے مذہب کو اس کی تائید میں استعمال کرنے کا مجھے پابند نہیں کر سکتا.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک جو احمدی جوش میں آتے ہیں وہ قانون کے منشاء سے بھی بڑھ کر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں اور اس کا باعث میری وہ تعلیم ہے جو میں اسلام کے منشاء کے مطابق انہیں دیتا ہوں.جب میری آواز انہیں آتی ہے کہ رک جاؤ تو وہ رک جاتے ہیں.جیسا کہ احرار کے جلسہ پر ہوا کہ میں نے انہیں کہا کہ خواہ کوئی

Page 17

خطبات محمود ۱۲ سال ۱۹۳۵ء مارے تم آگے سے جواب نہ دو حالانکہ قانون خود حفاظتی کی اجازت دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گھروں میں احرار گھس گئے.خود میری کوٹھی میں وہ لوگ آتے رہے اور بعض دوستوں نے ان کی تصاویر بھی لیں لیکن کسی نے انہیں کچھ نہ کہا حالانکہ گھر میں گھسنے والوں پر وہ قانو نا گرفت کر سکتے تھے لیکن آئندہ کے لئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ حالات ایسی صورت اختیار کر رہے ہیں کہ ممکن ہے کسی وقت مجھے یہ بھی کہنا پڑے کہ میں اب تمہیں اپنے قانونی حق کے استعمال سے نہیں روکتا.تم اپنے حالات کو خود سوچ لو ، میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہ ہوگی لیکن اس وقت تک کہ میں کوئی ایسا اعلان کروں مجھے امید ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اپنے جوشوں کو اسی طرح دبائے رکھیں گے جس طرح کہ اس وقت تک دباتے چلے آئے ہیں.اور اگر چہ حکومت کے متعلق ان کے دل کتنے ہی رنجیدہ کیوں نہ ہوں اور انہیں بہت بُری طرح مجروح کیا جا چکا ہو مگر پھر بھی وہ میری اطاعت سے باہر نہیں جا سکتے اور انہیں صبر سے کام لینا چاہئے.میں جانتا ہوں کہ اس قسم کے مواقع پر کسی قسم کا ڈر یا خوف یا تعزیر کا خیال انسان کو نہیں روک سکتا.میں نے مولوی رحمت علی صاحب کا واقعہ کئی بار سنایا ہے.جس وقت ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں اور بعض احمدی زخمی ہو گئے ہیں تو وہ پاگل ہو کر اس مکان کی طرف جا رہے تھے وہ جانتے تھے کہ ممکن ہے وہاں لڑائی ہو اور میں مارا جاؤں یا زخمی ہو جاؤں.یا ممکن ہے مقدمہ چلے اور باوجود دفاعی پہلو اختیار کرنے کے میری براءت ثابت نہ ہو اور میں قید یا پھانسی کی سزا پاؤں مگر پھر بھی وہ تھر تھر کانپ رہے تھے کہ کیوں ہمیں روکا جارہا ہے اور کوئی خیال انہیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا تھا.اس وقت میری آواز تھی کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھے تو جماعت سے نکال دوں گا.یہ لفظ تھے جنہوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا ورنہ کوئی قانون اس وقت تک نہ انہیں روکتا تھا اور نہ روک سکتا تھا.مگر کون سا قانون ہے جو مجھ سے یہ امید کرتا ہے کہ جب کسی کے بھائی بندوں پر یا اس پر دشمن حملہ آور ہوا اور قانون اسے خود حفاظتی کی اجازت دیتا ہو میں اسے اس حق کے استعمال سے روکوں.جہاں تک مجھے معلوم ہے ایسا کوئی قانون نہیں اور میں صرف سلسلہ کی نیک نامی اور حکومت کی خیر خواہی کے لئے یہ کام کر رہا ہوں مگر حکومت کا بھی تو فرض ہے کہ وہ اس قربانی کی قدر کرے.وگرنہ ہمارے دل اس قدر زخمی ہیں کہ اگر دشمنوں کے حملوں کا جواب ہم سختی سے دیں تو کوئی قانون ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں گرفت نہیں کر سکتا کیونکہ مجرم وہ

Page 18

خطبات محمود ۱۳ سال ۱۹۳۵ء ہے جو پہلے گالی دیتا ہے.اس وقت تک میں یہی سمجھتا ہوں کہ انسانی فطرت ایسی سیاہ نہیں ہوگئی کہ ملک کے لوگ زیادہ دیر تک اس گند کی اجازت دیں اور نہ حکومت کی ساری کی ساری مشینری خراب ہو چکی ہے بلکہ اس کا بیشتر حصہ ابھی اچھا ہے چند مقامی افسر اسے دھوکا دے رہے ہیں اور ان کی نیت یہ ہے کہ احمدیوں کو گورنمنٹ سے لڑا کر وہ کام کریں جو کانگرس نہیں کر سکی مگر میں ان لوگوں کو ناکام کرنے کے لئے انتہائی کوشش کروں گا اور جماعت کا قدم وفاداری کی راہ سے ہٹنے نہ دوں گا.پس جب تک میں یہ نہیں کہہ دیتا کہ میری سب تدابیر ختم ہو چکی ہیں اس وقت تک ہماری جماعت کے احباب کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفوس کی قربانی کر کے اور دلوں کا خون کر کے بھی جوشوں کو دبائیں اور ایسی باتوں سے مجتنب رہیں جن سے میری گرفت ان پر ہو اور میں یہ کہ سکوں کہ تم نے ایسا فعل کیا ہے جس کی سزا گو قانون نہ دیتا ہومگر میں خود دینی چاہتا ہوں.یاد رکھو کہ ہمارا سلسلہ کوئی ایک دو دن کا نہیں بلکہ یہ ایک لمبی چیز ہے.ساری دنیا کی باگیں ایک دن ہمارے ہاتھ میں آتی ہیں اس لئے ہمارے مد نظر ہر وقت یہ بات ہونی چاہئے کہ ہمارا مقصود ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے.ہمیں آدمیوں کا خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ان میں سے کوئی زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق قتل کے منصوبے کئے گئے ، حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامی آپ کو اس قدر بد نام کرتے رہتے تھے کہ جس کے نتیجہ میں دلوں کے اندر اس قدر شکوک پیدا ہو چکے تھے کہ آپ سے محبت رکھنے والے بعض لوگ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ ان میں سے کسی کی دی ہوئی دوائی آپ استعمال کریں.اگر چہ میں آج بھی اس قدر مخالفت کے باوجود اس بات کو غلط سمجھتا ہوں اور میں یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اس قدر گندے ہو سکتے تھے مگر میں دیکھتا تھا کہ ایسے لوگ موجود تھے جن کے دلوں میں یہ شکوک پائے جاتے تھے.اب یہ زمانہ ہے اور مجھے صراحت ہر سال کئی کئی بار قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور زمیندار کے مضمون کی اشاعت کے بعد متواتر تین چٹھیاں ایسی موصول ہوئیں.ایک ابھی ۳۱ / دسمبر کو ملی تھی کہ یکم جنوری کے روز تم کو قتل کر دیا جائے گا.میں ان کے بیشتر حصہ کو دھمکی سمجھتا ہوں مگر ایک حصہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو سنجیدگی سے میرے متعلق ایسا ہی ارادہ رکھتا ہو لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارا سلسلہ انسانوں کا نہیں کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ کسی شخص کی وفات کے بعد یہ ختم ہو جائے گا حضرت مسیح

Page 19

خطبات محمود ۱۴ سال ۱۹۳۵ء موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مخالف خیال کیا کرتے تھے کہ آپ کی زندگی کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا.لیکن پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں یہ کہا جانے لگا کہ مرزا صاحب تو جاہل تھے سارا کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے ان کی آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے تو بس یہ سلسلہ ختم.پھر ان کی آنکھیں بند ہوئیں اور لوگوں نے خیال کیا کہ اصل کام انگریزی خوان لوگ کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی نکال کر باہر کیا اور جماعت کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی جس کے متعلق پیغامی کہتے تھے کہ ہم خلافت کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہماری مخالفت کی بناء یہ ہے کہ اگر جماعت کی باگ ایک بچے کے ہاتھ میں آ گئی تو سلسلہ تباہ ہو جائے گا.مگر دیکھو کہ اس بچے کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کی گاڑی ایسی چلائی کہ وہ ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچی اور اب اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ ان لوگوں کے وقت میں جتنے لوگ جلسہ سالانہ پر شامل ہوتے تھے اس سے بہت زیادہ آج میرے جمعہ میں ہیں.سوائے افغانستان کے باقی تمام بیرونی ممالک کی جماعتیں میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئی ہیں اور یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ سلسلہ خدا کے ہاتھوں میں ہے اس لئے دشمن کی باتوں سے نہ گھبراؤ.وہ کسی کو مار بھی دیں تو بھی یہ سلسلہ ترقی کرے گا.تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اصول کو قائم رکھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے ایمان کو قائم رکھو اور آپ کی آمد کے مقصد کو یا درکھو ، خلافت کی اہمیت کو نہ بھولو اور اسے پکڑے رہو پھر تمہیں کوئی نہیں مٹا سکتا.ڈر کی بات صرف یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اپنے اصول کو نہ بھول جائیں اور سلسلہ کی وجہ سے جو فوائد حاصل ہورہے ہیں انہیں اپنی طرف منسوب نہ کر لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور آپ کی نبوت اور ماموریت سے آپ کی جماعت نے فائدہ اُٹھایا مگر بعض انگریزی دانوں نے سمجھا کہ ترقی ہم سے ہو رہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ کر دیا اور پھر بھی سلسلہ کو ترقی دے کر بتا دیا کہ اس سلسلہ کی ترقی کسی انسان سے وابستہ نہیں.پس مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد کیا ہو گا بلکہ ڈر یہ ہے کہ خلافت سے علیحدہ ہو کر تم لوگ نقصان نہ اٹھاؤ.کسی خلیفہ کی وفات سلسلہ کے لئے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی لیکن خلافت سے علیحدگی یقیناً نقصان کا باعث ہے.یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے جس کے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں، مندر بھی اور مبشر بھی لیکن چونکہ باہر سے بھی قریباً ایک درجن خطوط آئے

Page 20

خطبات محمود ۱۵ سال ۱۹۳۵ء ہیں جن میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کو قتل کر دیا گیا ہے اور اسی طرح دشمنوں کے ارادوں کے متعلق بھی دوست اطلاع دیتے رہتے ہیں.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ دوستوں کو ہوشیار کر دوں کہ اصل چیز اصول ہیں.اگر تم ان کو یاد رکھو گے تو کوئی تمہیں نہیں مٹا سکتا لیکن اگر اصول کو بھول جاؤ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ المسیح الاوّل اور میں مل کر بھی تم کو نہیں بچا سکتے.بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے دعائیں کیں تو معلوم ہوا کہ آپ کی عمر ہیں سال بڑھ گئی ہے مگر اصل بات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.اگر چہ دعا سے مبرم تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں مگر وثوق سے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا.بہر حال اس جلسہ پر بھی شبہ کیا جاتا تھا کہ دشمن شرارت کریں گے اور اس کے آثار بھی موجود تھے اس لئے ہمارے دوستوں نے کئی قسم کی تدابیر اختیار کیں لیکن چوہیں یا پچیس دسمبر کی شب کو میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جلسہ کے ایام میں مجھ پر حملہ کیا جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ موت انہی دنوں میں ہے.میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس سے میں یہ بات پوچھتا ہوں اس نے کہا کہ میں نے تمہاری عمر کے متعلق لوح محفوظ دیکھی ہے آگے مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ اس نے کہا میں بتا نا نہیں چاہتا یا بھول گیا ہوں.زیادہ تر یہی خیال ہے کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا.لیکن جلسہ کی اور بعد کی دو ایک تاریخیں ملا کر اس نے کہا کہ ان دنوں میں یہ بات یقینا نہیں ہوگی.اس دن سے میں نے تو بے پروا ہی شروع کر دی اور اگر چه دوست کئی ہدا یتیں دیتے رہے کہ یوں کرنا چاہئے مگر میں نے کہا کوئی حرج نہیں.چند دن ہوئے میں نے ایک اور رویا دیکھا ہے جس کا مجھ پر اثر ہے اور اس سے مجھے خیال آیا کہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا ؤں کہ وہ ہمیشہ اصل مقصود کو مد نظر رکھیں.میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں.وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہوا کہ انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا، خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہوگا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہوگا.بہر حال جب میں نے یہ بات سنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کبڈی کھیلنے کے لئے بنائے جاتے ہیں مٹا دیا اور کہا کہ میری

Page 21

خطبات محمود ۱۶ سال ۱۹۳۵ء اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل ناجائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ اکثریت پہلے صرف ایک تلقب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کا تعین کرتا ہے اور کم لوگ تھے جو خلافت کے ہی مخالف تھے مگر میرے دخل دینے پر جو لوگ پہلے خلافت کے مؤید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا.نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ ، دوسو.اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خون ریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتا اس لئے آؤ ہم ان پر حملہ کرتے ہیں.وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے مجھے یاد پر نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار تھے یا نہیں مگر بہر حال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی زخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے.اب مجھے ڈر پیدا ہوا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ گئے ہیں ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے.اور اگر یہاں کھڑے رہے تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں بالکل تھوڑے ہیں ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پشت پر سے آ کر حملہ کر دیں گے.پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں.میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگر چہ یہ یاد نہیں کہ کونسی اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے.میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اس وقت وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا.میں اسے کہتا ہوں کہ تم نے کیا یہ غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کر لی مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے.مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیا مگر جواب میں اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا.اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں.میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیں ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہو رہی ہے تو وہ آپ کی مدد کے لئے آئے ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر بعد وہ تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں سے فریب کیا گیا ہے.انہیں کسی نے ایسا اشارہ

Page 22

خطبات محمود ۱۷ سال ۱۹۳۵ء کر دیا ہے کہ گویا اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں.کوئی مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیر نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہونگے کہ ہماری مدد کر سکیں.چنانچہ میں نیچے اترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جائیں.تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو با حفاظت لے آؤ.اس پر وہ جاتے ہیں اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اترتے ہیں اور پھر عورتیں لیکن میرالڑ کا انور احمد نہیں آیا.پھر ایک شخص آیا اور میں نے اس کو کہا کہ انور احمد کہاں ہے.اس نے کہا وہ بھی آ گیا ہے پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے.چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں.ان جمع ہونے والے لوگوں میں سے میں نے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے.ان لوگوں کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہوکر ذلیل ہو جاؤ گے.کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں.میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اس کے وقار کو جوصدمہ پہنچے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ دار ہو گے.اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں لیکن دوسرے انہیں پھر ورغلا دیتے ہیں اور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے.اس رؤیا کے کئی حصوں سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعات میری وفات کے بعد کے ہیں وَ اللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اور اس موقع پر اس رؤیا کا آنا شاید اس امر پر دلالت کرتا ہو کہ مجھے جماعت کو آئندہ کے لئے ہوشیار کر چھوڑ نا چاہئے کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا.اس رؤیا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے خواہ تھوڑے ہوں اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے.اِنشَاءَ اللہ.جب میں ابھی بچہ تھا اور خلافت کا کوئی وہم و گمان نہ تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی.اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ یعنی تیرے ماننے والے اپنے مخالفوں پر قیامت تک غالب رہیں گے.اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میرے اتباع کا تو خیال بھی میرے ذہن میں نہ آ سکتا تھا کہ کبھی ہوں گے.یہ عبارت قرآن کریم کی ایک آیت سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح ناصرٹی کے متعلق ہے مگر آیت

Page 23

خطبات محمود ۱۸ سال ۱۹۳۵ء میں وَجَاعِلُ الَّذِينَ ہے اور میری زبان پر اِنَّ الَّذِینَ کے لفظ جاری کئے گئے.غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر عرصہ پہلے سے یہ خبر دے رکھی تھی اور کہا تھا کہ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ تیرے متبع تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے.اب اس کی ایک مثال تو موجود ہے.کتنے شاندار وہ لوگ تھے جنہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی مگر دیکھو اللہ تعالیٰ نے ان کو کس طرح مغلوب کیا ہے.بعد کا میرا ایک اور رویا بھی ہے جو اس کی تائید کرتا ہے.میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نور کے ستون کے طور پر زمین کے نیچے سے نکلا.یعنی پاتال سے آیا اور اوپر آسمانوں کو پھاڑ کر نکل گیا.اگر چہ مثال بُری ہے لیکن ہندوؤں میں یہ عقیدہ ہے کہ شو جی زمین کے نیچے سے آیا اور آسمانوں سے گزرتا ہوا اوپر چلا گیا.یہ مثال اچھی نہیں مگر اس میں اسی قسم کا نظارہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاتال سے نکل کر افلاک سے بھی اوپر نکل گیا.میں نے بھی دیکھا کہ ایک نور کا ستون پاتال سے آیا اور افلاک کو چھ و چیرتا ہوا چلا گیا.میں کشف کی حالت میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا کا نور ہے.پھر اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا لیکن مجھے ایسا شبہ پڑتا ہے کہ اس کے رنگ میں ایسی مشابہت تھی کہ گویا وہ گوشت کا ہے.اس میں ایک پیالہ تھا جس میں دودھ تھا جو مجھے دیا گیا اور میں نے اسے پیا اور پیالے کو منہ سے ہٹاتے ہی پہلا فقرہ جو میرے منہ سے نکلا وہ یہ تھا کہ اب میری امت کبھی گمراہ نہ ہو گی.معراج کی حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے تین پیالے پیش کئے گئے.پانی ، شراب اور دودھ کا اور آپ نے دودھ کا پیالہ پیا تو جبرائیل نے کہا کہ آپ کی اُمت کبھی گمراہ نہ ہو گی.ہاں اگر آپ شراب کا پیالہ پیتے تو یہ امت کی گمراہی پر دلالت کرتا.پس ان رؤیا ؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے دشمن باہر سے مایوس ہو کر ہم میں سے بعض کو ورغلا نا چا ہے لیکن بہر حال فتح ان کی ہے جو میرے ساتھ ہیں میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ واقعات میری زندگی میں ہوں گے یا میرے بعد کیونکہ بعض اوقات زندگی کے بعد کے واقعات بھی رؤیا میں دکھا دیئے جاتے ہیں.اور بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے واقعات ہیں مگر میں جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ قیمتی اصول ہیں جن پر انہیں مضبوطی سے قائم رہنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مأموریت اور آپ کے اُمتی ہونے کو کبھی نہ بھولو.آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سب سے بڑی لذت اس میں ملتی ہے کہ میں امتی نبی ہوں.پس جس خوبصورتی پر آپ کو ناز تھا ، اسے کبھی نہ چھوڑ و.پھر آپ کی تعلیم اور الہامات کو

Page 24

خطبات محمود ۱۹ سال ۱۹۳۵ء سامنے رکھو.اس کے بعد خلافت ہے جس کے ساتھ جماعت کی ترقی وابستہ ہے.رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی تھی کہ جس دن مسلمانوں نے اس چادر کو پھاڑ دیا اس کے بعد ان میں اتحاد نہیں ہو گا.حضرت عبد اللہ بن سلام نے جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے ، حضرت عثمان کی شہادت کے وقت کہا کہ اب مسلمانوں میں قیامت تک اتحاد نہیں ہوسکتا پس خلافت بہت قیمتی چیز ہے.بے شک خلیفہ کا وجود قیمتی ہوتا ہے مگر اس سے بہت زیادہ قیمتی چیز خلافت ہے جس طرح نبی کا وجود قیمتی ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ قیمتی چیز نبوت ہوتی ہے.پس یہ اصول ہیں ان کو مضبوطی سے پکڑو.پھر یہ خیال نہ کرو کہ تم تھوڑے ہو یا بہت کیونکہ ان اصولوں کے پیچھے خدا ہے اور جو تم پر ہاتھ ڈالے گا وہ گویا خدا پر ہاتھ ڈالنے والا ہوگا.جس طرح بجلی کی تار پر غلط طریق پر ہاتھ ڈالنے والا ہلاک ہو جاتا ہے لیکن صحیح طور پر ہاتھ ڈالنے والا اس سے انجن چلاتا ہے اور بڑے بڑے فوائد حاصل کر لیتا ہے.اسی طرح ان اصول کے اگر تم پابند رہو، اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور ہر قربانی کے لئے تیار ہو تو تم پر حملہ آور ہو نیوالا ہلاکت سے نہیں بچ سکے گا.پس یہ باتیں اپنے اندر پیدا کرو اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی پرواہ نہ کرو کہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں.ابھی اس قسم کے واقعات کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا اور نہ ہی میری خلافت کا کوئی خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا تھا کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے.میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں اور کوئی مجھے کہتا ہے کہ راستہ میں بعض چیزیں آپ کو ڈرانا چاہیں گی اور کئی قسم کی شکلیں بن بن کر آپ کی توجہ کو دوسری طرف پھیرنا چاہیں گی مگر آپ یہ کہتے جائیں.” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ “ اور سیدھے چلتے جائیں اور کسی چیز کا خیال نہ کریں.پس میں بھی آپ سے یہی کہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے نفسوں پر قابو رکھیں اور ان چھوٹی موٹی چیزوں کی پرواہ نہ کریں ان کو چھوڑ دیں کہ یہ کس وخاشاک کی مانند ہیں جس طرح ایک شخص جسے بہت جلدی ہو اگر اس کے پاؤں میں کانٹا چھ جائے تو وہ چلتے چلتے ہی اس کو نکال دیتا ہے، ٹھہرتا بھی نہیں.آپ لوگ بھی ان مخالفتوں کو زیادہ وقعت نہ دیں بلکہ یاد رکھیں کہ بعض اوقات تو کام اتنا ضروری ہوتا ہے کہ کانٹا نکالنے پر بھی وقت ضائع نہیں کیا جا تا.ایک شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کے لئے جانے والا کب کانٹے نکالنے بیٹھتا ہے.پس تم اپنے مقصود کے پیچھے چلو جو دنیا میں اسلام اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنا ہے.اس کے ذرائع میں نے اپنی سکیم میں آپ

Page 25

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لوگوں کے سامنے پیش کر دیئے ہیں.انہیں مد نظر رکھتے ہوئے چلتے جاؤ اور کوئی گالیاں بھی دے تو پرواہ نہ کرو.عام طور پر یہ قاعدہ ہے کہ چرچے سے بھی جوش زیادہ ہو جاتا ہے.یہی مکان جس میں اب انجمن کے دفاتر ہیں جب اس کا ایک مالک فوت ہوا تو عورتیں بین کر رہی تھیں.پھر کئی قصے کہانیاں شروع ہو گئیں اور مرنے والے کی بیوی بھی دوسری باتوں میں مشغول ہو کر ہنسنے اور باتیں کرنے لگی.اتنے میں باہر سے اور عورتیں روتی ہوئی آئیں.اور ایک نے دوہتر مار کر پیٹنا شروع کر دیا اس پر وہ بیوی بھی پیٹنے لگی اور اس قدر ماتم کیا کہ بال نوچ ڈالے اور بدن کو لہو لہان کر دیا.تو دوسروں کو روتا دیکھ کر بھی رونا آ جاتا ہے اس لئے دل میں فیصلہ کر لو کہ ہم نے ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرنی.بے شک بعض حکام نے اس وقت انصاف نہیں کیا مگر جب وقت آئے گا ہم یہ سب سود واپس لیں گے.ایک پیسے کے پاس اس کا مقروض رقم لے کر جاتا ہے کہ لے لو تو وہ اسے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چوہدری صاحب آپ کے پاس ہوا یا ہمارے پاس ایک ہی بات ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ سود چڑھتا جائے اور پھر چھ ماہ کے بعد اور سود لگا کر زیادہ رقم کا مطالبہ شروع کرتا ہے.اسی طرح ان گالیاں دینے والوں کی رقمیں سود کے ساتھ واپس دی جائیں گی اور ایک وقت آئے گا کہ پبلک میں سے ظلم کرنے والوں اور حکام میں سے ان کا ساتھ دینے والوں کا سارا سود چکا دیا جائیگا اور خواہ بالا حکام کے ذریعہ سے یا خود ہی خدا تعالیٰ تمہارے صبر کا بدلہ دلا دے گا.پس جماعت کو میری نصیحت یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھو اور موجودہ شرارتوں کو بھول جاؤ.یہ باتیں بالکل چھوٹی ہیں اگر چہ بعض حالات میں بڑی ہو جاتی ہیں اور مجھے بھی ان کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے.مگر میں پسند یہی کرتا ہوں کہ ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے.تم بس یہ سمجھ لو کہ کہتا بھونک رہا ہے.اگر کوئی پولیس کا ملازم قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو حکومت کے سامنے خود ملزم بن رہا ہے.تم اسے ملزم بنا کر کیا کرو گے.تم دعاؤں میں لگے رہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کر و.اس مبارک مہینہ میں اگر تم نے دعائیں کی ہیں تو پھر تمہیں کسی سے خطرہ کی ضرورت نہیں.سچے دل سے کی ہوئی ایک منٹ کی دعا کے بعد بھی انسان کو اطمینان ہو جاتا ہے.یہ خیال بھی مت کرو کہ رمضان ختم ہو گیا ہے رمضان

Page 26

خطبات محمود ۲۱ سال ۱۹۳۵ء تمہارے دلوں میں رہ جائے گا.ایک شخص سیاہی کو ہاتھ مارے تو سیا ہی لگ جاتی ہے، اگر سرخی کو ہاتھ لگائے تو سرخی لگ جاتی ہے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ رمضان دل میں سے گزرا ہوا ور اس نے اپنے نقش نہ چھوڑے ہوں.پس سارا سال رمضان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس لئے اپنے اوپر رمضان کی حالت طاری کرو، نیکیوں میں لگ جاؤ، دعائیں کرو، آپس کی لڑائیاں جھگڑے چھوڑ دو اور ہر وقت اپنے مقصود کو مد نظر رکھو.اس کے باوجود اگر کوئی حاکم یارعایا کا فرد تمہیں خواہ مخواہ دیکھ دینے اور دل دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ خیال کر لو کہ کتا تھا جو بھونک گیا ایک وقت آئے گا کہ ایسے حاکموں کی گردنیں خود گورنمنٹ دبوچ لے گی جب ان کی فریب کاریوں کا پردہ فاش ہو گا.حضرت مسیح موعود کے الہامات سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ہمارا تعاون رہے گا اور اگر ایک ڈپٹی کمشنر یا سپرنٹنڈنٹ پولیس یا کمشنر بھی مخالفت کرتا ہے تو اس کی پرواہ نہ کرو.وہ بھی تو آخر ایک ماتحت افسر ہی ہے اور ان کی مخالفت میں بھی اصول کو مد نظر رکھو.میں نے بتایا تھا کہ جو افسر تمہاری عزت نہیں کرتا تم اس کی عزت نہ کرو اور دوسروں کو بھی یہی سمجھاؤ کہ اس کا ادب نہ کریں.اگر وہ ایک چوہڑے کو بھی تو کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو اگر وہ تمہارے سامنے آئے تو اسے تو کہہ کر مخاطب کرو.اگر وہ گالی دیتا ہے تو مؤمن کا یہ کام تو نہیں کہ گالی دے مگر کم سے کم اس سے اتنی بے رخی سے پیش آؤ کہ اسے ہوش آ جائے.پھر خو دحکومت انہیں ملامت کرے گی.مگر یہ باتیں تمہا را اصل مقصود نہیں ہیں.اصل مقصود نیکی تقویٰ اور تبلیغ ہے.تم میں سے کتنے ہیں جو تہجد پڑھتے ہیں.مجھے معلوم ہے کہ مساجد میں بیٹھ کر دوسرے تذکرے کرتے رہتے ہیں اور لغو باتوں میں مصروف رہتے ہیں.پس پہلے اپنی اصلاح کرو اور مساجد میں ایسی باتیں کرو جو دین کے لئے مفید ہوں جن سے سلسلہ کو مدد ملے ،لغو باتیں نہ کرو.ہماری مساجد میں ذکر الہی کم ہوتا ہے.بہت سے ایسے ہیں کہ انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا.جس طرح اپنے مذہب سے بے پرواہی برتنے والا ہند و نہاتے وقت پانی کی گڑوی او پر پھینکتا اور کود کر خود آگے نکل جاتا ہے.ان کی نمازوں کی بھی یہی حالت ہے.پس اللہ تعالیٰ سے محبت اور اخلاص پیدا کرو.پھر یہ چیزیں یا تو خود بخود چھوٹی نظر آنے لگیں گی.یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے علاج سمجھا دے گا.رمضان کا مہینہ اب جاتا ہے اور یہ جمعہ جمعۃ الوداع ہے.اگر چہ مومن کا رمضان تو ہمیشہ رہتا ہے

Page 27

خطبات محمود ۲۲ سال ۱۹۳۵ء مگر اس خیال والوں کے لئے بھی ابھی دو روز باقی ہیں ان میں خدا سے صلح کی کوشش کرو اور اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو.ان ایام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہی قریب اور اگر قریب ہونے پر بھی نہ پکڑا جا سکے تو اور کب پکڑا جائے گا.اس لئے ایسی مضبوطی سے پکڑو جیسے پنجابی میں اٹھے والا جھا یعنی اندھے کی گرفت کہتے ہیں.اور جب اللہ تعالیٰ کو اس مضبوطی سے پکڑ لیا جائے تو وہ خود کمزور بن جاتا ہے اور بندے کو طاقتور کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کے ساتھ ہمیشہ صلح کرتا رہتا ہے.وہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ہم نے نبی بھیجے ، دنیا نے ان کی مخالفت کی مگر ہم برابر نبی بھیجتے رہے.یہ خود بخود صلح کی کوشش کرنا نہیں تو اور کیا ہے.کہتے ہیں ایک دھوبی تھا جو ہر روز روٹھ جانے کا عادی تھا.ایک دن گھر والوں نے کہا کہ آج اسے نہیں منائیں گے.وہ اپنا بیل ساتھ لے کر چلا گیا اور جب شام تک کوئی منانے نہ آیا تو خود ہی اس کی دم پکڑ کر چل پڑا.بیل نے گھر کو ہی جانا تھا یہ بھی دم پکڑے جارہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یار کیا کرتے ہو، کیوں مجھے کھینچ کر گھر لئے جاتے ہو میں نہیں جاؤں گا.تو ہمارا رب بھی اگر چہ خالق اور مالک ہے اور چاہے تو ایک سیکنڈ کے کروڑ ویں حصہ میں ہمیں تباہ کر دے مگر اپنی محبت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ بندوں سے صلح کرنے اور انہیں معاف کرنے کے بہانے ہی تلاش کرتا ہے اور گویا ز بر دستی بندے کے دل میں داخل ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی وہ زبر دستی آیا حالانکہ مکہ کے لوگ اسے نکالنا چاہتے تھے.پس ایسے خدا سے خاص کر ان دنوں میں جب کہ وہ کہتا ہے کہ میں قریب ہوں ، ایسی صلح کرو کہ تمہارے دلوں میں، کانوں میں، زبانوں پر سینوں میں اور جسم کے ذرہ ذرہ میں وہ سرایت کر جائے.اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَ فِي بَصَرِي نُورًا وَ اجْعَلُ فِي سَمْعِي نُوْرًا وَاجْعَلُ فِى بَصَرِى نُورًا وَاجْعَلُ فِي كُلِّ أَعْضَائِي نُورًا اَللَّهُمَّ اجْعَلُ أَمَامَى نُورًا وَ اجْعَلْ خَلْفِى نُورًا وَاجْعَلْ يَمِيْنِى نُورًا وَاجْعَلْ يَسَارِى نُورًا وَاجْعَلْ فَوُقِى نُورًا وَاجْعَلْ تَحْتِى نُورًا اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي نُورًا.تمہارے جسم کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کا ہی نور ہو.قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ ے اور اس لئے اس دعا کا یہ مطلب ہوا کہ خدا ہی خدا ہمارے ہر طرف ہو اور ہم میں اور اس میں فرق نہ رہے اور اگر تم یہ مقام

Page 28

خطبات محمود ۲۳ سال ۱۹۳۵ء حاصل کر لو تو پھر جو تم پر حملہ کرے گا ، وہ خدا پر حملہ کرنے والا ہوگا اور جو خدا پر حملہ کرے وہ اپنا ٹھکانا خود سمجھ لے کہ کہاں ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو صبر کی توفیق دے اور ایسی اعلیٰ ہمت دے کہ آپ لوگ دنیا کی چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کر اپنے اصل مقصود کو ترک نہ کریں بلکہ اپنے نفس کی اصلاح اور پھر گل دنیا کی اصلاح میں لگے رہیں.اللَّهُمَّ امِینَ.البقرة : ۱۴۹ النزعت : ۲ الفضل ۷ ارجنوری ۱۹۳۵ء) فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِةٍ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ (سبا: ۱۵) کے بخاری کتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام و يتقى به ۵ آل عمران: ۵۶ بخارى كتاب مناقب الانصار باب المعراج ك النور ٣٦:

Page 29

خطبات محمود ۲۴ سال ۱۹۳۵ء خدمت اسلام کے لئے جماعت کا ہر فرد اپنی زندگی وقف کر دے فرموده ۱۱؍جنوری ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جمعہ کے لحاظ سے یہ ہندوستان کے لئے میری تحریکات کے مالی حصہ کا آخری جمعہ ہے.اس وقت تک جو وعدے جماعتوں کی طرف سے موصول ہو چکے ہیں وہ ستر ہزار کے قریب ہیں اور جو رقوم آ چکی ہیں وہ ۲۳ ہزار کے قریب ہیں.آج گیارھویں تاریخ ہے اور چار دن اور باقی ہیں جس کے بعد یہ تحریک ہندوستان کے لوگوں کے لئے ختم ہو جائے گی سوائے بنگال کے ، کہ بنگال کی جماعت میں سے جو بنگالی بولنے والا حصہ ہے اور درحقیقت وہی زیادہ ہے اس نے احتجاج کیا ہے کہ چونکہ ہمارے صوبہ کے نانوے فیصدی لوگ اردو نہیں جانتے اور ”الفضل میں شائع ہونے والے خطبات سے ہم آگاہ نہیں ہو سکتے اس لئے خطبات کا بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے پر مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے گا اور پھر ان کے شائع کرنے اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی وقت درکار ہے اس لئے انہوں نے زیادہ مہلت طلب کی ہے.جس پر میں انہیں پندرہ مارچ یا پندرہ اپریل تک ( مجھے اچھی طرح یاد نہیں ) مُہلت دے چکا ہوں.بنگال کی جماعت ایک غریب جماعت ہے اور جو تعلیم یافتہ جماعت ہے وہ میرے خطبات سے واقف ہو چکی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں بنگال میں اس تحریک کی اشاعت سے

Page 30

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہمیں مالی لحاظ سے گو معتد بہ فائدہ نہیں ہو گا لیکن اپنے اخلاص کے اظہار کا انہیں ایک موقع مل جائے گا جو بذات خود ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے.بنگال کو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ فضیلت حاصل ہے کہ پنجاب کے بعد زیادہ کثرت اور سُرعت کے ساتھ بنگال میں ہی ہماری جماعت پھیلنی شروع ہوئی ہے.شاید بنگال اور پنجاب کے لوگوں میں کوئی مناسبت ہے کیونکہ اسلام بھی پہلے پنجاب میں پھیلا اور پھر بنگال میں.جتنے قلیل عرصہ میں بنگال کی جماعت پھیلی ہے اتنے عرصہ میں کوئی اور جماعت نہیں پھیلی.یوں تو بہار میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی صحابی موجود ہیں، اسی طرح یو.پی میں مگر بنگال میں بہت بعد احمدیت گئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے جلد جلد ترقی کی.گو یہ جلدی ایسی نہیں جو بنگال کی آبادی کے لحاظ سے ہو مگر بہر حال دوسرے صوبوں کے لحاظ سے اس نے ترقی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کا حق تھا کہ گور قم کے لحاظ سے ان کی طرف سے قلیل روپیہ آئے مگر انہیں اپنے اخلاص کے دکھانے کا موقع دیا جائے.باقی باہر کی جماعتیں ہیں اور کچھ وہ لوگ بھی جنہیں ابھی تک اس تحریک کی خبر نہیں ہوئی اور گو ایسے لوگ بہت قلیل ہیں مگر بہر حال ہوتے ضرور ہیں.چنانچہ پرسوں ہی مجھے ایک خط آیا کہ مجھے اس تحریک کی ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کیونکہ میں سفر پر تھا اور مجھے اخبار دیکھنے کا موقع نہیں ملا.پس ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی ایسے بے خبر لوگ موجود ہوں مگر یہ قلیل تعداد ہے.اور ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ان تمام حالات کو دیکھ کر انداز ۷۵ ہزار کے لگ بھگ وعدے ہو جائیں گے جو میرے مطالبہ سے اڑھائی گنے سے زیادہ یعنی پونے تین گنے کی رقم ہے.ان رقوم کے علاوہ جو کام دوسرا تھا اس میں دو کمیٹیوں نے کام شروع کر دیا ہے.پروپیگنڈا کمیٹی نے بھی کام شروع کر دیا ہے اور امانت کمیٹی نے بھی اپنے اجلاس شروع کر دیئے ہیں.گو عملی کام ابھی اس نے شروع نہیں کیا مگر امید ہے کہ یہ دونوں قسم کے کام اس مہینہ میں اچھی طرح شروع ہو جائیں گے.امانت میں جن دوستوں نے اپنے نام لکھوائے ہیں خواہ وہ قادیان میں رہتے ہوں یا باہر ان سب کو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ یہ ان کے اخلاص کا امتحان ہے اس لئے اس تحریک میں زیادہ یاد دہانیاں نہیں کرائی جائیں گی.اگر کوئی شخص با قاعدہ چندہ نہیں دے گا تو دفتر امانت ایک دو یاد دہانیوں کے بعد اس کا نام رجسٹر سے کاٹ ڈالے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنے اخلاص کا محض مظاہرہ کیا تھا، حقیقت اس میں نہیں تھی.پس دوست

Page 31

خطبات محمود ۲۶ سال ۱۹۳۵ء اس امر کی امید نہ رکھیں کہ لوگ ان کے پاس پہنچیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ چندہ.صدر انجمن والے چندوں میں پیچھے پڑ کر چندہ لیا جاتا ہے مگر یہ مطاوعت والے چندے ہیں اس لئے جس طرح اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے کسی پر جبر نہیں کیا گیا اسی طرح شامل ہونے کے بعد بھی کوئی جبر نہیں ہو گا.پس اگر کوئی دوست اس ثواب میں شریک ہونے سے اس وجہ سے محروم رہ جائے کہ اس سے چندہ مانگا نہیں گیا تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی.میری ہدایات دفاتر متعلقہ کو یہی ہوں گی کہ وہ چندہ لوگوں سے مانگیں نہیں مگر چونکہ انسان کے ساتھ نسیان بھی لگا ہوا ہے اس لئے کبھی کبھار اگر ایک دو یاد دہانیاں کرا دی جائیں تو کوئی حرج نہیں.مگر وعدے والے پر بھی اصرار نہ کیا جائے اور خالص طور پر اس میں لوگوں کو اپنی مرضی اور شوق کے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے.ممکن ہے اس لحاظ سے کہ چندہ مانگنے کیلئے دفاتر متعلقہ کی طرف سے زیادہ اصرار نہیں کیا جائے گا ، رقم کچھ کم ہو جائے اور غفلت، نستی یا کمزوري ایمان کی وجہ سے بعض لوگ رہ جائیں.پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فوری جوش میں آ کر اپنا نام لکھا دیتے ہیں مگر بعد میں وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور گو ہماری جماعت میں ایسا عصر بہت کم ہوتا ہے لیکن چونکہ دوسرے چندوں میں اصرار کی عادت کی وجہ سے امکان ہے کہ ان چندوں میں عدم اصرار انہیں سُست کر دے اس لحاظ سے ممکن ہے کہ رقم میرے اوپر بیان کردہ اندازہ سے کچھ کم موصول ہو.پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کچھ رقم انگریزی ترجمہ قرآن کے لئے علیحدہ کر لی جائے گی اور کچھ رقم خرچ کر کے اندازوں کی غلطی کی وجہ سے بیان کردہ مدات میں ڈالنی پڑے گی کیونکہ بعد میں مزید غور کرنے سے بعض مذات کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ ان پر اس سے زیادہ خرچ آئے گا ، جتنا میں نے بیان کیا تھا.ان تمام اخراجات کے بعد جو رقم بچ رہے گی وہ آنے والے دونوں سالوں میں تقسیم کر دی جائے گی.امانت کے متعلق جو وعدے ہوئے ہیں ، ان سے میرا اندازہ ہے کہ تین چار ہزار روپیہ ماہوار کی رقم آئیگی لیکن ہم یہ خیال کرتے تھے اور بات بھی معقول تھی کہ جنوری سے مڈ امانت میں ادائیگی شروع ہو جائے گی کیونکہ جنہوں نے دسمبر میں وعدے کئے تھے وہ وعدے انہوں نے اس وقت کئے جب کہ وہ اپنی تنخواہیں خرچ کر چکے تھے.پس امید کی جاتی تھی کہ وہ جنوری سے امانتیں جمع کرانی شروع کر دیں گے اور میں اب بھی امید کرتا ہوں کہ جنہوں نے امانت کے وعدے کئے ہیں ان کے ذہن میں یہی بات ہو گی.مگر جن کے ذہن میں یہ بات نہ ہو انہیں چاہئے

Page 32

خطبات محمود ۲۷ سال ۱۹۳۵ء کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ وہ کس مہینہ سے اپنی امانت ادا کرنی شروع کریں گے.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو دفتر امانت یہی سمجھے گا کہ جنوری سے انہوں نے وعدہ کیا ہو اہے اور یہ کہ انہوں نے اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا.اس صورت میں ایک دو ماہ کی غفلت کے بعد ان کا نام دفتر سے کاٹ دیا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ انہوں نے صرف دکھاوے سے کام لیا، حقیقت اس میں نہیں تھی.پس میں اس اعلان کے ذریعہ قادیان والوں کو براہ راست اور باہر کی جماعتوں کو اخبار کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں کہ ہم نے مجوزہ سکیم پر کام شروع کر دیا ہے اور جماعتوں کے سیکرٹریوں اور امراء کو چاہئے کہ وہ میرا یہ خطبہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں کیونکہ اس کے سوا میری آواز ان تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی جماعت ہے مگر اخبار’ الفضل“ کی اشاعت پندرہ سولہ سو کے درمیان رہتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جن کے کانوں تک میری آواز نہیں پہنچتی.بنگالی اردو کا ایک حرف تک نہیں جانتے پس وہ ” الفضل‘ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.پھر ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے.اندازہ لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف تین چار فیصدی تعلیم یافتہ ہیں باقی چھیانوے ستانوے فیصدی ایسے لوگ ہیں جو پڑھے لکھے نہیں.پھر جو لوگ پڑھ بھی سکتے ہیں ،ان میں سے کچھ غریب ہوتے ہیں اور وہ اپنی غربت کی وجہ سے اخبار نہیں منگوا سکتے.بہت سے سُست ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لکھے پڑھے ہونے کے باوجود اخبار نہیں منگواتے اور اگر ان کے قریب کوئی اور شخص اخبار منگوا تا ہو تو اسی سے پوچھتے رہتے ہیں سنائیے ” الفضل میں سے کوئی تازہ بات.گویا وہ اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ اخبار لے کر پڑھ لیا.یا کسی دوسرے سے کوئی ایک آدھ خبر معلوم کر لی خود اس کو خرید نا ضروری نہیں سمجھتے.پس ان تمام لوگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جماعت کے عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ جمعہ یا اتوار کے دن یا ہفتہ میں کسی اور موقع پر میرا ہر خطبہ لوگوں کو سنا دیا کریں بلکہ جماعت کا اصل کام یہی ہونا چاہئے اور ہر جگہ کی جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ میرا خطبہ جمعہ تفصیلاً یا خلاصۂ لوگوں کو جمعہ یا اتوار کے دن سنا دیا کریں.جس شخص کے سپر د خدا تعالیٰ جماعت کی اصلاح کا کام کرتا ہے اسے طاقت بھی ایسی بخشتا ہے جو دلوں کو صاف کرنے والی ہوتی ہے اور جواثر اس کے کلام میں ہوتا ہے ، وہ دوسرے کسی اور کے کلام میں نہیں ہوسکتا لیکن میں نے دیکھا

Page 33

خطبات محمود ۲۸ سال ۱۹۳۵ء ہے سیکرٹریوں یا امراء کو یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ خود ہی خطبہ پڑھیں.مجھے کئی رپورٹیں ایسی آتی رہتی ہیں کہ جماعت کے لوگ بعض اہم خطبات کی نسبت چاہتے ہیں کہ ” الفضل“ سے پڑھ کر سنا دیئے جائیں مگر سیکرٹری یا امیر مصر ہوتے ہیں کہ نہیں ، وہ اپنا ہی خطبہ سنائیں گے.گویا وہ اپنی تقریر کے شوق اور لیڈری کی اُمنگ میں ان فوائد سے قوم کو محروم کر دیتے ہیں جو جماعت کے لئے ایسے ہی ضروری ہوتے ہیں جیسے بچہ کے لئے دودھ.پس چونکہ یہ نہایت ہی خطرناک پالیسی ہے اس لئے آئندہ جماعتوں کو چاہئے کہ جو خطبات میں پڑھوں انہیں وہ جب بھی موقع ملے جماعت کو سنا دیا کریں.جو زیادہ اہم ہوں انہیں تو جمعہ کے خطبہ کے طور پر سنادیں اور جن میں کسی خاص سکیم کا ذکر نہ ہوا سے جمعہ یا اتوار کو کوئی الگ مجلس کر کے خطبہ یا خطبے کا خلاصہ سنا دیا کریں.بعض دفعہ خطبہ لمبا ہوتا ہے یا جماعت میں سے اکثر نے پڑھا ہوا ہوتا ہے اس صورت میں خطبے کا خلاصہ سنا دینا چاہئے مگر بہر حال جماعت کے ہر فرد تک خطبات کی آواز پہنچنی چاہئے.جو دراصل آواز پہنچانے کا اکیلا ذریعہ ہے.ورنہ امام کے لئے اور کون سا طریق ہو سکتا ہے جس سے کام لے کر وہ جماعت کو اپنے مافی الضمیر سے آگاہ کر سکے.جماعت کے نام خطوط تو میں لکھ نہیں سکتا، اس کے علاوہ کتا بیں بھی میں اب نہیں لکھتا پس یہ خطبات ہی ایسی چیز ہیں جس کے ذریعہ میں اپنا عندیہ یا وہ عندیہ جو خدا تعالیٰ سے معلوم کروں ، ظاہر کرتا رہتا ہوں.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دوسرے کاموں میں سے بھی بعض کام شروع کر دیئے گئے ہیں.مثلاً جو تبلیغ کا کام تھا اور جس کے متعلق میں نے مطالبہ کیا تھا کہ دوست اپنی زندگیاں وقف کر دیں.یا جو لوگ سال میں یا دو دو تین تین سال کے بعد لمبی چھٹیاں لے سکتے ہوں ، وہ اپنی فرصت اور رخصت کے اوقات کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیں تا کہ انہیں تبلیغ پر لگایا جا سکے اور لوگوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کیا جا سکے.اس کام کے لئے فی الحال دو مرکز قائم کئے گئے ہیں اور کام بھی شروع کر دیا گیا ہے لیکن میں ان مرکزوں کا نام نہیں بتا تا کیونکہ ان کا مخفی رکھنا ضروری ہے.اس کے علاوہ چار سائیکلسٹ بھی روانہ ہو چکے ہیں لیکن ساری سکیم پر دوبارہ غور کرنے اور عملی پہلوؤں کو اپنے ذہن میں مستحضر کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں پانچ نہیں بلکہ سولہ سائیکل سواروں کی ضرورت ہے اور اب تجویز یہی ہے کہ سولہ سائیکلسٹ مقرر کئے جائیں.اور چونکہ تجویز کی وسعت کے ساتھ

Page 34

خطبات محمود ۲۹ سال ۱۹۳۵ء زیادہ سائیکلوں کی ضرورت ہے اس لئے میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دوست ایسے ہوتے ہیں جو پہلے سائیکل پر سوار ہوا کرتے تھے مگر اسکے بعد انہوں نے موٹر خرید لیا.یا پہلے سائیکل پر سوار ہوا کرتے تھے مگر اس کے بعد انہوں نے گھوڑ ا خرید لیا.یا اب سائیکل پر چڑھنا ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس طرح سائیکل ان کے پاس بریکار پڑے ہوئے ہوتے ہیں.پس اگر ایسے دوست ہماری جماعت میں ہوں خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے تو وہ اس طرح بھی ثواب کما سکتے ہیں کہ پنے اپنے سائیکل یہاں بھجوا دیں.اگر ہم خرید نے لگیں تو آٹھ نو سور و پیہ ہمارا خرچ ہو جائے گالیکن اگر اس طرح سائیکل آجائیں تو ایک ایک سائیکل پر خواہ دس پندرہ روپے بطور مرمت خرچ ہو جائیں تو پھر بھی سو ڈیڑھ سوروپیہ میں کئی سائیکل تیار ہو سکتے ہیں اور اس طرح بہت سی بچت ہو سکتی ہے.اب جو چار سائیکلسٹ گئے ہیں.ان میں سے ایک کے پاس اپنا بائیسکل تھا جسے مرمت کرا دیا گیا.دو سائیکل بعض دوستوں کی طرف سے ہدیۂ ملے تھے اور ایک سائیکل خرید لیا گیا.چونکہ یہ تمام سائیکل سوار پندرہ بیس دن کے اندر اندر روانہ ہونے والے ہیں اس لئے قادیان یا باہر کی جماعت میں سے اگر کوئی دوست سائیکل دے سکتے ہوں تو بہت جلد بھجوا دیں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب سروے کا کام بھی شروع ہو گیا ہے اور تبلیغ کا کام بھی شروع ہو گیا ہے.گوا بھی یہ کام چھوٹے پیمانہ پر شروع کیا گیا ہے.تا تمام مشکلات اور حالات ہمارے سامنے آ جائیں اور پھر ان کو دیکھ کر اپنے کام کو پھیلا سکیں.اگر پہلی دفعہ ہی کام کو زیادہ پھیلا دیا جائے تو بعد میں بعض دفعہ اپنی طاقت کو سمیٹنا پڑتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے بہت سی طاقت ضائع کر دی.پس اس لئے کہ ابتداء میں ہم یکدم اپنی طاقت صرف نہ کر دیں اور اس لئے کہ تا حالات کا تجربہ ہو جائے ، کام چھوٹے پیمانہ پر شروع کیا گیا ہے جسے تجربہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ وسیع کر دیا جائے گا.جن لوگوں نے میرے مطالبہ پر رخصتیں وقف کی ہیں، ان کی تعداد بھی بہت تھوڑی ہے.غالباً زمینداروں اور ملازمت پیشہ لوگوں کو ملا کر سو کے قریب تعداد ہے حالانکہ زمینداروں کو ملا کر ہماری جماعت میں سے تبلیغ کے قابل آدمی ہندوستان میں ہزاروں کی تعداد میں مل سکتے ہیں.پس چونکہ اس مطالبہ کے جواب میں ابھی بہت ہی کم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اس لئے میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنی زندگیوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر یں.میں پہلے بھی

Page 35

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ دنیا میں روپیہ کے ذریعہ بھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ بجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ وہ اکناف عالم تک اپنی تبلیغ کو پہنچا دے گی اس سے زیادہ فریب خوردہ، اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں.روپیہ کے ذریعہ ہونے والا کام صرف ایک ظاہری چیز ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیں تم روپیہ کو قلابہ تو سمجھ سکتے ہو جو دو چیزوں کو آپس میں ملا دیتا ہے مگر وہ عارضی چیز ہے.جس کے اندر کوئی پائیداری نہیں.تم کیلوں سے مکان نہیں بنا سکتے بلکہ کیلوں کا اتنا ہی کام ہے کہ وہ دروازوں اور کھڑکیوں کو جوڑ دیں.جس چیز کے ساتھ مذہبی جماعتیں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں وہ ذات کی قربانی ہوتی ہے نہ کہ روپیہ کی.روپیہ کے ذریعہ سے مذہبی جماعتوں نے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کی کیونکہ مذہب دلوں کو جیتا ہے اور روپیہ کسی کے دل کو فتح نہیں کر سکتا.روپیہ سے فتح کئے ہوئے لوگ زیادہ سے زیادہ غلام کہلائیں گے مگر مذہب تو وہ چیز ہے جو غلامی سے لوگوں کو نجات دلاتا ہے.اگر تم روپیہ سے دنیا کو فتح کرتے ہو تو تم لوگوں کو غلام بناتے ہو کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دنیا کو خرید لیا مگر کیا غلام بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتا ہے.اس صورت میں تم دنیا کو ترقی کی طرف نہیں لاتے بلکہ اسے اور بھی زیادہ ذلیل اور تباہ کرتے ہو.کیا تم سمجھتے ہو کہ بچے جس طرح اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں ، غلام اس سے بڑھ کر خدمت کیا کرتے ہیں.یا غلام اور بچہ کی ایک ہی قیمت ہوتی ہے اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور کیوں بچہ قیمتی ہوتا ہے مگر غلام قیمتی نہیں ہوتا.اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ تم نے غلام کو روپیہ سے خریدا ہوا ہوتا ہے مگر بچہ کو ماں نے اپنی جان دے کر خریدا ہوتا ہے.بچہ کی قیمت کیا ہے؟ بچہ کی قیمت ماں کا نو مہینے اپنی زندگی کا اس کے لئے وقف کر دینا ہے.پھر بچہ کی قیمت زچگی کے وقت ماں کا اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دینا ہے.زچگی کیا ہے.ایک موت ہے جس کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے.جس دن بچہ کی پیدائش ہوتی ہے اس دن گھر میں دو پیدائشیں ہوتی ہیں ، ایک ماں کی پیدائش ہوتی ہے اور ایک بچہ کی پیدائش ہوتی ہے.پس ماں نو مہینے کے لئے اپنی زندگی بچہ کے لئے وقف کرتی ہے پھر اپنی جان کو قربانی کے بھینٹ چڑھاتی ہے جس میں کبھی تو وہ جان دے دیتی ہے اور کبھی بیچ کر آ جاتی ہے.در حقیقت زچگی کے وقت عورت کے جسم پر جو اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور جس قدر شدائد و مشکلات میں سے وہ گذرتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عورت اللہ تعالیٰ کے فضل کے طور پر دوبارہ زندہ کر دی جاتی ہے ورنہ وہ حالت

Page 36

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء زندگی کی نہیں ہوتی اس لئے با وجو د سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ہر سال ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہلاک ہو جاتی ہے.کبھی ماں مر جاتی ہے اور بچہ زندہ رہتا ہے کبھی بچہ مرجاتا ہے اور ماں زندہ رہ جاتی ہے اور کبھی ماں اور بچہ دونوں مرجاتے ہیں اور اس طریق پیدائش میں ہزار ہا قربانیاں عورتوں کی طرف سے ہر سال کی جاتی ہیں.پھر بچہ بھی ایک طرح کا غلام ہی ہوتا ہے بلکہ جتنی غلامی وہ کرے اتنا ہی شریف اور نیک سمجھا جاتا ہے مگر اس میں کوئی عیب یا ذلت کی بات نہیں کیونکہ وہ جان دے کر خریدا گیا ہے.پس در حقیقت وہی انسان دنیا میں مفید کام کر سکتے ہیں جو تمہاری روحانی اولاد ہوں اور جنہیں تم نے اپنی جانیں دے کر خریدا ہوا ہو.جن کے غم میں تم گھلے جا رہے ہو اور جن کی ہدایت کے لئے تم خدا تعالیٰ کے دروازے کے آگے گویا روحانی رنگ میں مر چکے ہو تب اس کے نتیجہ میں تمہیں جو فرزند ملیں گے وہ تمہارے روحانی فرزند ہوں گے.مگر جن کو مبلغوں کے ذریعہ روپیہ دے کر تم خریدو گے وہ غلام ہوں گے اور غلام کے ذریعہ تم کسی کام کی توقع نہیں کر سکتے.یورپ کے مشنریوں نے روپیہ کے ذریعہ کتنی تبلیغ کی مگر ایک جگہ بھی وہ آزاد نہیں بلکہ وہ بھی غلام بنے ان کے ملک بھی غلام بنے ، ان کے بچے بھی غلام بنے اور ان کی بیویاں بھی غلام بنیں.افریقہ کا بیشتر حصہ عیسائی ہے مگر کیا وہ آزاد ہیں.وہ اخلاقی طور پر بھی غلام ہیں وہ روحانی طور پر بھی غلام ہیں اور وہ جسمانی طور پر بھی غلام ہیں اور جب بھی ان قوموں کی آزادی کا سوال پیدا ہوتا ہے ، یورپین ممالک ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم نے بہت سا رو پید ان کی بہتری کے لئے صرف کیا ہے اس لئے ہم ان ملکوں کو نہیں چھوڑ سکتے.غرض روپیہ سے خریدی ہوئی چیز بجز غلامی میں اضافہ کرنے کے اور کسی کام نہیں آ سکتی مگر خدا اور اس کے قائم کردہ رسول لوگوں کو آزاد کرنے کے لئے آتے ہیں انہیں غلام بنانے کے لئے نہیں آتے.پس اگر تم دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو روپیہ کے ساتھ نہیں بلکہ لوگوں کو اپنی جان کے ساتھ خرید کر لاؤ جس کو روپیہ کے ساتھ خرید کر لاؤ گے وہ خود بھی ذلیل ہوگا اور تم بھی ذلیل ہو گے.مگر جس کو جان دے کر خریدو گے وہ تم پر جان دے گا اور تم اس پر قربان ہو گے.پس یہ غلط ہے کہ تم روپیہ یا مبلغین کے ذریعہ کام کر سکتے ہو تم اگر دنیا میں فتح یاب ہونا چاہتے ہو تو جان دے کر ہو گے اور جان دینے کے معاملہ میں ہرگز کوئی قوم نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ فلاں شخص نے جان دے دی ہے ، اس لئے اسکا فرض ادا ہو گیا.جب تک تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش نہیں کرتا ، جب تک تم

Page 37

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء میں سے ہر شخص یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اس کی زندگی اس کی نہیں بلکہ اس کے خدا اور اس کے رسول اور اس کے امام اور اس کے بھائیوں کی زندگی ہے ، جب تک اس کی جان ہر ایک کی نہیں ہو جاتی سوائے اپنے آپ کے اس وقت تک اس میدان میں کسی کو کامیابی نہیں ہوئی نہیں ہوسکتی ، نہیں ہوگی.پس میں جماعت کے تمام افراد کو تو جہ دلاتا ہوں کہ یہ قربانی روپیہ والی قربانی سے کم نہیں بلکہ اس سے ہزار ہا گنا زیادہ اہم ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روپیہ ادا کر کے اپنے فرض کو پورا کر دیا ، وہ تمسخر کرتے ہیں اپنے ایمان سے، وہ تمسخر کرتے ہیں احکام الہی سے اور تمسخر کرتے ہیں خدا اور اس کے صلى الله رسول سے.کیا تم سمجھتے ہو کہ جس وقت رسول کریم ﷺ بدریا اُحد کی جنگ کے لئے جا رہے تھے اُس وقت اگر کوئی شخص رسول کریم ﷺ کو ایک سو روپیہ دے دیتا اور کہتا یا رَسُولَ اللهِ ! میرا فرض ادا ہو گیا تو اس کا نام مؤمنوں میں شمار ہوتا ؟ کیا تم سمجھتے ہو خدا کا کلام اسے منافق قرار نہ دیتا ، اگر سمجھتے ہو تو پھر تم تین ہزار نہیں دس ہزار روپیہ دے کر بھی کس طرح فرض کر لیتے ہو کہ تمہارا حق ادا ہو گیا.تم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا اور جو اکیلا حقیقی مطالبہ ہے وہ تمہاری جان کا مطالبہ ہے.نہ صرف تمہیں اس وقت اس مطالبہ کو پورا کرنا چاہئے بلکہ ہر وقت یہ مطالبہ تمہارے ذہن میں متحضر رہنا چاہئے کیونکہ اس وقت تک تم میں جرات و دلیری پیدا نہیں ہو سکتی جب تک تم اپنی جان کو ایک بے حقیقت چیز سمجھ کر دین کے لئے اسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ رہو.کیوں تم میں سے بعض لوگ معمولی تکلیفوں سے گھبرا جاتے ہیں ، کیوں مصیبت کے وقت ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور کیوں ابتلاؤں کے وقت ٹھو کر کھا جاتے ہیں اسی لئے کہ یہ بات تمہارے ذہن میں نہیں کہ تمہاری جان تمہاری نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے سلسلہ کی ہے.تم جب جماعت میں داخل ہوتے ہو تو یہ سمجھ لیتے ہو کہ تم نے ایک آنہ فی روپیہ چندہ دینا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تو روپیہ میں سے پندرہ آنے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں.میں تو سمجھ بھی نہیں سکتا کہ ایک جاہل بھی ایسا خیال کرتا ہو کہ روپیہ میں سے پندرہ آنے لے کر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے گا آخر کیا چیز ہے جس کو تم پیش کرتے ہو.یاد رکھو کہ اس زمانہ کو خدا تعالیٰ نے ذوالقرنین کا زمانہ کہا ہے تم نے قرآن مجید میں پڑھا ہوگا کہ لوگوں نے اس سے کہا ہم تمہیں روپیہ دیتے ہیں ذوالقرنین نے اس کے جواب میں کہا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت نہیں بلکہ میری فتوحات اور ذرائع سے ہوں گی.میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ وہ کیا ذرائع تھے جن سے ذوالقرنین کام لینا

Page 38

خطبات محمود ۳۳ سال ۱۹۳۵ء چاہتا تھا مگر بہر حال قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ اس نے کہا میری فتوحات روپیہ سے نہیں ہوں گی بلکہ اور چیزوں سے ہوں گی.پس جنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے ستائیس ہزار کے مطالبہ پرستر ہزار روپیہ دے دیا اور اب ہمارا فرض ادا ہو گیا وہ غلطی پر ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت ستائیس ہزار روپیہ کے مطالبہ پر ستائیس ہزار روپیہ پیش نہ کرتی تو یہ اس کی موت کی علامت ہوتی مگرستر ہزار یا ایک لاکھ روپیہ بھی اکٹھا کر دینا اس کی زندگی کی علامت نہیں کہلا سکتی.زندگی کی علامت یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی جان لے کر آگے آئے اور کہے کہ اے امیر المومنین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لئے حاضر ہے جس دن سے تم سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہیں، جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اس دن تم کہہ سکو گے کہ تم زندہ جماعت ہو.تمہارا منہ سے یہ کہ دینا مجھے کیا تسلی دے سکتا ہے کہ ہماری جان حاضر ہے جبکہ میں تم سے یہ کہوں کہ تم اپنے بارہ مہینوں میں سے تین یا دو ماہ سلسلہ کے لئے وقف کر دو اور تم میرے اس مطالبہ پر خاموش رہو.اس صورت میں میں کس طرح مانوں کہ تم جانیں فدا کرنے کے لئے تیار اور اسلام کے لئے انہیں قربان کرنے کے لئے حاضر ہو.اگر تم سال میں سے دو تین ماہ تبلیغ احمدیت کے لئے وقف کر دو تو اس سے کیا ہو گا.زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ تم ان دو تین ماہ میں اپنے والدین یا بیوی بچوں کو ملنے کے لئے اگر جایا کرتے تھے تو اب نہیں جا سکو گے.مگر کیا تم نے کبھی غور نہیں کیا کہ ولایت سے ڈپٹی کمشنر اور اعلیٰ حکام جب آتے ہیں تو بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال یہاں رہتے ہیں اور اپنے وطن نہیں جا سکتے.کیا ان کے والدین نہیں ہوتے ، ان کی بیویاں اور بچے نہیں ہوتے پھر انہوں نے تو کالے کوسوں جانا ہوتا ہے مگر تمہیں زیادہ سے زیادہ اپنے ہی ملک کے کسی اور صوبہ میں جانا ہو گا اور وہ بھی نوکریوں یا تجارت اور زراعت سے فراغت کے اوقات میں اور پھر اپنے گھر آ جانا ہو گا.بلکہ ایک دو سال کیا اگر تمہیں ساری عمر کے لئے خدا اور اس کے دین کے لئے یہ قربانی کرنی پڑے تو تمہیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے مگر جس قربانی کا میں تم سے مطالبہ کر رہا ہوں ، وہ تو ایسی ہی ہے جیسے دستر خوان کی بچی ہوئی ہڈیاں.پس تمہاری چھٹیوں کی مثال تو ہڈیوں یا دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں کی سی ہے.اور گو اب تم سے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے مانگے جاتے ہیں مگر کبھی تم سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ تم اپنی

Page 39

خطبات محمود ۳۴ سال ۱۹۳۵ء ساری روٹی دے دو اور خود ایک ٹکڑا بھی نہ کھاؤ.پس سر دست تو بچے ہوئے ٹکڑوں کا تم سے مطالبہ کیا گیا ہے اگر تم اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتے تو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ تم اگلی قربانیوں کے لئے تیار ہو.پس میں جماعت کے دوستوں سے پھر وہی مطالبہ کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر فرد اس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے گا یہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگ جائیں.مجنون کی طاقت جس قدر بڑھ جاتی ہے وہ کسی پرچھنی نہیں.یہاں ہی ایک استانی ہوا کرتی تھیں، انہیں کبھی کبھی جنون کا دورہ ہو جاتا، ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسی الاول درس دے رہے تھے کہ اسے دورہ ہو گیا اور کو ٹھے پر سے اس نے چھلانگ لگانی چاہی.عورتوں نے شور مچایا تو حضرت خلیفہ اول نے بھی اٹھ کر اسے پکڑ لیا.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت خلیفہ اول ابھی بیمار نہ ہوئے تھے.آپ کا جسم خوب چوڑا چکلا اور مضبوط تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپ نے بانہہ نکال کر کہا تھا کہ کوئی جوان ہو تو بانہ پکڑ کر دیکھ لے.مگر باوجود ایسی مضبوطی کے اور باوجود اس کے کہ پانچ سات اور عورتوں نے بھی اسے پکڑا ہوا تھا پھر بھی وہ عورت ہاتھ سے نکلی جاتی تھی.تو جس وقت انسان دماغی حدوں کو توڑ دیتا ہے اُس وقت اُسے ایک غیر معمولی طاقت ملتی ہے چاہے جسمانی حدوں کے توڑنے کی وجہ سے حاصل ہو اور چاہے روحانی قیود کو توڑ دینے کی وجہ سے حاصل ہو.جس طرح انسان کے دماغ کی جب گل بگڑ جاتی ہے تو اس کی طاقتیں وسیع ہو جاتی ہیں اسی طرح خدا کی طرف سے جب آواز بلند ہو اور انسان دیوانہ وار کہے کہ آتا ہوں ، آتا ہوں تو پھر کوئی طاقت اور قوت اسے روک نہیں سکتی.یہی روحانی دیوانے ہوتے ہیں جو دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں، یہی روحانی دیوانے ہوتے ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا کرتے ہیں ، ایسا انقلاب جو اس کے تمدن میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ، اس کی سیاست میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ، اس کی تعلیمی حالت میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور اس کے اخلاق میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.ورنہ وہ چند نقال جو یورپین مدرسوں میں پڑھنے کے بعد مغربی اصطلاحیں رٹنے لگ جاتے ہیں یا چند زمیندار جو صبح سے شام تک ہل چلا کر گھروں میں آ بیٹھتے ہیں انہوں نے دنیا میں کون سی تبدیلی کر دی یا کون سی وہ تبدیلی کر سکتے ہیں اگر چہ ہم اپنی ساری کمائی سامنے لا کر رکھ دیں.دنیا میں تبدیلی کرنے کے لئے پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، پہلے

Page 40

خطبات محمود ۳۵ سال ۱۹۳۵ء اپنے اندر وہ چیز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا میں زندگی کی روح پھونکنے والی ہو.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ اس جسمانی قربانی کی اہمیت کو محسوس کریں اور یہ پہلا قدم ہے جس کے اٹھانے کا ان سے مطالبہ کیا گیا ہے.ورنہ اصل قدم تو یہی ہے کہ ہر وقت ان کے ذہن میں یہ بات رہے کہ ان کی جان ان کی نہیں بلکہ خدا کے قائم کردہ سلسلہ کی ہے اور یہ کہ وہ بزدل نہیں بلکہ بہادر ہیں.جو لوگ بہادر ہوں ان سے لوگ ہمیشہ ڈرا کرتے ہیں.ہمارے صوبہ میں کبھی کوئی پٹھان آ جائے اور اس کا کسی سے جھگڑا ہو جائے تو زمیندار اسے دیکھ کر جھٹ کہنے لگ جاتا ہے کہ پٹھان ہے جانے بھی دو کہیں خون نہ کر دے.حالانکہ ہمارے بعض پنجابی ایسے ایسے مضبوط ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی پٹھان کو پکڑلے تو اسے ملنے نہ دے مگر اس کا رُعب ہی ایسا ہوتا ہے کہ پنجابی کہنے لگ جاتے ہیں خان صاحب آگئے اور ان کی ساری شیخیاں کا فور ہو جاتی ہیں.پس جو قوم مرنے کے لئے تیار ہو اس سے ہر قوم ڈرا کرتی ہے.اسی طرح ہم بھی اگر اپنی جانیں دینے پر آمادہ ہو جائیں تو لوگ ہم سے بھی ڈرنے لگ جائیں گے مگر وہ ڈر خوف والا نہیں ہو گا بلکہ محبت والا ہو گا.ہم عمارتوں کو اس لئے نہیں گرائیں گے کہ ان کے باغوں کو ویران اور ان کے محلات کو کھنڈر کر دیں بلکہ ہم پاخانوں کو گرا کر انہیں قلعے بنائیں گے اسی طرح کاغذوں کو جلائیں گے مگر اس طرح نہیں کہ دیا سلائی سے انہیں جلا دیا بلکہ ان کی گندی عبارتیں مٹا کر ان پر پاکیزہ عبارتیں لکھیں گے.پس ہمارے اصول تخر یہی نہیں بلکہ تعمیری ہوں گے کیونکہ جو قومیں تباہی کے اصول دنیا میں رائج کیا کرتی ہیں وہ خود بھی تباہ ہوتی ہیں ان کے اصول بھی ناکارہ جاتے ہیں.محبت ہی ہے جو آخر دنیا کو فتح کرتی اور عالمگیر مؤاخات کا سلسلہ قائم کر دیتی ہے.ہمارے نوجوانوں میں سے بعض نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اور میں آج کل ان کا امتحان بھی لے رہا ہوں.اس امتحان لینے سے جہاں مجھے یہ معلوم ہوا کہ ان نو جوانوں میں اخلاص اور جرات ہے ، وہاں مجھے یہ بات بھی نہایت افسوس اور رنج سے معلوم ہوئی کہ ان کی تربیت اس رنگ میں نہیں ہوئی جس رنگ میں اسلام لوگوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے.اسلام مؤمن کے دماغ میں ایک وسعت پیدا کر دیتا ہے اتنی بڑی وسعت کے ہر مؤمن اپنے آپ کو دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے وہ کسی ایک صوبہ یا ایک ملک یا ایک براعظم کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے اور دنیا کے ہر

Page 41

خطبات محمود ۳۶ سال ۱۹۳۵ء شعبے کی طرف اپنی نگاہ دوڑاتا اور ہر شعبے سے اپنے لئے فوائد اخذ کرتا ہے.اسی لئے صوفیاء کرام نے انسان کو عالم صغیر کہا ہے اور گو ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہرانسان کو عالم صغیر کہا مگر در حقیت ان کی انسان سے مراد انسان کامل ہے.جس طرح ایک انچ کا شیشہ بھی اگر ایک وسیع باغ کے سامنے رکھ دیا جائے.تو اس باغ کے تمام پودے نہایت چھوٹے پیمانہ پر شیشے میں نمایاں ہو جاتے ہیں اور جس طرح سبزہ زار کو ظاہری طور پر دیکھ کر انسان لطف اندوز ہوتا ہے اسی طرح شیشہ میں دیکھ کر لطف اٹھا سکتا ہے.بالکل اسی طرح ایک مؤمن کی نگاہ تمام دنیا پر وسیع ہوتی ہے اس کا دماغ روشن اس کی عقل تیز اس کے حوصلے بلند، اس کی امنگیں شاندار اور اس کی خیال آرائیاں بہت اونچی ہوتی ہیں مگر مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہوا کہ جامعہ احمدیہ میں جو طلباء تعلیم پاتے ہیں انہیں کنوؤں کے مینڈکوں کی طرح رکھا گیا ہے.ان میں کوئی وسعت خیال نہ تھی ، ان میں کوئی شاندار امنگیں نہ تھیں اور ان میں کوئی روشن دماغی نہ تھی میں نے گرید گرید کر ان کے دماغ میں داخل ہونا چاہا مگر مجھے چاروں طرف سے ان کے دماغ کا رستہ بند نظر آیا اور مجھے معلوم ہوا کہ سوائے اس کے کہ انہیں کہا جاتا ہے کہ وفات مسیح کی یہ یہ آیتیں رٹ لو یا نبوت کے مسئلہ کی یہ دلیلیں یاد کر لو، انہیں اور کوئی بات نہیں سکھائی جاتی.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ کچھ لوگ خرابی کریں اور ہم اسے مٹا دیا کریں گویا خدا کے پاس نکو ذباللہ تعمیری کام کوئی نہیں اگر ہے تو تخریبی کام ہی ہے.اور پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر چند مولوی یہ خیال نہ گھڑ لیتے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے یا چند مولوی یہ خیال نہ پھیلا دیتے کہ مسیح ناصری آسمان پر زندہ موجود ہیں تو نہ مسیح موعود کی ضرورت تھی اور نہ سلسلہ احمدیہ کے قیام کی.گویا ہماری جماعت صرف چند مولویوں کے ڈھکوسلوں کو دور کر نے کے لئے دنیا میں قائم ہوئی ہے.میں نہیں سمجھ سکتا اس سے زیادہ ذلیل، اس سے زیادہ ادنی ، اس سے زیادہ رُسوا کن اور اس سے زیادہ کمینہ خیال بھی دنیا میں کوئی اور ہو سکتا ہے.پس یہ عالم ہیں جنہیں جامعہ تیار کر رہا ہے اور یہ مبلغ ہیں جنہیں احمدیت کی تبلیغ کے لئے تعلیم دی جارہی ہے.حالانکہ یہ ویسے ہی مسجد کے ملنٹے ہیں جن کو مٹانے کے لئے یہ سلسلہ قائم ہوا ہے.میں نے عام طور پر لڑکوں سے سوال کر کے دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ کثرت سے طالب علم ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اخبار کو پڑھا ہی نہیں.کیا دنیا میں کبھی کوئی ڈاکٹر کام کر سکتا ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ مرضیں کون کون سی ہوتی ہیں.میں نے الله

Page 42

خطبات محمود ۳۷ سال ۱۹۳۵ء تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے آپ راتوں کو بھی کام کرتے اور دن کو بھی کام کرتے اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے.اسی تحریک کے دوران میں خود اکتوبر سے لے کر آج تک بارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا اور اخبار کا مطالعہ کرنا بھی نہیں چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ جب ہم سوتے اس وقت بھی آپ جاگ رہے ہوتے اور جب ہم جاگتے تو اس وقت بھی آپ کام کر رہے ہوتے.جب انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے تو وہ دنیا میں کام کیا کر سکتے ہیں.میں نے جس سے بھی سوال کیا.معلوم ہوا کہ اس نے اخبار کبھی نہیں پڑھا اور جب بھی میں نے ان کی امنگ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تبلیغ کریں گے.اور جب سوال کیا کہ کس طرح تبلیغ کرو گے تو یہ جواب دیا کہ جس طرح بھی ہوگا تبلیغ کریں گے.یہ الفاظ کہنے والوں کی ہمت تو بتاتے ہیں مگر عقل تو نہیں بتاتے.الفاظ سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا ہمت رکھتا ہے مگر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کہنے والے میں عقل نہیں اور نہ وسعت خیال ہے.جس طرح ہو گا تو سؤر کیا کرتا ہے.اگر سؤر کی زبان ہوتی اور اس سے پوچھا جا تا کہ تو کس طرح حملہ کرے گا تو وہ یہی کہتا کہ جس طرح ہوگا کروں گا.بس سؤر کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ سیدھا چل پڑتا ہے آگے نیزہ لے کر بیٹھو تو وہ نیزہ پر حملہ کر دے گا ، بندوق لے کر بیٹھو تو بندوق کی گولی کی طرف دوڑتا چلا آئے گا.پس یہ تو سؤروں والا حملہ ہے کہ سیدھے چلے گئے اور عواقب کا کوئی خیال نہ کیا حالانکہ دل میں ارادے یہ ہونے چاہئیں کہ ہم نے دنیا میں کوئی نیک اور مفید تغیر کرنا ہے.مگر اس قسم کی کوئی امنگ میں نے نو جوانوں میں نہیں دیکھی اور اسی وجہ سے جتنے اہم اور ضروری کام ہیں وہ اس تبلیغی شعبہ سے پوشیدہ ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جماعت ترقی نہیں کرتی.حالانکہ مبلغ کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک آگ لگا دے.جہاں جائے وہاں دیا سلائی لگائے اور آگے چلا جائے.اگر مبلغ ایک جنگل کو صاف کرنے بیٹھے تو وہ اور اس کی نسلیں بھی ہزار سال میں ایک جنگل کو صاف نہیں کر سکتیں لیکن اگر وہ سوکھی لکڑیوں اور پتوں وغیرہ کو اکٹھا کر کے دیا سلائی لگاتا چلا جائے تو چند دنوں میں ہی تمام جنگل راکھ کا ڈھیر ہو جائے گا.پس مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہوا کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی تعلیم نہایت ہی ناقص اور نہایت ہی ردی اور نہایت ہی ناپسندیدہ حالت میں ہے.اس میں شبہ نہیں کہ طالب علموں میں ایمان اور اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے.چنانچہ ایک طالب علم سے جب میں نے

Page 43

خطبات محمود ۳۸ سال ۱۹۳۵ء پوچھا کہ تم یہ سمجھ لو کہ ہم نے جس امداد کا وعدہ کیا ہے ممکن ہے اتنا بھی نہ دے سکیں.تو اس نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ دے رہے ہیں یہ تو احسان ہے اللہ تعالیٰ کی قسم آپ اس وقت کہیں کہ چین چلے جاؤ تو میں ٹوکری ہاتھ میں لے کر مزدوری کرتا ہؤا روا نہ ہو جاؤں گا.یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ لڑکوں کی ذات میں اخلاص ہے مگر یہ اخلاص استاد تو پیدا نہیں کرتے یہ ماحول کا نتیجہ ہے ورنہ جو کام استادوں کا ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا وہ ہیرے ہیں مگر بے کاٹے ہوئے.ہم نے مدرسہ اور جامعہ میں انہیں اس لئے بھیجا تھا کہ تا وہ ہیرے ہمیں کاٹ کر بھیجے جائیں مگر وہ پھر بے کٹے ہمارے پاس آگئے.یہ ایک اتنی بڑی کوتا ہی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں طالب علم ہیں جن کی زندگیاں تباہ کر دی گئیں اور انہیں ملونٹے اور مسجد کے کنگال مولوی بنا دیا گیا ہے.نہ ان کے دماغوں میں کوئی تعمیری پروگرام ہے نہ ان کی آنکھوں میں عشق ہے اور نہ ان کے سینوں میں سلگتی ہوئی آگ ہے اگر آگ ہے تو دبی ہوئی مگر دبی ہوئی آگ کیا فائدہ دے سکتی ہے.بندا ایمان کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ وہی ایمان فائدہ دے سکتا ہے جو گھلا ہو اور ایمان جب گھلتا ہے تو انسان کو وسعت خیال حاصل ہو جاتی ہے.روز نئی نئی سکیمیں اسے سوجھتی ہیں ، نئے سے نئے ارادے اور نئی سے نئی امنگیں اس کے دل میں موجزن ہوتی ہیں اور اگر امنگ پیدا ہو تو پھر وہ چُھپ نہیں سکتی بلکہ ظاہر ہو کر رہتی ہے.بند ہنڈیا میں بھی اگر دھو آں جمع ہو جائے تو وہ دھوئیں کی وجہ سے اچھلنے لگ جاتی ہے.پس ایک ہنڈیا دھوئیں سے اچھل سکتی ہے تو کیا مؤمن کے اندرا گر وسعت خیال اور اُمنگیں داخل ہو جائیں تو وہ نہیں اچھلے گا.ریل ایجاد ہوئی تو محض اسی بات سے کہ ایجاد کرنے والے نے ایک دن دیکھا کہ بند ہنڈیا دھوئیں سے اُچھل رہی ہے.اس کے ذہن میں معابات آئی اور اس نے ایک انجن بنایا جس میں دُھو آں بھر دیا اور وہ چلنے لگ گیا.تو بخارات بھی اگر بند ہوں تو ہنڈیا کو اچھال سکتے ہیں تو جس کے دل میں ایمان اور محبت کا دھواں اُٹھ رہا ہو وہ کس طرح کم حوصلہ ہو سکتے ہیں.مگر میں نے جامعہ کے طالب علموں کو ایسا دیکھا کہ گویا وہ بڑے بڑے پتھروں کے نیچے دبے پڑے ہیں حالانکہ انہیں غباروں کی طرح اُڑنا چاہئے تھا اور بجائے اس کے کہ ہم کہتے جاؤ اور خدا کے دین کی تبلیغ کرو، وہ خود دیوانہ وار تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے مگر ان غریبوں نے جو ایمان پیدا کیا، مدرسوں اور پروفیسروں نے اسے صیقل کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں کیا اور میں یہ سمجھتا ہوں یہ سینکڑوں خون ہیں جو ان کی گردنوں پر رکھے جائیں گے.جس

Page 44

خطبات محمود ۳۹ سال ۱۹۳۵ء طرح ایک دیوار کے سامنے جب آدمی کھڑا ہو جائے تو اسے آگے جانے کا راستہ نہیں ملتا اسی طرح میں نے ان کے دماغ میں گرید گرید کر جانا چاہا مگر مجھے معلوم ہوا کہ ان کا دماغ محض ایک دیوار ہے، سر ٹکرا کر مر جاؤ مگر آگے راستہ نہیں ملے گا.غضب یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں تک انہوں نے نہیں پڑھیں.جس سے بھی سوال کیا گیا کورس کی کتابوں کے سوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں سے دو ایک کے علاوہ وہ کسی کا نام نہ لے سکا.اگر انہیں اپنے ایمانوں کی مضبوطی کا خیال ہوتا تو کیا ہوسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ نہ کرتے.مجھے تو یاد ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا ہمیشہ مجھے کوئی نہ کوئی بیماری رہتی تھی اور مدرسہ سے بھی اکثر ناغے ہوتے مگر اس عمر میں ہی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہیں.بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بستہ میں کوئی نئی کتاب رکھنی ، تو وہیں سے کھسکا کر لے جانی اور شروع سے آخر تک اسے پڑھنا.بلکہ موجودہ عمر میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کم کتابیں پڑھی ہیں کیونکہ اب میرے علم کے استعمال کرنے کا وقت ہے.مگر چھوٹی عمر میں جب مدرسہ کی پڑھائی سے بوجہ بیماری فراغت ہوتی اور اور کام نہ ہوتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتا ہیں میں بہت پڑھا کرتا تھا اور در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں ہی علم کا سمندر ہیں.اس وقت جب کہ اکثر لوگ خود ہی مسیح کو وفات یافتہ کہہ رہے ہیں ان بحثوں میں کیا رکھا ہے کہ وفات مسیح کے یہ دلائل ہیں اور فلا نے علامہ نے یہ لکھا اور فلاں امام نے یہ لکھا.کن چیزوں پر حصر کرنے کا نام علم رکھ لیا گیا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ بالکل بے کار چیزیں ہیں یہ بھی مفید چیزیں ہیں مگر ان کی مزید تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں.ان کے لئے کافی ذخیرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں آچکا ہے.اب ان سوالات سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے تھا جیسا سیر فی الکتب کرتے ہوئے کوئی نئی بات آ گئی تو اسے معمولی طور پر نوٹ کر لیا مگر اس پر اپنے دماغوں کو لگانے اور اپنی محنت کو ضائع کرنے کے کیا معنی ہیں.تمہیں اس سے کیا تعلق کہ فلاں امام نے کیا لکھا.تمہیں تو اپنے اندر ایک آگ پیدا کرنا چاہئے ایمان پیدا کرنا چاہئے ، اخلاق پیدا کرنے چاہئیں ، امنگیں پیدا کرنی چاہئیں اور تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہیں خدا نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے اور تم زمین میں اس کے خلیفہ ہو.پھر تم اخبار میں پڑھتے اور جہاں جہاں مسلمانوں کو تکالیف و مصائب میں گرفتار پاتے ،تمہارے دلوں میں ٹیسیں

Page 45

خطبات محمود ۴۰ سال ۱۹۳۵ء اٹھتیں اور تم ان کی بہبودی کے لئے کوششیں کرتے.مگر تم دنیا کے حالات سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہو.اور جیسے ترکوں کے حرم مشہور ہیں اسی طرح طالب علموں کو حرم بنا کر رکھ دیا گیا ہے.پس جہاں ایک طرف مجھے خوشی ہوئی کہ لڑکوں میں اخلاص پایا جاتا ہے بلکہ بعض کا اخلاص تو ایسا تھا جو دلوں پر رقت طاری کر دیتا اور وہ اپنی مثال آپ تھا.مگر وہ ان بے بس قیدیوں سے مشابہت رکھتے تھے جن کے ہاتھ پاؤں جکڑ دیئے جائیں اور وہ مرنے کے لئے تو تیار ہوں مگر انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ اپنی جان کو کس طرح بچایا جا سکتا ہے.لیکن مؤمن کو خدا تعالیٰ نے اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ وہ مر جائے بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خود بھی زندہ رہے اور دوسروں کو بھی زندہ رکھے.نپولین کے گارڈز کی مثال میں نے کئی دفعہ سنائی ہے کہ ایک جنگ میں ان کا سامان ختم ہو گیا.لوگوں نے انہیں کہا کہ میدان سے بھاگتے کیوں نہیں.تو انہوں نے کہا کہ نپولین نے ہمیں بھا گنا سکھایا نہیں.اگر میں ان طالب علموں سے کہتا کہ جاؤ اور آگ میں کود پڑو تو وہ آگ میں کودنے کے لئے تیار تھے.اگر میں انہیں کہتا کہ سمندر میں کود جاؤ تو وہ سمندر میں بھی کو دنے پر تیار تھے.مگر وہ آگ سے نکلنے کا راستہ نہیں جانتے اور نہ سمندر میں تیرنے کا مادہ ان میں ہے حالانکہ جب میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ مر جاؤ تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اس کا نتیجہ تمہاری موت ہوگا کیونکہ مؤمن کو خدا کبھی ہلاک نہیں کرتا.اور مؤمن کی جان سے زیادہ اور کوئی قیمتی چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ صدمہ اور کسی وقت نہیں ہوتا جتنا ایک مؤمن بندے کی جان نکالتے وقت اُسے ہوتا ہے.اے پس مؤمن کی جان تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ اس کے نکلنے سے عرشِ الہی بھی کانپ اٹھتا ہے.اور گو مؤمن کو خدا ہلاک کرنے کے لئے پیدا نہیں کرتا مگر مؤمن کا یہ فرض ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان دینے کے لئے تیار رہے.ہاں اپنی تدبیروں کو وسیع رکھے اور نہ صرف اپنی جان بلکہ ہزاروں جانوں کو بچانے کے خیالات اس کے دل میں سمائے رہیں.پس میں جہاں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ، وہاں ذمہ دار کارکنوں اور صدرانجمن کو بھی توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ بھی اسی طرح ان طالب علموں کے خون میں شریک ہے جس طرح جامعہ کے پروفیسر اور اساتذہ اس میں شریک ہیں.صد را انجمن محض ریزولیوشنز پاس کر دینے کا نام نہیں ، نہ صدر انجمن اس امر کا نام ہے کہ کسی صیغہ کے

Page 46

خطبات محمود ۴۱ سال ۱۹۳۵ء لئے افسر مقرر کر کے اسے نگرانی کے بغیر چھوڑ دیا جائے.صدرانجمن کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے ذہنوں ، ان کی اُمنگوں اور ان کے ارادوں میں وسعت پیدا کر دے، ان کے اندر ایک بیداری اور زندگی کی روح پیدا کرے ، ان کے خیالات میں وسعت پیدا کرے.اور اگر مدرس مفید مطلب کام کرنے والے نہ ہوں تو صدر انجمن کا فرض ہے کہ انہیں نکال کر باہر کرے.ہم نے طالب علموں کا خالی اخلاص کیا کرنا ہے اس کے ساتھ کچھ عقل اور سمجھ بھی تو چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں تفقہ کا مادہ دوسرے صحابہ سے کم تھا.مولویوں نے اس پر شور مچایا مگر جو صحیح بات ہو وہ صحیح ہی ہوتی ہے.آجکل جس قدر عیسائیوں کے مفید مطلب احادیث ملتی ہیں ، وہ سب حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاق و سباق کو نہ دیکھتے اور گفتگو کے بعض ٹکڑے بغیر پوری طرح سمجھے آگے بیان کر دیتے مگر باقی صحابہ سیاق و سباق کو سمجھ کر روایت کرتے.اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایتیں چھپنی شروع ہوئی ہیں جن میں سے کئی ایسے لوگوں کی طرف سے بیان کی جاتی ہیں جنہیں تفقہ حاصل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ایسی روایتیں چھپ جاتی ہیں.جن پر لوگ ہمارے سامنے اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ روایت چھپ گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب آتھم کی میعاد میں سے صرف ایک دن باقی رہ گیا تو بعض لوگوں سے کہا کہ وہ اتنے چنوں پر اتنی بار فلاں سورۃ کا وظیفہ پڑھ کر آپ کے پاس لائیں.جب وہ وظیفہ پڑھ کر چنے آپ کے پاس لائے تو آپ انہیں قادیان سے باہر لے گئے اور ایک غیر آباد کنوئیں میں پھینک کر جلدی سے منہ پھیر کر واپس لوٹ آئے.میرے سامنے جب اس کے متعلق اعتراض پیش ہوا تو میں نے روایت درج کرنے والوں سے پوچھا کہ یہ روایت آپ نے کیوں درج کر دی.یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صریح عمل کے خلاف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نَعُوذُ بِاللہ ٹونے وغیرہ کیا کرتے تھے.اس پر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس خواب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اسے ظاہری شکل میں ہی پورا کر دواب خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک کام کرنا بالکل اور بات ہے اور ارادہ ایسا فعل کرنا اور بات.اور ظاہر

Page 47

خطبات محمود ۴۲ سال ۱۹۳۵ء میں خواب کو بعض دفعہ اس لئے پورا کر دیا جاتا ہے کہ تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کا مضر پہلو اپنے حقیقی معنوں میں ظاہر نہ ہو.چنانچہ معتبرین نے لکھا ہے کہ اگر منذر خواب کو ظاہری طور پر پورا کر دیا جائے تو وہ وقوع میں نہیں آتی اور خدا تعالیٰ اس کے ظاہر میں پورے ہو جانے کو ہی کافی سمجھ لیتا ہے.اس کی مثال بھی ہمیں احادیث سے نظر آتی ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے دیکھا کہ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں کسری کے سونے کے کنگن ہیں.اس رویا میں اگر ایک طرف اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ ایران فتح ہوگا تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ تھا کہ ایران کی فتح کے بعد ایرانیوں کی طرف سے بعض مصائب و مشکلات کا آنا بھی مقدر ہے کیونکہ خواب میں اگر سونا دیکھا جائے تو اس کے معنی غم اور مصیبت کے ہوتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے رویا کے اس مفہوم کو سمجھا اور سراقہ کو بلا کر کہا کہ پہن کڑے ، ورنہ میں تجھے کوڑے ماروں گا.چنانچہ اسے سونے کے کڑے پہنائے گئے اور اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کی اس رؤیا کے غم اور فکر کے پہلو کو دور کرنا چاہا.مگر ظاہری صورت میں خواب کو پورا کر دینے کے باوجود پھر بھی خواب کا کچھ صہ حقیقی معنوں میں پورا ہو گیا.کیونکہ حضرت عمر کو شہید کرنے والا ایک ایرانی ہی تھا.پھر ایران میں شیعیت نے جو ترقی کی ، وہ ہمیشہ مسلمانوں کے لئے غم اور مصیبت ہی بنی رہی ہے.مگر یہ بات تب کھلی جب میں نے دریافت کیا کہ ایسی روایت کیوں درج کر دی گئی ہے.غرض عقل اور فہم کی زیادتی اخلاص کے ساتھ نہایت ہی ضروری ہوتی ہے ورنہ بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت آئی کہ کچھ عورتیں اپنے مردے پر نوحہ کر رہی ہیں.آپ نے فرمایا انہیں منع کرو.مگر جب منع کرنے کے باوجود وہ نہ رکیں.اور دوبارہ آپ کے پاس شکایت کی گئی.تو آپ نے فرمایا کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو.سے یہ تو عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو.ہمارے ملک میں بھی کہہ دیتے ہیں کھیہہ کھاوے.اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ مٹی کھاوے.بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر نہیں مانتا تو نہ مانے.غرض عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہنا ہو کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تو کہتے ہیں کہ اس کے منہ میں مٹی ڈالو.مگر سننے والوں نے یوں فرمانبرداری کرنی شروع کی کہ مٹی کے بورے بھر لئے اور ان عورتوں کے مونہوں پر مٹی پھینکنی شروع کر دی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو معلوم ہوا تو آپ

Page 48

خطبات محمود ۴۳ سال ۱۹۳۵ء سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا ایک تو ان کے گھر میں ماتم ہو گیا ہے اور دوسرا تم ان پر مٹی ڈالتے ہو.رسول اللہ کا یہ منشاء تو نہ تھا جو تم سمجھے.کے پس اخلاص کے ساتھ عقل و فہم نہایت ضروری ہوتا ہے.صرف عربی کتابیں رٹوا دینے سے کیا بن جاتا ہے جب تک فہم و فراست نہ پیدا کی جائے ، وسعت حوصلہ نہ پیدا کی جائے اور اس بات کی ہمت نہ پیدا کی جائے کہ انہوں نے دنیا کو فتح کرنا ہے.پس صدر انجمن پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پروفیسروں پر بھی اور میں امید کرتا ہوں کہ صد را انجمن کو رسوں کو بدل کر ، استادوں کو بدل کر ، نظام کو بدل کر ، طریق نگرانی کو بدل کر ایسا انتظام کرے گی کہ ہمارے طالب علم ایک زندہ دل اور اُمنگوں سے بھرا ہوا دل لے کر نکلیں گے.اور ہر تغیر جو دنیا میں پیدا ہوگا انہیں قربانی پر آمادہ کر دے گا اور ہر تغیر ان کے دل میں ایسی گدگدی پیدا کر دے گا کہ وہ خدا کے دین کی آواز پر لبیک کہے بغیر نہیں رہ سکیں گے.ایسے طالب علم جب پیدا ہو جائیں گے تو ہمیں کسی مبلغ کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ لوگ اپنی ذات میں مبلغ ہوں گے اور بغیر کسی تحریک کے آپ ہی دنیا کی ہدایت کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.ورنہ پر تکلف مبلغ سے دنیا کیا فائدہ حاصل کر سکتی ہے.اب بہت سے لوگ شکایتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے مبلغوں کی داڑھیاں چھوٹی ہوتی ہیں.میں نے بھی یہ نقص دیکھا ہے اس میں قحبہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی داڑھی چھوٹی تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لمبی داڑھی رکھا کرتے تھے حضرت خلیفہ اول کی بھی لمبی داڑھی تھی اور میری داڑھی بھی لمبی ہے.اسی طرح رسول کریم ﷺ کی بھی بڑی داڑھی تھی ، حضرت ابو بکر حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کی بھی بڑی داڑھی تھی.یہ مان لیا کہ حضرت علی کی چھوٹی داڑھی تھی مگر ممکن ہے اس کی وجہ ان کی کوئی بیماری ہو یا کوئی اور.اور اگر یہ بات نہ بھی ہو تب بھی کیوں رسول کریم ﷺ کی نقل نہ کی جائے اور حضرت علی کی نقل کی جائے بہر حال داڑھیوں میں نقص ہے.اسی طرح ہمارے مبلغ ظاہری تکلفات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اکثر یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ کی جماعت اتنی سست ہے کہ ہم وہاں گئے مگر اس نے ہم سے کام نہیں لیا.حالانکہ یہ مبلغ کا اپنا فرض ہے کہ وہ کام کرے کیونکہ ہم تو مبلغ سمجھتے ہی اس کو ہیں جو آگ ہو.کبھی آگ بھی کہا کرتی ہے کہ مجھے سلگا یا نہیں جاتا وہ تو خود بخود سلگتی ہے اور اگر ایک گھر کولگتی ہے تو ساتھ کے دس گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے

Page 49

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لیتی ہے.پس اگر کوئی مبلغ ایسا ہے تو وہ مبلغ نہیں بلکہ اپنے دین اور ایمان سے تمسخر کرنے والا ہے.پھر عام طور پر شکایت آتی ہے کہ ہمارے مبلغ اکثر انہی مقامات میں جاتے ہیں جہاں پہلے سے احمدی موجود ہوں حالانکہ رسول کریم ﷺ کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ غیر قوموں کے پاس جاتے اور انہیں تبلیغ اسلام کرتے.یہ نقص اسی وجہ سے واقع ہوا ہے کہ ہمارے مبلغوں میں وسعت خیال نہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ مبلغین میں کوئی خوبی نہیں ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے اچھے مخلص ہیں اور جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے ، اسے پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.چنانچہ طالب علموں کے اخلاص کا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے مبلغین اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس قد را خلاص رکھتے ہوں گے.مگر ان کے یہ جو ہر پوشیدہ رکھے گئے ہیں اور انہیں تراشا اور بنایا نہیں گیا.پس ذمہ دار کارکنوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ طالب علموں کے اندر وسعت خیال اور علو ہمت پیدا کرو.تمام قسم کی دیواروں سے نکال کر انہیں کھلی ہوا میں کھڑا کر دو.اور ان کے ذہنوں کو بجائے مباحثات کی طرف لگانے کے دنیا کی روحانی، اخلاقی اور تمدنی ضروریات اور ان کے علاج کی طرف لگاؤ.پس اس خطبہ کے ذریعہ جہاں میں پروفیسروں ، ذمہ دار کارکنوں اور صدر انجمن کو طلباء جامعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں ، وہاں جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا معیار صرف یہ نہ سمجھ لے کہ اس نے تحریک جدید میں حصہ لے کر میرے مطالبہ کو پورا کر دیا.بلکہ ہر جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے چندوں کی باقاعدہ ادا ئیگی کی طرف توجہ کرے اور ہر جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے بقائے پورے کرے.اس کے علاوہ جماعت کا ہر فرد یہ کوشش کرے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر دے اور اگر اسلام کی طرف سے دوسری آواز اٹھے تو وہ اپنا سارا وقت خدمت اسلام پر لگانے کے لئے کمر بستہ رہے.یاد رکھو بغیر جانوں کی قربانی کے یہ سلسلہ ترقی نہیں کر سکتا.چونہ اور قلعی سے مکان نہیں بنا کرتا بلکہ مکان اینٹوں سے بنتا ہے.اسی طرح الہی سلسلے روپوں کے ذریعہ نہیں بلکہ جانوں کو قربان کرنے کے بعد ترقی کیا کرتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور ہر قسم کی افسردگی کو اپنے دلوں سے دور کر کے سلسلہ کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اس اخلاص کے ساتھ جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ پیدا ہو چکا ہے، اس ایمان کے ساتھ جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ پیدا ہو چکا

Page 50

خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۵ء ہے ، آگے بڑھیں گے.اور چندوں کی ادائیگی کے علاوہ اپنی جانوں کی قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کریں گے.میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے سوتے ہوئے کسی شخص کو جگا دیا جائے تو وہ گھبرا کر یہ کہتا ہوا اٹھے کہ کیا ہو گیا کیا ہو گیا.مگر میں کہتا ہوں اب آنکھیں کھولو اور بیدار ہو کہ تمہارے گھر کو آگ لگنے والی ہے.پریشانی کی حالت دور کرو اور سمجھنے کی کوشش کرو ان حالات کو جو آج کل تمہارے خلاف پیدا ہور ہے ہیں.تب اور صرف تب تم میں ہمت پیدا ہوگی.تمہیں صحیح قربانی کی بھی توفیق ملے گی اور تبھی اس کے صحیح نتائج بھی تمہارے لئے پیدا ہوں گے.الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۵ء) بخارى كتاب الرقاق باب التواضع کے اسد الغابة جلد ۲ صفحہ ۲۶۶ مطبوعہ ریاض ۵۱۲۸۵ ، بخاری کتاب الجنائز باب مَا يُنْهَى مِنَ النَّوْحِ وَالْبُكَاءِ (الخ)

Page 51

خطبات محمود ۴۶ سال ۱۹۳۵ء شریعت، قانون ، اخلاق اور دیانت کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے فرموده ۱۸/جنوری ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.میں گلے اور سر درد کی وجہ سے اونچی آواز سے نہیں بول سکتا مگر پھر بھی کوشش کروں گا کہ آواز دوستوں تک پہنچ جائے.میں آج اس اعتراض کا جواب دینا چاہتا ہوں جو کئی لوگ کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف منافرت کا جذبہ آج کل اس شدت سے پھیلایا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی مختلف احمد یہ جماعتوں کے لئے امن اور آرام سے رہنا مشکل ہو گیا ہے.کہیں ہم لوگوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، کہیں مارا اور پیٹا جارہا ہے، کہیں گالیاں دی جاتیں اور بد زبانی کی جاتی ہے اور بھی کئی قسم کے دکھ دیئے جاتے ہیں مگر ہماری طرف سے سوائے خاموشی کے اور کچھ جواب نہیں ہے.خاموشی سے مراد یہ ہے کہ بے شک وہ سکیم جو میں نے بتائی ہے اس کی طرف جماعت کی توجہ ہے لیکن بعض دوستوں کی رائے ہے کہ سکیم کا طریق اصلاح بالکل اور قسم کا ہے اور ہمارے ملک کی حالت اس قسم کی ہے اور اتنی جلدی جلدی بدل رہی ہے کہ جب تک گورنمنٹ کو زور سے توجہ نہ دلائی جائے اور عارضی اصلاح کا انتظام نہ کیا جائے ، بیرونی جماعتوں کے لئے خصوصاً چھوٹی جماعتوں کے لئے نہایت خطرناک صورت

Page 52

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کے پیدا ہونے کا امکان ہے.جیسا کہ میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا میں جماعت کو قانون کی حدود سے بھی نیچے رکھتا ہوں جیسا کہ احرار کے جلسہ پر میں نے نصیحت کی تھی کہ خواہ تمہیں یا تمہارے کسی رشتہ دار کو مار بھی دیا جائے تمہیں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے حالانکہ خود حفاظتی کے لئے ہاتھ اٹھانا قا نونا جائز ہے.اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں گھس جائے اور اس کا اسباب باہر پھینکنے لگے اور اسے کہے کہ نکل جاؤ تو قانون گھر والے کو اجازت دیتا ہے کہ اس سے لڑے اور اگر حملہ آور اپنی ضد پر قائم رہنے کی وجہ سے کوئی زیادہ نقصان بھی اٹھائے تو عدالت یہی فیصلہ کرے گی کہ گھر والا حق پر تھا اور حملہ آور ناحق پر.تو با وجود اس کے کہ قانون دفاع کی اجازت دیتا ہے، اس کے علاوہ عقل اور مذہب بھی اس کی اجازت دیتے ہیں مگر میں نے یہی حکم دیا کہ خواہ مارے جاؤ ، ہاتھ ہر گز نہیں اُٹھانا.اس سے میرا مقصد یہ بتا نا تھا کہ ہماری جماعت انتہاء درجہ کی انگیخت کے باوجود جذبات کو دبا سکتی اور دبا لیتی ہے.پس اس وقت جو خواہش میں نے اپنی جماعت سے کی تھی وہ قانون کی پابندی سے بھی زیادہ پابندی عائد کرتی تھی.میں نے دسمبر کے پہلے خطبوں میں سے کسی میں بیان کیا تھا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور مذہبی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہماری انجمنیں خالص مذہبی کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں اور میری فطرت یہ پسند نہیں کرتی کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جو دھوکا بازی ہو.یعنی جو انجمنیں مذہبی کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں وہ سیاسی امور میں دخل دیں.ان انجمنوں میں سرکاری افسر اور معمولی ملازم بھی ہیں ، ریاستوں کے لوگ بھی ہیں اس لئے کوئی ایسا کام کرنا جسے اخلاق اور شریعت ناجائز قرار دے، درست نہیں ہوسکتا.پس میں جماعت کو ہمیشہ نصیحت کرتا رہا ہوں کہ قانونی حدود کے اندر رہنے کے علاوہ وہ یہ احتیاط بھی کریں کہ سیاسی امور سے بھی علیحدہ رہیں تا دیانت کا اعلیٰ معیار پیش کر سکیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے بڑے اور چھوٹے ملازم سب میں سے ایک طبقہ سیاسیات میں دخل دیتا ہے.کئی ہندوستانی افسر ہیں جو کانگرسیوں کو بلاتے ، چندے دیتے اور انہیں حکومت کے خلاف اکساتے ہیں مجھے ایک کانگریسی لیڈر نے بتایا کہ ایک ہندوستانی حج اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ کانگرس کو بطور چندہ دیتا ہے تا اس سے ان مسلمان مولویوں کو تنخواہیں دی جائیں جو مسلمانوں کو ورغلانے کیلئے کانگرس نے رکھے ہوئے ہیں.میں نے اس امر کے متعلق ایک دفعہ دوران گفتگو میں

Page 53

خطبات محمود ۴۸ سال ۱۹۳۵ء سابق گورنر پنجاب سر جافری (SIR GEOFFREY) سے ذکر کیا کہ سرکاری ملازم اس طرح کی بددیانتیاں کرتے ہیں تو انہوں نے ایک حج کا نام لیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ یہ تو نہیں ہے اور کہا کہ ہمیں بھی اس کے متعلق شکایات پہنچی ہیں مگر چونکہ ہمارا طریق جاسوسی اور شکایت کرنے کا نہیں اس لئے میں نے نام تو نہ بتایا مگر جس کا نام انہوں نے لیا وہ نہیں تھا جس کا مجھ سے ذکر کیا گیا تھا.بہر حال اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس بھی ایسی شکایتیں پہنچتی رہتی تھیں اور ایسے افسر ایک سے زیادہ تھے.چونکہ سر جافری نے جس کا نام لیا وہ اور تھا اور میرے علم میں جو تھا اور تھا اس لئے ثابت ہوا کہ ایک سے زیادہ آدمی ایسے تھے جن کے متعلق اس قسم کے شبہات تھے کہ وہ تنخواہ کا ایک حصہ اس امر پر خرچ کرتے ہیں کہ حکومت کے خلاف شورش میں اضافہ ہو.تو کرنے کو تو لوگ سب قسم کے کام کر لیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریق جائز ہے.جو شخص حکومت سے تنخواہ وصول کرتا ہے وہ اگر دل میں اس کے بعض احکام کو بُرا بھی سمجھے تو بھی اس کا فرض ہے کہ جب تک ملازمت کرتا ہے حکومت کے قوانین کی اطاعت کرے اور اس کا خیر خواہ رہے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ اپنے اخلاق کو بٹہ لگاتا ہے اور اگر چہ حکومت اسے نہ بھی پکڑ سکے اس کے دل میں یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں اور جب وہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا تو اسے ماننا پڑے گا کہ میں مجرم ہوں اس لئے گو ہماری بہت سی انجمنوں میں سرکاری ملازم نہیں ہیں اور جماعت میں بھی شاید سرکاری ملازمین کی تعداد پانچ فیصدی ہو باقی پچانوے فیصدی احباب جماعت تاجر، پیشہ ور، زمیندار اور صنعت وحرفت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ان کے لئے قانونی حد تک سیاسیات میں دلچسپی لینا جائز اور درست ہے.پھر ہماری انجمنوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جن میں سرکاری ملازم کوئی نہیں مگر چونکہ بعض میں ہیں چاہے ایسی انجمنوں کی تعداد قلیل ہی کیوں نہ ہو اس لئے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ سیاسیات سے مشابہ باتوں کی بھی اجازت جماعت کو دوں کیونکہ ہمارے اخلاق کا معیار دوسروں سے بلند ہونا چاہئے.بے شک باتیں دھوکا دینے والی قو میں کر لیتی ہیں مگر ہمیں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے اور ایسا طریق عمل اختیار کرنا چاہئے کہ کوئی ہم پر انگلی نہ اٹھا سکے لیکن چونکہ جماعت میں یہ احساس ہے اور صحیح ہے کہ خواہ ایک شخص کے ہاتھ پر دس کروڑ انسانوں نے بیعت کر رکھی ہو پھر بھی اس کی طرف سے جو آواز بلند ہواس کے متعلق یہی حکومت سمجھتی ہے کہ ایک آواز ہے خواہ وہ دس کروڑ انسانوں کی آواز سے زیادہ وقیع ہو

Page 54

خطبات محمود ۴۹ سال ۱۹۳۵ء اس لئے جماعت کو اظہارِ خیال کا موقع ملنا چاہئے اس وجہ سے میں آج اس کا علاج بتانے لگا ہوں.میں نے بھی دیکھا ہے جب ایک شخص کی طرف سے حکومت کو ایسی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو ملک کے امن کو برباد کرنے والی ہوں تو حکومت یہی سمجھتی ہے کہ یہ ایک آدمی کہ رہا ہے خواہ وہ کتنا با اثر ہومگر ہے تو ایک ہی لیکن اگر وہی بات جماعت کی طرف سے پیش کی جائے تو چونکہ اس حکومت کی بنیاد ڈیموکریسی (DEMOCRACY) پر بتائی جاتی ہے اور برطانوی حکومت اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ اس آواز کے ماتحت چلتی ہے جو ملک کی طرف سے پیدا ہو ( اس میں اور دوسری حکومتوں میں یہ فرق ہے کہ دوسری حکومتوں میں رعایا حکومت کے تابع ہوتی ہے مگر ہماری حکومت رعایا کے تابع ہے ) پس یہ حکومت اس وقت توجہ کرتی ہے جب ملک کی طرف سے کوئی مطالبہ پیش ہو.اگر چہ یہاں ڈیموکریسی پوری طرح قائم نہیں اور انگلستان میں جو اصول ہیں وہ یہاں نہیں ہیں مگر ابتداء ہو چکی ہے اور مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارمز (MontagueChelmsfordReforms) کے بعد کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوستان کی حکومت نیابتی اصول پر قائم کی جائے اور اب جو نئی سکیم تیار ہوئی ہے اس میں کئی باتیں پہلے سے بھی اچھی ہیں مگر بعض بری بھی ہیں مگر اچھی بہت سی ہیں.پس قدرتی طور پر حکومت ہر معاملہ میں یہ دیکھتی ہے کہ ملک کی رائے کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ حکام جو ہمارے نظام اور خلیفہ کے ساتھ جماعت کی فدائیت کو نہیں سمجھتے ان پر جماعت کی رائے ہی اثر پیدا کر سکتی ہے.پس ان دونوں امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ قانون کی حد میں رہتے ہوئے انہیں حکومت کے سامنے اپنے جذبات کے اظہار کی اجازت ہونی چاہئے وہ اپنی الگ انجمنیں بنائیں جن میں سرکاری ملازم نہ ہوں جو جماعتیں ایسا کریں گی انہیں میں اجازت دے دوں گا کہ وہ سلسلہ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسیات میں دخل دے سکتی ہیں.یہ الفاظ میں خوشی سے نہیں کہہ رہا بلکہ انہیں کہتے ہوئے ایک بوجھ محسوس کرتا ہوں کیونکہ پورے اکیس سال ہو گئے جب سے کہ میں نے 'الفضل' جاری کیا میں برا بر روز و شب اسی کوشش میں رہا ہوں کہ جماعت کو سیاسیات سے الگ رکھوں اور اس اصل کے لئے میں نے اپنوں سے بھی لڑائیاں کیں.حکومت کا کوئی وائسرائے یا گورنر یا کوئی اور ممبر حکومت یہ پیش نہیں کر سکتا کہ اسے اس وجہ سے مجھ سے زیادہ گالیاں ملی ہوں کہ وہ لوگوں کو سیاست سے روکتا ہے.کسی ایک افسر کا نام ہی بتایا جائے کہ اسے اس وجہ سے مجھ

Page 55

خطبات محمود ۵۰ سال ۱۹۳۵ء سے زیادہ گالیاں ملی ہوں.اکیس سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں جو میں نے اس بات کے لئے خرچ کر دیا کہ جماعت احمد یہ سیاسیات میں حصہ نہ لے اور اس قدر لمبے عرصے تک میں نے ان اصول کے لئے جو انگریز بھی جاری کرنا نہیں چاہتے اپنوں اور بیگانوں سے گالیاں کھائیں.انگریزوں کا اصل یہ ہے کہ ملک میں ایجی ٹیشن (AGITATION) ہونی چاہئے.میں نے حکام سے کئی دفعہ اس امر پر بحث کی ہے کہ یہ غلط پالیسی ہے میں نے سراڈ وائر (Sir O'Dwyer) پر اس کے متعلق زور دیا، سر میکلیکن پرزوردیا اور انہیں سمجھایا کہ جب تک یہ پالیسی ترک نہ کی جائے گی نہ امن قائم ہوسکتا ہے نہ انصاف.حکومت کا اصل یہ ہونا چاہئے کہ سچ کیا ہے.اگر کروڑوں آدمی جھوٹی ایجی ٹیشن کرتے ہیں اور ان کے مقابل پر صرف ایک ہے جو سچا ہے تو خواہ وہ کنگال ہی کیوں نہ ہو حکومت کو چاہئے کہ اس کی بات مانے.جب حکومت کی طرف سے یہ کہا جائے گا کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ، ہم نہیں مانیں گے ، اس وقت تک لوگ ضرور ایجی ٹیشن کرنے پر مجبور ہوں گے.مگر مجھے اس کا جو جواب دیا جاتا رہا وہ یہی تھا کہ یہ بات ڈیموکریسی کے اصول کے منافی ہے.پس اکیس سال کی زبر دست جد و جہد کے بعد میں آج یہ بات کہہ رہا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس اصل کو ترک کرتا ہوں.میرا اصل ہمیشہ یہی رہے گا کہ سیاسیات سے جہاں تک ہو سکے جماعت کو الگ رکھوں اور اگر ہمیں اس میں دخل دینے کی ضرورت ہوئی تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہمیں مجبور ادخل دینا پڑا.ہماری تعداد نہ سہی دس لاکھ، نہ سہی پانچ لاکھ، نہ سہی دو لاکھ ، چھپن ہزار ہی سہی مگر کیا چھپن ہزار انسانوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی.ہمارے بھی جذبات اور احساسات ہیں ، ہماری بھی بیویاں اور بچے ہیں اور آج ان کی جانیں خطرہ میں نظر آتی ہیں.ہم نے سالہا سال تک مسلمانوں کی خدمت کی.جب ان کے بھائی بند ملکا نے آریہ ہونے لگے تو ہم گئے.اس زمانہ میں لاہور میں ڈھنڈورہ پٹوایا گیا کہ کہاں ہیں احمدی وہ خدمت اسلام کے دعوے کیا کرتے ہیں.آخر ہمارے سینکڑوں آدمی وہاں گئے ہم نے لاکھوں روپیہ وہاں خرچ کیا اور ہماری کوششوں سے ہزار ہا ملکانے واپس ہوئے مگر اس سب خدمت کا نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ کہ قادیان میں ایک جلسہ ہوا اور اس میں ایک مولوی نے بیان کیا کہ احمدی ہونے سے آریہ ہو جانا ہزار درجہ اچھا ہے اور یہ کہ اس نے ملکانوں کو جا کر بھی یہی کہا تھا کہ آریہ بے شک ہو جاؤ مگر احمدی نہ ہونا.

Page 56

خطبات محمود ۵۱ سال ۱۹۳۵ء پھر اس کے بعد ۱۹۲۷ء میں مسلمانوں کی لاہور اور مختلف علاقوں میں جو حالت ہوئی اُس وقت کون تھے جو آگے آئے.ہم نے ہی اس وقت مسلمانوں کے لئے روپیہ خرچ کیا، تنظیم کی اور اس وقت ہر جگہ یہ چر چاتھا کہ احمدی بڑی خدمت کر رہے ہیں حتی کہ سر میلکم ہیلی (Sir Malcolm Hailey) نے جو اس وقت گورنر تھے مسٹرلنگلے (Lingley) سے جو اُس وقت کمشنر تھے مجھے خط لکھوایا کہ آپ تو ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیتے رہے ہیں آج کیوں اس ایجی ٹیشن میں حصہ لیتے ہیں اور میں نے انہیں جواب دیا کہ حکومت کی وفاداری سے یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں کا غدار ہوں اور مسلمانوں کی خدمت سے یہ مراد نہیں کہ حکومت کا غدار ہوں میں تو دونوں کا بھلا چاہتا ہوں مجھے اگر سمجھا دیا جائے کہ مسلمان مظلوم نہیں تو اب اس طریق کو چھوڑنے کو تیار ہوں.انہوں نے تحریر ا تو اس کا جواب نہ دیا مگر شملہ میں میں گیا تو چیف سیکرٹری نے جو غالباً ہمارے موجودہ گورنر تھے ، مجھے لکھا کہ لاٹ صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور جب میں ان سے ملا تو زبانی گفتگو اس پر خوب تفصیلی کی مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ مسلمانوں میں سے ایک اثر رکھنے والے گروہ نے کہا کہ احمدیوں کا بائیکاٹ کرو یہ اصل میں ہمارے دشمن ہیں.پھر سیاسی جدو جہد کا زمانہ آیا.پہلے نہر ور پورٹ کے وقت اور پھر سائمن کمیشن کے وقت، پھر کانگرس کی مخالفتوں کے مواقع پر ہم نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی ، اپنے پاس سے روپیہ خرچ کیا ، کتابیں لکھیں اور ہر رنگ میں مسلمانوں کی خدمت کی مگر اس کا یہی جواب ملا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں ان سے ہمارا سیاسی اتحاد بھی نہیں ہو سکتا.ان کی بیویوں کے نکاح ٹوٹ گئے ، یہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہو سکتے ، اس وقت بھی ڈیرہ دون میں ، جموں میں اور بھی کئی مقامات پر یہی سوال شروع ہے.غرض یہ انعام تھا جو مسلمانوں نے ہمیں دیا لیکن یاد رہے کہ میں جب مسلمان کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ سب مسلمان ایسے ہی ہیں.میں جانتا ہوں کہ ان میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یقینا دلوں میں ہمارے لئے در در کھتے ہیں اور اس ظلم کی برداشت نہیں کر سکتے جو ہم پر ہو رہا ہے مگر وہ خاموش ہیں کیونکہ ان میں کوئی تنظیم نہیں.اگر چہ ان کے دلوں کا درد ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور ہم پر مظالم کو کم نہیں کر سکتا لیکن ان کے دل کی ہمدردی کی بھی میں قدر کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک بدلہ دے.مسلمانوں کی ملازمتوں میں حق تلفی کا سوال آیا تو اس وقت بھی ہم نے ان کی حفاظت کی.میں خود دو وائسراؤں سے ملا، میری ہدایت کے

Page 57

خطبات محمود ۵۲ سال ۱۹۳۵ء ماتحت دوسرے کارکنانِ جماعت دوسرے افسروں سے ملے اور مسلمانوں کی مشکلات کو دور کیا.اسی سلسلہ میں موجودہ گورنر صاحب سے بھی جب وہ ہوم سیکرٹری تھے ، در دصاحب ملے اور ہز ایکسی لنسی لارڈ ولنگڈن کے نے خود مجھے مشورہ دیا کہ میں ہوم سیکر ٹری صاحب سے خودملوں یا کسی اور آدمی کو بھیجوں اور وعدہ کیا کہ وہ انہیں فون بھی کریں گے.چنانچہ درد صاحب ان سے ملے اور مسلمان کلرکوں کو اس ملاقات سے فائدہ بھی پہنچا اور انہوں نے گورنر ہونے سے پہلے ایسے قواعد تجویز کئے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہیں مگر اس مدد دینے کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ آج سرکاری محکموں کے ملازموں میں سے کئی کیا محکمہ پولیس اور کیا دفاتر کے اور کیا دوسرے محکموں کے ہمارے خلاف حصہ لیتے ہیں.بعض جھوٹی رپورٹیں کرتے ہیں اور بعض ہمارے مخالفوں کو چندہ دیتے ہیں.یہ بدلہ ہے جو مسلمانوں کی خدمت کا ہمیں ملا.مجھے یقین ہے کہ کل جب پھر ان پر مصیبت آئے گی تو وہ پھر ہمارے پاس امداد کے لئے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو وسیع حوصلہ دیا ہے، اس کی وجہ سے ہم پھر ان باتوں کو بھول کر ان کی امداد کریں گے لیکن کیا یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ آسمان پر خدا ہے جو ان کے حالات کو دیکھتا ہے.اس کے مقابلہ میں گورنمنٹ ہے جس طرح میں نے مسلمانوں کے متعلق کہا ہے اسی طرح میرا یقین ہے کہ انگریز حکام کا بھی اکثر حصہ اچھا ہے.عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں ہندوستانی افسر ہوں ، وہاں فساد ہوتے ہیں لیکن جہاں انگریز ہوں وہاں امن رہتا ہے اور جب بھی کہیں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں ، ہند و مسلم دونوں یہ مطالبے کرتے ہیں کہ انگریز افسر بھیجے جائیں.پس جو چیز اچھی ہے اسے ہم برا نہیں کہہ سکتے مگر ۱۹۱۳ ء سے لے کر آج تک میں نے زندگی کا ایک اچھا حصہ اس کوشش میں صرف کر دیا ہے کہ انگریزوں کی نیک نامی اور عزت قائم کروں.بڑے سے بڑا انگریز افسر جو زندہ موجود ہے اس امر کی شہادت دے سکتا ہے کہ میں نے اور جماعت احمدیہ نے حکومت کی مضبوطی کے لئے بہترین خدمات کی ہیں.جب کا نپور میں مسجد کے متعلق جھگڑا ہوا تو مسلمانوں میں بڑا جوش تھا کہ حکومت مذہب میں مداخلت کرتی ہے.اس وقت میری یہی رائے تھی کہ مسجد نہیں گرائی گئی بلکہ غسل خانہ گرایا گیا ہے اور یوں بھی میری یہ رائے ہے کہ مساجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل دینا سوائے اس کے کہ کوئی مسجد خاص طور پر مذہبی روایات کی حامل ہو جیسے بیت اللہ ہے.یا سوائے ان مساجد کے جو مسلمانوں کی

Page 58

خطبات محمود ۵۳ سال ۱۹۳۵ء تاریخی مساجد ہیں جنہیں مسلمان بادشاہوں نے اسلام کی عظمت کے نشان کے طور پر تعمیر کرایا باقی عام مساجد کے متعلق میرا یہی خیال ہے کہ تمدنی اور ملکی ضروریات کے لئے یا اگر وہ رستوں میں روک ہوں تو انہیں دوسری جگہ تبدیل کر دینے میں کوئی حرج نہیں.اس رائے کی وجہ سے اپنوں نے اور بیگانوں نے میرا مقابلہ کیا میری انتہاء درجہ کی مخالفتیں ہوئیں ، مجھے قتل کی دھمکیاں دی گئیں.پھر جرمنی کی جنگ ہوئی اس موقع پر ہم نے کئی ہزار والنٹیئر ز دیئے ، سکولوں کے لڑکوں کی پڑھائیاں چھڑوا دیں اور کئی ایسے ہیں جو آج ڈرائیوریاں کرتے پھرتے ہیں محض اس وجہ سے کہ میرے کہنے پر وہ تعلیم ترک کر کے جنگ میں چلے گئے ورنہ آج وہ گریجوایٹ ہوتے.فرانس کے میدان مصر کے میدان ، شام و فلسطین کے اور عراق کے میدان ، ایران کے میدان ان احمدیوں کے خون سے آج بھی رنگین ہیں جنہوں نے میرے کہنے پر وہاں جا کر جانیں دے دیں.ان واقعات کے ذکر پر بعض مسلمانوں کی طرف سے ہم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم نے انگریزوں کی مدد کی اور ان کے لئے جانیں فدا کیں مگر معترضیں کو یا د رکھنا چاہئے کہ ان کے ہم مذہبوں نے بھی جانیں دیں.تین لاکھ کے قریب مسلمان میدان جنگ میں گئے جن میں سے احمدی صرف تین ہزار تھے مگر انہیں اپنے آدمی بھول گئے ہیں اور صرف ہمارے یاد ہیں حالانکہ ہم تو اسے جائز سمجھتے ہیں کہ جس حکومت کے ساتھ ہمارا تعاون ہو ، اس کی مدد کی جائے.مگر ہم پر اعتراض کرنے والے اسے کفر سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے لاکھوں آدمی بھیجے.پس قابل الزام وہ ہیں نہ کہ ہم.پھر رولٹ ایکٹ کا زمانہ آیا میں نے اردگرد کے علاقوں کے سکھوں کو جمع کیا تا کہ اس علاقہ کو فساد سے بچالیں.بعض نے میرے بلانے کا یہ مطلب سمجھا کہ شاید میں خود کو ئی حکومت قائم کرنے کے خیال میں ہوں اور انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ ہم جانتے ہیں آپ کا خاندان اس علاقہ کا حکمران تھا اور ہم آپ کے لئے جانیں دینے کو تیار ہیں.مگر میں نے دس دس میل کے فاصلہ سے لوگوں کو یہاں جمع کیا اور انہیں سمجھایا کہ فساد کے طریق سے بچو.میرے اس مشورہ پر بعض لوگوں نے اس قدر بخشیں کیں کہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے کہ آج ہمارے ملک کے آزاد ہونے کا موقع آیا ہے تو تم ہمیں روکتے ہومگر میں نے منت سے سماجت سے اور مختلف طریقوں سے ان سے اقرار لئے اور انگوٹھے لگوائے کہ ہم امن قائم رکھیں گے حالانکہ اس علاقہ میں بعض ایسے گاؤں بھی تھے جہاں گورنمنٹ کے خلاف نفرت تھی اور جہاں سے پستول برآمد ہو چکے تھے مگر ان سے بھی میں

Page 59

خطبات محمود ۵۴ سال ۱۹۳۵ء نے اطاعت کا عہد لیا اور حکومت ہند نے ایک خاص کمیونک (COMMUNIQUE) کے ذریعہ تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ نے فساد کو روکا ہے اور حکومت کی مدد کی ہے.ہوشیار پور کے ڈپٹی کمشنر نیز اور بھی کئی مقامات کے حکام نے اقرار کیا کہ احمدیوں کی کوشش سے ان کے علاقے فساد سے بچے رہے ہیں.حکومت ہند کا کمیونک کوئی معمولی بات نہیں.سند اور چیز ہے اور کمیونک اور ہے یہ گویا اعلان عام ہے.لارڈ چیمسفورڈ (Lord Chelmsford) نے میرے نام اپنی چٹھی میں اس کا ذکر کیا کہ حکومت نے ایک کمیونک شائع کیا ہے کہ آپ کی جماعت نے بہت مدد دی ہے.پھر کابل کی لڑائی ہوئی اور اس موقع پر بھی میں نے فوراً حکومت کی مدد کی.اپنے چھوٹے بھائی کو فوج میں بھیجا جہاں انہوں نے بغیر تنخواہ کے چھ ماہ کام کیا.جو اتنا اچھا تھا کہ افسروں نے بعد میں ان کو چھوڑنا پسند نہ کیا اور کوشش کی کہ وہ با قاعدہ تنخواہ دار ملازم ہو جائیں حتی کہ انہیں فارغ کرانے کے لئے مجھے ایجوٹنٹ جنرل (Adjutant General) کو چٹھی لکھنی پڑی اور پھر ان کے حکم سے انہیں فارغ کیا گیا.اس کے بعد نان کو آپریشن (Non Co-operation) کی تحریک کا زمانہ آیا اس کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے ایک کتاب لکھی جو ایسے زبر دست دلائل رکھتی تھی کہ حکومت نے اس کی سینکڑوں کا پیاں خرید کر تقسیم کرا ئیں اور ہزاروں کا پیاں میں نے خود مفت تقسیم کرائیں کئی محکموں نے لکھا کہ ایسی مدلل اور اعلیٰ کتاب کوئی نہیں لکھی گئی.پھر ہجرت کا زمانہ آیا ، یہ مسلمانوں پر جنون کا زمانہ تھا ، وہ تجارت ، زمیندارہ اور دوسرے کاروبار ترک کر کے چلے جا رہے تھے ، میں نے اُس وقت مسلمانوں کو سمجھایا اور حکومت کی مدد کی.اس کے بعد ہر موقع پر جب کانگرس نے شورش کی ہم نے حکومت کی مدد کی.گزشتہ گاندھی موومنٹ (MOVEMENT) کے موقع پر ہم نے پچاس ہزار روپیہ خرچ کر کے ٹریکٹ اور اشتہار شائع کئے اور ہم ریکارڈ سے یہ بات ثابت کر سکتے ہیں.سینکڑوں تقریر میں اس تحریک کے خلاف ہمارے آدمیوں نے کیں ، اعلیٰ مشورے ہم نے دیئے جنہیں اعلیٰ حکام نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر ان سب خدمات کا کیا نتیجہ نکلا ؟ یہی کہ جب وہ لوگ جن سے ہم اس وجہ سے لڑا کرتے تھے کہ وہ حکومت کے خلاف اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی حرکات کرتے ہیں جب ہم پر حملہ آور ہوئے تو ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے.ممکن ہے حکومت کی طرف سے کچھ کا رروائی ہو رہی ہو مگر مجھے معلوم نہیں اس لئے ان حالات میں میں مجبور ہوں کہ جماعت کو

Page 60

خطبات محمود ۵۵ سال ۱۹۳۵ء.اجازت دے دوں جس حد تک شریعت اجازت دیتی ہے وہ سیاسیات میں دخل دے سکتی ہے اور حکومت تک اپنی شکایات پہنچا سکتی ہے.اگر مسلمانوں میں سے بولنے والے لوگ ہمیں دھتکارتے ہیں ،اگر حکومت کے افسر ہماری طرف متوجہ نہیں ہوتے تو ہم مجبور ہیں کہ کسی اور کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور اس پر نہ مسلمانوں کو اور نہ حکومت کو شکوہ کرنے کا کوئی حق ہے.اگر کانگرس ہم سے سمجھوتہ کرے کہ نان کو آپریشن اور بائیکاٹ وغیرہ امور جنہیں تم نا جائز سمجھتے ہو انہیں چھوڑ کر باقی جائز امور میں تعاون کرو اور ہم اس بات کو منظور کر لیں تو حکومت کو کیا شکوہ ہوسکتا ہے.ہم چھپن ہزار جانوں کو کس طرح خطرہ میں ڈال سکتے ہیں بے شک ہمارا تو کل اللہ تعالیٰ پر ہے لیکن پھر بھی ظاہری سامانوں کی ضرورت بھی وہی بتا تا ہے.پس چونکہ ڈیموکریٹک طرز حکومت میں کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور مل کر رہنا پڑتا ہے اکیلی جماعتیں نہیں رہ سکتیں اس لئے ہمیں حکومت کے ساتھ ، مسلمانوں کے ساتھ ، کانگرس کے ساتھ غرض کسی نہ کسی سے ضرور ملنا پڑے گا اور جو بھی ہماری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے گا ہم اس سے ملیں گے اور اس کے لئے ہر جگہ ہاتھ ماریں گے اور جو بھی ہمیں عزت کے مقام پر رکھ کر اور ہمارے اصول کی قربانی کا مطالبہ کئے بغیر ہم سے صلح کرنا چاہے گا اس کے ساتھ مل جائیں گے.اپنے اصول کی قربانی کے لئے ہم ہرگز تیار نہیں ہیں خواہ ہمیں کتنے خطرناک حالات کیوں نہ پیش آجائیں.اگر مسلمان ہمارے ساتھ صلح کے لئے یہ شرط پیش کریں کہ ہندوؤں کے گلے کاٹو تو چونکہ ہم اسے ناجائز سمجھتے ہیں ایسا ہرگز نہیں کریں گے خواہ ہندو ہمیں نقصان ہی کیوں نہ پہنچاتے ہوں.ہم حکومت کے ساتھ آج تک تعاون کرتے رہے ہیں مگر کوئی نہیں ثابت کر سکتا کہ ہم نے کسی کے خلاف جاسوسیاں کی ہوں یا کبھی نا جائز فائدہ اٹھایا ہو.یا کبھی ذاتی مفاد کے لئے ہم نے مسلم حقوق کو نظر انداز کیا ہو.آج حکومت کے کئی افسر ہمارے مخالف ہیں.اگر ہم نے کبھی ایسا کیا ہے تو انہیں چاہئے کہ ظاہر کریں.کوئی یہ ثابت کر کے دکھائے کہ ہم نے کبھی حکومت سے اپنے لئے وہ چیز مانگی ہو جو باقی مسلمانوں کے لئے نہیں مانگی.پھر ہم نے مسلمانوں سے تعاون کیا ہے اور آج مسلمانوں کا ایک حصہ بھی ہمارے مخالف ہے ان میں سے ہی کوئی یہ ثابت کر دے کہ حکومت کے خلاف کبھی کوئی ساز باز کی ہو.جب ہم حکومت سے ملے ہیں تو مسلمانوں کو بیچنے کی کوشش نہیں کی اور جب مسلمانوں سے ملے ہیں حکومت کے مفاد کو نہیں بیچا.ہم ہر حال میں اپنے اصول کے پابند رہے ہیں اور رہیں گے، چاہے

Page 61

خطبات محمود ۵۶ سال ۱۹۳۵ء ہماری جانیں، ہماری عزتیں ، ہمارے مال سب کچھ خطرہ میں کیوں نہ ہوں لیکن اس کے نیچے نیچے فتنہ و فساد کئے بغیر انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اور محبت کے جذبات کو کچلے بغیر اپنی حفاظت کے لئے اگر اب ہمیں سیاسیات میں دخل دینا پڑے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی جسے یہ بات نا پسند ہومگر میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہر کام جائز حد تک کرو.سرکاری ملازموں کو سیاسی معاملات میں دخل دینے کی ہرگز اجازت نہیں.اگر کسی کو پتہ نہ بھی لگ سکے تو بھی خدا تعالیٰ ضرور دیکھتا ہے اور جو سر کاری ملازم ایسا کرے گا وہ مجرم ہو گا ہمیں اس کی امداد کی ضرورت نہیں.اس کی اصل ذمہ داری خدمتِ دین ہے اسے چاہئے کہ اسے ادا کرے.اس کے علاوہ میں انجمنوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ واقع میں بے چین ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ علیحدہ انجمنیں بنائیں تا کوئی بددیانتی نہ ہو اور جب وہ بنالیں گی تو پھر اس سوال پر میں غور کروں گا کہ انہیں کس حد تک سیاسیات میں دخل دینے کی اجازت دی جاسکتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ وہ جذ بہ جس کے ماتحت میں اکیس سال تک کام کرتا رہا ہوں یہ الفاظ کہنے سے اب بھی مجھے روک رہا ہے اور اب بھی میں یہ کہتے ہوئے درد محسوس کرتا ہوں کہ الگ انجمنیں بناؤ.میرے یہ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں اپنے گزشتہ کئے پر پشیمان ہوں.اب بھی مجھے یقین ہے کہ دنیا کے امن کی بنیاد برٹش امپائر (British Empire) پر ہے.مذہبی طور پر بھی جیسا کہ پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے اور عقلی طور پر بھی میری یہی رائے ہے اور حکومت کے کسی بگاڑ کو میں ہمیشہ عارضی یقین کرتا ہوں.برٹش ایمپائر بہت وسیع ہے اور بعض حکام کی زیادتیوں کی وجہ سے ساری امپائر کی خرابی ثابت نہیں ہوسکتی.پھر سارے ہندوستان کے افسروں کا کیا قصور ہے ، پھر پنجاب کے بھی سارے صوبہ کے متعلق ہمیں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہو ا صرف ضلع گورداسپور یا بعض اور مقامات کے افسر زیادتی کر رہے ہیں.باقی اضلاع کے حکام کی جماعتیں تعریف ہی کرتی ہیں اس لئے یہ کہنے کا کسی کو حق نہیں کہ سارے کے سارے بگڑے ہوئے ہیں اس لئے میں اپنے گزشتہ کئے پر پشیمان نہیں ہوں.میں جانتا ہوں کہ انگریز قوم میں خوبیاں ہیں اور اچھے افسران افسروں کو جن میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں خود ہی دبادیں گے اور اس وجہ سے میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جائیں.کانگرس اگر نان کو آپریشن چھوڑ دے تب بھی حکومت کے ساتھ اس کی

Page 62

خطبات محمود ۵۷ سال ۱۹۳۵ء لڑائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ مل نہیں سکتے لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی بات ہو کہ حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات منقطع ہو جائیں ہماری طرف سے یہ احتیاط ہمیشہ رہے گی ، ہاں اس کی طرف سے اگر انقطاع ہو تو اس کی مرضی.اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی میں قطع تعلق کو پسند نہیں کرتا.سیاسی طور پر ہم ان کو اپنا شریک سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں گے.میں افراد کی شرارتوں کو ساری مسلمان قوم سے منسوب نہیں کر سکتا ان میں بہت اچھے آدمی ہیں.چند ہی ہفتے ہوئے ایک آنریری مجسٹریٹ کی چٹھی مجھے ملی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے اخبار ” زمیندار کے بعض مضامین پڑھے تو مجھے خیال آیا کہ آپ کے سلسلہ کی کتب بھی پڑھنی چاہئیں چنانچہ میں نے پڑھیں تو مجھ پر یہ اثر ہوا کہ آج اگر اسلام کی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے ، تو وہ آپ کی جماعت ہی ہے اس لئے میں نے اپنے منشی کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ پانچ روپیہ ماہوار چندہ آپ کو بھیج دیا کرے.تو دیکھو پڑھا اخبار ”زمیندار“ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری مالی مدد شروع کر دی حالانکہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں.پس لاکھوں مسلمان ہیں جو اس شرارت کو نا پسند کرتے ہیں اور ہم یہ بے ایمانی کس طرح کر سکتے ہیں کہ شریف لوگوں کو بھی ان شریروں کی وجہ سے جو اپنی ذات میں گندے ہیں بُرا کہنے لگ جائیں اس لئے ہماری کوشش رہے گی کہ مسلمانوں کے ساتھ رہیں اور ان کی جو خدمت ہم سے ہو سکے کریں لیکن اگر مسلمان خود ایسے لوگوں کے اثر کے نیچے آجائیں تو یہ ان کی مرضی ہے.ناک رگڑ کر ہم نہ حکومت سے صلح کے لئے تیار ہیں اور نہ مسلمانوں سے.ہاں ہمیں عزت کے مقام پر رکھ کر جو بھی ہمارے ساتھ ملے گا ، اس کی مصیبت کے وقت ہم سب سے آگے ہو کر لڑیں گے مگر جس سے بھی دوستی رکھیں گے اپنی عزت قائم رکھتے ہوئے رکھیں گے.مومن ذلیل نہیں ہوتا اگر حکومت ہم سے دوستی نہ رکھنا چاہے گی تو پھر بھی ہم قانون کی پوری پوری پابندی کریں گے اور آرام سے گھر میں بیٹھے رہیں گے ہمیں اس سے ملنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن حکومت کے متعلق میرا گزشتہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ایسے جھگڑے عارضی ہو ا کرتے ہیں اور آخر کار وہ ٹھیک ہو ہی جایا کرتے ہیں.پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا ہے.حکومت کے ایک سیکرٹری ہیں، ایک دفعہ ان سے سخت لڑائی ہوئی مگر وہ پہلے بھی ہمارے دوست تھے اور آج بھی گہرے دوست ہیں اور اس شورش میں ہمارے ساتھ پوری ہمدردی رکھتے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی عارضی چیز ہے اور اس

Page 63

خطبات محمود ۵۸ سال ۱۹۳۵ء لئے کوئی ایسی بات پسند نہیں کرتا جو اسے مستقل بنا دے اور اسی وجہ سے میں اب تک اس بات سے ڑکتا رہا ہوں اور اب بھی دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ سیاسی امور میں دخل دیتے ہوئے پہلے دیانت کو مدنظر رکھیں.دوسرے اس امر کو کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو حکومت کے اور ہمارے یا ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی ایسی خلیج منافرت پیدا کر دے جو بھری نہ جاسکے.پس وہ جماعتیں جو قانون کی حدود کے اندر سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں وہ الگ انجمنیں بنائیں.یہ دیانت کا تقاضا ہے کیونکہ ہماری موجودہ انجمنیں خالص مذہبی ہیں اور دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ سیاسی امور جوش پیدا کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے کبھی بھی جوش کے ماتحت وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جسے دوسرے وقت میں جائز نہ سمجھتے ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس قدر لمبی ٹریننگ اور وعظ ونصیحت کے بعد وہ ضرور ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ یا انگریزوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے کوئی تصادم نہ ہو جائے.اس کے علاوہ شریعت ، قانون ، اخلاق اور دیانت کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے.باقی میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ حقوق ہمیشہ قانون کو توڑنے سے ہی مل سکتے ہیں.میں نے کشمیر کا کام کیا ہے اور اپنے تجربہ کی بناء پر کہ سکتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے.کشمیر کے لیڈر میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری سمجھ میں ہی یہ بات نہیں آتی کہ قانون توڑے بغیر کس طرح ہم کامیاب ہو سکتے ہیں مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا ہے قانون کے اندر رہتے ہوئے میں انشاء اللہ آپ لوگوں کے حقوق دلوا دوں گا پس اس بارہ میں میں تجربہ کار ہوں.میں نے جس وقت تک کشمیر کا کام کیا ہے ، اس وقت تک کے نتائج ظاہر ہیں اور جس وقت سے میں علیحدہ ہوا ہوں اور کام دوسروں کے ہاتھ میں گیا، اس وقت کا کام بھی سب کے سامنے ہے.میں نے سارے ریکارڈ خود جا کر ان لوگوں کو دیئے حالانکہ مسلمان انجمنوں کا گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ جن حالات میں ہم الگ ہوئے تھے ، اس قسم کے حالات میں کوئی سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ریکارڈ نہیں دیا کرتا اور یہ خدا کا فضل ہے کہ ایک پیسہ کے متعلق بھی کوئی اعتراض وہ ہم پر نہیں کر سکتے.وہ شدید مخالفین جو آج ہمیں گالیاں دے رہے ہیں ، ان میں سے بعض تحریک کشمیر میں میرے ساتھ کام کر چکے ہیں مگر کسی کو جرات نہیں کہ میرے کام کے متعلق ایک لفظ بھی کہہ سکیں یا مجھ پر کوئی اعتراض کرسکیں.غرضیکہ کشمیر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قانون شکنی کئے بغیر کامیابی عطا کی.مجھے بتایا گیا ہے کہ

Page 64

خطبات محمود ۵۹ سال ۱۹۳۵ء حکومت کشمیر کی طرف سے ایک دفعہ حکومتِ پنجاب سے میرے متعلق شکایت کی گئی کہ میں وہاں شورش کرا تا ہوں.حکومت پنجاب نے اس کا ثبوت مانگا تو کشمیر سے ایک خاص افسر کا غذات لے کر آیا اور بعض خطوط پیش کئے ان میں سے صرف ایک خط میرا تھا مگر اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ لوگ شورش سے بچتے رہیں اس پر وہ نادم ہو گیا اور کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے قانون شکنی کی انہیں تعلیم دی ہو.میرا یقین ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.قانون شکنی کی طرف ہمیشہ کم ہمت لوگ مائل ہوا کرتے ہیں مگر ہم اپنے اندر صبر اور جرات کی طاقت رکھتے ہیں اس لئے ہمیں اس کی ضرورت نہیں.یاد رکھو کہ قانون جب ایک دفعہ ٹوٹا تو پھر اسے قائم نہیں کیا جا سکتا.میں قانون شکنی سے انگریزوں کی خاطر نہیں روکتا بلکہ اپنے فائدے کے لئے اس سے منع کرتا ہوں تا ہمارے اخلاق نہ بگڑ جائیں بلکہ اگر انگریز اس کی اجازت دے دیں تو بھی ہم ایسا نہیں کریں گے.جب یہ عادت پیدا ہو جائے تو خواہ کوئی حکومت ہو یہ قائم رہے گی اور اگر انگریز چلے جائیں تو بھی کوئی حکومت نہیں چل سکے گی اور میں نے جہاں تک غور کیا ہے ، قانون شکنی کے بغیر بھی سب کام ہو سکتے ہیں.حکومت کی بنیاد ڈیموکریسی پر ہے اس لئے اگر اس کی غلطیاں واضح کی جائیں ، انہیں دنیا کے سامنے پھیلایا جائے اور اپنی مشکلات بیان کی جائیں تو یہ بات بغیر اثر کئے نہیں رہ سکتی.یادرکھو نیکی اور سچائی کی ہمیشہ فتح ہوا کرتی ہے.اگر حکومت بار بار کے مطالبات پر بھی توجہ نہ کرے تو اس کی غلطیوں کو کھولو، حکام کی زیادتیاں حکومت پنجاب تک پہنچاؤ ، اگر وہ بھی نہ سنے تو حکومت ہند تک پہنچا ؤ، اگر وہ بھی توجہ نہ کرے تو حکومت برطانیہ تک پہنچاؤ ، وہ بھی نہ سنے تو برطانوی پبلک کو سنا ؤ اور تم دیکھو گے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی تمہیں ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ شرفاء کا طبقہ تمہاری تائید کرے گا.کسی قوم میں بھی سارے کے سارے لوگ برے نہیں ہوتے اور میری رائے تو یہ ہے کہ احرار میں بھی سارے برے نہیں ہیں.پرسوں ہی ایک دوست کا خط آیا جو میں نے آج ہی پڑھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ ایک احراری مجھ سے ملنے آیا.وہ اعتراض کرتا تھا مگر جب اسے حقیقت حال سے آگاہ کیا جا تا تو ضد چھوڑ دیتا.یہ ایک خاص پولٹیکل خیالات کی جماعت ہے مگر ان میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان پر حقیقت واضح کی جائے تو مان لیتے ہیں تو پھر انگریزوں میں تو اچھے لوگ بہت زیادہ ہیں.انگریز قوم ان قوموں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قیام امن کیلئے چنا ہے اس لئے ان میں یقیناً

Page 65

خطبات محمود ۶۰ سال ۱۹۳۵ء اچھوں کی زیادتی ہے اور جب پرو پیگنڈا کیا جائے گا تو اچھے کھڑے ہو جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ ان زیادتیوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا اور بھی بیسیوں طریق ہیں جن سے شرفاء متاثر ہوں گے.اگر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کو اس لئے قائم کیا ہے کہ تا حق وصداقت کو قائم کرے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس نے ہمیں ہتھیاروں سے محروم ہی رکھا ہے.خدا تعالیٰ کبھی ایسا نہیں کیا کرتا.جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے درمیان قعر دریا تخته بندم کرده باز می گوئی که دامن تر مکن ہشیار باش وہ اگر کہتا ہے کہ بغاوت اور قانون شکنی نہ کرو تو ضروری ہے کہ اس نے حفاظت کے اور ہتھیار رکھے ہوں ورنہ اس پر الزام آتا ہے کہ اس نے ہمیں فتح کے سامانوں سے محروم کر دیا.جن باتوں سے وہ منع کرتا ہے یقین جانو کہ وہ فتح کے سامان نہیں ہیں.پس اپنے اندر نیکی تقوی طہارت پیدا کرو ، دیانت کو مدنظر رکھو ، قانون کی پابندی کرو، سلسلہ کی روایات کو برقرار رکھو اور ان دو باتوں کو بھی پیش نظر رکھو.اول یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کآخر کنند دعوائے پیمبرم آپ کے دل کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمان کہلانے والے خواہ کتنے ہی دشمن کیوں نہ ہو جائیں پھر بھی ان کا لحاظ کرنا کیونکہ آخر وہ میرے پیمبر کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.دوم یہ کہ حکومت برطانیہ کے جاہ و جلال کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں ہیں.آپ کے یہ الہامات ہمارے لئے ہدایت ہیں پس اپنے کاموں میں انہیں مدنظر رکھو.ہاں فتح حاصل کرنے کے لئے ہر قربانی اور جد و جہد کر وصرف اس بات کا خیال رکھو کہ مسلمانوں سے یا حکومت سے ایسا بگاڑ نہ ہو جائے کہ بعد میں اسے دور کرنا مشکل ہو.مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اس طرح کام کریں گے تو اچھے آدمی آگے آئیں گے ، ان کی نیکی پھر اُبھرے گی جو بُروں کی بُرائیوں کو دھو دے گی.میں اس بات سے آج تک اس لئے روکتا رہا ہوں کہ مجھے ڈر تھا بے احتیاطی نہ ہو

Page 66

خطبات محمود ۶۱ سال ۱۹۳۵ء جائے اور اب کہ اس کی اجازت دے رہا ہوں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ احتیاط سے کام کرو.ان نصیحتوں کے ساتھ اور ان ہدایات کے ماتحت میں جماعتوں کو اجازت دیتا ہوں کہ جو جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے در ددل کو حکومت پر ظاہر کریں وہ الگ انجمنیں بنالیں اور پھر بعد میں میں ان کو بتاؤں گا کہ وہ کن شرائط اور اقراروں کے ماتحت اپنے معاملات کو حکومت پنجاب حکومت ہند ، حکومت برطانیہ اور پبلک کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ، اس کے علاوہ اور جو جائز ذرائع خدا نے مقرر کئے ہیں ان کو استعمال کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کا محافظ ہو اور اسے اپنے مخالفوں پر فتح دے اور ہر غلط قدم سے اس کی حفاظت کرے.اے خدا تو ایسا ہی کر.الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۳۵ء) ا مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارمز (Montague Chelmsford Report) جنگ عظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہند وستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجی ٹیشن کا رنگ اختیار کر گئے.لارڈ چیمسفورڈ ، جو لارڈ ہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے ، نے مسٹر مانٹیگو (Mr.Montague) کی معیت میں ہندوستان کے سیاستدانوں اور مد بروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک رپورٹ تیار کی جو مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم کے نام سے مشہور ہے.پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ سکیم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی.اس کا نفاذ ۱۹۲۱ ء میں ہوا، جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا.( ملخص از نیو تاریخ انگلستان صفحه ۳۱۲، ۳۱۳ مطبوعہ لاہور.” آزاد قوم کی تعمیر اور پاکستان صفحہ ۱۳۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۷ء.یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۶۶،۳۶۵ مطبوعہ لاہور ) ا سر اڈوائر (Sir O'Dwyer) میکلیکن سر ایڈورڈ ڈگلس.۲۵ راگست ۱۸۶۴ ء کو پیدا ہوئے.اینو کالج آکسفورڈ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۱۸۸۵ء میں آئی سی اے سے منسلک

Page 67

خطبات محمود ۶۲ سال ۱۹۳۵ء ہوئے.۱۹۰۶ ء میں حکومت ہند کے محکمہ مالیات و زراعت میں انڈر سیکرٹری اور ۱۹۱۰ ء تا ۱۹۱۴ء سیکرٹری رہے.۱۹۱۵ ء تا ۱۹۱۸ء محکمہ تعلیم سے تعلق رہا.۱۹۱۹ ء تا ۱۹۲۱ء پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر اور ۱۹۲۱ء تا ۱۹۲۴ء گورنر رہے.سی ایس آئی ، کے سی آئی ای اور کے سی ایس آئی کے خطابات کے حامل تھے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۹۷۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) سر میلکم ہیلی.پیدائش ۱۸۷۲ء.۱۹۰۲ء میں آئی سی ایس جہلم میں آباد کاری کے افسر مقرر ہوئے.۱۹۰۷ ء میں حکومت پنجاب کے سیکرٹری بنے.۱۹۰۸ء میں حکومت ہند کے ڈپٹی سیکرٹری بنے.۱۹۱۲ ء تا ۱۹۱۹ ء چیف کمشنر دہلی رہے.۱۹۱۹ء تا ۱۹۲۲ ء حکومت ہند کے فنانس ممبر ر ہے.۱۹۲۲ء تا ۱۹۲۴ ء ہوم ممبر رہے.گورنر پنجاب اور گورنر یو پی بھی رہے.ان کا شمار نہایت قابل انگریز افسروں میں ہوتا ہے.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) لارڈ ولنگڈن.مدراس اور بمبئی کے گورنر پھر ۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۶ ء وائسرائے ہند رہے.دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس ان ہی کے عہد میں لندن میں ہوئی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۱۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ۵ رولٹ ایکٹ.۱۹۱۹ ء میں جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں تحریک آزادی کی ایک لہر پیدا ہوئی جسے روکنے کے لئے جسٹس رولٹ کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم ہوئی.کمیٹی کی رپورٹ پر ایسا قانون بنایا گیا جس کی رُو سے حکومت کو تخریبی کارروائیاں روکنے کے لئے وسیع اختیارات مل گئے.اس قانون کو رولٹ ایکٹ کا نام دیا گیا.لارڈ چیمسفورڈ.جنگ عظیم کے دوران لارڈ ہارڈنگ کے چلے جانے پر لارڈ چیمسفورڈ ۱۹۱۶ ء میں ہندوستان تشریف لائے اور ۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۱ ء تک وائسرائے رہے.انہوں نے جنگ عظیم میں فوج اور سامانِ جنگ بھیجنے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا.( یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۶۵ مطبوعہ لا ہور )

Page 68

خطبات محمود ۶۳ سال ۱۹۳۵ء مخلصین کا انتہائی اخلاص اور بعض لوگوں کا قابل اصلاح رویه فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - پہلے میں اس تاثر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میری ایک خواب اور بعض اور دوستوں کی خوابوں کے متعلق جنہیں میں نے.۴ جنوری کے خطبہ میں بیان کیا تھا جماعت میں پیدا ہوا ہے.مختلف رنگ میں جماعت نے اس سے اثر قبول کیا ہے اور جس قسم کے اخلاص سے بھرے ہوئے اور محبت سے لبریز خطوط مجھے آئے ہیں وہ اس گہرے تعلق کو جو کہ جماعت کے امام کے ساتھ جماعت کو ہے خوب اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں.بعض لوگوں نے تو انتہائی الفاظ جو اپنے اخلاص کے اظہار کے متعلق وہ استعمال کر سکتے تھے لکھنے کے بعد اپنی بیچارگی اور معذوری کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ انہیں الفاظ ایسے نہیں ملتے جن سے وہ اپنے اخلاص کا اظہار کر سکیں.بعضوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر انہیں اجازت ہو تو وہ اپنی ملازمتیں چھوڑ کر قادیان آجائیں اور میرے لئے پہرہ دینے والوں میں شامل ہوں.بعضوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ جماعت پر دس پندرہ یا بیس ہزار روپیہ کی رقم جو مناسب سمجھی جائے لگا دی جائے اور یہ کہ وہ اپنے اخراجات کو ہر رنگ میں کم کر کے اسے پورا کریں گے تا کہ اس روپیہ سے آپ کی حفاظت کے لئے انتظام کیا جائے.غرض وہ جوش اور اخلاص جس کا اظہار ہماری

Page 69

خطبات محمود ۶۴ سال ۱۹۳۵ء جماعت نے کیا ہے ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ گو اس میں بعض کمزور بھی ہوں مگر اس کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو اس بوجھ کو اٹھائے چلا جائے گا جو احمدیت کے متعلق اس پر عائد ہوتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا مقدر پورا ہو.کبھی کسی جماعت میں سارے مؤمن نہیں ہوئے بلکہ کچھ حصہ منافقین کا بھی ہوتا ہے.خود رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تمام وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے مخلص نہیں تھے بلکہ منافق بھی تھے.پھر بہت سا حصہ جہاں قربانیاں کرتا وہاں ایک حصہ ایسا بھی تھا جو اسلام کے لئے قربانی کرنے پر تیار نہیں تھا حالانکہ اس موقع پر قربانیوں کے لئے ننگے ہو کر سامنے آنے کے بہت سے مواقع تھے لیکن اب ایک منظم اور قانون پر چلنے والی گورنمنٹ کی ماتحتی کی وجہ سے منافق اور غیر منافق میں تمیز کرنا بہت مشکل ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو شخص بھی ایمان لاتا اسے یہ ظاہر کرنا پڑتا کہ اس کی گردن اسلام کے لئے حاضر ہے اسے کاٹ لیا جائے مگر آج بعض لوگوں کو احمدی ہوئے ہیں ہیں سال گزر گئے مگر بوجہ ایک منظم گورنمنٹ کے ماتحت ہونے کے انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی.گو ہزار ہا ایسے بھی ہیں جو احمدیت کی وجہ سے مارے پیٹے گئے ، انہیں اپنی جائیدادوں سے بے دخل کر دیا گیا ، ان کی بیویوں اور بچوں کو چھین لیا گیا اور ان کی عزتوں اور آبروؤں پر حملہ کیا گیا لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہو گا اور یقیناً ہے جسے مخالفوں کی طرف سے کوئی قابل ذکر تکلیف نہیں پہنچی.پس آج جبکہ جماعت کے ایک حصہ کو سالہا سال سے کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی کچھ منافق بھی ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں تو ان کا پتہ لگانے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی.مگر رسول کریم اللہ کے زمانہ میں مخالفت اتنی کھلی تھی اور مخالفت بھی تلوار کی مخالفت کہ جو شخص اسلام قبول کرتا اسے اپنی جان قربان کر کے اسلام میں شامل ہونا پڑتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود بھی اس وقت منافق موجود تھے.تو موجودہ زمانہ میں ایسے لوگوں کی جماعت احمد یہ میں شمولیت کوئی بڑی بات نہیں ہو سکتی.پس کمزوروں کی کمزوری نہیں دیکھنی چاہئے بلکہ مخلصوں کا اخلاص دیکھنا چاہئے اور یہ کہ وہ اخلاص کس حد تک پہنچا ہوا ہے.اور اگر معلوم ہو کہ سلسلہ میں ایسے مخلصین موجود ہیں جو اپنی جان، اپنا مال ، اپنی عزت ، اپنی آبرو، اپنا آرام اور اپنی آسائش سب کچھ قربان کر کے سلسلہ کے پھیلانے اور اس کے اصول کو دنیا میں رائج کرنے کے لئے ہر وقت بے قرار رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا مادہ اپنے

Page 70

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اندر رکھتی ہے اور کوئی مخالفت اسے بڑھنے سے نہیں روک سکتی.پہرے کے متعلق بھی دوستوں نے عجیب عجیب قسم کی تحریکیں کی ہیں.بعضوں نے لکھا ہے کہ رات کو جب آپ سوئیں تو کسی کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کس کمرہ میں ہیں حتی کہ بیویوں کو بھی یہ علم نہیں ہونا چاہئے.بعضوں نے لکھا ہے کہ خیر بیویوں کو علم ہو تو کوئی حرج نہیں کسی اور کو معلوم نہیں ہونا چاہئے یہ تمام باتیں جماعت کے اخلاص اور محبت کا نہایت اچھی طرح اظہار کرتی ہیں گو ان پر عمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو زندگی دوبھر ہو جائے.مگر جہاں جماعت کی طرف سے نہایت ہی اخلاص اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے وہاں جیسا کہ بندر کا تماشہ دکھانے والے روکنے کے باوجود چھینک پڑتے ہیں اسی طرح چھینکنے والے لوگ بھی ہماری جماعت میں موجود ہیں.چنانچہ مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان میں ایک شخص کو جب مسجد میں پہرہ کے لئے کہا گیا تو اس نے کہا کہ اس طرح پہرہ دینا میرے اصول کے خلاف ہے پس جہاں باہر کی جماعتوں میں ایسے ایسے مخلصین موجود ہیں جو پہرہ کے لئے اپنی نوکریاں چھوڑنے کے لئے تیار ہیں وہاں قادیان میں بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ پہرہ دینا ان کے اصول کے خلاف ہے حالانکہ ان کے وہ اصول کہاں سے آئے ہوئے ہیں کیا ان کے اصول کی صحت کا کوئی ثبوت ہے.ممکن ہے اس ایک شخص کی بات سنکر میں اسے نظر انداز کر دیتا خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے منہ سے نکلے ہوئے ہیں جو ہمیشہ اپنی بے اصولی باتوں کو با اصول کہتا رہتا ہے اور اس کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ بہت سی بے اصولی باتیں کرتا ہے مگر انہیں اصول قرار دیتا ہے مگر چونکہ ایسے آدمی ہر جگہ بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور گو ہمیں تو اس بات کی ضرورت نہیں کہ دیکھیں کون پہرہ دیتا ہے اور کون نہیں مگر چونکہ اس قسم کی باتوں کے نتیجہ میں وہ مخلصین اور کام کرنے والے لوگ جو پہرہ دیتے ہیں ان پر اعتراض ہوتا اور وہ بے وقوف سمجھے جا سکتے ہیں حالانکہ بے وقوف پہرہ دینے والے نہیں بلکہ پہرہ پر اعتراض کرنے والے ہیں اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس کا جواب دے دوں.ورنہ اپنی ذات کے لئے مجھے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے اندر جو ا خلاص میرے منہ متعلق پیدا کیا ہے وہ اس قسم کی باتوں سے دور نہیں ہو سکتا مگر چونکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی باتوں سے متاثر ہوا اور ممکن ہے کہہ دے کہ اعتراض کرنے والے نے کیسی اچھی بات کہی.نماز کا اس

Page 71

خطبات محمود ۶۶ سال ۱۹۳۵ء نے احترام کیا اور اس بات کو بے ضرورت سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے فرض کی ادائیگی کے وقت کسی انسان کی حفاظت کے لئے نماز پڑھنی چھوڑی جائے اور اس طرح مخلصین کے اخلاص پر اعتراض واقع ہوتا اور وہ اس قسم کی باتوں کے نتیجہ میں احمق قرار پاتے ہیں اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ کچھ بیان کر دوں.پہلی چیز جو ہمارے سامنے ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے.ابھی تک وہ لوگ زندہ ہیں جو با قاعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کا پہرہ دیا کرتے تھے ، سکول کے طالب علم ، مہمان اور قادیان کے باشندے ہمیشہ پہرہ دیتے رہے بلکہ کچھ عرصہ تک ماسر عبد الرحمن صاحب جالندھری کے سپر د بھی یہ ڈیوٹی رہی اور وہ سکول کے طالبعلموں کا پہرہ مقر رکرتے اور باریاں مقرر کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو راتوں کو جاگ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کا پہرہ دیا کرتے.اس صورت میں اعتراض کرنے والے کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا یہ طریق عمل بھی اس کے اصول کے خلاف ہوگا اور اس کے نزدیک لوگوں کا پہرہ دینا یا تو خدائی حفاظت کے باوجود جس کا آپ کو وعدہ دیا گیا ایک عبث فعل ہو گا اور یا ان کے وقار کے خلاف ہو گا.راتوں کو جاگنا اور پہرہ دینا جبکہ ایک شخص گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور دروازے بند ہوں، اتنا ضروری نہیں ہوتا جتنا کہ انسان جب باہر نکلے تو اس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایسا ہوتا رہا.یہ شخص اگر اس وقت ہوتا تو یہی کہتا کہ پہرہ دینا تو میرے اصول کے خلاف ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سفروں پر جاتے تو آپ کے ساتھ حفاظت کے لئے زائد سواریاں اور یکے ہوتے.اگر آپ رتھ میں جاتے تو علاوہ ان لوگوں کے جو حفاظت کے لئے رتھ میں ہی آپ کے ساتھ بیٹھ جاتے ، دوتین رتھ یا پیکے کے ساتھ ساتھ بھاگتے چلے جاتے.یہ شخص تو اگر اس وقت ہوتا اور اسے یکے کے ساتھ چلنے کو کہا جاتا تو شاید خودکشی کو ترجیح دیتا کہ اس قدر ہتک کی گئی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کبھی گھر میں ہدیہ آئی ہوئی چیز بغیر دریافت کئے استعمال نہ کرتے بلکہ آپ پوچھ لیتے کہ یہ کہاں سے آئی ہے، کون دینے آیا تھا اور آیا وہ شخص جانا پہچانا ہے یا نہیں.جب مخالفت زیادہ بڑھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کی دھمکیوں کے خطوط موصول ہونے شروع ہوئے تو کچھ عرصہ تک آپ نے سنکھیا کے مرکبات استعمال کئے تا کہ اگر خدانخواستہ آپ کو زہر دیا جائے تو جسم میں اس کے مقابلہ کی طاقت ہو ،اس شخص کے

Page 72

خطبات محمود ۶۷ سال ۱۹۳۵ء نزدیک یہ بھی خدا تعالیٰ کے تو نکل کے خلاف ہوگا.پھر اپنے بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغرب کے بعد کبھی باہر نہیں نکلنے دیتے تھے کیونکہ آپ سمجھتے تھے لوگ دشمن ہیں ممکن ہے وہ بچوں پر حملہ کر دیں اور انہیں نقصان پہنچا ئیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو اس وقت میری ۱۹ سال عمر تھی.۱۶، ۱۷ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے کبھی بھی مغرب کے بعد گھر سے نکلنے نہیں دیا اور اس کے بعد بھی آپ کی وفات تک میں اجازت لے کر مغرب کے بعد گھر سے جاتا.اس کے متعلق بھی وہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بالکل تو کل اور اصول کے خلاف امر ہے.پھر اس سے اوپر جا کر دیکھو تو گل کے سر چشمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی حال تھا.حدیثوں سے صاف ثابت ہے کہ روزانہ صحابہ میں سے چند لوگ آتے اور رسول کریم کی حفاظت کے لئے پہرہ دیتے.پہلے تو وہ بغیر اسلحہ کے پہرہ دیا کرتے مگر ایک دن رسول کریم نے ہتھیاروں کے چھنکار کی آواز سنی تو آپ باہر تشریف لائے دیکھا تو صحابہ اسلحہ سے مسلح ہو کر پہرہ دینے آئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہ نے عرض کیا کہ يَا رَسُوْلَ اللهِ کیا پستہ کوئی ایسا دشمن آ جائے جو باہتھیا ر ہو اس لئے ہم مسلح ہو کر آئے ہیں.رسول کریم ﷺ نے جب یہ سنا تو ان کی تعریف کی اور ان کے لئے دعا فرمائی.اس آدمی کیلئے یہ بات بھی بڑی مصیبت ہوگی.پھر صحابہ کی حالت یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ اگر ذرا بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے تو وہ بے تحاشہ آپ کی تلاش میں دوڑ پڑتے.بخاری میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم یہ ایک باغ میں بیٹھے تھے ، تھوڑی دیر کے لئے آپ بغیر اطلاع دیئے اس باغ کے دوسرے کونے کی طرف چلے گئے ، صحابہ نے جب رسول کریم ﷺ کو نہ دیکھا تو وہ چاروں طرف دوڑ پڑے.وہ مشہور حدیث جس میں آپ نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تھا کہ جس نے لَا اِلهَ اِلَّا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا.اسی وقت کی حدیث ہے اس شخص کے نزدیک وہ سارے صحابہ جو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں دوڑے بے اصولے تھے اور ان کا دوڑنا ان کے وقار کے خلاف تھا بھلا مؤمن بھی کبھی ہل سکتا ہے.اسی طرح جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺ کے اردگرد ہمیشہ ایک گارد ہوتی.صحابہ کہتے ہیں کہ جو ہم میں سب سے زیادہ بہادر ہوتا وہ آپ کے گِر دکھڑا کیا جاتا.گویا چن چن کر نہایت مضبوط اور توانا آدمی رسول کریم ﷺ کی حفاظت کیلئے مقرر کئے جاتے.بدر کی جنگ میں صحابہ نے ایک عرشہ بنا دیا تھا اور رسول

Page 73

خطبات محمود الله ۶۸ سال ۱۹۳۵ء کریم ﷺ کو اس پر علیحدہ بٹھا کر ایک تیز رفتار اونٹنی آپ کے پاس کھڑی کر دی اور کہایا رَسُولَ الله ! ہمارے بھائیوں کو مدینہ میں معلوم نہ تھا کہ جنگ ہونے والی ہے اس لئے وہ نہ آئے لیکن یا رَسُولَ اللهِ ! اگر ہم سب کے سب مارے جائیں تو آپ اس تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں وہاں ہمارے بھائیوں کی ایک جماعت بیٹھی ہے جو اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے حاضر ہے اسے آپ مدد کے لئے بلا لیں.سے پھر قرآن مجید میں صراحتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خطرے کے وقت تمام مسلمان با جماعت نماز نہ پڑھیں بلکہ آدھے کھڑے رہا کریں اور آدھے نماز پڑھا کریں.جب ایک رکعت نماز پڑھ لی جائے تو نماز پڑھنے والے پہرہ پر کھڑے ہو جائیں اور پہرہ دینے والے نماز میں شامل ہو جائیں.ہے گویا حفاظت کے لئے پہرہ دینے والوں کو یہاں تک معافی دی گئی ہے کہ جنگ کے وقت ان کی ایک رکعت نماز ہی خدا تعالیٰ قبول کر لیتا ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ ایک رکعت نہیں دو ہی رکعت ضروری ہیں دوسری رکعت وہ بعد میں پڑھ لیں.بہر حال قرآن مجید کا صراحتا حکم ہے کہ حفاظت کے لئے مسلمانوں میں سے آدھے کھڑے رہا کریں اور گو یہ جنگ کے وقت کی بات ہے جب ایک جماعت کی حفاظت کے لئے ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ چھوٹے فتنہ کے انسداد کے لئے اگر چند آدمی نماز کے وقت کھڑے کر دیئے جائیں تو یہ قابل اعتراض امر نہیں بلکہ ضروری ہوگا.اگر جنگ کے وقت ہزار میں سے پانچ سو حفاظت کے لئے کھڑے کئے جاسکتے ہیں تو کیوں معمولی خطرے کے وقت ہزار میں سے پانچ دس آدمی حفاظت کے لئے کھڑے نہیں کئے جاسکتے.یہ کہنا کہ خطرہ غیر یقینی ہے بیہودہ بات ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہوا آپ نماز پڑھ رہے تھے مسلمان بھی نماز میں مشغول تھے کہ ایک بدمعاش شخص نے سمجھا یہ وقت حملہ کرنے کے لئے موزوں ہے وہ آگے بڑھا اور اس نے خنجر سے وار کر دیا.اس واقعہ کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ نماز کے وقت پہرہ دینا اس کے اصول یا وقار کے خلاف ہے تو سوائے اپنی حماقت کا مظاہرہ کرنے کے اور وہ کچھ نہیں کرتا.اسکی مثال اس بیوقوف کی سی ہے جولڑائی میں شامل ہوا اور ایک تیر اُسے آلگا جس سے خون بہنے لگا.وہ میدان سے بھا گا اور خون پونچھتا ہوا یہ کہتا چلا گیا کہ یا السلما یہ خواب ہی ہو.یہ شخص بھی گزشتہ واقعات کا علم رکھتا ہے بلکہ انہیں عملاً ہوتے ہوئے دیکھتا ہے مگر پھر کہتا ہے کہ یہ بات اصول کے خلاف ہے.تاریخ سے یہ بھی

Page 74

خطبات محمود ۶۹ سال ۱۹۳۵ء ثابت ہے کہ ایک موقع پر صحابہ نے اپنی حفاظت کا انتظام نہ کیا تو انہیں سخت تکلیف اُٹھانی پڑی.چنانچہ حضرت عمر و بن العاص جب مصر کی فتح کے لئے گئے اور انہوں نے علاقہ کو فتح کر لیا تو اس کے بعد جب وہ نماز پڑھاتے تو پہرہ کا انتظام نہ کرتے.دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمان اس حالت میں بالکل غافل ہوتے ہیں تو انہوں نے ایک دن مقرر کر کے چند سو مسلح آدمی عین اُس وقت بھیجے جب مسلمان سجدہ میں تھے.پہنچتے ہی انہوں نے تلواروں سے مسلمانوں کے سر کاٹنے شروع کر دیئے.تاریخ سے ثابت ہے کہ سینکڑوں صحابہ اُس دن مارے گئے یا زخمی ہوئے.ایک کے بعد دوسرا سر زمین پر گرتا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور ساتھی سمجھ ہی نہ سکتے کہ یہ کیا ہو رہا ہے.حتی کہ شدید نقصان لشکر کو پہنچ گیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے انہیں بہت ڈانٹا اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ حفاظت کا انتظام رکھنا چاہئے مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ مدینہ میں بھی ایسا ہی ان کے ساتھ ہونے والا ہے.اس واقعہ کے بعد صحابہ نے یہ انتظام کیا کہ جب بھی وہ نماز پڑھتے ہمیشہ حفاظت کے لئے پہرے رکھتے.پس اگر ان معترضین کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی سمجھ نہیں دی تھی تو ان کا فرض تھا کہ یہ ان لوگوں سے پوچھتے جو مسائل سے واقفیت رکھتے ہیں.خود بخود بغیر سوچے سمجھے ایک بات کہہ دینا سوائے اپنے بے اصولا پن کا اظہار کرنے کے اور کس کا ثبوت ہے.آخر ایک نابینا کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ کسی بینا کا ہاتھ پکڑے تا کہ وہ گڑھے میں نہ گر جائے.جب وہ بھی دینی علوم سے نا واقف تھے تو ان کا کام تھا وہ کہتے میں بھی روحانی عالم میں محتاج ہدایت ہوں مجھے راہ دکھایا جائے مگر بجائے اس کے کہ وہ کہتے مجھے کوئی دوسرا راہ دکھائے خود بخود چوہدری بننے لگے اور لوگوں سے یہ کہنے لگ گئے کہ آؤ ہمارے پیچھے چلو.دوسری بات میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ پچھلے جمعہ میں میں نے اعلان کیا تھا کہ جو جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اب احرار کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے اور انہیں اس پر احتجاج کی اجازت ملنی چاہئے انہیں میں اجازت دے سکتا ہوں کہ وہ الگ سیاسی انجمنیں بنالیں اور حکومت تک اپنے خیالات پہنچا کر دیکھ لیں اور گورنمنٹ کے سامنے اپنے دل کے زخم کھول کر رکھدیں کہ کیا اثر ہوتا ہے اس امر کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ میں دیکھتا تھا جماعت میں اشتعال ہے اور سُرعت سے بڑھ رہا ہے.چنانچہ میں جب ۱۶ / جنوری کو لاہور گیا تو وہاں میں نے بعض لوگوں کا شکوہ کیا تھا کہ وہ پورے جوش

Page 75

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سے کام نہیں کرتے لیکن جب میں واپس آیا اور بعد میں آئی ہوئی ڈاک پڑھی تو میں نے سمجھا کہ میرا خیال غلط تھا.باہر کی جماعتوں میں بھی شدید جوش تھا جس کے پھوٹ پڑنے کا ڈر تھا.تب یہ دیکھتے ہوئے کہ ہماری انجمنیں مذہبی ہیں اور ان میں سرکاری ملازم بھی شامل ہیں ایسا نہ ہو اس جوش کی حالت میں وہ بے سمجھے کوئی اقدام کر بیٹھیں.میں نے فوراً سیاسی انجمنوں کے متعلق اعلان کر دیا حالانکہ پہلے دو چار دن انتظار کا ارادہ تھا.سرکاری ملازموں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے بھی میں نے یہ شرط کر دی کہ جو ایسا کرنا چاہے کرے مجبوری یا حکم نہیں ہے اور یہ بھی شرط کر دی کہ سب لوگ قانون کی پابندی کریں اور شریعت کی بھی پابندی کریں.پس میں نے ان تجاویز کے ذریعہ ان لوگوں کے لئے جو بے اصولے با اصول بنتے تھے رستہ کھول دیا تھا کہ اگر وہ موجودہ انجمنوں میں شامل نہ ہوں تو کوئی انہیں منافق قرار نہ دے سکے کیونکہ اس میں شامل ہونا اختیاری رکھا گیا تھا مگر وہ ایسے با اصول نکلے کہ اس موقع پر بھی اعتراض کرنے سے نہ رہے حالانکہ اس میں ان کا اپنا بھلا مد نظر رکھا گیا تھا اور جہاں مذہبی انجمنوں میں شریک ہونا ضروری تھا وہاں ان انجمنوں میں شریک ہونا ان کے لئے ضروری نہ تھا مگر وہ اعتراض کرنے سے پھر بھی باز نہ رہے.چنانچہ قادیان میں سے تین آدمی ایسے ہیں جنہوں نے اس پر اعتراض کیا.قادیان جس طرح مخلصین کے لئے نیک نام ہے اسی طرح بعض مفسدین کے لئے بد نام بھی ہے.دو نے تو مجھے رقعے لکھے اور ایک نے کسی کے آگے بات بیان کی جو میرے پاس پہنچائی گئی ہے.ایک نے تو یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ نے سیاسی انجمنوں کی اجازت دے کر بڑا غضب کر دیا.سیاست نہایت بُری اور خطرناک چیز ہے اور معلوم نہیں اب کیا ہو.یہاں تو خیر امن ہے باہر جو ہماری جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں اور تعداد میں بالکل قلیل ہیں وہ تو اس سے بالکل ہی تباہ ہو جائیں گی.اسی طرح سیاسیات پر مسجد میں خطبے کیوں پڑھے گئے اگر گورنمنٹ ہماری مسجدوں پر قبضہ کرے دروازوں پر تالے لگا دے اور ہمیں بے دخل کر دے تو کیا ہو.دوسرے صاحب نے تو کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور انہوں نے صرف اتنا لکھنا ہی کافی سمجھ لیا کہ جس وقت میں نے خطبہ سنا اسی وقت میں نے دل میں کہا کہ اُف بھاری غلطی ہوگئی اور اس وقت تو میں نے صبر کیا مگر اب میں آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ فوراً اس تجویز کو واپس لے لیں.یہ نہایت ہی تباہ کن ہے یہ وہی با اصول صاحب

Page 76

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ نماز کے وقت پہرہ کیوں دیا جاتا ہے.انہوں نے اپنی بات کے ثبوت کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں سمجھی.گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب“.یہ سمجھ لیا کہ جب میں کہہ رہا ہوں تو اس سے بڑھ کر کسی ثبوت کی اب کیا ضرورت ہوگی.تیسرے صاحب کے متعلق میرے پاس بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا جب میں نے خطبہ سنا تو اس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ اُف غضب ہو گیا ، اب کیا ہو گا.اوّل تو میں کہتا ہوں کہ اس میں غضب ہونے کی بات ہی کونسی ہے اور کونسی اب نئی چیز جماعت کے سامنے رکھی گئی ہے جو اس سے پہلے نہیں تھی.میں نے سیاسی انجمنوں کے قیام کی اجازت دیتے ہوئے جو شرائط عائد کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قانون کے اندر رہ کر گورنمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات رکھے جائیں.بھلا کیا یہ نئی چیز ہے؟ کیا ہم ہمیشہ گورنمنٹ کے سامنے اپنے حقوق کے لئے پروٹسٹ نہیں کرتے رہے آیا فتنہ مستریاں کے وقت ہم نے گورنمنٹ کے سامنے احتجاج کیا یا نہیں.پھر کیا اور موقعوں پر گورنمنٹ کے سامنے ہم نے اپنے حقوق کو پیش نہیں کیا.اگر کیا ہے تو اس میں نئی بات کونسی ہو گئی جس پر انہیں کہنا پڑا کہ اُف غضب ہو گیا.میں نے تو انہی لوگوں کے بچاؤ کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا ہاں اتنی بات زائد کر دی تھی کہ پہلے ہماری جماعت کے تمام لوگ یہ کام کیا کرتے تھے مگر اب تھوڑے کیا کریں گے.اگر وہ ذرا بھی عقلمندی سے میرا خطبہ سنتے یا یہی سمجھ لیتے کہ خلیفہ میں تھوڑی بہت عقل ہے اور اس نے جو کچھ کہا ہو گا سوچ سمجھ کر کہا ہوگا تو اتنی معمولی بات کا ان کی سمجھ میں آنا کوئی مشکل امر نہ تھا لیکن نہ تو انہوں نے اپنی عقل سے کام لیا اور نہ میرے متعلق یہ سمجھا کہ اس میں کچھ عقل ہے اور اعتراض کر دیا حالانکہ اگر وہ سوچتے تو انہیں نظر آتا کہ جو پہلے ہوا کرتا تھا وہی اب بھی ہوا کرے گا.ہاں اس کام کو الگ کر دیا گیا ہے اور ساری جماعت کا اس کام میں حصہ لینا ترک کرا دیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے جماعت کی طرف سے بعض اس قسم کی چٹھیاں موصول ہوئیں کہ ہم خطاب چھوڑنے کے لئے تیار ہیں ، نوکریوں سے استعفے دینے کے لئے آمادہ ہیں ، بھوکا پیاسا رہنا بلکہ مرنا ہم برداشت کر لیں گے مگر ہم سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف گھلے بندوں ہتک کریں.جب مجھے اس قسم کی چٹھیاں موصول ہوئیں تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے اب اس میں دخل نہ دیا اور جماعت کے ایک حصہ کو سیاسی کام کے لئے الگ نہ کر دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بعض حکومت کے ملازم بھی اس

Page 77

خطبات محمود ۷۲ سال ۱۹۳۵ء میں دخل دینا شروع کر دیں گے جو ان کے لئے جائز نہیں.پس گورنمنٹ کے ملازموں کو اس میں دخل دینے سے بچانے کے لئے میں نے الگ سیاسی انجمنیں قائم کرنے کی تحریک کی.پھر میرا یہ بھی مقصد تھا کہ ان انجمنوں میں شامل ہونا اختیاری رکھ کر ” با اصول کو ٹھو کر کھانے سے محفوظ رکھوں.مگر میری تمام احتیاطوں کے باوجود یہ با اصول لوگ بول ہی پڑے حالانکہ جن شرائط کے ماتحت میں نے سیاسی انجمنوں کی اجازت دی ہے وہ یہ ہیں کہ لوگ قانون کی پابندی کریں، شریعت کی پابندی کریں اور سلسلہ کی روایات کو برقرار رکھیں.مگر کیا ہم پہلے ایسے کام نہیں کرتے تھے جو قانون کے اندر ہوں.کیا پہلے ہم ایسے کام نہیں کرتے تھے جو شریعت کے ماتحت ہوں اور جن میں روایات سلسلہ کا احترام مد نظر ہو.اگر سب کچھ کرتے تھے تو اس میں نئی بات کونسی ایسی پیدا ہو گئی تھی جس پر انہیں حیرت ہوئی.نئی چیز جو پیدا ہوئی ہے وہ صرف آرگنائزیشن (ORGANIZATION) اور نظام ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ یہ نظام میں نے دوغرضوں سے قائم کیا ہے ایک تو اس لئے کہ سرکاری ملازم اس میں سے نکل جائیں اور دوسرے اس لئے کہ ایسے ” با اصول نکل جائیں.پس ایک طرف تو میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی کی تا کہ ملک میں بددیانتی کی روح پیدا نہ ہو اور دوسری طرف اس میں شمولیت کو اختیاری رکھ کر اس قسم کے لوگوں کو دور رکھنا چاہا جو جماعت کے ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ میرا خیال تھا وہ کہہ دیں گے یہ مذہبی انجمنیں تو ہیں نہیں، ان میں شامل ہونا کیا ضروری ہے چلو چھٹی ہوئی.مگر انہوں نے خواہ مخواہ دخل دے دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ پالیٹکس (POLITICS) میں دخل دیا گیا تو جماعت تباہ ہو جائے گی.مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس سے پہلے پالیٹکس میں دخل نہیں دیتے تھے.کیا سائمن کمیشن کی رپورٹ پر میں نے تبصرہ نہیں لکھا کیا نہر ور پورٹ پر تبصرہ میں نے نہیں کیا پھر کیا عدم تعاون کی تحریک کے دوران میں نے اس موضوع پر ایک کتاب نہ لکھی.کیا کانگرس کے متعلق جماعت نے ہمیشہ ریزولیوشنز پاس نہیں کئے اور کیا سلسلہ احمدیہ پر جب بھی کوئی حملہ ہوا، اس کے ازالہ کے لئے ہماری جماعت نے کوششیں نہیں کیں؟ یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر اس وقت اس مقصد کے لئے علیحدہ انجمنیں نہیں تھیں اور تمام جماعت کا ان امور میں دخل دینا میں نے اس لئے جائز رکھا کہ وہ کام گورنمنٹ کی بہبودی سے تعلق رکھتا تھا اور گورنمنٹ کی بہبودی کے متعلق جو تحریکات جاری کی جائیں انہیں کسی صورت میں نہیں روکا جا سکتا.اسی لئے ایک دفعہ جب میں نے لارڈ ارون (LORD IRWIN) سے

Page 78

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء شکایت کی کہ آپ کے بعض افسر ایسے ہیں جو کانگرس کے مخالف حصہ لینے والوں کو بھی سزائیں دیتے اور اس کا نام پالیٹکس میں دخل دینا قرار دیتے ہیں.تو میرے اس کہنے پر گورنمنٹ نے ایک خاص سرکلر جاری کیا جس میں وضاحت کی کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سیاسیات میں حصہ نہ لو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے خلاف سیاست میں حصہ نہ لو ورنہ گورنمنٹ کی تائید میں سیاست میں حصہ لینا کوئی جرم نہیں.پس چونکہ اس سے پیشتر ہم گورنمنٹ کا اپنا کام کرتے رہے ہیں اسلئے علیحدہ انجمنوں کی ضرورت نہیں تھی مگر اس موقع پر گورنمنٹ کے بعض کا موں پر نکتہ چینی کی جانی تھی اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اب علیحدہ سیاسی انجمنیں بنالی جائیں اور جہاں ملازموں کو الگ کر دیا جائے ، وہاں.ایسے بے اصولوں کو بھی شامل نہ کیا جائے.یہ بے اصولے لوگ بھی دنیا میں کبھی کوئی کام کیا کرتے ہیں.کام تو وہ کیا کرتے ہیں جو دیوانے ہوں ورنہ یہ تو جتنے زیادہ پرے رہیں اتنی ہی جماعت کو تقویت حاصل ہو.غرض جو کام اب کیا جائیگا جماعت پہلے بھی یہ کام کرتی رہی ہے جیسے گورنمنٹ کی طرف سے جب کانگرس کے جتھوں پر مار پیٹ شروع ہوئی اور بعض جگہ ظلم ہونے لگا تو میں نے بحیثیت امام جماعت احمد یہ حکومت کو توجہ دلائی کہ یہ امر گورنمنٹ کو بدنام کرنے والا اور کانگرس سے لوگوں کو ہمدردی پیدا کر دینے والا ہے.میرے اس توجہ دلانے پر لارڈ ارون نے مجھے لکھا کہ آپ اپنی جماعت کا ایک وفد اس امر کے متعلق تفصیلی مشورہ دینے کے لئے بھیجیں اور انہوں نے سر جافری سابق گورنر پنجاب کو تاکید کی کہ ان کی باتوں کو غور سے سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے چنانچہ ہمارا وفد گیا اور انہوں نے نہایت خوشی سے ہماری باتوں کو سنا اور اس کے بعد سر جافری نے مجھے شکریہ کی ایک لمبی چٹھی اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجی.میں نے اس وقت انہیں یہی بتایا تھا کہ آپ بغیر بدنام ہوئے کانگرس کے اثر سے لوگوں کو بچا سکتے ہیں یہ ایک سیاسی بات تھی مگر ہم نے اس وقت اس میں دخل دیا.پس سیاسی کاموں میں ہم پہلے بھی حصہ لیتے رہے ہیں اور اب بھی لیں گے.فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس کام کی تمام جماعتوں کو اجازت تھی مگر اب چونکہ جوش کا وقت ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ جولوگ قربانی کے لئے تیار نہ ہوں وہ شامل نہ ہوں اور جو تیار ہوں انہیں شامل کر لیا جائے اور اس طرح میری غرض یہ تھی کہ ایک تو سرکاری ملازم اس میں سے نکل جائیں دوسرے اس قسم کے بے اصولے شامل نہ ہوں.پس یہ لوگ تو پہلے ہی آزاد تھے اور انہیں کسی نے مخاطب ہی نہیں کیا تھا پھر نہ معلوم انہیں خود بخود

Page 79

خطبات محمود ۷۴ سال ۱۹۳۵ء کیوں فکر ہونے لگا.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جنگل میں کوئی لومڑی بھاگی جارہی تھی کسی شخص نے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ اس طرح جلدی سے کیوں بھاگی جاتی ہو.وہ کہنے لگی بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ جس قدر اونٹ ہیں وہ پکڑ لئے جائیں.وہ کہنے لگا تو پھر تمہیں کیوں فکر ہے پکڑے تو اونٹ جائینگے تم کیوں بے تحاشا بھاگی جارہی ہو وہ کہنے لگی کیا معلوم بادشاہ کے سپاہی مجھے اونٹ سمجھ کر پکڑ کر لے جائیں.تو ہم نے اونٹوں کے پکڑنے کا حکم دیا تھا لومڑیوں کے پکڑنے کا حکم تو دیا ہی نہیں تھا خواہ مخواہ ان کے گھبرانے کے کیا معنی ہیں.پھر جس قسم کی سیاست میں حصہ لینے کا میں نے اپنی جماعت کو حکم دیا ہے حکومت کے وزراء بھی اس میں حصہ لیتے رہتے ہیں.چنانچہ مسلم لیگ اور مسلم کا نفرنس میں ہمیشہ حصہ لیا جاتا ہے.پنجاب سے سر فیروز خان نون، یو.پی سے نواب محمد یوسف خان صاحب اور بنگال سے ناظم الدین صاحب جو پہلے منسٹر تھے مگر اب گورنمنٹ کے ممبر مقرر ہو گئے ہیں، ہمیشہ مسلمانوں کی سیاسیات میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح ہند و منسٹر بھی حصہ لیتے ہیں.تو جس قسم کی سیاسیات تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کا میں نے حکم دیا ہے اس میں غیروں کا تو کیا ذکر گورنمنٹ کے وزراء بھی حصہ لیتے ہیں بلکہ گورنمنٹ کا قانون خود اس کی اجازت دیتا ہے.پھر اس میں غضب ہونے کا سوال ہی کونسا پیدا ہوتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی روٹی کھا تا جائے اور کہتا جائے غضب ہو گیا سر کار مجھے پکڑ نہ لے.مجھے اس پر لطیفہ یاد آ گیا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے پاس ایک بزرگ نے جو موجودہ زمانہ کے علماء میں سے ایک بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے، میں ان کا نام نہیں لیتا عربی زبان سے مس رکھنے والے انہیں جانتے ہیں ، شکایت کی کہ میرالڑ کا پڑھتا نہیں اور یہ میرے لئے بہت بڑی بدنامی کا موجب ہے کیونکہ میرا تمام ہندوستان میں شہرہ ہے اور اگر میرا لڑکا ہی جاہل ہو ا تو یہ بڑی شرم کی بات ہے آپ اُسے نصیحت کریں کہ وہ پڑھے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ میں نے اس لڑکے کو بلایا اور نصیحت کی تو وہ کہنے لگا میں گھاس کھو د لونگا مگر پڑھوں گا نہیں.آخر جب بہت پوچھا کہ آخر تجھے ہوا کیا ہے تو کہنے لگا والد صاحب کہتے ہیں کہ عربی پڑھو اور میں عربی کو موت سے بدتر سمجھتا ہوں.مجھے انگریزی پڑھا ئیں تو مجھے پڑھنے میں کوئی عذر نہیں مگر عربی تو میں ہرگز نہیں پڑھوں گا.آپ فرماتے میں نے اسے پھر نصیحت کی کہ عربی زبان سے تمہیں اتنی نفرت کیوں ہے دین کا اکثر علم عربی میں ہی ہے.پڑھ لو گے تو دینیات سے واقف ہو جاؤ گے.وہ کہنے لگا میں کیا بتاؤں

Page 80

خطبات محمود ۷۵ سال ۱۹۳۵ء آپ جانتے ہیں میرے والد صاحب اگر چہ غریب ہیں مگر سارے ہندوستان میں ان کا شہرہ ہے، بڑے بڑے عالم ان کے شاگرد ہیں، انہوں نے عربی پڑھی مگر انگریزی نہ پڑھی.ایک دفعہ یہ ریل پر سوار ہونے گئے اور تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لیا.اس زمانہ میں قریبا سب ہی لوگ تھرڈ کلاس میں سوار ہوتے تھے اور مولوی تو کسی صورت میں انٹریا سکینڈ کلاس میں نہیں بیٹھتے تھے.ان سے غلطی یہ ہوئی کہ چونکہ انہیں پتہ نہ تھا تھرڈ کلاس کا کمرہ کونسا ہے اور سکینڈ کا کونسا ، یہ غلطی سے ایک فسٹ یا سیکنڈ کلاس کے کمرہ کے پاس کھڑے ہو گئے اور اندر بیٹھنے لگے اتفاقاً وہاں ایک ٹکٹ کلکٹر آ گیا اس نے جب دیکھا کہ یہ بظاہر معمولی حیثیت کا آدمی سکینڈ کلاس میں بیٹھنے لگا ہے تو کہنے لگا ٹکٹ دکھاؤ انہوں نے ٹکٹ دکھایا تو تھرڈ کلاس کا تھا وہ کہنے لگا دیکھتا نہیں یہ کمرہ سیکنڈ کا ہے اور ٹکٹ تھرڈ کلاس کا ہے.ٹکٹ کلکٹر کا اتنا کہنا ہی تھا کہ والد صاحب کا رنگ فق ہو گیا اور وہ اسٹیشن چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ڈر کے مارے آدھ میل تک بھاگتے چلے گئے حالانکہ اگر ٹکٹ کلکٹر نے انہیں کچھ کہہ دیا تھا تو انہیں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی.مجھے اس دن سے معلوم ہو گیا کہ یہ انگریزی نہ جاننے کی سزا ہے اور میں نے عہد کر لیا کہ چاہے یہ مجھے قتل کر دیں، ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، میں نے عربی نہیں پڑھنی.پڑھنی ہے تو انگریزی ہی پڑھونگا.نہیں تو گھانس کھود کر گزارہ کرلوں گا.تو اسی قسم کا ڈر ان لوگوں کا بھی ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ سیاست میں حصہ لیں تو اس سے کیا غضب ہو جائے گا.اگر میں یہ کہتا ہوں کہ اٹھو اور گورنمنٹ کے خلاف شورش اور فساد کرو اور کانگرس میں شامل ہو جاؤ تب بھی ان کیلئے ڈرنے کی کوئی بات نہ تھی کیونکہ حکومت تمام کا نگرسیوں کو نہیں پکڑتی بلکہ انہیں گرفتار کرتی ہے جو پکٹنگ کرتے یا بائیکاٹ کرتے ہیں ورنہ کھلے بندوں کا نگری پھرتے ہیں اور گورنمنٹ کا کوئی قانون انہیں گرفتار نہیں کر سکتا.پس اگر میں یہ بھی کہہ دیتا کہ کانگرس میں شامل ہو جاؤ تب بھی ڈرنے کی کوئی بات نہیں تھی ہاں اگر میں یہ کہتا کہ پکٹنگ کرو یا نمک بناؤ یا سول ڈس او بیڈ ٹینس (CIVIL DISOBEDIENCE کا ارتکاب کرو تو بے شک وہ گھبرا اسکتے تھے لیکن کہا تو میں نے وہ جس سے زیادہ گورنمنٹ کے منسٹر کرتے رہتے ہیں اور ڈرنے یہ لگ گئے.بلکہ منسٹر تو صرف قانون دیکھتے ہیں اور میں نے کہا کہ شریعت کی بھی پابندی کرو جس میں قانون سے زیادہ امور کا خیال رکھنا پڑتا ہے.پھر میں نے یہ بھی کہا ہے کہ سلسلہ کی روایات کا احترام مد نظر رکھو اور اس طرح بھی کئی قسم کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں.پس جو منسٹر کام کرتے ہیں جب ان سے بہت زیادہ شرطیں میں نے اپنی

Page 81

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء جماعت پر لگا دی ہیں تو پھر ان کے دل کیوں دھڑ کنے لگ گئے.لیکن میں فرض کر لیتا ہوں کہ ہماری ہر قسم کی احتیاط کے باوجود پھر بھی گورنمنٹ ہماری جماعت کے افراد کو پکڑنے لگ جائے تو اس صورت میں بھی ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ کانگرس سے بڑھ کر تو تم نے شور نہیں مچانا تھا اور اگر کانگرس کے تمام افراد شور مچانے کے باوجود پکڑے نہیں جاتے یا بعض پکڑے جاتے ہیں اور وہ نہیں گھبراتے تو تمہارے گھبرانے کی کیا وجہ تھی.لیکن میں فرض کر لیتا ہوں کہ کوئی ایسا ظالم حاکم بھی ہو کہ باوجود اس کے کہ تم قانون کی پابندی کرو، شریعت کی پابندی کرو، سلسلہ کی روایات کو ملحوظ رکھو، پھر بھی وہ تمہیں گرفتار کر لے تو اس پر بھی تمہیں بالکل ڈرنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ اس صورت میں تم حق پر ہوتے اور وہ ناحق پر اور حق پر ہوتے ہوئے قید و بند تو فخر کی بات ہوتی ہے نہ کہ گھبرانے کی.دیہات میں اس قسم کی مثالیں بعض دفعہ نظر آ جاتی ہیں کہ کسی شخص سے دشمنی ہو اور وہ گاؤں کے پاس سے بھی گزرے تو لوگ اسے پکڑ لیتے اور اس پر جھوٹا مقدمہ کھڑا کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ چور بن کر آیا تھا اور جھوٹی گواہیاں دے کر اسے سزا دلا دیتے ہیں.پس اول تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی ایسا ظالم حاکم ہولیکن فرض کر لو کہ قانون کی پابندی ، شریعت کی پابندی اور سلسلہ کی روایات کی پابندی کرنے کے باوجود پھر کوئی افسر تمہیں پکڑ لیتا ہے، جھوٹا مقدمہ کھڑا کر دیتا ہے جھوٹی گواہیاں لوگ دینی شروع کر دیتے ہیں اور وکلاء کی کوششیں بھی ناکام رہتی ہیں اور تمہیں سزا ہو جاتی ہے تو پھر بھی کیا ہوا.حضرت مسیح علیہ السلام کو تو دشمنوں نے صلیب پر لٹکا دیا تھا تم کونسے ایسے مقدس ہو کہ تمہیں کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے مگر میں جانتا ہوں اصل غرض معترضین کی سلسلہ کا مفاد نہیں.چنانچہ انہی معترضین میں سے ایک کو باہر تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا مگر وہ چار سال تبلیغ کی بجائے سیاسیات میں ہی گزار کر واپس آ گیا.اب وہی شخص ہماری جماعت کے سیاست میں دخل دینے پر اعتراض کر رہا ہے اور اعتراض بھی کس بھونڈے طریق سے کیا ہے کہ خط کے آخر میں اس نے لکھ دیا میں سمجھتا تھا کہ آپ کو قادیان کے حالات سے آگاہ کر دوں تا میں خدا تعالیٰ کے حضور ان باتوں کو چھپانے کی وجہ سے گنہگار نہ ٹھہروں.گویا اس نے مجھے اتنا بیوقوف سمجھ لیا کہ میرے اس خطبہ پر اعتراض کرنیکے بعد جس میں میں نے ساری جماعت کو مخاطب کیا ہے اس کے آخر میں یہ لکھ دینے سے کہ میں قادیان کے حالات سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں میں سمجھ لوں گا کہ گویا وہ قادیان کے حالات سے مجھے اطلاع دے رہا ہے اور اس کی نیت مجھ پر

Page 82

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اعتراض کرنا نہیں.میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ یہ تینوں شخص جنہوں نے اعتراض کئے مخلص ہیں ، منافق ہرگز نہیں.مگر ان تینوں کے دماغ کی گل بگڑی ہوئی ہے.میں انہیں منافق قرار نہیں دیتا بلکہ مخلص سمجھتا ہوں مگر میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ ان تینوں کی دماغی گلیں بگڑی ہوئی ہیں.انہی میں سے ایک کی مجلس میں ہمیشہ نظام سلسلہ کے خلاف باتیں ہوتی رہتی ہیں اور ہمیشہ میرے پاس رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں مگر اس خیال سے میں رکا رہتا ہوں کہ یہ مخلص شخص ہے صرف دماغی بناوٹ کی وجہ سے معذور ہے.تیسرا شخص بھی اسی قسم میں سے ہے اس کے حالات میں سے ایک موٹی مثال میں پیش کرتا ہوں جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ واقعی اس کی دماغی حالت میں نقص ہے.جب درد صاحب کے ولایت جانے پر یہاں کچھ شورش ہوئی اور لڑکوں سے غلطیاں ہوئیں اور میں نے لڑکوں کو ڈانٹا تو اس پر اس نے درد صاحب کو ایک چھٹی لکھی کہ میں آپ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ کی براءت ہوئی مگر آپ خلیفہ کی خوشنودی کا خیال نہ رکھا کریں بلکہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں.اس نادان سے کوئی پوچھے کہ کیا خلیفہ کی خوشنودی کا خیال رکھنا خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے خلاف ہو ا کرتا ہے.اگر خلیفہ کی خوشنودی ضروری نہیں تو خدا تعالیٰ نے خلافت کو قائم ہی کس لئے کیا ہے.اگر مجھے اس شخص کے اخلاص کا خیال نہ ہوتا تو میں اس تحریر کو بدترین نفاق قرار دیتا کیونکہ منافق کی بھی یہی چال ہوتی ہے کہ وہ بدی کی تحریک نیکی کے پردہ میں کیا کرتا ہے.میں ان لوگوں کے اسی قسم کے بیسیوں واقعات جانتا ہوں اور بتا سکتا ہوں کہ وہ خود مجرم ہیں اور ان کی مثال انہی لوگوں کی سی ہے جن کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے کہ وہ جب رسول کریم ﷺ کی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تو ایک دوسرے سے کہتے مَاذَا قَالَ انا.اس نے ابھی کیا بات کہی ہے.یہ لوگ نہ میری باتوں کو غور سے سنتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں اور ہمیشہ جوش یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بات پر کچھ اعتراض کریں چونکہ اس قسم کے لوگوں کی باتوں سے سادہ لوح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ جب کبھی ایسے شخصر سے گفتگو کا انہیں موقع ملے وہ فور الاحول پڑھیں اور سمجھیں کہ یہ شیطان کا حربہ ہیں.ممکن ہے ان میں سے بعض کے دل میں بھی اخلاص نہ ہو لیکن چونکہ مجھے یہی یقین ہے کہ یہ لوگ خلافت کے مخالف نہیں نہ میرے ذاتی مخالف ہیں بلکہ سلسلہ سے اخلاص رکھتے ہیں اور جوغلطی انہوں نے کی ہے یا پہلے کرتے

Page 83

خطبات محمود ۷۸ سال ۱۹۳۵ء رہے ہیں ، وہ ایک حد تک طبیعت کی افتاد کی وجہ سے ہے اس لئے بجائے کوئی اور قدم اٹھانے کے میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کے سامنے جب یہ لوگ اس قسم کی باتیں کریں تو فوراً اغوڈ اور لا حول پڑھکر ان کی مجلس سے اٹھ جائیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسی طرح چند روز ان کے سامنے اَعُوذُ اور لَا حَول پڑھا جائے تو کچھ تعجب نہیں کہ ان کی اصلاح ہو جائے.دوستوں کی غفلت ہوتی.ہے کہ وہ سمجھتے ہیں یہ ہمارا بھائی ہے اس لئے جو کچھ یہ کہتا ہے اسے ہمیں سننا چاہئے.وہ یہ نہیں خیال رکھتے کہ خلیفہ اور سلسلہ کا رشتہ ان سے زیادہ گہرا ہے.کیا کوئی بھائی کی خاطر باپ اور ماں کو قربان کیا کرتا ہے.پس انہیں چاہئے کہ وہ نظام سلسلہ کے خلاف باتیں سنکر فوراً چوکس ہو جائیں اور کہنے والے سے کہہ دیں کہ مجھے پتہ نہیں تھا آپ کو شیطان نے اپنا آلہ کار بنایا ہوا ہے میں آپکی مجلس میں بیٹھنا نہیں چاہتا.مجھے ان لوگوں کو ڈھیل دیتے دیتے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے اور اب بھی میں انہیں کچھ نہیں کہتا مگر میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سوچیں ان کا اپنا طریق عمل کیا ہے انکی اپنی تو یہ حالت ہے کہ وہ اس بات پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں کہ ہمیں فلاں عہدہ کیوں نہیں دیا گیا.فلاں کیوں دیا گیا.فلاں کے ماتحت ہم رہنا نہیں چاہتے.کبھی تنخواہ پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں.یہ تمام باتیں جتلاتی ہیں کہ ان کے دماغ کی گل بگڑی ہوئی ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اگر بُرا بھلا کہا جائے تو انہیں غصہ نہیں آتا لیکن اپنی کوئی بات ہو تو جھگڑے بغیر رہ نہیں سکتے.میں متکبر نہیں اور نہ مجھے ظاہری علوم کے حاصل ہونے کا دعویٰ ہے مگر جو علم خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اس کے ماتحت میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں اپنی نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کر رہے ہیں اور اگر یہ تو یہ نہیں کریں گے تو کسی دن کوئی ایسی ٹھو کر انہیں لگے گی جس کے نتیجہ میں ان کا سارا اخلاص جاتا رہے گا.آخر وجہ کیا ہے کہ دنیا جہان کے تمام اعتراض انہی پر کھولے جاتے ہیں اور جو بات ان کے ذہن میں آتی ہے وہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آتی لیکن کسی شعبہ میں کسی پائیدار خدمت کا موقع انہیں نہیں ملتا.انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سلسلہ کے تمام کام تو خدا تعالیٰ مجھ سے لے لیکن میری غلطیوں سے ہمیشہ انہیں آگاہ کرے.اللہ تعالیٰ اس قسم کی تقسیمیں نہیں کیا کرتا.

Page 84

خطبات محمود ۷۹ سال ۱۹۳۵ء پس میں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تو بہ کریں ورنہ میرے ہاتھوں یا خدا تعالیٰ کے ہاتھوں کسی دن ان پر ایسی گرفت ہوگی کہ رہا سہا ایمان ان کے ہاتھوں سے بالکل نکل جائے گا.الفضل ۵ //فروری ۱۹۳۵ء) مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فى فضل سعد بن ابی وقاص ترمذی کتاب الايمان باب ما جاء فيمن يموت وهو يشهد ان لا اله الا الله سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۵ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ء وَاذْكُنتَ فِيْهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلوةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُونُوا مِنْ وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَى لَمُ ,ج يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ وَلْيَا خُذُوا حِدْ رَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ وَذَا الَّذِينَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُمْ مَّيْلَةٌ وَاحِدَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَّطَرٍ أَوْ كُنتُمْ مَّرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (النساء:١٠٣) b تاريخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۵۰ مطبوعه بیروت ۱۹۶۵ء.1 لارڈارون Irwin Lord).بعد میں لارڈ ہیلی فیکس (Halifax).انگریز سیاستدان.اس کا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے تھا.۱۹۱۰ ء تا ۱۹۲۵ء پارلیمنٹ کا رکن رہا.۱۹۲۶ ء تا ۱۹۳۱ء وائسرائے ہند رہا.۱۹۳۸ ء تا ۱۹۴۰ء سیکرٹری خارجہ رہا.۱۹۴۴ء میں اسے ارل بنادیا گیا.اس دوران وہ امریکہ میں برطانیہ کا سفیر رہا.۱۹۴۶ ء میں اسے آرڈر آف میرٹ کا اعزاز ملا اس نے میونخ پیکٹ کی گفت وشنید میں بڑا حصہ لیا.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحہ ۹۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ ء + اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۸۸۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ک محمد :۱۷

Page 85

خطبات محمود ۸۰ سال ۱۹۳۵ء مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں (فرموده یکم فروری ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.چونکہ پچھلے خطبہ میں دیر ہو جانے کی وجہ سے مجھے اختصار کرنا پڑا تھا اس لئے بعض حصے چھوڑنے پڑے تھے جن حصوں کے ٹکڑے میں نے بیان کر دیئے تھے ان کے بقیہ حصوں کے بیان کی تو ضرورت نہیں لیکن ایک حصہ بالکل چھوٹ گیا تھا اور میں سمجھتا ہوں باہر سے خطوط جو آئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا ضروری ہے اور میں آج اس حصہ کے متعلق بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جو شاید - ۴ جنوری کو پڑھا تھا ذکر کیا تھا کہ بعض دوستوں کو ایسے رویا ہوئے ہیں جن کی بناء پر وہ شبہ کرتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کے نزدیک میرے کام کا وقت پورا ہو چکا ہے اور وہ رویا میری وفات پر دلالت کرتے ہیں.اسی سلسلہ میں میں نے بعض اپنے رویا بھی بیان کئے تھے اور گوان میں وضاحت ایسی باتوں کی نہ تھی لیکن ان میں اشتباہ کا رنگ تھا اور خیال کیا جا سکتا ہے کہ گوان ایام میں جن میں لوگوں کو شبہ تھا یہ بات نہ ہو مگر ان کے بعد کے قریب کے ایام میں کوئی بات ایسی ہونے والی ہو کیونکہ فرشتہ کا چھپانا ایسا شبہ پیدا کر سکتا ہے اس پر باہر سے بعض دوستوں کے

Page 86

خطبات محمود ΔΙ سال ۱۹۳۵ء خطوط آئے ہیں جو میرے ساتھ اس قسم کے اخلاص کے اظہار پر مشتمل ہیں اور ان میں ایسا رنگ محبت کا پایا جاتا ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ ان کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں.ان میں جو خالی محبت اور اخلاص ہے اس کے متعلق میں کیا اظہار خیالات کر سکتا ہوں.ہر شخص اپنے اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ سے جزاء پاتا ہے.جسے لِلهِ فِی اللہ میرے ساتھ محبت کا تعلق ہوگا یقیناً وہ اپنے اخلاص کے مطابق اس کی جزاء پائیگا اس لئے اس کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں لیکن بعض دوستوں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ یہ امر ایک مذہبی مسئلہ بن جاتا ہے اور اس لئے میں اس کے متعلق کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں.وہ خیال یہ ہے کہ بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیاں آپ کے متعلق ہیں اور جب ہم ان پیشگوئیوں کو درست مانتے ہیں تو یہ کس طرح سمجھ لیں کہ آپ کی وفات اسی زمانہ میں ہونے والی ہے اور گوان خوابوں کی بناء پر کوئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی وفات کب ہو گی لیکن اس زمانہ میں اس کا امکان بھی ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں.اور میں آج اس امر کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں کہ خوابوں کا کیا مقصد ہوتا ہے اور پیشگوئیاں کس طرح مشروط ہوتی ہیں.پہلی بات اس کے متعلق یہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی کی موت کے متعلق خواب کی یقینی تعبیر یہی نہیں ہوتی کہ وہ فوت ہو جائے گا کیونکہ رویا میں موت دیکھنے کے کئی معنی ہوتے ہیں موت کے معنی زندگی کی طوالت بھی ہوتی ہے جب کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ کوئی شخص فوت ہو گیا ہے تو کبھی اس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی عمر دراز ہوگی اگر کوئی دیکھے کہ کوئی قتل ہو گیا ہے تو اس کے معنی بسا اوقات یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو یقین اور وثوق کا درجہ حاصل ہوگا.قتل بعض دفعہ یقین کامل اور ایمانِ کامل پر دلالت کرتا ہے اور کبھی موت کے معنی تعلق باللہ کے ہوتے ہیں.صوفیاء کا مشہور قول ہے کہ مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوَال.یعنی مرنے سے پہلے مر جاؤ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفسوں کو کچل دو، نیکی تقومی پیدا کر لو، تو موت سے پہلے انسان پر جو موت آتی ہے یعنی جذبات کا مارنا وہ بھی موت ہی کہلاتی ہے.اس لحاظ سے موت کی تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے نفس کی ایسی اصلاح کا موقع دے جو مُؤتُوا قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا کے مطابق موت کہلا سکے.پھر قتل کے معنی قطع تعلق کے بھی ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب صحابہ میں خلافت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا ،

Page 87

خطبات محمود ۸۲ سال ۱۹۳۵ء انصار کا خیال تھا کہ خلافت ہمارا حق ہے ہم اہلِ بلد ہیں کم سے کم اگر ایک مہاجرین میں سے خلیفہ ہو تو ایک انصار میں سے ہو ، بنو ہاشم نے خیال کیا کہ خلافت ہمارا حق ہے رسول کریم ﷺ ہمارے خاندان سے تھے اور مہاجرین گو یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ قریش سے ہونا چاہئے کیونکہ عرب لوگ سوائے قریش کے کسی کی بات ماننے والے نہ تھے مگر وہ کسی خاص شخص کو پیش نہ کرتے تھے بلکہ تعین کو انتخاب پر چھوڑ نا چاہتے تھے مسلمان جسے منتخب کر لیں وہی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ سمجھا جائے گا.جب انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تو انصار اور بنو ہاشم سب ان سے متفق ہو گئے مگر ایک صحابی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی.یہ وہ انصاری صحابی تھے جنہیں انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے تھے اس لئے شاید انہوں نے اس بات کو اپنی ہتک سمجھایا یہ بات ہی ان کی سمجھ میں نہ آئی اور انہوں نے کہہ دیا کہ میں ابوبکر کی بیعت کے لئے تیار نہیں ہوں.حضرت عمرؓ کا اس موقع کے متعلق ایک قول بعض تاریخوں میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا اقْتُلُوا سعدا یعنی سعد کو قتل کر دو.لیکن نہ انہوں نے خود ان کو قتل کیا نہ کسی اور نے.بعض ماہر زبان لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی مراد صرف یہ تھی کہ سعد سے قطع تعلق کر لو.بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت سعد باقاعدہ مسجد میں آتے تھے اور الگ نماز پڑھ کر چلے جاتے تھے اور کوئی صحابی ان سے کلام نہ کرتا تھا پس قتل کی تعبیر قطع تعلق اور قوم سے جُدا ہونا بھی ہوتی ہے اور ان معنوں کے لحاظ سے میرے متعلق جو خواب دوستوں کو آئے وہ پورے بھی ہو چکے ہیں.آج مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ہمارا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کی تعبیر کے لحاظ سے یہ خواب پورے ہو چکے اور ہمیں انتظار کی بھی ضرورت نہیں.پس قتل اور موت کی تعبیریں مختلف ہوتی ہیں اور صرف ایک ہی تعبیر ایسی رؤیا کی نہیں ہوتی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا ضروری یہی مطلب ہے اور یہ نہیں ہے.کبھی موت کے معنی موت کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی اور میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں دفعہ رویا میں دیکھا ہے کہ بعض دانت گر گئے ہیں اور عام طور پر اگر دیکھا جائے کہ دانت گر کر مٹی میں مل گئے ہیں تو اس کی تعبیر موت ہی ہوتی ہے لیکن اگر دیکھا جائے کہ مٹی میں نہیں ملے اور ہاتھ میں یا کسی اور محفوظ جگہ میں ہیں اور صاف ہیں تو اسکی تعبیر لمبی عمر ہوتی ہے کیونکہ دانت عام طور پر لمبی عمر میں ہی گرتے ہیں.خدا کی قدرت ہے کہ ادھر تو ایسے رویا ہوئے اور ادھر گزشتہ چند دنوں کی بات ہے میرے دانتوں میں ایسا شدید درد ہوا کہ جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اس

Page 88

خطبات محمود ۸۳ سال ۱۹۳۵ء سے دانت ہلنے لگ گئے اور میں نے سمجھا کہ شاید اسی طرح بیماری سے دانت گر کر وہ خواب پوری ہو جائے گی اور اس کے معنی لمبی عمر کے نہیں ہوں گے مگر دوسرے تیسرے دن وہ پھر اپنی جگہ قائم ہو گئے.تو تعبیر میں ایسے رنگ میں ہوتی ہیں کہ کوئی شخص قبل از وقت نہیں کہہ سکتا کہ خواب کس رنگ میں پورا ہو.پھر میں نے اس کا اظہار کیوں کیا یہ میں آگے چل کر بیان کروں گا لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ خواب کے ساتھ جب تک علامتیں ایسی نہ ہوں یا واضح طور پر بتا نہ دیا جائے کسی ایک معنی پر حصر نہ کرنا چاہئے مثلاً اگر ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کے دانت گر گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایسی علامتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں یا الہا ماً اسے بتا دیا جاتا ہے کہ عمراب ختم ہے تو بے شک اس خواب کی تعبیر یہی سمجھی جائے گی لیکن اگر یہ نہ ہو تو صرف دانت گرنے سے یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موت واقع ہو نیوالی ہے.تو بعض جگہ کوئی ایسی بات آجاتی ہے جو اسے قطعی بنادیتی ہے یا کوئی ایسی علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو رؤیا کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس نے انسان کو وسیع دائرہ سے نکال کر ایک چھوٹے دائرہ میں کھڑا کر دیا.مثلاً ایک انسان دیکھتا ہے کہ اس کے دانت گر گئے ، اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اس کا کوئی رشتہ دار فوت ہوگا، یہ بھی کہ لمبی عمر پائے گا اور گواب بھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس کا کوئی رشتہ دار فوت ہوگا یا وہ خود فوت ہوگا اور شبہ باقی رہتا تھا مگر احتمال محدود ہو گیا اور یہ پتہ لگ گیا کہ دو چار باتوں میں سے ایک ضرور ہے حالانکہ انسان کے ساتھ ہزاروں احتمالات لگے ہوئے ہیں اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ رؤیا کا کوئی فائدہ نہیں.ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ طاعون سے مرے گا اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قتل ہو گا.یہ بھی کہ اسے کھجلی کی بیماری ہو گی یہ بھی کہ اسے طاعون ہو گا اور یہ بھی کہ دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت اعتراض کرے گا مگر کیا سارے انسان ان چاروں باتوں میں سے ایک نہ ایک میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں.لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ چاروں باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی سینکڑوں نہیں ہوتیں.پس خواب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی مستقبل کو ہزاروں احتمالات کے دائرہ سے نکال کر چند احتمالات کے اندر محدود کر دیتی ہے پھر کبھی وہ تقدیر مبرم ہوتی ہے اور کبھی اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور بچاؤ کی تدابیر کرے مثلاً ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اسے بخار چڑھا ہے تو اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ احتیاط نہ کرے گا تو حالت ایسی ہے کہ ضرور

Page 89

خطبات محمود ۸۴ سال ۱۹۳۵ء بخار چڑھ جائے گا لیکن اگر کو نین کھالے تو ہو سکتا ہے کہ نہ چڑھے.پس بسا اوقات انسان کو حزم اور احتیاط سکھانے کے لئے بھی خواب آتے ہیں.ایک شخص کو رؤیا ہوتا ہے کہ تم مرجاؤ گے گواس کا مطلب یہی ہو کہ وہ مر جائیگا لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ موت اس کے موجودہ حالات کا نتیجہ ہوا اور اس کے لئے ان حالات کو بدل کر موت سے بچ جانا ممکن ہو.مثلاً وہ بیمار ہے اور پر ہیز کرے یا علاج کرائے تو بیچ جائے یا اگر دشمن کے حملہ سے موت کی خبر ہے اور وہ اس سے ہوشیار ہو جائے تو رویا کی تعبیر بھی بدل جائے غرض ہر رؤیا تقدیر مبرم نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ حالات ایسا چاہتے ہیں اور اگر حالات بدل جائیں گے تو تعبیر بھی بدل جائے گی.پس جن رؤیاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ حالات کے نتیجہ میں ایسا ہو سکتا ہے لیکن اگر احتیاط کرو ، دعائیں کرو اور صدقہ و خیرات کرو تو ممکن ہے خدا بدل دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان خوابوں کے وہ اچھے معنی ہوں جو میں نے پہلے بیان کئے ہیں.اب میں اس سوال کو لیتا ہوں جو بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رؤیا اور پیشگوئیاں آپ سے منسوب ہیں.پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کی اتنی عمر ہی ہو اور چونکہ بعض دشمنوں کی طرف سے ابھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سبز اشتہار والی پیشگوئی میرے متعلق نہیں اور کہ میں خود اس کے اپنے متعلق ہونے سے انکار کرتا ہوں اس لئے میں اس کے متعلق بھی کچھ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.یہ بات قطعاً غلط ہے کہ میں اس کے اپنے متعلق ہونے سے انکار کرتا ہوں میں جس بات کا انکار کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس پیشگوئی کو کسی مأمور کے متعلق سمجھا جائے یا یہ سمجھا جائے کہ جس کے متعلق یہ ہے اس کے لئے الہاماً ایسا دعویٰ کرنا لازمی ہے بعض باتوں کا بے شک الہاماً دعوی سے تعلق ہوتا ہے لیکن بعض کا ظاہری مادی حالات سے پتہ چل جاتا ہے کہ بات یوں ہے.کوئی شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز فوت ہو گیا.اب کیا ضروری ہے کہ اس کی وفات کے بعد دوسرے رشتہ دار الہا م دعوی کریں کہ خواب اسی کے متعلق تھا جو فوت ہو چکا.احادیث میں ریل گاڑی کے متعلق پیشگوئی ہے تو کیا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ریل الہاما اس کا دعویٰ کرے تب اس پیشگوئی کے اس کے متعلق ہونے کا یقین کیا جائے پس دعوئی اور وہ بھی الہاماً ضروری نہیں.اگر یہ ضروری ہوتا تو احادیث میں

Page 90

خطبات محمود ۸۵ سال ۱۹۳۵ء بے جان چیزوں کے متعلق پیشگوئیاں نہ ہوتیں.پس میں جو بات کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ضروری نہیں جس کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اسے اس کے متعلق الہام بھی ہوا اور پھر وہ دعوی کرے گو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ضروری ہے کہ الہام نہ ہو ممکن ہے ہو جائے لیکن ضروری نہیں.میں ابھی بچہ ہی تھا کہ حضرت خلیفہ اول کا خیال تھا کہ یہ پیشگوئی میرے متعلق ہے اور اس میں بہت سی باتیں ہیں جنہیں خدا نے میرے ذریعہ پورا کیا مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کا اکناف عالم میں پھیلنا مختلف قوموں کا سلسلہ میں داخل ہونا.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں گوانگلستان میں مشن قائم تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کو خواجہ صاحب زہر ہلاہل سے تعبیر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سم قاتل ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بات میرے ہی زمانہ میں پوری کی کہ آپ کا نام تمام دنیا میں پھیل گیا اور اب بیرونی ممالک میں ہزاروں کی جماعتیں ہیں اور مشن مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں.اس وقت ہندوستان سے باہر بیسوں مقامات پر جماعتیں ہیں جو سب میرے زمانہ میں قائم ہوئیں.سماٹرا، جاوا، سیلون ، ماریشس ، ٹرینیڈاڈ ، امریکہ کی جنوبی ریاستیں ، انگلستان، روس، شام، فلسطین، مصر، الجزائر، گولڈ کوسٹ، نائیجیریا، سیرالیون، ایران یہ سب نئی جماعتیں ہیں جو میرے زمانہ میں قائم ہوئیں.ان کے علاوہ بھی کئی دوسرے ممالک میں اکا دکا احمدی ہیں تو سوائے افغانستان کی جماعت کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قائم ہوئی.یا ایک دو آدمیوں کے جو عرب میں تھے باقی جتنی جماعتیں باہر ہیں وہ سب میرے زمانہ میں قائم ہوئیں اور خدا کے فضل سے میرے ہی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام چاروں طرف پھیلا.پھر کثرت جو اس زمانہ میں حاصل ہوئی اور جو نظام قائم ہوا وہ بھی غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے.جتنے آدمی آج میرے جمعہ میں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری جلسہ میں اس سے چوتھا حصہ جلسہ سالانہ میں تھے.قبر سے گز بھر ورے تک مسجد تھی اور جہاں میں کھڑا ہوں صرف یہاں سے وہاں تک آدمی تھے اور آپ بہت خوش تھے کہ ہماری جماعت پھیل گئی ہے مگر آج اس سے چار گناہ جمعہ میں ہیں.عورتیں اس کے سوا ہیں اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو چار گنے سے بھی زیادہ آدمی آج جمعہ میں ہیں اور غور کرو یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے پھر کوئی دن ایسا نہیں کہ جماعت میں اضافہ نہ ہو اور یہ ایسی بات ہے کہ بعض انگریزوں سے میں نے دوران گفتگو میں اس کا ذکر کیا تو وہ حیران رہ گئے.میری خلافت کے بیس سالہ عرصہ میں مجھے یاد

Page 91

خطبات محمود ۸۶ سال ۱۹۳۵ء نہیں کوئی دن بھی ایسا گزرا ہو جب کوئی شخص جماعت میں داخل نہ ہوا ہو.بعض دنوں میں تو بیسیوں سینکڑوں تک داخل ہوتے ہیں مگر ایک دو سے خالی دن تو کبھی نہیں ہوا.غور کرو کتنا لمبا عرصہ ہے، اکیسواں سال ختم ہونے والا ہے مگر ایک دن میری زندگی کا ایسا نہیں گزرا کہ کوئی احمدی نہ ہوا ہو.اول تو ڈاک میں ہی درخواست بیعت میں کبھی ناغہ نہیں ہو الیکن اگر ڈاک میں کوئی ایسا خط کبھی نہ آئے تو میں جب باہر نکلا تو مسجد میں ہی کسی نے بیعت کر لی.پس اللہ تعالیٰ نے میرے زمانہ میں جماعت کو غیر معمولی ترقی دی ہے اور پھر منتظم ترقی.جو لوگ آتے ہیں وہ ٹھہرتے ہیں استقلال دکھاتے ہیں اور ایک لڑی میں پروئے جاتے ہیں اور جماعت برابر بڑھتی جارہی ہے.پچھلی مردم شماری کے موقع پر مردم شماری کے افسر نے صوبہ سرحد کے متعلق سرکاری رپورٹ میں لکھا کہ جماعت احمد یہ چار گنا بڑھ گئی ہے اور اہلحدیث فرقہ کم ہو گیا ہے پس جماعت احمدیہ کی ترقی ایسے رنگ میں چلتی ہے کہ دوست دشمن سب کو حیرت میں ڈالتی جا رہی ہے.بیرونی ممالک میں بعض جگہ ہزاروں کی جماعتیں ہیں اور ان میں سے ایسے ایسے مخلص لوگ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے گزشتہ ہفتہ ہی امریکہ سے مجھے ایک چٹھی آئی ہے ، یورپ اور امریکہ کے لوگوں کی زندگی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہمارے ملک کے لوگوں کی ہے ، کھانے پینے پہننے اور رہائش میں وہاں کے غریب ایسے پُر تکلف ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں کے امیر.امریکہ میں غریبوں کی آمدنی تین چار سو روپیہ ماہوار ہے لیکن یہاں اگر کسی کی اتنی آمد ہو تو وہ زمین پر قدم نہیں لگنے دیتا.مگر وہاں کے غریب کا اتنا خرچ ہوتا ہے.ایسے ملک میں سمجھ لوکس قسم کی زندگی کے وہ لوگ عادی ہوں گے پھر وہ مذہبی پابندیوں سے بالا ہیں اور ایسے لوگوں میں اخلاص کا پیدا ہونا کس قدرخوشکن ہے.امریکہ کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے جو ٹھیک نہیں.میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس شخص نے ایسا کیا ہے یا نہیں ، اس جماعت نے ایسا لکھا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ ہمیں اس شخص کی بدسلوکی کی پرواہ نہیں ہم نے دین کو قبول کیا ہے اور اگر کوئی شخص ہم سے اچھا معاملہ نہیں کرتا تو اس سے احمدیت پر کیا اعتراض ہے.آپ کو صرف اس لئے لکھا ہے کہ چونکہ آپ ہمارے امام ہیں اس لئے لکھیں کہ اب ہمیں کس کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور کس سے دین سیکھیں.امریکہ کے رہنے والوں میں ایسا اخلاص حیرت انگیز ہے پھر وہاں مسٹر بار کر ایک وکیل ہیں ، امریکہ کی کسی فرم نے ایک

Page 92

خطبات محمود ۸۷ سال ۱۹۳۵ء تاریخی کتاب کا اشتہار دیا جو ان کے پاس بھی آیا اس کتاب کی قیمت بالا قساط ادا کرنی تھی ، وہ کئی جلدوں کی کتاب تھی ،مسٹر بار کرنے بھی کتاب کی خریداری منظور کر لی.جب کتاب ان کے پاس پہنچی تو اس میں بعض ایسی باتیں رسول کریم ﷺ کے متعلق درج تھیں جو پادری غلط طور پر یورپ میں شائع کرتے رہتے ہیں انہوں نے کتاب کا وہ حصہ دیکھا جو خلاف واقعہ اور ہتک آمیز تھا تو فوراً اس فرم کو خط لکھا کہ میں اس کتاب کی قیمت نہیں دونگا کیونکہ یہ کوئی تاریخی کتاب نہیں بلکہ محض کہانیوں کا مجموعہ ہے اور ہمارے ہادی اور راہنما محمد ﷺ کے متعلق اس میں سراسر غلط اور خلاف واقعہ باتیں درج ہیں اور میرا مقصد قیمت کی ادائیگی کے انکار سے یہ ہے کہ تم مجھ پر نالش کرو تا میں عدالت میں ثابت کر سکوں کہ واقعی محمد ﷺ کی ہتک کی گئی ہے.فرم والے بھی بھلا کب خاموش رہنے والے تھے انہوں ہمارے نے نالش کر دی.شکاگو کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا ، وہاں کی یونیورسٹی کے بعض پروفیسروں کی شہادت ہوئی، ے مبلغ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی کی بھی شہادت ہوئی اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ واقعی کتاب میں محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق غلط باتیں درج ہیں اور مسٹر بار کر کا حق ہے کہ اس کی قیمت ادانہ کرے.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ بیرونی ممالک میں جماعتیں عمدگی سے ترقی کر رہی ہیں اور یہ سب ترقی میرے ہی زمانہ میں ہوئی ہے اور جب کسی امر کے متعلق واقعات ظاہر ہو جائیں تو پھر اس میں شک کرنا تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کہتے ہیں کسی کو جنگ میں تیر لگ گیا وہ خون دیکھتا جائے اور کہتا جائے کہ خدایا! یہ خواب ہی ہو.پس جب سب باتیں میرے متعلق پوری ہو رہی ہیں تو میں مجبور ہوں کہ دعویٰ کروں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں مگر باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ پیشگوئیوں کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ممکن ہے میری عمر بہت لمبی ہو لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی پیشگوئیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.اگر اللہ تعالیٰ ہیں سال میں مجھ سے اتنا کام لے لے جو دوسرے سو سال میں کرتے ہیں تو پیشگوئی پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.پھر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ پیشگوئیوں کی ساری کیفیت اسی کی زندگی میں پوری ہونی ضروری نہیں جس کے متعلق کوئی پیشگوئی ہو.رسول کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئی ہے کہ ہم نے رسول کو بھیجا ہے تا اسلام کو گل ادیان پر غالب کر دیں.سے مگر اس کا اظہار آپ کے زمانہ میں نہیں ہوا بلکہ آپ کے بروز مسیح موعود کے زمانہ میں سارے ملکوں میں اسلام

Page 93

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء پھیلا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی جب آپ کے کسی شاگرد کے ذریعہ پیشگوئی پوری ہو تو وہ آپ کی سمجھی جائے گی.آج اگر خدا تعالیٰ میرے ذریعہ امریکہ و افریقہ میں اسلام کو پھیلاتا ہے تو یہ کام میرا نہیں مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور آپ کا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا ہے.قرآن آپ لائے اور وہ آپ کے ہی دلائل ہیں جو اشاعت کا باعث بنتے ہیں.پس قرآن کریم کی یہ رسول کریم ﷺ کے متعلق پیشگوئی تیرہ سو سال کے بعد پوری ہونی شروع ہوئی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ اب یہ پوری ہو جائے گی مگر با وجود اس کے خدا تعالیٰ کا کلام سچا ہے کیونکہ اس کا آپ کے ذریعہ پورا ہونا بھی آپ کا ہی کام ہے پس اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں میں میرے جو کام بتائے ہیں وہ ممکن ہے میرے ہاتھ سے ہی ہوں یا ممکن ہے میرے شاگردوں کے ہاتھوں سے ہوں اور اگر ایسا ہو تو بھی پیشگوئیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ اس کا ظہور مجھ سے ہوا یا نہیں اور جو شخص بھی اس بارہ میں غور کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ یہ ہو چکا ہے.قوموں کی رستگاری اور آزادی میرے ذریعہ ہوئی.احمدیت کی اشاعت ، نظام جماعت میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ، جماعت کی شدید مخالفتوں کے مقابل پر اس نے مجھے اولوالعزم ثابت کیا ، جب حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی وفات پر خطرناک فتنہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے دبانے کی توفیق دی ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ کم کرنے کی جو کوششیں پیغامیوں نے کیں ان کا کامیاب مقابلہ کرنے کی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور اس کے لئے ما فوق العاوت اور معجزانہ عزم مجھے بخشا اور اسطرح اولو العزم کی پیشگوئی میرے متعلق پوری ہوگئی پھر دوسری خلافت پر مجھے متمکن کر کے اللہ تعالیٰ نے فضل عمر والی پیشگوئی کو بھی پورا کر دیا.حضرت عمرؓ کی تلوار سے جس طرح اسلام کے دشمن گھائل ہوئے اسی طرح میرے دلائل کی تلوار سے ہوئے اور اس طرح بھی یہ پیشگوئی پوری ہوئی ، پھر جس طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مختلف بلاد میں اسلام پھیلا اسی طرح میرے زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کے نام اور اسکی شہرت کو دنیا کے کناروں تک پہنچادیا اور اس طرح بھی یہ پیشگوئی پوری فرما دی.پھر میرے ذریعہ جماعت کا نظام قائم کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری فرمائی وغیرہ وغیرہ.اب اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت چاہے کہ بقیہ حصے ان لوگوں کے ذریعہ پورے ہوں جو بچے طور پر میری بیعت میں شامل ہیں تو اس سے پیشگوئی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ

Page 94

خطبات محمود ۸۹ سال ۱۹۳۵ء رسول کریم ﷺ کے متعلق فرماتا ہے کہ اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ اگر آپ فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.جب صداقت کے ثبوت پورے ہو جائیں اور سب باتیں ظاہر ہو جائیں تو پھر کیا ابتلاء کا موقع رہ جاتا ہے پس یہ درست نہیں کہ عمر کی کمی سے پیشگوئی غلط ثابت ہوتی ہے جب بقیہ باتیں پوری ہو جائیں اور ایک اپنی سمجھ کے مطابق پوری نہ ہو تو اس کی تعبیر کرنی پڑے گی.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ضروری نہیں کہ موجودہ خوابوں کی تعبیر عمر کی کمی ہو لیکن اگر لفظی تعبیر بھی ہوتب بھی بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم نے دعا کی تو معلوم ہوا کہ آپ کی عمر بیس سال بڑھ گئی ہے اب کیا ممکن نہیں کہ کسی اور کی دعا سے تیں سال بڑھ جائے اور کسی اور کی دعا سے چالیس سال بڑھ جائے مگر میں کہتا ہوں کہ میرا کام سپاہی کی حیثیت رکھتا ہے میرا فرض یہی ہے کہ اپنے کام پر ناک کی سیدھ چلتا جاؤں اور اسی میں جان دیدوں.میرا یہ کام نہیں کہ عمر دیکھوں ، میرا کام یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھوں اور اسے پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اس یقین سے کھڑا ہوں کہ یہ مقصود ضرور حاصل ہو گا اور یہ کام پورا ہو کر رہے گا.یہ رات دن میرے سامنے رہتا ہے اور بسا اوقات میرے دل میں اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو میں دیوانہ ہو جاؤں.اس وقت ایک ہی چیز ہوتی ہے جو مجھے ڈھارس دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ میری یہ سکیمیں سب خدا کے لئے ہیں اور میرا خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا.ورنہ کام کا اور فکر کا اسقدر بوجھ ہوتا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جائے گا اور میں مجنوں ہو جاؤں گا مگر اللہ تعالیٰ نفس پر قابو دیتا ہے.ظلمت میں سے روشنی کی کرن نظر آنے لگتی ہے اور چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی کے معاملات کو اللہ تعالیٰ امید اور خوشی سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ معاملہ شروع سے ہے جب میں خلافت پر متمکن ہوا تو میری حالت کیسی کمزور تھی لیکن اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بتا یا کہ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور بعد کے آنیوالے حالات نے بتا دیا کہ واقعی کوئی ایسا نہیں.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر قادیان کو چھوڑ کر باہر کی اکثر جماعتیں متر د ہو گئی تھیں اور جب میں نے یہ اعلان کیا تو پیغامی لوگ میرا مضحکہ اڑاتے تھے مگر آپ میں سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جن کو سخت مخالفت کے بعد اللہ تعالیٰ میری طرف کھینچ لایا.پس جس کی ساری زندگی تو کل پر گزری ہو جو بر ملا

Page 95

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کہتا ہو کہ نہ مجھ میں علم ہے ، نہ طاقت، نہ قوت ہے، نہ دولت ، میں جاہل ہوں ، کمزور ہوں، غریب ہوں اور میرے سب کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے وہ مشکلات سے کب گھبر اسکتا ہے.میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں بڑا عالم ہوں بلکہ ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں کہ میں کچھ پڑھا لکھا نہیں ہوں مجھے نہ انگریزی آتی ہے نہ کوئی اور علم.مجھے صرف ایک ہی علم آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا علم ہے اس سے میں نے ہر میدان میں غلبہ حاصل کیا ہے اور اسی نے میرے لئے ہر تاریکی کو روشنی سے بدل دیا اور جس کا ہر لمحہ اسی میں گزرا ہو وہ بھلا کب مایوس ہو سکتا ہے.میں اپنے سہارے پر نہیں کھڑا ہوں بلکہ مجھے کھڑا کرنے والی ایک اور طاقت ہے.جب تک مجھے اس کا سہارا ہے نہ میری موت مجھے نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ حیات خطرات میں ڈال سکتی ہے.رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں مگر کیا ان کا کام رُک گیا.میں اس بات سے نہیں گھبرا تا اگر مشیت ایزدی یہی ہے کہ میری موت واقعہ ہو جائے تو یقیناً اسلام کی اور میری بہتری اسی میں ہے اور اگر مشیت الہی مجھے زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اسلام اور میری بہتری اسی میں ہے.کبھی الہامی عبارتوں میں موت کے معنی ایک حالت سے دوسری میں انتقال کے بھی ہوتے ہیں دنیا میں انسان ہزاروں دفعہ زندہ ہوتا اور ہزاروں دفعہ مرتا ہے.کسی کو ایک بیوی سے انتہائی محبت ہوتی ہے مگر کسی وجہ سے وہ ٹوٹ جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جو اُس عورت سے محبت کرتا ہے مر گیا، کبھی کسی انسان کو بدی سے محبت ہوتی ہے پھر وہ نیک ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلا انسان مر گیا اور دوسرا پیدا ہوا.پس کسی کو کیا معلوم ہے کہ موت کے کیا معنی ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں پہلے مریم تھا پھر عیسی ہوا اور پھر بروز محمد ﷺ.یہ بھی گویا موت اور حیات کا ایک سلسلہ تھا اس لئے کسی کو کیا معلوم ہے کہ اس موت سے کیا مفہوم ہے ہاں مجھے اس پر وثوق حاصل ہے کہ اسی وقت اگر میری جان چلی جائے تو جو باتیں میں نے کہی ہیں وہ قائم رہیں گی اور انہیں کوئی نہیں مٹا سکتا میں نے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہی ہیں اور اس لئے وہ ہمیشہ قائم رہیں گی.درمیان میں گو بظا ہرا ایسا معلوم ہو کہ دشمن نے انہیں مٹا دیا مگر وہ نہیں مٹیں گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں آتی ہیں ان کی مثال اس کھلونے کی سی ہوتی ہے جسے آپ میں سے بعض نے دیکھا ہوگا ایک بڑھے بابا کی شکل بنائی ہوتی ہے جس کے سفید بال ہوتے ہیں وہ بکس میں بند ہوتا ہے اس کے ڈھکنے کو جب بند

Page 96

خطبات محمود ۹۱ سال ۱۹۳۵ء کر دیا جائے تو وہ بڑھا نیچے چلا جاتا ہے اور جب کھول دیا جائے تو جھٹ باہر آ جاتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی باتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے آنے والی چیزوں سے تعلق ہے زندگی یا موت سے نہیں.اس سے آپ کو تعلق ہوگا کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے انسان کو اس کی زندگی کا فکر ہوتا ہے مگر میرے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرنے کی توفیق ملے اور اسی میں جان چلی جائے چاہے آج چلی جائے چاہے پچاس سال بعد.اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے مرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی غیرت بھی ضائع نہیں ہونے دیتی اور مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور پیشگوئیوں سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اس لئے دوست بے شک دعائیں کرتے رہیں میں بھی بعض اوقات دعا کرتا ہوں.یہ نہیں کہ نہیں کرتا اور وہ دعا اسی رنگ میں ہوتی ہے کہ الہی اسلام کی خدمت کی جو تجاویز میرے ذہن میں ہیں اگر ان کو بروئے کارلانے کا موقع ملے تو میں بھی اسلام کی ترقی کو دیکھ لوں اور کبھی نہیں بھی کرتا اور اس وقت دل پر اس خیال کا غلبہ ہوتا ہے کہ جس طرح خدا کی مرضی ہو ، ہو جائے.دوست بے شک دعائیں کریں مگر جو بات سب سے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اصل مقصد ہمیشہ مد نظر رکھیں.میری ضرورت اسی لئے ہے کہ اسلام کی خدمت کرسکوں.پھر وہ بھی اسلام کی خدمت کے لئے اٹھیں اور اس کے لئے اسی طرح وقت دیں جس طرح میں چاہتا ہوں ، اسلام اور احمدیت ایک ہی چیز ہیں اور اس وقت دونوں خطرہ میں ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ عاجزی اور انکسار کے ساتھ خدا کے حضور گر جائیں اور اس کے ساتھ تبلیغ کے لئے پوری پوری کوشش کریں.آپ لوگوں میں سے ہزاروں ایسے ہیں جو گالیاں دیا کرتے تھے بعض لوگ بیعت کرنے لگتے ہیں تو ان کی چھینیں نکل جاتی ہیں کہ ہم بڑی گالیاں دیا کرتے تھے اور سینکڑوں خطوط ایسے آتے ہیں کہ ہم نے بہت مخالفت کی ہے اب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی خدمت کی توفیق دے.پس یہ مت خیال کرو کہ لوگ نہیں سنیں گے نکلو اور تبلیغ کرو، جاؤ اور پیغام حق لوگوں کو پہنچاؤ ، اخلاص محبت اور پیار سے باتیں سناؤ تمہاری آنکھوں سے اخلاص ٹپکتا ہو، تمہاری باتوں سے محبت ظاہر ہو رہی ہو ، تمہاری کسی حرکت میں کوئی رعونت نہ ہو، تمہارے دن رات اگر اس طرح تقسیم ہو جائیں کہ اگر اندر جاؤ تو یہی خیال ہو اور باہر آؤ تو یہی مد نظر ہو اور اگر تم خدا کے سامنے جھک جاؤ تو پھر زندگی کی غرض پوری ہو سکتی ہے جس دن آپ لوگوں کے اندرا ایسا جنون پیدا ہو جائے گا جس دن مجھے ایسے نائب مل جائیں گے اس دن ہم دنیا میں

Page 97

خطبات محمود ۹۲ سال ۱۹۳۵ء عظیم الشان تغیرات پیدا کر دیں گے.اسی غرض کے لئے میں نے ایک سکیم پیش کی تھی اس کے مالی حصہ کی طرف تو جماعت نے توجہ کی ہے مگر باقی کے لئے ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے باہر کی جماعتیں باقی حصہ کی طرف بھی توجہ کر رہی ہیں مگر قادیان میں اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی.میں محلوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کا انتظام کریں کہ ہر فر د جماعت سال میں ایک ماہ تبلیغ کیلئے وقف کرے اور جلد سے جلد ایسی فہرستیں تیار کر کے میرے سامنے پیش کریں.خالی روپیہ کی قربانی سے کچھ نہیں بنتا.اگر دس کروڑ روپیہ بھی جمع کر دیا جائے تو بھی جب تک جانی قربانی کے لئے دوست آمادہ نہ ہوں ترقی محال ہے اور جو شخص بارہ ماہ میں سے ایک ماہ بھی تبلیغ کے لئے نہیں دے سکتا اس سے یہ کیونکر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جان قربان کر سکتا ہے پس تم اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرو کہ زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ کے لئے نکال سکو.اس کے لئے روزانہ اٹھارہ گھنٹے بھی کام کرنا پڑے تو کرو اور اس سے ہرگز نہ ڈرو کہ اس طرح موت واقع ہو جائے گی کیونکہ خدا کے لئے جو جان جائے وہی حقیقی زندگی ہے.میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ۱۷، ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۴ ء سے لے کر آج تک سوائے چار پانچ راتوں کے میں کبھی ایک بجے سے پہلے نہیں سوسکا اور بعض اوقات تو دو تین چار بجے سوتا ہوں.بسا اوقات کام کرتے کرتے دماغ معطل ہو جاتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب اسلام کا باطل سے مقابلہ ہے تو میرا فرض ہے کہ اسی راہ میں جان دے دوں اور جس دن ہمارے دوستوں میں یہ بات پیدا ہو جائے وہی دن ہماری کامیابی کا ہو گا.کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پیدا کر و اُٹھو تو جلدی سے اُٹھو، چلو تو پستی سے چلو، کوئی کام کرنا ہو تو جلدی جلدی کرو ، دو گھنٹے کا کام آدھ گھنٹہ میں کرو اور اس طرح جو وقت بچے اسے خدا کی راہ میں صرف کرو.میرا تجربہ ہے کہ زیادہ تیزی سے کام کیا جا سکتا ہے.میں نے ایک ایک دن میں سوسو صفحات لکھے ہیں اور اس میں گو بازو شل ہو گئے اور دماغ معطل ہو گیا مگر میں نے کام کو ختم کر لیا اور یہ تصنیف کا کام تھا جو سوچ کر کرنا پڑتا ہے.دوسرے کام اس سے آسان ہوتے ہیں اسی ہفتہ میں میں نے اندازہ کیا ہے کہ میں نے دو ہزار کے قریب رقعے اور خطوط پڑھے ہیں اور بہتوں پر جواب لکھے ہیں اور روزانہ تین چار گھنٹے ملاقاتوں اور مشوروں میں بھی صرف کرتا رہا ہوں.پھر کئی خطبات صحیح کئے ہیں اور ایک کتاب کے بھی دو سو صفحات درست کئے ہیں بلکہ اس میں ایک کافی تعداد صفحات کی اپنے

Page 98

خطبات محمود ہاتھ سے لکھی ہے.۹۳ سال ۱۹۳۵ء پس میں جانتا ہوں کہ اگر سستی نہ کی جائے تو تھوڑے وقت میں بہت سا کام ہو جاتا ہے اس لئے وقت ضائع نہ کرو.ہمیشہ اپنے نفس سے پوچھتے رہو کہ ہم وقت ضائع تو نہیں کر رہے اور جب فرصت ملے تو اسے باتوں میں گنوانے کی بجائے تبلیغ میں صرف کرو اور پھر ہر شخص کم سے کم ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کر دے.کارکن بھی باریاں مقرر کر لیں اور اس طرح ایک ایک ماہ دیں.صدر انجمن کو چاہئے کہ ان کے لئے انتظام کرے خواہ ان کی جگہ دوسرے آدمی رکھ کر ہی ایسا کرنا پڑے.اور اگر قادیان کے لوگ اس طرف توجہ کریں تو مجھے تین چار سو مرد مبلغ مل سکتا ہے گویا تین چارسو ماہ کام کرنے کے لئے مل گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں چھپیں تھیں مبلغ مل گئے.پس قادیان کے مختلف محلوں کو چاہئے کہ جس طرح مالی حصہ سکیم کے متعلق انہوں نے فہرستیں تیار کی تھیں.اس عملی حصہ سکیم کے متعلق بھی کریں کیونکہ یہ اس سے بہت اہم ہے.جلسے کر کے ایسے لوگوں کے نام لکھے جائیں جو ایک ایک ماہ دینے کو تیار ہوں اور یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ وہ کس ماہ وقت دینے کو تیار ہیں.اگر اس طرح کیا جائے تو قادیان کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی سارے ضلع گورداسپور میں تبلیغ کی جا سکتی ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں محبت اور اخلاص کا اظہار عملی طور پر کریں گی.اس سکیم کا عملی حصہ باقی ہے پچھلے خطبہ کے بعد باہر سے کثرت سے درخواستیں آئی ہیں مگر قادیان والوں نے ابھی تک تو جہ نہیں کی سوائے ان کے جنہوں نے کئی کئی سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں باقی ایک ماہ دینے والے ایک دو سے زیادہ نہیں ہیں.پس محلوں میں ایسا انتظام کیا جائے کہ دوست ایک ایک ماہ دینے کے لئے اپنے نام لکھوائیں اور یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ وہ کب وقت دے سکیں گے بعض یونہی نام لکھوا دیتے ہیں ایسے لوگوں کو جب بلایا گیا تو کسی نے کہہ دیا مجھے فرصت نہیں.میں نے بھوپال میں زمین لی ہے میرا خیال تھا یہی کام وقف میں شمار کر لیا جائے.ایسے لوگوں نے سمجھا کہ جس طرح سکیم کے تمدنی حصہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ غرباء بھی ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں شاید اس میں نام لکھوانا بھی ایسا ہی ہے پس جو دوست چاہیں یہ لکھوا سکتے ہیں کہ سال میں کوئی ایک مہینہ لے لیا جائے یا فلاں سے فلان مہینہ تک یا پھر کوئی خاص مہینہ معین کر دیں.اور جولوگ وقت نہ دے سکتے ہوں وہ

Page 99

خطبات محمود ۹۴ سال ۱۹۳۵ء یونہی اپنے نام نہ لکھوائیں بلکہ پہلے جو ایسے لوگ نام دے چکے ہیں وہ بھی واپس لے لیں.ورنہ میں ان کے متعلق اعلان کر دونگا کہ انہوں نے محض ٹھہرت کے لئے نام لکھوا دیئے تھے بعض طالب علموں نے نام لکھا دیئے ہیں جب بلایا جائے تو کہہ دیتے ہیں ہم طالب علم ہیں حالانکہ جب میں نے کہا تھا کہ طالب علم نام نہ لکھوائیں تو انہوں نے کیوں لکھوا دیا.پس ایسے لوگ اپنے نام واپس لے لیں یا یہ لکھ دیں کہ ہمارا وقت فلاں وقت سے شروع ہو گا اس کے بعد ان پر اعتراض نہ ہو گا لیکن اگر ( قادیان سے باہر کے لوگوں کے لئے خطبہ شائع ہونے کے دس روز تک ایسے لوگوں نے نام واپس نہ لئے تو میں اعلان کر دوں گا کہ انہوں نے محض شہرت کے لئے نام لکھوا دیے تھے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جتنی بھی عمر ہمیں ملتی ہے وہ نیک اور پاک ہو اور وہ ہمیں توفیق دے کہ اپنی زندگیوں کو ہم اس کی رضاء میں صرف کر سکیں اور ہر روز زیادہ سے زیادہ اصلاح یافتہ اور خدا سے پیار کرنے والے ہوں.اس کے فضلوں کے مستحق ثابت ہوں.جب موت آئے اس کی خوشنودی رضاء اور برکات کے ماتحت آئے اور موت کے بعد کی زندگی موجودہ زندگی سے لاکھوں درجہ بڑھ کر اچھی ہو.ہماری زندگیاں خدا کے لئے ہوں اور موت بھی خدا کے لئے ہو وہی ہمارا سہارا اور ہمارے تو کل کی جگہ ہو.الفضل ۱۲ / فروری ۱۹۳۵ء) موضوعات کبیر - ملا علی قاری صفحه ۷۵ـ مــطبــوعـــه دهلی ۱۳۴۶ء.ل هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف: ١٠) ۳ آل عمران: ۱۴۵

Page 100

خطبات محمود ۹۵ ۶ سال ۱۹۳۵ء ہر حال میں خلیفہ کی اطاعت فرض ہے (فرموده ۸ فروری ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں ایک انصاری صحابی کا ذکر کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بعض انصار کی تحریک تھی کہ انصار میں سے خلیفہ مقرر کیا جائے لیکن جب مہاجرین نے خصوصاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو بتایا کہ اس قسم کا انتخاب کبھی بھی ملت اسلامیہ کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اور یہ کہ مسلمان کبھی اس انتخاب پر راضی نہیں ہو نگے تو پھر انصار اور مہاجر اس بات پر جمع ہوئے کہ وہ کسی مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہوا.میں نے بتایا تھا کہ اس وقت جب سعد نے بیعت سے تخلف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اقْتُلُوا سَعدًا یعنی سعد کو قتل کر دو.مگر نہ تو انہوں نے سعد کو قتل کیا اور نہ کسی اور صحابی نے بلکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شام میں فوت ہوئے.جس سے آئمہ سلف نے یہ استدلال کیا ہے کہ قتل کے معنی یہاں جسمانی قتل نہیں بلکہ قطع تعلق کے ہیں اور عربی زبان میں قتل کے کئی معنی ہوتے ہیں جیسا کہ میں پچھلے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں.اُردو میں بے شک قتل کے معنی جسمانی قتل کے ہی ہوتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب قتل کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک معنی قطع تعلق کے ہیں اور لغت والوں نے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد قتل سے قتل نہیں بلکہ قطع تعلق تھا.ورنہ اگر

Page 101

خطبات محمود ۹۶ سال ۱۹۳۵ء قتل سے مراد ظاہری طور پر قتل کر دینا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو بہت جو شیلے تھے انہیں خود کیوں نہ قتل کر دیا.یا صحابہ میں سے کسی نے کیوں انہیں قتل نہ کیا مگر جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف انہیں اس وقت قتل نہ کیا بلکہ اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی قتل نہ کیا اور بعض کے نزدیک تو وہ حضرت عمر کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہے اور کسی صحابی نے ان پر ہاتھ نہ اٹھایا.تو بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل سے مراد قطع تعلق ہی تھا ظاہری طور پر قتل کرنا نہیں تھا.اور گو وہ صحابی عام صحابہ سے الگ رہے لیکن کسی نے ان پر ہاتھ نہ اٹھایا.پس میں نے مثال دی تھی کہ رویا میں بھی اگر کسی کے متعلق قتل ہونا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ رویا بھی بسا اوقات الفاظ کے ظاہری معنی پر مبنی ہوتی ہے.مجھ سے ایک دوست نے بیان کیا ہے کہ انہی تین افراد میں سے جن کا میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا ایک نے خطبہ کے بعد کہا کہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا.اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو میرے مفہوم کی تردید یا یہ کہ خلافت کی بیعت نہ کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کیونکہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی مگر مشوروں میں شامل ہو ا کرتے تھے کسی شاعر نے کہا ہے.تا مرد سخن نگفته باشد عیب و ہنزش نهفته باشد انسان کے عیب و ہنر اس کے بات کرنے تک پوشیدہ ہوتے ہیں جب انسان بات کر دیتا ہے تو کئی دفعہ اپنے عیوب ظاہر کر دیتا ہے.اس شخص کا بات کرنا بھی یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو وہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے یا اپنے علم کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں علم کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بات اتنی غلط ہے کہ ہر عقلمند اس کوسُن کر سوائے مسکرا دینے کے اور کچھ نہیں کر سکتا.صحابہ کے حالات کے متعلق اسلامی تاریخ میں تین کتابیں بہت مشہور ہیں اور تمام تاریخ جو صحابہ سے متعلق ہے انہی کتابوں پر چکر کھاتی ہے.وہ کتابیں یہ ہیں تہذیب التہذیب، اصابہ اور اسدالغابہ.ان تینوں میں سے ہر ایک میں یہی لکھا ہے کہ سعد باقی صحابہ سے الگ ہو کر شام میں چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے سلم ور بعض لغت کی کتابوں نے بھی قتل کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے ساٹھ ستر کے نام سعد ہیں.انہی میں سے ایک سعد بن ابی

Page 102

خطبات محمود ۹۷ سال ۱۹۳۵ء وقاص بھی ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے.حضرت عمرؓ کی طرف سے کمانڈر انچیف مقرر تھے اور تمام مشوروں میں شامل ہو ا کرتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے کمی علم سے سعد کا لفظ سُن کر یہ نہ سمجھا کہ یہ سعد اور ہے اور وہ سعد اور.جھٹ میرے خطبہ پر تبصرہ کر دیا.یہ میں نے سعد بن ابی وقاص کا ذکر نہ کیا تھا جو مہاجر تھے بلکہ میں نے جس کا ذکر کیا وہ انصاری تھے.ان دو کے علاوہ اور بھی بہت سے سعد ہیں بلکہ ساٹھ ستر کے قریب سعد ہیں جس سعد کے متعلق میں نے ذکر کیا ان کا نام سعد بن عبادہ تھا.عرب کے لوگوں میں نام دراصل بہت کم ہوتے تھے.اور عام طور پر ایک ایک گاؤں میں ایک نام کے کئی کئی آدمی ہوا کرتے تھے جب کسی کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کے باپ کے نام سے اس کا ذکر کرتے مثلاً صرف سعد یا سعید نہ کہتے بلکہ سعد بن عبادہ یا سعد بن ابی وقاص کہتے پھر جہاں باپ کے نام سے شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے مقام کا ذکر کرتے اور جہاں مقام کے ذکر سے بھی شناخت نہ ہوسکتی وہاں اس کے قبیلہ کا ذکر کرتے.چنانچہ ایک سعد کے متعلق تاریخوں میں بڑی بحث آئی ہے چونکہ نام ان کا دوسروں سے ملتا جلتا تھا اس لئے مؤرخین ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثلاً ہماری مراد اوسی سعد سے ہے یا مثلاً خزرجی سعد سے ہے.ان صاحب نے معلوم ہوتا ہے ناموں کے اختلاف کو نہیں سمجھا اور یونہی اعتراض کر دیا مگر ایسی باتیں انسانی علم کو بڑھانے والی نہیں ہوتیں بلکہ جہالت کا پردہ فاش کرنے والی ہوتی ہیں.خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جُدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیں بنا سکتی.اسی مسجد میں میں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا آپ فرماتے تم کو معلوم ہے پہلے خلیفہ کا دشمن کون تھا پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا دشمن ابلیس تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا میں بھی خلیفہ ہوں اور جو میرا دشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا گو یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ ما مور نہ ہو.حضرت آدم مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے.حضرت داؤد ماً مور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے پھر تمام انبیاء مأمور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے قائم کردہ خلیفہ بھی.جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک وہ خلفاء ہوتے ہیں جو کبھی مامور نہیں ہوتے.گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا.اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی ضروری ہوتی ہے ہاں ان ا

Page 103

خطبات محمود ۹۸ سال ۱۹۳۵ء دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الہی اور تمام نظام کا مرکز ہے.اسی لئے واقف اور اہلِ علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمت گبر کی حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمت صغریٰ.اسی مسجد میں اسی منبر پر جمعہ کے ہی دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے سنا آپ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے کیونکہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے اس لئے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے.تو انبیاء کے متعلق جہاں الہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں تو حید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لئے بھی کہ وہ امت کی تربیت کیلئے ضروری ہوتی ہیں (جیسے سجدہ سہو کہ وہ کھول کے نتیجہ میں ہوتا ہے مگر اس کی ایک غرض امت کو سہو کے احکام کی عملی تعلیم دینا تھی ) ان کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں وہاں خلفاء کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ انکے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو نگے جو نظام سلسلہ کی ترقی کے لئے اُن سے سرزد ہونگے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اور اسلام کی فتح کو اس کی شکست سے بدل دینے والی ہو.وہ جو کام بھی نظام کی مضبوطی اور اسلام کے کمال کے لئے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہو گی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا اس کی اصلاح کا خود ذمہ دار ہو گا.گویا نظام کے متعلق خلفاء کے اعمال کے ذمہ دار خلفاء نہیں بلکہ خدا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفا ء خود قائم کیا کرتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یا تو ان ہی کی زبان سے یا عمل سے خدا تعالیٰ اس غلطی کی اصلاح کرا دے گا یا اگر ان کی زبان یا عمل سے غلطی کی اصلاح نہ کرائے تو اس غلطی کے بدنتائج کو بدل ڈالے گا.اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت چاہے کہ خلفاء کبھی کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جس کے نتائج بظاہر مسلمانوں کے لئے مضر ہوں اور جسکی وجہ سے بظاہر جماعت کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف جائے گی تو اللہ تعالیٰ نہایت مخفی سامانوں سے اس غلطی کے نتائج کو بدل دے گا اور جماعت

Page 104

خطبات محمود ۹۹ سال ۱۹۳۵ء بجائے تنزل کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی اور وہ مخفی حکمت بھی پوری ہو جائے گی جس کے لئے خلیفہ کے دل میں ذہول پیدا کیا گیا تھا.مگر انبیاء کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں.یعنی عصمت کبری بھی اور عصمت صغریٰ بھی.وہ تنفیذ و نظام کا بھی مرکز ہوتے ہیں اور وحی و پاکیزگی اعمال کا مرکز بھی ہوتے ہیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر خلیفہ کے متعلق ضروری ہے کہ وہ پاکیزگی اعمال کا مرکز نہ ہو.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پاکیزگی اعمال سے تعلق رکھنے والے بعض افعال میں وہ دوسرے اولیاء سے کم ہو.پس جہاں ایسے خلفاء ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اعمال کا مرکز ہوں اور نظام سلسلہ کا مرکز بھی ، وہاں ایسے خلفاء بھی ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اور ولایت میں دوسروں سے کم ہوں لیکن نظامی قابلیتوں کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھے ہوئے ہوں.مگر ہر حال میں ہر شخص کے لئے ان کی اطاعت فرض ہوگی چونکہ نظام کا ایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لئے خلفاء کے متعلق غالب پہلو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نظامی پہلو کو برتر رکھنے والے ہوں.گو ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے استحکام اور اس کے صحیح مفہوم کے قیام کو بھی وہ مد نظر رکھیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں خلافت کا ذکر کیا وہاں بتایا ہے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ خدا ان کے دین کو مضبوط کرے گا اور اسے دنیا پر غالب کر دیگا.پس جو دین خلفاء پیش کریں وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے مگر یہ حفاظت صغری ہوتی ہے.جزئیات میں وہ غلطی کر سکتے ہیں اور خلفاء کا آپس میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے مگر وہ نہایت ادنی چیزیں ہوتی ہیں جیسے بعض مسائل کے متعلق حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف رہا بلکہ آج تک بھی امت محمد یہ ان مسائل کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار نہیں کر سکی مگر یہ اختلاف صرف جزئیات میں ہی ہوگا.اصولی امور میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس ان میں ایسا اتحاد ہوگا کہ وہ دنیا کے ہادی و را ہنما اور اسے روشنی پہنچانے والے ہوں گے.پس یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص باوجود بیعت نہ کرنے کے اسی مقام پر رہ سکتا ہے جس مقام پر بیعت کرنے والا ہو.در حقیقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا شخص سمجھتا ہی نہیں کہ بیعت اور نظام کیا چیز ہے.مشورہ کے متعلق بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک اکسپرٹ اور ماہر فن خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے مشورہ لے لیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقدمہ میں ایک انگریز وکیل کیا مگر اس کا

Page 105

خطبات محمود الله سال ۱۹۳۵ء یہ مطلب نہ تھا کہ آپ نے اُمورِ نبوت میں اس سے مشورہ لیا.جنگ احزاب ہوئی تو اُس وقت رسول کریم ﷺ نے سلمان فارسی سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ تمہارے ملک میں جنگ کے موقع پر کیا کیا جاتا ہے انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں تو خندق کھود لی جاتی ہے.آپ نے فرمایا یہ بہت اچھی تجویز ہے چنانچہ خندق کھودی گئی اور اسی لئے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے.مگر باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ سلمان فارسی فنون جنگ میں رسول کریم ﷺ سے زیادہ ماہر تھے.انہیں فنونِ جنگ میں مہارت کا وہ مقام کہاں حاصل تھا جو محمد ﷺ کو حاصل تھا.یامحمد ﷺ نے جو کام کئے وہ کب حضرت سلمان نے کئے بلکہ خلفاء کے زمانہ میں بھی انہیں کسی فوج کا کمانڈرانچیف نہیں بنایا گیا حالانکہ انہوں نے لمبی عمر پائی.تو ایک اکسپرٹ خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے.میں جب بیمار ہوتا ہوں تو انگریز ڈاکٹروں سے بعض دفعہ مشورہ لے لیتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خلافت میں میں نے ان سے مشورہ لیا.یا یہ کہ میں انہیں اسی مقام پر سمجھتا ہوں جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو سمجھتا ہوں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ میں نے طب میں مشورہ لیا.پس فرض کر وسعد بن عبادہ سے کسی دنیوی امر میں جس میں وہ ماہر فن ہوں مشورہ لینا ثابت ہو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے مگر ان کے متعلق تو کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں ذکر آتا ہو کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے بلکہ مجموعی طور پر روایات یہی بیان کرتی ہیں کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے تھے اور صحابہ پر یہ اثر تھا کہ وہ اسلامی مرکز سے منقطع ہو چکے ہیں اسی لئے ان کی وفات پر صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے کہا فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک ان کی موت کو بھی اچھے رنگ میں نہیں سمجھا گیا کیونکہ یوں تو ہر ایک کو فرشتہ ہی مارا کرتا ہے.ان کی وفات پر خاص طور پر کہنا کہ انہیں فرشتوں نے یا جنوں نے مارد یا بتا تا ہے کہ ان کے نزدیک وفات ایسے رنگ میں ہوئی کہ گویا خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فعل سے اٹھا لیا کہ وہ شقاق کا موجب نہ ہوں.یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کی وہ عزت صحابہ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہئے تھی جو کبھی انہیں حاصل تھا اور یہ کہ صحابہ ان سے خوش نہیں تھے ورنہ وہ کیونکر کہہ سکتے تھے کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا بلکہ ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ ان کی وفات پر کہے گئے ہیں جنہیں میں اپنے منہ سے کہنا نہیں

Page 106

خطبات محمود 1+1 سال ۱۹۳۵ء چاہتا.پس یہ خیال کہ خلافت کی بیعت کے بغیر بھی انسان اسلامی نظام میں اپنے مقام کو قائم رکھ سکتا ہے واقعات اور اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور جو شخص اس قسم کے خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بیعت کا مفہوم ذرہ بھر بھی سمجھتا ہو.اس کے بعد میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو مجھے پہنچی ہے اور وہ یہ کہ ایک دوست کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا ہماری جماعت پر جو آجکل مشکلات آ رہی ہیں یہ ہماری بعض غلطیوں کی سزا ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہے اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ تو بہ، استغفار اور دعائیں کی جائیں.میں اس امر میں ان سے بالکل متفق ہوں کہ ان مشکلات کا علاج تو بہ، استغفار اور دعا ہے اور میں کئی بار پہلے یہ کہ بھی چکا ہوں مگر استغفار اور انابت الی اللہ عذاب کی دوری کے لئے ہی ضروری نہیں ہوتی بلکہ ہر حالت میں ضروری ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ کی ذات تو عذاب سے بالکل پاک تھی بلکہ اللہ تعالیٰ یہاں تک فرماتا ہے کہ جہاں تو ہو اس مقام پر بھی عذاب نازل نہیں ہو سکتا.مگر رسول کریم اللہ استغفار کرتے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہتے.پس جب میں اپنی جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ وہ استغفار کرے اور دعاؤں پر زور دے تو اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہماری جماعت کسی عذاب میں گرفتار ہے اس کے ازالہ کے لئے اسے دعائیں کرنی چاہئیں.میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت اس وقت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے کہ اس کے بعض افراد سے غلطی بھی ہوسکتی ہے مگر بحیثیت مجموعی وہ خدا کے عذاب کی نہیں بلکہ اس کی رحمت کی مستحق ہے.میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی جماعت کی غلطیاں بیان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہر وہ شخص جو میرے خطبات پڑھنے کا عادی ہے میرے اس قول کی سچائی کی شہادت دے سکتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کھلے الفاظ میں جماعت کو اسکی غلطیوں پر تنبیہ کی اور ایسے کھلے الفاظ میں اسے ڈانٹا کہ دشمنوں نے میرے اس قسم کے الفاظ سے بعض دفعہ نا جائز فائدہ اُٹھانا چاہا.پس میں ان لوگوں میں سے ہرگز نہیں جنہیں اپنے لوگوں کی ہمیشہ خوبیاں ہی خو بیاں نظر آتی ہیں اور عیب دیکھنے سے ان کی آنکھ بند ہوتی ہے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ کسی بادشاہ نے ایک دفعہ ایک حبشی کو ٹوپی دے کر کہا کہ سب سے زیادہ خوبصورت بچہ جو تمہیں نظر آئے اس کے سر پر یہ رکھ دو.اس نے ٹوپی اٹھائی اور اپنے کالے کلوٹے بچہ کے سر پر جس کی ناک بہتی تھی جا کر ٹوپی رکھ دی.بادشاہ نے

Page 107

خطبات محمود ۱۰۲ سال ۱۹۳۵ء پوچھا کہ یہ کیا کیا ؟ تو وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت میری آنکھوں میں تو یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت ہے تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں کے عیوب انہیں نظر نہیں آتے ؟ اگر میں بھی ایسا ہی ہوتا تو ممکن تھا کہ میں اپنی جماعت کے عیوب نہ دیکھتا اور دوسرے لوگوں کو وہ نظر آجاتے لیکن جماعت کے عیب دیکھنے میں جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہیں جو مجھ سے بڑھا ہوا ہو.سوائے منافقوں کے کہ انہیں ہمیشہ عیب ہی عیب نظر آتے ہیں اور خوبی کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی.پس میں نے کبھی کمی نہیں کی جماعت کے عیب ظاہر کرنے میں کبھی کمی نہیں کی جماعت کو تنبیہ کرنے میں اور کبھی کمی نہیں کی اسے کھلے اور واضح الفاظ میں نصیحت کرنے میں لیکن باوجود اس کے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اخلاص اور تقویٰ پر قائم ہے اور اس کے نو وارد اور نوجوان بھی بہت کچھ ترقی کر رہے ہیں.بے شک ان میں کمزور بھی ہیں اور بیشک ہم میں سے جو کامل انسان بھی ہے اس میں بھی کوتاہیاں ہیں کیونکہ آخر محمد اللہ جیسا کامل تو کوئی ہو نہیں سکتا جو سارے عیوب سے پاک ہو.بہر حال رسول کریم ﷺ سے نیچے ہی ہو گا پس اپنے درجہ تکمیل کے لحاظ سے اس میں غلطیاں اور کمزوریاں بھی پائی جائیں گی.ان غلطیوں پر تنبیہ کرنا خلفاء کا کام ہے یا خلفاء کی طرف سے مقرر شدہ قاضیوں، مفتیوں اور مبلغوں کا کام ہے کہ وہ نصیحت کریں بلکہ کوئی شخص جس کے دل میں جماعت کی ترقی کی ذرہ برابر بھی خواہش ہو وہ اپنے میں سے کسی فرد کا عیب دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا اور ہم لوگ یہ کام کرتے ہی رہتے ہیں مگر یہ چیزیں کمال کے منافی نہیں ہوتیں.ایک حد تک کامل ہوتے ہوئے بھی انسان میں بعض کمزوریاں رہ جاتی ہیں.قرآن مجید میں ہی دیکھ لو رسول کریم کی جماعت کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں پر جب تک پہلے لوگوں کی طرح تکالیف نہ آئیں ، اور تم ان لوگوں کی طرح مصائب پر ثابت قدمی نہ دکھاؤ اور ان کی طرح خدا تعالیٰ کے راستہ میں جانیں قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے.اس قسم کی آیات سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے لوگ زیادہ کامل تھے.مگر کیا وہی قرآن حضرت موٹی کی جماعت کے متعلق یہ نہیں بتاتا کہ اس نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اِذْهَبُ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاإِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ پس کیا خدا تعالیٰ نے موسیٰ کی جماعت کے عیب کو ظاہر نہیں کیا کہ انہوں نے کہہ دیا جا تو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی کرتا

Page 108

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء پھر ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر باوجود اس عیب کے قرآن مجید موسیٰ کی جماعت کا نمونہ پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے صحا بیو! جب تک تم موسیٰ کی جماعت کی طرح نہ ہو جاؤ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے.گویا ایک طرف ان کے عیب کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف ان کی تقلید کا حکم دیتا ہے.جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بعض عیب کمال کے منافی نہیں ہوتے یہی یكَفَرُ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ کے معنی ہیں پس نیکی کے ساتھ بدی کا پایا جانا انسان کو بد نہیں بناتا جیسے صحت کے ساتھ بیماری انسان کو بیمار نہیں بناتی بیماری کا غلبہ انسان کو بیمار بناتا ہے اسی طرح بدی کا غلبہ انسان کو بد بنا تا ہے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کا ایک عیب قرآن مجید بیان کرتا ہے مگر چونکہ بعد میں وہ جماعت سنبھل گئی اس لئے مسلمانوں سے کہا کہ جب تک تم موسیٰ کی قوم کی طرح نہ ہو جاؤ تمہارا ترقی کرنا محال ہے ممکن ہے کہ یہ آیت عام طور پر لوگوں کے ذہن میں نہ آتی ہو مگر کیا درود میں ہم روزانہ یہ نہیں کہتے کہ اَللَّهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.کیا آل ابراہیم میں یوسف کے بھائی شامل نہیں اور کیا آل ابراہیم میں حضرت موسیٰ کی قوم شامل نہیں.اگر ہے تو جب ہم روزانہ یہ کہتے ہیں کہ اے خدا ! رسول کریم ﷺ کی امت پر وہ فضل کر جوابراہیم اور موسیٰ کی امت پر تو نے کیا تو کیا ہم اقرار نہیں کرتے کہ ہر کمزوری انسان کو برا نہیں بنا دیتی وہ کمزوریاں جن پر انسان غالب آ جائے یا وہ جو وقتی جوش کے ماتحت سرزد ہوں یا وہ جو اجتہادی غلطی سے سرزد ہوں لیکن انسان بحیثیت مجموعی دینی احکام کا تابع ہوا اور غلطیوں پر غالب آنے کے لئے کوشش کر رہا ہو اور ظالم نہ ہو اور بدنیت نہ ہو اور ملتِ اسلامیہ کا غدار نہ ہو ایسی کمزوریاں انسان کو نہ معتوب بناتی ہیں اور نہ اسے بد کار ثابت کرتی ہیں.پس کسی جماعت کے متعلق چند غلطیوں کا گناد بینا اور اس کا نام خدا تعالیٰ کا عذاب اور اس کی سزا رکھ دینا اس سے زیادہ ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا.مجھ سے اس دوست نے زبانی گفتگو بھی کی اگر چہ وہ نہایت ہی مختصر گفتگو تھی اور ہم اس وعدہ پر اُٹھے تھے کہ دوبارہ اس موضوع پر گفتگو کریں گے مگر جس قدر گفتگو ہوئی اس سے میں نے یہ سمجھا کہ گو وہ عذاب کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے مگر اس کی جو تشریح کرتے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور سزا کی ہی ہوتی تھی اور الفاظ کے بدلنے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل سکتی.میں ان کی گفتگو سے جو سمجھا وہ یہ تھا کہ ان کے نزدیک ہماری جماعت کی موجودہ مشکلات خدا تعالیٰ کا عذاب ہے جو ہم پر آرہا ہے

Page 109

خطبات محمود ۱۰۴ سال ۱۹۳۵ء لیکن اگر یہ عذاب ہے جو ہماری جماعت پر آ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تو قرآن مجید میں فرماتا ہے.ام حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمُ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ امَنُوا مَعَه مَتى نَصْرُال الله کا یعنی جب تک تم پر وہ مصائب نہ آئیں جو پہلے لوگوں پر آئے اور جب تک تم ہلائے نہ جاؤ.اس وقت تک تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا پس وہ لوگ جو موجودہ مشکلات کو اللہ تعالیٰ کا عذاب قرار دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ ابتلاء ہماری جماعت پر آگئے جن کا آنا خدا تعالیٰ کے فرمودہ کے مطابق مقدر ہے.اگر ہمارے ابتلاء عذاب الہی قرار پا سکتے ہیں تو پھر ہماری ترقی کب ہو گی.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جماعت کی ترقی ہمیشہ ابتلاؤں کے بعد ہوا کرتی ہے پس جب تک انعامی ابتلاؤں کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اس وقت تک عذاب الہی ہماری جماعت پر آ ہی نہیں سکتا ورنہ اگر پہلے ہی عذاب شروع ہو جائیں تو وہ کونسے دن ہوں گے جن میں جماعت ترقی کرے گی.عذاب کے بعد تو کوئی قوم ابھر انہیں کرتی.اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس امر کا ذکر فرمایا ہے وہ ایک قاعدہ کلیہ ہے اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی قوم ان تمام ابتلاؤں میں سے نہ گزری ہو پس جب تک ابتلاؤں کا دور ختم نہیں ہو جاتا ہمارے تمام ابتلاء انعامی ہو سکتے ہیں عذابی نہیں ہو سکتے اور ہرا بتلاء ہمارے لئے ایسا ہی نتیجہ خیز ہوگا جیسا کہ مثنوی رومی والے کہتے ہیں.ہر بلا کیں قوم راحق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند یعنی مسلمانوں کی جماعت پر جب بھی کوئی تکلیف آتی ہے تو وہ عذاب کی صورت میں نہیں آتی بلکہ اس کے نیچے فضل کا بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے لیکن عذاب جب آتا ہے تو وہ قوم کو تباہ کو دیتا اور دلوں پر زنگ لگا دیتا ہے.بے شک ایسی سزائیں بھی ہوتی ہیں جو نجات کا موجب ہوتی ہیں مگر وہ فردی ہوتی ہیں قومی نہیں ہوتیں.پھر وہ کفار کے لئے ہوتی ہیں مؤمنوں کے لئے نہیں ہوتیں.ایمان کا دعویٰ کر نیوالوں کے لئے جب بھی قومی طور پر عذاب آتا ہے اس کے بعد وہ قوم ترقی نہیں کرتی بلکہ تنزل میں گرتی چلی جاتی ہے پھر اس کے بعد جو خلفا ء آتے یا جو مجد دکھڑے ہوتے ہیں وہ قوم کے لئے ٹیکیں اور سہارے ہوتے ہیں قومی ترقی ان کے ذریعہ نہیں ہوتی.جیسے کسی گر نیوالی چھت کے نیچے کوئی ستون

Page 110

خطبات محمود ۱۰۵ سال ۱۹۳۵ء کھڑا کر دیا جاتا ہے اسی طرح قوم پر عذاب نازل ہونے کے بعد جو مجد دومحد ث پیدا ہوتے ہیں وہ ٹیکیں ہوتے ہیں.ترقی کا دور پھر واپس نہیں آسکتا جب تک دوبارہ نبی نہ آئے کیونکہ یہ کام خدا تعالیٰ نے محض انبیاء سے مخصوص کیا ہے.پس عذاب کے بعد قوم دوبارہ اگر ترقی کر سکتی ہے تو نبی کے ذریعہ ہی کسی اور ذریعہ سے نہیں.چونکہ ممکن ہے وہ بات اس دوست نے اوروں کے آگے بھی بیان کی ہو بلکہ دو تین آدمیوں نے ذکر کیا ہے کہ ان کے پاس بھی انہوں نے یہی بیان کیا کہ ہماری جماعت اس وقت عذاب میں گرفتار ہے اس لئے میں اس حقیقت کو کھول دینا چاہتا ہوں کہ یہ قطعاً عذاب نہیں بلکہ ہمیں ترقی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک انعامی ابتلاء ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزائیں ہوتی ہیں ان کے ساتھ رویا اور الہام کے دروازے نہیں گھلا کرتے مگر اس ابتلاء کے نتیجہ میں میں دیکھتا ہوں کہ مرد کیا اور عورتیں کیا بچے کیا اور بوڑھے کیا ہر ایک کو خوا میں آرہی ہیں اور جس طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یسرای اویری که که مؤمن یا خود خواب دیکھتا ہے یا اس کے متعلق خواہیں لوگوں کو دکھائی جاتی ہیں.روزانہ میری ڈاک ایسے خطوط سے بھری ہوئی ہوتی ہے جن میں مختلف خوابوں اور الہامات کا ذکر ہوتا ہے.خود مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے کی نسبت بہت جلد اور بار بار حالات سے اطلاع دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس فتنہ کے نتائج جماعت کے لئے بہت زیادہ کامیابی اور ترقیات کا موجب ہونگے.پس اس الہی گواہی کو چھوڑ کر جو قرآن مجید میں آتی ہے، اس الہی گواہی کو چھوڑ کر جس کا پہلے لوگوں میں پتہ چلتا ہے اور اس الہی گواہی کو چھوڑ کر جو آج ہم پر نازل ہو رہی ہے کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جماعت گندی اور خراب ہو گئی اور خدا اب اس کو پکڑ نا چاہتا ہے.پس میں یہ الفاظ کہہ کر اپنی جماعت کو غافل نہیں کرنا چاہتا تم میں سے ہر فرد اصلاح کا محتاج ہے بلکہ تم میں سے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے ، وہ معترض بھی اس بات کا محتاج ہے کہ اپنی اصلاح کرے، میں بھی اس بات کا محتاج ہوں کہ اپنی اصلاح کروں، اور تم بھی اس بات کے محتاج ہو کہ اپنی اصلاح کرو.پس اپنی اصلاح کرنے سے نہ وہ باہر ہے نہ میں نہ تم میں سے کوئی فرد بلکہ اگر تم روحانیت کے لحاظ سے اپنی تکمیل کو پہنچ جاتے ہو تب بھی تم میں اصلاح کی گنجائش ہے.رسول کریم ﷺ کا عمل تمہارے سامنے ہے.آپ ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًات پس ہم نے تو اس مقام تک پہنچنا ہے جس کی انتہاء نہیں.کسی ایسے مقام پر نہیں پہنچنا

Page 111

خطبات محمود 1+7 سال ۱۹۳۵ء جس نے ختم ہو جانا ہو اس لئے ہماری زندگی میں کوئی لحظہ بھی ایسا نہیں آسکتا جس میں ہم اپنی اصلاح سے بے نیاز ہو جائیں.اسی مسجد میں میں ایک دفعہ نماز جمعہ کے بعد سلام پھیر کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک اجنبی شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگا اگر ہم ایک کشتی میں سوار ہوں اور وہ کنارے آلگے تو پھر ہم کیا کریں.اس کا یہ سوال کرنا ہی تھا کہ معاً خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اس کا تمام سوال ڈال دیا اور میں نے بجائے یہ جواب دینے کے کہ اگر کنارہ آ جائے تو اُتر پڑو یہ جواب دیا کہ اگر دریا محدود ہے تو اُتر جائے لیکن اگر غیر محدود دریا ہو تو پھر جہاں یہ کنارہ سمجھ کر اتر او ہیں ڈوبا.اس شخص کا مطلب یہ تھا کہ جب انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے تو پھر نماز روزے کا کیا فائدہ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں.یہ سوال کرنے والا معلوم ہوا مسلمانوں کے اس بد بخت فریقہ سے تعلق رکھتا تھا جس کا عقیدہ یہ ہے کہ نماز روزہ اسی وقت تک کے لئے ہے جب تک انسان خدا تعالیٰ تک نہ پہنچا ہو اور اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں کہہ دوں کہ کنارہ آنے پر انسان کو کشتی سے اتر جانا چاہئے تو وہ کہہ دے کہ آپ کو ابھی خدا نہیں ملا ہو گا اس لئے آپ کو نماز روزں کی ضرورت ہوگی.مجھے تو نہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی یہ تمام باتیں سمجھا دیں اور میں نے جواب دیا کہ اگر در یا غیر محدود ہے تو پھر جہاں اترا ڈوبا.پس ہمارا جس ہستی سے تعلق ہے وہ غیر محدود ہے اور اس کے قرب کے مراتب لا متناہی ہیں.حتی کہ محمد ﷺ کی باکمال ذات کے لئے بھی ترقیات کی گنجائش ہے اور اگر کہا جائے کہ کوئی انسان ایسا بھی ہے کہ جس کے لئے اب ترقی کی گنجائش نہیں تو اس کا مطلب نَعُوذُ باللہ یہ ہوگا کہ وہ گویا خدا ہو گیا.بعض نادان کہا کرتے ہیں کہ محدود اعمال کی غیر محدود جزا ء اللہ تعالیٰ کس طرح دے سکتا ہے.میں ایسے لوگوں کو اکثر یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ محدود اعمال کی غیر محدود جزاء اس لئے اللہ تعالیٰ دے گا کہ تا اس کی تو حید ثابت ہو.اگر محدود اعمال کی محدود جزاء دے کر اللہ تعالیٰ اور ترقیات کے دروازے انسان پر بند کر دیتا تو انسان یہ کہ سکتا تھا کہ خدا مجھے اور ترقی دینے سے ڈر گیا اور اسے یہ خطرہ لاحق ہونے لگا کہ میں اس کی خدائی میں شریک نہ ہو جاؤں لیکن خدا نے کہا میں تمہیں غیر محدود جزاء دوں گا.تم بڑھتے جاؤ ، بڑھتے جاؤ مگر پھر بھی دیکھو گے کہ خدا احد ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا پس توحید کامل انعام کامل کے بغیر ثابت ہی نہیں ہو سکتی.جو مذاہب یہ کہا کرتے ہیں کہ اعمال کی جزاء محدود ہونی چاہئے وہ خدا تعالیٰ کی

Page 112

خطبات محمود 1+2 سال ۱۹۳۵ء تو حید کو مشتبہ کرتے ہیں.پس تکمیل کے مقامات غیر محدود ہیں اور ان کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان تو به واستغفار کرتا رہے اور اپنے اندر ایک بیداری و ہوشیاری پیدا کرے پس دعا ئیں کرنا تو بہ کرنا اور استغفار کرنا لازمی چیزیں ہیں اور ان کی روحانیت کی تکمیل کے لئے ہمیشہ ضرورت ہے اور اسی وجہ سے میں ان کی تاکید کرتا ہوں.کب میں نے کہا ہے کہ تم تو بہ واستغفار نہ کرو، کب میں نے کہا ہے کہ تم دعائیں نہ کرو میں نے تو ہر خطبہ میں کہا ہے کہ ہمارا کام خدا بنائے گا ظاہری تدبیر میں کچھ چیز نہیں.پس دعا ئیں اور توبہ واستغفار ضروری ہے مگر نہ اس لئے کہ یہ عذاب ہے جو ہم پر آ رہا ہے بلکہ اس لئے کہ روحانی تکمیل کے لئے ان امور کی ضرورت ہے اور کوئی شخص خواہ کتنے بڑے بلند مقامات پر بھی فائز ہو جائے ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا.عذاب تو تب آتا ہے جب جماعت کی اکثریت خراب ہو جاتی ہے مگر کب ہماری جماعت کی اکثریت خراب ہوئی.یا کب اس کی اکثریت نے ٹھوکر کھائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات جماعت کیلئے ایک بہت بڑا ابتلاء تھا مگر کیا اس وقت اکثریت نے ٹھوکر کھائی.پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں جب صدر انجمن نے بغاوت کی تو کیا اُس وقت اکثریت نے ٹھو کر کھائی.آپ کی وفات پر خلافت کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو کیا اُس وقت اکثریت نے ٹھوکر کھائی.جب نبوت اور کفر و اسلام وغیرہ مسائل پر بحث ہوئی اور یہ خیال رائج کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس قسم کے عقائد کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں احمدیت سے منافرت پیدا ہوگی اور غیروں کو انگیخت کر کے عملاً جماعت کو تکلیف پہنچائی بھی گئی مگر کیا اس وقت اکثریت نے ٹھو کر کھائی.پھر اب قربانی کا سوال میں نے جماعت کے سامنے پیش کیا تو جماعت نے قربانی کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا ہے کیا جن پر عذاب آرہا ہو ان کی یہی حالت ہوا کرتی ہے؟ جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزامل رہی ہو ان سے تو نیکی کی تو فیق چھین لی جاتی ہے.چنانچہ ابو جہل کو جب سزا ملتی تو وہ نیکی میں اور زیادہ گھٹ جاتا.اس کے مقابلہ میں حضرت ابو بکر یا دوسرے صحابہ پر جب ابتلاء آتے تو وہ نیکیوں میں ترقی کر جاتے یہی علامت اس بات کی ہوتی ہے کہ کونسا ابتلاء ہے اور کونسا عذاب.جب سزا آتی ہے تو اس وقت دل کا زنگ بڑھ جاتا ہے اور انعام پر دل کا نور ترقی کرتا ہے.اس وقت دیکھ لو کیا نیک تغیر ہے جو جماعت میں پیدا ہو رہا ہے ہر شخص اپنے دل میں ایک تازگی محسوس کرتا ہے ، ہر شخص پہلے سے زیادہ دعاؤں میں مصروف ہے، پہلے سے زیادہ احتیاط کے ساتھ نیکیوں کی طرف توجہ رکھتا ہے ، پہلے

Page 113

خطبات محمود ۱۰۸ سال ۱۹۳۵ء سے زیادہ زور کے ساتھ مالی قربانیاں کرتا ہے.ایک بیداری ہے جو جماعت میں پیدا ہوگئی ،ایک تقویٰ ہے جو ہر شخص کے دل میں ہے اگر یہ تمام باتیں ہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سزا ہے.پھر خدا تعالیٰ کا قول ہماری تائید میں ہے کیونکہ متواتر الہامات اور مسلسل خوا ہیں جو جماعت کے مختلف لوگوں کو آئیں ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس فتنہ کے ذریعہ ہماری جماعت کو بڑھائے اور پھیلائے اور ترقی دے اور یہ کوئی عجیب امر نہیں کہ اللہ تعالی تکالیف سے ترقی مدارج کی صورت پیدا کرے ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے.اس بارہ میں میرا ایک عجیب تجربہ ہے ، میرے راستہ میں دفعہ ایک سخت مشکل پیش آئی ، ایسی کہ فکر سے میری کمر جھکی جاتی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ اس روک کو دور کر نیکے ظاہری سامان مفقود ہیں.میں نے دعا کی مگر جب نتیجہ میں دیر ہونے لگی تو میں نے عہد کیا کہ میں اس وقت تک کہ دعا قبول ہو زمین پر سویا کروں گا چار پائی پر نہ لیٹوں گا.چنانچہ میں زمین پر سویا ، آدھی رات کے قریب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ عورت کی شکل میں جسے میں اپنی والدہ سمجھتا ہوں آیا اس کے ہاتھ میں ایک بار یک سی چھڑی ہے جو درخت کی تازہ کٹی ہوئی بار یک شاخ معلوم ہوتی ہے اس کے سر پر کچھ پتے بھی لگے ہوئے ہیں چہرہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ غصہ ہے مگر اس غصہ کے اندر پیار کی جھلک بھی نظر آتی ہے، میرے قریب آکر اور چھڑی کو گھماتے ہوئے اس تمثیل نے مجھے کہا کہ چار پائی پر لیٹتا ہے کہ نہیں ، چار پائی پر لیٹتا ہے کہ نہیں ، پھر اس نے مجھے آہستہ سے چھڑی مارنی چاہی جیسے ایسے شخص کو تنبیہہ کرتے ہیں جس کے متعلق پیار کا غلبہ ہوتا ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ چھڑی مجھے لگی یا نہیں مگر میں معا گود کر چار پائی پر چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی.جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت میں نے دیکھا کہ میں چار پائی کی طرف جارہا تھا، اس کے بعد دوسرے ہی دن وہ بات جس کا مجھے فکر تھا خدا تعالیٰ کے فضل سے حل ہو گئی.اس رویا میں پیار والے ابتلاء کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو تکلیف میں ڈالتا ہے دوسری طرف وہ اتنی بھی برداشت نہیں کرتا کہ وہ چار پائی کو چھوڑ کر زمین پر سوئے گویا جس تکلیف کو اس نے ترقی کے لئے ضروری سمجھا تھا وہ تو پہنچاتا ہے اس کے علاوہ ایک ذرا سا دکھ بھی پہنچے تو وہ بے تاب ہو کر اس طرح انسان کی طرف دوڑتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کی طرف.یہی حالت اس وقت ہے تم خود غور کرو کہ ان ابتلاؤں کا کیا نتیجہ نکلا ہے.ان ابتلاؤں کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ جماعت مالی قربانی

Page 114

خطبات محمود 1+9 سال ۱۹۳۵ء کرے اور جماعت نے وہ مالی قربانی کی.میں نے کہا کہ جسمانی قربانی کرو اور کھانے میں بھی تخفیف کر دو جماعت نے فوراً اس پر لبیک کہا.پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کرو اور جاؤ باہر کے ملکوں میں تبلیغ کے لئے نئے میدان تلاش کرو کیونکہ یہ بیوقوفی ہوتی ہے کہ ایک شخص جسے ہماری باتوں سے غصہ آرہا ہو ، وہ ہمیں گالیاں دے رہا ہو اور ہم اس پر اپنی طاقتیں صرف کرتے چلے جائیں.ہمارا فرض ہوتا ہے کہ ہم اسے چھوڑیں اور کسی ٹھنڈے مزاج والے کے پاس جائیں اور اسے تبلیغ کریں.پس میں نے اپنی جماعت سے کہا کہ اگر ہندوستان میں شورش ہے اور ان لوگوں کو تبلیغ کرنے سے فائدہ نہیں ہوتا تو جاؤ اور دوسرے ممالک میں اپنے لئے نئے میدان اور نئے راستے تلاش کرو.میری اس تحریک پر جماعت نے اپنے آپ کو پیش کیا اور ایسے اخلاص کے ساتھ جماعت کے افراد نے اپنے آپکو پیش کیا کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے پھر چھوٹے چھوٹے بچوں نے ویسا ہی نمونہ دکھایا جیسا کہ رسول کریم ہے کے وقت دو بچوں نے دکھایا تھا جو بدر کی جنگ میں شامل ہوئے تھے یا جو حضرت علیؓ نے دکھایا تھا جب کفار نے رسول کریم ﷺ کی دعوت حق کے جواب میں اسے قبول کرنے سے اعراض کیا تھا چنا نچہ ایک بچہ سے جب دریافت کیا گیا کہ اگر تمہیں ہماری طرف سے کچھ نہ ملے تو تم کیا کرو گے.تو اس نے جواب دیا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اسی وقت ایک ٹوکری لے کر چل پڑوں گا اور محنت مزدوری کرتا ہوا پیدل اپنی منزلِ مقصود تک پہنچوں گا اور یہ ایک مثال نہیں بیسیوں نوجوان بیتابی سے اس قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں.وہ صرف اذن چاہتے ہیں اور کوئی امداد نہیں چاہتے سوائے اس کے کہ کام کی جلدی کی وجہ سے ہم خود ان کی کوئی امداد کریں.کیا یہ ایک عذاب یافتہ قوم کی حالت ہوا کرتی ہے کیا جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل ہوتی ہے ان میں ایسا ہی اخلاص اور تقوی پایا جاتا ہے پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں.بے شک میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اندر کمزوریاں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ ہم ان کمزوریوں پر غالب آئیں لیکن تکالیف سے مقصود سزا دینا نہیں بلکہ اپنے قریب کرنا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے ماں اپنے بچہ کا منہ دھوتی ہے تو وہ روتا ہے.وہ اسلئے اس کا منہ دھو کر اسے نہیں رُلاتی کہ اسے سزادے بلکہ اس لئے منہ دھوتی ہے کہ اسے چومے.اسی طرح خدا تعالیٰ ان ابتلاؤں پر اس لئے خاموش نہیں کہ وہ ہمیں سزا دینا چاہتا ہے بلکہ وہ اس لئے خاموش ہے کہ اس ذریعہ سے ہمارا منہ دھویا جا

Page 115

خطبات محمود 11 + سال ۱۹۳۵ء رہا ہے جس کے بعد وہ ہمیں محبت سے بوسہ دے گا.اللہ تعالیٰ کی جماعت کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ عذاب یافتہ قوم ہے ، ایک بہت بڑا گناہ ہے.عبد الحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی لکھا تھا کہ آپ کی جماعت میں مولوی نورالدین صاحب ہی ایک کامل انسان نظر آتے ہیں اور لوگ تو ایسے نہیں.اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے یہی دیا کہ مجھے تو اپنی جماعت میں لاکھوں انسان ایسے نظر آتے ہیں جو صحابہ کا نمونہ ہیں اور تم ان خیالات سے تو بہ کر دور نہ اس کا انجام اچھا نہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے آپ نے نہایت سختی سے اپنی جماعت کے عیوب بیان کئے ہیں تو معالج والی نگاہ سے عیوب کا دیکھنا اور چیز ہوتی ہے اور اعتراض کی نیت سے عیوب کا دیکھنا بالکل اور چیز ہے.جتنے عیب میں اپنی جماعت میں دیکھتا ہوں غالباً اس دوست کو بھی اتنے عیب نظر نہیں آتے ہوں گے اور یقینا نہیں آتے مگر جس نگاہ سے مجھے نظر آتے ہیں وہ اور ہے اور جس نگاہ سے انہیں نظر آتے ہیں وہ اور ہے.بے شک یہ ایک بہت بڑا ابتلاء ہے جو ہماری جماعت پر آیا اور بے شک ہم اگر اس ابتلاء کو نہیں سمجھیں گے، اس کا مقابلہ نہیں کریں گے اور اس سے بچنے کی تدابیر نہیں سوچیں گے تو ایسی مشکلات میں مبتلاء ہو سکتے ہیں جن سے نکلنے کے لئے سالہا سال درکار ہوں.مگر باوجود اس کے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ وہ ہمیں عذاب دے، اس کا یہ منشاء نہیں کہ وہ ہمیں سزا دے بلکہ اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ ہمیں ترقی دے.اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ ہمیں بڑھائے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ ہمیں پھیلائے باقی اس راہ میں جان چلی جانا یا خدا کے لئے مٹی میں مل جانا یہ کوئی ذلت کی بات نہیں بلکہ عزت کی بات ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ کہہ چکا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے دین کے لئے مالی قربانی کرتا ہے یا اس کے جلال کے لئے اپنی جان قربان کر دیتا ہے تو بہر حال دونوں صورتوں میں زمانہ میں اس کا نام قائم رہے گا اور دنیا کا کوئی حادثہ اس کے نام کو مٹا نہیں سکتا.بھلا غور تو کرو کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ گناہ تو ہم سب کریں مگر گالیاں جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کہا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملیں.فرض کرو آج ہماری جماعت کے آدمی گھروں میں چُھپ کر بیٹھ رہیں اور احمدیت کی اشاعت نہ کریں ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول کریم ﷺ کو نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ چھوڑ دیں تو کیا کوئی دشمن ہم پر حملہ کرنے والا کھڑا رہ سکتا ہے.

Page 116

خطبات محمود 111 سال ۱۹۳۵ء ہماری مخالفت تو دنیا میں اسی لئے ہو رہی ہے کہ ہم اس زمانہ کے ما مور پر ایمان لائے ہم نے خدا تعالیٰ کو زندہ نشانات سے مانا اور ہم نے اسلام کے پھیلانے کا تہیہ کر لیا.پس لوگوں کو اگر دشمنی ہے تو خدا سے ، دشمنی ہے تو رسول کریم اللہ کے نام سے، اور دشمنی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے.کوئی اس لئے ہمارا دشمن ہے کہ ہم نے خدا کو مانا ، کوئی اس لئے ہمارا دشمن ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کو مانا اور کوئی اس لئے ہمارا دشمن ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا.پس اس صورت میں نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ یہ سزا ہمیں نہیں مل رہی بلکہ ان تینوں کومل رہی ہے اگر ہم دنیا میں اپنا نام پیش کرتے اور اپنی ذات لوگوں سے منواتے تو اس صورت میں سزا ہم پر نازل ہوسکتی تھی جیسے مغلیہ حکومت تباہ ہوئی تو وہ سزا مغلیہ حکومت کے لئے تھی نہ کہ خدا اور اس کے رسول کے لئے کیونکہ مغلیہ حکومت خدا کا نام دنیا میں نہیں پھیلاتی تھی بلکہ اپنی حکومت لوگوں سے منواتی تھی.اسی طرح جو قو میں دنیا میں اپنی بڑائی کا اظہار کیا کرتی ہیں انہیں ان کے برے اعمال کی سزا مل جاتی ہے لیکن جو قوم خدا اور اس کے رسول کا نام دنیا میں پھیلا رہی ہو، جس کے دل کے کسی گوشہ میں اپنی ذاتی بڑائی کا خیال تک نہ ہو ، جو ہمہ تن اسی ایک مقصد کے لئے منہمک ہو کہ دنیا پر خدا کا جلال ظاہر ہو، ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کس طرح نازل ہو سکتی ہے.ہمارے کو نسے کام ہیں جو ہم اپنے لئے کرتے ہیں.ہمارے خاندان نے انگریزوں کی ہمیشہ خدمات کیں مگر ایک دفعہ بھی اس کے بدلہ میں کسی انعام کی خواہش نہیں کی بلکہ اگر کوشش کی تو یہ کہ مسلمانوں کا بھلا ہو جائے اور آئندہ بھی اِنشَاءَ اللهُ تَعَالٰی ہم اپنی ذات کو بھی پیش نہیں کرینگے.پس ہم نے تو اپنے آپ کو ایسا خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیا ہے کہ اب ہمارا مٹنا دنیا سے خدا تعالیٰ کے نام کا مٹنا قرار پاتا ہے.ہم اپنے لئے دنیا سے کچھ نہیں مانگتے بلکہ خدا کے لئے اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے مانگتے ہیں.پھر جماعت کا کثیر حصہ ایسا ہے جو بھوکا رہتا ہے، پیاسا رہتا ہے ، نگا رہتا ہے مگر دین کے لئے مالی قربانی کے مطالبہ کو پورا کرنے سے سرمو انحراف نہیں کرتا.پھر کہا جائے کہ اشاعت دین کے لئے دوسرے ملکوں میں نکل جاؤ تو وہ اپنے بچوں، اپنی بیویوں اور اپنے عزیز واقارب کو چھوڑ کر دور دراز ممالک میں اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے نکل جاتے ہیں اس پر بھی اگر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا ہی ملنی ہے تو نہ معلوم اللہ تعالیٰ کا انعام کن نیکیوں پر ملا کرتا ہے.میں سمجھتا ہوں جب تک ہماری جماعت کی یہ حالت رہے گی کہ وہ دین

Page 117

خطبات محمود ۱۱۲ سال ۱۹۳۵ء کے لئے مال خرچ کرتی رہے گی ، جب تک وہ تبلیغ کرتی رہے گی، جب تک وہ دنیا طلبی کی بجائے خدا طلبی میں لگی رہے گی، جب تک اسے اسلئے لوگوں کی طرف سے دکھ دیا جائے گا کہ کیوں یہ لوگوں کی خیر خواہی کرتی اور انہیں احمدیت میں داخل کرتی ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر بھی ابتلاء آئیں گے وہ عذابی نہیں ہونگے بلکہ انعامی ہوں گے.ہاں جس وقت ان کی کوششیں بجائے اشاعت دین کے اپنے نفس کے لئے خرچ ہونے لگیں گی، جس وقت انہیں اپنے بچوں اور بیویوں میں بیٹھنا زیادہ مرغوب رہنے لگے گا، جس وقت وہ اسلام کے آرام پر اپنے نفس کے آرام کو مقدم کرلیں گے اس وقت ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نازل ہومگر جب تک ہمارے دل بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی محبت سے پر ہیں ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کیا جا سکتا کہ بحیثیت جماعت خدا کا عذاب ہم پر نازل ہو.کون ایسا شخص ہے کہ کسی کو ایسی حالت میں گولی مارے جبکہ اس کا اپنا بچہ اس کی گودی میں بیٹھا ہوا ہو.ایک ڈاکو اور سفاک انسان بھی اس وقت گولی نہیں چلاتا جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا اپنا بچہ دوسرے کی گود میں ہے پھر کیا ہمارا خدا نَعُوذُ بِالله ایک ڈاکو اور چور جیسی عقل و سمجھ بھی نہیں رکھتا کہ اسی دل پر گولی چلائے گا جس دل میں اس کی محبت جاگزین ہے.بیشک ہم جاہل ہیں مگر خدا کے نام کے جلال اور اس کے دین کو پھیلانے کے لئے اپنے سینوں میں تڑپ رکھتے ہیں، بے شک ہم میں کمزوریاں ہیں مگر ہمارے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہیں اور ہم دل سے چاہتے ہیں کہ یہ کمزوریاں ہم میں نہ رہیں ، ہم دل سے چاہتے ہیں کہ ہماری عزتیں ، ہماری جانیں ، ہمارا آرام اور ہماری آسائش سب کچھ خدا کے نام پر قربان ہو جائے.جب ہماری قلبی کیفیات یہ ہیں ، جب ہم رات دن اپنے مولیٰ کی محبت میں سرشار رہتے ہیں ، جب ہم اٹھتے بیٹھتے اسی کے نام کو پھیلانے میں کوشاں رہتے ہیں تو یقیناً خدا ایسے دلوں پر گولی نہیں چلا سکتا.میں اپنے دل کو جانتا ہوں اور میں مقدس سے مقدس مقام میں کھڑا ہو کر غلیظ سے غلیظ قسم اس بات کیلئے کھا سکتا ہوں کہ خدا اور اس کے رسول کی عزت کے سوا میرے دل میں اور کسی کی عزت پھیلانے کا ولولہ نہیں.اس کے کلام کی محبت سے میرا دل لبریز ہے اور اس کی اشاعت کے لئے مجھے اتنا جوش ہے کہ اور کسی چیز کے لئے اتنا جوش نہیں اور میں جانتا ہوں کہ سوائے چند منافقین کے تمام جماعت اپنے دلوں میں یہی ولولے اور یہی ارادے رکھتی ہے پس ایسے دلوں کو کوئی تباہ نہیں کیا کرتا.اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اگر موجودہ مشکلات

Page 118

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سزا ہیں تو نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذلِكَ کہنا پڑے گا کہ خدا ظالم ہے اس نے ہمارے دلوں کو دیکھا مگر ہمارے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جس کے ہم مستحق تھے.باقی رہی کمزوروں کی اصلاح سو وہ ہمیشہ ہمارے مد نظر رہتی ہے.اور کمزوریاں تو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں اور ہر انسان اگر چاہے تو انہیں چھوڑ کر زیادہ بلند مقام حاصل کر سکتا ہے.عمر ابو بکر بن سکتا ہے اور ابو بکر اور زیادہ ترقی کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کے مزید مقامات حاصل کر سکتا ہے پس اس قسم کا خیال رکھنے والے لوگوں کو میں سمجھا تا ہوں کہ وہ غور کریں اور سوچیں.میں زبر دستی ان سے اپنی بات نہیں منوانا چاہتا بلکہ انہیں کہتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں.اگر وہ تو جہ کریں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان کا یہ خیال بالکل باطل ہے اور نہ صرف باطل بلکہ انہیں نیکی کے راستہ سے دور پھینکنے والا ہے.بہت دفعہ شیطان نیکی کے راستہ سے دھوکا دے دیا کرتا ہے جیسے عبد الحکیم کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے.اس نے اعتراض کرتے وقت یہی لکھا تھا کہ جماعت کی اصلاح میرے مد نظر ہے مگر دیکھ لو کہ اس کا نتیجہ کیسا خطر ناک نکلا.ملتی نظام خدا تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے.ہاں اصلاح کے لئے جماعت کے عیوب بیان کرنا بالکل اور چیز ہے اور نیتوں کا فرق بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے.بظاہر ایک ڈاکٹر بھی ہاتھ کا تا ہے اور ڈا کو بھی.اسی طرح ڈا کو بھی لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور گورنمنٹ بھی پھانسیاں دیتی ہے مگر ان دونوں میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے.گورنمنٹ ہزاروں آدمیوں کی جانیں بچانے کے لئے مجرموں کو پھانسی دیتی ہے اور ڈا کو مال وغیرہ لوٹنے کے لئے دوسروں کو قتل کرتے ہیں پس کام تو ایک ہے مگر نیتوں میں فرق ہے.اسی طرح جماعت کی اصلاح کے لئے نقص بیان کرنا اور بات ہے اور جماعت کے عیوب پر لذت محسوس کرنا اور کہنا کہ اب یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے سزا مل رہی ہے بالکل اور بات ہے اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.جس طرح ہر وہ قوم جس میں اصلاح کرنے والے نہ رہیں اور جس کے افراد ایک دوسرے کے عیوب نہ دیکھ سکیں تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح وہ لوگ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں جو عیب دیکھتے تو ہیں مگر ان کا اپنے دلوں میں ذخیرہ کرتے چلے جاتے ہیں اور بجائے اصلاح کے قوم کے متعلق بُری رائے قائم کر لیتے ہیں.پس تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ پر امید نہ چھوڑو اور یقیناً یاد رکھو کہ بے شک ہمارے سامنے مشکلات ہیں مگر ان کا انجام اچھا ہے.مجھے خود بعض رؤیا اور الہام ایسے ہوئے ہیں جو کامیابی

Page 119

خطبات محمود ۱۱۴ سال ۱۹۳۵ء اور فتح کی خبر دیتے ہیں اور بعض الہام تو بہت ہی مبارک ہیں مگر میں انہیں بیان نہیں کرتا کیونکہ ان کے مخفی رکھنے میں بعض مصالح ہیں.صرف ایک رؤیا بیان کر دیتا ہوں جو انہی دنوں میں نے دیکھا.میں نے دیکھا کہ میں بھوپال میں ہوں اور وہاں ٹھہرنے کے لئے سرائے میں اترنے کا ارادہ ہے.ایک سرائے وہاں ہے جو بہت اچھی اور عمدہ ہے مگر ایک اور سرائے جو بظاہر خراب اور خستہ ہے اور وہاں میرے ساتھی اسباب لے گئے ہیں.ایک ہمارے ہم جماعت ہوا کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ مغفرت کرے، ان کا نام حافظ عبد الرحیم تھا میں نے دیکھا وہ اسی جگہ ہیں اور حکیم دین محمد صاحب کہ وہ بھی میرے ہم جماعت ہیں وہیں ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ عبد الرحیم صاحب مرحوم اس بظاہر شکستہ سرائے میں ہمیں لے گئے ہیں.میں اسے دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہاں ٹھہرنے میں تو خطرات ہوں گے ، سرائے بھی خراب سی ہے ، دوسری اچھی سرائے جو ہے وہاں کیوں نہیں ٹھہرے.وہ کہنے لگے یہیں ٹھہرنا اچھا ہے ، پھر وہ میرے لئے بستر بچھاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بستر بھی نہایت گندہ اور میلا سا ہے.میں اسے دیکھ کر کہتا ہوں اگر مجھے معلوم ہوتا کہ بستر ایسا گندہ ملے گا تو میں اپنا بستر لے آتا.تکیہ کی جگہ بھی انہوں نے کوئی نہایت ہی ذلیل سی چیز رکھی ہے.پھر جس طریق پر وہ بچھاتے ہیں اس سے بھی مجھے نفرت پیدا ہوتی ہے کیونکہ ٹیڑھا سا بستر انہوں نے بچھایا ہے مگر پھر میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ بُری بات ہے میں کسی اور جگہ رہائش کا انتظام کروں جہاں باقی ساتھی ہیں وہیں مجھے بھی رہنا چاہئے.اس کے بعد میں بستر پر لیٹ جاتا ہوں مگر لیٹتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ بستر نہایت اعلیٰ درجہ کا ہو جاتا ہے اور جگہ بھی تبدیل ہو کر پہلے سے بہت خوشنما ہو جاتی ہے ، لحاف اور کمبل بھی جو بستر پر ہیں نہایت عمدہ قسم کے ہو جاتے ہیں اور تکیہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ بہت اعلیٰ ہے اور باقی ساتھیوں کے بستر بھی صاف ستھرے ہو جاتے ہیں.بستر پر لیٹتے وقت میرے دل میں خیال تھا کہ مجھے اپنے پاس کوئی ہتھیار رکھنا چاہئے کیونکہ خواب میں ہم باہر صحن میں ہیں اور گلابی جاڑے کا موسم ہے جب کہ لوگ باہر سوتے لیکن اوپر کچھ نہ کچھ اوڑھتے ہیں پس خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چور چکار نہ آ جائے.میں اسی سوچ میں ہوں کہ میں خیال کرتا ہوں میری جیب میں ایک پستول پڑا ہے اسے دیکھوں کہ وہ موجود ہے کہ نہیں.چنانچہ کہنی کے بل میں اٹھتا ہوں اور جیب پر ہاتھ مار کر دیکھتا ہوں تو مجھے نہایت اچھی قسم کا عمدہ سا پستول نظر آ جاتا ہے.اس پر دل میں اطمینان پیدا ہو جاتا ہے.اس رؤیا کا اثر اتنا گہرا تھا کہ

Page 120

خطبات محمود ۱۱۵ سال ۱۹۳۵ء فوراً آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ میں واقع میں اپنے کرتہ پر صدری کی جیب کی جگہ پر ہاتھ مار رہا تھا جیسے کوئی کچھ تلاش کرتا ہے.یہ رویا تو خیر تعبیر طلب ہے مگر اور بھی بہت سے واضح رؤیا ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں میں ہمیں فتح دے گا اور یہ کہ اس کا نشان یہ ہے کہ وہ احمدیت کو ان ابتلاؤں کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں پھیلائے اور کوئی بڑی سے بڑی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکے گی.خدا تعالیٰ کی ان متواتر خبروں کے بعد میں کسی کی یہ بات کس طرح قبول کر سکتا ہوں کہ ہماری جماعت پر یہ عذاب آ رہا ہے.پنجابی میں ضرب المثل ہے کہ گھروں میں آیاں تے سنیے توں دیویں ، یعنی گھر سے تو میں آرہا ہوں اور گھر کے پیغام تم بتا رہے ہو.اس طرح ہم خود خدا کے گھر سے آئے اور ہمیں اس نے بتایا ہے کہ ان فتنوں کا کیا انجام ہے پس ہم پر ان وہمی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے کہ یہ خدا کا عذاب ہے جو آ رہا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ میں جماعت کو اصلاح سے غافل کرنا چاہتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں بھی عیب ہیں اور تم میں بھی پھر کسی میں دس عیب ہیں ،کسی میں ہیں کسی میں سو اور کسی میں ہزار ہم جتنی جلدی ان عیبوں کو دور کرو گے اتنی ہی جلدی تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا بلکہ اگر تم میں آدھا عیب بھی باقی ہے اور تم اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو خدا سے دور رہتے ہوا اور آدھا عیب کا کیا مطلب ، عیب کا ہزارواں حصہ بھی اگر تمہارے اندر ہے تو تمہیں اس سے شدید نفرت کرنی چاہئے اور شدید کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ تم اس قدر عیب سے بھی پاک ہو جاؤ مگر میں یہ کہ کر اپنی جماعت کو مایوس بھی نہیں کرنا چاہتا کہ گویا تمہیں سزامل رہی ہے.بے شک خدا ہمیں اس وقت تکلیف میں ڈالے ہوئے ہے مگر اس لئے کہ تا ہمارے افکار کو وسیع کرے.جب انسان پر مصائب و مشکلات آتی ہیں تو اس وقت ایسی ایسی تدبیریں اسے سوجھتی ہیں جو بہت جلد ترقی تک پہنچانے والی ہوتی ہیں.فاقہ کے وقت بعض دفعہ غریبوں کو ایسے ایسے ڈھنگ روٹی کمانے کے سوجھتے ہیں کہ انسان خیال کرتا ہے اگر یہ دنیا کے بادشاہ ہو جائیں تو تمام عالم کو مسخر کر لیں اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں اس لئے مشکلات میں نہیں ڈالے ہوئے کہ وہ ہمیں دکھ دینا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کہتا ہماری عقلیں تیز ہو جائیں اور ہماری تدبیروں کا دائرہ وسیع ہو اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جب ہم ان تدبیروں پر عمل کریں گے تو سحر ہو جائے گی اندھیرا جاتا رہے گا اور فتح اور کامیابی کا سورج

Page 121

خطبات محمود 117 سال ۱۹۳۵ء ہمارے لئے نکل آئے گا.چند سال ہوئے میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں گھر کے اس حصہ میں ہوں جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ہے.میں نے مسجد میں شور سنا اور باہر نکل کر دیکھا کہ لوگ اکٹھے ہیں ان میں ایک میرے استاد بھائی شیخ عبد الرحیم صاحب بھی ہیں.سب لوگ مغرب کی طرف انگلیاں اُٹھا اُٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھ لو مغرب سے سورج نکل آیا اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب قیامت آگئی.میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت پہاڑیاں گر رہی ہیں ، درخت ٹوٹ رہے ہیں اور شہر ویران ہو رہے ہیں اور ہر ایک کی زبان پر یہ جاری ہے کہ تباہی آگئی قیامت آگئی.میں بھی یہ نظارہ دیکھتا ہوں تو کچھ گھبرا سا جاتا ہوں مگر پھر میں کہتا ہوں مجھے اچھی طرح سورج دیکھ تو لینے دو.میں خواب میں خیال کرتا ہوں کہ قیامت کی علامت صرف مغرب سے سورج کا طلوع نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور علامات کا پایا جانا بھی ضروری ہے.چنانچہ ان دوسری علامتوں کو دیکھنے کے لئے میں مغرب کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو وہاں بعض ایسی علامتیں دیکھتا ہوں جو قیامت کے خلاف ہیں اور غالبا سورج کے پاس چاند ستارے یا نور دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ قیامت کی علامت نہیں.دیکھو فلاں فلاں علامتیں اس کے خلاف ہیں.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ میں نے دیکھا سورج غائب ہو گیا اور دنیا پھر اپنی اصل حالت پر آ گئی.پس ہمارے لئے تو ابھی کئی قیامتیں مقدر ہیں.ان معمولی ابتلاؤں سے گھبرا جانا تو بڑی ناسمجھی ہے.جو شخص گھبرا کر یہ سمجھتا ہے کہ اب قوم تباہ ہوگئی وہ بھی غلطی کرتا ہے اور جو سمجھتا ہے کہ انسانی طاقتیں ہمارے سلسلہ کو مٹا سکتی ہیں وہ بھی غلطی کرتا ہے.تمہارے سامنے اس وقت ایک پُل صراط پیش ہے تم اس پر چلو تم حکومت کے قوانین کی پابندی کرو، تم شریعت کی پابندی کرو.تم سلسلہ کی روایات کا احترام کرو اور چلتے چلے جاؤ اور یقین رکھو کہ کامیابی تمہارے لئے ہے.تمہیں تلوار کی دھار پر اس وقت چلنا پڑے گا تمہیں قانون کی بھی پابندی کرنی پڑے گی تمہیں شریعت کی بھی پابندی کرنی پڑے گی، تمہیں سلسلہ کی روایات کا احترام بھی مد نظر رکھنا ہوگا اور اس کے ساتھ تمہیں موجودہ رفتن کا مقابلہ بھی کرنا ہو گا.تم خیال کرتے ہو گے کہ ان شرائط کی پابندی کے بعد ظلموں کے دُور کر نے کا کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے لیکن میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اس تلوار کی دھار پر اتنا گھلا راستہ ہے کہ تم بغیر کسی خوف وخطر کے منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہو تم میری بات سنو اور سمجھو اور میرے پیچھے چلے آؤ تمہیں ایک نہایت ہی گھلا راستہ نظر آئے گا اتنا گھلا راستہ کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور سمجھو کہ کامیابی

Page 122

خطبات محمود 112 سال ۱۹۳۵ء تمہارے لئے مقدر ہے ، عزت تمہارے لئے مقدر ہے ، بڑائی تمہارے لئے مقدر ہے، رتبہ تمہارے لئے مقدر ہے.جو لوگ آج تمہارے دشمن ہیں وہ کل تمہارے دوست ہوں گے ، جو آج تمہیں مٹانے کے درپے ہیں وہ کل تمہارے میناروں کو اونچا کرنے والے ہوں گے.پس دشمن کو دشمن نہ سمجھو بلکہ یقین رکھو کہ وہ تمہارا دوست بنے والا ہے سوائے اُس شخص کے کہ جس کے لئے ازل سے ہدایت مقدر نہیں.تم مایوس مت ہوا اور نہ اپنے حواس کھوا.عقل قائم رکھو اور حوصلے بلند رکھو پھر قطعا تمہیں کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں.خدا تمہارا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے.بے شک تم تو بہ کرو اور استغفار کرو مگر تم تو بہ اس لئے نہ کرو کہ کوئی عذاب ہے جسے تم دُور کرنا چاہتے ہو بلکہ اس لئے کرو کہ تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل کا اگلا دروازہ تمہارے لئے کھول دے، تم دعائیں کرو مگر اس لئے نہیں کہ خدا تمہیں تباہ کرنے کے لئے اُٹھا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ تم پر رحم کرنے کے لئے اُٹھا ہے ، تم دعائیں کرو کہ تم اس کے رحم سے زیادہ سے زیادہ حصہ لو.پس صداقت کو سامنے رکھتے ہوئے کام کر وموجودہ مشکلات سے گھبرانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے.اس سے بہت زیادہ مشکلات ہیں جن پر تم نے غالب آنا ہے.تم آج اپنے جوشوں کو بھی ٹھنڈا رکھو اور خدا پر بھی امید رکھو کہ خدا پر بدظنی کرنے والا خود ہلاک ہوتا ہے.پھر اپنی تدبیروں سے بھی پیچھے مت ہو اور تقدیر پر بھی بھروسہ رکھو مگر تدبیر سے کام لینے کے یہ معنی نہیں کہ تم صبح تدبیر سے کام لو اور شام کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر دیکھنا چا ہو.جو شخص اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اسے بھی اولاد کے لئے نو (9) مہینہ انتظار کرنا پڑتا ہے ہاں جتنی زیادہ تدبیریں کرو گے اتنی ہی زیادہ تقدیر میں ظاہر ہوں گی.محمد ﷺ کو بھی تدبیریں کرنی پڑتی تھیں اور ابو جہل بھی تدبیر میں کرتا تھا مگر محمد ﷺ کی تدبیروں کی تقدیر مدد کرتی اور ابو جہل کی تدبیروں کی تقدیر مدد نہ کرتی.پس تدبیریں کئے جاؤ اور یہ مت دیکھو کہ کب نتیجہ نکلتا ہے.ممکن ہے ہماری تدبیر میں تین سال کے بعد نتیجہ خیز ہوں ہممکن ہے چھ سال کے بعد ہوں اور ممکن ہے بارہ سال کے بعد ہوں ہاں جو نتیجہ نکلنا ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم حق پر ہیں اور بہر حال ہم دنیا پر غالب آ کر رہیں گے.ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم میں خدا کی محبت ہے ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہمارے اندر انبیاء کی محبت ہے ، ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم میں رسول کریم ﷺ کی محبت ہے ، ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ہے اور ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم فتنہ و فساد نہیں چاہتے بلکہ

Page 123

خطبات محمود ۱۱۸ سال ۱۹۳۵ء لوگوں کے ساتھ احسان کرنا چاہتے ہیں پس ہم کس طرح مان لیں کہ ایسے بندوں کو خدا تعالیٰ برباد کرنے کے لئے تیار ہے.جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں خدا کی محبت ہے ، جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس کے رسولوں کی محبت ہے جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس کے مسیح موعود کی محبت ہے جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں تمام نوع انسان کی محبت ہے اور ہم حکومت اور رعایا سب کی خیر خواہی چاہتے ہیں، تو بے شک دنیا جو ہمارے حالات سے ناواقف ہے ہم سے دشمنی کر سکتی ہے مگر خدا ہمارا دشمن نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ عَالِمُ الْغَيْبِ ہے.بالکل ممکن ہے حکومت ہماری دشمن ہو جائے ، ممکن ہے رعایا ہماری دشمن ہو جائے ہممکن ہے چھوٹے بڑے سب ہمارے دشمن ہو جائیں مگر یہ ممکن نہیں کہ خدا ہماری جماعت کا دشمن ہو.مجھے اگر لوگ آ کر یہ کہیں کہ ہندوستان کے تمام افراد آپ کو مارنا چاہتے ہیں تو ممکن ہے میں اس بات کو مان لوں لیکن اگر کوئی آکر یہ کہے کہ خدا ہمیں مٹانا چاہتا ہے تو میں اس بات کو کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں.میں اپنے نفس کو جانتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ محبت اگر مجھے ہے تو خدا تعالیٰ سے ہے بلکہ بعض دفعہ مجھے رشک آ جاتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ کیا نبیوں کے دل میں مجھ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے ؟ پس میں اپنے دل کو جانتا ہوں اور میرا رب میرے دل کو جانتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں کے دلوں کی بھی یہی کیفیات ہیں.گو بعض ان میں سے کمزور بھی ہوں مگر غالب اکثریت ایسی ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی محبت میں سرشار ہے پھر میں کس طرح مان لوں کہ یہ سزا ہے جو ہمیں مل رہی ہے ہاں خدا پر تو گل رکھو ، یقین رکھو اور اُس سے دعائیں کرو کہ وہ کامیابی کی گھڑی جلد تمہارے سامنے لائے.اگر تم میرے اس وعظ کے نتیجہ میں اپنی اصلاح سے غافل ہو گئے تو یہ ایک بُرا نتیجہ ہو گا جس سے تمہیں بچنا چاہئے.میں نے تمہیں خدا تعالیٰ کی برکت کی خبر دی ہے اور جب خدا تعالیٰ کی برکت کی خبر سنائی جائے تو انسان کو پہلے سے بہت زیادہ پستی کے ساتھ نیکیوں پر عمل پیسوا ہونا چاہئے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ اجب خدا تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی کمزوریاں معاف کر دیں تو آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے ہیں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ! کیا اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کے بدلہ میں میں اب شکر نہ کروں.لے پس تمہیں بھی اس خطبہ کے نتیجہ میں اپنی اصلاح سے

Page 124

خطبات محمود 119 سال ۱۹۳۵ء غافل نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ آگے سے زیادہ ہوشیار ہو جانا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کے شکر کے طور پر تمہیں یہ کہتے ہوئے اپنے رب کے سامنے جھک جانا چاہئے کہ اے ہمارے فضل کرنے ا والے رب! ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں.( الفضل ۱۷ رفروری ۱۹۳۵) ل اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۲۸۴ مطبوعه بیروت ۱۲۸۵ هـ النور : ۵۶ تاریخ طبری جلد ۳ صفحه ۱۲۵ مطبوعه بیروت ۱۹۸۷ء.الانفال: ۳۴ ك البقرة : ۲۱۵ البقرة : ۲۱۵ المائدة: ۲۵ ترمذی ابواب الرؤيا باب ذهبت النبوة وبقى المبشرات.طه: ۱۱۵ بخاری کتاب المغازى باب فَضْلٍ مَنْ شَهِد بَدْرًا.البخاري كتاب التفسير باب قوله لِيَغْفِرَلَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنُبَكَ (الخ)

Page 125

خطبات محمود ۱۲۰ L سال ۱۹۳۵ء دنیا کو اعلیٰ اخلاق کے ساتھ فتح کرو فرموده ۱۵ رفروری ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ سورہ فاتحہ اور سورۃ جمعہ کے پہلے رکوع کی درج ذیل آیات تلاوت فرمائی يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثْ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذَلِكَ فَضْلُ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِلُوا التَّوْرَةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِيَحْمِلُ اَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِايَتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِيْنَ قُلْ يَا يُّهَا الَّذِينَ هَادُوا اِنْ زَعَمْتُمُ أَنَّكُمْ اَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُون النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ يَتَمَنَّوْنَهُ، اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّه مُلقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ ! اس کے بعد فر ما یا :.گلے کی تکلیف کی وجہ سے ایک عرصہ سے مردوں میں میرا درس قرآن بند ہے لیکن اس لئے کہ قرآن کی برکات کے بیان کرنے سے زبان گلی طور پر محروم نہ رہے میں عورتوں میں ہفتہ میں ایک دن درس دیتا ہوں.دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر گلے کی تکلیف دُور کر دے تو مردوں میں بھی درس دیا جا سکے اور عورتوں میں ہفتہ بھر جاری رکھا جا سکے لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا.

Page 126

خطبات محمود ۱۲۱ سال ۱۹۳۵ء اس ہفتہ عورتوں میں جو درس تھا وہ سورہ جمعہ کے اس رکوع کا تھا جو میں نے ابھی پڑھا ہے.جب میں نے درس شروع کیا تو معلوم ہوا کہ الہی تصرف میرے قلب پر اور میری زبان پر ہے اور الہی منشاء کے ماتحت بعض ایسی باتیں میری زبان پر جاری ہورہی ہیں جو پہلے کبھی میرے ذہن میں نہیں آئیں اور چونکہ میں نے دیکھا کہ گو ہم پہلے ہی اس رکوع کو سمجھتے ہیں کہ یہ اس زمانہ کے متعلق ہے اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے متعلق پیشگوئی ہے مگر درس کے وقت اس کے مضامین زیادہ وضاحت کے ساتھ میرے ذہن میں آنے لگے اور مجھے معلوم ہوا کہ خصوصا ان ایام کے ساتھ اس رکوع کا زیادہ تعلق ہے.تب میں نے ارادہ کیا کہ اس کے متعلق مردوں میں بھی تقریر کروں اور چونکہ ان ایام میں جمعہ میں ہی اس کا موقع مل سکتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں اس رکوع کے متعلق بعض باتیں بیان کروں جو تفسیر سے تعلق رکھتی ہیں.الہی تصرف جس وقت ہوتا ہے اس کی نقل تو دوسرے وقت نہیں کی جاسکتی لیکن جو مضمون یادر ہے اسے اپنے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے.پس میں اس کے وہ مضامین جو نہایت اہم اور اس قابل ہیں کہ جماعت کو ان سے آگاہ کیا جائے اس وقت بیان کرتا ہوں.سب سے پہلے میں اس امر کی تشریح ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے اس جگہ کیا مراد ہے.اللہ تعالیٰ اس سورۃ کی پہلی آیت میں فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کرتی ہے اللہ تعالی کی جو بادشاہ ہے، جو قدوس ہے ، جو عزیز ہے اور جو حکیم ہے.یہ چار صفات اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی ہیں جن کی تسبیح کو بندوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے.ملکیت کی پاکیزگی اور صفائی کس طرح ہے؟ تملک کے معنی بادشاہ کے ہوتے ہیں اور بادشاہ کا کام ہوتا ہے ظالم و مظلوم میں انصاف کرنا اور اختلافات کو دور کرنا.بادشاہ دراصل تمدن انسانی کا ایک نتیجہ ہے، لوگ اکٹھے رہتے ہیں تو ان کے حقوق کے بارے میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں ، زید ، بکر اور خالد اگر الگ الگ رہیں تو ان تینوں میں کوئی جھگڑا نہیں ہو گا لیکن ان کو ایک جگہ بسا دو تو آپس میں اختلاف شروع ہو جائیں گے.جوں جوں ضرورتیں بڑھتی جائیں گی اختلافات بھی بڑھتے جائیں گے.ایک گاؤں میں جہاں ایک ہزارایکٹر زمین ایک ہی جیسی قابل زراعت ہو اور اس میں پانچ چھ گھر آباد ہوں تو وہاں لوگ بہت کم لڑیں گے

Page 127

خطبات محمود ۱۲۲ سال ۱۹۳۵ء.ہر شخص زیادہ سے زیادہ دس ہیں ایکٹر زمین کاشت کر سکتا ہے پس چونکہ ضرورت کے مطابق ہر ایک کو زمین مل سکے گی اس لئے کوئی جھگڑا ان میں نہیں ہو گا لیکن اگر کچھ حصہ زمین کا اچھا ہو اور کچھ خراب تو اچھی بُری زمین پر جھگڑا ممکن ہے یا پانی پر جھگڑا ہو جائے یا چرا گاہ پر یا پھر گھروں میں لڑائیاں ہونی ممکن ہیں لیکن کافی زرخیز زمین کے موجود ہونے کے چراگاہ پر جھگڑا نہیں ہو سکتا غرضیکہ جب فراغت سے چیز میسر ہو تو آپس میں لڑائی کم ہوتی ہے لیکن پانچ چھ گھر سے جب دس ہیں، تمہیں گھر ہوتے جائیں گے تو ان میں لڑائی کے سامان بھی زیادہ ہوتے جائیں گے پس بادشاہت تمدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اس کی ضرورت ذوی العقول اور ذوی الحاجات موجودات کے اکٹھے رہنے سے پیدا ہوتی ہے.اگر ڈوی العقول نہ ہوں یا میل جول نہ ہو تو بادشاہت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بادشاہت کی ضرورت انہی وجو ہات کے ماتحت ہوتی ہے اور سب حکومتیں اس ضرورت کے لئے قائم ہوتی ہیں خواہ بعد میں اسے پورا کریں یا نہ کریں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بیسیوں حکومتیں قائم ہونے کے بعد اس غرض کو پورا نہیں کرتیں جن کے لئے وہ قائم ہوتی ہیں بلکہ وہ یہ کرتی ہیں کہ زید کو یا بکر کو تو ڑ کر علیحدہ کر دیتی ہیں اور پھر ایک کو ساتھ ملا کر دوسرے کے حقوق تلف کرنے لگ جاتی ہیں.بعض حکومتوں میں امراء کا زور ہوتا ہے اور وہاں غرباء کی بہت حق تلفی کی جاتی ہے ان سے مفت کام لیا جاتا ہے اور اگر کوئی اُجرت مانگے تو اُسے گالیاں دی جاتیں اور ٹھڈے مارے جاتے ہیں.تاریخوں میں لکھا ہے کہ فرانس میں پرانے زمانہ میں غرباء سے بہت سخت سلوک کیا جاتا تھا.بیچارے کسانوں کو گھروں سے زبر دستی باہر نکال دیا جاتا کہ جا کر مینڈکوں کو چُپ کرائیں تا نوابوں کی نیند میں خلل نہ آئے.وہ بیچارے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر باہر نکل جاتے.ذرا غور تو کر وان غریبوں کی کیا حالت ہوتی ہو گی ؟ بچوں کو گودیوں میں لے کر کناروں پر بیٹھے ہیں تا جب کوئی مینڈک آکر ٹرانے لگے جھٹ روڑا مار کر اُسے چُپ کرا دیں.یہ بھی بادشاہت تھی.آج بھی کئی ایسی حکومتیں ہیں جہاں جابرانہ اور متشددانہ کارروائیاں ہوتی ہیں.پرانے زمانہ میں انگلستان میں بھی کئی ایسی کارروائیاں ہوتی تھیں.حال ہی میں یورپ نے ایک شخص کو ولی اللہ قرار دیا ہے اور انگریز قوم اس پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے اس شخص نے اس لئے بغاوت کی تھی کہ حکومت چاہتی تھی کہ ملک کو مذہب کی قیود سے آزاد کر دے اور اسی بغاوت میں اس نے جان دے دی آج بھی جہاں ابھی منتظم حکومتیں قائم

Page 128

خطبات محمود ۱۲۳ سال ۱۹۳۵ء نہیں ایسی باتیں ہوتی ہیں.چین میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ایسی باتیں ہوتی ہیں ،مہذب ممالک میں بھی بعض قسم کے مظالم جاری ہیں، یورپ میں سوشلسٹ امراء کو اتنا غلبہ دیتے ہیں کہ غرباء ترقی نہیں کر سکتے پھر مذہبی لحاظ سے بھی ایسی زبر دستیاں حکومتوں کی طرف سے کی جاتی ہیں.افغانستان میں ہمارے چار آدمی محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے.ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنا اور اس زمانہ کے مامور کو قبول کر لیا.ان کی شہادت کے واقعات کا بعض یوروپین مصنفوں نے ذکر کیا ہے اٹلی کے ایک انجینئر نے اپنی تصنیف Under The Absolute Amir میں لکھا ہے کہ صاحبزادہ عبد الطیف کا کوئی جرم نہ تھا اور امیران کے خلاف سوائے اس کے کچھ نہ کہہ سکتا تھا کہ اس نے جہاد کا انکار کیا ہے کے جس سے میری طاقت کمزور ہوتی ہے اگر مسلمانوں میں سے جہاد کی روح نکل جائے تو میری طاقت ٹوٹ جائے گی اور اسی وجہ سے آپ کو سنگسار کرا دیا گیا.تو دنیا کی حکومتیں باوجود مسلک ہونے کی مدعی ہونے کے مذہبی طور پر بھی ، سیاسی اور تمدنی طور پر بھی سختیاں کرتی ہیں.بعض لوگ اس قانون کو جو حکومت ہند نے ایک خاص عمر سے پہلے لڑکے لڑکیوں کی شادی نہ کرنے کے متعلق پاس کیا ہے مذہبی سختی قرار دیتے ہیں.لڑکی میں سب کو انگریزی ٹوپی پہنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو تمدنی سختی ہے کانگرس والے ہر اُس شخص کے مخالف ہیں جو کھڈ رنہ پہنے یہ بھی تمدنی تصرف کی ایک مثال ہے جو ایک طبقہ دوسرے پر کرتا ہے پھر کئی تعلیمی جبر ہوتے ہیں دو مختلف اللسان اقوام ایک ملک میں بستی ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ ایک زبان کو مٹا دے اور دوسری کو پھیلائے اور وہ قانون سے مدد لے کر ایسا کر لیتی ہے.ہندوستان میں ہندی کو رواج دینے اور اردو کو مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، مشرقی یورپ میں کئی حکومتیں دوسری زبانوں کو مٹانے میں لگی ہیں ، یہ ملکیت کا علمی لحاظ سے ناجائز استعمال ہے غرضیکہ دنیوی ملکیت کئی قسم کے اعتراضات کے نیچے آتی ہے.کبھی اس پر تمدنی، کبھی علمی، کبھی سیاسی اور کبھی مذہبی نقطہ نگاہ سے اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ یعنی اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو دیکھو صاف نظر آتا ہے کہ اس کی بادشاہت پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا.خدا کی حکومت کو دیکھو، ابوجہل پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے مگر اس کا سورج برابر اسے روشنی پہنچاتا ہے، اللہ تعالی کی ہوائیں بدستور اسے فائدہ پہنچاتی ہیں

Page 129

خطبات محمود ۱۲۴ سال ۱۹۳۵ء ، گوشت اور ترکاریاں اُسے اسی طرح طاقت پہنچاتی ہیں جس طرح دوسروں کو.وہ خدا کے دین کو زبان سے گالیاں دیتا ہے مگر پھر بھی اس کی زبان ہر چیز کا ذائقہ محسوس کرتی ہے ، اس کے کان محمد رسول اللہ ، خدا کے نائب اور وائسرائے کی پھلیاں سنتے رہتے ہیں مگر پھر بھی سماعت کی قوت سے محروم نہیں ہوتے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم نہیں کیا جاتا یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے.ابو جہل کو اُس کے گناہوں کی جو سزا پہنچتی ہے وہ اسی دائرے کے اندر پہنچتی ہے جس میں وہ اسے مجرم قرار دے لیتا ہے.چور چوری کرتا ہے اور کسی کا حلوا پر الیتا ہے خدا تعالیٰ اسے چور قرار دیتا ہے مگر یہ نہیں کرتا کہ وہ حلوا اس کی زبان کو کڑوا لگے بلکہ ممکن ہے کہ وہ اسے زیادہ لذیذ معلوم ہو کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر اسے حاصل کیا تھا پھر ممکن ہے وہ چور کے اعصاب کو مالک کی نسبت زیادہ قوت پہنچائے بوجہ اس کے کہ اس کا معدہ زیادہ اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں سزا کا ایک طریق ہے اور وہ اس سے باہر نہیں جاتا.وہ یہ نہیں کرتا کہ چونکہ اس نے مُجرم کیا ہے اس لئے ہم اسے ہر طرف سے پکڑیں گے.پھر دنیا کی حکومتیں ہر جرم پر پکڑتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ انتظار کرتا ہے تابندہ کو اصلاح کا موقع ملے لیکن جب دیکھتا ہے کہ اب یہ شخص بند نہیں ہوتا تو پھر گرفت کرتا ہے لیکن اس کی سزائیں محدود ہوتی ہیں.دُنیاوی حکومتیں چاہے کتنا اعلے انصاف کرنے والی ہوں پھر بھی ان میں اور الہی حکومت میں زمین و آسمان کا فرق ہے.الہی حکومت دیکھو کتنی ملکی حکومت ہے کہ اس کا پتہ بھی نہیں لگتا اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے میں تمہیں تباہ کر دوں گا، میں یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا اور اس طرح گویا وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود خدا ہو گیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس جاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور وہ کہتا ہے میں خود خدا ہوں مگر پھر بھی اس کی زبان کڑوا میٹھا چکھتی ہے ، کان سُنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ سب چیزیں اُسے فائدہ پہنچاتی ہیں.غور کرو اللہ تعالیٰ کی حکومت کیسی ہلکی ہے.فرعون روز دیکھتا ہے کہ اس کا سونا ، کھانا، پینا ،موت ، حیات ، بچوں کی پیدائش ، بارشیں لانا اور لے جانا، ہواؤں کا چلانا اور روکنا مختلف امراض کا پیدا ہونا سب باتیں اس کے اختیار سے باہر ہیں مگر پھر بھی اسے محسوس نہیں ہوتا وہ عَلَی الْإِعْلان کہتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں اور کون ہے؟ مگر سورج اسے روشنی پہنچانا بند نہیں کرتا اور اپنی جسمانی طاقتوں سے وہ محروم نہیں ہو جاتا تو خدا کی حکومت اتنی ملکی ہے کہ اس کا پتہ لگا نا بھی مشکل ہوتا ہے اور

Page 130

خطبات محمود ۱۲۵ سال ۱۹۳۵ء اسی بات کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ - خدا کی بادشاہت کا مظہر قرآن کریم ہے اور دیکھو کونسی قوم ہے جس کے حق قرآن کریم میں مارے گئے ہیں.ہر ملک، ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کے حقوق کا اس میں لحاظ رکھا گیا ہے.وہ خود بادشاہ ہے مگر کہتا ہے کہ اپنے بادشاہوں کی اطاعت کرو، خود بادشاہ ہے مگر کہتا ہے کہ رعایا کو دکھ اور تکلیف مت دو، وہ سب دولتوں کا مالک ہے مگر حکم دیتا ہے کہ امراء غریبوں پر ظلم نہ کریں اور غریبوں کو ہدایت کرتا ہے کہ امیروں سے معاملات درست رکھو.غرض بادشاہ ہو یا رعایا، بڑا ہو یا چھوٹا ، عورت ہو یا مرد، سب کے حقوق کی حفاظت قرآن کریم نے کی ہے اور دیکھ لوسب قو میں ہر طرف سے دھکے کھا کھا کر آخر اسلام کے آستانہ پر آرہی ہیں.اسلام میں طلاق کی اجازت ہے پہلے اس پر بہت اعتراض کئے جاتے تھے اور اسے ظلم قرار دیا جاتا تھا مگر اب یہ حال ہے کہ امریکہ کی ایک عورت فوت ہوئی تو ٹائمز نے لکھا کہ اس کے ۷ا شوہر تھے جن میں سے گیارہ اس کے جنازے میں شریک تھے.ایک سے اُس نے اِس وجہ سے طلاق حاصل کی کہ اُس نے ایک ناول لکھا ہے جسے خاوند چھاپنے کی اجازت نہیں دیتا.ایک سے اس بناء پر کہ میں سات بجے سے اس کا انتظار شروع کرتی ہوں لیکن یہ آٹھ بجے آتا ہے.یا تو وہ حالت تھی کہ مرد عورت کی علیحدگی کسی صورت میں جائز نہ سمجھی جاتی تھی اور اسے ایک بہت بڑا ظلم کہا جاتا تھا یا آج یہ حالت ہے.اگر چہ اسلام میں طلاق جائز ہے لیکن میں نے اس زمانہ میں کبھی نہیں سنا کہ کسی مسلمان عورت کے چار سے زائد خاوند ہوئے ہوں.جنگی زمانوں میں جب لوگ جان ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے بے شک ایسا ہو نا ممکن ہو گا.پھر ٹائمنر نے جو خبر شائع کی ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہی ریکارڈ ہے ممکن ہے کہ کوئی ۲۷ یا ۷ ۳ خاوند والی عورت بھی ہو جس کا اُسے علم نہ ہو سکا ہو اسی طرح اور بہت سی تمدنی چیزیں ہیں جن میں دنیا مجبور ہو کر اسلام کی طرف آ رہی ہے.اسلام نے جوئے سے منع کیا ہے کہا جاتا تھا کہ اس کے بغیر زندگی نہیں مگر اب یہ سوال پیدا ہور ہے ہیں کہ فلاں قسم کا جو ا جائز ہے یا کہ نہیں؟ ایک سے زیادہ بیویوں کا سوال تھا مگر اب یورپ کے تمام بڑے بڑے مصنفین دھڑلے سے لکھ رہے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں نہ کرنا بیوقوفی ہے.پھر سود کی اسلام نے ممانعت کی ہے اس کی بھی مخالفت کی جاتی تھی مگر آج سود کی تباہ کاریوں کا سب کو

Page 131

خطبات محمود ۱۲۶ سال ۱۹۳۵ء اعتراف ہے غرضیکہ اسلام کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کی متمدن دنیا نے مخالفت نہ کی ہو اور پھر دھکے کھا کر اسی کی طرف نہ آئی ہو.یہی مطلب ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ كا ، خدا کی بادشاہت کی زمین و آسمان میں تعریف ہو رہی ہے.جس طرح خدا کی بادشاہت بغیر عیب کے ہے اور کوئی نہیں لیکن اس بے عیب بادشاہت کے باوجود اُس نے یہ نہیں کہا کہ تم اپنے میں سے اور بادشاہ نہ بناؤ بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ اُولی الامر کی اطاعت کرو جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس طرح کا میں ملک ہوں ویسے ہی دوسرے بننے کی کوشش کریں.ہماری جماعت میں ملکیت نہیں کہ اسکی مثال پیش کی جا سکے ابھی ہم ہر ملک میں رعایا ہی ہیں کسی جگہ ہماری کوئی ریاست بھی نہیں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ ا یعنی تم میں سے ہر شخص بادشاہ ہے اور اسکی رعیت کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا اور جب آپ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص بادشاہ ہے تو معلوم ہوا کہ رعایا ہوتے ہوئے بھی انسان ایک رنگ میں بادشاہ ہوسکتا ہے گھروں میں خاوند یا باپ کو جو حکومت حاصل ہے اسے ناجائز نہ محسوس ہونے دے.باپ حکومت کرتا ہے مگر بچوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم پر حکومت کی جارہی ہے تم لاکھوں دیہات میں پھر جاؤ اور بچوں سے دریافت کرو تمہارا باپ کیسا ہے ؟ سب کہیں گے بڑا اچھا.ان سے پوچھو کیا وہ تم پر حکومت کرتا ہے ؟ تو وہ شاید اس سوال پر حیران ہو کر تمہارا منہ دیکھیں گے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی حکومت بھی نظر نہیں آتی اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہی بات ہر شخص میں پیدا ہو.ہر شخص بادشاہ ہے جو اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہو گا اس سے پوچھا جائیگا کہ اس نے اپنی بیوی ، بچوں ، مزدوروں، کلرکوں اور ماتحتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ دیکھیں وہ اپنے دائرہ حکومت میں ایسے کام کر رہے ہیں یا نہیں جن سے ان کی تسبیح ہوا گر وہ ایسا ہے تو وہ اس آیت کے مصداق ہو جاتے ہیں.(اس موقع پر بارش شروع ہوگئی اور لوگوں میں حرکت ہونے لگی اس پر حضور نے فرمایا.جب بھی بارش ہوتی ہے تو میں توجہ دلاتا ہوں کہ افسر مسجد کے برآمدہ کو وسیع کرنیکی کوشش کریں مگر وہ بُھول جاتے ہیں.خیر ان کے متعلق تو کئی شکوے میرے دل میں بھرے ہوئے ہیں اور میں کسی دن ان کا اظہار کروں گا اس وقت میں قادیان کے محلوں والوں سے کہتا ہوں کہ وہی اپنے اپنے ہاں چندہ جمع کر کے یہ کام کرنے کی طرف متوجہ ہوں.یہ مت خیال کرو کہ ہم کو

Page 132

خطبات محمود ۱۲۷ سال ۱۹۳۵ء چندے زیادہ دینے پڑتے ہیں.دراصل مال کوئی چیز نہیں اصل چیز قربانی ہے.وہی مال کام آتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ ہو باقی جو ہو وہ ضائع جاتا ہے ) پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے ماتحتوں سے کیا سلوک کرتے ہیں.کیا ہم اپنے ملازموں سے وہی سلوک کرتے ہیں جو خدا اپنے بندوں سے کرتا ہے؟ پچھلے سے پچھلے سال ایک افسر کے متعلق میرے پاس شکایت کی گئی تھی کہ وہ ماتحتوں کو تو کہہ کر مخاطب کرتا ہے حالانکہ وہ سلسلہ کا افسر تھا اور میں نے متواتر بتایا ہے کہ ہمارا معیار فضیلت اخلاق ہے.یہ افسری ماتحتی تو صرف نظام کے لئے ہے تمدنی طور پر اس کا کوئی اثر نہیں.ممکن ہے افسر اخلاق کے لحاظ سے ادنی اور ماتحت اعلے ہو.اسی طرح ممکن ہے بادشاہ اس لحاظ سے رعایا کے بعض افراد سے ادنی ہو انسانیت کے لحاظ سے چھوٹا بڑا کوئی نہیں.نیرو سے بھی تو ایک بادشاہ تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے روم کو بالکل جلا کر راکھ کر دیا تھا اور جب شہر جل رہا تھا تو وہ کھڑا بانسری سن رہا تھا اور اس پر خوشی کا اظہار کر رہا تھا.اگر چہ آجکل اس واقعہ کو صحیح نہیں سمجھا جاتا لیکن سات آٹھ صدیوں تک یہ بالکل درست سمجھا جاتا رہا ہے تو ایک طرف ایسے بادشاہ بھی ہوئے ہیں اور دوسری طرف ایسے غریب بھی جو اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی دوسروں کو بچالیں گے اور ایک قربانی کرنے والا غریب یقیناً ظالم بادشاہ سے ہزار گنا اعلیٰ ہے.میں حیران ہوں کہ اس افسر نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ ماتحت پر اُسے تمدنی طور پر بڑائی جتانے کا بھی حق حاصل ہے مجھے اس سے بہت افسوس ہوا.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں چونکہ بہت جہالت ہے اس لئے بعض بچے اپنے والد کو بھی اوئے باپو! کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن ہمیں اسلام کے اخلاق دکھانے چاہئیں کیونکہ ہم نے تمدنی طور پر دنیا میں مساوات قائم کرنی ہے.اگر ناظر کے لئے یہ جائز ہے کہ کلرک کو تو کہے تو خلیفہ کے لئے ناظر کو ایسا کہنا درست ہو گا مگر کیا اسے پسند کیا جائے گا ؟ پس افسروں کو ماتحتوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہئے کہ جس سے ظاہر ہو کہ وہ انہیں ادنی انہیں سمجھتے بلکہ برابر کا ہی سمجھتے ہیں.ہاں انتظام کے بارے میں ماتحت کا فرض ہے کہ افسر کی فرمانبرداری کرے، اس کے احکام پر نکتہ چینی نہ کرے اور حجت نہ کرے کیونکہ یہ بھی بڑا نقص ہے اور مساوات کے اصول کے خلاف ہے ماتحت کا فرض ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے اگر ضرورت ہو تو مؤدب طور پر اس کے متعلق اپنی رائے پیش کر دے اور پھر اطاعت کرے.ماتحتوں کیلئے ملکیت کے اعتراف کا طریق

Page 133

خطبات محمود ۱۲۸ سال ۱۹۳۵ء یہی ہے کہ افسروں کی اطاعت کریں ہاں جو بات سچ ہو وہ کہہ دیں.جو کچی بات کو چھپائے رکھتا ہے وہ نالائق ہوتا ہے.اسی طرح افسر سمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے اگر ان کو حکومت دی ہے تو انہیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا نمونہ دکھانا چاہئے.مزدور کو مزدوری وقت پر دینا بھی ضروری ہے یہ نہیں کہ بیچارے نے پیسے مانگے تو گالیاں دینے لگ گئے اور ٹھڈے مار کر نکال دیا.جو شخص ایسا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی نقل نہیں کرتا اور انعامات کے مستحق وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اس کی ملکیت کی نقل کرتے ہیں پس اگر کوئی رعایا میں سے ہے تو اسے چاہئے اپنے حاکموں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جو خدا چاہتا ہے اور اگر قوت حاصل ہے، افسر ہے ، ہیڈ ماسٹر ہے ، سپر نٹنڈنٹ ہے اور اس طرح بعض دوسرے لوگ ہیں جن کو اوروں پر تصرف حاصل ہے تو اس تصرف کو اتنا پیارا اور میٹھا بنا دیں کہ دوسروں کو ذرا بھی گیراں نہ گزرے.پھر یہ بھی نہیں چاہئے کہ آج ایک سے لڑائی ہوئی تو دوسرے دن اُس کے خلاف محض جھوٹی سازش شروع کر دی.اگر کسی سے لڑائی ہوئی ہے اور اسے معاف نہیں کر سکتے تو اختلاف کو اُس کی حد کے اندر رکھو.یہی بات خدا کی بادشاہت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اُس کی تسبیح کر رہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تم میں سے جس کو جتنی بادشاہت دے اسے چاہئے کہ اس میں اس کی نقل کرے اگر ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ہندو سکھ اور مسلمان میں کوئی تمیز نہ کرو، غریب و امیر کا خیال نہ کرو، ہندی کو اڑا کر اردوز بر دستی جاری کرنے کے منصوبے نہ کرو، یا ایک تمدن کی جگہ دوسرا تمدن ، ایک مذہب کی جگہ دوسرا مذ ہب جبراً قائم کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ کر رہا ہے تم بھی اسی طرح کرو.پھر جو وزارت پر ہوا سے چاہئے کہ اپنے دائرہ حکومت میں اللہ تعالیٰ کی جتنی نقل کر سکتا ہے کرے.اس سے نیچے اتر کر سیکرٹری اور ڈائریکٹر اور دوسرے افسر سب جس قدر ممکن ہو اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی نقل کریں.دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدوس ہے.دنیا اسے پاک قرار دیتی ہے.ملکیت کی تشبیح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ظاہر معاملہ صحیح ہو لیکن قدوسیت کا یہ مطلب ہے کہ دل میں بھی معاملہ صحیح ہو یعنی منافقت سے نہ ہو.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے کے پاس جاتا ہے اور وہ کہتا ہے آئے تشریف رکھئے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی لیکن دل میں اس کے متعلق یہ ارادہ رکھتا ہے کہ موقع ملے تو اُسے تباہ کر دوں یہ بات قدوسیت کے خلاف ہے.قدوسیت یہ ہے کہ ظاہر و باطن

Page 134

خطبات محمود ۱۲۹ سال ۱۹۳۵ء دونوں میں پاکیزگی ہو اللہ تعالیٰ قدوس ہے وہ فریب ، منافقت ، مداہنت اور ٹھگی نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ گمراہی سے بچ جائیں یہ نہیں کہ بظاہر اچھا سلوک کرے لیکن دراصل سزا دینے کے لئے موقع کا منتظر رہے وہ جب سزا نہیں دیتا تو چاہتا بھی یہی ہے کہ نہ دے بلکہ جب دیتا ہے اُس وقت بھی چاہتا یہی ہے کہ نہ دے لیکن سزا پانے والا اپنے اعمال سے اُسے سزا دینے پر مجبور کر دیتا ہے.پس دیکھو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کس طرح ثابت ہو رہی ہے وہ لوگوں کے فائدہ کے لئے اور ان کو تباہی سے بچانے کیلئے نبی بھیجتا ہے بلکہ دس سال ہیں سال بلکہ سو دوسو سال تک وہ یا ان کی جماعتیں ظلم سہتی ہیں.مخالف کو دتے ناچتے اور ان کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور سارا زوران کو تباہ کرنے کے لئے صرف کر دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ جس کا دین ہوتا ہے سب کچھ دیکھتا ہے میں یہ تو نہیں کہتا کہ مسکراتا ہے لیکن کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مشابہہ سلوک اس کی طرف سے ہوتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں آئے ان پر اور ان کے پیروؤں پر بڑے بڑے ظلم ہوئے اور تین سو سال تک وتے چلے گئے مگر اللہ تعالیٰ کی قدوسیت دیکھو کہ وہ یہی چاہتا رہا کہ اب بھی ان کے مخالفوں کی اصلاح ہو جائے ، اب بھی ہو جائے جس دن حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا، کیا خدا تعالیٰ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ اُسی دن سب یہودی ہلاک ہو جاتے اور روما کی حکومت تہہ و بالا ہو جاتی لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا.رومی بھی ویسے ہی رہے ان کی حکومتیں بھی ویسی ہی رہیں اور یہودی بھی ویسے ہی رہے ، ان کے بینک ، ان کی صرافیاں ، ان کی تجارتیں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہا اور انہیں محسوس بھی نہ ہوا کہ ہم نے کیا کیا ہے.انہیں اتنا بھی احساس نہ ہو ا جتنا ایک چیونٹی کو مارنے سے ہو سکتا ہے بلکہ یہودی خوش تھے کہ اپنے ایک دشمن کو مار دیا ہے.نہ ان کے بینک فیل ہوئے ، نہ تجارتیں اور نہ زراعتیں ہاں اس دن خدا تعالیٰ کا عرش ہی ہلا اور اسے بے کلی ہوئی ، رنج پہنچا تو اللہ تعالیٰ کو ، تکلیف ہوئی تو حضرت عیسی علیہ السلام کو ، تکلیف دینے والوں کو کچھ بھی نہ ہوا.وہ اپنی جگہ پر کہتے تھے کہ ہم نے اپنی حکومت کا زور دکھا دیا اور کون ہے جو ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہو سکے؟ جو مقابلہ کر سکتا تھا وہ دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم مقابلہ تو کر سکتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ تمہاری اصلاح ہو جائے ، ہم چاہتے ہیں کہ اہل روم ہدایت پا جائیں ، ہم چاہتے ہیں کہ یہود ہلاکت سے بچ جائیں کیونکہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں یہ اس کی قدوسیت کی علامت تھی جو دکھا وے اور بناوٹ کا شائبہ نہیں رکھتی.تکلف والا ایک حد تک چلتا ہے اور

Page 135

خطبات محمود ۱۳۰ سال ۱۹۳۵ء پھر رہ جاتا ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک لکھنو کے سید صاحب اور دلی کے مرزا صاحب سٹیشن پر اکٹھے گاڑی میں سوار ہونے کیلئے کھڑے تھے اور دونوں کا خیال تھا کہ اپنے آپ کو دوسرے سے زیادہ مہذب ظاہر کرے.جب گاڑی آئی تو سید صاحب کہنے لگے مرزا صاحب تشریف رکھئے.اور مرزا صاحب کہہ رہے تھے سید صاحب آپ پہلے سوار ہو جئے.لوگ تماشا دیکھ رہے تھے.اتنے میں گاڑی نے وسل کیا تو دونوں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور سوار ہونے کے لئے ایک دوسرے کو گہنیاں مارنے لگے.تو جب موقع آئے تصنع اور بناوٹ کے اخلاق بھول جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو غضب دلانے والا موقع اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اُس کے ایک نبی کولوگوں نے سُولی پر لٹکا دیا.ہم مسیحیوں کے اس مشرکانہ عقیدہ کے تو دشمن ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے تھے مگر ہم انہیں عظیم الشان نبی سمجھتے ہیں اور یہود نے اس عظیم الشان نبی کو سولی پر لٹکا دیا مگر کیا ہوا کیا خدا نے سولی پر لٹکانے والی حکومت کو تباہ کر دیا یا سولی پر لٹکوانے کی موجب یہودی قوم کو ہلاک کر دیا ؟ نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ نے کہا تم نے یہ بہت گندی حرکت کی ہے مگر ہم اب بھی تمہیں مہلت دیتے ہیں کہ تو بہ کر لوممکن ہے ان میں سے بعض کو انفرادی طور پر سزا بھی دے دی ہو.کسی کو کیا معلوم ہے کہ وہ یہودی مولوی جس نے یہ فتویٰ دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب دیا جائے کس طرح ہلاک ہو ا ہو گا یا وہ سرکاری حکام جن کا اس میں دخل تھا کس طرح تباہ ہوئے؟ یہ اتنی غیر معروف ہستیاں ہیں کہ تاریخ میں ان کے حالات محفوظ نہیں مگر اس قدر عظیم الشان واقعہ پر اللہ تعالیٰ نے رومیوں اور یہود کے ساتھ بہ حیثیت قوم جس رحم اور عفو کا معاملہ کیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا رحم تسبیح کے لائق ہے.غرض رحم خدا تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے نہ کہ تکلف سے ظاہر ہونے والی خوبی.پھر فرمایا الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وہ غالب ہے.عزیزیت نیچر پر تصرف کو ظاہر کرتی ہے.عزیزیت وہ تصرف ہے جو جانوروں ، دریاؤں، پہاڑوں اور دیگر اشیاء پر ہے.اس کی عزیزیت کے متعلق بھی دیکھو دنیا میں کتنی تسبیح ہو رہی ہے جس طرح قدوسیت میں بتایا ہے کہ تم اپنے اندر ذاتی رافت اور ہمدردی پیدا کر و عزیزیت میں یہ بتایا ہے کہ تمہارا غلبہ بھی ایسا ہو جیسا خدا کا ہے.اللہ تعالیٰ کا غلبہ جاری ہے مگر اس میں رافت اور شفقت ہے کوئی چیز تم نہیں دیکھو گے جس میں کسی قسم کی نافرمانی یا بغاوت یا عہد شکنی نظر آتی ہو.سورج چاند رات دن اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں سنکھیا کو جو حکم دیا گیا ہے وہ اس کا ہمیشہ کیلئے تابع ہے ، افیون کو حکم ہے کہ قبض کرے اور بے ہوش کر

Page 136

خطبات محمود ۱۳۱ سال ۱۹۳۵ء دے سو اس کی یہ خاصیتیں برابر جاری ہیں ، آگ ہمیشہ جلا رہی ہے تو عزیزیت استقلال اور دوام پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم بھی اپنے کاموں میں مستقل رہو.ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آج ایک شخص سنکھیا کھائے اور مر جائے لیکن کل ایک دوسرا شخص اسی طریق اور اسی مقدار میں کھائے تو اسکی صحت اچھی ہو جائے.لوہے کی جو خاصیت آج ہے وہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ نہیں کہ آج لوہے کا جو چاقو بنایا جائے وہ چیر نے پھاڑ نے کا کام دے لیکن دوسرے دن جو چاقو بنایا جائے اس میں کاٹنے کی صفت نہ پائی جائے پس اللہ تعالیٰ کی عزیزیت کو دیکھو وہ ایک منصفانہ قانون بناتا ہے اور پھر اسے جاری رکھتا ہے اور اس سے بندے کو یہ سکھاتا ہے کہ تم بھی سوچ سمجھ کر ایک بات اختیار کرو اور پھر اس پر قائم رہو.یہ کیا کہ آج ایک شخص کہتا ہے میری جان و مال حاضر ہے لیکن کل کہہ دیتا ہے کہ میرے رستہ میں فلاں فلاں روکاوٹیں ہیں.اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں بھی مستثنیات ہیں لیکن وہ خود ایک دوسرے قانون کے ماتحت ظاہر ہوتے ہیں اور ان سے دنیا میں عظیم الشان تغیر اور انقلاب پیدا ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ منصفانہ قانون بناتا ہے اور پھر اسے قائم رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بندے بھی جو بات کہیں سوچ سمجھ کر کہیں اور پھر اس پر قائم رہیں.اگر تم سمجھتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے ہیں اور تم نے ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا رستہ پالیا ہے تو حکومتیں بدل جائیں ، زمین آسمان ہل جائیں مگر تمہارے ایمان میں بال بھر بھی لغزش نہ آئے مشی کہ موت آجائے تو یہ عزیزیت ہے اور جو شخص اپنے اندر یہ بات پیدا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی عزیزیت کا مظہر نہیں ہوسکتا.دیکھوا چھا شوفر (CHAUFEUR) وہی سمجھا جاتا ہے جو موٹر کو رستہ سے ادھر اُدھر نہیں ہونے دیتا، سوار وہی اچھا ہوتا ہے جو گھوڑے کو سیدھا چلاتا ہے وہ ڈرائیور جس کی گاڑی کبھی ادھر ہو جائے کبھی اُدھر، نالائق سمجھا جاتا ہے حقیقی سائیکلسٹ ، حقیقی سوار، حقیقی ڈرائیور اور حقیقی شوفر وہی ہے جو جس طرف کا عزم کر لیتا ہے اس طرف اپنی سواری کو سیدھالے جا تا ہے.شوکت تھانوی صاحب نے سودیشی ریل پر ایک مزاحیہ مضمون لکھا تھا ہمارے ملک کے مزاحیہ نویسوں میں ایک نقص ہے کہ وہ عام طور پر پھکڑ ہوتے ہیں مگر شوکت صاحب کے مضامین عام طور پر اس نقص سے پاک ہوتے ہیں.میں نے ان کے ایک مضمون میں صرف یہ رنگ پایا ہے اگر کسی اور میں ہو تو میرے علم میں نہیں بہر حال انہوں نے سودیشی ریل کا نقشہ کھینچا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ گو یا عالم خیال

Page 137

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء.میں ہندوستانیوں کی حکومت ہوگئی اور اس کا نقشہ یوں کھنچتے ہیں کہ سٹیشن کا عملہ گاڑی کا وقت نہیں بتاتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ جب سواریاں پوری ہونگی ٹرین چلے گی اور ریل کے جانے کی چہت بھی متعین نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ جدھر کی سواریاں زیادہ ہونگی اُدھر ٹرین جائے گی.اسی طرح جب گاڑی چلنے لگتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کوئلہ نہیں اور اس وقت کوئلہ منگوایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.غرض انہوں نے ایسا لطیف نقشہ کھینچا کہ ہندوستانی کریکٹر کو نگا کر کے رکھ دیا ہے یہ ہندوستانی کریکٹر عزیز یت کے خلاف ہے اور خدا کی جنت میں وہی داخل ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مشابہ ہو جائے.عزیزیت کا یہ مفہوم ہے کہ سوچ سمجھ کر اقدام کریں اور پھر خواہ جان جائے ، آن جائے ، آبرو جائے ، مال جائے پیچھے نہ ہٹیں ، اگر ہمنا ہے تو پہلے ہی آگے کیوں بڑھا جائے.بہت سے لوگ دنیا میں سود بیشی ریل والا نظارہ دکھاتے ہیں کہ جدھر کی سواریاں زیادہ ہوئیں اُدھر کا رخ کر لیا یعنی جدھر فائدہ نظر آیا اُدھر ہو گئے.بعض کہتے ہیں کہ ہم احمدی ہو جاتے ہیں ہماری شادی ہو جائے ، ہمیں کا م مل جائے ، ہمارے گزارے کی کوئی صورت پیدا کر دی جائے حالانکہ احمدیت کسی دکان کا نام نہیں بلکہ یہ تو مذہب ہے.مذہب کے من متعلق ایسی باتیں کرنا سود بیشی ریل والا نظارہ پیش کرنا ہے.اس کے برعکس حقیقی ریل دیکھو جس نے دس بجے روانہ ہونا ہوتا ہے کوئی سواری آئے یا نہ آئے وہ وقتِ مقررہ پر چل دے گی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مؤمن کو عزیز بننا چاہئے.اگر وہ کسی عقیدہ کو قبول کرتا ہے تو اپنے آپ کو اُس کے لئے وقف کر دے.دھوکا بازی نہ کرے جس نے راستہ میں رہ جانا ہو وہ پہلے ہی ساتھ کیوں چلے.پھر فرمایا خدا تعالیٰ حکمت والا ہے بعض لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں جب کسی کام پر لگایا جائے وہ عقل سے کام نہیں لینا چاہتے اور یہ نہیں دیکھتے کہ خدا کا ایک نبی اُٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ فلاں شخص یا قوم تباہ ہو جائے گی لیکن مقررہ وقت آجاتا ہے اور ان پر کوئی تباہی نہیں آتی اور پھر وہ اعلان کر دیتا ہے کہ ان لوگوں نے تو بہ کر لی تھی اس لئے بچ گئے جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ بھی حکمت کے ما تحت رستہ بدلتا ہے لیکن اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک انجینئر دیکھتا ہے کہ رستہ میں ایک بلند پہاڑی ہے جس کے اوپر سے سڑک یا پٹڑی گزارنے پر بہت خرچ آئے گا تو وہ اس کے اندر سُرنگ لگا کر رستہ بنادیتا ہے وہ اپنے مقصد کو نہیں چھوڑتا، ہاں رستہ بدل دیتا ہے اس لئے مؤمن کو بھی حکمت سے کام کرنا چاہئے.استقلال کا یہ تقاضا نہیں ہونا چاہئے کہ جس بات پر آج عمل ہے حالات بدلنے کے

Page 138

خطبات محمود ۱۳۳ سال ۱۹۳۵ء بعد بھی اسے نہ چھوڑا جائے.ایک شخص آج ہمارا دشمن ہے اور کل وہ صلح کیلئے آتا ہے تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہم مستقل مزاج ہیں ہم اس سے صلح کیونکر کر سکتے ہیں.ایک شخص کی شادی ہو جاتی ہے شادی سے پہلے وہ دونوں ایک دوسرے سے پردہ کرتے تھے لیکن اگر اب بھی وہ کہیں کہ ہم مستقل مزاج ہیں ، پردہ کیوں ترک کریں تو یہ حماقت ہو گی.یا طلاق کے بعد بھی کہا جائے کہ ہم اکٹھے رہیں گے کیونکہ ہم مستقل مزاج ہیں تو یہ بیہودگی ہو گی.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کی بیوی بہت تیز طبع تھی اس نے اُسے طلاق دے دی اور کہا گھر سے نکلو مگر عورت نے کہا میں تو تمہاری بیوی ہوں نکلوں کس طرح.اُس نے ہزار کوشش کی مگر وہ نہ نکلی آخر مولوی اسباب اُٹھا کر دوسرے مکان میں چلا گیا لیکن وہ بھی وہیں پہنچ گئی.آخر اس نے شہر چھوڑ دیا اور لاہور یا کسی اور جگہ پہنچ کر مدرسہ جاری کر لیا.کئی سال وہ وہاں کام کرتا رہا لیکن ایک صبح لوگوں نے دیکھا وہ اسباب وغیرہ باندھ کر چلنے کی تیاری کر رہا ہے.لوگوں نے وجہ دریافت کی تو اُس نے کہا کہ رات کیا دیکھتا ہوں کہ میری سابقہ بیوی دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہو رہی ہے رات تو جوں توں کر کے گزاری اب اس شہر کو بھی چھوڑنے کا ارادہ ہے کہ اس سے نجات پاؤں.پس اس قسم کی ضد حماقت کی علامت ہے یہ استقلال نہیں ، استقلال اصول کی پابندی کا نام ہے اور ضد بے اصولے پین کی پابندی کا نام ہے.استقلال کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقصود اور عقیدے کو نہ چھوڑے یہ نہیں کہ دوست دشمن ہو جائے تو پھر بھی اس سے دوست والا ہی سلوک روا ر کھے اور دشمن دوست بن جائے تو پھر بھی اسے دشمن ہی سمجھے.استقلال سے کام کرتے ہوئے جو تغیرات ہوں ان کے ماتحت حکمت سے کام لینا بھی ضروری ہے جس طرح سواریوں کی زیادتی پر شاہجہان پور کی گاڑی کو دہلی لے جانا بے اصولا پن ہے اسی طرح پٹڑی ٹوٹی ہوئی دیکھ کر ٹرین کو لئے جانا بھی وقت کی پابندی نہیں بلکہ حماقت کا کام کہلائے گا.دیکھو قرآن کریم میں لکھا ہے یہ کا فر کبھی ایمان نہیں لائیں گے لیکن کچھ عرصہ بعد خالد مسلمان ہو جاتے ہیں اور تھوڑے دنوں بعد رسول کریم ﷺ انہیں سیف مِنْ سُيُوفِ الله کا خطاب دے دیتے ہیں.ابوسفیان منافقوں اور کافروں کا سردار تھا مگر کلمہ پڑھ لیتا ہے تو اس کی عزت کی جاتی ہے پس مؤمن کو حکمت سے کام لینا چاہئے.سؤر کی طرح بغیر سوچے سمجھے سیدھے ہی نہیں چلے جانا چاہئے اگر حکمت کے ماتحت رستہ بدلنا پڑے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہاں مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھو جو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح اور پاکیزگی

Page 139

خطبات محمود ۱۳۴ سال ۱۹۳۵ء دنیا میں قائم ہو.اس کی راہ میں جو روکیں ہوں انہیں دور کر و چونکہ اب وقت نہیں میں اس تمہید پر آج کا خطبہ بند کرتا ہوں لیکن ختم کرنے سے پہلے ایک بات کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آج مجھے ایک شکایت پہنچی ہے اور پہلے بھی پہنچی تھی کہ بعض پولیس والوں کے ساتھ بعض احمدیوں کا سلوک اچھا نہیں.شکایت کرنے والے کو تو میں نے کہا تھا کہ اس کی مثالیں پیش کرو لیکن جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا اصل مقصد تسبیح ہے اور یہ کہ احمدیت دلوں میں قائم ہو جائے.اس کی وجہ سے اگر کوئی شخص ہم سے لڑتا ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں لیکن اگر وہ صلح کے لئے آتا ہے تو چاہئے کہ اگر وہ ایک قدم بڑھے تو ہم دو قدم اُس کی طرف بڑھیں اور ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہئے کہ کسی حالت میں بھی ہم پر کوئی نکتہ چینی نہ کر سکے.ہمیں اپنے تمام اعمال میں پاکیزگی دکھانی چاہئے.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تم لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ شکار ہے جو شیر کے کچھار میں آیا ہے ہم ان لوگوں تک کہاں اپنے مبلغ پہنچا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہاں بھیج دیا ہے اور خدا کے مہمان کی قدر نہ کرنا اچھا نہیں.میں جانتا ہوں کہ جس نے یہ اعترض کیا ہے وہ پھر بھی کہے گا کہ احمدی ورغلانے لگے ہیں مگر ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ اعلیٰ اخلاق دکھائیں اور اخلاق کی تائید میں اگر اعتراض بھی ہو تو اُسے برداشت کریں ہمیں حکم ہے کہ مسافر سے حسن سلوک سے پیش آئیں.پس اس حکم کے ماتحت ان لوگوں سے اچھا سلوک کرنا چاہئے لیکن احمدی کہلانے والے آوارہ گرد نو جوانوں کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ایسے لوگوں کو بعض پولیس والے ساتھ ملا کر جھوٹ بلوالیتے ہیں جیسا کہ پہلے کیا جا چکا ہے.ان کے سوا تجربہ کار اور دیندارلوگ ان سے ضرور ملا کر یں.وہ اگر کوئی جگہ دیکھنے آئیں تو دکھانے کے لئے ساتھ آدمی مقرر کر دیئے جائیں ، اگر کوئی قرآن کریم یا دوسری دینی کتب پڑھنا چاہے تو اسے پڑھایا جائے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں یا گزشتہ پانچ سات روز ہوئے پڑھتے تھے آج کا علم نہیں.پس جو چاہیں ان کے لئے پڑھنے کا انتظام کرو اور دنیوی آرام کے لئے جہاں تک ممکن ہو ان کی مددکر و.جس امر پر آج ہمیں رنج ہے وہ تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر حملہ کا سوال ہے ورنہ ہم تو دشمن سے بھی اچھا سلوک کرنا چاہتے ہیں.ان لوگوں میں سے سارے بُرے نہیں ہیں اگر ان سے اچھا سلوک نہ ہو تو پھر بے شک کہیں گے کہ ہمارے مولوی ٹھیک کہتے تھے کہ احمدی اچھے نہیں ہوتے احمدی واقع میں بُرے ہیں لیکن اگر نمونہ اچھا ہو تو جس جگہ بھی یہ لوگ جائیں

Page 140

خطبات محمود ۱۳۵ سال ۱۹۳۵ء گے تعریف کرینگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک عرب سوالی یہاں آیا آپ نے اسے ایک معقول رقم دیدی.بعض نے اس پر اعتراض کیا تو فرمایا یہ جہاں بھی جائیگا ہمارا ذکر کرے گا خواہ دوسروں سے زیادہ وصول کرنے کے لئے ہی کرے مگر دُور دراز مقامات پر ہمارا نام پہنچا دے گا تو حُسنِ سلوک تعریف کرواتا ہے اس لئے پولیس والوں سے بھی حُسنِ سلوک کرو.اگر ان میں سے کوئی کچھ پوچھتا ہے تو یہ کیوں فرض کر لو کہ جاسوسی کے لئے ہی آیا ہے بلکہ اسے سمجھاؤ کہ ہم سب کے خیر خواہ ہیں اور ہمارے متعلق یونہی بدظنی کی جاتی ہے.اگر پانچ میں سے ایک کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے پس اپنا رویہ خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق رکھو.پولیس والے ابو جہل سے بھی تو بُرے نہیں ہیں اس لئے ان سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں.ان سے ملوا اور انہیں بتاؤ کہ ہمارے نزد یک افسری ماتحتی کوئی چیز نہیں.انسانیت کے لحاظ سے سب برابر ہیں اور انسانی لحاظ سے ہمارے نزدیک ایک کمشنر اور ایک کانسٹیبل (CONSTABLE) دونوں برابر ہیں.ایک دفعہ ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس چائے پر میرے ہاں آئے.ان کے ساتھ ایک سب انسپکٹر بھی تھے.میں نے کہا انہیں بھی بلا لیا جائے.اس پر مجھے بتایا گیا کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے یہ امر پسند نہیں کیا.میں نے کہا خیر یہ ان کی اپنی تفریق ہے ورنہ ہمارے لئے تو سب برابر ہیں.ہاں نیکی کے لحاظ سے فرق ہو تو ہو ورنہ سلوک ہمارا سب سے اچھا ہو گا.جو شخص کمشنر سے ڈر کر اس سے اچھا سلوک کرتا ہے اور سپاہی سے اس لئے انسانیت کے ساتھ پیش نہیں آتا کہ وہ اٹھارہ انہیں روپیہ کا ملازم ہے وہ روپیہ کی عزت کرنے والا ہو گا انسانیت کی نہیں.پس چاہئے کہ ہمارا سب سے اچھا سلوک ہو، تا کوئی ہمارے متعلق بُرا اثر لے کر نہ جائے.چاہئے کہ یہ لوگ باہر جا کر کہیں کہ احمدی اچھے حاکم ہیں ، ان میں ذاتی نیکی پائی جاتی ہے ، وہ گواہی دیں کہ احمدی بڑے عزیز ہیں مستقل مزاج ہیں.ہم نے ان میں سے بعض کو روپے دیگر پھسلانا چاہا مگر کسی نے ہماری نہیں سنی ، وہ حکیم ہیں جو بات بھی کرتے ہیں ایسی ہی کرتے ہیں جس میں اپنا بھی اور غیروں کا بھی فائدہ ہو، یونہی دھینگا مشتی نہیں کرتے.یہ نمونہ دکھاؤ پھر دیکھو ان میں تبلیغ کس طرح ہوتی ہے، یہ نہ کرو کہ بعض کی غلطیاں سب کی طرف منسوب کرو.ورنہ تم بھی انہی حکام کی طرح کے ہو جاؤ گے جو کبھی تو جھوٹ بنا کر ہماری طرف منسوب کر دیتے ہیں اور کبھی ایک احمدی کی غلطی ساری جماعت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.جس کے ساتھ مخالفت ہوا سے بھی اُس کے

Page 141

خطبات محمود ۱۳۶ سال ۱۹۳۵ء دائرہ میں محدود کھو پھر ہر شخص تمہاری تعریف کرے گا.یہ جو میں نے بیان کیا ہے یہ تو تمہید تھی بقیہ حصہ إِنْشَاءَ اللہ اگلے ہفتہ بیان کروں گا اس وقت پھر نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا کوا خلاق سے فتح کرو.اخلاقی اعتراض کی زد بڑی سخت ہوتی ہے تو پوں اور گولیوں سے زیادہ اس بات کو اپنے لئے خطرناک سمجھو کہ کہا جائے کہ احمدی فریبی ہیں یا جھوٹ بولتے ہیں.اپنے اخلاق سے ثابت کرو کہ تم ہی وہ قوم ہو جسے خدا تعالیٰ نے چن لیا ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتی ہے اور جس سے خدا محبت کرتا ہے.الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۵ء) الجمعة: ۲ تا ۹ UNDER THE ABSOLUTE AMIR by Frank A.Martin P.203-204 I بخارى كتاب النكاح باب الْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا.نیرو: پورا نام.نیر وکلاڈیس سیزر (NERO CLAUDIUS CASESAR) رومی شہنشاہ.ایگری پینا روم کا بیٹا.اس نے ماں اور بیوی کو قتل کرایا.رومہ کو آگ لگانے کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس نے آگ لگانے کا ذمہ دار عیسائیوں کو ٹھہرا کر انہیں ظلم وستم کا نشانہ بنایا.اس کے خلاف ایک شورش کامیاب ہونے کو تھی کہ اس نے خود کشی کر لی.اسے شاعر اور فنکار ہونے کا بڑا زعم تھا.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۶۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ۵ بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم باب مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه

Page 142

خطبات محمود ۱۳۷ سال ۱۹۳۵ء زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے (فرموده ۲۲ فروری ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں سورہ جمعہ کی پہلی آیت يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ کے متعلق یہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ملک ہونے کی تیج اور قدوس ہونے کی تسبیح اور عزیز ہونے کی تسبیح اور حکیم ہونے کی تسبیح سے مراد کیا ہے کس طرح ان امور میں خدا تعالیٰ کی تسبیح کی جاتی ہے اور اس تسبیح کے ذکر کرنے سے اس کا مقصد کیا ہے.وہ مقصد میں نے یہ بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ بھی ایسے ہی ملک بنیں جن کی تسبیح کی جائے ، ایسے ہی قدوس بنیں جن کی تسبیح کی جائے ، ایسے ہی عزیز بنیں جن کی تسبیح کی جائے اور ایسے ہی حکیم بنیں جن کی تسبیح کی جائے ، اخلاقی طور پر جب تک انسان تسبیح والا ملک نہیں بنتا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا ، جب تک وہ تسبیح والا قدوس نہیں بنتا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا ، جب تک وہ تیج والا عزیز نہیں بنتا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا ، جب تک وہ تسبیح والا حکیم نہیں بنتا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا.اس امرکوز ہن میں رکھتے ہوئے کتنی ضروری یہ بات ہو جاتی ہے کہ ہر مؤمن ملک بھی ہو، ہر مؤمن قُدوس بھی ہو، ہر مؤمن عزیز بھی ہو اور ہر مؤمن حکیم بھی ہو.کتنا بلند مقام ہے جو ہمارے رب نے ہمارے سامنے رکھا ہے لیکن بالعموم لوگوں سے جب ذکر ہو تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں جی ! ہم تو غریب ہیں

Page 143

خطبات محمود ۱۳۸ سال ۱۹۳۵ء کمزورونا تو اں اور مسکین ہیں حالانکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے مؤمن بندے ہو تو تم غریب نہیں بلکہ ملک ہوا اور ملک بھی وہ جس کی تسبیح کی جائے اور اگر تم سچے مؤمن ہو تو تم قُدوس ہو اور قدوس بھی وہ جس کی تسبیح کی جائے اسی طرح اگر تم سچے مومن ہو تو تم عزیز اور حکیم ہو اور عزیز اور حکیم بھی وہ جس کی تسبیح کی جائے.ہو سکتا ہے کوئی بادشاہ ہو اور اس کی رعایا اسے بادشاہ نہ مانے جیسے پرانے زمانے میں کئی بادشاہ بھاگے بھاگے پھرتے تھے اور انہیں رعایا میں سے کوئی شخص بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا.مثلاً ہمایوں کے متعلق ہی لکھا ہے کہ وہ بھاگ کر ایران پہنچا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن خواہ کتنا ہی غریب اور کتنا ہی کمزور نظر آئے ، کتنا ہی ضعیف اور کنگال کیوں نہ ہوا گر وہ سچا مؤمن ہے تو ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مسلک ہو اور آسمان پر ایک بادشاہ کی حیثیت میں اس کا نام لکھا گیا ہو.تم کہہ سکتے ہو کہ ہم کیونکر یہ تسلیم کریں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہماری حیثیت ایک بادشاہ کی سی ہے.میں اس کی تشریح کے لئے تمہیں قرآن مجید کی ایک آیت اور ایک حدیث کی طرف توجہ دلاتا ہوں.قرآن مجید میں یہ ذکر آتا ہے کہ ادنیٰ سے ادنی مؤمن کو بھی جنت میں جو مقام حاصل ہوگا عَرْضُهَا السَّمواتِ وَالْاَرْضِ کے اس کی قیمت زمین و آسمان کے برابر ہے.رسول کریم ﷺ نے بھی اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ادنیٰ سے ادنی درجہ کے مؤمن کو بھی جو جگہ جنت میں ملے گی وہ زمین و آسمان کے برابر ہو گی سلام گر ایک ضلع کا حاکم ہو کر کوئی شخص بادشاہ کہلا سکتا ہے، اگر ایک ملک کا حاکم ہو کر کوئی شخص بادشاہ کہلا سکتا ہے اور اگر دو یا تین ملکوں کا حاکم ہو کر کوئی شخص بادشاہ کہلا سکتا ہے تو جس کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ اُسے زمین و آسمان دے دیا جائے گا وہ کیوں بادشاہ نہیں ہوسکتا.معلوم ہوا کہ کوئی مؤمن اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ بادشاہ نہ بنے.پس ہر مؤمن بادشاہ ہے اور پھر ہر مؤمن قدوس بھی ہے اس میں شبہ نہیں کہ انسان خواہ کتنے بڑے بلند مقامات حاصل کر لے اور انتہائی کمالات تک پہنچ جائے ، اس کا مقام خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے یہی ہے کہ وہ کہے میں کمزور اور گناہگار ہوں.اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کے مقابلہ میں میری قدوسیت کی کچھ حقیقت ہی نہیں لیکن ادنیٰ سے ادنی مؤمن کو بھی ایسی پاکیزگی ضرور حاصل ہونی چاہئے کہ دنیا اسے دیکھ کر کہے کہ یہ نیک آدمی ہے اور اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.اگر دنیا اس کی بات پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تو معلوم ہوا کہ اس کا ایمان مشتبہ ہے.میں نے دیکھا ہے

Page 144

خطبات محمود ۱۳۹ سال ۱۹۳۵ء احمد یوں میں سے بعض لوگ اپنے علاقوں میں مقہور اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں لیکن جب کبھی معاملے کا وقت آتا ہے تو لوگ ان کی گواہی کو ترجیح دیتے ہیں.ہماری جماعت کا ایک غریب آدمی تھا مجھے معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نے بیعت کی تھی یا نہیں مگر حضرت خلیفہ اول کے ابتدائی زمانہ میں وہ یہاں آیا کرتا تھا اُس کا نام مغلا تھا اور وہ جھنگ کی طرف کا رہنے والا تھا اس کے رشتہ دار سب چوریاں کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دی اور وہ احمدی ہو گیا.بہت مسکین اور غریب احمدی تھا جب بھی وہ یہاں آتا تو بتا تا کہ احمدیت کی وجہ سے اسے لوگ بہت مارتے ہیں.ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی بھی تمہاری مدد نہیں کرتے ؟ وہ کہنے لگا بھائی تو مجھے زیادہ مارتے ہیں.پھر اس نے سنایا کہ ہمارے ہاں عام طور پر لوگ جانوروں کی چوری کرتے ہیں.یہ مرض جھنگ ، گجرات ، گوجرانوالہ اور شیخو پورہ کے اضلاع میں بہت پھیلا ہوا ہے.وہ لوگ جانوروں کی چوری کو کوئی ذلیل کام تصور نہیں کرتے بلکہ ایک قسم کا مقابلہ سمجھتے ہیں اور اگر ایک کے جانور چوری ہو جائیں تو وہ موقع پا کر چوری کرنے والے کے جانور چرا کر لے آتا ہے.چونکہ مغلا کے بھائی وغیرہ بھی چوریاں کیا کرتے تھے اس لئے با وجو د غریب ہونے کے چوریوں کی وجہ سے اپنے علاقہ میں با اثر سمجھے جاتے تھے.اس نے بتایا کہ جب سے میں احمد کی ہوا ہوں ، سارا علاقہ مجھے کا فر کہتا ہے مگر جب کسی کے ہاں چوری ہوتی ہے تو انہیں میرے بھائیوں پر قبہ ہو جاتا ہے.جب وہ آتے ہیں تو میرے بھائی قسمیں کھانے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے چوری نہیں کی قرآن تک اٹھا لیتے ہیں مگر لوگ ان کی بات پر اعتبار نہیں کرتے اور نہ قسموں کا یقین کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ مغلا اگر کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان جائیں گے اس پر میرے بھائی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کے مغلیا ! اب ہماری عزت تیرے ہاتھ میں ہے.اگر تو یہ کہہ دے کہ انہوں نے چوری نہیں کی تو وہ مان جائیں گے مگر میں کہتا ہوں یہ تو جھوٹ ہوگا میں کس طرح کہوں کہ آپ لوگوں نے چوری نہیں کی جبکہ واقع میں چوری کر کے ان کا مال لائے ہیں.کیا میں سچ بولنا چھوڑ دوں ؟ اس پر وہ یہ کہتے کہ ”سچ کا کچھ لگتا اور مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں.دوسرے فریق کو جب پتہ لگتا کہ مغلا کو محض اس کے سچ بولنے پر مارا جارہا ہے تو وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگ جاتا کہ اگر مغلا کہے گا تو ہم مانیں گے ورنہ نہیں مانیں گے.اس پر وہ پھر میری طرف آتے ہیں اور مجھے مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں اور جب مار پیٹ کر الگ ہوتے ہیں اور

Page 145

خطبات محمود ۱۴۰ سال ۱۹۳۵ء پوچھتے ہیں ” دس مغلیا اساں ایہ چیز چرائی ہے تو میں پھر بیچ بولتا اور کہتا ہوں.لی تو ہے.اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتے ہیں.باپ الگ ناراض ہوتا ہے کہ کوئی ایسا بھی احمق ہوتا ہے جو اپنے بھائیوں کو نقصان پہنچائے پس کہنے لگا میرا تو یہی حال ہوتا ہے.جس دن میرے بھائی گھر میں کوئی مال پُچر ا کر لاتے ہیں میں کہتا ہوں اب میری ہڈیوں کی خیر نہیں.پھر وہ کہنے لگا کبھی میں پیچھا چھڑانے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کرتا ہوں کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں میری گواہی کا کیا اثر ہوسکتا ہے.اس پر وہ کہتے ہیں تو ہے تو کا فرمگر بولتا سچ ہے.غرض احمدی مرتد بھی کہلاتے ہیں، بے دین بھی کہلاتے ہیں، یہ بھی سنتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں.تم رسول اللہ ﷺ کی ہتک کرنے والے ہو مگر پھر بھی لوگ ان کے متعلق یہ کہنے سے نہیں رہ سکتے کہ احمدی سچ بولتے ہیں.یہ زندہ مثال اس بات کی ہے کہ مؤمن قدوس ہوتا ہے دنیا ایک سانس میں اسے بُرا کہتی ہے اور دوسرے سانس میں اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوتی ہے لوگ ایک طرف سارے عیوب اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر دیانتدار کوئی نہیں اور نہیں سوچتے کہ کیا ساری دیانت گفر میں رہ گئی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک قدوس نہ بنو.دشمن سے بھی اگر پوچھا جائے تو وہ کہے کہ ہے تو یہ کا فراور پلید مگر اس کی بات پر میں اعتبار کرتا ہوں.تھوڑے ہی دن کی بات ہے ایک غیر احمدی یہاں آیا اس کا مقدمہ کسی احمدی مجسٹریٹ کے پاس تھا لوگوں نے اسے کہا کہ قادیان سے جا کر سفارش کراؤ تا مقدمہ کا فیصلہ تمہارے حق میں ہو.جب وہ یہاں آیا تو کسی نے اسے بتایا کہ سفارش کے کیا معنی ہیں.مجسٹریٹ سرکار سے اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ انصاف کریں پھر احمدی جو ہوتا ہے، اس کا خصوصیت سے یہ فرض ہوتا ہے کہ انصاف کو کسی لمحہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے، پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ اس مجسٹریٹ کو یہاں سے بد دیانتی کرنے کی تعلیم دی جائے گی ؟ چونکہ اس کا پہلے بھی احمدیوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا اس لئے یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا میں آیا تو کسی اور مقصد کے لئے تھا مگر لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ بات پیش کرنی مناسب نہیں اس لئے اب میں وہ بات تو پیش نہیں کرتا صرف درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں اگر احمدیت کچی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس میں داخل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے.پھر اُس نے خود ہی ذکر کیا کہ میرا

Page 146

خطبات محمود ۱۴۱ سال ۱۹۳۵ء ایک مقدمہ ایک احمدی مجسٹریٹ کے پاس ہے مجھے رشتہ داروں نے کہا تھا کہ قادیان میں جا کر سفارش کراؤ.میں نے انہیں کہا بھی کہ یہ فضول بات ہے اگر وہ مجسٹریٹ احمدی ہے تو خود ہی انصاف کرے گا کسی سفارش کی کیا ضرورت ہے مگر وہ نہ مانے اور میں یہاں چلا آیا.یہاں آ کر بھی لوگوں نے یہی بتایا کہ وہ احمدی ہی کیسا ہے جو انصاف نہیں کرے گا ان باتوں سے اب میری تسلی ہوگئی ہے اور میں نے سفارش کرانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے.مقدمہ میں پھنسے ہوئے لوگوں کی عقل کس قدر پراگندہ ہو جاتی ہے مگر ایسے مجبور آدمی کا بھی یہ سمجھ جانا کہ احمدی حج انصاف کرے گا بتا تا ہے کہ اسے یہ محسوس ہوا کہ اس جماعت میں قدوسیت ہے ورنہ اگر اسے احمدیوں سے ذاتی واقفیت نہ ہوتی تو وہ ضرور اصرار کرتا کہ میری سفارش کر ولیکن چونکہ وہ احمدیوں کے حالات سے واقف تھا اس لئے باوجود اس کے کہ وہ دور سے چل کر آیا تھا کہنے لگا کہ اب میری تسلی ہو گئی.تو احمدیت کے ساتھ قدوسیت یا ایمان کے ساتھ قدوسیت ایک لازمی چیز ہے.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کتنی ہی اپنے آپ میں کمزوریاں دیکھے، دنیا کے مقابلہ میں فسڈوس ہو گا.صرف فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نسبت سے قدوس ہے اور مؤمن نسبتی طور پر قدوس ہوتا ہے.جب مؤمن کی خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ اٹھتی ہے تو وہ اپنے آپ کو کمزوریوں سے کر پاتا ہے مگر جب بندوں کی طرف دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو قدوس سمجھتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ عزیز ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندے عزیز نہیں ان کے اندر بھی استقلال ہو ان کے اند بھی غیر معمولی مضبوطی اور پختگی ہو اور گو میں ہمیشہ شکایت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں استقلال نہیں مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ جو ہماری جماعت میں مؤمن ہیں وہ استقلال کا بہترین نمونہ ہیں.دنیا وی انجمنیں قائم ہوتی ہیں تو کوئی ایک مہینہ تک کام کرتی ہے کوئی دو مہینہ تک اور کوئی زیادہ کام کرے تو سال دو سال تک کام کرتی رہے گی مگر آخر تھک کر رہ جائے گی.پھر ان انجمنوں میں آج ایک کام کرتا ہے تو گل دوسرا اور اگر ہیں تمہیں سال بھی کوئی انجمن قائم رہی تو اس کے کارکن ہمیشہ بدلتے رہے مگر بجز جماعت احمد یہ ایسی جماعت ہندوستان میں اور کونسی نظر آ سکتی ہے جو پچاس سال سے متواتر قربانیاں کرتی چلی آ رہی ہو.اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے پچاس سال ہوئے ہیں تو وہ پچاس سال سے قربانیاں کر رہا ہے، اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے چالیس سال ہوئے ہیں تو وہ چالیس سال سے قربانیاں کر رہا ہے،

Page 147

خطبات محمود ۱۴۲ سال ۱۹۳۵ء اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے تمہیں سال ہوئے ہیں تو وہ تمیں سال سے قربانیاں کر رہا ہے اور اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں سال ہوئے ہیں تو وہ بیس سال سے قربانیاں کر رہا ہے پھر اگر باپ نے سلسلہ کے لئے قربانی کی تھی تو اس کے بعد بیٹے نے قربانی شروع کر دی اور بیٹے کے بعد اس کے پوتے نے قربانی شروع کر دی.غرض عزیزیت کے نمونے بھی ہماری جماعت میں ملتے ہیں اور جو ابھی تک اس قسم کا نمونہ نہیں بنے انہیں چاہئے کہ نمونہ بننے کی کوشش کریں.جو ملک نہیں وہ ملک بننے کی کوشش کریں جو قد وس نہیں وہ قدوس بننے کی کوشش کریں.جو عزیز ہیں وہ عزیز بننے کی کوشش کریں.اور جو حکیم نہیں وہ حکیم بننے کی کوشش کریں.حکیم ہمیشہ حکمت کے ماتحت کام کیا کرتا ہے اور میں سمجھتا ہوں جتنا ہماری جماعت حکمت کے ماتحت ہر کام کرنے کی عادی ہے خود یورپ بھی اتنا حکمت کے ماتحت کام کرنے کا عادی نہیں حالانکہ وہ تعلیم میں بہت آگے ہے.مثلاً جتنا ہمیں اشتعال دلا یا جا تا اور مخالفوں کی طرف سے گالیاں دی جاتی ہیں کیا دنیا کی کوئی اور قوم ہے جو اس قسم کی اشتعال انگیزی کو برداشت کر سکے.صرف ہماری جماعت دنیا میں ایسی ہے جو صبر کا بہترین نمونہ پیش کر رہی ہے اور یہ اسی لئے کہ ہماری جماعت حکمت کو بجھتی ہے.وہ جانتی ہے کہ اگر گالیوں کے مقابلہ پر میں نے بھی گالیاں دے لیں تو ان سے اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا چُپ رہنے سے اور مارکھا کر خاموش رہنے سے ہو گا.اسی طرح ہماری جماعت اپنے اصل مقصود کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کے قلوب میں جو تبدیلی پیدا کرنا چاہتی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے کرتی چلی جاتی ہے تو الملک الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ یہ چاروں صفات مؤمن کے اندر پائی جانی چاہیں.جو شخص اپنے آپ کو مسلک نہیں بناتا.جو شخص اپنے آپ کو قدو س نہیں بناتا.جوشخص اپنے آپ کو عزیز نہیں بناتا.اور جو شخص اپنے آپ کو حکیم خیال نہیں کرتا ، اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کے ایمان میں کمزوری ہے.ایک حافظ محمد صاحب پشاوری ہماری جماعت میں ہوا کرتے تھے ، اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سابقون میں سے تھے، کئی سال انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان رہنے کا موقع ملا، ان کی طبیعت میں بہت جوش تھا، اگر کسی کی ذراسی غلطی بھی دیکھ لیتے تو جھٹ کہہ دیتے وہ منافق ہے.شیعوں کی طرح ان کا یہ خیال تھا کہ ہماری جماعت میں صرف اڑھائی مؤمن ہیں.ایک وہ ایک حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول اور آدھے مولوی

Page 148

خطبات محمود ۱۴۳ سال ۱۹۳۵ء عبد الکریم صاحب.احمد یہ چوک میں سے ایک گندہ نالہ گزرا کرتا تھا اور اس پر ایک پھٹے پڑا رہتا تھا اب تو وہاں سڑک بن گئی اور نواب صاحب کے مکانات تعمیر ہو گئے ہیں.انہوں نے وہاں بیٹھ جانا اور ہاتھ اُٹھا کر بڑے زور زور سے یہ دعائیں کرنا کہ خدایا! اپنے مسیح کو منافقوں سے بچا اس جماعت میں تو ہم صرف اڑھائی مؤمن رہ گئے ہیں.ایک دفعہ وہ پشاور جارہے تھے ساتھ اور بھی احمدی تھے کسی نے رستہ میں کوئی بات جو کہی تو انہوں نے کہا کہ یہ بات یوں ہے.وہ کہنے لگا اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ یہ بات یوں ہے حافظ محمد صاحب کہنے لگے اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں اور میں مؤمن ہوں.وہ کہنے لگا یہ آپ نے بڑا بھاری دعوای کر دیا آپ کے اندر تکبر معلوم ہوتا ہے تو بہ کیجئے.وہ پوچھنے لگے کہ کیا آپ مؤمن نہیں ؟ وہ کہنے لگا میں بھلا مؤمن کہاں ہوں میں تو گناہگار بندہ ہوں.یہ کہنے لگے اچھا اگر آپ مؤمن نہیں بلکہ گنہ گار ہیں تو میں آپ کے پیچھے آئندہ نماز نہیں پڑھوں گا.ایک اور مولوی صاحب بھی ان میں موجود تھے ان سے پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے میں بھی اپنے آپ کو مومن کہنے سے ڈرتا ہوں.یہ کہنے لگے اچھا جناب.اب آپ کے پیچھے بھی آئندہ سے نماز بند.کچھ عرصہ کے بعد جب دوبارہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے شکایت کی کہ حافظ صاحب الگ نماز پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے جب پوچھا کہ کیا تم مؤمن ہو تو ہم نے کہا کہ ہم تو گنہ گار بندے ہیں اس پر حافظ صاحب نے ہمارے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ واقعہ سن کر فرمایا حافظ صاحب سچ کہتے ہیں جب کوئی اقراری مجرم ہو جائے تو اُس کے پیچھے نماز کس طرح جائز ہوسکتی ہے.اس کے بعد آپ نے فرمایا جسے خدا تعالیٰ ایک مامور کی شناخت کی توفیق دیتا ہے اور وہ پھر بھی کہتا ہے کہ میں مؤمن نہیں تو وہ آپ مجرم بنتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عدالت میں جا کر کہہ دے کہ میں چور ہوں یا ڈا کو ہوں پس جو شخص اپنے آپ کو چور اور ڈاکو کہتا ہے جس طرح وہ مُجرم ہے اسی طرح چونکہ مؤمن اور متقی ہونا ایک ہی چیز ہے اس لئے جو شخص کہتا ہے کہ میں متقی نہیں اس کے پیچھے نماز کیوں پڑھی جائے.پس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جو جماعتیں ہوں ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مؤمن ہوں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ملک ہوں ، ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ قدوس ہوں ، ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ عزیز ہوں اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ حکیم ہوں پس اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی جماعت

Page 149

خطبات محمود ۱۴۴ سال ۱۹۳۵ء سے یہ چاہتا ہے کہ اس میں ملکیت پائی جائے ، اس کے اندر قدوسیت پائی جائے اس کے اندر عزیز بیت پائی جائے اور اس کے اندر حکیمیت پائی جائے پس اس آیت نے تمہیں یہ سبق دیا ہے کہ تم کبھی اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھو.بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہم بے کس ہیں ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم ملک ہوں گے.بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہم گنہگار ہیں ہمارے اندر کئی قسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم قدوس ہوں گے ، بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہمارے اندر استقلال کہاں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم عزیز ہوں گے.اسی طرح بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہم بیوقوف ہیں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم حکیم ہوں گے مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سورج کے مقابل میں دیا کہے کہ میں تاریک ہوں لیکن کیا دیا اندھیرے میں بھی کہا کرتا ہے کہ میں روشن نہیں.یوں تو روشن سے روشن لیمپ بھی اگر سورج کے سامنے رکھ دو تو اُس کی روشنی غائب ہو جائیگی لیکن اگر اندھیرے میں اسے لاؤ تب تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کے اندر کتنی بڑی چمک پائی جاتی ہے اسی طرح اگر دین کے مخالفوں کے مقابلہ میں بھی جو روحانی لحاظ سے تاریک ہیں کو ئی شخص کہتا ہے کہ میں روشن نہیں تو وہ واقع میں روشن نہیں.اور جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں بھی اپنے اندر ملکیت نہیں پاتا ، جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں اپنے اندر قدوسیت نہیں پاتا، جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں بھی اپنے اندر عزیزیت نہیں پاتا اور جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں بھی اپنے اندر حکیمیت نہیں پاتا وہ ایک بجھا ہو اد یا اور گل کی ہوئی لالٹین ہے.تاریکی کے مقابلہ میں تو جگنو بھی چمکتا ہے کجا یہ کہ ایک لاٹین ہو اور وہ روشن نہ ہو.جگنو کیوں دن کو نظر نہیں آتے اور رات کو نظر آتے ہیں.اسی لئے کہ دن کو سورج مقابل پر ہوتا ہے اور رات کو تاریکی مقابل پر ہوتی ہے.بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے مصری کی ڈلیاں لیتے اور رات کو لحاف اوڑھ کر انہیں توڑتے تو اس میں سے روشنی نظر آتی.بعض بچے جو نا واقف ہوتے ڈر جاتے اور سمجھتے کہ جن آ گیا ہے مگر دن کو مصری تو ڑو تو اس میں سے کبھی روشنی نظر نہیں آسکتی.پس بے شک ہم اپنے آپ کو ادنی سمجھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں جو چمکتے ہوئے سورج کی سی حیثیت رکھتا ہے ، اس کی ملکیت کے مقابلہ میں ہم جب اپنی ملکیت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بے بسی نظر آتی ہے ،اس کی قدوسیت کے مقابلہ میں جب ہم اپنی قدوسیت کو دیکھتے ہیں تو کہہ اُٹھتے ہیں ہم اس کے فضل

Page 150

خطبات محمود ۱۴۵ سال ۱۹۳۵ء کے بغیر کب پاک ہو سکتے ہیں ، اسی طرح جب ہم اس کے عزیز ہونے کو دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا ہمیں سہارا نہ دے تو ہم کچھ بھی نہیں ، پھر جب ہم خدا تعالیٰ کی حکمت کو دنیا کے ذرہ ذرہ میں دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں ہماری حکمت اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے ہم تو نادان ہیں مگر جب ہم رات کی تاریکی میں آتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ہم نہ صرف خود روشن ہیں بلکہ اپنے ارد گر د کو بھی روشن کر رہے ہیں اور جو اس وقت ہماری روشنی کا انکار کرتا ہے ہم اسے نابینا اور اندھا کہتے ہیں.جیسے سورج کے مقابل پر اگر کوئی شخص جگنو کی چمک نہ دیکھے تو یہ اس کی نابینائی کا ثبوت نہیں ہوتا ہاں اگر رات کو اسے جگنو چمکتے نظر نہ آئیں یا رات کو لیمپ جلتے دکھائی نہ دیں تو اسے نابینا کہا جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں میاں ! اپنی آنکھوں کا علاج کراؤ.یہی حال مؤمن کا ہوتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کسی اور کی روشنی اسے نظر نہیں آتی مگر خدا جب اسے تاریکی میں کھڑا کرتا ہے تو اسے اپنی روشنی بھی نظر آنے لگتی ہے اور دوسروں کی بھی.بیہ وہ ایمان ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر پیدا کرے.اگر ہم میں سے ہر شخص باوجود اس کے کہ وہ دنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر ہو یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ ملک ہے یا یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ قدوس ہے تو یقیناً اس کے ایمان میں نقص ہے.اسی طرح اگر وہ دوسری دنیا کے مقابلہ میں اپنے آپ کو عزیزیت کے مقام پر فائز نہیں سمجھتا اور نمایاں طور پر اپنے ہر کام میں حکمت اختیار نہیں کرتا تو یہ بھی اس بات کا ثبوت ہوگا کہ اس کے ایمان میں نقص ہے اور اگر اس کے ملک ہونے کے باوجود قدوس ہونے کے باوجود عزیز اور حکیم ہونے کے باوجود دنیا اسے نہیں دیکھتی تو یہ دنیا کی نابینائی کا ثبوت ہوگا.مگر یہ نا بینائی اسی وقت کہی جاسکتی ہے جب دنیا کو کوئی ایک مؤمن بھی ملکیت ، قدوسیت ، عزیزیت اور حکیمیت کا مظہر نظر نہ آئے.اگر زید اور بکر میں سے وہ زید کو ان صفات کا مظہر سمجھتی ہے اور بکر کو نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بکر میں نقص ہے نہ یہ کہ اس کی بینائی میں قصور ہے.جیسے اگر کسی شخص کو اور لالٹینیں تو روشن نظر آئیں مگر ایک نظر نہ آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ اس کی آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں بلکہ یہ مطلب ہوگا کہ وہ لالٹین اندھیری ہے.پس یہ وہ مقام ہے جس کی مؤمن سے امید کی جاتی ہے اب تم میں سے ہر شخص اپنے دل میں

Page 151

خطبات محمود ۱۴۶ سال ۱۹۳۵ء سوچے اور غور کرے کہ کیا وہ ملک ہے، کیا وہ قدوس ہے، کیا وہ عزیز ہے اور کیا وہ حکیم ہے؟ جو شخص ملک ہو وہ دنیا میں کبھی ڈرا نہیں کرتا اور جو ھڈوس یعنی نیکی کا مجسمہ ہولوگ اس پر حقیقی اعتراض نہیں کر سکتے.جھوٹے اعتراض بے شک کریں گے مگر وہ قُدوس شخص کا کیا بگاڑ سکتے ہیں.جتنا زیادہ لوگ قدوس مؤمن پر اعتراض کریں اتنی ہی زیادہ ان کی روسیا ہی ثابت ہوتی ہے.اسی طرح جو شخص عزیز ہو اور استقلال سے کام کرنے والا ہو یا حکیم ہو اور اپنے کام میں دانائی کو مد نظر رکھتا ہو اس پر اعتراض کر کے کیا بگاڑ سکتے ہیں.جب کوئی نیا احمدی ہو تو لوگ اسے کہا کرتے ہیں بیوقوفی سے اس نے حضرت مرزا صاحب کو مان لیا مگر کیا وہ دیکھتے نہیں کہ کاموں میں اس احمدی کی بیوقوفی ظاہر ہوتی ہے یا ان کی؟ لوگ اسے اشتعال دلاتے ہیں دل آزار کلمات اس کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر یہ خاموش رہتا اور اپنے جوشوں کو دبا کر انہیں تبلیغ کرتا رہتا ہے.صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ حکیم ہے اور جانتا ہے کہ کن موقعوں پر جوشوں کو دبانا چاہئے اور کس موقع پر اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہئے.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے یہاں تسبیح سے مراد کیا ہے اور اگر وہ چیز میں تسبیح کرتی ہیں تو کہاں کرتی ہیں؟ ہمارے سامنے اس وقت مینار کھڑا ہے یہ کب تسبیح کر رہا ہے ، مکان کی دیواریں ہیں یہ کہاں تسبیح کر رہی ہیں ، فرش اور چھت ہے یہ کہاں تسبیح کر رہا ہے، ہم نے لباس پہنا ہوا ہے یہ کہاں سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کر رہا ہے.ہمیں تو ان چیزوں کی تسبیح سنائی نہیں دیتی مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِى السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے اب اگر واقع میں تسبیح ہو رہی ہے تو کیا ہم بہرے ہیں کہ وہ تسبیح ہمیں سنائی نہیں دیتی یا وہ تیج ہی نہیں کرتیں ؟ اس کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ دنیا میں کئی دفعہ تسبیح ہوتی ہے مگر سُنی نہیں جاتی.مثال کے طور پر گراموفون کا ریکارڈ لے لو اس کا ریکارڈ آیا بولتا ہے یا نہیں.ہر شخص جانتا ہے کہ اس کا ریکارڈ بولتا ہے مگر جب تک سوئی نہیں رکھی جاتی اس سے آواز پیدا نہیں ہوتی.یا کیا ایک آن پڑھ کے لئے دنیا میں کتاب بولا کرتی ہے.قرآن مجید میں ہمیں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ یہ ہزاروں الفاظ نظر آتے ہیں اور جب ہم

Page 152

خطبات محمود ۱۴۷ سال ۱۹۳۵ء پڑھتے ہیں تو قرآن مجید ہمارے لئے بول رہا ہوتا ہے.لیکن ایک ان پڑھ کے سامنے قرآن مجید رکھ دو تو وہ یہی کہے گا کہ کاغذوں پر سیاہی گرمی ہوئی ہے.پس آن پڑھ کے لئے قرآن کے الفاظ کا غذ پر گری ہوئی سیاہی کی سی حیثیت رکھتے ہیں لیکن جب ایک پڑھا لکھا شخص دیکھتا ہے تو اسے عبارتوں کی عبارتیں نظر آنے لگتی ہیں.اسی طرح اگر ایک انجینئر کے سامنے انجینئر نگ کی کوئی کتاب رکھ دو تو وہ کتاب اس کے لئے بولتی ہوئی نظر آئے گی.کہیں وہ کتاب اسے یہ بتلائے گی کہ چھتوں کے لئے گارڈ ر کتنے مضبوط ہونے چاہیں.کتنے اور کیسے گارڈر چھت کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں، کہیں وہ کتاب اسے یہ بتائے گی کہ محراب کس صورت میں بوجھ زیادہ اُٹھا سکتا ہے، کہیں وہ کتاب اسے یہ بتائے گی کہ عمارت کے لئے کتنی بنیاد کھودنی چاہئے اور کتنی گہری بنیادوں پر کتنی بلند عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے.غرض وہ کتاب اس کے سامنے بول رہی ہوگی لیکن ایک نادان کے سامنے رکھ دو تو وہ کہے گا کچھ لکیریں سی کچھی ہوئی ہیں.پس ایک صاحب علم کے لئے جو کتاب بولتی ہے جاہل کے سامنے وہ خاموش ہوتی ہے بلکہ خدا تعالی کی پاکیزہ کتاب بھی ایک جاہل کے لئے گری ہوئی سیاہی کی حیثیت رکھتی ہے مگر ایک عالم کے لئے کیسی بولنے والی ہے بلکہ اس قرآن سے زیادہ بولنے والی چیز دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں.تیرہ سو سال سے برابر آج تک بولتا ہی چلا جاتا ہے اور نئی سے نئی باتیں غور کرنے والوں پر کھولتا ہے پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے تو ہمارا یہ سمجھ لینا کہ تسبیح کے صرف اتنے ہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے قانون میں کوئی عیب نہیں ظلم ہے.یقیناً زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ کسی رنگ میں بولتا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ خواب اور رویا میں جو یقظہ سے زیادہ واضح ہوتی ہے.بعض دفعہ دیوار میں بولتی دکھائی دیتی ہیں ، بعض دفعہ جانور مثلا گتے اور بلیاں بولتی دکھائی دیتی ہیں اور خوابوں میں یہ جانور بہت معقول باتیں کرتے نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ اسی رنگ میں الہام ہو ا کہ خاکسار پیپر منٹ‘۵ دشمنان سلسلہ ہمیشہ اس الہام پر جنسی اُڑاتے رہتے ہیں حالانکہ اگر بہرہ اس بات پر ہنسی اڑائے کہ لوگ باتیں کرتے ہیں یا اندھا اس بات پر ہنسے کہ لوگ چمکنے والے سورج کا ذکر کرتے ہیں تو یہ

Page 153

خطبات محمود ۱۴۸ سال ۱۹۳۵ء بیہودہ بات ہوگی.” خاکسار پیپرمنٹ کی آواز سننے کا جو اہل تھا اس نے اس آواز کو سن لیا اور جن کے اس آواز کو سننے اور سمجھنے کے کان نہیں ہیں وہ اس آواز کو کیسے سن سکتے ہیں.جس طرح ایک ان پڑھ کے سامنے اگر انجینئر نگ کی کتاب رکھ دی جائے تو وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہے گا کہ لکیریں کچھی ہوئی ہیں.بلکہ اب تو لوگ تعلیمی زمانہ میں ہونے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ہے اور اس میں کچھ لکھا ہوا ہے اگر ایک ایسا ان پڑھ آدمی ہو جسے پتہ ہی نہ ہو کہ کتاب کیا ہوتی ہے اگر اس کے سامنے کتاب کھول کر رکھ دو تو وہ کیا کہے گا ، یہی کہے گا کہ سیاہی گرمی ہوئی ہے.مشہور ہے کہ ایک انگریز نے افریقہ کے قبائل پر اسی بناء پر قبضہ کیا کہ ایک دفعہ اس نے ایک لکڑی پر کوئلہ سے کچھ لکھ کر ایک حبشی کو بلایا اور اسے کہا کہ یہ لکڑی وہ اس کے گھر لے جائے اور اس کی بیوی جو چیز دے وہ لیتا آئے.وہ کہنے لگا میں کونسی چیز لاؤں ؟ انگریز کہنے لگا کہ یہ لکڑی خود بتا دے گی کہ کس چیز کی ضرورت ہے.جب وہ لکڑی اس نے بیوی کو لا کر دی تو اس نے وہ پُر زہ نکال کر جو اُس نے مانگا تھا دے دیا.حبشیوں پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اس لکڑی کو پوجنے لگ گئے.تو نا واقف اور ان پڑھ آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا کہ کتاب وغیرہ میں کیا لکھا ہے مگر پڑھے ہوئے آدمی کے لئے وہی لکھی ہوئی چیز بو لنے لگ جاتی ہے.ان پڑھ ممکن ہے یہی خیال کرنے لگے کہ یہ تحریر با تیں کرتی ہے.پس یہ مخالف معرفت سے تو دور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پر اعتراض کرنے اور ہنسی اڑانے لگ جاتے ہیں.دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو نہ بولتی ہو، پیپر منٹ بھی بولتا ہے اور دوسری چیزیں بھی مگر ان کی آواز سننے کے لئے وہ کان چاہیں جن کی ضرورت ہے حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک درخت جس سے آپ ٹیک لگا یا کرتے تھے جب آپ کا ممبر بنا اور آپ نے اُس درخت پر سہارا لگا نا چھوڑ دیا تو وہ رو پڑا.اگر پیپر منٹ کے کلام کرنے پر ہنسی جائز ہے تو پھر یہاں بھی ہنسی جائز ہو سکتی ہے لیکن اگر وہاں یہ کہا جائے کہ وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو کہتا ہے کہ درخت نہیں رویا ، البتہ اس رونے کی آواز سننے کے لئے کان چاہیں.یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی آواز محمد ﷺ ، حضرت ابو بکر اور اسی مذاق کے دوسرے لوگ سن سکتے تھے تو یہاں بھی جو اُس آواز کے سننے کا اہل تھا اُس نے سن لیا مگر جو ادنی درجہ کے لوگ ہیں وہ تو ان باتوں پر ہنسی ہی اُڑائیں گے.جیسے مثلاً گراموفون کسی نا واقف کود وا اور اس سے دریافت کرو کہ

Page 154

خطبات محمود ۱۴۹ سال ۱۹۳۵ء کیا یہ بول سکتا ہے ؟ وہ کبھی اس کے بولنے کو تسلیم نہیں کرے گا بلکہ انکار کرے گا.اسی طرح اگر کوئی پٹھان جوصرف پشتو بولتا ہو آئے اور ایسے لوگوں کو جو پشتو کا ایک حرف بھی نہیں سمجھتے گھنٹہ بھر تقریر کرے اور اپنے درد بھرے واقعات لوگوں کو سنائے تو کیا کوئی ہو گا جو اس کی بات کو سمجھ سکے.لوگوں سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہیں گے کہ کچھ غبر غبر کر رہا تھا.اسی طرح اگر چینی آجائے اور وہ اپنی زبان میں تقریر کرے تو لوگ سن کر کیا سمجھیں گے ؟ کچھ بھی نہیں ، یہی خیال کریں گے کہ چیں چیں کر رہا ہے.یا مثلاً فرض کرو ایران کی ایک عورت فارسی زبان سے ناواقف ہندوستانیوں میں آتی ہے اور اپنی درد بھری کہانیاں لوگوں کو سناتی اور اپنے مصائب کا قصہ ان کے سامنے دُہراتی ہے.وہ بیان کرتی ہے کہ کس طرح اس کا خاوند فوت ہو گیا ، پھر اس کے رشتہ داروں نے اس کے ساتھ غداری کی اور اس کی جائداد وغیرہ سب چھین لی اور اسے گھر سے باہر نکال دیا، وہ در بدر ٹھوکریں کھاتی رہی ، جنگلوں کی خاک اس نے چھانی ، پاؤں میں اس کے چھالے پڑ گئے ، آگے آئی تو ڈاکوؤں نے اسے پکڑ لیا اور اسے زدو کوب کیا.فرض کرو یہ تمام قصہ وہ سناتی ہے اور اپنی ساری قوت بیان وہ صرف کر دیتی ہے لیکن اگر پنجاب کے کسی گاؤں میں وہ یہ باتیں بیان کرے تو عورتیں اور بچے اس کی تقریر سن کر کیا سمجھیں گے وہ ایک حرف بھی اُس کی داستان غم کا نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ اس آواز کونہیں سمجھ سکتے.وہ یہی کہیں گے کہ یونہی ہست بود کر رہی ہے یا مثلاً اُسی وقت ایک چڑیا چہچہائی ہے ہم نہیں جانتے ان کی کوئی زبان ہوتی ہے یا نہیں لیکن اگر ہوتی ہے تو ممکن ہے اس چڑیا نے یہی کہا ہو کہ میرے پیارے بچے ! میرے پاس آ جا لیکن چونکہ ہم اس کی زبان سے نا آشنا ہیں اس لئے ہم اس آواز کو بے معنی سمجھتے ہیں.غرض دنیا میں جب کوئی شخص کسی چیز کو نہیں سمجھتا تو وہ خیال کرتا ہے کہ وہ بے معنی اور نا کا رہ ہے مگر سمجھنے والا اس آواز کو سمجھتا اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کھانا کھایا کرتے تو بمشکل ایک پھل کا آپ کھاتے اور جب آپ اُٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا پورہ آپ کے سامنے سے نکلتا.آپ کی عادت تھی کہ روٹی تو ڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دستر خوان پر رکھے رہتے.معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسا کیوں کیا کرتے تھے مگر کئی دوست کہا کرتے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا

Page 155

خطبات محمود ۱۵۰ سال ۱۹۳۵ء نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے اس قسم کی بات سننی مجھے اس وقت یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ لوگ یہی کہا کرتے تھے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان میں سے تسبیحوں کی آواز میں اُٹھ رہی ہیں اب کیوں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے جبکہ ہم اس تسبیح کی آواز کو سن ہی نہیں سکتے اور جس چیز کو ہم سن نہیں سکتے اس کے بتانے کی ہمیں کوئی ضرورت نہ تھی.کیا قرآن میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جنت میں فلاں مثلاً عبد الرشید نامی ایک شخص دس ہزار سال سے بیٹھا ہوا ہے ہمارے لئے چونکہ اس کے ذکر سے کوئی فائدہ نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی باتیں نہیں بتا ئیں ، پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اے لوگو ! تم اس تسبیح کو سنو.جب ہم کہتے ہیں کہ چاند نکل آیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ لوگ آئیں اور دیکھیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص گا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چلو اور اس کا راگ سنو ، اسی طرح جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس تسبیح کو سنو پس معلوم ہوا کہ یہ تسبیح ایسی ہے جسے ہم سن بھی سکتے ہیں.ایک تو سننا ادنی درجہ کا ہے اور ایک اعلیٰ درجہ کا مگر اعلیٰ درجہ کا سننا انہی لوگوں کو میسر آ سکتا ہے جن کے ویسے ہی کان اور آنکھیں ہوں اسی لئے مؤمن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ کھانا شروع کرے تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہے کھا نا ختم کرے تو الحَمدُ لِلهِ کہے، کپڑا پہنے یا کوئی اور نظارہ دیکھے تو اسی کے مطابق تسبیح کرے.گویا مؤمن کا تسبیح کرنا کیا ہے؟ وہ ان چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرنا ہے.وہ کپڑے کی تسبیح اور کھانے کی تسبیح اور دوسری چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرتا ہے مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں وہ رات دن کھاتے اور پیتے ہیں، پہاڑوں پر سے گزرتے ہیں ، دریاؤں کو دیکھتے ہیں ، سبزہ زاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں ، درختوں اور کھیتوں کو لہلہاتے ہوئے دیکھتے ہیں، پرندوں کو چہچہاتے ہوئے سنتے ہیں مگر ان کے دلوں پر کیا اثر ہوتا ہے.کیا ان کے دلوں میں بھی ان چیزوں کے مقابلہ میں تسبیح پیدا ہوتی ہے اگر نہیں پیدا ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سنا مگر تم کہو گے کہ ہمارے کانوں میں تسبیح کی آواز نہیں آتی.میں اس کے لئے تمہیں بتا تا ہوں کہ کئی آوازیں کان سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہیں.مثلاً خوشی ہے کیا اس

Page 156

خطبات محمود ۱۵۱ سال ۱۹۳۵ء کی آواز کو کسی نے کانوں سے سنا ؟ جب کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے تو کیا اس موقع پر اس کے کان میں خوشی کی آواز آیا کرتی ہے یا دل میں کیفیت پیدا ہو ا کرتی ہے؟ فرض کرو ایک ایسا شخص ہو جس کی شادی پر بیس برس گزر گئے ہوں اور اس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی ہو، اکیسویں سال اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہو تو کیا اس خوشی کے موقع پر اس کے کانوں میں یہ آواز آیا کرتی ہے کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا یہ بہت اچھی بات ہے.یا خوشی کی خبر سنتے ہی معا اس کی قلبی کیفیات بدل جاتی ہیں.اسی طرح جب کسی کا اکلوتا بیٹا مر جاتا ہے تو کیا اس وقت اُس کے کانوں میں یہ آواز آیا کرتی ہے کہ میرا اکلوتا بچہ مر گیا ، یہ بڑی بڑی بات ہوئی ؟ یا معا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور دل میں انقباض سا پیدا ہو جاتا ہے پس خوشی اور رنج کی آوازوں کو آج تک کسی نے اپنے کانوں سے نہیں سنا بلکہ خوشی کی آواز تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے اور رنج کی آواز تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے اسی طرح وفا کے جذبات انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم رنج ، خوشی اور وفا کے جذبات کو محسوس کرتے ہیں پھر بھی ہمارے کانوں میں ان چیزوں کی آواز میں نہیں آتیں بلکہ دل ان کی آوازوں کو محسوس کرتا ہے.اسی طرح ماں بعض دفعہ اپنے بچے کی طرف جبکہ وہ دیکھتی ہے کہ وہ کنویں میں گرنے لگا ہے بے اختیار دوڑ پڑتی ہے حالانکہ اُس وقت بچہ اُسے بُلا نہیں رہا ہوتا اور نہ اُس کے کانوں میں بلانے کی آواز آتی ہے مگر باوجود اس کے وہ دوڑ پڑتی ہے کیونکہ اس آواز کو اس کا دل محسوس کرتا ہے.پس ساری آوازیں کانوں سے ہی نہیں سنی جاتیں بلکہ دل سے بھی سنی جاتی ہیں.کوئلہ جب گرم ہو تو کیا اُس وقت خود کہا کرتا ہے کہ میں گرم ہو گیا یا پاس بیٹھنے والا خود بخود محسوس کر لیتا ہے کہ اب یہ گرم ہو گیا تم کوئلہ کے پاس بیٹھو تمہیں خود بخود یہ آواز آنی شروع ہو جائے گی کہ اب میں گرم ہو گیا.یہی تسبیح کے معنی ہیں.زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ میں تسبیح پائی جاتی ہے جو لوگ اس تسبیح کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ، وہ اس تسبیح کو محسوس کرتے ہیں مگر جو بے ہوش یا فالج زدہ ہیں وہ ان کی تسبیح نہیں سن سکتے.ایک فالج زدہ آدمی کو آگ کے پاس بٹھا دو پھر بھی وہ اس کی گرمی کو محسوس نہیں کرے گا اور نہ اسے آگ میں سے یہ آواز آئے گی کہ میں گرم ہو گئی.اسی طرح بے ہوش آدمی کے کان میں جا کر کہو کہ تیرے گھر لڑکا پیدا ہوا تو اس کے دل میں کوئی خوشی کی کیفیت پیدا نہیں ہوگی.

Page 157

خطبات محمود ۱۵۲ سال ۱۹۳۵ء پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان کا ذره ذره خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے تمہارا فرض ہے کہ تم اس تسبیح کو سنو اور اگر تم اپنے گھر کو دیکھتے ہو جس میں تم رہتے ہو، اس چار پائی اور بستر کو دیکھتے ہو جس پر تم سوتے ہو اور اس فرش کو دیکھتے ہو جس پر اپنی چیزیں رکھتے ہو ، اس چھت کو دیکھتے ہو جس کے نیچے رہتے ہو، اس ٹرنک کو دیکھتے ہو جس میں تمہارا اسباب پڑا ہوا ہے ، اس تھالی کو دیکھتے ہو جس میں تمہارے لئے سالن پڑا ہے ، اس روٹی کو دیکھتے ہو جسے تم کھا رہے ہو، اس پانی کو دیکھتے ہو جس سے تم پیاس بجھاتے ہو مگر ان تمام چیزوں کو یکھنے کے باوجود تمہارے دل ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں پہچانتے اور تمہارے دل بھی ان چیزوں کو دیکھ کر سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللہ نہیں کہ اٹھتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل کو فالج ہو چکا ہے ورنہ کیوں تمہارے دل بھی مقابل میں وہی کچھ نہ کرنے لگیں جو یہ چیزیں کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے اگر ہمارے دل اس کی چیزوں کو دیکھنے کے با وجود نبی نہیں کرتے تو ہم مُردہ دل ہیں.ایک مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لولوگوں کو چاند کا انتظار ہو اور ایک شخص دیکھ لے اور کہے چاند نکل آیا تو کس طرح تمام لوگ شور مچادیتے ہیں کہ کدھر ہے کدھر ہے ؟ اسی طرح کس طرح ممکن ہے کہ دیواریں سُبْحَانَ اللہ کر رہی ہوں مگر ہمارے دل سُبْحَانَ اللہ نہ کرتے ہوں.بندر والے بند ر نچاتے ہیں تو تماشہ دیکھنے والے لڑکے ناچنے لگ جاتے ہیں تقریر کرنے والا تقریر کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ولولے اُٹھنے شروع ہو جاتے ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ ذرہ ذرہ تسبیح کر رہا ہو اور زمین و آسمان میں ایک شور پڑا ہو ا ہو مگر ہمارے دل میں کوئی تسبیح کا احساس نہ ہو.حضرت مظہر جان جاناں صاحب دتی کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کے غلام علی نام ایک خلیفہ تھے.غالباً بٹالہ کے رہنے والے تھے ایک دن مظہر جان جاناں صاحب کے پاس کوئی شخص ہدیہ بالائی کے لڈو لا یا.بالائی کے لڈو بہت چھوٹے ہوتے ہیں ہمارے پنجاب میں جو بوندی کے لڈو بنائے جاتے ہیں وہ بالائی کے لڈوؤں سے چار گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں انہوں نے بالائی کے دولڈ واپنے خلیفہ اور شاگر دمیاں غلام علی صاحب کو دے دیئے.انہوں نے اُسی وقت منہ میں ڈالے اور کھا لئے.ہمارے پنجاب میں تو اکثر آدھا لڈو یکدم منہ میں ڈال لیا جاتا ہے بلکہ بعض لوگ سارا لڈو ہی منہ میں ڈال لیتے ہیں اور وہ تو بالائی کے لڈو تھے اور بہت ہی چھوٹے چھوٹے.

Page 158

خطبات محمود ۱۵۳ سال ۱۹۳۵ء اُنہوں نے دونوں لڈوکھالئے تھوڑی دیر کے بعد حضرت مظہر جان جاناں صاحب نے دریافت کیا کہ میاں غلام علی ! میں نے تمہیں لڈو دیئے تھے وہ کہاں گئے.انہوں نے کہا حضور ! وہ تو میں نے کھا لئے.فرمانے لگے میاں! میں نے تو تمہیں دولڈ و دیئے تھے کیا دونوں کھالئے وہ کہنے لگے حضور ! دو کیا اور بھی ہوتے تو منہ میں آجاتے وہ کون سے بڑے ہوتے ہیں.حضرت مظہر جان جاناں صاحب نے حیرت سے شکل بنا کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا معلوم ہوتا ہے تمہیں لڈو کھانے نہیں آتے پھر کسی دن لڈو آئیں تو مجھے یاد کرانا.کچھ عرصہ کے بعد پھر کوئی شخص ان کے لئے بالائی کے لڈولا یا ظہر کی نماز پڑھ کر آپ بیٹھے ہی تھے کہ میاں غلام علی صاحب نے ان سے عرض کیا کہ آج لڈو آئے ہیں اور حضور نے وعدہ کیا تھا کہ تم کولڈ وکھانا سکھائیں گے.مرزا صاحب نے ایک لڈو نکال کر رومال پر رکھ لیا اور اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈال لیا اور پھر فرمایا.میاں غلام علی ! یہ لڈو جو پڑا ہے تم جانتے ہو اس میں ایک چیز نہیں بلکہ کئی چیزیں ہیں اس میں میٹھا ہے ، اس میں گھی ہے ، اس میں بالائی ہے ، پھر اس کے اندر کچھ میدہ بھی ہے ، خوشبو بھی آ رہی ہے پس یہ کئی چیزیں ہوئیں مگر یہ تمام چیزیں حلوائی نے تو نہیں بنا ئیں.کیا تمہیں کبھی خیال آیا ہے کہ اس کے اندر میٹھا جو پڑا ہے یہ کہاں سے آیا ؟ میٹھا حلوائی نے آخر کسی اور دُکان سے خریدا ہو گا مگر اس دُکان والے نے بھی آپ نہیں بنایا اُس نے زمیندار سے لیا ہو گا مگر زمیندار نے بھی خود نہیں بنایا بلکہ اس نے ایک سال پوری محنت کی ، اُس نے سردی کے موسم میں کنوں کو بونے کی تیاری کی اور دوسرے موسم میں اسے کاٹا.بارہ مہینے یہ زمین کی گوڈائی کرتا رہا ، گنوں کو پانی دیتا رہا اور یہ ساری محنت خدا تعالیٰ نے اس سے اس لئے کرائی کہ تا مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے.زمیندار خود ہی محنت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی بیوی بھی محنت کرتی تھی وہ بھی اس کا ہاتھ بٹاتی اس کیلئے وقت پر کھانا کھیت میں لے جاتی.پھر جب گئے تیار ہو گئے تو اس کی رس نکالی گئی پھر اس سے شکر تیار کی گئی.وہ شکر انہوں نے بازار میں بیچی اور حلوائی نے اس سے خریدی اور یہ تمام تگ و دو اس لئے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے.اس کے بعد فرما یا زمیندار نے گئے خود تو نہیں بنائے تھے گنے کا بیج اس کے پاس محفوظ تھا جو سالہا سال سے ایک نسل دوسری نسل کو دیتی چلی آئی اور صرف اس لئے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھا لے.اسی طرح ایک ایک چیز کو انہوں نے لیا اور بتایا کہ جب سے دنیا بنی ہے اُس وقت سے ایک لڈو کے بنانے کے لئے سب لوگ محنت کر رہے

Page 159

خطبات محمود ۱۵۴ سال ۱۹۳۵ء تھے.اگر زمیندار نے ہل چلایا تو اس کے لئے لوہے کا حصہ اور لوگوں نے بنایا اور اس کے لئے انہوں نے بڑی بڑی محنتیں کیں.پس در اصل ساری دنیا ایک لڈو کے بنانے میں لگی ہوئی تھی بلکہ بادشاہ بھی اس لڈو کے بنانے میں مدد دے رہے تھے کیونکہ اگر وہ امن قائم نہ رکھتے تو کھیت ویران ہو جاتے.اسی طرح پولیس اور مجسٹریٹ وغیرہ بھی لڈو بنانے میں مدد دے رہے تھے کیونکہ اگر دشمن کھیتوں کو جلا دیتا تو وہ شکر کس طرح تیار ہو سکتی جس سے لڈو بننا مقدر تھا.غرض مظہر جان جاناں صاح اسی طرح ایک ایک چیز کا ذکر کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کی طرف اپنے خلیفہ میاں غلام علی صاحب کو تو جہ دلاتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا اور وہ سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ کہتے ہوئے نماز پڑھانے لگ گئے.پس مظہر جان جاناں صاحب نے اسی بات کی طرف توجہ دلائی کہ لڈو جب میرے سامنے آتا ہے تو اس کا ذرہ ذرہ مجھے سُبحَانَ اللہ کہتا دکھائی دیتا ہے.ہمارے غلام علی کو کیوں یہ خیال نہ آیا کہ ایک لڈو اللہ تعالیٰ کے کتنے بڑے احسانات کا نتیجہ ہے.تب انہیں پتہ لگا کہ لڈو کھانے کا کیا مفہوم تھا.پس اس لحاظ سے زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے چھوٹا بھی اور بڑا بھی ، ادنیٰ بھی اور اعلیٰ بھی مگر ان چیزوں کی تسبیح کا ایک اور طریق بھی ہے وہ یہ کہ اگر بندہ تسبیح کرنے لگے تو پھر بھی زمین و آسمان میں تسبیح ہونے لگتی ہے کسی نے کہا ہے جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے اب معشوق تو ہر طرف نہیں ہوتا.محبت ہے جس کے نتیجہ میں انسان اپنے محبوب کا جلوہ ہر طرف دیکھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے جسے سچی محبت ہوا سے ہر طرف سے تسبیح کی آواز میں اُٹھتی سنائی دیتی ہیں.وہ روٹی کھاتا ہے تو اسے تسبیح کی آواز آتی ہے پانی پیتا ہے تو تسبیح کی آواز آتی ہے اس لئے کہ وہ روٹی کھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے اور پانی پیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.تم اگر ایک گنبد کے نیچے کھڑے ہو جاؤ اور زور زور سے آواز دو تو کیا تمہاری آواز واپس آتی ہے یا نہیں ؟ تم اگر زور سے آواز دیتے ہو کہ رشید تو گنبد سے بھی آواز آتی ہے کہ رشید ! اسی طرح خدا تعالیٰ کہتا ہے كه يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ جب دنیا میں میرے ایسے بندے پیدا ہو جائیں جن کے دلوں سے تسبیح کی آوازیں اٹھ رہی ہوں تو دنیا کے ذرہ ذرہ سے تسبیح پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.جس طرح گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر جب تم رشید کہتے ہو تو تمہیں آواز آتی ہے کہ

Page 160

خطبات محمود ♡♡I سال ۱۹۳۵ء رشید.جب تم تو کہتے ہو تو تمہیں بھی یہی آواز سنائی دیتی ہے کہ تو.اسی طرح جب تمہارے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے بیتاب ہو جائیں، جب اس کے عشق میں مدہوش ہو کر تمہاری زبانوں پر بے اختیار سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلى جاری ہو تو اُس وقت پہاڑ اور دریا اور زمین کا ذرہ ذرہ یہ کہ اُٹھے گا کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الاغلی اگر بالکل آہستہ بولو گے تو تسبیح کی آواز بھی مدہم ہوگی اور اگر بلند آواز سے بولو گے تو تسبیح کی آواز بھی زیادہ زور سے پیدا ہو گی.پس خدا تعالیٰ مسلمانوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا میں کا میاب ہو تو تم تسبیح اتنی بلند آواز سے کرو کہ زمین کے ذرے ذرے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرنے لگ جائیں اور وہ بھی بے اختیار پکار اُٹھیں کہ سُبْحَانَ اللهُ سُبْحَانَ الله پس تمہیں دنیا میں تسبیح کرنی ہوگی اور اتنی بلند آواز سے تسبیح کرنی پڑے گی کہ دریا اور پہاڑ اور میدان اور جنگل بھی تسبیح کرنے لگ جائیں یہاں تک کہ وہ مکانات بھی تسبیح کرنے لگ جائیں جن میں تم رہتے ہو اور وہ بازار بھی تسبیح کرنے لگ جائیں جن میں تم چلتے ہو.اگر اس قسم کا کوئی انسان بن جائے تو اسے ہر جگہ تسبیح نظر آنے لگ جاتی ہے اگر ایک فونوگراف عشقیہ اور گندے اشعار گا سکتا ہے تو کیوں زمین اور آسمان خدا تعالیٰ کی تسبیح نہیں کر سکتے.تم یہ تو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو کہ ایک گراموفون اشعار گا سکتا ہے ، تم یہ تو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو کہ مرے ہوئے بھینسے کا چمڑا ڈھم ڈھم کر سکتا ہے ، تم پیتل کی نفیریوں کے متعلق تو یہ تسلیم کر سکتے ہو کہ وہ راگ الاپ سکتی ہیں، تم فوجی میوزک کے متعلق تو یہ تسلیم کر سکتے ہو کہ وہ گاڈسیو دی کنگ (God save the king) کہہ سکتا ہے مگر تم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ زمین و آسمان اپنے پیدا کرنے والے کی تسبیح کرتا ہے.اگر پیتل کی نفیر یاں گیت گا سکتی ہیں ، اگر چمڑے کے ڈھول ڈھم ڈھم کر سکتے ہیں، اگر فوجی میوزک مارسیلز کا گیت گا سکتا یا گاڈ سیو دی کنگ (God save the king) کہہ سکتا ہے، اگر پیانو کی تاریں چھیڑنے سے وہ کئی قسم کی سُریں نکال سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ زمیں و آسمان خدا تعالیٰ کی تسبیح نہیں کر سکتے.یقینا یہ چیزیں بھی خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں ہاں فرق صرف یہ ہے کہ جس کے دل میں گند ہوتا ہے وہ گندسُن لیتا ہے.اور جس کے دل میں پاکیزگی ہوتی ہے وہ پاکیزہ باتیں سن لیتا ہے.ایک پشتو زبان والا فارسی زبان کو کیا سمجھے اور ایرانی پشتو کو کیا جانے.جس کے اندر گند ہی گند بھرا ہو ا ہوا سے تسبیح کہاں سے سنائی دے.پس اصل سوال یہ نہیں کہ کوئی چیز تسبیح کرتی ہے یا

Page 161

خطبات محمود ۱۵۶ سال ۱۹۳۵ء نہیں ،سوال اس بولی کے سمجھنے کا ہے.اگر تسبیح کی بولی کوئی شخص سمجھ لے تو اسے تسبیح کی آوازیں آنی شروع ہو جائیں گی اور اگر عشقیہ اشعار سے کوئی شخص مناسبت پیدا کر لے تو اسے وہ سنائی دینے لگتے ہیں تو يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی یا تو اس طرح جس کا حضرت مظہر جان جاناں صاحب نے ایک مثال میں ذکر کیا اور بتایا کہ زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی تسبیح کرتا ہے یا اس طرح کہ ہماری تسبیح کے مقابلہ میں زمین و آسمان گونجتا اور اس سے تسبیح کی آوازیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.انہی معنوں کو اس سورۃ کی اگلی آیت بالکل واضح کر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُبِينٍ - - فرما یا اگر زمین و آسمان کے ذرات کی تسبیح تمہیں سنائی نہیں دیتی اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں ، اگر تم نہیں جانتے کہ دریا کس طرح اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، اگر تم نہیں جانتے کہ پہاڑ کس طرح اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، اگر تم نہیں جانتے کہ ریت کے ذرات کس طرح اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، تو آؤ اس کی تسبیح کی ہم تمہیں ایک مثال سناتے ہیں.فرمایا ایک اُمی قوم تھی وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح سے بالکل ناواقف تھی دنیا کے لوگ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس میں خدا تعالیٰ کی تسبیح ہونے لگے گی.مکہ، مدینہ اور طائف کے لوگ محض شرک کو جانتے اور سمجھتے تھے.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ مشرک جو تو حید کے نام تک سے نا واقف تھے تو حید پر جانیں قربان کرنے والے بن جائیں گے اور کون انسان مکہ والوں اور مدینہ والوں اور طائف والوں اور یمامہ والوں کو دیکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ان میں تسبیح کی آوازیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی مگر فر ما یا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمُ ہم نے اپنا ایک آدمی ان میں بھیجا جو روحانیت کی سُریں نکالنی جانتا تھا ، جس طرح میوزک کا ماہر پیانو کی تاروں کو بجا کر ان میں سے آواز میں پیدا کر لیتا ہے ناواقف آدمی آواز میں پیدا نہیں کر سکتا اسی طرح مکہ، مدینہ، طائف اور یمامہ والوں کی حالت تھی ان سے اگر آواز آتی تھی تو یہ کہ لات اچھا اور عربی اچھا.تب ہم نے ان کی اس حالتِ زار کو دیکھ کر وہ رسول بھیجا جو دلوں کی سارنگیاں بجانے والا تھا اس

Page 162

خطبات محمود ۱۵۷ سال ۱۹۳۵ء نے ان میں وہی چاروں صفات پیدا کر دیں جو ہم ہر مؤمن میں پیدا کرنا چاہتے ہیں حالانکہ پہلے ان کے دلوں سے کوئی آواز نہ آتی تھی.جس کے معنی یہ ہیں کہ اس رسول کے آنے کے ساتھ ہی ان کے دلوں میں تسبیح کی آواز پیدا ہونی شروع ہو گئی.جس طرح ایک واقف اور ماہر گویا سارنگی کی تاروں کو بجا کر ان سے قسم قسم کے گیت پیدا کر لیتا ہے اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا اور سارا عرب تسبیح کی آوازوں سے گونج اٹھا پس فرمایا یہ مثال تمہارے سامنے ہے.کیا مکہ والوں کے دلوں سے کسی تسبیح کی آواز سننے کی توقع کی جاسکتی تھی ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ توحید سے عاری تھے اور بھوں پر فریفتہ ؟ مگر دیکھ تو محمد اللہ آئے تو آپ نے کس طرح ان میں سر میں پیدا کر دیں.پس جس کو علم ہوتا ہے ، جو واقف اور ماہر ہوتا ہے وہ زمین کے ذرہ ذرہ سے تسبیح کی آواز میں پیدا کر لیتا ہے.اس مثال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تو جہ دلاتا ہے کہ جب دنیا سے بظاہر خدا تعالیٰ کی تسبیح مٹ جائے تو تم مت سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح مٹ گئی ہے.تسبیح اس کے ذرہ ذرہ میں پائی جاتی ہے ہاں ضرورت ایک گوتیا کی ہوتی ہے ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو پیانو کی تاروں کو چھیڑے اور اس سے گا ڈسیو دی کنگ (GODSAVE THE KING) کی آواز پیدا کرے.اگر چاہو تو تم بھی زمین کے ذرہ ذرہ سے تسبیح کہلوا سکتے ہومگر اس کے لئے ضروری ہے کہ تمہیں واقفیت ہو.تم روحانی گوینے بننے کی کوشش کرو اور اگر تم روحانی گویے بن جاؤ گے تو زمین و آسمان کی بے جان چیزیں بھی سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللہ کہنے لگ جائیں گی.پس ان آیات میں ایک طرف تو یہ بتایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ملک ہے ،قدوس ہے، عزیز ہے، حکیم ہے اور دوسری طرف یہ بتایا کہ جس طرح ہم ملک ہیں اور زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ ہماری تسبیح کر رہا ہے ، جس طرح ہم قدوس ہیں اور دنیا کے ذرات ہماری قدوسیت کا اقرار کر رہے ہیں، جس طرح ہم عزیز ہیں اور دنیا کے ذرات ہماری عزیزیت کا اظہار کر رہے ہیں ، جس طرح ہم حکیم ہیں اور دنیا کے ذرات ہماری حکمت کا اعتراف کرتے ہیں اسی طرح اگر تم بھی ملک بن جاؤ تم بھی قدوس بن جاؤ تم بھی عزیز اور حکیم بن جاؤ تو تمہارے ہاتھوں بھی یہ دنیا کی چیزیں سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللہ کرنے لگ جائیں گی.صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اپنے آپ کو جاہل نہ سمجھو بلکہ ملک، قُدُّوس ، عَزِیز اور حکیم سمجھو غلطی تم کو یہ لگی ہوئی ہے کہ گویا تم کچھ بھی نہیں حالانکہ تم سب کچھ ہو.تم ملک بھی ہو تم قدوس بھی ہو تم

Page 163

خطبات محمود ۱۵۸ سال ۱۹۳۵ء عزیز بھی ہو تم حکیم بھی ہو.اور دوسری طرف تم یہ سمجھو کہ دنیا کے ہر ذرہ میں قابلیت موجود ہے صرف اس کے تاروں کو چھیڑنے کی ضرورت ہے.اگر تم عقلمندی سے اس کے تاروں کو چھیڑو گے تو زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ سے تسبیح کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی.الجمعة : ٢ ال عمران : ۱۳۴ مسلم كتاب الامارة باب ثبوت الجنة للشهيد الفاتحة: ١ تا ٣ تذکرہ صفحہ ۵۲۷.ایڈیشن چہارم بخارى كتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام ك الجمعة: ٣ الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۵ء)

Page 164

خطبات محمود ۱۵۹ ۹ سال ۱۹۳۵ء ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ( فرموده یکم مارچ ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں یہ ذکر کیا تھا کہ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ مِنَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيم سے کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے مَلِک قُدوس، عَزِیز اور حکیم ہونے کی تسبیح دنیا کر رہی ہے.اور مثال یہ دی گئی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ تسبیح تحمید اور توحید سے بالکل خالی تھے.جس طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ علوم سے خالی ہوتا ہے ویسے ہی وہ لوگ روحانی علوم اور نیکی و تقوای سے خالی تھے اور اُن کو دیکھ کر کوئی یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کو دنیا میں پھیلائیں گے.ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کی بعثت کی برکت سے عرب کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی شرک پر تھا اور جو تو حید کے نام تک سے ناواقف تھے اللہ تعالیٰ کی ایسی تسبیح اور تحمید کرنے لگ گئے کہ دنیا حیران رہ گئی وہ لوگ اس سے پہلے صللٍ مُّبِين سے میں تھے اور ان کو دیکھنے والا ہر شخص یہ خیال کرتا تھا کہ یہ کبھی ہدایت کا راستہ نہیں پا سکتے.ایک گمراہی مشتبہہ ہوتی ہے اور ایک صاف نظر آتی ہے.ایک ہندو جو رات دن عبادتِ الہی میں مشغول رہتا ہے ، محبت الہی پر تقریریں کرتا ہے، اپنی زندگی غرباء کی پرورش کے لئے وقف کر دیتا

Page 165

خطبات محمود 17.سال ۱۹۳۵ء ہے، اپنے مال و دولت سے حاجت مندوں کی حوائج پوری کرتا ہے ، ہمیشہ سچ بولتا ہے، جھوٹ سے پر ہیز کرتا ہے، چوری، ڈاکہ، فساد، خون ریزی، بغاوت سے مجتنب رہتا ہے ایسے انسان کے متعلق اگر کسی ایسے مسلمان کے سامنے جو ساری صداقت کو اسلام میں ہی سمجھتا ہے سوال کیا جائے کہ اس ہند و کو تم کس طرح گمراہ کہتے ہو تو اس کے لئے اس کی گمراہی کا ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اسی طرح عیسائیوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، تو حید کے قائل ہیں ، دنیا کے آرام کے لئے خود تکلیف اُٹھاتے ہیں، ایسے ایسے جنگلی علاقوں میں پہنچ کر جہاں کے رہنے والے دوائی کا نام نہیں جانتے ، لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مردم خوروں میں جا پہنچتے ہیں ایک کو وہ کھا لیتے ہیں تو دوسرا سامنے آجاتا ہے، ان کے متعلق اگر سوال کیا جائے کہ ان کے متعلق تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ یہ گمراہ ہیں تو ان کی گمراہی کو ثابت کرنا مشکل ہو گا کیونکہ ان میں بہت سی ہدایت کی باتیں ہوتی ہیں اس لئے تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے.جب نور اور ظلمت ملے ہوئے ہوں تو ان میں امتیاز کرنے میں غلطی لگ سکتی ہے.شام کے وقت جب سورج غروب ہو چکا ہو اگر دریافت کیا جائے کہ اس وقت اندھیرا ہے یا روشنی ، تو کئی لوگ کہہ دیں گے اندھیرا ہے اور کئی روشنی بتا ئیں گے.اسی طرح صبح جب پو پھوٹ چکی ہو لیکن سورج ابھی نہ نکلا ہو تو کئی کہہ دیں گے دن چڑھ گیا ہے اور کئی کہیں گے ابھی نہیں چڑھا کیونکہ اُس وقت امتیاز مشکل ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کی گمراہی مشتیہ نہ تھی یہ نہیں کہ ان کے اعمال میں خرابی تھی لیکن عقائد درست تھے یا عقائد میں خرابی تھی مگر اعمال درست تھے یا بعض عقا ئدا چھے اور بعض خراب تھے اور اسی طرح بعض اعمال اچھے اور بعض خراب تھے بلکہ ان کی گمراہی اس قدر گھلی ہوئی تھی کہ ہر دیکھنے والا یہی خیال کرتا تھا کہ یہ کبھی راستی پر نہیں آ سکتے مگر رسول کریم ﷺ نے جب ان کو ہاتھ لگایا تو وہ پیتل سے سونا بن گئے جس طرح کیمیا گر پیتل کو سونے میں تبدیل کر دیتا ہے.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جب ان کو ہاتھ میں لیا تو وہ چمکتا ہو اسونا بن گئے اور ہر سُنا ر نے کہا کہ یہ خالص سونا ہے.یورپ والوں نے تاریخیں لکھی ہیں اور تسلیم کیا ہے کہ ان کی حالت بالکل بدل گئی تھی ، ( نوٹ : حضور نے وضاحت فرمائی کہ ” میں تو پیتل سے سونا بنے کا قائل نہیں.بعض مثالیں خطابی ہوتی ہیں.اس میں بھی کیمیا گر کے دعوے پر مثال کی بنیا درکھی گئی ہے نہ کہ اپنے عقیدہ پر (الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۳۵ء)

Page 166

خطبات محمود 171 سال ۱۹۳۵ء ایشیا والوں نے یہی تسلیم کیا ہے ، ایرانیوں نے یہی تسلیم کیا ہے ، مسلمان ابی سینیا میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں نے مان لیا کہ یہ اب کچھ اور ہی ہو گئے ہیں.مصر میں گئے ، ہندوستان میں آئے اور اسی تبدیلی کی وجہ سے جو رسول کریم ﷺ نے ان میں پیدا کر دی تھی لوگ انہیں پہچان نہ سکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اندر یہ چاروں باتیں پیدا ہو گئیں انہیں ملکیت بھی حاصل ہوئی، قدوسیت ، عزیزیت اور حکیمیت بھی.مؤمن کی ملکیت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے پاس بڑی فوجیں ہوں ، خزانے ہوں، وسیع سلطنت زیر نگیں ہو، یونیورسٹیاں جاری ہوں بلکہ اس کی حکومت روحانی ہوتی ہے.رسول کریم اللہ نے ان لوگوں کو خدا کی آیات سنائیں ، اس کی صفات کھول کر بیان کیں اور انہوں نے ان کو اپنے اندر جذب کر لیا اور اس طرح وہ بھی روحانیت کے بادشاہ ہو گئے.آپ نے ان کو قدوسیت کی باتیں سکھائیں اور ان کو پاک کر دیا اور وہ خود بھی پاک ہو گئے اور دوسروں کو بھی پاک کرنے والے بن گئے.اسی طرح اللہ تعالیٰ عزیز ہے رسول کریم ﷺ نے ان کے اندر بھی عزیزیت پیدا کی.آپ نے ایک قانون مقرر کر دیا کہ فجر کے وقت نماز پڑھنی ہے اب ہر صبح ہر ایک مؤمن اُٹھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، ظہر کی نماز ہے جب اس کا وقت ہو سب مؤمن نماز میں لگ جاتے ہیں ، پھر عصر کے وقت ایک خاص طرز پر نماز پڑھنے کا حکم ہے جو وقت مقررہ پر ہمیشہ پڑھی جاتی ہے پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی عبادت میں ایسا استقلال ہے اور احکام ایسے واضح ہیں کہ انسان ادھر ادھر نہیں ہو سکتا اور یہ عزیزیت ہے ہر مسلمان اپنے نفس کے گھوڑے پر مضبوطی سے سوار اسے خدا کی طرف دوڑائے لئے جا رہا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کیلئے عَلى هُدًى مِنْ رَّبِّهِمْ سے فرمایا ہے یعنی مؤمن ہدایت پر سوار ہے اور نفس کے گھوڑے کو قابو میں رکھتے ہوئے نیکی اور تقویٰ کی راہ پر لئے جا رہا ہے.پھر اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو حکمت کی باتیں سکھائیں اور ان کے اندر ایسا عرفان پیدا کر دیا، ایسی عظمندی سکھائی کہ مؤمن بے وقوفی کی باتیں کرتا ہی نہیں.اسے جوش آتا ہے تب بھی عقل قائم رہتی ہے اور محبت کے جذبات غالب ہوتے ہیں تب بھی عقل قائم رہتی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مؤمن اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو ایسے رنگ میں کہ خیال رکھتا ہے ممکن ہے کل یہ میرا دشمن ہو جائے اور اگر کسی سے دشمنی رکھتا ہے تو اس خیال سے کہ ممکن ہے کل یہ میرا دوست ہو جائے ۵ گویا وہ

Page 167

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء غصہ اور محبت دونوں حالتوں میں عقل کو نہیں کھوتا.تین ہی حالتیں ایسی ہوسکتی ہیں جو انسان کی عقل مار دیں، شہوات ،محبت اور غصہ مگر اسلام نے ان سب حالتوں کے متعلق ایسا طریق سکھایا ہے کہ کسی میں بھی عقل نہ ماری جائے.مثلاً شہوات کو ہی لے لو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کے پاس بھی جائے تو خدا کا ذکر کرے اور یہ دعا مانگے اللهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَيْبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا لا غرض کوئی حالت نہیں جب مسلمان عقل کو کھو ڈالے.اب فرماتا ہے وَ الخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ کے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ایک اور جماعت کو بھی یہی تعلیم دیں گے.اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو پھر مبعوث کرے گا اور یہ بھی کہ رسول کریم ﷺ پھر تزکیہ کریں گے اور حکمت سکھائیں گے ان لوگوں کو جو صحابہ سے اس وقت تک نہیں ملے تھے.بخاری میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ كُنَّا جُلُوسًا عِندَ النَّبِي الا الله فَأَنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ وَ الْخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يُرَاجِعُهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا فَوَضَعَ يَدَه عَلَى سَلْمَانَ الْفَارِسِيَ وَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رِجَالٌ مِنْ هؤلاء - A یعنی ہم رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس وقت سورۃ جمعہ نازل ہوئی اور آپ نے وہ سورۃ پڑھی جب آپ واخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ پر پہنچے ایک شخص نے سوال کیا.يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے.اس پر آپ نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی پر رکھا اور فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ایمان شریا سے بھی جا چھٹے تو ان میں سے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی اُتار لائیں گے.اس طرح آپ نے بتا دیا کہ جب اسلام مٹ جائے گا تو فارسی الاصل لوگوں میں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اسے پھر دنیا میں قائم کر دیں گے.الخَرِین ہونے کے مدعی سوائے آپ کے دنیا میں اور کوئی نہیں اور آج تک کوئی بھی مدعی ایسا نہیں گزرا جس نے اس آیت کے مطابق دعویٰ کیا ہو.بے شک بعض بہائی کہتے ہیں کہ اس کا مصداق بہاء اللہ ہے مگر یہاں رسول کریم ﷺ کی دوبارہ بعثت اور آپ ہی کی شریعت کے دوبارہ قیام کا ذکر ہے اور بہاء اللہ نئی کتاب اور نئی شریعت کا مدعی ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسا ہی شخص مراد ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کو

Page 168

خطبات محمود ۱۶۳ سال ۱۹۳۵ء پھیلائے اور اس کی خدمت کرے ، اس کا تزکیہ محمد رسول اللہ ﷺ کا تزکیہ کہلا سکے ، اس کا کتاب سکھانا اور تلاوت آیات محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہو سکے اور جب تک کوئی ایسا آدمی کھڑا نہ ہو اس وقت تک پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی.اگر اسے بہاء اللہ پر چسپاں کر دیا جائے تو یہ پیشگوئی باطل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ قرآن کریم ہی دوبارہ سکھایا جائے گا.پس بہاء اللہ پر تو یہ پیشگوئی چسپاں ہی نہیں ہو سکتی اور فارسی الاصل صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات ہی باقی رہ جاتی ہے اور آپ ہی نے اپنے دعوی کی بنیاد اس پیشگوئی پر رکھی ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ شریعت اسلامیہ کو دوبارہ قائم کروں جسے لوگ بھول گئے ہیں.میں کوئی نیا ایمان نہیں لایا بلکہ اس لئے آیا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ایمان کو ہی دلوں میں قائم کروں اور یہی اس آیت سے ثابت ہے کہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین ہی وہ موعود دوبارہ قائم کرے گا.اس کے ساتھ فرمایا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ہم عزیز ہیں جب ہم نے کہہ دیا کہ یہ آخری تعلیم ہے تو اگر دنیا کے اختتام سے پہلے ہی اس کی حفاظت اور خبر گیری چھوڑ دیں تو یہ عزیز ہونے کے منافی ہو گا.( کیونکہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں اور غالب درمیان میں کام نہیں چھوڑا کرتے.کام وہی چھوڑتے ہیں جو کام کر نہ سکیں یا نفس کے غلام ہوں اور شہوات انہیں ادھر سے اُدھر لے جائیں) ایک شخص ظہر کی نماز کے فرض شروع کرتا ہے اور چار رکعت پوری کر کے چھوڑتا ہے تو کوئی نہیں کہ سکتا کہ اس میں استقلال نہیں لیکن جو دو پڑھ کر ہی چھوڑ دیتا ہے اس کے متعلق ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ غیر مستقل ہے.جس لڑکے کے والدین اسے انٹرنس تک ہی تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ اگر امتحان پاس کرنے کے بعد سکول میں نہیں جاتا تو کوئی شخص اسے غیر مستقل نہیں کہہ سکتا لیکن اگر وہ امتحان سے چھ ماہ قبل ہی سکول چھوڑ دے تو یقیناً غیر مستقل کہلائے گا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو قیامت تک کے لئے مبعوث کیا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم میں کوئی خرابی پیدا ہوا اور ہم اس کی اصلاح کا بندوبست نہ کریں اس صورت میں تو ہم غیر مستقل ٹھہر میں گے جو صفت عزیز کے خلاف ہے اس لئے یہ امر لازمی ہے کہ قیامت سے پہلے جب بھی کوئی خرابی ہو، ہم ایسے لوگوں کو جو آپ کے تابع اور آپ کی نبوت کے حصہ میں شامل اور آپ ہی کے سایہ کے نیچے ہوں، کھڑا کرتے رہیں.تا عدم استقلال کا الزام ہم پر نہ آ سکے.پھر فرمایا ہم حکیم بھی ہیں اس لئے

Page 169

خطبات محمود ۱۶۴ سال ۱۹۳۵ء جہاں بیماری دیکھتے ہیں وہاں نسخہ تجویز کرتے ہیں.ہمارے ہاں حکیم طبیب کو کہتے ہیں لیکن عربی میں وکیل کو بھی کہہ سکتے ہیں اور تاجر کو بھی.غرض ہر ما ہر فن کو جو اپنے فن کی تمام جزئیات کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب موقع کام کرے.ماہر فن طبیب بھی حکیم کہلا سکتا ہے ایسا شخص جب بیماری دیکھتا ہے تو اس کا علاج بھی کرتا ہے اور مفاسد کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے.اگر کوئی بیمار آئے اور حکیم کہہ دے کہ کوئی بات نہیں جاؤ کھاؤ پیو تو وہ اسے مارنے والا ہو گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم حکیم ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم خرابی دیکھیں اور اصلاح نہ کریں.کس قدر عجیب بات ہے کہ آج مسلمان یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان بگڑ سکتے ہیں اور بگڑ چکے ہیں مگر وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی مصلح بھی آسکتا ہے.اگر ان کا یہ دعوئی ہوتا کہ رسول کریم عملے کے بعد مسلمانوں میں خرابی پیدا ہو ہی نہیں سکتی تو یہ ایک بات تھی لیکن وہ کہتے تو یہ ہیں کہ مسلمان بگڑ گئے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ دعوی کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ہے کے بعد ان کے بگاڑ کا کوئی علاج اب نہیں ہوسکتا.بیماری تو ہے مگر صحت کے سامان مفقود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم حکیم ہیں یہ ہو نہیں سکتا کہ بیماری ہو اور ہم علاج نہ کریں.اس کے بعد فرمایاڈلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ یہ کوئی معمولی فضل نہیں بلکہ صحابہ کی پہلی یا دوسری جماعت میں شامل ہونا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ، جسے چاہے دے دے.محمد ﷺ اور آپ کے بروز کے زمانہ میں پیدا ہونا اور پھر ان کے ساتھ شامل ہونا اپنے کسی زور اور طاقت سے نہیں ہو سکتا بلکہ فضل سے ہی ہو سکتا ہے.دیکھو اس وقت بھی دنیا کے کتنے بڑے بڑے عالم کہلانے والے ہیں مگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومحمد رسول اللہ ﷺ کا بروز سمجھنے کے بجائے نَعُوذُ بِاللهِ دجال اور کیا کیا کہہ رہے ہیں اس کے مقابلہ میں تم میں سے کتنے جاہل کہلانے والے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے حصہ پانے کی توفیق عطا کر دی.پُرانے زمانوں میں لوگ فلسفہ، منطق ، احادیث اور تفاسیر اور کیا کیا علوم پڑھتے تھے اور پھر صوفی بنتے تھے اور روحانی علوم سیکھتے تھے مگر آج وہ لوگ روحانی علوم رکھتے ہیں جو بظاہر بالکل جاہل ہیں.لوگ جاہل کہے جانے پر ناراض ہوتے ہیں مگر میں تو خوش ہوتا ہوں کیونکہ جب وہ مجھے جاہل کہتے ہیں تو گویا اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کا ہتھیار ہوں اور جب اس نے دین کی خدمت کا مجھے موقع دیا تو یہ اس کا فضل ہے.اگر میں ان پڑھ ہونے کے باوجود علم کی باتیں بیان کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مجھے چن لیا اور مجھے جاہل کہہ کر

Page 170

خطبات محمود ۱۶۵ سال ۱۹۳۵ء میرے مخالف گویا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ میری باتیں میری نہیں بلکہ خدا کی سکھائی ہوئی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ ان میں بڑا علم ہے حالانکہ آپ کے دشمن آپ کو جاہل کہتے ہیں.آپ کا درجہ تو بڑا ہے ہم جو آپ کے ادنیٰ خدام ہیں ہمارے ساتھ بھی اس کا یہی معاملہ ہے، مجھے اپنے اور بیگانے جاہل کہتے چلے آئے ہیں لیکن چند سال ہوئے فرانس کی رائل ایشا ٹک سوسائٹی نے جو بہت وقیع سوسائٹی ہے اور جس کی ممبر شپ کا اظہار لوگ فخریہ طور پر اپنے ناموں کے ساتھ کرتے ہیں میری کتاب’ احمدیت“ کا حوالہ دے کر اسلام کے متعلق ایک مضمون لکھا اور میری کتاب کے متعلق لکھا کہ اسلام کے متعلق وہ تصنیف اہم ترین ہے.پس میں گو جاہل ہوں مگر ایسی بانسری ہوں جو خدا تعالیٰ کے منہ میں ہے اور خدا تعالیٰ کی آواز پہنچانے والی بانسری کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ یہ حقیر لکڑی ہے ، حقیر لکڑی بھی خدا تعالیٰ کا آلہ بن کر بڑی قیمتی ہو جاتی ہے.لوگ پرانے بادشاہوں کی تلواروں کو بڑی حفاظت سے رکھتے ہیں حالانکہ وہ کسی خاص لو ہے کی بنی ہوئی نہیں ہوتیں ان کی فضیلت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ خاص ہاتھوں میں استعمال کی جاچکی ہیں پھر جو تلوار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوا سے فضیلت کیوں نہ ہوگی.بے شک ہے تو وہ لوہا مگر خدا کے ہاتھ میں ہے.حضرت خالد بن ولید کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سَيْفٌ مِنْ سيوف الله کہا تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کی بنک کی گئی ہے انہیں لوہا کہا گیا ہے جو بے جان چیز ہے کیونکہ جولو باخدا کے ہاتھ میں ہو وہ حقیر نہیں ہو سکتا اسے خدا نے نوازا ہے.پس صرف جاہل کہہ دینے سے کچھ نہیں بنتا دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کام عالموں والے ہیں یا نہیں ہیں اگر ہیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی عالم ہستی کے ساتھ تعلق ہے.پھر والله ذُوا الْفَضْلِ الْعَظِيمِ فرما کر یہ بتایا ہے کہ جن لوگوں پر یہ فضل ہو ا دوسروں کو ان پر ناراض ہونے اور بگڑنے کی ضرورت نہیں ہم جسے چاہیں یہ فضل دے سکتے ہیں، وَاللهُ ذُوا الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالیٰ بڑے فضلوں والا ہے اگر اس نے دینی علوم اپنے مسیح موعود یا خلفاء کو دیئے ہیں تو تمہیں اس پر غصہ ہونے اور حسد کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ ویسے ہی فضل تم پر بھی کر سکتا ہے.حسد کی گنجائش وہاں ہوتی ہے جہاں ساری چیز ہی دوسرا لے جائے اور اپنے لئے اسے حاصل کرنے کا کوئی موقع نہ رہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے فضل ختم نہیں ہوتے.آؤ اس کے صحیح پر ایمان لے آؤ اور یہی علوم تم بھی حاصل کر سکو گے.حسد تو وہاں ہوتا ہے

Page 171

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء جہاں خزانہ خالی ہو جائے مگر خدا کا خزانہ تو کبھی خالی نہیں ہوسکتا.پھر فرما يامَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَةَ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ہے مسلمانو ! ہم تمہیں کتاب سکھاتے ہیں، آیات کی تلاوت کراتے ہیں ، قدوس بناتے ہیں ، حکمت سکھاتے ہیں محمد رسول اللہ یہ تمہیں ایسی تعلیم دیتا ہے جو خدا کا بروز اور اس کا مثیل بنادیتی ہے.تمہارے ذریعہ خدا تعالیٰ کا ظہور دنیا میں ہوگا مگر یہ خصوصیات تمہارے اندر اس وقت تک رہیں گی جب تک حقیقی تعلق تمہارا اس کتاب کے ساتھ رہے گا جب یہ نہیں رہے گا تو تمہارے اندر بھی کوئی خوبی نہ رہے گی اور اس کی مثال یہ دی ہے کہ محمد سے پہلے بھی ایک نبی آیا جس کے پاس تو رات تھی.یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو رات کے ذریعہ اپنی قوم کا درجہ بہت بلند کر دیا تھا وہ قوم سانپ تھی مگر اس کے ہاتھ میں آ کر عصا بن گئی.سانپ جان لیتا ہے اور عصا جان کی حفاظت کرتا ہے.گویا جو قوم گمراہ کرتی تھی وہ خود ہادی بن گئی.ان کے اندر یہ تغیر کس طرح پیدا ہوا ؟ یہ تو رات کے ساتھ ان کا تعلق ہی تھا جس نے ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں ملک وقد وس وعزیز اور حکیم بنا دیا اور انہیں روحانی اور جسمانی دونوں بادشاہتیں حاصل ہوئیں لیکن جب ان کا تعلق اس کے ساتھ نہ رہا تو ان کی یہ خصوصیات بھی ساتھ ہی مٹ گئیں.تو رات موجود تھی مگر اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ تعلق باقی نہ رہا تھا.کوئی کتاب خواہ کتنی مفید کیوں نہ ہو خالی اوپر رکھ دینے سے فائدہ نہیں پہنچا سکتی فائدہ اُس پر عمل کرنے سے پہنچتا ہے.کتاب کا موجود ہونا اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ایسا ہی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں ، کیا اُس گدھے کو جس پر کتابیں لا دی ہوئی ہوں کوئی عالم کہتا ہے ؟ اگر ایک مزدور کے سر پر ہیروں کی گٹھڑی رکھی ہوئی ہو تو وہ امیر نہیں کہلا سکتا اسے ہیرے اونچا نہیں کرتے بلکہ اس کے سر کو نیچا ہی کرتے ہیں.اگر کسی شخص کے سر پر اڑھائی تین من سونا رکھ دیا جائے تو اس سے اس کا سر نیچے جھکے گا، بلند نہیں ہو گا، ہاں اگر اتنا روپیہ اس کے پاس ہو تو یقیناً وہ دنیا میں عزت پائے گا.اسی طرح روحانی علوم کو اگر کوئی شخص اپنے اندر جذب نہ کرے ان کی حقیقت تک نہ پہنچے بلکہ صرف چھلکے پر ہی اکتفا کرے تو وہ کوئی عزت نہیں پا سکتا اس لئے فرمایا یا درکھو بے شک اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اور اس کتاب پر عمل کر کے تم ملک ، قدوس، عزیز ، حکیم بن سکتے ہو مگر مغرور نہ ہونا کہ ہم ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے ہیں جس طرح یہ کتاب ملک بنا سکتی ہے اسی طرح اسے نظر انداز کر دینا ذلیل بھی کر دیتا ہے ، جس طرح یہ

Page 172

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء عزیز بناتی ہے اسی طرح ذلیل بھی کر دیتی ہے ، جس طرح یہ حکیم بناتی ہے اس کی خلاف ورزی پاگل اور بے وقوف بھی کر دیتی ہے جب تم قرآن کو چھوڑ دو گے تو تمہاری مثال اُس گدھے کی سی ہوگی جس پر کتا ہیں لدی ہوئی ہوں.یادرکھو کہ تم سے پہلے یہود نے ایسا کیا اور ان کی حالت ذلیل ہوگئی ہے اگر کسی قوم کے پاس خدا کا کلام نہ ہو تو وہ عذر کر سکتی ہے کہ پتہ نہ تھا لیکن جب صداقت موجود ہو تو اس کا انکار کر کے کوئی قوم سزا سے کیونکر بیچ سکتی ہے.اس کے بعد فرما یاؤ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ ھدی کے معنی راستہ دکھانے یعنی کامیاب ہونے کے ہیں اور اس میں بتایا ہے کہ ظالم کو اللہ تعالیٰ کا میاب نہیں کرتا.جب کوئی قوم ظالم ہو جائے تو اس کی کامیابی کے رستے آپ ہی آپ بند ہو جاتے ہیں.یہ ایک اٹل قانون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں قائم کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ بھول جاتے ہیں جس طرح موت اگر چہ یقینی ہے اور ہر شخص جانتا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے بھول جاتے ہیں.دنیا میں اور جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی کو کوئی ملتی ہے اور کوئی کسی اور سے حصہ پاتا ہے.آنکھیں ہیں کسی کی ہوتی ہیں کوئی نا بینا ہوتا ہے، زبان ہے کوئی بولتا ہے کوئی گونگا ہوتا ہے ، حسن ہے کسی کی ہوتی ہے اور کوئی فالج زدہ ہوتا ہے، ا بال کسی کے ہوتے ہیں اور کوئی گنجا ہوتا ہے ، ناک کسی کی ہوتی ہے کوئی نکٹا ہوتا ہے ہاتھ کسی کے ہوتے ہیں اور کسی کے شل ہوتے ہیں غرض دنیا کی کوئی چیز لے لو کسی کو کوئی ملی ہوگی اور کسی کو کوئی لیکن موت ایسی چیز ہے جس سے ہر جاندار حصہ لیتا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے بھول جاتے ہیں آخری وقت آ پہنچے تب بھی یہی امید ہوتی ہے کہ شاید اب بھی بچ جائیں.قوموں کی ترقی اور تنزل کا بھی یہی حال ہوتا ہے ایک قوم کو ترقی حاصل ہوتی ہے وہ سمجھ لیتی ہے اب تنزّل نہیں ہو گا اور دوسری گر جاتی ہے اور پھر خیال بھی نہیں کر سکتی کہ ہمیں بھی ترقی ہوگی.میں نے خود چوہڑوں وغیرہ کو سمجھایا ہے کہ تم اپنے آپ کو ذلیل نہ سمجھا کر ومگر وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ جس طرح پر میشور نے ہمیں رکھا ہے ویسے ہی رہنا بہتر ہے، ان کے اندر ترقی کا احساس ہی نہیں رہتا.تو یا د رکھنا چاہئے کہ جس طرح موت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی قوم ظالم ہو جائے ، خواہ وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو تنزل کرے گی.ہم سمجھتے ہیں ہم ظلم سے ترقی کریں گے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں سچ بولنے سے گزارہ نہیں ہو سکتا حالانکہ قرآن کریم سے

Page 173

خطبات محمود ۱۶۸ سال ۱۹۳۵ء یہی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ سے کبھی ترقی اور کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واللہ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِینَ جب کوئی قوم اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرتی ہے تو تباہ ہو جاتی ہے.اس کے متعلق اپنی جماعت کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ اس بات کا خاص خیال رکھیں ہم اس وقت کمزور ہیں لیکن کہیں ہمیں بھی قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے.کوئی احمدی بڑا زمیندار یا تاجر یا کوئی افسر ہوتا ہے جہاں بھی ایسا ہو، چاہئے کہ اپنی طاقت کا صحیح استعمال کیا جائے.میں دعوئی سے کہہ سکتا ہوں کہ سارے ہندوستان میں کوئی ایسا زمیندار نہیں ہوگا جو اپنے مزارعین اور کسانوں سے ایسا سلوک کرے جو ہم یہاں کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی مالکان میں سے سارے ملک میں شاید کوئی اتنا بد نام نہیں ہو گا جتنا ہم ہیں.ہم تو قادیان کے واحد مالک ہیں لیکن کسی اور گاؤں میں جا کر دیکھ لو کوئی زمیندار چوتھے حصے کا ہی مالک کیوں نہ ہو کیا مجال جو اُس کے خلاف کوئی بات کر سکے مگر ہمارے سامنے سب بولتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ بندوبست کا کوئی تحصیلدار یا کوئی افسر یہاں آیا میں اُس زمانہ میں ابھی پڑھ رہا تھا ، اس محکمہ کا شاید کوئی قاعدہ ہے کہ مالیہ وغیرہ کے متعلق کسی کو اعتراض ہو تو دریافت کر لیتے ہیں شاید ایسی ہی کوئی بات تھی یا کوئی اور بات تھی اور افسر یہاں آیا ہوا تھا مجھے بھی بلایا گیا تو ایک مزارع مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ جی! ان کو کیا پوچھتے ہو ان کا تو روپیہ میں ایک آنہ ہی ہے.کیا کہیں کوئی اور جگہ ہے جہاں کسان اس طرح بول سکیں حالانکہ جیسا سلوک ان لوگوں سے ہم یہاں کرتے ہیں ویسا اور کوئی نہ کرتا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ یہاں ایک مجسٹریٹ آیا اور آپ سے یہاں کے ہندوؤں کے متعلق ذکر کیا کہ وہ کچھ شا کی ہیں آپ نے ہندوؤں کو بلایا اور اس کے سامنے ان پر اپنی نوازشیں گنوانی شروع کیں.آپ نے بتانا شروع کیا کہ ہم نے ان لوگوں کے لئے یہ کیا ، یہ کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں ان سے کہیں انکار کر دیں.بڑھے شاہ وغیرہ سب بیٹھے تھے مگر کسی کو انکار کی جرأت نہ ہوئی.اسی طرح یہاں کے ہندوؤں میں ایک دفعہ کچھ شورش ہوئی جو دراصل ان سب شورشوں کا پیش خیمہ ہے، ان دنوں بٹالہ کے ایک تحصیلدار جن کا نام شاید دیوان چند تھا یہاں آئے اور کہا کہ میں بطور سفارش آپ کے پاس آیا ہوں آپ ان کی شکایات کا خود ہی علاج کر دیں.میں نے ان کے سامنے وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والاطریق پیش کیا اور بتایا کہ

Page 174

خطبات محمود ۱۶۹ سال ۱۹۳۵ء ان کے ساتھ فلاں موقع پر ہم نے یہ کیا اور فلاں موقع پر یہ کیا اور ان سے کہیں کہ ان میں سے ایک بات کا بھی انکار کر دیں انہوں نے تسلیم کیا کہ میں سمجھ گیا ہوں اب میں ان کی سفارش نہیں کروں گا اور ان کو جا کر ڈانٹا اور اس جھگڑے کی صلح صفائی کرا دی.ہمارا سلوک ایسا ہے کہ گو کوئی ہمیں ظالم ہی کہے لیکن دلوں میں ہماری خوبی کو مانتے ہیں.اب بھی ان لوگوں کو کوئی مصیبت پیش آئے تو امداد کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ظالم کے پاس مدد کے لئے کوئی نہیں جایا کرتا.ہماری عادت یہ نہیں کہ نام ظاہر کریں لیکن اگر ضرورت ہو تو میں ثابت کر سکتا ہوں کہ ہم نے ہندوؤں ، سکھوں اور غیر احمد یوں سب کی مدد کی ہے.انہیں وظائف دیئے ہیں، کپڑے دیئے ہیں ، روپے دیئے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ان لوگوں کو سامنے بٹھا کر میں اقرار کر سکتا ہوں کہ تم لوگوں کی فلاں فلاں مدد کی گئی یا نہیں.۱۹۲۸ء میں جب میں ڈلہوزی گیا تو قادیان کے لالہ شرمپت صاحب کے لڑکے لالہ گوکل چند صاحب تحصیلدار جو فوت ہو چکے ہیں ، وہ بھی وہاں گئے ، ہمارے ساتھ کی کوٹھی میں گجرات کے ایک رئیس جو غالباً آنریری مجسٹریٹ بھی تھے مقیم تھے ، لالہ گوکل چند صاحب دو چار روز کے لئے ہی وہاں گئے تھے اور ان کے ساتھ تعلقات تھے اس لئے ان کے ہاں ہی ٹھہرے.ایک دن مجھے ملنے آئے تو کہا کہ آپ کو ایک بات بتاتا ہوں میں نے اپنے میزبان سے کہا تھا کہ آپ مرزا صاحب سے ابھی تک کیوں نہیں ملے تو وہ کہنے لگے کہ وہ تو اس قدر ظالم اور متعصب ہیں ، ان سے میں کیسے مل سکتا تھا.وہ ہندوؤں سے بہت تعصب رکھتے ہیں.اس پر میں نے ان سے کہا کہ میں تو قادیان کا رہنے والا ہوں میں خوب جانتا ہوں کہ یہ سب باتیں جھوٹی ہیں.اس پر وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا یہ بات ہے.بہر حال جو انصاف کرنے والا ہے وہ خواہ کتنا بدنام ہو جائے مگر پھر بھی کامیاب وہی ہوتا ہے اب بھی ہمارے خلاف بہت شور ہے مگر اب بھی میں ایسی تحریریں دکھا سکتا ہوں کہ کوئی جھگڑا ہو تو کہتے ہیں آپ فیصلہ کر دیں.ہم بار بار کہتے ہیں کہ عدالت میں جاؤ مگر کہتے ہیں کہ نہیں آپ ہی فیصلہ کر دیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس زمانہ میں اس بات کی توفیق ملی ہے کہ انصاف قائم کریں گو اس وقت بدنام ہیں مگر یہ بدنامی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دلوں میں ہماری قد ر خدا کے فضل سے ہے.مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ٹریبیون میں جب میری وفات کی غلط خبر شائع ہوئی تو ایک مخالف نے مجھے فون کیا کہ سناؤ کوئی خبر قادیان کے متعلق ہے مجھے چونکہ کئی لوگ پہلے بھی پوچھ چکے تھے اور مجھے

Page 175

خطبات محمود 12 • سال ۱۹۳۵ء غصہ چڑھا ہوا تھا اس لئے میں نے اسے کہا کہ چُپ رہو مگر اس نے کہا کہ نہیں میں بدنیتی سے نہیں پوچھتا بتاؤ کیا بات ہے مگر مجھے چونکہ غصہ تھا اس لئے میں نے پھر کہا کہ چُپ رہو مگر اس نے کہا کہ خدا کے لئے بتاؤ کیا بات ہے مجھے فکر ہے اس لئے پوچھتا ہوں اور جب میں نے بتایا تو اس نے ذرا پرے ہو کر کہا جس کی مجھے آواز آئی کہ الْحَمْدُ لِلو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفوں کے دلوں میں بھی ہماری قدر ہے، تم کبھی یہ خیال بھی نہ کرو کہ ظلم کا میاب ہوسکتا ہے.اگر چہ اس وقت ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں دیتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ سب کچھ کیوں نہیں دیتے مگر جب انہیں معلوم ہوگا کہ رحم اور انصاف کی کیا حدود ہیں تو ضرور نادم ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو ہندو، سکھ، غیر احمدی سب رور ہے تھے حالانکہ زندگی میں یہی لوگ آپ کو گالیاں دیا کرتے تھے.میں نے اس وقت جماعت کو ایک گر بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو بھی ہدایت نہیں دیتا اس لئے اپنے اعمال میں ظلم مت پیدا ہونے دو.اپنے رویہ میں نرمی رکھو.اللہ تعالی دولت دے تو تمہارے اندر انکسار پیدا ہو، علم سے تو اضع پیدا ہو اور وہ تمہیں جتنا اونچا کرے اُسی قدر جھکو اور کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اس کے بندوں کو فائدہ پہنچاؤ.بادشاہ کی دولت رعایا کے لئے ہوتی ہے اور ملک کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ ہم تمہیں جو کچھ دیں گے بادشاہ کر کے دیں گے تاتم دوسروں کو فائدہ پہنچا ؤ، قدوسیت اس واسطے دیں گے کہ دوسروں کو پاک کرو، عزیز بنائیں گے تا دوسروں کو بڑا کر و عزیز اسے بھی کہتے ہیں جو دوسروں کو ذلیل نہ کرے ، ہم تمہیں حکمت دیں گے مگر اس لئے کہ دوسروں کو سکھاؤ.جس پانی کو نکلنے کا رستہ نہ ہو وہ سڑ جاتا ہے پس ہم تمہیں علم دیں گے لیکن اگر اس سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاؤ گے تو یہ سڑ کر تمہارے دماغ میں تعفن پیدا کر دے الفضل ۱۲ / مارچ ۱۹۳۵ء) گا.الجمعة : ٣ الجمعة : ٢ البقرة : ٦ الجمعة: ٣ ۵ ترمذی کتاب البر والصلة باب ماجاء في الاقتصاد في الْحُبّ وَالْبُغْضِ.بخاری كتاب الدعوات باب ما يقول إِذَا اتى أَهْلَهُ.ك الجمعة : ۴

Page 176

خطبات محمود 121 سال ۱۹۳۵ء بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة.2 الجمعة: ۵ ا بخاری کتاب فضائل أصحاب النَّبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب خالد بن الوليد رضى الله عنه.ال الجمعة : ۵ ١٣١ الجمعة : ٦

Page 177

خطبات محمود ۱۷۲ ۱۰ سال ۱۹۳۵ء اظہارِ حقیقت اور گالی میں فرق (فرموده ۸ / مارچ ۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ جمعہ کی درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں.قُلْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا اِنْ زَعَمْتُمُ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُون النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِيْنَ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّه مُلقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُم تَعْمَلُونَ اس کے بعد فرمایا :- پچھلی آیت میں اس بات کا ذکر تھا کہ محض خدا تعالیٰ کی کتاب کے حامل ہونے سے کچھ نہیں بنتا اور جب تک اس کے مطابق اپنی زندگیاں بسر نہ کی جائیں اس وقت تک صرف اُس کتاب کو اٹھا لینا ایسا ہی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں.جس طرح قرآن مجید کے بھرے ہوئے بکس ایک گدھے کی پیٹھ پر لاد دینے سے وہ زیادہ عقلمند نہیں ہو جاتا اور نہ تو رات اور انجیل کے لادنے سے وہ زیادہ عقلمند سمجھا جاسکتا ہے.اسی طرح اگر ایک ان پڑھ اور جاہل آدمی جو قرآن مجید کے مطالب کو نہیں سمجھتا اور نہیں سمجھنا چاہتا ہیں، ہمیں یا چالیس قرآن مجید بھی اپنے سر پر اٹھالے تو کیا اُس کے دل میں معرفت کا دریا پھوٹ سکتا ہے؟ معرفت کا دریا اس کے دل میں پھوٹے گا اور وہی شخص روحانیت سے حصہ پائے گا جس کے دل میں قرآن ہوگا اور جس کے سر میں قرآن ہو ، سر پر قرآن اُٹھا نا کام نہیں دیتا

Page 178

خطبات محمود ۱۷۳ سال ۱۹۳۵ء اور نہ پیٹھ پر قرآن لا ددینا کوئی کام دے سکتا ہے بلکہ جب سر میں قرآن ہو اور دل میں قرآن ہو تب انسان ان ثمرات کو پا سکتا ہے جو قرآن مجید پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں.اس مثال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ تم سے پہلے ایک کتاب یعنی تو رات دنیا میں نازل ہوئی اور لوگوں کے لئے اسے راہنما قرار دیا گیا مگر اس کے ماننے والوں نے کچھ عرصہ کے بعد اس کتاب کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، زندگیاں اس کے مطابق نہ بنائیں اور نہ اس کے اوامر پر کار بند رہے.اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی اتنی قیمت بھی نہ رہی جتنی ایک گدھے کی اس کے مالک کے نزدیک ہوتی ہے ان پر عذاب پر عذاب آئے ، تکلیفوں پر تکلیفیں آئیں اور مصائب پر مصائب آئے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ، نصرت کرتا اور ان کے دشمنوں کو خائب و خاسر اور ناکام و نامراد رکھتا جب لوگ ان کے دشمن ہوئے تو خدا کا عذاب بھی ان پر نازل ہونا شروع ہو گیا.جس طرح آسمان سے جب پانی برستا ہے تو زمین سے بھی چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اس کے بالکل اُلٹ زمین سے جب ان پر عذاب نازل ہونا شروع ہوا تو آسمان نے بھی ان پر آگ برسانی شروع کر دی پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اِس واقعہ سے عبرت دلاتا اور انہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم ایسے مت بننا.جس قوم کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس کی مثال گدھوں کی سی ہے ضرور ہے کہ وہ اس بات پر بُرا منائے اور کہے کہ ہمیں گالی دی گئی ہے اور یقیناً جس وقت یہ آیت یہود کی مجالس میں پڑھی جاتی ہو گی.مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِيَحْمِلُ اَسْفَارًال کوه لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تو رات دی مگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں ان پر یہ عبارت سخت شاق گزرتی ہوگی اور یقیناً وہ اس پر ناراض ہوتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ ہمیں کیوں گدھا کہا گیا.لیکن اگر ٹھنڈے دل سے قرآن کریم کے اس دعوے پر غور کیا جائے اور یہودی ، عیسائی یا مسلمان کا سوال درمیان سے اُٹھا دیا جائے تو کون سا شخص اس مضمون کی صداقت سے انکار کر سکتا ہے.تم عیسائیوں سے پوچھ دیکھو کہ اگر ایک عیسائی انجیل پر عمل نہ کرے تو اسے کیا کہا جائے اور گوانجیل ہمارے نزدیک کوئی شرعی کتاب نہیں لیکن عیسائیوں کے نزدیک وہ ایک کامل ہدایت نامہ ہے اور عمل کے لحاظ سے ہر عیسائی مجبور ہے کہ وہ انجیل کی ہدایات کو اپنے مد نظر رکھے اور اپنے اعمال کی انجیل پر بنیا د ر کھے.پس اگر ایک عیسائی سے پوچھا

Page 179

خطبات محمود ۱۷۴ سال ۱۹۳۵ء جائے کہ جب کوئی عیسائی کہلا کر انجیل پر عمل نہیں کرتا انجیل اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے مگر اپنے دل میں نہیں رکھتا تو کیا اُس کی مثال اُس گدھے کی سی ہے یا نہیں جس پر کتا بیں لاد دی جائیں.تو اگر اسے یہ خیال پیدا نہ ہو کہ تم اُس پر طعن کر رہے ہو تو یقیناً وہ یہی کہے گا کہ یہ درست ہے.اسی طرح اگر ایک مسلمان سے پوچھو کہ وہ شخص جو قرآن مجید پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہے مگر عملی لحاظ سے قرآن کو پس پشت ڈال رہا ہے ، منہ سے تو دعوے کرتا ہے کہ میں اسلام کا عاشق اور قرآن مجید کا متبع ہوں لیکن اس کے اعمال قرآن مجید کے خلاف ہیں تو بتا ؤاگر ایسے شخص نے اپنے ہاتھ یا سر پر قرآن اُٹھایا ہوا ہے تو کیا اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے یا نہیں جس پر کہتا ہیں لا دی گئی ہوں.پس اگر اسے یہ خیال پیدا نہ ہو کہ تم اس کی ذات کی طرف اشارہ کر رہے ہو تو یقیناً وہ کہے گا کہ ہاں یہ درست ہے.البتہ اگر اسے یہ وہم ہو جائے کہ تم اس پر اتمام حجت کرنی چاہتے ہو اور اس پر طعن کر رہے ہو تو پھر وہ لڑ پڑے گا اور کہے گا کہ تم نے مجھے گالی دی لیکن اگر ذاتیات کو درمیان میں نہ لایا جائے اور اصولی طور پر سوال کیا جائے تو خواہ کسی قوم کے فرد سے دریافت کر لیا جائے ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ بے شک ایسا شخص اس گدھے کی طرح ہے جس نے کتابیں اُٹھائی ہوئی ہوں.اسی طرح اگر یہودیوں سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے.اگر ایک ہندو سے پوچھا جائے کہ ایک شخص ویدوں پر ایمان لانے کا دعوی کرتا ہے مگر نہ اپنے عقائد ویدوں کی تعلیم کے مطابق رکھتا ہے نہ اعمال ان کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو بتا ؤاگر اس کے سر پر یا اس کے ہاتھوں میں وید ہومگر اس کے دل میں ویدوں کی عظمت نہ ہو تو کیا اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے یا نہیں جس پر کتابیں لا دی گئی ہوں.تو وہ بھی یہی کہے گا ہاں واقع میں وہ گدھے کی مانند ہے اور اس پر وہ ہرگز برانہیں منائے گا.برا لگنے کا سوال تب پیدا ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھے کہ یہ میرے متعلق کہا جارہا ہے لیکن جب کسی بات کو ایک علمی سوال بنادیا جائے تو پھر کوئی شخص بُر انہیں منا سکتا.فرض کرو کوئی شخص میرے پاس آئے اور کہے کہ اگر ایک شخص احمدی کہلاتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں ہر وقت اُٹھائے پھرتا ہے لیکن ان کتابوں پر عمل نہیں کرتا تو کیا اس کی مثال گدھے کی سی ہے یا نہیں ؟ تو کیا تم سمجھتے ہو میں اس حقیقت سے انکار کر دوں گا.یقیناً میں یہی جواب دوں گا کہ اگر کوئی احمدی ایسا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا اور صرف کتا میں اُٹھائے پھرتا ہے تو وہ اس گدھے کی مانند ہے جس پر کتابیں لا دی گئی

Page 180

خطبات محمود ۱۷۵ سال ۱۹۳۵ء ہوں.پس دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس کے سامنے اصولی طور پر یہ سوال رکھا جائے کہ اگر کوئی شخص منہ سے ایمان لانے کا دعوی کرے مگر نہ اس کے عقائد ایمان کے مطابق ہوں اور نہ اعمال ایمان کے مطابق ہوں تو کیا وہ گدھے کی مانند ہے یا نہیں اور وہ اس کا نفی میں جواب دے.پس اس میں کسی قوم کی خصوصیت نہیں اور اس قسم کے الفاظ گالی نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت ہوتے ہیں.پس نادان لوگ اس قسم کے الفاظ کو گالیاں قرار دیتے ہیں حالانکہ جب قرآن مجید میں یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ وہ یہود جو تو رات پر عمل نہیں کرتے گدھوں کی طرح ہیں تو پھر مسلمانوں کو اس طریق کلام پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کیا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق کوئی سخت لفظ بطور اظہا ر واقعہ کہہ دیا جائے تو وہ نا جائز ہے لیکن اگر دوسروں کے متعلق ویسا ہی سخت لفظ بطور ا ظہا ر واقعہ کہہ دیا جائے تو وہ جائز ہے.جولوگ آج یہ شور مچاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں مخالفوں کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ سوچیں کہ جب یہودیوں کے سامنے یہ کہا جائے کہ تمہیں تو رات دی گئی تھی مگر تم نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا اس لئے اب تم اس گدھے کی مانند ہو گئے ہو جس پر کتا بیں لدی ہوئی ہوں تو کیا وہ یہ سنتے ہی اَلحَمدُ لِلهِ کہتے ہوئے بغلگیر ہو جائیں گے اور کہیں گے جَزَاكَ اللهُ آر نے کیسا اچھا لفظ استعمال کیا یا وہ برا منائیں گے اور اس لفظ کے استعمال کو اپنی ہتک سمجھیں گے ؟ مگر تعجب ہے مسلمان قرآن مجید میں تو پڑھتے ہیں کہ یہود گدھے کی مانند ہیں اور خاموش رہتے ہیں لیکن جب ان کے سامنے ان کی حقیقت پیش کی جائے تو وہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں.آخر قرآن مجید نے یہ طریق کیوں اختیار کیا ؟ اسی لئے کہ انہوں نے الہی کتاب پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا.پھر اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنا چھوڑ دیں تو کیوں انہی الفاظ کے مستحق نہیں جن کی پہلی قو میں مستحق ہوئیں.قرآن تو خود کہتا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِی بِهِ كَثِيرًا سے یعنی جو طریق ہم نے اختیار کیا ہے یہ کئی لوگوں کو اچھا لگے گا اور کئی لوگوں کو برا ، کئی لوگ ہدایت پائیں گے اور کئی گمراہ ہوں گے.مسلمان آخر کیوں یہ امید رکھتے ہیں اگر یہ دوسری اقوام کے بزرگوں کے متعلق ہنسی کی باتیں کریں تو وہ ادبی لطائف قرار دیئے جائیں لیکن اگر دوسری قوم کے افراد مسلمانوں کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہیں تو واجب القتل قرار پائیں.اگر یہ صحیح ہے کہ سکھ مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کریں، اگر ہند و مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کریں ، اگر عیسائی

Page 181

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کریں تو مسلمانوں کا حق ہو جاتا ہے کہ سخت الفاظ کہنے والوں کو قتل کر دیں تو پھر غیر مسلموں کا بھی حق ہے کہ جو مسلمان ان کے بزرگوں پر ہنسی اُڑائیں ایسے مسلمانوں کو وہ قتل کر دیں.مگر کیا اس طرح دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور کیا اس طرح صلح اور محبت کی فضا پیدا ہو سکتی ہے؟ ہر عقلمند انسان کہے گا کہ اگر یہ راستہ کھول دیا جائے تو فتنہ فساد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوسکتا.جس نے سمجھ لیا کہ فلاں نے اس کے خلاف بات کہی ہے وہ اُٹھے گا اور اُسے قتل کر دے گا حالانکہ کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں جس میں اس قسم کے الفاظ نہ پائے جاتے ہوں.ویدوں میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں ، تو رات میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں ، خندا اوستا میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی اس قسم کے الفاظ موجود ہیں مگر وہ گالیاں نہیں ، اظہار حقیقت ہے.گالی وہ چیز ہوتی ہے جو حقیقت حال کا اظہار نہیں کرتی اور اس میں جھوٹ ہوتا ہے مگر اظہارِ واقعہ حقیقت کے مطابق ہوتا ہے.در اصل سخت الفاظ ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک گالی اور ایک اظہار حقیقت.پھر اظہار حقیقت بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک بُرا اظہارِ حقیقت ہوتا ہے اور ایک اچھا.گالی یہ ہے کہ کسی کو کتا کہ دیا جائے بغیر اس کے کہ کتے کی کسی صفت کی طرف اشارہ ہو.مثلاً کہتے میں بھونکنے کی عادت ہے اگر کوئی شخص ایسا ہو جو راہ چلتے لوگوں کو بلا وجہ گالیاں دے اور منع کرنے کے باوجود نہ رکے، ہاں اسے کچھ رقم دے دی جائے تو خاموش ہو جائے تو اگر ایسے شخص کو ہم کتا کہیں گے تو یہ اظہار حقیقت ہو گا لیکن اس کی بجائے اگر ہم کوئی اور لفظ اس کے متعلق استعمال کریں مثلا سؤر کہ دیں تو یہ گالی ہوگی کیونکہ یہ واقعہ کے مطابق نہیں.یا فرض کرو کسی مسئلہ پر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے گفتگو کر رہا ہو اور دوسرالا جواب ہو کر کہہ دے کہ تو خبیث کتا سو رہے، تو کوئی نہیں کہے گا کہ یہ اظہارِ حقیقت ہے کیونکہ کتے مسائل میں اختلاف نہیں کیا کرتے اور نہ سو رمسائل پر بحثیں کیا کرتے ہیں.پس اس جگہ جو کتا، سورا اور خبیث کہا جائے گا یہ گالی ہوگی کیونکہ اس میں کوئی استعارہ مد نظر نہیں اور نہ کوئی ایسی بات مد نظر ہے جو حقیقت حال کے مطابق ہو.آگے حقیقت حال بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو قسم کی ہوتی ہے ایک غلط قسم کی حقیقت حال ہوتی ہے اور ایک صحیح حقیقت حال ہوتی.

Page 182

خطبات محمود 122 سال ۱۹۳۵ء ہے.ایک حقیقت حال کے اظہار کا برا طریق تو یہ ہے کہ مثلاً کسی کا نے کو دل آزاری کے طور پر میاں یک چشم کہ دیا جائے.یہ ہو گا تو حقیقت حال کا اظہار اور گو یہ صحیح ہے کہ اس کی ایک آنکھ ہی ہوگی لیکن اگر بلا وجہ اسے کا نا کہا جائے تو ہر شخص کہے گا کہ تم نے ظلم کیا اور بلا وجہ دل آزاری کی.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ گالی نہیں بلکہ حقیقت حال کا اظہار ہے کیونکہ اس نے بلا وجہ محض دل آزاری کے طور پر اسے کا نا کہا ہے لیکن اگر ایک شخص جس کی صرف ایک آنکھ ہے اپنی آنکھ کی کسی بیماری کے وقت ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ مرض خطرناک ہے اگر آپریشن نہ کرایا تو تمہاری دوسری آنکھ بھی جاتی رہے گی ، آپریشن کی صورت میں ممکن ہے عرصہ تک بینائی قائم رہے تو یہ جائز ہوگا اور اظہارِ حقیقت کا اچھا طریق ہو گا پس گو پہلا شخص بھی ” کا نا کہتا ہے اور ڈاکٹر بھی اسے یک چشم کہتا ہے لیکن یہاں چونکہ ڈاکٹر مجبور تھا کہ اس کے کا نا ہونے کا ذکر کرے اور بتائے کہ اگر علاج نہ کرایا تو دوسری آنکھ بھی ضائع ہو جائے گی اس لئے کوئی اسے بداخلاق قرار نہیں دیتا اور نہ اس کے کا نا کہنے کو گال سمجھتا ہے لیکن دوسرا جب دل آزاری کے لئے بغیر کسی وجہ کے یونہی کا نا کہہ دے تو وہ گالی سمجھی جاتی ہے.اسی طرح جب مجسٹریٹ کے سامنے کسی شخص پر چوری کا مقدمہ پیش ہوتا ہے اور پولیس اس کے چور ہونے کو ثابت کر دیتی ہے تو کیا فیصلہ کرتے وقت مجسٹریٹ یہ لکھا کرتا ہے کہ زید چور ہے اور اسے چوری کی سزا دی جاتی ہے.یا یہ لکھا کرتا ہے کہ زید بڑا شریف، نیک، عابد اور زاہد ہے اس لئے میں اسے دو سال قید کی سزا دیتا ہوں.پھر کیا جب مجسٹریٹ چور کو چور کہتا ہے تو کوئی اسے گالی سمجھتا ہے؟ کوئی بھی شخص اس لفظ کو گالی نہیں سمجھتا کیونکہ مجسٹریٹ کو ضرورتا اور حاجتاً اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں.غرض جب کوئی الفاظ حقیقت حال کے مطابق ہوں اور ضرورت ان الفاظ کے کہے جانے پر مجبور کرے تو وہ گالی نہیں بلکہ تمثیل اور تنبیہ کہلاتی ہے.گالی وہ ہوتی ہے جو معنوی لحاظ سے مخاطب میں پائی نہیں جاتی اور اگر پائی جاتی ہو تو اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مشہور ہے کہ کوئی آدمی ایک ایسے محلہ سے گزرا کرتا تھا جس میں ایک کانی عورت رہا کرتی تھی.وہ جب اسے پنجابی زبان میں کہتا بھا بھی کا میئے اسلام.اس پر وہ شور مچانا شروع کر دیتی اور لوگ جب اکٹھے ہوتے تو وہ کہتا کہ میں نے تو اسے سلام کیا ہے اور کافی کو کافی نہ کہوں تو اور کیا کہوں.مگر یہ طریق با وجود حقیقت حال کے مطابق ہونے کے برا سمجھا جاتا ہے اور سمجھا جانا چاہئے کیونکہ اس کا مقصد محض دل آزاری ہوتا ہے لیکن

Page 183

خطبات محمود ۱۷۸ سال ۱۹۳۵ء وہ مامور جو دنیا کی ہدایت کے لئے آئے آخر لوگوں کو کیا کہے.کیا موسیٰ علیہ السلام جب آئے تو انہوں نے فرعون اور اس کے ساتھیوں سے یہ کہا تھا کہ آپ لوگ بڑے ہادی و را ہنما ، پارسا ، خدا رسیدہ اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق رکھنے والے ہیں میں آپ کی اصلاح کرنے آیا ہوں اگر وہ ایسا کہتے تو کیا ہر شخص نہ کہتا کہ یہ پاگل ہو گیا ہے ایک طرف تو کہتا ہے کہ ہم بڑے نیک اور پارسا ہیں اور دوسری طرف کہتا ہے کہ میں اصلاح کے لئے آیا ہوں آخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہی کہنا پڑا کہ تم گمراہ ہو اور روحانی لحاظ سے اندھے ہو میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں وہ آنکھیں دوں جن سے تم خدا تعالیٰ کو دیکھو.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے لوگوں کی بدکاری اور فسق و فجور کو دیکھ کر انہیں بدکار کہا، ان کی ایذاء رسانیوں کے رو سے انہیں ڈسنے والے سانپ قرار دیا لیکن اگر وہ یہ کہتے کہ تم لوگ یوں تو بڑے امن پسند ہو، نیک بھی ہو ، خدا تعالیٰ کی محبت بھی تمہارے دلوں میں ہے ، عدل وانصاف کو بھی تم نے دنیا میں قائم رکھا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو کیا ساری دنیا انہیں پاگل قرار نہ دیتی.یوں بھی تو دنیا انبیاء کو مجنون کہا کرتی ہے مگر وہ اس قسم کی باتیں کہتے تو ہر ایک ان کی بات پر ہنستا اور کہتا کہ یہ عجیب آدمی ہے ایک طرف تو ہمیں بزرگ کہتے ہیں اور دوسری طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم تمہاری اصلاح کے لئے آئے ہیں.آخر حضرت عیسی علیہ السلام کو یہی کہنا پڑا کہ تم سانپ ہو، سانپوں کے بچے ہو گے اور اسی انجیل میں جس میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دیا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے مخالفوں کو کہا کہ تم حرامکار ہو، شیطان کی اولاد ہوتے اور ان میں سے ہر لفظ اپنے مقام پر صیح طور پر چسپاں تھا.شیطان کی اولاد کے کیا معنی ہیں شیطان ہمیشہ نیکی سے روکتا ہے اور شیطان کی اولاد کے یہ معنی ہیں کہ تم شیطانی کام کر رہے ہوا اور لوگوں کو سچائی کے قبول کرنے سے روکتے ہو.پھر کیا حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمن واقع میں ایسے نہ تھے ؟ اسی طرح جب انہوں نے حرامکار کہا تو سچ کہا کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام تو اپنے ماننے والوں کو اطاعت کی تعلیم دیتے مگر مخالف یہ مشہور کرتے کہ یہ حکومت کا باغی ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام ان کی جان بچانے کی فکر میں تھے اور وہ ان کو قتل کرانے کی فکر میں تھے پھر وہ حرامکاری نہیں کرتے تھے تو اور کیا کرتے تھے.پھر وہ سانپ بھی تھے کیونکہ جس طرح سانپ بلا وجہ ڈستا ہے اسی طرح وہ بھی نیش زنی کرتے اور ایذا رسانی پر کمر بستہ رہتے.اسی طرح جب رسول کریم ﷺ دنیا

Page 184

خطبات محمود 129 سال ۱۹۳۵ء میں آئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو کتاب دی تو اُس وقت یہودیوں کے پاس تو رات ، عیسائیوں کے پاس انجیل، زرتشتیوں کے پاس ژند اوستا اور ہندوؤں کے پاس وید تھے ، کیا رسول کریم ﷺ یہ کہتے کہ آپ لوگوں کی کتابیں تو بڑی اعلیٰ درجہ کی ہیں اور ان میں نور اور ہدایت بھری ہوئی ہے اور ان کی تعلیم پر چل کر انسان اپنے رب کے پاس پہنچ سکتا ہے لیکن دیکھو! میری خاطر ان کو چھوڑ دو اور جو کتاب میں پیش کرتا ہوں اسے مان لو.لازماً آپ کو یہی کہنا پڑتا کہ وہ کتابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں مگر اب ان میں سے نو راُٹھ گیا ہے اور انسانی ہاتھوں نے ان میں تغیر و تبدل کر دیا ہے.پس رسول کریم ﷺ نے ان کی کتابوں کو برا بھلا نہیں کہا بلکہ ان کے متعلق ایک حقیقت حال کا اظہار کیا اور ان کی ہمدردی اور خیر خواہی کیلئے وہ بات کہی جو سچی تھی.ایسا ہی آجکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض الفاظ کہے ہیں اور لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ وہ ان باتوں کو قرآن مجید میں پڑھتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ ان کو اپنے زمانہ پر بھی انہیں چسپاں کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ بالکل صاف اور کھلے الفاظ میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں نے تو رات پر عمل نہیں کیا ان کی مثال گدھے کی سی ہے لیکن آج اگر یہودی شور مچادیں اور کہیں کہ قرآن نے ہمیں گالی دی ہے تو یہ سب مخالف جو آج ہم پر اعتراض کرتے ہیں، انہیں کہنے لگ جائیں کہ ان کی عقل ماری گئی ، یہ تو اظہارِ حقیقت ہے نہ کہ گالی مگر یہی حرکت آپ کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ کس قدر بے جا حرکت کر رہے ہیں.بہر حال انہوں نے بھی اعتراض کر دیا تھا جیسا کہ آج کل غیر احمدی ہماری جماعت پر کرتے ہیں.یہودی کوئی نیک تو تھے نہیں کہ وہ خاموش رہتے انہوں نے اس لفظ کے استعمال کرنے پر اعتراض کیا اور جیسا کہ قرآن مجید کا طریق ہے کہ وہ بغیر اعتراض کو بیان کئے اعتراض کا جواب دے دیا کرتا ہے ایسا ہی یہاں بھی کیا گیا ہے اور یہودیوں کے اسی اعتراض کا جو گدھا کہنے پر ان کے دل میں پیدا ہوا تھا جو اب اگلی آیت میں دیتے ہوئے فرماتا ہے.قُلْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمُ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ فرماتا ہے دیکھو! ہم نے غلط بیانی نہیں کی ، گالی نہیں دی بلکہ مجبوری سے ایک بات کہی ہے اور واقعہ یہی ہے کہ وہ کتاب جو تمہیں دی گئی ہے آج تم اس پر عمل نہیں کرتے اور نہ اس تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرتے ہو تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا دنیا کی اور کوئی قوم خدا تعالیٰ کی پیاری نہیں تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا اور کوئی قوم اس کے بچے دین کی

Page 185

خطبات محمود ۱۸۰ سال ۱۹۳۵ء حامل نہیں تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا اور کسی قوم کے لئے آج نجات مقدر نہیں مگر کیا تمہارے اعمال ایسے ہیں جو اس قوم کے ہونے چاہیں جوا کیلی خدا تعالیٰ کی محبوب ہو؟ اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا یہ دعوئی ہو کہ میرے سوا اس جگہ اور کوئی تیراک نہیں تو کیا وہ ایک ڈوبتے ہوئے بچہ کو دیکھ کر یہ انتظار کیا کرتا ہے کہ کوئی اور آئے اور اس کی جان بچائے.یا اسے دیکھتے ہی چھلانگ لگا دیتا ہے اگر وہ سمجھتا کہ اور تیراک بھی وہاں موجود ہیں تو اس صورت میں ممکن ہے وہ اس انتظار میں کھڑا رہتا کہ کوئی اور ڈوبنے والے بچہ کو بچانے کے لئے گودے اور گو اس صورت میں بھی جرم سے وہ بالکل بری نہیں ہوگا البتہ اس کا مجرم ہلکا ہو جائے گا.لیکن وہ شخص جو اپنے آپ کو اکیلا تیراک سمجھتا ہو اگر وہ ایک ڈوبتے ہوئے بچہ کی جان بچانے کی فکر نہیں کرتا تو وہ کتنے الزام کے نیچے آتا ہے.ایک مالک مکان کے کئی نوکر ہوں اور فرض کرو اس کے گھر میں آگ لگ گئی ہو اور پہلے باورچی خانہ میں لگی ہوتو دوسرے نوکر ممکن ہے یہ خیال کر لیں کہ باورچی اس آگ کو بجھا لے گا اور اس خیال کے ماتحت خاموش بیٹھے رہیں گو وہ جرم سے بالکل بری نہیں ہوں گے لیکن ان کا جرم کسی قدر کم ضرور ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اور بھی آگ کو بجھانے والے ہیں لیکن اگر ایک نوکر کو یہ یقین ہو کہ گھر میں اور کوئی خادم نہیں اور پھر بھی وہ آگ کو نہ بجھائے تو بتاؤ وہ مجرم ہو گا یا نہیں ؟ اسی رنگ میں اللہ تعالی فرماتا ہے اے یہود یو ! ہم نے تمہارے متعلق جو کچھ کہا اگر یہ گالی ہے تو ہم تمہارے سامنے ایک معیار پیش کرتے ہیں.تم کہتے ہو کہ تمہیں تو رات ملی جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے تم کہتے ہو کہ تمہیں تو رات ملی اور اس میں سچائی اور نور ہے تم کہتے ہو کہ تمہیں تو رات ملی اور تم ہی خدا کی چنیدہ جماعت ہو تم کہتے ہو کہ تمہیں تو رات ملی اور تم ہی خدا کی محبوب قوم ہو، تمہارا دعویٰ ہے کہ اَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ تم ہی خدا کے دوست ہوا اور کوئی قوم خدا تعالیٰ کی دوست کہلانے کی حقدار نہیں، پھر بتاؤ تم نے خدا تعالیٰ کے دوست اور محبوب کہلا کر اس ظلمت اور تاریکی کے مٹانے کے لئے کیا کوششیں کیں جو آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.جس طرح ایک بچے کو سخت بیمار دیکھ کر اس کی ماں مرنے کے قریب ہو جاتی ہے ، جس طرح ایک بچے کو ڈوبتا دیکھ کر اس کا باپ اپنی جان سے بے پرواہ ہو کر گود پڑتا ہے ، جس طرح ایک مالک اپنے گھر میں آگ لگی دیکھ کر بے تحاشہ اسے بجھانے کے لئے دوڑ پڑتا ہے، جس طرح ایک ملک پر جب دشمن حملہ آوار ہو تو نو جوان اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ، جس طرح

Page 186

خطبات محمود ۱۸۱ سال ۱۹۳۵ء قوموں پر حملہ کے وقت چھوٹے اور بڑے سب اپنی جان اور اپنے مال لٹانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ، تم بتاؤ کہ کیا تم نے اسی طرح خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جانیں قربان کیں.تمہارے سامنے خدا تعالیٰ کی کھیتیاں برباد کی جارہی ہیں، تمہارے سامنے خدا تعالیٰ کی عبادت گا ہیں مٹائی جا رہی ہیں، تمہارے سامنے اس کے نام کی بے حرمتی کی جارہی ہے، تم بتاؤ کیا تم نے وہ قربانی کی جو اپنے بچہ کے لئے ماں اور اپنے ملک کے لئے سپاہی کیا کرتا ہے.جب تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا دنیا کی اور کوئی قوم خدا تعالیٰ کی دوست نہیں تو تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.اگر تم یقین رکھتے کہ عیسائی بھی خدا تعالیٰ کے دوست ہیں، اگر تم یقین رکھتے کہ ہند و خدا تعالیٰ کے دوست ہیں، اگر تم یقین رکھتے کہ زرتشتی بھی خدا کے دوست ہیں، تو تم کہہ سکتے تھے ظلمت و تاریکی کو وہ لوگ دور کر لیں گے کفر کی جو آگ بھڑک رہی ہے اسے وہ لوگ بجھائیں گے مگر تمہارا تو یہ دعوی ہے کہ تم مِنْ دُونِ النَّاسِ اَوْلِيَاءُ لسلہ ہو پھر یہ جو خدا تعالیٰ کے نور کی بے حرمتی کی جارہی ہے اس کی کھیتی کو کاٹا جاتا اور اس کے نام پر جنسی اُڑائی جاتی ہے اس کا تم نے کیا علاج کیا ؟ اگر تم اس کے دوست ہوتے تو کیا ممکن تھا کہ تم ایسے نازک موقع پر خاموش ہو کر بیٹھے رہتے.فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُم صدِقِينَ پس اگر تم سچے ہو تو آؤ اور اپنی جانیں اور اپنے اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں لوٹا کر اپنے آپ پر موت وارد کرو.اگر تم خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے اپنی جانیں نہیں دیتے ، اگر تم خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے اپنے اموال ایک حقیر چیز کی طرح نہیں لٹا دیتے تو معلوم ہوا کہ تو رات تمہارے اندر نہیں اور نہ اپنے دعوئی محبت میں تم سچے ہو کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا نور تمہارے اندر ہو مگر جب اس کے نور کومٹانے کے لئے دنیا میں کوششیں کی جا رہی ہوں تو تمہارے اندر قربانی کا جوش پیدا نہ ہو.دیکھو یہ وہ معیار ہے جو قطعی اور یقینی ہے اس کے ماتحت معلوم ہو سکتا ہے کہ کونسی قوم اپنے دعوے میں سچی ہے اور کونسی نہیں.میں اپنی جماعت سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دیکھو تم بھی کہتے ہو کہ ہم مِن دُونِ النَّاسِ أَوْلِيَاءُ اللہ ہیں، تمہارا بھی دعوئی یہی ہے کہ آج سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے نجات نہیں پس معلوم ہوا کہ تم بھی اس بات کے مدعی ہو کہ اولیاء اللہ تم ہی ہو اور تمہارے سوا اور کوئی خدا کا پیارا نہیں ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کا کوئی اور بھی پیارا ہو اور نجات صرف تمہارے لئے مقدر ہو.اگر کوئی اور قوم بھی اس وقت خدا تعالیٰ کی پیاری ہے تو نجات صرف تمہارے لئے مقدر نہیں ہوسکتی

Page 187

خطبات محمود ۱۸۲ سال ۱۹۳۵ء بلکہ اس کے لئے بھی ہوگی اور اگر تم دعوی کرتے ہو کہ نجات صرف تمہارے لئے ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج خدا کا سپاہی تمہارے سوا اور کوئی نہیں.کیا دنیا میں کوئی بھی شریف انسان ایسا ہو سکتا ہے جو کسی سے خدمت لے مگر اسے اُجرت نہ دے پھر اگر تمہارے نزدیک مسیحی بھی خدا تعالیٰ کے دین کو روشن کرنے والے ہوں ، زرتشتی بھی خدا تعالیٰ کے دین کو پھیلانے والے ہوں ، یہودی بھی اس کے دین کی اشاعت کرنے والے ہوں ، ہندو بھی اس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور غیر احمدی بھی اسلام کا درد اپنے سینہ میں رکھنے والے اور اس کی رضا کو حاصل کئے ہوئے ہوں تو کیا تمہاری عقل کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات آ سکتی ہے کہ وہ مزدوری کی اُجرت صرف تمہارے ہاتھ میں رکھے گا اور انہیں نجات سے محروم کر دے گا.کیا تم خدا تعالیٰ کو ظالم اور بے انصاف سمجھتے ہو ؟ اگر نہیں تو پھر جب تم کہتے ہو کہ مسیح موعود کے ماننے میں ہی نجات ہے تو دوسرے معنوں میں تم یہ کہتے ہو کہ آج خدا کا تمہارے سوا اور کوئی نوکر نہیں ، آج خدا کا تمہارے سوا اور کوئی سپاہی نہیں ، پس جب کہ تم بھی ویسا ہی دعوی کرتے ہو جیسا کہ یہود نے کیا یا جس طرح رسول کریم ﷺ کے صحابہ دعوی کیا کرتے تھے کہ ان کے سوا اور کوئی نجات یافتہ نہیں ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِين يه دعوى تبھی سچا ثابت ہو گا جب تم مر کر دکھا دو.اگر آج خدا تعالیٰ کے دین کی تمہارے سوا اور کوئی خبر لینے والا نہیں ، اگر آج دنیا کی تمام قوموں میں سے صرف تم ہی ہو جو خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں رکھتے ہو تو پھر اسلام پر جو مصیبتیں آرہی ہیں ان کے لئے تم کونسی قربانی کر رہے ہو.کیا مہینہ کے بعد ایک آنہ روپیہ کے حساب چندہ دیدینا یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ تم مِنْ دُونِ النَّاسِ اَوْلِيَاءُ لِلَّهِ ہو.کیا اگر ایک گھر کو آگ لگی ہوئی ہو تو تم اس پر ایک گلاس پانی ڈال دینا کافی سمجھ لیتے ہو؟ اگر نہیں تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تمہاری وہ قربانیاں جو تم اب تک کرتے چلے آئے ہو تمہارے لئے کافی ہیں.اس کے لئے تو تمہیں موت میں سے گزرنا پڑے گا.پس سوچو کہ کیا تم موت لینے کے لئے تیار ہو.میں جانتا ہوں کہ جب بھی میں نے کسی قربانی کا اپنی جماعت سے مطالبہ کیا جماعت کے نوے فیصدی افراد نے اس پر کہا کہ ہاں ہم تیار ہیں.پس میں اس وقت تمہیں الزام نہیں دے رہا بلکہ تمہیں میں یہ کہتا ہوں کہ اس مقصود کو تم ہمیشہ اپنے سامنے رکھو.جب تک تم مِنْ دُونِ النَّاسِ اَوْلِيَاءُ لِلَّهِ ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اُس وقت تک ضروری ہے کہ تم خدا

Page 188

خطبات محمود ۱۸۳ سال ۱۹۳۵ء کیلئے مرنے کے لئے تیار رہو.ہاں جب تم کہہ دو کہ اور قوموں کا بھی نجات پانے کا حق ہے تو بے شک اُس وقت وہ بھی ذمہ دار ہوں گی اور گو پھر بھی اگر کوئی بالکل خاموش بیٹھا رہے اور دین پر مصیبت آتی دیکھ کر اس کے دل میں کوئی احساس پیدا نہ ہو تو وہ جرم سے گلی طور پر بری نہیں ہو گا صرف اس کا جرم کسی قدر کم ہو جائے گا مگر جب تک تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا میں اکیلی خدا کی محبوب جماعت صرف جماعت احمد یہ ہی ہے تو اُس وقت تک اگر تم مرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو تمہارا جرم خطرناک حیثیت اختیار کر لیتا ہے.غرض علاوہ مباہلہ کے جس کا ان آیات میں ذکر ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا ہے کہ اس آیت میں جس موت کا ذکر ہے وہ وہ موت ہے جو دین کی خدمت کے لئے خدا کی ہر قوم کو اپنے نفوس پر وارد کرنی پڑتی ہے.چنانچہ انہی معنوں کی تائید میں میرے دل میں ایک اور آیت سورہ بقرہ کے بتیسویں رکوع میں ڈالی گئی ہے یہاں بھی یہودیوں کا ذکر ہے اور وہاں بھی یہودیوں کا بیان ہے.اللہ تعالیٰ یہود کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ هُمُ الُوقْ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوْتُوا ثُمَّ اَحْيَاهُمُ - إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ کے فرماتا ہے وہ وقت تمہیں معلوم ہے جب کہ ہزار ہا یہود اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے نکلے یا یہود کے چند خاندان موت کے ڈر سے باہر نکلے کیونکہ بعض ادیبوں نے الف کے معنی قبائل اور خاندان کے بھی کئے ہیں.پس فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ہزارہا یہود جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے گھروں سے نکلے انہیں اپنی تباہی و بربادی اپنے سامنے نظر آتی تھی وہ دیکھتے تھے کہ ساری دنیا انہیں کچلنے کے لئے تیار ہے ، در و دیوار انہیں مارنے کیلئے دوڑتے تھے، زمین ان کے لئے تنگ تھی اور آسمان ان پر آگ برسا رہا تھا تب وہ یہود اپنے زمانہ کے نبی کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو ہم اس مخالفت سے مرنے لگے.فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوْتُوا.تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ انہیں کہا کہ اگر دشمن تمہیں مارنے کیلئے آ رہا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم اس کے مارنے سے پہلے خود اپنے آپ کو مار دو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے یہ حکم دیا تو وہ مر گئے.ثُمَّ أَحْيَاهُمْ.اس پر اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو زندہ کر دیا اس جگہ صاف الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ یہود کو جب دشمن تباہ کر نے لگا تو میں نے یہ حکم دیا تھا مُو تُوا.یعنی اگر تم موت سے بچنا چاہتے ہو، اگر تم

Page 189

خطبات محمود ۱۸۴ سال ۱۹۳۵ء دائگی حیات کے وارث بننا چاہتے ہو تو بجائے اس کے کہ دشمن آئے اور تمہارے اموال لوٹے کیوں تم اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں چندوں میں نہیں لٹا دیتے ، بجائے اس کے کہ دشمن آئے اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالے کیوں تم آپ تبلیغ دین کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ملکوں میں نہیں نکل جاتے اور بجائے اس کے کہ دشمن آئے اور تمہیں مارے کیوں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کو خود قربان نہیں کر دیتے.کیا یہ اچھا ہے کہ دشمن مارے یا یہ اچھا ہے کہ تم خود اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کر دو؟ جب دشمن مارے گا تو اس کے بعد زندگی کا سامان تمہارے لئے کوئی نہیں ہو گا لیکن جب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرو گے تو زندہ ہو جاؤ گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس حکم پر وہ مر گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اَحْيَاهُم - اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ جاوید کر دیا.پس فرما یا قومی ترقی کا گر یہ ہے کہ افراد اپنے آپ کو خدا کے لئے ہلاکت میں ڈال دیں تب اس کے نتیجہ میں انہیں دائی حیات ملتی ہے.بندہ موت خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اور خدا زندگی بندے کو عطا فرما تا ہے جس طرح دو دوستوں میں جب تبادلہ اشیاء ہو تو ایک دوست اپنی بہترین چیزیں دوسرے کو دیتا ہے اور دوسرا دوست اپنی بہترین چیزمیں اسے دے دیتا ہے اسی طرح مخلص بندوں کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو دے دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اپنے بندوں کو دے دیتا ہے.بندہ اپنی چیز دیتا ہے اور خدا اپنی چیز ، بندوں کے پاس موت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں پس بندہ موت اپنے خدا کے قدموں میں ڈال دیتا ہے اور خدا جو حیات کا مالک ہے وہ دائی زندگی کی چادر اُس پر ڈال دیتا ہے.پس فرماتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ایک وقت میں ہم نے کہا تھا کہ آج نجات صرف تمہارے لئے ہی مخصوص ہو چکی ہے اور کسی قوم کے لئے نجات نہیں.نجات محصور ہے مصر اور کنعان کے لوگوں میں یا مصری اور یہودی قبائل میں.اور بے شک ہم نے کہا تھا کہ مصریوں اور یہودیوں میں سے کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا سوائے ان لوگوں کے جو حضرت موسیٰ پر ایمان لائے مگر فر ما یا اس کے ساتھ ایک شرط بھی تھی اور وہ یہ کہ ہم نے انہیں کہا تھا مُوتُوا.اگر مر جاؤ گے تو ہم تمہیں دائمی زندگی دیں گے.اُس وقت کے لوگوں نے ہمارے اس حکم کے مطابق اپنے لئے موت قبول کی اور خدا تعالیٰ نے انہیں زندگی دے دی اگر تم سمجھتے ہو کہ اب بھی تم موسیٰ کے اتباع میں شامل ہو تو فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ.موسیٰ کی

Page 190

خطبات محمود ۱۸۵ سال ۱۹۳۵ء جماعت والی قربانیاں پیش کرو.کیا تم اسی طرح اپنی جانیں اور اپنے اموال اور اپنی عزت اور اپنی آبرو اور اپنے جذبات اور اپنے احساسات اور اپنی شہوات کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر رہے ہو جس طرح موسیٰ کے ساتھیوں نے کیا اگر نہیں کر رہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ یہ کہو کہ ہم مِن دُونِ النَّاسِ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ ہیں.دیکھ لو سورہ بقرہ کی آیت میں بھی اس مضمون کے بعد یہ فرمایا ہے کہ وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِیمٌ.یعنی اے مسلمانو! ہم نے موسٹی پر ایمان لانے والوں سے کہا تھا کہ اب تمہارے زندہ رہنے کی یہی صورت ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرو اور اپنی جانیں اس مقابلہ میں قربان کرد و پس تم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو جاؤ.قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ نے تشریح کر دی ہے کہ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ کے کیا معنی ہیں.فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ کے یہی معنی ہیں کہ تم اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کے رستہ میں لٹا دو.پس اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا ہے کہ فَتَمَنَّوا الْمَوْتَ میں مُؤتُوا والی موت کی طرف اشارہ ہے اور گو اس کے وہ بھی معنی ہیں جن سے مباہلہ کا استنباط ہوتا ہے مگر اس کے یہ دوسرے معنی بھی ہیں اور قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ کے الفاظ ان معنوں پر دلالت کرتے ہیں مگر فر ما یاوَ لَا يَتَمَنَّوْنَهُ، اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ یہ کبھی اس موت کو اپنے نفوس پر وارد کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ان کی ساری زندگی جب کہ گناہوں میں گزری تو انہیں اس عظیم الشان نیکی کی تو فیق کس طرح مل سکتی ہے.اخلاص ، اخلاص کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور نیکی ، نیکی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.جن کے دل میں ایمان نہ ہو وہ اگر چہ زبان سے فدائیت کے دعوے کرتے چلے جاتے ہیں مگر وقت آنے پر ان کا قدم پھسل جاتا ہے.منافق آدمی بھی منہ سے بظاہر یہ کہتا ہے کہ دین کے لئے میں اپنی جان فدا کر دوں گا لیکن وقت آنے پر اسے قربانی کی توفیق نہیں ملتی کیونکہ قربانی اس کے دل میں نہیں ہوتی.اگر یہودیوں کے دلوں میں بھی سچا ایمان ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ وہ صحابہ کے مقابلہ پر قربانیاں نہ کرتے محمد ﷺ کے صحابہ نے تو اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیں، اپنے اموال اس کے راستہ میں لٹا دیئے ، اپنی عزتیں اس پر نچھاور کر دیں، اور اپنے وقار کی کوئی پرواہ نہ کی.اگر دشمن آیا تو اس سے کوئی خوف نہ کیا.اس کے مقابلہ میں یہود کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے کیا کیا ؟ اگر کچھ بھی نہیں کیا تو کس طرح تم کہہ سکتے ہو کہ تمہارے اندر دین کی حقیقی روح پائی جاتی ہے.دیکھو یہاں مسلمانوں

Page 191

خطبات محمود ۱۸۶ سال ۱۹۳۵ء اور یہودیوں کی قربانیوں کا مقابلہ کیا گیا اور یہود سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی او لِيَاءُ لِلَّهِ ہو تو تم مسلمانوں سے قربانیوں میں مقابلہ کر لو.اگر مسلمانوں سے تم قربانیوں میں بڑھ جاؤ تو ظاہر ہو جائیگا کہ تم میں دین کا زیادہ جوش ہے اور اگر مسلمان ان قربانیوں میں بڑھ جائیں تو یہ تمہارے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہو گا.یہی آجکل ہم غیر احمدیوں سے کہہ سکتے ہیں.میں کہتا ہوں وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والے ہیں ، وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا درد احمدیوں کے دلوں میں نہیں ، وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی اسلام کے دشمن اور رسول کریم سے عناد رکھنے والے ہیں میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم چھپن ہزار ہیں ، گو نہ یہ صحیح ہے کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ ہیں اور نہ یہ صحیح ہے کہ ہماری تعداد چھپن ہزار ہے مگر ان کے منہ کا دعویٰ چونکہ یہی ہے اس لئے بفرض محال اسے درست تسلیم کرتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اپنے دعویٰ میں نیچے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ بیہودہ طریق پر لڑیں اور گند پھیلائیں ، کیوں قرآن مجید کے اس بیان کردہ معیار کے مطابق آپس میں فیصلہ نہیں کر لیتے.اگر وہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں تو آ ئیں اور غیر قوموں یعنی ہندوؤں اور عیسائیوں وغیرہ کو مسلمان بنانے کے لئے وہ بھی قربانیاں کریں اور ہم بھی قربانیاں کرتے ہیں.وہ بھی آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کو لے کر اشاعتِ اسلام کے لئے جانی اور مالی قربانیاں کر کے دکھلائیں اور ہم بھی اپنے چھپن ہزار افراد کولیکر مالی اور جانی قربانیاں کرتے ہیں.پھر دنیا پر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ کون اسلام کی محبت کے دعوئی میں سچا ہے اور کون کا ذب، کون اپنے منہ کی لاف و گزاف سے دنیا کو قائل کرنا چاہتا ہے اور کون عملی رنگ میں اسلام سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتا ہے.صرف منہ سے اسلام کی محبت کا دعویٰ کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں سو گز واروں گز بھر نہ پھاڑوں.ہم سے جانی اور مالی قربانیوں میں مقابلہ کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون اسلام کا سچا درد اپنے سینہ میں رکھتا ہے.ان میں اسلامی محبت تو صرف اتنی رہ گئی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم نے رسول کریم کے متعلق سخت الفاظ لکھے تو اُٹھے اور اسے قتل کر دیا.بے شک ایسا شخص جو رسول کریم ﷺ کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا اس کے دل میں کسی قدر اسلام سے محبت تو ضرور ہوتی ہے مگر وہ نادان محبت کرنے والا ہوتا ہے.ایسا ہی اسلام کا نادان دوست جب کسی غیر مسلم کو مار دیتا ہے تو یہ

Page 192

خطبات محمود ۱۸۷ سال ۱۹۳۵ء سارے لوگ اس کی تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ قابل تعریف کام ہے کہ کسی غیر مسلم کو اسلام کے نام پر قتل کر دیا جائے تو کیوں ایسے مواقع پر یہ اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے یا خود نہیں جاتے.کیا عبدالقیوم اور محمد صدیق کے ماں باپ نہیں تھے ؟ کیا ان کے رشتہ دار اور عزیز واقارب نہیں تھے ؟ اگر تھے تو پھر زمیندار والے اختر علی خان کو کیوں نہیں بھیجتے کہ وہ جا کر کسی غیر مسلم کو قتل کریں یا دوسرے لوگ جو تعریفیں کرنے والے ہیں وہ اپنے بچوں کو کیوں نہیں بھیج دیتے.اگر ان کی تعریف سچی ہوتی اور اگر وہ دل سے سمجھتے کہ محمد ﷺ کی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ بد زبان غیر مسلم کو قتل کر دیا جائے تو آپ گھروں میں کیوں بیٹھ رہتے ہیں اور کیوں صرف دوسرے کی قربانی پر اظہارِ مسرت کرتے ہیں.اس کا صاف یہ مطلب ہے کہ وہ خود اسلام کے لئے کسی قسم کی قربانی نہیں کرنی چاہتے حالانکہ اس جگہ اللہ تعالیٰ یہ معیار قرار دیتا ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کا دعوی کرتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ ایسی قربانیاں کرے جو دوسروں سے ممتاز حیثیت رکھتی ہوں.پس اگر احرار بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کا درد اپنے سینہ میں ہم سے زیادہ رکھتے ہیں تو آئیں اور ہم سے قربانیوں میں مقابلہ کر لیں.وہ بھی مالی قربانی کریں اور ہم بھی مالی قربانی کرتے ہیں ، وہ بھی جانی قربانی کریں اور ہم بھی جانی قربانیاں کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ کون اس مقابلہ میں فائق رہتا ہے.ہمارے آدمی ہمیشہ اپنے اموال قربان کرتے چلے آئے اور کرتے چلے جائیں گے ، اسی طرح ہمارے آدمی جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں ، وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو چھوڑ کر اعلائے کلمتہ اللہ کیلئے ممالک غیر میں نکل جاتے ہیں.احراری آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن یا درکھیں کہ اگر وہ اس مقابلہ پر آئے تو ہمارا چھپن ہزار بھی اِنشَاءَ الله ان سے ہر قسم کی قربانی میں بڑھ کر رہے گا اور اگر وہ اس مقابلہ میں ہم سے بڑھ جائیں تو پھر ہم جھوٹے ہونگے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے اندر منافق نہیں، قادیان میں بھی بعض منافق ہیں اور باہر کی جماعتوں میں بھی لیکن میں یہ جانتا اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر آج ضرورت پڑے اور میں اپنی جماعت سے یہ مطالبہ کروں کہ صرف جو تیاں پہن لو اور گھر بار چھوڑ کر میرے پیچھے چلے آؤ تو میں یقین رکھتا ہوں کہ جب میں یہاں سے نکلوں گا تو بہت تھوڑے منافق پیچھے رہ جائیں گے، باقی سب میرے ساتھ چل پڑینگے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آج میں یہ اعلان کروں کہ جس قدر تاجر ہیں وہ اپنی تجارتوں کو چھوڑ کر اور اپنی دُکانوں کے دروازے

Page 193

خطبات محمود ۱۸۸ سال ۱۹۳۵ء بند کر کے اسلام کی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر تا جر اس آواز پر لبیک کہے گا.اسی طرح میں اگر زمینداروں سے کہوں تو وہ اپنے ہل چھوڑ کر آنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اگر ملازموں سے کہوں کہ ملازمتیں چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہو تو وہ ملازمتیں چھوڑ کر آنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور بہت کم منافق ایسے رہ جائیں گے جو نہ آئیں.باقی سب تاجر کیا، اور زمیندار کیا ، ملازم کیا، اور غیر ملازم کیا اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے آجائیں گے.یہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے بھی تو ایسا کمال کر کے دکھلائیں.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ محمد ﷺ کے نام پر تو ہم اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رہے ہوں لیکن محبت ان لوگوں کے دلوں میں گھر بیٹھے موجزن ہو اور یہ کسی بھولے بھالے مسلمان نوجوان کے کسی ہند و کوقتل کر دینے پر واہ واہ ! کرنے کے سوا اور کوئی کام کرنا ہی نہ جانتے ہوں.اگر وہ صحیح طریق ہے جو غریب محمد صدیق اور عبد القیوم نے اختیار کیا تو کیوں یہ اپنے بچوں کو اسی طریق پر چلنے کی ہدایت نہیں کرتے.میں تو جس طریق کو ضروری سمجھتا ہوں اس پر چلنے کی اپنے ہر بچے کو تاکید کیا کرتا ہوں.میں نے اپنے ہر بچہ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوا ہے اور اگر میں انہیں تعلیم دلاتا ہوں تو یہ کہ کر تعلیم دلاتا ہوں کہ تم پر یہ قرض ہے اور تمہارا فرض ہو گا کہ تم اپنے علم کو اشاعت اسلام کے لئے صرف کر و.پھر جب بھی کبھی جماعت کے سامنے مالی تحریک ہوتی ہے میں بعض دفعہ قرض لے کر بھی اس تحریک میں حصہ لیتا ہوں تاکسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ قربانی کے لئے ہمیں تو کہا جاتا ہے مگر خود قربانی نہیں کی جاتی.پھر اوقات کی قربانی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میں کسی سے پیچھے نہیں.اگر کوئی دس گھنٹہ کام کرتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ چودہ بلکہ بعض دفعہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہوں پس فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ کے مطابق میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ وہ قربانی کے ارادے جو میرے اندر ہیں ان کے ماتحت قربانیوں کے وقت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے پیچھے نہیں رہتا بلکہ آگے ہی بڑھنے کی کوشش کرتا ہوں.غرض ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں اور فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ کے مطابق ہماری جماعت موت قبول کر رہی ہے اور ہر وقت موت قبول کرنے کے لئے تیار ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ہماری جماعت سے ایسا سخت مطالبہ نہیں ہوا کہ تمام لوگ گھر بار چھوڑ کر تبلیغ اسلام کے لئے نکل کھڑے ہوں اور دیکھنے والوں پر ایک گہرا اثر ہو مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ اب تک ہماری

Page 194

خطبات محمود ۱۸۹ سال ۱۹۳۵ء جماعت سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہوا جسے اس نے پورا نہ کیا ہو بلکہ ہر مطالبہ پر اس نے خوشی کے ساتھ لبیک کہا.پھر خدا تعالیٰ ان کے لئے جو موت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے فرماتا ہے.قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ، مُلقِيكُمْ موتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ موت جو دشمن کے ہاتھوں آتی ہے اور دوسری وہ موت جو خود انسان اپنے نفس پر خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے وارد کرتا ہے.گویا ایک طوعی موت ہوتی ہے اور ایک جبری موت ہوتی ہے.جبری موت تو یہ ہے کہ دشمن مارنے آئے اور انسان اپنی حفاظت کے لئے قلعوں میں چھپے اور اس سے خوف کھائے لیکن طوعی موت وہ ہے جس پر دل راضی ہوتا ہے اور انسان کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتا پس فرمایا ہم نے جو موت پیش کی ہے اسکے بعد تمہارے لئے زندگی مقدر تھی.تمہارے باپ دادوں نے اس راز کو سمجھا اور وہ موت کا پیالہ بخوشی پی گئے تب خدا تعالیٰ نے انہیں دائگی حیات کا وارث کر دیا اگر تمہارا آج بھی یہ دعوئی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہو تو تم کیوں وہ قربانیاں نہیں کرتے جو تمہارے باپ دادوں نے کیں تم شاید یہ مجھتے ہو کہ اگر تم نے یہ قربانیاں کیں تو تم تباہ ہو جاؤ گے حالانکہ تباہی حَذَرَ السَمَوت والی موت کے نتیجہ میں آتی ہے.مُوتُوا والی موت کے نتیجہ میں تو زندگی حاصل ہوتی ہے.تمہارے بڑے جب موت کے ڈر سے بھاگے تھے تو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے یہ کہلوایا تھا کہ مرجاؤ پھر وہ مر گئے اور زندہ ہو گئے مگر اب تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اسی موت سے بھاگے جا رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ زندگی کا موجب نہیں ہو سکتی.قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ، مُلقِيْكُمْ دیکھو! ہم نے تمہارے سامنے زندگی والی موت پیش کی اور تم نے سمجھا کہ جو موت تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے وہ زندگی والی نہیں بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والی ہے تم اس سے بھاگے مگر اے کم بختو ! اب تم کدھر بھاگے جا رہے ہو جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تو زندہ کرنے والی ہے مگر جس موت کی طرف جا رہے ہو وہ تمہیں ہمیشہ کے لئے فنا کر دینے والی ہے یعنی وہ قوم جو دین کے لئے قربانی نہیں کرتی ، جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے فنا کرنے کو تیار نہیں ہوتی وہ مر جاتی اور اس کا نام دنیا سے مٹ جاتا ہے تو الموت میں حَذَرَ الْمَوت کی طرف اشارہ ہے اور تَمَنَّوُا الْمَوْتَ میں اس موت کا ذکر ہے جو هُوتُوا والی ہے.اور اس طرح بتایا ہے کہ تم جس طرف بھاگے جا رہے ہو درحقیقت موت وہ ہے اور جس موت سے ڈر رہے ہو وہ زندگی کا پیالہ ہے جسے تم نہیں پینا چاہتے.بے شک اگر تم

Page 195

خطبات محمود 19 • سال ۱۹۳۵ء زندگی والی موت اپنے نفوس پر وارد کرنے کے لئے تیار نہیں تو نہ کرونگر یا د رکھو ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلى عَالِم الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ایک دن تم اس خدا کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے جو غیبوں کا جاننے والا ہے وہ تمہارے کالے اور سیاہ دل تمہارے سامنے پیش کرے گا اور کہے گا کہ بتاؤ کیا ان دلوں میں حضرت محمد کی محبت تھی یا اس احمدی کے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت تھی جو سفید اور نورانی دل لے کر میرے پاس آیا ہے وہ خدا یہ تمہارے دل تمہارے سامنے پیش کرے گا جو غیب اور ظاہر کا خدا ہے.فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ پھر وہ بتائے گا کہ تم نے میرے پیاروں اور میرے رسول کے پیاروں کو جو دنیا میں میرا نام بلند کر رہے تھے کس قدر دکھ دیا اور یہ کہ کہ کر دُکھ دیا کہ ہم رسول کریم صلى الله سے محبت کرنے والے ہیں حالانکہ تم نے ان لوگوں کے سینوں پر خنجر چلائے اور ان کے دلوں میں چھریاں ماریں جو میرے دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے.(الفضل ۱۹ / مارچ ۱۹۳۵ء) دوسرا خطبہ پڑھنے کے بعد حضور نے فرمایا.میرا دیر سے ارادہ تھا کہ میں جماعت کے لئے ایک اعلان کروں مگر آج ایک الہی بشارت کے ماتحت میں چاہتا ہوں کہ فوری طور پر اس کے متعلق اعلان کر دیا جائے.اس فتنہ کے متعلق جو آجکل ہماری جماعت کے خلاف بر پا ہے.نومبر دسمبر سے میرا ارادہ تھا کہ میں مارچ یا اپریل کے دنوں میں جماعت کے مخلصین سے مطالبہ کروں گا اور آج الہی بشارت کے ماتحت میں اپنی جماعت کے مخلصین سے کہتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے اور اپنی تکالیف کے متعلق اپیل پیش کرنے کے لئے اُس ہفتہ سے جو عید کے بعد شروع ہوگا ہر جمعرات کو روزہ رکھیں.عید ۱۶ / مارچ کو ہوگی اس کے بعد کے ہفتہ سے لے کر سات ہفتوں تک جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ ہر جمعرات کے دن روزہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ ہمیں سچا تقویٰ اور طہارت نصیب کرے اور ان لوگوں کو جو آجکل ہمارے خلاف کھڑے ہیں ہدایت دے یا ان کے ہاتھ بند کر دے.میں تمہیں دعا بھی بتا دیتا ہوں.یہ دعا ان ایام میں خصوصیت سے پڑھو.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ یعنی اے خدا! ہم اپنے دشمنوں کی شرارتوں اور ان کی ایذاء رسانیوں کے بدنتائج سے تیری پناہ چاہتے ہیں تو ہی ہمیں ان کے حملوں سے بچا وَنَجْعَلُكَ فِی نُحُورِهِمُ اور اے خدا ! جب

Page 196

خطبات محمود ۱۹۱ سال ۱۹۳۵ء وہ ہم پر حملہ کریں تو تو ہمارے اور اس حملہ کے درمیان حائل ہو جا اور ہمیں خود اپنی نصرت اور تائید سے اس حملہ سے محفوظ رکھ.یہ دعا دوست اِن ایام میں کثرت سے پڑھیں بلکہ ابھی سے شروع کر دیں میں تو دو تین ہفتہ سے یہ دعا پڑھ رہا ہوں.وہ الہی بشارت جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہ ہے کہ رات کو تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر نازل کیا میں سو رہا تھا کہ یکدم میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا ایک سیکنڈ کے اندر اندر وہ شعر کئی دفعہ میری زبان اور قلب پر جاری ہو ا جو لوگ الہامی دنیا سے واقفیت رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ ایک سیکنڈ میں بعض دفعہ اتنے تواتر سے الہام نازل ہوتا ہے جسے دوسرے وقت بیان کرنے کے لئے کئی منٹ درکار ہوتے ہیں ایک ہی سیکنڈ گزرا ہو گا کہ کئی دفعہ یہ شعر میری زبان پر جاری ہوا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر میرے دل پر جاری کیا اور اتنے زور سے اور اتنی جلدی جلدی میری زبان پر آیا کہ اس کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور جب میں بیدار ہوا تو نیم خواب ہونے کی حالت میں بھی تین چار دفعہ یہ شعر میری زبان پر آیا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا اللہ تعالیٰ کی پیاری نگاہیں ہی ہیں جن کے دیکھ لینے کے بعد دنیا کا کوئی غم انسان کے دل میں باقی نہیں رہتا.اس شعر کا یہ بھی مطلب ہے کہ جسے خدا تعالیٰ پیار کی نگاہوں سے دیکھ لے اغیار کی عداوتوں اور شرارتوں سے اسے کوئی خطرہ نہیں رہتا اور یہ بھی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کامل محبت ہوتی ہے وہ دشمنوں کی شرارتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا غرض اس شعر کے دونوں معنی ہیں یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی پیاری نگا ہیں جب قلوب پر پڑتی ہیں تو جھگڑا دُور ہو جاتا ہے اور دشمنوں کی شرارتیں مٹ جاتی ہیں اور یہ بھی کہ جسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہو جاتی ہے اسے دشمن کی پرواہ ہی نہیں رہتی.پس ان پیاری نگاہوں کو ڈھونڈو اور خدا تعالیٰ کی محبت بھری نظر کو تلاش کرو پھر تمام جھگڑے خود بخود طے ہو جائیں گے.مجھے یقین ہے کہ آخر ایسا ہی ہوگا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس شعر میں بتایا ہے.جس وقت یہ شعر میرے قلب

Page 197

خطبات محمود ۱۹۲ سال ۱۹۳۵ء پر جاری ہوا اُس وقت میں نے اپنے آپ کو اس طرح محسوس کیا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کی بغل میں ہوتا ہے یا ایک عاشق اپنے محبوب کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے.میرے جسم کا ذرہ ذرہ ایک لطف محسوس کر رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ گویا میں خدا تعالیٰ کے سامنے پڑا ہو ا کہہ رہا ہوں کہ :.ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا غرض اب یہ جو ۱۶ تاریخ آنے والی ہے اس کے بعد کے ہفتے سے ہر جمعرات کو سات ہفتوں تک روزہ رکھا جائے اور خصوصیت سے یہ دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے سامان ہمیں عطا فرمائے اور اگر ہماری کمزوریاں اس کے فضلوں کے نازل ہونے میں مانع ہیں تو وہ ملک ہمیں اپنی ملکیت عطا فرمائے ، وہ قدوس ہمیں اپنی قدوسیت عطا فرمائے ، وہ عزیز ہمیں اپنی عزیزیت بخشے اور وہ حکیم ہمیں اپنی حکمت عنایت کرے.بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہم کام اسی کا کر رہے ہیں اور نام بھی اسی کا باقی رہے گا ہم مٹ جائیں گے اس دنیا میں نہ وہ رہیں گے جو آج ہماری مخالفت کر رہے ہیں نہ ہم رہیں گے جو خدا تعالیٰ کا نام پھیلا رہے ہیں مگر ہم بھی اور وہ بھی جو ان میں سے ہمارے ساتھ مل گئے دائمی حیات کے وارث ہوں گے اور مخالف محروم رہیں گے پس ہمارے ہاتھوں جو کام ہو گا وہ اگر چہ خدا تعالیٰ کا ہی ہے مگر ہمیں دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دُور فرمائے.اور دشمن کو جو شرارت کر رہا ہے ہدایت دے ہم اس کے لئے بددعا نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر ہم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ یا تو وہ انہیں ہدایت دے اور جن کے لئے مقدر نہیں ان کے ہاتھوں کو روکے اور ان کی شرارتوں سے اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے.الفضل ۹ ، ۱۰ / مارچ ۱۹۳۵ء) الجمعة: ۷ تا ۹ الجمعة: ۶ البقرة: ۲۷ ۴ متی باب ۱۲ آیت ۳۴ برٹش اینڈ فارن بائیل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء.۵ متی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء.عبرانیوں باب ۱۲ آیت ۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء.ك البقرة : ۲۴۵،۲۴۴ ابوداؤدكتاب الوتر باب ما يقول الرجل اذا خاف قومًا.

Page 198

خطبات محمود ۱۹۳ 11 سال ۱۹۳۵ء اگر دائمی حیات چاہتے ہو تو اشاعت احمدیت کے لئے ممالک غیر میں نکل جاؤ (فرموده ۱۵/ مارچ ۱۹۳۵ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرما ئیں.يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهُوَا إِنْفَضُّوا إِلَيْهَا وَ ترَكُوكَ قَائِمًا- قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُا لرَّازِقِينَ لَ فرما یا:.سارے قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ اس کی کوئی دو آیتیں بھی آپس میں بے جوڑ نہیں بلکہ شروع سے لے کر آخر تک قرآن کریم اسی طرح پر دیا ہوا ہے جس طرح موتیوں کا ہار پر ویا ہوا ہوتا ہے.ہر آیت جو آتی ہے وہ اپنی پہلی آیت سے تعلق رکھتی ہے اور ہر آیت جو گزر جاتی ہے وہ اپنے بعد میں آنے والی آیت سے ربط رکھتی ہے.پھر ہر سورۃ کے بعد دوسری سورۃ ایک خاص غرض اور مقصد کے لئے رکھی ہوئی ہے اور یہ التزام سارے کے سارے قرآن مجید میں پایا جاتا ہے.یہ سورۃ بھی اس التزام سے مستثا نہیں ہو سکتی.اور جو قانون سارے قرآن کریم میں

Page 199

خطبات محمود ۱۹۴ سال ۱۹۳۵ء جاری ہے یقیناً اس سورۃ میں بھی جاری ہونا چاہئے لیکن بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلقِيكُم ! فرمانے کے بعدِینَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ کہا گیا ہے اور بظاہر ان دو آیتوں کا جوڑ آ پس میں ملتا نہیں کیونکہ پہلے تو یہود کا ذکر تھا اور یہود کو ہی چیلنج دیا گیا تھا کہ اگر واقع میں تم اپنی اس تعلیم پر قائم ہو جو تمہیں دی گئی تو اس موت کو قبول کیوں نہیں کرتے جس کے بغیر کوئی قوم خدا تعالیٰ کی مقبول ، پیاری اور اس کی پسندیدہ نہیں ہو سکتی اور کیا وجہ ہے کہ تم اس سے بھاگتے ہو.اس کے معا بعد فرماتا ہے یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ و کوئی نہ کوئی ان آیتوں کا آپس میں تعلق ہونا چاہئے مگر بظاہر وہ تعلق ان میں نہیں پایا جاتا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے چونکہ سارے قرآن مجید میں ربط اور تعلق ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہاں بھی ہو اور یہ یقینی بات ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تعلق ہے جیسا کہ میں ابھی بیان کروں گا.در حقیقت جمعہ کی نماز جو ساتویں دن کی نماز ہے مشابہت رکھتی ہے ایک اور روحانی زمانہ سے جو ساتویں ہزار سال کا ہے یعنی مسیح موعود کا زمانہ.دنیا جمعہ کے دن آ کر خصوصیت کے ساتھ اسلامی احکام کے ماتحت تبلیغ اسلام کرتی ہے یعنی باقی نمازوں میں تو خاموشی سے نماز پڑھ لی جاتی ہے لیکن جمعہ کے دن خطبہ اور وعظ بھی ہوتا ہے پس جمعہ اسلامی عبادتوں میں وعظ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس دن کو دوسرے دنوں پر فضیلت دی ہے کیونکہ دوسرے دنوں میں بندے کھڑے ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں لیکن اس دن نہ صرف عبادت کی جاتی ہے بلکہ بندوں کو وعظ ونصیحت کرنے کے لئے خطاب بھی کیا جاتا ہے.گویا جمعہ نشان ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندوں پر شفقت کرنے کا اور یہی اسلام کا خلاصہ ہے.اسلامی تعلیم کا لب لباب یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا کامل مطیع ہو اور اس کے بندوں پر شفقت کرنے والا ہو.چنانچہ اس دن خطیب وعظ کرتا ہے جو شَفَقَتْ عَلَى لـنَّـــاس کی مثال ہے اور پھر عبادت کی جاتی ہے جو اطاعت الہی کا نام ہے پس جمعہ کا وعظ جامع بے شَفَقَتْ عَلَى النَّاس اور اطاعت الہی کا.غرض تبلیغ اور اشاعت کا زمانہ جو ہے اس کا جمعہ ایک نشان ہے اور مسیح موعود کے زمانے کو بھی تبلیغ واشاعت کا زمانہ کہا گیا ہے.جیسا کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه سے میں بیان کیا گیا ہے.

Page 200

خطبات محمود ۱۹۵ سال ۱۹۳۵ء یہ آیت قرآن کریم میں تین جگہ آتی ہے اور تینوں جگہ مسیح کے ذکر کے ساتھ آتی ہے اور ائمہ اسلام کا اس پر اتفاق چلا آتا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانے کے لئے ہے پس ادھر قرآن مجید سے ثبوت ملتا ہے کہ نشر واشاعت کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور ادھر آئمہ اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ مسیح موعود کا زمانہ نشر واشاعت کا زمانہ ہوگا.پھر الہامی کتب سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کا ظہور ساتویں ہزار سال میں مقدر ہے ادھر جمعہ ایام ہفتہ میں سے ساتواں دن ہے اور جمعہ کے دن نشر و اشاعت کا کام ہی کیا جاتا ہے حتی کہ ظہر کی چار رکعتیں مقرر کی گئی ہیں مگر آج کے دن خدا تعالیٰ نے کہا دو رکعتیں میں اپنے بندوں کی خاطر چھوڑتا ہوں پس خطبہ کیا ہے ؟ یہ تحفہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے پیش کیا.جس طرح گورنمنٹ بعض دفعہ رعایا کا ٹیکس معاف کر دیتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے کہا میں اپنے بندوں کی خاطر دورکعتیں چھوڑتا ہوں وہ ان کی بجائے خطبہ سن لیا کریں تو خطبہ جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ اور ہد یہ ہے جو وعظ ونصیحت کی صورت میں مؤمنوں کو ملتا ہے.پھر جمعہ کا دن ساتواں دن ہونے کے لحاظ سے ساتویں ہزار سال سے مشابہت رکھتا ہے اور نشر واشاعت کے لحاظ سے تبلیغ دین سے مشابہت رکھتا ہے.غرض جمعہ میں وہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامت ہیں.یعنی وہ ساتویں ہزار سال میں مبعوث ہو گا اور یہ کہ وہ اسلام کو ادیان باطلہ پر تبلیغ واشاعت کے ذریعہ غالب کر دے گا پس جمعہ اور مسیح موعود ایک ہی چیز ہیں.اس سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھاوَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الحكيم " یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور قوم میں بھی دوبارہ ظاہر ہوں گے جو ابھی تم سے نہیں ملی بلکہ بعد میں آئے گی اور رسول کریم اللہ نے اس کی یہ تشریح فرمائی تھی کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَّا لَنَا لَهُ رِجَالٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِس یعنی اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا ہوگا تو چند فارسی الاصل لوگ یا ایک جگہ رَجُلٌ آتا ہے یعنی ایک فارسی الاصل مرد پھر ثریا پر گئے ہوئے ایمان کو واپس لائے گا اور اس سورۃ کے شروع میں رسول کریم ﷺ کی دوسری بعثت کا ذکر تھا جو مسیح موعود کی بعثت ہے اور مسیح موعود کی بعثت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كله والی آیت اور ائمہ سلف کے کشوف کی رو سے جمعہ کے دن سے مشابہت رکھتی ہے.اب یہود کو یہ بتانے کے بعد کہ تمہیں باوجود تو رات کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کے نجات کی امید نہیں رکھنی

Page 201

خطبات محمود ۱۹۶ سال ۱۹۳۵ء چاہئے اور باوجود تو رات سے وابستگی کے دعویٰ کے اور باوجود اللہ تعالیٰ کے دوست کہلانے کے تمہارا حق نہیں کہ تم اپنے آپ کو نجات یافتہ کہو کیونکہ تو رات تمہارے دلوں میں نہیں صرف اپنے سروں پر تم اسے اُٹھائے ہوئے ہو.یہ بتایا ہے کہ محبت کی علامت یہ ہوتی ہے کہ سچا محب اپنے محبوب کے نام پر قربان ہو جاتا ہے مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ تم تسلیم کرتے ہو دنیا میں کفر پھیلا ہوا ہے تم تسلیم کرتے ہو کہ اس کے دین کی بے حرمتی کی جارہی ہے مگر خدا جو تمہارا محبوب ہے اس کے لئے تم قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ تم موت سے ڈرتے ہو حالانکہ اگر تم واقع میں خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ، اگر واقع میں اس کے دوست ہوتے ، تو جب تم دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کا نام دنیا سے مٹایا جاتا ، اس کے کھیت کو بر باد کیا جاتا اور اس کے دین کی تباہی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں تو تم اپنی جانوں پر کھیل جاتے مگر جب تم ایسا نہیں کرتے تو صاف ظاہر ہے کہ نہ تم کو خدا تعالیٰ سے محبت ہے اور نہ خدا تعالیٰ کو تم سے.پھر جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی گئی تھی کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين " جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جبکہ مسلمان یہود کے ہمرنگ ہو جائیں گے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی کے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح مسلمان یہود کے مشابہ ہو جائیں گے کے پس جب یہود کو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف یہ فرمایا کہ صرف کتاب تمہارے لئے کافی نہیں ہو سکتی جب تک تم اس پر عمل نہ کرو، ادھر یہ بھی پیشگوئی تھی کہ مسلمان ایک زمانہ میں یہود کے مشابہہ ہو جا ئینگے تو ضروری تھا کہ یہود کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تو جہ دلائی جاتی کہ تم پر بھی چونکہ وہ زمانہ آنے والا ہے جبکہ تم یہود کے مشابہہ ہو جاؤ گے اس لئے ہوشیار ہو جاؤ اور تمثیلی طور پر اس کے لئے جمعہ کے دن کو بیان کیا جو ساتویں ہزار سال یعنی مسیح موعود کے زمانہ سے مشابہت رکھتا ہے.قرآن کریم میں بھی آتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے پس اس لحاظ سے ساتواں دن ساتویں ہزار سال کے قائم مقام ہو ا جو مسیح موعود کی بعثت کا زمانہ ہے غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ.اے مسلمانو! ایک زمانہ تم پر بھی ایسا آنیوالا ہے جبکہ تمہارا امتحان لیا جائیگا اور تم بھی

Page 202

خطبات محمود ۱۹۷ سال ۱۹۳۵ء خدا تعالیٰ کے دین سے غافل ہو جاؤ گے تم میں بھی سستیاں اور کمزوریاں پیدا ہو جائینگی اور یہ دنیا کی پیدائش کے ساتویں ہزار سال میں ہوگا.یاد رکھو تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ جس وقت تم جمعہ کی اذان سنو فوراً اس کی طرف دوڑ پڑو.اسی طرح جب وہ ساتویں ہزار سال کی آواز بلند ہوتو یہ بہانہ نہ بنانے لگ جانا کہ ہم قرآن مانتے ہیں، محمد ﷺ کو رسول تسلیم کرتے ہیں ، حدیثیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس آواز کے سننے کی کیا ضرورت ہے تمہیں قرآن کو مانتے ہوئے جمعہ کی نماز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں ؟ تمہیں حدیث کو مانتے ہوئے جمعہ کی نماز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں ؟ اگر ہوتی ہے تو کس طرح کہہ سکتے ہو کہ قرآن کو مانتے ہوئے تمہیں ساتویں ہزار سال کی خدائی آواز کو سننے اور اسکی طرف دوڑ پڑنے کی ضرورت نہیں.جمعہ میں علاوہ عبادت کے کیا ہوتا ہے اور کس لئے خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ جب جمعہ کے دن اذان کی آواز آئے تو تم فوراً اس کی طرف چل پڑو اس لئے کہ ایک خطیب کھڑا ہو کر وعظ کرتا ہے صرف اس بات پر خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ جاؤ اور اس کی آواز سنو.اگر ایک ملا بھی خطبہ کے لئے کھڑا ہو تو خدا تعالیٰ اُس وقت یہ کہتا ہے اس ملا کا خطبہ ہماری دورکعتوں کا قائم مقام ہے تم جاؤ اور اس کی آواز کو سنوور نہ ہماری بے ادبی ہو جائے گی.آخر محمد ﷺ نے ہی تو ہمیشہ خطبہ نہیں پڑھنا تھا پس یہ حکم آپ کو ہی مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ تمام آنے والے خطیبوں کو مد نظر رکھ کر ہے اسی لئے کہ جہاں جمعہ ہو رہا ہو وہاں حکم ہے فَاسْعَوا إلى ذِكْرِ اللهِ کہ جاؤ اور خطبہ سنو.جمعہ کس چیز کا نام ہے زید ، عمر یا خالد کے خطبہ کا مگر چونکہ وہ دورکعتوں کی قائم مقامی میں رکھا گیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر خطبہ نہیں سنو گے تو وہ دور کعتیں جاتی رہیں گی اور نماز باطل ہو جائے گی.یہی صلى الله وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺے بڑے تعہد سے یہ حکم دیا کرتے تھے کہ جمعہ کے دن جلد سے جلد مسجد میں پہنچا جائے ( میں ضمنی طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ قادیان میں بعض لوگ درمیان خطبہ میں آتے ہیں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ بعض لوگ جب دیر سے آئے تو آپ نے ان سے جواب طلبی کی کہ دیر کرنے کی کیا وجہ ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ الله.جمعہ کے دن جب اذان ہو جائے تو جلدی کرو اور دوڑ پڑو تا خطبہ نہ رہ جائے.بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ جمعہ کیلئے جلدی کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ میں انہیں بتا نا چاہتا ہوں کہ یہ حکم اسی لئے دیا گیا ہے کہ تا خطبہ نہ رہ جائے ہاں جو لوگ اذان سے پہلے مسجد میں آجائیں گے

Page 203

خطبات محمود ۱۹۸ سال ۱۹۳۵ء وہ زیادہ ثواب کے مستحق ہو نگے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جمعہ کی نماز تمہارے سامنے ہے اس کے احکام تمہیں معلوم ہیں، تم جانتے ہو کہ اگر ایک معمولی خطیب بھی کھڑا ہو تو اس وقت تمہیں حکم ہے کہ جاؤ اور اس کی باتوں کو سنو پھر اگر محمد مال اللہ اور قرآن مجید پر ایمان لانا ایک ملا کے خطبہ سے انسان کو مستغنی نہیں کر سکتا بلکہ حکم ہوتا ہے کہ جاؤ اور اُسکی باتیں سنو تو تم کس طرح امید کر سکتے ہو کہ جب ساتھ میں ہزار سال کا خطیب آئے تو تم یہ کہہ کر خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ جاؤ کہ ہم جب قرآن مانتے اور محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں اسکی آواز پر کان دھرنے کی کیا ضرورت ہے.اگر جمعہ کے دن ملانوں کے خطبہ کے متعلق خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ جاؤ اور انہیں سنو تو کیا خدا تعالیٰ کا ماً موراتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا کہ تم اس کی طرف متوجہ ہو اور یہ کہتے رہو کہ جب ہم قرآن کو مانتے ہیں تو کسی اور کی کیا ضرورت ہے.پس اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ امر بیان فرمایا ہے کہ اے قرآن کے ماننے والو! تم جمعہ کا خطبہ کیوں سنتے ہو؟ اس لئے کہ تمہیں خدا کا حکم ہے کہ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ جاؤ اور خطبہ سنو پھر اگر ایک ملا کا خطبہ نہ سننے کی وجہ سے تم گنہگا رسمجھے جاتے ہو تو کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی آواز کو تم نہ سنو اور پھر بھی تم گنہگار نہ سمجھے جاؤ.پس فرمایا فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ.جلدی کرو ذکر اللہ کی طرف اور دوڑو اس کے مامور کی آواز کی طرف.اس جگہ ذکر اللہ کے الفاظ لا کر یہ بیان کر دیا کہ انبیاء پر ایمان لانا در حقیقت خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے.اگر ہم محمد ﷺ کی رسالت کو الگ کر دیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رسالت کو الگ کر دیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کو الگ کر دیں ، حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت کو الگ کر دیں تو یہ کیا ہیں ؟ ہمارے جیسے انسان ہی ہیں.ہم مان سکتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ لائق اور سمجھ دار ہونگے ، ہم مان سکتے ہیں کہ ان میں قابلیت کے ذاتی جو ہر ہم سے زیادہ ہوں گے مگر نبوت و رسالت کو الگ کر کے ان کی ہم پر حکومت نہیں رہ سکتی.جیسے بڑے بڑے ادیب گزرے ہیں مشہور فلسفی اور صوفی ہوئے ہیں اسی طرح ان کی بھی حیثیت ہو گی اس سے زیادہ نہیں.جو چیز انہیں حاکم اور ہمیں ان کا فرمانبردار بنا دیتی ہے وہ نبوت ورسالت ہی ہے.اور نبوت و رسالت کا ماننا در اصل خدا تعالیٰ کو ماننا ہے.حضرت نوح کو مانا انہیں مانتا نہیں بلکہ خدا کو ماننا ہے ، حضرت موسیٰ کو مانا نہیں مانا نہیں بلکہ خدا کو ماننا ہے،حضرت عیسی کو ماننا انہیں مانا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ماننا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا نہیں مانا نہیں

Page 204

خطبات محمود ۱۹۹ سال ۱۹۳۵ء 6 بلکہ خدا تعالیٰ کو مانتا ہے.اس لئے فرماتا ہے فَاسْعَوا إلى ذِكْرِ اللهِ.اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو یہ معنی نہیں کہ بندے کی اطاعت کرو.بندہ آخر کتنے سال جئے گا ؟ دس ، پندرہ ، ہمیں تمہیں سال کے بعد آخر فوت ہو جاتا ہے.ان چند سالوں میں اسکی اطاعت کے لئے کتنا موقع مل سکتا ہے یا فرض کرو ایک شخص کو نبی کی وفات سے صرف دس دن قبل اس کی آواز پہنچتی ہے اور وہ اسے مان لیتا ہے تو وہ ان دس دنوں میں کونسا پہاڑ گرا دیگا آخر ا سے ذکر اللہ کی طرف ہی آنا پڑے گا.رسول کریم ﷺ کے متعلق ہی دیکھ لو آپ کو وفات پائے اب کئی سو برس گزر گئے مگر ہم جو اطاعت کرتے ہیں تو اس سے آپ کو کونسا نفع پہنچاتے ہیں.ساڑھے تیرہ سو برس گزر گئے مگر ہر شخص جانتا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی ذاتی اطاعت نہیں بلکہ خدا تعالٰی کے احکام کی اطاعت کر رہے ہیں اور اسی کی کتاب کے احکام پر عمل کرتے ہیں.محمد ﷺ کو اس سے کیا فائدہ کہ ہم نمازیں پڑھیں ، روزے رکھیں اور زکوۃ دیں یہ تمام باتیں ہمارے فائدے کے لئے ہی ہیں.تو انبیاء کی اطاعت در حقیقت اللہ تعالی کی اطاعت ہوتی ہے اور اس جگہ اللہ تعالی یہی فرماتا ہے کہ یہ سوال فضول ہے کہ ہم فلاں شخص کی بات کیوں مانیں.فَاسْعَوا الی ذکر اللہ تمہیں چاہئے کہ تم ذکر اللہ کی طرف دوڑو.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جاؤ اور مسجد میں پہنچو تو کیا ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جاؤ اور ملا کی خدمت کر دیا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ ملا چونکہ ہماری باتیں سنا رہا ہے اس لئے سنو.اسی طرح جب دنیا میں کوئی مامور آتا ہے اور ہم حکم دیتے ہیں کہ جاؤ اور اُس کی اطاعت کرو تو اس کی اطاعت سے اُس کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی عظمت ہوتی ہے اس لحاظ سے جو کلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ضروری ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں.چاہے وہ محمد ﷺ کے ذریعہ آئے اور چاہے مسیح موعود کی معرفت آئے کیونکہ یہ ان کی اطاعت نہیں ہوگی بلکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا کلام کہیں سے آ جائے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُسے سنیں اور اس پر عمل کریں.اگر ایک دیوار سے بھی خدا تعالی کی آواز آئے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اسے اسی نگاہ سے دیکھیں جس نگاہ سے ایک نبی کی بات کو دیکھا جاتا ہے.وَذَرُوا الْبَيْعَ اور تمام وہ کام چھوڑ دو جن سے دُنیوی نفع کی امید کی جاسکتی ہے.اس میں صرف تجارت یا مزدوری ہی داخل نہیں بلکہ ملازمتیں بھی اس میں شامل ہیں.نوکری میں کیا ہوتا ہے نو کر کہتا ہے تم اتنا روپیہ مجھے دو اور میرا اتنا وقت اور اتنی طاقتیں تم لے لو.یہی مزدوری میں ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ تاجر دوسرے

Page 205

خطبات محمود ۲۰۰ سال ۱۹۳۵ء کو غلہ یا کپڑا دیتا ہے اور یہ اپنے ہاتھ کی طاقت اور دماغ کی محنت اسے دیتا ہے.پس یہ بھی تجارت کرتا ہے مفت تو روٹی کوئی نہیں کھاتا.پس دنیا کے جتنے ایسے کام ہیں جن میں انسان کو نفع حاصل ہوتا ہے وہ بیع ہیں خواہ پیشے ہوں خواہ تجارتیں ہوں ، خواہ زراعتیں ہوں، خواہ مزدوری اور نوکری ہو، اور خواہ بادشاہت ہو.بادشاہ بھی اپنا وقت اور دماغ رعایا کو دیتا اور انہیں فائدہ پہنچاتا ہے پس فرمایا وَذَرُوا الْبَيْعَ تمام وہ کام جن میں دُنیوی نفع ہو تم انہیں چھوڑ دو اور جاؤ اور اس کی بات سنو ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.اگر تمہیں علم ہو تو تم سمجھو کہ یہ بات تمہارے لئے بہت زیادہ بہتر اور نتائج کے لحاظ سے بابرکت ہے اگر حماقت سے تم کہے جاؤ کہ کیوں ہم کسی شخص کی بات کو مانیں تو یہ اور بات ہے لیکن اگر علم کے ماتحت غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ خدا تعالی کی آواز کا کسی زبان پر جاری ہونا کوئی معمولی بات نہیں اور نہ اس میں کسی چھوٹے بڑے کا کوئی سوال ہے بلکہ جس شخص کی زبان پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہوضروری ہے کہ اس کی اطاعت.کی جائے.یہ تو تمہید تھی اس کے بعد اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ، مُلقِيْكُمْ کے ساتھ جوڑ ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا الله كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ایک چھوٹی موت تو وہ تھی جو ظا ہری جمعہ میں شامل ہونے پر ہر انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہے یعنی وَذَرُوا الْبَيْعَ کے حکم کے مطابق اسے اپنی تجارتیں اور خرید وفروخت کے سامان تھوڑی دیر کے لئے چھوڑنے پڑتے اور نماز میں شامل ہونا پڑتا ہے مگر وہ نہایت ہی حقیر موت ہے اور اس سے بڑی موت یہ ہے کہ مسیح موعود کو قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے کے لئے ہر انسان قربانی کرے کیونکہ جب مسیح موعود پر ایمان لایا جائے گا اس کا لازماً یہ نتیجہ نکلے گا کہ بعض دفعہ بیٹے کو باپ چھوڑنا پڑے گا اور باپ کو بیٹا ، خاوند بیوی سے الگ ہو جائے گا اور بیوی خاوند سے علیحدہ ، لوگ بُرا بھلا کہیں گے ظلم وستم کریں گے اور ماریں پیٹیں گے اور مجبور کریں گے کہ مسیح موعود سے علیحدہ ہو جائیں لیکن اگر یہ موت بھی جو پہلی موت سے بڑی ہے انسان کے راستہ میں روک نہ ہو تو اس کے بعد ایک اور موت ان کے سامنے رکھی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ جمعہ کی نماز کے بعد تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت ہے کہ

Page 206

خطبات محمود ۲۰۱ سال ۱۹۳۵ء لوگ منتشر ہو جائیں مگر ساتویں ہزار سال میں جب مسیح موعود کی بعثت ہو گی تو اس کے بعد اجازت نہیں بلکہ حکم ہوگا کہ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ جاؤ اور دنیا میں تبلیغ کے لئے پھیل جاؤ.دیکھو میں نے سورہ بقرہ کی ایک آیت پیش کر کے بتایا تھا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ هُمُ الُوْق حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوْتُوْا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ - إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عليم ا وہاں موت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ ہم نے یہود کو کہا مر جاؤ چنانچہ وہ مر گئے اور ہم نے انہیں زندہ کر دیا اسی طرح فرمایا اگر تم بھی زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنی جانوں کو جہاد میں لگا ؤ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مرجاؤ یہ قَاتِلُوا کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کے لئے تھا اوراِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ میں مسیح موعود کے زمانہ کی موت کی طرف اشارہ ہے اور یہاں چونکہ تلوار سے جہاد کرنے کا موقع نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا گیا کہ جاؤ اور تلوار سے جہاد کرو بلکہ فرمایا فَانتَشِرُوا فِي الارْضِ اپنے وطنوں کی قربانی کرو اور انہیں چھوڑ کر ممالک غیر میں نکل جاؤ ، مالوں کی قربانی کرو، چندے دو اور اشاعت اسلام کرو.آج تلوار کے جہاد کے ذریعہ ہم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ آج قربانی چاہئے اپنے وقت کی ، قربانی چاہئے اپنے مال کی ، قربانی چاہئے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے جدائی کی ، اور قربانی چاہئے نفس کے اندرونی جذبات و شہوات کی.یہ قربانیاں وہ ہیں جو محمد ﷺ کے صحابہ سے بھی طلب کی گئیں.لیکن ان میں سے بعض پر اُس وقت زور تھا اور بعض پر آج زور ہے مثلاً رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تبلیغ کے لئے اس طرح قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا جس طرح اس زمانہ میں کیا گیا.اُس زمانہ میں چونکہ اسلام کو تلوار کے زور سے مٹایا جاتا تھا اس لئے حکم تھا کہ جاؤ اور اپنی جانوں کو اسلام کے لئے قربان کر دو اسی لئے پہلے زمانہ کے مسلمان جہاں مخاطب کئے گئے تھے وہاں قَاتِلُوا کا حکم دیا گیا تھا مگر یہاں چونکہ آخری زمانہ کے مسلمان مخاطب تھے اس لئے انہیں یہ کہا گیا ہے کہ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ فرمایا وہ مسلمان جو یہود کے ہم رنگ ہیں وہ تو اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے مگر جب تم کہو گے کہ ہم اس موت کے لئے تیار ہیں تو ہم تمہارے سامنے ایک مطالبہ پیش کریں گے اور وہ یہ کہ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ جب تم خدا کے مسیح کی باتیں سن لو، اس کے مسائل کو سیکھ

Page 207

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء جاؤ اس کی تعلیم پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ اور اس کے ان مسائل سے آشنا ہو جاؤ جن کو وہ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے تو پھر تمہارا یہ کام ہے کہ تم اپنے وطن چھوڑ دو اور دوسرے ملکوں میں زمین کے کناروں تک اس کی تبلیغ کے لئے نکل جاؤ.یہ موت ہے جو اس زمانہ کے احیاء کے لئے خدا تعالیٰ نے مقرر کی ہے.یہ جوڑ ہے اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ ہے.ورنہ بھلا یہود کے ذکر ، تو رات کے نزول اور جمعہ کے بیان کا آپس میں تعلق ہی کیا ہو سکتا ہے.بعض مفسرین نے يَوْمُ الْجُمُعَة سے سبت کا ذکر مرا دلیا ہے.بے شک یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے لیکن چونکہ سبت ایک محمد ودسوال ہے ضروری ہے کہ اس کے سوا کوئی زیادہ وسیع معنی بھی اس کے ہوں.پھر اس زمانہ کے یہود نے تو سبت کو چھوڑا بھی نہیں بلکہ آج کل تو وہ اسے بہت زیادہ منانے لگ گئے ہیں دراصل پہلے چونکہ موت کا ذکر تھا اس لئے بعد میں آکر بتایا کہ تم بھی اس زمانہ میں یہود کے مثیل ہو جاؤ گے اور یہ واقعہ ساتویں ہزار سال میں ہوگا اس وقت تم اگر دوبارہ زندگی چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ پہلے مسیح موعود کی آواز سن کر اس کے پیچھے چلو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو پھر دنیا میں اس کی تعلیم پھیلانے کے لئے نکل جا وَوَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں تمہاری تمام تکالیف، ذلت اور رسوائیاں دور ہو جائیں.یہی وہ چیز ہے جسے میں نے اپنی نئی تحریک میں پیش کیا ہے اور جسے بار بار میں جماعت کے سامنے لا رہا ہوں.ہمارے ہندوستان کے لوگوں میں یہ مرض ہے کہ وہ ایک جگہ سمٹ کر بیٹھنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ موجودہ زمانہ میں ہم سے یہ چاہتا ہے کہ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ ہم باہر جائیں اور زمین میں پھیل کر تبلیغ احمدیت کریں اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں موت نظر آتی ہے اور اسی لئے موت کو ہلکا کرنے کے لئے ہم نے کہا کہ ہم غیر ممالک میں جانے والوں میں سے بعض کو کرایہ دے دیں گے یا چھ چھ ماہ وہاں رہنے کا خرچ دے دیں گے یہ تمام باتیں موت کو ہلکا کرنے والی ہیں کیونکہ جسے امید ہو کہ اُسے باہر جانے کے لئے کرا یہ مل جائے گا اور امید ہو کہ وہاں کچھ عرصہ رہنے کے لئے خرچ بھی مل جائے گاوہ کسی قدر اپنی موت سے بے فکر ہو جاتا ہے لیکن اصل قربانی انہی لوگوں کی ہے جو موت کے منہ میں اپنے آپ کو ڈال دیتے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب کئی فقیر دنیا میں بھیک مانگتے ہیں تو ہم بھی بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرلیں گے یا مزدور مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں تو ہم بھی مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال لیں گے پھر اگر مرنا ہے تو یہاں بھی مرنا ہے اور

Page 208

خطبات محمود ۲۰۳ سال ۱۹۳۵ء وہاں بھی پھر کیوں ایسی جگہ نہ مریں جہاں مرکر خدا کی رضا حاصل ہو.بے شک کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو غیر ممالک میں جاتے ہیں تو اپنے علمی زور سے رزق کما لیتے ہیں مگر جب تک ہماری جماعت پر یہ زمانہ نہیں آتا کہ ہم اپنے علمی لوگ فارغ کر کے غیر ممالک میں بھیج سکیں اُس وقت تک جماعتی طور پر ضرورت ہے کہ ہم باہر جائیں اور غیر ممالک کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کریں.یا د رکھو خدا تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ہم زمین میں پھیلیں اور احمدیت کی تبلیغ کریں میں نے اس تحریک کے ذریعہ اس کی ابتدا کر دی ہے اسی طرح جس طرح باغ لگانے والا پنیری تیار کرتا ہے اور یہ ارادہ کیا ہے کہ سر دست چند آدمی ایسے تیار کریں جو مختلف ممالک میں جائیں اور احمدیت کا بیج بوئیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اکثر لوگ باہر جائیں اور مختلف ممالک میں پیغامِ احمدیت پہنچانے لگ جائیں.دراصل ہمارے لئے اس بات کا جاننا اور سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کس ملک کو اللہ تعالیٰ نے اشاعتِ احمدیت کا مرکز قرار دیا ہے.قادیان کا مرکز بنایا جانا محض اس بات کی دلیل ہے کہ قادیان قابلیت رکھتا ہے لیڈری کی اور قادیان قابلیت رکھتا ہے پنیری کی تیاری کی مگر یہ ضروری تو نہیں کہ یہ باغ کے بڑھنے کے لئے بھی اچھی جگہ ہو.جو قابل لیڈر ہوضروری نہیں ہوتا کہ وہ اچھا سپاہی بھی ہو بعض جرنیل بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن اگر انہیں سپاہی بنا دیا جائے تو ناقص ثابت ہوتے ہیں اسی طرح بعض قابل سپاہی ہوتے ہیں لیکن انہیں جرنیل بنادیا جائے تو ناقص ثابت ہوتے ہیں.پس قادیان کو مرکز بنا دینے کے یہ معنی نہیں کہ یہاں جماعت بھی زیادہ پھیلے گی پچاس سال کے قریب سلسلہ احمدیہ پر گزر گئے مگر ابھی تک یہاں غیر احمدی موجود ہیں اور ان میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہما را شدید دشمن ہے اور نہ اس نے احمدیت قبول کی ہے اور نہ وہ احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہے.پھر وہ اتنا گند اُچھالنے والا اور اتنا جھوٹ بولنے والا طبقہ ہے جو بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی وہ اسے ہماری طرف منسوب کر دیتا ہے مکہ میں بھی دیکھ لو یہی حالت تھی.چنانچہ مکہ میں اس سرعت سے اسلام نہیں پھیلا جس سُرعت سے مدینہ میں پھیلا.رسول کریم ﷺ کی تیرہ سالہ تبلیغی مساعی کا یہ نتیجہ تھا کہ اتنی یا بعض روایات کی رو سے تین سو افراد آپ پر ایمان لائے مگر مدینہ میں دو سال کے اندر سارے مدینہ نے اسلام قبول کر لیا تو بعض مقام لیڈری کے لحاظ سے مرکز ہوتے ہیں اور بعض اشاعت کے لحاظ سے مرکز ہوتے ہیں اسی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے

Page 209

خطبات محمود ۲۰۴ سال ۱۹۳۵ء رسول کریم ﷺ کی وفات پر انصار نے یہ کہا تھا کہ جب قبول اسلام میں ہم زیادہ ہیں تو خلافت کے اہل بھی ہم ہی ہیں حالانکہ مکہ لیڈری کے لحاظ سے مرکز تھا اور مدینہ اشاعت کے لحاظ سے اسلامی مرکز تھا اور اشاعت میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے کوئی قوم لیڈری کے قابل نہیں بن سکتی.پس قادیان میں یا ہندوستان میں مسیح موعود کے نزول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہندوستان اشاعتِ احمدیت کے قابل ہے بلکہ ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے صرف یہ معنی ہیں کہ یہ ملک لیڈری کا اہل ہے اور اسی لئے مسیح موعود یہاں مبعوث ہو الیکن ہمیں ابھی ایک مرکز اشاعت کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زمانہ میں احمدیت کے لئے ایک مدینہ کے مثیل کی تلاش کریں ایسا ملک ہمیں میسر آئے جو احمدیت کے لئے اپنے ہاتھ کھول دے اور خدا تعالیٰ کے دین کیلئے اس کے دل کی کھڑکیاں کھلی ہوں اور وہ اس نور کے حاصل کرنے کیلئے بیتاب ہو جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ظلمت کے دور کرنے کیلئے نازل فرمایا ہے اور یہ نوجوانوں کا کام ہے کہ وہ نکلیں اور تلاش کریں کہ کون سا ملک ہمارے لئے مدینہ کا مثیل ثابت ہوتا ہے.یہی وہ امر ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ.وَابْتَغُوا مِنْ فَضْل الله اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو یہاں بتا یا نہیں کہ کون سا ملک ایسا ہے جو احمدیت کو زیادہ قبول کرے گا بلکہ اسے تلاش کرنا اللہ تعالیٰ نے ہم پر چھوڑ دیا ہے.رسول کریم اللہ کے زمانہ میں تو الہا ماً خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ مدینہ اشاعت اسلام کے لئے اچھا مقام ہے لیکن یہاں چونکہ نشر و اشاعت کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ مقدر ہو چکا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلائے اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بتا دیتا کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے فلاں ملک موزوں ہے تو ہم سارے وہاں جا کر اکٹھے ہو جاتے اور باقی ممالک میں احمدیت پھیلانے سے غافل ہو جاتے اس لئے آج خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہم جائیں اور دنیا میں گھوم کر وہ ملک تلاش کریں جو احمدیت کے لئے مثیل مدینہ کا کام دے.اس مقصد کے ماتحت جب ہم دنیا کے تمام ممالک میں پھریں گے تو ہر ملک میں احمدیت کا بیج ہوتے جائیں گے اس طرح خدا تعالیٰ کا یہ منشاء بھی پورا ہو جائے گا کہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلے اور آخر ہمیں وہ مقام بھی نظر آ جائے گا جسے ہم تلاش کرنے کے لئے نکلے ہوں گے.ہم جاپان

Page 210

خطبات محمود ۲۰۵ سال ۱۹۳۵ء جائیں گے اور وہاں کے لوگوں کو احمدیت کا پیغام دیں گے کچھ لوگ مان لیں گے اور کچھ انکار کریں گے پھر ہم چین جائیں گے اور انہیں احمدیت کا پیغام دیں گے ان میں سے بھی کچھ لوگ مان لیں گے اور کچھ انکار کریں گے، اور پھر چین ایک ملک کا نام نہیں اس کے دس بارہ حصے ہیں ہر حصہ کی علیحدہ علیحدہ زبان ہے ، نہ معلوم کس حصہ ملک کے لوگ احمدیت زیادہ قبول کریں اور کس حصہ کے لوگ احمدیت کو کم قبول کریں.اسی طرح ہم روس جائیں گے، افغانستان جائیں گے ، ایران جائیں گے، عرب جائیں گے، جزائر فلپائن جائیں گے، سماٹرا، جاوا ، نیپال، یونان اور امریکہ جائیں گے اور انہیں احمدیت کا پیغام دیں گے پھر یورپ کی بیں چھپیس ریاستیں ہیں ان میں سے ہر ریاست میں احمدیت کی تبلیغ کے لئے پھریں گے.اس تمام کوشش کے نتیجہ میں نہ معلوم کہاں صرف احمدیت کا چھینٹا پڑے گا اور کہاں موسلا دھار بارش برسنے لگ جائے گی پس چونکہ آج تبلیغ کا زمانہ ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اُس ملک کا نام نہیں بتایا جو احمدیت کی اشاعت کے لئے موزوں ہے بلکہ وَابْتَغُوا مِنُ فضل اللہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی تلاش کرنا ہمارا فرض قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جاؤ اور اس مرکز کی تلاش کرو کہیں نہ کہیں دنیا میں تمہیں ضرور مل جائے گا اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب تم دنیا کے تمام ممالک میں پھرو گے تو کوئی نہ کوئی ملک تمہیں ایسا مل جائے گا جو احمدیت کی طرف اسی طرح دوڑے گا جس طرح ایک پیاسا پانی کی طرف دوڑتا ہے ہے پس جب تک ہم ساری دنیا میں نہ پھیل جائیں اُس وقت تک ایسا مرکز ہمیں حاصل نہیں ہو سکتا ممکن ہے خدا تعالیٰ کی حکمت سب سے آخر اس ملک کو ہمارے سامنے لائے کیونکہ اگر پہلے یا درمیان میں وہ ملک ہمیں مل جائے تو ہم باقی ممالک میں احمدیت پھیلانے سے غافل ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تبلیغی ملک ہمیں پہلے ہی مل جائے مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت تک وہاں کے لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے سے اپنی مشیت کے ماتحت رو کے رکھے جب تک کہ ہم سارے ملکوں میں نہیں پھر لیتے تا کہ ہم غافل نہ ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جب ہم تلاش کے لئے نکلیں گے تو ایسا ملک ہمیں جلد یا بہ دریل کر رہے گا.وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ پھر دوسری بات یہ بتائی کہ جب باہر کے ملکوں میں جاؤ تو کثرت سے تبلیغ کرو پہلے بھی تبلیغ کا نام ذکر اللہ رکھا تھا جیسے فرمایا تھا فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ اور یہاں بھی یہ بتایا ہے کہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ جاؤ اور خوب تبلیغیں کرو.یہ بھی

Page 211

خطبات محمود ۲۰۶ سال ۱۹۳۵ء مطلب ہے کہ مختلف ملکوں میں جا کر تبلیغ کرو اور یہ بھی مطلب ہے کہ تبلیغ میں تنوع پیدا کر و.چھوٹے چھوٹے اشتہارات شائع کئے جائیں اور تبلیغ کی جائے ، بڑے بڑے پوسٹر شائع کئے جائیں اور تبلیغ کی جائے ،معمولی ٹریکٹ لکھے جائیں اور تبلیغ کی جائے ، بڑی بڑی کتابیں لکھی جائیں اور تبلیغ کی جائے ، پھر ایک ایک مضمون پر علیحدہ علیحدہ ٹریکٹ لکھے جائیں اور مختلف مضامین پر جامع کتابیں لکھی جائیں ، اسی طرح چھوٹے چھوٹے قطعات لکھے جائیں اور تبلیغ کی جائے ، پھر بڑی بڑی نظمیں لکھی جائیں اور تبلیغ کی جائے ، غرض گیسو کے یہ بھی معنی ہیں کہ کثرت سے تبلیغ کرو اور یہ معنی بھی ہیں کہ کثرت سے تبلیغ کے لئے ہر قسم کا مصالحہ بہم پہنچا وَلَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تا کہ تم دنیا میں کامیاب ہو جاؤ.یہ دو چیز میں اگر جماعت قبول کرے یعنی موت قبول کرے اور باہر کے ملکوں میں نکل جائے اور وہاں کثرت سے اور مختلف طریقوں سے کام لے کر تبلیغ کرے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تم پر اپنا فضل نازل کرنا شروع کر دیں گے کسی شاعر نے کہا ہے بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا ہمارا بھی ایک ہی نگاہ پر فیصلہ ٹھہرا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم موت کے بعد ترقی کر سکتے ہو وہاں موت یہ تھی کہ تلوار کا جہاد کرو اور اپنی جانیں دے دو یہاں یہ موت ہے کہ اموال خرچ کرو اور جاؤ اور ہر ملک میں تبلیغ کرو جس دن تم فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ پر عمل کرو گے اور ذکر کثیر کرو گے، اُسی دن تم کا میاب ہو جاؤ گے.خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ایک وقت تک ترقی کو اپنے اختیار میں رکھتا ہے اور پھر ا سے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے.جب تک قرآن مجید مکمل نازل نہیں ہو اتھا اُس وقت تک ہدایت اُس نے اپنے اختیار میں رکھی تھی مگر جب قرآن مجید مکمل نازل ہو گیا تو یہ بندوں کی مرضی پر منحصر ہو گیا کہ اگر وہ چاہیں تو ہدایت قبول کریں اور چاہیں تو نہ کریں.اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے معارف کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کر دیا، نشانات ظاہر کئے اور بینات سے سلسلہ احمدیہ کی صداقت روشن کر دی، پھر ہمارے ہاتھ میں دلائل کی تلوار بھی دے دی کہ ہم اسے استعمال کریں اب اگر ہم احمدیت کی اشاعت نہیں کرتے تو یہ ہمارا قصور ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے دین کی اشاعت کے لئے جن دلائل و بینات کی ضرورت تھی وہ ہمیں دے دیئے اور اپنا کام ختم کر دیا.اب یہ ہمارا کام ہے کہ باہر کے ملکوں میں نکلیں اور احمدیت کو پھیلائیں اور یقیناً

Page 212

خطبات محمود ۲۰۷ سال ۱۹۳۵ء جس دن ہم ساری دنیا میں پھیل جائیں گے ، جس دن کوئی ملک ایسا نہیں رہے گا جس میں احمدیت کا بیج ہم نے نہ بویا ہو تو اُس دن اس ملک کی کنجیاں بھی خدا تعالیٰ ہمارے ہاتھ میں دے دے گا جو ہمارے لئے مثیلِ مدینہ ہو گا اور ہمیں وہ قومیں مل جائیں گی جو جماعت در جماعت اور گروہ در گروہ احمدیت میں داخل ہونی شروع ہو جائیں گی.اس کے بعد فرماتا ہے وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهَوَا أَنْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا بعض لوگ غلطی سے بعض حدیثوں کی بناء پر یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خطبہ پڑھا رہے تھے کہ بازار میں بعض تاجر غلہ وغیرہ لے کر آئے صحابہ کو معلوم ہوا تو وہ رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر چلے گئے اور غلہ خرید نے لگ گئے.یہ حدیث ایسی عجیب قسم کی ہے کہ جن الفاظ میں بیان کی جاتی ہے ان میں میں اسے صحیح ماننے کے لئے تیار نہیں.ممکن ہے چند کمزور ایمان کے لوگ کسی وقت اُٹھ کر چلے گئے ہوں مگر یہ مانا کہ آپ خطبہ کر رہے ہوں اور آپ کو چھوڑ کر ا کثر صحابہ بھاگ گئے ہوں اس نظارہ کا خیال بھی میرے دل پر لرزہ طاری کر دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس شکل میں اس روایت کو کوئی مسلمان ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.مدینہ تو سارے مسلمانوں کا ہی شہر تھا وہاں منڈی میں غلہ کس نے خریدنا تھا کہ تمام مسلمان خطبہ میں سے اُٹھ آئے.جب تمام مسلمان اُس وقت مسجد میں موجود تھے اور رسول کریم ﷺ کا خطبہ سن رہے تھے تو غلہ کس نے خریدنا تھا ؟ کیا دیواروں اور دروازوں نے ، اسی جگہ مثلاً قادیان کے بازار میں اگر تجارت کا مال لایا جائے تو جو خریدنے والے ہوں گے وہ تو یہاں بیٹھے ہوں گے انہیں دوڑ کر جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہاں ممکن ہے مسلمان تاجروں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہند و تا جرخریدلیں گے اسی طرح وہاں بھی چند مسلمان تاجروں کے دل میں یہ خیال ہو سکتا تھا کہ یہودی تاجر مال تجارت کہیں خرید نہ لیں مگر اس صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ دس ہیں تاجر مسجد سے جاسکتے تھے مگر اکثر صحابہ کیوں بھاگے ؟ سب کے سب صحابہ تو اس قسم کی تجارت نہیں کیا کرتے تھے پس یہ بالکل خلاف عقل بات ہے کہ تسلیم کیا جائے رسول کریم کھڑے خطبہ پڑھا رہے ہوں اور اکثر مسلمان بھاگ گئے ہوں ممکن ہے دو تین آدمی اُٹھ کر چلے گئے ہوں اور کسی نے دوسرے کے پاس یہ بات بیان کی ہو تو سننے والے نے یہ سمجھا ہو کہ اکثر ہی چلے آئے تھے اور رسول کریم ﷺ کی ذات اکیلی رہ گئی تھی.بہر حال صحابہ کے متعلق اس قسم کا خیال درست

Page 213

خطبات محمود ۲۰۸ سال ۱۹۳۵ء نہیں کیونکہ وہ تو اس پایہ کے انسان تھے کہ اگر انہیں کہا جائے بیٹھ جاؤ تو ان میں سے سنے والا گلی میں ہی بیٹھ جاتا.پھر صحابہ وہ قربانی کرنے والے انسان تھے کہ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں مجھے رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کا اس قدر شوق تھا کہ میں گھر نہ جاتا اور مسجد میں ہی بیٹھا رہتا یہاں تک کہ سات سات دن کے فاقے ہو جاتے.میں خیال کرتا کہ اگر میں روٹی کھانے گیا تو ممکن ہے میرے صلى الله.بعد رسول کریم ﷺ مسجد میں آکر کوئی بات کریں اور میں وہ سننے سے محروم رہ جاؤں.پس ۱۳ صحابہ تو ایسی قربانی کرنے والے انسان تھے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کے اشتیاق میں سات سات دن کا فاقہ برداشت کر لیتے پھر ان کے متعلق کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ رسول کریم تو منبر پر کھڑے وعظ فرما رہے ہوں اور وہ بھاگ کر بازار میں مال خرید نے چلے گئے ہوں.پس اس جگہ یہ مراد نہیں جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے بلکہ تَرَكُوک میں ک سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی وجود ہے اور یہ آئندہ زمانہ کے متعلق پیشگوئی ہے کہ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهُوَا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا غرض ان الفاظ میں پیشگوئی مخفی ہے کہ اے محمد! یہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تیری قوم بگڑتے بگڑتے ایسی حالت تک پہنچ جائے گی کہ کچھ حصہ اس کا دنیا کی تجارت کی طرف جھک جائے گا یعنی وہ اپنا مقصدِ حیات صرف دنیا کمانا قرار دے لے گا اور کچھ حصہ ایسا ہو گا جو لہو یعنی ستی اور غفلت میں مبتلاء ہو جائے گا.گویا ایک حصہ عمل بد کی وجہ سے تجھے چھوڑ بیٹھے گا اور ایک حصہ غفلت ، ستی اور بے عملی کی وجہ سے تجھے چھوڑ دے گا کیونکہ دین کے مقابلہ میں تجارت کا لفظ بد عملی پر دلالت کرتا ہے اور لھو کا لفظ بے عملی پر دلالت کرتا ہے.لھو تو یہ ہے کہ سیر تماشا اور ہنسی مذاق کی باتوں میں اپنا وقت کھویا جائے اور تجارۃ کے معنی بد عمل کے ہیں یعنی دین کی بجائے دنیا کے کاموں میں اپنا وقت گزارا جائے پس فرمایا اے محمد! یہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تیری اُمت بگڑتے بگڑتے بد عملی اور بے عملی کی وجہ سے تجھے چھوڑ بیٹھے گی.انفض کے معنی انگسر کے بھی ہیں یعنی وہ تجھ سے قطع تعلق کرلے گی.وَتَرَكُوكَ قَائِمًا اور تو اکیلا رہ جائے گا کوئی دین کو پوچھنے والا نہ رہے گا.یہ وہی امر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شعر میں بیان فرمایا ہے کہ ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید

Page 214

خطبات محمود ۲۰۹ سال ۱۹۳۵ء دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدیں یعنی گھر کی طاقتیں یزید کی فوج کی طرح احاطہ کئے ہوئے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین زین العابدین کی طرح اکیلا ہے جسے کوئی پوچھنے والا نہیں پس اسے محمد ﷺ دین اسلام پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب کہ تو اکیلا رہ جائے گا اور لوگ یا تو دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے یا نکھے ہو کر عیا شیوں میں مبتلاء ہو جائیں گے دین کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں رہے گی.موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر یہ علامت بالکل چسپاں ہو رہی ہے.ان میں امراء ہیں ، روپیہ ہے ، دولت ہے ، وقت ہے لیکن وہ اپنی ساری طاقتیں دنیا کمانے پر صرف کر رہے ہیں اور ایک حصہ ایسا بھی ہے جو بے عمل ہے اور غفلت اور سستی سے اپنی طاقتوں کو تباہ کر رہا ہے.یہی اس آیت میں بتایا گیا تھا کہ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا کہ جب وہ تجارت اور لھو دیکھیں گے اس کی طرف جھک جائیں گے اور تجھے اکیلا چھوڑ دیں گے لھو کا لفظ بھی اس جگہ تجارت کے ساتھ بڑھانا بتاتا ہے کہ اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں جو بیان کی جاتی ہے کیونکہ حدیثوں میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ وہاں کوئی تماشا بھی آیا ہوا تھا جسے دیکھنے کے لئے صحابہ چلے گئے.اگر حدیث کے بیان کردہ واقعہ میں اسی آیت کا ذکر ہوتا تو چاہئے تھا کہ وہاں یہ بھی ذکر ہوتا کہ وہاں تجارت کے ساتھ لھو کا بھی کوئی سامان تھا لیکن حدیثوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں بلکہ اس کو حل کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگ دحیہ کلبی کو دیکھنے چلے گئے تھے یا یہ کہ قافلہ کے ساتھ کی دفوں کو سننے ، حالانکہ دفیں تو مدینہ کے گھر گھر میں ہوتی تھیں وہ کون سا تما شا تھا ؟ وہ تو اس زمانے کے جنگی طبل کا قائمقام تھا.پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت پر زبر دستی واقعہ کو چسپاں کرنے کے لئے بات بنائی گئی ہے پس صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی آئندہ زندگی کے متعلق پیشگوئی تھی یعنی یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان سکتے ہو جائیں گے ان کا ایک حصہ کام نہیں کرے گا اور جو حصہ کام کرنے والا ہو گا وہ دین کو چھوڑ کر دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جائے گا ایسی حالت میں تو اکیلا رہ جائے گا اور کوئی اسلام کا غمگسار نہ ہوگا.قُل مَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ یہ خطاب محمد اے کے بروز مسیح موعود سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے بروز محمد! یہ تو لوگوں سے کہ مَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ دین کو دنیا پر مقدم کرو.یہ بالکل اس آیت کا

Page 215

خطبات محمود ۲۱۰ سال ۱۹۳۵ء ترجمہ ہے کہ قُلْ مَا عِندَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهُوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ اور یاد رکھو کہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تجارت اور لھو سے بہت زیادہ بہتر ہے اگر تم اپنی مستیاں چھوڑ دو، قربانیاں کرو اور دین کی اشاعت کا کام اپنے ذمہ لو تو یہ تمہارے لئے بہت زیادہ بہتر ہے.پس اے پروفیسر و ! اے ڈاکٹر و ! اے وکیلو! اور اے سرکاری ملازمو! اے تاجرو! اے صنا عو! اور اے ہر قسم کا پیشہ کرنے والو! اگر تم چاہتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ کی برکت حاصل کرو تو آؤ دین کے کام میں لگ جاؤ اور اشاعتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دو وَ اللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ اور یہ مت خیال کرو کہ تم دین کے لئے اپنا مال خرچ کرو گے ، دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرو گے اور دین کے لئے اپنا وقت دو گے تو تمہیں اس سے نقصان ہوگا بلکہ یا د رکھو وَ اللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ.جب اس طرح مال خرچ کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں دنیا کا بادشاہ بنادے گا ، دولت تمہارے قدموں میں آئے گی اور یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں تمہیں بالکل حقیر اور ذلیل نظر آنے لگیں گی.الفضل ۲۹ / مارچ ۱۹۳۵ء) الجمعة: ۱۰ تا ۱۲ الجمعة : ۹ التوبة : ٣٣ الجمعة : ۴ ۵ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة باب قوله و آخرين منهم (الخ) الفاتحة: ۷۶ ک ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء فى افتراق هذه الأمة.الحج: ۴۸ 2 بخارى كتاب الجمعة باب مَنْ جَاء وَالْاِمَامُ يَخْطُبُ (الخ) ١ البقرة: ۲۴۵،۲۴۴ ال بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب وَإِذَا رَأَ وُا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا.اسد الغابة جلد ۳، صفحه ۱۵۷، مطبوعه ریاض ۱۲۹۵ھ ۱۳ اسد الغابة جلد۵ صفحه ۳۱۷، مطبوعه ریاض ۱۲۹۵ھ

Page 216

خطبات محمود ۲۱۱ ۱۲ سال ۱۹۳۵ء اجتماعی عبادت اور دعاؤں کی تحریک (فرموده ۲۲ مارچ ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے دو جمعے گزرے کہ جماعت کو خصوصیت کے ساتھ سات روزے رکھنے اور اس فتنہ کے بارے میں جو اس وقت جماعت کے خلاف اُٹھ رہا ہے دعائیں کرنے کے لئے کہا تھا مجھے افسوس ہے کہ ہمارے سلسلہ کے اخبارات نے اس مضمون کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہئے تھی یعنی اس اعلان کو صرف ایک دفعہ شائع کر کے بند کر دیا حالانکہ ہزار ہا لوگ ایسے ہیں جو کبھی اخبار کا کوئی صفحہ پڑھ لیتے ہیں اور کبھی کوئی انہیں اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ سارا اخبار پڑھیں.اشاعت کا اصول اس امر کا متقاضی ہے کہ مضمون کو تکرار کے ساتھ اور بار بار مختلف شکلوں میں سامنے لایا جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بالکل ممکن ہے کہ ہزاروں ایسے لوگ ہوں جو اس جمعرات کو ہمارے ساتھ دعاؤں میں شامل نہ ہو سکے ہوں میں نے اگر ایک دن مقرر کیا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ اجتماعی عبادت اور دعا انفرادی عبادت اور دعا سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ور نہ میں کہہ سکتا تھا کہ سات روزے رکھ لئے جائیں.کوئی کسی دن رکھ لیتا اور کوئی کسی دن ، کوئی مسلسل رکھ لیتا اور کوئی وقفہ سے اور اس طرح سات کا عدد پورا ہو جا تا مگر اس طرح اجتماعی عبادت اور دعا کا مقصد پورا نہ ہوتا یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک دن کا انتخاب کیا اور تمام جماعت سے خواہش کی کہ ایک خاص دن کو سب روزے رکھیں تا اس دن جماعت خصوصیت سے عبادت کرے اور اللہ تعالیٰ کے فضل

Page 217

خطبات محمود ۲۱۲ سال ۱۹۳۵ء کو طلب کرے.اس دن کے لئے میں نے خاص طور پر دود عا ئیں بتائی تھیں تا علاوہ اور دعاؤں کے دو دعا ئیں ایسی ہوں جن میں جماعت متحد ہو.اگر ہر شخص اپنے اپنے طور پر دعا کرتا تو کوئی کچھ دعا کرتا اور کوئی کچھ لیکن جس طرح انفرادی عبادت اجتماعی عبادت کا مقابلہ نہیں کر سکتی اسی طرح انفرادی دعا بھی اجتماعی دعا کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب سارے کے سارے مل کر ایک چیز اللہ تعالیٰ سے مانگیں تو یہ بہت مفید ہوتا ہے.اس طرح کمزور کو طاقتور سے طاقت ملتی ہے اور طاقتور کو کمزور سے.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ کمزور سے طاقتور کو کس طرح طاقت مل سکتی ہے کیونکہ کمزور سے کمزور انسانوں کا مجموعہ بھی طاقتوروں کی امداد کا موجب ہو سکتا ہے بہت سے بچے اگر مل جائیں تو ایک طاقتور انسان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس میں شبہ نہیں کہ بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی دعائیں ہزاروں انسانوں کی دعاؤں سے زیادہ سنی جاتی ہیں لیکن اگر ایسے بندے کی دعاؤں کے ساتھ پچاس ہزار یا لاکھ ڈیڑھ لاکھ اور لوگوں کی دعائیں بھی مل جائیں تو وہ دعا اور زیادہ مؤثر اور طاقتور ہو جائے گی.اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی دعائیں ساری دنیا سے زیادہ سنی جاتی ہیں مگر یہ مقابلہ کفر و اسلام میں ہوتا ہے اسلام اسلام میں نہیں.جن کی دعائیں ساری دنیا کے مقابلے میں سنی جاتی ہیں ان کی ایسی دعائیں کفر کے مقابلہ میں ہوتی ہیں.رسول کریم ﷺ کی ایسی دعائیں عیسائیوں ، یہودیوں اور بت پرستوں کے مقابلے میں ہوتی تھیں.صحابہ کی اور آپ کی دعائیں ایک ہی غرض کے لئے ہوتی تھیں اس لئے ان میں مقابلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بہر حال صحابہ کی دعائیں آپ کی دعا کے ساتھ مل کر زیادہ مؤثر ہو جاتی تھیں اسی لئے صحابہ کو آپ دعا کی تحریک فرماتے رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی دوسروں کو دعا کے لئے کہا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات بچوں کو بھی دعا کی تحریک کرتے تھے مجھ سے بھی آپ کئی مواقع پر دعا کے لئے کہا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے دعا کے لئے فرمایا اُس وقت میری عمر صرف نو سال کی تھی اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے کہ جہاں روحانی عالم میں طاقتور کی دعا اس لئے سنی جاتی ہے کہ وہ مقبول ہے وہاں کمزور کی اس لئے سنی جاتی ہے کہ وہ رحم کا زیادہ مستحق ہے.بعض مواقع پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کمزور کی دعا زیادہ جلدی قبول کر لیتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جسے روحانی طاقت حاصل ہے اسکی دعا

Page 218

خطبات محمود ۲۱۳ سال ۱۹۳۵ء اگر جلدی نہ بھی قبول کی گئی تو یہ امر اس کے ایمان کی کمزوری کا موجب نہیں ہو سکتا لیکن کمزور کی طرف وہ فورا لپکتی ہے کہ ایسا نہ ہوا سے ٹھوکر لگ جائے اسلئے دعا کرنے میں بہر حال گل جزو سے زیادہ اہم ہے اور نگل میں طاقتور اور کمزور دونوں شامل ہیں اس لئے میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ تمام جماعت ایک وقت میں ایک ہی قسم کی دعائیں کرے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کا ایک بہت بڑا حصہ اس سے اخبارات کی سستی کے باعث محروم رہا ہے.مجھے خود بھی ان ایام میں وقت نہیں مل سکا کہ میں بار بار توجہ دلاؤں.آٹھ دس روز تک میں ارادہ کرتا رہا کہ دوستوں کو اخبار کے ذریعہ دوبارہ تو جہ دلاؤں مگر اس کے لئے موقع نہ مل سکا اس لئے میں اس خطبہ کے ذریعہ پھر جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اس تحریک کو معمولی بات نہ سمجھیں بلکہ جتنے لوگ بھی روزہ کی طاقت رکھتے ہیں سب رکھیں اور جن سے یہ روزہ رہ گیا ہے وہ بعد میں رکھ لیں.سات روزے پھیلا کر میں نے اس لئے مقرر کئے تھے کہ ہندوستان سے باہر کے لوگ بھی اس میں کچھ نہ کچھ حصہ لے سکیں.میں نے دو ہفتہ پہلے اعلان کیا تھا اور دو ہفتہ میں بہت سے بیرونِ ہند کے مقامات پر ڈاک پہنچ جاتی ہے.پھر کئی لوگوں کو ان کے دوست ہوائی ڈاک سے اطلاع دے دیتے ہیں پھر قریباً ساری دنیا میں ایک ماہ کے اندر اندر ڈاک پہنچ جاتی ہے اور اس طرح ایسے مقامات کے لوگ زیادہ سے زیادہ دو روزوں میں شریک نہ ہو سکتے اور پانچ میں وہ بھی شریک ہو سکتے اور باقی دو وہ اپنے اپنے ملک کے لحاظ سے اجتماعی طور پر رکھ لیتے.پس جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ یہ روزے ضرور رکھیں.باقی رہی دعا سو وہ روزوں سے مخصوص نہیں یہ روزانہ ہونی چاہئے اور اس کے لئے بچوں اور عورتوں میں بھی تحریک کی جائے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو دعا سکھائی کہ رَبِّ كُلُّ شَيْئِی خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمنِی.اس کے متعلق فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے اور ہر مصیبت سے نجات کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے اس زمانہ کے لئے اسم اعظم قرار دیا ہے.اسم اعظم ہر زمانہ کے لئے الگ الگ ہوتے ہیں اگر اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسم اعظم کوئی نہ تھا حالانکہ کوئی نعمت ایسی نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو نہ ملی ہو پس ماننا پڑے گا کہ ہر زمانہ میں اسم اعظم الگ ہوتا ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں آپ کے حالات کے مطابق تھا اور اس زمانہ میں موجودہ حالات کے مطابق ، اللہ تعالیٰ کی صفات مختلف دوروں سے تعلق رکھتی ہیں الله

Page 219

خطبات محمود ۲۱۴ سال ۱۹۳۵ء بعض زمانوں میں بعض صفات کا اظہار ہوتا ہے اور بعض میں بعض اور کا.اور اس دعا سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت حفیظ، ناصر يانصير، رحیم یارحمن کی اس زمانہ میں بندوں کو زیادہ احتیاج ہے.اس میں محبہ نہیں کہ جس قدر مکمل نظام مخالفت کا اس زمانہ میں ہے وہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دشمنوں کا نہیں تھا.اُس زمانہ میں انفرادی مقابلہ تھا کفر و شرک کو اجتماعی طاقت حاصل نہ تھی جو آج ہے.آپ کو پہلا مقابلہ عرب سے پڑا جہاں کوئی حکومت ہی نہ تھی ، مکہ میں الگ ، مدینہ میں الگ اور یمامہ میں الگ انتظام تھا ، اسی طرح ہر گاؤں اور ہر بستی کی حکومت علیحد تھی اور ایک شخص ایک حکومت سے نکل کر جھٹ دوسری حکومت میں جا سکتا تھا مگر آج چند متحد الخیال حکومتوں نے سب دنیا پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے.اس زمانہ میں اصل طاقت یورپ اور امریکہ کی ہے.جاپان بے شک ایک علیحدہ ہستی ہے مگر ان کے مقابلہ میں وہ کچھ نہیں.مذہبی نقطہ نگاہ سے عیسائیت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے اور جس کی مخالف یہ ہوا سے دنیا میں کوئی پناہ نہیں ملتی اس لئے اس زمانہ میں حفاظت، نصرت اور رحم کا سوال بہت خصوصیت رکھتا ہے.پھر رسول کریم ﷺ کی زندگی میں آپ کو بادشاہت بھی حاصل ہو گئی تھی اور اس وجہ سے آپ غیر کی حفاظت کے محتاج نہ رہے تھے اور بعد میں تو ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوگئی مگر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اسلام کی حفاظت دلائل سے کرے اور احمدیت کو عرصہ تک حکومت سے علیحدہ رکھے کیونکہ دشمنوں نے یہ دھوکا کھایا تھا یا وہ یہ فریب دینا چاہتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے تلوار چلائی اور اس وجہ سے اسلام پھیل گیا.گو یہ اعتراض لغو، بے ہودہ اور غلط ہے اور رسول کریم ﷺ کی زندگی اپنی ذات میں اس امر پر شاہد ہے کہ یہ اعتراض غلط ہے اور اسلام کا نور دلائل اور براہین سے پھیلا ہے اور صحابہ کرام کی مقدس زندگیوں کے نمونہ سے اس کی اشاعت ہوئی ہے لیکن بہر حال چونکہ اس زمانہ میں تلوار چلائی گئی اس وجہ سے دشمن کو اس اعتراض کا موقع ملا لیکن غیرت الہی نے تقاضا کیا کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو بغیر تلوار کے پھیلا کر یہ ثابت کر دے کہ یہ اعتراض بے ہودہ ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شاگر د دلائل سے اسلام پھیلا سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں پھیلا سکتے تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کو دلائل سے پھیلا کر اللہ تعالیٰ ان

Page 220

خطبات محمود ۲۱۵ سال ۱۹۳۵ء دشمنوں کا منہ بند کرنا چاہتا ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے ہی پھیل سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ احمدیت ایک عرصہ تک حکومت سے محروم رہے اور اسے مظلوم بنایا جائے.احمدی طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق ہوں تا ان کی کمزوریوں اور ان پر ظلموں کو دیکھ کر ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہو کہ اس کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے ورنہ کوئی صورت نہ تھی.پس اللہ تعالیٰ کی حفاظت ، نصرت اور رحم کی صفات کے ظہور کا یہ ایک خاص زمانہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان صفات کو چن کر ہماری جماعت کے سامنے رکھا تا ہم خصوصیت سے ان کو یاد کریں اور ان میں جوش پیدا ہوا ور سلسلہ کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہ ہو سکے.رَبِّ كُلُّ شَيْئِی خَادِ مُک میں یہ بتایا ہے کہ الہی ! ہم بہت ادنیٰ حالت میں ہیں، غلام ہیں اور دنیا میں ہر جگہ محکوم ہیں ،کہیں عیسائی ہم پر حاکم ہیں تو کہیں ہندو کہیں دوسرے مسلمان کہلانے والے ہیں تو کہیں کنفیوشس کے پیر و ہم پر حاکم ہیں ، ہماری حکومت کہیں بھی نہیں اور ہم دنیا کے خادم ہیں مگر اے رب ! جن کے ہم خادم ہیں وہ بھی تیرے خادم اور تیری حکومت کے تابع ہیں.فَاحْفَظُنِى وَانْصُرُنِي وَارْحَمْنِئ تو ان کا آقا ہے اور ہم مظلوم ہیں ان کے مظالم سے تو ہماری حفاظت کر اور نصرت کر اور رحم کر.اگر ڈ نیوی حکومتیں ہماری حفاظت نہیں کرتیں تو اے خدا! تو جو ان حکومتوں پر بھی حاکم ہے ہماری حفاظت کر.اگر وہ لوگ جو اسلام کے نام میں ہمارے شریک ہیں ، بجائے اس کے کہ اسلام کی خدمت میں ہماری مدد کریں ہماری مخالفت کرتے ہیں تو تو ہماری نصرت کر.وہ لوگ طاقتور ہیں اور ہم کمزور ہیں پس تو ہم پر رحم کر کہ تو سب سے بڑا طاقتور ہے.یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی اور اسے اسم اعظم قرار دیا اس لئے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر نیکی طاقت ہے.اسم اعظم اسی دعا کو کہتے ہیں جو سب دعاؤں سے بھاری ہو اور مصائب کوٹلا دیتی ہو.ایک سوال مجھ سے کیا گیا ہے کہ کیا یہ دعا جمع کے صیغہ میں بھی کی جاسکتی ہے اور کیا یہ الہام الہی میں دخل اندازی تو نہیں میں تو اکثر ایسا کرتا ہوں کیونکہ میری دعائیں ساری جماعت کے لئے ہوتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں ایسا کرنا الہام الہی میں دخل اندازی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے دعا کو آخر ایک لفظ میں ہی سکھانا تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دعائیں آتی ہیں وہ ایک لفظ میں ہی ہوتی ہیں کبھی مفرد کے صیغہ میں کبھی جمع کے صیغہ میں.پھر دعا کرنے والے اپنے حالات کے مطابق اسے ڈھال

Page 221

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لیتے ہیں.اگر ایک دعا کرے تو وہ مفر وصیغہ استعمال کر سکتا ہے ، اگر کئی دعا کرنے والے ہوں تو وہ جمع کا صیغہ استعمال کر سکتے ہیں یہ ایسی بات ہے جیسے قرآن کریم میں احکام کا ذکر کرتے ہوئے اکثر ضمائر ذکور کے لئے ہیں لیکن ان میں مرد اور عورت دونوں مخاطب ہیں.ان سے یہ دھوکا نہیں ہوسکتا کہ عورتیں اس حکم میں شامل نہیں ہیں بلکہ اس سے عورتوں کے لئے بھی استدلال کر لیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خاص موقع پر یہ دعا سکھائی گئی اور آپ چونکہ اس کے مخاطب اول تھے.اس لئے نبی کا لفظ استعمال کیا.اب ہمارے خلاف جماعتی فتنہ ہے اگر کوئی شخص اپنے جوش میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کا وجود جماعت میں غائب ہو گیا ہے تو وہ نا کا لفظ بھی استعمال کر سکتا ہے اور یہ الہام میں دست اندازی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی آیات کو اپنی عبارت میں بعض لفظ بدل کر استعمال کر لیا ہے گویا انہیں اپنا لیا ہے اور اگر قرآن کریم کی آیتیں اس طرح استعمال ہو سکتی ہیں تو یقیناً دعا ئیں بھی ہوسکتی ہیں.پس جو لوگ اپنی حالت ایسی پائیں کہ اپنے آپکو منفرد دیکھیں ، وہ نسی کہہ لیں لیکن جو ایسی کیفیت محسوس کریں کہ گویا ان کا دکھ ساری جماعت کا دکھ ہے اور وہ سکھ اور رحم اپنے لئے نہیں مانگتے جب تک ساری جماعت کو نہ ملے وہ نما کہہ لیں تو کوئی اعتراض کی بات نہیں.ان باتوں کا انسان کے جذبات کے ساتھ تعلق ہے اور زبان جذبات کے ماتحت آتی ہے.انسان منافقت سے اسی وقت دور ہوتا ہے جب دل اور زبان دونوں متحد ہوں ورنہ نفاق چھا جاتا ہے.دوسری دعا جو رسول کریم ﷺ کی ہے.یہ دعا آپ اُس وقت مانگتے تھے جب قومی طور پر کوئی فساد د یکھتے.کئی حدیثوں میں ہے جب آپ کو کسی قوم سے خوف ہوتا کہ اسلام کے مقابلہ پر کھڑی ہے اور اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو آپ اُس وقت یہ دعا مانگتے تھے اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِى نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمُ سے یہ دعا رسول کریم ﷺ کے دستور میں شامل ہے اور ایسے ہی موقع کے لئے ہے جب اقوام ایک جتھے کے طور پر جمع ہو کر اسلام پر حملہ آور ہوں اور چونکہ ہماری حالت بھی آجکل ایسی ہی ہے کہ سب تو میں حتی کہ حکومت کا ایک حصہ بھی متحدہ طور پر ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہے اس لئے اس دعا کے پڑھنے کا یہ خاص موقع ہے.اس میں اللہ تعالیٰ سے دشمن کے مقابلہ میں امداد چاہی گئی ہے دشمن کی طرف سے حملہ بھی دوطرح کا ہوتا ہے ، ایک حملہ جو سامنے سے کیا جاتا ہے اور ایک وہ جو پیچھے سے ہوتا ہے جو سامنے سے کیا جائے اس کی زد چھاتی اور

Page 222

خطبات محمود ۲۱۷ سال ۱۹۳۵ء سینہ ہوتی ہے.دشمن چھپ کر بھی کئی رنگ میں حملے کرتے ہیں کبھی اندر ہی اندر نفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، حکومت میں ریشہ دوانیاں کی جاتی ہیں اور اسے بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ڈرایا جاتا ہے، لالچ دیا جاتا ہے اور یہ سب حملے وہ ہیں جو پیچھے سے کئے جاتے ہیں.اس دعا میں دونوں طریق کو مد نظر رکھا گیا ہے.نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ ظاہر حملہ کے لئے ہے.نَحَرْ چھاتی کے اوپر کے حصہ کو کہتے ہیں اس دعا میں پہلے اللہ تعالیٰ سے اس حملہ میں مدد مانگی گئی ہے جو سامنے سے آتا ہے دوسرے جملہ میں اس حملہ کا ذکر ہے جو پوشیدہ کیا جاتا ہے کئی دشمن منافق اور بزدل لوگ پوشیدہ حملے کرتے ہیں اور بعض اوقات بہادر دشمن بھی خُفیہ طریق اختیار کرتا ہے.اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے درخواست ہے کہ ہمیں دسیسہ کاریوں سے اور مخفی شرارتوں کے بد انجام سے بچائے.مثلاً آج کل ہمارے خلاف جھوٹ بولا جاتا ہے ہم آرام سے قادیان میں بیٹھے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہم لڑتے ہیں، فساد کرتے ہیں.ہم نے حکومت کی وہ خدمت کی ہے کہ بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے افسر بھی نہیں کر سکے مگر ہمیں اس کا مخالف کہا جاتا ہے، ہم اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ ہماری جماعت نے بعض حکام کو حرام زادہ کہا ہے، یہ سب باتیں مخفی طور پر کہی گئیں اور اگر حکومت کے بعض افسر بول نہ پڑتے تو ہمیں پتہ بھی نہ لگتا ایسے شرور سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے.ان دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ یا تو بالا افسروں پر حق کو کھول دے گا اور انہیں شریر اور بد وضع لوگوں کے متعلق سمجھ عطا کر دے گا ، وہ سچ اور جھوٹ کو نتھا سکیں گے اور اس کے بعد اگر وہ اصلاح کر لیں تو اللہ تعالیٰ کا رحم ان پر ہو گا لیکن اگر ضد کریں گے اور سمجھیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں ، حاکم ہیں جماعت خواہ کچھ کہے ہم اپنے ایجنٹوں کی بات ہی مانیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منصوبوں کو توڑنے کے لئے ایسے سامان کر دے گا جو آسمانی ہوں گے اور ان کے ضرر سے ہمیں بچالے گا اور ان سے بڑے حاکموں کو توفیق دے دے گا کہ ان کی نا انصافی کا ازالہ کر سکیں.پس ہمیں چاہئے کہ ان ہتھیاروں سے مقابلہ کریں جن کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے ہم سے تلواریں چھین لی ہیں تاہم دلائل کے زور سے اسلام کو پھیلا کر اس اعتراض کو دور کریں جو اسلام کی اشاعت پر کیا جاتا ہے اس لئے تلوار ، بندوق، توپ مشین گن، بم اور دوسرے ایسے ہی ہتھیاروں سے مقابلہ کا خیال ہمارے وہموں سے بھی بالا ہے ہمیں پہلے دن سے ہی یہ سبق دیا گیا ہے

Page 223

خطبات محمود ۲۱۸ سال ۱۹۳۵ء کہ مرکز مخل اسلام کی آبیاری کرنی ہے.دوسروں کا خون نہیں بہانا بلکہ اپنی گردنیں ان کی تلواروں کے نیچے رکھ دینی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ دو قسم کی قربانی چاہا کرتا ہے یا تو اس طرح کہ تلوار لوخود مر جاؤ یا دشمن کو ماردو اور یا پھر اس طرح کہ تلوار چھوڑ دو اور دشمن کے پاس چلے جاؤ اگر وہ تمہیں مار دے تو بے شک مرجاؤ نہیں تو وہ تمہارا بھائی بن جائے گا.آج اللہ تعالیٰ ہم سے اس قسم کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے کہ مر جاؤ ، رعایا ہو کر حاکموں کے دل فتح کرو.اللہ تعالیٰ کے تمام کام اپنے اندر حکمت رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں مغل قوم کو اشاعت اسلام کے لئے اسی واسطے چُنا ہے کہ اسلام پر تلوار کے زور سے اشاعت کا جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ دور ہو.ہو.مغل ہی ہیں جنہوں نے بغداد سے اسلامی خلافت کو مٹا دیا.مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس سے زیادہ مصیبت اسلام پر اور کوئی نہیں آئی ، اٹھارہ لاکھ مسلمان چند دنوں میں بغداد اور اس کے نواحی علاقہ میں قتل کر دیئے گئے.مسلمانوں کے لئے سوائے افریقہ اور سپین کے کوئی ایسی جگہ نہ تھی کہ جہاں وہ پناہ لے سکتے.سب خیال کر رہے تھے کہ کفر اسلام پر پھر غالب آ گیا لیکن اللہ تعالیٰ دکھانا چاہتا تھا کہ بادشاہ ہو کر بھی وہ اسلام میں داخل ہو نگے چنانچہ وہی قوم تیسری پشت میں مسلمان ہوگئی ، یہ پہلا ثبوت تھا اس بات کا کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا.اب پھر اللہ تعالیٰ نے مغلوں میں سے ہی ایک شخص کو چُنا ہے اور تلوار چھین کر دلائل کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا کام اس کے سپرد کیا ہے.پس ہمارے لئے تو پ، بندوق یا تلوار کا خیال کرنا بھی ناممکن ہے اگر ہم ایسا کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنے مقصود پیدائش کو باطل کرتے ہیں کیونکہ ہماری پیدائش کی بناء یہی ہے کہ ہم نے اسلام کو دلائل سے غالب کرنا ہے اور اگر ہم جبر سے کام لیں تو ان پیشگوئیوں کو خود ہی غلط ثابت کریں گے پس سچ یہی ہے کہ ہمیں حکومت اُسی وقت ملے گی جب جماعت مضبوط طور پر قائم ہو جائے گی تا یہ پوری طرح ثابت ہو جائے کہ ہم نے اسلام کو دلائل سے منوالیا ہے.ابھی تو ہر شخص ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے جس کو کوئی کام بھی کرنے اور دنیا میں کوئی اہمیت حاصل کرنے کا خیال ہو وہ للچائی ہوئی نظروں سے ہماری طرف دیکھتا ہے.عیسائیوں کو زور آزمائی کا شوق ہوتا ہے تو ہماری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ، آریوں کو گالیاں دینے کا شوق چراتا ہے، مسلمانوں کو نہیں مارخانی کا اظہار کرنا ہوتا ہے تو ہماری طرف ہی رُخ کرتے ہیں حکومت کے افسروں کو اپنی حکومت دکھانے کا شوق ہوتا ہے

Page 224

خطبات محمود ۲۱۹ سال ۱۹۳۵ء تو وہ بھی ہمیں ہی دباتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ یہ نرم نرم ہڈیاں خوب چبائی جاسکتی ہیں.غرضیکہ ہر ایک نظر ہم پر ہی پڑتی ہے ، ہر کوئی ہمیں تر نوالہ سمجھتا ہے ایسی صورت میں اگر اللہ تعالیٰ ہمیں تلوار دیدے تو یہ ثابت نہ ہو سکے گا کہ دین کی اشاعت دلائل سے ہوئی اور اسلام پر قدیم سے پڑنے والا اعتراض قائم کا قائم رہے گا اس لئے سب طاقت خدا کی ذات میں ہے ہماری توپ، ہماری تلوار ، ہماری بندوق خدا ہے اور اس کی مدد کے ساتھ ہم وہ کام کر سکتے ہیں جو بندوق توپ اور تلوار سے نہیں ہوسکتا.میں نے کئی دفعہ ایک بزرگ کا قصہ سنایا ہے ان کے ہمسایہ میں بادشاہ کا کوئی درباری رہتا تھا جس کے ہاں ہر وقت رقص وسرود اور باجہ گاجہ کا شغل رہتا تھا گندے اشعار پڑھے جاتے تھے جن سے عورتوں کو تکلیف ہوتی تھی ، ان کی اپنی عبادت میں بھی خلل آتا اور لوگوں نے بھی آ کر شکایات کیں انہوں نے اس شخص کو جا کر سمجھایا مگر وہ حکومت کے نشہ میں تھا اس نے کہا مجھے تم لوگوں کی کیا پر واہ ہے کون ہے جو ہمارے سامنے بول سکے، ہم تمہاری بات نہیں سن سکتے.اس بزرگ نے کہا کہ پھر ہم تمہارا مقابلہ کریں گے.اُس نے اگلے روز دروازہ پر سپاہی لا کر کھڑے کر دیئے جیسے ہم پر دفعہ ۱۴۴ لگا دی گئی ہے اور کہا کہ تم کہتے تھے روک دیں گے اب شاہی فوج آگئی ہے ، اب روک کر دکھاؤ.اُس بزرگ نے کہا کہ بے شک ہم نے کہا تھا مقابلہ کریں گے مگر یہ مقابلہ مادی طاقت سے نہیں بلکہ رات کے تیروں سے ہو گا اور جب میں نے کہا تھا کہ روک دیں گے تو یہ مطلب نہیں تھا کہ ڈنڈے کے زور سے روک دیں گے بلکہ مطلب یہ تھا کہ خدا سے اپیل کریں گے ہماری بھی مثال یہی ہے آج حکومت نے بھی ہمیں ذلیل کرنا چاہا ہے اور وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ کے نام میں ہمارے شریک ہیں وہ بھی ہماری مخالفت کر رہے ہیں.ان کے نزدیک ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تھا اور ہمارے وہ بھائی کہتے ہیں کہ یہ کہہ کر تم دین کو کمزور کرتے ہولیکن ہم ان سے کہتے ہیں کہ تم اسلام اپنی گندی زندگیوں کا نام رکھتے ہو اور ہمارے نزدیک محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کا نام اسلام ہے تم جس اسلام کو زندہ رکھنا چاہتے ہو ایسے اسلام اگر ہزار بھی مر جائیں تو ہم کو کوئی پرواہ نہیں.ہمارے مد نظر یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ زندہ ہوں اور وہ اسلام زندہ ہو جسے آپ دنیا میں لائے.

Page 225

خطبات محمود ۲۲۰ سال ۱۹۳۵ء غرضیکہ آج ہر قوم ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہے اور ذلت پہنچانا چاہتی ہے اور ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اپنے رب کے پاس جائیں اور اسی سے کہیں کہ اے خدا! ہم ذلیل کئے گئے ، ہمیں مسل دیا گیا ، کچل دیا گیا، ہمارے ساتھ سخت نا انصافی کی گئی ، ہمیں خواہ مخواہ تکالیف دی گئیں ، ہماری دل آزاری کی گئی ، تو ہین کی گئی اور ان مخالفوں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں تو جو طاقت والا ہے خود اپنی طاقت دکھا.اے تمام بادشاہوں کے بادشاہ! تو اپنی بادشاہت دیکھا.اے مالک ! تو ہی اپنی ملکیت دکھا ان کے ہاتھ روک اور ہماری مدد کر.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر خدا تعالیٰ کے پاس جا کر روؤ گے ، زاری کرو گے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرے گا.کیا ہم یونہی مظلوم ہو کر ظالم کہلاتے رہیں گے؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہ ہو تو دنیا سے خدا کا نام مٹ جائے خدا تعالیٰ غیور ہے، طاقتور ہے.ہم نے دنیا میں ہر شخص سے عجز وانکسار کا برتاؤ کیا اپنے بھائیوں سے بھی ، غیر قوموں سے بھی اور حکمرانوں سے بھی کیا.ہم نے بار بار کہا کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ، خدا کی قسم ! ہم سب کے خیر خواہ ہیں مگر ہماری باتوں کو رڈ کر دیا گیا ، ہماری دوستی کو ٹھکرایا گیا ، ہمارے اطاعت کے دعووں سے جنسی کی گئی اور کہا گیا کہ یہ باغی ہیں.ہم پہلے بھی حکومت کے مطیع رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے اور حسب سابق سب کی خیر خواہی مد نظر رکھیں گے.تلوار سے لڑائی ہمارے لئے مقدر نہیں اور جنگ کے لئے یہ سلسلہ پیدا ہی نہیں ہوا.ہمیں جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس میں ہم اسی طرح کا میاب ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں.پس میں ہوشیار کرتا ہوں ان لوگوں کو جن کی طاقت، قوت اور بھلائی کے لئے ہم کھڑے ہیں کہ وہ ظلم اور بے انصافی کو چھوڑ دیں ، ہم محمد رسول اللہ علی کے نام پر جان دینے والے اور دین کے لئے قربانیاں کرنے والے ہیں.پھر میں ہوشیار کرتا ہوں ہندوؤں اور سکھوں کو اور ان سے کہتا ہوں کہ خدا گواہ ہے ہم ان کے دشمن نہیں ہیں ، ہم اسلام کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اس لئے کہ اسی میں ہم ان کی نجات یقین کرتے ہیں ان کی تذلیل اور تو ہین ہمارے مد نظر نہیں بلکہ بھلائی مد نظر ہے، پھر حکومت سے کہتا ہوں کہ ہم حکومت کے خواہاں نہیں ہیں ہم خدمت کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم نے بار بار کہا ہے کہ ہم حکومت نہیں چاہتے ہم تو چو ہڑوں کے بھی خادم ہیں ہم پر بلا وجہ بدظنی نہ کی جائے ہمیں مت ستاؤ خواہ مخواہ ہم پر دفعہ ۱۴۴ نافذ نہ کرو، ہمارے خلاف الزامات کی تلاش میں مت لگو ، ہماری اطاعت کا نام بغاوت نہ رکھو ، ہماری فرمانبرداری کو

Page 226

خطبات محمود ۲۲۱ سال ۱۹۳۵ء شورش مت کہو اور اللہ تعالیٰ سے خوف کھاؤ کہ وہ تم پر بھی بادشاہ ہے خدا کو حاضر ناظر جان کر میں کہتا ہوں کہ اس کے سوا ہمارے کوئی ارادے نہیں ہیں ہم سب کے خیر خواہ ہیں.ظلم اور مخالفت ایک حد تک ہی چل سکتی ہے.ہم نے یہ باتیں بار بار کہی ہیں مگر وہ باز نہیں آتے اس لئے اب خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں مگر یہ پھر بھی نہیں کہتے کہ خدا ان کو تباہ کر دے بلکہ صرف یہ دعا کرتے ہیں کہ ان کے دلوں کی اصلاح کر دے اور انہیں ٹھیک کر دے.اگر وہ سمجھانے کے باوجود نہ سمجھیں تو ان کے شر سے ہم اس کی پناہ چاہتے ہیں اور اگر وہ اصلاح کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.میں پھر کہتا ہوں کہ ہم ساری دنیا کے خیر خواہ ہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی ہمیں دشمن سمجھتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں.ہم کسی کو اپنا دل چیر کر نہیں دکھا سکتے.جب واقعات سب کے سامنے ہیں حکومت اگر چاہے تو آزاد کمیشن مقرر کر کے فیصلہ کر دے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی انگریز کو ہی جج مقرر کر لومگر ہمیں موقع دو کہ سارے حالات کو اس کے سامنے رکھیں ہمیں اس کا فیصلہ منظور ہو گا.میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دعاؤں میں لگ جاؤ اور دعاؤں میں وہ رنگ پیدا کر وجس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے.قدیم روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب مقدر تھا وہ اس لئے ٹلا دیا گیا کہ ان کی قوم نے (جیسا کہ ان کی روایات سے پتہ چلتا ہے گو قرآن کریم میں ان تفصیلات کا ذکر نہیں ) جب عذاب کے آثار دیکھے تو سب عورتیں ، مرد ، بچے ، بوڑھے مویشیوں کو بھی ساتھ لے کر شہر سے باہر نکل گئے ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے حتی کہ امراء نے بھی امیرانہ لباس اُتار کر ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے ، ماؤں نے بچوں کو دودھ دینا بند کر دیا ، جانوروں کو چارہ پانی سے محروم کر دیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ بچے بھو کے علیحدہ چنیں مار رہے تھے ، جانور علیحدہ بلبلا رہے تھے اور ایک کہرام مچ گیا.تب خدا تعالیٰ نے کہا کہ گو ہم نے نبی سے عذاب کا وعدہ کیا ہو ا تھا مگر یہ نظارہ نہیں دیکھا جاتا اور میں ان پر رحم کرتا ہوں.پس اگر اللہ تعالی نے حضرت یونس کے دشمنوں سے موعود عذاب کو ٹال دیا تھا تو اگر تم جو نبی کی قوم ہو اس کے آگے اسی طرح گڑ گڑاؤ اور تضرع کرو تو وہ فضل نہ کرے گا ؟ پس سب دعاؤں میں لگ جاؤ اور خصوصاً ہر جمعرات کی رات کو جس دن روزہ رکھنا ہے ، سب اُٹھیں خواہ انہوں نے روزہ نہ بھی رکھنا ہو ،عورتیں اور بچے بھی دعائیں کریں ، جو حائضہ عورتیں نماز نہ پڑھ سکتی ہوں وہ بھی اُٹھ کر دعائیں کریں، گریہ

Page 227

خطبات محمود ۲۲۲ سال ۱۹۳۵ء کریں اور کہیں کہ اے خدا! ہم ذلیل کئے گئے ، ہمیں کچل دیا گیا اس لئے کہ ہم رسول کریم ﷺ کا نام بلند کرتے ہیں ہماری عزت پر حملہ کیا گیا ہماری سچائی کی قدر نہیں کی گئی اب ہم تجھ ہی سے التجاء کرتے ہیں کہ ہماری مدد کے لئے اُتر.عورتوں کو بھی بچوں کو بھی دعائیں کرنے کی تحریک کرو اور خود بھی کرو.راتوں کو بھی اُٹھو جس طرح قیامت خیز زلزلہ کے وقت لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اور خوب دعائیں کرو.جب زمین پر کہرام مچ جاتا ہے تو آسمان پر بھی شور پڑ جاتا ہے اور جب ملاء اعلیٰ میں اللہ تعالیٰ تحریک کرتا ہے تو زمین اس کی تابع ہو جاتی ہے اس لئے میں یہی نصیحت جماعت کو کرتا ہوں کہ ان دنوں کو اسی طرح استعمال کرو جس طرح استعمال کرنے کا حق ہے میں نے روزوں کے لئے سات دن رکھے ہیں.سات تکمیل کا بھی عدد ہے اور اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ اس طرح چالیس دن پورے ہو جاتے ہیں اور اس طرح دو تکمیلیں جمع ہو جاتی ہیں اور عبادت پھیل بھی جاتی ہے.پس ان دنوں میں خصوصیت سے دعائیں کرو اور سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحم مانگو.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ بیت الدعاء میں دعا کر رہے تھے اور آپ اس کمرہ میں رہتے تھے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے لئے بیت الدعا کے اوپر بنوایا تھا.مولوی صاحب کی روایت ہے کہ مجھے کراہنے کی ایسی آواز آرہی تھی جیسے کو کی عورت درد زہ میں مبتلاء ہونے کی وجہ سے بیتاب ہوا اور جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کر رہے تھے.یہ طاعون کے ایام تھے آپ یہ دعا کر رہے تھے کہ خدایا ! اگر یہ لوگ ہلاک ہو گئے تو ایمان کون لائے گا.سو آپ بھی پہلے یہی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، دلوں سے بغض و کینہ کو نکال دو اور ان ناراضگیوں ، ظلموں ، تعدیوں کو بھول جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ ان کو معاف کر دے.ان کے سینے کو کھول دے لیکن اگر ان کے لئے سزا ہی مقدر ہو چکی ہے تو اے خدا! ہم تیرے دین ، تیرے رسول اور تیرے مسیح موعود کی عزت کے لئے نہ کہ اپنے لئے تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں کو روک دے اور ہم کو توفیق دے کہ تیرے دین کو دنیا میں پھیلا سکیں آمِينَ ثُمَّ آمِينَ.(الفضل ۱۷۵ پریل ۱۹۳۵) ا تذکرہ طبع چہارم، صفحه ۶۵۴ ابوداؤد كتاب الصلوة باب ما يقول الرجل اذا خاف قوما.دسیسه کاری سازش کرنا ، فریب دینا.دھوکا دینا.

Page 228

خطبات محمود ۲۲۳ سال ۱۹۳۵ء گورنمنٹ جو کچھ کرنا چاہتی ہے کھلم کھلا کرے فرموده ۲۹ / مارچ ۱۹۳۵ء) تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسانی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی چیزوں کی نقل کرتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے فَأَبَوَاهُ يُهَوِدَانِهِ أَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِه پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے یا عیسائی بنادیتے یا زرتشتی بنادیتے ہیں.یعنی فطرت تو اسلام کی ہی ہوتی ہے لیکن جو نہی کہ وہ آنکھیں کھولتا اور اس کا دماغ باتیں سمجھنے کے قابل ہوتا ہے وہ گرد و پیش کے حالات کی نقل کرنی شروع کر دیتا ہے حتی کہ ہوتے ہوتے اس کی فطرت اسلامیہ بالکل مٹ جاتی اور وہ یہودی، عیسائی یا مجوسی بن جاتا ہے.یہ نقل کا مادہ اپنے اندر بہت بڑی خوبی بھی رکھتا ہے اور جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے بہت بڑے نقائص بھی رکھتا ہے.خوبی تو یہ ہے کہ نقل کے ذریعہ انسان دنیا میں بہت سے کام عمدگی اور سُرعت کے ساتھ کر سکتا ہے اگر نقل کا مادہ نہ ہوتا تو بہت تھوڑے کام کر سکتا.اگر ہم دنیا کے ہرامر میں تحقیق کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ ہم ساری عمر میں اتنا کام بھی نہیں کر سکتے جتنا اب ایک مہینہ میں کر لیتے ہیں.مثلاً ہم کھانا کھانے لگیں تو پہلے اس بات کی تحقیق کریں کہ آیا ہما را معدہ بالکل خالی ہے یا نہیں.اور کیا ایسا تو نہیں کہ کچھ کھانا معدہ میں موجود ہو اور ہم کھانے کے لئے بیٹھ گئے ہوں.ایسی حالت میں یا تو مثلاً معدہ کو دھلوا کر اس کا پتہ لگا ئیں یا کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں اور اس سے دریافت کریں.اب دیکھ لو اگر ہم اس طرح کرنے لگیں تو ہمارا سارا دن

Page 229

خطبات محمود ۲۲۴ سال ۱۹۳۵ء اسی کام پر لگ جائے گا.اس کے بعد دوسرا سوال ہمارے سامنے یہ آئے گا کہ ہمارے معدہ کے مناسب حال کون سی غذا ہے اور پھر اس وقت ہمارے لئے کون سی غذا مفید ہو سکتی ہے پھر ہم اس کی تحقیق میں لگ جائیں اور بہت سا وقت خرچ کریں.اس کے بعد کھانا کھاتے وقت تمام ذرائع کو استعمال کریں جن کے ماتحت ہمیں معلوم ہو کہ معدہ میں کس قدر غذا گئی ہے اور کس قدر غذا کی ضرورت ہے.غرض اس طرح اگر ہر امر کی تحقیق شروع کر دی جائے تو کھانا کھانے پر ہی ایک مہینہ لگ جائے اتنی دیر زندہ کون رہ سکتا ہے کہ وہ تحقیق کرتا رہے.یا کوئی شخص ہم سے بات کرنے لگے تو ہم ی تحقیق کرنے لگ جائیں کہ اس کے گزشتہ حالات کیسے تھے آیا یہ نیک ہے یا مشتبہ آدمی ؟ پھر ہم اس کے وطن جائیں اور اس کے حالات کی سراغ رسانی کریں اور دریافت کرتے پھریں کہ یہ ہر دن اور ہر رات کہاں بسر کرتا ہے.اس طرح ایک شخص کی زندگی کے حالات معلوم کرنے کے لئے ہمیں دو چار سال کی ضرورت ہو گی مگر ہم اس طرح نہیں کرتے بلکہ سیدھے دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان سے دریافت کرتے ہیں یہ کیسا آدمی ہے وہ کہہ دیں کہ اچھا آدمی ہے تو ہم اس پر اعتبار کر لیتے ہیں اور جب وہ ملنے کے لئے آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کی ملاقات سے بڑی خوشی ہوئی آپ نے بہت عنایت فرمائی جو ہمیں شرف ملاقات بخشا، چاہے پیچھے سے وہ چور یا ٹھگ ہی نکل آئے.ہم اس کے ملنے والوں یا دوستوں کی بات مان لیتے ہیں اور اگر ہم ہر ملنے والے کے متعلق تحقیق کرنے لگیں تو ہماری عمر ختم ہو جائے مگر تحقیق مکمل نہ ہو.یا مثلاً سانس آنے لگے تو ہم سانس روک کر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ پہلے ہم خورد بین منگواتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمرے کی ہوا اس وقت کیسی ہے.آیا اس میں کوئی مہلک جراثیم تو موجود نہیں تو ہمارا کیا حال ہو.ہم کبھی غور نہیں کرتے کہ کمرے کی ہوا اچھی ہے یا بُری بلکہ سانس آپ ہی آپ آتا جاتا ہے گویا ایک عادت ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم میں پیدا کر دی.جو نہی کہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی چھاتیوں پر دباؤ پڑتا ہے سانس جاری ہو جاتا ہے.پھر ہماری مرضی ہو یا نہ ہو ، آپ ہی سانس آتا رہتا ہے.گویا اس کی وہی مثال ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ایک بنیا کسی زمیندار کو برات میں لے گیا اسے خیال آیا کہ اس کے سسرال کنجوس ہیں اور اسے کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھلا ئیں گے اس لئے ابھی سے کچھ نصیحت کرنی چاہئے تا کہ مشکلات پیش نہ آئیں.یہ سوچ کر وہ زمیندار سے کہنے لگا حکماء کہتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت پیٹ کے تین حصے کرنے

Page 230

خطبات محمود ۲۲۵ سال ۱۹۳۵ء چاہئیں.ایک روٹی کے لئے ایک پانی کے لئے اور ایک سانس کے لئے.اس نے سمجھا کہ شاید اس کے سسرال اگر اسے کچھ تھوڑا کھلا ئیں اور اس کے معدہ کا تیسرا حصہ خالی رہے تو کچھ شرم رہ جائے.وہ زمیندار کہنے لگا میرا طریق تو یہ ہے کہ ناک تک پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہوں ، پانی آپ ہی آپ راہ بنا لے گا اور سانس آئے یا نہ آئے اس کی پرواہ نہیں اگر بھو کے رہے تو سانس لے کر کیا کرنا ہے در حقیقت اس کا مطلب یہی تھا کہ سانس آتا ہی رہے گا کیونکہ سانس آنے جانے کی اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک عادت پیدا کر دی ہے روٹی کیوں کم کھائی جائے تو اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کی انسان کو عادت ڈال دی ہے.ہم سور ہے ہوتے ہیں اور ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا مگر سانس برابر جاری ہوتا ہے اور دل و دماغ اپنے اپنے کام کر رہے ہوتے ہیں.ہاں اگر دل کو ہاتھ سے پکڑ کر کوئی شخص بیٹھ رہے تو ایک منٹ میں وہ اپنا کام ختم کر دے گا.یا کوئی شخص کسی کا سانس روک دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی سانس آنے جانے کی عادت ختم ہو جائے گی.تو بہت سی چیزیں دنیا میں عادت یا دوسروں پر اعتبار کرنے سے چلتی ہیں جسم کی اندرونی حرکات عادت پر اور جسم سے باہر کے کام اعتبار پر چلتے ہیں ہمیں بعضوں پر اعتبار ہوتا ہے اور ہم جھٹ ان کی بات بغیر تحقیق کئے مان لیتے ہیں، بعض پر اعتبار نہیں ہوتا تو ہم فوراً بغیر تحقیق کئے ان کی بات کو ر ڈ کر دیتے ہیں.ایک ایسا شخص جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ وہ اکثر جھوٹ بولا کرتا ہے اگر ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ فلاں بات یوں ہوئی تو ہم بغیر تحقیق کئے اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں پھر ایک اور شخص ہمارے پاس ایسا آتا ہے جسے سچ بولنے کی عادت ہے اور ہمیں اسے سچا سمجھنے کی عادت ہو گئی ہے اور وہ بتاتا ہے کہ بات یوں ہوئی تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے حالانکہ ہم اس کی بات کی تحقیق نہیں کرتے.تو اعتبار بھی درحقیقت ایک عادت کا نام ہے کیونکہ جس پر اعتماد ہو اس کی بات کی تحقیق کی ضرورت ہم نہیں سمجھتے.ایک ایسے آدمی کے پاس چلے جاؤ جو آرام سے اپنے خیال میں مگن بیٹھا ہو اور تیزی سے اُنگلی اس کے پیٹ کی طرف لے جاؤ تو وہ فوراً کانپ جائے گا.فرض کرو جس کے پیٹ کی طرف ہنسی مذاق میں تم تیزی سے اپنی انگلی لے جاتے ہو وہ تمہاری بیوی ہے اور تم اُس کے خاوند ہو یا وہ تمہارا بیٹا ہے اور تم اس کے باپ ہو یا وہ تمہارا بھائی یا دوست ہے یا اور کوئی قریبی تعلق رکھنے والا ہے مگر تم اس کے پیٹ کی طرف تیزی سے انگلی لے جا کر دیکھ لو وہ فوراً پیچھے کو بٹے گا اس لئے کہ انسانی جسم کو یہ عادت

Page 231

خطبات محمود ۲۲۶ سال ۱۹۳۵ء ہے کہ وہ حملے سے بچنا چاہتا ہے.خواہ تمہارا کتنا ہی گہرا دوست ہو اور اسے تم پر اعتبار بھی ہو، یہ نہیں ہو گا کہ وہ کھڑا رہے بلکہ اگر تم انگلی اس کی آنکھ کے پاس جلدی سے لے جاؤ گے تو اس کی آنکھ جھپک جائے گی اور سر پیچھے کی طرف جھک جائے گا اور اگر پیٹ کی طرف لے جاؤ گے تو وہ کانپ کر پیچھے ہٹ جائے گا.چاہے حقیقت سے آگاہ ہو کر وہ تھوڑی دیر کے بعد ہنس پڑے مگر فوری طور پر وہ گھبرا جائے گا کیونکہ انسانی جسم کو یہ عادت ہے کہ وہ حملہ کا دفاع کرتا اور اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ دوسروں کی نقلیں کرتا اور گردو پیش کے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرتا ہے.ان حالات کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک نصیحت کر دی ہے اور وہ یہ کہ تم نے نقل تو کسی کی ضرور کرنی ہے آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ع تم بجائے ہر ایک کی نقل کرنے کے محمد ﷺ کی نقل کر لیا کرو کیونکہ جب تم نے نقال بننا ہے اور اس کے بغیر تم گزارہ نہیں کر سکتے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ہر بات کی تم تحقیق کرو تو ضروری ہے کہ تم دوسروں کے پیچھے چلو اور جس طرح وہ کام کرتے ہیں اسی طرح تم بھی کرو.اور درحقیقت انسان کی زندگی کے افعال میں سے ننانوے فیصدی وہ افعال ہوتے ہیں جو دوسروں پر اعتبار کر کے کئے جاتے ہیں اور ایک فیصدی بلکہ اس سے بھی کم وہ افعال ہوتے ہیں جنہیں ذاتی تحقیق کے بعد انسان سر انجام دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں میں مبالغہ نہیں کرتا اگر میں یہ کہوں کہ عام انسان کے افعال میں سے نانوے ہزار نو سوننانوے ایسے ہوتے ہیں جو نقل کے ماتحت کئے جاتے ہیں اور ایک کام وہ اپنی ذاتی تحقیق کے ماتحت سوچ سمجھ کر کرتا ہے.اسوقت جو میں باتیں کر رہا ہوں اگر چہ سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں مگر میرا دل جو کچھ کر رہا ہے اس میں میرے ارادہ کا دخل نہیں ، میرے اعضاء کی جو حرکات ہیں ان میں میرے ارادہ کا دخل نہیں ، میرے جسم میں جو خون دورہ کر رہا ہے یہ کسی میرے حکم کے ماتحت نہیں بلکہ آپ ہی آپ ایک عادت کے مطابق ہو رہا ہے.میرے جسم کا ذرہ ذرہ اس وقت چیزوں کو محسوس کر رہا ہے مگر اس احساس میں میرا دخل نہیں.یہ اعضاء کا کام ہے جو وہ خود بخود کر رہے ہیں.میں اپنے جسم کے ان افعال کے نتیجہ میں ایک اثر تو قبول کر لیتا ہوں مگر اس کی تمام جزئیات سے واقف و آگاہ نہیں ہوتا اس لئے میرے نزدیک ننانوے ہزار نوسو ننانوے کام انسان سے بلا ارادہ سرزد ہوتے ہیں اور لاکھ میں سے ایک سوچ سمجھ کر ہوتا ہے باقی

Page 232

خطبات محمود ۲۲۷ سال ۱۹۳۵ء سب نقل کے ماتحت ہوتے ہیں.ممکن ہے کوئی خیال کرے کہ اگر ہم تمام کام نقل کے ماتحت کرتے ہیں تو ہم کا میاب کیونکر ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اچھے کام کرنے والوں کی نقل کرتے ہیں اور انہوں نے آگے اچھے کام کرنے والوں کی نقل کی ہوئی ہوتی ہے اور پھر انہوں نے آگے اچھے کام کرنے والوں کی نقل کی ہوئی ہوتی ہے تو ہم کامیاب ہو جاتے ہیں ورنہ نہیں.اس صورت میں باوجود اس کے کہ نانوے ہزار نو سو ننانوے کام نقل کے مطابق ہوتے ہیں جب ہم اچھے کام کرنے والوں کی نقل کرتے ہیں تو نانوے ہزار نو سوننانوے کام ٹھیک ہو جاتے ہیں اور دس غلط لیکن اگر ہم بُرے کام کرنے والوں کی نقل کرتے ہیں تو ننانوے ہزار نو سو نوے کام غلط ہو جاتے ہیں اور دس ٹھیک اسی لئے کسی نے کہا ہے ” نقل را عقل باید ، یعنی نقل کرنے کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی کا گر یہ بتایا ہے کہ جب تم نے دنیا میں نقل ہی کرنی ہے تو محمد ﷺ کی نقل کرو کیونکہ محمد ﷺ نے کسی کی نقل نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال پر اپنے فعل کو جاری کیا اس لئے وہ کسی بندے کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نقل ہوتی ہے اور انسان اس نقل میں تمام قسم کے خطرات اور خدشات سے محفوظ ہو جاتا ہے یہی نبی کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے.دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان کی نقل کرتا ہے سوائے نبی کے کیونکہ نبی اگر عقل سے کام لینے کے نتیجہ میں بنتا تو وہی شخص نبی ہوسکتا جو شاید توے ہزار سال کی عمر پاتا.تمام دنیا کے حالات پر کامل غور وفکر کرنے کے بعد لوگوں کے لئے اپنا نمونہ قائم کرتا مگر نبی تو بنتا ہے منٹوں میں کیونکہ خدا تعالیٰ اسے کہہ دیتا ہے کہ آج سے تیرے سب کام ہمارے قبضہ میں ہیں گویا وہی کام جو انسان اگر کرنے لگے تو ہزاروں لاکھوں سال درکا رہوں ، انہیں خدا ایک سیکنڈ میں کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے آج سے تم ہماری نگرانی میں آگئے اب تمہارے سارے افعال ہمارے قبضہ میں ہیں.پس نبوت ایک بہت بڑی ضرورت ہے کیونکہ نقل کے بغیر چارہ نہیں اور عقل کے ذریعہ سے کامل ہونے کے لئے لاکھوں سال کی ضرورت ہے جو کسی انسان کو میسر نہیں آ سکتے ان حالات میں ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا شخص بھیجے جس کے اعمال زمانہ کے ماتحت نہ ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوں اور خدا تعالیٰ کے لئے کسی لمبی میعاد کی ضرورت نہیں وہ تو حسن کہتا ہے اور کام ہو جاتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جب تم نے نقل ہی کرنی ہے تو محمد ﷺ کی نقل کر لیا کرو مگر لوگوں میں یہ ایک مرض ہے کہ وہ اچھا

Page 233

خطبات محمود ۲۲۸ سال ۱۹۳۵ء نمونہ ملنے کے باوجود پھر ظاہری آن بان والوں کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیں.محمد ﷺ کے نمونہ پر جب ایک عرصہ گزر گیا اور لوگوں کی نظروں سے آپ کا اُسوہ اوجھل ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج دیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم ﷺ کا بروز بنایا گیا.الله اس وجہ سے آپ کے اُسوہ پر چلنا آپ کی نقل نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی ہی نقل ہے پس رسول کریم ﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے.اصلی بھی اور بروزی بھی لیکن کمزور لوگ پھر بھی دوسرے رستوں پر چل پڑتے ہیں.میں نے ہمیشہ اپنی جماعت کو بتایا ہے کہ تم دوسری قوموں کی نقل نہ کرومگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت پھر بھی احتیاط نہیں کرتی.میں نے دیکھا ہے جب میں کسی راستہ سے گزر رہا ہوں تو آگے ہٹو ہٹو ، راستہ دو، کی آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں معلوم ہوتا ہے ان لوگوں نے کسی نواب یا حاکم کو چلتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی نقل کرنی شروع کر دی مگر ہر چیز ہر ایک کو سجا نہیں کرتی.اگر ایک چھوٹے سے سر والے آدمی پر ایک بڑے سر والے کا کلاہ رکھ دیا جائے تو اسے اچھا نہیں بلکہ بد نما معلوم ہو گا اور اس سے اس کی عزت نہیں بڑھے گی بلکہ ذلت ہوگی اور لوگ تمسخر کریں گے اسی طرح نبیوں کے تابعین کا لباس اگر دنیا داروں کو پہنا دیا جائے یا دنیا داروں کا لباس نبیوں کے تابعین کو پہنا دیا جائے تو یہ بھی بُرا معلوم ہوتا ہے اور یہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ ایک مضبوط ڈیل ڈول والے آدمی کو چار پانچ برس کے بچے کا لباس پہنا دیا جائے.وہ آدمی اگر بچے کی قمیص اپنے جسم پر پہننے لگے گا تو اس کی باہیں پھٹ جائیں گی اور گرتا گلے میں لٹک کر رہ جائے گا ، پاجامہ پہنے گا تو اول تو وہ پھٹ جائے گا اور اگر کچھ کھلا بھی ہوتب بھی جانکھیے سے چھوٹا ہو گا، نیچے سے لاتیں اور اوپر سے دھڑ نگا رہے گا اور معمولی سا کپڑا گلے اور لاتوں میں پھنسا ہوا نظر آئے گا جسے دیکھ کر ہر کوئی نفرت کرے گا اور ہنسے گا.یہی حال انبیاء کی جماعتوں اور دنیا داروں کا ہوتا ہے انبیاء کی جماعتیں دیو کی طرح ہوتی ہیں اور دنیا داروں کی جماعتیں چھوٹے بچے کی طرح جس طرح ایک بڑی عمر والا آدمی چھوٹے بچے کا لباس پہن کر مضحکہ خیز صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح تم دنیا کی اور قوموں کی نقل کر کے اپنے سلسلہ کولوگوں کے لئے سُخریہ سے بناتے ہو.جہاں کی مٹی ہو و ہیں لگا کرتی ہے جو خدا تعالیٰ کی چیزیں

Page 234

خطبات محمود ۲۲۹ سال ۱۹۳۵ء ہوں وہ خدا تعالیٰ کے بندوں پر چسپاں ہوں گی اور جو دنیا کی چیزیں ہوں گی وہ دنیا داروں پر چسپاں ہوں گی پھر زیادہ ذلت یہ ہوگی کہ ہم بجائے کسی اچھی چیز کی نقل کرنے کے ایسی باتوں کی نقل کرنے والے ہوں گے جو اسلام کے خلاف ہوں گی.ہمیں تو خدا تعالیٰ نے دنیا میں عقلیں قائم کرنے اور نقلوں کو تباہ کرنے کے لئے بھیجا ہے نہ کہ دنیا داروں کی نقلیں کرنے کے لئے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے تمام کاموں میں شریعت کی پیروی کیا کریں، محمد ﷺ کی پیروی کیا کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کیا کریں.ابھی تھوڑے دن ہوئے مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا میں نے تو اتنا ہی دیکھا کہ اس کاغذ پر اس قسم کا نقشہ تھا جیسے فارموں وغیرہ پر ہوتا ہے مگر بتانے والے نے بتایا کہ یہ ایک آنہ پر بکتا ہے اور معلوم ہوا کہ ہماری لوکل انجمن نے اس کو ایجاد کیا ہے.انہوں نے سرکاری اسٹامپ دیکھے تو خیال آیا کہ ہم بھی ایک کاغذ بنا کر اس کی کچھ قیمت مقرر کر دیں.کہتے ہیں کو اہنس کی چال چلا اور وہ اپنی چال بھی بھول گیا.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ہنس کوے کی چال چلا اور اپنی چال بھی بھول گیا.ہمیں ڈ نیوی گورنمنٹوں سے بھلا واسطہ ہی کیا ہے کہ ہم ان کی نقل کریں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قسم کی فارم میں کبھی نہیں بنائیں پھر دشمن کو اعتراض کا خواہ مخواہ موقع دینا کہاں کی عقلمندی ہے.اسی قسم کی باتوں کے نتیجہ میں دشمن کو حرف گیری کا موقع ملتا ہے اور وہ کہتا ہے خبر نہیں یہ کیا چیز بنا رہے ہیں ، کرنے والا کوئی ہوتا ہے اور بد نام سلسلہ ہوتا ہے.لوکل کمیٹی والوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے گورداسپور میں ایک بڑھا شخص رہا کرتا تھا لمبا ساقد اور بڑی سی ڈاڑھی تھی ، عرائض نویس یا نقل نویس تھے ، ان کا طریق تھا جب کسی دوست کو دور سے دیکھتے تو بجائے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کے اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَر کہنا شروع کر دیتے اور جب پاس پہنچتے تو اس کے انگوٹھے پکڑ کر الله اكبر کہنے لگ جاتے اور ساتھ ساتھ اُچھلتے بھی جاتے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اکثر ملنے کے لئے آ جاتے تھے.انہیں بھی ہمارے لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ کی طرح نقل کا شوق تھا.وہ غریب چونکہ روز مسلوں کا کام سنا کرتے اس لئے ان کا بھی دل چاہتا کہ میں مجسٹریٹ بنوں اور مسلیں لانے کا آرڈر دیا کروں مگر چونکہ یہ ہوس پوری نہ ہو سکتی تھی اس لئے انہوں نے گھر میں نمک کی مسل ، گھی کی مسل، مرچوں کی مسل اور ایندھن کی مسل بنارکھی تھی.جب وہ دفتر سے فارغ

Page 235

خطبات محمود ۲۳۰ سال ۱۹۳۵ء ہو کر گھر آتے تو ایک گھڑا الٹا کر اُس پر بیٹھ جاتے.بیوی کہتی نمک چاہئے وہ بیوی کو مخاطب کر کے کہتے.ریڈ ر! فلاں مسل لاؤ.بیوی مسل لے آتی اور وہ اسے پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر غور کرتے پھر کہتے اچھا اس میں درج کیا جائے کہ ہمارے حکم سے اتنا نمک دیا جاتا ہے.ایک دن اس بیچارے کی بدقسمتی سے کچہری میں سے کچھ مسلیں چرائی گئیں تحقیق شروع ہوئی تو اس کا ایک ہمسایہ کہنے لگا سرکار مجھے انعام دے تو میں مسلوں کا پتہ بتا سکتا ہوں.اسے کہا گیا اچھا بتاؤ.اسے چونکہ روز ہمسایہ کے گھر سے مسلوں کا ذکر سنائی دیتا تھا اس نے جھٹ اس بوڑھے کا نام لے دیا.اب پولیس اپنے تمام ساز وسامان کے ساتھ اس کے گھر کے گرد جمع ہوگئی اور تلاشی شروع ہوئی مگر جب مسلوں کی برآمد ہوئی تو کوئی نمک کی مسل نکلی ، کوئی گھی کی مسل ، اور کوئی مرچوں کی.یہی نظارہ میں آج کل یہاں دیکھتا ہوں ہمارے کچھ دوست یہ سمجھ کر کہ مغربی چیزیں بڑی اچھی ہیں ، ان کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیں مثلاً کا غذ پر بلاوے کی بجائے سمن لکھ دیتے ہیں اس پر جھٹ گورنمنٹ کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ پیر الکن گورنمنٹ قائم ہو رہی ہے اور وہ جاسوس چھوڑ دیتی ہے.مگر ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ ایک رقعہ کو جوغلطی سے سمن کہ دیا گیا تھا یا ایک اور ناواقف نے اسٹامپ کی نقل کرتے ہوئے کاغذ کی قیمت ایک آنہ رکھ لی نقلیں کرنے والا تو اپنے عمل سے انگریزوں کی تعریف کرتا ہے مگر وہ اُلٹا اسے اپنی تو ہین سمجھتے ہیں صاف پتہ لگتا ہے کہ اپنی نقل کرنے کی اجازت دینا بھی بڑے حوصلہ والوں کا کام ہوتا ہے.یہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ہی کام تھا کہ آپ نے ساری دنیا کو کہا آؤ اور میری نقل کر لو.انگریزوں میں یہ حوصلہ نہیں کہ اپنے کاموں کی دوسروں کو قتل کرنے دیں پس یہ حوصلے والوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ کہیں کرو ہماری نقلیں مگر یہاں تو ان بیچاروں کو سمن کا لفظ لکھنے سے ہی گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے.یا کسی نے مدعی کا لفظ لکھ دیا تو اس پر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ عربی کا ہے اور ہمارا ہے مگر تعجب ہے کہ انہوں نے یہ لفظ تو ہم سے لیا اپنے گھر سے نہیں لائے مگر اب ہم پر ہی یہ اعتراض کرنا شروع کر دیا کہ تم اسے کیوں استعمال کرتے ہو لیکن میں کہتا ہوں اس جھگڑے سے فائدہ کیا ؟ جھگڑا ایک ذلیل چیز ہے اسے چھوڑ دو.پھر ہمارے لئے تو ان اصطلاحات کو چھوڑنا اس لحاظ سے بھی واجب ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کہا سے محمد ﷺ کی نقل کرو اور کسی کی نقل نہ کرو پس تمہاری مثال تو اس وقت بالکل ایسی ہی ہے جیسے بچہ بعض دفعہ بھول کر کسی اور عورت کی گود میں چلا جاتا ہے وہ ناک چڑھاتی اور نفرت کی نگاہ سے اسے

Page 236

خطبات محمود ۲۳۱ سال ۱۹۳۵ء دیکھتی ہے اتنے میں اس کی اپنی ماں اسے دیکھ لیتی ہے اور وہ پیار سے کہتی ہے میرے بچے ! آ جا.پس تم اس وقت جس کو ماں سمجھ کر اس کی گود میں بیٹھنے کے لئے جاتے ہو وہ تمہاری ماں نہیں تمہاری ماں تو محمد ﷺ ہیں ان کی گود میں بیٹھو پھر تمہیں کوئی شخص کچھ نہیں کہہ سکتا پس بدل دو ان الفاظ کو جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیں، بدل دوان اصطلاحات کو جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری ہیں تم محمد ﷺ کی اتباع میں ان الفاظ کو استعمال کرو جو تمہارے ہیں اور دوسرا کوئی شخص ان پر قبضہ نہیں کر سکتا.بھلا کیا ضرورت ہے ہمیں مدعی یا مد عاعلیہ کہنے کی.حدیثوں میں کہیں اس قسم کے الفاظ نہیں آتے ، بے شک فقہاء نے ان الفاظ کو استعمال کیا مگر ہمیں فقہاء کی نقل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ محمد ﷺ کی نقل کرنے کا حکم ہے.حدیثوں سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی اور جس شخص کے خلاف شکایت کی گئی تھی اسے بلا کر دریافت کیا گیا اسی طرح لکھا جاسکتا ہے کہ زید نے شکایت کی اور بکر نے یوں کیا ، نہ مدعی کا لفظ لکھو نہ مدعا علیہ کا ، نہ پیر ائل گورنمنٹ کا کوئی الزام لگائے اور نہ ہی.آئی.ڈی والے دھکے کھاتے پھریں.ان کو الگ تکلیف ہے اور تم کو الگ بلکہ تم پر خدا تعالی کی بھی ناراضگی ہوگی اور وہ کہے گا دوسروں کی بغل میں گھس کر تم نے کیا لیا.پس میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اصطلاحات کے استعمال میں اسلامی شریعت کی نقل کریں نہ کہ دنیا کی دوسری قوموں کی اور جماعت کو خواہ مخواہ بد نام نہ کریں.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی ایک دفعہ حواریوں سے کہیں کہہ دیا کہ تلواریں خرید و سکتو جھٹ ان کے خلاف شکایت کی گئی.حالانکہ اُس وقت حکومت نے تلواریں رکھنے کی اجازت دی ہوئی تھی مگر شکایت پر حکومت ان کے خلاف گرید گرید کر دریافت کرنے لگی اس پر حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو اور تلواروں کو جانے دو تو چھوٹی چھوٹی چیزوں پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے.تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ فار میں بنا ؤ اور حکومت کے دل میں شبہ پیدا کر و.اس میں شک نہیں کہ لوگوں کے معمولی جھگڑوں کا ہم آپس میں تصفیہ کرا دیتے ہیں مگر یہ اس لئے کہ گورنمنٹ خود کہتی ہے جن امور میں پولیس کی دخل اندازی ضروری نہ ہو ان میں آپس میں فیصلہ کر لینے کی اجازت ہے اور اس سے کوئی شخص روک نہیں سکتا.پس شوق سے جھگڑوں کا فیصلہ کر دونگر یہ احتیاط رکھو کہ وہ الفاظ استعمال نہ کرو جن کو گورنمنٹ استعمال کرتی ہو.عربی کے لفظ لو اور ان کو

Page 237

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء استعمال کرو بلکہ عربی کے جو الفاظ انہوں نے لے لئے ہیں انہیں بھی ترک کر دو.ان لفظوں کے بغیر جب محمد ﷺ کے زمانہ میں کام چلتا تھا تو اب کیوں نہیں چل سکتا.ایسی نقل تو وہی شخص ضروری سمجھے گا جس کے دل میں کبر ہومگر اللہ تعالیٰ کو کبر پسند نہیں.وہ نہیں چاہتا کہ تم نقل کر کے یہ بتاؤ کہ تم بھی کچھ شان رکھتے ہو بلکہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ شان کوئی نہیں تم سب ہمارے غلام ہو پس بجائے شان دکھانے کے اللہ تعالیٰ کے غلام بن جاؤ پھر کوئی شخص تم پر حرف گیری نہیں کر سکتا.اس موقع پر میں حکومت کو بھی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جو کچھ کہتی ہے اس پر عمل کرے.جب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ کہا کرتی ہے معمولی جھگڑوں کو آپس میں طے کر لینا چاہئے اور جو تنازعات قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں ان میں خود بخود فیصلہ کیا جا سکتا ہے عدالتوں میں جانے کی ضرورت نہیں تو پھر یہ انصاف کے بالکل خلاف ہے کہ ان جھگڑوں کے تصفیہ کرنے کا نام پیرائل گورنمنٹ رکھا جائے اگر ایسا کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گورنمنٹ منہ سے کچھ اور کہتی ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے.منہ سے تو وہ یہ کہتی ہے کہ ہمارا معمولی جھگڑوں سے کیا واسطہ، جو جھگڑے قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں ان کا فیصلہ بیشک لوگ خود کریں مگر دل میں اس کے یہ ہوتا ہے کہ لوگ معمولی جھگڑوں کا بھی آپس میں فیصلہ نہ کریں کیونکہ یہ پیر ائل گورنمنٹ کا قیام ہے.گورنر کے بعد گورنر ، آفیسر ز کے بعد آفیسر ز ہندوستان میں آئے اور زور دے کر کہتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ مقدمہ باز ہیں یہ آپس میں کیوں جھگڑوں کا فیصلہ نہیں کرتے لیکن جب اس کے مطابق ایک جماعت کھڑی ہوتی اور وہ کہتی ہے انگریز سچے ہیں انہوں نے جو کچھ کہا دل سے کہا اور خیر خواہی کو مد نظر رکھ کر کہا ہم ان کے فرمان کے مطابق معمولی جھگڑے خود بخود طے کر لیا کریں گے تو جھٹ جاسوس چھوڑے جاتے ہیں کہ یہ پیرائل گورنمنٹ قائم کی جا رہی ہے اس کا انسداد کرنا چاہئے.ہمارے نزدیک تو وہ انگریز راستباز ہیں جنہوں نے کہا کہ ہندوستانیوں میں مقدمہ بازی کی عادت بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ آپس میں فیصلہ کر لیا کریں مگر یہ مقامی حکام جو جاسوسیاں کرتے پھرتے ہیں ان کے متعلق سوائے اس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ فتنہ و فساد پر آمادہ ہیں.(خطبہ کے بعد میری نظر سے ایک اخبار گزرا.جس میں درج ہے کہ گجرات کے ایک پٹواری کو ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب نے ایک خاص خوشنودی کی سند بھجوائی ہے کیونکہ وہ پچیس سال سے گاؤں کے جھگڑے گاؤں میں ہی طے کرا دیا کرتا

Page 238

خطبات محمود ۲۳۳ سال ۱۹۳۵ء تھا.ہز ایکسی لینی کا تو یہ رویہ ہے کہ وہ اس شخص کو جو لوگوں کو عدالتوں کے اخراجات سے بچا تا تھا سند خوشنودی دیتے ہیں مگر ان کے ماتحتوں کا یہ رویہ ہے کہ وہ ایک ویسا ہی کام کرنے والی جماعت کی جاسوسیاں کرتے اور اسی کام کی وجہ سے اس کے خلاف رپورٹیں کرتے ہیں اور نا واجب ذرائع سے بغیر اس کے کہ انہیں صفائی پیش کرنے کا موقع دیں، ان کے خلاف بزعم خود مواد جمع کرنے کی کوشش ،ان کرتے ہیں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک ہی کام کے لئے ایک کو خوشنودی کی سند دی جاتی ہے اور دوسرے کی پہچاس سالہ خدمات پر پانی پھیر دیا جاتا ہے اور اسے ظالمانہ طور پر بد نام کیا جاتا ہے ) ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ معزز سے معزز انگریز تو یہ کہیں کہ ہندوستانیوں میں مقدمہ بازی بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ وہ بجائے عدالتوں میں جانے کے گھروں میں فیصلہ کر لیا کریں مگر جب ہم ان کی بات مان کر گھروں میں جھگڑوں کا تصفیہ کرنے لگیں تو یہ پیرائل گورنمنٹ بن جائے.اگر معمولی جھگڑوں کا گھر میں فیصلہ کرنے کا نام ہی پیرائل گورنمنٹ ہے تو حکومت وضاحت سے اس کے متعلق اعلان کر دے ہم اُسی وقت یہ کام چھوڑ دیں گے مگر ادھر یہ بھی جرات نہ کرنی تا کہ ملک میں شور نہ پیدا ہو اُدھر چپکے چپکے ہمارے خلاف کا رروائیاں کرنا اور خفیہ سرکلر جاری کرنے انصاف کے بالکل خلاف ہے.گورنمنٹ اگر فوری طور پر اعلان نہیں کر سکتی تو وہ ایک میٹنگ کرے اور اس میں فیصلہ کرے کہ پیرائل گورنمنٹ کس چیز کا نام ہے؟ پھر اگر وہ یہ فیصلہ کر دے کہ رعایا میں سے کسی کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ امور جو نا قابل دست اندازی پولیس ہوں ان میں فیصلہ دے سکے اور جھگڑوں کو باہم نمٹا سکے تو اس کے بعد اگر ہم کوئی مقدمہ سنیں تو بے شک پیرائل گورنمنٹ کا الزام ہم پر لگائے لیکن اگر وہ یہ فیصلہ کرنے کی جرات تو نہ کرے مگر الزام بدستور قائم رکھے تو وہ سمجھ لے کہ یہ امر اس کی نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی کا موجب ہو گا اور لوگ سمجھیں گے کہ وہ ظالم ہے اور ہم مظلوم.پھر ہمارے معاملہ میں تو گورنمنٹ کو کوئی دقت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ ہمارا مذ ہب یہ ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کی جائے.پس جس دن وہ اعلان کر دے گی اُسی دن ہم اس کی بات مان لیں گے لیکن ہمارے اس اعلان کے باوجود کہ ہم گورنمنٹ کی ہر وقت اطاعت کرنے کے لئے تیار ہیں اگر حالت یہ ہو کہ حکومت پنجاب کے اعلیٰ افسر لاہور میں بیٹھے ہوئے تو کہہ دیں کہ گورداسپور کے فلاں فلاں افسروں سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ فلاں فلاں آدمیوں سے کام نہ لیں اور احمدیوں کے خلاف

Page 239

خطبات محمود ۲۳۴ سال ۱۹۳۵ء - جاسوسی نہ کرائیں مگر گورداسپور کے وہ افسران لوگوں کو بدستور ہفتہ میں دو بار ملاقات کا موقع دیں اور گھنٹوں ان سے سرگوشیاں کریں تو اسے ہم کیونکر انصاف کہہ سکتے ہیں.آخر کیوں ان افسروں کو سزا نہیں دی جاتی جو باوجود اعلیٰ حکام کی ہدایات کے ان کا رروائیوں سے باز نہیں آتے.ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم نے اس طریق کو روک دیا اور حکام کو سمجھا دیا ہے کہ وہ اپنی روش میں تبدیلی کریں مگر وہاں برابر ممنوع لوگ جاتے ہمارے کاغذات چرائے جاتے اور ہمارے خلاف خفیہ اجلاس ہوتے رہتے ہیں حالانکہ ہم نے بارہا کہا ہے گورنمنٹ دلیری سے کہہ دے کہ اس قسم کے جھگڑوں کا تصفیہ کرنا قانون کے خلاف ہے آئندہ مت فیصلے کیا کرو ہم نہیں کریں گے.آخر وجہ کیا ہے کہ وہ اس قسم کا اعلان نہیں کرتی جب ہم کہتے ہیں کہ جب تک ہم اس ملک میں رہیں گے گورنمنٹ کی اطاعت کریں گے اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی اطاعت کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے تو اس کے لئے اس قسم کے اعلان میں دقت ہی کیا ہے مگر ایسا اعلان بھی نہیں کیا جاتا اور برا بر ہمارے خلاف کا رروائیاں کی جا بے رہی ہیں جو ہمارے دلوں میں یہ شبہ پیدا کرتی ہیں کہ خفیہ طور پر ہمارے سلسلہ کے خلاف ریکارڈ جمع کیا جارہا ہے تا کہ الزام بھی لگ جائے اور ہم تردید بھی نہ کرسکیں.انصاف تو یہ ہے کہ یا اس طریق کو بند کیا جائے یا نالش کر کے الزام ثابت کیا جائے.اگر وہ یہ کہیں کہ نالش کر کے ہم پر الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا تو وہ نالش نہ کریں یونہی کہہ دیں کہ ایسا نہ کرو ہم نہیں کریں گے مگر ادھر یہ جرات نہ کرنا اور ہم پر مقدمہ نہ چلانا اور ادھر یہ ہونا کہ خفیہ طور پر لوگ آ رہے ہیں اور مسلیں تیار ہو رہی ہیں ایسی بات ہے جسے کوئی شخص پسند نہیں کر سکتا بلکہ وہ لوگ جو اس وقت پنجاب کے اعلیٰ افسر ہیں اگر ان کے سامنے بھی یہ بات رکھی جائے تو وہ بھی اس بات کو کبھی پسند نہیں کریں گے اسی لئے میں اس خطبہ کے ذریعہ ایک طرف تو اپنی جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چھوڑ دو ان اصطلاحات کو جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری ہیں اور ان کی نقلیں نہ کرو اور اُدھر گورنمنٹ کو تو جہ دلاتا ہوں کہ جو طریق اس ضلع کے بعض افسروں نے اختیار کر رکھا ہے وہ اچھا نہیں.ہم گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ مذہبی طور پر اس کی اطاعت ضروری سمجھتے ہیں.اگر وہ مجھتی ہے کہ ہمارا فلاں طریق صحیح نہیں تو علی الساعلان اس کا اظہار کر دے اور اگر اس کا منشاء ہمیں قید کرنا ہے تو مقدمہ چلائے اور ہمیں قید کرے مگر اس طریق کو رو کے جوا خلاقی طور پر نہایت ہی معیوب ہے.یعنی ایک طرف تو مقدمہ نہ چلایا جائے اور نہ حکماً کسی

Page 240

خطبات محمود ۲۳۵ سال ۱۹۳۵ء کام سے ہمیں روکا جائے اور دوسری طرف خفیہ ریشہ دوانیوں کے ذریعہ جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے.گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ کی تحقیق کرے کیونکہ ضلع گورداسپور میں بعض افسر ایسے ہیں جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں.اگر وہ ہم سے پوچھے تو جو ہمارا علم ہے وہ ہم اسے بتا دیں گے لیکن اگر وہ خود تعاون چھوڑتی ہے اور ان حرکات کی طرف کسی مصلحت کی وجہ سے توجہ نہیں کرتی ، چاہے یہی وجہ ہو کہ اپنے افسروں کی بدنامی کا اسے خوف ہو تو پھر اس معاملہ کو ہم خدا تعالیٰ پر چھوڑتے ہیں وہ آپ دیکھ لے گا کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم.الفضل ۱۹اپریل ۱۹۳۵ء) بخاری کتاب الجنائز باب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ (الخ) الاحزاب : ٢٢ سخريه: موجب تمسخر ۴ لوقا باب ۲۱ آیت ۳۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۵ متی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء

Page 241

خطبات محمود ۲۳۶ ۱۴ سال ۱۹۳۵ء اپنے نفسوں کو قربان کر دو اور آستانہ الہی پر گر جاؤ (فرموده ۵ را پریل ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری تحریک کے مطابق تین روزے ہو چکے ہیں اور اب یہ چوتھے روزہ یعنی وسطی روزہ کا ہفتہ گزر رہا ہے گویا وہ تحریک چند روز میں اپنے شباب کو پہنچنے والی ہے.یہ سات روزے جو ہماری جماعت کے دوست ہندوستان میں بھی اور باہر بھی رکھیں گے ،ہمیں یقین کرتا ہوں کہ اصلاح حالات میں ممد ہوں گے اور ان لوگوں کے شر کو دور کرنے کا موجب ہوں گے جن کو سلسلہ کی مخالفت کے سوا آج کل کوئی اور شغل ہی نہیں ہے مگر ہمارے دوستوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان سات روزوں کے ساتھ وہ سارے شرور سے بچ جائیں گے بلکہ یہ ایک چلہ دعاؤں کا ہے اور نہ معلوم ایسے کتنے چلے اور ہمیں اختیار کرنے پڑیں گے.ہمارے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اصل غرض ہماری جماعت کے قیام سے یہ ہے کہ ایک مصفی اور پاکیزہ جماعت دنیا میں قائم ہو اور سونے کو صاف کرنے کے لئے کٹھالی میں ڈالنا ضروری ہوتا ہے.پس یہ ابتلاء ہماری اصلاح کے لئے ہیں اور ہمیں صحیح راستے پر قائم کرنے کیلئے ہیں جس پر چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہم میں سے ابھی بہت ہیں جو اصلاحوں کے محتاج ہیں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو یا تو جماعت سے نکال دے اور یا پھر ان کی اصلاح کر دے.خدا تعالیٰ جماعت کو ایسے مقام پر لے جانا چاہتا ہے جس پر اسے دیکھ کر اپنے اور غیر

Page 242

خطبات محمود ۲۳۷ سال ۱۹۳۵ء ہو جاتا ہے.سارے ہی تعریف کریں.کیا چھوٹا سا کیڑا انسان کے نطفہ میں ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ظلمات میں سے گزارتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ کئی ظلمات میں سے گزر کر کتنا خوبصورت بچہ لے نطفہ سے انسان کتنا گھن کھاتا ہے لیکن بچہ کو ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار کتنا پیار کرتے ہیں سو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جماعت ظلمتوں سے گزرے تا اس کی اصلاح ہو جائے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مختلف فتنوں سے گزرتے ہوئے بھی ہم کس طرح راستی پر قائم رہتے ہیں اور اپنے کام کو نہیں بھولتے اس وجہ سے فتنہ کے بعد فتنہ آتا ہے ایک حرکت احرار کی طرف سے ہو جاتی ہے وہ دیتی ہے اور دوست سمجھتے ہیں کہ نجات ہوگئی اور معاً ایک حرکت مقامی حکام کر دیتے ہیں اس کا اثر ا بھی ہوتا ہے کہ پھر احرار کی طرف سے دوسری حرکت ہو جاتی ہے گویا احرار اور مقامی حکام ایک ہی ٹیم کے دو ونگ ہیں ایک لیفٹ اور ایک رائٹ کبھی لیفٹ ونگ والے فٹ بال ہمارے گول کی طرف لاتے ہیں ہم انہیں روکتے ہیں تو وہ بال کو جھٹ پاس کر کے رائٹ ونگ والوں کی طرف پاس کر دیتے ہیں پھر وہ کوشش کرتے ہیں کہ گول ہو جائے اور ہم جب ان کے حملہ کو روکتے ہیں تو وہ ٹیم کے دوسرے حصہ کی طرف بال بھیج دیتے ہیں.اس وقت ہماری حالت اس ٹیم کی ہے جو سار از ور گول کو بچانے میں خرچ کر رہی ہوتی ہے ہم جب ایک طرف کے حملہ کو روکتے ہیں تو دوسری طرف سے ہو جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احرار اور مقامی حکام ایک ہی ٹیم کے دوونگ ہیں.جب ایک ونگ پر زور پڑتا ہے تو وہ بال کو دوسری طرف بھیج دیتے ہیں احرار تو احرار ہی ہیں ان کا کیا کہنا حکومت کے جو افراد ان کی ٹیم میں شامل ہیں ان پر اور بے شک نگران ہیں پنجاب کی حکومت ، ہندوستان کی حکومت اور پھر انگلستان میں حکومت ہے.جب ان کی طرف سے کوئی حرکت ہوتی ہے تو دوستوں کی نگاہ قدرتی طور پر بالا افسروں کی طرف اُٹھتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ احرار کو تو کوئی روکنے والا نہیں.حکام ضلع گورداسپور جو کارروائیاں کرتے ہیں ان پر حکومت پنجاب ضرور ایکشن لے گی اور اس لئے ان کی طرف سے کسی ایسی حرکت پر ساری جماعت کی نگاہیں لاہور کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اوپر اور افسر ہیں ان کو ہم سے کوئی ضد نہیں اس لئے وہ ضرور انصاف کریں گے لیکن جسے یہ خلاف آئین حرکت سمجھتے تھے جب اس کی گونج لاہور پہنچتی ہے اور وہاں سے بھی کوئی حرکت نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری گورنمنٹ ہی ہمارے خلاف ہے مگر

Page 243

خطبات محمود ۲۳۸ سال ۱۹۳۵ء اس خیال سے پھر انہیں تسلی ہو جاتی ہے کہ ممکن ہے معاملہ ان پر واضح نہ ہوا ہو اور ان کو معاملات غلط پہنچائے گئے ہوں اس خیال سے پھر ان کے دل میں امید پیدا ہو جاتی ہے کہ پھر جب حق کھلے گا تو وہ ضرور دخل دیں گے یہاں تک کہ پھر ایک نیا واقعہ ہوتا ہے اور ان کی نگاہیں پھر لاہور کی طرف اُٹھتی ہیں مگر پھر صدائے برنخواست والا معاملہ ہوتا ہے جیسا کہ گذشتہ چھ ماہ کے واقعات میں سوائے ایک اس نوٹس کے جو مجھے دیا گیا تھا ہوتا رہا ہے کسی ایک معاملہ میں بھی حکومت پنجاب نے ہمارے علم میں کوئی کا روائی نہیں کی.ممکن ہے کوئی دخل دیا گیا ہومگر ہمارے علم میں نہیں اس وجہ سے قدرتی طور پر جماعت میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ شاید اوپر کے افسر بھی ہمارے مخالف ہیں یا انہیں دھوکا دیا گیا ہے یہ تو ہم نہیں مان سکتے کہ وہ عملاً ایسا کر رہے ہوں کیونکہ انگریز افسروں کو احرار اور احمدیوں کے جھگڑوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے.ہندوستانی افسروں کو تو مذہبی طور پر یا قومی طور پر یا دوستوں کے لحاظ کی وجہ سے کسی کی رعایت ہو سکتی ہے مگر انگریزوں کے متعلق اس کے سوائے کچھ نہیں سمجھا جا سکتا کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہومگر ان کی طرف سے خاموشی کی وجہ سے قدرتی طور پر جماعت کے دوست پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے.ممکن ہے بعض طبائع میں غصہ بھی پیدا ہوتا ہو اور ان خطوط سے جو مجھے چاروں طرف سے موصول ہوتے رہتے ہیں میں سمجھتا ہوں بعض طبائع میں غصہ پیدا ہوتا ہے مگر پھر جب عقل کہتی ہے کہ انگریز افسروں کو ان جھگڑوں سے کیا واسطہ ہوسکتا ہے اور ان کا کیا دخل ہو سکتا ہے تو پھر خیال آ جاتا ہے کہ اب کوئی موقع ہوا تو پھر دیکھیں گے یہ ایک لمبا سلسلہ چلا جا رہا ہے اور اس بات کا محتاج ہے کہ اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں.مگر پیشتر اس کے کہ میں ایسا کروں میں ایک تازہ واقعہ کا اظہار کرتا ہوں جو پچھلے تمام حالات اور واقعات سے بہت زیادہ سنگین اور بہت زیادہ خطرناک ہے یہاں کے چند طلباء نے مل کر ایک سوسائٹی مذہبی تقریروں کی مشق کے لئے بنائی ہوئی ہے میں نے اس کے کاغذات منگوا کر دیکھے ہیں وہ ہمیشہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وفات مسیح علیہ السلام پر تقریریں کرتے ہیں باقی اس کے ا وہ نظم یا کبھی کوئی چٹکلہ ہو گیا تو ہو گیا ور نہ تقریر میں سب انہی دو موضوع پر ہوتی ہیں.یہ مجلس کئی ماہ سے قائم ہے اور اس کی کئی میٹنگیں ہو چکی ہیں اس کے تمام ممبر طالب علم ہیں جو ۱۰ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے ہیں.کل ممبر ۲۷ ہیں مولوی غلام احمد متعلم جامعہ احمدیہ اس کے صدر ہیں اور اس کے ممبروں کی علاوہ

Page 244

خطبات محمود فہرست حسب ذیل ہے.ا غلام احمد متعلم جامعہ احمدیہ صدر.مولوی محمد احمد ۱۸ سال ہفتم احمد یہ سکول صوفی محمود احمد ۱۶ سال نہم ہائی سکول ۴.صلاح الدین ۱۵ سال نہم ہائی سکول ۵.سلطان احمد ۶ اسال ہشتم ہائی سکول.مولوی برکات احمد ۷ اسال نہم ہائی سکول مبارک احمد ۱۴ سال ہشتم ہائی سکول -- محمد صادق ۱۶ سال نہم ہائی سکول ۹.شریف احمد ۱۳ سال ہشتم ہائی سکول ۱۰.محمد عثمان ۱۲ سال ہفتم ہائی سکول ۱۱.مولوی نور الحق ۱۸ سال ششم احمد یہ سکول ۱۲.حافظ مسعود احمد ۱۲ سال ہفتم ہائی سکول ۱.جلال الدین ۱۱ سال ششم ہائی سکول ۱۴.عبد الحی ۱۵ سال نہم ہائی سکول ۱۵.عبدالقیوم ۱۰ سال ششم ہائی سکول ۱۶.محمد اکرم ۱۵ سال ہفتم ہائی سکول ۱۷.بشارت الرحمن ۱۴ سال ہشتم ہائی سکول ۱۸.مبشر احمد ۱۰ سال ششم ہائی سکول ۱۹.حلیم احمد ۷ سال ہفتم ہائی سکول ۲۰.عبد الرؤوف ۱۲ سال ششم ہائی سکول فضل حق ۱۳ سال دوئم احمد یہ سکول ۲۲.محمد علی ۱۷ سال ہفتم ہائی سکول ۲۳۹ سال ۱۹۳۵ء

Page 245

خطبات محمود ۲۳.بشیر علی ۱۶ سال نہم ہائی سکول ۲۴.عبدالرشید ۱۱۵سال پنجم احمد یہ سکول ۲۵.منورحسین ۱۵ سال ششم ہائی سکول ۲۶.بشارت احمد ۱۱ سال پنجم ہائی سکول ۲۷.بادی ۱۱ سال چہارم ہائی سکول ۲۸.محمد یعقوب کو کب سیکرٹری ۲۴۰ سال ۱۹۳۵ء یہ ۲۷ لڑ کے علاوہ سیکرٹری کے ہیں گویا گل مل کر ۲۸ ہو گئے اور انہوں نے ایک انجمن حزب اللہ بنائی ہوئی ہے جس میں وفات مسیح علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تقریریں ہوتی ہیں.یہ نمبر سب چھوٹے بچے ہیں جو اور انجمنوں میں جا کر تقریر میں کرنے سے شرماتے ہیں جیسا کہ چھوٹے بچے ہمیشہ شرمایا ہی کرتے ہیں.پرسوں ان کا اجلاس تھا سیکرٹری کا بیان ہے کہ پہلے ایک پولیس انسپکٹر یا سب انسپکٹر وہاں پہنچے اور کہا کہ ہمیں اندر آنے کی اجازت دی جائے.میں نے ان سے کہا کہ یہاں تو چھوٹے چھوٹے بچے تقریریں کریں گے وہ تو اپنے رشتہ داروں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بھی شرماتے ہیں اور اسی وجہ سے الگ ایک مکان میں ہم جلسہ کرتے ہیں اگر پولیس کے لوگ وردیاں پہن کر آ گئے تو ان کے تو ہوش اُڑ جائیں گے.سب کے سب طالب علم ہوتے ہیں ہاں کبھی کسی مدرس کو صدر بنا لیتے ہیں آپ کے آنے پر لازمی بات ہے کہ ان سے بولا نہیں جائے گا.اس پر انہوں نے ایک حکم نکال کر دکھایا کہ یہ سر کاری حکم ہے.سیکرٹری کہتا ہے کہ اس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے محلہ کے پریذیڈنٹ سے کہیں اگر انہوں نے کہا تو ہم اجازت دے دیں گے چنانچہ وہ صدر کے پاس گئے اور حکم ان کو دکھایا یہ حکم مجسٹریٹ علاقہ کی طرف سے تھا اور اسی ایکٹ کے ماتحت جس کی preamble میں لکھا ہے کہ حکومت کا تختہ اُلٹ دینے کے لئے جو انجمنیں بنائی جاتی ہیں یہ ان میں دخل دینے کے لئے ہے اور ظاہر ہے کہ دس سال کی عمر کے بچوں پر جو اپنے بھائیوں سے بھی تقریر میں کرتے ہوئے شرماتے ہوں باور دی پولیس اور نمبر دار پٹواریوں کو لے جانا اور اس کے لئے کریمینل لاءایمنڈ منٹ ایکٹ کو استعمال کرنا حکومت برطانیہ کی ڈیڑھ دوسو سالہ حکومت میں شاید پہلا واقعہ ہے.یہ جلسہ چند ایک بچوں کا تھا جس میں وفات مسیح علیہ السلام اور صداقتِ مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 246

خطبات محمود ۲۴۱ سال ۱۹۳۵ء والسلام پر تقریر میں ہونے والی تھیں اس پر ۱۲ آدمی جن میں کئی پولیس کے افسر اور نمبر دار وغیرہ کو شہادت کے لئے لے جانا کہ دیکھیں احمدی بچے صداقت مسیح موعود پر لیکچر دے کر حکومت کو الٹنے کے لئے کیا پروگرام بناتے ہیں یا وفات مسیح کی تقریریں کرتے ہوئے حکومت کے خلاف کیا کارروائیاں کرتے ہیں، ایک ایسا غیر منصفانہ فعل ہے جس کے متعلق میں جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا.پہلے میں صرف اس کا ذکر کر کے اسے حکومت تک پہنچاتا ہوں کہ یہ ایک پرائیویٹ میٹنگ تھی جس میں صرف ممبر بلائے گئے تھے اور صرف نوٹس ملنے کے بعد دس بارہ لڑکے طالب علم ڈر کی وجہ سے سیکرٹری نے بلوا لئے تھے حکومت بتائے کہ کیا کبھی احرار کی کسی میٹنگ کے متعلق بھی ایسا کیا گیا ہے.لڑکوں کو جو سوجھتی ہے عجیب سوجھتی ہے جب پولیس گئی تو کئی بچے تو ڈر کر بھاگ گئے دوسروں نے کہا کہ جب ہم اپنے رشتہ داروں کے سامنے تقریریں نہیں کر سکتے تو ان لوگوں کے سامنے کس طرح کر سکتے ہیں اور انہوں نے تقریر کرنے سے انکار کر دیا.اس پر بچوں نے جو کیا وہ نہیں کرنا چاہئے تھا مگر بچے تھے میں کیا کہوں.ان کو چاہئے تھا کہ اُسی وقت کھڑے ہو جاتے اور پروٹسٹ (protest) کے طور پر ریزولیوشن پاس کر کے جلسہ ختم کر دیتے کہ اس طرح بچوں کو ستایا جاتا اور ان کی مشقی تعلیم کو روکا جاتا ہے ہم اس کے خلاف پروٹسٹ کر کے جلسہ کو برخاست کرتے ہیں لیکن بچے جہاں بے وقوف اور بے سمجھ ہوتے ہیں وہاں ذہین بھی کمال کے ہوتے ہیں اور جب دق کرنے پر آئیں تو بہت سخت دق کرتے ہیں پس انہوں نے جو کچھ کیا اس کے لئے میں ان کی ذہانت کی تو داد دیتا ہوں مگر پسند نہیں کرتا.انہوں نے بعض بڑی جماعت کے طلباء کو بلا کر کھڑا کر دیا کہ عربی میں تقریریں کریں اب عربی میں تقریر میں ہو رہی ہیں اور بیچارے پولیس والے بیٹھے ہیں.پولیس کے علاوہ ارد گرد کے دیہات کے نمبر دار تھے وہ بھلا کیا سمجھیں جو اردو کی تقریروں کو بھی نہ سمجھ سکیں وہ عربی تقریر کو کیا سمجھ سکتے.میرے نزدیک طلباء کا یہ طریق تھا تو غلط کیونکہ پولیس والوں کو شرارت کا موقع مل سکتا تھا.جو پولیس کے آدمی وہاں بھیجے گئے اُن کو میں جانتا تو نہیں ہاں ایک کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ وہ سلسلہ کا شدید دشمن ہے اور ہمارے متعلق اس کی رپورٹیں اکثر غلط ہوتی ہیں بہر حال پولیس کے جو آدمی گئے ان کا تو کوئی قصور نہ تھا وہ مجسٹریٹ کے حکم کے پابند تھے اس لئے میں ان کو بیچارہ ہی کہتا ہوں وہ بیچارے بھی وہاں حیران بیٹھے ہوں گے کہ ہم کہاں پھنس گئے.بہر حال ان میں سے کوئی شریر یہ کہہ سکتا تھا کہ وہاں اتنی گالیاں دی گئی ہیں کہ ہم

Page 247

خطبات محمود ۲۴۲ سال ۱۹۳۵ء بیان بھی نہیں کر سکتے اور برداشت بھی نہیں کر سکتے تھے بجائے اس کے کہ جا کر کہتے تقریر میں عربی میں تھیں اس لئے سمجھ نہ سکے وہ شرارت بھی کر سکتے تھے کہ زبانوں میں تو فرق ہوتا ہی ہے اور ایک زبان کے بعض اچھے بھلے لفظوں کا دوسری زبان میں جا کر مفہوم بدل جاتا ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی نے دوسرے سے خط لکھ دینے کے لئے کہا وہ صرف ہندی جانتا تھا اس لئے اس نے کہا میں ہندی میں خط لکھ دیتا ہوں لکھوانے والے نے پنجابی میں لکھوایا کہ قطب الدین گھر دی کڑیاں ویچ کے اجمیر گیا اب ہندی میں ق تو ہوتا نہیں نہ ہی طہوتی ہے اس لئے ہندی میں لکھا ہو اخط جب منزل مقصود پر پہنچا اور خط والے نے کسی ہندی دان سے خط پڑھوایا تو اُس نے یوں پڑھا کتا بے دین گھر دی گڑیاں ویچ کے آج مر گیا.اس لئے ممکن تھا کہ عربی کے بعض الفاظ کو وہ خواہ مخواہ گالیاں بنا کر پیش کر دیتے اس لئے ان طلباء کا لطیفہ تو قابل داد ہے میں ان کی ذہانت کی داد دیتا ہوں مگر سمجھ کی داد نہیں دے سکتا ان کو چاہئے تھا کہ وہ پروٹسٹ کرتے اور ریز و لیوشن پاس کر کے جلسہ کو بند کر دیتے.اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہمارے بچے مذہبی تعلیم حاصل نہ کریں تو وہ نہ کریں گے ہم ان کو تعلیم کے لئے دوسرے ملکوں میں بھیج دیں گے.فارسی میں ضرب المثل ہے کہ ” پائے گد النگ نیست ملک خدا تنگ نیست اگر حکومت کہتی ہے کہ مذہبی تعلیم نہ دو تو ہم اس ملک کو چھوڑ جائیں گے.جس کے پاس زور ہو وہ تو ڈرا لیتا ہے اور رُعب دے لیتا ہے مگر جس کے پاس طاقت نہ ہو وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ اچھا تجھ سے اللہ تعالیٰ سمجھے ہم جاتے ہیں اگر اس ایکٹ کو اسی طرح استعمال کیا جانے لگا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم تمام مدر سے بند کر کے اور مکانوں کو مقفل کر کے قادیان سے نکل جائیں اور لاہور یا کسی اور جگہ جار ہیں.بہر حال طلباء کو چاہئے تھا کہ ریزولیوشن پاس کر کے حکومت کو بھیج دیتے اگر تو وہ تو جہ کرتی تو فبہا اور اگر گزشتہ سلوک کی طرح کوئی توجہ نہ کرتی اور جلسے بند کرنے کی ہدایت کرتی تو کر دیتے.میں خوش ہوں گا اگر حکومت بتائے کہ احرار کی کسی میٹنگ پر بھی اس کی طرف سے کبھی اس ایکٹ کو استعمال کیا گیا ہے حالانکہ وہ على الاعلان کہتے ہیں کہ ہم حکومت کو تباہ کر دیں گے ہم تو کہتے ہیں کہ ہم حکومت کے وفادار اور قانون کے پابند ہیں اور احرار کا دعوی ہے کہ ہم مصلحتا قانون کو مانتے ہیں ورنہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ جب موقع ملے حکومت کو تباہ کر دیں.یہ ایکٹ جن لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا گو احرار کا عمل اس وقت نہیں مگر قول ان کے مطابق ہے مگر ہمارا نہ یہ قول ہے اور نہ عمل.پس جو شخص ہمارے بچوں پر

Page 248

خطبات محمود ۲۴۳ سال ۱۹۳۵ء اس لئے کہ وہ وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تقریریں کرتے ہیں یہ ایکٹ لگا تا ہے میں نہیں سمجھتا اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا.میرے نزدیک قانون کا منشاء ہرگز یہ نہیں.جب ہم نے یعنی ہمارے نمائندوں نے اس کی تائید میں ووٹ دیئے تو یقینا یہ سمجھ کر نہیں دیئے تھے کہ اس کا استعمال اس طرح کیا جائے گا اور جب حکومت نے ووٹ مانگے تو اس لئے نہیں مانگے تھے کہ اس طرح اس کا استعمال کیا جا سکے اگر حکومت اُس وقت بتا دیتی کہ اس ایکٹ کا استعمال بچوں کی ایسی مجالس پر کیا جائے گا جن میں وفات مسیح اور صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تقریریں کی جاتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں گو بزدل ممبر بھی ہوتے ہیں مگر کوئی ہندوستانی ممبر ایسا بے غیرت نہ ہوتا کہ اس کے حق میں ووٹ دے دیتا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت کے کسی رکن کے اپنے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کا استعمال اس طرح کیا جائے گا اور نہ ہی اب حکومت پنجاب یا حکومت ہند کے کسی رکن کے ذہن میں یہ بات ہو سکتی ہے کہ اس کا اس طرح استعمال کیا جائے گا.مجھے یقین ہے کہ انگلستان کی پانچ کروڑ آبادی میں سے ایک فرد بھی اسے جائز سمجھنے والا نہ ہوگا بلکہ انسانیت کی نیکی اور اس کے جو ہر کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر کے شرفاء میں سے کسی ایک کو بھی کبھی یہ خیال نہیں ہوسکتا کہ اس کا یہ استعمال صحیح ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ایکٹ کو اس جگہ استعمال کرنے والے نے اسے کس طرح استعمال کیا ممکن ہے اسے دھوکا دیا گیا ہو یا ڈرایا گیا ہو کیونکہ میں یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اس نے اس ایکٹ کا اس طرح استعمال درست سمجھ کر کیا لیکن اگر واقعی اس نے صحیح سمجھ کر کیا ہوتو میں سوائے إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے اور کیا کہ سکتا ہوں.جب یہ امر واقعہ ہے کہ احرار کی پرائیویٹ میٹنگوں اور کانگرس کی میٹنگوں پر اس ایکٹ کا اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ کھلے بندوں حکومت کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر جماعت احمد یہ جو وفا دار جماعت ہے اور جو حکومت کی خاطر بیش بہا قربانیاں کر چکی ہے اس کے بچوں کی ایک مذہبی میٹنگ پر اس ایکٹ کے استعمال کئے جانے کا علم ہونے کے بعد بھی اگر حکومت یہ کہے کہ یہ ٹھیک کیا گیا ہے تو میں سمجھوں گا حکومت کا مطلب یہ ہے کہ احمدی قادیان چھوڑ کر چلے جائیں ہم جائیں یا نہ جائیں یہ علیحدہ بات ہے یہ ہمارا کام ہے کہ دیکھیں جانا چاہئے یا نہیں لیکن ابھی تک مجھے یقین نہیں کہ حکومت کو اس کا رروائی کا علم ہو.ہاں اب اس خطبہ کے ذریعہ اسے علم ہو جائے گا اور ہم دیکھیں گے وہ کیا ایکشن لیتی ہے.ایسا

Page 249

خطبات محمود ۲۴۴ سال ۱۹۳۵ء مجسٹریٹ جو چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک بے ضرر مذہبی مجلس پر باغیانہ ایکٹ لگا تا ہے اُس نے خواہ عمداً ایسا کیا ہو یا انجان ہونے کی وجہ سے وہ شدید ترین سزا کا مستحق ہے اور ہم گورنمنٹ کے انصاف سے، برطانوی انصاف سے، برطانوی عدل سے جس کا دعوی ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم کی تائید کرتا ہے حتی کہ انگریزی محاورہ ہے کہ انگریز انڈر ڈاگ (Under Dog) کی مدد کرتا ہے یعنی اگر دو کتے بھی لڑ رہے ہوں تو انگریز اُس کی مدد کرتا ہے جو مظلوم ہو.میں اس روایتی انصاف سے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اگر حکام ہمیں انسانیت سے خارج سمجھتے ہیں تب بھی ان کا فرض ہے کہ ہم پر اس قسم کے ظلم کو روکیں اور میں اس خطبہ کے ذریعہ حکومت پر حجت پوری کرتا ہوں.میں نے موڈب اور نرم الفاظ میں حکومت کو توجہ دلا دی ہے اور یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کوئی یہ نہ سمجھے میں دھمکی دے رہا ہوں.ہمارا اصول وفاداری ہے اور ہم وفاداری کریں گے.اگر حکومت یہ کہے کہ ہم اپنے مدر سے بند کر دیں تو کر دیں گے ، اگر وہ کہے قادیان کو چھوڑ دو تو ہم چھوڑ کر چلے جائیں گے، اگر وہ کہے کہ مذہبی تعلیم نہ دو تو ہم ایسا حکم دینے والے صوبہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے صوبہ میں چلے جائیں گے جہاں احمدیوں کے لئے آزادی ہو.غرضیکہ وہ کوئی حکم دے کر دیکھ لے ہم اس کی پابندی کریں گے یہ ہمارا اصول ہے مگر برطانوی انصاف سے میں یہ درخواست کروں گا کہ وہ اس قسم کے ہاتھوں کو رو کے جو صریح ظلم ہم پر کر رہے ہیں.چاہے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم کمزور ہیں ، چاہے یہ سمجھا جائے ہمارا ند ہی اصول ہے بہر حال یہ ہمارا اصول ہے اور اسے ہم مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں کوئی مخالف کہدے کہ ڈر کر کرتے ہیں تو اُس کی مرضی مگر امر واقعہ یہی ہے کہ ہم قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور ہما را اصول یہی ہے کہ قانون کی پابندی کریں گے.خواہ وہ دفعہ ۱۴۴ ہو یا کریمنل لا ء ایمنڈ منٹ ایکٹ (Criminal Law Amendment Act) یہاں بلا وجہ دفعہ ۱۴۴ لگائی گئی اور احمدی وکلاء نے مجھے بار بار کہا کہ یہ نا جائز اور غلط ہے.آپ کسی کو اس کی خلاف ورزی کے لئے نہ کہیں مگر روکیں بھی نہیں.نیشنل لیگ ایک جلسہ کرے اور پولیس چالان کرے ہم ذمہ وار ہیں کہ یہ حکم غلط ثابت ہوگا اور جلسہ کرنے والے بری کئے جائیں گے.اس صورت میں واقعات پر بھی بحث ہو سکے گی اور سب اندرونی کا غذات حکومت کو ظاہر کرنے پڑیں گے مگر میں نے اس کی اجازت نہیں دی کہ ہم قانون تو ڑ کر اپنی قدیم روایات کے خلاف جائیں حالانکہ یہ صرف Test case ہوتا اور Test case قانون شکنی

Page 250

خطبات محمود ۲۴۵ سال ۱۹۳۵ء نہیں کہلا سکتا اس قسم کا مقدمہ جن لوگوں پر ہو اُن سے عدالتیں بھی نرمی کا سلوک کیا کرتی ہیں تو مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں کسی کو جلسہ کرنے سے نہ روکوں مگر میں نے اسے پسند نہیں کیا کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ ہم رسمی طور پر بھی یہ الزام لیں بلکہ ہمارے آدمی تو اس قدر گو ہیں کہ دفعہ ۱۴۴ کے دوران میں ایک واقعہ ہوا جس کے کاغذات مجھے اس کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا.قادیان کے مختلف محلوں کے پریذیڈنٹوں نے ایک مجلس کی کہ خلیفہ امسیح کے پہرہ کا انتظام کس طرح کیا جائے ؟ ایک محلہ کے پریذیڈنٹ کو جب اس میں شامل ہونے کے لئے لکھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ چونکہ دفعہ ۱۴۴ لگی ہوئی ہے اس لئے میں اس میں شامل نہیں ہو سکتا حالانکہ اس دفعہ کی رو سے بھی پرائیویٹ جلسوں کی ممانعت نہیں تھی اور نہیں ہو سکتی تو ہمارے آدمی تو قانون کے اس قدر پابند ہیں کہ اس دفعہ کے نفاذ کے بعد انہوں نے جلسوں کو سؤر کی طرح سمجھ لیا اور جن جلسوں کو حکومت نے نا جائز نہیں کہا تھا ان کو بھی نا جائز سمجھ لیا پس جو جماعت قانون کی اس قدر پابند ہو اس کے متعلق افسروں کو اس قدر وسیع اختیارات دے دینا کہ وہ بچوں کی مذہبی مجالس پر بھی باغیانہ ایکٹ لگادیں یہ نہ ایکٹ بنانے والوں کا منشاء تھا اور نہ حکومت کا.اگر حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ہم کہاں تک قانون کی پابندی کرتے ہیں اور وہ Test کرنا چاہتی ہے تو بے شک کرتی جائے وہ کبھی نہیں دیکھے گی کہ ہم قانون شکنی کریں لیکن میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ Test حکومت کو مہنگا پڑے گا.حکومت ضلع گورداسپور کے افسروں کا نام نہیں ، حکومت پنجاب کا نام نہیں ،حکومت ہند کا نام نہیں بلکہ تمام سلطنت برطانیہ کا نام ہے اب اگر یہ باتیں تمام سلطنت میں پھیلیں کہ چھوٹے چھوٹے طالب علموں کی مذہبی میٹنگ پر کریمنل لاءایمنڈ منٹ ایکٹ کا استعمال کر کے ایک درجن پولیس کے آدمی وہاں تعینات کر دیئے گئے تو تمام دنیا اسے ٹیررازم (Terrorism) سمجھے گی.اسے ڈراوا اور دھمکی خیال کرے گی لندن کی پولیس نے ایک دفعہ ایک عورت کو بطور گواہ طلب کیا اس پر دو تین گھنٹے جرح کرتی رہی اس پر تمام انگلستان میں ایک شور مچ گیا کہ ایک عورت کو اس قدر پریشان کیا گیا ہے اور ایک مشہور جرنیل کو جو سارے انگلستان میں معزز تھا استعفیٰ دینا پڑا.اگر دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ضلع گورداسپور کے حکام دس سال کی عمر کے بچوں پر جو مذہبی لیکچروں کی مشق اپنے گھروں میں کرتے ہیں پولیس کی گارد متعین کر دیتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نوٹ کریں اور نوٹ کرنے کے لئے آدمی بھیجنے کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ ان باتوں کو قابلِ اعتراض خیال کیا جاتا ہے تو یہ ایک ایسی بات

Page 251

خطبات محمود ۲۴۶ سال ۱۹۳۵ء 6 ہے کہ جہاں جہاں پہنچے گی دنیا اسے ٹیررازم سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوگی.بچے کا دل ہی کتنا ہوتا ہے اسے ماں باپ ہی ذرا جھڑک دیں تو اس کا پیشاب نکل جاتا ہے ایسے چھوٹے بچے جن کا ماں باپ کی جھڑک سے پیشاب خطا ہو جاتا ہے اُن پر ۱۲ پولیس والوں کی گارد لگا دینا کتنا بڑا ظلم ہے.ذرا غور کرو ان بیچاروں کا کیا حال ہوا ہو گا.چھوڑ دو حکومت کے سوال کو چھوڑ دو قانون کے سوال کو، خالی انسانیت کو لے لوتو ماننا پڑے گا کہ یہ بہت بڑی سختی ہے مگر میں برطانوی انصاف سے مایوس نہیں ہوں.اگر چہ میرا تجربہ یہی ہے کہ سوائے اس نوٹس والے معاملہ کے جو مجھے دیا گیا حکومت نے اور کسی واقعہ میں ہماری دلجوئی نہیں کی مگر پھر بھی میں مایوس نہیں.اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ انگریزوں میں اچھے آدمی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن ان کا برطانوی انصاف انہیں مجبور کر دے گا کہ پر سٹیج (Prestige) کے اصول کو بھول کر انصاف قائم کریں اور جو ظلم ان کے نام پر کیا جارہا ہے اس سے اپنی برات کریں اور اپنے عمل سے بتا دیں کہ وہ اس میں شریک نہیں ہیں.اس واسطے میں نے بجائے خاموش رہنے کے حکومت تک اس واقعہ کو پہنچادینا مناسب سمجھا.انسان خاموش اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ کچھ بنتا نہیں مگر میں خاموش نہیں رہا اور مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ اس قدر واضح ہے کہ اس پر ضرور نوٹس لیا جائے گا لیکن اگر اس پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا اور اس مجسٹریٹ کو سزا نہ دی گئی تو پھر میں سمجھ لوں گا کہ شور مچانا فضول ہے اور اس کے بعد غالباً خاموش ہو جاؤں گا خواہ کچھ ہوتا رہے.ہم اللہ تعالیٰ کے حضور تو اپیل دائر کر ہی چکے ہیں اب جو ہو گا سہتے رہیں گے دنیا میں لوگوں پر سختیاں بھی ہوتی ہیں اور نرمیاں بھی.جب اللہ تعالیٰ پر ہمارا تو کل ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سب بادشا ہوں، وائسرائیوں اور گورنروں کے دل اسی کے قبضے میں ہیں تو یقین رکھنا چاہئے کہ وہ خود سے ہی فیصلہ کر دے گا.معلوم ہوتا ہے حکومت پنجاب کے افسر غلط فہمی میں مبتلاء ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ ضلع گورداسپور کے بعض حکام دشمنی اور بے انصافی اور ظلم کی وجہ سے ہمیں تکلیف پہنچارہے ہیں.ابھی تک وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ حکام انصاف کرتے ہیں اور ہم شورش کر رہے ہیں اس لئے جس قدر مؤدب الفاظ میں ممکن تھا اور جس قدر نرم الفاظ میں بات کہی جاسکتی تھی میں نے کہہ دی ہے اس لئے مجھ سے کسی کو یہ شکوہ نہیں ہو سکتا کہ میں نے سخت کلامی کی ہے اور اسے یا اس کے افسروں کو بُرا بھلا کہا ہے باقی یہ واقعہ اپنی ذات میں اس قسم کا ہے کہ دنیا کی کسی اور قوم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس

Page 252

خطبات محمود ۲۴۷ سال ۱۹۳۵ء پر ان الفاظ میں اظہار خیال کرے گی جن میں میں نے کہا ہے.میں نے مجسٹریٹ سے بھی الزام دور کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ شاید اُسے غلط فہمی ہوئی ہو.اس کے بعد میں دوستوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اپنی اصلاح کریں خدا تعالیٰ چاہتا ہے ہماری اصلاح ہو.تم دنیا کی طرف نگاہیں اُٹھا نا چھوڑ دو میں نے بے شک حکومت سے اپیل کی ہے مگر اس لئے نہیں کہ اس کے ساتھ میری امیدیں وابستہ ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں شریف انسان پر جب حق کھل جائے تو وہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اور پولیٹیکل قوموں میں سے انگریز خصوصیت کے ساتھ ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا اس لئے میں نے تو توجہ دلا دی ہے مگر میری سب امید میں اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہیں.حاکم اگر انصاف نہ کریں تب بھی مجھے یقین ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ضرور ہو گا.ہاں اگر حاکم کریں گے تو وہ مظلوم کی مدد کے ثواب میں شریک ہوں گے اس لئے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی امید گاہ صرف اللہ تعالیٰ کو بناؤ اپنے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا کر و خدا تعالیٰ تو حید سکھاتا ہے اور تم بھی روز لا اللہ کہتے ہو مگر یہ آسان کام نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بارہ فرمایا کرتے تھے کہ جو منگے سومر رہے جو مرے سومنگن جائے.یہ کسی پرانے بزرگ کا قول ہے یعنی جو مانگتا ہے وہ مرجاتا ہے اور مرے بغیر کوئی مانگنے کے لئے نہیں جا سکتا آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک انسان مرے نہیں اللہ تعالیٰ کے پاس بھی اس کی دعا قبول نہیں ہو سکتی اسی طرح تو حید بھی ایسا مسئلہ ہے کہ موت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا.زید جو دعا کرتا ہے جب تک اس کا اپنا وجود موجود ہے وہ موحد نہیں کہلا سکتا.تمہارا دعا کرنا ہی ثابت کرتا ہے کہ تم مشرک ہو اگر تم نے کامل تو حید کو پا لیا ہوتا تو میں کہاں رہ سکتی تھی جب تک مانگنے والا اور جس سے مانگنا ہے ایک نہیں ہو جاتے اُس وقت تک تو حید قائم نہیں ہوسکتی.پس نفس کو مارو کہ یہ ” میں مٹ جائے.تم کہو گے کہ یہ کیسی جہالت کی تعلیم ہے خدا تعالیٰ نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے ، رسول کریم ﷺ نے تاکید کی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پر زور دیتے رہے جو امام الزمان تھے مگر میں کہوں گا کہ تم نے ان سب کے احکام کا مطلب ہی نہیں سمجھا.دعائیں دوستم کی ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اے خدا! مجھے فلاں بات کی حاجت ہے مجھے دے.یہ شرک ہے دعا سے پہلا مقام موت ہے یعنی انسان اپنے آپ کو خدا کے آستانہ پر گرادے اور کہے کہ اے خدا! میں راضی ہوں جہاں تو رکھنا چاہے وہیں رہنا پسند کروں گا اگر تو مارنا چاہتا ہے تو مروں گا، اگر غرق کرنا چاہتا ہے تو غرق ہونا ہی منظور ہے ، میں اپنی طرف سے تجھ

Page 253

خطبات محمود ۲۴۸ سال ۱۹۳۵ء سے کچھ نہیں مانگوں گا تب اسے خدا کی آواز آئے گی کہ تو مر گیا اب میں تجھے زندہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں مجھ سے مانگ اور وہ جو کہا گیا ہے کہ دعا مانگو وہ اس مقام کے بعد کہا گیا ہے.تم جو دعائیں مانگتے ہو ان کے متعلق خیال کرتے ہو کہ فلاں قبول نہیں ہوئی حالانکہ اگر خدا کے کہنے کے مطابق دعا مانگتے تو قبول یا عدم قبول کا سوال ہی تمہارے لئے پیدا نہ ہو سکتا.جب تم شکوہ کرتے ہو کہ فلاں دعا ہماری قبول نہیں ہوئی تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تم اپنے وجود کو قائم سمجھتے ہو حالانکہ اگر خدا کے کہنے پر دعا مانگی جائے تو قبول نہ ہونے کا شکوہ کیسا.کوئی شخص کہتا ہے الہی ! میرے گھر بیٹا ہو اور اگر وہ یہ دعا خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے کرتا ہے تو نہ ہونے کی صورت میں اسے کیا.اور اگر اپنے لئے دعا مانگتا ہے تو توحید کہاں ہوئی.قرآن کریم نے دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَ اَنْتَ خَيْرًا لُوَارِثِينَ اور جو شخص اس دعا کے مطابق بیٹا مانگتا ہے یہ سوال اس کے لئے پیدا ہی نہیں ہوسکتا کہ قبول ہوئی یا نہیں ہوئی.مگر تم جود عائیں کرتے ہو وہ سودا کرتے ہو اور سودا غیر سے ہوتا ہے اس صورت میں تو حید باقی نہیں رہ سکتی ایک بزرگ کا واقعہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ان کا ایک مریدان کے پاس آیا وہ بزرگ تہجد کے وقت اُٹھے اور دعا میں مشغول ہو گئے انہیں الہام ہوا جو مرید نے بھی سنا کہ تو بے شک کتے کی طرح بھونکتارہ تیری دعا نہیں سنی جائے گی.مرید نے دل میں کہا کہ یہ اچھے پیر ہیں جنہیں ایسی ڈانٹ پڑی ہے لیکن ادب تھا خاموش رہا، دوسرے دن پھر ایسا ہی ہوا مرید نے کہا یہ عجیب آدمی ہے کوئی بھلا مانس ہوتا تو دوبارہ نام نہ لیتا ، تیسرے دن پھر دعا کرنے کے لئے اُٹھے تو مرید نے پکڑ لیا کہ کچھ شرم کرو جانے بھی دو دو روز سے ایسی جھاڑ پڑتی ہے اور پھر آج وہی کام کرنے لگے ہو.پیر صاحب نے کہا کہ تم جا کر آرام سے بیٹھو تم دو دن میں ہی گھبرا گئے اور میں بیس سال سے یہ آواز سن رہا ہوں اور نہیں گھبرا یا.اُس دن انہوں نے پھر دعا کی اور الہام ہوا کہ جاہم نے تیری بیس سال کی سب دعائیں سن لیں کیونکہ تو امتحان میں پکا نکلا.مرید نے پوچھا کہ یہ کیا ہوا ؟ پیر نے کہا خدا نے تجھے تیرا ایمان اور مجھے میرا ایمان بتا دیا ہے.خدا نے مجھے مانگنے کو کہا ہے اس لئے میں مانگتا ہوں ، میں بندہ ہوں میرا کام مانگنا ہے وہ آقا ہے اُس کا کام مانا یا نہ ماننا ہے یہ تو حید والی دعا تھی جو اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا سنتا ہے یا نہیں بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ خدا کا حکم ہے پس توحید کامل سیکھو اور اللہ تعالیٰ سے کامل امید رکھو، بندوں سے تمام امیدوں کو توڑ دو یہ یقین رکھو کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نیکی اور شرافت دی ہے

Page 254

خطبات محمود ۲۴۹ سال ۱۹۳۵ء وہ آخر غالب آتی ہے.دیکھو! دنیا میں سب کچھ تھا قرآن ،حدیث ، مسلمان اور پھر ان میں صوفی ، اہلِ حدیث ، اہلِ قرآن سب موجود تھے ظاہری بادشاہ ، امیر، فقیر سب موجود تھے تاجر ، سیاست دان ، مد تر سب یہاں بستے تھے پھر وہ کونسی چیز تھی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث کئے گئے دنیا میں سب کچھ تھا مگر تو حید نہ تھی اللہ تعالیٰ نے تم کو کھڑا کیا اسی لئے کہ تم تو حید خالص دنیا میں قائم کرو.پس خدا کو ایک سمجھو انسانوں کا رُعب دل سے نکال دو، بندوں سے امیدیں منقطع کر دو اور خدا کے آگے گر جاؤ کہ وہی ہے جو دعائیں سنتا ہے یہ خیال بھی دل میں نہ لاؤ کہ خدا ہماری دعاؤں کو نہیں سنتا.وہ بادشاہ ہے اور کون ہے جو بادشاہ سے کہہ سکے کہ میری درخواست کیوں منظور نہیں کی گئی.بادشاہ تو بڑی چیز ہے کسی گورنر بلکہ ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار تک کا دامن کوئی نہیں پکڑ سکتا کہ میری درخواست منظور کیوں نہیں کی گئی پس تم ایسے کہاں کے میں مارخاں ہو کہ خدا سے کسی دعا قبول نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہو.وہ بادشاہ ہے جو چاہے سنے جو چاہے نہ سنے تمہارا کام مانگنا ہے سوتم ما نگتے جاؤ.یہ تمہاری عبادت ہے اور جب تک یہ مقام حاصل نہ کرو تمہاری دعائیں نہیں سنی جائیں گی خدا تعالیٰ صرف موحد کی دعائیں سنتا ہے بے شک دعائیں کرتے کرتے دس ہیں سو سال گزر جائیں بے شک موت تک تمہاری ایک دعا بھی نہ سنی جائے تب بھی تمہارا فرض ہے کہ خدا سے مانگتے جاؤ.لوگ آئیں اور روپیہ سے تمہارا دامن بھر جائیں ، آئیں اور تم سے علوم سیکھتے جائیں مگر خدا تمہاری ہر دعا کو رد کرتا جائے اور پھر بھی تم یہ سمجھو کہ جو کچھ مل رہا ہے یہ خدا ہی دے رہا ہے اور خوب یاد رکھو کہ موحد نہیں مرتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز نہ سن لے کہ میں نے تیری سن لی.مجھے اس پر یقین ہے اور ایسا یقین کہ لعنت کی وعید کے ساتھ قسم کھا سکتا ہوں کہ ملائکہ کی مجال نہیں کہ کسی موحد کی جان نکال لیں جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کے کان میں یہ آواز نہ پڑے کہ میں نے تیری دعا سن لی ہے.بچے موحد کی موت پر تو عرش بھی کانپ اُٹھتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تم موحد بنو اور تو حید پر قائم ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے خُدُوا التَّوْحِيْدَ خُذُوا التَّوْحِيْدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسُ اس میں اول آپ کی جسمانی اولا د مخاطب ہے اور پھر روحانی اور اس میں بتایا گیا ہے کہ تو حید کو ہاتھ سے نہ جانے دو.پس تم نیکی اور تقویٰ اختیار کرو، نیک نمونہ دکھا ؤ مت ڈرو اس بات سے کہ کوئی کیا کہتا ہے صرف یہ دیکھو کہ خدا کیا کہتا ہے.اگر تم دنیا کے سامنے بچے اور خدا کے سامنے

Page 255

خطبات محمود ۲۵۰ سال ۱۹۳۵ء جھوٹے ہو، دنیا کے سامنے امین اور خدا کے نزدیک چور ہو تو اس صورت میں تمہارے اندر تو حید کا ایک ذرہ بھی نہیں ہوسکتا.پس اپنے نفسوں کو قربان کرو تا صرف خدا کی ذات باقی رہے تب تم حقیقی نور پاسکو گے.چھوڑ دو اس خیال کو کہ افسر کیا کرتے ہیں خدا سے اپیل کرو اور اپنے کام میں لگ جاؤ.کتنا عرصہ ہوا کہ مجھے خدا نے بتایا تھا کہ مشکلات اور مصائب آئیں گے مگر تم ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ اور میں وہی پیغام آپ لوگوں تک پہنچاتا ہوں تم اپنے نفسوں کی بھی اور دنیا کی بھی اصلاح میں لگے رہو کوئی مارے کوئی گالیاں دے لیکن تم یہ کہتے ہوئے اپنے کام میں لگے رہو کہ : 9966 الزمر: ایں ہم اندر عاشقی غم ہائے بالائے دگر البقرة: ۱۵۷ الانبياء : ٩٠ تذکرہ صفحہ ۵۲.ایڈیشن چہارم الفضل ۱۲ / اپریل ۱۹۳۵ء)

Page 256

خطبات محمود ۲۵۱ ۱۵ سال ۱۹۳۵ء ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے (فرموده ۱۲ را پریل ۱۹۳۵ء) تشہد ،تعوّذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میرا پچھلا خطبہ وقت کی تنگی کی وجہ سے نامکمل رہ گیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ خدا توفیق دے تو دوسرے جمعہ میں اسے مکمل کر دوں گا لیکن اس عرصہ میں چونکہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ حکومت کے نزدیک بھی وہ احکام جو ہمارے بچوں کو ملتے رہے ہیں غلط ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں اب اس کے متعلق کچھ کہنا بے فائدہ ہوگا جو غرض تھی وہ پوری ہو چکی ہے.اس کے بعد میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے جماعت کو تو جہ دلائی تھی کہ ان میں سے ایک حصہ حیران ہے، وجہ کیا ہے کہ ایک آواز اُٹھتی ہے گورداسپور سے اس کی گونج پیدا ہو کر لاہور جا پہنچتی ہے مگر پھر بھی صدا بصحرا کا معاملہ رہتا ہے.میں نے اشارۃ اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انسانی فطرت پاکیزہ ہے اور جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو جائے کہ کوئی شخص بددیانتی کر رہا ہے اس کے متعلق حسنِ ظنی سے ہی کام لینا چاہئے پھر اس امر کے لئے بھی یقین کی وجوہ ہمارے پاس موجود ہیں کہ انگریز حکام کے لئے بد دیانتی کرنے کی کوئی وجہ نہیں.انگریزوں کو ہمارے جھگڑوں میں کوئی دخل نہیں اور بددیانتی انسان کسی وجہ سے ہی کر سکتا ہے کسی انگریز کو کسی خاص احمدی سے کوئی بغض یا

Page 257

خطبات محمود ۲۵۲ سال ۱۹۳۵ء عداوت ہو تو ہو ورنہ انہیں ہمارے جھگڑوں سے کیا واسطہ ہے.پس سوائے خاص حالت کے ہمارا فرض ہے کہ حسنِ ظنی سے کام لیں.اکثر واقعات جو ضلع گورداسپور میں ہوتے ہیں ان کی طرف اگر بالا افسر تو جہ نہیں کرتے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ ہمیں دکھ دینا چاہتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ان پر حقیقت حال ظاہر نہیں ہوئی.فطرتی طور پر انسان اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی بات زیادہ مانتا ہے.دو بچے آپس میں لڑتے ہیں اور روتے ہوئے اپنی اپنی ماں کے پاس جاتے ہیں ہر ایک کی ماں اپنے بچے کو گلے سے چمٹا لیتی ہے اور دوسرے کے بچے کے متعلق کہتی ہے کہ وہ بڑا نالائق ہے کئی دفعہ سمجھایا ہے کہ دوسرے بچوں کو نہ مارا کرے مگر وہ باز نہیں آتا.تو یہ فطرتی بات ہے کہ انسان پر پہلا اثر پاس رہنے والوں کا ہوتا ہے جب ایک احمدی ہمارے سامنے آ کر ایک بات کہے تو ہم ضروری طور پر اسے درست سمجھیں گے سوائے اس کے کہ بات کرنے والے کا جھوٹ ظاہر ہو چکا ہو اور جب ہمارے لئے یہ ایک فطرتی بات ہے تو حکومت کے متعلق بھی ہمیں ایسا ہی سمجھنا چاہئے.حکومت کے لئے بھی یہ طبعی امر ہے کہ وہ سپاہی ، مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کو سچا سمجھے، ایسا کرنا انسان کا ایک طبعی میلان ہے اور فطرت کا ایک ایسا تقاضا ہے جس کا شکار قریباً ہر انسان کو ہونا پڑتا ہے.دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس اثر سے بالا ہوتے ہیں ورنہ بالعموم سب اس اثر کے ماتحت ہوتے ہیں اور گورنمنٹ بھی اس سے بال نہیں ہو سکتی اس لئے جب تک اس کے خلاف کوئی قطعی ثبوت نہ ہو ہمیں یہی سمجھنا چاہئے کہ حکومت کے بالا افسر بھی اس انسانی کمزوری کا شکار ہیں جس کا ہم بھی ہوتے ہیں اور شرارت سے ہمیں نقصان نہیں پہنچار ہے.اگر کوئی احمدی میرے سامنے آ کر کوئی بات کہے تو میں اسے سچ سمجھ لوں گا ہاں اگر بعد میں وہ جھوٹ ثابت ہو جائے تو یہ اور بات ہے اور جو اثر ہم اپنی طبیعتوں پر محسوس کرتے ہیں وہی دوسروں کے متعلق سمجھنا چاہئے.شکایت کا موقع اُس وقت ہوتا ہے جب حق کھل جائے اور پھر بھی ضد کی جائے ورنہ یہ انسان کا طبعی تقاضا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کر نیوالوں کی بات زیادہ مانتا ہے.مجھے اپنی اس کمزوری کا اعتراف ہے کہ باوجود انصاف کی پوری خواہش کے سوائے قضاء کے وقت کے کہ اُس وقت میں بالکل خالی الذہن ہوتا ہوں، اگر دو شخص آکر میرے پاس کوئی روایت کریں ایک احمدی اور دوسرا غیر احمدی

Page 258

خطبات محمود ۲۵۳ سال ۱۹۳۵ء تو میں احمدی کی بات کو ضرور سچ مانوں گا اور اسے زیادہ وزن دوں گا اس کی وجہ چاہے یہ سمجھ لو کہ میں ہمیشہ سچ کی تعلیم دیتا ہوں اور اس وجہ سے احمدیوں سے اسی کے مطابق عمل کرنے کی امید رکھتا ہوں.یا یہ کہ مجھے احمدیوں کے ساتھ دوسروں سے زیادہ اُلفت ہے.اور یا یہ کہ اس احمدی کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع مل چکا ہو اور اس طرح معلوم ہو چکا ہو کہ اس کے اندر سچائی زیادہ ہے.بہر حال وجہ خواہ کچھ ہو یہ قدرتی بات ہے کہ میں احمدی کو زیادہ سچا سمجھوں گا سوائے اس کے کہ میں قاضی کی حیثیت میں بیٹھا ہوں.یا اس احمدی کے کیریکٹر کی کمزوری اور غیر احمدی کی راست گفتاری کا مجھے پہلے سے تجربہ ہو چکا ہو.ہندوؤں ،سکھوں ، عیسائیوں ، غیر احمد یوں غرضیکہ سب قوموں میں سچ بولنے والے لوگ ہوتے ہیں اور احمدیوں میں بھی بعض ایسے کمزور ہو سکتے ہیں جو کسی وقت جھوٹ بول دیں.پس اس کمزوری کو جو سب انسانوں میں پائی جاتی ہے حکومت کے معاملہ میں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اتنی ڈھیل ہمیں دینی پڑے گی جب تک کہ یقین نہ ہو جائے کہ عمد ابد دیانتی کی جارہی ہے.عام حالات میں یہ سمجھنا پڑے گا کہ جو حال ہمارا ہے وہی حکومت کا بھی ہوسکتا ہے.پس ان حالات میں جو اصل علاج ہے وہ یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کر یں دلوں کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا جسے میں سچا سمجھتا ہوں بالکل ممکن ہے اس نے ہیں دفعہ سچ بولا ہو اور اکیسویں دفعہ جھوٹ بول دے اور حکومت جسے سچا سمجھتی ہے اور جس کا سچا ہونا میں دفعہ اس پر ظاہر ہو چکا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اکیسویں بار جھوٹ بول دے اور اس وجہ سے چونکہ کسی بات کو یقینی اور قطعی نہیں کہ سکتے اس لئے جن حکومتوں کی بنیاد سیاسیات پر ہوتی ہے ان کے لئے بہت سی دقتیں ہوتی ہیں جن کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے پس حقیقی کامیابی کا رستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی مل سکتا ہے.آج سے بائیس سال قبل غالباً اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا جب میں شملہ گیا ہوا تھا تو میں نے رویا دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں.ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے یہ رستہ بڑا خطرناک ہے اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں ایسا نہ ہو تم ان سے متاثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ اور پھر کہا کہ میں تمہیں ایسا طریق بتاؤں جس سے تم محفوظ رہو میں نے کہا ہاں بتاؤ.اس پر اس نے کہا کہ بہت سے بھیا نک نظارے ہوں گے مگر تم ادھر اُدھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہونا بلکہ تم ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ کہتے ہوئے سید ھے چلے جانا ان کی

Page 259

خطبات محمود ۲۵۴ سال ۱۹۳۵ء غرض یہ ہوگی کہ تم ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اگر تم ان کی طرف متوجہ ہو گئے تو اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہ جاؤ گے اس لئے اپنے کام میں لگ جاؤ.چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل تھا اور ڈر اور خوف کے بہت سے سامان جمع تھے اور جنگل بالکل سنسان تھا.جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا جو بہت ہی بھیا نک تھا تو بعض لوگ آئے اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معاً خیال آیا کہ فرشتہ نے مجھے کہا تھا کہ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتے ہوئے چلے جانا اس پر میں نے ذرا بلند آواز سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے.اس کے بعد پھر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک راستہ آیا اور پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں حتی کہ بعض سر کئے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھے ہوا میں معلق میرے سامنے آتے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چڑاتے اور چھیڑتے.مجھے غصہ آتا لیکن معافرشتہ کی نصیحت یاد آ جاتی اور میں پہلے سے بھی بلند آواز سے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ کہنے لگتا اور پھر وہ نظارہ بدل جاتا یہاں تک کہ سب بلائیں دور ہوگئیں اور میں منزل مقصود پر خیریت سے پہنچ گیا.یہ رویا میں نے ۱۹۱۳ء کے اگست یا ستمبر میں بمقام شملہ دیکھا تھا.اور شملہ میں یہ خواب دیکھنے کا شاید یہ بھی مطلب ہو کہ حکومت کے بعض ارکان کی طرف سے بھی ہماری مخالفت ہو گی.اس رؤیا کو آج کچھ ماہ کم بائیس سال ہو گئے ہیں اسی دن سے جب میں کوئی مضمون لکھتا ہوں تو اس کے اوپر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ضرور لکھتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ نے ہم کو بتایا ہے کہ تمہارے سامنے ایک مقصد ہے اسے پورا کرو.دشمن پورا زور لگائیں گے کہ تم دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہو جاؤ لیکن اگر ہم ایسا کریں تو ہمارا جو اصل کام ہے وہ نہیں ہو سکے گا.اگر ہم لڑائیاں کرنے لگیں، مقدمہ بازیاں کریں تو تبلیغ کس طرح کر سکیں گے.ایک اُٹھتا ہے اور گالیاں دینے لگتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میرا مقصد یہ ہے کہ آؤ اور مجھ پر مقدمہ کرو، پھر دوسرا اُٹھتا ہے اور اسی طرح کرنے لگتا ہے اگر میں ایسا کرنے لگ جاؤں تو پھر میرا جو کام ہے وہ کون کرے گا ان کی تو غرض ہی یہی ہے مگر ہمارا فرض یہ ہے کہ وہ بے شک گالیاں دیں ، منہ چڑا ئیں مگر ہم اپنا کام کرتے جائیں.وہ ہمیں بے شک دنیا کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں لیکن اگر ہم اس رستہ پر چلتے جائیں جو کامیابی کا رستہ ہے تو ان کے چڑانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا

Page 260

خطبات محمود ۲۵۵ سال ۱۹۳۵ء ایک الہام ہے کہ لَا نُبْقِی لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِکرا یعنی جو گالیاں دی جا رہی ہیں ہم ان کا ذکر بھی نہیں رہنے دیں گے اس کا یہی مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ جب ساری دنیا تعریف کرنے لگ جائے گی تو گالیاں خود بخود بند ہو جائیں گی اور نہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کاغذی گالیاں باقی نہ رہیں گی وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی نقل کر دی ہیں.اس کا مطلب یہی ہے کہ گالیاں دینے والوں کی اولادیں تعریف کرنے لگ جائیں گی اور کہیں گی کہ ہمارے بڑے ایسے بیوقوف تھے کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو گالیاں دیتے تھے.پس اس میں اسی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اے ہمارے صحیح ! تُو اپنے کام میں لگارہ اور ان گالیوں کی طرف توجہ نہ کر کہ ان کو ہٹانا ہمارا ہی کام ہے اس لئے میں جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد کو نہ بھولے بلکہ ایک لحاظ سے تو ہمیں ان مخالفوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کے ذریعہ ہمارے اندر بیداری پیدا ہوگئی مؤمنوں کو غفلت سے جگانے کے لئے کبھی اللہ تعالیٰ دشمن سے بھی کام لے لیتا ہے.حضرت معاویہ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ شیطان انہیں نماز کیلئے جگانے آیا ، واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ان کی آنکھ نہ کھلی اور صبح کی نماز باجماعت سے رہ گئے یا نماز کا وقت گزر گیا اور وہ سوئے رہے ، اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ سارا دن روتے رہے اور سارا دن سخت کرب میں گزرا.دوسری رات وہ سوئے تو دیکھا کہ کوئی جگا رہا ہے وہ اُٹھے کشفی نظارہ تھا ، کوئی کہہ رہا تھا کہ اُٹھو نماز پڑھو.جگانے والے سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے کہا میں ابلیس ہوں.آپ نے کہا کہ تیرا کام تو نماز سے روکنا ہے پھر تو نماز کے لئے کس طرح جگا رہا ہے.اس نے کہا بے شک میرا کام تو روکنا ہی ہے مگر کل جو آپ کی نماز رہ گئی تو آپ اس قدر روئے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا دیکھو! میرے بندے کو کتنا صدمہ نماز چھوٹ جانے کا ہے اسے سو نماز کا ثواب دیا جائے اس لئے میں نے سوچا کہ اگر آج بھی سوئے رہے تو سونماز کا ثواب لے جاؤ گے اور میرا کام ثواب سے محروم رکھنا ہے اس لئے جگاتا ہوں کہ ایک کا ہی ثواب حاصل کر سکوا ورسو کا نہ پاسکو تو کبھی انسان کو مخالف کی طرف سے بھی نیکی کی تحریک ہو جاتی ہے اگر چہ وہ تو مخالفت نقصان پہنچانے کے لئے ہی کرتا ہے مگر اس میں مؤمن کا فائدہ ہو جاتا ہے ایک مدت سے میری خواہش تھی کہ جماعت کو اس روش پر چلاؤں جو صحابہ کی تھی اور ان کو سادہ زندگی کی عادت ڈالوں ، مغربی تمدن کے اثرات اور ایشیائی تمدن کے گندے اثرات سے بھی ان کو علیحدہ رکھوں مگر کوئی ایسی صورت نہ نکلتی تھی.کبھی میں

Page 261

خطبات محمود ۲۵۶ سال ۱۹۳۵ء یہ سکیم بنا تا تھا کہ ایک بورڈنگ بناؤں، کبھی انصار اللہ قائم کرنے کی تجویز کرتا تھا مگر ان میں سے کوئی تجویز دل کو نہ لگتی تھی تب اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسا دھکا لگایا کہ میں نے سمجھا اس وقت میں جو کچھ کہوں گا سب مان لیں گے پس یہ اللہ تعالیٰ نے اس مخالفت سے ہمیں کتنا بڑا فائدہ پہنچایا ہے کہ مغربی اثرات بلکہ ان مشرقی اثرات سے بھی جو مسلمانوں کی کمزوری کے زمانہ میں ان کے اندر پیدا ہو گئے تھے ہمیں بچا لیا.ہماری جماعت کے ۹۷، ۹۸ فیصدی لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنی طرز زندگی کو بدل کر سادہ غذاء اور سادہ لباس اور سادہ زندگی اختیار کر لی ہے.اگر چہ یہ ابھی ابتدائی قدم ہے مگر دھکے کون سے ختم ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک رستہ بتا دیا ہے جسے ہم ہیں سال میں معلوم نہ کر سکے وہ ایک دم بتادیا اور ابھی جو کمزوریاں باقی ہیں اور سوشل و تمدنی زندگی میں جو تغیرات ابھی ضروری ہیں، ان کے لئے اللہ تعالیٰ اور دھکے لگا دے گا.ایسے دھکوں کے ساتھ ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے کہ ہم ان سے کتنا متاثر ہوتے ہیں اور اپنے کام کو کس طرح کرتے ہیں پس یہ بڑے فائدہ کی چیز ہے.میں تو جب ماضی پر غور کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رحمت کا ایک ایسا دروازہ ہمارے لئے کھول دیا گیا ہے جس کا شکریہ ہم ادا نہیں کر سکتے.ہم میں جو امیر غریب کا امتیاز تھا ، بعض لوگ کئی کئی کھانوں کے عادی تھے ، عورتوں میں زیورات ، لیس و فیتے ، گوٹا کناری کا رواج تھا ، اسے دور کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.میں سوچتا تھا کہ ایک کو روکا جائے تو دوسرا کرے گا اور دوسرے کو منع کیا جائے تو تیسرا کرے گا مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک ایسا رستہ کھول دیا کہ سب کو بچا لیا.گو میں نے اس کے لئے تین سال کی میعاد رکھی ہے مگر جب نیکی کی عادت ہو جائے تو پھر خواہ پابندی اُٹھا بھی دی جائے اس پر عمل رہتا ہے اسی طرح جب دوستوں کو ان باتوں کی عادت ہو جائے گی پھر میں خواہ اس قید کو اُڑا دوں تب بھی وہ کہیں گے کہ یہ ہمارے فائدہ کی بات ہے اسے کیوں چھوڑیں.ممکن ہے بعض واپس ہو جا ئیں اور یوں تو بعض کمز ور اب بھی ہوں گے.ایسے لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اور اب بھی ہیں ایسے لوگوں کو چھوڑ کر باقی جماعت کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس نے تغیر پیدا کر لیا ہے اور ایسا صحیح قدم ہم نے اُٹھایا ہے کہ خدا کا فضل ہو تو کامیابی یقینی ہے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جب تک ہم ان اصولوں پر نہیں چلیں گے جن پر پہلے انبیاء کی جماعتیں گامزن ہوئیں ، اس وقت تک کامیابی محال ہے.قرآن کریم میں بار بار یہ آیا ہے اور

Page 262

خطبات محمود ۲۵۷ سال ۱۹۳۵ء اس قدر کرات و مرات سمس کا ذکر ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی سورۃ بھی کم ہی ہو گی جس سے یہ بات نہ نکلتی ہو کہ ہر نبی پہلے نبی کے طریق پر آتا ہے.نبیوں کے ماننے والے پہلے ماننے والوں کے طریق پر ہوتے ہیں اور نہ ماننے والے پہلے نہ ماننے والوں کے طریق پر، اور قرآن میں یہ بات اس قدر وضاحت سے بیان ہے کہ جس طرح سورج کا انکار نہیں ہو سکتا اس کا بھی نہیں ہو سکتا.تو انبیاء کی جماعتوں کے دشمنوں کی شرارتوں میں بھی مشابہت ہوتی ہے اسی طرح مؤمنوں کا بھی ایک سا ہی حال ہوتا ہے اور ان اصولوں سے بھٹک کر کامیابی محال ہے جو پہلے انبیاء کے ماننے والوں نے اختیار کئے ہمیں ایک نہ ایک دن اسی طریق پر آنا ضروری تھا جس پر صحابہ چلے اور یہ خدا کا کتنا فضل ہے کہ وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میں ہی اس طریق پر لے آیا.ابھی ہم میں سینکڑوں ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی موجودگی میں تغیر بہت محفوظ ہے.بعد میں آنے والے ممکن ہے ایسا تغیر کریں جو نقصان کا موجب ہو جائے.ان کی نیت تو نیک ہو مگر پھر بھی ایسا قدم اُٹھا بیٹھیں جو فساد کا موجب ہو جائے.دیکھو ! عیسائیوں میں جب شہوت کا زور ہوا تو ان کے دینی پیشواؤں نے رہبانیت کی تعلیم دینی شروع کر دی.قرآن کریم میں انکے متعلق آتا ہے وَرَهْبَانِيَةَ نِ ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا انہوں نے نیک ارادہ کے ساتھ قوم کو گمراہی اور تباہی میں ڈال دیا.اس لئے ہو سکتا تھا کہ بعد میں جو تغیرات ہوتے وہ خطرناک ثابت ہوتے.ہم میں ابھی سینکڑوں ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع دیا ، ابھی بہت ہیں جنہوں نے آپ کے ہاتھوں میں پرورش پائی اور آپ سے براہ راست را ہنمائی حاصل کی اس لئے ہماری زندگی میں تغیر ہو جانا مناسب تھا ورنہ ابھی بہت سے ابتلاء آنے والے ہیں اور ان کے علاج بھی ہوتے رہیں گے اور اگر یہ تغیر ہماری زندگیوں میں نہ ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ بعد میں جو قدم اُٹھایا جاتا وہ غلط ہوتا اور جماعت کیلئے تنزل کا موجب بن جاتا.گو یہ کام ابھی ابتدائی حالت میں ہے مگر بہر حال ہم نے رستہ پالیا ہے.میں اس جگہ یہ بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے جو سکیم بنائی تھی باوجود یکہ اس پر پانچ ماہ گزر چکے ہیں پھر ابھی تک ہم بجٹ بھی نہیں بنا سکے.میں نے جس وقت مطالبات کئے تھے اُس وقت دفتر کا

Page 263

خطبات محمود ۲۵۸ سال ۱۹۳۵ء کوئی انتظام میرے ذہن میں بھی نہ تھا، تبلیغ ہند کا اس میں کوئی حصہ نہ تھا اور اب معلوم ہو رہا ہے کہ قرآن کریم کی طباعت کے لئے روپیہ کو علیحدہ کر کے بجٹ ساٹھ ہزار کا ہوگا اور قرآن کی طباعت کے اخراجات شامل کر کے ستر ہزار کا اور ظاہر ہے کہ جس کام کے شروع کرنے میں اتنا وقت لگے اُس کے نتائج بھی سالوں میں نکل سکتے ہیں بہر حال یہ شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جگا دیا ہے ورنہ ہماری نماز قضاء ہورہی تھی.ذرا غور کر وتم پر اللہ تعالیٰ نے کتنا فضل کیا کہ اپنا مسح تمہیں دکھا یا پھر دنیا پر تمہیں کیا اتنا بھی رحم نہیں آتا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ ہی اسے دکھا دو.پچاس ساٹھ سال بعد یہ صحابہ ہم میں نہ ہوں گے غور کرو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہم دنیا کو جا کر جب آپ کا پیغام سنائیں اور لوگ پوچھیں کہ وہ کہاں ہیں تو ہم کہہ دیں وہ فوت ہو گئے.اور جب وہ پوچھیں کہ کون لوگ ہیں جو آپ کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے تو کہہ دیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا میں جب انگلستان میں گیا تو وہاں ایک بوڑھا انگریز کو مسلم تھا اسے علم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا اور خلیفہ ہوں مگر پھر بھی وہ نہایت محبت و اخلاص سے کہنے لگا کہ میں ایک بات پوچھتا ہوں آپ ٹھیک جواب دیں گے؟ میں نے کہا ہاں.وہ کہنے لگا کیا حضرت مسیح موعود نبی تھے میں نے کہا ہاں تو اس نے کہا اچھا مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگا آپ قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نے انہیں دیکھا ؟ میں نے کہا ہاں میں ان کا بیٹا ہوں.اس نے کہا نہیں میرے سوال کا جواب دیں کہ ان کو دیکھا ؟ میں نے کہا ہاں دیکھا.تو وہ کہنے لگا کہ اچھا میرے ساتھ مصافحہ کریں اور مصافحہ کرنے کے بعد کہا مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی کہ میں نے اس ہاتھ کو چھوا جس نے مسیح موعود کے ہاتھوں کو چھوا تھا اب تک وہ نظارہ میرے دل پر نقش ہے وہ شخص گزشتہ سال ہی فوت ہوا ہے اُسے رؤیا اور کشوف بھی ہوتے تھے اور وہ اس پر فخر کرتا تھا کہ اسلام لانے کے بعد اسے یہ انعام ملا ہے.تو مجھے اس کی یہ بات کبھی نہیں بھولتی کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو دیکھا ہے اور جب میں نے کہا ہاں تو کہا کہ مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی ہے میں نے آپ کو دیکھا ہے.مجھے اس خیال سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسان جو چین ، جاپان، روس، امریکہ، افریقہ اور دنیا کے تمام گوشوں میں آباد ہیں اور جن کے اندر نیکی اور تقویٰ ہے ان کے دلوں میں خدا کی محبت ہے مگر ان کو ابھی وہ نور نہیں ملا کہ ہم ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچائیں اور وہ

Page 264

خطبات محمود ۲۵۹ سال ۱۹۳۵ء خوشی سے اُچھلیں اور کہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود دکھلاؤ اور جب ہم کہیں کہ وہ فوت ہو گئے تو وہ پوچھیں کہ اچھا ان کے شاگرد کہاں ہیں ؟ تو ہم انہیں کہیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے احمدیوں کا یہ جواب سن کر وہ لوگ کیا کہیں گے.اگر ایسا ہو تو وہ ہمارے مبلغوں کو کس حقارت سے دیکھیں گے کہ ان نالائقوں نے ہم تک پیغام پہنچانے میں کس قدر دیر کی ہے تو ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی موجودگی میں ہم ساری دنیا میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں تا ہر ایک کہہ سکے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مصافحہ کیا ہے اور دنیا کے ہر ملک بلکہ ہر صوبہ میں بسنے والے لوگ اور ہر زبان بولنے والے اور ہر مذہب کے پیرو یہ کہ سکیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے.یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اس سے ہمیں دنیا کو محروم نہیں رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کپڑوں میں برکت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں بتایا ہے کہ جب انسان نہ ملیں گے تو لوگ کپڑوں سے ہی برکت ڈھونڈیں گے ورنہ انسان کے مقابلہ میں کپڑے کی کیا حیثیت ہوتی ہے وہ کپڑا جو جسم کو لگا اُس ہاتھ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھ سکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں گیا اور وہیں پیوست ہو گیا آپ سے نور اور برکت لی اور آپ کے نور میں اتنا ڈوبا کہ خود نور بن گیا.کبھی ممکن نہیں کہ ایسے ہاتھ کو چھونے سے تو برکت نہ ملے اور کپڑوں کو چُھونے سے ملے.کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے سے مراد تو حالت تنزل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ آپ سے ملنے والوں کو ڈھونڈیں گے اور جب کوئی نہ ملے گا تو کہیں گے اچھا کپڑے ہی سہی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ایک وقت آئے گا کہ بادشاہ بھی آپ کے کپڑوں کے لئے ترسیں گے.پس براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھونے والے انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتے اور ہم سے یہ اتنی بڑی غفلت ہو رہی تھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جگا دیا.احرار اور بعض حکام کی مخالفت کو گو ہم بُرا ہی کہیں مگر ہمارے دل کے گوشہ میں یہ بات ضرور ہے اور ہم اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ چاہے نادانستہ ہی کیا ہے مگر کیا تو ان لوگوں نے ہم پر رحم ہی ہے اس لئے اے خدا! تو بھی ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے دے.ہماری جماعت کے سامنے عظیم الشان کام ہے اس کی ذمہ داری بہت بڑی ہے ، موت انسان کے لئے لازمی ہے اور مؤمن موت سے نہیں

Page 265

خطبات محمود ۲۶۰ سال ۱۹۳۵ء ڈرتا مگر اس خیال سے ہی ہمارے دل کانپ جانے چاہئیں اور جسموں پر لرزہ طاری ہو جانا چاہئے کہ ہم دنیا کو ہدایت دینے سے پہلے فوت ہو جائیں اور دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہاتھ لگانے والوں کو بھی ہاتھ نہ لگا سکے اس لئے ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ جو خدا ہم سے چاہتا ہے.اب جو کچھ ہو رہا ہے یہ کچھ بھی نہیں.ابھی بہت سے مراحل ہم نے طے کرنے ہیں.پس سستیوں کو چھوڑ دو، غفلتوں کو ترک کر دو.بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ اس سال ہم نے چندہ دیدیا اب دنیا فتح ہو جائے گی مگر یہ چیزیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.جس طرح دانہ کو کولھو میں ڈال کر پہیلا جاتا ہے، تم جب تک اسی طرح نہ پہلے جاؤ گے اُس وقت تک دنیا میں امن اور دین قائم نہیں ہوسکتا.پس تم مطمئن مت ہو اور ان دُکھوں کو دکھ نہ سمجھو یہ تو صرف ہوشیار کرنے اور بیدار کرنے کے لئے ہیں اصل درد وہ ہے جو دل میں ہوتا ہے.دیکھو! جس کے کپڑوں میں آگ لگی ہو وہ کس قدرشور مچاتا ہے پھر جس کے دل میں آگ لگی ہو وہ کس طرح آرام سے بیٹھ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایک جہنم میں ڈالنا چاہتا ہے اور ایسی بڑی جھنم کہ جس کی مثال کوئی نہیں وہ عشق و محبت اور دنیا کی خیر خواہی کی آگ ہے.دیکھو! مجنوں عرب کا ایک معمولی سا رئیس زادہ تھا جس کی حیثیت اس زمانہ کے معیار کے مطابق شاید دس روپے کی بھی نہ ہو مگر عشق کی وجہ سے اسے ایسی شہرت ہوئی کہ کئی لوگ اس کا ذکر کرتے کرتے خود مجنوں بن جاتے ہیں ، فرہاد ایک معمولی لوہار تھا مگر اس عشق کی وجہ سے جو اُ سے ایک انسان سے تھا آج بادشاہ بھی شعروں میں اس کا ذکر پڑھتے اور سر دھنتے ہیں.پس جس دل میں خدا کی محبت کی آگ ہو اُس کے اندر کتنا سوز ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو جہنم مقدر کر رکھی ہے وہ محبت کی جہنم ہے جو شخص اپنے دل میں یہ جھنم پیدا کر لے اسے خدا ہمیشہ کی جنت عطا کرتا ہے اور اگر تم یہ سوزا اپنے دلوں میں پیدا کر لو گے تو خود ہی قربانیاں کرتے جاؤ گے نہ تحریک جدید کی ضرورت ہو گی اور نہ تحریک قدیم کی.جس کے کپڑوں میں آگ لگی ہو وہ خود بخو د دوڑا پھرتا ہے.پس یہ رنگ پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو یہ پہلا قدم ہے جو اسی پر ٹھہر جائے گا وہ گر جائے گا.تمہارے لئے آرام سے بیٹھنا مقدر نہیں آرام خدا کی گود میں ہی جا کر ملے گا اور اس دھکے کے بعد جو جماعت کو لگا ہے جو سستی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جماعت سے خارج کر دے گا.اب وقت تمہارے لئے بہت نازک ہے اس لئے بہت احتیاط کرو.اب تم ایسے مقام پر ہو کہ اس سے پیچھے قدم اُٹھانا

Page 266

خطبات محمود ۲۶۱ سال ۱۹۳۵ء ہلاکت کا موجب ہوگا اور اس پر ٹھہر نا بھی ہلاکت کا موجب ہو گا پس ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ کہتے ہوئے آگے چلتے چلے جاؤ یہاں تک کہ موت تم کو خدا تعالیٰ کی گود میں ڈال دے.( الفضل ۱۷ را پریل ۱۹۳۵ء ) ا تذکرہ صفحہ ۵۳۸.ایڈیشن چہارم گرات و مرات : بار بار متعدد بار الحديد : ۲۸ ۴ تذکرہ صفحہ ۱۰.ایڈیشن چہارم

Page 267

خطبات محمود ۲۶۲ ۱۶ سال ۱۹۳۵ء اسلام کا بلند ترین نصب العین دنیا میں کامل مساوات قائم کرنا ہے (فرموده ۱۹ را پریل ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ اور آیات قرآنیہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ فِي بُيُوتِ اذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكوةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چونکہ جمعہ کے بعد مجلس شوریٰ کا اجلاس ہو گا ، اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی میں عصر کی نماز جمع کر کے پڑھا دوں گا.یہ چند آیات جو میں نے قرآن کریم کی تلاوت کی ہیں اپنے اندر ایک نہایت ہی وسیع مضمون رکھتی ہیں اور اس کے بہت سے چھوٹے چھوٹے جملے لمبی تفسیر چاہتے ہیں ایسی تفسیر کہ جو اختصار کے ساتھ بھی ایک خطبہ میں بیان نہیں کی جا سکتی اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو

Page 268

خطبات محمود ۲۶۳ سال ۱۹۳۵ء سورہ جمعہ کی طرح آئندہ خطبات میں تفصیلاً اس کو بیان کر دوں گا فی الحال جس غرض کیلئے میں نے یہ آیات پڑھی ہیں وہ یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد دنیا میں قومیتوں اور دائروں کو مٹانا ہوتا ہے.انبیاء جو نور لے کر دنیا میں آتے ہیں اور جس نور کے ذریعہ وہ دنیا کو روشن کرتے ہیں وہ لَا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةِ ہوتا ہے نہ وہ مشرقی ہوتا ہے نہ مغربی بلکہ وہ آسمانی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی خاص جگہ کا نہیں بلکہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.وہ مغرب کا ہے نہ مشرق کا ، شمال کا ہے نہ جنوب کا ، زمین کا ہے نہ آسمان کا بلکہ آسمان اور زمین کا نور ہے.جب تک کسی جماعت میں یہ تعلیم قائم رہتی ہے وہ فاتح ، غالب، کامیاب اور کامران رہتی ہے اور جب کوئی جماعت اس تعلیم کو بھول جاتی ہے اس کے اندر تنزل ، اختلاف ، انشقاق اور افتراق پیدا ہو جاتا ہے.دل تبھی پھٹتے ہیں جب دوئی آ جائے جب ایک مشرق ہو اور ایک مغرب.جس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں دو چیزیں ہوں لیکن جب نہ مشرق ہو نہ مغرب بلکہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا مقصود ہو جو نُورُ السَّمَوَاتِ وَالارْضِ ہے مغرب میں بھی وہی نور ہے اور مشرق میں بھی ، شمال میں بھی وہی نور ہے اور جنوب میں بھی ، پس جب وہی چیز ہر جگہ ساری و طاری ہو تو پھر یہ جھگڑا کہاں سے پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم کون اور تم کون.رسول کریم ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے ، اس وقت قوموں کے سوال زوروں پر تھے آپ کی بعثت عرب میں ہوئی اور عرب قومیت کے بڑے پابند تھے.ان کے اندر یہ پابندی اس حد تک تھی کہ بعض قبائل کے آدمی اگر کسی دوسرے قبیلہ کے کسی شخص کو مار دیتے تو انہیں سزا نہ دی جاتی کیونکہ لوگ کہتے یہ چھوٹے قبیلے کا آدمی تھا اور وہ بڑے قبیلے کا آدمی ہے.تو بڑے بڑے قبائل اپنے لئے دوسرے قانون کا تقاضا کرتے اور چھوٹے قبائل اور قانون کا تقاضا کرتے یہاں تک کہ ان کے شودر بھی بالکل کوئی مطالبہ نہ کر سکتے.اگر کوئی غلام مارا جاتا تو اس کے بدلے آزاد شخص قتل نہ کیا جا سکتا.پھر یہ امتیاز اس حد تک تھا کہ اگر ایک بڑے آدمی کا غلام چھوٹے آدمی کے غلام کو مار دیتا تو پھر بھی فرق کیا جاتا اور کہا جاتا کہ گویا ایک غلام نے غلام کو مارا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ کس کے غلام نے کس کے غلام کو مارا.مارنے والا بڑے آدمی کا غلام ہے اور مارا جانے والا چھوٹے آدمی کا غلام ہے اس صورت میں سزا کس طرح صلى الله دی جاسکتی ہے ، تو امتیاز نسل اور امتیاز مدارج ان میں انتہاء درجہ پر ترقی یافتہ تھا.رسول کریم ﷺ آئے تو آپ نے یہ امتیاز ایسا مٹایا کہ آج کل با وجود تنزل کے، باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے

Page 269

خطبات محمود ۲۶۴ سال ۱۹۳۵ء ہندوؤں اور عیسائیوں سے پھر امتیازات لے لئے ہیں ، آج تک غیر قو میں یہ کہتی ہیں کہ اچھوت اگر کھپ سکتے ہیں تو مسلمانوں میں ہی دوسری قوموں میں نہیں.یہ مسلمانوں کی گری ہوئی حالت کی اب تک کیفیت ہے.عرب کا ایک قبیلہ تھا بہت زبر دست قبیلہ کوئی ساٹھ ہزار آدمی اس میں تھے یہ پرانے زمانہ میں عیسائی ہو چکے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں غالبا پھر مسلمان ہوئے ، ان کا ایک سردار جبلہ نامی تھا ، یہ لوگ شام کی سرحد پر رہتے تھے ایک دفعہ جبلہ حج کے لئے یا کسی اور غرض کے لئے عرب میں آیا تو وہ ایک دن پھر رہا تھا کہ کسی اور مسلمان کا پاؤں اس کے از ار یعنی نہ بند پر پڑ گیا جس سے اسے جھٹکا لگا اور وہ ڈھیلا ہو گیا.جبلہ نے یہ دیکھا تو اس نے مسلمان کو چپیڑ ماری اور کہا بد تمیز آدمی ! تم شریف اور وضیع میں فرق کرنا نہیں جانتے اور دیکھتے نہیں کہ کس کے ازار پر تم نے پاؤں رکھا.اس شخص نے تو یہ دیکھ کر کہ یہ کوئی نو وارد آدمی ہے.خاموشی اختیار کر لی مگر کسی اور شخص نے جبلہ سے کہا کہ تجھ سے ایک ایسی حرکت ہوئی ہے کہ تیری بڑی عزت بھی اس کی سزا سے تجھے نہیں بچا سکتی بہتر یہی ہے کہ تم اس سے معافی مانگو.جبلہ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں معافی مانگوں.اسی جوش میں وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور کہا اے بھائی ! میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ میں چھوٹے بڑے کا لحاظ نہیں ہوتا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مسلمان سب برابر ہیں چھوٹے بڑے کا ہم میں کوئی سوال نہیں.اس نے پھر پوچھا کہ دنیا میں کوئی چھوٹا ہوتا ہے کوئی بڑا.آپ نے پھر فرمایا کہ ہم میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں.اس نے کہا اگر کوئی چھوٹا آدمی گستاخی کرے اور بڑا اسے مارے تو کیا اس صورت میں بھی آپ لوگوں میں کوئی امتیاز نہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرما یا جبلہ کہیں تم نے تو کسی کو نہیں مارا؟ خدا کی قسم اگر تم نے کسی کو مارا ہے تو جب تک میں تجھے اس کے بدلہ میں پٹوا نہ لوں گا مجھے چین نہیں آئے گا اس وقت تو جبلہ وہاں سے بہانہ بنا کر آ گیا مگر واپس آ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے قبیلہ کی طرف بھاگ گیا اور اپنے تمام قبیلہ سمیت پھر عیسائی ہو گیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی.غرض اسلام قوموں کے امتیازات کو مٹا دیتا ہے مگر یہ امتیازات بھی قلوب میں کچھ اس طرح داخل ہو چکے ہیں کہ لوگ ان کے مٹنے کو برداشت نہیں کر سکتے حالانکہ اسلام نام ہے ایک نئی زندگی اور نئی پیدائش کا.گویا ہر انسان جو اسلام لاتا ہے یا احمدیت قبول کرتا ہے وہ اپنے پچھلے جسم پر ایک موت

Page 270

خطبات محمود ۲۶۵ سال ۱۹۳۵ء وارد کرتا اور پھر اسلام کے گھر میں پیدا ہوتا ہے.وہ چھوڑ دیتا ہے اپنے آباء واجداد کو ، وہ چھوڑ دیتا ہے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو اور سب کچھ ترک کر کے اسلام کے گھر میں جنم لیتا ہے ، اسلام ہی اس کا باپ ہوتا ہے ، اسلام ہی اس کی ماں ہوتی ہے اور تمام کے تمام مسلمان اس کے بھائی اور بہنیں ہوتے ہیں اور ایک ماں باپ کی اولاد میں فرق تھوڑا ہو سکتا ہے.انگریزی قوم اپنی فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے اپنے آپ کو کتنا بڑا سمجھے لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ جب ایک انگریز احمدی ہوتا ہے تو اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سارے غرور کو پیچھے چھوڑ کر آئے گا اور اب اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک بھائی سمجھے گا، ہندوؤں میں سے ایک برہمن جب اسلام لاتا ہے تو اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھے گا برہمن نہیں سمجھے گا، اسی طرح کوئی ہندوستانی ، افغانی ، چینی ، جاپانی یا روسی جب اسلام لاتا ہے تو وہ اپنی قومیت کو بھول جاتا ہے یہ نہیں کہ وہ اپنے ملک کی خدمت نہیں کرتا.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ اور اسلام ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تمہارے قریب کے لوگ گندے ہوں تو ان کی زیادہ اصلاح کرو.اس لحاظ سے اگر کوئی جاپانی جاپانیوں کی ، چینی چینیوں کی اور پٹھان پٹھانوں کی اصلاح کرتا ہے تو وہ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس کے مطابق کرتا ہے لیکن یہ اصلاح اسی حد تک ہو کہ انسان عیوب دور کرے اور قوم کی گری ہوئی حالت کو درست کرے لیکن اگر وہ امتیاز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ انگریز ہے اور یہ ہندوستانی ، یہ جاپانی ہے اور وہ چینی تو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.ہماری جماعت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اب اس نور کو قائم کیا ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قائم کیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اب یہی پیغام لے کر آئے ہیں کہ اپنے آپ کو صرف خدا تعالیٰ کا بندہ سمجھو اور چھوڑ دو ان باتوں کو کہ ہم مدراسی ہیں اور فلاں بنگالی، ہم برمی ہیں اور فلاں پنجابی.ان چیزوں نے دنیا میں بڑے بڑے تفرقے پیدا کئے ہیں اور جب تک کسی کے دل میں اس قسم کا خیال رہے وہ حقیقتاً مسلمان نہیں ہو سکتا.اسلام چاہتا ہے کہ وہ دنیا کو ایک چیز بنا دے اور ان امتیازات کی موجودگی میں ہم ایک چیز بن کس طرح سکتے ہیں.ناممکن ہے کہ تم پانی لو اور اس سے مکان تیار کر سکو.ممکن نہیں کہ تم اینٹیں کھاؤ اور اس طرح اپنی پیاس بجھا سکو.جب کوئی متضاد پر وگرام اپنے سامنے ہو تو اس وقت کام کس طرح ہو سکتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے دوکشتیوں پر پاؤں رکھا جائے.مگر دو

Page 271

خطبات محمود ۲۶۶ سال ۱۹۳۵ء کشتیوں پر پاؤں رکھنے والا کام نہیں کیا کرتا بلکہ یا تو وہ غرق ہو جاتا ہے یا چر جاتا ہے.اگر ہم بھی اپنے دل میں یہی خیال رکھیں کہ ہم پٹھان ہیں یا ہم عرب ہیں یا ہم انگریز ہیں یا ہم ہندوستانی ہیں یا ہم جرمن ہیں یا چینی ہیں یا ہم جاپانی ہیں تو یقیناً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کچھ بھی نہیں اور ہم ایسی مخلوق ہیں جس نے نور کو تو دیکھا مگر نور کو دیکھ کر اس کی آنکھیں اندھی ہو گئیں.یہی سورج روشنی دیتا ہے اور یہی سورج اندھا بھی کرتا ہے.کئی بیوقوف لوگ جب کئی کئی گھنٹے متواتر سورج کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ اپنی آنکھوں کو ضائع کر لیتے ہیں.پس نور ضروری نہیں کہ روشنی بخشے بلکہ وہ اندھا بھی کر دیا کرتا ہے اس صورت میں ہم سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ کا نور تو آیا اور ہم نے اسے دیکھا مگر وہ ہمیں اندھا کر گیا اور ہم نے اس سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا.پس اس موقع پر جب کہ آج ہم میں بنگالی بھی موجود ہیں ، ساؤتھ انڈیا کے لوگ بھی موجود ہیں ، بمبئی ، یو پی ، بہار، افغانستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں کے لوگ بھی آئے ہوئے ہیں اور یوں بھی ہمارے اندر ہمیشہ سماٹرا اور جاوا وغیرہ کے لوگ رہتے ہیں ، جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے اندر سے اس قسم کے امتیازات مٹ جانے چاہئیں.مجھے خصوصیت سے یہ اس لئے خیال پیدا ہوا ہے کہ بعض تازہ واقعات نے مجھے ادھر متوجہ کر دیا ہے دو صوبے ایسے ہیں جن میں بدقسمتی سے ہمیشہ سے یہ سوال رہتا ہے ، ایک صوبہ بنگال اور دوسرا صوبہ سرحد، میں اس وقت نہ بنگالیوں کو الزام دیتا ہوں اور نہ سرحد یوں پر الزام لگا تا ہوں مجھے اس سے غرض نہیں کہ کون مجرم ہے اور کون نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی دل میں جب تک یہ خیال ہو کہ ہم سرحدی ہیں اور ہم پنجابی ، اس وقت تک احمدیت اس دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور جب کبھی میرے سامنے ایسا سوال آیا ہے میں نے اس کو مٹانے کی کوشش کی ہے.میں تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کبھی پنجابی نہیں سمجھتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جب ایک انسان اسلام قبول کرتا ہے اس وقت وہ تمام امتیازات کو مٹا کر اپنے آپ کو صرف مؤمن سمجھتا ہے.ہم اس وقت دائرہ سیاست کے لحاظ سے اور اس وجہ سے کہ گورنمنٹ کا قانون ہمیں وسعت نہیں دیتا صرف ہندوستان کی بہتری کی تجاویز سوچتے ہیں ورنہ جس دن احمدیت کا زور چلے گا وہ ان تمام امتیازات کو مٹا دے گی ، اس سوال کو کہ ہندوستانی کون ہے اور چینی کون ، جاپانی کون ہے اور جرمن کون ، یہ وہ منزل مقصود ہے جس کو پانے کے لئے ہر سچا احمدی کوشش کرتا رہے گا اور اگر ہم اس مقصود کو حاصل نہ کر سکیں تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ ہم نے اپنے

Page 272

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی.خدا تعالیٰ کے قانون میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب تک کسی قوم کا قدم ترقی پر ہوتا ہے، اس وقت تک ہر آنے والی رو اس کی پہلی رو سے زیادہ تیز ہوتی ہے.پہاڑوں پر جاتے ہوئے ہی دیکھ لو پہلے معمولی سی اونچائی دکھائی دیتی ہے ، پھر ٹیلے نظر آتے ہیں یوں جیسے کہ پزاوے سہوتے ہیں پھر اور اونچی جگہ آتی ہے پھر اور اونچی جگہ آتی ہے یہاں تک کہ نہایت ہی بلند و بالا پہاڑیوں تک انسان پہنچ جاتا ہے.اسی طرح آندھی آتی ہے تو پہلے ایک معمولی جھونکا آتا ہے پھر اس سے بڑا جھونکا آتا ہے اور پھر اس سے بڑا جھونکا آتا ہے یہاں تک کہ اتنے زور کی آندھی آتی ہے کہ وہ چھتوں کو اڑا کر لے جاتی ہے.یہی گرمی کا حال ہے پہلے تھوڑی گرمی ہوتی ہے پھر زیادہ گرمی ہو جاتی ہے اسی طرح سردی ایک دن کم ہوتی ہے ، دوسرے دن اس سے بڑھ کر اور پھر اس سے زیادہ.اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے ماتحت اسلام کی پہلی رو چلی تو مسلمانوں نے اس حد تک اس رو کو پہنچادیا کہ مساوات دنیا میں قائم کر دی ، اب دوسرا جھونکا احمدیوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے چلایا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ جو امتیازات کی بنیادیں ابھی باقی ہیں ان کو دنیا سے مٹادیں.پس ہمارے خیالات ہمیشہ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت رہنے چاہئیں کہ ہم احمدی ہیں یہ نہ ہو کہ ہم سرحدی ہیں اور وہ بنگالی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ فطرتی بات ہوتی تو ہمارے اندر کیوں نہ ہوتی.افغانستان کے آدمی یہاں آتے ہیں، مدراس کے آدمی یہاں آتے ہیں ، بنگالی یہاں آتے ہیں مگر کبھی ایک سیکنڈ کے لئے مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ یہ اور ہیں اور ہم اور ، اور ہمیں چونکہ یہ بتانا پڑتا ہے کہ فلاں شخص کہاں سے آیا ، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ فلاں سرحدی ہے اور فلاں بنگالی.ورنہ ہمیں نہ تو بنگالیوں میں بنگالیت نظر آتی ہے اور نہ پنجابیوں میں پنجابیت بلکہ ہمیں تو ہر چہرہ میں احمدیت نظر آتی ہے لیکن چونکہ انسانی عادات میں فرق ہوتا ہے اس لئے مناسب یہی ہوا کرتا ہے اور کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ جس صوبہ کا کوئی آدمی ہو ا سے اس صوبہ میں ہی کام کرنے کا موقع دیا جائے اس لئے نہیں کہ وہ سرحدی ہے اور اسے سرحد میں کام کرنے کا موقع دینا چاہئے ، اس لئے نہیں کہ وہ بنگالی ہے اور اسے بنگال میں کام کرنے کا موقع دینا چاہئے بلکہ اس لئے کہ وہ کام کو اپنے صوبہ میں ہم سے زیادہ بہتر کر سکتا ہے اور چونکہ وہ اپنے صوبہ کی زبان اور لوگوں کی عادات واطوار کا بہر حال زیادہ واقف ہوگا اس

Page 273

خطبات محمود ۲۶۸ سال ۱۹۳۵ء لئے مناسب سمجھا جاتا ہے کہ اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے لیکن اگر اس لحاظ سے کوئی مقرر کیا جائے کہ صوبہ سرحد میں سرحدی ہونا چاہئے اور بنگال میں بنگالی ہونا چاہئے تو میں اس کا شدید مخالف ہوں گا لیکن اگر اس لحاظ سے ایک سرحدی کو صوبہ سرحد میں اور ایک بنگالی کو صوبہ بنگال میں کوئی عہدہ دیا جائے کہ وہ اپنے صوبہ میں ہم سے بہتر کام کر سکتا ہے تو یہ جائز ہوگا پنجابیوں میں سے بھی آخر ہر ایک کو امیر یا جماعت کا پریذیڈنٹ نہیں بنایا جاتا بلکہ قابلیت دیکھی جاتی ہے پھر اس میں کیا شبہ ہے کہ بنگال کا آدمی ایک پنجابی کی نسبت اپنے صوبہ میں کام کرنے کے لحاظ سے زیادہ قابل ہوگا وہ لوگوں تک بخوبی باتیں پہنچا سکتا ہے پھر عادات کا فرق بھی ہوتا ہے جس کا طبائع پر بھاری اثر پڑتا ہے.انسان بعض دفعہ ایک طرز کے آدمی سے بات زیادہ جلدی سمجھ لیتا ہے مگر دوسری طرز کے آدمی سے بات جلدی سمجھ نہیں سکتا.پس اس لئے کہ قدرت نے اس کو قابلیت زیادہ دی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ وہاں کے لوگوں کا زیادہ عمدگی سے نگران بن سکتا ہے لیکن صرف اسی نقطہ نگاہ سے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اور اگر اس لحاظ سے سوال اٹھایا جائے کہ چونکہ سرحدی صوبہ ہے اس لئے وہاں ضرور ایک سرحد کا رہنے والا مقرر کرنا چاہئے.یا بنگال میں بہر صورت بنگالی مقرر کرنا چاہئے تو میں اس کو سخت نا پسند کروں گا بلکہ یہ زیادہ پسند کروں گا کہ وہ جماعت ٹوٹ جائے یہ نسبت اس کے کہ وہ جماعت رہ جائے پس اس موقع پر جبکہ چاروں طرف سے ہماری جماعت کے نمائندگان آئے ہوئے ہیں میں انہیں بتا تا ہوں کہ ہمارے لئے اب نہایت ہی نازک وقت ہے جب تک تم اپنی زندگیوں کو تبدیل نہیں کرو گے، جب تک تم ایک نئی پیدائش حاصل نہیں کرو گے اس وقت تک کامیابی حاصل کرنا محال ہے.مجھے بعض دفعہ حیرت آتی ہے کہ کیا انسانی دماغوں میں اتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے کہ کوئی شخص کچھ سمجھتا ہے اور کوئی کچھ ، جس نقطہ نگاہ سے میں اس وقت دنیا کو دیکھ رہا ہوں اس کے لحاظ سے مخالفت کا ایک دوزخ ہے جود نیا میں چل رہا ہے اس فتنہ کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں جو اس وقت احرار نے اٹھایا ہوا ہے بلکہ اس فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جس کو دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا گیا.احراری تو اب ہماری مخالفت کیلئے اُٹھے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی سال پہلے دنیا کے فتن دور کرنے کے لئے بھیجا میں حیران ہوں کہ ان بڑے فتنوں کو ہماری جماعت کیوں نہیں دیکھ سکتی.اگر ہماری جماعت انہیں محسوس کر لے تو یہ سارے

Page 274

خطبات محمود ۲۶۹ سال ۱۹۳۵ء امتیازات اس طرح بھول جائیں کہ ہمیں کبھی یاد بھی نہ آئیں.لطیفہ مشہور ہے کہ لکھنؤ کا ایک سیڈ اور دہلی کا ایک مغل کسی سٹیشن پر اکٹھے ہو گئے مغل اپنی بادشاہت کے گھمنڈ میں تھا اور سید اس گھمنڈ میں کہ میں ایسے خاندان میں سے ہوں جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں.پھر لکھنؤ اور دہلی والوں کے تہذیب و شائستگی کے دعوے ایک طرف تھے.ریل آئی تو ایک کہے مرزا صاحب آپ پہلے تشریف رکھیں اور وہ کہے کہ سید صاحب آپ تشریف رکھیں اب جھک جھک کر سلام ہو رہے ہیں ایک کہتا ہے آپ چلئے دوسرا کہتا ہے آپ چلئے اتنے میں ریل نے سیٹی دی وہ چل پڑی اب سید مغل کو دھکا دے کر آپ بیٹھنا چاہے ، اور مغل سید کو دھکا دے کر آپ بیٹھنا چاہے تو تکلفات سے کام انسان اسی وقت لیتا ہے جب انسان کے دماغ میں آرام کے خیالات ہوں لیکن جب آگ لگ جاتی ہے تو اس وقت کب انسان معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا کرتا ہے ہزار ہا واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ لوگ سینما دیکھنے کے لئے گئے اور وہاں آگ لگ گئی تو مائیں اپنے بچوں کو روندتے ہوئے گزر گئیں.غرض جب مصیبت سامنے ہو تو اس وقت نہ محبت کے امتیاز قائم رہتے ہیں اور نہ دشمنی کے امتیاز نظر آتے ہیں اگر ایک سینما، ایک دعوت گھر اور ایک سٹیشن میں آگ لگ جانے کی وجہ سے تمام ظاہری امتیازات مٹ جاتے ہیں تو دنیا میں ہماری مخالفت میں جب اتنی بڑی آگ لگی ہوئی ہے جس کی نظیر نہیں ، جب ہم پر وہ بوجھ لادا گیا ہے جس سے کمریں جھکی چلی جارہی ہیں ، اس وقت یہ جھگڑا کرنا کہ فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنا فلاں بننا چاہئے یا فلاں امیر کیوں ہؤا فلاں ہونا چاہئے ، ایسی ذلیل باتیں ہیں جنہیں سن کر مجھے پسینہ آ جاتا ہے اور مجھے حیرت آتی ہے کہ کیا احمدیت نے جو غیر ہم میں پیدا کرنا چاہا تھا وہ اب تک ہم میں پیدا نہیں ہوا جب ایک مقصود ہمارے سامنے ہوتا ہے اس وقت باقی چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں کسی شاعر نے کہا ہے.جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے اس کے مطابق اگر اللہ تعالیٰ ہمیں نظر آ جائے تو پھر اور کون ہے جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہو یہی چیز ہے جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ورنہ اس کے سوا اور کیا چیز ہے جو ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مبعوث ہو کر ہمیں کیا دیا ہے آپ نے ہمیں عہدے نہیں

Page 275

خطبات محمود ۲۷۰ سال ۱۹۳۵ء دیئے ، زمینیں نہیں دیں ، مربعے نہیں دیئے، بادشاہتیں نہیں دیں اور اگر لوگ ہم سے پوچھیں کہ حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ لوگوں کو کیا دیا تو ہم سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ہمیں خدا دے دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقع میں ہمیں خدا مل گیا.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا بلکہ رؤیا کیا وہ ایک کشف کی سی حالت تھی میں اسے بیان بھی کر چکا ہوں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے ہے اور میں اس سے چمٹا چلا جاتا ہوں اور یہ کہتا جا تا ہوں ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہیں تیغ تیز کی طرح ہوتی ہیں جس کے دیکھنے سے باقی تمام جھگڑے کٹ جاتے ہیں.یہی اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مؤمن کا دماغ ایسے زیتون سے روشن ہوتا ہے کہ اس کے متعلق شرقی غربی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے دل میں وہ تیل جل رہا ہو جو لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ کا مصداق ہو وہ قومیتوں اور امتیازات کو مٹا دیتا ہے لیکن وہ شخص جس کے دل میں قومیت اور ملکی رسوم و رواج کا دخل ہو ، اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں ابھی وہ نور روشن نہیں ہوا جو خدا تعالیٰ ہر مومن کے دل میں روشن کرنا چاہتا ہے.پس مٹادو ان تمام خیالات کو اور یہ سمجھنے لگ جاؤ کہ ہم احمدی ہیں اور احمدی بھی ہم باقی دنیا سے امتیاز کرنے کے لئے اپنے آپ کو کہتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو عباد اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے خادم ہیں اور اگر کوئی ہم سے پوچھے تو دراصل ہمارا نام عبد اللہ ہے.پس جب ہم اللہ تعالیٰ کے غلام ٹھہرے تو غلاموں میں بھلا کیا امتیاز ہو ا کرتا ہے ، غلام کو تو جہاں مقرر کیا جائے اس کا فرض ہے کہ وہ وہاں کام کرے اگر غلام کہلاتے ہوئے کوئی شخص جھگڑے تو اسے کون حقیقی غلام کہہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک لطیفہ سنا ہوا ہے جو شاید مقامات حریری یا کسی اور کتاب کا قصہ ہے آپ فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان کسی جگہ نہانے کے لئے گیا حمام کے مالک نے مختلف غلاموں کو خدمت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت مالک موجود نہ تھا جب وہ نہانے کے لئے حمام میں داخل ہوا تو تمام غلام اسے آ کر چمٹ گئے اور چونکہ سر کو آسانی سے ملا جا سکتا ہے اس لئے یکدم سب سر پر آ گرے، ایک کہے یہ میرا سر ہے ، دوسرا کہے یہ میرا سر ہے ، اس پر آپس میں لڑائی شروع ہوگئی اور ایک نے

Page 276

خطبات محمود ۲۷۱ سال ۱۹۳۵ء دوسرے کے چاقو مار دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا شور ہونے پر پولیس آئی اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا عدالت کے سامنے بھی ایک غلام کہے یہ میرا سر تھا، دوسرا کہے میرا سر تھا عدالت نے نہانے والے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا حضور یہ تو بے سر تھے ان کی باتوں پر تو مجھے تعجب نہیں تعجب یہ ہے کہ آپ نے بھی سوال کر دیا حالانکہ سر نہ اس کا ہے نہ اُس کا سر تو میرا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال اس لئے دیا کرتے تھے کہ دنیا کے جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں میرا کیا اور تیرا کیا.غلام کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا وہ تو جب اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں عبد اللہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا کچھ نہیں سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے ، اس کے بعد میرے تیرے کا سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے.قرآن مجید پڑھ کر دیکھ لو اس میں رسول کریم ﷺ کا نام بھی عبداللہ رکھا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ تو خدا تعالیٰ کا غلام ہوتے ہوئے ہماری کوئی چیز نہیں رہتی بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اسی لئے قرآن مجید نے بالوضاحت بتایا ہے کہ ہم نے مومنوں سے مال و جان لے لی دوست عزیز ، رشتہ دار سب جان کے ماتحت آتے ہیں اور باقی مملوکات مال کے ماتحت آتی ہیں اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کا انسان ما لک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوں چیزیں مؤمنوں سے لے لیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں یہ جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں کہ یہ چیز میری ہے اور وہ اس کی.تم اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے زور لگا ؤ اور چھوڑ دو ان باتوں کو کہ تم کہو فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنا فلاں کیوں نہ بنا، فلاں سیکرٹری کیوں ہو ا فلاں کیوں نہ ہوا، یا جب تک فلاں شخص امام نہ بنے ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے.مجھے افسوس ہے کہ کئی دفعہ اس قسم کی شکایات پہنچ جاتی ہیں کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہم فلاں احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے حالانکہ میں نے یہ بات کہ کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا مت چھوڑ واتنی دفعہ دہرائی ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک طوطا میرے پاس ہوتا تو وہ بھی یہ ضرور سیکھ جاتا کہ اختلاف کی بناء پر کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی کبھی نہیں چھوڑنی چاہئے.پس تعجب کہ میاں مٹھو تو یہ سیکھ سکتا ہے مگر ابھی تک ہماری جماعت کے بعض میاں مٹھو ایسے ہیں جو اس بات کو ابھی تک نہیں سمجھے.میں اس قسم کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے اپنی ضد کو نہیں چھوڑ نا تو تم احمدی ہی کس لئے ہوئے تھے اگر احمدیت کے بعد بھی یہ لعنت کا طوق تمہارے گلے میں رہنا تھا تو تم معمولی اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیتے تو تم نے کیوں احمدیت

Page 277

خطبات محمود ۲۷۲ سال ۱۹۳۵ء میں داخل ہو کر اس پاک اور مقدس چشمہ کو گندہ کیا.تم میں سے اس قسم کے لوگوں کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ملکہ گیا تو چشمہ زمزم میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا لوگوں نے اسے مارا پیٹا تو وہ کہنے لگا پیشاب میں نے اس لئے کیا ہے کہ لوگ باتیں تو کریں گے کہ فلاں شخص آیا اور اس نے یہ حرکت کی.یہی ان لوگوں کا حال ہے یہ تو خالص انبیاء اور ان کے خلفاء کا حق ہے کہ وہ کہیں فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.زید یا بکر کو کس نے حق دیا ہے کہ ان میں سے جس کا جی چاہے وہ اپنے میں سے کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دے.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی گالیاں دیتا ہے ، بُرا بھلا کہتا ہے، معاملات کے لحاظ سے خراب ہے ، حتی کہ وہ اپنے لوگوں کو مرتد بھی کہہ دیتا ہے، پھر بھی کسی کا حق نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی ترک کرے.اور یہ بات میں نے اتنی بار کھول کھول کر بیان کی ہے کہ اگر ایک طوطے کو میں یہ سبق پڑھاتا تو وہ ضرور پڑھ جاتا مگر ہم میں سے بعض ایسی موٹی عقل کے آدمی ہیں کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر لڑتے جھگڑتے اور یہ سوال پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل تمہارے سامنے ہے اسے دیکھ لو اللہ تعالیٰ آپ کو اشارے کر رہا ہے کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے مگر آپ ان کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ تم پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر یا مکذب یا متر ڈر کے پیچھے نماز پڑھو.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کہتا ہے کہ آپ نبی ہیں مگر پھر بھی آپ ان کے پیچھے نماز ترک کرنے کا فتویٰ نہیں دیتے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اشارے چھوڑ کر نص صریح کے ذریعہ کہتا ہے کہ اب حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر و مکذب وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھی جائے جیسا کہ تحفہ گولڑویہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کیا.ایک طرف بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ نمونہ ہے حالانکہ یہ ایک مذہبی سوال تھا اور اس ذات پر ایمان لانے کا سوال تھا جس کی بعثت کی خبر تمام انبیاء دیتے چلے آئے مگر آپ اشاروں کے باوجود نماز پڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم پر غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنا حرام اور قطعی حرام ہے مگر ہماری جماعت کے بعض لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اتنی سی بات پر کہ فلاں شخص کیوں پریذیڈنٹ ہو گیا یا فلاں سیکرٹری کیوں بن گیا ناراض ہو کر کہ دیتے ہیں کہ ہم الگ جمعہ پڑھیں

Page 278

خطبات محمود ۲۷۳ سال ۱۹۳۵ء گے ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے.مجھے حیرت آتی ہے کہ اس قسم کے لوگ مخلص بھی کہلاتے ہیں اور پھر ایسی حرکات کرتے ہیں جو میرے نزدیک منافق بھی نہیں کرتے.آخر رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے منافقوں کے متعلق بھی تو یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ انہوں نے اتنے معمولی سے اختلاف کی بناء پر دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی ہو.پھر منہ سے ایمان کا دعویٰ کرنا اور عمل وہ اختیار کرنا جو منافق بھی اختیار نہ کرتے ہوں کس قدر افسوسناک امر ہے.اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ یا تو یہ لوگ باتیں سنتے نہیں اور اگر سنتے ہیں تو ایسی حالت میں کہ ان کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہوتی ہے اور اخبار میں بھی جب ان کے پاس جاتی ہیں تو وہ انہیں نہیں پڑھتے.ورنہ وجہ کیا ہے کہ اتنے تو اتر سے بات کہی جاتی ہے اور پھر بھول جاتی ہے میں اس بات کو سمجھ سکتا تھا کہ وہ جماعت یہ کہ دیتی کہ ہم خلیفہ کو نہیں مانتے ، میری عقل تسلیم کر سکتی تھی کہ انسان ایک وقت گر کر یہ کہہ سکتا ہے کہ خلافت کی ضرورت نہیں مگر ایک طرف منہ سے یہ دعوی کرنا کہ خلافت پر ہماری جان قربان ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ ہم خلیفہ وقت کے فلاں حکم کو نہیں مانیں گے ایسی بات ہے جسے میری عقل کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی.میں نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو رویا میں دیکھا آپ ایک اور شخص سے فرما رہے تھے ا تُصَدِّقُنِی وَلَا تُؤْمِنُ بِی ارے تو میری تصدیق تو کرتا ہے مگر میری بات نہیں مانتا.گویا یہ ایک حدیث ہے جو رسول کریم ﷺ کے منہ سے میں نے براہِ راست سنی.لوگ تو احادیث کے متعلق یہ بحثیں کیا کرتے ہیں کہ یہ احاد میں سے ہے اور یہ تو اتر میں سے.فلاں کے راوی ثقہ ہیں اور فلاں کے نہیں.مگر یہ وہ حدیث ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سنی که ا تُصَدِّقُنِي وَلَا تُؤْمِنُ بِی یعنی تو میری بات کو تو سچا سمجھتا ہے مگر اسے مانتا نہیں.یہی حالت ہماری جماعت کے بعض لوگوں کی ہے میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے بعض دوستوں کی یہ کیا عادت ہے کہ وہ نہ تو خلافت کا انکار کرتے ہیں اور نہ میری بات مانتے ہیں اس لئے ایک دفعہ پھر اس موقع پر جبکہ تمام جماعتوں کے نمائندے جمع ہیں میں کہتا ہوں کہ اس قسم کی غیر معقول باتیں مؤمنانہ شان سے بہت بعید ہوتی ہیں.اول تو یہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں کہ انسانی ذہن کو انہیں یاد بھی نہیں رکھنا چاہئے.میری اپنی یہ حالت ہے کہ بعض دفعہ میرے پاس کوئی شخص آتا ہے اور کہتا ہے چھ مہینے ہوئے مجھ سے یہ غلطی ہوئی تھی آپ معاف فرما دیں میں کہتا ہوں مجھے یاد ہی نہیں کہ عروسة

Page 279

خطبات محمود ۲۷۴ سال ۱۹۳۵ء.ایسی بات کب ہوئی تھی وہ واقعات کو دہرانا چاہتا ہے تو میں کہتا ہوں واقعات کو کیوں دُہراتے ہو میری عادت ہے کہ میں دوسروں کی کوتاہیوں کو بھلا دیا کرتا ہوں اور میں کوشش کیا کرتا ہوں کہ اگر کسی کی نیکی ہو تو مجھے یادر ہے اور اگر کسی کی بدی ہو تو وہ مجھے بھول جائے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی بدیاں مجھے بھول جایا کرتی ہیں بلکہ یاد دلانے پر بھی یاد نہیں آتیں.لوگوں کی ہزار ہابدیاں میرے سامنے آتی ہیں اور میں انہیں اتنا بھلاتا ہوں ، اتنا بھلاتا ہوں کہ میرے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی ان کی یاد نہیں رہتی بلکہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بتانے والا بتاتا ہے اور میں کہتا ہوں مجھے یاد نہیں اور میں سمجھتا ہوں ہر مؤمن کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی خوبیاں یا د ر کھے اور عیوب کو بھلا دے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کسی بزرگ کا ایک شاگر د تھا جب وہ تعلیم حاصل کر کے اپنے وطن جانے لگا تو وہ بزرگ اسے کہنے لگے میاں تمہارے وطن میں شیطان بھی ہوتا ہے یا نہیں.وہ حیران ہو کر کہنے لگا حضور شیطان بھلا کس جگہ نہیں ہوتا.فرمانے لگے.اچھا یہ تو بتا ؤ اگر شیطان تم پر حملہ کرے تو تم کیا کرو گے ( اس موقع پر بعض بچوں کے شور کی آواز بلند ہوئی تو حضور نے فرمایا بچے شور مچارہے ہیں اگر کسی کو توفیق مل جاتی کہ وہ بچوں کو سمجھا دیتا کہ نماز شور مچانے کے لئے نہیں ہوتی تو بہتر ہوتا.خطبہ بھی نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے اور خطبہ میں بولنا بھی ویسا ہی منع ہے جیسا کہ نماز میں ) وہ شاگرد کہنے لگا کہ میں اس حملہ کو روکوں گا اور اس کا مقابلہ کروں گا.بزرگ کہنے لگے اچھا اگر ایک دفعہ رک گیا اور تم نے پھر خدا تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی اور وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا تو پھر کیا کرو گے.کہنے لگا پھر مقابلہ کروں گا.وہ فرمانے لگے اگر تیسری دفعہ پھر ایسا ہی ہوا اور تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے جو نہی بڑھے وہ تم پر حملہ آور ہو گیا.تو تم کیا کرو گے وہ کہنے لگا میں پھر مقابلہ کروں گا فرمانے لگے اگر تم اس طرح کرنے لگے تو پھر تمہاری ساری عمر شیطان سے لڑتے ہی گزر جائے گی خدا تعالیٰ کی محبت کب حاصل ہوگی.وہ کہنے لگا پھر میں کیا بتاؤں اور تو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی.وہ فرمانے لگے اچھا یہ بتا ؤاگر تم کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اس کا کتا تم پر حملہ کر کے تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے.وہ کہنے لگا میں کتے کو مار کر ہٹاؤں گا اور اپنے دوست کی طرف بڑھوں گا.فرمانے لگے اچھا اگر پھر ایسا ہی ہوا اور جب تم دوست کے مکان میں داخل ہونے لگے تو اس نے پھر تمہاری ایڑی پر حملہ کر دیا تو کیا کرو گے.کہنے لگا حضور پھر میں اس

Page 280

خطبات محمود ۲۷۵ سال ۱۹۳۵ء دوست کو آواز دوں گا کہ اپنے کتے کو ہٹانا یہ اندر آنے نہیں دیتا.تو اس بزرگ نے اس رنگ میں اپنے شاگرد کو یہ سمجھایا کہ تمہاری روحانی مدارج طے کرتے وقت یہی حالت ہونی چاہئے.بجائے شیطان سے لڑنے اور اپنے وقت کو ضائع کرنے کے خدا تعالیٰ سے کہو کہ اے خدا! تو شیطان کو میرے راستہ سے ہٹا.یہ مجھے تیرے پاس آنے نہیں دیتا.اگر ہم بھی معمولی معمولی باتوں پر لڑنے لگ جائیں، کہیں انجمنوں کے قیام کے سوال پر لڑیں، کہیں امامتوں کے سوال پر جھگڑیں، کہیں عہدوں کے حصول کے لئے لڑائی کریں، تو پھر وہ کام کون کرے گا جس کے کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں اس وقت دنیا میں کھڑا کیا ہے ہمیں تو ان تمام باتوں کو بھول جانا چاہئے.ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے.ہم نے تمام دنیا کو فتح کرنا ہے.تم سوچ کر دیکھ لو اپنے بچوں کو تم نے سمجھانا ہوتا ہے.ان کی اصلاح کے لئے تمہاری کوششیں کس طرح بریکا رثابت ہوتی ہیں.بیسیوں لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ میرا بچہ بڑا شوخ ہے اس کی اصلاح کے لئے کئی تدابیر اختیار کیں مگر سب ناکام ہوئیں آپ دعا کریں خدا تعالیٰ اسے نیک کرے.جب انسان کو ایک بچے کو سمجھانے کے لئے مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے تو ہم نے تو لاکھوں لوگوں کو سمجھانا ہے.پھر ان لوگوں کو سمجھا نا ہے جو طاقت ،عظمت ، عزت و دولت اور وجاہت میں ہم سے زیادہ ہیں.حکومت میں ان کا دخل ہے ، رعایا پر ان کا اقتدار ہے، ان حالات میں ان کی اصلاح کے لئے ہمیں کتنی بڑی جد و جہد کی ضرورت ہے اس کے لئے تو ہمیں پاگل ہو جانا چاہئے اور ہمیں دنیا کی بگڑی ہوئی حالت کو دیکھ دیکھ کر اضطراب اور بے چینی کے ساتھ کہنا چاہئے کہ یہ بھی خراب ہے اور وہ بھی خراب ہم اصلاح کریں تو کس کس کی کریں.مگر ہم میں سے بعض اس طرح مطمئن ہو کر بیٹھے ہیں جیسے دنیا کو فتح کر کے کوئی شخص بیٹھ رہتا ہے.بیسیوں دفعہ میں نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا ہے کہ آرام تمہارے نصیب میں نہیں اگر تم اخروی اور دائی آرام چاہتے ہو تو تمہیں اس چند روزہ آرام کو قربان کرنا پڑے گا بلکہ اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بھاری پروگرام ہمارے سامنے ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے مطابق کام بھی شروع ہے مگر بہت ہیں جنہوں نے ابھی تک اس پروگرام پر عمل کرنا شروع نہیں کیا.میں نے کہا تھا کہ اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو اور سال میں سے مہینہ دو مہینے یا تین مہینے تبلیغ کے لئے دو مگر اب تک اتنے آدمیوں نے بھی اپنے آپ کو وقف نہیں کیا جتنے قادیان میں رہتے ہیں حالانکہ دو اڑھائی مہینے سے کام شروع

Page 281

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے نتیجہ میں تھوڑے دنوں میں ہی اتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہو گیا ہے کہ میں خیال کرتا ہوں اگر سارے احمدی اس کام پر لگ جائیں تو دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے اور ہمارا قدم ترقیات کی بلند ترین چوٹیوں پر پہنچ جائے.اس نئی تحریک کے نتیجہ میں تبلیغ کر کے مختلف مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص مضبوط ہاتھوں سے احمدیوں پر پتھر چلا رہا ہے مگر اس کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے اندر ہی اندر خوف زدہ ہوتا ہے اور وہ آپ ہی علیحدگی میں ملتا ہے اور کہتا ہے میری بڑی بیوقوفی تھی کہ میں نے آپ کو تکلیف پہنچائی.پس ان ظالموں میں سے بھی وہ لوگ نکل آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں اس وقت احمد یوں پر ظلم ہو رہا ہے.ابھی ایک واقعہ کی اطلاع موصول ہوئی ہے ، ایک جگہ ایک احمدی تبلیغ کرنے کے لئے گیا تو ایک مخالف مولوی نے اس احمدی پر حملہ کر دیا اور اسے بُرا بھلا کہا اور کچھ مارا پیٹا بھی.چند دنوں کے بعد وہ احمدی پھر اس گاؤں میں تبلیغ کے لئے آیا تو اسی غیر احمدی نے پھر حملہ کر دیا اس پر غیر احمدیوں نے خود اپنے مولوی کو ملامت کی اور کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم نے پہلے بھی اسے تکلیف دی اور اب پھر گالیاں دے رہے ہو.تو ان مخالفوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ایسے دل نکل رہے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ احمد یوں پر ظلم انتہاء کو پہنچ گیا.ظلم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.تم کسی سے انتہاء درجہ کی محبت تو کر سکتے ہو مگر کسی پر انتہاء درجہ کا ظلم نہیں کر سکتے.بیسیوں ظالموں کو ہم نے دیکھا ہے وہ مار مار کر اپنے دشمن کو بے ہوش کر دیتے ہیں لیکن جب وہ بے ہوش ہو جاتا ہے تو اس سے چمٹ جاتے اور اس کے منہ میں پانی ڈالتے اور اسے پنکھا کر نے لگ جاتے ہیں.کبھی دل میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ اگر یہ مرگیا تو میں قاتل نہ سمجھا جاؤں، کبھی ضمیر انسان کو ملامت کرتی اور وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتا ہے ، کبھی خدا کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو انتہاء درجہ کا ظلم کبھی نہیں کیا جا سکتا.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت بہت بڑا تغیر ہو رہا ہے اور گو کام بہت تھوڑی جگہ شروع کیا گیا ہے لیکن جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اتنا بڑا انور نازل کیا ہے تو آخر کب تک لوگ اس کے دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں گے.یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ ہدایت پائیں گے.اللہ تعالیٰ کا اگر ہم فعل دیکھیں تو اس سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اندھا پن انتہاء نہیں رکھتا مگر محبت الہی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو محبت الہی کے نتیجہ میں غیر مقطوع جنت کا وعدہ دیا

Page 282

خطبات محمود ۲۷۷ سال ۱۹۳۵ء گیا ہے مگر روحانی اندھا پن کے نتیجہ میں غیر مقطوع دوزخ کا وعدہ نہیں کیا گیا بلکہ کہا گیا ہے کہ لمبی دوزخ ہو گی اور بالآ خر دوزخیوں کو اس میں سے نکال لیا جائے گا.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نا بینائی انتہاء کو نہیں پہنچتی مگر بینائی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے.غضب اور ظلم کی سزا غیر محدود نہیں لیکن محبت اور رحم کی جزاء غیر محدود ہے.صاف پتہ لگتا ہے کہ محبت کو ہم انتہاء تک پہنچا سکتے ہیں لیکن ظلم کو انتہاء تک نہیں پہنچا سکتے.پس اس عظیم الشان مقصد کو مت بھولو جوتمہارے سامنے ہے بہت بڑا کام ہے جسے تم نے سرانجام دینا ہے.وہی سکیم لے لو جو میں نے تمہارے سامنے پیش کی ہے اور جو دریا میں سے ایک قطرہ کی حیثیت رکھتی ہے اس پر ہماری جماعت نے ابھی کامل طور پر عمل نہیں کیا.کل ہی مجھے معلوم ہؤا کہ ہماری انجمن پر ایک لاکھ تین ہزار روپیہ کا قرض ہے.کیا کوئی عظمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ہم متفقہ طور پر کوشش کریں تو یہ ایک لاکھ تین ہزار کا قرض ہم نہیں اتار سکتے.میں تو سمجھتا ہوں اگر ہم پوری جدوجہد سے کام لیں تو ایک مہینہ میں ہی یہ قرض اتر سکتا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے بعض افراد کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں.مجھے ہمیشہ اس پالیسی سے اختلاف رہا ہے کہ جماعت کے کمزوروں کو چھوڑ کر صرف مخلصین جماعت سے کام لیا جائے کیونکہ اس طرح جماعت کا ایک حصہ ترقی کرنے سے کلیۂ محروم ہو جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر میں یہ بھی کہوں کہ جانے دو کمزوروں کو اور آؤ صرف مخلصین جماعت کے ذریعہ اس قرض کو اتارا جائے تب بھی یہ قرض اتر سکتا ہے.کئی لوگ کہا کرتے ہیں کہ اس طرح کیا جائے مگر میرا طریق عمل یہی ہے کہ میں ساری جماعت کو ابھارا کرتا ہوں اور یہی ضروری ہو ا کرتا ہے.ورنہ ایک دفعہ پہلے میں نے یہ تجویز کی اور آٹھ دس مخلصین سے کہا کہ جماعت کی مالی حالت اس وقت ایسی ہے کہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ساری جائداد میں اس کے لئے دے دیں.گو اس وقت اس تجویز کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا لیکن میں نے دیکھا کہ اگر وہ آٹھ دس آدمی ہی اپنی ساری جائدادیں سلسلہ کو دے دیتے تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی جائدادیں دے سکتے تھے حالانکہ صرف چند آدمیوں سے میں نے وہ وعدے لئے تھے.پس اگر خدا تعالیٰ وہ دن لائے اور خدا کرے کہ ہماری جماعت پر وہ دن نہ آئے جب جماعت کے کمزور حصہ کو چھوڑ دینا پڑے تب بھی چند مخلصین مل کر سلسلہ کی مالی حالت کو مضبوط کر سکتے ہیں اور اپنی جائدادیں اسے دے سکتے ہیں گو یہ الگ سوال ہے کہ جائدادوں کا بیچنا بہت مشکل ہوتا ہے.اب موجودہ فتن کو دور کرنے اور تحریک جدید کو وسعت دینے

Page 283

خطبات محمود ۲۷۸ سال ۱۹۳۵ء کے لئے میں نے ایک تجویز کی ہے جس کا آج اعلان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ہر مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ تمام احمد یہ جماعتوں میں میری جدید تحریک کے متعلق پڑھا جائے اور اس میں جماعت کو قربانیوں پر آمادہ کرتے ہوئے ان میں نیکی اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.میری مفصل تحریک کو مد نظر رکھ کر ہر جماعت مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ اس کے متعلق پڑھے اور تحریک کے مختلف حصوں کو مختلف خطبات میں بیان کر دیا جائے.مثلاً ایک خطبہ مالی قربانی کے متعلق پڑھ دیا جائے دوسرا خطبہ زندگی وقف کرنے کے متعلق پڑھ دیا جائے اور تیسر اخطبہ جماعت میں صلح و محبت قائم کرنے کے متعلق پڑھ دیا جائے.اسی طرح تحریک کے تمام حصے ایک ایک کر کے مختلف خطبات کے ذریعہ جماعت تک پہنچائے جائیں.پھر ایک اور تجویز میں نے یہ کی ہے کہ ہر چھ ماہ کے بعد ایک دن مقرر کر کے ہر جگہ کی جماعتیں اپنے اپنے مقام پر جلسے کریں جس میں تحریک جدید کے متعلق لیکچر دئیے جائیں.اس سال کے لئے میں نے ۲۶ رمئی کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس تاریخ کو غالباً اتوار کا دن ہوگا بلکہ مجھے یاد آیا اس تاریخ کو اتوار کا ہی دن ہے کیونکہ اس کے متعلق میرے ذہن میں ایک واقعہ بھی تازہ ہو گیا.ایک دفعہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کون سا دن اس غرض کے لئے مقرر کیا جائے کہ مجھے خیال آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا دن ایسا ہے جس دن جماعت اپنے فرائض کی طرف زیادہ عمدگی سے متوجہ ہو سکتی ہے اس پر میں نے ایک دوست سے کہا کہ حساب کرو اس تاریخ کو کون سا دن ہو گا انہوں نے حساب کیا تو اتوار نکلا.پس ۲۶ رمئی اتوار کے دن ہر جگہ کی جماعتیں جلسے کریں اور مختلف لوگ مختلف موضوعات پر لیکچر دیں.مثلاً کوئی صلح و محبت پر لیکچر دے، کوئی اس پر لیکچر دے کہ چندوں کے بقائے صاف کئے جائیں ، کوئی اس بات پر لیکچر دے کہ لڑکوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجا جائے ، کوئی اس بات پر لیکچر دے کہ تحریک جدید کے آئندہ سال کے چندہ کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے ، اس سال کا چندہ ہی گو وعدوں کے لحاظ سے ایک لاکھ دس ہزار تک پہنچ گیا تھا مگر نقد رقم اب تک صرف پچپن ہزار وصول ہوئی ہے حالانکہ بجٹ جو تحریک جدید کے متعلق بنایا گیا ہے ستر ہزار کا بنا ہے اور یہ ستر ہزار کا بجٹ بہت سے ایسے کام ترک کر کے بنایا گیا ہے جن کے ذریعہ دنیا میں شور مچایا جا سکتا تھا.یہ تجاویز جو میں نے بیان کی ہیں انچارج تحریک جدید کی طرف سے چھپوا دی گئی ہیں اسی طرح ایک چارٹ بھی ایک کا تب دوست تیار کر رہے ہیں دوستوں کو چاہئے کہ جب وہ تیار ہو جائیں تو انہیں خرید کر اپنے

Page 284

خطبات محمود ۲۷۹ سال ۱۹۳۵ء کمروں میں لٹکا لیں تا کہ ہر وقت سکیم انہیں یا د رہ سکے مجھے یقین ہے کہ اگر جماعت اس تحریک پر عمل کرے تو یہ اس کے لئے بہت بابرکت ہو گا تحریک کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنا رو پیدا مانت فنڈ میں جمع کرائے بہت سے دوست ایسا کر رہے ہیں مگر بعض نہیں بھی کرتے حالانکہ اگر کوئی دس میں سے ایک روپیہ بھی ہر مہینے جمع کرا دے تو یہ اس کے لئے مفید ہوگا اور ایسے کام درمیان میں نکل سکتے ہیں جن کے ماتحت اس کا تھوڑا سا روپیہ بھی بہت بڑی آمد کا ذریعہ بن جائے.غرض ۲۶ رمئی کی نسبت میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس دن تمام جماعت کو چاہئے کہ وہ جلسے کرے اور جس طرح عید کے دن مرد اور عورتیں اکٹھی ہوتی ہیں اسی طرح اس دن جمع ہو کر تحریک جدید کے ہر حصہ پر تقریریں کی جائیں اگر کسی جماعت کے افراد تھوڑے ہوں تو ان میں سے ایک ایک شخص تحریک کے دو دو چار چار حصوں پر تقریریں کر سکتا ہے اور اگر زیادہ ہوں تو ایک ایک حصہ پر علیحدہ علیحدہ ہر شخص لیکچر دے سکتا ہے یہ ضروری نہیں کہ وہی دلائل دیئے جائیں جو میں بیان کر چکا ہوں بلکہ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ دلائل رکھتا ہو تو وہ بھی بیان کئے جاسکتے ہیں.اسی طرح ہر مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ جماعت کے سامنے تحریک جدید کے متعلق پڑھا جائے اور کسی میں جماعت میں صلح و محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، کسی میں نمازوں کی پابندی کی تاکید کی جائے، کسی میں چندوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ کیا جائے اور کسی میں جماعت کو تقویٰ اور طہارت پیدا کرنے کی نصیحت کی جائے.کئی لوگ ایسے ہوا کرتے ہیں جو اپنے آدمیوں سے بات عمدگی سے سمجھ سکتے ہیں اس لئے وہ اس طریق سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو سلسلہ کی اخبار میں نہیں پڑھتے اور اس طرح انہیں پورا علم نہیں ہوتا غرض ہر مہینہ میں اگر ایک خطبہ جمعہ اس تحریک کے متعلق پڑھا جائے اور اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کر کے تبلیغ کی جائے تو میں سمجھتا ہوں اگر جماعت تعہد سے اس پر عمل کرے تو جن فتن کو دور کرنے کے لئے میں نے سکیم بنائی ہے وہ فتن خدا تعالیٰ کے فضل سے سے دور ہو جائیں اور چھ سات ماہ کے بعد ہی ایک نیا رنگ دنیا میں پیدا ہو جائے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا

Page 285

خطبات محمود ۲۸۰ سال ۱۹۳۵ء ہوں کہ وہ ہماری جماعت کی اصلاح فرمائے اور اسے یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ ایک سیکنڈ جو ضائع جارہا ہے یہ ہمیں بہت بڑی مشکلات میں مبتلا کرنے والا اور اسلام کو نقصان پہنچانے والا ہے.النور: ۳۶ تا ۳۹ موضوعات ملا علی قاری صفحه ۳۵ مطبع مجتبائی دھلی ہزادے: بھٹا الجن: ٢٠ الفضل ۱/۲۴ پریل ۱۹۳۵ء) ۵ تفسير معالم التنزيل الجزء الثالث - صفحه ۲۴۳ مطبوعه بیروت ۱۹۸۵ء

Page 286

خطبات محمود ۲۸۱ (12) سال ۱۹۳۵ء احراریوں کی مسلمانوں کو تباہ کرنے والی حرکات (فرموده ۲۶ را پریل ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جب کسی قوم کے بُرے دن آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے لوگوں کی سمجھ مار دیتا ہے اور وہ ایسی حرکات کرنے لگ جاتے ہیں جو خود ان کی تباہی کا موجب ہو جاتیں اور ان کی قوم کے لئے مہلک ثابت ہوتی ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے ایام سے مسلمانوں میں سے ایک حصہ کے سرداروں کی یہی حالت ہو رہی ہے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ سب مسلمانوں کے سردار نہیں اور نہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا زیادہ زور پنجاب میں ہے یا پنجاب کے قریب کے علاقوں میں باقی سارا ہندوستان ان کے زہریلے اثرات سے پاک اور بہت حد تک بچا ہوا ہے پھر پنجاب اور اس کے گردونواح کے سب مسلمان ان سے متاثر نہیں بلکہ زیادہ تر شہری حصہ متاثر ہے اور شہروں میں سے بھی لاہور اور امرتسر کا وہ حصہ متاثر ہے جو متواتر لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ سے فتنہ وفساد کا عادی ہو چکا ہے.انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جو کام وہ ایک دو دفعہ کرے اس کی توجہ بار باراسی کی طرف لوٹتی ہے اس وجہ سے وہ لوگ جو لڑائی جھگڑے کی عادت ڈال لیں جلدی غصہ میں آ جاتے اور فتنہ وفساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.چونکہ پچھلے ایام میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے چند شہروں کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی تھی اور ان کے قلوب کا اطمینان جاتا رہا تھا اس لئے ان شہروں کے باشندوں کا ایک حصہ خواہ وہ مسلمانوں پر مشتمل ہو یا ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں پر ، اپنا

Page 287

خطبات محمود ۲۸۲ سال ۱۹۳۵ء دماغی توازن کھو چکا ہے اور وہ ذرا ذراسی بات پر جوش میں آجاتا ہے اور ایسے کاموں کا اقدام کر لیتا ہے جو خود ان کے لئے بھی مضر ہوتے ہیں.چونکہ شہر عام طور پر دوسروں کے لئے نمونہ سمجھے جاتے ہیں اس لئے ان کا اثر بطور صدائے بازگشت چھوٹے شہروں اور قصبات پر بھی پڑتا ہے مگر اس کی حدت اور تیزی چند شہروں میں ہی پائی جاتی ہے جیسا کہ لاہور ہے، امرتسر ہے ،سیالکوٹ ہے، گوجرانوالہ ہے، لدھیانہ ہے، بٹالہ ہے بقیہ شہروں میں اس وقت وہ بات نظر نہیں آتی جو ان میں پائی جاتی ہے.سیالکوٹ کی حالت بھی اب پہلی سی نہیں رہی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کا وہ طبقہ جو جلدی پر یشان ہو جاتا یا دوسروں کو پریشان کر دینے کا عادی ہے یا تو اپنی غلطی کو سمجھ گیا ہے یا تھک کر آرام کر رہا ہے جس گروہ کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ، ان سے احرار کا گروہ مراد ہے اور موجودہ فتنہ سے مرادان کی وہ تحریکات ہیں جو جماعت احمدیہ کے متعلق وہ کچھ عرصہ سے کر رہے ہیں وہ تحریکات مسلمانوں کے لحاظ سے اتنی خطرناک اور نقصان دہ ہیں کہ بعض دفعہ یقین ہی نہیں آتا کہ وہ خود اس کے بانی ہوں بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کے پیچھے کوئی اور محرک ہو شاید بعض ایسی جماعتیں اس تحریک کی محرک ہوں جو جماعت احمدیہ کو اپنے رستہ میں حائل سمجھتی ہیں اور خیال کرتی ہیں کہ اس جماعت کی وجہ سے ان کا مسلمانوں پر حملہ کامیاب نہیں ہو سکتا.پس بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایسی جماعتوں نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہومگر چونکہ اس کا کوئی بدیہی ثبوت نہیں ملتا اس لئے عقل چکر کھا کر اس بات کی طرف آجاتی ہے کہ ان کی عقلیں ہی ماری گئی ہیں اور وہ مسلمانوں کے فوائد کو نہیں سمجھتے.پچھلے دنوں سے متواتر یہ تحریک کی جارہی ہے اور یہاں جو احرار کا نفرنس ہوئی تھی اس میں بھی کہا گیا تھا کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شمار نہ کیا جائے بلکہ انہیں مسلمانوں میں سے نکال دیا جائے اور غیر مسلم تصور کیا جائے.یہ سوال موجودہ زمانہ میں جبکہ مسلمان پہلے ہی ہندوستان میں اقلیت ہیں اور جبکہ ان کی حالت خطرناک ہو رہی ہے، کسی عقلمندی اور دانش کا نتیجہ نہیں کہلا سکتا چند سال ہوئے ایک دفعہ پٹنہ میں مسلمانوں کی میٹنگ ہوئی اور اس میں اسی موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی مولا نا محمد علی صاحب جو علی برادرز میں سے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اس جلسہ کے صدر تھے بہار کے ایک مولوی صاحب نے اس ذکر کے دوران میں کہ ہندوؤں کو سکھوں سے زیادہ طاقت مل رہی ہے کیونکہ وہ اقلیت میں ہو کر حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تمسخر کے طور پر کہ دیا کہ اس کا علاج

Page 288

خطبات محمود ۲۸۳ سال ۱۹۳۵ء آسان ہے ہم بھی احمدیوں کو عام مسلمانوں سے الگ کر دیں اور انہیں کہیں کہ وہ حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کریں اس پر مولانا محمد علی صاحب نے جو اس جلسہ کے صدر تھے بڑی سختی سے ان مولوی صاحب کو ڈانٹا اور کہا کہ کیا تم اسلام کے دوست ہو یا دشمن؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں پہلے ہی کافی تفرقہ ہے تم چاہتے ہو کہ ان میں اور زیادہ تفرقہ پیدا کر دو مگر وہاں صدر مولانا محمد علی صاحب تھے اور صوبہ بہار تھا اور اب جو سوال پیش ہو رہا ہے وہ پنجاب میں پیش ہے اور سوال اٹھانے والے مولوی ظفر علی صاحب ، چوہدری افضل حق صاحب، مولوی حبیب الرحمن صاحب اور سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری جیسے انسان ہیں.یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس طرح ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ ہمیں نقصان کس طرح پہنچ سکتا ہے ؟ کہا جاتا ہے ہم چھپن ہزار ہیں اور اگر چہ ہم اُس وقت بھی چھپن ہزار نہیں تھے جبکہ مردم شماری ہوئی اور اب تو مردم شماری پر بھی تقریبا پانچ سال گزر چکے ہیں اگر اس وقت ہماری تعداد ایک لاکھ بھی سمجھ لی جائے تب بھی حکومت کو ایک نمائند ہمار ا ضرور لینا پڑے گا کیونکہ اقلیتوں کو ان کی نسبت سے زیادہ حقوق دیئے جاتے ہیں پس اگر ہماری جماعت کو ایک نمائندگی مل جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس لحاظ سے مسلمانوں کی ایک ممبری کم ہو جائے گی اگر مسلمانوں کی ایک ممبری اس طرح عام کانسٹی چیوانسی (CONSTITUENCY) سے کم کر دی جائے تو امکان ہے کہ خاص حالات کے پیدا ہونے پر جیسے نامزدگیاں وغیرہ ہوتی ہیں، ایک اور احمدی بھی ممبر بن جائے مسلمانوں کی کل ممبریاں اسمبلی میں ۸۹ سمجھی جاتی ہیں اگر ۸۹ میں سے دو نکال دی جائیں تو مسلمانوں کی ممبریاں ۸۷ رہ جاتی ہیں چونکہ گل ۱۷۵ ممبریاں ہوں گی اس لئے ۸۸ کے مقابلہ میں ۸۷ مسلمانوں کی ممبریاں رہ جائیں گی جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیں اپنے میں سے نکال کر اپنے آپ کو اقلیت بناتے اور اپنے قومی فوائد کو خطرناک نقصان پہنچاتے ہیں.لیکن کسی نے کہا ہے ایاز قدرے خود را بشناس یہ مسلمانوں کے نمائندے ہی کب بنے ہیں اور کب انہیں کسی نے اختیار دیا ہے کہ جن کے متعلق ان کا جی چاہے انہیں مسلمانوں میں سے خارج قرار دے دیں پنجاب میں سے مسلمانوں کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو ان لوگوں کی رائے کو اتنی وقعت دینے کے لئے بھی تیار نہیں جتنی وقعت ایک معمولی عقل و سمجھ رکھنے والے انسان کی بات کو دی جاتی ہے.منہ سے یہ کہ دینا کہ ہم آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے

Page 289

خطبات محمود ۲۸۴ سال ۱۹۳۵ء نمائندے ہیں بالکل آسان ہے مگر یہ تو بتائیں کہ ان میں سے کتنے آدمیوں نے اس اعلان کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو حال ہی میں احمدیوں اور احراریوں کے متعلق بعض معززین کی طرف سے شائع ہوا ہے.اسمبلی کے نو دس نمائندوں نے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک تہائی حصہ نے اس اعلان میں حصہ لیا ہے ممکن ہے اگر مزید موقع ملتا تو اور ممبر بھی اس اعلان میں شامل ہو جاتے ، کونسل آف سٹیٹ کے ممبر بھی شریک ہیں ، اسمبلی کے قریباً تمام سندھی نمائندوں نے اس اعلان پر دستخط کئے ہیں اور اس طرح سندھ کا سارا صوبہ نکل جاتا ہے ، پھر بہار کے اکثر نمائندوں نے اس پر دستخط کئے ہیں پس صوبہ بہار بھی نکل گیا ، اسی طرح بنگال کے بھی اکثر نمائندوں نے اس پر دستخط کئے ہیں پس صوبہ بنگال بھی آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے نکل گیا.پنجاب کے ممبران کی بھی ایک معقول تعداد نے اس پر دستخط کئے ہیں پس وہ تعداد بھی ان مسلمانانِ ہند میں سے نکل گئی جن کی نمائندگی کا احرار کو دعویٰ ہے.بنگال میں مسلمان تین کروڑ کے قریب ہیں ، بہار میں شاید تمیں لاکھ کے قریب ہیں ، پنجاب کا تہائی حصہ لے لیا جائے تو چالیس لاکھ بن جاتا ہے پھر سندھ کے تئیں لاکھ مسلمان لے لئے جائیں تو نصف کے قریب مسلمانوں کی تعداد ایسی نکل جاتی ہے جو احرار کی ہمنوا نہیں بلکہ ان کے خلاف ہے.پس تین چار کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے جب اپنے دستخطوں سے ان میں سے نکل گئے تو پھر یہ نمائندے کس کے ہیں؟ باقی چار کروڑ جو ہیں ان کے متعلق بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ احراری ان کے نمائندہ ہیں.آخر ملک نے جن بہترین دماغوں کو اپنا نمائندہ چن کر بھیجا ہے، انہی کی رائے کو وقعت دی جاسکتی ہے نہ کہ ان کی رائے کو جن کی نمائندگی کے دعوی کو کوئی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں.غرض آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے جن کی نمائندگی کا احرار کو دعوی ہے قریباً نصف ملک کے نمائندوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان فسادات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو احرار نے پیدا کر رکھے ہیں.پس جب چار کروڑ مسلمانوں کے نمائندے اعلان کرتے ہیں کہ وہ احرار کی فتنہ پردازیوں سے بیزار ہیں اور چار کروڑ خاموش ہیں تو پھر انہیں چوہدری کس نے بنایا ہے.یہ آپ ہی آپ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندہ بنے پھرتے ہیں.آٹھ کروڑ تو الگ رہے یہ پنجاب کے سارے مسلمانوں کا ہی اپنے آپ کو نمائندہ ثابت کر دکھائیں تو بات ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے اعزاز میں پچھلے دنوں لا ہور میں جو دعوت دی گئی اس میں پنجاب کے نمائندگان کا ۸۰ فیصدی حصہ شامل تھا گویا پنجاب

Page 290

خطبات محمود ۲۸۵ سال ۱۹۳۵ء کے ۸۰ فیصدی لوگ سمجھتے ہیں کہ احرار محض فتنہ برپا کر رہے ہیں.اس کے سوا ان کی کوئی اور غرض نہیں آج تو یہ لوگ کہہ دیں گے کہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب ایک قانونی سوال کی وجہ سے رہ گئے مگر حلقہ سیالکوٹ کو ہی لے لو جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہونے والے تھے تو احرار نے کتنا زور لگا یا تھا کہ کسی اور کو ان کے مقابل پر کھڑا کر دیں مگر انہیں کوئی شخص نہ ملا.اگر وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ تھے تو اس وقت چوہدری صاحب بلا مقابلہ منتخب کس طرح ہو گئے.اسی طرح پچھلے دنوں جب الیکشن ہو ا تو اس میں مولوی مظہر علی صاحب بھی کھڑے ہوئے اور شیخ عطا محمد صاحب بھی.ہماری جماعت شیخ عطا محمد صاحب کی تائید میں تھی.اس وقت احرار کے نمائندوں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے ذریعہ ہم سے خواہش کی کہ ہمارے ووٹ انہیں ملیں.اگر احراری آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندے تھے تو ہماری طرف ہاتھ پھیلانے کی ضرورت انہیں کیوں محسوس ہوئی اور کیوں انہوں نے ہم سے اپنے لئے ووٹ مانگے.گو یہ علیحدہ امر ہے کہ ہم نے ان کی درخواست کو نہ مانا اور کہا کہ وہ تحریری طور پر ہمیں درخواست لکھ کر دیں جس پر وہ آمادہ نہ ہوئے.پس یہ غلط ہے کہ یہ لوگ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندہ ہیں.آٹھ کروڑ چھوڑ ۸۰ لاکھ مسلمانوں کے بھی نمائندے نہیں لیکن بہر حال یہ جو دعویٰ کرتے ہیں اپنی ذات میں بہت بڑا اور مسلمانوں کے لئے بہت بُرا ہے ہم نے کبھی سیاسی حقوق کے مطالبہ کے وقت دوسرے مسلمانوں میں اور اپنی جماعت میں فرق نہیں کیا.ہم نے ہمیشہ ان کی تائید کی اور اپنی مقدرت سے زیادہ ان کے لئے قربانیاں کیں نہرور پورٹ کے شائع ہونے کے موقع پر اس کے خلاف آواز بلند کی اور اپنی مقدرت سے زیادہ مسلمانوں کے لئے کوششیں کیں ، راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس کے موقع پر اپنی مقدرت سے زیادہ مسلمانوں کی مدد کی ، مسلمانوں کے جو نمائندے انگلستان گئے ان کی امداد کی ، ان میں لٹریچر تقسیم کیا مگر اس کے مقابلہ میں احراریوں کی طرف سے کوئی چیز پیش نہیں کی جاسکتی.انہوں نے نہرورپورٹ کے وقت اس کی تائید کی اور راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس کے موقع پر کچھ نہ کیا.گویا ایک موقع پر مسلمانوں کی مخالفت کی اور ایک موقع پر کچھ بھی نہ کیا.پھر ہمیشہ یہ مشتر کہ انتخاب کے حامی رہے ہیں اور اس کے لئے پُر زور جد و جہد کرتے رہے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت اس کے خلاف ہے.ایسی جماعت کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کی نمائندہ ہے اور اس کی طرف سے اس کوشش کا ہونا کہ وہ مسلمانوں کے ایک حصہ کو

Page 291

خطبات محمود ۲۸۶ سال ۱۹۳۵ء الگ کر دے ، اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور مسلمانوں کے لئے نقصان رساں چیز کیا ہوسکتی ہے.پھر سوال یہ ہے ہمیں مسلمانوں میں سے نکالنے والا ہے کون؟ حکومت کو کیا اختیار ہے کہ وہ کہے کہ ہم تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے.کہا جاتا ہے کہ احمدی چھپن ہزار ہیں.میں کہتا ہوں نہ سہی چھپن ہزار.اگر احمدی تمام دنیا میں چھ بھی ہوتے یا ایک ہی ہوتا تب بھی دنیا کی کوئی گورنمنٹ نہیں جو اسے مسلمانوں میں سے نکال سکے.مذہب منہ کے دعوئی پر مبنی ہوتا ہے اور جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو کون ہے جو کہہ سکے کہ تم مسلمان نہیں.ہم تمہیں مسلمانوں میں سے نکالتے ہیں پس ان کی طرف سے جو یہ سوال پیدا کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں سے نکال دیا جائے محض لغو اور فضول ہے.جب تک ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اس وقت تک دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مسلمانوں میں سے نکال نہیں سکتی.ہمیں مسلمانوں میں سے نکالنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہم دوسروں کو کافر کہتے ہیں مگر دوسروں کو کا فر کہنے کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہی پکا مسلمان سمجھتے ہیں پھر کیا پکے مسلمانوں کو بھی کوئی شخص نکال سکتا ہے.ہمارا لجرم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو زیادہ پکا مسلمان سمجھتے اور دوسروں کو اپنے جیسا پکا مسلمان نہیں سمجھتے اس جرم کی وجہ سے وہ کہتے ہیں چونکہ یہ پکے مسلمان بنتے ہیں، اس لئے انہیں مسلمانوں میں سے نکال دو.کتنی معقول وجہ ہے جو بیان کی جاتی ہے.پس اول تو یہ جرم ہی نہیں لیکن اگر ا سے جُرم بھی فرض کر لیا جائے تب بھی میں کہتا ہوں ایس گنا ہیست که در شهر شما نیز کنند یہ قصور اور خطا وہ ہے جو تمہارے شہر میں بھی کی جاتی ہے مسلمانوں کی کونسی جماعت ہے جو ایک دوسرے کو کا فرنہیں کہتی.کیا مولوی ظفر علی صاحب پر کفر کے فتوے نہیں لگے ، کیا احرار کے لیڈروں مولوی حبیب الرحمن صاحب اور سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری پر کفر کے فتوے نہیں لگے ؟ یہ مسلمان مولوی تو ہیں ہی کا فر گر.اس کفر کے سمندر میں اگر ان کے خیال کے مطابق کفر کا ایک قطرہ ہم نے بھی ڈال دیا تو اس سے ان پر گھبراہٹ کیوں طاری ہو گئی.ان کے ہاں تو اگر کسی کا ٹخنے کے نیچے تہہ بندیا پاجامہ ہو جائے تو کفر کا فتویٰ لگ جاتا ہے، ہاتھ اوپر باندھنے سے کفر کا فتویٰ لگ جاتا ہے، تشہد کے وقت انگلی اوپر اٹھانے سے کفر کا فتو ی لگ جاتا ہے پس ایسی مشاق جماعت جو کفر کے میدان کی شہسوار ہے ہمارے کا فر کہنے سے گھبرا کیوں گئی.یا تو ہمارے کا فر کہنے میں کوئی ایسی بات ہے جس سے انسان

Page 292

خطبات محمود ۲۸۷ سال ۱۹۳۵ء گھبرا جاتا ہے یا کفر کے فتوے پر ان کا شور مچان فتنہ پردازی ہے.کیا شیعہ سنیوں کو اور سنی شیعوں کو کافر نہیں کہتے.کیا اہل حدیث حنفیوں کو اور حنفی اہل حدیث کو کا فرنہیں کہتے کیا چکڑالوی غیر چکڑالویوں کو اور غیر چکڑالوی چکڑالویوں کو کا فرنہیں کہتے.چکڑالوی تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن مجید منسوخ کر دیا پھر قرآن مجید کو منسوخ کرنے کے بعد اسلام کا کیا باقی رہ جاتا ہے.اسی طرح غیر چکڑالوی کہتے ہیں کہ چکڑالویوں نے رسول کریم ع کی ہتک کر دی اور سول کریم ﷺ کی توہین کرنے کے بعد کوئی شخص کب مسلمان کہلا سکتا ہے.پس کفر کی اس گرد و غبار میں اگر ہم نے بھی تھوڑی سی گردا ڈالی تو اس میں بات ہی کون سی ہوئی جس پر انہیں اتنا غصہ آیا.سوائے اس کے کہ بھیڑیے اور بکری والی بات سمجھی جائے.کہتے ہیں کوئی بھیڑ یا اور بکری ایک نالے سے پانی پی رہے تھے.بکری پانی کے بہاؤ کی طرف تھی اور بھیٹر یا اوپر کی طرف.بھیڑیے کا بکری کو مارنے کو دل جو چاہا تو غصہ سے بکری کو کہنے لگا.تجھے شرم نہیں آتی ، ہم پانی پی رہے ہیں اور تو پانی گدلا کر رہی ہے.وہ کہنے لگی حضور آپ اوپر کی طرف ہیں اور میں پانی کے بہاؤ کی طرف ہوں اگر پانی گدلا ہو بھی تو آپ کی طرف نہیں جا سکتا.بھیڑیے نے یہ جواب سنتے ہی بڑھ کر اس کی گردن پکڑ لی اور کہا اچھا تو گستاخی کرتی اور ہماری بات کا جواب دیتی ہے.تو یہ اور بات ہے کہ وہ اس غرور اور گھمنڈ میں کہ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ ہیں ہمیں کہہ لیں کہ تم دوسروں کو کافر کہتے ہو اس لئے تم مسلمان نہیں کہلا سکتے.ورنہ دس دس ہیں ہیں ، تمیں تھیں، چالیس چالیس، پچاس پچاس بلکہ ہزار ہزار علماء کی طرف سے کفر کے فتووں کے مرضع شجرے چھاپے جاچکے ہیں.جنہیں زینت کے طور پر انسان اگر چاہے تو اپنے گھروں میں لٹکا سکتا ہے مگر وہ تمام کفر کے فتوے دیکھنے کے باوجود ان آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندوں کی رگِ حمیت نہیں پھڑکتی اور نہ غیرت جوش دلاتی ہے.پس یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ ہم ہی انہیں کا فر کہتے ہیں.کیونکہ یہ وہ جرم ہے جو ان کے گھروں میں ہم سے بہت زیادہ کیا جاتا ہے.باقی ہم میں اور ان میں تو کفر کی تعریف میں اختلاف بھی بہت سا پایا جاتا ہے.یہ لوگ کفر کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا انکار حالانکہ ہم یہ معنی نہیں کرتے اور نہ کفر کی یہ تعریف کرتے ہیں.ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسلام کے ایک حد تک پائے جانے کے بعد انسان مسلمان کے نام سے پکارے جانے کا مستحق سمجھا جا سکتا ہے لیکن جب وہ اس مقام سے بھی نیچے گر جاتا ہے تو گو وہ مسلمان کہلا سکتا ہے

Page 293

خطبات محمود ۲۸۸ سال ۱۹۳۵ء مگر کامل مسلم اسے نہیں سمجھا جا سکتا یہ تعریف ہے جو ہم کفر و اسلام کی کرتے ہیں اور پھر اس تعریف کی بناء پر ہم کبھی نہیں کہتے کہ ہر کا فردائی جہنمی ہوتا ہے ہم تو یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی اس قسم کے کافر نہیں سمجھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں جس قدر بھی کفار ہیں خواہ وہ یہودی ہیں یا عیسائی دہر یہ ہندو اور سکھ وغیرہ آخر خدا تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال ہوگا اور خدا تعالیٰ انہیں کہہ دے گا کہ جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ پس ان کے کفر اور ہمارے کفر میں بہت بڑا فرق ہے.ان کا کفر تو ایسا ہے جیسے سرمے والائر مہ پیستا ہے.وہ جب کسی کو کافر کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے اسے پیس کر رکھ دیں، کہتے ہیں کہ وہ جہنمی ہے اور ابدی دوزخ میں پڑے گا لیکن ہم دوسرے کو کا فرصرف اصطلاحی طور پر کہتے ہیں ورنہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کفر کی حالت میں مرے لیکن خدا تعالیٰ اسے کسی خوبی کی وجہ سے جنت میں داخل کر دے اور کہے کہ اسے پتہ نہ تھا حقیقی دین کون سا ہے اور نہ حقیقی تعلیم اس کے پاس پہنچی.اس کے مقابلہ میں بالکل ممکن ہے کہ ایک ایسا انسان جو بظاہر اسلام میں داخل ہے ،خدا تعالیٰ اسے اس پاداش میں جہنم میں ڈال دے کہ اس نے دین کی تعلیم پر عمل نہ کیا.پس ایک ہندو، ایک عیسائی ، ایک یہودی، ایک دہریہ، ایک سکھ حتی کہ ایک غیر احمدی، کے متعلق بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کفر کی حالت میں مرے لیکن اللہ تعالیٰ کہے کہ اس کے لئے جہاں تک امکان تھا ، اس نے زہد اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی ، اس نے نیکی اور دینداری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ، اسلام کی حقیقی تعلیم سننے کا اسے موقع میسر نہیں آیا پس اسے جنت میں داخل کیا جاتا ہے.اسی طرح ہو سکتا ہے ایک احمدی کہلانے والا اگر وہ سلسلہ کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا تو دوزخ میں چلا جائے.پس ہماری کفر کی اصطلاح ہی اور ہے اور ان کے کفر کی اصطلاح اور.ہمارا کفر تو ان کے کفر کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سورج کے مقابل پر ذرہ ہو پس اس پر انہیں غصہ کیوں آتا ہے.آجکل بڑے زور سے کہا جاتا ہے کہ احمدی ہمیں کا فر کہتے ہیں اگر وہ بچے ہیں تو ثابت کریں کہ پہلے ہم نے انہیں کا فر کہا ہو.اگر وہ ذرا بھی غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ پہلے انہوں نے ہی ہمیں کا فر کہا ہم نے کا فرنہیں کہا گو اس رنگ میں بھی ان کے کفر اور ہمارے کفر میں بہت بڑا فرق ہے لیکن بہر حال ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ دیکھیں پہلے انہوں نے ہمیں کا فر کہا اور ہم پر کفر کے فتوے لگائے یا ہم نے ان کو کافر کہا.اب بھی ہمیں کس طرح بار بار ان کی طرف سے کافر کہا جاتا اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے کہ احمدی کا فر ہیں.کیا

Page 294

خطبات محمود ۲۸۹ سال ۱۹۳۵ء ہمارے اخبارات میں بھی لکھا جاتا ہے کہ احراری کا فر ہیں.ہم تو سمجھتے ہیں جو کسی کو بلا وجہ کا فر کہتا ہے وہ اس کی دل آزاری کرتا اور لڑائی مول لیتا ہے.ہاں جب کوئی ہمیں مجبور کرے اور ہم سے پوچھے کہ تم ہمیں کیا سمجھتے ہو اس وقت ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں کا فر سمجھتے ہیں مگر جب وہ خود سوال کرتے اور ہم اس کا جواب دیتے ہیں تو وہ ہمارے جواب دینے پر بھی بُرا مناتے اور ہم سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کیوں نہیں سمجھتے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ایک سانولے رنگ والا آدمی ہمارے پاس آئے اور کہے بتاؤ میرا رنگ کیسا ہے لیکن جب ہم اسے کہیں کہ سانولا ، تو وہ ہم سے لڑائی شروع کر دے اور کہے کہ تم نے مجھے سانولا کیوں کہا ، گورا کیوں نہیں کہا.پس ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے یا پھر ایسی ہی ہے جیسے تھوڑے ہی دن ہوئے ایک دوست نے مجھے واقعہ سنایا ، وہ فوج میں ڈاکٹر ہیں ، انہوں نے ذکر کیا کہ ان کا ایک میجر افسر تھا اس کی بیوی نے ان سے سوال کیا کہ تم بتاؤ میری عمر کتنی ہوگی.انگریز عورتوں کی عادت ہے کہ اگر ان کی بڑی عمر بتائی جائے تو وہ بہت چڑتی ہیں اور بڑی عمر کو اپنی ہتک سمجھتی ہیں.وہ افسر انگریز تو نہیں تھا بلکہ اینگلو انڈین تھا لیکن اس کی بیوی نے جب یہ سوال کیا تو وہ کہتے ہیں میں نے سمجھا یہ بڑا نازک سوال ہے کیونکہ میں نے جو عمر بھی بتائی ، اس پر اسے غصہ آئے گا اس لئے میں نے اسے کہا تم ابھی جوان ہو مجھ سے اپنی عمر کے متعلق کیا پوچھتی ہو لیکن وہ بضد ہو کر بیٹھ گئی کہ نہیں میری عمر بتاؤ.یہ کہتے.آخر میں نے دل میں سوچا کہ یہ میجر کی بیوی ہے ۳۶، ۳۷ سال سے کم عمر اس کی نہیں ہو سکتی لیکن میں نے دس سال عمر اور کم کر کے کہا.آپ کی عمر ۲۷ سال کے قریب ہوگی.یہ سنتے ہی وہ آگ بگولہ ہوگئی اور کہنے لگی تم مجھے بڑھیا سمجھتے ہو کیا میں اتنی عمر کی ہوگئی ہوں.اب دس سال انہوں نے عمر میں سے کم کئے تو پھر بھی کام نہ چلا اور وہ ناراض ہوگئی.یہی ان لوگوں کا حال ہے آپ ہی اصرار کرتے اور سوال کرتے ہیں کہ تم ہمیں کیا سمجھتے ہو اور جب جواب دیا جاتا ہے تو کہتے ہیں تم نے ہمیں کا فرکہ دیا ہم نے تو بار بار دیکھا ہے کفر و اسلام کا مسئلہ چھیٹر نے میں یا غیر مبائعین کو مزا آتا ہے یا احراریوں کو حالانکہ تمدن اور معاشرت کا اس سے کیا تعلق کہ ہم تمہیں کیا سمجھتے ہیں اور تم ہمیں کیا سمجھتے ہو.ہمیں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جس حد تک ہم آپس میں تعاون کر سکتے ہیں ، اس حد تک تعاون کریں اور عقائد کے سوال کو باہمی معاشرت کے وقت نہ چھیڑیں.یہ تو ہو سکتا ہے کہ جب کوئی ہم سے لڑکی کا رشتہ مانگنے کے لئے آئے یالڑکی کا رشتہ دینے آئے تو ہم اس سے پوچھ

Page 295

خطبات محمود ۲۹۰ سال ۱۹۳۵ء لیں کہ تمہارے کیا عقائد ہیں لیکن سیاسیات میں ان امور کا کیا تعلق کہ تم ہمیں کا فر سمجھتے ہو یا نہیں.پس یہ سوال پیدا ہی ان کی وجہ سے ہوا ہے ورنہ ہمیں یہ سوال اٹھانے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی.ہماری طرف سے تو شروع میں جب یہ سوال اٹھا خواجہ کمال الدین صاحب کے لیکچروں اور مضامین کی وجہ سے اٹھایا گیا ور نہ ہمیں اس سوال کے اٹھانے کی کیا ضرورت تھی.اب غیر مبائعین کو کبھی کبھی یہ سمجھ کر کہ یہ سوال پیدا کر دینے سے انہیں کامیابی ہوگی اور لوگ ہم سے متنفر ہو جائیں گے ، گد گدی سی اٹھتی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں جب ان امور پر بحث ہو گی تو لوگ ان سے ناراض ہو جائیں گے مگر پھر بھی بیعت کرنے کے لئے جب لوگ آتے ہیں ہمارے پاس ہی آتے ہیں ان کے پاس نہیں جاتے.ان پر تو رسول کریم ﷺ کا یہ فقرہ بالکل صادق آتا ہے کہ لَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ تو اپنے اندازے سے نہیں بڑھے گا.وہ اپنی ساری کوششیں صرف کرتے ہیں مگر ان کی ساری کوششوں کا نتیجہ ان کے حق میں نہیں بلکہ ہمارے حق میں مفید ثابت ہوتا ہے.یہی احرار کا حال ہے جس دن لوگ یہ سمجھیں گے کہ کفر و اسلام کا سوال پیدا کرنے والے کون ہیں اور وہ اس امر کو سمجھ جائیں گے کہ احمدیوں نے یہ سوال نہیں اٹھایا بلکہ احرار نے اٹھایا ہے احمدی اسی وقت یہ جواب دیتے ہیں جب کوئی ان کے گھر پر پہنچ کر ان سے دریافت کرتا ہے تو وہ حقیقت حال سے متاثر ہو کر احراریوں کے پرو پیگنڈا کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائیں گے لیکن میں پھر ایک دفعہ اعلان کر دیتا ہوں کہ ہم کفر کے وہ معنی نہیں سمجھتے جو وہ سمجھے بیٹھے ہیں ہم کا فر جہنمی کسی کو نہیں کہتے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ ہر کا فر دوزخ میں جائے گا ہمارے نزدیک کفر کا اطلاق ایک خاص حد کے بعد ہوتا ہے.جب کوئی شخص اسلام کو اپنا مذ ہب قرار دیتا اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کو اپنا دستور العمل سمجھتا ہے ، اس وقت مسلمان کہلانے کا مستحق ہو جاتا ہے اور حقیقی معنوں میں مسلمان وہ اس وقت ہوتا ہے جب کامل طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل کرتا ہے لیکن اگر وہ اسلام کے اصول میں سے کسی اصل کا انکار کر دیتا ہے تو گو وہ مسلمان کہلاتا ہے مگر حقیقی معنوں میں وہ مسلم نہیں رہتا.پس کافر کے ہم ہرگز یہ معنی نہیں لیتے کہ ایسا شخص محمد ﷺ کا منکر ہے.جو شخص کہتا ہو کہ میں محمد ﷺ کو مانتا ہوں اسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو انہیں نہیں مانتا.یا کافر کے ہم ہرگز یہ معنی نہیں لیتے کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے جب کوئی شخص کہتا ہو کہ میں خدا تعالیٰ کو مانتا ہوں تو اسے کون کہ سکتا ہے کہ تو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا ہمارے نزدیک اسلام کے اصولوں میں سے کسی

Page 296

خطبات محمود ۲۹۱ سال ۱۹۳۵ء اصل کا انکار کفر ہے جس کے بغیر کوئی شخص حقیقی طور پر مسلمان نہیں کہلا سکتا.ہمارا یہ عقیدہ ہر گز نہیں کہ کافر جہنمی ہوتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ ایک کافر ہو اور وہ جنتی ہو.مثلا ممکن ہے وہ ناواقفیت کی حالت میں ساری عمر رہا ہو اور اس پر اتمام محبت نہ ہوئی ہو پس گو ہم ایسے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ کا فر ہے مگر خدا تعالیٰ اسے دوزخ میں نہیں ڈالے گا کیونکہ اسے حقیقی دین کا کچھ علم نہ تھا اور خدا ظالم نہیں کہ وہ بے قصور کو سزا دے.پس جب بھی ہم کفر کا لفظ بولتے ہیں انہی معنوں میں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی کو خود کا فرنہیں کہتے سوائے اس کے کہ کوئی شخص ہمیں دق کرے اور پوچھے کہ تم مجھے کیا سمجھتے ہو.اگر کفر کی وہ تعریف کی جائے جو غیر احمدی آج کل کرتے ہیں تو اس تعریف کے مطابق ہمارے نزدیک نہ مسلمانوں میں سے کوئی کافر ہے اور نہ ہندوؤں ، یہودیوں ، عیسائیوں اور دوسرے غیر مسلموں میں سے کیونکہ کوئی قوم ایسی نہیں جس کے ہر فرد کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہو کہ وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا.ہندوؤں میں سے بھی کچھ لوگ جنت میں جائیں گے ، یہودیوں میں سے بھی کچھ لوگ جنت میں جائیں گے ،عیسائیوں میں سے بھی کچھ لوگ جنت میں جائیں گے اور سکھوں میں سے بھی کچھ لوگ جنت میں جائیں گے حتی کہ دہریوں میں سے بھی کچھ لوگ جنت میں چلے جائیں گے.اگر کوئی دہریہ کسی ایسے ملک میں پیدا ہوا ہے جہاں حقیقی دین سے کوئی واقف نہیں یا مثلا وہ پہاڑوں میں رہتا ہے اور وہاں کوئی شخص ایسا نہیں جو خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اسے خدا پر ایمان لانے کی نصیحت کر سکتا ہو لیکن وہ قانونِ قدرت کے تابع رہتا ہے لوگوں سے نیکی کرتا ہے ، بدیوں سے بچتا ہے اور دنیاوی امور میں کسی قسم کی تعدی اور ظلم سے کام نہیں لیتا تو یقیناً ایسا شخص دہر یہ ہونے کے باوجود جنت کا مستحق ہو جائے گا.پھر میں کہتا ہوں اگر یہ شور جو اس وقت ہمارے سلسلہ کے خلاف مچایا جارہاہے واقعہ میں صحیح ہے تو چاہئے تھا اس کی بنیاد دیانتداری پر ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیاد دیانتداری پر ہرگز نہیں.پرسوں ہی اخبارات میں میں نے ایک اعلان دیکھا ہے جو سر مرزا ظفر علی صاحب کی طرف سے ہے اور جس میں وہ لکھتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں ، حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جماعت احمد یہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے ، اگر حکومت چاہتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے زائل شدہ اعتماد کو دوبارہ حاصل کرے تو احمدیوں کو جدا گانہ جماعت قرار دے دے اور انہیں مسلمانوں میں سے الگ کر

Page 297

خطبات محمود ۲۹۲ سال ۱۹۳۵ء دے لیکن ابھی ایک سال ہی گزرا ہے کہ الیکشن کے موقع پر سر مرز اظفر علی صاحب پنجاب کونسل کی ممبری کے لئے کھڑے ہوئے تو اس موقع پر مجھے انہوں نے دو چٹھیاں بھیجیں جن میں تسلیم کیا کہ میں آپ کی جماعت کا دشمن نہیں بلکہ جیسے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کو سمجھتا ہوں اسی طرح آپ کی جماعت کو بھی ایک مسلمان فرقہ سمجھتا ہوں.ان کے وہ دونوں خط ہمارے پاس محفوظ ہیں اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں شائع بھی کیا جا سکتا ہے.غرض آج سے ایک سال پہلے وہ پنجاب کونسل کی ممبری کے حصول کے لئے جب کھڑے ہوئے تو اس وقت ہمیں مسلمانوں میں سے سمجھتے تھے اور یہاں تک لکھتے تھے کہ گو آپ کا مذہبی رنگ میں مجھ سے اختلاف ہے لیکن اس اختلاف کی بناء پر مجھ سے آپ کو مخالفت نہیں ہونی چاہئے.پھر انہوں نے اپنی چٹھیوں میں ایک دوسرے مسلمان ممبر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ تو فاسق ، فاجر اور بدکار ہے اور میں تو نمازی ہوں آپ کا فرض ہے کہ میری تائید کریں.اگر ہم کا فر ہیں تو اس سے زیادہ خلاف عقل بات ایک سر کہلانے والے کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کہے چونکہ آپ کا فر ہیں اس لئے اگر آپ ایک نمازی کی تائید نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا.ایک سر کا خطاب پانے والے اور ہائی کورٹ کا حج رہ چکنے والے کے متعلق یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ لکھے میں نمازی ہوں اور پھر وہ اس جماعت کو اپنی مدد کے لئے بلائے جو اس کے خیال میں کافر ہو.پھر انہوں نے یہ بھی اپنے خط میں لکھا کہ میں عام مسلمانوں کی طرح آپ کی جماعت سے سلوک کرتا ہوں اور جیسے تمام مسلمانوں کو سمجھتا ہوں اسی طرح آپ کی جماعت کو سمجھتا ہوں اور فلاں مسلمان ممبر تو فاسق ، فاجر اور بدکار ہے.میں اب بھی سرمرزا ظفر علی صاحب کا لحاظ کرتا ہوں اور اس مسلمان ممبر کا نام نہیں لیتا جس کا انہوں نے اپنے خط میں ذکر کیا تا ان پر ہتک عزت کا مقدمہ نہ چل جائے لیکن میں کہتا ہوں کہ کیا اخلاق اور دیانت اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک سال پہلے تو وہ ہمیں مسلمان کہیں اور اب حکومت سے مطالبہ کریں کہ جماعت احمدیہ کو مسلمانوں میں سے الگ کر دیا جائے.وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے عقائد کا انہیں علم نہ تھا.ان دنوں اخبار سیاست میں ہماری جماعت کے خلاف مضامین نکل رہے تھے اور ان میں یہ بیان کیا جاتا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ن نَعُوذُ بِاللہ خدائی کا دعویٰ کیا ، آپ ختم نبوت کے منکر تھے ، آپ نے انبیاء کی توہین کی اور ان مضامین کو پڑھ کر سر مرزا ظفر علی صاحب نے سیاست کے مضامین کے متعلق ایک تعریفی مقالہ لکھا.پس

Page 298

خطبات محمود ۲۹۳ سال ۱۹۳۵ء انہوں نے اس وقت ”سیاست“ کے مضامین پڑھے اور ان کی تعریف کی اور انہیں معلوم تھا کہ جماعت احمد یہ کے کیا عقائد ہیں یا کیا عقائد ہماری جماعت کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اُس وقت انہوں نے ہمیں مسلمان سمجھا اور اس کا اپنی دستخطی چٹھیوں میں اقرار کیا ، اب کون سا نیا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کہ اس کی بنیاد پر انہیں خیال آیا کہ جماعت احمد یہ مسلمان فرقہ نہیں.صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس بات کا غصہ نہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر کیوں مقرر کیا گیا بلکہ اس بات کا غصہ ہے کہ سر مرزا ظفر علی صاحب کو احمدیوں نے پنجاب کونسل کا ممبر کیوں نہ بنایا.پس ظفر اللہ غلطی سے لکھا گیا ہے اصل نام وہاں سر مرزا ظفر علی چاہئے تھا اور وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی ممبری کی بجائے پنجاب کونسل کی ممبری کا ذکر ہونا چاہئے تھا.پس میں پوچھتا ہوں کیا یہ طریق جو ہماری مخالفت میں اختیار کیا جا رہا ہے ، اخلاق کے مطابق ہے اور کیا یہ دیانت ہے کہ آج سے ایک سال پہلے تو ہمیں مسلمان سمجھا جائے مگر اب گورنر پنجاب کے نام چٹھی شائع کی جائے کہ " مرزائی مسلمان نہیں ہیں.” مرزائیوں کو جدا گانہ جماعت قرار دیا جانا چاہئے، حالانکہ وہ لکھنے والا ہمیں مسلمان قرار دے چکا ہے اور ہمیں نیک اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھ کر ہم سے امید وار امداد رہا ہے مگر جب ہم نے اس کی بجائے ایک اور کی تائید کر دی تو ہم زیر الزام آگئے اور ہم اس قابل ہو گئے کہ ہمیں مسلمانوں کی فہرست سے خارج قرار دیا جائے.سر مرزا ظفر علی صاحب کی دستخطی چٹھیاں ہمارے پاس موجود ہیں اور اگر وہ ان کا انکار کریں گے تو انہیں شائع بھی کیا جا سکتا ہے لیکن میں کہتا ہوں اگر واقع میں احرار کا دیانت سے یہ دعوی ہے کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ ہیں تو پھر ہمیں الگ کرنے کا کیا مطلب ہے جب ہماری کسی جگہ بھی کثرت نہیں اور آٹھ کروڑ مسلمان ان کے ساتھ ہیں تو ہمارا آدمی کسی انتخاب میں کس طرح آ سکتا ہے.نہ سیالکوٹ سے آ سکتا ہے نہ گورداسپور سے اور نہ کسی اور جگہ سے کیونکہ ہر جگہ ان کی کثرت ہے.پھر چاہئے تو یہ تھا کہ کہا جاتا احمدیوں کو الگ نہ کرو کیونکہ اگر انہیں جداگانہ نیابت حاصل ہو گئی تو کم از کم ایک ممبری انہیں ضرور مل جائے گی اور اگر ساتھ رہے تو کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن وہ یہ نہیں کرتے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ جانتے ہیں آٹھ کروڑ مسلمان ان کی تائید نہیں کریں گے بلکہ ہماری کریں گے پس وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیں ورنہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کی صورت میں ان کو ڈرکس

Page 299

خطبات محمود ۲۹۴ سال ۱۹۳۵ء بات کا ہوسکتا تھا.اگر واقعہ میں سیالکوٹ کا حلقہ احراریوں کے ساتھ ہو تو وہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو کیوں کھڑا کرے گا یا دوسرے اضلاع احراریوں کے ساتھ ہوں تو وہ کیوں کسی احمدی کے حق میں رائے دیں گے لیکن ہمیں علیحدہ کرنے میں ایک ممبری ہمیں ضرور دینی پڑے گی.پس اگر ان کی مخالفت کسی دیانت پر مبنی ہوتی تو ان کی ساری کوشش اس بات پر صرف ہوتی کہ کہتے احمدیوں کو علیحدہ نہ کرو تا یہ ایک ممبری بھی نہ لے جائیں مگر وہ کہتے ہیں احمدیوں کو مسلمانوں سے الگ کر دو.صاف پتہ لگتا ہے کہ انہیں ڈر ہے یہ ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیں گے اور اگر الگ رہے تو تھوڑا فائدہ اُٹھا ئیں گے پس ان کی مخالفت ہرگز دیانت پر مبنی نہیں لیکن میں کہتا ہوں وہ بے شک جتنا جی چاہے ہماری مخالفت کریں مگر اس امر کا خیال رکھیں کہ وہ دیانت و شرافت کو ہاتھ سے نہ دیں.اب تو ایسا ہوتا ہے کہ جموں سے ایک شخص اٹھتا ہے وہ پہلے مجھے خلیفتہ امی کہہ کر اپنی تحریرات میں مخاطب کرتا ہے احرار کا مخالف ہوتا ہے لیکن جو نہی اسے لیڈری کا شوق اٹھتا ہے وہ ہماری جماعت کی مخالفت کرنے لگ جاتا ہے.یہی سرمرز اظفر علی صاحب ہیں جنہوں نے سر شادی لال کو دعوت دیئے جانے کے موقع پر مجھے چٹھی لکھی اور السلام علیکم کے بعد لکھا کہ پچاس روپے بھیجئے تا کہ آپ کا نام بھی دعوت دینے والے مسلمان معززین کی فہرست میں آ جائے مگر آج ان کی نگاہ میں ہم غیر مسلم بن گئے.پھر سر شادی لال کی دعوت کے موقع پر تو وہ سب سے آگے آگے تھے لیکن چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو دعوت دینے کے وقت انہیں یاد آ گیا کہ احمدی مسلمان نہیں اس لئے دعوت میں شریک نہیں ہونا چاہئے.گویا سر شادی لال تو بڑے پکے مسلمان تھے ان کی دعوت میں شریک ہونا کوئی قابلِ اعتراض امر نہ تھا.ہاں اگر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی دعوت کی تائید ہو جاتی تو یہ کفر ہو جاتا.پس یہ طریق انصاف کا نہیں بلکہ ضد کا ہے اور ضد کا طریق کبھی کسی قوم کے لئے با برکت ثابت نہیں ہوتا.پس میں احرار کو تو جہ دلاتا ہوں گوان پر میرے توجہ دلانے کا کوئی اثر نہ ہو اور دوسرے لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں گوان پر بھی میرے کہنے کا اثر نہ ہو کہ مسلمانوں کا سواد اعظم اور ان کی اکثریت اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرے جو اس فتنہ کی محرک ہے.حقیقت یہ نہیں کہ ہم مسلمان نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں مسلمانوں کے فوائد کو وہ ہماری وجہ سے نقصان نہیں پہنچا سکتے جیسا کہ نہرورپورٹ کے موقع پر انہیں ناکامی ہوئی.پس وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تو اس وجہ سے کہ احمدی مسلمانوں کے

Page 300

خطبات محمود ۲۹۵ سال ۱۹۳۵ء ساتھ ہیں اس لئے وہ کہتے ہیں آؤ ہم احمدیوں کو الگ کر دیں.یا ممکن ہے وہ مسلمانوں کو فوائد پہنچانا چاہتے ہوں اور ان کا خیال ہو کہ ان فوائد کے رستہ میں ہم روک ہیں.بہر حال وہ سمجھتے ہیں کہ جن چیزوں کو وہ مسلمانوں کے لئے مفید سمجھتے ہیں گو حقیقتاً وہ نقصان دہ ہیں انہیں وہ ہماری وجہ سے مسلمانوں میں رائج نہیں کر سکتے پس وہ چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کو الگ کر دیں تا کہ وہ ان امور کو مسلمانوں میں رائج کر سکیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہ ہو.مسلم كتاب الفتن باب ذكر ابن الصياد ( الفضل یکم مئی ۱۹۳۵ء)

Page 301

خطبات محمود ۲۹۶ ۱۸ سال ۱۹۳۵ء احراریوں کی ہر بات اُلٹی ہے ( فرموده ۳ رمئی ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: سب سے پہلے میں اس امر پر اظہار افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ ایک خطبہ میں میں نے ایسے زور دار الفاظ میں اور ایسی تختی کے ساتھ جس سے زیادہ بختی شرافت کے ساتھ ممکن نہیں ، صدر انجمن کے ممبروں پر اعتراض کیا تھا کہ وہ مسجد کی درستی کی طرف توجہ نہیں کرتے.میں نے کہا تھا کہ یہ برآمدہ بہت چھوٹا ہے بارش ہو تو یہ کافی نہیں اور پھر شور بھی ہوتا ہے اس لئے اسے وسیع کیا جائے اور دیگر ایسے ذرائع بھی اختیار کئے جائیں جن سے لوگوں کو آرام ملے.اس خطبہ پر غالباً ۳ یا ۴ ماہ گزر چکے ہیں.اُس دن یا شاید دوسرے دن تک انجمن کے ممبروں پر جن کے دل ہیرے سے بھی زیادہ سخت ہیں، اس کا اثر تھا کیونکہ ایک ناظر نے ایک سکیم مجھے پیش کی تھی کہ یوں کرنا چاہئے اور میں نے اُس سکیم میں بعض غلطیاں نکالی تھیں اور کہا تھا کہ بے شک پہلوؤں میں بھی برآمدے ہوں مگر اس برآمدہ کو بھی بڑا کرنا چاہئے اور یہ بات اُس سکیم میں نہ تھی لیکن جس طرح ایک افیونی آنکھ کھولتا اور پھر سو جاتا ہے بعینہ اسی طرح وہ سکیم ایک دفعہ پیش ہو کر یوں گم ہوئی کہ گو یا دفن کر دی گئی ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ سلسلہ کے اہم کاموں پر متعین ہونے کے بعد ایسی نا معقول ستی ناظر کس طرح کر سکتے ہیں.اگر میرے یہ الفاظ انہیں بُرے لگیں تو ان کی ذمہ داری ان پر ہے.میں نے پورے زور دار الفاظ میں انہیں جگانے کی کوشش کی مگر وہ شاید جاگنا چاہتے ہی نہیں.آج میں اعلان کرتا ہوں کہ جب تک یہ کام نہیں

Page 302

خطبات محمود ۲۹۷ سال ۱۹۳۵ء شروع ہو جاتا کسی ناظر کو میرے ساتھ ملاقات کا موقع نہ مل سکے گا ، میں نہ ان سے ملوں گا اور نہ بات چیت کروں گا جب تک کام شروع نہ ہو جائے اور جب تک وہ اپنے اس طریق کو نہ بدلیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے متواتر دوستوں کو سمجھایا ہے کہ مؤمن کے اخلاق بہت زیادہ قیمتی اور اعلیٰ ہوتے ہیں اسے دوسروں سے امتیاز اسی بات میں ہوتا ہے.خدا تعالیٰ سے اس کا جو تعلق ہوتا ہے وہ تو دشمن کو نظر ہی نہیں آ سکتا نظر آنے والی چیز اخلاق ہی ہوتے ہیں اور اگر اخلاقی لحاظ سے کوئی کمزوری سرزد ہو تو منافقوں کو الگ اور مخالفوں کو الگ اعتراض کا موقع ملتا ہے.منافق خود بدترین اخلاق کا ہوتا ہے اُسے ذرا چھیڑ کر دیکھو گندی سے گندی گالیاں دینے لگ جائے گا لیکن دوسروں پر اعتراض بھی وہی سب سے زیادہ کرے گا اس کے اپنے اخلاق اس قدر گندے ہوں گے کہ شرم آئے گی.اسے اگر ذرا چھیڑو تو فوراً اس کے منہ میں جھاگ آنے لگے گی.یا طنزیه گفتگو کرنے لگے گا یا بدظنی کرنے لگے گا لیکن جب کسی مؤمن میں کوئی کمزوری دیکھے گا تو فوراً ناصح بن جائے گا کہ دیکھو ہماری جماعت کے اخلاق کیسے گندے ہو گئے ہیں ہمیں بہت اعلیٰ اخلاق دکھانے چاہئیں وہ الفاظ ایسے ہی استعمال کرے گا جو بہت خوشنما ہوں مثلاً کہے گا خلیفتہ امسیح الثانی بار بار نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ اخلاق بلند ہونے چاہئیں.مگر اصلی منشاء اس کا یہی ہو گا کہ دیکھا میں نے بھی بدلہ لے لیا اور تم پر بھی اعتراض کر ہی دیا.پس مؤمن کے اخلاق میں کمزوری آنے کی صورت میں مخالف الگ اعتراض کرتے ہیں اور منافق الگ، اور ان سب سے بالا اللہ تعالیٰ کا اعتراض بھی ہے.غیر تو جو کچھ کہے انسان برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنا اور پھر محبوب جو اعتراض کرے وہ نا قابل برداشت ہوتا ہے.پس میں نے جماعت کے دوستوں کو متواتر تو جہ دلائی ہے کہ ان ایام ابتلاء میں وہ لوگوں کی گالیوں کی پرواہ نہ کریں.گالیاں انسان کے اپنے اخلاق کو ظاہر کرتی ہیں جسے گالیاں دی جائیں اس کا ان سے کچھ نہیں بگڑتا.جتنی کوئی شخص زیادہ گالیاں دے گا اتنا ہی اس کا گند زیادہ ظاہر ہوگا.ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ جس بات پر اعتراض کرتا ہے اگر وہ واقعی ہم میں ہے تو اپنی اصلاح کریں اور اگر نہیں تو پھر غصہ کی کیا بات ہے وہ خود جھوٹ بولتا، اپنی عاقبت بگاڑتا اور انجام خراب کرتا ہے ہمارا اس میں کیا نقصان ہے.میں سمجھتا ہوں یہ بڑا نازک مرحلہ ہے یہ نہیں کہ میں اس بات کو معمولی ظاہر کرنا چاہتا ہوں اور میرا مطلب یہ ہے کہ غیرت نہیں ہونی

Page 303

خطبات محمود ۲۹۸ سال ۱۹۳۵ء چاہئے ، غیرت ہونی چاہئے اور ضرور ہونی چاہئے ، غیرت مؤمن سے وہ کام کر لیتی ہے جو دوسرے نہیں کر سکتے مگر غیرت کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ آدمی لڑے یا فساد کرے.جس طرح پکھرا ہوا پانی کوئی طاقت نہیں رکھتا مگر نہر کا پانی اپنے اندر بہت طاقت رکھتا ہے اسی طرح غیرت کا صحیح استعمال بھی بڑے فوائد اپنے اندر رکھتا ہے.اور حقیقی غیرت وہی ہوتی ہے.یہ کیا غیرت ہے کہ گالی کے جواب میں گالی دے دی یا تھپڑ مار دیا.غیرت یہ ہے کہ کوئی سلسلہ پر اعتراض کرے تو وہاں سے چلے جائیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے.پھر غیرت یہ ہے جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ زیادہ زور سے کریں اور اس طرح دشمن کی طاقت کو توڑنے کی کوشش کریں.گالی کے جواب میں گالی حقیقی غیرت نہیں بلکہ کمزوری کہلائے گی ایسا انسان جو گالی کو برداشت نہیں کر سکتا اور لڑ پڑتا ہے ، ہم اسے مجرم تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کا فعل جوابی ہے ، مجرم وہی ہے جو ابتدا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود جوابی طور پر سختی بھی جب تک کسی خاص غرض کے ماتحت نہ ہو جیسے انبیاء کرتے ہیں ان کے پیش نظر اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں اخلاق کا ادنی درجہ کہلائے گی.اول تو سوال یہ ہے کہ جہاں گالیاں دی جاتی ہیں وہاں انسان جائے ہی کیوں.یہاں مخالف لوگ تقریر میں کرتے ہیں اور بعض احمدی سننے چلے جاتے ہیں ان کا وہاں جانا ہی بتا تا ہے کہ وہ حقیقی غیرت کے مقام پر نہیں ہیں.کیا کبھی کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ فلاں مقام پر میرے باپ کو گالیاں دی جا رہی ہیں میں جا کر سن آؤں یا کوئی کسی کو اطلاع دے کہ فلاں جگہ تمہاری ماں کو گالیاں دی جا رہی ہیں اور وہ جھٹ جوتا ہاتھ میں پکڑ کر بھاگ اٹھے کہ سنوں کیسی چٹخارے دار گالیاں دی جاتی ہیں اگر تمہارے اندر حقیقی غیرت ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام یا اپنے امام اور دوسرے بزرگوں کے متعلق گالیاں سننے کے لئے جاتے ہی کیوں ہو.تمہارا وہاں جانا بتا تا ہے کہ تمہارے اندر غیرت نہیں یا ادنیٰ درجہ کی غیرت ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آریوں نے لاہور میں ایک جلسہ کیا اور آپ سے خواہش کی کہ آپ بھی مضمون لکھیں جو وہاں پڑھا جائے آپ نے فرمایا ہم ان لوگوں کی عادت کو جانتے ہیں یہ ضرور گالیاں دیں گے اس لئے ہم ان کے کسی جلسہ میں حصہ نہیں لیتے.مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور لاہور کے بعض دوسرے لوگ جن کی خوشامد وغیرہ کر کے آریوں نے انہیں آمادہ کر لیا ہوا تھا

Page 304

خطبات محمود ۲۹۹ سال ۱۹۳۵ء کہنے لگے چونکہ اب ملک میں سیاسی تحریک شروع ہوئی ہے اس لئے آریوں کا رنگ بدل گیا ہے آپ ضرور مضمون لکھیں اس سے اسلام کو بہت فائدہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکراہ کے باوجود اُن کی بات مان لی اور مضمون رقم فرمایا اور حضرت خلیفتہ المسیح الاول کو پڑھنے کے لئے لاہور بھیجا، میں بھی گیا اور بھی بعض دوست گئے تھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں سب باتیں محبت اور پیار کی تھیں اس کے بعد ایک آریہ نے مضمون پڑھا جس میں شدید گالیاں رسول کریم ﷺ کو دی گئی تھیں اور وہ تمام گندے اعتراضات کئے گئے تھے جو عیسائی اور آریہ کرتے ہیں مجھے آج تک اپنی اس غفلت پر افسوس ہے میرے ساتھ ایک اور صاحب بیٹھے تھے ٹھیک یاد نہیں کون تھے غالبا اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی یا کوئی اور تھے جب آریہ لیکچرار نے سخت کلامی شروع کی تو میں اُٹھا اور میں نے کہا میں یہ نہیں سن سکتا اور جاتا ہوں مگر اُس شخص نے جو میرے پاس بیٹھا تھا کہا کہ حضرت مولوی صاحب اور دیگر علماء سلسلہ بیٹھے ہیں اگر اُٹھنا مناسب ہوتا تو وہ نہ اُٹھتے.میں نے کہا اُن کے دل میں جو ہو گا وہ جانتے ہوں گے مگر میں نہیں بیٹھ سکتا مگر اُس نے کہا را ستے سب بند ہیں دروازوں میں لوگ کھڑے ہیں آپ درمیان سے اُٹھ کر گئے تو شور ہو گا اور فساد پیدا ہو گا چپکے بیٹھے رہو.میں اس کی باتوں میں آ گیا اور بیٹھا رہا مگر مجھے آج تک افسوس ہے کہ جب ایک نیک تحریک میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی تھی تو میں کیوں نہ اُٹھ آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ سنا کہ جلسہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ سخت ناراض ہوئے اور سب سے زیادہ ناراض آپ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل پر ہوئے بار بار فرماتے کہ آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کو اس طرح گالیاں دی جاتیں اور آپ چکے بیٹھے سنتے رہتے آپ کو چاہئے تھا کہ پروٹسٹ کرتے اور اسی وقت اُٹھ کر آ جاتے ، آپ کی غیرت نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آپ ایک منٹ بھی وہاں بیٹھیں.غرض آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ معلوم ہوتا تھا شاید جماعت سے خارج کر دیں مولوی محمد احسن صاحب جلسہ میں نہیں گئے تھے مجھے یاد ہے چلتے چلتے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کی تصدیق بھی کرتے جاتے تھے اور پھر ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ ذہول ہو گیا ذہول کا لفظ میں نے اُن سے ہی اُس وقت پہلی دفعہ سنا اور وہ یہ بات بار بار اس طرح کہتے تھے کہ جس سے ہنسی آ جائے.افسوس کا اظہار بھی کرتے جاتے تھے اور پھر ساتھ

Page 305

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہی یہ بھی کہتے جاتے کہ ذہول ہو گیا.خیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تھوڑی دیر بعد معاف کر دیا تو ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا فیصلہ موجود ہے.میں جانتا ہوں کہ ڈائرسٹ (DIARIST) کے لئے ضروری ہے کہ جائے اور نوٹ لے کر اپنی جماعت کو اطلاع دے.پھر اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان گالیوں کو ہم بعد میں کتاب کی صورت میں شائع کر دیں کیونکہ یہ بھی سلسلہ کی تائید کا ایک حصہ ہے لیکن اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھنا، اس مجلس کے اعزاز کو بڑھانا ہے ہم انہیں کتابوں میں لکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو ان باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے مگر مجلس میں جا کر بیٹھنے سے نہ آئندہ نسلوں کو کوئی فائدہ ہے اور نہ موجودہ زمانہ کے لوگوں کو، اور جو ایسی مجالس میں جاتے ہیں وہ غیرت کو پامال کرتے ہیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ڈائرسٹوں کے سوا ایسی مجالس میں کوئی نہ جائے جو پہلے جاتا تھا اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ غیرت کے اعلیٰ مقام پر نہیں اور اس خطبہ کو سننے کے بعد اگر کوئی جائے گا تو میں سمجھوں گا کہ اس کے اندر غیرت ہے ہی نہیں لیکن اب تو یہاں یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہمیں گھروں پر آ کر گالیاں دی جاتی ہیں مگر اس صورت میں بھی میں کہوں گا اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے لو ، دروازے بند کر لو اور دعاؤں میں لگ جاؤا اچھی طرح یا درکھو کہ یہ کوئی بُزدلی نہیں بلکہ قوت کا موجب ہے جب ہم ہوا کو دباتے ہیں تو توپ کی طرح آواز پیدا ہوتی ہے اسی طرح جب تم اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہو جاؤ گے تو تمہارے اندر بم کی سی قوت پیدا ہوگی اور تمہارے اخلاق میں اصلاح پیدا ہوگی تبلیغ میں اثر ہوگا اور اسی چیز کی ہمیں ضرورت ہے.گالی کا جواب گالی میں دے دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.کسی نے بدمعاش کہا ہم نے بھی آگے سے اسے بدمعاش کہہ دیا اس کا فائدہ کیا ہوا ؟ فائدہ کی صورت یہ ہے کہ وہ گالیاں دیں اور تم دعائیں کرو، نمازیں پڑھو.ذکر الہی سے تو ثواب حاصل ہوتا ہے مگر کیا تم نے کبھی کسی کتاب میں یہ بھی پڑھا ہے کہ گالی کا جواب گالی میں دینے سے بھی ثواب حاصل ہوتا ہے پس غیرت کو صحیح طور پر دکھاؤ.غیرت یہ ہے کہ کوئی شخص تمہارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یا خلیفہ پر حملہ کرتا ہے تو تم کھڑے ہو کر کہو کہ اس کے جواب میں اتنے دن تبلیغ کے لئے وقف کرتا ہوں اور وہاں سے اُٹھ کر چلے جاؤ مگر عَلَى الاعلان یہ کہہ جاؤ کہ اس کے جواب کے لئے میں اتنے دن زیادہ تبلیغ کے لئے وقف کرتا ہوں اور اس طرح جو گند ان لوگوں کے اندر ہے اس کی اصلاح کروں گا یہ حقیقی

Page 306

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء غیرت ہوگی ، یہ کیا غیرت ہے کہ جواب میں خود گالیاں دینے لگ گئے.ایسی مجالس میں جا کر بیٹھنا اور گالیاں سننا بے غیرتی ہے اور گالی دینا کمزوری ہے ان میں سے کوئی بھی ثواب کی چیز نہیں.ثواب یہ ہے کہ تبلیغ کرو میں نے خود نہیں پڑھا سنا ہے الفضل میں نکلا ہے یا شاید کسی اور اخبار میں چھپا ہو ، اگر الفضل میں بھی ہے تو وہ پرچہ میری نظر سے نہیں گزرا کہ کسی مولوی نے کہا اگر میرے پاس روپیہ ہو تو میں خلیفہ قادیان کی بیویوں کو نکال لاؤں.اب اس کے یہ کہہ دینے سے میرا کیا بگڑ گیا ہاں اس نے اپنے متعلق ثابت کر دیا کہ وہ غنڈہ ہے.کبھی کسی نیک اور بزرگ انسان نے بھی کہا ہے کہ فلاں کی بیوی کو نکال لا ؤں گا.پس ان الفاظ سے میرا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہاں کہنے والا خود بدمعاش ثابت ہوتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں.ایسی باتیں سن کر تمہیں تو لا حول پڑھنا چاہئے کہ مسلمان اس قدر گر گئے ہیں کہ جس قوم کے لیڈر یہ باتیں کرنے والے ہوں وہ قوم کیا باقی رہے گی.جس کے مذہبی لیڈر یہ کہیں کہ ہم دوسروں کی بیویاں نکال لائیں گے اس کی زندگی کی کیا صورت ہو سکتی ہے.کیا یہی باتیں رسول کریم ﷺ اور الله صحابہ کرام کے متعلق اُس زمانہ کے کفار نہ کہتے تھے ؟ آج بھی احادیث نکال کر دیکھ لو معلوم ہو گا کہ اُس زمانہ کے عرب شعراء رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے متعلق تشبیب کیا کرتے تھے.اور ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی ان کے مثیل ہیں.تمہیں تو ان لوگوں کی ایسی حرکات سے خوش ہونا چاہئے کہ اس بات کا ایک اور ثبوت مل گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم ﷺ کے مثیل تھے جبھی تو یہ لوگ آپ کے دشمنوں کے مثیل بنے.یہ باتیں علی الإغلان ہو رہی ہیں اور حکومت خاموش ہے اس میں ہماری کوئی ذلت نہیں بلکہ حکومت کی ذلت ہے، مسلمان خاموش ہیں ان کی ذلت ہے ، ہماری تو عزت ہی عزت ہے جب اس قدر گند دیکھ کر بھی حکومت جس نے قانون بنایا ہوا ہے کہ مخش کلامی اور اخلاق سوز تقریریں اور تحریریں ، تصویریں اور کارٹون وغیرہ جرم ہیں ، خاموش ہے تو یہ اس کی ذلت ہے.یہ باتیں پلیٹ فارموں پر کہی جاتی ہیں.اور پولیس کے ڈائری نویس موجود ہوتے ہیں وہ رپورٹیں لکھتے ہیں لیکن حکومت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت خود قانون شکنی چاہتی ہے.پھر اس سے یہ ثابت ہے کہ ہمارے دشمنوں کے اخلاق بگڑ گئے ہیں اور اس سے یہ ثابت ہے کہ ہماری ترقی نہ

Page 307

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء حکومت کی مدد سے ہو سکتی ہے اور نہ مسلمانوں کی مدد سے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ہوسکتی ہے.ان باتوں میں ہمارا فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان اگر ہے تو حکومت کا کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود قانون کو نافذ کرا نا نہیں چاہتی.ابھی ایک مقدمہ اس کی طرف سے چلایا گیا تھا جس کے متعلق وقت آنے پر ہم ثابت کریں گے کہ یہ در اصل ہمارے خلاف تھا اور پولیس اور سول کے بعض افسر ایک خاص مقصد کو مد نظر رکھ کر کام کر رہے تھے یہ اور بات ہے کہ وہ کچھ ثابت نہ کر سکے اور عدالت نے بھی اپنے فیصلہ میں لکھ دیا کہ بہت سی باتیں غلط ہیں.اس فیصلہ کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت بھی سمجھتی تھی کہ یہ مقدمہ عطاء اللہ کے خلاف نہیں بلکہ ہمارے خلاف چلایا گیا ہے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہر جگہ ہماری بریت کی ہے.دو ایک جگہ پر خاموشی اختیار کی گئی ہے.ایک کے متعلق تو لکھا ہے کہ یہ اس مقدمہ میں زیر بحث نہیں آسکتا اور ایک بات ایسی ہے جس کے متعلق صحیح ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں لایا گیا.ہم تو اس مقدمہ میں ایسے مدعا علیہ تھے جنہیں بولنے کا حق نہ تھا مگر با وجود اس کے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور عدالت نے قریباً تمام اعتراضات کورڈ کر دیا ہے.قادیان میں ہماری حکومت بتائی جاتی تھی مگر عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ یہ غلط ہے صرف معمولی جھگڑے جو نا قابل دست اندازی پولیس ہوتے ہیں یہاں طے کرا دئیے جاتے ہیں.سوائے ایک کے جس میں غلطی لگی ہے.پھر کہا جاتا تھا کہ تبلیغ تشدد سے کی جاتی ہے مگر عدالت نے لکھا ہے کہ خود ان کے گواہوں اور جماعت احمد یہ کے دشمن گواہوں نے تسلیم کیا ہے کہ تبلیغ میں کوئی سختی نہیں کی جاتی.ایک مقدمہ قتل تھا اس کے متعلق لکھا ہے کہ ملزم نے خود اس مقدمہ کی مسل داخل نہیں کرائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے حق میں نہیں اگر یہ بات ان کے حق میں تھی تو مسل کیوں پیش نہیں کی گئی بلکہ فیصلہ کے ایک فقرہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید عدالت نے اس فیصلہ کو پڑھا ہے.اس فیصلہ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ قتل سخت اشتعال کا نتیجہ تھا اسی طرح اور بھی بہت سے امور کے متعلق بھی ہماری بریت کی ہے باوجود یکہ گورنمنٹ نے ہمیں مدعا علیہ بنایا اور ایسی صورت میں کہ ہم کوئی جواب بھی نہ دے سکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری بریت عدالت سے کرا دی ہے.میں یہ نہیں جانتا کہ اس مقدمہ کی کارروائی میں ضلع گورداسپور سے باہر کے حکام بھی شامل تھے یا نہیں اور حسن ظنی سے کام لیتے ہوئے میں یہی کہتا ہوں کہ نہیں تھے لیکن ضلع کے حکام کا ایک طبقہ تو ضرور اس میں شامل تھا بعض گواہیاں بھی اس سلسلہ میں

Page 308

خطبات محمود ۳۰۳ سال ۱۹۳۵ء ہمیں ملی ہیں اور بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ حکام ان سے کیا کچھ کہتے رہے میں ان باتوں کا اعلان بعد میں کروں گا لیکن یہ ابھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض مزید سوالات ایسے کئے جا سکتے تھے جن سے ان اعتراضات کا حل ہوسکتا جو ہم پر کئے گئے ، مگر وہ نہیں کئے گئے اور اس طرح بعض امور کو مشتبہ ہی رہنے دیا گیا حالانکہ مقامی حکام کا فرض تھا کہ جو باتیں ہم پر اعتراض بنتی تھیں اُن کو حل کراتے کیونکہ ہماری جماعت کی عزت گورنمنٹ کے ہاتھ میں تھی مگر پھر بھی ہمیں کوئی شکوہ اور گلہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بریت کر دی.تو میں بتا یہ رہا تھا کہ یہ الزام حکومت پر عائد ہوتا ہے لیکن یا درکھنا چاہئے جب میں گورنمنٹ کا لفظ بولتا ہوں تو میری مراد ان ذمہ دار حکام سے ہے جن کا براہِ راست اس سے تعلق تھا خواہ ان کا سلسلہ ضلع تک ہی ختم ہو جاتا ہو یا با ہر تک جاتا ہو.ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ کہاں تک جاتا ہے پھر اس فیصلہ میں بھی ایک ایسا ریمارک ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنے فرائض کی ادا ئیگی میں کوتاہی کی ہے.عدالت نے لکھا ہے کہ ملزم کی تقریر کے دو حصے ہیں ایک حکومت کے خلاف اور ایک جماعت احمدیہ کے خلاف.ایک حصہ میں حکومت پر حملے کئے گئے ہیں اور دوسرے میں جماعت احمد یہ پر.اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس حصہ کی بناء پر مقدمہ کیوں نہ چلا یا جو اس کے خلاف تھا اور کیوں اس حصہ پر چلا یا جو ہمارے خلاف تھا ہمارے خلاف حصہ کی بناء پر مقدمہ چلانے میں تو مذہبی اختلاف کی وجہ سے شورش ہو سکتی تھی جیسے اب ہو رہی ہے لیکن اگر حکومت اس حصہ کی بناء پر مقدمہ چلاتی جو اس کے خلاف تھا تو اس قسم کی کوئی شورش بھی نہ ہوسکتی.پس یہ ایک معمہ ہے عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ تقریر کا ایک حصہ حکومت کے خلاف تھا پھر یہ راز سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت کیوں ہماری تو خیر خواہ بنتی ہے مگر اپنی نہیں بنتی.کیوں نہیں بنتی.یہ ایک معمہ ہے تو میں بتا رہا تھا کہ ان گالیوں سے یا تو اعتراض حکومت پر آتا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا یا احرار پر کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلامی اخلاق کو بھلا دیا ہے بلکہ بگاڑ دیا ہے ہمارا تو فائدہ ہی فائدہ ہے ہم اگر خاموش رہتے ہیں تو ثواب ملتا ہے اور اگر تبلیغ کرتے ہیں اور ان گالیوں کو سن کر اپنے اوقات اور جان و مال سلسلہ کی ترقی کے لئے وقف کر دیتے ہیں تو ثواب کے علاوہ ترقی بھی حاصل ہوتی ہے.پھر اس سے لوگوں کو یہ بھی دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کی مدد سے ترقی نہیں کر رہی.پہلے یہ اعتراض کیا جاتا تھا مگر اب تو ضلع گورداسپور بھی ہمارے لئے صوبہ سرحد بنا ہوا ہے اس لئے نہیں کہا جا

Page 309

خطبات محمود ۳۰۴ سال ۱۹۳۵ء سکتا کہ اب جو ترقی ہو رہی ہے وہ حکومت کی مدد سے ہوتی ہے.گندی سے گندی گالیاں ہمیں دی جاتی ہیں ، احمدی عورتوں پر ناپاک الزام لگائے جاتے ہیں مگر پولیس والے چپ چاپ بیٹھے سنتے بلکہ ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں اور گالیاں دینے والوں کو بلا بلا کر ان سے مشورے کرتے ہیں اور ان سب باتوں کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا.میں سمجھتا ہوں یہ دور بھی ہم پر اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت کے ماتحت آیا ہے اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ احمدیت انگریزوں کی مدد سے ترقی نہیں کر رہی جب یہ دور ختم ہو جائے گا تو بالا افسروں کو خود بخود توجہ ہو جائے گی اور وہ محسوس کریں گے کہ ان کے ماتحتوں نے غلطی کی.پھر برطانوی انصاف جس کی ہم ہمیشہ سے تعریف کرتے آئے ہیں قائم ہوگا یہ درمیانی دور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس لئے ہے کہ تا یہ الزام ہم پر نہ رہے کہ یہ جماعت انگریزوں کی مدد سے ترقی کر رہی ہے.اب قادیان میں کئی معزز غیر احمدی اور ہندو آتے ہیں اور حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ ہم تو سمجھتے تھے یہ جماعت حکومت کی خاص حفاظت میں ہے مگر آپ لوگ تو یہاں ہتیں دانتوں میں زبان کی حیثیت رکھتے ہیں غرض اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں فائدہ ہی ہو رہا ہے وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ پنجاب کے افسروں پر حقیقت کھول دے گا اُس وقت ان ما تحت افسروں سے بھی باز پرس ہو جائے گی جو ہم پر ظلم کر رہے ہیں اور ہمارے ظلم کا بھی ازالہ ہو جائے گا مگر ہم تو کسی بندے سے ازالہ کے خواہاں ہی نہیں ہیں ہاں ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ خود اپنا فرض ادا کریں گے کیونکہ ہمارا انگریزوں سے ہمیشہ تعاون رہا ہے ورنہ ہمارا اعتماد اور امید تو اللہ تعالیٰ پر ہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک ایک چیز کا بدلہ ایسا لے گا کہ دنیا یا درکھے گی.مصر کے ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ جس محلہ میں وہ رہتے تھے وہاں کے لوگ ان پر اور ان کے بیوی بچوں پر طرح طرح کے الزام لگاتے رہتے تھے انہوں نے بہتیر سمجھایا اور کہا کہ خدا سے ڈرو مگر ان لوگوں نے ایک نہ مانی آخر خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوئی.اس محلہ والوں میں بدکاری پھیلی اور یہاں تک پھیلی کہ اب وہ کنچنیوں کا محلہ ہے.پس ان باتوں سے ہمارا تو کچھ نہیں بگڑتا یہ لوگ اپنے اخلاق بگاڑتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی اپنے اوپر بھڑکاتے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایک طرف تو کہتے ہیں ہم حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف جان نکلتی جا رہی ہے ذرا کوئی بات ہو تو

Page 310

خطبات محمود ۳۰۵ سال ۱۹۳۵ء شور مچا دیتے ہیں کہ پولیس کہاں ہے؟ کیوں انگریز ہماری مدد نہیں کرتے ؟ تختہ الٹنے کا دعویٰ کرنا اور پھر حکومت سے مدد بھی مانگنا یہ بالکل عجیب بات ہے جو تختہ الٹنے والے ہوں وہ اس طرح مدد نہیں مانگا کرتے بلکہ ان کو تو مدد دینے کے لئے اگر کوئی آئے تو بھی وہ کہہ دیتے ہیں کہ جاؤ ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت نہیں لیکن ایک طرف تو ان لوگوں کی یہ حالت ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے مقابل پر اتنے دلیر ہیں کہ اُس کے غضب سے بھی نہیں ڈرتے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اتنا خیال نہیں آتا کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور اعمال پر جزا سزا مترتب ہوگی جو بات کرتے ہیں الٹی اور جو چال چلتے ہیں الٹی ہی چلتے ہیں.ادھر ہمارے خلاف شورش ہے اور اس بات کو بالکل نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں میں اختلاف بڑھ رہا ہے اور ان کی تباہی کے سامان جمع ہو رہے ہیں مسلمانوں میں سے تو کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی البتہ ہمارے صوبہ کے گورنر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور آپ نے انجمن حمایت اسلام کے جلسے پر تقریر کرتے ہوئے دردمندانہ نصیحت کی کہ لڑائی جھگڑے چھوڑ دو، ورنہ اپنی حالت کو کمزور کر لو گے ایک انگریز افسر کے منہ سے یہ فقرات سن کر ان لوگوں کو شرم آ جانی چاہئے تھی کہ غیر بھی ہماری خیر خواہی کرتے ہیں لیکن بجائے اس کے کہ یہ لوگ ان کی اس ہمدردی کی قدر کرتے جھٹ اعلان کر دیا کہ تم اپنا کام کرو تمہیں ان باتوں سے کیا واسطہ.ہمیں تمہاری نصیحت کی ضرورت نہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو گورنر صاحب کا اس میں کوئی فائدہ نہ تھا.لوگ تو اعتراض کرتے ہیں کہ حکومت لڑانا چاہتی ہے اگر یہ بات صحیح ہوتی تو گورنر صاحب کو چاہئے تھا کہ کہتے خوب لڑو، اسی میں تمہارا فائدہ ہے مگر وہ یہ نصیحت کرتے ہیں کہ لڑنا اچھا نہیں مگر بجائے اس نصیحت سے فائدہ حاصل کرنے کے ان لوگوں نے اسے ٹھکرا دیا.ان کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھا تھا کسی نے از راہ ہمدردی کہا کہ سائے میں ہو جاؤ تو اُس نے جواب دیا کہ کیا دو گے؟ ہز ایکسی لنسی نے ان کی خیر خواہی کی لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی بجاۓ سر ظفر علی جیسے اُٹھے اور باوجود یکہ ہائی کورٹ کے جج رہ چکے تھے ہز ایکسی لنسی کی اس دردمندانہ نصیحت کے جواب میں کہا کہ آپ اپنا کام کیجئے یہ فساد تو آپ کا ہی پیدا کردہ ہے اور حکومت ہی اسے بڑھا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو آئندہ کوئی نصیحت بھی نہ کرے.کیا یہ ایسے لوگوں کی باتیں نہیں ہیں جن کی عقل ماری گئی ہو کہ نصیحت بھی برداشت نہیں کر سکتے خواہ وہ کتنے فائدہ

Page 311

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کی کیوں نہ ہو.اول تو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا ، پھر ناصح سے لڑنا اور تیسرا اب اور کمال یہ کیا کہ حادثہ کراچی کی وجہ سے سلور جوبلی کی خوشی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے بھلا کوئی پوچھے کہ سلور جو بلی کا کراچی کے حادثہ سے تعلق ہی کیا ہے.اگر سارے انگریز ظالم ہوں تب بھی ملک معظم کی ذات سے عنا د کیونکر جائز ہو سکتا ہے.انگلستان کا بادشاہ آئینی ہوتا ہے وہ حکومت کی تفاصیل میں دخل نہیں دیتا وہ تو ایک مرکزی نقطہ ہوتا ہے جو مختلف ممالک کو جمع کرتا ہے اور جب کسی انگریز افسر کے افعال سے بادشاہ کو کوئی تعلق ہی نہیں تو پھر ان کی سلور جوبلی سے عناد کیسا.یہ تو وہی بات ہوئی کہ کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھے “.کراچی کے بعض افسر غلطی کرتے ہیں، بمبئی کی گورنمنٹ بھی ان کی تائید کرتی ہے اور اگر چہ یہ صحیح نہیں لیکن میں فرض کر لیتا ہوں کہ گورنمنٹ آف انڈیا بھی ان کی تائید کرتی ہے اور گورنمنٹ برطانیہ بھی لیکن جب حکومت کی تفاصیل سے کوئی بادشاہ کا تعلق ہی نہیں تو پھر سلور جو بلی پر غصہ کس بات کا ؟ ملک معظم تو صرف محبت کا اور اخلاقی تعلق قائم کرنے والا وجود ہے ورنہ آسٹریلیا والے اپنا علیحدہ قانون بناتے ہیں، کینیڈا والے اپنا علیحدہ بناتے ہیں، اس طرح ہر حصہ حکومت اپنے طور پر آزاد ہے اور بادشاہ کو اس کی حکومت کی تفاصیل سے کوئی تعلق نہیں پھر ایسے وجود پر غصہ جو محض محبت کے قیام کے لئے ہے کس قدر مضحکہ خیز امر ہے.برطانوی سلطنت میں بادشاہ حکومت کے لئے نہیں بلکہ محبت کے جذبات کے اتحاد کے لئے ہے بھلا ایسے بادشاہ پر جسے حکومت سے کوئی واسطہ نہیں نزلہ گرانا بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ لوگ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم ماتم کر رہے ہیں لیکن کیا یہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کے مدعی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان سینما میں نہیں جاتے ،شہروں میں جا کر دیکھو ہر سینما میں مسلمان تماش بین زیادہ ہوں گے اگر چہ مسلمان غریب زیادہ ہیں مگر سینما دیکھنے والوں میں بھی زیادہ تعداد انہی کی ہوتی ہے اُس وقت کوئی ماتم یاد نہیں رہتا.پھر مسلمانوں کے محلہ میں جاؤ فونوگراف اور گراموفون بج رہے ہیں اور گانے ہو رہے ہوں گے.ابھی احرار کا لدھیانہ میں جلسہ ہوا اور انہوں نے وہاں بڑی شان و شوکت سے جلوس نکالا اُس وقت ماتم کیوں بھول گیا ؟ کسی کا بچہ مر جائے اور وہ خود تو کنچنیوں کا ناچ کرائے لیکن دوسر ا ولیمہ کے لئے بھی بلائے تو کہہ دے میں ماتم میں ہوں تو اسے کون معقولیت قرار دے سکتا ہے.پس سینماؤں میں مسلمان بکثرت جاتے ہیں اُس وقت انہیں کراچی کا حادثہ یاد نہیں رہتا پھر

Page 312

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء بیسیوں فونوگراف اور گراموفون مسلمانوں کے گھروں میں روز بجتے ہیں اور کسی کو کراچی کا حادثہ یاد نہیں آتا لیکن سلور جوبلی جو مختلف ممالک کے اتحاد کی نمائش ہے، اس کیلئے کراچی کا ماتم ان کے آگے روک ہے گویا یہ لوگ عقل سے بالکل ہاتھ دھو بیٹھے ہیں نہ انہیں ملک کے اتحاد کا خیال ہے نہ قومی ترقی کا.حکومت سے اختلاف کرنے کا ہمیں بھی موقع پیش آیا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ برطانوی حکومت اور چیز ہے ملک معظم کی سلور جوبلی اور چیز.جس اصل کی پیروی احراری کر رہے ہیں اگر اسے صحیح سمجھ لیا جائے تو پھر کسی مسلمان کے چور ثابت ہو جانے کی وجہ سے کہنا پڑے گا کہ سارے مسلمان خراب ہو گئے.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رَسُولَ اللَّهِ! فلاں عورت خوبصورت تھی میں نے اُسے دیکھا اور ضبط نہ کر سکا ، اور اُسے چوم لیا.آپ نے اسے علاج بتا دیا اور وہ چلا گیا اب کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سارے مسلمان ہی ایسے تھے.یہ مانی ہوئی بات ہے کہ ہند و مسلمانوں کے دشمن ہیں مگر کیا سارے ہندو ایسے ہیں؟ ہرگز نہیں.ہندوؤں میں ہزاروں لاکھوں انسان ایسے ہیں جو اپنے مسلمان ہمسایہ کے لئے اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں.حکومت کے ساتھ احراریوں کی بھی لڑائی ہوئی اور ہماری بھی لیکن ہم کہتے ہیں کہ چند افسروں نے شرارت کی اور ہمارا غصہ انہی پر ہے وہ اپنی کسی خوشی کی تقریب پر اگر بلائیں تو ممکن ہے ہم انکار کر دیں لیکن یہاں تو حکومت کا ہی سوال نہیں بلکہ یہ خوشی تو بادشاہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے حکومت اور چیز ہے اور بادشاہت اور چیز دونوں کو ملا نا حد درجہ کی حماقت ہے.تم انگریزوں کو کتنا بُرا کہہ لومگر یہ حقیقت ہے کہ کئی آزاد ممالک ان کے ذریعہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور ساری دنیا یا تو اسی ماڈل پر متحد ہو سکتی ہے یا اسی میں شامل ہو کر متحد ہو سکتی ہے.میں جانتا ہوں کہ یہ باتیں احراریوں کو بُری لگیں گی اور وہ کہیں گے کہ یہ انگریزوں کی حکومت کو ساری دنیا پر دیکھنا چاہتے ہیں مگر جس بات کو ہم اچھا سمجھتے ہیں اسے ان کے کہنے سے چھوڑ نہیں سکتے.ہم کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں نبی آ سکتا ہے مگر وہ اس پر بُرا مناتے ہیں تو کیا ہم اسے چھوڑ دیں ؟ اگر یہ باتیں انہیں بُری لگتی ہیں تو میں یہی کہوں گا کہ مُوْتُوا بِغَيْظِكُمْ جاؤ اور جا کر غصہ میں جلتے رہو ہم تو محمد ﷺ کی عزت قائم کرنا چاہتے ہیں تمہیں اگر یہ بات بُری لگے تو ہزار دفعہ لگے.اسی طرح ہم کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں انہیں یہ بات بھی بُری لگتی ہے مگر ہم یہی کہیں گے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی سے اسلام کی موت ہے مگر ہم نے اسلام کو زندہ

Page 313

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کرنا ہے یہ بات اگر تمہیں بُری لگتی ہے تو ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں.ہم حضرت عیسی علیہ السلام کو زمین میں مدفون بتاتے ہیں احراری اسے ہتک سمجھتے ہیں لیکن ہم حضرت عیسی کے آسمان پر جانے کو رسول کریم ﷺ کی ہتک سمجھتے ہیں اور اسے ہم کسی صورت میں گوارا نہیں کر سکتے یہ بات اگر انہیں بُری لگے تو بے شک لگے محمد رسول اللہ ﷺ کی تک کے مقابلہ میں ہم کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے.اسی طرح ہم پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم انگریزوں کی خیر خواہی کرتے ہیں لیکن کیا انگریزوں سے ہماری کوئی رشتہ داری ہے جو جرمنوں اور فرانسیسیوں سے نہیں.انگریز ہمیں کیا دیتے ہیں یہی گالیاں ہی ہیں جو مل رہی ہیں مگر اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری صرف ایک دو یا چار افسروں پر عائد ہوتی ہے اس کی وجہ سے ہم ساری قوم پر کس طرح الزام دے سکتے ہیں پھر یہ دو چار افسر بھی ہندوستانیوں کے بہکائے ہوئے ہیں بعض ہندوستانی افسر ہیں جو اپنی چوہدراہٹ جتانے کے لئے جھوٹی باتیں اور رپورٹیں ان کے پیش کرتے رہتے ہیں ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ان ہندوستانی افسروں کو سچا سمجھ لیتے ہیں لیکن ہم انگریزوں کی تعریف اس اصل کی خاطر کرتے ہیں جسے انہوں نے دنیا میں جاری کیا ہے اور یہ خدا کی دین ہے.سلطنت برطانیہ کے کئی حصے ہیں جو آزاد کے آزاد ہیں اور اکٹھے کے اکٹھے.اسی اصل پر دنیا کے امن کی بنیاد قائم ہوسکتی ہے.افغانستان ایران سے لڑ سکتا ہے مگر پنجاب سندھ سے نہیں لڑسکتا.اللہ تعالیٰ نے انگریزوں کو سمجھ دی اور انہوں نے ایسی سلطنت بنالی ہے اب یہ ایک فضل ہے اور کون ہے جو اسے ان سے چھین سکے ، یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے اور اس کا انکار کیونکر ہوسکتا ہے اور ہم اس کا انکار اس وجہ سے کیونکر کر سکتے ہیں کہ احراری ہمیں انگریزوں کا حمایتی سمجھتے ہیں یا بعض ہندوستانی افسر ہمارے مخالف ہیں ہم تو سچائی کے نوکر ہیں بینگن کے نہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے جو سچائی ہو ، اسے لے لو خواہ کوئی بندہ راضی ہو یا ناراض.کہتے ہیں کہ کسی راجہ نے ایک دن بینگن کی تعریف کی کہ یہ بہت اچھی چیز ہے ایک درباری نے یہ سن کر بینگن کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور یہ بھی کہا کہ اس کی شکل ہی ایسی ہے جیسے کوئی صوفی گوشہ میں بیٹھا عبادت کر رہا ہو لیکن کھانے سے جب راجہ کو بواسیر ہوگئی اور ایک دن اُس نے بینگن کی مذمت شروع کر دی تو اُسی درباری نے دنیا جہان کے تمام نقائص بینگن میں بیان کر دیئے اور کہا کہ حضور ! اس کی تو شکل ہی ایسی ہے جیسے ہاتھ منہ کالا کر

Page 314

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کے کسی کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہو.کسی نے اسے کہا تم نے اُس دن تو بینگن کی اس قدر تعریف کی تھی اور آج اتنی مذمت کرتے ہو؟ اس پر وہ کہنے لگا ہم تو راجہ کے نوکر ہیں بینگن کے نہیں مگر ہماری یہ مثال نہیں، ہم تو اللہ تعالیٰ کے نوکر ہیں ہمیں نہ تو انگریزوں کی خوشنودی مد نظر ہے اور نہ احراریوں کی دشمنی.ہمارے رویہ سے خواہ انگریز یہ دھوکا کھا ئیں کہ خوشامدی ہیں اور خواہ احراری اس غلط فہمی میں مبتلاء ہوں کہ یہ حکومت کے ایجنٹ ہیں مگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر ایک کی نیکی دیکھو کیونکہ نیکی کو دیکھنے والی آنکھ ہی خدا تعالیٰ کو دیکھ سکتی ہے اب نیکی اگر احرار میں بھی کوئی ہو تو ہم اسے بھی بیان کریں گے ہمیں یہی حکم ہے کہ جس میں جو خوبی ہوا سے بیان کرو.بیسیوں خوبیاں فرانسیسیوں اور جرمنوں میں ہیں اور ہم نے ان کے بیان کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا پھر انگریزوں میں کوئی نقص ہو تو اسے بھی ہم بیان کرنے سے نہیں ڈرتے.لارڈارون کے زمانہ میں جو اب لارڈ ہیلی فیکس ہیں جب مسر نیڈ وکو گرفتار کیا گیا تو میں نے انہیں چٹھی لکھی کہ عورت کو گرفتار کر نا ٹھیک نہیں.پھر کانگرسیوں کو جن دنوں مارا جا تا تھا ، میں نے لکھا کہ یہ غلط طریق ہے اس سے ہمارے دل کو بھی چوٹ لگتی ہے، اس کی بجائے کوئی اور علاج ہونا چاہئے مگر انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ جو کانگرسیوں کو زد وکوب کرنے پر معترض ہیں خود بھی کا نگری ہیں بلکہ میری چٹھی پر غور کیا گیا اور لارڈارون نے مجھے لکھا کہ آپ سر مونٹ مورنسی سے ملنے کے لئے ایک وفد بھیجیں جو ان کے ساتھ مناسب تجاویز پر DISCUSSION کرے اور پھر مجھے بھجوائیں چنانچہ اس طرح بعض تجاویز پر عمل بھی کیا گیا تو اچھی بات ہمیں جہاں بھی نظر آئے ہم اس کی تعریف کریں گے اور بُری جہاں بھی ہوگی اس کی مذمت کریں گے.بعض افسر غلطیاں کر سکتے ہیں مگر احرار نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی عجیب ہے وہ اتنے خر ہو گئے ہیں کہ نیکی کی تعریف سے بھی آزاد ہو گئے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ انگریزوں کی ہر چیز بُری ہے حتی کہ ملک معظم کی سلور جوبلی بھی ان کے لئے ماتم کا موقع ہے.ظفر اللہ خان کا تقرر بھی بُری چیز ہے حالانکہ اگر وہ ہمیں مسلمانوں سے نکال بھی دیں تو بھی کبھی تو ہمیں بھی یہ حق ملتا ہے خواہ ہزار سال میں ہی سہی لیکن حق تو ہمارا بھی ہے پھر وہ پہلے مل گیا یا بعد میں انہیں اعتراض کا کون سا موقع ہے.اوّل تو یہ غلط ہے کہ پنجاب میں ہماری آبادی چھپن ہزار ہے لیکن اگر اسے ہی صحیح سمجھ لیا جائے اور ہندوستان کے باقی احمد یوں کو چھوڑ دیا جائے تو بھی کبھی تو چھپن ہزار کی باری بھی آتی ہے چھپن ہزار آٹھ کروڑ کا پسر

Page 315

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سولہواں سواں حصہ ہی کیوں نہ سہی مگر کبھی نہ کبھی تو اس کی باری بھی ضرور آئے گی اب اگر اسی تقریر کو وہی باری سمجھ لیا جائے تو ان کے لئے چیخنے چلانے کا کون سا موقع ہے یہی سمجھ لیں کہ ہماری باری آگئی ہے.پھر جب کوئی دوسرا احمدی مقرر ہوگا تو ہم کہیں گے یہ دوسرا سولہواں سواں حصہ ہے حکومت نے مینارٹی (MINORITY) کو پہلے موقع دے دیا ہے اوّل تو حکومت نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے کیا ہی نہیں بلکہ ایک قابل شخص دیکھ کر کیا ہے لیکن اگر احمدی سمجھ کر ہی کیا ہو تو اعتراض کی کیا بات ہے.کیا ۵۶ ہزار کا نمائندہ کبھی ہونا ہی نہیں چاہئے ؟ بمبئی گورنمنٹ میں ایک وزیر پاری ہے حالانکہ ہماری تعداد پارسیوں سے کہیں زیادہ ہے مگر ہندوؤں نے پاری وزیر کے تقرر پر کبھی شور نہیں مچایا کہ ان کی سارے ملک میں ایک لاکھ تعداد ہے اسے کیوں مقرر کیا گیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عظمند قوم ہے اور اس بات کو بجھتی ہے پھر سر جوزف بھور عیسائی تھے پھر عیسائیوں کی تعداد چند لاکھ ہے اور ہندوؤں کا بھی ایک وزیر تھا جن کی تعداد چوبیس کروڑ ہے مگر ہندوؤں نے اس پر کبھی شور نہیں مچایا حالانکہ ہند و قوم عہدوں کے لئے جان دیتی ہے مگر پھر بھی وہ اتنی بات سمجھتے ہیں کہ بیوقوفی کا اعتراض نہیں کرنا چاہئے.اسی طرح یہ لوگ ہمیں اپنے سے علیحدہ ہی سمجھیں مگر اتنی تو عقل دکھائیں کہ کیا ہمارا حصہ کبھی نہیں ملے گا؟ ہم نکلے ہوئے ہی سہی مگر مسلمانوں سے ہی نکلے ہوئے ہیں اور ہمارا حصہ بھی ان میں سے ملے گا ہندوؤں میں سے نکلی ہوئی قوم کو اگر ان کے حصہ سے حصہ ملتا ہے تو مسلمانوں میں سے جو قوم نکلی ہو اسے مسلمانوں کے حصہ سے ملے گا غالب نے کہا ہے گو واں نہیں پہ واں سے نکالے ہوئے تو ہیں کعبہ سے ان بچوں کو بھی نسبت ہے دُور کی تو جسے مسلمانوں سے تعلق ہو گا اسے حصہ بھی انہیں سے ملے گا اور وہ انگریزوں نے احمدیوں کو دے دیا.انگریزوں نے تو اچھا کا رکن اور قابل آدمی سمجھ کر دیا ہے لیکن اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ احمدی سمجھ کر دیا ہے تو اس پر شور مچانے کی کوئی وجہ نہیں.پس ان لوگوں کی ہر چال اُلٹی ہے اور انہوں نے لوگوں کو اپنے سے اس قدر متنفر کر لیا ہے کہ لوگ اپنے طور پر انہیں گالیاں دیتے ہیں.میں لاہور جاتا ہوں تو بڑے بڑے لوگ دریافت کرتے ہیں کہ یہ فساد کب ختم ہوگا یہ تو بہت بُری سپرٹ کا اظہار کر رہے ہیں اس طرح تو ان سے کوئی شریف مسلمان

Page 316

خطبات محمود ٣١١ سال ۱۹۳۵ء بھی نہیں بچ سکتا.میں ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ یہ آپ ہی لوگوں میں سے ہیں آپ ہی اس فتنہ کو ختم کر سکتے ہیں.حق یہی ہے کہ ان کی حرکات کو سب شرفاء سخت ناپسند کرتے ہیں ہاں عوام دھوکا میں آ جاتے ہیں کیونکہ یہ انہیں بتاتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ع کی ہتک کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس سے عوام دھوکا میں آ جاتے ہیں اس طرح یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے ساتھ کھیل رہے ہیں بجائے اس کے کہ اسے قائم کریں ، اس پر حملے کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کوئی کھلونا نہیں کہ اسے شرارت کے لئے استعمال کیا جائے.غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا نام ہی اس رنگ میں بار بارمت لیا جائے جیسے یہ لے رہے ہیں.قومی اور سیاسی جھگڑوں میں رسول کریم ﷺ کا نام لانا اور اس رنگ میں اسے استعمال کرنا سخت ہتک ہے یہ لوگ دوسروں پر الزام دیتے ہیں حالانکہ بہتک خود کر رہے ہیں.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب یہ لوگ اس قدر ٹیڑھی چال چل رہے ہیں تو ان پر غصہ کیسا ؟ اسلام میں تفرقہ یہ لوگ پیدا کر رہے ہیں ، حکومت سے لڑائی یہ کر رہے ہیں ، خدا تعالیٰ نے دنیا میں امن کے قیام کے لئے امپائر قائم کیا تھا مگر یہ اس سے بھی بگاڑ پیدا کر رہے ہیں وہ تو ہر چال اُلٹی چلتے ہیں ان کی مثال تو وہی ہے جو قرآن کریم نے بتائی ہے کہ اَفَمَنْ يَمْشِئ مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ " ایسے لوگوں سے ہمیں کیا شکوہ اور گلہ ہو سکتا ہے تمہیں چاہئے کہ شکوہ اور گلہ اپنے نفسوں سے کرو اور اللہ تعالیٰ کے حضور کر و.جب گالیاں سنو فوراً عہد کرو کہ اتنے دن تبلیغ کے لئے اور وقف کریں گے اور ایسے مواقع کے لئے جو نو جوانوں کو بے قابو کرد.ردینے والے ہوتے ہیں چاہئے کہ ہر محلے والے گیارہ گیارہ اشخاص کی ٹولیاں بناویں جن میں سے ایک افسر ہو جو اس بات کا ذمہ دار سمجھا جائے کہ محلہ میں آ کر بھی خواہ کوئی گالیاں دے وہ اپنی ٹولی کے افراد کو معیار اخلاق سے نہیں گرنے دے گا اور سمجھا تا رہے گا کہ صبر سے کام لینا چاہئے، تبلیغ کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ شورش بھی ہمارے لئے با برکت ثابت ہورہی ہے.میں پرسوں ہی آیا ہوں واپسی پر جو ڈاک ملی اس میں دو ہندوؤں کے خطوط تھے ایک تو ایک بڑے سرکاری افسر کا لڑکا ہے اس نے لکھا ہے کہ میں اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہوں دوسرا بھی ایک معزز آدمی ہے اس نے لکھا ہے کہ مجھے اسلام سے دلچسپی پیدا ہوگئی ہے، مجھے لڑ پچر بھجوایا جائے تو یہ گالیاں بھی لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کر رہی ہیں.ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ میں نے اتنی پیشگوئیاں آپ کو لکھ کر بھجوائی ہیں مگر آپ

Page 317

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء نے ان کے خلاف اخبار الفضل میں کبھی کچھ نہیں کہا آپ مخالفت ہی کریں مگر لکھیں تو سہی.میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ کا غصہ بجا ہے مگر مخالفت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیتا ہے جن کی فطرت گندی ہوتی ہے اور گالیاں دینے پر مجبور ہوتے ہیں.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی بوڑھا آدمی کسی حکیم کے پاس گیا کہ مجھے فلاں بیماری ہے.اس نے کہا بڑھاپے کی وجہ سے.اس نے کہا قبض بھی ہے.اس نے جواب دیا بڑھاپے کے باعث ہے.اس نے کہا کھانسی کی بھی شکایت ہے.حکیم نے کہا بڑھاپے کا نتیجہ ہے.بوڑھے نے کہا بھوک نہیں لگتی.حکیم نے کہا بڑھاپے کا اثر ہے.اس پر بوڑھے کو طیش آ گیا اور اس نے کہا میں تو اس خبیث کے پاس علاج کے لئے آیا تھا مگر یہ ہر بات پر بڑھاپا بڑھا پا کرتا جاتا ہے اور اسے گالیاں دینے لگ گیا حکیم نے سب کچھ سن کر کہا یہ بھی بڑھاپا ہے.صحیح بات یہی ہے کہ ان لوگوں کا اس طرح گالیاں دینا ان کی گندی فطرت پر دلالت کرتا ہے اور تم خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی قوم سے نکال لیا جس کے اخلاق اس قد رگر چکے ہیں اور جس کے لیڈر اس قدر گندے ہیں.( الفضل ۷ رمئی ۱۹۳۵ء) ل ال عمران : ۱۲۰ الملک: ۲۳

Page 318

خطبات محمود 19 سال ۱۹۳۵ء زمین ہمارے مخالفین کے پاؤں سے نکلی جارہی ہے ڈاکٹر سر اقبال کا حیرت انگیز بیان ( فرموده ۲۴ رمئی ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے ماتحت اور جماعت احمدیہ کے مخلصین کے اخلاص کو اور بھی زیادہ ظاہر کرنے کے ارادہ سے نئے نئے لوگوں کو ہمارے مخالفوں کی صف میں لا کر کھڑا کر رہا ہے.پہلے احراری اُٹھے اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک منظم صورت میں جماعت احمدیہ کو کچلنا چاہتے ہیں ، پھر امراء ان کی جماعت میں شامل ہو گئے اور ذاتی رسوخ اور ذاتی فوائد کے حصول کے لئے اور بعض افراد سے ذاتی بغض و عنا د نکالنے کے لئے انہوں نے احرار کی مدد کرنی شروع کر دی.پھر پیروں ، گدی نشینوں اور اخبار نویسوں کی ایک جماعت ان کے اندر شامل ہوگئی.انہوں نے اس جنگ کو اخباروں اور تقریروں کے ذریعہ سے ملک کے ایسے گوشوں اور کونوں میں پہنچانا شروع کر دیا جہاں تک اس کا پہنچنا پہلے محال نظر آتا تھا.اس جوش و خروش کو دیکھ کر وہ منافقین کی جماعت جو ہمیشہ سے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ اس طرح لگی رہی ہے جیسے کھیتوں میں چوہے ، اس نے بھی اپنا سر نکالا اور خیال کیا کہ اوہو! آج خوب موقع ہے آؤ ہم بھی انہیں بتا ئیں کہ ہم کچھ بہادری کر سکتے ہیں.پس وہ منافق بھی چوہوں کی طرح اِدھر اُدھر بل کھود نے لگ گئے اور سر نکال کر اپنے وجود کا ثبوت دینے لگے.جمعیۃ العلماء اس وقت تک خاموش تھی کیونکہ اس کے لیڈروں کو احراریوں کے سرکردہ لوگوں

Page 319

خطبات محمود ۳۱۴ سال ۱۹۳۵ء سے بغض وعناد ہے مگر جب اس نے دیکھا کہ یہ مسئلہ خاص طور پر اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد کی اس طرف توجہ ہے تو اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو جماعت احمدیہ کے گھلنے کا سہرا احراریوں کے سر رہے پس اس نے بھی اعلان کر دیا کہ مسلمانانِ عالم کے سامنے اس وقت سب سے بڑا فتنہ جماعت احمدیہ کا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کا استیصال کریں.جب اس زور وشور سے اغیار نے جماعت احمدیہ کا مقابلہ ہوتے دیکھا تو ان میں سے آریہ سماج کے اخبار بھلا کہاں خاموش رہ سکتے تھے وہ بھی اُٹھے اور ہماری جماعت کی مخالفت میں لگ گئے.قادیان کے آریہ اور سکھ بھی ان میں شامل ہو گئے.اور انہوں نے کہا ہم بھی اپنا سارا زور ان احراریوں کے ساتھ مل کر جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لئے لگا دیں.ہندوستان کے سیاسی لیڈر ابھی تک خاموش تھے بلکہ کہنا چاہئے کہ ان کا معتد بہ حصہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں فتنہ و فساد اور آپس کے تفرقہ سے بچنا چاہئے اسی طرح اعلی عہد یدار خاموش تھے یا کم از کم ظاہر میں خاموش تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ طوفان مخالفت فرو ہونے میں نہیں آتا اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے تو انہوں نے کہا ہم پیچھے کیوں رہیں.اس خیال کا آنا تھا کہ سر مرزا ظفر علی صاحب نے ایک بیان شائع کر دیا ، پھر ڈاکٹر سرا قبال کو خیال آ گیا کہ میں کیوں پیچھے رہوں اور اب آخر میں علامہ عبد اللہ یوسف علی صاحب جو ہمیشہ ان باتوں سے الگ رہتے تھے بول پڑے اور سمجھا کہ اسلامیہ کالج کا پرنسپل ایسی باتوں میں کیوں دخل نہ دے اور کس لئے جماعت احمدیہ کے خلاف اپنی رائے کا اظہار نہ کرے.پھر اس موقع سے عیسائیوں نے بھی فائدہ اُٹھایا.اور وہ بھی ہمارے مخالفین کی صف میں شامل ہو گئے غرض ہر قوم نے آج چاہا کہ ہمیں کچل دے ایک طرف دنیا کی تمام طاقتیں جمع ہیں احراری بھی ہیں ، پیرزادے بھی ہیں ، جمعیۃ العلماء بھی ہے ، اہلحدیث بھی ہیں ، دیوبندی بھی ہیں ، قادیان کے منافق بھی ہیں اور قادیان کے بعض آریہ اور سکھ بھی ہیں.پھر آریہ اخبارات بھی ہیں ، پادری بھی ان کے ہمنوا ہیں ، شاعر اور فلاسفر بھی ان کے ساتھ ہیں، سیاستدان بھی ان کے ساتھ ہیں ، عہدیدار بھی ان کے ساتھ ہیں اور حکومت بھی اپنا زور ان کی تائید میں خرچ کر رہی ہے گو یا د نیا اپنی تمام طاقتیں احمدیت کے کچلنے پر صرف کرنے کیلئے آمادہ ہو رہی ہے مگر ہم کیا ہیں ہم وہی ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا:.دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین

Page 320

خطبات محمود ۳۱۵ سال ۱۹۳۵ء لیکن ایک ساعت کے لئے ، ایک منٹ کے لئے بلکہ ایک لحظہ کے لئے بھی ہم میں سے ہر وہ شخص جو ذرہ بھر بھی ایمان رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی پر غور کر کے اس نے اللہ تعالیٰ کے نور کو دیکھا ہو ، یہ خیال نہیں کر سکتا کہ ان طاقتوں کا نتیجہ ہمارے لئے کچھ بھی بُرا ہو سکتا ہے.یہ ساری طاقتیں اگر مل جائیں اور ان میں دنیا کی اور بھی نامور طاقتیں شامل ہو جائیں تو اتنا بھی نقصان ہمیں نہیں پہنچا سکتیں جتنی مکھی کی بھنبھناہٹ پہنچا سکتی ہے.یہ سب کے سب خوش ہیں کہ ہم نے ایک طاقت جمع کر لی ہے اور ہم بھی خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس طاقت کو توڑنے کے سامان جمع کر رہا ہے.وہ زور لگا رہے ہیں کہ ہم اپنے تمام منصوبوں کے ساتھ جماعت احمدیہ کو مٹا دیں اور ہم خوش ہو رہے ہیں کہ وہ مخفی اور پوشیدہ طاقتیں جن کے گھلنے کا ہمارے پاس کوئی سامان نہ تھا، اللہ تعالی انہیں ہمارے لئے ظاہر کر رہا ہے تا ثابت کرے کہ یہ سلسلہ میرا قائم کردہ ہے کسی انسان کا قائم کردہ نہیں.ایک عظمند کے لئے تو یہ نشان بھی کافی ہو سکتا تھا کہ جماعت احمدیہ جس کے پاس نہ روپیہ ہے نہ طاقت ، امراء اس کے مخالف ہیں، صوفیاء اس کے دشمن ہیں ، مسلمان اسے مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، غیر قو میں اسے نابود کرنا چاہتی ہیں ، ہندو، عیسائی، سکھ سب اس سے بغض و عداوت رکھتے ہیں مگر اس تمام طوفان مخالفت کے باوجود جو چاروں طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے ، ہماری جماعت کے مخلصین کے دلوں میں ذرہ بھر بھی خوف و خطر نہیں کونسی انسانی طاقت ہے جو یہ اطمینان کی کیفیت پیدا کر سکتی ہے.اگر یہ کسی انسان کا منصوبہ ہوتا ، اگر جماعت احمدیہ کا کام خدا تعالیٰ کا کام نہ ہوتا تو ہر احمدی اِس مخالفت کو دیکھ کر لرزہ براندام ہو جاتا مگر حالت یہ ہے کہ جس قد رفتنہ بڑھتا ہے اسی قدر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی تائید کے لئے کوئی اتنا عظیم الشان نشان دکھانے والا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ان تمام مخالفتوں کو اس طرح مٹادے گا کہ وہ نَسيا منسيا ہو جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک مقدمہ کے دوران میں ایک دفعہ کسی دوست نے اطلاع دی کہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے ، اس پر مخالفوں نے سخت دباؤ ڈالا ہے اور اسے مجبور کیا گیا ہے کہ وہ آپ کو سزا دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیے ہوئے تھے.یہ سنتے ہی آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور نہایت جلال کے ساتھ فرمایا آپ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں.کس کی طاقت ہے کہ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکے." بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اب فوت ہو

Page 321

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء چکے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح فوت نہیں ہوئی.وہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی اور دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسے مٹا نہیں سکتیں.نہ ہمارے اندر کے منافق اور نہ باہر کے مخالف بلکہ مخالفت کرنے والے منافق اور بیرونی دشمن سب مٹ جائیں گے، فنا ہو جائیں گے اور یہ نسل ابھی زندہ ہوگی کہ ان کی ذلت اور رسوائی کے سامان ہو جائیں گے اور اُس وقت کے لوگ اپنی آنکھوں سے اس نظارہ کو دیکھیں گے اور یہ مخالف اپنی زندگی میں ہی اپنی موت کا مشاہدہ کر لیں گے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ بڑے بڑے لوگ جو اپنے آپ کو فلاسفر اور شاعر اور کیا کیا کچھ نہیں کہتے سلسلہ احمدیہ کے مقابلہ میں جب کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی عقلیں کس طرح ماری جاتی ہیں.ڈاکٹر سرا قبال کا بیان اس کا کھلا ثبوت ہے.ان کا بیان پڑھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی کیونکہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ۱۹۳۱ء میں جب کشمیر کمیٹی کا آغاز ہو اشملہ میں زور دے کر مجھے اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقر ر کیا جو کشمیریوں کی آئینی امداد کے لئے قائم کی گئی تھی حالانکہ وہ خالص اسلامی کام تھا پس اُس وقت تو ہم مسلمان تھے لیکن آج کہا جاتا ہے جماعت احمد یہ اسلامی جماعت ہی نہیں.اگر جماعت احمد یہ اسلامی جماعت نہیں تو کیوں ۱۹۳۱ء میں سراقبال نے زور دے کر مجھے ایک اسلامی کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا.کیا ۱۹۳۱ء میں مجھے پریذیڈنٹ بنانے والے انگریزوں کے ایجنٹ تھے جو آج کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی حمایت کی وجہ سے یہ سلسلہ ترقی کر رہا ہے.اُس وقت میری پریذیڈنٹی پر زور دینے والے دو ہی شخص تھے.ایک خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر سر ا قبال.خواجہ صاحب تو اُس موقع پر ہماری جماعت کے خلاف بولے نہیں اس لئے ان کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا لیکن ڈاکٹر سرا قبال چونکہ ہمارے خلاف بیان دے چکے ہیں اس لئے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ۱۹۳۱ء میں انہوں نے کیوں ایک اسلامی کمیٹی کا مجھے پریذیڈنٹ بنایا ؟ اب کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو عام مسلمانوں میں اثر و اقتدار کشمیر کمیٹی میں کام کرنے کی وجہ سے ہی حاصل ہوا حالانکہ اس کمیٹی کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے زور دینے کی وجہ سے مجھے ملی.پس کیوں ۱۹۳۱ء میں انہوں نے احمدیوں کو مسلمان سمجھا ؟ اور کیوں اب آ کر انہیں محسوس ہوا کہ جماعت احمد یہ کو مسلمانوں میں سے الگ کر دینا چاہئے.یا تو انہیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ اُس وقت ہماری حمایت کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے وہ روپے لے کر آئے تھے جو ان کی جیب میں اُچھل رہے تھے اور وہ

Page 322

خطبات محمود ۳۱۷ سال ۱۹۳۵ء چاہتے تھے کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شامل کر کے ان کی طاقت کو توڑ دیں اور یا یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ اُس وقت احمدیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور اب جو کہہ رہے ہیں کہ انگریزوں نے احمدیوں کو طاقت دی تو غلط کہہ رہے ہیں.آخر ہمارے عقائد بدلے تو نہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال کو اپنی رائے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی.بلکہ وہی عقائد ہم اب رکھتے ہیں جو ۱۹۳۱ء میں اور اس سے پہلے تھے مگر ۱۹۳۱ء میں تو ہم ڈاکٹر سر اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیڈر اور ان کے نمائندہ اور راہ نما ہو سکتے سے تھے اور ڈاکٹر سراقبال میری صدارت پر زور دے سکتے اور میری صدارت میں کام کر سکتے تھے لیکن اب ہمیں سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رکھنے تک پر تیار نہیں.۱۹۳۱ ء میں تو ہمارے اسلام کا ڈاکٹر اقبال صاحب کو یہاں تک یقین تھا کہ جب یہ سوال پیش ہوا کہ وہ کمیٹی جو انتظام کے لئے بنائی جائے گی ، اس کے کچھ اور ممبر بھی ہونے چاہئیں اور ممبروں کے انتخاب کے متعلق بعض قواعد وضع کر لینے چاہئیں تو ڈاکٹر سر اقبال نے کہا کوئی قوانین بنانے کی ضرورت نہیں ہمیں صدر صاحب پر پورا پورا اعتماد ہے اور ہمیں چاہئے کہ ہم نمبروں کے انتخاب کا معاملہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں وہ جسے چاہیں رکھیں اور جسے چاہیں نہ رکھیں.پھر ہنس کر کہا میں تو نہیں کہتا لیکن اگر سارے ممبر آپ نے احمدی ہی رکھ لئے تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ ان لوگوں نے کمیٹی کے تمام ممبر احمدی بنالئے اس لئے آپ ممبر بناتے وقت احتیاط کریں اور کچھ دوسرے مسلمانوں میں سے بھی لے لیں اور سارے ممبر احمدی نہ بنائیں لیکن آج سرا قبال کو یہ نظر آتا ہے کہ احمدی مسلمان ہی نہیں حالانکہ اس عرصہ میں کوئی نئی بات ہمارے اندر پیدا نہیں ہوئی.پھر مجھے تعجب ہے کہ ہماری مخالفت میں اس حد تک یہ لوگ بڑھ گئے ہیں کہ ڈاکٹر سرا قبال جیسے انسان جو مسلمانوں کی ایک جماعت کے لیڈر ، فلاسفر، شاعر اور نہایت عقلمند انسان سمجھے جاتے ہیں، انگریزی حکومت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے احمدیوں کو کیوں پنپنے دیا، شروع میں ہی اس تحریک کو کیوں کچل نہ دیا کیونکہ ان کے نزدیک اگر نئی تحریکات کا مقابلہ نہ کیا جائے تو اس طرح اکثریت کو نقصان پہنچتا ہے پس ان کے نزدیک حکومت کا فرض تھا کہ احمدیت کو کچل دیتی بلکہ انہیں شکوہ ہے کہ انگریزوں نے تو اتنی بھی عقلمندی نہ دکھائی جتنی روما حکومت نے حضرت مسیح ناصری کے وقت میں دکھائی تھی.انہوں نے اتنا تو کیا کہ حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکا دیا گو یہ دوسری بات ہے کہ خدا.شر

Page 323

خطبات محمود ۳۱۸ سال ۱۹۳۵ء نے اپنے فضل سے انہیں بچا لیا.اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ رومی حکومت نے سب حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکایا تو اس نے ایک جائزہ مستحسن اور قابلِ تعریف فعل کیا اور اچھا کیا جو یہودیوں کے شور و غوغا کو سن کر عیسائیت کے بانی پر ہاتھ اُٹھایا.یا تو ان لوگوں کو اتنا غصہ آتا ہے کہ اگر ہم حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو وفات یافتہ کہہ دیں تو ان کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے یا اب احمدیت کی مخالفت میں عقل اس قدر ماری گئی ہے کہ کہا جاتا ہے حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکانے کا فعل جو رومیوں نے کیا وہ بہت اچھا تھا گو پورا اچھا کام نہیں کیا کیونکہ وہ بیچ رہے.ان کا فرض تھا کہ اگر حضرت مسیح ناصری آسمان پر چلے گئے تھے تو رومی انہیں آسمان سے کھینچ لاتے اور اگر کشمیر چلے گئے تھے تو وہاں سے پکڑ لاتے اور ان کا اور ان کے سلسلہ کا خاتمہ کر دیتے تا کہ یہود کے اتحاد ملت میں فرق نہ آتا مگر انگریزوں سے تو بہر حال وہ زیادہ عقلمند تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے انہیں صلیب پر لٹکا دیا اور اب ڈاکٹر سرا قبال کو شکوہ ہے کہ انگریزوں نے اتنی جرات بھی نہ دکھائی اور بناوٹی طور پر بھی حضرت مرزا صاحب کو سزا نہ دی.یہ بیان ہے جو ڈاکٹر سرا قبال نے دیا اور مسلمان خوش ہیں کہ کیا اچھا بیان ہے حالانکہ اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ جیسے رومیوں نے حضرت مسیح ناصری سے سلوک کیا تھا ویسا ہی سلوک انگریزوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کرنا چاہئے تھا.اگر اس فقرہ سے ہزارواں حصہ کم بھی کسی احمدی کے منہ سے نکل جاتا تو ایک طوفان مخالفت بر پا ہو جاتا اور احراری شور مچانے لگ جاتے کہ مسیح ناصری کی تو ہین کر دی گئی لیکن اب چونکہ یہ الفاظ اس شخص نے کہے ہیں جو ان کا لیڈر ہے اس لئے اگر وہ رومیوں کے مظالم کی تعریف بھی کر جائیں تو کہا جاتا ہے واہ واہ ! کیا خوب بات کہی.احمدی رسول کریم ﷺ کی تعریف کریں تو آپ کی ہتک کرنے والے قرار پائیں اور یہ حضرت مسیح کی کھلی کھلی تو ہین کریں تو آپ کی عزت کرنے والے سمجھے جائیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں نجات اس کے لئے ناممکن ہوگئی ہے.وہ ہماری دشمنی میں ہر چیز کو توڑنے کے لئے تیار ہے.وہ ہماری عداوت میں اسلام پر تبر چلانے ، رسول کریم ﷺ کی عزت پر تبر چلانے اور پہلے انبیاء کی عزتوں پر تبر چلانے کے لئے بھی تیار ہیں اور صرف اس ایک مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ کچل دی جائے لیکن جیسے اسلام اور رسول کریم ﷺ اور پہلے انبیاء پر جو تبر چلائے

Page 324

خطبات محمود ۳۱۹ سال ۱۹۳۵ء جائیں گے وہ رائیگاں جائیں گے اسی طرح ہر وہ تبر جو جماعت احمد یہ پر چلایا جائے گا آخر چکر کھا کر انہی کے پاؤں پر پڑے گا اور جماعت احمدیہ کو ایک ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.ڈ نیوی لوگ کہا کرتے ہیں کہ جب سارے لوگ مخالف ہو جائیں تو اس وقت نرم ہو جانا چاہئے ہمارے خیر خواہ مسلمانوں میں سے بعض اور دوسری قوموں میں سے بھی کئی دفعہ مجھے کہلوا چکے ہیں کہ ان شدید مخالفت کے ایام میں میں خاموش رہوں مگر مجھے مداہنت کی ضرورت نہیں.میں تمام مخالفوں اور ان کے ہم نواؤں کو حضرت نوح علیہ السلام کے الفاظ میں ہی کہتا ہوں.تم سارے مل جاؤ اور اپنی تمام تدابیر احمدیت کو کچلنے کے لئے اختیار کرو، قادیان کے ان منافقوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لو جو کھلم کھلا تمہاری تائید کر رہے ہیں اور ان منافقوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو جو نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے اور جماعت کے دیگر کاموں میں حصہ لیتے ہیں مگر اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں سلسلہ کے نظام پر جنسی اُڑاتے اور اس کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں تم سارے مل جاؤ اور دن اور رات منصو بے کرو اور اپنے منصوبوں کو کمال تک پہنچا دو اور اپنی ساری طاقتیں جمع کر کے احمدیت کو مٹانے کے لئے تل جاؤ، پھر بھی یاد رکھو تم سب کے سب ذلیل ورسوا ہو کر مٹی میں مل جاؤ گے ، تباہ اور برباد ہو جاؤ گے اور خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا.کیونکہ خدا نے جس رستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کو اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و با مراد کرنے والے ہیں.اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے.اور میں ان کی شکست کو اُن کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں، اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے.پس میں ان دوستوں کے مشورہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن ان سے کہتا ہوں میری نرمی خدا کے نشانوں کو چھپانے والی ہوگی.میں نرمی کروں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ میں نے دشمن کے حملہ کو اپنی چالاکی سے دُور کر دیا مگر آج خدا یہ دکھانا چاہتا ہے کہ انسانی طاقتیں اس کے ارادہ کے سامنے پیچ اور ذلیل ہیں.آج خدا اپنی طاقت دکھانا چاہتا اور اپنے جلال کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے.میں تمام دشمنوں کے سامنے نڈر ہو کر کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا اور ہر مخلص احمدی سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ وہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہے گا اس لئے میں مخالفوں سے کہوں گا وہ جتنی طاقتیں ہمارے خلاف جمع کرنا

Page 325

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء چاہتے ہیں ان سب کو جمع کر لیں اور متحدہ طور پر ہمارا مقابلہ کر میں ہم خدا کے فضل سے ان سے ڈرتے نہیں بلکہ خوش ہیں کہ اس طرح خدا کی مخفی طاقتیں ظاہر ہوں گی اور لوگوں کو پتہ لگے گا کہ ہمارا سلسلہ انسانوں کا قائم کردہ نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ جس وقت یہ فتنہ دُور ہو گا ، ہمارے مخالف اور اندرونی منافق و بازدہ چوہوں کی طرح مر جائیں گے اور دشمن کے ہاتھوں کو توڑ کر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو نئی طاقت نئی عظمت اور نئی شہرت عطا کرے گا اور وہ شرفاء ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں میں سے جو نا واجب طور پر ہم پر حملہ آور نہیں ہوئے ، اللہ تعالیٰ ان کی اس نیکی کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کا انعام یا تو ہدایت کی صورت میں انہیں دے دے گا اور یا دنیاوی ترقیات کے ذریعہ ان کی اس نیکی کا انہیں پھل دے گا.میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان باتوں کی پرواہ نہ کریں.ایمان ایک پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط چیز ہے.یہ ممکن ہے کہ پیہم بارشیں ایک پہاڑ میں شگاف پیدا کر دیں مگر مؤمن کے ایمان کو کوئی چیز کمزور نہیں کر سکتی.ہماری حالت اس وقت وہی ہونی چاہئے جو رسول کریم ﷺ کی اس وقت تھی جب ایک دشمن تلوار لے کر آپ کے پر کھڑا ہو گیا.اُس وقت جنگ سے رسول کریم ﷺ اور صحابہ واپس آ رہے تھے کہ آرام کرنے کے لئے ایک جگہ بیٹھے اور دوپہر کے وقت اِدھر اُدھر پھیل گئے.رسول کریم ﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے اور آپ کی تلوار لٹک رہی تھی کہ ایک شخص آیا اور اُس نے رسول کریم علی کی ہی تلوار کھینچ کر آپ کو جگایا اور پوچھا بتا تجھے اب میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ؟ رسول کریم نے فرمایا اللہ.آپ کا یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.سے ہماری جماعت کو بھی اسی مقام پر کھڑا ہونا چاہئے جب دشمن مقابلہ پر آئے تو مت سمجھو کہ تم اپنی تدابیر سے کامیاب ہو جاؤ گے.تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو اور جب کوئی کہے کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے تو تمہارے دل سے یہ آواز نکلنی چاہئے کہ اللہ اور اس مخالفت کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.یہ سب مخالف ایک دن اسی طرح مٹ جائیں گے جس طرح سمندر کی جھاگ کنارے پر آ کر مٹ جاتی ہے.یہ مخالف بھی ہمارے ساحل مراد پر پہنچنے کے وقت جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے.ان کی طاقتیں مٹ جائیں گی اور ان کی قو تیں زائل ہو جائیں گی.ہاں جو لوگ ان میں سے شریف ہیں وہ اپنی شرافت کا پھل پائیں گے اور جوطبیعت تو شریفانہ رکھتے ہیں مگر مخالفین کے پروپیگنڈا کی وجہ سے ان کے دھوکا اور فریب میں "

Page 326

خطبات محمود ۳۲۱ سال ۱۹۳۵ء آچکے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں گے.مگر شریر سزا پائیں گے اور دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں.ا نَسْيًا مُنسِيًا : بھولی بسری (الفضل ۳۰ رمئی ۱۹۳۵ء) سیرت المهدى جلد اوّل صفحه ۷۹، ۸۰.مطبوعه دسمبر ۱۹۲۳ء بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع

Page 327

خطبات محمود ۳۲۲ سال ۱۹۳۵ء تبلیغ احمدیت کے لئے ایک شاندار پروگرام (فرموده ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء) تشبد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں گو جمعہ ہی کی نیت سے باوجود لاہور کے دوستوں کی اس خواہش کے کہ جمعہ لاہور پڑھا جائے آج صبح قادیان پہنچا ہوں لیکن آنکھ کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ بول نہیں سکتا لہذا اختصار کے ساتھ دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہر جھگڑے اور فساد کی حالت بیماری کی سی حالت ہوتی ہے.جس طرح بیماریاں مختلف اوقات میں مختلف علاج چاہتی ہیں ، اسی طرح جھگڑے اور فساد بھی مختلف اوقات میں مختلف علاج چاہتے ہیں.جب مرض مریض کے جسم میں گھر کر لیتا ہے تو ابتدا میں طبیب اس کا اور رنگ میں علاج کرتا ہے، درمیان میں اور رنگ میں ، آخر میں اور رنگ میں اور جب بیماری جاتی رہتی ہے تو اور رنگ میں بیمار کی قوت بحال کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے اسی طرح فساد اور جھگڑے کی حالت ہوتی ہے مختلف جھگڑوں کے علاج مختلف اوقات میں بدلتے رہتے ہیں.ہمارے خلاف جو شورش اور فساد ہندوستان میں پیدا ہوا ، اس کی ابتدائی حالت اور رنگ کی تھی اور میں نے اس کے مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ علاج بتائے تھے جن کی طرف حتی المقدور دوستوں نے توجہ کی اور خدا کے فضل سے اس تحریک کے بہت سے حصوں پر عمل ہو رہا ہے اس کے ماتحت کچھ مبلغ بھی باہر جاچکے ہیں تا احمدیت کی تبلیغ کریں.خدا کے فضل سے سٹریٹ سیٹلمنٹ لے کے مبلغ وہاں پہنچ چکے ہیں اور کام شروع کر دیا ہے اور ان کی رپورٹیں بھی آنے لگی ہیں ، چین کے مبلغ کی طرف سے بھی تار

Page 328

خطبات محمود ۳۲۳ سال ۱۹۳۵ء موصول ہوا ہے کہ وہ پہنچ چکے ہیں ، جاپان کے مبلغ بھی اس وقت تک پہنچ چکے ہوں گے گویا اس طرح مشرقی دنیا کے ان ممالک میں نئی تبلیغ شروع ہوئی ہے.سماٹرا اور جاوا میں پہلے ہی مشن موجود ہیں، ماریشس میں بھی ہے اور اس طرح یہ چھ ممالک ہیں جہاں احمدیت کی تبلیغ شروع ہے ایک دو ماہ میں بعض اور مبلغ بھی جانے والے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان ممالک میں احمدیت کا جھنڈا گاڑا جائے گا لیکن میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مذاہب ، قائم کئے جانے والے سلسلے اور مامورین الہی کی جماعتیں کسی ایک ملک یا قوم سے تعلق نہیں رکھتیں اور خدا تعالیٰ ان کے اندر چستی اور بیداری پیدا کرنے کے لئے ان کے آراموں کے سامان مخفی رکھتا ہے یہاں تک کہ ان کی جستجو میں وہ دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور اس طرح مجبور کر کے اللہ تعالیٰ ان سے ساری دنیا میں تبلیغ کراتا ہے اس سنتِ الہی کے ماتحت ہم جب تبلیغ کے لئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تو ہمارے لئے بھی نصرت الہی پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ ظاہر ہوگی.گزشتہ چند ماہ سے امریکہ میں کثرت سے توجہ ہو رہی ہے اور ہر ڈاک میں امریکہ کے نو مسلموں کی طرف سے آٹھ دس خط موصول ہو جاتے ہیں جن میں نہایت جوش اور اخلاص کا اظہار ہوتا ہے اور اس بات کا مطالبہ کہ دین سکھانے کے لئے ہمیں اور مبلغ دیئے جائیں.پچھلے دو ہفتوں سے ہمارے امریکہ کے مبلغ نے بھی اس بات پر زور دینا شروع کیا ہے کہ کام اس قدر زیادہ ہے کہ کم از کم ایک اور مبلغ کی ضرورت ہے لوگوں میں اس قدر جوش ہے کہ نئے مبلغ کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ترقی کر جائے گی لیکن جہاں بیرونِ ہند میں نئے مشن قائم ہو چکے ہیں وہاں ہندوستان بھی بہت سی تبلیغ کا محتاج ہے.پچھلے ایام میں اس قد رجھوٹ ہمارے خلاف پھیلا یا گیا اور اس قدر افتراء پردازیاں ہمارے متعلق کی گئیں کہ لوگ نہ تو ہمارے اشتہاروں اور ٹریکٹوں سے فائدہ اُٹھاتے تھے اور نہ ہی گفتگو سنتے تھے لیکن حق کے مقابلہ میں شورش عارضی ہوتی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ یا تو دب جایا کرتی ہے یا اپنی نوعیت بدل لیا کرتی ہے.یا تو لوگ اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ حق کو مٹا ڈالیں یا پھر اس طرف متوجہ ہو جاتے ہیں کہ سنیں یہ لوگ کہتے کیا ہیں.چنانچہ طبائع میں اب یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ سئیں احمدیت کیا چیز ہے؟ اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ اپنی تمام طاقتیں ہندوستان میں تبلیغ پر صرف کر دیں.میں نے پہلے دیدہ دانستہ

Page 329

خطبات محمود ۳۲۴ سال ۱۹۳۵ء اشتہارات کے سلسلہ کو اور عام پبلک تبلیغ کے سلسلہ کو اُس وقت تک ملتوی کیا تھا جب تک ہمارے خلاف جوشوں میں تغیر پیدا ہو جائے.جوش کی حالت میں لوگ بجائے پڑھنے اور سننے کے اشتہارات پھاڑ دیتے اور لیکچر سننے سے گریز کرتے تھے مگر اب اس کیفیت میں تبدیلی ہورہی ہے اور جو اطلاعات مجھے مل رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ دوست اب اس طرف زیادہ توجہ کریں.میری تجویز ہے کہ ایک طرف تو اشتہارات کا سلسلہ زیادہ وسیع کیا جائے اور دوسری طرف لیکچروں کے سلسلہ کو وسعت دی جائے اس کے لئے آج اس خطبہ کے ذریعہ میں دوستوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ ہر جماعت اپنے اپنے ہاں تبلیغی جلسے کرائے لیکن جہاں تک ممکن ہو مباحثات سے بچنے کی کوشش کی جائے کیونکہ مباحثات حق کو چھپا دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اگر چہ مباحثات کیا کرتے تھے مگر آخر میں آپ کو الہاما مباحثات سے روک دیا گیا اور گو اس الہام میں ہمارے لئے ممانعت نہیں لیکن ہم اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اگر مباحثات مفید ہوتے تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے نہ روکتا.مباحثات گو مجبوری کی حالت میں جائز ہیں مگر عام حالات میں ان کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ دوسرے فریق کو ضد میں اور پختہ کر دیتے ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک جماعت مہینہ میں ایک بار جلسہ ضرور کیا کرے.ہماری با قاعدہ جماعتیں سات سو کے قریب ہیں اور دیہات بھی کئی ہزار ایسے ہیں جہاں احمدی ہیں اور اس طرح جماعتوں کی تعداد کئی ہزار تک جا پہنچتی ہے اگر ہر جگہ ایک ماہ میں ایک جلسہ کیا جائے جس میں اگر مرکزی مبلغ پہنچ سکیں تو پہنچ جائیں نہیں تو ارد گرد کے علاقہ سے تقریریں کر سکنے والے دوست شریک ہو جائیں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو مقامی لوگ ہی تقریر میں کریں تو اس طرح ایک ماہ کے اندر اندر کئی لاکھ لوگوں تک احمدیت کی تبلیغ پہنچ سکتی ہے.اسی طرح میرا ارادہ ہے کہ کثرت سے اشتہارات بھی پھیلا دیئے جائیں جو زیادہ تر تو اُردو میں ہوں مگر ہندوؤں اور سکھوں کو آگاہ کرنے کے لئے ہندی اور گورکھی میں بھی ہوں کیونکہ ہندوؤں اور سکھوں کو بھی احراریوں نے ہمارے خلاف بہت بھڑکا رکھا ہے اور ان کے سامنے ہمارا ایسا بھیانک نقشہ رکھا ہے کہ گویا ہم ملک کے اور ان کے دشمن ہیں حالانکہ ہم ملک کے اور اہلِ ملک کے احراریوں سے بہت زیادہ خیر خواہ ہیں.پس ضروری ہے کہ ان لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے ہندی اور گور رکھی میں بھی اشتہارات شائع کئے جائیں بلکہ بنگالی ، مدراسی اور ہندوستان کی دوسری

Page 330

خطبات محمود ۳۲۵ سال ۱۹۳۵ء ایسی زبانوں میں بھی جنہیں لاکھوں انسان بولتے ہیں لٹریچر شائع کرنا چاہئے.ان ٹریکٹوں اور اشتہاروں کے متعلق بہت سے مضامین میرے ذہن میں ہیں لیکن مبلغوں کو بھی چونکہ تجربہ ہوتا ہے اس لئے وہ جن مضامین پر ٹریکٹوں کی اشاعت مفید سمجھیں ان سے مجھے اطلاع دیں.پھر ہماری جماعت کے ہزار ہا افراد ہیں جو تبلیغ کے متعلق تجربہ رکھتے ہیں اس خطبہ کے ذریعہ میں ان کو بھی تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی ایسے مضامین سے مطلع کریں جو ان کے نزدیک ضروری ہوں پھر جو لوگ ہندی اور گورمکھی وغیرہ زبانوں میں ترجمے کر سکیں وہ بھی اطلاع دیں تا اردو کے مضامین ان کو دیئے جائیں اور وہ ان کا ترجمہ کر دیں مگر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ صرف وہی لوگ اطلاع دیں جن کو کام کرنے کی فرصت ہو.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ اپنے نام پیش کر دیتے ہیں لیکن جب انہیں کام دیا جائے تو عدیم الفرصتی کا عذر پیش کر کے گھنٹوں کا کام دنوں پر اور دنوں کا کام مہینوں پر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح کام کا حرج ہوتا ہے.پس جو لوگ مختلف زبانوں میں ترجمہ کر سکیں اور ترجمہ کرنے کے لئے فرمت بھی رکھتے ہوں ، اطلاع دیں اور جو ایسے لوگوں کے پتے بتا سکیں جن کو معاوضہ دے کر مختلف زبانوں میں ان سے تراجم کرائے جاسکیں ، وہ بھی براہ راست مجھے یا دفتر تحریک جدید کو اطلاع دیں.پھر وہ دوست جو لیکچر دے سکتے ہیں وہ اپنے ناموں سے مطلع کریں.میں نے پہلے بھی یہ تحریک کی تھی مگر شرط یہ تھی کہ اعلیٰ عہدوں کے لوگ اپنے نام پیش کریں مگر اب یہ شرط بھی اُٹھاتا ہوں پس ہر شخص جو لیکچر دے سکتا ہو خواہ گاؤں میں ہی دے سکتا ہو مجھے اطلاع دے.اگر تین چار ماہ تک بھی اس اہتمام کے ساتھ تبلیغ کی جائے تو اس طرح طبائع دوسری طرف متوجہ ہو جائیں گی اور جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف افتراء پردازیوں سے کام لیا جا رہا ہے تو وہ ضرور افتراء پردازوں سے نفرت کرنے لگیں گے.خدا کے فضل سے اس کام کے لئے ہمارے پاس روپیہ موجود ہے اور گو بجٹ کے مطابق نہیں مگر اس کے قریب قریب ہے اس لئے ہم بغیر روپے کے انتظار کے کام شروع کر سکتے ہیں اس کے لئے بجٹ میں گنجائش بھی ہے اور اگر کام زیادہ بڑھ گیا اور بجٹ سے زیادہ خرچ ہوا تو میں امید رکھتا ہوں کہ دوست اپنے وعدے پورے کر دیں گے اور وعدوں کی رقوم ملا کر بجٹ سے زیادہ رقم ہو جاتی ہے.اشتہاروں کے متعلق ایک نصیحت میں کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اشتہار تقسیم کرنا نہیں جانتے وہ کسی گلی یا گزرگاہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر آنے جانے والے کو بغیر یہ دیکھے

Page 331

خطبات محمود ۳۲۶ سال ۱۹۳۵ء کہ وہ پڑھا لکھا ہے یا نہیں یا شوق اور دلچپسی رکھتا ہے یا نہیں دیتے چلے جاتے ہیں یا ریلوے سٹیشن پر جا کر یونہی تقسیم کر دیتے ہیں لیکن اس طرح اشتہار ضائع ہوتے ہیں.اشتہارات کی اشاعت پر خرچ کافی آتا ہے اگر چار صفحہ کا ایک اشتہار میں ہزار کی تعداد میں شائع کیا جائے تو اس پر قریباً اسی روپے لاگت آئے گی اور بھیجنے بھیجوانے پر ۷۰ ، ۸۰ روپے اور لگ جائیں گے.گویا قریباً پونے دو سو روپے لاگت آئے گی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے ہمیں بعض اشتہارات دو دو، تین تین ، چار چار لاکھ شائع کرنے چاہئیں لیکن اگر ایک لاکھ بھی کریں تو اس سے پانچ گنا زیادہ رقم خرچ ہوگی اور اس قدر کثیر اخراجات برداشت کرنے کے بعد اگر اشتہارات ضائع ہو جائیں تو یہ کس قدر افسوس کی بات ہے.اس کا مطلب یہ ہو گا کہ گویا ہم خود اپنی طاقت کو ضائع کر رہے ہیں اس لئے میں اس بارہ میں دو نصیحتیں کرتا ہوں ایک تو یہ کہ جو دوست اشتہار خرید سکتے ہوں وہ خرید کریں تا ان کے ثواب کا سلسلہ جاری رہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے تحریک جدید میں چندہ دے دیا ہے اب کیا ضرورت ہے کچھ خرچ کرنے کی.جن کو طاقت ہو وہ ضرور خریدیں تا آئندہ اخراجات کے لئے روپیہ آتا رہے.پھر جو پوری قیمت ادا نہ کر سکیں وہ جس قدر بھی ممکن ہو اس مد میں بھیج دیا کریں اور کم سے کم دسواں حصہ بھی دیا جا سکتا ہے اور اس طرح ۱۲ ہزار روپیہ اس کام پر تحریک جدید سے خرچ کیا جائے تو اتنا ہی جماعت سے وصول کیا جا سکتا ہے پس گو یہ اشتہار مفت تقسیم کے لئے ہی چھپیں گے مگر جن دوستوں کو توفیق ہو وہ اس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کریں.اور جو اپنے حصہ کا سارا بوجھ نہ اٹھا سکیں وہ جس قدر ممکن ہو اُٹھا ئیں اور اس طرح تبلیغ کا ثواب حاصل کریں.دوسری بات اس بارہ میں یہ ہے کہ ایک ایک اشتہار کو قیمتی چیز سمجھا جائے اور زیادہ سے زیادہ وسیع رقبہ میں انہیں پھیلانے کی کوشش کی جائے.دوست سائیکلوں پر سوار ہو کر جائیں اور اردگرد کے علاقہ میں دُور دُور تقسیم کریں.گاؤں میں کسی محفوظ جگہ ایک دفعہ کا اشتہار لگا ہوا کئی کئی ماہ بلکہ سالوں تک لگا رہتا ہے اور گاؤں والے اسے قیمتی چیز سمجھتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں پڑھنے کے لئے عام طور پر کتب اور اخبار وغیرہ نہیں مل سکتے پس اگر دیہات میں جا کر مساجد کے دروازہ پر یا کسی دکان پر ایک دواشتہار بھی لگا دیئے جائیں تو ان سے بہت کافی تبلیغ ہو سکتی ہے یا گاؤں میں اگر کوئی طبیب ہو تو اسے یا نمبر دار کو یا دکاندار کو دے آئیں تو اس سے تبلیغ ہو سکتی ہے وہ خود پڑھے گا اور دوسروں کو پڑھ کر

Page 332

خطبات محمود ۳۲۷ سال ۱۹۳۵ء سنائے گا اشتہارات کی تقسیم کا یہ طریق مفید ہے.ورنہ یونہی بانٹتے چلے جانا قطعا مفید نہیں.بغیر دیکھے بھالے بانٹنے سے ایک لاکھ اشتہار ایک ضلع کے لئے بھی کافی نہیں لیکن اگر عمدہ طریق سے تقسیم کئے جائیں تو ایک لاکھ اشتہار سارے ملک کے لئے کافی ہو سکتا ہے بشرطیکہ مختلف زبانوں میں شائع کیا جائے اگر اس طرح کام کیا جائے تو تمام ہندوستان میں شور مچ سکتا ہے.یہ اشتہار دو قسم کے ہوں گے.ایک تو مذہبی جن میں یہ بتایا جائے گا کہ ہمارے عقائد اور ان کے دلائل کیا ہیں اور دوسرے وہ جن میں احرار کی کارروائیاں ظاہر کی جائیں گی اور بتایا جائے گا کہ یہ لوگ کس طرح ہمیشہ قوم سے غداری کرتے آ رہے ہیں، کن کن مواقع پر غریبوں کا روپیہ لوٹ کر کھا گئے ہیں، ان کا طریق ہمیشہ فتنہ فساد والا رہا ہے گویا ایک طرف تو ہم لوگوں کو ان کے حالات سے آگاہ کریں گے اور دوسری طرف احمدیت سے واقف کرائیں گے اور اس طرح احمدیت کی طرف غور و فکر کی دعوت دیں گے پس یہ پروگرام ہے جو میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں.قادیان کی جماعت بھی اس کے مطابق غور کر کے دس دس بیس بیس میل کے علاقہ میں اشتہارات کی تقسیم اور لیکچروں کا انتظام کرے.یہاں خدا کے فضل سے کئی سو لیکچرار مل سکتے ہیں اور سو ڈیڑھ سو سائیکل ہیں اگر ہر ایک چار پانچ گھنٹے وقت بھی دے تو سب طرف نہایت خوبی سے ٹریکٹ اور اشتہار تقسیم کئے جاسکتے ہیں.اسی طرح باہر کی جماعتیں بھی کام کریں جو لوگ اس رنگ میں تبلیغ کے لئے نام دیں گے انہیں اپنے اپنے علاقہ میں کام دیا جائے گا اور اتنے ہی فاصلہ پر بھیجا جائے گا کہ کام کر کے شام کو گھر آ سکیں.پس اس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے میں پہلے قادیان کی جماعت کو اور پھر بیرونی جماعتوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اس کے مطابق جلد از جلد اپنے نام بھجوا دیں تا جون کے آخر سے کام شروع کیا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم ایسے مضامین کا انتخاب کر سکیں جو اسلام اور سلسلہ کے لئے مفید ہوں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام احسن طریق پر پہنچا سکیں.مخالفوں کو دیکھ کر ہمارے دل ان کے لئے بغض سے نہ بھر میں بلکہ ان کے لئے ہمارے دلوں میں حقیقی ہمدردی پیدا ہو.دشمن اگر بدی کرتا ہے تو وہ اپنے اندرونہ کا اظہار کرتا ہے ہمارا مذہب ہمیں ہمدردی سکھاتا ہے اس لئے ہمیں ہمدردی ہی کرنی چاہئے گو اس پروگرام کے ایک حصہ میں ہم احرار کی غلطیاں اور قوم کے متعلق ان کی نقصان رسانیوں کا اظہار کریں گے لیکن جن کے سپرد یہ کام ہو میں انہیں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ سخت کلامی سے پر ہیز

Page 333

خطبات محمود ۳۲۸ سال ۱۹۳۵ء میں سلسلہ کے اخبارات کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ دشمن کی شرارت کو دیکھ کر بھی سخت الفاظ استعمال نہ کیا کریں کہ محبت سختی سے زیادہ اثر کرتی ہے دشمنوں کی گالیوں کوسن کر بھی جوش میں نہ آئیں ہمارے خلاف جو کچھ گند اُچھالا گیا ہے اور اس کے جواب میں ہمارے اخبارات میں جو کچھ لکھا جاتا ہے اگر اس سے بیس گنا زیادہ بھی لکھا جائے تو گو یہ جائز ہے لیکن ہر جائز کام تو نہیں کر لیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ موقع اور محل کے لحاظ سے کون سا کام مفید ہے اسی طرح یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا تبلیغی نقطۂ نظر سے سختی کا جواب سختی مفید ہو گا چونکہ یہ طریق مفید نہیں اس لئے اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ نرمی کے پہلو کو ہمیشہ غالب رکھنا چاہئے.بولنے سے چونکہ میری آنکھ کو تکلیف ہوتی ہے اس لئے زیادہ نہیں بول سکتا اور امید کرتا ہوں کہ اگر دوست اس کی اہمیت کو جو اتنی واضح ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں محسوس کر لیں تو بہت شاندار نتائج نکل سکتے ہیں.( الفضل ۴ ٫ جون ۱۹۳۵ء) سٹریٹس سیٹلمتلس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی.۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینا نگ ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی مجزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ ۷۴۱ مطبوعہ ۱۹۸۷ ء )

Page 334

خطبات محمود ۳۲۹ ۲۱ سال ۱۹۳۵ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان کوئٹہ کا ہیبت ناک زلزلہ اور جماعت احمدیہ کا فرض فرموده ۷ /جون ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پچھلے ہفتہ کو ئٹہ کے علاقہ میں جو زلزلہ آیا ہے وہ ہندوستانی زلزلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا شدید اور ایسا اہم زلزلہ ہے کہ اس کی نظیر قریب کے زمانہ میں نہیں ملتی.بہار کے زلزلہ نے کانگڑہ کے زلزلہ کو مات کر دیا تھا اور اب کوئٹہ کے زلزلہ نے بہار کے زلزلہ کو مات کر دیا ہے.بہار کا زلزلہ چونکہ زیادہ وسیع علاقہ میں پھیلا ہوا تھا اس لئے اُس وقت جانی نقصان کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکا.عام طور پر پندرہ سولہ ہزار موتیں انگریزی علاقہ میں سمجھی گئی تھیں اور نیپال کے علاقہ کی موتیں شامل کر کے اٹھارہ ہیں ہزار موتوں کا اندازہ کیا گیا تھا لیکن اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بہت سے پہاڑی علاقے ایسے تھے جن کے اندر کی موتوں کا اندازہ لگا نا نہایت مشکل تھا، یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ موتیں اس سے بہت زیادہ تھیں جتنی سمجھی گئیں لیکن مالی لحاظ سے نقصان کانگڑہ کے زلزلہ سے بیسیوں گنا زیادہ ہؤا.اگر کانگڑہ کے زلزلہ میں پندرہ بیس لاکھ روپیہ کا نقصان ہوا ہوگا تو بہار کے زلزلہ میں کروڑوں

Page 335

خطبات محمود ۳۳۰ سال ۱۹۳۵ء.روپیہ کا نقصان ہوا.اس کے بعد اب کوئٹہ کا زلزلہ آیا ہے دو ہزار موتوں سے ابتدا کر کے چھپن ہزار موتوں تک کا اقرار اس وقت تک کیا جا چکا ہے گویا کانگڑہ اور بہار کے زلزلہ سے اڑھائی گنا یا اس سے بھی زیادہ موتیں واقع ہوئیں اور ابھی درحقیقت پوری طرح علم نہیں ہو سکا کہ کس قد راموات ہوئیں.جو اندازہ بتایا جاتا ہے اس کے لحاظ سے صرف کوئٹہ کی موتیں اس سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں جتنی بیان کی جاتی ہیں اس لئے کہ کوئٹہ کی آبادی چھتیں ہزار بیان کی جاتی ہے اور گرمیوں کے دنوں میں باہر کے ان لوگوں کو ملا کر جو وہاں تبدیلی آب و ہوا کے لئے چلے جاتے ہیں ساٹھ ہزار تک تعداد پہنچ جاتی تھی.مردم شماری چونکہ جنوری میں ہوتی ہے اور یہ پہاڑی علاقوں میں خصوصیت سے سخت سردی کے دن ہوتے ہیں اور اکثر لوگ میدانی علاقوں میں واپس آ جاتے ہیں اس لئے تعداد کا جو بھی اندازہ کیا جائے گرمیوں میں باہر سے آنے والے لوگ اس تعداد میں اضافہ کر دیتے ہیں اور اس طرح آبادی اصل آبادی سے بہت زیادہ ہو جاتی ہے مثلا شملہ کی آبادی سردیوں کے ایام میں بہت کم ہو جاتی ہے مگر گرمیوں کے دنوں میں اس سے قریباً تین گنے زیادہ بڑھ جاتی ہے.کوئٹہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی اوسط آبادی چھتیں ہزار ہے اور چوبیس ہزار اگر اس میں وہ لوگ شامل کر لئے جائیں جو گرمیوں میں وہاں چلے جاتے تھے تو یہ تعداد ساٹھ ہزار بن جاتی ہے چھاؤنی اور اس کے متعلقات کی آبادی چوبیس ہزار ہے اس طرح یہ تمام تعداد مل کر چوراسی ہزار بن جاتی ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ زلزلہ کی نقصان رسانی سے اکثر فوج کے لوگ محفوظ رہے اور کوئٹہ کی آبادی میں سے دس ہزار لوگ بچے اب اگر یہ سمجھ لیں کہ دس ہزار چھاؤنی میں سے اور دس ہزار کوئٹہ شہر میں سے بچے تو اندازہ یہ ہے کہ صرف کوئٹہ کا چونسٹھ ہزار آدمی اس زلزلہ سے ہلاک ہوا اگر ہم چار ہزار کی تعداد اس میں سے اور بھی کم کر دیں تو بھی کوئٹہ میں ساٹھ ہزار موتوں کا اندازہ ہے مگر یہ زلزلہ صرف کوئٹہ میں ہی نہیں آیا بلکہ تمیں چالیس میل کے حلقہ یا اس سے بھی زیادہ حصے میں آیا اور کئی اور شہر اور دیہات بھی برباد ہو گئے بلکہ بعض بستیوں کی بستیاں اس طرح نیست و نابود ہو گئیں جس طرح کوئٹہ نابود ہو گیا.قلات ، مستونگ اور بعض دوسرے شہروں کے متعلق بھی لکھا ہے کہ ان میں کئی ہزار اموات ہوئیں اور اگر کوئٹہ کے ہلاک شدگان کی فہرست میں اس ہلاکت کو بھی شامل کر لیا جائے تو موتوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے سارے بلوچستان کی آبادی ساڑھے تین لاکھ ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ بقیہ علاقوں میں اتنی

Page 336

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء آبادی نہیں جتنی کوئٹہ میں تھی اس لئے اگر موتوں کی کثرت کا اعتبار کیا جائے اور تمیں چالیس ہزار اور علاقوں کی موتیں سمجھی جائیں تو درحقیقت بلوچستان میں نوے ہزار یا ایک لاکھ تک موتوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے.پھر سب سے عجیب بات جو اس زلزلہ میں ہے یہ ہے کہ اموات کی تعداد زخمیوں اور زندوں سے بہت زیادہ ہے باقی علاقوں کے زلزلوں میں اموات کی تعداد مُردوں اور زخمیوں سے بہت کم تھی.بہار میں شاید دس فیصدی لوگ مرے تھے اور توے پچانوے فیصدی بچ گئے تھے لیکن کوئٹہ کے زلزلہ میں کم سے کم گورنمنٹ کا اندازہ یہ ہے کہ ستر فیصدی لوگ مرے اور عام لوگوں کا اندازہ یہ ہے کہ نوے فیصدی مرگئے گویا بہار کے زلزلہ کی کیفیت کوئٹہ میں بالکل الٹ گئی.بہار میں اگر دس فیصدی مرے تھے تو نوے فیصدی بچ گئے تھے اور یہاں اگر دس فیصدی بچے تو نوے فیصدی مر گئے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب نہ صرف کوئٹہ شہر نہیں رہا بلکہ اور بھی کئی شہر اور بستیاں دنیا سے مٹ گئیں اور ان کی جگہ نئے شہر اور بستیاں بسیں گی.یہ استثنائی صورتیں ہیں کہ کسی گھر کے زیادہ آدمی بچ گئے بیشتر مثالیں اس قسم کی ہیں کہ ایک گھر میں سے ایک آدمی بھی نہیں بچا اور ہزاروں مثالیں اس قسم کی ہیں کہ اگر گھر میں دس آدمی تھے تو 9 مر گئے اور ایک بیچ رہا یا آٹھ مر گئے اور دو بیچ رہے یا سات مر گئے اور تین بچ گئے پھر یہ واقعہ ایسا اچانک اور غیر متوقع طور پر ہوا کہ لوگوں کو سنبھلنے کی مہلت بھی نہیں ملی.اگر لوگوں کا زیادہ حصہ بچ جاتا تب بھی کہا جاتا ایک آفت آئی مگر ٹل گئی لیکن یہاں تو ایک شہر تھا جو نہ رہا، کئی بستیاں تھیں جو نابود ہو گئیں ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ بعض شہر ایسے ہیں کہ جب وہ تباہ ہو جائیں گے تو لوگ کہا کریں گے کہ یہاں فلاں شہر آباد ہوا کرتا تھا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ :.کئی نشان ظاہر ہوں گے.کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہو جائیں گے.وہ دنیا کو چھوڑ جائیں گے.ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا.وہ قیامت کے دن ہوں گئے.اگر تم ان الہامات کی صداقت دیکھنا چاہتے ہو تو لاہور ، امرتسر، ملتان اور راولپنڈی وغیرہ شہروں میں چلے جاؤ اور ان لوگوں کو دیکھو جو اب کو ئٹہ چھوڑ کر یہاں آئے ہیں.انہیں اس شہر کو چھوڑے تین تین چار چار دن ہو گئے ہیں مگر اب تک ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے.دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ جب مجروح اور زلزلہ سے بچے ہوئے لوگ پیشل ٹرینوں کے ذریعہ واپس آتے ہیں تو لوگ

Page 337

خطبات محمود ۳۳۲ سال ۱۹۳۵ء دیوانہ وار روتے ہوئے سٹیشنوں پر ادھر اُدھر اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں دوڑے پھرتے ہیں اور جب انہیں اپنا کوئی رشتہ دار نظر نہیں آتا تو ان کے نالہ و بکا سے ماتم بپا ہو جاتا ہے.ایک اخبار کا نامہ نگار لکھتا ہے کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا وہ اس طرح سٹیشن پر پھر رہی تھی جس طرح ایک شرابی نشہ میں مدہوش ہو کر لڑھکتا پھرتا ہے.وہ کبھی دائیں گرتی کبھی بائیں اور روتی ہوئی کہتی سارے ہی مر گئے کوئی بھی نہیں بچا.بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب مصیبت زدہ لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئٹہ کا کیا حال ہے تو وہ جواب دینے کی بجائے چینیں مار کر رو پڑتے ہیں.پھر کئی آدمی اس صدمہ کی وجہ سے پاگل ہو گئے ہیں.کوئٹہ سے ملتان کو گاڑی آ رہی تھی کہ راستہ میں دو عور تیں شدت غم کی وجہ سے پاگل ہو گئیں ایک اور شخص بھی دیوانہ ہو گیا اور اس نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دی.غرض یہ ایسا دردناک نظارہ ہے کہ اس نظارہ کو دیکھنے والے تو کیا پڑھنے والے بھی پڑھ کر حیران ہو جاتے اور ان کے دل کرب و اضطراب سے بھر جاتے ہیں.اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ کر غور کر و اس سے کسی وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خدا میں کتنی زبر دست طاقت ہے اور وہ کس طرح ایک سیکنڈ میں ساری دنیا کو ختم کر سکتا ہے.لوگ دلیلیں مانگتے ہیں اور پوچھا کرتے ہیں قیامت کس طرح آ سکتی ہے.وہ اپنی قوت فکر کو وسیع کر کے دیکھیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ اسی طرح تمام دنیا پر قیامت آ سکتی ہے.جس طرح کوئٹہ میں قیامت آ گئی.جہانگیر کے متعلق مشہور ہے اس نے نور جہاں کو ایک دفعہ دو کبوتر دیئے.اور کہا انہیں پکڑے رکھنا میں کسی ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں.نور جہاں اُس وقت چھوٹی لڑکی تھی جب وہ واپس آیا تو اُس نے دیکھا کہ نور جہاں کے ہاتھ میں صرف ایک کبوتر ہے دوسرا نہیں.جہانگیر نے پوچھا دوسرا کبوتر کدھر گیا ؟ نور جہاں نے کہا اُڑ گیا.جہانگیر نے غصے سے پوچھا کس طرح اُڑ گیا.اس پر نور جہاں نے اپنا دوسرا ہاتھ جس میں کبوتر پکڑا ہوا تھا کھول دیا اور کہا اس طرح.نور جہاں جو بات جہانگیر کو بتا سکتی تھی کیا لوگوں کی عقل اس بچی جتنی بھی نہیں کہ وہ لوگ کوئٹہ کے حالات دیکھ اور سن کر سمجھیں قیامت اس طرح آ سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے اس زلزلہ کے ذریعہ قیامت کی جو دلیل دی ہے نور جہاں نے اسی رنگ میں دی تھی جس طرح اس نے جب اس سے پوچھا گیا کہ کبوتر کس طرح اُڑ گیا ؟ اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر بتایا کہ اس طرح.اسی طرح لوگ کہتے تھے قیامت کس طرح آ سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے کوئٹہ میں دکھا دیا ہے کہ اس طرح.جس جگہ

Page 338

خطبات محمود ۳۳۳ سال ۱۹۳۵ء کی نوے فیصد آبادی مرسکتی ہے کیا وہاں کی باقی ۱۰ فیصدی آبادی کو خدا تعالیٰ ہلاک نہیں کر سکتا ؟ اور جو خدا پچاس ساٹھ میل کے علاقہ میں قیامت بپا کر سکتا ہے کیا وہ ساری دنیا میں قیامت بپا نہیں کر سکتا ؟ جس خدا نے کو ئٹہ میں قیامت بپا کر دی یقیناً وہی خدا ساری دنیا میں قیامت بپا کر کے اسے نابود کر سکتا ہے مگر افسوس کہ لوگ پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے اور وہ اس قدر کھلے نشانات دیکھ کر پھر بھی خدا تعالیٰ کے اس مأمور کی طرف توجہ نہیں کرتے جسے اس نے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا اور جس کی صداقت میں زبردست انذاری نشانات دکھا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ زلزلہ کا نشان خدا تعالیٰ پانچ دفعہ دکھائے گا.اور چونکہ یہ الہام زلزلہ کانگڑہ کے بعد ہوا اس لئے یہ یقینی بات ہے کہ ابھی تین اور ہیبت ناک زلزلے آنے والے ہیں پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ پانچ زلزلے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد آئیں گے.سے اگر کانگڑہ کے زلزلہ کو شامل کر لیا جائے تب بھی دو زلزلے باقی رہتے ہیں ہر دفعہ کا زلزلہ پہلے کی نسبت زیادہ نقصان دہ اور دہشتناک ہوتا ہے.کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو لوگوں نے خیال کیا کہ اس سے زیادہ خطرناک زلزلہ اور کیا ہو سکتا ہے ، جاپان سے بڑے بڑے ماہرین آئے اور انہوں نے کہا کہ اب سو سال تک ہندوستان میں کوئی زلزلہ نہیں آسکتا لیکن ان کے اس فیصلہ پر ابھی تہیں سال بھی نہ گزرے تھے کہ بہار میں کانگڑہ سے بڑھ کر خطر ناک زلزلہ آیا اور ایک سال ہی گزرا تھا کہ اب کوئٹہ کی تباہی ہوگئی.کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد پنجاب ، یو.پی ، مدراس اور بمبئی کے علاقوں میں سے کس حصہ میں باقی تین زلز لے آنے والے ہیں.دنیا کا پیدا کرنے والا خدا اپنے مسیح موعود کے ذریعہ کہتا ہے کہ میں پانچ دفعہ اپنے نشانات کی چمک دکھلاؤں گا وہ کہتا ہے :.چمک دکھلاؤں گاتم کو اس نشاں کی پنج بار گویا یہ زلزلے کے نشانات چمک کی طرح ہوں گے جس طرح بجلی کوندتی اور ایک سیکنڈ میں ادھر سے اُدھر چلی جاتی ہے اس طرح یہ زلزلے بھی زیادہ دیر نہیں رہیں گے ایک دومنٹ میں ہی لوگوں کا کام تمام کر دیں گے پھر یہ زلزلے کچھ کچھ وقفہ کے بعد آ ئیں گے اور مختلف جگہوں میں آئیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دنیا کو مخاطب کر کے فرما یا کسی جگہ کے لوگ بھی ان آفات سے مامون نہیں.ھے

Page 339

خطبات محمود ۳۳۴ سال ۱۹۳۵ء پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوتا ہے کہ طاعون آئے گی 1 اور اس کے متعلق چند مرتبہ الہام ہو کر خاموشی ہو جاتی ہے اس کے بعد الہامات کے مطابق طاعون آتی اور اس کا لمبا سلسلہ چلتا ہے پھر طاعون دنیا کے اکثر حصہ سے معدوم ہو جاتی ہے ایک خاص وبا کے متعلق الہام ہوتا ہے اور ایک دفعہ سے زیادہ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاتا اس کے مطابق انفلوئنزا آتا اور ایک سال کے اندر اندر ساری دنیا پر چھا جاتا ہے مگر پھر غائب ہو جاتا ہے لیکن زلزلہ کے متعلق اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دیتا ہے اور متواتر الہام ہوتے ہیں یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو جاتی ہے ابتدائی کئی سالوں میں زلزلہ کے متعلق الہامات ہوتے ہیں.۱۹۰۵ء میں زلزلہ کے متعلق الہام ہوتے ہیں پھر ۱۹۰۶ ء میں زلزلہ کے متعلق الہام ہوتے ہیں، ۱۹۰۷ء میں زلزلہ کے متعلق الہام ہوتے ہیں اور زلازل کے متعلق آپ کے الہامات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو جاتی ہے اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ زلازل کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ متعدد آئیں گے، مختلف ممالک میں آئیں گے.خود الہامات کی مختلف نوعیت عذاب کی مختلف نوعیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے.طاعون کے متعلق الہام ہوتے ہیں تو چند دفعہ کے الہام کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے ، انفلوئنزا کے متعلق الہام ہوتا ہے تو ایک دفعہ کے الہام کے بعد اس کے متعلق کوئی اور الہام نہیں ہوتا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ طاعون آئے گی اور چلی جائے گی ، انفلوئنزا آئے گا اور غائب ہو جائے گا لیکن زلازل کے متعلق آپ کو متواتر الہامات ہوتے رہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لمبا سلسلہ ہے اور مختلف علاقوں اور مختلف وقتوں سے مخصوص ہے زلزلے آئیں گے اور متواتر آئیں گے اور دنیا کے ہر حصہ میں آئیں گے مگر نادان کہتے ہیں احمدی لوگوں کے مصائب پر خوش ہوتے ہیں مگر یہ اعتراض کرنے والے انہی لوگوں کی ذریت میں سے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ بدر کی جنگ میں کفار کے قتل ہونے پر رسول کریم ﷺہ خوش ہوئے.یہ انہی لوگوں کی ذریت میں سے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس قحط پر خوش ہوئے جو اُن کی بریت کے نشان کے طور پر اللہ تعالیٰ نے پھیلایا.یہ انہی لوگوں کی ذریت میں سے ہیں جو اعتراض کیا کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی غرقابی پر خوش ہوئے.یہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جو لوگ مظہر ہوتے ہیں وہ انذاری نشانات کے پورے ہونے پر ایک ہی

Page 340

خطبات محمود ۳۳۵ سال ۱۹۳۵ء وقت خوش بھی ہوتے ہیں اور رنجیدہ بھی.آر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام خدا تعالیٰ کو ربّ العلمین قرار دیتا ہے مگر جب وہ کسی شخص کی جان نکالتا ہے تو وہ اس کی ربوبیت کہاں کر رہا ہوتا ہے.پس اعتراض تو خدا تعالیٰ پر بھی کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی کو مارتا ہے تو اُس وقت اس کے لئے ربّ کہاں رہتا ہے مگر نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی مثال دنیا داروں کی طرح نہیں خدا ایک ہی وقت میں منیت بھی ہوتا ہے اور مجی بھی ، مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے.کون سی موت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی آتی ہے جس کے ساتھ حیات نہیں ہوتی.ہر موت اپنے ساتھ حیات لاتی ہے.کھانے پینے کی چیزیں مرتی ہیں اور یہ بے شک ان کے لئے ایک موت ہوتی ہے لیکن وہ مر کر کھا د جیسی قیمتی چیز پیدا کر دیتی ہیں.تم روٹی سے ایک روٹی کا کام لے سکتے ہو مگر روٹی کے فضلہ سے دس روٹیاں پیدا کی جاتی ہیں.پس کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں جس پر موت آئے مگر وہ حیات پیدا نہ کرے.نابینا انسان دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ خدا ما ر رہا ہے مگر آنکھوں والا جب دیکھتا ہے تو کہتا ہے خدا زندہ کر رہا ہے اور در حقیقت یہ آنکھ اللہ تعالیٰ کے انبیاء ومرسلین اور ان کی جماعتوں کو ہی ملتی ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف موت کبھی نہیں آتی بلکہ اس کی طرف سے آنے والی ہر موت زندگی کا پیغام اپنے ساتھ لاتی ہے.جنگ بدر میں بے شک مسلمانوں کے بھی کچھ آدمی مارے گئے مگر کیا بدر کی جنگ ہی نہیں تھی جس نے عرب کو زندہ کر دیا، اسی طرح جنگ احد میں کچھ مسلمان مارے گئے اور کچھ جنگ احزاب میں کام آئے مگر انہی جنگوں کے نتیجہ میں جب اہلِ عرب میں اصلاح پیدا ہو گئی تو ان میں ہر ایک شخص کو زندگی کی روح نظر آنے لگی.پھر فتح مکہ کے وقت بھی بعض موتیں ہوئیں لیکن اگر مکہ فتح نہ ہوتا تو عرب کے لاکھوں لوگوں کی زندگی کس طرح ممکن تھی.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان موتوں میں عرب کی زندگی تھی گویا موت میں ان کی زندگی مخفی تھی پس موت بسا اوقات حیات کا موجب ہو جاتی ہے اور یہ موتیں بھی جو کوئٹہ اور اس کے گردو نواح میں ہوئیں حیات کا موجب ہوسکتی ہیں اگر لوگ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اپنی عملی زندگی میں تغیر پیدا کریں.غرض اگر اس عذاب کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں گے اور اس کے مامور کی آواز پر کان دھریں گے تو یہ ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے اور اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں لیکن اگر اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے کہ لوگ ہلاک ہوئے اور دفعہ

Page 341

خطبات محمود ۳۳۶ سال ۱۹۳۵ء ہزاروں موتیں ہو گئیں تو نہ صرف ہم خوش نہیں بلکہ ہم سے زیادہ رنجیدہ ان مصائب پر اور کوئی نہیں.کیا ہمارا اپنے اموال صرف کرنا، لوگوں کو تبلیغ کرنا اور اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرنا اس لئے نہیں کہ بغیر زلزلہ کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان جائیں پس ہماری خواہش تو یہی رہی کہ لوگ بغیر اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھے حق کی طرف رجوع کریں اور بغیر بہار اور کوئٹہ کے زلزلہ کے رونما ہونے کے وہ اس ماً مور کو پہچانیں جو ان کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا مگر یہ احراری تھے جو لوگوں سے کہتے رہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اور اس طرح وہ لوگوں کو ہماری باتیں سننے سے روکتے رہے پس یہ موتیں جو بہار اور کوئٹہ میں ہوئیں ہمارے ذمہ نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری احرار یوں کے سر پر ہے جو کہتے ہیں کہ احمدی جھوٹ کہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے مامور کو مفتری کہہ کر اسے قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں.یہ اموات ان لوگوں کی گردنوں پر ہیں جو آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے بنے پھرتے ہیں وہ قاتل ہیں ان لوگوں کے جو بہار میں مارے گئے ، وہ قاتل ہیں ان لوگوں کے جو کوئٹہ میں مارے گئے ، یہی لوگ وہ تھے جو دنیا سے کہتے رہے سوتے رہو،سوتے رہو، خدا تم پر ناراض نہیں.یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے متعلق جب وہ بیان کی جاتیں کہا کہ یہ شیطان کی طرف سے آنے والا ہے اس کی باتیں پوری نہیں ہوں گی.ان زلزلوں کے آنے سے ایک لمبا عرصہ پہلے خدا کے مامور نے پورے زور سے دنیا کو جگایا اور کہا بیدار اور ہوشیار ہو جاؤ کہ خدا کا عذاب تمہارے دروازے پر کھڑا ہے مگر یہ دشمن قوم اور دشمن دین و ایمان احراری لوگوں سے کہتے رہے سوتے رہو، سوتے رہو.اگر لوگ خدا تعالیٰ کے ماً مور کی بات مان لیتے یا ہماری بات پر ہی کان دھرتے تو نہ یہ زلزلے آتے اور نہ اس قدر موتیں واقع ہوتیں.لوگ کہتے ہیں انکار کرنے والے کوئی ہیں اور زلزلے کہیں آ رہے ہیں ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے قرآن کریم میں آتا ہے اَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ کے یعنی ہم ہمیشہ زمین کو اس کے کناروں سے چھوٹا کرتے آتے ہیں پس یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کناروں سے آتا ہے اور اسی سنت کے مطابق ہندوستان کے کناروں سے یہ زلزلے شروع ہوئے ان زلزلوں سے جو ایسے لوگ مارے جاتے ہیں جو بالکل بے خبر ہوتے ہیں، خدا تعالیٰ اگلے جہان میں ان کی اس مصیبت کو ان کے گناہوں کا کفارہ کر دے گا اور جو کامل اتمام حجت

Page 342

خطبات محمود ۳۳۷ سال ۱۹۳۵ء سے قبل مارے گئے ان کے لئے بھی نقصان نہیں کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو ممکن ہے صداقت ان کے سامنے واضح طور پر پیش کی جاتی وہ پھر بھی غافل رہتے اور اس طرح مجرم قرار پاتے.اصل میں اُن لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو زندہ ہیں جنہوں نے اس عذاب کو دیکھا کیونکہ اگر مرنے والوں سے وہ عبرت حاصل نہیں کرتے اور ان کی موت کو اپنی حیات کا موجب نہیں بناتے اور وہ ہوشیار اور بیدا ر نہیں ہوتے تو پھر یہ بھی خدا تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں.پس لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے ہم خدا تعالیٰ کے اس نشان کو چھپانے کیلئے تیار نہیں جو خدا تعالیٰ نے اس وقت ظاہر کیا.بے شک لوگ کہیں گے یہ ہر چیز بانی سلسلہ احمدیہ پر چسپاں کر دیتے ہیں ، اور بے شک وہ کہیں کہ احمدی لوگوں کی موت پر خوش ہوتے ہیں گو یہ بالکل جھوٹ ہے اور ایسا انسان مفتری ہے جو کہتا ہے کہ ہم لوگوں کی موت پر خوش ہوتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان سے زیادہ رنج اور دکھ پہنچتا ہے لیکن چونکہ اس زلزلہ سے خدا تعالیٰ کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اس لئے ہم مجبور ہیں کہ اسے دنیا کے سامنے پیش کریں ورنہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ٹھہریں گے، وہ ہم سے پوچھے گا کہ جب میں نے دنیا میں ایک عظیم الشان نشان دکھایا تھا تو تم نے اسے کیوں چھپایا.پس با وجود اس مخالفت کے جو آج دنیا میں ہماری ہو رہی ہے ہم مجبور ہیں کہ اس نشان کو لوگوں کے سامنے پیش کریں بغیر کسی قسم کے خطرہ اور خوف کے پیش کریں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس نشان کو ضرور بہتوں کی ہدایت کا موجب کرے گا.آخر خدا تعالیٰ کی چمکا ر ضائع نہیں جا سکتی پھر جس نشان کے متواتر دکھانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہو یقیناً اس میں لوگوں کے لئے بہت بڑی ہدایت مخفی ہوتی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ زلزلہ نشان تھا تو پھر بعض احمدی اس میں کیوں فوت ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض صحابہ جنگوں میں فوت ہوئے ، جنگوں میں کفار کے مقابلہ میں صحا بہ بھی شہید ہوتے رہے مگر چونکہ ان کی نسبت بہت قلیل ہوتی تھی اس لئے نشان کی صداقت مشتبہ نہیں ہو سکتی تھی اسی طرح زلزلہ کوئٹہ میں ہماری جماعت کے قریباً دس فیصدی لوگ فوت ہوئے ہیں حالانکہ اس کے مقابلہ میں مخالفوں کے گھروں میں نوے فیصدی موتیں ہوئی ہیں پس دوسرے توے فیصدی مرے اور ہم نوے فیصدی بچے یہی حال صحابہ کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا صحا بہ کم مارے جاتے تھے اور مخالف زیادہ مارے جاتے.

Page 343

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء غرض اب بھی وقت ہے دنیا اس نشان کو سمجھے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے.دیکھو ! موت کوئٹہ میں نہیں آئی بلکہ سارے پنجاب میں آئی ہے کوئی ضلع ایسا نہیں جس میں سے کچھ لوگ کوئٹہ میں نہ تھے کوئی ضلع ایسا نہیں جہاں سے لوگ نہ مرے ہوں پس آج پنجاب کے ہر بڑے شہر میں ماتم بپا ہے اور بہت سے دیہاتوں میں بھی ماتم پڑا ہوا ہے ہمارا فرض ہے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو دنیا تک پہنچا ئیں اور اسے توجہ دلائیں کہ اب بھی وقت ہے وہ ہماری مخالفت چھوڑ دے ورنہ نہ معلوم خدا تعالیٰ کی غیرت اسے اور کیا کچھ دکھائے گی.صاف الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ میری صداقت کے نشان ہیں جو پورے ہو کر رہیں گے جب تک دنیا مخالفت نہیں چھوڑتی ہمارا فرض ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کولوگوں تک پہنچائیں مگر اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے پسماندگان اور مجروحین کی امداد کریں.میں نے اس کے لئے ایک اعلان کیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس مصیبت کا احساس کرتے ہوئے جو کوئٹہ میں نازل ہوئی ہمارے احباب چندہ ینے میں بخل سے کام نہیں لیں گے.اس میں شبہ نہیں ہماری جماعت پر سلسلہ کے کاموں کا بوجھ ہے مگر مؤمن کا یہ کام نہیں کہ وہ قربانی کے کسی موقع سے دریغ کرے پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کریں تا انہیں معلوم ہو کہ ہمارے دل ان کی تکلیف پر خوش نہیں بلکہ زیادہ دُکھی ہیں ہاں اس کے ساتھ ہم مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس نشانِ صداقت کو وضاحت سے بیان کریں مگر اس میں کوئٹہ یا بہار والوں کی خصوصیت نہیں اگر ہمارا کوئی بچہ بھی پیشگوئی کے مطابق مر جائے تو ہمیں اس کی موت پر جہاں غم ہوگا وہاں خوشی بھی ہوگی کہ خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی.ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد جب فوت ہوا تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس سے بہت محبت تھی اس لئے لوگوں کو خیال تھا کہ آپ کو اس کی وفات کا بہت صدمہ ہوگا لیکن جب آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو بیٹھتے ہی آپ نے جو تقریر کی اُس میں فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ء ہے اور ہماری جماعت کو اس قسم کے ابتلاؤں پر غم نہیں کرنا چاہئے پھر فرمایا مبارک احمد کے متعلق فلاں وقت مجھے الہام ہوا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں اُٹھا لیا جائے گا اس لئے یہ تو خوشی کا موجب ہے کہ خدا تعالیٰ کا نشان پورا ہو ا.پس ہمارا اپنا بھائی، بیٹا، یا کوئی اور عزیز رشتہ دار اگر مر جائے اور اُس کی وفات کے

Page 344

خطبات محمود ۳۳۹ سال ۱۹۳۵ء متعلق خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہو تو رنج کے ساتھ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہمیں خوشی بھی ہو گی.خوشی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں غیر سمجھتے ہیں ہم تو انہیں اپنا ہی سمجھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو ان سے بھی زیادہ اپنا سمجھتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ناممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے کسی نشان کو چھپائیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا پر اپنی دونوں خوبیوں کو ظاہر کر دیں ایک طرف خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان قہری نشان کے ذکر کو ہم دنیا میں پھیلائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظہور پذیر ہوا اور دوسری طرف مصیبت زدگان اور مجروحین کی امداد کریں تا دنیا سمجھے کہ ہم جہاں خدا تعالیٰ کا نشان ظاہر ہونے کے بعد اس کی اشاعت میں کسی مصیبت اور ملامت کی پرواہ نہیں کرتے وہاں ہم سے زیادہ ان کا خیر خواہ بھی کوئی نہیں.اگر ہم اپنی ان دونوں خوبیوں کو ظاہر کریں گے تو اس وقت خدا کی بھی دونوں قدرتیں ہمارے لئے ظاہر ہوں گی وہ قدرت بھی جو آسمان سے اُترتی ہے اور وہ قدرت بھی جو زمین سے ظاہر ہوتی ہے.( الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۵ء) ا تذکرہ صفحہ ۷۱۹ طبع چہارم تذکره صفحه ۶۴۸ طبع چهارم 3) تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۹۶ تا ۴۰۳ ( مفهوما ) تذکره صفحه ۶۴۸ طبع چہارم حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۸ تذکره صفحه ۳۱۴ طبع چہارم ك الانبياء: ۴۵

Page 345

خطبات محمود ۳۴۰ ٢٢ سال ۱۹۳۵ء کامیابی کے چارگر فرموده ۱۴ / جون ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے مقدمہ کا فیصلہ سیشن جج گورداسپور نے کر دیا ہے اور بعض اخبارات میں شائع ہو چکا ہے احمدیوں میں سے بھی بہت سے احباب نے اسے پڑھا ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس احمدی نے بھی اسے پڑھا ہوگا اُس کا دل کباب ہو گیا ہوگا اور جس کے دل میں ذرہ بھی ایمان ہو اُس کو وہ فیصلہ پڑھ کر سخت تکلیف ہونا لازمی امر ہے کیونکہ اس میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت تو ہین کی گئی ہے اور آپ کا ذکر عیاش ، متکبر ، متمرد وغیرہ الفاظ سے کیا گیا ہے.پیشتر اس کے کہ کوئی مخلص اپنے اخلاص اور جوش کی وجہ سے قدم اٹھائے ، میں چاہتا ہوں کہ اس پوزیشن کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے اور اس حکومت کی وجہ سے جو آپ لوگوں نے میری بیعت کر کے اپنے اوپر قبول کی ہے اس معاملہ میں جماعت کی راہنمائی کروں.میرے نزدیک ہمیں پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ حکومت اس فیصلہ کے بارہ میں کیا قدم اُٹھاتی ہے کیونکہ اگر حکومت چاہے تو وہ دو ماہ کے عرصہ کے اندر اندر اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے اس عرصہ میں جماعت کے لوگ خاموش رہیں اگر حکومت ہمارے احساسات کو جو صدمہ پہنچا ہے اُس کا ازالہ کر دے تو پھر سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک ایسا ذریعہ نکال دیا ہے جس سے ہم بغیر ذاتی قربانی کے اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اگر حکومت اپنے رویہ سے یہ ثابت

Page 346

خطبات محمود ۳۴۱ سال ۱۹۳۵ء کرے کہ وہ خوش ہے تو پھر قانونی اور علمی رستے بھی ہمارے لئے کھلے ہیں.قانون ہمیں بھی اجازت دیتا ہے کہ جا کر اپیل کریں اور ثابت کریں کہ ہمارے متعلق جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ غلط ہیں اور علمی طور پر بھی ہمارے پاس ایسا مصالحہ موجود ہے کہ جواب دے سکیں.باقی رہا وہ جواب جو احراری دیتے ہیں کہ جس نے گالی دی اُسے مار دیا، اس کے ہم قائل نہیں اور اسے سراسر نا جائز سمجھتے ہیں بلکہ ہماری جماعت میں سے اگر کوئی ایسا فعل کرے تو ہم اسے قابل نفرت سمجھتے ہیں.ہاں جائز رستے ہمارے لئے کھلے ہیں اور ان پر ہم آج بھی چل سکتے ہیں اور دو ماہ بعد بھی ہائی کورٹ کا دروازہ جس طرح ہمارے لئے آج کھلا ہے دو ماہ بعد بھی کھلا رہے گا اور علمی طور پر جواب جیسا آج دیا جا سکتا ہے دو ماہ چھوڑ دو سال بعد بھی دیا جا سکتا ہے.ایک اور تیسرا راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں اس کے لئے کسی انتظار کی ضرورت نہیں یہ ہم آج سے ہی شروع کر سکتے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر بچے احمدی کے دل سے جوں جوں وہ یہ فیصلہ پڑھتا ہوگا ساتھ ہی ساتھ بددعانکلتی چلی گئی ہوگی اس کے لئے کسی خطبہ کی ضرورت نہیں اس فیصلہ کو پڑھتے ہوئے اس کے پہلے فقرہ سے ہی ایک احمدی کے دل سے آہ نکلی ہو گی ایسی آہ جو خدا کے عرش کو ہلا دیتی ہے.پس یہ تین رستے ہیں ان میں سے ایک بے شک ابھی سے استعمال ہو رہا ہو گا باقی جو دو ہیں ان کے لئے کچھ دن ہمیں دیکھنا چاہئے حکومت کیا طریق اختیار کرتی ہے حکومت کو اپنی صفائی کا موقع دینا چاہئے.بے شک حکومت سے ہمارے اختلافات ہوئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سمجھیں کہ وہ اپنے فرائض سے غافل ہے بالکل ممکن ہے غلطیاں نادانی سے ہوئی ہوں جس طرح یہ ممکن ہے کہ دیدہ دانستہ سب کچھ کیا گیا ہو اسی طرح یہ بھی تو ممکن ہے کہ نادانی سے غلطیاں ہوئی ہوں اس لئے حکومت کو ثابت کرنے کا موقع دینا چاہئے کہ اب تک جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ نادانی سے ہوئیں اور اب وہ ایسا طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں.ہمیں چاہئے کہ صبر کر کے حکومت کو اپنی بریت کا موقع دیں اور اگر یہ معلوم ہو کہ وہ کچھ نہیں کرنا چاہتی تو پھر ہم کوئی اور ذریعہ اختیار کریں گے.پس یہ دن ہمارے امتحان اور صبر کی آزمائش کے دن ہیں دوسروں کی گالیوں سے جوش میں نہیں آنا چاہئے یہی گالیاں ہمیں پچاس سال سے مل رہی ہیں یہ کوئی نئی نہیں ہیں پھر یہ گالیاں رسول کریم ﷺ کو بھی ملتی تھیں جنہیں صحابہ سنتے اور برداشت کرتے تھے اور جائز ذرائع سے جواب دیتے تھے.پس ہمارا فرض

Page 347

خطبات محمود ۳۴۲ سال ۱۹۳۵ء ہے کہ تکالیف اُٹھا ئیں اور دعائیں کرتے رہیں ہاں جائز ذرائع سے ازالہ کی کوشش بھی ہونی چاہئے.یا درکھو کہ جلد بازی انسان کو کبھی معزز نہیں بنا سکتی جو شخص جلدی کرتا ہے وہ گو یا ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے نفس سے آپ ڈرتا ہے.جو شخص جلدی کرنا چاہتا ہے وہ گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوماہ کے بعد اس کے ایمان کی یہ حالت نہیں رہے گی اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے دل میں آج بھی کوئی ایمان نہیں ہے اور صرف اپنے نفس کو دھوکا دے رہا ہے ورنہ دو ماہ تو کیا وہ سال، دو سال ہیں سال بلکہ سو سال کی پرواہ نہ کرتا اور سو سال کے بعد بھی اس کے دل کی کیفیت ویسی ہی ہوتی جیسی اب ہے.رسول کریم ﷺ نے شرک کی تردید جس زور کے ساتھ پہلے دن کی کیا وفات کے وقت اس میں کوئی کمی آ گئی تھی ؟ نہیں.بلکہ ہر روز جوش بڑھتا گیا جس جوش و خروش سے آپ نے پہلے دن شرک کی تردید کی تھی وفات کے قریب بھی اسی شدت سے کر رہے تھے بلکہ بہت زیادہ جوش کے ساتھ اور یہی فرق بچے اور جھوٹے میں ہوتا ہے.جھوٹے اٹھتے ہیں طوفان کی طرح مگر بیٹھ جاتے ہیں جھاگ کی طرح.اور نیچے اٹھتے ہیں ایسے طوفان کی طرح جو آخر میں جا کر اور بھی شدت اختیار کر لیتا ہے.رسول کریم ﷺ نے جب دعوی کیا تو فرمایا کہ شرک چھوڑ دو اور وفات کے وقت شرک کی مذمت آپ اس سے بہت زیادہ جوش سے کرتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وفات کے قریب آپ سخت کرب میں تھے اور کرب کی وجہ سے ادھر اُدھر کروٹیں بدل رہے تھے اور اس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اللہ تعالیٰ لعنت کرے یہود و نصاری پر کہ کم بختوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا لے اس کا مطلب یہی تھا کہ اے مسلمانو! اگر تم ایسا کرو گے تو تم پر بھی لعنت ہو گی گو یا وفات کے وقت جب انسان کو سب کچھ بھول جاتا ہے اُس وقت بھی آپ یہی تعلیم دے رہے تھے.پس مؤمن کے لئے بہترین چیز یہی ہے کہ جوشوں کو دبائے اور نیکی و تقوی کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے.تم اگر دنیا میں کامیابی چاہتے ہو تو یا درکھو اس کے لئے چار گر ہیں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو جو قوم ان گروں پر کار بند ہو جائے وہ خواہ تعداد کے لحاظ سے کتنی قلیل کیوں نہ ہوا سے کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتی.ایک دنیا دار کی نگاہ میں میری باتیں مضحکہ خیز ہوں گی اور فلاسفر انہیں بیہودہ سمجھے گا لیکن مجھے اس سے کوئی غرض نہیں.میں یہ جانتا ہوں کہ روحانی دنیا میں ان کے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی.پہلی بات یہ ہے کہ تقویٰ پیدا کرو جب تک تقویٰ نہ ہو خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں ہو سکتی.

Page 348

خطبات محمود ۳۴۳ سال ۱۹۳۵ء محض منہ کی لفاظی کبھی کام نہیں دے سکتی دنیا داروں کو تو یہ باتیں سج جاتی ہیں لیکن دینداروں کو نہیں.میں نے پہلے بھی کئی بار ذکر کیا ہے کہ سر سکندر حیات خان صاحب کے مکان پر اس غرض سے ایک میٹنگ ہوئی کہ تحریک کشمیر میں احرار اور کشمیر کمیٹی والے مل کر کام کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس موقع پر چوہدری افضل حق صاحب نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ احمدیت کو کچل دیں گے، مٹا دیں گے موقع کے لحاظ سے اور دنیوی لحاظ سے اگر کوئی شخص جواب دیتا تو وہ دوطرح جواب دے سکتا تھا یا تو کہ دیتا کہ تمہاری ایسی تیسی ایسا کر کے تو دیکھو.یا پھر کہتا کہ ہم احرار کو مٹا دیں گے مگر جب میں نے اس فقرہ کا جواب سوچا تو ان میں سے کوئی فقرہ میرے ذہن میں نہ آیا میں نے سوچا اگر کہوں ایسا کر کے تو دیکھو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے کمزور نہیں حالانکہ میرے نفس میں کوئی طاقت نہیں دوسرا جواب یہ تھا کہ ہم تم کو مٹادیں گے اس کے متعلق میں نے سوچا کہ میں یہ کہنے والا کون ہوں کیا پتہ ہے کہ ہم کسی کو مٹا سکیں گے یا نہیں.پس میں نے اُس وقت وہی جواب دیا جو اس کا سچا جواب ہے کہ مٹانا یا قائم رکھنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ ہمیں مٹانا چاہے تو آپ لوگوں کو کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں لیکن اگر وہ ہمیں قائم رکھنا چاہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور تقویٰ ہی ہے جو انسان کو ایسے دعووں سے بچاتا ہے کہ میں یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا ایسے دعووں کا کیا فائدہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں یا شاید کسی اور جگہ سخت ہیضہ پھوٹا.ایک جنازہ کے موقع پر ایک شخص کہنے لگا یہ لوگ تو خود مرتے ہیں ہیضہ پھیلا ہوا ہے مگر لوگ کھانے پینے سے باز نہیں آتے خوب پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ ہیضہ کے دن ہیں دیکھو ہم تو صرف ایک پھل کا کھاتے ہیں مگر یہ کم بخت ٹھو ستے جاتے ہیں.دوسرے روز ایک اور جنازہ آیا کسی نے پوچھا کس کا ہے؟ تو ایک شخص کہنے لگا ایک پھل کا کھانے والے کا.پس اس قسم کے دعووں کا کیا فائدہ کہ ہم یوں کر دیں گے ؤوں کر دیں گے ہاں اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے وہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوں ہو جائے گا.انکسار کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے اسے بھی چھپائیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِي..ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ہم اور ہمارے رسول غالب ہوں گے اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تمہیں پیس دیں گے تو میں یہ کہ سکتا ہوں کہ اگر تو میری طاقت کا سوال ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر یہ الفاظ احمدیت کے متعلق کہے گئے ہیں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا احمدیت ضرور غالب ہو کر رہے گی خواہ میرے ہاتھوں سے یا

Page 349

خطبات محمود ۳۴۴ سال ۱۹۳۵ء کسی اور کے ہاتھوں سے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ہمیں اتنا یقین ہے کہ جتنا اپنی جان پر بھی نہیں.جو بات ہم اپنی طرف منسوب کریں اس میں انکسار اور عاجزی ہونی چاہئے کیونکہ ہم کیا چیز ہیں نہ ہمارے پاس دولت ہے ، نہ مال ہے اور نہ جائیداد میں ہیں، نہ علم ہے ، نہ جھتے ہیں ، نہ ہمارے پاس فوج ہے، نہ ہمارے پاس حکومت ہے، نہ ترقی کے دُنیوی سامان ہیں اس لئے ہم کیا کر سکتے ہیں لیکن احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق چونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں ان کو ہم بار بارڈ ہراتے جائیں گے بلکہ اگر ان کے اعلان میں ہماری طرف سے کمی آئے تو یہ بے ایمانی کی علامت ہوگی.پس اپنے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا کر و، صداقت اور راستی پیدا کر وایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی سے لڑائی ہوئی تو جس طرح دریا میں پڑا ہوا پتھر پانی سے گھس گھس کر کچھ اور شکل اختیار کر لیتا ہے اسی طرح اصل واقعہ اور بیان کی شکل وصورت ہی بدل دی جائے.اول تو غلطی نہ کرو اور ہر قدم پر احتیاط کرولیکن اگر غلطی کر بیٹھتے ہو تو اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیارر ہو کہ وہ تمہارے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوگی ، وہ تمہاری ترقی کا موجب ہوگی کیونکہ تم آئندہ محتاط رہو گے لیکن اگر کوئی جھوٹ بول کر بیچ جائے تو اس کا ایمان ضائع ہو جائے گا اور آئندہ جرم کی جرات اُسے ہو گی کیونکہ وہ یہی سمجھے گا کہ میں جھوٹ بول کر بیچ سکتا ہوں.پس اگر اللہ تعالیٰ کا فضل چاہتے ہوتو تقویٰ اور خصوصا صداقت اور راستی پیدا کر و.تمہاری زبان اتنی کچی ہونی چاہئے کہ دشمن بھی تمہاری بات سننے کے بعد یہ کہے کہ اب اس کے متعلق مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں.جماعت کے امراء ، سیکرٹری اور محلوں کے عہدے دار ہمیشہ سچ بول کر دکھا ئیں اور دوسروں سے امید رکھیں کہ سچ بولیں.نمازوں کی پابندی کے متعلق میں نے نصیحت کی تھی اس وجہ سے پچھلے دنوں مساجد میں حاضری بہت ہو جایا کرتی تھی مگر اب پھر کم ہو رہی ہے میں نے بتایا تھا کہ محلوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً حاضری لیا کریں اور مجھے بھی ان لوگوں کے متعلق اطلاع دیا کریں جو نمازوں میں نہ آتے ہوں.مگر افسوس کہ عہدہ اور خطاب لینے کے لئے تو ہر شخص تیار ہو جاتا ہے لیکن کام کرنے والے کم ہوتے ہیں.اگر میں مجلس میں ان سے سوال کروں کہ کس کس نے اپنا فرض ادا کیا ہے تو شاید ہی کوئی ہو جو گردن اونچی کر سکے ورنہ سب کی گردنیں نیچی ہو جائیں.اس بات کا ثبوت کہ ان کے ذمہ جو فرض لگایا گیا تھا اسے انہوں نے ادا نہیں کیا یہ ہے کہ میں

Page 350

خطبات محمود ۳۴۵ سال ۱۹۳۵ء نے کہا تھا کہ ہر شخص اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرے اور اگر دوسری میں پڑھنا چاہتا ہو تو اسی حلقہ میں نام بھی لکھوالے اگر اس کے بغیر دوسری مسجد میں جا کر نماز پڑھتا ہے تو وہ قانون کو توڑتا ہے مگر ایسی تبدیلیوں کی مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی.کہتے ہیں چو کفر از کعبه برخیزد کجا ماند مسلمانی اگر قادیان کے محلوں کے بعض صدرا اور سیکرٹری بھی صرف چوہدری بننے کے شائق ہوں تو باہر کی جماعتوں کے عہد یداروں سے کیا امید کی جاسکتی ہے.یہ بات پیش کرنا کہ ہماری مساجد بھری رہتی ہیں کوئی چیز نہیں.میں مانتا ہوں کہ دوسروں کے دس فیصدی لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور ہمارے پچانوے فیصدی لیکن اگر ہمارے پانچ آدمی بھی نماز میں سست ہیں تو یہ ہمارے لئے موت کا دن ہے بلکہ اگر ایک بھی ہم میں سے باجماعت نماز ادا نہیں کرتا تو ہمارے لئے موت کا دن ہونا چاہئے.جو شخص با جماعت نماز ادا نہیں کرتا وہ دوصورتوں سے خالی نہیں یا تو وہ منافق ہے اور ہمارے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا یا پھر پڑھتا ہی نہیں.اگر منافق نہیں اور گھر پر ہی نماز پڑھتا ہے تو بھی وہ سست ہے ت ہے.شریعت کا حکم یہی ہے کہ نماز با جماعت ادا کی جائے یہ بڑی ضروری چیز ہے اور اس بارے میں ایک شخص کی کوتاہی بھی بڑی خطرناک ہے لیکن میں جانتا ہوں ایک سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جو باجماعت نماز ادا نہیں کرتے لیکن اس کی بہت ساری ذمہ داری پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں پر بھی ہے اگر وہ قواعد کی پابندی کراتے تو یہ حالت نہ ہوتی مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی کوئی رپورٹ نہیں کی.شروع شروع میں محلہ دار الرحمت نے کچھ انتظام کیا تھا لیکن عرصہ قریب میں ایک محلہ والوں نے بھی کوئی کام نہیں کیا.وہ لوگ جو ایسے سہاروں کے محتاج ہوں وہ ریت کا تو وہ ہیں قلعہ کی دیوار نہیں کہلا سکتے.سہارے کی ضرورت صرف ٹوٹی ہوئی دیوار کو ہی ہوتی ہے پس جو سہارے کے محتاج ہیں وہ یا تو ٹوٹی ہوئی دیوار ہیں یا تو دہ ریت.اپنے اندر تقویٰ، ایسا تقویٰ پیدا کر وجس سے خدا کا جوڑ تمہارے ساتھ ہو جائے.تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس سے خدا اور بندہ آپس میں پیوست ہو جاتے ہیں اور ایک کو اگر حرکت ہو تو دوسرے کو آپ ہی آپ ہو جاتی ہے.حکومت انگریزی کا جنگ کے وقت سپاہیوں کے لئے قانون ہے غالباً دوسری حکومتوں کا بھی یہی ہو گا کہ رات کو رائفل سپاہی اپنے جسم کے ساتھ باندھ کرسوئے بالخصوص ان افواج کے لئے جو سرحد میں مقیم ہوں اس قانون کی پابندی سختی سے کی جاتی ہے

Page 351

خطبات محمود ۳۴۶ سال ۱۹۳۵ء اس کی وجہ یہ ہے کہ پٹھان لوگ رائفل اٹھا لے جانے کے بڑے شائق ہوتے ہیں اس لئے یہ حکم دیا.گیا ہے کہ بندوق کو ساتھ باندھ رکھو جو بندوق کو اُٹھائے گا ساتھ بندوق والے کو بھی اُٹھائے گا اور وہ جب اُٹھے گا تو بغیر لڑائی کے بندوق اس کے حوالہ نہیں کرے گا.یہی معنی تقوی کے ہیں انسان دنیا میں شیطانی لشکروں سے گھرا ہوا ہے اور تقویٰ کے ذریعہ مؤمن انسان رائفل ہو جاتا ہے جسے خدا تعالیٰ باندھے رکھتا ہے اسے ہلانے سے اللہ تعالیٰ ہل جاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کو ہلائے وہ بچ کر کہاں جا سکتا ہے.پس نمازیں پڑھو، دعائیں کرو، سچ بولو، فتنہ وفساد سے بچو، لوگوں کے حقوق ادا کرو، بڑوں کا ادب کرو، اور چھوٹوں سے حسنِ سلوک سے پیش آؤ ، مالی قربانیاں کرو یہ اصل چیز ہے جو تقویٰ کی جان ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور جس وقت اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں داخل ہو وہ ساری چیزوں کو بھلا دیتی ہے اور آدمی دیوانہ ہو جاتا ہے اس کی حالت بالکل مجذوب کی سی ہو جاتی ہے کچھ عرصہ ہوا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر الہام ہوا تھا کہ :.ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا جسے اللہ تعالیٰ کی پیاری نگاہیں نظر آ جائیں اُسے غیر نظر ہی کب آ سکتا ہے.محبوب کی محبت ایسی زبر دست چیز ہے کہ سب دیگر چیزوں کو پرے ڈال دیتی ہے پھر نہ کوئی مصیبت یا د رہتی ہے اور نہ کوئی رنج ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک نیک عورت تھی جس کا لڑکا بھی بہت نیک تھا ایک دفعہ آپ اس کے گھر علاج کے لئے یا کسی اور وجہ سے گئے تو دیکھا کہ ایک ہی لحاف ہے اور ایک قرآن شریف ہے آپ کو بہت رحم آیا اور آپ نے کہا مائی ! آپ کو بڑی تکلیف ہوتی ہوگی اگر کوئی ضرورت ہو تو بتاؤ میں پوری کر دوں؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے لحاف بھی ہے اور قرآن شریف بھی ہے.قرآن شریف دونوں باری باری پڑھ لیتے ہیں اور رات کو سوتے وقت لحاف لے لیتے ہیں جب ایک پہلو سرد ہو جاتا ہے تو دوسرا بدل کر اسے گرم کر لیتے ہیں میں بیٹے سے کہہ دیتی ہوں کہ کروٹ بدل لے بڑی آرام کی زندگی ہے.دیکھو! کیا محبت ہے.اس نے سوال کی ضرورت ہی نہ سمجھی تم میں سے کتنے ہیں جو سوال نہیں کرتے پھر کتنے ہیں جو حاجت مند کی طرف سے سوال کا انتظار نہیں کرتے اور خود بخود ہی اسے پورا کر دیتے ہیں.جس طرح سوال کرنامذموم فعل ہے

Page 352

خطبات محمود ۳۴۷ سال ۱۹۳۵ء اسی طرح اسلام میں خود بخود حاجت مندوں کی حوائج پورے کرنے کی طرف توجہ نہ کرنا بھی مذموم ہے اس لئے میں نے محلہ والوں کا یہ بھی فرض رکھا تھا کہ غریبوں کی خبر گیری کریں اور ان کے لئے کام بھی مہیا کریں اس طرف بھی توجہ نہیں کی گئی اب بھی روزانہ درخواستیں میرے پاس آتی ہیں کہ اتنے لوگوں کے لئے کپڑوں کی ضرورت ہے ، آٹے کی ضرورت ہے حالانکہ میں کہہ چکا ہوں ہم امداد دینے کو تیار ہیں لیکن لوگوں کے لئے مستقل کام مہیا کرو.پس کامیابی کے لئے سب سے پہلی چیز تقویٰ ہے.دنیا بےشک ہنسے گی کہ کیا بیوقوف آدمی ہے سمجھتا ہے کہ نمازیں پڑھنے ، روزے رکھنے، اور استغفار کرنے سے ہم جیت جائیں گے مگر ہم جانتے ہیں کہ اس سے زیادہ کارگر ہتھیار اور کوئی نہیں.دوسری چیز کا میابی کے لئے تقویٰ کا دوام ہے اگر تمہارے اندر تقویٰ ہے اور تمہاری اولاد کے اندر نہیں تو یہ ایک ایسا درخت ہے جو سوکھ جائے گا اور باغ میں وہی درخت لگایا جاتا ہے جس سے امید ہو کہ وہ لمبے عرصہ تک پھل دے گا پس جس نحل کو تم نے سالہا سال کے مصائب اور اپنے خون سے پہنچ کر پالا ہے وہ اگر آپ ہی سوکھ جائے تو کس قدر افسوس کی بات ہوگی اس لئے یہ چیز نہایت ضروری ہے کہ تم اپنی اولادوں میں تقویٰ پیدا کرو اور اگر یہ سلسلہ جاری ہو جائے تو تم کو کون مٹا سکتا ہے تم سدا بہار درخت ہو جاؤ گے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی.پس میری دوسری نصیحت یہی ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو تو اپنی اولادوں میں تقویٰ اور اخلاص پیدا کرو، محبت الہی پیدا کرو، صداقت پیدا کرو، انہیں غفلت، سستی ، فریب ، دھوکا سے بچاؤ، نیکی کرنے اور نمازوں کی عادت ڈالو، فساد، بددیانتی اور فسق و فجور سے بچاؤ، ان کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو جن پر عمل دنیا کی خاطر نہ ہو بلکہ خدا کیلئے ہو جو شخص دنیا کیلئے با اخلاق ہے وہ صرف با اخلاق ہے لیکن جو اس لئے اعلیٰ اخلاق رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو وہ مذہبی آدمی ہے.تیسری چیز یہ ہے کہ قربانیاں کر و تقویٰ کے بعد اس کی بہت ضرورت ہے تمہارے اندر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کی دائمی خواہش ہونی چاہئے اب سیکرٹری پیچھے پیچھے پھرتے ہیں کہ چندہ دو.بے شک ہر جماعت میں ایسے بھی دوست ہوں گے جو گھر پر آ کر چندہ دیتے ہوں مگر بعض نادہند بھی ہیں اور کئی بار مانگنے پر ادا کرتے ہیں.یاد رکھو! روپیہ کی قربانی سب سے ادنیٰ قربانی ہے اس کے علاوہ جانی قربانیاں ہیں کئی نو جوان زندگیاں وقف کرنے لگتے ہیں تو دوسرے روکتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تو

Page 353

خطبات محمود ۳۴۸ سال ۱۹۳۵ء ہر قسم کی قربانیاں چاہتا ہے یہ نہ سمجھو کہ انگریزی حکومت میں جانی قربانیوں کا امکان نہیں یہ کوئی قرآن کا حکم تو نہیں کہ تم ضرور انگریزی علاقے میں ہی بیٹھے رہو.ایسے علاقے میں بھی جا سکتے ہو جہاں جان کا خطرہ ہو.یہاں تو گو پولیس ہماری مخالف ہو پھر بھی اسے دخل دینا ہی پڑتا ہے لیکن کئی ایسے ممالک ہیں جہاں کوئی حکومت ہے ہی نہیں مثلاً آزاد سرحدی علاقہ ہے چین کے بعض حصے ہیں، امریکہ کے بعض حصے بھی ایسے ہیں ، خود یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ جو اتنی بڑی حکومت ہے وہاں بھی گورے لوگ حبشیوں کو غصہ میں آ کر مار ڈالتے ہیں ، شکاگو میں سینکڑوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں تو دنیا میں ایسے ممالک ہیں جن میں اب بھی قانون کی حکومت نہیں ایسے ممالک میں جان کی قربانی کی ضرورت ہو سکتی ہے.پس احمدیت جانی، مالی اور وقتی سب قسم کی قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے جب تک ہم انہیں ادا نہ کریں اور بغیر تحریک کے ادانہ کریں کامیابی نہیں ہو سکتی.چاہئے کہ ہر شخص خود اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے.چوتھی چیز دعا ہے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو بہت لوگ ہیں جو رسمی دعائیں کرتے ہیں جو ملے گا اسے کہہ دیں گے دعا کرنا مگر دعا کو معمولی چیز نہ سمجھو بلکہ یقین رکھو کہ جب ہمارے دل سے دعا نکلے گی تو زمین و آسمان کو ہلا دے گی.جب تک یہ یقین نہ ہود عاد انہیں بلکہ بکواس ہے دعا محض منہ کے الفاظ یا دماغ کے خیالات نہیں بلکہ ایسی چیز ہے جس کے پیچھے یقین اور ایمان کے پہاڑ ہیں.بچہ ماں سے سوال کرتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ ضرور پورا کر دے گی اور نہ بھی مانے گی تو میں منوا کر چھوڑوں گا.اسی طرح وہی دعا قبول ہوتی ہے جس کے متعلق بندہ یقین رکھے کہ یہ ضرور سنی جائے گی اور میں اسے سنوا کر رہوں گا.جب تک یہ چار باتیں تمہارے اندر پیدا نہ ہوں کا میابی محال ہے اور جب یہ پیدا ہو جائیں گی تو کوئی طاقت تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی.پس اپنے جوشوں کو دباؤ ، محبت سے کام لو، فتنہ و فساد سے بچو اور ایمان وصداقت کے اس راستے پر قائم رہو جو رسول کریم ﷺ نے بتایا اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ آکر زندہ کیا ہے پھر دیکھو تمہاری کامیابی کے رستہ میں کوئی رُکاوٹ نہ ہوگی.اس کے بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ الہامات جو آپ کی زندگی کے آخری ماہ جولائی میں ہوئے گو یا وفات سے نو ماہ قبل ، پڑھ کر سناتا ہوں ان الہامات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کوئی خاص مصائب نہیں آئے جس سے ثابت ہے کہ یہ الہامات آئندہ زمانہ

Page 354

خطبات محمود ۳۴۹ سال ۱۹۳۵ء کے متعلق ہیں.۱۲ جولائی کا الہام ہے رَبِّ أَخْرِجْنِی مِنَ النَّارِ.اے میرے ربّ! ایک جہنم تیار کی گئی ہے اس سے مجھے نکال - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَخْرَجَنِي مِنَ النَّارِ - ہے سب تعریف خدا کے لئے ہیں جس نے مجھے اس آگ سے نکالا.اِنِّی مَعَ الرَّسُولِ اَقُوْمُ - ۵ ایک لشکرِ جرار مقابلہ کے لئے کھڑا ہے مگر میں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہو کر لڑوں گا.الُوْمُ مَنْ يَلُومُ - 1 لوگ اس رسول کو گالیاں دیں گے مگر میں اس پر انہیں ذلیل کروں گا اور زیر ملامت لاؤں گا.پھر الہام ہوتا ہے ” غلام احمد کی جے کردیکھو ان الہامات میں کس طرح بتایا گیا ہے کہ آپ کے متبعین کے لئے ایک جہنم تیار کی جائے گی یہ جہنم چونکہ آپ کے زمانہ میں نہیں ، اس لئے لازماً آپ کے بعد کے زمانہ کے لئے مانی پڑے گی مگر اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کو اس سے بچالے گا ، کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جائیں گی جن کا جواب خود خدا دے گا اور اُس وقت تک تائید الہی ختم نہ ہو گی جب تک احمدیت کی فتح نہ ہو اور دنیا میں غلام احمد کی جے“ کے نعرے بلند نہ ہوں.جے کا لفظ بتا تا ہے کہ اس مخالفت میں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن بتا دیا ہے کہ آخر وہ جے کہنے پر مجبور ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ کے کلام میں خبریں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ابتلاء آئیں گے اور سخت آئیں گے گالیاں دی جائیں گی ہندو بھی مخالفت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا.حتی کہ مخالف بھی پکار اُٹھیں گے کہ غلام احمد کی جے“ پس ان گالیوں سے مت گھبراؤ اور مخالفتوں سے مت ڈرو خدا تعالیٰ کے کلام پر یقین رکھو کہ اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جہنم تیار کئے جانے کی خبر دی ہے اور پھر یہ بھی خبر دی ہے کہ وہ ٹھنڈی کر دی جائے گی.بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جائیں گی مگر یہ بھی بتایا ہے کہ ان کا جواب میں خود دوں گا اور گالیاں دینے والوں کو رسوا کر دوں گا.جو چیز آسمان پر مقدر ہو چکی ہے اسے کون ٹال سکتا ہے.بے شک میں، آپ، اور سارے احمدی مل کر بھی کچھ نہیں کر سکتے مگر جس کا یہ کلام ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور اس نے فرمایا ہے کہ میں کر کے دکھا دوں گا.( الفضل ۱۷ جون ۱۹۳۵ء ) ا بخارى كتاب الجنائز - باب مَايُكْرَه مِنْ اِتِّخَاذِ المساجد على القبور المجادلة: ۲۲ سے تا کے تذکرہ صفحہ ۷۲۳.ایڈیشن چہارم

Page 355

خطبات محمود ۳۵۰ ٢٣ سال ۱۹۳۵ء سچائی پر قائم ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور دعاؤں میں لگ جاؤ فرموده ۲۱ / جون ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد کے فرمایا: جس رنگ میں ہماری جماعت کی مخالفت ان ایام میں ہو رہی ہے ، وہ خود اپنی ذات میں اس امر کی دلیل ہے کہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اُسی سلک میں منسلک ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ابتدائے عالم سے شروع کر کے انتہائے عالم تک لے جانے کا وعدہ کیا ہوا ہے یعنی مامورین کی وہ جماعت جو دنیا کو گمراہی اور ضلالت سے نکال کر صداقت اور راستی کی طرف لاتی ہے.انتہائی عداوت انسان کو دیوانہ بنادیتی اور ہر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتی ہے یہی بات ہمیں آج بھی نظر آتی ہے کہنے کو کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ایک مہذب حکومت کے ماتحت ہے ایسی حکومت کے ماتحت جو قانون کا احترام کرتی اور قانوں کا احترام کرنا سکھاتی ہے لیکن ہمارا گزشتہ دنوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسی زبر دست حکومت کے ماتحت ایسی حکومت جو قانون کے احترام کے لئے مشہور ہے ہمارے معاملہ میں قانون کا احترام کرنے سے قاصر رہ گئی ہے کیونکہ ہمارے مقابلہ میں ایک ایسی جماعت ہے جو جھوٹ اور فریب سے انتہائی درجہ کا کام لیتی ہے حق کو حکومت پر مشتبہ کرتی رہتی ہے ایک نو جوان اُٹھتا ہے اور ایک جھوٹی کہانی بنا کر لاہور کے ایک یزیدی اخبار میں چھپوا دیتا ہے پھر وہ

Page 356

خطبات محمود ۳۵۱ سال ۱۹۳۵ء سارے ہندوستان میں چکر لگاتی چلی جاتی ہے اس پر ریویو کرنے والے یہ اظہار کرتے چلے جاتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یقیناً فساد اور خون ریزی ہوگی مگر حکومت کا ہاتھ جسے اس کے ایک ذمہ دار افسر نے مفلوج قرار دیا ہے نہ جھوٹی خبر کی اشاعت کرنے والے کو روکتا ہے اور نہ حکومت دھمکیاں دینے والوں سے باز پرس کرتی ہے یہاں تک کہ احمدی جماعت کے ایک فرد پر قاتلانہ حملہ ہو جاتا ہے پھر حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ باتیں معمولی نہ تھیں.میں کہوں گا کہ اس معاملہ میں حکومت سرحد نے حکومت پنجاب سے زیادہ دانشمندی اور انصاف کا ثبوت دیا ہے کیونکہ گو اس نے واقعہ سے پیشتر اس قسم کے خطرہ کو پوری طرح روکنے کی کوشش نہ کی یاممکن ہے اس نے اس قسم کی کوشش تو کی ہومگر ہمارے علم میں نہ آئی ہولیکن وقوعہ کے بعد جس تیزی کے ساتھ اس نے کام کیا ہے اور جس طرح احمد یہ جماعت کے افراد کی حفاظت کے لئے اس نے کوشش کی ہے وہ یقیناً اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صوبہ سرحد کے انگریز حکام اس نیک نام کے قائم رکھنے کے لئے ضرور کوشاں ہیں جو برطانیہ نے سینکڑوں سال کی قربانیوں کے بعد قائم کیا تھا یہ اور بات ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں یا ان کی کوششیں اتنا موثر نتیجه پیدا نہ کرسکیں جتنا وہ پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر مؤمن کسی کی خوبی کا اقرار کرنے سے باز نہیں رہ سکتا.پس چونکہ جور پورٹیں مجھے پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت نے خطرات کو روکنے کے لئے اپنی طرف سے پوری مستعدی سے کام لیا اس لئے میں اس کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں مگر پنجاب میں ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ایک شخص قادیان میں تقریر کرتا اور ہا لوضاحت جماعت احمد یہ اور جماعت کے امام کو دھمکیاں دیتا ہے اس کے بعد پے در پے دو شخص قادیان ایسے آتے ہیں جو جماعت کے امام پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ حملہ سے پہلے پکڑے جاتے ہیں مگر پراسیکیوشن (PROSECUTION) کرنے والے بعض حکام کی طرف سے کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ثابت کیا جائے کہ ان واقعات کا کا نفرس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اشتعال انگیز تقریریں کی جاتی ہیں اور اس کے بعد چند ماہ کے عرصہ کے اندر اندر شورش اور مخالفت کے ایام میں ہی قاتلانہ حملہ کرنے کے ارادہ سے دو شخص کچھ کچھ وقفہ کے بعد قادیان آتے ہیں مگر مقدمہ کی پیروی کرنے والے بعض حکام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ثابت کریں اس کا احراریوں کے جلسہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک اتفاقی بات ہے.گویا اکتوبر کی احرار کا نفرنس کے بعد دو شخصوں کا بد ارادے کے ساتھ

Page 357

خطبات محمود ۳۵۲ سال ۱۹۳۵ء قادیان آنا حکومت پنجاب کے ان افسروں کے نظریہ کے مطابق جو تفتیش کے لئے مقرر تھے محض حسن اتفاق تھا اور اس کے بعد سوائے اس کے کچھ نہیں کیا جاتا کہ ایک اخبار کے نمائندہ کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے جماعت احمدیہ کی حفاظت کا پورا پورا انتظام کیا ہوا ہے اور جب بھی وہ باہر جاتے یا اندر آتے ہیں ، پولیس ان کی حفاظت کرتی ہے.یہاں جس قدر آدمی بیٹھے ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ میرے ساتھ کتنی پولیس ہوتی ہے مگر یہ خبر تمام ہندوستان کے اخباروں میں شائع کرا دی جاتی ہے اور جب ذمہ دار افسروں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ پولیس ہے کہاں جسے حفاظت کے لئے مقرر کیا گیا ہے آخر وہ کوئی جنات کی قسم میں سے نہیں کہ پوشیدہ ہوں اور انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دے تو سوائے خاموشی کے اس کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا.یہ حالات بتاتے ہیں کہ باوجود اس قدیم برطانوی انصاف کے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا جماعت احمدیہ کے معاملہ میں بعض حکام عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے آخر ہم چالیس پچاس سال سے برطانوی انصاف کا اقرار کرتے چلے آئے ہیں اور دوسرے لوگ بھی کرتے آئے ہیں بلکہ ایک لحاظ سے گاندھی جی بھی اس امر میں ہمارے ہمنوا ہیں کیونکہ انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں صرف حکومت کا دشمن ہوں انگریزی قوم کا دشمن نہیں بلکہ اس کا مداح ہوں.پس اگر چہ گالیاں کھانے میں ہم میں اور گاندھی جی میں فرق ہے مگر دعویٰ کے لحاظ سے ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں.اگر فرق ہے تو یہ کہ چونکہ ان کے ساتھ اکثریت ہے، اس لئے احرار ڈرتے ہیں کہ اگر انہوں نے گاندھی جی کی مخالفت کی تو ان کی کھوپڑیاں سہلا دی جائیں گی لیکن ہم چونکہ اقلیت میں ہیں اس لئے وہ ہماری مخالفت کرتے ہیں.غرض اس میں کچھ شک نہیں کہ انگریزی قوم میں انصاف دوسری قوموں کی نسبت بہت زیادہ پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے ( گو ایک حاکم نے اسے اور مفہوم میں استعمال کیا ہے ) یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے معاملات میں بعض حکام کا ہاتھ عدل و انصاف کی تائید میں نہیں اُٹھا.قانون شکنی کی جاتی ہے اور علی الاغلان کی جاتی ہے سرکاری کاغذات کی رو سے ہماری مملوکہ چیزوں پر حملہ کیا جاتا ہے ، ہماری عمارتوں کو گرایا جاتا ہے، ہمارے راہ چلتے آدمیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں، محض افتراء اور جھوٹ کے طور پر ہماری جماعت کے معزز آدمیوں کی نسبت غلط خبریں شائع کی جاتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ فتنہ و فساد کو اور زیادہ بھڑ کا یا جائے.چند آدمی مٹی ڈالنے

Page 358

خطبات محمود ۳۵۳ سال ۱۹۳۵ء کے لئے جاتے ہیں اور جب ان سے ٹوکریاں وغیرہ چھین لی جاتی ہیں اور چند اور آدمی اور چند فوٹو کے کیمرے لے کر فوٹو اتارنے کے لئے جاتے ہیں تو ان پر حملہ کر دیا جاتا ہے حالانکہ کبھی ظالم بھی فوٹو لیا کرتا ہے؟ وہ تو کیمروں کو توڑا کرتا ہے تا کہ اس کے ظلم کا کوئی نشان قائم نہ رہے لیکن انہوں نے فوٹو لئے جو ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ ظالم نہ تھے لیکن فوٹو لینے والوں پر حملہ کر کے ان کے کیمرہ کو توڑ دیا جاتا اور یہ جھوٹی خبر شائع کر دی جاتی ہے کہ مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب موقع پر موجود تھے لیکن ڈر کے مارے بھاگ گئے.غرض ہمارے خلاف احرار کی طرف سے وہ وہ کام کئے جاتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں آزاد سرحدی علاقہ میں بھی نہیں کئے جا سکتے اس لئے کہ اگر وہاں کوئی شخص اس قسم کی حرکت کرتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اس کا مد مقابل بھی اسی قسم کے ہتھیاروں سے کام لے کر اسے جواب دے گا اور اپنی طاقت سے اس کی طاقت کو توڑ دے گا لیکن یہاں یہ لوگ جانتے ہیں کہ احمدی اگر دفاع بھی کریں گے تو ہم یہی شور مچادیں گے کہ انہوں نے حملہ کیا ہے اور اگر وہ روایت درست ہے جو پولیس کے ایک جھوٹے افسر کے متعلق بیان کی جاتی ہے تو احرار کو یہ یقین ہے کہ پولیس کا ایک حصہ ان کی مدد کرے گا اور خود احمد یوں پر ہی فائر کر دے گا.یہ باتیں قادیان میں ہوتی ہیں لیکن ابھی تک حکام بالا کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی.میں ان واقعات کو دُہرا کر گورنمنٹ پر الزام نہیں لگانا چاہتا کیونکہ یہ باتیں نہایت آخری ایام کی ہیں اور ابھی تک ان پر اتنا وقت نہیں گزرا کہ میں حکومت پر الزام رکھ سکوں کیونکہ اس قدر قلیل عرصہ میں حکومت پنجاب فی الواقع کوئی کارروائی نہیں کر سکتی تھی لیکن میں اس سے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ دشمن کو اس حد تک جرات ہوگئی ہے وہ سمجھتا ہے میں جو کچھ چاہوں کر سکتا ہوں.بہر حال تین چار ہفتوں تک پتہ لگ جائے گا کہ گورنمنٹ کیا کرنا چاہتی ہے اور اس کے نزدیک احمدی مظلوم اور احرار ظالم ہیں یا ابھی تک وہ بعض افسروں کے سکھائے ہوئے بیان کے مطابق یہ بجھتی ہے کہ احمدی دوسروں پر سختی کر رہے ہیں ان واقعات کے بعد بھی اگر گورنمنٹ نے کوئی توجہ نہ کی اور نہ کوئی ایسا قدم اُٹھایا جو ان مظالم کو روکے تو سوائے یہ یقین کرنے کے ہمارے لئے کوئی چارہ نہ رہے گا کہ گورنمنٹ ایسے لوگوں سے گھر گئی ہے جو سچی بات اُس تک نہیں پہنچاتے اور اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ حق کو معلوم نہ کر سکے اس لئے آئندہ تین چار ہفتے ہمارے لئے نہایت ہی اہم ہیں ان ہفتوں میں ہمیں اپنے

Page 359

خطبات محمود ۳۵۴ سال ۱۹۳۵ء مستقبل کے متعلق کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوگا.ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آیا پنجاب میں ہم امن سے رہ سکتے ہیں یا نہیں اور اگر رہ سکتے ہیں تو کس طریق پر.اس کے بعد ضروری ہوگا کہ ہم ایسا طریق اختیار کریں جو جماعت کی عزت اور اس کے وقار کا موجب ہو اور اس کے لئے میں قبل از وقت جماعت کو تیار کرنا چاہتا ہوں.میں جماعت کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں ہمیشہ دو طرح لڑائی کی جاتی ہے اور جب سے کہ عالم کا آغاز ہوا وہی دو طریق ہیں جن کے ساتھ لڑائی ہوئی یا تو جھوٹ کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے یا سچ کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے.جھوٹ کے ساتھ لڑائی کرنے کی مثال وہی ہے جو احراریوں کی ہے کچھ مزدور مٹی ڈالنے کے لئے جاتے ہیں مگر مشہور یہ کر دیا جاتا ہے کہ احمدی حملہ کرنے آئے.مالکوں کا ایک نمائندہ پولیس کو اطلاع دینے کے لئے جاتا ہے، اسے بھی حملہ کرنے والوں میں شمار کر لیا جاتا ہے.کچھ لوگ فوٹو کے کیمرے ساتھ لے جاتے ہیں تو انہیں پیٹتے اور مشہور کر دیتے ہیں کہ وہ حملہ کرنے آئے چنانچہ اخبار ”زمیندار“ اور ” احسان میں یہی کچھ شائع ہوا ہے.پس جو مز دورمٹی ڈالنے کے لئے گئے ، وہ بھی حملہ کرنے والے بن گئے جو مالکوں کا نمائندہ پولیس کو اطلاع دینے کے لئے گیا وہ بھی حملہ کرنے والا بن گیا اور جو فوٹو لینے کے لئے گئے وہ بھی حملہ آور قرار پا گئے.پھر ان چار پانچ آدمیوں کے جانے کو اور زیادہ بڑھایا گیا اور کہا گیا جماعت احمدیہ حملہ آور ہوئی اور غیر احمدیوں کے قبرستان پر حملہ آور ہوئی.باہر کے لوگ اس جھوٹ کی اہمیت نہیں سمجھ سکتے مگر تم جو قادیان کے رہنے والے ہو سمجھ سکتے ہو کہ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو بولا گیا جس میں ایک فیصدی بھی سچ نہیں اور پھر یہ جھوٹ بولنے والے وہ ہیں جو آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ کہلاتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں.پس ایک تو جنگ کا یہ طریق ہے کہ فریق مقابل کو بد نام کرنے کیلئے جھوٹ بولا جائے اور نہایت دلیری و بیبا کی سے اسے لوگوں میں پھیلایا جائے پھر آگے اس جھوٹ کے بھی کئی مدارج ہوتے ہیں کوئی سو فیصدی جھوٹ بولتا ہے کوئی نوے فیصدی جھوٹ بولتا ہے کوئی اسی فیصدی جھوٹ بولتا ہے کوئی ستر فیصدی جھوٹ بولتا ہے کوئی ساٹھ فیصدی جھوٹ بولتا ہے کوئی پچاس فیصدی جھوٹ بولتا ہے پھر کوئی موقع ومحل کے مناسب حال جتنا جی چاہے جھوٹ بول لیتا ہے کبھی تھوڑ ا جھوٹ بولتا ہے اور کبھی زیادہ.لیکن ایک اور طریق مقابلہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمیشہ سچائی کو اختیار کیا جائے یہ وہ طریق

Page 360

خطبات محمود ۳۵۵ سال ۱۹۳۵ء ہے جو ہم اختیار کئے ہوئے ہیں ہمارا اصل یہ ہے کہ ہم جو کچھ کہیں گے سچ کہیں گے اگر ہماری غلطی ہوگی تو ہم اس غلطی کا اقرار کرلیں گے اور اگر غلطی نہیں ہوگی تو انکار کر دیں گے.اسی طرح اگر ہمارے کسی آدمی کی غلطی ہوگی تو ہم اسے مان لیں گے نہ ہوگی تو انکار کر دیں گے لیکن دنیا کا عام خیال یہ ہے کہ سچ کے ساتھ فتح نہیں ہو سکتی مگر اس قلیل جماعت کا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام رسانی کا کام کرتی چلی آئی ہے یہ عقیدہ ہے کہ اصل فتح سچ کے ساتھ ہوتی ہے.جب انسان مشکلات سے گھر جاتا ہے ، جب خطرات میں چاروں طرف سے مبتلاء ہو جاتا ہے جب انسان اپنی آزادی کے لئے کوئی چارہ کا رنہیں پاتا اور وہ دیکھتا ہے کہ دشمن جھوٹ بول بول کر اس کے خلاف فتنہ وفساد کی آگ بھڑکا تا چلا جارہا ہے تو اس کا قدم لڑکھڑا جاتا اور وہ یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ میں بھی کیوں جھوٹ نہ بولوں اور کیوں جھوٹ کا جھوٹ سے مقابلہ نہ کروں لیکن وہ جان جو اپنی آزادی اور بچاؤ کے لئے جھوٹ بولتی ہے اس سے زیادہ ذلیل اور کوئی جان نہیں ہو سکتی اور اگر اس نے اپنی حفاظت کے لئے سچ کو قربان کر دیا تو اس کے بچانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی.ان دو چیزوں میں سے ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم کون سی چیز اختیار کریں.میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم کون سی چیز اختیار کریں تو میں اُن کمزوروں اور منافقوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتا ہوں جنہوں نے ابھی تک سچائی کی قدرو قیمت کو نہیں پہچانا اور نہ ہم نے تو دیکھا ہوا ہے کہ سچائی کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی.پس میں جب ہم “ کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو ان منافقوں کے لئے جن کے لئے یہ بات ابھی کھلی نہیں ورنہ ان کو مستی کرتے ہوئے تو ہم پر یہ بات تو ہمیشہ سے کھلی ہوئی ہے کہ سچائی سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں اور یہ کہ سچ کی حفاظت کے لئے جان کا ضائع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں.اگر سچ کسی انسان کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے اور وہ جھوٹ بول کر اپنی جان بچا لیتا ہے تو اس جان کی کوئی قیمت نہیں.مؤمن اسی زندگی کو حقیقی زندگی اور اسی فتح کو حقیقی فتح سمجھتا ہے جس کے ساتھ سچ کو وہ بچالیتا ہے.پس اس وقت دشمن ہمارے خلاف جو سامان تیار کر رہا ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مخالفت کا سلسلہ کب تک جاری رہے ممکن ہے دو سال، تین سال ، چار سال یا پانچ سال رہے اور ممکن ہے دس بیس برس رہے.پھر نا معلوم وہ کس کس طریق سے مخالفت کرے گا اور کس کس رنگ میں ہماری جانوں اور عزتوں پر حملہ کرے گا اور اگر حکام کا ایک حصہ بھی بدستور مخالف رہا تو ایسی

Page 361

خطبات محمود ۳۵۶ سال ۱۹۳۵ء صورت میں جو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں وہ ظاہر ہیں ایسے موقعوں پر کمزور لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ آؤ ہم بھی جھوٹ کا جھوٹ سے مقابلہ کریں پس میں ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ سچائی اور جھوٹ میں کبھی جوڑ نہیں ہو سکتا.دیکھو! تمہارے سامنے ایک ایسی چیز ہے جو قیامت کا نظارہ اپنے اندر رکھتی ہے اگر ایک مقدس ترین چیز انسان کے پاس ہو اور وہ اکیلا دشمنوں کے نرغہ میں گھرا ہوا ہو اور چاروں طرف سے لوگ اس سے وہ قیمتی چیز چھینے کی کوشش کر رہے ہوں تو جس رنگ میں وہ جان توڑ کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح آج ہماری حالت ہے اور ہمیں بھی احمدیت کے بچانے کا ایسا ہی فکر ہونا چاہئے.ہم اکیلے ہیں اور دشمن ہمارا چاروں طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے وہ چاہتا ہے کہ احمدیت کو کچل دے پس ہمیں اس جنگ کی اہمیت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور مستقبل قریب میں جو حالات پیش آنے والے ہیں ہمیں ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے آج ماضی پھر دُہرایا جانے والا ہے اور پھر گزشتہ انبیاء کے دشمنوں کے حالات تمہارے سامنے رونما ہونے والے ہیں.خدا تعالیٰ نے جس شخص کو ہماری ہدایت کیلئے مبعوث کیا ہے اس کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ ہے یعنی تمام انبیاء کا لباس اسے دیا گیا ہے اگر تمام انبیاء کا لباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا ہے تو کیا ان انبیاء سے مقابلہ کرنے والوں کا لباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکرین کو نہیں دیا گیا پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جَرِيٌّ اللهِ فِي حُلَلِ الانْبِيَاءِ ہیں اور آپ تمام انبیاء کے حلوں میں مبعوث ہوئے اس لئے تم دیکھو گے کہ وہ دشمن جو آدم کے مقابلہ پر کھڑا ہوا وہ تمہارے مقابل پر بھی کھڑا ہو گا تم دیکھو گے کہ وہ دشمن جو نوح کے مقابلہ پر کھڑا ہو وہ تمہارے مقابل پر بھی کھڑا ہوگا، تم دیکھو گے کہ وہ دشمن جوا براہیم کے مقابلہ پر کھڑا ہو ا تمہارے مقابل پر بھی کھڑا ہوگا ، اور تم دیکھو گے کہ موسیٰ اور داؤد اور سلیمان اور عیسی علیھم السلام کا دشمن اور رسول کریم ﷺ کا دشمن بھی نئے نئے حلے پہن کر آئے گا کیونکہ جس طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء اپنے ایک مثیل کی شکل میں آئے اسی طرح انبیاء کے مخالفین بھی اپنے مثیلوں کی شکل میں رونما ہوئے ہیں پس یہ معمولی مقابلہ نہیں بلکہ نہایت ہی اہم مقابلہ ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ گل اس کی جان اس مقابلہ میں بچے گی یا ضائع ہو جائے گی ، کون کہہ سکتا ہے کہ کل اس کی عزت اس مقابلہ میں محفوظ رہے گی یا بر باد ہو جائے گی ، کون کہہ سکتا ہے کہ کل اس کا خاندان اس مقابلہ میں قربان ہو جائے گا یا بچ رہے گا اور اگر تم اپنی جان ، اپنے مال ، اپنی عزت اور

Page 362

خطبات محمود ۳۵۷ سال ۱۹۳۵ء اپنی آبرو کی قربانی کرتے ہو تو مت خیال کرو کہ تم نقصان اُٹھاتے ہو یہ سب عارضی چیزیں ہیں جو آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں.یاد رکھو یہ آخری جنگ ہے جو شیطن اور رحمن کی فوجوں میں ہو رہی ہے اس وقت یا شیطان مارا جائے گا یا خدا کے فرشتے مارے جائیں گے سچائی غالب آئے گی یا جھوٹ غالب آئے گا.پس میں کہتا ہوں کہ اگر تم سچائی کے دلدادہ اور اسے دنیا میں قائم کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہو تو تم اپنے دلوں میں حلف اُٹھاؤ کہ چاہے تم پھانسی پر لٹکا دیئے جاؤ تم سچائی کو نہیں چھوڑو گے اور اگر تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو اس عہد کی پابندی نہیں کر سکتا اور یہ جرأت اپنے اندر نہیں رکھتا کہ چاہے وہ پھانسی پر لٹکا دیا جائے سچائی کو نہ چھوڑے تو میں اس سے کہوں گا کہ اگر وہ کوئی اور قربانی نہیں کر سکتا تو یہی قربانی کرے کہ ہم سے الگ ہو جائے ہم اس کو بھی اس کا احسان سمجھیں گے کیونکہ وہ جو سلسلہ میں رہتے ہوئے مداہنت سے کام لیتا ہے وہ نہ صرف سلسلہ کو بدنام کرتا ہے بلکہ اسلام کی فتح کو بھی پیچھے ڈالتا ہے.تمہارے سامنے آج سے سینکڑوں سال قبل کا ایک نظارہ ہے حضرت امام حسین نے یزید کے سامنے جان دی کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ حضرت امام حسین اپنی جان نہیں بچا سکتے تھے؟ اگر وہ چاہتے تو مداہنت سے کام لے کر اپنی جان بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے مداہنت سے کام نہ لیا بلکہ اپنی جان قربان کر دی مگر با وجود اس کے زندہ حضرت امام حسین ہی ہیں، یزید نہیں.یزید پر ہر منٹ موت آ رہی ہے میں نے ابھی اس کا نام لیا تو میرا دل اس کے اعمال کے متعلق نفرت و حقارت سے بھر گیا تم نے سنا تو تمہارے دل میں بھی نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوئے لیکن جب میں نے حضرت امام حسین کا نام لیا تو میرا دل اُن کی عزت و عظمت اور محبت سے بھر گیا اور جب تم نے سنا تو تمہارے دل میں بھی ان کے متعلق عزت و عظمت اور محبت کی لہر دوڑ گئی ہو گی.تو جو شخص سچائی کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے وہ نہیں مرتا پس تم دشمن کا سچائی سے مقابلہ کرو چاہے تمہاری ساری جائداد میں چھین لی جائیں، چاہے تم کو جھوٹے مقدمات میں مبتلاء کر کے پکڑوا دیا جائے اور چاہے جھوٹی گواہیاں دے کر تمہیں قید کرا دیا جائے تم ہمیشہ سچ بولو اور کبھی جھوٹ کے قریب بھی مت جاؤ.ہاں جو بات تم نہیں کہنا چاہتے اس کے متعلق کہہ دو کہ میں نہیں کہنا چاہتا سچ کے یہ معنی نہیں کہ تم جو نہیں کہنا چاہتے وہ بھی کہہ دو بلکہ سچ کے یہ معنی ہیں جو کچھ کہو وہ سچ ہو مگر کئی باتیں نہ کہنی بھی جھوٹ میں شمار ہوتی ہیں مثلاً ایک شخص کہتا ہے

Page 363

خطبات محمود ۳۵۸ سال ۱۹۳۵ء میں نے دیکھا کہ زید بکر کو پیٹ رہا تھا حالانکہ زید نے بکر کو نہیں پیٹا خالد اُس وقت موقع پر موجود نہیں تھا.مگر وہ شخص گواہی میں خالد کا نام لکھ دیتا ہے تو اگر خالد کہتا ہے میں نے زید کو پیٹتے دیکھا تو یہ جھوٹ ہوگا لیکن اگر وہ یہ نہیں کہتا مگر یہ کہتا ہے کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا کیونکہ ایسے واقعہ پر میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کا مطلب یہی ہوگا کہ واقع میں زید بکر کو پیٹ رہا تھا اور یہ شخص زید کی حمایت کر رہا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ نہ زید نے بکر کو پیٹا نہ خالد نے ایسا فعل دیکھا پس اس قسم کی خاموشی بھی جھوٹ میں داخل ہوگی کیونکہ وہ مظلوم کی مدد سے کنارہ کرتا ہے.غرض ایسی خاموشی بھی جو جھوٹ کے مترادف ہو مت اختیار کر و اور جھوٹ بھی مت بولو جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتا ہے.سچائی اختیار کر وہ خواہ اس کے بدلے میں تمہیں کتنا بڑا نقصان اُٹھانا پڑے فرض کرو تم میں سے کوئی شخص کسی سے لڑ پڑتا ہے اور فرض کرو اس کے بعد مقدمہ ہو جاتا ہے تو اب مناسب یہ ہے کہ جو کچھ واقعہ ہوا ہے وہ عدالت میں سچ سچ بیان کر دیا جائے.اگر اسے اشتعال دلایا گیا تھا اور وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکا تھا تو اب اس کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے فعل کو چھپائے اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے بلکہ عدالت میں کھلے الفاظ میں اپنی غلطی کا اقرار کرے اور کہہ دے کہ مجھے اشتعال دلایا گیا تھا جس کی وجہ سے میں ضبط نفس کھو بیٹھا اور مجھ سے یہ حرکت سرزد ہوگئی.اس کا یہ فعل چاہے عدالت میں اسے سزا دلا دے مگر ہر شریف انسان کہے گا کہ گو اس سے غلطی ہوئی مگر اس نے اپنی غلطی سے بڑھ کر اس کا کفارہ ادا کر دیا سوائے اس کے کہ کوئی شخص جان بوجھ کر شرارت کرے ایسا شخص جو جان بوجھ کر شرارت کرتا ہے اگر عدالت میں اپنے جرم کا اقبال بھی کر لیتا ہے تو اس کا جرم کم نہیں ہو جاتا کیونکہ جس طرح جھوٹ بولنا اسلام میں ناپسندیدہ ہے اسی طرح فتنہ وشرارت کو بھی اسلام سخت نا پسند کرتا ہے جو شخص فتنہ پھیلاتا ہے وہ آدم کا مرید نہیں بلکہ شیطان کا مرید ہے.آدم کو خدا تعالیٰ نے فساد کے لئے نہیں بلکہ امن کے قیام کے لئے بھیجا تھا وہ ابلیس تھا جس نے شرارت کی اور فتنہ وفساد پھیلا یا.پس اگر کوئی شخص جان بوجھ کر فتنہ پیدا کرتا ہے تو چاہے احمدی ہی کیوں نہ ہو آدم کی ذریت میں سے نہیں بلکہ ابلیس کی ذریت میں سے ہے.پس اگر تم چاہتے ہو کہ مسیح موعود کی ذریت بنو تو سچ بولو، چاہے سچائی کے قیام کے لئے تم میں سے ہزار آدمی قید ہو جائے یا دس ہزار.تمہاری نیکی اور سچائی کے دامن پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے.اور یہ مت خیال کرو کہ تمہارے قید ہو جانے یا مر جانے یا

Page 364

خطبات محمود ۳۵۹ سال ۱۹۳۵ء جائدادوں کے چھن جانے سے سلسلہ کو کچھ نقصان پہنچے گا اگر تم دلیری سے سچائی پر قائم ہو جاؤ تو اسی دن تمام مخالفت مٹ جائے.سچائی ایک تلوار ہوتی ہے جس کے مقابل پر کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی.سیّد عبد القادر صاحب جیلانی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ چھوٹے بچے تھے تو ان کی والدہ نے انہیں ماموں کے پاس بھجوایا تا کہ وہ انہیں کوئی پیشہ سکھلا دیں.اُن کے والد فوت ہو چکے تھے ان کی والدہ نے میں چھپیس اشرفیاں پس انداز کی ہوئی تھیں وہ ان کی گدڑی میں سی دیں تاکسی اور کو اشرفیوں کا خیال نہ آئے اور وہ بحفاظت منزل مقصود تک پہنچ جائیں.اتفاقاً جس قافلہ میں وہ سفر کر رہے تھے اس پر راستہ میں ڈاکہ پڑا اور ڈاکوؤں نے سب مال و اسباب لوٹ لیا ان کی عمر چونکہ چھوٹی تھی ، اس لئے وہ ایک طرف گدڑی لئے کھڑے تھے.ڈا کو پاس سے گذرتے مگر کسی کو خیال نہ آتا کہ اس کے پاس بھی کوئی قیمتی چیز ہو سکتی ہے لیکن ایک ڈاکو نے یونہی چلتے ہوئے پوچھ لیا کیا تمہارے پاس بھی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں اس قد ر اشرفیاں ہیں اور وہ گدڑی میں سی ہوئی ہیں.پھر کوئی دوسرا ڈا کو پاس سے گزرا تو اس نے بھی پوچھا ؟ وہ پھر کہنے لگے میرے پاس اتنی اشرفیاں ہیں اور گدڑی میں سی ہوئی ہیں اس پر ڈا کو آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ یا تو یہ لڑکا پاگل ہے یا اس کے پاس واقعی اشرفیاں ہیں.آخر وہ انہیں اپنے سردار کے پاس لے گئے اور جب اس نے دریافت کیا تو کہنے لگے میری اماں نے مجھے اس قدر اشرفیاں دی تھیں ، اور گدڑی میں سی دی تھیں وہ میرے پاس موجود ہیں.ڈاکوؤں کو پھر بھی اعتبار نہ آیا اور انہوں نے ہنسی ہنسی میں گدڑی کو کھولنا شروع کر دیا آخر اشرفیاں نکل آئیں.وہ کہنے لگے بیوقوف لڑکے! تیری گدڑی کو تو کسی نے چھیڑا نہ تھا تو نے کیوں بتایا کہ میرے پاس اشرفیاں ہیں.سید عبد القادر صاحب کہنے لگے مجھ سے انہوں نے پوچھا میں نے بتا دیا.وہ کہنے لگے جب ہم نے پوچھا تھا تو تم انکار کر دیتے.سید عبد القادر صاحب کہنے لگے اگر میں انکار کر دیتا تو یہ تو جھوٹ ہوتا.آپ کے اس رویہ کا ان ڈاکوؤں پر اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی وقت ڈا کہ سے تو بہ کی اور نیکی میں ترقی کرنے لگے کے اس کے متعلق ہمارے کسی پنجابی شاعر نے کہا ہے چوروں قطب بنایا ای تو سچائی انسان کو تباہ نہیں کرتی بلکہ اسے کامیاب کیا کرتی ہے لیکن اگر باوجود اس کے تم میں سے بعض کے نزدیک سچائی انسان کو تباہ کرنے والی ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا خلیفہ ایسا ہی بیوقوف

Page 365

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہے کہ وہ ہلاکت اور حفاظت کی راہ میں امتیاز کرنا نہیں جانتا ایسی صورت میں میری طرف سے انہیں اجازت ہے کہ وہ اپنا کوئی اور خلیفہ مقرر کر لیں اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں لیکن اگر انہوں نے میری بیعت اور میری رہنمائی کو قبول کرنا ہے تو پھر میری ایک ہی نصیحت ہے اور وہ یہ کہ تم سچائی پر قائم رہو اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرو پھر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.میں جانتا ہوں کہ جو بات آگے کہنے والا ہوں اس پر حکومت کے بعض افسر چڑتے ہیں وہ غصہ اور تکبر سے اپنا منہ پھیر لیتے ہیں لیکن میں کیا کروں کہ یہ ایک سچائی ہے اور میں اسے چھپا نہیں سکتا کہ خواہ دنیا کی ساری حکومتیں مل جائیں پھر بھی تمہیں تباہ نہیں کر سکتیں بے شک میرے یہ الفاظ ان حکام پر جو خدا کی بادشاہت اور انسانی بادشاہت میں حفظ مراتب کرنا نہیں جانتے گراں گزرتے ہیں ، بے شک ایسے حکام کے موٹے نفس انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ غریب اور نہتے لوگ کیوں ایسے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر یہ ایک سچائی ہے کہ ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں.میں بھی سید عبد القادر جیلانی کی طرح یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بے شک میرا کہنا انہیں بُرا لگتا ہے بے شک وہ اس کی وجہ سے ہمیں اور زیادہ نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے کہ احمدیت خدا تعالیٰ کے ہاتھ کی ہوئی ہوئی کھیتی ہے اور دنیا کی سب طاقتیں مل کر بھی اسے فنا نہیں کر سکتیں.اگر احمدیت کو کوئی چیز نقصان پہنچا سکتی ہے تو وہ احمدیوں کی اپنی بد اعمالیاں اور جھوٹ ہیں پس اس وقت ایک عظیم الشان مقابلہ مجھے نظر آ رہا ہے اور اگر آئندہ چند ہفتوں یا چند مہینوں کے اندر اندر اس ظلم کی تلافی نہ کی گئی جو ہم پر کیا جا رہا ہے تو ہمیں ایسا پروگرام تجویز کرنا پڑے گا جس سے سلسلہ کی حفاظت ہو اور اس کے وقار کو قائم رکھا جائے مگر اس پروگرام کی ایک بڑی شرط یہ ہوگی کہ وہی شخص اس میں شامل ہوگا جو سچائی پر قائم رہنے کا عہد کرے گا ورنہ جو شخص اپنی جان کو اتنا قیمتی سمجھتا ہے کہ اس کے لئے وہ سچ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے وہ ہمارے ساتھ شامل ہو کر کام نہیں کر سکتا.اور اگر تم سچائی پر قائم رہو تو میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری موت بھی زندگی کا موجب بن جائے گی کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ صحابہ جنہوں نے ہر قسم کی مشکلات اور مصائب میں سچائی قائم رکھی مگر اپنی جان دے دی ان کی زندگی یونہی گئی کیا تم میں سے کوئی سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی ایسا ہے جو اس صحابی کا واقعہ سن کر اپنے اندر زندگی کی روح محسوس نہیں کرتا جسے مشرکین مکہ نے

Page 366

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اذیتیں دے دے کر جب سولی پر لٹکایا تو ایک شخص کہنے لگا بتا تو سہی کیا تیرا دل نہیں چاہتا کہ تو اس وقت مدینہ میں آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہوا ہو اور تیری جگہ محمد (ﷺ) کو پھانسی دی جائے اگر وہ مداہنت سے کام لیتا اور کفار کے حسب منشاء جواب دے دیتا تو کیا رسول کریم ﷺ کو کچھ نقصان پہنچ جاتا کوئی نقصان نہ پہنچتا بلکہ ممکن تھا کہ اس کی جان بچ جاتی لیکن اُس نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ تم تو یہ کہتے ہو کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں اور محمد ﷺ کو پھانسی دی جائے میں تو یہ بھی پسند نہیں کر سکتا کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں اور محمد ﷺ کے تلووں میں کوئی کانٹا تک چھ جائے.سے بے شک اس دلیرانہ اظہار ایمان کے نتیجہ میں انہوں نے اپنی جان دے دی اور بے شک اس جواب کی وجہ سے نرمی کا خیال کفار کے دلوں سے نکل گیا مگر دیکھو تو ، کہ کتنے آدمی ہیں جو اس واقعہ کو سن کر زندہ ہو جاتے ہیں اور کتنے ہیں جنہیں اس واقعہ سے ایک نئی زندگی اور ایک نیا ایمان بخشا جاتا ہے.پس موت کوئی چیز نہیں تم اگر مرو اور سچائی کے لئے مرو تو تمہارے دشمنوں میں سے ہی کئی لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو تمہاری قدر کریں گے اور کہیں گے کہ سچائی کا ایسا عظیم الشان مظاہرہ دیکھ کر وہ صداقت کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے.مجھے کل ہی ایک نو جو ان کا خط ملا ہے وہ لکھتا ہے میں احراری ہوں میری ابھی اتنی چھوٹی عمر ہے کہ میں اپنے خیالات کا پوری طرح اظہار نہیں کر سکتا اتفاقاً ایک دن ” الفضل“ کا مجھے ایک پرچہ ملا جس میں آپ کا خطبہ درج تھا میں نے اسے پڑھا تو مجھے اتنا شوق پیدا ہو گیا کہ میں نے ایک لائبریری سے لے کر ” الفضل با قاعدہ پڑھنا شروع کیا پھر وہ لکھتا ہے خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں اگر کوئی احراری آپ کے تین خطبے پڑھ لے تو وہ احراری نہیں رہ سکتا.میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ خطبہ ذرا لمبا پڑھا کریں کیونکہ جب آپ کا خطبہ ختم ہو جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل خالی ہو گیا اور ابھی پیاس نہیں بجھی.تو سچائی کہاں کہاں اپنا گھر بنالیتی ہے وہ چھوٹے بچوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور بڑوں پر بھی.رسول کریم ﷺ نے جب ابتدائے دعوئی میں مکہ کے لوگوں کی دعوت کی اور انہیں اسلام کی طرف بلایا تو اُس وقت آپ کے رشتہ دار بھی اس مجلس میں موجود تھے آپ نے دریافت فرمایا کہ اے لوگو ! تم میں سے کون میرے کام میں مدد کرے گا ؟ رسول کریم ﷺ نے جب یہ مطالبہ کیا تو تمام لوگ "

Page 367

خطبات محمود ۳۶۲ سال ۱۹۳۵ء خاموش ہو گئے لیکن اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اُٹھے جو ابھی بہت چھوٹی عمر کے تھے اور کہنے لگے يَا رَسُولَ اللہ ! میں آپ کی مدد کروں گا.ہے اب کتنے گیارہ برس کے بچے ہیں جو شدید مخالفت کو دیکھتے ہوئے حق وصداقت کی حمایت کے لئے اتنی عظیم الشان جرأت دکھا سکیں یقیناً بہت کم بچے ہوں گے پھر کیا چیز تھی جس نے حضرت علی کو اس مجمع میں کھڑا کیا وہ وہی سچائی تھی جو رسول کریم ﷺ کے ہونٹوں پر جاری ہوئی اور حضرت علی نے اس کا مشاہدہ کیا ، اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جب دعوی نبوت کیا تو اُس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ با ہر کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے جب آپ واپس آئے تو اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہرے اُس کی لونڈی آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگی تیرا دوست تو پاگل ہو گیا.وہ کہنے لگے کون سا دوست اور کس طرح پاگل ہو گیا ؟ اس نے جواب میں رسول کریم کا نام لیا اور کہا وہ ایسا پاگل ہو گیا ہے کہ کہتا ہے فرشتے مجھے پر خدا کا کلام لے کر اُترتے ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُس وقت اُس دوست کے ہاں آرام کرنے کے لئے لیٹے تھے مگر جونہی آپ نے یہ بات سنی فوراً چادر سنبھالی اور رسول کریم لے کے گھر کی طرف چل پڑے دروازہ پر پہنچ کر دستک دی تو رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے.آپ نے شکل دیکھتے ہی کہا میرا ایک سوال ہے آپ اس کا جواب دیں اور وہ یہ کہ کیا آپ کہتے ہیں آپ پر خدا کے فرشتے اترتے اور اس کا کلام نازل ہوتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے اس خیال سے کہ دشمنوں نے ان کے کان نہ بھرے ہوئے ہوں اور مباد اٹھو کر لگ جائے تمہیدی طور پر بعض دلائل بیان کر کے اپنا دعویٰ پیش کرنا چاہا مگر حضرت ابو بکڑ نے کہا آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم ہے آپ کوئی اور بات نہ کریں آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے اس قسم کا دعویٰ کیا ہے کہ آپ پر خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کا کلام لے کر اُترتے ہیں؟ رسول کریم نے پھر تشریح کرنی چاہی تو آپ نے پھر روک دیا اور کہا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ صرف میری بات کا جواب دیں اس کی تشریح نہ کریں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے دعوی کیا ہے آپ نے کہا تو پھر میں آپ پر ایمان لاتا ہوں پھر کہنے لگے يَا رَسُولَ اللهِ ہیں نہیں چاہتا تھا کہ میرا ایمان دلیلوں سے مشتبہ ہو جائے.ے میں جانتا ہوں کہ وہ شخص جس نے انسانوں پر آج تک کبھی جھوٹ نہیں باندھا وہ خدا تعالیٰ پر بھی کبھی افتراء نہیں کر سکتا پس میرے لئے صداقت کی یہی دلیل کافی ہے.

Page 368

خطبات محمود ۳۶۳ سال ۱۹۳۵ء الله یہ وہ شخص ہے جس کی امت میں سے ہونے کا تم دعوی کرتے ہو، یہ وہ شخص ہے جس کے لائے ہوئے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے تم دنیا میں کھڑے ہوئے ہو اور یہ وہ نمونہ ہے جسے پھر دنیا میں قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا.اگر تم اپنے وجود سے سچائی کا نمونہ لوگوں کو دکھا دو گے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہیں کچل نہیں سکتی.کہنے والے کہتے ہیں کہ اب تو حاکموں نے بھی جماعت احمدیہ کو جھوٹا کہہ دیا مگر کیا پہلے حاکموں نے حضرت مسیح ناصری کو جھوٹا نہیں کہا تھا ؟ اور کیا لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی تکذیب نہیں کی تھی ؟ پس یہ مخالفت کوئی چیز نہیں محض ایک عارضی چیز ہے ورنہ اگر احراری میری ڈاک میں سے اپنے ہم مذہب لوگوں کی ، ہندو میری ڈاک میں سے اپنے ہم مذہب ہندوؤں کی اور سکھ میری ڈاک میں سے اپنے ہم مذہب سکھوں کی وہ چٹھیاں پڑھیں جو مجھے آتی ہیں تو انہیں معلوم ہو کہ ان میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ فلاں احمدی سے ہمارا جھگڑا ہے آپ اس کا فیصلہ کرا دیں ہم عدالت میں جانا نہیں چاہتے.اگر ہم جھوٹے اور فسادی ہیں تو احراری ، ہندو اور سکھ ہمارے پاس اپنے جھگڑوں کو فیصلہ کرانے کے لئے کیوں لاتے ہیں کیا یہ صاف طور پر اس امر کا ثبوت نہیں کہ ان کے دل اقرار کرتے ہیں کہ ہم سچے ہیں صرف مخالفت اور عناد پھیلانے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ ہم جھوٹے ہیں ورنہ ان کے دل مانتے ہیں کہ ہم جھوٹ نہیں کہتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں صحیح اور درست کہتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں جس مقام صدق پر لوگ تمہیں سمجھتے ہیں اس سے بھی زیادہ ترقی کرنے کی کوشش کرو تم بھول جاؤ اس بات کو کہ احراری تمہیں کیا کہتے ہیں تم بھول جاؤ اس بات کو کہ گورنمنٹ کے بعض افسر تمہارے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں تم آج سے یہ جہاد شروع کر دو کہ ہمیشہ سچ بولوا اور جو کچھ واقعہ ہوا سے بیان کر دو اور پیشتر اس کے کہ میں وہ سکیم بتاؤں جو سلسلہ کی عظمت اور اس کے وقار کو قائم رکھنے کے لئے بشرط ضرورت بیان کی جائے گی ہر شخص اپنی زندگی پر غور کرے، اپنی بیوی اور بچوں کی زندگی پر غور کرے، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی زندگیوں پر غور کرے، اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی زندگی پر غور کرے اور اگر اسے کہیں بھی جھوٹ نظر آئے خواہ اپنے اندر یا اپنے کسی رشتہ دار دوست اور ہمسایہ کے اندر تو اس کا فرض ہے کہ اس گند کو چھیلے اور اُسے دُور کرنے کی کوشش کرے تا کہ جس وقت اس سے قربانی کا مطالبہ کیا جائے وہ خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں اپنا نام لکھا سکے کیونکہ جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ خدا کا سپاہی نہیں بن سکتا.تم میں سے بہت ہیں جو مجھے کہتے

Page 369

خطبات محمود ۳۶۴ سال ۱۹۳۵ء ہیں کہ ہمارے لئے یہ حالت ناقابلِ برداشت ہو رہی ہے اگر تمہارے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے تو میں تم سے کہتا ہوں تم جاؤ اور جھوٹ کو مٹا کر بیچ قائم کر دو.اگر تم جھوٹ کو مٹا ڈالو گے تو میں سمجھ لوں گا کہ تمہارا جوش حقیقی تھا اور اگر تم سچائی پر پوری طرح قائم رہو تو پھر میں اس بات کا ضامن ہوں کہ خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق تم ضرور جیتو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو مصلح موعود کے متعلق الہامات ہوئے ہیں ان میں سے ایک مظہر الحق بھی ہے یعنی وہ صداقت و راست بازی کا مظہر ہوگا پس تم جب بھی جیتو گے سچائی سے جیتو گے جھوٹ سے نہیں جیت سکتے.خدا تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے میرا نام مظہر الحق رکھا ہے اور یہی سچائی کی تلوار ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھے دی تم اگر دشمن سے لڑنا چاہتے ہو تو اسی تلوار سے تمہیں لڑنا پڑے گا جو خدا تعالیٰ نے مجھے دی نہ اس تلوار سے جو خدا تعالیٰ نے مجھے نہیں دی.مجھے خدا تعالیٰ نے لوہے کی تلوار نہیں دی بلکہ لوہے کی تلوار والا جسم بھی نہیں دیا ہمیشہ بیمار رہتا ہوں مجھے جو تلوار دی گئی ہے وہ سچائی اور صداقت کی تلوار ہے.اگر تم میں سے کوئی شخص یہ تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑنے کے لئے تیار نہیں تو وہ کس طرح فوج میں شامل ہو کر روحانی جنگ کے لئے تیار ہو سکتا ہے.تھوڑے دن ہوئے میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک رؤیاد یکھا ہے ان کی اکثر خوا ہیں سچی نکلتی ہیں وہ کہتی ہیں جس دن حکومت کی طرف سے خطابات کی فہرست اخباروں میں شائع ہوئی اُس دن وہ اخبار کا وہی پرچہ پڑھ رہی تھیں کہ نیند آ گئی اور خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں میرے متعلق آواز آئی کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خطاب ملا ہے.مَظْهَرُ الْحَكِيمِ ـ مَظْهَرُ الْحَقِّ | وَالْعَلَاءِ - مؤخر الذکر وہی الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہو اپس میں آج سچائی کی تلوار تم سب میں تقسیم کرتا ہوں اور پیشتر اس کے کہ تمہیں جنگ کے لئے جانا پڑے تمہارا فرض ہے کہ تم اس ہتھیار سے کام لو آخر ہر جنگ کے لئے کوئی نہ کوئی ہتھیار ہوا کرتے ہیں جو لوگ نیزوں اور تلواروں سے لڑا کرتے ہیں وہ فوج میں نیزے اور تلوار میں تقسیم کیا کرتے ہیں اور جولوگ گولہ بارود اور توپ و تفنگ سے لڑتے ہیں وہ گولہ بارود اور بندوقیں اور تو ہیں فوج میں تقسیم کیا کرتے ہیں.ہم کو خدا تعالیٰ نے نہ بندوقیں دی ہیں نہ تو ہیں بلکہ نیزے اور تلواریں بھی نہیں دیں اور نہ اس قسم کی لڑائیوں کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہمیں جس جنگ کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ روحانی جنگ

Page 370

خطبات محمود ۳۶۵ سال ۱۹۳۵ء ہے اور جس ہتھیار سے کام لینے کا حکم ہے وہ سچائی کی تلوار ہے اور سچائی کی تلوار میں میں تم میں تقسیم کرتا ہوں تم انہیں لے لو کہ جس کے پاس یہ تلوار ہو گی وہ کامیاب ہوگا اور جس کے پاس یہ تلوار نہیں ہوگی وہ کامیاب نہیں ہو گا.تم سچائی پر قائم ہو جاؤ ، جھوٹ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو اور خواہ تمہاری جان جاتی ہو تم وہی بات کہو جو سچی ہو اور اس طرح خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہماری عزتیں، ہماری جانیں اور ہمارے اموال سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان ہیں لیکن اگر ہم اپنی عزتیں بچانے کے لئے یا جان کی حفاظت کے لئے جھوٹ بولتے اور سچائی کو چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کہاں قربانی کرتے ہیں.پس تم اپنے نفوس کو ٹول ٹول کر ان میں سے جھوٹ کو نکال دو پھر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے حالات پر نگاہ ڈالو اور اگر تمہیں ان میں جھوٹ کی تاریکی نظر آئے تو اُسے دُور کرو.پھر اپنے ہمسایوں پر نگاہ ڈالو اور ان کو بھی اچھی طرح ٹول ٹول کر دیکھو پھر اگر ان میں جھوٹ نظر آتا ہے تو اسے بھی نکالنے کی کوشش کرو.اگر تم اس طرح سچائی پر قائم ہو جاؤ گے تو یہ تلوارا ایسی ہے جس کا کوئی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی ہاں عارضی مشکلات بے شک آیا کرتی ہیں مگر وہ کوئی نئی بات نہیں ہماری جانیں آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قیمتی نہیں کہ ہم یہ تو گوارا کر لیں کہ رسول کریم ہے پر مشکلات آئیں مگر یہ برداشت نہ کر سکیں کہ ہمیں بھی کوئی تکلیف پہنچے.اگر ہم ایسا خیال کرتے ہیں تو ہم سے زیادہ متکبر اور خود پسند کوئی نہیں ہوسکتا.محمد ﷺ کو اگر دکھ پہنچ سکتے تھے تو ان کے مقابلہ میں ہماری ہستی ہی کیا ہے کہ ہمیں مشکلات سے مستی کیا جائے.تم اس مخلص صحابی کے اس قول پر نگاہ ڈالو جس نے کہا تھا میں تو یہ پسند نہیں کر سکتا کہ میں گھر پر آرام سے بیٹھا ہوا ہوں اور محمد ﷺ کے پاؤں میں کانٹا پجھ جائے.پھر غور کرو کہ محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تکلیفوں کے مقابلہ میں تم بھی ان مصائب کے برداشت کرنے کیلئے تیار ہو یا نہیں ؟ تمہیں تو اس امر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے کہ اگر محمد نے تیرہ سال مکہ معظمہ میں تکالیف برداشت کیں تو ہم اپنے آقا کی یاد میں اور اتباع میں ایک سو تیس سال تکلیفیں اٹھاتے چلے جائیں گے اور محمد میں اللہ کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں قائم کر دیں گے.کیا فائدہ ہے محض زبانی دعووں کا کیا فائدہ ہے باتیں بنانے اور وقت ضائع کرنے کا.اگر ہم محمد کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں قائم نہیں کر دیتے اور قرآن مجید کی اشاعت دنیا کے کونے کونے میں نہیں کرتے تو ہمارے دعوے سب ڈھکو سلے ہیں اور ہم سے زیادہ قابل نفرت اور کوئی وجود نہیں.پس

Page 371

خطبات محمود ۳۶۶ سال ۱۹۳۵ء سچائی پر قائم رہو، اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور دعاؤں میں لگ جاؤ.دعاؤں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایک نیا انکشاف کیا ہے جو میرے پہلے عقیدہ کے کسی قدر خلاف ہے مگر آج چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اسے اگلے جمعہ یا کسی اور خطبہ جمعہ میں بیان کر دوں گا فی الحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج سے تم اپنے نفسوں کو بدلنا شروع کر دو اور صدق اور راستی کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لو پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی.(الفضل ۲۴ جون ۱۹۳۵ء) کے تذکرہ صفحہ ۷۹.ایڈیشن چہارم تذكرة الاولیاء از رئیس احمد جعفری صفحه ۲۴۴ اسدالغابة جلد ۲ صفحه ۲۳۰ مطبوعه ریاض ۱۲۸۵ه ۴ تاریخ ابن اثیر جلد ا صفحه ۶۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۵ سیرت ابن هشام جلد اوّل صفحه ۸۶ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ

Page 372

خطبات محمود ٢٤ سال ۱۹۳۵ء انداری پیشگوئیاں مذہب کا حصہ ہیں مذہب میں مداخلت کو ہم ہرگز برداشت نہیں کر سکتے فرموده ۲۸ / جون ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- شخص دنیا میں بہت سے جھگڑے اور اختلافات غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں ایک موی دوسرے کے نقطہ ء نگاہ کو نہیں سمجھتا اور کچھ کا کچھ اس کی نسبت خیال کرنے لگ جاتا ہے اس لئے جن لوگوں کو دوسروں سے تعلقات رکھنے اور دوسروں سے معاملات پڑتے ہوں ، ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خیالات کو اچھی طرح سمجھ لیں جن سے ان کے معاملات پڑتے ہیں.مثلاً مناظر ہیں جن علماء کو دوسری قوموں سے مناظرے کرنے پڑتے ہیں ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان مذاہب کے خیالات کو اچھی طرح سمجھ لیں.اسی طرح حکومتوں کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ رعایا کے خیالات کو اچھی طرح سمجھ لیں.اگر علماء دوسرے مذاہب کو سمجھے بغیر انکے پیروؤں کے ساتھ مناظرے کریں یا ان کے خلاف کتب لکھیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مخالف ان کی باتوں پر مذاق اور جنسی اُڑائیں گے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے ایک خدا کا اعلان کرنا شروع کیا تو مکہ کے لوگوں نے بجائے اس کے کہ توحید کے متعلق آپ کے نقطہ ء نگاہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے جھٹ خیال کر لیا کہ خدا تو کئی ہیں اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں محمد ( ﷺ ) بھی ضرور ( نَعُوذُ بِاللهِ ) کئی خدا ہی مانتے ہو نگے اور انہوں نے خیال کیا کہ آپ کا نقطہ ء نگاہ یہ ہے کہ آپ نے سب خداؤں کو جمع کر

Page 373

خطبات محمود ۳۶۸ سال ۱۹۳۵ء کے ایک بنالیا ہے.گویا قیمہ کی طرح سب کو باہم ملا کر ایک کر دیا ہے اور پھر اس خیال کی جنسی اُڑانی شروع کر دی.قرآن کریم میں آتا ہے اَجَعَلَ الْالِهَةَ الهَا وَاحِدًا وہ یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ محمد صلى الله ایک خدا مانتے ہیں بلکہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح کئی چیزوں کو باندھ کر یا گوٹ ٹوٹ کر ایک کر لیا جاتا ہے اسی طرح محمد ( ﷺ) نے بہت سے خداؤں کو ملا کر ایک خدا بنا لیا ہے.یہ کتنا ہے وقوفی کا عقیدہ تھا لیکن وہ لوگ آخری عمر تک یہی سمجھتے رہے وہ خود جاہل تھے مگر جہالت آنحضرت کی طرف منسوب کرتے تھے.مجھے خود اپنا ایک تجربہ یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تھا کہ آپ حضرت مسیح ناصری کے بروز ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ حضرت مسیح ناصری کی خاصیتیں اور آپ کے مدارج و معارف لے کر دنیا میں آئے تھے لیکن بعض مخالفوں کا ذہن بروز سے اس طرف گیا کہ گویا آپ تناسخ کے قائل ہیں اور آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح آپ میں داخل ہو گئی ہے.دس بارہ سال ہوئے ڈاکٹر ز و یمر صاحب جو بڑے بڑے پادریوں میں سے ایک ہیں ، نسلاً جر من مگر قومیت کے لحاظ سے امریکن ہیں ، کچھ عرصہ مصر میں بھی رہے ہیں اور آج کل امریکہ میں ہیں اور پادریوں میں دنیا کی جو بہترین ہستیاں سمجھی جاتی ہیں ان میں سے ایک ہیں ، چپ چپاتے یہاں آپہنچے اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ان دنوں زندہ تھے ان سے میرے متعلق پادری صاحب نے کہا کہ میں بعض سوالات ان سے پوچھنا چاہتا ہوں اور جب ڈاکٹر صاحب نے دریافت کیا کہ کیا سوالات ہیں تو پادری صاحب نے کہا کہ انہی کے سامنے پیش کروں گا.ان کا خیال تھا کہ ایسا نہ ہو کہ پہلے معلوم ہونے پر جواب سوچ رکھیں گویا وہ سمجھتے تھے کہ ان کے سوالوں کا میں کوئی جواب نہ دے سکوں گا.پہلے تو ان کے ساتھ باہر ہی لطیفہ ہوا.یہاں کی گلیوں میں پھر کر کہنے لگے مجھے مدت سے شوق تھا کہ دیکھوں اسلامی حکومت کے ماتحت صفائی وغیرہ کا انتظام کس طرح ہوتا ہے مگر یہاں گلیوں کی صفائی وغیرہ تو ایسی اچھی طرح نہیں ہوتی.ڈاکٹر رشید الدین صاحب مرحوم نے اس کا جواب یہ دیا کہ ابھی تو یہاں پہلے مسیح کی حکومت ہے.یعنی انگریز جو پہلے مسیح کی اُمت ہیں یہاں کے حکمران ہیں.خیر اس کے بعد وہ میرے پاس پہنچے اور اپنے دل میں جو بعض پہیلیاں بنارکھی تھیں پیش کیں.پہلا سوال انہوں نے مجھ سے یہ کیا کہ نبی کس جگہ ہونا چاہئے یعنی کو نسا مقام نبی کی بعثت کے لئے

Page 374

خطبات محمود ۳۶۹ سال ۱۹۳۵ء مناسب ہوتا ہے ؟ انہوں نے خیال کیا کہ میں اس کا یہی جواب دوں گا کہ جہاں لوگ آسانی سے پہنچ سکیں ، ریل ، ڈاک، تار وغیرہ سہولتیں موجود ہوں یا اگر پر ا نا زمانہ ہوتو قافلوں وغیرہ کا معقول انتظام ہو، تا لوگوں کو وہاں پہنچنے اور نبی کو لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے میں آسانی ہو اور پھر میں یہ سوال کروں گا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر قادیان میں نبی کیسے پیدا ہو گیا ؟ لیکن جب انہوں نے یہ سوال کیا خدا تعالیٰ نے سارا سوال اور اس کا جواب میرے ذہن میں ڈال دیا اور میں نے مسکرا کر ان کے سوال کا یہ جواب دیا کہ ناصرہ سے ہر بڑے قصبہ میں نبی آ سکتا ہے اس پر وہ بالکل بہکے بکے رہ گئے.دوسرا سوال انہوں نے یہ کیا کہ کیا مرزا صاحب تناسخ کے قائل تھے ؟ یہ سوال کرتے وقت ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں کہوں گا.نہیں.تو پھر وہ سوال کر دیں گے کہ آپ مسیح کے بروز کیسے ہو گئے ؟ اور اگر میں کہوں گا ہاں تو اس کا جواب وہ یہ دیتے کہ یہ تو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.میرا ذہن معا اس طرف گیا اور میں نے اصل سوال کا جواب دینے کی بجائے یہ کہا کہ آپ کو غلطی لگی ہے ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ حضرت مسیح ناصری کی روح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں آ گئی ہے بلکہ یہ ہے کہ ان کی صفات آپ میں پائی جاتی ہیں.ان جوابات سے ان کو بہت حیرانی ہوئی اور کہنے لگے کہ کیا آپ کو کسی نے میرے سوالات بتا دیئے تھے ؟ تو ڈاکٹر ز ویمر صاحب نے اپنے خیال میں سمجھ لیا تھا کہ بروز مسیح کہلانے کا مطلب گویا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تناسخ کے قائل تھے.حکومتوں کو بھی ایسی ٹھوکریں لگ جاتی ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ حاکم رعایا کے خیالات سے اچھی طرح واقف ہو، تا معاملہ کرتے وقت وہ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جس سے رعایا میں بلا وجہ غصہ کی لہر پیدا ہو یا ملک میں فساد پھیلے.مثلاً پرانے زمانہ میں اس بات پر بہت فساد ہو جاتے تھے کہ انگریز افسر بوٹ سمیت مسجدوں میں کھس جاتے.آخر حکومت کی طرف سے انہیں سمجھایا گیا کہ ایسا نہ کیا کریں چنانچہ اب ایسا نہیں کرتے.جس افسر نے کسی مسجد کے اندر جانا ہوتا ہے وہ جوتا اتار لیتا ہے اور جو نہیں اُتارنا چاہتا وہ باہر سے ہی واپس چلا جاتا ہے یا بعض جگہوں پر ایک قسم کی کپڑے کی جو تیاں بنائی ہوتی ہیں جنہیں مسجد میں جاتے ہوئے پہنا دیتے اور پھر اُتار لیتے ہیں.تو میں بتا رہا تھا کہ نا واقفیت کی وجہ سے بہت بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ حکام کو رعایا کے عقائد و مذاہب اور ان کی خصوصیات سے آگاہی ہو.تعجب ہے کہ انگریزوں کی حکومت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.ایشیا، یورپ، افریقہ

Page 375

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اور جزائر غرضیکہ ہر جگہ ان کی حکومت ہے ساتوں بر اعظموں میں ان کی حکومت کسی نہ کسی جگہ ضرور ہے.مگر با وجود اس کے بعض حکام جو رعایا کے مذاہب اور ان کے عقائد سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود تو گمراہ ہوتے ہی ہیں دوسروں کو بھی کر دیتے ہیں اور اس وجہ سے ملک میں فسادات بھی پیدا ہوتے ہیں.ہماری جماعت کو دشمن کتنی ہی حقارت سے کیوں نہ دیکھے اور اس کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ بتائی جائے مگر اس امر کو ماننے کے سوا اُسے چارہ نہیں کہ یہ ایک اہمیت رکھنے والی جماعت ہے.جس طرح انگریزی حکومت ساری دنیا پر ہے اسی طرح جماعت احمد یہ بھی ہندوستان ، سیلون ، سٹریٹ سیٹلمنٹس ، افغانستان، ایران ، عراق ، عرب، فلسطین ، شام، مصر، چین ، سماٹرا، جاوا، آسٹریا، افریقہ، کینیا، یوگنڈا ، نٹال، گولڈ کوسٹ ، سیرالیون، نائیجیریا وغیرہ ممالک میں پائی جاتی ہے.افریقہ کا وہ علاقہ جو پرانے زمانہ میں جرمن افریقہ کہلا تا تھا اس میں بھی ہماری جماعت ہے ماریشس میں بھی ہے، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں بھی ہے ، امریکہ کی بعض چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بھی ہے، بیلجیئم میں ہے، انگلستان میں ہے، افریقن عربوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فرانسیسی حکومت میں بھی ہے، روس میں بھی ہے غرضیکہ دنیا کا کوئی برِّ اعظم نہیں جہاں ہماری جماعت نہ ہو اور یہی چیز ہے جو دنیا میں کسی قوم کی طاقت کی علامت ہوتی ہے.کسی جماعت کی طاقت اُس کی تعداد سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس امر سے دیکھی جاتی ہے کہ کتنے مقامات پر اسے نشو ونما کا موقع مل رہا ہے.وہ قوم جو ایک ملک میں ہو انسانی نقطہ نگاہ سے اسے مٹادینا آسان ہوتا ہے.آسمانی نقطہ نگاہ سے تو اگر دیکھا جائے تو کسی کو مٹانا بھی آسان نہیں لیکن دنیوی نقطہ نگاہ سے ایسی جماعتوں کو مٹانا آسان ہوتا ہے جو ایک ہی ملک میں ہوں.جود و ممالک میں ہوں ان کو مٹانا نسبتاً مشکل ہوتا ہے اس طرح جو تین چار ممالک میں ہوں ان کا مٹانا اور بھی مشکل ہوتا ہے اور احمدیت اٹھارہ میں ممالک میں نشو ونما پارہی ہے اور ہر یر اعظم اور ہر نسل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس میں چینی بھی ہیں سماٹری اور جاوی بھی ، افغان اور ایرانی بھی ، عرب بھی ہیں اور انگریز بھی ، امریکن بھی ہیں اور حبشی بھی ، گورے بھی ہیں اور کالے بھی ، اور وہ لوگ بھی جو زرد رنگ والے کہلاتے ہیں اور جنہیں زرد خطرہ کہا جاتا ہے گویا قریباً ہرنسل اور ہر قوم کے آدمی اس میں شامل ہیں اور بہت تھوڑے ملک ہیں جہاں کوئی احمدی نہ ہو.ایسی جماعت کے پھیلنے کے لئے بہت موقع ہوتا ہے.اگر ایک یا دو چار حکومتیں بھی اسے مٹانا چاہیں تو وہ

Page 376

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء دوسرے ممالک میں بڑھتی رہتی ہے اور وہاں طاقت پکڑ کر پھر اپنی پہلی جگہ آ کر لے لیتی ہے.اسلام اور ہندو ازم میں یہی فرق ہے.ہندوستان میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ ہے مگر مسلمان طاقت اور رعب کے لحاظ سے دنیا میں بہت زیادہ اثر رکھتے ہیں اور ان کی بہت زیادہ طاقت مانی جاتی ہے.ان کے مقابلہ میں ہند و گو تعداد میں بھی برابر ہیں مگر ان کو ہندوستان سے باہر کوئی پوچھتا نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام ہر جگہ پھیل چکا ہے مگر ہند و صرف ہندوستان میں ہیں پس جو جماعت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہوا سے بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے اس لئے حکومتوں کا فرض ہے کہ ایسی جماعتوں کے عقائد ، حالات خصوصی اور مذاہب کو مد نظر رکھیں لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ ہمارے متعلق اس وقت تک جتنی مستقل کتابیں یا رسالے لکھے گئے ہیں، سب غیروں نے لکھے ہیں انگریزوں نے کوئی نہیں لکھا.ایک مستقل کتاب ایک امریکن مسٹر والٹر نے لکھی ہے ایک مستقل رسالہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی فرانس کے اہتمام کے نیچے لکھا گیا ہے.جرمنی میں بعض مضامین احمدیت کے متعلق لکھے جا رہے ہیں مگر انگریزوں نے سوائے بعض کتب میں مختصر ذکر کے احمدیت کی طرف توجہ نہیں کی.مستقل لٹریچر سب کا سب غیر قوموں کا پیدا کردہ ہے اور یہ اس سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جو قوم ہم پر حکومت کر رہی ہے وہ ہمارے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایسی غلط فہمیوں میں مبتلاء ہو جائے گی جن سے فساد پیدا ہو گا اسی وجہ سے کہ انگریزوں نے ہمارے عقائد اور خصوصی حالات کا مطالعہ نہیں کیا.مثلاً بعض حکام ایسے ہیں جو ہماری ایسی باتوں کو جن میں مخالفوں کی تباہی کا ذکر ہوتا ہے دشمنوں کے قتل کی تحریک سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ احمدیت کو نہیں سمجھا بلکہ اپنے مذہب کو بھی نہیں سمجھا.جب حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ علیہما السلام بھی یہ باتیں کہتے تھے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بھی قتل کی تحریک کرتے تھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ مذہب سکھاتا ہے کہ اصل بادشاہت خدا کی ہے دُنیوی بادشاہتیں صرف اس کے ظل ہیں.بے شک اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ دنیوی بادشاہوں کی اطاعت بھی ضروری ہے لیکن پھر بھی وہ یہی سکھاتا ہے کہ اصل بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تمام انبیاء اسی غرض سے دنیا میں تشریف لائے.حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم، حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت سلیمان ، حضرت داؤد ،

Page 377

خطبات محمود ۳۷۲ سال ۱۹۳۵ء آنحضرت ﷺ سب اسی غرض کو لے کر دنیا میں آئے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو.نبیوں کا یہی کام ہوتا ہے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ماموریت کا دعویٰ کیا تو آپ کا بھی یہی کام تھا ور نہ آپ کی بعثت بالکل بے فائدہ ہوتی.پس نبی کا اصل کام یہی ہوتا ہے اور اسی کو پورا کر نے کے لئے تمام انبیاء زور دیتے آئے ہیں.عیسائی آج تک روزانہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی ہو.پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جو لوگ روزانہ یہ دعا کرتے ہیں وہ اس امر کو بالکل بھول جاتے ہیں کہ کوئی اور بادشاہ بھی ہے.ہماری جماعت کا بھی بعینہ یہی نقطہ ء نگاہ ہے.ہم بھی دنیا میں خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیوی بادشاہت کو مٹانا چاہتے ہیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ لوگ دُنیوی حکومت سے بغاوت نہ کریں حکام سے تعاون کریں مگر سب سے اعلیٰ کوشش ہماری یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت لوگوں پر بھی اور حکمرانوں اور بادشاہوں پر بھی قائم ہو.اگر یہ نقطہ نگاہ بدل جائے تو کوئی مذہب مذہب نہیں رہتا بلکہ ایک سوسائٹی بن جاتا ہے.اگر ہم دنیوی حکومتوں کے غلام رہیں اور ہر وقت یہی مقاصد ذہن میں ہوں کہ کوئی رتبہ یا عہدہ مل جائے اور خدا کی بادشاہت قائم کرنے کا کوئی خیال نہ رکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذہب کو ایک بے معنی چیز بنا رہے ہیں.تمام انبیاء دنیا میں خدا کی بادشاہت کے قیام کیلئے آتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام بھی اس غرض کو لے کر آئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا بھی یہی مقصد ہے لیکن یہ بات انگریزوں کی بادشاہت کے خلاف نہیں.اس کا یہ مطلب لینا کہ ہم خدا تعالیٰ کی بادشاہت انگریزوں کی بادشاہت کی جگہ قائم کرنا چاہتے ہیں ، ویسی ہی غلطی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بروز ہونے کو تناسخ سے تعبیر کر دیا جائے.پس اگر انگریز حکام یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت کے قیام کے لئے ہماری کوششوں کا یہ مطلب ہے کہ دنیا سے انگریزی حکومت مٹ جائے تو یہ ان کی غلطی ہے بڑی حکومت کے ماتحت تابع حکومتیں بھی دنیا میں ہوتی ہیں.پارلیمنٹ کی حکومت کا یہ مطلب نہیں کہ وائسرائے کی حکومت نہ رہے اور جب یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر صوبہ میں گورنر کی اطاعت کی جائے تو اس کے یہ معنی کبھی نہیں ہوتے کہ وائسرائے کی حکومت نہ رہے.پھر حکومت چاہتی ہے کہ ڈپٹی کمشنروں سے تعاون کیا جائے اور ان کے احکام مانے جائیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ گورنر کی حکومت مٹا دی جائے.ماتحت حکومت بالا حکومت کے

Page 378

خطبات محمود ۳۷۳ سال ۱۹۳۵ء مقابل پر نہیں سمجھی جاتی بلکہ اسی کی تابع ہوتی ہے اور اگر کوئی ایسا افسر ہے جو خدا کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کا یہ مطلب سمجھتا ہے کہ انگریزوں کی بادشاہت مٹادی جائے تو وہ بالکل ناسمجھ ہے اور سوائے اس کے کہ وہ معذور ہے ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے.ایسا افسر ضر ور غلطی کرتا اور ناسمجھی میں مبتلاء ہے اور اس نے مذہبی نقطہ نگاہ کو سمجھا ہی نہیں.اصل بادشاہت خدا ہی کی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو دنیوی بادشاہتیں قائم ہی نہیں رہ سکتیں.کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ دنیا میں سارے لوگ اس لئے چوریاں نہیں کرتے کہ ان پر حکومت قائم ہے اور وہ قانون کی سزا سے ڈرتے ہیں.مثلاً ہندوستان کی ۳۳ کروڑ آبادی میں سے دس ہمیں لاکھ چوری کرنے والے ہوں گے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ باقی سب کے سب قانون سے ڈر کر چوری نہیں کرتے کیا سب لوگ اس لئے ڈاکے نہیں ڈالتے کہ انگریزی قانون انہیں پکڑ لے گا.اس قدر کثیر آبادی میں سے زیادہ سے زیادہ دو چار یا حد دس ہزار قاتل ہوں گے باقی جو قاتل نہیں تو کیا اس وجہ سے نہیں ہیں کہ انگریزوں کا قانون ہے کہ قاتل کو قتل کیا جائے ؟ بلکہ لوگ ان جرائم اور بد اخلاقیوں سے اس لئے بچتے ہیں کہ ان کے خدا نے ان کو منع کیا ہے اور اس طرح دنیوی حکومتیں چل ہی اس وجہ سے رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی دنیا میں حکومت ہے.مسلمان ، ہندو، عیسائی، سکھ، یہودی ، پاری سب مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بُرائیوں سے اس لئے بچتے ہیں کہ ان کے مذاہب نے ان باتوں سے منع کیا ہے ورنہ جو قتل کرتا اور ڈاکہ مارتا ہے وہ قانون کب دیکھتا ہے؟ پس دنیا کی بادشاہتیں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کی موجودگی کی وجہ سے چل رہی ہیں ورنہ اگر سب لوگ چوریاں کرنے لگ جائیں ، ڈاکے ڈالیں ، دغا فریب شروع کر دیں تو دنیوی حکومتیں باقی کس طرح رہ سکتی ہیں.دنیا میں ہر حکومت اعتماد پر چل رہی ہے.کمانڈر انچیف اعتماد کرتا ہے کہ اس کے ماتحت کمانڈ ر وفادار ہیں ، پارلیمنٹ اعتماد کرتی ہے کہ وائسرائے وفادار ہے اور وائسرائے اعتماد کرتا ہے کہ گورنر وفادار ہیں یہ اعتماد کس وجہ سے ہے یہ مذہب کے احساس کا ہی نتیجہ ہے.اگر مذہب کو مٹا دو تو یہ احساس کہاں رہ سکتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو حکومت چل ہی نہیں سکتی.پس حکام اگر غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ وہ دنیا میں حکومت کر ہی اس لئے رہے ہیں کہ خدا کی حکومت ان کے اوپر ہے اور اس کے بغیر ایک گھنٹہ کیا ایک منٹ بھی وہ حکومت نہیں کر سکتے دیکھو! کتنی قیمتی جانیں کتنے چھوٹے نوکروں

Page 379

خطبات محمود ۳۷۴ سال ۱۹۳۵ء کے سپرد ہوتی ہیں.بادشاہ کے ارد گرد چپڑاسی اور نوکر چاکر ہوتے ہیں اور کمانڈر کے گرد و پیش معمولی سپاہی اگر وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو حکومت کس طرح قائم رہ سکتی ہے اور اگر مذہب کا احساس نہ ہو تو یہ باتیں کبھی نہیں رہ سکتیں.پس یہ مذہب کا ہی اثر ہے جو د نیوی حکومتوں کو چلا رہا ہے.اثر میں اس لئے کہتا ہوں کہ دہریوں میں بھی پچھلے اثر کے ماتحت یہ بات پائی جاتی ہے پس باطنی حکومت ظاہری حکومت کی مدد کرتی ہے.جب میں یہ تعلیم دیتا ہوں کہ سچ بولو تو اس سے حکومت کو مدد ملتی ہے ، اسے فائدہ پہنچتا ہے نقصان کوئی نہیں ہوتا ممکن ہے اس سے کسی وقت معمولی سا نقصان بھی ہو.مثلاً کوئی بڑا افسر کسی سپاہی سے کسی وقت جھوٹی رپورٹ کرنے کے لئے کہے اور وہ نہ کرے لیکن اگر سب سچ بولنے لگ جائیں تو حکومت کے لئے کس قدر آرام ہو جائے.پس گوہم خدا کی بادشاہت قائم کرتے ہیں مگر دُنیوی حکومت کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں.جب ہم کہتے ہیں لڑائی مت کرو، فساد سے بچو، نیکی کرو تو اس سے دُنیوی حکومت کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے.پس کوئی آسمانی تعلیم دنیوی حکومت کے لئے مضر نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ کوئی نادانی سے اسے خلاف سمجھ لے.اس نقطہ نگاہ کو اگر حکومت سمجھ لے تو اس کے لئے اگلا حصہ سمجھنا بالکل آسان ہو جاتا ہے کہ جب مذہب کا مقام بالا ہے تو حکومت کا اپنے آپ کو خواہ مخواہ مذہبی فرقوں کے مقابل پر لا کھڑا کرنا دانائی نہیں ہو سکتی.جب وہ کسی مذہب میں شامل نہیں تو کیوں اپنی انگلی دوسروں کے پھٹے میں ڈالتی ہے.پس حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمارے نقطہ نگاہ کو سمجھ لے.جس طرح حکومت کو اپنے قیام کے لئے بعض چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خدائی حکومت کے لئے بھی بعض چیزیں ضروری ہوتی ہیں.جس طرح دُنیوی حکومت کو فوجوں اور سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خدائی حکومت ایمان سے قائم ہوتی ہے اور ایمان کے لئے سب سے ضروری چیز نشانات ہیں.جس طرح حکومت اپنی طاقت کے اظہار کے لئے چھانگا مانگا، انبالہ یا ایسے ہی دوسرے کھلے میدانوں میں فوجوں کی پریڈیں کراتی ہے ، یا شہروں میں باور دی پولیس اور فوجی تلواریں اور کر چیں لگا کر مظاہرہ کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سپاہی مؤمن ہوتے ہیں اور پریڈ وہ نشانوں کے ذریعہ کرتے ہیں.دنیوی گورنمنٹ باغی کو پکڑ کر قید کر دیتی ہے لیکن خدا تعالیٰ اپنے نیک بندے سے کہہ دیتا ہے کہ جاؤ اور کہہ دو کہ جو تم سے دشمنی کرتا ہے وہ ہلاک کر دیا جائے گا، تباہ کر دیا جائے گا اور پھر یہ تباہی کبھی زلزلہ سے آتی اور کبھی طاعون وہیضہ سے.پس خدائی پریڈ

Page 380

خطبات محمود ۳۷۵ سال ۱۹۳۵ء طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں سے ہوتی ہے یا کبھی وہ زمین کو ایک حرکت دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس بندے کو خبر دے کہ وہ جا کر لوگوں کو سنا دے، اس کے لئے اس کا اظہار ضروری ہوتا ہے.اور اگر ڈ نیوی حکومت اسے دست اندازی سمجھے اور کہے کہ یہ قتل کی انکیت ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں کے پھیلنے میں رُکاوٹ ڈالتی ہے اور مذہب میں دست اندازی کرتی ہے ، ملک میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتی.جب تک کسی مذہب میں بشارات اور انذار نہ ہوں وہ چل ہی نہیں سکتا.بچے مذہب میں یا تو یہ خبر ہوگی کہ میرے احکام ماننے والوں کو فائدہ ہوگا اور یا یہ کہ جو مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا وہ نقصان اُٹھائے گا.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ لِهَانَتَكَ وَانّى مُعِيْنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَكَ - جو شخص تیری اہانت کا ارادہ کرے گا، میں اس کی اہانت کروں گا اور جو تیری اعانت کا ارادہ کریگا میں اس کی اعانت کروں گا.اور پھر اس کا خلاصہ قرآن کریم میں یہ ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہوں گے اور دشمن ہلاک ہوں گے.پس مذہب کی بنیاد ایمان پر ہے اور ایمان بغیر نشانات کے قائم نہیں رہ سکتا.دنیا کے کاموں میں مبتلا لوگ خدا کو نشانوں کے بغیر کیسے مان سکتے ہیں.آج دنیا میں دہریت کی رو جاری ہے.اور ایک ہی چیز ہے جو اسے مٹا سکتی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات ہیں.تازہ نشانات ہی ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لا سکتے ہیں جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے تازہ نشانات سے عرب کے جاہل اور اُجڈ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا دیوانہ بنادیا تھا اسی طرح آج بھی آپ کے ایک شاگرد نے ان لوگوں کو جو یورپ کے فلسفہ کو پڑھنے والے ہیں ، اسلام کا والہ وشیدا بنا دیا ہے.ایمان ایک ایسی چیز ہے جو جاہل کو عالم اور عالم کو عاشق بنادیتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جاہلوں کو ایمان نے اعلیٰ درجہ کا عالم بنادیا تھا اور اس زمانہ میں فلاسفروں کو عشق کا جام پلا دیا ہے.پس کامل ایمان نشانات سے ہی قائم ہوتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت دکھاتا اور اپنے وجود کو ثابت کرتا ہے.معلوم نہیں اگر کسی کی تباہی کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جائے تو اس کا یہ مطلب کیونکر ہو سکتا ہے کہ یہ کسی کو انگیخت کی جارہی ہے کہ اسے تلوار سے قتل کر دے.اگر اس طرح ہو تو دنیا میں کوئی مذہب چل ہی نہیں سکتا.جب حضرت مسیح علیہ السلام نے دعوی کیا کہ ان کی تعلیم پھیل جائے گی تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ آپ قتل کی تعلیم دے رہے

Page 381

خطبات محمود الله سال ۱۹۳۵ء تھے ؟ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کیا کہ بادشاہت ان کے پیرووں کے ہاتھ میں آ جائے گی تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ وہ موجود الوقت حکومت کی بغاوت کی تعلیم دے رہے تھے ، جب اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کیا کہ آپ کے دشمن ناکام و نامراد رہیں گے تو کیا آپ اپنے اتباع کو یہ تعلیم دے رہے تھے کہ مخالفوں کو ماردو؟ اسی طرح جب ہم یہ یقین کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ہمیں حاصل ہے اور ہمارے مخالف تباہ ہو جائیں گے جس طرح ان کی اخلاقی موت واقع ہوئی ہے اسی طرح جسمانی بھی ہوگی تو اس کا یہ مطلب کس طرح ہو سکتا ہے کہ قتل کی تحریک کی جا رہی ہے؟ کیا بہار کا زلزلہ ہم نے پیدا کیا اور کوئٹہ میں ہم نے تلوار چلائی ؟ یہ سب تباہیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں.پس جب ہم دشمن کی ہلاکت کی خبر دیتے ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ انہیں تلوار سے ہلاک کر دیا جائے.اگر کوئی حکومت اس کے معنی قتل لیتی ہے تو اسے چاہئے کہ پہلے سارے انبیاء کو قاتل قرار دے لے کیونکہ یہ باتیں سب نے کہی ہیں.ایسے افسر کیوں ویدوں پر حملہ نہیں کرتے جب ان میں صاف الفاظ میں یہ دعائیں موجود ہیں کہ اے خدا ! ہمارے دشمنوں کو غارت کر دے، ان پر بجلیاں گرا کر انہیں ہلاک کر دے، ان کے بیل اور مویشی ماردے.پس جو افسر ہماری ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ ذرا جرات تو کریں ویدوں کے متعلق یہ بات کہنے کی کہ ان میں ہندوؤں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ غیر ہندوؤں کو قتل کر دیں ذرا جرات تو کریں یہ کہنے کی کہ قرآن کریم میں قتل کی تلقین ہے ، ذرا جرات تو کریں یہ کہنے کی کہ حضرت مسیح نے قتل کی تعلیم دی ہے.جب کسی اور کے متعلق وہ ایسا نہیں کہہ سکتے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے متعلق کہتے ہیں.کیا یہ اس لئے نہیں کہ وہ ہمیں قلیل التعداد اور کمزور سمجھتے ہیں اور اس طرح اخلاقی مجرم بنتے ہیں.بہادر آدمی کبھی کمزور پر ہاتھ نہیں اُٹھا تا بلکہ اس کی مدد کرتا ہے.جب ہم ایسی خبروں کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہو گا.وہ جس طرح چاہے گا ہمارے دشمنوں کو ہلاک کرے گا.اب دیکھو کتنے لوگ ہیں جو ان پیشگوئیوں کے ماتحت خدائی ہاتھ سے تباہ ہوئے اور کتنے ہیں جو انسانی ہاتھوں سے.اگر ایسی خبروں کے معنی قتل کی تحریک ہوتے ہیں تو کسی ایک کے قتل ہونے پر باقی ۹۹ کس طرح قتل ہونے سے بچ گئے ؟ فرض کرو کہ ہم قتل کی تحریک کر سکتے ہیں مگر کیا زمین کو حرکت دے کر زلزلہ بھی لا سکتے ہیں؟ طاعون اور ہیضے کے کیڑے بھی بھیج سکتے ہیں؟ کیا یہ چیزیں بھی ہماری تابع ہیں.پس حکومت کا ہماری باتوں کو

Page 382

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء وہ معنی دینا جو صحیح نہیں اور جن سے سب انبیاء پر اعتراض آتا ہے سخت بے انصافی اور مذہب میں صریح دست اندازی کے مترادف ہے.جو بات کہنے کا ہمیں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے اسے ہم کسی کے ڈر سے نہیں چھوڑ سکتے.اگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ کہہ دے تیرا دشمن ہلاک ہوگا تو ہم یہ کہنے سے کبھی نہیں رُک سکتے.پس میں پھر وہ باتیں دُہراتا ہوں اور پھر یہ کہتا ہوں کہ جو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل پر کھڑا ہو گا وہ تباہ کر دیا جائے گا.اگر حکومت اسے قتل کی تحریک سمجھتی ہے تو مجھے پکڑ لے گرفتار کر لے اور مقدمہ چلائے.لیکن وہ سمجھ لے کہ وہ ایسا کرنے میں آسمانی بادشاہت کی مجرم ہوگی.جیسے وہ افسر جو اپنے سے بڑے افسر کے پیغام کو روکنا چاہتا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ایک بات کہے اور ہم اسے چھپائیں سوائے اس کے کہ وہ خود ان کے اظہار سے روک دے.انذاری پیشگوئیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک تو اصولی مثلاً ایک تو یہ کہ ہمارے دشمن تباہ ہو جائیں گے اسے تو ہم کسی صورت میں نہیں چھپا سکتے کیونکہ یہ تو صداقت کا نشان ہے اور یہ قرآن کریم کی اس آیت کا ترجمہ ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی.اگر اسے چھپائیں تو نبوت ثابت ہی نہیں ہوسکتی.حکومت کے احکام ہم اُسی وقت تک مانتے ہیں جب تک وہ خدا کے احکام سے نہ ٹکرائیں.اگر ایسا ہو کہ حکومت کے احکام خدائی احکام کے ساتھ ٹکرائیں تو اس صورت میں ہم خدا کے احکام مانیں گے، اس کے کیوں مانیں جو خدا کی غلام ہے.میں سمجھتا ہوں ہر دیانتدار ہندو ، پارسی ،سکھ ، مسلمان یہی کہے گا کہ ہم حکومت کے اُسی دن تک فرماں بردار ہیں جب تک وہ خدا کے مقابل پر کھڑی نہیں ہوتی اور جو حکام خواہ مخواہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے مقابل پر لا کھڑا کرتے ہیں وہ سخت نادانی کرتے ہیں.کوئی وجہ نہیں کہ دنیوی حکومتیں اس بات سے ڈریں کہ خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو بلکہ انہیں خوش ہونا چاہئے کہ اس سے دنیا میں امن قائم ہو گا.ہاں عارضی جھگڑے ہوں تو بے شک ہوں اور ایسا ہونا ضروری ہے کیونکہ اکثریت نبی کی اتباع کرنے والی اقلیت کی روحانی طاقتوں کو دیکھ کر غصہ میں آ جاتی ہے اور اسے مٹانا چاہتی ہے.حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ انصاف سے کام لے کر اقلیت کی مدد کرے نہ یہ کہ اکثریت سے ڈر کر اقلیت پر ظلم کرنے لگے.غرض اس قسم کے فساد کو کوئی نہیں روک سکتا.جب کوئی نیا سلسلہ قائم ہوتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں گند ہو وہ اسے تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس سے کچھ عارضی فساد بھی پیدا ہوتے ہیں ورنہ دنیا میں آسمانی حکومت کے قیام سے امن ہی بڑھتا

Page 383

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہے.میں بتا رہا تھا کہ پیشگوئیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک تو عام جن کے بغیر نبوت ثابت ہی نہیں ہو سکتی.مثلاً یہ کہ جو ہمارے مقابل پر ہو گا وہ تباہ کیا جائے گا.انسی مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ وَإِنِّي مُعِيْنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتک یہ عام پیشگوئی ہے جسے کسی کے کہنے پر چھوڑ انہیں جاسکتا.ہاں دوسری پیشگوئیاں افراد کے متعلق ہوتی ہیں ان کے اخفاء کے لئے اجازت کی ضروت ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہو تو چھپایا جا سکتا ہے ورنہ نہیں.ایسی ہی پیشگوئیاں تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عدالت میں وعدہ کیا تھا کہ انہیں شائع نہیں کریں گے.نادان اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو چھپایا لیکن جب یہ الہام پہلے ہی شائع شدہ تھا کہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ وَإِنِّي مُعِيْنٌ مَنْ اَرَادَ إِعَانَتَک تو چھپایا کس چیز کو گیا ؟ کیا بعد میں اس کی اشاعت کو آپ نے بند کر دیا ؟ وہ بدستور قائم تھا اصولی طور پر تو اس کے بعد کسی اور اصل کی اشاعت کی ضرورت ہی نہ تھی.باقی صرف تشریح تھی اور آپ نے تشریح کے متعلق ہی وعدہ کیا تھا اصل کے متعلق آپ نے کبھی ایسا وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی کر سکتا ہے.تشریحات میں سے بعض کو چھپا دیا جائے تو نشان میں کوئی فرق نہیں آتا.جس قسم کی تشریحات کو آپ نے چھپایا ایسا تو تمام انبیاء کرتے آئے ہیں.ہاں اصول کو ہم کبھی نہیں چھپا سکتے اور اگر حکومت اس کے متعلق یہ کہتی ہے کہ تم قتل کی تحریک کرتے ہو تو ہم خدا کا حکم ماننے پر مجبور ہیں اور اس کے اظہار سے کسی کے کہنے پر رُک نہیں سکتے مگر ان سے قتل کی تحریک مراد لینا قطعاً غلط ہے.۹۹ فی صدی دشمن ہمارے ایسے ہیں جو خدائی ہاتھوں سے ہلاک ہوئے اور ان کی نظیریں ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ قتل کی تحریک کی گئی ہے کس قدر ظلم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی ایک ایسی پیشگوئیاں کیں مگر ان میں سے صرف ایک ہی ایسی ہے جس کے متعلق اعتراض کیا گیا اور وہ لیکھرام کے متعلق پیشگوئی ہے اور ایک کی وجہ سے ۹۹ کو چھوڑ دینا اور کہنا کہ ایسی پیشگوئیوں کی غرض قتل کی تحریک ہوتی ہے کھلی کھلی نا انصافی اور بے سمجھی کی بات ہے.پس انداری پیشگوئیاں مذہب کا حصہ ہیں اور جو ان میں دست اندازی کرتا ہے وہ مذہب میں دست اندازی کرتا ہے.اور ایک مؤمن مر جانا پسند کرے گا بہ نسبت اس کے کہ ایسے حکم کو مانے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود کسی پیشگوئی کے اخفاء کا حکم دے دے.رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تھی کہ بدر کی لڑائی میں فلاں فلاں کا فرفلاں فلاں جگہ پر ہلاک ہوں گے مگر آپ نے یہ صرف چند

Page 384

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ایک دوستوں کو بتا یا عام اعلان نہیں کیا.سوایسی خبروں کے سوا جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اخفاء کا حکم ہوا نذاری پیشگوئیوں کی اشاعت سے ہم کبھی نہیں رہ سکتے اور نہ ان کے یہ معنی ہو سکتے ہیں کہ یہ قتل کی تحریک ہے.صرف ایک پنڈت لیکھرام کے متعلق یہ پیشگوئی ہے جس کے انسانی ہاتھ سے پورا ہونے کا خیال ہو سکتا ہے مگر اس کے قاتل کو بھی آج تک حکومت گرفتار نہیں کرسکی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تلاشی لی گئی اور بھی کئی احمدیوں کی تلاشی لی گئی مگر کوئی ثبوت نہ مل سکا کیونکہ یہ فعل فرشتہ کا تھا اور اگر انسان کا تھا تو وہ بھی فرشتہ ہی تھا.انسانی ہاتھوں سے ہلاکت خدا تعالیٰ کی سنت نہیں.خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ آسمانی عذابوں سے ہلاک کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی دشمن حکومت کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ، مولوی محمد حسین بٹالوی کی تذلیل کیپٹن ڈگلس کے ہاتھ سے ہوئی.کیا اسے بھی انگیخت کی گئی تھی؟ یا مولوی محمد حسین بھی احمدی تھا کہ اس سے ایسی حرکت کرائی گئی ؟ اگر وہ کرسی نہ مانگتا تو تذلیل نہ ہوتی پس یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا.اس میں کسی کی انگیخت کہاں ہے.پس ایسی پیشگوئیوں کا کثیر حصہ آسمانی عذاب سے پورا ہوتا ہے اور ان کو انکیت قرار دینا مذ ہب میں صریح دست اندازی ہے اور مذہب کی بنیاد کو مٹانا ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات پیش نہ کریں تو کیا کریں ہم تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں ہی شائع کرتے ہیں.جو چاہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملی ہوں یا آپ کے صحابہ کے ذریعہ.اور ان کے اظہار پر مجبور ہیں.ان باتوں میں ہم حکومت کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں.وہ ہمیں ہندوستان سے نکال سکتی ہے مگر جب تک اللہ تعالیٰ کی اجازت نہ ہو ان خبروں کے شائع کرنے سے روک نہیں سکتی اور اگر کوئی گورنمنٹ جو یہ حکم دے کہ خدا کی نہ مانو ، معقول اور عقلمند نہیں ہوسکتی.پس انگریزی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ رعایا کے نقطہ نگاہ کو سمجھے.اگر حکام یہ جانتے کہ ہم میں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق ہی یہ ہے کہ ہم زندہ اسلام پیش کرتے ہیں اور ان کا اسلام ایک مُردہ جسم ہے تو وہ کبھی نہ کہتے کہ یقتل کی تحریک کی جاتی ہے.اگر حکومت ہم سے یہ خواہش رکھے کہ ہم اس زندگی کو مٹا دیں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا.اس کی طرف سے ایسا مطالبہ مذہب سے ناواقفیت کی دلیل ہے پس میں حکومت کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مذہب کا مطالعہ بھی ضرور کریں تا جن لوگوں سے ان کا معاملہ ہے ان کے خیالات سے بھی آگاہی ہو، تا انہیں علم ہو کہ پیشگوئی کیا ہوتی ہے اور یہ کہ زندہ نشان کے بغیر ایمان محفوظ نہیں رہ

Page 385

خطبات محمود ۳۸۰ سال ۱۹۳۵ء سکتا اور اگر ایمان محفوظ نہ ہو تو انبیاء کی آمد بے فائدہ ہو جاتی ہے اگر حکام کو ان باتوں کا علم ہوتا تو پیشگوئی کا نام قتل کی انگیخت نہ رکھتے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کو توفیق دے کہ مذہب کو پرکھیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے کہ حکام کو ہمارے خیالات معلوم ہو جاتے ہیں.ایک تو ڈائری نویس خطبہ لکھ کر لے جاتے ہیں جو نیچے سے اوپر تک سب پڑھتے ہیں.پہلے اس کا انہیں علم بھی نہ ہوتا تھا اسی طرح کتابیں بھی پڑھنے کا انہیں موقع ملتارہتا ہے.سابق چیف سیکرٹری نے ہمارے ایک دوست سے بیان کیا کہ میں پندرہ روز سے مرزا صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کی کتب پڑھ رہا ہوں.کسی کو کیا خبر ہے کہ ان میں سے کسی کا دل اللہ تعالیٰ کھول دے اور وہ مسلمان ہو جائے اس لئے میں حکام کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ یہ وقت ہے اور ان کے لئے مناسب ہے کہ مذہب کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ پیشگوئی کیا ہوتی ہے ، انذاری پیشگوئیوں کا کیا مطلب ہوتا ہے اور کہ انذاری پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے پوری ہوتی ہیں تا ان کو پتہ چلے کہ مذہب ان کے بغیر نہیں چل سکتا اور ان میں کسی قسم کی رُکاوٹ پیدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ مذہب میں مداخلت کی جائے.اگر یہ قتل کی انگیخت ہے تو ویدوں میں ، بائبل اور قرآن کریم میں یہ بات موجود ہے اور سب انبیاء اس کے مرتکب ہوئے ہیں.حکومت پہلے ان سے معاملہ کر لے بعد میں ہم سے کرے کیونکہ ہم تو بعد میں آئے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حکام کے دل کھول دے اور وہ مسلمان ہو جائیں.آخر ایک دن انہیں مسلمان ہونا ہی ہے.ہزاروں آدمی ایسے ہیں جو پہلے گالیاں دیا کرتے تھے مگراب مخلص احمدی ہیں اسی طرح یہی حاکم جو آج ہمارے مخالف ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے دل کھول دے تو ہمارے ممد و معاون ہو سکتے ہیں.حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے کہ جلسہ کے دنوں میں ایک موقع پر چالیس پچاس آدمی ایک طرف سے آرہے تھے اور چار پانچ دوسری طرف سے.تھوڑی دیر وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر گلے مل کر چھینیں مار کر رونا شروع کر دیا.حافظ صاحب کہتے تھے کہ اس نظارہ کا مجھ پر بہت اثر ہوا اور میں نے ان سے دریافت کیا کہ بات کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ چار پانچ آدمی ہمارے گاؤں میں پہلے احمد کی ہوئے تھے ہم نے ان کو سخت دُکھ دیئے حتی کہ یہ لوگ وطن چھوڑ کر نکل گئے اور دس بارہ سال تک ہمیں ان کے متعلق کچھ علم نہ ہو سکا بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق دے دی اور ہم احمدی ہو گئے.آج پہلی دفعہ یہاں ایک دوسرے سے

Page 386

خطبات محمود ۳۸۱ سال ۱۹۳۵ء ملے ہیں اور پرانے زمانہ کو یاد کر کے نہ ان سے برداشت ہوسکا اور نہ ہم سے.پس ہمارے ایمان کی بنیاد ہی نشانوں پر ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ سب گورے اور کالے اسی ڈیوڑھی پر آئیں گے.کوئی اٹھارہ سال کا عرصہ ہو ا یعنی اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں ہی میں نے دو تین بار یہ نظارہ دیکھا کہ یہ مسجد جس میں میں اب کھڑا ہوں اتنی بڑی ہے ایک کنارے سے دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا.وائسرائے عقیدت کے ساتھ آئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بادشاہ سلامت آنا چاہتے ہیں اور وہ ان کی آمد کے سلسلہ میں انتظامات دیکھنے کے لئے آئے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ بادشاہ بھی آئے ہیں اور مسجد سے باہر پریڈ کا ملاحظہ کر رہے ہیں.پس جہاں بادشا ہوں ، وائسرالیوں اور سب چھوٹے بڑے افسروں نے آنا ہے.یہ عارضی اور وقتی دشمنی ہے جو ناواقفی اور نا سمجھی کے باعث ہے وہ ہمارے نقطہ نگاہ کو نہیں سمجھتے ورنہ حکومت اور بچے مذہب کا باہم تصادم نہیں ہو سکتا.اور اگر ہو بھی تو یہ حکومت کا قصور ہو گا اور اس کا نتیجہ اسی کے حق میں بُرا ہو گا.مذہب تو امن قائم کرنے کے لئے آتا ہے اس سے حکومت کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے.الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۳۵ء) ص: ۶ کے تذکرہ صفحہ ۲۰۰.ایڈیشن چہارم المجادلة: ۲۲

Page 387

خطبات محمود ۳۸۲ ۲۵ سال ۱۹۳۵ء مظلومیت کی پکار بدرگاہ کردگار (فرموده ۵ / جولائی ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے اپنے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ بددعا کے متعلق میرے خیالات میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے.میں آج اسی کے متعلق اپنے گزشتہ اور موجودہ خیالات کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں بعض انبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی بددعائیں اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہیں.مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے ایک دعا یہ بیان فرماتا ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا یعنی اے خدا زمین پر کفار میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ اور جب آدمی نہ رہے تو بستیاں بھی نہ رہیں.گویا سب دنیا کو کفر کے نقطہ نگاہ سے ویران کرنے کی بددعا کی ہے.اسی طرح کی اور کئی بددعائیں ہیں.جو بعض ممالک یا شہروں کے متعلق قرآن کریم یا دوسری کتب سماویہ یا رسول کریم ﷺ کے حالات سے ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے دعا کی کہ خدایا! ان کفار کو ویسے ہی سالوں سے پکڑ جیسا تو نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قوم کو پکڑا تھا کے یعنی جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر والوں پر قحط کا عذاب اُتر ا اُسی طرح یہاں بھی قحط پڑے اور لوگ بھوک کے عذاب میں مبتلاء ہوں.میں ان تمام حالات کو دیکھ کر یہ سمجھا کرتا تھا کہ اس قسم کی بددعا الہی اذن سے ہوا کرتی ہے.

Page 388

خطبات محمود ۳۸۳ سال ۱۹۳۵ء یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مامور و مُرسل یا کسی فرستادہ کو حکم دیتا ہے کہ بددعا کرو، تب وہ بددعا کرتے ہیں ور نہ خود اپنی ذات میں ان کے دل میں اس قسم کی تحریک پیدا نہیں ہوتی.میرے اس خیال کی بنیاد یہ ہوا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجہ میں لازمی طور پر بنی نوع انسان سے انسان کو محبت ہو جاتی ہے جیسے باپ کے ساتھ محبت کرنے والے لڑکے کو اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی محبت ہوتی ہے.پس جس طرح ماں باپ سے محبت کرنے والا بچہ اپنے بھائیوں سے محبت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا انسان بنی نوع انسان سے محبت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور جوں جوں کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے گی اسی قدر بنی نوع انسان کی محبت بھی اس کے دل میں بڑھتی چلی جائے گی پس جس قد ر کوئی اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا اُسی قدر وہ شفقت على الناس کا بہترین نمونہ ہوگا.اس بناء پر میرا خیال یہ تھا کہ انبیاء و اولیاء کسی کے لئے بددعا نہیں کرتے سوائے اس کے کہ انہیں بددعا کرنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن دیا جائے اسی وجہ سے میں نے موجودہ تبدیلی خیال سے پہلے کبھی کسی کے لئے بددعانہیں کی کیونکہ میں ہمیشہ یہ خیال کرتا تھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ سزا کا مستحق سمجھے گا وہ آپ اُسے سزا دے لے گا لیکن اب میرے خیالات میں اس بارے میں کسی قدر تبدیلی پیدا ہوئی ہے.وہ اصول تو بالکل پکے اور صحیح ہیں اور ان کی تبدیلی نہیں ہو سکتی یعنی نہ اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے کہ جتنی زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ سے محبت کرے گا اتنی ہی زیادہ وہ اس کے بندوں سے محبت رکھے گا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے کہ کسی کو سزا اور عذاب دینا یہ معاملہ کلیۂ خدا تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے وہ آپ حج اور قاضی ہے جسے چاہے عذاب دے اور جسے چاہے انعام دے ہم اس کے معاملات میں دخل دینے والے کون ہیں؟ لیکن گزشتہ دنوں میں اس بارے میں دعا اور غور کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے جو کچھ بھی سمجھایا وہ یہ ہے کہ گلی طور پر بددعا کا سلسلہ بند نہیں بلکہ بد دعا ایک ضرورت کو پورا کرتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بہت دفعہ اللہ تعالیٰ کے مامور خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت بددعا کرتے ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ دعا یا بد دعا کرنے والے کو دعا یا بد دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے روکا جاتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ روک دیا گیا.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ بددعا کرنا انسان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے اور مجھے خدا تعالیٰ نے

Page 389

خطبات محمود ۳۸۴ سال ۱۹۳۵ء اب یہی سمجھایا ہے.در حقیقت یہ انسانی نفس کی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے نقصان کے مقابلہ میں بڑے نقصان کو ترجیح دے دیتا ہے.مثلاً ایک کمزور طبیعت والا انسان لڑائی کے بہر حال مخالف ہوگا اور باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے جہاد کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے پھر بھی اس کمزور طبیعت والے کے لئے یہ بڑی مشکل چیز ہوگی.چنانچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی دو صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ لڑائی سے بڑے گھبراتے اور اس حد تک یہ بات ان کی طبیعت میں داخل تھی کہ رسول کریم ﷺ بھی ان کی طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے عملی جہاد میں انہیں شامل نہیں کیا کرتے تھے.یہ نہیں کہ وہ منافق تھے وہ دوسرے صحابہ کی طرح ایمان رکھتے تھے صرف طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے لڑائی میں شامل ہونے سے گھبراتے تھے.ان میں سے ایک حسان بن ثابت بھی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو ایک صحابیہ کہتی ہیں حسان کو رسول کریم عورتوں کی حفاظت کے لئے چھوڑ گئے.چونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ لڑائی نہیں کر سکتے.معلوم ہوتا ہے آنحضرت ﷺ نے سوچا کہ عورتوں کی حفاظت ہی ان کے سپر د کر دی جائے تا انہیں خیال رہے کہ یہ بھی جہاد میں شریک ہیں.آپ کا یہ بھی خیال ہو گا کہ عورتیں چونکہ لشکر کے پیچھے ہوتی ہیں ان کے پاس کوئی دشمن نہیں آئے گا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت اتفاقا کوئی دشمن فوجی صفوں سے آنکھ بچا کر عورتوں پر حملہ کرنے کے لئے آ گیا.اب عورتیں کہہ رہی ہیں کہ حستان ! آگے بڑھو آگے بڑھو مگر حستان ہیں کہ عورتوں کے پیچھے چھپتے چلے جارہے ہیں.آخر وہ صحابیہ کہتی ہیں کہ ہم نے خود ہی ایک ڈندا اُٹھایا اور زور سے اس دشمن کے سر پر مارا وہ ڈنڈے کی چوٹ کھا کر گر گیا اور اُس کا تہ بند کھل گیا.نگا ہو جانے کی وجہ سے عورتوں نے تہہ اپنا منہ ایک طرف کر لیا اور حستان سے کہا اس پر کپڑا ڈال دو پھر ہم خود اس کو پکڑ لیں گی مگر وہ کپڑا ڈالنے کی بھی جرات نہ کر سکے.سے تو بعض طبائع اس قسم کی کمزور ہوتی ہیں کہ وہ لڑائی کی طرف جاہی نہیں سکتیں ، ان میں منافقت نہیں ہوتی ، بے ایمانی نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک جسمانی کمزوری ہوتی ہے.اب تو پچھلے ایجی ٹیشن کے دنوں سے کشمیری بہت بہادر ہو گئے ہیں اور ایجی ٹیشن کے دنوں میں انہوں نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں.کہا جاتا ہے کہ ایک وقت جب گورنمنٹ کشمیریوں کو فوج میں بھرتی کر لیا کرتی تھی جب ایک لڑائی کے وقت میں انہیں کہا گیا کہ دشمن پر گولیاں چلائیں تو انہوں نے کہا کہ ہمارا دل کا نپتا ہے ہم دشمن پر گولی نہیں چلا سکتے.آخر بہت سے اصرار کے بعد بھی جب وہ گولی

Page 390

خطبات محمود ۳۸۵ سال ۱۹۳۵ء چلانے پر آمادہ نہ ہوئے تو بعض افسروں نے پستول ان کے سینوں کی طرف کر دیئے اور کہا کہ اگر تم دشمنوں پر فائز نہیں کرو گے تو ہم تم پر فائر کر کے تمہیں ہلاک کر دیں گے.انہوں نے کہا بے شک ہمیں ماردیں مگر ہم مجبور ہیں کیا کریں ہم سے بندوق کا گھوڑ اکھنچتا ہی نہیں.تو بعض طبائع سخت کمزور ہوتی ہیں مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے جہاد سب پر فرض کیا ہے اور جہاد یہ بتا دیتا ہے کہ اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے دوستوں اور اپنے ساتھیوں کے مقابلہ میں اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کتنی ہے ، جہاد ہی ہے کہ جو یہ بات روشن کر دیتا ہے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کو مؤمن ترجیح دیتے ہیں یا اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں اور دوستوں کو.روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادہ نے جو ابھی داخلِ اسلام نہیں ہوئے تھے ، بدر یا اُحد کی جنگ میں مسلمانوں کے مقابل پر لڑائی کی.اس کے بعد کسی اور موقع پر جبکہ وہ مسلمان ہو چکے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھر میں آئے.اور مختلف امور پر باتیں ہونے لگیں چونکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول کریم ﷺ کے گھر میں تھیں اس لئے یہ ایک ہی خاندان تھا اور آپس میں باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لڑکے نے کہا ابا جان ! فلاں جنگ میں ایک موقع پر آپ جب واپس لوٹ رہے تھے تو میں ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھا اگر میں چاہتا تو اُس وقت حملہ کر کے آپ کو مار دیتا مگر مجھے خیال آیا کہ آپ میرے باپ ہیں اس لئے میں نے آپ پر ہاتھ نہ اُٹھایا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو فرمایا خدا تعالیٰ نے تجھے ایمان دینا تھا اس لئے میں تجھے نہ دیکھ سکا ورنہ اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار دیتا.یہ کفر و ایمان کا فرق ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ چونکہ ایمان کو ہر حالت میں مقدم رکھتے تھے اس لئے آپ نے کہا کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں میں کسی کی پرواہ نہ کرتا.اگر میرے سامنے میرا بیٹا بھی آتا تو مارا جاتا لیکن کفر میں ذاتیات کا سوال آ گیا.تو جہاد میں آکر آزمائش ہو جاتی ہے انسان کے ایمان کی اور آزمائش ہو جاتی ہے اس کی محبت الہی کی.مگر جس زمانہ میں جہاد نہیں ہوتا اس زمانہ میں ایمان کی آزمائش کا ذریعہ کونسا ہے.ایسے موقع پر بددعا ہی ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعہ انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے اور دنیا پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کو ترجیح دیتا ہے.یا اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو.جب انسان اپنے عزیز سے عزیز رشتہ دار کو ایسے مقام پر کھڑا ہوا دیکھے جو صداقت کے لئے مضر

Page 391

خطبات محمود ۳۸۶ سال ۱۹۳۵ء ہو اور اس کی ترقیات کو روکنے والا ہو.تو ایسے موقع پر جبکہ جہاد بالسیف کا وقت نہیں ہوتا ایک ہی ذریعہ انسان کے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اس دشمن دین کو مد نظر رکھتے ہوئے دعا کرے کہ اے خدا ! یہ تیرے دین کے راستہ میں روک بنا ہوا ہے اس کی وجہ سے تیرا قائم کردہ سلسلہ دنیا میں پھیلنے سے رُک رہا ہے.اے خدا ! اسے ہدایت دے لیکن اگر تیری مشیت نے اسے ہدایت سے محروم کر دیا ہے تو پھر تو اسے تباہ و برباد کر کے اپنے دین کی اشاعت کا راستہ کھول دے.بے شک کمزور طبائع ایسے موقع پر کمزوری دکھائینگی اور وہ کہیں گی کہ ہم اپنے منہ سے اپنے باپ یا اپنی ماں یا اپنے بھائی یا اپنی بہن یا اپنے کسی اور عزیز اور رشتہ دار کے لئے کس طرح بد دعا کریں مگر وہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی صفت اپنے اندر رکھتے ہیں ، وہ جنہوں نے انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات کا دودھ پیا ہوا ہوتا ہے ، وہ جب دیکھتے ہیں کہ اصلاح کی تمام کوششیں رائگاں چلی گئیں جب دیکھتے ہیں کہ خیر خواہی کی ہر بات کو ٹھکرا دیا گیا، جب دیکھتے ہیں کہ ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا اور دشمن کے وجود کے ذریعہ اس کے دین کو نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ اس وقت بد دعا کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے نقصان کی کوئی پرواہ نہیں.رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا.اے خدا! آج ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو اس زمین پر کوئی کافر نہ چھوڑ سب کو اپنے قہر سے ہلاک کر دے.یہ دعا ہے جو اسلام کے راستہ سے ہر قسم کی روکوں کو دُور کرنے والی ہے.آخر دنیا کی آبادیاں کس لئے ہیں اور کیوں خدا تعالیٰ نے یہ تمام نظام قائم کیا ہے؟ انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وہ دین کی ترقی کا موجب ہو اور خدا تعالیٰ کے نور کو ظاہر کرنے والا ہو لیکن جب تمام کوششوں کے باوجود بعض لوگ ایسے ہوں جن کی موجودگی اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہو تو کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ اپنے نفس کی کسی کمزوری کا خوف ہو.یا سوائے اس کے کہ ابھی ہدایت کی امید ہو، یہ دعا نہ کی جائے کہ یا تو خدا اسے ہدایت دے یا اسے تباہ کر کے ہمارے راستہ سے ہٹا دے.لیکن بہر حال پہلی چیز ہدایت کی دعا ہے اور پہلے انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ دشمن کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے اور اس کے بعد جب شرارت حد سے بڑھ جائے تو پھر بد دعا.لیکن بد دعا کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کرے کہ اے خدا! اگر ممکن ہو سکے تو اسے ہدایت دے اور اگر یہ

Page 392

خطبات محمود ۳۸۷ سال ۱۹۳۵ء تیری غیر مبدل تقدیر کے خلاف ہو تو پھر تیری مرضی پوری ہو اور تو اسے مزید شرارت کا موقع نہ دے اور اسے تباہ کر.جیسا کہ حضرت مسیح ناصری نے دعا کی اور کہا.”اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالا مجھ سے مل جائے.تاہم جیسا میں چاہتا ہوں ویسا نہیں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو ہم اسی طرح جب انسان پر کوئی ایسا موقع آئے جبکہ اس کے عزیز ، اس کے رشتہ دار، اس کے دوست ، اس کے اقارب ، اس کے ہم قوم ، اس کے ہم مذہب، اس کے ہم ملک اور بڑے بڑے مکھیا اور قوم کے رئیس اور حکمران کہلانے والے دین کے راستہ میں روک بن کر کھڑے ہو جائیں تو اُس وقت وہ دعا کرے کہ الہی ! ان لوگوں کو سمجھ اور عقل دے لیکن اگر تیرے علم میں ان کے لئے ہدایت مقدرنہیں تو پھر انہیں تباہ کر کے ہماری کامیابی کے راستہ کو صاف کر دے.ہمارے دل کو بیشک اس کے ذریعہ سے دُکھ پہنچے لیکن اے خدا! ہم تیرے سلسلہ کے راستہ میں کسی روک کو برداشت نہیں کر سکتے.یہ وہ ذریعہ ہے جس کے ماتحت انسان کے ایمان کی آزمائش ہو جاتی ہے.آخر حضرت نوح علیہ السلام نے جب کہا تھا کہ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارٌ اتو بالکل ممکن ہے ان کفار میں کوئی ان کا ماموں ہو ، کوئی خالو، کوئی بھائی ہو، کوئی چچا، پھر بیویوں کی طرف سے رشتہ دار ہوں ، دوست ہوں ، عزیز واقارب اور احباب ہوں لیکن باوجود اس کے کہ وہ ملک ان کا ملک تھا ، وہ قوم ان کی قوم تھی پھر بھی حضرت نوح علیہ السلام نے ان کی پرواہ نہ کی.اور بددعا سے پہلے خدا تعالیٰ سے یہ عرض کر دیا کہ اے خدا! مجھ سے جس طرح بھی ممکن ہو سکتا تھا میں نے ان کو سمجھایا.میں نے انہیں پوشیدہ بھی سمجھایا اور ظاہر بھی ، دن کو بھی سمجھایا اور رات کو بھی ، ہر رنگ اور ہر طریق سے میں نے کوشش کی کہ انہیں تیرے دین میں داخل کروں لیکن اے خدا! جب ان کا انکار اپنی حدوں سے بڑھ گیا اور اب تیرے دین کے راستہ میں یہ روک بن کر کھڑے ہو گئے تو اب یہی صورت باقی ہے کہ تو انہیں غارت کر اور اپنی قہری تجلیات سے برباد کر دے.پس بد دعا کرتے وقت دو باتوں کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.ایک تو یہ کہ ہدایت کو مقدم رکھے یعنی پہلی دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دے اور انہیں عقل و سمجھ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرے یہ کہ بددعا کبھی نفسانیت کے ماتحت نہ ہو.یہ نہ ہو کہ کسی سے ذاتی جھگڑ اہوا اور

Page 393

خطبات محمود ۳۸۸ سال ۱۹۳۵ء اس کے لئے بددعا کر دی جائے.ہماری جماعت کے ایک صاحب ہوا کرتے تھے جو میرے استاد بھی تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی انہوں نے بہت خدمت کی ، میں ہمیشہ ان کا ادب کیا کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں.انہیں فٹ بال کا بہت شوق تھا ہم بھی فٹ بال کھیلا کرتے لیکن فٹ بال کھیلتے ہوئے جب ذرا سا بھی اختلاف ہو جاتا تو وہ بددعائیں کرنے پر تیار ہو جاتے.قاعدہ ہے کہ فٹ بال کھیلتے وقت اگر کسی شخص کا فٹ بال کو ہاتھ لگ جائے تو یہ اس فریق کی غلطی سمجھی جاتی ہے اور دوسرے فریق کو ایک لک مارنے کا حق ہوتا ہے.اس قسم کا جب بھی کھیلتے وقت کوئی جھگڑا ہو جاتا تو وہ کھڑے ہو کر بے اختیار قسمیں کھانے لگ جاتے کہ خدا کی قسم ! ایسا نہیں ہوا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.خدا کا غضب اترے اگر ہم نے جھوٹ بولا ہو.ہم ہمیشہ انہیں سمجھاتے کہ یہ کھیل ہو رہی ہے اور ہم سب کھیلنے کے لئے یہاں آئے ہیں بھلا یہاں مباحثہ اور مباہلہ کا کیا تعلق ہے مگر ان پر اثر نہ ہوتا.ایک دفعہ کی بات تو مجھے آج تک یاد ہے اور اس کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہے کہ وہ نظارہ اور وہ جگہ جہاں وہ واقعہ ہوا مجھے پوری طرح یاد ہے.ریتی چھلہ میں ہم فٹ بال کھیل رہے تھے جنوبی طرف وہ پارٹی تھی جس طرف مولوی صاحب تھے اور شمالی طرف دوسری پارٹی.میں بھی انہی کی طرف تھا.دوسری طرف سے بال لایا جا رہا تھا کہ آپس میں مقابلہ ہو گیا.ایک بال کو ادھر لے جانے کی کوشش کرے.اور دوسرا اُدھر ، اسی کشمکش میں مولوی صاحب نیچے گر گئے.دوسرے کھلاڑی نے یہ خیال کر کے کہ بال کو ہاتھ لگ گیا ہے جھٹ کہہ دیا کہ ہینڈ بال.اب مولوی صاحب یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے مجھ سے مباہلہ کر لو، ابھی کر لو یہاں نہیں کرتے تو بڑی مسجد میں چلو.ہم اب ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ مولوی صاحب یہ کھیل ہے اس کا مباہلہ سے کیا تعلق ہے اور مولوی صاحب ہیں کہ اُچھلتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں مباہلہ کر لو اس کے سوا اس کا علاج ہی کوئی نہیں.تو ایک یہ لوگ ہوتے ہیں اور گو جس شخص کا میں نے واقعہ سنایا ہے ان کے دماغ میں نقص تھا مگر کئی ہوشمند بھی ایسے ہوتے ہیں جو اس قسم کی حرکات کر بیٹھتے ہیں.چنانچہ ایک اور شخص کا واقعہ مجھے یاد آ گیا وہ پہلے یہاں انجمن کے ملازم ہوا کرتے تھے پھر پیغامیوں میں جاملے.وہ ایک دفعہ قصاب سے گوشت خرید رہے تھے کہ اس سے جھگڑا ہو گیا وہ فوراً مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور اسے کہنے لگے یوں فیصلہ نہیں ہو گا آؤ مجھ سے مباہلہ کر لو حالانکہ ان کا قصاب سے کوئی ایک آدھ گوشت کی بوٹی پر جھگڑا تھا.

Page 394

خطبات محمود ۳۸۹ سال ۱۹۳۵ء اس قسم کی بددعا کو اسلام جائز قرار نہیں دیتا.یہ تمسخر ہے اور شرعی رو سے ممنوع بلکہ ذاتیات کے لحاظ سے تو سوائے اس کے کہ کسی کی عزت پر کوئی حملہ کر دے اور کسی صورت میں بددعا جائز نہیں ہو سکتی.اگر کوئی کسی کی عزت پر حملہ کرے تو چونکہ اس حملہ کا اس کے خاندان اور آئندہ آنے والی نسلوں تک اثر جاتا ہے اس لئے اگر وہ تمام ذرائع کو استعمال کر چکے تو اسے شرعی طور پر اجازت ہے کہ وہ الزام لگانے والے کے لئے بد دعا کرے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق لکھا ہے.غرض جب کوئی اخلاقی مجرم عائد ہو تو جس پر اخلاقی جرم عائد کیا جائے ، اس کا حق ہے کہ اصلاح کے تمام ذرائع کو استعمال کرنے کے بعد وہ اسے مباہلہ کے لئے بلائے اور اس کے لئے بددعا کرے.بعض بیوقوفوں نے اس بات کو بالکل الٹ سمجھا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دینے کا حق ہے حالانکہ اسلام نے یہ حق مظلوم کو دیا ہے نہ کہ ظالم کو کہ وہ خواہ مخواہ اور زیادہ گند اُچھالے.باقی دینی معاملات میں انسان کو چاہئے کہ وہ پہلے دعا کرے اور ایک عرصہ تک اس دعا کی قبولیت کا انتظار کرے لیکن جب وہ دیکھے کہ معاملہ اپنی انتہاء کو پہنچ گیا اور وہ سمجھ لے کہ اب دشمن کا وجود خدا کے دین کے لئے مضر ہے تو وہ دعا مانگے کہ اے خدا ! میں اب بھی یہی خواہش رکھتا ہوں کہ تو اس پر رحم کر اور اسے ہدایت دے لیکن دین چونکہ بہر حال مقدم ہے اس لئے اے میرے رب ! اگر اس کے لئے ہدایت مقدر نہیں تو تو اسے تباہ کر دے.یہ بددعا ہے جو جائز ہے اور جس کے مانگنے میں کوئی حرج نہیں.میں نے جب یہ دعا سکھائی تھی کہ اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِم تو اُس وقت بھی اس کے ترجمہ میں میں نے ایسا پہلو رکھا تھا کہ بددعا کی صورت نہ بنے لیکن اب خدا تعالیٰ نے مجھے یہی سمجھایا ہے کہ جہاں اسلام کی عزت کا سوال ہو وہاں مومنوں سے ایسی بددعائیں امتحان کے طور پر بھی کرائی جاتی ہیں جیسے جنگ کے موقع پر ایک کمزور آدمی بھی تلوار پکڑ لیتا ہے اسی طرح روحانی جنگ کے موقع پر نرم سے نرم دل مؤمن کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کو سخت کر کے دشمنوں کے لئے بددعا کرے اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرے کہ وہ اپنے قہر سے دشمنوں کو ہلاک کر کے اپنے دین کی غیر معمولی نصرت و تائید فرمائے.پس ان خیالات کے اظہار کے

Page 395

خطبات محمود ۳۹۰ سال ۱۹۳۵ء ساتھ میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ موجودہ مخالفت کو مدنظر رکھتے ہوئے جس رنگ میں چاہیں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ ضرور بددعائیں کریں مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ جس جس شخص کے ذہن میں یہ بات آئے کہ اب رعایا اور حکام کی طرف سے اس قدر شدت کے ساتھ مخالفت ہو رہی ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے اور اس کے حضور گریہ وزاری کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تو وہ خدا تعالیٰ سے سلسلہ کیلئے مدد اور اس کے دشمنوں کی ہلاکت و بربادی کیلئے دعا کرے اور اگر میری وجہ سے وہ اب تک اس رنگ میں بددعا کرنے سے رُکے ہوئے تھے تو میں انہیں اب بتا تا ہوں کہ وہ اس رنگ میں بددعا کر سکتے ہیں اور میری طرف سے انہیں اجازت ہے.نادان دشمن ان باتوں پر ہنستا ہے اور وہ کہتا ہے اب ہمارے لئے بددعائیں کی جا رہی ہیں حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں ہمیشہ بددعا کے پہلو کو نظر انداز کرتا رہا ہوں اور پھر نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ خدا ہمارا غلام نہیں کہ ادھر بددعا ہمارے منہ سے نکلے اور اُدھر وہ ہمارے دشمن کا گلا گھونٹ دے.جس طرح دعا ئیں ایک عرصہ کے بعد قبول ہوتی ہیں اسی طرح بد دعا ئیں بھی قبولیت کے لئے لمبا عرصہ چاہتی ہیں ہاں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ادھر بددعا منہ سے نکلتی ہے اور اُدھر قبول ہو جاتی ہے.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے اور وہ اپنے مصالح کو آپ سمجھتا ہے ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ دعا ہو یا بد دعا یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.جو انسان خلوص دل اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے اس کی دعا بھی سنی جاتی ہے اور بددعا بھی.خواہ اس کے مقابل میں معمولی انسان ہو یا درمیانی درجہ کے یا بڑے بڑے بادشاہ اور شہنشاہ سب اس کی بددعا سے مٹا دیئے جاتے ہیں.میری اپنی یہ رائے ہے کہ ہم نے اس زمانہ میں دو سال تک متعلقہ حکام کے دروازے کھٹکھٹا کر دیکھے ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ عدل اور انصاف کا ہاتھ بلند کریں اور ہمارے خلاف جو شرارتیں ہو رہی ہیں ان کو دور کریں اور رعایا کو بھی تو جہ دلائی ہے کہ وہ شرافت اور تہذیب سے کام لے مگر افسوس کہ نہ حکام ہمارا علاج کر سکے اور بالکل ممکن ہے کہ ان میں سے بعض کرنا ہی نہ چاہتے ہوں اور نہ ہمارے مخالف لوگوں نے بھی اپنا رویہ بدلا.خدا تعالیٰ نے بھی اپنے قہری نشان سے رعایا اور حکام کو توجہ دلائی کہ خدا تعالیٰ کی جماعتوں پر ہاتھ اُٹھانے کا نتیجہ اچھا نہیں مگر ان تمام باتوں کا نہ رعایا پر اثر ہوا نہ حکام پر.بہار میں زلزلہ آیا اور ابھی اس پر ایک سال ہی

Page 396

خطبات محمود ۳۹۱ سال ۱۹۳۵ء گزرا تھا کہ کوئٹہ میں ایک ہیبت ناک زلزلہ آیا اتنا ہیبت ناک کہ اس زلزلہ کے متعلق وزیر ہند نے بھی کہا ہے.اتنا بھاری زلزلہ برطانوی سلطنت کے کسی ملک میں آج تک کبھی نہیں آیا.یہ سب سے بڑی مصیبت نازل ہوئی ہے.“ کتنا عظیم الشان صدمہ ہے جو لوگوں کو پہنچا.زلزلے کے جھٹکے آتے ہیں اور ایک دومنٹ میں ہی ملک کا ملک فنا ہو جاتا ہے اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.وہ گورنمنٹ اتنی وسیع منظم اور بااثر گورنمنٹ جس کا یہ دعوی ہے کہ ہماری مملکت پر سورج غروب نہیں ہوتا ، وہ با وجود تین لاکھ فوج رکھنے کے باوجود ایک ارب سے زائد بجٹ رکھنے کے باوجود اتنی طاقت اور قوت اور شوکت کے اس کی آنکھوں کے سامنے مُردے چھتوں کے نیچے سڑ جاتے ہیں اور وہ اپناز ورخرچ کرنے کے باوجود سب مُردوں کو دفن نہیں کر سکتی اور معذرتوں پر معذرتیں کرتی چلی جاتی ہے کہ ہم مُردے نکالنے سے بے بس ہیں.آج بھی کوئٹہ کی وادیوں میں مردے سڑ رہے ہیں ، آج بھی وہ برطانوی حکومت جس کی مملکت پر سورج غروب نہیں ہوتا ، جس کے جہاز دنیا کے سارے سمندروں میں پھیلے ہوئے ہیں بے بس ہے اور بے بسی کا اقرار کرتی ہے اور سڑتی ہوئی لاشوں کو ملبوں کے نیچے سے نکالنے کی قدرت نہیں رکھتی.کیا خدا تعالیٰ کا یہ قہری نشان اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہمارا خدا جب مارنے پر آتا ہے تو کوئی حکومت جلا نہیں سکتی اور جب وہ جلانے پر آ جاتا ہے تو کوئی حکومت مٹا نہیں سکتی.کیا حقیر سی خدمت ہے جو مرنے کے بعد انسان کی کی جاتی ہے کہ لاش کو اٹھایا اور اسے مٹی میں دبا دیا.بلتی بھی جب پاخانہ پھرتی ہے تو اس پر مٹی ڈال دیتی ہے مگر خدا تعالیٰ کا جب غضب ایک خطہ زمین پر اُترتا ہے تو ۳۳ کروڑ اہل وطن اور وہ حکومت جو ساری دنیا پر پھیلی ہوئی ہے دونوں ہی بے بس اور لا چار ہو جاتے ہیں اور وہ لاشوں کو صحیح طور پر دفن کرنے کی بھی توفیق نہیں پاسکتے.کیا وہ خدا جو کوئٹہ پر زلزلہ لایا اور جگہوں پر زلزلے نہیں لاسکتا اور کیا وہ خدا جس نے کوئٹہ اور قلات کی عمارتوں اور سر بفلک محلات کو آنِ واحد میں مسمار کر کے مٹی کا ڈھیر بنا دیا ، وہ اور لوگوں کے محلات اور عمارتوں کو مسمار نہیں کر سکتا.یہ تو خدا تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی قدرت کی ایک مثال دی ہے جیسے دُکاندار مٹھائی میں سے بعض دفعہ تھوڑی سی چیز گاہک کو چکھانے کے لئے دے دیتے ہیں جسے

Page 397

خطبات محمود ۳۹۲ سال ۱۹۳۵ء پنجابی میں’ ونگلی کہتے ہیں.اس زلزلہ کے ذریعہ بھی خدا تعالیٰ نے نمونہ کے طور پر بتایا ہے کہ جب میرا اذن آ جائے تو دنیا کا کوئی فرد میرے ارادوں میں حائل نہیں ہوسکتا.پس خدا کے آگے جھکو اور اس کے حضور عاجزی وزاری سے اپیل کرو کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی سنے والا نہیں.آج ہی ایک اخبار مجھے دیا گیا ہے جس میں اس بات پر ہنسی اڑائی گئی ہے کہ ہم ان کے لئے بد دعائیں کرتے ہیں.پھر منافقوں کی طرف منسوب کر کے بعض باتیں اس میں لکھی گئی ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ منافقوں کی بیان کردہ نہیں بلکہ کسی اور نے ان کے پاس بیان کی ہیں مثلاً لکھا ہے کہ مرزا اکرم بیگ صاحب کی زمین کو میں نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں خریدا، یہ روپیہ میرے پاس کہاں سے آ گیا ؟ اسی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کا لکھنے والا کوئی ناواقف ہند و یا کوئی اور شخص ہے کیونکہ حالات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ زمین میں نے نہیں لی بلکہ اس کا اکثر حصہ صدر انجمن احمد یہ اور دوسرے احمدیوں نے خریدا ہے مثلاً چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم ، میاں غلام محی الدین صاحب امرتسری ، بابوسراج الدین، چوہدری حاکم علی صاحب ، چوہدری غلام حسین صاحب سفید پوش وغیرہ وغیرہ.اسی طرح کی اس مضمون میں اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی منافق کا مضمون نہیں بلکہ باہر کا کوئی آدمی ہے جو یہ مضمون لکھ رہا ہے مگر اپنی طرف سے یہ ڈھکوسلا بھی مرعوب کرنے کے لئے بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ یہ قادیان کے منافق کہتے ہیں گویا اس طرح یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قادیان میں ایسی ایک جماعت ہے حالانکہ باتیں خود لکھ کر ان کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں.تو ہمارے مخالفوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ مضمون لکھنے والا کوئی ہوتا ہے اور منسوب وہ کسی اور کی طرف کر دیتے ہیں.پھر وہ اس بات پر ہنسی اڑاتے ہیں کہ ان کے لئے بددعائیں کی جاتی ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم بھلا ان بد دعاؤں سے ڈرنے والے ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں.جس وقت رسول کریم ﷺ مکہ میں کفار کے لئے بددعا ئیں کیا کرتے تھے اُس وقت مکہ والے بھی آپ کی بددعاؤں کی پرواہ نہیں کرتے تھے.در حقیقت جس قوم کو اللہ تعالیٰ تباہ کرنا چاہتا ہے اُس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ بددعا سے نہیں ڈرتی اس کے اندر کبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتی ہے کون ہمیں تباہ کر سکتا ہے؟ تب خدا اپنی قدرت کا ایک زبر دست ہاتھ ظاہر کرتا ہے اور آسمان سے اپنی قہری تجلیات نازل کر کے اور غضب کی آگ بھڑکا کر انہیں کہتا ہے اے نادانو ! تم جو اپنی

Page 398

خطبات محمود ۳۹۳ سال ۱۹۳۵ء ظاہری طاقت وقوت پر فخر کرتے تھے تم جو اپنے جتھے اور اپنی جماعت کی شہہ پر خدا کے پاک بندوں کو دُکھ دینے پر تلے ہوئے تھے ، آؤ! اور اب میرے غضب سے اپنے آپ کو اور اپنے حوالی موالی کو بچاؤ.پھر وہ لوگ خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن کر ایسے نَسيا منسيا ت ہو جاتے ہیں کہ کوئی ان کا نام لینے والا دنیا میں باقی نہیں رہتا.اب میں چاہتا ہوں کہ چونکہ ہم نے لوگوں پر حجت قائم کر دی ہے، حکومت پر بھی حجت کر دی ہے اور رعایا پر بھی، پھر ہم نے ان کی ہدایت کے لئے دعائیں بھی کی ہیں اور پورے طور پر انہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر ہماری کوئی بات نہیں سنی گئی.ہماری جائدادوں پر دن دھاڑے قبضہ کیا جاتا ہے.حکومت کے نمائندے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر حکومت خاموش ہے یا تو اس تک رپورٹیں غلط کی جا رہی ہیں یا وہ کسی مصلحت سے ان مفاسد کی اصلاح نہیں کرنا چاہتی.بلکہ جب اس کے مقامی نمائندوں کو توجہ دلائی جاتی ہے تو مالکوں اور قبضہ رکھنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمہارا ان جائدادوں پر حق ملکیت ہے تو جاؤ عدالتیں کھلی ہیں ان میں نالش کر دو حالانکہ دنیا کی کسی حکومت میں یہ دستور نہیں کہ زمینوں کے مالک اور قابض خود عدالتوں میں جائیں اور وہ جو ظالمانہ طور پر کسی کی زمین پر قبضہ کر رہے ہوں حکومت ان کی مدد کرتی چلی جائے.ہر مہذب اور قانون کی پابند گورنمنٹ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حملہ آوروں کا مقابلہ کرے اور زمین کے مالکوں کو ظلم اور بے انصافی کا شکار ہونے سے بچائے.مگر ہمارے ساتھ نمائندگان حکومت کی طرف سے بالکل الٹ سلوک کیا گیا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کو اس کے حق سے محروم رکھا جائے بلکہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو انصاف ہے وہ عمل میں لایا جائے.برطانوی حکومت میں سے اور کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں اس قسم کا اُلٹ قانون برتا جاتا ہو صرف ہم ہی ہیں کہ ہم جو یہاں کی زمینوں کے مالک یا قابض ہیں ہمیں عدالتوں کی طرف جانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جو حملہ کر کے آتے ہیں انہیں نہیں مجبور کیا جاتا کہ اگر ان کا کوئی حق ہے تو وہ عدالت میں جا کر ثابت کریں.ہم اپنے مخالفوں کو بھی یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے حق چھوڑ دیں.بے شک جس زمین پر ان کا حق ہے وہ اس حق کو عدالت میں ثابت کر کے حاصل کریں ہمیں ان حقوق کے ادا کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا.ہم تو ان سے اور حکومت سے صرف اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جس پر ساری برطانوی حکومت میں عمل کیا جاتا ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں یہ دستور نہیں کہ کسی زمین پر جب کوئی فریق زبر دستی قبضہ جمانا چاہے تو حکومت کی

Page 399

خطبات محمود ۳۹۴ سال ۱۹۳۵ء طرف سے ان لوگوں کو جن کے نام سرکاری کا غذات میں بطور مالک کے لکھے ہوئے ہوں یہ کہا جائے کہ وہ عدالت میں جائیں اور جو سرکاری اندراجات سے بے پروا ہی کرنے والے ہوں ان کو مجبور نہ کیا جائے کہ پہلے وہ اپنا حق ثابت کریں ہم نے یہ تمام باتیں حکومت کے کانوں تک پہنچانے کی کوشش کی.مگر باوجود ہماری تمام کوششوں کے ہماری کوئی بات نہیں سنی جاتی.صراحتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں ایسی گندی گالیاں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا کہ تم صبر کرو اور اگر خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو باندھا ہوا نہ ہوتا تو خدا جانتا ہے کوئی غیرت مند اس قسم کی گالیاں دینے والوں پر شام نہ آنے دیتا اور انہیں ان کے کئے کا مزا چکھا دیتا.چار پانچ دن ہوئے ایک واعظ نے جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ اس سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرزائی باز نہ آئے تو ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ نَعُوذُ بِاللہ مرزا غلام احمد کے دو باپ تھے.یہ وہ چیزیں ہیں جو ہو رہی ہیں اور متواتر ہو رہی ہیں حکومت خاموش ہے اور مسلسل خاموش ہے ہم اسے جگاتے ہیں مگر وہ نہیں جاگتی، بیدار کرتے ہیں مگر وہ بیدار نہیں ہوتی ، حالات اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں مگر وہ ان پر کوئی توجہ نہیں کرتی آخر کب تک ہم ان باتوں پر صبر کریں گے.جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم دنیا میں فتنہ و فساد پھیلانے سے بچو ، جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے ہاتھ رو کو اور ظالم کو خود سزا نہ دو، جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت اور فرماں برداری کرو اور اس کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کرو، اُسی خدا نے ہمارے لئے ایک اور دروازہ بھی کھول رکھا ہے اور وہ یہ کہ تم میرے پاس آؤ اور کہو اے خدا ! ہم ستائے گئے ، ہم بے حد دُ کھ اور تکلیف دیئے گئے ، دشمن نے ہم پر زمین تنگ کر دی، اس نے ہماری عزتوں پر حملہ کیا، ہماری جائدادوں پر حملہ کیا، ہمارے مقدس پیشوا ؤں پر حملہ کیا، ہمیں بلا وجہ تنگ کیا اور اتنا دکھ دیا کہ وہ ہماری حد برداشت سے بڑھ گیا، اے خدا ! تُو جو مظلوموں کا حامی اور بے کسوں کا فریا درس ہے آسمان سے اتر اور ان دشمنوں کو فنا کر دے.اپنے قہر کا کوئی عبرت ناک نشان دکھا جس سے یہ ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائیں.ہم نے قانون نہ آج تک اپنے ہاتھ میں لیا اور نہ آئندہ لیں گے لیکن ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے ہم اُس کے پاس جائیں گے اور اُس کے حضور ان دشمنوں کی غارت گری اور بربادی کے لئے دعائیں کریں گے.ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے مگر ہمیں دُکھ دیا گیا اور بے انتہا ء دُکھ دیا گیا ، ہم پر ظلم کیا گیا اور ا

Page 400

خطبات محمود ۳۹۵ سال ۱۹۳۵ء بے انتہا ظلم کیا گیا ، ہم نے نرمی اور محبت اور پیار سے اپنے بھائیوں سے کہا کہ دیکھو! یہ طریق تمہارے لئے مناسب نہیں اس کو چھوڑ دو، ہم نے حکومت کے نمائندوں سے بھی کہا کہ اپنے اس رویہ کو ترک کر دیں کہ یہ انجام کے لحاظ سے حکومت کے لئے مفید نہیں ہوسکتا اور پھر ان کی عدم تو جہی پر حکومت کو ان کے افعال کی طرف توجہ دلائی لیکن نہ حکومت نے ہماری بات سنی اور نہ رعایا نے ہماری دردمندانہ باتوں سے نصیحت حاصل کی اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے دعائیں کریں کہ اے خدا! انسانی تدبیریں بیکار ہو گئیں تو نے خود ہمارے ہاتھوں کو روکا ہوا ہے ورنہ ہمیں تیری راہ میں جان دینے میں کیا عذر ہے ، تیرا حکم ہے کہ دنیا میں فساد نہ کرو اس لئے ہم فساد نہیں کرتے ، تیرا حکم ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لو اس لئے ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے ، تیرا حکم ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت کرو اس لئے ہم حکومت وقت کی اطاعت کرتے ہیں ، تو نے ہر طرح سے ہمارے ہاتھوں کو باندھ دیا ہے مگر اے خدا! تو نے ہمارے دلوں کے جذبات اور غیر توں کو نہیں ماردیا ، تیری زمین پر رہتے ہوئے دنیا میں ایک مہذب حکومت کے نمائندوں کے سامنے ہم پر ظلم کئے جاتے اور ہمیں بے انتہا تکالیف کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ہم ان کے پاس فریاد کرتے ہیں مگر اے خدا! ہماری کوئی فریاد نہیں سنی جاتی ، اے بے کسوں کے سہارے ، اے نا امیدوں کی امید ! ہمیں حاکم اپنی رعایا میں سے سمجھنے کیلئے تیار نہیں.اے بادشاہوں کے بادشاہ ! ہم تیرے دربار میں آتے ہیں، تیرے حضورا اپنی عاجزانہ آہیں بلند کرتے ہیں.ہم پر ظلم اب حد سے بڑھ گیا مَتَى نَصْرُ اللَّهِ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ مَتَى نَصْرُ اللهِ.اے میرے خدا! میں تجھ سے پھر درخواست کرتا ہوں کہ میں کسی شخص کا بدخواہ نہیں، نہ حکومت کا بدخواہ ہوں نہ رعایا کا ، میں پھر تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان لوگوں کو ہدایت دے، رعایا کو بھی سمجھ دے کہ وہ تیرے غضب کو اپنے اوپر نہ بھڑکائے اور حکومت کو بھی ہدایت دے کہ وہ عدل وانصاف کے خلاف کارروائیاں نہ کرے لیکن اے خدا! اگر ان میں سے کوئی ایسا ہے جس کے لئے تیرے علم میں ہدایت مقدر نہیں اور وہ شرارت سے ظلم پر آمادہ ہے تو اے خدا! تو اسے ہلاک اور بر باد کر.آسمانی ہاتھوں سے نہ زمینی ہاتھوں سے فرشتوں کے ذریعہ سے نہ آدمیوں کے ذریعہ سے، اے خدا ! تو پھر وہ قہری نشان دکھا جو نہایت ہی عبرت انگیز ہوں اور وہ لوگوں کو بتا دیں کہ مسیح موعود تیری طرف سے مبعوث ہوا ہے اور بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ ایک مقدس اور راستباز انسان تھے اور آپ

Page 401

خطبات محمود ۳۹۶ سال ۱۹۳۵ء پر اعتراض کرنے والے غلطی خوردہ.دیکھو ہم ایک زندہ خدا کے ماننے والے ہیں، کئی لوگ نادانی سے میرے متعلق کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ہاتھوں کو روکتا ہے ورنہ ہم دشمنوں کو بتادیں کہ ہم کیا ہیں ، میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں میرا ایک زندہ خدا پر ایمان ہے جب تک میری جان میں جان ہے میری کوشش یہی ہوگی کہ سلسلہ کی روایات میں کوئی تبدیلی نہ ہو.ہم نے آج تک ظلم سہے مگر قانون کو نہ تو ڑا اور میں چاہتا ہوں کہ آئندہ بھی ہماری یہی روایت جاری رہے کہ ہم ظلم کہیں مگر قانون کو اپنے ہاتھ سے نہ توڑیں.ہم نے ہمیشہ حکومت سے تعاون کیا اور میں چاہتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو آئندہ بھی حکومت سے تعاون جاری رکھا جائے.پس تمہارے دلوں میں موجودہ مخالفت کو دیکھ کر جو درد پیدا ہوتا ہے اس کا علاج میں نے تمہیں بتا دیا ہے اسے اختیار کرو.آدمیوں سے اپنی نظر ہٹا لو اور صرف خدا پر اپنی نظر رکھو ، گالیاں سنو اور خاموش رہو ، ماریں کھاؤ اور ہاتھ نہ اُٹھاؤ بلکہ اگر دشمن تمہارے گھروں پر بھی حملہ آور ہو تب بھی تم خداتعالی کی طرف نگاہ رکھو اور کہو کہ اے خدا ! تیری مدد کب آئے گی.مت سمجھو کہ یہ تمہاری قربانیاں رائیگاں جائیں گی.ان کا دنیا میں ذکر باقی رہے گا اور لوگ تمہیں عزت و احترام کے جذبات کے ساتھ یاد کیا کریں گے.حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے معرکہ کربلا میں بے شک جان دے دی مگر آج تک اسلام اس قربانی پر ناز کرتا ہے اسی طرح آنے والے لوگ آئیں گے اور وہ تمہارے ان مظالم کو یاد کر کے کہیں گے خدا کے مسیح پر ہزاروں رحمتیں ہوں کہ اُس نے اپنی قوت قدسیہ سے ایک ایسی قوم پیدا کر دی جو ان صبر آزما حالات میں بھی پُر امن رہی اور اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ گندی گالیاں جو دو سال سے قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جا رہی ہیں اگر ان میں سے ایک گالی بھی لنڈن میں مسیح ناصری کو دی جائے تو وہ گالی دینے والا انگریزوں کے ہاتھ سے نہ بچ سکے اور باوجود تہذیب و شائستگی کے دعووں کے ان میں سے کئی ایسے اُٹھ کھڑے ہوں جو اسے ہلاک کر دیں مگر خدا تعالیٰ نے یہ ہمیں ہی توفیق دی ہوئی ہے کہ ہم گالیاں سنتے ہیں مگر اس کے حکم کے ماتحت پُر امن رہتے ہیں پھر بھی ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم جوش دکھاتے ہیں لیکن زمانہ یکساں نہیں رہے گا نہ یہ حاکم رہیں گے نہ یہ رعایا ر ہے گی یہ زمانہ گزر جائے گا اور پھر ایک اور زمانہ آئے گانئے حاکم ہوں گے اور نئی رعایا ہو گی اُس دن لوگ اقرار کریں گے کہ انتہاء درجہ کے

Page 402

خطبات محمود ۳۹۷ سال ۱۹۳۵ء مظالم ہونے کے با وجو د احمد یہ جماعت نے اس صبر سے کام لیا جس صبر کا نمونہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہی دکھا سکتی ہیں.وہ دن ہماری فتح کا دن ہوگا اور اُس دن فخر سے ہم اپنی گردنیں اونچی کر سکیں گے، اُس دن دنیا تسلیم کرے گی ہمارے اخلاق کی برتری کو ، اور دنیا تسلیم کرے گی کہ سوائے خدا تعالیٰ کے ماً مور کی جماعت کے اور کوئی جماعت اس قسم کا نمونہ نہیں دکھا سکتی.پس یاد رکھو کہ ہماری قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی.میں آسمان پر ایک نیک تغیر پاتا ہوں اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے محبت کا دریا اُمڈتا ہوا دیکھتا ہوں.ابھی تین دن کی بات ہے میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو مجھے ایک الہام ہو ا جس کے یہ الفاظ تھے.مبارک ہے وہ خدا جس نے مجھے کوثر دکھایا اور اسی طرح جنت کے بعض اور مقام بھی میں اسی وقت دل میں کہتا ہوں کہ مبارک کا لفظ انسانوں کے متعلق آتا ہے.مگر اسی وقت دل میں آیا کہ اس جگہ مبارک تبارک کی جگہ استعمال ہوا ہے اس الہام کے وقت یوں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے میری روح کو لے جا کر کوثر اور بعض دوسرے اعلیٰ مقامات جنت دکھائے ہیں اور واپسی پر اس لطف واکرام پر حیران ہو کر میں اوپر کے الفاظ کہتا ہوں.غرض رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے کوثر کے مقام تک پہنچایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر ہماری نصرت و تائید کے سامان ہو رہے ہیں.کوثر تو مرنے کے بعد ملتا ہے اور اگر دوسرے کو لائف ساتھ نہ ہوتے تو میں اس کی تعبیر یہ کرتا کہ یہ میرے نیک انجام کی طرف اشارہ ہے لیکن رؤیا کے باقی حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل کی امید دلاتے ہیں اور جماعت کی ترقیات کی اس میں خبر دی گئی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف فرما تا ہے کہ مؤمنوں کو اس دنیا میں بھی جنت ملتی ہے اور آخرت میں بھی.پس جوں جوں نفس کشی کرو گے، جوں جوں امن پسندی کا نمونہ دکھاؤ گے اور بجائے انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو گے اُسی قدر زیادہ اللہ تعالیٰ تمہاری آسائش کے لئے بہتر سے بہتر سامان مہیا کرے گا.تمہیں جنت دے گا جس میں تمہیں کوئی دُکھ نہ ہو گا اور تمہیں ایسی کثرت دے گا جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.اس رویا میں کوثر کا نظارہ اس لئے بھی دکھایا گیا ہے کہ دشمن کہتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرتے ہیں.چونکہ کوثر در اصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور کوثر کی نعمتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہی مل سکتی ہیں اس لئے کوثر کے انعام ملنے

Page 403

خطبات محمود ۳۹۸ سال ۱۹۳۵ء الله کا نظارہ دکھا کر بتایا گیا ہے کہ نادان دشمن لاکھ جھک مارے، کوثر کا دیکھنا اور رسول کریم ﷺ کے ہاتھوں اس کے زندگی بخش جام کا پینا تو ہم نے تیرے لئے مقدر کر دیا ہے کیونکہ محمد ﷺ کا تو ہی سامنبع ہے پھر وہ چیز جو مجھ کو دی گئی در حقیقت جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے تم کو بھی دی گئی ہے.پس مبارک ہو تمہیں کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے جنت مقدر کر دی ، مبارک ہو تمہیں کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے کوثر کا انعام مقدر کر دیا ، آج تم تھوڑے ہو لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ تمہیں بڑھائے گا یہاں تک کہ تم ساری دنیا میں پھیل جاؤ گے، آج تمہیں کہا جاتا ہے کہ تم رسول کریم ﷺ کی تک کرنے والے ہو مگر خدا یہ بتاتا ہے کہ محمد ﷺ کوثر کے جام بھر بھر کر تم کو پلائیں گے اور تم بھی اس میں حصہ دار ہو گے.اس کے ساتھ ہی یاد رکھو قرآن کریم میں کوثر کے انعام کا جہاں وعدہ دیا گیا ہے وہاں یہ بھی کہا گیا ہے.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ یعنی جسے کوثر ملے اسے خاص طور پر دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور خاص طور پر قربانیوں کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے ، پس قربانیاں کرو اپنے نفوس کی اور قربانیاں کرو اپنی عزت و آبرو کی.تمہاری غیرت کا مظاہرہ تمہارے ہاتھوں سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان آہوں سے ہونا چاہئے جو دلوں سے نکلتی اور خدا کے عرش کو ہلا دیتی ہیں.اگر تم اپنے ہاتھ سے بدلہ لو بھی تو آخر تمہارے ہاتھوں میں کتنی طاقت ہے.اگر یہ سچ ہے کہ بعض حکام احراریوں سے ملے ہوئے ہیں تو سوائے اس کے کہ تم ہاتھ اٹھا کر اور زیادہ مصیبت میں مبتلاء ہو جاؤ اس کا اور کیا فائدہ ہو گا.بے شک اس سے تمہیں اپنا جوش نکالنے کا موقع مل جائے گا مگر سلسلہ اور احمدیت کو اس سے کیا فائدہ ہوگا.مؤمن کو تو وہ کرنا چاہئے جس سے دین کو فائدہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ لودھیا نہ میں کہیں جا رہے تھے کہ حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور جو حضرت خلیفہ اول کے خسر اور پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد تھے آپ کے ساتھ تھے وہ رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور انہوں نے بارہ سال ان کی خدمت کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا.راستہ میں باتیں ہونے لگیں تو حضرت منشی احمد جان صاحب فرمانے لگے کہ رتر چھتر والوں کی خدمت کر کے مجھے سب سے بڑا انعام یہ ملا ہے ایک آدمی پیچھے آرہا تھا اس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ اگر میں اس پر تو جہ ڈالوں تو یہ و ہیں تڑپ کر گر جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ خاص طور پر کوئی بات فرمانا چاہتے تو چلتے چلتے ٹھہر جاتے اور آہستہ آہستہ چھڑی کی نوک سے

Page 404

خطبات محمود ۳۹۹ سال ۱۹۳۵ء زمین پر نشان کرتے چلے جاتے.آپ یہ بات سنتے ہی ٹھہر گئے اور زمین پر چھڑی سے نشان کرتے ہوئے بولے اچھا میاں صاحب ! اس سے آپ کو اور اس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ کیونکہ حضرت منشی احمد جان صاحب بڑے اہل اللہ اور خدا رسیدہ انسان تھے اس لئے انہوں نے اسی وقت کہا کہ میں اس کام سے تو بہ کرتا ہوں.آئندہ مسمریزم کو کبھی مذہب کا جزو نہیں سمجھوں گا.تو دیکھو خدا تعالیٰ کے احکام اور حکومت کے قوانین کو تو ڑ کر کوئی بات کرنی اور پھر ایسی بات کرنی کہ جس کا کوئی بھی فائدہ نہ ہو کوئی عظمندی نہیں.کسی نے کہا ہے.خدا ہی ملا : وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے اس طریق پر کام کرنے سے نہ خدا راضی ہوگا اور نہ سلسلہ کو کوئی فائدہ پہنچے گا.پس اپنے جوشوں کو دباؤ اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھو.تم سے کم مجھ میں جوش نہیں اور نہ ان میں کچھ کم جوش ہے جو میری ہدایات کے مطابق صبر سے کام لے رہے ہیں لیکن جہاں ایک طرف ان منافقین قادیان کی طرح ہماری غیرت مُردہ نہیں ہو گئی جو جا جا کر دشمنوں کے بوٹ چاہتے ہیں.وہاں شریعت اور قانون کی حدود سے بھی ہم تجاوز نہیں کر سکتے.ہمیں خدا تعالیٰ نے صبر کی توفیق دی ہے اور ہمیں توفیق دی ہے کہ ہم بجائے انسانی علاج کے خدا تعالیٰ سے علاج طلب کریں.پس آج جبکہ ایک سرکاری افسر نے ہم پر یہ الزام لگایا ہے کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم خدا کے حضور جھکیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! اب تو اپنی ایسی قدرت دکھا کہ گورنمنٹ کو ماننا پڑے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیتے اور امن میں رہتے ہوئے بھی ان کا زندہ خدا ان کے لئے آسمان سے بڑے بڑے نشانات دکھا سکتا ہے.پس جب تک آسمان سے کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو.جب تک دنیا کو یہ معلوم نہ ہو کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جب تک آسمانی نشانات کے ذریعہ یہ ظاہر نہ ہو کہ خدا تعالیٰ کے بندے ظاہری تدابیر اختیار نہیں کیا کرتے بلکہ خدا خود ان کے لئے تدبیر میں کیا کرتا ہے اُس وقت تک ہمارا ہاتھ اُٹھا نا خدا تعالیٰ کے نشانات کو مشتبہ کرنا ہے.ہماری حالت تو اس وقت ایسی ہے کہ ہم جو گناہ نہیں کرتے وہ بھی ہماری طرف منسوب کر دیئے جاتے ہیں.پھر اگر کوئی ہم میں سے اس قسم کی حرکت کر بیٹھے تو کس قدر ہم پر الزام آ سکتا ہے اور گو انفرادی واقعات کے لحاظ سے جماعت زیر الزام نہیں آ

Page 405

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سکتی مگر بہر حال دشمن اسے جماعت کی طرف منسوب کر سکتا ہے.پس آج کل ہماری جماعت پر نہایت ہی نازک موقع ہے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو پوری ہوشیاری اور دانائی کے ساتھ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے.میں جانتا ہوں کہ ہم اس وقت ایسے حالات میں سے گزر رہے ہیں جن میں صبر کا دامن انسان کے ہاتھ سے چھٹ سکتا ہے مگر میں پھر کہتا ہوں کہ صبر کرو، صبر کرو، صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے لوگوں کی ہدایت کے لئے دعائیں کرو اور اگر دعا سے بھی کام نہیں چلتا تو بددعا کرو اور کہو اے خدا! ان دشمنوں کو غارت کر.ممکن ہے خدا تمہیں چھ مہینے سال دو سال یا چار سال ابتلاء میں رکھنا چاہے اور ممکن ہے اس سے بھی زیادہ عرصہ ابتلاؤں میں رکھنا اس کی مرضی ہو لیکن اگر سو سال کے بعد بھی خدا تعالیٰ کوئی ایسا نشان دکھائے جس سے ثابت ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے تو بھی ہماری روحیں آسمان سے اسے دیکھ کر خوش ہوں گی کیونکہ اگر دنیا میں ہمارے جسم رنج اور کوفت اُٹھاتے ہوئے فنا ہو گئے تو کوئی بات نہیں اصل خوشی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت انسانی روح کو حاصل ہوتی ہے.( الفضل ۹ر جولائی ۱۹۳۵ء) نوح: ۲۷ بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة الدخان.باب قَوْلِهِ تَعَالى رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا (الخ) اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۶ مطبوعه ریاض ۲۸۵ آه متی باب ۲۶ آیت ۴۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ونگی: نمونہ.مثال نَسَيًا مُنسِيًّا : بُھولی بسری چیز ك البقرة : ۲۱۵ الكوثر : ٣

Page 406

خطبات محمود ۴۰۱ سال ۱۹۳۵ء اشتعال انگیز حالات کے متعلق جماعت احمدیہ کو ضروری نصائح (فرموده ۱۲ جولائی ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- چونکہ آج بارش ہو رہی ہے اور بادل چھائے ہوئے ہیں ، رستے خراب ہیں اس لئے میں عصر کی نماز بھی جمعہ کے ساتھ اکٹھی کر کے پڑھاؤں گا.اس کے بعد میں ایک ایسے معاملہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے متعلق ہماری جماعت کے جذبات اس وقت بہت بھڑ کے ہوئے ہیں ، ضروری ہے کہ میں اس کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کر دوں.پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کی طرف آؤں تمہیداً یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کئی طاقتیں دی ہیں جن میں سے ایک طاقت عقل کی ہے اور ایک طاقت جذبات کی ہے.تمام انسانی کاموں میں عقل اور جذبات ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں اور جس کام میں ان میں سے ایک چیز مفقود ہو جائے وہ خراب ہو جاتا ہے ، اگر جذبات کو دنیا سے مٹا دیا جائے تو خالی عقل کچھ بھی نہیں رہتی.مثلاً عقل اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کرتی کہ انسان اپنے مذہب کی مقدس کتاب کے اوپر بیٹھ جائے یا اسے گندی جگہ پر رکھ دے عقل کہے گی کہ اس کے اوپر کپڑا لپیٹ کر بے شک رکھ دو اس سے اس کتاب کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا یا اگر کوئی انسان مقدس کتاب کے اوپر بیٹھ جائے تو عقل کہے گی کہ اس میں کیا حرج ہے کتاب میں اس سے کوئی فرق

Page 407

خطبات محمود ۴۰۲ سال ۱۹۳۵ء نہیں آ گیا.یا اگر کوئی شخص اپنے والدین کی طرف پاؤں کر کے لیٹ جائے تو عقل اس پر کوئی اعتراض نہیں کرے گی اور اس قسم کی سینکڑوں ہزاروں باتیں ایسی ہیں جن پر عقل کوئی اعتراض نہیں کر سکتی مگر جذ بات وہاں ضرور معترض ہوں گے اور عقل سے صاف کہہ دیں گے کہ یہاں تمہارا دائرہ مکمل ختم ہے اور ہما را شروع ہوتا ہے.اسی طرح بیسیوں باتوں میں باہم اختلاف ہوگا.جذ بات کہیں گے کہ ہر وقت اپنے پیارے اور محبوب کی یاد میں لگے رہو لیکن عقل کہے گی کہ یہ نامعقول بات ہے کچھ وقت اپنے جسم کی حفاظت کے لئے بھی صرف کرنا چاہئے ورنہ محبوب کی خدمت کیسے کر سکو گے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ فرما دیا ہے کہ بعض اوقات میں روزہ اور نماز بھی شیطانی افعال ہو جاتے ہیں.جذ بات تو بے شک کہیں گے کہ ہر روز روزہ رکھو اور ہر وقت نمازیں پڑھتے رہو لیکن عقل کہے گی کہ نہیں ، ناغہ بھی ہونا چاہئے تا صحت درست رہ سکے.پس یہ دونوں قانون دنیا میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جو بھی ان کو آگے پیچھے کرنے کی کوشش کرے گا وہ ناکام رہے گا اور اچھے نتائج نہیں پیدا کر سکے گا.ہاں ایک مقام پر جا کر عقل مٹ جایا کرتی ہے اور وہ توحید کامل کا مقام ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل کی ضرورت ہی وہاں نہیں رہتی بلکہ جذبات بہت کامل ہو جاتے ہیں اور عقل بھی انہی میں شامل ہو جاتی ہے.یہ مقام عام انسانوں کو جنت میں جا کر حاصل ہوتا ہے.وہاں عقل کا کوئی کام نہیں بلکہ سب کچھ جذبات کے ماتحت ہوگا اور پھر جو کچھ بھی ہو گا اس میں غلطی کا احتمال نہیں ہو گا لیکن جن لوگوں کو اسی دنیا میں جنت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے ، وہ بھی جو کام کرتے ہیں ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نیک نتائج ہی پیدا کرتا ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حسن کا مقام دیا جاتا ہے.یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کئی لوگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوتے ہیں ، اُن کے بال بکھرے ہوتے ہیں مگر وہ کہہ دیتے ہیں کہ خدا کی قسم ! ایسا نہیں ہو گا اور وہ نہیں ہوتا اور ایسا ہوگا اور وہ ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کے پاس کوئی شخص آیا اور اس نے کہا فلاں عورت نے میری پھوپھی کے دو دانت توڑ دیئے ہیں اس لئے اس کے دانت بھی تو ڑ دئیے جائیں.توڑنے والی عورت کی طرف سے اس کا جو رشتہ دار بات کر رہا تھا اس نے کہا کہ غلطی ہو گئی ہے معاف کر دو اور رسول کریم ﷺ نے بھی سفارش کی لیکن دوسرے کو کچھ ایسی ضد تھی کہ وہ برابر انکار کرتا رہا اور یہی کہتا رہا کہ شریعت نے

Page 408

خطبات محمود ۴۰۳ سال ۱۹۳۵ء اجازت دی ہے اس لئے میں اسے سزا دلواؤں گا.رسول کریم ﷺ نے بھی سفارش کی مگر وہ نہ مانا جب تمام کوششیں اسے معافی پر آمادہ کرنے کی بریکا رثابت ہوئیں تو اس عورت کے رشتہ دار نے کہا کہ خدا کی قسم ! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے.اس کے اس فقرہ میں غرور نہ تھا اور نہ یہ مطلب تھا کہ اب اس کی طرف سے ہم لڑیں گے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ پر یقین کا اظہار تھا.اس سے دوسرے فریق پر اس قدر اثر ہوا کہ اس نے کہا کہ اچھا میں معاف کرتا ہوں گویا جو اثر رسول کریم ﷺ کی سفارش نے بھی نہ کیا تھا وہ اس فقرہ نے کر دیا.تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ خستہ حال ہوتے ہیں نہ ان کے تن پر کپڑا ہوتا ہے نہ انہیں کھانے کو میسر آتا ہے لیکن وہ قسم کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کرتا ہے تو اس صحابی نے جب یہ بات کہی اسوقت کون سی عقل کام کر رہی تھی ؟ یہ جذبات ہی تھے جن کے ماتحت اس نے یہ قسم کھائی عقل تو اس کی مخالف تھی لیکن اس وقت وہ جذبات کے تابع ہو گئی تھی.یہ مقام بعض لوگوں کو دنیا میں بھی حاصل ہو جاتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ دونوں چیزوں کو ایک ساتھ چلائیں تا اگر جذبات حد سے بڑھیں تو عقل روک دے اور جہاں انسان عزت اور غیرت سے بے بہرہ ہونے لگے وہاں جذبات اس کو تھام لیں اور اسے بتادیں کہ یہ تمہاری غلطی ہے اور جب جذبات انسان کو ایسے رستوں پر لے جائیں کہ اصل مقصد فوت ہو رہا ہو تو عقل کا کام ہے کہ روک دے اور کہے کہ قدم اُٹھانے سے پہلے میری بات بھی سن لو.غرض ان دونوں طاقتوں کا مناسب اشتراک نہایت ضروری ہے ورنہ انسان یا تو عقل.بے بہرہ ہو جائے گا یا جذبات سے خالی اور اس کی زندگی ناکامیوں کا ایک عبرت انگیز مرقعہ بن جائے گی.مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ حد سے زیادہ جذبات کے تابع ہو جاتے ہیں وہ عجیب احمقانہ حرکات کرنے لگتے ہیں.کئی لوگوں کو دیکھا ہے جب غصہ آتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو اپنے بال نوچ ڈالتے اور گالوں کو پیٹ پیٹ کر زخمی کر لیتے ہیں.ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی نمبر دار نے کسی کا برتن مانگ کر لیا اور پھر جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یا کسی اور وجہ سے اسے واپس نہ کیا.مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد برتن کا مالک اس نمبر دار کے گھر میں گیا تو دیکھا کہ وہ اس میں ساگ ڈال کر کھا رہا ہے یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ چوہدری یہ تو ٹھیک نہیں ، تم نے شادی کے لئے برتن مانگا تھا اور اب اس میں ساگ کھا رہے ہو.اچھا مجھے بھی باپ کا بیٹا نہ کہنا اگر میں بھی

Page 409

خطبات محمود ۴۰۴ سال ۱۹۳۵ء تمہارا برتن ما نگ کر نہ لے جاؤں اور پھر اس میں نجاست ڈال کر نہ کھاؤں.یہ بات اس نے جذبات کے ماتحت کہی عقل کا اس سے کوئی واسطہ نہ تھا.اس نے اتنا نہ سوچا کہ نجاست کھانے سے خود اسی کا نقصان ہو گا.ایسا ہی حال اُس شخص کا ہوتا ہے جو جذبات کو بالکل دبا دے اور خالی عقل کے پیچھے.پڑ جائے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک مقررہ مقدار رکھی ہے جیسا کہ قرآن کریم سے یہ قانون صاف طور پر نظر آتا ہے جب وہ مقدار خرچ ہو جائے تو جیب خالی ہو جاتی ہے.پانی کو ہنڈیا میں ڈال کر جلا ؤ تو وہ بھاپ بن کر اڑ جائے گا.اور جس طرح دنیا میں ہر چیز کی مقدار ہوتی ہے اسی طرح جذبات کی بھی ہے.اگر انہیں اتنا استعمال کرو گے کہ وہ بھاپ بن کر اڑ جائیں تو ہنڈیا خالی رہ جائے گی اور اصل کام کے وقت تمہارے پاس کچھ نہیں ہو گا.مگر عقلمند وہ ہے جو اپنے ذخیروں کو محفوظ کرتا ہے.جب انگلستان اور جرمنی کی لڑائی شروع ہوئی تو دونوں ممالک میں ایک شور مچ گیا.لنڈن کے لوگ جمع ہو کر بازاروں میں نعرے لگاتے پھرتے تھے کہ "Down wiht Germany" جرمن کہتے تھے "Down with England " لیکن کیا تم سمجھتے ہو جرمنی کو شکست دینے والے وہ لوگ تھے جو انگلستان میں یہ نعرے لگاتے پھرتے تھے.یا انگلینڈ کو زخم پہنچانے والے وہ لوگ تھے جو جرمنی میں اس قسم کے نعرے لگاتے تھے نہیں بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جب سنا ہمارے قومی احترام پر حملہ کیا گیا ہے تو کہا بہت اچھا.اب کام کا وقت آ گیا ہے ، انہوں نے اپنے جوشوں کو اپنے سینوں میں رکھا اور کام میں لگ گئے اور اپنے ارادوں کو پورا کر کے دکھا دیا.جرمن تھوڑے تھے اور ان کے پاس اتنے سامان بھی نہ تھے اس لئے اتحادیوں کو شکست نہ دے سکے.مگر انہوں نے انگلستان اور دوسرے اتحادیوں کو سخت زخم لگایا اور انگلینڈ اور اس کے اتحادی چونکہ تعداد اور سامان میں زیادہ تھے اس لئے انہوں نے جرمنی کو کچل دیا.جنگ کے بعد ایک بڑے جرمن تاجر کا خط میرے نام آیا اس زمانہ میں جرمن چاروں طرف ہاتھ مار رہے تھے کہ کوئی راہ امداد کی ہے؟ اس خط میں اس نے لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں بہت قحط ہے اور مصائب کے بادل ہیں کیا ہندوستان کے لوگ ہمارے کھانے کے لئے کوئی چندہ دے سکتے ہیں؟ پھر اس نے لکھا تھا کہ جو تاوان ہم پر ڈالا گیا ہے ہم تیار ہیں کہ جس طرح بھی ہو اسے ادا کر دیں لیکن معلوم نہیں وہ کتنا ہے (اُس وقت تک اتحادیوں نے جرمنی پر تا وان لگا تو دیا تھا مگر

Page 410

خطبات محمود ۴۰۵ سال ۱۹۳۵ء رقم معتین نہ کی تھی بلکہ کہا تھا کہ جرمنی کی طاقت کو دیکھ کر مقرر کی جائے گی.) تو اس جرمن تاجر نے لکھا کہ ہم تو کام کرنے کے لئے تیار ہیں ، ہم میں سے ہر شخص نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جس طرح بھی ہو وہ محنت کر کے یہ رو پیدا دا کر دے گا.تا ہمارا ملک آزاد ہو مگر مشکل یہ ہے کہ ہمیں بتایا نہیں جاتا کہ ہم نے کیا ادا کرنا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ اگر بغیر رقم کی تعیین کے ہم لوگ تاوان ادا کر نے لگیں تو اسے ہمیشہ بڑھایا جاتا رہے گا لیکن اگر بتا دیا جائے تو ہمیں ادا ئیگی میں کوئی عذر نہ ہوگا.ان کی یہ قوت ارادی ہی تھی جس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج وہی جرمنی جسے کچلا گیا تھا اور جسے کہا گیا تھا کہ تم یہ نہیں کر سکتے وہ نہیں کر سکتے.وہ کہتا ہے میں سب کچھ کروں گا کون ہے جو مجھے روک سکے.اور وہ لوگ جنہوں نے اس پر پابندیاں عائد کی تھیں وہ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھتے ہیں اور ایک کہتا ہے میں کچھ نہیں کر سکتا اور دوسرا بھی کہتا ہے میں کچھ نہیں کر سکتا اور جرمن چیلنج دے کر اور دند نا کر جو چاہے کرتا ہے اور اتحادی اسے روک نہیں سکتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے اپنے جذبات کو روک کر رکھا ، اس نے ایک عہد کیا جسے بھولا نہیں ، اس نے نہ اپنی طاقتوں کو ضائع کیا اور نہ بے غیرتی دکھائی.طاقت کا ضائع کرنا قوت عملیہ کو مٹا دیتا ہے اور بے غیرت کہتا ہے بہت اچھا جو کرنا ہے کر لو لیکن سمجھدار آدمی کا یہ کام ہے کہ وہ صاف کہ دیتا ہے کہ جو ظلم کیا جا رہا ہے میں اسے پسند نہیں کرتا اور اس پر راضی نہیں ہوں مگر میں کچھ کر کے دکھاؤں گا زیادہ باتیں پسند نہیں کرتا.میرا مطلب یہ نہیں کہ پروٹسٹ نہیں کرنا چاہئے یا اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ ہے کہ جذبات کا اظہار اس قدرنہیں ہونا چاہئے کہ اسی میں دل تسلی پالے.کئی بچوں کو دیکھا ہے کہ شام کو اپنے ہم جولیوں سے خوب لڑیں گے ، خوب گالیاں دیں گے، پھر روتے روتے سو جائیں گے اور صبح اٹھ کر بغیر کسی بات کے ایک دوسرے سے کھیلنے لگ جائیں گے کیونکہ وہ اپنا بخار گالیوں سے نکال چکے ہوتے ہیں.پس میرا مطلب یہ ہے کہ جذبات کے اظہار پر ہی بس نہ کر دو بلکہ دنیا کو بتا دو کہ اس سال نہیں تو اگلے سال ، دس ہیں ، پچاس ،سو، بلکہ ہزار دو ہزار سال میں بھی ہم بدلہ لے کر چھوڑیں گے مگر وہ بدلہ شریفانہ ہوتا ہے جیسا بدلہ کہ انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ لیتی آئی ہیں اور دشمن کو بتادیں گے کہ ہمارا جوش محدود وقت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے مؤمن ہمیشہ دشمن کی شرارت کو یاد رکھتا ہے اور کوئی چیز اس کے ذہن سے دشمن کی شرارت کو نہیں مٹا سکتی مگر دشمن کی اصلاح یا اس کا معافی مانگنا.جب دشمن اصلاح کرلے یا معافی طلب کر لے تو مؤمن اسی کو

Page 411

خطبات محمود ۴۰۶ سال ۱۹۳۵ء کافی سزا سمجھ لیتا ہے لیکن یہ حالت مؤمن کی دینی اور اجتماعی امور کے متعلق ہوتی ہے.انفرادی اعمال میں وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ ایسے موقع پر ذاتی جذبات کو نظام پر قربان کر دیتا ہے اور عفو اس کے اعمال پر غالب رہتا ہے.اس تمہید کے بعد اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ حملہ جو میاں شریف احمد صاحب پر کیا گیا ہے ہمیں عقل و جذبات کا توازن قائم رکھتے ہوئے اس کے متعلق یہ سوچنا چاہئے کہ یہ انفرد ای فعل تھا یا سازش کا نتیجہ تھا.انفرادی افعال مؤمن کو بھلا دینے چاہئیں.کئی لوگ معمولی جوش کی حالت میں کوئی فعل کر بیٹھتے ہیں اور اپنے حق سے زیادہ بدلہ لے لیتے ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ایک آدمی جوش میں آیا مگر دوسرے نے اسے کوئی اہمیت نہ دی اور چپ رہا تو وہ غصہ میں بھرا ہوا آ کر کسی اور سے لڑنے لگ گیا.مجھے ایک بڑے فلاسفر کی بات یاد ہے جس نے لکھا ہے کہ بہت سی پھانسیاں جن کا حکم عدالتوں سے دیا جاتا ہے مگر وہ فیصلہ عدالت کا نہیں ہوتا بلکہ عدالت کرنے والوں کی بیویوں کا ہوتا ہے.مجسٹریٹ بیوی سے لڑ کر آتا ہے اور مقدمہ سنتے ہی ذرا سا بھی ثبوت اگر نظر آیا تو جھٹ سزا دے دیتا ہے اس لئے کہنا چاہئے کہ وہ فیصلہ اس کا نہیں بلکہ اس کی بیوی کا ہوتا ہے.پس دیکھنا چاہئے کہ یہ فعل کیسا تھا ؟ اسے انفرادی فعل سمجھا جائے یا سازش کا نتیجہ.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس فعل کی نوعیت بتاتی ہے کہ یہ فعل انفرادی نہیں تھا ، نہ کوئی جھگڑا ہوا نہ فساد اور نہ حملہ آور سے کوئی لین دین کا معاملہ تھا راستہ چلتے چلتے اس شخص نے حملہ کر دیا.اب سوال یہ ہے اگر یہ فعل انفرادی نہ تھا تو پھر کیا یہ فعل صرف انگیخت کا نتیجہ تھا یا سازش کا.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ انسان کسی کو کہتا تو کچھ نہیں مگر ایسی جوش کی باتیں کرتا ہے کہ دوسرے کو خواہ مخواہ غصہ آ جاتا ہے اور وہ کوئی ناروا حرکت کر بیٹھتا ہے یہ تو ہے انکیت.اور سازش یہ ہے کہ کسی خاص آدمی کو خاص کام کے لئے متعین کر دیا جاتا ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ اس فعل میں انگلیت ضرور تھی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ایام میں قادیان میں ایسی تقریر میں کی گئیں جن میں بار بار سلسلہ کے ارکان اور مقدس مقامات پر حملہ کی تحریکیں کی گئی تھیں.ہمیں اس کی رپورٹیں برابر پہنچتی رہی ہیں اور اگر میں غلطی نہیں کرتا تو حکومت کے پاس بھی ضرور پہنچی ہوں گی کیونکہ اس کے ایجنٹ بھی یہاں موجود ہیں.ان تقریروں میں صاف لفظوں میں ہمارے خاندان کا نام لے لے کر اور مقدس مقامات کا نام لے لے کر جوش دلایا گیا.پس اگر اس کے لئے کوئی باقاعدہ سازش نہ کی جاتی تو ان تقریروں کے نتیجہ میں بھی بہت حد تک اس قسم کے حملہ کا امکان تھا لیکن میں بتا تا ہوں کہ

Page 412

خطبات محمود ۴۰۷ سال ۱۹۳۵ء معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور یقیناً سازش کا نتیجہ ہے.آج سے دوماہ پہلے سے مجھے اطلاعات مل رہی تھیں کہ احمدی زعماء پر عموماً اور میرزا شریف احمد صاحب پر خصوصاً حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں.ان رپورٹوں میں اس گلی کا ذکر بھی تھا جہاں حملہ ہوا ، پھر اس رپورٹ میں تجاویز تک بتا دی گئی تھیں اور لکھا تھا کہ ایک تجویز تو یہ ہے کہ ایک آدمی لٹھ لے کر حملہ کر دے اور ایک یہ تجویز بھی تھی کہ عورتیں رستہ میں کھڑی ہو کر گالیاں دیں اور پھر چمٹ جائیں اور گھسیٹ کر اندر لے جائیں اور کہیں کہ ہم پر حملہ کیا تھا.پہلے جب یہ رپورٹ پہنچی تو ہم نے اسے افواہ سمجھا لیکن جب مختلف ذرائع سے یہ خبر پہنچی تو اخبار الفضل میں ایک نوٹ دے دیا گیا اور ۲۷ / جون کو سرکاری افسروں کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی.چیف سیکرٹری ، انسپکٹر جنرل پولیس اور مقامی حکام کو بھی اطلاع کر دی گئی اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ سازش تھی.ہماری اطلاعات میں گلی کا بھی ذکر تھا بلکہ کئی آدمیوں کا جو اس سازش میں حصہ لے رہے ہیں.ساتھ ہی حملہ کے ذرائع کا بھی ذکر تھا اور غرض یہ بھی بتائی گئی تھی کہ احمدی جوش میں آ کر حملہ کریں گے اس پر انہیں نیز ان کے ہمدرد حکام کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ احمدیوں نے حملہ کیا.کہا جاتا ہے کہ اسکی ایک غرض یہ بھی تھی کہ اس طرح فساد کرا کے سیشن جج گورداسپور کے فیصلہ کے خلاف ہم جو اپیل کرنا چاہتے ہیں اس کے خلاف مواد مہیا کیا جائے اور چونکہ ہماری پہلی تاریخ میں اس قسم کی کوئی بات ملتی نہیں اور اس کی تائید میں کوئی دلیل نہیں اس لئے نئی دلیل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی.اس وقت میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں حکام کا بھی کوئی دخل تھا یا نہیں اور نہ اس کے متعلق کوئی رپورٹ مجھے پہنچی ہے ہاں احرار کے متعلق پہنچتی رہی ہیں.پس اس حملہ کا اندازہ اس امر سے نہیں ہونا چاہئے کہ کرنے والا کون تھا اور جس پر کیا گیا وہ کون ؟ بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کس ارادہ کے ماتحت یہ کیا گیا.یہ حملہ ایک معزز احمدی پر ایک ذلیل آدمی کی طرف سے ہونے کی وجہ سے ہی اس کی اہمیت نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس کا مقصد کیا تھا ؟ اس کا مقصد یقیناً یہی تھا کہ قادیان میں فساد کرایا جائے لڑایا جائے اور جماعت احمدیہ کو بدنام کیا جائے.وہ لاٹھی جو چلائی گئی وہ اس غرض سے تھی کہ سینکڑوں ہزاروں جسموں پر لاٹھیاں پڑیں پس ان لاٹھیوں کی اہمیت اسی حملہ پر ختم نہیں ہو جاتی.اگر اتفاقا اس حملہ کے وقت اور احمدی ساتھ چل رہے ہوتے یا اگر خود مرزا شریف احمد ہی جوش میں آ جاتے تو وہاں دوسرے احراری بھی بیٹھے تھے فوراً یہ ایک قومی لڑائی بن جاتی اور پھر حکومت کے پاس رپورٹ چلی جاتی کہ اس

Page 413

خطبات محمود ۴۰۸ سال ۱۹۳۵ء طرح احمدیوں نے حملہ کیا اور بلوہ ہو گیا.میں تمہارے اندر یہ روح پیدا کر نا نہیں چاہتا کہ اگر کوئی شخص تم کو مارے بھی تو تمہارا بولنا مفا د سلسلہ کے لئے مضر ہے.جماعتوں میں لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں، پیٹے بھی جایا کرتے ہیں اور قید بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کو نظر انداز کر کے میں جس پہلو کو لے رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس حملہ کی غرض یہ تھی کہ فساد کر کے جماعت احمدیہ کو بدنام کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ جماعت احمد یہ فساد کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ وہ دشمن جو ہمیں ذلیل کرنا چاہتا تھا خود دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو گیا.دشمن کی شدید انگیخت کے باوجود یہاں امن قائم رہا.گویا صیاد نے جو دام ہمارے لئے بچھایا تھا وہ خود اس کا شکار ہو گیا.جب دنیا کے سامنے یہ بات آئے گی کہ اس حملہ سے پہلے ہمیں اس کی اطلاع تھی اور ہم نے حکومت کو بھی اس کی اطلاع دے دی تھی جس نے قطعاً کوئی کارروائی نہیں کی اور وہ یہ واقعات پڑھے گی کہ ایک ذلیل گداگر جس کی ساری عمر احمدیوں کے ٹکڑوں پر بسر ہوئی ہے ، مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ آور ہوا اور احمدی پھر بھی خاموش رہے تو وہ وقت تمہاری فتح کا ہوگا.ہماری جماعت تاریخی جماعت ہے ، آئندہ کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ذکر نہ کرے اور یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے سب دنیا پر چھا جانے والی ہے پس جو کچھ تم سے ہو رہا ہے اس کا بدلہ تاریخ لے گی.اور آج جو لوگ تمہارے حقوق تلف کر رہے ہیں ان کی نسلیں انہیں گالیاں دیں گی کیونکہ کون ہے جو اپنے آباء کی شرارتوں کا ذکر تاریخوں الله میں پڑھ کر شرمندہ نہیں ہوتا.بے شک آج لوگ ہم پر ظلم کر کے بنتے ہیں جس طرح رسول کریم علی پر اونٹوں کی اوجھڑی ڈالنے والے ہنستے تھے.ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی اس حرکت کو ہزار ہا سال تک یا درکھا جائے گا اور یہ ہمیشہ کے لئے ان کی ناک کاٹنے کا موجب ہو جائے گی.آج بھی ہمارے دشمن اور بعض حکام خوش ہوتے ہیں اور اسے ایک کھیل سمجھتے ہیں مگر انہیں کیا معلوم کہ یہ باتیں تاریخوں میں آئیں گی.بڑے سے بڑے مورخ کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ ان واقعات کو نظر انداز کر دے کیونکہ ان کے بغیر اس کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی.پڑھنے والے ان باتوں کو پڑھیں گے اور حیران ہوں گے ان لوگوں کی انسانیت پر جنہوں نے یہ افعال کئے اور حیران ہوں گے ان حکام کے رویہ پر جنہوں نے علم کے باوجود کوئی انتظام نہ کیا اور آنے والی نسلوں کی رائے ان کے خلاف ہوگی ، ان کی وہ چیز جس کے لئے انسان جان کی قربانی بھی کر سکتا ہے یعنی نیک نامی بر باد ہو جائے گی.پس

Page 414

خطبات محمود ۴۰۹ سال ۱۹۳۵ء جو چال احرار ہمارے خلاف چلے تھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اُلٹ کر انہی پر پڑی اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے ان کے شر سے محفوظ رکھا.تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں شعائر اللہ کی تعظیم سے ناواقف نہیں ہوں.میں جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی تاریخ پڑھتا ہوں اور آپ کی وفات کے بعد ظہور میں آنے والے افسوسناک واقعات کا مطالعہ کرتا ہوں ، جب صحابہ میں اختلاف ہوا اور باہم لڑائیاں ہوئیں اور اس واقعہ پر پہنچتا ہوں جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ایک جنگ میں شریک ہوئیں تو باوجود اس کے کہ میرا عقیدہ ہے کہ اس معاملہ میں حضرت علی محق پر تھے اور یہ بھی کہ آپ کے مخالف غلط فہمی کا شکار تھے.حضرت علیؓ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے بہت حد تک صحیح اور حق بجانب تھے اور اگر اس وقت ان سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہو تو وہ اتنی ادنی ہے کہ ان حالات کے لحاظ سے اسے نظر انداز کر دینا چاہئے مگر باوجود اس کے جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ حضرت علیؓ کے مقابل پر جو لشکر تھا اس کے پاؤں کو جمائے رکھنے والا صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وجود تھا اور وہ با وجود کمزور ہونے کے اس لئے نہ بھا گتا تھا کہ حضرت عائشہ اس کے ساتھ نہ بھاگ سکیں گی اور اس طرح ممکن ہے آپ کو کوئی گزند پہنچ جائے.حضرت علی کے لشکر کے سردار بڑھ بڑھ کر حملے کرتے تھے مگر سمجھتے تھے کہ جب تک حضرت عائشہ ہودج میں بیٹھی ہیں بالمقابل لشکر کے سپاہی ایک ایک کر کے جان دے دیں گے مگر بھا گئیں گے نہیں اس وجہ سے ان میں سے بعض نے یہ فیصلہ کیا کہ خواہ نتیجہ کچھ ہو حضرت عائشہ کے ہودج کو نیچے گرا دیا جائے جب وہ گر جائے گا تو مخالف لشکر خود بخود بھاگ جائے گا.اس فیصلہ کے مطابق جب حملہ شروع ہوا تو حضرت عائشہؓ کے لشکر کے سپاہی جن میں بڑے بڑے بزرگ صحابی تھے ، جو اسلام میں بڑی بڑی وجاہتیں رکھتے تھے ایک ایک کر آگے آتے تھے اور جانیں دیتے تھے.اس وقت کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت زبیر جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے ان کے ایک لڑکے عبداللہ بن زبیر جن کو بعض لوگ پہلی صدی کا مجددبھی کہتے ہیں حضرت علیؓ کے لشکر کے ایک بڑے سردار مالک کے ساتھ جو حملہ میں بہت زیادہ حصہ لے رہا تھا جا کر چھٹ گئے.ان کا خیال تھا کہ اگر مالک کو مار دیا جائے تو حضرت علی کا لشکر کمزور ہو جائے گا اور حضرت عائشہ کو بچایا جا سکے گا اس لئے وہ اس سے چمٹ گئے مگر مالک بڑا مضبوط آدمی تھا اور یہ نحیف الجثہ تھے اور صرف ایمانی طاقت کے ساتھ اس سے چمٹ گئے تھے.آخر کشمکش میں دونوں

Page 415

خطبات محمود ۴۱۰ سال ۱۹۳۵ء اس طرح گرے کہ وہ نیچے تھے اور مالک او پر اُس وقت انہوں نے جو شعر پڑھا وہ ان کی ایمانی حالت کو ظاہر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ صحابہ کے دل میں شعائر اللہ کی کتنی تعظیم تھی.آپ نے کہا اقْتُلُونِي وَمَالِكًا اقْتُلُوا مَالِكًا مَعِى یعنی اے دوستو ! ما لک کو قتل کرنے سے اس لئے نہ جھجکو کہ وہ میرے اوپر ہے اور اس کو مارنے سے میں بھی مارا جاتا ہوں.تم میری موت کا فکر نہ کرو مجھے بھی ماردو اور مالک کو بھی مار دوا اور ہم دونوں کا اکٹھا خاتمہ کر کے اس وقت حضرت عائشہ کی حفاظت کرو.جب میں اس واقعہ کو پڑھتا ہوں تو باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مؤمنوں کا خلیفہ بنایا ہے میرے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش! میں بھی اُس وقت ہوتا اور حضرت عائشہ کی حفاظت کرتا.پس میں شعائر اللہ کی تعظیم سے آگاہ ہوں اور جانتا ہوں کہ ان کی کیا اہمیت ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول ایک دفعہ نواب صاحب کی کوٹھی میں کسی مریض کو دیکھنے یا کسی اور کام کے لئے گئے تو اسی گلی میں جس میں یہ حادثہ ہوا ہے گھوڑی جس پر آپ سوار تھے بدک گئی اور آپ نیچے گر گئے جس سے سر پر چوٹ آئی اور دماغ کو بھی صدمہ پہنچا.اس سے آپ بار بار بے ہوش ہو جاتے تھے مجھے اطلاع ملی تو تیمار داری کے لئے میں بھی وہاں جا بیٹھا اور دیر تک وہیں بیٹھا رہا اُس دن میرالڑ کا ناصر احمد سخت بیمار تھا اسے پیچیش تھی اور اس میں کثرت سے خون آتا تھا اور مرض یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ خطرہ تھا کہ وہ بچے گا نہیں.مجھے حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھے بیٹھے جب بہت دیر ہوگئی تو چونکہ ماں کو اپنے بچہ سے بہت محبت ہوتی ہے میری بیوی کی طرف سے بار بار پیغام آنے لگا کہ بچہ کی حالت نازک ہے جلد آؤ.شام کے قریب حضرت خلیفہ اول کو ہوش تھا اُس وقت بھی کسی نے آکر اونچی آواز سے مجھے پیغام دیا مگر میں نے اُسے گھور کر دیکھا کہ چلے جاؤ.اس کے بعد آپ پر پھر غنودگی طاری ہوگئی اور اس کے تھوڑی دیر بعد پھر آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا میاں ! تم اب تک یہاں بیٹھے ہو.میں نے سمجھا آپ کا یہ مطلب ہے کہ اس دوران میں کہیں گئے تو نہیں.میں نے کہا ہاں میں برابر یہیں بیٹھا ہوں.آپ نے فرمایا.میں نے ابھی کسی کو یہ کہتے سنا ہے کہ ناصر احمد کی حالت خراب ہے تم گئے نہیں ؟ پھر آپ نے فرمایا کیا تم سمجھتے ہو وہ تمہارا بیٹا ہے میں اسے اس نگاہ سے نہیں دیکھتا.میں اس نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پوتا ہے جاؤ چلے جاؤ.

Page 416

خطبات محمود ۴۱۱ سال ۱۹۳۵ء پس میں اس بات کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اپنے شعائر میں داخل کرتا ہے تو اس کی تعظیم کو اپنی تعظیم سمجھتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ مَنْ يُعَلِّمُ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ یہ بات اللہ تعالیٰ کے تقویٰ میں شامل ہے.اور اس کی وجہ سے تمہیں کتنا بھی جوش آئے میں اسے نا جائز نہیں سمجھتا.پھر میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ حملہ میاں شریف احمد صاحب پر اس لئے تھا کہ اس سے جوش میں آکر جماعت احمدیہ ان پر حملہ کر دے.میاں شریف احمد صاحب پر یہ حملہ ان کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ احمدیت کی وجہ سے تھا اس لئے علاوہ شعائر اللہ پر حملہ ہونے کی وجہ کے اگر جماعت اس کے متعلق کچھ نہ کرتی تو وہ سخت بے غیرت ہوتی.ہماری جانیں رسول کریم ﷺ کے مقابل پر کیا حیثیت رکھتی ہیں.آپ نے ایک دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ میں بھیجا کہ صلح کی کوشش کریں اور اہل مکہ کو اس امر پر راضی کریں کہ مسلمانوں کو عمرہ کر لینے دیں.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بات چیت میں دیر لگ گئی ، بحث نے طول کھینچا اور وہ شام تک واپس نہ آ سکے.رسول کریم کو اس کا بہت خیال تھا کہ دیر زیادہ ہو گئی ہے ، اتنے میں بعض شرارتیوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عثمان مارے گئے ہیں.رسول کریم ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا میں نے عثمان کو بھیجا تھا افواہ ہے کہ ان کو شہید کر دیا گیا ہے ، یہ میرا ہاتھ ہے کون ہے جو اس پر موت کی بیعت کرتا ہے؟ صحابہ آئے اور انہوں نے بیتابانہ اپنے ہاتھ رکھ دیئے پھر آپ نے دوسرا ہاتھ نکالا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے.اگر وہ آج یہاں ہوتے تو وہ بھی ضرور بیعت کرتے اس لئے یہ ہاتھ ان کی طرف سے میں رکھتا ہوں.شوہ بیعت ایسی تھی کہ صحابہ کہتے ہیں ہم تلواروں کے کندے مار مار کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایک دوسرے کی گردنوں پر چڑھ کر بیعت کر رہے تھے.سو میں تسلیم کرتا ہوں کہ قومی غیرت چاہتی ہے کہ جب قومی وجہ سے حملہ کیا جائے تو سب اسے مٹائیں.میں مانتا ہوں کہ جو قوم شعائر اللہ کی عظمت نہیں کرتی وہ مٹادی جاتی ہے مگر تم اس بات کو کبھی نہ بھولو کہ یہ حملہ تھا کیوں؟ یہ اس لئے تھا کہ جماعت کو بدنام کیا جائے اور تمہارا فرض ہونا چاہئے کہ سلسلہ کے نیک نام کو قائم رکھو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بزدل ہیں ، گورنمنٹ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ ہم بزدل نہیں ہیں ، اسے خوب معلوم ہے کہ کس طرح ہمارے آدمیوں نے کابل میں جانیں دیں، کیا ان واقعات کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں.ایک یورپین کی کتاب

Page 417

خطبات محمود ۴۱۲ سال ۱۹۳۵ء میں لکھا ہے جو اُس زمانہ میں وہاں اٹلی کا ایک انجینئر تھا کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو صرف اس لئے سنگسار کیا گیا تھا کہ وہ جہاد کے مخالف ہیں.اور اس طرح گو یا انگریزی حکومت کو طاقت پہنچاتے ہیں.پس جس قوم کے افراد انگریزوں کے لئے جانیں دے سکتے ہیں کیا وہ دین کی خاطر نہیں دے سکتے.جو قوم غیروں کے ملک کو فساد سے بچانے کے لئے جانیں دے سکتی ہے وہ دین کی حرمت کے لئے کیوں نہ دے گی.پس یہ غلط ہے کہ ہم دشمنوں سے یا حکومت سے ڈرتے ہیں.ہم فساد سے صرف اس لئے بچتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہمیں کہتا ہے کہ فسادمت پھیلا ؤ.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اسی وقت نسل انسانی پر اعتراض کیا گیا تھا کہ یہ فساد کرے گی مگر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا یہ کام مقرر کیا کہ وہ فساد کو دُور کریں.پھر ہم کیوں شیطان کے اعتراض کو زندہ کر کے آدم کو جھوٹا ہونے دیں.مجھے معلوم ہے کہ قرآن کریم میں فرشتوں کے منہ سے یہ اعتراض دُہرایا گیا ہے اور وہ آیات میرے ذہن میں ہیں مگر باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ وہ شیطانی اعتراض تھا.فرشتوں نے دنیا کے خیالات کو وہاں دُہرایا ہے کہ لوگ ایسا کہتے ہیں یا کہیں گے ور نہ ہم تو حضور کے ہر فعل کو اعتراض سے بالا سمجھتے ہیں.پس اصل اعتراض شیطان کا تھا کہ آدم فساد کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آدم کی اولا د فساد نہیں کرے گی بلکہ شیطان کی اولا د کرے گی اور اس کا ثبوت تمہیں دکھاتا ہوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کی پیدائش پر سجدہ کرو ، انہوں نے سجدہ کیا مگر شیطان نے انکار کر دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے دیکھ لیا فساد تم کرتے ہویا وہ.آدم نے جب غلطی کی نسیان کے ماتحت کی مگر شیطان نے بغاوت سے مقابلہ کیا.پس ہمارا کام یہ ہے کہ دنیا پر ثابت کر دیں کہ ہم فسادی نہیں ہیں اور اس اصل کے قیام کے لئے قربانیاں کریں مگر ساتھ ہی اپنی غیرت کو نہ مرنے دیں.میں جانتا ہوں یہ بہت نازک معاملہ ہے ، یہ تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے مگر مؤمن کو تلوار کی دھار پر چلنا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ ثابت کر دو کہ تم تلوار کی دھار پر چل سکتے ہو.ایک طرف غیرت ہے اور دوسری طرف فساد سے بچنا.یہ حملہ تمہیں بتاتا ہے کہ تمہارا دشمن کس حد تک گر چکا ہے.یہ تمہیں ہوشیار کرتا ہے کہ تمہیں کس قدر وسیع النظر ہونا چاہئے.وہ شرارت سے تمہاری تو جہ کو اپنی طرف پھیرنا چاہے گا.مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے مجھے خبر دے رکھی ہے تمہارا فرض یہی ہے کہ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ کہتے ہوئے چلتے جاؤ.

Page 418

خطبات محمود ۴۱۳ سال ۱۹۳۵ء چوتھی بات یہ ہے کہ دو باتیں اور ایسی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اوّل یہ کہ جیسا کہ اطلاعات بتاتی ہیں اس حملہ کو یہیں تک محدود نہیں سمجھنا چاہئے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ ناظروں اور ہمارے خاندان کے دوسرے ممبروں اور ہمارے خاندان کی عورتوں اور دوسری احمدی عورتوں پر حملوں کے امکانات ہیں.اور مقامات مقدسہ پر حملہ کی انگیخت تو تقریروں میں صاف موجود ہے اس لئے ہم اسے معمولی نظر سے بھی نہیں دیکھ سکتے.یہ ایک کڑی ہے ایک زنجیر کی ، اُسی دن جس دن مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ کیا گیا ، ایک احمدی دکاندار کو بھی زدوکوب کیا گیا اور اس وجہ سے اگر ہم بالکل خاموش رہیں تب بھی گزارہ نہیں ہو سکتا.دشمن چاہتا ہے کہ اگر ہم اس کے حملوں کا جواب حملہ سے دیں تو وہ ہمیں ہمارے مخالف حکام کی مدد سے مجرم بنائے اور ہماری روایات کو باطل کرے اور اگر ہم حملہ کا جواب حملہ سے نہ دیں اور صبر کریں تو وہ اس حد تک ہمیں تنگ کرے کہ احمدیت کو دنیا کی نگہ میں بے غیرت ثابت کر دے.پس ان حالات میں اگر ہمیں خون کا آخری قطرہ بھی ان شرائط کے ماتحت جو میں بیان کر چکا ہوں گرانا پڑے تو اس سے ہمیں دریغ نہ ہونا چاہئے.ہمارا پچھلا تجربہ بتا تا ہے کہ ہم ایسے ماحول میں ہیں کہ حکومت بھی ہماری طرف توجہ نہیں کر سکتی.اس کے سامنے ہم دس دن پہلے حالات رکھ چکے تھے اور اسے دس دن کا وقفہ انتظام کے لئے مل گیا تھا لیکن اس عرصہ میں وہ کوئی انتظام نہیں کر سکی لیکن اس کے مقابل میں زمیندار میں ایک جھوٹی خبر شائع ہوتی ہے کہ کسی شخص نے مولوی ظفر علی کو لکھا ہے کہ تم اار دسمبر کو مار دئیے جاؤ گے اور ان کی حفاظت کے لئے پولیس کی جمعیت سی.آئی.ڈی کا سپر نٹنڈنٹ اور تمام دوسرے افسر آ موجود ہوتے ہیں.بلکہ کہا جاتا ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس بھی فون پر دریافت کرتے رہے گویا حکومت کو اُس دن سخت بے چینی تھی کہ حکومت کا یہ رکن اور خیر خواہ و ہمدرد کہیں مارا نہ جائے یا اسے کوئی گزند نہ پہنچے لیکن سلسلہ احمدیہ کے معزز افراد جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے الہاموں میں جگہ دی ہے اور جن کی خاطر جماعت احمدیہ کا ہر فرد اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے ان پر حملہ کی خبر دس دن قبل تمام افسروں کو بھجوا دی جاتی ہے مگر کوئی کا رروائی نہیں ہوتی.آئندہ کے لئے بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی توجہ کی جائے گی یا نہیں اور ہو سکتا ہے کہ میرے اسی خطبہ کے ساتھ ہی یہ رپورٹ بھیج دی جائے کہ حالات پر پوری طرح قابو پالیا گیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ بعض افسر بغیر کچھ کئے بھی نیک نامی کے خواہشمند رہتے

Page 419

خطبات محمود ۴۱۴ سال ۱۹۳۵ء ہیں.کچھ عرصہ ہوا ٹائمز آف انڈیا جو انگریزی کا ایک وقیع اخبار ہے اس کا نمائندہ یہاں آیا میں نے اُسے بتایا کہ دو آدمی میرے قتل کے لئے یہاں آچکے ہیں جن پر یہ الزام ثابت ہے اور کئی ایسے ہیں جن پر یہ شبہ کیا گیا ہم نے حکومت کو ہر امر کی اطلاع دی ہے مگر اسکی طرف سے کوئی توجہ نہیں کی گئی لیکن زمیندار میں ایک جھوٹی خبر شائع ہونے پر استقدر دوڑ دھوپ کی گئی.اس نمائندہ کو اس انٹرویو کے بارہ میں اخبار کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ حکومت کا نقطہ ء نگاہ بھی معلوم کرے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں جو نوٹ اس نے شائع کیا اس میں لکھا تھا کہ میں نے دوسری طرف سے بھی دریافت کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی حفاظت کا انتظام اندر اور باہر ہر طرح کیا گیا ہے.جب میں نے یہ پڑھا تو حیران ہو گیا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس قسم کا ہرگز کوئی انتظام نہ تھا.اول تو جو حالت جوش کی ان دنوں ہمارے خلاف ہے اسکو دیکھتے ہوئے احراریوں کی پولیس پر بھی ہم اعتبار نہیں کر سکتے تھے.لیکن یہ امر حقیقت کے بھی بالکل خلاف تھا نہ اندر نہ باہر میری حفاظت کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی انتظام نہ تھا اور یہ بیان سراسر خلاف واقعہ تھا.جب ہم نے اس کے خلاف بعض جگہ ذکر کیا تو ایک ذمہ دار پولیس افسر کی چٹھی امور عامہ کو آئی ، آپ بتائیں آپ لوگ امام جماعت احمدیہ کی حفاظت کے لئے اور مزید انتظام کیا چاہتے ہیں ؟ امور عامہ نے جب سوال کیا کہ پہلے ہمیں مزید کے معنی سمجھاؤ کہ پہلے کیا انتظام ہے جس کی وجہ سے یہ مزید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.تو اس سوال کا جواب حکومت نے آج تک نہیں دیا.غرض گو اس وقت حکومت کو ہمارے متعلق اس قدر بدظن کر دیا گیا ہے کہ ہماری کسی بات پر توجہ مشکل ہی معلوم ہوتی ہے مگر پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ اسے توجہ دلائیں.جب اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو حکومت دی ہے تو شریعت کی حد بندیوں کے ساتھ ہمیں اس طرف متوجہ ہونا پڑے گا سوائے اس کے کہ حجت تمام کر دیں اور نا امید ہو کر اس سے صاف کہہ دیں کہ ہم تمہارا حکم تو بے شک مانیں گے مگر ہمیں آپ سے مدد کی کوئی امید نہیں اور اس وجہ سے آئندہ ہم تمہارا اور اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے.دوسری بات یہ ہے کہ اس سازش کے متعلق میں نے بیان کیا ہے کہ اس میں احراری لیڈر شامل ہیں اگر یہ انفرادی فعل ہوتا یا مقامی احمد یوں تک محدود ہوتا تو بھی اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن ہمارے پاس اس شبہ کی قومی وجوہ موجود ہیں کہ اس میں بعض بڑے لیڈر بھی شریک ہیں.اس حملہ سے چار پانچ روز قبل ہمیں ایک رپورٹ ملی کہ ایک بڑے احراری لیڈر

Page 420

خطبات محمود ۴۱۵ سال ۱۹۳۵ء نے لاہور سے فلاں شخص کے نام قادیان میں خط لکھا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر تم احمدیوں کے بڑے آدمیوں پر حملہ کرو.یہ سب باتیں ہم اُسی وقت پیش کریں گے جب ایک آزاد کمیشن ان باتوں کی تحقیقات کے لئے مقرر کیا جائے گا.خط لکھنے والے کا نام ، جس کی طرف خط لکھا گیا اس کا نام ، انفارمر کا نام اور شاید اگر ضروری ہوا تو ایک انفارمر کی تحریر بھی ہم اس وقت پیش کر دیں گے.یہ وقوعہ سے پہلے کی رپورٹ ہے اور اس کے بعد حملہ ہوا.یہ دو باتیں نہایت اہم ہیں اور انہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وقوعہ ایک سلسلہ کی کڑی ہے اس لئے اسے بالکل معاف نہیں کیا جا سکتا ہے.یہ میں آگے چل کر بحث کروں گا کہ ہم کو کیا کرنا چاہئے اور ہم کیا کریں گے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر ہم اسے خاموشی سے برداشت کر لیں تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ سم والا مضبوط اور موٹا ڈنڈا تھا اور اُس کی ضربوں کے نشانات بھی میں نے دیکھے ہیں ایک سات انچ اور ایک چار انچ لمبا تھا اور سوا یا ڈیڑھ انچ کے قریب چوڑا.یہ سر پر ضرب لگانے کے لئے حملہ کیا گیا تھا.آج ہی مجھے رپورٹ ملی ہے کہ ایک احراری نے کہا کہ اس نا معقول کو جس طرح کہا گیا تھا اس طرح اس نے کیا نہیں اور معمولی ضربیں لگا دی ہیں لیکن اب ہم مجبور ہیں کہ اس کی مدد کریں.اگر یہ روایت درست ہے تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا تھا اس لئے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ نتیجہ کیا ہوا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ ارادہ کیا تھا.اگر ایک شخص کسی پر بم پھینکے اور وہ بچ جائے تو اس سے حملہ کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے بچا لیا اور اس شرارت کے بدنتائج سے جماعت کو محفوظ رکھا اور نہ نیت تو اس حملہ سے یہ تھی کہ دونوں قوموں میں خون ریزی ہو.پھر میں اس طرف بھی جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ ایسے مواقع پر یہ بھی ہوتا ہے کہ فساد ہو تو کئی بے گناہ مارے جاتے ہیں بلکہ ایسے مواقع پر ہمیشہ مارے ہی بے گناہ جاتے ہیں.لاہور میں ابھی فساد ہؤا ، دو سکھ مارے گئے حالانکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا.انہیں شاید پتہ بھی نہ ہو کہ کوئی مسجد گرائی گئی ہے یا اخباروں سے پڑھ کر اگر کوئی خیال پیدا بھی ہوا ہو تو انہوں نے عملاً کوئی حصہ نہ لیا ہوا اور جو مسجد گرانے والے ہیں وہ دندناتے پھرتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ یہاں کے ہندوؤں ،سکھوں کا ایک طبقہ شریر بھی ہے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو گو کھلم کھلا ہماری تائید نہیں کرتا مگر شرارت میں شریک نہیں.چنانچہ ایسے لوگوں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اس نے اس فعل پر سخت نفرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم نہیں

Page 421

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سمجھ سکتے کہ اگر شہر کے مالکوں پر اس طرح حملے ہونے لگیں تو ہم کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر فساد ہو جائے تو ایسے لوگوں کو بھی خواہ مخواہ نقصان پہنچ جاتا ہے.سواگر کسی ایسے آدمی کو نقصان پہنچے جس کا کوئی قصور نہ ہو تو یہ کس قدر گناہ ہوگا اور پھر جب اس قسم کے فسادات ہوتے ہیں تو اور بھی کئی طرح کے نقصانات ہوتے ہیں.مکانات جلا دیئے جاتے ہیں، دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں اور غور کرو یہ کتنے گناہ کی بات ہے کہ ہمارے ہاتھ سے کسی ایسے شخص کو نقصان پہنچے جس کا کوئی قصور نہیں.جانے دو اس امر کو کہ شریعت کا کیا حکم ہے لیکن کیا بے گناہوں کا مارا جانا ہی اس بات کے لئے کافی نہیں کہ فساد نہ کیا جائے.ایسے مواقع بڑے خطرناک ہوتے ہیں میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ یہی ہندو جو اب شرارت کر رہے ہیں پہلے بھی کیا کرتے تھے ایک دفعہ وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح فساد ہو چنانچہ مشہور کر دیا گیا کہ لڑائی ہوگئی ہے اور نیر صاحب مارے گئے ہیں اور بعض اور احمدی زخمی ہوئے ہیں اور اتفاقاً نیسر صاحب مدرسہ سے فارغ ہو کر اس طرف سے گزرے تھے.اس خبر کے سنتے ہی لڑکے سٹکیں لے کر اس طرف کو اُٹھ دوڑے.میں اُس وقت حضرت (اماں جان ) کے دالان میں کھڑا تھا.دوڑنے کی آواز جو آئی تو میں عجوبہ کے طور پر دیکھنے کے لئے گلی کی طرف گیا اور لڑکوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا ان کے آگے آگے ہمارے مبلغ جاوا مولوی رحمت علی صاحب تھے میں نے مولوی صاحب کو آواز دی کہ ٹھہر و مگر انہوں نے پرواہ نہ کی.پھر آواز دی خیر وہ ٹھہرے تو میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس وقت وہ تھر تھر کانپ رہے تھے اور کہنے لگے حضور ! کئی احمدی مارے گئے ہیں.میں نے کہا تمہارا کام یہ نہیں تھا کہ اس طرف اٹھ بھاگتے بلکہ تمہیں چاہئے تھا مجھے اطلاع دیتے.اُس وقت قاضی عبد اللہ صاحب یا کوئی اور دوست اس طرف سے گزر رہے تھے میں نے انہیں بھیجا کہ جا کر پتہ لگا ؤ اور ان لوگوں کو اطمینان دلا کر میں خود ذرا ٹہلنے لگا.اس پر پھر آہٹ ہوئی اور میں نے دیکھا تو یہ لوگ پھر بھاگ رہے تھے میں نے آواز دی مگر نہ ٹھہرے اور اسوقت تک وہ اس موڑ سے سات آٹھ گز کے فاصلہ پر پہنچ چکے تھے جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کا ہے.میں نے پھر آواز دی کہ ٹھہر ومگر وہ نہ ٹھہرے، پھر کہا ٹھہر و مگر انہوں نے پرواہ نہ کی ، اُس وقت مجھے صرف ایک ہی علاج نظر آیا اور میں نے کہا کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں جماعت سے خارج کر دوں گا.اس پر وہ ٹھہر تو گئے مگر غصہ سے کانپ رہے تھے اور کہتے جاتے تھے حضور ! احمدی مارے گئے.میں نے کہا تم ذمہ دار نہیں ہو ، میں

Page 422

خطبات محمود ۴۱۷ سال ۱۹۳۵ء ذمہ دار ہوں.اتنے میں وہ دوست جنہیں میں نے پتہ لینے کے لئے بھیجا تھا، واپس آگئے اور کہا کہ نہ وہاں کوئی لڑائی ہے نہ فساد اور نہ کوئی آدمی ہے اور جب میں نے پتہ کیا کہ یہ لوگ دوبارہ کیوں دوڑے تھے تو معلوم ہوا کہ اس متفی نے جس نے یہ خبر مشہور کی تھی چپکے سے آ کر کہا تھا کہ تم یہاں کھڑے رہوا اور کئی احمد کی اتنے میں مارے جائیں گے.اگر یہ لوگ اس وقت بازار میں پہنچ جاتے تو بغیر سوچے سمجھے جو ہند وسامنے آتا اس کا سر پھوڑتے جاتے کیونکہ انسان جب جوش میں ہوتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ کون گنہگار اور کون بے گناہ ہے وہ کوئی کمیشن نہیں بٹھایا کرتا.یہاں کئی ہندو اور سکھ ہیں جو ہم سے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں مگر ظاہر نہیں کرتے پھر کئی ظاہر کر بھی دیتے ہیں اور کئی بے تعلق بھی رہتے ہیں اور فساد میں ایسے لوگوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے.پس مؤمن کا حملہ اس رنگ میں ہوتا ہے کہ غیر مجرم کو نقصان نہ پہنچے اس لئے یہ مت خیال کرو کہ خدا نے تم میں مقابلہ کی طاقت نہیں رکھی ، رکھی ہے اور ضرور رکھی ہے مگر تمہارا حملہ اس رنگ میں ہونا چاہئے کہ اس میں شریعت اور قانون دونوں کا احترام پایا جائے.اس کے علاوہ آپ لوگوں پر ایک اور ذمہ داری بھی ہے.قادیان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَنْ دَخَلَه كَانَ آمِند کے جو کوئی اس میں داخل ہوگا وہ امان پا جائے گا.پس اگر ہم یہاں دشمن کو بھی ماریں تو گویا اپنے عمل سے اس الہام کی تردید کر یں گے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے مکہ کے متعلق فرمائی ہوئی ہے اور رسول کریم ﷺ نے نہایت نازک مواقع پر اس کا خیال رکھا ہے.حتی کہ وہ قوم جو انیس سال تک آپ پر ظلم کرتی رہی غور کرو یہ کتنا لمبا عرصہ ہے پھر مظالم بھی کوئی معمولی نہ تھے عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں ہلاک کیا گیا ،مردوں کو ایک ٹانگ ایک اونٹ کے ساتھ اور دوسری دوسرے کے ساتھ باندھ کر چیر ڈالا گیا ، آنکھیں نکال لی گئیں ، مکہ جیسے گرم علاقہ میں اُن پتھروں پر جو اس قدر گرم ہو جاتے تھے کہ اُن پر روٹیاں پکائی جاسکتی تھیں ساری ساری گرمیاں مسلمانوں کو ننگے بدن لٹایا جاتا رہا حضرت بلال کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کا کپڑا اُلٹ گیا تو کسی نے دیکھا کہ کھال گینڈے کی طرح سخت تھی اور سیاہ تھی.آپ سے پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جب ہم اسلام لائے تو گرم پتھروں پر سارا سارا دن لٹایا جاتا صلى الله تھا اس وجہ سے کھال چھڑے کی طرح ہو گئی ہے.مگر ان سب باتوں کے باوجود رسول کریم علی جب ہزار ہا سپاہیوں کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مکہ کو روانہ ہوئے اور دشمن نے آپ کو اس سے روکا

Page 423

خطبات محمود ۴۱۸ سال ۱۹۳۵ء اور مُصر ہوا کہ آپ کو عمرہ نہیں کرنے دیا جائے گا.تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! اگر ہمیں گھٹنوں گھٹنوں تک خون میں سے بھی ہو کر گزرنا پڑے گا تو جائیں گے مگر ایک جگہ جا کر آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی اور باوجود اُٹھانے کے نہیں اُٹھی.تو آپ نے فرمایا کہ حَبِسَهُ رَبُّ الْفِيلِ واقعہ اصحاب الفیل کے وقت جس خدا نے ان کو روکا تھا اُسی نے اس وقت میری اونٹنی کو روک دیا ہے اور آپ وہیں ٹھہر گئے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ مکہ کو جنگ و جدال سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے اس لئے ہم اب زور سے مکہ میں داخل نہ ہوں گے.^ پس جب دشمن قادیان کا امن برباد کرنا چاہتا ہے تو ہم کیوں اس کے فریب میں آئیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر کسی احمدی کو میرے ان خیالات سے کہ ہمیں فساد سے بچ کر رہنا چاہئے اختلاف بھی ہو تب بھی اس کا فرض ہے کہ احرار سے قادیان میں نہ لڑے قادیان سے باہر جا کر ان سے لڑے کہ کم سے کم وہ اس گناہ کا مرتکب نہ ہو.دشمن کی غرض یہ ہے کہ وہ دَارُ الْآمَان کو دَارُ الْفَسَادَ ثابت کرے لیکن یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کی ان چالوں میں نہ آئیں پس ہماری ذمہ واری بہت بڑی ہے اور غیرت کے اظہار کے لئے میں اور سامان تلاش کروں گا.پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ ایسے ذرائع ہیں کہ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے بدلہ لے سکتے ہیں لیکن چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے میں آئندہ خطبوں میں ان کا ذکر کروں گا.سر دست کام کو شروع رکھنے کے لئے میں ایک بات کہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت تک ہم نے قانونی طور پر حکومت پر حجت تمام نہیں کی اور میں نے بار بار کا رکنوں کو تو جہ دلائی ہے کہ گورنمنٹ سے قطعی فیصلہ کر لیا جائے.کہ وہ ہماری شکایات سننے کے لئے تیار ہے یا نہیں.اگر وہ تیار ہو تو پہلا مطالبہ یہ کیا جائے کہ ضلع گورداسپور کے موجودہ حکام کو تبدیل کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ایک آزاد کمیشن یعنی جو انتظامی حکومت کے ماتحت نہ ہو مقر ر کیا جائے مثلاً ہائی کورٹ کے چیف جج صاحب ہوں یا کوئی اور انگریز جج ہو جائے.ہم انگریزوں کی دیانت کے اب بھی قائل ہیں سوائے اس کے جن پر الزام ثابت ہو چکا ہے اس لئے ہمارا مطالبہ کا نگر یس والا نہیں کہ پبلک میں سے ہی کمیشن مقرر ہو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کوئی انگریز حج مقرر کر دیا جائے جو یہ تحقیقات کرے کہ مقامی حکام اور پنجاب گورنمنٹ کے بعض حکام نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے یا نہیں جس کے نتیجہ میں فساد ہو رہے ہیں.ہم اپنے کیریکٹر کو چھپانا نہیں چاہتے اس پر بھی بحث ہو.فریق مخالف کے کیریکٹر پر بھی اور

Page 424

خطبات محمود ۴۱۹ سال ۱۹۳۵ء افسروں کے رویہ پر بھی.ہمیں انگریز افسروں پر اعتماد ہے لیکن چونکہ ضلع گورداسپور کی فضا اس وقت بگڑی ہوئی ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اسوقت جس قدر افسر یہاں بڑے ہیں خواہ انگریز خواہ ہندوستانی ان کو بدلا جائے تا نئی فضا پیدا ہو یہ درخواست وفد کے ذریعہ سے حکومت پنجاب سے کی جائے.اگر وفد کو وہ منظور کرے تو فبہا اور اگر اسے منظور نہ کرے تو سمجھ لیا جائے کہ ہم نے پنجاب گورنمنٹ سے جس قدر کوشش کرنی تھی وہ ختم ہو گئی ہے.ہمارے مطالبات کو رڈ کرنے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو حکومت وفد کو ہی منظور نہ کرے گی یا پھر کوئی معتین جواب نہ دے گی جیسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے لیکن وفد کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ وہاں سے معتین جواب لئے بغیر یا اس کے لئے تاریخ معتین کرائے بغیر نہ ہے.اس کے بعد حکومت ہند کے پاس جانا چاہئے مگر یہ بعد کی باتیں ہیں.میں اس کی تفاصیل بعد میں بیان کروں گافی الحال یہی کیا جائے اس پر بھی کچھ وقت لگے گا.ذمہ دار کار کن فوراً یہ مطالبے حکومت کو پیش کریں.اول تو یہ کہ ان افسروں کو فوراً بدل دیا جائے اور دوسرا یہ کہ کوئی انگریز جج بطور کمیشن مقرر کیا جائے جو تحقیقات کرے کہ گزشتہ کا رروائیوں میں احمدی ظلم کر رہے ہیں یا ان پر ظلم کیا جا رہا ہے اس میں سیشن جج کے فیصلہ میں ہم پر عائد کردہ الزامات کی بھی تحقیقات ہو جائے گی.اگر حکومت کے بعض افسروں کی غفلت ہو تو اس کی بھی تحقیقات کی جائے ، احمدیوں کے رویہ کی بھی اور احراریوں کی بھی ہو یہ دو مطالبات ہیں اگر حکومت پنجاب تو جہ نہ کرے تو حکومت ہند سے توجہ کی درخواست کی جائے.اگر حکومت انکار کر دے گی تو ہمارا یہ حق نہیں کہ کہیں اس نے شرارت کی ہے ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ہم اس پر حق واضح نہیں کر سکے سوائے اس کے کہ خاص افراد کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ انہوں نے فرض شناسی سے کام نہیں لیا ہاں یہ خیال مت کرو کہ حکومت ہند ، حکومت پنجاب کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتی.میں گزشتہ واقعات سے ثابت کر سکتا ہوں کہ وہ دخل دے سکتی ہے اور دیتی رہی ہے.پھر یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ قتل کے کتنے مقدمات کی اپیلیں پریوی کونسل میں کی جاتی ہیں حالانکہ وہ کبھی دخل نہیں دیتی اور آج تک کبھی نہیں دیا.وہ کہتے ہیں ہم قانون کے نگران ہیں ، عدالت اپیل نہیں ہیں ، ہم اس بات کے نگران ہیں کہ قانون میں غلطی نہ ہومگر باوجود اس کے ہزاروں لوگ بڑے بڑے اخراجات برداشت کر کے بھی وہاں اپیلیں کرتے ہیں.پھر سلسلہ کے متعلق ہم بھی کیوں نہ ایسا ہی خیال کریں کہ شاید حکومت ہند دخل دے دے.بالخصوص جبکہ

Page 425

خطبات محمود ۴۲۰ سال ۱۹۳۵ء ہائی کورٹ کے فیصلہ کی اپیل پر یوی کونسل سن نہیں سکتی اور حکومت ہند حکومت پنجاب کے معاملات میں دخل دے سکتی ہے.اب چونکہ تفصیلات کا وقت نہیں میں اسی پر ختم کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ صدر انجمن احمد یہ جلد سے جلد اس امر کا فیصلہ کرائے گی اور حکومت سے ہاں یا نہ میں کوئی جواب لے کر جماعت کو اس سے آگاہ کرے گی تاجب جماعت دیکھے کہ صدرانجمن کچھ نہیں کر سکتی تو وہ خود کچھ کرے.ایگز یکٹو کا فرض ہوتا ہے کہ جماعت کو بتائے کہ وہ کس پانی میں ہے اس لئے صدر انجمن کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد اس کا تصفیہ کرائے اور اگر حکومت پنجاب اس طرف توجہ نہ کرے تو حکومت ہند سے اپیل کرے.اس کے بعد کیا کرنا ہے یہ میں پھر بتاؤں گافی الحال اسی پر خطبہ ختم کرتا ہوں اور جماعت کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے تمہارے اندر جتنا جوش ہے وہ ایمان کی علامت ہے.جوشوں کو میں بُرا نہیں کہتا ، ان کی مذمت نہیں کرتا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور جتنا زیادہ جوش کسی نے دکھایا اتنا ہی ثواب وہ پائے گا لیکن اس کے باوجود اگر جانیں دے کر بھی تمہیں قادیان کو فساد سے بچانا پڑے تو بچاؤ اور ثابت کر دو کہ تم اسے دارالامان سمجھتے ہو اور سمجھتے رہو گے پھر قانون کو کبھی ہاتھ میں نہ لو، قانون کا احترام کرو اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسے رستے تلاش کرو جن سے تمہاری تکلیف کا ازالہ ہوا اور یقین رکھو کہ ایسے رستے تمہیں ضرور مل جائیں گے ، باقی دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ سے جو مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے رستے کھول دیتا ہے.جوشوں کو اس طرح استعمال کرو کہ جوش کے وقت دعائیں کرو.جوش کی دعا تیر بہدف ہوتی ہے اور دعا کرو کہ جو قادیان کے امن کو برباد کرتا ہے اگر وہ ہدایت نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ اسے عبرت ناک سزا دے.تمہاری طرف سے اللہ تعالی تلوار چلائے گا.دیکھو! ایک احمدی نے غلطی سے ایک شخص کو مار دیا اور وہ بھی لڑائی میں تو اس سے سلسلہ کو کتنا بد نام کیا جاتا ہے لیکن کابل میں ہمارے جو احمدی مارے گئے ان کا کوئی ذکر بھی نہیں کرتا.اس کے مقابل میں بہار کی تباہی ، کوئٹہ کی تباہی ، کانگڑہ کی تباہی کا کوئی نام نہیں لیتا اور کوئی انکو تمہاری طرف منسوب نہیں کرتا حالانکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے آئے تھے اور ان کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا پس جو خدا کا کام ہے اسے خود نہ کرو.روٹی پکانے والی عورت اگر سالن پکانے لگے گی تو اسے خراب کر دے گی اور سالن پکانے والی روٹی پکانے لگے تو اسے خراب کر دے گی اسی طرح تم اگر خدا کا کام کرنے لگو گے تو اسے خراب کر دو

Page 426

خطبات محمود ۴۲۱ سال ۱۹۳۵ء گے.پس اپنے جوش اور غیرت کو قائم رکھتے ہوئے پروٹسٹ کرو اور حکومت کو توجہ دلاتے رہو مگر اس کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا تو آپ کو ہدایت کی کہ قُولَا لَه قَوْلًا لینا اس سے نرم نرم باتیں کرنا بے ادبی سے پیش نہ آنا حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی تھے پس بات بے شک مضبوطی سے کرو مگر آداب کو قائم رکھو.اگر وہ رڈ کر دی جائے تو خدا تعالیٰ نے کئی اور رستے رکھتے ہیں انہیں اختیار کرو.جماعتی زندگی ایک دن کی زندگی نہیں ہوتی سینکڑوں ہزاروں سال کی ہوتی ہے دنیا پر ہمیشہ کے لئے حکومت کرنے کی غرض سے ہمیں پیدا کیا گیا ہے.پس گھبراؤ نہیں آج نہیں تو کل تمہارے ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا اور خدا تعالیٰ تمہارے زخموں کو بغیر مرہم کے نہیں چھوڑے گا اور اگر آج نہیں تو کل یہ باتیں (الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۳۵ء) ہو کر رہیں گی.النحل : ۴۱ مسلم كتاب البر والصلة باب فَضْلُ الضُّعَفَاء (الخ) تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۵۵۴ - دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء الحج : ٣٣ ۵ بخاری کتاب فضائل اَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب مناقب عثمان بن عُفَّان کے تذکرہ صفحہ ۱۰۵.ایڈیشن چہارم بخاری كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد ميں حبسها حابس الفیل“ کے الفاظ ہیں." طه: ۴۵

Page 427

خطبات محمود ۴۲۲ ۲۷ سال ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ کو پُر امن رہنے کی تلقین ( فرموده ۱۹ / جولائی ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں یہ بتایا تھا کہ واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ حملہ جو مرزا شریف احمد صاحب پر ہوا ہے وہ نہ صرف انکیت بلکہ سازش کا نتیجہ ہے اور یہ دو باتیں اس بات کے ساتھ مل کر کہ متواتر قادیان میں بھی اور باہر بھی جماعت احمدیہ کے زعماء اور خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد اور پھر عورتوں اور احمدی جماعت کے مقامات مقدسہ کے متعلق حملہ کی تحریکیں وضاحنا یا کنایہ اور اشارہ متواتر ہوتی چلی آ رہی ہیں، ایسی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں کہ ہم اس سوال کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.جس شخص کے دل پر پڑتی ہے وہی جانتا ہے کہ اس کی کیا حالت ہے گورنمنٹ ہمارے احساسات اور جذبات کو نہیں سمجھ سکتی اور وہ معذور ہے اس بات سے کہ ہمارے جذبات و احساسات کو سمجھے.جس شخص کا اکلوتا بچہ مر جاتا ہے اس کے گھر میں نالہ وفغاں سے جو کہرام برپا ہوتا ہے اس کو وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو اس کے پڑوس میں رہتے اور دیوار با دیوار مکان رکھتے ہیں مگر ان کے گھر اس دن بچہ پیدا ہوا ہوتا ہے.جس شخص کے گھر بچہ پیدا ہو وہ خوشی سے پھولا نہیں سما تا اور اس گھر کے چھوٹے بڑے افراد شاداں و فرحاں ہوتے ہیں لیکن جس گھر میں موت کا واقعہ ہو جائے اس کے احساسات بالکل جدا گانہ ہوتے ہیں.اس حملہ سے احرار خوش ہیں کہ ان میں سے ایک نے جرات دکھائی اور وہ وار کرنے میں کامیاب ہو گیا.گو اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسے

Page 428

خطبات محمود ۴۲۳ سال ۱۹۳۵ء نا کام رکھا کیونکہ جو اس کا مقصد تھا وہ پورا نہ ہو الیکن پھر بھی احرار خوش ہیں کہ انہوں نے اتنی جرات تو دکھائی کہ جماعت احمدیہ کے ایک معزز فرد پر حملہ کر دیا.پس احرار کے جذبات ہمارے جذبات سے بالکل مختلف ہیں.وہ خوش ہیں کہ ہم نے ایک حملہ کر لیا ، پھر گورنمنٹ کے وہ افسر بھی خوش ہو نگے جو احرار کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خیال کرتے ہوں گے کہ ہم نے احمد یہ جماعت کو ایک اور ذلت پہنچالی مگر جو احساسات و جذبات ہمارے ہیں وہ نہ صرف اس حملہ کی وجہ سے بلکہ اسے دوسرے حملوں کی ایک کڑی سمجھنے کی وجہ سے بالکل جدا گانہ حیثیت رکھتے ہیں.مثلاً مردوں سے تجاوز کر کے احمدی جماعت کی عورتوں پر حملہ کرنے کے خیال سے ہی ہر احمدی کپکپا جائے گا ، اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جائے گا اور وہ فوراً ان نتائج کو سمجھ جائے گا جن کو دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے.یا مثلاً ان حملوں کے بعد مقامات مقدسہ پر احرار کے حملہ کا خیال کر کے بھی ایک احمدی کا دل کانپ جائے گا اور وہ ان یقینی نتائج کو فوراً سمجھ جائے گا جسے حکومت نہیں سمجھ سکتی.ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت ہماری نگاہ میں کیا شان رکھتی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ جماعت کا وقار کتنا قیمتی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیت کیا اعزاز رکھتی ہے ، اور ہم سمجھتے ہیں کہ مقامات مقدسہ کی کیا شان ہے اور ان کی حفاظت کے لئے انسان کو کس حد تک قربانیاں کرنی چاہئیں مگر گورنمنٹ ان امور کو نہیں سمجھتی وہ اس مسجد اقصیٰ کو جس میں میں اس وقت خطبہ پڑھ رہا ہوں ایک ویسی ہی اینٹوں اور گارے کی بنی ہوئی مسجد سمجھتی ہے جیسی دنیا میں اور ہزاروں مسجدیں ہیں مگر ایک احمدی کے نزدیک یہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے مقامات مقدسہ میں سے ہے اور اس کی حفاظت کے لئے صدیوں کی انسانی نسلیں بھی قربان کی جاسکتی ہیں پس نہ گورنمنٹ ہمارے ایک نقطہ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ وہ ہمارے جذبات کو پورے طور پر سمجھنے پر قادر ہو سکتی ہے.ہاں اگر جھوٹے طور پر کوئی شخص یہ خبر مشہور کر دے کہ سینٹ پیٹرس کا گر جا گرانے کی کوشش کی جارہی ہے تو پھر اسے معلوم ہو کہ کس طرح اس کے جذبات میں تموج پیدا ہوتا ہے اور دنیا دیکھ لے کہ کس طرح حکومت برطانیہ اپنی ساری فوجوں کے ساتھ سینٹ پیٹرس کے گر جا کی حفاظت کرتی اور اسے گرانے کی کوشش کرنے والوں کو سزا دیتی ہے حالانکہ سینٹ پیٹرس کے گر جا کی جو عزت گورنمنٹ کی نگاہ میں ہے وہ ہماری اس مسجد کی اس عظمت کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی جو جماعت احمدیہ کے دلوں میں ہے.پس گورنمنٹ اپنے مذہبی اختلاف کی وجہ سے

Page 429

خطبات محمود ۴۲۴ سال ۱۹۳۵ء ہمارے جذبات کا اس طرح اندازہ نہ کر سکنے پر جس طرح وہ ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں معذور ہے لیکن بہر حال اس کی اس ناواقفیت کی وجہ سے ہمارے احساسات میں کوئی کمی نہیں آ سکتی.اگر ہم دیکھیں کہ کوئی قوم ہمارے مذہبی مقامات مقدسہ پر حملہ کرنے والی ہے تو یقیناً ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ غیظ وغضب سے بھر جائے گا اور ہمیں شدید اشتعال پیدا ہو گا اور یقیناً ہمارے جسم اور ہماری روح کا ذرہ ذرہ یہ کہے گا کہ ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے ہمیں ہر ممکن قربانی کرنی چاہئے اور جس طرح بھی ہو سکے انہیں قائم اور محفوظ رکھنا چاہئے لیکن ایک مقدس چیز کی حفاظت کے لئے ہم دوسری مقدس چیز کو قربان نہیں کر سکتے.میں نے بتایا تھا کہ میں ان جذبات اور احساسات میں کسی سے پیچھے نہیں جو شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے تمہارے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ میں شعائر اللہ کی عظمت سے پوری طرح آگاہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ مؤمن کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شعائر اور اس کے پاکیزہ مقامات کی حفاظت کرے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک اور چیز ہے اور وہ سلسلہ کی روایات ہیں اور یہ سلسلہ کی روایات بھی ایسی ہی مقدس ہیں جیسے اور مقامات مقدسہ.پس اگر ہم ایک مقدس چیز کو قائم رکھنے کے لئے دوسری مقدس چیز کو نقصان پہنچا دیں تو یقیناً یہ ہماری جلد بازی ہوگی.میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایسے مواقع پر بعض دفعہ ایک ضروری چیز کو بھی بھول جاتا اور اپنے جوشِ انتقام میں بہت کچھ کر گزرتا ہے.دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی لوگوں کو جوش آتا ہے ، وہ بڑی بڑی اہم باتوں کو بھول جایا کرتے ہیں.بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ پہاڑ پر سیر کرتے ہوئے ایک شخص پھسل کر کھڈ میں گر جاتا ہے اور یقینی طور پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے اور اگر کوئی شخص ذرا بھی عقل سے کام لے تو وہ کھڈ میں گرنے والے شخص کے متعلق یہی کہے گا کہ وہ بچ نہیں سکتا ، بارہ چودہ فٹ اونچائی سے گر کر لوگ مر جاتے ہیں تو جو شخص ایک میل یا اس سے بھی زیادہ گہری کھڈ میں گر جاتا ہے وہ کس طرح بچ سکتا ہے.پس عقلاً یقینی طور پر ایسے شخص کا زندہ نکلنا محال ہوتا ہے اور اس کو بچانے کا خیال بھی بے وقوفی ہوتا ہے لیکن ہر سال یہ نظارے نظر آتے ہیں کہ کئی لوگ ایسی حالت میں کھڑ میں کود جاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم گرنے والے کو بچالیں گے اور اس طرح وہ خود بھی ہلاک ہو جاتے ہیں.تو جوش کی حالت میں انسان نتائج کا اندازہ نہیں کر سکتا اور نہ عواقب کا خیال کیا کرتا ہے.ایسی حالت میں نتائج کا خیال صرف خاص خاص لوگ کر سکتے ہیں عام

Page 430

خطبات محمود ۴۲۵ سال ۱۹۳۵ء لوگ صحیح اندازہ نہیں کر سکتے.وہ تمام چیزوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اپنی محبوب چیز پر جان دینا اپنے مد نظر رکھتے ہیں.پس ان حالات میں جبکہ جماعت احمدیہ کے افراد کے قلوب سخت زخم رسیدہ ہیں اور ان کے جذبات پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہورہے ہیں ، گورنمنٹ پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اسے سمجھنا چاہئے کہ مقامات مقدسہ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد یا دوسرے احمدی کارکنوں اور احمدی مستورات کے متعلق جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ کیا ہے اور اگر وہ اس امر کو سمجھنا چاہے تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں.اگر وہ اس امر کو سمجھ سکتی ہے کہ خانہ کعبہ پر اگر کوئی قوم حملہ کرے تو مسلمانوں کے قلوب کی کیا کیفیت ہوگی ، اگر وہ اس امر کو سمجھ سکتی ہے کہ مسولینی پر اگر کوئی شخص حملہ کرے تو اٹلی والوں کے قلوب کی کیا کیفیت ہو گی ، اگر وہ اس امر کو سمجھ سکتی ہے کہ ہٹلر پر اگر کوئی شخص حملہ کرے تو جرمنی والوں کے قلوب کی کیا کیفیت ہوگی ، اگر وہ اس امر کو سمجھ سکتی ہے کہ مسٹر روز ویلٹ صدر امریکہ پر اگر کوئی شخص حملہ کرے تو امریکہ والوں کے قلوب کی کیا کیفیت ہوگی تو وہ آسانی سے اس امر کو بھی سمجھ سکتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے معزز افراد یا اس کے مقامات مقدسہ پر اگر کوئی شخص حملہ کرے تو جماعت احمدیہ کے قلوب کی کیا کیفیت ہو گی.گو پھر بھی وہ پوری طرح ہماری جماعت کے جذبات کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتی اور گو پھر بھی وہ اس امر کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہے گی کہ جماعت احمدیہ کے افراد کو اپنے مقدس مرکز ، مقدس مقامات اور اپنی جماعت کے مقدس افراد سے کتنا تعلق ہے.یا اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے کتنی گہری عقیدت ہے.پس با وجود اس کے کہ وہ احمدیت کو سچا نہیں سمجھتی ، با وجود اس کے کہ اس کے بعض افسر احمدیت کے خلاف فتنہ برپا کرنے میں احرار کے ہمنوا ہیں ، پھر بھی حکومت کے طور پر اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن قائم رکھے اور جس قسم کی جد و جہد کی حالات کو پُر امن بنانے کے لئے ضرورت ہے اسے عمل میں لائے اور وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ احمدی اپنی مساجد یا اپنی جماعت کے مقدس افراد کا کیا درجہ سمجھتے ہیں.مسجد شہید گنج کا واقعہ ابھی حکومت کی نظروں کے سامنے ہے.یہ مسجد خاص شعائر اللہ میں سے نہیں لیکن ایک تاریخی مسجد ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں کے جذبات اس سے وابستہ ہیں.حکومت نے دیکھ لیا ہے کہ اس کے تازہ دوستوں احرار کے سوا کوئی مسلمان حنفی ہو ، شیعہ ہو ، اہل حدیث ہو، یا احمدی ہو اس کے انہدام کو برداشت نہیں کر سکا.آج ہم میں سے ہر ایک کا دل اس

Page 431

خطبات محمود ۴۲۶ سال ۱۹۳۵ء واقعہ پر مضطرب ہے.پس اگر عام مسجدوں میں سے ایک مسجد کی بے حرمتی مسلمان نہیں برداشت کر سکتے تو کس طرح ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی کسی ایسی مذہبی جگہ کی بے حرمتی برداشت کر لے گا جو شعائر اللہ میں سے ہے.اگر کسی مذہبی مقام کی بے حرمتی ایک معمولی بات ہے تو کیوں ہز ایکسی لنسی گورنر پنجاب شملہ چھوڑ کر شہید گنج کی مسجد کے جھگڑے کے موقع پر لاہور پہنچ گئے ؟ کیوں منسٹر ، فنانس ممبر اور دوسرے ارکان حکومت وہاں پہنچ گئے ؟ اور کیوں فوج اور اسلحہ کی ہر طرف نمائش کر دی گئی ؟ کیا اسی لئے نہیں کہ شہید گنج کی مسجد کے متعلق جوش دکھانے والے وہ مسلمان تھے جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن گورنمنٹ کے اس رویہ کو دیکھ کر کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب کروڑوں آدمی کسی امر کے متعلق جوش دکھانے والے ہوں تو گورنمنٹ اس کی پروا کرتی ہے اور اگر چھتین ہزار فریاد کرنے والے ہوں تو گورنمنٹ کو ان کی چیخ و پکار کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی.بتا ؤ اگر صورتِ حالات کو ان بے لاگ الفاظ میں پیش کیا جائے تو اخلاقی طور پر گورنمنٹ کے متعلق کیا رائے قائم کی جاسکتی ہے.گویا حکومت کے نزدیک چھپن ہزار افراد کے دل کو وہ زخم اتنی تکلیف نہیں دیتا جتنا ایک زخم کروڑوں افراد کے دل کو تکلیف دے سکتا ہے حالانکہ جماعت احمدیہ کے جن افراد یا مقدس مقامات پر دشمن اس وقت حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ وہ افراد یا مقام ہیں جو تاریخی حیثیت رکھتے ہیں جو احمدیوں کے نزدیک شعائر اللہ میں سے ہیں اور ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کا کلام ان کی تعظیم کے لئے اُتر چکا ہے.پس اگر وہ ایک غیرت مند قوم ہیں تو وہ خون کا آخری قطرہ اپنی اور سلسلہ کی عظمت کے لئے بہانے کے لئے تیار ہوں گے اگر حکومت نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا اور اس ذمہ داری کو جو اس کا بنایا ہوا قانون اس پر عائد کرتا ہے پورا نہ کیا.سالہا سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ اسلام کی ترقی ان کی اولاد کے ساتھ وابستہ ہے بلکہ اس سے بھی پہلے رسول کریم ﷺ نے امت محمدیہ کو خبر دی تھی کہ جب اسلام پر مصیبت کا وقت آئے گا اور ایمان ثریا پر چلا جائے گا تو اُس وقت رَجُلٌ مِنْ فَارِسِ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید دین کے لئے کھڑا کیا جائے گا اور بعض حدیثوں میں رَجُلٌ کی بجائے رِجَالٌ ہے آتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد بھی اس میں شامل ہے.پس یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو رسول کریم ﷺ تک جاتی ہیں.ان پیشگوئیوں کے ایک مصداق پر

Page 432

خطبات محمود ۴۲۷ سال ۱۹۳۵ء حملہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہو سکتی.خالی یہ کہہ دینا کہ یہ دفعہ ۳۲۳ کا کیس ہے، واقعات سے چشم پوشی کرنا ہے اور نہ یہ کہنا کافی ہو سکتا ہے کہ اگر چھپن ہزار افراد کے قلوب زخمی ہوئے ہیں تو وہ آپ نالش کریں کیونکہ حملہ کی نوعیت ایسی ہے کہ گورنمنٹ پر اس کے متعلق اخلاقی طور پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور در حقیقت یہ حملہ حکومت کی غفلت کے نتیجہ میں ہوا ہے.ابھی گورنمنٹ نے مسجد شہید گنج کے انہدام کے سلسلہ میں اعلان کیا تھا کہ گو سکھوں پر قانونی طور پر انہدام مسجد کے متعلق کوئی ذمہ واری عائد نہیں ہوتی مگر اخلاقی ذمہ واری سے وہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.وہی اخلاقی ذمہ واری جس کا گورنمنٹ نے مسجد شہید گنج کے واقعہ پر اعلان کیا ، اب خود گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے.اگر گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ اخلاقی ذمہ واری کوئی چیز ہے تو یہاں بھی لاکھوں احمدیوں کے قلوب کو مجروح کر دینے والی حرکات کو دیکھ کر اس کا خاموش رہنا بلکہ اس کے بعض افسروں کا مفسدوں کے حوصلے بڑھانا اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کرتا ہے.لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں جہاں ہم زور دار لیکن مؤدبانہ الفاظ میں گورنمنٹ کو ان واقعات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں ، جہاں جوش اور اخلاص کے ساتھ ہم ان ذرائع کو اختیار کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو موجودہ حالات کو بدل دیں ، وہاں ضروری ہے کہ ہمارا طریق کار شریعت اور قانون کے مطابق ہو ، ورنہ ہم ایک دیوار کو قائم کرتے ہوئے دوسری دیوار کو گرانے والے ہوں گے اور لوگوں کی ہنسی مذاق کا نشانہ بنیں گے.مجھے اپنی جماعت میں سے بعض نے یہاں تک خطوط لکھے ہیں کہ جب آپ ہمیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ اگر کوئی ہم پر حملہ کرے تو اسے روکیں اور دفاعی طور پر اس سے لڑیں تو ہمیں اتنا جوش آتا ہے کہ بعض دفعہ جی چاہتا ہے کہ خود کشی کر کے مر جائیں.یہ وہ حالت ہے جسے دیوانگی سے تعبیر کیا جاتا ہے.دنیا کے تمام ڈاکٹر اور تمام حج یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خود کشی جنون کی ایک علامت ہے.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری جماعت کے بعض کمزور طبع آدمی موجودہ مخالفت کو دیکھ کر اس حالت میں ہیں کہ قریب ہے وہ اپنی عقل کھو دیں کیونکہ خود کشی کرنا شرعی طور پر حرام ہے اور اسے اتنابر افعل سمجھا گیا ہے کہ شرک تو معاف ہو سکتا ہے مگر خود کشی کا گناہ معاف نہیں ہو سکتا کیونکہ شرک کے بعد انسان تو بہ کر سکتا ہے مگر خود کشی پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور تو بہ کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی موقع نہیں رہتا.تو بعض طبائع میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے اور وہ مجھے لکھ رہے ہیں کہ اگر آپ کی طرف سے بھی اور

Page 433

خطبات محمود ۴۲۸ سال ۱۹۳۵ء ہمارے راستہ میں روک ہے تو ہمارا جی چاہتا ہے ہم خود کشی کر لیں.ایسا ایک خط نہیں بلکہ کئی خطوط ملے ہیں جو مختلف لوگوں نے مختلف علاقوں سے لکھے ہیں اور مجھے نہایت مشکل سے انہیں روکنا پڑتا ہے.ایسی حالت میں ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھیں جس سے میں اب تک جماعت کو روک رہا ہوں اس لئے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر فرض کر لو ہمارے شور کے نتیجہ میں گورنمنٹ حملہ آور کو ایسی ہی سزا دے دے جیسی بعض لوگ چاہتے ہیں یا کوئی اور سخت دفعہ اس پر لگا دے اور اسے تین یا چار سال کے لئے قید کر دے.یا فرض کرو گورنمنٹ کچھ نہیں کرتی اور تم میں سے بعض جو شیلے اُٹھتے ہیں اور اسے مارتے پیٹتے ہیں یا تم میں سے کوئی جو شیلہ اُٹھتا ہے اور فرض کرو اسے قتل کر دیتا ہے تو پھر کیا نتیجہ نکلے گا.ہمیں عقل سے کام لے کر سوچنا چاہئے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص ایسی حرکت کر بیٹھے تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا ؟ سزا کے متعلق یا د رکھو کہ اسلام کا حکم ہے.جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۳ یعنی سزا نوعیت کے مطابق ہو ا کرتی ہے.کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ جس طرح عملی طور پر اس کی حملہ کرتے وقت صرف دو لاٹھیاں چلیں گونیت اُس کی قتل کی تھی اسی طرح اگر تم میں سے کوئی اس کو دو لاٹھیاں مار لیتا ہے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو اس طرح جماعت کی عزت محفوظ ہو جائے گی.یا کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس طرح اس ہتک کا ازالہ ہو جائے جو اس وقت ہماری جماعت کی کی جارہی ہے.اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر تم بدلہ لیکر کیا کر سکتے ہو اور اگر تم میں سے کوئی اس کا یہ جواب دے کہ ہم اسے دو لاٹھیاں کیوں ماریں گے اسے قتل کیوں نہ کر دیں گے.تو میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا یہ فعل اسلام میں جائز ہوگا ؟ تاریخوں میں لکھا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ایک شخص نے خنجر کے ساتھ حملہ کیا اور آپ کا پیٹ چاک کر دیا ، وہ پکڑا گیا، تو صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کریں.آپ نے حضرت امام حسن کو بلوایا اور وصیت کی کہ اگر میں مر جاؤں تو میری جان کے بدلے اس کی جان لے لی جائے لیکن اگر میں بچ جاؤں تو پھر اسے قتل نہ کیا جائے.سے کتنے شدید احکام ہیں جو ہماری شریعت نے اس بارے میں دیئے ہیں اور کس طرح ممکن ہے کہ ہم انہیں نظر انداز کرسکیں.اگر دوسرا شعائر اللہ کی بے حرمتی کرتا ہے تو کیا اس کے بدلہ میں ہم خود بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بے حرمتی کرنے لگ جائیں اور کیا یہ ہمارے لئے جائز ہوگا ؟ میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا کہ ایسی صورت میں ہمیں

Page 434

خطبات محمود ۴۲۹ سال ۱۹۳۵ء کیا کرنا چاہئے فی الحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص اس فعل کا ارتکاب کر یگا تو وہ دو بیوقوفیاں کریگا.ایک یہ کہ وہ خدا کا جرم کریگا اس لئے کہ جرم کی نوعیت کے خلاف اس نے سزا دی.مجرم کی نوعیت کچھ اور سزا چاہتی تھی اور اس نے کچھ اور سزا دی.اور پھر خودسزا دی جو اس کے لئے جائز نہیں تھی.دوسرے یہ کہ وہ ایک بے فائدہ فعل کر یگا اس لئے کہ اس لڑکے کی حیثیت ہی کیا ہے.وہ ایک گدا گر کا لڑکا ہے اس کو مار کر تم دنیا میں کیا تغیر کر لو گے کیا اس سے پہلے دنیا میں اس کا وجود کسی خاص فائدہ کا باعث ہے کہ اب دنیا کو تم اس سے محروم کر دو گے.پھر جبکہ یہ فعل اس کا نہیں بلکہ یہ فعل ان انگیخت اور سازش کرنے والوں کا ہے جو احرار کے لیڈر بنے پھرتے ہیں، یہ فعل ان حکام کا ہے جو احرار کی پیٹھ بھرتے ہیں ، تو اگر تم اسے مار پیٹ لو گے یا قتل بھی کر دو گے تو سوائے گنہگار بننے کے اور کیا فائدہ ہو گا اس طرح تو تم قانون کے بھی گنہگار بنو گے اور شریعت کے بھی گنہگار بنو گے.پس تم دو بیوقوفیاں کرو گے.ایک شریعت کے خلاف چلو گے اور ایک بے فائدہ کام کرو گے.اس لڑکے کی تو دنیا میں کوئی حیثیت ہی نہیں.وہ تو دنیا میں پیدا ہوا نہ ہوا برابر ہے.پس اس فعل سے اسے کیا نقصان پہنچ جائیگا.پھر اگر تم یہ فعل کر بھی لو تو احمدیت کو اس سے کیا فائدہ ہوگا.صرف یہ ہو گا کہ جماعت کی بد نامی ہوگی اور دشمن کو اور زیادہ اعتراض کر نی کا موقع مل جائیگا ، وہاں اس سے دشمن ضرور فائدہ اُٹھا لیگا.جیسے مستری محمد حسین مارا گیا.تو انہوں نے بڑے فخر سے کہنا شروع کر دیا.محمد حسین شہید.مستری کا لفظ بھی اب وہ اس کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ بعض جگہ تو میں نے مولوی محمد حسین لکھا ہوا دیکھا ہے.پس تم جانتے ہو تمہارے اس فعل کا کیا نتیجہ ہو گا؟ صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ دشمن اسے بڑے بڑے القاب دے دیگا اور کہے گا جناب مولانا محمد حنیف شہید.اگر تم کہو کہ دشمن کا یہ غلط پرو پیگنڈا ہو گا.تو تم یا درکھو تم تھوڑے ہو اس لئے تمہاری ہر بات غلط ہے اور دشمن کثیر ہے اور اسکی ہر بات صحیح مانی جاتی ہے.کیا تم نے سنا نہیں کہ ایک امیر آدمی کی کسی مجلس میں بیٹھے ہوا خارج ہوگئی تو لوگ کہنے لگے دیکھو! انہوں نے کیا خوب حدیث پر عمل کیا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہوا کو روکنا نہیں چاہئے.پھر طب سے بھی ثابت ہے کہ اگر ہوا رو کی جائے تو اس سے نقصان پہنچتا ہے دوسرے ہی دن یہ دیکھ کر کسی نوجوان نے جو ساتھ ہی بے شرم بھی تھا مجلس میں یہی حرکت کر دی.تو ہر طرف سے یہ آواز آنے لگی کہ کیسا نامعقول ہے ، کیسا بے حیا اور بے شرم ہے مجلس کے آداب کا اس نے کوئی خیال نہیں

Page 435

خطبات محمود ۴۳۰ سال ۱۹۳۵ء رکھا.تو اس وقت دنیا میں اخلاق حکومت نہیں کر رہے بلکہ حکومت کا ڈنڈا کر رہا ہے.تمہارے تمام دلائل کو بے ہودہ سمجھا جائے گا کیونکہ تم تھوڑے ہو اور ان کی ہر بات کو سچا سمجھائے گا کیونکہ وہ زیادہ ہیں.تم میں سے ایک کا فعل جماعت احمدیہ کے سالہا سال کے قائم شدہ وقار کو بر باد کر دے گا جیسے محمد حسین کا واقعہ ہوا.دشمن کو ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا اور وہ ایک ذلیل لڑکے کے متعلق یہ مشہور کرنے لگ جائیں گے کہ وہ دین کے لئے اپنی جان قربان کرنے والا ، اسلام کا خادم اور مجاہد اور کیا کیا تھا.اور پھر تمام عالم اسلام سے اس بہانہ کی آڑ میں چندے بٹورنے کی کوشش کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ ہم اس کی یاد میں کالج کھولنا چاہتے ہیں ، مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں گو آخر میں یہ تمام چندہ احرار کی جیب میں ہی چلا جائے.پھر وہ شخص جو اس قسم کی حرکت کرے گا قانون کی زد سے بھی بچ نہیں سکے گا.ان حالات میں تم سوچو کہ ہمیں کیا فائدہ ہوگا.اس کا صرف یہ نتیجہ ہوگا کہ ہمارا ایک وجود جو اس کے وجود سے ہزاروں درجے بڑھ کر ہو گا ضائع ہو جائے گا.مگر میں ایک جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنی احمدی کے متعلق یہ وہم نہیں کر سکتا کہ اس کی قیمت اور حنیف کی قیمت برا بر ہے ہم میں سے جو سب سے چھوٹا ہے وہ اس مارنے والے سے سینکڑوں درجے زیادہ قیمت رکھتا ہے.پس کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی شخص پیسہ کے لئے اشرفی قربان کر دے.اگر نہیں تو جو شخص اس قسم کے فعل کا خیال بھی اپنے دل میں لائے گا وہ اپنی نہیں بلکہ احمدیت کی قیمت کو گرانیوالا ہو گا.سیاسی طور پر مارنے والے کا کوئی جرم نہیں کیونکہ مجرم یا احرار لیڈروں کا ہے یا حکومت کا.عقلی طور پر وہ کوئی خاص پوزیشن نہیں رکھتا، تمدنی طور پر اس کا لوگوں پر کوئی اثر نہیں ، پھر اس قسم کی حرکت اگر ہم میں سے کوئی شخص کرے گا تو اس کا کیا فائدہ ہوگا.پس اس موقع پر جہاں میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صبر وضبط سے کام لے اور اپنے جوشوں کو دبا کر رکھے ، وہاں حکومت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کے آدمیوں کو کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے باہر رکھے کیونکہ ہر قسم کی نصیحت کے باوجود اس وقت طبائع میں سخت جوش ہے اور کوئی گورنمنٹ لوگوں کی طبائع کے جوش کو نظر انداز نہیں کر سکتی.اگر ایک ہزار افراد کا مجمع ہو تو اسے بھی کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوتا ہے.پھر ہماری جماعت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہے اور مختلف طبائع کے لوگ اس میں شامل ہیں ان سب کو قابو میں رکھنا بہت زیادہ مشکل کام ہے.گورنمنٹ کے اعداد و شمار کے لحاظ سے آج سے چار سال پہلے ہماری

Page 436

خطبات محمود ۴۳۱ سال ۱۹۳۵ء جماعت کی تعداد پنجاب میں چھپن ہزار تھی اور اگر پنجاب میں ہماری تعداد چھپن ہزار تھی تو گورنمنٹ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سارے ہندوستان میں ہماری جماعت کی تعداد ایک لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں ہو سکتی.۱۹۲۱ ء کی مردم شماری میں گورنمنٹ کے نقطہ ء نگاہ کے ماتحت پنجاب میں ۲۸ ہزار احمدی تھے لیکن ۱۹۳۱ء کی مردم شماری میں چھپن ہزار ہو گئے گویا احمدی دس گیارہ سال کے عرصہ میں دو گنے ہو جاتے ہیں.پس گورنمنٹ کو اپنے اعداد و شمار کے رو سے بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر ۱۹۳۱ء میں پنجاب میں چھپن ہزار احمدی تھے تو اب ۱۹۳۵ء میں ۸۴ ہزار ہو گئے ہیں اور اگر ۱۹۳۱ء میں تمام ہندوستان میں ایک لاکھ احمدی تھے تو اب ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہو چکے ہیں.ان پنجاب کے ۸۴ ہزار یا ہندوستان کے ڈیڑھ لاکھ احمدی افراد کو قابو میں رکھنا سخت مشکل کام ہے.اسی واقعہ کے متعلق کئی لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ آپ ہمارے ہاتھوں کو روک کر ہمیں بے غیرت بناتے ہیں پھر کئی لوگوں نے لکھا ہے کہ اگر آپ کی اس نصیحت پر عمل کیا جائے تو جماعت تباہ ہو جائے.میں جانتا ہوں کہ لکھنے والے مخلص ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جب وہ یہ الفاظ لکھ رہے تھے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا مفہوم کیا نکلتا ہے مگر اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعض طبائع میرے روکنے کے باوجود نہیں رُک رہیں اور بعض طبائع میرے متعلق سمجھتی ہیں کہ میں انہیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہوں ایسی حالت میں گورنمنٹ کا یہ امید رکھنا کہ ہماری جماعت کے کسی فرد سے کوئی غلطی نہ ہو بہت بڑی امید ہے اور گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ اس صورتِ حالات کا جو ہمارے خلاف پیدا ہے فوری تدارک کرے ورنہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا تو اس کی ذمہ داری زیادہ تر گورنمنٹ پر عائد ہوگی احراریوں پر کم ہوگی کیونکہ ان کا کام ہی فتنہ و فساد پیدا کرنا ہے ، احمد یوں پر نہیں ہو گی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور وہ دشمنوں کی طرف سے بے حد ستائے گئے ہیں ، غرض اس کی اصل ذمہ داری گورنمنٹ پر ہوگی جو قیام امن کے لئے قائم کی گئی ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے.پھر باجود میری کوششوں اور جماعت کے دوسرے مخلصین کی ان کوششوں کے کہ فساد نہ ہو، کسی قسم کا جھگڑا نہ ہو اور باوجود اس کے کہ گورنمنٹ اپنے سلوک کی وجہ سے اب اس بات کی مستحق نہیں رہی کہ اس کے ساتھ تعاون کیا جائے ، گورنمنٹ اگر ہم سے کسی چیز کی امید کر سکتی ہے تو وہ وہی ہے جس کے کرنے کا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت وقت کے قوانین کی فرمانبرداری کرو.پس ہم اس کے قوانین کی فرمانبرداری

Page 437

خطبات محمود ۴۳۲ سال ۱۹۳۵ء کریں گے لیکن گورنمنٹ اب یہ ہم سے امید نہیں کر سکتی کہ ہم اس کے ساتھ ویسا تعاون کریں جیسا کہ پہلے کیا کرتے تھے جب تک کہ چن چن کر ان سرکاری افسروں کو عبرتناک سزا نہ دی جائے جن کا اس فتنہ کے پھیلانے میں دخل ہے خواہ وہ چھوٹے افسر ہوں یا بڑے اور جب تک کہ سلسلہ کی ہتک کا ازالہ نہ کیا جائے ،مگر با وجود اس کے سلسلہ کی نیک نامی کی خاطر ہم تیار ہیں کہ لوگوں کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی نصیحت کریں، گو ممکن ہے ہماری ہر قسم کی کوششوں کے باوجود بھی کوئی شخص اپنے جوش کو ظا ہر کر بیٹھے.پنجاب کے ایک نہایت ہی ذمہ وار شخص کے سامنے ایک اور ذمہ وار شخص نے کہا میرے پاس اس شخص کی تحریر بھی موجود ہے اور اگر موقع ہوا تو میں اسے ظاہر کر دوں گا کہ ہم کو احمد یوں پر یقین ہے کہ وہ فساد نہیں کریں گے یعنی چونکہ ہم مانتے ہیں کہ وہ فساد نہیں کریں گے اس لئے ہمیں زیادہ فکر نہیں.گویا احمدی جماعت کو اس کی شرافت کی وجہ سے قربان کیا جاتا ہے حالانکہ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد اگر احمدیوں کی اس قربانی کی قدر نہ کی جائے تو اخلاقی طور پر گورنمنٹ پر اتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے پاس موجودہ صورت حالات کے متعلق کوئی جواب ہی باقی نہیں رہتا.میں اس موقع پر آپ لوگوں کو اسلامی سزا کے چند طریق بھی بتا دیتا ہوں کیونکہ بہر حال کوئی بھی موقع ہو ہم اسلام سے باہر نہیں جا سکتے.اسلام ہی ہمارا اوڑھنا ہے اور اسلام ہی ہمارا بچھونا ہے اور.اسلام ہی ہماری غذا اور ہماری راحت و آرام کا ذریعہ ہے.جیسے مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ہم اسلام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سزا کے متعلق فرماتا ہے کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا اصول سزا کا یہ ہے کہ جیسا جرم ہو اس کے مطابق سزا ہو.دوسرے قرآن اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سزا کی برابری سے مراد اس کی ظاہری شکل نہیں ہوتی.یہ نہیں کہ کوئی عورت گزر رہی ہو اور کوئی بدمعاش اسے چھیڑے یا اس کا برقعہ اُتار لے تو سزا دیتے وقت اُس کی بیوی یا بہن کو بلایا جائے اور اس کا برقعہ اُتارا جائے بلکہ برابری سے مراد باطنی برابری ہے گو بعض جگہ ظاہری شکل بھی لی جاتی ہے.خصوصاً جسمانی حملہ کی صورت میں لیکن عام طور پر باطنی شکل لی جاتی ہے جیسے زنا ہے اس کی سزا شریعت نے بعض حالتوں میں کوڑے اور بعض حالتوں میں سنگساری رکھی ہے.گوسنگساری کی سزا میں اختلاف ہے مگر میں اس وقت مسئلہ بیان نہیں کر رہا بلکہ ایک مثال دے رہا ہوں.اب زنا کا کوڑوں یا سنگساری سے کیا تعلق ہے.صاف پتہ لگتا ہے کہ سزا کی برابری سے مراد ظاہری شکل کی

Page 438

خطبات محمود ۴۳۳ سال ۱۹۳۵ء برابری نہیں مگر جسمانی ایذاء کے متعلق عام طور پر سزا میں ظاہری شکل قائم رکھی جاتی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے الْحُرُّ بِالْحُرِ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ اگر زید بر کو یا بکر زید کوجسمانی طور پر کوئی ایذاء دیتا ہے اور زید بڑا آدمی ہے تو یہ نہیں ہوگا کہ اگر بکر نے زید کو ایک لٹھ ماری ہے تو زید کے بڑے ہونے کی وجہ سے بکر کو پانچ سونٹھ ماری جائیں.اس نے اگر ایک سوئی ماری ہے تو اسے بھی ایک ہی سوٹی ماری جائے گی.اس خیال سے دو نہیں ماری جائیں گی کہ زید بڑا اور بکر چھوٹا ہے.تیسرے.شریعتِ اسلامی نے ایذاء اور اس کے نتیجہ کو الگ الگ جُرم قرار دیا ہے.اس بارے میں شریعتِ اسلامی انگریزی قانون سے مختلف ہے انگریزی قانون کے ماتحت اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرتا ہے تو اسے قتل کی ہی سزا دی جائے گی ، وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کس طرح قتل کیا گیا.فرض کرو ایک شخص گولی مار کر دوسرے کو مار دیتا یا تلوار چلا کر اس کی گردن اڑا دیتا ہے یا اپنی طرف سے تو اسے مار دیتا ہے لیکن وہ چند دن بیمار رہ کر مرتا ہے.اب مارنے والے کی نیت فوری طور پر اسے مارنا تھی یہ نہیں تھی کہ ایذاء دے دے کر مارے.گو یہ الگ بات ہے کہ وہ ایذاء سہہ سہہ کر مرالیکن ایک اور شخص ہے وہ اپنے دشمن کو پکڑتا ہے اور پہلے اس کی ایک انگلی کا تا ہے پھر دوسری پھر تیسری پھر چوتھی ، اسی طرح وہ ایک ایک کر کے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کا تا ہے ، پھر پاؤں کی انگلیاں کاٹتا ہے ، پھر ناک کاٹ دیتا ہے، پھر آنکھیں نکال لیتا ہے اور اس طرح ایذاء دے دے کر مارتا ہے.ہماری شریعت ایسے موقعوں پر ایذاء کی الگ سزا دے گی اور قتل کی الگ دیگی.اگر قاتل نے فوری طور پر قتل کیا ہے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا.اور اگر اس نے ایذاء دے دے کر مارا ہے تو اسے بھی ایذاء دے دے کر مارا جائے گا.جیسے احادیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگ بعض صحابہ کو پکڑ کر لے گئے اور لوہے کی گرم گرم سلاخیں انہوں نے اُن کی آنکھوں میں پھیریں اور پھر قتل کر دیا.جب وہ پکڑے آئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا انہیں بھی اسی طرح مارو.پہلے لوہے کی سلاخیں گرم کر کے ان کی آنکھوں میں ڈالو اور پھر قتل کر دو.انگریزی قانون میں چونکہ یہ تو ضیح نہیں اس لئے انگریزوں کو اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑتا ہے.سرحد میں پٹھان بعض دفعہ انگریزوں اور میموں کو اُٹھا کر لے جاتے اور انہیں سخت ایذا ئیں دے دے کر مارتے ہیں.جب وہ پکڑے جاتے ہیں تو انگریزوں کو سخت غصہ آتا ہے مگر قانون کی پابندی میں صرف پھانسی دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے.البتہ پولیس والے بعض دفعہ ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے

Page 439

خطبات محمود ۴۳۴ سال ۱۹۳۵ء وہ مار مارتے ہیں جسے پنجابی میں کبھی مار کہتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قاتل کے لواحقین پھر بھی خوش ہوتے ہیں کہ گو انہوں نے بدلہ میں ہمارا آدمی مارد یا مگر اسے وہ ایذاء تو نہیں دے سکے جو ہم نے ان کے آدمی کو دی تھی.اگر انگریزی قانون کی بجائے شریعت کا قانون نافذ ہوتا تو شریعت کہتی جیسی ایذاء مقتول کو دی گئی ہے ویسی ہی ایذاء پہلے قاتل کو دی جائے اور پھر اسے قتل کیا جائے.چوتھے انفرادی جرم اور قومی مُجرم میں اسلام نے فرق رکھا ہے.انفرادی جُرم کی اور سزا ہوگی اور قومی جرم کی اور.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ یعنی فتنہ و فساد بعض دفعہ قتل سے بھی زیادہ سنگین مجرم ہوتا ہے.پانچویں.سزا شریعت نے حکومت کے اختیار میں رکھی ہے یہ اجازت نہیں دی کہ جس نے کوئی مجرم کیا ہوا سے انسان خود بخو د سزا دے دے.چھٹے.شریعت خود حفاظتی کی اجازت دیتی ہے یہ نہیں کہتی کہ اگر کوئی حملہ کرے تو اُس وقت اپنے آپ کو اس کے حملہ سے نہ بچایا جائے.چنانچہ رسول کریم ﷺ کا ایک اپنا واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے.ایک دفعہ آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے ، آپ کی ایک بیوی نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! ابھی ایک شخص کو میں نے دیکھا وہ سوراخ میں سے ہمارے گھر میں جھانک رہا تھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھے پہلے کیوں نہ بتایا میں نیزے سے اس کی آنکھ پھوڑ دیتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود حفاظتی جائز ہے مگر یہ خود حفاظتی اس وقت جائز ہوتی ہے جب کوئی شخص حملہ کر رہا ہو.اگر چلا گیا ہو تو پھر اس کے پیچھے بھاگ کر اس پر حملہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اگر بعد میں بھی حملہ جائز ہوتا تو رسول کریم یہ نہ فرماتے کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتا یا ور نہ میں اس کی آنکھ پھوڑ دیتا.آپ بعد میں بھی اس کی آنکھ پھوڑ سکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہ کیا.ساتویں کسی جرم کی انگیخت کرنے والوں کو شریعت اصل مجرم قرار دیتی ہے.اگر انگیخت کے ماتحت کوئی اور حملہ کرتا ہے تو گو وہ بھی مجرم ہوتا ہے مگر اصل مجرم وہ ہوتا ہے جس نے انگیخت کی.ان اصول کو ہمیشہ یاد رکھو اور سمجھ لو کہ سزا دینا حکومت کا کام ہے نہ تمہارا.اور سزا نوعیت کے مطابق ہونی چاہیئے لیکن اگر حکومت غفلت سے کام لیتی اور مجرم کو سزا نہیں دیتی بلکہ اسے چھوڑ دیتی ہے تو شریعت نے اس کا بھی علاج بتایا ہے مگر اس سے پہلے ضروری ہوگا کہ گورنمنٹ کی غفلت ثابت کی جائے.اگر

Page 440

خطبات محمود ۴۳۵ سال ۱۹۳۵ء گورنمنٹ کی غفلت ثابت ہو جائے اور معلوم ہو کہ اس نے لا پروائی سے کام لے کر فساد کو بڑھنے دیا ہے تو شریعت نے ہمارے ہاتھ بالکل باندھ نہیں دیئے بلکہ اور باتیں بھی ہمیں بتائی ہیں.ہماری شریعت خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہے لیکن چونکہ اب تین بج چکے ہیں اس لئے بقیہ باتیں انشَاء الله تَعَالیٰ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.(الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۳۵ء) بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة الجمعة- باب قوله و آخرين منهم (الخ) الشورى: ۴۱ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۹۰، ۳۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء البقرة: ۱۷۹ البقرة : ١٩٢ مسلم کتاب الادب باب تحريم النظر الى بيت غيره

Page 441

خطبات محمود ۴۳۶ ۲۸ سال ۱۹۳۵ء احراریوں کی سازش سے قاتلانہ حملہ کے اثرات جماعت احمدیہ اور حکومت برطانیہ (فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں اپنے گزشتہ خطبات کے تسلسل میں آج بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں اور آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس واقعہ کے بُرے پہلو کے علاوہ کچھ اور پہلو بھی ہیں جنہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.سب سے پہلے میں احرار کو لیتا ہوں کہ اس واقعہ کی وجہ سے ان کی جماعت پر کیا اثر پڑا ہے اور کیا پڑ سکتا ہے.دنیا میں ہر ایک مذہب وملت میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں اور دوسرے بھی ہوتے ہیں.اشتعال کے وقت شرافت دب جاتی ہے اور وحشت غالب آ جاتی ہے اور جب اشتعال نہ ہو تو وحشت دب جاتی ہے اور شرافت غالب آ جاتی ہے.گو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی شرافت ہر وقت غالب رہتی ہے اور ایسے بھی جن کی وحشت ہر وقت غالب ہوتی ہے مگر اکثر حصہ انسانوں کا جن کو انبیاء یا ان کے فیض یافتہ لوگوں کی صحبت میسر نہیں ہوتی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اشتعال کے وقت ان کی شرافت اور اخلاق دب جاتے ہیں اور دوسرے اوقات میں ظاہر ہو جاتے ہیں.پس اس واقعہ کو اس نگاہ سے بھی دیکھنا چاہئے کہ اس کا اثر شرفاء پر کیا ہو گا.یہ تو خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ باوجود اشتعال اور باوجود اس کے کہ مسلمان آج ہمیں غیر سمجھتے ہیں ، مسلمان شرفاء سے خالی ہیں.دنیا میں کوئی قوم کی کہ دہر یہ قوم بھی

Page 442

خطبات محمود ۴۳۷ سال ۱۹۳۵ء ایسی نہیں ہوسکتی جو شرفا ء سے خالی ہو.پھر ایک ایسی قوم کے متعلق جسے رسول کریم ﷺ کی تعلیم پہنچی ہو ، جو اپنے آپ کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرتی ہو اور جس کے کانوں میں خدا کی آواز پڑتی ہو کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ نیک اور شریف لوگوں سے خالی ہے.بعض اوقات ظلم اپنی کثرت کی وجہ سے خود بخود تو جہ کو کھینچنے کا موجب ہو جاتا ہے.لوگ ایک وقت تک ظلم کو دیکھتے ہیں بلکہ اس میں شریک بھی ہو جاتے ہیں اور بعض شریک تو نہیں ہوتے مگر بے پروا ہو کر ایک طرف بیٹھے رہتے ہیں.مگر ظلم جب حد کو پہنچ جائے تو ان کی فطرت جوش میں آ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس سے زیادہ ظلم برداشت نہیں کیا جا سکتا اور وہ لوگ ظالموں سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تمہیں شریف اور جائز کا روائیاں کرنے والا سمجھا تھا مگر اب معلوم ہوا کہ تم بُرے لوگ ہو.غالب نے کہا ہے کہ درد کا حد ނ گزرنا ہے دوا ہو جانا جب درد حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ بھی ایک علاج ہو جاتا ہے.کئی بیمار اس طرح تباہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کو بیماری کی ابتداء میں تکلیف زیادہ نہیں ہوتی اس لئے وہ علاج کی طرف توجہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض لا علاج صورت اختیار کر لیتا ہے.پھر کئی بیمار اس طرح اچھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں ابتداء میں ہی زیادہ تکلیف ہونے لگتی ہے اور وہ فوراً کسی لائق طبیب سے مشورہ لے لیتے ہیں.پھر بسا اوقات مرض کا بڑھنا انسان کے اندر شفاء کا مادہ پیدا کر دیتا ہے اسی طرح ظلم بھی جب حد سے گزرتا ہے تو وہ علاج کا موجب ہو جاتا ہے.رسول کریم ﷺ کو مکہ والے ایک وقت تک دُکھ دیتے رہے ، اور دوسرے لوگ دیکھتے ہوئے خاموش رہے.ان میں بھی ایسے شرفاء موجود تھے جو مکہ والوں کے رویہ کو نا پسند کرتے تھے مگر سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے خود ہی ایک نیا مذ ہب نکالا ہے اور پھوٹ ڈال دی ہے جس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ہم کیا کریں، اس طرح وہ اپنے دلوں کو تسلی دے لیتے.یہاں تک بڑھتے بڑھتے ایک وقت ایسا آیا کہ پورے طور پر رسول کریم ﷺ ، آپ کے رشتہ داروں اور صحابہ کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور آپ ان کو ساتھ لے کر ایک وادی میں چلے گئے وہاں ان کی نظر بندوں کی سی حالت تھی اور یہ کوئی ایک دن دودن ، ہفتہ دو ہفتہ ،مہینہ دومہینہ کی بات نہ تھی بلکہ سالہا سال تک یہ حالت چلی گئی کفار نے فیصلہ کیا کہ کوئی شخص ان کے ہاتھ نہ کوئی چیز فروخت کرے اور نہ ان

Page 443

خطبات محمود ۴۳۸ سال ۱۹۳۵ء سے خریدے.نہ خرید نے تک تو برداشت کیا جاسکتا تھا مگر فروخت نہ کرنے کا نتیجہ یہ تھا کہ انہیں کھانے کے لئے بھی کچھ نہ مل سکتا.مکہ میں زمینداری تو ہوتی نہیں قافلہ والوں کو ممانعت تھی کہ مسلمانوں کے پاس کوئی چیز فروخت نہ کریں اس طرح انہیں نہ آٹا مل سکتا اور نہ کوئی اور چیز گویا ان کے لئے زندگی کے سب سامان بند کر دیئے گئے.اس طرح مسلمانوں پر یہ مصائب بڑھتے گئے حتی کہ ایک صحابی کہتے ہیں آخر وہ دن آ گئے کہ چونکہ کھانے پینے کو کچھ نہ ملتا تھا ہمیں آٹھ آٹھ دس دس روز پاخانہ نہ آتا تھا اور چونکہ پتے وغیرہ کھا کر گزارہ کرتے تھے ، اس لئے جب آتا تو مینگنیاں سی ہوتی تھیں.اے انہی تکالیف کے صدمہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں اور دوسرے صحابہ کو بھی اس قسم کے بہت سے صدمات برداشت کرنے پڑے لیکن آخر یہ ظلم ہی ظالم کی طاقت کو توڑنے کا موجب بن گیا کیونکہ جب بات یہاں تک پہنچی تو وہ طبائع جو مختلف باتوں سے اپنے دلوں کو تسلی دے لیتی تھیں ان کو یہ احساس ہوا کہ اب بات حد سے بڑھتی جا رہی ہے.ایک ان میں سے اُٹھا اور اپنے ایک گہرے دوست کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میں تم پر اعتبار کر کے ایک خاص مشورہ کے لئے آیا ہوں.تم کو معلوم ہے کہ مکہ والوں نے ایک معاہدہ کر کے اسے کعبہ میں لٹکا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ کوئی چیز فروخت کی جائے اور نہ ان سے خریدی جائے ؟ اس نے کہا ہاں.پھر اس نے کہا غور کر و آخر ان کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس قدر ایذا ئیں دی جاتی ہیں.جب ہم لوگ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور بیوی بچوں میں دن گزار رہے ہیں تو ان کو بھوکے پیاسے مارنا بہت بڑا ظلم ہے جسے میں تو برداشت نہیں کر سکتا.اس نے آدمی بھی ایسا ہی چُنا تھا جس کی طبیعت سے وہ واقف تھا.اُس نے جواب میں کہا کہ میں بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا پھر اس نے پوچھا کوئی اور ایسے لوگ بتاؤ جو ہمارے ہم خیال ہوں.اس نے بعض نام بتائے چنانچہ وہ ان کے پاس گئے انہوں نے بھی اتفاق کیا اور ان سب نے تلوار میں نکال لیں اور کہا کہ خواہ جان چلی جائے ہم اس معاہدے کو توڑتے ہیں اور جب انہوں نے دلیری سے کعبہ میں جا کر اس معاہدے کو پھاڑ دیا.سے تو سینکڑوں ہزاروں شریف الطبع لوگ جو ظالموں کے رعب میں تھے سامنے آگئے اور ان کے ہم خیال ہو گئے اور اس طرح رسول کریم ہے ، آپ کے رشتہ دار اور سب صحابہ اس وادی سے باہر آ گئے.پس ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو لوگوں کی طبائع کو اس طرف مائل کر دیتا ہے کہ وہ انصاف پر

Page 444

خطبات محمود ۴۳۹ سال ۱۹۳۵ء قائم ہوں.اور اس واقعہ کے بعد جس کا ذکر میں اپنے خطبوں میں کرتا رہا ہوں ہر قوم کے لوگوں کی طرف سے اس پر اظہار نفرت کیا گیا ہے.بعض بہت دُور کے علاقہ کے رہنے والوں کے بھی خطوط آئے ہیں.چنانچہ پرسوں یا اس سے ایک ہی روز قبل میسور کے علاقہ سے ایک قاضی صاحب کا خط آیا ہے جس پر ایک مولوی صاحب کے بھی دستخط ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ اگر چہ ہم آپ کو نہیں جانتے اور آپ ہم سے واقف نہیں ہیں مگر احرار کے اس فعل کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.تو اتنے دور دراز مقامات پر بھی یہ محسوس کیا گیا ہے کہ یہ فعل شرافت کے خلاف ہے.اسی طرح ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے.بلکہ شاید احرار اور ان کے پشت پناہ بعض حکام کے سوا باقی سب طبائع پر اثر پڑا ہے.یہ دونوں ضرور خوش ہیں مگر باقی رعایا اور حکام محسوس کر رہے ہیں کہ بات حد سے بڑھتی جارہی ہے.فطرت انسانی اس بات کو بجھتی ہے کہ ہاتھ تو احمد یوں کے بھی ہیں بلکہ احمدیوں کا ایمان اور جوش تو ایسا ہے کہ دنیا اس کی قائل ہے وہ بھی اگر بدلہ لینا چاہیں تو ایسے شریروں کو کوئی طاقت ان کے ہاتھ سے نہیں بچا سکتی.جب کوئی قوم ارادہ کر لیتی ہے کہ ہم بدلہ لیں گے تو کوئی بادشاہ، کوئی فوج ، کوئی پولیس اس کو روک نہیں سکتی.بادشاہ سے زیادہ حفاظت کے انتظامات اور کس کے لئے ہو سکتے ہیں مگر کیا بادشاہ نہیں مارے جاتے.ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ سرویا کا بادشاہ ایک اہم پولیٹیکل فیصلہ کے لئے فرانس گیا ، اس کی حفاظت کے لئے سرویا کے افسر اور فرانس کی پولیس اور فوج موجود تھی اور بڑے انتظامات تھے مگر پھر بھی اسے ساحلِ سمندر پر ہی مار دیا گیا.پھر فوجوں کے کمانڈر بھی مارے جاتے ہیں ، وائسرائے بھی مارے جاتے ہیں.ہندوستان کا ایک وائسرائے جو بہت شریف آدمی تھا انڈیمان گیا.اس نے وہاں کے قیدیوں کے ساتھ نیکی کرنے کے لئے یہ سفر اختیار کیا مگر ایک قیدی نے چھرا مار کر اسے مار دیا.پس یہ بات قطعاً غلط ہے کہ صرف ڈر سے لوگ حملہ نہیں کرتے.کئی لوگ باوجود طاقت کے اپنی شرافت کی وجہ سے دشمن سے بدلہ نہیں لیتے ، ور نہ بسا اوقات صرف ایک آدمی اُٹھتا ہے اور سارے خاندان کا بدلہ لے لیتا ہے.تو پھر یہ جماعت ۵۶ ہزار نہ سہی ، ہمیں ہزار ہی سہی ، ہمیں ہزار نہیں دس ہزار بلکہ ایک ہزار ہی سہی ، اگر بدلہ لینا چاہے تو کیوں نہیں لے سکتی.پس کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ ہمارا یہ رویہ شریفوں پر اثر کئے بغیر رہے گا.یہ احرار پراثر نہ

Page 445

خطبات محمود ۴۴۰ سال ۱۹۳۵ء کرے ان کے بعض نئے دوستوں پر یہ اثر نہ کرے مگر باقی شرفاء پر یہ ضرور اثر کرے گا اور ان کے دلوں میں احرار کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کر کے رہے گا اور کر رہا ہے لیکن اگر اس وقت ہمارے دوست بھی فساد کر دیتے یا بعد میں کر دیں تو دنیا یہی کہے گی کہ لڑائی تھی.انہوں نے بھی مار لیا اور اُنہوں نے بھی.پس ایک بہت بڑا فائدہ اس حملہ کا یہ ہوا ہے کہ لوگوں کو محسوس ہو گیا ہے کہ احمدی مظلوم ہیں.وہ لوگ جو کہتے تھے کہ قادیان میں احمدیوں کی حکومت ہے وہ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں کہ قادیان میں احرار جتنا زیادہ سے زیادہ حملہ کر سکتے تھے ، انہوں نے کر لیا مگر پھر بھی احمدیوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا.اس سے تو یہ ثابت ہو گیا کہ قادیان میں احمدیوں کی ناجائز حکومت نہیں بلکہ ایک اور ظالم گروہ نے یہاں حکومت قائم کر رکھی ہے اور وہ انگریزی قانون کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اگر احمدی بھی ایسا ہی کریں تو احرار کے مٹھی بھر آدمی ایک گھنٹہ بھی یہاں نہیں رہ سکتے.یہ صرف ہماری شرافت کی وجہ سے ہے کہ وہ یہاں رہتے ہیں اور ایسے واقعات ہو رہے ہیں اور کوئی خطرناک نتیجہ پیدا نہیں ہوتا اور یہ شرافت کا نمونہ شرفاء پر اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے مقابل پر جو کھڑا ہوگا وہ ذلیل ہو گا خواہ وہ احرار ہوں یا حکام.ایک وقت انسانی فطرت ضرور اُبھرے گی اور کہے گی کہ تم لوگ ظالم ہو اور احمدی مظلوم ہیں.احرار کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے کہ ثابت کریں ان کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ایک انفرادی فعل ہے مگر نہ وہ خود اور نہ حکام میں سے ان کے دوست اس سازش کو چھپا سکتے ہیں.یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے کہ ہر شخص اسے بخوبی جانتا ہے اور جو احراری لیڈر اس سے انکار کرتا ہے وہ سامنے آئے اور اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر تم کھائے کہ یہ سازش نہیں تھی یہ بالکل آسان بات ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا ئیں کہ یہ سازش نہیں تھی.بلکہ یہ صرف ذاتی لڑائی تھی اور اگر یہ سازش ہو تو ہم پر خدا کی لعنت ہو.وہ قسم کھائیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے.آخر غور کرنا چاہئے کہ اگر یہ سازش نہ تھی تو یہ کیا چیز تھی جس نے ہمیں پہلے اطلاع دے دی کہ فلاں گلی میں حملہ ہو گا اور فلاں شخص پر ہو گا.اس سازش کے اصل واقعات اگر چہ راز ہیں جنہیں میں فی الحال ظاہر نہیں کر سکتا مگر اس کے متعلق چند موٹی موٹی باتیں بیان کرتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ حملہ آور پہلی ہی شام کو احرار کے ذمہ دار آدمیوں کے ساتھ دیر تک باتیں کرتا

Page 446

خطبات محمود ۴۴۱ سال ۱۹۳۵ء رہا اور پھر وہ اکھٹے نکلتے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ چند دن پہلے تقریروں میں اسے مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی.تیسری بات یہ ہے کہ اگر یہ فعل کسی ذاتی بغض کی وجہ سے تھا تو اب احرار اس کی مدد کیوں کرتے ہیں بلکہ معمولی مدد تو الگ رہی اب تو اسے رپورٹوں میں صاحبزادہ حنیف احمد لکھا جا رہا ہے.ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں وہ اسے بے شک قبلہ و کعبہ لکھیں ، یہ انہی کی ذلت ہے ہماری نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے سنایا تھا کہ کسی بیوقوف سے کسی شخص نے برتن مانگ کر لیا اور بہت دنوں تک واپس نہ کیا.ایک دن وہ اس کے ہاں گیا تو دیکھا کہ وہ شخص اس کے برتن میں ساگ ڈال کر کھا رہا ہے یہ دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا اور کہنے لگا.چوہدری ! یہ تو ٹھیک بات نہیں ہے تم شادی کے لئے برتن مانگ کر لائے تھے اور اب اس میں ساگ کھا رہے ہو.مجھے بھی اپنے باپ کا بیٹا نہ کہنا اگر میں تمہارا برتن مانگ کر نہ لے جاؤں اور پھر اس میں نجاست ڈال کر نہ کھاؤں.پس یہ لوگ اگر ایسوں کو صاحبزادہ اور قبلہ و کعبہ بنائیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے.افسروں کی عزت ماتحتوں سے اور ماتحتوں کی افسروں سے ہوتی ہے.جن لوگوں کا صاحبزادہ ایسا ہو ان کے صاحب جیسے ہوں گے وہ ظاہر ہی ہے.چوتھی بات یہ ہے کہ خود حکومت کو علم ہے کہ یہ سازش ہے.چند دن ہوئے خان صاحب فرزند علی صاحب ایک بڑے پولیس افسر سے ملے تو اس نے وہی نام لے کر جس کی ہمیں اطلاع تھی کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ فلاں شخص یہ کام کر رہا ہے مگر گورنمنٹ اس سازش کو نکال نہیں سکتی.یہ معلوم نہیں نکال نہیں سکتی کا کیا مطلب ہے؟ اس وجہ سے نہیں نکال سکتی کہ سازش کنندگان اس کے دوست ہیں یا کوئی قانونی مجبوریاں ہیں.ہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نکالنا چاہے تو نکال سکتی ہے.جب ذمہ وار افسروں کو نام تک معلوم ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ نہ نکال سکے.پس اس کے سازش ہونے کا یہ ایک مزید ثبوت ہے کہ حکومت کے افسر جانتے ہیں کہ یہ سازش ہے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے نکال نہیں سکتے.گواس حالت میں تعجب ہے کہ بعض دوسرے افسر ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ سازش کا پتہ ہے تو بتا ؤ.وہ کیوں اپنے دوسرے افسروں سے نہیں پوچھ لیتے جبکہ ان کو بھی وہی نام معلوم ہے جس کا ہمیں علم ہے.میں اس خطبہ کے ذریعہ انہیں بتا دیتا ہوں کہ حکومت کے ایجنٹ اور جاسوس ہوتے ہیں اور

Page 447

خطبات محمود ۴۴۲ سال ۱۹۳۵ء سراغ رسانی کے کئی ذرائع اس کے پاس ہیں ، وہ روپیہ بھی خرچ کیا کرتی ہے پس وہ خود ہی کوئی ذرائع اختیار کر کے یہ سازش بھی نکال لے.ہم تو موجودہ حالات میں انگریز افسروں کو بھی اپنے ذرائع معلومات بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ ماتحتوں کو بتائیں گے اور ماتحت احرار کو بتا دیں گے اور اس طرح ہمارے وہ ذرائع بند ہو جائیں گے.ہم بدظنی نہیں کرتے کہ بڑے افسر ایسا کریں گے مگر یہ جانتے ہیں کہ وہ بہر حال ماتحتوں سے کام کراتے ہیں جن میں سے بعض کے متعلق ہمیں ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ وہ نہ صرف احرار سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ انہیں اطلاعات دیتے ہیں اور ایسی صورت میں ہم کس طرح اپنے ذرائع معلومات بند کر سکتے ہیں.ہاں اگر حکومت کوئی آزاد کمیشن بٹھائے گی تو اس کے سامنے ہم یہ سب حالات رکھ دیں گے.بہر حال لوگوں پر یہ حقیقت ظاہر ہے اور ایک حصہ حکام کا بھی جانتا ہے کہ یہ سازش ہے اور یہ بات بھی ہر شخص جانتا ہے کہ یہ کھیل دونوں طرف سے کھیلا جا سکتا ہے.احمدی بھی کھیل سکتے ہیں اور اس وجہ سے احمدیوں کی عظمت ان کے دلوں میں بڑھ رہی ہے.اس سلسلہ میں ہمیں اور بھی بعض سازشوں کا علم ہوا ہے جو ہم حکومت تک پہنچا دیں گے مگر اس خیال سے نہیں کہ وہ انتظام کرے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ بعض بڑے کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے یا شاید بعض ماتحت افسروں کے دھوکا دینے کی وجہ سے اس وقت تک کوئی انتظام نہیں کر سکی مگر ہم اسے ضرور بتا دیں گے تا اس پر حجت پوری کر دیں.میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کی اطلاع ہم نے ۱۸ جون کے الفضل میں شائع کر دی تھی اور بعد میں حکومت کو بھی اطلاع دے دی تھی مگر وہ کچھ نہ کرسکی لیکن اس سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ہمارا پہلو بہت مضبوط ہو گیا ہے.اور اسی طرح حجت پوری کرنے کے لئے ہم حکومت کو دوسری سازشوں کا علم بھی دے دیں گے اور اس طرح ان کے وقوعہ کے بعد ہمارے ہاتھ اور بھی مضبوط ہو جائیں گے.ضمنا میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک بعینہ اس طرح جس طرح وہ میزبان جو مہمان کو ٹالنا چاہے اس کے پاس بیٹھ کر پوچھنا شروع کر دیتا ہے کہ بتائیے میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ بعض افسر ہم سے یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا تم بتاؤ ہم کیا کریں؟ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ نو کر تم ہو، تخوا ہیں تم لے رہے ہو ، ساری عمر ایسے کاموں میں گزار نے کیوجہ سے تجربہ تمہیں ہے اور پوچھتے ہم سے ہو کہ کیا

Page 448

خطبات محمود ۴۴۳ سال ۱۹۳۵ء کریں.ہم کیا بتائیں کہ کیا کرو.جب مولوی ظفر علی صاحب کے متعلق حملہ کی ایک جھوٹی خبر شائع ہوئی تھی تو ساری پولیس کسے پوچھ کر وہاں پہنچ گئی تھی اور حکام کسے پوچھ کر انتظام کرنے لگے تھے.پس پولیس بھی اور سول افسر بھی انتظام کر سکتے ہیں ہم کیا تجویز بتا سکتے ہیں.یہاں میں ایک اور تجویز کا بھی ذکر کر دیتا ہوں جو ایک افسر نے بتائی ہے اور وہ یہ کہ اُس نے کہا کہ سوائے اس کے کیا کر سکتے ہیں کہ فریقین کی ضمانتیں لے لیں.انگریزی کی ایک ضرب المثل کا ترجمہ ہے کہ ضرر رسانی تو کی تھی اس کے ساتھ ہتک بھی شامل کر دی یہی حرکت اس افسر نے کی.اول تو احمدیوں پر ظلم ہوا کہ ان کے عزیز ترین وجودوں پر حملہ ہوا ، اس کے بعد انہیں یہ سنایا گیا کہ اس کا علاج یہ ہے کہ جماعت کے مرکز میں احمدیت کے سرکردہ وجودوں کی بھی ضمانت لے لی جائے اور ان کے مقابل پر چند گدا گروں کی بھی ضمانت لے لی جائے.اس وقت تک تو حکومت کی طرف سے اتنی ہی توجہ ہوئی ہے.آگے جو ہو گا وہ بھی واقعات بتا دیں گے..بہر حال ہمیں بعض اور سازشوں کا بھی علم ہے جنہیں ہم حکومت تک پہنچا دیں گے اور گوحکومت نے اس وقت تک ہم سے کوئی ہمدردی نہیں کی مگر آخر ایک وقت آ جاتا ہے جب ظلم برداشت نہیں ہو سکتا.ممکن ہے کہ ایک وقت آئے جب حکومت یہ سمجھ لے کہ اب ہمارے ماتحت افسر حد سے بڑھ رہے ہیں لیکن اگر وہ کچھ بھی نہ کرے تو بھی ہمارے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور ہم دنیا کو بتاسکیں گے کہ ہم نے حکومت کو بر وقت اطلاع دے دی تھی مگر وہ کوئی انتظام نہ کر سکی.اس واقعہ کا دوسرا اثر حکومت پر ہے.ہم نے اس واقعہ سے پہلے اخبار میں شائع کر دیا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے اور یہ بات دنیا سے مخفی نہیں رہ سکتی.جو بات اخباروں میں آ جائے اس کا کون انکار کر سکتا ہے.اب اگر حکومت بتا دے کہ اس اطلاع پر اس نے کوئی کارروائی کی تو ہم اپنی غلطی تسلیم کر لیں گے.حکومت کی طرف سے حفاظت کے جو انتظام کئے جاتے ہیں وہ ظاہر ہیں.مثلاً وہی شخص جس نے میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کیا جب وہ گھر سے نکلتا ہے تو دو یا زیادہ سپاہی اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں اور رات کو جب وہ سوتا ہے تو بھی دو سپاہی اس کے مکان پر پہرہ دیتے ہیں.ایک ذمہ وار افسر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ سپاہی اس کے ساتھ اسلئے رکھے جاتے ہیں کہ وہ کسی اور شرارت میں حصہ نہ لے سکے یا کسی سازش میں شریک نہ ہولیکن دیکھا گیا ہے کہ جب وہ کسی مجلس میں جاتا ہے تو سپاہی ڈیوڑھی یا چوبارہ کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں

Page 449

خطبات محمود م م م سال ۱۹۳۵ء اور جب وہ باہر آ جاتا ہے تو ساتھ ہو جاتے ہیں.گویا منصوبہ بازی سے روکنے کا یہ نرالا طریق ہے کہ مجلس میں تو اکیلے شامل ہونے دیا جائے اور چلتے وقت پہرہ ہو.گویا سوتے سوتے یا چلتے چلتے تو خطرہ ہے کہ وہ کوئی منصوبہ نہ کرے لیکن اپنی مخصوص مجلسوں میں بیٹھنے کی صورت میں اسکے متعلق کوئی اس قسم کا خطرہ نہیں.بہر حال سپاہی کسی غرض سے ہوں مگر نظر آتے ہیں اور جیسا کہ ایک بالا افسر نے بتایا ہے وہ بالا افسروں کی طرف سے ہیں ، مقامی پولیس کی طرف سے نہیں اس لئے ہم مجبور ہیں کہ سمجھیں یہ حکومت کی طرف سے ہی انتظام ہے.پس گورنمنٹ جو کچھ کرتی ہے وہ نظر آ جاتا ہے.گو میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جس طرح ہم غلطی کر سکتے ہیں گورنمنٹ بھی غلطی کر سکتی ہے مگر بہر حال اس کے اختیار کردہ طریق، نظر ضرور آ جاتے ہیں اور ہماری اطلاعات کے باوجود حکومت نے جو کچھ کیا وہ ظاہر ہے.اس کی طرف سے اس گلی میں پہرہ تک کا انتظام نہیں کیا گیا.ہزاروں لوگ گواہ ہیں کہ اس گلی میں پہرہ کا کوئی انتظام نہ تھا اور باوجود اس کے نہیں تھا کہ حکومت کو بروقت اطلاع دے دی گئی تھی کہ اس گلی میں ایسا حملہ ہونے والا ہے.حکومت کو اس حملہ آور کے آگے پیچھے رکھنے کے لئے تو سپاہی مل گئے مگر اس کے لئے کوئی نہ مل سکا کہ جس جگہ حملہ ہونے والا تھا با وجود اطلاع کے وہاں پہرہ مقرر کر دیا جاتا.یہ ایک ایسی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی اور یقیناً ہم سمجھتے ہیں جس وقت یہ باتیں اوپر کے حکام کے پاس پہنچیں گی تو وہ ضرور توجہ کریں گے.لوکل حکام تو کئی ذاتی جھگڑوں میں مبتلاء ہوتے ہیں لیکن مرکزی حکومت ان باتوں سے بالا ہوتی ہے.بہر حال اس وقت تک ضلع کے حکام نے تو کوئی توجہ نہ کی تھی اور پھر یہ بات ضلع کے حکام تک ہی محدود نہیں ، اوپر کے بعض افسر بھی ایسا ہی سلوک کر رہے ہیں اور ان کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.جب بھی کوئی شکایت ان کے پاس کی جاتی ہے وہ کہہ دیتے ہیں احمدی مبالغہ کرتے ہیں ، ” الفضل، میں جھوٹی خبریں شائع ہوتی ہیں بلکہ ہمارے ایک دوست نے جب ایک سرکاری افسر سے ذکر کیا کہ حضرت خلیفہ اسی نے گزشتہ خطبہ میں برطانوی قوم کی تعریف کی ہے.اس نے کہا کہ پھر کیا ؟ اگلے خطبہ میں کہہ دیں گے کہ بعض افسر غدار ہیں.یہ ایک ذمہ دار افسر کا بیان ہے جس کے متعلق کسی کو امید نہ ہو سکتی تھی کہ وہ ایسا بے قابو ہو جائے گا.غرض یہ وقوعہ جو ہوا اس کے پہلے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی.مرکزی حکومت پر تو کوئی الزام نہیں کیونکہ شاید اسے اتنا موقع نہیں ملایا وہ لاہور کے کاموں میں پھنسی ہوئی تھی.مگر ضلع کے حکام ایسے حالات میں نہ تھے اور وہ اگر

Page 450

خطبات محمود ۴۴۵ سال ۱۹۳۵ء چاہتے تو انتظام کر سکتے تھے.کہتے ہیں کہ بوجھ کا آخری تنکا اونٹ کی کمر توڑ دیتا ہے.بہت سے افسر ایسے گزرے ہیں جو فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے حُسنِ سلوک سے پچاس ہزار یا لا کھ بلکہ کئی لاکھ کی ایک ایسی جماعت ہندوستان میں چھوڑ دی ہے جو اپنی جانیں قربان کر کے بھی برطانیہ سے تعاون کرے گی مگر موجودہ افسر جا کر کیا کہہ سکتے ہیں سوائے اس کے کہ صاحب ! فخر نہ کریں ہم اسی جماعت کے دلوں کو تو ڑ کر آئے ہیں کیا یہ بات ان کی اپنی یا ان کی حکومت کی شہرت کا موجب ہو گی.یہ بات ظاہر ہے کہ اب اگر یہ جماعت تعاون کریگی یا قانون شکنی نہ کرے گی تو اس وجہ سے کہ ان کے مذہبی حکم کے خلاف ہے اور اگر قانون شکن جماعتوں کے ساتھ نہ ملے گی تو اپنے خلیفہ کے ڈر کی وجہ سے ورنہ جو حالات ہمارے لئے پیدا کئے گئے ہیں کیا یہ ممکن نہ تھا کہ ہمارے لوگ ان لوگوں سے جا ملتے جو ا سکے قوانین کو توڑ کر حکومت کو پریشان کرتے رہتے ہیں.ہمارے ہاتھ خدا اور اس کے رسول ، اس کی کتاب اور خدا کے مامور نے باندھ دیئے ہیں.بعض حکام کے افعال نے جماعت احمدیہ کو ایک مشین بنا دیا ہے جو قانون کی پابندی کرتی ہے اور کرے گی لیکن مشین اپنا رستہ چھوڑ کر آقا کی خدمت نہیں کر سکتی.ایک پانچ روپیہ کا نوکر اپنا رستہ چھوڑ کر بھی دیکھے گا کہ مالک کا نقصان نہ ہو مگر دس لاکھ کی مشین اس کا کوئی خیال نہیں رکھ سکتی بلکہ وہ اپنے رستہ پر چلتی جائے گی.تو ان حکام نے جماعت کو ایک مشین بنا دیا ہے پہلے وہ اپنا رستہ چھوڑ کر بھی اس امر کا خیال رکھتی تھی کہ حکومت برطانیہ پر کوئی حرف نہ آئے مگر اب وہ ایسا کہاں کرے گی جب تک کہ حکومت کی طرف سے اس ہتک کا ازالہ نہ کیا جائے اور ان حالات کے ذمہ دار حکام کو سزا نہ دی جائے.ایک ایسے ہی افسر کی شکایت اوپر کی گئی تھی.جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ بعض لوگوں نے کی تھی اور وہ اس معاملہ میں اتنا گھلا مجرم تھا کہ اگر سچ بولتا تو ضرور پکڑا جاتا.میں نے اسے کہلا بھیجا کہ تم دو آگوں میں سے ایک میں ضرور مبتلاء ہو گے.اگر سچ بولوتو حکومت سے سزا پاؤ گے اور اگر جھوٹ بولو تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گے.اس وقت تو اس نے ہنس کر کہا کہ نہیں میں ضرور سچ بولوں گا مگر جب اس سے جواب طلبی ہوئی تو اس نے صاف جھوٹ بول دیا اور اس طرح خدا کی آگ کو اختیار کر لیا حالانکہ یہ زندگی اصل زندگی نہیں.یہاں بڑے بڑے امراء، کروڑ پتی ، بادشاہ سب سو پچاس سال جیتے اور پھر مر جاتے ہیں اصل زندگی وہی ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے.اگر چہ وہ

Page 451

خطبات محمود ۴۴۶ سال ۱۹۳۵ء جھوٹ بول کر حکومت کے عذاب سے بچ گیا لیکن مرنے کے بعد وہ جس عذاب میں مبتلاء ہو گا اس کے مقابلہ میں حکومت کی سزا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی.پس ایسے لوگوں کے لئے دو باتیں لازمی ہیں یا تو حکومت سے سزا پائیں اور یا مرنے کے بعد خدا کے ہاتھ سے.ایسے لوگ ذاتی طور پر بھی فائدہ میں نہیں رہتے یا تو ان کی عاقبت خراب ہوتی ہے اور یا پھر اسی دنیا میں برباد ہو جاتے ہیں.آخر آج نہیں تو گل حکومت کو پتہ لگے گا اور وہ ضرور سزا دے گی.غرض حکومت پر اس واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ ایک اعلیٰ درجہ کی تعاون کرنے والی جماعت کو اس نے کھو دیا ہے اور اب وہ صرف قانون کی حد تک اس کے ساتھ تعاون کرے گا اور یہ بھی میرے مجبور کرنے پر ور نہ بعض احمدی تو ایسے جوش میں ہیں کہ شاید اس مسئلہ کو بھی بھول جائیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں جوش کی حالت میں بھی اصل راستہ کو نہیں بھولتا اس لئے میرے مجبور کرنے پر وہ تعاون کریں گے ورنہ بہت سے لوگ انتہاء پسند جماعتوں سے جا ملتے.اس افسر نے جو یہ کہا کہ گل کہہ دیں گے بعض افسر غدار ہیں میں ضمناً اس کا بھی جواب دے دینا چاہتا ہوں اور اس کو اور اس کے ہم خیالوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ کہنا کہ برطانوی حکومت اور برطانوی قوم اچھی ہے اور پھر اس کے ساتھ یہ کہنا کہ پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسر غدار ہیں.دونوں باتیں ایک وقت میں موجود ہو سکتی ہیں.قوم کی تعریف کے یہ معنی نہیں کہ اس کے سارے افراد اچھے ہیں.سب سے اچھی قوم تو رسول کریم اللہ کے صحابہ کی تھی مگر کیا اس وقت بُرے آدمی نہ تھے، کیا ان میں سے بعض کو قرآن کریم میں منافق نہیں بتایا گیا ؟ پس اگر یہ اعتقا در کھتے ہوئے کہ رسول کریم ﷺ کے گرد جو لوگ جمع ہوئے وہ بہترین لوگ تھے یہ کہنے سے کہ ان میں سے بعض منافق بھی تھے کوئی حرج نہیں ہوتا تو اگر میں یہ کہوں کہ برطانوی قوم اچھی ہے مگر اس کے بعض افسر غذار ہیں تو کیا حرج ہے.پھر میں اپنی جماعت کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ بڑی اعلیٰ درجہ کی تربیت یافتہ اور بلند اخلاق کی مالک ہے لیکن اس کے باوجود کئی خطبات میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ اس میں بعض منافق بھی ہیں.اگر میں ایک ہی وقت میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اخلاق شرافت اور قابلیت میں بہت بلند درجہ رکھتی ہے اور یہ بھی کہ اس میں بعض منافق بھی ہیں تو یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ برطانوی قوم بہت اچھی ہے مگر پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسر غذا ر بھی ہیں.غالباً ان صاحب کو کثرت کا ر کی وجہ سے اپنی تاریخ کے مطالعہ

Page 452

خطبات محمود ۴۴۷ سال ۱۹۳۵ء کا بھی موقع نہیں ملا بلکہ اگر وہ اخبارات کا مطالعہ ہی با قاعدہ کر سکتے تو انہیں یاد ہونا چاہئے تھا کہ ایک ہی سال ہؤا کہ برطانوی فوج کے ایک میجر نے ایک نہایت اہم راز ایک مشہور کیمیکل فرم کے پاس فروخت کرنے کی کوشش کی تھی مگر پکڑا گیا، پھر اس سے سال بھر پہلے ایک برطانوی لفٹیننٹ نے ایک جرمن عورت کی محبت اور کچھ نقدی کے لالچ کی وجہ سے ایک اہم راز فروخت کرنے کی کوشش کی تھی مگر پکڑا گیا اور اب جیل میں ہے.پھر شاید اس افسر کو معلوم نہیں کہ جنگ کے دنوں میں ایک سیکرٹ محکمہ تھا اس کی شائع کردہ رپورٹ کے بعض حصے میں نے پڑھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ درجنوں اور بیسیوں ایسے انگریز پکڑے گئے تھے جو غیر ملکیوں کو اپنی خبریں دیتے تھے اور انہیں سخت سزائیں دی گئیں پھر یہ افسر اگر کتا ہیں نہ پڑھ سکتے ہوں تو شملہ میں ہی ان سے دو میل کے فاصلہ پر ایک اور افسر رہتے ہیں جو بہت لائق اور شریف انگریز ہیں.جنگ کے دنوں میں وہ ایک خاص کام پر مامور تھے جس کا میں نام نہیں لیتا، اگر یہ افسر عِندَ الْمُلاقات اُن سے دریافت کریں تو وہ بتادیں گے کہ جنگ کے دنوں میں بعض انگریز افسر بھی غداری کیا کرتے تھے اور جب جنگ کے دنوں میں بعض لوگ ایسا کر سکتے تھے تو کیوں امن کے دنوں میں ایسا نہیں کر سکتے.حال ہی میں ایک جرمن مصنف نے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں لکھا ہے کہ لارڈ کچھ کا جہاز جن کے مرنے پر تمام انگلستان میں ماتم بپا ہو گیا تھا، دو انگریز افسروں کی سازش سے ہی ڈبویا گیا تھا.پس وہ کون سی قوم ہے جس میں غذا ر نہیں ہو سکتے بعض قو میں ان کی موجودگی میں بھی اچھی ہوتی ہیں اور بعض خراب ہو جاتی ہیں جن میں غذار زیادہ ہو جائیں وہ تباہ ہو جاتی ہے اور جن میں کم ہوں وہ اچھی رہتی ہے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ برطانوی قوم اچھی ہے اور ساتھ یہ بھی کہ اس کے بعض افسر غدار ہیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس قوم میں غذار تھوڑے ہیں اور اگر یہ بات کسی کو بُری لگتی ہے تو مجھے افسوس ہے کہ میں اس کی تکلیف کو دور نہیں کر سکتا.میرا اب بھی یہ خیال ہے کہ انگریز قوم میں بُرے لوگ تھوڑے ہیں اور اچھے زیادہ ، میں جانتا ہوں کہ میرا یہ کہنا کہ بعض افسر غدار ہیں بعض افسروں کو بُرا لگتا ہے مگر بعض کو نہیں بھی لگتا.سرا یومین ہاول گورنمنٹ آف انڈیا کے فارن سیکرٹری تھے ایک دفعہ مولوی عبد الرحیم صاحب درد ان سے ملنے گئے کشمیر کے متعلق کوئی معاملہ تھا.درد صاحب نے کہا کہ آپ جانتے ہیں ریاستی پولیس میں سارے افسرا چھے نہیں ہوتے.اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ یہ کیوں کہتے ہیں ہماری پولیس کے بھی بعض افسر

Page 453

خطبات محمود ۴۴۸ سال ۱۹۳۵ء بُرے ہوتے ہیں ہماری پولیس کی براءت کی ضرورت نہیں.پس جو افسر اصلاح کو مقدم سمجھتے ہیں وہ ان باتوں پر بُر انہیں مناتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ غذار ہیں اور ان کی اصلاح ضروری ہے.قوم کی طاقت اس میں ہوتی ہے کہ غذاروں کی اصلاح کی جائے جو قوم غذاروں کو چھپاتی ہے وہ اپنی محبت دلوں سے نکال دیتی ہے.غذاروں کی اصلاح سے پر سٹیج PRESTIGE) کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے مگر بعض افسروں کو پھر بھی یہ بات بری لگتی ہے.اس کے برخلاف میرا یہ کہنا کہ انگریز قوم اچھی ہے ہماری جماعت کے بعض افراد کو اب بُرا لگتا ہے اور ملک کی بعض دوسری قوموں کو بھی مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں میرے سامنے ہمیشہ نجاشی کا قول رہتا ہے جو حبشہ کا بادشاہ تھا وہی حبشہ جس پر اٹلی حملہ کر رہا ہے.جب کفار کے مظالم سے تنگ آکر بعض صحابہ اس کے ملک میں ہجرت کر گئے تو کفار نے دو آدمی بہت سے تحائف وغیرہ دے کر اس کے پاس بھیجے اور کہلا بھیجا کہ آپ سے ہماری ہمیشہ صلح رہی ہے ان لوگوں کو واپس کر دیں.جب وہ لوگ درباریوں کو رضا مند کرنے کے بعد پیش ہوئے تو اس نے صحابہ کو بلایا اور ان سے حالات دریافت کئے اور ان کے حالات سن کر انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا.اس پر پھر مکہ کے سفیروں نے امراء سے مل کر اس پر زور ڈالا اور اس دفعہ اُسے یہ کہہ کر جوش دلانا چاہا کہ یہ لوگ مسیح کو گالیاں دیتے ہیں جس طرح آج ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں اس پر اس نے صحابہ کو پھر بلوایا اور پوچھا کہ حضرت مسیح کے متعلق تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے قرآن کی آیات پڑھ کر سنا ئیں.اس پر نجاشی نے ایک تنکا اُٹھایا اور کہا خدا کی قسم! میں مسیح کو اس درجہ سے اس تنکا کے برابر بھی کم و بیش نہیں سمجھتا.میرا ایمان بالکل یہی ہے.ایک عیسائی بادشاہ کے منہ سے یہ بات سن کر درباری جوش میں آگئے اور کہا کہ تم کا فر ہو گئے ہو جو خدا کے بیٹے کو انسان کہتے ہو اور معمولی نبی تمہیں اس کے انجام کا علم ہے ؟ تب اس نے کہا کہ تم کو معلوم ہے میں چھوٹا بچہ تھا کہ میرا باپ فوت ہو گیا اور میرے گارڈین نے چاہا کہ مجھے تخت سے محروم کر دے اور تم سب اس کے ساتھ سازش میں شریک ہو گئے کوئی ایک بھی میرے ساتھ نہ تھا اُس وقت اللہ تعالیٰ نے میرا ساتھ دیا اور جس خدا نے مجھے یہ تاج وتخت دلوایا کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کے مقابلہ میں میں تمہاری کوئی پروا کروں گا ؟ جاؤ جو تمہارا دل چاہے کرو میرا بھی سچائی کے بارہ میں یہی حال ہے.اس کے مقابل میں مجھے نہ حکومت کی پروا ہے نہ رعایا کی اور نہ اپنی جماعت کی ، میری

Page 454

خطبات محمود ۴۴۹ سال ۱۹۳۵ء حالت بھی بالکل بچہ کی سی تھی اور جماعت کا غالب عنصر جانی دشمن تھا ، اُس وقت اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی اور مجھے وہ کچھ دیا جو کوئی انسان نہیں دے سکتا.پس خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں مجھے نہ بادشاہوں کی پرواہ ہے نہ حکومتوں کی اور نہ رعایا کی.میرا عقیدہ اس وقت تک یہی رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برطانوی قوم کو ایک خاص خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ اسے دنیا میں امن و امان قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنانا چاہتا ہے.یہ بھی بالکل ممکن ہے کہ قوم خود اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم کر دے لیکن اگر ایسا ہوا تو اللہ تعالیٰ اپنے نشانوں سے اسے ظاہر کرے گا اس لئے اس عارضی جوش کی وجہ سے یا کسی انگریز افسر کے سلوک کے خیال سے میں اس رائے کو بدل نہیں سکتا.بے شک بعض افسر بھی کہتے ہیں کہ تم لوگ فسادی ہو ، جھوٹ بولتے ہو ، ادھر جماعت کے لوگوں کے خطوط آتے رہتے ہیں جو مجھے اس عقیدہ کو ترک کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں مگر مجھے سچائی کے معاملہ میں نہ حکومت کی پروا ہے نہ جماعت کی.میں جو سچ سمجھتا ہوں اسے بے لاگ ظاہر کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس کی توفیق دے.پس یہ ایک حقیقت ہے جس کے اظہار سے میں رُک نہیں سکتا.اب تک میرا یہی خیال ہے کہ انگریز قوم مجموعی طور پر دوسری قوموں سے اچھی ہے لیکن قوم سے میری مراد سیاسی قوم ہے اور یہ بھی مجھے یقین ہے کہ بعض افسر غدار ہیں اور رہے ہیں اور اس وقت بھی پنجاب گورنمنٹ میں بعض ایسے افسر ہیں جن کا رویہ ہمارے خلاف ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے.اگر حکومت نے آزاد کمیشن بٹھایا تو ہم ان کے نام اور حالات بھی ظاہر کر دیں گے.بعض لوگ کہتے ہیں انگریزوں میں فلاں نقص ہے مگر میں کہتا ہوں کون ہے جو نقائص سے خالی ہو.کسی فرد کے نقص سے قوم بُری نہیں ہو سکتی حضرت مسیح ناصری کا قول مجھے کتنا پیارا لگتا ہے لوگوں نے ایک عورت کو پکڑا اور کہا کہ ہمارے مولوی تو رشوت لے کر چھوڑ دیتے ہیں چلو اسے مسیح کے پاس لے چلیں.حضرت مسیح ایک کھلی مارکیٹ میں کھڑے تھے.لوگوں نے کہا.اے اُستاد! یہ عورت بدکار ہے اور ہم نے اسے بدکاری کی حالت میں پکڑا ہے.بتاؤ خدا کے قانون کے ماتحت اس کی کیا سزا ہے؟ حضرت مسیح نے کوئی ایسا جواب دیا کہ وہ مطمئن نہ ہوئے اور کہا کیا ایسے مجرم کے لئے سنگساری کی سزا نہیں ؟ حضرت مسیح نے کہا کہ ہاں لکھی ہے مگر اس پر پہلا پتھر وہ پھینکے جس نے کبھی کوئی شرعی گناہ نہ کیا ہو.اس پر سب آہستہ آہستہ کھسک گئے اور وہاں صرف ایک ہی

Page 455

خطبات محمود ۴۵۰ سال ۱۹۳۵ء شخص رہ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے شرعی گناہوں سے پاک رکھا ہوا تھا اور وہ مسیح علیہ السلام تھا ( کیونکہ خدا تعالیٰ کے سب نبی شرعی کمزوریوں سے پاک ہوتے ہیں ) صرف وہی تھا جو اس عورت پر پتھر پھینک سکتا تھا مگر اس نے جا کر اس عورت کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹی جاؤ پھر گناہ نہ کرنا.پس خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے معصوموں کے سوا کون ہے جو کہہ سکے ہم سے غلطی نہیں ہو سکتی.پھر کسی فعل کے متعلق ہم یقینی طور پر یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ بد دیانتی سے تھا پس جب تک ہمیں کوئی آسمانی ثبوت اس کے لئے نہ مل جائے کہ یہ قوم بگڑ گئی ہے چاہے دوست کتنا ناراض ہوں اور دس دس صفحات کے خطوط کیوں نہ لکھیں ، اس بارہ میں میرا دل ایک مضبوط چٹان کی طرح ہے میں آنکھوں سے سب باتیں دیکھنے کا عادی ہوں اور قلب سے فیصلہ کرتا ہوں اس لئے مجھ پر اثر نہیں ہوسکتا.پنجاب اور ہندوستان کی حکومت میں ایسے افسر گزرے ہیں اور جو ابھی تک زندہ ہیں کہ ان کے انصاف کو دیکھتے ہوئے انگریز قوم کو بُر انہیں کہا جا سکتا.رسول کریم ﷺ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر ملکہ کو گئے تو اس مقام پر اہل مکہ کی طرف سے ایک معزز شخص صلح کے لئے آیا آپ اس کے سامنے بیٹھے اس سے گفتگو کر رہے تھے کہ اس نے آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا کر کہا دیکھو بچے ! اس پر صحابہ کا خون کھولنے لگا ، ایک صحابی کھڑے تھے ان کے سر پر جو دتھا ، انہوں نے اسے تلوار کا کند اما را اور کہا اپنے نجس ہاتھ رسول پاک ﷺ کی ریش مبارک کومت لگا.وہ شخص اہل مکہ کا بڑا حسن تھا اور کم ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس پر یا جس کے والدین پر اس نے کوئی احسان نہ کیا ہو، اس نے اس صحابی کی طرف غور سے دیکھا اور کہا کیا فلاں موقع پر میں نے تم پر احسان نہ کیا تھا.اس پر اس صحابی کی آنکھیں شرم سے نیچی ہو گئیں اور وہ کچھ نہ کہہ سکے.اس کے بعد اس نے غرور کے اظہار کے لئے اور یہ جتانے کے لئے کہ میں سب کا محسن ہوں پھر آپ کی ریش مبارک کو چُھوا.اس پر پھر ایک صحابی نے اسی طرح کیا اور وہی الفاظ کہے اس نے پھر اس کی طرف دیکھا اور غور کرنے کے بعد کہا کون ہے ابن ابی قحافہ ؟ پھر کہا ہاں تم پر میں کوئی احسان نہیں جتا سکتا یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے اور اس مجلس میں مہاجرین میں سے صرف آپ ہی تھے جو اس کے احسان کے نیچے نہ تھے اس لئے اس نے آنکھیں نیچی کر لیں.ہے تو احسان کا یہ اثر ہوتا ہے.لیکن مخالف حالات میں انصاف بھی احسان ہی ہوتا ہے.اس وقت بعض حکام کو ہمارے ساتھ انصاف

Page 456

سال ۱۹۳۵ء خطبات محمود ۴۵۱ سے کون سی چیز روک رہی ہے صرف یہی کہ میجارٹی (Majority) ہمارے خلاف ہے اس لئے ایسے حالات میں جو ہمارے ساتھ انصاف کرے اسے بھی ہم احسان ہی سمجھتے ہیں.کسی نے کسی کا قرض دینا ہو ، وہ روز اس سے مانگے مگر وہ نہ دے لیکن ایک دن ایسی حالت ہو جائے کہ اس کے بیوی بچے فاقہ سے سخت تکلیف میں ہوں اور اُس وقت اس کا قرضدار روپیہ کی ادائیگی کا انتظام کر دے تو کیا وہ اسے احسان نہیں سمجھے گا ؟ پس مخالف حالات میں انصاف بھی احسان ہو جاتا ہے.غور کرو جس قوم میں وہ شخص پیدا ہوا ہو جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعریف کی اور اسے اپنے زمانے کا پیلا طوس قرار دیا.یعنی جس قوم کا ایک فرد کیپٹن ڈگلس ہو جو اب تک زندہ موجود ہے.ہم اسے کس طرح بُرا کہہ سکتے ہیں.کیپٹن موصوف کا اپنا بیان ہے کہ اُس وقت کے پنجاب کے لفظنٹ گورنر نے انہیں بلا کر کہا کہ ی شخص عیسائیت کا سخت مخالف ہے اس لئے اس کے مقدمہ کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے جس کے صاف معنی یہ تھے کہ اسے ضرور سزا دو.مگر میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ بد دیانتی مجھ سے نہیں ہوسکتی.باوجود اس کے کہ ایک انگریز کہلانے والے ( کہلانے والا میں اس لئے کہتا ہوں کہ وہ دراصل ہندوستانی تھا مگر ایک انگریز نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا ) کی طرف سے مقدمہ تھا ، صوبہ کے سب سے بڑے افسر کا رُجحان تھا کہ سزا دی جائے اور کیپٹن موصوف خود اتنے متعقب تھے کہ جب وہ اس ضلع میں آئے تو کہا کہ یہ شخص عیسائیت کا اتنا مخالف ہے ، اسے اس وقت تک سزا کیوں نہیں دی گئی لیکن جب مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے شکل دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ شخص ملزم نہیں ہوسکتا.ان کے ایک ماتحت افسر جو اب تک زندہ ہیں ان کا بیان ہے کہ بٹالہ میں پیشی کے بعد جب کیپٹن موصوف سے آئے تو نہایت بے چینی سے ٹہل رہے تھے بالکل پاگلوں کی سی حالت تھی اور رنگ فق تھا.میں نے کہا کہ صاحب ! آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے ویٹنگ روم میں تشریف رکھئے.مگر انہوں نے کہا کہ نہیں میں بیمار نہیں ہوں مجھے ٹہلنے دو.لیکن پھر میں نے یہی حالت دیکھی تو پھر جا کر کہا.اس پر وہ اندر تو آ گئے مگر کہنے لگے سپر نٹنڈنٹ صاحب ! میرے دل پر ایسا بوجھ ہے کہ ڈر ہے کہ کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.گواہیوں سے مرزا صاحب کا جُرم بالکل ثابت ہے مگر میں جس طرف جاتا ہوں ان کی شکل میرے سامنے آتی ہے اور کہتی ہے کہ میں مجرم نہیں ہوں میں مجرم نہیں ہوں اور یہ ایسی حالت ہے کہ میں شاید پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا کہ آپ S.P کو بلا لیں اور ان سے مشورہ کریں.چنانچہ انہیں شتین پر

Page 457

خطبات محمود ۴۵۲ سال ۱۹۳۵ء بلایا گیا ان کا نام اریمار چنٹ تھا ، وہ تو شاید اب فوت ہو چکے ہیں مگر ان کے بڑے لڑکے اس وقت فوج میں لیفٹیننٹ ہیں S.P صاحب نے کہا کہ میں خود اس مقدمہ کو جھوٹا سمجھتا ہوں ، گواہ مشن والوں کے قبضہ میں ہے اسے آپ میرے حوالہ کر دیں ، میں اس سے حقیقت حال معلوم کرلوں گا.چنانچہ ایسا کیا گیا.اسے جب S.P نے پوچھا کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ تو اس کا رنگ فق ہو گیا.صاحب نے کہا کہ تسلی رکھو اب تمہیں مشن والوں کے حوالہ نہیں کیا جائے گا مگر وہ سخت ڈرا ہو ا تھا.آخر اسے بہت تسلی دی گئی کہ اب تم مشن والوں کے پاس نہیں جاؤ گے تو وہ قدموں پر گر گیا اور اس نے کہا کہ میں کسی لالچ اور غرض کے لئے ان کے پاس گیا تھا انہوں نے مجھے ڈرایا کہ تم کو چور قرار دے کر پولیس کے سپرد کر دیں گے ورنہ کہو کہ مجھے مرزا صاحب نے پادری صاحب کو قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا.آخر مقدمہ چلا اور کیپٹن ڈگلس نے فیصلہ کیا کہ مقدمہ جھوٹا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیسی پادریوں پر مقدمہ کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ اصل قصور انہی کا ثابت ہوا تھا مگر آپ نے مقدمہ کرنے سے انکار کر دیا.یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں.صوبہ کا ذمہ دار افسر توجہ دلاتا ہے کہ سزا دی جانی چاہئے ، مجسٹریٹ خود متعصب ہے لیکن جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ آپ بچے ہیں تو وہ قطعا اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ مقابل پر انگریز مدعی ہے ،صوبہ کا بڑا افسر سزا دلوانا چاہتا ہے اور یہ شخص میرے اپنے مذہب کا سخت مخالف ہے ، اس پر کوئی بات اثر ہی نہیں کرتی اور وہ آپ کو صاف بری کر دیتا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے یہ ایک مثال ہے؟ مگر میں کہتا ہوں بعض دفعہ منفر دمثال بہت بڑا اثر پیدا کر دیا کرتی ہے.حضرت ہاجرہ ایک ہی عورت تھیں ، مصر کی رہنے والی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیاہی گئیں لیکن رسول کریم ﷺ نے ایک دن صحابہ سے فرمایا کہ جس دن مسلمان مصر فتح کریں مصریوں کا لحاظ رکھیں کیونکہ ہماری دادی وہاں کی تھی.دو ہزار سال پہلے کی ایک لڑکی کا کتنا لحاظ ہے.پھر سارے طائف کی عورتوں نے تو رسول کریم ﷺ کو دودھ نہ پلایا تھا لیکن جب اہل طائف نے ایسی جنگ کی کہ قریب تھا سارے مسلمان مارے جاتے مگر آخر وہ قید ہو گئے تو آپ نے ایک مہینہ تک ان کے اموال کو تقسیم نہیں کیا.ایک ماہ کے بعد جب آپ کی رضاعی بہن آئیں تو آپ نے فرمایا بہن ! میں تو ایک ماہ پورا تمہارا انتظار کرتا رہا اور انتظار کے بعد مال تقسیم کیا ہے.اب تم یا تو مال لے جاؤ اور یا قیدی.اس نے قیدیوں کو ترجیح دی اور آپ نے ثقیف کے سب قیدی رہا کر دئیے.پس ہم رسول کریم

Page 458

خطبات محمود ۴۵۳ سال ۱۹۳۵ء کے اخلاق کے تابع ہیں.کم از کم جب تک کیپٹن ڈگلس زندہ ہے انگریز قوم کے سامنے میری آنکھ تو نہیں اُٹھ سکتی.کیا تم سمجھتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کے مقابلہ میں ہماری تکالیف کوئی حقیقت رکھتی ہیں.کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ ہمیں خواہ کس قدر بھی تکالیف دی جائیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے.اگر تمہیں یہ پسند ہے تو پھر اس واقعہ کو موجودہ واقعات پر جو اہمیت حاصل ہے اس کا تم کو انکار نہیں ہوسکتا.اس وقت اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر داغ لگ جاتا تو وہ بہت زیادہ تکلیف دہ بات ہمارے لئے ہوتی.پس ہم موجودہ ظالم انگریزوں کے فعل کی وجہ سے اس منصف انگریز کے فعل کو کس طرح بھول سکتے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچی محبت رکھنے والے تو قیامت تک اس فعل کو نہیں بھولیں گے اور کپتان ڈگلس کی عزت بہت سے بادشاہوں سے بھی زیادہ کی جائے گی اور اس کی وجہ سے ساری انگریز قوم سے حسنِ سلوک کیا جائے گا پھر اسی پنجاب میں سر ایڈوائر جیسا آدمی بھی گزرا ہے ان کے زمانہ میں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے میرے ساتھ سخت لہجہ میں گفتگو کی اور سر موصوف کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے پہلے بدل دیا اور پھر اس کا تنزل کر دیا اور آخر اُ سے ریٹائر ہو کر واپس جانا پڑا.وہ فخر سے کہا کرتے ہیں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے ایک ہندوستانی کے مقابل پر ایک انگریز افسر کوسزا دی.بے شک وہ ڈپٹی کمشنر مجرم تھا اور میں حق پر تھا مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ اس سے پہلے حکام پر سیج (PRESTIGE) کے خیال سے ہندوستانی کی ہتک کا خیال نہیں کیا کرتے تھے.پھر اسی صوبہ میں سر جیفری ڈی مونٹ مورسی جیسے انسان بھی گزرے ہیں.آج بھی یہ لوگ ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں.سر تھامسن چیف کمشنر دہلی کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ ہم نے انہیں کوئی پیغام بھیجا ہو اور انہوں نے فوراً خندہ پیشانی سے ہمارا کام نہ کر دیا ہو حالانکہ بعض اوقات ان کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوتا.پھر اسی ضلع میں منصف افسر رہے ہیں.مباہلہ والوں کی شورش کے ایام میں بھی انگریز ڈپٹی کمشنر تھے جو اچھی طرح انصاف کرتے رہے ان سے پہلے یہاں ایک ڈپٹی کمشنر مسٹر واٹسن گزرے ہیں میں جب انگلستان گیا تو وہ لندن میں مجھ سے ملنے آئے حالانکہ وہ کہیں باہر رہتے تھے.پھر یہاں مسٹر اوگلوی رہے ہیں ان سے بھی جن لوگوں کو واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ نہایت منصف اور دلیر آدمی تھے.بعد میں وہ پنجاب گورنمنٹ میں ہوم سیکرٹری ہو گئے جب مدیح کے گرائے جانے کے ایام میں

Page 459

خطبات محمود ۴۵۴ سال ۱۹۳۵ء یہاں تعزیری پولیس کا سوال پیدا ہوا تو میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ان کے پاس بھیجا کہ قادیان کا نام اس میں رکھنا غلطی ہے کیونکہ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے.انہوں نے پہلے کہا کہ جماعت احمدیہ کو مستثنیٰ کر دیا جائے مگر چوہدری صاحب نے کہا کہ قادیان کے تقدس کا تقاضا ہے کہ وہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کو بھی مستی کر دیا جائے اور انہوں نے ایسا ہی کر دیا اور کہا کہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ مقدس مذہبی مراکز کا احترام کرے اور قادیان کا نام نکال دیا اب بتاؤ ایسے لوگوں کی موجودگی میں تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ پنجاب گورنمنٹ بُری ہے.مباہلہ والوں کی شورش کے ایام میں یہاں پہلے مسٹرلین را برٹ تھے پھر مسٹر مارسدن اور پھر مسٹر جنکنز ڈپٹی کمشنر رہے ہیں اور باوجود اس کے کہ اس زمانہ میں ملک میں بہت فسادات ہو رہے تھے انہوں نے انصاف کو قائم رکھا.میں سر باول کا نام پہلے لے چکا ہوں میرا ذاتی تجربہ ہے کہ وہ اوّل درجہ کے نیک اور شریف افسر تھے میرے ساتھ ان کو جیسی عقیدت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ میرے ایک عزیز کے خلاف ان کے انگریز افسر نے بالا افسروں کے پاس شکایت کی.مجھے پہلے تو علم نہ ہو امگر جب علم ہوا تو میں نے سر ہاول کو کہلا بھیجا کہ درست واقعات یوں ہیں انہوں نے کہا میرا تعلق تو نہیں لیکن میں کوشش کروں گا.اس کے متعلق انہوں نے اس صیغہ کے افسر کو جو چٹھی لکھی اس کی ایک نقل مجھے بھی مل گئی.انہوں نے اس میں لکھا کہ گو شکایت کرنے والا انگریز ہے مگر مجھے جماعت احمدیہ کے امام کی طرف سے ان کے سیکرٹری نے بتایا ہے کہ واقعات یوں ہیں اور اگر چہ واقعات ان کے چشم دید نہیں لیکن مجھے ان پر اس قدر یقین ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ کوئی بات بغیر تصدیق کے پیش نہیں کر سکتے اس لئے ان کی بات ضرور کچی ہے پس آپ اس معاملہ کی بذات خود تحقیق کریں صرف رپورٹ پر انحصار نہ کریں.ابھی ابھی درد صاحب ان سے ملے تھے اور انہیں موجودہ حالات سنائے تھے انہوں نے سن کر کہا کہ آپ کی جماعت تو مذہبی جماعت ہے آپ خوب جانتے ہیں کہ اس حکومت کے اوپر ایک اور حکومت ہے اس لئے جو افسر نا انصافی کر رہے ہیں وہ سزا سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے اور میں امید کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے آپ ہماری دوستی کو نہیں توڑیں گے.ان کے علاوہ ہزاروں افسر ایسے ہی ہوں گے جن کے ہم واقف نہیں کیونکہ واقفوں کی قلیل تعداد میں سے اگر اتنے اچھے آدمی ہمیں معلوم ہوئے ہیں تو جن سے ہم واقف نہیں ان میں بھی ضرور ایسے آدمی ہوں گے.ایک مثال مجھے اور یاد آ گئی وہ انگریز سیشن جج جن کے

Page 460

خطبات محمود ۴۵۵ سال ۱۹۳۵ء ، وو پاس مولوی کرم دین والے مقدمہ کی اپیل پیش ہوئی تھی اس کا منصفانہ رویہ بھی ہمیں نہیں بھول سکتا.پھر کس طرح چند آدمیوں کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب گورنمنٹ بُری ہے یا برطانوی قوم بُری ہے.اس قوم کے متعلق پیشگوئیاں ہیں اور پیشگوئیاں اُسی وقت منسوخ ہوتی ہیں جب قوم مجموعی طور پر بگڑ جائے لیکن ان سب باتوں کے باوجود ایک چیز ہے جسے ان لوگوں کی موجودگی بھی نہیں روک سکتی اور وہ یہ کہ ہم پر ایسا گھلا گھلا ظلم کیا گیا ہے اور ایسی ہتک کی گئی ہے کہ جب تک اس کا ازالہ نہ کیا جائے ہم ویسا تعاون نہیں کر سکتے جیسا پہلے کرتے رہے ہیں اسی لئے میں نے صدر انجمن سے کہا ہے کہ حکومتِ پنجاب سے فیصلہ کرے کہ وہ ازالہ کے لئے تیار ہے یا نہیں ؟ اگر وہ تیار نہ ہو تو ہم اوپر جائیں اور اس کے بھی توجہ نہ کرنے کی صورت میں پھر ہم وہ سکیم اختیار کریں جو میرے ذہن میں ہے.اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عقل کو جذبات کے تابع نہ کرو.چند حکام کی وجہ سے حکومت بُری نہیں ہوسکتی اور چند افراد کی وجہ سے انگریز قوم بُری نہیں بن سکتی ، جس طرح چند احرار کی وجہ سے ساری مسلمان قوم کو بُرا نہیں کہا جا سکتا.جس طرح ملاپ پر تاپ“ کے کسی نوٹ لکھ دینے سے ہندو قوم کو بُرا نہیں کہا جا سکتا.چنانچہ میرے پاس کئی ہندوؤں کے خطوط آئے ہیں ایک نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ میں دونوں فریق کا لٹریچر پڑھتا ہوں اور ہندو قوم میں میرے برا بر دونوں فریق کا لٹریچر پڑھنے والا شاید کوئی اور آدمی نہ ہو.میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کو فتح دے گا.اگر آپ لوگ پرتاپ یا ملاپ کے ایک ایڈیٹر کی وجہ سے ہندو قوم سے ناراض ہوتے ہیں تو اس دوسرے ہندو کی وجہ سے خوش کیوں نہیں ہوتے.پس حکومت ، انگریز قوم ، ہند و مسلمان سب کے بُرے لوگوں پر نگاہ نہ رکھو بلکہ اچھے لوگوں پر رکھو.ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ راہ راست پر آ جائیں.ان کے لئے دعائیں کریں کہ وہ راہِ راست پر آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کو رستہ سے ہٹا دے اور ایسی عبرت ناک سزادے جو دوسروں کی عبرت کا باعث ہو.دیر سے مت گھبرا ؤ کہ یہ دیر ہی تو تمہارے اعلیٰ اخلاق کی نمائش کرتی ہے.کوئی فکر نہیں اگر پنجاب گورنمنٹ سے فیصلہ کرانے میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے یا حکومت ہند سے فیصلہ کرنے میں اتنا ہی عرصہ لگ جائے مومن کا عزم ہزاروں سال کا ہوتا ہے.جو لوگ کہتے ہیں جلدی کرو ورنہ جوش ٹھنڈا ہو جائے گا وہ خود بھی بے ایمان ہیں اور دوسرے کو بھی بے ایمان سمجھتے ہیں.مؤمن کے دل میں تو وہ آگ لگی ہوتی ہے کہ جب تک وہ

Page 461

خطبات محمود ۴۵۶ سال ۱۹۳۵ء اپنے خدا کے پاس نہیں پہنچ جاتا وہ ٹھنڈی نہیں ہو سکتی.جس وقت کسی کا جوش ٹھنڈا ہو جائے تو وہ سمجھ لے کہ اس کے اندر ایمان نہیں ہے کیونکر ممکن ہے کہ سلسلہ کی ہتک کی جائے اور تم سال ، دو سال، دس سال، بیس سال بلکہ سو، ہزار سال میں بھی اسے بھول سکو.سلسلہ کی ہتک تو ایسی شے ہے کہ اگر ہمارے گوشت کو ہڈیوں سے جدا کر کے قیمہ کر دیا جائے اور پھر اسے ساری دنیا میں پھیلا دیا جائے تو ہمارا ذرہ ذرہ اپنی اپنی جگہ پر بھی اس کی یاد تازہ رکھے گا یہی وہ قوتِ ارادی ہے جس سے قو میں جیتی ہیں جس قوم میں یہ نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہو سکتی.تمہارا ارادہ پہاڑ کی طرح ہونا چاہئے.تمہارے دل میں یہ خوف نہ ہو کہ واقعات تمہارے دل سے محو ہو جائیں گے.ٹھنڈے رہو اور یہ یقین رکھو کہ تمہارا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ جب بھی تمہیں آواز دی جائے تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سدھائے ہوئے پرندوں کی طرح خواہ ان باتوں پر ہزار ہا سال گزر چکے ہوں لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جاؤ گے.الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۳۵ء) بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي الا الله سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۱۳۱،۱۳۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ اس خطبہ کے بعد کی انگلستان کی اطلاع ہے کہ وہاں بھی ایک انجمن نے ان مظالم کے خلاف اظہار افسوس کیا ہے.۴، ۵ سیرت ابن ہشام جلد ا صفحہ ۱۱۷ تا ۱۱۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ 1 یوحنا باب ۸ آیت ۳ تا ۱۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ك بخارى كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد

Page 462

خطبات محمود ۴۵۷ ۲۹ سال ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ پر مظالم اور موجودہ فتن کے وسیع اثرات (فرموده ۲ /اگست ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ایک بات یہ بیان کی تھی کہ وہ خلاف قانون کا رروائیاں جو متواتر قادیان میں ہو رہی ہیں اور جن کا ازالہ کرنے سے گورنمنٹ اس وقت تک قاصر رہی ہے اور بعض ایسی غیر آئینی کا رروائیاں جن کے مرتکب خود حکومت کے بعض ماتحت افسر ہوئے ہیں وہ صرف ہم پر ہی اثر انداز نہیں ہوتیں بلکہ احرار اور خود گورنمنٹ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ ان واقعات کو جوں جوں شہرت حاصل ہوتی ہے حکومت کے ایک حصہ کے خلاف بھی لوگوں کے دلوں میں تاثرات پیدا ہوتے ہیں اور احرار کی اخلاقی کمزوری کے متعلق بھی لوگوں کے دلوں میں تاثرات پیدا ہوتے ہیں.اسی سلسلہ میں میں ایک بات اور بھی کہنی چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ ان واقعات کا ایک اور اثر بھی گورنمنٹ پر پڑتا ہے جس کو حکومت پنجاب محسوس نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا دائرہ فکر بہت محدود ہے.انسان میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ اُسی چیز کو دیکھتا ہے جو اس کے سامنے ہولیکن اس چیز کے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا جو اس کے کام کے نتیجہ میں آئندہ رونما ہونے والی ہو.جب انسان مادی قوتوں سے کام لیتا ہے تو اس کی نگاہ محدود ہو جاتی ہے لیکن جب وہ غیر مادی قومی کے ذریعہ اپنے چاروں طرف دیکھتا ہے تو اس کی نظر وسیع ہو جاتی ہے.جیسے عقل اور غور وفکر کے ماتحت انسان بہت کچھ دیکھ سکتا ہے جبکہ جسمانی آنکھوں کے ذریعہ وہ اسی چیز کو دیکھتا ہے جو اس کے سامنے ہو اسی طرح وہ لوگ جو مادی سامانوں کے ماتحت سوچنے کے عادی ہوں ان کی نگاہ صرف ایک طرف پڑتی ہے لیکن

Page 463

خطبات محمود ۴۵۸ سال ۱۹۳۵ء جو زیادہ بار یک بین ہوں اُن کی نگاہ چاروں طرف پھرتی ہے.ہم پر ان واقعات کا جو کچھ اثر ہوا ہے اس کو تو میں آگے بیان کروں گا مگر اس کی تمام بھیانک ترین تو جیہات جو ہو سکتی ہیں ، ان کو تسلیم کرتے ہوئے پھر بھی اس کا اتنا بُرا اثر ہم پر نہیں ہوا جتنا حکومت یا احرار پر ہوا ہے اور گو پنجاب گورنمنٹ یا گورنمنٹ آف انڈیا یا انگلستان کی حکومت اس اثر کو ابھی محسوس کرنے سے قاصر ہو مگر اس کی وسعت اور اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا آج نہیں تو گل موجودہ حکام کو نہیں تو ان سے بعد میں آنے والے حکام کو یا پھر ان حکام کی نسلوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہیں یہ سودا بہت مہنگا پڑا ہے.چنانچہ پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے حکومت سے جو تعلقات تھے وہ بالکل بے غرضانہ تھے ان کی بنیاد دین اور مذہب پر تھی.حکومت سے تعلقات کی خرابی پر اتنے مہینے گزر چکے ہیں بلکہ سالوں گزرچکے ہیں قریباً اڑھائی سال اس پر ہونے کو آئے ہیں جبکہ حکومت نے بلا وجہ ہم سے بگاڑ پیدا کیا اور بلا وجہ ہمیں اپنے دوستوں کی صف سے نکال کر دشمنوں کی صف میں سمجھ لیا حالانکہ نہ ہم پہلے اس کے دشمن تھے نہ اب ہیں اور نہ آئندہ ہو سکتے ہیں بلکہ ہم تو کسی حکومت کے بھی دشمن نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری مذہبی تعلیم یہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو حکومت کی اطاعت وفرمانبرداری کرو.جس حد تک حکومت سے ہمارے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اس کی طرف گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں اشارہ کر چکا ہوں.اس کو مستی کرتے ہوئے قانون شکنی اور بغاوت کا خیال بھی ہمارے دلوں میں نہیں آ سکتا کیونکہ ہماری شریعت یہ کہتی ہے کہ حکومت کی اطاعت کرو اور جب حکومت کے افعال کے خلاف قانون شکنی یا بغاوت کا احساس تمہارے دلوں میں پیدا ہو تم اُس ملک کو چھوڑ دو اور کسی اور ملک میں رہ کر اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے جد و جہد کرو مگر جب تک تم کسی حکومت کے ماتحت رہتے ہو، تمہارا یہ حق نہیں کہ تم ملک کا امن اپنے فوائد کے حصول کی خاطر برباد کر و.اس تعلیم کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ کبھی ہماری جماعت بغاوت کا سوچے ، جس حد تک وہ جاسکتی ہے وہ وہی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں.پس حکومت سے ہمارے تعلقات کبھی ایسے رنگ میں نہیں ہوئے کہ جس پر گورنمنٹ اعتراض کر سکے اور نہ آئندہ ایسے ہوں گے کہ قانونی نقطہ نگاہ سے کوئی اعتراض ہو.ہمارے جو تعلقات اس وقت حکومت سے خراب ہیں ان میں ہمارے کسی رویہ یا تبدیلی کا دخل نہیں بلکہ گورنمنٹ کے تبدیل شدہ نقطہ نگاہ کا اس میں دخل ہے.ایسی حالت میں میں سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو ہمارے کسی راز کے

Page 464

خطبات محمود ۴۵۹ سال ۱۹۳۵ء چھپانے کی ضرورت نہیں.جب تک انسان کسی کو اپنا دوست سمجھتا ہے اُس وقت تک اگر کوئی راز اس کا معلوم ہو تو وہ اس کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ چھپاتا ہے اور کہتا ہے یہ میرا دوست ہے میں اس کا راز ظاہر کر کے کیوں اس سے اپنے تعلقات بگاڑوں لیکن گورنمنٹ کا موجودہ رویہ بتا رہا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دوستوں میں سے نہیں بلکہ مخالفوں میں سے سمجھتی ہے.ایسے موقع پر میں حکومت کو متواتر چیلنج دے چکا ہوں اور اب پھر چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ثابت کرے ہم نے کبھی اس سے کوئی ایسا فائدہ اُٹھایا ہو جو رعایا کے عام حقوق سے بالا ہو.اگر ہم نے اس کی خدمات کر کے کوئی دُنیوی فائدہ حاصل کیا ہو تو اب اس کا فرض ہے کہ وہ اسے دنیا کے سامنے پیش کر کے ہمیں لوگوں میں شرمندہ کرے ہم نے حکومت کی حمایت میں جانیں دیں، ہم نے حکومت کی تائید میں مال خرچ کیا اور ہم نے حکومت کی تائید میں اوقات صرف کئے ان تمام قربانیوں کے بدلے میں حکومت بتائے کہ اس نے ہمیں کبھی کوئی فائدہ پہنچایا ہو.آج تک حکومت کا کوئی ایک افسر بھی خواہ وہ سابق افسر ہو یا موجودہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ہم نے حکومت سے کوئی خاص فائدہ حاصل کیا.نہ بحیثیت قوم جو خدمات ہم نے کیں ان کا بحیثیت قوم کوئی بدلہ لیا اور نہ اپنے خاندان کی خدمت کا حکومت سے کوئی معاوضہ لیا بلکہ اپنے خاندان کے لحاظ سے تو میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اپنی خدمات کا بحیثیت فرد بھی ہم نے اس سے بدلہ نہیں لیا.دوسرے احمدی افراد میں سے اگر کسی نے حکومت کی خدمت کر کے بحیثیت فرد کوئی معاوضہ لیا ہو تو وہ اور بات ہے لیکن بحیثیت قوم ہم نے جو خدمت حکومت کی کی اس کے بدلہ میں بحیثیت قوم ہم نے کبھی اس سے بدلہ نہیں لیا اور اپنے خاندان کے متعلق تو اس شرط کو بھی میں اُڑا دیتا ہوں، گورنمنٹ بتائے کہ ہم نے کبھی ذاتی طور پر اس سے کوئی فائدہ اُٹھایا ہے ؟ لوگ ہمیں کہتے رہے کہ یہ گورنمنٹ کے خوشامدی ہیں ، لوگ ہمیں کہتے رہے کہ یہ گورنمنٹ سے نفعوں کی امید رکھتے ہیں ، لوگ ہمیں کہتے رہے کہ گورنمنٹ ان کے خزانے آپ بھرتی ہے ، مگر گورنمنٹ تو جانتی ہے کہ ہم نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا اور اگر اُٹھایا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ پیش کرے.ساری عمر میں صرف ایک کام حکومت نے ایسا ہمارے بعض آدمیوں کے سپر د کیا تھا جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ ہم اس میں دو ہزار روپیہ تک خرچ کر سکتے ہیں لیکن جب وہ معاملہ میرے پاس آیا تو میں نے روپیہ کے معاملہ کو نظر انداز کرا دیا.میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر یہ دو ہزار روپیہ لے لیا گیا تو گو یہ گورنمنٹ کا ہی کام ہے مگر بعد میں جب کبھی

Page 465

خطبات محمود ۴۶۰ سال ۱۹۳۵ء کوئی ذکر ہوا یہ دو ہزار روپیہ تمہارے منہ پر مارا جائے گا اور کہا جائے گا کہ انہوں نے حکومت سے اتنا وپیہ لے کر فلاں کام کیا.چنانچہ جو کام کرنے والے تھے انہیں میں نے حکومت سے کسی قسم کی مالی مدد لینے سے روک دیا.اس کے سوا کبھی گورنمنٹ کی طرف سے کوئی چیز پیش کرنے کی خواہش بھی نہیں کی گئی.صرف یہ ایک واقعہ ہے جو پنجاب گورنمنٹ کا بھی نہیں بلکہ حکومت ہند کا ہے.اس ایک معاملہ میں بھی ہم نے روپیہ لینے سے انکار کر دیا مگر مخالف کہتے ہیں احمدیوں کے خزانے گورنمنٹ بھرتی ہے اگر واقع میں یہ بات درست ہے تو اب گورنمنٹ کے لئے خوب اچھا موقع ہے وہ اعلان کر دے کہ فلاں موقع پر ہم نے احمدیوں کو اتنار و پید یا ، فلاں موقع پر اتنے ہزار اور فلاں موقع پر اتنے ہزار یا کسی اور رنگ میں گورنمنٹ نے مدد کی ہو تو اس کو ظاہر کر دے اگر واقع میں گورنمنٹ نے ہمیں کوئی فائدہ پہنچایا ہو تو وہ اسے چھپاتی کیوں ہے؟ اس کے مقابلہ میں باقی تمام قوموں میں سے ایسے لوگ ہیں جو گورنمنٹ سے قومی خدمات کا انفرادی بدلہ لیتے رہے ہیں.قربانیاں قوم سے کرائی جاتی رہیں اور ان کے لیڈ رحکومت سے بدلے اپنی ذات کے لئے لیتے رہے یہی حال احرار کا ہے وہ بھی ایسے لوگ ہیں جو ہر جگہ جلب منفعت کے اصول کو مد نظر رکھتے ہیں.پس گورنمنٹ نے اپنے اس رویہ سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کیا کہ اس نے سودا اس جماعت سے کیا ہے جو اس سے پہلے کئے کی قیمت وصول کرے گی اور پھر بھی گورنمنٹ کی خیر خواہ نہیں ہوگی اور اس نے اس جماعت کو ٹھکرایا ہے جس نے پچاس سال تک بغیر کسی نفع کے اس کی خدمت کی.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس میں ہمارا نہیں بلکہ گورنمنٹ کا اپنا نقصان ہے.پھر جانے دوان خدمات کو جو ہم نے حکومت کی ہندوستان میں کیں ، وہ خدمات لے لو جو حکومت برطانیہ کے باہر ہماری جماعت کرتی رہی ہے.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی وجہ کیا تھی.اس کے متعلق ہم نے مختلف افواہیں سنیں مگر کوئی یقینی اطلاع نہ ملی تھی.ایک عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً ایک لائبریری میں ایک کتاب ملی جو چھپ کر نایاب بھی ہو گئی تھی اس کتاب کا مصنف ایک اطالوی انجینئر ہے جو افغانستان میں ایک ذمہ وار عہدہ پر فائز تھا.وہ لکھتا ہے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اور حکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ اس سے افغانوں کا جذبہ حریت کمزور ہو جائے گا اور ان پر انگریزوں کا اقتدار چھا جائے گا پس ان

Page 466

خطبات محمود ۴۶۱ سال ۱۹۳۵ء شہدائے افغانستان کی شہادت اس وجہ سے ہوئی کہ وہ جہاد کی شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف جہاد بالسیف کے قائل نہیں تھے اور اس طرح حکومت افغانستان کو وہ اس حربہ سے محروم کرتے تھے جو ضرورت کے وقت اس کے بچاؤ کا موجب ہوسکتا تھا.اس کتاب کے دیکھنے کے بعد یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوگئی کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کا اصل باعث موجودہ حالات میں انگریزوں سے جہاد کے خلاف تعلیم دینا تھا.اس کتاب کے مصنف کی یہ بات اس لئے بھی یقینی ہے کہ وہ شاہ افغانستان کا درباری تھا اور اس لئے بھی کہ وہ اکثر باتیں خود وزراء اور شہزادوں سے سن کر لکھتا ہے ایسے معتبر راوی کی روایت سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے کہ اگر صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید خاموشی سے بیٹھے رہتے اور جہاد کے خلاف کوئی لفظ بھی نہ کہتے تو حکومت افغانستان کو انہیں شہید کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی.اس موقع سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا جوشِ دینی اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ اس تعلیم کے اخفاء کو برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ اس کا نتیجہ ان کے حق میں کیا نکلے گا.ورنہ مذہب ہمیں یہ کب تعلیم دیتا ہے کہ ہم جہاد کے متعلق ان لوگوں کے خیالات بھی درست کرتے پھریں جو ہمارے مذہب میں شامل نہیں.جو ہمارے مذہب میں داخل ہو گا آپ ہی آپ اس کے خیالات بھی درست ہو جائیں گے.کیا اسلام اس بات پر کوئی اعتراض کرے گا کہ ہم ہندوؤں کو نماز کیوں نہیں سکھاتے ؟ یا انہیں روزوں کے احکام کیوں نہیں بتاتے ؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ تفصیلات اسی وقت سکھائی جاتی ہیں جب کوئی انسان جماعت میں داخل ہو جائے پس اس تعلیم کے ماتحت اگر ہمارے آدمی افغانستان میں خاموش رہتے اور وہ جہاد کے باب میں جماعت احمدیہ کے مسلک کو بیان نہ کرتے تو شرعی طور پر ان پر کوئی اعتراض نہ تھا.مگر وہ اس بڑھے ہوئے جوش کا شکار ہو گئے جو انہیں حکومت برطانیہ کے متعلق تھا اور وہ اس ہمدردی کی وجہ سے مستحق سزا سمجھے گئے جو قادیان سے لے کر گئے تھے.جب انہوں نے قادیان میں آ کر دیکھا کہ جماعت احمدیہ سلطنت برطانیہ کی تعریف کرتی، اسے منصف قرار دیتی اور شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے اس کے خلاف جہاد کو نا جائز بجھتی ہے تو اپنے ملک میں جا کر وہ بھی انگریزوں کی تعریف کرنے لگ گئے اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جہاد جائز نہیں اس وجہ سے انہیں اپنی جان دینی پڑی ورنہ

Page 467

خطبات محمود ۴۶۲ سال ۱۹۳۵ء اگر وہ خاموش رہتے تو نہ انہیں جان دینی پڑتی اور نہ شرعی طور پر ان پر کوئی الزام عائد ہوسکتا لیکن اب جو موجودہ حالات پیدا ہو چکے ہیں ان کے ماتحت کون امید کر سکتا ہے کہ ہمارے آدمی آئندہ رستہ چھوڑ چھوڑ کر بھی حکومت کی مدد کریں گے.بے شک عقیدہ ہمارا یہی رہے گا کہ چونکہ موجودہ زمانہ میں شرائط نہیں پائی جاتیں اس لئے جہاد بھی جائز نہیں مگر یہ ہمدردی نہیں رہے گی کہ لوگوں کو جا جا کر ہم سمجھائیں کہ حکومت کے خلاف اپنے دلوں سے اس قسم کے خیالات نکال دو.آج بھی سب سے اہم اعتراض جو احرار کی طرف سے ہماری جماعت پر کیا جا تا ہے یہ ہے کہ جماعت احمد یہ جہاد کو حرام قرار دیتی ہے چنانچہ ڈاکٹر سر اقبال نے بھی یہی اعتراض کیا ہے کہ جماعت احمدیہ نے ملت اسلامیہ کی طاقت کو توڑ دیا ہے کیونکہ یہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتی ہے.وہ چونکہ شاعر ہیں اس لئے وہ اپنے خیالات کو اکثر شعروں میں ظاہر کرتے رہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنی ایک نظم میں بھی لکھا ہے کہ بہائی اور احمدی دونوں اسلام کے لئے مصیبت ہیں.بہائیوں نے حج منسوخ کر کے اسلام کو تباہ کر دیا اور احمدیوں نے جہاد منسوخ کر کے اسلام کو تباہ کر دیا.پس پنجاب گورنمنٹ کے نئے دوست ہم پر اس وجہ سے ناراض ہیں کہ ہم جہاد کے خلاف تعلیم دیتے ہیں اور بے شک ہم جہاد کے مخالف ہیں اور رہیں گے کیونکہ موجودہ زمانہ میں وہ شرائط مفقود ہیں جن کے ماتحت جہاد جائز ہوتا ہے لیکن گورنمنٹ کے موجودہ طریق عمل کے ماتحت آئندہ صرف یہی ہوگا کہ جو احمدی ہوگا اسے ہم بتادیں گے کہ جہاد کے متعلق فلاں فلاں شروط ہیں اور چونکہ اب وہ شرائط نہیں پائی جاتیں اس لئے جہاد جائز نہیں.یہ نہیں ہو گا کہ لوگوں کے ان خیالات کی ان کے گھر جا کر اصلاح کی جائے اور اس طرح گورنمنٹ بہت بڑے فائدہ سے محروم ہو گئی ہے.اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہمارے ہزاروں کی تعددا میں افراد ہیں.مثلاً دو غیر ملک تو ایسے ہیں جن میں خصوصیت سے ہماری جماعت پھیلی ہوئی ہے.ایک یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ جس میں ۲۵، ۳۰ کے قریب جماعتیں ہیں اور ان جماعتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں احمدی ہیں ، دوسرا ڈچ انڈیز یعنی سماٹرا اور جاوا، ان ممالک میں بھی ہزاروں احمدی ہیں بلکہ ڈچ انڈیز میں خصوصیت سے ایسے لوگ احمدی ہوئے ہیں جو پہلے بالشویک ازم کے پیرو تھے مگر اب احمدیت کے ذریعہ وہ اپنے پہلے خیالات سے تو بہ کر کے لوگوں کو امن پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت انہیں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتی

Page 468

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہے.اور چونکہ ہماری یہ تعلیم ہے کہ جو شخص جس حکومت کے ماتحت بھی رہتا ہو وہ اس کے قوانین کی اطاعت کرے، اس لئے اگر کسی وقت انگلستان اور امریکہ کی جنگ ہو جائے جو گو اخباری روایات کے مطابق ناممکن نظر آتی ہے مگر حقیقت ایسی ناممکن نہیں تو امریکہ کے احمدیوں کو ہماری تعلیم یہی ہوگی کہ امریکن حکومت کی امداد کریں اور انگلستان کے احمدیوں کو ہماری تعلیم یہ ہوگی کہ حکومت انگلستان کی امداد کریں.پس امریکہ کے احمدی حکومت امریکہ کی طرف سے اور انگلستان کے احمدی حکومت انگلستان کی طرف سے جنگ کریں گے.یہ نہیں ہوگا کہ ہم انہیں ملک سے غداری کی تعلیم دیں.اسی طرح اگر کبھی ہالینڈ اور انگلستان کی جنگ چھڑ جائے تو اس جنگ کے وقت بھی ہماری تعلیم یہی ہو گی کہ جولوگ انگریزوں کے ماتحت رہتے ہیں وہ انگریزوں کی امداد کریں اور جو حکومت ہالینڈ کے ماتحت رہتے ہوں وہ اپنی حکومت کی طرف سے لڑیں.ہم انگلستان کے احمدیوں کو حکومت انگلستان سے یا ہالینڈ کے احمدیوں کو حکومت ہالینڈ سے غداری کی تعلیم نہیں دیں گے.بے شک پہلے دونوں کی کوشش یہ ہوگی کہ جنگ نہ ہوا اور بجائے جنگ کے صلح و صفائی سے معاملات طے پا جائیں لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو تو جو احمدی جس ملک میں رہتا ہے وہ اس حکومت کے ساتھ وفاداری کرے گا مگر باوجود اس تعلیم کے کہ جس حکومت کے ماتحت کوئی شخص رہتا ہو وہ اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرے پھر بھی یہ قدرتی بات ہے کہ ہمارے وعظوں لیکچروں ، کتابوں ، اخباروں اور رسالوں میں چونکہ بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ انگریز عادل و منصف ہیں اور وہ اپنی رعایا کے تمام فرقوں سے حسن سلوک کرتے اور امن و امان قائم رکھتے ہیں اس لئے غیر ممالک کے احمدی بھی ہمارے لٹریچر سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ گو ہم انگریزوں کے ماتحت نہیں لیکن چونکہ ہمارا مرکز ان کی تعریف کرتا ہے اس لئے وہ بُرے نہیں بلکہ منصف مزاج حکمران ہیں.اس ذریعہ سے ہزاروں آدمی امریکہ میں، ہزاروں آدمی ڈچ انڈیز میں اور ہزاروں آدمی باقی غیر ممالک میں ایسے تھے جو گو اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار تھے مگر انگریزوں کے متعلق بھی کلمہ خیر کہا کرتے تھے.امریکہ جسے کسی وقت جرمن ایجنٹوں نے انگریزی گورنمنٹ کے خلاف کرنے کے لئے اپنی تمام کوششیں صرف کر دی تھیں وہاں احمدی ہی تھے جو اپنی جماعت کا لٹریچر پڑھنے سے جس میں انگریزوں کی تعریف ہوتی آپ ہی آپ ان خیالات کا ازالہ کرتے تھے.اسی طرح ڈچ انڈیز جاپان کے قرب کی وجہ سے جسے اس وقت ایشیائی آزادی کا خیال گد گدا رہا ہے اور اس میں

Page 469

خطبات محمود ۴۶۴ سال ۱۹۳۵ء صرف برطانوی حکومت کو وہ حائل سمجھتا ہے ، وہاں بھی انگریزوں کے خلاف جب اس قسم کی کوئی تحریک اٹھتی ہے تو وہاں کے رہنے والے احمدی جہاں ڈچ حکومت کی وفاداری کی تعلیم دیتے وہاں کہتے کہ انگریزوں کو بھی بُرا نہ کہو وہ بھی نیک مزاج اور انصاف پسند ہیں لیکن اب ان واقعات کے بعد ان پر کیا اثر ہو گا.انگریز افسر انگلستان جا جا کر ہندوستانیوں کی وفاداری کے بارہ میں یہ رائے ظاہر کیا کرتے ہیں کہ ہندوستان میں کروڑوں آدمی گونگے ہیں ان کی ہم ترجمانی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہ انگریزی حکومت کے مداح ہیں مگر انہیں اپنے خیالات کے ظاہر کرنے کی توفیق نہیں مگر حقیقت یہ نہیں کہ وہ لوگ بیان کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شک عوام سمجھتے ہیں کہ انگریزوں میں خوبیاں ہیں مگر وہ ان خوبیوں کے اتنے قائل نہیں جتنے احمدی قائل تھے اس لئے وہ دل میں سمجھتے ہیں کہ انگریز اچھے ہیں مگر ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں زبان سے اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے.ہم اس طرح کیوں اپنے دوسرے بھائیوں کو جو انگریزوں کے برخلاف ہیں مخالف بنالیں.پس وہ اس لئے گونگے نہیں کہ انہیں بولنا نہیں آتا بلکہ اس لئے گونگے ہیں کہ انگریزی حکومت کی حفاظت کے لئے وہ اتنی دلچسپی نہیں رکھتے جتنی دلچسپی احمدی رکھتے تھے.یہی حال قدرتی طور پر آئندہ ہماری جماعت کے ان ہزار ہا آدمیوں کا ہوگا جو غیر ممالک میں رہتے ہیں پہلے وہ ایک جوش کے ماتحت ہر ایسے موقع پر کھڑے ہو جاتے تھے جبکہ کوئی انگریزوں کی بُرائی بیان کر رہا ہو لیکن اب باوجود اس کے کہ میں ان کے مشتعل شدہ جذبات کو ٹھنڈا کر رہا ہوں پھر بھی پہلا سا جوش ان میں کہاں باقی رہ سکتا ہے اور کب وہ اپنے ملک میں رہ کر انگریزوں کے خلاف تحریکات کا مقابلہ کر سکتے ہیں.وہ کہیں گے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ لوگوں سے انگریزوں کے لئے لڑتے پھریں جبکہ ہماری جماعت پر انگریزوں کی حکومت کے ماتحت مظالم ہورہے ہیں اور حکومت انہیں دور کرنے کا انتظام نہیں کرتی.یہ تفصیلات سمجھنی لوگوں کے لئے بہت مشکل ہوتی ہیں کہ ایک بڑے افسر ہوتے ہیں اور ایک چھوٹے افسر ہوتے ہیں.چھوٹے افسر غلط رپورٹیں کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے بڑے افسر صحیح واقعات معلوم نہیں کر سکتے اور اس وجہ سے مظلوم کی دادرسی کرنے سے قاصر رہتے ہیں.مثلاً اپنی جماعت میں ہی میں دیکھتا ہوں جب بعض ما تحت کسی ناظر وغیرہ کے خلاف میرے پاس شکایت کرتے

Page 470

خطبات محمود ۴۶۵ سال ۱۹۳۵ء ہیں تو بعض دفعہ ان کی شکایت کو میں اپنی معلومات کی بناء پر غلط سمجھتا ہوں یا مجھے معلومات نہیں ہوتیں اور میں تحقیقات کر کے شکایت کو غلط پاتا ہوں.پھر چونکہ میں بھی انسان ہوں اس لئے کئی دفعہ ایسا بھی ہوسکتا ہو کہ کسی ناظر کی واقع میں غلطی ہومگر میں اسے باوجود کوشش کے معلوم نہ کر سکوں ایسے مواقع پر وہ لوگ جوز یادہ مخلص ہوں گے، وہ تو کہہ دیں گے ناظر کی غلطی نہیں تھی ہماری ی غلطی تھی اور کی جو خلاص کے اس اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے وہ کہہ دیں گے کہ غلطی تو ہماری نہیں مگر خلیفتہ امیج نے اپنی طرف سے ناظر کی غلطی معلوم کرنے کی پوری کوشش کی ، اگر کسی وجہ سے معلوم نہیں ہو سکی تو خیر معاملہ خدا کے سپرد ہے اور کئی لوگ جو اپنے اخلاص کو کھو بیٹھتے ہیں وہ ایسے موقع پر کہہ دیتے ہیں کہ ناظر اپنا آدمی تھا اس لئے اس کی بیچ سے کر رہے ہیں.پس بعینہ یہی حالت اگر حکومت کی بھی ہو تب بھی جو بیرونی ممالک میں رہنے والے ہیں انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ کہیں انگریزوں نے تو حالات کو سمجھنے کی پوری کوشش کی تھی مگر وہ انہیں سمجھ نہ سکے.غیر حکومتوں کے باشندے اور غیر قوموں کے افراد بھلا اتنی ہمدردی انگریزی قوم سے کہاں رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس کی غلطیوں کی بھی تاویل کریں اور انہیں بھی حُسن ظن سے دیکھیں وہ تو اس آواز کی گونج سے متاثر ہوا کرتے تھے جو قادیان سے اٹھتی اور دنیا کے تمام ممالک میں پھیل جایا کرتی تھی اور ان کی زبانیں طوطے کی طرح وہی رہنا شروع کر دیتی تھیں جو ہم کہتے لیکن اب ہزار ہا غیر ممالک کے احمدی ان واقعات سے متاثر ہو کر انگریزی قوم کی حمایت کے لئے کب وہ قدرتی جوش رکھ سکتے ہیں جو اس سے پہلے ان میں پیدا تھا اور یہ نقصان اس قدر بڑا ہے کہ جب حکومت اسے محسوس کرے گی تو وہ ان افسروں پر لعنت کرے گی جنہوں نے اسے یہ نقصان پہنچایا.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ ہم پر اس واقعہ کا کیا اثر ہوا ہے.پہلا اثر جو مجھ پر ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر مخلص احمدی اپنے اندر اس اثر کو محسوس کرتا ہوگا یہ ہے کہ ہم اپنے نفوس میں ایک نئی زندگی اور نیا تغیر محسوس کرتے ہیں.میری صحت ہمیشہ سے خراب رہی ہے.اس صحت کی خرابی کی وجہ سے میری طبیعت پر ہمیشہ ایک بوجھ رہتا ہے اور اگر ذراسی بھی کوئی نئی بیماری آ جائے تو وہ اس پر انی بیماری کو اُبھار دیتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ ان فتن کی وجہ سے کام بہت زیادہ ہو گیا ،سوائے آنکھوں کی تکلیف کے کہ میں متواتر دیکھ رہا ہوں میری آنکھیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں، عام صحت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے میں ایسی تبدیلی دیکھتا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس فتنہ کا ہر ظہور میرے لئے دوا کا کام

Page 471

خطبات محمود ۴۶۶ سال ۱۹۳۵ء.دے رہا ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہر فتنہ کی موجودگی میں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے جسم میں ایک نئی طاقت ، نئی ہمت، نیا ولولہ اور نیا جوش داخل کر دیا جاتا ہے اور اب موجودہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے اندر اتنی ہمت پیدا کر دی ہے کہ میں آج کل اپنے آپ کو کئی سال پہلے سے بہت زیادہ مضبوط جوان محسوس کرتا ہوں.بیماریاں وہی ہیں جو پہلے تھیں مگر میرے ارادہ اور میری ہمت اور میرے عزم میں اتنا عظیم الشان تغیر ہو گیا ہے کہ میں اسے الہی فیضان سمجھتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر مخلص احمدی کی یہی حالت ہو گی.کئی بڑھے جو اپنے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ اب ان کی موت کا وقت قریب ہے اور اب وہ کیا کام کر سکتے ہیں وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم جوان ہیں اور ہم نے ابھی دنیا میں بہت بڑا کام کرنا ہے.یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ان متواتر حادثات کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوا.اس میں شبہ نہیں کہ جسمانی طور پر انسان عمر کے زیادہ ہو جانے سے کمزور ہو جاتا ہے مگر انسان کی عمر وہ نہیں جو اسے پچاس، ساٹھ یا سو سال حاصل ہوئی بلکہ اگر ایک فتنہ ہم میں نئی ہمت اور نئی روح پیدا کر دیتا اور ہمارے کاموں میں برکت رکھ دیتا ہے اور جو کام بھی ہم کرتے ہیں اس کے نتائج نہایت شاندار نکلتے ہیں تو سوال یہ نہیں کہ ہم پچاس سال جیئے یا ساٹھ سال یا سو سال زندہ رہے بلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ اس کام نے ہماری حقیقی زندگی بڑھا دی.عمران سالوں کا نام نہیں جنہیں انسان رائیگاں کھو دیتا ہے بلکہ عمر وہ ہے جسے انسان کسی مفید کام میں لگا تا اور لوگوں کے لئے اپنے آپ کو نفع رساں بناتا ہے.اگر ہماری پچاس سالہ زندگی میں وہ کام ہو جائے جو کوئی دوسرا دو ہزار سال میں کرے تو حقیقت ہماری عمر دو ہزارسال ہوگی نہ کہ پچاس سال.پس میں سمجھتا ہوں کہ ان فتن کی وجہ سے ہماری جماعت کے ہزار ہا افراد کے قلوب میں نئی ہمت، نیا ولولہ اور نئی اُمنگیں اور نیا جوش پیدا ہو گیا ہے اور اس طرح اخلاقی اور روحانی لحاظ سے ہماری جماعت کے پہلے سے کئی گنے زیادہ افراد ہو گئے ہیں.اگر ایک شخص اپنے اندر تین آدمیوں کی طاقت محسوس کرتا ہے تو وہ ایک نہیں رہا بلکہ تین ہو گئے.اور اگر کوئی شخص اپنے اندر دس آدمیوں کی طاقت محسوس کرتا ہے تو وہ ایک نہیں رہا بلکہ دس ہو گئے اور اگر کوئی اپنے اندر سو آدمیوں کی طاقت محسوس کرتا ہے تو وہ ایک نہیں رہا بلکہ سو ہو گئے.اور اس طرح ہماری جماعت اخلاقی لحاظ سے پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے.پھر دینی رنگ میں کوئی بتائے کہ کیا ان مشکلات کی وجہ سے ہماری حوصلہ شکنی

Page 472

خطبات محمود ۴۶۷ سال ۱۹۳۵ء ہوئی ؟ دشمن نے زور لگایا اور انتہاء درجہ کا لگایا، دانستہ یا نادانستہ طور پر بعض حکام بھی ان کے ساتھ مل گئے مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ اسلام تو ایسے محفوظ اصول پر قائم ہے کہ جو شخص اس کی تعلیموں پر عمل کرے اسے نقصان پہنچ ہی نہیں سکتا.مذہبی اور روحانی لحاظ سے نقصان کو الگ رکھو جسمانی اور مادی نقطہ ء نگاہ سے بھی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے محفوظ ہو جاتے ہیں.جب مؤمن کا اصول یہ ہے کہ بلا وجہ اس نے کسی کو نقصان نہیں پہنچا نا تو کوئی دوسرا کس حد تک اسے نقصان پہنچا سکتا ہے.مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زبان کو ایسے طور پر بند رکھے کہ ناجائز طور پر اسے کھلنے نہ دے مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو ایسے طور پر بند رکھے کہ ناجائز طور پر انہیں کام نہ کرنے دے، مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پاؤں کو ایسے طور پر بند رکھے کہ ناجائز طور پر انہیں چلنے نہ دے، مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو ایسے طور پر بند رکھے کہ ناجائز طور پر انہیں دیکھنے نہ دے ، مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کانوں کو ایسے طور پر بند رکھے کہ انہیں ناجائز طور پر سننے نہ دے، اسی طرح مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملمس کو ایسے طور پر بند رکھے کہ نا جائز طور پر اسے چھونے نہ دے اور مؤمن کا فرض مقرر کیا گیا ہے دوسرے رنگ میں زبان کے متعلق کہ ناجائز طور پر اسے چکھنے نہ دے.پس جب ایک مؤمن خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اپنی تمام طاقتوں کو لوگوں کو نقصان پہنچانے سے بچاتا ہے تو ایسے شخص کوکوئی کہاں تک نقصان پہنچا سکتا ہے.دنیا ظلم کرنے بھی لگے تو ایک قدم چلے گی ، دو قدم چلے گی ، تین قدم چلے گی ، چار قدم چلے گی، آخر شریف النفس لوگ اس ظلم کو برداشت نہ کر سکیں گے اور کہیں گے کہ کیوں ایک طرف سے ظلم پر ظلم ہو رہا ہے اور دوسری طرف سے خاموشی پر خاموشی ہے.پس پہلا فائدہ ان فتن سے یہ پہنچا ہے کہ ہر احمدی حسب مراتب اپنی ذات میں نئی ہمت اور نئی اُمنگ پاتا ہے اور دین کی خدمت کے لئے وہ پہلے سے بہت زیادہ جوش اور بہت زیادہ تڑپ اپنے اندر رکھتا ہے.دوسرا فائدہ ان حادثات کا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے اخلاق کے دکھانے کے ایسے مواقع میسر آئے ہیں جو پہلے میسر نہیں تھے.لوگ ہمارے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ یہ گورنمنٹ کے کھونٹے پر ناچ رہے ہیں ہماری تمام بہادریاں اور ہماری تمام جراتیں اس ایک بات سے ضائع ہو جاتی تھیں کہ

Page 473

خطبات محمود ۴۶۸ سال ۱۹۳۵ء گورنمنٹ ان کی طرفدار ہے.آج خدا تعالیٰ نے وہ کھونٹا بھی توڑ دیا ہے تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ احمدی حکومت کے کھونٹے پر ناچ رہے تھے.اب جو ہم اخلاق دکھاتے ہیں وہ اسی قوت کے ماتحت دکھلاتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر پیدا کی ہے ، کسی حکومت کے بل بوتے پر نہیں دکھاتے.اس سے پہلے اس قسم کے اخلاق دکھانے کے مواقع ہمیں کہاں حاصل تھے.پھر پہلے ہماری جماعت پر انفرادی طور پر ظلم ہوتے تھے مگر اب صحیح یا غلط طور پر ایک قوم جو قانون شکنی کی عادی ہے اس کا خیال ہے کہ حکومت کے بعض افسر بھی اس کے ساتھ ہیں اور وہ جو بھی ظلم کرے کر سکتی ہے اور پکڑی نہیں جا سکتی.میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ اس قوم کا یہ خیال درست ہے یا غلط.چاہے یہ درست ہو چاہے غلط یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی ذہنیت کے ماتحت وہ قوم جو ظلم بھی کرے گی وہ انتہاء درجہ کا ہو گا.پہلے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ احمدیوں کے ساتھ ہے اس خیال کی وجہ سے کئی لوگ ہم پر ظلم کرنے سے ڑکے ہوئے تھے اور یہ صورت حالات اتنی واضح تھی کہ حکومت پنجاب کے ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے افسر نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے جب کہ وہ ابھی حکومت ہند میں نہیں گئے تھے کہا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ حکومت آپ کی حمایت یا کسی قسم کی رعایت کرنے کے لئے تیار نہیں تو آپ کو اس سے کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے.گویا یہ ایک تسلیم شدہ بات تھی کہ کئی مظالم اس لئے جماعت احمدیہ پرڑ کے ہوئے تھے کہ لوگوں کو یہ وہم تھا کہ گورنمنٹ احمدیوں کے ساتھ ہے مگر اب چونکہ ان کا یہ وہم بھی جاتا رہا ہے اس لئے وہ ظلم ہم پر کئے جانے لگے ہیں جو پہلے ہم پر نہیں کئے جاتے تھے مگر اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر بھی وہ صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کر دیا ہے کہ ہم بخوشی ان مظالم کو سہنے لگ گئے ہیں.اگر یہ مظالم ہماری جماعت پر نہ ہوتے تو لوگ کہتے اگر احمدیوں پر زیادہ ظلم ہوتا تو شاید اسے برداشت نہ کر سکتے مگر اب جس طرح اندھا دھند احرار ہم پر حملے کر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارا صبر کمزور سا صبر ہے.واقعات سے صاف ثابت ہے کہ ایک قوم حکومت سے نڈر ہو کر ہم پرحملہ کرتی ہے مگر ہم اس کے مظالم برداشت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.تیسرا فائدہ ان حادثات سے ہمیں یہ پہنچا ہے کہ ہمیں اپنی جماعت کی نئی تربیت کا موقع ملا ہے پہلے چونکہ ہماری جماعت پر اس رنگ میں مظالم نہیں ہوتے تھے اس لئے ہماری قربانیاں بھی محدود اثر رکھتی تھیں.کسی نے کسی احمدی کو ایک جگہ مارا پیٹا کسی دوسرے نے کسی احمدی پر مقدمہ کر دیا، یہ

Page 474

خطبات محمود ۴۶۹ سال ۱۹۳۵ء انفرادی حملے تھے جو جماعت کے افراد پر کئے جاتے تھے مگر آج کا حملہ قومی حملہ ہے اور قوم کو بچانے کے لئے چونکہ نئی نئی تدابیر اور نئے نئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ نئی نئی سکیمیں اور جماعت کی ترقی کے لئے نئی سے نئی تدبیریں بتائیں جو پہلے ہمیں معلوم نہیں تھیں یا معلوم تو تھیں مگر جماعت کی حالت ان کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھی.پھر ان مظالم کے نتیجہ میں آپ ہی آپ لوگوں کی تربیت ہوتی جا رہی ہے.اب ہر شخص خود بخود یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ قومی حملہ کے مقابلہ میں قومی دفاع کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اس قسم کے قومی حملوں کے دفاع میں کانگرس ہم سے زیادہ واقف تھی مگر اب ہماری جماعت بھی اس طریق کار سے واقف ہوتی جاتی ہے اور اپنی ذمہ داری کا زبردست احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے.یہاں دفعہ ۱۴۴ نافذ کی گئی اور ہم چونکہ قانون کی باریکیوں سے واقف نہیں اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ حکام بعض دفعہ زبردستی بھی ایک دفعہ کا نفاذ کر دیا کرتے ہیں اس لئے جب انہوں نے دفعہ ۱۴۴ لگائی تو ہم نے دل میں کہا گورنمنٹ نے جو کچھ کیا ہو گا اپنے حالات کے ماتحت درست کیا ہو گا مگر ان فتن کی وجہ سے ہماری جماعت میں جو قومی روح پیدا ہو چکی تھی اس کے ماتحت لاہور میں بیٹھے اور قانون کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہمارے عزیز شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو ایک بات سُوجھی اور انہوں نے سمجھا کہ گورنمنٹ نے بے جا طور پر اس دفعہ کا ہم پر اطلاق کیا ہے.چنانچہ وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس دفعہ کو تڑوا سکتے ہیں.میرے ذہن میں فلاں بات آئی ہے.میں نے کہا کہ ہمیں تو اس کا علم نہیں تھا.آپ کوشش کریں چنانچہ انہوں نے کوشش کی اور وہ دفعہ اڑ گئی.گو مدت کے گزرجانے کی وجہ سے قانونی طور پر اُڑی مگر بہر حال اُڑی.اسی طرح ہزاروں احمدیوں کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ سلسلہ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.غرض یہ تربیت اور تنظیم جو اب ہماری جماعت کی ہو رہی ہے وہ اس سے پہلے نہیں تھی.چوتھی بات جو میرے لئے نہایت ہی اہم ہے اور جسے ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جس میں آزادی کی روح پیدا ہو چکی ہے اور جو اپنی آزادی کے راستہ میں سب سے زیادہ مُسجل انگریزوں کو سمجھتا ہے تم مت خیال کرو کہ اخبارات میں یہ نکلتا رہتا ہے کہ ترکی کی حکومت انگریزوں کی خیر خواہ ہے یا افغانی حکومت کے انگریزوں سے دوستانہ

Page 475

خطبات محمود ۴۷۰ سال ۱۹۳۵ء تعلقات ہیں ، یا جاپانی یا چینی حکومت انگریزوں سے دوستی رکھتی ہے، ان اخباری اعلانات سے دھوکا مت کھاؤ.ہم اپنی رپورٹوں سے جانتے ہیں کہ بیشتر حصہ تعلیم یافتہ طبقہ کا ایسا ہے جو خواہ ایران کا ہو، خواہ عرب کا ہو، خواہ جاپان کا ہو، خواہ ترکستان کا انگریزی حکومت کا خطرناک دشمن ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ انگریزی حکومت نے ہی اس کی آزادی کے راستہ میں روک ڈالی ہوئی ہے.جاپان کا تعلیم یافتہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر انگریز نہ ہوتے تو سارے ایشیا پر ہم حاکم ہوتے ، چین کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کئی حکومتیں جو جاپان کے مقابلہ میں ہماری مدد کے لئے تیار ہو سکتی تھیں محض انگریزوں کی وجہ سے مدد کرنے سے رُکی ہوئی ہیں، افغانستان کے اندرونی حالات اور انگریزوں کے متعلق ان کی رائے کا پتہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے واقعہ سے لگ سکتا ہے ، یہی حال ایران اور عرب کا ہے.ایسی حالت میں جب لوگوں پر یہ اثر تھا کہ احمدی انگریزی قوم کے ایجنٹ ہیں تو تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت ہماری باتیں سننے کے لئے تیار نہیں تھی.وہ سمجھتے تھے کہ گو یہ مذہب کے نام سے تبلیغ کرتے ہیں مگر دراصل انگریزوں کے ایجنٹ ہیں.یہ اثر اتنا وسیع تھا کہ جرمنی میں جب ہماری مسجد بنی تو وہاں کی وزارت کا ایک افسر اعلیٰ بھی ہماری مسجد میں آیا یا اس نے آنے کی اطلاع دی ، اُس وقت مصریوں اور ہندوستانیوں نے مل کر جرمنی حکومت سے شکایت کی کہ احمدی ، حکومت انگریزی کے ایجنٹ ہیں اور یہ یہاں اس لئے آئے ہیں کہ انگریزوں کی بنیاد مضبوط کریں.ایسے لوگوں کی ایک تقریب میں ایک وزیر کا شامل ہو نا تعجب انگیز ہے.اس شکایت کا اتنا اثر پڑا کہ جرمنی حکومت نے اُس وزیر سے جواب طلبی کی کہ احمدی جماعت کے کام میں تم نے کیوں حصہ لیا.پھر یہ خیال کہ جماعت احمد یہ انگریزوں کی ایجنٹ ہے لوگوں کے دلوں میں اسقدر راسخ تھا کہ بعض بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نے مجھ سے سوال کیا کہ ہم علیحدگی میں آپ سے پوچھتے ہیں کیا یہ صحیح ہے کہ آپ کا انگریزی حکومت سے اس قسم کا تعلق ہے.ڈاکٹر سید محمود جو اس وقت کانگرس کے سیکرٹری ہیں ، ایک دفعہ قادیان آئے اور انہوں نے بتایا کہ پنڈت جواہر لعل صاحب نہر وجب یورپ کے سفر سے واپس آئے تو انہوں نے سٹیشن پر اُتر کر جو باتیں سب سے پہلے کیں ان میں سے یہ ایک تھی کہ میں نے اس سفر یورپ سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اگر انگریزی حکومت کو ہم کمزور کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے احمد یہ جماعت کو کمزور کیا جائے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص کا یہ خیال تھا کہ احمدی جماعت انگریزوں کی نمائندہ اور

Page 476

خطبات محمود ۴۷۱ سال ۱۹۳۵ء ان کی ایجنٹ ہے.جب تمام لوگ اپنے دلوں میں یہ خیال رکھتے ہوں تو تعلیمیافتہ طبقہ اگر ہمارے سلسلہ کی طرف توجہ نہ کرتا تو اس میں وہ ایک حد تک معذور تھا لیکن اب ان واقعات نے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں اور انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ نہیں.ابھی تھوڑے دنوں کی بات ہے ہندوستان کی ایک سیاسی انجمن کے ایک ذمہ دار شخص نے ہمارے ایک دوست سے کہا کہ ہماری آنکھیں تو اب کھلی ہیں.ہم ہمیشہ سمجھتے تھے کہ آپ کی جماعت انگریزوں کی ایجنٹ ہے مگر اب پتہ لگا کہ یہ بات غلط ہے تو اس تبدیلی سے ہمیں کتنا بڑا فائدہ ہو ا در حقیقت اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ایک رستہ کو بند کرتا ہے تو دوسرا رستہ کھول دیتا ہے.جس شخص کی ایک آنکھ بیٹھ جائے اس کی دوسری آنکھ بہت زیادہ تیز ہو جاتی ہے، جو ایک کان سے بہرہ ہو جائے اس کا دوسرا کان بہت جلدی باتیں سن لیتا ہے ، اسی طرح ہمارے ساتھ ہوا.جب یہ خیال دُور ہوا کہ ہم انگریزی گورنمنٹ کی حمایت کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دوسری طرف کی حمایت پیدا کر دی.بہر حال دنیا کا تعلیم یافتہ طبقہ ہمارے بہت زیادہ قریب ہو گیا ہے اور اب وہ ہماری باتیں زیادہ تو جہ اور غور سے سن سکے گا.غرض اس الزام کے دور ہو جانے کی وجہ سے غیر ممالک میں ہماری تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ آسان ہو جائیگی.عرب میں ، مصر میں ، چین میں ، جاپان میں بلکہ خود ہندوستان میں بھی ہماری تبلیغ آسان ہو جائے گی کیونکہ ہندوستان میں بھی زیادہ تعلیمیافتہ طبقہ ایسا ہے جو کسی ایسی جماعت سے تعلق رکھنے کے لئے تیار نہیں جس کے متعلق اسے یہ احساس ہو کہ وہ گورنمنٹ کی ایجنٹ ہے.پھر ہمارا مذ ہب چونکہ یہ ہے کہ حکومت کی فرمانبرداری کی جائے اور اس کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے مگر اس میں انگریزوں کی شرط نہیں.اگر کوئی ڈچ گورنمنٹ کے ماتحت رہتا ہو تو اس کا فرض ہے کہ ڈچ گورنمنٹ کی اطاعت کرے اور اگر کوئی چین، جاپان یا افغانستان میں رہتا ہو تو اس کا فرض ہے چینی ، جاپانی یا افغانی حکومت کی اطاعت کرے اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا احمدیوں نے تو انگریزوں سے اپنے تعلقات بگاڑنے نہیں ، آؤ اس الزام کے دور کرنے کے لئے کہ جماعت احمد یہ حکومتِ انگریزی کی ایجنٹ ہے حکومت انگریزی کے بعض افسروں کے دل میں تحریک پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ آپ احمدیوں سے بگاڑ لیں جیسے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوا.آپ کی بھی یہی تعلیم تھی کہ جس کے ماتحت رہو اُس کی اطاعت کرو.تیرہ سال آپ مکہ معظمہ میں رہے اور آپ نے صبر و برداشت

Page 477

خطبات محمود ۴۷۲ سال ۱۹۳۵ء سے کام لیا.اس کے بعد خدا تعالیٰ آپ کو مدینہ لے گیا اور وہاں اجازت دی گئی کہ اگر دشمن تلوار سے حملہ کرتا ہے تو تلوار سے اس حملہ کا دفاع کیا جائے مگر اس حکم کے باوجود رسول کریم ﷺ نے پھر بھی دشمن پر حملہ کرنے میں ابتداء نہ کی بلکہ اس انتظار میں رہے کہ دشمن حملہ کرے تو آپ اس کا جواب دیں.اور اگر یہی صورت حالات رہتی کہ دشمن حملہ نہ کرتا تو رسول کریم ﷺ جنگ نہ کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم نے چونکہ مسلمانوں کو ابتدأ حملہ کرنے سے روکا ہوا ہے ، اس لئے وہ تو حملہ نہیں کریں گے آؤ ہم مکہ والوں کو لڑائی پر اکساتے ہیں.چنانچہ مکہ والوں کو بیٹھے بٹھائے جنون گو دا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تب مسلمانوں کو بھی جنگ کرنی پڑی.غرض بعض حکام کے موجودہ رویہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ہم حکومت انگریزی کے ایجنٹ نہیں.اگر گورنمنٹ کے ہم ایجنٹ ہوتے تو کیا حکومت کا ہم سے وہی سلوک ہوتا جو اب ہو رہا ہے؟ پس یہ بھی ایک فائدہ ہے جو اس فتنہ کی وجہ سے ہمیں پہنچا.مذہب کی ہدایت کے ماتحت چونکہ ہم نے خود حکومت سے بگاڑ پیدا نہیں کرنا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے خود ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ہم اس الزام سے بری ہو گئے اور تبلیغ کا نیا رستہ ہمارے لئے کھل گیا.یہ وہ اثرات ہیں جو ہماری جماعت پر موجودہ فتن کے ہوئے ہیں.مگر یاد رکھو تمام تاثرات اور تاثیرات بے فائدہ ہوتی ہیں جب تک وہ جماعت جس کے لئے وہ تأثرات و تاثیرات پیدا کی جاتی ہیں اپنے عمل سے یہ ثابت نہ کر دے کہ وہ ایک بڑھنے والی قوم ہے اور کوئی روک اس کے مقصد کے حصول سے اسے نہیں ہٹا سکتی.میں جب میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کے واقعہ کو دیکھتا ہوں اور پھر لوگوں کے خطوط پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت اور جنسی آتی ہے.ایک طرف میں اپنی جماعت کو بار بار یہ نصیحت کرتا ہوں کہ قانون شکنی نہ کرو، قانون شکنی نہ کرو اور دوسری طرف لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ آپ ہمیں اجازت دے دیں ، پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے؟ کیسی بے وقوفی کی بات ہے جس بات کو میں مذہباً جائز ہی نہیں سمجھتا اس کے جواز کی مجھ سے خواہش کرنی کیا اس سے زیادہ بے وقوفی کی بات اور اس سے زیادہ عبث اور بیہودہ فعل بھی کوئی ہو سکتا ہے ؟ مذہب کو جانے دو اگر صرف قانون کا ہی سوال ہو تو کیا جسے اشتعال آیا کرتا ہے وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ مجھے اجازت دی جائے اور پوچھا کرتا ہے کہ اب میں کیا کروں.بھلا دنیا میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ کسی کو اشتعال آیا ہوا ور وہ لوگوں سے مشورہ

Page 478

خطبات محمود ۴۷۳ سال ۱۹۳۵ء لینے کے لئے چلا گیا ہو.غرض مذہبی لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے اور قانونی لحاظ سے یہ بات بالکل بیہودہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا خیال محض ایک بیچارگی کے احساس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ اگر وہ عقل سے کام لیں اور سمجھیں کہ وہ بے چارے نہیں بلکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی ہزاروں حل ان کی مشکل کے موجود ہیں تو اس قسم کے خیال ان کے دلوں میں کبھی پیدا نہ ہوں.میں نے ایک پہلے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اُٹھتا ہے اور اپنے مخالفوں میں سے ایک کو مار دیتا ہے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا ، کچھ بھی نہیں.ایسے کام انسان اُسی وقت کرتا ہے جب عقل بے چارگی کے احساس سے ماری جاتی ہے مگر جب وہ سمجھے کہ میں مشکل سے مشکل کام کر سکتا ہوں اور بغیر قانون شکنی کئے کر سکتا ہوں تو اُس وقت یہ خیالات اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتے اسی لئے میں نے اپنی جماعت کے ایک حصہ کو اجازت دی تھی کہ ان میں سے وہ لوگ جو آزاد ہیں اور حکومت کے ملازم نہیں ، اپنے اپنے مقام پر نیشنل لیگ بنالیں اور جماعت کی حرمت کے تحفظ کے لئے کام کریں.مگر جہاں ہزاروں کی تعداد میں مجھے خطوط آئے ہیں بلکہ جماعتوں اور افراد کے خطوط ملا کر میں سمجھتا ہوں پچاس ساٹھ ہزار نفوس کی طرف سے عزیزم مرزا شریف احمد صاحب پر ایک احراری کے حملہ کے سلسلہ میں خطوط آئے ہیں وہاں میں پوچھتا ہوں ان میں سے کتنے ہیں جو نیشنل لیگ کے ممبر بنے ؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ میری طرف غصہ اور جوش سے بھرے ہوئے خطوط لکھ دینے سے ان کے ایمان کا امتحان ہو جائے گا.اگر واقع میں تمہارے اندر ایمان ہوتا اور ان واقعات کے نتیجہ میں تمہارے دلوں میں عارضی جوش نہیں بلکہ حقیقی غیرت پیدا ہوئی ہوتی تو بجائے اس رنگ میں جوش کا اظہار کرنے کے تمہیں چاہئے تھا کہ تم نیشنل لیگ کے ممبر بنتے اور اس کو مضبوط بناتے.مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے نیشنل لیگ کی ممبری اس وقت دواڑھائی ہزار سے زیادہ نہیں حالانکہ اگر اپنے فرائض کا احساس ہوتا اور باقاعدہ جد و جہد کی جاتی تو نیشنل لیگ کے اڑھائی تین ہزار ممبر صرف ضلع گورداسپور سے ہو سکتے تھے.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ زبانی دعووں سے نہ خدا خوش ہو سکتا ہے نہ میں خوش ہوسکتا ہوں اور نہ دنیا کا کوئی عقلمند خوش ہو سکتا ہے.تم اپنی کتنی ہی غصے والی شکل بنا ؤ، تم فرط غیظ و غضب سے کس قدر کا مینے لگ جاؤ ، تم کتنے ہی جوش میں مجھے ایک چٹھی لکھ دو تم کتنے ہی زور دار الفاظ میں اخبار میں ایک ریزولیوشن شائع کرا دو ، ان تمام باتوں کا کیا فائدہ ہوگا اور کون اس سے متاثر ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود

Page 479

خطبات محمود ۴۷۴ سال ۱۹۳۵ء علیہ الصلوۃ والسلام ایک مثل سنایا کرتے تھے کہ کوئی امیر آدمی تھا جس کے مطبخ میں سے کتے بہت سی چیزیں کھا جایا کرتے تھے.جب اس کے باورچی خانہ کا خرچ بہت بڑھ گیا کیونکہ بہت سی چیزیں تو کتے کھا جاتے اور بہت سی چیزیں ان کے منہ ڈالنے کی وجہ سے بیکار ہو جاتیں تو اُس نے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کی اور جب اسے معلوم ہوا کہ باورچی خانہ کا دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے کتنے اندر داخل ہو جاتے ہیں تو اُس نے حکم دیا کہ باورچی خانہ کو دروازہ لگا دیا جائے تا کہ کتے اندر داخل نہ ہو سکیں.جب دروازہ لگ گیا تو سارے کتنے مل کر رونے لگے کہ اب تو ہم بھو کے مر جائیں گے.جب سب نے مل کر رونا شروع کیا تو ایک بڑھا کتا آیا اور کہنے لگا روتے کیوں ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم بھو کے مر جائیں گے.فلاں امیر کے باورچی خانہ سے کئی چیزیں کھا لیا کرتے تھے ہزاروں کی رسد اُس میں پڑی رہتی تھی اور بیسیوں چیزیں تیار ملتی تھیں مگر اب اس نے دروازہ لگوا دیا ہے.وہ بڑھا کتا کہنے لگا پاگل ہو گئے ہو بھلا جس نوکر کو اس بات کی پروا نہیں ہوئی کہ تم وہاں سے چیزیں اُٹھا اٹھا کر کیوں کھاتے ہو وہ اس دروازہ کو بند کب کرے گا.تو خالی ریزولیوشنوں سے کوئی نہیں ڈرا کرتا نہ لوگوں پر اس کا کوئی اثر ہوا کرتا ہے اور نہ عقل سے باہر نکل کر اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے کوئی نتیجہ رونما ہوتا ہے.اپنے آپ کو منظم کر دینا اور قانون کے ماتحت رہتے ہوئے استقلال اور حسنِ تدبیر سے اپنے مطالبات کے حصول کے لئے کوشش کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو حقوق دلاتی ہیں.اگر قادیان کے تمام افراد بھی نیشنل لیگ کے ممبر بننا چاہیں تو بن سکتے ہیں کیونکہ کوئی سرکاری ملازم نہیں.جمعہ میں ہی تین ہزار کے قریب احمدی ہوتے ہیں اور اس تمام ضلع کی احمدی آبادی میرے نزدیک ۴۵ ہزار کے قریب ہے گو کبھی بھی صحیح طور پر مردم شماری کا ہمیں موقع نہیں ملا ( پچھلے دنوں میں نے ہدایت کی تھی کہ ضلع بھر کی احمدی مردم شماری کر کے میرے پاس رپورٹ کی جائے مگر افسروں نے سمجھا یہ مردم شماری صرف ان کے اپنے علم کے از یاد کیلئے ایک کھیل ہے میرے پاس انہوں نے رپورٹ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی.) بہر حال اگر جماعت کی تعداد اس سے نصف بھی ہو جتنی میں نے بیان کی ہے تب بھی تین ہزار آدمی ضلع گورداسپور سے نیشنل لیگ کا ممبر ہوسکتا ہے اور اگر باقی جماعتوں کے ممبروں کو اس میں شامل کر لیا جائے تو نیشنل لیگ کے ممبروں کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے مگر افسوس ہے اس کی اہمیت کو ابھی تک لوگوں نے نہیں سمجھا.اگر نیشنل لیگ اپنے ممبروں میں توسیع کرے تو زیادہ ذمہ داری

Page 480

خطبات محمود ۴۷۵ سال ۱۹۳۵ء کے کام اس کے سپرد کئے جا سکتے ہیں.اور ہم پہلے سے زیادہ اختیارات نیشنل لیگ کو دینے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ اس کے پانچ ہزار ممبر بن جائیں.جب پانچ ہزارممبر بن جائیں گے اور مجھے اس کی اطلاع مل جائے گی ، اُس وقت انہیں زیادہ وسیع پیمانے پر کام کرنے کی اجازت دے دی جائے گی.کئی لوگ یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ سلسلہ کے افسر نیشنل لیگ کے کاموں میں دخل دیتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں یہ نہ کرو وہ نہ کرو.میرے نزدیک گو ایک حد تک جماعت کے اعلیٰ کا رکنوں کا نیشنل لیگ کے کاموں میں دخل دینا جائز اور درست ہو سکتا ہے جیسے اگر نیشنل لیگ کسی وقت قانون کی خلاف ورزی کرنے لگے تو وہ اسے روک سکتے ہیں لیکن عام طور پر نیشنل لیگیں سلسلہ کے افسروں کے ماتحت نہیں.میں اعلان کر چکا ہوں کہ میں بھی نیشنل لیگ کے کاموں میں دخل نہیں دوں گا سوائے اس کے کہ کھلے طور پر دیکھوں کہ قانون ملکی کوتوڑا جار ہا یا قانون شریعت کی بے حرمتی کی جارہی ہے.پس جب تک کفر بواح سے اس میں نہ پایا جائے اور بغاوت بواح اس میں نہ پائی جائے ، میں بھی نیشنل لیگ کے کاموں میں دخل نہیں دوں گا ، کجا یہ کہ کوئی ناظر دخل دے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ نیشنل لیگ والوں کو ہم نے آزاد رکھا ہوا ہے، پھر بھی وہ ہم سے مشورہ لینے کے خواہشمند رہتے ہیں حالانکہ انہیں اپنی عقل و سمجھ سے کام لے کر خود نئی نئی تجاویز سوچنی اور نئے نئے طریق کار معلوم کرنے چاہئیں.اصول میں نے بتا دیئے ہیں کہ قانون شکنی نہ کرو اور شریعت شکنی نہ کرو اور ان دونوں پابندیوں کے ساتھ سلسلہ کی حفاظت کے لئے پوری پوری کوشش کرو.بے شک اس کے لئے اگر دیگر انجمنوں کو تمہیں اپنے ساتھ ملانا پڑے تو ملالو اور اگر خودان انجمنوں میں سلسلہ کی بہبودی کے لئے ملنا چاہو تو مل جاؤ.پھر اپنے لٹریچر کے ساتھ ، جلسوں کے ساتھ اور تنظیم کے ساتھ نیشنل لیگ کو مضبوط بناؤ.سکھوں اور ہندوؤں اور غیر قوموں کی بھی بے شک تنظیم کرو.ان امور میں ہم سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے.اگر ہمیں ان کاموں کے لئے فرصت ہوتی تو اس کام کو علیحدہ کرنے کی ضرورت کیا تھی.علاوہ ازیں میری مذہبی ذمہ داریاں مجھے اجازت نہیں دیتیں کہ میں ایسے کاموں میں حصہ لوں.کشمیر کے کام کے بعد میں نے دل میں اقرار کیا تھا کہ میں آئندہ حتی الوسع کسی ایسے کام میں حصہ نہیں لوں گا کیونکہ اُن دنوں میں نے دیکھا کہ سلسلہ کے دوسرے کاموں کے لئے میرے پاس بہت کم وقت بچتا تھا پھر آخر میں انسان ہوں اور ساری دنیا کے کام نہیں کر سکتا.کام تبھی چل سکتا ہے کہ بعض قسم کے کام سنبھالنے کے لئے ہماری

Page 481

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء جماعت ہر وقت تیار رہے اور جب اس کے سپرد کوئی کام کیا جائے تو وہ اسے تندہی سے کرے.باقی طبیعت میں ڈر جو ہوتا ہے اس سے کام نہیں چلتا.یہ خیال کہ شاید ہمارے اس کام سے خلیفہ اسیح ناراض ہو جائیں ، شاید اس کام سے گورنمنٹ ناراض ہو جائے ،شاید فلاں افسر ناراض ہو جائے ، بالکل فضول خیالات ہیں اور ان خیالات سے کام میں کامیابی نہیں ہوا کرتی.جب کوئی خفا ہوگا دیکھا جائے گا تم پہلے ہی ڈر کر اپنے کاموں کو کیوں خراب کرتے ہو.ہاں سوچ کر کام کرو اور غور وفکر کرنے کے بعد بھی اگر کوئی تم سے غلطی ہو جاتی ہے تو خوشی سے سزا برداشت کر لو.جو شخص سزا سے ڈرتا ہے وہ کبھی کام نہیں کر سکتا.اگر تم ڈرتے رہو کہ اس کام سے خلیفہ اسیج ناراض ہو جائیں گے، فلاں کام سے فلاں افسر ناراض ہو جائے گا، تو تم کبھی کام نہیں کر سکو گے.اگر تم اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر ایک کام کرتے ہو اور میں کسی وجہ سے ناراض ہوتا ہوں تو میری ناراضگی بھی تمہارے لئے مفید ہو گی اور اس طرح تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکو گے.اور اگر اپنی کسی بُری حرکت سے میرے ناراض ہونے کا تمہیں قومی احتمال ہے تو ایسی حرکت تم کرو گے ہی کیوں.ایک مجسٹریٹ کے پاس ایک دفعہ ایک احمدی کسی گواہی کے لئے گیا.گواہی کے بعد اس نے مذہبی بات چیت شروع کر دی اور کہنے لگا میں کچھ باتیں پوچھنی چاہتا ہوں کیا آپ ناراض تو نہیں ہوں گے.وہ احمدی کہنے لگا اگر آپ ناراضگی کی بات نہیں کریں گے تو کیا میں پاگل ہوں جو ناراض ہو جاؤں اور اگر وہ بات جو آپ کہنا چاہتے ہیں ناراضگی والی ہے تو آپ کریں ہی کیوں.پس اگر تمہارے نزدیک کوئی مجھے ناراض کرنے والی بات ہے تو وہ کیوں کرتے ہو.اور اگر تم اپنی طرف سے ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کوئی کام کرو مگر میرے نزدیک وہ غلط ہو تب بھی تمہیں اپنی نیک نیت کا ثواب مل جائے گا اور میری ناراضگی تمہاری اصلاح کا موجب ہوگی.یاد رکھو جو شخص اس لئے کوئی قربانی کرتا ہے کہ وہ اسے سلسلہ کے لئے مفید سمجھتا ہے اس کا اسے ثواب ملے گا خواہ ہم ناراض ہو جائیں کیونکہ وہ اس لئے ناراضگی سے نہیں ڈرتا کہ وہ میری ناراضگی کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا بلکہ اس لئے نہیں ڈرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ جب میرے سپر د ایک کام کیا گیا ہے تو میرا فرض ہے کہ مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر دلیری سے کام کروں اور نتائج کی پروا نہ کروں.پس اگر باوجود تمام تمہاری احتیاطوں کے کسی وجہ سے میری ناراضگی کے تم مورد بنتے ہو تو یہ ناراضگی تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہوگی.غرض آزاد ہو کر کام کرو.میری طرف

Page 482

خطبات محمود ۴۷۷ سال ۱۹۳۵ء سے تم پر صرف دو پا بندیاں عائد ہیں.اوّل شریعت شکنی مت کرود وسرے قانون شکنی مت کرو.اس کے بعد جتنے جائز ذرائع سے تم کام لے سکتے ہو لو اور جتنے جائز ذرائع سے تم سلسلہ کی عظمت کو ملک میں قائم کر سکتے ہو اور اسکی ہتک کا ازالہ کر سکتے ہو یا سارے ملک کی عظمت اور وقار کو قائم کرنے کے لئے جد و جہد کر سکتے ہو کر و اور نڈر ہو کر کام کرو! میں اس موقع پر جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ ان میں سے جو لوگ نیشنل لیگ کے ممبر بنے ہیں ، وہ اس کی کیا مالی امداد کرتے ہیں.قربانی کے دعوے کرنے سے کیا بنتا ہے جبکہ عملی رنگ میں تم قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہو.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم صدر انجمن کے چندے بھی دیتے ہو ، چندہ تحریک جدید بھی جاری ہے اور اب یہ نیا چندہ شروع ہو گیا ہے.اگر تم اپنا سب کچھ احمدیت کو دینے کے لئے تیار نہیں ، اگر تم مالی امداد کرنے سے کسی وقت بھی گھبراتے اور کنارہ کشی اختیار کرتے ہو تو تم کیوں یہ کہہ کر جھوٹ بولتے ہو کہ ہماری جان اور ہمارا مال سلسلہ کے لئے حاضر ہے اور کیوں یہ کہہ کر جھوٹ بولتے ہو کہ اگر ہمیں حکم دیا جائے تو ہم اپنا سب کچھ خدمتِ اسلام کے لئے وقف کرنے کو تیار ہیں.کیا کبھی روپیہ کے بغیر بھی کوئی کام چل سکتا ہے؟ اگر نہیں تو بغیر روپیہ کے نیشنل لیگ کا کام کس طرح چل سکے گا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کم سے کم روپیہ کی ضرورت ہوا کرتی تھی مگر اُس زمانہ میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ بارہ ہزار درہم چندہ دیا.جب تک ہماری جماعت کی تمام نیشنل لیگیں اپنے اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑی نہیں ہو جاتیں ، جب تک ایک آل انڈیا باڈیز نیشنل لیگ قائم نہیں ہو جاتی ، جب تک اس کا ایک مستقل دفتر نہیں بن جاتا ، جب تک اس کے لئے ایک مستقل پریس کا انتظام نہیں ہو جاتا ، جب تک اس کا ایک مستقل سیکرٹری مقرر نہیں ہو جاتا ، جب تک اس کی شاخیں تمام ہندوستان میں پھیل نہیں جاتیں اور ان کی نگرانی اور قیام کے لئے انسپکٹر مقرر نہیں ہوتے اور جب تک اس کے لئے ایک مستقل والنٹیر کور مرتب نہیں ہو جاتی جو مفوضہ کا موں کو فوری طور پر سرانجام دے ، اُس وقت تک نیشنل لیگ کب کام کر سکتی ہے.ہمارے آدمی شاید یہ سمجھتے ہوں کہ یہ کام اُسی وقت ضروری ہوتے ہیں جب لڑائی ہو رہی ہو.امن کے زمانہ میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی مگر یہ درست نہیں.دنیا میں کبھی کوئی کام تنظیم کے بغیر نہیں ہو ا معمولی مدرسوں کے لئے بھی

Page 483

خطبات محمود ۴۷۸ سال ۱۹۳۵ء سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے.پھر نیشنل لیگ کے دفتر اور دفتر کی ضروریات کے لئے اور اسے تمام ہندوستان میں پھیلانے کے لئے کس قدر روپے کی ضرورت ہے.میرے یہ کہہ دینے سے کہ قانون اور شریعت کی خلاف ورزی نہ کرو یہ مطلب نہیں کہ تھوک سے پکوڑے پک جائیں گے.اس کے لئے مستقل تنظیم اور ہزار ہاروپیہ سالانہ کی ضرورت ہے، سیکرٹری کی ضرورت ہے ، کلرکوں کی ضرورت ہے، انسپکٹروں کی ضرورت ہے ، جو تمام نیشنل لیگوں کا دورہ کرتے ہیں ، دفاتر کی ضرورت ہے اور اس طرح کی اور بیسیوں چیزیں ہیں جن کے لئے روپیہ درکار ہے.اس لیگ کو ہندوستان کی اور انجمنوں میں چندہ دینے کے لئے بھی روپیہ کی ضرورت ہوگی.پس مالی امداد سے دریغ مت کرو.نیشنل لیگ سے بھی میں کہتا ہوں کہ اسے چاہئے کہ جو لوگ اخلاص کے ساتھ اس میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں انہیں شامل ہونے پر مجبور نہ کرے اور جو لوگ شامل ہوں ان سے با قاعدہ چندہ وصول کرے.جو آسودہ حال ہوں ان سے زیادہ رقم لے اور جو غریب ہوں ان کے لئے ادنی شرح چندہ مقرر کر دے مثلاً پیسہ یا ڈیڑھ پیسہ ماہواریا چار آنے سالانہ چندہ مقرر کر دے تا غریب سے غریب آدمی بھی اس میں داخل ہو سکے مگر یہ چار آنے سالانہ اس کے لئے ہیں جو بہت ہی غریب ہے ، جو اس سے اچھی حالت میں ہو وہ زیادہ دے.کوئی ایک روپیہ ماہوار دے، کوئی پانچ روپے اور کوئی دس روپے ماہوار دے اور جو اخلاص کے ساتھ نہیں دینا چاہتا اُس کے متعلق یہ ضرورت نہیں کہ اسے اپنے ساتھ شامل رکھا جائے.پس نیشنل لیگ اپنی تنظیم کرے اور جن جن جماعتوں کے ساتھ تعاون کر سکتی ہے ان کے ساتھ تعاون کرے بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں ، بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں ، بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں ، ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اسے صلیب پر لٹکا نا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانون شریعت اور قانونِ ملک کبھی نہ تو ڑا جائے.اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس ملک کو چھوڑ دیں اور کسی اور ملک میں چلے جائیں.پس اس استثناء کے ساتھ نیشنل لیگ جن جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہے کر سکتی ہے مثلاً کانگرس قانون شکنی بھی کرتی ہے اور اور بھی مفید

Page 484

خطبات محمود ۴۷۹ سال ۱۹۳۵ء کام کرتی ہے.اگر کانگرس یہ معاہدہ کر لے کہ وہ قانون شکنی کا کوئی معاملہ ہمارے سامنے پیش نہیں کرے گی تو تم اس میں بے شک شامل ہو جاؤ اور ملک اور قوم کی خدمت کرو.اصل بات یہ ہے کہ قوت ارادی کے مضبوط ہونے کے بعد کوئی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی.کانگرس کو اگر نقصان پہنچا ہے تو محض قوتِ ارادی کی کمزوری کی وجہ سے.مثلاً اس نے تحریک شروع کی کہ انگریزی چیزوں کا بائیکاٹ کیا جائے.اب اس کے لئے لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑے جا رہے ہیں ، پاؤں پڑ رہے ہیں، رستوں میں لیٹ رہے ہیں اور کہتے ہیں خدا کے لئے انگریزی چیزیں نہ خریدو.میں نے بار ہا بیان کیا ہے کہ یہ عدم تشدد نہیں بلکہ تشدد ہے.ہمارا حق ہے کہ ہم منہ سے لوگوں کو سمجھا ئیں اور کہیں کہ ان چیزوں کے خریدنے کے یہ یہ نقصان ہیں.مگر یہ کہ ہم راہ چلتے لوگوں کا رستہ روک لیں یہ تشدد ہے خواہ ہم لوگوں کے ٹھڈے ہی کیوں نہ کھائیں لیکن قوت ارادی یہ تھی کہ وہ کہتے ہم خود کبھی انگریزی چیزیں استعمال نہیں کریں گے اور لوگوں کو بھی اس کے فوائد بتلاتے رہتے.کونسا قانون ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ضرور انگریزی چیزیں خریدیں.پس اگر ملک میں یہ روح پیدا کر دی جاتی کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنے میں ہی فائدہ ہے تو نہ تشدد کی ضرورت ہوتی اور نہ لوگوں کے پاؤں پڑنے اور ستیہ گرہ کے کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی.آسانی سے خود بخو دلوگ اس کی طرف مائل ہو جاتے.نقصان پہنچانے والی اصل بات یہ ہے کہ تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ فلاں حق کے حاصل کرنے کے لئے قانون شکنی کی ضرورت ہے.مجھے ان لوگوں پر ہمیشہ ہنسی آتی ہے جو کہا کرتے ہیں کہ قانون شکنی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا.قانون شکنی ایک بلا ہے، ایک مصیبت ہے ، ایک لعنت ہے اور یقینی طور پر قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنے حقوق کو حاصل کر سکتے ہیں.گو بعض دفعہ حق کے حاصل کرنے میں دیر ہو جائے.اگر قانون شکنی کی وجہ سے ایک حق ہمیں سال میں حاصل ہوسکتا ہو اور قانون کی پابندی کر کے دو یا تین سال میں تو میں کہوں گا کہ دو یا تین سال قانون کے ماتحت کوشش کرو مگر قانون شکنی کے قریب بھی مت جاؤ.پس اپنے مذہبی اصول کو کبھی مت چھوڑو ہمارے اصول خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ان کی پابندی سے ہی تم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہو.اپنے طور پر بھی اگر مجھے کبھی خیال آیا تو میں تمہاری رہنمائی کرتا رہوں گا مگر میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تم بات بات میں مجھ سے مشورہ لو اور میرا وقت ضائع کرو.

Page 485

خطبات محمود ۴۸۰ سال ۱۹۳۵ء تبلیغ کا کام اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ۲۴ گھنٹوں میں بھی وہ ختم ہونے میں نہیں آتا.بہت سی ڈاک پڑی رہتی ہے پس ہمت سے کام لو اور اپنی عقل اور فہم مشکلات کے حل کے لئے دوڑ اؤ.پہلا قدم ہماری جدوجہد کا یہ ہے کہ ہم حکومت پنجاب کے پاس جائیں اور اس سے دادرسی کی درخواست کریں.اسکی طرف سے ایک جواب تو ہمیں مل گیا ہے اور گو اس پر ابھی پورا غور ہم نے نہیں کیا مگر ایک حد تک اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب ہماری باتوں پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں اور گوجیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابھی پورا غور اس چٹھی پر نہیں کیا گیا لیکن قریباً قریباً وہ حکومت پنجاب کا آخری فیصلہ ہے اور اگر الفاظ پر مزید غور کرنے کے بعد بھی ہمیں یہی معلوم ہوا کہ وہ حکومت پنجاب کا آخری جواب ہے تو پھر ہم حکومت ہند کے پاس جائیں گے اور اگر وہاں بھی دادری نہ ہوئی تو گورنمنٹ انگلستان کے پاس جائیں گے، اس کے بعد انگلستان کے لوگوں سے اپیل کریں گے اور پھر ساری دنیا کے سامنے ہماری اپیل ہوگی.یہ رستہ ہے جو میں نے تجویز کیا ہے اور یہ کوئی معمولی نہیں بلکہ نہایت ہی اہم رستہ ہے اگر دانائی اور ہوشیاری سے کام کرو تو اسی ایک رستہ سے تم کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتے ہو.اور پھر اور ہزاروں رستے ہیں جن پر چلا جا سکتا ہے اور بغیر قانون شکنی کئے بغیر فتنہ و فساد پھیلائے، بغیر لڑائی جھگڑا کئے اور بغیر کسی قسم کا اپنے اوپر الزام لینے کے تم اپنی داد رسی کروا سکتے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہو.مگر یاد رکھو خدا تعالیٰ اسی کی راہنمائی کرتا ہے جو اس کے قانون کا ادب کرتا ہے.آخر خدا تعالیٰ مجھے اسی لئے یہ باتیں سمجھا تا ہے کہ میں سمجھتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے وہ درست ہے.خدا تعالیٰ نے کہا ہے قانون شکنی نہ کرو اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ حکم درست ہے.خدا تعالیٰ نے کہا ہے شریعت کے کسی حکم کو نہ تو ڑو اور مجھے یقین ہے کہ اسی میں برکت ہے.پس اس وجہ سے مجھے وہ نور ملتا ہے جو میری راہمنائی کرتا اور نئی سے نئی باتیں سمجھاتا ہے.مگر تم خدا تعالیٰ کے احکام پر شبہ کرتے اور بعض دفعہ یہ خیال کرتے ہو کہ اس موقع پر قانون شکنی ہی مناسب ہے اور اس طرح اس نور سے محروم رہتے ہو.اس کے علاوہ بھی میں حقوق کے حاصل کرنے کے لئے بیسیوں نہیں سینکڑوں رستے بتا سکتا ہوں مگر میں بتاتا نہیں کیونکہ جو لوگ پکی پکائی کھانے کے عادی ہو جائیں وہ سکتے اور ست ہو جاتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ تم بجائے کچی پکائی کھانے کے خود پکانے کی عادت ڈالو اور بجائے اس کے کہ میں تمہیں تمہاری کامیابی کے طریق بتاؤں

Page 486

خطبات محمود ۴۸۱ سال ۱۹۳۵ء تم آپ اپنی عقل سے کام لے کر نئے نئے طریق تجویز کرو.اس طریق پر اگر تم کام کرو گے تو تم عنقریب دیکھو گے کہ تمہارا بدلہ نہایت عمدگی سے لیا جائے گا اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ احمدی قوم نے مذہب کو بھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا اور قانون کو بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا اور پھر بھی اپنی عظمت اور احترام اور سلسلہ کے وقار کو دنیا میں قائم کر دیا.( الفضل ۶ راگست ۱۹۳۵ء ) UNDER THE ABSOLUTE AMIR BY FRANK A.MARTIN بیچ: طرفداری - حمایت لحاظ سے کفر بواح: کھلم کھلا گفر.ستیہ گرہ سچا عہد.حکومت کے خلاف پُر امن تحریک PAGE 203.LONDON.1907

Page 487

خطبات محمود ۴۸۲ سال ۱۹۳۵ء نیشنل لیگ کے متعلق اہم اور ضروری ہدایات ( فرموده ۹ راگست ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ خالی دعوے نہ تو دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ دعوے کرنے والے کو.میں افسوس سے دیکھتا ہوں کہ یہ زمانہ سب سے زیادہ اس مرض میں مبتلاء ہے کہ لوگ باتیں بہت کرتے ہیں اور کام کم کرتے ہیں.لوگ خیالی اصول بناتے ہیں، ان کے لئے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، ان کی تائید میں ریزولیوشن پاس کرتے ہیں اور ان کو پھیلانے کے لئے پرو پیگنڈا کرتے ہیں لیکن نہ خود ان پر عمل کرتے ہیں اور نہ انہیں حقیقی خواہش اس امر کی ہوتی ہے کہ لوگ ان پر عمل کریں صرف ایک نمود اور شہرت کی خواہش ہوتی ہے جو انہیں لئے لئے پھرتی ہے.جو مرض زمانہ میں پھیلا ہوا ہو وہ ان جماعتوں پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس مرض میں مبتلاء نہ ہوں یا مبتلاء نہ رہنا چاہیں مگر ہمسائیوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں.جب طاعون پڑتی ہے ، ہیضہ آتا ہے اور انفلوئنزا کا دورہ ہوتا ہے تو ان سے وہ لوگ تو متاثر ہوتے ہی ہیں جن کے اندر انہیں قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے مگر بعض وہ لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں جو اپنی طرف سے ان سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں گو احتیاط کرنے والے کم مبتلاء ہوتے ہیں اور نہ کرنے والے زیادہ.مگر شکار دونوں فریق ہوتے ہیں.پس اس زمانہ میں جب دنیا میں لفظوں سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اگر ہماری جماعت بھی با وجود تمام نیک ارادوں کے اور باوجود ان تمام سامانوں کے جو اللہ تعالیٰ نے

Page 488

خطبات محمود ۴۸۳ سال ۱۹۳۵ء اس کی حفاظت کے لئے مہیا کئے ہیں ایک حد تک اس میں مبتلاء ہو جائے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں لیکن محض اس وجہ سے کہ لوگ ایسے امراض میں مبتلاء ہوا ہی کرتے ہیں تسلی نہیں ہو سکتی.اگر ہمارے اندر کوئی لغو ، مضر اور نقصان دہ چیز ہو تو اس کے چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر جماعت ریزولیوشنوں ، زبانی شور و شر اور ظاہری اظہار ناراضگی تک ہی اپنی کوشش کو محدود رکھے تو اسے ہر معقول انسان جو اسلام اور احمدیت کو سمجھتا ہے نا پسند کرے گا.اسلام عمل پر زور دیتا ہے.پانچ نمازوں میں سے صرف تین میں بلند آواز سے قرآت پڑھی جاتی ہے اور ان کا بیشتر حصہ بھی خاموشی کی عبادت پر مشتمل ہے اور باقی دو نمازیں بالکل خاموشی سے ادا کرنے کا حکم ہے.اس میں ایک سبق ہے کہ باتیں اور باتیں اور باتیں ہی کرتے جانا مفید چیز نہیں.انسان کو چاہئے کہ نیک ارادہ رکھے اور پھر اس پر عمل کرے.اس کا کیا فائدہ ہے کہ یونہی شور کیا جائے ، کام ہی ہے جس سے منافق کو مؤمن سے الگ کیا جا سکتا ہے، باتوں میں تو ہر کوئی شامل ہو سکتا ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی مجالس میں منافق سب سے آگے آ کر بیٹھتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ لکڑیوں کے ستون ہیں جن پر چھت کا سہارا ہے اور دیکھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ یہ لوگ سب سے معتبر ہیں لیکن کام کے وقت وہ بھاگ جاتے تھے.باتوں کے وقت کیا پتہ لگ سکتا ہے کہ کون حقیقی مؤمن ہے اور کون منافق ہے.دُھواں دھار تقریر میں کرنا اور بڑے بڑے ریزولیوشنز پاس کرنا کوئی مشکل کام نہیں.یونہی کا غذ سیاہ کرنے سے کیا فائدہ ؟ ریز و لیوشن پاس کر کے ایک نقل مجھے ، ایک الفضل کو اور ایک حکومت کو بھیج دینا کون سا مشکل کام ہے کون ایسا ذلیل، بُزدل اور کمزور انسان ہو گا جو دو حرف لکھ کر شائع نہیں کر سکتا جس چیز میں آکر بزدل رہ جاتے ہیں وہ کام ہے.منافق حقیقی قربانی کے وقت کھسک جاتے ہیں.جو لوگ رسول کریم سے اس قدر اخلاص کا اظہار کرتے تھے اور اپنی بہادری کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے جب جنگ احد کا وقت آیا تو رستہ میں ہی چھوڑ کر گھروں کو چلے آئے اور صاف کہ دیا کہ یہ لڑائی نہیں ، موت ہے اور اس میں شامل ہو نا خواہ مخواہ قوم کو تباہی کے منہ میں لے جانے کے مترادف ہے.اس قسم کے آدمی باتوں میں تو شامل ہو سکتے ہیں مگر عمل ان کی حقیقت کو ظاہر کر دیتا ہے اس لئے میں جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ پہلے حقیقی قربانی کی روح پیدا کرنی چاہئے اور پھر امید رکھنی چاہئے کہ کوئی لیڈر پیدا ہو جو راہنمائی

Page 489

خطبات محمود ۴۸۴ سال ۱۹۳۵ء کرے.راہنمائی کے لئے سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ بغیر سپاہیوں کے کوئی بڑے سے بڑا جرنیل بھی کامیاب ہو گیا ہوشی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو بھی یہ حکم نہیں دیا کہ اکیلے جنگ کرو جب تک پہلے لشکر نہ تیار ہو اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھی اکیلے جنگ کے لئے نہیں بھیجتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے پہلے لشکر تیار ہوا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لشکر تیار ہوا ، حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے لشکر تیار نہیں ہوا لیکن ان کو جنگ کا حکم بھی نہیں دیا بلکہ کہا کہ جاؤ اور سولی پر چڑھ جاؤ.اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو کام تلوار سے لیا وہی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں سولی سے لے لیا.وہ جس ذریعہ سے چاہے کامیابی عطا کر دیتا ہے ، اس نے مؤمن سے قربانی لینی ہے ، جس رنگ میں چاہے لے لے.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر فوج نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس کامیابی کا کوئی ذریعہ ہی نہیں.اللہ تعالیٰ کو اپنے قوانین کا خود احترام ہے جس طرح دُنیوی بادشاہوں کو بھی ہوتا ہے اور وہ ان قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنے دین کی کامیابی کا کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال لیتا ہے اور ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اس زمانہ میں بھی کوئی نہ کوئی رستہ اس نے کامیابی کا مقرر کیا ہے مگر صاف ظاہر ہے کہ وہ رستہ تلوار کا نہیں ہو سکتا ور نہ سپاہی بھی ساتھ ہوتے.پس اس زمانہ میں کامیابی کا رستہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح سولی پر چڑھنے کا رستہ ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ دعوے کرتے ہیں کیا وہ سولی پر چڑھنے کو تیار بھی ہو سکتے ہیں، قید و بند کے مصائب جھیل سکتے ہیں، ماریں اور جوتیاں کھا سکتے ہیں ، گالیاں سن سکتے ہیں، لٹھ کھانے کے لئے تیار ہیں، یا اور کسی رنگ کے مصائب جو ان کے لئے مقدر ہیں ، اُٹھانے کو تیار ہیں ، اگر تیار ہیں تو ان کے لئے کا میابی بھی یقینی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کسی اور جماعت کو کھڑا کر دے گا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے وطن اور اپنی جان و مال کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا میابی کا رستہ کھولتا ہے اور اگر جماعت ان چیزوں کے لئے تیار نہیں تو وہ کبھی بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی خواہ لاکھ سال ریزولیوشنز پاس کرتی رہے.ریزولیوشنز سے نہ خدا خوش ہو سکتا ہے اور نہ اس کے بندے اور نہ کوئی معقول انسان انہیں مفید سمجھ سکتا ہے اسی لئے میں نے توجہ دلائی تھی کہ دھواں دھار تقریروں کی بجائے اپنے آپ کو منظم کریں میں نے ایک رستہ بتا یا تھا اور وہ نیشنل لیگ کا

Page 490

خطبات محمود ۴۸۵ سال ۱۹۳۵ء رستہ ہے.اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کامیابی کے لئے دو طریق رکھے ہیں ایک تقدیر کا اور ایک تدبیر کا.جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کے لئے یہ دونوں چیزیں رکھتا ہے.اس کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں برکت دیتا ہے اور دنیا سمجھتی ہے اس کی تقدیر اچھی ہے.پھر اسے عقل و فہم عطا کرتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں یہ اچھا مدبر ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم کو قانون کے احترام کا حکم دیا ہے اس لئے ہم میں سے ہر ایک سوائے سرکاری ملازموں کے اور سوائے ایسے لوگوں کے جن کے حکومت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مانع ہو تدبیر کی تلوار چلا سکتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ پر تو کل ہو تو خدا تعالیٰ اس میدان میں بھی ہمیں ایسی ترقی دے سکتا ہے جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوتی.جو لوگ اخلاص سے اللہ تعالیٰ کے بندے بن جاتے ہیں ، ان کی عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں.باوجود اس کے کہ مکہ تعلیم میں پیچھے تھا مگر پھر بھی وہاں پڑھے لکھے لوگ موجود تھے لیکن رسول کریم ﷺے بالکل ان پڑھ تھے ، پھر مکہ میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو دیگر ادیان کے متعلق واقفیت رکھتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی بھی کوئی واقفیت نہ تھی ، مگر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مقام پر کھڑا کیا جس کا دنیا کو مدت سے انتظار تھا تو آپ کو ایسی فراست اور عقل عطا کی کہ آج بھی ساری دنیا آپ کے علوم کو دیکھ کر حیران ہوتی ہے.آپ نے فنونِ جنگ میں تعلیم میں ، تربیت میں علم النفس میں ، تجارتی امور میں ایسی اصلاحات فرمائی ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی باتوں میں ایسی تعلیم دی ہے کہ دنیا دنگ ہے.آجکل تجارت میں سب سے زیادہ زور ریکارڈ اور رسیدوں پر دیا جاتا ہے لیکن یہ تعلیم آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل رسول کریم ﷺ نے دی تھی اور قرآن کریم میں موجود ہے.آج کہا جاتا ہے کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا لیکن رسول کریم ﷺ نے اس پر اتنا زور دیا کہ فرمایا جس شخص کی دولڑکیاں ہوں اور وہ ان کو تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں گھر عطا کرے گا.سے غرض جتنی باتیں دنیا کی ترقی کے لئے ضروری ہیں ، سب اسلام میں موجود ہیں اور جو باتیں مضر سمجھی جاتی ہیں ، ان سے اجتناب کا حکم ہے.غور کرو رسول کریم ﷺ کو یہ علوم کہاں سے حاصل ہوئے ؟ خدا تعالیٰ کے سوا کسی نے آپ کو یہ نہیں سکھائے کیونکہ دُنیوی طور پر تو آپ دستخط کرنا بھی نہ جانتے تھے.پس یا درکھو اگر خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کام کو کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں

Page 491

خطبات محمود ۴۸۶ سال ۱۹۳۵ء ایسے غیبی علوم دیئے جائیں گے کہ جن باتوں کو تم آج نہیں سمجھ سکتے، کل تم حیران ہو گے کہ یہ باتیں کسی کی نظر سے مخفی رہ کس طرح سکتی ہیں.گزشتہ خطبہ کے سلسلہ میں ہی میں آج بعض ضروری باتیں بیان کرتا ہوں.پہلی چیز تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو قانونی لحاظ سے نیشنل لیگ میں شامل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں وہ اپنے نام لکھوا دیں، اس کے بعد اپنے اپنے ہاں سیاسی انجمنیں بنائیں اور مرکزی جماعت سے ان کا الحاق کریں اور اس کے بعد وہ باتیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں ان پر عمل کریں.میرے خطبات کو اگر غور سے پڑھیں تو ان میں سے بہت سی باتیں وہ نکال سکتے ہیں.اس کے علاوہ گو میں نے کہا ہے کہ اگر ایسا موقع آئے جب لیگ کو میری ہدایت کی ضرورت ہو تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا لیکن پھر بھی انہیں چاہئے کہ خود اپنے نفسوں پر زور دے کر ایسی باتیں معلوم کریں.بعض موٹی موٹی باتیں میں بیان بھی کر دیتا ہوں.ہمیشہ یاد رکھو کہ کچھ لیڈر ہوتے ہیں اور باقی متبع.اور زندہ قومیں جانتی ہیں کہ لیڈروں کی قیمت کیا ہوتی ہے.جب کسی قوم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہو کہ وہ زندہ ہے یا مردہ تو یہ دیکھ لو کہ وہ اپنے لیڈروں کی عزت کرتی ہے یا نہیں.جو شخص اپنے سر کو نہیں بچا تا وہ زندہ نہیں رہ سکتا ، اگر سر سلامت ہو تو ٹانگیں خواہ ٹوٹی ہوئی ہوں ، پیٹ میں گولی لگی ہوئی ہو ، پھر بھی انسان کچھ کام کر سکتا ہے مگر جب سر نہ ہو تو باقی سب کچھ سلامت ہونے کے باوجود انسان کچھ نہیں کر سکتا.جاہل لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے لیڈروں کو پہلے قربان کریں وہ اس کا نام نیک نمونہ رکھتے ہیں مگر یہ بے وقوفی کی علامت ہے.اگر کوئی بزدل ہے تو وہ لیڈری کا مستحق ہی نہیں لیکن جب کسی کو لیڈر بنالیا جائے تو پھر اسے پہلے قربان کرنے کی کوشش کرنا حماقت ہے.پس تمہاری پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ ایسے لوگوں کو لیڈر بناؤ جو مخلص، قربانی کرنے والے اور فرض کی خاطر جان دینے سے ڈرنے والے نہ ہوں ، لیڈری کے لئے ایسے ہی لوگ تلاش کرو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤْدُّوا الْأَمْنَتِ إِلَى اَهْلِهَا.جو اہل ہوں اُن کو لیڈر بنا ؤ اور جب بنال تو پھر اس بات کو کبھی فراموش نہ کرو کہ لیڈر منزلہ دماغ کے ہے اور دوسرے لوگ ہاتھ پاؤں ہیں اس لئے اُس کی بہادری کا امتحان نہ کرو.رسول کریم صلى الله سے زیادہ بہادر کون ہوسکتا تھا ، جنگ حنین کے موقع پر غفلت کی وجہ سے جب اسلامی لشکر

Page 492

خطبات محمود ۴۸۷ سال ۱۹۳۵ء پراگندہ ہو گیا اور صرف بارہ آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے ، اُس وقت چار ہزار تجربہ کار تیر انداز جھاڑیوں میں بیٹھے تیروں کی بارش برسا رہے تھے ، سپاہی سب بھاگ چکے تھے اور یہی وقت لیڈر کی بہادری ظاہر ہونے کا تھا.صحابہ نے آپ سے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ا یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں جب تک لشکر دوبارہ جمع نہ ہو ، آپ بھی واپس چلیں حتی کہ ایک مخلص نے آگے بڑھ کر آپ کی سواری کی باگ پکڑ لی کہ خطرہ کی حالت ہے آگے جانا درست نہیں مگر آپ نے سواری کو ایڑ ھ لگائی اور أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ کہتے ہوئے آگے بڑھے.اس کا مطلب یہ تھا کہ میں سچا نبی ہوں ، جھوٹا نہیں ہوں ، ایسے موقع پر بھاگ نہیں سکتا اور پھر تم یہ بھی خیال نہ کرنا کہ میں اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتا ہوں میں انسان ہوں اور عبد المطلب کا بیٹا ہوں.آخر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیئے کہ لشکر پھر جمع ہو گیا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن رسول کریم ﷺ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ آپ کسی خطرہ سے نہیں ڈرتے تھے مگر باوجود اس کے بدر کے موقع پر صحابہ نے بڑے اصرار سے آپ کے لئے پیچھے جگہ بنائی اور ایک تیز ر و اونٹنی پاس باندھ دی اور عرض کیا یا رَسُولَ اللہ المدینہ میں بعض ہمارے بھائی ہیں جنہیں علم نہ تھا کہ ایسی خطرناک جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ لوگ ہم سے کم اخلاص رکھنے والے نہ تھے ، وہ سب یہاں آتے ، اب کفار کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں ، ان کے پاس سامان بہت ہے اور ہمارے پاس کم ممکن ہے ہم مارے جائیں اس لئے ہم نے تیز ترین اونٹنی آپ کے پاس باندھ دی اور گارد مقرر کر دی ہے جو آخری دم تک آپ کی حفاظت کرے گی لیکن اگر گارد کے آدمی بھی مارے جائیں تو آپ اس اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ میں پہنچ جائیں ، وہاں ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے ھے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہارے گی.صحابہ نے اُس وقت یہ نہیں کہا کہ آپ تو خدا کے رسول ہیں ، خدا کی خاص حفاظت میں ہیں آپ کو نمونہ دکھانا چاہئے ، آپ پہلے میدان میں نکلیں اور بعد میں ہم نکلیں گے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی مثال تمہارے لیکچرار ہمیشہ دیتے ہیں اور میں بھی دیا کرتا ہوں اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہی کہا تھا.اِذْهَبُ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا ههُنَا قَاعِدُونَ " کہ آپ جائیے.آپ خدا کے رسول ہیں اس لئے آپ پر وہ کوئی مصیبت نہ لائے گا اور خدا پر تو کوئی مصیبت آ ہی نہیں سکتی اس لئے آپ دونوں جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں جب فتح

Page 493

خطبات محمود ۴۸۸ سال ۱۹۳۵ء حاصل ہو جائے گی تو آ جائیں گے لیکن صحابہ نے آپ کی لیڈری کا تجربہ نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ بمنزلہ دماغ کے ہیں.اگر آپ کو نقصان پہنچا تو دنیوی لحاظ سے پھر اسلام کی کامیابی کی کوئی سبیل نہیں اس لئے انہوں نے آپ کو اصرار سے پیچھے بٹھایا اور جب رسول کریم ﷺ نے جنگ سے پہلے مشورہ کیا تو ایک انصاری نے کہا کہ یا رَسُولَ اللهِ ہم موسیٰ کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جاؤ تم اور تمہارا رب لڑتے پھر وہم سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور اگر جنگ ہوئی تو ہم آپ کے آگے لڑیں گے، پیچھے لڑیں گے، دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے اور دشمن آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روند کر نہ آئے.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم پیچھے رہتے ہیں اور آپ آگے جائیں آپ کے بعد ہم آئیں گے.تو عظمند جماعتیں ہمیشہ اپنے لیڈروں کی حفاظت کرتی ہیں پس جن لوگوں کو لیڈر بناؤ تمہارا فرض ہے کہ خود قربانی کر کے بھی ان کی حفاظت کرو.جس حد تک میرا معاملہ تھا، میں نے کبھی اس قسم کی تحریک نہیں کی اور اپنے اکیس سالہ عہد خلافت میں یہ بات کبھی پیش نہیں کی لیکن اب چونکہ دوسروں کا معاملہ ہے اس لئے میں بغیر کوئی شرم محسوس کئے تم کو نصیحت کر سکتا ہوں کہ منافق تمہارے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ یہ اچھے لیڈر ہیں جو خود پیچھے رہتے اور دوسروں کو آگے کرتے ہیں لیکن تمہارے دل میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ سوال ہونا چاہئے کہ خود لیڈروں کو پیچھے کرو اور آپ آگے بڑھو.یاد رکھو جو بُزدل ہے وہ لیڈری کے قابل ہی نہیں اور جسے تم لیڈر بنا لیتے ہو اُس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نزدیک وہ بہادر اور عقلمند ہے اور تم اس کی بہادری اور دانشمندی کا اقرار کرتے ہو اور جب ایک دفعہ تسلیم کر لیا تو پھر دوبارہ امتحان کا مطلب ہی کیا ہو سکتا ہے.اگر اس کے متعلق کوئی شبہ تھا تو پہلے بنانا ہی نہیں چاہئے تھا اور جب بنالیا تو پھر تمہارا فرض یہی ہے کہ خود آگے بڑھو اور اسے کہو کہ آپ دوسروں کی حفاظت کیلئے پیچھے رہیں.پس ایک تو یہ نصیحت ہے جو میں کرتا ہوں.دوسری وہ ہے جس کی طرف خصوصیت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے توجہ دلائی ہے.میں نے پچھلے جمعہ میں بھی کہا تھا اور اس کی تصدیق میں مجھے ایک الہام بھی ہوا ہے.میں نے کہا تھا کہ شریعت اور قانون کے خلاف کوئی کام کر کے ہماری فتح فتح نہیں کہلا سکتی بلکہ اس طرح تم اپنے آپ کو بدنام اور رسوا کر لو گے.تین چار روز کی بات ہے میں پالم پور میں ہی تھا اور صبح کی نماز کے لئے آنے کو تیار تھا ، چار پائی سے پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھا تھا، کچھ ستی کی سی حالت تھی کہ جاگتے ہوئے

Page 494

خطبات محمود ۴۸۹ سال ۱۹۳۵ء میرے قلب پر یہ فقرہ نازل ہوا.تم گناہ سے افسردگی اور افسوس تو پیدا کر سکتے ہو مگر ہمدردی نہیں، دنیا میں ہمیشہ دوہی قسم کے ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں، گناہ کے یا نیکی کے.نیکی کا ذریعہ بسا اوقات زیادہ قربانی چاہتا ہے اور گناہ کا کم لیکن اصل فتح وہی ہوتی ہے جو نیکی کے ذریعہ سے ہو.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کئی جنگیں ہوئیں جن میں کفار مارے بھی گئے لیکن اگر اس طرح جنگیں صلى الله کرنے کی بجائے صحابہ یہ کرتے کہ ابو جہل ، عتبہ، شیبہ وغیرہ مخالفین کے ہاں جا کر نوکر ہو جاتے اور موقع پا کر قتل کر دیتے تو ایسا کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.اگر وہ ایسا کرتے تو یہ طریق ان کی نیک نامی کا موجب نہ ہوسکتا.بسا اوقات مشابہ واقعات بھی مخالف کے لئے اعتراض کا موقع پیدا کر دیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کی زندگی میں دو واقعات ہی ایسے ہوئے ہیں اور وہ اگر چہ بالکل جائز اور درست تھے.اور ایسے علاقوں میں اور ایسے حالات میں رونما ہوئے کہ انہیں نا جائز نہیں کہا جا سکتا مگر آج تک دشمن ان کی بناء پر اعتراض کرتے آتے ہیں بدر اور احد وغیرہ جنگوں میں بھی دشمن مارے گئے اور اس کے مقابل پر باطنی فرقہ والوں نے بھی بڑے بڑے مسلمانوں کو ماراحتی کہ مشرق قریب میں تمام بڑے بڑے مسلمانوں کو انہوں نے مار دیا مگر آج باطنیوں کا نام ذلت سے لیا جاتا ہے لیکن صحابہ نے بھی دشمنوں کو مارا مگر ان کا یہ فعل ذلیل نہیں سمجھا جاتا.سلطان صلاح الدین ایوبی جب عیسائیوں سے لڑ رہا تھا تو باطنی اس کو مارنے کی تجویزوں میں تھے اور تین بار اس پر حملہ ہو مگر وہ بیچ جاتا رہا.ایک دفعہ ایک باطنی اس کے پاس آ کر نو کر ہوا اور اس نے اس قدر اعتماد حاصل کر لیا کہ خاص سلطان کے خیمہ کا پہرہ دار مقرر ہو گیا.ایک روز جب سلطان نماز پڑھ رہا تھا وہ اس کی طرف بڑھا مگر مصلے سے ٹھوکر کھا کر گرا.سلطان نے اس کی نیت بھانپ کر سجدہ میں ہی اس کی گردن پکڑ لی اور جب دیکھا تو اس کے پاس خنجر تھا.اس میں تو شک نہیں کہ وہ دلیر لوگ تھے، قربانی کی روح بھی رکھتے تھے.ایک دفعہ ایک عیسائی بادشاہ فلپ نامی باطنی سردار سے ملنے گیا تا سلطان صلاح الدین کے خلاف اس سے امداد حاصل کرے.جس مکان میں وہ بیٹھے تھے وہ ایک بلند عمارت تھی جس کی کھڑکیوں کے ارد گرد پہریدار کھڑے تھے.سردار نے عیسائی بادشاہ سے کہا کہ تم میری طاقت کو سمجھ

Page 495

خطبات محمود ۴۹۰ سال ۱۹۳۵ء نہیں سکتے ، میری طاقت اس سے بہت زیادہ ہے جو خیال کی جاتی ہے اور اس کے اظہار کے لئے اُس نے سر کو کھڑ کی کی طرف ذرا سی جنبش دی جسے دیکھتے ہی اُس طرف کے دونوں پہریداروں نے چالیس پچاس فٹ کی بلندی سے اپنے آپ کو نیچے گرا دیا اور بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.اس پر اُس نے کہا یہ مت خیال کرو کہ یہ لوگ اپنے انجام سے واقف نہ تھے اور اس کا ثبوت پیش کرنے کے لئے اس نے سر کو دوسری طرف جنبش دی اور اس پر اُس طرف کے پہریداروں نے بھی اپنے آپ کو یکدم نیچے گرا دیا اور گرتے ہی مر گئے.عیسائی بادشاہ تو یہ دیکھ کر اس قد رگھبرایا کہ اس نے کہا اس وقت میری طبیعت خراب ہے میں سفیر کے ذریعہ بات چیت کروں گا لیکن اس قدر بڑی قربانیوں کے باوجود باطنیوں نے چونکہ ناجائز ذرائع اختیار کئے ، اس لئے وہ کوئی بڑا کارنامہ نہ کر سکے.پس کامیابی کے لئے ایک طرف تو باطنیوں سے زیادہ قربانی کی روح چاہئے.رسول کریم ﷺ نے جب صحابہ کرام سے دریافت کیا کہ جنگ کے بارہ میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سامنے سمندر ہے حضور حکم دیں تو ہم گھوڑے سمندر میں ڈال دیں.حالانکہ سمندر میں گھوڑا ڈالنے پر کسے خیال ہو سکتا تھا کہ وہ دوسرے ساحل پر جا پہنچے گا.اس کا مطلب یقینی موت تھی مگر صحابہ اس پر بالکل آمادہ تھے پس ایک طرف تو یہ روح ضروری ہے اور دوسری طرف نیکی بھی ضروری ہے.جب تک انسان نیکی اختیار نہ کرے اُس وقت تک وہ افسردگی اور افسوس تو پیدا کر سکتا ہے مگر ہمدردی نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو جماعتیں قائم ہوتی ہیں ان کا فرض یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو اپنے ساتھ شامل کریں اور افسردگی و افسوس پیدا کر دینے سے کوئی قریب نہیں آتا بلکہ لوگ دُور بھاگتے ہیں.مؤمن کا کام یہ ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کرے کہ دل اس کی طرف مائل ہوں پس تم بدلہ لو مگر ایسی شرافت سے کہ دنیا یہ سمجھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے خود حفاظتی کے لئے کیا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ اُٹھے کہ یہ ایسا نمونہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ اچھے لیڈر ہوں اور ایسے لیڈر تلاش کرو جن پر تمہیں یقین اور اعتماد ہو اور پھر ان کو قربان کرنے کی کوشش نہ کرو.اگر کوئی منافق آ کر کہے کہ یہ پیچھے رہتے ہیں تو اس سے کہہ دو کہ انہیں پیچھے ہی رہنا چاہئے بلکہ اگر وہ آگے آنا چاہیں تو بھی ہم انہیں آگے نہ آنے دیں گے.تیسرے یہ کہ جو ذرائع اختیار کرو وہ نیکی اور تقویٰ کے ذرائع ہوں.چوتھی نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ

Page 496

خطبات محمود ۴۹۱ سال ۱۹۳۵ء اپنی تنظیم کو وسیع کرو اس کے دو ذرائع ہو سکتے ہیں.اس وقت ہماری جو مخالفت ہو رہی ہے اس کے ہوتے ہوئے امید نہیں کی جاسکتی کہ دوسرے لوگ سیاسی کام کے لئے بھی ہماری ایسی مجالس میں شریک ہو جائیں گے جن کا مقصد یہ بھی ہو کہ سلسلہ احمدیہ کی حفاظت کی جائے.ہو سکتا ہے بعض لوگ شامل ہو بھی جائیں مگر بہت کم ہو نگے اس لئے میں دو تجویز میں بتا تا ہوں ایک تو یہ کہ جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہ اپنے اپنے ہاں لیگیں قائم کریں لیکن اس طرح دوسرے لوگ چونکہ کم شامل ہو نگے اس لئے دوسری تجویز یہ ہے کہ ان کی ایک اور اقتصادی شاخ قائم کی جائے جو نیشنل لیگ کے عام نظام سے الگ ہو اور اس کا کام مصیبت زدوں سے ہمدردی ہو مثلاً اس وقت زمیندار بے چارے سخت مصیبت میں ہیں ، ان کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ، وہ قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں مگر حکومت سب سے کم توجہ ان کی طرف کرتی ہے.لائل پور میں زمیندارہ کا نفرنس ہوئی تھی تو اس کے لئے میں نے ایک مضمون لکھا تھا گورنمنٹ نے اس کے وہ حصے جو اس کے مفید مطلب تھے کسی اور کے نام سے ہزار ہا کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کئے تھے اسی طرح دوسرے لوگوں نے بھی اپنے اپنے مفید مطلب حصص علیحدہ علیحدہ شائع کئے تھے اور اس طرح اس کی اشاعت ملک میں کئی لاکھ کی ہو گئی تھی.اس میں زمینداروں کی ترقی کی بعض تجاویز تھیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو زمینداروں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے.پس ایک سب کمیٹی ایسی بنائی جائے جس کا کام ہی یہ ہو کہ ویسی ہی کمیٹیاں مختلف مقامات پر قائم کرے اس میں ہر قوم وملت کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں.جب میرا مضمون زمیندارہ کا نفرنس لائل پور میں پڑھا گیا تو بعض علاقوں سے سکھوں نے یہ خواہش کی کہ اگر آپ راہنمائی کریں تو ہم کام کرنے کے لئے تیار ہیں مگر چونکہ صرف سکھوں کی طرف سے اس پر عمل نقصان دہ ہو سکتا تھا کیونکہ جب تک پورے طور پر اعتماد نہ ہو کام نہیں چل سکتا اس لئے یہ تحریک نہ چل سکی سوائے اس کے کہ اضلاع را ولپنڈی اور کیمبل پور کے زمینداروں کے ایک بڑے مجمع میں جس کی تعداد میں ہزار بتائی جاتی ہے وہ مضمون پڑھا گیا اور پاس کیا گیا کہ اس کے بغیر ہماری ترقی محال ہے پس ایسی سب کمیٹیوں میں جن کا کسی سیاسی پر وگرام سے تعلق نہ ہو ہندو اور سکھ بھی شامل ہو سکتے ہیں.پنجاب کے ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ جو تحریک زمینداروں کے فائدہ کے لئے ہو اس سے صرف مسلمان ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں حالانکہ دوسرے صوبوں میں سب بڑے بڑے زمیندار ہندو ہیں اگر ایک صوبہ میں یا اگر سرحد کو بھی شامل کر لیا

Page 497

خطبات محمود ۴۹۲ سال ۱۹۳۵ء جائے تو دو میں مسلمانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے باقی سب صوبوں میں تو ہندوؤں کا فائدہ ہے.آبادی کے لحاظ سے بھی برما کوعلیحدہ کر کے ہندوستان کی آبادی ۳۲ کروڑ ہے اور پنجاب وسرحد کی پونے تین کروڑ.گویا دسویں حصہ سے بھی کم ہے.پھر اس میں ہندو اور سکھ زمیندار ہیں اور ان کو نکال کر مسلمانوں کا حصہ سولہواں سترواں ہوتا ہے گویا سارے ملک میں مسلمان زمیندار اتنی تعداد میں ہیں کیونکہ پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت انہیں اقوام پر مشتمل ہے جنہیں کمین سمجھا جاتا ہے اس لئے پنجاب میں زمینداروں کی ترقی کے لئے جو سکیم ہو اس میں اگر ہند وشامل ہو جائیں تو وہ باقی صوبوں میں ان کے لئے فائدہ کا موجب ہو گی.پس زمینداروں کی ترقی کا سوال قومی نہیں بلکہ خالص ہندوستانی ہے اور اگر اس کا پورے طور پر اعلان کیا جائے تو ہندوؤں کی تجارتی قو میں بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں.میں تو کہا کرتا ہوں کہ زمیندار بنیوں کی بھینس ہیں اور کوئی بھینس بغیر چارہ کے دودھ نہیں دے سکتی.ہر شخص کوشش یہی کرتا ہے کہ کچھ زیادہ خرچ کر کے بھی ایسی بھینس حاصل کرے جو زیادہ دودھ دیتی ہو کیونکہ جو زیادہ دودھ نہیں دیتی اور جو دیتی ہے ان پر چارے کا خرچ یکساں ہی ہو گا.اس طرح بنیوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ زمینداروں کی مالی حالت اچھی ہو.مثلاً آج اگر زمیندار کہہ دیں کہ ہم قرض ادا نہیں کر سکتے تو ساہوکا ر کیا کر سکتے ہیں لیکن زمیندا راگر آسودہ حال ہو جائیں تو قرضہ کی وصولی کی زیادہ امید ہوسکتی ہے پس اگر عقلمندی سے تاجر اقوام کو سمجھایا جائے تو وہ بھی ایسی تحریک سے ہمدردی کریں گی اور اس طرح لیگ اتنا وسیع کام کر سکتی ہے کہ ہر شخص اس کا ممنون ہوگا ، یہ کام نیشنل لیگ کے سوا کوئی کر ہی نہیں سکتا.گاندھی جی نے تو اس طرف توجہ کی تھی مگر وہ سود خورلوگوں سے اتنا ڈرتے ہیں کہ یہ کام نہیں کر سکتے وہ ان کے جال میں بالکل بند ہیں.ان کے علاوہ کسان سبھا ئیں بھی ہیں مگر وہ بھی یہ کام نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ بولشو یک روس کی طرح بغاوت پیدا کرنا چاہتی ہیں اور کامیابی درمیانی راہ سے ہی ہو سکتی ہے اور اسے لیگ ہی اختیار کرسکتی ہے.پانچویں نصیحت یہ ہے کہ ہر کام کرنے کے لئے اعضاء کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے پندرہ سے چالیس سال تک تمام دوستوں کی تنظیم کی جائے اور احمد یہ کور کے اصول پر کور میں بنائی جائیں جن کا کام یہ ہو کہ ہر غریب اور مسکین کی امداد کریں.کسی کا بچہ گم ہو جائے ، کوئی ڈوب رہا ہو تو اُس کی مدد کریں.کہیں آگ لگے تو اسے فروکر نیکی کوشش کریں ، انہیں تیرنا سکھایا جائے اور ایسے رفاہ عام کے

Page 498

خطبات محمود ۴۹۳ سال ۱۹۳۵ء کام کرائے جائیں جیسے سٹیشنوں پر جا کر پانی پلانا ہے ، جن مقامات پر ریلوے سٹیشن ہیں وہاں کے ست سٹیشنوں پر جا کر پانی پلائیں کسی کا بچہ گم ہو جائے ، اسباب گم ہو جائے تو تلاش میں مدد دیں تا انہیں خدمت کی عادت پیدا ہو.یاد رکھو جس قوم کو خدمت کرنے کی عادت نہ ہو وہ ہمیشہ وقت پر فیل ہو جاتی ہے محض ارادہ کسی کام نہیں آ سکتا.رسول کریم ﷺ کے صحابہ سے زیادہ پختہ ارادہ اور کس کا ہو سکتا ہے مگر آپ بھی ہمیشہ فوجی پریکٹس کراتے رہتے تھے حتی کہ مسجد میں بھی کراتے تھے.ایک دفعہ حبشہ کے لوگوں کو آپ نے بلایا اور ان سے فرمایا کہ فوجی کرتب دکھاؤ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم بھی دیکھنا چاہتی ہو تو میرے کندھے کے پیچھے کھڑے ہو کر دیکھو.^ اسی طرح ایک دفعہ آپ باہر گئے تو صحابہ تیراندازی کی مشق کر رہے تھے.آپ نے کہا یوں کرو کہ دو گروہ ہو کر آپس میں مقابلہ کرو، پھر ایک گروہ میں آپ بھی شامل ہو گئے.اس پر دوسرے فریق نے کما نہیں رکھ دیں.آپ نے فرمایا یہ کیا.انہوں نے عرض کیا کہ حضور کے مقابل پر ہم کس طرح تیر چلا سکتے ہیں ؟ آپ ہنس پڑے اور الگ ہو گئے.شے تو ہر کام مشق سے ہوتا ہے تم یہ خیال کرتے ہو کہ ایک زمانہ میں جب طوفان آئے گا اور دنیا غرق ہونے لگے گی اُس وقت تم اسے بچا لو گے یہ کبھی نہیں ہو سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر روز تھوڑی تھوڑی مشق کرتے رہو.وطن کی ، عزیز واقارب کی ، اوقات کی ، جان و اموال کی قربانی کی عادت ڈالو، روزانہ تھوڑا تھوڑا وقت کام کرو، سالانہ پارٹیاں بنا کر پرو پیگنڈا کے لئے جاؤ.مثلاً چند احباب اکٹھے ہو کر بائیسکلوں پر جائیں اور مدراس کا دورہ کریں، مرہٹہ علاقہ تک گاڑی میں جائیں اور آگے بائیسکلوں پر دورہ کریں.پہلے سال وہ پارٹی صرف یہ لیکچر دے کہ تنظیم کرو، دوسرے سال لوگ ان کے واقف ہو چکے ہوں گے اور ان کی تحریک پر فورا عملی تنظیم کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ کام کر کے دکھاؤ.گاندھی جی کی نقل کر کے حکومت نے بھی کچھ روپیہ دیہات کی اصلاح کے لئے تجویز کیا ہے مگر وہ روپیہ بھی برباد ہو جائے گا، کچھ بڑے بڑے افسروں کی تنخواہوں میں چلا جائے گا اور کچھ دفتر ی ساز و سامان اور میزوں کرسیوں کی خرید میں.میں ایک دفعہ گورداسپور کا زراعتی فارم دیکھنے گیا فارم کے ڈپٹی صاحب جو آج کل ایک بڑے افسر ہیں مجھے فارم دکھا رہے تھے.میں نے دیکھا کہ زمیندار آتے تھے ، جھک کر سلام کرتے اور گود کر الگ ہو جاتے.میں نے ان سے کہا کہ یہ لوگ آپ سے فائدہ کیا

Page 499

خطبات محمود ۴۹۴ سال ۱۹۳۵ء اُٹھا سکتے ہیں یہ تو آپ کو ہوا سمجھتے ہیں.حکومت جب تک ایسے افسر مقرر نہیں کرتی جو ان میں سے ہوں اور ان کی جگہوں پر جا کر ان سے بات چیت کریں یہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.ان لوگوں کو تجربات سرکاری خرچ پر کرانے چاہئیں.مثلاً زراعت کا محکمہ کسی کی حوصلہ افزائی اس طرح کر سکتا ہے کہ چلو تم فلاں پیچ کا تجربہ کرو ، لگان ہم دے دیں گے اور کام بھی ہم کر دیں گے.مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تحریکیں بہت ہیں مگر کام کرنے والے کم ہیں.شملہ میں ایک بڑے لیڈر نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا کہ ہندوستان کا مستقبل کس طرح درست ہو سکتا ہے.میں نے جواب دیا کہ اگر تھوڑے سے سپاہی مل جائیں.وہ بہت حیران ہوا کہ ہندوستان کی آبادی ۳۳ کروڑ ہے کیا تھوڑے سے سپاہی بھی نہیں مل سکتے.میں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ہر ایک لیڈر ہوتا ہے سپاہی کوئی نہیں بنتا اگر ایک کروڑ سپاہی ہو، ایک کروڑ نہ سہی پچاس لاکھ ہی ہو ، پچاس لاکھ نہ سہی ۳۵لا کھ ہی ہوں ، بلکہ ایک لاکھ کا م کرنے والے بھی ہوں تو ملک کی حالت بدل سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقل سے کام کرنے والے ہوں سور کی طرح حملہ نہ کریں جو سیدھا جاتا اور نیزہ کھا لیتا ہے.پس ہر مقام پر احمد یہ کورمیں بنائیں جو زیادہ تر رفاہِ عام کے کاموں کی مشق کریں اور جو اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ ان کی نگاہ میں ہندو مسلم ، سکھ کا کوئی امتیاز نہیں.یہ پانچ موٹے اصول ہیں جو میں بتاتا ہوں ان پر اگر عمل کرو تو ان کے اندر بہت سا مواد تم کو ملے گا.یہ لفظ تھوڑے ہیں مگر مطالب بہت وسیع رکھتے ہیں ان پر اگر عمل کرو تو بہت بڑے تغیرات پیدا کر سکتے ہو.باقی رہا تقدیر کا پہلو سو اس کے متعلق یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ماً مور بھیج کر جو اس قدر عظیم الشان تفرقہ پیدا کر دیا ہے وہ بلا وجہ نہیں ہو سکتا.ہمارے مخالف خواہ کتنی بھی شرارت کریں لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ ہم ایسی باتیں ضرور کرتے ہیں جو انہیں بُری لگتی ہیں.ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی کی زندگی میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات سے اسلام کا کچھ رہ ہی نہیں جاتا.فی زمانہ مسلمان تجارت ، زراعت ، صنعت و حرفت تعلیم، اخلاق، مال و دولت غرضیکہ ہر لحاظ سے تباہ حال ہیں ان کے لئے صرف ایک ہی سہارا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہو نگے اور کفار سے سب کچھ زبردستی چھین کر مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے.اب ایک شخص اگر یہ سمجھے بیٹھا ہو کہ فلاں آدمی جب مرے گا تو ساری جائداد مجھے دے دے گالیکن

Page 500

خطبات محمود ۴۹۵ سال ۱۹۳۵ء وہ کہہ دے کہ میں نے فلاں کے حق میں ساری جائداد کی وصیت کر دی ہے تو اسے کتنا افسوس ہو گا یہی حال مسلمانوں کا ہے وہ سمجھے بیٹھے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے آئیں گے تو غیر مسلموں کا سب کچھ ہمارے حوالے کر دیں گے لیکن ہم نے ان کے یہ سب خواب پریشان کر دیئے.غور کروان کے نقطہ نگاہ سے یہ کتنا بڑا ظلم ہے جو ہم نے ان پر کیا.کئی ایک کی خیالی بادشاہتیں ، کئی ایک کی تجارت اور کئی ایک کی بڑی بڑی زمینداریاں ہم نے ان سے چھین لیں اور وہ چیزیں جن پر وہ امید لگائے بیٹھے تھے ، پھر غیروں کے قبضہ میں چلی گئیں اور اس طرح ہم ان کے لئے کس قدر اذیت کا موجب ہوئے ہیں اور ایسی حالت میں انکو اگر ہم پر غصہ آئے تو وہ ایک حد تک مجبور ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جو اس طرح ان کی امیدوں کو توڑا ہے اس کے مقابل پر اگر وہ کوئی چیز قائم نہیں کرنا چاہتا تو اس کی کیا ضرورت تھی.پس وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ پیدا کرنی چاہتا ہے وہ نیکی ، تقوی ، دیانت اور امانت ہے اور تمہیں چاہئے کہ غور کرو کیا تم نے ان چیزوں کو قائم کر لیا ہے اگر نہیں تو اس قدر مخلوق کی امیدوں کو توڑنا ، زلازل لانا ، آگئیں لگانا ، کوئی معمولی بات نہیں.کیا وہ رحیم ہستی جو ذلیل سے ذلیل اور گنہگار سے گنہگا رانسان کو بھی اپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیتی ہے اس نے یہ تباہی کے سامان یونہی پیدا کر دیئے ہیں.کیا تم اپنے آپ کو اتنا پاکیزہ سمجھتے ہو کہ یہ سب کچھ تمہاری خاطر ہو رہا ہے.کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہاری خاطر خدا نے دنیا کو تباہ کرنے کی ٹھان لی ہے.جب تک تم اپنے عمل سے یہ ثابت نہ کرو کہ دنیا میں سے ہر شخص کا مال ، ہر شخص کی عزت و آبرو تمہارے ہاتھوں میں محفوظ ہے جب تک تم دوسروں کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ پہلے ظالموں کو مٹا کر ان کی جگہ اور ظالم ہی قائم کرے.خدا تعالیٰ نیکی اور تقویٰ چاہتا ہے جب تم اسے قائم کرنے والے بن جاؤ گے اُسی دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے ایسی نصرت نازل ہو گی کہ دشمن خود بخود جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے.دنیا کی حکومتیں ، وزارتیں اور جائدادیں سب ہمارے لئے ہیں مگر ہم ابھی اس معیار سے نیچے ہیں جو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے اور اگر اسے قائم کئے بغیر ہمیں یہ چیزیں مل جائیں تو اللہ تعالیٰ پر اعتراض آتا ہے کہ اُس نے ایک ظالم کو مٹا کر اس کی جگہ دوسرا قائم کر دیا پس جس وقت تک تمہارے دلوں میں جھوٹ ، بد دیانتی، فریب ، دغا ، فساد وغیرہ کی کوئی ملونی بھی باقی ہے اُس وقت تک تم کسی کامیابی کے مستحق نہیں ہو.جب تک اپنے دلوں کو پاک نہ کرو تم کسی فتح کے مستحق نہیں

Page 501

خطبات محمود ۴۹۶ سال ۱۹۳۵ء ہو سکتے.پس ضروری ہے کہ تقدیروں کو بدلنے کے لئے قربانیاں کرو جہاں لیگ تدبیروں سے کام لے تم اپنے نفسوں کو بدل دو تم میں کوئی جھوٹا اور فریبی نہ ہو، کوئی بد دیانت نہ ہو ، کوئی فسادی نہ ہو.تمہارا امام ہونے کی حیثیت سے مجھے تمہارے لئے سب سے زیادہ غیرت ہے مگر میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ تم اس معیار پر پہنچ چکے ہو کہ خدا تعالیٰ دوسروں کو مٹا کر تمہیں ان کی جگہ قائم کر دے اور جب میں جو تمہارا امام ہوں یہ خیال رکھتا ہوں تو دوسروں پر تمہارا کیا اثر پڑ سکتا ہے پس میری آخری نصیحت یہ ہے کہ تقدیروں کو بدل دو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تمہارے سچ کے مقابلہ میں کسی کا سچ ، تمہارے عدل و انصاف کے مقابلہ میں کسی کا عدل و انصاف، تمہاری دیانت کے مقابلہ میں کسی کی دیانت ویسی ہی ماند پڑ جائے جیسے سورج کے مقابل میں دیا.تمہاری ہمدردی سگے والدین سے بھی زیادہ ہو اور جس دن تم ایسے ہو جاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہاری خاطر دنیا کو تباہ کرنے میں اتنا بھی درد محسوس نہیں کرے گا جتنا تم اس مچھر کو مارتے ہوئے کرتے ہو جو رات کو کاٹ کر تمہیں ستاتا ہے.( الفضل ۱۶ / اگست ۱۹۳۵ء) ل وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُوْلُوْا تَسْمَعُ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ حُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرُهُمْ قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (المنافقون :) مسلم كتاب البر والصلة والادب باب فضل الاحسان الى البنات النساء ۵۹: مسلم كتاب الجهاد والسير باب غزوة حنين بخاری کتاب المغازی باب قصة غزوة بدر.المائدة ۲۵: کے بخاری کتاب المغازی باب قصة غزوہ بدر بخاری کتاب المناقب باب قصة الحبش و قول النبي يَا بَنِي أَرْفِدَة بخارى كتاب الجهاد باب التحريص على الرمي

Page 502

خطبات محمود ۴۹۷ سال ۱۹۳۵ء نیشنل لیگ کے متعلق ضروری ہدایات اور لائحہ عمل (فرموده ۱۶ /اگست ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں نیشنل لیگ کے متعلق کچھ قواعد بیان کئے تھے اور بتایا تھا کہ اسے اس اس رنگ میں کام کرنا چاہئے.آج میں ایک اور نصیحت کرنی چاہتا ہوں بلکہ دونصیحتیں ہیں.ایک تو یہ کہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نیشنل لیگ کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے ممبر صرف وہی احمدی بنیں جو آج سے دو سال پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے ہوں کیونکہ ہمیشہ مخالف کا قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو داخل کرنے کی کوشش کیا کرتا ہے جو اس کی خواہشات کے مطابق بنے بنائے کام کو خراب کر دیں یا حالات سے اسے واقف رکھیں.یہاں گزشتہ ایام میں کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ بعض لوگ بیعت کرنے کے نام سے آئے مگر دراصل ان کی نیت قتل کرنا یا خون بہانا تھی.یا بعض نے بیعت کا خط بھیجا اور بعد میں بیعت سے انکار کر دیا اور جماعت کو بدنام کیا.اسی طرح ہو سکتا ہے بلکہ قتل کی نیت سے شامل ہونے والوں کی نسبت یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ بعض لوگ اسلئے احمدی ہوں کہ تا وہ نیشنل لیگ میں شامل ہو کر اس کے کام کو خراب کر دیں یا کم از کم نیشنل لیگ کے حالات کی دشمن کے پاس رپورٹ کریں.اس خطرہ سے محفوظ رہنے کا آسان ترین طریق یہ ہے کہ صرف اُس احمدی کو نیشنل لیگ میں شامل کیا جائے جو دو سال پہلے کا احمدی ہو.جسے دو سال سے قلیل عرصہ احمدیت میں شامل ہونے پر ہوا ہوا سے نیشنل لیگ کا ممبر نہ بنایا جائے.اس غرض کیلئے ضروری ہے کہ نیشنل لیگ

Page 503

خطبات محمود ۴۹۸ سال ۱۹۳۵ء والے یہ ایک عام قاعدہ بنادیں کہ صرف وہی لوگ اس کے ممبر بن سکتے ہیں جو ۱۹۳۴ء سے پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہوں.جو ۱۹۳۴ ء یا اس کے بعد سلسلہ میں داخل ہوئے ہوں انہیں بلا خاص اجازت کے اس میں شامل نہیں کیا جائے گا اس طرح عام قاعدہ بنا دینے سے یہ سوال مٹ جائے گا جو اس قاعدہ کے نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ زید کو کیوں ممبر بنا لیا گیا اور بکر کو کیوں شامل نہیں کیا گیا.پس نیشنل لیگ والے یہ ایک عام قانون بنادیں کہ دو سال سے پہلے کے احمدیوں کو تو ہم لے لیں گے مگر ان احمدیوں کو ہم اپنے اندر شامل نہیں کریں گے جو حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں یا جن کی احمدیت پر دو سال کا عرصہ نہیں گزرا یہاں تک کہ اتنا عرصہ کسی کی احمدیت پر گزر جائے کہ معلوم ہو جائے اب اس کی احمدیت میں کوئی شبہ نہیں رہا اور اسے اب اپنے اندر شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں.یہ مت خیال کرو کہ چونکہ تم نے قانون شکنی نہیں کرنی یا کوئی خفیہ سوسائٹی نہیں بنانی اس لئے ایسے لوگوں کو ممبر بنالینے میں کیا حرج ہے.نیک سے نیک کام میں بھی رکاوٹیں ڈالی جاسکتی ہیں اور اچھے سے اچھے کام میں بھی دشمن رخنہ پیدا کر سکتا ہے.خواہ کیسے ہی تم آئین کے پابند ہو.تمہاری ممبریوں کو ایسے شخص حاصل کر کے جن کی نیت فتنہ وفساد اور کام کو خراب کر نا ہو یہ کر سکتے ہیں کہ جہاں کوئی اچھا اور قابل کا رکن ہوا اس کی پریذیڈنٹی کی مخالفت شروع کر دی اور سکتے اور فضول لوگوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کی تاکہ کام خراب ہو جائے تم سمجھتے ہو کہ اس کوشش سے احرار اور ان کے ساتھیوں کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے پس یہ بے سمجھی کی بات ہوتی ہے کہ انسان خیال کرے چونکہ ہمارا کام ہر قسم کے اعتراضات سے بالا ہے اس لئے کسی دشمن کے اس میں شامل ہونے میں کیا حرج ہے.پھر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم نے قانون شکنی نہیں کرنی اس لئے کسی احتیاط کی ہمیں کیا ضرورت ہے.جیسے کہ کسی نے کہا ہے : تو پاک باش برا در ترا از محاسبه چه باک یعنی اے بھائی تو پاک ہو جا پھر تجھے محاسبہ کا کوئی ڈر نہیں.پاک سے پاک اور جائز سے جائز بات میں بھی بسا اوقات غیر جنس کا آدمی اگر شامل ہو جائے تو اس کا م کو نقصان پہنچ جاتا ہے.تجارت کتنی اعلی چیز ہے اور قوموں کی ترقی کے لئے کس قدر ضروری سمجھی گئی ہے مگر اس میں بھی راز رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ راز بتا دئیے جائیں تو تجارت کامیاب نہیں ہو سکتی.تاجر کبھی نہیں بتائے گا

Page 504

خطبات محمود ۴۹۹ سال ۱۹۳۵ء کہ وہ ستاسو دا کہاں سے خریدتا ہے کیونکہ اگر وہ یہ بتا دے تو اس کا ہمسایہ سو دا گر بھی وہاں سے سودا خرید لائے اور اس طرح اس کا مقابلہ کرنے لگے.اسی طرح تا جر کبھی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی چیز کہاں سے خریدتا ہے کیونکہ اگر وہ بتا دے تو دوسرا تاجر بھی وہاں سے اعلیٰ چیزیں خرید لائے گا اور اس کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے گا.مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ لا ہور گیا حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کا زمانہ تھا وہاں ہمارے ایک دوست تاجر ہیں جو بائیسکلوں کی تجارت کرتے ہیں.میں کسی کام کے لئے ان کے پاس بیٹھا تھا کہ باتیں کرتے ہوئے ان کے پاس ایک تار پہنچا انہوں نے جو نہی اسے کھولا اور پڑھا معاً کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے آپ اجازت دیں تو میں دس منٹ کے لئے باہر جانا چاہتا ہوں.یہ کہتے ہی وہ بائیسکل پر سوار ہوئے اور دیوانہ وار سے دوڑاتے ہوئے چلے گئے میں حیران ہوا کہ یہ کیسا تار آیا ہے جس نے انہیں اس قدر بے تاب کر دیا.آخر ہمیں چھپیں منٹ کے بعد وہ آئے اور کہنے لگے میں ایک منٹ لیٹ پہنچا ور نہ آج مجھے سینکڑوں کا نفع ہو جاتا.میں نے پوچھا بات کیا ہوئی ؟ انہوں نے کہا مجھے تار پہنچا تھا کہ ڈن لوپ کے بائیسکلوں کے ٹائروں کا بھاؤ مہنگا ہو گیا ہے.مال روڈ پر ٹائروں کی ایک دکان تھی میں وہاں پہنچا اور اگر میں اس سے ٹائروں کا سودا کر لیتا تو آج کئی سو کا مجھے نفع ہو جاتا کیونکہ میں نے یہ اندازہ کیا تھا کہ اس کے پاس تار میرے بعد پہنچے گا اور چونکہ تار والے نے راستہ میں اور تار دینے تھے اس لئے میں اس خیال میں رہا کہ اس کے پاس تار پہنچتے وقت تک میں اس سے سودا کر چکوں گا اور جب بعد میں اسے تار پہنچ گیا تو میں کہوں گا کہ میرے سودے پر اس بھاؤ کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا لیکن جب میں وہاں پہنچا اور ٹائروں کے متعلق میں نے سودا کیا تو اُسی وقت تا ر بھی پہنچ گیا اور اس طرح میر اسو دارہ گیا.یہ کتنا جائز مقابلہ ہے مگر اس میں بھی راز سے پہلے واقف ہو جانے کی وجہ سے ایک شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور دوسرا نقصان اُٹھا سکتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ چونکہ تم نے جائز ذرائع سے کام لینا ہے اس لئے دشمن بے شک تم میں شامل ہو جائے.تمہارے لئے بہر حال احتیاط ضروری ہے کیونکہ دشمن تمہارے عہدوں میں خرابی پیدا کر سکتا ہے، تمہارے طریق کا رکو نقصان پہنچا سکتا ہے اور تمہارے رازوں کو دشمن تک پہنچا کر تمہاری سکیموں کو باطل کر سکتا ہے اس لئے یہ قانون بنا دو کہ ۱۹۳۴ ء سے پہلے کے احمدی نیشنل لیگ میں داخل ہو سکتے ہیں بعد کے احمدی بغیر خاص اجازت کے داخل نہیں ہو سکتے.یہ میری مراد نہیں کہ پہلے احمدیوں کو حق

Page 505

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کے طور پر داخل ہونے کی اجازت دو، ان میں بھی چھان بین کر ولیکن پہلوں کے لئے قانون اجازت کا ہو ، روک استثنائی ہو اور بعد والوں کے لئے قانون روک کا ہو اور اجازت استثنائی ہو.پھر ایک اور بات یہ بھی یاد رکھو کہ اب جبکہ تم نے ایک نظام قائم کیا ہے لوکل جماعتوں کا یہ اختیار نہیں رہا کہ وہ آپ ہی آپ ایک پروگرام تجویز کر کے اس کے مطابق کام کرنے لگ جائیں کیونکہ جب کوئی مرکزی انجمن بن جائے تو گل جماعتوں کا کام اُس کے بنائے ہوئے پروگرام کو جاری کرنا ہوتا ہے.یہ اجازت نہیں ہوتی کہ خود بخود ایک پروگرام تجویز کر کے اس کے مطابق کام کرنے لگ جائیں اس طرح کام کو ضعف پہنچتا اور اتحاد میں رخنہ واقع ہوتا ہے.مجھے اس نصیحت کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ میں نے ”الفضل میں یہاں کی نیشنل لیگ کے ایک جلسہ کی رپورٹ پڑھی ہے مجھے مقررین کی تقریروں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے لئے خود ایک پروگرام تجویز کر رہے ہیں جو کسی طرح درست نہیں.اگر باہر کی جماعتوں نے بھی اس طرح پراگندگی اور تشقت کا نمونہ دکھایا تو ڈر ہے کہ تمہارے کام کو نقصان پہنچ جائے.پس مجھے یہاں کی نیشنل لیگ کے فعل سے اس اختلاف کا خطرہ پیدا ہو گیا جو ہمیشہ طاقتوں کو توڑ دیا کرتا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ لوکل انجمنوں کو اب اس بات کا انتظار کرنا چاہئے کہ مرکزی انجمن ان کے لئے کیا پروگرام تجویز کرتی ہے اور جب مرکزی انجمن ان کے لئے ایک پروگرام تجویز کر دے تو پھر لوکل انجمنوں کا یہ کام نہیں کہ وہ سُست ہو جائیں اور انہیں پھیوں پر چٹھیاں لکھ کر ہوشیار کرنا پڑے بلکہ ان کا فرض ہے کہ وہ مستعدی اور ہوشیاری کے ساتھ اس پروگرام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں.مجھے آج ہی اطلاع دی گئی ہے کہ قادیان سے نیشنل لیگ کے لئے دوسو والنٹیر ز اور ساڑھے آٹھ سو کے قریب ممبر مہیا ہو گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر پوری طرح کوشش کی جائے تو ڈیڑھ ہزار کے قریب ممبر صرف قادیان اور ملحقہ دیہات سے حاصل ہو سکتے ہیں اور اگر سارے ضلع گورداسپور میں کوشش کی جائے تو دو تین ہزار کے قریب ممبر ہو سکتے ہیں.مجھے اگر چہ اس بات کی خوشی ہے کہ قادیان سے ایک کافی تعداد نیشنل لیگ کی ممبر بن چکی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں پھر بھی یہاں کے لوگوں کو نمونہ دکھانے کی ضرورت ہے.ابھی ایسے لوگ قادیان میں موجود ہیں جو نیشنل لیگ کے ممبر نہیں بنے اور اگر نیشنل لیگ کے کارکن کوشش کریں تو وہ بھی ممبری کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.دراصل کئی لوگ اپنے آپ کو چوہدری سمجھا کرتے ہیں اور وہ اس بات کے محتاج ہوتے

Page 506

خطبات محمود ۵۰۱ سال ۱۹۳۵ء ہیں کہ انہیں بار بار توجہ دلائی جائے.بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہ بڑے ہو جاتے ہیں، یا بڑے خاندانوں سے ان کا تعلق ہوتا ہے اور ان میں یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی ان کے پاس آئے اور انہیں شامل ہونے کے لئے کہے.ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور مخلص بھی لیکن بہر حال اگر کا رکن ان کے پاس پہنچیں تو تعداد میں بھی ترقی ہوسکتی ہے اور ان میں سے اچھے کارکن بھی مل سکتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل جب بیمار تھے تو بعض دفعہ آپ کا جی چاہتا کہ تنہائی حاصل ہو اور لوگ چلے جائیں.اس پر آپ اپنے ارد گرد بیٹھنے والوں سے فرماتے دوست اب تشریف لے جائیں.آپ کے اس کہنے پر نصف یا تہائی کے قریب لوگ چلے جاتے اور باقی بیٹھے رہتے.پانچ دس منٹ اور انتظار کرنے کے بعد جب آپ کی طبیعت پھر سکون اور آرام چاہتی تو آپ فرماتے دوست اب تشریف لے جائیں.اس پر پھر کچھ لوگ چلے جاتے اور کچھ بیٹھے رہتے.میرا بار ہا کا تجربہ ہے اور میں نے بار ہا سنا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل پھر کچھ انتظار کرنے کے بعد فرماتے اب چوہدری بھی چلے جائیں جس کا مطلب یہ ہوتا کہ میں نے کہا تھا چلے جاؤ مگر ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ حکم ان کے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہے گویا وہ اپنے آپ کو چوہدری سمجھتے ہیں.پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے آپ فرماتے کہ اب چوہدری بھی چلے جائیں.چوہدری کا لفظ سن کر وہ بھی چلے جاتے ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو کہ میں بھی تو آخر حضرت خلیفہ اول کے حکم کے باوجود وہیں بیٹھا رہتا ہوں گا تبھی تو مجھے حضرت خلیفہ اول کے یہ الفاظ سننے کا موقع ملا.اس کے لئے میں بتا دیتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اول جب بھی میری موجودگی میں اُٹھنے کے لئے کہتے تھے میں فوراً اُٹھ کھڑا ہوتا تھا مگر حضرت خلیفہ اول مجھے خود بٹھا لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس سے تم مراد نہیں تم بیٹھے رہو اور اس طرح اس نظارہ کے دیکھنے کا مجھے موقع مل جاتا تھا.تو اس قسم کے کچھ چوہدری بھی ہوتے ہیں جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ متواتر ان کے پاس پہنچ کر انہیں شامل ہونے کے لئے کہا جائے.یہ سارے کے سارے بُرے نہیں ہوتے.کچھ منافق بھی ہوتے ہیں مگر اکثر نیک اور مخلص ہوتے ہیں البتہ ان کو اس بات کی عادت ہوتی ہے کہ کوئی انہیں شامل ہونے کے لئے کہے تب شامل ہوں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسے پائے کے آدمی ہیں کہ اگر کوئی ہمیں شامل ہونے کی تحریک کرے گا تو شامل ہو نگے ورنہ نہیں ہونگے.یہ کمزوری ہے مگر جہاں ایک کمزوری ان میں ہوتی ہے وہاں بیسیوں خوبیاں

Page 507

خطبات محمود ۵۰۲ سال ۱۹۳۵ء بھی ان میں ہوتی ہیں پس اگر عمدگی سے نیشنل لیگ کوشش کرے تو قادیان اور اردگرد کے مواضعات کو ملا کر ۱۵۰۰ کے قریب نیشنل لیگ کے ممبر ہو سکتے اور سارے ضلع سے تین ہزار کے قریب ممبر حاصل ہو سکتے ہیں لیکن بہر حال اگر دو یا تین ہزار کے درمیان کوئی تعداد بھی ممبروں کی ہو تو میں سمجھوں گا کہ نیشنل لیگ نے کامیاب کوشش کی اور اس کے معنی یہ ہونگے کہ باقی ضلعوں سے ہمیں نصف کے قریب اور ممبر درکار ہوں گے.جب یہ تعداد پوری ہو جائے گی تو اس کے بعد نیشنل لیگ کو وسیع اختیارات دیئے جائیں گے اور زیادہ ذمہ واری کے کام اس کے سپرد کئے جائیں گے.میں سمجھتا ہوں صرف ہوشیار پور، سیالکوٹ اور گورداسپور تینوں ضلع ملکر پانچ ہزار ممبر نیشنل لیگ کو دے سکتے ہیں.یہ دو نصیحتیں ہیں جو اس وقت میں نیشنل لیگ کے کارکنان کو کرنی چاہتا ہوں.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ نیشنل لیگ کو جب اختیارات دیئے جائیں تو پہلی چیزیں جو اس کے پروگرام میں شامل ہونی چاہئیں وہ تین کام ہیں جو آگے چل کر بتاؤں گا.اس کے علاوہ بھی اگر کوئی کام نظر آئے تو وہ کرے لیکن ہمیشہ اس اصل کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ زیادہ کاموں پر ہاتھ ڈالنا کام کو خراب کر دیا کرتا ہے.انسان کو چاہئے کہ وہی کام لے جو آسانی سے کر سکے ہاں جب وہ کام ختم ہو جائے تو اور کام شروع کرے.پھر نیشنل لیگ والے سیاسی طور پر جب دوسری جماعتوں سے تعلق پیدا کریں گے تو انہیں کئی پروگرام دوسری جماعتوں کے بھی مد نظر رکھنے پڑیں گے.مثلاً فرض کر و کانگرس کا نیشنل لیگ سے اتحاد ہو جاتا ہے نیشنل لیگ قانون شکنی سے انکار کر سکتی ہے مگر کانگرس اس سے یہ تقاضا کر سکتی ہے کہ دیہات سدھار کے کام میں اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تو پھر اس کام کو بھی اپنے پروگرام میں اسے شامل کرنا پڑے گا یا اور کسی قوم کے ساتھ نیشنل لیگ کا اتحاد ہو جاتا ہے اور وہ کوئی اور پروگرام اس کے سامنے پیش کرتی ہے تو اس پروگرام کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہوگا.غرض چونکہ نیشنل لیگ کو دوسری انجمنوں کے کئی پروگرام بھی اپنے پروگرام میں شامل کرنے پڑیں گے اس لئے اور بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نیشنل لیگ کا موجودہ پروگرام نہایت مختصر ہو.مجھے ایک صوبہ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ نیشنل لیگ اگر وہاں کام کرے تو بہت بڑی طاقت بن سکتی ہے کیونکہ وہاں کی موجودہ پارٹیاں انتہاء پسند ہیں اور مختلف پارٹیاں اپنے درمیان وسیع خلیج رکھتی ہیں.یعنی یا تو لوگ گورنمنٹ کے خلاف ہیں اور اتنے انتہاء پسند ہیں کہ قتل وغارت کے سوا انہیں کچھ نظر ہی

Page 508

خطبات محمود ۵۰۳ سال ۱۹۳۵ء نہیں آتا اور یا اتنے خوشامدی ہیں کہ سوائے خوشامد کے وہ کوئی کام ہی نہیں جانتے.درمیانی طبقہ جو ایک طرف شرافت اور پیار سے ملک کی خدمت کرنا چاہے اور دوسری طرف حکومت پر خواہ مخواہ حملہ نہ کرے ، بہت ہی کمزور اور دبا ہوا ہے.اس دوست نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو دوسری اقوام کے لوگ بھی شامل کر کے بہت بڑے کام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور اس غرض کے لئے انہوں نے مجھ سے اجازت منگوائی ہے مگر اب چونکہ مرکزی لیگ کو اختیارات دیئے جاچکے ہیں اس لئے اصولاً وہ جو کام بھی کرنا چاہیں اس کے متعلق انہیں مرکزی نیشنل لیگ سے خط و کتابت کرنی چاہئے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ میرے گزشتہ خطبات کو پڑھتے تو انہیں معلوم ہو جا تا کہ نیشنل لیگ کی بنیا د رکھتے ہوئے میں نے تجویز کی تھی کہ اس لیگ کو دنیا کی اور اقوام اور انجمنوں سے مل کر کام کرنا چاہئے بلکہ میں نے تو تحریک کی تھی کہ ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان حدود کے اندر رہتے ہوئے جن سے باہر کسی مؤمن کا قدم نہیں نکل سکتا ، ہر قسم کے حقوق حاصل کرنے کے لئے جد و جہد کرنی چاہیئے.پس اس بات کا اعلان میں پہلے بھی کر چکا ہوں اور اس لئے کہ تا کسی کے دل میں شبہ نہ رہے اب پھر اس اعلان کو ہرا دیتا ہوں کہ نیشنل لیگ کی بنیا د رکھتے ہی میں نے تجویز کی تھی کہ یہ لیگ دوسری انجمنوں سے مل کر بھی کام کر سکتی ہے بلکہ اسے اپنے ممبروں میں دوسرے مسلمانوں یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہئے.کئی سیاسی اور تمدنی کام ایسے ہو سکتے ہیں جن کا کسی خاص مذہب کے ساتھ تعلق نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگ ان کا موں میں حصہ لے سکتے ہیں.مثلاً غریبوں کی ترقی ، زمینداروں اور پیشہ وروں کی ترقی ،مسکینوں ، قتیموں اور غریبوں کی ترقی کے لئے کوشش کرنا کس مذہب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ؟ ایک سکھ، ایک ہندو، ایک عیسائی اور ایک یہودی غریب، مزدور، پیشہ ور یا یتیم ومسکین کے ساتھ ہماری ویسی ہی ہمدردی ہونی چاہئے جیسے ایک احمدی کے ساتھ.ہم اس لئے ایک یتیم کی مدد نہیں کرتے کہ وہ احمدی ہے بلکہ اس لئے مدد کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس کے لئے جو سہارا بنایا تھا وہ اُٹھ گیا اور اب باقی لوگوں کا فرض ہے کہ اسکی مدد کریں بیشک الاقْرَبُ فَالًا قَرَبُ کا قانون دنیا میں جاری ہے اور جو یتیم ومسکین ہماری نگاہ کے سامنے ہو اس کی ہم پہلے مدد کرتے ہیں اور دوسرے کی بعد میں لیکن ہم دوسرے کی مدد کرنے سے بعض دفعہ اس لئے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس جو طاقت یا روپیہ ہوتا ہے وہ قریب کے یتامی وغرباء

Page 509

خطبات محمود ۵۰۴ سال ۱۹۳۵ء پر ختم ہو جاتا ہے اور باقیوں کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا.ورنہ اگر ہمارے پاس طاقت ہو تو ہم کسی کے ساتھ فرق نہ کریں اور ایک ہندو یتیم ، ایک سکھ یتیم اور ایک مسلمان یتیم میں کوئی امتیاز نہ کریں تو تمدنی اور سیاسی معاملات ایسے ہیں کہ مذہب کے اختلاف کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا.پس جن جن لیگوں کو یہ شبہ ہو کہ یہ لیگ صرف جماعت کے لئے ہے انہیں یہ شبہ اپنے دل سے نکال دینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ لیگ کو نہ صرف اپنا دائرہ عمل وسیع کرنے کی ضرورت ہے بلکہ وسیع کرنا اس کے لئے مفید اور ضروری ہے.اس کے بعد وہ تین باتیں بتا تا ہوں جو میرے نزدیک نیشنل لیگ کو اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئیں.سب سے پہلی اور مقدم چیز جس کے لئے ہر احمدی کو اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سلسلہ کی ہتک ہے.متواتر سلسلہ احمدیہ کی ہتک کی جارہی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حکام کو اس کے دور کرنے کی طرف وہ تو جہ نہیں جو حکومت کے لحاظ سے اس پر عائد ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت پنجاب نے اب تک ۹ کے قریب یا ممکن ہے ایک دو زیادہ پمفلٹ ضبط کئے ہیں جن میں سلسلہ احمدیہ پر حملے کئے گئے تھے مگر ۹ ، دس یا گیارہ پمفلٹوں کو ضبط کر لینا ہر گز یہ بات ثابت نہیں کرتا کہ گورنمنٹ نے اپنا فرض ادا کر دیا کیونکہ ضبط ہونے والے پمفلٹ تو ۹ دس ہیں اور وہ ٹریکٹ رسالہ جات اور اشتہارات جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمیشہ گندی گالیاں دی جاتی ہیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور گورنمنٹ ان کے متعلق کوئی نوٹس نہیں لیتی.اگر سو قاتلوں میں سے نو یا دس قاتلوں کو گورنمنٹ سزا دے دیتی ہے تو ہرگز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گورنمنٹ نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا کیونکہ اگر اسے سو قاتلوں کا علم ہے تو جب تک وہ ہر ایک قاتل کو سزا نہیں دے لیتی وہ اپنے فرائض کو ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی.اسی طرح گورنمنٹ کا ہمارے خلاف سینکڑوں رسالوں ، اشتہاروں اور کتابوں کی طرف کوئی توجہ نہ کرنا اور نو دس سپمفلٹوں کو ضبط کرنا بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا کرتا ہے کہ یہ ۹ ضبطیاں بھی محض دکھانے کے لئے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کی طرف توجہ کی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ نو دس پمفلٹوں کو تو ضبط کر لیا جائے مگر باقی اخبارات متواتر گالیوں سے پُر ہوں ، اشتہارات گالیوں سے پُر ہوں ،ٹریکٹ اور رسالے گالیوں سے پر ہوں نظمیں ہماے خلاف پڑھی جاتی ہوں مگر گورنمنٹ ان کی طرف کوئی توجہ نہ

Page 510

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کرے.اسی ضلع کا ایک آدمی ہے جو اپنی شوخی و شرارت میں اس حد تک بڑھا ہو ا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو چیلنج کیا تھا اور کہا تھا مجھے کیا پتہ میں تیرے نطفہ سے ہوں.اسکی ایک نظم جو ہمارے خلاف تھی ، اسکو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا مگر وہ برابر اس ضبط شدہ نظم کو جلسوں میں پڑھتا ہے مگر حکومت اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی.اگر اسکی نظم کی ضبطی قیام امن کے لئے تھی تو کیا وجہ ہے کہ جب جلسوں میں وہ اس نظم کو پڑھتا اور طبائع میں اشتعال پیدا کرتا ہے تو گورنمنٹ اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھاتی.گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم نے جماعت احمدیہ کے خلاف 9 پمفلٹوں کو ضبط کیا مگر ہم ان ۹ کے مقابلہ میں چارسو بلکہ اس سے بھی زیادہ تحریرات اخبارات ، رسالہ جات اور اشتہارات کی دکھا سکتے ہیں جن میں ایسی گندی گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو دی گئی ہیں اور ایسے دلہ زار کلمات استعمال کئے گئے ہیں کہ یقینی طور پر اگر ان گالیوں اور دلآ زار کلمات کو ایک غیر متعصب انسان کے سامنے رکھا جائے تو وہ اقرار کرے کہ ان تحریرات میں گالیاں دی گئی ہیں دلائل سے کام نہیں لیا گیا مگر باوجود اس کے حکومت نے ان کی طرف توجہ نہیں کی.بےشک حکومت نے ایک مقدمہ چلایا ہے مگر ہر انصاف پسند انسان اس مقدمہ کی کارروائی کو دیکھ کر کہے گا کہ وہ مقدمہ اس شخص پر نہیں چلایا گیا بلکہ جماعت احمدیہ پر چلایا گیا تھا کسی انصاف پسند آدمی کے سامنے میری وہ گواہی رکھ دی جائے جو میں نے عدالت میں دی تھی اور اسی طرح دوسرے کارکنان سلسلہ کی اور دیکھا جائے کہ جو جرح کی گئی ہے اور جس طرح ہمارے دفتری کا غذات منگوا کر پیش کئے گئے ہیں انہیں مد نظر رکھ کر کون ہے جو کہہ سکے کہ مقدمہ سید عطا اللہ شاہ بخاری کے خلاف تھا.پھر اس سارے مقدمہ کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ اس شخص کو صرف پندرہ منٹ قید کی سزا دی گئی اور وہ فخر کرتا ہے اور علی الاعلان کہتا ہے کہ مجھے عدالت کے برخواست ہونے تک ۱۵ منٹ کی جو سزا دی گئی اس میں خود عدالت کو بھی سزا ملی اور وکلاء کو بھی سزا ملی کیونکہ وہ لوگ بھی اُس وقت تک بیٹھے جب تک میں بیٹھا رہا اور میں نے خوب ہر ایک کو چ پر بیٹھ بیٹھ کر بجلی کے پنکھوں کے لطف اُٹھائے.اس کے مقابلہ میں اسی ضلع میں ایک احمدی نے ایک کتاب لکھی اور اس میں صرف حوالجات جمع کئے اس پر بھی حکومت نے مقدمہ چلایا اور اسے قید کی سزا دی گئی ، پھر اپیل پر سیشن جج مسٹر کھوسلہ نے سزا کو چار سو ر روپیہ جرمانہ میں تبدیل کر دیا.ان مثالوں کو سامنے رکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے ایک ایک آدمی پر حکومت نے مقدمہ چلا کر وزن برابر کر دیا

Page 511

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء مگر سوال دو آدمیوں کا نہیں.سوال یہ ہے کہ ایک قوم کے کس قدر آدمیوں نے جرم کیا اور دوسری قوم کے کتنے آدمیوں نے جرم کیا.اگر ہمارے مخالفوں میں سے سو آدمی نے جرم کیا اور ایک پر مقدمہ ہوا اور ہمارے ایک آدمی نے مُجرم کیا اور اس پر مقدمہ کیا گیا تو سمجھا یہ جائے گا کہ حکومت نے دوسروں کے خلاف سو میں سے ایک مجرم پر کارروائی کی اور احمدیوں کے سو فی صدی آدمیوں کے خلاف کارروائی کی.خود قادیان میں ہی عطا اللہ شاہ صاحب بخاری کی طرح اور لوگوں نے بھی اشتعال انگیز تقریریں کی ہیں اور نہایت ہی اشتعال انگیز تقریریں کی ہیں ان میں صریح قتل کی تحریص دلائی جاتی رہی ہے مگر گورنمنٹ نے کوئی مقدمہ نہ چلایا اور نہ کوئی اور کارروائی کی.غرض ان ضبط ہونے والے اشتہارات یا پمفلٹوں کے مقابلہ میں درجنوں ایسے اشتہارات ، اخبارات اور رسائل موجود ہیں جن میں سلسلہ احمدیہ اور بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہایت نا پاک اور گندے حملے کئے گئے ہیں اور گورنمنٹ ان پر کوئی تو جہ نہیں کرتی.پس حکومت کا رویہ دیکھ کر اگر ہمارے آدمیوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو کہ یہ نو دس یا گیارہ ضبطیاں بھی محض یہ دکھانے کے لئے تھیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا تو میں سمجھتا ہوں اس شبہ کو دور کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں.یہ کہا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ پر بدظنی نہ کرو مگر اس شبہ کا حقیقی جواب ہمارے پاس کوئی موجود نہیں اگر گورنمنٹ کے پاس کوئی دلیل موجود ہو تو ہم اسے خوشی کے ساتھ سننے کے لئے تیار ہیں.ہم نے آج تک کبھی کوئی غیر معقول رویہ اختیار نہیں کیا.اگر گورنمنٹ ثابت کر دے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے تو ہم خوشی سے اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں؟ مگر مشکل تو یہ ہے کہ گورنمنٹ ہمارے دلائل کے مقابلہ میں ایسی خاموش ہے کہ گو یا منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی ہے جس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں ہوسکتا کہ یا تو گورنمنٹ کے پاس ہمارے شبہات کا جواب نہیں یا گورنمنٹ ہمیں قابلِ التفات نہیں بجھتی اور خیال کرتی ہے کہ یہ پُر امن لوگ ہیں انہوں نے قانون کو تو ڑ نانہیں ان کی طرف توجہ کر کے کیوں وقت ضائع کریں.اس سلسلہ میں میں ایک موٹی مثال پیش کرتا ہوں جس کا جواب میں سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کے پاس کوئی نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے سلسلہ کے مخالفین کئی سال سے متواتر یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور ان کی سینکڑوں تحریروں اور تقریروں میں یہ طریق استعمال کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ کہہ کر اشتعال دلاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت

Page 512

خطبات محمود ۵۰۷ سال ۱۹۳۵ء کے سوا باقی تمام مسلمانوں کو کن چنیوں کی اولاد کہا ہے.یہ غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سب مسلمانوں کو ایسا کہا ہو ہم نے عدالت میں بھی حوالہ جات سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کے یہ معنی نہیں.نیز یہ کہ جن الفاظ پر اعتراض ہے وہ سب مسلمانوں کی نسبت نہیں استعمال کئے گئے بلکہ ان لوگوں کی نسبت استعمال کئے گئے ہیں جنہوں نے اس سے بہت زیادہ گندے اور ناپاک الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمد یہ کے خلاف استعمال کئے تھے.جنہوں نے کہا تھا مسیح موعود علیہ السلام دجال ہیں اور فاسق و فاجر ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ احمدیوں کی بیویوں کو طلاق ہو جاتی ہے اور احمدی جماعت دجال کی ذریت ہے ان لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ یہ ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا ہیں.تم ان گالیوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کو بعض علماء کہلانے والوں نے دی ہیں کسی شریف آدمی کے سامنے رکھ کر اس سے پوچھ کر دیکھ لو کہ آیا ان لوگوں کو ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا خواہ یہ الفاظ حرامزادہ کے معنی میں ہی کیوں نہ ہوں کہنا جائز ہے یا نہیں.میں نہیں سمجھتا کہ اس سوال کے دو جواب ہونگے.ہر شریف آدمی یہی کہے گا کہ یہ لوگ ان الفاظ کے بلکہ ان سے بڑھکر الفاظ کے مستحق تھے.یقیناً وہ لوگ جنہوں نے احمدیوں کو دجالوں کی اولاد کہا ، جنہوں نے احمدیوں کی عورتوں کو کنجریاں کہا، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو بھڑ وا قرار دیا اور اسی قسم کی بیسیوں گالیاں دیں ان کے حرامزادہ ہونے میں کون شبہ کر سکتا ہے.باقی رہے عام مسلمان یا وہ علماء جنہوں نے ایسا نہیں کیا اور ایسے بہت سے علماء مسلمانوں میں تھے ان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ان میں شریف اور نیک لوگ موجود ہیں اور ہم ان کی عزت کرتے ہیں ہم نے عدالت میں بھی ثابت کر دیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی تحریرات سے نکال کر دکھا دیا تھا کہ آپ لکھتے ہیں ہندوؤں سکھوں اور عیسائیوں میں اعلیٰ درجہ کے شریف لوگ موجود ہیں میں انہیں بُر انہیں کہتا.میں بعض دفعہ سخت الفاظ ان لوگوں کی تنبیہہ کیلئے استعمال کرتا ہوں جنہوں نے گالیوں میں ابتداء کی اور بکو اس میں انتہاء کو پہنچ گئے.مگر با وجود ا سکے لوگوں کو جوش دلانے کیلئے عَلَى الْإِعْلَانُ کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام مسلمانوں کو حرامزادہ اور ان کی عورتوں کو کتنیاں قرار دیا ہے اور برابر اشتہارات ، اخبارات اور رسائل میں حضرت مسیح موعود علیہ

Page 513

خطبات محمود ۵۰۸ سال ۱۹۳۵ء السلام کا حوالہ درج کر کے شور مچایا جاتا ہے کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو حرامزادہ کہہ دیا.اس کے مقابلہ میں قاضی محمد یوسف صاحب نے اپنی ایک کتاب میں ثابت کیا کہ شیعوں نے بھی سُنیوں کو حرامزادہ کہا ہے تو حکومت نے جھٹ اس کتاب کو ضبط کر لیا.اگر دشمن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کا حوالہ پیش کر کے روزانہ اخباروں اور رسالوں میں یہ لکھے کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو حرامزادہ کہہ دیا اور وہ اس بات کو تمام ہندوستان میں مشہور کرے اور جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلائے تو حکومت کے نزدیک کوئی حرج نہیں لیکن اگر شیعوں کی نسبت بھی یہی بات ثابت کر دی جائے کہ انہوں نے بھی سنیوں کو حرامزادہ کہا ہے تو وہ کتاب ضبط ہونے کے قابل ہو جاتی ہے.اگر واقعہ میں کسی کتاب کا حوالہ دینا جرم ہے اور کسی کی بات کو ڈ ہرانا ایسی حرکت ہے جو قانون کے لحاظ سے قابل گرفت ہے تو حکومت کو چاہئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے حوالجات کی بناء پر جن جن رسالوں ، اخباروں اور اشتہاروں میں یہ دُہرایا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو حرامزادہ کہ دیا انہیں ضبط کرتی کیونکہ اس کے نزدیک اس قسم کے الفاظ سے فساد پیدا ہوتا ہے لیکن اگر فساد پیدا نہیں ہوتا تو کیوں ہمارے سلسلہ کی ایک کتاب ضبط کی گئی.دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے.یا تو کسی کو حرامزادہ کہنا اشتعال پیدا کرتا ہے یا حرامزادہ کہنے سے اشتعال پیدا نہیں ہوتا.اگر حرامزادہ کہنے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے تو وہی قانون ہمارے مخالفوں کے متعلق بھی استعمال کرنا چاہئے جبکہ وہ بار بار یہ کہہ کر لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے مسلمانوں کو حرامزادہ کہا ہے اور اگر اشتعال پیدا نہیں ہوتا تو حکومت کو ہماری ایک کتاب بھی ضبط نہیں کرنی چاہئے تھی.البتہ ایک غذر کیا جا سکتا ہے جو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف جو کلمات منسوب کئے جاتے ہیں وہ آپ نے استعمال کئے ہیں مگر شیعوں کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے وہ غلط ہے ان کی کتب میں ایسا نہیں لکھا.اگر حکومت کو یہ شک ہے تو اسے مقدمہ چلا کر دیکھ لینا چاہئے کہ آیا فی الواقع قاضی صاحب نے جو کچھ لکھا وہ شیعوں کی کتب میں سے لکھا ہے یا جھوٹے طور پر ان پر الزام لگا دیا ہے.اگر قاضی صاحب ثابت کر دیں کہ شیعوں کی کتابوں میں بالصراحت لکھا ہے کہ سارے سنی حرامزادے ہیں بلکہ ہر شخص جو غیر شیعہ ہو خواہ ہندو ہو ،سکھ ہو ، عیسائی ہو ، حرامزادہ ہے اور شیطان کی اولاد ہے بلکہ یہاں تک لکھا ہو کہ جب ایک غیر شیعہ خواہ وہ مسلمان ہو یا ہندو یا سکھ اپنی بیوی

Page 514

خطبات محمود ۵۰۹ سال ۱۹۳۵ء کے پاس جاتا ہے تو شیطان اس کی شکل بنا کر اس کی بیوی سے جماع کرنے لگ جاتا ہے اور اس طرح جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ شیطان کی اولاد ہوتی ہے ، تو پھر حکومت کے پاس کوئی وجہ نہیں رہتی کہ قاضی صاحب کی کتاب کو ضبط کرے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ فقرہ جو بالعموم گالیاں دینے والے پیش کیا کرتے ہیں، اشتعال پیدا کرنے والا ہے تو یہ فقرہ جو سارے سنیوں بلکہ سب غیر مذاہب والوں کے متعلق استعمال کیا گیا ہے کیا اشتعال پیدا نہیں کرتا ؟ پھر گورنمنٹ کیوں فرق کرتی ہے.ایک فریق کی کتاب کو ضبط کرتی اور دوسرے فریق کی کتاب کو ضبط نہیں کرتی گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ نہ اس میں فرق کرتی اور نہ اس میں مگر اس نے ایسا نہیں کیا.قاضی صاحب کی جو کتاب حکومت نے ضبط کی ہے وہ اتفاقاً ضبط ہونے سے چند دن پہلے میں نے منگوا کر دیکھی تھی کیونکہ اس کے متعلق اطلاع پہنچی تھی کہ ایک علاقہ میں وہ بہت مؤثر ثابت ہو رہی ہے.اس میں انہوں نے اپنی ذاتی رائے کوئی نہیں لکھی صرف شیعوں کی کتابوں کے حوالجات درج کر دیئے ہیں لیکن حکومت کے نزدیک محض حوالے درج کرنا بھی قابلِ اعتراض ہو گیا اور اس نے اسے ضبط کر لیا حالانکہ ہم دونوں صورتوں کو منظور کر لینے کے لئے تیار ہیں.ہم اسے بھی منظور کر لینے کے لئے تیار ہیں کہ ایسی تحریرات جن میں پہلوں کے حوالجات درج کئے گئے ہوں اور کسی قوم کے لئے دل آزار ہوں اگر انہیں بعد میں کوئی دل آزاری کے طور پر شائع کرے تو انہیں ضبط کر لیا جائے.اس صورت میں بے شک قاضی صاحب کی تحریر ضبط کرو مگر ان لوگوں کی تحریر میں بھی ضبط کی جائیں جن میں بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ دہرایا جاتا اور لوگوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے پھر ہم اس صورت کو بھی منظور کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اگر حوالہ درست ہو تو کتاب ضبط نہ کی جائے اور نہ مصنف کو سزا دی جائے.اس صورت میں ہمارا مطالبہ ہو گا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ مخالف نقل کریں تو ہمیں بھی اجازت ہو کہ ہم دوسروں کی کتابوں سے حوالے پیش کریں اور اس صورت میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہونی چاہئے.یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ کسی منصف مزاج کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان میں بے انصافی پائی جاتی ہے.ہم دونوں صورتوں کو پیش کرتے ہوئے گورنمنٹ پر یہ چھوڑ نا چاہتے ہیں کہ وہ جو چاہے کرے.چاہے تو وہ دونوں کی کتابوں کو ضبط کر لے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور چاہے تو دونوں کو کھلا چھوڑ دے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر ایک قوم

Page 515

خطبات محمود ۵۱۰ سال ۱۹۳۵ء حوالہ نقل کرے تو اسے سزا دینا اور دوسری قوم وہی کام کرے تو اسے کچھ نہ کہنا ہرگز انصاف نہیں کہلا سکتا.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہماری صدر انجمن کے افسروں نے گورنمنٹ کو ایک پمفلٹ کے متعلق جو ہمارے خلاف شائع ہوا تھا.چٹھی لکھی اور اسے توجہ دلائی تو گورنمنٹ نے لکھا ہم نے اس ٹریکٹ کو ضبط کر لیا ہے مگر احمد یوں کو بھی چاہئے کہ وہ اشتعال انگیز تحریریں شائع نہ کیا کریں.یہ جواب پہنچنے پر ایک ناظر نے حکومت کو لکھا کہ ہم حکومت کے ممنون ہوں گے اگر وہ بتائے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کونسی اشتعال انگیز تحریریں شائع کی گئی ہیں اور اگر حکومت ثابت کر دے تو ہم خود اس احمدی کو سزا دینے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ سکھوں کے خلاف ایک احمدی نے ایک کتاب لکھی تھی جس کے بعض حصے ایسے تھے جو سکھوں کے لئے اشتعال انگیز تھے اسے ہمارے خلیفہ اسیح نے ضبط کر لیا اور پنجاب کونسل میں خود حکومت کی طرف سے اس رواداری کی تعریف کی گئی.پس ہم نے کبھی پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں منافرت پھیلانے والی تحریر میں شائع کی جائیں اس لئے گورنمنٹ نے جو یہ لکھا ہے کہ احمدی بھی اشتعال انگیز تحریریں شائع نہ کیا کریں وہ بتائے کہ کس احمدی نے اشتعال انگیز تحریرلکھی مگر با وجود اس کے کہ دودفعہ حکومت کے سامنے یہ بات دُہرائی گئی حکومت نے کوئی جواب اب تک نہیں دیا.ہاں ایک دفعہ زبانی اس طرف توجہ دلائی گئی تو ایک ذمہ دار افسر نے کہا کہ اس طرح بار بار حکومت کو مخاطب کرنا خواہ مخواہ دق کرنے کے مترادف ہے.ہم اب بھی کہتے ہیں کہ اصولاً ہم کسی کا دل دُکھانے کو جائز نہیں سمجھتے مگر ہمارا حق ہے کہ ہم یہ مطالبہ کریں کہ قانون ہر قوم کے لئے ایک ہی ہونا چاہئے.اگر حکومت سب کو ایسی تحریرات سے رو کے تو ہم اس حد تک حکومت سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ہماری جماعت میں سے جو ایسا جرم کرے ، اسے علاوہ حکومت کی سزا کے ہم اپنی طرف سے سزا دیں گے جو حکومت کی سزا سے بھی سخت ہوگی لیکن اگر گورنمنٹ اس کے لئے تیار نہیں تو وہ سب کے لئے یکساں قانون بنائے.ہمیں شکوہ ہے تو یہ کہ قانون کے دو معنی کئے جاتے ہیں.ایک وہ معنی جو تھوڑوں کے لئے ہیں اور ایک وہ معنی جو بہتوں کے لئے ہیں.اگر سب کے لئے ایک قانون کر دیا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو.چاہے دونوں کو اجازت دے دی جائے کہ وہ گزشتہ لوگوں کے حوالے نقل کرتے چلے جائیں اور چاہے دونوں کو منع کر دیا جائے.قاضی صاحب کی اگر ایک کتاب ضبط کی جاتی ہے تو پھر وہ سارے اشتہارات ، ساری کتب اور سارے رسائل ضبط ہونے چاہئیں جن میں یہ درج

Page 516

خطبات محمود ۵۱۱ سال ۱۹۳۵ء ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے نہ ماننے والوں کو حرامزادہ کہا اور اگر قاضی صاحب کی کتاب کو ضبط کر کے گورنمنٹ نے غلطی کی ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی غلطی کا اقرار کرے اور ضبطی کے حکم کو واپس لے.غرض ایک تو یہ کام نیشنل لیگ کے سامنے ہے کہ وہ سلسلہ کی ہتک کا ازالہ کرائے.اور جائز ذرائع سے کام لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اسی طرح احترام حکومت اور رعایا سے کرائے جس طرح وہ باقی اقوام کے بزرگوں کا احترام کراتی ہے.وہ قانون جو سکھوں کے بزرگوں کے متعلق ہے ، وہ قانون جو ہندوؤں کے بزرگوں کے متعلق ہے ، وہ قانون جو عیسائیوں کے بزرگوں کے متعلق ہے ، ہم اسی قانون کو اپنے لئے چاہتے ہیں اور ویسا ہی احترام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کرانا چاہتے ہیں.ہم ایک رتی بھر بھی اس سے زیادہ حق نہیں مانگتے جتنا حق اس نے سکھوں ، ہندوؤں اور عیسائیوں کے بزرگوں کو دے رکھا ہے مگر ہم ایک رتی بھر اس سے کم بھی منظور نہیں کر سکتے اور اگر اس مقصد کیلئے ہزار نہیں ہیں ہزار احمدیوں کو اپنی جانیں دینی پڑیں تو ہر احمدی کو اس کیلئے تیار رہنا چاہئے اور اگر کوئی شخص اس ہتک کو برداشت کر لے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اس سے کم درجہ پر راضی ہو جائے گا جو درجہ قانون نے دوسرے بزرگوں کو دیا ہے ، خواہ اس کے لئے سو سال ہی کیوں کوشش نہ کرنی پڑے تو وہ انتہاء درجہ کا بے غیرت انسان ہو گا اور اس کی قبر پر احمدیت کی وجہ سے برکتیں نازل نہیں ہوں گی بلکہ ابد تک بجائے رحمت کے اس کی قبر پرلعنتیں نازل ہونگی.پس یہ ایک اہم سوال ہے جو اس وقت پیدا ہے.ہم نے دونوں باتیں گورنمنٹ کے سامنے گھلے طور پر رکھ دی ہیں.یا تو وہ ساری جماعتوں کو روک دے اور ہر ایک سے کہہ دے کہ صحیح حوالے بھی جو اشتعال پیدا کرتے ہوں، استعمال کرنے درست نہ ہونگے اور جو اس حکم کی خلاف ورزی کرے، اسے سزا دے اور یا پھر سب کو اجازت دے کہ وہ دوسروں کی کتب سے جو صحیح حوالے بھی پیش کرنا چاہیں پیش کریں.انہیں کوئی سزا نہ دی جائے اگر حکومت ان دونوں طریق میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرے تو پھر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا.گو میں امید رکھتا ہوں کہ باوجود اس اجازت کے کہ ہر فریق دوسرے فریق کے متعلق جو جی چاہے لکھ سکتا ہے پھر بھی دوسروں کی نسبت ہماری جماعت اپنی تحریروں اور تقریروں میں بہت زیادہ احتیاط برتے گی مگر اس قربانی کے باوجود ہمیں حکومت پر کوئی

Page 517

خطبات محمود ۵۱۲ سال ۱۹۳۵ء اعتراض نہیں ہو گا جیسے کیپٹن ڈگلس صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فلاں فلاں عیسائیوں نے چونکہ آپ پر جھوٹا مقدمہ دائر کیا ہے اس لئے آپ کو اجازت ہے کہ ان عیسائیوں پر مقدمہ دائر کر دیں.یہ سنکر ہمارا دل خوش ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ میں مقدمہ کرنا نہیں چاہتا لیکن اگر ڈگلس صاحب بجائے یہ کہنے کے یہ کہتے کہ یہ چونکہ عیسائی ہیں اور حکومت کو ان کا پاس ہے ، اس لئے آپ ان پر مقدمہ نہیں چلا سکتے تو ہمیں ہمیشہ ڈگلس صاحب پرشکوہ رہتا.اسی طرح گورنمنٹ اگر دونوں فریق کو آزاد کر دے تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہوگا.گوسو میں سے ننانوے کا جواب ہم پھر بھی نہیں دیں گے.پس ایک بات تو یہ ہے کہ جسے نیشنل لیگ والوں کو اپنے پروگرام میں شامل کرنا چاہئے.اس کا طریق عمل یہ ہو سکتا ہے کہ نیشنل لیگ گورنمنٹ کے سامنے یہ بات کھلے طور پر رکھ دے کہ وہ دونوں فریق سے مساوی سلوک کرے ورنہ جیسے وہ حوالجات پیش کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان کی کتابوں سے حوالے پیش کریں گے اپنی طرف سے نہیں، کیونکہ اپنی طرف سے حوالہ بنا کر دوسرے کی طرف منسوب کرنا لعنتیوں کا کام ہے بلکہ انہی کی مسلمہ کتب سے اور اگر اس کے نتیجہ میں فساد پیدا ہو تو اس کی ذمہ داری احمد یوں پر نہیں بلکہ حکومت پر ہوگی جس نے دونوں جماعتوں میں فرق کیا یا اور جائز ذرائع سے جو بھی قانون کی حد کے اندر ہوں، وہ کام لے.دوسری بات جس کی طرف لیگ کو توجہ کرنی چاہئے وہ مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ کیس عدالت میں پیش ہو چکا ہے.پس سب سے پہلے جماعت کو عدالتی چارہ جوئی ہی کرنی چاہئے اس لئے کہ جس امر کے متعلق قانون نے ہمارے لئے رستہ کھولا ہوا ہو ان امور کے متعلق ہمیں اپنے قلم یا اپنی زبان کو اُس وقت تک استعمال نہیں کرنا چاہئے جب تک کہ قانونی ذرائع ہمارے لئے بند نہ ہو جائیں.تیسرا امر جو نیشنل لیگ کو مدنظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ ایسے افسر اس ضلع میں بھی ہیں اور باہر بھی جنہوں نے سلسلہ کی متواتر ہتک کی ہے اور سلسلہ کے تمام حقوق کو انہوں نے نظر انداز کر دیا ہے.صدر انجمن نے متواتر حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ان افسروں کو سزا دے مگر حکومت نے ہمیشہ بے تو جہی سے کام لیا ہے نیشنل لیگ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ایسے جائز ذرائع سے کام لے کر جو قانون اور

Page 518

خطبات محمود ۵۱۳ سال ۱۹۳۵ء شریعت کی حدود کے اندر ہوں ، دو باتوں میں سے ایک نہ ایک بات کرے یا تو حکومت کو مجبور کرے کہ وہ ایسے افسروں کو سزا دے یا ایسے طریق اختیار کرے کہ یہ معاملہ بالکل کھل جائے کہ حکومت اپنے افسروں کی رعایت کر رہی ہے اور احمدیوں کی حق تلفی کر رہی ہے.دونوں امور میں سے ایک امر حق کرنا ضرور نیشنل لیگ اختیار کرے.یا تو قانون کے مطابق ان افسروں کو حکومت سے سزا دلوانے کی کوشش کرے کیونکہ جیسے وہ حکام ہمارے مجرم ہیں اسی طرح حکومت کے بھی مجرم ہیں.حکومت افسروں کو اس لئے مقرر کیا کرتی ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کریں مگر جب وہ ظالم کی مدد کر رہے ہوں تو وہ حکومت کے بھی ویسے ہی مجرم ہیں جیسا کہ لوگوں کے، اور کوئی وجہ نہیں کہ حکومت ان کو سزا نہ دے لیکن اگر وہ سزا نہ دے تو ایسا طریق اختیار کر وجو دنیا پر ثابت کر دے کہ تم حق پر تھے مگر حکومت نے تمہارا حق ادا نہیں کیا اور وہ یہ ہے کہ مختلف امور کے متعلق عدالتوں میں مقدمات لے جاؤ اور ہائی کورٹ اور پر یومی کونسل تک ان مقدمات کو چلاؤ یہاں تک کہ یہ امر ثابت ہو جائے کہ حکومت پنجاب نے بعض غیر منصف حکام کے متعلق ناجائز طرفداری کا طریق اختیار کیا ہے.پس ایک تو وہ گالیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں ان کا ازالہ کرایا جائے ، مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کا ازالہ کرایا جائے، تیسرے ان افسروں کے معاملہ پر توجہ کی جائے جنہوں نے سلسلہ کی شدید ہتک کی ہے.ان تین معاملات میں نیشنل لیگ کو کوشش کرنی چاہئے.مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق تو میں نے بتایا ہے کہ اس کے لئے قانونی رستہ گھلا ہے.ہمیں حکومت سے شکوہ ان باتوں میں ہے جن میں گورنمنٹ کچھ کر سکتی ہے مگر وہ کرتی نہیں.یا تو گورنمنٹ یہ قانون بنا دے کہ جس مذہب کے پیشوا کی ہتک کی جائے ، اس کے پیرو دوسرے پر خود مقدمہ دائر کر دیں اور اگر یہ قانون بن جائے تو ہمیں گورنمنٹ پر کوئی اعتراض نہ ہو ہم خود لوگوں پر مقدمات کرتے رہیں لیکن گورنمنٹ ایسے امور میں لوگوں کو مقدمہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی اس لئے ہم مجبور ہیں کہ حکومت پر زور دیں کہ وہ خود انصاف سے کام لے.میں نے اُن دنوں جب یہ قانون تبدیل ہونے والا تھا شملہ میں بڑی کوشش کی کہ قانون اس رنگ کا بنے کہ تمام اقوام کے بزرگوں کی عزت محفوظ ہو جائے.مجھے یہی خطرہ نظر آتا تھا کہ جب کسی قوم کے بزرگ کی ہتک کی گئی گورنمنٹ نے سیاسی مصالح کو دیکھنا ہے اور قلیل التعداد جماعتوں کی ہتک کرنے والے پر مقدمہ نہیں کرنا یا بہت کم کرنا ہے اور اس طرح فساد

Page 519

خطبات محمود ۵۱۴ سال ۱۹۳۵ء بڑھے گا.گورنمنٹ یہ دیکھے گی کہ رعایا کی اکثریت پر اس کا کیا اثر ہوا ہے یا یہ کہ کوئی طبقہ فساد پر آمادہ ہے یا نہیں.اگر فساد پر آمادہ ہوئے تو مقدمہ دائر کر دیا نہیں تو توجہ نہ کی.میں نے یہ معاملہ اس زور سے پیش کیا کہ مسٹر کیلکار نے اس قانون کے متعلق اسمبلی میں کھڑے ہو کر میرا حوالہ دیا اور کہا ہز ہولینس مرزا بشیر الدین نے مجھ سے کہا کہ یہ قانون ناقص ہے اور اسے بدلنا چاہئے.اور یہ بات انہوں نے اتنی دفعہ دُہرائی کہ مسٹر پٹیل جو اُس وقت اسمبلی کے صدر تھے وہ کھڑے ہو کر کہنے لگے میں آنریبل ممبر کو تو جہ دلاتا ہوں کہ یہ اسمبلی گورنمنٹ کی ہے ہز ہولی نس کی نہیں اس پر قہقہہ پڑا.اب وہ قہقہے لگانے والے ممبر دیکھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا.اگر ہر قوم کو اجازت ہوتی کہ جب اس کے بزرگ کی کوئی ہتک کرے تو وہ اس پر نالش کر دے تو جھگڑا کس بات کا تھا مگر مشکل یہ ہے کہ قانون یہ بنایا گیا کہ جب کسی قوم کے بزرگ کی ہتک کی جائے تو ہتک کرنے والے پر نالش گورنمنٹ کرے گی اس قوم کے افراد نہیں کر سکتے.اب گورنمنٹ پر کسی بزرگ کا وہ اثر کہاں ہو سکتا ہے کہ جو اس بزرگ کو ماننے والے پر ہوتا ہے کہ وہ نالش کرتی پھرے.گورنمنٹ تو یہ دیکھتی ہے کہ جن کا دل دُکھا ہے وہ کتنی تعداد میں ہیں اور آیا وہ بے قابو ہو کر قانون توڑنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں.اگر دیکھے کہ ان کی اکثریت ہے اور توجہ نہ کی تو فساد کا خطرہ ہے تو پھر وہ توجہ کرتی ہے لیکن اگر یہ دیکھے کہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو ر و دھو کر آپ ہی خاموش ہو جائیں گے تو مجھتی ہے اس مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ اقلیت کی حمایت کر کے اکثریت کو اپنا مخالف بنا لیا جائے.نیشنل لیگ کا فرض ہے کہ وہ آئینی ذرائع سے کام لیکر اس امر کی جد و جہد کرے کہ یا تو گورنمنٹ اس قانون کو تبدیل کر دے یا پھر ہمارے سلسلہ یا بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو ہتک کرے اُس کا جواب ہم بھی اُسی رنگ میں دیں گے جس رنگ میں کہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف لکھتے یا تقریریں کرتے ہیں.یہ کام ہیں جو میں نیشنل لیگ کے سامنے رکھتا ہوں.ذرائع کے متعلق میں نے تاکید کی تھی کہ قانون اور شریعت کے اندر ہوں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ تاکید کوئی معمولی تاکید ہے.یہ نہایت ضروری امر ہے کہ شریعت کی پابندی اور قانونِ وقت کی اطاعت ہمیشہ ملحوظ رکھی جائے مگر یہ بات دوستوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ قانون شکنی کے وہ معنی نہیں جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں.در حقیقت قانون کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک قانون ساری شقوں پر حاوی ہوتا ہے اور ایک قانون مجمل ہوتا ہے اسکی تشریح لوگوں پر چھوڑ دی

Page 520

خطبات محمود ۵۱۵ سال ۱۹۳۵ء جاتی ہے مثلاً ایک قانون تو یہ ہے کہ گورنمنٹ کہتی ہے قتل مت کرو یا چوری نہ کرو.یہ واضح بات ہے جس میں کسی تشریح کی ضرورت نہیں لیکن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں گورنمنٹ خود فرق کرتی ہے اور ان کے متعلق جوں میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے مثلاً وہ کہہ دیتی ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کی مذہبی دل آزاری نہ کرے ہاں ایک دوسرے کا رڈ کرنے کا ہر ایک کو اختیار ہے جو دل آزاری کرے گا ہم اسے پکڑ لیں گے.گویا ایک ہی فعل کے دو حصے کر دیئے گئے ہیں ایک حصہ جائز ہے اور ایک حصہ نا جائز.درمیان میں کوئی حد فاصل ایسی نہیں کہ جس کا ہر شخص کو قطعی طور پر علم ہو سکے.بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جوش کی حالت میں درمیانی لکیر کو پھاند جائے اور اسے محسوس تک نہ ہو اور وہ یہی یقین کرے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں جائز طور پر کر رہا ہوں.ایسی حالت میں اس کا فعل قانون کے خلاف تو ہو جاتا ہے مگر قانون شکنی نہیں کہلا سکتا وہ سزا کا مستحق بھی ہو جاتا ہے مگر قانون شکن نہیں کہلاتا.شریعت میں بھی اسکی مثال موجود ہے مثلا روزوں کے ایام میں پو پھٹتے وقت اگر کوئی شخص کھانا کھالے اور اسے یہ خیال ہو کہ ابھی پونہیں پھٹی تو اسکا روزہ ہو جائے گا لیکن اگر شام سے ذرا بھی پہلے وہ روزہ افطار کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا.اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فقہاء لکھتے ہیں کہ پوایسے طور پر پھٹتی ہے کہ اس کے ابتدائی وقت اور اس سے پہلے کے رات کے حصہ کے آخری وقت میں کوئی قطعی فرق بتایا نہیں جاسکتا اور یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ فلاں لمحہ یا فلاں سیکنڈ سے پو پھٹی ہے لیکن سورج کا ڈوبنا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے بارہ میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہو سکتا.پس شام کے وقت اگر کوئی شخص غلطی سے روزہ کھول لے حتی کہ بادل چھا جانے کی وجہ سے ہی کھول لے تب بھی اُس کا روزہ ٹوٹ جائیگا لیکن اگر صبح پو پھٹ آتی ہے اور وہ دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ ابھی پو پھٹی نہیں تو اس کا روزہ ہو جاتا ہے.تو جس قانون کے دو حصے ہوں اور ایک حصہ انسانی اجتہاد کے ساتھ تعلق رکھتا ہو ان میں سے اجتہاد والے حصہ کی خلاف ورزی کرنے والا قانون شکن نہیں کہلا سکتا.مثلاً جو چوری کرے گا اسے قانون بالکل اور نگاہ سے دیکھے گا لیکن وہ جو کسی کی ہتک کرتا ہے اسے قانون اور نظر سے دیکھے گا اور زیادہ واضح ثبوت ہتک کا چاہے گا یا مثلاً اسی امر کو لے لو اگر گورنمنٹ قوم کے بزرگوں کے احترام کے متعلق اپنے قانون کو نہ بدلے یا دونوں فریق کو گرفت نہ کرے تو پھر ہمارے دوست اگر ایسے حوالے شائع کریں جو غیر اقوام نے اپنے مخالفوں کی نسبت لکھے ہیں اور گورنمنٹ انہیں گرفتار کرنے لگے تو یہ ہرگز

Page 521

خطبات محمود ۵۱۶ سال ۱۹۳۵ء قانون شکنی نہیں کہلائے گی بلکہ قانون کے معنوں کی تعیین کے لئے جد و جہد کہلائے گی جسے انگریزی میں ٹیسٹ کیس کہتے ہیں.اسی صورت میں ایک آزاد حج کے ذریعہ سے مُخْتَلَفَ فِيهَا مسئلہ کا فیصلہ چاہا جائے گا اور یقیناً موجودہ حالات کی صورت سے ہائی کورٹ یا پریوی کونسل کے سامنے لائے جائیں تو ججوں کو اقرار کرنا پڑیگا کہ احمدیوں سے بے انصافی ہو رہی ہے.ایک فریق سے ڈھیل برتی جاتی ہے اور دوسرے کی کتابوں کو ضبط کیا جاتا ہے.میرے نزدیک ، اور جو قانون دان لوگ ہیں ان کے نزدیک بھی یہ کوشش ہرگز قانون شکنی نہیں کہلاتی بلکہ قانون کے نفاذ کے لئے جد و جہد کہلاتی ہے.یہ صاف بات ہے کہ اگر تم اپنے دشمنوں کو انہی کے پیمانہ میں ناپ کر دو گے اور حکومت تم کو پکڑ یگی تو خود بخود مقدمات عدالتوں میں جائیں گے اور آخر ہائی کورٹ کے جوں کے سامنے سب حقائق آجائیں گے اور بار بار ہائی کورٹ کے پاس جانے کے بعد آخر حقیقت جوں پر اس طرح کھل جائیگی کہ وہ اس طرف حکومت کو توجہ دلانے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ تم کیا کر رہے ہو کہ ایک ہی قسم کا فعل احرار کرتے ہیں تو چُپ ہو رہتے ہو اور احمدی کرتے ہیں تو انہیں پکڑتے ہو.غرض اس طرح ہائی کورٹ کے جوں کے فیصلے تم اپنے حق میں حاصل کر سکتے ہو ہاں بلا وجہ قوموں کا دل نہ دُکھاؤ.صرف ان کے متعلق اس قسم کے حوالہ جات پیش کرو جو تم پر حملہ کریں.یہودیوں نے حملہ نہیں کیا تو یہودیوں کی کتابوں کے حوالے پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اگر عیسائیوں نے حملہ نہیں کیا تو ان کی کتابوں کے عیوب مت نکالو جنہوں نے تم پر حملہ کیا ہے ان کے عیوب نکالو.اور اگر گورنمنٹ اسکی وجہ سے تمہیں جھکڑیاں بھی لگا لیتی ہے تو اسکی پرواہ نہ کرو کیونکہ ہائیکورٹ میں جا کر تم ہی بری ثابت ہو گے اور حکومت مجرم ثابت ہوگی جس نے امتیاز سے کام لیا.اور چاہئے کہ تم حکومت سے مطالبہ کرتے رہو کہ یا تو وہ ان کی کتابوں کو بھی ضبط کرے یا گورنمنٹ دونوں کو کھلا چھوڑ دے کہ وہ جو جی چاہے لکھیں.اسی طرح اور کئی ذرائع ہیں جن سے تم قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے حق کو حاصل کر سکتے ہو.دیکھو! حکومت انگریزی کی بنیا در رکھنے والوں نے کتنی دانائی سے کام لیا کہ محکمہ قضاء کو آزاد رکھا.اسلام نے بھی قضاء کو دیگر محکموں سے الگ رکھا ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ان کا ایک مقدمہ ایک اسلامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو ا تو مجسٹریٹ نے حضرت علیؓ کا کچھ لحاظ کیا.آپ نے فرمایا یہ پہلی بے انصافی ہے جو تم نے کی.میں اور یہ اس وقت برابر ہیں.تو عدالتوں کو جو آزا در کھا گیا ہے وہ اسی

Page 522

خطبات محمود ۵۱۷ سال ۱۹۳۵ء لئے کہ تا وہ غیر جانبداری سے فیصلہ کر سکیں اس لئے یاد رکھو جس بات کا فیصلہ خود گورنمنٹ نہیں کرتی ، اس کے متعلق ایسی صورتِ حالات پیدا کرو کہ قضاء سے تمہیں تمہارا حق مل جائے.یہاں ہی جب دھینگا مشتی سے دفعہ ۱۴۴ نافذ کی گئی اور ہائی کورٹ میں اسکی اپیل ہوئی تو با وجود اس کے کہ ہمیں پنجاب گورنمنٹ کے بعض حکام سے شکایت تھی ، پھر بھی ہمیں اپنا حق مل گیا.پس اپنے جھگڑوں کو اسی طریق سے حل کرنے کی کوشش کرو جو قانون نے بتایا ہے مگر یا درکھو سیاسیات میں بھی کوئی ایسا کام مت کرو جس سے سلسلہ کی عظمت کو بٹہ لگے.تم پر کتنی ہی مصیبتیں آئیں تمہیں کتنا ہی دُکھ اور تکلیف میں رہنا پڑے اسے برداشت کرو کیونکہ یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ سلسلہ پر کوئی اخلاقی ، قانونی الزام عائد ہو.اب خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک اچھا موقع پیدا کر دیا ہے جس سے تم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہو.ایک دو باتیں میں نے بتادی ہیں اور بیسیوں اور باتیں ہیں جو نکالی جاسکتی ہیں جب تمہارے لئے ایک رستہ نہیں اللہ تعالیٰ نے کئی رستے کھولے ہوئے ہیں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ تم وہ طریق اختیار کرو جس سے جماعت کی بدنامی ہو.تم آئین کے اندر رہ کر کام کرو اور یقیناً یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تم خدا تعالیٰ کے دین کے جلال کے لئے کھڑے ہو اور وہ تمہیں ضائع کر دے.تم گزشتہ دنوں کے اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھ لو جو اس نے تمہاری تائید کے لئے ظاہر کئے.کس طرح اس نے حیرت انگیز طور پر تمہاری مدد کی اور کس طرح اس نے تمہارے دشمنوں کو نیچا دکھایا.یہ نشان ایک ہی دفعہ ظاہر نہیں ہو چکا بلکہ اب بار بار ظاہر ہوگا اور پہلے سے زیادہ شان کیساتھ ظاہر ہو گا.اس میں شبہ نہیں کہ تم کو بھی دُکھ دیا جائے گا اور بار بار دیا جائے گا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں جو لوگ کمزور یا منافق ہیں انہیں ہم سے الگ ہونا پڑے گائے لیکن باوجود اس کے یہ ایک حقیقت ہے کہ دشمن کے ہر قدم کے بعد دوسرا قدم خدا تعالیٰ کی نصرت کا ہو گا اور پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ تمہاری تائید کے لئے وہ اپنے نشانات ظاہر کرے گا.میرا ہمیشہ سے یہ تجربہ ہے کہ جب کبھی رات کو سوتے وقت میری زبان پر الہامی طور پر دعائیں جاری ہوں اس کے بعد خدا تعالیٰ کا کوئی فضل نازل ہوتا ہے ایسے وقت میں میں دیکھتا ہوں کہ رات کو گو میں سویا ہوا ہوتا ہوں مگر میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہا ہوتا ہوں اور جب آنکھ کھلتی ہے میں معلوم کرتا ہوں کہ میں نہایت سوز وگداز سے دعا کر رہا تھا.گویا وہ دعا الہامی ہوتی ہے اور یہ حالت خواب بھی جاری رہتی

Page 523

خطبات محمود ۵۱۸ سال ۱۹۳۵ء ہے.اسی طرح آج میں نے دیکھا ساری رات بار بار میری آنکھ کھلتی رہی اور جب بھی میں جا گا میں نے دیکھا کہ میں احراری فتنہ کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہا ہوں.پس یقیناً خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا ، ایسے نشانات سے تائید کر یگا جو پہلے نشانات کو مات کر دیں گے.لیکن جب تک تم چکی کے دو پاٹوں میں سے سلامت نہ نکل جاؤ آخری کامیابی نہیں آ سکتی.خدا تعالیٰ کے بندے ہمیشہ چکی کے پاٹوں میں سے گزرا کرتے ہیں.جو ابو جہل کا بروز ہوتا ہے وہ چکی کے پاٹوں میں آکر پس جاتا ہے مگر جو محمد ﷺ کا کامل متبع ہوتا ہے وہ سلامتی کے ساتھ ان پاٹوں میں سے گزر جاتا ہے.پس یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آرام اور سکون عطا کرے گا، تم پر فضلوں کی بارشیں برسائی جائیں گی اور تمہیں دنیا میں غلبہ واقتدار عطا کیا جائے گا مگر ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے، آزمائش پر آزمائش ہوگی.جب تک تم چکی کے دو پاٹوں میں بہ ظاہر ہیں نہ دیئے جاؤ اور جب تک دشمن یہ نہ سمجھ لے کہ اب تم کچل دیئے گئے ، اُس وقت تک تم حقیقی اور ابدی زندگی حاصل نہیں کر سکتے.ہاں جب چکی کے پاٹوں میں سے نکلو گے تو دشمن حیران ہوگا اور وہ دیکھے گا کہ وہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا اور اس وقت لوگوں کی توجہ تمہاری طرف پھرے گی اور لوگوں کی آنکھیں کھول دی جائیں گی.اور وہ پکار اٹھیں گے کہ ہم نے بھی روحانی چاند دیکھ لیا اور ہم اپنے گزشتہ انکار پر پریشان ہیں.پس تم دعاؤں میں لگے رہو اور اللہ تعالیٰ سے نصرت اور تائید طلب کرو.جو لوگ نیشنل لیگ میں شامل نہیں وہ یہ کر سکتے ہیں کہ ممبروں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں سیدھا راستہ دکھائے اور ایسے طریق سمجھائے جو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والے ہوں.وہ ایسے طریق نہ اختیار کریں جو سلسلہ کے کاموں کو نقصان پہنچانے والے ہوں.پھر جو بھی وہ ذرائع اختیار کریں اللہ تعالیٰ ان میں برکت دے تا کہ دشمن محسوس کرنے لگے کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں اور اس کی رحمتوں کی مورد ہے.کوچ (COUCH) صوفہ.پلنگڑی.سپرنگ والی کرسی ( الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۳۵ء) سے الوصیۃ صفحہ ۳۰.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه +۱۳۲۸ نوار الاسلام صفحه ۲۳، ۲۴ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳، ۲۴

Page 524

خطبات محمود ۵۱۹ ٣٢ سال ۱۹۳۵ء اب زیادہ سے زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ فرموده ۲۳ /اگست ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوّذا ورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- میں نے گزشتہ سے پیوستہ جمعہ میں یہ ذکر کیا تھا کہ جماعت کو دو طریق سے فتح حاصل ہو سکتی ہے.ایک طریق تو تدبیر ہے جہاں تک اس کا تقاضا شریعت نے کیا ہے اور دوسرے تقدیر جہاں تک کہ اس کے حصول کے لئے شریعت نے ہمیں ذرائع مہیا کر کے دیئے ہیں.تدبیر کے متعلق میں ایک حد تک اپنے خیالات کا پچھلے دو جمعوں میں اظہار کر چکا ہوں لیکن تقدیر کا حصہ ایک حد تک مزید تشریح کا محتاج ہے.اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ دنیا میں دو قسم کے تغیرات پیدا کیا کرتا ہے ایک طبعی اور ایک شرعی.جتنے تغیرات دنیا میں نظر آئیں گے وہ انہی دو قسموں میں سے ہونگے.طبعی تغیرات تو وہ ہوں گے جن کے موجب اور اسباب ایسے افعال میں یا ایسے تغیرات میں ملتے ہونگے جن کا طبعی نتیجہ اسی قسم کا ظاہر ہو نا ہمیشہ سے مقدر ہے مثلاً کوئی شخص علم پڑھتا ہے اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ وہ علم حاصل کر لیتا ہے، ایک قوم تجارت میں ترقی کرنے کی جد و جہد کرتی ہے اور اس کے نتیجہ میں بہت بڑی تا جر قوم بن جاتی ہے، یا کوئی قوم زراعت میں کوشش کرتی ہے اور اس میں ترقی کر جاتی ہے ، یا کوئی قوم مختلف پیشوں کے حصول کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور پیشہ ور بن جاتی ہے ، یا جو اقوام کوشش نہیں کرتیں وہ گر جاتی ہیں جو قومیں دنیا میں تمدن کو پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں وہ حاکم و بادشاہ بن جاتی ہیں اور جو نہیں کرتیں وہ اس کے مقابل میں ذلیل اور رسوا ہو جاتی ہیں.یہ ایسے طبعی تغیر ہیں جو ہر جگہ اور ہر گھر میں نظر آتے

Page 525

خطبات محمود ۵۲۰ سال ۱۹۳۵ء ہیں لیکن جب کبھی طبعی تغیر ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے کہ اس سے شریعت مخفی ہو جاتی یا مٹ جاتی ہے یا روحانیت خطرہ میں پڑ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ دنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتا ہے.یوں تو ہمیشہ ہی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے مگر وہ لوگوں کو ڈھیل دے دیتا ہے مگر جب بگاڑ اور فساد بہت بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ اپنا ماً مور بھیجتا ہے اور اس کے ذریعہ دنیا میں شرعی تغیرات پیدا کرتا ہے اور شرعی تغیرات کے نتائج ان تغیرات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جو اسباب کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.مثلاً پانی کے گھڑے میں اگر دو تین سیر مصری ڈال دی جائے تو شربت بن جائے گا لیکن ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ ایک طبعی تغیر ہے اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ مصری کی ایک خاص مقدار کو اتنے پانی میں ملا دو تو وہ شربت میں تبدیل ہو جائے گا لیکن اگر کوئی پانی کے گھڑے میں ایک چٹکی مصری کی ڈال دے اور وہ شربت بن جائے تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ یہ طبعی نتیجہ نہیں ہے یہ کوئی غیر معمولی نقد بر ظا ہر ہوئی ہے.انبیاء میں اس کی موٹی مثال رسول کریم ﷺ کی ہے.آپ نے بے شک لشکر استعمال کئے ، لڑائیاں ہوئیں اور آپ نے فتوحات حاصل کیں لیکن دنیا میں اور قوموں نے بھی لشکر استعمال کئے ہیں ، اور وں نے بھی فتوحات حاصل کیں ہیں لیکن ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتوحات کو معجزے اور اللہ تعالیٰ کے نشانات قرار دیتے ہیں اور دوسروں کی فتوحات کو نہیں کیونکہ ان کی فتوحات عام طبعی قانون کے نتیجہ میں تھیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان کی ایسی حالت کبھی نہیں گزری کہ مخالفت تو ہو مگر طاقت موجود نہ ہو.وہ سب کے سب ایسے ہی گزرے ہیں کہ ان کے ایک حد تک بڑھ جانے کے وقت تک کوئی شخص ان کے مقابل پر نہیں آیا یا جن طاقتوں نے ابتداء میں ان کا مقابلہ کیا وہ معمولی طاقتیں تھیں مثلاً ایک کے مقابلہ میں پانچ ہو گئے مقابلہ ہوا ، اس نے دو مار دیئے اور تین اس کے ساتھ شامل ہو گئے ، پھر ان چار کا مقابلہ پندرہ سے ہوا انہوں نے ہمت کی ، چار پانچ مار دیئے اور دس بارہ ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس طرح آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے وہ بادشاہ بن گئے جس طرح افغانستان کا نادرشاہ تھا.پہلے وہ معمولی گڈریا تھا.آہستہ آہستہ ایسے سامان ہو گئے کہ وہ ڈاکو بن گیا اور پھر ایک علاقہ پر قابض ہو گیا اور اس طرح بڑھتے بڑھتے افغانستان کا بادشاہ ہو گیا.دوسری مثال نپولین کی ہے اُس وقت اس کی قوم کو ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو اُسے لڑائے.قوم بادشاہ سے لڑ رہی تھی اور تمام جرنیلوں کے متعلق اسے شک تھا کہ وہ بڑے آدمی ہیں،

Page 526

خطبات محمود ۵۲۱ سال ۱۹۳۵ء بڑوں سے مل جائیں گے.اُس وقت کسی نے نپولین کا نام پیش کر دیا اور اسے آگے بڑھنے کے سامان میسر آگئے.پھر تیمور اور بابر ہیں یہ گوڈا کو تو نہ تھے ، بادشاہ ہی تھے مگر معمولی علاقوں کے.پہلے ان کی لڑائیاں اپنے اردگرد کے بادشاہوں سے ہوئیں اور انہیں فتوحات حاصل ہوتی گئیں اور اس طرح ان کی طاقت مضبوط ہوتی چلی گئی ان کی ابتدائی جنگیں ان جیسے قبائل کے ساتھ ہی تھیں جو ان کے برابر کے جوڑ تھے لیکن رسول کریم ﷺ تیرہ سال تک ایسے علاقہ میں رہے جہاں کا ہر شخص مسلمان کا قتل واجب اور ضروری سمجھتا تھا اور اسے ثواب کا فعل قرار دیتا تھا اور مسلمانوں کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ گویا قریباً ایک ہزار کے مقابل پر ایک مسلمان تھا.معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مکہ میں ہجرت کے وقت تک ۸۲، ۸۳ صحابہ ہی تھے اور مکہ سے جولشکر مسلمانوں کے ساتھ لڑائیاں کرنے کے لئے نکلتے رہے ہیں اس سے کفار کی طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے.مہذب قوموں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے سو میں سے چھ سپاہی مل سکتے ہیں اور اگر بڑا زور دیا جائے تو دس.اور جو اقوام مہذب نہیں وہ عام حالات میں سولہ اور خاص حالات میں ۲۲،۲۰ فیصدی سپاہی دے سکتی ہیں.رسول کریم علی کے مقابل پر جو لشکر آتے رہے ہیں ان میں مکہ کے سپاہی ہزار بارہ سو تک ہوتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور گردو نواح کی آبادی دس بارہ ہزار ضرور تھی اور ان کے مقابل پر مسلمان ابتداء میں تو دو تین ہی اور آخر پر ۸۲، ۸۳ تھے.رسول کریم ﷺ کی مخالفت ابتداء سے ہی تھی ، جب آپ نے دعویٰ کیا اُسی وقت کفار نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آپ زندہ رکھے جانے کے قابل نہیں.جو عذاب صحابہ کو دیے جاتے تھے ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے دیئے جاتے تھے ، جب آپ کے ساتھیوں کی تعداد ۲۳ ، ۲۴ سے زیادہ نہ تھی اُس وقت بھی بعض عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا تھا اور ایک مرد کی ایک ٹانگ ایک اونٹ کے ساتھ اور دوسری دوسرے سے باندھ کر اور اونٹوں کو مختلف سمتوں میں چلا کر چیر دیا گیا تھا.یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلمانوں کو قطعاً کوئی طاقت حاصل نہ تھی کہ سمجھ لیا جائے مکہ والے مسلمانوں کی طاقت سے گھبرا گئے تھے بلکہ اس وقت مسلمان ایسے کمزور تھے کہ کفار یکدم حملہ کر کے ان سب کو مار سکتے تھے مگر باوجو دسب تدابیر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سامان ایسا ضرور ہو جاتا تھا کہ وہ ایسا نہ کر سکتے اور ڈر جاتے تھے.بسا اوقات ایسا ہوا کہ وہ مجالس میں بیٹھے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو مار دیا جائے مگر ان میں سے کوئی شدید

Page 527

خطبات محمود ۵۲۲ سال ۱۹۳۵ء دشمن کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مار دینے کے متعلق تو مجھے اتفاق ہے مگر یہ طریق جو تجویز کیا گیا ہے میں اس کی حمایت نہیں کرتا اور بس اسی میں بات رہ گئی.غرض اللہ تعالیٰ کوئی غیر معمولی سامان ایسے کر دیتا کہ انہیں حملہ کا موقع ہی نہ مل سکا اور اگر کسی نے کیا بھی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہ خود ہی ڈر گیا اور خوفزدہ ہو کر رہ گیا.رسول کریم ﷺ ایک معاہدہ میں شریک ہوئے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ مظلوموں کی مدد کی جائے ایک شخص نے ابو جہل سے روپیہ لینا تھا وہ کسی گاؤں کا رہنے والا تھا بار بار آتا.مگر ابو جہل انکار کر دیتا اور وہ پھر واپس چلا جاتا.وہ باری باری ان سب لوگوں کے پاس گیا.جو اس معاہدہ میں شریک تھے مگر کسی نے اس کی حمایت کا دم نہ بھرا بلکہ سب نے یہی کہہ دیا کہ ابو جہل اتنا بڑا رئیس ہے اسے کون کچھ کہہ سکتا ہے آخر وہ شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا آپ نے فرمایا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور اُس مخالفت کے زمانہ میں جب کفار نے آپ کو مارنے کے لئے قسمیں کھائی ہوئی تھیں آپ اس کے ساتھ ابو جہل کے مکان پر تشریف لے گئے.دروازہ پر پہنچ کر دستک دی ابو جہل باہر آیا اور آپ کو اپنے دروازہ پر دیکھ کر اُس کا رنگ فق ہو گیا.اُس نے گھبرا کر پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں ؟ آپ نے اس شخص کو آگے کیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس کا روپیہ دینا ہے؟ اس نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا پھر دے دو وہ فوراً اندر گیا اور لاکر روپیہ دے دیا.بعد میں اس کے ساتھیوں نے اسے شرمندہ کیا کہ تم تو دوسروں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کا روپیہ کسی نے دینا ہو تو نہ دے مگر خود محمد لے کے آنے پر فوراً لا کر ادا کر دیا.ابوجہل نے کہا میں کیا کرتا میں نے جب دروازہ کھولا تو یوں معلوم ہوا کہ دو بڑے بڑے مست اونٹ آپ کے دائیں بائیں کھڑے ہیں اور اگر میں نے ذرا بھی گستاخی کی تو مجھے کھا جائیں گے.اب یہ سامان خدا کی طرف سے ہی تھا ور نہ وہاں وحشی اونٹ کہاں سے آنے تھے.اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں اسے فرشتے دکھا دیئے کہ دیکھ لو یہ ہمارے سپاہی ہیں تم ذرا بولے تو یہ تمہارا ٹینٹوا دبادیں گے، پس ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی.پھر آپ کو مدینہ میں لایا اور تھوڑے تھوڑے لشکروں کے ساتھ آپ کو فتوحات دیں.پھر آپ کی زندگی میں ایسے واقعات بھی بہت سے ہیں کہ بالکل غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا.جب آپ غار ثور میں تھے تو دشمن بالکل سر پر پہنچ گیا اور حضرت ابو بکر گھبرا گئے کہ رسول کریم ﷺ اس کی نظر سے بچ نہیں سکیں گے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا کہ گھبراہٹ

Page 528

خطبات محمود ۵۲۳ سال ۱۹۳۵ء کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور دشمن سر پر پہنچ کرنا کام واپس لوٹ گیا.سے ایک یہودن نے آپ کو کھانے میں زہر دے دیا اور آپ نے ایک لقمہ اٹھا کر منہ میں بھی ڈال لیا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا اور آپ نے اسے پھینک دیا اب یہ بالکل غیر معمولی بات ہے عام بادشاہوں کو اسکا کسی طرح علم نہیں ہو سکتا.یہ تو ممکن ہے کہ زہر تھوڑا کھائیں اور بچ جائیں لیکن یہ نہیں کہ لقمہ منہ میں ڈالتے ہی علم ہو جائے.پھر ایک دفعہ یہود نے آپ کو ایک فیصلہ کرنے کے بہانہ سے بلایا اور ایسا انتظام کر دیا کہ اوپر سے بڑا سا پتھر گرا کر آپ کو ہلاک کر دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما بتا دیا اور آپ بات کرتے کرتے اُٹھ کر آ گئے.کے بعض روایات میں ہے کہ کسی آدمی نے آپ کو اطلاع دے دی.اگر یہ ہو تو بھی دشمن کے ذریعہ سے پتہ لگنا ایک نشانِ الہی ہے.غرض آپ نے واپس آ کر صحابہ سے فرمایا کہ اس مکان کی چھت کو جا کر دیکھو اور جب وہ گئے تو وہاں چکی کا پاٹ پڑا ہوا پایا.پھر آپ ایک غزوہ سے واپس آ رہے تھے.ایک دشمن نے قسم کھائی کہ میں ضرور راستہ میں آپ کو ماردوں گا.راستہ میں ایک جنگل میں آپ ٹھہرے اور صحابہ اس خیال سے کہ یہاں کسی دشمن کا گزر کس طرح ہوسکتا ہے ، ادھر اُدھر چلے گئے آپ اکیلے ایک درخت کے نیچے سور ہے تھے کہ اُس دشمن نے آپ کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی اُتار لی اور کہا اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا.اتنا کہنا تھا کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور آپ نے اُسے اُٹھا کر اس سے پوچھا کہ اب بتا تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپ کا خیال تھا کہ اس نے مجھ سے سن کر سبق حاصل کر لیا ہوگا اور یہی جواب دے گا.مگر اس کی حالت اُس وقت ایسی گندی تھی کہ پھر بھی اسے سمجھ نہ آئی اور اس نے یہی کہا کہ آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا ابھی میں نے تمہیں سبق دیا تھا مگر پھر بھی تم نے اللہ کا نام نہیں لیا.جاؤ میں تم کو چھوڑتا ہوں.پھر اُحد کی جنگ میں دشمنوں نے آپ کو گھیر لیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا.اس قسم کے بہت سے واقعات آپ کی زندگی میں پائے جاتے ہیں.آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما بتایا کہ بعض منافق رستہ میں جھاڑیوں میں چھپے بیٹھے ہیں.انہوں نے خیال کیا تھا کہ جنگل ہے اور رات کے اندھیرے میں ہم آپ کو مار دیں گے کسی کو علم بھی نہ ہو سکے گا اور اسی لئے وہ

Page 529

خطبات محمود ۵۲۴ سال ۱۹۳۵ء علیحدہ ہو کر وہاں جا چھپے تھے.آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ وہاں ان کی تلاش کرو چنا نچہ وہ پکڑے گئے اور ان کو اقرار کرنا پڑا.کے اور یہ مخالفت کا طوفان ابتداء سے ہی موجود تھا لیکن ادھر مخالفوں کی اس قدر کثرت اور آپ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنا اور اُدھر صحابہ کا کمزور ہونا اور پھر مقابلہ کا کوئی سامان نہ رکھنا مگر با وجود ان سب باتوں کے آپ کا محفوظ رہنا اور نہ صرف سارے عرب کا بادشاہ ہو جانا بلکہ آپ کے لگائے ہوئے پودے کا اس طرح پھیلنا کہ آپ کی امت کا ساری دنیا کو فتح کرنا اتنی حیرت انگیز ترقی تھی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ جب مسلمان بڑھتے بڑھتے ایران تک جا پہنچے تو کسری نے اپنے فوجی افسروں سے کہا کہ یہ جانگلی لوگ جن کے پاس نہ کوئی سامان جنگ ہے نہ سامان بار برداری نہ کچھ کھانے پینے کے لئے ہے کیا تم ان کو بھی شکست نہیں دے سکتے ، اچھا بلاؤ ، میں ان کو کچھ دے دلا کر واپس کر دیتا ہوں.چنانچہ اسلامی کیمپ میں یہ اطلاع بھیجی گئی اس پر بعض صحابہ اس کے دربار میں گئے ، تو اس نے کہا کہ تم وحشی لوگ گوہ کا گوشت کھانے والے، ماؤں سے شادیاں کر لینے والے، چور اور ڈاکو ہو تمہیں ہمارے مقابل پر آنے کی جرات کیسے ہوئی اور کیا سوجھی کہ ایران فتح کریں مگر میں اب بھی تمہیں انعام دے کر واپس کرنا چاہتا ہوں.تمہارے افسروں کے لئے کچھ زیادہ اور سپاہیوں کے لئے اس سے کم مقرر کر دیا ہے یہ لے لو اور واپس چلے جاؤ.مسلمانوں کے امیر وفد نے کہا کہ تم جو کچھ ہمارے متعلق کہتے ہو سب سچ ہے مگر اب ہماری وہ حالت نہیں اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اپنا رسول ہم میں بھیجا ہے جس نے ہمارے نقطہ ء نگاہ کو ہی بدل دیا ہے.اُس وقت ایرانی لڑائی چھیڑ چکے تھے اس لئے امیر وفد نے کہا کہ اب تو سوائے اس کے کہ یا تم مسلمان ہو کر ہماری پناہ میں آ جاؤ یا ہم تلوار سے تمہیں فتح کر لیں اور کوئی صورت باقی نہیں.کسری نے حکم دیا کہ مٹی کا تھیلا بھر کر لایا جائے اور پھر اس نے وہ امیر وفد کے سر پر رکھواتے ہوئے کہا کہ جاؤ اس کے سوا اب تمہیں کچھ نہیں دے سکتا.انہوں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ آؤ ایران کے بادشاہ نے اپنا ملک اپنے ہاتھ سے ہمارے حوالے کر دیا ہے.مشرک بہت وہمی ہوتا ہے اس بات کا اُس پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے کہا ان کو پکڑ کر ان سے مٹی کا تھیلا چھین لیا جائے.اس کے آدمی دوڑے مگر عربی گھوڑوں تک کون پہنچ سکتا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے ایسے غیر معمولی سامان آنحضرت ﷺ کی فتح کے پیدا کر دئیے کہ سوائے تقدیر کے کوئی اور وجہ اس کی نہیں بتائی

Page 530

خطبات محمود ۵۲۵ سال ۱۹۳۵ء جاسکتی.پھر آنحضرت ﷺ نے پہلے دن جو آواز بلند کی اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا تھا کہ میری فتح ہوگی.نپولین نے پہلے روز یہ بات نہیں کہی نادرشاہ نے پہلے ڈاکہ کے وقت یہ بات نہیں کہی ، تیمور اور بابر اپنے قبائل سے مصروف پر کار تھے تو انہوں نے اُس وقت یہ نہیں کہا کہ ہم ہندوستان کو فتح کریں گے مگر محمد ﷺ نے پہلے دن جب کلمہ طیبہ کا اعلان کیا، اسی دن یہ بھی کہہ دیا کہ میں اور میرے اتباع ساری دنیا کو فتح کریں گے اور یہ تقدیر کا ہی کام تھا.یہ شرعی تغیرات کے نتائج تھے.یورپ کے لوگوں نے بہت کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات کے طبعی اسباب ثابت کریں.وہ کہتے ہیں کہ ایران کی سلطنت اس وقت کمزور ہو رہی تھی ، عرب لوگ آوارہ تھے اس لئے رسول کریم ﷺ کو کا میابی ہوگئی مگر کیا یہ چیزیں ہمیشہ موجود نہیں ہوتیں پھر کیوں اوروں کو بھی ایسی فتوحات حاصل نہیں ہو جاتیں.کیا آج ایران کمزور نہیں پھر کیوں اسے فتح نہ کر لیا گیا ؟ بے شک ہم مجسٹی رضا شاہ نے اس پر قبضہ کیا مگر اس طرح کہ پہلے وہ ترقی کرتے کرتے کمانڈر انچیف بنے اور پھر بادشاہ ہو گئے لیکن محمد رسول اللہ علی کو تو آپ کی قوم سپاہی بھی نہ بناتی تھی.پھر آج ایران میں خانہ جنگی تھی مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے مکہ والوں میں کامل اتحاد تھا.پس یہ شرعی تغییرات کا نتیجہ تھا کہ آپ کامیاب ہو گئے اور یہی نتائج انبیاء کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں طبعی نتائج نہیں ہوتے.وہ تو ظاہر ہو ہی رہے ہوتے ہیں ان کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ کو اپنا ماً مور مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم ﷺ کا بروز بنا کر بھیجا ہے وہی وعدے آپ کی جماعت کے لئے ہیں جو صحابہ کے لئے تھے.قرآن کریم میں آپ کی بعثت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانی قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی جماعت براہ راست رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی جماعت سمجھی جائے گی.وہی وعدے ہمارے لئے ہیں اس لئے وہی تغییرات ہمارے لئے ہونگے جو صحابہ کے لئے ہوئے مگر ان کے لئے اس پاکیزگی اور محبت کی ضرورت ہے جو انسان کی حالت کو بالکل بدل دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جسمانی تناسخ درست نہیں مگر روحانی تناسخ درست ہے مگر اس طرح نہیں کہ انسان حیوان بن جائیں

Page 531

خطبات محمود ۵۲۶ سال ۱۹۳۵ء اور حیوان انسان بلکہ اس طرح کہ کئی لوگ جو بندروں اور سؤروں والی عادات رکھتے ہیں وہ روحانی رنگ میں ترقی کر کے آدمی بن جاتے ہیں اور کئی آدمی عادات کی خرابی کی وجہ سے حیوان بن جاتے ہیں.ہزار ہا لوگ گندے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور وہ جون بدل لیتے ہیں.ہماری جماعت میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو پہلے شرا میں پیتے ، چوریاں کرتے اور ڈاکے ڈالا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص بیعت کرنے آیا تو میں نے اس سے پوچھا تم کیا کام کرتے ہو ؟ اس نے کہا پہلے تو میں چوروں کا بادشاہ تھا جب تک جوان تھا چوروں کا سردار تھا اور جب بوڑھا ہو گیا تو چور خود بخوداس خوف سے کہ میری امداد کے بغیر وہ گرفت سے نہیں بچ سکیں گے اور کامیاب نہ ہوسکیں گے میرے گھر آ کر مجھے حصہ دے جاتے تھے.ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ اصلاح کے بعد پہلا آدمی بالکل بدل گیا اور اسکی جگہ نیا آدمی بن گیا حتی کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پہلا اور دوسرا ایک ہی آدمی ہے اور ایسی ہی اصلاح ایسے فضلوں کا وارث بنایا کرتی ہے جو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ پر نازل ہوئے.بےشک ہماری جماعت میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جنہوں نے یہ اصلاح کی مگر جماعت تو لاکھوں کی ہے اور باقی جو ایسی اصلاح نہیں کرتے وہ ایسے ہی ہیں جیسے تیرنے والے کے گلے میں پتھر باندھ دیا جائے.کمزور افراد جماعت کی ترقی میں روک ہو جاتے ہیں جیسے نفس کے مدارج ہیں اسی طرح انسانوں کے بھی ہیں.ایک نفسِ مطمئنہ ہے.اس کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جو قربانی کا جب ارادہ کر لیتے ہیں تو پھر مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں.ایک نفس لوامہ ہے.اس کی مثال ان لوگوں کی ہے کہ جب کبھی تقریریں سنتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں یا قرآن کریم یا حدیث کا درس سنتے ہیں تو ان کے اندر قربانی کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کرنے بھی لگ جاتے ہیں مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد سست ہو جاتے ہیں.ان کی مثال کارک کی سی ہوتی ہے جو کبھی ڈوب جاتا ہے اور کبھی تیرنے لگتا ہے.تیسر ا نفس امارہ ہے جس کی مثال پتھر کی ہے.اسے جب پانی میں ڈالا جائے فوراً نیچے ڈوبتا ہے غرض پہلی قسم کے لوگ کشتی کی مانند ہیں جو پانی پر ڈالے جانے کے بعد کبھی نیچے نہیں جاتی.دوسری قسم کے کارک کی مانند ہیں جو کبھی اوپر آ جاتا ہے اور کبھی نیچے.اور تیسرے پتھر کی مانند ہیں جو نیچے جاڑ و بتا ہے اور جس قوم میں اتحاد ہو اس کے لئے یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ کمزور دوسروں کو بھی نہ لے ڈو میں جیسے کشتی اگر علیحدہ ہو ، کارک علیحدہ اور پتھر علیحدہ تو کسی کو

Page 532

خطبات محمود ۵۲۷ سال ۱۹۳۵ء دوسرے سے نقصان کا احتمال نہیں لیکن اگر کشتی سے بہت سے کا رک بندھے ہوں اور ان سے سلیں تو کشتی خطرہ سے محفوظ نہیں سمجھی جاسکتی.اتحاد کے جہاں فوائد ہیں وہاں یہ نقصان بھی ہے.میں نے علمی کتابوں میں پڑھا ہے کہ جو لوگ ڈوبنے والوں کو بچانے کے لئے جاتے ہیں ، وہ اکثر خود ڈوب جاتے ہیں.ڈوبنے والے کو چونکہ ہوش تو ہوتا نہیں وہ بچانے والے کو ایسا زور سے پکڑتے ہیں کہ ساتھ ہی لے ڈوبتے ہیں اس لئے لکھا ہے کہ ڈوبنے والے کے منہ کی طرف نہ جاؤ بلکہ پیٹھ کی طرف سے دھکے مار کر کنارے پر لے آؤ.تو کمزور طبائع کے لوگ ہمیشہ جماعتی ترقی میں روک ہوتے ہیں ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں جماعت کی صحیح طاقت کا اندازہ نہیں ہوسکتا.میں نے دیکھا ہے کہ ایک تحریک کی جاتی ہے اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر جماعت کی طرف سے لبیک کہا جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے جماعت تھوڑے عرصہ میں ساری دنیا کو فتح کرلے گی لیکن چھ ماہ کے ہی بعد خاموشی ہو جاتی ہے.میں نے اس کا پتہ لگایا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کمزور لوگوں کا اثر نزدیک کے دوسرے لوگوں پر پڑتا ہے اور ان کا آگے دوسروں پر تھی کہ سب پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے.مجھے یاد ہے ہم بچپن میں ایک کھیل کھیلا کرتے تھے.سو پچاس اینٹیں قریب قریب کھڑی کر کے پھر ایک کو دھکا دے دیتے تو سب کی سب گر جاتیں.اسی طرح جماعت میں جو لوگ سست ہوتے ہیں ان کا حال ہوتا ہے ہے ایک کی کمزوری دوسرے پر اثر کرتی ہے اور دوسرے کی تیسرے پر.اس لئے اگر سب میں سے اچھے لوگوں کو نکال لیں تو اس صورت میں گو قربانی کم ہو سکے گی مگر جو بھی ہوگی مستقل ہوگی اور ہم چادر دیکھ کر پاؤں پھیل سکیں گے موجودہ صورت میں تو کمزور پتہ نہیں لگنے دیتے کہ ہماری چادر کس قدر بھی ہے سمجھ لیا جاتا ہے کہ جماعت مثلاً دو لاکھ ہے اور دس لاکھ روپیہ دے سکتی ہے اور اس اندازہ کے مطابق ایک کام شروع کر دیا جاتا ہے مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سے پچاس ہزار کسی کام کے نہیں ہیں اور اس طرح پچاس ہزار کا بجٹ بیچ میں سے خارج کرنا پڑتا ہے اور اس کا/ ۱۴ حصہ کے نکل جانے کی وجہ سے کام رہ جاتا ہے تو کمزوروں کی اصلاح ضروری ہے.آگے کمزوروں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں.ایک منافق ہوتے ہیں اور ایک ہوتے تو مخلص ہیں مگر ان پر مایوسی طاری ہو جاتی ہے.ایسے لوگوں کو اگر ہمت دلائی جائے اور جوش پیدا کیا جائے تو وہ اُٹھ سکتے ہیں ایسے لوگوں کو اُٹھانا مشکل نہیں ہوتا بشرطیکہ جو ہوشیار ہیں وہ اپنا فرض ادا کریں.قرآن کریم میں بار بار آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کو

Page 533

خطبات محمود ۵۲۸ سال ۱۹۳۵ء زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مارتا ہے ، ظلمت سے نور پیدا کرتا ہے اور نور سے ظلمت ، دن سے رات اور رات سے دن.غور کرنا چاہئے کہ بار بار یہ کیوں بتایا گیا ہے.یہ چیزیں تو ہم ہر روز دیکھتے ہیں ان کے ذکر کا کیا فائدہ تھا.ہم روز دیکھتے ہیں کہ مُردہ نطفہ سے زندہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور زندہ لوگ مر جاتے ہیں.اس ذکر کی غرض یہی ہے کہ جس طرح تم یہ دیکھتے ہو اسی طرح روح کی حالت ہے.وہ روح جو مُردہ ہو پھر زندہ ہو سکتی ہے اور جو روح زندہ ہو وہ بعض اسباب سے مُردہ ہو سکتی ہے اسی طرح تاریک قلب نیک تغیرات سے منور ہو سکتا ہے اور روشن قلب بُرے اثرات سے سیاہ ہو سکتا ہے.پس یہ مت گمان کرو کہ احتیاط سے روح کو مُردنی سے بچایا نہیں جا سکتا.اگر کوئی ایسی سواری ہو جو سورج کی روشنی جتنی ہی تیز چل سکے اور اس پر انسان سوار ہو جائے تو وہ رات کے اندھیرے سے بچ سکتا ہے اور اس پر کبھی تاریکی نہیں آئے گی.اسی طرح اگر کوئی گناہ میں ایسا تیز ہو کہ رات کے ساتھ ساتھ چلے تو کوئی نور اس تک نہیں پہنچ سکتا.درمیانہ درجہ میں کبھی دن ہو جاتا ہے اور کبھی رات.جو روح ہمیشہ تاریکی میں ہی رہتی ہے وہ نفس امارہ ہے جس پر کبھی دن آ جائے اور کبھی رات وہ نفس لوامہ ہے اور جو ہمیشہ ہی نور میں رہے وہ نفسِ مطمئنہ ہے اور درمیانی حالت والا اپنے اندر ضرور تغیر پیدا کر سکتا ہے بلکہ ہمیشہ اندھیرے میں رہنے والا بھی اگر کھڑا ہو جائے کہ میں نے اس تاریکی کوختم کرنا ہے تو وہ بھی نور حاصل کر سکتا ہے.پس جو لوگ اس خیال کے ہیں کہ کمزور ہمارے لئے بوجھ ہیں میں ان کو بتا تا ہوں کہ ان کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے.باقی رہے منافق سو ان کا بوجھ اللہ تعالیٰ نے ہم پر نہیں رکھا ہاں جو لوگ اخلاص سے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں مگر گناہوں میں مبتلاء ہیں ان کی اصلاح ہمارے ذمہ ہے ان کے اندر جب حرکت پیدا ہو جائے گی تو نور خود بخود آ جائے گا.کوئلہ کا ر بن گیس کی منجمد شکل ہوتا ہے.اسے جب گرمی دے کر گیس یا دھواں بنایا جا سکتا ہے اور کوئلہ سے جو گیس نکلتی ہے اسے اگر ذرا گر می دے کر روشن کیا جا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ سیاہ دل مؤمن کے اندر حرکت پیدا کی جائے اور وہ نور حاصل نہ کر سکے.گزشتہ اتوار کو ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک عربی کا شعر پڑھ رہا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ گویا مجھ پر وہ الہام ہوا ہے اور یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہی شعر یا ایسا ہی کوئی دوسرا شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہو اتھا جب میری آنکھ کھلی تو وہ شعر میری زبان پر تھا مگر افسوس کہ ایک مصرعہ یا درہ گیا دوسرا بھول گیا.وہ مصرعہ یہ ہے.

Page 534

خطبات محمود ۵۲۹ سال ۱۹۳۵ء تَأْتِي إِلَيْكَ الرُّوحُ كَالدُّخَانِ یعنی انسان کی روح دُھوئیں کی طرح تیری طرف آتی ہے.دوسرا مصرعہ مجھے یاد نہیں رہا لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ تو جب اسے چھو دیتا ہے تو وہ سورج کی طرح یا سورج سے بھی زیادہ روشن ہو جاتی ہے.پس چاہئے کہ انسان خواہ کوئلہ کی گیس بن کر اُڑے مگر اُڑے ضرور ، پھر جہاں بھی آگ ہو گی اُسے لے لے گی.ضرورت کوشش کی ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے روشن بنادیتا ہے.انسانی روح میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ جب وہ تَأْتِي إِلَيْكَ الرُّوحُ كَالدُّخَانِ پر عمل کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نور بخش دیتا ہے.ایک انسان گناہوں میں مبتلاء ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے اب رات کو دن سے بدلنا ہے وہ گیس کی طرح اڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جا گرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے چھوتا ہے اور وہ سورج کی طرح چمکنے لگتا ہے.اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ کو نیا میں سب روشنیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں.باقی سب دُھواں ہی دُھواں ہے.اور جب دُھواں اللہ تعالیٰ کے قریب جا پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ جھٹ اسے روشنی سے بدل دیتا ہے کئی لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہو گا کہ جب شمع کو یا لیمپ کو پھونک مار کر بجھاؤ تو اس میں سے جو دُھواں اس وقت نکلتا ہے اگر اُسی وقت اُسے دیا سلائی دکھائی جائے تو بتی کو دیا سلائی لگے بغیر بتی جل جاتی ہے اور آگ کسی قدر فاصلہ سے ہی اسے پکڑ لیتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ دھواں روشنی سے بدلنے کی قومی طاقت رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو تاریک روحوں کو بھی روشن کر دیتا ہے.ضرورت صرف استقلال کی ہوتی ہے اس لئے چاہئے کہ جو زندہ روحیں ہیں وہ اور بھی زندگی اپنے اندر پیدا کریں اور جو مُردہ ہو چکی ہوں وہ مایوس نہ ہوں.جب تک ہمارے دوستوں کے اندر یہ روح پیدا نہ ہوگی کامیابی محال ہے مگر میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے دوستوں کے اندر یہ مرض ابھی تک باقی ہے.گزشتہ سال کے خطبات کے بعد میں سمجھتا تھا کہ اب کئی سال تک جماعت کو جگانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی مگر ابھی آٹھ ماہ ہی گزرے ہیں کہ سستی پیدا ہونے لگی ہے.ایک دو ہی دن ہوئے میں نے ایک رنگ میں بات کی تھی مگر ناظر صاحب بیت المال نے خیال کیا کہ میں نے کہا ہے کہ میں

Page 535

خطبات محمود ۵۳۰ سال ۱۹۳۵ء تحریک جدید کیلئے اس سال چندہ کی تحریک نہیں کروں گا اور وہ اس بناء پر بہت خوش ہوئے کہ اس تحریک سے چندہ عام کی ادائیگی میں سستی پیدا ہوگئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کارکن جماعت کے مستوں کا بوجھ محسوس کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں نے گزشتہ سال یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب میں کستوں کی پرواہ نہیں کروں گا اور جو مستعد ہیں اُن کو آگے لے جاؤں گا.ہم سونے والوں کو جگائیں گے مگر جو نہیں جاگیں گے ان کو چھوڑتے جائیں گے.پچھلے سال میں نے بتایا تھا کہ میں نے جس قربانی کا مطالبہ کیا ہے یہ بہت ہی کم ہے.آئندہ کے لئے جو سکیم میرے مد نظر ہے وہ بہت بڑی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے اور اب یہی ہو گا کہ کمزوروں کے متعلق ہم یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور جو باقی ہیں ان کو آگے بڑھا لے جاؤں گا اور اس صورت میں خواہ دس آدمی بھی میرے ساتھ ہوں انجام کا رفتح انہی کی ہوگی.پس ان معاملات میں اب میں نہ ناظروں کی پرواہ کروں گا نہ انجمن کی ، نہ افراد کی اور نہ جماعتوں کی اور نہ مشوروں سے کام کروں گا.اب تو یہی ہے جو ہمارے ساتھ چل سکتا ہے چلے اور جو نہیں چل سکتا وہ پیچھے رہ جائے.اس پوزیشن میں اب میں کوئی تبدیلی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں حشی کہ فتح کا دن آجائے اُس وقت تک میں اب کسی کا لحاظ نہیں کروں گا.لوگ کہتے ہیں کہ ڈرانا نہیں چاہئے مگر میں کہتا ہوں کہ جو ڈرنے والے ہیں وہ بے شک ڈر جائیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ تین سال کی شرط ہی ضروری نہیں ہممکن ہے کہ یہ تحریک مستقل ہی ہو اور اس سے بھی زیادہ قربانیوں کی ضرورت پیش آئے جو ان کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتا ہے وہ الگ ہو جائے اب قربانیوں کا مطالبہ زیادہ سے زیادہ ہو گا اور جو اس کو بوجھ سمجھتا ہے وہ نہ اُٹھائے حتی کے جو انگلی اُٹھا کر بھی کوئی اعتراض کرے گا میں اسے جماعت سے علیحدہ کر دوں گا.بیشک مشوروں میں میں اب بھی دوسروں کو شامل کروں گا لیکن کروں گا وہی جو مجھے خدا تعالیٰ سمجھائے کیونکہ اب جنگ کا زمانہ ہے جب کمانڈر انچیف وہی کرتا ہے جسے ضروری اور مناسب سمجھتا ہے اور بے ہودہ بحثوں میں وقت ضائع نہیں کرتا.میں ڈرا تا نہیں ہوں لیکن جو ڈرتا ہے وہ بیشک ڈر جائے.میں صرف یہ بتا تا ہوں کہ کمزور اگر چاہیں تو طاقت حاصل کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ دُھویں کو نور میں تبدیل کر سکتا ہے.اگر کسی کے دل میں خوف ہے یا وہ کمزوری محسوس کرتا ہے یا شکوک ہیں تو وہ مت سمجھے کہ نور حاصل نہیں کر سکتا.اگر تمہارے

Page 536

خطبات محمود ۵۳۱ سال ۱۹۳۵ء گرد گناہوں نے گھبرا کر لیا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف جھک جاؤ کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے خدا اسے مُردنی کی حالت میں نہیں رہنے دیتا.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص خدا کی طرف جھکے اور خدا اسے پرے ہٹا دے.یہ تو ایسی معمولی بات ہے کہ کوئی شریف آدمی بھی نہیں کر سکتا.پس اگر کسی کے دل میں قربانی سے ڈر ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قربانی کر ہی نہیں سکتا.کسی کے پاس اگر روپیہ نہیں تو وہ ہاتھ سے مدد کر سکتا ہے.اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو زبان سے دعا کر سکتا ہے اگر زبان سے بھی دعا نہیں کر سکتا تو دل ہی دل میں دعا کر سکتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بُرا کام دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے ہی منع کر دے اور اگر ی بھی نہ کر سکتا ہو تو دل میں ہی بُر امنائے.وہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے سامان رکھے ہیں.میں نے کہا تھا کہ جس کے پاس کچھ نہیں وہ دعائیں ہی کیا کرے.پس اگر دل پر زنگ ہے تو یہ مت خیال کرو کہ وہ دُور نہیں ہو سکتا اپنے آپ کو دھواں بنا کر خدا تعالیٰ کے دروازے پر جا گرا ؤ اور مایوس مت ہو کہ جو مایوس ہوتا ہے وہ شیطان ہے.فرشتوں نے بھی کہا تھا کہ آدم دنیا میں فساد پھیلائے گا مگر جب خدا نے کہا کہ سجدہ کرو تو وہ سجدہ میں گر گئے اور سجدہ دعا ہی ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مایوس نہ تھے اور سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نقصان سے دنیا کو بچا سکتا ہے مگر شیطان مایوس تھا اور اس نے سجدہ نہ کیا.پس فرشتوں کی طرح خدا کے پاس برتن لے کر جاؤ.پھر خدا تمہیں خالی ہاتھ نہ آنے دے گا.( الفضل ۷ ۲ راگست ۱۹۳۵ء ) لا سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۱۳۶،۱۳۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ٹینٹوا : گلا.ٹینٹواد بانا.گلا گھونٹنا.عاجز کرنا سخت تقاضا کرنا التوبه : ۴۰ ۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۱۸۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۵ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۲۹،۱۲۸.مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ بخارى كتـاب الــمــغـــازى باب غزوة ذات الرقاع + شرح مواهب اللدنیہ جلدا.صفحہ ۵۳۰.مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۵.بیروت ۱۹۸۷ء النور ٣٦: مسلم كتاب الايمان باب بيان كون النهي عن المنكر من الايمان

Page 537

خطبات محمود ۵۳۲ ۳۳ سال ۱۹۳۵ء رسول کریمہ سے عقیدت اور خانہ کعبہ کی عظمت کی خاطر احرار کو مباہلہ کا چیلنج فرموده ۳۰ /اگست ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے آج تک ہزار ہا انبیاء اور مامورین بھیجے ہیں بلکہ بعض احادیث سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا پتہ لگتا ہے.وہ روایت اس پایہ کی ہو یا نہ ہو کہ اس پر کسی عقیدہ کی بنیاد رکھی جا سکے اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کے مختلف گوشوں اور کونوں میں جس طرح ہدایت کے سامان نظر آتے ہیں ، جس طرح ایسے لوگوں کی یاد تازہ نظر آتی ہے جنہوں نے بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اپنی عمر میں صرف کر دیں.اس پر قیاس کرتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار یا اس سے بھی زیادہ انبیاء کا وجود تسلیم کرنا کوئی خلاف عقل بات معلوم نہیں ہوتی.وہ انبیاء جو مختلف اقوام کی ہدایت کے لئے مختلف زمانوں میں آئے اپنے اپنے زمانہ کے مطابق ان کی تعلیموں میں اختلاف تھا.چنانچہ اس قسم کی نماز جس کا حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے متبعین کو حکم دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں نہیں پڑھی جاتی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جتلائی ہوئی نماز کے حضرت شعیب تابع نہیں تھے اور نہ حضرت صالح اور حضرت ہوڈ وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے جنہیں بنی اسرائیل بجالایا کرتے تھے نہ اس قسم کی نمازیں اسلام میں مقرر کی گئی ہیں.روزے بے شک تمام

Page 538

خطبات محمود ۵۳۳ سال ۱۹۳۵ء دنیا میں رکھے جاتے رہے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ یعنی اگر تمہیں روزے رکھنے کے لئے کہا گیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ، پہلے لوگوں پر بھی روزے رکھنے تمہاری طرح فرض تھے.مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ روزوں کی شکل میں اختلاف تھا اور وہ اختلاف آج تک نظر آتا ہے کہیں اس قسم کے روزے ہوا کرتے تھے جنہیں وصال کہتے ہیں کہ درمیان میں سحری نہ کھانا.اس قسم کے روزوں میں صرف شام کے وقت روزہ کشائی کی جاتی اور دوسری سحری نہ کھا کر متواتر آٹھ پہر روزہ رکھا جاتا.کہیں ایسے روزے ہوتے کہ روزہ کشائی بھی نہ ہوتی اور تین تین ، چار چار، پانچ پانچ دن متواتر روزہ رکھا جاتا.ایسے روزے بھی پائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو ملکی غذا کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ٹھوس غذاؤں سے منع کیا گیا ہے جیسے ہندوؤں یا عیسائیوں میں روزے ہوتے ہیں.ہندوؤں کے روزوں کے متعلق تو عام طور پر مشہور ہے کہ ان کا روزہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز نہیں کھانی.اس کے علاوہ اگر وہ کئی سیر آم ، کیلے اور نارنگیاں کھا جائیں تو ان کے روزہ میں فرق نہیں آتا.روٹی اور سالن کو چھوڑ کر باقی جو چیز چاہیں کھا لیں.پھر اس سے بھی آسان روزے رومن کیتھولک عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں آخر انہوں نے بھی اپنی کسی مذہبی روایت کی بناء پر ہی یہ روزے رکھنے شروع کئے ہونگے یا کسی حواری سے کوئی بات پہنچی ہوگی.ان کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا اگر وہ آلو ابال کر یا کدو کا بھرتہ بنا کر دس پندرہ روٹیاں اس کے ساتھ کھالیں تو ان کا روزہ نہیں ٹو تھا.البتہ اگر گوشت کی بوٹی ان کے معدے میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے.پس روزوں کے متعلق بھی مختلف اقوام میں اختلاف پائے جاتے ہیں اور اپنے اپنے زمانہ میں ان احکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں بھی پوشیدہ ہونگی.مثلاً جو قو میں کثرت سے گوشت کھانے والی ہوں، وہ ان اخلاق سے رفتہ رفتہ محروم ہو جاتی ہیں جو سبزی کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے اور انہیں یہ بتانے کے لئے کہ سبزی بھی غذا میں ضروری ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے دیا ہو کہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تم پر ایسا آنا چاہئے جب تم گوشت نہ کھاؤ تو یہ نہایت پر حکمت روزہ ہو جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں اسلام نے ہماری غذا کے متعلق یہ ایک عام حکم دے دیا ہے کہ گوشت بھی کھاؤ اور سبزیاں بھی کھاؤ، آگ پر پکی

Page 539

خطبات محمود ۵۳۴ سال ۱۹۳۵ء ہوئی چیزیں بھی استعمال کرو اور جنہیں آگ نے نہ چھڑا ہو وہ بھی استعمال کر لو.غرض ہماری غذا میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی احتیاطیں جمع کر دی ہیں لیکن پہلی قوموں کے لئے ممکن ہے اس قسم کی احتیاطیں نا قابل برداشت پابندیاں ہوں اور ان کے اخلاق کی اصلاح کے لئے اس قسم کے روزے تجویز کئے گئے ہوں.مثلاً وہ تو میں جو جنگی ہوتی ہیں اور جن کا شکار پر گزارہ ہوتا ہے ، وہ ایک عرصہ تک گوشت کھانے کی وجہ سے ایسے اخلاق سے عاری ہو جاتی ہیں جو سبزی کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دے دیا گیا ہو کہ وہ ہفتہ میں ایک دن گوشت کھانا چھوڑ دیں تو یقیناً یہ روزہ ان کے لئے بہت مفید تھا پس پہلی قوموں میں روزے تو تھے مگر شکل وہ نہ تھی جو اسلام میں ہے.یا مثلا زکوۃ ہے ہر مذہب میں کسی نہ کسی رنگ میں صدقہ کا حکم پایا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہ تمام مذاہب میں زکوۃ ان اصول پر مبنی ہو جن اصول پر اسلام کی زکوۃ مبنی ہے.ہندوؤں میں اور قسم کی زکو تھی ، یہودیوں میں اور قسم کی زکو تھی ، عیسائیوں میں اور قسم کی زکوۃ تھی اور اسلام میں اور قسم کی زکوۃ ہے.یا وراثت ہے وراثت کا اصل بھی تمام مذاہب کا ایک لازمی جزو ہے کیونکہ اکثر ماں باپ کی جائداد ہوتی ہے اور بہر حال وہ جائداد ان کی اولاد میں تقسیم ہوتی ہے اس لئے ہر مذہب میں وراثت کا مسئلہ پایا جاتا ہے.مگر ہر جگہ اس کی تفصیلات میں اختلاف ہے.کہیں وراثت میں آزادی زیادہ ہے اور کہیں قید زیادہ کہیں لڑکیوں کو حصہ نہیں دیا جا تا اور کہیں لڑکوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے، پھر کہیں وصیت کی عام اجازت ہے اور کہیں نہیں.تو یہ جو ہزار ہا بلکہ سوا لاکھ کے قریب انبیاء گزرے ہیں ان سب کی تعلیمات کی جزئیات آپس میں مختلف تھیں مگر اس اختلاف کے باوجود ایک اتحاد بھی تھا.اس اتحاد میں وہ منبع نظر آ جاتا ہے جس سے ان سب پر کلام نازل ہوا.سارے انبیاء کی تعلیم میں حتی کہ بگڑی ہوئی تعلیموں میں بھی غور کرنے سے یہ نظر آتا ہے کہ جیسے پردے کے پیچھے چلمن سے کوئی عورت جھانک رہی ہو اسی طرح آسمانی وحی ان کی تعلیموں سے جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ جھانک جھانک کر اس ایک مقصد کا پتہ دے رہی ہے جس کے لئے تمام انبیاء مبعوث ہوتے رہے.وہ مقصد جیسا کہ ہر شخص کو معلوم ہے تو حید ہے کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے دوسرے نبی سے توحید کے متعلق اختلاف کیا ہو.تو حید کے مدارج میں اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک لوگ تو حید کی باریکیوں کے سمجھنے کے ناقابل تھے اس کی باریکیاں ان کے سامنے بیان نہ کی گئیں لیکن باوجود اس کے

Page 540

خطبات محمود ۵۳۵ سال ۱۹۳۵ء کہ مختلف مذاہب کی کتب میں انسانی دست برد ہو گئی پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مذہب کی تعلیم سے حتی کہ جو زیادہ سے زیادہ بگڑی ہوئی تعلیم ہے ، اس سے بھی تو حید جھانک رہی ہے مثلاً وید ہیں ان میں آگ ، پانی اور عناصر کی پرستش کے متعلق بہت سی تعلیمیں پائی جاتی ہیں مگر با وجود اس کے اگر کوئی شخص اپنے دل کو تعصب سے خالی کر کے وید پڑھے تو اسے اقرار کرنا پڑیگا کہ گو اس کے ظاہری الفاظ میں تو حید دکھائی نہ دے مگر پس پردہ ویدوں میں بھی تو حید جھانک رہی ہے اور اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ ویدوں کی تعلیم لانے والے اُسی خدا کے بھیجے ہوئے تھے جس نے حضرت موسی ، حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفے ﷺ کو بھیجا.تو حید کی طرح بعض اخلاقی تعلیمیں بھی ایسی ہیں جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہیں.یہ ممکن ہے کہ ہندوستان کے کسی سابقہ نبی نے اور قسم کی نمازیں پڑھنے کے لئے کہا ہو، اور قسم کے روزے رکھنے کے لئے کہا ہو ، اور قسم کا حج کرنے کا حکم دیا ہو، اور قسم کے ورثہ کے متعلق تعلیم دی ہو یہ سب کچھ ممکن ہے.اور دنیا کے مختلف حصوں میں مبعوث ہونے والے نبی ارکانِ دین کے متعلق مختلف قسم کی تعلیمیں دے سکتے تھے مگر وہ حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیھم السلام سے صداقت کے متعلق اختلاف نہیں کر سکتے تھے.یہ کبھی ممکن نہ تھا کہ ہندوستان کا نبی یہ کہے کہ جھوٹ بولو اور فلسطین کا نبی یہ کہے کہ جھوٹ مت بولو.- پس ہو سکتا ہے کہ پہلے نبی نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج کی جزئیات میں اختلاف رکھتے ہوں.مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ سچائی دیانت اور امانت کے متعلق آپس میں اختلاف رکھتے ہوں.پہلا الہام جب دنیا پر نازل ہوا تو وہ یہی تعلیم لے کر آیا کہ سچ بولو جھوٹ سے پر ہیز کر و.دیانت اور امانت سے کام لو ظلم اور تعدی سے بچو اور وہ آخری شریعت کی آواز جو مکہ سے خدا تعالیٰ نے بلند کی اس میں بھی لوگوں سے یہی کہا گیا کہ سچ بولو، دیانت پر قائم رہو اور ظلم و تعدی سے بچو.انسانی حالات بدلے قو میں بدلیں ، تعلیمات بدلیس، تفصیلات بدلیں مگر یہ چیز نہ بدل سکی اور نہ بدل سکتی تھی جیسا کہ تو حید نہیں بدل سکتی.پس وہ تعلیم جس پر تمام انبیاء بنی نوع انسان کو چلاتے آئے اگر کوئی قوم اس تعلیم کو چھوڑتی اور انبیاء کے تسلیم شدہ قانون کو توڑتی ہے تو وہ اس کے خمیازہ سے کبھی بچ نہیں سکتی.وہ تعلیمات ایک قانون کی طرح ہوتی ہیں جس طرح قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کرنے والا طبعی سزاؤں سے نہیں بچ سکتا اور انہیں تو ڑنے والا اپنے کئے کی سزا پاتا ہے اسی طرح ان تعلیمات کا توڑنا بھی ایک زہر ہوتا

Page 541

خطبات محمود ۵۳۶ سال ۱۹۳۵ء ہے ایسا زہر جس کے کھانے والا کبھی بچ نہیں سکتا اور جس کی زندگی پر موت کا آنا یقینی ہوتا ہے.ایک انسان اگر روزہ میں کوئی کوتاہی کرے تو وہ بھی گنہگار ہو گا.مگر اس گناہ کی سزا بالکل ممکن ہے کہ اسے اس جہان میں نہ ملے بلکہ اگلے جہان میں ملے.اسی طرح اگر کوئی حج کے معاملہ میں بے احتیاطی کر بیٹھے اور اپنے اجتہاد کے دروازہ کو وسیع کر دے تو وہ بھی گنہگار ہوگا.مگر بالکل ممکن ہے کہ اس گناہ کی سزا اسے اس جہان میں نہ ملے بلکہ اگلے جہان میں ملے.مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ جو لوگ اس تعلیم کو توڑتے ہوں جس پر سارے انبیاء زور دیتے چلے آئے اور جو تمام مذاہب میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے وہ اس جہان میں اس کی سزا سے بچ جائیں بلکہ اُدھر وہ ظلم کرتے ہیں ادھر انہیں ظلم کی سزاملنی شروع ہو جاتی ہے.جس طرح زہر کھانے والا زہر کھاتے ہی اپنی طبیعت میں ایک تغیر پاتا ہے اسی طرح تو حید کا منکر فوراً اپنے اندر ایسا تغیر پاتا ہے جو اُس کی اعلی طاقتوں کو برباد کر دیتا ہے.اسی طرح جھوٹ بولنے والا، ظلم کرنے والا ، اتہام لگانے اور بد دیانتی کرنے والا اپنے اندر ایک ایسا تغیر پاتا ہے جو اُس کی مفید طاقتوں کو توڑ دیتا ہے.دوسروں پر ظلم کرنے اور جھوٹ بولنے والے کے متعلق خدا تعالیٰ یہ انتظار نہیں کرتا کہ اسے اس جہان میں مہلت دی جائے اور اگلے جہان میں سزا دی جائے بلکہ وہ اسی جہان میں اُسے پکڑتا اور اس دنیا میں ذلیل اور رسوا کر دیتا ہے کیونکہ یہ اخلاق کی بنیادیں ہیں اور ایسے امور میں بے احتیاطی کا ارتکاب کوئی معمولی بات نہیں.پھر کس قدر افسوس کی بات ہے اُس قوم پر جو اپنی زندگی کا مدار ہی ان باتوں پر رکھتی ہے جو سچائی کا ہتھیا را اختیار کرنے کی بجائے جھوٹ اور افتراء سے کام لینے کی عادی ہے.وہ جب جھوٹ بولتی ہے تو جھوٹ کے ذریعہ خود اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ میں مر چکی ہوں اور اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ سچائی اس کے پاس نہیں.ایک شخص کسی پر جھوٹا مقدمہ دائر کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے مجھے مارا حالانکہ اس نے مارا نہیں ہوتا.یہ اس کی روحانی موت کا ثبوت ہوتا ہے کیونکہ اگر واقعی اس نے اسے ستایا ہوتا یا کوئی تکلیف دی ہوتی تو اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی.وہ وہی بات پیش کرتا جو وقوع میں آئی تھی کذب بیانی سے کام نہ لیتا.مگر اس کا جھوٹ بولنا بتاتا ہے کہ اصل واقعہ کوئی نہ تھا.انبیاء علیھم السلام کے زمانہ میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان کے دشمن ہمیشہ جھوٹ بولتے اور افتر ا سے کام لے کر وہ کچھ کہتے ہیں جو انبیاء نے نہیں کہا ہوتا اور اس طرح لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں.

Page 542

خطبات محمود ۵۳۷ سال ۱۹۳۵ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسی قسم کی باتیں کفار کی طرف سے کہی جاتی تھیں.کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ افتراء کیا جاتا کہ آپ انبیاء کے منکر ہیں ، کہیں یہ کہہ کر لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی کہ آپ پہلے بزرگوں کی ہتک کرتے ہیں.عیسائیوں نے سینکڑوں سال تک ایک دنیا کو یہ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظن کئے رکھا کہ آپ عورتوں کے اندر روح تسلیم نہیں کرتے.یا یہ کہا جاتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت حضرت عیسی کے منکر تھے اور آپ ان کی ہتک کرتے تھے.اسی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہوں نے ایک ایسا نام رکھا ہوا تھا جس کا لینا بھی ہماری حد برداشت سے باہر ہے اور جس کے لفظی معنی حضرت عیسی علیہ السلام کے مخالف کے ہیں حالانکہ یہ ساری باتیں بالکل جھوٹ ہیں.جن لوگوں نے اسلامی تاریخ کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ جس وقت صحابہ کفار کے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے اور انہوں نے نجاشی شاہ حبش کی پناہ لی تو اُس وقت مکہ کے لوگوں نے عمرو بن العاص اور ابن ربیعہ پر مشتمل ایک وفد حبشہ کو بھیجا اور نجاشی کو اُس کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ ہمارے آدمیوں کو واپس کر دیا جائے کیونکہ اس طرح ہماری ہتک ہوتی ہے.جب یہ لوگ وہاں گئے اور نجاشی کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو اُس نے کہا جب تک اِن لوگوں کا کوئی مجرم ثابت نہیں ہو گا میں انہیں واپس کرنے کے لئے تیار نہیں.میرا ملک آزاد ہے جو چاہے اس میں رہے.ہاں اگر انکا مجرم ہونا ثابت کر دو تو انہیں تمہارے ساتھ بھیجا جا سکتا ہے.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا جرم یہی بیان کیا کہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں ان کا یہ کہنا ہی بتا رہا تھا کہ صحابہ نے ان کا کوئی جرم نہیں کیا تھا کیونکہ اگر واقعہ میں انہوں نے کوئی مُجرم کیا ہوتا تو وہ اسے کیوں پیش نہ کرتے.ان کا یہ قول کہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بہتک کرتے ہیں بتاتا ہے کہ وہ صحابہ کا کوئی حقیقی مجرم پکڑ نہیں سکتے.نجاشی نے یہ سن کر صحابہ کو بلوایا اور پوچھا کہ آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ انہوں نے قرآن کریم کی بعض آیات پڑھ کر سنائیں جن میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے روح ملی تھی اور ان کے ہاتھ پر منجزات ظاہر ہوتے تھے.جب وہ آیتیں نجاشی کے سامنے پڑھی گئیں تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ کہنے لگا اب میں سمجھ گیا کہ تم پر ظلم کیا جاتا ہے.پھر اُس نے کہا کہ میں

Page 543

خطبات محمود ۵۳۸ سال ۱۹۳۵ء اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا جو درجہ تم نے بیان کیا ہے ، وہی میں سمجھتا ہوں اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا.میں تمہیں قریش مکہ کے حوالے نہیں کر سکتا تم آزادی سے میرے ملک میں رہو کو ئی شخص تم پر ظلم نہیں کرسکتا.سے بہر حال مکہ والوں نے یہی طریق اختیار کیا تھا کہ کہا صحابہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں.آج ہمارے مخالف بھی ہمارے متعلق اسی قسم کی کذب بیانیوں سے کام لیتے ہیں ، وہ جھوٹ بولتے ہیں اور صریح غلط بیانی کرتے ہوئے ہمارے متعلق وہ کچھ کہتے ہیں جو ہرگز ہمارا عقیدہ نہیں.مثلاً ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہیں یا کہتے ہیں کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر کسی کے اندر ایک ذرہ بھر بھی تخم دیانت ہو تو وہ ہمارے لٹریچر کو پڑھ کر یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کرنے والے ہیں.ہمارے عقائد بالکل واضح ہیں اور ہماری کتابیں بھی چھپی ہوئی موجود ہیں.ان کو پڑھ کر کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ رسول کریم ﷺ کی تک کرتے ہیں.ہاں دشمن یہ کہہ سکتا ہے کہ گو الفاظ میں یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں آپ کا ادب نہیں مگر اس صورت میں ہمارا یہ پوچھنے کا حق ہوگا کہ وہ کو نسے ذرائع ہیں جن سے کام لے کر انہوں نے ہمارے دلوں کو پھاڑ کر دیکھ لیا اور معلوم کر لیا کہ ان الله میں حقیقت رسول کریم ﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بہتک کے جذبات ہیں.رسول کریم ﷺ کا ادب اور احترام جو ہمارے دلوں میں ہے ، میں سمجھتا ہوں مخالفوں کے لئے اس کے پہچاننے کے دو طریق ہو سکتے ہیں ان دو طریق میں سے کسی ایک کو دشمن اختیار کر کے دیکھ لے اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی محبت ہے یا نہیں.مثلاً : ایک تو یہ ہے کہ ہندؤں سکھوں اور عیسائیوں میں سے ایسے لوگ جو ہمارے ساتھ ملنے جلنے والے ہوں سو ، دوسو ، چار سو ، پانچ سو یا ہزار تلاش کر لئے جائیں اور ان ہزار سے کہا جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی مقدس مذہبی کتاب ہاتھ میں لے کر اُس خدا کی جس کے ہاتھ میں اُن کی جان ہے قسم کھائیں اور یہ قسم کھا کر کہ اگر وہ جھوٹ بولیں تو اُن پر اور اُن کے بیوی بچوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو بتائیں کہ جب کبھی احمدیوں سے انہیں بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے ، انہوں نے احمدیوں

Page 544

خطبات محمود ۵۳۹ سال ۱۹۳۵ء کے دلوں کو کیسا پایا ہے ؟ کیا رسول کریم ﷺ کا عشق اور آپ کی محبت انہوں نے محسوس کی یا رسول کریم ﷺ کی ہتک کا انہیں شبہ ہوا ؟ اگر احمدی با لفرض عام مسلمانوں کے سامنے رسول کریم کی ہتک کرنے سے اس خیال سے بچتے ہیں کہ اس طرح مسلمان ناراض ہو جائیں گے تو ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے سامنے تو وہ نڈر ہو کر رسول کریم ﷺ کی نَعُوذُ باللہ ہتک کرتے ہوں گے پس غیر احمدیوں کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ احمدی منافقت سے کام لے کر انہیں خوش کرنے کے لئے ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کی تعریف کر دیتے ہیں مگر ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی.پس میں کہتا ہوں تصفیہ کا آسان طریق یہ ہے کہ ہندؤں ،سکھوں اور عیسائیوں میں سے ایک ہزار آدمی چُنا جائے اور وہ مؤکد بعذ اب حلف اُٹھا کر بتائیں کہ احمدی عام مسلمانوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے متعلق زیادہ جوش رکھتے ہیں یا کم.اگر ایک ہزار سارے کا سارا یا اس کا بیشتر حصہ کیونکہ ایک دو جھوٹ بھی بول سکتے ہیں یہ گواہی دے کہ اس نے احمدیوں کو رسول کریم ﷺ کی عزت کرنے والا اور آپ کے نام کو دنیا میں بلند کرنے والا پایا تو اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو اپنے فعل پر شرمانا چاہئے.میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو ہمارے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرتے ہیں وہ بار بار ہمارے متعلق اس انتہام کو دُہرا کر خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ کسی کو گالی دینے کا ایک طریق یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ دوسرے کی طرف گالی منسوب کر کے اس کا ذکر کیا جائے.جیسے کوئی شخص کسی کو اپنے منہ سے تو حرام زادہ نہ کہے مگر یہ کہہ دے کہ فلاں شخص آپ کو حرام زادہ کہتا تھا یہ بھی گالی ہو گی جو اس نے دوسرے کو دی گو دوسرے کی زبان سے دلائی.پس اگر یہ تصفیہ کا طریق جو میں نے بیان کیا ہے اس پر مخالف عمل نہ کریں تو میں کہوں گا ایسے اعتراض کرنے والے در حقیقت رسول کریم ﷺ کی خود ہتک کرتے ہیں گو اپنے منہ سے نہیں بلکہ ہماری طرف ایک غلط بات منسوب کر کے.دوسرا طریق یہ ہے کہ ان مخالفین میں سے وہ علماء جنہوں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو، پانچ سو یا ہزار میدان میں نکلیں.ہم میں سے بھی پانچ سو یا ہزار میدان میں نکل آئیں گے.دونوں مباہلہ کریں اور دعا کریں کہ وہ فریق جو حق پر نہیں خدا تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے.ہم دعا کریں گے کہ اے خدا ! تو جو ہمارے سینوں کے رازوں سے واقف ہے اگر تو جانتا ہے کہ ہمارے

Page 545

خطبات محمود ۵۴۰ سال ۱۹۳۵ء دلوں میں واقعی رسول کریم ﷺ کی عظمت و محبت نہیں اور ہم آپ کو سارے انبیاء سے افضل و برتر یقین نہیں کرتے اور نہ آپ کی غلامی میں نجات سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا ایک خادم اور غلام نہیں جانتے بلکہ درجہ میں آپ کو رسول کریم علیہ سے بلند سمجھتے ہیں تو اے خدا ! ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اس جہان میں ذلیل و رسوا کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک کر.اس کے مقابلہ میں وہ دعا کریں کہ اے خدا! ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی تک کرتے ، آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور آپ کے درجہ کو گرانے اور کم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اے خدا! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو تو اس دنیا میں ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو ذلیل ورسوا کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کر.یہ مباہلہ ہے جو وہ ہمارے ساتھ کر لیں اور خدا پر معاملہ چھوڑ دیں.پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں ایسے علماء کا اکٹھا کرنا جو ہمارے سلسلہ کی کتب سے واقفیت رکھتے ہوں آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ کہلانے والوں کے لئے کوئی مشکل نہیں بلکہ معمولی بات ہے.اور ہم تو ان سے بہت تھوڑے ہیں مگر پھر بھی ہم تیار ہیں کہ پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں اپنے آدمی پیش کریں.شرط صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ اپنی طرف سے پیش کریں وہ ایسے ہوں جو حقیقت میں ان کے نمائندہ ہوں.اگر وہ جاہل اور بیہودہ اخلاق والوں کو اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ یہ تسلیم کر لیں کہ وہ ان کی طرف سے نمائندہ ہیں.ہاں احرار کے سرداروں کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس میں شامل ہوں مثلاً مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب شامل ہوں ،مولوی حبیب الرحمٰن صاحب شامل ہوں ،مسٹر مظہر علی صاحب اظہر شامل ہوں ، چوہدری افضل حق صاحب شامل ہوں، مولوی داؤ دغزنوی صاحب شامل ہوں ، اور ان کے علاوہ اور لوگ جن کو وہ منتخب کریں شامل ہوں.پھر کسی ایسے شہر میں جس پر فریقین کا اتفاق ہو یہ مباہلہ ہو جائے.مثلا گورداسپور میں ہی یہ مباہلہ ہوسکتا ہے جس مقام پر انہیں خاص طور پر ناز ہے یا لاہور میں اس قسم کا اجتماع ہوسکتا ہے.ہم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اگر ہم رسول کریم ﷺ پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں ، آپ کو خاتم النبیین نہ سمجھتے ہوں ، آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں.اس کے مقابلہ میں

Page 546

خطبات محمود ۵۴۱ سال ۱۹۳۵ء وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبیین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی تو ہین کرنے والے ہیں.اے خدا! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کونسا فریق اپنے دعوئی میں سچا ہے، کون رسول کریم ﷺ سے حقیقی عشق رکھتا ہے اور کون دوسرے پر جھوٹا الزام لگا تا ہے مگر یہ شرط ہوگی کہ عذاب انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا اور ایسے سامانوں سے ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاسکیں.دوسرا اتہام جو میں نے چند دن ہوئے سنا ہے وہ یہ ہے کہ منصوری میں احراریوں کا ایک جلسہ مولوی عطا اللہ شاہ صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا.جس میں مسٹر حسام الدین صاحب ایک احراری نے جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلاتے ہوئے کہا کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی جائے تو مرزائی لوگ اس کی کوئی پرواہ نہ کریں گے بلکہ خوش ہو نگے.اس کے جواب میں بھی میں کہتا ہوں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ - خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا تو الگ رہی ، ہم تو یہ بھی پسند نہیں کر سکتے کہ خانہ کعبہ کی کسی اینٹ کو کوئی شخص بد نیتی سے اپنی انگلی بھی لگائے اور ہمارے مکانات کھڑے رہیں.جس طرح رسول کریم اللہ کے زمانہ میں ایک صحابی کو جب کفار مکہ قتل کرنے لگے تو انہوں نے اُن صحابی سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تم اس وقت مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہوتے اور محمد ( ﷺ ) کو تمہاری جگہ سزا دی جاتی.اُس صحابی نے جواب دیا کہ تم تو یہ کہتے ہو کہ محمد ﷺ یہاں میری جگہ ہوں اور میں مدینہ میں آرام سے بیٹھا ہوں میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اور محمد ﷺ کو مدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے کوئی کانٹا عليه کچھ جائے.اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بھی پسند نہیں کہ خانہ کعبہ کی طرف کوئی بدنیت اُنگلی بھی اُٹھائے اور ہمارے مکان کھڑے رہیں.گجا یہ کہ ہم خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجتی دیکھیں اور خوش ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم قادیان کا احترام کرتے ہیں مگر کیا ایک چیز کے احترام کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم دوسری چیز کا احترام نہیں کرتے.کیا وہ شخص جو اپنے ماں باپ کا احترام کرتا ہے اُس کے احترام کے یہ معنی ہونگے کہ وہ رسول کریم ﷺ کا احترام نہیں کرتا.یا جو شخص رسول کریم

Page 547

خطبات محمود ۵۴۲ سال ۱۹۳۵ء کا احترام کرتا ہو اس کے احترام کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا احترام نہیں کرتا.ہزار ہا چیزیں دنیا میں ایسی ہیں جن کا ہم احترام کرتے ہیں ، ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت عیسی علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت صالح علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت ہود علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں ، حضرت شعیب علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں، اور پھر رسول کریم ﷺ کا بھی احترام کرتے ہیں.کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا احترام کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم دوسرے انبیاء کی ہتک کرتے ہیں؟ یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیھما السلام کا احترام کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی توہین کرتے ہیں ؟ فرض کرو اگر کوئی شخص سوال کرے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمہارے زمانہ میں ہوں اور ان پر کوئی شخص حملہ کر دے تو کیا تم اپنی جان اور مال ان پر قربان کرو گے یا نہیں ؟ تو کیا غیر احمدی اس سوال کا یہ جواب دیں گے کہ ہم تو رسول کریم ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے والے ہیں کسی اور کے لئے اگر جان قربان کر دیں گے تو رسول کریم ﷺ کی ہتک ہو جائے گی.یا ہر مسلمان مجبور ہے یہ جواب دینے کے لئے کہ اگر بالفرض حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا میں ظاہر ہوں اور کوئی شخص اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی جان اور اپنا مال آپ پر قربان کر دے گا مگر کیا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتا ہے؟ کیا وہ جو کہا کرتے ہیں کہ حُب الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے ، جو کہا کرتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہئے اُن کے اس قول کے یہ معنی ہوا کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ پر اگر کوئی حملہ کرے تو وہ اس کے بچانے کے لئے کوئی حرکت نہیں کریں گے؟ پھر کیا یہی بات ان کے متعلق نہیں کہی جاسکتی ؟ اگر ہندوستان سے اتنی محبت کرنے کے باوجود کہ وہ لوگ کہا کرتے ہیں جب تک انگریزوں کو ہندوستان سے نکال نہ دیا جائے تو ایمان قائم نہیں رہ سکتا ، ان کی مکہ معظمہ سے محبت رہ سکتی ہے ؟ تو قادیان سے محبت کا یہ نتیجہ کیونکر نکالا جا سکتا ہے کہ ہمیں مکہ معظمہ محبوب نہیں.بے شک ہمیں قادیان محبوب ہے اور بے شک ہم قادیان کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں مگر خدا شاہد ہے خانہ کعبہ قادیان سے بدرجہا زیادہ محبوب ہے ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا وہ دن نہیں لا سکتا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی وہ دن آئے کہ خانہ کعبہ بھی خطرہ

Page 548

خطبات محمود ۵۴۳ سال ۱۹۳۵ء میں ہو اور قادیان بھی خطرہ میں ہو اور دونوں میں سے ایک کو بچایا جا سکتا ہو تو ہم ایک منٹ بھی اس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے کہ کس کو بچایا جائے بلکہ بغیر سوچے کہہ دیں گے کہ خانہ کعبہ کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے پس قادیان کو ہمیں خدا تعالیٰ کے حوالے کر دینا چاہئے.خود رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کے بعد مدینہ کے لئے دعا کی اور کہا اے میرے ربّ! جیسے حضرت ابرا ہیم نے مکہ کے لئے برکت چاہی تھی ، میں تجھ سے مدینہ کے ناپوں اور پیمانوں میں برکت چاہتا ہوں اور جیسے وہاں ایک حصہ کو حرم قرار دیا گیا ، اسی طرح میں بھی مدینہ کے ایک حصہ کو حرم بنا تا ہوں اور جس طرح وہاں شکار اور فسادا اور قتل و خون ریزی کی ممانعت ہے اسی طرح میں بھی مدینہ کے ایک علاقہ میں شکار ، فساد اور قتل وخون ریزی منع کرتا ہوں.مگر کیا کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ یہ دعا مانگ کر رسول کریم ﷺ مکہ معظمہ کی بہتک کرنا چاہتے تھے ؟ مدینہ کو مکرم بنانے کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ مکہ معظمہ کی عزت کم ہے.اسی طرح قادیان کو عزت دینے کے بھی ہرگز یہ معنی نہیں کہ ہمارے دلوں میں خانہ کعبہ یامدینہ منورہ کی عزت نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ مکہ وہ مقدس مقام ہے جس میں وہ گھر ہے جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور مدینہ وہ بابرکت مقام ہے جس میں محمد ﷺ کا آخری گھر بنا، جس کی گلیوں میں آپ چلے پھرے اور جس کی مسجد میں اس مقدس نبی نے جو سب نبیوں سے کامل نبی تھا اور سب نبیوں سے زیادہ خدا کا محبوب تھا، نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.اور قادیان وہ مقدس مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات مقدسہ کا خدا تعالیٰ نے دوبارہ حضرت مرزا صاحب کی صورت میں نزول کیا.یہ مقدس ہے باقی سب دنیا سے مگر تابع ہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے.پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے تو احمدی خوش ہوں گے وہ جھوٹ بولتا ہے ، وہ افتر ا کرتا ہے اور وہ ظلم و تعدی سے کام لے کر ہماری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو ہمارے عقائد میں داخل نہیں اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں.لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.قادیان کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے قائم کیا ہے کہ تا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت کو اس کے ذریعہ دوبارہ قائم کیا جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا کہ تا آپ رسول کریم ﷺ کی اس عزت کو جو لوگوں کے قلوب سے محو ہو چکی تھی ، دوبارہ قائم کریں اور آپکے نام کی بڑائی ظاہر کریں.ہم رسول کریم ﷺ پر ایمان لا کر خدا تعالیٰ کے منکر نہیں ہو

Page 549

خطبات محمود ۵۴۴ سال ۱۹۳۵ء جاتے اسی طرح ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر ایمان لا کر رسول کریم ﷺ کے باغی نہیں ہو جاتے.پھر ہم مدینہ منورہ کی عزت کر کے خانہ کعبہ کی ہتک کرنے والے نہیں ہو جاتے.اسی طرح ہم قادیان کی عزت کر کے مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کی توہین کرنے والے نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ نے ان تینوں مقامات کو مقدس کیا اور ان تینوں مقامات کو اپنی تجلیات کے اظہار کے لئے چنا.بیت اللہ کو خدا تعالیٰ نے حج کے لئے چنا جس کے سوا اس دنیا میں قیامت تک اور کوئی حج کی جگہ نہیں.مدینہ منورہ کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم اللہ کی ذات کے لئے چنا.اور اب خدا تعالیٰ نے رسول کریم کے دوسرے روحانی ظہور کے لئے اور اپنے مسیح و مہدی کے مقام نزول کے لئے قادیان کو چنا.نہ حج کسی اور جگہ پر کیا جا سکتا ہے نہ رسول کریم ﷺے دوبارہ دنیا میں آ سکتے ہیں اور کسی اور شہر کو آپ کی جائے سکونت ہونے کا فخر حاصل ہو سکتا ہے اور نہ مسیح و مہدی اب دوبارہ آ سکتے ہیں.پس ان دوبستیوں کو چھوڑ کر قادیان کے برابر دنیا کی اور کوئی بستی نہیں.لیکن مکہ ومدینہ قادیان سے بھی بلندشان رکھنے والے ہیں.جس خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت دکھائی تھی، اُسی خدا نے اپنی طاقتوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دشمنوں کو نیچا دکھایا اور اُسی خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفین کو غرق کیا لیکن رسول کریم ﷺ کی مدد کرنے کے ہرگز یہ معنی نہیں تھے کہ حضرت موسیٰ ،حضرت عیسی اور دیگر انبیاء علیھم السلام کی خدا تعالیٰ نے مدد نہیں کی تھی.اسی طرح مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت اور انہیں اپنے جلال کے اظہار کے لئے مخصوص کر لینے کے ہرگز یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ کوئی اور مقام خدا تعالیٰ کا فضل جذب نہیں کر سکتا.ہمارا خدا وسیع طاقتوں اور قدرتوں والا خدا ہے اُس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے اور اُس کی فوجیں انسانی شمار سے باہر ہیں.وہ جس طرح ایک مقام کی حفاظت کر سکتا ہے اسی طرح دوسرے مقام کی بھی اپنی فوجوں سے محافظت کر سکتا ہے.میں چھوٹا تھا کہ میں نے رویا دیکھا کہ ایک مصلی ہے جس پر میں نماز پڑھ کے بیٹھا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ وہ شیخ عبد القادر صاحب جیلانی کی ہے اور اس کا نام منہاج الطالبین ہے یعنی خدا تعالیٰ تک پہنچنے والوں کا رستہ.میں نے اس کتاب کو پڑھ کر رکھ دیا.پھر یکدم خیال آیا کہ یہ کتاب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کو دینی ہے اس لئے میں اسے ڈھونڈھنے لگا مگر وہ ملتی نہیں.ہاں اسے ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ایک اور کتاب مل گئی.اُس وقت میری

Page 550

خطبات محمود ۵۴۵ سال ۱۹۳۵ء زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ یعنی تیرے ربّ کے لشکروں کو سوائے اُس کے اور کوئی نہیں جانتا.تو اللہ تعالیٰ کی فوجوں میں کوئی کمی نہیں.اگر کم فوجیں ہوتیں تب تو کہا جاسکتا تھا کہ قادیان کو خدا تعالیٰ نے کیوں مکرم بنادیا.اگر تینوں مقدس مقامات پر نَعُوذُ بِاللهِ بیک وقت حملہ ہو گیا تو وہ فوجیں کہاں سے آئیں گی جو ان سب کی حفاظت کریں گی.پس اگر خدا تعالیٰ کی فوجیں محدود ہو تیں تب تو احرار کو فکر ہو سکتا تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہو گیا تو اس کی حفاظت کی کیا صورت ہوگی ، مکہ معظمہ پر حملہ ہو گیا تو اُس کی حفاظت کی کیا صورت ہو گی اور قادیان پر حملہ ہو گیا تو اُس کی حفاظت کی کیا صورت ہوگی لیکن جس کے ایک حسن کہنے سے زمین و آسمان بن جاتے اور ایک كُنُ کہنے سے بنے بنائے کام تباہ ہو جاتے ہیں ، اُس کو اس بخل اور کنجوسی کی کیا ضرورت ہے.خدا تعالیٰ تین کیا تین ہزار بلکہ تین لاکھ شہر بھی اگر مکرم بنا دے تو ان کی حفاظت کے لئے کیا اُس نے کسی سے کچھ مانگنے جانا ہے کہ مخالفین کو اس کا فکر لگا ہوا ہے ! اگر تو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہ لی ہوئی ہوتی اور اس کی حفاظت مولوی عطا اللہ شاہ صاحب کے سپر د ہوتی ، تب وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم کہاں کہاں کی حفاظت کریں لیکن جب کہ خدا تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی حفاظت ہمارے سپردنہیں کی بلکہ اپنے ذمہ لی ہے تو ان مولویوں کو اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکالنے کی ضرورت ہی کیا ہے.ان مولویوں کا تو خدا پر اتنا بھی ایمان نہیں جتنا رسول کریم ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب کا تھا جو اسلام سے پہلے ہوئے ہیں.اگر حضرت عبدالمطلب جتنا ایمان بھی ان کے دلوں میں ہوتا تو یہ صلى الله سمجھ لیتے کہ مکہ معظمہ کی حفاظت خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے، انسان کے سپردنہیں کی.تاریخوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کی پیدائش سے کچھ مدت پہلے ایسے سینیا کی حکومت کی طرف سے یمن کے علاقہ پر ابرہہ نامی ایک گورنر مقرر تھا اُس نے چاہا کہ عربوں کو عیسائیت کی طرف کھینچنے کے لئے ان کی توجہ بیت اللہ کی طرف سے ہٹا دی جائے.اس غرض کے لئے اس نے اپنی طرف سے بعض کوششیں کیں مگر جب نا کام ہوا تو اُسے خیال پیدا ہوا کہ اگر میں کعبہ کو گر ادوں تو شاید اس طرح لوگوں کی توجہ اس سے پھر جائے.اس خیال کے آنے پر وہ اپنی فوجیں لے کر بیت اللہ کی طرف چل پڑا.اُس وقت حبشہ کی طاقت بہت بڑھی ہوئی تھی.موجودہ ایسے سینیا سے اس کا ملک بہت وسیع تھا اور حبشہ کی دولت بھی اُس وقت بہت زیادہ تھی.کیونکہ یمن بہترین سرسبز مقامات میں سے ہے

Page 551

خطبات محمود ۵۴۶ سال ۱۹۳۵ء جو اس کے قبضہ میں تھا.پس ابرہہ اور اُس کی فوجیں مالدار، دولت مند اور ساز و سامان رکھنے والی تھیں.جب فو جیں مکہ کے قریب پہنچیں تو اس لاؤ لشکر کو دیکھ کر مکہ والوں کو کچھ بھی نہ سُوجھا اور وہ چپ ہو کر بیٹھ گئے.ابرہہ نے ایک چھوٹا سا دستہ آگے بھیجا جو مکہ والوں کے بہت سے جانور جو باہر چر رہے تھے سمیٹ کر لے آیا.ان جانوروں میں دو سو اونٹ حضرت عبدالمطلب کے بھی تھے.اس کے بعد ابرہہ کے لشکر میں بیماری پھیل گئی اور اُس کی فوج کے لوگ پے در پے مرنے لگے تو اُسے یہ خیال آیا کہ مکہ والے اگر مجھ سے آ کر کہیں کہ میں واپس چلا جاؤں تو میں واپس لوٹ جاؤں گا.تاریخوں سے ثابت ہے کہ وہ بیماری چیچک تھی.بہر حال کوئی نہ کوئی موت ایسی تھی جس نے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کر دیا.قرآن کریم میں بھی سورۃ الفیل میں اس کا ذکر آتا ہے.ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں اور جانور اُن کی بوٹیاں نوچ نوچ کر پتھروں پر مارتے اور کھاتے تھے.جس طرح چیلیں اور گدھیں کھاتی ہیں جب بیماری نے اس کے لشکر کے اکثر حصہ کو نا کا رہ کر دیا تو اُس نے اپنی عزت رکھنے کے لئے اہل مکہ کو کہلا بھیجا کہ بعض سردار میرے پاس بھیجے جائیں میں اُن سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کے سردار عبد المطلب تھے جب وفد اُس کے پاس پہنچا اور حضرت عبدالمطلب نے ان سے باتیں کیں تو ان کی باتوں کا ابرہہ پر نہایت گہرا اثر پڑا اور سیاسیات میں ان کی رائے کو اُس نے نہایت ہی صائب اور معقول پایا.اور اس امید میں رہا کہ ابھی یہ مجھ سے کہیں گے کہ خانہ کعبہ پر حملہ نہ کیا جائے اور لشکر واپس لے جائیں اور میں ان کے سر احسان رکھ کر واپس چلا جاؤں گا مگر حضرت عبد المطلب نے اس کا ذکر تک نہ کیا.آخر کچھ دن انتظار کرنے کے بعد ابرہہ خود ہی کہنے لگا میرا دل چاہتا ہے آپ لوگ مجھ سے کچھ مانگیں تو میں دوں.اسے پھر بھی یہی خیال رہا کہ یہ کہیں گے آپ خانہ کعبہ کو گرانے کا ارادہ ترک کر دیں اور واپس چلے جائیں.وہ چونکہ اب لشکر ڈالے تنگ آچکا تھا اس لئے گفتگو کو ہیر پھیر کر اسی طرف لانا چاہتا تھا مگر حضرت عبد المطلب نے اس کا جواب صرف یہ دیا کہ میرے دوسو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ کر لے آئے ہیں وہ مجھے واپس کر دیئے جائیں.یہ سنکر جیسے انسان دنگ رہ جاتا ہے اُس کا رنگ فق ہو گیا اور کہنے لگا آپ کی باتوں کا مجھ پر بڑا اثر تھا اور میں سمجھتا تھا کہ آپ بڑے ہی سمجھدار ہیں مگر آپ کی اس بات سے وہ سارا اثر جاتا رہا ہے.انہوں نے پوچھا کس طرح ؟ اُس نے کہا تمہارے سامنے اس وقت اتنی خوفناک مصیبت ہے کہ میں تمہارے کعبہ کو

Page 552

خطبات محمود ۵۴۷ سال ۱۹۳۵ء گرانے آیا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھ سے جو مانگنا ہو مانگو، مگر تم بجائے یہ کہنے کے کہ ہمارا کعبہ مت گراؤ، یہ کہتے ہو کہ میرے دوسو اونٹ واپس کر دیئے جائیں.بھلا ایسے خطرے کی حالت میں اونٹوں کا خیال کرنا بھی کوئی عقلمندی ہے؟ حضرت عبد المطلب نے جواب دیا.اصل بات یہ ہے کہ تم نے میری بات پر غور نہیں کیا ور نہ اسی سے جواب سمجھ جاتے.عبد المطلب صرف دوسو اونٹوں کا مالک ہے جب اسے اپنے اونٹوں کی فکر پڑ گئی تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خانہ کعبہ کے مالک خدا کو اپنے گھر کی کوئی فکر نہیں.میں جانتا ہوں کہ اگر یہ کعبہ خدا کا گھر ہے تو اس گھر کا مالک اس کی آپ حفاظت کرے گا مجھے اس کی فکر کی کیا ضرورت ہے.اس میں شبہ نہیں کہ انسانوں کا کام بھی ہوتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کی حفاظت میں حصہ لیں مگر یہ محض ثواب کے لئے ہوتا ہے.اصل حفاظت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ خود کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ میں آپ کو دشمنوں کے حملوں سے بچاؤں گا مگر با وجود اس کے صحابہ نے رسول کریم لے کے گرد پہرے دیئے.مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ صحابہ کے پہروں کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی جان محفوظ رہی.کیا ہزاروں بادشاہ مضبوط پہروں کے ہوتے ہوئے قتل نہیں ہو گئے؟ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ صحابہ کے پہروں کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی حفاظت ہوئی.رسول کریم ﷺ کی حفاظت محض خدا تعالیٰ نے کی.ہاں ثواب کے لئے صحابہ نے بھی اس میں حصہ لے لیا.اسی طرح اگر خدانخواستہ خانہ کعبہ پر کوئی دشمن حملہ کر دے تو گو ہر مسلمان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنی ہر چیز خانہ کعبہ کی حفاظت کیلئے قربان کر دے مگر اصل حفاظت وہی کرے گا جو خانہ کعبہ کا مالک اور ہمارا خدا ہے.صلى الله میں اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں خانہ کعبہ کی عزت زیادہ ہے یا ہمارے دلوں میں.آج سے کئی سال پہلے جب بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے ، ایک ترکی سفیر یہاں آیا.ترکی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے مسلمانوں سے بہت سا چندہ لیا اور جب اُس نے جماعت احمدیہ کا ذکر سنا تو قادیان بھی آیا.حسین کامی اس کا نام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کی گفتگو ہوئی.اس کا خیال تھا کہ مجھے یہاں سے زیادہ مدد ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس کا وہ احترام کیا جو ایک مہمان کا کرنا چاہئے.پھر مذہبی گفتگو بھی ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے کچھ نصائح کیں کہ دیانت وامانت

Page 553

خطبات محمود ۵۴۸ سال ۱۹۳۵ء پر قائم رہنا چاہئے لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے.اور فرمایا کہ رومی سلطنت ایسے ہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرہ میں ہے کیونکہ وہ لوگ جو سلطنت کی اہم خدمات پر مامور ہیں اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے بچے خیر خواہ نہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اس اسلامی سلطنت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں.اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلطان روم کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھا گے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ نصیحتیں کیں تو اُس سفیر کو بہت بُری لگیں کیونکہ وہ اس خیال کے ماتحت آیا تھا کہ میں سفیر ہوں اور یہ لوگ میرے ہاتھ چومیں گے اور میری کسی بات کا انکار نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اُس سے یہ کڑوی کڑوی باتیں کیں کہ تم حکومت سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کر کے اس کی غداری کرتے ہو، تمہیں تقویٰ و طہارت سے کام لیکر اسلامی حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے تو وہ یہاں سے بڑے غصہ میں گیا اور اُس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسلامی حکومت کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ترکی حکومت میں بعض کچے دھا گے ہیں.مسلمان عام طور پر دین سے محبت رکھتے ہیں مگر افسوس کہ مولوی انہیں کسی بات پر صحیح طور سے غور کرنے نہیں دیتے.یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے اور سچائی سے پیار کرتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مولوی انہیں کسی بات پر غور کرنے نہیں دیتے اور جھٹ اشتعال دلا دیتے ہیں.اس موقع پر بھی مولویوں نے عام شور مچادیا کہ ترکی حکومت جو محافظ حرمین شریفین ہے اس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہتک کی ہے.جب یہ شور بلند ہو ا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں لکھا تم تو یہ کہتے ہو کہ ترکی حکومت مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ترکی حکومت چیز ہی کیا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرے، مکہ اور مدینہ تو خود تر کی حکومت کی حفاظت کر رہے ہیں.جس شخص کے دل میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق اتنی غیرت ہو ، اُس کے ماننے والوں کے متعلق کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے تو وہ خوش ہوں.ہم تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ تسلیم کیا جائے کہ حقیقی طور پر مکہ اور مدینہ کی کوئی حکومت

Page 554

خطبات محمود ۵۴۹ سال ۱۹۳۵ء حفاظت کر رہی ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا.ہاں ظاہری طور پر ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اُس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لئے بڑھایا جائے لیکن اگر خدانخواستہ کبھی ایسا موقع آئے تو اُس وقت دنیا کو معلوم ہو جائیگا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت جماعت احمدیہ کس طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں، ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا ، خدا اُس شخص کو اندھا کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بد میں آنکھ کو پھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں گے، ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہوگا.آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے مسلمانوں میں شور پیدا ہوا کہ انگریز بعض عرب رؤسا کو مالی مدد دے کر انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں.یہ شور جب زیادہ بلند ہوا تو حکومت ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رؤسا کو کوئی مالی مدد نہیں دیتے.مسلمان اس پر خوش ہو گئے کہ چلو خبر کی تردید ہو گئی لیکن میں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ گو ہندوستان کی حکومت بعض عرب رؤسا کو مالی مدد نہیں دیتی مگر حکومت برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو ملا کرتے تھے اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے لارڈ چیمسفورڈ کولکھا کہ گو لفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہے مگرحقیقی طور پر صحیح نہیں.کیونکہ حکومت برطانیہ کی طرف سے ابن سعود اور شریف حسین کو اس اس قدر مالی مددملتی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کر سکتے.ان کا جواب میں مجھے خط آیا ( وہ بہت ہی شریف طبیعت رکھتے تھے ) کہ یہ واقعہ صحیح ہے مگر اس کا کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کر کے فساد پھیلایا جائے ہاں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ عرب کو اپنے زیر اثر لائے.پس ہم ہمیشہ عرب کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے.جب ترک عرب پر حاکم تھے تو اُس وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا.جب

Page 555

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء شریف حسین حاکم ہوا تو لوگوں نے ان کی سخت مخالفت کی مگر ہم نے کہا اب فتنہ فساد پھیلا نا مناسب نہیں.جس شخص کو خدا تعالیٰ نے حاکم بنادیا ہے اُس کی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے تا کہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہو جائے.اس کے بعد نجدیوں نے حکومت لے لی تو با وجود اس کے کہ لوگوں نے بہت شور مچایا کہ انہوں نے قبے گرا دئیے اور شعائر کی ہتک کی ہے اور باوجود اس کے کہ سب سے بڑے دشمن اہل حدیث ہی ہیں ہم نے سلطان ابن سعود کی تائید کی.صرف اس لئے کہ مکہ مکرمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں حالانکہ وہاں ہمارے آدمیوں کو دُکھ دیا گیا ، حج کے کے لئے احمدی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا مگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بلند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے ان علاقوں میں فساد ہوں.مجھے یاد ہے مولانامحمد علی صاحب جب مکہ مکرمہ کی مؤتمر سے واپس آئے تو وہ ابن سعود سے سخت نالاں تھے.شملہ میں ایک دعوت کے موقع پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر بحث جاری رکھی.وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا کہ مولا نا آپ کتنے ہی ان کے ظلم بیان کریں جب ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنا دیا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ ہماری کوششیں اب اس امر پر صرف ہونی چاہئیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہوا اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہو جائے تا کہ ان مقدس مقامات کے امن میں کوئی خلل واقع نہ ہو.ابھی ایک عہد نامہ ایک انگریز کمپنی اور ابن سعود کے درمیان ہوا ہے.سلطان ابن سعود ایک سمجھدار بادشاہ ہیں مگر بوجہ اس کے کہ وہ یورپین تاریخ سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے.ایک دفعہ پہلے جب وہ اٹلی سے معاہدہ کرنے لگے تو ایک شخص کو جو ان کے ملنے والوں میں سے تھے میں نے کہا تم سے اگر ہو سکے تو میری طرف سے سلطان ابن سعود کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں.یورپین قوموں کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیار کرتی ہیں مگر ان کے مطالب نہایت سخت ہوتے ہیں.اب وہ معاہدہ جو انگریزوں سے ہو ا شائع ہوا ہے اور اس کے خلاف بعض ہندوستانی اخبارات مضامین لکھ رہے ہیں.میں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بعض غلطیاں ہو گئی ہیں اور اس معاہدہ کی شرائط کی رو سے بعض موقعوں پر بعض بیرونی حکومتیں یقیناً عرب میں دخل دے سکتی ہیں.

Page 556

خطبات محمود ۵۵۱ سال ۱۹۳۵ء اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر میرے دل کو سخت رنج پہنچا حالانکہ انگریزوں سے ہمارا تعاون ہے اور ہم اس کا ذکر کرنے سے کبھی ڈرے نہیں سوائے حکومت پنجاب کے کہ اس نے دو تین سال سے خود ہمارے تعاون کو ٹھکرا دیا ہے باقی انگریزی حکومت سے ہم نے ہمیشہ تعاون کیا اور ہمیشہ تعاون کرتے رہیں گے جب تک وہ خود حکومت پنجاب کی طرح ہمیں دھتکار نہ دے مگر باوجود اس کے کہ میں انگریزی حکومت کے ڈھانچہ کو دنیا کے لئے مفید ترین طرز حکومت سمجھتا ہوں جس میں اصلاح کی گنجائش ضرور ہے مگر وہ توڑنے کے قابل شے نہیں ہے پھر بھی انگریز ہوں یا کوئی اور حکومت ،عرب کے معاملہ میں ہم کسی کا لحاظ نہیں کر سکتے.اس معاہدہ میں ایسی احتیاطیں کی جاسکتی تھیں کہ جن کے بعد عرب کیلئے کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہتا مگر بوجہ اس کے کہ سلطان ابن سعود یورپین اصطلاحات اور بَيْنَ الاقوامی معاملات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے انہوں نے الفاظ میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس میں انہوں نے عام مسلمانوں کا طریق اختیار کیا ہے.مسلمان ہمیشہ دوسرے پر اعتبار کرنے کا عادی ہے حالانکہ معاہدات میں کبھی اعتبار سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ سوچ سمجھ کر اور کامل غور وفکر کے بعد الفاظ تجویز کرنے چاہئیں.گو میں سمجھتا ہوں یہ معاہدہ بعض انگریزی فرموں سے ہے حکومت سے نہیں اور ممکن ہے جس فرم نے یہ معاہدہ کیا ہے اُس کے دل میں بھی دھوکا بازی یا غداری کا کوئی خیال نہ ہومگر الفاظ ایسے ہیں کہ اگر اس فرم کی کسی وقت نیت بدل جائے تو وہ سلطان ابن سعود کومشکلات میں ڈال سکتی ہے.مگر یہ سمجھنے کے باوجود ہم نے اس پر شور مچانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ ہم نے خیال کیا کہ اب سلطان کو بد نام کرنے سے کیا فائدہ.اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہوگی اور جب ان کی طاقت کمزور ہو گی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہو جائے گی.اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوری سے فائدہ اُٹھانے کی جرات نہ کر سکے.پس خانہ کعبہ ، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق جو ہمارے جذبات ہیں ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ سخت ہیں اور اگر اس میں کسی کو شبہ ہو تو میں اس کے لئے بھی وہی تجویز پیش کرتا ہوں جو پہلے امر کے متعلق پیش کر چکا ہوں کہ اس قسم کا اعتراض کرنے والے آئیں اور ہم

Page 557

خطبات محمود ۵۵۲ سال ۱۹۳۵ء سے مباہلہ کر لیں.ہم کہیں گے کہ اے خدا! مکہ اور مدینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں قادیان سے بھی زیادہ ہے ہم ان مقامات کو مقدس سمجھتے اور ان کی حفاظت کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اے خدا ! اگر ہم دل سے یہ نہ کہتے ہوں بلکہ جھوٹ اور منافقت سے کام لے کر کہتے ہوں اور ہمارا اصل عقیدہ یہ ہو کہ مکہ اور مدینہ کی کوئی عزت نہیں یا قادیان سے کم ہے تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.اس کے مقابلہ میں احرار اٹھیں اور وہ یہ قسم کھا کر کہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ احمدی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے دشمن ہیں اور ان مقامات کا گرنا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جانا احمدیوں کو پسند ہے پس اے خدا ! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے اور احمدی مکہ و مدینہ کی عزت کرنے والے ہیں تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.وہ اس طریق فیصلہ کی طرف آئیں اور دیکھیں کہ خدا اس معاملہ میں اپنی قدرت کا کیا ہاتھ دکھاتا ہے لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو یاد رکھیں جھوٹ اور افترا دنیا میں کبھی کامیاب نہیں کر سکتا.وہ مت خیال کریں کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ ہیں اور اس اعتراض میں کروڑوں مسلمان اُنکے ہمنوا ہیں.خدا تعالیٰ نے انہیں تھوڑے ہی دنوں میں دکھا دیا ہے.ابھی چند ہفتے ہوئے میں نے اسی ممبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ زمین احرار کے پاؤں تلے سے نکلی جارہی ہے اور میں ان کی شکست ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں.اب دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ زمین ان کے پاؤں سے نکل گئی.پس وہ کروڑوں نہیں اور مسلمان ہرگز ان کے ساتھ شریک نہیں.بے شک مسلمانوں میں چور اور ڈا کو بھی ہیں لیکن عام حالت ان کی یہ ہے کہ جس وقت خدا تعالیٰ کا نام ان کے سامنے لیا جاتا ہے ان کے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے کانپ اُٹھتے ہیں پس میں نہیں سمجھتا کہ آٹھ کروڑ چھوڑ ایک کروڑ مسلمان بھی اس اعتراض میں احرار کے ہمنوا ہوں.یقیناً وہ ان سے جُدا ہیں مگر جو بھی ان کے ساتھ شامل ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ اس جھوٹ سے کوئی فائدہ نہیں ایک خدا ہے جو آسمان پر موجود ہے اور جو جھوٹوں پر اپنی لعنت ڈال کر انہیں تباہ و برباد کیا کرتا ہے.اگر وہ اپنے اس جھوٹے اور نا پاک پراپیگنڈا سے باز نہیں آئیں گے، اور اگر وہ الزام تراشی اور کذب بیانی کو نہیں چھوڑیں گے تو خدا انہیں اور زیادہ ذلیل اور رسوا کرے گا اور انہیں اور زیادہ اپنی لعنت کا نشانہ بنادے گا.وہ ہماری طرف جو بھی جھوٹ منسوب کر رہے ہیں اور کریں گے خدا اس جھوٹ کو اُن کے سروں پر ڈالے گا اور وہ آئندہ زمانہ میں اس سے بھی

Page 558

خطبات محمود ۵۵۳ سال ۱۹۳۵ء زیادہ عذاب دیکھیں گے جو وہ دیکھ چکے اور اگر ان میں ہمت ہے تو وہ آئیں مباہلہ کریں اور دیکھیں کہ خدا کی قدرت انہیں کیا دکھاتی ہے.ا مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۶۶ - المكتب الاسلامی بیروت البقرة : ۱۸۴ سے سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۱۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۲۳۰ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۵ موضوعات کبیر ، ملا علی قاری صفحه ۳۵ مطبوعہ دھلی ۱۳۴۶ھ سیرت ابن ھشام جلد ا صفحه ۸۱ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ (الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء)

Page 559

خطبات محمود ۵۵۴ ۴ سال ۱۹۳۵ء احرار کو مباہلہ کا چیلنج اور اس کی مزید تشریح مسجد شہید گنج کی خاطر جماعت احمد یہ ہر ممکن اور جائز قربانی کرنے کیلئے تیار ہے (فرموده ۶ ستمبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ بتایا تھا کہ ہمیشہ سچائی کے منکر جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور جب سچائی میں عیب معلوم نہیں کر سکتے تو عیب بناتے اور اختراع کرتے ہیں اور ان کو پھیلا کر سچائی کے حاملین اور متبعین پر اعتراضات کر کے انہیں بدنام کرتے ہیں.میں نے دو باتیں بیان کی تھیں اور ان کے متعلق یہ تجویز بتائی تھی کہ اگر احرار یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی بہتک کرتے ہیں تو وہ اس کے فیصلہ کے لئے دو میں سے ایک صورت اختیار کر سکتے ہیں یا تو وہ ان سینکڑوں، ہزاروں ہندوؤں اور سکھوں میں سے جن سے احمدیوں کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ انہیں علیحدگی میں تبلیغ کرتے ہیں، پانچ سو یا ہزار چن کر انہیں اس کلام کی جس پر وہ ایمان رکھتے اور جسے مقدس سمجھتے ہیں قسم دیں کہ اگر وہ جھوٹ بولیں تو ان پر اور ان کے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو.اور پھر ان سے دریافت کریں کہ احمدی علیحدگی میں اور تخلیہ میں ان سے جو گفتگو کرتے رہے ہیں ، اس سے رسول کریم کی ہتک ظاہر ہوتی ہے یا عزت؟ دوسری تجویز دونوں امور کے متعلق یہ تھی کہ مباہلہ کر لیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ سے فیصلہ چاہیں.اوّل اس پر کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں یا عزت ؟ اور دوسرے اس پر کہ خانہ کعبہ کو بُرا کہتے ہیں اور اس کا احترام نہیں کرتے یا تمام دیگر مقامات

Page 560

خطبات محمود ۵۵۵ سال ۱۹۳۵ء سے اعلیٰ اور مقدس سمجھتے ہیں ؟ ان دونوں امور کے لئے میں نے مباہلہ کا چیلنج دیا تھا کیونکہ ہم پر یہ ایک مذہبی اتہام ہے اور اس بارہ میں ان کا جھوٹ بہت سے لوگوں کو گمراہ کر سکتا ہے.میں نے ان کے اخبار میں پڑھا ہے کہ مولوی مظہر علی صاحب اظہر قادیان آئیں گے اور یہاں آکر اس کا جواب دیں گے.میں نہیں سمجھتا جو جواب وہ یہاں آکر دیں گے وہ کس طرح درست ہو سکتا ہے.میرا خطبہ تو اخبار میں چھپ جاتا ہے اور اس طرح وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اخباروں میں کوئی مضمون چھاپ دیا جائے.بلکہ مجھے اس میں سہولت ہوتی ہے میں بولتا جاتا ہوں اور لکھنے والے لکھتے جاتے ہیں.مگر اس کا جواب وہ آجکل کوئی نہیں دیتے بلکہ اعلان کرتے ہیں کہ ۱۳ تاریخ کو قادیان آ کر مسجد میں جواب دیں گے.اس مسجد میں کہ جس میں جب ہمارا ر پورٹر رپورٹ لینے کے لئے گیا تو پولیس کے ذریعہ اُسے نکال دیا گیا اور گرفتار کر لینے کی دھمکی دی گئی.وہ دھمکی جس کے متعلق مسٹر بائڈ نے کونسل کے ایک ممبر کو جواب دیا ہے کہ کبھی بھی کسی احمدی کو اس مسجد میں جانے سے نہیں روکا گیا.حالانکہ اس بات کو کہ احمدی رپورٹروں کو روکا گیا یہاں کے سینکڑوں لوگ جانتے ہیں اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ حکومت کے سامنے کس قسم کی رپورٹیں کی جاتی ہیں.میں نہیں مان سکتا کہ مسٹر بائڈ نے یہ بات اپنے پاس سے بنالی ہو.ہم کو ان سے کبھی شکوہ پیدا نہیں ہوا.پس انہوں نے جو کہا اپنے علم کے مطابق سچ کہا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نیچے سے اُن کو جھوٹی اطلاعات دی گئی ہیں ورنہ وہ کبھی تحریر میں ایسی باتیں نہ لاتے جسے قادیان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ غلط ہے.زبانی طور پر احمدی رپورٹر کو وہاں سے نکالنے کے علاوہ احمد یوں کو تحریری نوٹس بھی دیا گیا تھا کہ ان کے رپورٹر اس مسجد میں گئے تو ان پر ۱۰۷ کا مقدمہ چلایا جائے گا.یہ نوٹس مجسٹریٹ علاقہ کی طرف سے تھا اور ناظر امور عامہ اور لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ میر قاسم علی صاحب کو دیا گیا تھا.بہر حال ایک ایسی مسجد جہاں احمدیوں کو جا کر نوٹ لینے کی بھی اجازت نہیں اُس میں کھڑے ہو کر کوئی اعلان کرنے کے معنی سوائے اِس کے کیا ہو سکتے ہیں کہ وہاں فخریہ طور پر کہہ دیا جائے کہ آؤ اور مقابلہ کر لو.اور غرض صرف یہ ہو کہ وہاں نہ کوئی آنے جانے والا ہوگا اور نہ اس چیلنج کا جواب دے گا.علاوہ ازیں اس موقع پر دوسرے احرار لیڈر بھی نہ ہوں گے جن کا مباہلہ میں شامل ہونا ضروری ہے.میری طرف سے چیلنج بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے کوئی معقول آدمی رڈ کر سکے.

Page 561

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ان کا مرکز لاہور ہے اور میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہم وہاں آ جائیں گے.گورداسپور پر انہیں بہت فخر ہے اور میں نے کہہ دیا ہے کہ ہم وہاں آجائیں گے.پھر ہم نے ان پر دوسرے مسلمانوں میں سے کوئی خاص شخصیت پیش کرنے کی قید نہیں لگائی.جماعت احمدیہ کا امام مباہلہ میں شامل ہوگا ، اس کے بھائی ہوں گے،صدر انجمن کے ناظر ہوں گے اور تمام بڑے بڑے ارکان ہوں گے.ان کے علاوہ پانچ سو یا ہزار دوسرے معزز افرادِ جماعت بھی ہوں گے.احرار کے متعلق میں نے صرف یہ کہا ہے کہ احرار کے پانچ لیڈر یعنی مولوی مظہر علی صاحب اظہر ، چوہدری افضل حق صاحب ، مولوی عطا اللہ صاحب، مولوی داؤ دغزنوی صاحب اور مولوی حبیب الرحمن صاحب ہوں ، گویا ہم ان سے جو مطالبہ کرتے ہیں اس سے زیادہ پابندی اپنے پر لگاتے ہیں.ان میں خلیفہ کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی خلافت باقی ہے لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے خلیفہ ہو گا اور ذمہ دار ارکان ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے مرد ممبر ہوں گے اور اس کے مقابلہ میں ان کے صرف پانچ لیڈر میں نے ضروری رکھے ہیں.باقی جن کو بھی وہ اپنا نمائندہ بنا کر لائیں گے ہم ان کو مان لیں گے.اس مباہلہ میں تقریروں کا بھی اتنا سوال نہیں کیونکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ واقعات ہیں اور صرف پندرہ منٹ اپنے عقیدہ کے بیان کے لئے کافی ہیں.پندرہ منٹ میں ہم اپنا عقیدہ بیان کر دیں گے اور اتنے ہی عرصہ میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں غلط ہے حقیقتاً یہ ایسا نہیں مانتے.اس میں دلائل وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں.لمبی تفصیلات کی ضرورت مسائل میں ہوتی ہے لیکن یہ مباہلہ واقعہ کے متعلق ہے.وہ کہتے ہیں احمدی رسول کریم ﷺ کی بہتک کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ کی عزت نہیں کرتے.اور ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے.باقی رہے مباہلہ میں شامل ہونے والے آدمی سو ہم نے کسی چھوٹی موٹی جماعت کو چیلنج نہیں دیا بلکہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت کو دیا ہے اور اتنی با اثر جماعت پانچ سو یا ہزار آدمی ایک محلہ سے جمع کر سکتی ہے.ہاں اپنی جماعت کے دوستوں کی سہولت کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ مباہلہ کے دن کے فیصلہ کا اعلان پندرہ روز پہلے ضرور ہو جانا چاہئے کیونکہ ہماری جماعت کے دوست دُور دُور سے اس میں شامل ہونے کی خواہش کریں گے اس لئے جس وقت اُن کا آدمی ہمارے آدمی سے گفتگو کرے اور ضروری امور کا تصفیہ ہو جائے ، اس کے پندرہ روز بعد مباہلہ ہو.انکی مزید سہولت کے لئے میں اپنے نمائندے بھی مقرر کر دیتا ہوں اور لاہور کی جماعت کے امیر شیخ بشیر احمد

Page 562

خطبات محمود ۵۵۷ سال ۱۹۳۵ء صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ، چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر اور مولوی غلام احمد صاحب مبلغ کو اپنا نمائندہ مقرر کرتا ہوں.احرار کے لیڈر ان سے گفتگو کر سکتے ہیں اور اس گفتگو کے پندرہ روز بعد مباہلہ ہو جائے.اُس دن میں اِنشَاءَ اللہ لاہور پہنچ جاؤں گا.اس کے بعد میں ایک اور جھوٹ کی قلعی کھولنا چاہتا ہوں جو ہمارے خلاف بولا جا رہا ہے اور وہ مسجد شہید گنج کی ایجی ٹیشن کے متعلق ہے.اس میں احمدیوں کو تین صورتوں میں پیش کیا جارہا ہے.ایک تو یہ کہا جاتا ہے کہ تمام فساد احمدیوں نے کرایا ہے انہوں نے مسلمانوں کے لیڈروں یعنی مولوی ظفر علی صاحب ، سید حبیب صاحب ، ملک لعل خانصاحب ، میاں فیروز الدین صاحب اور دوسرے کارکنوں کو روپیہ دے کر خرید لیا اور یہ واقعہ شروع کرایا.سو اول تو یہ بات عقلاً درست نہیں ہو سکتی.اس لئے کہ اگر ہم مسلمانوں کے راہنماؤں کو خرید بھی لیتے تو بھی جب تک سکھوں کو نہ خریدا جاتا یہ واقعہ شروع نہیں ہوسکتا تھا.کیونکہ اگر سکھ مسجد کے گرانے کا فیصلہ نہ کرتے یہ لوگ کیا کر سکتے تھے.پس مسلمان را ہنماؤں کو خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سکھوں کو بھی خریدا اور انہیں کہا کہ وہ مسجد کو گرائیں تا کہ یہ مسلمان لیڈر مسلمانوں میں جوش پیدا کرسکیں.پھر یہ بھی کافی نہیں.اس سکیم کے پورا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ ہم حکومت کو بھی خرید لیں کیونکہ اس فساد کے بڑھنے میں حکومت کی بعض غلطیوں کا بھی دخل ہے پس تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے حکومت کو بھی آمادہ کیا کہ وہ غلطیاں کرے تا جوش پیدا ہو مگر یہ بھی کافی نہیں.ان تینوں طاقتوں کے مل جانے سے بھی احرار کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا.اگر سکھ مسجد گراتے ، حکومت غلطیاں کرتی ، مسلمان لیڈر شور مچاتے لیکن احرار اسلام کی محبت کا نمونہ دکھاتے تو مسلمانوں میں ان کے خلاف جوش کس طرح پیدا ہو سکتا تھا.پس یہ سکیم تب مکمل ہوتی تھی اگر ہم احرار کو بھی خرید لیتے اور ان سے کہتے کہ تم اس وقت خاموش رہنا تا کہ مسلمان تم کو دشمن اسلام سمجھ کر تمہارے مخالف ہو جائیں.غرض اس الزام کے یہ معنی ہیں کہ ہماری طرف سے چارسو دے ہوئے تب جا کر یہ مسئلہ حل ہوا.سکھ ، مسلمان ، گورنمنٹ اور خود احرار سب کو ہم نے خرید لیا لیکن اتنی باتوں کی بجائے یہ بھلے مانس اتنا کیوں نہیں مان لیتے کہ احمدیوں نے خدا تعالیٰ کے فضل کو خرید لیا.گو وہ ہمارا مالک اور آقا ہے مگر پھر بھی وہ کبھی حسن کو اپنے بندوں کے سپر د بھی کر دیا کرتا ہے.یا پھر یوں کہہ لو کہ احمدیوں نے اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ بیچ دیا اور ظاہر ہے کہ اپنی چیز کو کون ٹوٹنے دیا

Page 563

خطبات محمود ۵۵۸ سال ۱۹۳۵ء کرتا ہے.حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق مفسرین نے لکھا ہے کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں سے نکلے تو بہت ضعیف تھے.انہوں نے اپنی قوم کو عذاب کی خبر دی تھی مگر قوم کے لوگوں نے تو بہ کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا اور عذاب ٹل گیا.اُن کو اس سے بہت صدمہ ہوا اور خیال کیا کہ جب میں ان لوگوں کے سامنے جاؤں گا تو وہ کہیں گے پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور تو جھوٹا ہے اس لئے وہاں سے چلے گئے.یہ ایک لمبا واقعہ ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں.بہر حال واقعہ کے آخر میں مفسر بیان کرتے ہیں کہ مچھلی نے انہیں نگل لیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ اُس نے ان کو صحیح سلامت اُگل دیا.جہاں آپ اگلے گئے وہاں ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی سایہ وغیرہ بھی نہ تھا.اور آپ اس قدر کمزور تھے کہ آرام حاصل کرنے کے لئے سفر کر کے دوسری جگہ جانے کے نا قابل تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ وہیں ایک بیل پیدا ہوگئی یا پہلے سے موجود تھی اور جلد جلد بڑھ گئی.اور آپ نے اس کے سایہ میں بہت آرام پایا لیکن جب آپ کے جسم میں کچھ کچھ طاقت معلوم ہونے لگی تو ایک کیڑے نے اُسے کاٹ دیا.وہ خشک ہونے لگی اور سایہ جاتا رہا.اس پر آپ نے کہا کہ خدایا! یہ کیڑا سزا کا مستحق ہے مجھے اس بیل کا کتنا آرام تھا جسے اس نے کاٹ دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں الہام کیا کہ دیکھو! یہ بیل کیا حیثیت رکھتی ہے اس کے کاٹے جانے پر تم نے اتنا درد محسوس کیا پھر تم کس طرح امید رکھتے ہو کہ ایک لاکھ انسان جو تو بہ کر چکے تھے میں انہیں ہلاک کر دیتا.اگر تمہیں بیل پر اتنا صدمہ ہوا ہے تو مجھے ان کا کیوں درد نہ ہوتا.حضرت یونس علیہ السلام سے حقیقت کو سمجھ گئے اور اپنے وطن کو واپس چلے گئے.پس احراری اتنی لمبی چوڑی خرید وفروخت کے سلسلہ کی بجائے یہی کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ احمدیوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ہی یہ سب سامان پیدا کر دئیے.اس کے بے گناہ بندوں پر ظلم ہو رہا تھا اللہ تعالیٰ نے سکھوں کے دل میں تحریک کی کہ مسجد کو گراؤ.مسلمانوں کے اندر غیرت پیدا کی ، گورنمنٹ سے غلطیاں کرائیں اور احرار کو گھروں میں بٹھا دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے انکے قدم اکھاڑ دیئے اور آج چاروں طرف سے ان کو گالیاں مل رہی ہیں ہم پر خواہ مخواہ وہ کیوں الزام لگا رہے ہیں.میں یہ باتیں سنتا تھا اور خاموش تھا.میں اس کی ضرورت نہ سمجھتا تھا کہ کوئی جواب دوں اور اس طرح اس شورش میں ایک اور شورش پیدا کر دوں مگر حکومت کے بعض عمال اور احرار نے مجھے مجبور کر

Page 564

خطبات محمود ۵۵۹ سال ۱۹۳۵ء دیا ہے کہ آخر میں بھی اس کے متعلق کچھ بولوں.حکومت کا ایک ذمہ دار افسر ایک ایسے شخص کے پاس جو ان دنوں نظر بند ہے پہنچا اور اسے کہا کہ آپ نے جو اپنی فلاں تقریر میں ہز ایکسی لنسی کو امر سنگھ کہا تھا، یہ کیا آپ کو احمدیوں نے سکھایا تھا ؟ اُس نے اِس بات کا ذکر ایک احمدی سے کیا جس نے آج مجھے یہ بات سنائی.اسی طرح مجھے شملہ سے ایک خط آیا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک معزز رکن ایک ذمہ دار انگریز افسر سے ملنے گئے.اس افسر نے کہا کہ آئیے کیسے آئے ؟ انہوں نے کہا آپ ہمارے دوست ہیں اس لئے ملنے آ گیا.اس افسر نے کہا کہ یہ صحیح ہے میں آپ کا دوست تھا مگر معلوم نہیں آئندہ بھی ایسا رہ سکوں یا نہیں کیونکہ پنجاب گورنمنٹ کے افسروں سے گپ شپ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے متعلق بعض عجیب باتیں سننے میں آرہی ہیں.اسی طرح انگلستان سے خطوط آئے ہیں ان میں ایسی رپورٹوں کا ذکر ہے جن میں بلا وجہ ہم پر الزام تراشے گئے ہیں.ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے بعض افسر خواہ مخواہ ہم پر شہید گنج کے ایجی ٹیشن کا الزام لگا رہے ہیں اور بعض خلاف اخلاق باتوں کو ہماری طرف منسوب کر رہے ہیں.میں پہلے امر سنگھ والی بات کو لیتا ہوں.میں وہاں موجود نہ تھا نہ مجھے کوئی معتبر روایت پہنچی ہے کہ ایسا ہوا.مگر بہر حال کہا جاتا ہے کہ ایک شخص نے ہز ایکسی لنسی کی نسبت امر سنگھ کا لفظ استعمال کیا.اگر کسی شخص نے ایسا کیا تو ہمارے نزدیک اس نے سخت غلطی کی.اختلاف خواہ کس قدر ہو گالیاں دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا.بعض دفعہ حقیقت کے اظہار کے لئے عیوب بیان کرنے پڑتے ہیں مگر نام بگاڑ نا درست نہیں ہو سکتا.ہماری جماعت کی تعلیم واضح ہے ہم گالیوں ، استہزاء اور تمسخر کو جائز ہی نہیں سمجھتے.اس میں شبہ نہیں کہ پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں سے ہمارا اختلاف ہے.انہوں نے ہم پر بلا وجہ بختی کی اور جماعت کو بد نام کرنے کی کوشش کی ہے مگر ہم نے آج تک ہز ایکسی لنسی کو کبھی اس میں ملوث نہیں کیا.لیکن وہ تمام زیادتیاں جو ہم پر کی گئی ہیں اگر ثابت بھی ہو جائے کہ سب ان کی طرف سے ہی ہیں ، تب بھی ہمارا اصول یہی ہے کہ ہم تحقیر آمیز الفاظ استعمال نہیں کرتے.اگر کسی نے یہ فعل کیا ہے تو ہم اسے حد درجہ اخلاق سے گر ا ہوا سمجھتے ہیں اور اگر کوئی احمدی گورنر کے متعلق اس قسم کا لفظ استعمال کرے اور گورنر کے لئے ہی نہیں کسی کے لئے بھی ایسا لفظ استعمال کرے تو ہم اسے نہایت ہی گرا ہو ا فعل کہیں گے.میں عَلَى الْإِعْلَانُ کہتا ہوں کہ اس لفظ کے استعمال کی یا اور کسی سخت لفظ کے استعمال کی تحریک

Page 565

خطبات محمود ۵۶۰ سال ۱۹۳۵ء ہماری طرف سے نہیں کی گئی اور نہ ہمیں اس کا قبل از وقت علم تھا اور نہ بعد میں ہمیں یقینی علم ہوا جو کچھ اس بارہ میں معلوم ہے صرف افواہ ہے.پس اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم میں سے کسی نے کسی کو ایسی بات سکھائی ہے تو وہ آئے اور خدا تعالیٰ کی قسم کھائے کہ اسے یا اور کسی کو احمد یوں نے ایسا سکھایا تھا.اور یہ کہ اگر وہ جھوٹ بولتا ہو تو خدا تعالیٰ کا عذاب اُس پر اور اُس کے بیوی بچوں پر نازل ہو.ہمارا طریق بادشاہ اور ان کے نمائندوں کے متعلق ادب اور احترام کا رہا ہے اور انشَاءَ اللہ رہے گا کیونکہ ہمیں ہمارے مذہب کا حکم ہے.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا تو ہدایت فرمائی کہ قُولَا لَه قَوْلًا ليسا وہ ہمارا اپنا بنایا ہوا بادشاہ ہے.اس لئے اس سے نرم باتیں کرنا نرم.پس اس تعلیم کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے لئے جنہیں ملک معظم نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہوا ہے خواہ ہمیں ان سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو ، اخلاق اور ادب سے گر ا ہو ا کوئی لفظ استعمال کریں.معلوم ہوتا ہے کسی افسر نے اپنی چود ہرا ہٹ اور ہز ایکسی لنسی کو یہ کہنے کے لئے کہ حضور ! ایسی بات کہی گئی تھی مگر ہم نے اس کا ازالہ کرا دیا ہے ہم پر یہ الزام لگا دیا ہے.مجھے تو بڑوں کا ادب کرنے کی اِس قد تلقین کی گئی تھی کہ میں اس کے خلاف چل ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچیرے بھائی جس قدر مخالفت سلسلہ کی کرتے تھے وہ ظاہر ہے.انہوں نے دیوار بنا کر مسجد کا رستہ روک دیا ، سقوں کو پانی بھرنے اور حجاموں کو حجامت بنانے سے منع کر دیا ، کمہاروں کو منع کر دیا کہ ان کے لئے برتن نہ بناؤ.اور بھی طرح طرح کے ظلم کرتے رہتے تھے لیکن باوجود اس کے بچپن میں میں نے ایک دفعہ میرزا نظام الدین صاحب کے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے صرف نظام الدین کہہ دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت ناراض ہوئے اور فرمایا وہ تمہارے چچا ہیں، تمہارے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس طرح اُن کا نام لو.پس جن لوگوں کو بچپن سے یہ تعلیم دی جا رہی ہو وہ ہز ایکسی لنسی کے متعلق ایسے الفاظ استعمال ہی کیسے کروا سکتے ہیں.بچپن سے میں تقریریں کرتا ہوں اور کتابیں لکھتا رہا ہوں.تقریریں بھی چھپی ہوئی ہیں ، اشتہار اور ٹریکٹ وغیرہ بھی میری طرف سے چھپتے رہتے ہیں.لیکن کیا کوئی یہ بات ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے شدید سے شدید مخالف کا نام بھی اس رنگ میں لیا ہے جس میں بے ادبی پائی جاتی ہو.مولوی ثناء اللہ صاحب ہمارے کتنے مخالف ہیں مگر کوئی نکال کر تو دکھائے کہ میں نے کبھی انہیں صرف ثناء اللہ ہی کہا ہو.مولوی ظفر علی

Page 566

خطبات محمود ۵۶۱ سال ۱۹۳۵ء صاحب کا اخبار ہمیشہ میرا نام بگاڑ کر لکھتا ہے مگر کوئی دکھائے کہ میں نے بھی اس رنگ میں ان کا نام لیا ہو.ابھی میں نے احراری مولویوں کے نام لئے ہیں مگر سب کے پہلے القاب اور بعد میں صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے.پس اس قسم کی کمینہ بات ہماری طرف منسوب کرنا بتا تا ہے کہ بعض افسروں کے دلوں میں ہمارے متعلق انتہاء درجہ کا بغض ہے.اس سے پہلے ایک اور وجہ شبہ کی بھی پیدا ہوئی تھی ایک ذمہ دار افسر نے جن کا نام میں نہیں لیتا لیکن وہ جب یہ خطبہ پڑھیں گے تو سمجھ جائینگے اور ان پر میں خفا بھی نہیں کیونکہ ہر شخص کو اپنے عہدے کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے ، ایک معزز احمدی سے کہا کہ اگر تم لوگ شہید گنج کے مسئلہ میں کوئی دلچسپی رکھتے ہو تو میں ایسے آدمی تمہیں بتا سکتا ہوں جو تمہارے حسب منشاء کام کر سکتے ہیں گویا وہ اس طرح معلوم کرنا چاہتے تھے کہ جماعت احمدیہ کا اس معاملہ میں کہاں تک دخل ہے اور آیا ایجی ٹیشن کرنے والوں سے احمدیوں کا تعلق ہے یا نہیں.وہ افسر صاحب ہمیشہ ہمارے ساتھ دوستی کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اور ہم بھی انہیں دوست ہی سمجھتے ہیں مگر واقعات کا انکار نہیں کیا جا سکتا.آخر ہم ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ان دوستوں کو کیسا دوست سمجھیں.وہ بے شک کہتے ہیں ہم تو تمہارے دوست ہیں مگر ہم کہتے ہیں دوست کی کوئی علامت بھی تو ہونی چاہئے.ڈیڑھ سال سے ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ دوستی کی علامت ہے؟ اس دوستی کے متعلق تو ہم وہی کہہ سکتے ہیں جو فارسی کی ایک مثل میں کہا گیا ہے یعنی بد مرساں مرا بخیر تو امید نیست یعنی اے دوست ! تمہاری نیکیوں اور بھلائیوں سے میں باز آیا.مہربانی کیجئے اور اتنا دکھ تو نہ دیجئے.یہ بھی ممکن ہے کہ نیچے سے چھوٹے افسر شرارت کر کے جھوٹ بول رہے ہوں مگر دوست سے ہمیں یہ امید رکھنی چاہئے کہ اگر خدا نے اسے بڑا درجہ دیا ہے تو وہ معاملہ کی تحقیق کر کے اصل معاملہ معلوم کرے.پس دوستی کی کوئی علامت ہونی چاہئے یہ بھی کوئی دوستی ہے کہ جو نہی کوئی جھوٹی بات بھی کان میں پڑے جھٹ اُسے ارباب حل و عقد کے سامنے پیش کر دیا جائے.خیر اب جب میں واقعات پر روشنی ڈالنے پر مجبور ہو گیا ہوں، میں اس کے متعلق بعض باتیں بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.پہلا سوال یہ ہے کہ اس قضیہ کے متعلق ہماری رائے کیا ہے جسے میں نے اب تک اس لئے ظاہر نہیں کیا کہ مصیبت کے وقت گورنمنٹ کو اور مشکلات میں کیوں ڈالوں.مگر اب وقت زیادہ گزر چکا

Page 567

خطبات محمود ۵۶۲ سال ۱۹۳۵ء اور بات پرانی ہو چکی ہے اس لئے اس کے اظہار میں کوئی حرج نہیں.نیز بعض افسروں کے رویہ نے بھی اس کے اظہار پر مجبور کر دیا ہے.شروع دن سے میری یہی رائے ہے کہ حکومت نے اس بارہ میں بہت سی غلطیاں کی ہیں اگر تو یہ مسجد پہلے سے ہی گر چکی ہوتی تو اور بات تھی سکھوں کے زمانہ میں ہی اگر یہ گرائی جاچکی ہوتی اور اس پر کوئی اور عمارت تعمیر ہو چکی ہوتی تو ایسے حالات میں شریعت نے یہی حکم دیا ہے کہ سوئے ہوئے فتنہ کو بیدار نہ کر و.مگر یہ مسجد قائم تھی اور ایسی صورت میں قائم تھی کہ سکھ اپنے عہد حکومت میں بھی اسے نہ گر اسکے تھے.یہ سب باتیں اخبارات میں بالوضاحت آ چکی ہیں اور میں ان تفاصیل میں پڑنا غیر ضروری سمجھتا ہوں.میرا یہ پختہ خیال ہے کہ یہ مسجد تھی اور ایسی مسجد جسے سکھ اپنی حکومت کے زمانہ میں بھی نہ گر ا سکے تھے اور اس کی وجہ خواہ یہی ہو کہ سکھ اس بات کو اپنے لئے زیادہ قابل فخر سمجھتے ہوں کہ مسجد اپنی اصلی صورت میں ان کے قبضہ میں رہے یا کوئی اور ہو.بہر حال یہ حقیقت ہے کہ مسجد اپنی اصلی شکل میں قائم تھی اور اگر گرائی نہیں گئی.اور اب اس کے گرائے جانے پر حکومت کا یہ توقع رکھنا کہ مسلمانوں میں اشتعال پیدا نہ ہو ، ایک ایسی توقع ہے جس کی مثال بہت کم مل سکتی ہے.اور ایسی ہی بات ہے جیسے حافظ مرحوم نے کہا ہے کہ بع درمیان قعر دریا تخته بندم کرده باز میگوئی که دامن تر مکن ہشیار باش یہ ایسی ہی امید تھی جیسے کسی کو دریا میں قید کر کے یہ امید رکھی جائے کہ اُس کا دامن تر نہ ہو.وہ مسجد جو مسجد ہی کی صورت میں سینکڑوں سال سے قائم تھی اور ایسے شہر میں تھی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ایسے صوبہ میں تھی جہاں کی اکثر آبادی مسلمان ہے، ایسے محلہ میں تھی جہاں مسلمانوں کی آمد و رفت بکثرت تھی اسے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے گرانا اور پھر امید رکھنا کہ ان کے دل میں درد پیدا نہ ہو فطرت انسانی کے خلاف توقع ہے.فرض کرو سارے صوبہ میں ایک ہی مسلمان ہوتا تو اُسے بلا کر کہا جا سکتا تھا کہ تمہیں دُکھ تو ضرور ہو گا مگر صبر کر لو لیکن جب مسلمان پنجاب میں کروڑ سے زیادہ ہیں ان میں تعلیم یافتہ بھی ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی ، بے غیرت بھی ہیں اور غیرت مند بھی ٹھنڈی طبیعت والے بھی ہیں اور جوش والے بھی ، صدمہ کو برداشت کر لینے والے بھی ہیں اور اس امر کی طاقت نہ رکھنے والے بھی.تو پھر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک اشتعال انگیز فعل کئے جانے کی

Page 568

خطبات محمود ۵۶۳ سال ۱۹۳۵ء اجازت دے کر ایک ایسی جگہ میں جس پر ان کی نظریں ہر وقت پڑسکتی تھیں اور جس کی خبریں انہیں ہر وقت ملتی تھیں پھر امید یہ رکھنا کہ مسلمان صبر سے کام لیں بتا تا ہے کہ حکومت کے موجودہ افسروں نے فطرت انسانی کا پوری طرح مطالعہ نہیں کیا.وہ قانون کو فطرت پر حاکم سمجھتے ہیں حالانکہ فطرت قانون پر حاکم ہے.حکومت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ امن کا قیام چاہتی تھی اور میں اسے صحیح تسلیم کرتا ہوں مگر سوال یہ ہے کہ امن انسانی فطرت کے ساتھ کھیلنے سے قائم ہوتا ہے یا اس کا احترام کرنے سے؟ ہم سمجھتے ہیں پنجاب گورنمنٹ میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو امن کا قیام چاہتے تھے.دو تو ان میں مسلمان ہی ہیں ان کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ چاہتے ہوں کہ آؤ اپنی قوم کے جذبات سے کھیلیں.اسی طرح انگریز افسروں کو کوئی جنون تو نہیں تھا کہ وہ خواہ مخواہ فساد کرا کر شغل دیکھنا چاہتے تھے اس لئے میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کارروائی جان بوجھ کر فساد ڈلوانے کے لئے کی گئی ہے مگر میں اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ غلطی تھی اور بہت بڑی غلطی.کئی غلطیاں بعض اوقات خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں اور یہ غلطی بھی ایسی ہی تھی.مسلمانوں کے جذبات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا اور خیال کر لیا گیا کہ سکھ اپنی ایک مقبوضہ عمارت گرا ر ہے ہیں اس میں حکومت خواہ مخواہ کیوں دخل دے.مسلمانوں کو چاہیے کہ صبر سے کام لیں اس سے آگے ذمہ دار افسروں کا دماغ نہیں گیا.پھر اس بارہ میں سخت غلطی کی گئی ہے کہ اسے سکھوں کی جائداد سمجھ لیا گیا.اگر تو اس مسجد کو سکھوں کے زمانہ میں ہی گراکر گوردوارہ یا سرائے یا کسی اور عمارت میں تبدیل کر دیا جاتا تو یہ کسی کی جائداد ہوسکتی تھی ورنہ مسجد کسی کی جائداد نہیں ہوسکتی.اس جگہ میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ مساجد کے بارہ میں عام مسلمانوں سے ہمارے بعض عقائد مختلف بھی ہیں اور اس اختلاف کے اظہار سے میں آج بھی نہیں ڈرتا.میرا عقیدہ ہے کہ غیر آباد مسجد کو دوسری جگہ تبدیل کیا جا سکتا ہے مثلاً پہلے ایک محلہ مسلمانوں کا تھا اور وہاں مسجد تھی مگر رفتہ رفتہ ہندوؤں نے اُس محلہ کے تمام مکانات خرید لئے اور اب وہاں مسلمان نہیں رہتے مسجد غیر آباد پڑی ہے اور اس میں جانور اور پرندے وغیرہ نجاست کرتے رہتے ہیں تو اُسے بیچ کر اس سے دوسری مسجد بنا لینا جائز ہے.دوسرے میرا عقیدہ ہے کہ حکومت وقت کسی رفاہِ عام کی ضرورت کے ماتحت مسجد کے کسی حصہ کا

Page 569

خطبات محمود ۵۶۴ سال ۱۹۳۵ء بدلہ دے کر اُسے آگے پیچھے کر سکتی ہے مگر ایسی ضرورت رفاہ عام کی ہونی چاہئے.مثلا کوئی اہم سڑک ہے جس پر پبلک کی صحت کا انحصار ہے حکومت مکانات خرید کر اس میں شامل کرتی آرہی ہے اور آگے مسجد آ جاتی ہے تو حکومت مسجد کے پیچھے والا مکان اس میں شامل کر کے مسجد کو پیچھے کر سکتی ہے بشرطیکہ ایسی مسجد شعائر اللہ میں سے نہ ہو.جیسے مثلاً ہماری مساجد ہیں یا وہ مساجد جن میں حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت معین الدین چشتی، حضرت داتا گنج بخش اور دوسرے بزرگ عبادتیں کرتے رہے ہیں.ایسی مساجد ان بزرگوں کی وجہ سے خاص برکت رکھتی ہیں.گواہلحدیث ایک حدیث کی بناء پر کہ خانہ کعبہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس کے سوا کسی مسجد کی طرف سفر کر کے جانا درست نہیں ، خیال کرتے ہیں کہ ان تین مساجد کے سو اشعائر اللہ والی مسجد کوئی نہیں مگر دوسرے لوگوں کا یہ عقیدہ نہیں اور ہم لوگ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں سمجھتے اور ہمارے نزدیک گوخانہ کعبہ اور مسجد نبوی جیسی با برکت اور کوئی مسجد نہیں ہو سکتی لیکن ان کے تابع على قدر مراتب دوسرے بزرگوں نے جن مساجد میں عبادت کی ہوان کی دعاؤں کی وجہ سے ہمارے نزدیک ان مساجد میں بھی برکات ہوتی ہیں اور وہ بھی محفوظ رکھے جانے کے قابل ہیں اس لئے ایسی مساجد کو چھوڑ کر عام مساجد کے متعلق میرا عقیدہ ہے کہ اُن میں اس قسم کی تبدیلی جائز ہے جس کی میں صراحت کر چکا ہوں.تیسرے میرا عقیدہ یہ ہے کہ جس عبادتگاہ کو گرا کر اُسے دوسری شکل دے دینے پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہو اس کے متعلق کسی قسم کی شورش کرنا درست نہیں کیونکہ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ کے ارشاد کے مطابق فتنہ پیدا کر نا قتل سے بھی سخت ہے.اُس وقت کے لوگ اگر شور کرتے جن کے زمانہ میں گرائی گئی تو وہ حق بجانب ہوتے مگر ایک لمبے عرصہ کے بعد اس کے متعلق شورش فتنہ پیدا کرنے کے مترادف ہے بشرطیکہ ایسی مسجد شعائر اللہ میں سے نہ ہو.شعائر اللہ سے تعلق رکھنے والی مسجد کے متعلق تو ہر زمانہ میں پروٹیسٹ کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہئے لیکن عام عبادت گاہوں کے متعلق سالہا سال بعد یہ سوال اُٹھانا کہ اسے گرا کر دوبارہ اصلی صورت میں تبدیل کیا جائے خواہ مخواہ کا فتنہ پیدا کرنا ہے اور یہ جائز نہیں.ایسے امور کے متعلق میں یہی کہوں گا کہ جو چیز جس شکل میں ہے، اُسی میں رہنے دی جائے.مسلمانوں نے اگر اپنے زمانہ میں کوئی زیادتی کی تو سکھوں نے اپنے زمانہ میں کر لی.عوض معاوضہ گلہ ندارد.لیکن یہاں ان تینوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں تھی.وہ مسجد قائم تھی اور

Page 570

خطبات محمود ۵۶۵ سال ۱۹۳۵ء اب گرائی گئی.اس پر مسلمان جب تک پروٹیسٹ کرتے رہیں گے اس کا دوبارہ بنانا جائز ہوگا لیکن اگر ان کے جوش ٹھنڈے ہو گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا اس کے بعد پھر اس سوال کو اُٹھانا جائز نہ ہوگا.چوتھا فرق یہ ہے کہ میرا عقیدہ ہے کہ مسجد کے ملحقات اس میں شامل نہیں ہوتے مثلاً غسلخانے ، وضو کی جگہیں ، یا بعض لوگ مساجد کے ساتھ لائبریریاں بنا دیتے ہیں یہ مسجد کا حصہ نہیں اور انہیں تبدیل کیا جاسکتا ہے.اگر تو ایسی چیزیں وقف ہیں تو تبدیل کرنے والے کو چاہئے کہ ان کا بدلہ دے اور اگر کسی کی اپنی جائداد ہے تو وہ اسے لے سکتا ہے.کیونکہ مساجد تو کسی کی جائداد نہیں ہوسکتیں مگر ملحقات ہو سکتے ہیں.پس مساجد کے بارہ میں عام مسلمانوں سے میرے عقائد میں یہ اختلاف ہے اور اسی لئے جب کانپور کی مسجد کا واقعہ ہوا تو میں نے حکومت کی تائید کی اور اس پر مخالفوں کی طرف سے بہت گالیاں کھائیں.لاہوری فریق نے مجھے اُس زمانہ میں بہت گالیاں دیں اس وجہ سے کہ میں نے کہا تھا کہ غسل خانہ مسجد کا حصہ نہیں اور آج بھی میرا یہی عقیدہ ہے.آج بھی اگر کانپور کی مسجد جیسا کوئی واقعہ ہوتا تو میں حکومت کا ساتھ دیتا لیکن یہاں بالکل مختلف معاملہ ہے.یہاں مسجد گرائی گئی ہے ایسی جگہ گرائی گئی ہے جہاں خواہ مخواہ مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور ایسی صورت میں گرائی گئی ہے کہ اس کا علاج ممکن تھا.پس میری یہی رائے ہے کہ اس معاملہ میں حکومت نے سخت غلطی کی ہے اور یہ بھی میں نے اس وجہ سے کہا ہے کہ حکومت نے بلا وجہ حملہ کر کے اور جھوٹے اتہام لگا کر مجھے مجبور کر دیا ہے.حکومت سے میری مراد وہی چند ایک افسر ہیں جو بلا وجہ ہمیں دق کر رہے ہیں ورنہ حکومت میں اب بھی ایسے افراد ہیں جو ان باتوں کو بُرا مناتے ہیں.دوسرا سوال یہ ہے کہ اس میں ہم نے کتنا حصہ لیا.اس کے متعلق ایک بات تو یہ ہے کہ گولی چلنے سے پہلے ہم نے ہر گز کوئی حصہ نہیں لیا.یہ جھوٹ ہے کہ ہم نے اس بات کو اٹھایا اور روپیہ دے کر جوش پھیلا یا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسا خیال کرنا بھی حماقت ہے کیونکہ صرف مسلمان لیڈروں کو خرید کر یہ شورش پیدا کرانا ہی ناممکن ہے کجا یہ کہ مسلمان ،سکھ ، احرار اور حکومت کو خریدا جائے.پس یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا تو وہ آئے اور قسم کھا جائے.ہاں جب مسجد گرائی گئی اور گولی چلی تو چونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ مسجد نہیں کرائی جانی چاہئے تھی اور حکومت کا فرض

Page 571

خطبات محمود ۵۶۶ سال ۱۹۳۵ء تھا کہ اس کی حفاظت کرتی اور یہ صرف مسجد کے لئے ہی نہیں اگر کہیں کوئی گوردوارہ گرایا جاتا تو بھی سکھوں کا اسی طرح ساتھ دیتے جس طرح آج مسلمانوں کا دے رہے ہیں.کیونکہ قرآن کریم نے عبادت گاہوں کی حفاظت مسلمانوں کا خاص فرض قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انبیاء نہ آتے تو لوگ تعصب کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کی عبادت گا ہیں گرا دیتے.سے پس اگر کوئی مندر یا گوردوارہ یا گر جا بھی کرایا جاتا تو میں سمجھتا ہوں مسلمانوں پر فرض ہوتا کہ ان کے بچانے کی کوشش کرتے اور گرانے والوں کی مذمت کرتے.پس ہم نے ہمدردی اُس وقت شروع کی جب دیکھا کہ مسلمانوں کے جذبات پر ظلم ہوا ہے اور اس پر بھی اگر حکومت بُرا مناتی ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے.جب ایک مسجد گرائی جائے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے دل زخمی نہ ہوں.پس ہمارے قلوب مجروح ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے اخبارات نے اس کے متعلق لکھا ہے اور یہ احرار کی مخالفت کی وجہ سے نہیں بلکہ مسجد سے ہمدردی کی وجہ سے لکھا ہے.دوسری بات اس کے متعلق میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ رسول نافرمانی کے ہم ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں.اگر سول نافرمانی کی جاتی تو ہم ضرور اس کی مخالفت کرتے.اور اب بھی اگر کی گئی تو جن پر ہمارا اثر پڑ سکے ہم انہیں یہی سمجھائیں گے کہ ایسا نہ کرو.اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سب کام ہم کرا رہے ہیں تو یہ اس کا جھوٹ اور افتراء ہے.ہم کسی ایسی تحریک میں نہ شامل ہوئے ہیں نہ ہو سکتے ہیں اور نہ ہوں گے اور جو شخص ایسی تحریکات کو ہماری طرف منسوب کرتا ہے وہ ہماری مذہبی ہتک کرتا ہے اور میں اس کے متعلق سواۓ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کے اور کیا کہہ سکتا ہوں.اگر مسلمانوں میں واقعی سول نافرمانی کی تحریک ہوئی تو گو احرار نے عام مسلمانوں پر سے ہمارے اثر کو زائل کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے مگر پھر بھی لجاجت سے ، پیار سے ، منت سے مسلمانوں کو اس سے باز رکھنے کی ہم پوری کوشش کریں گے.کانگرسی تحریکات کے زمانہ میں تو مسلمان ہماری ایسی باتوں کو قبول کر لیتے تھے لیکن اگر اب نہ کریں تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی جس کی شہہ سے احرار نے لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا دیا ہے.تیسری بات اس کے متعلق یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم احرار کو سخت غلطی پر سمجھتے ہیں.ان لوگوں نے مسلمانوں سے دھوکا کیا.پس علاوہ اس غصہ کے کہ انہوں نے بلا وجہ ہماری مخالفت کی ہے اس

Page 572

خطبات محمود ۵۶۷ سال ۱۹۳۵ء تازہ واقعہ کی بناء پر بھی ہمیں ان پر غصہ ہے.پس اگر کوئی شخص احرار کی اس دھوکا بازی کے خلاف لٹریچر شائع کرتا ہے اور ہم اس کی اشاعت میں مدد دیتے ہیں یا خریدتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا.اور ہمارے بعض آدمیوں نے ایسا لٹریچر خرید کر شائع کیا ہے یا اس کے شائع ہونے میں مدد دی ہے اور میں اسے بُر انہیں سمجھتا بلکہ میں اسے ایک قومی خدمت سمجھتا ہوں اور اگر کوئی آئندہ بھی ایسا کرے تو میں اسے درست سمجھونگا.وہ حکومت جو احرار کے گندے لٹریچر کو جو ہمارے خلاف چھپتا رہا ہے روک نہ سکی ، اب اسے احرار کے خلاف لٹریچر شائع ہونا کیوں بُرا لگتا ہے.مگر اس سے زیادہ ہماری جماعت کے افراد نے کچھ نہیں کیا اور یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ہم نے لوگوں کو خریدا ہوا ہے.اس الزام پر بھی میں لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہتا ہوں.چوتھے میں سمجھتا ہوں کہ بغیر شورش اور فساد کے مسلمان مسجد کو واپس لے سکتے ہیں اور مجھے اس کا یقین ہے.میں اس کے متعلق خاموش اس وجہ سے تھا کہ اگر میں بولا تو احرار کہہ دیں گے کہ دیکھا سب کچھ یہی کرا رہے ہیں.اس پر لوگ بھڑک اُٹھیں گے اور اس تحریک کو نقصان پہنچے گا لیکن آج بھی اگر کام کرنے والے یہ اعلان کر دیں کہ احمدیوں کا ساتھ ملنا ہمارے کام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ہم اُن کی ہر جائز مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.صرف یہ ہو گا کہ قانون شکنی کی تحریک میں ہم شامل نہیں ہونگے ، باقی ہم ہر قسم کی مدد کریں گے.خواہ وہ روپیہ کی ہو یا قانونی یا کسی اور رنگ کی.اور مجھے کامل امید ہے کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے اسے واپس لیا جا سکتا ہے اور احمد یہ جماعت اس کوشش میں ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ کام کرنے والوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو.مسجد کے گرائے جانے پر ہمارے دلوں میں اس سے بہت زیادہ درد ہے جس کا میں نے اظہار کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم نے شورش کو پیدا کیا ہو ہمارے دلوں میں دُکھ ہے کہ احرار کی شورش کے خیال سے ہم اسقدر اس نیک کام میں حصہ نہیں لے سکے جس قدر حصہ ہم لے سکتے تھے.ہم ڈرتے رہے ہیں کہ اگر ہم حصہ لے لیں گے تو احرار جھٹ شور مچادیں گے کہ اِس کام کو احمدی کروا ر ہے ہیں اور اس تحریک کو نقصان پہنچ جائے گا اور کئی لوگوں کو مسجد بھول جائے گی اور ہمارا بغض یاد آ جائے گا.لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ آج بھی اگر کام کرنے والے یہ اعلان کر دیں تو ہم ہر جائز مدد اور ممکن قربانی اس راہ میں کرنے کے لئے تیار ہیں.مجھے معلوم ہے بعض جگہ احمدیوں نے کچھ کام کیا ہے اور بعض نے مجھے

Page 573

خطبات محمود ۵۶۸ سال ۱۹۳۵ء اس بارہ میں اطلاع بھی دی ہے مثلاً کسی نے اشتہار شائع کیا اور مددطلب کی تو مدددے دی یا اشتہار بھجوا دیئے تو احمدیوں نے بھی انہیں چسپاں کروادیا جس طرح اور لوگوں نے چسپاں کر واد یا لوگوں میں تقسیم کروا دیا.چنانچہ قادیان میں ہی بعض احمدی آئے اور آتے ہوئے ساتھ اشتہار لیتے آئے جو یہاں چسپاں کر دیئے گئے.اس قسم کی امداد کئی احمدیوں نے کی ہے مگر یہ کوئی مجرم نہیں کہ قانون کی حد کے اندر جو اشتہار احرار کے خلاف شائع ہوں اُن کی اشاعت کی جائے.حکومت کا ان کو ضبط نہ کرنا بتا تا ہے کہ وہ انہیں خلاف قانون نہیں سمجھتی.پس ایسے امور میں اگر احمد یوں نے انفرادی طور پر یا بہ حیثیت جماعت مدد کی ہو تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں اور اسے میں نہ صرف جائز سمجھتا ہوں بلکہ پسند کرتا ہوں.لیکن یہ صریح جھوٹ ہے کہ یہ تحریک احمدیوں نے چلائی یا نا جائز افعال احمد یوں نے کرائے یا ان کو پسند کیا.گورنمنٹ کی غلطیوں کے سلسلہ میں میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس نے امن پسند لیڈروں کو مشکلات میں ڈال دیا اور وقت پر بلا کر یہ نہ کہہ دیا کہ سکھ نہیں مانتے ، اب تم جو چا ہو کر سکتے ہو.اس کا فرض تھا کہ وہ سکھوں سے کہہ دیتی کہ اگر تم نہیں مانتے تو جاؤ جو چاہو کرو.اور اسی طرح مسلمانوں سے بھی کہہ دیتی کہ جو چاہو کر و مگر جو قانون کو توڑے گا اسے ہم پکڑیں گے.یہ صریح نا انصافی ہے کہ سکھوں کے جتھے آتے ہیں تو اُن کو آنے دیا جاتا ہے مگر مسلمانوں کے جتھے روک دیئے جاتے ہیں.حالانکہ تھوڑا عرصہ ہو ا حکومت پنجاب ہمارے متعلق ایک ایسا فیصلہ کر چکی ہے جس کے مطابق اُسے مسلمانوں کو روکنے کا کوئی حق نہ تھا بلکہ چاہئے تھا کہ سکھوں کو روکتی.راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر نے وہاں کی جماعت کے سیکرٹری کو نوٹس دیا کہ غیر مبائعین نے تمہیں جو چیلنج دیا ہے اسے اگر تم نے منظور کیا تو تمہارے خلاف کا رروائی کی جائے گی.اس پر ہماری طرف سے کہا گیا کہ نوٹس تو چیلنج دینے والے کو دیا جانا چاہئے تھا نہ کہ ہمیں.اس پر پنجاب گورنمنٹ کے ایک ذمہ دار افسر نے ہمارے ایک ذمہ دار نمائندے سے کہا کہ یہ اعتراض غلط ہے فساد چیلنج قبول کر لینے سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ دینے سے.اگر حکومت کا یہ اصل صحیح ہے تو مسلمان جتھے بنا کر جارہے تھے اگر سکھ الگ ہو کر کھڑے ہو جاتے کہ مسجد لے لو تو فساد کس طرح ہو سکتا تھا.فساد کی تو یہی صورت ہو سکتی تھی کہ سکھ کہتے ہیں ہم نہیں دیتے اور اس اصل کے ماتحت کہ جو چیلنج قبول کرے وہ فساد کرتا ہے،فساد کرنے والے سکھ تھے اس لئے کہ مسلمان تو چیلنج دے رہے تھے اور اس قاعدہ کے ماتحت حکومت کو چاہئے تھا کہ سکھوں کو

Page 574

خطبات محمود ۵۶۹ سال ۱۹۳۵ء گرفتار کرتی.لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں سکھوں کا بھی اتنا قصور نہیں اور ان پر اتنی ذمہ داری نہیں جتنی حکومت اور مسلمان لیڈروں پر ہے.مسلمان لیڈروں سے مراد’ تحفظ مساجد “ والے نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو پیچھے پیچھے جا کر افسروں سے کہتے تھے کہ ان لوگوں کی کیا حقیقت ہے ، اصل ہم ہیں.ہم بڑے لوگ ہیں اور ہم ذمہ دار ہیں کہ کوئی فساد پیدا نہیں ہوگا.ایسے لوگ کونسل کے بعض ممبر اور جماعتِ احرار کے بعض لیڈر تھے انہی لوگوں نے جا جا کر حکومت کو یقین دلایا کہ فساد کا کوئی خطرہ نہیں ، ہم ذمہ دار ہیں.اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ ہم نے اس تحریک پر گیارہ لاکھ روپیہ صرف کیا.اس میں قابل غور امر یہ ہے کہ یہ روپیہ آیا کہاں سے؟ یہ اعتراض سن کر مجھے ایک میراثی کا قصہ یاد آتا ہے.کہتے ہیں ایک رات ایک میراثی کے ہاں چور داخل ہوا.چونکہ گھر میں کچھ نہ ملا وہ باؤلے کتے کی طرح ادھر اُدھر پھرتا رہا.میراثی بھی جاگ رہا تھا مگر چادر کے اندر منہ لیٹے پڑا تھا.پھرتے پھرتے چور کی نظر ایک سفید چیز پر پڑی جو اصل میں چاند کی روشنی تھی جو چھت کے ایک سوراخ سے چھن کر آ رہی تھی.چور گھبراہٹ میں اُسے آٹا سمجھا اور اُس نے اپنی چادر بچھا کر چاہا کہ اس میں آٹا ڈال لے مگر جب ہاتھ مارا تو دونوں ہاتھ جوں کے توں آپس میں مل گئے.میراثی یہ نظارہ دیکھ کر ہنس پڑا اور کہنے لگا.جمان ! ہمیں تو یہاں سے کبھی دن کو کچھ نہیں ملاتم اندھیرے میں یہاں کیا تلاش کر رہے ہو.تو ہم پر ایک لاکھ چالیس ہزار قرض ہے ، دو دو ماہ کی تنخواہیں لوگوں کو نہیں ملیں پھر یہ گیارہ لاکھ روپیہ کہاں سے آ گیا.بے شک تحریک جدید کا کام جاری ہے.اور اس میں روپیہ آتا ہے مگر اس کا خرچ اس وقت تک اکتیس ہزار کا ہے.اس میں سے بھی تین ہزار سے زائد پیشگیوں کا ہے.اس باقی روپیہ میں دفتر کا خرچ جو تین چارسو ماہوار کا ہے شامل ہے.اسی روپیہ سے پانچ مشنری دوسرے ممالک کو بھیجے جاچکے ہیں، گیارہ ہندوستان میں تیار کئے جا رہے ہیں ، تین تحصیلوں میں وسیع پیمانہ پر تبلیغ ہورہی ہے، اور دس بارہ مبلغ ان میں کام کر رہے ہیں.کئی اضلاع کی سروے ہو رہی ہے اور پندرہ سولہ آدمی اس کام پر لگے ہوئے ہیں ، ایک اُردو اور انگریزی اخبار چلایا جارہا ہے ، ایک سندھی اخبار کی مدد کی جاتی ہے، اشتہارات اور مفت لٹریچر تقسیم کیا گیا ہے یہ سب کام اس اٹھائیس انتیس ہزار میں ہوا.پھر اس میں سے کس قدر رقم بچا کر شہید گنج کے فساد کے پیدا کرنے کے لئے نکالی گئی ہے.گیارہ لاکھ نہیں

Page 575

خطبات محمود ۵۷۰ سال ۱۹۳۵ء کوئی شخص ہمیں سمجھائے کہ کیا اس قدر کام کے بعد گیارہ ہزار بھی بچا کر اس کام پر خرچ کیا جا سکتا ہے.احرار نے دو مبلغ قادیان میں رکھ کر پچاس ہزار سے زائد کے چندہ کا حساب بے باق کر دیا ہے اور ہمارے متعلق وہ یہ خیال کرتی ہے اور بعض افسر اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ اٹھائیس ہزار سے ہم نے یہ سب کام بھی کیا اور پھر گیارہ لاکھ اس میں سے نکال کر مسجد شہید گنج کے ایجی ٹیشن پر بھی خرچ کر دیا.ایں چہ بوالعجیبست“.حکومت کے بعض افسر بیان کرتے رہے ہیں کہ احرار کو پندرہ ہزار ماہوار چندہ آتا ہے.کیا یہ لطیفہ نہیں کہ ہم تین ہزار ماہوار سے اس قدر بچت کرتے رہے بلکہ اصل سے بھی ہم نے رقم کو بڑھا لیا.لیکن احرار پندرہ ہزار ماہوار کے باوجود شہید گنج کے بارہ میں کچھ نہ کر سکے.جن لوگوں کے پاس پندرہ ہزار ماہوار آتا تھا وہ کیوں ہماری مزعومہ رشوتوں کا مقابلہ نہ کر سکے.احرار اور ان کے ہمنوا افسروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پاس حسابات مکمل ہیں اور ہم یہ انہیں دکھا سکتے ہیں بشرطیکہ حقیقت کے ثابت ہونے پر حکومت ذمہ لے کہ اس کی طرف سے یہ اعلان کیا جائیگا کہ احرار نے بھی اور اس کے ان افسروں نے بھی جنہوں نے یہ الزامات لگائے تھے کہ یہ ایجی ٹیشن احمدیوں کے روپیہ پر چل رہا ہے، جھوٹے تھے.اور اگر احراری یا ایسے معترض افسر چیلنج کو قبول نہ کریں تو میں سوائے اس کے کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ دوسرا الزام ہمارے متعلق یہ ہے کہ ہم نے سکھوں کو اُکسایا.اس کا جواب ہمارے اور سکھ اخبارات کے تعلقات سے لگ سکتا ہے.اگر تو یہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں تو بات صاف ثابت ہے لیکن اگر یہ نہیں اور فی الواقعہ نہیں بلکہ سکھ اور احراری اخبار ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں تو لوگ خود دیکھ لیں پانی کہاں مرتا ہے.تیسرا اعتراض وہ ہے جس کا ذکر غالباً ایک احراری لیڈر نے سہارنپور یا منصوری میں ایک تقریر میں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب گورنر کے پاس گئے اور کہا کہ خدا کے لئے احرار کو چُپ کراؤ اور پھر گورنر نے یہ سب کچھ کرایا.یہ عجیب لطیفہ ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں ہم نے سکھوں کو اُکسایا دوسری طرف کہتے ہیں حکومت کو اُکسایا.تیسری طرف کہتے ہیں مسلمانوں کو اُکسایا اور اس کی چوتھی کڑی یہ ہے کہ احرار کو اُکسایا کہ خاموش رہو اور دفتر سے باہر قدم نہ رکھو.

Page 576

خطبات محمود ۵۷۱ سال ۱۹۳۵ء حکومت اچھی طرح جانتی ہے یہ بات غلط ہے یا صیح.اگر تو صحیح ہے تو اسے چاہئے اعلان کر دے لیکن اگر غلط ہے تو اس کا فرض ہے کہ اسی طرح اس کی تردید کرے جس طرح چوہدری افضل حق صاحب کے بارہ میں ایک بیان کی کی تھی.اور وہ واقعہ اس طرح ہے کہ کسی اخبار میں کسی شخص نے لکھا تھا کہ چوہدری افضل حق صاحب نے جا کر گورنر صاحب سے کہا ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں.اس پر حکومت کی طرف سے فوراً اس کی تردید کی گئی.سوال یہ ہے کہ چوہدری افضل حق صاحب کی عزت بچانے کے لئے تو حکومت کو اس قدر فکر ہے مگر سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق کیوں یہ فکر نہیں حالانکہ وہ حکومت ہند کے ممبر ہیں.پیرا کبر علی صاحب کے متعلق بھی ایسی باتیں کہی گئی ہیں اور ان کی بھی تردید نہیں کی گئی.اور جب حکومت کی یہ حالت ہو کہ وہ احرار کی عزت کی حفاظت کیلئے تو اس قدر مستعد ہو لیکن حکومت ہند کے ایک ممبر کے متعلق اتنا بھی احساس نہ رکھتی ہو، حالانکہ دونوں کے متعلق جو بات کہی گئی وہ ایک ہی قسم کی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ چوہدری صاحب نے یہ بات کہی ہے اس لئے اس کی تردید نہیں کی گئی.اور چوہدری افضل حق صاحب نے چونکہ نہیں کہی تھی اس کی تردید کی گئی مگر کیا یہ بات درست ہے ؟ کیا واقعہ میں سر ظفر اللہ خان صاحب نے ہز ایکسی لنسی سے ملکر کوئی ایسی بات کہی تھی ؟ لیکن چونکہ ہمارا علم یہی ہے کہ سر ظفر اللہ خان صاحب نے ہرگز ایسی بات نہیں کی پس ہم یہ سمجھنے میں مجبور ہیں کہ حکومت پنجاب کے ایک حصہ کی نظر میں حکومت ہند کے کامرس ممبر کی وہ عزت نہیں ہے جو چوہدری افضل حق صاحب کی ہے.حکومت اس خبر کی تردید کرے یا نہ کرے میں اس کی تردید کرتا ہوں کہ ایسی کوئی بات نہ سر ظفر اللہ خان صاحب نے اور نہ کسی اور احمدی نے کہی اور اگر کوئی اسکا مدعی ہے تو میں اُسے بھی چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اس کے متعلق حلفی بیان شائع کرے اور پھر دیکھے کہ خدا تعالیٰ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے.طه: ۴۵ الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۳۵ء) ل وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيْعٌ وَّ صَلَوتْ وَّ مَسْجِدُ (الحج: ۴۱)

Page 577

خطبات محمود ۵۷۲ ۳۵ سال ۱۹۳۵ء احرارکومباہلہ کا چیلنج اور اس کی اہم شرائط (فرموده ۲۷ /ستمبر ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- آج میرا ارادہ تو کسی قدر طویل خطبہ پڑھنے کا تھا لیکن سفر سے آتے ہوئے راستہ میں اتنی دیر ہو گئی کہ جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے ہی دو بج گئے ہیں اس لئے میں صرف دو باتیں اختصار کے ساتھ بیان کر کے اپنا خطبہ ختم کر دوں گا.پہلی بات تو ایسی ہے کہ جو جماعت قادیان سے تعلق رکھتی ہے اور ان لوگوں کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے جو یہاں آتے رہتے ہیں.اور وہ یہ کہ مدت سے قرآن مجید کا درس بند تھا لیکن اس سال کے شروع میں میں نے ارادہ کیا تھا کہ چونکہ ابھی اس کام کی وجہ سے جو احرار کے مقابلہ میں کرنا پڑتا ہے طبیعت پر ایک بوجھ ہے اس لئے اکتوبر سے میں پھر درس دینا شروع کر دوں گا.سو اول تو آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ پہلی اکتوبر سے عصر کے بعد قرآن مجید کا درس جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا میں اِنشَاءَ اللہ پھر شروع کر دوں گا.چونکہ ایک لمبے عرصہ تک یہ درس بند رہا ہے اور عادتیں انسان کی طبیعت پر بہت کچھ اثر انداز ہو جاتی ہیں اس لئے محلہ کے عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے محلوں میں دوستوں کو اس سے واقف و آگاہ کر دیں باقی یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے سننے کی توفیق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے.پھر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ درس میں شامل ہونے کے باوجود اس سے غافل رہتے یا اسے سمجھ نہیں سکتے.چاہے ایسا غفلت کی وجہ سے ہو یا شامت اعمال سے

Page 578

خطبات محمود ۵۷۳ سال ۱۹۳۵ء یا صحت کی کمزوری کی وجہ سے.بہر حال اس قسم کے لوگ اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں درس کی اہمیت بتائی جائے اور بار بار بتائی جائے تا کہ وہ شامل ہو کر فائدہ حاصل کریں.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے سفر سے پہلے خطبوں میں بعض امور کے متعلق احرار کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا.مجھے اپنی لڑکی کی بیماری کی وجہ سے جس پر دو دفعہ ٹائیفائڈ کا حملہ ہوا اور پچاس سے زائد دن وہ شدید بیمار رہی ، ضرورت تھی کہ میں اسے کسی ٹھنڈے مقام پر لے جاتا.میں اُسی وقت سمجھتا تھا کہ میرے باہر جانے سے احرار نا جائز فائدہ اُٹھا کر یہ کہنا شروع کردیں گے کہ ہمیں مباہلہ کا چیلنج دے کر آپ بھاگ گئے اور انہوں نے یہ خیال نہیں کرنا کہ آخر مباہلہ کے لئے جو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان کے متعلق جب تک کوئی فیصلہ کن بات طے نہیں ہو جاتی اُس وقت تک کہیں باہر جانے میں کیا حرج ہے.میری پیش کر دہ باتوں کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں یا تو وہ انہیں قبول کرتے یارڈ کرتے.اگر دعوت مباہلہ کو ر ڈ کر دیتے تو بھی باہر جانے میں کوئی حرج نہ تھا اور اگر قبول کر لیتے تب بھی بعض امور کے سر انجام دینے میں کچھ دیرگتی.مثلاً میں نے پانچ سو یا ہزار آدمیوں کی مباہلہ میں شمولیت ضروری رکھی ہے ان پانچ سو یا ہزار آدمیوں کے انتخاب میں ہی کافی وقت لگتا لیکن میں جانتا تھا انہوں نے ان باتوں کو نظر انداز کر دینا ہے اور صرف یہی کہنا شروع کر دیں گے کہ لو ہم تو قادیان آگئے اور وہ مباہلہ سے گھبرا کر باہر چلے گئے.حالانکہ مباہلہ کے لئے کوئی تاریخ مقر ر نہیں ہوتی جیسے پھلوں کے پکنے کا ایک موسم ہوتا ہے کہ مباہلہ ان دنوں سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا.پس اگر میں دو یا تین ہفتہ کے لئے باہر گیا تھا اور پھر ایسی ضرورت کے لئے باہر گیا تھا جس کا انہیں بھی علم ہونا چاہئے تھا کیونکہ میری لڑکی کی بیماری کی خبر اخبار میں بھی چھپتی رہی ہے تو یہ ایسی بات نہ تھی جس سے وہ ناجائز فائدہ اُٹھا کر شور مچانا شروع کر دیتے.لیکن بہر حال میرا چیلنج اب تک موجود ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے ان کی طرف سے ابھی تک کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی گئی.میں نے احرار کی سہولت کے لئے ان - سے گفتگو کرنے اور ضروری امور کا تصفیہ کرنے کے لئے تین آدمی بھی مقرر کر دیئے تھے یعنی چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مولوی غلام احمد صاحب جو ہمارے لاہور میں مبلغ ہیں.میں نے کہا تھا کہ میں ان تینوں کو اپنی طرف سے نمائندہ مقرر کرتا ہوں.احرار خط و کتابت کر کے ان سے مباہلہ کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں ممکن ہے ان سے کوئی ایسی گفتگو ہوئی

Page 579

خطبات محمود ۵۷۴ سال ۱۹۳۵ء ہو مگر چونکہ میں ابھی سفر سے آرہا ہوں اس لئے مجھے ابھی تک رپورٹ نہیں ملی کہ احرار کی طرف سے مباہلہ پر آمادگی کی کوئی تحریک ہوئی ہے یا نہیں.بہر حال جب کوئی کسی دوسرے کو چیلنج دے گا تو وہ اپنی طرف سے بعض شرائط بھی مقرر کرے گا لیکن میں وضاحنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہرگز اس یکطرفہ فیصلہ کا قائل نہیں جس قسم کا فیصلہ کہ بعض غیر احمدی کیا کرتے ہیں یعنی وہ بعض شرائط جو خلاف عقل ہوتی ہیں اپنی طرف سے مقرر کر دیتے ہیں اور پھر اصرار کرتے ہیں کہ انہیں قبول کیا جائے اور اگر قبول نہ کیا جائے تو وہ اسے فرار پر محمول کرتے ہیں یہ لغو طریق ہے اور میں نے ہمیشہ اس طریق کی لغویت کا اظہار کیا ہے.پس میں ہرگز اس بات کا مدعی نہیں کہ جو شرطیں مباہلہ کے متعلق میری طرف سے پیش کی گئی ہیں ان میں رد و بدل نہیں ہو سکتا.میرے نزدیک دوسرے فریق کو کامل حق ہے کہ وہ اعتراض کر کے مثلاً ثابت کر دے کہ فلاں شرط شریعت کے خلاف ہے یا فلاں شرط ناممکن العمل ہے یا فلاں شرط جو پیش کی گئی ہے اس سے بہتر فلاں شرط ہو سکتی ہے.یہ تینوں حق احرار کو حاصل ہیں اور اگر وہ کسی وقت بھی ثابت کر دیں کہ میری پیش کردہ شرائط شریعت کے خلاف ہیں یا عملی لحاظ سے ناممکن ہیں یا ان سے بہتر شرائط فلاں فلاں ہیں تو میں ہر وقت ان شرائط میں تغیر و تبدل کرنے کے لئے تیار ہوں.باقی انہوں نے اپنے اخبار میں بھی شائع کیا ہے اور یہاں بھی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں اس مباہلہ میں اپنی جماعت کے صرف دوسرے افراد کو پیش کرتا ہوں خود مباہلہ کرنے پر آمادہ نہیں.یہ ایسی غلط بات ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا اس سے بڑھ کر غلط بات اور بھی کوئی ہو سکتی ہے.میرے خطبات کو پڑھ لیا جائے میں نے متواتر وضاحت کے ساتھ مباہلہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور نہ صرف اپنے آپ کو پیش کیا ہے بلکہ کہا ہے کہ میرے بھائی بھی اس مباہلہ میں شامل ہو نگے.پھر نہ صرف اپنے متعلق اور اپنے بھائیوں کے متعلق میں نے کہا ہے کہ وہ اس مباہلہ میں شریک ہوں گے بلکہ میں نے یہ بھی کہا ہے کہ میری بیویاں اور میرے بچے بھی اس مباہلہ میں شمولیت اختیار کریں گے.خواہ مجلس مباہلہ کے اندر وہ نہ لائے جائیں.اسی طرح میں نے ان کے بیوی بچوں کی شمولیت بھی مباہلہ میں ضروری قرار دی ہے چنانچہ مباہلہ کی دعا جو میں نے تجویز کی تھی وہ یہی تھی کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو.اگر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں، آپ کو خاتم المنتہین نہ سمجھتے ہوں ، آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی

Page 580

خطبات محمود ۵۷۵ سال ۱۹۳۵ء ہدایت و راہنمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں اور ان کے لئے یہ دعا کھی گئی تھی کہ وہ کہیں اے خدا ! ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی توہین کرنے والے ہیں.اے خدا ! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر.اس کے بعد احرار کا یہ کہنا کہ شرائط مباہلہ میں عورتوں اور بچوں کا شامل ہونا بھی ضروری ہے یا خود شامل ہونے سے احتراز کیا گیا ہے ، میں نہیں سمجھ سکتا اپنے اندر کیا مفہوم رکھتا ہے.مباہلہ میں شامل ہونے والا اول وجود میرا ہوگا اور سب سے پہلا مخاطب میں اس دعوت مباہلہ کا اپنے آپ کو ہی سمجھتا ہوں اور نہ صرف میں خود مباہلہ میں شامل ہوں گا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام بالغ اولاد جو آسانی سے جمع ہو سکتی ہو اس مباہلہ میں شامل ہو گی.اور ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے گا کہ اے خدا ! ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہرگز ہرگز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں کی بلکہ آپ کی عزت کو دنیا میں قائم کیا.اے خدا! اگر ہم اپنے اس دعوی میں جھوٹے ہیں تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اپنا عذاب نازل کر.دوسرے لوگوں کو صرف زائد طور پر شامل کیا گیا ہے اور ان کے شامل کرنے کی کئی وجوہ ہیں جن میں سے ایک میں اس وقت بیان کرتا ہوں.اول یہ کہ ہر مباہلہ کا نتیجہ ایسا گھلا اور روشن ہونا چاہئے اور اس کا اثر اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ وہ اپنے اندر خاص اہمیت رکھے.رسول کریم ﷺ نے بھی مباہلہ کا ارادہ کیا تو ایک قوم کے نمائندوں کے ساتھ.لیکن احرار کو تو کسی نے اپنا نمائندہ قرار نہیں دیا.یہ تو آپ ہی آپ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ بن گئے ہیں جیسے پنجابی میں ضرب المثل ہے ” آپے میں رجی جی آپے میرے بچے جیون “ یہ بھی خود بخود اپنے آپ کو مسلمانوں کے نمائندے قرار دینے لگ گئے ورنہ کب یہ مسلمانوں سے ووٹ لینے گئے اور کب مسلمانوں نے ان کو اپنا نمائندہ سمجھا.زیادہ سے زیادہ ان کی طرف سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ ہماری بیعت میں شامل ہوئے مگر ان کی بیعت کی حقیقت جو ہے وہ آجکل سب پر ظاہر ہوگئی ہے.ہماری جماعت کو دیکھ لو، کتنی شدید مخالفت ہوئی مگر اتنی مخالفت کے باوجود کتنے ہیں جو بیعت سے پھرے.اس کے مقابلہ میں ان کی بیعت کرنے والوں کا یہ حال ہے کہ یا تو مولوی عطا اللہ صاحب جلسہ میں کھڑے ہو کر جب اعلان کرتے کہ بیعت کے لئے ہاتھ کھڑے کر دو تو اکثر سامعین اپنے ہاتھ

Page 581

خطبات محمود ۵۷۶ سال ۱۹۳۵ء کھڑے کر دیتے یا آج انہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں جو تیاں پکڑی ہوئی ہیں اور احرار کو مارنے کیلئے بے تاب پھرتے ہیں.بھلا یہ بھی کوئی بیعت ہے اور کیا اس قسم کی بیعت کی کسی عقلمند کے نزدیک ذرہ بھر بھی وقعت ہو سکتی ہے.(اس موقع پر ایک رقعہ پیش کیا گیا جسے پڑھ کر فر مایا کہ شیخ بشیر احمد صاحب یہاں موجود ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہماری طرف سے بڑے بڑے پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعہ مباہلہ کا چیلنج دُہرایا گیا لیکن احرار کی طرف سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا ) پس ان کی بیعت اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی بلکہ بیعت کرنے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ بیعت کا مفہوم کیا ہے اور اگر وہ بیعت کا مفہوم سمجھتے ہیں تو بتا ئیں بیعت کے بعد انہوں نے کیا قربانی کی.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تو ہم دیکھتے ہیں ادھر ایک شخص نے بیعت کی اُدھر اسے اپنا وطن چھوڑ نا پڑا ،عزیز واقارب سے علیحدہ ہونا پڑا، گالیاں سننی پڑیں ، پھر نئی قسم کی عبادتیں کرنی پڑیں.دن رات میں پانچ وقت بلکہ آٹھ وقت شراب پینے والے کو پانچ وقت بلکہ نوافل ملا کر آٹھ وقت نمازیں پڑھنی پڑتیں.لوٹ مار سے اپنا پیٹ پالنے والوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے مالوں سے زکوۃ نکالو.حرام خوری کرنے والوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اپنے حلال رزقوں کو بھی بعض اوقات اپنی ذات پر خرچ نہ کرو.آزادی کا دم بھرنے والے جو اتنا بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ان کی ماں سے کوئی شخص کوئی چیز اٹھوا بھی لے.ان سے یہ اقرار لیا گیا کہ وہ پورے طور پر بنی نوع انسان کے ہمدرد اور خیر خواہ رہیں گے اور خدا کی غلامی میں ہمیشہ اپنی عمر بسر کریں گے.غرض بیعت کرنے کے بعد ہر شخص کو قربانی کرنی پڑتی تھی اور سب کو وہ قربانی نظر آتی تھی.اب بھی ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کو اہم قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور ہر ایک شخص ان قربانیوں کو جانتے ہوئے بیعت کرتا ہے اور عملاً قربانی کر کے بیعت کی سچائی کا ثبوت دیتا ہے.مثلاً ان لوگوں کو رشتہ دار چھوڑنے پڑتے ہیں کفر کے فتوے سننے پڑتے ہیں ، مالی ایثار سے کام لینا پڑتا ہے ، ملازمتوں ، جائدادوں ، عزتوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں ہاتھ کھڑے کر کے کونسی قربانی کرنی پڑتی ہے.اسی لغو بیعت کا نتیجہ یہ ہے کہ یا تو وہ بیعت میں اپنے ہاتھ کھڑے کیا کرتے تھے یا اب انہی کو بُرا بھلا کہتے ہیں پس اس قسم کی بیعت کو پیش کر کے کہنا کہ ہم آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے ہیں بالکل غلط بات ہے.وہ جن کی نمائندگی کا انہیں ادعا ہے، وہ تو بیچارے یہ بھی نہیں جانتے کہ بیعت کیا چیز ہوتی ہے اور بیعت کے بعد انسان پر کیا ذمہ داریاں عائد

Page 582

خطبات محمود ۵۷۷ سال ۱۹۳۵ء ہو جاتی ہیں.دیکھ لو میں نے تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے نوجوانوں سے مطالبہ کیا کہ آؤ اور اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو.اس پر بیسیوں نہیں سینکڑوں نو جوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.گریجوایٹوں کو پندرہ پندرہ روپیہ ماہانہ ملتا ہے اسی میں انہیں کھانا پینا اور دیگر ضروریات کو پورا کرنا پڑتا ہے مگر اس قلیل سی رقم پر وہ ہندوستان سے باہر جاتے اور تبلیغ اسلام کرتے ہیں.جہاں غریب سے غریب آدمی کا بھی تھیں چالیس روپیہ سے کم میں گزارہ نہیں ہو سکتا.ذرا آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کو اپنی بیعت میں شامل رکھنے کا ادعا کرنے والے بھی تو اس قسم کا اعلان کر دیکھیں پھر انہیں خود بخو د نظر آ جائیگا کہ کتنے آدمی ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں.یا مثلاً میں نے اعلان کیا کہ آؤ اور چندہ دو اور میں نے ساتھ ہی کہا کہ ابھی وہ اہم زمانہ نہیں آیا جس میں اس سے بہت زیادہ مالی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائیگا.لیکن میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی اپیل کی اور جماعت نے ایک لاکھ آٹھ ہزار روپیہ کے وعدے کئے.جن میں سے ۸۲ ہزار سے کچھ زیادہ روپیہ وصول ہو چکا ہے اور ابھی میعاد ختم نہیں ہوئی.۲۲ نومبر کو میں نے یہ اعلان کیا تھا جس کے ماتحت ابھی ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ رہتا ہے بلکہ قریبا دو مہینے ابھی باقی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک وعدے پورے ہو جائیں گے.غرض یہ وہ قربانی ہے جو ہر ایک کو نظر آ سکتی ہے ایک چھوٹی سی جماعت جسے چھپن ہزار کہا جاتا ہے اگر وہ ایک لاکھ آٹھ ہزار کا وعدہ کر سکتی ہے حالانکہ وہ غرباء کی جماعت ہے اُمراء کی نہیں تو وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ ہیں اور اگر یہ صحیح ہے کہ آٹھ کروڑ مسلمان ان کی بیعت میں شامل ہیں تو چاہئے تھا وہ اس رقم سے سولہ سو گئے زیادہ رقم یعنی سولہ کروڑ روپیہ جمع کرنے کا وعدہ کرتے جیسا کہ ہماری جماعت نے صرف تین مہینوں میں کیا.اور پھر اب تک ۱۳ کروڑ روپیہ ان کے خزانہ میں جمع ہو جاتا.مگر کیا ان کی بیعت کرنے والوں نے اس قسم کی کوئی قربانی کی.وہ خود مانتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے ، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ احمدیوں کو مختلف مقامات میں مارا پیٹا اور ذلیل کیا گیا ہے گویا ان کے نزدیک بھی احمدی ہونا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ کولہو میں سر د ینے والی بات ہے لیکن باوجود ان مشکلات و شدائد کے جماعت کا قربانی کرنا بتا تا ہے کہ ان کی بیعت اور ہماری بیعت میں فرق ہے وہاں بیعت کا صرف اتنا ہی مفہوم ہے کہ جلسہ میں ہاتھ کھڑے کر دیئے اسی لئے کل تک وہ اپنے آپ کو بیعت میں شامل قرار دیتے تھے

Page 583

خطبات محمود ۵۷۸ سال ۱۹۳۵ء اور آج انہیں مارنے دوڑتے اور سخت بُرا بھلا کہتے ہیں.مولوی عطا اللہ صاحب نے حال ہی میں گوجرانوالہ میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا را ولپنڈی میں میری سخت بے عزتی کی گئی ہے اور میری بچی اور ماں کا نام لے لے کر سر بازار نہایت گندی گالیاں دی گئی ہیں ایسی گندی گالیاں کہ میں بیان بھی نہیں کر سکتا.یہ گالیاں دینے والے وہی تھے جو گل مولوی عطا اللہ صاحب کی بیعت میں شامل تھے گویا احرار نہ لوگوں کے اخلاق درست کر سکے اور نہ انہیں بیعت کا حقیقی مفہوم سمجھا سکے.پس ان کی نمائندگی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.وہی جو آج احرار کو گالیاں دے رہے ہیں اگر کل احرار پر عذاب آیا تو کہہ دیں گے ہمارا ان سے کیا واسطہ اور ہمارے لئے ان کی رُسوائی کس طرح محجبت ہو سکتی ہے.پس اس نقص کے ازالہ کے لئے ضروری ہے کہ پانچ سو یا ہزار آدمی مباہلہ میں شامل کیا جائے تا جب اللہ تعالیٰ کا عذاب اُترے تو لاکھوں نہ سہی ہزاروں گھروں میں یہ شور تو بچ جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کا یہ نتیجہ ہے.ہزار نہ ہی پانچ سو آدمی ہی مباہلہ کے لئے نکل آئے تو ہر ایک کے تئیں چالیس یا پچاس رشتہ دار ضرور ہوں گے.بیویاں، بچے ، بہنیں ،سالے، سالیاں ، پھوپھیاں ، خالائیں سب کو اگر ملا لیا جائے تو پانچ سو افراد کا اثر قریباً ۲۵ ہزار آدمیوں پر پڑتا ہے.علاوہ ازیں پانچ سو کی شمولیت یوں بھی لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.پس ضروری ہے کہ مباہلہ میں ہزار یا کم از کم پانچ سو افراد شامل ہوں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس شرط پر انہیں کیا اعتراض ہے.سنا ہے یہاں بھی انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا ہم پانچ سو یا ہزار آدمی تو لا سکتے ہیں مگر اس کی ضرورت کیا ہے میں کہتا ہوں اگر اس کی کوئی اور ضرورت نہ بھی سمجھی جائے تب بھی اس کا یہی بہت بڑا فائدہ ہے کہ اس طرح پتہ لگ جائے گا کہ آیا وہ لوگ جو ہمیں کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی بہتک کرتے ہیں ، اس دعوے میں پانچ سو آدمی بھی ان کے ساتھ شامل ہیں یا نہیں.یوں تو کئی عیسائی پادری اور ہندو پنڈت بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں توحید کی تعلیم نہیں پائی جاتی لیکن دوسرے ہندو اور عیسائی جانتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے.قرآن مجید نے ہی حقیقی تو حید کی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی اور اگر ان سے گفتگو کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں ہمارے پادری اور پنڈت زیادتی کرتے ہیں.اسی طرح ممکن ہے وہ جو ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں ، ان کے اس اعتراض میں پانچ سو بھی ان کے ہمنوا نہ ہوں.پس اگر پانچ سو آدمی وہ اکٹھا کر لیں تو ہم کہہ سکیں گے

Page 584

خطبات محمود ۵۷۹ سال ۱۹۳۵ء کہ چونکہ پانچ سو آدمی یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم ی کی ہتک کی اور انہیں اس بات پر اس حد تک یقین ہے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی لعنت لینے کے لئے بھی تیار ہیں.اس لئے یہ ایک اہم معاملہ ہے اور ضروری ہے کہ ان سے ہم مباہلہ کریں.لیکن اگر اور لوگ تو سامنے نہ آئیں اور وہ پانچ سات آدمی جن کی زندگیاں ہی لوگوں سے روپیہ بٹورنے میں خرچ ہو رہی ہیں تو صرف ان کا سامنے آنا کیا حقیقت رکھتا ہے پھر یہ پانچ سو آدمی لانے کی شرط صرف ان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے بھی ہے بلکہ ہماری جماعت کے لحاظ سے تو پانچ سو کی تعداد کم ہے اور اگر ہم چاہیں تو پانچ سو یا ہزار کیا دو ہزار تین ہزار بلکہ چار ہزار آدمی بھی لا سکتے ہیں.اس کے مقابلہ میں اگر ہم یہ شرط لگا دیں کہ قسم کھانے والے وہ ہونے چاہئیں جنہوں نے کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چار پانچ نہایت اہم کتابیں پڑھی ہوئی ہوں تو شاید اس کے نتیجہ میں احرار کے لیڈر بھی میدان سے بھاگ جائیں گے کیونکہ وہ عموماً دوسروں کے حوالوں پر انحصار رکھ کر اعتراض کر دیتے ہیں.خود کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے جیسا کہ کسی نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ قرآن مجید میں آتا ہے لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ ے نماز مت پڑھو.اور آیت کا اگلا حصہ نہیں پڑھتا تھا پس مباہلہ کے لئے پانچ سو یا ہزاروں آدمیوں کی موجودگی کی شرط لگانا ضروری ہے.ہاں اگر اس پر انہیں کوئی اعتراض ہے تو وہ اسے پیش کریں.رسول کریم ﷺ نے بھی جب مباہلہ کا ارادہ کیا تو قوم کے نمائندوں کے ساتھ کیا.چنانچہ روایات میں صاف آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر یہ لوگ مباہلہ کر لیتے تو نجران کی وادیوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اُترتا.مگر نجران والے اس میں شامل نہیں تھے تو ان کی وادیوں پر عذاب اُترنے کے کیا معنی تھے.پھر روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر مباہلہ ہوتا تو حضرت ابو بکر ، حضرت عمرؓ اور دیگر اعلیٰ حیثیت رکھنے والے صحابہ بھی بلوائے جاتے.کے پس اس معاملہ میں یہ کہنا کہ میں اپنے آپ کو الگ رکھتا ہوں لوگوں کو دھوکا وفریب میں مبتلاء کرنا ہے.میرا وجود سب سے مقدم ہے اور میں سب سے پہلے اس مباہلہ میں شامل ہونگا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ - کے یعنی امام ڈھال ہوتا ہے اور لڑائی میں پہلے وہ ہوتا ہے اور پیچھے دوسرے.قرآن مجید میں بھی جہاں جہاد کا حکم ہے وہاں اللہ تعالیٰ رسول کریم علی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے.یہ حکم خاص طور پر تیرے لئے ہے.ہاں تیرا فرض ہے کہ باقی لوگوں

Page 585

خطبات محمود ۵۸۰ سال ۱۹۳۵ء کو بھی تحریک کر اگر وہ شامل نہ ہوں گے تو تجھ پر گناہ نہ ہو گا تجھ پر ذمہ داری صرف اپنے وجود کی ہے پس امام امام نہیں ہو سکتا اگر وہ جنگ کے وقت پیچھے ہٹ جائے.اور میں تو اپنے خطبوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں کہ میں مباہلہ میں شامل ہوں گا ، میرے بھائی اس مباہلہ میں شامل ہونگے ، میری بالغ اولاد اور میری بیویاں اس مباہلہ میں شریک ہوں گی.چاہے مجلس میں موقع کے لحاظ سے وہ نہ آسکیں لیکن دعا میں وہ بھی شریک ہوں گی.اس کے علاوہ میں نے کہا تھا کہ پانچ سو یا ہزار آدمی ہونگے.اور ان کے لیڈروں کے پانچ سو یا ہزار آدمی ہونے چاہئیں تا معلوم ہو کہ ایک کثیر جماعت ایسی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہیں اور وہ یقین رکھتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ الزام کہ آپ نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے صحیح ہے یا غلط.ہماری جماعت اس الزام کو غلط قرار دے گی اور احرار اس الزام کو صحیح قرار دیں گے اور اس پر مباہلہ ہو جائے گا.اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لاہور یا گورداسپور کی تعیین کیوں کی جاتی ہے اس میں بھی کوئی بھید معلوم ہوتا ہے.مگر یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کوئی سرد ملک کا آدمی تھا وہ ایک دفعہ گرمی کے موسم میں دو پہر کے وقت باہر دھوپ میں بیٹھا تھا کہ ایک راہ گزرنے ایسی حالت میں اسے دیکھ کر کہا بھائی ! سایہ میں بیٹھ جاؤ.وہ کہنے لگا سایہ میں بیٹھ جاؤں تو مجھے کیا دو گے؟ میں نے تو ان پر احسان کیا اور ان کے ساتھ یہ رعایت کی کہ وہ ہمارے گھر میں نہ آئیں بلکہ ہم ان کے گھر پہنچ جائیں گے لیکن وہ کہتے ہیں اس میں بھی کوئی بات معلوم ہوتی ہے مباہلہ قادیان میں کیوں نہیں کر لیتے.میں کہتا ہوں میرا اس میں کوئی حرج نہیں بے شک وہ قادیان آ کر ہم سے مباہلہ کر لیں.میں نے تو ان کا فائدہ مدنظر رکھا تھا اور خیال کیا تھا کہ یہاں آنے کی انہیں تکلیف نہ اُٹھانی پڑے کیونکہ وہ کہتے رہتے ہیں کہ قادیان میں احمدیوں کی حکومت ہے اور یہاں ظلم ہوتا اور اندھیر مچا ہوا ہے پس میں نے انہیں اس ظلم سے بچانے کے لئے کہا تھا کہ لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کر لیا جائے اور اگر لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کرنے پر انہیں کوئی اعتراض ہے یا قادیان آ کر اپنی شان دکھانا مقصود ہے تو بے شک وہ قادیان آجائیں میری غرض تو شان دکھانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اپنی صداقت ظاہر ہو.اگر قادیان میں انہیں اپنی شان دکھانے کا موقع میسر آ سکتا ہے.یا لاہور اور گورداسپور میں مباہلہ ہونے پر انہیں کوئی خاص اعتراض ہے تو بے شک وہ قادیان آجائیں اور یہاں

Page 586

خطبات محمود ۵۸۱ سال ۱۹۳۵ء آکر مباہلہ کر لیں.باقی یہ بھی میں نے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریریں پڑھیں گے جن میں ان کے نزدیک رسول کریم علیہ کی ہتک کی گئی ہے اور پھر قتسم کھا کر کہیں گے کہ ان سے اگر رسول کریم ﷺ کی ہتک ثابت نہیں ہوتی تو ان پر عذاب نازل ہو.میرے نزدیک یہ بالکل درست بات ہے اور ان کا حق ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اس قسم کی تحریریں پڑھیں.ہیں پچیس منٹ میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایسی تحریرات پڑھ سکتے ہیں جن سے ان کے خیال میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ثابت ہوتی ہے.ہم ہیں چھپیں منٹ میں ان تحریروں کا جواب دے دیں گے یا ایسی تحریریں پڑھ دیں گے جن سے ان کی پیش کردہ تحریروں کی تشریح ہوتی ہو.پس یہ ان کا حق ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں.وہ انہی تحریرات کو سامنے رکھ کر مگر اُن کے سیاق وسباق کو ساتھ ملا کر مؤکد بعذاب قسم کھا سکتے ہیں مگر یہ ضروری ہے کہ تحریریں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہوں کسی اور احمدی کی نہ ہوں کیونکہ اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے.اور پھر ان کی غلطیوں کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے لیکن بہر حال دوسروں کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی.صرف وہی تحریر میں پیش ہونی چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی ہوں کیونکہ ان کے متعلق ایک لحظہ کے لئے بھی ہمیں یہ خیال نہیں آ سکتا کہ ان میں رسول کریم ﷺ کی ہتک کی گئی ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں خود اپنے کانوں سے سنیں.آپ کے طریق عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا روز وشب مشاہدہ کیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پڑھی جائیں یا نہ پڑھی جائیں ہم تو ہر تحریر کو مد نظر رکھتے ہوئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کو ظاہر ہونے کا موقع نہیں ملا ہر وقت قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم ﷺ کی توہین نہیں کی.بھلا آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی کوئی شبہ رہ سکتا ہے.منشی اروڑے خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور صحابی گزرے ہیں کپورتھلہ میں تحصیلدار تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے مولوی ثناء اللہ صاحب کپورتھلہ یا کسی قریب کے مقام پر گئے تو ان کے دوست انہیں بھی مولوی صاحب کی تقریر سنانے لے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی تقریر میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراضات کئے تو منشی اروڑے خان صاحب کے ساتھی

Page 587

خطبات محمود ۵۸۲ سال ۱۹۳۵ء بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بعد میں انہیں کہا آپ نے دیکھا مرزا صاحب پر کیسے کیسے اعتراض پڑتے ہیں.منشی صاحب کہنے لگے تم ساری عمر اعتراض کرتے رہو میں نے تو اپنی آنکھوں سے مرزا صاحب کو دیکھا ہے انہیں دیکھنے کے بعد اور اُن کی سچائی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد میں کس طرح تمہاری باتیں مان سکتا ہوں.ہماری جماعت میں ابھی تک سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے آپکی باتیں اپنے کانوں سے سنیں.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عشق کا معائنہ کیا جو آپ کو رسول کریم ﷺ کی ذات سے تھا.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جن کے دلوں میں رسول کریم ﷺ سے محبت و عشق کی لہریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام اور آپ کی قوتِ قدسیہ سے پیدا ہوئیں.اس کے بعد اگر ساری دنیا بھی متفق ہو کر یہ کہتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی تو بجز اس کے ہمارا کوئی جواب نہیں ہوسکتا کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اور ہم ہر وقت ہر میدان میں یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ خدا تعالیٰ کی شدید سے شدید لعنت ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر نازل ہوا گر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شمہ بھر بھی رسول کریم ﷺ کی بہتک کی ہو یا رسول کریم ﷺ کی ہتک کو کبھی برداشت کیا ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عاشق اِس اُمت میں پیدا ہو ا ہو.پس اس کے لئے ہمیں کسی قسم کی شرط کی ضرورت نہیں ، لمبی بحثیں کرنے کی حاجت نہیں.اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے پڑھنا چاہتے ہیں تو ہیں پچیس منٹ اس کے لئے کافی ہیں اور اتنا وقت انہیں دے دیا جائے گا.اور اتنے ہی وقت میں ہم جواب دیدیں گے اور اگر وہ زیادہ وقت کی خواہش کریں تو جس قدر مناسب وقت کی ضرورت ہو اُن کو دے دیا جائے گا اور اُسی قدر وقت میں ہم جواب دے دیں گے.پھر یہ غلط ہے کہ میں اس مباہلہ میں شامل نہیں ہوں گا، میں ضرور شامل ہونگا.یہ بھی غلط ہے کہ میرے بیوی بچے شامل نہیں ہوں گے وہ بھی ضرور شامل ہوں گے خواہ مجلس میں وہ شریک ہوں یا نہ ہوں.اسی طرح میرے بھائی بھی شامل ہوں گے ، سلسلہ کے ناظر شامل ہوں گے اور کم سے کم پانچ سو

Page 588

خطبات محمود ۵۸۳ سال ۱۹۳۵ء یا ہزار افراد بھی شامل ہوں گے.اگر مباہلہ میں لوگوں کو شریک کرنے کے لئے کوئی دقت پیش آئے تو انہیں آ سکتی ہے جن کی نمائندگی کا دعویٰ بے حقیقت ہے میرے پاس تو جماعتوں اور افراد کی تاریں آ رہی ہیں کہ ہمیں اس مباہلہ میں ضرور شریک کیا جائے.پس ہمارے لئے کسی قسم کی گھبراہٹ کی بات نہیں بلکہ اگر میرے مدنظریہ نہ ہوتا کہ ساری جماعت کو اس میں شریک کیا جائے تو قادیان سے ہی پانچ سو کیا ہزار دو ہزار بلکہ چار ہزار لوگ مباہلہ میں شریک ہونے کے لئے تیار ہو سکتے تھے لیکن میں چاہتا ہوں یہ ایک نمائندہ مباہلہ ہو جس میں احرار کے بھی منتخب کردہ لوگ ہوں اور ہماری جماعت کے بھی منتخب کردہ لوگ.آخر میں میں ان کی سہولت کیلئے ایک اور تجویز بھی بتا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ خواہ احرار خط و کتابت میں ابتداء نہ کریں ان تین اصحاب کا جنہیں میں نے نمائندہ مقرر کیا ہے یعنی چوہدری اسد اللہ خانصاحب بیرسٹر ، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مولوی غلام احمد صاحب ، اِن کا فرض ہے کہ وہ خود خط لکھ کر دفتر احرار میں بھجوائیں اور انہیں لکھیں کہ ہم ہر وقت تبادلۂ خیالات کیلئے تیار ہیں.جو شرائط احرار پیش کرنا چاہتے ہیں وہ پیش کریں تاکہ جلد سے جلد مباہلہ کی تاریخ اور مقام کی تعیین کا اعلان کیا جا سکے.پس بغیر اس کے کہ احرار کی طرف سے کسی تحریک کا انتظار کیا جائے ، ان تینوں اصحاب کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے خطبوں کی روشنی میں ایک خط لکھ کر دفتر احرار میں بھجوادیں اور جو شرطیں میں نے پیش کی ہیں وہ انہیں لکھ دیں لیکن ساتھ ہی وضا حنا یہ بھی بیان کر دیں کہ یہ آخری شرطیں نہیں اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط ایسی ہو جو انہیں بو جھل محسوس ہوتی ہو تو اُن کے دلائل سننے کے بعد میں ان شرائط میں بھی تبدیلی کرنے کے لئے تیار ہوں یا اگر کوئی زائد شرط ان کی طرف سے پیش ہو تو میں اس پر بھی غور کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں پس دونوں فریق کی ضرورتوں اور اس کے عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان شرطوں میں تبدیلی ہو سکتی ہے یہ آخری شرطیں نہیں.غرض وہ جلد سے جلد ان کو ایک پڑھی لکھ دیں اور یہ بھی تحریر کر دیں کہ انہیں مقام مباہلہ کی تعیین کا پورا پورا اختیار ہے چاہے وہ لاہور میں مباہلہ کر لیں چاہے گورداسپور میں کر لیں.اور اگر قادیان میں مباہلہ کرنے کا شوق ہو تو وہ خوشی سے قادیان تشریف لے آئیں بلکہ ہماری زیادہ خواہش یہ ہے کہ وہ

Page 589

خطبات محمود ۵۸۴ سال ۱۹۳۵ء ہمارے ہی مہمان بنیں ہم ان کی خدمت کریں گے ، انہیں کھانا کھلائیں گے ، ان کے آرام اور سہولت کا خیال رکھیں گے اور پھر ان کے سارے بوجھ اُٹھا کر انشَاءَ اللہ ان سے مباہلہ کریں گے.الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء) النساء : ۴۴ تفسیر در منثور للسیوطی جلد ۲ صفحه ۶۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۰ء السيرة المحمدية والحقيقة الاحمديه باب قدوم وفد نجران بخارى كتاب الجهاد باب يقاتل من وراء الامام و يتقى به ه فَقَاتِلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرّضِ الْمُؤْمِنِينَ (النساء : ۸۵)

Page 590

خطبات محمود ۵۸۵ سال ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ اور احرار کی جنگ کو احرار کی معافی یا موت ہی ختم کر سکتی ہے.ہم صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہیں (فرموده ۴ /اکتوبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الانفال کی درج ذیل آیات کی تلاوت کی.وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمُ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَمَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنَ السَّبِيْلِ إِنْ كُنتُمُ امُنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ التَقَى الْجَمَعَانِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ إِذْ اَنْتُمُ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمُ بِالْعُدْوَةِ الْقُصُوى وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَا خَتَلَفْتُمْ فِى الْمِيْعْدِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ أَنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ إِذْ يُرِيْكَهُمُ اللهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيْلًا وَلَوْ أَرَكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الأمْرِ وَلكِنَّ الله سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمُ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيْلاً وَ يُقَتِلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ پھر فرمایا :.

Page 591

خطبات محمود ۵۸۶ سال ۱۹۳۵ء وہ ترقیات جو ترقی کہلانے کی مستحق ہوتی ہیں سب کی سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہیں اور ان میں انسانی ہاتھ محض دکھاوے کے لئے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان بھی خوشی محسوس کرے کہ اس نے بھی کوئی کام کیا ہے جیسے ہر شخص جس کے گھر میں بچے ہوں جانتا ہے کہ جب ماں باپ کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو بچہ بھی ساتھ شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے.ماں باپ اُس کا ہاتھ بھی لگوا لیتے ہیں اور بچہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کام اُس نے کیا ہے.مثلاً ماں باپ میز یا کرسی اٹھانے لگتے ہیں تو بچہ دوڑا آتا ہے اور کہتا ہے میں اُٹھاؤں گا.اس پر ماں باپ اس کا ہاتھ بھی ساتھ لگا لیتے ہیں بچہ خوش ہو جاتا ہے اور ماں باپ اس کی خوشی سے خوش ہوتے ہیں حالانکہ اُٹھانے والے ماں باپ ہی ہوتے ہیں.اسی طرح حقیقی ترقیات میں کام کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر بندہ کی خوشی دیکھنے کے لئے اُسے کہ دیتا ہے کہ تم بھی ساتھ شامل ہو جاؤ اور بندہ اسی پر خوشی سے ناچنے لگ جاتا ہے کہ میں نے کام کیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے ایسے کاموں میں جو کامیابیاں ہوتی ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہے کہ جیسے کھیتی کاٹنے والا جب کاٹ کر لاتا ہے تو کچھ حصہ خود استعمال کر لیتا ہے اور کچھ پیج کے لئے رکھ چھوڑتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کر رکھا ہے کہ ایسے کاموں میں جو انعام ملے اس میں سے کچھ حصہ پیج کے طور پر رکھ دو.مگر بات وہی کی ہے جو ماں باپ کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت بندوں سے اُس محبت سے بہت زیادہ ہے جو ماں باپ کو بچوں سے ہوتی ہے بچہ صرف ہاتھ لگا دیتا ہے تو ماں باپ کہتے ہیں کہ بڑا بہادر ہے ہم نے تو صرف مدد کی تھی سب کام تو اس نے کیا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی بندے کی تھوڑی سی محنت کو قبول کرتا ہے اور وہ کام اپنے بندے کے کھاتے میں لکھ دیتا ہے اور اپنے لئے اس کا صرف پانچواں حصہ رکھا ہے.چنانچہ ان آیات میں جو میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بھی غنیمت کے طور پر تمہیں کوئی چیز ہاتھ آئے تو سمجھو کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا پانچواں حصہ ہے.اس طرح بندے کو خوش کیا ہے کہ چار حصہ کامیابی کے تم مستحق ہو باقی جو خدا کا حصہ ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کو نہیں جاتا کیونکہ وہ مادی تعلقات سے پاک ہے صرف اپنے بندے کے ساتھ اپنی شرکت کے اظہار کے لئے فرماتا ہے کہ اس میں چار حصے تمہارے ہیں اور ایک حصہ ہمارا ہے ورنہ وہ حصہ بھی دوسری شکل میں بندے ہی کو دے دیتا ہے.

Page 592

خطبات محمود ۵۸۷ سال ۱۹۳۵ء پُرانے زمانہ میں بادشاہوں کا دستور ہوتا تھا کہ وہ بعض مواقع پر جبری نذریں لیتے تھے اور مقرر کر دیتے تھے کہ فلاں اتنی نذر دے لیکن صرف اُسے چُھو کر واپس کر دیتے تھے اللہ تعالیٰ کی نذر بھی ایسی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کا ہے مگر وہ بھی بعد میں بندوں کی طرف کوٹ جاتا ہے.پہلے رسول کے پاس، پھر اُس کے توسط سے ذوی النثر بی، بیتامی وغیرہ کے پاس چلا جاتا ہے گو یا اللہ تعالیٰ بندے کی نذر کو قبول کرتا ہے.مگر اس طرح کہ ہاتھ لگا کر چھوڑ دیتا ہے.اور فرماتا ہے کہ یہ ہم نے نشان قائم کیا ہے.ایک بات کا جس کا اسلام میں ظہور ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا وہ کیا ہے؟ فرمایا اِنْ كُنْتُمُ امَنتُم بِاللَّهِ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ التَقَى الْجَمْعَانِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یہ ایک نشان ہے.جس طرح ابراہیمی نسل کا نشان ختنہ تھا اسی طرح امت اسلامیہ کا نشان یہ ہوگا کہ خدا نے جس طرح بدر میں نشان ظاہر کیا ہے اسی طرح ہمیشہ کرتا رہے گا اگر مسلمان خدا تعالیٰ کا حصہ شامل رکھیں گے.یہاں بے شک ظاہری جنگ مراد ہے اور جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے مگر بعض صوفیاء نے اسے جنگ سے علیحدہ بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ اگر کہیں سے بھی بغیر محنت کے مال مل جائے تو اس کا ۵/۱ حصہ بھی دے دینا چاہئے.اور بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر مال مال غنیمت ہے کیونکہ انسان اپنے گھر سے تو کچھ نہیں لایا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ہے سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے آپ نے اقل ترین وصیت دسویں حصہ کی رکھی ہے مگر یہ بھی دراصل پانچواں حصہ ہی ہے اس لئے کہ اس کے ساتھ اور بھی رقوم ہیں جیسے زکوۃ ، صدقات اور خاص چندے وغیرہ ہیں دراصل آپ نے ایک خاص شعبہ کے لئے دسواں حصہ مقرر کیا ہے ورنہ یہ پانچواں ہی بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ نشان قرار دیا ہے کہ آئندہ بھی مسلمانوں کے لئے ایسے مواقع پیش آئیں گے.ایک طرف ان کے دشمن ہوں گے خواہ کفار خواہ بظاہر مسلمان کہلانے والے لیکن دل میں اللہ تعالیٰ سے بے تعلق اور دوسری طرف خالص مؤمن یار حزب اللہ اور مؤمنوں کو خدا کی نصرت کی ایسی ہی ضرورت پیش آئے گی جیسی بدر کے موقع پر صحابہ کو تھی.بدر میں مسلمان تعداد میں بہت کم تھے اور کفار بہت زیادہ.کفار کے پاس بہت ساز وسامان تھا اور یہ بالکل بے سروسامان تھے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آئندہ بھی ایسے

Page 593

خطبات محمود ۵۸۸ سال ۱۹۳۵ء مواقع پیش آئیں گے کہ اسلام کے بچے خادم بہت تھوڑے ہوں گے اور اسلام کی بہتری سے غفلت کرنے والے نام نہاد مسلمان یا بعض صورتوں میں ظاہر و باطن میں اسلام سے بیزار کفار بڑی تعداد میں ان کے مقابل پر کھڑے ہوں گے اور ان کے کام میں روک بنیں گے پھر اُس وقت اسلام کے خادموں کے پاس ساز و سامان بھی کافی نہ ہوگا.اور ان کے دشمن پوری طرح مسلح ہوں گے.اور ہر قسم کا سامان ان کے پاس ہو گا.خدام اسلام صرف دفاع کر رہے ہونگے اور ان کے دشمن ظالمانہ طور پر حملہ کر رہے ہوں گے.جیسے بدر کے موقع پر صحابہ کی نیت لڑائی کی نہ تھی مسلمان صرف مدینہ کی حفاظت کے خیال سے باہر گئے تھے اور بظاہر کوئی امید نہ تھی کہ جنگ ہو گی حتی کہ جب اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت جنگ کے سامان ہوئے اور معلوم ہوا کہ اب جنگ سے گریز کی کوئی صورت نہیں ہے تو اُس وقت رسول کریم ﷺ نے مشورہ کیا.آپ کو الہا ما بھی بتایا گیا اور ظاہری حالات سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ جنگ ہو گی.اس لئے آپ نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ کیا تجویز ہے ؟ اس پر مہاجرین نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ہم پر بہت ظلم کئے گئے ہمیں گھروں سے نکالا گیا اور قتل کیا گیا اب کیا انتظار ہے، ہمیں اجازت دیں کہ لڑیں.مگر آپ نے متواتر فرمایا کہ لوگو مشورہ دو.کئی مہاجر کھڑے ہوئے اور اس قسم کی باتیں کیں مگر آپ نے ہر ایک کے بعد یہی فر ما یا لوگو ! مشور ہ دو.انصار نے خیال کیا کہ کفار مہاجرین کے قریبی رشتہ دار ہیں.کوئی کسی کا بھائی ہے کوئی باپ ، کوئی ماموں ، کوئی چا، کوئی پھوپھا، کوئی خالو ، کوئی بہنوئی کوئی داماد وغیرہ اگر ہم نے کہا کہ ضرور لڑائی ہونی چاہئے تو مہاجرین یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارے رشتہ داروں کو مارنا چاہتے ہیں.وہ بُزدلی کی وجہ سے خاموش نہیں تھے بلکہ اخلاص کے باعث خاموش تھے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے کہا ہماری تلوار میں نیا موں میں تڑپ رہی ہیں تو مہاجر ہمارے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ یہ ہمارے رشتہ داروں کو قتل کرنے پر خوش ہیں ، اس لئے وہ خاموش رہے مگر رسول کریم ﷺ ان سے بھی مشورہ لینا چاہتے تھے کیونکہ ان سے معاہدہ یہی تھا کہ وہ مدینہ میں آپ کا ساتھ دیں گے لیکن مدینہ سے باہر نہیں.اس لحاظ سے آپ چاہتے تھے کہ ان کا منشاء بھی معلوم کریں تا اگر وہ اپنے اس معاہدہ پر عمل کرنا چاہیں تو انہیں واپس بھیج دیا جائے اور اگر شامل ہوں تو آپ پر معاہدہ کی خلاف ورزی کا الزام نہ آ سکے اس لئے آپ نے جب بار بار یہی فرمایا کہ لوگو ! مشورہ دو تو انصار نے خیال کیا کہ شاید رسول کریم ﷺ ہماری خاموشی کا مطلب نہیں سمجھے.تب

Page 594

خطبات محمود ۵۸۹ سال ۱۹۳۵ء ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ کیا آپ کی مراد ہم سے ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر اُس نے کہا ہم تو اس لئے خاموش تھے کہ یہ مہاجرین کے بولنے کا موقع ہے ورنہ اگر آپ ہم سے ہی مشورہ لینا چاہتے ہیں تو بے شک آپ سے یہی معاہدہ تھا کہ ہم آپ کی مدینہ میں حفاظت کے ذمہ دار ہیں یا مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں مدافعت کرنا ہمارا فرض ہے لیکن یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم نے آپ کو دیکھا نہ تھا اور پہچانا نہ تھا اب کہ آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے اور ہم نے خدا تعالیٰ کا کلام آپ سے سنا اب تو اس قسم کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا یہ سامنے سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیں تو ہم بلا چون و چرا اس میں گھوڑے ڈال دیں گے.اور اگر جنگ ہوئی تو ہم آپ کے آگے لڑیں گے پیچھے لڑیں گے دائیں لڑیں گے بائیں لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ ہماری لاشوں پر سے گزر کر نہ آئے بلکہ ہمیں تو افسوس ہے کہ ہمارے بعض بھائی مدینہ میں ہیں انہیں لڑائی کا علم نہ تھا ورنہ وہ بھی ثواب میں شریک ہوتے.سے یہ وہ جنگ تھی جس میں مکہ والوں کو یقین تھا کہ مسلمانوں کو بالکل مٹادیں گے.حتی کہ جب رشتوں کے خیال سے ان میں سے ہی بعض نے صلح کی کوشش کی تو ابو جہل نے ایک شخص کو جس کا بھائی پہلے کسی وقت مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ نگا ہو کر پیٹنے لگے.یہ عربوں میں ایک رواج تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا خاندان تباہ ہو گیا.یہ ایک ایسی بات تھی جسے عرب برداشت نہ کر سکتے تھے.ابوجہل نے ایسا اس خیال سے کرایا کہ اسے یقین تھا کہ آج مسلمانوں کے بچنے کی کوئی صورت نہیں اس لئے وہ چاہتا تھا کہ جنگ ضرور ہو.وہ جانتا تھا کہ مسلمان تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور بغیر تیاری کے آئے ہیں اس لئے ان کو مٹانا آسان ہو گا.مگر ہو ا کیا ؟ یہ کہ وہی شخص جو سمجھتا تھا کہ آج مسلمانوں کو نابود کر دیا جائے گا سب سے پہلے مارے جانے والوں میں سے تھا.ابھی صف بندی ہو رہی تھی اور باقاعدہ لڑائی شروع نہ ہوئی تھی صرف مبارز طلب کئے جا رہے تھے کہ سترہ سترہ سال کے دو بچے جنہوں نے سُن رکھا تھا کہ ابو جہل نے رسول کریم ﷺ پر بہت ظلم کئے ہیں.رسول کریم ﷺ دو سال سے مدینہ میں پر تھے اور ایک سال پہلے اسلام مدینہ میں آیا تھا اور اس طرح وہ ۱۴ سال کی عمر سے ہی یہ سن رہے تھے کہ اہلِ مکہ خصوصاً ابو جہل رسول کریم ﷺ پر بہت ظلم کرتا ہے انہوں نے اسے مار دیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور بڑے بہادر تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے جب اپنے دائیں

Page 595

خطبات محمود ۵۹۰ سال ۱۹۳۵ء بائیں ان لڑکوں کو دیکھا تو میرے دل میں خیال گزرا کہ میں آج کچھ نہیں کر سکوں گا.بہادر لوگ پسند کرتے تھے کہ اُن کے دائیں بائیں بہادر لوگ ہی ہوں تا وہ جب آگے بڑھ کر حملہ کریں تو پشت کی طرف سے اُن پر کوئی حملہ نہ کر سکے.حضرت عبد الرحمن کا بیان ہے کہ میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ اگر میں دشمن پر حملہ کر کے اس کی صفوں میں کھس جاؤں تو میری پشت کون بچائے گا کہ دائیں طرف سے میرے گہنی لگی میں نے مُڑ کر دیکھا تو اُس طرف کھڑا ہوا انصاری لڑکا کہنے لگا چچا ! وہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم ﷺ کو اس قدر دکھ دیتا رہا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اسے ماروں.مگر بیشتر اس کے کہ میں اُسے کوئی جواب دیتا ، بائیں طرف سے کہنی پڑی اور جب میں نے اُس طرف مڑ کر دیکھا تو دوسرے لڑکے نے یہی سوال کیا کہ چا! وہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا دل چاہتا ہے کہ اسے میں قتل کروں.ان کا بیان ہے باوجود اس کے کہ میں بڑا تجربہ کارسپاہی تھا اور عرب کے لوگ میری بہادری کو مانتے تھے مگر ابو جہل کو مارنے کا خیال میرے دل میں بھی نہ آیا تھا.اس لئے میں نے اُن کی اس بات کو بچپن کا دعویٰ سمجھا اور اشارہ سے بتا دیا کہ ابو جہل وہ ہے جس کے آگے دو بہادر سپاہی تلوار میں لئے کھڑے ہیں.وہ کہتے ہیں ابھی میرے منہ سے یہ فقرہ پورے طور پر نکلنے بھی نہ پایا تھا کہ وہ دونوں لڑکے اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے گود کر اُس پر حملہ آور ہوئے اور قبل اس کے کہ محافظ سنبھل کر مدافعت کر سکیں انہوں نے ابو جہل کو قتل کر ڈالا.محافظوں نے حملہ تو کیا مگر ایک کا وار خالی گیا اور ایک نے ایک لڑکے کا ہاتھ کاٹ ڈالا مگر انہوں نے ابو جہل کو مار ڈالا.اور اس طرح پیشتر اس کے کہ باقاعدہ لڑائی شروع ہو کفار کا کمانڈر مارا گیا.یہ ہے یوم الفرقان جب اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دیا کہ اسلام اسلام ہے اور کفر گفر.اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ایسا نشان پھر نظر آئے تو چاہئے کہ غنیمت میں سے خدا تعالیٰ کا حصہ رکھو.گویا یہ بیج ہے جس کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہو سکتی.جس طرح وہ زمیندار جو بیچ نہیں رکھتا دوبارہ فصل نہیں کاٹ سکتا اسی طرح جو غنیمت میں سے پانچواں حصہ خدا تعالیٰ کا نہ رکھے وہ کوئی ترقی حاصل نہیں کر سکتا.بعض قربانیوں میں اللہ تعالیٰ غریب امیر سب کا مساوی حصہ چاہتا ہے بعض لوگ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ فلاں شخص امیر اور آسودہ حال ہے اور فلاں غریب ہے اس میں شک نہیں کہ شمس غریب کے لئے بڑا بوجھ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے بعض قربانیوں میں مساوات رکھی ہے گو اس میں بھی شبہ نہیں کہ جس کے

Page 596

خطبات محمود ۵۹۱ سال ۱۹۳۵ء لئے وہ قربانی زیادہ مشکل ہوگی اتنا ہی ثواب اسے زیادہ حاصل ہوگا پھر فر ما یا إِذْ اَنْتُمُ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصُوَى وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمُ لَاخْتَلَفْتُمُ فِي الْمِيْعِدِ وَلَكِن لِيَقْضِيَ اللهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا.تمہارے اور ان کے مابین ٹکراؤ کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی تم وادی کے ایک طرف تھے اور وہ دوسری طرف.وہ قافلہ جس کی حفاظت کے لئے وہ آئے تھے ، نکل گیا تھا.اور اب ان کا کوئی INTEREST لڑائی میں نہ تھا جنگ کی کوئی صورت نہ تھی اور بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ لڑائی نہیں ہوگی اور وہ لوگ اپنے گھروں کو چلے جائیں گے.اور فرمایا.وَلَوْ تَوَاعَدْتُمُ لَا خَتَلَفْتُمْ فِى الْمِيْعِدِ.اگر تم سے پوچھا جاتا کہ کب لڑائی ہو تو تم یہی کہتے کہ ابھی کچھ عرصہ تک نہیں ہونی چاہئے تا اس عرصہ میں ہم زیادہ طاقتور ہو جائیں.مگر فرمایا وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لیکن اللہ تعالیٰ وہی بات کرتا ہے جو اُس کی مشیت اور اُس کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہو اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہو کر فتح پاتے تو خدا کا ہاتھ کہاں دکھائی دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سلطان عبد الحمید کی ایک بات کا اکثر ذکر فرماتے.اور فرمایا کرتے کہ اُس کی یہ بات مجھے بہت ہی پیاری لگتی ہے.باوجود اس کے کہ آپ ترکوں کی حالت پر شا کی تھے کہ وہ دین کی طرف توجہ نہیں کرتے مگر اس بات کو آپ بہت ہی پسند فرماتے تھے کہ جب جنگ یونان یا شاید کوئی اور جنگ ہونے لگی تو سلطان نے اپنے جرنیلوں کو مشورہ کے لئے بلایا وہ لوگ چونکہ غدار تھے اور یورپ کی سلطنتوں سے رشوتیں لے چکے تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ فلاں سامان ہے ، فلاں ہے اور پھر آخر میں کسی اہم چیز کا نام لے کر کہہ دیا کہ وہ نہیں.مطلب یہ تھا کہ اس کے نہ ہونے کی صورت میں سلطان لڑائی پر کیسے آمادہ ہو گا.لیکن سلطان نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ کوئی خانہ تو خدا کے لئے بھی خالی رہنے دو اور چلولڑائی شروع کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرمایا کرتے تھے کہ سلطان کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے.تو جنگِ بدر کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کا خانہ خالی رہے.اور کوئی مقام ایسا ہو جہاں سے وہ اپنے دشمنوں پر حملہ کر سکے.مسلمان تو چاہتے تھے کہ سب کچھ ہم ہی کریں لیکن خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ میرا بھی حصہ ہو اور اس طرح گویا مؤمن اور خدا میں محبت کی بحث تھی ہاں جو لوگ مخلص نہیں ہوتے وہ یہی کہتے ہیں کہ سارا خدا کرے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہہ دیا کہ اِذْهَبُ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ جاتو اور تیرا رب لڑتے پھر وہم تو یہاں بیٹھے

Page 597

خطبات محمود ۵۹۲ سال ۱۹۳۵ء ہیں لیکن خالص مسلمانوں نے کہا ہم موسٹی کے صحابہ والا جواب نہیں دیں گے.بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے لڑیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم بھی چاہتے تھے کہ اس میں شامل ہوں اور اگر تمہارے پاس ساز وسامان ہوتا اور تعداد بھی کافی ہوتی تو پھر تو ساری لڑائی تم ہی کر دیتے ہم کیا کرتے.اس لئے ہم نے ایسے سامان کئے کہ تمہیں بے سامان ہی لڑا دیا.اگر تم سے پوچھا جاتا تو تم یہی کہتے کہ ابھی موقع نہیں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ بات کرے جس کے کرنے کا وہ فیصلہ کر چکا تھا یعنی اس دن کو یوم الفرقان بنائے کیوں؟ فرمایا.لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ.تا ہلاک ہونے والا بھی ہمارے نشان سے ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا بھی ہمارے نشان سے زندہ ہو.ہمارا نشان جس کے خلاف پڑے وہ مرے اور جس کی تائید میں ہو وہ زندہ ہو اس لئے ایسے وقت میں یہ لڑائی کرا دی کہ فتح بندوں کی طرف منسوب ہو ہی نہ سکتی تھی.یہی آیت ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے میں نے آج اس رکوع کی تلاوت کی ہے.آج بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیا لڑائی شروع ہو گئی ہے.کئی لوگ ہمیں مشورہ دیتے ہیں کہ یہ موقع مناسب نہیں آپ ہی خاموش ہو جائیں.کئی افسر بھی ہمارے دوست ہیں ہمیں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ لوگ ذرا خاموش ہو جائیں مگر سوال تو یہ ہے کہ اب ہمیں خاموش ہو نے کون دیتا ہے ہم نے تو یہ لڑائی شروع ہی نہیں کی.احرار نے کی یا حکومت نے کی مگر جس نے بھی کی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت کی اور وہ مشیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہمیں ایسے وقت میں دشمن سے لڑا دے جب ہم بالکل بے سروسامان اور کمزور ہیں.بظاہر یہ دشمن کا حملہ ہے مگر در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اسے اُکسایا ہے جس طرح کہ اس نے مکہ کے لوگوں کو اُکسایا تھا کہ مسلمانوں پر حملہ کریں اور اس طرح وہ دکھانا چاہتا ہے کہ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ یعنی جو ہلاک ہو وہ خدا کے نشانوں کو دیکھ کر ہوا اور جو زندہ رہے وہ بھی خدا کے نشانوں سے رہے تو جس لڑائی کو خدا شروع کرے اُسے ہم کس طرح بند کر سکتے ہیں.پس خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ اسے ختم کرنے کے لئے جو بھی چال چلی جائے گی وہ اُلٹی پڑے گی اور یہ لڑائی ختم نہ ہو سکے گی کیونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اب دوٹوک فیصلہ ہو جائے.اس لئے اسے ختم کرنے کے لئے ہماری اپنی اور تمام خیر خواہوں کی کوششیں

Page 598

خطبات محمود ۵۹۳ سال ۱۹۳۵ء بھی اکارت جائیں گی.اور اس پر بھی دشمن کے ساتھ جو اپنی طاقت کے گھمنڈ میں چاہتا ہے کہ سچائی کو مٹا دے، ہماری جنگ ختم نہ ہوگی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا دشمن ہے وہ مسلمان یا ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی اور غیر مسلم قوم کے لئے یہ طریق اختیار نہیں کرتا کیونکہ وہ مہربان اور شفیق ہے لیکن جو عناد کی وجہ سے فساد پیدا کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ یہ طریق اختیار کرتا ہے.جو قوم اس لئے اُٹھتی ہے کہ سچائی کو مٹا دے، اس کے وجود کو خدا کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی.اس لئے میں جماعت کو بتانا چاہتا ہوں کہ بسا اوقات بظاہر خاموشی نظر آتی ہے اور خیال کر لیا جاتا ہے کہ کام ختم ہو گیا مگر ختم کس طرح ہو سکتا ہے جب خدا خود کھڑا ہے اور فرماتا ہے کہ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ جب ایک قوم نے قسم کھائی کہ احمدیت کو مٹادے گی تو اب یہ جنگ اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے کہ یا تو وہ اپنے اس دعوئی کو واپس لے اور اعلان کر دے کہ ہم سے غلطی ہوئی یا پھر ان دونوں پارٹیوں میں سے ایک کی موت اسے ختم کر سکتی ہے.مؤمن میدان میں کبھی پیٹھ نہیں دکھایا کرتا بلکہ وہ یہی کہتا ہے کہ جو ہو سو ہو میں زندہ رہا تب بھی اور اگر مراتب بھی فائدہ میں رہوں گا.اللہ تعالیٰ کا یہ حملہ عام مسلمانوں یا ہندو یا سکھ عیسائی یا دوسرے غیر مسلم شرفاء کے لئے نہیں.مدینہ کے پاس کئی قومیں تھیں جو رسول کریم ﷺ کو ناحق پر سمجھتی تھیں.مگر ان کے لئے کوئی عذاب نہیں آیا.عذاب ہمیشہ اُن ہی پر آتا ہے جو شرارت سے بلا وجہ اور پہلا قصور کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے اُٹھتے ہیں مثلاً یہی جنگ ہے جو احرار نے ہمارے خلاف شروع کر رکھی ہے.کوئی بتائے تو سہی کہ ہم نے مسلمانوں کا کیا نقصان کیا ؟ ہم نے ہر میدان میں اپنے مفاد کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کی تائید کی ہے.کہا جاتا ہے کہ ترکوں کی شکست پر ہم نے پانچ ہزار روپیہ حکومت کو دیا مگر یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کس لئے دیا ؟ الزام لگانے والوں کے بھائی بندوں اور ہم خیالوں کے یتیم بچوں کی تعلیم کے لئے ہم نے یہ روپیہ دیا تھا یہ لوگ تین لاکھ کی تعداد میں بھرتی ہو کر گئے اور جا کر ترکوں کے سینوں کو چھید دیا انہیں شکست دی اور اس لڑائی میں ان میں سے جو مارے گئے ، ان کے بچوں کی تعلیم کے فنڈ میں ہم نے پانچ ہزار روپیہ دیا.لیکن ان لوگوں کو یہ بات تو بھول جاتی ہے کہ ان کے تین لاکھ سپاہی ترکوں سے لڑائی کے لئے گئے مگر یہ یاد رہتی ہے کہ ہم نے پانچ ہزار روپیہ دیا تھا.کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ تین لاکھ مسلمان جنہوں نے جا کر ترکوں کو شکست دی یا اُن کے بھائی بندا گر تو وہ احمدی تھے تو پھر اُن

Page 599

خطبات محمود ۵۹۴ سال ۱۹۳۵ء کا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ احمدی ۵۶ ہزار ہیں.اس صورت میں انہیں احمدیوں کی تعدا دستر لاکھ اور ایک کروڑ کے درمیان ماننی پڑے گی.اور اگر ان میں سے تھے تو یہ کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ خود جا کر تو ترکوں کو ما را تقبل کیا ، ان کے علاقے فتح کئے اور اب بے شرم اور بے حیا بن کر کہتے ہیں کہ احمدیوں نے سب کچھ کیا حالانکہ ہم نے جو کیا وہ صرف یہ ہے کہ جو لوگ مارے گئے یا کو لے لنگڑے ہو کر نا کا رہ ہو گئے اُن کی امداد اور اُن کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے فنڈ میں ۵ ہزار روپیہ دیا.اگر ان کے نزدیک یہ اتنا ہی بُر افعل ہے تو وہ فنڈ آج تک قائم ہے.یہ فتویٰ صادر کر دیں کہ اس سے امداد لینا حرام ہے.احراری اس قسم کا فتویٰ صادر کر کے مسلمانوں کو اس کے استعمال سے روک دیں.پھر ہمارا پیدا کیا ہوا ضرر خود بخود ڈور ہو جائے گا.اس کے علاوہ اور بھی ہر موقع پر ہم نے مسلمانوں کی تائید کی ہے.نہرور پورٹ کے موقع پر کانگرس اور بائیکاٹ کی تحریکات میں ہمیشہ ان کی مدد کی ہے پھر خلافت موومنٹ کے موقع پر میں نے کہا کہ میں مدد کے لئے تیار ہوں.اُس موقع پر میں نے ایک رسالہ لکھا جو چھپا ہوا موجود ہے اگر اُس وقت میری مدد حاصل کر لی جاتی تو اتنے فسادات ملک میں نہ ہوتے اور ترکی حکومت بھی زیادہ مضبوط ہوتی.میں نے تجویز پیش کی تھی کہ یہ نہ کہا جائے کہ تمام مسلمان سلطان کو خلیفہ المسلمین سمجھتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ اکثر مسلمان خلیفہ سمجھتے ہیں اور باقی بحیثیت ایک مسلمان فرمانروا اس سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں لیکن اس تجویز کو منظور نہ کیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ اگر ہم یہ کہیں کہ ایک حصہ خلیفہ نہیں سمجھتا تو اس سے تحریک کو نقصان ہو گا حالانکہ میں نے کہا تھا کہ اگر اس طریق پر کام کیا جائے تو میں ترکوں کے حق میں یورپ اور امریکہ میں یہ پروپیگنڈا کرنے کے لئے مبلغ بھی دوں گا کہ مسلمانوں کی قربانیوں کا اس رنگ میں نتیجہ نہیں نکلنا چاہئے اور حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ اسلامی حکومت کو پاش پاش نہ ہونے دے میری اس تجویز کو ٹھکرا دیا گیا مگر آج کیا ہے.کہاں ہے وہ خلیفہ جس کے متعلق یہ سننا بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا کہ بعض مسلمان اسے خلیفہ نہیں سمجھتے.اگر میری تجویز کے مطابق اس سوال کو اٹھایا جاتا تو ہزاروں روپیہ اور بہت سے مبلغ کام کرنے کے لئے مل سکتے تھے اور مجھے یقین ہے کہ اگر اُس وقت اس رنگ میں پرو پیگنڈا کیا جاتا تو حکومت برطانیہ ترکی کی حمایت پر مجبور ہو جاتی.پس کونسا موقع ہے جب ہم نے مسلمانوں کے لئے قربانی نہیں کی.ہمارے دشمنوں کو اگر یہ پانچ ہزار یاد ہے تو وہ خدمات کیوں یاد نہیں جو ہم کرنے کو تیار تھے مگر مسلمان لیڈروں نے اپنی

Page 600

خطبات محمود ۵۹۵ سال ۱۹۳۵ء غلطی منظور نہ کی.یا وہ لاکھ روپیہ کیوں کھول گیا جو ملکانا ارتداد کے مقابلہ کے لئے ہم نے خرچ کیا.کیا یہ سب خرچ ہم نے اپنے فائدہ کے لئے کیا تھا؟ باقی مسلمانوں کے لئے تو پھر بھی یہ کامیابی اس خیال سے خوشکن ہوسکتی تھی کہ وہ سلطان کو خلیفہ المسلمین سمجھتے تھے مگر ہمیں کیا فائدہ تھا ہمارے ساتھ تو ترکوں کا اچھا سلوک نہ تھا.پس ہم نے ہمیشہ مسلمانوں کی خدمت کی.الیکشن کے موقع پر بہترین امیدواروں کی مدد کی حتی کہ کئی دفعہ اپنے احمدی امیدواروں کو بٹھا دیا.ایک دفعہ اسی ضلع سے ایک احمدی امیدوار کھڑا ہوا اور اُس کا کوئی مد مقابل بھی نہ تھا مگر چوہدری شہاب الدین صاحب کے لئے کسی اور ضلع سے کھڑا ہونے کی گنجائش نہ تھی اس لئے میں نے اپنے آدمی کو بٹھا دیا.کئی غیر احمدی میرے پاس آئے کہ ہم بہت کچھ کام کر چکے ہیں اور اب پیچھے ہٹنا ہماری زک ہے مگر میں نے یہی جواب دیا کہ میں اس بات کو بہتر سمجھتا ہوں.اور یہ میں نے اسی لئے کیا کہ میں سمجھتا تھا.چوہدری صاحب کونسل میں مسلمانوں کی زیادہ خدمت کر سکیں گے.سو ہم نے ہمیشہ مسلمانوں کی بہترین خدمات سرانجام دی ہیں مگر احرار کی طرف سے بلا وجہ ہم پر حملہ کیا گیا ہے جس کا فیصلہ کرنے کے لئے میں نے انہیں مباہلہ کا چیلنج دے رکھا ہے لیکن انکی طرف سے اخبار میں یہ اعلان تو ہو جاتا ہے کہ فلاں صاحب قادیان آئیں گے اور مسجد آرائیاں میں اس کا جواب دے دیں گے لیکن جن کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے ، ان کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے.ایک شخص کو پانچ سات نو جوانوں کے ساتھ یہاں بھیج دیا جاتا ہے اور وہ گالی گلوچ کر کے واپس چلا جاتا ہے حالانکہ چاہئے تو یہ کہ سارے آئیں، شرائط طے کریں اور پھر مباہلہ کریں.بلکہ میں نے تو ان کی سہولت کے لئے لاہور میں ہی اپنے نمائندے مقرر کر دیے تھے کہ انکے ساتھ شرائط طے کر لیں مگر چونکہ انکے دل جانتے ہیں کہ اس صورت میں لیھلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ كَا عَذاب انکے لئے کھڑا ہے.ادھر انہوں نے مباہلہ کیا اُدھر خدا تعالیٰ نے انکی گردن پکڑی.اس لئے کسی کو سامنے آنے کی جرات نہیں ہوتی اگر ہمت ہے تو سب کے سب آئیں ورنہ یہ کیا ہے کہ کسی ایک کو بھیج دیا کہ مسجد آرائیاں میں تقریر کر جائے گویا مسجد آرائیاں بھی ایک متبرک مقام ہے کہ اس کے بغیر انکا اعلان ہی نہیں ہو سکتا.میں نے خود تو نہیں دیکھا مگر کسی نے لکھا ہے کہ انہوں نے اخبار میں اعلان کیا ہے کہ وہ صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی مباہلہ کرینگے.ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں لیکن اس کے

Page 601

خطبات محمود ۵۹۶ سال ۱۹۳۵ء لئے وہ اور پانچ سو آدمی لائیں ہم بھی دوسرے پانچ سو اس مباہلہ کے لئے پیش کریں گے.دونوں مباہلوں کو ملانے کی ضرورت نہیں.میں اُن کی اس ہوشیاری کو سمجھتا ہوں.بات یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں انہیں پانچ سو ایسے آدمی ملنے مشکل ہیں جو واقعی یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے.صداقت مسیح موعود کا مسئلہ علیحدہ ہے جس پر غیر احمد یوں میں سے ایک تعداد کو واقعی شبہ ہے اور اس کے لئے ان میں سے مباہلہ کرنے والے مل سکتے ہیں لیکن رسول کریم ﷺ کی ہتک والا الزام ایسا ہے کہ ہر عقلمند اسے غلط سمجھتا اور جانتا ہے کہ آپ نے آنحضرت ﷺ کی ہتک نہیں کی بلکہ آپکی عزت کو قائم کیا ہے.پس میں کہتا ہوں کہ یہ مباہلہ بھی ضرور ہو مگر اس سے علیحدہ ہو.وہ اس کے لئے دوسرے پانچ سو آدمی لائیں اور ہم بھی ایسا ہی کریں گے ہاں لیڈ روہی ہوں.ان کے وہی پانچوں لیڈر ایک مباہلہ میں شامل ہوں اور وہی دوسرے میں.ادھر میں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے مردمبر اور ناظر دونوں میں شریک ہو نگے اور پانچ پانچ سو آدمی دونوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ہو نگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کوئی ایسی چیز نہیں جس پر مباہلہ کرنے سے ہمیں گریز ہو.ہم آپ کی صداقت پر جہاں وہ چاہیں قسم کھانے کو تیار ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی ہم نے اسلام کی صداقت سمجھی ہے ورنہ جس رنگ میں یہ مولوی اسلام کو پیش کرتے ہیں اس رنگ میں اسے کون معقول شخص مان سکتا ہے.جو نا معقول یہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو دیکھا اور نَعُوذُ بِاللہ اس پر عاشق ہو گئے ایسے بیوقوفوں کے بتائے ہوئے اسلام کو کون مان سکتا ہے.خدا تعالیٰ کا بتایا ہوا اسلام تو وہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی عصمت کو ثابت کرتا ہے اور جو قرآن کریم میں ہے صحیح احادیث میں ہے مگر کون ہے جو ہمیں قرآن کریم کی طرف لایا، صحیح احادیث کی طرف لایا یا تازہ نشانات کی طرف لایا ؟ یہ سب کچھ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ملا.اور اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ہم آپ کی صداقت کے متعلق مباہلہ کرنے سے ایک منٹ کے لئے بھی پس و پیش کر سکتے ہیں ہم اس کے لئے تیار ہیں اور ہر میدان میں تیار ہیں لیکن احرار اس کے لئے علیحدہ پانچ سو آدمی لائیں ہم بھی علیحدہ لائیں گے اور اس طرح دو مباہلے ہوں تالِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ کا نظارہ دنیا دیکھ لے.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ خالی مسجد آرائیاں میں تقریر کرنے سے

Page 602

خطبات محمود ۵۹۷ سال ۱۹۳۵ء کام نہیں چل سکتا وہ با قاعدہ شرائط طے کریں بلکہ میں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مجھے اپنی پیش کردہ شرائط پر اصرار نہیں.انہیں اگر کوئی شرط بو جھل معلوم ہوتی ہے تو اسے پیش کریں ، میں چھوڑنے کو تیار ہوں مگر یہ ضرور ہے کہ مباہلہ ہوا ایسے رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ کا زندہ نشان دنیا کو نظر آ جائے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَنَّ اللهَ لَسَمِیعٌ عَلِیمٌ اس میں بتایا ہے کہ جب بھی مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں گے وہ ضرور ان کی دعاؤں کو سنے گا.پس میں احرار کو پھر ایک دفعہ تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ اس پیالہ کو ٹالنے کی کوشش نہ کریں شرائط طے کر لیں کسی شرط پر اگر انہیں کوئی اعتراض ہو تو اسے پیش کریں اور اس طرح فیصلہ کر کے مباہلہ کر لیں.کسی مولوی کے نام کے ساتھ لمبے چوڑے خطابات درج کر کے اسے یہاں بھیج دینا کہ مسجد آرائیاں میں ساٹھ ستر لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر کہہ جائے کہ احمدی فرار اختیار کر گئے ٹھیک طریق نہیں.نہ شرائط کا تصفیہ، نہ تاریخ کا تعین اور نہ ان لوگوں کی طرف سے کوئی جواب جن کو مخاطب کیا گیا ہے اور یونہی کسی کا مسجد میں آکر کہہ جانا تو ایسا ہی ہے جیسے پنجابی میں کہتے ہیں.کنک کھیت ، گڑی پیٹ آجو ا ئیا منڈے کھا.یعنی لڑکی پیدا نہیں ہوئی، گندم موجود نہیں اور داماد سے کہا جائے کہ آؤ روٹیاں کھا لو.جب نہ کوئی تاریخ مقرر ہے نہ شرائط طے ہوئی ہیں تو احمدی فرار کیسے کر گئے؟ فرار تو تب ہے کہ شرائط طے ہو جائیں ، وقت مقرر ہو جائے اور پھر ایک فریق نہ آئے.پس میں احرار کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اس طرح کی باتوں سے اب کام نہ چلے گا وہ اب خواہ کسی رنگ میں آئیں خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے.(الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۳۵ء) الانفال: ۴۳ تا ۴۵ ک سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲، ۱۳ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ے سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحه ۱۵ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ بخاری کتاب المغازی باب فَضْلٍ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا المائدة: ۲۵

Page 603

خطبات محمود ۵۹۸ ۳۷ سال ۱۹۳۵ء معاندین سے جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک سچ اور جھوٹ میں سے ایک قربان گاہ پر نہیں چڑھ جاتا.دین کیلئے مالی اور جانی قربانیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور انعام ہیں (فرموده ۱۱ /اکتوبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.الَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ وَإِلَى رَبِّكَ فَارُغَبُ پھر فرمایا :.سب سے بڑی نعمت ایک سمجھدار اور عقلمند انسان کے لئے یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی آواز سننے اور اسے قبول کرنے کا موقع مل جائے.دنیا میں معمولی معمولی افسروں کی محبت جب لوگوں کو میسر آتی ہے تو وہ اس پر اتر جاتے اور فخر اور تکبر کے خیالات ان کے دلوں میں پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح تھوڑی بہت حکومت جب کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے تو وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ نہ معلوم میں اب کیا سے کیا ہو گیا ہوں.ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے کہتے ہیں شاہانِ روس میں سے ایک زار بادشاہ اس بات کا عادی تھا کہ اپنا بھیس بدل کر رات کو یا دن کے مختلف وقتوں میں پھر ا کرتا.اور اس طرح

Page 604

خطبات محمود ۵۹۹ سال ۱۹۳۵ء گشت لگا کر معلوم کیا کرتا کہ اس کی رعایا کا کیا حال ہے.ایک دفعہ جب وہ اسی طرح پھر رہا تھا تو وہ ایک گاؤں کی طرف نکل گیا جہاں پہنچ کر وہ اپنا رستہ بھول گیا اور اسے کچھ پتہ نہ لگتا تھا کہ وہ کدھر جائے.راستہ کی تلاش میں اُس نے گلی میں اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا کہ شاید کوئی سمجھدار آدمی مل جائے اور وہ اس سے راستہ دریافت کر سکے.اتنے میں وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک گھر کے دروازہ کے آگے ایک آدمی متکبرانہ انداز میں کھڑا ہے اُس نے لاتیں چوڑی کی ہوئی ہیں اور چھاتی باہر نکالی ہوئی ہے اور اس طرح ادھر اُدھر دیکھ رہا ہے کہ گویا اُس کی حیثیت کا دنیا میں کوئی انسان نہیں.بادشاہ آگے بڑھا اور چونکہ اُس شخص کا طرز فوجی تھا اس لئے بادشاہ فوراً سمجھ گیا کہ یہ کوئی سپاہی یا اسی حیثیت کا آدمی ہے قریب پہنچ کر بادشاہ نے دریافت کیا.میاں سپاہی ! کیا تم بتا سکتے ہو کہ فلاں جگہ پہنچنے کے لئے کونسا رستہ ہے ؟ وہ اُس وقت پائپ پی رہا تھا.جب اُس نے بادشاہ کی بات سنی تو متکبرانہ انداز میں اس نے ایک طرف اپنا منہ پھیر لیا.پائپ کا دُھواں نکالنا شروع کر دیا اور نہایت حقارت سے جواب دیا میں سپاہی نہیں ہوں.بادشاہ نے کہا اچھا معاف کیجئے گا مجھ سے غلطی ہوئی.اس کے بعد اُس نے پھر کسی بڑے عہدے کا نام لیا اور کہا کیا آپ وہ ہیں؟ اُس نے اسی طرح منہ دوسری طرف موڑے رکھا اور کہا میں وہ نہیں ہوں ، اس سے بڑا افسر ہوں.پھر اُس نے اور زیادہ اوپر کے عہدے کا نام لیا اور پوچھا کیا آپ وہ ہیں ؟ اس نے پھر کہا میں وہ نہیں ہوں.اس سے بڑے عہدے کا نام لو.مگر اس تمام عرصہ میں اس نے منہ دوسری طرف کئے رکھا.آخر بادشاہ نے جب سارجنٹ یا وارنٹ آفیسر جو اُس کا عہدہ تھا اُس کا نام لیا تو اُس نے کہا.ہاں.بادشاہ نے چونکہ دریافت کرتے ہوئے فوجی عہدوں کا صحیح نام لیا تھا اس لئے اس سارجنٹ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ بھی کوئی فوجی آدمی معلوم ہوتا ہے آؤ اس سے بھی دریافت کریں کہ وہ کون ہے؟ اس پر اُس نے پوچھا کیا تم بھی فوج سے تعلق رکھتے ہو؟ بادشاہ نے جواب دیا ہاں.اُس نے پوچھا کیا تم سپاہی ہو؟ بادشاہ نے کہا ذرا اوپر چلئے.پھر اس نے کسی اور عہدے کا نام لیا اور پوچھا کہ کیا آپ وہ ہیں؟ بادشاہ نے کہا اور اوپر چلئے.اس کے بعد اُس نے اور عہدے کا نام لیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ وہ ہیں؟ بادشاہ نے کہا اور اوپر چلئے.آخر جب سپاہی اُس عہدہ پر پہنچا جو اُس کا اپنا تھا تو بادشاہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا کہ یہ شخص میرے برابر عہد ہ کا ہی معلوم ہوتا ہے.مگر اس سوال کے جواب میں بھی جب بادشاہ نے کہا کہ ذرا اور اوپر

Page 605

خطبات محمود ۶۰۰ سال ۱۹۳۵ء چلئے تو وہ زیادہ توجہ سے اُس کی طرف متوجہ ہو گیا.اور اُس نے پوچھا کیا آپ لیفٹینٹ ہیں؟ بادشاہ نے کہا ذرا اور اوپر چلئے.اُس نے پوچھا کیا آپ کپتان ہیں؟ بادشاہ نے کہا ذرا اور اوپر چلئے.اب تو سپاہی خوف سے کانپنے لگا اور ادب سے پوچھا کیا آپ میجر ہیں؟ اور اسی طرح عہدے بڑھا کر پوچھتا گیا.یہاں تک کہ جب اُس نے سوال کیا کیا کمانڈر انچیف ہیں ؟ تو اس کے دانت بج رہے تھے اور لا تیں کا نپ رہی تھیں مگر جب بادشاہ نے پھر بھی کہا کہ اوپر چلو تو چونکہ اسے معلوم تھا کہ بادشاہ بھیس بدل کر پھر ا کرتا ہے سپاہی کی لاتیں جواب دے گئیں اور وہ بے اختیار زمین پر یہ کہتے ہوئے گر گیا کہ کیا آپ زار ہیں؟ اس پر بادشاہ نے کہا ہاں اور اُسے اسی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا.غرض دنیا کے عہدوں کی وجہ سے یا بادشاہوں اور حکام کے قرب کی وجہ سے لوگ اپنی بڑی عزت محسوس کرنے لگتے ہیں.گاؤں کا نمبر دار ہی جب کسی نائب تحصیلدار کے پاس بیٹھتا اور اس سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ خیال کرنے لگتا ہے کہ گاؤں کے تمام لوگ میرے رحم پر ہیں.پولیس والے بھی اسی قسم کے متکبرانہ خیالات لئے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر چہ پولیس کے افسر بعض دفعہ نرمی کرتے اور لوگوں سے اچھے اخلاق کا برتاؤ کر دیتے ہیں مگر جو اُن کے پاس بیٹھنے والے اور اُن سے اکثر ملنے جلنے والے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ اپنی شان دکھاتے ہیں اور اس قدر بد دماغ ہوتے ہیں کہ وہ پولیس اور اس کے افسروں کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے ہی یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب ہمارے سامنے سب لوگ بیچ ہیں.جب دنیوی عہدوں پر فائز ہونے یا اعلیٰ عہدہ داروں اور افسروں کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے لوگ عزت محسوس کرنے لگتے ہیں تو کتنے تعجب کی بات ہو گی اس قوم کے متعلق جسے خدا تعالیٰ کی آواز سننے کا موقع ملے خواہ براہِ راست سنے کا بابا لواسطہ سننے کا مگر وہ اس آواز کی قدر نہ کرے.اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے.السمُ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا اَلَمْ عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَکَ.اے ہمارے رسول ! کیا ہم نے تیرے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا کہ تیرے دل میں اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک جوش پیدا کر دیا اور پھر قُرب کے حصول کے لئے بجائے اس کے کہ تجھ پر سب کوشش چھوڑ دی جاتی ، ہم نے خود الہام کے ذریعہ اپنی رضا کی راہیں تجھے بتادیں اور اس طرح تیرا بوجھ تجھ سے دور کر دیا.کیا یہ احسان جو ہم نے تجھ پر کیا

Page 606

خطبات محمود ۶۰۱ سال ۱۹۳۵ء کچھ کم ہے ؟ یہ احسان جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ کیا گیا صرف آپ کے ساتھ ہی احسان نہ تھا بلکہ ساری دنیا پر احسان ہے.کونسا انسان ایسا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اس احسان سے محروم رکھا یا کونسا ایسا مذہب یا ملک یا جماعت ہے جسے یہ کہ دیا گیا ہو کہ محمد ﷺ کے اس انعام میں تم حصہ دار نہیں.جب حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس ایک کنعانی عورت آئی اور اُس نے کہا اے اُستاد ! مجھ پر رحم کر.جو تعلیم تو دوسرے لوگوں کو دیتا ہے اُس سے مجھے بھی فائدہ اُٹھانے دے.تو اُسے یہ جواب دیا گیا کہ لڑکوں کی روٹی لے کر گتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں سم اور جیسا کہ عیسائی کتب سے معلوم ہوتا ہے وہ عورت دل شکستہ ہو کر واپس چلی گئی مگر رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی کی طرف سے جو تعلیم ملی اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں.اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے جا اور ساری دنیا کو یہ پیغام سنا دے کہ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِیعاً میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بن کر آیا ہوں.کوئی قوم ایسی نہیں جو میرے دائرہ ہدایت سے باہر ہو.میرا دستر خوان ہر شخص کے لئے کھلا ہے.جو چاہے اپنی روحانی غذا کا سامان اس سے حاصل کرے.پس ہم میں سے کون ہے جو یہ کہے کہ خدا کی یہ آواز میرے کانوں نے نہیں سنی.یا خدا تعالیٰ کا محبت بھرا ہاتھ میری طرف بڑھا یا نہیں گیا.اور اگر خدا تعالیٰ اپنی شہر میں آواز سنائے اور انسان اپنے کانوں میں روئی ڈال لے یا خدا تعالیٰ اپنا محبت بھرا ہاتھ بڑھائے اور انسان اپنے ہاتھ کو کھینچ لے تو ایسے انسان کا علاج کیا ہوسکتا ہے اور کیونکر یہ شکوہ کرسکتا ہے کہ اسے ہدایت نہیں ملی.غیروں کو جانے دو.ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنے تازہ کلام کے سننے کا موقع دیا ہے.وہ خدا جس نے حرا میں رسول کریم ﷺ سے کہا کہ جا اور دنیا کو ہدایت دے، وہ خدا جس نے جبریل کی معرفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام پہنچایا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى | خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ہے وہ خدا جس نے غار ثور میں آنحضرت ﷺ سے یہ فرمایا کہ کے اپنے ساتھی سے کہہ دے ڈر کی کوئی بات نہیں.اِنَّ اللهَ مَعَنَا اللہ ہمارے ساتھ ہے، وہ خدا جس کی وحی مدینہ میں بھی جا کر نازل ہوئی اور اس نے خبر دی کہ ساری دنیا ایک دن اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے والی ہے اور قیصر و کسریٰ کی حکومتیں پاش پاش ہو جائیں گی کیا اسی خدا نے دوبار ہمیں آواز نہیں دی ؟ اور کیا وہی شیریں آواز ایک بار پھر ہمارے لئے بلند نہیں کی گئی ؟ وہ پیاری آواز

Page 607

خطبات محمود ۶۰۲ سال ۱۹۳۵ء جس کی ایک ایک سُر کے اندر ہزاروں محبتیں بھری ہوئی تھیں ایسی اعلی محبتیں کہ جو انسان کے دل کو عشق کے جذبات سے لبریز کر دیتی ہیں ، ہمارے لئے پھر بلند کی گئی.اور اُسی شان کے ساتھ بلند کی گئی جس شان کے ساتھ وہ پہلے بلند ہوئی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے بروز اور آپ کے اعلیٰ درجہ کے شاگردوں میں سے ہیں اور آپ خود نہیں بولتے تھے بلکہ آپ کی وساطت سے خود رسول کریم ے بولتے تھے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم نے اس آواز کی کیا قدر کی اور کیا اس آواز کے معاملہ میں ہمارے دلوں میں بھی وہی ادب اور احترام کے جذبات ہیں.اور وہی قربانیوں کے ولولے اور جوش ہیں جس قسم کا ادب و احترام اور جس قسم کی قربانیاں یہ آواز چاہتی ہے؟ یا ہماری ساری جد و جہد یا ہم میں سے ایک طبقہ کی جدو جہد یہ ہے کہ ہم قربانیوں سے بچ جائیں.دیکھو! ہم سے پہلے دو قو میں گزری ہیں ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم تھی جس نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر کہر دیا کہ اِذْهَبُ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ " یعنی جاتُو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی کرے ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر ان کی نسلوں نے اس غلطی کی اصلاح کی یہاں تک کہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جن الفاظ میں خدا تعالیٰ کوئی بات کرنے کو کہے ،انہی الفاظ کی اتباع کرنی چاہئے اور تاویلوں سے کام نہیں لینا چاہئے.پھر اپنی اس عادت کو انہوں نے یہاں تک ترقی دی کہ یہودی قوم اس بات کے لئے مشہور ہو گئی کہ وہ رسموں کی پابند ہے اور لفظوں کے پیچھے جاتی ہے.انہوں نے پھر کسی جگہ بھی تأویل کو جائز نہ سمجھا.جن الفاظ میں تو رات میں کوئی بات کہی گئی تھی اُن کا لفظی طور پر اتباع کیا مگر اس کے بعد ایک اور قوم آئی جس نے یہ نہیں کہا کہ اِذْهَبُ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ بلکہ اگر چہ ان میں سے بعض نے کمزوری دکھائی مگر جب حضرت مسیح علیہ السلام کو دشمنوں نے گرفتار کرنا چاہا تو انہوں نے اپنی تلوار میں نیام سے نکال لیں لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد ہی انہی میں سے ایسے لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے شریعت کے احکام کی بجا آوری کو اپنے لئے چھٹی اور بوجھ سمجھا اور کہا شریعت کیا ہے.ایک لعنت ہے.غرض انہوں نے شریعت کو لعنت قرار دے دیا اور اس طرح وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے محروم ہو گئے.آخر یہ شریعت کو بوجھ سمجھنے کی بنیاد کیونکر قائم ہوئی ؟ کیا حضرت عیسی علیہ السلام کے صحابی یہ سمجھتے تھے کہ شریعت ایک پٹی ہے ؟ ان کی تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کی ہے اور ان کے تقویٰ اور ایثار کو سراہا ہے اور قرآن کریم

Page 608

خطبات محمود ۶۰۳.سال ۱۹۳۵ء سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متبع ایک لمبے عرصہ تک شریعت کے پابند رہے اور ان انعامات کے وارث ہوتے رہے جو خدا تعالیٰ کے پیاروں کے لئے مقدر ہیں.یہاں تک کہ گورسول کریم ﷺ کے زمانہ میں آکر عیسائیوں کی حالت بہت بگڑ گئی مگر پچھلے بزرگوں کا اثر ایک حد تک ان میں باقی تھا.اور اس خرابی کے زمانہ میں بھی ایک حصہ ان کا ایسا تھا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایسی محبت رکھتے ہیں کہ جب اس کا ذکر آتا ہے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں.پس جب حواریوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ یہ خیال کہ شریعت نَعُوذُ بِالله لعنت ہے ان سے شروع نہیں ہوا اور نہ ان کے زمانہ سے شروع ہوا بلکہ ایک لمبے عرصہ کے بعد آہستہ آہستہ عیسائیوں میں یہ خیال آتا گیا کہ شریعت لعنت ہے.مسلمانوں نے بھی ایک لمبے عرصہ تک شریعت کی قدر کی اور اس کے احکام کی بجا آوری کو اپنی روحانی ترقی اور خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے ضروری سمجھا لیکن رفتہ رفتہ ان کی یہ حالت ہو گئی کہ جب کوئی شریعت کی بات ان تک پہنچتی تو بسا اوقات بجائے یہ خیال کرنے کے کہ شریعت کے احکام ہمارے لئے ایک رحمت ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہم سے خدمت لے رہا ہے ، وہ سمجھتے کہ یہ ایک چٹی ہے جو ہم پر پڑ گئی اور وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے.چنانچہ مسلمانوں میں اس قسم کے مسائل پائے جاتے ہیں کہ شریعت کا فلاں حکم جو ہے اس سے بچنے کے لئے کونسی ایسی کوشش کی جائے کہ انسان گنہگار بھی نہ ہو اور وہ کام بھی نہ کرنا پڑے.اس پر انہوں نے کتاب الحیل کی قسم کی کتا بیں تک لکھ ڈالی ہیں.جن کا مقصد یہ ہے کہ بغیر گنہگار بننے کے انسان کس طرح بعض شرعی احکام کی بجا آوری سے بچ سکتا ہے.مثلاً حیلوں میں سے ایک حیلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دے چکا ہو اور وہ پھر اُسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اُس کا حلالہ نکالا جائے یعنی ایک رات کے لئے کسی اور مرد سے جھوٹا نکاح پڑھا دیا جائے حالانکہ حلالہ سب سے زیادہ حرام چیز ہے.پھر وہ یہاں تک گر گئے کہ ایک بڑی کتاب میں جو ایک بڑے عالم کی لکھی ہوئی ہے میں نے پڑھا کہ اگر کوئی عید الضحی کے دن نماز عید سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا چاہے تو کس طرح کھائے ؟ چونکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ نماز عید کے بعد قربانی کی جائے اس لئے لازماً قربانی کا گوشت نماز کے بعد ہی کھایا جا سکتا ہے مگر وہ اس امر کے جواز کیلئے حیلہ پیش کر رہا ہے کہ اگر کسی کا جی چاہے کہ نماز سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے تو کس طرح کھائے.کوئی اس

Page 609

خطبات محمود ۶۰۴ سال ۱۹۳۵ء بھلا مانس سے پوچھے کہ تجھے کونسی ایسی مصیبت پڑی ہے کہ تو عید سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے بغیر نہیں رہ سکتا.پھر اس نے یہ حیلہ بتایا ہے کہ چونکہ عید کی نماز بڑے شہر میں ہوا کرتی ہے، گاؤں میں نہیں ہوتی اس لئے اگر کوئی نماز سے قبل قربانی کا گوشت کھانا چاہے تو وہ شہر سے دو تین میل باہر جائے اور وہاں قربانی کر دے اور کھالے اس طرح قربانی بھی ہو جائے گی اور پھر شہر میں آکر نماز پڑھ لے.گویا رسول کریم ﷺ نے جو باتیں بتائی ہیں ، وہ نَعُوذُ باللہ ایسی مصیبت اور عذاب ہیں کہ ہم ان پر عمل کر کے امن پاہی نہیں سکتے.جن لوگوں کے دلوں میں شریعت کی یہ عظمت ہو ان سے کب یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ شریعت کا اعزاز دنیا میں قائم کریں گے.اور لوگوں کو اس کے احکام کی خوبیاں اور حکمتیں بتا کر ان پر عمل کرنے کی نصیحت کریں گے مگر یہ تو شریعت کی بے قدری کا انتہائی قدم ہے.اس سے نچلا قدم یہ ہے کہ جب جماعت کو کسی قربانی کی تحریک کی جائے تو کہا جائے کہ یہ بوجھ ہم سے کب ہٹایا جائے گا حالانکہ سچے مومنوں کی یہ حالت ہوا کرتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں شریعت نے ان پر بوجھ نہیں ڈالا بلکہ شریعت نے ان کے بوجھوں کو اُٹھایا ہے چنانچہ دیکھ لو پولوس کہتا ہے شریعت لعنت ہے اور وہ ایک بوجھ ہے جو ہم پر لا دا گیا؟ مگر ہمارا خدا کہتا ہے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظهرک شریعت بوجھ نہیں شریعت چٹی نہیں بلکہ شریعت تو وہ چیز ہے جو خود تمہارے بوجھوں کو اُٹھاتی ہے.اُن بوجھوں کو جو تمہاری کمر کو توڑنے والے ہوں.پس اسلام کہتا ہے کہ قربانیوں کا تم سے اس لئے مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ وہ تمہیں تباہ کریں بلکہ اس لئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ تمہیں مصیبتوں سے بچائیں اور سکھ اور آرام کی زندگی بسر کرائیں لیکن اگر ہم کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کہیں کہ ہمیں کسی قسم کا خطرہ نہیں جس سے محفوظ رہنے کے لئے قربانیوں کی ضرورت ہو تو اس کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ مصیبتیں آئیں اور ہمیں تباہ کر دیں.کئی انسان ہوتے ہیں جو روح کے ان سفروں سے ناواقف ہوتے ہیں جو اسے پیش آنے والے ہوتے ہیں اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ دنیوی زندگی اُخروی زندگی کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ کی حیثیت ہوتی ہے.جو شخص لندن جانے والا ہو اگر اُسے یہ کہا جائے کہ بٹالہ میں تجھے اچھا کھانا کھلا دیا جائے گا آگے لندن تک تم فاقے کرتے جانا تو کیا وہ اسے منظور کرے گا ؟ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کلکتہ تک ہی جانے والا ہو اور اسے کہا جائے کہ امرتسر میں تجھے پلاؤ کھلا دیا جائے گا مگر کلکتہ تک جو

Page 610

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء صرف ڈیڑھ دن کا فاصلہ ہے تمہیں فاقہ کرنا ہو گا تو وہ اس کو منظور کرے گا ؟ اگر ایسے آدمی کے سامنے جو کلکتہ جانے والا ہو یہ بات پیش کی جائے کہ امرتسر میں تجھے پلاؤ کھانے کو ملے گا مگر آگے بھوکا رہنا پڑے گا تو وہ یہی کہے گا کہ مجھے سارے راستہ میں معمولی غذا منظور ہے مگر پہلے اچھا کھانا کھا کر آئندہ کا فاقہ اور مصیبت مجھے منظور نہیں.پھر اگر انسان یہ سمجھتا ہو کہ اسے ابدی حیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ دنیا محض ایک تیاری کی دنیا ہے جو ایک دائمی زندگی کے لئے جو اس کے بعد آنے والی ہے، اسے تیار کرتی ہے تو وہ کیونکر یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا کا تھوڑا سا آرام یا تھوڑی سی راحت اسے اگلے جہان پر مقدم ہے اور کب وہ اس زندگی کے سکھ کے مقابلہ میں انگلی زندگی کا نقصان وزیاں برداشت کر سکتا ہے.درحقیقت یہ ایمان کی کمی ہوتی ہے جو انسان شریعت کو چٹی سمجھتا یا اللہ تعالیٰ کے احکام کو اپنے لئے بوجھ قرار دیتا ہے ورنہ جسے یقین ہو کہ میں ایک دائمی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہوں وہ اگر اس دنیا میں دُکھ اور تکالیف بھی دیکھے تو انہیں بخوشی برداشت کر لے گا اور کہے گا کہ مجھے دائمی سکھ کی ضرورت ہے عارضی تکالیف کی پرواہ نہیں.ہماری جماعت جس پر خدا تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ اسے اپنی آواز کے سننے اور اسے قبول کرنے کی توفیق دی ، اس کے لئے اس وقت بڑا نازک موقع ہے پہلی قومیں جو مسلمانوں میں گزریں وہ کہہ سکتی ہیں کہ ہمیں کیا معلوم محمد ﷺ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے کس رنگ میں کلام کیا ،کس طرح اپنی تائیدات سے انہیں نوازا ، کس طرح معجزات ظاہر کئے اور کس طرح اسلام کی شوکت کو بڑھا کر ان کے ایمانوں کو تازہ کیا.ہم بعد میں آئے اور زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے ہماری آنکھوں نے وہ بینائی حاصل نہ کی جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے حاصل کی تھی لیکن ہماری جماعت خدا تعالیٰ کو کیا جواب دے سکتی ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت سے کہے گا کہ تم میں ایک شخص میری طرف سے آیا تم نے اس سے پیوستگی اور قرب حاصل کیا تم نے اُس کی باتوں کو اپنے کانوں سے سنا اور جنہوں نے اپنے کانوں سے نہ سنا انہوں نے انتہائی قُرب کی وجہ سے اپنے دل کی آنکھوں سے ان باتوں کا مشاہدہ کیا.کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ شریعت کے احکام کی بجا آوری ایک چٹی اور بوجھ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت اور اس کا انعام ہے.پھر خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ایسا سلسلہ جاری کیا کہ اب تک ہماری جماعت کے سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جن سے خدا کلام کرتا ہے ایسی حالت میں ہماری جماعت اس

Page 611

خطبات محمود ۶۰۶ سال ۱۹۳۵ء بات کا کیا جواب دے سکتی ہے کہ اس نے کیوں دنیاوی زندگی کو عزیز سمجھا اور کیوں سلسلہ کے لئے جانی اور مالی قربانیوں کو اپنے لئے بوجھ اور چھٹی قرار دیا حالانکہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ الَّذِى اَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ - انسان پر جتنا بوجھ ہو وہ نیچے جھکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن پر خدا تعالیٰ کا کلام نہیں اُتر تا اور انہیں شریعت کے احکام پر چلنے کی توفیق نہیں ملتی وہ نیچے دیتے ہیں مگر جونہی وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو سنتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں تو جس طرح غبارہ او پر اُڑتا ہے اسی طرح ان کی روح بھی بلند ہونی شروع ہو.جاتی ہے.وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے الفاظ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے احکام کی پابندی کے ساتھ لگائے ہیں اور بتایا ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کے احکام کی پوری پوری پابندی نہ ہو اس وقت تک کوئی انسان خدا تعالی کی درگاہ میں معزز نہیں ہو سکتا.پھر فرماتا ہے فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يسرا.یہ مت خیال کرو کہ تم پر تنگیاں ہیں بے شک تنگیاں ہیں مگر یا درکھو ایک نسر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے دو ٹیسر مقرر ہیں.عُسر کے ساتھ الف لام یہ بتانے کے لئے لگا یا گیا ہے کہ ایک عسر ہے اور پھر دو ٹیسر.پس العصر سے مراد ایک ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مؤمن کی ایک تنگی کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے دو سکھ آتے ہیں تنگی تو اس دنیا میں آتی ہے مگر سکھ مؤمن کو اس جہان میں بھی حاصل ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی.یہ راستہ ہے جو مؤمن کے لئے تجویز کیا گیا ہے.اگر تم اپنے آپ کو مؤمن سمجھتے ہو تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اس راستہ سے تمہیں گزرنا نہ پڑے.اگر کوئی شخص اس عمر میں سے گزرے بغیر کیسر کا متمنی ہے تو اس سے زیادہ بیوقوف اور کوئی نہیں ہو سکتا.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ ہماری جماعت میں اس قسم کے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں ہمارا کام صرف اتنا ہی تھا کہ ہم نے احمدیت کو قبول کر لیا.اس کے بعد اگر وہ ذرا سا بھی ابتلا دیکھیں تو جھٹ کہنے لگ جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کیوں نہیں آتی.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بچے بعض دفعہ رات کو جب سوتے ہیں تو ان کی والدہ انہیں کہتی ہے تم اس وقت سو جاؤ صبح ہوگی تو تمہیں مٹھائی دوں گی.وہ یہ سنکر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھول کر کہتے ہیں.اماں! کیا اب تک صبح نہیں ہوئی ہمیں مٹھائی کب دو گی ؟ یہ بھی جب ذرا سا ابتلا د یکھتے ہیں فوراً کہنے

Page 612

خطبات محمود ۶۰۷ سال ۱۹۳۵ء لگ جاتے ہیں کہ وہ نصرت کے وعدے کیا ہوئے؟ حالانکہ نہ یہ امتحان امتحان ہیں اور نہ یہ ابتلا ابتلا ہیں.یہ تو ایسے ہی ہیں جیسے راہ چلتے ہوئے کسی کے پاؤں میں کانٹا چھ جائے.جس ابتلا کا نام خدا تعالیٰ نے عُسر رکھا ہوا ہو وہ معمولی عسر نہیں ہو سکتا اور نہ معمولی تکالیف سے ایمان کی آزمائش ہو سکتی ہے.جس طرح سونا کٹھالی میں ڈالا جاتا ہے اسی طرح مؤمن جب تک مصائب و شدائد کی کٹھالی میں نہ ڈالا جائے ، اس کا حقیقی حسن ظاہر نہیں ہوتا.اس میں شبہ نہیں کہ جب انسان اس عسر میں سے گزرجاتا ہے تو اُس وقت اُس کے اطمینان اور سکون کی کوئی حد نہیں رہتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے اور اُس کی رضا اور محبت کا مقام اُسے حاصل ہوتا ہے.مگر اس مقام کے حصول سے پہلے جن قربانیوں کی ضرورت ہے وہ ایسی ہیں کہ انسان ان میں ٹیسر کو بھول جاتا ہے عسر آتا ہے اور ایسا شدید عُسر آتا ہے کہ انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب کیر اس پر کبھی آ ہی نہیں سکتا.وہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اس کی ترقیات کے تمام وعدے موہوم ہیں.اور وہ گھبرا کر کہتا ہے کہ الہی ! تیری مدد کہاں گئی.پس جب تک انسان ایسے عسر میں سے نہ گزرے کہ ترقیات کے تمام وعدے اسے موہوم نظر آئیں ، ایمان اسے کہتا ہو کہ یسر آئے گا لیکن عقل اسے کہتی ہو کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں ، اب کیسر نہیں آ سکتا.جب تک انسانی عقل اور انسانی دانش صاف لفظوں میں اسے یہ نہ سنا دے کہ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں.صرف ایمان کہتا ہو کہ گو عقل اس بات کو ماننے سے انکار کرتی ہے کہ اتنے عمر کے بعد ٹیسر بھی آ سکتا ہے مگر میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا.اُسوقت اللہ تعالیٰ کی محبت کا اعلیٰ مقام انسان کو حاصل نہیں ہوتا.یہی وہ عسر کا مقام ہے کہ جب اس پر انبیاء اور ان کی جماعتیں پہنچتی ہیں تو وہ کہہ اٹھتی ہیں کہ مَنی نَصْرُ الله اور خدا تعالیٰ قرآن مجید میں بیان کرتا ہے کہ جب خدا کے رسول اور انکی جماعتیں یہ کہتی ہیں کہ مَتی نَصْرُ الله اے خدا ! مقامِ نَصْرُ اللہ کہاں ہے ؟ اُس وقت ہم کہتے رہیں کہ الا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ خدا کی مددتو قریب ہی ہے.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جب عسر کا شدید دور آتا ہے اتنا شدید کہ نصر اللہ کا مقام انسان کی نگاہ سے غائب ہو جاتا ہے تب خدا تعالیٰ کی مدد آتی اور مؤمنوں کو مشکلات سے رہائی دیتی ہے.لیکن جب تک یہ مقام حاصل نہ ہو بلکہ مقامِ نَصْرُ اللہ ہر شخص کو نظر آ رہا ہو، اُس وقت تک غیر معمولی مدد کس طرح آ سکتی ہے.

Page 613

خطبات محمود ۶۰۸ سال ۱۹۳۵ء ہماری جماعت کے لئے بے شک پچھلے ایام میں ایسا طویل ابتلا آیا ہے کہ بہت سے لوگ یہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ نہ معلوم خدا تعالیٰ کی مدد کب آئے گی اور عام طور پر کہا جانے لگا تھا کہ اس حملے کا سلسلہ بہت لمبا ہو گیا ہے مگر کسی کو کیا معلوم تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس فتنہ کا علاج امرتسر میں گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے پاس رکھا ہوا ہے جو مسجد شہید گنج کے انہدام کے سلسلہ میں ظاہر ہو گیا.اور جس نے مسلمانوں پر ثابت کر دیا کہ احرار جو ہماری خدمت اسلام کے نام سے کر رہے تھے ، وہ جھوٹے تھے.اسلام کے لئے قربانی کرنا ان کا طریق نہیں وہ تو اپنی ذاتی بڑائی کے لئے کام کرتے ہیں.اور جب ذاتی بڑائی حاصل نہ ہوتی ہوتو وہ خدا تعالیٰ کے گھر کے لئے بھی قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں.لیکن پھر بھی یادرکھنا چاہیے کہ اس قسم کے ابتلا آئندہ بھی آتے چلے جائینگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرماتا ہے اُفطِرُ وَ اَصُومُ یعنی میری طرف سے سلوک دونوں رنگ کا ہو گا کبھی روزہ کی شکل میں اور کبھی افطاری کی صورت میں کبھی ابتلاؤں کا دروازہ کھول دیا جائیگا اور کبھی انعامات کا دروازہ کھول دیا جائیگا.جس طرح سمندر میں لہریں اٹھتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں اسی طرح ابتلاء لہروں کی طرح آئیں گے.کبھی اُن کی لہر اونچی چلی جائے گی اور کبھی نیچی ہو جائے گی یہی حال ترقیات کا ہو گا وہ بھی ایک رو کی کیفیت لئے ہوئے ہوں گی کبھی نمایاں ہو جائیں گی اور کبھی مخفی ہو جائیں گی.پس بیشک یہ ابتلا ایسا تھا جس میں بہت سے لوگ گھبرا گئے اور وہ خیال کرنے لگے کہ نہ معلوم اب کیا ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں کو ختم نہیں کرے گا بلکہ ان کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھے گا جب تک ہماری جماعت کا خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا نہیں ہو جاتا کہ اس کی زندگی خالص روحانی زندگی بن جائے اور ان ابتلاؤں کا آنا اس کے لئے ضروری نہ رہے.میں اپنے نفس میں دیکھتا ہوں کہ میں نے اس فتنہ سے بہت کچھ سبق سیکھا ہے.میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی اس فتنہ سے سبق سیکھا ہے اس طرح جماعت کے سینکڑوں لوگ ہیں جنہوں نے اس فتنہ سے بعض مفید سبق سیکھے مگر ایک یاد وسبق یاد کر لینے سے انسان امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ اس کے بعد اور سبق ہمیں سکھائے گا اور پھر اور سبق ابتلاؤں کے ذریعہ سکھائے گا یہاں تک کہ الہی قرب کا مضمون ہمیں اچھی طرح یاد ہو جائیگا.اور کوئی فتنہ ہمارے قدم میں لغزش پیدا نہیں کر سکے گا.ابھی ہماری جماعت میں بہت لوگ ایسے ہیں

Page 614

خطبات محمود ۶۰۹ سال ۱۹۳۵ء جن کی تربیت کی ضرورت ہے ابھی بہت لوگ ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو سچائی پر قائم نہیں ، ابھی بہت لوگ ہماری جماعت میں ایسے ہیں جو پوری طرح دیانت اور امانت سے کام نہیں لیتے ، ابھی بہت لوگ ہماری جماعت میں ایسے ہیں جن کا دوسروں سے معاملہ اچھا نہیں.پس جب تک ہماری جماعت جھوٹ سے اتنی شدید نفرت نہیں کرتی کہ وہ موت کو قبول کرنا آسان سمجھے مگر جھوٹ بولنے کے لئے تیار نہ ہو ، جب تک ہماری جماعت دیانت پر ایسی مضبوطی سے قائم نہیں ہو جاتی کہ وہ موت کو قبول کرنا آسان سمجھے مگر خیانت کے لئے تیار نہ ہو ، جب تک ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی اور عصیان سے اتنی شدید نفرت نہ کرے کہ وہ موت کو آسانی سے قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے مگر الہی احکام کی نافرمانی نہ کرے اُس وقت تک نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری زندگیاں روحانی زندگیاں ہیں اور ہمارے لئے ابتلاؤں اور مشکلات کی ضرورت نہیں.دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس لئے جھوٹ نہیں بولتے کہ وہ سمجھتے ہیں جس ماحول میں وہ رہتے ہیں اس میں جھوٹ بول کر عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتے مگر کیا ایک مثال بھی ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ ہماری جماعت میں سے کسی نے اس لئے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہو کہ اس جماعت میں رہ کر جھوٹ بولنا اس کے لئے ناممکن ہے.یا کیا ایک مثال بھی ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ ہماری جماعت میں کسی نے اس لئے خیانت اور دھوکا بازی کو چھوڑ دیا ہو کہ اس جماعت میں رہ کر خیانت کرنا موت کو خریدنا ہے.پھر کیا ایک مثال بھی ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ ہماری جماعت میں سے کسی نے اس لئے عصیان وطغیان کو ترک کر دیا ہو کہ اس جماعت میں رہ کر خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی یا اس کے فرائض کی بجا آوری میں کوتا ہی موت ہے.اگر نہیں تو پھر جب تک ہماری جماعت کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا اور جب تک جماعت کے افراد اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ جہاں کسی نے گناہ کیا اس نے گویا طاعون اور ہیضے کے کیڑے چھوڑ دیئے.اُس وقت تک کون کہہ سکتا ہے کہ تربیت اور جماعت کی ترقی کے لئے مشکلات و مصائب کا آنا اور جماعت کا قربانیوں کے لئے تیار رہنا بہت بوجھ ہے.کیا ممکن ہے کہ گناہ کی بجائے اگر کوئی شخص ہینہ یا طاعون کے کیڑے ایک شہر میں چھوڑ دے تو لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اس سے محبت اور پیار کریں.پھر کیوں لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ہیضہ کے کیڑوں سے ایک شہر کو جتنا نقصان پہنچ سکتا ہے وہ اس نقصان کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا جو جھوٹ کے کیڑوں سے انسانوں کو پہنچتا ہے.یا

Page 615

خطبات محمود ۶۱۰ سال ۱۹۳۵ء خیانت اور غداری کے جراثیم اس سے بہت زیادہ انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جتنا ہیضے یا طاعون کے کیڑے انسانوں کے لئے مہلک ثابت ہوتے ہیں.کیونکہ طاعون اور ہیضہ انسانی جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں مگر جھوٹ ، خیانت اور عصیان انسانی روح کو تباہ کرتے ہیں.اور یہ نادانی ہے کہ انسان ہیضہ اور طاعون کو روحانی گناہوں سے زیادہ خطرناک اور مہلک سمجھے.اگر کسی جماعت کا واقعی خدا تعالیٰ سے تعلق ہے تو پھر اسے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو بھی طاعون اور ہیضہ سے زیادہ مہلک سمجھنا چاہئے.اور اگر کسی وقت کہا جائے کہ تمہیں طاعون اور ہیضہ منظور ہے یا جھوٹ ، خیانت اور عصیان وغیرہ تو وہ یک زبان ہو کر کہہ اُٹھے کہ ہمیں طاعون منظور ، ہیضہ منظور مگر یہ منظور نہیں کہ گناہوں کے جراثیم ہمارے اندر پھیلیں.ہماری جماعت کو بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا گناہوں کے خلاف اسی قسم کا جوش اس کے دل میں بہ حیثیت جماعت موجود ہے؟ اگر نہیں تو پھر یقیناً اس کا علاج ہونا چاہئے اور یقیناً پھر ضرورت ہے کہ ابتلاؤں پر ابتلا آئیں یہاں تک کہ دو صورتوں میں سے ایک ہو جائے یعنی یا تو لوگ مرتد ہو جائیں اور یا اپنی اصلاح کر لیں.لیکن اگر جماعت بغیر کسی قسم کے ابتلا کے خود بخود اپنی اصلاح کرلے تو پھر ابتلاؤں کی بھی ضرورت نہیں رہتی.ابتلاؤں کی ضرورت میں سے ایک بڑی بھاری ضرورت یہ ہے کہ اس طرح قلوب کی اصلاح ہوتی اور مؤمن اور منافق میں تمیز ہو جاتی ہے.پس میں پھر ایک دفعہ جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اگر کوئی ہم میں سے اپنے دشمنوں سے لڑنا چاہے تو اسے چاہئے کہ سچائی کی تلوار لے کر لڑے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ لڑائی جو ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں جاری ہے ختم ہوگئی.یہ ختم نہیں ہوسکتی اور نہ ہوگی بلکہ یہ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ سچ اور جھوٹ میں سے ایک قر با نگاہ پر نہیں چڑھایا جاتا.یہ شیطان اور رحمن کی آخری جنگ ہے.یہ اٹلی اور ایسے سینیا کی جنگ نہیں کہ جب جی چاہا صلح کر لی اور جس وقت خیال اُٹھا لڑائی شروع کر دی.نہ یہ جرمن اور انگریز کی جنگ ہے کہ اس کا ختم کرنا انسانی طاقتوں میں ہو بلکہ یہ رحمانی فوجوں کی شیطانی لشکر کے ساتھ آخری جنگ ہے اس جنگ میں نہ خدا دم لے سکتا ہے جب تک کہ شیطان کو شکست نہ دے لے اور نہ شیطان دم لے سکتا ہے جب تک کہ رحمانی فوجوں کو پسپا نہ کرے.مگر جیسا کہ پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے آخر رحمانی فوج کو ہی غلبہ ہے.شیطان ہمیشہ کے لئے شکست کھائے گا اور اس کی فوجوں کو پسپا کر دیا جائے گا.پس دوستوں کو یہ نہیں

Page 616

خطبات محمود ۶۱۱ سال ۱۹۳۵ء سمجھنا چاہئے کہ یہ احرار جنگ کر رہے ہیں احرار تو صرف شیطان کا ایک ہتھیار ہیں جس سے وہ اس وقت کام لے رہا ہے اور اسی طرح کے اس کے اور کئی ہتھیار ہیں.شیطانی طاقتیں اس وقت چاہتی ہیں کہ دنیا سے اسلام کو مٹا دیں اور محمد ﷺ کی آواز کو دنیا سے نابود کر دیں مگر خدا نہیں چاہتا کہ ایسا ہونے دے.يَأْبَى اللَّهُ إِلَّا انْ يُتِمَّ نُورَ خدا اس وقت ہر بات سے انکار کر رہا ہے سوائے اس کے کہ اپنے نور کو کامل کر دے.اسی خدا نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس بات کا پھر اعلان کیا ہے کہ میں اپنے نور کو قائم کروں گا اور شیطان کی کچلیوں کو توڑ دونگا.پس آج خدا چاہتا ہے کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے.وہ چاہتا ہے کہ شیطنت کی گچلیاں تو ڑ ڈالے مگر شیطنت دنیا سے کس طرح کچلی جاسکتی ہے جب خود ہمارے اندر شیطنت موجود ہو.پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا سے جھوٹ اور دغا بازی کوکچل دیں اور شیطان کی کچلیوں کو ہمیشہ کے لئے توڑ دیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہمارے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا ہوا ور ا بتلاؤں سے ہم گھبرائیں نہیں.دیکھو! جب ہوا آتی ہے تو وہ یکساں طور پر نہیں چلتی.پہلے ایک جھونکا آتا ہے اور وہ معمولی ہوتا ہے اس کے بعد سکون پیدا ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ آندھی بند ہوگئی اس کے بعد پھر ایک جھونکا آتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ سخت ہوتا ہے پھر سکون ہو جاتا ہے.اسی طرح ہوا ہر دفعہ کے سکون کے بعد زیادہ تیزی سے آتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ انسان سمجھتا ہے کہ اب چھتیں اڑ جائیں گی اور دیوار میں ٹوٹ جائیں گی مگر پھر طوفان میں کمی آنے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ آندھی ختم ہو جاتی ہے.اسی طرح ابتلاؤں کا بھی سلسلہ ہے وہ بھی آہستہ اُٹھتے اور آخر شدت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ مقصد پورا ہو جاتا ہے اور ان میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے مگر بغیر مقصد کے پورا ہونے کے ان میں کمی نہیں آسکتی اور یہ سلسلہ ابتلاء اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ شیطان اپنی پوری طاقت خرچ نہ کر لے اور ہر قسم کے حربوں سے کام لے کر نا کام نہ ہو چکے.ممکن ہے احرار کا ہتھیار اگر گند ہو جائے تو شیطان اپنے لئے کوئی اور ہتھیار اختیار کر لے مگر یہ جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ خدا کی طرف سے جو چیلنج ملا ہے اس کے نتیجہ میں شیطانی طاقت دنیا سے مٹ نہ جائے اور وہ رحمانی فوجوں کے آگے اپنے ہتھیار نہ ڈال دے.اگر تم بدیوں کی فہرست گنو تو دن

Page 617

خطبات محمود ۶۱۲ سال ۱۹۳۵ء رات میں گناہوں اور بدیوں کے نام بھی پوری طرح مین نہیں سکو گے.جب شیطانی جال اس قدر وسیع طور پر دنیا میں پھیلا ہوا ہے تو کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم معمولی معمولی قربانیوں سے اس جال کو توڑ سکو گے؟ جب تک تم کامل قربانی اور ایثار نہ دکھاؤ اور ہر قسم کے خطرات کو برداشت کرتے ہوئے خدا تعالی کی آواز دنیا کے کانوں تک نہیں پہنچاؤ گے اُس وقت تک کامیابی نہیں آسکتی.پس کبھی مت خیال کرو کہ معمولی معمولی قربانیوں سے تم اپنے کام کو ختم کر سکو گے.تمہیں اس راہ میں اپنی عزتیں قربان کرنی پڑیں گی ، وجاہتیں قربان کرنی پڑیں گی ، اموال قربان کرنے پڑیں گے ، جانیں قربان کرنی پڑیں گی اور ہر عزیز سے عزیز تر چیز اس راہ میں لٹا دینی ہوگی تب وہ نتیجہ نکلے گا جس کے تم خواہشمند ہو.مگر یہ نہ سمجھو کہ پھر تمہیں آرام مل جائے گا اور تمہارے لئے کوئی کام نہیں رہے گا.میں حیران ہوتا ہوں جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ آرام کا کس قدر غلط مفہوم سمجھے بیٹھے ہیں اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ آرام کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ اے رسول ! جب تم اس جنگ سے فارغ ہو جاؤ تو آرام تم نے پھر بھی نہیں کرنا بلکہ فَانصَبُ پھر خوب محنت کرنا اور جد و جہد سے کام لینا.پس اسلام نے آرام کے معنی زیادہ کام اور زیادہ جد و جہد کرنے کے لئے ہیں.اور اسلام کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ جتنا زیادہ کوئی شخص جد و جہد کرے گا اتنا زیادہ وہ اپنے دل میں آرام محسوس کرے گا.اس نقطہ نگاہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں نے بہت سی ٹھوکریں کھائی ہیں.یہ مضمون چونکہ بہت وسیع ہے اس لئے میں اس وقت اس پر بحث کرنا نہیں چاہتا میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آرام کی غلط تعریف لوگ کرتے ہیں اور اس طرح بارگاہِ الہی سے راندے جاتے ہیں.مؤمن کے نزدیک آرام کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ کام کرے اور خوب محنت سے کرے.اسلام کے نزدیک آرام منزل مقصود نہیں جس کے لئے انسان جد و جہد کرتا ہے بلکہ صحیح کوشش کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی حسن کا نام ہے.چنانچہ یہاں اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں حکم دیا.شیطان سے لڑو اور خوب لڑو تم نے لڑائی کی اور فتح حاصل کی.آؤاب اور زیادہ زور سے ہماری طرف دوڑ و کیونکہ تمہارے لئے یہی حکم ہے کہ جب تم فارغ ہو جاؤ تو زیادہ کوشش اور مستعدی سے خدا تعالیٰ کی طرف دوڑو.پس مؤمن کے لئے اس قسم کا آرام کہاں آیا جسے دنیا آرام کہتی ہے.مجھے اس جگہ پر ایک لطیفہ یاد آ گیا.مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 618

خطبات محمود ۶۱۳ سال ۱۹۳۵ء کے نہایت مخلص صحابی تھے اور نہایت خوش مذاق آدمی تھے ان ہی کی وفات اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مدرسہ احمدیہ کے قیام کا خیال پیدا ہو ا.وہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور ذکر کیا کہ میں نے خواب میں اپنی فوت شدہ ہمشیرہ کو دیکھا ہے کہ وہ مجھ سے ملی ہیں میں نے اُن سے پوچھا کہ بہن بتاؤ وہاں تمہارا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگی خدا نے بڑا فضل کیا ، مجھے اُس نے بخش دیا اور اب میں جنت میں آرام سے رہتی ہوں.میں نے پوچھا کہ بہن وہاں کرتی کیا ہو؟ وہ کہنے لگی بیر بیچتی ہوں.مولوی برہان الدین صاحب کہنے لگے.میں نے کہا ” بھین ساڈی قسمت بھی عجیب ہے سانوں جنت وچ بھی بیر ہی ویچنے پے ان کے خاندان میں چونکہ غربت تھی اس لئے خواب میں بھی ان کا خیال ادھر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رو یا سنکر فرمایا مولوی صاحب ! اس کی تعبیر تو اور ہے مگر خواب میں بھی آپ کو تمسخر ہی سُوجھا اور مذاق کرنا نہ بھولا.بیر در حقیقت جنتی پھل ہے اور اس سے مراد ایسی کامل محبت ہوتی ہے جو لازوال ہو کیونکہ سدرہ لا زوال الہی محبت کا مقام ہے پس اس کی تعبیر یہ تھی کہ میں اللہ تعالی کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی ہوں.غرض مؤمن تو کسی جگہ رہے اُسے کام کرنا پڑے گا اور اگر کسی وقت کسی کے ذہن میں یہ آیا کہ اب آرام کا وقت ہے تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس نے اپنے ایمان کو کھو دیا کیونکہ جس بات کو اسلام نے ایمان اور آرام قرار دیا ہے وہ تو کام کرنا ہے.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ وَالى رَبِّكَ فَارُغَبُ.جب تم فارغ ہو جاؤ تو اور زیادہ محنت کرو اور اپنے رب کی طرف دوڑ پڑو.یہ نکتہ ہے جسے ہمیشہ یادرکھنا چاہیے تمہارے لئے ان معنوں میں کوئی آرام نہیں جسے دنیا کے لوگ آرام کہتے ہیں لیکن جن معنوں میں قرآن کریم آرام کا وعدہ کرتا ہے اسے تم آسانی سے حاصل کر سکتے ہو.دنیا جن معنوں میں آرام کا مطلب لیتی ہے وہ یقیناً غلط ہیں اور ان معنوں سے جس شخص نے آرام کی تلاش کی وہ اس جہان میں بھی اندھا رہے گا اور آخرت میں بھی اندھا اُٹھے گا.تم خدا تعالیٰ کی طرف دیکھو اس نے آرام پیدا کیا مگر کیا وہ خود بھی آرام کیا کرتا ہے؟ اُس کے متعلق تو آتا ہے کہ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ اُسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ.کوئی بیوقوف تھا اُس نے جب یہ آیت پڑھی تو کہنے لگا اللہ میاں تو بڑے دُکھ میں ہوگا اُسے نہ

Page 619

خطبات محمود ۶۱۴ سال ۱۹۳۵ء نیند آتی ہے نہ اونگھ.مگر جب تم خدا کے متعلق یہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ نہ سوتا ہے نہ اونگھتا تو کیا تم سمجھتے ہو که خدا نَعُوذُ بِاللهِ دُکھ میں ہے.اگر نہیں تو پھر جب تم بھی خدا کی مانند ہونا چاہتے ہو تو کس طرح ممکن ہے کہ تم سمجھ لو کہ تمہارے لئے آرام کا زمانہ اس طرح آ سکتا ہے کہ تم قربانی اور خدمت سے بیچ جاؤ.جس خدا کا مثیل بنی آدم کو بنانے کے لئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں آتے رہے ، اس خدا کے متعلق تو قرآن مجید نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ وہ نہ سوتا ہے نہ اونگھتا اور جبکہ تمہارا کام بھی یہی ہے کہ تم خدا نما بنو اور اُس کے مظہر کامل کہلاؤ تو جس طرح خدا کے لئے کوئی نیند نہیں ، اس کے لئے کوئی اونگھ غفلت اور سُستی نہیں اسی طرح تمہارے اندر بھی نہ نیند ہو ، نہ اونگھ ، نہ سستی ، نہ غفلت.اس کے مقابلہ میں شیطان کا یہ کام ہے کہ وہ سوتا ہے اور اونگھتا ہے.لیکن خدا تو وہ ہے جو نہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے پس اگر تم حقیقی آرام چاہتے ہو تو آرام کے معنی سمجھو.اور یاد رکھو کہ آرام کے یہی معنی ہیں کہ جس طرح خدا اپنی مخلوق کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہر وقت لگا رہتا ہے اسی طرح مؤمن کو بھی چاہئے کہ وہ ہر وقت بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہبودی کے کاموں میں مصروف رہے کیونکہ جتنا زیادہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا موقع ملتا ہے اسی قدر زیادہ وہ آرام محسوس کرتا ہے.(الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۵ء) ل الانشراح: ۲ تا آخر متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ مفہوماً الاعراف : ۱۵۹ المائدة : ۲۵ العلق : ٢، ٣ ه التوبة : ٤٠ کے گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمُ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ (المائدة: ۸۴) و گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ا الى البقرة : ۲۱۵ تذکرہ صفحہ ۴۲۰.ایڈیشن چہارم ١٣ التوبة: ٣٢ البقرة: ۲۵۶

Page 620

خطبات محمود ۶۱۵ ۳۸ سال ۱۹۳۵ء مؤمن اور غیر مؤمن کے آرام میں فرق (فرموده ۱۸ /اکتوبر ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اورسورۃ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں اس امر کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں کہ مؤمن کے آرام اور دوسرے لوگوں کے آرام میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.لوگ آرام کو کام کا ایسا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو کام کے ختم ہونے کے بعد آتا ہے لیکن اسلام آرام اس کیفیت کا نام رکھتا ہے جو کام کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے مثلاً صدقہ کرنے والا جب صدقہ کرتا ہے تو لوگوں کی نگاہ میں آرام کا یہ مطلب ہے کہ اسے کچھ دیر کے لئے صدقہ سے نجات مل گئی.لیکن اسلام اس بات کو آرام قرار نہیں دیتا بلکہ صدقہ کرتے وقت انسان جو یہ خوشی محسوس کرتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کے بجالانے اور اپنے غریب بھائی کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے یہ آرام ہے.غرض ہر کام کرتے وقت جو سرور کی کیفیت انسانی دل میں پیدا ہوتی ہے اُس کا نام آرام ہے.اور جس کو لوگ آرام کہتے ہیں یعنی کام کا ترک کر دینا اسے قرآن مجید آرام نہیں بلکہ سستی ،غفلت اور کسل قرار دیتا ہے.مثلاً جب انسان ایک نماز پڑھ لے اور پھر دوسری نماز کے لئے اپنے دل پر بوجھ محسوس کرے اور کہے کہ ابھی تو ایک نماز پڑھ کر آیا ہوں اور یہ دوسری پھر پڑھنی پڑ گئی تو یہ کسل ہو گا چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرما تا ہے کہ منافق جب نمازوں کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ قاموا کسالی ان کے دلوں پر بوجھ ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسی مصیبت پڑ گئی.تو منافق کا نقطہ نگاہ یہ ہو

Page 621

خطبات محمود ۶۱۶ سال ۱۹۳۵ء تا ہے کہ چونکہ ظہر کی نماز پڑھ لی ہے اس لئے اب وقفہ ملنا چاہئے.چودہ پندرہ، ہیں تمہیں یا اڑتالیس گھنٹے کا کم از کم دو نمازوں میں وقفہ ہونا چاہئے تا انسان آرام کر سکے لیکن اسلام اسے آرام قرار دیتا ہے کہ جب ظہر کی نماز انسان پڑھ لے تو دل میں خلش پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اور عبادت کریں اور جب عصر کی نماز پڑھ لے تو پھر خلش پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اور عبادت کریں اور جب مغرب کی نماز پڑھ لے تو پھر خلش پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اور عبادت کریں.غرض مؤمن کا آرام اس کے قلب سے تعلق رکھتا ہے جسم سے نہیں اور وہ اس کے کام کا حصہ اور نجر و ہوتا ہے نہ علیحدہ چیز.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبُ یعنی جب تم روحانی جنگ سے فارغ ہو جاؤ تو اصل کام پھر بھی باقی ہوتا ہے اس لئے پورے زور سے اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑو.پس اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر مومن کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا اور اس کی اولاد اور عزیز واقارب کا بھلا کام کرنے میں ہی ہے اور حقیقی آرام بغیر کام کے نہیں مل سکتا.مگر میں دیکھتا ہوں یہ خیال کہ کام کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے کام چھوڑ بھی دینا چاہئے یا کام کرنے کے بعد انسان کو پنشن ملنی چاہئے ، ایسا غالب ہے کہ کئی لوگ کام کو بوجھ اور چٹی تصور کرتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفوس کی اصلاح اور اپنی اولادوں کی اصلاح کی طرف سے بالکل غافل ہیں.خود اپنے کاموں میں جس طرح انہیں اوقات کا استعمال کرنا چاہئے نہیں کرتے.حالانکہ جب انسانوں کے ذمہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑا کام ڈالا گیا ہے تو لازماً انہیں کام بھی بہت زیادہ کرنا چاہئے.مثلاً تمام لوگوں کے ذمہ یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ روزی کمائیں اور اپنے بیوی بچوں کو کھلائیں.اس کے لئے کسی کو چھ کسی کو سات کسی کو آٹھ، کسی کو نو کسی کو دس کسی کو گیارہ اور کسی کو بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے لیکن جب کوئی شخص الہی سلسلہ میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے ذمہ دو کام ہو جاتے ہیں.ایک کام تو وہی ہے جو باقی لوگوں کے ذمہ ہے یعنی اپنے نفس کے لئے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے روزی کمائے اور کھلائے لیکن دوسرا کام اس پر یہ بھی ڈالا جاتا ہے کہ وہ ساری دنیا کا والی وارث بنے اور تمام دنیا کے آرام کا ذمہ وار بنے.پس جس کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو کام ہوں اُسے کام بھی دُہرا کرنا پڑے گامگر کتنے ہیں جو اس طرف توجہ کرتے ہیں.ہم میں سے ہر شخص اگر اپنے نفس پر اور اپنے گر دو پیش

Page 622

خطبات محمود 912 سال ۱۹۳۵ء کے لوگوں کے حالات پر غور کرے گا تو اسے تھوڑے ہی ایسے ملیں گے جو واقعہ میں دوسرے کام پر اپنا اُتنا ہی وقت صرف کرتے ہوں جتنا وہ اپنے بیوی بچوں کے لئے صرف کرتے ہیں یا جتنا وقت صرف کرنا ایک انسان کے لئے ممکن ہے.عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ چندہ دیا اور چھٹی ہوگئی یا نماز پڑھی اور فرض ادا ہو گیا حالانکہ چندہ تو کل کام کا صرف ایک جزو ہے اور نماز میں خود مؤمن کی بہتری اور روحانی ترقی کے لئے مقرر کی گئی ہیں بھلا قتیموں ، غریبوں اور مسکینوں کو اس سے کیا فائدہ کہ تم نماز پڑھتے ہو یا دوسرے بنی نوع انسان کو کسی کی نماز سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.نماز تو انسان کے اپنے نفع کے لئے مقرر کی گئی ہے اور اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ اس کے نتیجہ میں انسان کو خدا تعالیٰ کا ثمر - حاصل ہومگر جو ذمہ داری اس پر عائد کی گئی ہے اور جو یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنا فکر کرے بلکہ دوسروں کا بھی فکر کرے، اُس کی کفالت تو اس سے نہیں ہو سکتی.اس کی کفالت تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ ہر شخص نہ صرف تمام دنیا کی فلاح و بہبود کا کام اپنے ذمہ لے بلکہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار بھی کرے.اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کسی کے پاس روپیہ ہو تو وہ دوسروں کو بتائے کہ میرے پاس اتنار و پیہ جمع ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی مفید طاقتوں کو لوگوں کیلئے خرچ کرے مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے علم ملا ہے، عقل ملی ہے ، دولت ملی ہے ، عزت ملی ہے ، رتبہ ملا ہے ان تمام نعمتوں کو وہ لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرے.اگر علم ملا ہے تو لوگوں کو علم سکھائے ، عقل ملی ہے تو لوگوں کو عقل کی باتیں بتائے ، کوئی پیشہ جانتا ہے تو پیشہ سکھائے ، روپیہ ملا ہے تو اسے رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کرے.غرض جب تک یہ روح ہر شخص میں بیدار نہ ہو جائے اُس وقت تک حقیقی آرام میسر نہیں آ سکتا.مگر یہ دنیا اپنے اندر اتنی کشش اور جذب رکھتی ہے کہ بہت سے لوگ اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں کی بجا آوری کا خیال نہیں کرتے بلکہ ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر انہیں دنیا کے بداثرات سے نجات حاصل ہوتی تو وہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں جسقدر مفید طاقتیں ملی ہیں انہیں لوگوں کی بہبودی کے لئے خرچ کرنا چاہئے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو زندہ قو میں کہلاتی ہیں ، وہ اپنے کاموں کا کچھ حصہ لوگوں کے لئے وقف کر دیتی ہیں.ہندوستان میں ہزاروں انگریز نرسیں ایسی ہیں جو ہندوستانی بیمار کی تیمارداری میں ہی اپنی عمر بسر کرتیں ہیں اور اس

Page 623

خطبات محمود ۶۱۸ سال ۱۹۳۵ء وجہ سے شادی تک نہیں کرتیں.کئی عورتیں ، مرد ایسے ہیں جنہوں نے کوڑھیوں کا علاج ، ان کی پرورش اور ان کی رہائش کا ذمہ لیا ہوا ہے چنانچہ مدراس ، پنجاب اور بنگال میں جہاں جہاں کوڑھ ہوتا ہے ایسے ہسپتال بنائے گئے ہیں جہاں یہ لوگ ان کی خدمت کرتے اور ان کے کھانے پینے اور پہنے کا بند و بست کرتے ہیں.کچھ لوگ ایسے ہیں جو تعلیم کی طرف لگے ہوئے ہیں انہوں نے ہندوستان میں مدر سے اور کالج کھول رکھے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں جو صنعت و حرفت کی طرف متوجہ ہیں اور انہوں نے یہی شغل رکھا ہوا ہے کہ لوگوں کو مختلف پیشے سکھائیں.پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ غرباء کی مدد کرتے ہیں اور انہوں نے ایسی سوسائٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو غریبوں اور یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری کرتی ہیں.کئی مؤمن نما لوگ ناک بھوں چڑھا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ لوگ سب کچھ اپنی شہرت یا اپنے ملک کے مفاد کی خاطر کرتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا جس کے ذمہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی فرائض عائد ہوں، اسے ان لوگوں سے زیادہ جوش اور عمدگی کے ساتھ کام کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اگر ایک اپنے ملک سے محبت کرتا ہے اور اس وجہ سے وہ مخلوق کی خیر خواہی کے کاموں میں حصہ لیتا ہے.اگر ایک شخص اپنی قوم سے محبت کرتا ہے اور اس وجہ سے یتامیٰ اور مساکین کی خبر گیری کرتا ہے ، اگر ایک شخص عزت چاہتا ہے اور اس کے حصول کے لئے غریبوں سے ہمدردی کرتا ہے تو کیا مومن اپنے خدا سے محبت نہیں کرتا کہ اسے ان امور کی ضرورت نہیں ؟ یہ کہہ دینا کہ وہ لوگ یہ کام اپنے ملک کے فائدے کیلئے کرتے ہیں یا قوم کے فائدے کے لئے کرتے ہیں کوئی جواب نہیں بلکہ یہ الزام کو اور زیادہ قوی کر دیتا ہے کیونکہ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قوم کی عزت کے لئے غرباء سے ہمدردی کرتے یا رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے محبت کرتے ہیں.یا جب وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد کے لئے ایسے کاموں میں حصہ لیتے ہیں تو گویا وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں.یا جب وہ کہتا ہے کہ فلاں لوگ اپنی ذاتی شہرت وعزت کے لئے سب کچھ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے محبت رکھتے ہیں.مگر وہ شخص جو مدعی ہو اس بات کا کہ وہ اپنی ذات سے بڑھ کر خدا سے محبت کرتا ہے، اپنی قوم سے بڑھ کر خدا سے محبت کرتا ہے اور اپنے ملک کی محبت سے بڑھ کر خدا سے محبت کرتا ہے یہ فقرہ کہہ کر اس کی عزت کہاں رہ سکتی ہے.دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ قوم سے محبت کرنے والا تو

Page 624

خطبات محمود ۶۱۹ سال ۱۹۳۵ء قربانی کر سکتا ہے لیکن خدا سے محبت رکھنے والا قربانی نہیں کر سکتا حالانکہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا عشق جن لوگوں کو ہوتا ہے وہ اسے دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں.باپ کیا ، ماں کیا، عزیز واقارب اور رشتہ دار کیا ، سب کو اس کے مقابلہ میں بیج سمجھتے ہیں.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جسے اللہ اور اُس کے رسول سے اپنا باپ ، اپنے بیٹے ، اپنا قبیلہ ، اپنا مال ، اپنی تجارت اور اپنے مکانات زیادہ پسند ہیں اُسے کہہ دو کہ تمہارا کوئی ایمان نہیں.ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ کبھی برداشت نہیں کرتی کہ کوئی اُس کی محبت میں شریک بنے.رسول کریم ﷺ کی غیرت کو دیکھو کہ آپ کا طریق ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے آپ کو اللہ تعالیٰ کے نام کے لئے جو غیرت تھی وہ اس واقعہ سے آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے.احد کی جنگ جو ایک مشہور جنگ ہے اور ہر مسلمان جسے تاریخ اسلام سے ذرہ بھر بھی اُنس ہے اس کے حالات جانتا ہے.اس جنگ میں ایک موقع پر ایسی حالت ہو گئی کہ صحابہ کے قدم اکھڑ گئے اور بہت تھوڑے صحابہ میدانِ جنگ میں رہ گئے.بلکہ ایک وقت ایسا آیا جب کہ صرف چھ سات صحابہ رسول کریم کے گرد رہ گئے.دشمن انہیں بھی ریلتے ہوئے پیچھے دھکیل کر لے گیا اور اُس نے پتھروں کی بوچھاڑ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ پر کر دی.رسول کریم ﷺ کو اس سے سخت تکلیف ہوئی آپ کے بعض دندانِ مبارک ٹوٹ گئے اور آپ تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو کر گر گئے.اس کے بعد بعض صحابہ شہید ہو کر گرے اور اُن کے جسم رسول کریم لے کے جسم کے اوپر گر گئے.اور باقی صحابہ نے خیال کیا کہ شاید رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پھر طاقت دی اور اُنہوں نے باوجود کمزوری کے اس ایمان اور اخلاص سے کام لے کر جو اُن میں ودیعت تھا پھر اکٹھا ہونا شروع کیا اور بہت سے صحابہ جمع ہو گئے.صحابہ کا اخلاص اس حد تک پہنچا ہو ا تھا کہ ایک صحابی کے متعلق تو اریخ میں آتا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے.بعد میں جب کبھی وہ بدر کے واقعات سنتے تو انہیں بڑا درد پیدا ہوتا اور جوں جوں صحابہ کفار کی شکست کا ذکر کرتے انہیں اور زیادہ جوش آتا.اور وہ کہتے میں اگر ہوتا تو آپ لوگ دیکھتے کہ کیا کرتا.بظاہر یہ متکبرانہ دعویٰ ہے مگر کبھی عشق میں چور ہو کر اس قسم کے الفاظ انسان کے منہ سے نکل جاتے ہیں.عام طور پر یہ فقرات منافقوں کے منہ سے نکلا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی نہایت جو شیلے مؤمن بھی جب سنتے ہیں کہ وہ کسی خدمت

Page 625

خطبات محمود ۶۲۰ سال ۱۹۳۵ء دین کے خاص موقع سے محروم رہ گئے ہیں تو اُس وقت وہ اپنا جوش اس قسم کے الفاظ سے نکالتے ہیں کہ اگر ہم ہوتے تو یوں کرتے.اسی جذبہ کے ماتحت یہ صحابی جب دوسرے صحابہ کی جرات کا کوئی واقعہ سنتے تو کہا کرتے کہ تم نے کچھ بھی نہ کیا میں اگر ہوتا تو دکھاتا کہ کس طرح جنگ کیا کرتے ہیں.احد کی جنگ میں یہ بھی شامل تھے چونکہ اس جنگ میں مسلمانوں کو پہلے ہی فتح ہوئی تھی وہ مطمئن ہو کر ایک طرف کھڑے ہو گئے تھے اور کھجور میں کھا رہے تھے.کھجور میں کھاتے ہوئے انہوں نے کیا دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک پتھر کے اوپر بیٹھے ہیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں.انہوں نے پوچھا عمر! کیا ہوا روتے کیوں ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں.وہ اُس وقت آخری کھجور کھانے لگے تھے اور منہ کی طرف لے جا رہے تھے کہ جو نہی انہوں نے یہ بات سنی کھجور اپنے ہاتھ سے پھینک دی اور کہا میرے اور جنت کے درمیان کیا صرف یہی ایک کھجور حائل نہیں ؟ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا مجھے آپ پر تعجب ہے رسول کریم ﷺ اگر شہید ہو گئے ہیں تو آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں جہاں وہ گئے ہم بھی وہیں جائیں گے.یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی تلوار ہاتھ میں لی اور میدانِ جنگ میں کود پڑے.اور اتنی بہادری سے لڑے کہ جب وہ لڑتے لڑتے شہید ہوئے تو بعد میں ان کے جسم پر تلوار کے ستر زخم دیکھے گئے.ھے غرض صحابہ جوش ایمان سے باوجود ظاہری کمزوری کے اور پاؤں اکھڑ جانے کے پھر اکٹھے ہو صلى الله گئے اور جب انہوں نے نعشوں کو ہٹایا تو دیکھا کہ رسول کریم ﷺ زندہ ہیں.صحابہ نے آپ کو اٹھایا اور جب آپ کو ہوش آیا تو آپ تمام مسلمانوں کو ایک پہاڑ کی طرف لے گئے اُس وقت چونکہ تمام صحابہ زخموں سے چور تھے اور بہت کم ایسے تھے جو تندرست ہوں.اس لئے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ خاموش رہو.دشمن کو خواہ مخواہ برانگیختہ کرنے کی کیا ضرورت ہے.ابوسفیان جو کفار کا کمانڈرتھا مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر بولا ، دیکھا ہم نے بدر کا بدلہ لیا یا نہیں.پھر کہا دیکھو ہم نے تمہارے محمد ( ﷺ ) کو مار دیا.بعض صحابہ اس پر بولنے لگے مگر رسول کریم ﷺ نے فرما یا چُپ رہو بولنے کی کیا ضرورت ہے.جب مسلمانوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا تو وہ کہنے لگا کیا تم میں ابوبکر زندہ ہے ؟ ( میں اس جگہ ضمناً یہ بات بتا دیتا ہوں کہ ابوسفیان کے ان سوالات سے على الله صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں کفار تک بھی یہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم ہے

Page 626

خطبات محمود ۶۲۱ سال ۱۹۳۵ء کے بعد حضرت ابو بکر ہی مسلمانوں میں اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں اور آپکی وفات کے بعد انہی کا وجود مسلمانوں کے لئے نقطۂ اجتماع ہو سکتا ہے ) رسول کریم ﷺ نے پھر صحابہ سے فرمایا خاموش رہو ب دینے کی ضرورت نہیں.جب ابوسفیان کو اس بات کا بھی جواب نہ ملا تو کہنے لگا ہم نے ابو بکر کو بھی مار دیا.پھر اُس نے پوچھا کیا تم میں عمر زندہ ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جواب دینے لگے تو رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا چُپ رہو.جب اس بات کا بھی ابوسفیان کو کوئی جواب نہ ملا تو وہ کہنے لگا ہم نے عمر کو بھی مار دیا.پھر اُس نے تکبر سے نہایت بلند آواز سے نعرہ لگایا اور کہا اُعْلُ هُبُل - اُعْلُ هُبُل مہبل ان کا دیوتا تھا جس کی وہ پرستش کیا کرتے تھے مطلب یہ تھا کہ آج واحد خدا کے پرستار مبل کی پرستش کرنے والوں کے سامنے تباہ ہو گئے اور مہبل جیت گیا.صحابہ اس پر خاموش رہے کیونکہ رسول کریم ﷺ انہیں بار بار یہ ہدایت دے چکے تھے کہ چپ رہو.مگر جب ابوسفیان نے أغسلُ هُبُل کا نعرہ لگایا.اور فخریہ کہا کہ ایک خدا کے مقابلہ میں ہبل جیت گیا تو رسول کریم ﷺ نے بڑے جوش سے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تم جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! کیا کہیں؟ آپ نے کہو اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ تم مُبل کو لئے پھرتے ہوئبل تو کوئی چیز نہیں اللہ ہی ہے جو عزت و جلال والا اور اسی کا نام دنیا میں بلند ہے.تو دیکھو کتنے نازک مقام پر رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت کا مظاہرہ فرمایا.دشمن مسلمانوں کی کمزوری کو دیکھ کر انہیں چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے ہم نے محمد علی کو مار دیا، ابوبکر اور عمر کو مار دیا.مگر رسول کریم ﷺ صحابہ کی کمزور حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں خاموش رہو اور جواب مت دو.مگر جو نہی خدا کا نام آتا ہے اور مہبل کی فتح جتائی جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے فرماتے ہیں خاموش کیوں ہو، بولو اللهُ عَزَّوَجَلَّ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے مؤمن کو جو محبت ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.ماں باپ، بیٹے ، بھائی ، بہنیں ، عزیز واقارب اور رشتہ دار سب اس کے مقابلہ میں بیچ ہوتے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے جو دیر کے بعد اسلام میں داخل ہوئے تھے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے مختلف باتیں ہو رہی تھیں کہ وہ باتوں باتوں میں حضرت ابوبکر سے کہنے لگے ابا جان ! فلاں جنگ کے موقع پر میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہو ا تھا.آپ میرے سامنے سے دو دفعہ گزرے.میں اگر اُس وقت چاہتا تو آپ کو مار دیتا مگر

Page 627

خطبات محمود ۶۲۲ سال ۱۹۳۵ء میں نے اس خیال سے ہاتھ نہ اُٹھایا کہ آپ میرے باپ ہیں.ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے میں نے تجھے اُس وقت دیکھا نہیں اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو چونکہ تو خدا کا دشمن ہو کر میدان میں آیا تھا اس لئے میں تجھے ضرور ماردیتا.تو مؤمن کا سارا دارو مدار اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے.بیشک وہ اپنے باپ سے محبت کرتا ہے، بے شک وہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے، بے شک وہ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے مگر اُس کی ساری محبتیں خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہو جاتی ہیں.جس طرح سورج چڑھتا اور تمام روشنیوں کو ماند کر دیتا ہے اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی محبت کا سورج چڑھتا ہے تو کوئی محبت اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.اور وہ اس طرح غائب ہو جاتی ہے جس طرح جگنو کی چمک سورج کی روشنی کے مقابلہ میں غائب ہو جاتی ہے.ایک مؤمن کے لئے کتنی غیرت کا مقام ہے کہ اس وقت دنیا اپنے جھوٹے بھوں کی خاطر قربانیاں کر رہی ہے.کوئی اپنی قوم کے بُت کے آگے جھکا ہوا ہے کوئی اپنے ملک کے بُت کے آگے جھکا ہوا ہے، کوئی اپنی ذات کے بُت کے آگے جھکا ہوا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا پرستار اُس کے لئے قربانیاں کرنا ضروری نہیں سمجھتا.اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا سے محبت رکھتا ہے آخر خدا کی محبت کی کوئی علامت بھی تو ہونی چاہئے.کبھی تم نے دیکھا کہ کوئی چیز اپنی حقیقی شان میں موجود ہوا اور پھر اس کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو.کس طرح ممکن ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہو مگر اس کی روشنی نہ ہو.کس طرح ممکن ہے کہ آگ جل رہی ہو مگر وہاں گرمی اور دھواں نہ ہو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا عشق انسان کے دل میں ہو مگر اس کی چنگاری میں چمک پیدا نہ ہو رہی ہو.جہاں عشق ہوتا ہے وہاں تو محبوب کی معمولی معمولی بات بھی پسند آجاتی ہے.احادیث میں ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تو راستہ میں آپ نے ایک جگہ پیشاپ کیا.حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی جب ایک دفعہ اس مقام سے گزرے تو اسی جگہ پیشاب کرنے کے لئے بیٹھ گئے چونکہ وہ تھوڑی دیر پہلے بھی پیشاب کر چکے تھے اس لئے ایک شخص نے پوچھا ابھی آپ پیشاب کر کے آئے تھے پھر پیشاب کرنے بیٹھ گئے ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا مجھے پیشاب کی حاجت تو نہ تھی مگر میں یہاں اس لئے بیٹھ گیا کہ رسول کریم ﷺ یہاں پیشاب کی حاجت پر بیٹھے تھے.کے

Page 628

خطبات محمود ۶۲۳ سال ۱۹۳۵ء دنیوی عاشقوں کے قصے جو مشہور ہیں وہ بھی انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں.مشہور ہے کہ مجنوں لیلی کے کوچہ کی طرف گیا تو لیلی کے گتے کو چھٹ گیا.کسی نے کہا گتے کو چوم رہے ہو؟ کہنے لگا گتے کو نہیں بلکہ لیلی کے گتے کو.پھر تعجب ہے انسان دعوی تو یہ کرے کہ وہ خدا کا عشق اپنے اندر رکھتا ہے مگر اس کی کوئی گرمی اس کی کوئی سوزش ، اس کی کوئی جلن اور اس کا کوئی نشان ظاہر نہ ہو.وہ کیسی آگ ہے جو جلاتی نہیں ، وہ کیسی آگ ہے جو گرمی نہیں پہنچاتی ، وہ کیسی آگ ہے جو دھواں نہیں دیتی.پس مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مفید ترین بنائے کیونکہ یہی اس کے پیارے خدا کی خواہش اور آرزو ہے.دیکھو رسول کریم ﷺ نے مؤمن کی تعریف کیا کی ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس کھجور کا ذکر ہوا اور لوگوں نے کہا یہ کیسا عجیب پھل ہے.جب کچا ہو تب بھی کھایا جاتا ہے اور جب پک جائے تب بھی کھایا جاتا ہے ، خشک ہو تب بھی کھایا جاتا ہے تر ہو تب بھی کھایا جاتا ہے.یہ پھل کا پھل ہے ،غذا کی غذا اور مقوی کا مقوی.اس کا چھلکا بھی کام آتا ہے اور پتا بھی.غرض اس کا درخت ، اسکا پھل ، اس کا پتا سب کچھ کام آتا ہے.رسول کریم ﷺ نے سن کر فرمایا.یہ مؤمن کی پھوپھی ہے.مطلب یہ کہ مؤمن کو بھی ایسا ہی بننا چاہئے کہ اُس کا وجود ہر رنگ میں لوگوں کے لئے مفید ہو.وہ بیمار ہو، تندرست ہو، بوڑھا ہو یا جوان ، چھوٹا ہو یا بڑا ، مصیبت میں ہو یا راحت میں ، ہر حالت اور ہر صورت میں وہ دنیا کے لئے مفید بنے.غرض مؤمن کی یہ علامت ہے کہ اُس کا کوئی وقت بریکار نہ ہو اور یہ یقینی بات ہے کہ جب تک وہ اپنے آپ کو دنیا کے لئے کارآمد نہ بنائے اللہ تعالیٰ کا عاشق نہیں کہلا سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ کئی غلطیاں عادتوں کے ماتحت انسانوں میں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ نہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہیں اور نہ اپنی اولاد کی اصلاح کی طرف.میں نے کئی دفعہ اولاد کی اصلاح کی طرف لوگوں کو تو جہ دلائی ہے مگر کتنے ہیں جو اپنی اولاد پر اس لئے بوجھ ڈالتے ہیں کہ ان کی آئندہ زندگی سنور جائے.میں دیکھتا ہوں کہ اُستاد اگر بچوں کو ذرا سا بھی جھڑک دے تو ان کے ماں باپ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے بچوں پر ظلم کیا گیا ہے.میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ کئی دفعہ ظالمانہ طور پر بھی اُستاد بچوں کو پیٹتے ہیں اور ان کا بچوں کو اس طرح پیٹنا نہ صرف اخلاق اور صحت کے لحاظ سے بلکہ دین کے لحاظ سے بھی مضر ہوتا ہے اور میں اس کو سخت نا پسند کرتا ہوں لیکن

Page 629

خطبات محمود ۶۲۴ سال ۱۹۳۵ء بسا واقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین بغیر کسی وجہ کے شور مچادیتے ہیں اُستاد حق پر ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی بے جا محبت میں اُستاد کے خلاف شور مچانے لگ جاتے ہیں.انہیں مثلاً اسی پر تکلیف محسوس ہونی شروع ہو جاتی ہے کہ ہمارے بچوں پر نمازوں کے لئے کیوں پابندی عائد کی جاتی ہے اور کیوں ان کے آرام میں خلل ڈالا جاتا ہے.بورڈنگوں سے وہ اس لئے گھبراتے ہیں کہ اگر ہمارے بچے ان میں داخل ہو گئے تو نہ معلوم ان سے کیا سلوک ہو گا ، ان کی نگرانی کی جائے گی ، انہیں با قاعدگی کے ساتھ نمازیں پڑھنی پڑیں گی.اکثر اوقات جب بچوں کے کسی عیب کو بیان کیا جاتا ہے تو ماں باپ کو بُرا لگتا ہے.اگر ان کا بچہ جھوٹ بول رہا ہو اور انہیں تو جہ دلائی جائے تو وہ سن کر ہنس دیتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہو ا نیا نیا ہے.حالانکہ بچپن ہی تو وہ عمر ہے جس میں اخلاق سدھر سکتے ہیں بڑے ہو کر کیا اصلاح ہوگی.حضرت خلیفہ مسیح الاوّل ہمیشہ آم کے درخت کی مثال دیا کرتے تھے کہ جب اس کی گٹھلی زمین میں ڈالی جاتی ہے تو تھوڑے دنوں کے بعد اس کا خوشہ سانکل آتا ہے.بچے اُس وقت گٹھلی زمین سے اکھیڑ کر اور اسے ذرا سا گھس کر باجہ بنا لیتے ہیں جس کو پنجابی میں پیلیاں کہتے ہیں مگر جب آم کا درخت بڑا ہو جاتا ہے تو اُس وقت بچے کیا اگر سارا خاندان مل کر بھی اُسے دھکے دے تو وہ نہیں گر سکتا.یہی حال انسان کے گناہوں اور عیوب کا ہوتا ہے جب گناہوں کی ابتدا ہو اُس وقت انہیں دور کیا جاسکتا اور اُس کے پودا کو اکھیڑا جاسکتا ہے مگر جب گناہ نشو و نما پا جائیں اور درخت کی صورت اختیار کر لیں تو پھر ان کو اُکھیڑنے کے لئے کسی زلزلہ کی ضرورت ہوتی ہے.غرض ماں باپ کے لئے موقع ہوتا ہے کہ وہ بچپن میں اپنی اولاد کی اصلاح کریں اور ان سے نمازوں کی پابندی کرائیں لیکن چونکہ وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے اس لئے ان کے لڑکے آوارہ پھرتے رہتے ہیں اور جب دریافت کیا جائے تو کہہ دیتے ہیں کیا کیا جائے بڑا شوخ بچہ ہے.اور جب وہ یہ کہ رہے ہوتے ہیں ان کے چہرہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اُس کی شوخی پر انہیں بڑا فخر ہے.ایک چھوٹی سی بات میں بتاتا ہوں کئی دفعہ میں نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے مگر لوگوں نے اب تک عمل نہیں کیا.بازاروں میں سے جب ہمارے بچے گزرتے ہیں تو چونکہ وہ غیروں کو گالیاں دیتے عام طور پر سُنا کرتے ہیں ، اس لئے وہ بھی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں.اگر کسی کو بنی نوع انسان سے محبت ہو اور وہ دوسرے کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھے تو وہ انہیں محبت اور پیار

Page 630

خطبات محمود ۶۲۵ سال ۱۹۳۵ء سے سمجھا سکتا ہے کہ گالیاں نہیں دینی چاہئیں.مگر میں نے دیکھا ہے کہ بچے گالیاں دیتے ہیں اور نہایت گندی گالیاں دیتے ہیں لوگ پاس سے گزر جاتے ہیں اور انہیں منع نہیں کرتے.انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ یہ گالیاں نہیں بلکہ زہر ہے جو یہ کھا رہے ہیں اس سے ان کو روکنا چاہئے.یہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی ہے جو کی جاسکتی ہے مگر لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر کوئی شخص راستہ سے کانٹا ہٹا دے تو اسے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملتا ہے ، کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک کنکریا کانٹے کا راستہ سے ہٹا دینا تو ثواب کا موجب ہے لیکن اگر کوئی بچہ گالیاں دے کر زہر کھا رہا ہو اور تم اسے روکو تو تمہارے لئے کوئی ثواب نہیں.یا تم اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہو کہ تمہیں ثواب کی ضرورت ہی نہیں.صحابہ کو تو اس قسم کی باتوں کا اتنا شوق تھا کہ ایک دفعہ جب ایک صلى الله صحابی نے دوسروں کو بتایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص میت کا جنازہ پڑھے، اُسے کندھا دے اور پھر اُس کے دفن ہونے تک قبر پر ٹھہرا رہے تو اُسے اُحد کے برابر ثواب ملتا ہے.تو بعض صحابہ کہنے لگے تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی.نہ معلوم عدم علم کی وجہ سے اب تک ہم نے کتنے ثواب کے اُحد ضائع کر دیئے.اسی طرح تم بھی اپنے آپ کو خاموش رکھتے ہو.اور دوسروں کو بدی سے نہیں روکتے.پس کیا معلوم کہ تم نے بھی ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں اُحد ضائع کر دیئے ہوں.پس جب کسی بچے کو گالیاں دیتے سنو تو تمہارا فرض ہے کہ اسے منع کر ونگر لڑ کر نہیں بلکہ محبت اور پیار کے ساتھ.پھر اپنے بچوں کو نمازوں کا پابند بناؤ اور ان سے کام لو.کام کرنے سے کبھی صحت خراب نہیں ہوتی بلکہ بریکار بیٹھنے سے صحت خراب ہوتی ہے.بیشک شاذ کے طور پر ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جنہیں کام کی زیادتی کی وجہ سے سل اور دق ہو گئی مگر کثرت سے دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آوارگی کی وجہ سے نو جوانوں کو سل یا دق ہوئی.وہ بیکاری اور آوارگی کی وجہ سے ایسی عمر میں شہوانی باتوں کی طرف توجہ کرتے ہیں.جس عمر میں شہوانی باتوں کی طرف توجہ کرنا زہر ہوتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دماغ کمزور ہو جاتے ہیں ، دل کمزور ہو جاتے ہیں ، پھیپھڑے کمزور ہو جاتے ہیں اور پھر بعض پاگل ہو جاتے اور بعض سل یا دق کا شکار ہو جاتے ہیں.تم کسی سکول میں چلے جاؤ تمہیں نظر آئے گا کہ زیادہ پڑھنے کے نتیجہ میں رسل دِق سے بیمار رہ کر مرنے والے تھوڑے ہیں لیکن آوارہ

Page 631

خطبات محمود ۶۲۶ سال ۱۹۳۵ء.ہوکر سل دق کا شکار ہونے والے بہت زیادہ ہیں.پس جو لوگ اپنی اصلاح نہیں کر سکتے انہیں کم از کم اپنی اولاد کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.مگر میں کہتا ہوں یہ کیوں کہا جائے کہ فلاں شخص اپنی اصلاح نہیں کر سکتا.ہر شخص ہر عمر میں اپنی اصلاح کر سکتا اور نیکیوں میں ترقی کر سکتا ہے.لوگوں کو چاہئے کہ وہ ہر جگہ ایسی سوسائٹیاں اور انجمنیں بنائیں جو مفید کام کرنے والی ہوں.ہر محلہ میں اگر کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں جو بیواؤں کو سودا سلف لا دیا کریں یا یتیم بچوں کی نگرانی کریں تو یہی بہت بڑا کام ہے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں یہ کام کرنے آتے نہیں.تم میں سے جسے ایک حرف پڑھنا بھی نہیں آتا وہ بھی یہ کام کر سکتا ہے.کیا وہ ایسا نہیں کر سکتا کہ جب وہ اپنا سو دالینے جائے تو اپنے محلہ کی بیواؤں یا معذور عورتوں سے بھی پوچھتا جائے کہ انہوں نے کوئی سودا تو نہیں منگوا نا.اور پھر اپنے سو دے کے ساتھ اس کا سودا بھی لیتا آئے آخر اس سے کونسا ایسا زائد بوجھ پڑ سکتا ہے جو انسان اُٹھا نہیں سکتا گلی میں سے گزرتے ہوئے اگر انسان کسی بیوہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت کر لے کہ بازار سے کوئی سودا تو نہیں منگوانا.یا کوئی یتیم گزر رہا ہو تو اسے پیار کر دے تو اس پر کونسا وقت خرچ ہوتا ہے.یتامی کی خرابی کی بڑی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ انہیں پیار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا.اگر تم اپنے بچہ کو پیار کرتے وقت کسی یتیم کے سر پر بھی ہاتھ پھیر دیتے ہو تو اس پر ایک منٹ بھی نہیں لگتا.مگر کتنے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں.یتیم کی طرف اگر ایک دفعہ بھی محبت کی نگاہ سے دیکھ لیا جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے منون احسان ہو جاتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ روٹی ایک ضروری چیز ہے اور جب تک انسان روٹی نہ کھائے وہ بھوک سے تکلیف پاتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ پانی ایک لطف دینے والی چیز ہے اور اگر انسان پانی نہ بیٹے تو پیاسا رہتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ کپڑے ایک اچھی چیز ہیں اور انسان اگر کپڑے نہ پہنے تو ننگا رہتا ہے.اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اچھی روٹی ، اچھے پانی اور اچھے کپڑے کی طرف سب کو رغبت ہوتی ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والے ہاتھ کی یتیم کو ضرورت ہوتی ہے.تم ایک یتیم کو اچھی سے اچھی غذا ئیں کھلا کر اور اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑے پہنا کر خوش نہیں کر سکتے لیکن اگر ایک غریب اور فقیر انسان اپنا محبت بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دے تو وہ خوش ہو جائے گا مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا کرنے کی تم میں طاقت نہیں.یا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ اس قسم کے کاموں کے لئے اُس کے پاس وقت نہیں.پس اپنے آپ کو دنیا کے لئے مفید ترین وجود بناؤ.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا

Page 632

خطبات محمود ۶۲۷ سال ۱۹۳۵ء ہے کہ بلا وجہ انجمنیں اور سوسائٹیاں بنانا اچھا نہیں.مگر اس قسم کے کاموں کے لئے جیسا بیواؤں کی خبر گیری یا یتامیٰ کی پرورش اور ان کی نگرانی کے نقطہ نگاہ کے ماتحت قیموں کو گھروں میں بھی رکھا جا سکتا ہے مگر کئی لوگ یتامیٰ کو اپنے گھروں میں رکھ کر ایسا ظالمانہ سلوک ان سے کرتے ہیں کہ حالات سن کر دل ڈر جاتا ہے.وہ گھروں میں ان کی پرورش نہیں کرتے بلکہ ان پر ظلم کرتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے کام نہیں لینا چاہئے.کام تو لیا جائے بلکہ اپنے بچوں سے بھی کام لینا چاہئے مگر اپنے بچوں کی طرح کبھی ان سے پیار بھی تو کرنا چاہئے.نہ سہی اپنے بچے جتنا ، اس سے کچھ کم سہی.یتیم اگر یہ نہ سمجھے کہ میں اس کا بیٹا ہوں تو کم از کم یہ تو سمجھے کہ میں اس کا بھتیجا ہوں یا کوئی رشتہ دار ہوں.یا درکھو عوام کی بہبود کے کام عورتیں بھی کر سکتی ہیں اور مرد بھی.پھر اس قسم کے کاموں میں کسی خاص مذہب کا سوال نہیں ہوتا اور نہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ صرف مسلمان سے ہمدردی کی جائے بلکہ ایک ہندو ، ایک سکھ ، ایک عیسائی اور ایک یہودی غریب سے بھی اسی طرح کا حسن سلوک کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدّث.تم پاگلوں کی طرح دنیا میں دوڑے پھر واور جو نعمت اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے ، اس سے لوگوں کو مستفید کرو.روپے کے متعلق اگر بخل بھی کر لیا جائے تو دوسری چیزوں کے متعلق بخل کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.وہ تو جتنی خرچ کی جائیں، اتنی ہی بڑھتی ہیں روپیہ بھی خرچ کرنے سے بڑھتا ہے مگر اس کا بڑھنا ہر ایک کو نظر نہیں آ سکتا.لیکن باقی چیزوں کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے کہ انہیں جتنا خرچ کیا جائے.اتنی ہی بڑھتی ہیں.بڑے بڑے نامور ادیب جو دنیا میں گزرے ہیں اُن کی کتابوں پر بعض دفعہ معمولی معمولی مدرس اعتراض کر دیا کرتے ہیں جس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ مدرس روزانہ تعلیم دینے کی وجہ سے صرف ونحو کے مسائل سے خوب واقف ہوتا ہے لیکن ادیب کو ان باتوں کا زیادہ علم نہیں ہوتا.پس یاد رکھو کہ اگر خدا تعالیٰ کا قرب چاہتے ہو تو اپنے آپ کو مفید بنانے کی کوشش کرو.اس بارے میں کسی علم کی ضرورت نہیں ، دولت کی ضرورت نہیں بلکہ تم میں سے اگر کسی کی مالی حالت کمزور ہے یا علمی حالت کمزور ہے تب بھی وہ ایسے کاموں میں حصہ لے سکتا ہے جن میں بنی نوع انسان کا فائدہ ہو.قادیان کی لجنہ اما اللہ کو بھی میں نے بار ہا اس کی طرف توجہ دلائی ہے مگر انہوں نے اب تک کوئی توجہ نہیں کی.اس کی ذمہ داری میری بیویوں اور لڑکیوں پر بھی ہے اور باقی عورتوں پر بھی.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ کئی عورتیں زچگی

Page 633

خطبات محمود ۶۲۸ سال ۱۹۳۵ء میں محض اس لئے مر جاتی ہیں کہ انہیں بر وقت صحیح امداد نہیں ملتی.چونکہ عام عورتیں زچگی کے اصول نہیں جانتیں اور بوجہ غریب اور ان پڑھ ہونے کے صفائی کے اصول سے بھی ناواقف ہوتی ہیں اس لئے ذراسی بے احتیاطی کی وجہ سے ان کی جانیں ضائع چلی جاتی ہیں.میں نے لجنہ سے کہا ہے کہ اگر تم اور کچھ نہیں کر سکتیں تو یہی کر لو کہ جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو دو چار دن صحیح طریق پر اُس کے لئے امداد بہم پہنچائی جائے.یہ صرف دو چار دن کی بات ہوتی ہے مگر ان دو چار دنوں میں ہی سینکڑوں عورتیں مر جاتی ہیں اور ایسی معمولی معمولی غفلت کی وجہ سے مرجاتی ہیں کہ انسان انہیں معلوم کر کے تعجب کرتا ہے.تو بہت بڑے کام کئے جا سکتے ہیں اور ہر طبقہ اور ہر سوسائٹی کے لوگ ان میں حصہ لے سکتے ہیں مگر اس طرف رغبت بہت کم ہے اور امید یہ کی جاتی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات وہ ملیں جو کامل مؤمنوں کو ملا کرتے ہیں جو کسی طرح ممکن نہیں اگر تم کڑوی چیز بوؤ گے تو کڑوی ہی آگے گی میٹھی چیز بوؤ گے تو میٹھی آگے گی ، کھٹی چیز بوؤ گے تو کھٹی آگے گی.جیسی جیسی محبت کا رنگ پیدا کرو گے اُسی قدر اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی تمہیں حاصل ہونگے خالی منہ کے دعووں سے کچھ نہیں بن سکتا.پس ایسے وقت میں جبکہ جماعت مصائب شداد میں گھری ہوئی ہے.میں توجہ دلاتا ہوں کہ یہ وقت ہوشیاری کا ہے.اب بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور مخلوق سے ہمدردی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو.صرف ارادہ اور عزم کی ضرورت ہے سامان اللہ تعالیٰ خود بخود مہیا کر دیتا ہے.قادیان کے لوگوں پر خصوصیت سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے میں نے محلہ وار انجمنیں اسی غرض کے لئے بنائی تھیں کہ وہ اس قسم کے کاموں میں مستعدی سے حصہ لیں مگر ان کے پریذیڈنٹ بھی اسی طرح سُست ہو گئے جس طرح اور لوگ سُست ہیں اور وہ ہمدردی اور اخوت جو ہر شخص میں ہونی چاہئے اس کا انہوں نے بہت کم نمونہ دکھایا ہے.بے شک پچھلے دنوں جب وقف کنندگان میں سے ایک نو جوان نذیر احمد پر ایک حادثہ گزرا تو یہاں کی جماعت کے افراد نے بہت اچھا نما نہ دکھایا.کئی لوگ راتوں رات بٹالہ گئے اور انہوں نے اچھی خدمت کی.یہ چیزیں مجھے یاد ہیں بھولی ہوئی نہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اس سے بہت زیادہ کام اور مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے.جب کوئی صدمہ تازہ ہو اُس وقت ہر شخص کے دل میں جوش ہوتا ہے مگر پھر جوش ٹھنڈا ہو جاتا ہے اس لئے روزانہ ان کاموں

Page 634

خطبات محمود ۶۲۹ سال ۱۹۳۵ء کے لئے کچھ نہ کچھ وقت نکالنا چاہئے.مثلاً صفائی ہی ہے جس کی طرف سخت توجہ کی ضرورت ہے قادیان کے راستوں اور گلی کوچوں میں اتنا گند ہوتا ہے کہ گز را نہیں جاتا.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ صفائی کے لئے کوئی قدم اُٹھاؤ ، میں خود شریک ہونے کے لئے تیار ہوں مگر نہ نظارتیں اس طرف توجہ کرتیں ہیں اور نہ محلہ وار انجمنیں.اگر کوئی اس قسم کا کام شروع کیا جائے تو جب میں اس میں شامل ہونے کے لئے جاؤں گا تو مخلص لوگ تو جائیں گے ہی ، مجھے دیکھ کر کمزور لوگ بھی چلے جائیں گے.اور اس طرح ” ہم خرما ہم ثواب کی مثل کے مطابق اس میں شامل ہو جائیں گے.اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اگر ہر محلہ میں لوگ اپنے اپنے دروازوں کے آگے گند جمع نہ ہونے دیں تو اس طرح بھی بہت حد تک صفائی ہو سکتی ہے.ان امور کی طرف توجہ نہ کرنے کے نتیجہ میں کتنی بیماریاں ہیں جو آتی ہیں.ہیضہ، طاعون ، ٹائیفائڈ وغیرہ سب بیماریاں گندگی سے ترقی پاتی ہیں اور غلاظت کا نتیجہ ہوتی ہیں رسول کریم ﷺ بھی کی دفعہ صحابہ سے اس قسم کا کام لے لیا کرتے.ایک دفعہ آپ نے حکم دیا کہ آوارہ کتے مارو چنا نچہ صحابہ گتے مارتے رہے.پھر رسول کریم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر ایک کا نٹا بھی راستہ سے ہٹا دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملتا ہے.لے جب راستہ سے کا نٹا ہٹانے والے کا ثواب ہے تو یہاں جو ڈھیروں ڈھیر غلاظت پڑی ہوتی ہے کیا اسے دور کر نے کا ثواب نہیں ہو گا.عام طور پر ہمارے ملک میں لوگ راستہ پر پیشاب کرنے بیٹھ جاتے ہیں اگر کہا جائے کہ دس قدم ہٹ کر پیشاب کرو تو ناراض ہو جاتے ہیں.اور ہمارے پنجابی تو بعض دفعہ عجیب رنگ میں جواب دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں ” چھڈ بھی یار تینوں کدی پیشاب نہیں آندا“.اور یہ کہہ کرو ہیں پیشاب کرنے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ یہ تہذیب کی بالکل ابتدائی باتیں ہیں.اور اگر دس دن بھی لوگ احتیاط کریں تو سب کو اس کا فائدہ محسوس ہونے لگے گا.اور آئندہ کے لئے اس قسم کی باتیں نہ ہونے دیں گے.پس یتامی و مساکین کی خبر گیری کرو ، بیواؤں کی خبر گیری کرو ، لوگوں کی اخلاقی تمدنی اور اقتصادی حالت کی درستی کی طرف توجہ کرو اور یاد رکھو کہ چند دن کے بعد ہی تم کو ایسی عادت پڑ جائے گی کہ یہ کام بوجھ نہیں معلوم ہو نگے.دیکھ لو نمازوں پر کتنا زیادہ وقت خرچ ہوتا ہے کئی گھنٹے اس پر خرچ ہو

Page 635

خطبات محمود ۶۳۰ سال ۱۹۳۵ء جاتے ہیں مگر چونکہ نمازیں پڑھنے کی لوگوں کو عادت ہوتی ہے اس لئے بوجھ محسوس نہیں کرتے بلکہ جو لوگ زیادہ نمازیں پڑھنے کے شائق ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہوسکتا تو وہ اور نمازیں بھی اپنے پر فرض کرنے کو تیار ہو جائیں.اسی طرح دوسرے کاموں سے بھی اگر ہم رغبت پیدا کر لیں تو ان کا کرنا ہمیں کچھ بھی بوجھ محسوس نہ ہو.مثلاً اگر گھر والوں کو بھی خیال رہے کہ کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے دروازہ پر پھینک دینا اچھی بات نہیں ، اگر ہر محلہ میں نگرانی کی جائے اور کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں سے کہا جائے کہ ہم فلاں جگہ تمہیں کوڑا پھینکنے نہیں دیں گے تو گو چند دن نگرانی کرنی پڑے گی مگر آخر عادت ہو جائے گی اور محلہ گند سے پاک ہو جائے گا.اسی طرح ہندو، مسلمان، عیسائی ،سکھ ، کسی مذہب وملت کے یتیم و مسکین کی پرورش کی جائے اور اس کے احساسات کا خیال رکھا جائے تو رفتہ رفتہ اسی کام میں لذت آنی شروع ہو جائے گی.اور یہی کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اما بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِث کہہ کر ہمارے ذمہ ڈالا گیا ہے کہ ہم اپنی ہر نعمت سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائیں اور اپنا وجود ان کے لئے مفید ترین بنا ئیں.اور میں سمجھتا ہوں اب ہماری جماعت کے لئے وقت آ گیا ہے کہ وہ اس حکم پر بھی عمل کرے.در حقیقت قرآن کریم سارے کا سارا ہمارے لئے قابل عمل ہے.اور اگر ہم کسی ایک حکم پر بھی عمل نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں خود کاٹتے ہیں.الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء) الضحى: ۱۲ ۴ التوبة : ۲۴ ا النساء : ۱۴۳ الم نشرح: ۸، ۹ ۵ بخارى كتاب الجهاد باب قول الله عَزَّ وَجَلَّ من المؤمنين رجال صَدَقُوا (الخ ) + سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۵ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ بخارى كتاب المغازى باب غَزْوة أحد کے بخاری کتاب المناسك باب النزول بين عرفة و جمع بخاری کتاب العلم باب طرح الامام المسئلة على اصحـابـه ليختبر ما عندهم من العلم و بخارى كتاب الجنائز باب من انْتَظَرَ حَتَّى يُدْفَنَ مسلم كتاب المساقات والمزارعة باب الامر بقتل الكلاب ال بخارى كتاب المظالم باب مَنْ اَخَذَ الْغُصْنَ وَمَا يُؤْذِي النَّاسَ فِي الطَّرِيقِ فَرَمَى بِهِ

Page 636

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء دینی تعلیم وتربیت کی ضرورت فرموده ۲۵ /اکتوبر ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.ہماری جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کام مقرر فرمایا ہے اور جن اغراض و مقاصد کو لے کر وہ اس وقت دنیا میں کھڑی ہے، اس کی اہمیت کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.اپنے اور پرائے دونوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور تسلیم کر رہے ہیں کہ بہت بڑا کام ہے جو ہماری جماعت اپنے ذمہ ظاہر کرتی ہے.یہ اور بات ہے کہ دشمن ہمارے دعوؤں کو جھوٹا سمجھے یا ہمارے اغراض و مقاصد کو مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے یا ان کی ہمدردی حاصل کرنے کا بہانہ قرار دے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ہر شخص خواہ وہ موافق ہو یا مخالف ، اس مقصد کو بہت بڑا سمجھتا ہے.پس جس مقصد کی اہمیت کا دوست و دشمن قائل ہو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس کی تیاری کے لئے ہمیں کتنی بڑی مستعدی اور کس قدر سرگرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے.ہر شخص جو ہم میں سے دیانتداری کے ساتھ غور کرے یہ امر بخوبی سمجھ سکتا ہے لیکن دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ساری عمر آنکھیں رکھنے کے باوجود نہیں دیکھتے ، کان رکھنے کے باوجود نہیں سکتے اور دل رکھنے کے باوجود نہیں سمجھتے.وہ خدا تعالیٰ کی آیات کے پاس سے گزر جاتے ہیں مگر ایسی حالت میں کہ وہ اندھے ، بہرے، اور گونگے ہوتے ہیں.نہ اپنے خیالات کا خود اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ دوسروں تک انہیں پہنچا سکتے ہیں.اس قسم کے آدمیوں کا میں ذکر نہیں کرتا بلکہ جو لوگ اپنی عقل کو کام میں لانے کے عادی ہیں، ان کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اس امر کو سمجھ سکتے ہیں

Page 637

خطبات محمود ۶۳۲ سال ۱۹۳۵ء اور اس کا سمجھنا ان کے لئے بہت آسان بات ہے کہ اس عظیم الشان کام کے لئے جو ہمارے سپرد کیا گیا عظیم الشان تیاری کی ضرورت ہے.دنیا میں ہر کام کے لئے کچھ نہ کچھ سامان ہوتے ہیں اور جب تک وہ مہیا نہ ہوں کام نہیں ہوتا.اگر ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ کا مالک ہولیکن وہ جنگل میں ایسے حالات میں مبتلاء ہو جائے کہ روٹی پکانے کے لئے اُسے آٹا میسر نہ ہو.فرض کرو جنس اُسے وقت پر نہ پہنچ سکے یا اُس کا مہیا کردہ سامان ضائع ہو جائے.چوروں نے اُسے پھر الیا ہو اور وہ کھو کا بیٹھا ہو تو اُس کی بھوک کو دور کرنے کے لیے وہ لاکھوں کروڑوں روپیہ اس کے ہرگز کام نہیں آ سکتا.اگر موتیوں کی مالا بھی اس کے پاس موجود ہے تو وہ اس کے کام نہیں آئے گی اس لئے کہ پیٹ بھرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے موتیوں کی مالا یا ر و پے نہیں بنائے بلکہ آٹا بنایا ہے تو با وجود دولت مند ہونے کے ، با وجود لاکھوں اور کروڑوں روپیہ کا مالک ہونے کے جنگل میں بھوک کے وقت ایسی حالت میں جبکہ کھانے کا کوئی سامان اُس کے پاس نہ ہو، دولت اُسے کام نہیں دے سکے گی اور وہ اپنی خواہش کو پورا نہیں کر سکے گا.یا فرض کرو کہ کوئی شخص ملیریا سے بیمار ہے وہ بہت بڑا دولتمند ہے اُس کے پاس کھانے پینے کے بے انتہا ء سامان ہیں، آٹے کی بوریاں ، گھی کے پیسے ، اور موٹے تازے دُنبے با افراط موجود ہیں لیکن یہ ساری چیزیں مل کر بھی اس کے ملیریا کو دور نہیں کر سکتیں.بلکہ ملیریا کو دور کرنے کے لئے کونین یا چرائتہ یا ایسی ہی اور ادویہ درکار ہونگی.اور جب تک یہ چیزیں اسے میسر نہ آئیں گی وہ بخار میں مبتلاء رہے گا.یا اگر ایک شخص ننگا ہے تو اس کے ننگ کو ڈھانکنے کے لئے اگر ساری دنیا کی دوائیں موجود ہوں تو بھی کام نہیں دے سکتیں.قیمتی سے قیمتی ادویہ ، اعلیٰ سے اعلیٰ ٹیکے اور بڑے سے بڑے ہسپتال اگر اس کے لئے موجود ہیں، ہیروں اور موتیوں کا انبار اُس کے سامنے لگا ہوا ہے تو یہ ساری چیزیں مل کر بھی ایک تہ بند کا کام نہیں دے سکتیں.ہاں اگر گز بھر کپڑا اسے مل جائے تو وہ اُس کے ننگ کو ڈھانک دے گا.یا اگر کسی کوتعلیم کی ضرورت ہو وہ حاجت مند ہوتا ہے ایک علم رکھنے والے اُستاد کا ، اور وہ حاجت مند ہوتا ہے ایک صحیح کتاب کا.اگر یہ دو چیزیں اُسے میسر نہ ہوں تو ساری دنیا کی نعمتیں مل کر بھی اس کی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتیں.بڑی بڑی فوجیں عظیم الشان قلعے اور وسیع زمینیں اگر اُسے میسر ہیں ، دولت اُس کے پاس موجود ہے لیکن یہ دو چیزیں نہیں تو وہ علم نہیں سیکھ سکتا.ہاں اگر اسے جاننے والا اُستاد اور علم پر مشتمل کتاب مل جاتی ہے تو وہ اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے.غرض اللہ

Page 638

خطبات محمود ۶۳۳ سال ۱۹۳۵ء تعالیٰ نے ہر چیز کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ مقرر کیا ہوا ہے جب تک وہ نہ ملے کام نہیں ہوسکتا.یہ جو میں نے آخری مثال دی ہے اسی قسم کا کام اس وقت ہمارے سپرد کیا گیا ہے.ہمارے ذمہ یہ ڈالا گیا ہے کہ ہم تمام دنیا کو خدا تعالیٰ کی باتیں سکھائیں اور وہ پیشگوئی جو رسول کریم ﷺ کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمائی تھی کہ اس کے ذریعہ اسلام ادیان باطلہ پر غالب کر دیا جائے گا ہمیں یقین ہے کہ وہ آپ کے ایک مثیل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہونے والی ہے.اب یہ جماعت کا کام ہے کہ وہ ساری دنیا کو اسلام سے واقف و آگاہ کرے اور اسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے.پس ہمارے لئے بھی ضرورت ہے ایک کتاب کی اور ضرورت ہے ایسے انسانوں کی جو معلم ہو سکیں.کتاب لفظی طور پر ہمارے لئے موجود ہے اور وہ ایسی کتاب ہے جس میں کبھی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا یعنی قرآن مجید.یہی قرآن مجید رسول کریم ہے صلى الله کے زمانہ میں ہدایت کا ذریعہ بنا ، یہی قرآن مجید آپ کے بعد کام آیا ، یہی قرآن مجید اب کام آ رہا ہے اور یہی قرآن مجید قیامت تک کام آئے گا.مگر کتاب بھی مفید نہیں ہو سکتی جب تک اُس کتاب کے سمجھنے والے دنیا میں موجود نہ ہوں.اور کتاب کے سمجھنے والوں کا وجود بھی اُس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک کتاب کو سمجھانے والے موجود نہ ہوں.بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گو علم رکھتے اور باتوں کو خوب سمجھتے ہیں مگر وہ دوسروں تک علم کو پہنچا نہیں سکتے.یہ ظاہر ہے کہ ایسے علوم بھی مٹ جاتے ہیں جو کتابوں میں تو موجود ہوتے ہیں مگر ان کے سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا.ویدوں کو دیکھ لو، ہزاروں سال سے وہ اسی طرح چلے آ رہے ہیں جس طرح آخری تبدیلی کے بعد انکی شکل ہو چکی تھی مگر بعد میں چونکہ قوم کو ان سے دلچسپی نہ رہی اس لئے باوجود اس کے کہ سینکڑوں ہزاروں نسخے وید کے ہندوستان میں موجود ہیں ، ویدوں کو سمجھنے والا کوئی نہیں.پھر ویدوں کا کیا فائدہ ؟ پس چیز موجود ہے خواہ وہ صحیح ہے یا غلط محفوظ ہے یا غیر محفوظ محرف ہے یا غیر محرف مگر وہ قوم جو اسے اپنارا ہنما سمجھتی ہے باوجود اسے راہنما سمجھنے کے اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی اس لئے کہ اس کی زبان کے سمجھنے والے دنیا میں موجود نہیں.بیشک بعض لوگ ایسے ہیں جو ویدوں کی زبان سے واقف ہیں مگر چونکہ اب دنیا کے دماغ ترقی کر چکے ہیں اس لئے انہیں ویدوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی اور وہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.غرض خالی کتاب کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ کتاب کے سمجھنے والوں کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے

Page 639

خطبات محمود ۶۳۴ سال ۱۹۳۵ء.اسی لئے قرآن مجید کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ لے ہم ہی نے یہ قرآن کریم نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے اس حفاظت سے صرف ظاہری حفاظت مراد نہیں بلکہ باطنی حفاظت بھی مراد ہے یعنی ایسے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کے مطالب کو سمجھیں گے اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کی قدرت رکھیں گے.تو قرآن کریم کا خالی موجود ہونا کافی نہیں جب تک اس کے سمجھنے والے موجود نہ ہوں.پھر قرآن کریم کی موجودگی اور اس کے مطالب کو سمجھنے والوں کی موجودگی کے بعد ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سمجھانے والے کا وجود ہے.دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دل میں ایک بات کو خوب سمجھتے ہیں مگر اسے دوسروں تک پہنچا نہیں سکتے اور انہیں وہ طریق معلوم نہیں ہوتے جن سے وہ جلدی اور اعلیٰ طور پر تعلیم دے سکیں ایسا انسان بھی دراصل مفید نہیں ہوتا.میرے ایک اُستاد ہیں اپنی ذات میں وہ اچھا علم رکھتے ہیں مگر چونکہ ان کے بولنے میں نقص ہے ، اس لئے وہ بات کو پورے طور پر سمجھا نہیں سکتے.طالب علمی کے زمانہ میں ایک دفعہ مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں فلسفہ پڑھوں.میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ سے میں فلسفہ پڑھنا چاہتا ہوں انہوں نے پڑھا نا منظور کر لیا.جب وہ مجھے فلسفہ پڑھانے کے لئے آئے تو دو تین دن ان سے سبق لینے کے بعد میں نے کہا اب میں کتاب پڑھنا بند کرتا ہوں.وہ کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا پہلے تو فلسفہ کے متعلق میرے ذہن میں کوئی مفہوم تھا مگر دو تین سبقوں کے بعد وہ بھی جاتا رہا ہے اور اب میرے ذہن میں کچھ بھی نہیں رہا.دراصل چونکہ انہیں اپنے مافی الضمیر کے بیان پر قدرت نہیں تھی اس لئے وہ صحیح طور پر سمجھا نہیں سکتے تھے.فلسفہ کی بنیاد آگے ہی وہم پر ہوتی ہے ایک وہمی مضمون کو اگر وہمی الفاظ میں بیان کر دیا جائے تو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے اسی ضمن میں مجھے ایک اور بات بھی یاد آ گئی.پانچ سات سال کی بات ہے ہماری جماعت کے ایک دوست کو بخار چڑھا ہوا تھا میں اُن کی عیادت کے لئے گیا.جب میں وہاں پہنچا تو اتفاقاً وہاں ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے جنہیں علم موسیقی میں مہارت کا دعوی تھا اور وہ احمدیت سے پہلے اس علم کے اچھے ماہر سمجھے جاتے تھے.اس علم سے در حقیقت مجھے کوئی مناسبت نہیں یوں تو مجھے ہر علم کا شوق ہے اور کئی علوم جن سے بچپن میں مجھے نفرت ہوا کرتی تھی ، اب مطالعہ کرتے کرتے ان سے

Page 640

خطبات محمود ۶۳۵ سال ۱۹۳۵ء مؤانست پیدا ہوگئی ہے لیکن اس علم سے مجھے کوئی لگاؤ نہیں.لیکن چونکہ وہ اتفاقاً اُس وقت وہاں بیٹھے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ موسیقی کیا ھے ہوتی ہے؟ اور میں نے ان سے موسیقی کے اوزان کے متعلق دریافت کیا اور میں نے کہا کہ گو میں نے اس علم پر کوئی کتاب نہیں پڑھی مگر ذہن میں اس کا کچھ اندازہ کیا ہے.میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اندازہ درست ہے اس لئے آپ مجھے جو پکا راگ ا کہلاتا ہے اس کی حقیقت سمجھا ئیں.انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی لیکن میں نہ سمجھا شائد اس لئے کہ میرے دماغ کو اس علم سے کوئی مؤانست نہ تھی یا شاید اس کے بیان کی کمزوری کی وجہ سے.بہر حال جب وہ اپنی طرف سے سمجھا چکے تو میں نے کہا پہلے تو مجھے کچھ موسیقی کا اندازہ تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے مگر اب بجائے زیادہ علم حاصل ہونے کے پہلا علم بھی جاتارہا ہے.تو صحیح طور پر بات نہ بیان کر سکنے والا خواہ خود چاہتا ہو کہ میں دوسرے کو اپنی باتیں سمجھاؤں دوسرے کو سمجھا نہیں سکتا بلکہ اس کے خیالات کو پراگندہ کرتا اور اس کے اوقات کو ضائع کرتا ہے.کالج کے تعلیم یافتہ یا فارغ التحصیل طلباء سے جب کسی علم مثلاً فلسفہ وغیرہ کے متعلق باتیں کی جائیں تو پراگندہ خیالات کے سوا کوئی بات ان کے ذہن میں ٹکی ہوئی معلوم نہیں ہوتی.اور یہ نقص اسی وجہ سے واقعہ ہوتا ہے کہ پڑھانے والے اپنی بات کو سمجھا نہیں سکتے.مجھے جب بھی کالج کے طالب علموں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے ، میں نے نتیجہ نکالا ہے کہ وہ خود کسی بات کو نہیں سمجھتے.صرف انہوں نے اصطلاحات رٹی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں فلاں اصطلاحات کو رٹ لینے کے بعد علم پر حاوی ہو جائیں گے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں علوم تو ہیں مگر ان سے فائدہ کوئی نہیں اُٹھا سکتا.وہی علوم غیر ملکوں میں ہیں.وہی فلسفہ اور وہی حساب ہے جو ہمارے ملک میں پڑھایا جاتا ہے مگر وہ اسی فلسفہ اور حساب کے نتیجہ میں کئی جدید علوم نکالتے رہتے ہیں.اسی حساب کے ذریعہ سائنس کو مدد ملی ہے.اور اسی فلسفہ کے ذریعہ علم ہلیت کو مددملی ہے.پہلے فلسفیانہ اصول قائم کئے جاتے ہیں اور پھر سائنس سے ان کی صداقت کا امتحان کیا جاتا ہے.گویا پہلے عقل سے جو تھیوری قائم کی جاتی ہے.اسے بعد میں تجربات ومشاہدات کی رو سے پر کھا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک کے طالب علم کچھ بھی نہیں کر سکتے.جس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے پروفیسر پڑھانے کے اصول سے ناواقف ہوتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طالب علم الفاظ تو رٹ لیتے ہیں مگر حقیقت سے بالکل ناواقف رہتے ہیں.

Page 641

خطبات محمود ۶۳۶ سال ۱۹۳۵ء تو قرآن کریم کی اشاعت کے لئے بھی دو باتیں نہایت ضروری ہیں.ایک یہ کہ قرآن کریم سمجھنے والے موجود ہوں اور دوسرے یہ کہ قرآن کریم سمجھانے والے موجود ہوں.یہ بھی ضروری ہے کہ عربی زبان آتی ہو.لیکن ایک شخص کو اگر زبان آتی ہو اور وہ دروازے بند کر کے بیٹھ جائے تو اس سے دوسروں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ یا فرض کرو ایک شخص منطق اور فلسفہ جانتا ہے لیکن وہ سارا دن ہل چلاتا رہتا یا سو دا فروخت کرتا رہتا ہے یا اُسے دوسروں کو پڑھانے کی خواہش ہی نہیں تو اُس کے علم سے دوسرے کس طرح فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.تو دوسروں کو علم سکھانے کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ انسان کی زبان چلتی ہو بلکہ اور بہت سی باتوں کی ضرورت ہے.یہ بھی ضروری ہے کہ زبان آتی ہو، یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھا سکتا ہو ، یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کی خواہش ہو اور وہ اپنے وقت کو دوسروں کی خاطر صرف کرنے کے لئے تیار ہو ، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسی طرز پر کام کرے جو دل نشین ہو اور لوگوں پر اثر انداز کرنے والی ہو.اچھی سے اچھی بات اگر بے موقع اور بے محل کہہ دی جائے تو بہت بُرا نتیجہ پیدا کر دیتی ہے..حضرت خلیفتہ امسیح الاول اپنے ایک داماد کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک مجلس میں بیٹھا تھا.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل بھی وہیں موجود تھے کہ آپ سے ملاقات کرنے کے لئے ایک مسلمان رئیس آیا.جس طرح عام مسلمان شریعت کی باریکیوں پر عمل نہیں کرتے ،صرف ظاہری باتوں کا لحاظ رکھتے ہیں ، قرآن کریم کا ظاہری طور پر ادب کرنا اور رسول کریم کا نام ادب سے لینا وہ اسلام کا ماحصل سمجھتے ہیں اسی طرح کا وہ رئیس بھی مسلمان تھا مگر چونکہ وہ آدمی مالدار تھا اِس لئے اُسے اپنے وقار کا بھی خیال تھا.جب وہ مجلس میں آیا تو اُس کا پاجامہ ٹخنوں سے ذرا نیچے تھا.حضرت خلیفہ الاول فرماتے تھے کہ یہ دیکھ کر میرے داماد نے وہ مسواک جو اُس کے ہاتھ میں تھی اُٹھائی اور نہایت عجیب طرز سے منہ بنا کر اُس رئیس کے ٹخنے پر ماری اور کہا.هَذَا فِي النَّارِ - مطلب یہ کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کا از ارٹخنوں سے نیچار ہے وہ حصہ آگ میں جلایا جاتا ہے.وہ بڑا آدمی تھا نوکر اُس کے ارد گرد بیٹھے تھے جو نہی اُس نے مسواک ماری اُس رئیس کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ کہنے لگا تجھے کس بے وقوف نے بتایا ہے کہ میں مسلمان ہوں.اب اپنی طرف سے تو اُس نے سمجھانے کی کوشش کی تھی اور خیال کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آئندہ وہ ایسا نہیں کرے گا مگر سمجھانے کا طریقہ نہ جاننے کی وجہ سے اس نے رئیس کی ہتک کر دی.اور نتیجہ یہ نکلا کہ جو ظاہری

Page 642

خطبات محمود ۶۳۷ سال ۱۹۳۵ء ادب اسلام کا اس رئیس کے دل میں تھا وہ بھی جاتا رہا.تو لوگوں کو سمجھانے کا طریق بھی عمدہ ہونا چاہئے.اگر انسان ایسی جہالت سے بات کرے کہ دوسرا اس کی بات کو سمجھ تو جائے مگر تکبر اور غرور کی وجہ سے وہ اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہو تب بھی کیا فائدہ ؟ پھر قوت عملیہ کی ضرورت بھی ہوا کرتی ہے.اگر سمجھانے والے میں قوت عمل نہیں تب بھی اُس کی بات کا لوگوں پر اثر نہیں ہوسکتا.ایک شخص دوسرے کو بُری باتوں سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے لیکن اگر وہ خود چوری کرتا ، گالیاں دیتا اور لوگوں سے ٹھٹھا کرتا رہتا ہے تو اُس کی بات کا کیا اثر ہو سکتا ہے.وہ اگر کہتا ہے کہ خدا کا ایک مأمور دنیا میں آ گیا، مسیح و مہدی جس کی امت محمدیہ کو انتظار تھی قرآنی وعدوں کے مطابق مبعوث ہو گیا تو بیشک لوگ اُس کی بات کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن جب وہ اُس کی عملی حالت کو دیکھیں گے تو اُس کا عمل ان کی ہدایت کے رستہ میں روک بن جائے گا.پنجاب کا ایک مشہور واقعہ ہے.دیال سنگھ کالج ، دیال سنگھ لائبریری اور ٹریبیون یہ پنجاب میں بہت بڑا علمی کام کرنے والے ادارے ہیں جو بر ہمو سماج کے قبضہ میں ہیں.ٹریبیون ہندوؤں کی طاقت کا زبر دست ذریعہ ہے.دیال سنگھ لائبریری نہایت مفید کام کر رہی ہے اور دیال سنگھ کا لج تعلیمی لحاظ سے اچھی شہرت رکھتا ہے.ان کے بانی دیال سنگھ نامی ایک سکھ سردار تھے انہوں نے جب مذاہب کا مطالعہ کیا تو آہستہ آہستہ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میرا مذہب مجھے نجات نہیں دے سکتا کسی اور مذہب میں مجھے داخل ہونا چاہئے اتفاقاً انہیں ایک مسلمان مل گیا جو قرآن کریم سمجھتا اور سمجھا بھی سکتا تھا.کچھ دنوں تک وہ اس سے اسلام کے متعلق واقفیت حاصل کرتے رہے اور آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب میں مسلمان ہوتا ہوں.جب یہ خبر لوگوں میں پھیلی تو ایک ہندو جو نہایت چالاک اور ہوشیار تھا ان کے پاس آیا.اُس نے چونکہ سمجھ لیا تھا کہ اب دیال سنگھ پر مذہبی دلائل کا اثر نہیں ہو سکتا اس لئے اُس نے چاہا کہ دوسرے چکروں میں ڈال کر انہیں اسلام سے روکا جائے.یہ سوچ کر اُس نے کہا آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ مذہب کی تبدیلی سے آپ کا مقصد صرف نجات حاصل کرنا ہے لیکن نجات عمل سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ باتوں سے.آپ مسلمان ہو نا چاہتے ہیں لیکن آپ یا د رکھیں اس کا نتیجہ اچھا نہیں بلکہ خراب ہو گا.دیکھئے اس وقت مسلمانوں کی اپنی حالت کیا ہے ؟ تعلیم میں وہ سب سے پیچھے ہیں، چور ان میں زیادہ ہیں ، ڈاکو اِن میں زیادہ ہیں ، بدا خلاق وہ ہیں پھر اگر اسلام

Page 643

خطبات محمود ۶۳۸ سال ۱۹۳۵ء نے مسلمانوں پر اثر نہیں کیا تو آپ اس مذہب سے کیا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ؟ ان باتوں نے اُن کے دل میں کچھ شبہ پیدا کر دیا.مگر وہ آدمی ہو شیار تھا کہنے لگا عوام الناس کا گر جانا اسلام کی خرابی کی دلیل نہیں.جب مذہب پر ایک عرصہ گزر جا تا اور تعلیم و تربیت میں کمی آنے لگتی ہے تو ہر مذہب میں اس قسم کے آدمی پیدا ہو جاتے ہیں.وہ کہنے لگا اچھا اگر عوام کو چھوڑ دیا جائے تو کم از کم کوئی تو اسلام کا نمونہ ہونا چاہئے.وہ کہنے لگا ہاں یہ ضروری بات ہے.وہ ہندو کہنے لگا اچھا وہ مولوی صاحب جنہوں نے آپ کو تبلیغ کی ہے وہ تو اسلام کا نمونہ ہیں صرف ایک امتحان کیجئے اگر وہ پاس ہو جائیں تو آپ بیشک اسلام قبول کر لیں وہ کہنے لگا کیا امتحان ؟ ہندو کہنے لگا جب آپ کے مولوی صاحب آئیں تو آپ سو دو سو روپیہ اُن کے آگے رکھ دیں اور اُن سے کہیں کہ مولوی صاحب ! آپ کی خاطر میں نے اپنا مذہب چھوڑنا ہے ، اپنے رشتہ داروں کو چھوڑنا ہے، اتنی باتیں میں نے آپ کی خاطر کرنی ہیں آپ بھی میری خاطر آج ایک دفعہ میرے ساتھ بیٹھ کر شراب پی لیں پھر تو کبھی اس چیز کو ہاتھ نہیں لگانا.جب وہ مولوی آیا تو سردار دیال سنگھ نے اسی طرح کیا چونکہ مولویوں کی آمدنی کا ذریعہ کوئی اور تو ہوتا نہیں اُس نے خیال کیا کہ ایک دفعہ شراب پینے میں کیا حرج ہے روپے بھی مل جائیں گے اور یہ مسلمان بھی ہو جائے گا اور اس طرح ثواب بھی میرے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، بیٹھ گیا اور شراب پی لی.اُس نے اُسی وقت مسلمان بننے کا ارادہ چھوڑ دیا اور برہموسماجی ہو گیا اور لاکھوں روپیہ کی جائداد ان کے نام وقف کر دی جس سے وہ اب تک فائدہ اُٹھا رہے ہیں.تو لوگ صرف منہ کی باتیں نہیں سنتے بلکہ وہ قوت عملیہ کو دیکھتے ہیں اور معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بنی نوع انسان کے لئے کیا کر رہا ہے.احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ پر جب پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی تو آپ یہ دیکھ کر کہ مجھ پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے میں اسے کس طرح ادا کر سکوں گا، گھبرائے اور اپنی اس گھبراہٹ کا حضرت خدیجہ سے ذکر کیا کہ اتنا عظیم الشان کام مجھ جیسا کمزور آدمی کہاں کر سکے گا.حضرت خدیجہ نے جب آپ کی بات سنی تو چونکہ وہ آپ کے طریق عمل کو جانتی تھیں اس لئے انہوں نے کہا آپ تو یونہی گھبرا رہے ہیں.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو چھوڑ دے.آپ تو وہ ہیں جو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نہایت اعلیٰ برتاؤ کرتے ہیں ، ہمیشہ سچ بولتے ہیں، لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور آپ نے ان نیک اخلاق کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے جو زمانہ سے مفقود ہیں.پھر آپ مہمان

Page 644

خطبات محمود ۶۳۹ سال ۱۹۳۵ء کی عزت اور خاطر و تواضع کرتے اور حق کی راہ میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں کس طرح ممکن ہے کہ خدا آپ کو چھوڑ دے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بتاتا ہے کہ عملی زندگی ایسی اہم چیز ہے کہ اس سے ہر دوسرا شخص متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.حضرت خدیجہ مکہ کی تھیں جہاں کے رہنے والے الہام کے قائل نہ تھے.غیر قوموں مثلاً یہود اور عیسائیوں سے انہیں ملنے کا کہاں موقع تھا.بے شک حضرت خدیجہ کے ایک رشتہ کے بھائی ورقہ بن نوفل عیسائی تھے مگر وہ بھی ایک گوشہ نشین آدمی تھے تبلیغی آدمی نہ تھے.غرض اسلام سے پہلے الہام اور اس کی حقیقت سے انہیں کوئی آگا ہی نہ تھی مگر باوجود اسکے وہ اس نکتہ کو بجھتی تھیں کہ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنی زندگی کو قربان کر دے ، اپنی حیات کی تمام ساعات کو خدا تعالیٰ کے دین اور اُس کے جلال کے لئے وقف کر دے تو اُسے خدا ضائع نہیں کرتا.كُلًّا وَاللهِ مَا يُخْزِیكَ اللهُ أَبَدًا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا یہ خطرات سب خیالی ہیں خدا آپ کو رسوا نہیں کرسکتا کیونکہ انگ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدَقُ الْحَدِيثَ وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تَقْرِى الضَّيْفَ وَ تُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ.آپ رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک کرتے ،سچائی کو اختیار کرتے اور ان اخلاق کو ظاہر کرتے ہیں جو سارے ملک میں مفقود ہیں.پھر مہمانوں کی عزت کرتے اور مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں گویا یہ پانچ باتیں ایسی تھیں جنہوں نے حضرت خدیجہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر کیا ہوا تھا کہ وہ خیال بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ کبھی خدا آپ کو ضائع کر سکتا ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت بھی آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے دعوی نبوت کیا تو اُس وقت آپ مکہ میں نہیں تھے بلکہ باہر کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے جیسے ہمارے ہاں گھی وغیرہ لینے کے لئے بعض دفعہ آدمی پاس کے گاؤں میں چلا جاتا ہے.جب آپ واپس آئے تو آپ ایک دوست کے گھر میں اُسے ملنے کے لئے تشریف لے گئے.وہاں باتوں باتوں میں اس کی لونڈی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی.ہے! تیرا دوست تو آجکل پاگل ہو گیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کون؟ اُس نے رسول کریم ﷺ کا نام لیا اور کہا وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے.آپ نے جب یہ بات سنی تو اُسی وقت کھڑے ہو گئے ، چادر جو تھوڑی

Page 645

خطبات محمود ۶۴۰ سال ۱۹۳۵ء دیر پہلے کندھے سے اُتاری تھی پھر سنبھال لی اور سیدھے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.آپ باہر تشریف لائے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے سنا ہے کہ آپ دعوی کرتے ہیں خدا کے فرشتے آپ پر اُترتے اور خدا کا پیغام دیتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ رسول کریم ﷺ نے اس خیال سے کہ یہ پرانے دوست ہیں انہیں ٹھوکر نہ لگے چاہا کہ اپنی صداقت کے پہلے دلائل پیش کریں مگر رسول کریم ﷺ نے جونہی کوئی دلیل دینی چاہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کوئی اور بات نہ کریں آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ کا ایسا دعویٰ ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پیشتر اس کے کہ آپ اپنی صداقت کی کوئی دلیل دیں آپ گواہ رہیں کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں.پھر انہوں نے کہا يَا رَسُوْلَ اللہ ! میں دلیلیں سُننا نہیں چاہتا تھا تا کہ میرا ایمان ناقص نہ ہو.میں نے آپ کی زندگی دیکھی ہوئی ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ جس شخص نے چالیس سال تک پاکیزہ زندگی بسر کی ہو اور انسانوں پر جھوٹ نہ بولا ہو وہ خدا کے متعلق کس طرح جھوٹ بول سکتا ہے.تو استقلال، ہمت ، جرأت، قربانی، ایثار ، عدل اور انصاف ایسی چیزیں ہیں کہ جس انسان میں یہ پائی جائیں اُس کے متعلق انسان شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں رہتا بلکہ اس کی عملی زندگی کا خود مداح بن جاتا ہے.ہزار انسان بھی اگر ایک بات کہیں تو اس میں شبہ ہو سکتا ہے لیکن وہ شخص جس کے متعلق ہمیں تجربہ ہو کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اُس کی بات میں ہم شبہ نہیں کر سکتے تو یہ چیزیں نہایت ضروری ہیں مگر کیا یہ ہم میں پائی جاتی ہیں؟ پہلی چیز قرآن مجید ہے.میں مانتا ہوں کہ قرآن مجید عربی زبان میں ہے ، میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ہمارے ملک کا اکثر حصہ عربی زبان سے ناواقف ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ ایسی ناممکن الحصول بات ہے جو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی دنیا میں جتنی مذہبی کتابیں ہیں قرآن مجید حجم کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹی کتاب ہے.گو تمام روحانی علوم اس میں پائے جاتے ہیں اور کوئی ایسی ضروری بات نہیں جو اس میں نہ ہو.مگر یہ حجم میں اتنی چھوٹی کتاب ہے کہ بعض کا تب ایک ایک صفحہ میں تمام قرآن شریف لکھ دیتے ہیں.کئی لوگوں نے بازوؤں پر تعویذ باندھے ہوئے ہوتے ہیں ان میں ایک صفحہ پر سارا قرآن شریف لکھا ہوا ہوتا ہے تو قرآن مجید کا حجم سب الہامی کتابوں سے چھوٹا ہے.اناجیل کا حجم بڑا

Page 646

خطبات محمود ۶۴۱ سال ۱۹۳۵ء ہے، رند اوستا کا حجم بڑا ہے، بائبل کا حجم بڑا ہے مگر قرآن مجید کا حجم ان کتب میں سب سے چھوٹا ہے جو الہامی ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں.پھر اس کے پڑھنے اور سمجھنے میں کیا مشکل ہے ؟ ضرورت صرف ارادہ کی ہوتی ہے اگر پختہ ارادہ کر لیا جائے تو کوئی مشکل نہیں رہتی.ہم نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے انہوں نے بڑی عمر میں قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا شروع کیا اور آخر پڑھ گئے.پس ہر ایک شخص کو چاہئے خواہ وہ بڑی عمر کا ہے کہ قرآن مجید پڑھے.اور اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اب بڑی عمر میں اُس کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہے تو کم از کم اپنی اولا د کو تو پڑھائے.پچھلے سال میں نے اعلان کیا تھا کہ نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.اس پر بیسیوں نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا یہ وقف نہایت خوشکن تھا مگر جب وہ یہاں آئے اور یہ پتہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ تک نہیں جانتے.نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت تک ہم صرف چار نو جوانوں کو ممالک غیر میں تبلیغ کے لئے بھیج سکے ہیں باقیوں کو ہم قرآن مجید پڑھوا رہے ہیں تا کہ وہ بھی تبلیغ کے لئے تیار ہوسکیں.اب بتاؤ کسی کے پاس تلوار نہیں تو وہ لڑے گا کس طرح ؟ ہماری تلوار تو قرآن مجید ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَجَاهِدُ هُمُ بِهِ جِهَادًا كَبِيرً ا سیر قرآن مجید تمہارے لئے تلوار ہے اس سے جہاد کرو.جس شخص کے پاس تلوار نہ ہوگی اور وہ میدانِ جنگ میں چلا جائے گا وہ بجز اپنی گردن کٹوانے کے اور کیا کر سکتا ہے.مگر مؤمن کا کام یہ نہیں کہ وہ اپنی گردن کٹوادے بلکہ اس کا کام تو دنیا میں اشاعت اسلام کرنا ہے اور ان مسائل کا پھیلانا ہے جو قرآن کریم نے بتلائے.اگر صحابہ کو کہا جاتا کہ مؤمن کا کام صرف اپنی گردن کاٹنا ہے تو وہ ایک دن میں ہی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ دیتے اور اپنے فرض سے عہدہ برآ ہو جاتے مگر انہیں یہ نہیں کہا گیا بلکہ ان کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ کفار کے دلوں سے گند نکالیں اور انہیں آستانہ اسلام پر جُھکا دیں.یہی کام اب ہمارے سپرد کیا گیا ہے اور اسی کا نام جہاد کبیر ہے ورنہ اپنی گردن کاٹ دینا یا دوسروں کی گردن اُتار دینا یہ کونسا مشکل کام ہے.پس مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ لوہے کی تلوار سے کفار کا گلا کاٹیں اور نہ صحابہ کے ذمہ یہ کام تھا.صحابہ تلوار صرف دفاع کے طور پر اُٹھاتے تھے انہیں اصل حکم یہی تھا کہ فَجَاهِدُ هُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا.قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کرو اور اس کے احکام کے ذریعہ کفار سے جہاد کرو.پس

Page 647

خطبات محمود ۶۴۲ سال ۱۹۳۵ء ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم میں سے ہر شخص قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کا مفہوم جانتا ہو.بڑی عمر کے لوگوں کو جانے دو، گو میں نہیں سمجھ سکتا کہ انہیں کیوں جانے دیا جائے وہ بھی اگر پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن کم از کم آئندہ نسلوں کو تو اِس بات سے محروم نہ رکھو.جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں وہاں کی جماعتوں کو بالالتزام اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانا چاہئے اور جہاں اس قسم کا التزام نہیں ہوسکتا وہاں کی جماعتوں کو چاہئے کہ رُخصت کے ایام میں اپنے بچوں کو قادیان بھیج دیں.ہم ان کی قرآنی تعلیم کا انتظام کر دیں گے لیکن اگر نہ تو وہ خود اپنی جماعت میں قرآن کریم پڑھانے کا التزام کریں اور نہ چھٹیوں میں اپنے قرآن کریم پڑھنے کے لئے قادیان بھیجیں تو پھر ہم پر کوئی الزام نہیں ان پر یہ الزام عائد ہو گا کہ انہوں نے ایک اچھے موقع کو ضائع کر دیا.پس میں تمام جماعت کو تو جہ دلاتا ہوں کہ وہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف توجہ کرے.باہر بھی ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو قرآن کریم پڑھا سکتے اور اپنے اوقات خرچ کر سکتے ہوں.لیکن جہاں قرآن کریم پڑھانے والے نہ مل سکیں وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ مرکز سے ایسے معلم منگوا لیں.مگر یہ نہیں کہ انہیں سال دو سال رکھا جائے بلکہ مہینہ دو مہینے یا تین مہینے میں ان سے قرآن پڑھ لینا چاہئے.مجھے حضرت خلیفہ اول نے ایک مہینہ میں قرآن کریم ختم کر دیا تھا لیکن میں کہتا ہوں اگر کوئی ایک مہینہ میں قرآن کریم نہیں پڑھ سکتا تو دو مہینے میں پڑھ لے.دو مہینے میں نہیں پڑھ سکتا تو تین مہینے لگا کر پڑھے.اس سے زیادہ وقت تو کسی صورت میں صرف نہیں ہو سکتا.باقی ترقی کے لئے گنجائش ہمیشہ رہتی ہے.جب رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ دعا مانگا کرو کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا.اے خدا امیر اعلم بڑھا تو ہم کون ہیں جو کہہ سکیں کہ ہماری ترقی کے لئے گنجائش نہیں.ہاں اتنی استعداد اس عرصہ میں ضرور پیدا ہوسکتی ہے کہ انسان قرآن کریم کو سمجھ لے.پھر آگے اس کے علوم کو دنیا میں پھیلانے کا کام ہے ، اس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے.اور یہ بھی ایک اہم کام ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک نے ابھی تک تربیت کی ضرورت نہیں سمجھی.دنیا میں تعلیم دینے والے مل جائیں گے مگر تربیت کرنے والے ڈھونڈ نے پر بھی مشکل سے ملیں گے.گورنمنٹ نے بھی تعلیم کے لئے بیسیوں کا لج کھول رکھے ہیں، سکول اور مدر سے ہیں.جے اے وی ، ایس اے وی اور بی ٹی کے لئے ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن جو سب سے زیادہ نازک کام ہے یعنی تربیت ، اس کے لئے کالج نہیں کھولے.حالانکہ جب تک نئی

Page 648

خطبات محمود ۶۴۳ سال ۱۹۳۵ء نسلوں میں قربانی کا مادہ نہ ہو، جب تک نئی نسلوں میں ایثار کا مادہ نہ ہو، جب تک نئی نسلوں میں محنت سے کام کرنے کا مادہ نہ ہو ، جب تک نئی نسلوں میں صداقت اور راستی نہ ہو، اور جب تک نئی نسلوں میں خلوص اور للہیت نہ ہو اور ان امور کے لئے اس کی تربیت نہ کی جائے ، اُس وقت تک یہ کام بھلا کس طرح ہو سکتا ہے.یہ کام تو اتنا نازک ہے کہ اس کے لئے رات دن ایک کر دینا چاہئے مگر جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان پانچ چھ گھنٹے مستقل کام کر لیں تو سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے ساری دنیا پر احسان کر دیا.پھر وہ کام کو بوجھ سمجھتے اور اس سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں.مگر اس سے بھی زیادہ خطر ناک بات یہ ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لینے کے عادی نہیں.بیوقوفی ان میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ میں بعض دفعہ حیران ہوتا ہوں کہ کیسی معمولی باتیں ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں.پھر اگر انہیں نصیحت کی جائے تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور اپنی حماقت کو نہیں دیکھتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو سات آٹھ گھنٹہ کام کیا تھا پھر نگی کیسی.اور اس طرح پہلی حماقت کے ساتھ دوسری جواب کی حماقت کو ملا دیتے ہیں حالانکہ بے عقلی سے کام کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے.مثل مشہور ہے کہ کسی شخص نے ایک ریچھ پالا ہوا تھا.ایک دفعہ جب اُس کی ماں بیمار ہوئی تو وہ ریچھ کو اُس کے پاس بٹھا گیا کہ مکھیاں ہٹا تار ہے.اسے یہ خیال نہ آیا کہ ریچھ ریچھ ہی ہے کوئی نقصان پہنچا بیٹھا تو کیسا ہو گا.وہ مکھیاں ہٹاتا رہا مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر مکھیاں آ بیٹھتیں.پھر ہٹاتا پھر آجاتیں.آخر آدمی کے ہاتھ اور اس کی عقل اور ریچھ کے ہاتھ اور اُس کی عقل میں فرق بھی تو ہے.اگر آدمی مکھیاں ہٹاتا تو مکھیاں ہٹا کر اوپر کپڑا دے دیتا مگر ریچھ کو اس بات کی سمجھ نہیں تھی.جب اُس نے دیکھا کہ لکھیاں بار بارآ بیٹھتی ہیں تو وہ ایک بڑا سا پتھر اٹھ لایا اور جب پھر کبھی آ بیٹھی تو اُس نے اس زور سے مکھی کو پتھر مارا کہ ساتھ ہی اُس کی ماں بھی رُخصت ہو گئی.یہ ریچھ اگر انسان ہوتا اور کھی مارنے کے بعد اپنے آقا سے کہتا کہ لائیے انعام دیجئے.تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ آقا اُسے انعام دیتا.مگر یہ شخص ریچھ سے بھی زیادہ حماقت کا کام کرتا اور کام کو خراب کرتا چلا جاتا ہے اور پھر سمجھتا ہے کہ اسے انعام ملنا چاہئے.کیا دنیا کا کوئی انسان ایسا ہے جو دیانت داری سے کہہ سکے کہ ایسے شخص کو انعام ملنا چاہئے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص نماز پڑھنے لگے تو الٹا لٹک جائے.سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر لے اور اس طرح نماز پڑھے.کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اُس کی نماز ہو جائے گی ؟ محض

Page 649

خطبات محمود ۶۴۴ سال ۱۹۳۵ء اس وجہ سے کہ اس نے تکلیف زیادہ اُٹھائی ہے نماز نہیں ہوگی کیونکہ اس نے مقررہ طریق کے مطابق نہیں پڑھی.اس کے مقابلہ میں وہ شخص انعام لے جائے گا جس نے آرام اور اطمینان سے نماز پڑھی ہے.تو عقل سے کام لینا اور دانائی سے مقررہ فرائض کو سر انجام دینا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کم عقل ہے.تھوڑی تعداد ایسے نو جوانوں کی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں باقی کبھی عقل کو مد نظر نہیں رکھتے اور نہ سوچ کر کام کرنے کے عادی ہیں صرف اتنا کافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کام کے لئے مقررہ وقت دے دیا.پھر ایک اور نقص جو ہمارے ملک کے نو جوانوں میں خطر ناک طور پر پیدا ہو گیا ہے یہ ہے کہ ان میں عقل کا فقدان بھی نہیں ہو گا ، کام بھی محنت سے کریں گے مگر انجام کی ذمہ واری اپنے اوپر نہیں لیں گے.بے شک یہ بات درست ہے اور میں اس کو بیان بھی کر چکا ہوں کہ جب انسان اپنی طرف سے تمام ذرائع کو استعمال کرے اور کام اتفاقا خراب ہو جائے تو اس کی ذمہ داری اُس پر نہیں ہوتی مگر میں دیکھتا ہوں کہ ۹۹ فیصدی انجام اس کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں اور اگر یہ چاہے تو اس کے خراب انجام سے بدل سکتا ہے مگر بدلتا نہیں.صرف ایک فیصدی ایسے فعل ہوتے ہیں جن میں باوجود عقل سے کام لینے کے یہ ناکام ہو جاتا ہے لیکن ۹۹ فیصدی کام کی خرابیوں کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے اور اس کی وجہ تدبیر یا محنت کی کمی ہوتی ہے اگر اس کام کے لئے بارہ گھنٹے محنت کرنے کی ضرورت ہے تو یہ دس گھنٹے کرتا ہے.اگر اٹھارہ گھنٹے کام کی ضرورت ہے تو یہ چودہ گھنٹے کام کرتا ہے.بظاہر اس کا دس گھنٹے یا چودہ گھنٹے کام کرنا بہت بڑی محنت نظر آتی ہے مگر خدا کی نگاہ میں یہ محنت نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں محنت وہی ہے جو کام کے لئے ضروری ہو.اگر یہ چوبیس گھنٹے کام کرتا اور پھر بھی فیل ہو جاتا تب تو یہ کہہ سکتا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی پچیسواں گھنٹہ نہیں بنایا لیکن جبکہ یہ اتنی محنت نہیں کرتا جتنی کام کے لئے ضروری ہے تو اس کی محنت ہرگز ایسی چیز نہیں جس کی تعریف کی جا سکے.یہی حال عقل کا ہے کہیں یہ دس فی صدی عقل سے کام لیتا ہے حالانکہ وہاں ۱۵ فی صدی عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے، کہیں یہ پندرہ فیصدی عقل سے کام لیتا ہے حالانکہ وہاں بیس فیصدی عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح کام خراب ہو جاتا ہے.بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یہ رات کے بارہ بجے تک بیٹھا رہتا ہے اور کام نہیں ہوتا اور پھر اپنی محنت کا ذکر کرتا ہے.حالانکہ

Page 650

خطبات محمود ۶۴۵ سال ۱۹۳۵ء اگر اس کام کے لئے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ اور جاگنے کی ضرورت تھی اور وہ نہیں جا گا تو اس نے غلطی کی اور وہ خدا کے حضور بری الذمہ نہیں ہو سکتا.ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے.ایک دفعہ ایک بند میں جو سمندر کے آگے لگایا گیا تھا چھوٹا سا سوراخ ہو گیا.یہ ہالینڈ کا واقعہ ہے وہاں سمندر سے زمین نیچی ہے اور لوگ سمندروں کے آگے حفاظت کے لئے بند لگا دیا کرتے ہیں.جب اس بند میں سوراخ ہو ا تو اُس وقت اتفاقاً ایک چھوٹا سا بچہ وہاں کھیل رہا تھا.اُس نے خیال کیا کہ اگر میں اس وقت گاؤں والوں کو اطلاع دینے کے لئے چلا گیا تو یہ سوراخ بہت بڑھ جائے گا اور سیلاب گاؤں کو بہالے جائے گا اس لئے وہ وہیں بیٹھ گیا اور اُس نے اپنی انگلی سوراخ میں ڈال دی.نتیجہ یہ ہوا کہ سوراخ بند ہو گیا اور پانی نکلنا رک گیا لیکن پھر بھی سمندر کا پانی زوروں پر تھا آہستہ آہستہ اُس سوراخ نے پھیلنا شروع کیا.جب سوراخ ذرا بڑا ہو گیا تو اُس نے اپنی دوسری اُنگلی بھی اندر ڈال دی.پھر سوراخ زیادہ ہوا تو تیسری اُنگلی ڈال دی.اور جب آہستہ آہستہ سوراخ اور بڑا ہو گیا تو اُس نے اپنا ہاتھ اُس میں ڈال دیا اور سارا دن وہیں بیٹھا رہا.پھر شام ہوگئی مگر وہ وہاں سے ہلا نہیں.نصف شب کے قریب والدین کو خیال آیا کہ ہمارا بچہ کہاں گیا ؟ اِدھر اُدھر سے پتہ لگاتے انہیں معلوم ہوا کہ صبح سمندر کی طرف گیا تھا.خیال آیا کہ کہیں ڈوب نہ گیا ہو اسی فکر میں جب بند کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بچہ نے اپنا ہاتھ سوراخ میں ڈالا ہوا ہے اور خود بے ہوش پڑا ہے.اب دیکھ لو اس بچہ نے عقل سے کام لیا اور کام پر اتنا وقت صرف کیا جتنی ضرورت تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا گاؤں بچ گیا.ہندوستان کے بڑے بڑے آدمی بھی اگر وہاں ہوتے تو دو گھنٹہ کے بعد آ جاتے اور کہتے کہ جب اور کوئی نہ آیا تو میں بھی چلا آیا.حالانکہ کام میں یہ سوال نہیں ہوتا کہ کتنے گھنٹے خرچ ہوئے بلکہ اگر اسلام اور سلسلہ اور قومی ضرورت اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ کوئی شخص ایک جگہ بیٹھا ر ہے اور بیٹھا رہے یہاں تک کہ مرجائے تو اسکا فرض ہے کہ وہ وہاں بیٹھا رہے اور مر جائے.غرض ضرورت اس بات کی ہے کہ محنت سے کام کیا جائے عقل سے کام لیا جائے اور ایسی تدابیر سے کام لیا جائے جو کام کو کامیاب بنانے والی ہوں.اور ہر انسان یہ سمجھے کہ نہ صرف اُس نے کام کرنا ہے بلکہ کام کو کامیاب بنانا بھی ہے پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ انجام میرے اختیار میں نہیں وہ کام کی

Page 651

خطبات محمود ۶۴۶ سال ۱۹۳۵ء اہمیت کو نہیں سمجھتا.یہ چیزیں ہیں جو بڑوں میں بھی ہونی چاہئیں اور نو جوانوں میں بھی.بڑے اگر خود ان پر عمل نہیں کر سکتے تو نو جوانوں کو سکھانے کے لئے اپنی زبان پلا سکتے ہیں.جیسے گنکا ہے جب گت کا کا ماہر بوڑھا ہو جائے تو گو وہ خود گت کا نہیں کھیل سکتا مگر دوسروں کو کھیلنا سکھا سکتا ہے.یا ایک شخص جو بندوق کا اچھا نشانہ لگا نا جانتا ہو اگر اس کے ہاتھ میں رعشہ ہو جائے تو گو وہ خود بندوق کا نشانہ ٹھیک نہیں لگا سکے گا مگر اچھا نشانہ لگانے والے پیدا ضرور کر سکے گا.اسی طرح قوم پر ایک ایسا وقت آیا کرتا ہے جبکہ اس کے بڑے جو فن کے ماہر ہوں بوڑھے ہو جاتے ہیں اور کام نہیں کر سکتے.ایسی حالت میں وہ آئندہ نسلوں کی تربیت کر سکتے اور انہیں اپنا بہتر قائم مقام بنا سکتے ہیں.آج سے پچاس سال پہلے کی تعلیم نہایت ادنی تھی مگر آج نہایت اعلی تعلیم ہے.یہ اعلیٰ تعلیم کس نے بنائی ؟ اسی ادنی تعلیم نے بنائی ہے کیونکہ جو پہلے لوگ تھے انہوں نے اپنے شاگردوں کو ایسے اعلیٰ مشورے دیئے کہ وہ ان سے اعلیٰ قابلیت کے مالک ہوئے.انہوں نے آگے اپنے شاگردوں کو ایسی قابلیت سے پڑھایا کہ وہ ان سے بھی اعلیٰ قابلیت کے مالک ہوئے نتیجہ یہ ہوا کہ اب اُستاد ادنی اور شاگر د اعلیٰ.اگر قانونِ قدرت یہ ہوتا کہ جتنی قابلیت کا اُستاد ہو اتنی قابلیت کا شاگرد ہوگا تو دنیا کبھی بھی ترقی نہ کرتی.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا ترقی کر رہی ہے.اُستاد میں نقص ہوتا ہے مگر وہ اپنے شاگردوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ دیکھنا تم میں نقص نہ آئے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفتہ امسح الاول ایک دفعہ کوئی بات کہ رہے تھے کہ دورانِ گفتگو آپ کی زبان سے ایک سخت لفظ گالی کی قسم کا نکل گیا.معاً اُسی وقت آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا میاں ! ہمیں ایسے اُستاد میسر نہیں آئے جیسے تمہیں ملے ہیں.ہمارے زمانہ میں گالیاں عام تھیں اس لئے کوئی کوئی سخت لفظ ہماری زبان پر اُس وقت کا چڑھا ہوا ہے دیکھنا! تم ایسا لفظ کبھی زبان سے نہ نکالنا تو آئندہ نسلیں اعلیٰ بنائی جا سکتی ہیں اگر توجہ دی جائے ، آئندہ نسلیں اعلیٰ بنائی جاسکتی ہیں اگر ان کے سامنے بہترین نمونہ پیش کیا جائے.ہم اگر منہ سے کہیں کہ ساری دنیا کو فتح کریں گے، ہم اگر منہ سے کہیں کہ ہم نئی زمین اور نیا آسمان بنا ئیں گے، ہم اگر منہ سے کہیں کہ ہم شیطانی جال کو کاٹ کر رکھدیں گے لیکن ہم اعلی نسل نہ تیار کریں ایسی نسل جو اپنی جانوں کو خدا کے لئے قربان کرنے والی ہو ، ایسی نسل جو اپنے اوقات کو خدا کے لئے قربان کرنے والی ہو ، ایسی نسل جو اپنے اندر عقل رکھتی اور عقل سے کام

Page 652

خطبات محمود ۶۴۷ سال ۱۹۳۵ء لینے کی عادی ہو، ایسی نسل جو اپنی زندگی کا مقصد وحید وہی قرار دیتی ہو جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث ہوئے تو ایسے دعوے کا فائدہ کیا اور لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے.پس ضرورت ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت کی جائے، انہیں قرآن کریم پڑھایا جائے ، ان میں سلسلہ کے لئے قربانی کی روح پیدا کی جائے اور دیکھا جائے کہ وہ سلسلہ کے لئے کتنا وقت خرچ کرتے اور کتنی عقل سے کام لیتے ہیں.دنیا میں جس طرح اور چیزیں بڑھائی جا سکتی ہیں اسی طرح عقل بھی بڑھائی جاسکتی ہے مگر ضرورت تربیت کی ہوتی ہے.اس لئے جماعت اگر ان ذمہ واریوں کو پورا کرنا چاہتی ہے جنہیں میں نے بیان کیا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی ہیں، اگر وہ دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس امر میں مجھ سے تعاون کرے کہ آئندہ نسلوں کی اصلاح کی جائے.اگر وہ اس امر پر تیار ہوں اور اس کے لئے عملی جد و جہد کریں تو یہ اتنی بھی مشکل چیز نہیں جتنی کوئی چیز ادھر سے اُدھر کر نی مشکل ہوتی ہے لیکن اگر وہ ادھر توجہ نہ کریں تو پھر یہ بہت بڑی مشکل ہے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق دے اور ایسی نسل تیار کرنے کی ہمت بخشے جو اُس کی رضا کی راہوں پر چلنے والی اور صدق ، محنت ، عقل، اور استقلال سے کام لینے والی ہو.اگر ہماری آئندہ نسل قربانی ، ایثار، عقل ، ہمت اور باقی تمام ضروری ہتھیاروں سے مسلح ہو جائے تو دشمنوں پر فتح پانا ان کے لئے کوئی مشکل نہ ہو گا.الحجر: ١٠ الفضل ۳۱ / اکتوبر ۱۹۳۵ء) بخاری کتاب فضائل أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى (الخ) بخاری كتاب التفسير - تفسير سورة اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ الفرقان : ۵۳ طه: ۱۱۵

Page 653

خطبات محمود ۶۴۸ سال ۱۹۳۵ء گزشتہ سال سے زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ ( فرموده یکم نومبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ التوبہ کے رکوع چھ کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يَا يُّهَا الَّذِينَ امْنُوْا مَالَكُمْ إِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيْلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَّ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَه بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ انْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشَّقَّةُ وَ سَيَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ لَوِسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ پھر فرمایا:.آج اُن واقعات پر ایک سال گزرتا ہے جو گزشتہ سال جماعت کے لئے دنیا کی نگاہوں میں تباہی کا پیغام لے کر آئے تھے.اور جنہوں نے غیر تو غیر اپنوں میں سے بھی کمزور دل کے لوگوں کو

Page 654

خطبات محمود ۶۴۹ سال ۱۹۳۵ء گھبراہٹ میں ڈال دیا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ جماعت کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے.اسی مقام سے، اسی دن اور اسی مہینہ میں گزشتہ سال میں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ جب تک اپنی حالت میں تبدیلی نہ کرے گی ، مغربی اثر کو دور کر کے مکمل اسلامی طریق اختیار نہیں کریگی اور اس راہ کو جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ جماعتیں چل کر کامیاب ہوتی ہیں اختیار نہ کرے گی اُس وقت تک یہ مصائب اور مشکلات کسی صورت میں دُور نہ ہوں گی.میں نے ایک سکیم بیان کی تھی جس کے پہلے حصہ کے لئے تین سال کی میعاد مقرر کی تھی.اور بتایا تھا کہ یہ مصائب اور ابتلاء آنے ضروری ہیں اور جو جماعتیں ان سے گھبرا جاتی ہیں اور اپنے قدموں کو سست کر دیتی ہیں وہ روحانی دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں.اور یہ کہ روحانی اور دُنیوی لشکروں میں فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ دنیوی لشکر ایک حد تک چل کر رُک جاتے ہیں لیکن روحانی لشکر جب تک اس منزل پر نہیں پہنچ جاتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کیلئے مقدر ہوتی ہے، اپنے قدم سُست نہیں کرتے.اور میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے سامنے ایک قوم ایک ملک یا ایک مذہب کے لوگ نہیں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی سب اقوام ، سب ممالک اور سب مذاہب و ملل کی طرف مبعوث فرمایا ہے اس لئے ہمارا صرف یہ کام نہیں کہ ہندوستان کے لوگوں کو فتح کریں، چین کے لوگوں کو فتح کریں، جاپان ، افغانستان یا عرب کے لوگوں کو فتح کریں.ایشیا، افریقہ یا جزائر کے لوگوں کو فتح کریں بلکہ ہمارے سپرد یہ کام ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور زمین کے ہر حصہ میں رہنے والے لوگوں کے دلوں کو فتح کریں اور ان دلوں کو صاف اور پاک کر کے خدا تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالیں.اور ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں اور معمولی قربانیاں اس کے لئے کافی نہیں ہوسکتیں.یہ کام نہیں ہوسکتا جب تک یہ بات ہمارے دلوں میں نقش نہ ہو جائے اور ہمارے سینوں کے اندر ایک آگ نہ لگ جائے.ایسی آگ جسے دنیا کی کوئی طاقت سرد نہ کر سکے اور جو ہمیں سوائے اس کے کہ ہمارا مقصد پورا ہو جائے اپنے فرض سے غافل نہ ہونے دے.میں نے ایک تحریک پیش کی تھی جس میں انیس مطالبات تھے ان میں سے مالی مطالبہ کے متعلق جماعت نے جو جواب دیا وہ شاندار تھا.میں نے ساڑھے ستائیس ہزار کا مطالبہ کیا تھا مگر وعدے ایک لاکھ آٹھ ہزار کے ہوئے جن میں سے اٹھاسی ہزار وصول ہو چکا ہے گویا ہیں ہزار کے وعدے ابھی

Page 655

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء باقی ہیں اور اسی فیصدی رقوم وصول ہو چکی ہیں.اس کے علاوہ کچھ اور تحریکات بھی تھیں مثلاً یہ کہ نو جوان اپنی زندگیاں پیش کریں اس کے ماتحت دو اڑھائی سو نو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.ان میں سے بعض کو ہم نے کام پر لگایا اور بعض کو نہیں لگایا جا سکا.یہ جواب بھی گوایسا شاندار نہ تھا جتنا ہمیں جماعت سے امید رکھنی چاہئے مگر دوسری جماعتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت حد تک شاندار تھا.اس کے علاوہ کچھ تحریکیں جماعت کی اندرونی حالت کی اصلاح اور درستی کے متعلق تھیں.مثلاً ایک سادہ زندگی کے متعلق تھی کہ سادہ خوراک کھائیں اور سادہ لباس پہنیں.خوراک کے لئے ایک قانون بنا دیا گیا تھا کہ صرف ایک ہی سالن استعمال کیا جائے سوائے دعوت کے جو ایسے شخص کی طرف سے ہو کہ انکار کرنا اس کے لئے موجب تکلیف ہو باقی ایک نمکین اور ایک میٹھے کے سوا دوسرا کھانا استعمال نہ کیا جائے.میٹھا اس واسطے رکھا تھا کہ بعض لوگوں کو اس کی عادت ہوتی ہے اور یہ ان کے لئے کھانے کا ایک جزو ہوتا ہے.یہ مطلب نہ تھا کہ جنہیں روزانہ میٹھا کھانے کی عادت نہیں وہ سالن تو ایک کر دیں لیکن میٹھا زائد کر دیں.پھر میں نے کہا تھا کہ عورتیں کپڑے بنوانے میں احتیاط سے کام لیں.گوٹہ کناری کا استعمال نہ کریں، زیورات نہ بنوائیں.پرانی اشیاء تلف کرنے کا میں نے حکم نہیں دیا تھا مگر آئندہ ایسے سامان جن میں اسراف کا رنگ ہو جیسے گوٹہ کناری وغیرہ ہیں ، ان سے منع کر دیا تھا پھر ضرورت سے زیادہ کپڑے بنوانے کی ممانعت کی تھی.ان سب چیزوں کی تفاصیل آئندہ چند خطبوں میں میں پھر بیان کروں گا.سر دست میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ جس رنگ میں جماعت نے مالی قربانی کی ہے، اس حد تک دوسری باتوں کی طرف توجہ نہیں کی.سادہ زندگی کے متعلق میں جانتا ہوں کہ ہزار ہا لوگوں نے اپنے اندر تغیر پیدا کیا ہے مگر ابھی بہت ہیں جن کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنا چاہئے.بہر حال میں نے ایک اعلان کیا تھا اور جماعت نے اس کا ایسے رنگ میں جواب دیا جو دشمن کیلئے حیرت انگیز ہے مگر ہمارے لئے نہیں کیونکہ ہم نے جو کام کرنا ہے اس کے لئے بہت سی قربانیوں کی ضرورت ہے.اس سکیم کو چونکہ فی الحال ہم نے تین سال تک چلانا ہے اس لئے آئندہ چند خطبوں میں اگر اس میں سے کسی بات میں تبدیلی کرنی ہوئی تو وہ ورنہ پھر اسی مضمون کو بیان کروں گا تا جماعت کے دوستوں کے دماغوں میں پھر سب باتیں مستحضر ہو جائیں.اور اس خطبہ کے ذریعہ اعلان کرتا ہوں کہ ہر جماعت جمعہ یا اتوار کے روز جیسا بھی اُس کے حالات کے مطابق مناسب

Page 656

خطبات محمود ۶۵۱ سال ۱۹۳۵ء ہو ان خطبات کو اپنے اپنے ہاں سنانے کا انتظام کرے تا سب دوست آگاہ ہو جائیں.یاد رکھو کہ تمہارے لئے ایک آزمائش ہے بہت بڑی آزمائش جس میں اگر تم پورے نہ اُترے تو جیسا کہ میں نے قرآن کریم کا جو رکوع ابھی پڑھا ہے اس کا آگے چل کر ترجمہ کرتے ہوئے بتاؤں گا تمہارے لئے سخت مشکلات پیدا ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ یعنی ہم ایسے لوگوں کو جو ہمارے فرائض کو ادا نہیں کرتے تباہ کر کے دوسروں کو ان کی جگہ کھڑا کر دیا کرتے ہیں.دیکھو! انسان اور جمادات میں یہی فرق ہوتا ہے.انسان کے دل میں بھی کبھی آگ ہوتی ہے اور دھاتوں کو بھی آگ دی جاتی ہے.دونوں کو آگ ملتی ہے مگر لو ہا صرف تھوڑی دیر گرم رہتا ہے اور اُسی وقت اُسے گو ٹا جا سکتا ہے جب وہ گرم ہو لیکن مؤمن انسان کا دل کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا.مؤمن اور غیر مومن میں یہی فرق ہوتا ہے کہ غیر مؤمن جمادات کی طرح خاص موقعوں پر گرم ہوتے ہیں اور موقع کی تاک میں رہتے ہیں لیکن مؤمن کے لئے ہر وقت موقع ہوتا ہے.جوش کی حالت میں ہر شخص قربانی کرسکتا ہے.ایک منافق جس کی بُزدلی کا ذکر خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ، اس کو ماں بہن کی گالی اگر کوئی دے تو وہ بھی مرنے مارنے پر تیار ہو جائے گا.میں کسی مومن کو یہ نہیں کہ رہا کہ منافق کو گالی دے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر منافق کو جو بُز دل ہوتا ہے اگر کوئی شخص گالی دے تو وہ بُزدل ہونے کے باوجود اُس سے لڑ پڑے گا.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ ایڑی کے نیچے آیا ہوا کیڑا بھی کاٹ لیتا ہے پس یہ کوئی بہادری نہیں کہ کسی وقت ایڑی کے نیچے آ جانے کی وجہ سے تم کاٹ لو.اس سے صرف یہ ثابت ہو گا کہ تمہاری غیرت کیڑے جتنی ہے مگر مؤمن کی غیرت ایسی نہیں ہوتی.مؤمن کی غیرت پہاڑوں کو ہلا دیتی ہے.وہ جن باتوں پر غیرت کھاتا ہے انہیں کبھی نہیں بھلاتا.اگر بعد میں آنے والے مسلمان وہی غیرت رکھتے جو صحا بہ کرام میں تھی تو کیا یہ بھی ممکن تھا کہ آج غیر مذاہب دنیا میں موجود ہوتے.لوگ کہتے ہیں مسلمان دیوانے ہیں جہاں ان کی حکومت پہنچی وہاں انہوں نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا.ہم اس الزام کو بالکل غلط سمجھتے ہیں ہمیں تو الٹا یہ شکوہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دیوانوں کی طرح اسلام کو پھیلانے کا جوش نہ رہا.کاش! جو جوش صحابہ میں یا اُن کے بعد قریب کے زمانہ کے مسلمانوں میں تھا وہ بعد میں آنے والوں میں بھی ہوتا.اگر ایسا ہوتا تو آج اسلام اس طرح غریب الوطنی کی حالت میں نہ ہوتا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ مذہب جس نے

Page 657

خطبات محمود ۶۵۲ سال ۱۹۳۵ء ساری دنیا کو فتح کیا اور ساری دنیا پر حکومت کی ، جس کے بادشاہوں کے سامنے دوسرے بادشاہ عاجزانہ حیثیت میں پیش ہوتے تھے.ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں انگلستان پر سپین نے حملہ کیا تو باوجود یکہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کی طاقت مٹ چکی تھی بیان کیا جاتا ہے کہ ملکہ الزبتھ نے ترکوں کو لکھا کہ میں نے سنا ہے مسلمان عورت کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں میں ایک عورت ہوں اور اہل سپین نے مجھ پر حملہ کر دیا ہے کیا ترک میری مدد نہ کریں گے ؟ جس زمانہ میں بغداد کی خلافت قریباً مٹ چکی تھی اور طوائف الملو کی پھیلی ہوئی تھی اُس زمانہ میں فلسطین کے علاقہ میں جہاں عیسائی صلیبی جنگیں کرنے والوں نے قبضہ کیا ہوا تھا ایک مسلمان عورت پر بعض عیسائیوں نے حملہ کیا اور دست درازی کرنے لگے.جب اُس کے کپڑے اُتار کر اُسے ننگا کرنے لگے تو اُس نے آواز دی کہ کوئی ہے جو بغداد کے خلیفہ کو یہ اطلاع دے کہ اس طرح ایک مسلم عورت کی بے حرمتی کی جارہی ہے.اُس وقت خلافت صرف بغداد تک محدود تھی سب ریاستیں آزاد ہو چکی تھیں کسی قافلہ والے نے جس نے عورت کی یہ آواز سنی تھی بغداد پہنچ کر برسبیل تذکرہ کسی سے اس کا ذکر کیا.کسی نے جا کر خلیفہ سے بھی اس کا ذکر کر دیا.اُس زمانہ میں عباسی خلیفہ بالکل شاہ شطرنج کی حیثیت رکھتا تھا مگر اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جب اُس نے یہ بات سنی تو اُسے اس قدر غیرت آئی کہ تلوار نکال کر تخت سے گود پڑا اور چلا یا کہ میں تمہاری امداد کو بھی آتا ہوں، ابھی آتا ہوں.چونکہ عباسی خاندان عرصہ سے حکومت کر رہا تھا اس لئے اُن کا آزادریاستوں پر بھی اثر تھا کہ خلیفہ بغداد کے اس اعلان سے ایک آگ لگ گئی اور سب خلیفہ بغداد کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور اُس وقت تک آرام نہیں کیا جب تک اُس عورت کو چھڑا کر نہیں لائے.مگر آج کیا ہے ایک معمولی عورت کا تو ذکر ہی نہیں ایک معزز ترین عورت کو بھی جانے دو، سب مسلمان عورتوں کی عزت کے سوال کو بھی جانے دو، ان سب سے زیادہ معزز اور مکرم اور مسلمانوں کی محبت کا مرکز جس کی عزت پر سب عزتیں قربان ہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.آپ کی عزت کو لے لو اس سے کیا سلوک کیا جاتا ہے.آج گھلے بندوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملے کئے جاتے ہیں مگر کوئی مسلمان نہیں جو ان حملوں کو دور کر سکے.وہ خون کے آنسو روتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گالیاں سُن کر ان کے دل جل جاتے ہیں مگر ان کے ہاتھ اور ان کے جسم مفلوج ہیں کچھ نہیں کر سکتے.کیونکہ ان کی کمزریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے قوت عملیہ چھین لی ہے.یہ

Page 658

خطبات محمود ۶۵۳ سال ۱۹۳۵ء حالت جو آج اسلام کی ہے اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کون اس کا علاج کر سکتا ہے.اس سے زیادہ تکلیف دہ نظارہ دنیا میں اور کیا ہوسکتا ہے.بچپن میں ہم ایک واقعہ کتابوں میں پڑھتے تھے اور اسے پڑھکر آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے مگر اُس واقعہ کو اس نظارہ سے کوئی نسبت ہی نہیں.بیسیوں نے آپ لوگوں میں سے اُس واقعہ کو پڑھا ہوگا اور اُس پر آنسو بہائے ہونگے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رونے کی بات تو اسلام کی موجودہ حالت ہے باقی سب اس کے سامنے بیچ ہے.وہ سید انشاء کا واقعہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ ان کی عزت اس قدر تھی کہ لکھنو کے بادشاہ اور رؤساء کے ہاتھی آ کر اُن کے دروازہ پر کھڑے رہتے تھے.اور جب وہ دربار میں جاتے تو ایسے ناز سے بیٹھتے کہ دیکھنے والے سمجھتے بے ادبی کر رہے ہیں.ان کے ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے ان کے عروج کا یہ زمانہ دیکھا.اس کے عرصہ بعد پھر میں ایک بار لکھنو آیا ایک مشاعرہ تھا، ہمیں بھی وہاں پہنچا اور دیکھا کہ ایک گدڑی پوش نہایت خستہ حالت میں مجلس میں آیا اور جوتیوں میں بیٹھ گیا.لوگوں نے عرض کیا کہ قبلہ آگے آئے.اس طرح ہوتے ہوئے ان کی آمد کی اطلاع صدرنشین نوابوں اور رئیسوں تک پہنچی اور لوگ انہیں کھینچ کر صدر تک لے آئے.وہ صاحب کہتے ہیں میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں ؟ تو اُس نے بتایا کہ یہ وہی تمہارے پُرانے دوست انشاء اللہ ہیں اور کون ہیں.میں بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ ان کی یہ حالت ؟ مجھے بتایا گیا کہ جب سے بادشاہ کی نظر پھری ہے یہ حالت ہو گئی ہے.سید صاحب نے اپنی غزل پڑھی اور اسے وہیں پھینک کر ر بودگی کی حالت میں چلے گئے.اس پر میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اُن کے مکان پر گیا.وہاں ہاتھی تو کجا اب کوئی دربان بھی نہ تھا.میں نے آواز دی کہ کیا میں آ سکتا ہوں؟ اس پر اندر سے آواز آئی کہ بھائی ! تمہیں کون جواب دے.میں بھی تمہاری بہن ہی ہوں آ جاؤ.یہ سید انشاء اللہ کی بیوی تھیں.میں اندر گیا تو سید انشاء کو ریت کے ایک تو وہ پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے پایا.نیچے ایک پھٹی ہوئی دری بچھی تھی یہ کس قد رعبرت کا مقام ہے.مگر کیا اسلام کی حالت آج اس سے کم عبرتناک ہے ؟ سید انشاء اللہ خان کی عزت کیا تھی ؟ لکھنو کے ایک بادشاہ کی دی ہوئی عزت تھی مگر اسلام تو ساری دنیا کی بادشاہتوں پر غالب آ گیا تھا اور سب دنیا پر چھا گیا تھا.پھر انشاء کا اس حالت میں بھی کوئی گھر تو تھا اور انہیں گالیاں تو نہیں دی جاتی تھیں مگر آج.

Page 659

خطبات محمود ۶۵۴ سال ۱۹۳۵ء اسلام کا تو کوئی گھر نہیں اور ہمارے آقا وسردار محمد مصطفے ﷺ کو تو علی الاعلان گالیاں دی جاتی ہیں مگر مسلمانوں میں طاقت نہیں کہ اس کا ازالہ کر سکیں.اس حالت کا علاج ایک ہی صورت میں ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ پھر ایک آواز آسمان سے اُٹھائے جو پھر اسلام کی عزت قائم کرے.پس جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ امت محمدیہ کے دل اور ہاتھ مفلوج ہو چکے ہیں اور ان کے اندر عشق کی آگ نہیں رہی تو اُس نے اپنا ماً مور بھیج دیا تا دائمی غیرت مسلمانوں کے اندر پیدا کرے.6 عارضی غیرت بھی دنیا میں بڑے بڑے کام کرا لیتی ہے جیسے بغداد کے برائے نام بادشاہ سے کرادیا مگر یہ غیرت ایمان کی علامت نہیں.اگر ایمانی غیرت ہوتی تو اسلام کے دن اُسی وقت پھر جاتے مگر انہوں نے عورت کو چھڑایا اور پھر سو گئے.ایسی عارضی غیرت سے اسلام زندہ نہیں ہوسکتا.اسلام اُس غیرت سے زندہ ہوتا ہے جو کبھی مٹ نہ سکے.اُس آگ سے زندہ ہوسکتا ہے جو کبھی سرد نہ ہو سکے جب تک کہ سارے جہاں کو جلا کر راکھ نہ کر دے.اس زخمی دل سے ہوسکتا ہے جو کبھی اند مال نہ پائے ،اُسے وہ دیوانہ زندہ کر سکتا ہے جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگیاں قربان کی جاسکیں.یہی دیوانگی پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے.اور اسی روح کو آپ کی زندگی میں ہم نے مشاہدہ کیا.آپ کے اندر سوتے ، جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے ، چلتے پھرتے ہم نے دیکھا کہ ایک آگ تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ محمد رسول ﷺ کی عزت کو دنیا میں دوبارہ قائم کیا جا سکے.آج نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم کی ہتک کی.مگر ہمیں تو معلوم ہے کہ آپ کو کس طرح ہر وقت آنحضرت ﷺ کی عزت قائم کرنے کی دُھن لگی رہتی تھی.مجھے ایک بات یاد ہے جو گو اُس وقت تو مجھے بڑی ہی لگی تھی مگر آج اس میں بھی ایک لذت محسوس کرتا ہوں.ہمارے بڑے بھائی میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ایک دفعہ باہر سے یہاں آئے.ابھی تک اُنہوں نے بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا.میں اُن سے ملنے گیا میرے بیٹھے بیٹھے ہی ڈاک آئی.اُس زمانہ میں توہینِ مذاہب کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا.اس سے بات چل پڑی تو مرزا سلطان احمد صاحب کہنے لگے اچھا ہوا بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے.(وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے ) ورنہ سب سے پہلے وہ جیل جاتے کیونکہ اُنہوں نے حضرت رسول کریم ﷺ کی توہین کو برداشت نہیں کرنا تھا.اُس وقت تو یہ بات

Page 660

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء مجھے بُری لگی کیونکہ اس میں بے ادبی کا پہلو تھا مگر اس سے اُس محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے تھی.تو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کو دیکھا.آپ ایک آگ میں کھڑے تھے وہی آگ آپ نے ورثہ میں ہمیں دی ہے اور جس احمدی میں وہ آگ نہیں وہ آپ کا صحیح روحانی بیٹا نہیں.میں کہہ رہا تھا کہ ایک سال کا عرصہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ فرعونی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا.گالیاں تو آپکو ہمیشہ ہی دی جاتی ہیں مگر یہ آواز قادیان میں سخت گستاخی اور دل آزار طریق پر اُٹھائی گئی.ہمارے کانوں نے اسے سنا اور ہمارے دلوں کو اِس نے زخمی کر دیا.اور جماعت میں ایک عام جوش اور اس کے نتیجہ میں کام کرنے کا ایک عام ولولہ پیدا ہو گیا مگر میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ زخم ابھی تک ہرا ہے یا مندمل ہو رہا ہے ؟ جس کا زخم مندمل ہو رہا ہے وہ سمجھ لے کہ وہ اُس ایمان کو نہیں پاسکا جو کامیابی کے لئے ضروری ہے.لیکن اگر آج بھی ہرا ہے، آج بھی تم قربانی کے لئے اُسی طرح تیار ہو ، آج بھی اپنی گردن آستانہ الہی پر اسی طرح کٹوانے پر آمادہ ہو تو سمجھو کہ تمہارے اندر ایمان موجود ہے.اچھی طرح یاد رکھو کہ ایمان جنون اور موت ایک ہی چیز ہے سوائے اس کے کہ دنیوی جنون میں عقل ماری جاتی ہے اور صحیح مذہبی جنون میں عقل تیز ہو جاتی ہے پس اپنے دلوں کو ٹو لو اور دیکھو کہ تمہارے دل کی آگ کی وہ حالت تو نہیں جو لوہے کی ہوتی ہے.جب اُسے آگ میں ڈالا جاتا ہے ، جب اُسے آگ سے نکالا جائے تو سرد ہو جاتا ہے.خدا کی محبت کی آگ ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ایمان قائم رہ سکے.اس آگ میں مؤمن کا دل ہر وقت کھلا رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کر کے بہت سی باتیں دور کر دی ہیں.اسی مقام قادیان میں گوحقیقتا اس کی زمین میں نہیں ایک سال ہوا کہ احرار اصحاب فیل کی طرح آئے اور ان کے صدر نے اعلان کیا کہ فرعونی تخت اُلٹ دیا جائے گا لیکن تمہاری کوشش اور محنت کے بغیر.آج کہاں ہے وہ تخت جس پر بیٹھ کر جماعت کے متعلق یہ الفاظ کہے گئے تھے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے اور آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ایک دفعہ یہود نے ایران کے بادشاہ کو حضرت رسول کریم ﷺ کے خلاف خوب بھڑ کا یا اور کہا کہ یہ شخص اپنی حکومت قائم کر رہا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں ایرانی مقبوضات آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے.بادشاہ ظالم

Page 661

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء تھا اس نے بغیر تحقیقات کے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ عرب کے جس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اُسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دو.گورنر یمن نے اپنے چند آدمی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیج دیئے اور کہلا بھیجا کہ بے شک یہ حکم ظالمانہ ہے اور آپ نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی کہ جس سے شاہ ایران کو غصہ پیدا ہو لیکن چونکہ وہ طاقتور بادشاہ ہے اس لئے آپ کی طرف سے انکار کی صورت میں وہ عرب کو تاخت و تاراج کر دے گا آپ آجائیں اور میں سفارش کر دوں گا کہ آپ سے کوئی بد سلوکی نہ ہو.جب یہ قاصد آ نحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ پیغام دیا تو آپ نے فرمایا کہ اچھا ہم گل جواب دیں گے.دوسرے دن وہ پھر جواب کے لئے گئے مگر آپ نے پھر اگلے روز جواب دینے کو فرمایا اور اگلے روز پھر فرمایا کہ گل جواب دیں گے.اس طرح جب تین راتیں گزر گئیں تو ان قاصدوں نے کہا کہ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس طرح ٹال مٹول نہ کر یں گورنر یمن نے آپ کی سفارش کا وعدہ کر لیا ہے ورنہ اگر شاہ ایران کو غصہ آ گیا تو عرب کی حیثیت ہی کیا ہے ، وہ اسے بالکل تباہ کر دے گا.اس پر آپ نے فرمایا سنو ! اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ میرے خدا نے تمہارے خدا کو آج رات مار دیا ہے.انہوں نے اسے نَعُوذُ بِاللهِ مجذوب کی بڑ سمجھا اور خیر خواہی کے طور پر پھر نصیحت شروع کی مگر آپ نے فرمایا کہ تم جا کر یہ بات کہہ دو.گورنریمن سے جا کر اُس کے نمائندوں نے جب یہ بات کہی تو اُس نے کہا کہ یہ شخص یا تو مجنون ہے یا نبی ہے ، بہر حال میں انتظار کروں گا.چند روز کے بعد ایران کا ایک جہاز بندرگاہ پر آیا جس میں سے ایک شاہی پیغامبر اترا اور بادشاہ کا خط گورنر کودیا جس کی مُہر دیکھتے ہی اُس نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات کچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اُس پر نمبر ایک دوسرے بادشاہ کی تھی.خط کوکھولا تو اُس میں لکھا تھا کہ اپنے باپ کی ظالمانہ حرکات کو دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ وہ ملک کی حالت کو خراب کر رہا ہے ، فلاں رات ہم نے اُسے قتل کر دیا ہے اب ہم بادشاہ ہیں اس لئے ہماری اطاعت کرو.اور ہمارے باپ نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق ایسا ظالمانہ حکم دیا تھا ، اسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں " کیا خدا نے بالکل اسی طرح یہاں نہیں کیا ؟ وہی لوگ جو اصحاب فیل کی طرح یہاں آئے تھے اور کہ رہے تھے کہ فرعونی تخت اُلٹنے آئے ہیں جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہمارے خدا نے تمہارے تخت کو الٹ دیا ہے.آج تمہارے اپنے بھائی گالیاں دیتے ہیں اور تم پر پھٹکار میں ڈال رہے ہیں.انہی کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلیل کروا

Page 662

خطبات محمود ۶۵۷ سال ۱۹۳۵ء دیا ہے جیسے کہ کسی شاعر نے کہا ہے سع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے مگر یہ جو کچھ ہوا تمہاری وجہ سے نہیں ہوا اور نہ ہی اس سے تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ حملہ میں کمی آگئی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے مخالفتوں کے طوفان یکدم نہیں آیا کرتے بلکہ طوفان کے ہر جھونکے کے بعد وقفہ ہوتا ہے.اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ خدا کے کام ہیں تو چاہئے کہ اپنے اخلاص اور قربانی میں ترقی کرو اور آگے بڑھو جنہوں نے پہلے کوئی کمی کی ہے ، وہ اسے پورا کریں اور جنہوں نے پہلے پورا کیا ہے وہ اضافہ کریں.اور اُس وقت تک چین نہ لیں جب تک خدا کا وعدہ پورا نہ ہو.اور یہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ خدا کا وعدہ تم میں سے اکثر کی زندگیوں میں پورا ہونے والا نہیں.اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ یہ ہے کہ اسلام سب دنیا میں پھیل جائے گا، سب حکومتیں اسلامی ہوں گی اور غیر مسلم اس طرح دنیا میں رہ جائیں گے جس طرح آج چھوٹی غیر متمدن اقوام مثلا گونڈ بھیل وغیرہ.ان عظیم الشان تغیرات کے لئے کہ کفر کو ایمان سے، نفاق کو جرات سے ، جہالت کو علم سے اور بددیانتی کو دیانت سے بدل دیا جائے.ایک لمبے عرصہ اور متواتر قربانیوں کی ضرورت ہے.دلائل سے دلوں میں اسلام کی عظمت قائم کرنا معمولی کام نہیں اور یہ کام ایک نسل کا نہیں ہو سکتا.تمہارے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ اس کی بنیاد رکھوا رہا ہے.اور اصل عزت اُس وقت قبول کرنے والوں کی ہوتی ہے جب لوگ قبول کرنے سے ڈرتے ہیں.دنیا میں قاعدہ ہے کہ جو لوگ تجارتی کمپنیاں جاری کرتے ہیں ، ان کو زیادہ حقوق دیئے جاتے ہیں اور بعض کمپنیاں تو کام شروع کرنے والوں کو چند ماہ کی کوشش کے صلہ میں لاکھوں کے حصے مفت دے دیتی ہیں کیونکہ انہوں نے اس وقت کام میں ہاتھ ڈالا جب لوگ گھاٹے سے ڈرتے تھے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی تمہاری وقعت زیادہ ہے مگر ضرورت ہے کہ تمہاری قربانیاں مسلسل ہوں.جھٹکے والی قربانی نہ ہو.ایسی قربانیاں تو ادنی درجہ کا کیڑا اور جاہل انسان بھی کر لیتا ہے مؤمن کا یہ کام ہے کہ وہ رات دن ایک دُھن کے ماتحت چلتا جاتا ہے.مخالفت ہو یا نہ ہو ، وہ اپنے کام کو نہیں کھولتا.یہ چیز تمہارے اندر ہونی چاہئے اور تمہیں دم نہیں لینا چاہئے جب تک کہ فتح نصیب نہ ہو.جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ تم میں سے اکثر کی زندگی میں نہیں ہوگی گویا اِس دنیا میں ہمارے لئے آرام کا کوئی مقام نہیں ہم اپنے بوجھ اپنے آقا کے دربار میں جا کر ہی اُتاریں گے

Page 663

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اور جو یہاں اُتارنا چاہتا ہے ، اُسے اس میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں.اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے.اس طوفان کے زمانہ میں حکومت کے بعض افسروں کی جہالت کی وجہ سے حکومت بھی ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی تھی اور بعض افسروں کو جس طرح بھجلی ہوتی ہے کوئی خیال پیدا ہوا اور وہ خواہ مخواہ ایک وفادار جماعت کے خلاف شرارتیں کرنے لگے.اب حکومت کے رویہ میں میں اگر چہ ایک نیک تغیر دیکھتا ہوں مگر یہ تغیر ابھی تک حقیقت کو نہیں پہنچا نہ حکومت محسوس کرتی ہے کہ ماتحتوں نے غلطیاں کی ہیں مگر وہ کوئی گرفت نہیں کرنا چاہتی.حالانکہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ایسے افسروں کو سزا دی جائے جن سے قصور ہو ا ہو حکومت کی عزت اسی میں ہے.بہر حال حکومت نے غلطی کی اور میں کہوں گا اب تک غلطی کر رہی ہے کیونکہ جن افسروں نے سلسلہ احمدیہ کے وقار کو مٹانے کے لئے کارروائیاں کیں اُن کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہی.احرار نے سمجھا تھا کہ یہ بھی شاید کوئی روپیہ بٹورنے والی جماعت ہے اور ہماری طرح اس کے بھی بعض لیڈر ہوں گے.اور حکومت نے بھی خیال کیا کہ یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے اس کے حقوق کی نگہداشت کی کیا ضرورت ہے.مگر ہم نے احرار کو بھی کچھ نہیں کہا خدا نے ہی ان کو سزا دی ہے اور اگر حکومت اپنے ان افسروں کو سزا نہیں دے گی تو خدا تعالیٰ ان افسروں کو سزا دے گا.بے شک برطانوی حکومت کا ہاتھ بہت وسیع ہے مگر ہمارے خدا کا ہاتھ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے.حکومت یہ مت خیال کرے کہ ان معاملات کو دبایا اور ہمیں ڈرایا جا سکتا ہے یا لالچ دی جاسکتی ہے.ہتک ہماری نہیں بلکہ خدا کے سلسلہ کی کی گئی ہے اور جو کام ہم نہیں کر سکتے اسے ہمارا خدا کر سکتا ہے.اس لئے ہم نہ قتل سے ڈرتے ہیں نہ پھانسی سے اور نہ دیگر سزاؤں سے.حکومت یہ خیال بھی نہ کرے کہ لمبے عرصہ کے بعد ہم ان باتوں کو بُھول جائیں گے.ہمارے دلوں میں بغض نہیں مگر ہمارا خدا اپنے دین اور اپنی جماعت کی ہتک کو تو بہ کے بغیر معاف نہیں کیا کرتا.ہم حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور یہ چیز ہمارے مذہب کی تعلیم کے خلاف ہے لیکن خدا کی غیرت بھی وہیں جوش میں آیا کرتی ہے جب وہ بندے کے ہاتھ باندھ دیتا ہے.جہاں وہ خود مقابلہ کی اجازت دیتا ہے وہاں خود چُپ رہتا ہے لیکن جب ہاتھ روکتا ہے تو پھر خود اس کا انتقام لیتا ہے.رسول کریم ایک دفعہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے.حضرت ابو بکر بھی تھے کہ ایک شخص آیا

Page 664

خطبات محمود ۶۵۹ سال ۱۹۳۵ء اور آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں حضرت ابو بکر کو گالیاں دینے لگا.کچھ دیر بعد حضرت ابو بکر کو بھی غصہ آ گیا اور انہوں نے کوئی جواب دیا.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر ! جب تم خاموش تھے خدا کہہ رہا تھا کہ یہ میرا بندہ مظلوم ہے، میں نے اس کی زبان رو کی ہوئی ہے اس لئے فرشتے جواب دے رہے تھے مگر اب تم بولے تو فرشتے خاموش ہو گئے.تو جہاں خدا بندے کو روکتا ہے وہاں خود انتقام لیتا ہے.ہو سکتا ہے حکومت کے بعض افسرد ہر یہ ہوں یا بعض دہر یہ تو نہ ہوں مگر زندہ خدا کے قائل نہ ہوں.یا بعض زندہ خدا کے قائل تو ہوں مگر یہ نہ مانتے ہوں کہ اس کا اسلام سے تعلق ہے.یا بعض اس کا تعلق اسلام سے تو سمجھتے ہوں مگر یہ نہ مانتے ہوں کہ آج احمدیت ہی اسلام کا صحیح نقشہ پیش کر رہی ہے.لیکن ان کے خیالات سے خدا کی قدرتوں میں فرق نہیں آ سکتا.اس کی قدرتیں ظاہر ہوں گی اور ضرور ہونگی.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے محتاج نہیں اور مجھے اس امر کی حاجت نہیں کہ حکومت میرا بدلہ لے لیکن میں یہ بات خود حکومت کے فائدہ کے طور پر کہتا ہوں کہ اسے اپنے اس رویہ میں تبدیلی کرنی چاہئے.ہمارے تعلقات اس سے دوستانہ رہے ہیں اور اب بھی ہم رکھنا چاہتے ہیں اس لئے بحیثیت ایک ایسے شخص کے جس نے خدا کی زندہ قدرتوں کا مشاہدہ کیا، جس نے خدا کی مالکیت کا مشاہدہ کیا، اُس کی ملوکیت کا مشاہدہ کیا حکومت کی خیر خواہی کی غرض سے کہتا ہوں کہ حکومتیں تبھی تک قائم رہ سکتی ہیں جب تک اُن کی بنیاد تقویٰ اور خشية اللہ پر ہو.مذہب اور چیز ہے خشية الله اور چیز.عیسائی ، یہودی ، سکھ اور ہندو بھی خدا سے ڈر سکتا ہے.حکومت کو بھی چاہئے کہ خدا سے ڈرے کہ اسی میں اس کی کامیابی ہے اور اسے چھوڑنے میں اس کے لئے سراسر ضر ر ہے.جن افسروں نے جماعت احمدیہ کے وقار کو توڑنے کی کوشش کی اُن کو گرفت کرنی ضروری ہے.بے شک حکومت کہتی ہے کہ اس طرح اس کا پر سٹیج (Prestige) قائم نہیں رہ سکتا مگر اسے یادرکھنا چاہئے کہ اس سے ایک بالا حکومت کے پر سٹیج کا سوال بھی اب پیدا ہو چکا ہے اور غور طلب امر یہ ہے کہ اگر حکومت کو باوجود اپنے افسروں کے غلطی پر ہونے کے ان کے پر سٹیج کا خیال ہے تو کیا ہمارے خدا کو اپنے خادموں کے پر سٹیج کا باوجود ان کے حق پر ہونے کے خیال نہ ہو گا ؟ ہو گا اور ضرور ہو گا.ان افسروں نے دیکھ لیا ہے کہ وہ سال بھر کی لگاتار کوشش کے باوجود ہمیں بغاوت کی طرف مائل نہیں کر سکے.ہم آج بھی حکومت کے ویسے ہی وفادار ہیں جیسے کہ پہلے تھے اور آئندہ بھی ہم کبھی قانون شکنی نہیں کریں گے مگر معاملہ ہمارے

Page 665

خطبات محمود ۶۶۰ سال ۱۹۳۵ء ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے.میں حکومت کے رویہ میں ایک نیک تغیر محسوس تو کرتا ہوں مگر ایسے ہی وقتوں میں انصاف کرنا اور غلطی کا ازالہ کرنا ضروری ہوتا ہے تا خدا کے فضل کا وارث بنا جا سکے.اللہ تعالیٰ نے حکومت کو ایک رنگ میں تنبیہ بھی کی ہے جس طرح کہ احرار کو کی ہے.مسجد شہید گنج کا جو قصہ ہوا ہے وہ ایک نشان ہے احرار اور حکومت کے لئے.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ احرار جو کانگرسی ہیں اور حکومت جس کے فوائد ان کے خلاف ہیں وہ دونوں ایک ہی سوال کے متعلق تشویش میں پڑ جاتے ہیں.میں دیکھتا ہوں ابھی یہ سوال دبا نہیں.ابھی چند روز ہوئے لاہور میں ایک مسلمان نے ایک سکھ کو ہلاک کر دیا اور بعض ہندوؤں، سکھوں کو زخمی کیا.لوگ کہتے ہیں وہ مجنون تھا میں کہتا ہوں اچھا یونہی سہی لیکن اگر دلوں میں منافرت نہیں ہے تو جنون میں اسے یہ خیال کیوں آیا کہ سکھوں اور ہندوؤں کو ہی ماروں ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہوش کے وقت اُس کے خیالات ہندوؤں ، سکھوں کے متعلق ایسے پراگندہ تھے کہ جنون میں بھی یہی خیال قائم رہا.اور بھی بعض ایسے حالات موجود ہیں اور پیدا بھی ہو رہے ہیں ہمیں ان حالات میں حکومت سے ہمدردی ہے مگر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکومت کو تنبیہ ہے.وہ بتانا چاہتا ہے کہ تم میرے نمائندے ہو اس لئے چاہئے کہ میری طرح انصاف کرو.پس یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اُس نے دونوں کو تنبیہہ کی ہے اگر وہ اس سے فائدہ اُٹھا لیں تو بہتر ہے ورنہ خدا کا ہاتھ بہت وسیع ہے.یا درکھنا چاہئے کہ ہم نے ان مخالف حالات کو جو ہمارے نقصان کے لئے پیدا ہورہے تھے بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا.ہماری قربانیاں کچھ نہیں ہیں اس لئے میں جماعت کو پھر تو جہ دلاتا ہوں کہ آئندہ خطبات میں میں پھر سکیم کی وضاحت کروں گا اور اسے چاہئے کہ مزید قربانیوں کے لئے تیار رہے اور اب یہ خیال دل سے نکال دے کہ ہم کسی جگہ ٹھہریں گے.تین سال تو پہلا قدم ہے.بعض لوگوں نے مجھے کہا ہے کہ اس تحریک کو اب بند کر دیا جائے کیونکہ چندوں پر برا اثر پڑتا ہے لیکن جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کمزوری دکھانے والا یا ٹھہر نے والا خدا تعالیٰ کی راہ پر چلنے کے قابل نہیں.میں نے آج تک کسی کو جا کر نہیں کہا کہ آؤ اور میری بیعت کرو بلکہ میرے سامنے اگر کوئی کسی کو ایسا کہے تو میں اسے روکتا ہوں تا وہی آگے آئے جو خود جان دینے کو تیار ہو.اس

Page 666

خطبات محمود ۶۶۱ سال ۱۹۳۵ء لئے مجھے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تم نے ہمیں کس مصیبت میں پھنسا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے کہ میرا رستہ پھولوں کی سیج کا نہیں بلکہ پر خار ہے جو ڈرتا ہے وہ آگے نہ آئے.کے پس قربانیوں کے مطالبات اب زیادہ ہو نگے کم نہیں.جو خیال کرتا ہے کہ اب سال ختم ہو گیا یہ بھی ختم ہو جانی چاہئیں، اُس کے اندر ایمان نہیں.میرے ساتھ اب وہی چلیں گے جو یہ مستقل ارادہ رکھتے ہوں گے کہ ہم نے اب سانس نہیں لینا اب ہم خدا کے قدموں میں ہی مریں گے اور جان دے دیں گے.جب تک عشق کی وہ گولی نہ کھائی جائے جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچا دے اُس وقت تک کوئی زندگی نہیں.جو میرے ساتھ نہیں آتا اُس پر کوئی افسوس نہیں.اگر تم سب کے سب بھی مجھے چھوڑ دو تب بھی خدا غیب سے سامان پیدا کر دیگا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہی اور جس کا نقشہ اُس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو.وہ ضرور ہوکر رہے گا خواہ دوست دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں خدا خود آسمان سے اُترے گا اور اس مکان کی تعمیر کر کے چھوڑے گا.( الفضل ۷ رنومبر ۱۹۳۵ء) التوبة ۳۸ تا ۴۲ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ ۲۴۷ تا ۲۴۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳، ۲۴ (مفہوما )

Page 667

خطبات محمود ۶۶۲ ۴۱ سال ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ کے سامنے تین اہم سوال (1) کیا حکومت نے ہماری شکایات دور کر دیں؟ کیا احرار کی سابقہ بد زبانیاں مٹ گئیں (۲) اور آئندہ گندی گالیاں دینے سے باز آ گئے ؟ (۳) جس مقصد کو لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں کیا وہ پورا ہو گیا ؟ (فرموده ۸ رنومبر ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تو بہ رکوع ۶ کی درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں :.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَالَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ضِيْتُمُ بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبَكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَّ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَدِيرٌ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَه بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفَلى وَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ انْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

Page 668

خطبات محمود ۶۶۳ سال ۱۹۳۵ء ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشَّقَّةُ وَ سَيَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ لَوِسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُوْنَ انْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ اس کے بعد فرمایا:.پیشتر اس کے کہ میں آج کے خطبہ کا مضمون شروع کروں میں اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دو تین ماہ کے قریب ہوئے میں نے نیشنل لیگ کے ارکان کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کا با قاعدہ نظام قائم کریں.انہیں تعداد میں بڑھائیں اور احمد یہ والنظیر کو ر بنا ئیں.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب نیشنل لیگ کے پانچ ہزار مبر ہو جائیں گے تو انہیں وسیع طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے گی.اس تعداد کو پورا ہوئے اگر چہ ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے مگر انہیں اپنے کام کو ترتیب وار کر نے اور نقشے وغیرہ بنانے میں دیر ہو گئی.اب اس ہفتہ میں مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ نیشنل لیگ کے پونے چھ ہزار ممبر بن چکے ہیں اور ا بھی جماعت میں یہ تحریک جاری ہے.اُنیس سو سے زیادہ والنٹیئرز بھی ہو چکے ہیں.اس لئے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اب نیشنل لیگ کو سلسلہ کے کاموں کے اُن حصوں کے متعلق جو سیاسیات سے تعلق رکھتے ہیں، کام کرنے کی اجازت دیتا ہوں.نیشنل لیگ نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ چونکہ احرار نے میری طرف سے مباہلہ کی دعوت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اور یہ دیکھ کر کہ حکومت کی طرف سے تو انہیں قادیان اور اس کے ارد گرد آٹھ آٹھ میل تک کا نفرنس منعقد کرنے کی اجازت نہیں چاہا ہے کہ اب مباہلہ کے نام سے ہی قادیان میں اپنا اجتماع کریں.اور مباہلہ کو ادھر اُدھر کی باتوں میں ٹال کر قادیان میں اپنی کا نفرنس منعقد کریں اور اس طرح انہوں نے گورنمنٹ کو اور ہم کو دھوکا دینے کو کوشش کی ہے.نیشنل لیگ کی طرف سے تمام جماعتوں کو اطلاع بھجوائی گئی ہے کہ اگر کسی وقت احرار کی طرف سے قادیان میں کا نفرنس یا اجتماع ہو تو اُس وقت جماعت کے ہر فرد کو چاہئے کہ وہ سلسلہ کے وقار کے تحفظ اور شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے قادیان پہنچ جائے.میرے نزدیک انہیں یہ بھی چاہئے کہ وہ اس عرصہ میں اپنے والنٹیئروں کو کام کرنے کی ترکیب سکھائیں اور انہیں ایک نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادت ڈالیں جس عادت کا پیدا کرنا جماعت کے ہر فرد میں نہایت ضروری ہے.

Page 669

خطبات محمود ۶۶۴ سال ۱۹۳۵ء احرار کی نیتیں سلسلہ کے متعلق جو کچھ ہیں وہ تو ظاہر ہی ہیں.ان کا اگر بس چلے تو وہ بھی کبھی بھی شرارت اور فساد سے باز نہ رہیں.اس لئے ان کے مقابلہ کے لئے جماعت جتنی بھی تیاری کرے وہ جائز اور درست ہے گو مؤمن کو خدا تعالیٰ نے اتنی عظیم الشان طاقت دی ہوتی ہے کہ اگر وہ اس سے صحیح طور پر کام لے تو اس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی.مگر اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے تیاری کی اور ضرورت ہوتی ہے اخلاص اور جاں نثاری کی.ہم تعداد میں بے شک تھوڑے ہیں لیکن اگر ہم مل کر متحدہ طور پر کام کریں اور صحیح ذرائع سے کام لیں تو جو ایمانی قوت خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو دی ہے وہ اتنی زبردست ہے کہ اس سے وہ بہت بڑی بڑی جماعتوں کا آسانی سے مقابلہ کر سکتی اور ان کے شرور سے محفوظ رہ سکتی.مؤمن ڈرتا نہیں لیکن وہ محتاط ضرور ہوتا ہے.اور گو حکومت نے یہ احرار کو نوٹس دیا ہوا ہے کہ اسے قادیان اور اس کے ارد گرد آٹھ آٹھ میل کے حلقہ میں اجتماع کرنے کی اجازت نہیں مگر چونکہ اب مباہلہ کو احرار نے اجتماع کا بہانہ بنالیا ہے نہ وہ اپنے آدمیوں کی فہرست دیتے ہیں نہ شرائط طے کر کے ان پر دستخط کرتے ہیں.اس لئے ان کے رویہ سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ وہ قادیان آجائیں اور شرائط کی آڑ میں مباہلہ ٹال کر اپنی کا نفرنس شروع کر دیں.ورنہ وجہ کیا ہے کہ جب وہ شرائط سب کی سب ماننے کا دعوی کرتے ہیں تو ان شرائط کو ضبط تحریر میں لاکر ان پر دستخط نہیں کرتے.جس بات کو ماننے کی انسان نیت کرے اس کے متعلق ایک کاغذ پر دستخط کرنے میں اسے کونسی تکلیف ہوتی ہے.لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ ہم مباہلہ کے لئے تیار ہیں اور دوسری طرف نہ شرائط طے کرتے ہیں اور نہ دعائے مباہلہ کے الفاظ کی تعین کرتے ہیں اور نہ دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہم نے شرائط سب مان لی ہیں.لطیفہ یہ ہے کہ میں نے مباہلہ کے لئے ایک شرط یہ مقرر کی تھی کہ طرفین کی طرف سے پانچ سو یا ہزار آدمی شامل ہوں میری اس دعوت مباہلہ پر انہوں نے جھٹ یہ اعلان کر دیا کہ ہم نے ساری شرطیں مان لی ہیں مگر اب جبکہ میں نے دوبارہ لکھا ہے کہ اس مہم جواب کا کیا مطلب ہے ؟ آیا پانچ سو آدمی مباہلہ کے لئے لائے جائیں گے یا ایک ہزار ؟ تو اس کے جواب میں مسٹر مظہر علی صاحب لکھتے ہیں کہ پانچ سو یا ہزار آدمی لانے کی شرط مرزا صاحب نے اپنی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے لیکن جب انہوں نے اس سے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے

Page 670

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سب شرطیں منظور ہیں تو اُس وقت بھی تو وہ شرطیں میری طرف سے ہی تھیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے تو نہ تھیں پھر جب اُنہوں نے اُس وقت مان لیا تھا کہ سب شرائط منظور ہیں تو اب یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ یہ اپنے پاس سے شرط لگائی گئی ہے ہم اس کے پابند نہیں.غرض اپنے متعلق تو اس طرح انکار کر دیا اور میرے متعلق لکھ دیا کہ آپ چاہے پانچ سو لا ئیں یا ہزار ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.غرض اس شرط کو نہ اپنے لئے رہنے دیا نہ ہمارے لئے.پھر مانا کیا خاک.میری طرف سے تو یہ شرط تھی کہ پانچ سو یا ہزار آدمی مباہلہ میں شریک ہو.پھر جب ہمارے متعلق یہ کہہ دیا گیا کہ جتنے آدمی مرضی ہو لا ئیں، چاہے تھوڑے لائیں یا بہت اور اپنے متعلق لکھ دیا کہ یہ شرط خود مرزا صاحب نے لگائی ہے ہم اس کے پابند نہیں تو شرائط ماننے کا مطلب ہی کیا رہا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی غرض مباہلہ کرنا نہیں بلکہ مباہلہ کے بہانہ سے فتنہ و فساد ہے ورنہ بھلا شرائط کو تحریر میں لا کر ان پر دستخط کرنے میں کونسا حرج لازم آتا ہے کہ وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے.اگر شرائط تحریر میں آئی ہوئی ہوں تو انہیں کسی بھلے مانس کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے اور بتایا جا سکتا ہے کہ کس نے خلاف ورزی کی.مگر ان کا تو یہ مقصد ہی نہیں کہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے مباہلہ کریں.ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ یہاں آئیں اور جب شرائط کا تصفیہ نہ ہونے کی وجہ سے مباہلہ نہ ہو تو پھر شور مچادیں کہ ہم قادیان گئے مگر ہم سے مباہلہ نہ کیا گیا اور اس طرح اپنے اجتماع سے فائدہ اُٹھا کر قادیان میں کا نفرنس بھی منعقد کر لیں.چنانچہ قادیان کے گردونواح میں ان کا کا ایک اشتہار تقسیم ہوتا پکڑا گیا ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ قادیان میں احرار کا نفرنس ہونے والی ہے.یہ اشتہار ہم نے حکومت کو بھی بھجوادیا ہے اور ہمارے پاس بھی اس کی کا پیاں موجود ہیں.پس چونکہ احرار کا نفرنس کرنا چاہتے ہیں نہ کہ مباہلہ جب تک وہ ہمیں یہ تحریر نہ دیں کہ قادیان میں صرف مباہلہ ہوگا اور کوئی مجلس ان ایام میں یا پہلے یا بعد میں منعقد نہ ہوگی ،اُس وقت تک ہم قادیان میں مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ لاہور یا گورداسپور میں کریں گے.وہاں جس قدر چاہیں کا نفرنسیں ساتھ کر لیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا.مگر وہاں بھی انہی شرائط کے ماتحت مباہلہ ہو گا جنہیں میں نے پیش کیا ہے اور جنہیں وہ منظور کر چکے ہیں.اگر وہ پانچ سو یا ہزار سے زیادہ آدمی اپنے ساتھ لانا چاہتے ہوں تو بے شک وہ گلیوں میں کھڑے رہیں ، چھتوں پر بیٹھے رہیں مگر میدانِ مباہلہ میں نہیں آئیں گے.ہم اس امر کو نہیں بھلا سکتے کہ گورنمنٹ نے یہ دیکھتے ہوئے

Page 671

خطبات محمود ۶۶۶ سال ۱۹۳۵ء کہ کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ ایک دوسری جگہ جا کر شورش اور فتنہ انگیزی کرے.احرار کو قادیان اور اُس کے اردگرد آٹھ آٹھ میل کے حلقہ میں کا نفرنس منعقد کرنے سے روکا ہوا ہے اور جب گورنمنٹ نے انہیں روکا ہوا ہے تو ہم اس کے ایک اچھے فعل کو اپنے کسی فعل سے خراب کرنا نہیں چاہتے.لیکن جیسا کہ احرار کی عادت ہے وہ یہی کوشش کریں گے کہ مباہلہ کا نام لیتے جائیں اور اس بہانہ سے قادیان آ کر شورش اور فساد کریں.اس لئے نیشنل لیگ نے جو اعلان کیا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں.تمام احمدیوں کو چاہئے کہ اگر انہیں معلوم ہو کہ قادیان میں احرار کا اس قسم کا کوئی اجتماع یا جلسہ ہونے والا ہے تو وہ اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر قادیان پہنچ جائیں.گزشتہ سال جب یہاں احرار کا نفرنس ہوئی تو گورنمنٹ کے مقامی افسروں نے ہم سے یہ وعدہ لیا کہ ان کے جلسہ میں ہم میں سے کوئی نہیں جائے گا اور اس وعدہ کے مطابق احمدی وہاں نہ گئے.لیکن بعد میں جب احرار نے یہ شور مچایا کہ احمدی بھاگ گئے اور مقابل پر نہ آئے اور حکومت کو تو جہ دلائی گئی تو وہی حکومت جس نے شہید گنج کے بارہ میں چوہدری افضل حق صاحب پر الزام لگنے پر فوراً اس کی تردید کی تھی ہم پر جو الزام لگایا گیا اس کی تردید نہ کی.بلکہ ایک افسر نے کہا کہ ہم نے تو ہرگز نہیں روکا تھا.پس اس دفعہ اگر احرار قادیان میں کانفرنس کرنے میں کامیاب ہوں تو کا رکنان سلسلہ کو، احمد یہ جماعت کو ان کی کانفرنس میں شامل ہونے سے نہیں روکنا چاہئے.اگر افسر خواہش کریں تو ان سے تحریر لے لینی چاہئے اور اگر احرار جلسہ میں احمدی جماعت کو چیلنج دیں تو اس چیلنج کو ضرور قبول کر لینا چاہئے.اگر احراری چاہیں کہ ان کی تقریروں میں کوئی نہ بولے تو وہ چیلنج دینے سے احتراز کریں.غرض جب تک حکومت تحریر اُنہ رو کے اُس وقت تک رُکنے کی کوئی وجہ نہیں.آخر ہمارے جلسوں میں بھی تو سینکڑوں غیر احمدی آتے ہیں.ہم ان سے خاطر مدارات سے پیش آتے ہیں اور وہ بھی خوش خلقی سے ہمارے ساتھ ملتے ہیں.اسی طرح اگر احرار اچھا نمونہ دکھا ئیں گے تو ان سے ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہ ہوگی.لیکن اگر وہ حکومت کا حکم توڑیں اور حکومت ان کو کچھ نہ کہے اور پھر وہ ہماری مقدس ہستیوں کو گالیاں دیں اور ہمیں چیلنج بھی دیں تو اس چیلنج کی موجودگی میں ہمارے آدمیوں کو بولنے کا پورا حق ہوگا.بہر حال چونکہ معلوم نہیں کہ گورنمنٹ کا رویہ اس بارے میں کیا ہو گا اس لئے ہماری جماعت کے آدمیوں کو یہاں آنے کیلئے تیار رہنا چاہئے.ہاں اگر گورنمنٹ اپنے اوپر ذمہ داری

Page 672

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لے لے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہماری جماعت ہزاروں روپیہ خرچ کر کے آئے.اگر ہماری جماعت کے احباب قریب قریب سے پہنچیں تب بھی ہزاروں روپے خرچ آ سکتا ہے اور اگر دور دور سے لوگ آئیں تو لاکھوں روپیہ تک نوبت پہنچ سکتی ہے.پھر ان کی مہمان نوازی اور خاطر و تواضع پر بھی بہت کچھ خرچ ہو جاتا ہے.پس اگر گورنمنٹ کی طرف سے اس فتنہ کے انسداد کا کوئی انتظام ہو جائے تو بہتر.لیکن اگر اس کی طرف سے کوئی انتظام نہ ہو تو پھر میں بھی نیشنل لیگ کے اس اعلان کی تصدیق کرتا ہوں کہ اس موقع پر تمام احمدیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کام کا حرج کر کے بھی قادیان پہنچ جائیں.لیکن گورنمنٹ اگر کانفرنس کے روکنے کا اعلان کر دے اور اپنے فیصلہ کو پورا کرنے کی ذمہ داری لے تو اس صورت میں ہماری جماعت کے افراد کا یہاں آنا فضول ہو گا.ہمیں اس صورت میں گورنمنٹ پر اعتماد کرنا چاہئے اور امید رکھنی چاہئے کہ وہ ایک ذمہ واری لینے کے بعد ہمیں مزید الجھنوں میں مبتلاء نہیں کرے گی.اب میں اصل خطبہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.میں نے پچھلے جمعہ میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ گو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے احرار کی سرزنش کا سامان کر دیا اور انہیں بہت کچھ پریشانی میں ڈال دیا ہے لیکن ان کا فتنہ ابھی مرا نہیں ایسے فتنے دوبارہ بھی اُٹھ سکتے ہیں.اسی طرح حکومت کو بھی ایک سبق مل گیا ہے اور اس نے بھی ان ایام میں دیکھ لیا ہے کہ احرار کی پیٹھ ٹھونک کر اُس نے کیا حاصل کیا.چنانچہ ان ایام میں احرار نے گورنمنٹ کو خوب گالیاں دی ہیں اور جتنا زیادہ اس نے احرار کو اپنے سر چڑھایا تھا ، اُسی قدر جلدی انہوں نے احسان فراموشی کی ہے.ادھر احرار کی خاطر گورنمنٹ احمدیوں سے لڑی اُدھر شہید گنج کے معاملہ میں جب احرار کے خلاف ایک اخبار میں چند مسلمانوں نے بیان شائع کرایا تو اس کے پریس کو تنبیہ کی گئی.اسی طرح کی ایک تنبیہہ ایک اور پریس کو بھی مجلس احرار کے خلاف پوسٹر شائع کرنے کی وجہ سے کی گئی اور خود گورنمنٹ نے ان تمام باتوں کو تسلیم کیا ہے.اس کے مقابل پر احرار نے کیا کیا ؟ انہوں نے جب دیکھا کہ ان کی عزت جاتی رہی اور ان کا وقار ضائع ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنے صدر کو کھڑا کر دیا اور اُس کے منہ سے گورنمنٹ کو خوب گالیاں دلوا ئیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر گورنمنٹ نے احرار سے زیادہ شرافت دکھائی.اس نے سمجھا کہ گواحرار نے بے وفائی کی ہے مگر مجھے اتنی جلدی حق دوستی ضائع نہیں کرنا چاہئے چنانچہ باوجود اس

Page 673

خطبات محمود ۶۶۸ سال ۱۹۳۵ء کے کہ احرار اپنے صدر کی تقریر کے بعد ساری رات جاگتے رہے اور پولیس کا انتظار کرتے رہے پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لئے نہ آئی.بہر حال گورنمنٹ کو یہ معلوم ہو گیا کہ احمدی جماعت تو اپنے اصول پر قائم رہنے والی ہے لیکن احرار نہیں.نہ انکی مخالفت اصول کی بناء پر ہے نہ دوستی.جن چیزوں کی وجہ سے احراراب ڈر گئے ہیں وہ بھلا چیز ہی کیا ہیں.ہم نے اس سے بہت زیادہ خطرات دیکھے اور کانگریس موومنٹ کے مقابلہ کے وقت ، پھر خلافت کے زمانہ میں ، پھر بائیکاٹ کی تحریک ، اور پھر عدم تعاون کی تحریک کے وقت ہمارے آدمیوں کو مارا گیا، پیٹا گیا، سزائیں دی گئیں ، وطن سے بے وطن کیا گیا ، غرض سب کچھ کہا گیا ،مگر ہمارے آدمیوں نے اپنا قدم پیچھے نہ ہٹایا بلکہ اپنے اصول پر قائم رہے.لیکن احرار ہیں کہ ایک ہی دھمکی سے ان کا خون خشک ہو گیا.انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ ہمارے مخالف ہو گئے ہیں تو کہہ دیا یہ شیطانی حکومت ہے ، بُرے افسر ہیں مسلمانوں کا انہیں کوئی خیال نہیں اور اس قسم کی تقریر کر کے پولیس کا انتظار کرنے بیٹھ گئے.گویا یہ ایک قسم کا ناٹک تھا جو کھیلا گیا غرض اللہ تعالیٰ نے گورنمنٹ کو بھی سبق دے دیا ہے اور احرار کو بھی سبق دے دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا جس غرض کے لئے ہماری تشویش تھی وہ پوری ہوگئی.تین باتیں ہیں جنہیں ہمیں مدنظر رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ ہمیں حاصل ہو گئیں.اول یہ کہ باوجود ان نئے حالات کے پیدا ہو جانے کے کیا ہماری جماعت کی حقیقی شکایت دور ہو دوسرے یہ کہ کیا ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ اب دوبارہ شورش نہ ہو اور اگر ایک دفعہ سکون ہے تو کیا یہ سکون مستقل ہے یا آئندہ بھی اس فتنہ کے پھوٹنے کا اندیشہ ہے.تیسرے یہ کہ کیا جماعت کا مقصد و مدعا پورا ہو گیا.یہ تین سوال ہیں جن کا جواب اگر ہمیں اپنی منشاء کے مطابق مل جائے تو ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ اب ہمیں مقابلہ کے لئے مزید تیاری کی ضرورت نہیں.لیکن اگر ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہو تو حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں پچھلے سال ہمارا قدم تھا ہم اس وقت بھی وہیں ٹھہرے ہیں اور اس سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکے.پہلی بات یہ ہے کہ کیا ہماری جماعت کی شکایتیں دور ہو گئیں ؟ اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ

Page 674

خطبات محمود ۶۶۹ سال ۱۹۳۵ء حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایک حصہ احرار کے ساتھ.حکومت کے ساتھ جس حصہ کا تعلق ہے اس کی میں زیادہ تفصیل نہیں کر سکتا.میں نے کہا تھا کہ بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ اس کے بعض افسروں سے غلطیاں ہوئیں.اس لئے میں اس بات کو طول دینا نہیں چاہتا لیکن اختصار کے ساتھ یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ احساس اس حد تک نہیں کہ ہماری مشکلات اس سے دور ہوسکیں.مثال کے طور پر میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.گزشتہ ایام میں جب نیشنل لیگ کا ایک جلسہ یہاں ہوا تو افسرانِ بالا کو یہ جھوٹی رپورٹ کی گئی کہ ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کو اس جلسہ میں حرامزادہ کہا گیا ہے.یہ بالکل جھوٹ اور افترا تھا حتی کہ رپورٹ کرنے والے ایک پولیس کے آدمی سے جب ہمارے ایک دوست نے علیحدگی میں دریافت کیا کہ تم خدا کو حاضر ناظر جان کر بتاؤ کہ کیا واقعی ڈپٹی کمشنر کو حرام زادہ کہا گیا تھا ؟ تو اس نے کہا کہ نہیں.پھر اُس نے پوچھا کہ پھر آپ لوگوں نے ایسی رپورٹ کیوں کی ؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ سیاسی باتیں ہیں میں اس کے متعلق کچھ بتا نہیں سکتا.گورنمنٹ چونکہ اپنے ماتحتوں پر اعتبار کرتی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا وہ ایک حد تک اس میں معذور بھی ہے کیونکہ بڑے افسروں کو چھوٹے افسروں پر اعتماد کرنا ہی پڑتا ہے اس لئے اس بات کے ساتھ بعض دوسری باتوں کو ملا کر گورنمنٹ نے ایک خفیہ سرکلر جاری کیا جو تقریباً تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کے نام بھیجا گیا کہ جماعت احمدیہ کی حالت گورنمنٹ کی نگاہ میں مشتبہہ.اس لئے اس کے افراد کا خیال رکھنا چاہئے.یہ تمام سر کلر تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کو یا اکثر اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو بھیجا گیا کیونکہ متفرق جگہوں سے اس سرکلر کی تصدیق ہوئی ہے.میں نام نہیں لے سکتا لیکن ایک جگہ سے تو اس سرکلر کے الفاظ تک ہمیں معلوم ہو گئے تھے اب اگر گورنمنٹ کے بعض افسروں کے خیال میں تبدیلی بھی ہو گئی ہے تو چونکہ حکومت کی طرف سے ایک سرکلر جاری ہو چکا ہے اس لئے بالعموم افسر اس سرکلر کا خیال رکھیں گے اور ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں ہماری جماعت کے افراد کے حقوق کو پامال کیا جائیگا.چنانچہ بعض جگہ ایسا بھی ہوا کہ بعض احمدی جو اچھے قابل تھے ان کے حقوق کو افسرانِ بالا کی طرف سے نظر انداز کر دیا گیا جو پہلے حالات کے لحاظ سے ناممکن تھا.پس جب تک ایسا سر کلر قائم ہے اُس وقت تک بعض افسروں کے خیالات کی تبدیلی ہماری جماعت کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے.اس سرکلر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب ہماری جماعت کے نوجوان جولیاقت اور قابلیت کے لحاظ سے ہر ہے

Page 675

خطبات محمود ۶۷۰ سال ۱۹۳۵ء طرح اہل ہو نگے کسی ملازمت کے لئے پیش ہونگے یا تا جرٹھیکوں کے لئے جا ئینگے تو سرکاری افسر اس سرکلر کے اثر سے ان کے حقوق کو نظر انداز کر دیں گے.یا اگر کسی جگہ احمدیوں کو مخالفین سلسلہ کی طرف سے تکلیف پہنچی اور وہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس شکایت لے کر گئے تو وہ اپنے دل میں کہے گا کہ یہ لوگ گورنمنٹ کی نظر میں مشتبہ ہیں انہیں اور زیادہ ذلیل ہونے دو.بے شک ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہمیں دُکھ دیا جائے مگر اس سرکلر کی موجودگی میں ہم اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات درست ہو چکے ہیں.بعض افسر اس سرکلر کا انکار کرتے ہیں لیکن ہم ان پر یہ نیک ظن کر سکتے ہیں کہ ان کو اس کا علم نہیں.لیکن ہم یہ نہیں مان سکتے کہ ایسا کوئی سرکلر تھا بھی نہیں.کیونکہ بعض افسروں نے خود اس کا ذکر بعض احمد یوں سے کیا ہے اور اُس کے الفاظ تک بتائے ہیں اور یہ علم انگریز افسروں کی زبانی بھی ہمیں حاصل ہوا ہے.مجھے اس انکار پر ایک اور واقعہ یاد آتا ہے.ایک دفعہ اسمبلی میں ایک سوال پیش ہوا.وائسرائے نے ایک خط ہوم ممبر کی طرف سے لکھا تھا یا ہوم ممبر نے کوئی خط وائسرائے کولکھا تھا مجھے صحیح طور پر یاد نہیں پنڈت مدن موہن مالویہ نے سوال کر دیا کہ کیا ایسی کوئی بات ہوئی ہے.اس پر جھٹ گورنمنٹ کے ایک ذمہ دار افسر نے کہہ دیا کہ یہ بالکل غلط ہے ، ایسا کوئی خط نہیں لکھا گیا.انہوں نے آگے سے اس خط کا مضمون اور تفصیلات سنا دیں.تب تو وہ افسر صاحب بہت ہی گھبرائے اور کہنے لگے یہ تو ایک پرائیویٹ خط تھا.پنڈت مدن موہن مالویہ نے کہا پرائیویٹ تھا یا غیر پرائیویٹ.سوال تو یہ تھا کہ کیا ایسا کوئی خط لکھا گیا یا نہیں ؟ تو ہمیں کئی اضلاع سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ ایسا سرکلر حکومت نے جاری کیا بلکہ ایک جگہ پولیس کا ایک ہیڈ کانسٹیبل مجلس شوری کے موقع پر ضلع راوالپنڈی کے ایک گاؤں میں گیا.اس نے وہاں کے احمدیوں سے اقرار لیا کہ وہ مجلس شوری پر بغیر پولیس کو اطلاع کئے نہیں جائیں گے.جب انہوں نے اس بات کی ہمیں اطلاع دی اور ہماری طرف سے مقامی کارکنان کو اس کی تحقیق کی ہدایت کی گئی تو انہیں پولیس کے افسروں نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک خفیہ چٹھی آئی تھی کہ اس امر کی نگرانی رکھی جائے مگر پولیس کا ایک چھوٹا افسر اسے سمجھا نہیں اور اُس نے بجائے مخفی خیال رکھنے کے جا کر احمدیوں سے ذکر کر دیا.اب آپ اس پر زیادہ شور نہ کریں کہ ہماری بد نامی ہوتی ہے.اب ان تمام امور کے بعد سرکلر کے

Page 676

خطبات محمود ۶۷۱ سال ۱۹۳۵ء انکار کا موقع ہی کیا رہتا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کوئی نا تجربہ کار چور تھا اس نے کہیں چوری کی.جب پولیس والے تفتیش کے لئے آئے تو وہ بھی ساتھ ہو گیا تا اُس کی چوری پر پردہ پڑا رہے.جب پولیس والے تفتیش کرنے لگے تو یہ انہیں کھوج بتا تا گیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ چور پہلے اس طرف سے آیا پھر یوں مکان میں داخل ہوا.پولیس والے چونکہ ہوشیار ہوتے ہیں، روزانہ کام کرنے کی وجہ سے انہیں تجربہ ہو جاتا ہے وہ سمجھ گئے کہ یہ کھوج نہیں بتارہا بلکہ چوری کا واقعہ بتا رہا ہے.چنانچہ انہوں نے اُسے شہہ دینی شروع کی.وہ خوش ہو کر اور زیادہ باتیں بتا تا گیا آخر کہنے لگا دیکھیں ! مکان کے اندر یہ جو نشان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چوروں نے اسباب کی پہلے گٹھڑی باندھی ، پھر یہاں اپنے ایک ساتھی کے سر پر گھڑی رکھ دی.جب وہ شخص آگے چلا تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کوٹھوکر لگی اور پھر گٹھڑی اندر اور میں باہر.اب جبکہ گورنمنٹ کے مختلف دفاتر سے اور پھر پولیس کی ایک چوکی کے عارضی انچارج سے میں والی بات نکل جاتی ہے تو اس سرکلر پر پردہ کس طرح پڑ سکتا ہے اور پھر یہ اس ایک ضلع کی بات نہیں بلکہ دو ضلعے اور ہیں جہاں سے یقینی طور پر یہ اطلاع پہنچی ہے.آخر وجہ بتائی جائے کہ لاہور سے کوئی سرکلر جاری نہیں ہوا جھگڑا گورداسپور میں ہے اور راولپنڈی کا ایک ہیڈ کانٹیبل دُور دراز کے ایک گاؤں میں جاتا اور احمدیوں سے اقرار لیتا ہے کہ تم مجلس شوری کے موقع پر بغیر پولیس میں اطلاع کرنے کے قادیان نہیں جاؤ گے اور جب پولیس والوں کو پکڑا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں اس معاملہ کو دبا دیں.اس ہیڈ کانسٹیبل نے شراب پی ہوئی تھی جس کے نشہ میں اُس نے بات کہہ دی ور نہ ہمیں تو مخفی حکم تھا.غرض ان باتوں کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ ایسا سرکلر جاری نہیں ہوا.جب سرکلر جاری ہے تو پھر جو نقصان اس کی وجہ سے ہماری جماعت کو پہنچے گا اس کا ذمہ دار کون ہو گا یقیناً اگر میں اِس کے ازالہ کی فکر نہ کروں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے میں اس کا ذمہ دار ہوں.پس ان حالات میں میں کس طرح فرض کر سکتا ہوں کہ حکومت کے ساتھ ہمارا معاملہ صاف ہو گیا ہے پس جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ گورنمنٹ نے ہماری جماعت کے خلاف جو سرکلر جاری کیا تھا اُسے اُس نے منسوخ کر دیا ہے اور جب تک ان نقصانات کی تلافی نہ ہو جائے جو ایسے سرکلر کا لازمی نتیجہ ہیں اُس وقت تک کیسے ممکن ہے کہ ہم بعض افسروں کے تبدیل شدہ رویہ سے ہی خوش ہو جائیں اور یقین کر لیں کہ حکومت کا رویہ ہمارے متعلق درست ہو گیا.ہم حکومت سے کبھی لڑنے کیلئے تیار نہیں

Page 677

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ہوئے اور نہ آئندہ حتی المقدور ہو نگے.بلکہ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو دریا میں بہتے ہوئے ایک کمبل کو پکڑنے گیا اور جب اُس پر ہاتھ ڈالا تو وہ ریچھ تھا جس نے اُسے پکڑ لیا.جب دیر زیادہ ہو گئی تو لوگوں نے اُسے کہا کمبل کو چھوڑ دو اور باہر آؤ.وہ کہنے لگا میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا.ہم بھی اِس قضیہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، ہم بھی ابھی چاہتے ہیں کہ یہ جھگڑ اختم ہو مگر حکومت بھی تو جھگڑا ختم کرے.یا پھر وہ ثابت کر دے کہ ہم نے کبھی قانون شکنی کی یا بغاوت کی یا جھگڑے میں اس سے ابتدا کی مگر وہ ثابت نہیں کر سکتی.اس کے مقابلہ میں یہ حقیقت ہے کہ بغیر اس کے کہ ہماری طرف سے کوئی ابتداء ہوئی ہو حکام ہم سے اُلجھ گئے.پھر اس معاملہ کو لمبا کیا گیا ، پھر اس میں مبالغہ کیا گیا ، پھر غلط رپورٹیں پہنچائی گئیں ، پھر ہمارے خلاف سرکلر جاری کیا گیا اور ہمارے خلاف فضاء یہاں تک خراب کی گئی کہ حکومت ہند کے ایک افسر نے ہمارے ایک دوست سے کہا کہ پہلے تو میں آپ کی جماعت کا دوست تھا مگر اب حکومت پنجاب کے بعض افسروں سے گپ شپ کے دوران میں آپ کی جماعت کی ایسی عجیب وغریب باتیں معلوم ہوئی ہیں جن کے ماتحت میں نہیں کہہ سکتا کہ میری دوستی آپ کی جماعت سے آئندہ قائم رہے یا نہ رہے.اسی طرح اب تک ان افسروں کو کچھ بھی نہیں کہا گیا جنہوں نے بلا وجہ جماعت سے دشمنی کی اور اس کے وقار کو صدمہ پہنچانے کی نا واجب کوشش کی.اگر ہم ان کے افعال کے متعلق خاموش ہو جائیں اور اگر حکومت ان کو سرزنش نہ کرے تو کل کو وہی افسر یا دوسرے افسر پھر جماعت کے خلاف ایسی ہی کا رروائیاں کر سکتے ہیں.ان امور کی تکرار کو صرف مُجرم کرنے والے افسروں کی سزا ہی روک سکتی ہے جب تک ایسے لوگوں کو سزا نہ دی جائے ہماری جماعت کا مستقبل اس جہت سے محفوظ نہیں ہو سکتا.پس با وجود خدا تعالیٰ پر تو کل رکھنے کے ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ظاہری حالات کو بھی جہاں تک ہو سکے درست رکھنے کی کوشش کریں تو ہم مجبور ہیں کہ حکومت کے رویہ سے اُس وقت تک مطمئن نہ ہوں جب تک عملاً حالات کی درستی کی طرف قدم نہ اٹھایا جائے.گورنمنٹ کے متعلق میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں اگر کسی قوم کی پچاس سالہ خدمات کی کوئی عزت اُس کے دل میں ہے ، اگر کسی قوم کی پچاس سالہ خدمات کی کوئی وقعت اُس کے دل میں ہے تو آج اخلاقی طور پر اسے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا چاہئے.اخلاق نہ صرف افراد کے لئے ضروری ہیں بلکہ حکومت اور اس کے افسروں کے لئے بھی ضروری ہیں اور اسے چاہئے کہ ان افسروں

Page 678

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کو سزا دے جنہوں نے بلا وجہ جماعت احمدیہ کو دکھ دیا اور اس کی تحقیر کی لیکن اگر وہ اس بات کے لئے تیار نہیں تو جماعت احمدیہ کا کوئی فرد اُس وقت تک جب تک کہ ایمان کا ایک ذرہ اُس کے دل میں موجود ہے ، ذلت کے ساتھ حکومت کے آگے اپنی گردن نہیں جھکا سکتا اور نہیں جھکائے گا.اس کے بعد میں احرار کا سوال لیتا ہوں احرار نے جو کچھ کیا اس کے خلاف ہمیں کیا غصہ تھا ؟ یہی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے اور سلسلہ کی ہتک کرتے تھے ورنہ احرار دوسرے مسلمانوں کی طرح ہی ہیں جن سے ہم ملتے جلتے رہتے ہیں.اور ان سے ہماری کیا عداوت ہو سکتی تھی آخر یہی احرار ہیں جن میں سے ایک لیڈر نے سر ملکام کے زمانے میں مجھے کہا کہ ہماری سفارش کر دیں.کیونکہ وہ مولوی داؤ د غزنوی اور دوسرے ممبروں کو پکڑنا چاہتے ہیں.چنانچہ میں نے سر ملکام سے ذکر کر دیا اور نہ معلوم میرے کہنے سے یا حکومت کی اپنی مصلحتوں سے یہ لوگ پکڑے نہ گئے.تو ہم ہمیشہ ہر ایک کے کام آتے رہے ہیں اور کبھی بھی ہم نے مسلمانوں سے الجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اگر کبھی انہوں نے ہمارے راستہ میں اُلجھاؤ ڈالا تو ہم نے اُسے سلجھانے کی کوشش کی لیکن جب ایک قوم اپنے صحیح راستہ کو ترک کر دیتی ہے اور بلا وجہ اور بغیر کسی قصور کے دوسرے فریق پر حملہ کر دیتی ہے تو پھر مؤمن بے غیرت نہیں ہوتا بلکہ انتہاء درجہ کا غیور اور بہادر ہوتا ہے.ہمیں انہوں نے آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کی متفقہ مخالفت سے ڈرایا.مگر میں کہتا ہوں کہ تم آٹھ کروڑ نہ سہی اسی کروڑ سہی مگر تم سارے مل کر بھی ایک مؤمن کی زبان کو بند کرنے اور اس کے کام کو روکنے کی اپنے اندر طاقت نہیں رکھتے.اب تو ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہیں جب سلسلہ کے ابتدائی ایام تھے ، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات مخالفین کے مقابلہ میں اکیلی تھی اُس وقت کب ان کے شورش نے ہمیں دبا لیا ، کب ان کی مخالفت نے ہمیں ڈرا لیا اور کب انکی دھمکیوں نے ہمارے ارادوں کو پست کر دیا.فساد پر فساد ہوئے اور شورشوں پر شورشیں ہوئیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کتاب پر کتاب اور اشتہار پر اشتہار لکھتے گئے اور آپ مقابلہ پر مقابلہ کرتے گئے یہاں تک کہ دشمن ذلیل اور حاسد شرمندہ ہو گئے اور کامیابی و کامرانی کا جھنڈا آپ کے ہاتھوں لہرایا.پس مؤمن بزدل نہیں ہوتا اور نہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم بزدل ہیں.ہمیں تعداد نہیں ڈرا سکتی ، ہمیں گالیاں نہیں ڈرا سکتیں ، ہمیں جبر، تشدد اور قتل و غارت کی دھمکیاں نہیں ڈرا سکتیں.ہمیں اگر کوئی چیز قابو کر سکتی ہے تو وہ صرف اخلاق

Page 679

خطبات محمود ۶۷۴ سال ۱۹۳۵ء ہیں.مؤمن دنیا میں کسی چیز سے قید نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر چاہو تو تم اسے اخلاق سے قید کر سکتے ہو.اخلاق کی حکومت کی کیا لطیف مثال ہے جس کا حدیثوں میں ذکر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صلح حدیبیہ کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ کا ایک رئیس کفار کی طرف سے آپ سے گفتگو کرنے کیلئے آیا.وہ مکہ والوں کا اتنا بڑا احسن تھا کہ اس کا دعوی تھا کہ مکہ کا کوئی آدمی ایسا نہیں جس پر میرا کوئی احسان نہ ہو.یہ شخص اپنے آپ کو وادی مکہ کا باپ سمجھتا تھا.اور یہی شان دکھانے کے لئے اُس نے رسول کریم ﷺ کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگایا اور کہا میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو تم نے اپنے ارد گرد جمع کر لئے ہیں تمہارے کام نہیں آئیں گے آخر تمہاری قوم ہی ہے جو تمہارے کام آئے گی.پس تم اپنی قوم کی بات مان لو جونہی اُس نے رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا یا ایک صحابی نے زور سے اپنی تلوار کا کندہ اُس کے ہاتھ پر مارا اور کہا ہاتھ پرے کر ، کیوں تو اپنا نا پاک ہاتھ رسول کریم کے مقدس جسم سے چھوتا ہے.اُس نے نظر اٹھائی اور کہا کیا تو وہ شخص نہیں جس کے خاندان پر فلاں موقع پر میں نے احسان کیا تھا؟ یہ سخت نازک موقع تھا مگر احسان کا لفظ سن کر اُس صحابی کی آنکھیں نیچی ہو گئیں اور وہ جھٹ پیچھے ہو گیا.تب اُس نے سمجھا کہ اب میں نے میدان صاف کرلیا.تب اُس نے وہی بات کہہ کر رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا.اس پر پھر ایک صحابی نے بڑے زور سے تلوار کا کندہ اُس کے ہاتھ پر مارا اور کہا کیوں تو اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم کے مقدس جسم سے چُھوتا ہے؟ اُس نے نظر اٹھائی مگر دیکھ کر نگاہ نیچی کر لی اور کہا تمہارے خلاف میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں.یہ دوسرے شخص حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے..تو مؤمن اگر قید کیا جا سکتا ہے تو احسان سے.ایک دفعہ کسی جنگ میں ایک شخص کفار کی طرف سے لڑائی میں شامل ہوا تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا دیکھنا لڑائی میں فلاں شخص بھی شامل ہے یہ میرے ساتھ اچھا سلوک کیا کرتا تھا اور جب مکہ والے میری مخالفت کرتے اور سخت ایذا ئیں دیا کرتے تھے تو یہ پوشیدہ طور پر میری مدد کیا کرتا ،اُس کا خیال رکھنا.سم گر چہ مہاجر اس سے واقف تھے مگر چونکہ انصار واقف نہ تھے اور وہ بھی جنگ میں شامل تھے ، اس لئے انہیں بتانے کے لئے رسول کریم علیہ نے یہ فرمایا.اسی طرح حنین کی جنگ جس میں مسلمانوں کو بوجہ اس کے کہ مکہ کے نو مسلم بھی اس میں شامل ہو گئے تھے بہت بڑا نقصان پہنچا تھا.

Page 680

خطبات محمود ۶۷۵ سال ۱۹۳۵ء یہاں تک کہ ایک موقع پر رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک بھی خطرے میں پڑ گئی تھی اور چار ہزار تجربہ کار تیر اندازوں کے نرغہ میں رسول کریم ﷺ آگئے تھے اور صرف چند صحابہ آپ کے ساتھ رہ گئے تھے ایسی خطرناک جنگ کے ختم ہونے کے بعد جس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے آخر دشمن قید کر لئے گئے.اور ان کے اموال پر قبضہ کر لیا گیا.یہ قید ہونے والے اُس قوم میں سے تھے جس میں رسول کریم ﷺ بچپن میں رہے.اور جس قوم کی ایک عورت کا آپ نے دودھ پیا تھا.کفار نے صل الله آپس میں مشورہ کرنے کے بعد رسول کریم ﷺ کی رضاعی بہن سے کہا کہ تو جا اور رسول کریم سے ہماری سفارش کر.ان میں سے خود کوئی رحم کی درخواست کی بھی جرات نہیں کرتا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا.جب رسول کریم ﷺ کی رضاعی بہن آپ کے پاس آئی اور اُس نے کہايَا رَسُولَ اللہ میں آپ کے پاس ایک کام سے آئی ہوں.تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہن ! میں تو تیرا ایک مہینہ تک انتظار کرتا رہا تا تو سفارش کے لئے آئے تو مجھے تیری سفارش رڈ نہ کرنی پڑے مگر ایک مہینہ کے انتظار کے بعد میں نے غنیمت کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ہے.اب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ تم لوگ ایک چیز چن لو یا مال یا قیدی.اگر مال کہو تو میں واپس دلوا دیتا ہوں اور اگر قیدی کہو تو انہیں چھڑوا دیتا ہوں.دونوں میں سے جو بھی صورت پسند ہو بتا دو.انہوں نے اپنے قبیلہ سے مشورہ کیا تو فیصلہ کیا ہمیں مال نہیں چاہئے ، قیدی دے دیئے جائیں.رسول کریم علیہ نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا میں نے اس قوم میں دودھ پیا ہے کیا تم اس تعلق کی وجہ سے ان کے قیدی چھوڑ سکتے ہو؟ انہوں نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! ہمیں اس سے زیادہ خوشی اور کس میں ہو سکتی ہے چنانچہ انہوں نے سب قیدی رہا کر دئے تو مؤمن کو طاقت اور تعداد ڈرا نہیں سکتی بلکہ جتنا زیادہ اسے ڈاریا اور دھمکایا جائے اور جتنا زیادہ اُس پر دباؤ ڈالا جائے ، اتنا زیادہ ہی وہ اونچا ہوتا ہے مگر جتنا زیادہ اس کے سامنے جھکو اتنی ہی زیادہ وہ محبت کرتا ہے.یہی شرافت کے اخلاق ہیں جنہیں انبیاء دنیا میں قائم کیا کرتے ہیں ، یہی شرافت کے اخلاق ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں میں موجود ہوتے ہیں ، یہی شرافت کے اخلاق ہیں جن سے وہ دنیا میں عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاسکتی ہیں اور یہی شرافت کے اخلاق ہیں کہ اگر اُن میں نہ پائے جائیں ، تو انہیں دوسروں سے کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا

Page 681

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء پس ہم نے احرار کے ساتھ جنگ شروع نہیں کی.وہ آپ آئے اور انہوں نے ہم سے لڑائی شروع کر دی اور اس لئے لڑائی شروع کر دی کہ تا انہیں لوگوں سے روپیہ ملے اور ملک میں شہرت حاصل ہو.پھر اس ذلیل مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے قادیان آ کر ہمیں وہ وہ گالیاں دیں اور سلسلہ کی اتنی شدید ہتک کی کہ ایک شریف انسان ان گالیوں کے سننے کی بھی تاب نہیں رکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جن ناپاک الفاظ میں یاد کیا گیا اور جو جو گندی باتیں آپ کی طرف منسوب کی گئیں میں جانتا ہوں کہ انہیں برداشت کرنا ہمارا ہی حوصلہ تھا.اگر ہم پر اعتراض کرنے والے مسلمانوں میں سے کسی کے باپ کو ان میں سے ایک گالی بھی دی جاتی تو گالی دینے والا وہاں سے زندہ نہ اُٹھتا.یہ ہمارا ہی حوصلہ تھا کہ ہم نے ان گالیوں کو سنا مگر اپنا ہاتھ نہ اُٹھایا لیکن اگر ایک طرف مؤمن کا حوصلہ اتنا ز بر دست ہوتا ہے کہ وہ گندی سے گندی گالیاں سن کر بھی اپنا ہاتھ نہیں اُٹھاتا تو دوسری طرف اُس کی غیرت بھی اتنی زبر دست ہوتی ہے کہ وہ مرتے دم تک ان گالیوں کو نہیں بھلاتا.اور اُس وقت تک وہ انگاروں پر کوٹتا رہتا ہے جب تک ان گالیوں کا شریفانہ اور جائز بدلہ نہیں لے لیتا.پس یہ حوصلہ دکھانا ہمارا ہی حصہ تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات پوری ہوگئی ؟ کیا وہ گالیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئیں ، دنیا سے مٹ گئیں ؟ اور کیا وہ گندے الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق استعمال کئے گئے آج دُہرائے نہیں جاتے ؟ اگر آج بھی گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق استعمال کئے جاتے ہیں اور اگر آج بھی گندی گالیاں دنیا میں موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئیں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام ختم کر لیا.بے شک مسجد شہید گنج کے موقع پر احرار کو ایک شکست ہوئی مگر اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مسجد شہید گنج کو ہی اپنا آلہ کار بنایا اور کہنا شروع کر دیا کہ مسجد تین شخصوں نے گرائی ہے جن میں سے ایک وہ میرا نام لیتے ہیں ایک چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کا اور ایک سر فضل حسین صاحب کا.حالانکہ سر فضل حسین صاحب اُس وقت ایبٹ آباد میں بیمار پڑے ہوئے تھے.اور سچی بات یہ ہے کہ مسلمان لیڈروں میں سے کوئی لیڈ راگر ایسا ہے جس نے انتہائی خیر خواہی کے ساتھ مسلمانوں کا ساتھ دیا اور نہایت نازک اوقات میں نہ لالچ سے دیا اور نہ خوف سے متاثر ہوا اور نہایت جرات اور دلیری کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا رہا تو وہ

Page 682

خطبات محمود 922 سال ۱۹۳۵ء صرف سر فضل حسین ہی ہیں.مجھے سر آغا خان سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا اور شاید چند اور مسلمان لیڈر ہوں جن سے ملا ہوں باقی جس قدر مسلمان لیڈروں سے میں ملا ان کی گفتگوؤں، ملاقاتوں اور اُن سے مشوروں کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ سر فضل حسین صاحب کی خدمت اور خیر خواہی کے برابر کا مسلمانوں میں ایک لیڈر بھی نہیں مگر مسلمانوں کی بدقسمتی کہ انہیں ایک ہی شخص ایسا ملا جس نے نہ لالچ سے حق بات کو چھپایا اور نہ خوف سے کچی بات کہنے سے رُکا مگر اسی شخص کو بُرا بھلا کہ کر ہمارے ساتھ شامل کر دیا.شاید اس وجہ سے کہ ہم بھی دیانتداری کے ساتھ کام کرنے والے ہیں اور سرمیاں فضل حسین صاحب بھی.گویا احرار نے صرف ایک اصل اپنی راہ نمائی کے لئے مقرر کیا ہوا ہے اور وہ یہ کہ جو بھی دیانتدار لیڈر ہو خواہ وہ احمد کی ہو یا غیر احمدی اُس پر حملہ کر دو.بہر حال وہ یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ مسجد شہید گنج احمدیوں اور سر میاں افضل حسین کے ایماء سے گرائی گئی ہے باقی اس بات کا کوئی ثبوت ہو یا نہ ہو ، اس سے ان کو کوئی واسطہ نہیں.انہوں نے تو ” خوئے بدرا بہا نہ ہابسیار“ کے مقولہ کے مطابق اپنا زہر دکھانا ہے اور ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح دوسرے کو گرایا جائے.اور جب کسی قوم نے دوسروں کو گالیاں ہی دینی ہوں تو اس کے لیے وہ ہزار بہانے بنا سکتی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم نے شرارت سے کام نہیں لینا.اگر ہم بھی اسی قسم کی شرارتوں سے کام لیتے تو شاید وہ اس قسم کی دلیری نہ کرتے.مثل مشہور ہے کہ کوئی امیر تھا جو امیر ہونے کے ساتھ ہی بخیل بھی تھا اس کی عادت تھی کہ وہ ایک جگہ شادی کرتا اور چند دنوں کے بعد عورت کو گھر سے نکال دیتا.پھر کسی اور جگہ شادی کرتا اور چند دنوں کے بعد اسے بھی کسی بہانہ سے گھر سے نکال دیتا.وہ شادی کرتے وقت یہ شرط کر لیا کرتا کہ اگر عورت نے کوئی قصور کیا تو اُس کا سارا مال میرا ہو گا.اِسی طرح اُس نے بہت سی عورتوں سے شادی کی اور بہانہ بنا کر نکال دیا.آخر ایک جگہ پھر جو اُس نے شادی کے لئے درخواست دی تو لڑکی کے باپ نے انکار کیا.مگر لڑکی نے باپ سے کہا کہ آپ میری اسی جگہ شادی کر دیں ، میں اسے سیدھا کرلوں گی.خیر اس نے شادی کر دی.مہینہ بھر تک جب اسے کوئی گرفت کا موقع نہ ملا تو تنگ آ کر ایک دن کہنے لگا.آج میں کھانا باورچی خانہ میں ہی کھاؤں گا.مجھے جلدی سے روٹی پکا دی جائے.چونکہ وہ بخیل تھا اور نوکر اُس نے کوئی رکھا ہو انہیں تھا اس لئے بیوی ہی روٹی پکاتی تھی.جب وہ روٹی پکانے لگی

Page 683

خطبات محمود ۶۷۸ سال ۱۹۳۵ء تو جو تا لیکر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ کمبخت ! تو روٹی تو ہاتھوں سے پکاتی ہے تیری کہنیاں کیوں ملتی ہیں.حالانکہ جب کوئی روٹی پکائے گا تو لازماً اُس کی کہنیاں بھی ہلیں گی.عورت ہو شیار تھی کہنے لگی آپ خواہ مخواہ کھانا کیوں خراب کرتے ہیں میں ہر وقت آپ کے گھر میں ہوں جب آپ چاہیں مجھے مار پیٹ سکتے ہیں اس وقت آپ غصہ نہ کریں.خون میں جوش پیدا ہوگا اور کھانا ہضم نہیں ہو گا بعد میں جو جی چاہے مجھ سے کہہ لیں.یہ بات اُس کی سمجھ میں آ گئی اور کھانا کھانے بیٹھ گیا.ابھی اُس نے پہلا لقمہ ہی منہ میں ڈالا تھا کہ عورت جوتی نکال کر کھڑی ہو گئی اور اُس کی ڈاڑھی پکڑ کر کہنے لگی.کمبخت ! تو روٹی تو منہ سے کھاتا ہے تیری ڈاڑھی کیوں ہلتی ہے اس پر وہ رئیس ہاتھ باندھ کر کہنے لگا بس بی بی تو جیتی اور میں ہارا ، آگے کو میں کوئی شرارت تجھ سے نہیں کروں گا.اگر کوئی احرار کو ویسا ہی جواب دینے والا ہوتا تو وہ چند دنوں میں سیدھے ہو جاتے مگر وہ جانتے ہیں کہ ہم نے شرارت کو نہیں چھوڑ نا اس لئے وہ دلیر ہوکر ہر روز ایک نیا بہانہ بنا کر اٹھتے اور ہم پر کوئی نیا الزام لگا دیتے ہیں.اور یہ سلسلہ چل رہا ہے اب تک جاری ہے اور ختم ہونے میں نہیں آتا.وہ گالیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئیں اور وہ ناپاک کلمات جو آپ کے متعلق استعمال کئے گئے ابھی تک استعمال کئے جاتے ہیں اور مولوی عطا اللہ کے مقدمہ کے دوران اور تو اور ایک عدالت نے بھی ان گالیوں کو دُہرا دیا.یا د رکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ الہام ہے کہ لَا نُسُقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا که اے مسیح ! ہم دنیا میں کوئی ذلت ورسوائی کی بات تیرے متعلق نہیں رہنے دیں گے یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا.مگر خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا موقع.بندوں کو دیا کرتا ہے.کیا وہ خدا جس نے رسول کریم ﷺ کے دشمنوں کی ہلاکت کی خبر دی ، ابو جہل کو نہیں مارسکتا تھا ؟ عتبہ اور شیبہ کو نہیں مار سکتا تھا ؟ اور کیا وہ ان لشکروں کو ہلاک نہیں کر سکتا تھا جو مکہ سے اُٹھے اور مدینہ میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے ؟ خدا تعالیٰ ایسا کر سکتا تھا مگر اُس نے یہی چاہا کہ صحابہ کے ذریعہ اس وعدہ کو پورا کرے.اسی طرح اس خدا نے جو تمہارا خالق و مالک ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ، جس نے تمہیں زندگی کا سامان دیا جس نے تمہاری ماؤں کی چھاتیوں میں تمہارے لئے اُس وقت دودھ پیدا کر دیا جس وقت تم روٹی کو چبا نہیں سکتے تھے ، جس نے تمہیں آنکھیں دیں ، جس نے تمہیں کان دیئے ، جس نے تمہیں ناک دیا ، جس نے تمہیں عقل دی ، جس نے تمہیں ذہانت دی ، جس نے

Page 684

خطبات محمود ۶۷۹ سال ۱۹۳۵ء تمہیں علم دیا ، جس نے تمہیں علم کے سامان دیئے اور جو تمہارے باپ اور تمہاری ماں سے زیادہ تمہارا ہمدرد ہے اُسی خدا کا یہ وعدہ ہے کہ لَا نُسُقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْر احضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت دنیا میں کوئی ایسی بات نہیں رہے گی جو آپ کو ذلیل اور رسوا کرنے والی ہو.کیا تم اپنے باپ کا قرضہ ادا کیا کرتے ہو یا نہیں ؟ کیا تم اپنی ماں کا قرضہ ادا کیا کرتے ہو یا نہیں ؟ اگر ادا کرتے ہو تو پھر خدا کا بھی یہ قرض ہے جسے ادا کرنا تمہارا فرض ہے.اور اگر تم نے یہ قرض ادا نہ کیا تو وہ خود اس کو ادا کرے گا.تم اچھی طرح سن لو کہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ اے ما مور! تیرے متعلق ہم دنیا میں کوئی رُسوائی کی بات نہیں رہنے دیں گے.پس اس وعدہ کے مطابق پہلا فرض تمہارا ہے کہ تم ان رسوا کن باتوں کو دور کرو.اور اگر نہیں کر و گے تو خدا خود کرے گا مگر جس بات کے کرنے کا وہ اپنے بندوں کو موقع دے، اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے.پس ہم میں سے ہر شخص کو اپنی ہر ایک چیز قربان کر کے بھی خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو پورا کرنا چاہئے.اور اُس وقت تک چین اور آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے جب تک مخزیات کا وجود دنیا سے نہ مٹ جائے پھر نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گندی گالیاں دی گئیں بلکہ حضرت اماں جان کو بھی جن کا اِس میں کوئی تعلق نہ تھا گالیاں دی گئیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں تحریف کر کے مخالفین کی طرف سے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی لیکن حضرت اماں جان کو جن کا اس میں کوئی بھی تعلق نہ تھا انہیں بھی احرار نے گالیاں دیں.یہاں تک کہ سہارنپور میں ایک موقع پر تقریر میں ان کے متعلق کہا گیا.دتی کی دتی.یہ ہے وہ شرافت کا نمونہ جو احرار نے دکھا یا بھلا کونسی حضرت اماں جان نے کتاب لکھی تھی یا کونسی ایسی تحریر تھی جس پر غصہ کھا کر انہوں نے آپ کے متعلق ایسا گندا اور دلخراش لفظ استعمال کیا مگر جب انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے، جب شیطنت اور فسق و فجور اُس کے اخلاق پر موت طاری کر دیتا ہے اور جب انسان حیا و شرم کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے اُس وقت وہ اخلاق کو بھول جاتا ہے اور ان گندی اور حیا سوز باتوں پر اتر آتا ہے جن پر چوہڑے اور چمار بھی نہیں اُتر سکتے پھر اس سے ترقی کر کے انہوں نے ہمارے خاندان کے افراد پر ہاتھ اُٹھائے.چنانچہ میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کرایا گیا.غرض احرار کا کوئی فعل ایسا نہیں جس میں کمی آئی ہو.گالیاں برابر جاری

Page 685

خطبات محمود ۶۸۰ سال ۱۹۳۵ء ہیں ، گندے الفاظ کا استعمال برابر جاری ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے ، اور یہ صرف شہید گنج کے واقعہ سے پہلے کی باتیں نہیں بلکہ اب تک ان گالیوں کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا.چنانچہ میں اس کے ثبوت میں بتا تا ہوں کہ کل کے ” مجاہد اخبار میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کیا لکھا گیا.میں نے اس اخبار کا صرف ایک صفحہ لیا ہے اور وہ بھی تازہ پرچے کا.یہ نہیں کہ کوئی خاص پر چہ تلاش کیا ہے اسی سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ احرار کی طرف سے کس قسم کی اشتعال انگیز باتیں کہی جارہی ہیں اور کس طرح شرارت اور فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے.کسی شخص محمد مظہر کے نام سے سے رنومبر کے مجاہد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق جو بد زبانی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہتا ہے ” اس شخص نے چونکہ اپنے وقت میں چوری اور سینہ زوری سے کام لیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح حیات کے متعلق لکھتا ہے.66 یہ طومار کذب و دروغ ختم ہونے والی چیز نہیں.“ پھر لکھتا ہے ” جس طرح یہ فرقہ رحمانی نہیں شیطانی ہے اسی طرح ان کی داستان بھی شیطان کی...یہاں سے آنت کی طرح لمبی ہے.“ پھر لکھتا ہے بعد تکمیل علم اپنی خانگی خدمات کی پیروی کرتے رہے.سخت ناکامی ہوئی تو سیالکوٹ کا رُخ کیا.جب یوں گزارہ نہ چلا تو مختاری کے امتحان کی تیاری کی.اس میں بھی خیر سے فیل ہوئے تو پھر نبی بننے کی ٹھان لی." اس کے بعد محمد مظہر نے سراسر جھوٹی تاریخ وضع کرنے کی بھی کارروائی کی ہے اور پہلا جھوٹ یہ بولا ہے کہ سیالکوٹ میں ہی حکیم نور الدین بھیروی سے جو اُن دنوں ریاست جموں میں ملازم تھے مثیل مسیح بننے کے مشورے ہوتے رہے حالانکہ جن دنوں سیالکوٹ میں ملازم تھے.اس وقت حضرت خلیفہ اول کی عمر میں بائیس یا چوبیس سال کی تھی اور آپ ہندوستان کے مختلف حصوں میں تحصیل علم کرتے پھرتے تھے.غرض ان ایام میں حضرت خلیفہ اول کے جموں میں ملازم ہونے کی داستان بالکل جھوٹ ہے.آپ جموں میں اُس زمانہ کے کئی سال بعد ملازم ہوئے مگر جس نے جھوٹ بنانا ہو

Page 686

خطبات محمود ۶۸۱ سال ۱۹۳۵ء اسے اس سے کیا کہ اصل واقعہ کیا ہے.بے حیا باش خواہی کن و هر چه جب انسان بے حیا بن جائے تو پھر جو جی میں آئے کہتا پھرے.اس کے بعد یہ شخص بیان کرتا ہے.آپ سیالکوٹ سے سیدھے آلو مہار پہنچے وہاں پیر چن شاہ سے آپ کی ملاقات ہوئی اور آپ نے دریافت کیا کہ کیا آجکل کوئی نبی بھی بن سکتا ہے؟ انہوں نے انکار کیا تو مرزا صاحب نے کہا " نہیں جناب ! جب انسان ذرا ڈھیٹھ بن جائے تو نبی بن سکتا ہے“ یہ وہ انتہاء درجہ کی فتنہ پردازی ہے جو اس وقت ہماری جماعت کے خلاف کی جارہی ہے.جہاں اس قسم کے بے دین اور بے حیا لوگ موجود ہوں وہاں اخلاق بھلا کہاں باقی رہ سکتے ہیں.اس قسم کی افتراء پردازی کا بجز اس کے کچھ منشاء نہیں کہ لوگوں میں اشتعال پیدا کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مرزا صاحب کے نزدیک جس قدر نبی آئے سب ڈھیٹھ تھے.یہ محمد مظہر آج ہمیں بتا تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ کے بعد آلو مہار گئے.اور سید چنن شاہ سے ملے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تھا اُس وقت ان پیر چنن شاہ کی زبان کیوں بند رہی اور وہ نہ بولے اور انہوں نے آپ کے متعلق یہ انکشاف نہ کیا مگر اُس زمانہ کے ستر سال کے بعد آج ایک شخص محمد مظہر نامی جو اُس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا یہ روایت سنا رہا ہے.آخر ستر سال کے بعد یہ روایت کہاں سے پیدا ہوئی ؟ یقیناً واقدی کی ذریت ہی ایسی روایت وضع کر سکتی ہے ورنہ چاہئے تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تھا اُسی وقت یہ آلومہار والے پیر صاحب آپ کو مباہلہ کا چیلنج دیتے اور اس بات کو پیش کر کے حقیقت کو ظاہر کرتے لیکن وہ خاموش رہتے ہیں اور ستر سال کے بعد ایک شخص اس جھوٹ کا اعلان کرتا ہے جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ان پیر صاحب نے نہیں بنایا، اس سیدمحمد مظہر نامی شخص نے بنایا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتوں سے مسلمانوں کو یہ دھوکا دینا مطلوب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمام انبیاء کو نَعُوذُ بِاللہ فریبی سمجھتے تھے.اور آپ کا یہ خیال تھا کہ انسان اگر ذرا ڈھیٹھ بن جائے تو نَعُوذُ بِاللهِ نبی بن سکتا ہے.پھر یہ شخص کہتا ہے کہ وہاں سے آپ سیدھے لا ہور آئے اور لاہور سے قادیان اور یہاں آ کر دعوی کی بنیاد رکھ دی.حالانکہ آپ کی سیالکوٹ کی رہائش کے بیس سال بعد براہین احمدیہ

Page 687

خطبات محمود ۶۸۲ سال ۱۹۳۵ء چھپی.اور اس کے چودہ سال بعد آپ نے دعوی مجددیت کیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد مسیحیت کا دعویٰ کیا.گویا چونتیس سال کے بعد کے واقعہ کو یہ شخص چند ماہ کے اندر کا واقعہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے.پھر لطیفہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں قریباً دو سال رہے ہیں اور وہاں کے لوگ جو رات دن آپ کی مجلس میں رہے ، ان سے آپ نے کبھی ایسی بات نہ کہی.کہی تو ایک گھنٹہ کی ملاقات میں سید چنن شاہ صاحب سے کہی.سیالکوٹ کے لوگوں پر آپ کی زندگی کا جو اثر تھا وہ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سید میر حسن صاحب جو ایک بہت مشہور شخص گزرے ہیں ڈاکٹر سرا قبال بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں، سیالکوٹ اور پنجاب کا علمی طبقہ ان کی عظمت ،صاف گوئی اور سچائی کا قائل ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ کے ہر وقت کے ساتھی تھے وہ نیچری تھے اور سرسید کے متبع تھے اور آخر تک احمدیت کے مخالف رہے ہیں.مگر جب بھی کسی نے آپ کی قبل از بعثت زندگی پر اعتراض کئے ، انہوں نے ہمیشہ اس کی تردید کی اور عَلَی الْإِعْلَانُ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بزرگی اور نیکی اور اسلام سے محبت کا ذکر کرتے رہے.پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیالکوٹ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمبے عرصہ تک رہے وہاں کے لوگ تو آپ کی زندگی میں کوئی عیب نہ نکال سکے بلکہ آپ کی بزرگی اور ولایت کے قائل رہے لیکن یہ سید محمد مظہر کہتا ہے کہ قادیان کی واپسی کے وقت سید چن شاہ صاحب سے آپ راستہ میں یہ بات کہتے آئے کہ انسان ذرا ڈھیٹھ بن جائے تو نبی بن سکتا ہے.در اصل یہ الفاظ کہہ کر اس شخص نے اپنی گندی فطرت کا اظہار کیا ہے اور اُس ڈھیٹھ پن کا مظاہرہ کیا ہے جو اس کے اندر موجود ہے.غرض احرار کی طرف سے گالیوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان میں زیادتی ہو رہی ہے.گالیاں دی جاتی ہیں اور اتنی ناپاک اور گندی گالیاں دی جاتی ہیں کہ کوئی انسان انہیں سننے کی تاب نہیں رکھتا.اس کے مقابلہ میں حکومت خاموش ہے اور مسلسل خاموش ہے حالانکہ اگر یہی گالیاں حضرت مسیح ناصری کو دی جائیں ، اگر یہی گالیاں حضرت کرشن کو دی جائیں اور اگر یہ گالیاں سکھوں کے گروؤں کو دی جائیں تو گورنمنٹ کے حلقہ ہائے اعلیٰ تھرا جائیں اور ملک میں فساد اور خونریزی کی ایسی رو پیدا ہو جائے جس کا سنبھالنا حکومت کے بس میں نہ ہو مگر کیا چیز ہے جو حکومت کو خاموش رکھے ہوئے ہے ، کس چیز نے اس کی قلموں کو روکا ہوا ہے ، اور کس چیز نے اس کے ہاتھوں کو حرکت کرنے سے روکا ہوا ہے.صرف اس بات نے کہ احمدی امن

Page 688

خطبات محمود ۶۸۳ سال ۱۹۳۵ء پسند ہیں اور وہ ملک کے امن کو برباد نہیں کریں گے.مگر کیا یہ انتہاء درجہ کا ظلم نہیں اور کیا یہ انتہائی ستم اور جو ر نہیں کہ ایک گورنمنٹ اس لئے خاموش رہتی اور اپنے قانون کو حرکت میں نہیں لاتی کہ یہ لوگ ظلم کا بدلہ لینے کے لئے تیار نہیں.کیا یہ حکومت کے فرائض کو کلی طور پر نظرانداز کرنے کے مترادف نہیں اور کیا اسی طرح ملک میں امن قائم کیا جاتا ہے.گومیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ کوئی احمدی ایسا نہیں کرے گا لیکن اگر خدانخواستہ ان گالیوں کی برداشت نہ کر کے آج نہیں کل کل نہیں پرسوں ، پرسوں نہیں اتر سوں ، ہم میں سے کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو کیا گورنمنٹ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ اسے گرفت کرے.حکومت پنجاب کو خدا تعالیٰ کی حکومت نظر نہیں آتی اور اس کے اوپر اور کوئی دنیوی حکومت ایسی نہیں جو اس سے باز پرس کر سکے کیونکہ نئے آئین سیاسی نے صوبہ جاتی آزادی دے رکھی ہے لیکن اگر اس کے اوپر کوئی عدالت ہوتی اور ہم اُس کے سامنے یہ داستان غم رکھ سکتے تو یقیناً وہ عدالت یہی فیصلہ کرتی کہ اس لیے مسلسل اور پیہم دل آزار، دل شکن ، نا قابل برداشت رویہ کے بعد جو احرار نے احمدیوں کے خلاف جاری رکھا اور حکومت پنجاب نے اس پر متواتر خاموشی اختیار کئے رکھی اس کے بعد اگر کوئی احمدی اپنے قابو سے باہر ہو گیا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر اور احرار پر ہے ، اس مظلوم دلفگار احمدی پر نہیں.پس وہ مجرم نہیں بلکہ مجرم یا حکومتِ پنجاب ہے یا احرار.اگر گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ ان گالیوں کی موجودگی میں صبر سے کام لیا جا سکتا ہے اور انسان اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکتا ہے تو ہم بھی اس کھیل کی احمدیوں کو اجازت دے دیتے ہیں.احمدی بھی وہی الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت استعمال کئے جا سکتے ہیں، ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی نسبت استعمال کر کے دیکھ لیں گے اور اُس وقت تک استعمال کرتے چلے جائیں گے جب تک، گورنمنٹ یہ وعدہ نہ کرے کہ اس قسم کے الفاظ پر خواہ کسی بزرگ کی نسبت استعمال کئے جائیں آئندہ گرفت کی جایا کریگی.یہ کوئی دھمکی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اگر حکومت پنجاب نے ان گالیوں کے روکنے کا کوئی بندوبست نہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں تو میں اس روک کو جو میری طرف سے جماعت پر ہے واپس لے لونگا اور اجازت دے دوں گا کہ جو احمدی چاہتا ہے کہ حکومت کے رویہ کو قانونی عدالتوں میں زیر بحث لائے اور دشمنانِ شرافت احرار کو یا دوسرے غیر شریف دشمنانِ سلسلہ کو اُن کے رویہ کی غلطی کا احساس کرائے ،اس پر میری

Page 689

خطبات محمود ۶۸۴ سال ۱۹۳۵ء طرف سے کوئی روک نہیں.اور اگر وہ احمدی جو صرف میرے روکنے کی وجہ سے رُکے ہوئے ہیں ، انہوں نے وہ سب گالیاں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق استعمال ہوتی ہیں ان ظالم اقوام کے بزرگوں کی نسبت استعمال کیں تو پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ گورنمنٹ کس طرح خاموش رہتی ہے اور ادھر تو جہ نہیں کرتی.اس کے نتیجہ میں بے شک گورنمنٹ ہمارے آدمیوں کو پکڑ سکتی ہے، ان پر مقدمہ چلا سکتی ہے لیکن آخر اخلاقی فتح ہماری ہی ہو گی.اور دنیا تسلیم کرلے گی کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں ، اس وقت حکومت نے اپنے فرض کو ادا نہ کیا.پھر یہ شخص مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اس ریویو کا ذکر کرتے ہوئے جو انہوں نے براہین احمدیہ پر کیا لکھتا ہے چونکہ انہیں ” اس پلیدی کا علم نہ تھا اس واسطے شروع میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کتاب مذکور کی بڑی تعریف کی پھر لکھتا ہے.مرزا صاحب براہین احمدیہ کے لئے روپیہ لوگوں سے لے کر کھا گئے حالانکہ براہین کے روپیہ کے متعلق بار بار بتایا جا چکا ہے کہ وہ روپیہ معمولی مقدار میں تھا اور اُس وقت کے طباعت کے اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب کی اشاعت کے لئے بھی کافی نہ تھا لیکن باوجود اس کے کہ وہ روپیہ موجودہ کتاب کی اشاعت پر خرچ ہوا.پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ جس شخص کو شکایت ہو وہ اپناروپیہ واپس لے لے.بعض نے واپس لیا لیکن جو سمجھتے تھے کہ ان کا روپیہ صحیح خرچ ہوا انہوں نے روپیہ واپس نہ لیا.اب اگر اس قدر اعلانات ہونے کے بعد بھی کسی نے روپیہ واپس نہیں لیا تو کیوں نہیں لیا ؟ ، اگر واقعہ میں روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھا گئے تھے تو اس پر اعتراض انہوں نے کرنا تھا جنہوں نے روپیہ بھیجا تھا مگر وہ تو روپیہ پیش کرنے کے باوجود بھی خاموش رہے.اور آج یہ شخص سید محمد مظہر نہ روپیہ بھیجنے والوں میں سے ہے اور غالباً اُس وقت پیدا بھی نہ ہوا تھا ، اعتراض کرتا ہے اور ایک ناپاک الزام اُس شخص پر لگا تا ہے جس پر ہزاروں لاکھوں آدمی اپنی جانیں شمار کرنے کو تیار ہیں اور جس نے سب دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا ہوا ہے.پھر یا د رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلان پر ہی بس نہیں اس کے بعد میں بھی اعلان کر چکا ہوں کہ اگر کوئی شخص اب بھی ثابت کر دے کہ اس نے براہین کے لئے روپیہ بھیجا تھا اور وہ روپیہ واپس لینا چاہے تو اسے روپیہ دے دیا جائیگا.مگر کسی نے آج تک اپنا ثبوت پیش کر کے روپیہ

Page 690

خطبات محمود ۶۸۵ سال ۱۹۳۵ء طلب نہیں کیا پس جس روپیہ کے متعلق روپیہ دینے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جائز طور پر اشاعت اسلام کے لئے خرچ ہوا اُس کے متعلق یہ سید محمد مظہر اعتراض کرنے والا کون ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے احمدی آجکل جو چندہ دیتے ہیں اس کے متعلق احرار شور مچادیں کہ صدر انجمن احمد یہ احمدیوں کا روپیہ کھا رہی ہے اسے واپس کیوں نہیں کرتی جب روپیہ دینے والے مطمئن ہیں تو کسی اور کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے ہاں اگر اخلاق اور شریعت کے خلاف کسی جگہ روپیہ صرف کیا جائے تب لوگ اعتراض کر سکتے ہیں.جیسے اگر کوئی شخص چندہ لیکر کنجریاں نچواتا ہے تو روپیہ دینے والوں کا حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں.لیکن جب روپیہ اشاعت اسلام کے لئے خرچ ہو رہا ہو اور روپیہ دینے والے مطمئن ہوں تو ایک غیر شخص کا شور مچانا سوائے بیہودگی کے اور کیا معنے رکھتا ہے.پس یاد رکھو تم نے بغیر اخلاق اور شریعت کی حدود کو توڑے اس ہتک کا بدلہ لینا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہا ما فرمایا ہے کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کی طرف ہم آسمان سے وحی کریں گے.پس آج جو شخص چاہتا ہے کہ وحی الہی کا مورد بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سلسلہ کی عزت اور اس کے احترام کیلئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت اور احترام کے لئے ہرممکن قربانی کرنے کیلئے تیار رہے.جب تک مخالفین کی موجودہ حالت قائم رہتی ہے ، جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جاتی ہیں ، جب تک حکومت اپنے فرائض سے غافل رہتی ہے ، جب تک احرار اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں سے باز نہیں آتے ، اُس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جد و جہد کو برابر جاری رکھیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری قربانی کرتے چلے جائیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اطمینان اور آرام سے نہ بیٹھیں.اور جو شخص پیشتر اس کے کہ نہ حالات کلیہ بدل جائیں اطمینان کا سانس لیتا ہے وہ بے غیرت اور ربے حمیت ہے اور اس قابل نہیں کہ احمدیت میں شامل رہے.اُس کے لئے بہتر ہے کہ احمدیت کو ترک کر دے کیونکہ وہ مرد نہیں بلکہ خلفی ہے.میں نے اب قطعی طور پر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر ان گالیوں کی طرف گورنمنٹ تو جہ نہیں کرے گی تو میں جماعت کو آزادی دے دوں گا کہ وہ ان ظالمانہ حملوں کا جواب دے.ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے بزرگوں کی عزتوں کو بچانا آتا ہے.احرار کو شاید یہی خیال ہو کہ رسول کریم ﷺ

Page 691

خطبات محمود ۶۸۶ سال ۱۹۳۵ء ہمارے اور ان کے مشترک ہیں پس یہ ان پر حملہ نہیں کر سکتے.صحابہ کرام ہمارے اور ان کے مشترک ہیں پس یہ ان پر بھی حملہ نہیں کر سکتے ، ائمہ اہل بیت ہمارے اور ان کے مشترک ہیں یہ ان پر بھی حملہ نہیں کر سکتے پس یہ ہم سے بدلہ کس طرح لے سکتے ہیں.یہ سب کچھ درست ہے مگر میں نے بھی وہ سکیم اب سوچ لی ہے جس کے ماتحت اپنے بزرگوں کی عزتوں کو بچا کر انہیں ایسا کاری زخم لگایا جا سکتا ہے کہ جو انہیں مدتوں تک بے چین رکھے.اسکے بعد الزام ہم پر عائد نہیں ہوگا بلکہ الزام گورنمنٹ پر عائد ہوگا یا احرار پر.ہم نے اپنا یہ حق بھی جو دفاعی طور پر ہمیں حاصل ہے چھوڑا ہوا تھا مگر اب ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ان گالیوں کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں ایسا بدلہ لیں گے کہ گورنمنٹ کو بھی اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑے گی.اور احرار کو بھی.اس کے ساتھ ہی اپنے بزرگوں کے متعلق ہم کسی قسم کی بے ادبی کا لفظ استعمال نہیں کریں گے.تاریخ اسلام میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے خلاف سب وشتم میں حد سے تجاوز کیا اس پر حضرت حسان بن ثابت نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ مجھے اجازت ہو تو ان گالیوں کا جواب دوں.آپ نے فرمایا تم جانتے ہو ، یہ سب لوگ خاندانی طور پر ہمارے خاندان سے ملے ہوئے ہیں.کوئی پھوپھی کے ذریعہ سے، کوئی ماں کے ذریعہ سے، کوئی خالہ کے ذریعہ سے، کوئی اور کسی رشتہ کے ذریعہ سے.اگر تم سخت الفاظ استعمال کرو گے تو وہ زدہم پر بھی تو پڑیگی.انہوں نے کہايَا رَسُولَ اللهِ میں انہیں اس طرح الگ کرلوں گا جیسے مکھن میں سے بال نکال لیا جاتا ہے.اسی طرح احمدی بھی ان کی گالیوں کا جواب اس طرح دیں گے کہ ہمارے بزرگوں پر کوئی آنچ نہ آئے گی اور ان کے ادب میں کوئی فرق نہ آئے گا.اور اگر اس کے نتیجہ میں ہمارے مخالفوں نے شور مچایا تو احمدیوں کا حق ہو گا کہ وہ جواب دیں کہ جو کام ہمارے مخالف کرتے رہے ہیں اس کے کرنے کا ہمیں بھی حق ہے.اور جس حکومت نے ہم سے امن قائم کروایا تھا اس کا فرض ہے کہ ہماری حفاظت بھی ہمارے دشمنوں سے کرے.ہاں میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ امن کو توڑنے والے ہم نہیں ہوں گے بلکہ جب بھی امن ٹوٹے گا ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں سے ٹوٹے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صبر کر کر کے ہم کو صبر کی عادت ہوگئی ہے.اور ہمارے آدمی انتہائی جوش کی حالت میں بھی اپنے ہاتھوں کو روک رکھنے کے عادی ہیں.میں ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ کیونکر گورنمنٹ ہم سے یہ امید کرتی چلی جاتی

Page 692

خطبات محمود ۶۸۷ سال ۱۹۳۵ء ہے کہ ہم صبر سے کام لیں.سوائے اس کے کہ میں یہ تسلیم کروں کہ حکومت دل میں ہمارے اخلاق کی برتری اور ہمارے صبر کی غیر معمولی قوت کی قائل ہے مگر اب صبر کا پیمانہ اچھلنے لگ گیا ہے اور اب میں مجبور ہوں کہ جماعت کو اجازت دے دوں کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے گورنمنٹ نے جو تشریح احمدیت کے متعلق قانون کی کی ہے، اس کی روشنی میں اپنے مخالفوں کے حملوں کا جواب دیں اور قانون کے اندر رہتے ہوئے جواب دیں.مگر باوجود اس کے کہ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے ان پر حملہ کریں گے ہم جانتے ہیں کہ وہ صبر نہیں کر سکیں گے.ان کے صبر اور ہمارے صبر میں بہت بڑا فرق ہے.ہم نے جوصبر کیا ہے اُس کی قدر و وقعت کو گورنمنٹ سمجھے یا نہ سمجھے لیکن تم کسی غیر جانبدار شخص کے سامنے یہ تمام حالات رکھ دووہ یہ باور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہو گا کہ احمدیوں نے ان حالات میں صبر کیا.انگریز اپنی رواداری کا بہت بڑا دعویٰ کرتے ہیں مگر ہم نے ان کا صبر بھی دیکھا ہوا ہے.ولایت میں جب میں گیا تو عیسائیت کے خلاف ہم نے ایک ٹریکٹ لکھا جسے سینٹ پال کے گر جا کے سامنے تقسیم کرنے کے لئے بھیجا.جب وہ اشتہار تقسیم ہو رہا تھا تو ایک لارڈ نے اسے دیکھ کر اپنی آستینیں چڑھالیں اور کہنے لگا جس نے اب یہ اشتہار تقسیم کیا میں اُسے ملے مار مار کر سیدھا کروں گا حالانکہ اُس میں گالیاں نہیں تھیں بلکہ دلائل تھے پس ہم نے جوصبر کیا ہے دنیا میں اُس کی کہیں مثال نہیں مل سکتی.لیکن ہم کہاں تک صبر کرتے چلے جائیں.ہم اپنے صبر کو اب بے غیرتی سے بدلنے کے لئے تیار نہیں.حکومت کو بھی امن تبھی نصیب ہو سکتا ہے جب وہ طرفین سے مساوی سلوک کرے.ہم نے کبھی اس سے رعایت طلب نہیں کی اور نہ آئندہ طلب کریں گے ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یا تو گورنمنٹ ان گالیاں دینے والوں کا منہ بند کرے اور اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تو گورنمنٹ ہمیں کہہ دے کہ تمہیں جوابی رنگ میں سخت الفاظ کے استعمال کی اجازت ہے پھر ہمیں اس سے کوئی شکایت نہیں رہے گی.اور اگر ہم اس کے بعد بھی گورنمنٹ سے کوئی شکایت کریں تو وہ جتنا چاہے ہمیں ذلیل اور رسوا کرے.اور کہے کہ یہ کیسے بے غیرت انسان ہیں کہ ہم انہیں مقابلہ کی اجازت دیتے ہیں مگر یہ پھر ہمارے پاس آتے ہیں.لیکن گورنمنٹ ہمارے ہاتھوں کو روکتی ہے ،گورنمنٹ ہماری زبانوں کو روکتی ہے اور گورنمنٹ ہمارے قلموں کو روکتی ہے لیکن وہ دوسرے فریق کو کھلا چھوڑ رہی ہے.ہماری جماعت کے ایک رسالہ کو گزشتہ ایام میں ضبط کیا گیا جب اس کے متعلق بعض افسروں سے پوچھا گیا کہ

Page 693

خطبات محمود ۶۸۸ سال ۱۹۳۵ء کیوں ضبط کیا گیا ہے تو وہ کوئی حوالہ نہ دکھا سکے.اور کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سکھ قوم کو سکھایا ایسے ہی رنگ میں مخاطب کیا گیا ہے.مگر یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق چوری سینہ زوری.فریبی ، روپیہ کھانے والا اور نبوت سے تمسخر کرنے والے کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مگر گورنمنٹ کا کوئی قانون حرکت نہیں کرتا.اس کی کیا وجہ ہے؟ صرف یہی کہ جن کے متعلق سکھا کہا گیا ہے ان کے متعلق گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ وہ اس معمولی سے لفظ پر کر پانیں باہر نکال لیں گے مگر احمد یوں کے متعلق اس کا یقین ہے کہ ان کا امام انہیں صبر کی تلقین کرے گا وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جائیں گے لیکن حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کریں گے.دوسری بات جس کو بدلنا ہمارے لیے ضروری ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت گرتے گرتے اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب جو بھی اُٹھتا ہے انہیں اپنے پیچھے لگا لیتا ہے.کوئی غریب مسلمانوں کا مال لوٹنے لگ جاتا ہے کوئی انہیں جوش دلا کر اُن کی جانیں ضائع کرا دیتا ہے اور کوئی ان کی عزت برباد کرا دیتا ہے.یہ حالت بھی ایسی ہے جو بدلنے کے قابل ہے.کیونکہ اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے.جب ان مسلمانوں کو دوسری قومیں دیکھتی ہیں تو وہ ان کی حالت سے اسلام کا اندازہ لگاتی ہیں.وہ صحابہ، وہ تابعین ، وہ تبع تابعین جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی تعلیم پر عمل کر کے اس کے اعلیٰ نمونے دنیا کو دکھائے اب دنیا سے اُٹھ چکے ہیں.پھر اب وہ اخلاق کے نمونے جیسے حضرت علی وغیرہ نے دکھائے تھے کون پیش کرے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت آتا ہے کہ اسلام کا ایک دشمن جو بہت بڑا طاقتور تھا یہودیوں کا بہت بڑا سپا ہی تھا اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کر چکا تھا حضرت علیؓ کے مقابلہ میں آیا اور بڑی کوشش اور زور کے بعد آخر حضرت علیؓ نے اسے گرا لیا.جب آپ اُس کے سینہ پر چڑھ کر اُس کی گردن اُتارنے لگے تو اُس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا حضرت علی فوراً اُسے چھوڑ کر کھڑے ہو گئے.وہ حیران ہوا اور اُس نے کہا تم نے اتنا زور لگا کر مجھے گرایا تھا اب ایک دم کھڑے کیوں ہو گئے ؟ آپ نے فرمایا میں جو تجھ سے لڑ رہا تھا تو صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر لڑ رہا تھا مگر جب تو نے میرے منہ پر تھوک دیا تو میں نے کہا ایسا نہ ہو اب میرا تجھے قتل کرنا اپنے نفس کا بدلہ لینے کیلئے ا ہو پس میں علیحدہ ہو گیا تا خدا تعالیٰ کی خدمت اور اپنے نفس کے غصہ کو آپس میں ملا نہ دوں.یہ وہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق ہیں جو صحابہ نے دکھائے.اس کا یہ نتیجہ تھا کہ اگر معمولی سی بات پر بھی ان میں لڑائی ہو

Page 694

خطبات محمود ۶۸۹ سال ۱۹۳۵ء جاتی تو ہر فریق دوسرے سے پہلے معافی لینے کیلئے بھاگتا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کا ایک دفعہ کسی بات میں جھگڑا ہو گیا.حضرت عمرؓ دوڑے دوڑے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور جا کر کہا مجھ سے آج سخت غلطی ہوئی حضرت ابو بکر کی میں بے ادبی کر بیٹھا حضور ! میرا قصور معاف کرا دیں.ادھر حضرت ابو بکر جلدی جلدی رسول کریم ﷺ کے حضور پہنچے تا آپ انہیں حضرت عمر سے معافی دلوا دیں.جب حضرت ابو بکر رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے تو حضرت عمرؓ اس سے پہلے پہنچ چکے تھے اور واقعہ عرض کر چکے تھے.رسول کریم ﷺ کو اسے سن کر سخت تکلیف ہوئی کہ کیوں حضرت ابو بکڑ سے وہ جھگڑے اور آپ نے ناراضگی سے کہنا شروع کیا کہ کیوں تم لوگ اُسے ستاتے ہو جو اُس وقت مجھ پر ایمان لایا جب دوسرے لوگ اسلام کو رڈ کر رہے تھے ؟ جب رسول کریم ﷺ اس طرح اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمارہے تھے حضرت ابو بکڑ بھی وہاں آپہنچے اور بجائے اس امر پر خوش ہونے کے فور دوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور عاجزانہ طور پر عرض کرنے لگ گئے کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! عمر کا قصور نہیں ،غلطی میری تھی.یہ وہ اخلاق ہیں جو رسول کریم ﷺ نے پیدا کئے اور یہ وہ اخلاق ہیں جو تو ارث کے طور پر مسلمانوں میں چلتے رہے یہاں تک کہ ان میں بداعمالیوں کی کثرت ہوگئی اور ہوتے ہوتے اسلامی اخلاق ان میں سے بالکل مٹ گئے.پہلے لوگوں کو تو ہم فخر کے ساتھ دوسری قوموں کے سامنے پیش کر سکتے اور ان سے کہہ سکتے تھے کہ یہ ہیں جو اسلامی اخلاق کا نمونہ ہیں.مگر کیا آج کے مسلمانوں کو بھی ہم دوسری قوموں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ اُمت ہے جو رسول کریم ﷺ نے تیار کی ؟ اگر نہیں تو اس لئے کہ ان کا رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہونا آپ کی ہتک ہے.پھر میں پوچھتا ہوں کیا ہمارا فرض نہیں کہ اس ہتک کو دور کریں جو رسول کریم کی دنیا میں ہورہی ہے؟ اور کیا ہمارا فرض نہیں کہ اس دھبہ کو آپ پر سے ہٹائیں ؟ پس جب تک مسلمانوں کی حالت کو اس رنگ میں نہ بدل دو کہ انہیں کھیل نہ بنایا جا سکے ، نہ انہیں اسلام کی تعلیم سے پھرایا جا سکے ، نہ انہیں بغاوت پر آمادہ کیا جا سکے ، نہ آپس میں لڑوایا جا سکے ، اور نہ اخلاق سے عاری اور بے بہرہ کر کے گندی گالیاں دینے پر آمادہ کیا جا سکے ، اُس وقت تک تمہارا فرض ہے کہ مسلمانوں کی درستی کی کوشش کرتے چلے جاؤ اور دم نہ لو جب تک کہ ان کی اصلاح نہ ہو جائے.کس طرح ممکن ہے کہ رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہونے والوں کی ایسی گندی حالت ہو اور ہم گھروں

Page 695

خطبات محمود ۶۹۰ سال ۱۹۳۵ء میں چین سے بیٹھے رہیں.آخر یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں آپ کی روح ان مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر کس قدر بیتاب ہوتی ہوگی اور کس قدر رنج اور کرب محسوس کرتی ہوگی.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوای پیمبرم یعنی اے دل! تو ان لوگوں کے احساسات کا بھی خیال رکھا کر کیونکہ آخر یہ لوگ میرے نبی کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ہیں.یہ الہام ہے جس کے ماتحت غیر احمدیوں کے اخلاق کی درستی اور ان کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے.تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے پیدا کرنے والے خدا کی طرف سے ہم پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ ہم قرآن اور اسلام کو پھر مسلمانوں میں قائم کریں.ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ فرض پورا ہو گیا؟ میں نے بتایا ہے کہ گالیاں ہمیں اُسی طرح مل رہی ہیں جس طرح پہلے ملا کرتی تھیں.سابقہ حالات کے عود کرنے کے جو سامان ہیں وہ بھی اسی طرح قائم ہیں.مسلمانوں کی طبیعت پر مولوی غالب آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے.کبھی حکومت کے خلاف انہیں اکسا دیتے ہیں، کبھی ہندوؤں کے خلاف اکسا دیتے ہیں، کبھی سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف اکسا دیتے ہیں اور ایک غلط راستہ پر برابر چلے جا رہے ہیں.اب تیسرا فرض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے اور جو سب سے مقدم ہے یعنی قرآن شریف اور اسلام کو نہ صرف دنیا میں قائم کرنا بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کی عظمت بٹھانا ، یہ فرض بھی ابھی ادا نہیں ہوا اس ایک سال کے عرصہ میں بے شک ہماری جماعت نے قربانیاں کیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان قربانیوں میں اتنی معتد بہ زیادتی ہو چکی ہے کہ ان کی وجہ سے دنیا کی توجہ کو ہم نے اپنی طرف کھینچ لیا ؟ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں آدمی ہر سال ہمارے سلسلہ میں داخل ہوتا ہے مگر آٹھ کروڑ کے مقابلہ میں ہزاروں آدمی حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں.اور چالیس کروڑ دنیا کے مسلمانوں کے مقابلہ میں تو چند ہزار کی حیثیت ہی کوئی نہیں.اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ہماری جماعت میں ہر سال دس ہزار آدمی داخل ہوتے ہیں تو ایک سو سال میں ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ بنتی ہے اور ایک ہزار سال میں ایک کروڑ بنتی ہے.مگر کیا اس

Page 696

خطبات محمود ۶۹۱ سال ۱۹۳۵ء رنگ میں کام کرنے سے آج تک کسی جماعت کو بھی کامیابی ہوئی ہے؟ کیا کوئی قوم بھی ایسی ہے جو ہزار سال تک زندہ رہی ہو ؟ رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو.آپ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ میرے بعد تین سو سال تک روحانیت کا دور رہے گا پھر شیطان دنیا پر غالب آ جائے گا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تین سو سال تک روحانیت کا دور رہا تو رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ کی روحانیت کا دور بھی زیادہ سے زیادہ تین سو سال ہو سکتا ہے.مگر ہماری ترقی کی موجودہ حالت یہ ہے کہ ایک ہزار سال میں ایک کروڑ آدمی سلسلہ میں داخل ہونے کی امید ہو سکتی ہے.اور اگر روحانی معلمین کی موجودگی میں اس قدر کم لوگ سلسلہ میں داخل ہوں تو بعد میں کس طرح زیادہ لوگوں کے داخل ہونے کی امید ہو سکتی ہے.اور اگر فرض بھی کرو کہ تین سو سال کے روحانی زمانہ کے بعد اسلام پھیلا تو پھر کیا پھیلا.خالی تعداد کا بڑھا لینا کوئی چیز نہیں تبدیلی قلوب کے لئے ضرورت ہوتی ہے روحانی معلمین کی.اور اس کے لئے ضرورت ہے کہ اسی تین سو سال کے عرصہ میں احمدیت پھیلے جب روحانی معلم دنیا میں موجود ہوں پس قریب سے قریب تر زمانہ میں احمدیت کی اشاعت کرنا ہمارا اولین فرض ہے.انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے ایک کام کے لئے جتنا وقت وہ دیتا ہے اس میں وہ کام نہیں ہو رہا تو اس کام کے لئے زیادہ وقت دے دیتا ہے.ڈاکٹر بھی جب دیکھتے ہیں کہ دوا کی ایک خوراک کا مریض پر اثر نہیں ہوا تو وہ دوا کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں.اسی طرح جب گزشتہ سال تم نے قربانیاں کیں اور تم نے دیکھا کہ ابھی ان کا کوئی شاندار نتیجہ نہیں نکلا اور نہ لوگوں کے قلوب میں بہت بڑا تغیر ہوا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ تم پہلے سے بھی زیادہ قربانیاں کرو.اور اگر تم پچھلے سال سے زیادہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں تو تم اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہو کہ تم کسی بڑے انعام کے مستحق نہیں.ابھی تک صرف چند غیر ممالک میں مبلغ بھیجے جا سکے ہیں.سٹریٹس سیٹلمنٹ میں مبلغ بھجوائے گئے ہیں ، جاپان میں ایک مبلغ بھیجوایا گیا ہے ، چین میں بھجوایا گیا ہے بلکہ چین میں تھوڑے دن ہوئے ایک اور مبلغ بھی روانہ کیا گیا ہے.اسی طرح پانچ سات اور مبلغ غیر ممالک میں جانے والے ہیں پھر بھی ان مبلغین سے سلسلہ کا پیغام کہاں دنیا کے کناروں تک پہنچ سکتا ہے سینکڑوں ممالک ابھی باقی ہیں جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے پس ہمارا کم سے کم فرض یہ ہے کہ ہم ہر ملک میں احمد یہ جماعت ایسے وقت میں

Page 697

خطبات محمود ۶۹۲ سال ۱۹۳۵ء قائم کر دیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زندہ ہیں.تا وہ یہ کہ سکیں کہ گو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں دیکھا مگر ان کے دیکھنے والوں کو تو دیکھ لیا.ایک سو جا کھے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آنکھیں کتنی قیمتی چیز ہیں.تم ایک اندھے سے پوچھو کہ آنکھوں کی کیا قدر ہوتی ہے.اسی طرح تم اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کتنی قیمتی چیز ہے.نہ تم ان لوگوں کے درد کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہو جو بعد میں آئیں گے جنہوں نے یہ زمانہ نہیں دیکھا ہو گا.اور وہ کہیں گے کاش! ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہوتا.کاش! ہم نے آپ کے دیکھنے والوں کو ہی دیکھا ہوتا.اس وقت لاکھوں نہیں کروڑوں روحیں ہیں جو پیاسی تڑپ رہی ہیں وہ آسمان کی طرف حسرت اور لجاجت سے اپنی آنکھیں اُٹھائے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ اے خدا ! ہم نے سنا ہے تیری طرف سے ایک آواز بلند ہوئی مگر وہ آواز پہنچانے والا کوئی نہیں ملا اے خدا! ہم نے سنا ہے کہ تیری طرف سے محبت کا ایک ہاتھ بڑھایا گیا.مگر اُس نے ہمارے جسموں کو ابھی تک نہیں چھوا.پس رحم کرو اُن لاکھوں اور کروڑوں تڑپتی ہوئی روحوں پر جو دنیا کے کناروں میں آباد ہیں.اور رحم کر واُن روحوں پر جو صداقت کیلئے بے قرار ہو ہو کر آسمان کی طرف اپنا منہ بلند کر رہی ہیں.تم اُٹھو اور انہیں آستانہ الوہیت پر جھکاؤ.پس تیار ہو جاؤ اس بات کے لئے کہ تمہاری قربانیاں گزشتہ سال سے کم نہ ہوں بلکہ زیادہ ہوں.میں نے تحریک جدید کے ماتحت جو سکیم بیان کی ہوئی ہے اس پر عمل کرو.مجھے یقین ہے کہ اگر اس سکیم پر صحیح طور پر عمل کیا جائے تو دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے پس اس سکیم کو یاد کر واس کے مضامین کو اپنے ذہنوں میں جماؤ اور لوگوں کو اس سے واقف و آگاہ کرو.بہت سے ان پڑھ ہوتے ہیں جنہیں اس سکیم کے مضامین سے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے پھر بہت سے غافل ہوتے ہیں انہیں جگانا اور ہوشیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے پس تم وہ سکیم ذہن نشین کرو اور اپنے محلہ والوں کے ذہن نشین کر ا ؤ ، اپنے دوستوں کے ذہن نشین کرو، ان پڑھوں کے ذہن نشین کرو، اور ذہن نشین کر ویستوں کے ، اس کے لئے میں یکم دسمبر کی تاریخ مقرر کرتا ہوں اُس دن اتوار ہے اور سرکاری ملازمین کو بھی چھٹی ہو گی.پس یکم دسمبر کو ہر جگہ کی جماعتیں تحریک جدید کے متعلق جلسے منعقد کریں اور اس میں میرے ان پرانے خطبات کے مطالب سے جو میں تحریک جدید کے متعلق دے چکا ہوں ان نئے خطبات کے مطالب کے

Page 698

خطبات محمود ۶۹۳ سال ۱۹۳۵ء ساتھ ملا کر جو اِس وقت دے رہا ہوں تمام افراد کو آگاہ کیا جائے.پس تمام جماعتوں کو چاہئے کہ وہ یکم دسمبر کو اپنی اپنی جماعتوں میں جلسے کریں اور سادہ زندگی ،خوراک ،لباس اور دوسرے امور کے متعلق جماعت سے عہد لیں گو جماعت ایک دفعہ پہلے بھی یہ عہد کر چکی ہے کہ وہ اس سکیم کو کا میاب بنائے گی.مگر ضروری ہے کہ اُس دن پھر اس عہد کی تجدید کرائی جائے اور ان سے اقرار لیا جائے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے اور سلسلہ کی خدمت ہمیشہ کرتے رہیں گے.اسی طرح میں جو چندہ کی تحریک کروں اس کے متعلق بھی یکم دسمبر تک جن دوستوں کے نام نہ پہنچیں اُن سے وعدے لئے جائیں.میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ اس خیال میں رہیں گے کہ احمدیت ایک معمولی چیز ہے اور وہ سلسلہ کے لئے مالی اور جانی قربانیاں نہیں کریں گے خدا انہیں ہلائے گا اور اس زور سے ہلائے گا کہ ان کی زیست کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی.پس ہوشیار ہو جاؤ اور بیدار ہو جاؤ اور سمجھ جاؤ کہ احمدیت میں داخل ہونا ایک فوج میں داخل ہونے کے مترادف ہے جس میں داخل ہوتے ہی یہ عہد لیا جاتا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کے راستہ میں سر کٹانا پڑے گا.جو شخص اس حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ اندھا ہے.وہ اپنی قبر آپ کھودتا ہے اور اس قابل ہے کہ دنیا سے مٹا دیا جائے یا د رکھو عام لوگ جب قتل بھی کر دیتے ہیں تو فیصلہ کرتے وقت حج اس امر کو دیکھا کرتے ہیں کہ اس نے قتل کن حالات میں کیا ؟ آیا اسے اشتعال دلایا گیا تھا یا نہیں ؟ اور کیا یہ مجنون تو نہیں ؟ پھر اگر انہیں کوئی وجہ نظر آئے تو قاتل کو معاف کر دیتے یا اس کی سزا میں کمی کر دیتے ہیں لیکن فوج میں معمولی سے معمولی مجرم کی سزا بھی قتل ہوتی ہے.سپاہی جب میدانِ جنگ سے شکست کھا کر واپس بھاگتے ہیں تو کئی حکومتیں توپ خانوں کا منہ ان کی طرف کر دیتیں اور انہیں گولیوں سے ہلاک کر دیتی ہیں.سینکڑوں سپاہیوں نے مجھ سے بیان کیا کہ کئی موقعوں پر اُن کے ملکی توپ خانوں نے اُن پر گولہ باری کی.حکومتیں عام طور پر ان باتوں کو تسلیم نہیں کیا کرتیں لیکن عملی رنگ میں ایسا ہی کیا جاتا ہے اور ان غداروں کو جو میدانِ جنگ سے پیٹھ موڑتے ہیں گولی سے ہلاک کر دیا جاتا ہے.تم بھی اس وقت ایک روحانی جنگ میں شامل ہو.تم میں سے بھی جو شخص اس میدان سے اپنی پیٹھ موڑے گا ، وہ اس سلوک کا مستحق نہیں ہو گا جو عام لوگوں سے کیا جاتا ہے بلکہ فوجی نظام کی مانند ایک ہی چیز اس کا علاج ہو گی کہ خدا کی گولی لگے اور اسے فنا کر دے.پس عہد مصتم کر لو کہ تم خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں

Page 699

خطبات محمود ۶۹۴ سال ۱۹۳۵ء اپنا نام لکھا کر ، خدا کے لئے اپنی جان ، اپنے مال ، اپنے وطن ، اپنی عزت ، اپنے رشتہ دار اور اپنی عزیز سے عزیز چیز کو قربان کرنے کیلئے تیار رہو گے.دشمن کی گولیوں سے مر جانا ہزار درجے بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک شخص خدا کی گولی سے مرے.دشمن کے ہاتھوں سے جب کسی انسان کو موت آتی ہے تو وہ اُسے ترقی کے بلند ترین مقامات پر پہنچاتی ہے لیکن جب میدان سے پیچھے قدم ہٹا لینے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے ہاتھ اُسے قتل کرتے ہیں تو یہ موت اُسے ابدی لعنت کا مستحق بنا دیتی ہے پس دشمن کے ہاتھ سے موت ایک برکت ہے جس کی جستجو تمہارے دلوں میں ہر وقت ہونی چاہئے اور خدا کے غضبناک ہاتھ سے موت ایک لعنت ہے جس سے تمہیں ہر وقت بچنا چاہئے.الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۵ء) التوبه : ۳۸ تا ۴۲ بخاری كتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد والمصالحة مع اهل الحرب وكتابة الشروط شخص مطعم بن عدی تھا.بخاری کتاب المغازى باب شهود الملائكة بدرًا بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى و يوم حنين......تذکرہ صفحہ ۵۳۸.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۵۰.ایڈیشن چہارم ک مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل حسان بن ثابت رضی مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم الله عنه

Page 700

خطبات محمود ۶۹۵ سال ۱۹۳۵ء تحریک جدید کے دوسرے سال کے لئے جماعت احمدیہ فرمائی.سے اہم مطالبات فرموده ۱۵ /نومبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ التوبہ کے رکوع ۶ کی درج ذیل آیات کی تلاوت يَا يُّهَا الَّذِينَ امْنُوْا مَالَكُمْ إِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَّ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَه بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ انْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا باَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَ او سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَ سَيَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ لَوِسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ پھر فرمایا:.

Page 701

خطبات محمود ۶۹۶ سال ۱۹۳۵ء پیشتر اس کے کہ میں آج کے خطبہ کا مضمون شروع کروں ، میں چند مختصر ہدایات اس امر کے متعلق دنیا چاہتا ہوں کہ احرار کی طرف سے مباہلہ کا بہانہ بنا کر قادیان میں کا نفرنس منعقد کرنے کی جو تجویزیں ہو رہی ہیں بلکہ جو اطلاعات ہمیں پہنچی ہیں، ان کے مطابق یہاں فساد پھیلانے کی جو تجویز میں ہو رہی ہیں ان کے بارہ میں جماعت کو بعض احتیاطوں کی ضرورت ہے.میں نے بتایا ہے کہ وہ مباہلہ کا بہانہ بنا کر یہاں کا نفرنس کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات ایسی روشن اور بین ہے کہ سوائے ایسے شخص کے جو عمداً آنکھوں کو بند کر لے اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.ہمیں متفرق مقامات سے ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں بلکہ ایک احمدی کا بیان بھی اخبار میں شائع ہوا ہے جس نے مولوی عطا اللہ صاحب اور دوسرے احراری لیڈروں کے ساتھ ریل میں سفر کیا اُن کو اس کے احمدی ہونے کا علم نہ تھا.اُس نے سوال کیا کہ کیا مباہلہ کی شرائط طے ہو گئی ہیں؟ تو اسے جواب دیا گیا کہ بے شرائط ہی مباہلہ ہو گا.پھر اس نے پوچھا کیا وقت مقرر ہو گیا ہے؟ تو مولوی صاحب نے کہا کہ بے وقت ہی ہوگا اور سارا دن ہوگا.اسی طرح ہوشیار پور میں ایک عرس ہوتا ہے جس پر بڑا اجتماع ہوتا ہے.اس موقع پر بھی ان کے بعض لیڈر وہاں گئے تھے انہوں نے وہاں جو تقریریں کیں ان میں بھی یہی بات کہی گئی کہ بے شرائط مباہلہ ہوگا.بلکہ کسی کے دریافت کرنے پر کہ کیا شرائط طے ہو گئی ہیں ؟ اُسے جواب دیا گیا کہ شرائط کی ضرورت ہی کیا ہے آخر ہم نے وہاں جلسہ بھی کرنا تھا یا نہیں.تو ان لوگوں کے یہاں آنے کی غرض کانفرنس کرنا اور فساد پھیلانا ہی ہے ورنہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اتنا یقین ہوتا کہ سمجھتے ہم بچے ہیں اور مباہلہ کر سکتے ہیں تو جس طرح میں نے قسم کھا کر مباہلہ کر ہی دیا ہے یہ لوگ بھی اسی طرح کیوں نہ کر دیتے.وہ اخباروں میں اعلان کر رہے ہیں کہ احمدی مباہلہ سے ڈر گئے حالانکہ میں نے پہلے ہی قسم کھا لی تھی اور کیا ڈرنے والا پہلے ہی قسم کھا لیا کرتا ہے؟ جو الزام وہ لگاتے تھے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کے مطابق الفاظ میں میں نے قسم شائع کر دی ہے تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مباہلہ سے ڈر گئے ہیں.اسی طرح اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذلک رسول کریم ﷺ سے افضل سمجھتے تھے بلکہ آپ پر ایمان نہ رکھتے تھے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت آپ کے دل میں نہ تھی اور آپ چاہتے تھے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نَعُوذُ بِاللهِ مِنُ ذلک اینٹ سے اینٹ بج جائے اور یہ کہ جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے تو کیوں احرار کے

Page 702

خطبات محمود ۶۹۷ سال ۱۹۳۵ء لیڈروں نے میرے الفاظ کے مترادف میں بالمقابل قسم شائع نہیں کر دی.اگر وہ بھی قسم کھا لیتے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ بھی مباہلہ کے لئے تیار ہیں یا پھر میری پیش کردہ شرائط ہی شائع کر دیتے اور لکھ دیتے کہ ہمیں یہ منظور ہیں جب میں نے ان کی اس چالا کی کی وضاحت کی اور بتایا کہ میری طرف سے کیا شرائط تھیں تو ان کی طرف سے کہا گیا کہ یہ نئی شرائط ہیں جس سے معلوم ہوا کہ شرائط کے متعلق ابھی جھگڑے کا امکان تھا اگر کوئی امکان نہ تھا تو اب وہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نئی شرائط ہیں.جب مجھ پر چھوڑ دیا تھا تو چاہئے تھا کہ جو میں کہتا اسے مان لیتے.اور اگر ابھی ان کے لئے بولنا باقی تھا تو معلوم ہوا کہ ابھی شرائط طے نہیں ہوئی تھیں.پس اول تو انہیں قادیان میں آنا نہیں چاہئے تھا اگر نیت مباہلہ کی ہوتی تو جیسا کہ میں نے کہا تھا وہ لاہور یا گورداسپور میں کرتے.ان کی غرض لڑائی اور فساد کرنا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح ان کا کام بن جائے لیکن دین کے لئے جو لڑائی ہو اس سے مؤمن کبھی نہیں ڈرتا.اگر فساد ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ کوئی مر جائے گا یا کسی اور رنگ میں نقصان پہنچ جائے گا لیکن کیا مؤمن بھی کبھی موت سے ڈرسکتا ہے ؟ مؤمن کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو فساد اور لڑائی سے بچے.لیکن اگر خدا کی مشیت ایسا موقع لے ہی آئے تو مؤمن کبھی ڈرا نہیں کرتا.خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ دشمن کو نہ بلاؤ.اس لئے وہ کوشش کرتا ہے کہ اُسے دُور رکھے.لیکن اگر لڑائی ہو ہی جائے اور کوئی آدمی مر ہی جائے تو یہ ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہوگا.رسول کریم ﷺ اور صحابہ کی ہمیشہ نیت ہوتی تھی کہ لڑائی نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ڈرتے تھے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَانَّهُمْ يُسَاقُوْنَ إِلَى الْمَوْتِ یعنی لڑائی کے لئے جانا انہیں موت معلوم ہوتا تھا گویا انہیں لڑائی اتنی بری لگتی تھی کہ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ لڑائی ہو.مگر جب لڑائی ہوتی تو وہی صحابہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ان کی حالت بالکل بدل جاتی تھی.بدر کے موقع پر جب کفار اور مسلمان آمنے سامنے ہوئے تو مکہ والوں نے ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر اندازہ لگاؤ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ گیا اور آ کر کہا کہ مسلمانوں کی تعداد سوا تین سو ہے اور سامان بھی کچھ نہیں.اس کا یہ اندازہ صحیح تھا کیونکہ مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے مگر اُس نے کہا کہ باوجود اس کے میں تمہیں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ لڑائی مت کرو کیونکہ بے شک ان کی تعداد کم ہے

Page 703

خطبات محمود ۶۹۸ سال ۱۹۳۵ء مگر میں نے ان کے چہروں کی طرف دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گھوڑوں اور اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک یہ عزم کئے ہوئے ہے کہ یا مار دے گا یا مر جائے گا.تو ان کی طرف تو یہ حالت تھی کہ لڑائی کے لئے جانا ان کے لئے موت تھا مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجبور کیا گیا کہ جاؤ تو وہ اس موت کو بالکل حقیر سمجھنے لگ گئے بلکہ اسے ایک نعمت خیال کرنے لگ گئے.پس ہم بھی لڑائی سے احتراز کرتے ہیں.اور ہماری کوشش یہی ہے کہ لڑائی نہ ہولیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم ڈرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا امتحان کرنا نہیں چاہتے.وہ ہمارا آقا اور مالک ہے اس لئے اُس کے سامنے ادب کے مقام پر کھڑے ہیں مگر جب وہ خود ایسے حالات پیدا کر دے جو مؤمن سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں تو مؤمن سے زیادہ دلیر کوئی نہیں ہوتا.اور دنیا کے تمام مصائب اسے ایسے حقیر نظر آتے ہیں کہ وہ انہیں پر پشہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا.بہر حال اپنے نقطہ نگاہ سے احرار سمجھتے ہیں کہ یہاں آ کر فساد کر دینا ان کے لئے بڑی کامیابی ہے.اور ایسی صورت میں جماعت کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انتظام کریں.نیشنل لیگ انتظام کر بھی رہی ہے مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ چند نصائح کروں جو جماعت کے پیش نظر رہنی چاہئیں.میں نے پہلے بھی کہا ہے اور آج پھر بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار ظاہر کر چکا ہوں بعض سرکاری حکام اور احرار کا بھی منشاء یہ ہے کہ ہمیں قانون شکن بنا ئیں مگر ہمیں کبھی بھی قانون شکنی نہ کرنی چاہئے.اسلام نے ایسے طریق بتائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنے حقوق لے سکتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے گروں پر عمل کیا جائے تو قانون کے کامل احترام کے باوجود ان شرور کا جو خواہ حکومت کی طرف سے ہوں اور خواہ رعایا کی طرف سے ہم ازالہ کر سکتے ہیں اور اپنے لئے ترقی کے راستے کھول سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں قانون کے احترام کی تعلیم دی ہے.اسی پر ہمیشہ دشمن اعتراض کرتا چلا آیا ہے کہ اسی طرح آپ نے اپنی جماعت کو دائی غلامی پر رضا مند رہنے کی تعلیم دی ہے.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول بھی ہمیں یہی تعلیم دیتے رہے اور اب میں بھی ہمیشہ یہی کہتا رہتا ہوں اور دشمن اپنے اعتراض میں ترقی کر رہا ہے پس اللہ تعالیٰ نے اب ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ دشمن پر ثابت کر دیں کہ بغیر قانون شکنی کے بھی ترقی ہو سکتی ہے بلکہ حقیقی ترقی صرف اسی طرح ہو سکتی ہے.ایسے موقع کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کر دینا

Page 704

خطبات محمود ۶۹۹ سال ۱۹۳۵ء حماقت ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک موقع دیا ہے کہ ہم بتا دیں کہ قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم مکمل ہے اور اس سے انسان کی سب ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں.اور اگر ہم اس اصل کو چھوڑ دیں تو یہ ہمارا کھلا اعتراف شکست ہوگا کیونکہ ہم دنیا کو اپنے عمل سے یہ بتائیں گے کہ جب ہم پر مصیبت آئی تو ہم نے تسلیم کر لیا کہ بغیر قانون شکنی کے ہماری فتح نہیں ہو سکتی.اس موقع پر ہمیں یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ قرآن کریم نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اس کی تشریح فرمائی ہے وہی صحیح طریق عمل اور وہی کامیابی کی کلید ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری طرف سے قانون شکنی کی کوئی صورت نہ ہو.مثلاً آج کی پریڈ میں میں نے دیکھا کہ اور تو سب لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں لیکن ایک شخص کے ہاتھ میں کلہاڑی کی قسم کا کوئی ہتھیار تھا.کل ہی اخبارات میں اعلان ہوا ہے کہ کلہاڑیاں لے کر چلنا پھرنا حکومت نے خلاف قانون قرار دے دیا ہے.یوں تو کلہاڑیاں وغیرہ لوگ لکڑیاں پھاڑنے کے لئے گھروں میں رکھتے ہی ہیں لیکن بعض قسم کی کلہاڑیاں رکھنا یا ان کی نمائش کرنا قانون کے خلاف ہے.مجھے نہیں معلوم کہ یہ کلہاڑی جو اس دوست کے پاس تھی قانون کی زد میں آتی ہے یا نہیں لیکن مؤمن کو مواقع التہم سے بچنا چاہئے تا دشمن اُس کے افعال سے جماعت کو بد نام نہ کر سکے.اس کلہاڑی کے متعلق تو میں نے اُسی وقت حکم دے دیا تھا کہ فوراً اس شخص سے لے لی جائے مگر آئندہ بھی کوئی شخص ایسی غلطی کر سکتا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی فعل ایسا نہ کیا جائے جو قانون شکنی کی حد میں آتا ہو.اور قانون کے اندر رہ کر دشمن کو دکھا دیا جائے کہ قرآن کریم کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح انسان کو کامیابی سے محروم نہیں کرتی بلکہ وہی حقیقی کامیابی کی کلید ہے.دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ جب طبائع میں جوش ہو تو لوگ اخلاق کو بھول جاتے ہیں حالانکہ اخلاق دکھانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب آدمی ٹھنڈے دل کے ساتھ گھر میں بیٹھا ہو تو سوائے پاگل کے کون ہے جو دوسرے سے بدخلقی سے پیش آئے.بُرے سے بُرا آدمی بھی کبھی ایسا نہیں کرتا کہ آرام سے بیٹھا ہوا کھانا کھا رہا ہو اور باہر نکل کر محلہ والوں کو گالیاں دینے لگ جائے.پس اچھے اخلاق کی یہی علامت ہے کہ انسان اُس وقت بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھے جب اُسے اشتعال دلایا جاتا ہو.اگر احرار یہاں آئے تو اُن کی طرف سے اشتعال دلانے کی پوری کوشش کی جائے یعنی

Page 705

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اگر وہ کا نفرنس کے لئے آئے پھر اگر مباہلہ کی نیت سے آئیں تو اس کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار آدمی ہونگے اور تقریریں وغیرہ کوئی نہیں کریں گے بلکہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ میں ہر ایک فریق اپنا عقیدہ بیان کر دے گا.اور پھر دعا کر کے دونوں فریق اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے مگر جیسا کہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے وہ جلسہ کے لئے آئیں گے اور اشتعال دلانے کی کوشش کریں گے اور چونکہ میں نے بھی جماعت کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اس سال ان کی تقریروں کا جواب جلسوں وغیرہ کے ذریعہ سے لڑ پچر تقسیم کر کے دے سکتے ہیں اور میرا حکم گزشتہ سال کی طرح یہ نہیں کہ ہمارے دوست گھروں میں رہیں حتی کہ کوئی اشتہار بھی تقسیم نہ کیا جائے ، اس لئے اس دفعہ احتیاط کی اور بھی ضرورت ہے.گزشتہ سال ہم نے یہ حکم حجت تمام کرنے کے لئے دیا تھا اور حجت پوری کرنے کے لئے بعض دفعہ انسان اپنے حقوق بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ انتہائی نمونہ دکھائے بغیر دشمن کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے.پس یہ بتانے کے لئے کہ حکومت نے بھی ہمارے ساتھ سختی کی ہے اور احرار نے بھی زیادتی کی ہے ہم اپنے حقوق سے بھی دست بردار ہو گئے تھے مگر اس دفعہ یہ نہیں ہوگا بلکہ اگر کوئی احمدیت پر حملہ کرے گا تو ہمیں پورا حق ہوگا کہ خواہ تقریر سے خواہ تحریر سے جواب دیں یا افراد سے الگ الگ ملاقات کر کے دیں.ہمارے آدمی وہاں جائیں اور ان کی باتوں کو نوٹ کریں اور پھر اُن کی تردید مناسب موقع پر کریں.اور اگر ان کے لیکچرار کوئی چیلنج دیں تو اُسے قبول کریں.غرض قانون نے ہمیں جو حقوق دیئے ہیں اور شریعت نے ان کو رد نہیں کیا ہماری جماعت کو اجازت ہوگی کہ انہیں پوری طرح استعمال کرے مگر ہماری طرف سے بداخلاقی نہیں ہونی چاہئے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی نے گالی دی تو اُس کا جواب گالی میں دے دے.یا جلسہ میں ہی لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کہہ دیا جیسا کہ پچھلے دنوں ایک نوجوان نے ان کی تقریر میں ایسا کہہ دیا تھا.یہ طریق ہماری جماعت کے لئے مناسب نہیں.گو میں سمجھتا ہوں کہ احرار کو اعتراض کرنے کو کوئی حق نہیں.کیونکہ ان کے اعمال کی تاریکی انہیں دوسرے پر ایسا اعتراض کرنے کی اجازت نہیں دیتی.مگر مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے بُرے اعمال کو بھول جاتے ہیں اور ہماری معمولی باتیں انہیں یا د رہتی ہیں اور یہی ہماری فتح کی علامت ہے.دو سال ہوئے میں نے لاہور میں حضرت رسول کریم علی صلى الله کی سیرت پر تقریر کی تو ان ہی کی قماش کے لوگوں کی طرف سے آدمی بھیجے گئے کہ جلسہ میں شور کریں

Page 706

خطبات محمود 2 +1 سال ۱۹۳۵ء.اور ابھی میں نے تقریر شروع ہی کی تھی کہ ایک مولوی صاحب کہنے لگے پگڑی تو اتنی بڑی باندھی ہوئی ہے مگر باتیں کیسی کرتا ہے.حالانکہ نہ میں نے کسی پر اعتراض کیا تھا اور نہ کسی کی تردید کی تھی صرف آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کرنے لگا تھا کہ اس نے کہہ دیا پگڑی تو اتنی بڑی باندھی ہوئی ہے اور باتیں کیسی کرتا ہے.تو انہیں یہ باتیں بھول جاتی ہیں انہیں یہ یاد نہیں کہ سیالکوٹ میں جو ان کا بڑا مرکز ہے ہمارے ایک جلسہ میں ان کے بیس ہزار آدمی برابر ایک گھنٹہ دس منٹ تک ہم پر پتھر برساتے رہے جس سے ہمارے ۲۴ آ دمی زخمی ہوئے جن میں سے بعض کو شدید زخم آئے.وہاں پولیس افسر موجود تھے مگر وہ بھی انہیں روکتے نہیں تھے بلکہ ان میں سے ایک ان کو انگیخت کر رہا تھا کہ روشنی میں پتھر نہ مارو، اس طرح ہم پر الزام آتا ہے ، اُس درخت کے پیچھے چھپ کر مار و.آخر سپرنٹنڈنٹ پولیس جو ایک انگریز تھے ، وہاں پہنچے مگر وہ بھی ایک عرصہ تک انتظام نہ کر سکے پھر ڈپٹی کمشنر صاحب آئے یہ سب ان کو روکتے رہے.مگر وہ برا بر پتھر مارتے گئے.حتی کہ ہمارے ۲۴ آدمی زخمی ہو گئے اور ان میں سے ایک کا ہاتھ اب تک بریکا رہے مگر میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا کہ ان کی طرف مخاطب نہ ہوں.ماریں کھائیں مگر بولیں نہیں اور ہمارے آدمی اسی طرح چپ بیٹھے رہے جس طرح آپ لوگ اس وقت بیٹھے ہیں.جو زخمی ہوتا وہ اُٹھ کر چلا جاتا یا دوسرے اُٹھا کر اُسے لے جاتے مگر اپنی جگہ سے کوئی نہ ہلتا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شدید مخالف جو کئی بار اس سے پہلے ہمیں گالیاں دے چکا تھا آدھی رات کے وقت ہماری قیام گاہ پر آیا اور اُس نے کہا کہ جنگ احد کی باتیں ہم سنا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کہانی ہے مگر آج اُحد کا نظارہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.جس وقت یہ لوگ پتھر مار رہے تھے کئی غیر احمدی رؤساء میرے پاس آئے کہ خطرہ بڑھ رہا ہے ، آپ سٹیج پر نہ ٹھہریں مگر میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم نہیں ملیں گے جب تک تقریر نہ کر لیں.باوجود یکہ میرے چاروں طرف دوست اخلاص سے کھڑے تھے مگر پھر بھی میز پر ایک پتھروں کا ڈھیر لگ گیا.اور دوسرے دن کئی من پتھر وہاں سے دوستوں نے جمع کئے اور گوچاروں طرف سے دوست احاطہ کئے کھڑے تھے پھر بھی تین پتھر مجھے آ کر لگے تو یہ شرمناک نظارہ ، یہ بے حیائی اور بے غیرتی کا نظارہ انہیں بھول جاتا ہے لیکن ہمارے ایک بیوقوف نوجوان کی بات یاد رہتی ہے مگر ان کا حق ہے کہ ایسا کریں.اس لئے کہ وہ ایسی قوم ہے جس نے خدا تعالیٰ کے نور کو نہیں دیکھا اور تم نے اس کی تازہ آواز کو سنا ہے اور جب وہ تم پر اعتراض کرتے

Page 707

خطبات محمود ۷۰۲ سال ۱۹۳۵ء ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تو جو کچھ ہیں، ہیں ہی تم کیوں ایسا کرتے ہو.پس ہمارے لئے شرم کا مقام ہے اگر ہم دشمن کو ایسا موقع دیں جو ہماری سچائی پر حرف لانے والا ہو.اس لئے قانون اور شریعت کے دیئے ہوئے حقوق کا استعمال کرو مگر اخلاق کو نہ چھوڑ و کیونکہ شدید اشتعال کے وقت ہی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھانے کا موقع ہوتا ہے.الله تیسری بات یہ ہے کہ اگر دشمن فساد کر دے تو یا د رکھو کہ مؤمن کی قربانی کا مقابلہ اور کوئی شخص نہیں کر سکتا.رسول کریم ﷺ اور صحابہ کو بیسیوں جنگیں کرنی پڑیں بلکہ سینکڑوں جنگیں پیش آئیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک مسلمانوں نے اُس وقت کی معلوم دنیا قریب قریب ساری فتح کر لی تھی اور اس کے لئے انہیں سینکڑوں لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر مسلمانوں کو حقیقی شکست کبھی نہیں ہوئی.بعض اوقات شکست نما صورتیں پیدا ہوئیں مگر حقیقی شکست کبھی نہیں ہوئی.مثلاً رسول کریم ﷺ کی زندگی میں دو واقعات ایسے ہیں ایک اُحد کا اور ایک حنین کا جب بظاہر مسلمان میدان سے ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ مسلمان میدان سے ہٹ کر بھاگ گئے ہوں.الا مَا شَاءَ اللہ سوائے ایک دو کمزور طبیعت لوگوں کے یا ان لوگوں کے جو پیچھے لوگوں کو حالات کی خبر دینا چاہتے تھے.اُحد کا مقام مدینہ سے نزدیک تھا مگر اُحد کے موقع پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ صرف چند آدمی مدینہ میں پہنچے.مگر ممکن ہے وہ سب کے سب خبر دینے ہی گئے ہوں ورنہ جب کبھی مسلمانوں کے قدم اکھڑے وہ میدان میں ہی اِدھر اُدھر رہے ، بھاگے نہیں.حنین کے موقع پر بھی صحابہ کے قدم اکھڑے ہیں تو ارادہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس جنگ میں دو ہزار کے قریب کا فر بھی شریک ہو گئے تھے اور جب وہ بھاگے تو ان سے ڈر کر صحابہ کے گھوڑے بھی بھاگ پڑے.ایک صحابی کا بیان ہے کہ ہم سواریوں کی باگیں انہیں روکنے کے لئے اس قدر زور سے کھینچتے تھے کہ ان کے منہ کمر سے آ لگتے تھے مگر جب باگیں ڈھیلی کرتے تو وہ بھاگ اٹھتے یہ صحابہ کا دوڑ نا نہیں کیونکہ سپاہی کا دوڑ نا اُسے کہتے ہیں کہ میدان سے گھوڑا بھاگے تو وہ اسے تیز کرنے کے لئے اور مارے.مگر صحابہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ بعض تو سواریوں سے اتر کر پیدل ہی واپس کوٹ پڑے.اس لئے یہ شکست نہیں کہلا سکتی مگر جو کچھ بھی ہو صرف یہ دو واقعات ہیں جنہیں شکست کے مشابہہ کہا جا سکتا ہے.مگر دونوں مواقع پر رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھ کچھ اور صحابہ کھڑے رہے اور باقی صحابہ بھی میدان سے ہٹ کر چلے نہیں گئے.پس یہ کبھی نہیں ہوا کہ مسلمان

Page 708

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء چلے گئے ہوں اور دشمن میدان میں کھڑا رہا ہو بلکہ دونوں مواقع پر دشمن میدان چھوڑ گیا اور مسلمان کھڑے رہے حتی کہ حنین کے موقع پر مسلمانوں نے ایک سارے کا سارا قبیلہ گرفتار کر لیا یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحابہ کو کبھی بھی شکست نہیں ہوئی تھی.پس مؤمن اول تو لڑتا نہیں اور اگر لڑائی کے لئے مجبور کیا جائے تو میدان سے کبھی نہیں ہوتا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن صرف دوصورتوں میں پیچھے ہتا ہے.ایک تو حملہ کرنے کے بعد بڑے لشکر سے ملنے کے لئے اور دوسرے زیادہ مفید صورت میں حملہ کرنے کے لئے.مثلاً لکیر کاٹ کر دشمن پر حملہ کرنے کے لئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سوائے ان دو صورتوں کے مؤمن میدان سے پیچھے نہیں ہوتا.پس اگر فرض کر لیں کہ گورنمنٹ اپنا فرض ادا نہیں کرتی اور فرض کر لیں کہ احرار آتے اور فساد کرتے ہیں تو ایسی صورت میں یاد رکھو کہ مؤمن کی موت اُس کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے.لوگ کہتے ہیں احمدی ۵۶ ہزار ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چھپن ہزار اپنی جانیں قربان کر دیں تو ۵۶ ہزار زندوں سے یہ ۵۶ ہزارمر دے بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں.بچپن میں ہم کہانیاں پڑھا کرتے تھے کہ بعض دیوایسے ہوتے تھے کہ جب اُن کو مارا جاتا تو ان کے خون کے ہر قطرے سے جو زمین پر گرتا کئی اور دیو پیدا ہو جاتے تھے وہ تو کہانیاں تھیں مگر مؤمنوں کے متعلق یہ بات بالکل درست ہے کہ جب مؤمن کے خون کا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو وہ ہزاروں مؤمن پیدا کر دیتا ہے.پس موت کی صورت میں تمہاری قیمت زندگی سے بہت زیادہ ہے.جان دینے میں مؤمن کو صرف ایک ہی شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر مر گئے تو اعمالِ صالحہ سے محروم رہ جائیں گے.مثلاً ایک شخص کی عمر چالیس سال ہے اگر ساٹھ سال وہ اور زندہ رہتا ہے تو اس عرصہ میں وہ اور بہت سی نیکیاں کر سکتا تھا پس موت کے راستہ میں صرف یہی ایک نیکی کا خیال اُس کے لئے روک بن سکتا ہے ور نہ اگر وہ صحیح طور پر آخرت کو مقدم کرتا ہے تو کوئی دنیوی خیال اُس کے راستہ میں روک بن ہی نہیں سکتا.یہی ایک خیال کہ اتنی مدت کی نمازوں ، روزوں ، جہاد اور تبلیغ سے محروم رہ جاؤں گا.اس شبہ کی معقولیت کو اللہ تعالیٰ نے بھی تسلیم کیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے چنانچہ فرمایا لَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ یعنی شہید کے اعمال کبھی ختم نہیں ہو سکتے.وہ ہمیشہ زندہ ہے اور اس کے اعمال ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں اس نے خدا کے لئے جان قربان کر دی اور خدا نے نہ چاہا کہ اس کے اعمال ختم ہو جائیں.کوئی دن نہیں گزرتا کہ تم نمازیں پڑھو اور ان کا ثواب تمہارے

Page 709

خطبات محمود ۷۰۴ سال ۱۹۳۵ء نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے.کوئی رمضان نہیں گزرتا کہ تم اس کے روزے رکھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے.کوئی حج نہیں کہ تم تکلیف اُٹھا کر اس کا ثواب حاصل کرو اور شہید اس ثواب سے محروم رہے.قرآن کریم نے فرما دیا ہے کہ ان کو مُردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور وہی برکتیں حاصل کر رہے ہیں جو تم کرتے ہو.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ صلى الله نے ایک شہید صحابی کے لڑکے کو دیکھا کہ افسردہ تھا.آپ نے اُسے پاس بلایا اور پوچھا تمہیں پتہ ہے تمہارے باپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا ؟ اُس نے کہا میں نہیں جانتا اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا اُس نے اپنے رسول کو بتایا ہو گا.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو بلایا اور فرمایا کہ تم نے میری راہ میں قربانی کی اور جان دے دی اب مانگو کیا مانگتے ہو اور طلب کرو جو تمہاری خواہش ہے میں دوں گا.تو اُس نے جواب دیا کہ اے خدا! میری ایک ہی خواہش ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے اور میں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں.پھر زندہ کر دے اور پھر میں تیری راہ میں مارا جاؤں اور یہی چیز تھی جسے مکہ کے کافروں نے صحابہ کے چہروں سے پڑھا اور کہا کہ مسلمانوں کے گھوڑوں اور اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار ہیں.پس تم ہر ایک فتنہ سے احتراز کرو لیکن اگر کوئی حملہ کرے تو یہ آواز کوئی نہ سنے کہ تم وہاں سے بھاگ گئے.میرا ارادہ تھا کہ تحریک جدید کے بعض حصے ابتدائی تمہیدات کے بعد چند خطبوں میں بیان کرونگا مگر چونکہ اگلے جمعہ کو ممکن ہے کہ خطبہ موجودہ حالات کے لحاظ سے مجھے اور اغراض کے لئے استعمال کرنا پڑے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس تحریک کا آج ہی اعلان کر دوں.میں نے گزشتہ سال بتایا تھا کہ یہ سکیم تین سال کے لئے ہے مگر ہر سال میں اسے دُہرایا کروں گا تا دوستوں کو اپنے عہد کو تازہ کرنے کا موقع ملتا رہے.اور تا اگر کسی بات میں تبدیلی یا ترمیم کرنی ہو تو کی جا سکے.میں نے بتایا تھا کہ قربانی اچھی چیز ہے اور ہر مؤمن کی خواہش ہوتی ہے کہ قربانی کرے مگر جس قربانی کے لئے وہ سامان پیدا نہیں کرتا اُس کی خواہش کرنا ایمان کی علامت نہیں بلکہ نفاق کی علامت ہے.جس شخص کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں وہ اگر کہے کہ میرے پاس دس کروڑ روپیہ ہو تو میں خدا کی راہ میں دے دوں.تو اُس کی اس خواہش کی کیا قیمت ہے.ایسے کئی لوگوں کو جب مال مل جاتا ہے تو پھر وہ قربانی نہیں کرتے.

Page 710

خطبات محمود ۷۰۵ سال ۱۹۳۵ء رسول کریم اللہ کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ زکوۃ دیتے ہیں، صدقہ خیرات کرتے ہیں، غرباء کو کھانا کھلاتے ہیں ، نگوں کو کپڑے دیتے ہیں تو میرے دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش! میں بھی کروں.آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بہت سا مال دے اس کے لئے ابتلاء مقدر ہو گا.آپ نے دعا کی اور وہ اتنا مال دار ہو گیا کہ صحابہ کا بیان ہے کہ اُس کے مال سے ایک وادی بھر جاتی تھی.رسول کریم اللہ کی طرف سے ایک شخص اُس کے پاس زکوۃ لینے کے لئے گیا تو اُس نے کہا کہ بیوی بچوں کے اخراجات پورے کریں ، مال مویشی کے چارہ اور اُن کی دیکھ بھال کے لئے نوکروں پر خرچ کریں یا ز کوۃ دیں.محنت ہم کرتے ہیں اور زکوۃ دوسروں کو دیں.اس شخص نے آکر رسول کریم ﷺ کو اس کا جواب سنا دیا.آپ کا قاعدہ تھا کہ ایسے لوگوں کو سزا دیتے تھے جو ز کوۃ نہ دیں لیکن اس کے متعلق آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسے یہ سزا دی که فر ما یا آئندہ اس سے کبھی زکوۃ نہ لی جائے.کیونکہ آپ اسے نشان کے طور پر قائم رکھنا چاہتے تھے.کچھ عرصہ کے بعد اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ مویشیوں کا ایک بڑا گلہ زکوۃ کے طور پر لے آیا جو اس قدر تھا کہ صحابہ کا بیان ہے جہاں تک نظر جاتی تھی مویشی ہی مویشی نظر آتے تھے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم سے زکوۃ نہیں لی جائے گی اور وہ روتا ہوا واپس چلا گیا اسی طرح وہ ہر سال آ تا رسول کریم ہے اس کی زکوۃ قبول نہ کرتے اور وہ روتا ہوا چلا جاتا حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اُس نے آ کر کہا کہ اب تو میری توبہ قبول کر لی جائے.مگر آپ نے فرمایا کہ لے جاؤ جسے رسول کریم ﷺ نے قبول نہیں کیا اُسے میں کیسے قبول کر سکتا ہوں.اس کا دستور تھا کہ ہر سال اسی طرح زکوۃ کا مال لاتا اور پھر روتا ہو اواپس چلا جاتا.تو کئی لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو یوں کرتے ، یوں کرتے لیکن اُن کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی بڑھا آدمی جو چار پائی پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہو، کہے کہ اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو یوں جہاد کرتا.اگر ایک کنگال کہے کہ میرے پاس مال ہوتا تو میں یوں قربانی کرتا.تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ضرور ایسا کرتا.اس کی سچائی اسی طرح معلوم ہو سکتی ہے کہ جو اُس کے پاس ہے وہ پیش کرے یا جو قربانی اُس کے لئے ممکن ہے اُس کے لئے سامان مہیا کرے.قادیان کے ایک شخص کا واقعہ مجھے یاد ہے اس سے جب کسی نے کہا کہ چندہ دیا کرو تو اُس نے کہا کہ قرآن کریم کا حکم قُلِ الْعَفْوَ ہے یعنی جو

Page 711

خطبات محمود 2.4 سال ۱۹۳۵ء بچے وہ دو.اور ہم بچاتے ہی نہیں تو دیں کہاں سے.واقعی لطیفہ تو اسے خوب سوجھا قرآن کریم میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ عفو میں سے خرچ کرو.اور عفو کے معنے زائد مال کے بھی ہیں.لیکن اس کے معنے بہترین مال کے بھی ہیں اگر بچے کی شرط کو پیش کر کے سب لوگ کھائیں ، اُڑائیں اور کہہ دیں کہ بچتا کچھ نہیں.تو یہ اس امر کی علامت ہوگی کہ ان کے اندر ایمان نہیں خالی دعوؤں کو کیا کرنا ہے جب حقیقت کچھ نہ ہو.پس اگر واقعی تمہارے اندر سچی خواہش ہے تو ایسا ماحول پیدا کرو جس میں قربانی ممکن ہو.ورنہ خالی دعوی بے فائدہ شے ہے دعوی کرنا تو مشکل نہیں بلکہ منافق زیادہ دعوے کیا کرتے میں نے ایک دفعہ جلسہ میں تقریر کی اور اس میں کہا کہ ہماری جماعت میں مال تو ہے مگر دیانت دار تا جر نہیں ملتے.شروع شروع میں میرے پاس بہت سے ایسے لوگ آتے تھے کہ ہمارے پاس روپیہ ہے وہ کسی کام میں لگوادیں.اب بھی آتے ہیں مگر اب چونکہ لوگوں کو پتہ لگ گیا ہے کہ میں ایسے روپیہ کورڈ کر دیتا ہوں اور اس کی ذمہ داری نہیں لیتا ، اس لئے کم آتے ہیں.تو میں نے بیان کیا کہ میرے پاس لوگ روپیہ لاتے ہیں اگر دیانت دار تا جر مل سکیں تو ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور روپیہ والوں کو بھی.اس تقریر کے بعد پانچ سات رفعے میرے پاس آئے کہ آپ کا سوال تو یہی تھا نا کہ دیانتدار آدمی نہیں ملتے.سو وہ وقت دور ہو گئی اور ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، آپ ہمیں روپیہ دلوائیں ہم دیانت داری سے کام کرنے والے ہیں.یہ لوگ سب کے سب ایسے تھے جن کے پاس پھوٹی کوڑی کا امانت رکھنا بھی میں جائز نہ سمجھتا تھا اور بعد میں بعض ان میں سے خیانت میں پکڑے بھی گئے تو صرف منہ کا دعویٰ کچھ نہیں بلکہ عمل سے اس کی تائید ہونی چاہئے.جو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جو قربانی کی خواہش رکھتا ہے وہ اس کے مطابق ماحول بھی پیدا کرے.ایک شخص آتا اور کہتا ہے کہ میں خدا کے لئے اپنا سارا وقت قربان کرتا ہوں مگر ساتھ ہی یہ کہ دیتا ہے کہ میں چھ گھنٹہ کی ڈیوٹی دیتا ہوں.آٹھ گھنٹہ سوتا ہوں ، دو گھنٹے نمازوں میں صرف کرتا ہوں ، دو گھنٹے پاخانہ پیشاب میں گزر جاتے ہیں، دو گھنٹے سیر ، دو گھنٹے احباب سے بات چیت میں گزارتا ہوں اور باقی دو گھنٹے گھر میں زائد کام کرتا ہوں.تو اس طرح ۲۴ گھنٹہ کا حساب دے دینے کے بعد میں اُس کے لئے ۲۵ گھنٹے کس طرح بنا سکتا ہوں اور اس سے کیا کام لے سکتا ہوں.اُس کے اس دعویٰ کا یہ مطلب ہے کہ یا تو وہ خود بیوقوف ہے یا مجھے

Page 712

خطبات محمود 2.2 سال ۱۹۳۵ء بیوقوف سمجھتا ہے اسے چاہئے کہ پہلے دو چار گھنٹے بچائے اور پھر یہ نہ کہے کہ میں سارا وقت پیش کرتا ہوں بلکہ کہے کہ تین گھنٹے میں پیش کر سکتا ہوں.دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ جب تم دعوی کرتے ہو تو اس کے پورا کرنے کے سامان بھی مہیا کرو ورنہ تم تمسخر کرتے ہو خدا سے، اور تمسخر کرتے ہواُس کے رسول سے ، اور تمسخر کرتے ہو اُس کے خلیفہ سے اسی طرح ایک شخص کہتا ہے میں اپنی جان دین کے لئے پیش کرتا ہوں اور حقیقتا وہ اپنی جان کسی اور کے پاس بیچ چکا ہوا ہے تو میں اُس کے اس دعوی کو کیا کر سکتا ہوں.پس میں نے بتایا تھا کہ اگر واقعہ میں تمہارے اندر آگ ہے ، عشق ہے ، زندگی ہے اور قربانی کی خواہش ہے تو اس کے لئے ماحول پیدا کرو پھر تم مؤمن بن سکو گے اور پھر خدا کے گھر میں تمہاری عزت ہوگی.اگر ایسا نہیں تو تم خدا کو دینے نہیں آئے بلکہ اُس سے لینے آئے ہو.دوسری بات یہ کہی تھی کہ گنجائش کے علاوہ قربانی کی عادت بھی چاہئے.ہمارے ملک میں ملانوں کی قوم لالچی مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی ملا کسی خشک کنویں میں گر گیا جو بہت گہرا نہیں تھا.لوگ اسے نکالنے کے لئے جمع تھے اور کہتے تھے کہ مُلا جی! ہاتھ دو مگر وہ چپ چاپ کھڑا تھا.کوئی مسافر گزر رہا تھا اُس نے کہا کہ آپ لوگ ملانوں کا مزاج نہیں سمجھتے دیکھو! میں ملا کو نکالے دیتا ہوں.یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور اپنا ہاتھ لٹکا کر کہا کہ ملا جی ! ذرا ہاتھ تو لینا اُس کا یہ کہنا تھا کہ ملا نے اُچک کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا.یوں تو یہ لطیفہ ہے مگر اس میں صداقت ضرور ہے یعنی جسے کسی کام کی عادت نہ ہو وہ اُسے کر نہیں سکتا عیسائیوں نے اس سے بہتر انتظام کر رکھا ہے.وہ صدقہ خیرات پادریوں کے سپرد کر دیتے ہیں اس لئے ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.پس اول تو قربانی کے لئے سامان جمع کرو اور پھر اس کی عادت ڈالو اگر سامان نہیں ہیں تو کہاں سے دو گے.جب مال بچاتے نہیں.جان کسی کے سپرد ہے وقت سب تقسیم شدہ ہے تو خدا کو کیا دو گے.بے شک ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب سب کام کاج چھوڑ دینے کا حکم ہوتا ہے ایسے موقع پر مخلص تو ضرور گھر بار سب کچھ چھوڑ کر آ جائیں گے مگر اس سے پہلے پہلے جو قربانیاں ہیں جو لوگ انہیں بھی نہیں کر سکتے وہ یہ انتہائی قربانی کس طرح کر سکتے ہیں.ابھی تو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی آمد کا ایک حصہ پیش کر دو لیکن جو شخص یہ بھی نہیں کرتا وہ موقع آنے پر نوکری سے استعفیٰ دے کر کس طرح آجائے گا.پس گزشتہ سال جو میں نے کہا تھا کہ قربانی کے لئے

Page 713

خطبات محمود ۷۰۸ سال ۱۹۳۵ء ماحول کی ضرورت ہے ، وہ آج بھی ویسی ہے.ہمارے خلاف لوگوں میں اس قدر اشتعال بھر دیا گیا ہے کہ تبلیغ کا کام بہت مشکل ہو گیا ہے.بے شک اس سال بیعت گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ ہے مگر اس سال تبلیغ بھی تو گزشتہ سالوں سے بہت زیادہ ہوئی ہے.اور جب محنت زیادہ اور نتیجہ کم ہو تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم نے کچھ کھویا ہے پایا نہیں.پچھلے سال اگر کوئی چیز پانچ روپیہ سیر تھی اور تم پانچ روپے دے کر ایک سیر لے آئے.اور اس سال وہ آٹھ روپیہ سیر ہو اور تم دس روپیہ دے کر سوا سیر لے آئے تو زیادہ خریدنے کی وجہ سے یہ نہیں کہیں گے کہ تم زیادہ مالدار ہو گئے ہو.جو چیز تم گھر میں لائے گو وہ زیادہ تھی مگر جور قتم تم نے اس سال دی وہ نسبتا بہت ہی زیادہ تھی.پس دیکھنا یہ ہے کہ تم نے خرچ کیا کیا اور نتیجہ کیا نکلا.مجھے یقینی طور پر تو علم نہیں مگر مجھ پر یہ اثر ہے کہ بیعت اس سال زیادہ ہے مگر اس کے مقابلہ میں اس سال ہم نے تبلیغ پر جو زور دیا ہے وہ بھی پہلے سالوں سے بہت زیادہ ہے.پہلے سالوں میں اگر ۳۰، ۴۰ مبلغ کام کرتے تھے تو اس سال چھ سات سو مبلغین نے کام کیا ہے.اس لئے اگر بیعت سوائی یا ڈیوڑھی بھی ہو گئی ہو تو یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات بڑھ گئی ہیں اور قربانی کی زیادہ ضرورت ہے.دشمن کا حملہ بھی زیادہ ہے گو احرار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکست ہوئی ہے مگر ہمارے مخالف صرف احرار ہی نہیں.جو لوگ ان کے مخالف ہیں وہ بھی ہماری مخالفت میں ان سے کم نہیں.بلکہ آجکل تو مخلص مسلمان کی علامت ہی یہ ہوگئی ہے کہ ہم کو زیادہ گالیاں دے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ احرار کو ذلیل کرنے کے لئے جو پچاسوں واعظ پھر رہے ہیں وہ بھی ان کی مخالفت کرنے سے پہلے ہم کو گالیاں دے لیتے ہیں تا ان پر احمدی یا احمدی نواز ہونے کا الزام نہ آ سکے.اور اس طرح ہماری مخالفت جو پہلے محدود تھی اب زیادہ پھیل گئی ہے حتی کہ اب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے جو انتخاب ہوئے ہیں ان میں بھی احمدیت یا احمدیوں کی حمایت کا سوال اُٹھایا جاتا رہا ہے.اور لوگوں نے اپنے مخالف کو شکست دینے کا ذریعہ ہی یہ سمجھا ہوا تھا کہ اسے احمدی یا احمدی نواز قرار دیا جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے بیسیوں لوگوں نے مولویوں اور پیروں کو رتمیں دے دے کر احمدیت کی مخالفت کرائی.اس جد و جہد سے ہمارا نام تو بے شک پھیلا مگر ہمارے خلاف بغض بھی بڑھ گیا.اور اس صورتِ حالات کا مقابلہ کرنا ہمارا فرض ہے ورنہ ایک دو سال میں ہمارے خلاف ایسی دیوار بن جائے گی جسے تو ڑنا بہت مشکل ہو گا.تم جس دل کو دلائل سے فتح کرنے کے لئے

Page 714

خطبات محمود 2.9 سال ۱۹۳۵ء جاؤ گے، اُسے لوہے کی ایسی چار دیواری میں بند پاؤ گے کہ تمہارے دلائل اُس سے ٹکر اٹکرا کر اُسی طرح ضائع ہو جائیں گے جس طرح کوئی مضبوط شخص چٹان کے ساتھ اپنا سر ٹکر اٹکرا کر پھوڑ لیتا ہے پس تم بھی اپنے ماحول کو وسیع کرو.ہوشیار جرنیل لڑائی میں اپنی صفوں کو لمبا کرتے ہیں تا دشمن کے پہلوؤں پر سے گزر کر عقب میں سے اس پر حملہ کر سکیں.ان کے دشمن بھی اگر ہوشیار ہوتے ہیں تو وہ بھی اپنے بازوؤں کو پھیلاتے جاتے ہیں تا کہ حملہ آور اپنے اس ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکے.پس جب ہمارا دشمن اپنی صفوں کو پھیلا رہا ہے تا کہ ہمارے لئے واپسی کا راستہ بھی باقی نہ چھوڑے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنی صفوں کو وسیع کریں.اس لئے اس سال پچھلے سال سے قربانی کی ضرورت زیادہ ہے اور میں دوبارہ اعلان کرتا ہوں کہ اس سال بھی سادگی اور کفایت کا اصول مد نظر رکھا جائے.میں نے ممانعت کی تھی کہ کوئی احمدی سنیما تھیٹر اور سرکس وغیرہ نہ دیکھے سوائے اِس کے کہ کسی کو اپنی ڈیوٹی کے طور پر یا سرکاری حیثیت سے وہاں جانا پڑے.مثلاً بعض لوگ در باروں وغیرہ میں شامل ہوتے ہیں اور پروگرام کی تقاریب دیکھنی پڑتی ہیں یا سنیما میں کوئی احمدی ملازم ہو اور اللہ تعالیٰ نے اُس کی روزی اسی میں رکھی ہو تو اُسے مشین وغیرہ دیکھنے کے لئے جانا ہو گا مگر وہ بھی تماشہ دیکھنے کے لئے نہ جائے.یہ امر اختیاری نہیں رکھا گیا بلکہ لازمی تھا.اور میں نے کہا تھا کہ تین سال تک ہر احمدی اس سے احتراز کرے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین سال کے بعد میں اجازت دے دوں گا بلکہ میں نے کہا تھا کہ اس کے بعد علماء سے مشورہ کر کے فتوئی شائع کیا جائے گا.اس وقت نظامی لحاظ سے میں تین سال کے لئے ممانعت کرتا ہوں.دوسری نصیحت یہ ہے کہ میں نے گزشتہ سال بتایا تھا کہ مال کے خرچ ہونے کی بڑی بڑی آٹھ جگہیں ہوتی ہیں.ایک کھیل تماشہ، دوسرے غذا ، تیسرے لباس، چوتھے زیور ، پانچویں علاج وغیرہ ، چھٹے آرائش ، ساتویں تعلیمی اخراجات اور آٹھویں شادی بیاہ وغیرہ.یہ آٹھ مواقع ہیں جن پر بیشتر حصہ روپیہ کا خرچ ہوتا ہے جب تک ان آٹھوں میں حد بندی نہ کی جائے ،اُس وقت تک خدا کے لئے قربانی کی آواز پر لبیک نہیں کہا سکتا.پس سنیما اور تھیٹر ، سرکس وغیرہ کی پھر ممانعت کرتا ہوں.اس کے بعد سادہ غذا ہے.یہ میں نے اختیاری رکھا تھا مگر جماعت کے اکثر دوستوں نے اسے قبول کیا.اس میں بھی میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں سمجھتا.ہر احمدی خواہ بڑا ہو یا چھوٹا ، امیر ہو یا غریب یہ

Page 715

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اقرار کرے کہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا سوائے اس کے جو یہ اقرار نہ کرنا چاہتا ہو.مگر یہ چیز ایسی ہے کہ جو اسے اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں اس کے اندر ضرور نفاق کی رگ ہوگی.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دین کے لئے قربانی کرنے کی غرض سے ماحول پیدا کرنے کے لئے جو شخص زبان کا چسکا بھی نہیں چھوڑ سکتا وہ دین کے لئے قربانی کرنے والا سمجھا جا سکے.ایسا انسان کس منہ سے دعوی کر سکتا ہے کہ وہ خدا کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے.جب وہ ایک سے زیادہ سالن قربان نہیں کر سکتا تو کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ جان قربان کر دے گا ایسا شخص فریب خوردہ ہے.اس مطالبہ کو میں پھر دُہراتا ہوں اور تمام جماعتیں اپنے ہر فرد سے اقرار لیں کہ وہ ایک ہی کھانا استعمال کرے گا.جسے میٹھا کھانے کی عادت ہو وہ اور دوسرے لوگ بھی کبھی کبھی میٹھا استعمال کر سکتے ہیں مگر یہ یاد رکھیں کہ تکلف نہ ہو.ایک کھانے میں بھی انسان تکلف کر سکتا ہے.امراء پر اس قربانی کا زیادہ اثر ہوگا مگر غرباء بھی اس قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں.کیونکہ اول تو وہ بھی کبھی کبھی دو کھانے تیار کر لیتے ہیں دوسرے ثواب نیت کا ہوتا ہے کسی کو کیا پتہ ہے کہ اگر آج وہ غریب ہے تو کل امیر نہیں ہو جائے گا.اگر وہ خدا سے اقرار کرے کہ حالت بدل جانے پر بھی اسی حالت پر قائم رہے گا تو کون کہہ سکتا ہے کہ ایسے شخص کو اس کی نیت کا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس میں فاقہ کش بھی شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات انہیں بھی صدقہ میں دوکھانے مل جاتے ہیں اور اگر وہ ایک کی قربانی کر دیں تو یہ قربانی امیر سے زیادہ سمجھی جائے گی.امیر کو روز میسر تھا مگر فاقہ کش کو اتفاق سے مل گیا اور اُس نے خدا کے لئے اپنی خواہش کی قربانی کر دی.تو امیر غریب سب کو اس میں شامل ہونا چاہئے.ہاں مہمان کے لئے ایک دو روز تک ایک سے زیادہ کھانے تیار کرانے کی اجازت ہے مگر جس نے کئی ماہ رہنا ہو وہ مہمان نہیں سمجھا جاسکتا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمانی تین روز کی ہے.اور اگر مہمان بے تکلف ہو تو پسندیدہ امر یہی ہے کہ اس کے لئے بھی ایک ہی کھانا ہو.ہاں جس مہمان سے بے تکلفی نہیں ، اس کے لئے ایک سے زیادہ سالن بھی تیار کئے جا سکتے ہیں کیونکہ واقف مہمانوں کے متعلق تو انسان جانتا ہے کہ وہ کیا چیز پسند اور کیا نا پسند کرتے ہیں مگر نئے مہمان کے متعلق ایسا علم نہیں ہوتا.اور بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بعض چیزیں نہیں کھاتے.مثلاً میں جب سے پیدا ہو ا ہوں آج تک حلوہ کدو کبھی خوشی سے نہیں کھایا ہاں بعض جگہ مجھے مجبوراً کھانا پڑا اور میں نے کھایا.مگر اس حالت میں کہ اندر سے

Page 716

خطبات محمود 211 سال ۱۹۳۵ء معدہ اُس کورڈ کرتا چلا جاتا تھا اور میں بامر مجبوری کھاتا جاتا تھا پس بعض دفعہ اس خیال سے کہ ممکن ہے مہمان کو کوئی چیز پسند نہ ہو یا اُسے کوئی بیماری ہوا اور اس وجہ سے وہ کوئی خاص چیز استعمال نہ کرسکتا ہو اگر دوسرا کھانا پکا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.مثلا مہمان کو بواسیر ہو اور تم نے بینگن پکائے تو ان کے کھانے سے اُسے تکلیف ہو گی اسی طرح مہمان کے متعلق بھی یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ سمجھتا ہے کہ میزبان کی دل شکنی نہ ہوگی تو وہ ایک ہی کھانا کھائے.اس سال مجھے بھی بعض ایسی دعوتوں میں شامل ہونا پڑا جن میں ایک سے زیادہ کھانے پکائے گئے تھے مگر میں نے ایک ہی کھایا.پس مہمان کو عام صورتوں میں ایک ہی کھانے پر کفایت کرنی چاہئے لیکن اگر میز بان کی دل شکنی کا ڈر ہو یا غلط فہمی پیدا ہونے کا خوف ہو یا ادب اور احترام چاہتے ہوں کہ میزبان کی پیش کردہ شے کو استعمال کیا جائے تو پھر ایک سے زیادہ کھانے کا استعمال کیا جا سکتا ہے.مثلاً کسی غیر احمدی کے ہاں احمدی کی دعوت ہو.وہ اس نکتہ کوسمجھ ہی نہیں سکتا جو میں نے پیش کیا ہے پس اس کی دل شکنی سے بچنے کے لئے دوسری چیز بھی کھالی جائے تو کوئی حرج نہیں.اسی سال ایک غیر احمدی نے میری دعوت کی.میں نے ایک کھانے پر کفایت کی.کھانے کے دوران میں وہ ایک چیز لائے اور کہا کہ یہ تو میں نے خاص طور پر آپ کے لئے تیار کروائی ہے یہ ضرور کھائیں.میں نے اُس میں سے ایک لقمہ لے لیا تا ان کی دل شکنی نہ ہو کہ وہ بھی گناہ ہے پس چونکہ دوسرا کھانا شرعاً حرام نہیں ہے اس لئے ایسے موقع پر دوسری چیز کو بے حد ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے گو پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ایک ہی کھانا استعمال کیا جائے.پھر ادب اور احترام کا سوال بھی ہوتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ کوئی شخص دودھ لایا.آپ نے پیا اور جو باقی بچا اُسے کسی کو دینا چاہا.آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے آپ نے چاہا کہ دودھ ان کو دیں ممکن ہے حضرت ابو بکر دیر سے بیٹھے ہوں اور آپ نے اس خیال سے کہ بوڑھے آدمی ہیں ان کو دینا چاہا ہو یا اور کسی وجہ سے آپ ان کو دودھ دینا چاہتے ہوں بہر حال آپ نے دودھ انہیں دینا چاہا مگر چونکہ آپ کا قاعدہ یہ تھا کہ دائیں طرف کو ترجیح دیتے تھے آپ نے اُس لڑکے سے پوچھا کہ میرے پینے سے کچھ دودھ بچا ہے اور میری عادت یہی ہے کہ دائیں طرف والے کو دیتا ہوں اس لئے یہ تمہارا حق ہے لیکن اگر تمہاری اجازت ہو تو میں ابو بکر کو دے دوں اُس لڑکے نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ یہ آپ

Page 717

خطبات محمود ۷۱۲ سال ۱۹۳۵ء کا حکم ہے یا مجھے اجازت ہے کہ جو چاہوں کہدوں.آپ نے فرمایا کہ نہیں حکم نہیں بلکہ اگر تم چاہو تو لے سکتے ہو.اس پر اُس نے کہا کہ پھر حضرت ابو بکر کے لئے میں تبرک تو نہیں چھوڑ سکتا لایئے دودھ میرے حوالے کیجئے.تو بعض ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ میز بان کا ادب اور اس کا احترام چاہتا ہے کہ اُس کی پیش کردہ چیز کو رڈ نہ کیا جائے اس موقع پر ایک سے زیادہ کھانوں کی اجازت ہے مگر عام طور پر ایک ہی کھانا استعمال کرنا چاہئے ہاں بیمار کے لئے کوئی حد بندی نہیں.ناشتہ میں چائے ، سالن نہیں سمجھی جائے گی.چائے کے علاوہ روٹی کے ساتھ کوئی اور چیز بھی استعمال کی جاسکتی ہے.تیسری چیز لباس ہے میں نے کہا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو کم کپڑے بنوائے جائیں اور وہ بھی سادہ ہوں.عورتیں گوٹہ کناری استعمال نہ کریں.پھیری والوں سے کپڑا نہ خریدیں.اس طرح بلا ضرورت کپڑے خریدنے کی عادت پڑتی ہے اور صرف صحیح ضرورت پر کپڑا خرید ہیں.اس ہدایت کو بھی پھر دُہراتا ہوں.پھر میں نے کہا تھا کہ زیور نہ بنوائے جائیں.نہ پرانے تڑوا کر اور نہ نئے ہاں ٹوٹے ہوئے کی مرمت کرائی جاسکتی ہے.شادی بیاہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ زیور کی اجازت ہے مگر جہاں تک ممکن ہو کم زیور بنوائے جائیں.اطباء اور ڈاکٹروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ محض تجربے کرنے کے لئے نئی نئی قیمتی دوائیں نہ تجویز کیا کریں.ہاں اگر کسی ایسی دوا کے سوا چارہ نہ ہو تو بے شک تجویز کر دیں کیونکہ انسانی جان بہر حال قیمتی ہے عام طور پر آسان اور سستے نسخے تجویز کیا کریں.آرائش کے سامانوں کے متعلق کوئی قانون تو نہیں بنایا تھا مگر یہ کہا تھا کہ عام طور پر اس سے بچنا چاہئے ہاں پرانی چیزوں سے عورتیں آرائش کی جو چیزیں بنا لیتی ہیں ان کی ممانعت نہیں.تعلیمی اخراجات کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں ہم کم نہیں کر سکتے مگر طالب علموں کو چاہئے کہ کھانے اور لباس کے اخراجات میں کمی کریں.اُستادوں کی ٹیوشن ، فیسوں اور کتابوں کے اخراجات کم نہیں کئے جا سکتے کیونکہ یہ بھی قوم کا سرمایہ ہے جس سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے مگر کھانے اور لباس میں جس قد ر کی ممکن ہوا نہیں کرنی چاہئے.شادی بیاہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ کوئی قواعد مرتب کر نے تو مشکل ہیں مگر اخراجات میں ضرور کمی کرنی چاہئے.ولیمہ کی دعوت میں بھی سادگی چاہئے.میں نے بتایا تھا کہ ڈوموں اور میراثیوں پر جو اخراجات ہوتے تھے ، ان کی جگہ اب ولیمہ نے لے لی ہے معمولی سے معمولی آدمی

Page 718

خطبات محمود ۷۱۳ سال ۱۹۳۵ء بھی ولیمہ کرتا ہے تو سو دو سو آدمی کو بلا لیتا ہے اس سے بھی احتراز کرنا چاہئے.ان سب باتوں کا میں دوبارہ اعلان کرتا ہوں کیونکہ ان کے بغیر ہم قربانی کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے.اس کے بعد میں یہ بتا تا ہوں کہ گزشتہ سال میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا تھا مگر جب بجٹ تیار کیا گیا تو وہ ستر ہزار کا بن گیا کیونکہ کئی اخراجات پہلے اندازہ میں نظر انداز ہو گئے تھے.مثلاً دفتر کے اخراجات ، ہندوستان میں تبلیغ کے اخراجات ، ہندوستان میں اشتہارات کی اشاعت وغیرہ.پھر یہ بھی خیال نہیں کیا گیا تھا کہ ہمیں آدمی سکھانے پڑیں گے اور ان پر اور اُن کے استادوں پر خرچ کرنا پڑے گا.اس طرح بعض دوسرے اندازوں میں بھی غلطی ہو گئی تھی.قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کے اخراجات بھی شامل نہیں کئے گئے تھے اس لئے ان سب کو ملا کر بجٹ ستر ہزار کا بن گیا تھا.اور اب خیال یہ ہے کہ اسی ہزار خرچ ہو جائے گا گو اس وقت تک عملاً کم رقم خرچ ہوئی ہے مگر پچھلے سال کے بجٹ میں سے ابھی پانچ ماہ باقی بھی ہیں تحریک گومیں نے نومبر میں کی تھی مگر مارچ سے کام شروع کیا جا سکا تھا اور اصل کام مئی سے شروع ہوا.پس اس وقت گو کچھ رقم محفوظ ہے مگر وہ خرچ ہو جائے گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے جماعت کے اندر ایک ایسی روح پیدا کر دی کہ اس نے اسی ہزار روپیہ فراہم کر دیا ورنہ سارا بجٹ رہ جاتا.اس وقت تک جو کام ہوا ہے اس کی تفاصیل میں میں نہیں جا سکتا صرف اس قدر بتا دیتا ہوں کہ اس وقت تین تحصیلوں میں کام ہو رہا ہے اور تمہیں چالیس آدمی کام کر رہے ہیں.بعض جگہ نئی جماعتیں بن گئی ہیں اور بعض جگہ بن رہی ہیں.ان کے علاوہ ہم اس طرح بھی کام لے لیتے ہیں کہ جس غیر صوبہ سے کسی نے اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کیا اسے اسی صو بہ میں لگا دیا.مثلاً بنگال کے ایک دوست نے اپنی چھٹی وقف کی اور ہم نے انہیں بنگال ہی میں ایک علاقہ میں بھیج دیا جہاں پہلے کوئی جماعت نہ تھی.انہوں نے ایک ماہ کام کیا جس کے نتیجہ میں گیارہ آدمیوں کی جماعت وہاں قائم ہوگئی.اسی طرح درجنوں دیہات ہیں جہاں نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.بہار اور پنجاب میں بھی کئی ایسے مبلغ ہیں جنہیں مقررہ حلقوں سے باہر لگا دیا جاتا ہے.سائیکلسٹ بھی کام کر رہے ہیں اور کئی اضلاع کی شہر شماری اور سروے کا کام کر چکے ہیں.ہندوستان سے باہر پانچ مبلغ بھیجے جاچکے ہیں اور آٹھ نو اس سال کے لئے تیار ہو رہے ہیں جن کے جانے کے بعد اور نئے آئیں گے.قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے بھی تیاری ہورہی ہے اور تھوڑے

Page 719

خطبات محمود ۷۱۴ سال ۱۹۳۵ء دنوں میں ہی مولوی شیر علی صاحب ولایت جانے والے ہیں.اخبار سن رائز لاہور سے اور ایک اور مسلم ٹائمنز ولایت سے جاری ہو رہا ہے.ایک اخبار اردو میں شائع کیا جار ہا ہے اور دو اخبار ایسے ہیں جو ہماری امداد سے چل رہے ہیں.ولایت کے اخبار کے متعلق غیر ممالک سے اطلاعات آئی ہیں کہ وہاں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.چین سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں لوگ اسے شوق سے پڑھتے ہیں.سن رائز نے بھی غیر ممالک کے نو مسلموں میں روح پھونکنے کے کئے بہت کام کیا ہے.امریکہ سے مجھے کئی خطوط نو مسلموں کے پہنچے ہیں کہ پہلے جماعت سے ہمیں کوئی وابستگی معلوم نہ ہوتی تھی مگر اب سن رائز میں آپ کے خطبات کے تراجم شائع ہونے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انہیں پڑھ کر ہم بھی اپنے آپ کو جماعت کا ایک حصہ سمجھنے لگے ہیں.چنانچہ امریکہ کے نو مسلموں نے اس تحریک میں تین ہزار چندہ لکھایا ہے جس میں سے معقول رقم وصول ہو چکی ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ وہ لوگ ایسی باتوں کے بالکل عادی نہیں ہیں اور بعض نے تو بالکل شرائط کے مطابق دیا ہے.امریکہ میں ایک گورے نو جوان وکیل ہیں.مبلغ امریکہ نے لکھا ہے کہ ان کی مالی حالت خراب تھی اس لئے میں نے سمجھا کہ امراء کے لئے جور قم مقرر کی گئی ہے ان کی ذمہ داری اتنی نہیں ڈالنی چاہئے مگر انہوں نے خود ہی آکر تین سو کا وعدہ لکھوا دیا اور پھر ا سے ادا بھی کر دیا.گویا جو لوگ اسلام کے دشمن تھے اور اس کا نام سننا بھی نہ چاہتے تھے ان کے اندر بھی زندگی کی نئی روح پیدا ہو رہی ہے انْشَاءَ اللَّهُ الْعَزِيزِ تھوڑے دنوں میں پندرہ ہیں نئے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام باقاعدہ شروع ہو جائے گا اعلان کے وقت یہ بات نظر انداز ہو گئی تھی کہ ان ممالک میں ان کی زبانوں میں لٹریچر کی ضرورت ہوگی لیکن اب اس ضرورت کا بھی احساس ہوا ہے اور پندرہ بیس نئے ملکوں کو مد نظر رکھ کر جہاں تبلیغ شروع کی جائے گی لاکھوں روپیہ اس کام کے لئے بھی چاہئے ہو گا گو میرا ارادہ ہے کہ اس کام کو تجارتی اصول پر چلایا جائے اور کتب کو زیادہ تر فروخت کیا جائے اور پہلی کتب کی فروخت پر کتب شائع کی جائیں مگر آٹھ دس زبانیں بھی چھنی جائیں اور پندرہ ہزار کا سرمایہ فی ملک کے لئے وقف کیا جائے جو بہت کم ہے تو بھی ڈیڑھ لاکھ کی ضرورت اس غرض کے لئے ہے.بے شک یہ سب بار ایک سال میں نہیں پڑے گا لیکن اسے پانچ سال پر بھی تقسیم کیا جائے تو تمہیں ہزار فی سال کی ضرورت ہوتی ہے.یہ کام ایسا ہے کہ اسے افراد کی جانی قربانی تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی کیونکہ خواہ کتنے آدمی اپنی جان اور اپنا وقت قربان کر دیں

Page 720

خطبات محمود ۷۱۵ سال ۱۹۳۵ء قرآن کریم کا ترجمہ ایک زبان میں بھی شائع نہیں ہو سکتا اس کام کو تو روپیہ ہی پورا کر سکتا ہے.چین میں یہ کام شروع بھی ہو گیا ہے.لیچینگز آف اسلام یعنی تقریر جلسہ مہوتسو کا ترجمہ چینی میں ہو چکا ہے.احمدیت اور دعوۃ الامیر کا ترجمہ جلد ہونے والا ہے اور قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے بھی مناسب آدمیوں کی تلاش ہو رہی ہے.انگریزی ترجمہ کی ٹائپ شدہ کاپی بھجوا دی گئی ہے تا اسے سامنے رکھ کر ترجمہ کریں.عربی دان علماء بھجوانے کی تیاری ہو رہی ہے تا کہ ترجمہ کی صحت میں مدد دیں جاپان میں بھی جلد اسلامی کتب اور قرآن کریم کے ترجمہ کی کوشش کی جائے گی.صوفی عبدالقدیر صاحب محنت سے جاپانی زبان سیکھ رہے ہیں تا کہ ترجمہ کی نگرانی کر سکیں.ایک ماہ تک ایک تعلیم یافتہ مبلغ ادھر روانہ ہوگا تاکہ عربی زبان کی مشکلات میں مدد دے سکے.غرض یہ سب اخراجات ہیں.ادھر بورڈ نگ جدید کے اخراجات اور دفتر کے اخراجات کو بھی پہلے شامل نہ کیا گیا تھا مگر میرا ارادہ ہے کہ ہر سال ایک حصہ چندہ کا صدر انجمن احمدیہ کے نام کچھ تجارتی جائداد خریدنے پر لگا دیا جائے تا کہ مستقل اخراجات چندہ پر نہ پڑیں بلکہ جائداد کی آمد سے ادا ہوں.اس جائداد کی آمد صرف تحریک جدید کے کاموں پر خرچ کی جائے میں نے اس سال بھی کچھ روپیہ اس خیال سے لگایا تھا جس سے گیارہ بارہ سو روپیہ کا منافع اِنْشَاءَ اللہ ہوگا.لیکن یہ خیال بہت دیر کے بعد آیا ورنہ چھ سات ہزار کی آمد بہ سہولت پیدا کی جاسکتی تھی.آئندہ سال اِنْشَاءَ اللہ اس کام کو اچھی طرح چلایا جائیگا اور اِنْشَاءَ الله دفتر تحریک جدید کے بورڈنگ کے اخراجات چندہ سے نہیں بلکہ تجارتی آمد سے چلاتے جائیں گے.اور چندہ صرف ہنگامی کاموں کے لئے خرچ کیا جائے گا.اس لئے اس سال میں پھر اس مالی تحریک کا اعلان کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مالی قربانی میں پچھلے سال سے زیادہ حصہ لیں.میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے سال کی قربانی دشمنوں کے لئے حیرت انگیز تھی مگر میرے نزدیک بعض دوست زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر انہوں نے کم حصہ لیا.اسی طرح ہندوستان سے باہر کی ہندوستانی جماعتوں نے اتنا حصہ نہیں لیا جتنا میرے نزدیک وہ لے سکتے تھے.کئی دوستوں نے تین سو کو آخری حد سمجھا حالانکہ یہ زیادہ تو فیق والوں کے لئے نیچے کی حد تھی اوپر کی حد نہ تھی مگر بعض نے بہت بڑی قربانی کا بھی ثبوت دیا چنانچہ انہوں نے اپنی آمد کا قریباً 1/4 حصہ علاوہ دوسرے چندوں کے اس تحریک میں دیا اور گل رقم چھیں سو کی گزشتہ سال میں ادا کی.یہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص ہے.ان کے ہاں اولاد نہیں ہے اور ان کا

Page 721

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء نام لئے بغیر میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست ان کے لئے ضرور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اولا د عطا کرے جو نیک اور دین کی خادم ہو.پس دوبارہ اس تحریک کا اعلان کرتے ہوئے میں اس امید کا اظہار بھی کرتا ہوں کہ دوست پہلے سے زیادہ اس سال حصہ لیں گے اور حقیقی قربانی کا ثبوت دیں گے تا ایمان کی قیمت میں اضافہ کا ثبوت مل سکے جو شخص ایک سال خوشخطی کی مشق کرتا ہے یقیناً اگلے سال اُس کا خط بہتر ہوتا ہے.اس طرح قربانی کرنے والے کے ایمان میں بھی اضافہ ظاہر ہونا چاہئے.پس دوستوں کو اس امر کا ثبوت دینا چاہئے کہ گزشتہ سال کی قربانی نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے.اور آج وہ پچھلے سال سے زیادہ خدا کی راہ میں تکلیف اُٹھانے کے لئے تیار ہیں.اور چاہئے کہ ہر جماعت کا چندہ پہلے سے بڑھ جائے اور ہر فرد کا چندہ پہلے سے زیادہ ہو.سوائے اس صورت کے کہ کسی کے لئے ایسا کرنا ناممکن ہے اور میں جانتا ہوں کہ بعض کے لئے ایسا کرنا فی الواقع ناممکن ہے کیونکہ بعض نے اپنی اس سال کی آمد میں سے چندہ نہ دیا تھا بلکہ گزشتہ عمر کا اندوختہ سب کا سب دیا تھا ایسے دوست بے شک روپیہ کی صورت میں گزشتہ سال جتنا حصہ نہیں لے سکیں گے لیکن یقیناً ان کا اخلاص ضائع نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور گزشتہ سال کی قربانی کی وجہ سے اس سال ان کے ثواب کو رقم کے لحاظ سے نہیں بلکہ گزشتہ قربانی کے لحاظ سے بڑھائے گا.ان کے سوا جو لوگ ایسے ہوں وہ بڑی قربانی نہ کر سکتے ہوں ان کو بھی میں نصیحت کروں گا کہ وہ کچھ بڑھا دیں.مثلاً پانچ کی جگہ چھ کر دیں یا دس کی جگہ گیارہ کر دیں تا کہ ان کا قدم نیکی میں آگے بڑھے کھڑا نہ رہے.میں جماعت کو بتا چکا ہوں کہ ابتلاؤں کا ایک لمبا سلسلہ ان کے سامنے ہے، ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ان کے سامنے ہے جسے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہی ختم کرے گا.گزشتہ قوموں کی امید ان سے کی جاتی ہے کیونکہ ان کے سپر د دنیا کی آخری جنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے پس یا درکھو کہ جو اس وقت کی حقیر قربانی نہیں کر سکتا کہ یہ جو مطالبات میں کر رہا ہوں آئندہ کے مقابلہ پر بالکل حقیر ہیں اُسے اس سے بڑی قربانیوں کی توفیق نہیں مل سکے گی.جو آج چھوٹی کلاس کا سبق یاد نہیں کرتا وہ کل بڑے امتحان میں ضرور فیل ہو گا.جو آج قربانی کی مشق نہیں کرتا وہ کل ضرور میدانِ کارزار سے بھاگے گا.منافق یہی کہتے ہوئے مر جائیں گے کہ ہائے چندہ ہائے چندہ مگر ان کا ٹھکانہ خدا کے پاس نہیں ہو گا.ان کی

Page 722

خطبات محمود 212 سال ۱۹۳۵ء باتوں میں نہ آؤ اور اگر کسی کا دل ایسا ہے کہ اُس پر منافقوں کی باتوں کا اثر ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ علیحدہ ہو جائے منافق کی رفاقت ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق تمہارے ساتھ ہو نگے تو تمہاری صفوں کو خراب کریں گے پس ہر ایسا شخص پیچھے ہٹ جائے تو یہ بھی اُس کی ایک خدمت ہو گی.مگر یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کوئی کھیل نہیں یہ شیطان سے جنگ کا آخری اعلان ہے.آج کل اٹلی اور حبشہ کی جنگ ہو رہی ہے.مگر اس کی کیا حقیقت ہے تمہاری اس جنگ کے مقابلہ میں.لیکن اسی جنگ سے اٹلی ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل گیا ہے.مسولینی نے بھی حکم دیا ہے کہ لوگوں کو گوشت کی ایک ہی ڈش ملے یہ پہلا حکم ہے جو کسی ملک میں دیا گیا ہے اور یہ میرے حکم کے بعد کا ہے.اٹلی کے ڈکٹیٹر کا حکم ہے کہ تمام ملک میں ہر شخص گوشت کی ایک ہی ڈش استعمال کرے.مگر ابھی وہ اس مقام پر نہیں پہنچا جو میں نے تجویز کیا تھا یعنی کسی قسم کا دوسرا سالن استعمال نہ کرو مگر بہر حال آج اٹلی کے لوگ ایک چھوٹی سی جنگ کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کر رہے ہیں.اگر ہم خدا تعالیٰ کی بات پر ایمان رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی عظمت پر یقین رکھتے ہیں تو ہمارے اندر اٹلی سے زیادہ جنبش پیدا ہونی چاہئے کیونکہ ہماری جنگ اس جنگ سے بڑی ہے اور جس قدر وہ بڑی ہے اسی قدر قربانی بھی بڑی ہونی چاہئے.یہ جنگ احادیث کی رو سے شیطان اور رحمن کی آخری جنگ ہے پس جب تک تم اپنی زندگیوں کو روحانی سپاہیوں کے رنگ میں نہ ڈھال لو اور اپنے آپ کو خدا کے حکموں سے مقید نہ کر لو ، فتح حاصل نہیں کر سکتے.جنگ عظیم میں دو کروڑ آدمی مارے گئے یا زخمی ہوئے تھے.اربوں ارب روپیہ خرچ ہو ا تھا.صرف انگریزوں کا دو کروڑ روپیہ روزانہ صرف ہوتا تھا مگر ہمارے لئے اس سے بڑھکر جنگ در پیش ہے کیونکہ ہمارا کام دلوں کا فتح کرنا اور انسانوں کی عادتوں اور اخلاق اور خیالات کو بدلنا ہے ، ہم جب تک اپنے اوقات اور اپنے اموال کو ایک حد بندی کے اندر نہ لے آئیں اور اس کے بعد خدا تعالیٰ سے عرض نہ کریں کہ اے خدا! تو نے ہمیں بلایا اور ہم تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں اُس وقت تک سب دعوے باطل اور اُمنگیں اور خواہشیں بے سود ہیں اور کوئی چیز ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی.خالی دعوے تو پاگل بھی کرتا ہے لیکن اُس کے دعوؤں کو کون وقعت دیتا ہے کیونکہ وہ جو کہتا ہے کرتا نہیں ہے اور عمل کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوگی تحریک کے متعلق باقی حصے میں اِنشَاءَ اللہ اگلے خطبات میں بیان کروں گا

Page 723

خطبات محمود ۷۱۸ سال ۱۹۳۵ء آج چندوں کے متعلق اعلان کر دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ پر اس تحریک کی تعمیل کو چھوڑتا ہوں کہ یہ کام اُسی کا ہے اور میں صرف اُس کا ایک حقیر خادم ہوں.لفظ میرے ہیں مگر حکم اُس کا ہے وہ غیر محدود خزانوں والا ہے اُسے میرے دل کی تڑپ کا علم ہے اور اس کام کی اہمیت کو جو ہمارے سپرد ہے وہ ہم سے بہتر سمجھتا ہے.پس میں اُسی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے سینوں کو کھولے اور ان کے دلوں کے زنگ کو دور کرے تا وہ ایک مخلص اور باوفا عاشق کی طرح اُس کے دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں.اور دیوانہ وار اپنی بڑی اور چھوٹی قربانی کو خدا تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالیں.اور اپنے ایمان کا ایک کھلا ثبوت دے کر دشمن کو شرمندہ کریں اور اس کی ہنسی کو رونے میں بدل دیں.اور نہ صرف یہ قربانی کریں بلکہ دوسرے مطالبات جو جانی اور وقتی قربانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں دل کھول کر حصہ لیں.اللَّهُمَّ يَارَبِّ.آمین.ہاں دوستوں کو یہ ضرور یادر ہے کہ اس چندہ کا اثر صدرانجمن کے چندوں پر ہرگز نہ پڑے کہ ایک ہاتھ کو بچانے کے لئے دوسرا ہاتھ کاٹ دینا بیوقوفی ہے.اور چاہئے کہ تحریک امانت کو بھی دوست نظر انداز نہ کریں.اور جو دوست اس وقت تک حصہ نہیں لے رہے اس میں حصہ لیں اور جو کم حصہ لیں رہے ہیں وہ اپنا حصہ اور بھی بڑھا دیں تا خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہو اور اُس کا فضل ان پر بارش کی طرح نازل ہو.اے میرے رب ! اپنے اس غریب اور عاجز بندے کی دعا کوسن اور ہر ایک جو میری آواز پر لبیک کہتا ہے تو اُس سے ایسا ہی معاملہ کر.آمین.يَا رَبَّ الْعَالَمِینَ.الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۳۵ء) ل التوبة الانفال: البقرة: ۱۵۵

Page 724

خطبات محمود واء سال ۱۹۳۵ء ۴۳ ہماری ذمہ داریاں اور ہمارا بہت بڑا کام (فرموده ۲۲ /نومبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ التوبہ کے چھٹے رکوع کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا مَالَكُمْ إِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّاقَلْتُمْ إِلَى الْاَرْضِ اَرَضِيتُمُ بِالْحَياةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبُكُمُ عَذَابًا أَلِيمًا وَّ يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَه بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ انْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشَّقَّةُ وَ سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ اَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ پھر فرمایا :.قرآن کریم ہمارے لئے ہر بات میں ہدایت اور راہنمائی ہے اور کوئی کامیابی اور ترقی کا گر ایسا نہیں جو اس میں مذکور نہ ہو اور کوئی ہلاکت اور تباہی کی بات نہیں جس سے اس میں ڈرایا نہ گیا ہو.مگر

Page 725

خطبات محمود ۷۲۰ سال ۱۹۳۵ء بہت لوگ ہیں جو اس الہی کلام کو اپنے لئے روشنی اور نور نہیں بناتے اور اس وجہ سے ہلاکت کے گڑھوں میں گر جاتے ہیں.جھوٹ ، دھوکا اور فریب یہ لوگوں کے اس وقت لباس بن گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت دنیا سے مٹ گئی ہے.ہر شخص اپنے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے یہ دیکھتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اُس کا اِرد گرد کے لوگوں پر کیا اثر پڑتا اور وہ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں.مگر کوئی آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر یہ نہیں دیکھتا کہ ایک قادر اور قیوم خدا جو اس کی ہر حرکت سے آگاہ اور اُس کے ہر فعل سے باخبر ہے ، اُس کی نگاہ میں اس شخص کے افعال و اقوال کیسے ہیں.کہنے کو آجکل ہر شخص اپنے آپ کو خاکسار اور ذلیل اور عاجز اور نہ معلوم کیا کچھ کہتا ہے بلکہ آجکل یہ طریق کتابت ہی ہو گیا ہے کہ لکھنے والا اپنے آپ کو خادم ، غلام اور بندہ قرار دیتا ہے لیکن دراصل ہر شخص کے دل کو کھول کر جب دیکھا جائے اُس کے حالات کا جائزہ لیا جائے اور اس کے جذبات کا مطالعہ کیا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ انسان اپنے سے زیادہ کسی اور کی قیمت سمجھنے کے لئے تیار نہیں.خدا تعالیٰ کا اگر ذکر ہو تو وہ تمسخر کرتا ہے ، رسولوں کا ذکر ہو تو وہ تمسخر کرتا ہے ، الہامی کتابوں کا اگر ذکر ہو تو وہ تمسخر کرتا ہے خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق کا اگر ذکر ہو تو وہ تمسخر کرتا ہے اور نیک سے نیک اور پاک سے پاک بات کے ذکر میں بھی اس کا تمسخر بند نہیں ہوتا.غرض ہنسی ٹھٹھا، بخول ، منافقت ، فریب ، دھوکا اور دغا بازی اس وقت دنیا کا شعار ہورہا ہے.اور انسان ایسے گندے کیچڑ میں پھنسا ہوا ہے جس میں شاید ایک ستھرا جانور بھی قدم رکھنے کے لئے تیار نہ ہو.میں نے اسی مسجد میں ، اسی مقام پر کھڑے ہو کر احرار کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا کہ اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کیا کرتے تھے.اور یہ کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک بانی سلسلہ احمدیہ کا درجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا تھا.اور وہ اپنے اس یقین پر سچے دل سے قائم ہیں تو ہمارے ساتھ اس امر پر مباہلہ کر لیں.اور خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ اگر وہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں اور دھوکا اور فریب سے کام نہیں لے رہے تو خدا تعالیٰ ان کی مدد کرے.اور اگر وہ جان بوجھ کر ایک غلط بات جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کر رہے اور لوگوں کو مغالطہ میں رکھ رہے ہیں تو خدا تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کرے.

Page 726

خطبات محمود ۷۲۱ سال ۱۹۳۵ء مباہلہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر تمسخر اڑایا جا سکے بلکہ مباہلہ لعنت ہے جو ہمیشہ کے لئے انسان اپنے سر لیتا ہے.نہ صرف اپنے لئے بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی.اور مباہلہ لعنت ہے نہ صرف ایک منٹ ، اور ایک دن ، اور ایک سال کے لئے بلکہ آنے والے دنوں اور آنے والے سالوں کے لئے بھی اور مباہلہ لعنت ہے نہ صرف اس زندگی کے لئے بلکہ قبر کی زندگی کے لئے بھی.اور مباہلہ لعنت ہے نہ صرف اس زندگی اور قبر کی زندگی کے لئے بلکہ یوم حشر اور قیامت کے دن کے لئے بھی کتنی دل کو دہلا دینے والی چیز ہے جو ان کے سامنے پیش کی گئی.میں نے غیر مذاہب کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ بھی قسم کے نام پر کانپ جاتے ہیں.ایک دفعہ میں شملہ گیا.وہاں کی آریہ سماج کے اُس وقت کے سیکرٹری جو گر یجو یٹ تھے مجھ سے ملنے آئے.باتوں ہی باتوں میں انہوں نے پوچھا احمدیت کونسی ایسی نئی چیز پیش کرتی ہے جو ہمارے مذہب میں نہیں.میں نے کہا کہ احمدیت نے مجھے یقین کا مرتبہ دیا ہے جو کسی اور مذہب والے کو نصیب نہیں.کہنے لگے کس طرح ؟ میں نے کہا مجھے اس بات پر یقین ہے کہ قرآن مجید ایک زندہ خدا کی کتاب ہے اور اس کی پیروی سے انسان کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہو جاتا ہے.اس بات پر مجھے ایسا یقین ہے کہ جس کے بعد میرے لئے کوئی شک کی گنجائش نہیں.اور میں اس سچائی کے لئے ہر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں انہوں نے کہا یہ کونسی بڑی بات ہے ہر مذہب والے کو اپنے مذہب کی سچائی پر یقین ہوتا ہے.مجھے ویدوں کی سچائی پر یقین ہے ، عیسائیوں کو انجیل کی سچائی پر یقین ہے ، اور یہودیوں کو تو رات کی سچائی پر یقین ہے.میں نے کہا جس چیز کو آپ یقین سمجھتے ہیں میں اُسے یقین نہیں سمجھتا بلکہ نفس کا دھوکا سمجھتا ہوں یقین وہی ہے جو مجھے اسلام کی صداقت کے متعلق حاصل ہے.کہنے لگے کس طرح؟ میں نے کہا میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ عیسائیوں ، ہندوؤں اور یہودیوں میں سے ایسے کئی ہیں جنہوں نے اپنے مذہب پر جان دے دی اور بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں اپنے مذہب کی سچائی پر کامل یقین ہے.مگر یقین پہچاننے کا یہ طریق نہیں.جان آخر کیا چیز ہے؟ اس دنیا کی ایک چیز ہے جسے آپ دوسری چیزوں پر قربان کر سکتے ہیں.چنا نچہ کئی لوگ ملک کے لئے جانیں قربان کرتے ہیں ، کئی لوگ اپنی زمینوں کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کر دیتے ہیں.غرض اپنی جان قربان کر دینا کوئی ایسی اعلیٰ بات نہیں جس سے کسی کے یقین کا جائزہ لیا جا سکے بلکہ اس سے

Page 727

خطبات محمود ۷۲۲ سال ۱۹۳۵ء زیادہ اعلی چیزیں بھی موجود ہیں جنہیں قربان کرنے کے لئے لوگ تیار نہیں ہوتے.چنانچہ میں نے کہا میرے یقین کی حالت یہ ہے کہ میں قرآن اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوں اور اُس زندہ قادر اور طاقتور خدا سے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اور جس کے ہاتھ میں میرا مستقبل ہے دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! مجھے یقین ہے کہ یہ تیرا کلام ہے جو تو نے اپنے رسول پر نازل فرمایا اور جسے دنیا کی ہدایت کا آخری ذریعہ قرار دیا.اے خدا! اگر میں اپنے اس عقیدہ میں جھوٹا ہوں اور لوگوں کو ناحق فریب دے رہا ہوں تو تو مجھ پر اپنی لعنت نازل کر.نہ صرف مجھ پر بلکہ میری بیوی بچوں پر بھی.اور نہ صرف اِس دنیا میں بلکہ اگلے جہان میں بھی.کیا آپ بھی ویدوں کی سچائی کے متعلق اس قسم کی قسم کھا سکتے ہیں؟ میرے اس مطالبہ پر بجائے اس کے کہ وہ قسم کھاتے ، اُن کا رنگ زرد ہو گیا اور کہنے لگے آپ میرے بیوی بچوں کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ میں نے کہا اسی سے ظاہر ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے آپ اپنی جان سے زیادہ عزیز اور قیمتی سمجھتے ہیں.پس جب تک آپ اسے اپنے مذہب کے لئے قربان نہ کریں کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کو اپنے مذہب کی صداقت پر یقین ہے.میں بار بار یہ مطالبہ کروں مگر وہ یہی کہتے جائیں کہ آپ میرے بیوی بچوں کا ذکر کیوں کرتے ہیں.تو بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا نام سننے پر انسان کے دل میں خشیت پیدا ہو جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا خوف اسے دامن گیر ہو جاتا ہے.انہی میں سے ایک مباہلہ بھی ہے.میرے دل میں ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ مسلمان کہلانے والوں میں سے ایک حصہ مباہلہ کو بھی لوگوں کو دھوکا دینے اور چالبازی کا ایک ذریعہ بنالے گا.مگر یہ میرا یقین غلط نکلا.اور وہ مسلمانوں کے لیڈر کہلانے والے جنہوں نے تھوڑے ہی دن ہوئے شہید گنج کے موقع پر مسلمانوں کے فوائد کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے قربان کر دیا تھا اس سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم تو مباہلہ کے لئے تیار ہیں مگر قادیان میں کریں گے.میں نے ان کے اس مطالبہ کو منظور کر لیا مگر ساتھ ہی لکھا ہے کہ انہیں چاہئے کہ تمام شرائط لکھ کر اور ان پر دستخط کر کے ہمیں دے دیں تا بعد میں کوئی اُلجھن پیدا نہ ہو سکے.مگر باوجود اس کے کہ ہماری طرف سے انہیں کئی رجسٹریاں گئیں ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ انہوں نے ان میں سے ایک کا بھی ہمیں جواب نہیں دیا.ڈاک خانہ کی رسیدیں ہمارے پاس موجود ہیں اور وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہماری طرف سے انہیں رجسٹر ڈ خطوط لکھے گئے مگر وہ ہر رجسٹری غائب کر گئے لیکن پبلک

Page 728

خطبات محمود ۷۲۳ سال ۱۹۳۵ء میں یہ شور مچانے لگ گئے کہ قادیانی مباہلہ سے بھاگ گئے ہیں.ہر شخص مجھ سکتا ہے کہ یہ طریق اللہ تعالی کی خشیت کا نہیں اور یہ کہ ان کے مد نظر مباہلہ کرنا نہیں تھا بلکہ صرف یہ غرض تھی کہ کسی طرح انہیں قادیان میں جلسہ کرنے کا موقع مل جائے.مگر جب ہم نے اس حقیقت کو واضح کر دیا اور گورنمنٹ کو بھی معلوم ہو گیا کہ یہ مباہلہ کے لئے قادیان نہیں آنا چاہتے بلکہ اُن کا مقصد یہ ہے کہ قادیان میں کانفرنس منعقد کریں چنانچہ ان کا ایک اشتہار قادیان کے ارد گرد کے دیہات میں تقسیم ہوتا ہوا پکڑا گیا جس میں صاف لکھا تھا کہ پچھلے سال قادیان میں جو کا نفرنس ہوئی تھی ، اس میں نصف لاکھ کے قریب مسلمان جمع ہوئے تھے حالانکہ کا نفرنس کا پہلا سال تھا مگر اس سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان قادیان میں جمع ہونے والے ہیں.تو گورنمنٹ نے چونکہ انہیں قادیان اور اس کے ارد گرد آٹھ آٹھ میل کے حلقہ میں کوئی کانفرنس یا جلسہ کرنے کی ممانعت کی ہوئی ہے اس لئے اس نے اپنے قانون کے ادب اور احترام کے لئے انہیں پھر ممانعت کا نوٹس دے دیا.میں نے احرار کے مباہلہ کے متعلق چھ جھوٹ ثابت کر کے آج ہی ایک اشتہار دیا ہے.اور ہر بات کے غلط ثابت ہونے پر ان کے لئے ایک ایک سو روپیہ کا انعام مقرر کیا ہے اور میں نے بعض غیر احمدیوں کو ہی اِس معاملہ میں ثالث تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور میں نے لکھا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوؤں میں بچے ہیں تو وہ اپنے ان ہم عقیدہ ثالثوں کے ذریعہ فیصلہ کرا کے انعام لے لیں.چنانچہ ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو کو میں نے پیش کیا ہے جو کانگرس کے لیڈر رہ چکے ہیں.اور میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر انہیں ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو کی شخصیت پر اعتراض ہو تو مولانا ابو الکلام صاحب آزاد سے فیصلہ کرا لیں.یہ بھی مسلمانوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے بلکہ اب تک سمجھے جاتے ہیں.اور ملک وقوم کی خاطر جیل خانوں میں بھی رہے ہیں یا مسٹر عبد اللہ یوسف علی صاحب.آئی ہی.ایس.ریٹائرڈ حال پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو ثالث تسلیم کر لیں یا سر محمد یعقوب صاحب کو جو پہلے اسمبلی کے صدر بھی رہے ہیں ثالث تسلیم کر لیں.اگر وہ ان میں سے کسی کو بھی ثالث تسلیم کر لیں تو وہ جس وقت چاہیں ہم چھ سو رو پیدان کے پاس جمع کرا دیں گے اور روپیہ جمع کرانے کے پندرہ دن کے اندر اندر اگر احرار اپنے دعووں کا ثبوت دے دیں اور ثالث ان کے حق میں فیصلہ کر دے تو جمع شدہ روپیہ ثالث فوراً ان کو دے دے گا.اور اگر فیصلہ ہمارے حق میں ہو یا پندرہ دن کے اندر اندر احرار ثبوت پیش نہ کریں تو روپیہ ہمیں واپس مل جائے مگر

Page 729

خطبات محمود ۷۲۴ سال ۱۹۳۵ء میں نے یہ شرط کی ہے کہ میرے سب مطالبات کی جن کے متعلق میں نے انعام مقرر کئے ہیں اکٹھی تحقیق کی جائے.ایک ایک کو الگ الگ لینے کی اجازت نہ ہو گی سوائے اس صورت کے کہ احرار مطالبات میں سے بعض کے متعلق اپنی غلطی تسلیم کر کے باقیوں کے متعلق تحقیق پر آمادگی کا اظہار کریں.وہ چھ باتیں ایسی ہیں جن پر اگر کوئی بھی شخص غور کرے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ آیا احرار فرار اختیار کر رہے ہیں یا ہم.پس اس میں کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں.جو ثالث پیش کئے گئے ہیں وہ ان کے اپنے آدمی اور ان کے مسلمہ لیڈر ہیں.اور پھر میں یہ نہیں کہتا کہ فیصلہ کے بعد روپیہ دیا جائے گا بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ جس وقت بھی احرار اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیں اور لکھ دیں کہ پیش کردہ لیڈروں میں سے فلاں لیڈر کا فیصلہ منظور ہے اُسی وقت چھ سو روپیہ اُن صاحب کے حوالے کر دیا جائے گا اور انہیں اس امر کا اختیار دے دیا جائے گا کہ اگر ان پر یہ ثابت ہو جائے کہ میری غلطی تھی تو وہ رو پیدا احرار کے حوالے کر دیں.اور اگر ثابت ہو کہ احرار غلطی پر تھے تو روپیہ ہمیں واپس کر دیں.یہ ایک ایسا طریق فیصلہ ہے جس پر عقلاً کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ممکن ہے وہ اس کے متعلق بھی کوئی بہانہ بنا ئیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا بہانہ بنا ئیں.لیکن ہمارا طریق چونکہ دیانت داری کا ہے اس لئے ہمیں کوئی اعتراض کی بات نہیں سوجھتی.برخلاف اس کے ان کا کام چونکہ بد دیانتی ہے اس لئے ممکن ہے اس واضح طریق کے متعلق بھی کوئی شبہ وہ پیدا کر لیں.اب میں اُن کے ایک اور سوال کو لیتا ہوں جو انہوں نے ابھی ابھی اُٹھایا ہے اور وہ یہ کہ اگر ہمیں قادیان میں اجتماع کرنے سے روکا گیا ہے تو کیا گورنمنٹ احمدیوں کے سالانہ جلسہ کو بھی رو کے گی ؟ میں سمجھتا ہوں جس وقت کسی انسان میں بے حیائی پیدا ہو جائے اُس وقت وہ تمام عقل ودانائی کی حدود کو توڑ دیتا اور ایسی ایسی باتوں پر اتر آتا ہے جو معمولی عقل و سمجھ رکھنے والے انسان کے نزدیک بھی مضحکہ خیز ہوتی ہے.قادیان میں جو ہماری پوزیشن ہے اس سے احرار کو بھلا نسبت ہی کیا ہے.قادیان ہمارا مقدس مقام ہے ، قادیان وہ مقام ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کے الہامات میں بڑی بڑی بشارتیں ہیں ، اور قادیان وہ مقام ہے جسے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا نے امن اور ترقی کا مقام بنایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وصیت کے ساتھ اسے جماعت احمدیہ کا مرکز

Page 730

خطبات محمود ۷۲۵ سال ۱۹۳۵ء قرار دیا ہے.پس اس میں جماعت احمدیہ کو جو حق حاصل ہے وہ احرار کو کہاں حاصل ہوسکتا ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے اگر کسی ناولسٹ پر گورنمنٹ مقدمہ چلائے تو وہ کہہ دے کہ اگر میری کتاب پر مقدمہ چلایا گیا ہے تو قرآن کریم ، انجیل اور ویدوں پر بھی مقدمہ چلایا جائے حالانکہ ایک عام کتاب کو الہامی کتاب سے نسبت ہی کیا ہے کہ ایک کا دوسری سے مقابلہ کیا جائے.اسی طرح قادیان کے متعلق احمدیوں کے جو جذبات ہیں وہ احرار کے جذبات کہاں ہو سکتے ہیں کہ دونوں سے یکساں سلوک اور برتاؤ کا مطالبہ جائز قرار دیا جاسکے.پچھلے سال جو یہاں کا نفرنس ہوئی اس میں مولوی عطا اللہ صاحب نے کہا کہ قادیان کی زمین لعنتی ہے.جب ان کے نزدیک قادیان کی لعنتی زمین ہے تو یہاں ان کے آنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اور کیا جن کے نزدیک قادیان کی زمین نَعُوذُ بِالله لعنتی ہو وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ قادیان کے متعلق احمدیوں کے جذبات اور اپنے جذبات کا مقابلہ کریں؟ اور باوجود اس امر کے کریں کہ اسلام نے اس امر کے متعلق ہماری راہنمائی کی ہوئی ہے.یہی سورۃ تو بہ جس کا ایک رکوع میں نے اس وقت پڑھا ہے اس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ حرم اور اُس کے گردو نواح میں مشرک لوگ نہ آنے پائیں.اب کیا اس حکم کو دیکھ کر ہند و کہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک سے مسلمان نکل جائیں کیونکہ ہمیں حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی.یا چینی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک سے مسلمان نکل جائیں کیونکہ ہمیں حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی.یا روسی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ہمارے ملک سے نکل جائیں کیونکہ ہمیں حرم میں داخل ہونے نہیں دیا جاتا.یا انگریز کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک سے مسلمان نکل جائیں کیونکہ ہمیں حرم میں داخل ہونے نہیں دیا جاتا.یا امریکن کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک سے نکل جائیں کیونکہ ہمیں حرم میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے.یہ ایک ایسی موٹی بات اور اسلام کا ایسا قائم کردہ اصل ہے کہ کوئی شخص یہ جہالت نہیں کر سکتا کہ اس قسم کا مطالبہ کرے.مگر انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہوتا تو ایسے کہتے ہی کیوں.جب اسلام کا انہوں نے کبھی مطالعہ ہی نہیں کیا تو یہ بات انہیں کہاں سمجھ میں آ سکتی ہے.غرض اسلام نے اس اصل کو تسلیم کیا ہے کہ جو کسی مذہب کا مقدس مقام ہواُس میں اُس کے خاص حقوق تسلیم کئے جائیں گے.اسلام نے مکہ اور مدینہ کوحرم قرار دے کر مکہ اور شام کے شہروں میں فرق کیا ہے.اسلام نے یہ اجازت نہیں دی کہ مکہ میں کوئی غیر مسلم داخل ہو مگر شام

Page 731

خطبات محمود ۷۲۶ سال ۱۹۳۵ء کے شہروں میں غیر مسلموں کے داخل ہونے سے اسلام نے منع نہیں کیا کیونکہ مکہ مسلمانوں کا ایک مقدس مقام ہے مگر شام کو مقدس ماننے میں اس کے ساتھ مسیحی اور یہودی بھی شامل ہیں.مکہ، مدینہ مرکز ہیں اسلام کا.اور جب کوئی جماعت اپنا ایک مرکز قائم کرتی ہے تو اس کے لئے ایک ماحول کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے ادب اور احترام کو قائم رکھا جائے.پس جبکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اور ان سے اُتر کر قادیان ہمارا مقدس مقام ہے.اور جبکہ رسول کریم ﷺ کے بروز اور آپ کے نائب اور آپ کے خلیفہ اور آپ کے وجود کو اپنے اندر ظاہر کرنے والے مظہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سلسلہ کی ترقی اور اس کی عظمت کے لئے قادیان کو مرکز مقرر کیا ہے تو یقیناً ہمارا حق ہے کہ ہم مطالبہ کریں کہ وہ ہمارے اس مقدس مقام کو اپنے وحشی مظاہروں سے پاک رکھیں.یہ وہ مسئلہ ہے جسے قرآن مجید نے پیش کیا ، یہ وہ اصل ہے جسے اسلام نے دنیا سے منوایا ، اور یہ وہ دلیل ہے جس کی وجہ سے رسول کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو غیر مسلموں سے آزاد کرایا.اگر اس اصل کو تم ایک جگہ تسلیم کرتے.اور دوسری جگہ رڈ کر دیتے ہو تو تم دنیا کو کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہمارا تو یہ حق ہے کہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو غیر مسلموں سے پاک رکھیں لیکن اگر ہندو ایک مقام کو مقدس قرار دیں تو وہ اسے غیروں سے پاک نہیں رکھ سکتے.اگر تم یہ کہتے ہو کہ ہمارا تو یہ حق ہے کہ ہم اپنے مقدس مقامات کو غیروں کے مظاہرات اور ان کی دخل اندازی سے پاک رکھیں لیکن ہم یہودیوں کے تسلیم کردہ مقدس مقامات کے متعلق یہ اصل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.اگر تم کہتے ہو کہ ہمارا تو یہ حق ہے کہ اپنے مقدس مقامات میں غیر مسلموں کو نہ آنے دیں مگر عیسائیوں کے تسلیم کردہ مقدس مقامات کے متعلق یہ نظریہ تسلیم کرنے کے لئے ہم تیار نہیں.اگر تم یہ کہتے ہو کہ ہمارا تو یہ حق ہے کہ اپنے مقدس مقامات کو غیر عناصر سے پاک رکھیں مگر پارسیوں کے تسلیم کردہ مقدس مقامات کے متعلق ہم یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو یقیناً ہر عقل مند سمجھ جائے گا کہ تم دانائی سے کام نہیں لیتے.اور سب سمجھیں گے کہ تم پاگل ہوا اور دھینگا مشتی سے کام لے رہے ہو پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حرم وہ مقام ہے جس میں کوئی غیر مسلم نہیں آ سکتا سوائے اس کے کہ وہ آنے کی اجازت لے لے اور نرمی اور محبت کے ساتھ آئے دیکھو اسی سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ

Page 732

خطبات محمود ۷۲۷ سال ۱۹۳۵ء اَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى اللهِ وَ اَنَّ اللهَ مُخْزِي الْكَفِرِينَ وَاذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَقِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِىءُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى اللهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا الَّذِيْنَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَاتِمُّوا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلى مُدَّتِهِمُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ فَإِذَ انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتُوالزَّكَوةَ فَخَلُّوا سَبِيْلَهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَ إِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرُهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آج ہم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں ان مشرکوں سے جن سے وقتی معاہدات تھے اور کوئی شرط وغیرہ نہیں تھی.( شروط والے معاہدات کا آگے ذکر آتا ہے ) اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم انہیں فتح کرتے ہیں.صرف چار مہینے اور تم اس علاقہ میں رہ سکتے ہو.تم دنیا میں خوب پھر کر دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اسلام قائم کر دیا اور اب وہ اپنے مرکز کو مشرکین کے وجود سے پاک کرنا چاہتا ہے کیونکہ جو منکر ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عزت نہیں دیتا.اور حج اکبر کے موقع پر یہ اعلان ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے تعلق نہیں رکھ سکتے.ان کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اس علاقہ میں رہیں.ہاں اگر تم تو بہ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم پھر جاؤ تو یاد رکھو تم خدا تعالیٰ کے کاموں کو نہیں روک سکتے اور نہ کامیابی حاصل کر سکتے ہو.یہ ہمارا اعلان سب مشرکین کے لئے ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد کیا ہوا ہے اور انہوں نے اس عہد کو توڑا نہیں اور نہ انہوں نے تمہارے خلاف کسی اور کو مدد دی ہے یعنی ان سے میعادی عہد ہے ، ان کا معاہدہ میعاد تک پورا کرو اور جب تک میعاد ختم نہیں ہوتی اسے لئے چلے جاؤ کیونکہ خدا تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے.لیکن جب مقرر مہینے ختم ہو جائیں تو پھر اس آخری جماعت کو چھوڑ کر باقی مشرکین عرب کو جو اسلام سے برسر جنگ تھے جہاں بھی ملیں لڑائی کرو، انہیں پکڑو ، ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات کی جگہ پر ان کے لئے بیٹھو.پس اگر وہ تو بہ کریں ، نمازیں پڑھیں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے.لیکن ہمارا یہ حکم ان مشرکوں

Page 733

خطبات محمود ۷۲۸ سال ۱۹۳۵ء کے لئے ہے جو مسلمانوں کے خلاف شرارتیں کرتے اور مظاہرے کرتے ہیں ان کے علاوہ اگر ان میں سے کوئی تمہاری پناہ میں آنا چاہے تو اسے پناہ دو اور اسے اس بات کا موقع دو کہ وہ خدا کا کلام سنے.اگر وہ مان جائے گا تو تمہارے ساتھ ہو جائے گا اور اگر وہ نہ مانے تو بھی اسے امن کے ساتھ اس کے گھر تک پہنچا دو.اور آنے کے لئے رستہ بالکل بند نہ کرو کیونکہ یہ لوگ ایسے ہیں جو حقیقت کو نہیں سمجھتے یہ آیتیں ہیں جن سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو مقام کسی جماعت کا مذہبی مرکز ہوا سے دوسرے اثرات سے محفوظ رکھنا چاہئے اور غیروں کو اس میں جمع ہونے سے روکنا چاہئے.اسی بناء پر حرم کی حدود میں کسی غیر مسلم کو جانے کی اجازت نہیں.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اگر کوئی شخص نرمی اور محبت سے آنا چاہے تو اسے نہ رو کو بلکہ آنے دو اور جب باتیں سن چکے تو اسے آرام سے اپنے گھر پہنچا دو.پس جو مقدس مقامات ہوں اُن کی عزت و حرمت کے لئے ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے اور ہر قوم کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مذہبی مقدس مقامات میں اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مظاہرات نہ ہونے دے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم اس طرح تبلیغ کا رستہ بند کر تے ہو.اس لئے کہ قادیان کا ہر احمدی وقتاً فوقتاً باہر جاتا ہے قادیان میں ساری عمر بند نہیں رہتا پھر صرف قادیان میں ہی احمدی نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اگر کوئی تبلیغ کرنا چاہے تو قادیان کے احمدیوں کو بھی جب وہ باہر جائیں تبلیغ کر سکتا اور بیرونی جماعتوں کو بھی تبلیغ کر سکتا ہے.جس طرح عیسائی مسلمانوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم نے پہلا وحرم میں ہماری تبلیغ بند کر دی ہے، جس طرح ہند و مسلمانوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم نے عرب میں ہماری تبلیغ بند کرا دی ہے اس لئے عرب ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور جب وہ اپنے ملک سے باہر نکلیں ، عیسائی اور ہندو انہیں تبلیغ کر سکتے ہیں.اسی طرح ہمارے متعلق بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے تبلیغ کا راستہ بند کر دیا بلکہ ہمارا حق ہے کہ قرآن کریم کے تسلیم کردہ اصل کے ماتحت چونکہ قادیان بھی ہمارا مقدس مقام اور جماعت کے نظام کا مرکز ہے اس لئے ہم اس جگہ کسی قسم کا کوئی ایسا فعل نہ ہونے دیں جس میں سلسلہ کی ہتک یا بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہتک ہو.پھر یہ حق ہم صرف اپنے لئے نہیں مانگتے بلکہ ہم چاہتے ہیں جس قوم اور جس مذہب کا بھی کوئی شہر مقدس مرکز ہو یا وہ اسے اپنے لئے مقدس مرکز قرار دے لے وہ اسی طرح غیروں کی شورش سے

Page 734

خطبات محمود ۷۲۹ سال ۱۹۳۵ء محفوظ رکھا جائے جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ قادیان غیروں کی شورش سے محفوظ رکھا جائے.اور ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ دوسری قومیں جن شہروں کو اپنے مذہبی مرکز قرار دیتی اور ان میں انہوں نے خاص ماحول بنا لیا اور ان کی مذہبی کتب میں ان کو خاص مرکزی درجہ دیا گیا ہو، ان شہروں میں ان مذاہب کے خلاف کوئی مظاہرہ کرنے کی نہ ہمیں نہ دوسروں کو اجازت ہو.پس ہم وہ مطالبہ کرتے ہیں جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق اسلام نے اصل مقرر کیا ہے.اور جو ہر مذہب کے مقدس مقام کے متعلق اسلام کا پیش کردہ نظریہ ہے.اس کے مطابق اگر کسی وقت ہندو یہ مطالبہ کریں کہ ہر دور میں ہندو مذہب کے خلاف کوئی مظاہرہ نہ کریں تو سب سے پہلا میں ہوں گا جو اس کی تائید کروں گا.پس اگر کوئی قوم کسی شہر کو اپنا مذ ہبی مرکز سمجھتی ہے یا اسے مذہبی مرکز بنانا چاہتی ہے تو اسے اجازت ہونی چاہئے کہ وہ غیروں سے اسے پاک رکھے آخر دنیا کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.اگر دنیا کے تمام مقدس مقامات اکٹھے بھی کئے جائیں تو سو پچاس شہروں سے زیادہ نہیں بنیں گے.مگر ان پچاس یا سو مقامات کو محفوظ کر لینے سے تبلیغ کو کونسا نقصان پہنچ سکتا ہے انسان اردگرد کے علاقوں میں تبلیغ کر سکتا ہے جہاں اس شہر کے آدمی آتے جاتے ہوں.چنانچہ قادیان کے احمدی بھی کبھی بٹالہ میں سودا خرید نے چلے جاتے ہیں، کبھی امرتسر جاتے ہیں، کبھی لاہور جاتے ہیں احرار تبلیغ ہی کرنا چاہتے ہیں تو جب قادیان کے احمدی بٹالہ، امرت سر یا لاہور جائیں تو انہیں پکڑ لیں اور تبلیغ کریں بلکہ ہم تو موجودہ حالات میں جب کہ انگریزی حکومت قائم ہے یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کہ احمدیوں کے علا و ہ دوسرے لوگ قادیان میں ہماری اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں.ہم اس وقت جو کچھ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ قادیان میں دوسرے لوگ داخل ہو کر ایسے مظاہرات نہ کریں جن سے سلسلہ احمدیہ اور بانی سلسلہ احمدیہ کی ہتک ہوتی ہو.اور یہ بھی اس لئے کہ مظاہرہ کرنا کوئی مذہبی چیز نہیں بلکہ سیاسی ہے.اور کسی جماعت کے مذہبی مرکز پر سیاسی دباؤ ڈالنا کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا.مگر اب احرار نے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ اگر ہمیں روکا گیا ہے تو قادیان میں احمدیوں کے سالانہ اجتماع کو بھی روک دیا جائے.ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ اگر یہ اعلان کر دیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم ﷺ کا بروز ، آپ کا نائب اور خلیفہ مانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور انہوں نے قرآن کریم کے جو معانی بتائے وہی صحیح اور درست ہیں

Page 735

خطبات محمود ۷۳۰ سال ۱۹۳۵ء اور مسلمانوں کی ترقی آپ پر ایمان لانے سے وابستہ ہے.تو اس کے بعد اگر ہم ان کے جلسہ کو بشرطیکہ اس میں شرافت سے کام لیا جائے اور اشتعال انگیزی نہ ہو ، روکیں تو وہ جو جی میں آئے کہیں لیکن اگر وہ ان باتوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم اور وہ ایک صف میں کس طرح کھڑے ہو سکتے ہیں.غرض ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ کوئی عقل اور سمجھ کی بات ان کے منہ سے نہیں نکلتی حالانکہ ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں ،عربی دان بھی ہیں، انگریزی دان بھی ہیں ، مولوی بھی ہیں ، لیڈر بھی ہیں ، مگر میں جب یہ باتیں سنتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کیا ان میں سے کسی کے دل میں بھی خدا تعالیٰ کا خوف نہیں رہا.یہ بھی تو ایک زبر دست ثبوت ہے اِس بات کا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ماً مور کی ضرورت ہے.آج کہاں ہے وہ سچائی جس پر اسلام کو فخر تھا.کہاں ہے وہ سچائی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کر سکتی تھی بلکہ وہ تو الگ رہی جو سچائی پرانے زمانہ میں کفار میں پائی جاتی تھی اُس کا نمونہ بھی تو اب ان لوگوں میں نہیں ملتا رسول کریم ﷺ نے قیصر کو ایک دفعہ ایک تبلیغی خط لکھا جب خط اُس کے پاس پہنچا تو اُس نے کہا مکہ کا کوئی آدمی بلاؤ جس سے میں اس مدعی نبوت کے حالات دریافت کروں.اتفاقاً ابوسفیان تجارت کے لئے وہاں گئے ہوئے تھے لوگوں نے انہیں پیش کیا.ابوسفیان اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے.بادشاہ نے انہیں بلایا اور ان کے پیچھے بعض مکہ کے اور آدمی کھڑے کر دیئے اور کہا میں اس سے بعض باتیں پوچھنا چاہتا ہوں اگر یہ کسی بات کا غلط جواب دے تو تم بتا دینا.ابوسفیان خود ہی روایت کرتے ہیں کہ جب اس نے ایسا کیا تو مجھے بڑی مشکل پیش آئی اور میں نے کہا میرے ساتھی اس نے میرے پیچھے کھڑے کر دیئے.اگر میں اسلام کی دشمنی کی وجہ سے کسی بات میں جھوٹ بول دوں تو ممکن ہے اُن میں سے کوئی بول پڑے اور مجھے شرمندہ ہونا پڑے.اس لئے جب قیصر نے سوالات کئے تو وہ صحیح صحیح جوابات دیتے گئے.ایک سوال اُس نے رسول کریم کے متعلق یہ بھی کیا کہ کیا اس نے کبھی معاہدات کو توڑا ہے وہ کہنے لگے ابھی تک تو اس نے کسی معاہدہ کو نہیں تو ڑا لیکن اب ایک ہماری قوم نے اس سے معاہدہ کیا ہے معلوم نہیں وہ اس کو تو ڑتا ہے یا قائم رکھتا ہے.ابو سفیان کہتے ہیں اُس نے پہلے جتنے سوالات کئے ان میں کسی کے جواب میں میں چالا کی نہ کر سکا.اب جو اُس نے یہ سوال کیا تو میں نے یہ فقرہ ملا دیا کہ اب ایک معاہدہ اس سے ہوا ہے دیکھیں وہ اسے توڑتا ہے یا نہیں.سے گویا رسول کریم ﷺ کا ایک اهد ترین دشمن بھی اگر

Page 736

خطبات محمود ۷۳۱ سال ۱۹۳۵ء حقیقت کو مشتہیہ کر سکا تو صرف اس طرح نہ کہ کھلے طور پر جھوٹ بول کر.مگر اسلام نے سچائی کا جو نمونہ دکھا یا وہ تو نظیر نہیں رکھتا.اسلامی عہد میں ایک دفعہ ایک شخص کو پھانسی کی سزا ہوئی جب اُسے قتل کیا جانے لگا تو اُس نے کہا میرے گھر یتامی و مساکین کی بہت سی امانتیں پڑی ہیں اگر میں قتل ہو گیا تو ان کا مال ضائع ہو جائے گا مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کا مال ان کے سپر د کر آؤں.انہوں نے پوچھا اگر تو بھاگ جائے تو تیرا ضامن کون ہوگا ؟ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا.ایک صحابی کھڑے نظر آئے اُن کے چہرہ پر چونکہ اس نے نرمی اور محبت کے آثار دیکھے اس لئے کہنے لگا یہ میرے ضامن ہیں.انہوں نے اُس صحابی سے پوچھا تو وہ کہنے لگے ہاں میں اس کی ضمانت دیتا ہوں.وقتِ مقررہ کے قریب تک جب وہ نہ آیا تو لوگوں کے دلوں میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اب اس کی بجائے صحابی کوسزا بھگتنی پڑے گی لیکن جب عین آخری وقت آیا تو لوگوں نے دیکھا دُور سے ایک سوار بے تحاشہ اپنے گھوڑے کو دوڑاتا چلا آ رہا ہے اور اتنی تیزی اور شدت سے دوڑا رہا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا اُس کی رانوں کے نیچے مر جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا ادھر وہ سوار گھوڑے سے اترا اور اُدھر گھوڑے نے دم توڑ دیا.وہ سوار وہی شخص تھا جس کے لئے سزائے موت تجویز ہوئی تھی وہ کھڑا ہوا اور اُس نے کہا میں اتنی تیزی سے اس لئے آ رہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ وعدہ کی خلاف ورزی ہو جائے حالانکہ وہ ایسا شخص تھا جس کے لئے پھانسی کی سزا تجویز ہوئی تھی.اب بتاؤ کہ اس عہد میں کتنے مسلمان ہیں جنہیں ہفتہ بھر کی بھی قید کی سزا ملی ہو اور وہ وعدہ کر کے جائیں اور پھر وقت پر آجائیں.یہ وہ اسلامی صداقت تھی جس کا صدیوں تک لوگوں کے دلوں پر اثر رہا.مگر آج کہاں ہے یہ صداقت ؟ کہاں ہے یہ دیانت ؟ اور کہاں ہے یہ راستی؟ ہر بات دھوکا اور ہر بات میں فریب دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں نجات ہے.حالانکہ اصل نجات وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے.جب ایک علیم وخبیر اور قادر و مقتدر خدا آسمان پر موجود ہے تو یہ دھوکا کہاں تک چل سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ احرار کو ہر روز ذلتیں نصیب ہوتیں اور ہر روز رُسوائیاں ہوتی ہیں.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ زمین کے کناروں سے احمدیت کو بڑھاتا چلا جارہا ہے.کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ باوجود ان کی تمام مخالفتوں کے احمدیت ترقی کر رہی ہے.یہی مسجد اس پر گواہ ہے کہ

Page 737

خطبات محمود ۷۳۲ سال ۱۹۳۵ء احمدیت کہاں سے کہاں پہنچی.پہلے یہ چھوٹی سی تھی.میرے بائیں طرف جو مسجد کا حصہ ہے اس کا بھی نصف اُس وقت مسجد تھا اور وہ بھی خالی رہتا تھا لیکن آج اس سے تین چار گنے مسجد بڑی ہوگئی ہے اور اب بھی لوگ باہر اور چھتوں پر بیٹھے ہیں اور جب نماز ہوگی تو گلیوں میں انہیں پھیلنا پڑے گا.یہ نصرت آخر کیوں ہوئی ؟ اس لئے کہ سچائی اور صداقت ہمارے پاس ہے اور خدار استی کی تائید کرتا لیکن جھوٹ کی تائید نہیں کیا کرتا.اس کے بعد میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں یہ مخالفتیں ہماری طبیعت میں تشویش پیدا کرتی ہیں اور ہمارے اصل کاموں سے ہٹا کر ہمیں دوسری طرف متوجہ کر دیتی ہیں وہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان مخالفتوں کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ رہی ہیں.اور یہ مخالفت میں اس بات کی گواہ ہیں کہ ابھی ہمارے سامنے بہت بڑا کام پڑا ہے جسے ہم نے پورا کرنا ہے.آج کونسی آواز ہے جو احمدیت کے خلاف اُٹھتی ہو اور لوگ اُس پر دیوانہ وار لبیک کہنے کے لئے تیار نظر نہ آتے ہوں.آج یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر لوگوں میں عزت مل سکتی اور روپیہ کمایا جاسکتا ہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ احمدیت کی مخالفت کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے تھے اس زمانہ میں لوگوں کو دو ہی طرح عزتیں مل رہی ہیں ہمیں مان کر یا ہمارا انکار کر کے.آپ فرماتے بہر حال ہمارے ذریعہ سے ہی لوگوں کو رزق مل رہا ہے یعنی یا تو ماننے والے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت حاصل کر لیتے ہیں یا انکار کرنے والے لوگوں میں عزت حاصل کر لیتے ہیں.اور فرمایا کرتے ہمارے مخالفوں کو تو ہمارا ممنونِ احسان ہونا چاہئے کہ وہ محض ہماری وجہ سے روٹیاں کھا رہے ہیں.اور واقعہ میں دیکھ لو جو مولوی ہمارے سلسلہ کی مخالفت نہیں کرتے ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.مگر جو مخالفت کرنے والے مولوی ہیں اُن کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے.پہلے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اُٹھے اور اُنہوں نے خوب مخالفت کی.لوگوں نے ان کا ساتھ دیا حتی کہ انہیں یہ وہم ہو گیا کہ گویا وہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے نمائندہ ہیں.پھر ان کے بعد چھوٹے چھوٹے مخالف تو بہت اُٹھے لیکن صحیح معنوں میں مولوی ثناء اللہ صاحب ان کے جانشین ہوئے اور ہمارے سلسلہ کی مخالفت کی وجہ سے ان کی بڑی شہرت ہوئی.چنانچہ ایک دفعہ وہ قادیان آئے تو انہوں نے چیلنج دیا کہ مرزا محمود کو کہو وہ میرے ساتھ کلکتہ تک چلے پھر دیکھے کہ پتھر کس پر پڑتے ہیں اور پھول کس پر

Page 738

خطبات محمود ۷۳۳ سال ۱۹۳۵ء.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر وہ کلکتہ تک جاتے تو انہیں ہر جگہ پھول پڑتے اور مجھے ہر جگہ پتھر.اور میں نے جب یہ بات سنی تو یہی جواب دیا کہ انہوں نے جو کہا بالکل صحیح ہے رسول کریم ﷺ نے بھی جب دعوائی نبوت کیا تھا تو آپ پر پتھر پڑا کرتے تھے اور ابو جہل نے جب آپ کی مخالفت کی تھی تو اس پر ہر جگہ پھول ہی برسائے جاتے تھے.پس مولوی صاحب نے خود اپنے منہ سے اقرار کر لیا کہ میں رسول کریم ﷺ کا متبع ہوں اور وہ اُس مقام پر کھڑے ہیں جس پر ابو جہل تھا.میں محمد ﷺے کے شاگردوں اور غلاموں میں سے ہوں اور وہ ابو جہل کے شاگرد اور غلام ہیں.آخر شاگرد نے آقا کی خصوصیات ہی لینی ہیں علیحدہ خصوصیات وہ کہاں سے لے.وہ بوڑھے ہوئے تو مولوی ظفر علی صاحب نے سلسلہ کی مخالفت شروع کر دی اور ان کی بھی خوب آؤ بھگت ہوئی اور لوگوں میں انہوں نے اچھی عزت حاصل کی.ان کا دور دورہ ختم ہوا تو احرار آگئے اور انہوں نے بھی اپنی عزت بڑھانے اور روپیہ کمانے کا یہی ذریعہ اختیار کیا کہ احمدیت کی مخالفت کی جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں ہماری مخالفت کی ایک زبر دست رو شروع ہے اور ان میں ہمارے خلاف اس قدر جوش اور غیظ و غضب بھرا ہوا ہے کہ جو بھی انہیں ہمارا مخالف ملتا ہے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں.جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مخالفت کی تو سب لوگ ان کے پیچھے ہو گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے مخالفت کی تو سب اُن کے پیچھے ہو گئے.مولوی ظفر علی صاحب نے مخالفت شروع کی تو لوگ ان کے پیچھے چل پڑے.اور جب احرار نے مخالفت کی تو ان کے پیچھے ہو لئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر ہمارے خلاف اس قدر جذبات عناد موجود ہیں کہ انہیں ہمیشہ ایسی نالی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سے وہ اپنا جوش نکال سکیں.جب قلوب کی یہ کیفیت ہو ، جب بغض اس قدر بڑھ چکا ہو اور جب عداوت اتنی ترقی پر ہو تو اُس وقت بھی احمدی اگر اپنی قربانیوں میں سستی کریں تو ایسے احمدیوں سے زیادہ قابل ملامت اور کون ہو سکتا ہے.دیکھو میں نے تم کو وقت پر دشمن کے حملہ سے ہوشیار کر دیا تھا اور کئی سال پہلے کہ دیا تھا کہ اب تغیرات زیادہ زور سے پیدا ہوں گے.ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ مخالفین کی پہلی جد و جہد انفرادی ہو اکرتی تھی مگر اس کے بعد ان کی ہر جد و جہد پہلے سے زیادہ منظم ہوتی جارہی ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی جد و جہد منظم نہیں تھی.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب آئے تو انہوں نے تنظیم کی.

Page 739

خطبات محمود ۷۳۴ سال ۱۹۳۵ء اہلحدیث کو اکٹھا کیا، ان کی انجمنیں بنائیں ، ایک ہفتہ وار اخبار با قاعدگی کے ساتھ ہمارے خلاف شائع کیا ، اور ہماری مخالفت کو منظم طریق پر چلایا.پھر مولوی ظفر علی صاحب آئے.ان کا حلقہ اثر زیادہ وسیع تھا.اخبار لوگوں میں بہت پڑھا جاتا تھا اس لئے ان کے ذریعہ ہماری مخالفت کی آگ اور زیادہ دُور دُور تک پھیلی.پھر احرار آئے جو ان سے بھی زیادہ منظم تھے.گویا دشمن کی فوج جس سے اس وقت تمہارا مقابلہ ہے وہ ہر حملہ کے وقت یہ جانچتی ہے کہ اسے کتنی طاقت کی ضرورت ہے.اور جب وہ محسوس کرتی ہے کہ پہلا حملہ اس کا اتنا شدید نہ تھا جس سے احمدیت کو نقصان پہنچے.اور اس کے کچلنے کے لئے اسے اور زیادہ طاقت کی ضرورت ہے تو وہ اور زیادہ منظم ہو جاتی اور مخالفت کے سامان مہیا کرتی ہے.اور جب دیکھتی ہے کہ وہ سامان بھی کافی نہیں تو پھر اور زیادہ مخالفت کے سامان جمع کرنے لگتی ہے.پس تم مت خوش ہو اس بات پر کہ احرار کچلے ہوئے نظر آتے ہیں.اگر تم نے مخالفت کی اصل روح کو نہ کچلا تو اب جو تمہاری مخالفت کے لئے اُٹھیں گے ، وہ احرار بھی زیادہ طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں گے تم کو غور کرنا چاہئے کہ کیا تم بھی ہر حملہ کے بعد پہلے سے زیادہ قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہو ؟ اور کیا تمہارا قدم بھی ایثار اور اخلاص میں پہلے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے یا ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے؟ تم مت دیکھو اس بات کو کہ تمہارا بجٹ پہلے ایک لاکھ کا ہوا کرتا تھا اور اب دو تین یا چار لاکھ کا ہے.اس لئے کہ اگر بجٹ زیادہ ہے تو تمہاری تعداد بھی تو بڑھ گئی ہے دیکھنا یہ چاہئے کہ تم میں سے ہر فرد کتنی قربانی کرتا ہے.اگر وہ قربانی پہلے سے زیادہ نہیں تو کچھ بھی نہیں.اگر ایک شخص جس کے پاس اس سال ایک سو روپیہ ہے وہ اس میں سے ایک روپیہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اور اگلے سال دو سو ملنے پر صرف ڈیڑھ روپیہ دیتا ہے تو کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس نے قربانی میں ترقی کی ؟ ترقی تب ہوتی جب وہ دوسو ملنے پر تین یا چار روپے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا پس اگر تمہیں اپنی قربانیاں زیادہ نظر آتی ہیں تو تمہیں دیکھنا چاہئے کہ تمہاری جماعت بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے اور جماعت کی زیادتی کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کہا جا سکتا کہ جماعت نے قربانیوں میں ترقی کی بلکہ یہی کہا جائے گا کہ جماعت اپنی جگہ پر کھڑی ہے.اور میں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگ ایسے ہیں جو اپنی قربانی کے پہلے مقام پر کھڑے ہیں اور وہ اپنی جگہ سے ہلنا بہت معیوب سمجھتے ہیں لیکن یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہیں اس مقام پر کھڑا نہیں رکھے گا.اُس نے تمہیں چنا ہے اس لئے کہ تمہیں صحابہ کا مثیل بنائے ، اس نے تمہیں چنا ہے اس لئے

Page 740

خطبات محمود ۷۳۵ سال ۱۹۳۵ء کہ تمہیں رسول کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کی مانند بنائے.پس اگر تم اپنے مقام پر کھڑے رہو گے اور نہیں ہلو گے تو جس طرح کند چھری کو سان پر چڑھایا جاتا اور اُسے تیز کر کے اُس کے زنگ کو دور کیا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ تمہیں رگڑے گا اور اتنا رگڑے گا کہ تمہارا سارا زنگ دور ہو جائے گا تمہارے سپر د اس وقت ایک سبق کا یاد کرنا کیا گیا ہے.جس طرح بچے جب اپنا سبق یاد نہیں کرتے تو استاد انہیں مارتا ہے اسی طرح تمہارے خدا نے بھی تمہارے لئے ایک کلاس کھول رکھی ہے.اُس خدا نے جس طرح پہلے محمد علیہ کے زمانہ میں ایک جماعت کو سبق سکھایا اسی طرح اب وہ تمہیں بھی سبق سکھائے گا.اگر تم اپنی مرضی سے سبق یاد کر لو گے تو تمہیں آرام رہے گا اور اگر عمدگی سے سبق یاد نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ کی قیچیاں تمہیں سیدھا کر کے چھوڑیں گی.اور جب تک خدا تعالیٰ پھر وہی نور قائم نہ کر دے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اُس نے قائم کیا تھا ، جب تک صداقت پھر وہی قائم نہ ہو جائے جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قائم تھی ، جب تک دیانت اُسی طرح قائم نہ ہو جائے جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قائم تھی ، جب تک خدا تعالیٰ کے کلام کا ادب اور احترام اسی طرح قائم نہ ہو جائے جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قائم تھا ، جب تک قربانی اور ایثار کی وہی روح پیدا نہ ہو جائے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قائم تھی ، اور جب تک بنی نوع انسان کی شفقت اور محبت کا وہی مادہ تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہو جائے ، جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تھا اُس وقت تک وہ دم نہیں لے گا نہیں لے گا اور نہیں لے گا.اگر تم اپنی اندرونی تنظیم سے اپنے آپ کو درست نہ کرو گے تو خدا تعالیٰ بیرونی مخالفوں کو تمہاری درستی کے لئے کھڑا کر دے گا.اور اگر بیرونی مخالفوں سے تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو خدا تعالیٰ کی قمیاں تمہاری اصلاح کریں گی.اور اگر نتیجیوں سے اصلاح نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ تمہاری ڈنڈوں سے اصلاح کرے گا اور اگر ڈنڈوں سے اصلاح نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ تلواروں سے تمہاری اصلاح کرے گا مگر وہ نہیں چھوڑیگا جب تک تمہارے دل کے زنگ دُور نہ ہو جائیں ، جب تک تمہارے اعمال صحابہ والے اعمال نہ ہو جائیں.دیکھو! دنیوی حکومتوں میں جب جنگ چھڑتی ہے تو جو حکومتیں تمدن میں ادنی ہوتی ہیں ان کی نسبت ہمیشہ یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ ان کا پانچ ہزار سپاہی دشمن کے پانچ سو کے مقابلہ میں ہار گیا.یہ کیوں ہوتا ہے اس لئے کہ اس پانچ ہزار سپاہی کی تربیت صحیح رنگ میں نہیں کی گئی تھی مگر دوسرے پانچ سو

Page 741

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کی تربیت صحیح رنگ میں کی گئی تھی اور یہ ایک علامت ہوتی ہے حکومت کی فرض شناسی کی.اب بتاؤ کہ اگر ڈ نیوی گورنمنٹوں میں سے جو ہوشیار ہوتی ہیں وہ اپنی فوج کی اعلیٰ تربیت کا خیال رکھتی ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی فوج کے سپاہیوں کو تربیت کے بغیر ہی چھوڑ دے.پس جب تک تمہارے قلوب میں تغیر نہ ہو گا ، جب تک تمہارے اندر آگ نہ لگ جائے گی ایسی آگ جو تمام خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دے ، ایسی آگ جو جہالت ، ستی ، بے دینی اور منافقت کا نشان تک مٹادے اُس وقت تک خدا تعالیٰ دم نہیں لے گا اور نہ مخالفین کی مخالفت میں کمی آنے دے گا.میں نے گزشتہ سال سے عمداً تحریک جدید شروع کی ہے.ورنہ میں ۱۹۲۷ء ۱۹۲۸ء سے یہ اعلان کرتا چلا آ رہا ہوں کہ وہ زمانہ قریب آگیا ہے جس میں شیطان اور رحمن کی آخری جنگ مقدر ہے، جس میں تمہیں بہت زیادہ ہوشیار اور بیدار ہونا چاہئے ، جس میں تمہیں بہت زیادہ قربانیاں کرنی چاہئیں اور جس میں تمہیں بہت زیادہ زور اور توجہ سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئیے.میں نے کہا مگر تم نے میری باتوں کو جنسی میں اُڑا دیا تم نے ایک کان سے ان باتوں کو سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا.میں نے تمہیں جگا یا مگر تم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں لیکن میرا خدا جو آسمان پر ہے اُس نے میری باتوں کو سنا اور اُس نے تمہاری آنکھیں کھولنے کے لئے احرار کو تم پر مسلط کر دیا پھر اُس نے اُن کی آواز میں قبولیت پیدا کی.لوگوں کو اُن کی طرف متوجہ کیا شی کہ ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک تمہاری مخالفت میں شور مچ گیا.تب وہ آواز جو میری زبان سے تم ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے احرار کے ذریعہ ماننے پر مجبور ہوئے.مگر میں کہتا ہوں اب بھی تم جو کچھ سمجھتے ہو وہ بہت کم ہے.اس سے بہت زیادہ خطرہ ہے جتنا تم سمجھتے ہو ، اس سے بہت زیادہ ضرورت ہے بیداری کی جتنی تم سمجھتے ہو ، اس سے بہت زیادہ ضرورت ہے قربانیوں کی جتنی تم سمجھتے ہو، اور اس سے زیادہ ضرورت ہے محبت ، ایثار اور اخلاص کی جتنی تم سمجھتے ہو.اور یاد رکھو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز اُٹھتی ہے تو اسے رڈ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر نبی مبعوث کیا.نبی بھی کوئی معمولی نبی نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کا بروز ، آپ کا مظہر اور آپ کا خلیفہ.بڑے آدمیوں کے خلیفے بھی بڑے ہوتے ہیں اور بڑے بادشاہوں کے نائب بھی بڑے ہوتے ہیں.ہمارے بادشاہ ملک می بہت بڑے ہیں چنانچہ دیکھو! کتنے راجے اور نواب ہیں جو سر کا رکہلاتے ہیں مگر بادشاہ نہیں.ان کے

Page 742

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء نائب وائسرائے کے نام سے ان کا دم خشک ہونے لگتا ہے ، کتنے راجے ، اور مہا راجے ہیں کہ وائسرائے نہیں پولیٹیکل سیکرٹری کے نام سے ان کا دم خشک ہونے لگتا ہے ، کتنے راجے اور مہا راجے ہیں کہ پولیٹیکل سیکرٹری نہیں ریذیڈنٹ کا نام لینے سے اُن کا دم خشک ہونے لگتا ہے.پھر کتنے راجے اور مہاراجے ہیں کہ ریذیڈنٹ نہیں ریزیڈنٹ کے نیچے جو سیکرٹری ہوتا ہے اُسی کا نام لینے سے ان کا دم خشک ہونے لگتا ہے.وہ ان حکام کی دعوتیں کرتے ، خاطر و مدارات کرتے اور انہیں خوش رکھنے کے لئے کئی کئی طریق اختیار کرتے ہیں.یہ علامت ہے اس بات کی کہ انگلستان کا بادشاہ بہت بڑا ہے.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جسے اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کا سردار قرار دیا ، جسے افضل الرسل اور خاتم النبین کہا اور جس کی غلامی میں بنی نوع انسان کی نجات کو محصور قرار دیا اُس کا نائب اور بروز ہونا کوئی معمولی بات ہے.جسے خدا تعالیٰ نے سید الکونین قرار دیا ، جسے خدا تعالیٰ نے سید ولد آدم کہا ، جسے خدا تعالیٰ نے اپنا محبوب کہا ، اور جسے خدا تعالیٰ نے نہ صرف محبوب بلکہ محبوب گر کہا جو شخص اُس کے نام پر آتا، جو شخص اُس کے قدم پر آتا اور جو شخص اُس کی بروز یت کی چادر اوڑھ کر خدا سے نبی اور رسول کا لقب پاتا ہے کون ہے جو اس کے مقابل پر کھڑا ہو سکے.کون ہے جو اس کی بات کو رڈ کر کے امن اور سلامتی کی زندگی حاصل کر سکے.پس خدا تعالیٰ نے تم میں نبی بھیجا بہت بڑا نبی.ایسا نبی جسے محمد ﷺ کی کامل غلامی کا شرف حاصل تھا.اُس نے اپنی آواز بلند کی اور دنیا کو خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے بلایا اور جب خدا تعالیٰ نے اُسے اُٹھا لیا جیسا کہ سب انبیاء اٹھائے گئے تو اُس کے بعد اُس کے خلفاء آئے.وہ خلفاء بھی ویسا ہی گوشت پوست رکھتے ہیں جیسا کہ عام انسان اور درحقیقت کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جو گوشت پوست نہ رکھتا ہو پس وہ انسان ہیں تمہارے جیسے مگر بسا اوقات جب خدا تعالیٰ اُن کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے تو وہ اُن کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی بات کہلاتی ہے اور جو شخص اُن کی بات پر کان نہیں دھرتا وہ اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوتا ہے جس طرح ڈ نیوی بادشاہوں کے سامنے.ان کے نائبوں کی ہتک کرنے والے جواب دہ ہوتے ہیں اور وہ ویسے ہی قابل گرفت ہوتے ہیں جس طرح دُنیوی بادشاہوں کے سامنے اُن کے نائبوں کی ہتک کرنے والے قابل گرفت ہوتے ہیں.کس طرح ممکن ہے کہ دُنیوی بادشاہ اپنے نائبوں کی ہتک کرنے والے کو سزا د یں لیکن خدا تعالیٰ اپنے نائبوں کی بات پر کان نہ دھرنے والوں کو یونہی چھوڑ دے.پس اس

Page 743

خطبات محمود ۷۳۸ سال ۱۹۳۵ء کی طرف سے ان کی زبانوں کو برکت دی جاتی ہے.اور بسا اوقات جب کوئی فقرہ ان کی زبان پر جاری کیا جاتا ہے تو گو وہ الہامی الفاظ نہیں ہوتے مگر آئندہ رونما ہونے والے واقعات کے متعلق خدا تعالیٰ ان میں پیشگوئی رکھ دیتا ہے جو اپنے وقت پر پوری ہوتی اور لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے.پس میں نے قبل از وقت آپ لوگوں کو ہوشیار کر دیا تھا چنانچہ ایک مجلس شوری کے موقع پر میں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج سے دس سال کے اندر اندر ہندوستان میں ایسا تغیر ہونے والا ہے جو سچ اور جھوٹ کا فرق کھول کر رکھ دے گا اور دنیا پر یہ روشن کر دے گا کہ کس جماعت کو ہندوستان میں زندہ رہنا چاہئے اور کس کو نہیں.اب تم دیکھتے ہو کہ تمہارے ساتھ ایک آخری جنگ شروع ہے.تمام دنیا تمہاری مخالف ہو رہی ہے اور ہر جھوٹ تمہارے خلاف بولا جاتا ہے اگر آج بھی تم اپنے اندر تغیر پیدا نہیں کرتے ایسا تغیر جو تمہاری صورتوں کو بدل دے، ایسا تغیر جو تمہارے حالات کو بدل دے، اور ایسا تغیر جو تمہارے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت پیدا کر دے تو تم کبھی بھی ان فضلوں اور انعامات کے وارث نہیں ہو سکتے جو صحابہ کو ملے.تم نے احمدیت میں داخل ہو کر آخر کیا لیا ؟ کیا احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے تمہیں زمینیں مل گئیں ؟ یا احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے تمہیں باغات مل گئے ؟ یا احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے تمہیں خطاب اور عہدے مل گئے ؟ اگر سوائے اس کے کہ احمدیت میں داخل ہو کر تم نے لوگوں سے گالیاں لیں اور ماریں کھا ئیں اور کچھ نہیں لیا تو کیا یہی چیز تھی جس کے لینے کے لئے تم احمدیت میں داخل ہوئے تھے ؟ اگر یہ عشق کی مار ہے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی چیز نہیں.اور اگر یہ ذلت کی مار ہے، کمزوری کی مار ہے تو اس سے بڑھ کر ذلیل بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان کی نہ اپنوں کی نگاہ میں عزت رہے نہ بیگانوں کی نگاہ میں.پس اس حقیقت کو سمجھو اور ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کرو جن میں اس وقت تم مبتلاء ہو اور چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص عہد کرے کہ وہ دنیا کے لئے ایسا ہی اہم وجود بن کر رہے گا جیسے قطب ستارہ اہمیت رکھتا ہے.سورج کتنا بڑا ہے مگر وہ قطب کی طرف جھکا ہوا ہے زمین کتنی بڑی ہے مگر وہ قطب کی طرف جھکی ہوئی ہے ،ستارے کتنے بڑے ہیں مگر وہ سب قطب کی طرف جھکے ہوئے ہیں گویا قطب کے سامنے ہر ایک ستارے اور سیارے کو مؤدب ہو کر کھڑا ہونا پڑتا ہے پس جب تک تم اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے دل میں اتنا عشق اور اتنی محبت

Page 744

خطبات محمود ۷۳۹ سال ۱۹۳۵ء پیدا نہیں کرتے کہ دنیا تمہارے سامنے اپنا سر جھکا کر چلے اور وہ مجبور ہو کر تمہاری طرف مائل ہواُس وقت تک تم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور مت سمجھو کہ قطب بنا کوئی مشکل بات ہے.ہوسکتا ہے کہ اس وقت تم کامل نیکی کا ارادہ کر لو اور جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو تو تم قطب بن چکے ہو.ہو سکتا ہے تم رات کوسوتے وقت کامل ایثار و قربانی والا عشق اپنے اندر پیدا کر لو اور جب صبح ہو تو تمہیں قطب کا مقام حاصل ہو چکا ہو.اللہ تعالیٰ کی دین سے مایوس مت ہو کہ جب وہ دینے پر آتا ہے تو ایک ساعت میں کچھ کا کچھ کر دیتا ہے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ غار حرا میں مکہ کا ایک غریب عرب بیٹھا اپنے ملک کی حالت زار پر آنسو بہا رہا تھا اور اس کی ترقی کے وسائل پر غور کر رہا تھا تو ایک ہی سکینڈ میں اسے اللہ تعالیٰ نے کیا سے کیا بنا دیا.جب وہ حرا میں داخل ہو ا تو وہ صرف مکہ کا ایک غریب باشندہ تھا لیکن خدا تعالیٰ کے مقدس ہاتھ کے چھونے کے بعد جب وہ غارِ حرا سے باہر نکلا تو بادشاہوں کا بادشاہ اور نبیوں کا سردار تھا.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ قادیان کی گمنام بستی کا ایک گمنام مغل جس کی اپنی حالت یہ تھی کہ قادیان کے رہنے والے باشندے بھی اُس کی شکل تک سے ناواقف تھے وہ ایک دن اپنے حجرہ میں بیٹھا دنیا کی بے دینی پر غور کر رہا اور مسلمانوں کی گری ہوئی حالت کو دیکھ دیکھ کر رنج والم سے کباب ہو رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے کیا سے کیا بنا دیا.جب وہ حجرہ میں گیا تو اُس وقت ایک تباہ شدہ مغل خاندان کا ایک غریب اور گمنام فرد تھا مگر خدا تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ کے چھونے کے بعد جب اُس نے حجرہ سے باہر قدم نکالاتو وہ اقلیم روحانیت کا بادشاہ تھا.خود خدا تعالیٰ نے عرش سے اسے مخاطب ہوکر کہا کہ دیکھ! میں نے تجھے برکت دی اب بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اور میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا." تم نے اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھا.تم نے اپنی آنکھوں سے پل بھر میں کچھ کا کچھ بنتے دیکھا.پھر تم کیوں خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے مایوس ہو گئے اور کیوں تم قربانی کرنے سے ڈر گئے ؟ تمہاری قربانیوں کی تو اتنی بھی حقیقت نہیں جتنی اُس بڑھیا کی تھی جو یوسف علیہ السلام کی خریداری کے لئے روٹی کا کالا لیکر گئی تھی.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ بڑھیا جب روئی کا کالا لیکر حضرت یوسف کی خریداری کے لئے گئی تو لوگ اُس کی نادانی پر ہنسے.لیکن عشق نے ادب سے اُس کا دامن تھام لیا.عشق بھی اُس کے فعل پر ہنسا مگر اس لئے نہیں کہ اُس نے نادانی کا فعل کیا بلکہ اِس لئے کہ اُس نے کہا میں نے آج چھوٹے اور بڑے کا امتیاز مٹا کر رکھ

Page 745

خطبات محمود ۷۴۰ سال ۱۹۳۵ء دیا ہے.مگر اُس بڑھیا کی روئی کا گالا تو نا کام واپس آیا کیونکہ یوسف ایک ہی کے ہاتھ بک سکتا تھا اور اس کے لئے سب سے اچھا گھر چنا گیا مگر ہمارا خدا غیر محدود ہے.وہ اپنے ہر طالب کے گھر میں جا سکتا ہے پھر وہ رحمان اور رحیم ہے وہ بڑھیا روئی کا ایک کالا لیکر گئی تھی اور ناکام واپس آئی.مگر تم اخلاص کے ساتھ اگر روٹی کا ایک پھاہا بھی لیکر جاؤ گے تو خدا تعالیٰ تمہاری اس قربانی کو قبول کرے گا.اور وہ کہے گا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.اب میں تمہارا ہو چکا.خدا تعالیٰ کی قیمت کون لگا سکتا ہے؟ دنیا کی کوئی چیز اُس کی قیمت نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ مالک ہے ہر چیز کا اور خالق ہے تمام مخلوق کا لیکن ساتھ ہی اُس کا رحم اتنا وسیع اور اُس کا فضل اتنا عالمگیر ہے کہ جب تم معمولی سی قربانی کر کے بھی اُس کے حضور جاؤ تو وہ تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہو جاتا ہے.پس کیوں تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گئے ؟ کیوں تمہارے دلوں میں افسردگی کی تاریکی آگئی ؟ تمہاری کسی چیز کی خدا کو ضرورت نہیں.صرف تمہارے دل کی خدا کو ضرورت ہے.ایک محبت رکھنے والے دل کی.ایک عشق رکھنے والے دل کی.ایک دردر کھنے والے دل کی تب خدا تمہارا ہو جائے گا اور تب تم وہی کہو گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا کہ ھے آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا پس آج تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے بڑی سے بڑی نعمت مہیا کر دی ہے اور وہ اس کا اپنا وجود ہے جو اس نے تمہارے سامنے رکھ دیا.وہ کہہ رہا ہے کہ آؤ اور مجھے لے لو.اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں صرف اخلاص اور محبت رکھنے والے دل کی ضرورت ہے ، وہ پیدا کر و.آج کیا یا کیوں یا کیسی یا کس طرح کا کوئی سوال نہیں.اب کوئی شخص یہ نہیں پوچھ سکتا کہ کیسی قربانی کی ضرورت ہے، کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ کیوں قربانی کریں، کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ اب ہم کیا کریں اور کس طرح کریں.آج تم سے یہ مطالبہ ہے کہ تم کہو کہ تمہارا سب کچھ حاضر ہے، اُسے قبول کر لیا جائے.جب تم سچے دل سے یہ بات کہنے پر تیار ہو جاؤ گے تو خدا تعالیٰ کے فضل تم پر نازل ہوں گے، بے انتہاء فضل نازل ہوں گے.اتنے بڑے بڑے فضل نازل ہونگے کہ آئندہ زمانہ میں آنے والے لوگ تم پر رشک کریں گے.نہ صرف عام لوگ تم پر رشک کریں گے بلکہ بڑے بڑے سردار رشک کریں گے.اور نہ صرف بڑے بڑے سردار رشک کریں گے بلکہ بڑے بڑے بادشاہ تم پر رشک کریں گے اور کہیں گے کاش !

Page 746

خطبات محمود ۷۴۱ سال ۱۹۳۵ء الله اُن سے سب کچھ لے لیا جاتا اور اُنہیں تمہارے ساتھ بغیر دریوں کے فرش پر بیٹھ کر یہ باتیں سننے کا موقع میسر آتا.پس ہوشیار ہو جاؤ اور اس تحریک کے ہر شعبہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو جو میں نے تمہارے سامنے پیش کی.اور یاد رکھو یہ پہلا قدم ہے جو تمہیں اُٹھانے کے لئے کہا گیا.اور اپنے دل سے یہ خیال نکال دو کہ تمہارے لئے دنیا میں کوئی آرام کا موقع ہے.عاشق کے لئے کوئی آرام نہیں ہوتا سوائے معشوق کے مل جانے کے.میں تمہیں عشق الہی ایک مثال کے ذریعہ سے سمجھاتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے بدر کی جنگ میں ایک عورت کو دیکھا جو دیوانہ وار ادھر ادھر پھر رہی تھی اور لڑائی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اضطراب کے ساتھ کبھی ایک طرف جاتی کبھی دوسری طرف.رسول کریم ﷺ نے اسے دیکھا اور آپ کا دل جو محبت کا لازوال خزا نہ تھا کیف عشق سے لبریز ہو گیا.آپ نے صحابہ سے کہا تم نے دیکھا یہ عورت کس اضطراب سے ادھر ادھر پھر رہی ہے.اس کا بچہ گم ہو گیا ہے اور یہ اُس کی تلاش کر رہی ہے.اُس وقت نہایت خون ریز لڑائی جاری تھی ، بڑے بڑے جری اور بہادر سپاہی مسلمانوں کی تلواروں کی تاب نہ لا کر میدانِ جنگ سے بھاگ رہے تھے.اور مکہ کے وہ صنادید جنہیں اپنے زور بازو پر ناز تھا اور سمجھتے تھے کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، اپنی سواریوں کو ایڑیاں مار مار کر بدر کے میدان سے بگا کر دور لے جانا چاہتے تھے، عین اُس حالت میں وہ ضعیف دل عورت تلواروں کے سایہ کے نیچے بھاگتی ہوئی اپنے گمشدہ بچہ کی جستجو کر رہی تھی.یہ نظارہ کوئی معمولی نظارہ نہ تھا.رسول کریم ﷺ نے اسے دیکھا اور آپ اس سے متاثر ہوئے اور آپ نے صحابہ کو بھی یہ نظارہ دکھایا آخر جستجو کرتے کرتے اُس عورت کو اُس کا بچہ مل گیا.اُس نے اسے اٹھا لیا اور محبت اور پیار سے اپنے سینہ سے چمٹا لیا.کوہ لیا بھول گئی اِس بات کو کہ یہ بدر کا مقام ہے جہاں خون ریز جنگ ہو رہی ہے ، وہ بھول گئی اس بات کو کہ اس جنگ میں اس کے بھائی بند قتل ہو کر ڈھیر ہو رہے ہیں ، وہ بھول گئی اس بات کو اس کے عزیز اور اس کے ہم وطن چاروں طرف زخمی ہو کر تڑپ رہے ہیں، وہ بھول گئی اِس بات کو کہ اُس کی قوم کے سردار سرتا پا خون سے لتھڑے ہوئے بھاگتے ہوئے لشکر کو سمیٹنے کی کوشش میں مشغول ہیں ، وہ بھول گئی اس بات کو کہ اُس کی قوم کی عزت خاک میں ملائی جا رہی ہے ، وہ بھول گئی اس بات کو کہ وہ اس وقت مکہ میں امن سے نہیں بیٹھی ہوئی بلکہ بدر کے میدان میں چاروں طرف سے اپنی قوم کے دشمنوں سے گھری

Page 747

خطبات محمود ۷۴۲ سال ۱۹۳۵ء ہوئی ہے.وہ اِن سب باتوں کو بھول گئی اور اسے صرف یہ بات یادر ہی کہ اسے اس کا بچہ مل گیا ہے مگر یراطمینان اسے کب حاصل ہوا ؟ جب اُسے اُس کا بچہ مل گیا اس سے پہلے اُس نے کوئی آرام نہیں کیا کسی بات سے تسلی نہیں پائی کسی خوف نے اسے نہیں ڈرایا.اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہماری محبت اللہ تعالیٰ سے اتنی بھی نہیں جتنی اس عورت کو اپنے بچہ سے تھی ؟ کیا جس طرح وہ عورت تمام خطرات سے غافل ہو کر اپنے بچہ کی تلاش میں مشغول تھی اسی طرح ہم اپنے ازلی ابدی محبوب کی تلاش میں نہیں لگ سکتے ؟ اور کیا ذرا ذرا سا خطرہ اور چھوٹی چھوٹی قربانی ہمیں ڈرا دیتی ہے؟ یا بغیر اس کے کہ وہ پیارا ہمیں ملے ہم تسلی پا کر بیٹھ جاتے اور بغیر اس کے کہ اس کا دیدار ہمیں حاصل ہو ہم جد و جہد کو چھوڑ بیٹھتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو لعنت ہے ہمارے عشق پر اور لعنت ہے ہماری محبت پر.التوبة: ۳۸ تا ۴۲ (الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۵ء) التوبة: ١ تا ٦ بخاری کتاب بدء الوحى باب كَيْفَ كَانَ بَدْء الوحى إِلَى رَسُول الله قمچیاں : کوڑے.تازیانے.چابکیں.چھڑی.پتلی اور لچکدار ٹہنیاں تذکرہ صفحہ ۱۰.ایڈیشن چہارم تذکرہ صفحہ ۳۱۲.ایڈیشن چہارم بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته

Page 748

خطبات محمود ۷۴۳ ۴۴ سال ۱۹۳۵ء قربانیوں کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی فرموده۲۹ /نومبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں چندہ تحریک جدید کے متعلق اعلان کیا تھا اس وقت تک اس کے متعلق جو وعدے آچکے ہیں وہ میرے اندازہ میں اٹھارہ ہزار کے ہیں.ان میں صرف تین یا چار جماعتوں کے وعدے ہیں باقی افراد کی طرف سے ہیں.ان کی زیادتی کا میں صحیح اندازہ تو نہیں کر سکتا مگر اس وقت تک کے وعدوں سے پتہ لگتا ہے کہ اس سال ۳۵ فیصدی کی زیادتی ہے یعنی اٹھارہ ہزار کے وعدے جن لوگوں کی طرف سے ہیں گزشتہ سال ان کے وعدے ساڑھے تیرہ ہزار کے تھے اور ابھی ان میں وہ وعدے بھی شامل ہیں جو یا تو گزشتہ سال کے برابر ہیں اور یا گزشتہ سال سے کم ہیں ورنہ افراد کو لیا جائے تو بعض نے ڈیوڑھا، بعض نے دو گنا وعدہ کیا ہے اور بعض نے اس سے کم زیادتی کی ہے.یہ یا درکھنا چاہئے کہ بعض مخلصین نے گزشتہ سال اپنا سارا اندوختہ دے دیا تھا اور جس نے اپنا سارا اندوختہ گزشتہ سال دے دیا ہو وہ یقینا اس سال گزشتہ سال کے برابر حصہ نہیں لے سکے گا.ان کے علاوہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو گزشتہ سال کچھ نہ کچھ ذرائع آمدنی رکھتے تھے مگر اس سال نہیں رکھتے.پھر بعض ایسے بھی ہیں جن پر اس سال میں کوئی مالی بوجھ پڑ گیا ہے باقی لوگوں میں سے جو دینے کے قابل تھے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے اپنا چندہ بڑھایا ہے.بعض نے کم زیادتی کی ہے مگر اس اصول کو مدنظر رکھا ہے جس کا میں نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ زیادتی نہ کر سکیں وہ قلیل زیادتی ضرور کر

Page 749

خطبات محمود ۷۴۴ سال ۱۹۳۵ء دیں تا ان کا قدم پیچھے نہ رہے.مثلاً دس دینے والے ساڑھے دس کر دیں.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کافی حصہ ایسا ہے جس نے ہیں، پچیس ، پچاس فیصدی کی زیادتی کی ہے اور بعض نے دُگنا کر دیا ہے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس تحریک کی غرض عارضی نہیں ہے وہ وقت آ رہا ہے جب ہمیں ساری دنیا کے دشمنوں سے لڑنا پڑے گا.دنیا سے میری مراد یہ نہیں کہ ہر فرد سے لڑنا پڑے گا کیونکہ ہر قوم اور ہر ملک میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں میرا مطلب یہ ہے کہ تمام ممالک میں ہمارے لئے رستے بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں پس ہماری جنگ ہندوستان تک محدود نہ رہے گی بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ہمیں اپنے پیدا کرنے والے اور حقیقی بادشاہ کی طرف سے جنگ کرنی ہوگی.اگر تو احمدیت کوئی سو سائٹی ہوتی تو ہم یہ کہہ کر مطمئن ہو سکتے تھے کہ ہم اپنے حلقہ اثر کو محدود کر لیں گے اور جہاں جہاں احمدی ہیں وہ سمٹ کر بیٹھ جائیں گے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ جو بات اس کی طرف سے آئی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچائیں اور ہم نے اسے پہنچانا ہے ہمارا پروگرام وہ نہیں جو ہم خود تجویز کریں بلکہ ہمارا پروگرام ہمارے پیدا کرنے والے نے بنایا ہے.اور ہم اس میں کوئی شوشہ بھی کم و بیش نہیں کر سکتے.مجھے یاد ہے غالباً ۱۹۱۱ء یا ۱۹۱۲ء کی بات ہے کہ ایک دن شیخ یعقوب علی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ خواجہ صاحب سے میری باتیں ہوئی ہیں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ تک ان باتوں کو پہنچا دوں.اُس وقت اختلافات شروع ہو چکے تھے اور نبوت و کفر و اسلام کے مسائل زیر بحث تھے.میرا خیال ہے کہ یہ ۱۹۱۱ء یا ۱۹۱۲ء کے ابتداء کی بات ہے کیونکہ اس کے بعد خواجہ صاحب ولایت چلے گئے تھے.ان مسائل کے زیر بحث آنے کی وجہ سے جماعت میں ایک پریشانی اور حیرانی سی پیدا ہو چکی تھی کہ اب کیا بنے گا.شیخ صاحب نے خواجہ صاحب سے گفتگو کی اور مجھے کہا کہ خواجہ صاحب نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ ہر طرح صلح کے لئے تیار ہیں اور کہ اگر میں بھی تیار ہوا تو انہیں کوئی انکار نہیں شیخ صاحب پر انکی اس گفتگو کا اتنا اثر تھا کہ انہوں نے گھر پر آ کر ہی مجھے بلایا.وہ دروازہ اب نہیں رہا پہلے مسجد مبارک کو جو چھوٹی سیڑھیاں چڑھتی ہیں ان کے ساتھ ایک دروازہ ہوا کرتا تھا.اور اس سے گزر کر ایک چھوٹا سا صحن تھا اس کے آگے پھر ایک دروازہ تھا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آتے جاتے تھے شیخ صاحب نے اس اندر کے دروازہ پر آکر دستک دی اور مجھے بلوایا اور کہا کہ خواجہ صاحب سے میری گفتگو ہوئی ہے اور میری طبیعت پر گہرا

Page 750

خطبات محمود ۷۴۵ سال ۱۹۳۵ء اثر ہے کہ خواجہ صاحب کی بھی خواہش ہے کہ کوئی ایسی تدبیر کی جائے جس سے فساد دُور ہو جائے.میں نے انہیں کہا کہ فساد تو میں بھی نہیں چاہتا.آپ خواجہ صاحب سے پوچھ لیں کہ اگر تو ان سے جھگڑا کسی ڈ نیوی چیز کے لئے ہے کوئی چیز میرے پاس ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے یا انہیں مل جانی چاہئے تو میں بغیر کسی عذر کے اُن کو دے دیتا ہوں اور اُن کو اختیار ہے کہ مجھ سے پوچھے بغیر اسے لے جائیں.لیکن اگر اختلاف عقائد کے متعلق ہے تو یہ نہ اُن کا حق ہے نہ میرا کہ بعض باتوں کو چھوڑ کر کوئی درمیانی راہ اختیار کر لیں اور اس طرح صلح نہیں ہوگی بلکہ فساد بڑھے گا اور ہم دونوں دین کے دشمن اور غدار ثابت ہوں گے.پس حقیقت یہ ہے کہ احمدیت ایک مذہبی تحریک ہے یا دوسرے لفظوں میں اسلام کا دوسرا نام ہے کوئی نیا مذ ہب نہیں بلکہ نیا فرقہ بھی نہیں صرف نام کی شناخت کے لئے احمدیت کا لفظ بولا جاتا ہے ورنہ احمدیت در حقیقت نام ہے اُس اسلام کا جو رسول کریم ﷺ دنیا میں لائے.بعض مسلمانوں کی غفلت اور دست برد سے اس میں کئی خرابیاں پیدا ہوگئیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا اور آپ کو قرآن کریم کی وہی تشریح سمجھائی.جو رسول کریم ﷺ کو سمجھائی تھی.پس یہ نام صرف امتیاز کے لئے ہے ورنہ احمدیت کوئی حقیقت نہیں جب تک اس کا ترجمہ اسلام نہ کریں.اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے؟ کیا اس میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے؟ کیا قرآن کا کوئی شوشہ بھی بدلا جا سکتا ہے؟ اگر یہ ہو سکتا ہے تو ہم بھی خیال کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے کام کی تجاویز اور تفاصیل حالات کے مطابق ڈھال لیں گے لیکن جب یہ غلط ہے کہ اسلام میں کوئی رد و بدل ممکن ہو تو یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم اپنے پروگرام کو حالات کے مطابق ڈھال لیں.جب اسلام پہلی دفعہ دنیا میں آیا تو اُس وقت بھی ساری دنیا نے اس سے لڑائی کی اور چاہا کہ یہ نہ پھیل سکے اور اسے غلبہ حاصل نہ ہو لیکن خدا نے اسے پھیلا دیا اور لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے انکار کیا ہر بات سے سوائے اِس کے کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے.اسی طرح اب بھی ہو گا چاہے دشمن شرارت میں حد سے بڑھ جائیں اور دوست ہمت ہار بیٹھیں.خدا تعالیٰ نے جو بات کہی ہے وہ ہو کر رہے گی اور اگر ہم اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوں تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت جاتی رہے گی.آگے بھی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے ہمارے لئے نہیں کیا.آپ میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہماری حیثیت اتنی ہے کہ اللہ

Page 751

خطبات محمود ۷۴۶ سال ۱۹۳۵ء تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز ہماری خدمت پر لگ جائے.ہماری حیثیت ہے کیا.ایک چیونٹی یا مکھی کو ہاتھی سے جو نسبت ہوتی ہے دنیا کے مقابلہ میں ہماری نسبت اس سے بھی کم ہے لیکن یہ چاند اور ستارے جن کے دنیا سے فاصلوں کا بھی تا حال علم نہیں ہو سکا.اب تک جو تحقیقات ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے.ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ایک گھنٹہ میں ساٹھ منٹ ہوتے ہیں ۲۴ گھنٹوں کا ایک دن تمہیں دنوں کا ایک مہینہ اور تین سو ساٹھ دنوں کا ایک سال ہوتا ہے.دنیا نے اس وقت تک جو علم حاصل کیا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کا باہم فاصلہ بارہ ہزا ر روشنی کے سالوں کا ہے یعنی بارہ ہزار کو تین سو ساٹھ سے ضرب دو جو نتیجہ نکلے اسے تمہیں سے اسکے ماحصل کو ۲۴ سے اور پھر اُسے ساٹھ سے اور اس کے ماحصل کو پھر ساٹھ سے ضرب دو تو اتنے میں بنتے ہیں کہ ان کے پڑھنے پر بھی خاصہ وقت خرچ ہوتا ہے اور ابھی معلوم نہیں نئی تحقیقاتوں کے نتیجہ میں اس فاصلہ میں اور کتنا اضافہ ہو جاتا ہے.آج سے چند سال قبل یہ فاصلہ صرف تین ہزار روشنی کے سالوں کا سمجھا جاتا تھا اتنے بڑے عالم کو اللہ تعالیٰ نے جو انسان کی خدمت پر لگایا ہوا ہے تو یقیناً انسانی اعمال اس خدمت کا مقصود نہیں ہو سکتے.ذرا غور تو کرو کہ کروڑوں سال سے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ ایک رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کو خاص تاریخوں میں گرہن لگے تا اس گمنام بستی میں پیدا ہونے والے ایک شخص کی سچائی دنیا پر ثابت ہو.اسے دیکھ کر کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ انسانوں کے لئے ہو رہا ہے؟ نہیں بلکہ سچائی کی خاطر ہو رہا ہے.اس لئے ہورہا ہے کہ تا خدا کا نور د نیا میں پھیل سکے پس کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ جس امر کے لئے خدا تعالیٰ نے اس قدر وسیع نظام بنایا ہے اسے معمولی عذروں سے وہ نظر انداز کر دے گا.کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ اتنا بڑا سلسلہ چلانے کے بعد تمہارا یہ عذر قبول کرے گا کہ مخالفت اور مشکلات بہت تھیں اس لئے ہم چپ کر کے بیٹھ گئے.یا یہ عذرکسی کا قبول کر لے گا کہ ایک عرصہ تک قربانی کے بعد میں آرام کرنے کے لئے بیٹھ گیا تھا.ایک ادنی سی چیز بنانے کے لئے ہزاروں روپیہ کی قربانی کرنی پڑتی ہے، ایک چھوٹے سے ملک کے لئے ہزاروں لاکھوں جانوں کو قربان کر دیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نور کو پھیلانے اور دائمی سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کے مقابلہ میں ہماری ہستی ہی کیا ہے کہ قربانی کے وقت ہماری طرف سے کوئی عذر قبول کیا جا سکے.ہمیشہ اس مقصد کو سامنے رکھو جس کے لئے خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے.جب صبح کے وقت گھروں میں

Page 752

خطبات محمود ۷۴۷ سال ۱۹۳۵ء آگ جلائی جاتی ہے تو تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں ، اور تمہاری بیویاں یا جن کو اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے اُن کی ملازم عورتیں جب اوپلے کو تو ڑ کر آگ میں ڈالتی ہیں تو کیا کوئی رحم ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا اس کی کوئی اہمیت تم سمجھا کرتے ہو.پس اچھی طرح یا د رکھو کہ جس طرح اُس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اوپلے کو آگ میں ڈالا جارہا ہے اور یہ بات کوئی اہمیت رکھتی ہے اسی طرح اس مقصد کے حصول کیلئے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا ہے یعنی اسلامی صداقتوں کے احیاء کے لئے تمہاری قربانیوں کی کوئی بھی قیمت نہیں کیونکہ اس مقصد کے مقابلہ میں جس کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے یہ قربانیاں کچھ بھی نہیں.رحم وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں قربان ہونے والی چیز اُس سے زیادہ قیمتی ہو جس کے لئے وہ قربان کی جاتی ہو یا وہاں کہ قربان ہونے والی شے فنا ہو رہی ہو.دیکھو ا پلا فنا ہوتا ہے مگر تمہارے دل میں کوئی رحم پیدا نہیں ہوتا.اس لئے کہ وہ اپنے سے بہتر وجود پیدا کرنے میں مدد دے رہا ہوتا ہے مگر ہماری قربانی تو اُپلے کی قربانی کے برابر بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہمیں آگ میں ڈال کر فنا نہیں کرتا کندن بناتا اور ترقی دیتا ہے.سو نہ صرف یہ کہ ہمارا مقصد اتنا اعلیٰ ہے کہ کوئی قربانی اس کے مقابلہ میں حقیقت نہیں رکھتی.کیونکہ ہم فنا نہیں ہوتے بلکہ شکل تبدیل کر کے اعلیٰ درجہ حاصل کر لیتے ہیں اس لئے ہماری قربانیاں اور تکلیفیں ایسی نہیں کہ انہیں مدنظر رکھتے ہوئے اصل مقصد کو بھلا دیا جائے پس ضرورت صرف نقطہ نگاہ کی تبدیلی کی ہے.اسلام احمدیت کا نام ہے وہی اسلام جسے رسول کریم ﷺ دنیا میں لائے مگر اسلام نام اس چیز کا نہیں کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کی چند رکعتیں پڑھ لو.یہ تو قشر ہے.اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کی صداقت اور اُس کے نور کے دنیا میں قائم ہو جانے کا.اور نور الہی کی شعاعوں کے پھیلنے میں جو چیزیں حائل ہیں اُن کو مٹا دینے کا.اس غرض کے لئے ایک ظاہری شکل بھی پیدا کی جاتی ہے جو نماز ہے جیسے فوج وردیوں کا ، سلام کرنے کا ، یا مارچ کرنے کا نام نہیں بلکہ نام ہے اُس سپرٹ کا کہ ملک کی خاطر اگر تمام انسانوں کو بھی ہلاک کرنا پڑے تو کر دیا جائے اور ذرا دریغ نہ کیا جائے وہ وردیاں اور وہ سلام اور وہ مار چنگ کس کام کا جس کے پیچھے یہ روح نہیں.اگر یہ روح موجود ہے تو اس قشر کی بھی کوئی قیمت ہو سکتی ہے ورنہ نہیں دیکھو! بادام کے چھلکے کی قدر تم اُسی وقت تک کرتے ہو جب تک مغز اس کے صلى الله اندر ہوتا ہے جب وہ نکال لیا جائے تو چھلکے کو فوراً پھینک دیا جاتا ہے.

Page 753

خطبات محمود ۷۴۸ سال ۱۹۳۵ء بچپن میں میں نے ایک رؤیا دیکھا تھایہ غالبا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے یا آپ کی وفات کے قریب کی یعنی چار پانچ ماہ کے عرصہ کے اندر کی.اُس وقت حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان میں ہی رہا کرتے تھے.مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کی طرف جو گلی جاتی ہے اس کے اوپر جو کمرہ اور محن ہے اس میں آپ کی رہائش تھی.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس صحن میں ہوں اور اس کے جنوب کی طرف حکیم غلام محمد صاحب امرتسری جو حضرت خلیفہ اول کے مکان میں مطب کیا کرتے تھے کھڑے ہیں اُن کو میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے تصرف کے ماتحت ایسے ہیں جیسے فرشتہ ہوتا ہے میں تقریر کر رہا ہوں اور وہ کھڑے ہیں.میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے جسے میں سامعین کو دکھاتا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اور لوگ بھی ہیں مگر نظر نہیں آتے گویا ملائکہ یا اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں جو نظروں سے غائب ہیں.میں انہیں وہ آئینہ دکھا کر کہتا ہوں کہ خدا کے نور اور انسان کی نسبت ایسی ہے جیسے آئینہ کی اور انسان کی.آئینہ میں انسان اپنی شکل دیکھتا ہے اور اس میں اس کا حسن ظاہر ہوتا ہے اور وہ اس کی خوب قدر کرتا ہے اور سنبھال سنبھال کر ارد گرد سے بچا کر رکھتا ہے مگر جوں ہی وہ آئینہ خراب ہو جاتا اور میلا ہو جاتا ہے اور اس میں اُس کی شکل نظر نہیں آتی یا چہرہ خراب نظر آتا ہے تو وہ اسے اُٹھا کر پھینک دیتا ہے اور جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو رویا میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور ان الفاظ کے کہنے کے ساتھ ہی وہ میلا ہو جاتا ہے اور کام کا نہیں رہتا.اور میں کہتا ہوں کہ انسان کا دل بھی اللہ تعالیٰ کے مقابل پر آئینہ کی طرح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُس میں اپنے حسن کا جلوہ دیکھتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے مگر جب وہ میلا ہو جاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا حسن ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اسے اس طرح اُٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے جس طرح خراب آئینہ کو اُٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے.اور یہ کہتے ہوئے میں نے اُس آئینہ کو جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے اُٹھا کر پھینک دیا اور وہ چکنا چور ہو گیا.اس کے ٹوٹنے سے آواز پیدا ہوئی.اور میں نے کہا جس طرح خراب شدہ آئینہ کو توڑ دینے سے انسان کے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا اسی طرح ایسے گندے دل کو توڑنے کی اللہ تعالیٰ کوئی پرواہ نہیں کرتا.غرض انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو ظاہر کرے اور جب اس نور کے پھیلنے میں کوئی روک پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی جماعت کو کھڑا کر دیتا ہے جو صیقل کرنے

Page 754

خطبات محمود ۷۴۹ سال ۱۹۳۵ء والی ہوتی ہے اور اس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ خدا کے نور کو دنیا میں پھیلائے.اگر وہ کامیاب نہ ہو اور نور کو پھیلا نہ سکے تو اسے بھی تو ڑ دیا جاتا ہے.وہی آئینہ جو دنیا کی حسین ترین ہستی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جس پر اس ہستی سے محبت کرنے والے رشک کرتے ہیں وہ جب میلا ہو جاتا ہے اور کام کا نہیں رہتا تو اُسے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ ٹکڑے ہو کر بازاروں اور گلیوں میں جوتیوں کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے پس صرف نقطہ نگاہ کی تبدیلی کی ضرورت ہے جس دن یہ خیال تمہارے دل سے نکل گیا کہ احمدیت ایک سوسائٹی ہے جس میں شامل ہو کر کچھ لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے اور ہمدردی کرنے کا اقرار کرتے ہیں.اور جس دن تم نے یہ سمجھ لیا کہ احمدیت خدا کے نور کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اس دن نہ میرے خطبات کی ضرورت رہے گی اور نہ کسی کے وعظ ونصیحت کی.اُس دن ایسی تبدیلی تمہارے اندر پیدا ہو جائے گی اور ایسی آگ روشن ہو جائے گی کہ شاید تمہیں روکنے کی ضرورت تو پیش آ سکے لیکن تحریک کی نہیں.اور جب تک یہ روح نہیں اُس وقت تک خطبات اور وعظوں کی ضرورت ہے.پس تم یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تمہاری بعثت کی غرض ہی خدا کے نور کو پھیلانا ہے اور اس کے رستہ میں حائل شدہ روکوں کو دور کرنا ہے تو تمہاری قربانیوں کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی جاسکتی اور کیا یا کیوں یا کیسے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا.جو اس خیال سے قربانی میں شامل ہوتا ہے کہ ایک یا دوسال کے بعد یہ ختم ہو جائے گی اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ بالکل شامل نہ ہو.بعض لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ آپ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ یہ تحریک صرف ایک سال کے لئے ہے اور اب پھر اس سال کے لئے بھی جاری رکھنے کا آپ نے اعلان کر دیا ہے حالانکہ میں نے ہرگز ایک سال کے لئے نہیں کہا تھا بلکہ تین سال کے لئے کہا تھا اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ تین سال اس کی موجودہ صورت کی میعاد ہے نہ یہ کہ تین سال کے بعد قربانیاں ختم ہو جائیں گی.پس جو یہ خیال کرتا ہے کہ ایک سال نہیں تین سال کے بعد بھی قربانیاں ختم ہو جائیں گی اُسے چاہئے کہ اس تحریک میں ہرگز شامل نہ ہو.میں نے یہ تحریک قربانی ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ قربانیوں کے لئے تیار کرنے اور ان کی مشق کرانے کے لئے جاری کی ہے پس جس کے ذہن پر قربانی کے ختم ہونے کا خیال غالب ہے ، اسے اس میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہئے.انسانوں کی طرح بعض اموال بھی بابرکت ہوتے ہیں اور برکت والا مال وہی ہو سکتا ہے جس کے پیچھے اخلاص کی روح ہو.جو آج اور کل کو دیکھتا ہے وہ میرے لئے دیتا ہے نہ خدا

Page 755

خطبات محمود ۷۵۰ سال ۱۹۳۵ء کیلئے ، اس لئے اس کے مال میں برکت نہیں ہو سکتی.انسان ہمیشہ مرتے ہیں اور مرتے جائیں گے پس کسی انسان کی خاطر قربانی کرنا انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.قربانی وہی مفید ہوسکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے آج اور کل کوئی حقیقت نہیں رکھتے.مال بھی انہی لوگوں کے بابرکت ہو سکتے ہیں جن کے لئے وقت کا سوال نہ ہو اور جن کی قربانیوں کا زمانہ اس حد تک بلکہ اس سے بھی آگے تک چلتا ہے جب تک خدا کا نور نہیں پھیلتا.کیونکہ تبلیغ کے بعد تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر تربیت کے لئے اُسی طرح قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح تبلیغ کے لئے.اور ایسا زمانہ کوئی نہیں ہو سکتا جب تربیت کی ضرورت نہ رہے.مسلمان اُسی وقت کمزور ہوئے جب وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ ہمیں صرف دو تین یا چند سالوں کے لئے ہی قربانیوں کی ضرورت تھی.پس یا درکھو کہ قربانی کا زمانہ مؤمن کے لئے کبھی ختم نہیں ہوتا.قربانیوں کی شکلیں بدلیں گی ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد اور قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں مگر مؤمن کے لئے قربانی کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوتا.جن لوگوں نے اسلام کو میری تحریک جدید کی طرح عارضی سمجھا وہی اس کا بیڑا غرق کرنے والے ہوئے.انہوں نے تلوار کے جہاد کو ہی اسلام سمجھا اور جب وہ غیر قوموں کی حکومتوں کو مٹا چکے تو سست ہو کر بیٹھ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ نسلیں پیدا ہوئیں جو اسلام سے غافل ہو گئیں اور ہوتے ہوتے مسلمان ذلیل ہو گئے.ایک زمانہ تھا کہ مسلمان سے زیادہ قابلِ اعتماد اور کوئی نہ سمجھا جاتا تھا.مسلمان کہہ دیتا تھا کہ یوں ہو گا اور لوگ سمجھ لیتے تھے کہ بس بات ختم ہوگئی ضرور اسی طرح ہوگا.لیکن آج یہ حالت ہے کہ وہ کوئی بات کرے، سننے والا یہی کہے گا کہ اس کا اعتبار کون کر سکتا ہے.میں ایک دفعہ کشمیر گیا.وہاں مختلف رنگوں کی لوئیوں سے گئے بنائے جاتے ہیں میں نے بھی ایک گتا بنانے کے لئے ایک شخص کو کچھ پیشگی دی لیکن جب وہ شخص گنا تیار کر کے لایا تو وہ طے شدہ لمبائی ، چوڑائی سے چوتھائی حصہ کم تھا.میں نے اس سے کہا کہ یہ تم نے ٹھیک نہیں بنایا اور میرے کام کا نہیں اس پر وہ با ر بار یہ شور مچائے کہ جی ! میں مسلمان ہوں گو یا مسلمان کی علامت یہ سمجھی جاتی ہے کہ بددیانت ہو اس کو خطرہ تھا کہ شاید یہ اب گہا نہ لے.اس لئے وہ بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے اس سے اور چڑ پیدا ہو.اور میں اسے کہوں کہ تو یہ کہہ کر اسلام کو کیوں بدنام کرتا ہے کہ

Page 756

خطبات محمود ۷۵۱ سال ۱۹۳۵ء اسلام اور وعدہ خلافی لازم و ملزوم چیزیں ہیں.تو اب یہ زمانہ ہے کہ مسلمان کی بات کا اعتبار ہی کوئی نہیں رہا اور یہ حالت اسی وقت سے ہوئی ہے جب سے یہ خیال پیدا ہو گیا کہ اسلام کے لئے قربانی کا زمانہ کسی وقت ختم بھی ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی کوئی تحریک کبھی ختم نہیں ہوتی.ہاں اس کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں انسان پہلے بچہ ہوتا ہے پھر لڑکپن آتا ہے ، پھر جوان ، پھر ادھیڑ اور پھر بوڑھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے.کیا ہر شکل پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ختم ہو گیا.ہاں ہر شکل کی تبدیلی پر مختلف غذا اور مختلف لباس کی ضرورت رہتی ہے یہی حال خدائی تحریکات کا ہے.اور جب تک نقطہ نگاہ نہ سمجھا جائے اُس وقت تک تباہی دوبارہ آ جاتی ہے.اور جو لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے وہ مذہب کو تباہ کرنے والے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو تحریکات ہوتی ہیں اُن کی صرف شکلیں بدلتی ہیں وہ ختم کبھی نہیں ہوتیں.اور نہ وہ افراد سے وابستہ ہوتی ہیں.میں جاؤں گا تو خدا تعالیٰ کسی اور کو کھڑا کر دے گا پھر وہ جائے گا تو خدا تعالیٰ اور کو کھڑا کر دے گا.اور جو یہ کہے گا کہ ہم نے اپنا کام ختم کر لیا ہے وہ اسلام کو فنا کرنے والی تحریک کا بانی ہو گا اور اس تحریک کا آدم کہلائے گا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کے دوبارہ احیاء کے آدم تھے اور ہر وہ شخص جو اپنی ہر چیز کو اسلام پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے اپنے حلقہ میں اسلام کو زندہ رکھنے کی تحریک کے لئے بمنزلہ آدم کے ہیں.اسی طرح جو شخص یہ خیال کر لے گا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے اُس کا کام ختم ہو گیا وہ اسلام کو فنا کرنے کی تحریک کا آدم ہو گا.جس طرح ہر نیکی جو اسلام کے احکام کی تعمیل میں کی جاتی ہے خواہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا غیر مسلموں کی طرف سے.کیونکہ کئی غیر مسلم بھی قرآن کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور خواہ وہ پہلی صدی میں ہو یا دسویں صدی میں یا اس صدی میں یا آئندہ کسی صدی میں اس کا ثواب رسول کریم کو ملتا ہے اور قیامت تک کی تمام نیکیوں کا ملتا رہے گا اور جس طرح آئندہ ہر ایک اس نیکی کا جو اسلام کے دوبارہ احیاء کے لئے قیامت تک کی جائے گی ، اس کا ثواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ملتا رہے گا.اسی طرح جو شخص یہ اطمینان کر کے بیٹھ جائے گا کہ کام ختم ہو گیا تبلیغ اور تربیت میں جس قدر کمی ہوگی اور اسکے نتیجہ میں جس قدر خرابی پیدا ہوگی اُس سب کا گناہ اُس کے سر پر ہو گا.اسلام یونہی تباہ نہیں ہوا.کوئی نہ کوئی بد بخت تھا جس کے دل میں پہلے یہ خیال پیدا ہوا کہ اب اسلام ترقی کر چکا ہے اب ان قربانیوں کی ضرورت نہیں رہی جن کی ضرورت پہلے تھی.وہ ابلیس سے بدتر انسان تھا

Page 757

خطبات محمود ۷۵۲ سال ۱۹۳۵ء کیونکہ ابلیس نے آدم کے نور کو روکنے کی کوشش کی تھی اور اُس نے محمد اللہ کے نور کو روکنے کی کوشش کی.پھر اس شخص سے اور ابلیس پیدا ہوئے اور ان سے اور یہاں تک کہ ان ابلیسوں کی تلبیس سے متأثر ہوکر مسلمان سو گئے اور پھر مر گئے.جس طرح اس ابلیس سے بدتر انسان پر ساری دنیا کی لعنتیں پڑتی ہیں اور پڑتی رہیں گی ، اسی طرح جس دن کسی احمدی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب جد و جہد کی ضرورت نہیں وہ اسلام کی دوبارہ موت کا موجب ہوگا.اور اہلیسوں کی ایک اور نسل کیلئے بمنزلہ آدم کے ہو گا اور قیامت تک اُس پر لعنتیں پڑتی رہیں گی.پس یہ خیالات دل سے نکال دو کہ یہ قربانیاں ایک دو سال کے بعد ختم ہو جائیں گی.میرے منہ کی طرف مت دیکھو کہ میں ایک فانی وجود ہوں.اپنے خدا کی طرف دیکھو جو ہمیشہ رہنے والا ہے.جس طرح خدا نے تمہیں دائی زندگی دی ہے اسی طرح تمہاری قربانیاں دائی ہونی چاہئیں.دائمی زندگی کے تم بھی مستحق ہو سکتے ہو جب تم دائمی قربانی کے لئے تیار رہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریوں کے ایک اعتراض کا یہی جواب دیا - ہے.آریوں کا اعتراض ہے کہ انسان کے اعمال محدود ہیں پھر ان محدود اعمال کے نتیجہ میں دائی اور ابدی انعام کس طرح مل سکتا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ بیشک انسانی اعمال محدود ہیں لیکن ان کے محدود رہنے کی وجہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو مار دیا ورنہ مؤمن کب اپنے اعمال کو محدود کرنا چاہتا ہے وہ تو ہمیشہ کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے.پس جب اس کی نیت غیر محدود تھی اور وہ ہمیشہ کے لئے نیک اعمال بجالانے کی نیت کر چکا تھا اور غیر معمولی قربانی کے لئے تیار تھا موت اپنے لئے وہ خود نہیں لایا بلکہ خدا نے اسے موت دے دی.تو غیر محدود قربانی کی نسیت رکھتے ہوئے وہ غیر محدود جزا کا مستحق کیوں نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل مؤمن وہی ہے جو غیر محدود قربانی کے لئے تیار رہے.جو مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے کہ ٹھہر نے کا حکم ہوا ہے یا نہیں وہ کس طرح اپنے آپکو دائمی زندگی کا مستحق قرار دے سکتا.اس کی زندگی تو ایسی ہی ہے جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ قیامت کو بعض جانوروں کو بھی موقع دے دیا جائے گا کہ تھوڑی دیر تک کلیلیں کرلیں.پس میں اس تحریک کے متعلق پھر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جو اس میں میری خاطر شریک ہونا چاہتے ہیں اور اسے محدود خیال کرتے ہیں بہتر ہے کہ وہ آج ہی علیحدہ ہو جائیں.کیونکہ میں ایک

Page 758

خطبات محمود ۷۵۳ سال ۱۹۳۵ء غریب اور کمزور انسان ہوں مجھ میں ان کا بدلہ دینے کی طاقت نہیں اور ان کی قربانی دین کے لئے برکت کا موجب ہرگز نہیں ہو سکتی.پس وہ شامل نہ ہوں تو اچھا ہے.صرف وہی لوگ شامل ہوں جو خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنا چاہتے ہیں اور جو تیار ہوں کہ اسے غیر محدود عرصہ تک جاری رکھیں گے میری وجہ سے کوئی اس میں حصہ نہ لے.کیا پتہ کہ میں کل تک بھی زندہ رہ سکوں یا نہ.بلکہ شام تک کا بھی علم نہیں.میری وجہ سے شامل ہونے والوں کی قربانی دیر پا نہیں ہو سکتی.قربانی اسی کی مفید ہوسکتی ہے جو اپنے آپ کو ابدی قربانی کے لئے پیش کرے.قربانی کی تعیین اس کے ذہن میں بے شک نہ ہو اور یہ تو میرے ذہن میں بھی نہیں ممکن ہے کہ اگلے سال یہ قربانی نہ رہے یا مالی قربانی کی بجائے وطن یا رشتہ داروں یا جانوں کی قربانی کرنی پڑے.کسی کو کیا علم ہے کہ کل کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا مطالبہ کیا جائے گا.پس جو شخص ایسی مستقل اور بے شرط قربانی کے لئے تیار ہے اُسی کی شمولیت ہمارے لئے برکت کا موجب ہو سکتی ہے لیکن جو یہ خیال کرتا ہے کہ آج دے لوکل آرام کریں گے وہ خواہ دس لاکھ روپیہ بھی دے دے وہ ہمارے لئے برکت کا موجب نہیں ہوگا.اس سال کی قربانی کے لئے میں پھر یہ شرط لگا تا ہوں کہ کسی کو مجبور کر کے وعدہ نہ لیا جائے اور وہی لیا جائے جو کوئی خود دیتا ہے.اگر تم سمجھتے ہوا ایک شخص سو روپیہ دے سکتا ہے مگر وہ صرف پانچ دیتا ہے تو اُسے کچھ مت کہو.یہ چندہ ماہوار چندوں کی طرح نہیں ہے کہ ہر شخص لازماً ایک آنہ فی روپیہ دے.سوائے اس کے کہ جو نہ دینے کے لئے با قاعدہ اجازت حاصل کرے.صرف آواز پہنچا دو پھر لاکھ دینے کی استطاعت رکھنے والا بھی اگر دس روپیہ دیتا ہے تو اُسے یہ نہ کہو کہ زیادہ دے.تمہارا کام صرف یہ ہے کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جس تک یہ آواز نہ پہنچ جائے.عورت مرد بیکار، با کار، بوڑھا ، جوان ، بچہ ہر ایک تک یہ آواز پہنچاد ولیکن یہ مت کہو کہ ضرور دے اور پھر بار بار مانگ کر اسے شرمندہ مت کرو کیونکہ اس سے تم کام کی برکت کو کھو دیتے ہو.یا د رکھو برکت اطاعت سے ہوتی ہے اور اس چندہ کے متعلق اطاعت یہی ہے پچھلے سال بھی میں نے یہی نصیحت کی تھی اور اب بھی کرتا ہوں کہ وعدہ لکھا کر بھی اگر کوئی سستی کرتا ہے تو اسے ایک دو بار یاد دہانی کرا دو لیکن پیچھے نہ پڑ جاؤ.ہندوستان کی جماعتوں کے لئے اس چندہ کی آخری تاریخ میں ۱۵ جنوری مقرر کرتا ہوں لیکن چونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ۱۵ جنوری کو پوسٹ کیا ہوا خط

Page 759

خطبات محمود ۷۵۴ سال ۱۹۳۵ء وغیرہ اگلے روز نکلتا ہے اس لئے جن پر ۱۶ کی مہر ہوگی وہ وعدے بھی لے لئے جائیں گے لیکن اس کے بعد کا کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی چندہ لیا جائے گا.وصولی کی مدت وہی ایک سال ہوگی.گزشتہ سال کے وعدے جو میں نومبر تک ادا کر دیتا ہے وہ اسے پورا کرنے والا ہے.لیکن جو دیر کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اجازت حاصل کر چکا ہو، اُس سے پھر چندہ نہیں مانگا جائے گا ہاں اگر اُس کے دل میں خود ہی ندامت محسوس ہو اور وہ آپ ہی آپ دے دے تو چونکہ تو بہ کا دروازہ بند نہیں اس لئے ہم اسے روک نہیں سکتے.ہندوستان کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں تحریک جلد نہیں پہنچ سکتی کیونکہ ان لوگوں کی زبان مختلف ہے.مثلاً بنگال اور مدراس کے علاقے ہیں ان کے لئے میں تھیں مارچ کی تاریخ مقرر کرتا ہوں یعنی ۳۱ مارچ یا یکم اپریل کی مہر جن وعدوں پر ہوگی وہ لئے جائیں گے اس کے بعد کے نہیں.غیر ممالک کی ہندوستانی جماعتوں کے لئے بھی یہی تاریخ ہے اس عرصہ میں ان تک یہ تحریک بخوبی پہنچ سکتی ہے ہاں غیر ہندوستانی، غیر ملکی جماعتوں کے لئے چونکہ نہ صرف فاصلہ کی بلکہ زبان کی بھی وقت ہے اس لئے اُن کے واسطے آخری تاریخ ۳۰ جون ہے.جیسے انگلستان ، امریکہ ،سماٹرا وغیرہ میں جماعتیں ہیں.اسی طرح چندہ کی وصولی کی مدت ۳۰ جون تک کی میعاد والوں کے لئے ۳۰ جنوری ۱۹۳۷ ء تک ہو گی.۱۵ جنوری تک والوں کیلئے ۳۰ نومبر ۱۹۳۷ ء اور ۳۰ مارچ والوں کیلئے یکم اپریل ۱۹۳۷ ء تک مگر یا درکھو کہ نیکی جتنی جلدی کی جائے اتنا ہی ثواب زیادہ ہوتا ہے.یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ آخر میں دیں گے ، بعض اوقات وہ دے ہی نہیں سکتے.بعض نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ ہم نے خیال کیا تھا کہ بعد میں دے دیں گے مگر بد بختی سے ملازمت جاتی رہی یا آمد کے دوسرے ذرائع بند ہو گئے.پس یہ مت خیال کرو کہ سال کے آخر تک دے دیں گے جو لوگ آخر وقت نماز ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بھول بھی جاتے ہیں پس پہلے دینے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے.جو شخص آج دیتا ہے وہ اگلے دسمبر میں دینے والے سے گیارہ ماہ قبل کا ثواب حاصل کرتا ہے.ایک دن کا ثواب بھی معمولی چیز نہیں کہ اسے چھوڑا جا سکے.جولوگ ایک دن کی ملازمت میں پہلے داخل ہوتے ہیں وہ ساری عمر سینئر رہتے ہیں.اسی طرح یہ سمجھ لو کہ خدا کے انعام پہلے اُس پر ہوں گے جو پہلے شامل ہوتا ہے سوائے کسی ایسی مجبوری کے جو خدا کے ہاں بھی مجبوری ہولیکن وہ مجبوری نہیں جو انسان خود قرار دے لے.

Page 760

خطبات محمود ۷۵۵ سال ۱۹۳۵ء اس کے بعد میں امانت فنڈ کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں.پچھلے سال بھی میں نے اس کے متعلق تو جہ دلائی تھی مگر احباب نے اتنی توجہ نہیں کی جتنی کرنی چاہئے تھی.اس فنڈ میں ساڑھے پانچ ہزار ماہوار کے قریب روپیہ آتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ یہ چیز چندے سے کم اہمیت نہیں رکھتی.اور پھر اس میں یہ سہولت ہے کہ اس طرح تم پس انداز کر سکو گے.مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتا رہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول کو لکھا تھا کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم 1/4 حصہ جمع کرتے رہو ( صحیح نسبت مجھے اس وقت یاد نہیں 1/4 یا 1/3 لکھا تھا) کیونکہ جب پس انداز نہ کرو گے ثواب سے محروم رہو گے.پس مؤمن کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانی کر سکنے کی نیت سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرتا رہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے جائداد بڑھاتا ہے تو وہ دنیا دار نہیں کہلا سکتا.جو شخص دن میں چھ کی بجائے دس گھنٹے اس لیے کام کرتا ہے کہ دین کی خدمت زیادہ کر سکے اُسے دنیا دار کون کہہ سکتا ہے وہ تو پرنکا دیندار ہے.اسی طرح جو دین کی خاطر روپیہ جمع کرتا ہے اُسے تم بخیل نہیں کہہ سکتے.جو شخص آواز آنے پر بھی مال حاضر نہیں کرتا ، وہ بے شک دنیا دار کہلا سکتا ہے.جیسے رسول کریم ﷺ سے ایک شخص نے مالدار ہونے کے لئے دعا کرائی مگر پھر زکوۃ کے لئے آپ نے کسی کو اُس کے پاس بھیجا تو کہہ دیا کہ ہم خود اپنے اخراجات چلائیں یا زکوۃ دیں لے لیکن اگر کوئی شخص اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اس کے پاس جتنی جائداد ہے اتنی ہی قربانی کی روح اُس کے اندر موجود ہے تو اُس کا جائداد پیدا کرنا بھی دین کی خدمت ہے اور اُس کا دنیا کمانے میں وقت لگا نا نماز سے کم نہیں.پس جو شخص امانت فنڈ میں اس لئے روپیہ جمع کراتا ہے کہ اس عرصہ میں نیت کا ثواب حاصل کرتا رہے اور جائداد پیدا ہو جانے یا رقم جمع ہو جانے کے بعد خدمت دین میں زیادہ حصہ لینے کے قابل ہو سکے وہ دنیا دار نہیں.اس لئے جو شخص ایک روپیہ تک بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے، اسے ضرور لینا چاہئے اور کوشش کرو کہ یہ رقم اور بڑھے.میں نے پچھلے سال دس ہزار تک کہا تھا پس کوشش کرو کہ یہ دس ہزار تک پہنچ جائے بلکہ لاکھوں تک بڑھ جائے اس میں تمہارا اپنا بھی فائدہ ہے اور دین کی شوکت میں بھی اس سے اضافہ ہوتا ہے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چندہ نہیں اور نہ چندہ میں وضع کیا جا سکتا ہے.بعض لوگ اب مجھے لکھ رہے ہیں کہ ہم نے جو روپیہ جمع کرا رکھا ہے وہ تحریک جدید کے چندہ میں وضع کر لیا جائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا یہ برابر تین سال تک چلے

Page 761

خطبات محمود ۷۵۶ سال ۱۹۳۵ء گا.جو آج اس میں شامل ہو گا اُس کے لئے بھی تین سال تک جاری رہے گا.سوائے اسکے کہ ( خدا نخواستہ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے لئے ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ شامل نہ رہ سکے اور پھر تین سال کے بعد بھی بہر حال یہ رقم واپس لینی ہوگی چندہ میں نہیں دی جا سکے گی.ہاں یہ مقررہ کمیٹی کا اختیار ہوگا کہ خواہ نقد رو پیر دے یا جائداد کی صورت میں لیکن چوتھے سال بہر حال جو شخص امانت فنڈ کو ختم کرنا چاہے اُسے یہ رقم واپس دی جائے گی.یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص رقم یا جائداد پر قبضہ کر کے خود اپنی خوشی سے اسے چندہ میں دے دے.مگر امانت جمع کرانے والے کے قبضہ میں آنے سے پہلے اسکی خواہش کے باوجود بھی اسے چندہ میں قبول نہ کیا جائیگا.کیونکہ قبضہ میں آنے کے بعد بھی انسان کی نیت بدل جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے.آپ کے ایک پرانے صحابی حکیم فضل الدین صاحب تھے آجکل کے نوجوان تو شاید اُن سے واقف نہ ہوں.اُن کے تعارف کے لئے بتاتا ہوں کہ وہ بہت پرانے اور مخلص صحابی تھے.حضرت خلیفہ اول کے دوست تھے اور انکے ساتھ ہی یہاں آگئے.اُن کی دو بیویاں قادیان آنے سے پہلے کی تھیں.ایک شادی انہوں نے قادیان آ کر کی.پہلی بیویوں کے متعلق انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ اُن کا مہر پانچ پانچ سو تھا جو انہوں نے معاف کر دیا ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ معافی نہیں.آپ ان کی جھولی میں ڈال دیں اور پھر اگر وہ کوٹا دیں تو معافی کہلائے گی.انہوں نے کہا کہ حضور ! وہ ہمیشہ یہ کہتی رہتی ہیں کہ ہم نے معاف کیا.حضور نے فرمایا اس طرح کی معافی کوئی معنے نہیں رکھتی ہمارے ملک کی عورتیں جب دیکھتی ہیں کہ مہر وصول تو ہو گا نہیں تو پھر وہ یہ خیال کر کے کہ احسان ہی کیوں نہ کر دیں کہ دیتی ہیں کہ معاف کیا.اس پر حکیم صاحب مرحوم نے حضرت خلیفہ اول یا کسی اور سے قرض لے کر اُن کی جھولی میں پانچ پانچ سو روپیہ ڈال دیا اور کہا تم دونوں نے مجھے معاف تو پہلے سے ہی کر دیا ہوا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پہلے انکی جھولی میں روپیہ ڈال دو پھر وہ معاف کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں.اس لئے میں نے روپیہ تم کو دے دیا ہے.اب تم اگر چاہو تو یہ روپیہ مجھے دے سکتی ہو اس پر انہوں نے کہا کہ اب تو ہم واپس نہیں کریں گی.ہم تو یہ سمجھتی تھیں کہ مہر کوئی دیتا تو ہے نہیں چلو معاف ہی کر دیں.تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیان میں جو کچھ دیا جائے وہ چندہ ہی ہے.اسے واپس کیا لینا ہے

Page 762

خطبات محمود ۷۵۷ سال ۱۹۳۵ء مگر میں یہ روح پیدا کرنا نہیں چاہتا اس لئے یہ روپیہ بہر حال واپس ہوگا.اس کے بعد اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اسے روک نہیں سکتے لیکن اس تحریک میں کوئی جس وقت سے شامل ہو وہیں سے اُس کے تین سال شروع ہونگے.اور یہ فنڈ سلسلہ کی عظمت و شوکت اور مالی حالت کی مضبوطی کے لئے جاری رہے گا اور اس کی طرف جماعت کی مزید توجہ بلکہ بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے.پچھلے سال میں نے وقف کی بھی تحریک کی تھی.اس پر سینکڑوں نو جوانوں نے اپنے نام دیئے.مگر ان میں سے بہت سے تھے جن کی خدمات سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا اور بعض جن سے ہم نے فائدہ اُٹھانا چاہا اُن میں دینی لحاظ سے بہت کمزوری دیکھی گئی.دینی تعلیم بہت کم تھی حتی کہ بعض قرآن شریف کے ترجمہ سے ناواقف تھے.اس پر مجھے بہت فکر ہوئی کہ جو لوگ قرآن کریم کا ترجمہ تک نہیں جانتے وہ اسلام کی روح کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ مجھے اس طرح علم ہو گیا.چند آیات یا سورتوں کا جاننا کافی نہیں.ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ سارے قرآن کا ترجمہ اور کچھ نہ کچھ حدیث بھی جانتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی ضروری ہے.دینی علوم کے مطالعہ میں دو قوموں کو خاص سہولتیں حاصل ہیں.اہل عرب کو قرآن و حدیث سمجھنے کی اور ہندوستانیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے سمجھنے کی.باقی تمام ممالک پر دُہرا بو جھ ہے اور انہیں اپنی ملکی زبان کے علاوہ دین کو سمجھنے کے لئے دو غیر ملکی زبانیں سیکھنی پڑتی ہیں.ہمارے لئے یہ بہت بڑی سہولت ہے گویا ہمارا کام آدھا ہو گیا.دین کی مکمل تشریح اردو میں ہے اور اصل دین عربی میں ، یہ بہت بڑی سہولت ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئی ہے.پس چاہئے کہ اس کی قدر کرو اور کوشش کرو کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے جسے کم از کم قرآن کریم کا ترجمہ نہ آتا ہو.یہ کوئی مشکل نہیں جب کسی کام کا ارادہ کر لیا جائے تو کوئی مشکل نہیں رہتی.صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانی کے کام کو عارضی مت سمجھو اور جب یہ نقطہ نگاہ ہو جائیگا تو کوئی کام بھی مشکل نہ رہے گا.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی.اس موقع پر میں یہ کہہ رہا تھا کہ وقف کی تحریک میں اس سال پھر کرتا ہوں.پچھلی لسٹیں بھی ابھی ہیں ان میں سے بھی دیکھ لئے جائیں گے لیکن اس عرصہ میں کئی نئے گریجوایٹ بنے اور مولوی فاضل ، میٹرک کے امتحانات پاس کر چکے ہیں.کئی ڈاکٹری پاس کر کے فارغ ہیں اس لئے انہیں موقع دینے کے لئے پھر اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.

Page 763

خطبات محمود ۷۵۸ سال ۱۹۳۵ء گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی غیر ممالک میں آدمی بھیجے جائیں گے.کچھ عرصہ ان کو الاؤنس دیا جائے گا تا وہ زبان سیکھ سکیں اور اپنے لئے کام پیدا کرسکیں.اس کے بعد جب تک ان کے پاس روپیہ نہ ہو صرف ڈاک کا خرچ دیا جائے گا اور جب خدا تعالیٰ انہیں روپیہ دے دے تو یہ بھی نہیں دیا جائے گا.بعض ممالک میں تین چار، بعض میں پانچ چھ بعض میں آٹھ نو مہینے کام مہیا ہونے اور زبان سیکھنے پر لگتے ہیں اس عرصہ میں انہیں قلیل ترین گزارہ دیا جائے گا.اس تحریک کے ماتحت اس وقت تک پانچ نوجوان غیر ممالک میں جاچکے ہیں.اور آٹھ نو تیار ہیں جنہیں قرآن کریم اور دینی تعلیم دی جارہی ہے.انہیں پچھلے سال کی تحریک کے ماتحت روانہ کر دیا جائے گا.اور اس سال کے لئے اور نوجوان درکار ہیں.ایک ڈاکٹر کو بھی باہر بھیجا گیا ہے اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر اور حکیم بہت زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں.اسی طرح پیشہ ور لوگ بھی مفید ہو سکتے ہیں.اچھے لوہار دنیا کے ہر علاقہ میں خصوصاً آزادملکوں میں جہاں ہتھیار وغیرہ بنتے ہوں بہت کامیاب ہو سکتے ہیں.چین اور افریقہ کے کئی علاقوں میں ان کی بہت قدر ہو سکتی ہے.عرب میں نہیں کیونکہ وہاں کے لوگ تلوار بنانے میں ماہر ہیں.اسی طرح ڈرائیوری جاننے والوں کے لئے ابھی کافی گنجائش ہو سکتی ہے.کسی ملک میں پہنچ کر کوئی سیکنڈ ہینڈ لاری یا موٹر لے کر فوراً کام شروع کیا جا سکتا ہے.بی.اے مولوی فاضل اور میٹرک پاس بھی کام دے سکتے ہیں.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وہ ہاتھ سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں.پھیری کے ذریعہ پہلے دن ہی روزی کمائی جاسکتی ہے.ہم تو کچھ مدد بھی دیتے ہیں لیکن ہمت کرنے والے نو جوان تو بغیر مدد کے بھی کام چلا سکتے ہیں.تم میں سے ایک نو جوان نے گزشتہ سال میری تحریک کو سنا.وہ ضلع سرگودھا کا باشندہ ہے.وہ نوجوان بغیر پاسپورٹ کے ہی افغانستان جا پہنچا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی.حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تو وہاں قیدیوں اور افسروں کو تبلیغ کرنے لگا اور وہاں کے احمدیوں کو بھی وہیں واقفیت بہم پہنچائی.اور بعض لوگوں پر اثر ڈال لیا.آخر افسروں نے رپورٹ کی کہ یہ تو قیدیوں میں بھی اثر پیدا کر رہا ہے ملانوں نے بھی قتل کا فتوی دیا.مگر وزیر نے کہا کہ یہ انگریزی رعایا ہے اسے ہم قتل نہیں کر سکتے.آخر حکومت نے اپنی حفاظت میں اسے ہندوستان پہنچا دیا.اب وہ کئی ماہ کے بعد واپس آیا ہے اُس کی ہمت کا یہ حال ہے کہ جب میں نے اسے کہا کہ تم نے غلطی کی اور بہت ممالک تھے جہاں تم جاسکتے تھے اور وہاں گرفتاری

Page 764

خطبات محمود ۷۵۹ سال ۱۹۳۵ء کے بغیر تبلیغ کر سکتے تھے تو وہ فوراً بول اُٹھا کہ اب آپ کوئی جگہ بتا دیں میں وہاں چلا جاؤں گا.اس نوجوان کی والدہ زندہ ہے لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار تھا کہ بغیر والدہ کو ملے دوسرے کسی ملک کی طرف روانہ ہو جائے مگر میرے کہنے پر وہ والدہ کو ملنے جا رہا ہے.اگر دوسرے نو جوان بھی اس پنجابی کی طرح جو افغانستان سے آیا ہے ہمت کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی کا یا پلٹ سکتی ہے.روپیہ کے ساتھ مشن قائم نہیں ہوتے.اس وقت جو ایک دومشن ہیں اُن پر ہی اس قدر رو پیہ خرچ ہو رہا ہے کہ اور کوئی مشن نہیں کھولا جا سکتا.لیکن اگر ایسے چند ایک نوجوان پیدا ہو جائیں تو ایک دو سال میں ہی اتنی تبلیغ ہو سکتی ہے کہ دنیا میں دھاک بیٹھ جائے اور دنیا سمجھ لے کہ یہ ایک ایسا سیلاب ہے جس کا رُکنا محال ہے.مغل قوم جس ملک سے آئی وہاں غربت بہت تھی.یہ لوگ عام طور پر شکار پر گزارہ کرتے تھے.اُن میں سے چند لوگ باہر نکلے تو دولت دیکھی اور واپس آکر شور مچا دیا کہ دنیا میں اس قدر دولت ہے اور تم بھو کے مر رہے ہو.یہ لوگ دولت کی خاطر اپنے ملک سے نکلے اور فرانس سے لے کر چین کی حدوں تک حکومت کی اور وہ لوگ جو بالکل وحشی تھے ایک صدی کے اندراندر بادشاہ بن گئے.یہ اسلام سے پہلے کی بات ہے.اسلام نے آکر ان کی اور بھی کا یا پلٹ دی.ہاتھو خان ایک پرانے مغل فرمانروا کے متعلق انگریزی مؤرخین گین وغیرہ نے لکھا ہے.کہ وہ جب یورپ فتح کر رہا تھا تو یورپ کے سارے بادشاہ اکٹھے ہو کر ڈینیوب کے کنارے اُسے ملے اور کہا کہ ہمارے بچے یتیم اور بیویاں بیوہ ہو جائیں گی آپ رحم کریں اور واپس چلے جائیں.اسی طرح قبلی خان نے چین کو فتح کیا اور جاپان پر حملہ کیا مگر فتح اس واسطے نہ کر سکا کہ ساحل پر طوفان آ گیا اور بیڑے کا ایک حصہ غرق ہو گیا اور ایک حصہ کو ہوائیں چین کی طرف دھکیل لائیں.تاہم اُس کا رُعب اتنا ہوا کہ جاپان کی عورتیں مغربی علاقہ میں باوجود اس کے کہ اس حملہ کو چار پانچ سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے آج بھی اپنے بچوں کو اُس کا نام لے کر ڈراتی ہیں یہ وہ لوگ تھے جو روٹی کی خاطر گھروں سے نکلے.تو کیا میں اپنے نوجوانوں سے اتنا مایوس ہو جاؤں کہ وہ دین کی خاطر بھی باہر نہیں نکل سکتے ؟ اگر ارادہ کر لو تو تم اتنے عظیم الشان کام کر سکتے ہو کہ دنیا تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دے.مؤمن کو صرف ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے جس دن وہ ارادہ کر لے اُسی دن مال ، دولت ، عزت سب خود درخواستیں کرتی ہیں کہ ہمیں قبول کیا جائے اصل چیز رضائے الہی ہے اور اسی سے

Page 765

خطبات محمود 24.سال ۱۹۳۵ء زندگی ملتی ہے.یہ دنیا سب ویران اور سنسان پڑی ہے گو تمہیں یہ آبادنظر آتی ہے مگر خدا کی نظروں میں ویران ہے.تم دہلی ، لاہور اور دوسرے شہروں میں جاتے ہو تو سمجھتے ہو کہ یہ شہر آباد ہیں اور تم زندوں میں پھر رہے ہو مگر تمہاری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہوتی ہیں.وہ زندہ نہیں مُردہ ہیں کیونکہ خدا کا نام اُن میں نہیں.جب تم خدا کا نام وہاں پہنچا دو گے تب اُن کو زندگی ملے گی.وہ شہر آباد ہوں گے اور تم اُن کے آدم ہو گے پس نوجوان ہمت کریں اور باہر نکلیں.تم میں سے ایک نوجون افغانستان ہو آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم وہ کام نہ کر سکو جو تمہارا ایک بھائی کر آیا ہے.وہ یہاں متفرق کلاس کا طالب علم تھا اور مجھے یا کسی کو اطلاع دیئے بغیر نکل کھڑا ہوا اور اب واپسی پر اُس کا ذکر کیا ہے.جب اُس نے یہ کام کیا تو کیا تم میں سے بعض اس سے بھی بڑے کام نہیں کر سکتے ؟ ڈاکٹر اور حکیم بہت کام کر سکتے ہیں.ہم نے ایک ڈاکٹر کو بھیجا ہے اور اُس کا کام بہت اچھی طرح چلنے کی امید ہے کیونکہ ہمیں جو اطلاع آئی تھی اُس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر آنکھ کی بیماریوں کا علاج جانتا ہو تو اسے یہاں جلد قبولیت حاصل ہوسکتی ہے اور چونکہ یہ نوجوان یہ کام جانتا ہے اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بہت جلد وہاں عزت اور رتبہ حاصل کر لے گا اور شہر کے معززین میں رسوخ حاصل کر سکے گا تو طب پڑھے ہوئے بہت اچھا کام کر سکتے ہیں ضرورت صرف حوصلہ کی ہے مگر افسوس کہ بعض وہ لوگ جن کو میں نے منتخب کیا حوصلہ مند نہیں ثابت ہوئے.سٹریٹ سیٹلمنٹس میں تین نوجوانوں کو بھیجا گیا ان میں سے دو اس طرح وہاں جا کر غائب ہو گئے ہیں کہ گویا کبھی تھے ہی نہیں.بہر حال وہاں تین احمدی پہنچ چکے ہیں اور چاہے وہ کا روبار میں ہی پھنس گئے ہوں اور اس جوش سے تبلیغ نہ کرتے ہوں اور اپنی رپورٹوں کو اس طرح قائم نہ رکھ رہے ہوں مگر پھر بھی ان کے ذریعہ احمدیت کا نام تو ضرور پھیل رہا ہے.ان سے ملنے والوں میں ہی احمدیت پھیلے گی اور بعض خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ پھیل رہی ہے.اور احمدیت تو کوئی ایسی چیز نہیں کہ ایک دفعہ دل میں گڑ کر پھر نکل سکے.اس لئے وہ گو اتنا جوش نہ دکھائیں پھر بھی کامیابی کی بہت امید ہے.اس طرح رقم بھی بہت تھوڑی خرچ ہوتی ہے سال بھر کیلئے ایک مبلغ بھیجنے پر اڑھائی تین ہزار کا خرچ ہوتا ہے اور ان کے بھیجنے پر تین چار سو سے زیادہ نہیں ہوا.اور وہ کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں اگر کسی وقت اللہ تعالیٰ جوش پیدا کر دے تو اور زیادہ کامیابی کی امید ہے ورنہ خدا تعالی مقامی لوگوں میں سے ہی ان کے ذریعہ کوئی اچھا کام کرنے والا آدمی پیدا کر دے گا.

Page 766

خطبات محمود ۷۶۱ سال ۱۹۳۵ء میں نو جوانوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر وسعت نظر اور بلند ہمتی پیدا کرو.دیکھو! انگریز کس طرح دنیا میں پھیل گئے ہیں.کسی وقت وہ ایسے ہی کمزور تھے جیسے آج ہم ہیں.یہاں کے لوگ اس بات سے چڑتے ہیں کہ انگریز غیر ملک سے آ کر یہاں حکومت کرتے ہیں مگر میں کہتا ہوں اعتراض کرنے والے کیوں نہ ان کے ملک چلے گئے.انگریز اب چار کروڑ ہیں مگر اُس وقت صرف کروڑ ڈیڑھ کروڑ ہی تھے مگر تم ۳۳ کروڑ تھے اور باہر نہ نکل سکے.تمہیں کس نے روکا تھا کہ باہر نکلو.خدا کا قانون یہی ہے کہ جو دنیا کے لئے باہر نکلتا ہے خدا اُس کے آگے دنیا کو ڈال دیتا ہے اور دنیا کی حکومت اُسے عطا کر دیتا ہے اور اسی طرح جو دین کے لئے باہر نکلتا ہے اُسے دین کی حکومت عطا کر دیتا ہے.انگریز دنیا کے لئے باہر نکلے خدا تعالیٰ نے دنیا انہیں دی تم دین کے لئے نکلو گے تو خدا تمہیں دین عطا کرے گا.میں نے افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ مبلغین کلاس کے سوا باقی مدرسہ احمد بید اور مولوی فاضل کلاس کے طلباء دینی تعلیم سے بہت کم واقف تھے انہیں دورانِ تعلیم باہر بھیجتے رہنا چاہئے تا وہ مطالعہ وسیع کریں اور واقعیت بڑھے.شعبہ تعلیم کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ خالی مولوی فاضل کسی کام کے نہیں اور وہ ہر جگہ ناکام ہوں گے.یہ کوئی عذر نہیں کہ امتحان کی تیاری کراتے ہو اس تیاری کے ساتھ ہی دینی تعلیم ہونی چاہئے.مدرسہ احمدیہ اور مولوی فاضل کلاس کے بعض طالب علم دینی تعلیم میں بہت کچے ثابت ہوئے بلکہ بعض ہائی سکول کے طلباء ان سے زیادہ واقف تھے پس ایسا انتظام کیا جائے کہ ہر لڑکا ہر مہینہ میں ایک تقریر ضرور باہر جا کر کرے.اس سے ان کا علم بڑھے گا اور دماغ میں روشنی پیدا ہو اب میں پھر اصل سوال کی طرف لوٹتا ہوں میں نے ذکر کیا تھا کہ اس سال بھی وقف کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے گزشتہ سال کے کاموں کے علاوہ بعض اور کام بھی میرے مد نظر ہیں.مثلاً میرا ارادہ ہے کہ اس سال کی تحریک میں بریکاری کو دور کرنا بھی شامل کر لیا جائے اس وقت غریب اور بیکار لوگوں کو مدد دی جاتی ہے میں چاہتا ہوں کہ آئندہ ان کو کام پر لگا یا جائے.ہماری آمد کا بہت سا حصہ تو تبلیغ پر صرف ہوتا ہے ، کچھ تعلیم پر، کچھ مرکز کے کارکنوں پر اور اسی طرح لنگر خانہ پر بھی.سالانہ جلسہ کے اخراجات کو ملا کر ۲۶،۲۵ ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے.اس کے بعد غرباء کی امداد کے

Page 767

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لئے کم رقم بچتی ہے مگر پھر بھی تعلیمی وظائف وغیرہ ملا کر تمیں ، پینتیس ہزار کی رقم صرف ہوتی ہے مگر اتنی بڑی جماعت کے لحاظ سے یہ پھر بھی کم رہتی ہے.اور کمی کی وجہ سے کئی لوگ تکلیف اُٹھاتے ہیں کئی شکوے بھی کرتے ہیں حالانکہ مؤمن کو شکوہ کبھی نہیں کرنا چاہئے.اسے چاہئے کہ بجائے دور و پے نہ مل ، سکنے کا شکوہ کرنے کے ایک جو ملا ہے اُس کا شکر کرے.بہر حال غرباء کو پوری امداد نہیں دی جاتی اور نہ دی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ قلت سرمایہ ہے پس اس تکلیف کا اصل علاج یہی ہے کہ بریکاری کو دور کیا جائے.میں نے اس کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر اُس نے اپنا کام صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ درخواستوں پر امداد دیئے جانے کی سفارش کر دے حالانکہ یہ کام تو میں خود بھی آسانی سے کر سکتا تھا مگر غرباء چونکہ مجھ سے زیادہ ملتے اور اپنے حالات بیان کرتے رہتے ہیں اس لئے ان سے بہتر طور پر کر سکتا تھا پس امدادی رقم کی تقسیم کے لئے کسی امداد کی تو مجھے ضرورت نہیں.میری غرض تو یہ تھی کہ بیکاروں کے لئے کام مہیا کیا جائے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ اس شعبہ کو بھی تحریک جدید میں ہی شامل کر دیا جائے اور اس کے لئے بھی ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہو گی جو اپنے آپ کو غرباء کی امداد اور ان کے لئے کام مہیا کرنے کے لئے وقف کر دے یہ بھی مبلغ سے کم ثواب کا کام نہیں.جو کام بھی سپرد کر دیا جائے وہی کرنا موجب ثواب ہے.اگر کسی شخص کو کسی جگہ مدرس مقرر کر دیا جاتا ہے تو یہ نہیں کہ وہ ثواب میں مبلغ سے کم رہے گا یا مثلاً بور ڈ نگ تحریک جدید کا انچارج ہے بوجہ اس کے کہ اس کا کام دین کی خدمت کے لئے ایک نئی نسل پیدا کرنا ہے، یہ مبلغ کے کام سے کم اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اچھی طرح کیا جائے تو مبلغ سے بھی زیادہ ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے.اسی طرح غرباء کو کام پر لگانے میں امداد کرنا اور اس سلسلہ میں جو روپیہ اس کے سپرد کیا جائے اُسے ٹھیک طور پر استعمال کرنا کوئی کم ثواب کا موجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس میں ہزاروں غرباء کی دعائیں ملیں گی زیادہ ثواب کا موجب ہو سکتا ہے.پس وقف کنندگان کو اگر تعلیم پر یا کسی اور کام پر لگا دیا جائے تو انہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا ثواب کہاں گیا ؟ مثلاً میں نے ان میں سے ایک کوتحریک جدید کے بورڈنگ کا سپر نٹنڈنٹ بنایا ہے وہ اگر بچوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے رات دن ایک کرے تو وہ سینکڑوں مبلغوں میں چنندہ مبلغ کے برابر ثواب حاصل کر سکتا ہے.امداد بیکاران کے متعلق میرا ارداہ یہ ہے کہ راس المال کو خرچ نہ کیا جائے بلکہ بعض نفع مند کاموں پر روپیہ لگا کر جو نفع حاصل ہو وہ اس مد میں خرچ کیا جائے

Page 768

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء اور بیکاروں کے لئے لوہار، ترکھان، چمڑے کا کام مثلاً اٹیچی کیس اور بوٹ وغیرہ بنانا سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے.ہم سالانہ قادیان کے غرباء پر ۱۵ ہزار روپیہ کے قریب صرف کرتے ہیں.۵ ہزار تو زکوۃ کا ہوتا ہے پھر کئی ایک کولنگر خانہ سے روٹی دی جاتی ہے پھر دارالشیوخ کے طلباء ہیں جن کے لئے جمعہ کے روز آٹا جمع کیا جاتا ہے.عیدین کے موقع پر بھی کچھ روپیہ خرچ ہوتا ہے اور میں کچھ رو پیدا اپنے پاس سے بھی خرچ کرتا ہوں اور یہ سب ملا کر تقریباً پندرہ ہزار ہو جاتا ہے اس کی بجائے اگر ہم فی الحال پانچ ہزار بھی تجارتی کاموں پر لگا دیں تو اس سے بہت زیادہ فوائد ہوں گے بیکاروں کے اندر کام سیکھنے کے بعد قربانی کی روح اور خود اعتمادی پیدا ہوگی اور مانگنے کی وجہ سے جو خست پیدا ہو جاتی ہے وہ دُور ہو گی.اور پانچ ہزار روپیہ سے ہم سو دو سو آدمی پال سکتے ہیں اور ایسے کام نکالے جائیں گے جن میں عورتیں اور نا بینا اشخاص بھی حصہ لے سکیں.مثلاً ٹوکریاں بنانا، چکیں بنانا ، آزار بند بنانا وغیرہ یہ ایسے کام ہیں جنہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں.اگر شروع میں ہمیں نقصان بھی ہو تو کوئی حرج نہیں مثلاً ہم نے دس ہزار خرچ کیا اور آٹھ ہزار کی آمد ہوئی تو پھر بھی ہم نفع میں رہے کیونکہ ان لوگوں کی اگر ہم روپیہ سے امداد کرتے تو غالباً پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوتا.اگر اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں برکت دے تو موجودہ بریکاروں کو کام پر لگانے کے بعد باہر بھی بریکاروں کو بلایا جا سکتا ہے اور اس طرح یہ کام قادیان کی ترقی کا موجب بھی ہو سکتا ہے پس اس کام کے لئے بھی ایک شخص کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں زندگی وقف کرنے والا ہو بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ تکلیف سے گھبرا جاتے ہیں یا کہیں زیادہ تنخواہ کی امید ہو تو چلے جاتے ہیں.بعض کام سے جی چراتے ہیں ، بعض کام کے عادی نہیں ہوتے.حالانکہ وقف کے معنی یہ ہیں کہ سمجھ لیا جائے اب اسی کام میں موت ہوگی نہ دن کو آرام ہو نہ رات کو نیند آئے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ حقیقی جوش سے کام کرنے والے کی نیند اکثر خراب ہو جایا کرتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفعہ چار پائی پر لیٹ کر کئی کئی گھنٹے فکر سے نیند نہیں آتی اور سلسلہ کے کاموں کے متعلق سوچنے اور فکر کرنے میں دماغ لگارہتا ہے پس کام کرنے والے کے لئے نیند بھی نہیں ہوتی.قرآن کریم نے جو کہا ہے کہ مؤمن سوتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کی فکر میں ہی تھک کر سو جاتے ہیں اس لئے نیند میں بھی ان کا دماغ دین کے کام میں لگارہتا ہے.پس وہ نوجوان آگے آئیں جو دین کے کام میں مرنا چاہیں.یہ غلطی ہے

Page 769

خطبات محمود ۷۶۴ سال ۱۹۳۵ء کہ بعض لوگ چھ سات گھنٹے کام کرنے کو احسان سمجھ لیتے ہیں اور پھر نا کامی کو قسمت پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ گستاخ اور بے ادب ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ ناکامی خدا کی طرف سے آتی ہے.خدا سے ہمیشہ کامیابی آتی ہے اور جو نا کامی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی ہتک کرنے والا ہے پس جب تک کوئی یہ نہ سمجھے کہ ناکامی کا میں ذمہ دار ہوں وہ اپنے آپ کو وقف نہ کرے.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ نا کامی ہوئی تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے کیا کامیابی ہمارے اختیار میں ہے؟ لیکن ایسے خیالات سے قوم میں سستی پیدا ہوتی ہے.یورپین قوموں میں ناکامی کے عذر کو قبول نہیں کیا جاتا اور جو نا کام ہوا سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے کہ بس تم اس کام کے اہل نہیں.اس لئے تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کام بھی اُس کے سپر د کیا جائے اُس میں کامیاب ہو کر دکھائے.دیکھو! زمینیں ہماری اچھی ہیں اور کثرت سے ہیں مگر ہمارے ہاں زمیندار اگر کوئی ملازم رکھیں تو اسے چند من غلہ کے سوا کوئی اُجرت نہیں دے سکتے.مگر امریکہ والے زمیندار اپنے ملازموں کو دو دو سو روپیہ تنخواہیں دیتے ہیں اور پھر وہ اتنا غلہ پیدا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کا دیوالہ نکال دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ پاگل ہو کر کام کرتے ہیں.میں نے لنڈن کی گلیوں میں کسی آدمی کو چلتے نہیں دیکھا.سب بھاگے پھرتے ہیں.جب میں وہاں تھا تو ایک دن مجھ سے حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہاں کسی آدمی کو چلتے بھی دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی قریبی کے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے اور اسے بجھانے جا رہے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے وہ لوگ چلتے ہیں پس مجھے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو خود پاگل ہوں اور دوسروں کو پاگل کر دیں.یہ اتنے بڑے ثواب کا کام ہے کہ ایسے شخص کا نام صدیوں تک زندہ رہ سکتا ہے اور اگر روپیہ آ جائے تو ایسے لوگوں کی خدمت کرنے سے بھی سلسلہ کو دریغ نہیں ہوسکتا.مثلاً اگر پندرہ ہزار منافع ہو جائے تو اس میں سے کام کرنے والے کو چار پانچ سو یا ہزار دینے میں بھی کیا عذر ہو سکتا ہے گویا اس کام میں دُنیوی طور پر بھی فائدہ ہونے کا امکان ہے جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ یہ بھی مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کئے جائیں.میرے ذہن میں تو لکڑی کا کام مثلاً میز کرسیاں بنانا ، لوہے کا کام جیسے تالے کیل کانٹے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں جو دساور لے کے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں چمڑے کا کام یعنی بوٹ، اٹیچی کیس وغیرہ چیز میں تیار کرانا ہے.ہماری جماعت

Page 770

خطبات محمود ۷۶۵ سال ۱۹۳۵ء میں ہی ان کی کافی کھپت ہوسکتی ہے.اس کے علاوہ ازار بند ، پراندے اور اسی قسم کی کئی دوسری چیز میں ہیں.گوٹہ کے استعمال سے میں نے روک دیا ہے لیکن اگر باہر اس کی کھپت ہو سکے تو یہ بھی تیار کرایا جا سکتا ہے میں نے جہاں تک عقل کا کام تھا یہ سکیم تیار کی ہے.باقی تجربہ سے جو حصہ تعلق رکھتا ہے اس کے بارہ میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد تجربہ کا ر دوست اطلاع دیں.میری تجویز یہ ہے کہ عورت ، مرد، بچہ، بوڑھا ہر ایک کو کسی کام پر لگا دیا جائے اور سوائے معذوروں کے کوئی بریکار نہ رہے.اس طرح ہجرت کا سامان بھی پیدا ہو سکتا ہے اب تو ہم ہجرت سے روکتے ہیں مگر اس صورت میں باہر سے لوگوں کو بلاسکیں گے.میں چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کما کر کھانے کا عادی ہو.میرا ارداہ ہے کہ تحریک جدید کے طلباء کو بھی ایسے کام سکھائے جائیں تا ان میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح پیدا ہو.غریب امیر کا امتیاز مٹ جائے اور نوکری نہ ملے تو کوئی پیشہ انکے ہاتھ میں ہو.پڑھے لکھے لوگ آجکل دس دس روپیہ کی چپڑاس کی نوکری کیلئے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں حالانکہ اس طرح کے کاموں سے وہ سو پچاس روپیہ ماہوار کما سکتے ہیں پس ایک دوست اس تجویز کے متعلق مشورہ دیں اور دوسرے نو جوان اپنے آپ کو وقف کریں دیکھو! ایک نوجوان نے اس تحریک پر عمل کر کے دکھا دیا ہے اور گو الفضل المُتَقَدِم کے مطابق پہل کی عزت اُسے مل گئی ہے مگر تم دوسرے نمبر کی عزت کو ہی ضائع نہ کرو.میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان اس سال پہلے سے زیادہ قربانیاں کریں گے اور ایک امتیاز پیدا کر کے دکھائیں گے.اسد الغابة جلدا صفحہ ۲۳۸،۲۳۷ مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ھ دساور غیر ملک کی منڈی.سوداگری کا مال جو غیر ملک سے آئے.(الفضل ۳؍ دسمبر ۱۹۳۵ء)

Page 771

خطبات محمود ۴۵ سال ۱۹۳۵ء آل انڈیا فیشنل لیگ کے والینٹینرز کو اہم ہدایات (فرموده ۶ /دسمبر ۱۹۳۵ء) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : سب سے پہلے تو میں نیشنل لیگ کی جو و الیسنسٹیسٹر زکور ہے اس کے متعلق کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.درحقیقت یہ کور اُس احمدیہ کور کی ایک نئی شکل ہے جو پانچ سات سال ہوئے میری تحریک پر جماعت میں قائم کی گئی تھی.میں نے اُس وقت بیان کیا تھا کہ احمد یہ کور کی بڑی غرض خدمت خلق اور اصلاح اخلاق ہو گی.میں نے جہاں تک اپنے ملک کے اخلاق پر غور کیا ہے خصوصاً مسلمانوں کے اخلاق پر ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کے اندر استقلال کا مادہ بالکل نہیں.کوئی کام بھی وہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں کر سکتے.اور وہ استقلال اور ایثار جو کامیابی کے لئے ضروری ہے مسلمانوں کے کاموں میں نہیں ملتا.اس کی بنیاد زیادہ تر نوجوانی میں پڑتی ہے ماں باپ اپنے بچوں سے ایسی غلط طور پر محبت کرتے ہیں یا مجھے کہنا چاہئے کہ وہ ان سے ایسی دشمنی کرتے ہیں کہ کبھی بھی بچوں کی اصلاح کو ان کے عارضی آرام سے مقدم نہیں سمجھتے.ہندوستانیوں سے یا مجھے یہ کہنا چاہئے کہ جن جن مسلمانوں سے مجھے ملنے اور ان کے حالات کو دیکھنے کا موقع ملا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ سوائے شاذ و نادر کے سو فیصدی ایسے ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کے دشمن ہوتے ہیں.یعنی وہ ان کی آئندہ ترقی کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ ان کا عارضی اور وقتی آرام مقدم سمجھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ مسلمان با وجود اس طبعی ذہانت کے جو اسلام کی وجہ سے انہیں حاصل ہے ہر میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے ہیں.گورنمنٹ سے

Page 772

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء مسلمان شاکی ہیں کہ وہ انہیں ملازمت بہت کم دیتی ہے اور میں مانتا ہوں کہ گورنمنٹ کے بعض افسر ہندوؤں کے اثر کے نیچے ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے حقوق کو ملازمتوں کے سلسلہ میں پامال کر دیتے ہیں.ہندوؤں سے مسلمان شاکی ہیں کہ وہ ان کی تجارت کو بڑھنے نہیں دیتے اور میں خود بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی طرف سے ایسی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں جو مسلمانوں کی تجارتی ترقی میں روک ثابت ہوتی ہیں اور ہند و پسند نہیں کرتے کہ مسلمان تجارت میں حصہ لیں.یہ امر بھی بالکل درست ہے کہ زمیندار ہندو ساہوکاروں کے قبضہ میں ہیں.گوسا ہو کا رصرف ہندو ہی نہیں مسلمان اور پارسی بھی ہیں.اور ہندو ساہوکاروں کے ظلم ہند وقوم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے لیکن بہر حال عام طور پر ہندو ہی ساہوکار ہوتے ہیں.کچھ مسلمان ساہو کا ر بھی ہیں اور کچھ پارسی بھی لیکن کثرت ہندو ساہوکاروں کی ہے.اور نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے زمیندار بھی شاکی ہیں کہ انہوں نے زمینداروں کا خون چوس لیا ہے.مگر میں اس امر کو تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ یہی تین باتیں مسلمانوں کی کمزوری کا باعث ہیں.بلکہ باوجود ان تینوں باتوں کے مسلمان ترقی کر سکتے تھے.اگر استقلال اور قربانی کا مادہ ان میں ہوتا بلکہ اگر صرف یہی بات ان میں ہوتی کہ استقلال سے وہ کام کرنے کے عادی ہوتے ، تب بھی وہ کامیاب ہو سکتے تھے کیونکہ قربانی کا مادہ ابھی ان میں پایا جاتا ہے گو عارضی ہی ہوتا ہے.چنانچہ شہید گنج کے موقع پر جس رنگ میں مسلمانوں نے مظاہرہ کیا اور جس طریق پر انہوں نے سخت اشتعال کی حالت میں اپنے آپ کو قابو میں رکھا وہ واقعات سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑی اہر جذبات کی مسلمانوں میں موجود ہے.لیکن نقص یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ اُٹھتی اور پھر بیٹھ جاتی ہے.اگر مسلمانوں میں استقلال ہوتا اور جس ارادہ کو لے کر وہ ایک دفعہ کھڑے ہوتے اُس پر قائم رہتے تو باوجود اس کے کہ بعض انگریز ملازمتیں دینے کے سلسلہ میں ہندوؤں کے زیر اثر ہیں ، اور باوجود اس کے کہ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کی تجارت میں روکیں ڈالی جاتی ہیں ، اور باوجود اس کے کہ مسلمان زمینداروں کی گردنیں ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں ہیں پھر بھی وہ ان تمام روکوں کو توڑ کر نکل جاتے.اور ترقیات میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہتے.ہماری جماعت میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نظام پایا جاتا ہے اور اس کے ماتحت جماعت کے افراد بعض حالات میں تسلسل سے کام کرتے رہتے ہیں ، اس کے نیک نتائج کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ

Page 773

خطبات محمود ۷۶۸ سال ۱۹۳۵ء رہے ہیں.مثلاً قادیان کی تجارت کا وہ رنگ جو آج سے بیس سال پہلے تھا ، آج نہیں.آج سے ہیں سال پہلے صرف دو تین احمدی تاجر تھے اور وہ بھی ہمیشہ شکوہ کرتے رہتے تھے کہ ان کا کام نہیں چلتا اور یہ کہ وہ مقروض رہتے ہیں.اٹھارہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارا ایک موروثی مر گیا.قانونا اس کی زمین ہمیں ملتی تھی ہم نے اُس پر قبضہ کرنا چاہا مگر بعض لوگ جو متوفی کے رشتہ دار نہ تھے جبراً اُس کی زمین پر قبضہ کرنے پر آمادہ ہوئے اور انہوں نے ہمارے آدمیوں کا مقابلہ کیا اور ان پر حملہ آور ہوئے اور پھر انہوں نے اسے ہندو مسلم سوال بنا دیا.اور یوں شکل دے دی کہ گویا احمدی ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم کرتے ہیں حالانکہ مرنے والا ہمارا موروثی تھا اور لا ولد تھا.اور اس کی زمین ہمیں ہی ملتی تھی چنانچہ جب عدالت میں یہ معاملہ گیا تو ہمارا حق تسلیم کیا گیا اور اب تک ہم اس پر قابض ہیں لیکن اس زمین کے جھگڑے کو قومی سوال بنادیا گیا.اسی سلسلہ میں ایک مصنوعی فساد کھڑا کر کے یہ مشہور کر دیا گیا کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں.میں اس قصہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کئی دفعہ میں اس واقعہ کو بیان کر چکا ہوں.بہر حال اُس وقت ایسے سامان پیدا کر دیئے گئے تھے کہ اگر مجھے وقت پر معلوم نہ ہو جاتا تو اُس دن بیسیوں خون ہو جاتے.مگر میں اُس وقت اتفاقا گلی کے اوپر کے کمرہ میں کھڑکی کے پاس کھڑا تھا.اور جب میں نے لوگوں کے دوڑنے کا شور سنا تو انہیں روک دیا.اُنہی ایام میں ہمارے طالب علم ایک دفعہ بڑے بازار سے گزر رہے تھے تو ایک ہندو مٹھائی کے تاجر نے اپنی چھا بڑیاں زمین پر پھینک دیں اور یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ احمدیوں نے اُس کی دُکان لوٹ لی ہے.یہ حالات ایسے تھے کہ میں نے سمجھ لیا خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا ہے ور نہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اس طرح بلا قصور اور خطا جماعت کو بدنام کیا جاتا اور فساد میں مبتلاء کرنے کی کوشش کی جاتی.اس خیال پر میں نے اسی مسجد میں تمام دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو! اگر تم فسادات سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ آئندہ ان لوگوں سے تعلق نہ رکھو کہ جو اس طرح تم کو بدنام کرتے ہیں.آج اگر انہوں نے مٹھائی کی چھا بڑیاں خود زمین پر گرا کر یہ مشہور کر دیا ہے کہ احمد یوں نے انہیں لیا تو کیا پتہ ہے کہ کل کو کوئی اور تاجر کپڑوں کے تھان گلی میں پھینک کر کہ دے کہ یہ تھان احمدی لوٹے لئے جارہے تھے.یا اپنی صندوقچی کے متعلق کہہ دے کہ یہ احمدیوں نے تو ڑ ڈالی.پس چونکہ ایسے حالات رونما ہو گئے ہیں جن سے فتنوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے اس لئے جماعت

Page 774

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کی عزت اور اس کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ خاص احتیاط سے کام لیا جائے.پس یا تو آپ لوگ جماعتی ذمہ واری سے سلسلہ کو آزاد کر دیں اور جو چاہیں کریں.اور یا پھر اپنے پر یہ پابندی کر لیں کہ صرف اُنہی لوگوں سے لین دین کیا جائے جو ہم سے تعاون اور صلح رکھنے کے لئے تیار ہوں.میں نے کہا میں آپ لوگوں کو کسی خاص طریق پر مجبور نہیں کرتا ہاں چونکہ آپ لوگوں نے خود میرے پاس بیان کیا ہے کہ بعض ہندوؤں نے اپنی چھا بڑیاں زمین پر پھینک دیں اور مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں لوٹ لیا حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی.اسی طرح آپ لوگ ہی یہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے فتنہ پردازی کے لئے یہ خبر مشہور کر دی کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں اور اس طرح احمدیوں کو اشتعال دلوا کر لڑوانا چاہا.پس اگر آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو میں اُس جگہ جانے کی اجازت نہیں دے سکتا جہاں اس قسم کے فتنہ کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں.آپ لوگوں میں سے کوئی شخص اپنی ذمہ داری پر اُدھر جائے تو میں اُسے روکنا نہیں چاہتا لیکن وہ اپنا آپ ذمہ وار ہوگا.جماعت اس کے متعلق کسی قسم کی ذمہ واری لینے کے لئے تیار نہیں ہوگی.لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ جماعت بحیثیت جماعت ایسے فتنوں کے وقت میں آپ کی مناسب امداد کرے تو پھر آپ اقرار کریں کہ آپ ان لوگوں سے سودا نہیں خریدیں گے کہ جو اس قسم کے فساد کھڑا کرتے ہیں.صرف اُن لوگوں سے سو دا خریدیں گے جو آپ کے ساتھ شریفانہ طور پر تعاون کرنا چاہیں گے.چنانچہ اُسی وقت ایک رجسٹر کھولا گیا اور میں نے کہا جو لوگ یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اپنا سو دا صرف احمدی دُکانداروں سے یا دوسری اقوام کے ان دُکانداروں سے خریدیں گے جو ہم سے تعاون کا اقرار کریں ، وہ اس میں اپنا نام لکھ دیں.اور جو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کے آپ ذمہ دار بن سکتے ہیں یا ا سب ہندوؤں سے وہ سو دا خریدنا چاہتے ہیں.اور ہندوؤں اور سکھوں میں انہیں رسوخ حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ، وہ اپنا نام الگ لکھا دیں.اس پر صرف سات احمد یوں نے کہا کہ ہم ہندوؤں سے سو دا خریدیں گے.لیکن باقی سب نے کہا کہ خطرہ حقیقی ہے اور ہم ان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدیں گے جو ہمارے ساتھ معاہدہ میں شامل نہ ہوں.اس معاہدہ کے مطابق صرف ایک ہندود کا ندار معاہدہ میں شامل ہو ا باقی نے انکار کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینہ میں ہی احمد یوں کی گئی دُکانیں گھل گئیں اور اُس وقت سے ترقی کرتے کرتے آج یہ حالت ہے کہ قادیان کی تجارت کا اتنی

Page 775

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء فیصدی حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے.اور گو ہماری ظاہری تجارت بھی دوسروں سے نمایاں ہے لیکن بعض اندرونی تجارتیں ہیں.جیسے بعض عورتیں تجارت کرتی ہیں ، پھر بعض عارضی طور پر تجارت کر لیتے اور بعد ازاں چھوڑ دیتے ہیں ان تمام تجارتوں کو اگر ملا لیا جائے تو اسی فیصد تجارت احمد یوں کی بنتی ہے حالانکہ اُس وقت ایک فیصدی تجارت بھی احمدیوں کے ہاتھ میں نہ تھی.اس میں شبہ نہیں کہ ابتدا میں اس کام کے شروع کرتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.بار بار لوگوں کو ہدایتیں دینی پڑتیں.اور پھر ان لوگوں کے لئے جرمانے مقرر تھے جو معاہدہ میں شامل نہ ہونے والوں سے سودا خرید تے اور اپنے عہد کو توڑ دیتے.لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ جماعت کو اس بات کی عادت ہو گئی.اب بھی بعض لوگ اس معاہدہ کو کبھی کبھی تو ڑ دیتے ہیں مگر بہت کم.اور جو پابندی کرتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں.شروع میں بے شک ہمیں نقصان بھی ہوا.چنانچہ جماعت کے لوگوں کو مہنگا سودا خریدنا پڑتا.بعض دفعہ بٹالہ اور بعض دفعہ امرتسر سے چیزیں منگوانی پڑتیں.لیکن آخر نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کا اکثر حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں آ گیا اور قادیان کی ترقی جتنی سرعت سے اس کے بعد ہوئی اتنی سرعت سے پہلے نہیں ہوئی تھی.بلکہ اس معاہدہ کے نتیجہ میں سینکڑوں آدمیوں کو قادیان میں بسنے کا موقع مل گیا.کسی کو معماروں کی صورت میں کسی کو نجاروں کی صورت میں ، کسی کو لوہاروں کی صورت میں اور کسی کو ڈ کا نداروں کی صورت میں اور میں سمجھتا ہوں اس تحریک کے نتیجہ میں کم از کم تین ہزار آدمی قادیان میں بڑھے ہیں.اور اس سے جو مرکز سلسلہ کو تقویت پہنچی اور جماعت کی مالی حالت کی درستی پر اس کا اثر پڑا وہ مزید برآں ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے دوست اب بھی ہمت کریں تو اردگرد کے دیہات کی تجارت کو بھی اپنے قبضہ میں لا سکتے ہیں.پس استقلال سے کام لینے کی ایک مثال قادیان کی موجود ہے اُس وقت بار بار لوگ کہتے تھے کہ ہندوؤں سے قرض مل جاتا ہے احمدی سرمایہ دار نہیں.اور احمدی زمیندار کہتے کہ ان کی گردنیں ساہوکاروں کے قبضہ میں ہیں.اگر پہلے طریق کو ترک کر دیا گیا تو وہ نوٹس دے کر ہمیں پکڑوا سکتے ہیں.یہ سب مشکلات موجود تھیں صرف ملازمت کا سوال نہیں تھا لیکن باقی دو باتیں موجود تھیں یعنی ایسی قوم سے مقابلہ تھا جس کے ہاتھ میں سینکڑوں سال سے تجارت چلی آ رہی ہے.پھر مقابلہ تھا اُن ساہوکاروں سے جن کے قبضہ میں زمینداروں کی گرد نہیں تھیں مگر استقلال اور ہمت سے کام لیتے ہی حالت بدل گئی اور اب یہ حال ہے

Page 776

خطبات محمود 221 سال ۱۹۳۵ء کہ گو یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ہم غیروں پر ظلم کرتے ہیں مگر مخالفوں کو بھی ہماری طاقت اتنی زیادہ نظر آتی ہے کہ انہوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اگر ہماری طاقت میں نمایاں فرق نہ ہوتا تو وہ یہ الزام ہم پر کس طرح لگا سکتے تھے.ان کا یہ الزام لگا نا بتا تا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اب احمد یوں کی قادیان میں اتنی طاقت بڑھ چکی ہے کہ اگر ہم ان پر یہ الزام لگائیں کہ یہ غیروں پر ظلم کرتے ہیں تو لوگ اسے ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے.غرض مسلمان اگر استقلال سے کام لیں تو اب بھی حقوق حاصل کر سکتے ہیں اور کوئی جھگڑے کی بات نہیں رہتی.ہم نے قادیان میں ہندوؤں سے نہ فساد کیا نہ جھگڑا بلکہ انہیں یقین دلایا کہ اگر کوئی ہندو دکاندار ہمیں تسلی دلا دے کہ وہ ان جھگڑوں میں شامل نہیں ہوگا تو ہم اس سے بھی معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ جیسا کہ بتا چکا ہوں ایک ہندو د کاندار نے معاہدہ کیا اور ہم اُس وقت سے برابر ان سے سودا خرید تے چلے آ رہے ہیں وہ صرافے کا کام کرتے ہیں.اب تو تحریک جدید کے تحت ہم نے زیور بنوانے ترک کر دیئے ہیں لیکن جب تک زیور بنوائے جاتے تھے تو جماعت کے لوگ عموماً انہی سے بنواتے تھے.اور چونکہ زیورات کو بیچنا اب بھی منع نہیں اس لئے اگر زیور بیچے جاتے ہیں تو اکثر انہی کے پاس.میرے پاس جو چندے میں زیورات آتے ہیں یا تحریک جدید میں حصہ لینے کے لئے بعض عورتیں اپنے زیور بھیج دیتی ہیں یا صدقہ و خیرات کی مد میں بعض دفعہ زیور آ جاتا ہے ، وہ ہمارا دفتر اکثر انہی کے پاس بھجواتا ہے.پس ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا اور نہ ہم بائیکاٹ کو جائز سمجھتے ہیں.ہم نے صرف فتنہ سے بچنے کے لئے ایک صورت نکالی تھی جو بالآ خر کا میاب ہوئی.اسی طرح مسلمان بھی کام کر سکتے تھے اور بغیر آپس کے تعلقات کو خراب کرنے کے کام کر سکتے تھے.مگر کس چیز نے انہیں کام نہیں کرنے دیا ؟ صرف عدم استقلال نے.ورنہ مسلمان آج بھی وہ قربانیاں کر سکتے ہیں جو یورپ کے لوگ بھی نہیں کر سکتے.جس وقت ایک مسلمان کے دل میں غیرت پیدا ہوتی ہے حیرت آتی ہے کہ وہ کس طرح انجام سے لاپر واہ ہو کر کام کر جاتا ہے.ابھی ایک سکھ لاہور میں مارا گیا ہے.ایک مسلمان الزام قتل میں ماخوذ ہے اور عدالت میں اس کا معاملہ پیش ہے.جب وہ عدالت میں پیش ہوا تو اُدھر عدالت اپنا کام کر رہی تھی اور ادھر وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد یہ زبان سے الفاظ کہتا جا تا اللہ بے پرواہ.اللہ بے پرواہ.گویا وہ یہ سمجھتا ہی نہیں تھا کہ عدالت کیا کر رہی ہے اور وہ کس مُجرم میں

Page 777

خطبات محمود ۷۷۲ سال ۱۹۳۵ء ماخوذ ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اُس نے یہ فعل کیا ہے تو جو کچھ کیا وہ ایک نہایت ہی ظالمانہ فعل تھا اور کسی صورت میں اُس کا کرنا جائز نہیں تھا.مگر ان حالات سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمان اب بھی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.یہ الگ سوال ہے کہ وہ قربانی غلط کرتے ہیں یا صحیح.مگر ان میں قربانی کا مادہ موجود ہے اور ضرورت ہے کہ اس مادہ سے فائدہ اُٹھا کر انہیں صحیح قربانیوں پر آمادہ کیا جائے.اسی طرح مسلمان بالعموم نمازیں نہیں پڑھتے لیکن اگر کوئی نماز پڑھنے پر آ جائے تو وہ ہر وقت نماز پڑھنے میں ہی لگا دیتا ہے.وظیفہ کرنے پر آ جائے تو ہر وقت مصلی پر بیٹھے وظیفہ ہی کرتا رہے گا اور یہ نہیں سوچے گا کہ کسی اور کام کے کرنے کا بھی خدا نے حکم دیا ہے.پھر اگر کبھی نماز اور وظیفہ چھوڑ دے گا تو ایسا چھوڑے گا کہ اگر اس سے کبھی کہا جائے کہ نماز پڑھا کرو تو وہ اس پر تمسخر اڑانا شروع کر دے گا.یہ جذباتی رنگ ہے استقلال والا نہیں.غرض ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد اور یہ سوچنے کے بعد کہ آخر ہماری جماعت کے افراد بھی دوسری مسلمان قوموں سے نکل کر آئے ہیں اور ان کی خراب عادتیں ان میں بھی پائی جاتی ہوں گی ، میں نے ضروری سمجھا کہ اس قسم کی تحریک کی جائے.در حقیقت انسانی اعمال کے دو حصے ہوتے ہیں ایک ارادی اور ایک عادی.ارادی اعمال ایمان سے بدل جاتے ہیں لیکن عادی اعمال اُس وقت بدل سکتے ہیں جب اپنی عادت کو تبدیل کیا جائے.مثل مشہور ہے کہ کوئی ہندو نیا نیا مسلمان ہوا تھا.جب بھی وہ کسی مجلس میں بیٹھتا اور کسی قابلِ تعریف یا قابل نفرین بات کا ذکر ہوتا تو اور مسلمان تو سُبحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ يا اَسْتَغْفِرُ اللَّهُ اسْتَغْفِرُ الله کہتے اور یہ رام رام کہنے لگ جاتا.لوگ اُس پر ناراض ہوتے کہ یہ کیا حرکت ہے؟ جب اور لوگ سُبْحَانَ اللهِ يا اَسْتَغْفِرُ الله کہتے ہیں تم بھی سُبْحَانَ اللهِ يا اَسْتَغْفِرُ الله کو رام رام کیوں کہتے ہو.آخر جب لوگوں نے اسے بار بار کہا تو ایک دن وہ تنگ آ کر بولا کہ اللہ اللہ دل میں داخل ہوتے ہی داخل ہوگا اور رام رام نکلتے ہی نکلے گا.اسی طرح لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی مسلمان سخت بھوکا تھا.ایک جگہ سے وہ گزرا تو اُس نے دیکھا کہ لوگ برہمنوں کو کھانا کھلا رہے ہیں وہ بھی ان میں کھانا کھانے بیٹھ گیا.مگر جب کھانا شروع کرنے لگا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ.اِس پر انہوں نے مار مار کرا سے نکال دیا.تو انسان کے جو عادی اعمال ہوتے ہیں وہ زور کے ساتھ نکلتے ہیں آسانی کے ساتھ نہیں نکل

Page 778

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء سکتے.اسی وجہ سے شروع میں مؤلفة القلوب سے خاص سلوک کرنے کا اسلام میں حکم ہے.اور قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ تم ربانی بن جاؤ.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ ربانی کے کیا معنے ہیں؟ آپ نے فرمایا عَلِمُوا صِغَارَ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهَا.یعنی ربانی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ علوم میں سے جو چھوٹے ہیں وہ پہلے سکھا ؤا اور بڑے بعد میں.تو ہمیشہ تدریج کے ساتھ ترقی ہوتی ہے.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ تربیت ہو.اگر تربیت نہ ہو تو وہی عادتیں جن کا چھڑانا ضروری ہے ، انسانی طبیعت میں راسخ ہو جائیں گی اور کبھی پیچھا نہیں چھوڑیں گی..ان امور پر غور کرنے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ جماعت کے تمام افراد خصوصاً نو جوانوں میں استقلال اور ہمت اور قربانی کی روح پیدا کرنے کے لئے ” احمد یہ کور“ قائم کی جائے.دنیا میں کورمیں جو قائم کی جاتی ہیں وہ ضروری نہیں کہ فوجیں ہوں.بلکہ ان میں سے بعض کے قائم کرنے سے صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ جو باقاعدگی اور پابندی اوقات کی عادت فوجیوں میں ہوتی ہے وہی عادت قوم کے نوجوانوں میں بھی پیدا کی جائے.بعض افسر اس پر خواہ مخواہ چڑتے ہیں حالانکہ اگر اس رنگ میں اخلاق کی درستی ہو جائے تو اس میں خود حکومت کا فائدہ ہے.کیونکہ جب نوجوانوں کے اخلاق درست ہوں گے تو ملک کے فسادات دور ہو جائیں گے اور حکومت کی پریشانیاں کم ہو جائیں گی.پس یہ چھوٹے دماغ والے افسر ہوتے ہیں جو ان باتوں پر چڑتے ہیں ورنہ ولایت میں بوائے سکاؤٹ کی تحریک ایسی مقبول ہے کہ قریباً ہر حکومت اس کی تائید کر رہی ہے.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں فوج کی نقل کرنے سے کوئی فوج نہیں بن جاتی بلکہ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کوروں کے قائم کرنے سے حکومت کا مقابلہ مقصود ہے تو بھی جبکہ حکومت کے پاس بندوقیں، رائفلیں ، تو ہیں اور خطر ناک گیسیں موجود ہیں چند لاٹھیوں سے پریکٹس کرنے والوں سے اُسے کیا خطرہ ہوسکتا ہے.پس اول تو یہ ضروری نہیں کہ جو کور بنائے اُس کا مقصد حکومت کا مقابلہ کرنا ہو.لیکن اگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو جبکہ حکومت کے پاس ہوائی جہاز ، بم اور زہریلی گیسیں ہیں.اُسے ان معمولی باتوں سے کیا خوف ہوسکتا ہے.وہ ایک گیس سے سارے علاقے کو بیہوش کر سکتی ہے.ایک بم پھینک کر گاؤں کا گاؤں برباد کر سکتی ہے.بلکہ میں سمجھتا ہوں بموں کی بجائے اگر ہوائی جہازوں سے لوگوں پر پتھر گرانے بھی شروع کر دیئے جائیں یا مٹی کے ڈلے لوگوں پر گرائے جائیں تو اتنی سی بات پر 6

Page 779

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لوگ شہر چھوڑ کر بھاگ جائیں.لیکن اگر کور بنانے کا یہ مقصد نہ ہو بلکہ حکومت کی اطاعت اس کور کے فرائض میں داخل ہو تو پھر ایسی کور کے قائم ہونے میں گورنمنٹ کا اپنا فائدہ ہے اسے اس پر اعتراض ہی کیا ہو سکتا ہے.غرض و الینٹیئر کوروں کا بنا نا بشر طیکہ ان کے قواعد درست ہوں فوج بنانا نہیں بلکہ اس کا مقصد نوجوانوں کو کام کی عادت ڈالنا اور ان میں قربانی کی روح پیدا کرنا ہے.ہمارے ملک کے لوگوں کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ جب کسی کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ ناغہ کرنے لگ جاتا ہے اور عذر پیش کرتا رہتا ہے.حالانکہ فوجی نظام میں کوئی عذر نہیں سنا جاتا.وہاں ایک ہی صورت کام دے سکتی ہے کہ یا تو چھٹی لی جائے اور یا کام کر کے دکھایا جائے.اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں جسے وہ اپنی بریت میں پیش کر سکے.اس نقص کے ازالہ کے لئے میں نے سمجھا کہ جب تک کور کی صورت میں جماعت کے لوگوں کو اکٹھا نہ کیا جائے اور انہیں با قاعدہ کام کرنے کی عادت نہ ڈالی جائے گی یہ نقص رفع نہیں ہو گا.اسی غرض کے ماتحت میں نے ” احمد یہ کور کو قائم کیا.مگر چونکہ اس کے افسروں میں بے استقلالی کا وہ پرانا مادہ موجود تھا جو آج مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اور جس نے انہیں زندگی کے ہر شعبہ میں ناکام بنا رکھا ہے، اس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد کور یوں غائب ہوگئی کہ گویا وہ کبھی بنائی ہی نہیں گئی تھی.اور معلوم ہوا کہ وہ احد یہ کور نہیں تھی بلکہ ناخن کی کو تھی جسے قینچی سے کاٹ کر پھینک دیا گیا اور کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں کیا جاتا.اب نیشنل لیگ نے میری ہدایات کے ماتحت اس ’ احمد یہ کور کا احیاء کیا ہے.اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس کی بڑی غرض لوگوں میں استقلال پیدا کرنا ہے.اگر اس میں بھی بے استقلالی دکھائی گئی تو اس کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے.اس کے ساتھ ہی میں کور کے افسروں کو مشورہ دیتا ہوں کہ جو لوگ کور میں داخل ہوں وہ اگر حاضری کے دنوں میں سے ایک دن بھی غیر حاضر ہوں تو انہیں سزا دی جائے.اور اگر رُخصت لینا چاہیں تو ان کا فرض ہے کہ درخواست بھیج کر رخصت لیں.اور اگر کوئی اس طریق پر کار بند ہونے کے لئے تیار نہیں تو وہ بے شک کور سے علیحدہ ہو جائے.اگر کوروالے اس طریق پر جو میں نے بتایا ہے کام نہیں کریں گے ، اور اگر ماں باپ اپنے بچوں کو مجبور نہیں کریں گے کہ جاؤ اور کور میں کام کر واُس وقت تک یہ کو ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.پس ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس کور میں داخل کریں تا انہیں قربانی کرنے اور استقلال سے کام کرنے کی عادت پڑے.ایک چھوٹی سی بات

Page 780

خطبات محمود ۷۷۵ سال ۱۹۳۵ء دیکھ لو اسی سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ایک نظام کا پابند ہو جانے سے انسانی زندگی میں کس قدر انقلاب پیدا ہو جاتا ہے.تم کسی فرد ،محکمہ یا حکومت کے دفتر میں پانچ روپیہ پر ملازم ہوتے ہو، یا دس روپیہ پر ملازم ہوتے ہو ، یا ہمیں روپیہ پر ملازم ہوتے ہو ، یا پچاس روپیہ پر ملازم ہوتے ہو، یا سو دو سو اور چار سو روپیہ پر ملازم ہوتے ہو ، یا ہزار دو ہزار روپیہ پر ملازم ہوتے ہو.غرض خواہ تم چھوٹی سے چھوٹی رقم کے ملازم ہو یا بڑی سے بڑی رقم کے ملازم ہو ، کیا تم ایک دن کے لئے بھی غیر حاضر رہ سکتے ہو؟ اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تمہارا اگر جی نہ چاہے تو آپ ہی آپ کام کرنا ترک کرد و ؟ مگر اس کے لئے تمہیں کیا ملتا ہے پانچ روپے، دس روپے یا ہیں پچاس اور سو روپے.اس کے مقابلہ میں تم اللہ تعالیٰ کی فوج میں داخل ہوتے ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہے کہ تم پانچ وقت کی نمازیں بالالتزام جماعت کے ساتھ ادا کرو تم انصاف سے بتاؤ کہ کیا تم ان نمازوں پر اسی طرح با قاعدگی رکھتے ہو جس طرح پانچ روپیہ ماہوار کا ملازم اپنے کام کو با قاعدہ کرتا ہے؟ شاید سو میں سے ایک کہہ سکے کہ ہاں میں نمازوں کے متعلق پوری باقاعدگی سے کام لیتا ہوں باقی ننانوے کو مانا پڑے گا کہ وہ نمازوں پر اتنی بھی با قاعدگی نہیں رکھتے جتنی پانچ روپیہ والا ملازم اپنے کام میں باقاعدگی رکھتا ہے اب بتا ؤ جہاں کوئی شخص کھوٹے پیسے جتنا کام نہیں کرتا وہاں اُسے جنت کی کیا امید ہوسکتی ہے.حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب خدا تعالیٰ سے ایک معاہدہ ہو چکا ہے تو پھر خواہ مینہہ آئے ، بارش آئے ، اولے برسیں ، آندھیاں چلیں ، ذلت آئے ، موت آئے ، انسان گھسٹتا جائے اور مسجد میں پہنچ کر نماز ادا کرے.یہاں کی نوکریوں کو جانے دو ممکن ہے قومی کام سمجھ کر بعض لوگ ستی کر جاتے ہوں.لاہور جا کر دیکھ لو ایک دن بھی اگر کوئی غیر حاضر رہے تو اُس سے سخت باز پرس کی جاتی ہے.ابھی ایک احمدی کا معاملہ زیر تفتیش ہے اس نے مجھے دعا کے لئے بھی لکھا ہے وہ چھٹی پر گیا اور بخار ہو گیا جس پر صرف ایک دن لیٹ پہنچا اس پر اُسے دھمکی دی گئی ہے کہ تمہیں ملازمت سے الگ کر دیا جائے گا.وہاں ایک دن کے ناغہ پر یہ حال ہوتا ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ کوئی پانچ میں سے تین نمازیں باجماعت پڑھ لیتا ہے اور کوئی پانچ میں سے دو اور یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں کوئی بُری بات کر رہا ہوں.ظلم یہ ہے کہ دل اتنے مُردہ ہو گئے ہیں کہ کبھی بھولے سے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ہم کوئی بُری حرکت کر رہے ہیں.اور جب کوئی پوچھے کہ آج عصر میں آپ نہیں آئے تو نہایت بے تکلفی سے کہہ

Page 781

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء دیں گے آج ایک ضروری کام پڑ گیا تھا.تم کسی کے سامنے یہ نہیں کہتے کہ آج تم نے چوری کی تم کسی کے سامنے یہ نہیں کہتے کہ آج تم نے زنا کیا، تم کسی کے سامنے یہ نہیں کہتے کہ آج تم نے ڈاکہ ڈالا تم کسی کے سامنے یہ نہیں کہتے کہ آج تم نے جھوٹ بولا.مگر تم نہایت ہی بے تکلفی سے کہہ دیتے ہو کہ آج مجھے ایک کام تھا اس لئے نماز کے واسطے مسجد میں نہ آ سکا.یہ کتنی مُردہ جس ہے کہ نہ صرف مجرم کیا جاتا ہے بلکہ اتنا بڑا جرم کرنے کے بعد جس پر قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے جب پوچھا جاتا ہے تو بے تکلفی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ آج مجھے ایک کام پڑ گیا تھا.ذرا سوچو تو کہ کیا دُنیوی نوکریوں کے متعلق بھی اس قسم کے عذرات کئے جاسکتے ہیں؟ اور کیا جن عذرات پر تم نماز ترک کر دیتے ہو انہی عذرات پر اگر ملا زمت کے سلسلہ میں ناغہ کرو تو تم ملازم رہ سکتے ہو؟ میں نے اسی وجہ سے مساجد کی الگ الگ کمیٹیاں بنائی تھیں تا وہ لوگوں کے متعلق یہ نگہداشت رکھیں کہ آیا وہ نمازوں میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں.مگر اب تک انہوں نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ ہماری مساجد کے سارے پریذیڈنٹوں کو نیشنل لیگ کے ایک سالار جیش نے شکست دے دی.اور ساتھ ہی اس احمدی لڑکے نے ثابت کر دیا ہے کہ جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان موجود ہیں کہ جب کام کا وقت آئے تو خواہ حالات کچھ ہوں وہ کام پورا کر کے دکھا سکتے ہیں.مجھے اس امر کا خیال کر کے کہ ہمارے نوجوانوں میں وہ روح موجود ہے کہ اگر اسے اُبھارا جائے تو اللہ کے فضل سے ان میں ایسے افراد موجود ہیں جو ہر قربانی کر کے کام کو پورا کر دیں گے اس قدرخوشی ہوتی ہے کہ جیسے کہتے ہیں فلاں شخص کو بادشاہت مل گئی یہ ایک مثال ہے ورنہ بادشاہت اس رتبہ کے مقابل کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عنایت فرمایا ہے.حقیقتا میرا دل اس نوجوان کے کام سے اتنا خوش ہے کہ باوجود اس کے کہ اس سے غلطیاں ہوئیں اور بیسیوں شکایات میرے پاس پہنچیں پھر بھی میرا دل خوشی سے اتنا بھرا ہوا تھا کہ مجھ پر ان شکایات نے کوئی اثر نہیں کیا.اگر محلوں کے پریذیڈنٹ بھی یہ سمجھتے کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا ہے اسے انہوں نے بہر حال کرنا ہے تو نماز میں اتنی سستی کیوں ہوتی.میں یہ نہیں کہتا کہ والینٹیئروں سے سستی نہیں ہوئی بعض دفعہ ہوئی مگر نمازوں کی سستی سے بہت کم اور ذمہ داری کا احساس بہت زیادہ دکھایا گیا.اور جب کسی پر ذمہ داری کا احساس غالب آ جاتا ہے تو پھر وہ یہ نہیں سوچتا کہ میرے راستے میں کون سی روکیں ہیں اور نہ

Page 782

خطبات محمود وہ عذرات تراشنے لگ جاتا ہے بلکہ کام کر کے دکھا دیتا ہے.سال ۱۹۳۵ء ہمارے ملک میں یہ ایک عام نقص ہے کہ جب کسی شخص کو کسی جرم پر پکڑا جاتا ہے تو عذر کر نے لگ جاتے ہیں.حالانکہ عذر کوئی چیز نہیں مؤمن کا فرض ہے کہ وہ کام کر کے دکھائے اور اگر کامیاب نہیں ہو سکا تو اُس کی سزا بھگتے.میرے ساتھ ایسا ہی ایک دفعہ معاملہ ہوا.میں اپنے متعلق سخت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور میں ایک ایسی قوم سے ہوں جو اپنی بے عزتی کو کبھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئی لیکن ایک غلطی کی وجہ سے مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل آخری جلسہ سالانہ پر جس کے بعد آپ کی وفات ہو گئی ، تقریر فرمانے کے لئے مسجد نور جانا چاہتے تھے.آپ چونکہ اُن دنوں بیمار تھے اور زیادہ چل نہیں سکتے تھے اس لئے آپ نے خواہش ظاہر کی کہ آپ کے لئے گاڑی کا انتظام کر دیا جائے.گاڑی اُس وقت صرف نواب محمد علی خان صاحب جاگیردار کے پاس تھی.حضرت خلیفہ اول خود اُن سے طلب فرما سکتے تھے مگر آپ عادتاً سوال کرنے سے احتراز کرتے تھے مگر چونکہ نواب صاحب میرے بہنوئی اور رشتہ دار تھے اس لئے آپ نے یہ سمجھ کر کہ میرا اُن سے مانگنا سوال نہیں کہلا سکتا مجھے فرمایا کہ میاں ! میں تو نہیں مانگتا تم میرے لئے گاڑی کا انتظام کرا دو میں نے نواب صاحب کو کہلا بھیجا اور اُنہوں نے گاڑی بھیج دی جس وقت آپ اُتر کر مسجد تشریف لے گئے تو گاڑی بان نے دریافت کیا کہ میں یہاں کھڑا رہوں یا چلا جاؤں.مولوی محمد علی صاحب پاس کھڑے تھے ان سے میں نے دریافت کیا اُنہوں نے اس خیال کے ماتحت کہ دوگھنٹہ تک تقریر ہوگی یہ کہاں ٹھہرا رہے مجھے کہا کہ آپ اسے کہہ دیں چلا جائے اور دو گھنٹہ کے بعد آ جائے میری یہ شامت اعمال تھی یا بے وقوفی میں نے اُسے کہہ دیا کہ دو گھنٹہ کے بعد آنا.حضرت خلیفہ اول تقریر فرمانے لگے تو پندرہ ، ہیں منٹ کے بعد ہی آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اور آپ نے فرمایا اب مجھ سے بولا نہیں جاتا.میں واپس چلا جاتا ہوں.میں نے آدمی دوڑایا کہ جلدی گاڑی لاؤ مگر آخر گھوڑوں کے جو تنے اور گاڑی کے تیار کرنے میں دیر لگتی ہے گاڑی وقت پر نہ پہنچی اور حضرت خلیفہ اول مسجد سے پیدل ہی روانہ ہو پڑے.آپ نے راستہ میں فرمایا، دیکھو میاں ! میں نے تمہیں کہا تھا کہ گاڑی کا انتظام کر ومگر افسوس تم نے انتظام نہ کیا.میں نے اس پر عذر کرنا چاہا مگر بات شروع ہی کی تھی کہ خلیفہ اول فرمانے لگے.” من حرامی جتاں ڈھیر اور میں خاموش ہو گیا.اتنے میں گاڑی بھی آگئی اور آ وو

Page 783

خطبات محمود 227 سال ۱۹۳۵ء اس میں بیٹھ گئے.یہ لفظ مجھے آج تک یاد ہیں اور کھولنے میں نہیں آتے مگر اس لئے نہیں کہ وہ مجھے بُرے لگے بلکہ اس لئے کہ ان میں میرے لئے ایک عظیم الشان سبق پنہاں تھا.میں سمجھتا ہوں آپ یہ الفاظ کہنے میں بالکل حق بجانب تھے اور میرا فرض تھا کہ میں آپ سے خود دریافت کرتا یا گاڑی کو ٹھہرا رہنے دیتا.میں نے اپنے پہلے فرض کے ادا کرنے میں کوتاہی کی اور سزا کو خوشی سے برداشت کرنا میرا دوسرا فرض تھا جسے میں نے ادا کر دیا اُس موقع پر اجتہاد کا کوئی سوال نہ تھا لیکن اجتہاد کر کے میں نے ایک ایسی غلطی کی جس کی سزا مجھے بھگتنی پڑی اور بھگتنی چاہئے تھی.تو عذر کرنا ایک لعنت ہے جو مسلمانوں کے گلے میں پڑی ہوئی ہے.قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِ يُرَهُ خدا تعالیٰ کے سامنے لاکھ عذر پیش کر و قبول نہ ہونگے.پس عذر کوئی چیز نہیں بلکہ اسلام صرف ایک ہی بات کا قائل ہے کہ یا تو جو کام کسی کے سپرد کیا جائے وہ اُسے پورا کرے یا اگر پورا نہ کر سکے تو اُس کی لاش اُس جگہ نظر آئے اِن دونوں کے درمیان کوئی راہ نہیں جسے اختیار کیا جا سکے.یہ روح ہے جس کو اللہ تعالی نماز کے ذریعہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ روح ہے جو نو جوانوں میں کور کے ذریعہ پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے.اور یہی چیز ہے جو تمام محلوں کے پریذیڈنٹوں کو مد نظر رکھنی چاہئے.کور نماز نہیں کہ اس میں سے کوئی نکل نہ سکتا ہو بلکہ اس میں داخل ہونا مرضی پر منحصر ہے اور جو شخص داخل نہ ہو یا داخل ہو کر الگ ہونا چاہے تو اس وقت علیحدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک ایسی مفید چیز ہے کہ اس کے نتائج اتنے اعلیٰ ہیں کہ نو جوانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پر، اپنی قوم پر ، اپنے زمانہ پر اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر رحم کر کے اس میں داخل ہوں اور اپنی عادتیں ٹھیک کریں اگر با وجود ان فوائد کے کوئی شخص داخل نہیں ہونا چاہتا تو اسے چھوڑ دیا جائے اور جو داخل ہوں اُن سے ایسی سختی کی جائے جیسے ایک ملازم سے اُس کا افسرسختی کرتا ہے.اگر کسی وقت والنٹیئرز میں سے کوئی بیمار ہو تو ان کا فرض ہے کہ وہ ڈاکٹری سر ٹیفکیٹ بھیج کر رُخصت حاصل کرے.ہاں ڈاکٹروں اور طبیبوں سے مل کر یہ انتظام کیا جانا چاہئے کہ جب کسی کو سر ٹیفکیٹ کی ضرورت ہو تو مفت سر ٹیفکیٹ دیا جائے ہر محلہ میں جو ڈاکٹر یا کمپاؤنڈر اور حکیم ہوں انہیں اس قسم کے سرٹیفیکیٹ دینے کا اختیار دیا جائے.ہماری کونسی ڈینوی حکومت ہے کہ اس کے لئے سول سرجن کا سر ٹیفکیٹ درکار ہو.جو بھی محلہ میں حکیم یا کمپاؤنڈ ریا ڈاکٹر ہو اس سے اس قسم کا سر ٹیفکیٹ لو.یا اگر کوئی زیادہ بیمار ہے تو اُس کے رشتہ دار اُس کے لئے سر

Page 784

خطبات محمود 229 سال ۱۹۳۵ء ٹیفکیٹ حاصل کریں.مگر بہر حال سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے ، میں یہ نہیں کہتا کہ دوسو دن ، میں یہ نہیں کہتا کہ تین سو دن میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ۳۴۰ دن بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ پورے ۳۶۵ دن تمہیں حاضر ہونا چاہئے سوائے اس کے کہ کور کی طرف سے چھٹی کا دن ہو.اور اگر ایک بھی دن تم غیر حاضر ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سکیم باطل ہوگئی.اس کے بغیر وہ اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے جن کو میں پیدا کرنا چاہتا ہوں.پس کور کے افسروں کا فرض ہے کہ وہ والنٹیئروں سے کہہ دیں کہ جو اپنا قدم پیچھے ہٹانا چاہتے ہیں وہ ہٹا لیں اور اگر وہ شامل رہنے کے لئے تیار ہیں تو ماں باپ اور محلے والے سب اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ با قاعدہ کام کریں.اور خواہ آندھی آئے یا طوفان ، بارش برسے یا اولے ایک دن بھی اس کام میں بغیر افسروں کی اجازت یا حکم کے ناغہ نہ کیا جائے.اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نظام کے ماتحت کام کرنے والے اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں با قاعدہ ہوں گے.اگر وہ دُکان کریں گے تو باقاعدہ کریں گے ، تجارت کریں گے تو باقاعدہ کریں گے ، زراعت کریں گے تو با قاعدہ کریں گے.غرض وہ ہر کام میں باقاعدہ ہوں گے.اور اگر وہ مٹی کو بھی ہاتھ لگا ئیں گے تو سونا بنتا چلا جائے گا.اسی طرح اخلاق کی درستی بھی والنٹیئرز کور کے افسروں کے مد نظر رہنی چاہئے.اگر کوئی گالی دیتا ہے تو تمہارا حق ہے کہ اُسے سزا دو.اسی طرح اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو تمہاراحق ہے کہ اسے سزا دو.اور اگر کوئی سلسلہ کے نظام کی ہتک کرتا ہے تو تمہارا حق ہے کہ اُسے سزا دو.گورنمنٹ کا کوئی قانون گالی کی سزا نہیں دیتا اور نہ گورنمنٹ کا کوئی قانون جھوٹ کی سزا دیتا ہے.پس جس برائی کی سزا گورنمنٹ کے قانون میں نہیں تم اُس کے متعلق سزا دے سکتے ہو.لیکن گورنمنٹ کا قانون چوری کی سزا دیتا ہے پس تم کسی کو اُس چوری کی سزا مت دو جس کا مقدمہ سرکاری عدالت میں جانا چاہئے.اسی طرح وہ تمام جرائم جن کا گورنمنٹ کے قانون کے مطابق سر کاری عدالت میں لے جانا ضروری ہے ان کے متعلق تم کوئی سزا نہیں دے سکتے.ہاں اس کے سوا سب امور میں کور کے افسر یا سلسلہ کے افسر دخل دے سکتے ہیں اور حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا موجودہ حکومت چونکہ عیسائی ہے اس لئے انجیل کے ہی ایک واقعہ سے میں اس امر کی وضاحت کر دیتا ہوں.حضرت مسیح علیہ السلام سے ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ قیصر جزیہ مانگتا ہے ہم اسے دیں یا نہ دیں ؟ جس طرح آج ہم کہتے ہیں کہ ہماری بادشاہت روحانی ہے اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام بھی

Page 785

خطبات محمود ۷۸۰ سال ۱۹۳۵ء کہا کرتے تھے کہ میں روحانی بادشاہ ہوں مگر جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی حکومت قیصر کی حکومت کے مقابل میں نہ تھی اور وہ باوجود روحانی بادشاہ ہونے کے دُنیوی بادشاہ کے تابع تھے اسی طرح با وجود اس کے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی بادشاہت حاصل ہے ہم بھی حکومت انگریزی کے تابع ہیں اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا ضروری جانتے ہیں.تو حضرت مسیح چونکہ یہ کہا کرتے تھے کہ میں روحانی بادشاہ ہوں اس لئے اُس وقت کے احراری آپ کے متعلق یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ حکومت کے باغی ہیں.چنانچہ ایک دفعہ اُس زمانہ کے احراری آپ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ سے سوال کیا کہ ہم قیصر کو جزیہ دیں یا نہ دیں؟ حضرت مسیح نے کہا وہ قیصر تم سے کیا مانگتا ہے؟ انہوں نے کہا ہم سے سکہ مانگتا ہے آپ نے فرمایا مجھے سکہ دکھاؤ.اس پر کس کی تصویر ہے؟ جب انہوں نے سکہ دکھایا تو اُس پر قیصر کی تصویر تھی.آپ نے اُسے دیکھ کر فرمایا جو قیصر کا مال ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا مال ہے وہ خدا کو دو.اس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ قیصر کا مال چونکہ سکہ ہے اس لئے یہ اُسی کا حق ہے.اور اسی کو دینا چاہئے ہاں جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا کو دینا چاہئے.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ جو حکومت کا حق ہے وہ اُسے دو اور جو تمہارا حق ہے وہ تم لو.اور حضرت مسیح کی وضاحت کے بعد ایک عیسائی حکومت کو ہمارے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.غرض حکومت نے چونکہ اپنے قانون میں یہ امر داخل کیا ہے کہ جو شخص چوری کرے گا ہم اسے سزا دیں گے پس یہ حکومت کا حق ہے.اور اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اُسے سزا کیلئے حکومت کے پاس لے جانا چاہئے.اور اگر کسی امر کے متعلق حکومت یہ کہتی ہے کہ اسے پولیس کے پاس لے جاؤ تو تم اُسے پولیس کے حوالہ کر دو.مگر پہلے اپنے بزرگوں اور بڑوں سے مشورہ کر لو.کیونکہ ممکن ہے تم یہ سمجھتے ہو کہ فلاں کیس پولیس کی دست اندازی کے قابل ہے مگر در حقیقت ایسا نہ ہو بلکہ آپس میں مصالحت ہو سکتی ہے پس سلسلہ کے بزرگوں اور ان کی معرفت وکلاء سے مشورہ ضروری ہے.پس جوحکومت کا حق ہے وہ اُسے دو مگر جس چیز کے متعلق حکومت یہ نہیں کہتی کہ وہ اُس کا مال ہے وہ تمہارا مال ہے اُسے لے لو.اگر کوئی گالی دیتا ہے یا بداخلاقی کرتا ہے یا چغل خوری کی عادت رکھتا ہے یا نظام سلسلہ کی ہتک کرتا ہے اس کے متعلق تمہیں حق حاصل ہے کہ تم سزا دو پس اس دائرہ میں تمہاری حکومت ہے اور بیشک تم دلیری سے اپنا حق لو تمہیں کوئی منع نہیں کرتا اور نہ حکومت تم کو کبھی اس

Page 786

خطبات محمود ۷۸۱ سال ۱۹۳۵ء بات پر پکڑے گی کہ تم نے کیوں جھوٹ بولنے والے کو سرزنش کی یا غیبت کرنے والے کو سرزنش کی یا سلسلہ کے نظام کی ہتک کرنے والے کی سرزنش کی سوائے اسکے کہ سرزنش خلاف قانون ہو.پس اگر سرزنش خلاف قانون ہو تو یہ جُرم ہے مثلاتم یہ نہیں کر سکتے کہ کسی کو جیل خانہ میں بند کر دو یا پھانسی دے دو.یہ گورنمنٹ کا حق ہے اور اس قسم کی سزا وہی دے سکتی ہے لیکن اگر کسی مجرم پر تم مجرم کی مرضی سے اُسے بید بھی لگانا چاہو تو لگا سکتے ہو.ہاں اگر مرضی نہ ہو تو پھر بید لگانے کا تمہیں حق حاصل نہیں.اور اگر لگاؤ تو یہ قانونی مُجرم ہو گا لیکن اگر ایک شخص کہتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی اور میں اب جُرم کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں تو اُسے اس قسم کی سزا دی جاسکتی ہے مگر ایسی سزا جس سے بدنی نقصان ہوتا ہو وہ اسلام میں جائز نہیں.مثلاً یہ جائز نہیں کہ کسی کی ناک کاٹ لی جائے خواہ اُسکی مرضی ہی کیوں نہ ہو.یا کوئی قصور کرے تو اُس کی اُنگلی کاٹ لی جائے اور جب پکڑا جائے تو کہہ دے کہ میں نے اُسکی مرضی سے اُنگلی کاٹی تھی.اُسے نہ گورنمنٹ جائز سمجھے گی اور نہ میں ، غرض قانون کے اندر رہتے ہوئے تم قصور پر دوسروں کو سزا دو اور دوسروں کو بھی چاہئے کہ وہ سزا کوخوشی سے برداشت کریں.جو شخص مجرم کرتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ سزا کے بغیر اسے معاف کر دیا جائے وہ بہت بڑا بدا خلاق ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ سزا سے معافی طلب کرتا ہے.اللہ تعالیٰ سے یا اُس کے قائم کردہ افسروں سے معافی طلب نہیں کرتا.اگر اُسے اللہ تعالیٰ سے یا اس کے خلفاء سے معافی طلب کرنی ہوتی تو وہ کہہ دیتا کہ آپ مجھے بیشک سزا دے لیں مگر مجھ سے ناراض نہ ہوں لیکن یہ ایسا نہیں کرتا بلکہ سزا سے بچنا چاہتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ سزا سے ڈرتا ہے.یہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں مجھے بید نہ لگیں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ خدا تعالیٰ یا اُسکے سلسلہ کی ناراضگی کا میں مورد بن گیا ہوں.حالانکہ مؤمن کا طریق یہ ہوتا ہے کہ اگر اُس سے غلطی ہو جائے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے سزا دے لولیکن مجھ سے ناراض مت ہو اور جو ایسا نہیں کہتا اُسکے ایمان میں نقص ہے.لیکن یہ بھی غلطی ہے کہ سمجھ لیا جائے معافی کے بعد سزا نہیں ملنی.یہ تمہارے باپ، تمہارے خلیفہ، تمہاری پنچائت ، تمہارے قومی لیڈروں اور تمہارے افسروں کا کام ہے کہ وہ معافی کے ساتھ ہی سزا بھی معاف کر دیں لیکن معافی میں سزا کی معافی شامل نہیں ہوا کرتی بلکہ یہ علیحدہ چیز ہے.پس ایک تو نیشنل لیگ کی والینٹیئر ز کور کو میں یہ ہدایت دینی چاہتا ہوں کہ تم استقلال سے کام

Page 787

خطبات محمود ۷۸۲ سال ۱۹۳۵ء کرو اگر تم اچھی طرح کام کرو تو اپنے اخلاق میں ایک عظیم الشان اصلاح کر سکتے اور اپنے اندر ایسا تغییر پیدا کر سکتے ہو جو تمہاری ترقیات میں نمایاں اضافہ کا موجب ہو جائے.بہت لوگ سلسلہ کے دفاتر میں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے اوقات میں سے اتنا وقت سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا ہے لیکن تم اپنے دل میں سوچ کر دیکھ لو کہ تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے یہ وعدہ کیا اور پھر اسے پورا کیا.اگر اس نے روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کئے تھے تو کیا وہ سالہا سال روزانہ ایک دو گھنٹے خرچ کر کے سلسلہ کی خدمت کرتا رہا یا دو چار دن وقت دیا اور پھر کبھی خیال بھی نہ آیا کہ میں نے سلسلہ کے لئے کوئی وقت دیا تھا.اگر تم اپنے نفسوں پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ تم میں سے اکثر نے وعدے کئے مگر پھر ان وعدوں کو توڑ ڈالا.لیکن اگر استقلال سے تم کام کرنے کے عادی ہوتے تو آج میں یہ نہ کہتا کہ تم اگر اپنے دلوں کو ٹو لو تو اپنے آپ میں سے اکثر کو وعدہ خلاف پاؤ گے بلکہ میں یہ کہنے کی جرات ہی نہ کرتا اور اگر کرتا تو تم میں سے اکثر کہہ سکتے کہ ہمارے متعلق یہ خیال صحیح نہیں.اگر ہم نے ایک گھنٹہ روزانہ خدمت سلسلہ کے لئے وقف کیا تھا تو ہمارا خدا بھی گواہ ہے اور لوگ بھی کہ پھر ہم نے اس گھنٹے کو بھی اپنے کام کے لئے استعمال نہیں کیا.لیکن ایسا جواب دینے والے تم میں سے بہت کم نکلیں گے.اس کی وجہ ایمان کی کمی نہیں ، ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمہارے دلوں میں موجود ہے اور نہ صرف ایمان بلکہ راسخ اور مضبوط ایمان اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے صرف تمہاری تربیت کا جو حصہ ہے یہ اس کی کمی کا نتیجہ ہے.ایک شخص میں کتنا ہی ایمان ہولیکن اگر اُسے پریڈ کے لئے کھڑا کر دو گے تو وہ قدم نہیں ملا سکے گا کیونکہ قدم برا بر کرنا اور رنگ کی تربیت چاہتا ہے ایمان کا اس کے ساتھ تعلق نہیں.جب بھی جنازہ پڑھانے کا موقع ہو یہ نظارہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ جب لوگ کھڑے ہوتے ہیں تو صفیں تک سیدھی نہیں بنا سکتے.اور اگر کہا جائے آگے ہو جاؤ تو گز بھر آ گے ہو جائیں گے پھر کہا جائے کہ پیچھے ہو جاؤ تو دوگز پیچھے ہو جائیں گے اور انہیں دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ سخت گھبرائے ہوئے ہیں.میرے ادب کی وجہ سے صفیں درست کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر بجائے صفیں درست کرنے کے انہیں اور زیادہ خراب کر دیتے ہیں تو جو تربیت کی باتیں ہیں وہ تربیت سے ہی آسکتی ہیں اس کے بغیر نہیں آ سکتیں پس ایک تو میری یہ نصیحت ہے.دوسری نصیحت میں یہ کرنی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جس وقت کسی کو نیکی کا کوئی موقع دے اُس

Page 788

خطبات محمود ۷۸۳ سال ۱۹۳۵ء وقت اُسے ضائع کر دینا بہت بڑی بے وقوفی ہوتی ہے.ان دنوں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک موقع دیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت مہینہ رمضان تمہیں ملا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اور آپ سے زیادہ سچا اور کون ہو سکتا ہے کہ ہر چیز کی ایک جزا مقر ر ہے.نمازوں کی بھی جز امقر ر ہے، زکوۃ کی جزا مقرر ہے، حج کی بھی جزا مقرر ہے مگر روزے کی کوئی اور چیز جزا نہیں.روزے کی جزا میں خود ہوں.سے پس اگر کوئی شخص سچے دل سے روزہ رکھتا ہے تو یقیناً اُسے خدا مل جاتا ہے اور اگر کسی کو خدا نہیں مانتا تو معلوم ہوا اُس کے روزوں میں کسی قسم کا نقص رہ گیا ہے ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم سچا روزہ رکھو اور تمہیں خدا نہ ملے.حقیقی روزہ صرف یہی نہیں کہ تم دن بھر کھاؤ پیو نہیں.بلکہ روزہ یہ ہے کہ تم اپنی زبان ، اپنی آنکھیں ، اپنے کان ، اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں سب کو اپنے قبضہ میں رکھو.نہ جھوٹ بولو، نہ جھوٹی باتیں سنو ، نہ غیبت کرو، نہ غیبت کی باتیں سنو، نہ لڑائی کرو، نہ فساد کی جگہ میں بیٹھو، نہ عیب کرو، نہ عیب کی جستجو کرو.غرض پوری طرح اپنی زبانوں ، کانوں، ناکوں ، ہاتھوں اور پاؤں کو قابو میں رکھوا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اور اُس سے ایسی محبت کرو کہ دنیا میں تم نے کسی سے ایسی محبت نہ کی ہو.یادرکھو اللہ تعالیٰ غیر عاشق کو نہیں ملا کرتا بلکہ اُسے ہی ملتا ہے جو اُس کے عشق میں گداز ہو.بے شک وہ بادشاہ ہے اور انسان ادنیٰ خادم لیکن محبت صادق اعلیٰ اور ادنی کے امتیاز کو مٹا دیتی ہے.میں نے اپنے ایک شعر میں اس مضمون کو بیان کیا ہے جو یہ ہے.طریق عشق میں اے دل سیادت کیا غلامی کیا محبت خادم و آقا کو اک حلقہ میں لائی ہے پس جہاں محبت آجاتی ہے وہاں بڑے اور چھوٹے کا کوئی سوال نہیں رہتا.یہ سوال وہیں اُٹھتا ہے جہاں محبت نہ ہو.مگر جہاں عشق ہو وہاں سب امتیازات مٹ جاتے ہیں.دُنیوی طور پر بعض لوگ شہنشاہ کہلاتے ہیں لیکن جب کسی غریب گنوارن کی محبت میں مبتلاء ہو جاتے ہیں تو وہ اسے ملکہ بنا دیتے اور رؤساء وامراء پر حکمران بنا دیتے ہیں.اسی طرح جب انسان اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا اور اُس کے عشق میں اپنے آپ کو کھو دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اُس کے لئے خالق و مخلوق کا فرق اُڑا دیتا اور اُس سے آکر مل جاتا ہے.پس محبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرو.محبت یہ نہیں کہ تم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگ جاؤ.بلکہ محبت یہ ہے کہ تمہاری نماز عشق کی نماز ہو.تمہارا قرآن مجید

Page 789

خطبات محمود ۷۸۴ سال ۱۹۳۵ء کی تلاوت کر نا عشق کی تلاوت کرنا ہوا اور تمہارا بھوکا رہنا عشق میں بھوکا رہنا ہو.تم میں سے بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ملا اور انہیں رویا اور کشوف اور الہامات ہوئے.یہ مقام انہیں اسی لئے حاصل ہوا کہ وہ عشق سے لبریز دل لے کر خدا کے حضور گئے اور خدا تعالیٰ انہیں مل گیا.لیکن دوسرے فلسفیانہ رنگ میں جاتے اور نا کام واپس آتے ہیں.جہاں فلسفیانہ جذبات ہوں وہاں یہ سوال باقی رہتا ہے کہ خدا تعالیٰ آتا ہے اور بندہ خادم لیکن جہاں محبت کا رنگ غالب آتا ہے وہاں یہ سوال نہیں رہتا کہ کون بڑا ہے اور چھوٹا کون.پس خدا تعالیٰ کے سامنے بھی جو فلسفیانہ رنگ میں جائے گا اُس کے لئے امتیاز مراتب قائم رہے گا لیکن جو عشق کے رنگ میں رنگین ہو کر جائے گا اُسے خدا تعالیٰ خالق و مالک ہونے کے باوجو د مل جائے گا.مثنوی رومی والے لکھتے ہیں.ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے ایک بدوی کو دیکھا.وہ جنگل میں اپنی گدڑی اوڑھے بیٹھا جوئیں مارتا چلا جا رہا ہے.لیکن اُس کی آنکھیں عشق سے چمک رہی ہیں اور وہ کہ رہا ہے.اے میرے رب ! اگر تو مجھے مل جائے تو میں سارا دن تیری جوئیں نکالتا رہوں.تیرے پاؤں میں کانٹے چھ جائیں تو کانٹے نکال دیا کروں، میل چڑھ جائے تو تجھے نہلا دیا کروں، بکری کا تازہ تازہ دودھ پلایا کروں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ باتیں سنیں تو آپ کو غصہ آیا اور آپ نے سوٹا اُٹھا کر اُسے مارا اور کہا یہ کیا نا معقول باتیں کر رہا ہے.بھلا خدا کو ان باتوں سے کیا نسبت ہے.وہ افسردہ ہو کر اور چوٹ کی جگہ کو مل ملا کر ایک طرف بیٹھ رہا.حضرت موسیٰ علیہ السلام تھوڑی دُور ہی آگے گئے تھے کہ انہیں الہام ہوا اے موسیٰ ! آج تو نے بڑا گناہ کیا.ہمارے ایک عاشق کا تو نے دل دُکھا دیا.وہ تو جوش محبت میں پاگل ہو کر باتیں کر رہا تھا.اُس کی یہ نیت تو نہ تھی کہ وہ مجھ سے دُور ہو جائے بلکہ وہ تو میرے قریب آنا چاہتا تھا.پس عشق کا رنگ بالکل نرالا ہوتا ہے.عشق بعض دفعہ یہاں تک انسان کے رگ وریشہ میں اثر کر جاتا ہے کہ کمزور دماغ والے پاگل ہو جاتے ہیں.مگر جو خدا تعالیٰ کی محبت میں پاگل ہوں خدا تعالیٰ ان کی بھی لوگوں سے عزت کراتا ہے.اور لوگ انہیں یہ نہیں کہتے کہ یہ پاگل ہیں بلکہ کہتے ہیں یہ مجذوب ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے عشق کی یہاں تک قدر کی جاتی ہے کہ اُس کی محبت میں پاگل ہو کر بھی لوگ پاگل نہیں کہلاتے بلکہ مجذوب کہلاتے ہیں.پس محبت الہی سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرو.رمضان میں

Page 790

خطبات محمود ۷۸۵ سال ۱۹۳۵ء خدا تعالیٰ اس قدر قریب ہو جاتا ہے کہ وہ فرماتا ہے اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَالْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں اور پوچھیں کہ خدا کہاں ہے جیسے عاشق پوچھتا پھرتا ہے کہ میرا محبوب کہاں ہے تو انہیں کہہ دو کہ میں بالکل پاس ہوں.یہاں ایک شخص ایک دفعہ عشق میں پاگل ہو گیا.وہ چوہڑہ تھا اور کسی چوہڑی پر عاشق ہو گیا.میں نے اُسے دیکھا وہ گلیوں میں مجنونانہ طریق پر پھرتا اور جہاں اُسے کوئی آدمی ملتا وہ آسمان کی طرف آنکھیں اُٹھا کر نہایت حسرت بھرے لہجے میں کہتا اے رہا ! تو میری محبوبہ مجھے ملا دے.وہ جہاں جاتا اُس کی یہی صدا ہوتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عشق اگر انسان کے دل میں پیدا ہو جائے تو پھر قدرتی طور پر وہ سوال کرتا پھرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے.پس عباد سے مراد اس جگہ عشاق الہی ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عاشق ہر جگہ دوڑا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا معشوق کہاں ہے اسی طرح إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ جب میرے بندے تجھ سے میرے م متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دینا کہ میں قریب ہی ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عشاق کے دل کو توڑنا نہیں چاہتا اور نہ انہیں مایوس کرنا چاہتا ہے.تو رمضان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کا ذریعہ بنایا ہے اور ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے.بعض لوگ چھوٹے چھوٹے عذرات پر روزے چھوڑ دیتے ہیں.میں انہیں کہتا ہوں وہ ایک اتنی بڑی نعمت ضائع کر رہے ہیں کہ اگر وہ اگلی زندگی میں کروڑوں سال بھی پچھتائیں گے تو یہ نعمت نہیں حاصل ہوگی.ہاں جو بیمار ہیں میں انہیں بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ باہر لوگوں کے سامنے نہ کھایا کریں اس سے نہ صرف رمضان کی بے حرمتی ہوتی ہے بلکہ بعض لوگوں کو ٹھو کر بھی لگ جاتی ہے.بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بظا ہر نظر نہیں آتیں لیکن ڈاکٹر جانتا ہے کہ اس بیماری میں روزہ منع ہے.مثلاً ضعف دل کی بیماری بظاہر نظر نہیں آ سکتی اور دیکھنے میں ایک شخص مضبوط اور ہٹا کٹا دکھائی دیتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ ایسا مضبوط شخص سارے شہر میں کوئی نہیں ہو گا لیکن ضعف قلب کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا.ایسا آدمی جب بازار میں کھاتا پیتا ہے تو کمزور ایمان والے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہاں کے لوگ روزے نہیں رکھتے اور اس طرح انہیں ٹھوکر لگ جاتی ہے.پس جو لوگ شرعی عذر کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتے وہ بھی باہر لوگوں کے سامنے

Page 791

خطبات محمود کھایا پیا نہ کریں.LAY سال ۱۹۳۵ء غرض دوستوں کو رمضان میں خصوصیت سے عبادت کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں.بالخصوص یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے حملوں سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے.میں بتا چکا ہوں کہ آج کل خصوصیت سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِى نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ " آج چاروں طرف سے دشمن ہم پر حملہ آور ہے.اور چاہتا ہے کہ ہمیں مٹادے اور ہماری طاقتوں کو کچل دے تم ان دشمنوں کے مقابلہ کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے کیونکہ تم کمزور ہو.اور دشمن کے ساتھ صرف رعایا کا اکثر حصہ ہے بلکہ حکام کا بھی ایک حصہ ملا ہوا ہے.پس اس کے مقابلہ کی یہی صورت ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے آگے جھکو اور اس سے ان دشمنوں کی ہلاکت کی دعائیں کرو.آجکل خدا تمہارے پاس آیا ہوا ہے.تم اُس سے باتیں کر سکتے اور اپنی حاجتیں اُس سے منوا سکتے ہو.حدیثوں میں آتا ہے اللہ تعالیٰ روزانہ پچھلی رات سمائے دنیا پر اترتا اور لوگوں کی دعاؤں کو سنتا ہے.مگر آجکل رمضان کے دن ہیں جن میں خدا تعالیٰ اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے.پس تم تہجد میں دعائیں کرو اور اتنی شدت اور کثرت سے دعائیں کرو کہ جب عید آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ لے کر آئے کہ تمہارے دشمنوں کو تباہ کر دیا جائے گا اور تمہیں اپنے مقصد میں کامیاب کر دیا جائے گا.یہ موقع ہے جس سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو اور میں نے وقت پر تمہیں بتا دیا ہے.پس تم سارے مل جاؤ اور جس طرح پاگل کہتا پھرتا ہے کہ میرا معشوق مجھے مل جائے اسی طرح تم بھی کہو کہ اے خدا! اب ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے جب تک تو یہ فیصلہ نہ کر دے کہ ہمارے ہاتھ پر اسلام کی فتح ہو گی اور ہمارے دشمنوں کو ہلاک کر دیا جائے گا.اور یاد رکھو تمہاری یہ دعائیں بریکارنہیں جائیں گی بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کریں گی اور تمہارے دشمنوں کو نا کام کریں گی.اور گو دنیا میں وہ فیصلہ اتنی جلدی ظاہر نہ ہولیکن آسمان پر یہ فیصلہ ہوکر رہے گا.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہمارے ایک احمدی کو احراریوں نے مارا ہے اور وہ اس وقت بے ہوش پڑا ہے میں نے ڈاکٹر صاحب کو وہاں بھجوادیا لیکن میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں کہ مارتو کیا چیز ہے اگر احراری تم میں سے کسی کو قتل بھی کر دیں تو تم اپنے جذبات پر قابو رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو خلاف قانون ہو.تم سے وہ بہت زیادہ قیمتی جانیں تھیں جن کے ساتھ مکہ

Page 792

خطبات محمود ZAZ سال ۱۹۳۵ء میں نہایت بُر اسلوک کیا گیا انہیں مارا گیا ، انہیں پیٹا گیا ، انہیں قتل کیا گیا مگر وہ صبر اور تحمل سے برابر کام کرتے چلے گئے.رسول کریم ﷺ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں عبادت کر رہے تھے کہ کفار نے آپکے گلے میں پٹکہ ڈال کر اس زور سے دبایا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور بعضوں نے سمجھا کہ شاید آپ اس تکلیف سے وفات پا جائیں گے.اُس وقت تک پردہ کا حکم نہیں اترا تھا جب رسول کریم کو اس رنگ میں اذیت دی گئی تو آپ کے خاندان کی بعض مستورات باہر آ گئیں اور اُنہوں نے کفار کو کہا تمہیں شرم نہیں آتی.تم ایک ایسے شخص کو محض خدائے واحد کی عبادت کرنے کے جرم میں تکلیف دیتے ہو.کے ہم میں سے رسول کریم ﷺ کے برابر کیا آپ کی خاک پا کے برابر بھی کون ہے پھر اگر آپ نے ان سب تکلیفوں کو برداشت کیا تو ہم کون ہیں کہ ان تکلیفوں کو برداشت نہ کر سکیں.اس برداشت سے تمہارے اندر ایسی قوت پیدا ہو جائے گی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکے گی.جن شرطوں کے ساتھ میں تمہیں صبر کی تعلیم دیتا ہوں ان شرطوں کے ساتھ اگر تم دشمنوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرو تو تم میں سے ہر شخص ایسا بم ہو گا جو ساری دنیا کو اڑا کر رکھ دے گا.دیکھو! ہوائی بندوق میں صرف ہوا بھر کر اس سے کام لے لیا جاتا ہے.سپین میں ہوائی تو ہیں بھی بنائی گئی ہیں اسی طرح میں بھی تم میں ہوا بھر رہا ہوں اور تمہاری اس طاقت سے اشاعت اسلام میں کام لینا چاہتا ہوں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میرے بتائے ہوئے طریق پر چل کر صبر کے مراحل کو تم طے کر گئے تو ایک دن ایسا آئیگا کہ تم اخلاص و عشق کا ہتھیار لیکر کھڑے ہو جاؤ گے اور ساری دنیا میں ایک آگ لگا دو گے.لیکن افسوس کہ ابھی وہ دن نہیں آیا.میں چاہتا ہوں کہ جو جو مظالم تم پر کئے جاتے ہیں وہ تمہارے دلوں میں انگار بن کر جمع ہوتے چلے جائیں.لیکن ان کا دھواں باہر نہ نکلے یہاں تک کہ تم ان انگاروں سے جل کر اندر ہی اندر راکھ ہو کر بھسم ہو جاؤ.وہ ویسی ہی بند آگ ہو جیسی دوزخ کی آگ کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ بند ہوگی.میں بھی چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر ایک آگ ہو جو جہنم کی آگ کی طرح بند ہو کہ جب اسے باہر نکلنے کا اذن ملے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارے سامنے نہ ٹھہر سکے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جہنم کی آگ میں سے اگر ایک رائی کے برا بر آگ بھی ساری دنیا پر ڈالی جائے تو دنیا جل کر راکھ ہو جائے.میری کوشش یہ ہے کہ میں وہ جہنم کی آگ تمہارے اندر پیدا کروں جو پہاڑوں کے برابر ہو.اگر جہنم کی رائی بھر آگ ساری دنیا کو جلانے کے

Page 793

خطبات محمود ۷۸۸ سال ۱۹۳۵ء لئے کافی ہے تو جو آگ میں تمہارے دلوں میں پیدا کرنی چاہتا ہوں اگر پیدا ہو جائے تو ایک دنیا نہیں ، ہزاروں دنیا ؤں کو تم جلانے کے قابل ہو جاؤ.مگر جو آگ کھلی ہوتی ہے وہ آپ ہی آپ ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.پس یہ مت سمجھو کہ میں تمہیں بزدل بنا رہا ہوں میں تمہارے اندر وہ آگ پیدا کر رہا ہوں جو کفر و شرک کو جلا کر راکھ کر دے اور اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کر دے.پس کوئی تم میں سے باہر جا کر اس قسم کے واقعات کو سن کر جوش میں نہ آئے اور اگر جوش آئے تو اُسے دبائے اور کہے کہ میں بھی کفر و شرک کو دنیا سے مٹا کر دم لوں گا.کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ تم سے آدمی لڑائی کرتے ہیں یہ آدمی نہیں لڑتے بلکہ شیطان لڑتا ہے.وہ تو آخر ہمارے بھائی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ لڑائی لڑتے پھرتے ہیں.اسی لئے کہ شیطان انہیں اُکساتا ہے.پس شیطان سے تمہارا مقابلہ ہے اور شیطان کو تم لٹھ مار کر ہلاک نہیں کر سکتے.تم آدمی کو لٹھ مار سکتے ہو لیکن شیطان کولھ نہیں مار سکتے.اسے تو وہ دعائیں ہلاک کریں گی جو تم راتوں کو اُٹھ کر کرو گے اور اسے وہ تبلیغ ہلاک کرے گی جو تم دن کے وقت کرو گے.بے شک تم میں سے کئی لوگوں کے دلوں میں یہ جوش اُٹھتا ہو گا کہ آؤ ہم مر جائیں.مگر میں کہتا ہوں تم اگر مرنا چاہتے ہو تو جاؤ اور دنیا کے ان گوشوں میں مروجہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام نہیں پہنچا.جاؤ اور دنیا کے ان گوشوں میں مروجہاں محمد ﷺ کا نام نہیں پہنچا.جاؤ اور دنیا کے اُن گوشوں میں مرو جہاں ابھی خدا کا نام بھی نہیں پہنچا.ہمارے چین کے مبلغ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چین میں کوئی خدا تعالیٰ کا نام نہیں جانتا اور نہ اُس کی صفات کا کسی کو پتہ ہے.پس یہاں مرنے سے کیا فائدہ ہے.تم یہاں مرجاؤ گے تو وہ ملک خالی رہ جائیں گے جہاں ابھی خدا تعالیٰ کا نام تک نہیں پہنچا.تم یہاں مرجاؤ گے تو وہ ملک خالی رہ جائیں گے جہاں ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تک نہیں پہنچا.تم یہاں مر جاؤ گے تو وہ ملک خالی رہ جائیں گے جہاں ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام نہیں پہنچا.پس اگر مرنے کی ہمت ہے تو جاؤ اور اُن علاقوں میں مرو جہاں خدا اور اُس کے رسولوں کا نام کوئی نہیں جانتا.وہاں اگر ایک دفعہ بھی اللہ اکبر کہ کر تم خدا تعالیٰ کا نام پہنچا دیتے ہو ، ایک دفعہ بھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہ کر رسول کریم ﷺ کا نام پہنچادیتے ہو، ایک دفعہ بھی احمدیت کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچا دیتے ہو اور پھر وہیں مر جاتے ہو تو سمجھا جا الله

Page 794

خطبات محمود ۷۸۹ سال ۱۹۳۵ء سکتا ہے کہ تم نے دنیا میں آکر کوئی کام کیا.دیکھو! تنور میں پڑی ہوئی لکڑیاں روٹیاں پکاتی ہیں لیکن جلتا ہوا گھر کسی کے کام نہیں آتا بلکہ وہ انسانوں اور اُن کے اموال کو تباہ کر دیتا ہے.اگر کوئی جلنے والی لکڑی بننے کے لئے تیار ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ تنور کی لکڑی بنے جو جل کر دنیا کو فائدہ پہنچاتی ہے پس میں نو جوانوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں اور غیر ملکوں میں تبلیغ اسلام کے لئے نکل جائیں اور وہ روح پیدا کریں جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں تھی.تب میں سمجھوں گا کہ تم اپنے دعووں میں بچے ہو.ایک بزرگ کے متعلق جو ایران یا افغانستان کے تھے تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ ان سے ان کے غالباً ایک سو ساٹھ مُرید ملنے آئے اور ملاقات کے بعد عرض کیا کہ ہمیں کوئی کام بتایا جائے.انہوں نے فرمایا ابھی میرے پاس ایک شخص ذکر کر رہا تھا کہ ہندوستان میں اسلام کا کہیں نام نہیں.انکا دُ کا کوئی مسلمان مل جائے تو مل جائے ورنہ عام طور پر لوگ اسلام سے سخت نا واقف ہیں.اگر تم کام کرنا چاہتے ہو تو ہندوستان میں چلے جاؤ اور تبلیغ کرو.وہ ایک سو ساٹھ کا ایک سو ساٹھ اُسی وقت بغیر اس کے کہ گھر واپس جاتے اور اپنی بیوی بچوں سے ملتے سلام کر کے ہندوستان روانہ ہو گئے اور تبلیغ میں اپنی عمر بسر کر دی.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام پھیلا یا اور اسی قسم کے لوگ ہیں جو اب احمدیت کو پھیلائیں گے.تنخواہ دار مبلغ احمدیت کو نہیں پھیلا سکتے.وہ تو ایسے ہی ہیں جیسے کوئی نگران انسپکٹر ہو.پس جس دن وہ روح تمہارے اندر پیدا ہو گئی جو میں پیدا کرنی چاہتا ہوں.اُس دن نہ کوئی طاقت تمہیں مار سکتی ہے اور نہ کوئی قوم تمہارے ارادوں میں مزاحم ہو سکتی ہے.تب تم ہی تم دنیا کے بادشاہ ہو گے.حکومتیں تمہاری ہوں گی ، تجارتیں تمہاری ہوں گی ، زراعتیں تمہاری ہوں گی اور تم اسی طرح دنیا پر حاوی ہو گے جس طرح آسمان زمین پر حاوی ہے.یا د رکھو مومن کا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے.اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ اللہ تعالیٰ کی کرسی نے زمین و آسمان کا احاطہ کیا ہوا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی کرسی زمین و آسمان پر احاطہ کئے ہوئے ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ عرش کی کس قدر وسعت ہو گی.پس اگر واقعہ میں مؤمن کا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے تو جب تم سچے مومن بن جاؤ گے یقیناً ساری دنیا اُسی طرح تمہاری مٹھی میں

Page 795

خطبات محمود 29.سال ۱۹۳۵ء ہوگی جس طرح وہ خدا تعالیٰ کی مٹھی میں ہے کیونکہ اُس وقت تم خدا کے ہو گے اور خدا تمہارا.(الفضل ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۳۵ء) ال عمران: ۸۰ معالم التنزيل جلد ا الجزء الثالث صفحه ۳۲۱.تفسیر آیت كُونُوا رَبَّانِيِّن القيمة: ١٦ (ال عمران: ۷۹) بخاری کتاب الصوم باب هَلْ يَقُولُ إِنِّي صَالِمٌ إِذَا شُتِمَ البقرة: ۱۸۷ ابوداؤد كتاب الوتر باب ما يقول الرَّجل إِذَا خَافَ قَوْمًا بخاری کتاب فضائل أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا البقرة : ۲۵۶

Page 796

خطبات محمود ۷۹۱ سال ۱۹۳۵ء جلسہ سالانہ کے متعلق ضروری ہدایات (فرموده ۱۳ / دسمبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ توبہ کے رکوع ۶ کی درج ذیل آیات کی تلاوت کی.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَالَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اتَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ اَرَضِيتُمُ بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَياةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَّ يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَه بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ انْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّهُ وَ سَيَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ لَوِسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ اَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمُ لَكَذِبُونَ.پھر فرمایا:.پیشتر اس کے کہ میں آج کے خطبہ کے موضوع پر کچھ کہوں میں دوستوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ جلسہ سالانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے مکانوں کی اور ان کی خدمت کیلئے کام کرنے والوں کی ضرورت ہے جس قدر مہمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے سالانہ جلسہ پر آتے ہیں

Page 797

خطبات محمود ۷۹۲ سال ۱۹۳۵ء سلسلہ کی عمارتیں کسی صورت میں بھی ان کو جگہ نہیں دے سکتیں.سلسلہ کی ساری عمارتیں لگا دینے کے بعد ایک کثیر تعداد مہمانوں کی باقی رہ جاتی ہے جس کے لئے پرائیویٹ مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے.کچھ سالوں سے متواتر میں دوستوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اس موقع پر اپنے رشتہ داروں اور دوست مہمانوں کے لئے جو جگہ چھوڑی جائے اُس میں بھی اس امر کا خیال رکھا جائے کہ گو اپنے مہمان کو جگہ دینا بھی جلسہ کے مہمانوں کو جگہ دینا ہی ہے پھر بھی اپنے نفس کی خوشی اس میں شامل ہے پس ایسے مہمانوں کو جگہ دینا جن کے ناموں سے بھی ہم واقف نہ ہوں اور نظام کے ماتحت دینا اس سے بہت افضل کام ہے.پس دوستوں کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہ وقت جذبات کی قربانی کا ہوتا ہے اس لئے جو دوست یا رشتہ دار آئیں اُن سے کہ دیا جائے کہ اکیلے رہنے کے لئے کھلی جگہ کا میسر آنا تو مشکل ہے جہاں اور مہمان قربانی کرتے ہیں آپ بھی کریں تا باقی جگہ دوسرے مہمانوں کو دی جا سکے.اگر احباب اس نقطہ نگاہ سے کام کریں تو ہر سال قادیان میں اتنی عمارتیں بنتی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ مہمانوں کو ٹھہرانے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی.ہر سال یہاں قریباً دوسو نئے مکانات تعمیر ہوتے ہیں اور ان میں آسانی سے ڈیڑھ دو ہزار مہمان ٹھہرائے جا سکتے ہیں.سالانہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں میں زیادتی اس نسبت سے نہیں ہوتی جس نسبت سے نئے مکانات تعمیر ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے ہر سال ہی شکایات سننے میں آتی ہیں کہ جگہ کی تنگی ہے.بعض لوگ جگہ دینے سے کچھ گریز کرتے ہیں اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے مہمانوں اور عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کے آرام کی فکر بے شک کریں مگر یہ خیال ضرور رکھیں کہ زیادہ ذمہ داری ہم پر اُن مہمانوں کی ہے جن کے ناموں سے بھی ہم واقف نہیں.میں جانتا ہوں رشتہ داروں کو اپنے پاس ٹھہرانا ایک لحاظ سے سلسلہ کے لئے بھی مفید ہے انسان اُن کی خاطر مدارات خود اچھی طرح کر سکتا ہے اور اس طرح کارکنوں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے مگر یہ ایسی طرز پر ہونا چاہئے کہ دوسروں کے لئے بھی جگہ رہ سکے.سو ایک نصیحت تو میں یہ کرتا ہوں کہ دوست تکلیف اُٹھا کر بھی اپنے مکان مہمانوں کے لئے فارغ کریں.ہمارے گھروں میں ہر سال پانچ چھ سو مہمان ٹھہرتے ہیں لیکن میں پھر بھی یہ کہہ دیتا ہوں کہ اگر جگہ کی تنگی ہو تو کارکن ان میں ٹھہر نے والوں کے لئے جگہ کو اور تنگ کر کے اور بھی انہیں استعمال کر سکتے ہیں.میں نے اپنا دار الحمد کا مکان سارے کا سارا جلسہ کے لئے دیا ہوا ہے ، شہر کے گھر کا نچلا حصہ

Page 798

خطبات محمود ۷۹۳ سال ۱۹۳۵ء بھی سارا مہمانوں کے لئے خالی کر دیا جاتا ہے ، اوپر کے حصہ کا بھی بہت سا حصہ فارغ کر دیا جاتا ہے اور ہمارے گھر کے آدمی جو خدا کے فضل سے چالیس پچاس ہیں سمٹ کر چند کمروں میں آ جاتے ہیں.اس دفعہ دار الحمد میں میں نے اپنے بعض رشتہ داروں کے لئے انتظام کیا ہوا تھا اور جب مجھ سے کارکنوں نے لسٹ مانگی تو میں نے کہلا بھیجا تھا کہ فلاں فلاں جگہ پر فلاں فلاں مہمان ٹھہریں گے باقی جگہ وہ لے سکتے ہیں لیکن اب میں یہ کہتا ہوں کہ جو جگہ رشتہ دار مہمانوں کے لئے میں نے مخصوص کر دی تھی اگر اس جگہ کے متعلق بھی کارکن کوئی معقول تبدیلی کرنا چاہیں تو میری طرف سے انہیں اجازت ہے.اس کے بعد میں کام کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر سال قادیان کی آبادی جس نسبت سے بڑھتی ہے اس نسبت سے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا اور اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ زیادہ اور اچھے کا رکن نہ مل سکیں.اور اگر کارکن میسر نہیں آتے تو اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یا تو نظام میں کوئی نقص ہے یا دوستوں کے اخلاص میں کمی آگئی ہے.اگر اچھے اور زیادہ کارکن باوجود یکہ گزشتہ چند سالوں میں قادیان کی آبادی پانچ ہزار سے بڑھ کر آٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے حاصل نہ ہوں تو یقیناً ان دونتائج میں سے ایک کو صحیح سمجھنے پر میں مجبور ہوں.یا تو یہ کہ ہمارے نظام میں کوئی نقص ہے اور یا پھر یہ کہ جماعت کے اخلاص میں کمی آگئی ہے.جس طرح مکانوں کی وقت کی وجوہ میں نہیں سمجھ سکتا اسی طرح یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ کام کرنے والے کیوں نہیں ملتے اور اگر کوئی روک فی الواقع ایسی پیش آ رہی ہے تو کارکنوں کا فرض ہے کہ تفصیل سے اسے میرے سامنے پیش کریں تا میں اندازہ کر سکوں کہ اصل سبب کیا ہے.اس کے بعد میں عام نصیحت کرتا ہوں اور پہلے اُن لوگوں کو مخاطب کرتا ہوں جو بعد میں آکر بسے ہیں اور انہیں کہتا ہوں کہ تمہارے قادیان میں آکر بسنے سے پہلے تھوڑی سی جماعت ہزاروں مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی تھی.اور اگر تمہارے وقت میں اس میں کمی آجائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے اندر وہ اخلاص نہیں جو پہلوں میں تھا لیکن اگر بعد میں آنے والے اخلاص کا نمونہ دکھا رہے ہیں تو میں اُنہیں مخاطب کر کے جو دیر سے قادیان میں بس رہے ہیں کہتا ہوں کہ مؤمن کے اخلاص کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی اور موت تک اُس کے اخلاص میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے.اگر اس کے اخلاص میں کوئی کمی واقع ہوئی تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس نسبت سے اُس کے ایمان میں بھی کمی واقع

Page 799

خطبات محمود ۷۹۴ سال ۱۹۳۵ء ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان کا درجہ وہی ہوتا ہے جوموت کے وقت انسان کو حاصل ہو.اگر پہلے تم نے زیادہ خدمات کی ہیں تو وہ قیامت کے دن کام نہیں آسکیں گی قیامت کے روز کام آنے والی خدمت وہی ہوتی ہے جو مسلسل جاری رہے اور جو موت تک کی جائے.اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ ایک رقعہ کا ذکر کرتا ہوں جو ابھی مجھے دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مولوی ابو الفضل صاحب گاڑی میں آ رہے تھے بٹالہ سٹیشن پر انہوں نے کچھ اشتہار اور ٹریکٹ وغیرہ تقسیم کئے تو احراریوں نے انہیں گالیاں دیں اور دھکے مارے.اور لکھا ہے کہ اب بات حد سے بڑھتی جارہی ہے ایسے سب دوستوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ کوئی بات حد سے نہیں بڑھا کرتی.انسانی اعمال جن میں الہی تصرفات کا دخل نہ ہو ، ان کے متعلق تو بے شک یہ بات کہی جاسکتی ہے لیکن جو باتیں اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور تقدیر کے ماتحت ہو رہی ہوں وہ حد سے نہیں بڑھا کرتیں.اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مأمورین جب آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی تائید و نصرت کے بھی اتنے سامان پیدا کرتا ہے جتنے ضروری ہوتے ہیں.اور مخالفت بھی اتنی ہی کراتا ہے جتنی ضروری ہوتی ہے.اور جتنی مخالفت بڑھے سمجھ لو اللہ تعالیٰ اتنی ہی تمہاری خامیاں دور کرنا چاہتا ہے.کون شخص پسند کرتا ہے کہ اُس کے عزیز کو گالیاں ملیں.کیا تم میں سے کوئی شخص کبھی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے سامنے اس کے بیوی بچوں کو گالیاں دی جائیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ کو یہ بات کس طرح پسند ہوسکتی ہے کہ اس کے نبیوں اور مامورین کو گالیاں ملیں.اور اگر وہ ان گالیوں کو جاری رہنے کی اجازت دیتا ہے تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایسا تمہاری اصلاح کے لئے کرتا ہے.یہ کفارہ ہے جو انبیاء اپنی جماعت کے لئے ادا کرتے ہیں حضرت مسیح ناصری کے متعلق جس کفارہ کا مسیحی لوگ عقیدہ رکھتے ہیں ہم اُس کے منکر ہیں.اور اس قسم کا کفارہ واقعہ میں خلاف عقل ہے.مگر یہ صورت جو میں نے بتائی ہے کفارہ کی جائز صورت ہے.اور یہ کفارہ سب انبیاء اپنی اُمتوں یا جماعتوں کے گناہوں اور کوتاہیوں کے دور کرنے کے لئے ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ دشمنوں کو کھلا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کے ما موروں کو گالیاں دیں تا اُن کی جماعتوں کے دل میں درد پیدا ہو اور وہ اپنی اصلاح کریں.اللہ تعالیٰ یہ بات اس لئے نہیں کرتا کہ مؤمن ان گالیاں دینے والوں سے لڑیں اور فساد کریں بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفسوں کے ساتھ لڑائی کریں اور اپنی اصلاح کریں.پس جس دن تم اپنی اصلاح مکمل کر لو گے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُسی دن

Page 800

خطبات محمود ۷۹۵ سال ۱۹۳۵ء گالیاں دینے والوں کے ہونٹ بند کر دیں گے.بات یہ ہے کہ گالیاں دشمن نہیں دیتے بلکہ تم خود دیتے ہو.تمہارا تقویٰ اور اخلاص تمہاری قربانی اور ایثار ابھی اُس مقام پر نہیں پہنچا جس پر اللہ تعالیٰ پہنچانا چاہتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو انگیخت کرتا ہے کہ تا اُن سے پٹوا کر تمہاری اصلاح کر دے.پس ان گالیوں کو بند کرانا تمہارے اپنے اختیار میں ہے.تم اگر آج جھوٹ ، فریب ، دغا بازی ، لڑائی ، فساد اور دیگر بد عادات کو گلیہ ترک کر دو، با قاعدگی سے سب کے سب با جماعت نمازیں پڑھنے لگ جاؤ، تقویٰ پیدا کر لو، قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچ جاؤ جہاں پہنچ کر انسان کی نگاہ میں اُس کی جان اور اُس کے مال اور اُس کے اقرباء کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی.اسی طرح تم ایثار کے اور حسنِ سلوک کے اور اپنے غریب بھائیوں کی اعانت اور ہمدردی کے مقام پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ.کبر اور خود پسندی کو چھوڑ دو تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے ایک منٹ میں نازل ہو کر تمام فتنوں کو دور کر دیں گے.پس اپنے نفسوں کی اصلاح کرو آسمان کی طرف دیکھو دنیا کی طرف اپنی نظریں نہ اُٹھاؤ.اور اچھی طرح یاد رکھو کہ جتنی دیر تم اپنی اصلاح نہ کرو گے یہ گالیاں برا برملتی رہیں گی.پس یاد رکھو کہ یہ گالیاں جماعت کے کمزور لوگ دلوا رہے ہیں.دشمن تو صرف تقدیر الہی کے آلے ہیں میرا یہ مطلب نہیں کہ دشمن کی گالیوں کو بے شرم ہو کر سنتے جاؤ ان کا علاج کرنے کی ظاہری تدابیر اختیار کرنا بھی تمہارا فرض ہے اور اس میں کمزوری دکھانے پر بھی تم خدا تعالیٰ کے سامنے پوچھے جاؤ گے مگر حقیقی علاج وہی ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے.اب میں تحریک جدید کے سلسلہ میں جو خطبات دے رہا ہوں اُن کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.گزشتہ سال میں نے انہیں تحریکیں کی تھیں جن میں سے بعض کے متعلق میں کچھ باتیں بیان کر چکا ہوں اور ایک کے متعلق آج بیان کرتا ہوں.میں نے تحریک کی تھی کہ تبلیغ کیلئے ایک ایک دو دو اور تین تین ماہ وقف کریں باقی ساری تحریکیں ایسی تھیں جن میں ثواب دوسرے کی معرفت حاصل کیا جا سکتا ہے.لیکن یہ ایک ایسی تحریک ہے جس سے براہ راست ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے اس لئے اس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت تھی مگر افسوس کہ چند سو دوستوں کے سوا باقی کسی نے اپنا نام پیش نہیں کیا.حالانکہ جماعت میں سے ہزار ہا لوگ اس کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر سکتے تھے.یہ ایک ایسا کام ہے جس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ، زمیندار ، تاجر ، ملازم، ہر پیشہ اور فن سے تعلق رکھنے والے اور ہر

Page 801

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء لیاقت والے حصہ لے سکتے تھے.کیونکہ وہ اپنے طبقہ اور اپنی جتنی لیاقت رکھنے والوں میں تبلیغ کر سکتے تھے.کون ایسا آدمی ہو سکتا ہے جس کی لیاقت کا آدمی اور کوئی دنیا میں موجود نہ ہو.کیا تم خیال کر سکتے ہو یا مجھے یہ ماننے پر آمادہ کر سکتے ہو کہ کوئی احمدی ایسا بھی ہے جو سب سے زیادہ جاہل ہے اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ہر فرد اس سے زیادہ لائق ہے.احمدیت تو ایک ایسی چیز ہے جس کے آتے ہی عقل بڑھ جاتی اور علم روشن ہو جاتا ہے.معمولی لیاقت کے احمدی بڑے بڑے مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں.ضرورت صرف ایمان کی ہوتی ہے علم کی نہیں اگر ایمان ہو تو اللہ تعالیٰ خود راہنمائی کرتا ہے.کئی دفعہ میں نے پیرے کا واقعہ سنایا ہے وہ ایک پہاڑی آدمی تھا جسے گینٹھیا کی بیماری تھی.اس کے رشتہ دار وں کو کسی نے مشورہ دیا کہ یہاں اس کا علاج نہیں ہو سکے گا اسے پنجاب چھوڑ آؤ.چنانچہ وہ اسے لے کر آئے اور گورداسپور کے قریب جب پہنچے تو کسی نے بتایا کہ قادیان میں ایک ولی اللہ ہیں وہ ایسے لوگوں کی خبر گیری کرتے ہیں ان کے پاس لے جاؤ.چنانچہ وہ اسے یہاں لے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس چھوڑ کر چلے گئے.حضور نے اُس کا علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا.وہ بلکہ اُس کا سارا خاندان بالکل جاہل تھا اور دین کی انہیں کوئی خبر نہ تھی.ایک دفعہ اُس سے یا شاید اُس کے ایک بھتیجے سے جو کبھی کبھی یہاں آجایا کرتا تھا ، حضرت خلیفہ اول نے دریافت فرمایا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ پھر بتاؤں گا اور کچھ دیر بعد ایک کارڈ آپ کے پاس لایا کہ ہمارے گاؤں کے نمبر دار کولکھ دیں آپ نے پوچھا کہ کیا لکھنا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ آپ نے میرا مذہب دریافت کیا تھا.میں نمبر دار کو لکھ کر یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے.پھر وہ لوگ اتنے وحشی تھے کہ ایک دفعہ اُس کا ایک رشتہ دار یہاں آیا اور آٹھ آنہ کا گھی لایا جو ایک بلی کھا گئی.اُس نے اُس بلی کو مار کر اُس کی انتڑیاں نچوڑ کر رکھ لیں کہ ان میں میرا گھی ہے.غرض وہ خاندان کا خاندان بالکل جاہل اور بے وقوف تھا.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے پیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں باجماعت ادا کرو تو میں تمہیں دو روپے انعام دوں گا.آپ کی غرض یہ تھی کہ اس طرح اسے نماز کی عادت پڑ جائے گی.اُس نے عشاء سے نماز پڑھنی شروع کی اور اگلی مغرب کو پانچ پوری ہونی چاہئیں تھیں.اُس زمانہ میں مہمان تھوڑے ہوتے تھے اور اُن کا کھانا گھر میں ہی تیار ہوتا تھا.مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے

Page 802

خطبات محمود ۷۹۷ سال ۱۹۳۵ء عورت نے آواز دی کہ پیرے! کھانا لے جاؤ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اُس کی پانچویں نماز تھی لیکن بلانے والی عورت کو تو اس کا علم نہ تھا اس لئے برابر آواز میں دیتی گئی.اس پر پیرے نے نماز میں ہی اُسے آواز دی کہ ٹھہر جاسلام پھیر کر آتا ہوں.پیرا جب بیماری سے اچھا ہوا تو وہ حضرت صاحب کے پاس ہی ٹھہر گیا.آپ کبھی کبھی اسے بٹالہ تار دینے یا ریلوے پارسل وغیرہ لینے کے لئے بھجوا دیا کرتے تھے.کیونکہ اُس وقت نہ تار قادیان آئی تھی اور نہ ریلوے تھی.ایک دفعہ کسی ایسے ہی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بٹالہ بھیجا.اس لئے وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے.اُن کی عادت تھی کہ وہ اکثر ریل کے وقت بٹالہ سٹیشن پر چلے جاتے اور جب انہیں کوئی قادیان آنے والا آدمی ملتا تو اُسے قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے اس دن اتفاقاً اُنہیں کوئی اور آدمی نہ ملا تو انہوں نے پیرے کو پکڑ لیا اور کہا کہ پیرے! تو کیوں قادیان میں بیٹھا ہے وہاں تو یہ خرابی ہے ، وہ خرابی ہے.پیرے نے جواب دیا کہ مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو نہیں اس لئے آپ کی باتوں کو نہیں سمجھ سکتا.ہاں ایک بات ہے اور غور کر وکتی لطیف بات ہے جو اُس نے بیان کی حالانکہ وہ بالکل ان پڑھ تھا اُس نے کہا کہ مرزا صاحب تو قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دور دور سے یکوں میں دھکے کھاتے ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں جہاں لوگ آسانی سے پہنچ سکتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی آپ کے پاس نہیں آتا اور آپ لوگوں کو سمجھانے کے لے روزانہ چل کر اسٹیشن پر آتے ہیں حتی کہ آپ کی جوتی بھی گھس گئی ہے لیکن لوگ پھر بھی آپ کی بات نہیں مانتے.آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کے پاس اس طرح کھنچے چلے جاتے ہیں اور ان کے مخالفوں کی بات نہیں مانتے.اب دیکھو کہ وہ بالکل جاہل آدمی ہے مگر اُس نے کیسی لطیف بات بیان کی.مولوی محمد حسین صاحب گو یا قسم کھا چکے تھے کہ سلسلہ کی مخالفت کرتے چلے جائیں گے اس لئے انہوں نے اس نکتہ سے فائدہ نہ اٹھایا.اگر کوئی اور سنجیدہ آدمی ہوتا تو یہی دلیل اُس کے لئے کافی تھی اور اسی پر وہ ہدایت پا جاتا.پیرے جیسے شخص کا ایسی معقول بات کہنا بتا تا ہے کہ احمدیت کی تعلیم کا جاننا تو الگ رہا اس کے ساتھ چھو کر بھی انسان کی عقل تیز ہو جاتی ہے.اسی قسم کا ایک اور واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے.لدھیانہ کے علاقہ کے ایک شخص میاں نور محمد صاحب

Page 803

خطبات محمود ۷۹۸ سال ۱۹۳۵ء تھے.انہوں نے ادنی اقوام میں تبلیغ اسلام کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا.وہ خاکروبوں میں تبلیغ کیا کرتے تھے اور سینکڑوں خاکروب ان کے مرید ہو گئے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کے بعض مرید بعض دفعہ یہاں بھی آ جایا کرتے تھے.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ہمارے پیر کے پیر ہیں.یہاں ہمارے ایک رشتہ میں چچانے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کے دعوئی کا تمسخر اڑانے کے لئے اپنے آپ کو چوہڑوں کا پیر مشہور کیا ہوا تھا.اور ان کا دعویٰ تھا کہ میں لال بیگ ہوں.ایک دفعہ بعض وہ لوگ جو خاکروب سے مسلمان ہو چکے تھے یہاں آئے ہوئے تھے.انہیں حقہ کی عادت تھی.ان صاحب کی مجلس میں جو انہوں نے حقہ دیکھا تو حقہ کی خاطر ان کے پاس جا بیٹھے.ہمارے چچانے ان سے مذہبی گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ تم مرزا صاحب کے پاس کیوں آئے ہو؟ تم تو دراصل میرے مرید ہو.مرزا صاحب نے تمہیں کیا دیا ہے.وہ لوگ ان پڑھ تھے جیسے خاکروب عام طور پر ہوتے ہیں.آجکل تو پھر بھی خاکروب کچھ ہوشیار ہو گئے ہیں لیکن یہ آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے اُس وقت یہ قوم بالکل ہی جاہل تھی.لیکن جب ان سے ہمارے چچانے سوال کیا کہ مرزا صاحب نے تم کو کیا دیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اور تو کچھ نہیں جانتے لیکن اتنی بات پھر بھی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ پہلے ہم کو چوہڑے کہتے تھے لیکن مرزا صاحب کے تعلق کی وجہ سے اب ہمیں مرزائی کہتے ہیں.گویا ہم چوہڑے تھے اب ان کے طفیل مرزا بن گئے.لیکن آپ پہلے مرزا تھے مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے چوہڑے بن گئے.اب یہ باتیں ہیں تو بظاہر لطائف مگر ان کے اندر معرفت کا فلسفہ بھی موجود ہے.ان ان پڑھ لوگوں نے اپنی زبان سے اس مفہوم کو ادا کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے مخالفوں کو تباہ کر دیتا ہے اور ماننے والوں کو ترقی دیتا ہے.پس کچی بات یہ ہے کہ احمدی ہوتے ہی انسان کی عقل مذہبی امور میں تیز ہو جاتی ہے اور وہ علماء پر بھی بھاری ہوتا ہے.لیکن اس امر کو نظر انداز کر دو تو بھی کونسا ایسا احمدی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اس کے طبقہ کے لوگ دنیا میں موجود نہیں.بلکہ ہر احمدی اپنی عقل اور سمجھ میں کم سے کم اپنے طبقہ کے ہر عیسائی، ہندو، سکھ اور غیر احمدی سے زیادہ ہوشیار ہوگا.میں مان سکتا ہوں کہ را جرس کے چاقو اور دھیلہ کے چاقو میں جو کسی زمانہ میں ہمارے لو ہار بنایا کرتے تھے زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.اور وہ دھیلے کا چاقو را جرس کے چاقو کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا.لیکن اس میں بھی کیا

Page 804

خطبات محمود ۷۹۹ سال ۱۹۳۵ء شک ہے کہ وہ دھیلے کا چاقو جو سان پر چڑھا ہوا ہو اُس دوسرے دھیلے کے چاقو سے جو مٹی میں پڑا ہوا زنگ آلود ہو چکا ہو کمزور نہیں ہو سکتا.پس ایک احمدی خواہ کتنا بھی جاہل کیوں نہ ہو وہ سان پر چڑھے ہوئے چاقو کی طرح ہے اور اسی لیاقت کا دوسرا آدمی مٹی میں ملے ہوئے زنگ آلود چاقو کی طرح ہے اور دونوں برابر نہیں ہو سکتے.پس میں مان لیتا ہوں کہ ایک غیر تعلیم یافتہ احمدی دھیلے کے چاقو کی طرح ہے.مگر وہ اکیلا ہی تو دنیا میں ایسا نہیں.اسی کی لیاقت کے اور آدمی بھی تو دنیا میں موجود ہیں فرق صرف یہ ہے کہ یہ سان پر چڑھا ہوا ہے اور وہ زنگ آلود ہیں.اسے خدا تعالیٰ نے صیقل کر کے صاف کر دیا ہے اور دوسروں کو زنگ کھا رہا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ان کے مقابلہ کے لئے کھڑا نہیں ہوتا.غرض ایک احمدی بھی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ میں تبلیغ کے قابل نہیں ہوں.اگر ہم کسی زمیندار سے کہیں کہ اپنائل چھوڑ دو اور لاہور کے لارڈ بشپ کو تبلیغ کرو.تو وہ عذر کر سکتا ہے کہ میں اتنی لیاقت نہیں رکھتا اگر چہ میں اس کو بھی صحیح نہیں مان سکتا کیونکہ ایمان سب کچھ پیدا کر دیتا ہے.اگر ایمان اعلیٰ ہو تو کونسا ایسا انسان ہوسکتا ہے جسے تبلیغ نہیں کی جاسکتی.میں یہ نہیں کہتا کہ میں ایسا ان پڑھ ہوں اور ناخواندہ ہوں جیسا جماعت احمدیہ کا ہر وہ فرد جو اردولکھ پڑھ نہیں سکتا.اسی طرح میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں عربی سے ایسا ہی نا واقف ہوں جیسا کہ جماعت کا ہر وہ شخص جو عربی سے بالکل ناواقف ہے.اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں انگریزی زبان سے ایسا ہی نابلد ہوں جیسا کہ جماعت کے وہ دوست جنہوں نے بالکل انگریزی تعلیم حاصل نہیں کی.مگر ان تینوں میں سے کوئی بھی ایسا علم نہیں جس میں میں نے کوئی امتحان پاس کیا ہو یا کوئی کمال حاصل کیا ہو.مگر با وجود اس کے کہ میری یہ تینوں تعلیمیں نامکمل رہیں اور چونکہ ہمارے گھر میں اردو بولی جاتی ہے اس لئے پنجابی جو ہمارے صوبہ کی زبان ہے ، اس کا بھی یہی حال رہا.مگر آج تک کسی میدان میں کسی نے مجھ سے گفتگو نہیں کی.جس کے متعلق یہ تو علیحدہ بات ہے کہ میں یا میرے ساتھیوں نے یہ محسوس کیا ہو کہ اس کا پلہ کمزور رہا ہے بلکہ کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس نے یا اس کے ساتھیوں نے یہ محسوس کیا ہو کہ اس کا پلہ بھاری رہا ہے.میں بچہ تھا.غالباً میری عمر اُس وقت ۱۷ ، ۱۸ سال ہوگی کہ میں لاہور گیا اور ایک دوست سے کہا کہ چلو تبلیغ کریں.اللہ تعالیٰ نے جس سے بڑے کام لینے ہوتے ہیں اُس کو حو صلے بھی بلند دیتا ہے.میں نے بھی تبلیغ کے لئے کسی معمولی آدمی کو نہیں چنا بلکہ اُس زمانہ میں شمالی ہندوستان کے لئے عیسائیوں کا جو مشنری کالج تھا اُس کے پرنسپل

Page 805

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء ریورنڈو ڈ(REVEREND WOOD) کو اس کام کے لئے منتخب کیا.اُس کی عمر اس وقت ۵۰ ، ۵۵ سال کی ہوگی.اور پھر اُس نے ساری عمر اسی کام میں گزاری تھی مگر میری عمر اس وقت ۱۷، ۱۸ سال سے زیادہ نہ تھی اور میں طالب علم تھا لیکن میں نے تبلیغ کے لئے اُسی کو چنا.اور پندرہ بیس منٹ کی گفتگو میں ہی میں میں نے اُس کا ناطقہ ایسا بند کر دیا کہ وہ گھبرا گیا اور یونانی کی ایک مثال پڑھ کر اُس کا مطلب بیان کیا کہ سوال تو ہر جاہل شخص کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند چاہئے.اس کا مطلب تھا کہ تم تو اعتراض کر رہے ہو اور اعتراض ہر شخص حتی کہ بیوقوف بھی کر سکتا ہے اور اس طرح اس نے مجھ پر طنز کر کے اپنا پیچھا چھڑانا چاہا.مگر خدا تعالیٰ نے اس طنز میں بھی مجھے غالب کیا.میں نے پلا ساختہ اسے جواب دیا کہ میں تو آپ کو عقلمند ہی سمجھ کر آیا تھا اور وہ یہ جواب سن کر شرمندہ ہو گیا.یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں طالب علم تھا اور طالب علم بھی وہ جو کبھی کسی جماعت میں پاس نہیں ہوا.میں سمجھتا ہوں کہ ظاہری امتحانوں میں اللہ تعالیٰ نے مجھے شاید اسی لئے کبھی کامیاب نہ ہونے دیا تا جماعت کے سامنے ایک زندہ مثال رہے کہ جن کو خدا تعالیٰ بڑھا تا ہے اُنہیں ظاہری علوم کی ضرورت نہیں ہوتی.تم لاؤ کسی فن اور کسی علم کے آدمی کو جو مجھ سے بات کرے فلسفی ، اقتصادیات کا ماہر، تاریخ دان ، سائنس دان ،غرضیکہ کسی علم کا جاننے والا آ کر اسلام پر کسی رنگ میں اعتراض کرے میرا نہ صرف یہ دعوی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی نصرت سے اسے اس میدان میں شکست دے سکتا ہوں بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ میں اُسے قرآنی دلائل سے شکست دے سکتا ہوں.یہ اللہ تعالیٰ نے ایک نشان رکھا ہے اُن لوگوں کے لئے جو تبلیغ سے اس وجہ سے کتراتے ہیں کہ ہمیں علم نہیں.ایمان کے ہوتے ہوئے علم دوسروں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی.ایمان علم آپ سکھا لیتا ہے جب ایمان کی صیقل چڑھ جائے تو بڑے بڑے لارڈ پادریوں اور علماء کا مقابلہ انسان کر سکتا ہے.لیکن ہر شخص کا ایمان چونکہ اس پایہ کا نہیں ہوتا ہر مؤمن سے ہم یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ بڑے سے بڑے آدمی سے بڑھ جائے.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ ہر مؤمن کو اپنے طبقہ کے ہر شخص پر ضرور فوقیت حاصل ہوتی ہے.پس کوئی شخص اپنے علم کی کمی کے عذر کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا لیکن افسوس کہ بہت کم لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا قادیان کے لوگ اس تحریک سے سب جماعت میں اول رہے ہیں.لیکن اس میں کسی قدر جبری بھرتی کا بھی دخل ہے.اگر یہاں کے لوگ بھی اپنی ذمہ واری کا پوری طرح

Page 806

خطبات محمود ۸۰۱ سال ۱۹۳۵ء احساس کرتے تو یہاں سے ہی دو اڑھائی ہزار آدمی مل سکتا تھا.اور اگر قریب کی جماعتیں مثلاً ضلع گورداسپور ، اضلاع لاہور، سیالکوٹ ، گجرات ، جالندہر، ہوشیار پور ، امرتسر کی جماعتیں بھی اس تحریک پر صیح طور پر لبیک کہتیں تو اتنے آدمی مل سکتے تھے کہ تبلیغ کے موجودہ میدانوں کو بہت زیادہ وسیع کیا جا سکتا تھا.مگر اب تو یہ حال ہے کہ صرف چار علاقوں میں تبلیغ ہو رہی ہے اور ان کے لئے بھی کافی آدمی نہیں مل رہے حالانکہ یہ بہت ہی مفید کام ثابت ہوا ہے.کئی نئی جماعتیں پیدا ہوئی ہیں اور کئی قائم ہونے والی ہیں.کئی لوگ ایسے ہیں جو توجہ کر رہے ہیں اور کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں لوگوں کے لوگ جماعت در جماعت سلسلہ میں داخل ہونے کی توقع ہے.مگر نقص یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ ہیں آدمی اس علاقہ میں گئے ہیں تو دوسری دفعہ دس ہی بھیجے جا سکے ہیں اور بقیہ دس لوگوں کے زیر تبلیغ رہ چکنے والوں کو جو سلسلہ کے قریب ہو چکے تھے خالی چھوڑ دینا پڑا ہے.زیر تبلیغ لوگوں کے لئے مسلسل تبلیغ کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور جو لوگ احمدیت میں داخل ہو کر پکے نہیں ہو جاتے ، اُن کے لئے ایک مہینہ کا وقفہ بھی مضر ہوتا ہے.جس طرح بچے ایک ماہ کی رُخصتوں کے بعد آتے ہیں تو پہلا لکھا پڑھا اُنہیں سب کچھ بھول چکا ہوتا ہے اسی طرح جو لوگ مذہب کو پوری طرح سمجھ نہ چکے ہوں انہیں ایک ماہ بھی خالی چھوڑ دیا جائے تو وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں.پس جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ وہ ہر فن اور ہر پیشہ کے لوگ کم سے کم ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کریں ان کے علاوہ دو سو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جودو تین ماہ دے سکیں تا انہیں انچارج بنایا جا سکے.لیکن ایسے لوگ نسبتا زیادہ تعلیم یافتہ ہونے چاہئیں کیونکہ انہیں رپورٹیں لکھنی ہوں گی.اور اگر کسی جگہ احمد یوں کو دُکھ دیا جا رہا ہو تو افسروں سے بھی ملنا ملانا پڑے گا.اس لئے یہ لوگ پڑھے لکھے اور تجربہ کار ہوں.اگر جماعت کے لوگ اس طرح اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کریں تو نہ صرف یہ کہ ان کے علم اور تجربہ میں زیادتی ہوگی بلکہ چند سالوں میں ہماری تبلیغ میں بھی اتنی وسعت پیدا ہو جائے گی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں.گھروں میں بے شک تبلیغ کرومگر اس طرح ایک ایک مہینہ کے لئے وقف کرنا کئی لحاظ سے فائدہ مند ہے.جو لوگ اس طرح تبلیغ کے لئے گئے ہیں ان میں سے کئی اگر چہ کورے ہی واپس آئے ہیں مگر بہت سے ہیں جن کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ہمیں اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے تا آئندہ زیادہ اچھی طرح تبلیغ کر سکیں.یہ رکوع جس کی میں نے آج تلاوت کی ہے اس میں

Page 807

خطبات محمود ۸۰۲ سال ۱۹۳۵ء اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے ہی جماعتی کاموں کی طرف بلایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے آتے ہیں کہ ساری قوم کو قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی نیک نتائج پیدا نہیں کر سکتی بلکہ قوم کو تباہ کر دیتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَالَكُمْ إِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمُ بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ - اے وہ لوگو جو ایمان لائے جب تم کہتے ہو کہ ہم ایمان لائے تو ایمان کے اس دعویٰ کے بعد وجہ بتاؤ کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے راستہ میں ڈورڈ ورنکل جاؤ اور جلدی جلدی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر آ جاؤ تو کیوں نہیں آتے.نفر کے ایک معنے دور دور نکل جانے کے ہیں اور ایک جلدی آجانے کے ہیں.آج ریل اور جہاز سفر کے لئے موجود ہیں اور ہم کچھ مدد بھی دے دیتے ہیں ڈاک کا انتظام موجود ہے اور ہر جگہ کے حالات معلوم کر سکتے ہیں لیکن صحابہ کرام کے زمانہ میں نہ ریلیں تھیں اور نہ جہاز.پھر سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ڈاک کا کوئی انتظام نہ تھا اور پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہمارا فلاں رشتہ دار کہاں ہے اور کس حال میں ہے مگر باوجود اس کے صحابہ کے اخلاص کا یہ حال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب اختلاف پیدا ہوا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی شروع ہو گئی تو ایک صحابی نے کہا کہ اب یہاں جہاد کا میدان ختم ہے چلو ہم کہیں اور چلیں.اور وہ چین کی طرف نکل گئے اور وہاں اسلام کی بنیاد رکھی.اور آج چین میں جو سات کروڑ مسلمان ہیں ، ان سب کا ثواب اُن کو ملتا ہو گا.غور کرو کہ کہاں عرب ہے اور کہاں چین.ہندوستان دونوں کے درمیان ہے.چین کی سرحد یہاں سے چار پانچ سو میل ہے اور عرب سے دو ہزار میل لیکن ہم ابھی تک اہلِ چین کی خبر نہیں لے سکے حالانکہ اب سفر کی سہولتیں میسر ہیں، ڈاک کا سلسلہ ہے.اور ان مقامات پر بھی جہاں ڈاک بہت دیر سے پہنچتی ہے چھ ماہ کے اندر متعلقین کے حالات کا علم ہو سکتا ہے مگر اُس زمانہ میں یہ باتیں نہ تھیں.اور تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ رشتہ داروں کی تلاش میں عمریں صرف کر دیتے تھے.ایک بچہ جب جوان ہوتا تو باپ کی تلاش میں نکلتا تھا اور اسی میں بوڑھا ہو جاتا تھا لیکن آج ڈھائی آنہ کا خط ساری دنیا میں خبریں پہنچا دیتا ہے.پھر اُس زمانہ میں لوٹ مار کا سلسلہ بہت زیادہ تھا مگر اب نہیں.چین کے بعض حصوں میں بے شک ابھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن جاپان ،سٹریٹ سیٹلمنٹس ، جاوا ، سماٹرا ، وغیرہ میں

Page 808

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء جاؤ وہاں کوئی خطرہ نہیں.پھر ریلوں اور جہازوں کا سفر ہے اور زائد چیز یہ ہے کہ امداد کی بھی صورت ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود تمہارے اندر وہ جوش نہیں جو پہلے زمانہ میں صحابہ کے اندر تھا حالانکہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو ہمارے لئے اسوہ حسنہ بنایا ہے اور رسول کریم ﷺ کی زندگی سے مراد صرف آپ کی ذاتی زندگی ہی نہیں بلکہ صحابہ بھی اس میں شامل ہیں وہ بھی آپ کی زندگی کا جزو ہیں اور جیسی قربانیاں انہوں نے کیں ایسی ہی خدا تعالیٰ ہم سے بھی چاہتا ہے.اگر ہم میں ایسے لوگ پیدا نہ ہوں تو ہم کس طرح اُن جیسا ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اس کے لئے ایسے نو جوانوں کی ضرورت ہے جو تعلیم سے فارغ ہو چکے ہوں اور باہر نکل جائیں مگر ہزاروں ایسے فارغ التحصیل نوجوان ہیں جو گھروں میں بیٹھے روٹیاں تو ڑ رہے ہیں اور ماں باپ کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں مگر کوئی مفید کام نہیں کرتے پس میں جماعت کے دوستوں کو پھر خدا تعالیٰ کے الفاظ میں توجہ دلاتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَالَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ انَّا قَلْتُمُ إِلَى الاَرضِ.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اس کی وجہ بتاؤ اگر تم مؤمن نہیں ہو تو پھر تو یہ کہہ سکتے ہو کہ ہمیں کوئی علم نہ تھا کہ حضرت مرزا صاحب بچے ہیں پھر تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ہمارا اس بات پر ایمان نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پھیل جانے کا حکم ہے.پھر تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ کہہ دو کہ قرآن کریم میں اس کے لئے ثواب اور انعام کا جو وعدہ ہے ہم اُس پر یقین نہیں رکھتے لیکن جب تم کہتے ہو کہ ہم ایمان لائے ، اور جب تمہیں علم ہے کہ تبلیغ کا قرآن کریم میں عام حکم ہے اور صراحتا انفرو ا کا حکم موجود ہے یعنی دُور نکل جاؤ اور کلام الہی کو پھیلاؤ.پھر قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کلام کے بڑے بڑے اجر ہیں تو ان سب باتوں کے ماننے کے باوجود تم بتاؤ کہ تمہیں کیا عذر ہے کہ جب تم دین کی خدمت کے لئے جماعتی طور پر بلایا جاتا ہے تو تم فوراً اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے.اِنْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللہ میں دُور دُور نکل جانے کا بھی حکم ہے اور چند ماہ کے وقف کی جو صورت میں نے پیش کی ہے وہ بھی اس میں شامل ہے کیونکہ اِنفِرُوا کے معنے صرف جلدی سے نکل کھڑے ہونے کے بھی ہوتے ہیں.کئی لوگ یہ عذر کر دیتے ہیں کہ ہم گھروں میں ہی تبلیغ کرتے ہیں مگر گھروں میں یکسوئی سے تبلیغ نہیں ہو سکتی.وہاں آدمی بیوی بچوں کے مشاغل میں الجھا رہتا ہے.کبھی بچہ بیمار ہو گیا تو اُس کی طرف متوجہ ہونا پڑا، کبھی اور طرف توجہ بٹ گئی.لیکن دوسرے علاقہ میں دوسرے

Page 809

خطبات محمود ۸۰۴ سال ۱۹۳۵ء مشاغل سے بالکل فارغ ہو جاتا ہے.پس میں پھر جماعت کے دوستوں کو تو جہ دلاتا ہوں کہ یا تو وہ تبلیغ کے لئے کچھ وقت یا پورے وقت کو پیش کریں یا وجہ بتا ئیں کہ وہ کیوں ایسا نہیں کرتے.تم سے یہ سوال میں نے آج پوچھا ہے لیکن اپنے ایک بچہ سے آج سے چار پانچ مہینہ پہلے یہ سوال کیا تھا حالانکہ وہ تعلیم میں مشغول ہے کہ وجہ بتاؤ تم نے اپنا نام تبلیغ کے کئے کیوں پیش نہیں کیا ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اعلان دوسروں کے لئے ہی ہوتے ہیں اور تمہارے لئے نہیں.اگر میں تمہیں حکم نہیں دیتا تو اس لئے کہ تم میرے حکم سے دین کی خدمت کرنے کی وجہ سے ثواب سے محروم نہ ہو جاؤ اور چاہتا ہوں کہ نیکی کی تحریک تمہارے اپنے دل میں پیدا ہو.تمہارا فرض تھا کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرتے.تو یہ سوال میں اپنے لڑکوں سے پہلے پوچھ چکا ہوں اور آج باقی لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنے نفسوں سے پوچھ کر بتاؤ کہ کیوں اس حکم پر تم عمل نہیں کرتے.یا تو کہو کہ تبلیغ ضروری نہیں یا احمدیت کی صداقت ہم پر ظاہر نہیں ہوئی یا یہ ثابت کرو کہ اس کے نتیجہ میں تم خدا تعالیٰ کی رضا کے امیدوار نہیں ہو.جو شخص ان باتوں میں سے کوئی بات کہہ دے میں اُس پر جبر نہیں کر سکتا.لیکن اگر احمدیت کچی ہے، اگر قرآن کریم کے ان احکام پر عمل ضروری ہے، اگر اس کے نتیجہ میں انعام حاصل ہونے پر تمہارا ایمان ہے تو پھر بتاؤ کہ خدا تعالیٰ سے تم یہ تمسخر کر رہے ہو یا نہیں کہ کہتے کچھ ہوا ور کرتے کچھ ہو.صحابہ کرام میں سے تو ایک بڑے حصہ نے اپنے وطن دین کے لئے چھوڑ دیئے اور میں تو تم سے صرف ایک یا دو مہینہ وقف کر دینے کا مطالبہ کرتا ہوں.یاد رکھو یہ مطالبہ میری طرف سے نہیں بلکہ خدا نے میرے ذریعہ سے یہ مطالبہ کیا ہے تا پتہ لگ جائے کہ تم میں سے کتنے ہیں جنہیں اگر وطن چھوڑ دینے کے لئے بلایا جائے تو وہ اس کے لئے تیار ہوں گے.جس طرح ریز رو فورس کو سال میں ایک مہینہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے یہ ٹرینگ بالکل اسی طرح کی ہے اور جو شخص ایک مہینہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اُس کے متعلق امید کی جا سکتی ہے کہ اگر بارہ مہینوں کی ضرورت ہوئی تو بھی وہ ضرور اپنے آپ کو پیش کر دے گا.لیکن جو لوگ ایک مہینہ کے لئے بھی اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے ، اُن کو میں کس طرح ایسے لوگوں کی فہرست میں شامل کر سکتا ہوں جن کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو وہ اپنے وطنوں کو چھوڑ دیں گے.

Page 810

خطبات محمود ۸۰۵ سال ۱۹۳۵ء مشہور ہے کہ اکبر بادشاہ کے دربار میں یہ سوال پیش ہوا کہ اندھے زیادہ ہیں یا سو جا کھے؟ اس کے دربار میں ایک شخص مولوی عبد القادر نامی تھے.انہوں نے کہا اندھے بہت زیادہ ہیں.بادشاہ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ ان کے اصرار پر اُس نے حکم دیا کہ اندھوں اور سو جا کھوں کی لٹیں تیار کی جائیں اور انہی مولوی صاحب کو اس کام پر مقرر کیا.مولوی عبد القادر صاحب ایک بڑے بازار میں بیٹھ گئے اور لسٹ بنانے لگے.بادشاہ بھی ان کا کام دیکھنے کے لئے بازار میں سے گزرے.دوسرے دن جب اندھوں کی فہرست بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی تو سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہی اُس میں لکھا ہوا تھا.بادشاہ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ مولوی عبد القادر صاحب نے کہا کہ حضور ! میں بازار میں وقت گزارنے کے لئے رشی بٹ رہا تھا جب آپ گزرے تو آپ نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ آپ دیکھ نہیں سکتے ورنہ ہر آنکھ والا شخص دیکھ سکتا تھا کہ میں رہتی بٹ رہا تھا.اُن کا مطلب در حقیقت یہ تھا کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں عقل سے کام نہیں لیتے پھر وہ بینا کہلانے کا مستحق کیونکر ہو سکتے ہیں.اور نا بینا سے مراد عقل کے اندھے تھے نہ کہ ظاہری آنکھوں سے محروم.اب تم بتاؤ کہ اگر میں ایسے لوگوں کی لسٹیں بنانا چاہوں جن کے متعلق مجھے یقین ہو کہ وہ خدا کے لئے اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ دیں گے تو اِس فہرست میں کن کا نام لکھوں.کیا اُن کو میں اس میں شامل کر سکتا ہوں جنہوں نے ایک مہینہ بھی تبلیغ کے لئے وقف نہیں کیا ؟ کیا تم امید کرتے ہو کہ اس فہرست میں میں ایسے لوگوں کے نام لکھ دوں اور کہوں کہ اے خدا ! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا سب کچھ تیری راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں؟ اگر میں ایسا کروں تو بتاؤ کہ کیا میرا نام بھی جھوٹوں میں نہیں لکھا جائے گا ؟ اس لئے میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں.خدا تعالیٰ کا دین مر چکا ہے وہ اسے زندہ کرنا چاہتا ہے.اور اس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور آپ لوگوں نے اس خدمت کو اپنے ذمہ لیا ہے آپ کے وعدے تو بیعت کے ذریعہ بہت بڑے ہیں.سر دست صرف وعدہ کا ایک حصہ پورا کرنے کے لئے میں آپ لوگوں کو بلا رہا ہوں.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ میری آواز پر لبیک کہہ کر اپنے وعدوں کی سچائی کا ثبوت دیں.جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں موجودہ حالات کے مشابہہ حالات میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو حکم دیا ہے

Page 811

خطبات محمود ۸۰۶ سال ۱۹۳۵ء کہ تم مسلمانوں سے پوچھو کہ وجہ کیا ہے جب تم سے کہا جاتا ہے کہ دور دور نکل جاؤ یا کچھ حصہ اپنے اوقات کا خدا کے لئے دو تو انسا قسلْتُم تم دنیا کے کاموں میں محور بہتے ہو اور اس حکم کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہو.وہی سوال میں آج آپ لوگوں سے کرتا ہوں.دشمن ہماری ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے جب میں نے یہ خطبہ پڑھا تھا تو کیا اُس نے آنکھیں بند کر لی تھیں ؟ نہیں بلکہ جب ان مخالفوں نے جو اُس وقت مجلس میں بیٹھے تھے یہ خطبہ سنا تو چاروں طرف دیکھا کہ کون ہے جو اس پر لبیک کہتا ہے پھر جب یہ اخباروں میں چھپا اور دشمنوں نے اسے پڑھا تو سب دشمن دیکھنے لگے کہ احمدی اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں.وہ سال بھر دیکھتے رہے کہ احمدی اِنَّا قَلْتُمْ کے مصداق ہوتے ہیں یا نفور کرتے ہیں.بیشک یہ صیح ہے کہ اگر غیر احمدیوں کے سامنے یہ مطالبہ پیش کیا جاتا تو باوجود اس کے کہ ان کی تعداد آٹھ کروڑ ہے ان میں سے اتنے لوگ بھی اپنے آپ کو پیش نہ کرتے جتنے احمدیوں نے پیش کئے ہیں مگر ہم نے غیروں پر ناز کرنا ہے یا اپنے رب کو راضی کرنا ہے ؟ اگر ہمارا کام فخر کرنا ہی ہوتا تو ہم ہر سٹیج پر جا کر یہ کہہ سکتے تھے کہ تم لوگ ہمارا کیا مقابلہ کر سکتے ہو تم مُردہ ہو اور ہم زندہ لیکن جب ہم نے خدا تعالیٰ کو جواب دینا ہے تو پھر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم میں سے بہت لوگ ابھی ست ہیں.کیا کوئی عقل مند مجسٹریٹ کے سامنے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں قتل کے جرم سے اس لئے بری ہوں کہ میں نے صرف ایک تلوار ماری تھی اور فلاں نے دس.اگر کسی مجسٹریٹ کے سامنے جس کی عقل پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو یہ عذر نہیں چل سکتا تو خدا تعالیٰ کے حضور یہ جواب کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے.جب کوئی عقل مند کسی مجسٹریٹ کے سامنے یہ عذر پیش نہیں کر سکتا تو تم خدا تعالیٰ کے حضور کس طرح پیش کر سکتے ہو.تم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ عذر بھی پیش نہیں کر سکتے کہ ہم میں تعلیم نہ تھی کیونکہ وہ کہے گا کہ جن کو تم نے تبلیغ کرنی تھی کیا وہ سارے تعلیم یافتہ ہی تھے ؟ میں تم پر فضل کرنے والا ہوں اور جانتا ہوں کہ احمدی ہوتے ہی میں نے تمہاری عقل اور فہم کو تیز کر دیا تھا.میں تمہارا اُستاد ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ عذر جھوٹ ہے.جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا سچا دین قبول کرتا ہے تو اس کو عقل اور علم دونوں دیئے جاتے ہیں پس تم یہ جواب بھی نہیں دے سکتے.تم غیر کو تو دھوکا دے سکتے ہو مگر اپنے خدا کو جو تمہارا اُستاد ہے دھوکا نہیں دے سکتے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرَضِيْتُمُ بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا

Page 812

خطبات محمود ۸۰۷ سال ۱۹۳۵ء فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ کیا تم آخرت کے بدلہ میں دُنیوی زندگی پر راضی ہو گئے ہو ؟ یعنی اصل وجہ دینی خدمت میں ستی کی یہی ہے کہ آدمی خیال کر لیتا ہے.کون اپنا کام چھوڑ کر جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں جنت کی زندگی پسند نہیں ہے اور اگر واقعہ میں پسند نہیں.وہ کیوں خواہ مخواہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا.ایک شخص اپنے دوست کیلئے پلاؤ تیار کراتا ہے مگر وہ کہتا ہے پھینکو اسے مجھے روٹی ہی اچھی ہے تو وہ ہر گز اُسے زبر دستی پکڑ کر پلاؤ اُس کے منہ میں نہیں ڈالے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم سے کہا جاتا ہے کہ آؤ جنت کے لئے سامان مہیا کر لو تو تم اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.جس کے معنے یہ ہیں کہ تمہیں اُخروی زندگی پسند نہیں.اور جب تمہیں پسند نہیں تو پھر مجھے کیا ضرورت ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ جنت دوں.اس دنیا میں ہی تم جتنا مزا اٹھانا چاہتے ہو اُٹھا لومگر جنت کی مجھ سے امید نہ رکھو.ہاں ایک نصیحت ہے جو میں تمہیں کرنا چاہتا ہوں یہ تمہاری مرضی ہے کہ بے شک دنیوی زندگی کو پسند کر لو مگر یہ تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ یہ ختم ہو جانے والی ہے.آخرت کے مقابلہ میں یہ دنیا چند سالہ ہے اگر تم یہ سمجھ لو کہ یہی زندگی زیادہ شیر میں ہے تو بھی تم اسے تو تسلیم کر و گے کہ اس کا عرصہ بہت تھوڑا سا ہے اور آخرت اگر اس سے کم اچھی ہے تو بھی وہ لمبی ضرور ہے.کیا کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ ایک وقت وہ پلاؤ کھالے اور باقی عمر اُسے سوکھی روٹی کھانی پڑے جس سے دانت ٹوٹ جائیں.پس اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ آخرت کی زندگی کا مزہ اس زندگی سے کم ہے تو بھی وہ اچھی ہے کیونکہ وہ لمبی ہے اور کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ ایک وقت پلاؤ زردہ کھا کر عمر بھر فاقہ سے رہے اس کے مقابلہ میں باقاعدہ دال روٹی کو وہ زیادہ پسند کرے گا.تو اللہ تعال فرماتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ تم اس دنیا کو اگلے جہان پر ترجیح دو.پھر فرمایا.إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَّ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَّ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.اگر تم اس کام کے لئے نہیں نکلو گے تو تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا.يُعَذِّبُكُمُ عَذَابًا أَلِيمًا وہ تم کو درد ناک عذاب میں مبتلاء کرے گا.آج تو تم یہ شکایت کرتے ہو کہ دشمن تمہیں گالیاں دیتے ہیں اور دل دُکھتا ہے لیکن اگر تم تبلیغ کرتے تو یہ حالت کیوں ہوتی.یہ تم چالیس سالہ سستی کا ہی نتیجہ بھگت رہے ہو اگر ہر فرد نے خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ایک ایک مہینہ ہی لگایا ہوتا تو آج ہمیں تسلی ہوتی اور ہم کہہ سکتے تھے کہ خدایا ! ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا.یہ گالیاں تیری تقدیر کی وجہ سے مل رہی ہیں لیکن تم اپنے

Page 813

خطبات محمود ۸۰۸ سال ۱۹۳۵ء دل کوٹو لو کہ خدا کی دستگیری کی وجہ سے تم احمدی ہوئے ہو یا احمدیوں کی کوششوں سے.ہر شخص محسوس کرے گا کہ زیادہ تر اُس کی احمدیت میں خدا تعالیٰ کے فضل کا دخل ہے.اس میں شک نہیں کہ احمدی بھی کوششیں ضرور کرتے ہیں لیکن سینکڑوں، ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو خوابوں کی بناء پر احمدیت میں داخل ہوئے بہت سے ایسے ہیں کہ انہوں نے خود تحقیقات کی.اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس احمدی پہنچے.انہوں نے ان کو مارا پیٹا ، گالیاں دیں مگر آخر کار وہ احمدی ہو گئے مگر زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے اپنی خوابوں یا اپنی تحقیقات یا مخالفوں کے ذریعہ ہدایت پائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک بڑے ادیب آئے اور بیعت کی وہ ایک اردو زبان کی لغت تیار کر رہے تھے مگر ختم کرنے سے پہلے فوت ہو گئے.ریاست رام پور کی طرف سے ان کے لئے وظیفہ مقرر تھا.بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کو تبلیغ کس نے کی؟ تو انہوں نے بے ساختہ جواب دیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے.جب ان پوچھا گیا کس طرح؟ تو انہوں نے کہا کہ اُن کی مخالفانہ تصانیف کو دیکھ کر خیال پیدا ہوا کہ یہ کوئی اہم معاملہ ہے.پھر اتفاقا کہیں درنشین مل گئی اُسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسلام دشمنی کا جو الزام وہ لگاتے تھے سراسر جھوٹ تھا.اس پر مزید مطالعہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے سینہ کھول دیا.تو ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کو مخالفوں نے تبلیغ کی اور آج بھی جتنے لوگ احمدیت کے نام سے واقف ہیں ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو احرار کی کوششوں کی وجہ سے واقف ہیں ہماری وجہ سے کم ہیں.اس لئے ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تبلیغ کے لئے نہیں نکلو گے تو درد ناک عذاب میں مبتلاء کئے جاؤ گے اور اس سے زیادہ درد ناک عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ ہماری غفلت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے مامور اور اُس کے نشانوں کو گالیاں دی جائیں.اگر دل میں ذرہ بھی ایمان ہو اس نظارہ سے دل پھٹ جاتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ ایک اور عذاب ہے.چنانچہ فرمایا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ.پہلے تو تمہیں دُکھ دلوائیں گے اور پھر تم کومرتذ کرا دیں گے اور تمہاری جگہ اور لوگ ایمان لے آئیں گے.استبدل.ایک چیز لے لینے اور دوسری دینے کو کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں گے اور دوسروں کو ایمان نصیب کر دیں گے.وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا اور وہ بڑی بڑی ڈینگیں مارنے والے جو کہا کرتے تھے کہ ہم نے یوں قربانی کی اور اس طرح دین کی امداد کی اُن سے

Page 814

خطبات محمود 1 +9 سال ۱۹۳۵ء کہیں گے کہ تم اپنی ساری قربانیاں گھر لے جاؤ پھر بھی سلسلہ کو کوئی ضعف نہیں پہنچے گا.تم مرتد ہو جاؤ گے، چلے جاؤ گے، پھر بھی سلسلہ ترقی کرے گا.وَاللهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.یہ مت خیال کرو کہ ہم پر ہی ساری ذمہ داریاں ہیں اگر ہم یہ کام نہ کریں گے اور کون کرے گا.جس خدا نے تمہیں ایمان دیا تھا وہ مرتد بھی کر سکتا ہے اور دوسروں کو ایمان نصیب کر سکتا ہے.پس اگر تم گھروں سے نہ نکلو گے تو پہلے ہم تمہیں دشمنوں سے عذاب دلوائیں گے اور پھر مرتذ کر کے اگلے جہان میں خود عذاب دیں گے تم یہ نہ سمجھو کہ ایمان کے بعد ارتداد کس طرح ہو سکتا ہے.اردگرد دیکھو.کتنے ہیں جو بستیوں کی وجہ سے ارتداد کی طرف چلے گئے ہیں.ایک ارتداد کا درمیانی طبقہ پیغامی ہیں جن کا بڑا کام آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کی تخفیف کرنا رہ گیا ہے.وہ بڑی بے تکلفی سے کبھی ظلی نبوت کی تخفیف کریں گے ، کبھی کہیں گے کہ ظل کو تو جوتے مارنے بھی جائز ہوتے ہیں.ان میں اگر کوئی سمجھ دار ہو اور غور کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو عظمت ان کے دلوں میں پہلے تھی ، کیا اب بھی وہی ہے تو اسے بڑا فرق نظر آئے گا.میں نہیں سمجھتا کہ وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو عقیدت ان کے دلوں میں پہلے تھی وہی اب ہے.غیر احمدیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ ان لوگوں کے دلوں میں احمدیت کے لئے جو جوش پہلے تھا کیا اب بھی ہے ؟ غالباً وہ بھی یہی شہادت دیں گے کہ پہلے وہ احمدیت کا بہت جوش رکھتے تھے مگر اب وہ سرد ہے.پھر ان سے آگے چلے جاؤ تو وہ لوگ بھی موجود ہیں.جو حقیقی معنوں میں مرتد ہو چکے ہیں اور گالیاں دینا ان کا صبح شام کا شغل ہے.پس یہ ناممکن امر نہیں اور مؤمن کو ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ستی کی سزا میں ایمان ضائع ہوکر ارتداد کا عذاب نہ نازل ہو جائے.اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَه بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.فرمایا.خدا تعالیٰ تو تمہیں ثواب حاصل کرنے کا موقع دینا چاہتا ہے ورنہ اگر تم مدد نہ بھی کرو گے تو بھی خدا خود اپنے رسول کی مدد کرے گا.اور خدا تعالیٰ اس سے پہلے ایسے اوقات میں اس کی امداد کر چکا ہے جبکہ اس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا.اگر بندوں کی مدد سے ہی اس کا کام چل سکتا ہے تو اُس وقت اُس کی کون مدد کرتا تھا.تم سارے تو اُس وقت تلوار میں لئے

Page 815

خطبات محمود ۸۱۰ سال ۱۹۳۵ء پھرتے تھے ، اسے قتل کرنا چاہتے تھے مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے اسکی مدد کی.اور یہ اتنی کھلی بات ہے کہ کا فر بھی اسے محسوس کرتے ہیں.کار لائل انگلستان کے چوٹی کے مصنفین میں سے ایک ہے اور ایسے مصنفین میں سے ہے جو اقوام کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں.وہ لکھتا ہے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.مگر میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی.جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو اسکے صاف معنے ہیں کہ کوئی تلوار چلانے والے بھی تھے پس سوال یہ ہے کہ وہ تلوار چلانے والے کہاں سے آئے تھے اور انہیں اسلام میں کون لایا تھا ؟ اگر کہو کہ وہ تبلیغ سے مسلمان ہوئے تھے تو جو مذہب تلوار چلانے والوں کو فتح کر سکتا تھادوسروں کو بھی فتح کر سکتا تھا.یہ کیا ہی فطرت کے مطابق جواب ہے غرض اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اگر تم کہہ دو کہ ہم سے مدد نہیں ہو سکتی تو تمہاری مدد کی ضرورت ہی کیا ہے تم صاف کہ دو ہم نہیں کرتے.یہ درمیانی طریق کیوں اختیار کرتے ہو.میں بھی یہی بات آج جماعت سے کہتا ہوں کہ اگر تم میری مدد اس حد تک نہیں کرنا چاہتے جس حد تک میرے نزدیک دین مدد کا محتاج ہے تو صاف کہہ دو.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ خواہ آسمان سے اُتارے یا زمین سے نکالے اپنے سلسلہ کی ترقی کے سامان خود کرے گا.تم کہہ دو کہ ہم ساتھ نہیں جاسکتے یا صرف فلاں حد تک جانے کے لئے تیار ہیں.جو ایسا کہہ دے گا اُس کی بیعت اگر میں چاہوں تو رکھوں گا ورنہ نہیں.اور اگر رکھوں گا تو پھر ساتھ نہ چلنے کا اُس پر مجھے شکوہ نہ ہو گا شکوہ ہے تو ان لوگوں پر جو بیعت کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ہمارا سب کچھ حاضر ہے مگر پھر ساتھ نہیں چلتے بلکہ جب حقیقی قربانی کا وقت آتا ہے ستی دکھاتے ہیں.دیکھو! ایک شخص اگر دوسرے سے کہے کہ تم اس سال غلہ نہ خرید و اور کوئی انتظام نہ کرو اس سال کے لئے میں تمہارے غلہ کا ذمہ دار ہوں اور پھر غلہ کا انتظام بھی نہ کرے تو اُس پر ضرور شکوہ ہو گا لیکن اگر وہ نہ آتا اور کوئی وعدہ نہ کرتا تو پھر اُس پر کوئی شکوہ نہ ہوتا بلکہ اس پرشکوہ کرنے والے کو ہر شخص بے حیا کہتا.لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ تم سامان نہ کر واب کے سال غلہ میرے ذمہ ہے اور میں بھیج دوں گا تو پھر نہ بھیجنے کی صورت میں اسے بے حیا کہا جائے گا.تو اس نے خواہ مخواہ دوسرے کو دھوکا دیا اور اس کے لئے تکلیف کا موجب ہؤا.اسی طرح میرا تم پر کوئی حق نہیں بلکہ تم پر تو

Page 816

خطبات محمود سال ۱۹۳۵ء کیا مذہب کے بارہ میں میرا اپنے بیوی بچوں پر بھی کوئی حق نہیں.اگر میری کوئی بیوی یا بچہ کہہ دے کہ میں احمدی نہیں تو مذہبی لحاظ سے اُس پر میرا کوئی حق نہیں.اور اسی طرح اگر تم میں سے کوئی یہ کہہ دے کہ وہ بیعت میں نہیں رہنا چاہتا یا بعض شرائط کے ساتھ بیعت رکھنا چاہتا ہے اور میں اُس کی بیعت کو قبول کرلوں تو میرا حق نہیں کہ ان شرطوں سے آگے اُسے جانے کے لئے مجبور کروں.جیسے رسول کریم نے اہل مدینہ کی پہلی بیعت میں شرط منظور کی تھی کہ مدینہ کے مسلمان اُسی وقت رسول کریم کے دشمنوں سے جنگ کریں گے جب کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہوں.مدینہ سے باہر وہ لڑائی کے ذمہ دار نہ ہوں گے.اگر اسی طرح آج کوئی شرطی بیعت کرنا چاہتا ہے تو اسے بیعت سے پہلے واضح کر دینا چاہئے تا کہ میں چاہوں تو اُس کی بیعت قبول کروں اور چاہوں تو رڈ کر دوں.اور اگر ایسے شخص کی بیعت منظور کروں تو بے شک میرا حق نہیں ہو گا کہ اُسے اُس حد سے آگے لے جاؤں جس حد تک ساتھ چلنے کا اُس کا وعدہ ہو.لیکن جو شخص پہلے بے شرط بیعت کرتا اور بعد میں شرطیں باندھتا ہے.دین کے لئے قربانی کرنے سے ہچکچاتا اور بہانے بناتا ہے وہ نہیں کہ سکتا کہ مجھ سے کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے میں کہوں گا کہ تمہارے اپنے اقرار کی وجہ سے تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے پس اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ دریافت کرتا ہے کہ میں تو تم سے مدد مانگنے کے لئے نہیں گیا تھا تم نے خود کہا تھا کہ ہم مہاجر اور انصار بنتے ہیں ورنہ جب تم نہیں تھے اُس وقت بھی خدا اپنے رسول کی مدد کرتا تھا تم نے کہا ہم مدد کرتے ہیں خدا تعالیٰ نے کہا کہ اچھا! ہم خدمت کا موقع تمہیں دیتے ہیں ہاں اگر تم خود مدد کرنا نہ چاہو تو ہم تمہیں مجبور نہیں کر سکتے.یہ دیکھ لو کہ جب ہمارا رسول صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے باہر نکلا تھا اس وقت اُس کی کس نے مدد کی تھی ؟ یا د رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ ثَانِيَ اثْنَيْنِ کا ترجمہ دو میں سے دوسرا کرتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں شانسی کا لفظ زائد آ گیا ہے لیکن یہ درست نہیں.ثَانِيَ اثْنَيْنِ کے معنی ہی یہ ہیں کہ جب اُس کے ساتھ صرف ایک شخص تھا یعنی دو شخصوں میں سے یہ ایک تھا.اس میں کوئی لفظ زائد نہیں اور جو اس کے کوئی اور معنے کرتا ہے وہ عربی سے ناواقفی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کافروں نے ہمارے رسول کو نکال دیا تو اُس وقت جب صرف ایک ساتھی اس کے ساتھ تھا اُس وقت بھی ہم نے اس کی مدد کی.یہ اشارہ غار ثور کے واقعہ کی طرف ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب بعض صحابہ حبشہ کو اور بعض

Page 817

خطبات محمود ۸۱۲ سال ۱۹۳۵ء مدینہ کو ہجرت کر گئے تو آنحضرت ﷺ کو بھی بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپ بھی ہجرت کریں.مگر آپ نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آنے پر کروں گا.حضرت ابو بکر نے بھی کئی بار ہجرت کی خواہش کی مگر اُن کو بھی آپ نے روک دیا.معلوم ہوتا ہے کہ الہا ما آپ کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ آپ کے ساتھی ہو نگے.ایک دن آپ حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور فرمایا کہ آج ہجرت کا حکم مجھے ہو گیا ہے اس پر حضرت ابو بکر نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ مجھے بھی ساتھ چلنے کا موقع دیجیے.اور میرے پاس ایک تیز رفتار اونٹنی ہے اسے ہدیہ قبول فرمائیے.آپ نے فرمایا کہ ساتھ چلنے کی تو اجازت ہے مگر اونٹنی میں تحقیہ نہیں لوں گا بلکہ اُس کی قیمت دوں گا.رات کے وقت آنحضرت علی ایسے وقت میں گھر سے نکلے جب ہر قوم کا ایک ایک آدمی تلوار میں لئے مکان کے باہر اس نیت سے کھڑا تھا کہ آپ باہر نکلیں تو قتل کر دیا جائے.آپ کو اُن کے اس منصو بہ کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا تھا.اس لئے آپ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا دیا تا کفار مطمئن رہیں کہ آپ گھر میں سو رہے ہیں.وہ دروازوں کی دراڑوں میں سے دیکھتے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ گھر سے باہر آ ئیں تو آپ کو قتل کریں.مگر آ نحضرت ﷺ اندھیرے میں نکل کر ان کے سامنے باہر نکل گئے اور کفار سمجھے کہ یہ کوئی اور شخص ہے ، آپ اندر لیٹے ہوئے ہیں.رسول کریم ﷺ نے مقررہ جگہ پر پہنچ کر حضرت ابو بکر کو ساتھ لیا اور غار ثور پر جاپہنچے.میں اس غار کے قریب تک گیا ہوں لیکن افسوس ہے کہ دل کے ضعف کی وجہ سے میں عین اُس کے دہانہ پر نہیں پہنچ سکا.سو پچاس گز کے فاصلہ پر تھک کر رہ گیا رسته سخت دشوار گزار ہے اور میرا دل چونکہ زیادہ چڑھائی پر چڑھنے سے دھڑ کنے لگتا ہے اس لئے میں عین وہاں تک نہ پہنچ سکا مگر اپنے ایک ساتھی کو وہاں تک بھیجا.جس نے بتایا کہ کئی گز چوڑا منہ ہے غرض آنحضرت اللہ حضرت ابو بکر کو لیکر وہاں پہنچ گئے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ چونکہ تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے کعبہ میں جایا کرتے تھے اس لئے کفار کا ارادہ یہ تھا کہ جب تہجد کے لئے گھر سے باہر نکلیں گے تو قتل کر دیا جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ آپ جب گھر سے نکلے تو کسی نے یہ دریافت ہی نہیں کیا کہ کون ہے.انہیں یقین تھا کہ آپ لیٹے ہوئے ہیں ( چار پائی پر یا زمین پر جہاں بھی آپ سوتے تھے ) کیونکہ حضرت علی انہیں آپ کی جگہ پر لیٹے ہوئے نظر آتے تھے.صبح کے وقت جب آپ گھر سے نہ نکلے بلکہ ان کی جگہ حضرت علی گھر سے نکلے تو اُن کو بہت حیرت ہوئی اور اُن

Page 818

خطبات محمود ۸۱۳ سال ۱۹۳۵ء کو پتہ لگ گیا کہ آپ رات کو چلے گئے ہیں اس لئے کھوجیوں کو بلایا گیا اور تعاقب کیا گیا.کھوجی تعاقب کرنے والوں کو لیکر اس غار پر پہنچا اور کہا کہ نشان یہیں تک ہے یا تو وہ اس غار کے اندر ہیں اور یا آسمان پر چلے گئے ہیں.عرب کے کھو جی بہت ماہر ہوتے تھے اور اُن کی بات پر اعتبار کیا جاتا تھا لیکن اُس وقت اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا تصرف اُن کے دلوں پر کیا کہ باوجود کھوجی کے اصرار کے اُنہوں نے یقین نہ کیا کہ آپ اس غار میں ہیں.وجہ یہ ہوئی کہ غار کے ارد گرد اُس کے دہانہ پر جھاڑیاں ہیں رسول کریم ﷺ کے اندر جانے کے بعد ان پر مکڑیوں نے جالاتن دیا.ہر شخص جانتا ہے کہ مکڑی ایک منٹ میں جالاتن دیتی ہے.ہم بچپن میں یہ کھیل دیکھا کرتے تھے کہ ایک مکڑی نے جالا نتنا شروع کیا ہے اور ایک منٹ میں تن دیا ہے مگر تصرف الہی کے ماتحت اُن کی عقل ایسی ماری گئی کہ انہوں نے خیال کیا کہ اس غار میں کوئی نہیں اُترا کیونکہ اگر کوئی اُتر تا تو یہ جالے ٹوٹ جاتے.اُس وقت جب کھوجی یہ باتیں کر رہا تھا کہ آپ یا اس غار میں ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں ، اُس وقت کیا مشکل تھا کہ وہ نیچے جھانک کر دیکھ لیتے مگر یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ کسی کو اس کی توفیق نہ ہوئی.لیکن کھوجی کے یہ الفاظ کہنے سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ مکہ کے لوگ ضرور غار کے اندر اُتر کر دیکھیں گے.پس اُس وقت حضرت ابو بکڑ نے گھبرا کر کہا کہ یا رَسُولَ اللهِ اب کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ گھبراہٹ کی بات نہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ مجھے اپنے متعلق تو کوئی گھبراہٹ نہیں.کیونکہ اگر میں مارا گیا تو میں ایک فرد ہوں مجھے آپ کے متعلق فکر ہے کیونکہ اگر آپ مارے گئے تو دین اور اُمت تباہ ہو جائیں گے.یہ محبت بھرے الفاظ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئے کہ رسول کریم کو وحی ہوئی کہ اپنے ساتھی سے کہ دو کہ لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.کے جس کا مطلب یہ تھا کہ اے رسول ! تو ابو بکر سے کہہ دے کہ رسول کے لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں.اللہ نہ صرف اس کا بلکہ اس کا ساتھی ہونے کی وجہ سے تیرا بھی محافظ ہے.بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ گھبرا گئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ یہ گھبراہٹ اپنے لئے نہیں تھی بلکہ رسول کریم ﷺ کی خاطر تھی.آپ کی اس حرکت پر ایک اعتراض ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ان کا یہ ایمان نہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.اور اس کا جواب یہ ہے کہ ” عشق است و ہزار بد گمانی جب عشق کمال کو پہنچ جائے تو اس کے ماتحت کئی قسم کے تو ہمات شروع ہو جاتے ہیں اور وو

Page 819

خطبات محمود وہ بھی قابلِ قدر ہوتے ہیں.۸۱۴ سال ۱۹۳۵ء حضرت خلیفہ اول مجھ سے بہت محبت کرتے تھے.بعض دفعہ کوئی غیر میری شکایت کر دیتا تو مجھ 66 سے پوچھتے.جب میرا جواب سن لیتے تو کہتے میاں بُرا نہ منانا عشق است و ہزار بدگمانی مجھے اس وقت بچپن کی ایک بات یاد آ گئی مجھے اس پر ہنسی بھی آیا کرتی ہے اور اس پر ناز بھی.ہے تو وہ جہالت کی بات.مگر ایسی جہالت جس پر عقل کے ہزاروں فعل قربان کئے جا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت صحن میں سو رہے تھے کہ بادل زور شور سے گھر آئے اور بجلی نہایت زور سے کڑ کی.وہ کڑک اس قدر شدید تھی کہ ہر شخص نے یہی سمجھا کہ گویا بالکل اُس کے پاس بجلی گری ہے.اس کیفیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ہمارے بورڈنگ ہاؤس کا ایک لڑکا اُس وقت گھبرا کر چار پائی سے گر پڑا اور اس نے خیال کیا کہ بجلی مجھ پر گری ہے اور اس خوف سے اس نے شور مچانا شروع کیا مگر دہشت کی وجہ سے اُس کی زبان سے لفظ تک نہیں نکلتا تھا.سننے والے حیران تھے کہ وہ چار پائی کے نیچے پڑا ہوا ” بلی بلی کا شور کر رہا تھا آخر کچھ دیر کے بعد وہ سمجھے کہ یہ بجلی بجلی کر رہا ہے.خیر تو جب بادل زور سے آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو صحن میں سو رہے تھے چار پائی سے اُٹھ کر کمرہ کی طرف جانے لگے.دروازہ کے قریب پہنچے کہ بجلی زور سے کڑکی.میں اُس وقت آپ کے پیچھے تھا میں نے اُسی وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دیئے.اس خیال سے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے آپ پر نہ گرے اب یہ ایک جہالت کی بات تھی بجلیاں جس خدا کے ہاتھ میں ہیں اُس کا تعلق میری نسبت آپ سے زیادہ تھا بلکہ آپ کے طفیل میں بھی بجلی سے بچ سکتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہاتھوں سے بجلی کو نہیں روکا جاسکتا مگر عشق کی وجہ سے مجھے ان سب باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی.محبت کے وفور کی وجہ سے یہ سب باتیں میری نظر سے اوجھل ہو گئیں اور میں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.یہ جہالت کی بات تھی مگر اس جہالت پر میں آج بھی ہزار عقل قربان کر دینے کے لئے تیار ہوں کیونکہ یہ جہالت عشق کی وجہ سے تھی.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی آنحضرت ﷺ سے عشقیہ تھا.جب آپ مدینہ میں داخل ہونے کے لئے مکہ سے نکلے تو اُس وقت بھی آپ کا تعلق عاشقانہ تھا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اُس وقت بھی تعلق عاشقانہ تھا.چنانچہ جب آنحضرت ﷺ پر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ

Page 820

خطبات محمود ۸۱۵ سال ۱۹۳۵ء وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابات کی وحی قرآنی نازل ہوئی جس میں مخفی طور پر آپ کی وفات کی خبر تھی تو آپ نے خطبہ پڑھا اور اُس میں اِس سورۃ کے نزول کا ذکر فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اپنی رفاقت اور دنیوی ترقیات میں سے ایک کے انتخاب کی اجازت دی اور اُس نے خدا تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی.اس سورۃ کوسن کر سب صحابہ کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور سب اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ الْحَمْدُ لِلهِ اب یہ دن آ رہا ہے مگر جس وقت باقی سب لوگ خوش تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی چیخیں نکل گئیں اور آپ بے تاب ہو کر رو پڑے اور آپ نے کہايَا رَسُولَ اللهِ !.پر ہمارے ماں باپ اور بیوی بچے سب قربان ہوں.آپ کے لئے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں گویا جس طرح کسی عزیز کے بیمار ہونے پر بکرا ذبح کیا جاتا ہے اُسی طرح حضرت ابو بکر نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرت لے کے لئے پیش کی.آپ کے رونے کو دیکھ کر اور اس بات کو سن کر بعض صحابہ نے کہا دیکھو! اس بڑھے کو کیا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو اختیار دیا ہے کہ خواہ وہ رفاقت کو پسند کرے یاڈ نیوی ترقی کو اور اُس نے رفاقت کو پسند کیا یہ کیوں رورہا ہے؟ اِس جگہ تو اسلام کی فتوحات کا وعدہ پیش کیا جا رہا ہے.حتی کہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی نے بھی اس کا اظہار حیرت کیا.رسول کریم ﷺ نے لوگوں کے اس استعجاب کو محسوس کیا اور حضرت ابو بکر کی بیتابی کو دیکھا اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا کہ ابوبکر مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتا.مگر اب بھی یہ میرے دوست اور صحابی ہیں.پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے سب لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں جو مسجد میں کھلتی ہیں بند کر دی جائیں سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے.اور اس طرح آپ کے عشق کی آنحضرت ﷺ نے داد دی.کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بتا دیا کہ اس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر ہے اور آپ نے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کیا کہ ہم مر جائیں مگر آپ زندہ رہیں.رسول کریم ﷺ کی وفات پر بھی حضرت ابو بکر نے اعلیٰ نمونہ عشق کا دکھایا.غرض حضرت ابو بکر نے غار ثور میں اپنی جان کے لئے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ رسول کریم کے لئے.اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو خاص طور پر تسلی دی.اس واقعہ کی طرف ان آیات

Page 821

خطبات محمود ۸۱۶ سال ۱۹۳۵ء میں اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس خطرناک موقع پر کس نے رسول کریم ﷺ کی ، کی تھی ؟ اُس وقت بھی ہم نے ہی اُسے بچایا تھا اور اگر آج بھی تم جواب دے دو تو ہم خود اس کی مدد کریں گے.پس اس بات کو اچھی طرح یا درکھو کہ یہ طریق بالکل غلط ہے کہ نہ کام کیا جائے اور نہ جواب دیا جائے کوئی شریف انسان اس طریق کو اختیار کرنا پسند نہیں کرے گا.میرے ہاتھ میں تلوار نہیں کہ کوئی کہہ دے میں ڈر گیا تھا اور ڈر کر میں نے اقرار کر لیا تھا.جب کوئی شخص کا م کر نا نہیں چاہتا تو وہ کہہ دے یا جس حد تک کرنا چاہتا ہے وہ بتا دے مگر جب کوئی شرط نہیں تو پھر کیوں تساہل سے کام لیا جاتا ہے.بے شک جس کا دل چاہے ہٹ جائے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ کی ترقی اور حفاظت کے سامان خود پیدا کر دے گا.گھبراہٹ اگر ہو سکتی ہے تو مجھے جس پر ذمہ داری ہے مگر میں جانتا ہوں کہ خواہ سارے مجھے چھوڑ جائیں اللہ تعالیٰ خود میری مدد کا سامان پیدا کر دے گا اور مجھے کامیابی عطا کرے گا لیکن بفرض محال اُس نے میرے لئے اس جدو جہد میں موت ہی مقدر کی ہوئی ہے تو میں اس موت کو بُر انہیں سمجھتا.خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا بھی خواہ بظاہر ناکامی کی شکل میں بہت پیارا ہوتا ہے پس جسے دنیا نا کامی سمجھتی ہے وہ بھی میرے لئے کامیابی ہے اور جو اس کے نزدیک کامیابی ہے وہ بھی میرے لئے کامیابی ہی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَانْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا - الله تعالى نے اپنی طرف سے رسول کے دل پر سکینت نازل کی.اور جب ظاہری لشکر نا پید تھے اُس نے اس کی مدد ایسے لشکروں کے ذریعہ سے کی جو دنیا کو نہ نظر آتے تھے.اب بھی دیکھ لو کہ احمدی جماعت جس قدر ستی تبلیغ میں کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کی کسر پوری کر دیتے ہیں.کئی لوگ بیعت کے لئے آتے ہیں اور پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ بیعت کا حکم ہمیں کشف یا رویا میں ہوا تھا.کئی دفعہ حکم ہو الیکن ہم سستی کرتے رہے آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انذار آیا کہ اگر بیعت نہ کرو گے تو تمہارا خاندان تباہ کر دیا جائیگا اس پر ہم بیعت کے لئے آمادہ ہو گئے.جس پیرے کا قصہ میں نے سنایا ہے ، اُس کے ایک بھتیجے کوبھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا.وہ پہلے نماز نہیں پڑھتا تھا پھر یکدم نمازیں پڑھنے لگ گیا اور اُس نے بیعت کر لی.دو چار دن برابر نمازوں میں دیکھ کر حضرت خلیفہ اول نے اُس سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم با قاعدہ نماز پڑھتے ہو پہلے تو باوجود بار بار کی تاکید کے تم نمازوں سے بھاگتے تھے.اُس نے

Page 822

خطبات محمود ۸۱۷ سال ۱۹۳۵ء اپنے پنجابی لہجہ میں کہا کہ مولوی صاحب مجھے بھی ہلام ہوا تھا.(الہام ہوا تھا ) کہ تو نماز پڑھا کر.حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کیا الہام ہوا تھا ؟ تو اُس نے کہا یہ الہام ہوا تھا اوٹھ اوئے سورا نماز پڑھ.یعنی اوسور اُٹھ کر نماز پڑھ.غرض خدا تعالیٰ کو آدمیوں کی ضرورت نہیں وہ کام لینا چاہے تو ملائکہ سے ہی کام لے لیتا ہے.خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی ترقی کے لئے دیانت اور امانت کی آدمیوں سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو لوگ دیانتداری کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے انہیں چاہئے کہ پیچھے ہٹ جائیں اور میدان سے الگ ہو جائیں اور یہ بالکل نہ کہیں کہ ہم اپناسب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ وہ اس طرح اپنے آپ کو اور گنہگار بناتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّغُلی با وجود اس کے کہ ہمارا رسول اکیلا تھا گو ابو بکر ساتھ تھے مگر وہ بھی آپ میں مدغم تھے کیونکہ صدیق اُسی کو کہتے ہیں جو نبی سے کامل اتحاد رکھتا ہو پس ان کے ساتھ ہونے کے باوجود آپ اکیلے تھے ) پھر بھی اللہ تعالیٰ نے کفار کی مجموعی تدابیر کو ناکام بنادیا اور اُس نے فتح دی.پس ظاہری تدبیروں سے کچھ نہیں بنتا ہم تو صرف تمہیں ثواب کا موقع دیتے ہیں.وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ الله تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے پس اُسے کسی کی احتیاج ہی کیا ہو سکتی ہے پھر فرما یا اِنْفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.یعنی ہم اپنے قول کو دوبارہ دہراتے ہیں کہ اتنی نصیحت کے بعد شائد تمہارے دل نرم ہو گئے ہوں اور تم حکم خدا وندی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو.اور کہتے ہیں کہ تم کو چاہئے کہ حالات کے تقاضا کے مطابق تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکل کھڑے ہو.خواہ خفیف ہونے کی حالت میں خواہ ثقیل ہونے کی حالت میں.خفیف اور ثقیل کے معنی جوان اور بوڑھے کے بھی ہو سکتے ہیں.غریب اور امیر کے بھی تندرست اور بیمار کے بھی.فارغ اور مشغول کے بھی.مجرد اور متاہل کے بھی.بے سروسامان اور ساز وسامان والے کے بھی.سوار اور پیادہ کے بھی اور اکیلے اور جتھے والے کے بھی.ان سب حالتوں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کو خدا کی راہ میں نکل کھڑا ہونا چاہئے اور اپنے اموال اور اپنی جانوں سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہئے.شاید کوئی کہے کہ یہاں تو جہاد کا حکم ہے ہم اس کے کس طرح مخاطب ہو سکتے ہیں ؟ مگر یا درکھو کہ بانی سلسلہ احمد یہ تو ساری عمر یہی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ جہا د صرف تلوار کا نہیں ہوتا بلکہ جہاد ہر اس قربانی کو کہتے ہیں جو

Page 823

خطبات محمود ΔΙΑ سال ۱۹۳۵ء اشاعت دین اور نصرت ملت کے لئے مسلمان کریں.پس یہ عذر بھی کسی کو اُس کی ذمہ داری سے بچا نہیں سکتا.اس وقت جن راہوں سے اسلام کی مدد ہوسکتی ہے وہی اس وقت کا جہاد ہے پھر ذالكم خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.کاش ! تمہیں علم غیب ہوتا اور تم سمجھ سکتے کہ جس کام کے لئے تمہیں بلایا جاتا ہے وہ بہت اچھا ہے پھر فرمایا لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشَّقَّةُ - وہ ست لوگ جو اس وقت تیرے ساتھ چلنے کو تیار نہیں اگر ڈ نیوی نفع کا سوال ہوتا ، مال ملنے کی امید ہوتی اور سفر تھوڑا ہوتا تو یہ ضرور ساتھ ہو لیتے لیکن تو تو ان کو دُور کی منزل پر لے جانا چاہتا ہے.مثلاً اخلاق میں انہیں بلند ترین چوٹی پر لے جانا چاہتا ہے، تبلیغ کے لئے دنیا کے کناروں تک پہنانا چاہتا ہے اور جنگ میں انتہائی فدائیت کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے ان پر تیرا ساتھ دینا شاق گزرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ میری منزل بہت کٹھن اور راستہ پر خار ہے پس وہی میرے ساتھ چلے جو ان مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.جو قربانی کے لئے تیار نہیں اسے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں.وَ سَيَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ لَوِسُتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ.فرماتا ہے کہ یہ تمہیں کھائیں گے کہ اگر ہمیں طاقت ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے.یہ لوگ یہ بہانہ بنا کر اپنے نفسوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے جھوٹ کو جانتا ہے اور اُس سے جھوٹ بولنا بالکل بے کار ہے.آج بھی اگر کمزوروں سے میں دریافت کروں کہ کیوں تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں یا زندگیوں کا ایک حصہ وقف نہیں کرتے تو وہ بیسیوں عذر تراش لیں گے لیکن ان کے یہ عذر بالکل فضول ہو نگے کیونکہ ان کا معاملہ میرے ساتھ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جو دل کے بھیدوں کو جانتا ہے.دیکھو! یہ رکوع جو میں نے سنایا ہے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا تھا لیکن اس کا ایک ایک لفظ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آج ہی نازل ہوا ہے.اور ہماری جماعت کی موجودہ حالت کے متعلق ہے پس تم اس سے نصیحت حاصل کرو.یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے بلکہ اس کا ایک ایک لفظ میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں.اور ایک ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں دکھا سکتا ہوں مگر سوچنے والے دماغ اور ایمان لانے والے دل کی ضرورت ہے پس یہ

Page 824

خطبات محمود ۸۱۹ سال ۱۹۳۵ء خیال مت کرو کہ جو میں نے کہا ہے ، وہ میری طرف سے ہے بلکہ یہ اُس نے کہا ہے جس کے ہاتھ میں تمہاری جان ہے میں اگر مر بھی جاؤں تو دوسرے سے یہی کہلوائے گا اور اس کے مرنے کے بعد کسی اور سے.بہر حال چھوڑیگا نہیں جب تک تم سے اس کی پابندی نہ کرا لے.یہ پہلا قدم ہے اور اس کے بعد اور بہت سے قدم ہیں یہ سب باتیں قرآن مجید میں موجود ہیں اور جب تم پہلی باری پر عمل کر لو گے تو پھر اور بتائی جائیں گی.لیکن جب تک ان پر عمل نہ کرو اور نئی کس طرح پیش کی جاسکتی ہیں.آخر میں میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ سستیوں اور غفلتوں کو دُور کرو، اپنے اندر بیداری پیدا کرو، ہر تحریک میں طاقت کے مطابق حصہ لو.مگر طاقت کا اندازہ وہ نہ کرو جو منافق کرتا ہے بلکہ وہ کرو جو مو من کرتا ہے.چندہ اور امانت فنڈ دونوں میں حصہ لو اور سادہ زندگی اختیار کرو کہ وہ نور بخشنے والی ہے.جو اسے اختیار نہیں کرتا وہ سمجھ لے کہ اس کے لئے جہنم تیار ہے.کوئی بات میں نے ایسی نہیں کہی جس کی کل کو ضرورت نہیں پیش آنے والی.جب وقت آئیگا تو وہ لوگ جنہوں نے مان کر عمل کیا دعائیں دیں گے کہ خدا بھلا کرے جس نے ہمیں اس وقت کے لئے تیار کر دیا تھا اور نہ ماننے والے اپنے آپ کو لعنت کریں گے.احمدیت اسلام کا نام ہے جس طرح اسلام نے تلوار کے سایہ میں پرورش پائی تھی.اسی طرح جب تک دنیا کا چپہ چپہ احمدیوں کے خون سے رنگین نہیں ہوتا احمدیت ترقی نہیں کر سکتی.اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس کے بغیر ہی ترقی حاصل ہو جائے گی تو تم سے زیادہ بے وقوف ، دھوکا خوردہ اور پاگل دنیا میں اور کوئی نہیں.ہر ملک میں اور ہر علاقہ میں تمہیں ہر طرح کی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اور اس کے لئے جو سپاہی آپ مشق نہیں کرتا وہ کل جان کب دے سکے گا.یہ سپاہیانہ مشقیں ہیں اور وہ دن آنے والا ہے کہ جب تم سے کہا جائیگا کہ اپنے وطن کو چھوڑ دو، سب اموال حاضر کر وہ تمہیں بھوکا رہنا پڑے گا اور ہر طرح کی تکالیف اٹھانی پڑیں گی اور ان کے لئے تم میں سے ہر ایک کو تیار رہنا چاہئے.کیا تم یہ پسند کرو گے کہ افغانستان میں تمہارے بھائی فاقے کریں اور تم چین سے زندگی بسر کرو؟ چین میں تمہارے بھائیوں پر ظلم ہو اور تم امن میں رہو ؟ تمہارے اندر تو یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر چین میں احمدیوں کو قتل کیا جار ہا ہو تو تمہاری گردنیں یہاں ہی خم ہو ہو کر اُن تلواروں کو اپنی گردنوں پر لینے کے لئے بیتاب ہوں.اگر کسی جگہ احمدی جماعت کو وطن چھوڑ نے پڑیں یا فاقے کرنے پڑیں تو تم کو اپنے گھر کانٹوں کی طرح معلوم ہونے لگیں اور روٹیاں تمہارے گلوں میں پھنسنے لگیں.اس

Page 825

خطبات محمود ۸۲۰ سال ۱۹۳۵ء اتحاد و احساسات کے بغیر مذہب ترقی نہیں کر سکتے.بے شک تمہارے امام کا نام مسیح ہے مگر عیسائیوں کی تاریخ پڑھ کر دیکھو.آج اُن کے عروج کو دیکھ کر شاید کوئی خیال کرے کہ یہ پہلے ہی ایسے تھے.لیکن کوئی سنگ دل سے سنگ دل انسان عیسائی تاریخ کا ایک صفحہ بھی آنسو بہائے بغیر نہیں پڑھ سکتا.ان کو ایسے مصائب پیش آئے کہ سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر انہوں نے دلیری سے ان کو برداشت کیا اور امتحان کے وقت اپنی جانوں کو جان نہیں سمجھا اور مالوں کو مال نہیں سمجھا اور قربانیاں کیں اور وہی قربانیاں تو ہیں جو آج یورپ کو روٹیاں دلوا رہی ہیں.جب یورپ کی عیاشی کو دیکھ کر غیرت الہی کی تلوار انہیں ہلاک کرنے کے لئے اٹھتی ہے تو اُن کے باپ دادوں کی روحیں سامنے آ جاتی ہیں جنہوں نے مذہب کی خاطر ز بر دست قربانیاں کی تھیں اور خدا تعالیٰ کے غضب کی تلوار جھک جاتی ہے.یورپ کے عروج کا اس قدر لمبا عرصہ اُنہی قربانیوں کی وجہ سے ہے جو ان کے آباء نے کی تھیں.اور خدا تعالیٰ انہیں ہلاک کرنے سے پیشتر انہیں موقع دے رہا ہے کہ اسلام قبول کر لیں.کم سے کم تمہیں وہ قربانیاں تو کرنی پڑیں گی جو عیسائیوں نے کیں.ہمارے سلسلہ کے بانی کو بے شک بروز محمد ﷺ بھی کہا گیا ہے لیکن کیا آنحضرت ﷺ کو مکہ کی تیرہ سال کی زندگی میں کم قربانیاں کرنی پڑیں ؟ پھر کیا مدینہ میں آپ کی قربانیاں کم تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر میں خالی مسیح ہوتا تو مجھے صلیب دے دیا جاتا مگر میرا انحصار محمد ( ﷺ ) پر زیادہ ہے اور تم لوگ محمد ﷺ کے نام کی وجہ سے خوش ہوتے ہو.کے بے شک آپ بروز محمد بن کر آئے مگر ساتھ مسیح بھی تھے اس لئے ہماری قربانیاں کم سے کم دونوں کے درمیان میں آنی چاہئیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ صحابہ کرام کی قربانیاں مسیحیوں سے زیادہ شاندار تھیں.اس لئے کہ اُن کو دُہرا زخم لگتا تھا.ایک اپنا زخم اور دوسرا وہ جو آنحضرت ﷺ کو گایا جاتا ہے.عاشق کے لئے معشوق کا زخم زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے.ایک صحابی کا قصہ میں نے بار ہا سنایا ہے وہ مکہ میں قید تھے اور کفار نے اُن سے کہا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمد ﷺ یہاں تمہاری جگہ قید ہوں اور تم مزے سے گھر میں بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں گھر میں بیٹھا ہوں اور محمد عے کے پیر میں مدینہ کی کسی گلی میں ہی کا ننا چبھ جائے.پس صحابہ کو جو عشق رسول کریم ﷺ سے تھا.اُسے دیکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت مسیح ناصری سے زیادہ لمبا عرصہ تک تکالیف اُٹھانی پڑیں ، ماننا پڑتا ہے کہ

Page 826

خطبات محمود ۸۲۱ سال ۱۹۳۵ء صحابہ کوڈ ہری تکلیف ہوتی تھی ہر گالی جو رسول کریم ﷺ کوملتی وہ بھی انہی کے دل پر پڑتی تھی.اور وہ بھی جو خود ان کو ملتی بلکہ اپنی تکلیفوں کو وہ رسول کریم ﷺ کی تکلیف کے مقابل پر کچھ بھی نہ سمجھتے تھے.وہ خود ساری عمر بھوکا رہنا پسند کر سکتے تھے مگر یہ امر اُن کی برداشت سے باہر تھا کہ رسول کریم علی پر ایک فاقہ بھی گزرے.اُنکے عشق کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ تاریخ میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے کئی سال بعد جب ایران فتح ہوا تو وہاں سے پن چکیاں آئیں جو بار یک آٹا پیستی تھیں.جب پہلی دفعہ بار یک میدہ مدینہ میں تیار ہو اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا گیا تو آپ نے اُس کی روٹی پکوائی لیکن جب اس کا لقمہ حلق میں گیا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.آپکی کسی سہیلی نے پوچھا کہ آپ رونے کیوں لگیں یہ تو بہت نرم پچھلکے ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایسی چکیاں نہ تھیں ہم پتھروں سے ہی آٹا پیتے تھے جو بہت موٹا ہوتا تھا اگر یہ میدہ اُس زمانہ میں ہوتا تو میں آنحضرت ﷺ کو اس کی روٹیاں پکا کر کھلاتی.یہ اُس عشق کا ایک مظاہرہ تھا جو مؤمن اور مومنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے پیدا تھا.اب تم دیکھو کہ تم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت سے کس قد رعشق ہے؟ کیا تمہارے گلے میں بھی ہر وہ نعمت پھنستی ہے جس سے احمدیت کو حصہ نہیں ملا.ہماری دُنیوی نعمتیں اس وقت ہیں ہی کیا جنہیں ہم قربان نہ کر سکیں.یورپ کا ایک ادنی لارڈ ہمارے کئی گاؤں خرید سکتا ہے اور یورپ کا ایک مزدور آسائش کے اس قدر سامان رکھتا ہے جو ہمارے ہاں کے نوابوں کو بھی میسر نہیں.پس ہمارے پاس ہے ہی کیا جس کی قربانی ہم کو بوجھل معلوم ہوتی ہے.اگر عشق ہو تو وہ کپڑے جن پر تم فخر کرتے ہوا اور وہ نرم بستر جن میں تم آرام کرتے ہو تمہیں کانٹوں کی طرح چھنے چاہئیں کیونکہ دین احمد کو وہ زینت میسر نہیں جو تم کو میسر ہے اور اسے وہ آرام میسر نہیں جو تم کو میسر ہے.پس عشق پیدا کرو پھر تمہارے رستہ میں کوئی روک باقی نہیں رہے گی، کسی نصیحت کی بھی تم کو ضرورت نہ ہوگی اور ہر ضروری قربانی تم آپ ہی آپ کرتے جاؤ گے جس طرح پانی چشمہ سے آپ ہی آپ ابلتا چلا آتا ہے.لیکن جب تک یہ فدائیت نہ ہوگی یہ ماریں پڑتی رہیں گی اور گالیاں ملتی رہیں گی پس ان کو بند کرنا یا جاری رکھنا تمہارے اپنے اختیار میں ہے جو گھوڑا اڑتا ہے اچھا سوار اُسے دور تک لے جاتا ہے تا کہ وہ تھک

Page 827

خطبات محمود ۸۲۲ سال ۱۹۳۵ء کر ٹھیک ہو جائے مگر جو اُڑتا نہیں اُسے اتنا ہی چلایا جاتا ہے جتنی کہ ضرورت ہوتی ہے پس اگر تمہارے نفس قربانی سے جی چرائیں گے تو تم کو زیادہ ابتلاؤں میں مبتلا ء کیا جائے گا.اور اگر خوشی سے اپنے آپ کو ہر قسم کی قربانی کے لئے پیش کر دو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جلدی جوش میں آ جائے گی اور تم اپنے آپ کو اُس محبوب حقیقی کی آغوش میں پاؤ گے جس کی محبت کی ایک نظر دنیاؤ مَا فِیھا سے اچھی ہے.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ.التوبة: ۳۸ تا ۴۲ الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۳۵ء) سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۳ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم- باب مناقب المهاجرين وفَضْلِهمُ النصر : ۲ تا آخر ۵ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلم سدوا الابواب.....الخ) انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳، ۲۴ ک در شین اُردو صفحہ ۱۳۱

Page 828

خطبات محمود ۸۲۳ سال ۱۹۳۵ء تحریک جدید کے تین اہم مطالبات فرموده ۲۰ / دسمبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے بعض حصوں کو میں قبل ازیں بیان کر چکا ہوں اور آج میں اس کے بعض دوسرے حصے بیان کرنا چاہتا ہوں.ایک بات تحریک جدید میں میں نے یہ بیان کی تھی کہ جو دوست لیکچر دینے کی قابلیت رکھتے ہیں وہ اپنے نام دفتر میں لکھوا دیں تا مختلف جگہوں پر جو جلسے ہوتے ہیں ان پر انہیں بھیجا جائے اور ان سے تقریریں کرائی جائیں.در حقیقت انسانی دماغ مختلف قسم کے ہوتے ہیں.بعض انسان علمی باتوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ بات کی نسبت بولنے والے کی پوزیشن کو زیادہ دیکھتے ہیں.جو لوگ علمی باتیں سننے اور انہیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں اُن کے لئے ہمارے سلسلہ کے علماء کافی ہیں لیکن بعض لوگوں کے دلوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ دیکھیں کہنے والا کس حیثیت کا آدمی ہے اور وہ ہمیں اپنی باتیں سنانے کے لئے کن مقاصد کے ماتحت آیا ہے.دنیا میں عام طور پر اس وقت لالچ اور حرص کا دور دورہ ہے.اس لئے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ کے مبلغ صرف معمولی گزارہ لیتے ہیں اور در حقیقت سلسلہ کے لئے ان کا کا رکن بنا کوئی ملازمت نہیں بلکہ زندگی کو وقف کرنا ہے مگر چونکہ وہ ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں عربی علوم اور دین کی کوئی قدر نہیں اس لئے وہ مبلغ کو قدرومنزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.لوگ ہر پیشہ کی قدر سمجھتے ہیں وہ ایک لوہار کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور جب وہ

Page 829

خطبات محمود ۸۲۴ سال ۱۹۳۵ء ان کا کوئی کام کرے تو وہ اُس کی مزدوری دینے کے لئے تیار رہیں گے وہ ایک بڑھئی کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس بڑھئی کی مزدوری کے پیسوں کو اُس کا جائز حق سمجھیں گے.انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ لوہار کے بیوی بچے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے اور روٹی کھاتے ہیں اس لئے اُس کی مزدوری ضرور دینی چاہئے.انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ بڑھئی کے بیوی بچے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے اور روٹی کھاتے ہیں اس لئے اُس کی مزدوری کو نہیں روکنا چاہئے.اسی طرح وہ ایک ڈاکٹر ، ایک انجینئر ، ایک وکیل ایک معمار ، ایک درزی ، ایک نائی اور دنیا کے دوسرے پیشہ وروں کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جائز اور مفید کام کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرنی چاہئے خواہ ماہوار تنخواہ کی صورت میں یا روزانہ ادا کر نیکی صورت میں.مگر جب دین کا معاملہ آتا ہے تو وہ مبلغین کے متعلق یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ وہ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے.نہ ان کی بیویاں ہیں نہ بچے.گویا وہ انسان نہیں بلکہ ملائکہ کی قسم کے لوگ ہیں.یا کم سے کم وہ ان کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا حق نہیں کہ کھائیں اور پیئیں.اور اگر وہ کھاتے ہیں تو دوسروں کا حق چھین کے جیسے گتے کو بعض دفعہ انسان اپنی روٹی ڈال دیتا ہے اُن کو بھی کچھ دے دیا جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی علم دین کی کوئی بات سنانے والا ان کے پاس جائے چاہے وہ اُس کی باتوں کی قدر کریں مگر وہ اُسے ذلیل ترین وجود سمجھتے ہیں حالانکہ جس کام کو اُنہوں نے اختیار کیا ہوا ہوتا ہے اگر اُسے دیانتداری سے کریں تو وہ دنیا کا معزز ترین کام ہے.عام طور پر ہمارے ملک میں جن لوگوں کو شریف اور معزز سمجھا جاتا ہے اُن سے اگر کوئی کہے کہ اپنی لڑکی ایسے شخص کو دے دو تو وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ یہ تو ملا ہے.حالانکہ ملا کیا چیز ہے مثلاً ہمارے ملک کا مذہبی راہنما ہے مگر کچھ ان کے اخلاق بگڑ جانے کی وجہ ہے اور کچھ اُس گزارہ کی رقم کی وجہ سے جو وہ لیتے ہیں غلط فہمی میں مبتلاء ہو کر لوگ انہیں ذلیل ترین وجود سمجھنے لگ گئے.مگر یہ احساس اُن کو ڈاکٹر کے متعلق نہیں ہوتا اور نہ اُن کو یہ احساس ایک وکیل کے متعلق ہوتا ہے وہ بڑے ادب اور احترام سے ایک ڈاکٹر یا وکیل کو فیس دیں گے ، اس کی خاطر تواضع کریں گے ، نام بھی عزت سے لیں گے اور بات کرتے ہوئے کہیں گے کہ بڑے آدمی جو ہوئے ہم ان کے مقابلہ میں کیا ہیں ، پس ایک ڈاکٹر کی ڈاکٹری اور ایک وکیل کی وکالت کی ان کی نگاہوں میں وقعت ہے لیکن دین اور اس کی اشاعت کرنے والے کی ان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں اور چونکہ ایک خرابی اور خرابیاں پیدا کر دیا

Page 830

خطبات محمود ۸۲۵ سال ۱۹۳۵ء کرتی ہے اس لئے اس تحقیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس لعنت میں گرفتار ہو گئے کہ ان میں سے جتنی قو میں اپنے آپ کو شریف سمجھتی تھیں انہوں نے اس دینی کام کی طرف سے اپنی توجہ ہٹالی کچھ شرفاء جنہوں نے یہ کام اختیار کیا ذلیل ہو گئے اور کچھ ذلیل اس لئے اس کام کی طرف متوجہ ہو گئے کہ جب ہم آگے ہی ذلیل ہیں تو ایک ذلّت یہ بھی سہی.آخر جس کا سر پھر جائے گا اُس کا باقی دھڑ اُسے کیا کام دے سکتا ہے.جب وہ لوگ جو دین کا سر تھے ذلیل ہو گئے تو مسلمان بھی بحیثیت قوم گر گئے اور سب دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے.یہ عادت جو مسلمانوں میں ایک عرصہ سے قائم ہے ابھی تک گئی نہیں.اور اب بھی وہ اس کام میں بُرائی محسوس کرتے ہیں اگر چہ پہلے جتنی نہیں لیکن ابھی تک یہ بات ان میں قائم ہے کہ وہ کسی شخص کے دینی خدمت کرنے کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ شخص تمام دنیوی عزتوں سے محروم کر دیا گیا.حالانکہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ جو دین کی خدمت کرتا ہے حقیقت میں وہی معزز ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَاكُمْ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے کام میں لگ جائے اس کے متقی ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا بشرطیکہ وہ دوسرے اعمال میں بھی تقویٰ اور طہارت ملحوظ رکھے.اس خیال کے ماتحت ہمارے علماء خواہ کتنی بڑی قربانی کر کے لوگوں کے پاس جائیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی دوسرے ملاؤں جیسے ملا ہیں چھوٹے نہ سہی بڑے ملا.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں پر جو باتوں پر غور کرنے کی بجائے کہنے والے کی شخصیت دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، ہمارے علماء کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کیا ہے یہ تنخواہ لیتے اور کام کرتے ہیں جس طرح اور لوگ روپوں پر اپنا دین بیچ دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی اپنادین بیچ رکھا ہے چونکہ وہ خود روپوں پیسوں پر اپنا دین فروخت کرنے کے عادی ہیں اس لئے وہ ہمارے مبلغوں کے متعلق بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں چونکہ مرکز کی طرف سے گزارہ ملتا ہے ، اس لئے انہوں نے اپنا دین بیچ دیا ہے.مگر یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں ، اُن میں پادری کی عزت قوم کے دوسرے معززین سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتی ہے.ہاؤس آف لارڈز (HOUSE OF LORDS) جو نوابوں کا مقام ہے اس میں بھی بڑے بڑے پادری شامل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی موقع یا مجلس ہو اُس میں پادری کو شامل کیا جاتا اور اُس کا اعزاز کیا جاتا ہے اِس کی وجہ سے باوجود یورپ میں دہریت پھیلنے کے مذہب کی عزت اور اس کا احترام وہاں پایا جاتا ہے.وہ دہر یہ ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر

Page 831

خطبات محمود ۸۲۶ سال ۱۹۳۵ء لر سمجھتے ہیں کہ ہماری مذہبی روش اس قابل ہے کہ اسے قائم رکھا جائے کیونکہ ملک کی ترقی کے لئے اس روح کا قائم رہنا ضروری ہے پس وہ پادریوں کا اعزاز کرتے اور انہیں اس قابل سمجھتے ہیں کہ اپنی آنکھوں پر بٹھائیں اور جو کچھ وہ انہیں دیتے ہیں بجائے اس کے کہ اُس کی وجہ سے ان پر احسان رکھیں وہ اسے اُن کی خدمات کا ادنی معاوضہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ بات نہیں.میں اپنی جماعت میں بھی دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے پرانے رسم و رواج کے ماتحت جب کوئی ہم میں سے بھی دنیاوی لحاظ سے کچھ عزت حاصل کر لیتا ہے تو وہ سلسلہ کے مبلغین کو ادنی سمجھنے لگ جاتا ہے حالانکہ جو شخص دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ ادنی انہیں بلکہ اعلیٰ ہے بشرطیکہ مبلغ ہر قسم کی کوتا ہی سے اپنے آپ کو بچائے.میرے نزدیک مبلغوں میں سے بعض ایسے ہو سکتے ہیں بلکہ بعض کمزور مبلغ ایسے ہیں جنہوں نے ظاہر میں دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے مگر درحقیقت وہ دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں.بعض دفعہ وہ جھوٹا ریل بنا دیں گے بعض دفعہ لوگوں سے مانگ کر چیزیں لے لیں گے مگر ایک یا دو یا اس سے زیادہ کی بُرائی سارے مبلغوں کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی.اگر ایک یا دو ایسے مبلغ ہیں جو اس قسم کے ناجائز کام کرنے والے ہیں تو بیسیوں ایسے مبلغ بھی ہیں جنہوں نے حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کیا اور اپنا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے منزہ رکھا.پس دو چار کے نقائص سب کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.اور اگر ہم کسی مبلغ کے متعلق دیکھیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے یا حرص اور لالچ سے کام لیتا ہے یا بعض جگہ سوالی بن جاتا ہے تو ایسے شخص کی ذلت اُسی کے ساتھ تعلق رکھے گی اور وہ ایک آدمی کی ذلت ہوگی نہ کہ مبلغ کی ذلت.تم اس قسم کی حرکات دیکھ کر کہہ سکتے ہو کہ فلاں شخص ذلیل ہے، تم اپنے دل میں محسوس کر سکتے ہو کہ فلاں شخص نے ذلیل کام کیا مگر تم یہ نہیں کہ سکتے کہ مبلغ ہونا ذلت کا کام ہے یا تبلیغ نا پسند یدہ چیز ہے.بہر حال موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ جب ہمارے مبلغ تبلیغ کے لئے جائیں تو بعض لوگ محسوس کریں کہ چونکہ یہ روپیہ لے کر کام کرنے والے ہیں اس لئے انہوں نے ایسی باتیں کہنی ہی ہیں.لیکن اگر ایک ڈاکٹر تبلیغ کے لئے جاتا ہے یا ایک وکیل تبلیغ کے لئے جاتا ہے یا ایک زمیندار تبلیغ کے لئے جاتا ہے یا ایک سرکاری افسر تبلیغ کے لئے جاتا ہے تو وہ لوگ جو مبلغوں سے باتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے وہ اُن سے باتیں سن کر دین کی باتیں سمجھ سکیں گے.اس وجہ سے میں نے تحریک کی

Page 832

خطبات محمود ۸۲۷ سال ۱۹۳۵ء تھی کہ وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے کسی قسم کی فوقیت دی ہے ، خواہ علم کے لحاظ سے خواہ پیشہ کے لحاظ سے خواہ ملازمت کے لحاظ سے ، وہ اپنے نام لکھا ئیں تا انہیں وعظوں اور لیکچروں کے لئے مختلف مقامات کے جلسوں پر بھیجا جا سکے.مجھے افسوس ہے کہ میری اس تحریک پر بہت کم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا ، پیش کیا مگر بہت کم.اور پھر افسوس ہے کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہم اُن سے صحیح رنگ میں فائدہ نہ اٹھا سکے.وجہ یہ ہوئی کہ یہ تمام نام دفتر تحریک جدید میں درج کئے گئے اور چونکہ دفتر تحریک جدید کا کام جلسے کرانا اور لیکچروں کے لئے لوگوں کو بھیجنا نہیں بلکہ یہ کام دعوۃ و تبلیغ کا ہے ، اس لئے یہ کام نہ ہو سکا.اب میں ایک تو دفتر تحریک جدید کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایسی تمام فہرستیں دعوۃ و تبلیغ کے دفتر بھجوا دے اور دوسرے میں دعوت و تبلیغ والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں لیکن چونکہ یہ کام ایک عرصہ سے ہماری جماعت کے ذہن سے اُترا ہوا تھا اس لئے میں دعوۃ وتبلیغ والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لوگوں سے تدریجاً کام لیں.اگر انہوں نے پہلے ہی یکدم لوگوں پر بوجھ ڈال دیا تو جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے وہ اس کی برداشت نہ کر سکیں گے اور کام کرنا چھوڑ دیں گے چونکہ ہماری جماعت کے افراد کے لئے یہ نیا کام ہوگا اس لئے آہستہ آہستہ اس کی انہیں عادت ڈالی جائے.پہلے کسی ایک جلسہ پر انہیں بھیجا جائے کچھ مدت کے بعد دو جلسوں پر ان سے لیکچر دلائے جائیں.اسی طرح تدریج کے ساتھ ترقی کی جائے اور یکدم بار نہ ڈالا جائے.اگر اس طرح کام لیا گیا تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد لوگ کام کرنے کے عادی ہو جائیں گے اور پھر اس قدر انہیں شوق پیدا ہو جائے گا کہ وہ خود کہیں گے ہمیں کسی جلسہ پر لیکچر کے لئے بھیجا جائے.میں نے دیکھا ہے خواجہ کمال الدین صاحب لیکچر دیا کرتے تھے.ہمیں اُن کے لیکچروں پر کتنا ہی اعتراض کیوں نہ ہو چونکہ وہ وکالت کی پریکٹس چھوڑ کر لیکچر دیا کرتے تھے اس لئے لوگوں پر علماء کے لیکچروں سے اُن کے لیکچر کا زیادہ اثر ہوتا تھا.اور وہ بات چاہے کتنی ہی غلط کہتے لوگ کہتے ایک کامیاب وکیل اپنا پیشہ چھوڑ کر جو تبلیغ کر رہا ہے اس کی باتیں تو جہ سے سننی چاہئیں پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کے لئے وہ تمام ذرائع اختیار نہ کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے پیدا کئے ہیں.میں ایک طرف تو دعوۃ وتبلیغ والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس سلسلہ میں اپنے نام پیش کئے ہیں ، اُن کی لسٹ دفتر تحریک جدید

Page 833

خطبات محمود ۸۲۸ سال ۱۹۳۵ء سے لے کر کام شروع کریں اور دوسری طرف میں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنے نام دفتر تحریک جدید میں بھجوائیں تا کہ تبلیغ کے اس طریق سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے احباب گزشتہ سال سے زیادہ اپنے آپ کو اس سلسلہ میں پیش کریں گے.(۲) تحریک جدید کی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں میں نہیں کہہ سکتا میری اس تحریک پر جماعت نے کس حد تک عمل کیا لیکن اپنے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو میرے پاس اُس کی رپورٹ نہیں پہنچی.یادرکھو جس قوم میں بریکاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے.بریکاری ایک وبا کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک طاعون کا مریض سارے گاؤں والوں کو طاعون میں مبتلاء کر دیتا ہے ، جس طرح ایک ہیضہ کا مریض سارے گاؤں والوں کو ہیضہ میں مبتلاء کر دیتا ہے اسی طرح تم ایک بیکار کوسی گاؤں میں چھوڑ دو وہ سارے نو جوانوں کو بیکار بنانا شروع کردے گا.جو شخص بیکار رہتا ہے وہ کئی قسم کی گندی عادتیں سیکھ جاتا ہے مثلا تم دیکھو گے کہ بریکار آدمی ضرور اس قسم کی کھیلیں کھیلے گا جیسے تاش یا شطرنج وغیرہ ہیں.اور جب وہ یہ کھیلیں کھیلنے بیٹھے گا تو چونکہ وہ اکیلا کھیل نہیں سکتا ، اس لئے وہ لازماً دو چار اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہے گا اور پھر وہ اپنے حلقہ کو اور وسیع کرتا جائے گا اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہمارے ایک اُستاد تھے اُن کے دماغ میں کچھ نقص تھا.بعد میں وہ اسی نقص کی وجہ سے مدعی ماموریت اور نبوت بھی ہو گئے.انہیں بھی کسی زمانہ میں تاش کھیلنے کا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ وہ ہمارے اُستاد تھے اور اُن کا کام یہ تھا کہ ہماری تربیت کریں پھر بھی وہ پکڑ کر ہمیں بٹھا لیتے اور کہتے آؤ تاش کھیلیں.اُس وقت ہم کو بھی اس کھیل میں مزہ آتا.کیونکہ بچپن میں جس کام پر بھی لگا دیا جائے اُسی میں بچے کو لذت آتی ہے لیکن آج یہ بیہودہ کھیل معلوم ہوتی ہے.مجھے یاد ہے کہ بعض اور بچے بھی ان کے ساتھ تاش کھیلتے.جب نماز کا وقت آتا تو ہم نماز پر جانے کے لئے گھبراہٹ کا اظہار کرتے لیکن جب انہیں ہماری گھبراہٹ محسوس ہوتی تو کہتے ایک بار اور کھیل لو اور وہ کھیلتے تو تھوڑی دیر کے بعد کہتے ایک بار اور کھیل لو ہمارے کان میں چونکہ ہر وقت یہ باتیں پڑتی رہتی تھیں کہ دین کی کیا قیمت ہے اس لئے جب ہم دیکھتے کہ نماز کو دیر ہو رہی ہے تو اُٹھ کر نماز کے لئے بھاگ جاتے مگر جن کے کانوں میں یہ آواز نہ پڑے کہ دین کی کیا قدرو قیمت ہوتی ہے

Page 834

خطبات محمود ۸۲۹ سال ۱۹۳۵ء اُن کے ساتھ اگر ایسی کھیلوں میں دوست مل جائیں یا کوئی اُستاد ہی مل جائے تو اُن کی زندگی کے تباہ ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے.جس وقت فٹ بال کی کھیل میں مقابلہ ہوتا ہے یا کرکٹ میں مقابلہ ہوتا ہے یا تاش میں مقابلہ ہوتا ہے تو بچے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان کو ترقی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ مقابلہ میں دلچسپی لیتی اور لذت محسوس کرتی ہے.اگر کبھی چوری کے مقابلہ کی عادت ڈال دو تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ چوریاں زیادہ ہونے لگی ہیں اور لوگوں نے چوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دی ہے.یہی مقابلہ کی روح ہے جو تاش وغیرہ کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی زندگی برباد کر دیتی ہے غرض تم کسی شہر میں ایک آوارہ کو چھوڑ دو وہ چونکہ بیکار ہو گا اس لئے اپنی بریکاری کو دور کرنے کے لئے کوئی کام نکالے گا کیونکہ انسان اگر فارغ بیٹھے تو تھوڑے ہی دنوں میں پاگل ہو جائے لیکن چونکہ وہ محنت سے جی چراتا ہے اس لئے بجائے کوئی مفید کام کرنے کے ایسے کام کرتا ہے جن میں اُس کا دن بھی گزر جاتا اور جی بھی لگا رہتا ہے.کہیں تاش شروع ہو جائیں گے، کہیں شطرنج کھیلی جائے گی ،کہیں گانا شروع ہو جائیگا، کہیں بانسریاں بجنی شروع ہو جائیں گی، کہیں سارنگیاں اور پھر طبلے بجنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اسے ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی اور ان سے پیچھے ہٹنا اس کے لئے ناممکن ہو جائے گا..وہ بظاہر ایک آوارہ ہو گا مگر در حقیقت وہ مریض ہو گا طاعون کا ، وہ مریض ہو گا ہیضے کا جو نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ ہزاروں اور قیمتی جانوں کو بھی ہلاک کرے گا.پھر اُس سے متاثر ہونے والے متعدی امراض کی طرح اور لوگوں کو متاثر کریں گے اور وہ اور کو یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ملک کا کثیر حصہ اس لعنت میں گرفتار ہو جائے گا.پس بریکاری ایسا مرض ہے کہ جس علاقہ میں یہ ہو اُس کی تباہی کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.پہلا بریکار اس لئے بنا تھا کہ اس کے والدین نے اس کے لئے کام مہیا نہ کیا لیکن دوسرے بیکار اس لئے بنیں گے کہ وہ ایک بریکار سے متاثر ہو کر اُس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گے.اور اُس کی بد عادات کو اپنے اندر پیدا کر کے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھیں گے کہ کہیں بیٹھے تو گا لیا کہیں سر مار لیا ، کہیں تاش کھیل لی ، کہیں شطرنج کھیل لیا، کہیں جو کھیلنے لگ گئے.غرض بیکاروں کی تمام تر کوشش ایسے ہی کاموں کے لئے ہوگی جو نہ اُن کے لئے مفید نہ سلسلہ کے لئے اور نہ مذہب کے لئے.پھر اقتصادی

Page 835

خطبات محمود ۸۳۰ سال ۱۹۳۵ء لحاظ سے بھی بریکاری ایک لعنت ہے اور جس قدر جلد ممکن ہوڈ ور کرنا چاہئے.ہمارے ملک کی آمد پہلے ہی چھ پائی فی کس ہے اور یہ ہر شخص کی آمد نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی آمد ڈال کر ا وسط نکالی گئی ہے اور ان لوگوں کی آمد ڈال کر نکالی گئی ہے جن کی دو دو تین تین لاکھ روپیہ ماہوار آمد ہے.ورنہ اگر ان کو نکال دیا جائے تو ہمارے ملک کی آمد فی کس دو تین پائی رہ جاتی ہے.جس ملک کی آمدنی کا یہ حال ہو اُس میں سمجھ لو کتنے بیکار ہو نگے.اگر ملک کے تمام افراد کام پر لگے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی.لیکن اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی دو آنے کماتا ہے تو اُس پر اتنے بریکاروں کا بوجھ ہوتا ہے کہ اپنے لئے اُس کی آمد دمڑی رہ جاتی ہے اور جو کماتا ہے اس کی آمد پر بھی اثر پڑتا ہے تو بریکاروں کی وجہ سے ایک تو دوسرے لوگ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ بریکار ان کے لئے بوجھ بنتے ہیں دوسرے جب ملک میں ایک طبقہ ایسا ہو جو آگے نہ بڑھنے والا ہو تو دوسرے لوگوں کا قدم بھی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتا کیونکہ بیکار مزدوری کو بہت کم کر دیتے ہیں.بریار شخص ہمیشہ عارضی کام کرنے کا عادی ہوتا ہے اور جب کسی کی بیکاری حد سے بڑھتی اور وہ بھوکوں مرنے لگتا ہے تو مزدوری کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے لیکن چونکہ اُسے سخت احتیاج ہوتی ہے اس لئے اگر ایک جگہ مزدور کو چار آنے مل رہے ہوں تو یہ دو آنے لے کر بھی وہ کام کر دے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارے مزدوروں کی اُجرت دو آنے ہو جائے گی.اور لوگ کہیں گے کہ جب ہمیں دود و آنے پر مزدور مل جاتے ہیں تو ہم چار آنے مزدوری کیوں دیں.پس وہ ایک بیکار ساری دنیا کے مزدوروں کی اُجرت کو نقصان پہنچا تا اور سب کو دو آنے لینے پر مجبور کر دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں بیکاری زیادہ ہو اُن میں مزدوری نہایت سستی ہوتی ہے کیونکہ بریکار مجبوری کی وجہ سے کام کرتا اور باقی مزدوروں کی اُجرتوں کو نقصان پہنچادیتا ہے.لیکن جن قوموں میں بیکاری کم ہو اُن میں مزدوری مہنگی ہوتی ہے.تو بیکار اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں.بیکار شخص ہمیشہ مانگنے کا عادی ہو گا دوسروں پر بوجھ بنے گا اور اگر کبھی مزدوری کرے گا تو مزدوروں کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا.پس اقتصادی لحاظ سے بھی بیکا روں کا وجود سخت خطر ناک ہے.پھر نہ صرف اقتصادی لحاظ سے بیکاروں کا وجود خطرناک ہے بلکہ قومی لحاظ سے بھی اِن کا وجود خطرناک ہے.اگر کسی قوم میں دس ہزار میں سے ایک ہزار بیکار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس قوم کے پاس سو میں سے صرف نوے شخص موجود ہیں اور ان پر بھی دس فیصدی کا بوجھ ہے.ایسی قوم دنیا کی اور

Page 836

خطبات محمود ۸۳۱ سال ۱۹۳۵ء قوموں کے مقابلہ میں جن کا ہر فرد خود کمانے کا عادی ہو کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے.نیلامی میں اس قسم کا نظارہ دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے.ایک شخص کے پاس ایک سو روپیہ ہوتا ہے اور دوسرے کے پاس ایک سو ایک لیکن یہ سو روپیہ پاس رکھنے والا شخص وہ چیز نہیں لے سکتا جو صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے والا اُس کا مخالف لے جاتا ہے.اگر صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے سے نیلامیوں میں مخالف کامیاب ہو جاتا ہے تو جہاں سو کے مقابلہ میں کسی کے پاس نوے روپے ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے ایسے شخص کا تو شکست کھا جانا یقینی ہے.ہندوؤں کو دیکھ لو ان میں چونکہ بیکا ر کم ہیں اس لئے وہ ہر مرحلہ پر مسلمانوں کو شکست دے دیتے ہیں، اُن کی قوم دولت کمانے کی عادی ہے اور گو وہ دنیا کی خاطر دولت کماتی ہے جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے مگر اقتصادی اور قومی طور پر اس کا نتیجہ ان کے لئے نہایت ہی خوشکن نکلتا ہے.پس میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جو لوگ بیکار ہیں وہ معمولی سے معمولی مزدوری کرلیں مگر بیکار نہ رہیں.لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا تو بہت کم حالانکہ اگر کوئی شخص بی.اے.یا ایم.اے ہے اور اُسے ملازمت نہیں ملتی اور وہ کوئی ایسا کام شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ دو یا پانچ روپے ماہوار کماتا ہے تو اس کا اُسے بھی فائدہ ہوگا اور جب وہ کام میں مشغول رہے گا تو دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا اور اس سے عام لوگوں کو وہ نقصان نہیں پہنچائے گا جو بیکار شخص سے پہنچتا ہے.بلکہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اُس کے اخلاق درست ہوں گے.محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اُس کے ماں باپ کا روپیہ جو اُس پر صرف کرتے تھے ضائع نہیں ہو گا اور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اُس سے قوم کو بھی فائدہ پہنچے گا.غرضیکہ وہ اپنی قوم اخلاقی حالت کو بھی درست کرے گا اور اور اقتصادی حالت کو بھی.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں جو لوگ اپنے بریکار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے ہمارے گھر سے روٹی کھاتا ہے کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.یا میرا بچہ ہیضہ سے بیمار ہے کسی اور کوگھبرانے کی کیا ضرورت ہے.جس طرح طاعون کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے متعلق کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سارے شہر کو حق حاصل ہے کہ

Page 837

خطبات محمود ۸۳۲ سال ۱۹۳۵ء اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرے اور اس بیماری کو روکے.جس طرح ہیضہ کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سارا شہر اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اسکے متعلق گھبراہٹ ظاہر کرے اور اس بیماری کو روکے.اسی طرح جو شخص بر کا رہے اُس کے متعلق تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُسے ہم خود روٹی کھلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے بلکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بریکاری کے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ وہ طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں کی طرح دوسرے بچوں کا خون چوستا اور انہیں بد عادات میں مبتلاء کرتا ہے.تم ہیضہ کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو تم طاعون کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو مگر تم ہیضہ اور طاعون کے کیڑوں کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے.کیونکہ وہ پھیلیں گے اور دوسروں کو مرض میں مبتلاء کریں گے.اسی طرح تم یہ کہہ کر کہ ہم اپنے بچوں کو کھلاتے اور پلاتے ہیں اس ذمہ داری سے عہدہ برانہیں ہو سکتے جو تم پر عائد ہوتی ہے بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے اس بیماری کو دور کر و دور نہ قوم اور ملک اس کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں گے.پس یہ معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جاسکے.اگر ایک کروڑ پتی کا بچہ بھی بیکار ہے تو وہ اپنے گھر کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی تباہ کرتا ہے.یا درکھو تمام آوارگیاں بیکاری سے پیدا ہوتی ہیں اور آوارگی سے بڑھکر دنیا میں اور کوئی جرم نہیں میرے نزدیک چور ایک آوارہ سے بہتر ہے بشرطیکہ ان دونوں جرائم کو الگ الگ کیا جا سکے.اور اگر چوری اور آوارگی کو الگ الگ کر کے میرے سامنے رکھا جائے تو یقیناً میں یہی کہونگا کہ چور ہونا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا قتل نہایت ناجائز اور ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اگر میری طرح کسی نے اخلاق کا مطالعہ کیا ہو اور اِن دونوں جرائم کو الگ الگ رکھ کر اس سے دریافت کیا جائے کہ ان میں سے کونسا فعل زیادہ بُرا ہے تو وہ یقیناً یہی کہے گا کہ قتل کرنا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا.کیونکہ ممکن ہے قاتل پر ساری عمر میں صرف ایک گھنٹہ ایسا آیا ہو جبکہ اُس نے جوش میں آکر کسی شخص کو قتل کر دیا ہو لیکن آوارہ آدمی ساری عمر ذ ہنی طور پر قاتل بنا رہتا ہے اور اپنی عمر کے ہر گھنٹہ میں اپنی روح کو ہلاک کرتا ہے تم ایک قاتل کو نیک دیکھ سکتے ہو لیکن تم کسی آوارہ کو نیک نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہوسکتا ہے ایک شخص نیک ہو لیکن اُس کی عمر میں ایک گھنٹہ ایسا آ جائے جب وہ جوش میں آ کر کسی کو قتل کر دے اور قتل کے بعد اپنے

Page 838

خطبات محمود ۸۳۳ سال ۱۹۳۵ء کئے پر پشیمان ہو اور دوسرے گھنٹہ میں ہی وہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے اور کہے کہ اے میرے رب! مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف فرما ئیں پس ہو سکتا ہے وہ معاف کر دیا جائے لیکن آوارہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کیونکہ وہ مُردہ ہوتا ہے اُس میں کوئی روحانی حسن باقی نہیں ہوتی.میرے نزد یک دنیا کا خطرناک سے خطر ناک مجرم آوارگی سے کم ہے.اور آوارگی مجموعہ جرائم ہے.کیونکہ مجرم ایک جزو ہے اور آوارگی تمام جرائم کا مجموعہ.ایک بادشاہ کے ہاتھ کی قیمت بادشاہ کی قیمت سے کم ہے، ایک جرنیل کے ہاتھ کی قیمت جرنیل سے کم ہے اسی طرح ہر جرم کی پاداش آوارگی سے کم ہے کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی اس کا گل ہے.تم دنیا سے آوارگی مٹاڈالو تمام جرائم خود بخو دمٹ جائیں گے.تمام جرائم کی ابتداء بچپن کی عمر سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ آوارگی میں مبتلاء ہوتا ہے تم بچے کو کھلا چھوڑ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ بچہ ہے اس پر کیا پابندیاں عائد کر یں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خطرناک جرائم کا عادی بن جاتا ہے.اگر دنیا اپنے تمدن کو ایسا تبدیل کر دے کہ بچے فارغ نہ رہ سکیں تو یقیناً دنیا میں جرائم کی تعداد معقول حد تک کم ہو جائے.لوگ اصلاح اخلاق کے لئے کئی کئی تجویز میں سوچتے اور قسم قسم کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ سب نا کام رہتی ہیں اس کے مقابلہ میں اگر بچوں کو کام پر لگا دیا جائے اور بچپن کی عمر کو فارغ عمر نہ قرار دیا جائے تو نہ چوری باقی رہے نہ جھوٹ ، نہ دغا ، نہ فریب اور نہ کوئی اور فعل بد.بالعموم لوگ بچپن کی عمر کو بیکاری کا جائز زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بریکاری بھی ویسی ہی نا جائز ہے جیسے بڑی عمر میں کسی کا بریکار رہنا.چنانچہ ہماری شریعت نے اس کو خصوصیت سے مد نظر رکھا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق امت محمدیہ کو ہدایت دی ہے.پاگل اور دیوانے کہتے ہیں کہ یہ بے معنی حکم ہے.حالانکہ یہ بہترین تعلیم ہے جو بچوں کے اخلاق کی اصلاح کے لئے رسول کریم ﷺ نے دی.آپ فرماتے ہیں جب بچہ پیدا ہو تو اُس کے دائیں کان میں اذان کہو اور بائیں میں اقامت.وہ بچہ جو ابھی بات نہیں سمجھتا ، وہ بچہ جو آج ہی پیدا ہوا ہے رسول کریم ہے اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج ہی اس سے کام لو اور پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو.کیا تم سمجھتے ہو کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمہیں اس کے کان میں اذان دینی چاہئے لیکن دوسرے اور تیسرے دن نہیں.کیا پہلے دن بچہ اذان کو سمجھ سکتا تھا مگر مہینہ کے بعد کم فہم ہو جاتا ہے کہ تم اس حکم کو نظر انداز کر دیتے ہو یا سمجھتے ہو کہ پہلے دن تو وہ اس قابل تھا کہ اس سے کام لیا

Page 839

خطبات محمود ۸۳۴ سال ۱۹۳۵ء جا تا لیکن سال دو سال گزرنے کے بعد وہ نا قابل ہو گیا ہے.جو شخص ہمیں یہ نصیحت کرتا ہے کہ تم بچہ کے پیدا ہوتے ہی اُس کے کان میں اذان دو یقیناً وہ اس تعلیم کے ذریعہ ہمیں اس نکتہ سے آگاہ کرتا ہے کہ بچہ کا ہر دن تعلیم کا دن ہے.اور ہر روز اُس کی تربیت کا تمہیں فکر کرنا چاہئے.مگر امت محمدیہ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا.ہمیں خدا تعالیٰ نے ایسا معلم دیا تھا جس کا ہر ہر لفظ اس قابل تھا کہ دنیا کے خزانے اُس پر نچھا رو کر دیئے جائیں.اُس نے ہمیں معرفت کے موتی دیئے ، علوم کے خزانے بخشے ، اور ایسی کامل تعلیم دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے مگر افسوس لوگوں نے اُس کی قدر نہ کی.تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں پیدا ہوامگر اُس کے کان میں اذان نہ کہی گئی.پھر کیوں تم نے اب تک یہ نقطہ نہیں سمجھا کہ رسول کریم ﷺ نے بریکاری کو تو سب سے بڑی لعنت قرار دیا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس لعنت سے بچاؤ.تم دنیا میں دیکھتے ہو کہ جب کارخانہ والوں کے سپر د کوئی مزدور کیا جاتا ہے تو وہ اُس کا نام رجسٹر میں درج کر لیتے ہیں اور اُس سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں.کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کا رخانہ والوں نے کسی مزدور کا نام رجسٹر میں درج کر لینے کے بعد اُسے دو چار سال کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہو.اگر نہیں تو رسول کریم ﷺ نے تمہارے منہ سے کسی بزرگ کے ذریعہ تمہارے بچوں کے کانوں میں اذان دلا کر کہا کہ اب اس کا نام میری اُمت کے رجسٹر میں درج ہو گیا.تم نے اس بچے کا نام رجسٹر میں درج تو کرا لیا مگر پھر اسے صلى الله کارخانہ سے چھٹی دے دی پس اس غفلت اور کوتاہی کا تم پر الزام عائد ہوتا ہے رسول کریم ﷺ پر نہیں.ہر نبی اپنی اُمت کا ذمہ دار ہوتا ہے.جب رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہو تو اس کے بعد قیامت کے دن اگر محمد ہے.خدا تعالیٰ پوچھے کہ اے محمد یہ تیری اُمت کے بیکار جو چور ، قاتل ، جھوٹے ، اور دغا باز ، فریبی ، اور مکار بن گئے اور خون چوسنے والی جونکوں کی طرح انہوں نے ظلم سے دوسروں کی اولادوں کو بھی تباہ کیا ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ تو رسول کریم ﷺ کہ دیں گے اے خدا! اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میں نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُسی دن اس کے کان میں اذان دو جس کا یہ مطلب تھا کہ اُسی دن بچوں کو کام پر لگا دو اور اُن کی نگرانی کرو.رسول کریم ﷺہ تو یہ جواب دے کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے دیں گے مگر ذمہ داری اُن لوگوں پر عائد ہو جائے گی جن کے گھروں میں بریکار بچے

Page 840

خطبات محمود ۸۳۵ سال ۱۹۳۵ء رہے اور انہوں نے اُن کی بریکاری کو دور کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا.پس یہ غلطی ہے کہ ہمارے ملک میں بچپن کے زمانہ کو بریکاری کا زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بچپن کا زمانہ بریکاری کا زمانہ ہے تو پھر چوری چوری نہیں اور فریب فریب نہیں.تمام بدکاریاں اور تمام قسم کے فسق و فجور بچپن میں ہی سیکھے جاتے ہیں.اور پھر ساری عمر کے لئے لعنت کا طوق بن کر گلے میں پڑ جاتے ہیں.پس بریکاری کا ایک دن بھی موت کا دن ہے جب تک ہماری جماعت اس نکتہ کو نہیں سمجھتی حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو سمجھانے والے دیئے ہیں اُس وقت تک وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی.دیکھو! رسول کریم ﷺ نے یہ بات کہی مگر لوگوں نے نہ سمجھی.اب میں نے بتائی ہے اور یہ میں آج ہی نہیں کہہ رہا.بلکہ میں مختلف رنگوں اور مختلف پیراؤں میں کئی دفعہ اس بات کو دُہرا چکا ہوں.مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ میں اسلام کے کسی حکم کو بھی لوں ، اُسے ہر دفعہ نئے رنگ میں بیان کر سکتا اور نئے پیرا یہ میں لوگوں کے ذہن نشین کر سکتا ہوں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مختلف رنگوں میں ایک بات کو سنو ، مزے لو اور عمل نہ کرو.اس کے نتیجہ میں تمہارا جرم اور بھی بڑھ جا تا ہے کیونکہ تمہیں ایک ایسا شخص ملا جس نے ایک ہی بات مختلف دلکش اور مؤثر پیراؤں میں تمہارے سامنے رکھی مگر پھر بھی تم نے اس کی طرف توجہ نہ کی.پس تحریک جدید میں میں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ بریکاری کو دور کیا جائے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی.(۳) میں نے اس کا ایک مرکز بنانے کے لئے بورڈ نگ تحریک جدید قائم کیا ہے.میں خوش ہوں کہ جماعت نے اس بورڈنگ میں اپنے لڑ کے داخل کرنے کے متعلق میری تحریک پر عمل کیا اور اس وقت ساٹھ سے اوپر طالب علم بورڈ نگ تحریک جدید میں داخل ہیں لیکن یہ تعداد بھی کافی نہیں.اور پھر میرے مد نظر تحریک جدید کا صرف ایک بورڈنگ نہیں بلکہ دو ہیں.ایک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ اور دوسرا مدرسہ احمدیہ کے ساتھ.پھر میرے مد نظر یہ بھی ہے کہ اسی طرز پر لڑکیوں کے لئے بھی ایک بورڈ نگ قائم کیا جائے اور میرا منشاء یہ ہے کہ جماعت کے کسی لڑکے اور لڑکی کو فارغ نہ رہنے دیا جاۓ.میرے پاس بورڈ نگ تحریک جدید کے سپر نٹنڈنٹ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ لڑکوں کے پاس اتنا کام ہے کہ اور زیادہ کام کے لئے ان کے پاس کوئی وقت نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر اوقات کا صحیح استعمال کیا جائے تو کام نہایت قلیل عرصہ میں ختم ہو سکتا ہے اور باقی وقت اور کاموں کے لئے بچ سکتا ا

Page 841

خطبات محمود ۸۳۶ سال ۱۹۳۵ء ہے.میں دیکھتا ہوں وہی کام جو میں تھوڑے سے وقت میں کر لیتا ہوں اگر کسی دوسرے کے سپرد کروں تو وہ دو گنا بلکہ بعض دفعہ چوگنا وقت لے لیتا ہے بلکہ بعض کام جو میں دو گھنٹے میں کر لیتا ہوں اگر کسی اور کے سپر د کروں تو وہ ۲۴ گھنٹے خرچ کر دیتا ہے.درحقیقت انسانی دماغ میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ اگر انسان چوکس اور ہوشیار ہو کر بات سنے اور اس پر عمل کرے تو وہ اتنی جلد بات سمجھ لیتا اور کام کو پورا کر دیتا ہے کہ دوسرے حیران رہ جاتے ہیں پس اگر تحریک جدید کے بورڈروں کو ہوشیار بنایا جائے اور ان میں چستی اور بیداری پیدا کی جائے تو ان کا دن ۲۴ گھنٹے کا نہ رہے بلکہ ۴۸ یا ۷۲ گھنٹے کا بن جائے یا اس سے بھی زیادہ کا.تو در حقیقت وقت کی زیادتی آپ ہی آپ ہو سکتی ہے.اگر لڑکے کو چست بنایا جائے اسے جلدی جلدی لکھنے کی عادت ڈال دی جائے ،جلدی جلدی بات سمجھنے کی قابلیت اس میں پیدا کی جائے ، اور اُس کے تمام عقلی قومی کو تیز کر دیا جائے تو وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۴ گھنٹے میں کام ختم نہیں ہو تا شکوہ کریں گے کہ ہمارے پاس وقت ہے مگر کام نہیں.لیکن جلدی سے مراد بے وقوفی نہیں بلکہ سوچ کر اور سمجھ کر جلدی کام کرنا مراد ہے.وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے روحانی آنکھیں دی ہوئی ہوتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ جلد بازی اور جلدی سے کام کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے.مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ہی مخلص صحابی گزرے ہیں.احمدیت سے پہلے وہ وہابیوں کے مشہور عالم تھے.اور ان میں انہیں بڑی عزت حاصل تھی.جب احمدی ہوئے تو باوجود اس کے کہ اُن کے گزارہ میں تنگی آگئی پھر بھی انہوں نے پرواہ نہ کی.اور اسی غربت میں دن گزار دیئے.بہت ہی مستغنی المزاج انسان تھے انہیں دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہیں بلکہ بظاہر انسان یہی سمجھتا تھا کہ یہ کوئی کمی ہیں بہت ہی منکسر طبیعت کے تھے.مجھے اُن کا ایک لطیفہ ہمیشہ یادرہتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں سخت مخالفت ہوئی تو اس کے بعد آپ جب واپس آئے تو مخالفوں کو جس جس شخص کے متعلق پتہ لگا کہ یہ احمدی ہے اُسے سخت تکلیفیں دینی شروع کر دیں.مولوی برہان الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹرین پر سوار کرا کے سٹیشن سے واپس جا رہے تھے کہ لوگوں نے اُن پر گو بر اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا.اور ایک نے تو گو بر آپ کے منہ میں ڈال دیا مگر وہ بڑی خوشی سے اس تکلیف کو

Page 842

خطبات محمود ۸۳۷ سال ۱۹۳۵ء برداشت کرتے گئے اور جب بھی ان پر گوہر پھینکا جاتا تھا بڑے مزے سے کہتے تھے کہ ایہہ دن کتھوں.ایہ خوشیاں کتھوں اور بتانے والے نے بتایا کہ ذرا بھی اُن کی پیشانی پر بل نہ آیا.غرض بہت ہی مخلص انسان تھے.وہ اپنے احمدی ہونے کا موجب ایک عجیب واقعہ سنایا کرتے تھے احمدی گو وہ کچھ عرصہ بعد میں ہوئے ہیں.مگر انہوں نے دعوئی سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا تھا.درمیان میں کچھ وقفہ پڑ گیا.انہوں نے ابتداء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا تو پیدل قادیان آئے.یہاں آ کر پتا لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لے گئے ہیں شاید کسی مقدمہ میں پیشی تھی یا کوئی اور وجہ تھی مجھے صحیح معلوم نہیں.آپ فوراً گورداسپور پہنچے.وہاں انہیں حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم ملے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیرینہ خادم اور دعویٰ سے پہلے آپکے ساتھ رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذیل گھر میں یا کہیں اور ٹھہرے ہوئے تھے.اور جس کمرہ میں آپ مقیم تھے اُس کے دروازہ پر چک پڑی ہوئی تھی.مولوی برہان الدین صاحب کے دریافت کرنے پر حافظ حامد علی صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرہ میں کام کر رہے ہیں.انہوں نے کہا میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.حافظ صاحب نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصروفیت کی وجہ سے منع کیا ہوا ہے اور حکم دے رکھا ہے کہ آپ کو نہ بلایا جائے.مولوی صاحب نے منتیں کیں کہ کسی طرح ملاقات کرا دو مگر حافظ صاحب نے کہا میں کس طرح عرض کر سکتا ہوں جبکہ آپ نے ملنے سے منع کیا ہوا ہے.لیکن آخر بہت سی منتوں کے بعد انہوں نے حافظ صاحب سے اتنی اجازت لے لی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چک سے جھانک کر زیارت کر لیں یا یہ کہ ان کی نظر بچا کر مجھے اس وقت یہ تفصیل یاد نہیں وہ اُس کمرہ کی طرف گئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور چک اُٹھا کر جھانکا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے ہیں.اُس وقت آپ کی دروازہ کی طرف پشت تھی اور بڑی تیزی سے دیوار کی دوسری طرف جارہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ کتاب، اشتہار یا کوئی مضمون لکھتے تو بسا اوقات ٹہلتے ہوئے لکھتے جاتے اور آہستہ آواز سے اُسے ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے.اُس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی مضمون لکھ رہے اور بڑی تیزی سے ٹہلتے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے.دیوار کے قریب پہنچ کر جب حضرت

Page 843

خطبات محمود ۸۳۸ سال ۱۹۳۵ء مسیح موعود علیہ السلام واپس مڑنے لگے تو مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں میں وہاں سے بھاگا تا آپ کہیں مجھے دیکھ نہ لیں.حافظ حامد علی صاحب نے یا کسی اور نے پوچھا کیا ہو !؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر لی ؟ وہ کہنے لگے.بس پتہ لگ گیا اور پنجابی زبان میں کہنے لگے ” جہیڑا کمرے وچ اتنا تیز تیز چلدا ہے اُس نے کسی دُور جگہ ہی جانا ہے یعنی جو کمرہ میں اس قدر تیز چل رہا ہے معلوم ہوتا ہے اُس کی منزلِ مقصود بہت دور ہے.اور اُسی وقت آپ کے دل میں یہ بات جم گئی کہ آپ دنیا میں کوئی عظیم الشان کام کر کے رہیں گے.یہ ایک نکتہ ہے مگر اُس کو نظر آ سکتا ہے جسے روحانی آنکھیں حاصل ہوں.وہ اُس وقت بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات کئے چلے گئے مگر چونکہ یہ بات دل میں جم چکی تھی اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی.اور پھر اس قدرا خلاص بخشا کہ انہیں کسی کی مخالفت کی پر واہ ہی نہ رہی.تو تیزی کے ساتھ کام کرنے سے اوقات میں بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے.پس بچوں کو جلدی کام کرنے اور جلدی سو چنے کی عادت ڈالی جائے.مگر جلدی سے مراد جلد بازی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیزی سے کام کرنا ہے.جلد باز شیطان ہے لیکن سوچ سمجھ کر جلدی کا کام کرنے والا خدا تعالیٰ کا سپاہی ہے.پھر میرا منشاء ہے کہ نہ صرف موجودہ بورڈ نگ تحریک جدید کو ترقی دی جائے بلکہ ایسا ہی ایک بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ قائم کیا جائے اور اسی طرح کا ایک بورڈ نگ لڑکیوں کے لئے بنایا جائے اور میرا منشاء ہے کہ آہستہ آہستہ لڑکوں کو اتنا تیز کام کرنے کا عادی بنایا جائے کہ وہ علاوہ تعلیم کے دوسرے کاموں کے بھی وقت نکال سکیں اور ہو سکے تو اپنے لئے غلہ بھی خود پیدا کریں ، سبزیاں خود پیدا کریں یعنی کھیتی باڑی کا کام بھی کریں.اس سے دو فائدے ہو نگے ایک تو یہ کہ ان میں سے کبر مٹ جائے گا اور دوسرے یہ کہ بڑے ہو کر وہ نوکریوں پر نظر نہیں رکھیں گے بلکہ پیشوں کی طرف توجہ دیں گے.پھر اس کا یہ بھی فائدہ ہو گا کہ ان کی صحت اچھی رہے گی.ابھی ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں کہ لڑکوں سے کھیتی باڑی کا کام لیا جائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ بورڈنگ میں یہ نقص ہے کہ اس کے اردگرد عمارتیں بن گئی ہیں اور کھیتی باڑی کے لئے کوئی زمین نہیں رہی.بورڈنگ ایسی جگہ ہونا چاہئے جس کے ارد گرد کم از کم چالیس پچاس ایکڑ جگہ ہو اور بچوں کا یہ کام ہو کہ وہ صبح اُٹھتے ہی

Page 844

خطبات محمود ۸۳۹ سال ۱۹۳۵ء کھیتی باڑی کا کام کریں.پھر مرغی خانہ کا کام بھی اُنہیں سکھایا جائے اور اس طرح اپنے لئے وہ سبزی خود پیدا کریں، غلہ خود پیدا کریں اور اگر گوشت کی ضرورت ہو تو وہ بھی مرغیاں ذبح کر کے اپنے لئے آپ مہیا کیا جائے.اس طرز پر کام کرنے کے نتیجہ میں جہاں ماں باپ کے اخراجات کم ہو جائیں گے وہاں لڑکوں میں کام کرنے کی عادت پیدا ہو گی ، اُن کا ذہن تیز ہو گا اور صحت مضبوط رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپ دن بھر گھر کے اندر کام کرتے لیکن روزانہ ایک دفعہ سیر کے لئے ضرور جاتے اور ۷۴.۷۵ برس کی عمر کے باوجود سیر پر اس قدر با قاعدگی رکھتے کہ آج وہ ہم سے نہیں ہو سکتی.ہم بعض دفعہ سیر پر جانے سے رہ جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو کھلی ہوا کے اندر چلنا پھرنا اور اُس سے فائدہ اُٹھانا دماغ کے لئے بہت مفید ہوتا ہے اور جب تحریک جدید کے بور ڈر کھلی ہوا میں رہ کر مشقت کا کام کریں گے تو جہاں ان کی صحت اچھی رہے گی وہاں ان کا دماغ بھی ترقی کرے گا اور وہ دنیا کے لئے مفید وجود بن جائے گا.پس یہ تحریک آج میں پھر کرتا ہوں کہ جماعت کے احباب اپنے بچوں کو بورڈ نگ تحریک جدید میں داخل کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جو نو جوان بچوں کے لئے سپر نٹنڈنٹ مقرر ہیں وہ بچوں کی تعلیم اور ترقی میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور تندہی کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کر رہے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہر لحاظ سے پورا کام کر رہے ہیں ابھی ان کے لئے بھی ترقی کی بہت گنجائش ہے لیکن بہر حال وہ اس کام میں دلچسپی لے رہے ہیں اور چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انہیں بچپن سے دین کی طرف رغبت ہے اس لئے امید ہے کہ اگر انہوں نے اس میں ترقی کرنے کی کوشش کی تو وہ خود بھی فائدہ حاصل کر سکتے اور بچوں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں علاوہ ازیں اس ذریعہ سے بریکاری کا بھی ایک حد تک ازالہ ہوسکتا ہے.پس یہ تین تحریکیں آج میں پھر دُہراتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوست ان کی طرف توجہ کریں گے تمام دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کام ہمیشہ کرنے سے ہوتے ہیں باتیں کرنے سے نہیں ہوتے.میں نے پچھلے دو خطبوں میں ایک پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اور ایک چار پانچ پہلے جمعوں میں سے کسی ایک جمعہ کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دوتب بھی خدا تعالیٰ غیب سے سامان پیدا

Page 845

خطبات محمود ۸۴۰ سال ۱۹۳۵ء کر دے گا.لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہی اور جس کا نقشہ اُس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو وہ ضرور ہو کر رہے گی خواہ دوست دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں.اس پر بعض دوستوں نے شکوہ کیا ہے کہ آپ نے یہ الفاظ کیوں کہے ہمیں ان سے تکلیف ہوئی ہے ہم تو آپ پر اپنی جان اور اپنا مال سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ الفاظ اس قابل نہیں تھے کہ اس پر انہیں تکلیف ہوتی بلکہ اس قابل تھے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے دین کے متعلق اسی قسم کے الفاظ کہتے.یہ خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے اور خدا تعالیٰ کے معاملہ میں رقابت کی ضرورت ہوتی ہے.میں تو چاہتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہو جس کے دل میں یہ احساس نہ ہو کہ خواہ ساری دنیا احمدیت کو چھوڑ دے پھر بھی وہ خدا کے سلسلہ کو پھیلا کر رہے گا.پس یہ صدمہ والی بات نہ تھی بلکہ رقابت والی بات تھی اور تم میں سے ہر شخص کو میری طرح یہ کہنا چاہئے تھا کہ اگر ساری دنیا الگ ہو جائے اور کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ رہے پھر بھی احمدیت دنیا کے کناروں تک پھیلا کر چھوڑیں گے کیونکہ یہ خدا کا سلسلہ ہے اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.میں نے اس کے ساتھ ایک مثال بھی دی تھی اور بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے قرب میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی سوال نہیں ہوتا.وہ یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ آپ جو کام بھی شروع فرماتے دائیں طرف سے شروع کرتے.ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ کوئی شخص دودھ لایا.آپ نے تھوڑا سا پی کر چاہا کہ باقی تبرک حضرت ابو بکر گودیں مگر وہ اُس وقت آپ کے بائیں طرف تھے اور دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا تھا.آپ نے دائیں طرف منہ کر کے اُس نوجوان سے پوچھا کہ میاں ! اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر گودے دوں.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ یہ آپ کا حکم ہے یا آپ مجھے اختیار دیتے ہیں کہ میں جو چاہوں کہوں.آپ نے فرما یا حکم تو نہیں.وہ کہنے لگا تو پھر ادھر لائیے.تبرک کے معاملہ ہیں میں کسی کو اپنے آپ پر ترجیح نہیں دے سکتا.تو خدا تعالیٰ کے معاملہ میں سارے بندے رقیب ہیں ہر بندے کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دوسرے سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو.پس میں وہ الفاظ کہہ کر صرف اپنا احساس بیان نہیں کر رہا تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ تم میں سے ہر شخص کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی اشاعت کا وہی ذمہ دار ہے.اور اگر ایسا احساس تم میں پیدا ہو جائے تو پھر نہ وعظ کی ضرورت ہے نہ لمبے خطبوں کی.پھر اتنی ہی ضرورت ہوگی کہ میں کھڑا ہو کر

Page 846

خطبات محمود ۸۴۱ سال ۱۹۳۵ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر کے مختصر سے مختصر خطبہ بیان کر دوں کیونکہ مجھے علم ہوگا کہ ہر شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور اسے کسی وعظ کی ضرورت نہیں.پس جس دن تم یہ سمجھنے لگ جاؤ گے کہ تم دنیا میں خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہو اور تمہارے سپر دہی یہ کام ہے کہ تم ساری دنیا میں احمدیت پھیلاؤ اُس دن کسی نصیحت ، کسی لیکچر کی ضرورت نہ رہے گی تم خود خدا تعالیٰ کی چلتی پھرتی تلوار میں ہو گے جو آپ ہی آپ ضلالت اور کفر و شرک کی گردنیں کاٹتی پھریں گی.یاد رکھو! وعظ ونصیحت سے اُسوقت تک کچھ نہیں بنتا جب تک دلوں میں تغیر پیدا نہ کیا جائے.اور جب تک یہ سمجھا نہ جائے کہ ہم پر اشاعت دین کی ذمہ داری ہے.جب تک یہ تغیر پیدا نہیں ہوتا وعظ و نصیحت کی ضرورت رہتی ہے.اور جب لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہیں اور ہمارا اپنا کام ہے کہ بغیر کسی تحریک کے خود بخود کام کرتے چلے جائیں.وہ دن ترقی کا ہوتا ہے اور اس دن اسے جماعت کو بیدار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.میں نے تحریک جدید کے مالی حصہ کے لئے چندہ کی اپیل کی تھی اسکے متعلق میں نے دیکھا ہے جو لوگ بیدار اور ہوشیار تھے انہوں نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ کب انکی جماعت کی طرف سے مجموعی طور پر چندہ کی فہرست جاتی ہے بلکہ اُنہوں نے تحریک سنتے ہی اپنے وعدے لکھوا دیئے اور جن جماعتوں میں ایسے آدمی کم تھے اُن کی طرف سے اب آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نام پہنچ رہے ہیں.مگر جو جو شیلے تھے انہوں نے جھٹ پٹ اپنے نام بھجوا دیئے اور سمجھ لیا کہ بعد میں جماعت کے چندہ دہندگان میں بھی اپنا نام لکھا دیں گے سستی کر کے اپنے ثواب کو کیوں کم کریں.یہ آگ جس دن ایک یادو کے دل میں نہیں بلکہ تمام لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی اُس دن تمام وعظ دل سے پیدا ہو نگے اور خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے دلوں میں بیٹھ کر آپ تمہاری راہ نمائی کریں گے مگر وہ جن کے دلوں میں یہ آگ نہیں وہ ایک بیل گاڑی کی طرح ہیں جسے کھینچنے کے لئے بیلوں کی ضرورت ہوتی ہے.یا گھوڑے گاڑی کی طرح ہیں جس کے آگے جب تک گھوڑے نہ جوتے جائیں حرکت نہیں کر سکتی.مگر جن کے دلوں میں آگ پیدا ہو جائے وہ انجن کی طرح ہو جائیں گے جو کسی بیرونی تحریک کے محتاج نہ ہونگے بلکہ اُن کے اندر کی آگ خود بخود انہیں قربانیوں پر آمادہ کرے گی.پس یہ باتیں صرف سن لینے سے کام نہیں چلتا بلکہ کام اُس آگ کے ذریعہ ہو گا جو تمہارے دلوں میں پیدا ہوگی جب تک جماعت کے افراد کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ سلسلہ کے کاموں کے وہ خود ذمہ دار ہیں

Page 847

خطبات محمود ۸۴۲ سال ۱۹۳۵ء وہ یہ نہ دیکھیں کہ اُن کا سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کیا کرتا ہے بلکہ اگر سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ستی کرتا ہے تو خود اُس کی بجائے کام کریں ، اُس وقت تک حقیقی معنوں میں ترقی نہیں ہو سکتی.میں نے دیکھا ہے کہ جس جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ صاحب خود چندہ نہ دینا چاہیں وہ کام کو پیچھے کرتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ اگر جماعت کا ہر فرد اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کے لئے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سمجھے تو وہ اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی سستی کی وجہ سے ثواب سے محروم نہ رہے بلکہ اگر وہ سست ہوں تو اُن کی بجائے آپ جماعت میں چندہ کی تحریک شروع کر دے اور سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کے کاموں کا بھی خود ثواب لے لے.میں نہیں سمجھ سکتا اگر تحریک جدید کے چندہ کے فارم لے کر کوئی شخص چل پڑے اور لوگوں سے وعدے لینا شروع کر دے تو اسکے متعلق کوئی شخص کہہ سکے کہ یہ مجرم ہے ، سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو یہ کام کرنا چاہئے تھا.اگر سیکر ٹری یا پریذیڈنٹ چاہتا ہے کہ ثواب لے تو اُس کا فرض ہے کہ دوسروں سے پہلے کام کرے.اور اگر وہ کام نہیں کرتا اور جماعت کا کوئی اور فر دلوگوں سے چندہ لینا یا چندے کے وعدے لکھوانا شروع کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور وہی پریذیڈنٹ ہے.غرض تحریکیں ہی کتنی اعلیٰ ہوں جب تک کام نہ شروع کیا جائے اور اُس میں سرگرمی نہ دکھائی جائے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.پس اپنے اندر وہ آگ پیدا کر و جو تمہیں انجن بنا دے.تم بیل گاڑی نہ بنادے.بنو جو بیلوں کی محتاج ہوتی ہے بلکہ تم انجن بنو جو دوسروں کو بھی کھینچ کر لے جاتا ہے.جس دن اس قسم کے لوگ جماعت میں پیدا ہو جائیں گے تمام کام خود بخود سہولت سے ہوتے چلے جائیں گے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے پاک اور مقدس مہینہ کے طفیل ہماری جماعت کی غفلت اور ستی کو دور کرے اور ہر شخص میں یہ روح پیدا کرے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں خدا تعالیٰ کا نمائندہ اور دینی خدمت کا ذمہ دار سمجھے.دیکھو! خدا تعالیٰ نے خاص طور پر بعض کو خلفا ءقرار دیا ہے مگر ایک جگہ یہ بھی فرماتا ہے کہ جَعَلْنَا كُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ کے تم میں سے ہر ایک خدا کا خلیفہ ہے پس تم کیوں سمجھتے ہو کہ سلسلہ کے کاموں کا فلاں ذمہ دار ہے اور تم نہیں.تم بھی ان کاموں کے ذمہ دار ہو اور دوسرے بھی.اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ احساس تم میں پیدا ہو کہ تم میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے جلال کا زندہ نمونہ ہے اور اُسی کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو آستانہ اسلام

Page 848

خطبات محمود ۸۴۳ سال ۱۹۳۵ء پر جھکائے.اس کے ساتھ ہی میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی تو فیق عطا فرمائے تا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے جو نقصان اسلام کی اشاعت کو پہنچ رہا ہے وہ دور ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں.(الفضل ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۳۵ء) الحجرات ١٤: بخاری كتاب المساقاة باب ماجاء في الشرب یونس : ۱۵

Page 849

خطبات محمود ۸۴۴ ۴۸ سال ۱۹۳۵ء اشاروں میں ہی باتیں سمجھنے کی کوشش کرو فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۳۵ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.چونکہ آج جمعہ اور جلسہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور نماز کے بعد مجھے تقریر بھی کرنی ہو گی جو وہی مقصد رکھتی ہے جو خطبہ کا ہے اور چونکہ رسول کریم علیہ خطبہ جمعہ مختصر اور نماز لمبی فرمایا کرتے تھے اور اس وجہ سے بھی کہ میرا گلا با لکل بیٹھا ہوا ہے میں آج اختصار کے ساتھ چند باتیں بیان کرتے ہوئے خطبہ ختم کر دوں گا.خطبوں اور تقریروں کی اصل غرض نصیحت کرنی ہوتی ہے اور نصیحت دراصل دل سے پیدا ہوا کرتی ہے جو لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہوتی ہے اور جن لوگوں نے بات سمجھنی ہوتی ہے وہ اشاروں سے بھی سمجھ جاتے ہیں ان کے لئے لمبی تقریروں کی ضرورت نہیں ہوتی.مگر وہ لوگ جن کی سمجھنے کی نیت نہیں ہوتی وہ وضاحت کے بعد بھی کچھ کے کچھ معنی کر لیتے ہیں.ایک مسلمان بادشاہ گزرا ہے جو بہت کچھ بدنام ہے قریباً قریباً اسی قسم کے اعتراضات اُس پر ہوتے ہیں جو مجھ پر کئے جاتے ہیں.اُس کا نام بھی وہی ہے جو میرا ہے وہ بادشاہ محمود غزنوی ہے.لوگ مجھ پر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے لڑائی ڈلوا دی اور اُس کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ لڑائی کے ذریعہ ملک فتح کرتا تھا.محمود غزنوی کے غلاموں میں سے ایک غلام ایاز تھا.ایک دفعہ محمود ہندوستان سے واپس غزنی جا رہا تھا.اُس کے ساتھ جو جرنیل تھے اُن میں سے ایک ایا ز بھی تھا.وہ اپنے دستہ فوج کو لے کر گھوڑے کو ایڑ لگا کر ایک سمت چلا گیا.درباری لوگ ایاز سے حسد کرتے تھے

Page 850

خطبات محمود ۸۴۵ سال ۱۹۳۵ء انہوں نے بادشاہ کے سامنے اُس کی شکایت کی اور کہا کہ حضور ! دیکھئے یہ کتنا گستاخ ہو گیا ہے آپ اس کی جتنی عزت افزائی کرتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ گستاخ ہوتا جاتا ہے.آپ کو دشمن کے ملک میں اکیلا چھوڑ کر خود کہیں چلا گیا ہے.محمود ایک عقلمند اور سمجھ رکھنے والا بادشاہ تھا.وہ جانتا تھا کہ ایاز بڑا وفادار جرنیل ہے.شکایت کرنے والوں سے اُس نے کہا اچھا! اُسے آنے دو، اُس سے پوچھوں گا.اسی اثناء میں ایاز مع اپنی فوج کے آپہنچا اُس کے ساتھ ایک قیدی تھا.بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں چلے گئے تھے ؟ ایاز نے جواب دیا حضور نے دو چار بار اُس پہاڑی کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھا تھا میں نے سوچا کہ محمود کی نظر بلا وجہ کسی طرف نہیں اُٹھ سکتی ضرور وہاں کوئی بات ہے چنانچہ اپنے دستہ کو ساتھ لے کر میں اُس طرف گیا.تو دیکھا کہ یہ شخص درہ میں جہاں سے سڑک گزرتی تھی ایک پتھر کی اوٹ میں کمان لئے اس غرض سے بیٹھا تھا کہ حضور گزریں تو نشا نہ کرے حضور کی نگاہ اُس طرف اُٹھتی دیکھ کر میں وہاں پہنچا اور اسے گرفتار کر لیا.پس جن کی نیت سمجھنے کی ہوتی ہے وہ اشاروں سے ہی سمجھ جاتے ہیں لیکن جن کی نیت سمجھنے کی نہ ہو وہ وضاحت کے بعد بھی نہیں سمجھتے.نہ سمجھنے والوں کی ایک مثال بھی بیان کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک مکان کی فروخت کا سوال تھا جو انجمن کو وصیت میں ملا تھا.حضرت خلیفہ اول چاہتے تھے کہ وہ ایک مصیبت زدہ شخص کو کم قیمت پر دے دیا جائے.مکان کی قیمت جس وقت وہ وصیت میں دیا گیا قریباً دو ہزار تھی اور انجمن ۴ ہزار ، ۵ ہزار لینا چاہتی تھی.بعض ممبروں نے حضرت خلیفہ اول کی مخالفت کی اور کئی بہانے بنائے.آخر حضرت خلیفہ اول سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اب اس میں دخل نہیں دیتا جو تمہاری مرضی ہو کر و.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان الفاظ کا یہی مطلب تھا کہ آپ ناراض ہیں.یہ تحریر انجمن میں پیش کی گئی اور مجھے بھی بلایا گیا اور کہا گیا کہ حضرت خلیفہ اول نے اجازت دے دی ہے کہ انجمن جس طرح چاہے کرے.میں نے جب وہ تحریر پڑھی تو میں نے کہہ دیا کہ یہ اجازت نہیں بلکہ اظہار ناراضگی ہے.اور انجمن نے اس کو فر وخت کرنے کی جو تجویز کی ہے، میں اس کے خلاف ووٹ دوں گا.اس پر ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب بالخصوص اور بعض دوسرے ممبر بالعموم بار بار مجھے یہ کہتے میاں صاحب ! تقویٰ سے کام لینا چاہئے قوم کا روپیہ ہے.مگر میں نے کہا کہ میں اس کی ضرور مخالفت کروں گا اور میرے نزدیک تقویٰ یہی ہے.چنانچہ میں نے

Page 851

خطبات محمود ۸۴۶ سال ۱۹۳۵ء مخالفت کی مگر اکثریت میرے خلاف تھی.اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ زیادہ قیمت لے لی جائے کم نہ لی جائے.اس فیصلہ کی اطلاع جب حضرت خلیفہ اول کو ہوئی تو آپ سخت ناراض ہوئے.اُس وقت آپ مسجد مبارک کے اوپر والے کمرہ میں جہاں پہلے مولوی عبد الکریم صاحب رہا کرتے تھے اور بعد میں آپ رہنے لگ گئے تھے بیٹھے تھے.آپ نے سب ممبروں کو بلایا اور اس بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا سب ممبروں نے متفقہ فیصلہ کیا ہے.ان میں سے ایک مجھے بھی بلا لایا.مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا.میاں ! انہوں نے میرے حکم کی تعمیل نہ کی اور اس کے خلاف فیصلہ کیا.کیا آپ نے بھی میرا منشاء نہ سمجھا ؟ اُس وقت میں نے کہا کہ یہ لوگ مجھے بار بار تقویٰ کی نصیحت کرتے ہیں پھر بھی میں نے ان کے خلاف ووٹ دیا اور کہا کہ میں اسی میں تقویٰ سمجھتا ہوں اور کہا کہ میں اخیر تک مخالفت کرتا رہا.تب آپ نے اُن سے پوچھا.تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے زور سے مخالفت نہیں کی تھی.تو جب کوئی بات نہ ماننی ہو تو اس کے لئے بہانہ بنا لینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی.مگر ماننے والے اشارہ سے مان لیتے ہیں.رسول کریم ﷺ ہمیشہ خطبہ چھوٹا اور نماز لمبی پڑھا کرتے تھے.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جتنی دیر میں خطبہ پڑھا کرتے اِس سے دو گنا وقت نماز میں صرف فرماتے لے اس زمانہ میں چونکہ لوگ اشاروں سے مانتے نہیں اس لئے لمبی تقریریں کرنی پڑتی ہیں.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اِشاروں سے بات کو سمجھنے کی کوشش کیا کرو.ادھر اشارہ ہوا اُدھر اُس پر عمل شروع کر دیں اور اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ جب کوئی نیک بات کہے اُس کو فور أمان لیں.لمبی تحریکوں اور تقریروں کا انتظار نہ کیا کریں.لمبی تقریروں کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے مگر وہ علمی تقریریں ہوتی ہیں وعظ ونصیحت کی نہیں.پس اس نصیحت کے ساتھ کہ دوستوں کو چاہئے کہ اشاروں میں بات کو سمجھنے کی کوشش کیا کریں میں آج کے خطبہ کو ختم کرتا ہوں.ا بخاری کكتاب الجمعة باب تخفيف الصلوة والخطبة ( الفضل ۴ /جنوری ۱۹۳۶ء)

Page 852

۱۴ ۱۸ > ฯ 1 انڈیکس ا.آیات قرآنیہ ۲.احادیث ۳.الہامات حضرت مسیح موعود ۴.اسماء ۵ مقامات - کتابیات

Page 853

الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (۲) اهْدِنَا الصِّرَاطَ ۱۴۶ آیات قرآنیہ اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبِعُوكَ (۵۶) ۱۸ (۲۴۵،۲۴۴) ۱۸۳ ، ۲۰۱ وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ إِلَى الرَّسُول (۸۴) ۶۱۴ (۱۴۹) ۲۲،۷ وَلَا تَقُولُو الِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ (۱۵۵) ۷۰۳ الْحُرُّ بِالْحَرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ (۱۷۹) ۴۳۳ وَالْأَرْضَ (۲۵۶) ۷۸۹ الْمُسْتَقِيمَ (۷۶) ۱۹۶ ال عمران البقرة وَلِكُلٍ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا مُوتُوا بِغَيْظِكُمُ (۱۲۰) ۳۰۷ الاعراف إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ (۸۰) إِلَيْكُمُ جَمِيعًا ) (۱۵۹) الانفال عَرُضُهَا السَّمَواتِ كَانَّهُمْ يُسَاقُونَ وَالْأَرْضِ (۱۳۴) ۱۳۸ إِلَى الْمَوْتِ (۷) أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ اِنفِرُوا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا عَلَى أَعْقَابِكُم (۱۴۵) ۸۹ (۳۸) النساء وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّنْ ۶۰۱ ۶۹۷ ۸۱۷ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ (۴۴) ۵۷۹ شَيْءٍ فَانَّ لِلَّهِ (۴۵،۴۲) ۵۸۵ كَمَا كُتِبَ ( ۱۸۴) ۵۳۳ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ ۵۹۳،۵۹۲،۵۸۷ اذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي تُؤَدُّوا الامنتِ (۵۹) ۴۸۶ التوبة وَإِذَا كُنتَ فِيهِمُ فَأَقَمْتَ (۱۸۷) ۷۸۵ لَهُمُ الصَّلوةَ (۱۰۳) 29 الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُهُ المآئدة (۱۹۲) ۴۳۴ ۷۲۶ ( ۱ تا ۶) أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ فَاذْهَبُ أَنْتَ وَرَبُّكَ يَأْبَى اللَّهُ اللَّانُ يُتِمَّ (۲۱۵) ۶۰۷،۳۹۵،۱۰۴ فَقَاتِلا (۲۵) ۶۰۲،۱۰۲ نُورَهُ (۳۲)

Page 854

۳۶۸ فَإِنَّهَا مِن......(٣٣) ص إِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ اَجَعَلَ الَّا لِهَةَ إِلَهَا وَّاحِدًا كَالْفِ سَنَةٍ (۴۸) (۶) ۱۹۶ التور الشورى اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۴۳۲ ،۴۲۸ LL ۸۲۵ (۴۱) (۳۶ تا ۳۹) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ ۱۹۵،۱۹۴ بِالْهُدى (۳۳) يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَالَكُمْ (۴۲،۳۸) إِذَا قِيْلَ لَكُمُ الْفِرُوا ۷۱۹،۶۶۲ ،۶۴۸،۶۰۱ ۸۱۷،۸۱۳ ،۸۰۹ ،۸۰۷،۸۰۶۰۷۹۱ يونس جَعَلْنَا كُمْ خَلَائِفَ ۵۲۹،۲۶۲،۲۲ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ فِي الْأَرْضِ (۱۵) ۵۴۲ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ (۵۶) الحجر الفرقان إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا فَجَاهِدُ هُم بِه ۶۳۴ ۹۹ محمد مَاذَا قَالَ انْفَا( ۱ ) الحجرات إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتْقَاكُمْ (۱۴) الحديد جهَادًا كَبِيرًا (۵۳) ۶۴۱ وَرَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوهَا له (۱۰) الانبياء الاحزاب مَا كَتَبْنَا عَلَيْهِمُ.....(۲۸) ۲۵۷ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ المجادلة نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا كَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (۲۲) ۲۲۶ (۴۵) ۳۳۶ (۲۲) سبا رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّ ۳۷۷،۳۷۵،۳۴۳ أنتَ.....(۹۰) فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ ۲۴۸ الحج وَ مَنْ يُعَظِمُ شَعَائِرَ اللَّهِ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِةٍ (۱۵) ۲۳ الصف هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ

Page 855

٣١١ أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِيًّا عَلَى وَجْهِهِ (۲۳) (2).۱۸۹،۱۸۲ ،۱۷۹ بالهدى......(١٠) ۱۹۴ ،۱۹۵ الجمعة يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ ا فِي الْأَرْضِ (۲) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة (۱۰۹) نوح ۱۹۳ ،۱۲۰ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ ارًا (۲۷) ۳۸۶،۳۸۲ ۲۰۴ ،۲۰۰،۱۹۸ ،۱۹۶ وَإِذَا رَأَوُا تِجَارَةً ۱۵۲،۱۵۰،۱۴ ،۱۴۶ ۱۲۱،۱۲۰ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ اَوْ لَهُوَا انْفَضُّوا إِلَيْهَا (۱۲) رَسُولًا مِّنْهُمْ (۳) وَ الْخَرِينَ مِنْهُمْ ۱۲۰ ۱۵۹،۱۵۶ ۲۰۹،۲۰۷ | الجن لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (۴) ١٦٢ | المنافقون لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ (۲۰) ۲۷۱ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَةَ وَإِذَا رَأَيْتَهُمُ تُعْجِبُكَ الضحى ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا (1) ۱۶۶ أَجْسَامُهُمْ ( ۵ ) ۴۹۶ قُلْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ دت (۱۲) الملک إِنْ زَعَمْتُمُ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ

Page 856

احادیث 1 أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدَقُ الْحَدِيث وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ۶۳۹ حُبُّ الْوَطَنِ ٦٣٩ مِنَ الْإِيْمَانِ ع اَ تُصَدِّقُنِي وَلَا تُؤْمِنُ بِي ۲۷۳ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ ۲۲۱ عَلِمُوا صِغَارَ الْعِلْمِ قَبْلَ ١ ۴۸۷ ۲۶۵ بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ يَرَى أَوْ يُرَى لَهُ ی ۱۹۵،۱۶۲ احادیث بالمعنی اللہ تعالیٰ روزانہ پچھلی رات سمائے دنیا پر اُتر تا اور لوگوں کی ۷۷۳ دعاؤں کو سنتا ہے ۱۰۵ ZAY اللَّهُمَّ اجْعَلُ فِي قَلْبِي كبارها نُورًا وَ فِي بَصَرِى ف جب اسلام پر مصیبت کا وقت نُورًا.۲۲ فَاَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ آئے گا اور ایمان ثریا پر چلا جائے گا تو اُس وقت رَجُلٌ مِنْ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِه نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ ـرُوْرِهِـ ۷۸۶،۲۱۶ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَيِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ۲۲۳ فَارِسِ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید دین کیلئے کھڑا کیا جائے گا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ جس نے لَا إِلهُ إِلَّا الله کہا ۱۲۶ وہ جنت میں داخل ہو گیا مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا ۶۳۹ ۶۷ جہنم کی آگ میں سے اگر ۴۲۶ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ ۱۰۳ الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ لَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ مِنْ وَرَائِهِ ۵۷۹،۱۱ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا ۲۹۰ ایک رائی کے برابر آگ بھی ساری دنیا پر ڈالی جائے تو دنیا جل کر راکھ ہو جائے ۷۸۷ حدیثوں سے صاف ثابت

Page 857

ہے کہ روزانہ صحابہ میں سے کیلئے آیا ۶۷۴ موقع دے دیا جائے گا کہ چند لوگ آتے اور رسول کریم رسول کریم ﷺ کے سامنے تھوڑی دیر تک کلیلیں کرلیں ۷۵۲ چندلوگ کی حفاظت کیلئے پہرہ دیتے ۶۷ تین پیالے پیش کئے گئے.کئی لوگ پھٹے پرانے کپڑے حضرت خالد بن ولید کو رسول کریم ﷺ نے سیف پانی ، شراب اور دودھ کا.پہنے ہوتے ہیں ، اُن کے بال آپ نے دودھ کا پیالہ پیا بکھرے ہوتے ہیں مگر وہ کہہ مِنْ سُيُوفِ الله کا خطاب دیا ۱۶۵ تو جبرائیل نے کہا کہ رسول کریم ﷺ جب صلح حدیبیہ کیلئے تشریف لے گئے تو مکہ کا ایک رئیس کفار کی طرف دیتے ہیں کہ خدا کی قسم ! ایسا آپ کی اُمت کبھی گمراہ نہیں ہوگا اور وہ نہیں نہ ہوگی سے آپ سے گفتگو کرنے قیامت کو بعض جانوروں کو بھی ۱۸ ہوتا.میرے بعد تین سو سال تک ۴۰۲

Page 858

الہامات عربی الہامات فَاحْفَظْنِي وَانْصُرُنِي إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ أَقْوُمُ ۳۴۹ وَارْحَمْنِي ۲۱۵ وقفہ کے بعد آئیں گے خاکسار خ پیپر منٹ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهانتک إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوک لَا نُبْقَى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ۱۴۷ ، ۱۴۵ ۶۷۹،۶۷۸،۲۵۵ ۳۷۸،۳۷۵ | ذِكْرًا مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ 12 ۳۴۹ مَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْوُمُ مَنْ تَلُومُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَخْرَجَنِي مِنَ النَّارِ افْطِرُ وَ اصُومُ خ ۳۴۹ ۶۰۸ خُذُوا التَّوْحِيدَ خُذُوا التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسُ ۲۴۹ وَانِى مُعِينٌ مَنْ ۳۶۴ ۴۱۷ ز زلزلہ کا نشان خدا تعالیٰ پانچ دفعہ دکھائے گا طاعون آئے گی أَرَادَ إِعَانَتَكَ ۳۷۵، ۳۷۸ غلام احمد کی جے ی يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي ۴۳۹ إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ ۶۸۵ b ک کئی نشان ظاہر ہوں گے.فارسی الہامات کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہو جائیں گے وہ دنیا ایناں نگاه دار ۶۹۰ کو چھوڑ جائیں گے.ان شہروں رَبِّ أَخْرِجْنِي مِنَ النَّارِ ۳۴۸ اے دل تُو نیز خاطر رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ ادمک ۲۱۵،۲۱۳ اُردو الہامات کو دیکھ کر رونا آئے گا.وہ قیامت کے دن ہوں گے پانچ زلزلے تھوڑے تھوڑے مبارک احمد کے متعلق طلاں ۳۳۳ ۳۳۴ ٣٣١

Page 859

۵۶۱ ثناء اللہ امرتسری ، مولوی ج جافری ، سر ( سابق گورنر جنرل پنجاب) ۷۳،۴۸ ۹ اسماء ۶۸۳ ،۴۶۲،۳۱۸،۳۱۶ ۵۶۰ ۴۵۳ ۲۸۳ امر سنگھ او گلوی مسٹر ایاز ( محمود غزنوی کا غلام ) ۸۴۶،۸۴۵ ۷۶۰ ۸۷ جبلہ ایک عرب سردار ) جلال الدین ۲۶۴ ۲۳۹ ۵۵۶ | جلال الدین اکبر مغل بادشاه ۸۰۶ ۴۵۴ ۴۹ جنکنز ، مسٹر چ چیمسفورڈ، مانٹیگو ۵۵۰،۶۲،۶۱،۵۴ 乙 حامد علی، حضرت حافظ ۸۳۹٬۸۳۸ حسام الدین حبیب الرحمن ، مولوی ۵۴۲ ۲۸۳ ۲۳۹ ۶۱۳ ۷۲۳ 1+2 ابوالکلام آزاد ابو جہل ۵۲۹،۵۲۲،۴۴۹، ۱۳۵،۱۲۳،۱۱۷ ۱۳۳ ابوسفیان ۷۳۱،۶۲۱،۶۲۰ ہاتھوخان (مغل فرمانروا) ابوبکر صدیق ، حضرت ۹۵،۸۲،۴۳ بارکر ، مسٹر بانڈ ،مسٹر برکات احمد را جیکی ، مولوی برہان الدین جہلمی.حضرت مولوی ۸۳۹،۸۳۸،۸۳۷،۶۱۴ ۲۴۰ ۲۳۹ ۲۸۵ ۵۸۴ ،۴۶۹ ۲۴۰ بشارت احمد ۴۵۰،۳۸۵،۳۶۲،۱۴۸،۱۱۳،۱۰۷ ۶۴۱۶۴۰۶۲۳،۶۲۰،۵۷۹،۵۲۲ ۶۹۰،۶۸۹،۶۷۵،۶۶۰،۶۵۹ ۸۴۱،۸۱۸۰۸۱۶،۸۱۳ ، ۷۱۲ ،۷۰۶ ارون، لارڈ ۳۰۹،۷۹،۷۳،۷۲ ۵۵۸ اسد اللہ خان، چوہدری ۵۸۴ ،۵۷۴ افضل حق ، چوہدری ۲۸۳، ۳۴۳ ۶۶۷،۵۷۲،۵۵۷،۵۴۱ بشارت الرحمن بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ اقبال، ڈاکٹر سر علامہ محمد ۳۱۳، ۳۱۴ بشیر علی

Page 860

۵۴۳،۵۳۳ نیب علیها حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ۵۳۳، ۵۴۳ ظ ظفر اللہ خان.۴۵۴ ۳۶۸ ۴۲۵ ۵۳۴ ۹۵،۸۲ ۵۵۷،۵۴۱،۲۸۶ را برٹ، لین حسان بن ثابت ، حضرت ۳۸۴ رشید الدین حضرت خلیفہ ۶۸۷، ۲۹۵ روز ویلٹ ، مسٹر حسن ، حضرت امام ۴۲۸ رومن کیتھولک سعد، حضرت ۲۳۹ حلیم احمد خ خالد بن ولید ، حضرت ۱۶۵ سعد بن ابی وقاص ، حضرت ۹۷،۷۹ حضرت چوہدری سر ۲۸۵،۲۸۴ | ۴۶۸،۴۵۴ ،۳۱۰ ،۲۹۴ ،۲۹۳ 100.92 ظفر علی خان ، مولوی ۲۸۶،۲۸۳ ۷۳۵،۷۳۴،۵۶۲ ،۵۵۸،۴ ۴۳ ظفر علی ، سر مرزا ۲۹۱ تا ۲۹۴ ۳۱۴،۳۰۵ ۵۵۲،۵۵۱ ۲۳۹ ۷۲۳ سعد بن عبادہ، حضرت سلطان ابن سعود سلطان احمد سیف الدین کچلو، ڈاکٹر شادی لال ، سر ۲۹۴ عائشہ صدیقہ ، حضرت ۱۱۸،۴۲ شرمیت رائے ، لالہ ۸۲۲،۴۹۳ ،۴۱۰ ،۴۰۹ ۱۶۹ شریف احمد ۲۳۹ ۳۸۵،۳۴۲ شریف احمد عبدالحی ۲۳۹ حضرت صاحبزاہ مرزا ۳۵۳ عبدالرحیم نیر ، مولانا ۴۱۶،۱۲ 2200279 ۴۴۳،۴۴۲،۴۱۳،۴۱۷۴۰۸۴۰۶ عبدالرحیم، حافظ ۱۱۴ ۴۳۸ ۶۴۰،۶۳۹ ۵۴۱ ۶۷۴،۵۵۷ ۲۰۹ ۱۱۴ ۶۱ خدیجہ الکبری، حضرت داؤد غزنوی ، مولوی دحیہ کلبی ، حضرت دین محمد، حکیم ڈ ڈگلس،ایڈورڈ ڈگلس، کرنل ولیم مانٹیگو ۳۷۹ ۵۱۳،۴۵۳،۴۵۲ ،۴۵۱ ۶۸۰،۴۷۳ ،۴۷۲ ۳۶۶ رئیس احمد جعفری

Page 861

عبدالرحیم ، حضرت بھائی 117 عیسی علیہ السلام.۲۳۹ حضرت مسیح ناصری عبدالرشید عبد الرؤوف عبد القادر، مولوی عبدالقدیر نیاز ،صوفی عبد القيوم عبد اللہ بن سلام، حضرت له لد.۸۰۶ ۸۱۶ ۳۶،۱۸،۱۷ ۲۴۹،۲۴۷، ۲۵۵ تا ۲۶۵،۲۶۰ ۲۷۰،۲۶۸ تا ۲۹۸،۲۷۶ تا ۳۰۱ ۱۳۰،۱۲۹،۷۶، ۲۳۸،۲۳۱،۱۷۸ | ۳۱۴ تا ۳۱۸، ۳۳۶۰۳۳۱۳۲۹،۳۲۴ ۲۴۱،۲۴۰، ۳۱۸،۳۰۸،۳۰۷ ۳۳۸ تا ۳۴۳،۳۴۰ تا ۳۵۶،۳۴۹ ۳۶۹،۳۶۸،۳۶۴ ،۳۶۳ ،۳۵۸ ۳۶۹ ،۳۷۲،۳۷۱،۳۶۸ ۴۵۰،۴۴۸۰،۳۹۶،۳۸۷،۳۷۵ ۲۳۹ ۳۷۷۳۷۲ تا ۳۸۸٬۳۸۰،،۳۸۹ ۱۹ ۴۸۴، ۴۹۴، ۵۳۸،۵۳۶،۴۹۵ ۳۹۴ تا ۴۲۶۳۴۲۲،۴۲۰۴۱۰،۴۰۰ ۴۵۱ تا ۴۵۳، ۵۰۵تا ۵۱۸،۵۱۵ عبداللہ یوسف علی عبدالمطلب ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ حضرت لد 7٧ له له له الد ۶۲۳ ۶۰۴،۶۰۳،۵۴۵۰۵۴۳ ،۵۳۹ ۸۲۱،۷۸۱،۷۸۰۰۷۹۵،۶۸۳ غ ۱۹ ، ۴۳ غالب، اسد اللہ خان ۳۱۰، ۴۳۷ عثمان غنی - حضرت عطا محمد، شیخ عطاء اللہ شاہ بخاری ۴۱۱، ۴۷۷ غلام احمد قادیانی مسیح موعود ۲۸۵ و مہدی معہود، حضرت مرزا ۶، ۱۳ تا ۱۸ ۵۲۶ تا ۵۴۱۰۵۲۹، ۵۴۴ تا ۵۴۹ ۵۸۰،۵۷۶،۵۶۱،۵۵۷تا۵۸۸ ۶۱۲،۶۰۹،۶۰۳،۵۹۷،۵۹۲ تا ۶۱۴ ۶۵۰،۶۳۴، ۶۵۴ تا ۶۶۲،۶۵۶ ۶۷۴، ۶۷۷ تا ۷ ۶۸۹،۶۸ تا ۶۹۳ ۷۲۵،۷۲۷۱۸،۷۰۰،۶۹۹،۶۹۷ علی ، حضرت ۳۶۰۲۵،۲۱۲۸۳ تا ۷۱،۶۷،۶۶،۶۰،۴۳ ۷۸ تا ۸۱، ۹۷،۹۰،۸۸۰۸۵،۸۴ ۵۴۶،۵۴۲،۳۴۰ ۱۲۱،۱۱۸،۱۱۷ ،۱۱۱۱۱۰ ، ۱۰۷ ، ۱۰۰ ۱۰۹،۴۳ ۱۴۳،۱۴۲ ،۱۳۹،۱۳۵،۱۳۴ ،۱۳۱ ۵۱۷ ، ۴۲۸،۴۰۹،۳۶۲ ،۳۶۱ ۷۴۱،۷۳۳،۷۳۰۷۲۹،۷۲۷ ۷۵۲،۷۴۹،۷۴۸،۷۴۶،۷۴۵ ۷۵۶ تا ۷۸۹،۷۵۸ ، ۷،۷۹۰ ۷۹ تا ۶۸۹، ۷۰۳، ۷۷۴ ، ۸۰۳، ۸۱۳ | ۱۴۸ تا ۱۵۰ ۱۶۳ تا ۱۷۰،۱۶۸،۱۶۵ عمر، حضرت لدله ولده ۱۹۱،۱۸۲،۱۸۱،۱۷۹، ۱۷۵ ، ۱۷۴ ۸۱۹،۸۱۵،۸۱۰،۸۰۹ ،۸۰۶،۷۹۹ ۸۳۷،۸۲۲،۸۲۱ تا ۱ ۸۴ ۶۸، ۶۹، ۸۲، ۸۸، ۹۵ تا ۹۷ ۱۹۴ تا ۲۰۹، ۲۱۳ تا ۲۲۸٬۲۲۲،۲۱۶ غلام احمد ، مولوی ۲۴۳،۲۴۱،۲۳۸،۲۳۶،۲۲۹ ۸۱۶،۶۹۰،۶۲۱،۲۶۴ غلام علی، میاں (حضرت ۲۳۹

Page 862

۴، ۷۲ ۴ ، ۴۷، ۴۸۳ تا ۴۹۰ ۴۹۳، ۵۲۰،۴۹۴ تا ۵۲۶،۵۲۳ ۵۱ لنگے مسٹر ۵۳۸۵۳۳،۵۳۲،۵۲۷ تا ۵۴۶ ۵۷۵،۵۵۷،۵۵۵۰،۵۴۸ تا ۵۸۳ مانٹیگو،مٹر ۱ | ۵۸۹ تا ۶۰۵،۶۰۷۵۹۷۵۹۴،۵۹ مبارک احمد ۲۳۹ ۶۲۰ تا ۶۳۰،۶۲۶، ۶۳۷،۶۳۴ مبشر احمد ۲۳۹ ۶۳۹ تا ۶۵۵،۶۵۳،۶۴۳ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ۱۸ ۶۷۹،۶۷۶۶۷۵،۶۵۹،۶۵۶ ۶۸۶۰۶۸۰ تا ۶۹۰، ۶۹۲، ۶۹۷ ۴۰،۳۶،۳۲،۲۲،۱۹ تا ۴ ۶۷۶۴،۴ ۶۸، ۷۷، ۸۷،۸۲ تا ۹۵،۸۹ ۶۹۸، ۷۰ تا ۷۱۲،۷۱۱،۷۰۶ ۱۰۰ تا ۱۰۵ ۱۰۹ تا ۱۱۱ ۱۱۷ ۱۲۱۶۰۱۱۸ ۷۲۱ ۷ ۷۲ ۷۳۴۷۳۱۷۳۰ ۷۳۶۰۰ ۷۵۶۷۵۲،۷۴۸،۷۴۶۰ ۷۴۲ ۸۰۶،۸۰۴ ،۷۸۹،۷۸۸،۷۸۴ ۸۱۲ تا ۸۳۴،۸۲۲ تا ۸۴۱،۸۳۶ ۸۴۶،۸۴۵ ۱۴۳ ،۱۴۲ ۱۴۸،۱۳۸،۱۳۳، ۱۵۹ تا ۱۷۹،۱۶۵ مظہر جان جاناں کے شاگرد) ۱۵۲ ۱۵۴ ،۱۵۳ ۷۴۹ ۲۳۹ ۴۸۹ ۵۵۶ 24.غلام محمد امرتسری، حکیم ف فضل حق قلپ.عیسائی بادشاہ ٹیکس، لارڈ ہیلی ق قاسم علی ، حضرت سید میر قبلائی خان ک ۱۹۵،۱۹۰،۱۸۶،۱۸۲ تا ۲۰۷،۲۰۴ کمال الدین ایڈووکیٹ ، خواجہ ۸۵ ۲۳۸۲۲۳ ۲۲۲،۲۱۶ ۲۱۲ ۲۰ ۷۴۶،۷۴۵،۳۱۶ ۲۷۱،۲۶۵،۲۶۳ ،۲۵۶،۲۴۷ ۵۱۳،۵۰۵ ۳۰۸۳۰۷۳۰۱۲۹۹،۲۹۰۲۷۳ محمد، حافظ ۳۱۸۳۱۱ ۰ ۰ ۷۳۳۴،۳۲ ۱۳۳ ۳۴ محمد احمد ، مولوی ۳۴۲، ۳۶۱،۳۵۶،۳۴۸ تا ۳۶۷ محمد اکرم ۳۷۵، ۳۷۸، ۳۸۲ تا ۳۹۲،۳۸۵ | محمد پیشاوری، حافظ ۲۳۹ ۲۳۹ ۱۴۲ ۴۰۸۴۰۳،۴۰۲۰۳۹۸۳۹۷ تا ۴۱ محمد حسین بٹالوی ، مولوی ۴۲۹،۳۷۹ ۴۱۷ تا ۴۲۶۰۴۱۹ تا ۴۲۹، ۴۳۴ ۷۹۸،۷۳۴ ،۷۳۳،۶۸۵ ۸۴۶ ۴۵۰،۴۴۶،۴۳۸،۴۳۷ تا ۴۵۳ محمدحسین شاہ، ڈاکٹر ۵۱۵ ۵۴ کھوسلہ، مسٹر کیل کار، مسٹر گ گاندھی ، مہاتما گنج بخش ہجویری ، داتا گوکل چند ۴۹۳ ،۴۹۲،۳۵۲ ۵۶۵ ۱۶۹

Page 863

محمد حسین ، مستری ۴۲۹ محمد صادق ۲۳۹ | مظہر علی ،مولوی محمد عثمان ۲۳۹ محمد علی ۱۵۶،۱۵۴ ناظم الدین ۲۸۵ نظام الدین، مرزا ۶۶۵،۵۵۷،۵۵۶،۵۴۱ نورالدین بھیروی ، حضرت حکیم ۲۴۰ معاویہ ، حضرت امیر ۲۵۵، ۸۰۳ مولانا خلیفه امس الاول محمد علی جوہر، مولوی ۲۸۲، ۲۸۳ | منور حسین ۲۴۰ محمد یعقوب کوکب ۲۴۰ مورسی ، مونٹ ۴۵۳،۳۰۹ نیڈو، مسٹر ۷۲۳ موسی علیہ السلام، حضرت ۱۰۲، ۱۰۳ علیہ ۷۴ ۵۶۱ ۷۴ ۶۴۷،۵۰۱،۴۹۹ ،۸۸ ٣٠٩ محمد یعقوب ، سر محمد یوسف خان ، نواب محمد یوسف ، قاضی محمود احمد، صوفی ۱۹۸،۱۸۹،۱۸۴ ، ۱۸۳ ، ۱۶۶،۱۲۴ ۷۴ ۴۸۴،۴۲۱۳۷۶۳۷۲۳۷۱۳۳۴۵۰۹ ۵۴۵،۵۴۳،۵۳۶،۵۳۳ ،۴۸۷۲۳۹ ۷۸۵،۶۰۳،۵۹۲،۵۶۱ محمود غزنوی، سلطان ۸۴۵،۲۸۳ مسعود احمد ، حافظ ۲۳۹ مسولینی ۷۱۸ ،۴۲۵ مظہر جان جاناں ،حضرت ۱۵۲ ناصر احمد، صاحبزادہ مرزا ۴۱۰ واٹسن، مسٹر والٹر مسٹر وڈ، ریورنڈ ورقہ بن نوفل ہاجرہ علیہا السلام، حضرت ۴۵۳ ۸۰۱ ۶۳۹ ۴۵۲

Page 864

اله انگلستان مقامات ۵۹،۴۹،۵ تا ۶۱ بنگال ۲۵،۲۴، ۲۶۶،۷۴ تا ۲۶۸ ۲۴۳،۲۴۰،۲۳۷،۱۲۲،۸۵ ۳۲۸،۳۰۸،۳۰۶،۲۵۸،۲۴۵ ۴۳۹،۴۲۳ ،۴۰۴ ،۳۷۰،۳۵۱ ۷۵۴ ،۷۱۳ ،۶۱۸،۲۸۴ پہار ۲۶۶ بیت اللہ ر کعبۃ اللہ ۴۴۵ ، ۴۶۰ تا ۵۴۹،۴۸۰،۴۶۴ ۵۴۱،۵۳۲،۴۲۵ ۸۱۰۷۵۴ ۷۳ ۷۶۵۲،۵۹۴،۵۵۹ ۷۸۷،۵۶۴،۵۵۵،۵۵۱،۵۴۸ 67'611'hh بیروت ۵۸۴،۵۵۳،۵۳۱،۴۳۵،۴۲۱ ۶۶۱ ۳۷۰ ۶۱ آسٹریا آسٹریلیا آکسفورڈ امی سینیا ۱۶۱ | انڈیا دیکھئے زیر عنوان ہندوستان ۲۶۶ انڈیمان اتر پردیش (یو پی) ۸۸،۳۱، ۱۴۸ | اٹلی ۷۵۸،۶۴۹،۳۷۰،۲۵۸،۲۱۸ افریقہ افغانستان ۱۲۳ ،۸۵،۱۴ ایران لد له ولد الله الله الله لد له 6 ۷۱۷ ،۶۱۰،۵۵۰،۴۴۸ ۱۳۸۰۸۵،۵۳ ،۴۲ ۵۲۴،۴۷۰۳۷۰۳۰۸۲۰۵۱۴۹ ۱۳۷۰ ،۳۰۸،۲۶۷ ۲۶۶،۲۰۵ ۷۸۹،۶۵۶،۶۵۵،۵۲۵ ۸۲۱ | پنجاب ۴۸،۲۵،۷ ۱۵۲ ،۱۴۹،۷۴ ،۶۲ ،۶۱،۵۹،۵۶ ۵۲۰،۴۷۱،۴۶۱،۴۶۰ ۷۵۸ تا ۸۱۹،۷۸۹،۷۶۰ ۲۴۳،۲۳۸،۲۳۷ ،۲۳۴ ،۲۳۲ ۲۸۱،۲۶۶،۲۴۶،۲۴۵تا۲۸۵ ۳۰۹،۳۰۸،۳۰۴ ،۲۹۳ ،۲۹۲ ۳۵۴،۳۵۲،۳۵۱،۳۳۸،۳۳۳ ۲۸۲،۱۶۸،۱۵۲ ۷۷۰ ،۷۲۹،۶۲۸،۶۰۴ ،۴۵۱ 7767 مالد بٹالہ ۸۵ ۳۳۱،۲۸۲،۲۸۱ الجزائر امرتسر ۸۰۱،۷۷۰ ،۷۲۹،۶۰۸،۶۰۵ امریکہ لد الله له ولد الله ولد له ولد له ۰لد ۷۱ ۴۶۲ ،۴۶۰،۴۵۸،۴۴۹ ،۴۴۶ ۵۱۰،۵۰۴،۴۹۲،۴۹۱،۴۸۰،۴۶۸ ۴۹۲ ۳۳۳،۳۱۰ ۸۵،۷۹ تا ۸۸ برما ۳۲۳،۲۵۸،۲۱۴ ،۲۰۵،۱۲۵ ہمیتی ۴۶۲،۴۲۵،۳۷۰،۳۶۸،۳۴۸ ۷۶۴ ،۷۵۴ ،۷۱۴ ،۵۹۴ ،۴۶۳

Page 865

۳۷۰،۳۲۳،۲۶۶،۲۰۵ ۳۰۸،۲۸۴ ۳۲۸ ۶۷۴ ،۴۵۰ ۴۸۷، ۴۹۶ سندھ سنگاپور ۲۸۵،۲۸۲،۱۷ سیالکوٹ ۶۸۲،۶۸۰،۵۰۲ ،۲۹۴ ،۲۹۳ ۸۳۶،۸۰۱،۷۰۱ ۸۵ ۳۷۰،۸۵ ۴۲۳ ۵۳ ۱۰۰،۹۶،۹۵،۸۵ ۲۵۴،۲۵۳،۵۱ ۷۰۳ ،۷۰۲،۶۹۴ ،۶۷۴ ۶۲ ۶۷۰،۴۵۳،۲۶۹،۱۳۳ ۵۱۳، ۵۵۹،۵۵۱،۵۱۷، ۵۶۲ | حدیبیه ۶۳۷،۶۱۸،۵۷ ۱۵۶۸،۵۶۳ حنین دہلی سیرالیون سیلون (سری لنکا) ڈچ انڈیز ۴۶۲، ۴۶۳ سینٹ پیٹرس ڈلہوزی ۱۶۹ ۴۴۷ ،۴۲۶،۳۳۰،۳۱۶ اشام ۴۹۱،۳۳۱ ۵۷۸،۵۶۸ | شمل ۷۲۱،۵۵۹،۵۵۰،۵۱۳ ،۴۹۴ ۴۵۲،۱۵۶ b طائف ۳۹۸ ۲۵۸،۲۰۵،۸۵ ۵۹۸،۴۹۲،۳۷۰ ۱۲۹،۱۲۷ ۵۴۸،۴۵۱،۱۳۶ ۵۴ راولپنڈی رتر چهتر روس روم ریاض ۳۷۰،۵۳ ۱۳۵،۹۷،۸۵،۸۲ ۷۶۵،۵۵۰،۴۰۰،۳۶۶ | عراق ۲۶۰،۲۱۴ ،۲۰۵،۱۵۹،۱۵۷ عرب ۳۷۰،۳۳۵،۳۰۱،۲۶۶،۲۶۳ س سپین سرویا سماٹرا ۷۸۷،۶۵۲،۲۱۸ ۴۳۹ ۵۴۹۵۲۵۵۲۴ ،۴ ۷۴ ۷۳ ۷۵۸۵ ۷۹۶،۷۱۳ ،۶۸۳ ،۶۸۲،۶۷۲ で له ولد جاپان ۳۳۳،۳۲۳،۲۵۸،۲۱۴ ۶۹۱،۶۴۹ ،۴ ۷۱ ،۴ ۷۰ ، ۴۶۴ ۸۰۳،۷۵۹،۷۱۵ جامعہ احمدیہ ( قادیان) ۳۷،۳۶ ۲۳۹،۴۰،۳۸ جاوا ( انڈونیشیا) ۲۶۶،۲۰۵،۸۵ ۸۰۳ ،۴۱۶،۳۷۰،۳۲۳ ۳۷۱،۵۳ ۴۷۰،۴۲۵،۴۰۵ ،۴۰۴ چ ولد الله الله الله ۷ جرمنی چین ۲۶۷،۲۶۶،۲۶۵،۲۵۸،۲۰۵ ۴۷۱،۴۷۰،۳۷۰،۳۴۸،۳۲۲ ۷۵۹،۷۵۸،۶۹۱۰۶۴۹ ۸۱۹،۸۰۲،۷۸۸ لد حاله لد لد ٧ ۸۱۱،۷۱۷،۵۴۵،۵۳۷ جبشه

Page 866

۵۷۸،۲۸۲ ۲۲۹،۹۳،۵۶ 17 ۷،۵۴۱ ۵۶۸،۵۵۵،۵۵۲،۵۴ | گوجرانواله ۵۸۱،۵۸۰،۵۷۳،۵۷۲،۵۷۰ | گورداسپور ۲۵۱،۲۴۶،۲۴۵،۲۳۷ ،۲۳۳ ۳۴۰،۳۰۳،۳۰۲ ،۲۹۳ ،۲۵۲ ولد ولد ولد له ولد ا٧ لد 70 ۵۰۲،۴۹۳ ۶۶۵،۵۸۳،۵۸۰،۵۵۶،۵۴۰ ۸۳۷،۸۰۱،۶۹۷،۶۷ ۱۶۶۹ ۸۵ گولڈ کوسٹ (غانا) ۶۴۲،۶۲۸،۶۲۷،۵۹۵،۵۸۳ ♡♡h'dhh'7h297h3h7h ۷۲۹،۷۲۳،۷۲۲،۷۰۵ ،۶۹۷ ۷۶۸،۷۶۳،۷۵۶،۷۳۹،۷۳۲ ۶۵۵،۶۴۹،۵۹۰،۵۸۹،۵۵۱ ۷۳۹،۷۲۸،۷۲۷،۶۵۶ ۸۱۳،۸۰۲،۷۵۸،۷۵۷ لد لد ۷۷۰ ،۷۹۷،۷۹۶،۷۹۳،۷۹۲ ۸۳۷،۸۰۰ ،۷۷۲ ۵۳ ۴۲۰،۴۱۱،۵۴ ل ۳۲۹ لاہور ۶۲،۶۱،۵۱،۵۰ ۲۳۵،۱۹۲ ،۱۳۶،۱۳۳،۷۹،۷۰ ۴۲۰،۳۳۳،۳۳۰ ۲۸۲،۲۸۴۲۵۷۲۴۲،۲۳۸۲۳۷ | ۵۸۱ ۳۵۱۳۳۱۳۲۲،۳۱۰،۲۹۸،۲۸۵۳۰۷،۳۰۶ ۴۶۹۴۵۶۴۴۵۴۲۶۴۱۵،۴۰۰ ۳۱۶۰۵۹،۵۸ کابل کانگڑہ کپورتھلہ کراچی ۵۷۳،۵۵۷،۵۵۶،۵۴۰ ، ۴۹۹ ۷۵۰،۴۴۷ ،۳۴۳ ،۳۱۸ ۶۶۰،۶۱۴ ،۵۹۵،۵۸۳،۵۸۰ ۷۳۲،۶۰۵ ۷۰۰،۶۹۷،۶۸۱،۶۷۱،۶۶۵ ۱۸۴ ۷۶۰ ،۷۲۹،۷۲۳ ،۱۳ ۳۳۳،۳۲۹ ۸۰۱،۷۹۹ ،۷۷۵،۷۷۱ ۲۸۲ ۷۹۸،۳۹۸،۳۰۶ ۶۵۳،۲۶۹،۱۳۰ ۶۰۴ ،۴۵۳ ،۲۴۵،۶۲ غ ۴۳۹،۳۷۱،۱۶۵،۱۲۲ ۲۰۵ ۵۳ ۶۵۲،۵۳۵،۳۷۰،۸۵ ۲۵ غزنی فرانس فلپائن فلسطین ق قادیان ۶۵،۶۳،۵۰،۴ ۱،۲۹،۲۷ ۱۴۲،۱۴۰،۱۲۶،۹۴ ،۹۲ ،۸۹،۶۶ ۱۶۹،۱۹۸، ۲۱۷،۲۰۷،۲۰۴،۲۰۳ کلکته ۲۴۲، ۲۴۵، ۳۰۱،۲۷۸،۲۷۶ کنعان ریم الله له له له له الله الله الدلله ولد الله له ۴۲۰،۳۹۱،۳۷۶،۳۳۸،۳۳۵ ۳۷۰ لدھیانہ لکھنو لندن ٣٠٦ كينيا کینیڈا ۳۶۹،۳۵۴ ،۳۵۱،۳۴۵،۳۴۳ ۴۰۷ ،۴۰۶،۳۹۹،۳۹۶،۳۹۲ ۴۳۰،۴۲۲،۴۱۷ ،۴۱۵ ،۴۰۷ ۴۶۵،۴۶۱،۴۵۷، ۴۵۴ ،۴۴۰ ۵۰۶،۵۰۲،۵۰۰،۴۷۴ ،۴۷۰

Page 867

۱۷ ۶۸۷،۶۸۲ ،۹۹،۷۷ ۷۷۳ ،۷۴۴ ،۷۱۴ ،۷۱۳ ۳۳۵۲۷۲،۲۱۴ ،۲۰۴،۲۰۳،۱۶۰ ۶۴۵،۴۶۳ ۲۹،۲۵،۲۴ ہالینڈ ہندوستان ۸۵،۷۵،۷۴ ،۶۲،۶۱،۵۶،۴۹ ۱۶۸،۱۶۱،۱۴۱۱۲۳ ، ۱۱۸،۱۱۵ ،۱۰۹ ۳۰۶۲۳۶۲۳۲،۲۱۳،۲۰۴،۲۰۲ ۳۳۳،۳۲۸،۳۲۲ ،۳۱۴ ،۳۰۹ ۳۷۱،۳۷۰،۳۵۲،۳۵۰،۳۳۶ ۳۷۰،۳۲۳،۸۵ ۲۶۷،۶۲ ۷۵۴ ،۶۱۸،۴۹۳ ،۳۳۳ ۳۹۲،۳۶۷،۳۶۵،۳۶۱،۳۶۰ ۴۴۸۴۳۸۴۳۷۴۱۹۰۴۱۷ ۴۱۱ ۵۲۱،۴۸۵،۴۷۲ ،، ۴ ۷۱ ،۴۵۰ ۵۵۲،۵۴۱،۵۳۸،۵۳۵،۵۲۵ ۳۷ ۶۷۴ ،۶۳۹،۵۹۲،۵۸۹،۵۵۶ ۷۰۴ ،۶۹۷،۶۹۶۰۶۸۶۰۶۷۸ ۷۳۹،۷۳۰،۷۲۹،۷۲۶،۷۲۵ ۸۱۴،۸۱۳ ،۸۱۱،۷۸۷ ،۷۴۱ ۸۲۱،۸۲۰ ۳۲۸ ماریشس مدراس مدرسہ احمدیہ ( قادیان) ۸۳۵،۷۶۱،۶۱۳ ۱۰۰،۶۹،۶۸ مدینه منوره ۲۱۴،۲۰۹،۲۰۷ ۲۰۴ ،۲۰۳، ۱۵۶ ۵۴۱،۵۲۲،۴۸۷ ،۴۷۲ ،۳۶۱ ۵۸۸،۵۶۴ ،۵۵۲،۵۴۸،۴۴۵ لد لله الد الد ولد ولد الله 7م الله الله ٣٣٢،٣٣١ ۴۵۸،۴۵۰،۴۴ ۷ ، ۴۴۵ ،۴۳۹ لد ٧٦ له 77 ولد 7 ولد الد ولد ٠٨ ۵۳۵،۵۲۵،۵۰۸ ،۴۹۴ ،۴۹۲ ۳۷۰،۸۵ ۶۱۷،۵۷۷ ،۵۶۹،۵۴۹،۵۴۲ ۶۸۰،۶۴۹،۶۴۵،۶۳۳ ،۶۱۸ ۷۳۸،۷۳۶،۷۳۲ ،۷۱۵ ، ۷۱۳ ۸۴۴،۸۰۲،۸۰۰ ،۷۸۹،۷۵۸ ۳۷۰ ۳۲۹،۲۰۵ ی ملایا ملتان ۶۷۸،۶۵۶،۶۰۱،۵۹۳ ،۵۸۹ ۷۲۹،۷۲۶،۷۲۵،۷۰۲۶۹۶ ۸۲۱،۸۲۰،۸۱۴ ،۸۱۱ مسجد اقصیٰ قادیان مسجد شہید گنج (لاہور) ۴۲۳ نائیجیریا ۴۲۵ نثال گولڈ ۵۵۷،۵۵۴،۴۲۷ نیپال مسجد مبارک قادیان ١١٦ ۸۴۶،۷۴۴ ولایت ( نیز دیکھئے انگلستان) ۳۳ ۱۵۷ ،۱۵۶،۲۲ مکہ معظمہ

Page 868

VI کتابیات تورات ۱۷۲،۱۶۶ متی ۱۹۲ ،۱۰۴ ۶۱۴،۶۰۷ ،۴۰۰،۳۹۵،۲۳۵ ۴۵۶ ۱۸۰،۱۷۹،۱۷۶،۱۷۵ ،۱۷۳ ۷۹۰،۲۲۲ ۱۹۹،۱۸۱، ۲۰۲، ۷۲۱،۶۰۲ یوحنا ق دعوة الامير ۷۱۵ قرآن کریم ژ ۵،۴ ،۱ ۱۴۶،۱۰۳ ،۳۳ ،۳۲،۲۲،۱۸ زند اوستا ۱۷۶،۱۷۲،۱۶۳ ،۱۶۱،۱۴۷ ۶۴۰،۱۷۹،۱۷ ۲۰۶،۱۹۸،۱۹۳ ،۱۸۶،۱۷۹ س سیرت ابن هشام ۵۹۷،۵۵۳،۵۳۱،۴۵۶ ۸۲۲،۶۳۰ ۲۴۸،۲۳۷ ،۲۲۷ ۲۲۱،۲۱۶ ۲۸۷،۲۷۱،۲۶۲ ،۲۵۸،۲۵۷ ۳۶۵،۳۳۶،۳۱۱،۲۹۸،۲۹۰ ۳۷۷،۳۷۵،۳۶۹،۳۶۷ ۴۰۲،۳۹۸،۳۹۷ ،۳۸۲ ،۳۸۰ لد ۷ 'لد ٥٧ ولد الله ولد له ولد الله 7 له الله الله ولد الله له ولد له اولد الله ولد ولد ۵۴۱،۵۳۷،۵۳۳،۵۲۹،۵۲۵ ۵۷۸،۵۷۵،۵۷۲ ،۵۶۶۰۵۴۶ ۵۳۱ ابوداؤد سنن احمدیت یعنی حقیقی اسلام 017 اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ۳۲۸،۷۹ اسد الغابه ۲۱۰،۴۵ ۷۶۵،۵۵۳ ،۴۰۰ ۲۳۵،۱۹۲،۶ ۶۱۴ ،۴۵۶،۴۰۰،۳۸۰ ۱۱۹،۴۵،۲۳ بائیل بخاری، جامع صحیح ۲۳۵،۲۱۰،۱۷۱ ، ۱۷۰، ۱۵۸ ،۱۳۶ ۴۳۵،۴۲۱،۴۰۰،۳۴۹،۳۲۱ ۵۹۷،۵۸۴ ،۵۳۱،۴۹۶،۴۵۶ ۷۶۳۰ ۶۴ ۸۲۲۷۹۰۷۴۲۰۶۹۴۰ | شرح مواهب اللدنيه ع ۸۴۶،۸۴۳ عهد نامه جدید تاریخ ابن اثیر ۳۶۶،۷۹، ۴۳۵ انجیل تاریخ طبری ۶۶۱،۵۳۱،۴۲۱،۱۱۹ ترمذی، جامع صحیح ۷۹ عبرانیوں ۲۱۰،۱۷۰،۱۱۹ لوقا ۶۰۷،۶۰۶،۶۰۳ ،۵۹۶،۵۷۹ ۱۷۸،۱۷۴ ،۱۷۲ ۷۷۹،۷۲۵ ،۷۲۱،۱۷۹ ۱۹۲ ۲۳۵ ۶۳۰،۶۲۶،۶۱۹،۶۱۵ ،۶۱۳ لد 7 له لااله الله الله الله ۷۰۳ ،۶۹۹،۶۹۷،۶۶۰،۶۵۱

Page 869

۱۹ ۷۲۱،۷۱۹،۷۱۶۰۷۱۳،۷۰۵ ۷۵۷،۷۴۵ ،۷۲۹،۷۲۸ مسلم، جامع صحیح لله اله الله الله الله اله حاله له له له له الله 67 ۱۵۸، ۴۲۱،۲۹۵ ، ۴۳۵ | احسان ۷۶۳،۷۵۸، ۷۷۳، ۷۸۴ منہاج الطالبین ۸۱۹،۸۱۸۰۸۰۴ ،۸۰۳ ، ۷۸۹ ک لد hb ۶۹۴،۶۳۰،۵۳۲ موضوعات کبیر ۵۵۳،۲۸۰،۹۴ مسند احمد بن حنبل کتب حضرت مسیح موعود معالم التنزيل انوار الاسلام براہین احمدیہ تجلیات الہیہ تذکره ۸۲۲،۶۶۱،۵۱۸ ۶۸۴ ،۶۸۱ ٣٣٩ ۲۶۱،۲۵۰،۱۵۸ ۶۱۴ ،۴۲۱،۳۸۱،۳۶۶،۳۳۹ وید الفضل قادیان ۳۵۴ ۲۴ ،۲۳ ۶۱،۴۹،۴۵،۲۸،۲۷ ۱۷۰،۱۵۸،۱۳۶،۱۱۹ ،۹۴ ،۷۹ ۵۵۳ ۲۵۰،۲۳۵،۲۲۲ ،۲۱۰ ، ۱۹۲ ،۱۹۰ ۲۸۰،۲۷۹ ۳۲۱،۳۱۲،۳۰۱،۲۹۵،۲۸۰،۲۶۱ ۳۶۶،۳۶۱،۳۴۹،۳۳۹،۳۲۸ ۴۴۲،۴۳۵۴۲۱۴۰۷۴۰۰۳۸۱ ۱۷۴ ۵۳۵،۳۷۶،۱۷۹ ،۱۷ لد hb 'لد له ولد ١٧ لد لد لدلد حقیقة الوحی در مشین اردو رسالہ الوصیت مثنوی مولانا روم ۷۴۲ ،۶۹۴ ۷۲۵،۷۲۲،۷۲۱،۶۳۳ ی ۳۳۹ یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا ۶۱ ۶۲ ۸۲۲ ۵۸۴،۵۷۱،۵۵۳،۵۳۱،۵۱۸ ۷۶۵ ،۷۴۲ ،۷۱۸،۶۱۴ ،۵۹۷ ۸۴۶،۸۴۳ ،۸۲۲ ،۷۹۴ ،۷۹۰ Under The Absolute | اشاعة السنه له الله الله له له ۷۱ اخبارات و جرائد Amir | ٹائمنز آف انڈیا ۲۱۱،۵۷ ،۳۹،۳۷ ،۳۶،۲۷ ،۲۵ ۷۸۴ ، ۱۰۴ زمیندار ۶۸۴ له الد ولد الله له ولد 70 الله لد الد

Page 869